FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

.أڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

قومی تہذیب

 

 

 

 

سید سبط حسن

 

 

مرتبہ: اعجاز عبید

 

 

 

 

تہذیب  کی تعریف

 

 

ہر قوم کی ایک تہذیبی شخصیت ہوتی ہے۔ اس شخصیت کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے ملتے جلتے ہیں، لیکن بعض ایسی انفرادی خصوصیتیں ہوتی ہے جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں۔ ہر قومی تہذیب اپنی انہیں انفرادی خصوصیتوں سے پہچانی جاتی ہے۔

جب سے پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے، ہمارے دانشور پاکستانی تہذیب اور اس کے عناصر ترکیبی کی تشخیص میں مصروف ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا پاکستانی تہذیب نام کی کوئی شئے ہے بھی یا ہم نے فقط اپنی خواہش پر حقیقت کا گمان کر لیا ہے اور اب ایک بے سود کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستانی تہذیب کی تلاش اس مفروضے پر مبنی ہے چونکہ ہر ریاست قومی ریاست ہوتی ہے اور ہر قومی ریاست کی اپنی انفرادی تہذیب ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی بھی ایک قومی تہذیب ہے یا ہونی چاہئے۔

لیکن پاکستانی تہذیب پر غور کرتے وقت ہمیں بعض امور ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست فقط ایک جغرافیائی یا سیاسی حقیقت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحدیں ایک ہوں۔ مثلاً جرمن قوم ان دنوں دو آزاد ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہی حال کوریا اور ویت نام کا ہے۔ مگر جب ہم جرمنی اور کوریا یا ویت نام کی قومی تہذیب سے بحث کریں گے تو ہمیں مشرقی اور مغربی جرمنی، جنوبی اور شمالی کوریا اور جنوبی اور شمالی ویت نام کو ایک تہذیبی یا قومی وحدت ماننا پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست کے حدود اربع گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کی سرحد یں آج وہ نہیں ہیں جو ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو تھیں۔ مگر قوموں اور قومی تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ بعض ریاستوں میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے۔ جیسے جاپان میں جاپانی قوم، اٹلی میں اطالوی قوم اور فرانس میں فرانسیسی قوم۔ ایسی ریاستوں کو قومی ریاست کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوتی ہیں۔ جیسے کینیڈا میں برطانوی اور فرانسیسی قومیں۔ چیکو سلوواکیہ میں چیک اور سلاف، عراق میں عرب اور کُرد، سویت یونین میں روسی، اُزبیک، تاجیک وغیرہ۔ جن ملکوں میں فقط ایک قوم آباد ہوتی ہے وہاں ریاستی تہذیب اور قومی تہذیب ایک ہی حقیقت کے دو نام ہوتے ہیں، لیکن جن ملکوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوں وہاں ریاستی تہذیب کی تشکیل و تعمیر کا انحصار مختلف قوموں کے طرز عمل، طرز فکر اور طرز احساس کے ربط و آہنگ پر ہوتا ہے۔

اگر اتفاق اور رفاقت کی قوتوں کو فروغ ہو تو رفتہ رفتہ ایک بین الاقوامی تہذیب تشکیل پاتی ہے اور اگر نفاق اور دشمنی کی قوتوں کا زور بڑھے، مختلف قومیں صنعت و حرفت میں، زراعت و تجارت میں، علوم و فنون میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے ایک دوسرے پر غلبہ پانے یا ایک دوسرے کا استحصال کرنے کی کوشش کریں، یا ایک دوسرے سے نفرت کریں، اگر ملک میں باہمی اعتماد کے بجائے شک و شبہ اور بدگمانی کی فضا پیدا ہو جائے تو مختلف تہذیبی اکائیوں کی سطح اونچی نہیں ہو سکتی اور نہ ان کے ملاپ سے کوئی ریاستی تہذیب ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔

 

 

 

٭

کسی معاشرے کی با مقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلات اور اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، فنون لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، عقائد و افسوں، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔

انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے ’’کلچر‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنیٰ ہیں، ’’زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپوں اور بیکٹریا کی پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصلاح و ترقی، کھیتی باڑی کرنا۔‘‘

اردو، فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی درخت یا پودے کو کاٹنا، چھانٹنا، تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں۔ فارسی میں تہذیب کے معنی، ’’آراستن پیراستن، پاک ودرست کردن و اصلاح نمودن‘‘ ہیں۔ اردو میں تہذیب کا لفظ عام طور پر شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا مہذب یا تہذیب یافتہ ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ شخص مذکور کی بات چیت کرنے، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا انداز اور رہن سہن کا طریقہ ہمارے روایتی معیار کے مطابق ہے۔ وہ ہمارے آداب مجلس کو بڑی خوبی سے ادا کرتا ہے اور شعر و شاعری یا فنونِ لطیفہ کا ستھرا ذوق رکھتا ہے۔

تہذیب کا یہ مفہوم در اصل ایران اور ہندوستان کے امراء و عمائدین کے طرز زندگی کا پرتو ہے۔ یہ لوگ تہذیب کے تخلیقی عمل میں خود شریک نہیں ہوتے تھے اور نہ تخلیقی عمل اور تہذیب میں جو رشتہ ہے، اس کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے۔ وہ تہذیب کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا تو جانتے تھے، لیکن فقط تماشائی بن کر، ادا کار کی حیثیت سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب کا تخلیقی کردار ان کی نظروں سے اوجھل رہا اور وہ آداب مجلس کی پابندی ہی کو تہذیب سمجھنے لگے۔ وہ جب ’’تہذیبِ نفس‘‘ یا ’’تہذیب اخلاق‘‘ کا ذکر کرتے تھے تو اس سے ان کی مراد نفس یا اخلاق کی طہارت یا اصلاح ہوتی تھی۔

تہذیب کی اصطلاح اردو تصنیفات میں ہمیں سب سے پہلے تذکرۂ گلشن ہند صفحہ ۱۲۹ (۱۸۰۱ء) میں ملتی ہے۔ ’’جو ان مؤدب و با شعور اور تہذیب اخلاق سے معمور ہیں۔‘‘ اسی زمانہ میں مولوی عنایت اللہ نے اخلاق جلالی کا ترجمہ جامع الاخلاق کے نام سے کیا۔ یہ کتاب احمدی پریس کلکتہ سے ۱۸۸۵ء میں شائع ہوئی۔ مولوی عنایت اللہ کتاب کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس نے اپنے خواص مخلوقات کو زیور تہذیب الاخلاق سے مہذب اور عوامِ موجودات کے تئیں ان کی بیعت سے ماَدب کیا۔‘‘ اسی نوع کی ایک اور تحریر کبیر الدین حیدر عرف محمد میر لکھنوی کی ہے۔ وہ ڈاکٹر جانسن کی کتاب تواریخ راسلس کے ترجمہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’زبان اردو میں ترجمہ کیا کہ صاحبانِ فہم و فراست کو تہذیبِ اخلاق بخوبی ہو۔‘‘ 1 (مطبوعہ آگرہ ۱۸۳۹ء)

ان مثالوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط تک ہمارے صاحبان علم و فراست کے ذہنوں میں تہذیب کا وہی پرانا تصور تھا جو فارسی زبان میں رائج تھا۔

سر سید احمد خاں غالباً پہلے دانشور ہیں جنہوں نے تہذیب کا وہ مفہوم پیش کیا جو ۱۹ ویں صدی میں مغرب میں رائج تھا۔ انہوں نے تہذیب کی جامع تعریف کی اور تہذیب کے عناصر و عوامل کا بھی جائزہ لیا۔ چنانچہ اپنے رسالے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے سر سید پرچے کی پہلی اشاعت (۱۸۷۰ء) میں لکھتے ہیں کہ،

’’اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سولزیشن (Civilisation) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے تاکہ جس حقارت سے (سویلائزڈ) مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہووے اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قومیں کہلائیں۔

سوِلزیشن انگریزی لفظ ہے جس کا تہذیب ہم نے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے معنی نہایت وسیع ہیں۔ اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعالِ ارادی، اخلاق اور معاملات اور معاشرت اور تمدن اور طریقہ تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہچانا اور ان کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصل خوشی اور جسمانی خوبی ہوتی ہے اور تمکین و وقار اور قدر و منزلت حاصل کی جاتی ہے اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔‘‘

(منقول از دبستان تاریخ اردو مصنفہ حامد حسن قادری کراچی ۱۹۶۶ء صفحہ ۳۴۴)

سر سید نے کلچر اور سویلزیشن کو خلط ملط کر دیا ہے لیکن اس میں ان کا قصور نہیں ہے بلکہ خود بیشتر دانیان مغرب کے ذہنوں میں اس وقت تک کلچر اور سویلزیشن کا تصور واضح نہیں ہوا تھا۔

سر سید نے تہذیب ؔالاخلاق ہی میں تہذیب پر دو مفصل مضمون بھی لکھے۔ پہلے مضمون کا عنوان ’’تہذیب اور اس کی تعریف‘‘ اور دوسرے کا ’’سویلزیشن یعنی شائستگی اور تہذیب‘‘ تھا۔ یہ مضامین جیسا کہ خود سر سید احمد خاں نے اعتراف کیا ہے ٹامسؔ بکل برطانیہ کا مشہور مؤرخ تھا۔ وہ تہذیب عالم کی مفصل تاریخ کئی جلدوں میں لکھنا چاہتا تھا۔ لیکن ابھی فقط دو جلدیں شائع ہوئی تھیں (۱۸۶۱ء) کہ بکل کا انتقال ہو گیا۔

بکلؔ نے انسانی تہذیب کی تاریخ سائنسی معلومات کی روشنی میں لکھنے کی کوشش کی تھی اور استقرائی اصولوں کی بنیاد پر انسانی تاریخ کے کچھ ’’قوانین‘‘ بھی وضع کئے تھے مثلاً موسم کا قانون اور یہ ثابت کیا تھا کہ انسانی تہذیب پر طبعی ماحول اور موسم کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ بکلؔ کے ’’نظریات‘‘ گو تاریخی حقائق کے سراسر خلاف تھے۔ (وادی سندھ، وادی نیل اور وادی دجلہ و فرات کی قدیم تہذیبوں کا طبعی ماحول یورپ سے مختلف تھا پھر بھی ان تہذیبوں کی عظمت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا) اس کے باوجود اہل فرنگ نے بکلؔ کے خیالات کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا تھا کیونکہ اس نے سفید فام قوموں کے غلبے اور ایشیائی قوموں کی غلامی کو قانونِ قدرت کی شکل دی تھی اور اس طرح برطانیہ کے سامراجی مفادات کے لیے ایک نظریاتی جواز پیش کیا تھا۔

انسانی تہذیب کے ارتقاء کے قانون ہیگلؔ، مارکسؔ اور دوسرے مغربی مفکرین گو بکلؔ سے بہت پہلے دریافت کر چکے تھے، لیکن سر سید ان مفکرین کے خیالات سے غالباً واقف نہ تھے پھر بھی سر سید کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ انہوں نے ہمیں تہذیب کے جدید مفہوم سے آشنا کیا۔ تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں کہ،

’’جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہو کر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں، ان کی معلومات اور ان کے خیالات، ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اور اسی لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سولزیشن ہے۔‘‘

(مقالات سر سید جلد ۶صفحہ ۳۔ لاہور ۱۹۶۲ء)

سر سید احمد خاں نے انسان اور انسانی تہذیب کے بارے میں اب سے سو سال پیشتر ایسی معقول باتیں کہی تھیں جو آج بھی سچی ہیں اور جن پر غور کرنے سے تہذیب کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ مثلاً سر سید کہتے تھے کہ ’’انسان کے افعال اور نیچر کے قاعدوں میں نسبت قریبی ہے۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۳۵) یعنی انسانی معاشرے اور نیچر کی حرکت کے قانون یکساں ہیں۔ دوسرے یہ کہ انسان کے افعال اور ان کی باہمی معاشرت کے کام کسی قانونِ معین کے تابع ہیں۔ اتفاقیہ نہیں ہیں۔ تیسرے یہ کہ ’’انسان کے افعال ان کی خواہش کے نتیجے نہیں ہیں بلکہ حالات ما سبق کے نتیجے ہیں۔‘‘ چوتھے یہ کہ ’’کوئی انسانی معاشرہ تہذیب سے خالی نہیں ہے‘‘ اور پانچویں یہ کہ ’’انسان نیچر کو تبدیل کرتا ہے اور نیچر انسان کو تبدیل کرتا ہے اور اس آپس کے تبدیلات سے سب واقعات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

سر سید کی فکری خدمات کا مفصل جائزہ اس مضمون کے دائرے سے خارج ہے۔ البتہ ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ سر سید ہمارے پہلے مفکر ہیں جنہوں نے موجودات عالم اور انسانی معاشرے کے اندر جو تغیرات ہوتے رہتے ہیں ان کی تشریح خود معاشرے اور موجودات کے قوانین حرکت سے کی۔ کسی ماورائی قوت کے ارادے یا مرضی کو اس میں شامل نہیں کیا۔

 

 

 

 

تہذیب کی خصوصیات

 

تہذیب اور انسان لازم اور ملزوم حقیقتیں ہیں۔ یعنی انسان کے بغیر تہذیب کا وجود ممکن نہیں اور نہ تہذیب کے بغیر انسان، انسان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ تہذیب انسان کی نوعی انفرادیت ہے۔ یہی انفرادیت اس کو دوسرے جانوروں سے نوعی اعتبار سے ممتاز کرتی ہے۔ گویا ان میں بعض ایسی نوعی خصوصیتیں موجود ہیں جو دوسرے جانوروں میں نہ ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں اور انہیں خصوصیتوں کے باعث انسان تہذیبی تخلیق پر قادر ہوا ہے۔

مثلاً انسان ریڑھ کی ہڈی کی وجہ سے اپنے دونوں پیروں پر سیدھا کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کے ہاتھ بالکل آزاد رہتے ہیں۔ اس کے شانوں، کہنیوں اور کلائیوں کے جوڑوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ وہ پورے ہاتھ کو جس طرح چاہے گھما پھرا سکتا ہے، ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھوں میں جو تین تین جوڑ ہیں ان کی وجہ سے انگلیاں بڑی آسانی سے مڑ جاتی ہیں اور انسان ان انگلیوں سے طرح طرح کے کام لے سکتا ہے مثلاً وزنی چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور نئی نئی چیزیں پیدا کرنا۔ ان فطری اوزار کی بدولت ہی انسان ہر قسم کے آلات و اوزار بنانے پر قادر ہوا ہے۔ دوسرے جانور اپنے آلات و اوزار۔ پنجے، دانت، چونچ، کانٹے وغیرہ، کو اپنے جسم سے الگ نہیں کر سکتے۔ انسان اپنی تمام تخلیقات کو اپنے جسم سے الگ کر لیتا ہے۔ خواہ وہ جسمانی ہوں یا ذہنی۔

دوسری جسمانی خصوصیات جو انسان کو اور جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اس کی دو آنکھیں ہے جن کا فوکس ایک ہی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کو فاصلے کا تعین کرنے، آلات و اوزار بنانے، شکار کرنے اور چھلانگ لگانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

انسان واحد حیوان ہے جس میں گویائی کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ کوئی فطری یا خداداد صلاحیت نہیں ہے بلکہ انسان نے دماغ، زبان، دانت، تالو، حلق اور سانس کی مدد سے اور آوازوں کے آہنگ سے بامعنی الفاظ کا ایک وسیع نظام وضع کر لیا ہے۔

زبان انسان کی سب سے عظیم الشان سماجی تخلیق ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان اپنے تجربات، خیالات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور چیزوں کا رشتہ زمان و مکان سے جوڑتا ہے یعنی وہ دوسروں سے ماضی، حال، مستقبل اور دور و نزدیک کے بارے میں گفتگو کر سکتا ہے۔ اور اس طرح آنے والی نسلوں کے لیے تہذیب کا نہایت بیش بہا قیمت اثاثہ چھوڑ جاتا ہے۔

انسان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور حقیقی معنی میں سماجی حیوان بھی نہیں ہے۔ بھیڑوں کے گلے، ہرنوں کی ڈاریں اور مرغابیوں کے جھنڈ بظاہر سماجی وحدت نظر آتے ہیں لیکن در اصل ان میں کوئی سماجی رابطہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ الگ اکائیاں ہیں۔ وہ نہ مل کر اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں اور نہ ان کی زندگی کا مدار ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے طبعی اوصاف یہی ہیں۔

اسی طرح جانور کسی چیز یا واقعے کو کوئی مخصوص معنی نہیں دے سکتے۔ یعنی وہ علامتوں کی تخلیق سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انسان اشیاء اور واقعات کو نئے نئے معنی دیتا رہتا ہے۔ مثلاً جانور کے نزدیک چشمے کے پانی اور چاہ زم زم کے پانی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ کروڑوں انسانوں کے نزدیک آبِ زَم زَم نہایت مقدس پانی ہے۔ یہی حال عید، بقر عید، شبِ برأت، محرم اور دوسرے تاریخی دنوں کا ہے کہ انسان کے لیے ان کی ایک خاص اہمیت ہے جب کہ جانوروں کے لیے سب دن یکساں ہوتے ہیں۔ جانور آپس میں خاندانی رشتے بھی قائم نہیں کر سکتے۔ ان میں دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، ماموں، بھائی بہن کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ والدین اور اولاد کا رشتہ بھی بچوں کے بڑے ہو جانے کے بعد بالکل ٹوٹ جاتا ہے۔

جانوروں کے جنسی تعلقات کی نوعیت بھی انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جانور بھی جوڑا نبھاتے ہیں مگر ان میں جوڑا کھانے اور بچے پیدا کرنے کا مخصوص موسم ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح وہ ہر موسم میں جنسی تعلقات قائم کرنے یا نسلی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کا جنسی عمل کسی سماجی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ اس عمل میں وقت اور جگہ کی تبدیلی سے کوئی فرق آتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کے جنسی ضابطے برابر بدلتے رہتے ہیں۔

انسان کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں دیوی، دیوتا، بھوت پریت، جن، شیطان، جنت، دوزخ، جھاڑ پھونک، گنڈا تعویذ کا بھی رواج نہیں ہے۔ اسی طرح جانور نہ تو خودکشی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں موت کا شعور ہوتا ہے۔

امریکہ کے مشہور دانشور بنجامن فرینکلین نے کہا تھا کہ انسان واحد اوزار ساز جانور ہے۔ لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ بن مانس اور بندر بھی اپنی ضرورت کے لئے اوزار بنا لیتے ہیں۔ البتہ یہ اوزار بہت ہی بھونڈے اور ابتدائی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ فقط انسان ہی اپنی ضرورت کی چیزیں پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ بعض حیوان بھی (شہد کی مکھیاں) اپنی خوراک پیدا کرتے ہیں۔ لیکن کوئی جانور اپنے اوزار کو بہتر بنانے یا اپنی پیدا وار میں تبدیلی کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس انسان اپنے آلات و اوزار میں برابر اصلاح کرتا رہتا ہے اور اس کی پیداوار اور پیداواری رشتے بھی بدلتے رہتے ہیں۔

یہ انسان کی خالص نوعی خصوصیات ہیں جو دوسرے کسی جانور میں موجود نہیں ہیں اور نہ وہ تربیت سے اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرتے ہیں۔

انسان کے نوعی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے سر سید احمد خاں لکھتے ہیں کہ، ’’انسان کے اعضا اور قویٰ بہ نسبت اور ذی روح مخلوقات کے افضل اور عمدہ ہیں۔ اس کو یہی فضیلت نہیں ہے بلکہ جو کام وہ اپنی عقل کی معاونت سے کر سکتا ہے اور اپنے ایسے ہاتھوں سے لے سکتا ہے جو اس کے بڑے مطیع کار پرداز ہیں ان کی وجہ سے اس کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور ان دونوں ذریعوں کی بدولت وہ اور مخلوقات میں سے اپنے آپ کو نہایت راحت و آرام کی زندگی میں رکھ سکتا ہے اور گویا اپنی ذات کو ایک مصنوعی وجود بنا سکتا ہے اور جو مرتبہ اس کی قدرتی حیات کا ہے اس کی نسبت وہ اس کو بہت زیادہ آسائش دے سکتا ہے۔‘‘

(مقالات سر سید جلد۱۲۔ صفحہ ۶۳ و ۶۴ لاہور ۱۹۶۳ء)

انسان اور جانوروں کے نوعی فرق کی تشریح کرتے ہوئے کارل مارکس نے بھی مصنوعی دنیا کی تخلیق کو انسان کا بڑا کارنامہ قرار دیا ہے وہ لکھتا ہے کہ،

’’جانوروں کا حیاتی عمل (Life activity) ہی ان کی کل زندگی ہوتا ہے۔ وہ اپنی ذات اور اپنے حیاتی عمل میں فرق نہیں کر سکتے۔ یعنی ان کا کام فقط اپنے جسمانی وجود کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ (شیخ سعدیؔ نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’’زیستن برائے خوردن‘‘ کا بلیغ فقرہ استعمال کیا تھا) یہ درست ہے کہ انسان بھی اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کام کرتا ہے لیکن وہ اپنی زیست کو خوردن تک محدود نہیں کرتا۔ بلکہ کام اس کے حیاتی عمل کا فقط ایک جز ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ انسان کا حیاتی عمل اس کی مرضی اور ارادے کا پابند ہوتا ہے۔ یعنی شعوری ہوتا ہے اور یہی با شعور حیاتی عمل اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔‘‘

مارکس کے نزدیک انسان کی امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ، ’’وہ اپنے عمل سے نیچر کے پہلو بہ پہلو ایک نئی معروضی دنیا تخلیق کر لیتا ہے۔ گو بعض دوسرے جانوروں میں بھی اس کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مثلاً پرندے گھونسلے تیار کرتے ہیں۔ چوہے بل اور گیدڑ ماند کھودتے ہیں، شہد کی مکھیاں اور بھڑیں چھتے بناتی ہیں لیکن انسان اور جانور میں فرق یہ ہے کہ جانور فقط اپنی یا اپنے بچوں کی فوری ضرورتوں کے لئے یہ چیزیں پیدا کرتے ہیں۔ ان کا تخلیقی عمل ایک انگا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کا تخلیقی عمل اس کی جسمانی ضرورتوں تک محدود نہیں رہتا۔ جانور فقط تخلیق ذات کرتا ہے۔ اپنے آپ کو پیدا کرتا ہے۔ جانوروں کی تخلیق ان کے جسم کی فوری اور براہ راست کفالت کرتی ہے اور ان کے جسم کا جز ہوتی ہے۔ اس کے برعکس انسانوں کی تخلیقات ان کے جسم سے الگ ہوتی ہیں بلکہ بسا اوقات ان کی حریف بن جاتی ہیں۔ وہ خود اپنی تخلیقات کے غلام ہو جاتے ہیں۔‘‘

(Economic and Philosophical MSS 1844 Pages 75, 76 London 59)

پس معلوم ہوا کہ تہذیب خالص انسانی تخلیق ہے اور انسان ہی اس کا واحد ضامن ہے لیکن انسان تہذیب کے جراثیم ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں آتا اور نہ جبلی طور پر تہذیبی عمل میں شریک ہوتا ہے۔ اس کو بات چیت کرنا، آلات اور اوزار استعمال کرنا، اپنے سماجی فرائض کو ادا کرنا، معاشرے ہی سے سیکھنا پڑتے یں۔ یعنی تہذیب کی اساس گو انسان کی جسمانی ساخت پر ہے لیکن تہذیب کا کردار غیر جسمانی ہے۔ تہذیب کو ایک نسل سے دوسری نسل میں جسم کے ذریعہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

انسان کو سن شعور تک پہنچنے میں دوسرے تمام حیوانوں سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کے سب سے بڑے جانور وہیل مچھلی سے بھی دوگنا۔ وہ پیدائش کے بعد کئی سال تک اتنا کمزور، بے بس اور لاچار ہوتا ہے کہ دوسروں کی نگہداشت کے بغیر ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو بہت عرصے تک اپنے سماجی اور تہذیبی ماحول کے تابع رہنا پڑتا ہے۔ انہیں مجبوراً وہی زبان سیکھنی پڑتی ہے جو ان کے گھروں میں بولی جاتی ہے۔ وہی غذا کھانی پڑتی ہے جس کی توفیق ان کے ماں باپ کو ہوتی ہے۔ وہی کپڑے پہننے پڑتے ہیں، جو دوسرے انہیں پہنا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر نئی نسل کی شخصیت پرانی نسل کی تہذیب کے دائرے میں تشکیل پاتی ہے۔ ہر انسانی تہذیب میں تسلسل اسی سے پیدا ہوتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

تہذیب کے عناصر ترکیبی

 

دنیا کی ہر نئی پرانی تہذیب کی تشکیل جدید چار عناصر ترکیبی سے مل کر ہوئی ہے۔ ۱۔ طبعی حالات۔ ۲۔ آلات و اوزار۔ ۳۔ نظام فکر و احساس۔ ۴۔ سماجی اقدار۔ اس میں نہ مشرق و مغرب کی تخصیص ہے اور نہ سرد و گرم علاقوں کی قید۔ چنانچہ انڈونیشیا اور ملایا کے جنگلوں میں رہنے والوں کی تہذیب میں بھی یہ عناصر اسی طرح موجود ہیں جس طرح ماسکو، لندن یا پیکنگ اور پیرس کے باشندوں میں۔ یہ تو ممکن ہے کہ مختلف تہذیبوں میں ان عناصر کی ہیئت مختلف ہو یا ایک عنصر دوسرے سے زیادہ نمایاں ہو لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی تہذیب میں ان چاروں میں سے کوئی عنصر سرے سے موجود ہی نہ ہو۔ ان عناصر کے درمیان ایک ناقابل شکست رشتہ ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے رہتے ہیں۔

طبعی حالات تہذیب کی تشکیل و تعمیر میں طبعی حالات کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ یعنی ہر تہذیب کا اپنا ایک مخصوص جغرافیہ ہوتا ہے۔ اس کے دریا اور پہاڑ، جنگل اور میدان، پھل پھول اور سبزیاں، چرند پرند، آب و ہوا اور موسم یعنی اس کا خارجی ماحول، اس کے طرز عمل، ذریعہ معاش، رہن سہن، خوراک و پوشاک، مزاج و مذاق، اخلاق و عادات، جذبات و احساسات غرضیکہ اس علاقے کے انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریگستانی علاقوں کی تہذیب قطب شمالی کے برف پوش میدانوں کی تہذیب سے مختلف ہوتی ہے اور سمندر یا دریاؤں کے کنارے بسنے والوں کی تہذیب میں اور پہاڑیوں کی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ چنانچہ عربوں کی تہذیب ہم سے مختلف ہے تو اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ عربوں کے طبعی حالات ہم سے مختلف ہیں۔

خارجی حالات سے کسی قوم کی تہذیب ہی متعین نہیں ہوتی بلکہ افراد کی شخصیت کو بنانے بگاڑنے میں بھی خارجی ماحول کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ان بچوں کی شخصیت جو اندھیری کوٹھریوں میں رہتے ہیں اور گندی بودار گلیوں میں کھیلتے ہیں، جن کو پیٹ بھر غذا نہیں ملتی نہ ان کے دوا علاج اور تعلیم کا بندوبست ہوتا ہے، ان بچوں کی شخصیت سے بہت مختلف ہوتی ہے جن کو زندگی کی سہولتیں اور آسائش نصیب ہیں۔

تہذیب کے ابتدائی دور میں انسان کی زندگی کا ہر لمحہ طبعی ماحول کے تابع تھا۔ وہ نہ تو اس ماحول پر قابو پانے کی قوت رکھتا تھا اور نہ اس میں اپنے ماحول کو بدلنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تھی لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب انسان نے اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں سے مجبور ہو کر اپنے طبعی ماحول کو بدلنے کی جد و جہد شروع کر دی۔ چنانچہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو انسان کی پوری تاریخ طبعی ماحول یا قدرت کی تسخیر کی جد و جہد کی تاریخ ہے۔ چنانچہ ترقی یافتہ قوموں نے اپنے طبعی ماحول کو اب اتنا بدل دیا ہے کہ اگر دو ہزار سال پہلے کا کوئی باشندہ دوبارہ زندہ ہو کر آئے تو وہ اپنی جائے پیدائش کو بھی پہچان نہیں سکے گا۔

جن ملکوں میں کوئلے اور لوہے کا نام و نشان تک نہیں وہاں سٹیل بنانے والی ملیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ جہاں تیل کا ایک قطرہ نہیں ملتا وہاں تیل سے چلنی والی مشینوں اور موٹروں کے شور و غل سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جہاں ریگستان اور چٹیل میدان تھے وہاں میوہ دار درخت جھومتے ہیں اور اناج کی فصلیں لہلہاتی ہیں۔ جہاں پانی کی ایک بوند میسر نہ تھی وہاں نہریں اور چشمے ابلتے ہیں۔ جہاں سنسان اور لق و دق صحرا تھے وہاں جگ مگ جگ مگ کرتی سڑکیں اور عمارتیں بن گئی ہیں اور دکانیں اور بازار آراستہ ہیں۔ مختصراً یہ کہ صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی کے باعث طبعی ماحول کی اہمیت اب ثانوی ہوتی جا رہی ہے۔

آلات و اوزار در اصل تہذیب کی عمارت کا مدار آلات و اوزار پر ہے اور انسانی تہذیب کی ترقی آلات و اوزار پر ہی پر منحصر ہوتی ہے۔ جس قسم کے آلات و اوزار ہوں گے تہذیب بھی اسی قسم کی ہو گی۔ اسی لیے دانیانِ فرنگ نے تہذیب کے مختلف ارتقائی ادوار آلات و اوزار ہی کی مناسبت سے مقرر کئے ہیں۔ مثلاً پتھر کے زمانے کی تہذیب، کانسے کے زمانے کی تہذیب اور لوہے کے زمانے کی تہذیب وغیرہ، مراد یہ ہے کہ جس زمانے میں انسان پتھر یا ہڈی کے آلات و اوزار استعمال کرتا تھا، تو اس کا رہن سہن، رسم و رواج، باہمی رشتے، عادات و اطوار اور سوچنے اور محسوس کرنے کے انداز یعنی اس کی تہذیب مخصوص طرز کی ہوتی تھی۔ لیکن جب کانسے کے آلات و اوزار نے رواج پایا تو معاشرے کا پورا بالائی ڈھانچہ بدل گیا۔ لوگوں نے جنگل بیابانوں میں مارے مارے پھرنے کے بجائے چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد کر لیں۔ مویشی پالے، کھیتی باڑی شروع کی، مٹی اور دھات کے برتن بنائے۔ پھر رفتہ رفتہ باقاعدہ ریاستیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں۔ نئے نئے ہنر اور پیشے وجود میں آئے۔ طبقے بنے۔ قانون وضع کئے گئے اور اخلاق و مذہب کے ضابطے تیار ہوئے۔ غرضیکہ معاشرے میں طرز عمل، طرز زندگی اور طرز فکر و احساس کا ایک نیا نظام قائم ہو گیا جو پتھر کے زمانے کے سماجی نظام سے بالکل مختلف تھا۔

آلات و اوزار کی تبدیلی سے معاشرے کی زندگی کے ہر شعبے میں جو انقلابی تغیرات آتے ہیں، ان پر غور کرنے کے لیے اس دانۂ گندم کی مثال کافی ہے جو ہماری آپ کی بنیادی غذا ہے۔ مثلاً گیہوں کی کاشت اگر ہل بیل سے ہوتی ہے تو دیہاتی معاشرے کی ایک شکل ہو گی اور بڑے بڑے فارموں پر ٹریکٹروں اور بھاری مشینوں کے ذریعے ہوتی ہے تو معاشرے کا نقشہ دوسرا ہو گا۔ اس تبدیلی میں انسانوں کو اپنی مرضی اور خواہش کو دخل نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ معاشرتی تغیر آلات و اوزار کی تبدیلی کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔

ہل بیل کے ذریعے کاشتکاری کا پیشہ ایک مخصوص زرعی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس نظام میں لوگ پیداواری عمل میں ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ پہلا رشتہ زمین کے مالک اور کاشتکار کے درمیان ہوتا ہے۔ مالک بعض شرائط پر اپنی زمین کاشتکاری کے حوالے کرتا ہے۔ لیکن کاشتکار زراعت کے مختلف مراحل تن تنہا طے نہیں کر سکتا۔ کاشتکاری کے آلات (ہل، پھاؤڑا، کھرپی، کدال، ہنسیا وغیرہ) کے لئے وہ گاؤں کے بڑھئی اور لوہار سے مدد لیتا ہے۔ کمہار اس کو برتن بھانڈے بنا کر دیتا ہے۔ موچی چمڑے کا سامان، جولاہا کپڑے، تیلی تیل اور کھلی فراہم کرتے ہیں اور کاشتکار ان تمام خدمات کا معاوضہ فصل تیار ہونے پر اناج کی شکل میں ادا کر دیتا ہے۔ وہ نہ تو اکیلے آبپاشی کر سکتا ہے اور نہ فصل کاٹ سکتا ہے۔ بلکہ کھیتی باڑی کے یہ کام بھی گاؤں کے کاشتکار امدادِ باہمی کے اصول پر مل جل کر کرتے ہیں۔ عورتیں کھانا پکاتی ہیں، چکی پیستی ہی، مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، کنویں سے پانی اور جنگل سے ایندھن لاتی ہیں اور گھر کے دوسرے کام کاج کرتی ہیں۔

اس پیداواری عمل سے گاؤں کی ایک مخصوص تہذیب جنم لیتی ہے۔ پانی بھرنے، چکی پیسنے، چاک گھمانے اور فصل کاٹنے کے گیت، لوک کہانیاں، لوک ناچ، فصلی میلے اور تہوار، گھریلو دستکاریاں جو بازار میں بکنے کے لئے نہیں بلکہ گھر والوں کے استعمال کے لیے تیار کی جاتی ہیں، اور جن کے ذریعے عورتیں اپنے ذوق جمال کا اظہار اور اس کی تسکین کرتی ہیں۔ شاعر انہیں تخلیقات اور آلات و اوزار کو علامتی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کبیر داس کے دوہے کے بول ہیں۔

چلتی چکی دیکھ کر کبیرا روئے

دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے

اس بول میں کبیر داس نے زمین اور آسمان کو چکی کے دو پاٹوں سے تشبیہ دی ہے اور اگر کسی شخص کو کبیرؔ کے عہد کے معاشرے کا علم نہ ہو، تب بھی وہ یہ نتیجہ ضرور اخذ کر سکتا ہے کہ اس شاعر کا تعلق ایک ایسے دور سے تھا جب معاشرے میں چکی پیسنے کا رواج عام تھا۔ اسی طرح پانی بھرنے اور فصل کاٹنے کے گیت ہیں جو ایک خاص طرز زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔

اس زرعی معاشرے کے حسّی تجربے اور ان کے اظہار کے طریقے ہی ایک مخصوص طرز کے نہ ہوں گے بلکہ معاشرے کا نظامِ فکر بھی مختلف ہو گا۔ زلزلہ، سیلاب، آندھی، طوفان، اولے، قحط اور وباؤں کا عذابِ الٰہی سمجھنا، تقدیر پر اعتقاد رکھنا، جھاڑ پھوڑ پھونک، دعا، تعویذ، نذر نیاز اور ٹونے ٹوٹکے کی مدد سے اپنے بگڑے کام بنانے کی کوشش کرنا، مولویوں، پنڈتوں، پیروں، فقیروں کی خدمت کرنا، اور درگاہوں اور مقبروں کی زیارت کو نجات کا وسیلہ سمجھنا اس زرعی نظام کی اعتقادی خصوصیات ہیں۔

اب آیئے اس زرعی نظام کا مقابلہ اس نظام سے کریں، جس میں فصلوں کی کاشت ہل بیل کے بجائے بھاری بھاری مشینوں سے ہوتی ہے۔ پرانے زرعی نظام میں کھیت اگر ایک یا دو ایکڑ کے ہوتے تھے تو نئے نظام میں فارم ہزاروں ایکڑ کے ہوں گے۔ فارم کی نگرانی کسی ماہر زراعت کے سپرد ہو گی۔ جتائی، بوائی، کٹائی اور ذخیرہ اندوزی کے لیے مشینیں استعمال ہوں گی۔ ان مشینوں کے ڈرائیور اور مرمت کرنے والے مستری کہلائیں گے۔ فارم میں گوبر کے بجائے مصنوعی کھاد ڈالی جائے گی۔ یہ مصنوعی کھاد مقامی پیداوار نہیں ہو گی۔ بلکہ دور دراز فیکٹریوں میں تیار ہو کر بازار کے ذریعہ فارم تک پہنچے گی۔ آب پاشی کے لئے رہیٹ کے بجائے انجن سے چلنے والے ٹیوب ویل لگے ہوں گے۔ گاؤں کے بیس پچیس آدمی مل کر جتنا پانی کنویں سے دن بھر میں کھینچتے تھے، اتنا پانی ایک ٹیوب ویل ایک گھنٹہ میں کھیتوں تک پہنچا دے گا۔ اناج کو صاف کرنے اور آٹا پیسنے کی مشین لگی ہوں گی اور فارم کی پیداوار مالک کے ذاتی استعمال میں نہیں آئے گی گی بلکہ منڈیوں میں فروخت ہو گی۔

معمولی کھیتوں اور صنعتی فارموں پر کام کرنے والوں کے کام کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کا تخلیقی کردار بھی مختلف ہوتا ہے۔ فارموں پر کام کرنے والوں کو کاشتکار نہیں بلکہ مزدور کہتے ہیں۔ چنانچہ فارم کے مزدوروں کا رشتہ مالک یا منیجر سے وہ نہیں ہوتا جو کاشتکار کا اپنے زمیندار سے ہوتا ہے۔ زمیندار کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کاشتکار کھیت میں دو گھڑی کام کرتا ہے یا دن بھر لگا رہتا ہے، وہ اکیلا کام کرتا ہے، یا اس کا سارا کنبہ اس کے ساتھ کھیت میں جتا رہتا ہے۔ زمیندار کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا ہاری یا مزارع کون سی فصل بو رہا ہے۔

اس کے برعکس فارم کے مزدوروں کے اوقاتِ کار مقرر ہوتے ہیں۔ ان کو باقاعدہ اجرت ملتی ہے اور وہ اگر غیر حاضر ہوں تو اجرت کٹ جاتی ہے۔ فارم اگر بالکل جدید طریقے کا ہو تو اس کے مزدوروں کی بستی کا نقشہ ہی جدا ہوتا ہے۔ عورتیں کنویں پر پانی بھرنے نہیں جاتیں، نہ چکی پیستی ہیں، نہ چرخہ کاتتی ہیں اور نہ گھریلو دستکاری کے ہنر دکھاتی ہیں، بلکہ ان کے گھر بھی فارم کی ملکیت ہوتے ہیں۔ جن میں پانی کے نل اور بجلی کے بلب لگے ہوتے ہیں۔ آٹا پسا پسایا بازار سے آتا ہے۔ خالص گھی اور تیل کی جگہ بناسپتی گھی استعمال ہوتا ہے۔ عورتیں ہاتھ سے سینے پرونے کی بجائے سلائی مشینیں چلاتی ہیں۔ اور جب نہ چکی رہی نہ چرخے، نہ فصلوں کی کٹائی کے موقعوں پر گہما گہمی تو لوک گیت، لوک گانے اور لوک ناچ کی امنگیں کیسے اٹھیں گی۔ جن حالات میں یہ فنون پرورش پاتے تھے، جب وہ حالات ہی باقی نہ رہے تو یہ فنون زندہ کیسے رہیں گے۔ چنانچہ اس بستی میں جس میں ریڈیو بجتے ہوں، اور ٹی وی کھلے ہوں لوگ فن کی تخلیق کرنے کے بجائے فن کے تماشائی بن جاتے ہیں۔ ان کا حصہ فقط دور کا جلوہ ہوتا ہے۔

اسی طرح اگر چرخے اور کھڈی کی جگہ سوت کا تنے اور کپڑا بننے کی مشینیں لگ جائیں یا رس کے کولہوؤں کی جگہ شکر بنانے والی ملیں کھڑی ہو جائیں، یا پلاسٹک، المونیم اور چینی کے برتن تیار کرنے کے کارخانے کھل جائیں تو معاشرے کا پورا نظام بدل جاتا ہے۔ لوگوں کے رہن سہن، عادات و اطوار، رسم و رواج اور انداز فکر و احساس میں بھی رفتہ رفتہ انقلاب آ جاتا ہے۔

پتھر کی تہذیب ہو، یا کانسے لوہے کی، بہرحال انسانوں ہی کی جسمانی اور ذہنی محنتوں کی تخلیق ہوتی ہے۔۔ ۔ انہیں کے ذہنی اور جسمانی قویٰ کے حرکت میں آنے سے وجود میں آتی ہے، لہٰذا کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی سے کس حد تک کام لیا ہے۔ اس توانائی میں اپنی توانائی آفرین تخلیقات سے کتنا اضافہ کیا ہے۔ (خود کار مشینیں اس توانائی کی ایک مثال ہیں) اس کو کتنا نکھارا اور چمکایا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ افراد کے ذوقِ نمود کو آسودہ نہیں کر سکتا یا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے سے گریز کرتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ ان آلات اوزار کو، جو معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے، استعمال کرنے پر اصرار کرتا ہے اور نئے آلات و اوزار کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔

اگر کوئی معاشرہ روح عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے، اگر نئے تجربوں، تحقیقوں اور جستجوؤں کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اس کی افزائش رک جاتی ہے اور پھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کے زوال کی تاریخ در اصل ان کے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجام کار فنا ہو گئیں۔ دارائے ایران کو سکندرِ اعظم نے شکست نہیں دی تھی بلکہ ایک زوال پذیر معاشرے نے ایک ترقی پذیر معاشرے کے ہاتھوں زک اٹھائی تھی اور وادی سندھ کی تہذیب پر آریہ اس وجہ سے غالب آئے تھے کہ ان میں توانائی کی مقدار جس کا مظہر ان کے آلات و اوزار تھے، یہاں کے قدیم باشندوں سے زیادہ تھی۔ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط اور پھر ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں ہندوستانیوں کی شکست کے اسباب بھی اہل مغرب کے بہتر آلات و اوزار اور ترقی یافتہ معاشرتی نظام میں پوشیدہ ہیں۔

 

 

 

نظام فکر و احساس

 

انسان کو ہم با شعور حیوان بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ شعور فقط انسانی خصلت ہے جو دوسرے جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔ خود انسان میں بھی شعور کوئی نسلی یا طبعی خصوصیت نہیں بلکہ کسبی خصوصیت ہے۔ چنانچہ زبان کی طرح شعور بھی انسان کی بنیادی احتیاجوں کی تخلیق ہے۔ ان احتیاجوں میں نہایت اہم احتیاج انسانوں کے باہمی رابطے اور رشتے ہیں۔ یہ رشتے بھی جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں فقط انسانی خصوصیت ہیں۔ لہٰذا شعور ابتدا ہی سے سماجی شعور رہا ہے۔ اس کا ارتقا بھی سماجی ارتقا سے وابستہ ہے۔

ہمارے شعور کا منبع و مخزن ہمارا ذہن ہے اور ذہن کی حرکات کا خزانہ باریک جھلّیوں میں لپٹا ہوا وہ مغز ہے جس کی حفاظت ہماری کھوپڑی کرتی ہے۔ جسم کا یہ حصہ اتنا نازک اور ذکی الحس ہوتا ہے کہ اگر سر میں چوٹ لگ جائے تو بعض اوقات آدمی کا پورا جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ بینائی اور گویائی کی طاقت جواب دے دیتی ہے۔ ماضی کے تمام تجربے اور واقعے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ حافظہ بالکل کام نہیں کرتا یہاں تک کہ قریبی عزیزوں اور دوستوں کی شکلیں اور نام بھی یاد نہیں رہتے۔

انسان کے تمام افعال اور ارادے، اس کا ہاتھ پاؤں ہلانا، اس کا دیکھنا، بولنا، کھانا پینا، غرض اس کا ہر جسمانی اور ذہنی عمل دماغ ہی کے تابع ہوتا ہے اور اگر دماغ اپنا عمل ترک کر دے تو انسان جیتے جی انسانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ زندہ لاش بن جاتا ہے۔ خیال پرست فلسفیوں نے شاید دماغ کی انہیں خصوصیتوں سے متاثر ہو کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ موجوداتِ عالم ہمارے دماغ کا عکس ہیں۔ دماغ سے باہر ان کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے لیکن یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں کیونکہ جدید سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ کرۂ ارض نہ صرف انسان اور اس کے دماغ سے کروڑوں برس پہلے سے موجود ہے بلکہ خود انسان زمین ہی کے مادوں کا ترقی یافتہ پیکر ہے، اور اس کا دماغ بھی زمین ہی کے مادی اجزا سے بنا ہے۔ ایسی صورت میں جو مقدم ہے وہ مؤخر کا عکس کیسے ہو سکتا ہے۔ اب علم الاجسام نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ دماغ کی ساخت اور اس کا طریقہ کار کوئی پر اسرار معمہ باقی نہیں رہا، جس کو فلسفیانہ قیاس آرائیوں سے حل کیا جائے۔ اب تو معمولی ڈاکٹر بھی بتا سکتا ہے کہ ہمارا دماغ خارجی دنیا سے کس کس طرح اثر قبول کرتا ہے۔ نیز یہ کہ دماغ کے خلیوں اور شریانوں کا بقیہ جسم سے کیا تعلق ہے۔

ہمارے اعصابی نظام کا محور دماغ (ریڑھ کی ہڈی) ہے۔ دماغ میں دس ارب سے سو ارب تک اعصابی خلیے ہوتے ہیں اور ہر خلیہ دوسرے خلیوں سے ایک ہزار ریشوں کے ذریعہ جڑا ہوتا ہے۔ جسم کے اندر اور باہر کی تمام اطلاعیں انہیں پیچ در پیچ راہوں سے شعور کی مختلف سطحوں تک پہنچتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے علم، حافظے اور خیال کی لاکھوں کروڑوں شکلیں انہیں اعصابی خلیوں کی مرہون منت ہیں۔ مثلاً آنکھ جس سے ہم دیکھتے ہیں اس کے بالائی پردے (RETINA) میں تیرہ کروڑ خلیے ہوتے ہیں جو خارجی اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ بالائی پردہ دس لاکھ سے زائد اعصابی ریشوں کے ذریعہ دماغ سے جڑا ہوتا ہے۔

دماغ اپنا فریضہ انہیں اربوں اعصابی خلیوں کے ذریعہ سر انجام دیتا ہے۔ مثلاً فرض کیجئے کہ آپ کو چوٹ لگتی ہے۔ آلۂ ضرب جیوں ہی آپ کی کھال کو چھوئے گا کھال کے خلیوں میں ہیجان اٹھے گا۔ یہ ہیجان آپ کے مرکزی اعصابی نظام (دماغ اور ریڑھ کی ہڈی) میں دوڑ جائے گا اور آپ چوٹ کو آناً فاناً محسوس کر لیں گے۔ اگر آپ کو آلۂ ضرب کی نوعیت کا تجربہ ہے تو آپ کا دماغ یہ بھی بتا دے گا کہ چوٹ کس چیز سے لگی ہے۔ اور یہ ساری اطلاع تار برقی سے بھی کم وقت میں پل جھپکتے موصول ہو جائے گی۔ کسی اطلاع کی دماغ تک رسائی کی نوعیت برقی اور کیمیاوی ہوتی ہے۔

سب سے پہلے انسان کے حسی اعضا آنکھ، کان، ناک، زبان اور کھال میں برقی ہیجانات پیدا ہوتے ہیں۔ ان ہیجانات کی بے شمار قسمیں ہوتی ہیں اور وہ بے حد پیچیدہ ہوتے ہیں، تب اعصابی خلیوں کو آپس میں ملانے والے ریشوں کے جوڑوں پر جو جھلی چڑھی ہوتی ہے یہ برقی لہر ان پر دوڑنے لگتی ہے۔ اس عمل سے ایک بہت ہی مختصر سا کیمیاوی ٹرانس میٹر خارج ہوتا ہے جو دوسرے خلیوں میں ہیجان پیدا کرتا ہے۔ اس طرح ایک اعصابی خلیے کا عمل دوسرے پر اور دوسرے کا تیسرے پر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اطلاع دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔

انسان کو سب سے پہلے اپنے حسی ماحول کا شعور ہوا، یعنی اس ماحول کا جو بالکل ہی اس کے گرد و پیش تھا۔ پھر اس کو اس محدود رشتے کا شعور ہوا، جو اس کو دوسرے افراد یا اشیا سے قائم کرنے پڑے۔ اسی کے ساتھ اسے تھوڑا بہت اپنی ذات کا شعور بھی ہوا اور تب اسے موجودات عالم۔۔ ۔ نیچر۔۔ ۔ کا شعور ہوا لیکن اس وقت تک نیچر سے انسان کا رابطہ در اصل حیوانی رابطہ تھا۔ البتہ جب انسان کی ضرورتیں بڑھیں۔ اس نے ان ضرورتوں کی تسکین کے لئے آلات و اوزار بنائے، تقسیم کار نے رواج پایا اور جسمانی اور دماغی محنت کی تقسیم ہوئی تو اس غلط فہمی کی بنیاد پڑی کہ شعور گرد و پیش کے ماحول اور سماجی حالات زندگی سے الگ کوئی آزاد یا وجود بالذات حقیقت ہے۔ حالانکہ شعور ہمیشہ انسانوں کے ذہن سے باہر کی حقیقتوں کا شعور ہوتا ہے۔ خواہ یہ حقیقتیں مادی ہوں یا غیر مادی (انصاف، مساوات، جمہوریت وغیرہ) اور سماجی حالات کا پابند ہوتا ہے۔

ہر تہذیب کا مخصوص نظام فکر و احساس ہوتا ہے۔ یہ نظام اس رشتے کی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے جو معاشرے کے افراد اور موجودات میں استوار ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کے حالات وجود جس سطح پر ہوں گے اس کے شعور کی سطح بھی وہی ہو گی۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور دوسرے انسانوں سے اس کا رابطہ جس قسم کا ہو گا، اس کے سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز، اور اس کے عقائد و رجحانات بھی اسی کے مطابق ہوں گے۔ جنگلی دور کے انسان میں خدائے واحد کا یا جنت دوزخ کا، یا یوم حشر کا شعور پیدا نہیں ہو سکتا تھا اور نہ قرون وسطیٰ کا انسان ارتقا، اضافیت، اور جوہری توانائی کے نظریے دریافت کر سکتا تھا۔

یہ تغیرات آلات و اوزار اور سماجی روابط میں تبدیلی کی وجہ سے آتے ہیں۔ در اصل نظام فکر و احساس کی تبدیلی خود اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ معاشرے کی تخلیقی اساس اب وہ نہ رہی جو پہلے تھی۔ مثلاً پتھر کے زمانے کی تہذیب کو لیجئے۔ اس وقت انسان تیر کمان، بلم بھالے سے شکار کر کے یا خودرو درختوں کے پھل پھول کھا کر ہی اپنی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔ وہ مادے کی ہیئت (پتھر کی نکیلی انیاں، کمان وغیرہ) اور کیفیت (لکڑی سے آگ) میں تھوڑی بہت تبدیلی کر لیتا تھا۔ اس نے اپنی روز مرہ کے سماجی تجربوں سے (قوتِ گویائی کی مدد سے) گرد و پیش کی چیزوں کے خواص معلوم کر لئے تھے اور ان کے نام بھی متعین کر لئے تھے لیکن وہ مظاہر قدرت کی حرکت کے اسباب و علل سے بالکل واقف نہ تھا اور نہ اس کو طبعی تبدیلیوں کے قوانین کا شعور تھا۔ مثلاً وہ تمام موجودات، دریا پہاڑ، سورج چاند، زمین آسمان، جانور درخت، آندھی، طوفان، سیلاب زلزلہ، اولے، بارش کو اپنی طرح فعال اور با ارادہ شخصیتیں سمجھتا تھا۔ چونکہ ان چیزوں سے اس کو ہر وقت سابقہ پڑتا تھا بلکہ اس کی زندگی کا انحصار ہی ان کے ’’طرز عمل‘‘ پر تھا۔ لہٰذا جو چیزیں اس کو سکھ دیتی تھیں ان کو وہ پسند کرتا تھا اور جو چیزیں اسے دکھ پہنچاتی تھیں ان سے وہ ڈرتا تھا (بعد میں یہی نیکی اور بدی، خیر و شر کی قوتیں قرار پائیں۔)

چنانچہ ان کی تسخیر کے لئے وہ جادو منتر سے کام لیتا تھا یا ان کی رضا جوئی کے لئے عبادت اور ریاضت کرتا تھا۔ وہ حیات اور موت میں بھی تمیز نہیں کر سکتا تھا اور نہ اس کے ذہن میں موت کا کوئی تصور تھا۔ اس کا نظام فکر و احساس افزائش نسل اور اور افزائش خوراک کی ضرورتوں کے محور پر گھومتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مادہ جنس کو نَر جنس پر فوقیت دیتا تھا۔ کیونکہ اس کا مشاہدہ یہی کہتا تھا کہ انسان ہو یا جانور مادہ ہی کے پیٹ سے نئی نسل پیدا ہوتی ہے۔ اسپین اور فرانس کے غاروں میں پتھر کے زمانے کی جو دیواری تصویریں اور مجسمے ملے ہیں، ان سے اس دعویٰ کی پوری پوری تصدیق ہوتی ہے۔

جہاں تک تحفظ ذات کا تعلق ہے، دور حاضر کے انسان نے بیشتر بیماریوں پر قابو پا لیا ہے اور علاج کے امتناعی و شفائی طریقوں نے بھی بہت ترقی کر لی ہے، لیکن ابتدائی انسان نہ تو بیماریوں کے اسباب سے واقف تھا اور نہ اس کو علاج کے طریقے آتے تھے۔ اس کو جڑی بوٹیوں، نمکوں اور دوسری نباتات و معدنیات کی شفا بخش تاثیر کا علم لاکھوں برس کے تجربے کے بعد ہوا ہے۔ اس تجربے کے کارن نہ جانے کتنوں کی جانیں گئی ہوں گی تب کہیں علم طب کی بنیاد پڑی ہو گی۔ اس بات کو ابھی پانچ چھ ہزار برس سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ چنانچہ کانسے کے زمانے میں بھی عام عقیدہ یہی تھا کہ بیماری کا باعث کسی رب النوع، کسی دیوی دیوتا یا جن بھوت کی خفگی ہے۔ اسی لئے لوگ دوا دارو کے بجائے جھاڑ پھونک، دعا تعویذ، نذر نیاز کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ یہاں تک کہ انجیل مقدس کے مطابق حضرت عیسیٰؑ بیماروں کے بدن سے بد روحیں نکال کر اپنی مسیحائی کے معجزے دکھاتے تھے۔

عقائد کی سخت گیری کا عالم یہ ہے کہ آج بھی جب کہ سائنس نے تجربے سے ثابت کر دیا ہے کہ تمام ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے اسباب مادی ہوتے ہیں اور کوئی مافوق الفطرت طاقت ان خرابیوں کی ذمہ دار نہیں ہے، ہمارے ملک کے لاکھوں کروڑوں باشندوں کا ایمان ہے کہ پیروں فقیروں کے مزار پر منت ماننے یا دعا تعویذ سے بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔ بالخصوص پاگل پن، مرگی اور ہیسٹریا جیسی نفسیاتی اور اعصابی بیماریاں، جن کے باقاعدہ علاج کا ابھی تک ہمارے ملک میں مناسب انتظام نہیں ہے۔ شعور کی یہ پستی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے بیشتر علاقوں کے سماجی حالات اور پیداواری آلات میں کانسے کے زمانے سے اب تک بہت کم تبدیلی ہوئی ہے۔ زندگی پرانے ڈگر پر بدستور چل رہی ہے اور حاکم طبقوں کی برابر یہی کوشش ہے کہ لوگ سائنسی علم کی روشنی سے محروم رہیں اور توہم پرستیوں میں بدستور مبتلا رہیں۔

کانسے کی تہذیبوں کا انداز فکر و احساس زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ کیونکہ کانسے کے دور میں پیداواری آلات و اوزار بہتر ہو گئے تھے۔ پیداوار اور آبادی بڑھ گئی تھی۔ کاموں کی تقسیم میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پتھر کے زمانے کا معاشرہ سفری اور شکاری معاشرہ تھا۔ کانسے کا معاشرہ حضری اور زرعی معاشرہ تھا۔ مصر، یونان، وادی دجلہ، وادی سندھ، وادی گنگ و جمن اور ایران کی پرانی تہذیبیں کانسے کی تہذیبیں تھیں۔ ان کے عظیم الشان تخلیقی کارناموں کو بیان کرنے کے لئے دفتر درکار ہوں گے۔ کانسے کے زمانے کا انسان ہل بیل کی مدد سے کھیتی باڑی کرتا تھا۔ اسے تجربے سے معلوم ہو گیا تھا کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔

زمین کو جوتنے والے ہل، کمہار کا چاک، پہیہ دار گاڑیاں، سوت اور اون کاتنے کے چرخے اس دور کے پیداواری آلات و اوزار تھے۔ مٹی کے برتنوں کو آگ میں پکانا، دھاتوں کو پگھلانا، کپڑے بننا، عمارتیں بنانا، شہر بسانا اور مٹی کی لوحوں یا درخت کی چھالوں یا جانور کی کھالوں پر صوتی علامتوں کے نقوش بنانا (فن تحریر کی ایجاد) ان کے ہنر تھے۔ مختصر یہ کہ انسان پہلی بار کانسے کے دور ہی میں قسم قسم کی مادی تخلیقات پر خود قادر ہوا تھا۔ گویا پہلی بار صحیح معنی میں انسان بنا تھا۔

اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے ورنہ ہم تفصیل سے بتاتے کہ کانسے کے زمانے کی تخلیقی سرگرمیوں کا اس دور کے نظام فکر و احساس سے کیا رشتہ ہے۔ اور اس دور کے عقائد، ذہنی رجحانات، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کس کس طرح اپنے سماجی حالات یعنی طرز معاشرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثلاً جب معاشرے میں طبقات قائم ہوئے اور ذاتی ملکیت نے رواج پایا اور معاشی اور سیاسی اقتدار مطلق العنان بادشاہوں، دربار کے امیروں اور پروہتوں کے ہاتھ میں آیا تو ان طبقوں نے اپنے معاشرتی نظام سے ملتا جلتا اور اس کے متوازی پوری کائنات کے نئے نئے عقیدوں نے رواج پایا۔

جس طرح زمین پر بادشاہوں کی مطلق العنان حکومت تھی، اسی قسم کی مطلق العنان حکومت آسمان پر بھی قائم کی گئی۔ جس طرح زمین پر عام انسانوں کی زندگی اور موت بادشاہ کے اختیار میں تھی اور اس کی تقدیر کا فیصلہ حاکم وقت کرتا تھا، اسی طرح کا اختیار کائنات کے قادر مطلق خداؤں زیوس، رَع، مردوک، بَعل، اہومزوا، ایشور وغیرہ سے منسوب کیا گیا۔ جزا سزا، دوزخ جنت، ملائکہ اور مقربین، شیاطین اور بھوت پریت، حساب و کتاب، حشر و نشر، میزان اور عدالت، غرض کہ افکار و عقائد کا ایک باقاعدہ نظام مرتب ہو گیا، جو غور سے دیکھا جائے تو اس دور کی مطلق العنان بادشاہوں کا ہوبہو چربہ نظر آئے گا۔ شعور کی کمی کے باعث انسان عالمِ موجودات کی سائنسی توجیہ و تشریح نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا اس نے کائنات کے نظام عمل کو بھی اپنے سماجی نظام کے حوالے سے دیکھا۔ سماجی نظام کے چربے یا عکس کو اصل خیال کیا اور جو اصل حقیقت تھی، اسے نظام کائنات کا چربہ یا عکس سمجھا۔

اسی طرح کانسے کے دور کی نظموں اور داستانوں میں، گیتوں اور گانوں میں، مجسموں اور رنگین تصویروں میں غرضیکہ تمام ذہنی اور حسی تخلیقات میں لوگوں کی طرز زندگی کا، جذبات و خواہشات کا، ان کے غموں اور خوشیوں کا، پسند اور ناپسند کا، عادات و اطوار کا، عشق و محبت کی قلبی واردات کا، اخلاق اور آداب کا بڑا دلکش اور خیال آفریں نقشہ ملتا ہے۔

ہر معاشرے کا نظامِ فکر و احساس سماجی شعور کے تابع ہوتا ہے اور یہ سماجی شعور سماجی حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً انسان ہزاروں سال سے یہی یقین کرتا چلا آتا تھا کہ کائنات کا مرکز و محور زمین ہے اور چاند سورج زمین کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ زمین فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے۔ ہماری آنکھیں بھی اس عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ اس عقیدے کی بنیاد ہی ذاتی مشاہدہ پر تھی۔ اگر کوئی دانشوران عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا تھا کہ سورج چاند کی گردش ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ در اصل زمین گھومتی ہے تو اسی پر کفر و الحاد کے فتوے لگائے جاتے تھے۔ اس کو آگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ البتہ جب دور بین، خورد بین اور اسی نوع کے دوسرے آلات ایجاد ہوئے تو ثابت ہو گیا کہ یہ سارا نظام بطلیموسی جس کی صداقت مقدس کتابوں سے ثابت کی جاتی تھی، واقعی قیاس آرائی اور نظر کا دھوکہ تھا۔

پھر رفتہ رفتہ اور آلات ایجاد ہوئے اور انسان نے اپنے تجربے سے معلوم کر لیا کہ بارش سیلاب، آندھی طوفان، بجلی زلزلے، خشک سالی سب کے مادی اسباب ہیں اور ان کی بابت وثوق سے پیشن گوئی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی پتہ چل گیا کہ زمین، چاند، سورج اور دوسرے مظاہر قدرت مادے کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان کی حرکت کے مادی قانون ہیں اور یہ کہ مادہ فنا نہیں ہوتا بلکہ جون بدلتا رہتا ہے۔ ان انکشافات و ایجادات سے انسان کے افکار و عقائد میں جو عظیم انقلاب آیا وہ اظہر من الشمس ہے۔ 2

یہی حال تخلیق کے عقیدے کا ہے کہ ہر مذہب کی اساس اس پر قائم ہے۔ عقیدۂ تخلیق کے اہم نکتے دو ہیں۔ اول یہ کہ موجوداتِ عالم مخلوق ہیں یعنی وہ از خود عدم سے وجود میں نہیں آئے بلکہ ان کا کوئی خالق ضرور ہے۔ دوم یہ کہ یوم تخلیق سے آج تک یہ تمام اشیاء- جانور، انسان، نباتات، جمادات، جوں کی توں موجود ہیں۔ ان میں ابد تک کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ یوں تو عہد قدیم کے متعدد یونانی، لاطینی اور ہندوستانی مفکر (ہیراک لاٹی ٹوئس، لوکری شیش، گوتم بدھ، چار واک وغیرہ) ان عقیدوں کو نہیں مانتے تھے لیکن عقلی دلائل کے علاوہ ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت انکار کے حق میں نہ تھا۔ البتہ ۱۹ویں صدی میں جب ڈارون اور دوسرے سائنسدانوں نے ارتقا کا نظریہ پیش کیا اور ٹھوس شواہد اور آثار سے ثابت کیا کہ حیوانوں کو کسی نے خلق نہیں کیا ہے اور نہ وہ ازل سے یکساں موجود ہیں بلکہ ان میں نوعی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں اور جانوروں نے بشمول انسان ارتقاء کے مختلف ادوار سے گزر کر موجودہ شکل اختیار کی ہے تو انسان کے افکار و عقائد میں بھی بڑی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ 3

اوپر کی باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے افکار و احساسات آسمان سے نہیں ٹپکتے اور نہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں بلکہ تہذیب کے دوسرے عوامل کی طرح سماجی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہر تہذیب کے نظام فکر و احساس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور ان تبدیلیوں کا باعث سماجی حالات میں تغیرات ہیں لیکن سماجی حالات اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک خود معاشرے کے اندر کوئی ایسی سماجی قوت نہ ابھرے جو ان حالات کی نفی کرتی ہو۔

اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خیالات ہمارے ذہن کی فقط انفعال یا مجہول کیفیت ہوتے ہیں یا وہ ہمارے طرز عمل یا معاشرے پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ حقیقت یہ ہے کہ خیالات میں بڑی طاقت، بڑی توانائی ہوتی ہے۔ خیالات انسان کی قوت عمل کو حرکت میں لاتے ہیں۔ اس کی سرگرمیوں کا رخ متعین کرتے ہیں۔ اس میں ایمان، یقین اور ولولہ پیدا کرتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کا فلسفہ متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ مگر جیوں ہی ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ فلاں فلسفہ دسویں صدی میں کیوں نمودار ہوا، دوسری صدی میں انسانوں کے ذہن میں کیوں نہیں ابھرا، یا فلاں نظریہ انیسویں صدی میں کیوں نمودار ہوا، پانچویں صدی میں کیوں نہ ابھرا تو پھر ہم کو لازمی طور پر اس مخصوص صدی میں انسان کے حالات زندگی کو جانچنا پڑتا ہے۔

ان کی ضروریات زندگی کیا تھیں، وہ ان ضرورتوں کو کس طرح پورا کرتے تھے، ان کے پیداواری عناصر اور آلاتِ پیداوار کیا تھے اور ان کے معاشرے میں انسان انسان کے درمیان کیا روابط تھے اور جب ہم ان سوالوں کے جواب پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنی تاریخ کا مصنف بھی ہے اور تاریخ کے ڈرامے کا اداکار بھی۔

مثال کے طور پر سر سید احمد خاں کے خیالات کا جائزہ لیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ذہنی اور حسی اصلاح کے سلسلے میں سر سید کی خدمات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ۱۸۴۸ء میں آئین اکبری مرتب کرتے ہیں اور جب مرزا غالبؔ ان کو لکھتے ہیں کہ میاں ان پرانی باتوں میں اب کیا دھرا ہے۔ ان سے نکلو اور دیکھو کہ دانایانِ فرنگ نے سائنس کی کیسی کیسی حیرت انگیز ایجادیں کی ہیں تو سر سید کو غالبؔ کی یہ نصیحت بری لگتی ہے لیکن بیس سال بعد وہی سر سید احمد خاں سائنٹفک سوسائٹی بناتے ہیں اور آثار قدیمہ کے نمائندوں سے ’’نیچری‘‘ کافر، زندیق کا خطاب پاتے ہیں۔

سر سید کے اندر یہ ذہنی انقلاب کیا کوئی اتفاقی امر تھا یا اس کے کچھ سماجی اسباب و محرکات تھے؟ معمولی سمجھ کا آدمی بھی یہی کہے گا کہ سر سید کے خیالات میں جو تبدیلیاں آئیں، وہ ملک میں مغربی طرز کے نظم و نسق، مغربی طرز معاشرت اور مغربی تعلیم کے نفوذ کے سبب آئیں اور اگر مغرب کا اثر و نفوذ غالب نہ ہوتا تو غالباً سر سید بھی بدستور آثار قدیمہ ہی کے نظاروں میں محو رہتے۔

ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ تہذیب جب طبقات میں بٹ جاتی ہے تو خیالات کی نوعیت بھی طبقاتی ہو جاتی ہے اور جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی مادی قوتوں پر ہوتا ہے، اسی طبقے کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے۔ یعنی معاشرے میں اسی کے خیالات و افکار کا سکہ چلتا ہے۔ مثلاً اشرافی تہذیب میں ایفائے عہد، شجاعت، سخاوت، مہمان نوازی اور عزت داری کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ اشرافیہ طبقے کی بقا کے لئے ان تصورات پر عمل کرنا بہت ضروری تھا۔ لیکن صنعتی تہذیب میں جب سرمایہ دار طبقے کا غلبہ ہوا تو ان تصورات کی پرانی افادیت باقی نہیں رہی۔ ان کی جگہ آزادی، مساوات، جمہوریت کے تصورات نے رواج پایا کیونکہ یہ تصورات سرمایہ دار طبقے کے لئے مفید تھے۔ اور ان تصورات کو مقبول عام بنائے بغیر سرمایہ دار طبقہ اشرافیوں کو اقتدار کی کرسی سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔

مگر طبقاتی تہذیبوں میں ٹکسالی افکار و عقائد کے خلاف ’’باغیانہ‘‘ خیالات بھی ابھرتے رہتے ہیں۔ حکمراں طبقہ ان خیالات کا سختی سے سد باب کرتا ہے۔ ان خیالات کی تبلیغ کرنے والوں کو ملک و قوم کا دشمن یا خدا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی زبان بندی کی جاتی ہے، ان کی تحریروں کو نذر آتش کیا جاتا ہے اور ضرورت ہو تو ان کو جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ’’باغیانہ‘‘ خیالات کا ظہور معاشرے کے محکوم طبقوں کے ’’باغیانہ‘‘ تقاضوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ مثلاً خلافت بنی امیہ کے دور میں عقیدۂ جبر کا غلبہ تھا۔ اس عقیدے سے بنی امیہ کی جابرانہ حکومت کو تقویت ملتی تھی۔ اس کے برعکس بنی امیہ کے مخالفین قدر و اختیار کے فلسفے کے حامی تھے۔ کیونکہ فلسفۂ قدر میں حاکم وقت کو بدلنے کی اجازت تھی اور یہ فلسفہ بنی عباس کے حق میں نہایت موزوں تھا۔ چنانچہ بنی عباس نے ابتدا میں معتزلہ کی خوب ہمت افزائی کی، البتہ جب ان کا اقتدار مستحکم ہو گیا تو انہوں نے بھی معتزلہ پر اسی طرح مظالم ڈھائے جس طرح ان کے پیش رو اموی خلفا نے ڈھائے تھے۔

سماجی اقدار کسی معاشرے میں روابط و سلوک، اخلاق و عادات، طرز بود و ماند، رسم و رواج، حسن و جمال اور فن و اظہار فن کے جو معیار رائج ہوتے ہیں، وہی اس معاشرے کے سماجی اقدار کہلاتے ہیں۔ یہ قدریں کسی مجلس شوریٰ میں وضع نہیں کی جاتیں اور نہ قانون کے ذریعہ نافذ ہوتی ہیں، بلکہ ان کے پیچھے صدیوں کی تاریخی روایات ہوتی ہیں۔ معاشرے کی کسب و جہد ہوتی ہے، اس کے تجربے اور مشاہدے ہوتے ہیں، اس کا جمالیاتی ذوق ہوتا ہے اور ان سب کے قوام سے سماجی قدریں رفتہ رفتہ تشکیل پاتی ہیں۔

معاشرے کے افراد ان قدروں کی حتی الوسع پابندی کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو ان قدروں پر بڑی سختی سے عمل ہوتا تھا۔ اور ان سے انحراف کرنے والوں کو قبیلہ ہی سے خارج کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً عربوں کی قبیلہ واری نظام کی بنیاد ’’عصبیت‘‘ یعنی قبیلہ سے وفاداری پر تھی اور یہ وفاداری اتنی غیر مشروط تھی کہ اگر قبیلہ کسی شخص کو حکم دیتا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو تو وہ اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا تھا۔ پروفیسر مونٹ گومری واٹؔ اس تصور کو ’’قبیلہ واری انسان دوستی‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ بھائی کے خون کا بدلہ نہ لیتا تو قبیلہ والے اس کو بڑی حقارت سے دیکھتے تھے بلکہ اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی تھی۔

چنانچہ عرب شاعر امرأالقیس کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے روانہ ہوا تو راستے میں ذوالخلاصہ کے معبد پر استخارے کے لئے ٹھہرا۔ اس نے تین بار رسم کے مطابق تیر توڑے مگر ہر بار یہی استخارہ نکلا کہ انتقام کا ارادہ ترک کر دو۔ امرأالقیسؔ کو دیوتا پر بہت طیش آیا اور تیروں کے ٹکڑے بت کے منہ پر مار کر بولا، ’’لعنت ہو تجھ پر، اگر تیرا باپ قتل ہوتا تو ہرگز مجھے منع نہ کرتا۔‘‘ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مسافر کو خواہ وہ قاتل یا ڈاکو ہی کیوں نہ ہوتا، پناہ دینے سے گریز کرتا تو لوگ اس کو نہایت بزدل سمجھتے تھے اور بزدلی قبلہ واری نظام میں سب سے شرمناک، اخلاقی کمزوری خیال کی جاتی تھی۔

معاشرہ اپنی سماجی قدروں کی پاسبانی اس وجہ سے کرتا ہے کہ سماج کی بقا کا دارومدار بڑی حد تک انہیں قدروں کے تحفظ پر ہوتا ہے۔ اگر ان قدروں کی طرف سے غفلت برتی جائے تو معاشرے کا شیرازہ ہی بکھر جائے اور اس کی انفرادیت باقی نہ رہے۔ مثلاً عربوں میں ظہور اسلام سے پیشتر ذی الحجہ کے مہینے میں خونریزی قطعاً ممنوع تھی۔ وجہ یہ تھی کہ حج کے موقع پر مکہ میں بہت بڑا تجارتی میلہ لگتا تھا۔ اس میلے میں سوداگروں کے قافلے دور دراز مقامات سے آ کر شریک ہوتے تھے اور ہفتوں خرید و فروخت کا بازار گرم رہتا تھا۔ اہالیان مکہ کی روزی کا انحصار اسی میلہ اور زائرین حج کے اجتماع پر تھا۔ (یہ صورت حال ہنوز باقی ہے۔) اب اگر قبائلی جنگیں حج کے زمانے میں بھی جاری رہتیں تو ظاہر ہے کہ عربوں کی معیشت کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔

اسی طرح ہمارے ملک میں بعض خانہ بدوش بلوچ قبیلوں کی سماجی قدروں کی بنیاد ’’شرکت‘‘ پر قائم ہے۔ شرکت سے مراد یہ ہے کہ قبیلہ کے افراد کے اثاثے پر ہر شخص کا مساوی حق ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ایک خاندان کے پاس نمک یا آٹا ختم ہو جائے تو وہ دوسرے خیمے سے یہ چیزیں لے آ سکتا ہے۔ اس کو خیمے والے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ان چیزوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سماجی قدریں آسمان سے کسی مذہبی پیشوا یا مصلح قوم یا فرماں روا کی وساطت سے نازل ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سماجی قدریں اوپر سے نافذ نہیں ہوتیں۔ جن قدروں کو افراد سے منسوب کیا جاتا ہے ان کا اگر سراغ لگایا جائے توپتہ چلتا ہے کہ وہ بھی معاشرے میں بہت پہلے سے رائج تھیں۔ مذہبی پیشوا یا مصلح قوم کی عظمت یہ ہے کہ وہ مروجہ قدروں میں سے فرسودہ اور مضرت رسال قدروں کو رد کر دیتا ہے اور مفید قدروں کو ایک ضابطے کی شکل میں مرتب کر دیتا ہے۔ در اصل ان سماجی قدروں کو معاشرہ اپنی ضرورتوں کے پیش نظر وضع کرتا ہے لیکن رفتہ رفتہ یہ حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور ہم ان قدروں کو انسان کے باہمی رابطوں اور سماجی ضرورتوں سے الگ کر کے معروضی حیثیت دینے لگتے ہیں۔

مثلاً ایامِ ’’جاہلیت‘‘ میں عربوں کے نزدیک انسان کا جوہر ذاتی ’’مروت‘‘ تھا۔ مروت کے لغوی معنیٰ ہیں ’’مردانگی۔‘‘ اس مروت کا اظہار شجاعتؔ، سخاوتؔ اور ایفاء عہد کے ذریعہ ہوتا تھا۔ اسی طرح خطاب، تیر اندازی اور شہ سواری کا شمار بھی اعلیٰ ترین اوصاف میں ہوتا تھا مگر عربوں نے اپنے مرد کامل کا یہ معیار تفریحاً مقرر نہیں کیا تھا اور نہ ان پر وحی آتی تھی بلکہ ان اوصاف کا تعلق ان کی زندگی اور موت سے تھا۔ کیونکہ جس ملک میں قبیلے دن رات آپس میں لڑتے ہوں، وہاں کے لوگوں میں اگر ’’مروت‘‘ نہ ہو تو زندگی محال ہو جائے۔

بعض سماجی قدریں اپنے عہد کی، قریب قریب سبھی تہذیبوں میں مشترک ہوتی ہیں مثلاً جن دنوں غلامی کا رواج نہیں ہوا تھا تو جنگی قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا کیونکہ معاشرہ قیدیوں کے روٹی کپڑے کی کفالت نہیں کر سکتا تھا اور نہ ان کو آزاد چھوڑ سکتا تھا، اس وقت انسانوں کا یہ خونِ ناحق اخلاقی جرم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ معمولات میں شامل تھا۔ لیکن جب فتح مندوں کو یہ احساس ہوا کہ جنگی قیدیوں سے روٹی کپڑے کے عوض مشقت کے سخت سے سخت کام لئے جا سکتے ہیں اور ان کی مدد سے پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے تو ان کو قتل کرنے کا رواج ترک کر دیا گیا اور ان کو غلام بنا لیا گیا۔ اب غلام اور کنیزیں آقاؤں کی ذاتی ملکیت بن گئیں اور ان کی خرید و فروخت معمولات میں شامل ہو گئی۔ حتیٰ کہ افلاطون اور ارسطو جیسے اخلاقیات کے مبلغین کو بھی غلامی میں کوئی عیب نظر نہیں آیا۔

مگر سماجی رشتوں کی بعض غیر پیداواری قدریں بھی مشترک ہوتی ہیں۔ مثلاً راست بازی، مہماں نوازی، رحم دلی، عدل و انصاف، مظلوم کے ساتھ ہمدردی، فن کاروں کی عزت، عالم فاضل بزرگوں کا احترام، شعر و شاعری اور گانے بجانے کا شوق، شادی بیاہ کی تقریبوں میں خوشی اور غمی یا موت پر افسوس کا اظہار۔ یہ قدریں کم و بیش سب تہذیبوں میں رائج ہوتی ہیں۔ البتہ ان کو برتنے کے انداز اور قاعدے جدا جدا ہوتے ہیں۔

لیکن بعض قدریں معاشرے کی انفرادی خصوصیت ہوتی ہیں اور ضروری نہیں کہ دوسرا معاشرہ بھی ان قدروں کی پیروی کرے۔ مثلاً بعض قومیں چھپکلی، مینڈک، سانپ، سور، حتیٰ کہ کتے کا گوشت بھی بڑے شوق سے کھاتی ہیں جب کہ دوسری قومیں ان جانوروں کو چھونا بھی پسند نہیں کرتیں۔ اسی طرح تن عریانی ہمارے معاشرے میں نہایت معیوب ہے حالانکہ بعض قبیلے بالکل ننگے رہتے ہیں اور برہنگی سے ان کو نہ تو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے اور نہ ان کے جنسی جذبات میں ہیجان اٹھتا ہے۔ بعض تہذیبوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا ممنوع ہے، بعضوں میں ممنوع نہیں ہے۔ بعضوں میں طلاق کا رواج ہے، بعضوں میں نہیں ہے۔ حسن کے معیار ہی کو لیجئے۔ جو آریاؤں، دراوڑوں، حبشیوں اور منگولوں میں ایک دوسرے سے جدا ہے۔

کسی تہذیب میں آبنوس کی طرح جھلکتا سیاہ رنگ، چپٹی ناک اور موٹے موٹے لٹکتے ہونٹ حسن کی نشانی ہیں اور کسی تہذیب میں گورا رنگ، ستواں ناک، پتلے ہونٹ اور نرگسی آنکھیں۔ چنانچہ حبشہ کا جب کوئی عیسائی مصور حضرت مسیحؑ اور مریمؑ کی رنگین تصویر بناتا ہے تو ممدوحین کے چہرے کے نقوش اور کھال کا رنگ ان کے اپنے معیارِحسن کے مطابق ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم کسی حبشی یا جاپانی کے حسن کو اپنے معیارِ حسن سے نہیں جانچ سکتے بلکہ ہمیں حسن کی وہ کسوٹی استعمال کرنی ہو گی جو حبشیوں اور جاپانیوں میں رائج ہے۔ یہی حال دوسری سماجی قدروں کا ہے۔ ہم دوسروں کی سماجی قدروں کو اپنی سماجی قدروں کی کسوٹی پر پرکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔

سماجی قدروں کو پرکھنے کا اگر کوئی عالمگیر معیار ہے وہ یہ کہ آیا ان قدروں سے افراد کی داخلی صلاحیتوں یعنی ذہنی اور جسمانی امکانات کو فروغ ملتا ہے یا نہیں۔ ان کی تخلیقی قوت اور توانائی بڑھتی ہے یا نہیں۔ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر ہم کو فقط اس بنیاد پر اعتراض کرنے کا حق نہیں پہنچتا کہ یہ قدریں ہماری قدروں سے مختلف ہیں۔ البتہ جواب اگر نفی میں ہے تو پھر ہم اعتراض کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ خواہ وہ قدریں ہماری ہوں یا کسی اور کی۔

سماجی قدریں جامد اور ناقابل تغیر نہیں ہوتیں بلکہ ان میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً یونان اور روما کی پرانی تہذیبوں میں بھاری جسم کی عورتیں حسین سمجھی جاتی تھیں کیونکہ اس زمانے میں خوراک کی قلت کے باعث فربہی خوش حالی کی علامت بن گئی تھی۔ حسن کا یہ معیار قرونِ وسطیٰ تک باقی رہا۔ چنانچہ رافیلؔ، ٹی شینؔ، مائیکلؔ اینجیلوؔ وغیرہ کی تصویروں میں عورتوں کے چہرے، پستان، پیڑو، کولہے، رانیں، ہاتھ پاؤں سب سے موٹاپے کا اظہار ہوتا ہے۔ آج کل موٹاپا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ طبی سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ موٹاپا صحت کے لئے سخت مضر ہے۔ چنانچہ خوشحال گھروں کی نکمی عورتیں دبلے ہونے کے لئے طرح طرح کے جتن کرتی رہتی ہیں البتہ محنت کش عورتیں اس بیماری سے محفوظ ہیں۔ جسمانی مشقت کے باعث ان کے بدن پر چربی بہت کم چڑھتی ہے۔

معاشرتی ماحول اور سماجی حالات میں جو تبدیلیاں آتی ہیں ان کا اثر قدروں پر بھی پڑتا ہے۔ مثلاً کسی زمانے میں عرب قوم میں مروت کو انسانیت کا جوہر خیال کیا جاتا تھا۔ لیکن آپ کو آج بغداد، جدہ، دمشق، قاہرہ اور بیروت میں کہ عرب تہذیب کے مراکز ہیں احساسِ مروت کا نام و نشان نہیں ملے گا۔ بلکہ سود و زیاں کا وہی کاروباری اور بے مروت ماحول جو دوسرے سرمایہ دار ملکوں کی سرشت ہے، اب عرب معاشرے میں بھی سرایت کر گیا ہے۔ اگر چہ سماجی قدریں ہر عہد میں معاشرے کی نوعیت اور اس کے تقاضوں کی عکاسی کرتی ہیں مگر بعض قدریں تولّائی ہوتی ہیں اور بعض مولائی یا آقائی۔

نفسیات اور عمرانیات کے علما تولّائی قدروں کو مادری نظام سے منسوب کرتے ہیں جس میں عورت کا رتبہ مرد سے اونچا ہوتا ہے، قبیلوں کے نام عورتوں کے نام پر رکھے جاتے تھے۔ (بنی کلثوم) حسب نسب ماں کی طرف سے چلتا تھا۔ (منذر ابن ماء السماء عمر ابن ہندہ، عمر ابن کلثوم معلقات کا شاعر) اور جائداد کی مالک بھی عورت ہی ہوتی تھی۔ محبت چونکہ عورت کی سرشت ہے اور وہ اپنے سب بچوں سے خواہ وہ نیک ہوں یا بد، یکساں پیار کرتی ہے۔ اسی لیے کہاتا ہے کہ جن انسانی رشتوں میں محبت اور میل ملاپ کا عنصر غالب ہے وہ سماج کی تولائی قدروں کے مظہر ہیں۔ مثلاً بچوں سے پیار، بیماروں کی دیکھ بھال، مظلوموں سے ہمدردی، محتاجوں کی کفالت، مسافروں کی خاطر تواضع اور ایذا رسانی سے پرہیز وغیرہ۔

اس کے برعکس مولائی قدروں کو پدری نظام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ نظام تقسیم کار اور ذاتی ملکیت کے رواج کے ساتھ مادری نظام کے بعد وجود میں آیا۔ اس کی قدروں میں محبت کے بجائے آقائیت یا حاکمیت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ مثلاً حاکم کی اطاعت، بزرگوں کا احترام، وعدے کا ایفا، قتل، چوری، ڈاکہ، ناجائز قبضہ اور فتنہ و فساد کی ممانعت اور جنسی بے راہ روی سے پرہیز۔ ہر معاشرہ تولائی اور مولائی قدروں میں آہنگ و توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ دونوں قسم کی قدریں مل کر سماجی وحدت بنتی ہیں، البتہ معاشرے میں ذاتی ملکیت کا نظام جتنا سخت اور ہمہ گیر ہوتا ہے، افراد پر مولائی قدروں کی گرفت اور ہیبت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔

مولائی قدروں کے محرکات بیشتر املاکی ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد ذاتی ملکیت کے نظام اور اس کی مختلف تنظیموں (قبیلہ، خاندان، ریاست، حکومت، کلیسا) کا تحفظ ہوتا ہے ورنہ کسی کی ملکیت پر قبضۂ مخالفانہ سے ملکیت کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ زمین زمین ہی رہے گی، خواہ اس پر میرا قبضہ ہو یا میرے دشمن کا۔ چوری کا مال خواہ میرے پاس رہے یا اصل مالک کے پاس مال ہی رہے گا لیکن معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ان حرکتوں سے املا کی رشتوں کے تقدس پر ضرب پڑتی ہے۔

بسا اوقات ایک ہی معاشرے میں سماجی قدروں کے مختلف پیمانے ہوتے ہیں۔ مثلاً پدری نظام میں اخلاقی پیمانہ عورتوں کے لئے مردوں سے جدا ہوتا ہے۔ چنانچہ عصمت اور پاکبازی ہمارے معاشرے میں فقط عورت کا زیور ہے۔۔ ۔ عورت میں اگر یہ وصف نہ ہو تو ہم اسے بڑی حقارت سے دیکھتے ہیں۔ البتہ مرد کا محاسبہ اس سختی سے نہیں ہوتا۔ حالانکہ جنسی تعلقات میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں کی ذمہ داری مساوی ہو۔ مگر مرد کنیز کے ساتھ مباشرت کر سکتا ہے۔ عورت اپنے غلام کے ساتھ مباشرت نہیں کر سکتی۔ مرد طوائف کے کوٹھے پر جا سکتا ہے، کلبوں، ہوٹلوں اور عیاشی کے دوسرے اڈوں میں اپنی ہوس پوری کر سکتا ہے لیکن عورت کو ان تفریحوں کی اجازت نہیں ہے اور اگر اس پر شبہ ہو جائے تو پہلا پتھر وہی پھینکے گا جس کی جنسی بے راہ روی سب پر عیاں ہو گی۔

اسی طرح طبقاتی معاشرے میں عام آدمیوں اور اونچے طبقوں کے لئے سماجی قدروں کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ مثلاً جاگیر داری نظام میں ’’اچھا‘‘ ہاری وہ ہے جو وڈیرے کو سجدہ کرے۔ اس کے روبرو ہاتھ باندھ کر کھڑا رہے۔ اس کی اطاعت کو اپنا منصبی فریضہ خیال کرے۔ زمین کو محنت اور جانفشانی سے جوتے بوئے اور فصل کو نہایت ایمانداری سے کاٹ کر مالک کے حوالے کر دے۔ شکایت کا ایک حرف زبان پر نہ لائے بلکہ جو کچھ مل جائے، اس پر قناعت کرے۔ اپنا حق بھی اس طرح مانگے جس طرح بھکاری بھیک مانگتے ہیں۔ اور ’’بُرا‘‘ بلکہ ’’بدمعاش‘‘ ہاری وہ ہے جو وڈیرے کی خدائی سے انکار کر دے، جو زمین اور اس کی پیداوار کو ہاریوں کا حق سمجھے، ہاریوں کو منظم کرے اور وڈیروں کی طاقت سے ٹکر لے۔

اور ’’اچھا‘‘ وڈیرا وہ ہے جو کسی کو خاطر میں نہ لاتا ہو۔ دلیر اور دبنگ ہو۔ وہ جس راستے سے گزرے تو زمین ہیبت سے کانپنے لگے اور بچے سہم کر ماں کی گود میں چھپ جائیں۔ بات کا دھنی اور دھن کا پکا ہو۔ کنجوس اور کاروباری نہ ہو بلکہ دولت کو پانی کی طرح بہائے خواہ اس ٹھاٹھ باٹھ میں اس کا بال بال مقروض کیوں نہ ہو جائے۔ اپنے مزارعوں کو جی بھر کے لوٹے حتیٰ کہ ان کی بہو بیٹیوں کی عزت و آبرو بھی سلامت نہ رہنے دے لیکن کوئی دوسرا وڈیرا گراس کی ’’رعایا‘‘ کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے تو اس کی آنکھیں پھوڑ دے۔ اربابِ اختیار سے بنا کر رکھے اور ان کی سیر و تفریح کا معقول بندوبست کرتا رہے تاکہ وہ، اس کے گماشتے جب قتل، ڈاکے، اغوا یا مویشیوں کی چوری میں ماخوذ ہوں تو ان پر آنچ نہ آنے پائے۔

جاگیر داری نظام کی یہ قدریں اب دم توڑ رہی ہیں لیکن سرمایہ داری نظام کی سماجی قدروں کی نوعیت بھی ان سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ مثلاً کسی مل کے مالک یا تجارتی ادارے کے سربراہ سے عام ملازمین کی ذہنیت کا ذکر چھیڑا جائے تو دوچار باتوں ہی میں پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے نزدیک اچھا ملازم وہ ہے جو قت سے پہلے کام پر آئے اور وقت گزر جانے کے بعد بھی مشین کی طرح کام کرتا رہے۔ ایماندار اور محنتی ہو۔ انتظامیہ کے احکام کی اطاعت خندہ پیشانی سے کرے۔ سوچنے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے۔ اجرت یا تنخواہ بڑھانے کا ایک حرف بھی زبان پر نہ لائے۔ یونین کی سرگرمیوں سے دور بھاگے بلکہ یونین کی خفیہ سرگرمیوں سے انتظامیہ کو مطلع کرتا رہے اور ملک کے سیاسی مسائل میں نہ دلچسپی لے اور نہ جلسوں جلوسوں اور ہڑتالوں میں شریک ہو۔ ایسے مزدور یا ملازم کو مل کے مالک، تجارتی اداروں کے سربراہ اور سرکاری افسر صنعتی دور کا ’’مثالی‘‘ انسان سمجھتے ہیں۔

البتہ ’’اچھے‘‘ افسر کے اوصاف کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت میں ’’جارحیت‘‘ اور ’’پش‘‘ ہونی چاہئے تاکہ وہ مقابلے کی دوڑ میں دوسروں کو دھکا دیتا کچلتا ہوا آگے بڑھ سکے۔ وہ رشوت، جھوٹ، خوشامد، سفارش، توڑ جوڑ اور دوسرے جائز ناجائز ذریعوں سے کام نکلوانے کا ہنر جانتا ہو۔ وہ مزدوروں اور ملازموں کو انسان نہیں بلکہ ’’شے‘‘ سمجھتا ہو۔ دل کا کٹھور اور بے حس ہو۔ محبت، دوستی اور ہمدردی جیسے انسانی جذبات کو بھی مطلب براری کے لئے استعمال کرتا ہو۔ اس کے اپنے کوئی ذاتی مسائل نہ ہوں اور نہ کمپنی یا دفتر سے الگ اس کی کوئی نجی زندگی ہو، بلکہ اس کے شب و روز اپنے ادارے کی ترقی میں صرف ہوتے ہوں، خواہ اس بھاگ دوڑ میں اس کی گھریلو زندگی برباد کیوں نہ ہو جائے۔

اخلاقی قدروں کے معیار میں یہ اختلاف ہر طبقاتی معاشرے کی خصوصیت ہے۔ چنانچہ عمائدین اور حکام شہر کی شخصیتوں اور ہماشما کی شخصیتوں کو تولنے کی ترازوئیں ہر جگہ الگ الگ ہوتی ہیں۔ سرکاری محکمے، تھانہ اور عدالت، فیکٹریاں، ملیں، بینک، تجارتی ادارے، دکانیں اور دفتر، حتیٰ کہ عبادت خانے اور تعلیمی درس گاہیں کوئی بھی ان امتیازی بدعتوں سے پاک نہیں ہیں۔ اسی بنا پر افلاطون نے کہا تھا کہ ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں ایک امیروں کا دوسرا غریبوں کا اور دونوں کے اخلاق و عادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

٭٭

 

حاشیے

 

(۱) ان معلومات کے لئے میں جناب شان الحق حقی سکریٹری اردو بورڈ کا ممنون ہوں۔

(۲) مولوی صاحبان اب تو اس بحث سے کتراتے ہیں کہ زمین ساکن ہے یا متحرک، گول ہے یا فرش کی مانند بھی ہوئی لیکن ۱۹ویں صدی میں ان سوالوں کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی، چنانچہ سر سید احمد خان نے ۱۸۴۸ء میں ’’قول متین در ابطال حرکت زمین‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا تھا۔

(۳) ڈارون کی کتاب ORIGIN OF SPECIES 1859 میں شائع ہوئی تو برطانیہ اور امریکہ میں ہل چل مچ گئی۔ ڈارون کی مخالفت اور حمایت میں مضامین اور رسالے لکھے گئے۔ گرجا گھروں میں وعظ ہوئے۔ مناظرے ہوئے۔ تقریریں کی گئیں، حتیٰ کہ کتاب کو ضبط کرنے کے لئے مظاہرے بھی ہوئے لیکن آخر کار سب کو ڈارون کی بات ماننی پڑی۔ چنانچہ آج دنیا کے ہر مہذب ملک میں ارتقا کا نظریہ نصاب میں داخل ہے۔ ہمارے ملک میں کسی شخص کو یہ توفیق تو نہ ہوئی کہ ڈارون کا جواب علمی علی سطح پر دیتا۔ البتہ ہمارے بعض شاعروں اور ادیبوں نے جن میں حضرت اکبر الہ آبادی پیش پیش تھے، ڈارون کا منہ چڑھایا اور نظریۂ ارتقا پر پھبتیاں کس کر یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے ڈارون کی زبان بند کر دی ہے۔

مأخذ:

کتاب: پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، مصنف: سید سبطِ   حسن

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭‎٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل