FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

قولِ فیصل

 

 

کلکتہ کی عدالت میں

مولانا ابو الکلام آزاد کا تحریری بیان

 

 

               مولانا ابوالکلام آزاد

 

 

 

 

 

انہ لقول فصل و ما ھو بالھزل o

 

قولِ فیصل

یعنی

مولانا ابوالکلام مدظلّہ کا بیان جو انہوں نے گورنمنٹ کے استغاثہ کے جواب میں تحریر کیا اور جو تحریک خلافت و سوراج کے اسباب و مقاصد اور ملک کے قومی و مذہبی فرائض پر سب سے بہتر اور مستند بیان ہے

معہ روداد گرفتاری و مقدمہ

 

’’اسلام کسی حال میں بھی جائز نہیں رکھتا کہ مسلمان آزادی کھو کر زندگی بسر کریں۔

انہیں مر جانا چاہیے یا آزاد رہنا چاہیے۔ تیسری راہ اسلام میں کوئی نہیں‘‘

 

 

 

سقراط کے بعد

 

عبقریت اور عزیمت، اب دونوں کو اگر کسی شخصیت میں مجسم دیکھنا ہو تو میں ابو الکلام آزاد کا نام لوں گا۔ پھر کوئی شخص اگر ابو الکلام آزاد کو دیکھنا چاہے تو میں بغیر کسی تردّد کے ان کی دو تحریریں پیچ کر دوں گا: ایک "غبارِ خاطر” کا وہ مکتوب جو انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات پر لکھا اور دوسری "قولِ فیصل” کے نام سے ان کا بیان جو انہوں نے عدالت میں دیا ہے۔ انسانی تاریخ میں سقراط کے بعد ابو الکلام آزاد کا یہی بیان ہے۔ جس کے پیغمبرانہ اسلوب میں یوحنا و مسیح کا اذعان بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حسن و صداقت اور عظمت کو الفاظ کا یہ پیرہن ابو الکلام کے قلم ہی میں ظاہر کوئی ہے، اس کی نظیر اگر دنیا میں ہے تو بقول اقبال:

قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں

ابوالکلام کا یہ بیان اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شائع ہو چکا ہے۔ اب ہمارے دوست مختار احمد صاحب اسے مکتبہ جمال سے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اور برادرم اصغر نیازی کی خواہش تھی کہ آزاد کے بارے میں بھی کچھ لکھ دوں۔ یہ چند حرف اسی خواہش کی تکمیل مین لکھے گئے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

المورد، لاہور

29 جنوری 2000ء

 

 

دیباچہ

 

بہ بد مستی سزدگر متّہم سازدمرا ساقی

ہنوز از بایہ پارینہ ام پیمانہ بودارد! ؂1

 

بنگال کے ایک مشہور ہندو جرنلسٹ اور پولیٹیکل رہنما نے وائداد کے انگریزی ایڈیشن کے لیے جو تحریر بطور دیباچہ کے لکھی ہے، اسی کا ترجمہ یہاں بطور دیباچہ کے درج کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

مولانا ابو الکلام آزاد کی گرفتاری اور مقدمہ کی یہ مختصر روئداد ہے، جو ملک کے اصرار و طلب سے سرسری طور پر مرتب کر کے شائع کی جاتی ہے۔ مقدمہ کی روئداد زیادہ تر مقامی اخبارات کی رپورٹوں اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے تاروں سے نقل کی گئی ہے۔ بہت سی تفصیلات بخوف طوالت نظر انداز کر دی گئیں۔ اثناء مقدمہ میں عدالت سے باہر جو واقعات ظہور میں آئے اور جن میں سے اکثر ایسے ہیں جو مولانا کی گرفتاری سے بہت قریبی تعلق رکھتے تھے، ان کی بھی کچھ ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ روئداد مقدمہ کے موضوع سے خارج تھے۔

اس مجموعہ میں سب سے پہلے وہ "پیغام” درج ہے جو گرفتاری سے دو دن پہلے مولانا نے لکھ کر اپنے کاغذات میں رکھ دیا تھا اور گرفتاری کے بعد شائع ہوا۔ اس کے بعد گرفتاری کی مختصر کیفیت درج ہے۔ پھر تاریخ اور تمام پیشیوں کی روئداد دی گئی ہے۔ اس کے بعد مولانا کا بیان ہے، جو انہوں نے عدالت کے لیے لکھا۔ فی الحقیقت اصل مقصود اس رسالہ کی ترتیب سے اسی کی اشاعت ہے۔ آخر میں بطور ضمیمہ کے مولانا کا وہ مضمون بھی شامل کر دیا گیا ہے، جو کلکتہ    پہنچ کر انہوں نے پیغام میں شائع کیا تھا اور جس میں گورنمنٹ کے تازہ جبر و تشدد کے جواب میں ایک نئی مدافعانہ حرکت کی اپیل کی گئی تھی۔ ملک نے اس اپیل کا جس جوش و مستعدی کے ساتھ جواب دیا اور خصوصاً بنگال میں جیسی یادگار اور غیر مسخر دفاعی پیش قدمی شروع ہوئی، وہ موجودہ تحریک کی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار اور پر فخر کارنامہ ہے۔ اگر بد قسمتی سے اس فتح مندی کے تمام ثمرات ضائع نہ کر دیئے جاتے تو فی الحقیقت ملک نے میدان ل پہلا مرحلہ جیت لیا تھا ور قریب تھا ایک نیا کامیاب در شروع ہو جائے، چونکہ مولانا کی گرفتاری ہی اس نئی حرکت کا سلسلہ شروع ہوا، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ یہ مضمون روئداد میں شامل کر دیا جائے۔ پہلی دسمبر ١٩٢١ سے ١١ فروری تک ملک نے جو فتح مند دفاع کیا ہے وہ گویا اسی دعوت کا عملی جواب تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؂1 حضرت مولانا نے اپنے بیان کا عنوان اسی شعر کو رکھا ہے جیسا کہ ان کے مسوّدے میں ہے لیکن چونکہ بیان اس لیے لکھا گیا تھا کہ اس کا انگریزی ترجمہ عدالت میں داخل کیا جائے، اس لیے ترجمہ کے وقت نکال دیا گیا۔

 

 

 

مولانا کی گرفتاری اور اس کی نوعیت

 

ملک کے مسلمہ لیڈروں میں سب سے آخری گرفتاری مولانا اور مسٹر سی آر داس کی ہوئی۔ مسٹر داس کی گرفتاری بنگال کے مقامی حالات کا نتیجہ تھی، لیکن مولانا کا معاملہ ان سے بالکل مختلف تھا۔ اگر ١٧ نومبر کے بعد کے حالات پیش نہ آتے جب بھی ان کی گرفتاری اٹل تھی اور ہر صبح و شام متوقع تھی۔ گذشتہ ایک سال کے اندر شاید ہی کسی نے اس قدر صاف صاف اور بے پردہ چیلنج گورنمنٹ کو دیا ہو گا، جیسا کہ مولانا نے دیا۔ مسئلہ خلافت اور سوراج سے قطع نظر، خاص طور پر بھی وہ برابر گورنمنٹ کو اپنی گرفتاری کے لیے دعوت دیتے رہے اور ان کا طرزِ عمل ہمیشہ (Uncompromising) رہا۔

 

               گرفتاری کے لیے مسلسل دعوت

مارچ ١٩٢١ء میں مہاتما گاندھی کے ہمراہ مولانا نے پنجاب کا تیسرا دورہ کیا۔ اس وقت ضلع لاہور اور امرتسر میں سٹاریشن سیکٹ نافذ تھا۔ یعنی نہ تو کوئی پبلک جلسہ ہو سکتا تھا، نہ پبلک تقریر کی جا سکتی تھی۔ اِس لیے مہاتما جی نے بھی گوجرانوالہ جا کر تقریر کی۔ لاہور اور امرتسر میں کوئی تقریر نہیں کی۔ کیونکہ اس وقت تک قانونی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ لیکن مولانا نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگرچہ اس قوت قانون کی خلاف ورزی کرنے کا عام طور پر حکم نہیں دیا گیا ہے، لیکن میرے لیے افضلیت (عزیمت) اسی میں ہے کہ خلاف ورزی کروں اور سچائی کے اعلان سے باز نہ رہوں۔ جب میں افضل بات پر عمل کر سکتا ہوں تو کم مرتبہ طریقہ کے دامن میں کیوں پناہ لوں ؟ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ جمعہ     کے دن شاہی مسجد میں بیان کریں گے۔ بعض وزرائے حکومت پنجاب نے مہاتما جی سے شکایت کی کہ مولانا کا طرزِ عمل آپ کے خلاف ہے لیکن مہاتما جی نے کہا ’’بلا شبہ میں عام طور پر سول ڈس اوبیدینس کی اجازت کا مخالف ہوں، لیکن ایسے ذمہ دار افراد کے لیے، جیسے مولانا ہیں، ہر وقت اس کا دروازہ کھلا ہے۔ ‘‘ چنانچہ جمعہ کے دن انہوں نے پہلے جمعہ کا خطبہ دیا۔ اس کا موضوع بھی وقت ہی کے مسائل تھے۔ پھر نماز کے بعد صحن مسجد میں ترکِ موالات پر ایسی دل ہلا دینے والی تقریر کی جو ہمیشہ اہل لاہور کو یاد رہے گی۔ لاہور کے نیم سرکاری اینگلو انڈین آرگن ’’سول اینڈ ملٹری’’ نے اس پر لکھا تھا کہ اس کاروائی کے ذریعہ علانیہ اہل پنجاب کو قانون شکنی کی دعوت دی گئی ہے۔ مسٹر گاندھی اپنے رفیق کو اس سے باز رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر گورنمنٹ پنجاب نے اس پر فوری کاروائی نہیں کی تو پنجاب کے نان کوآپریٹرز کی جراتیں بہت بڑھ جائیں گی۔ یہ بھی لکھا تھا کہ مارشل لا کے حکام نے شاہی مسجد کو اس مجبوری سے بند کر دیا تھا۔ اب سول حکام کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس نوٹ کی سرخی ’’صحن مسجد میں باغیانہ لیکچر’’ تھا۔

ایک ہفتہ بعد وہ امرتسر آئے۔ یہاں بھی تقریر ممنوع تھی۔ لیکن جامع مسجد میں انہوں نے خطبہ دیا اور نماز کے بعد مکرر تقریر کی۔ اسی وقت وہ میل ٹرین سے لکھنؤ جا رہے تھے۔ اس لیے دس پندرہ منٹ سے زائد نہ بول سکے۔ تا ہم انہوں نے صرف اس لیے تقریر نہیں کی تھی کہ گورنمنٹ پنجاب کو یہ کہنے کا موقع باقی نہ رہے کہ جمعہ کا خطبہ معمولی تقریر نہیں ہے، جس کے ارتکاب سے سر کاری آرڈر کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ پس عام بول چال کے مطابق جس تقریر کو پولیٹیکل تقریر کہہ سکتے ہیں۔ وہ بھی انہوں نے نماز کے بعد کر دی اور گورنمنٹ کے لیے کسی حیلے حوالے کی گنجائش باقی نہ چھوڑی! مگر گورنمنٹ پنجاب نے بالکل تغافل کیا۔ گرفتار کرنے کی جرات نہ کر سکی۔ مولانا نے یہ واقعہ خود مجھ سے بیان کیا تھا۔

اس کے بعد کراچی خلافت کانفرنس کے ریزولیوشن کی بناء پر علی برادرز اور دیگر اصحاب کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس موقع پر تو مولانا نے اپنی گرفتاری کیلیے یکے بعد دیگرے ایسے    شجاعانہ بلاوے دئے، کہ شاید ہی کوئی نظیر اس کی مل سکے۔ علی برادران ١٤ اگست کو گرفتار کئے گئے، لیکن کلکتہ میں ١٨ کی صبح کو خبر پہنچی۔ انہوں نے اسی وقت ہالیڈے پارک میں جلسہ کے انعقاد کا اشتہار دیا اور چام کو بیس ہزار سے زائد کے مجمع میں تقریر کی۔ انہوں نے کہا تھا

’’جس ریزولیوشن کی بناء پر علی برادران گرفتار کئے گئے ہیں، وہ اسلام کا ایک مانا ہوا اور مشہور و معروف مسئلہ ہے۔ اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کا اعلان کرے۔ وہ ریزولیوشن دراصل میرا ہی تیار کیا ہوا ہے اور میری ہی صدارت میں سب سے پہلے اسی کلکتہ ٹاؤن میں منظور ہوا ہے۔ میں اس سے بھی زیادہ تفصیل اور صفائی کے ساتھ اس وقت اس کے مضمون کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ سی۔آئی۔ڈی کے رپورٹر بیٹھے ہیں اور میں انہیں کہتا ہوں کہ حرف بحرف قلم بند کر لیں۔ اگر جرم ہے تو گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا ارتکاب ہمیشہ جاری رہے گا۔’’

اس کے بعد دہلی میں مرکزی جمعیت العلماء اور خلافت کمیٹی کا جلسہ ہوا۔ ان دونوں جلسوں میں بھی انہوں نے کراچی ریزولیوشن کو زیادہ صاف اور واضح لفظوں میں پیش کیا۔ نیز ایک تجویز اس مضمون کی بھی پیش کی کہ ’’چونکہ گورنمنٹ نے اس اسلامی حکم کی تبلیغ کو جرم قرار دے دیا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اب اس کے اعلان میں اپنی جان لڑا سے، اور ہر مقام پر اس غرض کے لیے جلسے منعقد کئے جائیں۔ ’’

چنانچہ تمام ملک میں جلسوں کے انعقاد اور کراچی ریزولیوشن کی تصدیق کا سلسلہ شروع ہو گیا اور گورنمنٹ حیران اور درماندہ ہو کر رہ گئی!

پھر کراچی، بمبئی، آگرہ، لاہور وغیرہ کے مقامات میں بھی وہ برابر اس کا اعلان کرتے رہے۔ ببئی۔ آگرہ اور لاہور کانفرنسوں کے صدر بھی وہی تھے۔ آگرہ کی پراونشل خلافت کانفرنس میں کراچی ریزولیوشن پیش کرتے ہوئے انہوں نے جس طرح گورنمنٹ کو چیلنج دیا، اسے سن کر بڑے بڑے با ہمت اشخاص بھی دم بخود ہو گئے تھے اور فیصلہ کر دیا تھا کہ صبح سے  پہلے ہی وہ گرفتار کر لیے جائیں گے !

علی برادرز کی گرفتاری کے بعد مہاتما گاندھی جی نے ہندو مسلمان لیڈروں کو بمبئی میں جمع کر کے ایک مینی فسٹو شائع کیا تھا۔ اس میں کراچی ریزولیوشن کی اس بناء پر تائید کی تھی کہ موجودہ حالت میں سرکار کی سول اور فوجی ملازمت کو ملکی غیرت کے خلاف کہنا کوئی جرم نہیں ہے اور ایسا کہنا ایک جائز فعل ہے۔ اس پر اخبار ٹائمز آف انڈیا نے لکھا تھا کہ گورنمنٹ اس مینی فسٹو پر دستخط کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ کیونکہ صرف اس خیال کو زبان سے ظاہر کر دینا یا شائع کرنا جرم نہیں ہے۔ بلکہ عملاً سپاہیوں کو ورغلانا اور ان کو ترک ملازمت کی دعوت دینا جرم اور سازش ہے۔ کراچی کا مقدمہ عملی اقدام کی بناء پر کیا گیا ہے۔ مجرد ریزولیوشن پاس کر دینے کی بناء پر نہیں ہے۔

یہ بات بہت سے کمزور دلوں کے لیے ایک حیلہ بن گئی۔ وہ کراچی ریزولیوشن کا اعلان کرتے مگر "ایسا کروں گا” اور "ایسا نہ ہونا چاہیے "۔ وغیرہ کے الفاظ ساتھ بولتے۔ بالفعل عمل کرنے پر زور نہ دیتے، نہ اپنے عمل کرنت کا اظہار کرتے۔ لیکن مولانا نے یہ تسمیہ بھی لگا نہ رکھا۔ انہوں نے بمبئی، آگرہ، لاہور وغیرہ کی تقریروں اور اپنے تحریری اعلانات میں صاف صاف کہہ دیا کہ یہ صرف میرا اعتقاد یا زبانی اعلان نہیں ہے اور نہ لیڈروں کے مینی فسٹو کی طرح صرف اس بات کے جواز کا مدعی ہوں۔ بلکہ دو سال سے اس پر عمل بھی کر رہا ہوں۔ آئندہ بھی کروں گا اور ہر شخص سے کہتا ہوں کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔ میں پوری جدوجہد کروں گا کہ ہر سپاہی تک اس پیغام حق کو پہنچا دوں۔

بمبئی کی اس میٹنگ میں، میں بھی شریک تھا۔ مولانا نے میٹنگ میں بھی اپنی رائے ظاہر کر دی تھی کہ مینی فسٹو کا مضمون ناکافی ہے اور صرف ایسا کہنے کے "جواز” کا اظہار کرنا حصولِ مقصد کے لیے سودمند نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں نے عملاً ایسا کیا ہے اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔

ابتداء میں گورنمنٹ نے علی برادران اور ان کے ساتھیوں کے برخلاف صرف کراچی ریزولیوشن کا الزام لگایا تھا۔ لیکن مولانا نے بار بار اعلان کیا کہ کراچی ریزولیوشن خلافت اور جمعیۃ العلماء کی گذشتہ تجویزوں کا صرف اعادہ ہے۔ ورنہ سب سے پہلے خود انہوں نے 29 فروری 1920 کو خلافت کانفرنس کلکتہ میں اس کا اعلان کیا تھا، تو پھر گورنمنٹ بھی چونکی اور جونہی مقدمہ سیشن کورٹ میں شروع ہو، سرکاری وکیل نے دعوے میں ترمیم کر کے کلکتہ کانفرنس کا ریزولیوشن بھی شامل کر دیا۔ اس پر مولانا نے ایک برقی بیان فوراً تمام اخبارات میں شائع کرایا تھا، جس کی بے باک شجاعانہ اسپرٹ نہایت ہی عجیب و گریب تھی اور ہمیشہ ہندوستان کی تاریخ میں یادگار رہے گی۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ صرف اتنی ہی ترمیم سے سرکاری دعویٰ مکمل نہیں ہو سکتا اور مرحلے بھی ابھی باقی ہیں :

"سب سے پہلے کلکتہ کانفرنس کے لیے یہ ریزولیوشن میں نے تیار کیا۔ خود اپنے قلم سے لکھا اور میری ہی صدارت میں منظور ہوا۔ اس کے بعد دہلی میں جمعیۃ العلماء کا جلسہ ہوا اور میں نے اس ریزولیوشن پر بصورت فتویٰ کے دستخط کیا۔ پھر بریلی میں جمعیۃ کا جلسہ ہوا۔ اس کا بھی میں ہی صدر تھا اور صدارت کی طرف سے اس ریزولیوشن کو پیش کر کے منظور کرایا تھا۔ علاوہ بریں رسالہ "خلافت” میں ایک خاص باب اس موضوع پر لکھ چکا ہوں اور اس کی بے شمار کاپیاں تقسیم ہو چکی ہیں۔ پھر کلکتہ، دہلی، کراچی، بمبئی وغیرہ میں بھی میں نے ایسا ہی بیان کیا ہے۔ میں اس کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ یہ صرف میرا زبانی اظہار ہی نہ تھا بلکہ میں نے اس پر عمل بھی کیا ہے اور ہمیشہ لوگوں کو کہتا رہا ہوں کہ اس کی تبلیغ کرتے رہیں۔ اگر یہ "سازش” اور "اغوا” ہے تو مجھے اس کے ارتکاب کا ایک ہزار مرتبہ اقرار ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیے تھا کہ علی برادرز سے پہلے (جنہوں نے صرف نقل و اعادہ کیا ہے ) مجھ پر مقدمہ چلاتی”۔

30 ستمبر 1921 کو یہ بیان ملک کے تمام انگریزی اور اردو اخبارات مین شائع ہو گیا،    مگر گورنمنٹ کی جانب سے بالکل اغماض کیا گیا اور کوئی کارروائی ان کے بر خلاف نہ کی گئی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تمام ملک کو اس پر سخت تعجب اور حیرانی ہوئی تھی۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے "بیان” کی دفعہ2 میں اشارہ کیا ہے۔

یہ واقعہ علاوہ ان بے شمار تقریروں اور کارروائیوں کے ہے، جن میں وہ برابر بلا کسی ادنیٰ تزلزل کے یکساں قول و فعل کے ساتھ مشغول رہے۔

پس ان حالات میں اگر اس قدر توقف اور پس و پیش کے بعد گورنمنٹ نے انہیں گرفتار کیا، تو جیسا کہ انہوں نے کہا ہے، فی الحقیقت یہ کوئی خلافِ توقع بات نہیں ہے اور ان کی طرح ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

 

               آخری دفاعی معرکہ

 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی حکمت ان کی گرفتاری سے بروقت ایک خاص کام لینا چاہتی تھی۔ اس لیے تعجب انگیز طور پر ان کی گرفتاری برابر ملتوی ہوتی رہی اور پھر ٹھیک اسی وقت ہوئی، جبکہ تحریک کی نئی زندگی کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ اگر یہی واقعہ دسمبر سے پہلے ظہور میں آ جاتا تو وہ نتائج کیونکر حاصل ہوتے جو دسمبر کے بعد کے حالات ہی میں وجود پذیر ہو سکتے تھے ؟

17 نومبر کے بعد اچانک قومی تحریک جن حالات میں گھر گئی تھی، اس کا صرف انہی لوگوں کو اندازہ ہے جو تحریک کے اندرونی نظم و نسق میں دخل رکھتے ہیں۔ یہ وہ موقع تھا کہ ملک نہایت نے چینی کے ساتھ کسی نئے اقدام کا انتظار کر رہا تھا۔ سال کے اختتام میں جو (نان کواپریشن پروگرام کے نفاذ کی مجوزہ مدت تھی) صرف دو ماہ باقی رہ گئے تھے اور ساری امیدوں کا مرکز مہاتما گاندھی جی کا یہ اعلان تھا کہ پہلی دسمبر سے وہ بردولی تعلقہ میں اجتماعی سول نافرمانی شروع کر دیں گے۔ لیکن یکایک بمبئی میں پرنس آف ویلز کے دورہ کے موقع پر شورش نمودار ہوئی اور اس سے مہاتما گاندھی جی کے ذکی الحس قلب پر ایسا اثر پرا کہ انہوں نے نہ صرف بردولی کا کام ملتوی کر دیا، بلکہ پے در پے تین بیانات شائع کر کے اعلان کر دیا کہ موجودہ حالات میں تحریک کی نا کامیابی کا ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے !

اس اعلان نے تمام ملک میں افسردگی اور مایوسی کی ایک عام لہر دوڑا دی۔ قریب تھا کہ لوگوں کے دل بالکل ہی بیٹھ جائیں۔ چنانچہ 22 نومبر کو ورکنگ کمیٹی کا جلسہ ہوا تو تمام ممبروں پر یاس و حسرت چھائی ہوئی تھی اور کچھ نظر نہیں آتا تھا کہ تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا فوری عمل اختیار کیا جائے ؟ مولانا اور مسٹر داس نے خود مجھ سے واپسی کے بعد کہا تھا! "ہم بالکل تاریکی میں گھر گئے تھے ” لیکن خدا کی رحمت نے فوراً چارہ سازی کی، جبکہ 22 نومبر کو بمبئی میں لوگ راہ عمل سوچ رہے تھے، تو تھیک اسی وقت گورنمنٹ کے نئے جبر و تشدد سے کلکتہ میں ایک نیا دروازہ عمل کھل چکا تھا۔ جونہی گورنمنٹ بنگال نے رضاکاروں کی جماعت اور مجالس کو خلاف قانون قرار دیا، فوراً اہل کلکتہ نے ایک ہزار دستخطوں سے نئی جماعت رضا کاراں کا اعلان شائع کر دیا۔ اس کے بعد مسٹر سی۔ آر۔ داس اور مولانا کلکتہ پہنچے اور اُنہوں نے معلوم کر لیا کہ فتح مندی کا اصلی میدان بنگال ہی میں گرم ہو گا۔ اُنہوں نے آل انڈیا کانگرس کمیٹی یا ورکنگ کمیٹی یا مہاتما گاندھی کی اجازت کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا، بلکہ فوراً رضاکاروں کی تنظیم اور تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ روزانہ چار چار، پانچ پانچ سو گرفتاریوں کی تعداد پہنچ گئی۔ بنگال کی پیش قدمی نے دوسرے صوبوں پر بھی اثر ڈالا۔ نئی حرکت ہر طرف شروع ہو گئی اور اچانک ملک میں ایک ایسی نئی زندگی پیدا ہو گئی کہ لوگوں کو پچھلی افسردگی و مایوسی کا ایک گزرے ہوئے خواب جتنا بھی خیال باقی نہ رہا۔

خود مولانا کو بھی اس حقیقت کا پورا یقین تھا جیسا کہ ان کے "پیغام” مورخہ 8 دسمبر سے واضح ہوتا ہے۔ علاوہ بریں 4 سے 8 تک اُنہوں نے جو خطوط لوگوں کو لکھے، ان میں بھی صاف صاف اپنا ارادہ اور یقین ظاہر کر دیا۔ ایک خط کی نقل ہمیں ان کے سیکرٹری سے ملی ہے، جو مولانا کفایت اللہ صاحب صدر جمعیۃ العلماء دہلی کے نام اُنہوں نے لکھوایا تھا۔ اس میں لکھتے ہیں :

"بدایوں کے جلسہ (جمعیت) میں شرکت کا قطعی ارادہ تھا۔ لیکن یہاں پہنچ کر جو     حالات دیکھے اور جو حالات روز بروز ظہور پذیر ہو رہے ہیں، ان کے بعد بہت مشکل ہو گیا ہے کہ میں کلکتہ سے نکل سکوں۔ کلکتہ سے نکلنے کے یہ معنی ہوں گے کہ میں ایک بہترین مہلت عمل دیدہ و دانستہ ضائع کر دوں۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شاید سول نافرمانی کا عقدہ یہیں حل ہو گا۔ روز بروز ایک نئی شاہراہ کامیابی کی میرے سامنے کھلتی جاتی ہے۔ یقین کیجیئے کہ بدایوں کے جلسے میں عدم شرکت کا مجھے بھی نہایت افسوس ہے، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ بحالت موجودہ کلکتہ سے نکلنا کم از معصیت نہ ہو گا۔”

واقعاتِ مابعد نے ثابت کر دیا کہ ان کا خیال کس قدر صحیح تھا؟ فی الحقیقت کلکتہ نے پوری شجاعت کے ساتھ میدان سر کیا اور اس کی کامیابی کے سامنے حریف کو علانیہ سر جھکانا پڑا۔ افسوس ہے کہ بدبختانہ عین وقت پر رہنمایانِ ملک کے قوتِ فیصلہ نے غلطی کی اور یکے بعد دیگرے ایسی لغزشیں ہو گئیں کہ 18 سے 23 دسمبر تک جو عظیم الشان فتح ہوئی تھی، وہی اب شکست بن کر ہمارے سامنے آ گئی!

 

               مقدمہ کی چند خصوصیات

 

اب ہم ان بعض امور کی طرف ناظرین کو توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سادہ اور مختصر مقدمہ ملک کے بے شمار پولیٹیکل مقدمات میں خاص اہمیت رکھتا ہے اور جن میں ہماری اخلاقی اور پولیٹیکل زندگی کے لیے نہایت ہی قیمتی رہنمائی پوشیدہ ہے :

 

               کامل صادقانہ روش

 

سب سے پہلے جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے، وہ مولانا کا مضبوط، یک سو، قطعی اور ہر طرح کی دو رنگیوں اور تذبذب آمیز باتوں سے محفوظ کریکٹر ہے۔ یہ اگرچہ ان کی پبلک لائف کے ہر حصے میں ہمیشہ نمایاں رہا ہے اور نظر بندی کی چار سالہ زندگی میں اچھی طرح ہم اس کا اندازہ کر چکے ہیں، لیکن عدالت اور باقاعدہ چارہ جوئی کی صورت نظربندی سے بالکل ایک مختلف صورت ہے۔ پہلے میں کوئی موقعہ اظہار بریت اور بحث و دلائل کا نہیں ہوتا۔ دوسرے     میں سزا دہی کی بنیاد ہی بحث و دلائل اور ڈیفنس پر ہوتی ہے۔ پس دراصل ایک لیڈر کی روش اور استقامت کی اصل آزمائش گاہ عدالت ہی کا ہال ہے۔

اس حقیقت کو دونوں پہلوؤں سے جانچنا چاہیے۔ اس لحاظ سے بھی کہ عام طور پر ایک قومی رہنما اور سیاسی لیڈر کی روش گرفتاری کے بعد عدالت میں کیا ہونی چاہیے ؟ اور اس لحاظ سے بھی کہ خاص طور پر نان کواپریشن اُصولوں کے ماتحت ایک سچے نان کواپریٹر کو عدالت میں کیا کرنا چاہیے ؟ مولانا کی روش دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے سبق آموز ہے۔

سب سے بڑی چیز "قول” اور "عمل” کی مطابقت ہے یعنی ہم جو کچھ کہا کرتے ہیں، وقت پڑنے پر ٹھیک ٹھیک ویسا ہی بلکہ اس سے زیادہ کر دکھائیں۔ مولانا نے اپنے مضبوط طرزِ عمل سے دکھلا دیا کہ وقت پر اپنی کوئی بات اور کوئی دعویٰ بھی واپس لینا نہیں چاہتے۔ ایک لیڈر جب گورنمنٹ کے خلاف طرز عمل اختیار کرتا ہے اور اظہار حق میں اپنے آپ کو نڈر اور بے پروا بتلاتا ہے، تو وہ بار بار ظاہر کرتا ہے کہ ہر طرح کی قربانیوں کے لیے تیار ہے اور گورنمنٹ کو چیلنج دیتا ہے کہ اسے جب چاہے گرفتار کر لے۔ لیکن جب گورنمنٹ خود اسی کے اختیار کئے ہوئے اور پسند کئے ہوئے طریقہ کے مطابق اسے گرفتار کر لیتی ہے اور اپنے نقطہ نظر اور قانون کے مطابق مجرم ٹھہرا کر سزا دلانا چاہتی ہے، تو پھر اس وقت سونا آگ پر تپنے لگتا ہے اور کھوٹے کھرے کی پہچان کی گھڑی آ جاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت تین طرح کی طبیعتیں تین طرح کی راہیں اختیار کرتی ہیں۔

1۔ ۔۔ کچھ لوگ جن کے زبانی دعووں کے اندر کوئی محکم ایمان اور سچائی نہیں ہوتی، وہ تو فوراً اپنے دعووں سے دست بردار ہو جاتے ہیں اور اپنے کئے پر پشیمانی ظاہر کر کے عجز و نیاز کا سر جھکا دیتے ہیں۔ یہ سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔

2۔ ۔۔ کچھ لوگ جو اس سے بلند درجہ رکھتے ہیں، ان کی طبیعت اس درجہ گر جانے کو تو گوارا نہیں کرتی، لیکن سزا سے بچنے کے لیے وہ بھی بے قرار ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ بھی فوراً اپنا     طرز عمل بدل دیتے ہیں اور عدالت پر ظاہر کرنے لگتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے رہے، اس کا مقصد وہ نہیں جو گورنمنٹ نے سمجھا ہے۔ بلکہ کچھ دوسرا ہی ہے۔ پھر طرح طرح سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں اور مخالفت کو موافقت بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی پولیس اور سی، آئی، ڈی کی رپورٹوں کو بالکل جھوٹا کہہ دیتے ہیں، کبھی اپنے کہے ہوئے اور لکھے ہوئے جملوں کو توڑ مروڑ کر کچھ کا کچھ بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی گورنمنٹ کا شکوہ کرتے ہیں کہ کیوں خواہ مخواہ بلا قصور انہیں گرفتار کر لیا؟ غرض کہ اپنی تمام پچھلی شجاعانہ آمادگیوں کو فراموش کر کے اچانک ایک نئی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں اور اگرچہ سزا سے نہ بچ سکیں لیکن سزا سے بچنے کے لیے جس قدر بھی حیلے حوالے کر سکتے ہیں، اس میں کمی نہیں کرتے۔ پہلی قسم کی طرح اس قسم کے لوگ بھی بعد کو اپنے طرز عمل کی حمایت یا معذرت میں یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ لڑائی بھی ایک طرح کا فریب ہے۔ ہم نے صرف اپنے بچاؤ کے لیے دشمن سے فریب کھیلا، ورنہ دراصل ہمارے دل میں وہی ہے جو پہلے تھا۔ لوگ بھی اسے مان لیتے ہیں۔

یہ بات گویا اس قدر مسلم اور پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی ہے کہ جب کوئی لیڈر عدالت میں ایسا رویہ اختیار کرتا ہے، تو پبلک ذرا بھی تعجب نہیں کرتی اور سمجھ لیتی ہے کہ یہ سب کچھ صرف عدالت کے لیے کیا گیا ہے جہاں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ پالیٹکس میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ گویا پالیٹکس میں جھوٹ، نفاق، دو رنگی، ذلتِ نفس اور مکر و فریب کے سوا چارہ نہیں !

3۔ ۔۔ کچھ لوگ ان دونوں قسموں سے بھی بلند تر ہیں۔ وہ زیادہ با ہمت اور نڈر دل رکھتے ہیں۔ اس لیے عدالت کے سامنے ان کی جرات و شجاعت اسی آن بان کے ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پبلک مجمعوں میں نظر آتی تھی۔ لیکن زیادہ وقت نظر کے ساتھ جب ان کے طرزِ عمل کو دیکھا جاتا ہے، تو وہ بھی بے لاگ اور یک سو ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ گو وہ ساری باتیں ہمت اور بیباکی کی کرتے ہیں، لیکن حقیقت اور اصلیت کے اقرار و برداشت سے انہیں بھی گریز ہوتا ہے۔ یعنی عدالت کی سزا سے بچنے کے لیے وہ بھی کوئی دقیقہ حیلے حوالوں کا اٹھا نہیں رکھتے۔     البتہ ان کی حیلہ جوئی بہت ہی مخفی اور باریک ہوتی ہے۔ پچھلی دو جماعتوں کی طرح کھلی ہوئی اور صاف نہیں ہوتی۔ وہ گورنمنٹ کی مخالفت سے انکار تو نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی عدالت اور قانون کی آڑ میں پناہ بھی لینا چاہتے ہیں۔ یعنی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گو اُنہوں نے یہ سب کچھ کہا اور کیا ہے، تا ہم انہیں سزا نہیں ملنی چاہیے۔ کیونکہ عدالت اور قانون کو رو سے وہ ہر طرح ایک جائز فعل تھا۔ کسی طرح بھی سزا کا موجب نہیں ہو سکتا۔ ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی سخت شکایت کرتے ہیں کہ بلا "قصور” انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ نیز عدالت کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو سزا دینا نہایت "نا انصافی” کی بات ہو گی! یہ طرزِ عمل ان کا اس گورنمنٹ اور گورنمنٹ کی عدالت میں ہوتا ہے۔ جس کے ظلم و ستم کا وہ شب و روز رونا رو چکے ہیں اور جس کے انصاف سے اُنہوں نے ہمیشہ مایوسی ظاہر کی ہے نیز جس کی نسبت انہیں یقین بھی ہے کہ خواہ کتنی ہی قانون اور انصاف کے نام پر اپیلیں کی جائیں، لیکن انہیں سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا!

یہ آخری قسم گویا سب سے بلند اور اعلیٰ سے اعلیٰ جماعت ہے جو ہماری پولیٹیکل جدوجہد کا دور اس وقت تک پیدا کر سکا ہے۔ لیکن "قول” اور "فعل” کی مطابقت سے اس کا طرز عمل بھی خالی ہے۔ اگر فی الواقع وہ اپنے تمام دعووں میں سچی تھی اور دعوتِ آزادی و حق پرستی کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار تھی، تو چاہیے تھا کہ اپنی گرفتاری اور سزایابی کا بلا کسی اعتراض اور شکایت کے استقبال کرتی اور صاف صاف کہہ دیتی کہ فی الواقع اس نے ایسا ہی کام کیا ہے جس پر گورنمنٹ کے نقطہ خیال کے مطابق سزا ملنی چاہیے اور چونکہ اس نے خود اپنی پسند سے یہ راہ اختیار کی ہے، اس لیے اس کے قدرتی نتائج کے لیے وہ کسی طرح گورنمنٹ کو ملامت بھی نہیں کرتی۔ گورنمنٹ دنیا کے تمام جانداروں کی طرح یقیناً اپنے مخالفوں کو سزا ہی دے گی۔ پھولوں کا تاج نہیں پہنائے گی۔ پس جب ایک بات قدرتی طور پر ناگزیر ہے تو کیوں اس سے گریز کیا جائے ؟ اگر گریز ہے تو آزادی و حق طلبی کی راہ میں قدم رکھنا ہی نہیں چاہیے۔     لیکن مولانا کا طرزِ عمل اس اعتبار سے بالکل ایک نئی راہ ہمارے سامنے کھولتا ہے۔ اُنہوں نے بتلا دیا ہے کہ "قول” اور "فعل” کی مطابقت اور سچی اور بے لاگ حقیقت پرستی کے معنی کیا ہیں ؟ اُنہوں نے اپنے بیان میں سب سے پہلے اسی سوال پر توجہ کی ہے۔ اُنہوں نے صاف صاف تسلیم کر لیا ہے کہ وہ بحالت موجودہ گورنمنٹ کے نقطہ نظر اور قانون سے واقعی "مجرم” ہیں اور یہ ہرگز قابل ملامت و شکایت نہیں ہے کہ گورنمنٹ انہیں سزا دلانا چاہتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب اُنہوں نے استغاثہ کے مواد کو بہت ہی کمزور پایا، تو ایک ایسی جرات کے ساتھ جس کی کوئی نظیر موجود نہیں، استغاثہ کا بارِ ثبوت بھی اپنے ذمہ لے لیا اور خود اپنے قلم سے وہ تمام باتیں بتفصیل لکھ دیں جن کا ثبوت استغاثہ کے لیے بہت مشکل تھا اور اس لیے وہ پیش نہ کر سکا تھا۔ اس طرح عدالت پر اچھی طرح واضح ہو گیا کہ استغاثہ کے دعویٰ سے بھی کہیں زیادہ گورنمنٹ کے مجرم ہیں اور یہ بالکل ایک قدرتی بات ہے کہ انہیں سزا دی جائے۔

چنانچہ ہم خود انہی کی زبانی سنتے ہیں کہ ان کا ارادہ بیان دینے کا نہ تھا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کے خلاف گورنمنٹ کو جو کچھ کہنا چاہیے وہ سب کچھ پیش کر دے گی۔ لیکن جب کاروائی شروع ہوئی اور اُنہوں نے دیکھا کہ صرف دو تقریروں کی بنا پر استغاثہ دائر کیا گیا ہے اور وہ ان بہت سی باتوں سے بالکل خالی ہیں، جو ہمیشہ وہ کہتے رہے ہیں۔ تو اُنہوں نے محسوس کیا کہ گورنمنٹ میرے خلاف تمام ضروری مواد مہیا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اس لیے میرا فرض ہے کہ میں عدالت کو اصلیت سے باخبر کر دوں ” وہ تسلیم کرتے ہیں کہ "قواعدِ عدالت کی رو سے یہ میرا فرض نہیں ہے ” مگر چونکہ "حقیقت کا قانون عدالتی قواعد کی حیلہ جوئیوں کا پابند نہیں ہے۔ ” اس لیے یقیناً یہ سچائی کے خلاف ہو گا کہ ایک بات صرف اس لیے پوشیدگی میں چھوڑ دی جائے کہ مخالف اپنے عجز کی وجہ سے ثابت نہ کر سکا۔”

اس کے بعد اُنہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ کیوں "جرم” کا اقرار کرتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں اس لیے کہ جب ایک قوم اپنے ملک کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا مقابلہ اس     طاقت سے ہوتا ہے جو عرصہ سے اس ملک پر قابض و متصرف ہے۔ کوئی انسان یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کے قبضے میں آئی ہوئی چیز واپس چلی جائے۔ پس قدرتی طور پر یہ مطالبہ قابض طاقت پر شاق گذرتا ہے اور جہاں تک اس کے بس میں ہوتا ہے وہ اپنے فوائد کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ یہ جدوجہد کتنی ہی خلاف انصاف ہو مگر کسی طرح بھی قابل ملامت نہیں ہے۔ کیونکہ ہر وجود اپنی حفاظت کے لئے ضرور ہاتھ پاؤں مارے گا۔ایسا ہی مقابلہ ہندوستان میں بھی شروع ہو گیا ہے۔ پس ضروری ہے کہ جو لوگ موجودہ بیور کریسی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں،بیوروکریسی بھی ان کی مخالفت میں جدوجہد کرے اور جہاں تک اس کے امکان میں ہے،ان کو سزائیں دے۔ چونکہ وہ نہ صرف جدوجہد کرنے والے ہی ہیں، بلکہ اس جدوجہد کی دعوت دینے والے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ انہیں سزا دی جائے، بلکہ زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں گورنمنٹ سے یہ توقع رکھوں کہ وہ اپنے مخالفوں کو پیار کرے گی؟ وہ تو وہی کرے گی جو ہمیشہ طاقت نے آزادی کی جدوجہد کے مقابلے میں کی ہے۔ پس یہ ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس میں دونوں فریق کے لئے شکوہ و شکایت کا کوئی موقع نہیں ہے۔ دونوں کو اپنا اپنا کام کئے جانا چاہئے۔ ”

انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ آزادی و حق طلبی کی جدوجہد کی مقاومت میں دنیا کی جابر گورنمنٹیں جو کچھ کر چکی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تسلیم کرنا چاہئے کہ ہندوستان میں اس وقت جس قدر جبر و تشدد ہو رہا ہے،وہ بہت ہی کم ہے !

کیسی بے لاگ اور خالص صداقت شعاری ہے،جو اس بیان سے ٹپک رہی ہے ؟کیا اس سے بڑھ کر راست بازی اور شجاعت و استقامت کی کوئی مثال ہو سکتی ہے ؟

لوگوں کو شیوۂ حق گوئی کے اس نئے نمونے پر اگر تعجب ہو تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ کیونکہ ابھی ہم اس مقام سے بہت ہی دور پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی تک تو ہمارا یہ خیال ہے کہ پالیٹکس میں ہر طرح کی ہٹ دھرمی اور صریح غلط بیانی تک جائز ہے !

مولانا کا یہ طرز عمل عام خیالات سے کس قدر مختلف ہے ؟ اس کا اندازہ حسب ذیل واقعہ سے ہو گا۔ مولانا نے مندرجہ بالا مطالب لکھتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں "کہا جا سکتا ہے کہ پہلے فریق کی طرح دوسرے فریق کی جدوجہد بھی قابل ملامت نہیں ” یعنی قوم کی طرح گورنمنٹ بھی اپنی جدوجہد میں قابل ملامت نہیں۔ چونکہ یہ خیال عام خیال سے بالکل ہی بعید تھا۔لوگوں کی سمجھ میں کسی طرح یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ گورنمنٹ کو بھی اس کی جابرانہ جدوجہد میں ناقابل ملامت مانا جائے۔ اس لئے تمام اخبارات نے اسے کتابت کی غلطی سمجھا اور "کہا جا سکتا ہے ” کی جگہ "کہا جاتا ہے ” بنا دیا۔گویا گورنمنٹ یا اس کے طرف دار ایسا کہتے ہیں،ورنہ دراصل ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے بعد کی عبارت بالکل اس تبدیلی کے خلاف تھی!

 

               نان کو آپریشن اصول

 

یہ جو کچھ ہمیں نظر آیا،مولانا کے مسلک کی عام حیثیت تھی۔اگر "ترک موالات” کا پروگرام نہ ہوتا،جب بھی وہ ایسا ہی کرتے۔ لیکن اب اس اعتبار سے بھی دیکھنا چاہئے کہ "ترک موالات” کا اصول ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرز عمل کا کیا حال ہے ؟

ترک موالات اور عدالت کے بائکاٹ سے مقصود یہ تھا کہ عدالت میں کسی طرح کا بھی ڈیفینس نہ کیا جائے۔ یعنی اپنے کو سزا بچانے کیلئے کوئی کاروائی نہ کی جائے کیونکہ نان کو اپریشن عدالت کے انصاف اور جواز ہی سے منکر ہے۔ اس اعتبار سے بھی مولانا نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ڈیفینس نہ کرنے کے کیا معنی ہے ؟

بہت سے لوگوں نے "ڈیفینس نہ کرنے ” پر صرف اتنا ہی عمل کیا کہ عدالتی دستور کے مطابق وکلاء اور قانون پیشہ اشخاص کو اپنی طرف سے مقرر نہیں کیا لیکن جہاں تک تعلق اصل ڈیفینس کا ہے اس میں انہوں نے کوئی کمی نہیں کی۔ پوری طرح اپنی بے قصوری اور استغاثہ کے خلاف قانون و انصاف ہونے پر بحثیں کیں اور ہر طرح کے قانونی مواد سے استدلال کیا،بعض حالت میں عدالتوں سے انصاف کی اپیل بھی کی گئی۔یعنی خود اپنی زبان و قلم سے وہ سب کچھ کر     گزرے جو وکیل اور کونسلی ان کی جانب سے ڈیفینس میں کر سکتی ے تھا۔پس فی الحقیقت یہ "ڈیفینس نہ کرنا”نہیں ہوا،بلکہ "براہ راست خود ڈیفینس کرنا”ہوا۔

لیکن مولانا کا طرز عمل کس قدر یک سو اور کامل معنوں میں ڈیفینس سے مبرا ہے ؟ انہوں نے اظہار بے جرمی کی جگہ جرم کا صاف صاف اعتراف کیا اور بجائے انصاف کی اپیل کرنے کے عدالت کو خود ہی اپنے تمام جرائم کی فہرست سنا دی۔ ساتھ ہی اول سے آخر تک کسی طرح کی قانونی بحث نہیں کی۔ ایک حرف بھی اس بارے میں ہم ان کی زبان سے نہیں سنتے۔ حتی کہ یہ تک نہیں پوچھتے کہ جو دفعہ ان پر لگائی گئی ہے،واقعی اس کی تقریریں اس میں آتی ہیں یا نہیں ؟ اور آتی ہیں تو کیونکر؟وہ تو خود ہی اپنی تقریروں کے تمام سخت سخت مقامات نقل کر دیتے ہیں اور سی،آئی،ڈی کے رپورٹروں کی ناقابلیت سے جہاں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے،اس کو استغاثہ کے حسب منشا مکمل کر دیتے ہیں !فی الحقیقت ترک موالات اور عدالتوں کے مقاطعہ سے اصل مقصود یہ تھا جس کا مکمل نمونہ ہم ان میں دیکھتے ہیں۔ یہ نہیں تھا کہ ڈیفینس اور بریّت کا ایک طریقہ چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کر لیا جائے۔

جو لوگ صاحب نظرو انصاف ہیں وہ یقیناً اس طرز عمل سے متاثر ہوئے اور متاثر ہوں گے۔ مولانا کے بعد ہی لاہور میں لالہ لاجپت رائے جی پر دوبارہ مقدمہ چلایا گیا لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کوئی بیان دیں گے ؟ تو جواب میں انہوں نے کہا "چونکہ بیان ازروئے قانون اپنی بریّت کا لازمی طور پر لکھنا پڑے گا اور یہ نان کو اپریشن کے خلاف ہے۔ اس لئے غور کرنے کے بعد اب میری رائے یہی ہو گی کہ کوئی بیان نہ دینا چاہئے ” گویا انہوں نے بھی مولانا کے طرز عمل کی تائید کی۔

جب تک ایک حقیقت نظروں سے مستور رہتی ہے،اس کا عام طور پر احساس نہیں ہوتا۔ لیکن جب سامنے آ جاتی ہے تو پھر تعجب ہوتا ہے کہ اتنی صاف بات کیوں لوگوں کو محسوس نہیں ہوتی؟یہی حال اس معاملہ کا ہے۔ مولانا کا بیان پڑھنے کے بعد فی الواقع تعجب ہوتا ہے کہ     کیوں اس قدر صاف اور سچی بات سے بڑے بڑے لیڈروں کو گریز رہا؟ یہ واقعہ ہے کہ ہم موجودہ گورنمنٹ اور بیورو کریٹک حکام کے جبر و ظلم کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اور صاف صاف کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد ان کے قبضہ سے اپنا حق واپس لینا ہے۔ پس یہ بالکل قطعی اور یقینی بات ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں،وہ ہمارے دلائل و عقائد کی رو سے کتنا ہی صحیح ہو،لیکن موجودہ گورنمنٹ کے قانون اور پوزیشن کی رو سے تو ضرور جرم اور بلا کسی نزاع کے 124۔ الف ہے۔ تو ہم اس کام کے لائق ہی نہیں ہو سکتے۔ اگر جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں تو پھر ہم کو مان لینا چاہئے کہ گورنمنٹ اور گورنمنٹ کے نافذ کردہ قانون کی رو سے ہم ضرور مجرم ہیں اور وہ سزا دلانے میں حق بجانب ہے۔ اس میں بچاؤ اور بریّت کے لئے چناں چنیں کیوں کی جائے ؟ اور شکوہ شکایت کیوں ہو؟ کیا لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ وہ گورنمنٹ کے خلاف جدوجہد بھی کریں گے، اسے جنگجو حریفوں کی طرح چیلنج بھی دیں گے اور پھر وہ انہیں گرفتار بھی نہ کرے گی اور محض معمولی معمولی سزائیں بھی نہ دے ؟ مولانا کے لفظوں میں کہنا چاہئے کہ "گورنمنٹ مسیح نہیں ہے !” یا پھر تسلیم کر لینا چاہئے کہ جو کچھ زبان سے کہا جاتا ہے،وہ دل میں نہیں ہے۔ زبان چیلنج دیتی ہے مگر دل میں یہی ہوتا ہے کہ ہم آخر تک بچتے رہیں گے اور یہ محض زبانی شیخی کر رہے ہیں ورنہ سچ مچ کو پکڑے نہیں جائیں گے۔

 

               سی،آئی،ڈی کے رپورٹر

 

اسی سلسلہ میں مولانا کے طرز عمل کی ایک اور صداقت ہمارے سامنے آئی ہے۔ انہیں نے کیسی صفائی اور راست بازی کے ساتھ تسلیم کر لیا ہے کہ سی،آئی،ڈی کے رپورٹروں نے ان کے خلاف جو کچھ کہا وہ صحیح ہے۔ اس میں کوئی بات شرارت کی نہیں۔

ہماری پولیٹیکل جدوجہد کی تاریخ سب سے پہلی مثال ہے کہ اس فراخ دلی کے ساتھ خود ملزم نے ان لوگوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے جو ملزم کے بر خلاف اس کی کوشش کر     رہے ہیں کہ عمر بھر قید کی سزا دلا دی جائے !

انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ فریقانہ تعصب سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔صداقت کے لئے سب سے زیادہ مشکل آزمائش اسی وقت ہوتی ہے جب دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ میں کھڑی ہو جاتے ہیں ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے بڑے لیڈر بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے کہ مخالف فریق کو بوقت ضرورت غلط الزامات دے دئے جائیں،یا کم از کم ان کی موافقت میں کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ مصالح جنگ ہیں غلط بیانی اور جھوٹ نہیں لیکن فی الحقیقت یہ یورپ کا پولیٹیکل اخلاق ہے جس پر یورپ سے بیزار ہو کر بھی ہم شوق سے عمل کر رہے ہیں۔

ابھی اسی سال کی بات ہے کہ علی گڑھ میں پولیس کے اشتعال سے فساد ہوا تھا۔ جیسا کہ قاعدہ ہے پولیس کے اشتعال اور تشدد سے پبلک بھی مشتعل ہوئی اور پھر مشتعل ہونے کے بعد اس نے بھی وہ سب کچھ کیا جو ایک پر جوش مجمع کی فطرت کیا کرتی ہے۔ لیکن "اخبار انڈیپینڈنٹ” کے نامہ نگار اور بعض دیگر مقامی لیڈروں نے اس سے صاف صاف انکار کر دیا وہ آخر تک یہی کہتے رہے کہ مجمع نے کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی۔نہ تو کوتوالی حملہ کیا گیا۔نہ پریس پر پتھر پھینکے گئے۔ نہ کوتوالی کا سامان جلایا گیا یہ سب جھوٹ ہے۔ حالانکہ یہ سب سچ تھا اور سچ کو سچ ماننے ہی میں ہماری طاقت اور فتح مندی ہے۔ آخر جب مہاتما گاندھی نے سختی کے ساتھ مضامین لکھے،تب جا کر کہیں جا کر لوگ خاموش ہوئے۔ اس طرح کی ہٹ دھرمیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حریف کی نظروں میں جو یقیناً اصلیت سے بے خبر نہیں ہے۔ ہمارے کریکٹر کی کمزوری خود کھل جاتی ہے اور ہماری بات بالکل ہلکی اور بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ آج تک کبھی کسی نے یہ تسلیم کیا ہو کہ اس کے خلاف پولیس کا بیان صحیح ہے۔ بلاشبہ یہ سچ ہے کہ پولیس کی کذب بیانوں کی بھی کوئی حد نہیں۔ لیکن انہیں جھوٹ گھڑنے کی ضرورت وہیں پڑتی ہے جہاں اصل میں کچھ نہ ہو۔جہاں فی الواقع گورنمنٹ کے خلاف کاروائی کی گئ ہے،وہاں تو وہ بھی اس سے زیادہ نہیں کریں گے کہ مخالف کو مخالف ہی دکھلائیں۔ یا کچھ مبالغہ کر دیں۔ پھر کیوں واقعات کو صریح جھٹلایا جائے ؟

 

               ان کے عفو و تحمل اور روش کی متانت

 

ایک بڑی سبق آموز حقیقت ان کے روش کی کمال درجہ سنجیدگی و متانت اور نہایت مؤثر و درگزر بھی ہے۔ یہ وصف بھی ایسا ہے کہ جس پر غور کرنے کی ہماری قومی لیڈروں اور کارکنوں کو بڑی ضرورت ہے۔

یہ قدرتی کمزوری ہم تمام انسانوں میں ہیں کہ مخالف کے مقابلے میں غصہ اور غیظ و غضب سے بھر جاتے ہیں۔ علی الخصوص اس حالت میں جبکہ مخالف صاحب اختیار طاقتور بھی ہو۔ لیکن ایک لیڈر اور بڑے آدمی کو عام انسان سے زیادہ جذبات پر قابو رکھنا چاہئے۔ کسی انسان کی بڑائی کے لئے یہ کم سے کم بات ہے کہ وہ وقت پر اپنے غصے کو ضبط کر سکے۔ بہت سے لوگ یہ غلطی بھی کر جاتے ہیں کہ شجاعت و ہمت اور طیش و غضب میں فرق نہیں کرتے۔ بہت زیادہ غصہ میں آ جانے کو ہمت اور بہادری کی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سچّا بہادر وہی ہے جو تکلیف جھیلنے میں اس قدر مضبوط ہو کہ تکلیف دیکھ کر اسے غصہ ہی نہ آئے۔ علاوہ بریں غصہ اور طیش کے ہیجان میں واقعات اور حقیقت کی تاثر بھی نمایاں نہیں ہو سکتی۔

مولانا کے طرز عمل کی ایک بڑی نمایاں بات ان کی بے حد متانت اور سنجیدگی ہے۔ عدالت کی تمام کاروائیوں کی اثناء میں کہیں بھی یہ نظر نہیں آتا کہ وہ غصہ میں بھرے ہوئے ہیں یا دشمن کے قابو میں اپنے آپ کو پاکر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ برخلاف اس کے ان کے "بیان”کی ہر سطر سے کامل متانت اور ضبط ٹپکتا اور جس حصہ کو دیکھا جائے،جذبات کے جوش کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ انہوں نے سخت سے سخت جوش انگیز پولیکٹیکل معاملات پر اس طرح بحث کی ہے، گویا ایک شخص نہایت سادگی کے ساتھ محض واقعات و حقائق پر لیکچر دے رہا ہے۔ وہ گویا گرفتار ہونے کے بعد غضبی جذبات سے بالکل خالی ہو گئے تھے !

اس سے بھی زیادہ مؤثر مقام بیان کا خاتمہ ہے جہاں انہوں نے ان تمام لوگوں کا ذکر کیا ہے،جو ان کے خلاف مقدمہ میں کام کر رہے ہیں۔ اپنے مخالف گواہوں،سرکاری وکیل اور مجسٹریٹ کی نسبت پوری خوش دلی کے ساتھ دیا ہے کہ انہیں کوئی شکایت یا رنج ان سے نہیں     ہے اور اگر ان سے کوئی قصور اس بارے میں ہوا ہے تو سچے دل سے معاف کر دیتے ہیں۔ مجسٹریٹ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ تو اپنا فرض انجام دے رہا ہے اور حکومت کی مشینری کا ایک جزو ہے۔ جب تک مشینری میں تبدیلی نہ ہو اس کے اجزا کے افعال مین بھی کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی پس اس سے بھی انہیں کوئی شکایت نہیں ہے۔

ان کے بیان کا خاتمہ بے حد موثر ہے۔ وہ ضرب المثل کی طرح ہمارے لٹریچر میں زندہ رہے گا۔جس طرح بیان کے بہت سے جملے اپنی لفظی و معنوی خوبصورتی اور صداقت کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ہم بیان کے مطالب کی اہمیت طرز بیاں کی دل نشینی اسلامی حریت کی عالمانہ ترجمانی اور فرائض ملک و ملت کی بہترین سبق آموزی کی قدر و قیمت کا اندازہ ناظرین کے ذوق سلیم پر چھوڑتے ہیں اور مولانا ہی کے لفظوں میں یہ کہہ کر اپنی گزارش ختم کر دیتے ہیں کہ مستقبل فیصلہ کرے گا اور اسی کا فیصلہ آخری ہو گا۔

 

نالہ از بہر رہائی نہ کند مرغ اسیر

خورد افسوس زمانے کہ گرفتار نہ بود

 

               ایک عظیم الشان بیان (A Great Statement)

 

مہاتما گاندھی جی اپنے اخبار ینگ انڈیا کی اشاعت23 فروری ؁ء22 میں رقم طراز ہیں ‘مولانا ابو الکلام آزاد نے جو بیان عدالت میں دیا ہے اس کی نقل میرے پاس بھی پہنچی ہے۔ یہ فل سکیب سائز کے 33 صفحوں پر ٹائپ کیا ہوا ہے۔ لیکن اس قدر طویل ہونے پر بھی سب کا سب پڑہنے کے قابل ہے۔ اصل بیان مولانا کی فصیح و بلیغ اردو میں ہو گا۔یہ اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ترجمہ برا نہیں ہوا پر میں خیال کرتا ہوں اس سے بہتر ممکن تھا۔

مولانا کے بیان میں بڑی ادبی خوبصورتی ہے وہ نہایت وسیع روانی کے ساتھ پر جو ش بھی ہے۔ وہ نہایت دلیرانہ بھی ہے اس کا لہجہ غیر متزلزل اور غیر آتشی چلب (ان کمپرومائزنگ) ہے۔ مگر ساتھ میں سنجیدہ اور متین بھی ہے۔ تمام بیان اول سے آخر تک ایک پر جوش اثر پایا جاتا     ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا خلافت اور نیشنلزم پر مولانا ایک پر اثر خطبہ دے ہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس بیان کو چھاپ کر شائع کر دیا جئے گا۔میں مولانا کے سیکرٹری کو مشورہ دوں گا کہ احتیاط کے ساتھ انگریزی ترجمہ پر نظر ثانی کریں اور کتاب کی صورت میں چھاپ کر شائع کر دیں۔ مولانا کا بیان پڑھ کر جب میں فارغ ہوا تو ایک بات بہت زیادہ واضع ہو کر میرے سامنے آ گئی یعنی عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے کی اصلی ضرورت کیا ہے ؟ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو یہ بے خوفی اور مضبوطی ہم میں کہاں ہوتی جو آج ہمارے اندر کام کر رہی ہے ؟ مسٹر سی آد داس لالہ لاجپت رائے پنڈت موتی لال نہرو نے شریفانہ اعلانات سے پہلے ہمارے اندر صرف چھوٹے موٹے زبانی جھگڑے اور باہم دگر الزامات تھے جو کسی ایک قوم کو سر بلند نہیں کر سکتے۔

اس سے بڑھ کر یہ اگر ہم نے عدالتوں کا بائیکاٹ نہ کیا ہوتا تو آج ہم کو مولانا کے بیان جیسی گرانقدر چیز نہیں ملتی جا بجائے خود ایک بہترین سیاسی تعلیم ہے۔

عدالتوں کے بائیکاٹ کا اثر صرف اسی چیز میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ کتنے قانون پیشہ اصحاب نے پریکٹس چھوڑی؟ اصلی چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ آج سے دو سو سال پہلے جو ہماہمی اور رونق عدالت گاہوں کے اندر اور باہر دیکھنے میں آتی تھی وہ کس طرح اب مفقود ہو گئی ہے ؟ اب تو وہ صرف لین دین کرنے والوں اور قمار بازوں کی کمین گاہ ہیں۔ نہ کوئی وہ آزادی کا سر چشمہ ہیں نہ انفرادی آزادی کا۔ اس بات کا اندازہ کہ قوم کسی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ؟صرف بہادر اور بے خوف دلوں کے جذبات دیکھنے سے ہو سکتا ہے۔

مولانا کے بیان کا روئے سخن اگرچہ عدالت کی طرف ہے لیکن دراصل وہ ملک و ملت سے خطاب کر رہے ہیں۔ فی الحقیقت ان کا بیان گویا عمر بھر کے لیے سخت سے سخت سزاؤں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

ایک سال قید با مشقت سزا کا فیصلہ سن کر مولانا نے کیا خوب کہا میں جس سزا کا متوقع تھا اس سے تو یہ بہت کم ہے۔

 

 

 

پیغام

 

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔ (سورۃ النمل۔ آیت 93)

 

مباش غم زدہ عرفی کہ زلف و قامت یار

جزاء ہمت عالی، و دست کوبہ ماست!

 

آج 8 دسمبر 1921ء کی صبح ہے۔ کل شام کو مجھے قابلِ وثوق ذرائع سے اطلاع مل گئی ہے کہ گورنمنٹ بنگال نے وائسرائے کے مشورے کے بعد میری اور مسٹر سی۔ آر۔ داس کی گرفتاری کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میری نسبت گورنمنٹ کا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں گیارہ تاریخ تک کلکتہ سے باہر نہ گیا تو مجھے گرفتار کر لے گی، لیکن اگر میں بدایوں کے جلسہ جمعیۃ العلماء کے لیے چلا گیا تو پھر گویا اس کے سر سے بلا تل جائے گی صرف مسٹر داس گرفتار کر لیے جائیں گے۔

میرا وقت تمام تر بنگال سے باہر ہندوستان کے کاموں میں خرچ ہوتا رہا ہے۔ اس وقت بھی میں تحریک کے نہایت اہم کاموں میں مشغول تھا اور 25 دسمبر تک کا پروگرام میرے سامنے تھا۔ لیکن اچانک بنگال میں گورنمنٹ کی نئی سرگرمی شروع ہو گئی اور اس کے بعد دوسرے صوبوں میں بھی اس کی تقلید کی گئی۔ میں کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کے جلسہ کی وجہ سے بمبئی میں تھا۔ مہاتما گاندھی جی سے میں نے مشورہ کیا اُنہوں ے کہا چند دنوں کے لیے کلکتہ چلا جانا ضروری ہے۔ چنانچہ یکم دسمبر کو میں کلکتہ پہنچا میں نے دیکھا کہ گورنمنٹ نے آخری حد تک تشدد کا ارادہ کر لیا ہے اور کوئی ناجائز طریقہ ایسا نہیں ہے جو 24 کی ہڑتال روکنے کے لیے عمل میں نہ آ رہا ہو۔ تاہم لوگ پوری استقامت کے ساتھ صبر و سکون پر قائم ہیں۔

میرا پہلا کام یہ تھا کہ لوگوں کے ایمان اور استقامت، دونوں کی نسبت اطمینان حاصل    کر لوں۔ یہ اطمینان مجھے 5 فیصد تک حاصل ہو گیا اب میں نے سوچا کہ کلکتہ سے باہر جاؤں یا نہ جاؤں ؟بدایوں کے جلسہ جمعیت میں جانا بھی نہایت ضروری تھا۔6تک تذبذب میں رہا میں نے مہاتما گاندھی جی کو لکھا کہ بقیہ کاموں کے لئے مسٹر سی۔آر۔داس کافی ہوں گے میں بدایوں ہو کر ممبئ آتا ہوں لیکن 6 کی شام کو یکایک حالات نے دوسری شکل اختیار کر لی میں نے محسوس کیا کہ گورنمنٹ کی تمام طاقت کلکتہ میں سمٹ آئی ہے اور گویا مقابلہ کا فیصلہ کن میدان یہیں پیدا ہو گیا ہے۔ پس میرے لئے ضروری ہو گیا کہ تمام کاموں کو ترک کر کے کلکتہ کے لئے وقف ہو جاؤں۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں یہیں رہوں گا۔یہاں تک کہ حکومت جابرانہ احکام لے لے یا مجھے گرفتار کر لے۔

میں نے یہ بھی دیکھا کہ گورنمنٹ نے خلافت اور کانگرس کمیٹیوں کو بالکل توڑ دینے اور معطل کر دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ایک ایک کر کے تمام کارکن گرفتار کئے جا رہے ہیں۔ قومی اخبارات بھی عنقریب بند کر دئے جائیں گے۔ مسٹر داس بالکل تنہا رہ گئے ہیں اس بناء پر بھی میرے لئے کلکتہ چھوڑنا ناممکن تھا۔

یہ سچ ہے کہ گورنمنٹ بنگال مجھے گرفتار کرنے سے بچانا چاہتی ہے اور منتظر ہے کہ میں کلکتہ سے باہر چلا جاؤں۔ گورنمنٹ کے بھیجے ہوئے ایک دوست نے مجھے مطلع بھی کر دیا ہے لیکن افسوس ہے کہ گورنمنٹ کی تمام خواہشوں کی طرح یہ خواہش بھی میری خواہش سے متضاد ہے اور میرا موجودہ فرض تعمیل نہیں بلکہ خلاف ورزی ہے۔

میں نے پوری طرح غور کر کے یہ فیصلہ کیا ہے بلا شبہ بہت سے کاموں کے لئے اپنی موجودگی ضروری دیکھتا ہوں۔ کام اور ضرورت کا یہ حال ہے کہ جس قدر مہلت مل جائے اس سے کام لینا چاہئے لیکن اللہ کے فضل سے کلکتہ میں جو میدان عمل پیدا کر دیا ہے،وہ بھی ہر اعتبار سے مجھے قیمتی اور اہم معلوم ہوتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ میرا انتخاب غلط نہ ہو گا۔

خدا بہتر جانتا ہے کہ میرے لئے اب جیل سے باہر رہنا کس قدر تکلیف دہ ہو گیا تھا؟ جو چلے جاتے ہیں انہیں کیا معلوم کہ پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں پہ کیا گذرتی ہے ؟محمد علی،شوکت علی،لالہ لاجپت رائے،پنڈت موتی لال نہرو سب کا سفر پورا ہو گیا اور میں اب تک منزل کے انتظار تھا اب منزل میرے سامنے ہے اور میرا دل خوشی سے معمور ہے کہ ایک آخری مگر فتح مند میدان اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوں۔ میں نے کلکتہ کے موجودہ میدان عمل کو "آخری اور فتح مند میدان” کہا یہ میرا یقین ہے اور عنقریب تمام ملک دیکھ لے گا کہ جو کام دو سال کے اندر تمام ملک میں انجام نہ پا سکا،وہ ان چند دنوں کے اندر کلکتہ میں انجام پا جائے گا۔ ولتعلمن بداہ بعد حین۔

البتہ اس آخری کام کی تکمیل اور مضبوطی کے لئے ایک آخری مرحلہ باقی ہے اور میں بے فکر ہو گیا ہوں کہ گورنمنٹ بنگال کے ہاتھوں وہ بھی پورا ہو جائے گا۔اگر دو تین دن کے اندر مجھے اور مسٹر سی،آر داس کو گرفتار کر لیا گیا،تو یہ نہ صرف کلکتہ بلکہ تمام بنگال کو نئ بیداری اور زندگی سے معمور کر دے گا۔بنگال کو ہم دو سال تک آزاد رہ کر بیدار نہ کر سکے،لیکن ہماری گرفتاری ایک منٹ کے اندر بیدار کر دے گا۔

میں اپنی گرفتاری میں تمام مسلمان ہند ک ایک نئی کروٹ دیکھ رہا ہوں۔ مجھے خاص طور پر پنجاب،صوبہ سرحد اور بہار پر اعتماد ہے۔ ان تینوں صوبوں کے مسلمان نے ہمیشہ میری صداؤں کو محبت،اعتماد اور قبولیت کے ساتھ سنا ہے۔ وہ گزشتہ دس سال سے میری تمام امیدوں کا مرکز ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری گرفتاری ان کے لئے آخری دعوت عمل ہو گی۔جو حقیقت تین سال کی پیہم تقریروں اور تحریروں میں نہیں سمجھا سکا تھا، وہ میری گرفتاری کی خاموشی سمجھا دے گی۔

اس طرح گورنمنٹ بنگال ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام ملک کے لئے ایک بہترین خدمت انجام دے رہی ہے۔

 

               اولین مبارکی

 

اگر میں گرفتار ہو گیا تو مہاتما گاندھی جی کو میرا یہ پیغام پہنچا دیا جائے :

"میں آپ کو آپ کی فتح یابی پر سب سے پہلے مبارک باد دیتا ہوں،اس مبارکبادی کے لئے آپ مجھے جلد باز نہ سمجھیں۔ میں اس اٹل وقت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کی مبارکباد دینے میں کوئی دوسرا مجھ پر سبقت نہ کر جائے۔ آپ کے ساتھ انسانی رفاقت روز بروز گھٹ رہی ہے،مگر خدا کی مدد بڑھتی جا رہی ہے۔ بمبئ کے حادثہ نے آپ کے دل کو بہت صدمہ پہنچایا میں آپ کو افسردہ اور غمگین دیکھ کر نہایت دردمند ہوا تھا۔لیکن اب کلکتہ اٹھا ہے،تاکہ غمگینی کی جگہ خوشی اور کامیابی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کرے۔ آپ نے 25 نومبر کی شام کو مجھ سے کلکتہ کے بارے میں گفتگو کی،تو میں نے آپ کو اطمینان دلایا تھا۔میں خوش ہوں کہ میرا اطمینان بالکل صحیح نکلا۔کلکتہ میں میں پندرہ سال سے کام کر رہا ہوں نصف صدی کی خاندانی زندگی رکھتا ہوں،اس لئے میرا اطمینان علم و یقین پر مبنی تھا۔گزشتہ تین سال کے اندر تحریک خلافت کے سب سے اہم کام کلکتہ کے مسلمانوں نے ہی سرانجام دئے ہیں۔ اب آخری منزل میں بھی پہلا قدم وہی اٹھائے گا۔اس نے با امن قربانی کا راز پا لیا ہے۔ وہ نہ بھڑکے گا،نہ بجھے گا،مگر اس کی آگ برابر سلگتی رہے گی۔با امن سول نافرمانی کی منزل طے کرنا اسی کے حصہ میں آیا ہے اور وہ اس کا حقدار تھا۔

 

 

آخری پیغام

 

میرا آخری پیغام وہی ہے جو اب سے دس برس پہلے پہلا پیغام تھا:

    لا تھنوا ولا تحزنو و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین(139:3)

نہ تو ہراساں ہو،نہ غمگین ہو۔تم ہی سب پر غالب رہو گے اگر سچا ایمان اپنے اندر پیدا کر لو۔

ہماری تمام فتح مندیوں کی بنیاد چار سچائیوں پر ہے اور میں اس وقت بھی ملک کے ہر باشندے کو انہی کی دعوت دیتا ہوں :

 

1 – ہندو مسلمانوں کا کامل اتفاق

2 – امن

3 – نظم

4 – قربانی اور اس کی استقامت

 

مسلمانوں سے میں خاص طور پر التجا کروں گا کہ اپنے اسلامی شرف کو یاد رکھیں اور آزمائش کی اس فیصلہ کن گھڑی میں اپنے تمام ہندوستانی بھائیوں سے آگے نکل جائیں۔ اگر وہ پیچھے رہے، تو ان کا وجود چالیس کروڑ مسلمانان عالم کے لیے شرم و ذلت کا دائمی دھبہ ہو گا۔

میں مسلمانوں سے خاص طور پر دو باتیں اور بھی کہوں گا۔ ایک یہ کہ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ پوری طرح متفق رہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک بھائی یا کسی ایک جماعت سے کوئی بات نادانی کی بھی ہو جائے تو بخش دیں اور اپنی جانب سے کوئی بات ایسی نہ کریں، جس سے اس مبارک اتفاق کو صدمہ پہنچے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مہاتما گاندھی جی پر پوری طرح اعتماد رکھیں اور جب تک وہ کوئی ایسی بات نہ چاہیں (اور وہ کبھی نہ چاہیں گے ) جو اسلام کے خلاف ہو، اس وقت پوری سچائی اور مضبوطی کے ساتھ ان کے مشوروں پر کاربند رہیں۔

 

               مرکزی خلافت کمیٹی

 

مرکزی خلافت کمیٹی کے کاموں کی طرف سے میں مطمئن ہوں۔ اس کے با ہمت اور سرگرم صدر سیٹھ چھٹانی صاحب کی موجودگی ہر طرح کی کفایت کرتی ہے۔ میرے عزیز ڈاکٹر سید محمود سیکرٹری منتخب ہو چکے ہیں اور نہایت سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ ان کی اعانت کے لیے مسٹر احمد صدیق کھتری پیشتر سے موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ دفتر کے تمام اخوان و ارکان      ان باتوں کو فراموش نہ کریں گے جو گذشتہ قیام بمبئی کے موقعہ پر میں نے ان سے کہی تھیں۔ ان کی متحدہ زندگی اور سعی ہماری عدم موجودگی کی پوری طرح تلافی کر دے گی۔

حکیم محمد اجمل خاں صاحب :

حکیم صاحب کو میرا پیغام پہنچا دیا جائے، کہ اب آپ کی دوش ہمت پر صرف آپ ہی کے فرائض کا نہیں ہم سب کا بوجھ آن پڑا ہے۔ حکمتِ الٰہی کا منشاء ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے تمام کام آخر تک آپ ہی انجام دیں۔ بہتر یہ ہے کہ اب آپ بمبئی تشریف لے جائیں اور دہلی کی فکر چھوڑ دیں۔

انگورہ فنڈ :

افسوس ہے کہ انگورہ فنڈ کی مزید تکمیل کا مجھے موقعہ نہیں ملا۔ غالباً اس وقت تک دس لاکھ روپیہ فراہم ہو گیا ہے۔ پہلے آخر دسمبر تک کا زمانہ قرار پایا تھا۔ اب بہتر ہو گا کہ ایک ماہ کی مدت اور بڑھا دی جائے اور جنوری کے آخیر تک فراہمی کا سلسلہ جاری رہے۔

میرا ارادہ تھا کہ دسمبر کے وسط میں ایک خاص تاریخ عام وصول کے لیے قرار دے دی جائے اور جس طرح مردم شماری کے وقت انتظام ہوتا ہے، اسی طرح ہر جگہ انتظام کیا جائے۔ پہلے سے اعلان کر دیا جائے کہ فلاں وقت چندہ کرنے والے نکلیں گے۔ ہر شخص حتی الامکان اپنے مکان میں رہے۔ پھر وصول کرنے والے تمام شہر میں پھیل جائیں اور ہر مسلمان کے آگے دست سوال دراز کریں۔ کم از کم ایک مرتبہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ ہندوستان کا ہر مسلمان حفاظت اسلام و خلافت کے لیے کچھ نہ کچھ مالی قربانی کر دے ؟

لیکن کلکتہ پہنچ کر جب ملک کی عام حالت پر نظر ڈالی تو یہ وقت اس کے لیے موزوں معلوم نہ ہوا۔ میں چاہتا ہوں کہ احمد آباد خلافت کانفرنس میں اس کا اعلان ہو جائے اور جنوری کے پہلا ہفتہ کی کوئی تاریخ مقرر کر دی جائے۔

 

                   جمعیۃ العلماء

 

جمعیۃ العلماء کا وجود اس وقت سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ وہ علماء کا مجمع ہے اور علماء کے سوا کوئی نہیں جسے مسلمانوں کی دینی و دنیوی رہنمائی و پیشوائی کا منصب حاصل ہو۔ جمیعت کے سامنے اس وقت ایک نہایت اہم اسلامی مسئلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ تمام ارکانِ جمعیت کو توفیق دے کہ اجتماع بدایوں میں کامل اتفاق و اجماع کے ساتھ کسی بہتر فیصلہ پر پہنچیں۔ سر دست میں ارکان جمعیت سے بہ ادب عرض کروں گا :

 

1 – آپ سب کا باہمی اتحاد ہر حال میں ضروری اور تمام مقاصد کے لیے بنیاد کار ہے۔

2 – ہندو مسلمانوں کے اتفاق کی ضرورت و اہمیت اور شرعی استحسان آپ کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اس کی پوری طرح حفاظت کرنی چاہیے اور اس کی حفاظت آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔

3 – احمد آباد کانگرس میں تمام علماء اسلام کو اور خاص ارکان جمعیت کو ضرور شریک ہونا چاہیے اور جمعیۃ العلماء کی جانب سے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔

4 – لاہور میں ارکان عامہ کی تجویز منظور ہوئی ہے، اس پر فوراً عمل درآمد شروع ہو جائے اور جہاں تک جلد ممکن ہو مجوزہ تعداد ممبروں کی بہم پہنچائی جائے۔

 

               گورنمنٹ بنگال

 

آخر میں مجھے گورنمنٹ بنگال کے لیے بھی ایک پیغام لکھنا ہے : ” 24 کی ہڑتال ضرور ہو گی اور خلافت اور کانگرس رضا کاروں کا سلسلہ ہماری گرفتاری کے بعد دوگنی طاقت کے ساتھ جاری رہے گا۔

 

عزیزانِ ملک و ملت‌!

 

میں چار سال نظر بند رہنے کے بعد دسمبر 1919ء میں رہا ہوا اور دو سال کے بعد اب پھر جیل جا رہا ہوں۔ اللہ آپ سب کا مددگار ہو اور راہ خدمت حق میں مستقیم رکھے :

ثُمَّ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا تَتْرَ‌ىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَّ‌سُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ: (سورۃ المومنون آیت 44)۔

 

8 دسمبر، کلکتہ۔ -۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔ احمد

 

 

 

گرفتاری

 

جمعہ ١٠ دسمبر ۱۹۲۱

 

شہپر زاغ و زغن زیبائے صیدوبندنیست

ایں کرامت ھمرہ شہباز و شاہین کردہ اند!

 

٢ دسمبر سے مولانا اور مسٹر سی-آر-داس کی گرفتاری کی افواہ گرم تھی۔ لیکن ٧ کو قابلِ وثوق ذرائع سے اس کی تصدیق ہو گئی۔ تاہم ١٠ تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی ٨ اور ٩ کو صرف یہ نظر آیا کہ بڑی کاوش کے ساتھ دریافت کیا جا رہا ہے کہ مولانا بدایوں کے جلسہ جمیعۃ العلماء کے لیے جا رہے ہیں یا نہیں ؟ اگرچہ کئی دن بیشتر سے اس کا اعلان ہو چکا تھا کہ اب وہ کلکتہ سے باہر نہ جائیں گے اور سفر کا پورا پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حتی کہ بعض درمیانی اشخاص سے بھی انہوں نے زبانی صاف صاف کہہ دیا تھا تاہم معلوم ہوتا ہے کہ آخر تک ان کے سفر کی توقع باقی تھی۔ اس لیئے تفتیش جاری رہی۔

بدایوں کا جلسہ ١٠، ١١ تاریخ کو تھا اس کے لیئے کلکتہ سے روانگی کی آخری تاریخ ٨ تھی یا حد درجہ ٩ پس گویا ٩ کی شام تک اس کا انتظار کیا گیا۔

اس اثناء میں رضاکاروں کی تنظیم اور تبلیغ کا کام روزبروز ترقی کرتا جاتا تھا۔ روزانہ گرفتاریوں کی تعداد بھی روز افزوں تھی۔ ١٠ کی صبح تک ایک ہزار سے زیادہ رضاکار گرفتار ہو چکے تھے۔

٩ کو مولانا اور مسٹر داس نے آئندہ کام کے نظام کی نسبت از سر نو مشورہ کیا اور یہ بات بھی طے کر دی گئی کہ اگر وہ دونوں بھی ایک دفعہ گرفتار کر لیے گئے، تو مسٹر شیام سندر چکرورتی اُن کی جگہ کام کریں گے۔ وہ بھی گرفتار ہو گئے تو یکے بعد دیگرے فلاں فلاں اصحاب کام ہاتھ     میں لیتے رہیں گے۔

۱۰کو ساڑھے چار بجے مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ ایک یورپین انسپکٹر پولیس کے ہمراہ آئے اور مولانا کو دریافت کیا۔ مولانا اوپر کی منزل میں اپنے نوشت و خواند کے کمرے میں تھے اور مسٹر فضل الدین احمد کو خطوط کا جواب لکھوا رہے تھے۔ انہوں نے مسٹر گولڈی کو وہاں بلوا لیا۔ مسٹر گولڈی نے سلام کے بعد کہا۔ کیا وہ ان کے ہمراہ چلیں گے ؟ وہ انہیں لینے کے لیے آئے ہیں۔ مسٹر احمد نے پوچھا۔ کیا آپ کے ہمراہ وارنٹ ہے ؟ جواب میں انکار کیا۔ مگر مولانا نے کہا کہ وہ بلا وارنٹ کے بھی جانے کے لیے مستعد ہیں۔ انسپکٹر نے کہا اس قدر جلدی نہ کیجیئے۔ اگر کوئی چیز اپنے آرام کے لیئے ساتھ لینا چاہتے ہیں تو لے لیجئے لیکن انہوں نے صرف ایک گرم چادر اوڑھ لی اور کوئی چیز ساتھ نہ لی۔

جاتے وقت انہوں نے صرف یہ کہا ’کلکتہ اور باہر کے تمام احباب اور قومی کارکنوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں پوری مستعدی کے ساتھ مشغول رہیں۔ مجھ سے ملنے کے لیئے کوئی شخص نہ آئے۔ نہ اپنی جگہ اور اپنے کام کو چھوڑے۔ گرفتاریوں کو ایک معمولی اور متوقع واقع کی طرح محسوس کرنا چاہیے۔ کسی طرح کی خلاف معمول اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ مجھے بڑا ہی رنج ہو گا، اگر کسی کارکن نے میری ملاقات کے لیئے اپنا ایک گھنٹہ بھی ضائع کیا۔‘

اس کے بعد وہ روانہ ہو گئے۔ مسٹر گولڈی موٹر کار تک ساتھ گئے جو مکان سے کسی قدر فاصلے پر کھڑی کی گئی تھی۔ لیکن مولانا کے ساتھ صرف انسپکٹر بیٹھا، وہ خود دوسری کار پر چلے گئے۔

اس طرح زیادہ سے زیادہ دس منٹ کے اندر کامل سکون اور خاموشی کے ساتھ یہ معاملہ انجام پا گیا۔ کسی شخص نے بھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی نئی بات پیش آئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا روز مرہ کا ایک معمولی واقعہ ہے جس میں دونوں فریق کے لیے کوئی خلاف توقع بات نہ     تھی۔ جو لوگ آئے، وہ بھی بالکل سنجیدہ اور معمولی انداز میں ‌تھے اور جو گیا، وہ بھی اپنی معمولی متین اور شگفتہ حالت میں ‌تھا۔ دفتر کے تمام لوگوں ‌کو تو ایسا معلوم ہوا، گویا وہ اپنے روزانہ معمول کے مطابق کانگرس آفس جا رہے ہیں !

ٹھیک اسی وقت مسٹر کڈ ڈپٹی کمشنر پولیس معہ دو تین بنگالی انسپکٹروں کے مسٹر سی، آر،داس کے یہاں گئے اور انہیں اپنے ساتھ لے آئے۔

جو سادہ طریقہ گرفتاری کے لیے اختیار کیا گیا، وہ بالکل نیا ہے اس سے پہلے کبھی یہ روش اختیار نہیں کی گئی تھی۔ کوئی گرفتاری بھی ہمیں یاد نہیں جو بغیر پولیس اور فوج کی نمائش کے عمل میں آئی ہو۔ خود مولانا کو ء۱۹۱۶میں جب نظر بند کیا گیا، تو رات کی پچھلے پہر کا محفوظ وقت اس کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور ایک فوجی حملہ کی شان سے قوت کی نمائش ہوئی تھی تین بجے پولیس افسروں اور سپاہیوں کی مسلح جماعت ڈپٹی کمشنر کے ماتحت پہنچی۔ جس میں علاوہ سپرنٹنڈنٹ سی، آئی، ڈی کے، سپرنٹنڈنٹ پولیس، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، دو انسپکٹر، پانچ سب انسپکٹر بھی تھے اور سب انسپکٹر کے سوا سب کے ہاتھوں میں ریوالور تھے۔ سپاہیوں نے پہلے دور تک سڑک کی ناکہ بندی کی، پھر مکان کا محاصرہ

کر لیا۔ اس کے بعد دروازہ پر دستک دی گئی۔ برخلاف اس کے اس مرتبہ معمولی انتظام بھی نہیں کیا گیا صرف دو آدمی بلا یونیفارم کے معمولی ملاقاتیوں کی طرح آ گئے اور چپ چاپ اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس کی وردی اور فوج کے اسلحہ کا نام و نشان بھی نہ تھا۔

مولانا جس مکان میں رہتے ہیں، وہ علاقہ کے تھانے سے بالکل ملا ہوا ہے۔ صرف دیوار بیچ میں حائل ہے۔ لیکن تھانے میں بھی کوئی تیاری نمایاں نہیں کی گئی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب گورنمنٹ نے کم از کم دو باتیں ضرور سمجھ لی ہیں جن کے سمجھنے سے اب تک اسے انکار تھا۔ اوّل یہ کہ ملک کے لیڈر جب کہتے ہیں کہ گرفتار ہو جانے کے لیے بالکل تیار ہیں، تو یہ کوئی ڈپلومیسی نہیں ہے بلکہ واقعی ان کے دل کی سچی آواز ہے۔ پس ان کو گرفتار کرنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں۔ صرف اطلاع دے دینا کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ ایسے موقعوں پر طاقت کی نمائش ہی سے گرفتاری کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔ غیر معمولی اہتمام اور پولیس کا ہجوم دیکھ کر فوراً پبلک معلوم کر لیتی ہے کہ گرفتاری کے لیے لوگ آئے ہیں اور پھر اچانک عوام میں بھی جوش اور سرگرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو گرفتاری کا بروقت کسی کو بھی علم نہ ہو اور نہایت آسانی اور تیزی سے کام انجام پا جائے۔

چنانچہ مولانا کی گرفتاری کا واقعہ خود اطراف و جوانب کے لوگوں کو بھی اس وقت معلوم ہوا، جب شہر میں اس کا اعلان کیا گیا۔ جاتے وقت بہت سے لوگوں نے انہیں موٹر کار میں ایک یورپین کے ساتھ بیٹھے دیکھا، لیکن کسی بھی یہ خیال نہ ہوا کہ وہ جیل جا رہے ہیں۔ جب وہ موٹر کار میں سوار ہو رہے تھے تو حسب معمول کچھ دکاندار اور کچھ راہگیر سلام کرنے کے لیے جمع ہو گئے، جیسا کہ وہ ہر روز آتے اور جاتے کیا کرتے تھے، لیکن انہوں نے بھی کوئی غیر معمولی بات محسوس نہیں کی۔ فی الحقیقت یہ طریقہ فریقین کے لیے ہر طرح آرام دہ اور بہتر ہے۔ کاش گورنمنٹ ابتداء سے اسی پہ عملدر آمد کرتی تو بہت سی دقتیں اور پریشانیاں نہ اسے پیش آتیں، نہ ملک کو۔

مولانا کو پہلے پولیس کمشنر کے آفس میں پہنچایا گیا۔ تقریباً بیس منٹ وہاں بیٹھے ہوں گے کہ مسٹر سی، آر، داس بھی وہیں پہنچا دیئے گئے۔ پھر ایک موٹر کار لائی گئی، اس میں دونوں سوار ہوئے ایک یورپین پولیس آفیسر موٹر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گیا اور موٹر پریزیڈنسی جیل (علی پور) کی طرف روانہ ہو گئی۔ موٹر کار اس وقت بھی بالکل کھلی تھی۔ پریزیڈنسی جیل میں پیشتر سے اطلاع دے دی گئی تھی اور تمام انتظامات مکمل تھے۔ پولیس آفیسر نے دونوں صاحبوں کو جیلر سے ملایا اور اس کے حوالے کر کے واپس چلا آیا۔

مولانا نے جیل کے آفس میں مغرب کی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد سپرنٹنڈنٹ سے انہیں ملایا گیا۔ یہ دراصل سپرنٹنڈنٹ کے سامنے قیدیوں کو حسبِ قاعدہ پیش کرنا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ نے کہا۔ میں نے کھانے کے لیے حکم دے دیا ہے۔ نہیں معلوم اس حکم کا مقصد کیا تھا؟ کیونکہ اس کا کوئی نتیجہ ظہور میں نہیں آیا۔ اگر مقصد یہ تھا کہ تمہارے مکان سے کھانا طلب کر     لینے کا حکم دے دیا ہے تو باوجودیکہ دونوں صاحبوں کے یہاں ٹیلیفون ہے، لیکن کوئی اطلاع ان کے یہاں نہیں دی گئی۔ اگر مقصود جیل کے کھانے سے تھا تو جس وارڈ میں رکھے گئے، وہاں کوئی انتظام کھانے کا نہ تھا۔

اس کے بعد وہ یورپین وارڈ پہنچا دیئے گئے، جہاں الگ الگ کمروں میں فوراً مقفل کر دیا گیا۔ کمروں پر گورکھا سپاہیوں کا پہرہ تھا۔

یہ وارڈ جیل کا بہتر حصہ سمجھا جاتا ہے اور یہاں صرف انڈر ٹرائل یورپین قیدی رکھے جاتے ہیں۔ یہ دو منزلہ عمارت ہے۔ اوپر نیچے پانچ پانچ کمرے ہیں۔ ہر کمرہ دس فٹ طول و عرض کا ہو گا۔ ہر کمرہ میں ایک صراحی، تام چینی کا کٹورا، اسٹول اور ایک ٹیبل ہوتا ہے۔ سونے کے لیئے ٹاٹ کی گدیلی اور دو کالے کمبل ہوتے ہیں، جو جیل میں مستعمل ہیں۔ تکیہ کی جگہ ٹاٹ کی ایک پتلی اور چھوٹی سی گدیلی سرہانے لگی ہوتی ہے۔

مولانا نے بعد کو بیان کیا "ہم لوگ تقریباً سات بجے اپنے اپنے کمروں میں بند کئے گئے۔ ساڑھے سات بجے میں نے دروازہ کی سلاخوں سے آسمان کو دیکھا تو عشاءکا وقت اچھی طرح آ چکا تھا۔ میں نے عشاء کی نماز پڑھی۔ دو چار گھونٹ پانی کے پیئے اور لیٹ گیا۔ دو سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اس قدر جلد اور گہری نیند آ گئی۔ برسوں سے میری نیند بہت کمزور ہو گئی ہے۔ آج کل یہ حال تھا کہ گیارہ بجے لیٹتا تھا۔ ایک دو گھنٹے کے تکلیف دہ انتظار کے بعد کہیں نیند آتی تھی۔ وہ بھی اس قدر کمزور کہ ذرا سی کھڑکھڑاہٹ خلل ڈال دیتی تھی لیکن اس رات ساڑھے آٹھ بجے لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔ تین بجے سے پہلے آنکھ نہ کھلی۔ سنتری کے فوجی بوٹوں کی آواز سیمنٹ کے برآمدے میں بڑے زور سے ہو رہی تھی۔ لیکن میری نیند میں ذرا بھی خلل نہ پڑا۔‘

یہ اطمینان اور بے فکری صرف اس لیے نہ تھی کہ جیل میں آ گیا، بلکہ اس لیے تھی کہ کاموں کی تکمیل کے لیے مجھے اپنی گرفتاری کے ضروری ہونے کا کامل یقین تھا۔ گرفتار ہو نے     کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا، گویا ایک بہت بڑے پریشان کن بوجھ سے دماغ ہلکا ہو گیا ہے !”

پہلے اسی وارڈ میں مولوی عبد الرزاق ایڈیٹر ” پیغام” بابو پدم راج جین، مسٹر داس کے لڑکے اور کئی پولیٹیکل قیدی رکھے گئے تھے، لیکن جب یہ دونوں صاحب یہاں لائے گئے تو دوسرے دن صبح ہی سب کو دوسرے وارڈ میں بھیج دیا گیا۔

صبح کو کرنیل ہملٹن سپرنٹنڈنٹ اور جیلر وارڈ میں آئے۔ کرنیل ہملٹن اپنی ذات سے ایک شریف سویلین معلوم ہوتا تھا کہ حالات کی نوعیت سے وہ متاثر ہیں اور ایک طرح کی شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بالکل واضح تھی مگر پھر بھی وہ بار بار کہتے "مجھے اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میں صرف احکام کی تعمیل کر رہا ہوں۔ ہم لوگوں کو جیل میں آپ جیسے لوگوں سے کبھی سابقہ نہیں پڑا۔ میں پریشان ہوں کہ کیا کروں ؟ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ ”

جواب میں ان سے کہا گیا کہ "درخواست، خواہش، شکایت، ان جذبات سے ہمارے دل بالکل خالی ہو چکے ہیں۔ ”

سپرنٹنڈنٹ نے یہ بھی کہا کہ میں صرف یہی ایک صورت اپنے اطمینان کی دیکھتا ہوں کہ آپ کو اپنی جگہ دے دوں اور خود آپ کے ان کمروں میں چلا آؤں۔ مسٹر داس نے کہا "لیکن اگر میں سپرنٹنڈنٹ بنا دیا گیا تو فوراً  استعفیٰ دے دوں گا۔”

معلوم ہوا کہ ان کے متعلق حکام جیل بلا چیف سیکرٹری گورنمنٹ بنگال کے استصواب کے خود کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ حکم آ چکا ہے کہ ان لوگوں کو کسی شخص سے ملنے نہ دیا جائے۔ حتی کہ عزیز و اقارب سے بھی۔ اخبارات کے دینے کی بھی قطع ممانعت ہے۔ یورپین وارڈ کو انگلش مین دیا جاتا ہے لیکن ان کے لیے یہ بھی ممنوع قرار پایا کیونکہ باہر کی خبریں اس میں بھی درج ہوتی ہیں۔ صرف بستر اور کھانا لے لیا گیا اور سپرنٹنڈنٹ نے تھوڑی دیر کے بعد اپنے آفس سے دو کرسیاں بھیج دیں۔

 

               لا اینڈ آرڈر

 

"لا اینڈ آرڈر” کی جیسی پابندی آج کل جاری ہے، وہ ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے معاملہ میں بھی ابتداء سے اس کی نمائش شروع ہو گئی۔ گرفتاری جمعہ کے دن سہ پہر کو ہوئی۔ اس دن کورٹ بند نہ تھا۔ وارنٹ لیا جا سکتا ہے لیکن کوئی وارنٹ حاصل نہ کیا گیا۔ گرفتاری کے بعد حسب قاعدہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور جب تک پیش نہ ہوں، پولیس کے چارج میں رہنا چاہیے نہ کہ جیل میں لیکن انہیں فوراً جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں ظاہر کیا گیا کہ آپ لوگ اس وقت تک گویا جیل میں نہیں ہیں۔ پولیس کے چارج میں ہیں۔

لیکن بہرحال مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ناگزیر تھا۔ پیش کرنے کے لیے کورٹ میں لے جانا پڑتا اور اس میں پبلک کے مظاہرہ کا خدشہ تھا۔ مجبوراً یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ چوتھے دن مسٹر کڈ ڈپٹی کمشنر پولیس کو بھیجا گیا اور کہا گیا کہ اس کی موجودگی مجسٹریٹ کی قائم مقامی کا حکم رکھتی ہے۔ خیال یہ تھا کہ نان کواپریشن کی وجہ سے کسی طرح کا قانونی اعتراض تو کیا نہیں جائے گا۔ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے اور مقدمہ کی تاریخ مقرر کرنے کی مشکل سے نجات مل جائے گی، لیکن مسٹر داس نے مذاق کرتے ہوئے کہہ دیا کہ "شاید میرے پریکٹس چھوڑنے کے بعد سے قانون بدل گیا ہے۔ ” اس سے ایک گو نا پریشانی ہوئی اور خوف پیدا ہوا کہ کہیں کاروائی بالکل بے ضبط مشہور نہ ہو جائے۔ اس لیے مجبوراً تین بجے مسٹر اے زیڈ خاں فورتھ پریزیڈنسی مجسٹریٹ کو ایک پیش کار کے ساتھ جیل میں بھیج دیا گیا۔ اور زیر دفعہ 17-2 کریمنل لاء ایمنڈمنٹ ایکٹ وارنٹ بھی تیار کر لیے گئے۔

 

               پہلی پیشی

 

13 دسمبر یہ گویا پہلی پیشی تھی۔ ملزموں کو عدالت کے سامنے نہ جانا پڑا۔ خود عدالت ملزموں کے دروازے پر آ گئی! ان کے کمروں کے سامنے جو برآمدہ ہے، اسی میں وارڈر (محافظ وارڈ) کا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

 

اسٹول تھے۔ اس ساز و سامان کے ساتھ عدالت کا اجلاس شروع ہوا۔

لیکن کاروائی نہایت ہی مختصر تھی اور مجسٹریٹ صاحب کی مضطربانہ عجلت اور زیادہ اختصار کا باعث ہوئی۔ اُنہوں نے کہا "دفعہ 17 کے ماتحت آپ لوگ گرفتار کئے گئے ہیں۔ مقدمہ کی تاریخ 23 دسمبر قرار دی جاتی ہے۔ ” یہ کہہ کر جلدی سے اُنہوں نے وارنٹ پر مہر لگانے کے لیے کہا اور اُٹھنے لگے۔ لیکن بے چارہ پیش کار زیادہ ہوشمند ثابت ہوا۔ اس نے کہا کہ ضمانت کے لیے تو حسب قاعدہ پوچھ لیجئے۔ مجسٹریٹ صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ واقعی ملزموں کو ضمانت دینے کا بھی حق ہوا کرتا ہے۔ لیکن اُنہوں نے کہا "یہ حضرات ضمانت نہیں دیں گے اس لیے میں نے پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔”

آخر میں مسٹر خان نے معذرت کے لہجہ میں کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان سے یہاں آنے کے لیے کہا گیا، وہ چلے آئے۔

23 تاریخ کے تعین میں مصلحت تھی کہ 24 سے کرسمس کی تعطیل تھی۔ 23 کو جب مقدمہ ملتوی کر دیا جائے گا تو تعطیل کی وجہ سے ایک ہفتہ خود بخود مہلت نکل آئے گی۔

 

               دوسری پیشی

 

23 دسمبر کو چار بجے پھر مسٹر اے زیڈ خاں بھیجے گئے لیکن اس مرتبہ سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں عدالت کا اجلاس ہوا۔ میز کے سامنے ملزموں کے لیے بھی کرسیاں رکھ دی گئی تھیں، لیکن کاروائی کے اختصار کے وجہ سے بیٹھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ کاروائی صرف اس قدر ہوئی کہ مقدمہ 5 جنوری پر ملتوی کر دیا گیا ہے، مجسٹریٹ نے اپنی لاعلمی اور بے تعلقی کا بار بار اظہار کیا۔

 

               5 جنوری

 

5 جنوری کی پیشی کی کارروائی یہ ہے کہ کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ دس بجے مسٹر سی- آر- داس کو پریزیڈنسی کورٹ جانے کے لیے طلب کیا لیکن مولانا کی طلبی نہیں ہوئی۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

6 کی کاروائی سے معلوم ہو گا کہ گورنمنٹ نے دفعہ 17-2 کریمنل لا ایمنڈمنٹ ایکٹ واپس لے لیا اور کاروائی از سر نو دفعہ 124-الف پینل کوڈ کے ماتحت شروع ہوئی۔ گرفتاری کے بعد جو وارنٹ حاصل کیا گیا تھا، وہ دفعہ 17-2 کا تھا۔ اس لیے 124 کا مقدمہ شروع نہیں ہو سکتا تھا جب تک از سر نو 124 کے ماتحت وارنٹ سرو نہ کیا جائے اور اس کی گرفتاری کا نفاذ نہ ہو۔ لیکن پچھلے لطیفہ سے بھی بڑھ کر یہ لطیفہ ہے کہ 124-الف کے ماتحت کوئی ضابطہ کی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔ نہ تو اس کا وارنٹ سرو کیا گیا، نہ ضابطہ کی گرفتاری کا نفاذ ہوا۔ تاہم 6 کو مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر سی آئی ڈی نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا "اس نے پریزیڈنسی جیل میں وارنٹ سرو کیا” مولانا اپنے بیان میں لکھتے ہیں "یہ معاملہ بے قاعدگی اور کذب بیانی” دونوں کا انتہائی نمونہ ہے۔ 6 تاریخ تک تو مجھے اس کا بھی علم نہ تھا کہ 124 کے ماتحت دعویٰ کیا جائے گا؟ وارنٹ کے نفاذ سے کیا تعلق؟ نہ تو جیل میں کوئی شخص اس غرض سے آیا۔ نہ مجھ پر وارنٹ سرو کیا گیا۔

پس گویا 5 جنوری سے مولانا از روئے قانون بالکل آزاد تھے۔ ان کی گرفتاری شام کے بعد کوئی وجود نہیں رکھتی تھی۔ اگر وہ جیل کے افسروں پر ہرجانے کی نالش کر دیں کہ کیوں انہیں 5 کے بعد جیل میں مقید رکھا گیا؟ تو وہ کیا جواب دیں گے ؟ البتہ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہے جبکہ ” ازروئے قانون ” کے کوئی معنی ہوں۔ لیکن دراصل اس کے کوئی معنی نہیں ہیں۔

غرض کہ بجائے 5 کے 6 جنوری کو ساڑھے گیارہ بجے مولانا پریزیڈنسی کورٹ میں لائے گئے اور اسی پیشی سے کاروائی شروع ہوئی۔ مولانا جیل کی بند موٹر لاری میں لائے گئے     تھے۔ مسلح فوجی پولیس کا کپتان محافظ تھا۔

 

               تیسری پیشی

 

6 تاریخ کو ساڑھے بارہ بجے مولانا کا مقدمہ مسٹر سونیہو چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔

کاروائی شروع ہونے سے پیشتر ہی عدالت کا کمرہ مشتاقان زیارت سے پر ہو چکا تھا جس میں ہر قوم کے اشخاص مسلمان، ہندو، ماڑواڑی، وغیرہ موجود تھے۔

احاطہ عدالت اور سڑک پر بھی ایک جم غفیر موجود تھا اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔ جس وقت مولانا کٹہرے میں لائے گئے، تمام حاضرین مع وکلا تعظیم کے لیے سرو قد کھڑے ہو گئے۔

مولانا نے سب کے سلام کا جواب نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ دیا۔ اس کے بعد مولانا کٹہرے میں اس انداز میں کھڑے ہوئے کہ آپ کا ایک ہاتھ کٹہرے پر تھا اور ہتھیلی پر سر تھا۔ چہرہ پر ایک خفیف سی مسکراہٹ تھی اور نہایت ہی بے پروائی کے ساتھ اپنے اردگرد کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔

کاروائی شروع کرتے ہوئے رائے بہادر تارک ناتھ سادھو سرکاری وکیل نے بیان کیا :

"مولانا ابو الکلام آزاد کے خلاف دو مقدمے ہیں۔ ایک دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کے ماتحت۔ دوسرا زیر دفعہ 124 الف تعزیرات ہند (بغاوت) چونکہ موخر الذکر جرم نہایت ہی سنگین ہے، لہٰذا میں ان کے خلاف قانون ترمیم شدہ ضابطہ فوجداری کے ماتحت کوئی کاروائی کرنا نہیں چاہتا اور اپنے اس دعویٰ کو واپس لیتا ہوں، مولانا اس دفعہ کے ماتحت آزاد ہیں۔ ”

مجسٹریٹ (مولانا کو مخاطب کر کے ) ” آپ رہا کر دیئے گئے ہیں ”

کورٹ انسپکٹر نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ مولانا انگریزی نہیں جانتے۔

مولانا "میں کچھ نہیں سمجھتا اور مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ”

لیکن مجسٹریٹ نے ایک اردو مترجم کو بلوایا، بابو بی، سی چٹر جی کے سپرد یہ خدمت ہوئی۔ سرکاری وکیل نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا :

"ملزم کے خلاف موجودہ مقدمہ زیر دفعہ 124 الف تعزیرات ہند ہے۔ یہ ان کی ان دو تقریروں کی بناء پر ہے، جو اُنہوں نے پہلی اور 15 جولائی 1921ء کو مرزا پارک کلکتہ میں کی تھیں۔ پہلے جلسہ کا مقصد تین اشخاص حکیم سعید الرحٰمن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا۔ اس کے بعد 15 جولائی کو ملزم نے اسی جگہ ایک دوسری تقریر کی۔ اس میں مذکورہ بالا اشخاص کی سزایابی پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے موجودہ وقت میں خلافت کے متعلق لوگوں کو ان کا فرض بتایا۔ یہ تقریریں اردو شارٹ ہینڈ میں لی گئیں تھی۔ اس کے بعد انہیں صاف کر کے انگریزی ترجمہ کرایا گیا۔ یہ ترجمہ ابھی آپ کے سامنے پیش کیا جائے کا۔ میں نے خود یہ تقریریں پڑھی ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تقریریں دفعہ 124 کے ماتحت آتی ہیں۔ لیکن خیر یہ تو میری رائے ہے۔ ”

میں ان تقریروں کا انگریزی ترجمہ پڑھتا ہوں۔ فیصلہ یور آنر پر منحصر ہے کہ آیا اس دفعہ کے ماتحت آتی ہیں یا نہیں ؟ مزید برآں میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ نے زیر دفعہ 196 (تعزیرات ہند) اس مقدمہ کے لیے سینکشن دے دیا ہے اور اس کے اثبات کے لیے میں سب سے پہلے مسٹر گولڈی کو پیش کرتا ہوں۔ ”

مسٹر گولڈی :

اس کے بعد مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ شہادت کے لیے بلائے گئے۔ سرکاری وکیل نے دریافت کیا "کیا ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے تمہیں گورنمنٹ آف بنگال سے کوئی اختیار دیا گیا تھا؟”

جواب۔ ” ہاں ”

سوال۔ "کیا انہی تقریروں کے لیے ؟ یہ کن تاریخوں میں کی گئی تھیں ؟”

جواب۔ "ہاں، یکم اور 15 جولائی 1921ء کو۔”

سوال۔ "کیا یہی سینکشن تمھیں ملا تھا؟”

جواب۔ "ہاں ”

سوال۔ "کیا اسی کے ذریعہ سے تمھیں مولانا ابوالکلام آزاد کو گرفتار کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا؟”

جواب۔ "ہاں ”

سوال۔ "کیا اس پر گورنمنٹ آف بنگال کے چیف سیکرٹری کا دستخط ثبت ہے ؟”

جواب۔ "ہاں، میں ان کے دستخط کو پہچانتا ہوں۔ ”

سوال۔ "سینکشن کس تاریخ کو دیا گیا تھا؟”

جواب۔ "22 دسمبر 1921ء کو۔”

سوال۔ "کیا سینکشن ملنے کے بعد تم نے چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی خدمت میں کوئی درخواست پیش کی تھی؟”

جواب۔ "ہاں ”

سوال۔ "تو پھر کیا تمھیں کوئی وارنٹ ملا؟”

جواب۔ "ہاں، میں نے پریزیڈنسی جیل میں سرو کیا۔”

سوال۔ "عام طور پر جب تمھیں کسی جلسہ کی اطلاع ملتی ہے تو کیا تم کوئی رپورٹر وہاں بھیجتے ہو؟”

جواب۔ "ہاں ”

سوال۔ "کیا یہی وہ رپورٹ اور اس کی نقل ہے جو تمھیں دکھائی گئی تھی؟”

جواب۔ "ہاں ”    ابواللّیث محمد:

اس کے بعد سرکاری شارٹ ہینڈ رپورٹر ابواللّیث محمد پیش ہوا، اس نے بیان میں کہا، "میں گورنمنٹ آف بنگال کا شارٹ ہینڈ رپورٹر ہوں۔ ”

یہاں مجسٹریٹ نے مولانا کو مخاطب کر کے کہا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لیے گواہی کا ترجمہ کرایا جائے ؟”

جواب میں مولانا نے فرمایا۔ "مجھے کسی ترجمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر عدالت کو ضرورت ہو تو وہ خود ایسا کر سکتی ہے۔ ”

مجسٹریٹ۔ "تو کیا آپ انگریزی سمجھتے ہیں۔ ”

مولانا۔ "نہیں ”

مجسٹریٹ۔ "مترجم، بہتر ہے کہ تم ترجمہ کرتے جاؤ۔”

گواہ نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا:

"میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں، تقریباً 18 مہینے تک لکھنؤ کرسچین کالج میں رہ چکا ہوں، وہاں میں نے اردو مختصر نویسی میں ایک آنر سرٹیفیکیٹ اور سند حاصل کی۔”

"160 حروف فی منٹ میری رفتار ہے، میں اردو سمجھتا ہوں، اردو مختصر نویسی میں نے لکھنؤ میں سیکھی ہے۔ ”

"یکم جولائی مجھے یاد ہے، اس روز میں مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں مقرر ہوا تھا، اردو میں وہاں جو تقریریں ہوئیں ان کے میں نے نوٹ لیے تھے، ملزم نے وہاں اردو میں تقریر کی تھی اور وہی اس جلسہ کے صدر تھے۔ ”

"حتی الامکان میں نے بہتر نوٹ لیے اور حسبِ معمول مسٹر گولڈی کمشنر کے پاس بھیج دیا، مسٹر گولڈی نے اس پر 25 تاریخ کو دستخط کیا، اس کے بعد میں نے اسی تقریر کی نقل اردو لانگ ہینڈ میں لی اور مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کیا۔”

"اس پر مسٹر گولڈی کا 14 دسمبر 1921ء کا دستخط موجود ہے۔ ”    بابو باما چرن چٹر جی:

اس کے بعد مسٹر باما چرن چٹر جی سرکاری مترجم پیش ہوا، اس نے بیان کیا "وہ اردو اور ہندی کا مترجم ہے اور الہ آباد یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے۔ ”

سرکاری وکیل۔ "پہلی جولائی کی اردو تقریر ذرا دیکھو؟”

گواہ۔ "میں نے ہی اس کا ترجمہ کیا تھا، اس پر میرا دستخط موجود ہے، میں نے حتی الامکان اس کا بہتر ترجمہ کیا ہے۔ ”

سرکاری وکیل۔ "دوسری تقریر کو بھی دیکھو جو 15 جولائی کی ہے۔ ”

گواہ۔ "میں نے اس کا بھی صحیح ترجمہ کیا ہے۔ ”    انسپکٹر محمد اسماعیل:

اس کے بعد محمد اسماعیل انسپکٹر اسپیشل برانچ بلوایا گیا۔ اس نے بیان کیا: "میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا، وہاں میں نے ملزم کو دیکھا، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی، میں نے لانگ ہینڈ میں پہلی جولائی کی تقریر کا نوٹ لیا تھا، ملزم اس جلسہ کے صدر تھے اور اسی حیثیت سے تقریر کی تھی۔”

سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟”

گواہ۔ "مبلغینِ خلافت حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے متعلق۔”

"جلسہ میں تقریباً 12 ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، ہر قسم کے لوگ جلسہ میں موجود تھے لیکن پچاس فیصدی مسلمان تھے، میں نے صحیح نوٹ لیے تھے۔ انسپکٹر کے -ایس گھوسال اور دوسرے افسر میرے ہمراہ تھے اور یہ (مولانا ابوالکلام آزاد) صدر جلسہ کی اردو تقریر کا نوٹ ہے۔ اس کے بعد بابو پچکوری بنر جی نے تقریر کی تھی۔”

"بابو پچکوری بنر جی کی تقریر صدر جلسہ کی تقریر کے ساتھ شامل ہے۔ ”

"15 جولائی کو بھی میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا، میں وہاں گیا تھا، میں نے وہاں کی تقریر کے نوٹ لیے۔ انسپکٹر مکر جی اور مسٹر کر بھی میرے ہمراہ تھے۔ مولوی نجم الدین اور ملزم نے اس جلسہ میں تقریر کی تھی، میں نے ان تقریروں کا نوٹ لانگ ہینڈ میں لیا۔ میں نے تقریر کے صرف انہی حصوں کا صحیح نوٹ لیا جنہیں میں نے ضروری سمجھا تھا۔ میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ اور بی-ایس-سی ہوں۔ میں اردو سمجھتا ہوں۔ تقریباً 10 اور 12 ہزار کے درمیان جلسہ میں لوگوں کا مجمع تھا۔”

یہاں سرکاری وکیل نے گواہ سے کہا۔ "نوٹ دیکھ کر ذرا اپنے حافظہ کو درست کرو۔”

گواہ نے نوٹ دیکھ کر بتایا۔ "10 ہزار کا مجمع تھا اور ہم نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا۔”    پولیس انسپکٹر کے -ایس گھوسال:

اس کے بعد کے -ایس گھوسال، انسپکٹر اسپیشل برانچ کی شہادت لی گئی، اس نے بیان کیا:

"میں کلکتہ یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہوں، یکم جولائی 1921ء کو مرزا پور پارک اسکوائر کے جلسہ میں میں گیا تھا، ملزم اس جلسہ کے صدر تھے۔ میں نے تقریروں کے نوٹ شارٹ ہینڈ میں لیے تھے۔ میں تقریر کے صرف انہی حصوں کا نوٹ لیا کرتا ہوں جنہیں میں ضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے ان کے صحیح نوٹ لیے تھے، (نوٹ پیش کرتے ہوئے ) یہ پہلی جولائی کی متفقہ رپورٹ ہے۔ اس میں صدر (ملزم) کی تقریر بھی شامل ہے۔ یہ نوٹ مسٹر گولڈی کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے تھے، جن پر انہوں نے اپنا دستخط کر دیا تھا۔”

سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟”

جواب۔ "سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے۔ تقریباً 12 ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، ہر قسم کے لوگ اس میں شریک تھے، لیکن نصف کے قریب ہندوستانی مسلمان تھے، بقیہ نصف ہندوستانی ہندو اور بنگالی تھے۔ ”    انسپکٹر بی-بی مکر جی:

اس کے بعد بی-بی مکر جی انسپکٹر سی-آئی-ڈی پیش ہوا، اس نے بیان کیا:

"مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں نوٹ لینے کے لیے مقرر ہوا تھا، میں نے نوٹ لیے اور پندرہ جولائی 1921ء کو ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ ”

"ملزم اس جلسہ کے صدر تھے، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی، میں نے اس کے صحیح نوٹ لیے تھے۔ یہ نوٹ اسی روز شام کو مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کر دیئے گئے تھے۔ اس پر ان کا دستخط موجود ہے۔ محمد اسماعیل اور میں، دونوں نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا، ملزم نے اردو میں تقریر کی تھی، میں کچھ کچھ اس زبان کو سمجھتا ہوں۔ ”

یہ جلسہ تین مبلغینِ خلافت، حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور لوگوں کو جیل جانے کی ترغیب دینے اور شوق دلانے کی غرض سے ہوا تھا۔”

"تقریباً دس ہزار کا مجمع تھا، مسلمان، ہندو اور ہوڑا اور للوا کے ملوں کے بہت سے مزدور اس میں شریک تھے، تقریباً 50 والنٹیر بیج لگائے ہوئے تھے، جس پر یہ لکھا تھا۔”

"جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔ ”    مسٹر گولڈی (دوبارہ):

مسٹر گولڈی پھر بلوائے گئے، انہوں نے رپورٹ اور نوٹ پر، جو وہاں پیش کئے گئے تھے، اپنے دستخط ہونے کی تصدیق کی۔

اس کے بعد سرکاری وکیل نے پہلی جولائی کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا اور کہا۔ "15 جولائی کو بھی اس قسم کی تقریر ہوئی تھی۔”

پھر اس نے چارج مجسٹریٹ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد لنچ کے لیے کاروائی ملتوی کی گئی۔    لنچ کے بعد کی کاروائی:

3 بج کر 20 منٹ پر مجسٹریٹ عدالت میں داخل ہوا، مولانا کو بلوایا گیا۔ جس وقت     مولانا صحن سے ہو کر عدالت کے کمرے میں جا رہے تھے تو باہر کے عظیم الشان مجمع نے جو سڑک پر کھڑا تھا، مولانا کی ایک ذرا سی جھلک دیکھ پائی اور اللہ اکبر کی گونج سے در و دیوار ہلنے لگے۔

جب مولانا کمرے میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین سرو قد اٹھ کھڑے ہوئے اور بلا قصد ان کی زبان سے بھی اللہ اکبر کا نعرہ نکل گیا۔ اگرچہ خود مولانا ہاتھ کے اشارے سے روکتے رہے۔ مجسٹریٹ نے گھبرا کر فوراً سارجنٹ کو کمرہ خالی کرا دینے کا حکم دیا، جس پر فوراً عمل کیا گیا، صرف چند آدمی جو کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے اندر رہ گئے۔

شارٹ ہینڈ اردو رپورٹر نے ان دونوں تقریروں کو جن کی بنا پر دعویٰ کیا گیا ہے، پڑھ کر سنایا۔

اس کے بعد 124-الف کے ماتحت فرد قرارداد جرم لگا دی گئی۔

مجسٹریٹ (مولانا سے )۔ "کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟”

مولانا۔ "نہیں ”

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کوئی گواہ پیش کرنا چاہتے ہیں ؟”

مولانا۔ "نہیں، اگر میں نے ضرورت دیکھی تو آخر میں اپنا تحریری بیان پیش کر دوں گا۔”

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو کاغذ کی ضرورت ہے ؟”

مولانا۔ "نہیں ”

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے ؟”

مولانا۔ "میں اپنی تقریروں کی نقل چاہتا ہوں۔ ” (جو انہیں دے دی گئی)۔

یہاں سرکاری وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ عرضی دعویٰ کی ایک نقل ملزم کو دے دی جائے۔

اس کے بعد مقدمہ 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا، مقدمہ کے تمام دوران میں عدالت کے احاطہ اور سڑک پر عظیم الشان مظاہرہ جاری تھا۔ قومی نعروں کی آوازیں برابر بلند ہو رہی تھیں۔ جونہی مولانا جیل کی گاڑی میں سوار ہونے لگے، ابوالکلام کی جے، بندے ماترم، مہاتما گاندھی کی جے، ہندو مسلمان کی جے اور اللہ اکبر کے پر شکوہ نعروں سے تمام فضا گونج اٹھی۔ لوگوں کی اس قدر کثرت تھی کہ کچھ عرصہ تک گاڑیوں کی آمد و رفت بھی رک گئی تھی۔

 

               نقل استغاثہ

 

بعدالت چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کلکتہ

"برائے گرفتاری زیر دفعہ 124-الف تعزیزاتِ ہند”

جے۔ اے۔ ایم گولڈی، ڈپٹی کمشنر آف پولیس

اسپیشل برانچ، کلکتہ، مدعی

مولانا ابوالکلام آزاد، مدعا علیہ

مذکورہ بالا مدعی کا بیان حسبِ ذیل ہے۔

1- یکم جولائی 1921ء کو مدعا علیہ نے مرزا پور پارک میں نان کواپریشن اور بائیکاٹ کے مضمون پر اردو میں ایک تقریر کی تھی۔

ایک اردو مختصر نویس نے ان کی پوری تقریر کے نوٹ اردو میں لیے، مذکورہ بالا نوٹ کے نقل کی ایک اردو کاپی جس پر انگریزی حرف "اے ” کا نشان بنا ہے، منسلک درخواستِ ہذا ہے۔ مذکورہ بالا شارٹ ہینڈ نوٹ کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے، جسے گورنمنٹ آف بنگال کے ایک بنگالی مترجم نے کیا ہے، اس پر انگریزی حرف "بی” کا نشان ہے۔

2- پھر 15 جولائی 1921ء کو ملزم مذکور نے اردو میں ایک دوسری تقریر اسی جگہ اور اسی مضمون پر کی اور ایک اردو رپورٹر نے ان کی پوری تقریر کا اردو شارٹ ہینڈ میں نوٹ لیا، اس نوٹ کی ایک نقل جس پر انگریزی حرف "سی” کا نشان منسلک ہے اور دوسرا کاغذ جس پر حرف "ڈی” کا نشان ہے مذکورہ بالا شارٹ ہینڈ کا انگریزی ترجمہ ہے، جسے گورنمنٹ بنگال کے ایک بنگالی مترجم نے کیا۔

3- دونوں موقعوں پر اسپیشل برانچ کے تین اور افسروں نے بھی لانگ ہینڈ میں نوٹ لیے تھے اور وہ اس شارٹ ہینڈ رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں۔

4- تقریروں کے دیکھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مقرر نے اپنی ان تقریروں سے گورنمنٹ قائم شدہ بروئے قانون کے خلاف لوگوں میں حقارت و نفرت پھیلانے کی کوشش کی اور اسطرح ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا جسکی وجہ سے 124-الف تعزیراتِ ہند کے ماتحت سزا کا مستوجب قرار پا سکتا ہے۔

5- گورنرانِ کونسل نے مدعی کو یہ حکم و اختیار دیا ہے کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کو مذکورہ بالا جرم کی بنا پر زیرِ دفعہ 124-الف تعزیزاتِ ہند گرفتار کرے اور ان کے خلاف چارہ جوئی کرے۔ سینکشن کی اصل کاپی منسلک ہے اور اس پر حرف "ای” کا نشان ہے۔

لہذا مدعی یہ درخواست کرتا ہے کہ ملزم کے خلاف حکم نامہ جاری کیا جائے کہ وہ مذکورہ بالا الزامات کی جوابدہی کرے اور اس کے حاضر ہونے پر مقدمہ چلایا جائے نیز قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائی۔

 

               چوتھی پیشی

 

11 جنوری کو مسٹر سونیہو چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں چوتھی پیشی ہوئی۔ حسبِ معمول کمرہ اور احاطۂ عدالت لوگوں سے پر تھا، لیکن قبل اس کے کہ کاروائی شروع ہو، سارجنٹ نے کمرہ لوگوں سے خالی کرا لیا، حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی نہ رہنے دیا جو کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد مولانا لائے گئے، جونہی انہوں نے کٹہرے میں قدم رکھا، تمام وکلاء جو وہاں موجود تھے، تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

مجسٹریٹ نے مولانا سے دریافت کیا:

"کیا آپ کوئی بیان دینا چاہتے ہیں ؟”

مولانا۔ "ہاں، اگر عدالت کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں ایک تحریری بیان پیش کرونگا”

مجسٹریٹ۔ "کیا وہ آپکے ساتھ ہے ؟”

مولانا۔ "ہاں یہ اردو میں ہے لیکن میں چاہتا ہوں اس کا انگریزی ترجمہ عدالت میں داخل کروں۔ ”

مجسٹریٹ۔ :تو کیا آپ خود اس کا ترجمہ کرا لیں گے ؟”

مولانا۔ "ہاں اگر عدالت کو اس میں کوئی اعتراض نہ ہو۔”

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے ؟”

مولانا۔ "اگر کوئی حرج نہ ہو تو میں اپنی اس تقریر کا جسے مغویانہ (باغیانہ؟) بتایا گیا ہے، انگریزی ترجمہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ”

مجسٹریٹ۔ "کیا بیان کے لیے اس کی ضرورت ہے ؟”

مولانا۔ "میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ”

مجسٹریٹ نے عدالت سے دریافت کیا کہ انگریزی ترجمہ ملزم کو پہلے ہی کیوں نہ دیا گیا؟ اب انہیں فوراً دے دیا جائے۔ سرکاری وکیل نے ایک پولیس افسر سے کہا، اس نے بیان کیا کہ اس وقت وہ وہاں موجود نہیں ہے، جیل میں بھیج دیا جائے گا۔

اس کے بعد مقدمہ 17 جنوری 1922ء تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

سابق کی طرح آج بھی ایک بہت بڑا مجمع سڑک پر موجود تھا اور برابر قومی نعرے لگا رہا تھا۔    پانچویں پیشی:

17 جنوری کو مولانا کے مقدمہ کی سماعت پریزیڈنسی سول جیل میں ہوئی۔ حسبِ معمول ہزاروں آدمی وقتِ مقرر پر پریزیڈنسی کورٹ پہنچ گئے تھے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ مقدمہ کورٹ کی بجائے جیل میں ہو گا تو اپنے اپنے گھروں کو مایوس واپس گئے۔ پھر بھی ایک معقول تعداد ہندو مسلمانوں کی فوراً ٹیکسیوں میں سوار ہو کر جیل پہنچ گئی مگر وہاں انہیں احاطۂ جیل کے اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ مولانا کے اعزاء اور اخبارات کے نمائندوں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ عدالت کے اندر مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ اور چند سی آئی ڈی پولیس آفیسر موجود تھے۔ بارہ بجے مسٹر سونیہو چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ بمعیت رائے بہادر تارک ناتھ سادھو سرکاری وکیل آئے۔

اخبارات کے نمائندوں نے اندر جانے کی پھر کوشش کی لیکن عدالت کے پیش کار نے کہا کہ حکام جیل سے اس کی درخواست کرنی چاہیے، وہی اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اس کی تعمیل کے لیے جیلر سے کہا گیا، اس نے کہا وہ کمرہ اب عدالت کو دے دیا گیا ہے، ان کا اس میں کوئی اختیار باقی نہیں، چنانچہ مجسٹریٹ کو اس کی اطلاع دی گئی لیکن جواب ملا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل کے پاس درخواست دی جائے۔

سپرنٹنڈنٹ اس وقت موجود نہ تھا اس لیے ملاقات نہ ہو سکی لیکن بعد کو سپرنٹنڈنٹ نے مولانا سے کہا کہ نہ تو اس کی طرف سے کوئی روک تھی اور نہ وہ روکنے کا مجاز تھا۔ اس کا اختیار تو صرف مجسٹریٹ کو تھا۔

ٹھیک پونے بارہ بجے جیلر کے ہمراہ مولانا آئے، مولانا نے کمرہ عدالت کے اندر قدم رکھتے ہی دریافت کیا: "یہ کاروائی پبلک ہے یا پرائیویٹ؟”۔

مجسٹریٹ۔ "پرائیویٹ، آپ تشریف رکھیں۔ ”

مولانا۔ "کیا آپ نے یہ مجھ سے کہا ہے ؟ غالباً آپ کو یاد نہیں رہا کہ پہلے بھی میں دو مرتبہ آپ کے سامنے پیش ہو چکا ہوں۔ ”

مجسٹریٹ۔ "مجھے یاد ہے۔ ”

مولانا۔ "گذشتہ موقعوں پر جب میں دو تین گھنٹے تک مسلسل کھڑا رہ سکا تو آج بھی کھڑا رہنے میں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔”

مجسٹریٹ۔ "افسوس ہے کہ مجھے ان موقعوں پر یاد نہ رہا۔”

مولانا۔ "(آپ کے اس اعتراف کا) شکریہ۔”

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ اپنا بیان لائے ہیں۔ ”

مولانا نے اپنا اردو بیان پیش کر دیا اور کہا کہ ان کے سیکرٹری کی عدم موجودگی کی وجہ سے انگریزی ترجمہ مکمل نہ ہو سکا۔

مجسٹریٹ۔ "تو کیا آپ اس کے ترجمے کے لیے اور مہلت چاہتے ہیں ؟”

مولانا۔ "نہیں، میں نہیں چاہتا کہ محض ترجمہ کے لیے مقدمہ میں تاخیر ہو۔”

مجسٹریٹ۔ "لیکن اگر اس کا انگریزی ترجمہ ہو جاتا تو عدالت کے لیے اس میں بڑی آسانی ہوتی۔”

اس کے بعد مقدمہ 19 تاریخ کے لیے ملتوی کر دیا گیا لیکن بعد کو خود بخود 19 کی بجائے 24 تاریخ کر دی گئی۔

 

 

               چھٹی پیشی

 

24 جنوری کو مولانا کا مقدمہ سول جیل میں چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا، آج خلافِ معمول پبلک کی ایک معقول تعداد کو اندر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔

ایک بجے کے قریب مولانا تشریف لائے اور صرف یہ کاروائی ہوئی کہ مولانا کا بیان عدالت نے لے لیا اور 31 جنوری آئندہ پیشی کے لیے قرار پائی۔    ساتویں پیشی:

مولانا کی طبیعت کئی دن سے علیل تھی۔ جگر کا فعل ناقص ہو جانے کی وجہ سے اسہال کی شکایت لاحق ہو گئی تھی۔ 31 کو ایک مرتبہ استفراغ بھی ہوا، جیل کے ڈاکٹر نے کہا، ایسی حالت میں ان کا عدالت جانا نہایت مضر ہو گا۔ سپرنٹنڈنٹ تیار ہے کہ عدالت کو اطلاع دے کر پیشی ملتوی کرا دی جائے لیکن مولانا نے پسند نہ کیا کہ ان کی وجہ سے کاروائی میں کسی طرح کا التواء یا تاخیر ہو۔ انہوں نے کہا:

"جب کاروائی جیل ہی کے احاطہ میں ہوتی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے چند قدم چلا جانا کچھ دشوار نہ ہو گا، جیل سے کوئی اطلاع عدالت کو نہ دی جائے۔ ”

لیکن تھوڑی دیر کے بعد سپرنٹنڈنٹ جیل، مسٹر سونیہو پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی چٹھی لیکر آئے جو 30 کی لکھی ہوئی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ مولانا کا مقدمہ 9 فروری پر ملتوی کر دیا گیا۔

5 جنوری کی کاروائی کے مقابلہ میں یہ کاروائی غنیمت تھی، کم از کم اطلاع تو دے دی گئی مگر سوال یہ کہ کیا اسطرح کی چٹھی مجسٹریٹ کی موجودگی اور ملزم کی حاضری کے قائم مقام ہو سکتی ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو یہ گویا قانونی مسئلہ عدالت میں ایک نئے قاعدہ کا اضافہ ہو گا۔ ہم اسے "ترمیم” بھی کہہ سکتے تھے مگر جہاں تک معلوم ہے، 1908ء میں صرف ضابطہ فوجداری ہی کی "ترمیم” ہوئی تھی، ضابطہ عدالت کی نہیں ہوئی تھی!

اب ہم پہلے مولانا کا بیان درج کرتے ہیں، اس کے بعد آخری پیشی کی روداد اور عدالت کا فیصلہ نقل کریں گے۔

 

 

 

 

مولانا ابوالکلام آزاد کا تحریری بیان

 

بہ بدمستی سزد گر مہتم سازد مرا ساقی

ہنوز از بادۂ پارینہ ام پیمانہ بردارد

    الحمدللہ وحدہ

 

عارضی وقفہ

 

میرا ارادہ نہ تھا کہ کوئی تحریری یا تقریری بیان یہاں پیش کروں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمارے لیے نہ تو کسی طرح کی امید ہے، نہ طلب ہے، نہ شکایت ہے۔ یہ ایک موڑ ہے جس سے گزرے بغیر ہم منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے تھوڑی دیر کے لیے اپنی مرضی کے خلاف یہاں دم لینا پڑتا ہے، یہ نہ ہوتی تو ہم سیدھے جیل چلے جاتے۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو سال کے اندر میں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی کہ کوئی نان کواپریٹر کسی طرح کا بھی حصہ عدالت کی کاروائی میں لے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی، سنٹرل خلافت کمیٹی اور جمعیۃ العلماء ہند نے اگرچہ اس کی اجازت دے دی ہے کہ پبلک کی واقفیت کے لیے تحریری بیان دیا جا سکتا ہے، لیکن ذاتی طور پر میں لوگوں کو یہی مشورہ دیتا رہا کہ خاموشی کو ترجیح ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص اس لیے بیان دیتا ہے کہ مجرم نہیں، اگرچہ اس کا مقصد پبلک کی واقفیت ہو، تاہم وہ اشتباہ سے محفوظ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے بچاؤ کی ایک ہلکی سی خواہش اور سماعتِ حق کی ایک کمزور سی توقع اس کے اندر کام کر  رہی ہو، حالانکہ نان کوآپریشن کی راہ بالکل قطعی اور یک سو ہے۔ وہ اس بارے میں اشتباہ بھی گوارہ نہیں کر سکتی۔

"نان کوآپریشن” موجودہ حالت سے کامل مایوسی کا نتیجہ ہے اور اسی مایوسی سے کامل تبدیلی کا عزم پیدا ہوا ہے۔ ایک شخص جب گورنمنٹ سے نان کوآپریشن کرتا ہے تو گویا اعلان کرتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے انصاف اور حق پسندی سے مایوس ہو چکا ہے۔ وہ اس کی غیر منصف طاقت کے جواز سے منکر ہے اور اس لیے تبدیلی کا خواہشمند ہے، پس جس چیز سے وہ اس درجہ مایوس ہو چکا کہ تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں دیکھتا، اس سے کیونکر امید کر سکتا ہے کہ ایک منصف اور قابلِ بقا طاقت کی طرح اس کے ساتھ انصاف کرے گی؟

اس اصولی حقیقت سے اگر قطع نظر کر لیا جائے جب بھی موجودہ حالت میں بریت کی امید رکھنا ایک بے سود زحمت سے زیادہ نہیں ہے یہ گویا اپنی معلومات سے انکار ہو گا۔ گورنمنٹ کے سوا کوئی ذی حواس اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ بحالتِ موجودہ سرکاری عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایسے اشخاص سے مرکب ہیں جو انصاف کرنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس لیے کہ ایسے نظام (سسٹم) پر مبنی ہیں جن میں رہ کر کوئی مجسٹریٹ ان ملزموں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا جن کے ساتھ خود گورنمنٹ انصاف کرنا پسند نہ کرتی ہو۔

میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ "نان کوآپریشن” کا خطاب صرف گورنمنٹ، گورنمنٹ کے سسٹم اور موجودہ حکومتی اور قومی اصولوں سے ہے، افراد اور اشخاص سے نہیں ہے۔

 

               عدالت گاہ نا انصافی کا قدیم ترین ذریعہ ہے

 

ہمارے اس دور کے تمام حالات کی طرح یہ حالت بھی نئی نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور نا انصافی، دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور نا انصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔

تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا  انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لیکر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔ بلاشبہ زمانے کے کے انقلاب سے عہدِ قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور ازمنہ متوسط (مڈل ایجز) کی پراسرار "انکویزیشن” وجود نہیں رکھتیں، لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نا انصاف کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں ؟

 

               ایک عجیب مگر عظیم الشان جگہ

 

عدالت کی نا انصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر  آتا ہے، جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لیے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا۔ میں نے حضرت مسیح کو انسان کہا، کیونکہ میرے اعتقاد میں وہ ایک مقدس انسان تھے جو نیکی اور محبت کا آسمانی پیام لیکر آئے تھے، لیکن کروڑوں انسانوں کے اعتقاد میں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں ؟ تاہم یہ مجرموں کا کٹہرا کیسی عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے جہاں سب سے اچھے اور سب سے بُرے، دونوں طرح کے آدمی کھڑے کئے جاتے ہیں ؟ اتنی بڑی ہستی کے لیے بھی یہ ناموزوں جگہ نہیں !

 

               حمد و شکر

 

اس جگہ کی عظیم الشان اور عمیق تاریخ پر جب میں غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اسی جگہ کھڑے ہونے کی عزت آج میرے حصہ میں آئی ہے، تو بے اختیار میری روح خدا کے حمد و شکر میں ڈوب جاتی ہے اور صرف وہی جان سکتا ہے کہ میرے دل کے سرور و نشاط کا کیا عالم ہوتا ہے ؟ میں مجرموں کے اس کٹہرے میں محسوس کرتا ہوں کہ بادشاہوں کے لیے قابلِ رشک ہوں۔ ان کو اپنی خواب گاہِ عیش میں وہ خوشی اور راحت کہاں نصیب جس سے میرے دل کا ایک ایک ریشہ معمور ہو رہا ہے ؟ کاش غافل اور نفس پرست انسان اس کی ایک جھلک ہی دیکھ پائے ! اگر ایسا ہوتا تو میں سچ کہتا ہوں کہ لوگ اس جگہ کے لیے دعائیں مانگتے !

 

 

               میں بیان کیوں دیتا ہوں ؟

 

بہرحال میرا ارادہ نہ تھا کہ بیان دوں، لیکن 6 جنوری کو جب میرا مقدمہ پیش ہوا تو میں نے دیکھا کہ گورنمنٹ مجھے سزا دلانے کے معاملہ میں نہایت عاجز اور پریشان ہو رہی ہے حالانکہ میں ایسا شخص ہوں جس کو اس کی خواہش اور خیال کے مطابق سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سزا ملنی چاہئے۔

پہلے میرے خلاف دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن جب اس کا ثبوت بھی بہم نہ ہو سکا، جیسا آج کل اثباتِ جرم کے لیے کافی تصور کیا جاتا ہے، تو مجبوراً واپس لے لی گئی۔ اب 124-الف کا مقدمہ چلایا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ بھی مقصد براری کے لیے کافی نہیں، کیونکہ جو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں وہ ان بہت سی باتوں سے بالکل خالی ہیں جو اپنی بے شمار تقریروں اور تحریروں میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں اور جو شاید گورنمنٹ کے لیے زیادہ کارآمد ہوتیں۔

یہ دیکھ کر میری رائے بدل گئی، میں نے محسوس کیا کہ جو سبب بیان نہ دینے کا تھا وہی اب متقاضی ہے کہ خاموش نہ رہوں اور جس بات کو گورنمنٹ باوجود جاننے کے دکھلا نہیں سکتی اسے خود کامل اقرار کے ساتھ اپنے قلم سے لکھ دوں۔ میں جانتا ہوں کہ قانونِ عدالت کی رو سے یہ میرے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ میری جانب سے پراسیکوشن کے لیے یہی بہت بڑی مدد ہے کہ میں نے ڈیفنس نہیں کیا لیکن حقیقت کا قانون عدالتی قواعد کی حیلہ جوئیوں کا پابند نہیں ہے۔ یقیناً یہ سچائی کے خلاف ہو گا کہ ایک بات صرف اس لیے پوشیدہ رہنے دی جائے کہ مخالف اپنی عاجزی کی وجہ سے ثابت نہ کر سکا۔

 

               اقرارِ "جرم”

 

1) ہندوستان کی موجودہ بیوروکریسی ایک ویسا ہی حاکمانہ اقتدار ہے جیسا اقتدار ملک و قوم کی کمزوری کی وجہ سے ہمیشہ طاقتور انسان حاصل کرتے رہے ہیں۔ قدرتی طور پر یہ اقتدار قومی بیداری کے نشو و نما اور آزادی و انصاف کی جد و جہد کو مبغوض رکھتا ہے، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ اس کی غیر منصفانہ طاقت کا زوال ہے اور کوئی وجود اپنا زوال پسند نہیں کر سکتا اگرچہ از روئے انصاف کتنا ہی ضروری ہو۔ یہ گویا تنازع للبقا (Struggle for Existence) کی     جناب آپ کا بہت شکریہ کہ ایک تاریخی دستاویز آپ کی محنت سے منظرِ عام پر آ رہی ہے۔

ایک جنگ ہوتی ہے جس میں دونوں فریق اپنے اپنے فوائد کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ قومی بیداری چاہتی ہے کہ اپنا حق حاصل کرے، قابض طاقت چاہتی ہے کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے فریق کی طرح آخر الذکر بھی قابلِ ملامت نہیں کیونکہ وہ بھی اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اس کا وجود انصاف کے خلاف واقع ہوا ہو۔ ہم طبعیت کے مقتضیات سے تو انکار نہیں کر سکتے ؟ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں نیکی کی طرح برائی بھی زندہ رہنا چاہتی ہے، وہ خود کتنی ہی قابلِ ملامت ہو لیکن زندگی کی خواہش کو قابلِ ملامت نہیں۔

ہندوستان میں بھی یہ مقابلہ شروع ہو گیا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اگر بیوروکریسی کے نزدیک آزادی اور حق طلبی کی جدوجہد جرم ہو اور وہ ان لوگوں کو سخت سزاؤں کا مستحق خیال کرے جو انصاف کے نام سے اس کی غیر منصفانہ ہستی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نہ صرف اس کا مجرم ہوں بلکہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس جرم کی اپنی قوم کے دلوں میں تخم ریزی کی ہے اور اس کی آبیاری کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ہے۔ میں مسلمانانِ ہند میں پہلا شخص ہوں جس نے 1912ء میں اپنی قوم کو اس جرم کی عام دعوت دی اور تین سال کے اندر اس غلامانہ روش سے ان کا رخ پھیر دیا جس میں گورنمنٹ کے پر پیچ فریب نے مبتلا کر رکھا تھا۔ پس اگر گورنمنٹ مجھے اپنے خیال میں مجرم سمجھتی ہے اور اس لیے سزا دلانا چاہتی ہے تو میں پوری صاف دلی کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کوئی خلافِ توقع بات نہیں ہے جس کے لیے مجھے شکایت ہو۔

میں جانتا ہوں کہ گورنمنٹ فرشتہ کی طرح معصوم ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے کیونکہ اس نے خطاؤں کے اقرار سے ہمیشہ انکار کیا، لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس نے مسیح ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ پھر میں کیوں امید کروں کہ وہ اپنے مخالفوں کو پیار کرے گی؟

وہ تو وہی کرے گی جو کر رہی ہے اور جو ہمیشہ استبداد نے آزادی کے مقابلہ میں کیا ہے۔ پس یہ ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس میں دونوں فریق کے لیے شکوہ و شکایت کا کوئی موقع نہیں۔ دونوں کو اپنا اپنا کام کئے جانا چاہئے۔

 

               گورنمنٹ بنگال اور میری گرفتاری

2) میں یہ بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا معاملہ جو کچھ تھا، گورنمنٹ آف انڈیا سے تھا۔ وہ کسی خاص معین الزام کی بنا پر نہیں بلکہ موجودہ تحریک کی عام مشغولیت کی وجہ سے مجھے گرفتار کر سکتی تھی اور جیسا کہ قاعدہ ہے گرفتاری کے لیے کوئی حیلہ پیدا کر لیتی ہے۔ چنانچہ ملک میں عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ علی برادرز سے مجھے زیادہ مہلت دی گئی مگر اب زیادہ عرصہ تک تغافل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ گورنمنٹ بنگال کے سامنے اس وقت میرا معاملہ نہ تھا۔ نہ وہ دفعہ 124-الف کا مقدمہ چلانا چاہتی تھی، اس دفعہ کے ثبوت میں جو تقریریں پیش کی گئی ہیں وہ نصف سال پہلے کلکتہ میں کی گئی ہیں اور گورنمنٹ نے مقدمہ کی اجازت 22 دسمبر کو دی ہے، یعنی میری گرفتاری سے 12 دن بعد۔ اگر فی الواقع ان تقریروں میں سڈیشن تھا تو کیوں مجھے 6 ماہ تک گرفتار نہیں کیا گیا؟ اور اب گرفتار کیا بھی تو گرفتاری کے بارہ دن بعد؟ ہر شخص ان دو واقعات سے صاف صاف سمجھ سکتا ہے کہ صورتِ حال کیا ہے ؟ خصوصاً جب یہ تیسرا واقعہ بھی بڑھا دیا جائے کہ ابتدا میں جو دفعہ ظاہر کی گئی وہ 124 نہ تھی، 17 ترمیم ضابطہ فوجداری تھی۔ پچیس دن کے بعد مجھ سے کہا جاتا ہے کہ وہ واپس لے لی گئی ہے !

 

               گرفتاری کا اصل باعث

 

حقیقت یہ ہے کہ میری گرفتاری میں اس دفعہ کو کوئی دخل نہیں۔ یہ قطعی ہے کہ مجھے انہی حالات کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا جو 17 نومبر کے بعد رونما ہوئے ہیں، اگر میں پہلی دسمبر کو کلکتہ نہ آتا یا 10 دسمبر سے پہلے باہر چلا جاتا جس کی جلسہ جمعیۃ العلماء بدایوں کی وجہ سے واقع تھی تو گورنمنٹ بنگال مجھ سے کوئی تعرض نہ کرتی۔

17 نومبر کے بعد دنیا کی تمام چیزوں میں سے جو چاہی جا سکتی ہیں، وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ 24 نومبر کو جب پرنس کلکتہ پہنچیں تو ہڑتال نہ ہو اور جو جابرانہ بے وقوفی ترمیم ضابطہ فوجداری 1908ء کے نفاذ میں ہو گئی ہے، وہ ایک دن کے لیے قبول کر لی جائے۔ وہ خیال کرتی تھی کہ میری اور مسٹر سی۔ آر۔ داس کی موجودگی اس میں حارج ہے۔ اس لیے کچھ عرصہ کے تذبذب اور غور و فکر کے بعد ہم دونوں گرفتار کر لیے گئے۔ گرفتاری بلا وارنٹ کے ہوئی تھی لیکن جب دوسرے دن ضابطہ کی نمائش پوری کرنے کے لیے مجسٹریٹ جیل میں بھیجا گیا تو مسٹر داس کی طرح میری گرفتاری کے لیے بھی دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کے ماتحت وارنٹ پیش کیا گیا۔

میں گذشتہ دو سال کے اندر بہت کم کلکتہ میں رہ سکا ہوں۔ میرا تمام وقت زیادہ تر تحریکِ خلافت کی مرکزی مشغولیت میں صرف ہوا یا ملک کے پیہم دوروں میں۔ اکثر ایسا ہوا کہ مہینے دو مہینے کے بعد چند دنوں کے لیے کلکتہ آیا اور بنگال پراونشل خلافت کمیٹی کے کاموں کی دیکھ بھال کر کے پھر چلا گیا۔ وسط نومبر سے بھی میں سفر میں تھا۔ 16 کو کلکتہ سے روانہ ہوا تا کہ جمعیۃ العلماء الہند کے سالانہ اجلاس لاہور میں شریک ہوں۔ وہاں مہاتما گاندھی کے تار سے بمبئی کی شورش کا حال معلوم ہوا اور میں بمبئی چلا گیا۔ جنوری تک میرا ارادہ واپسی کا نہ تھا کیونکہ 10 دسمبر کو جمعیۃ العلماء کا اسپیشل اجلاس بدایوں میں تھا، اس میں شرکت ضروری تھی۔ اس کے علاوہ مجھے تمام وقت انگورہ فنڈ کی فراہمی میں صرف کرنا تھا، لیکن یکا یک گورنمنٹ بنگال کے تازہ جبر و تشدد اور 18 کمیونک کی اطلاع بمبئی میں ملی اور میرے لیے نا ممکن ہو گیا کہ ایسی حالت میں کلکتہ سے باہر رہوں۔ میں نے مہاتما گاندھی سے مشورہ کیا، ان کی بھی یہی رائے ہوئی کہ مجھے تمام پروگرام ملتوی کر کے کلکتہ چلا جانا چاہئے۔ زیادہ خیال ہمیں اس بات کا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو گورنمنٹ کا جبر و تشدد لوگوں کو بے قابو کر دے اور کوئی بات صبر و ضبط کے خلاف کر بیٹھیں۔ علی الخصوص جبکہ "سول گارڈ” کے قیام کی خبریں بھی آ چکی تھیں اور اس بارے میں ہمیں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی تھی کہ یہ نئی اسلحہ بندی کن شریفانہ اور پر امن اغراض کے لیے وجود میں آئی ہے ؟

میں پہلی دسمبر کو کلکتہ پہنچا، میں نے ظلم اور برداشت، دونوں کے انتہائی مناظر اپنے سامنے پائے !

میں نے دیکھا کہ 17 نومبر کی یادگار ہڑتال سے بے بس ہو کر گورنمنٹ اس آدمی کی طرح ہو گئی ہے جو جوش اور غصہ میں آپے سے باہر ہو جائے اور غیظ و غضب کی کوئی حرکت بھی اس سے بعید نہ ہو۔ 1908ء کے کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ کے ماتحت قومی رضاکاروں کی تمام جماعتیں "مجمع خلافِ قانون” (ان لا فُل) قرار دے دی گئی ہیں، پبلک اجتماعات یک قلم روک دیئے ہیں، قانون صرف پولیس کی مرضی کا نام ہے، وہ "ان لا فل جماعت” کی تشویش اور شبہ میں جو حتیٰ کہ راہ چلتوں کی جان و آبرو بھی محفوظ نہیں۔ گورنمنٹ نے پہلے 18 نومبر کے کمیونک میں صرف سابق و موجودہ رضا کار جماعتوں کا ذکر کیا تھا، لیکن 24 کو دوسرا کمیونک جاری کر کے تمام آئندہ جماعتیں بھی خلاف قانون قرار دی گئیں اور پولیس نے بلا امتیاز ہر شخص کو جو اس کے سامنے آ گیا، گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ کوئی بات بھی جس سے 24 کی ہڑتال کے رکنے کا امکان ہو، پولیس اور پولیس سے بھی زیادہ "شریف قوم” سول گارڈ کے لیے ناجائز نہیں۔ سول گارڈ گویا قومی رضا کاروں کا جواب ہے۔ وہ بالکل نہتے ہونے پر بھی "جبر و تشدد” سے ہڑتال کرا دیتے تھے، یہ ریوالور سے مسلح ہونے پر بھی "امن و صلح” کے ذریعہ ہڑتال روک دیں گے !

اس کے مقابلہ میں لوگوں نے بھی برداشت اور استقامت، دونوں کا گویا آخری عہد کر لیا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو وہ اپنی راہ سے ہٹیں گے، نہ تشدد کا مقابلہ کریں گے !

ان حالات میں میرے لیے فرض کی راہ بالکل صاف اور یک سو تھی۔ میں نے اپنے سامنے دو حقیقتیں بے نقاب دیکھیں : ایک یہ کہ گورنمنٹ کی تمام طاقت کلکتہ میں سمٹ آئی ہے، اس لیے فتح و شکست کا پہلا فیصلہ یہیں ہو گا، دوسری یہ کہ ہم کل تک پوری آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے لیکن موجودہ حالت نے بتلا دیا کہ ہماری آزادی کی مبادیات تک محفوظ نہیں ہیں۔ "آزادیِ تقریر اور آزادیِ اجتماع” انسان کے پیدائشی حقوق ہیں۔ ان کی پامالی مشہور فلاسفر "مل” کی زبان میں "انسانیت کے قتل عام سے کچھ ہی کم” کہی جا سکتی ہے، لیکن یہ پامالی بلا کسی جھجک کے علانیہ ہو رہی ہے۔ پس میں نے باہر کا تمام پروگرام منسوخ کر دیا اور فیصلہ کر لیا کہ اس وقت تک کلکتہ ہی میں رہوں گا جب تک دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ظہور میں نہ آ جائے : یا گورنمنٹ اپنا کمیونک اور آرڈر واپس لے لے یا مجھے گرفتار کر لے۔

گورنمنٹ نے 10 دسمبر کو مجھے گرفتار کر لیا، میں پورے اطمینان اور مسرت کے ساتھ جیل کی طرف روانہ ہوا کیونکہ میں اپنے پیچھے ایک فتح مند میدان چھوڑ رہا تھا۔ میرا دل خوشی سے معمور ہے کہ کلکتہ اور بنگال نے میری توقعات پوری کر دی۔ وہ پہلے جس قدر پیچھے تھا اتنا ہی آج سب سے آگے ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کامیابی کے لیے گورنمنٹ کی امداد کا ہمیں پوری طرح اعتراف کرنا چاہئے۔ اگر وہ 17 نومبر کے بعد یہ طرز عمل اختیار نہ کرتی تو فی الواقع ہمارے لیے آئندہ کاموں کے انتخاب میں چند در چند مشکلات تھیں، ہم 22 کو بمبئی میں انہی مشکلات پر باہم غور و خوض کر رہے تھے۔

 

               دو حقیقتیں !

 

حقیقت یہ ہے کہ ان گذشتہ ایام نے بیک وقت دونوں حقیقتیں صفحاتِ تاریخ کے لیے مہیا کر دیں۔ اگر ایک طرف گورنمنٹ کے چہرے سے ادّعا نمائش کے تمام ۔۔۔۔۔۔

نمایاں ہو گئی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اگر گورنمنٹ ہر طرح کے جبر و تشدد میں بالکل بے حجاب اور بے لگام ہے تو ملک میں بھی صبر و برداشت کی طاقت روز افزوں نشوونما پا رہی ہے جیسا کہ ہمیشہ انکار کیا گیا ہے، آج بھی اس کا موقع حاصل ہے کہ انکار کر دیا جائے، لیکن کل تاریخ کے لیے یہ ایک نہایت ہی عبرت انگیز داستان ہو گی۔ یہ مستقبل کی راہنمائی کرے گی کہ کیونکر اخلاقی مدافعت، مادی طاقت کے جارحانہ گھمنڈ کو شکست دے سکتی ہے ؟ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف برداشت اور قربانی کے ذریعہ خونریز اسلحہ کا مقابلہ کیا جائے ؟ البتہ میں نہیں جانتا کہ ان دونوں فریقوں میں سے کس فریق کے اندر اس بڑے انسان کی تعلیم تلاش کی جائے جو برائی کے مقابلہ میں صبر و عفو کی تعلیم لیکر آیا تھا؟ گورنمنٹ میں یا ملک میں ؟ میں خیال کرتا ہوں کہ بیوروکریسی کے احکام اس کے نام سے ناواقف نہ ہونگے۔ اس کا نام "مسیح” تھا۔

 

 

               گورنمنٹ کا فیصلہ اور شکست!

 

3) فلسفۂ تاریخ ہمیں بتلاتا ہے کہ نادانی اور ناعاقبت اندیشی ہمیشہ زوال پذیر طاقتوں کی رفیق ہوتی ہے۔ گورنمنٹ نے خیال کیا کہ وہ جبر و تشدد سے تحریکِ خلافت و سوراج کو پامال کر دے گی اور 24 کی ہڑتال رک جائے گی۔ اس نے والنٹیر کورز کو خلافِ قانون قرار دیا اور بلا امتیاز تمام کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ وہ سمجھتی تھی کہ والنٹیرز کی ممانعت اور کارکنوں کی گرفتاری کے بعد خلافت اور کانگریس کا نظام معطل ہو جائے گا اور اسطرح خود بخود ہڑتال رک جائے گی لیکن بہت جلد گورنمنٹ کو معلوم ہو گیا کہ جبر و تشدد جب قومی بیداری کے مقابلہ میں نمایاں ہو تو وہ کوئی مہلک چیز نہیں ہوتی۔ نہ ہڑتال رک سکی، نہ خلافت اور کانگریس کمیٹیاں معطل ہوئیں اور نہ والنٹیرز کا کام ایک دن کے لیے بند ہوا، بلکہ ہماری غیر موجودگی میں یہ ساری چیزیں زیادہ طاقتور اور غیر مسخر ہو گئیں۔ میں نے 8 دسمبر کو جو پیغام ملک کے نام لکھا تھا، اس میں گورنمنٹ بنگال کے لیے بھی یہ پیغام تھا کہ "میری اور مسٹر سی – آر داس کی گرفتاری کے بعد کام زیادہ طاقت اور مستعدی کے ساتھ جاری رہے گا اور 24 کو مکمل ہڑتال ہو گی، جس قدر ہماری موجودگی میں ہو سکتی تھی” چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ گورنمنٹ خود اپنے پسند کئے ہوئے میدان میں ہار گئی۔ اب وہ اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور جن لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے، انہیں کسی نہ کسی طرح سزا دلانا چاہتی ہے۔ لیکن یہ بالکل بے سود ہے، طاقتور آدمی کو شکست کے بعد زیادہ غصہ آتا ہے لیکن کوئی شکست اس لیے فتح نہیں بن سکتی کہ ہم بہت زیادہ جھنجھلا سکتے ہیں !

 

               دفعہ 124-الف

 

غرضیکہ میری گرفتاری صریح طور انہی واقعات کا نتیجہ ہے اور اسی لیے دو ہفتہ تک میرے خلاف دفعہ 17-ترمیم ضابطہ فوجداری ہی کا دعویٰ قائم رہا، لیکن جب اس بارے میں کوئی سہارا نہ ملا تو میرے پریس اور مکان کی تلاشی لی گئی، تا کہ میری کوئی تحریر حاصل کر کے بنائے مقدمہ قرار دی جائے۔ جب وہاں سے بھی کوئی مواد ہاتھ نہ آیا تو مجبوراً سی۔آئی۔ڈی کے محفوظ ذخیرہ کی طرف توجہ کی گئی۔ یہ ذخیرہ ہمیشہ اس شریفانہ کام کے لیے مستعد رہتا ہے اور ضرورت کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ پس اس طرح بہ ہزار زحمت دفعہ 124-الف دعویٰ تیار ہو گیا۔

 

               اجتماعِ ضدّین

 

4) یہ پریشانی گورنمنٹ کو خود اسی کی منافقانہ روش کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ چاہتی ہے کہ شخصی حکمرانوں کی طرح بے دریغ جبر و تشدد کرے، دوسری طرف چاہتی ہے کہ نمائشی قانون و عدالت کی آڑ بھی قائم رہے۔ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں، جمع نہیں ہو سکتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی پریشانی و درماندگی روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔

جو لوگ اس کے خیال میں سب سے زیادہ مستحقِ تعزیر ہیں انہی کو سزا دلانا اس کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ ابھی چند ہی مہینے گزرے ہیں کہ ہم کراچی میں گورنمنٹ کی سراسیمگی و درماندگی کا تمسخر انگیز تماشہ دیکھ رہے تھے۔ جو سرکاری استغاثہ اس دعویٰ اور اہتمام کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، اس سے خود گورنمنٹ کی پسندیدہ اور انتخاب کردہ جیوری بھی اتفاق نہ کر سکی!

لطف یہ ہے کہ یہ مشکلات گورنمنٹ کو ایسی حالت میں پیش آ رہی ہیں کہ جب وہ چاہتی ہے کہ نان کوآپریٹرز کی جانب سے ڈیفنس نہیں کیا جائے گا اور سخت سے سخت غلط بیانی اور قانون شکنی کی حالت میں بھی پردہ دری اور شکست کا کوئی کھٹکا نہیں ہے۔

                نئی قانونی تشریحات

 

گورنمنٹ نے اس اطمینان سے پوری طرح کام لینے میں کوئی کوتاہی بھی نہیں کی ہے۔ نان کوآپریٹرز کے مقدمات آج کل جس طرح چکائے جا رہے ہیں، اس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ "لا” اور "آرڈر” کے معنی بیوروکریسی کی اصطلاح میں کیا ہیں ؟ "لا” اور "آرڈر” کی طرح اب دعویٰ، ثبوت، شہادت، تشخیص (آئی ڈینٹی فائی) وغیرہ تمام عدالتی مصطلحات کے معنی میں بھی انقلاب ہو گیا ہے۔ گویا نان کوآپریٹرز کو جلد سزا دینے کے لیے ہر طرح کی بے قاعدگی اور قانون شکنی جائز ہے۔ حتی کہ اس بات کی بھی تحقیق ضروری نہیں کہ جس انسان کے ملزم ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، کٹہرے کا ملزم وہی آدمی ہے بھی یا نہیں ؟ ابھی اسی ہفتہ جوڑا بگان کی عدالت سے ایک شخص "عبدالرحمٰن ہاشم” کو اس پر زور قانونی اور منطقی ثبوت پر چھ ماہ کی سزا دی گئی ہے کہ "اعظم ہاشم” نامی ایک خلافت والنٹیر دنیا میں وجود رکھتا ہے اور دونوں کے نام میں لفظ "ہاشم” مشترک ہے ! خود میرے مقدمہ میں جو صریح بے ضابطگیاں کی گئی ہیں ان کا ذکر لا حاصل سمجھ کر نہیں کرنا چاہتا، ورنہ وہی اس حقیقت کے انکشاف کے لیے کافی تھیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ کا ذکر کرونگا جو بے قاعدگی اور غلط بیانی، دونوں کا مجموعہ ہے۔ مجھے دفعہ 17 ترمیم ضابطہ فوجداری سے بری کر دیا گیا اور دفعہ 124-الف کے ماتحت وارنٹ حاصل کیا گیا۔ قاعدہ کی رو سے رہائی اور ازسر نو گرفتاری، دونوں باتیں وقوع آنی چاہئیں تھیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ 124-الف کا کوئی وارنٹ مجھ پر تعمیل نہیں کیا گیا۔ حتی کہ 6 جنوری تک مجھے اس کا علم بھی نہیں ہوا۔ لیکن میرے ساتھ مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر پولیس نے یہ حلفیہ شہادت دی ہے کہ اس کے پریزیڈنسی جیل میں مجھ پر وارنٹ سرو کیا ہے !

یہ سچ ہے کہ نان کوآپریٹر کسی طرح کا ڈیفنس نہیں کرتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ آدمی اپنے تمام کپڑے اتار ڈالے، اس لیے کہ شریف آنکھیں بند کر لیں گے۔ شریف آدمیوں نے تو سچ مچ آنکھیں بند کر لی ہیں لیکن دنیا کی آنکھیں بند نہیں ہیں۔     قانون کا ڈرامہ:

فی الحقیقت "لاء” اور "آرڈر” کا ایک ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے جسے ہم کامیڈی اور ٹریجڈی دونوں کہہ سکتے ہیں۔

وہ تماشہ کی طرح مضحک بھی ہے اور مقتل کی طرح درد انگیز بھی، لیکن میں ٹریجڈی کہنا زیادہ پسند کرونگا۔ حسنِ اتفاق سے اس کا چیف ایکٹر انگلستان کا سابق چیف جسٹس ہے۔

 

               میری تقریریں

 

5) پراسکیوشن کی جانب سے میری دو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں جو میں نے پہلی اور پندرھویں جولائی کو مرزا پور پارک کے جلسے میں کی تھیں۔ اس زمانہ میں گورنمنٹ بنگال نے گرفتاریوں کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا اور چار مبلغینِ خلافت پر مقدمہ چلا کر سزائیں دلائی تھیں۔ میں اس وقت سفر سے بیمار واپس آیا تھا، میں نے دیکھا  کہ لوگوں میں بے حد جوش پھیلا ہوا ہے اور ہر طرح کے مظاہرے کے لیے لوگ بیقرار ہیں، چونکہ میرے خیال میں گرفتاریوں پر مظاہرہ کرنا نان کوآپریشن کے اصول کے خلاف تھا، اس لیے میں نے ہڑتال اور جلوس یک قلم روک دیئے۔ اس پر عوام کو شکایت ہوئی تو میں نے یہ جلسے منعقد کئے اور لوگوں کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہوئے سمجھایا کہ نان وایلنس، نان کوآپریشن کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ گرفتاریوں پر صبر و سکون کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔ اگر فی الواقع ان گرفتاریوں کا تمھارے دل میں درد ہے تو چاہئے کہ اصلی کام کرو اور بیرونی کپڑا ترک کر کے دیسی گاڑھا پہن لو۔

استغاثہ نے جو نقل پیش کی ہے، وہ نہایت ناقص، غلط اور مسخ شدہ صورت ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے جیسا کہ اس کے پڑھنے سے ہر شخص سمجھ لے سکتا ہے۔ تاہم میں اس کے غلط اور بے ربط جملوں کو چھوڑ کر (کیونکہ اس کے اعتراف سے میرا ادبی ذوق اِبا کرتا ہے ) باقی وہ تمام حصہ تسلیم کر لیتا ہوں جس میں گورنمنٹ کی نسبت خیالات کا اظہار ہے، یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جد و جہد کی اپیل کی گئی ہے۔

استغاثہ کی جانب سے صرف تقریریں پیش کر دی گئی ہیں، یہ نہیں بتلایا ہے کہ ان کے کن جملوں کو وہ ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہے ؟ یا اس کے خیال میں "مائی ڈیئر برادران” سے لیکر آخر تک سب 124-الف ہے ؟ میں نے بھی دریافت نہیں کیا کیونکہ دونوں صورتیں میرے لیے یکساں ہیں، تاہم ان نقول کو دیکھتا ہوں تو استغاثہ کے خیال کے مطابق زیادہ سے زیادہ قابلِ ذکر جملے حسبِ ذیل ہیں :

"ایسی گورنمنٹ ظالم ہے جو گورنمنٹ نا انصافی کے ساتھ قائم ہو۔ ایسی گورنمنٹ کو یا   تو انصاف کے آگے جھکنا چاہیے یا دنیا سے مٹا دینا چاہیے۔ ”

"اگر فی الحقیقت تمھارے دلوں میں اپنے گرفتار بھائیوں کا درد ہے تو تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ آج سوچ لے۔ کیا وہ اس بات کے لیے راضی ہے کہ جس جابرانہ قوت نے انہیں گرفتار کیا ہے وہ اس براعظم میں اسی طرح قائم رہے جس طرح ان کی گرفتاری کے وقت تھی؟”

"اگر تم ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہو تو اس کا راستہ یہ ہے کہ جن چالاک دشمنوں کے پاس خونریزی کا بے شمار سامان موجود ہے، انہیں رائی کے برابر بھی اس کے استعمال کا موقع نہ دو اور کامل امن و برداشت کے ساتھ کام کرو۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ”

"بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تقریروں میں کوئی ایسی بات کہی جاتی ہے تو اس سے مقرر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے بچاؤ کا سامان کر لے ورنہ اس کی دلی خواہش یہ نہیں ہوتی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ آج تمھارے لیے کام کر رہے ہیں، تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ ماننے کیلیے تیار نہ ہو گا کہ وہ جیل جانے یا نظر بند ہونے سے ڈرتے ہیں۔ (پس) اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ امن و نظم کے ساتھ کام کرنا چاہئے تو ان کا مطلب یہ نہیں (ہو سکتا) کہ اس ظالمانہ گورنمنٹ (کے ساتھ) وفاداری کرنی چاہتے ہیں۔ جو گورنمنٹ، اس کی طاقت اور (اس کا) تخت آج دنیا میں سب سے بڑا گناہ ہے، یقیناً وہ اس گورنمنٹ کے وفادار نہیں ہو سکتے۔ ”

اس کے بعد میں نے کہا ہو گا، مگر کاپی میں نہیں ہے۔

"وہ تو صرف اس لیے یہ کہتے ہیں کہ خود تمھاری کامیابی با امن رہنے پر موقوف ہے۔ تمھارے پاس وہ شیطانی ہتھیار نہیں ہیں جن سے یہ گورنمنٹ مسلح ہے۔ تمھارے پاس صرف ایمان ہے، دل ہے، قربانی کی طاقت ہے۔ تم انہی طاقتوں سے (اصل میں "ہتھیاروں سے ” ہو گا) کام لو۔ اگر تم چاہو کہ اسلحہ کے ذریعہ فتح کرو، تو تم نہیں    کر سکتے۔ آج امن و سکون سے بڑھ کر (تمھارے لیے ) کوئی چیز نہیں۔ ”

"اگر تم صرف چند گھڑیوں کے لیے گورنمنٹ کو حیران کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے میرے پاس بہت سے نسخے ہیں۔ اگر خدانخواستہ میں اس گورنمنٹ کا استحکام چاہتا تو وہ نسخے بتلا دیتا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

(لیکن) میں تو ایسی جنگ چاہتا ہوں (جو) ایک ہی دن میں ختم نہ ہو جائے بلکہ فیصلہ کے آخری دن تک (جاری رہے ) اور جب فیصلہ کی گھڑی آ جائے تو پھر یا تو یہ گورنمنٹ باقی نہ رہے، یا تیس کروڑ (انسان) باقی نہ رہیں۔ ”

جو الفاظ بریکٹ کے اندر ہیں وہ تقریر کی پیش کردہ کاپیوں میں نہیں ہیں لیکن عبارت کے بامعنی ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ میں نے اس لیے تصحیح کر دی کہ پراسیکیوشن کو استدلال میں مدد ملے۔ اگر اس کے مقصد کے لیے پوری تقریر کی تصحیح و تکمیل ضروری ہو تو میں اسی طرح کر دینے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے علاوہ دونوں تقریروں میں لوگوں کو نان کوآپریشن کی دعوت دی ہے، مطالباتِ خلافت اور سوراج کو دہرایا ہے، پنجاب کے مظالم کو وحشیانہ کہا ہے، لوگوں کو بتلایا ہے کہ جو گورنمنٹ جلیانوالہ باغ امرتسر میں چند منٹوں کے اندر سینکڑوں انسانوں کو قتل کر ڈالے اور اس کو جائز فعل بتلائے، اس سے نا انصافی کی کوئی بات بھی بعید نہیں۔

 

               اقرار

 

6) میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے نہ صرف انہی دو موقعوں پر بلکہ گزشتہ دو سال کے اندر اپنی بے شمار تقریروں میں یہ اور اسی مطلب کے لیے اس سے زیادہ واضح اور قطعی جملے کہے ہیں۔ ایسا کہنا میرے اعتقاد میں میرا فرض ہے۔ میں فرض کی تعمیل سے اس لیے باز نہیں رہ سکتا کہ وہ 124-الف کا جرم قرار دیا جائے گا۔ میں اب بھی ایسا ہی کہنا چاہتا ہوں اور جب تک بول سکتا ہوں ایسا ہی کہتا رہوں گا۔ اگر میں ایسا نہ کہوں تو اپنے آپ کو خدا        اور اس کے بندوں کے آگے بدترین گناہ کا مرتکب سمجھوں۔

 

 

               موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے

 

7) یقیناً میں نے کہا ہے "موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے ” لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں ؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں ؟ میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں۔

میں کم سے کم اور نرم سے نرم لفظ جو اس بارے میں بول سکتا ہوں یہی ہے، ایسی ملفوظ صداقت جو اس سے کم ہو، میرے علم میں کوئی نہیں۔

میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں : گورنمنٹ نا انصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے، اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس سے کم عمر کہے جا سکتے ہیں۔ جو چیز بری ہے اسے یا تو درست ہو جانا چاہیے یا مٹ جانا چاہیے۔ تیسری بات کیا ہو سکتی ہے ؟ جب کہ میں اس گورنمنٹ کی برائیوں پر یقین رکھتا ہوں تو یقیناً یہ دعا نہیں مانگ سکتا کہ درست بھی نہ ہو اور اس کی عمر بھی دراز ہو!

 

               میرا یہ اعتقاد کیوں ہے ؟

 

8 ) میرا اور میرے کروڑوں ہم وطنوں کا ایسا اعتقاد کیوں ہے ؟ اس کے وجوہ و دلائل اب اس قدر آشکارا ہو چکے ہیں کہ ملٹن کے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے "سورج کے بعد دنیا کی ہر چیز سے زیادہ واضح اور محسوس”۔ محسوسات کے لیے ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ انکار نہ کرو، تاہم میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ اعتقاد اس لیے ہے کہ میں ہندوستانی ہوں، اس لیے ہے کہ میں مسلمان ہوں، اس لیے ہے کہ میں انسان ہوں۔

 

 

               شخصی اقتدار بالذات ظلم ہے

 

میرا اعتقاد ہے کہ آزاد رہنا ہر فرد اور ہر قوم کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی انسان یا انسانوں کی گھڑی ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کیسے ہی خوش نما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیں لیکن وہ غلامی ہی ہے اور خدا کی مرضی اور اس کے قانون کے خلاف ہے۔ پس میں موجودہ گورنمنٹ کو جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا اور اپنا ملکی، مذہبی اور انسانی فرض سمجھتا ہوں کہ اس کی محکومی سے ملک اور قوم کو نجات دلاؤں۔

"اصلاحات” اور "بتدریج توسیع اختیارات” کا مشہور مغالطہ میرے اس صاف اور قطعی اعتقاد میں کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کر سکتا۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور کسی انسان کو اختیار نہیں کہ حقوق کی ادائیگی میں حد بندی اور تقسیم کرے۔ یہ کہنا کہ کسی قوم کو اس کی آزادی بتدریج ملنی چاہیے بعینہ ایسی ہی ہے جیسے کہا جائے کہ مالک کو اس کی جائیداد اور قرضدار کو اس کا قرض ٹکڑے ٹکڑے کر کے دینا چاہیے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگر مقروض سے ایک ہی دفعہ قرضہ واپس نہ مل سکے تو قرضدار کو یہی کرنا پڑے گا کہ قسط کی صورت میں وصول کرے لیکن یہ ایک مجبوری کا سمجھوتہ ہو گا، اس سے بہ یک دفعہ وصولی کا حق زائل نہیں ہو سکتا۔

"ریفارم” کی نسبت میں روس کے عظیم الشان لیو ٹالسٹائی کے لفظوں میں کہوں گا "اگر قیدیوں کو اپنے ووٹ سے اپنا جیلر منتخب کر لینے کا اختیار مل جائے تو اس سے وہ آزاد نہیں ہو جائیں گے۔ ”

میرے لیے اس کے اچھے برے کاموں کا سوال ایک ثانوی سوال ہے۔ پہلا سوال خود اس کے وجود کا ہے۔ میں ایسے حاکمانہ اقتدار کو بہ اعتبار اس کی خلقت ہی کے ناجائز یقین کرتا ہوں۔ اگر وہ تمام نا انصافیاں ظہور میں نہ آتیں جو اس کثرت سے واقع ہو چکی ہیں، جب بھی میرے اعتقاد میں وہ ظلم تھا کیونکہ اس کی ہستی ہی سب سے بڑی    نا انصافی ہے اور اس کی برائی کے لیے اس قدر کافی ہے کہ وہ موجود ہو۔ اگر وہ اچھے کام کرے تو اچھائی تسلیم کر لی جائے گی لیکن اس کا وجود ناجائز اور نا انصافی ہی رہے گا۔ اگر ایک شخص ہماری جائیداد پر قابض ہو کر بہت سے اچھے اور نیک کام انجام دے تو اس کے کاموں کی خوبی کی وجہ سے اس کا قبضہ جائز نہیں ہو سکتا۔

برائی میں کم و کیفیت کے اعتبار سے تقسیم کی جا سکتی ہے لیکن حسنِ قبح کے اعتبار سے اس کی ایک ہی قسم ہے۔ یعنی اس اعتبار سے تقسیم ہو سکتی ہے کہ وہ کتنی اور کیسی ہے ؟ اس اعتبار سے نہیں ہو سکتی کہ وہ اچھی ہے یا بری ہے ؟ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "زیادہ بری چوری” اور "کم بری چوری” لیکن یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ "اچھی چوری” اور "بری چوری”؟ پس میں بیوروکریسی کی اچھائی اور جائز ہونے کا کسی حال میں بھی تصور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ نفسہ ایک ناجائز عمل ہے البتہ اس کی برائی کم اور زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ہندوستان کی بیوروکریسی تو اتنا بھی نہ کر سکی کہ اپنی خلقی برائی پر ہی قانع رہتی۔ جب اس کی خلقی برائی پر اس کی بے شمار عملی برائیوں کا بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے تو پھر کیوں کر اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس ظلم کا اعلان نہ کیا جائے ؟

 

               اسلام اور بیوروکریسی

 

9) میں مسلمان ہوں اور بحیثیت مسلمان ہونے کے بھی میرا مذہبی فرض یہی ہے۔ اسلام کسی ایسے اقتدار کو جائز تسلیم نہیں کرتا جو شخصی ہو یا چند تنخواہ دار حاکموں کی بیوروکریسی ہو۔ وہ آزادی اور جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے جو نوعِ انسانی کو اس کی چھینی ہوئی آزادی واپس دلانے کے لیے آیا تھا۔ یہ آزادی بادشاہوں، اجنبی حکومتوں، خود غرض مذہبی پیشواؤں اور سوسائٹی کی طاقتور جماعتوں نے غصب کر رکھی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ حق طاقت اور قبضہ ہے لیکن اسلام نے ظاہر ہوتے ہی اعلان کیا کہ حق طاقت نہیں بلکہ خود حق ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوار نہیں کہ بندگانِ خدا کو اپنا محکوم اور غلام        بنائے۔ اس نے امتیاز اور بالا دستی کے تمام قومی اور نسلی مراتب یک قلم مٹا دیئے اور دنیا کو بتلا دیا کہ سب انسان درجہ میں برابر ہیں اور سب کے مساوی حقوق ہیں۔ نسل، قومیت، رنگ، معیار فضیلت نہیں ہے بلکہ صرف عمل ہے اور سب سے بڑا وہی ہے جس کے کام سب اچھے ہوں : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ o (سورہ حجرات، آیت 13)

 

               اسلام ایک جمہوری نظام ہے

 

انسانی حقوق کا یہ وہ اعلان ہے جو انقلابِ فرانس سے گیارہ سو برس پہلے ہوا، یہ صرف اعلان ہی نہ تھا بلکہ ایک عملی نظام تھا جو مشہور مورخ گبن کے لفظوں میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتا۔

پیغمبرِ اسلامﷺ  اور ان کے جانشینوں کی حکومت ایک مکمل جمہوریت تھی اور صرف قوم کی رائے، نیابت اور انتخاب سے اس کی بناوٹ ہوتی تھی، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں جیسے جامع اور عمدہ الفاظ اس مقصد کے لیے موجود ہیں شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں پائے جائیں۔ اسلام نے "بادشاہ” کے اقتدار اور شخصیت سے انکار کیا ہے اور صرف ایک رئیسِ جمہوریت (پریزیڈنٹ آف ری پبلک) کا عہدہ قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی "خلیفہ” کا لقب تجویز کیا، جسکے لغوی معنی نیابت کے ہیں۔ گویا اس کا اقتدار محض نیابت ہے، اس سے زیادہ کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اسی طرح قرآن نے نظامِ حکومت کے لیے "شوریٰ” کا لفظ استعمال کیا: وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (38:42) چنانچہ ایک پوری سورۃ اسی نام سے قرآن میں موجود ہے۔ "شوریٰ” کے معنی باہم مشورہ کے ہیں یعنی جو کام کیا جائے، جماعت کی باہم رائے اور مشورہ سے کیا جائے، شخصی رائے اور حکم سے نہ ہو۔ اس سے زیادہ صحیح نام جمہوری نظام کے لیے کیا ہو سکتا ہے ؟

 

               قومی اور مسلم بیوروکریسی ظلم ہے

 

جب اسلام مسلمانوں کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ اسلامی حکومت کو بھی منصفانہ تسلیم نہ کریں جو قوم کی رائے اور انتخاب سے نہ ہو تو پھر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک اجنبی بیوروکریسی کیا حکم رکھتی ہے ؟ اگر آج ہندوستان میں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہو جائے مگر اس کا نظام بھی شخصی ہو یا چند حاکموں کی بیوروکریسی ہو تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس وقت بھی میرا فرض یہی ہو گا کہ اس کو ظلم کہوں اور تبدیلی کا مطالبہ کروں۔ اسلام کے علماء حق نے ہمیشہ جابر مسلمان بادشاہوں کے خلاف ایسا ہی اعلان و مطالبہ کیا ہے۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نظام بعد کو قائم نہ رہ سکا، مشرقی رومی حکومت اور ایرانی شہنشاہی کے پر شوکت افسانوں نے مسلمان حکمرانوں کو گمراہ کر دیا۔ اسلامی خلیفہ کی جگہ، جو بسا اوقات پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک عام فرد کی طرح ملبوس ہوتا تھا، انہوں نے قیصر و کسریٰ بننے کو ترجیح دی۔ تاہم تاریخِ اسلام کا کوئی عہد بھی ایسے مسلمانوں سے خالی نہیں رہا ہے جنہوں نے علانیہ حکامِ وقت کے استبداد و شخصیت کے خلاف احتجاج نہ کیا ہو اور ان تمام تکلیفوں کو خوشی خوشی جھیل نہ لیا ہو جو اس راہ میں پیش آئی ہیں۔     مسلمانوں کا قومی وظیفہ:

ایک مسلمان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ حق کا اعلان نہ کرے اور ظلم کو ظلم نہ کہے، بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ وہ اسلامی زندگی سے دست بردار ہو جائے۔ اگر تم کسی آدمی سے اس مطالبہ کا حق نہیں رکھتے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دے تو یقیناً ایک مسلمان سے یہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ظلم کو ظلم نہ کہے، کیونکہ دونوں باتوں کا مطلب ایک ہی ہے۔

یہ تو اسلامی زندگی کا وہ عنصر ہے جس کے الگ کر دینے کے بعد اس کی سب سے بڑی مابہ الامتیاز خصوصیت معدوم ہو جاتی ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی ہے کہ وہ دنیا میں سچائی اور حقیقت کے گواہ ہیں۔ ایک گواہ کا فرض ہوتا ہے کہ جو کچھ جانتا ہے بیان کرے۔ ٹھیک اسی طرح ہر مسلمان کا بھی وظیفہ (ڈیوٹی) ہے کہ جس سچائی کا اسے علم و یقین دیا گیا ہے، ہمیشہ اس کا اعلان کرتا رہے اور ادائے فرض کی راہ میں کسی آزمائش اور مصیبت سے نہ ڈرے۔ علی الخصوص جب ایسا ہو کہ ظلم و جور کا دور دورہ ہو جائے اور جبر و تشدد کے ذریعہ اعلانِ حق کو روکا جائے تو پھر یہ فرض اور زیادہ لازمی اور ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر طاقت کے ڈر سے لوگوں کا چپ ہو جانا گوارا کر لیا جائے اور "دو اور دو” کو اس لیے "چار” نہ کہا جائے کہ ایسا کہنے سے انسانی جسم مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر سچائی اور حقیقت ہمیشہ کے لیے خطرہ میں پڑ جائے اور حق کے ابھرنے اور قائم رہنے کی راہ باقی نہ رہے۔ حقیقت کا قانون نہ تو طاقت کی تصدیق کا محتاج ہے نہ اس لیے بدلا جا سکتا ہے کہ ہمارے جسم پر کیا گزرتی ہے ؟ وہ تو حقیقت ہے اور اس وقت بھی حقیقت ہے جب اس کے اظہار سے ہمارا جسم آگ کے شعلوں کے اندر جھونک دیا جائے۔ صرف اس لیے کہ ہمیں قید کر دیا جائے گا، آگ میں ٹھنڈک اور برف میں گرمی نہیں پیدا ہو سکتی۔

 

               شہادۃ علی النّاس

 

یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کتابِ شریعت (قرآن) میں مسلمانوں کو بتلایا گیا ہے کہ وہ خدا کی زمین میں "شاہد” ہیں، یعنی سچائی کی گواہی دینے والے ہیں۔ بحیثیت ایک قوم کے یہی ان کا وظیفہ (نیشنل ڈیوٹی) ہے اور یہی ان کی قومی خصلت (نیشنل کریکٹر) ہے جو ان کو تمام پچھلی اور آئندہ قوموں میں ممتاز کرتی ہے : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاس (143:2) اسی طرح پیغمبر اسلامﷺ  نے فرمایا: انتم شھداء اللہ فی الارض (بخاری) تم خدا کی زمین پر خدا کی طرف سے سچائی کے گواہ       ہو۔ پس ایک مسلمان جب تک مسلمان ہے اس کی گواہی کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا۔

 

               کتمانِ شہادت

 

اگر وہ باز رہے تو یہ قرآن کی اصطلاح میں "کتمانِ شہادت” ہے یعنی گواہی کو چھپانا۔ قرآن نے ایسا کرنے والوں کو خدا کی پھٹکار کا سزاوار بتلایا ہے اور بار بار کہا ہے کہ اسی کتمانِ شہادت کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی قومیں برباد و ہلاک ہو گئیں :

    إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ O    (سورۃ البقرہ – آیت 159)

    لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ ہ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ O (سورۃ مائدہ – آیت 78 -79)

 

               امر بالمعروف و نہی عن المنکر

 

اسی لیے اسلام کے واجبات و فرائض میں ایک اہم فرض "امر بالمعروف” اور "نھی عن المنکر” ہے یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ قرآن کریم نے عقیدۂ توحید کے بعد جن کاموں پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک کام یہ ہے۔ قرآن نے بتلایا ہے کہ مسلمانوں کی تمام قومی بڑائی کی بنیاد اسی کام پر ہے۔ وہ سب سے بڑی اور اچھی قوم اسی لیے ہیں کہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی کو روکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اپنی ساری بڑائی کھو دیں۔

    كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ O (سورۃ آل عمران – آیت 110)۔

قرآن سچے مسلمانوں کی پہچان یہ بتلاتا ہے کہ "وہ حق کے اعلان میں کسی سے نہیں ڈرتے، نہ دنیا کی لالچ ان پر غالب آ سکتی ہے، نہ کوئی خوف۔ وہ طمع بھی رکھتے ہیں تو صرف خدا سے اور ڈرتے بھی ہیں تو صرف خدا سے۔ ”

پیغمبرِ اسلامﷺ  کے بے شمار قولوں میں جو اس بارے میں ہیں، ایک قول یہ ہے :

"نیکی کا اعلان کرو، برائی کو روکو، اگر نہ کرو گے تو ایسا ہو گا کہ نہایت برے لوگ تم پر حاکم ہو جائیں گے اور خدا کا عذاب تمھیں گھیر لے گا۔ تم دعائیں مانگو گے کہ یہ حاکم ٹل جائیں مگر قبول نہ ہونگی۔” (ترمذی و طبرانی عن حذیفتہ و عمر)

لیکن یہ فرض کیوں کر انجام دیا جائے ؟ تو اسلام نے تین مختلف حالتوں میں اس کے تین مختلف درجے بتلائے ہیں۔ چنانچہ پیغمبرِ اسلامﷺ  نے فرمایا” "تم میں جو شخص برائی کی بات دیکھے تو چاہیے اپنے ہاتھ سے درست کر دے، اگر اس کی طاقت نہ پائے تو زبان سے اعلان کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ پائے تو اپنے دل میں اس کو برا سمجھے۔ لیکن یہ آخری درجہ ایمان کی بڑی ہی کمزوری کا درجہ ہے۔ ” "مسلم” ہندوستان میں ہمیں یہ استطاعت نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے گورنمنٹ کی برائیاں دور کر دیں، اس لیے ہم نے دوسرا درجہ اختیار کیا جس کی استطاعت حاصل ہے، یعنی زبان سے اس کا اعلان کرتے ہیں۔

 

               ارکانِ اربعہ

 

قرآن نے مسلمانوں کی اسلامی زندگی کی بنیاد چار باتوں پر رکھی ہے اور بتلایا ہے کہ ہر طرح کی انسانی ترقی اور کامیابی انہی کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے، ایمان، عملِ صالحہ، توصیہ حق، توصیہ صبر۔

"توصیۂ حق” کے معنی یہ ہیں کہ ہمیشہ حق اور سچائی کی ایک دوسرے کو وصیت کرنا۔ "توصیۂ صبر” کے معنی یہ ہیں کہ ہر طرح کی مصیبتوں اور رکاوٹوں کو جھیل لینے کی وصیت کرنا۔ چونکہ حق کے اعلان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مصیبتیں پیش آئیں، اس لیے حق کے     ساتھ صبر کی وصیت بھی ضروری تھی تا کہ مصیبتیں اور رکاوٹیں جھیل لینے کے لیے ہر حق گو تیار ہو جائے :

    وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ O    (سورۃ العصر)

 

               اسلامی توحید اور امر بالمعروف

 

اسلام کی بنیاد عقیدۂ "توحید” پر ہے اور توحید کی ضد "شرک” ہے جس سے بیزاری اور نفرت ہر مسلمان کی فطرت میں داخل کی گئی ہے۔ توحید سے مقصود یہ ہے کہ خدا کو اس کی ذات اور صفات میں ایک ماننا۔ شرک کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ذات اور صفتوں میں کسی دوسری ہستی کو شریک کرنا۔ پس سچائی کے اظہار میں بے خوفی اور بے باکی ایک مسلمان زندگی کا مایۂ خمیر ہے۔ توحید مسلمان کو سکھلاتی ہے کہ ڈرنے اور جھکنے کی سزاوار صرف خدا کی عظمت و جبروت ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جس سے ڈرنا چاہیئے یا جس کے آگے جھکنا چاہیئے۔ وہ یقین کرتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے ڈرنا، خدا کے ساتھ اس کو شریک کرنا اور اپنے دل کے خوف و اطاعت کا حقدار ماننا ہے، یہ بات توحید کے ساتھ اکھٹی نہیں ہو سکتی۔

اس لیے اسلام تمام تر بے خوفی اور قربانی کی دعوت ہے، قرآن جا بجا کہتا ہے :

"مسلمان وہ ہے جو خدا کے سوا کسی اور سے نہ ڈرے، ہر حال میں سچی بات کہے۔ ” (ولم یخش الا اللہ)۔

پیغمبرِ اسلامﷺ  نے فرمایا: "سب سے بہتر موت اس آدمی کی ہے جو کسی ظالم حکومت کے سامنے حق کا اظہار کرے اور اس کی پاداش میں قتل کیا جائے۔ ” (ابوداؤد) وہ جب کسی آدمی سے اسلام کا عہد اور اقرار کر لیتے تھے تو ایک اقرار یہ ہوتا تھا "میں ہمیشہ حق کا اعلان کروں گا، خواہ کہیں ہوں اور کسی حالت میں ہوں۔ ” (بخاری و مسلم)۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں حق گوئی اور حق گوئی کے لیے قربانی کی ایسی مثالیں نہیں مل سکتیں جن سے تاریخِ اسلام کا ہر باب معمور ہے، اسلام کے عالموں، پیشواؤں، بزرگوں، مصنفوں کے تراجم (Biography) تمام تر اسی قربانی کی سرگذشت ہیں۔

جن مسلمانوں کے مذہبی فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ موت قبول کر لیں مگر حق گوئی سے باز نہ آئیں، ان کے لیے دفعہ 124-الف کا مقدمہ یقیناً کوئی بڑی ڈراؤنی چیز نہیں ہو سکتا جس کی زیادہ سے زیادہ سزا سات برس کی قید ہے۔

 

               اسلام میں کوئی دفعہ 124 نہیں

 

تاریخِ اسلام کے دو دور ہیں، پہلا دور پیغمبرِ اسلامﷺ  اور ان کے چار جانشینوں کا ہے۔ یہ دور خالص اور کامل طور پر اسلامی نظام کا تھا۔ یعنی اسلامی جمہوریت (ری پبلک) اپنی اصلی صورت میں قائم تھی۔ ایرانی شہنشاہی اور رومی امارت (Aristocracy) کا کوئی اثر ابھی اسلامی مساواتِ عامہ (Democracy) پر نہیں پڑا تھا۔ اسلامی جمہوریت کا خلیفہ خود بھی طبقہ عوام (ڈیمو کریٹ) کا ایک فرد ہوتا تھا اور ایک عام فرد قوم کی طرح زندگی کا بسر کرتا تھا۔ وہ دارالخلافت کے ایک خس پوش چھپر میں رہتا تھا اور چار چار پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتا، اسلام کے دارالخلافت میں امریکن ری پبلک کا کوئی قصرِ سفید (وائٹ ہاؤس) نہ تھا۔

دوسرا دور شخصی حکمرانی اور شہنشاہی کا ہے جو خاندانِ بنو امیہ سے شروع ہوا۔ اس دور میں اسلامی جمہوریت درہم برہم ہو گئی۔ قوم کے انتخاب کی جگہ طاقت و تسلط کا دور شروع ہو گیا۔ شاہی خاندان سے طبقۂ امراء (ارسٹوکریٹ) کی بنیاد پڑی اور اسلام کے گلیم پوش خلیفہ کی جگہ شہنشاہیت کا تاج و تخت نمودار ہو گیا۔

تاہم مسلمانوں کی زبانیں جس طرح پہلے دور کی آزادی میں بے روک تھیں، اسی طرح دوسرے دور کے جبر و استبداد میں بے خوف رہیں۔ میں بتلانا چاہتا ہوں کہ تعزیراتِ ہند (پینل کوڈ) کی طرح اسلامی قانون میں کوئی دفعہ 124۔الف نہیں ہے۔

پہلے دور کے مسلمانوں کی حق گوئی کا یہ حال تھا کہ دارالخلافت کی ایک بڑھیا عورت خلیفہ وقت سے بر سر عام کہہ سکتی تھی "اگر تم انصاف نہ کرو گے تو تکلے کی طرح تمہارے بل نکال دیں گے۔ ” لیکن وہ مقدمہ بغاوت چلانے کی جگہ خدا کا شکر ادا کرتا کہ قوم میں اسی راست باز زبانیں موجود ہیں ! عین جمعہ کے مجمع میں جب خلیفہ منبر پر خطبہ کے لیے کھڑا ہوتا اور کہتا ” اسمعو و اطیعوا” سنو اور اطاعت کرو۔ تو ایک شخص کھڑا ہو جاتا اور کہتا۔ "نہ تو سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے۔ ”

 

               کیوں ؟

 

"اس لیے کہ تمہارے جسم پر جو چُغہ ہے وہ تمہارے حصہ کے کپڑے سے زیادہ کا بنا ہوا ہے اور یہ خیانت ہے۔ ”

اس پر خلیفہ اپنے لڑکے سے گواہی دلاتا۔ وہ اعلان کرتا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی اپنے باپ کو دے دیا تھا۔ اس سے چُغہ تیار ہوا۔

قوم کا یہ طرز اس خلیفہ کے ساتھ تھا، جس کی صولت اور سطوت نے مصر اور ایران کا تخت اُلٹ دیا تھا تاہم اسلامی حکومت میں کوئی دفعہ 124-الف نہ تھی۔

دوسرا دور شخصی جبر و استبداد (Autocracy) کا تھا، جس کی پہلی ضرب آزادی رائے اور آزادی تقریر ہی پر پڑتی ہے۔ لیکن اس دور مین بھی زبانوں کی بے باکی اور دلوں کی بے کوفی اسی طرح سرگرم رہی اور قید خانے کی تاریک کوٹھریاں، تازیانوں کی ضرب اور جلاد کی تیغ بھی اُنہیں روک نہ سکی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی (صحابہ کرام) جب تک زندہ رہے، وقت کے جابر بادشاہوں کے ظلم کا اعلان کرتے رہے اور برابر مطالبہ کرتے رہے کہ حکومت قوم کے مشورہ اور انتخاب سے ہونی چاہیے۔ جو لوگ ان کے تربیت یافتہ تھے (تابعین) ان کا اعلان بھی بعینہ یہی رہا کہ "درست ہو جاؤ یا مٹ جاو۔”

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ نے (جن کو یورپ کے مورخین فلسفہ بھی al-Ghazali کے نام سے پہچانتے ہیں اور اب میڈیم کاریلی کے ناول Ardath کے دوسرے باب نے انگریزی علم و ادب کو بھی روشناس کر دیا ہے ) صرف ان اصحابہ اور تابعین کا ذکر کیا ہے جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے زمانے تک موجود تھے اور جنہوں نے حکمرانوں کے مظالم کا اعلان کر کے ہمیشہ منصفانہ اور نیابتی گورنمنٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی تعداد 23 سے بھی زیادہ ہے۔

ہشام بن عبد الملک نے طاؤس یمانی کو بلایا۔ وہ آئے، مگر اس کا نام لے کر سلام کیا ” امیر المومنین” یعنی قوم کا سردار نہ کہا، جو مسلمان خلفأ کا لقب تھا۔

ہشام نے سبب پوچھا تو کہا: "قوم تیری حکومت سے راضی نہیں۔ اس لیے تجھے ان کا امیر کہنا جھوٹ ہے۔ ”

ہشام نے کہا: نصیحت کیجئے۔ فرمایا: "خدا سے ڈر، کیونکہ تیرے ظلم سے زمین بھر گئی۔”

مالک بن دینار بصرہ کی جامع مسجد میں اعلان کرتے "ان ظالم بادشاہوں کو خدا نے اپنے بندوں کا چرواہا بنایا تھا تا کہ ان کی رکھوالی کریں۔ پر اُنہوں نے بکریوں کا گوشت کھا لیا۔ بالوں کا کپڑا "بُن” کر پہن لیا اور صرف ہڈیاں چھوڑ دیں۔ ”

سلیمان بن عبد الملک جیسے ہیبت ناک خلیفہ سے ابو حازم کہتے :

    "ان ابائک فھروا الناس بالسیف، واخذ الملک عنوۃ من گیر مشورۃ من المسلمین و الا رضا منھم۔”

تیرے باپ دادوں نے تلوار کے زور سے لوگوں کو مقہور کیا اور بلا قوم کی رائے اور انتخاب کے مالک بن بیٹھے۔ سلیمان نے کہا : اب کیا کیا جائے ؟ جواب دیا "جن کا حق ہے انہیں لوٹا دے۔ ” کہا: میرے لیے دُعا کیجئے۔ فرمایا "خدایا! اگر سلیمان حق پر چلے تو اسے مہلت دے۔ لیکن اگر ظلم سے باز نہ آئے تو پھر تُو ہے اور اس کی گردن۔”

سعید بن مسیب بہت بڑے تابعی تھے۔ وہ علانیہ بر سر بازار حکام کے ظلم و جور کا اعلان کرتے اور کہتے ” کتوں کا پیٹ بھرتے ہو مگر انسانوں کو تم سے امان نہیں۔ ”

اس عہد کے بعد مسلمان عالموں اور پیشواؤں کی حق گوئی کا یہی عالم رہا۔ منصور عباسی کے خوف ہیبت سے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ کانپا کرتے تھے۔ سفیان ثوری سے ایک بار اس نے کہا ” مجھ سے اپنی کوئی حاجت بیان کیجیئے۔ ” اُنہوں نے جواب دیا۔ "اتق اللہ فقد ملأت الارض ظلماً و جوراً خدا سے ڈر۔ زمین طلم و جوف سے بھر گئی ہے۔

جب مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید تخت نشین ہوا (جس نے فرانس کے شارلیمین کو ایک عجیب گھڑی بطور تحفہ کے بھیجی تھی اور قیصر روم کو بقول گبن "اے کتے کے بچے ” کے لقب سے خط لکھا تھا) تو اس نے انہی سفیان ثوری کو اپنے ہاتھ سے اشتیاق ملاقات کا خط لکھ کر بھیجا۔ خط میں لکھا تھا کہ میں نے تخت نشینی کی خوشی میں بے شمار مال و دولت لوگوں میں تقسیم کی ہے۔ تم بھی مجھ سے آ کر ملو۔ سفیان کوفہ کی مسجد میں ایک بڑے مجمع کے اندر بیٹھے تھے کہ یہ خط پہنا۔ لیکن اُنہوں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا۔ "جس چیز کا ایک ظالم کے ہاتھ نے چھوا ہے، میں اسے چھونا نہیں چاہتا۔”

جب پڑھ کر سنایا گیا تو اسی کی پشت پر جواب لکھوا دیا "خدا کے مغرور بندے ہارون کو جس کا ذوق ایمان سلب ہو چکا ہے، معلوم ہو۔ تو نے قوم کا ملا بلا کسی حق کے اپنی تخت نشینی کی خوشی میں لٹایا اور اس کا حال لکھ کر اپنے گناہ پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو بھی گواہ ٹھہرایا۔ پس ہم سب کل کو اللہ کے آگے اس کی گواہی دیں گے۔ اے ہارون! تو نے انصاف و حق سے کنارہ کیا۔ تو نے پسند کیا کہ ظالم بنے اور ظالموں کی سرداری پائے۔ تیرے حاکم بندگانِ خدا کو ظلم و جور سے پامال کر رہے ہیں اور تو تخت شاہی پر عیش و عشرت کر رہا ہے۔ ” ہارون نے جب یہ خط پڑھا تو بے اختیار رونے لگا اور کہا۔ یہ خط ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا!

مسلمان عالموں اور اماموں پر موقوف نہیں، اس عہد کا ہر عام فرد بھی اس اعلان میں بالکل بے خوف تھا۔ منصور عباسی ایک دن کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ آواز آئی کہ کوئی شخص دعا مانگ رہا ہے۔ ” خدایا! میں تیرے آگے فریاد کرتا ہوں۔ ظلم غالب آ گیا ہے اور حق اور حقداروں کے درمیان روگ بن گیا ہے۔ ” منصور نے اس شخص کو بلا کر پوچھا۔ "وہ کون ہے جس کا ظلم روگ بن گیا ہے ؟” کہا: "تیرا وجود اور تیری حکومت!”

حجاج بن یوسف کا ظلم و ستم تاریخ اسلام کا نہایت مشہور واقعہ ہے۔ لیکن اس کی بے پناہ تلوار بھی مسلمانوں کی حق گوئی پر غالب نہ آ سکی۔ حطیط جب گرفتار ہو کر آیا تو پوچھا : اب میرے لیے کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: "تو خدا کی زمین پر اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ” پوچھا خلیفہ کے لیے کیا کہتے ہو؟ کہا: "اس کا جرم تجھ سے بھی زیادہ ہے۔ تیرا ظلم تو اس کے بے شمار ظلموں میں سے صرف ایک ظلم ہے۔ ”

مامون الرشید کے عہد میں ایسے مسلمان موجود تھے جو پکار پکار برسر دربار کہتے "یا ظالم! انا ظالم ان لم اقل لک ظالم!” اے ظالم! میں ظالم ہوں اگر تجھے ظالم کہہ کر نہ پکاروں۔

 

               فتنۂ تاتار اور فتنۂ یورپ

 

یہ تاریخ اسلام کے ابتدائی اوراق ہیں، لیکن اس عہد کے بعد بھی ہر دور کا یہی حال رہا۔ مسلمانوں کے لیے موجودہ عہد کا عالمگیر فتنہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے ہی سیلاب میں ڈوب کر اچھل چکے ہیں۔ جس طرح آج یورپ اور علی الخصوص انگلستان کے ظہور و تسلط سے تمام ایشیا اور اسلامی ممالک کی آزادی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پندرھویں صدی عیسوی میں بھی تاتاریوں کے وحشیانہ تسلط سے ظہور میں آیا تھا۔ یورپ کے فتنہ کا آخری نتیجہ عثمانی خلافت کی پامالی اور ایشیائے کوچک کا قتلِ عام ہے۔ تاتاری     فتنہ کی آخری وحشت ناکی عباسی خلافت کا خاتمہ اور بغداد کا قتل عام تھا۔ تاتاری انسان نہیں تھے، درندے تھے۔ تاہم ہلاکو خان، منکو خان آباقاآن خان جیسے سفاکوں کے زمانے میں بھی وہ مسلمان موجود رہے جن کی زبانیں اعلان حق میں ان تلواروں سے زیادہ تیز تھیں۔ شیخ سعدی شیرازی نے (جن کی گلستان کا نام اس کوتٹ نے بھی سنا ہو گا) ہلاکو خان کے منہ پر اسے ظالم کہا۔ شمس الدین تیاری نے منکو خان کے دربار میں اس کی ہلاکت کی دعا مانگی۔ شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ نے آباقا آن پر برسر دربار لعنت بھیجی۔ تاتاریوں کے پاس بے دریغ قتل کر دینے کا قانون تھا۔ تاہم "تورۂ چنگیز خانی” (قوانین چنگیز خان) میں کوئی دفعہ 124-الف نہ تھی۔

 

               "حجاج” اور "ریڈنگ”

 

ہم مسلمانوں کا جب اپنی قومی گورنمنٹوں کے ساتھ (جن کی اطاعت از روئے شرع ہم پر واجب ہے ) ایسا سلوک رہا ہے، تو پھر ایک اجنبی گورنمنٹ کے کارندے ہم سے کیا امید رکھتے ہیں ؟ کیا ہندوستان کی ” ازروئے قانون قائم شدہ” گورنمنٹ ہمارے لیے اس گورنمنٹ سے بھی زیادہ محترم ہے جو ” ازروئے شریعتِ اسلام” واجب الاطاعت ہے ؟ کیا انگلستان کی بادشاہت اور لارڈ ریڈنگ کی نیابت عبد الملک کی خلافت اور حجاج بن یوسف کی نیابت سے بھی ہمارے لیے زیادہ مقتدر ہو سکتی ہے ؟ اگر ہم ” اجنبی و غیر مسلم ” اور ” قومی و مسلم ” کا عظیم الشان اور شرعی فرق بالکل نظر انداز کر دیں، جب بھی ہم سے صرف یہی امید کی جا سکتی ہے کہ جو کچھ حجاج بن یوسف اور خالد قسری کی گورنمنٹوں کے لیے کہہ چکے ہیں، وہی ” چمسفورڈ ” اور "ریڈنگ” کی گورنمنٹوں کے لیے بھی کہیں۔ ہم نے ان سے کہا تھا۔ ” اتق اللہ فقد ملأت الارض ظلماً و جوراً” خدا سے ڈرو کیونکہ تمہارے ظلم سے زمین بھر گئی ہے، یہی ہم آج بھی کہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے آج ہندوستان میں جو کچھ کر رہے ہیں، وہ دراصل قومی حکمرانوں کے ظلم و جور کے لیے ہمیں بتلایا گیا تھا، نہ کہ ایک اجنبی قبضہ و تصرف کے مقابلہ میں۔ اگر برٹش گورنمنٹ کے ارکان اس حقیقت کو سمجھتے ہیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑتا کہ مسلمانوں کے تسامح اور درگزر کی حد ہو گئی ہے۔ اس سے زیادہ وہ اسلام کو برطانیہ کے لیے نہیں چھوڑ سکتے !

اسلام نے حکمرانوں کے ظلم مقابلہ میں دو طرح کے طرز عمل کا حکم دیا ہے کیونکہ حالتیں بھی دو مختلف ہیں : ایک ظلم اجنبی قبضہ و تسلط کا ہے۔ ایک خود مسلمان حکمرانوں کا ہے۔ پہلے کے لیے اسلام کا حکم ہے کہ تلوار سے مقابلہ کیا جائے۔ دوسرے کے لیے حکم ہے کہ تلوار سے مقابلہ تو نہ کیا جائے لیکن ” امر بالمعروف ” اور اعلان حق جس قدر بھی امکان میں ہو، ہر مسلمان کرتا رہے۔ پہلی صورت میں دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہونا پڑے گا۔ دوسرے صورت میں ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اور سزائیں جھیلنی پڑیں گے۔ مسلمانوں کو دونوں حالتوں میں دونوں طرح کی قربانیاں کرنی چاہئیں اور دونوں کا نتیجہ کامیابی اور فتح مندی ہے۔ چنانچہ گذشتہ تیرہ صدیوں میں مسلمانوں نے دونوں طرح کی قربانیاں کیں۔ اجنبیوں کے مقابلے میں سرفروشی بھی کی اور اپنوں کے مقابلے میں صبر و استقامت بھی دکھلائی۔ پہلی صورت میں جس طرح ان کی ” جنگی جد و جہد ” کوئی مثال نہیں رکھتی۔ اسی طرح دوسری صورت میں ان کی ” شہری جد و جہد ” بھی عدیم النظیر ہے۔

ہندوستان میں آج مسلمانوں نے دوسری صورت اختیار کی ہے، حالانکہ مقابلہ ان کا پہلی حالت سے ہے۔ ان کے لیے ” جنگی جد و جہد ” کا وقت آ گیا تھا۔ لیکن انہوں نے "شہری جد و جہد ” کو اختیار کیا۔ اُنہوں نے "نان وائلنس” رہنے کا فیصلہ کر کے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ ہتھیار سے مقابلہ نہ کریں گے یعنی صرف وہی کریں گے جو انہیں مسلمان حکومتوں کے ظلم کے مقابلے میں کرنا چاہیے۔ بلاشبہ اس طرزِ عمل میں ہندوستان کی ایک خاص طرح کی حالت کو بھی دخل ہے۔ لیکن گورنمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ اس سے زیادہ بدبخت     مسلمان اور کیا کر سکتے ہیں ؟ حد ہو گئی کہ اجنبیوں کے ظلم کے مقابلہ میں وہ بات کر رہے ہیں جو انہیں اپنوں کے مقابلہ میں کرنی تھی!

 

               انقلابِ حال

 

میں سچ کہتا ہوں۔ مجھے اس کی رائی برابر شکایت نہیں کہ سزا دلانے کے لیے مجھ پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔ یہ بات تو بہرحال ہونی ہی تھی۔ لیکن حالات کا یہ انقلاب میرے لیے بڑا ہی درد انگیز ہے کہ ایک مسلمان سے کتمانِ شہادت کی توقع کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم کو صرف اس لیے ظلم نہ کہے کہ دفعہ 124-الف کا مقدمہ چلایا جائے گا!

مسلمانوں کو حق گوئی کا جو نمونہ ان کی قومی تاریخ دکھلاتی ہے، وہ تو یہ ہے کہ ایک جابر حکمران کے سامنے ایک بے پروا انسان کھڑا ہے۔ اس پر الزام یہی ہے کہ اس نے حکمران کے ظلم کا اعلان کیا ہے۔ اس کی پاداش میں اس کا ایک ایک عضو کاٹا جا رہا ہے۔ لیکن جب تک زبان نہیں کٹ جاتی، وہ یہی اعلان کرتی رہتی ہے کہ حکمران ظالم ہے ! یہ واقعہ خلیفہ عبد الملک کے زمانہ کا ہے جس کی حکومت افریقہ سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ تم دفعہ 124-الف کو اس سزا کے ساتھ تول لے سکتے ہو!

میں اس درد انگیز اور جانکاہ حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ اس انقلاب حالت کے ذمہ دار کود مسلمان ہی ہیں۔ اُنہوں نے اسلامی زندگی کے تمام خصائص کھو دیئے اور ان کی جگہ غلامانہ زندگی کے تمام رذائل قبول کر لیے۔ ان کی موجودہ حالت سے بڑھ کر دنیا اسلام کے لیے کوئی فتنہ نہیں۔ جبکہ میں یہ سطر لکھ رہا ہوں، تو میرا دل شرمندگی کے غم سے پارہ پارہ ہو رہا ہے کہ اسی ہندوستان میں وہ مسلمان بھی موجود ہیں جو اپنی ایمانی کمزوری کی وجہ سے علانیہ ظلم کی پرستش کر رہے ہیں !

 

               آزادی یا موت

 

لیکن انسانوں کی بد عملی سے تعلیم کی حقیقت نہیں جھٹلائی جا سکتی۔ اسلام کی تعلیم اس کتاب میں موجود ہے۔ وہ کسی حال میں بھی جائز نہیں رکھتی کہ آزادی کھو کر مسلمان زندگی بسر کریں۔ مسلمانوں کو مٹ جانا چاہیے۔ یا آزاد رہنا چاہیے۔ تیسری راہ اسلام میں کوئی نہیں ہے۔

اس لیے میں نے آج سے بارہ سال پہلے "الہلال” کے ذریعہ مسلمانوں کو یاد دلایا تھا کہ آزادی کی راہ میں قربانی و جان فروشی ان کا قدیم اسلامی ورثہ ہے۔ ان کا اسلامی فرض ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کو اس راہ میں اپنے پیچھے چھوڑ دیں۔ میری صدائیں بے کار نہ گئیں۔ مسلمانوں نے اب آخری فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو غلامی سے نجات دلائیں۔

 

               مسئلہ خلافت و پنجاب

 

10) میں یہاں گورنمنٹ کی ان نا انصافیوں کا افسانہ نہیں چھیڑوں گا جو مسئلہ "خلافت” اور "مظالم پنجاب” کا عالمگیر افسانہ ہیں۔ لیکن میں اقرار کروں گا کہ گزشتہ دو سال کے اندر کوئی صبح و شام مجھ پر ایسی نہیں گزری ہے، جس میں، میں نے "خلافت” اور "پنجاب” کے لیے گورنمنٹ کے مظالم کا اعلان نہ کیا ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے۔ جو گورنمنٹ اسلامی خلافت کو پامال کر رہی ہو اور مظالم پنجاب کے لیے کوئی تلافی اور شرمندگی نہ رکھتی ہو، ایسی گورنمنٹ کے لیے کسی ہندوستانی کے دل میں وفاداری نہیں ہو سکتی۔ گورنمنٹ کی جگہ وہ ایک فریق محارب کی حیثیت رکھتی ہے۔

میں نے 13۔دسمبر 1918عیسوی کو (جب میں رانچی میں گورنمنٹ آف انڈیا کے حکم سے نظر بند تھا) لارڈ چمسفورڈ کو ایک مفصل چٹھی لکھی تھی۔ اس میں واضح کر دیا تھا کہ خلافت اور جزیرۃ العرب کے بارے میں اسلامی احکام کیا ہیں ؟ میں نے لکھا تھا کہ اگر برٹش گورنمنٹ اسلامی خلافت اور اسلامی ممالک پر خلاف وعدہ متصرف ہو گئی، تو اسلامی قانون     کی رو سے ہندوستانی مسلمان ایک انتہائی کشمکش میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ان کے لیے صرف دو ہی راہیں رہ جائیں گی یا اسلام کا ساتھ دیں، یا برٹش گورنمنٹ کا۔ وہ مجبور ہوں گے کہ اسلام کا ساتھ دیں۔

بالآخر وہی ہوا۔ گورنمنٹ صریح وعدہ خلافی سے باز نہ رہی۔ اس وعدہ کا بھی ایفا ضروری نہ سمجھا گیا جو گورنمنٹ آف انڈیا نے 2-نومبر 1914 عیسوی کے اعلان میں کیا تھا اور وہ وعدہ بھی فریبِ وقت ثابت ہوا جو مسٹر لارڈ جارج وزیر اعظم انگلستان نے 5-جنوری 1918 عیسوی کو ہاؤس آف کامنز کی تقریر میں کیا تھا۔ شریف آدمیوں کے لیے وعدہ خلافی عیب ہے، لیکن طاقتور حکومتوں کے لیے کوئی بات بھی عیب نہیں ہے۔

اس حالت نے مسلمانوں کے لیے آخری درجہ کی کشمکش پیدا کر دی۔ اسلامی قانون کی رو سے کم از کم بات جو ان کے فرائض میں داخل تھی، یہ تھی کہ ایسی گورنمنٹ کی اعانت اور کوآپریشن سے ہاتھ کھینچ لیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ اس وقت تک اس پر قائم رہیں گے، جب تک انہیں اپنے مذہب کے اٹل احکام عزیز ہیں۔

مسلمانوں کو یقین ہو گیا ہے کہ اگر وہ حق و انصاف چاہتے ہیں تو اس کی راہ صرف ایک ہی ہے۔ سوراج کا حصول۔ یعنی ایسی قومی گورنمنٹ کا حصول، جو ہندوستانیوں کی ہو، ہندوستان میں ہو اور ہندوستان کے لیے ہو۔

 

               اگر ظلم نہیں تو کیا عدل ہے ؟

 

11) غرض اس بارے میں میرا اقرار بالکل صاف اور واضح ہے۔ موجودہ گورنمنٹ محض ایک ناجائز بیوروکریسی ہے۔ وہ کروڑوں انسانوں کی مرضی اور خواہش کے لیے محض نفی ہے، وہ ہمیشہ انصاف اور سچائی پر پرسٹیج کو ترجیح دیتی ہے، وہ جلیانوالہ باغ امرتسر کا وحشیانہ قتل عام جائز رکھتی ہے، وہ انسانوں کے لیے اس حکم میں کوئی نا انصافی نہیں مانتی کہ چار پایوں کی طرح پیٹ کے بل چلائے جائیں وہ بے گناہ لڑکوں کو صرف اس لیے تازیانے کی ضرب سے بے ہوش ہو جانے دیتی ہے کہ کیوں ایک بت کی طرح "یونین جیک” کو سلام نہیں کرتے ؟ وہ تیس کروڑ انسانوں کی پیہم التجاؤں پر بھی اسلامی خلافت کی پامالی سے باز نہیں آتی، وہ اپنے تمام وعدوں کے توڑنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتی، وہ سمرنا اور تھریس کو صریح نا منصفانہ طور پر یونانیوں کے حوالہ کر دیتی ہے اور پھر تمام اسلامی آبادی کے قتل و غارت کا تماشہ دیکھتی ہے۔

انصاف کی پامالی میں اس کی جرات ان تھک اور دلیری بالکل بے باک ہے اور حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے اس کے منہ میں کوئی لگام نہیں۔ سمرنا 80 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے، مگر وزیر اعظم بغیر کسی شرمندگی کے مسیحی آبادی کی کثرت کا اعلان کر دیتا ہے۔ یونانی حکومت تمام اسلامی آبادی کو خون اور آگ کے سیلاب میں غرق کر دیتی ہے، لیکن وہ بے دھڑک ترکی مظالم کی فرضی داستانیں بیان کرتا رہتا ہے اور خود انگلستان کے بھیجے ہوئے امریکن کمیشن کی رپورٹ پوشیدہ کر دی جاتی ہے!

پھر نہ تو ان تمام مظالم و جرائم کے لیے اس کے پاس اعتراف ہے، نہ تلافی۔ بلکہ ملک کی جائز اور با امن جد و جہد کو پامال کرنے کے لیے ہر طرح کا جبر و تشدد شروع کر دیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو گزشتہ ایک سال کے اندر ہو چکا ہے اور 18 نومبر سے اس وقت تک ملک کے ہر حصہ میں ہو رہا ہے۔ میں اگر ایسی گورنمنٹ کو "ظالم” اور "یا درست ہو جاؤ یا مٹ جاؤ” نہ کہوں، تو کیا "عادل” اور "نہ درست ہو، نہ مٹو” کہوں ؟

کیا صرف اس لیے کہ ظالم طاقتور ہے اور اس کے پاس جیل ہے، اس کا حق دار ہو جاتا ہے کہ اس کا نام بدل دیا جائے ؟ میں اٹلی کے نیک اور حریت پرست جوزف میزینی (massini)کی زبان میں کہوں گا ” ہم صرف اس لیے کہ تمہارے ساتھ عارضی طاقت ہے، تمہاری برائیوں سے انکار نہیں کر سکتے۔ ”

 

               "جرم” کا قدیم اور ناقابلِ شمار ارتکاب

 

12) میں نہایت متعجب ہوں کہ میرے خلاف صرف یہی دو ناتمام اور ناکافی تقریریں کیوں پیش کی گئی ہیں ؟ کیا ان ہزاروں صفحات سے جو میرے قلم سے نکل چکے ہیں اور ان بے شمار تقریروں سے جن کی صدائیں ہندوستان کے ایک ایک گوشہ میں گونج چکی ہیں، صرف یہی سرمایہ گورنمنٹ بہم پہنچا سکی؟ میں اقرار کرتا ہوں کہ میری کوئی تقریر گذشتہ دو سال کے اندر ایسی نہیں ہوئی جس میں یہ تمام باتیں میں نے بیان نہ کی ہوں۔

میں مسلسل بارہ سال سے اپنی قوم و ملک کو آزادی و حق طلبی کی تعلیم دے رہا ہوں۔ میری عمر 18 برس کی تھی جب میں نے اس راہ میں تقریر و تحریر شروع کی۔ میں نے زندگی کا بہترین حصہ یعنی عہد شباب صرف اسی مقصد کے عشق میں قربان کر دیا۔ میں اسی کی خاطر چار سال تک نظر بند رہا، مگر نظر بندی میں میری ہر صبح و شام اسی کی تعلیم و تبلیغ میں بسر ہوئی۔ "رانچی کے در و دیوار اس کی شہادت دے سکتے ہیں جہاں میں نے نظر بندی کا زمانہ بسر کیا ہے۔ یہ تو میری زندگی کا دائمی مقصد ہے۔ میں صرف اسی کام کے لیے جی سکتا ہوں : إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ الانعام۔ آیت 162)۔

 

                   آخری اسلامی تحریک

 

13) میں اس "جرم” سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں جب میں ہندوستان کی اس آخری "اسلامی تحریک” کا داعی ہوں، جس نے مسلمانانِ ہند کے پولیٹیکل مسلک میں ایک انقلابِ عظیم پیدا کر دیا اور بالآخر وہاں تک پہنچا دیا جہاں آج نظر آ رہے ہیں۔ یعنی ان میں سے ہر فرد میرے اس جرم میں شریک ہو گیا۔ میں نے 1912 عیسوی میں اردو جرنل "الہلال” جاری کیا جو اس تحریک کا آرگن تھا اور جس کی اشاعت کا تمام تر مقصد وہی تھا جو اوپر ظاہر کر چکا ہوں۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ "الہلال” نے تین سال کے اندر مسلمانان ہند کی مذہبی اور سیاسی حالت میں ایک بالکل نئی حرکت پیدا کر دی۔ پہلے وہ اپنے ہندو بھائیوں کی پولیٹیکل سرگرمیوں سے نہ صرف الگ تھے، بلکہ اس کی مخالفت کے لیے بیوروکریسی کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح کام دیتے تھے۔ گورنمنٹ کی تفرقہ انداز پالیسی نے انہیں فریب میں مبتلا کر رکھا تھا کہ ملک میں ہندوؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہندوستان اگر آزاد ہو گیا تو ہندو گورنمنٹ قائم ہو جائے گی۔ مگر "الہلال” نے مسلمانوں کی تعداد کی جگہ ایمان پر اعتماد کرنے کی تلقین کی اور بے خوف ہو کر ہندوؤں کے ساتھ مل جانے کی دعوت دی۔ اسی سے وہ تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا نتیجہ آج متحدہ تحریک خلافت و سوراج ہے۔ بیوروکریسی ایک ایسی تحریک کو زیادہ عرصہ تک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے پہلے "الہلال” کی ضمانت ضبط کی گئی۔ پھر جب "البلاغ” کے نام سے دوبارہ جاری کیا گیا تو 1916 عیسوی میں گورنمنٹ آف انڈیا نے مجھے نظر بند کر دیا۔

میں بتلانا چاہتا ہوں کہ "الہلال” تمام تر ” آزادی یا موت” کی دعوت تھی۔ اسلام کی مذہبی تعلیمات کے متعلق اس نے جس مسلک بحث و نظر کی بنیاد ڈالی، اس کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے۔ صرف اس قدر اشارہ کروں گا کہ ہندوؤں میں آج مہاتما گاندھی مذہبی زندگی کی جو روح پیدا کر رہے ہیں، "الہلال” اس کام سے 1914 میں فارغ ہو چکا تھا۔ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں، دونوں کی نئی اور طاقتور سرگرمی اسی وقت شروع ہوئی، جب دونوں میں مغربی تہذیب کی جگہ مذہبی تعلیم کی تحریکوں نے پوری طرح فروغ پا لیا۔

 

 

               خلافت کانفرنس کلکتہ

 

14) چار سال بعد پہلی جنوری 1920 عیسوی کو میں رہا کیا گیا۔ اس وقت سے گرفتاری کے لمحہ تک، میرا تمام وقت انہی مقاصد کی اشاعت و تبلیغ میں صرف ہوا ہے۔ 28-29 فروری 1920 عیسوی کو اسی کلکتہ کے ٹاؤں ہال میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا تھا اور     مسلمانوں نے مایوس ہو کر اپنا آخری اعلان کر دیا تھا :

"اگر برٹش گورنمنٹ نے مطالبات خلافت کی اب بھی سماعت نہ کی، تو مسلمان اپنے شرعی احکام سے مجبور ہو جائیں گے کہ تمام وفادارانہ تعلقات منقطع کر لیں۔ ”

میں اس کانفرنس کا پریزیڈنٹ تھا۔

میں نے اس کے طولانی پریزیڈنشل ایڈریس میں وہ تمام امور بالتفصیل بیان کر دیئے تھے جو اس قدر ناقص شکل میں ان دو تقریروں کے اندر دکھلائے گئے ہیں۔

 

               موالات اور فوجی ملازمت

 

میں نے اسی ایڈریس میں اسلامی حکم کی بھی تشریح کر دی تھی جس کی بنا پر مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے کہ موجودہ حالت میں گورنمنٹ سے "ترک موالات” کریں۔ یعنی کوآپریشن اور اعانت سے ہاتھ کھینچ لیں۔ یہی "ترک موالات” ہے، جو آگے چل کر "نان کوآپریشن” کی شکل میں نمودار ہوا اور مہاتما گاندھی جی نے اس کی سربراہی کی۔

اسی کانفرنس میں فوج کے متعلق وہ ریزولیوشن منظور ہوا تھا، جس میں اسلامی قانون کے بموجب مسلمانوں کے لیے فوجی نوکری ناجائز بتلائی گئی تھی۔ کیونکہ گورنمنٹ اسلامی خلافت اور اسلامی ملکوں کے خلاف بر سر پیکار ہے۔ کراچی کا مقدمہ اسی ریزولیوشن کی بنا پر چلایا گیا۔ میں بار بار اخبارات اور تقریروں میں اعلان کر چکا ہوں کہ یہ ریزلیوشن سب سے پہلے میں نے ہی تیار کیا تھا اور میری ہی صدارت میں تین مرتبہ منظور ہوا۔ سب سے پہلے کلکتے میں۔ پھر بریلی اور لاہور میں۔ پس اس "جرم” تقریر کا پہلا حق دار میں ہی ہوں۔

میں نے اس ایڈریس کو مزید اضافہ کے بعد کتاب کی شکل میں بھی مرتب کیا، جو انگریزی ترجمہ کے ساتھ بار بار شائع ہو چکا ہے اور گویا میرے "جرائم” کا ایک تحریری ریکارڈ ہے۔

 

               میری زندگی سر تا سر 124 ہے

 

15) میں نے گزشتہ دو سال کے اندر تنہا اور مہاتما گاندھی کے ساتھ تمام ہندوستان کا بار بار دورہ کیا۔ کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں میں نے خلافت، پنجاب، سوراج اور نان کوآپریشن پر بار بار تقریریں نہ کی ہوں اور وہ تمام باتیں نہ کہی ہوں جو میری ان دو تقریروں میں دکھلائی گئی ہیں۔

دسمبر 1920 عیسوی میں انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ آل انڈیا خلاف کانفرنس کا بھی اجلاس ہوا، اپریل 1921 عیسوی میں جمعیۃ العلمأ کا بریلی میں جلسہ ہوا، گزشتہ اکتوبر میں یو پی پراونشل خلافت کانفرنس آگرہ میں منعقد ہوئی، نومبر میں آل انڈیا علماء کانفرنس کا لاہور میں اجلاس ہوا۔ ان تمام کانفرنسوں کا بھی میں ہی صدر تھا۔ لیکن ان میں بھی تمام مقررین نے جو کچھ کہا اور صدارتی تقریروں میں، میں نے جو خیالات ظاہر کئے، ان سب میں وہ تمام باتیں موجود تھیں، جو ان دو تقریروں میں دکھلائی گئی ہیں۔ بلکہ میں اقرار کرتا ہوں کہ ان سے بہت زیادہ قطعی و واضح خیالات ظاہر کئے گئے تھے۔

اگر میری ان دو تقریروں کے مطالب دفعہ 124-الف کا جرم ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ صرف پہلی اور پندرھویں جولائی ہی کا ارتکاب کیوں منتخب کیا گیا ہے ؟ میں تو اسی کثرت کے ساتھ اس کا ارتکاب کر چکا ہوں کہ فی الواقع اس کا شمار میرے لیے ناممکن ہو گیا ہے۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ میں نے گزشتہ سالوں کے اندر بجز 124-الف کے اور کوئی کام نہیں کیا۔

 

               نان وایلنس – نان کوآپریشن

 

16) ہم نے آزادی اور حق طلبی کی اس جنگ میں "نان وایلنس، نان کوآپریشن” کی راہ اختیار کی ہے۔ ہمارے مقابلے میں طاقت اپنے تمام جبر و تشدد اور خونریز وسائل کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن ہمارا اعتماد صرف خدا پر ہے اور اپنی غیر مختتم قربانی اور غیر متزلزل استقامت پر۔ مہاتما گاندھی کی طرح میرا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ کسی حال میں بھی ہتھیار کا مقابلہ ہتھیار سے نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام نے جن حالتوں میں اس کی اجازت دی ہے،     میں اسے فطرتِ الٰہی اور عدل و اخلاق کے مطابق یقین کرتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی اور موجودہ جد و جہد کے لیے مہاتما گاندھی کے تمام دلائل سے متفق ہوں اور ان دلائل کی سچائی پر پورا اعتقاد رکھتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ ہندوستان نان وایلنس جد و جہد کے ذریعے فتح مند ہو گا اور اس کی فتح مندی اخلاقی اور ایمانی طاقت کی فتح مندی کی ایک یادگار مثال ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ لوگوں کو با امن جد و جہد کی تلقین کی اور اس کو کامیابی کی سب سے پہلی شرط قرار دیا۔ خود یہ تقریریں بھی اسی موضوع پر تھیں جیسا کہ پیش کردہ نقول سے ثابت ہوتا ہے۔ میں ان چند مسلمانوں میں سے ہوں جو بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے نہایت مضبوطی کے ساتھ مسلمانوں کو با امن جد و جہد پر قائم نہ رکھا ہوتا، تو نہیں معلوم، مسئلہ خلافت کی وجہ سے ان کا صبر آزما اضطراب کیسی خوفناک شکل اختیار کر لیتا؟ کم از کم ہندوستان کے ہر حصہ میں ایک "مالیبار ” کا منظر تو ضرور نظر آ جاتا۔

 

               سی –آئی-ڈی کے رپورٹرز

 

17) اب جبکہ میں ان دو تقریروں کے تمام ان حصوں کا اقرار کر چکا ہوں جن سے پراسیکیوشن استدلال کر سکتا ہے، تو کوئی مضائقہ نہیں، کہ چند الفاظ ان کی پیش کردہ صورت کی نسبت بھی کہہ دوں۔

سی-آئی-ڈی کے گواہوں نے بیان کیا ہے کہ میری تقریروں کے نوٹس بھی لیے گئے اور مختصر نویسی کے ذریعہ بھی قلمبند کی گئیں۔ جو کاپی داخل کی گئی (اگزویٹ اے اور سی) وہ مختصر نویس کی مرتب کی ہوئی ہے، لیکن یہ میری تقریروں کی ایک ایسی مسخ شدہ صورت ہے کہ اگر چند ناموں اور واقعات کی طرف اشارہ نہ ہوتا تو میرے لیے شناخت کرنا بھی بہت مشکل تھا۔ وہ بلا شبہ ایک چیز ہے جو دور تک پھیلتی ہوئی چلی گئی ہے، لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا چیز ہے ؟ محض بے جوڑ، بے تعلق اور اکثر مقامات پر بے معنی جملے ہیں، جو بغیر کسی ربط اور سلسلہ کے صفحوں پر بکھیر دیئے ہیں۔ گرامر اور محاورہ دونوں سے انہیں یک قلم انکار ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹر تقریر سمجھنے اور قلم بند کرنے سے عاجز تھا۔ اس لیے درمیان سے جملوں کے جملے چھوڑتا جاتا ہے اور تمام حرف ربط و تحلیل تو بالکل ہی حذف کر دیئے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تمام وہ الفاظ جن کی آواز یا اسپیلنگ (املا) میں ذرا سا تھی تشابہ ہے، وہ بالکل ہی بدل گئے ہیں اور عبارت یا تو بے معنی ہو گئی ہے یا محرف۔

مثلاً میں نے یکم جولائی کی تقریر میں مشہور فرنچ شاعر اور ادیب وکٹر ہیوگو کا قول نقل کیا تھا :

"آزادی کا بیج کبھی بار آور نہیں ہو سکتا جب تک ظلم کے پانی سے اس کی آبیاری نہ ہو۔”

مختصر نویس نے "ظلم” کی جگہ "دھرم” لکھ دیا ہے جو صریح غلط اور بے موقع ہے۔ البتہ اس کی آواز "ظلم” سے مشابہ ہے۔

اسی طرح ایک مقام پر :

"انہوں نے جیل خانے کی مصیبت کو برباد کیا ہے ”

حالانکہ مصیبت کو برباد کرنے کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے۔ غالباً میں نے "برداشت کیا ہے ” کہا ہو گا۔ یعنی اُنہوں نے جیل کی مصیبت جھیل لی ہے۔ چونکہ دونوں لفظوں کی آواز ملتی جلتی ہے اور مختصر نویس خود فہم و امتیاز سے محروم ہے، اس لیے "برداشت” کی جگہ "برباد” لکھ گیا!

 

               اردو مختصر نویسی

 

اصل یہ ہے کہ اردو مختصر نویسی کا قاعدہ اور مختصر نویسی کی ناقابلیت، دونوں ان نقائص کے لیے ذمہ دار ہیں۔     اردو مختصر نویسی کا قاعدہ 1905 عیسوی میں کرسچین کالج لکھنؤ کے دو پروفیسروں نے ایجاد کیا، جن میں سے ایک کا نام مرزا محمد ہادی بی-اے ہے۔ میں اس وقت لکھنؤ ہی میں تھا، اس لیے مجھے ذاتی طور پر اس کے دیکھنے اور موجدوں سے گفتگو کرنے کا بارہا اتفاق ہوا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کے موجدوں نے انگریزی علامات کو بہت تھوڑے تغیر کے ساتھ منتقل کر لیا ہے، لیکن وہ اردو حروف و املا کو پوری طرح محفوظ کر دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ خود انہیں بھی ان نقص کا ایک حد تک اعتراف تھا۔ لیکن وہ خیال کرتے تھے کہ مختصر نویس کی ذاتی قابلیت اور حافظہ و مناسبت سے اس کی تلافی ہو جائے گی۔ میں اپنی ذاتی معلومات کی بنأ پر کہتا ہوں کہ تجربے سے ان کا خیال درست نہ نکلا۔

صوبجات متحدہ کی گورنمنٹ نے ابتدائی تجربے کے لیے دو پولیس سب انسپکٹروں کو تعلیم دلائی تھی۔ اُنہوں نے سب سے پہلے آزمائشی طور پر جن پبلک تقریروں کو قلمبند کیا، میں بتلانا چاہتا ہوں کہ وہ میری اور شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی (مرحوم) کی تقریریں تھیں۔ ہم دونوں نے انجمن اسلامیہ ہردوئی کے سالانہ جلسہ میں لیکچر دیئے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا شبلی نے فی منٹ ساٹھ الفاظ کی رفتار سے تقریر کی تھی اور میری تقریر فی منٹ 80 سے 90 تک تھی۔ جیسا کہ خود مختصر نویسوں نے ظاہر کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی تیز رفتار نہ تھی۔ تاہم جب اُنہوں نے اپنا کام مرتب کر کے دکھلایا تو بالکل ناقص اور غلط تھا۔ اس کے بعد بھی مجھے بارہا اپنی تقریروں کے قلم بند کرانے کا اتفاق ہوا، لیکن ہمیشہ ایسا ہی نتیجہ نکلا۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ خلافت کانفرنس آگرہ میں میرا زبانی پریزیڈنشل ایڈریس ایک مشتاق مختصر نویس سید غلام حسنین نے قلم بند کیا جو عرصہ تک یو-پی کے محکمہ سی-آئ-ڈی میں کام کرنے کے بعد مستعفی ہوا ہے۔ لیکن جب لانگ ہینڈ میں مرتب کر کے مجھے دکھلایا گیا تو اس کا کوئی حصہ صحیح اور مکمل نہ تھا۔

یہ تو اصل قاعدہ کا نقص ہے، لیکن جب اس پر مختصر نویس کی ناقابلیت کا بھی اضافہ ہو جائے، تو پھر کوئی خرابی ایسی نہیں ہے جس سے انسانی تقریر مسخ نہ کی جا سکے۔ کلکتہ اور بنگال کی مخصوص حالت نے اس نقص کو اور زیادہ پُر مصیبت بنا دیا ہے۔ یہاں کے دیسی اور یورپین افسر خود اردو زبان سے بالکل واقفیت نہیں رکھتے۔ حتی کہ معمولی طور پر بول بھی نہیں سکتے۔ ان کے نزدیک ہر وہ آدمی جو انگریزی زبان سے کسی مختلف لہجہ میں آواز نکالے، اردو کا اسکالر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پولیس اور عدالت ان رپورٹوں اور مختصر نویسوں کو بطور سند کے استعمال کر رہی ہے، جن بے چاروں کی استعداد پر ہمیشہ ہم لوگ تمسخر کیا کرتے ہیں۔

میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کلکتہ کی پولیس اور عدالتوں میں ایک شخص بھی اردو زبان کے لیے قابل اعتماد نہیں ہے۔ اگر یہاں اس حقیقت کا کچھ بھی احساس ہوتا، تو صرف یہی بات بطور ایک عجیب واقع کے خیال کی جاتی کہ میری تقریروں کے لیے پولیس اور سی-آئی-ڈی کے غریب رپورٹروں کی شہادت لی جا رہی ہے !

میں تسلیم کرتا ہوں کہ کم از کم یہ منظر ضرور میرے لیے تکلیف دہ ہے !

 

               مشرقی لٹریچر اور سرکاری وسائل علم

 

یہ کہنا ضروری نہیں کہ میں اپنے ڈیفنس کی غرض سے ان شہادتوں کی بے اعتمادی ثابت نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو پورا پورا اقرار کر چکا۔ مقصود صرف دو باتوں کا اظہار ہے :

اولاً، جو سرکاری مقدمات اردو تقریر و تحریر کی بناء پر چلائے جاتے ہیں، ان کے وسائل ثبوت کس درجہ ناکارہ اور ناقابل اعتماد ہیں ؟

ثانیاً، ہندوستان کی بیورو کریسی کی نا کامیابی اور نا موافقت۔ وہ ڈیڑھ سو برس تک حکومت کر کے بھی اس قابل نہیں ہوئی کہ ہندوستانی زبانوں کے متعلق صحیح اور مستند ذرائع سے معلومات حاصل کر سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب اکتوبر 1916 عیسوی میں نظر بند کیا گیا اور بہار گورنمنٹ کے حکام اور پولیس افسر (جن کو اردو زبان سے بمقابلہ بنگال سے زیادہ تعلق     ہے ) تلاشی کے لیے آئے، تو انہوں نے میری تمام کتابوں کو بھی ایک خوفناک لٹریچر سمجھ کر نہایت احتیاط کے ساتھ قبضہ میں کر لیا۔ یہ تمام کتابیں عربی اور فارسی زبان میں تھیں اور تاریخ، فقہ اور فلسفہ کا معمولی مطبوعہ ذخیرہ تھا جو بازاروں میں فروخت ہوتا رہتا ہے۔ صرف ایک کتاب "مطالب عالیہ” نامی قلمی تھی جو سب سے زیادہ پراسرار سمجھی گئی۔ لطف یہ ہے کہ ان کی فہرست ڈپٹی کمشنر کی درخواست سے مجھے ہی مرتب کرنی پڑی۔ کیونکہ تفتیشِ جرائم کے اس پورے کمیشن میں ایک شخص بھی اس قابل نہ تھی کہ کتابوں کے ٹائیٹل پیج کو صحت کے ساتھ پڑھ لیتا!

میں نے نظر بندی کے زمانے میں چار سال تک اپنی ڈاک کے لیے خود ہی سنسر شپ کے فرائض بھی انجام دیئے ہیں، کیونکہ جو سرکاری افسر اس غرض سے مقرر کیا گیا تھا، وہ اس قدر قابل آدمی تھا کہ اردو کے معمولی لکھے ہوئے خطوط بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ وہ اکثر میری ڈاک صرف دستخط کر کے بھیج دیتا اور شب کو آ کر مجھ سے اس کا ترجمہ لکھوا لیتا!

جبکہ نظر بندی میں، میں اپنی ڈاک کی خود ہی نگرانی کر رہا تھا، تو شملہ اور دہلی کے حکام اپنی کارفرمائی پر نہایت نازاں تھے ا ور سمجھتے تھے کہ اُنہوں نے اپنے ایک خطرناک دشمن کو بالکل مجبور اور معطل کر دیا ہے !

اس وقت بھی میرے قلمی مسودات کلکتہ پولیس کے قبضہ میں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خوف ناک جرم، تاریخ، تفسیرِ قرآن اور لٹریچر ہے !

میں یہاں عربی داں اشخاص کی دلچسپی کے لیے ان کتابوں کے چند نام درج کر دیتا ہوں جنہیں نہایت خوفناک سمجھ کر پولیس نے شملہ بھیجا تھا اور عرصہ تک سر چارلس کلولینڈ کے حکم سے میری نظر بندی کے دیگر معاملات کی طرح ان کی بھی تحقیقات ہوتی رہی :

فتح القدیر، شرح ہدایہ، طبقات الشافعیہ سبکی، ازالۃ الخفا، کتاب الام، مدونہ امام مالک، مطالب عالیہ امام رازی، شرح حکمۃ الاشراق، شرح مسلم الثبوت، بحر العلوم، کتاب المستصفی، کتاب اللمغ۔

اصل یہ ہے کہ کسی جرم کے لیے جو لٹریچر سے تعلق رکھتا ہو، کوئی ایسی عدالت منصفانہ کاروائی نہیں کر سکتی، جو ذاتی طور پر رائے قائم نہ کر سکے۔ یعنی خود اس زبان سے واقف نہ ہو۔ لیکن موجودہ بیوروکریسی علاوہ کریسی ہونے کے ساتھ غیر ملکہ بھی ہے، اس لیے ہر گوشہ میں اجنبی اقتدار کی غلامی کے نتائج کام کر رہے ہیں۔ عدالتیں ہندوستان کی ہیں اور ہندوستانیوں کے لیے ہیں، لیکن ان کی زبان جزیرہ برطانیہ کی ہے اور اکثر حالتوں میں ایسے افراد سے مرکب ہیں جو ملکی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے۔

یہی وجہ ہے کہ اب ہم اس گورنمنٹ سے اور کچھ نہیں چاہتے۔ صرف یہ چاہتے ہیں کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ اپنے سے بہتر اور حق دار کے لیے اپنی جگہ خالی کر دے۔

 

               موجودہ حالت قدرتی ہے

 

18) میں جیسا کہ ابتداء میں لکھ چکا ہوں، خاتمہ سخن میں بھی دہراؤں گا۔ آج گورنمنٹ جو کچھ ہمارے ساتھ کر رہی ہے، وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جس کے لیے خاص طور پر اسے ملامت کی جائے۔ قومی بیداری کے مقابلے میں مقاومت اور جبر و تشدد تمام قابض حکومتوں کے لیے طبیعت ثانیہ (سیکنڈ نیچر) کا حکم رکھتا ہے اور ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہماری خاطر انسانی طبیعت بدل دی جائے گی۔

یہ قدرتی کمزوری افراد اور جماعت، دونوں میں یکساں طور پر نمود رکھتی ہے۔ دُنیا میں کتنے آدمی ہیں جو اپنے قبضہ میں آئی ہوئی چیز صرف اس لیے لوٹا دیں گے کہ وہ اس کے حق دار نہیں ؟ پھر پورے ایک براعظم کے لیے ایسی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے ؟ طاقت کبھی کسی بات کو صرف اس لیے نہیں مان لیتی کہ وہ معقول اور مدلل ہے۔ وہ تو خود بھی طاقت کی نمود کا انتظار کرتی ہے اور جب وہ نمودار ہو جاتی ہے تو پھر ناواجب سے ناواجب مطالبہ کے آگے بھی جھک جاتی ہے۔ پس کشمکش اور انتظار ناگزیر ہے اور ایک ایسی قدرتی     بات ہے جس کو بالکل دنیا کے معمولی اور روزمرہ کاموں کی طرح بلا کسی تعجب و شکایت کے انجام پانا چاہیے۔

میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ تاریخ نے اس بارے میں انسانی ظلم و تعدی کے جو ہیبت ناک مناظر دکھائے ہیں، ان کے مقابلے میں موجود جبر و تشدد کسی طرح بھی زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کمی اس لیے ہے کہ ابھی ملک کا جذبۂ قربانی ناتمام ہے، یا اس لیے کہ ظلم زیادہ مکمل نہیں ؟ مستقبل اس کو واضح کر دے گا۔

جس طرح اس کشمکش کا آغاز ہمیشہ یکساں طور پر ہوا ہے، اسی طرح خاتمہ بھی ایک ہی طرح ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہمارا جذبۂ آزادی و حق طلبی سچا اور اٹل ثابت ہوا، تو یہی گورنمنٹ جو آج ہمیں مجرم ٹھہرا رہی ہے، کل کو فتح مند محب الوطنوں کی طرح ہمارے استقبال پر مجبور ہو گی!

 

 

               بغاوت

 

19) مجھ پر سڈیشن (SEDITION) کا الزام عائد کیا گیا ہے، لیکن مجھے "بغاوت” کے معنی سمجھ لینے دو۔ کیا "بغاوت” آزادی کی اس جد و جہد کو کہتے ہیں جو ابھی کامیاب نہیں ہوئی؟ اگر ایسا ہے تو میں اقرار کرتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی یاد دلاتا ہوں کہ اسی کا نام قابل احترام حب الوطنی بھی ہے۔ جب وہ کامیاب ہو جائے۔ کل تک آئرلینڈ کے مسلح لیڈر باغی تھے، لیکن آج ولیرا اور گریفتھ کے لیے برطانیہ عظمیٰ کون سا لقب تجویز کرتی ہے ؟

اسی آئرلینڈ کے پارنل PARNEL نے ایک مرتبہ کہا تھا : "ہمارا کام ہمیشہ ابتدا میں بغاوت اور آخر میں حُب الوطنی کی مقدس جنگ تسلیم کیا گیا۔”

 

               قانون "قضا بالحق”

 

20) میں مسلمان ہوں اور میرے یقین کے لیے وہ بس کرتا ہے، جو میری کتاب شریعت نے بتلایا ہے۔ قرآن کہتا ہے۔ جس طرح مادہ اور اجسام میں انتخاب طبیعی (Natural Selection) اور بقأ اصلح (Survival of the Fittest) کا قانون جاری ہے اور فطرت صرف اسی وجود کو باقی رہنے دیتی ہے جو صحیح و اصلح ہو۔ ٹھیک اسی طرح تمام عقائد و اعمال میں یہی قانون کام کر رہا ہے۔ آخری فتح اس عمل کی ہوتی ہے جو حق اور سچ ہو اور اس لیے باقی و قائم رہنے کا حق دار ہو۔ پس جب کبھی انصاف اور نا انصافی میں مقابلہ ہو گا، تو آخر کی جیت انصاف ہی کے حصہ میں آئے گی :

ثُمَّ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا تَتْرَ‌ىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَّ‌سُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ, آیت:۔ (سورۃ الرعد آیت 17)

زمین پر وہی چیز باقی رہے گی جو نافع ہو۔ غیر نافع چھانٹ دی جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں سچائی کا نام "حق” ہے، جس کے معنی ہی جم جانے کے ہیں اور ثابت ہو جانے کے ہیں اور جھوٹ اور بدی کا نام "باطل” ہے جس کے معنی ہی مٹ جانے کے ہیں۔

إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت 81)

باطل تو صرف اس لیے ہے کہ مٹ جائے۔

پس آج جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا فیصلہ کل ہو گا۔ انصاف باقی رہے گا۔ نا انصافی مٹا دی جائے گی۔ ہم مستقبل کے فیصلہ پر ایمان رکھتے ہیں !۔

البتہ یہ قدرتی بات ہے کہ بدلیوں کو دیکھ کر بارش کا انتظار کیا جائے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ موسم نے تبدیلی کی تمام نشانیاں قبول کر لی ہیں۔ افسوس ان آنکھوں پر جو نشانیوں سے انکار کریں !

میں نے انہی تقریروں میں جو میرے خلاف داخل کی گئی ہیں، کہا تھا :

"آزادی کا بیج کبھی بار آور نہیں ہو سکتا جب تک جبر و تشدد کے پانی سے اس کی    آبیاری نہ ہو۔”

لیکن گورنمنٹ نے آبیاری شروع کر دی ہے !

میں نے انہی میں کہا تھا۔ "مبلغین خلافت کی گرفتاریوں پر کیوں مغموم ہو؟ اگر تم فی الحقیقت انصاف اور آزادی کے طلبگار ہو، تو جیل جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ علی پور کا جیل اس طرح بھر جائے کہ اس کی کوٹھڑیوں میں چوروں کے لیے جگہ باقی نہ رہے۔ ”

فی الحقیقت جگہ باقی نہیں رہی۔ پریزیڈنسی اور سینٹرل جیل کا بڑا حصہ معمولی قیدیوں سے خالی کر دیا گیا۔ پھر بھی جگہ کافی نہیں ہوئی۔ نیا جیل بنایا گیا وہ بھی آناً فاناً بھر گیا۔ جگہ نکالنے کے لیے سینکڑوں قیدی رہا کر دیئے گئے، لیکن اس سے دگنے آ گئے۔ اب مزید نئے جیل بنائے جا رہے ہیں !

 

               سرکاری وکیل، پولیس اور مجسٹریٹ

 

21) قبل اس کے کہ میں اپنا بیان ختم کروں، اپنے اُن ہم وطن بھائیوں کی نسبت بھی ایک دو جملے کہوں گا، جو اس مقدمہ میں میرے خلاف کام کر رہے ہیں۔ جب میں نے اوپر کہیں کہا ہے کہ "سی-آئی-ڈی کا کام جہالت اور شرارت دونوں سے مرکب ہوتا ہے۔ ” یہ میں نے اِس ذاتی علم کی بنا پر کہا ہے جو بے شمار مقدمات کی نسبت مجھے حاصل ہے۔ تاہم میں تسلیم کرتا ہوں کہ سی-آئی-ڈی کے جن آدمیوں نے میرے خلاف شہادت دی ہے۔ اُنہوں نے اس اعتماد کے سوا جو اپنے کام پر ظاہر کیا ہے، کوئی بات بھی غلط نہیں کہی۔

میری تقریریں جو پیش کی گئی ہیں ان میں بھی کوئی بات شرارت کی نہیں پاتا۔ جس قدر ان کے اغلاط اور نقائص ہیں، صرف ناقابلیت کا نتیجہ ہیں۔ ایک دو مقدمات ایسے ہی ہیں جن کی نسبت خیال کیا جا سکتا ہے کہ دانستہ خراب کر کے دکھلائے ہیں۔ مثلاً جہاں جہاں میں نے لوگوں کو با امن رہنے، ہڑتال نہ کرنے، ہر طرح کے مظاہرات سے مجتنب رہنے     کی تلقین کی ہے، وہ بقیہ حصوں سے بھی زیادہ الجھے ہوئے اور بے ربط ہیں۔ متعدد مقامات پر ” امن ” کو "ایمان” کر دیا ہے۔ جو وہاں بالکل بے ربط ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی قاعدہ کے نقص اور ذاتی ناقابلیت کی وجہ سے ہے نہ کہ شرارت سے۔

البتہ میرا یقین ہے کہ اُنہوں نے اپنے کام پر جو اعتماد ظاہر کیا ہے اور جس غرض سے یہ کام انجام دیا ہے، وہ ضرور معصیت ہے۔ لیکن ساتھ ہی مجھے ان کی کمزوری بھی معلوم ہے۔ وہ محض چند روپیہ کی نوکری کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں اور اتنا قوی ضمیر نہیں رکھتے کہ سچائی کو ہر بات پر ترجیح دیں۔ پس میرے دل میں ان کے لیے رنج اور ملامت نہیں ہے۔ میں اس کام کے لیے انہیں معاف کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا بھی معاف کر دے۔

پبلک پراسیکیوٹر بھی جو اِن مقدمات میں کام کر رہا ہے، میرا ایک ہم وطن بھائی ہے۔ اس کی ضمیر یا رائے میرے سامنے نہیں ہے۔ محض مزدوری ہے، جو اس کام کے لیے وہ گورنمنٹ سے حاصل کرتا ہے۔ پس اس کی طرف سے بھی میرے دل میں کوئی رنج نہیں۔ البتہ میں ان سب کے ھ لیے وہی دعا مانگوں گا جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر مانگی تھی :

"خدایا ان پر راہ کھول دے، کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کر رہے ہیں ؟”

 

               فَاقضِ ماَ اَنتَ قَاض

 

میں مجسٹریٹ کی نسبت بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ زیادہ سے زیادہ سزا جو اس کے اختیار مین ہے، بلا تامل مجھے دے دے۔ مجھے شکایت یا رنج کا کوئی احساس نہ ہو گا۔ میرا معاملہ پوری مشینری سے ہے۔ کسی ایک پرزے سے نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جب تک مشین نہیں بدلے گی، پرزے اپنا فعل نہیں بدل سکتے۔

میں اپنا بیان اٹلی کے ” قتیل صداقت گارڈینیر برونو” کے لفظوں پر ختم کرتا ہوں،     جو میری ہی طرح عدالت کے سامنے کھڑا کیا گیا تھا :

"زیادہ سے زیادہ سزا جو دی جا سکتی ہے، بلا تامل دے دو۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ سزا کا حکم لکھتے ہوئے جس قدر جنبش تمہارے دل میں پیدا ہو گی، اس کا عشر عشیر اضطراب بھی سزا سن کر میرے دل کو نہ ہو گا۔”

 

               خاتمہ

 

مسٹر مجسٹریٹ! اب میں اور زیادہ وقت کورٹ کا نہ لوں گا۔ یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے، جس کی ترتیب میں ہم دونوں یکساں طور مشغول ہیں۔ ہمارے حصہ میں یہ مجرموں کا کٹہرا آیا ہے۔ تمہارے حصہ میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لیے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری چیز ہے، جس قدر یہ کٹہرا۔ آؤ! اس یادگار اور افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کر دیں۔ مورخ ہمارے انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ ہمیں جلد جلد یہاں آنے دو اور تم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو۔ ابھی کچھ دنوں تک یہ کام جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے۔ یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے۔ وقت اس کا جج ہے۔ وہ فیصلہ لکھے گا اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا!

    وَالحَمدُ لِلِہ اَولاً وَ اَخِراً۔

11 جنوری 1922 عیسوی

پریزیڈنسی جیل احمد

علی پور، کلکتہ

 

 

               آخری پیشی !

 

9-فروری 1922 عیسوی

 

صرف ایک سال قید با مشقت!

"یہ اُس سے بہت کم ہے جس کا میں متوقع تھا”!

9-فروری سے پہلے مولانا کی جانب سے حسبِ ذیل امور کا زبانی اور بذریعہ اخبار اعلان کیا گیا :

1 : 9-فروری کو کوئی شخص عدالت کی کاروائی دیکھنے کے لیے نہ آئے۔ نہ کسی طرح کا ہجوم سڑکوں پر ہو۔

2 : یہ یقینی ہے کہ انہیں سزا کا حکم سنایا جائے گا۔ پبلک کو چاہیے کہ پورے صبر و سکون کے ساتھ اس کی منتظر اور متوقع رہے۔ کوئی ہڑتال نہیں ہونی چاہیے۔ نہ کسی طرح کا غیر معمولی مظاہرہ کرنا چاہیے۔

3 : 9- کو لوگ جیل کی طرف بھی ہجوم نہ کریں اور نہ انہیں دیکھنے کے لیے جد و جہد کریں۔ صرف اپنی معمولی روزانہ جد و جہد جاری رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی سرگرمی بڑھائیں۔

بعض کارکنانِ خلافت و کانگریس نے غلطی سے کارخانوں اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والوں کو ہڑتال کے ارادے سے نہیں روکا تھا اور خاموشی اختیار کر لی تھی۔ 7 کو جب مولانا کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے فوراً رکوا دیا اور ہر جگہ یہ بات پہنچا دی گئی کہ جو شخص اس کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے، اس کے اظہارِ محبت و عقیدت کی صرف یہی راہ ہے کہ والنٹیر بن جائے اور جیل جانے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہڑتال اور مظاہرہ نہ صرف اصول کے خلاف ہے، بلکہ مقاصد کے لیے     مضر بھی ہے۔

اگرچہ یہ تمام کاروائیاں علانیہ ہو رہی تھیں۔ افسران جیل کی موجودگی میں وہ تمام پیغامات دیتے تھے اور لکھواتے تھے اور پھر اخبارات میں بھی شائع ہو جاتے تھے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ارکان حکومت کو اطمینان نہ تھا۔

مولانا اور مسٹر داس کے مقدمات میں عدالت کی جانب سے پے در پے التوا کیا گیا۔ گورنمنٹ کا تذبذب اور اضطراب بھی برابر ظاہر ہوتا رہا۔ نیز راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی تجویز اور نام نہاد مصالحت کی کاروائیاں بھی جاری رہیں۔ ان تمام اسباب سے پبلک کو یہ توقع ہو گئی تھی کہ شاید انہیں رہا کر دیا جائے۔ زیادہ تائید اس بات کی کلکتہ اور بنگال کی مخصوص حالت سے بھی ہوتی تھی جس کی طرف سے مقامی گورنمنٹ کی تشویش روز بروز بڑھتی جاتی تھی اور بار بار یہ افواہیں مشہور کی جاتی تھیں کہ بہت جلد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ گورنمنٹ کو بڑی تشویش مزدوروں کی ہڑتال سے تھی۔ علی الخصوص خضر پور ڈک کے مزدوروں اور شہر کے تمام خانساموں وغیرہ سے جو پندرہ بیس ہزار کی تعداد میں ہوٹلوں اور انگریزوں کے پرائیویٹ مکانوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک دن کے لیے بھی ہڑتال کرنا تمام انگریزی آبادی کی زندگی دشوار کر سکتا ہے۔ اسی طرح ڈک کے مزدوروں کی جماعت بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اگر کام چھوڑ دے تو اس کا کام ایک دن کے لیے بھی دوسرے آدمی نہیں چلا سکتے۔ تمام تجارت اور مال کی درآمد برآمد اسی پر موقوف ہے۔

خانساموں اور ڈک کے مزدوروں کی باقاعدہ یونین قائم ہے۔ دونوں نے فی الواقع ہڑتال کا ارادہ کر لیا تھا۔ ڈک کے مزدور تو ان کی گرفتاری پر ہڑتال کر بھی چکے تھے۔ لیکن کانگریس کمیٹی نے بمشکل سمجھا بجھا کے کام پر لگایا۔

اسی طرح تمام سرکاری کالجوں کے طلباء کی نسبت بھی گورنمنٹ کا خیال تھا کہ بمجرد اعلان سزا کے کالجوں سے نکل آئیں گے۔ انہی اسباب سے فیصلہ میں تاخیر کی جا رہی تھی۔        لیکن مولانا نے 7 کو ایک پیغام تمام اخبارات میں اس مضمون کا شائع کرایا کہ ان کے مقدمہ کی نسبت کوئی غلط توقع لوگ نہ باندھ لیں۔ یہ قطعی ہے کہ انہیں سزا دی جائے گی۔ لوگوں کو چاہیے کہ پورے نظم و سکون کے ساتھ اس کے سننے کے لیے تیار رہیں۔ ہڑتال وغیرہ کے لیے اُنہوں نے کہا کہ :

"ہم ایک سال سے کہتے آئے ہیں کہ کامیابی اسی پر موقوف ہے کہ خاموشی کے ساتھ لوگ گرفتار ہو جائیں۔ چنانچہ ہزاروں آدمیوں نے اپنے تئیں گرفتار کرا دیا۔ اب جب ہم خود گرفتار ہوئے ہیں تو ہمیں بھی اپنے لیے وہی پسند کرنا چاہیے جو ہم نے دوسروں کے لیے پسند کیا تھا۔ یہ نہایت افسوس ناک غلطی ہو گی اگر ہماری سزایابی کے لیے ہڑتالیں کی گئیں، یا ہمیں چھوڑ دینے کے لیے کسی ایک ہندوستانی نے بھی کام چھوڑا۔”

اس پیغام نے نہایت تعجب انگیز اثر پیدا کیا جس کی خود گورنمنٹ کو بھی توقع نہ تھی۔ تمام لوگ جو جوش و اضطراب میں بے قابو ہو رہے تھے، پتھر کی طرح اپنی اپنی جگہ جم گئے۔ ہڑتال کا ارادہ بالکل فسخ کر دیا اور 9 کو عدالت اور جیل میں کسی قسم کا ہجوم نہیں ہوا۔

با ایں ہمہ گورنمنٹ کے ارکان مطمئن نہ تھے اور دیکھ رہے تھے کہ گیارہ بجے کے بعد کیا صورت پیش آتی ہے ؟ اس لیے گیارہ بجے تک جیل میں کوئی خبر نہیں دی گئی کہ کاروائی کہاں ہو گی؟ کورٹ میں یا جیل میں ؟ جب گیارہ بج چکے اور کسی طرح کی بھیڑ عدالت میں نہیں ہوئی، تو مولانا طلب کئے گئے۔ بارہ بجے وہ پہنچے۔ اس وقت ایک مقدمہ کی کاروائی ہو رہی تھی۔ لیکن مجسٹریٹ نے عارضی طور پر اسے ملتوی کر کے مولانا کو طلب کیا اور فیصلہ سنایا۔ فیصلہ یہ تھا کہ ایک برس قید با مشقت۔

مولانا نے فیصلہ سن کر مجسٹریٹ سے مسکراتے ہوئے کہا :

"یہ تو اس سے بہت کم ہے جس کی مجھے توقع تھی!” مجسٹریٹ ہنسنے لگا اور مولانا برآمدے میں واپس آ گئے۔

یہاں کورٹ انسپکٹر موجود تھا۔ جو انہیں اپنے آفس روم میں لے گیا اور کہا مجھے آپ معاف کریں گے اگر میں چند منٹ آپ کو یہاں بٹھاؤں اور ضابطہ کی کاروائی انجام دے دوں ؟

مولانا نے کہا :

میں یہ "چند منٹ ” ایک سال قید با مشقت میں شمار نہ کروں گا۔

یہاں اُس نے سزا کے رجسٹر میں حسب قاعدہ ان کا نام، ولدیت، عمر، حلیہ، قد اور دستخط کا اندراج کر لیا۔ اس کے بعد وہ جیل کی گاڑی میں مسلح پولیس کے ساتھ روانہ کر دیئے گئے۔

اس طرح کامل ساٹھ دن کے بعد یہ کہانی ختم ہو گئی اور جس شخص کو ایک دن کے لیے بھی قید کرنا گورنمنٹ کے لیے آسان نہ تھا اور بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ لاکھوں انسانوں کے اضطراب پر غلبہ حاصل کیا جائے، وہ اس آسانی اور خاموشی کے ساتھ ایک برس کے لیے قید خانے میں بھیج دیا گیا! یہ فی الحقیقت نان کوآپریشن کے نظم و طاقت کا ایک حیرت انگیز ثبوت ہے !

عدالت کا فیصلہ (جیسا کہ توقع تھی) نہایت ہی مختصر ہے۔ نہ تو استغاثہ کی تشریح کی گئی ہے، نہ الزام کے اثبات کے وجوہ و دلائل بیان کئے ہیں۔ حتی کہ یہ بات بھی اس سے معلوم نہیں ہو سکتی کہ ملزم نے کن الفاظ کے ذریعہ دفعہ 124-الف کا ارتکاب کیا ہے ؟ اور کیوں کر اس کی تقریریں اس دفعہ کے ماتحت آتی ہیں ؟ البتہ اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ملزم نے تقریروں کے تمام وہ حصے تسلیم کر لیے ہیں جو گورنمنٹ کے متعلق تھے۔ مگر وہ کیا ہیں ؟ ان پر کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ بہتر یہ تھا کہ سزا کی بنیاد اسی بار پر رکھ دی جاتی کہ ملزم نے نہایت صفائی کے ساتھ اپنے "مجرم” ہونے کا بار بار اظہار کیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ بحالتِ موجودہ آزادی اور حق کا مطالبہ ہی جرم ہے !

 

 

نقول و ترجمہ

 

                   فیصلہ عدالت

 

مقدمہ نمبری 28 1922 عیسوی

قیصرِ ہند

بنام

محی الدین احمد عرف مولانا ابو الکلام آزاد

 

    فیصلہ

 

اس مقدمہ میں مولانا ابو الکلام آزاد زیر دفعہ 124-الف تعزیرات ہند مجرم قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ اُنہوں نے پہلی جولائی 1921 عیسوی کو مرزا پور اسکوائر کلکتہ میں مسئلہ خلافت، پنجاب اور آزادی وطن کے مضامین پر اور نیز 15-جولائی 1921 کو اسی مقام پر مسئلہ ترکِ موالات وغیرہ پر اردو میں تقریر کرتے ہوئے، ایسے الفاظ استعمال کئے، جن کے ذریعہ گورنمنٹ قائم شدہ بروئے قانون کے خلاف لوگوں نے نفرت اور حقارت پھیلانے کی کوشش کی۔

استغاثہ کی طرف سے جو شہادتیں پیش ہوئی ہیں، ان سے حسب ذیل واقعات ثابت ہوتے ہیں : مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر پولیس اسپیشل برانچ نے یہ اطلاع پاتے ہی کہ یکم جولائی کو مزرا پور پارک میں کوئی جلسہ ہونے والا ہے، اپنے اردو شارٹ ہینڈ رپورٹرز ابو اللیث محمد، انسپکٹر ایس اے گھوسال، سب انسپکٹر محمد اسماعیل اور ایس سی کر کو جلسہ کی کاروائی اور تقریروں کے نوٹ لینے کے لیے متعین کیا۔

افسران مذکور جلسہ میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے تمام کاروائی اور تقریروں کے نوٹ لیے۔ ان میں ملزم کی تقریر بھی ہے جو اس جلسہ کے صدر تھے۔ جلسہ میں تقریباً 12 سو آدمیوں کا اجتماع تھا۔ جلسہ کا مقصد خلافت کے تین مبلغین : سعید الرحمٰن، اجودھیا پرشاد اور جگدمبا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا۔

منجملہ اور مقرروں کے ملزم نے بھی اردو میں ایک طویل تقریر کی۔ ان تقریروں کے نوٹ اردو شارٹ ہینڈ رپورٹرز ابو اللیث محمد نے اور کچھ حصے دوسرے پولیس کے افسروں نے لیے۔ یہ نوٹ مسٹر گولڈی کے سامنے پیش ہوئے۔ اُنہوں نے اِن پر دستخط ثبت کر دیئے۔

ابو اللیث نے اپنا نوٹ صاف کر کے اس کی نقل مسٹر گولڈی کے پاس بھیج دی۔ دوسرے پولیس افسروں نے بھی اپنے اسی لانگ ہینڈ نوٹ کی ایک مشترکہ رپورٹ افسر مذکور کے پاس بھیج دی تھی۔

15-جولائی 1921 عیسوی کو مسٹر گولڈی نے اسی اردو شارٹ ہینڈ رپورٹر ابو اللیث محمد، انسپکٹر     بی۔ بی مکر جی، سب انسپکٹر محمد اسماعیل اور ایس سی کر کو ایک دوسرے جلسہ کی کاروائیوں اور تقریروں کے نوٹ لینے کے لیے متعین کیا۔ جو اسی مقام پر ہونے والا تھا۔

ملزم حاضرین جلسہ میں تھے۔ اُنہوں نے مذکورہ بالا خلافت کے تین مبلغین : سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد، اوجودھیا پرشاد کی سزا یابی کے خلاف اردو میں تقریر کی اور لوگوں کو اس بات کی تلقین کی اور شوق دلایا کہ وہ بھی ان کی پیروی کریں اور جیل جائیں۔ جلسہ میں 10 ہزار کا مجمع تھا۔ ابو اللیث نے ملزم کی تقریر کے نوٹ اردو شارٹ ہینڈ میں لیے اور دوسرے افسروں نے ان کے کچھ حصے لانگ ہینڈ لیں لیے۔

ابو اللیث نے اپنا نوٹ صاف کر کے اس کی نقل اور دیگر افسروں نے ایک مشترکہ رپورٹ مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کر دی۔

ابو اللیث کی اردو کی دونوں نقلوں کا ترجمہ سرکاری مترجم مسٹر بابا چرن چٹر جی نے کیا ہے۔ مسٹر گولڈی نے نقل اور ترجمہ ملنے کے بعد ملزم کی مذکورہ تقریروں کے خلاف دفعہ 124-الف کے ماتحت گرفتار کرنے کی درخواست گورنمنٹ آف بنگال سے کی اور 22-دسمبر 1921 عیسوی کو سینکشن حاصل کیا۔

اس نے اس سینکشن کی تصدیق بھی کر دی ہے۔

ابو اللیث اور دوسرے افسروں نے حلفیہ بیان کیا ہے کہ جو نوٹ اُنہوں نے لیے ہیں اور جو مشترکہ رپورٹ اُنہوں نے داخل کی ہے، وہ درست اور سچی ہیں۔

بابا چرن چٹر جی نے بھی حلفیہ بیان کیا ہے کہ دونوں نقلوں کا جو ترجمہ اس نے کیا ہے، وہ صحیح اور اصلی ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ میں ان کی سچائی میں شبہ کروں۔

ملزم نے ایک طویل بیان داخل کیا ہے جو گورنمنٹ کی برائیوں کی داستان سے پُر ہے۔ اس میں نہایت تشریح کے ساتھ ان تمام کاروائیوں کو دکھایا گیا ہے جن کی وجہ سے وہ گورنمنٹ کو "ظالم گورنمنٹ” کے نام سے تعبیر کرتا ہے اور نیز اپنی ان تمام کاروائیوں کا ذکر کیا     ہے جو ان غیر قانونی کاروائیوں کے خلاف اس نے کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی تقریروں کی نقل بالکل ناقص، غلط اور مسخ شدہ ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن بہر کیف وہ ان تمام حصوں کو تسلیم کرتا ہے جن میں گورنمنٹ کے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جد و جہد کی اپیل کی گئی ہے۔

میں نے نہایت احتیاط سے یہ تقریریں پڑھی ہیں اور ان پر کامل غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ باغیانہ ہیں۔

اور یہ کہ ملزم نے ان تقریروں کے ذریعہ گورنمنٹ قائم شدہ از روئے قانون کے خلاف نفرت و حقارت پھیلانے کی کوشش کی۔

میں ملزم کو حسبِ دعویٰ استغاثہ مجرم پاتا ہوں اور زیر دفعہ 124-الف تعزیراتِ ہند ایک سال قید با مشقت کی سزا دیتا ہوں۔

9-فروری 1922 عیسوی (دستخط) ڈی سونیہو

چیف پریزیڈنسی مجسٹریٹ – کلکتہ

 

 

ضمیمہ

 

               پیغام 9-دسمبر 1921 عیسوی

 

آخری منزل کے آثار پھر شروع ہو گئے

باز ہوائے چمنم آرزوست

وقت آ گیا ہے کہ اسلام اور ملک کا ہر فرزند بھی آخری آزمائش کے لیے تیار ہو جائے۔

قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَ‌ةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ  (سورۃ البقرہ- آیت 249)

"کتنی ہی چھوٹی اور کم تعداد جماعتیں ہیں، جو اللہ کے حکم سے بڑی تعدادوں پر غالب آ گئیں ؟ مگر شرط کامیابی صبر ہے کیونکہ اللہ صبر کرنے ہی والوں کا ساتھ دیتا ہے۔

مقدمہ کراچی کی گرفتاریوں کے بعد حیرانی و درماندگی کی جو خاموشی چھا گئی تھی، بالآخر ٹوٹی اور گورنمنٹ نے آخری حملے کے لیے ہتھیار اٹھا لیے۔ وہ اب ایک نئی شان کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ اس میں طاقت سے زیادہ طیش ہے اور طیش کے ساتھ غصہ کی گھبراہٹ بھی مل گئی ہے۔ وہ گویا ضبط کرتے کرتے اکتا گئی۔ اب حریف کی طرح مقابلہ نہیں کرے گی۔ غیظ و غضب میں بھرے ہوئے آدمی کی طرح ٹوٹ پڑے گے۔ بنگال، آسام، یو-پی، دہلی اور پنجاب میں والنٹیر کورز توڑ ڈالی گئی ہیں۔ خلافت اور کانگریس کمیٹیوں کے دفتروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ عہدہ داروں کو بے دریغ گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اکثر حالتوں میں سفید ٹوپی اور گاڑھے کا لباس گرفتاری کے لیے بھی ۔۔۔ جرم ہے۔ بنگال و آسام میں صرف پولیس افسروں کی مرضی کا نام حکومت اور قانون ہے۔ کلکتہ کی سڑکوں پر بے شمار آدمی گرفتار کر لیے گئے، جو گاڑھا پہنے ہوئے تھے، یا چاند اور تارے کا نشان ان کی ٹوپی پر تھا۔ جلسوں کی ممانعت کا آرڈر     بھی ہر جگہ نافذ کر دیا گیا ہے۔ گرفتاریاں بھی آخری حد تک پہنچ گئی ہیں۔ پنجاب میں لالہ لاجپت رائے جی اور ان کے ساتھ چار اعلیٰ عہدی داران کانگریس گرفتار کر لیے گئے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ گورنمنٹ تحریک کے بڑے بڑے لیڈروں کو گرفتار کر لینے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ گزشتہ دو ہفتہ کے اندر وائسرائے اور گورنر بنگال کی طرف سے بار بار اعلان بھی ہو چکا ہے۔ اب گورنمنٹ کی جانب سے کسی طرح کی کوتاہی نہ ہو گی۔

 

               بے بسی کا غصہ!

 

17 تاریخ کی فتح مند ہڑتال اور پرنس آف ویلز کے دورہ کے کامیاب بائیکاٹ نے گورنمنٹ کو بے بس کر دیا۔ بے بسی نے اب غیظ و غضب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گورنمنٹ صاف صاف کہہ رہی ہے کہ آئندہ ہڑتال کو روکا جائے گا۔ کلکتہ میں پولیس پورا زور لگا رہی ہے کہ لوگ سہم جائیں اور ہڑتال نہ ہو سکے۔ سول گارڈ کا قیام خلافت والنٹیرز کا جواب ہے اور اس ذریعہ سے تمام آبادی کو مرعوب کیا جا رہا ہے۔

والنٹیر کورز کو توڑ کر جلسوں کی ممانعت کر کے اور کارکنوں کو کثرت کے ساتھ گرفتار کر کے گورنمنٹ چاہتی ہے کہ تحریک کا خاتمہ کر دے۔ اس نے خیال کیا کہ تحریک کی ہستی اور تبلیغ کے صرف تین ہی ذرائع ہیں۔ والنٹیرز، جلسے، لیڈر۔ ان سب پر بے یک وقت وار کر کے وہ اپنے کام سے پوری طرح فارغ ہو جائے گی۔

 

               تشدد اور برداشت کا مقابلہ

 

ہم نے گورنمنٹ کے تشدد کا ہمیشہ استقبال کیا، ہم نے صرف استقبال ہی نہیں کیا بلکہ آرزوئیں کیں۔ گورنمنٹ نے کراچی ریزولیوشن کو جرم قرار دیا، تو ہم میں سے ہزاروں دلوں نے منتیں کیں کہ انہیں بھی گرفتار کر لیا جائے۔ لیکن گورنمنٹ برابر قدم اٹھا کے پیچھے ہی ہٹتی رہی۔ اب پھر اس نے قدم بڑھایا ہے۔ ہم اس کا، اس کے تمام ساز و سامان کا، اس کے ہر طرح کے جبر و تشدد کا، اس کے زیادہ سے زیادہ غیظ و غضب کا، اس کے اس آخری اعلان جنگ کا پوری آمادگی و قبولیت کے ساتھ استقبال کرتے ہیں اور ہمارا اعلان ہے کہ ہم آخر تک میدان کو پیٹھ نہ دکھلائیں گے۔

اب جبر و تشدد اور برداشت میں آخری مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ فتح اس کی ہو گی جو زیادہ طاقتور ہر گا اور زیادہ دیر تک میدان میں ٹک سکے گا۔ اگر گورنمنٹ کی طاقت ملک کی برداشت سے زیادہ ہے، تو جیت اس کی ہے۔ اگر ملک کی برداشت گورنمنٹ کی طاقت سے زیادہ ہے تو ملک کی فتح مندی کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔

 

               آخری منزل ہمارا فرض

 

اگر سچ مچ گورنمنٹ کا یہ آخری وار ہے، تو ہم کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ "سفر کی آخری منزل” آ گئی اور اس لیے ہم کو بھی آخری آزمائش کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ ہم نے دو سال سے جس قدر اعلان کئے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ان میں سے ہر اعلان اپنی حقیقت کے لیے مطالبہ کرے۔ ہم نے دو سال سے جس قدر دعوے کئے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ ان میں سے ہر دعویٰ اپنی سچائی کا دنیا کو یقین دلا دے۔ ہم دو سال سے جو کچھ کہہ رہے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو کر کے دکھلا دیں۔ ہم نے ایمان کا اعلان کیا ہے۔ ہم نے خدا پرستی کا دعویٰ کیا ہے، ہم نے سرفروشی اور جانستانی کا نعرہ لگایا ہے۔ ہم نے قربانی و جانبازی کا ہزاروں لاکھوں مرتبہ نام لیا ہے۔ ہم نے حق پرستی کے عہد کئے ہیں اور اسلام اور ملک سے عشق و محبت کا پیمانِ وفا باندھا ہے۔ ہم نے نامردی اور بزدلی کی ہمیشہ حقارت کی۔ ہم نے حق سے منہ موڑنے اور خدا کو پیٹھ دکھلانے پر لعنتیں بھیجیں۔ ہم ان پر ہنسے اور مشکلوں سے گھبرا گئے۔ ہم نے ان کی بدبختی و محرومی سے پناہ مانگی جو وقت پر اپنے دعووں میں پورے نہ اترے۔ ہم نے خدا کا نام لیا اور اس کی شریعت کے حکموں کی اطاعت کی راہ میں قدم اٹھایا۔ ہم نے خود ہی اپنے ایمان و نفاق کے لیے معیار بنا دیا اور ہم نے تمام دنیا کو دعوت دی کہ وہ ہم میں سے مومنوں کو منافقوں میں سے چن لیں۔ ہم نے کہا کہ ایمان کی گھڑی ہے اور اسلام کا فیصلہ ہے۔ پس مومن وہ ہے جو وقت کا     فرض انجام دے اور منافق وہ ہے جو وقت پر پیٹھ دکھلا دے :

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُ‌ونَ ﴿١٠٦﴾ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَ‌حْمَةِ اللَّـهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (سورۃ آل عمران۔ آیت 106-107)

یہ سب کچھ ہم نے اپنی مرضی اور اپنی طلب سے کیا۔ خدا اور اس کے فرشتے ہماری زبانوں اور ہمارے دلوں پر گواہ ہیں۔ پھر اگر آج آزمائش کی گھڑی آ گئی ہے اور منزل سامنے ہے جس کے لیے ہم اس قدر دعوے کر چکے ہیں، تو کیا ہم عین وقت پر اپنے تمام دعوے بھلا دیں گے ؟ کیا اپنے تمام اعلان واپس لے لیں گے ؟ کیا ہمارا دعویٰ دھوکہ ثابت ہو گا اور ہمارا اعلان محض فریب کا تماشا ہو گا؟ کیا ہم نے جو کچھ کہا وہ جھوٹ تھا اور ہم نے اپنے ایمان اور حق کے لیے جو کچھ سمجھا وہ دھوکا تھاَ؟ کیا ہم خدا اور اس کی سچائی سے منہ موڑ لیں گے ؟ کیا ہم ایمان کی اس سب سے چھوٹی آزمائش میں بھی پورا نہ اتریں گے ؟ کیا مشکلیں ہم کو ہرا دیں گی؟ تکلیفیں ہمیں ڈرا دیں گی؟ اور گرفتاریوں کا ہراس ہمارے ایمان پر غالب آ جائے گا؟

دنیا ہماری طرف تک رہی ہے۔ تاریخ کے صفحات ہمارے انتظار میں ہیں۔ ہزاروں لاکھوں شہیدانِ ظلم کی نگاہیں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ سمرنا اور ایشیائے کوچک کی خون آلود سرزمین سے ہمارے لیے صدائیں اُٹھ رہی ہیں اور ہندوستان کی پامال سرزمین کا ایک ایک ذرہ ہماری کھوج میں ہے۔ کیا ہمارا وجود ان سب کے لیے مایوسی ہو گا؟ کیا ہماری نامرادی و بدبختی کی سرگزشتیں لکھی جائیں گی؟ کیا تاریخ کو ہم صرف اپنی منحوس ناکامی ہی کی کہانی دے سکتے ہیں۔ کیا آنے والی نسلوں کی زبان پر ہمارے لیے صرف نفرتیں اور لعنتیں ہی ہو سکتی ہیں ؟ کیا ہم دنیا کو اس بات کے لیے چھوڑ دیں گے کہ ہماری ایمان سے محرومی اور ہمت سے تہی دستی پر گواہی دے ؟

آہ! یہی گھڑی ہے جو اس کا فیصلہ کرے گی۔ یہی وقت ہے جو ہمیشہ کے لیے ہماری فتح و شکست کا فیصلہ لکھ دے گا۔ آؤ، اپنی قسمت کی تعمیر کریں۔ اپنی عزت و اقبال کو ڈوبنے سے بچا لیں۔ اپنی فتح کو شکست کے لیے نہ چھوڑ دیں۔ اسلام کے دامن کے لیے دھبہ نہ بنیں جو کبھی محو نہ ہو۔ ہندوستان کی آزادی اور نجات کی امید تاراج نہ کر دیں، جو صدیوں تک واپس نہ مل سکے !

 

               راہِ عمل

 

ہمارے کام کا راستہ بالکل صاف ہے۔ ہماری کامیابی کے لیے کوئی روک نہیں۔ یقیناً خدا کی رحمتوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہم پر ایسی راہ عمل کھول دی کہ جب تک ہم خود اپنے کو شکست نہ دینا چاہیں، کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔

ہم نے اول دن ہی سے قربانی اور استقامت کا اعلان کیا ہے۔ "قربانی” سے مقصود یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں ہر طرح کی تکلیف و مصیبت جھیلتے رہنا۔ "استقامت” سے مقصود یہ ہے کہ راہ میں جمے رہنا اور کبھی اس سے منہ نہ موڑنا۔

پھر بتلاؤ، گورنمنٹ یا گورنمنٹ سے بھی کوئی بڑی طاقت اس کے مقابلہ میں کیا کر سکتی ہے ؟ کیونکر وہ ہمیں روک سکتی ہے ؟ اور کس طرح ہم پر غالب آ سکتی ہے ؟ فوج ہو تو اسے شکست دی جائے، قلعے ہوں تو انہیں ڈھا دیا جائے، دیواریں ہوں تو انہیں گرا دیا جائے، ہتھیار ہوں تو انہیں چھین لیا جائے۔ لیکن جو قوم قربان ہونے اور مٹنے کے لیے تیار ہو گئی ہو اور صرف قربان ہونا اور جان پر کھیل جانا ہی اس کی فوج اور ہتھیار ہو، اس کا مقابلہ کس چیز سے کیا جائے گا؟ جسموں کو مارا اور ہتھیاروں کو چھینا جا سکتا ہے، لیکن دلوں کے عشق اور روحوں کے ایمان کے لیے نہ کوئی کاٹ ہے، نہ کوئی آگ۔

اچھا، اب ایک ایک چیز کو گنو اور سوچو کہ ہمارے مقابلے میں کون کون سی طاقت لائی جا سکتی ہے ؟

گورنمنٹ ڈرانے کے لیے پوری طرح ہیبت ناک ہے۔ لیکن بے خوفی کے مقابلہ میں کیا کرے گی؟َ

گورنمنٹ احکام نافذ کر کے ہمیں روک دے سکتی ہے۔ لیکن جن لوگوں نے ٹھان لیا ہو کہ کبھی نہ رکیں گے اور نہ رک کر سب کچھ جھیل لیں گے، ان کے مقابلے میں وہ کیا کرتے گی۔

گورنمنٹ گرفتار کر کے قید خانے بھر دے گی۔ لیکن جو لوگ خود ہی قید ہونے کے لیے تیار ہیں، ان کے لیے قید خانے کی نمائش کیا کام دے سکتی ہے ؟

سب سے آخری طاقت، ہلاکی اور خونریزی کی طاقت ہے۔ بلا شبہ فوجیں جمع ہو سکتی ہیں۔ ہتھیار چمک سکتے ہیں۔ توپیں گرج سکتی ہیں۔ لیکن جو لوگ موت کے لیے خود ہی تیار ہو چکے ہوں، ان کے سامنے موت آ کر کیا کر لے گی؟

 

               ہم کو ہمارے سوا کوئی زیر نہیں کر سکتا

 

لیکن ہاں، جبکہ کرۂ ارضی کی سب سے بڑی مغرور طاقت بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، تو ایک طاقت جو ہمیں پل بھے کے اندر پاش پاش کر دے سکتی ہے۔

 

               وہ کون ہے ؟

 

وہ خود ہم ہیں اور ہماری خوفناک غفلت ہے اگر وہ وقت پر نمودار ہو گئی ہم پر ہمارے سوا کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ ہم ایمان اور استقامت سے مسلح ہو کر اتنے طاقتور ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا ارضی گھمنڈ بھی ہمیں شکست نہیں دے سکتا، لیکن اگر ہمارے اندر اعتقاد اور عمل کی ادنیٰ سے کمزوری اور خامی بھی پیدا ہو گئی، تو ہم خود آپ ہی اپنے قاتل ہوں گے اور ہم سے بڑھ کر دنیا میں اچانک مٹ جانے والی کوئی چیز بھی نہیں ملے گی۔

ہم کو گورنمنٹ شکست نہیں دے سکتی۔ پر ہماری غفلت ہمیں پیس ڈالے گی۔ ہم کو فوجیں پامال نہیں کر سکتیں لیکن ہمارے دل کی کمزوری ہمیں روند ڈالے گی۔ ہمارے دشمن اجسام نہیں ہیں۔ عقائد اور اعمال ہیں۔ اگر ہمارے اندر ڈر پیدا ہو گیا، شک و شبہ نے جگہ پا لی، ایمان کی مضبوطی اور حق کا یقین ڈگمگا گیا، ہم قربانی سے جی چرانے لگے، ہم نے اپنی روح فریبِ نفس کے حوالہ کر دی، ہمارے صبر اور برداشت میں فتور آ گیا، ہم انتظار سے تھک گئے، طلب گاری سے اکتا گئے، ہم میں نظم نہ رہا، ہم اپنی تحریک کے تمام دلوں اور قدموں کو ایک راہ پر نہ چلا سکے، ہم سخت سے سخت مشکلوں اور مصیبتوں میں بھی امن اور انتظام قائم نہ رکھ سکے، ہمارے باہمی ایکے اور یگانگت کے رشتہ میں کوئی ایک گرہ بھی بڑی گئی، غرض کہ اگر دل کے یقین اور قدم کے عمل میں ہم پکے اور پورے نہ نکلے، تو پھر ہماری شکست، ہماری نامرادی، ہماری پامالی، ہمارے پس جانے اور ہمارے نابود ہو جانے کے لیے نہ تو گورنمنٹ کی طاقت کی ضرورت ہے، نہ اس کے جبر و تشدد کی۔ ہم خود ہی اپنا گلا کاٹ لیں گے اور پھر صرف ہماری نامرادی کی کہانی دنیا کی عبرت کے لیے باقی رہ جائے گی!

ہماری طاقت بیرونی سامانوں کی نہیں ہے کہ انہیں کھو کر دوبارہ پا لیں گے۔ ہماری ہستی صرف دل اور روح کی سچائیوں اور پاکیوں پر قائم ہے اور وہ ہمیں دنیا کے بازاروں میں نہیں مل سکتیں۔ اگر خزانہ ختم ہو جائے تو بٹور لیا جا سکتا ہے۔ اگر فوجیں کٹ جائیں تو دوبارہ بنا لی جا سکتی ہیں۔ اگر ہتھیار چھن جائیں تو کارخانوں میں ڈھال لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے دل کا ایمان جاتا رہا تو وہ کہاں ملے گا؟ اگر قربانی و حق پرستی کا پاک جذبہ مٹ گیا تو وہ کس سے مانگا جائے گا؟ اگر ہم نے خدا کا عشق اور ملک و ملت کی شیفتگی کھو دی تو وہ کس کارخانہ میں ڈھالی جائے گی؟

 

               گورنمنٹ کی مخالفت یا اعانت؟

 

گورنمنٹ نے آخری حملہ کے لیے ہتھیار اٹھا لیے لیکن پھر کیا ہوا؟ کیا ہماری شکست، ہماری پامالی، ہماری ناکامیابی کے لیے کوئی بات بھی دکھلا سکی؟ یہ الفاظ بھی ٹھیک نہیں۔ یوں پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ کوئی ایک بات بھی ہماری مخالفت میں کر سکی؟ وہ تو اور زیادہ ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ عین ہماری آرزوؤں اور خواہشوں کے مطابق ہمیں کامیابی کی طرف کھینچ رہی ہے۔

وہ زیادہ مخالف ہوئی تو اس نے زیادہ گرفتاریاں شروع کر دیں، لیکن گرفتاریوں ہی کے لیے تو ہم نے اپنا پروگرام بنایا تھا؟ وہ زیادہ سختی پر آئی تو اس نے بڑے بڑے لیڈروں پر بھی ہاتھ     بڑھایا، لیکن تحریک کی طاقت اور ترقی کے لیے بھی تو ہم اسی بات کے طلب گار تھے ؟ حتیٰ کہ گرفتاریوں کے لیے گورنمنٹ کو بلاوے دیتے دیتے تھک گئے تھے ؟ وہ زیادہ مقابلے میں سرگرم ہوئی تو والنٹیر کورز توڑ ڈالی گئیں، لیکن یہ تو عین ہماری دستگیری ہے اور سچ مچ کو ہمیں کام پر لگا دینا ہے کیونکہ سول ڈس او بیڈینس کے لیے ہمیں کسی ایسی ہی بات کی تلاش تھی۔ ہم کب سے اس موقعہ کے انتظار میں راہ تک رہے تھے ؟ پھر یہ کیسی مخالفت ہے جو عین موافقت کا کام دے رہی ہے اور کیسا مقابلہ ہے جس کا ہر وار ہمیں ایک نیا ہتھیار بخش دیتا ہے ؟ فی الحقیقت یہی ایمان و صبر کی راہ کا معجزہ ہے اور یہی وہ راز ہے ایمان اور قربانی کے مقابلہ میں ہتھیار ہیں، ان میں سے کوئی ہتھیار بھی اس پر غالب نہیں آ سکتا۔

 

               گورنمنٹ کی رہنمائی

 

میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت ہماری تحریک کی طاقت اور فتح کے لیے ہمارا بڑے سے بڑا دوست اور رہنما بھی ہم پر وہ احسان نہیں کر سکتا تھا جو گورنمنٹ نے خلافت اور کانگریس والنٹیرز کو توڑ کر ہم پر کر دیا ہے۔ اس نے عین وقت پر ہماری مدد کی۔ وہ ہماری مدد کیوں کرتی؟ لیکن اسی کا سازِ قدرت نے اس کے ہاتھوں کرائی جو ہمیشہ اپنی نیرنگیوں کے اچنبے دنیا کو دکھلاتا رہتا ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہ اسی وقت ہوا جب کہ ہم میں ہر دل بڑی بے قراری کے ساتھ اس کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ یہ گویا آسمان کی فیاض اور وقت شناس بارش ہے جو نہ تو پہلے آئی اور نہ دیر کر کے آئی۔ ٹھیک اسی وقت آئی جبکہ تمام کھیت اس کی راہ تک رہے تھے :

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (سورۃ الروم۔ آیت 24)

اس وقت تحریک کی کامیابی کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور ناگزیر عمل ” سول ڈس اوبیڈینس” کا تھا۔ یعنی اس بات کا تھا کہ سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائے اور قید خانے بھر کر گورنمنٹ کے تشدد کو تھکا دیا جائے۔ اس کی کامیابی کے لیے کامل نظم و امن اور صبر و استقامت کی ضرورت تھی اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وقت پر اس کی شرطیں پوری ہو سکیں گی یا نہیں ؟

سول ڈس اوبیڈینس کی دو صورتیں ہیں :

ایک یہ کہ کوئی خاص معین قانون ہو جو ہماری تحریک کے جائز اور با امن کاموں کو جبراً روکتا ہو اور صرف اسی کی عدمِ تعمیل سے کام شروع کیا جائے۔ یہ صورت محض دفاعی ہے اور اس لیے سب سے زیادہ محفوظ اور کامیاب ہے۔ کیونکہ اس میں میدان عمل محدود رہتا ہے اور صرف وہی لوگ اس میں آ سکتے ہیں جو اچھی طرح اس کے لیے تیار ہوں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون تو سامنے نہ ہو، مگر عام طور پر تمام سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائے۔ اس میں زیادہ اولوالعزمی اور دلیری ہے کیونکہ یہ دفاعی عمل نہیں ہے۔ جارحانہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت نازک اور کٹھن بھی ہے۔ اس کو صرف دو چار آدمی کر کے نتیجہ نہیں پیدا کر سکتے، جب تک پوری بڑی جماعت اور پاری آبادی نہ کرے اور ظاہر ہے کہ پوری آبادی کا اس کی مشکلات پر غالب آنا، اور تمام شرطوں میں پورا اترنا آسان نہیں ہے۔

آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے جب کوئی پہلی صورت سامنے نہ دیکھی تو دوسری صورت اختیار کی۔ لیکن اس کے لیے ضروری شرطیں بھی ٹھہرا دیں۔ یہ شرطیں ایسی ہیں کہ جو اس وقت صرف چند خاص مقامات ہی میں پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے لوگوں کو مایوسی ہوئی اور تمام کارکن حلقے کام میں شریک نہ ہو سکے۔

گورنمنٹ نے کراچی کا مقدمہ کر کے فوج اور پولیس کا مسئلہ ہمارے لیے پیدا کر دیا تھا۔ ہم تیار ہو گئے کہ اسی سے سول ڈس اوبیڈینس کے مقاصد حاصل کریں۔ ہم نے پوری کوشش کی اور کوئی دقیقہ اس مسئلہ کے اعلان اور اعتراف میں اُٹھا نہ رکھا، لیکن گورنمنٹ بہت جلد چونک اُٹھی اور سمجھ گئی کہ وہ ہم پر وار نہیں کر رہی ہے، بلکہ ہمارے وار کے لیے خود اپنے کو پیش کر رہی ہے۔ اس نے فوراً پینترا بدلا اور ایک شخص کو بھی کراچی ریزولیوشن کے تکرار و تصدیق کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا۔      لیکن اب والنٹیر کورز کو خلاف قانون ٹھہرا کر اس نے نعم البدل دے دیا ہے۔ ہر اعتبار اور حیثیت سے یہ سول ڈس اوبیڈینس کے لیے بہترین راہ کھلی۔ ہم گورنمنٹ سے اگر کوئی چیز مانگتے تو یہی مانگتے، جو اس نے خود بخود دے دی۔ اس راہ کی ساری دقتیں دور ہو گئیں اور ساری خوبیاں مل گئیں۔ اب کامیاب اور بے خطر سول ڈس او بیڈینس یہی ہے کہ والنٹیرز کی جماعتیں از سرِ نو بھرتی کی جائیں اور گورنمنٹ کو چھوڑ دیا جائے کہ جہاں تک گرفتار کر سکتی ہے، گرفتار کرتی جائے۔

 

               سب سے بڑا کام

 

اب خلافت اور کانگریس کمیٹیوں کے لیے صرف یہی ایک کام بڑا سے بڑا کام ہے اور ہر اس شخص کے لیے جو اسلام اور ملک کی محبت کا دعویدار ہے، راہ عمل کھل گئی ہے کہ فوراً اٹھے اور سارے کام چھوڑ کر قومی والنٹیرز میں اپنا نام لکھوا دے۔ اب وقت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہو گی۔ کل تک ہمارے لیے بہت سے کام تھے اور ہر کام خلافت اور سوراج کی خدمت تھا۔ ہم تقریریں کرتے تھے، جلسے کرتے تھے، دوروں میں نکلتے تھے، خلافت اور کانگرس کمیٹیوں کے عہدوں پر مامور ہوتے تھے، لیکن آج وہ تمام کام غیر ضروری ہو گئے۔ صرف یہی ایک کام خلافت اور سوراج کا اصلی کام ہے۔ اب سب سے بڑا خادم اسلام و ملک وہی ہے جو والنٹیر بن جائے اور پورے صبر و استقامت کے ساتھ اپنی ڈیوٹی پر کام کر کے جیل خانے چلا جائے۔

 

               تین شرطیں

 

البتہ تمام کارکنوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کامیابی کے لیے تین شرطیں اٹل ہیں۔ جب تک وہ ان شرطوں کی طرف سے مطمئن نہ ہو جائیں، ہرگز ہرگز اس راہ میں قدم نہ اٹھائیں۔ کام کا کم ہونا بُرا نہیں ہے، مگر کام کا بگاڑ دینا ناقابل معافی ہے۔ اگر اس نازک گھڑی میں ہم نے ذرا بھی غفلت کی، تو ہم سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی مجرم نہ ہو گا۔

پہلی شرط ” نظم ” ہے۔ جو خلافت یا کانگریس کمیٹی یہ کام شروع کرے، چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی انتظامی قوت کو اچھی طرح دیکھ بھال لے۔ انتظام کے لیے تین باتوں کی طرف سے اطمینان ہونا چاہیے :

1 – تمام مقامی کارکن کسی ایک شخص کے حکموں پر چلتے ہوں اور پوری طرح اس کی اطاعت کرتے ہوں۔ اگر خلافت اور کانگریس کمیٹی کے صدر کو ایسی طاقت حاصل ہے تو یہ منصب اسی کا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو جو شخص ایسا اثر رکھتا ہو، عارضی طور پر والنٹیر کور کا نظام اس کے ماتحت کر دینا چاہیے اور تمام کارکنوں کو پوری اطاعت کے ساتھ اس کا ساتھ دینا چاہیے۔

2 – مقامی آبادی پر کمیٹی کا پورا پورا اثر ہونا چاہیے۔ اس کو یقین ہونا چاہیے کہ وہ وقت پر سب کو اپنے قابو میں رکھ سکے گی۔

3 – انتظام کے قائم رکھنے کے لیے کافی اور ہوشیار کارکن ہونے چاہئیں، تا کہ ہر وقت کام دے سکیں۔ ان کو والنٹیرز میں شامل نہ ہونا چاہیے۔

دوسری شرط "امن” ہے اور یقین کرنا چاہیے کہ اگر ہم امن قائم نہ رکھ سکے تو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ کام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہم امن کو گورنمنٹ کے لیے نہیں چاہتے، خود اپنی کامیابی کے لیے چاہتے ہیں۔ گورنمنٹ تاک میں ہے کہ کوئی بات بھی بلوے اور بدنظمی کی ہو جائے اور پھر اس کو قابو پانے کا موقع مل جائے۔ بمبئی کے واقعہ نے بتلا دیا کہ انتظام کی غفلت اور غیر ذمہ دار لوگوں کی شرارتوں نے کیسی خوفناک صورت اختیار کر لی؟ پس چاہیے کہ ہم سچے دل سے اس شرط پر یقین رکھیں اور خدمتِ دین و ملت کے پاک کام کو بدمعاش اور شریروں کی شرکت سے گندہ نہ ہونے دیں۔ ہم کو پوری ہوشیاری اور نگہبانی کے ساتھ اس کا اطمینان کر لینا چاہیے اور جب تک اطمینان نہ ہو والنٹیرز کا نیا کام شروع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اطمینان دونوں جماعتوں کی طرف سے ہونا چاہیے۔ ان کی طرف سے بھی جو والنٹیر بنیں اور ان کی طرف سے بھی جو والنٹیرز کی قربانیوں اور گرفتاریوں کا نظارہ کریں۔ دونوں کے دلوں کو ٹٹول لینا چاہیے۔ دونوں کے دلوں پر امن کی ضرورت نقش کر دینی چاہیے۔ والینٹر وہی بنے گا جو گرفتار ہو جانے     اور پھر بلا جرمانہ دے، بلا معافی مانگے، بلا پیشانی پر بل لائے، سزا جھیل لینے کے لیے تیار ہو۔ اسی طرح والنٹیرز کا کام صرف اسی آبادی میں شروع کیا جائے جو ہر روز اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کی گرفتاری دیکھے، لیکن نہ تو اسے خوف و ہراس ہو۔ نہ بے جا جوش اور بھڑک۔ اگر ولولہ اٹھے تو ان کی ریس کا۔ جوش پیدا ہو تو انہی کی طرح خوش خوش قید ہو جانے کا!

تیسری شرط "استقامت” ہے، یعنی قربانی اور جانبازی کی راہ میں قدم اٹھا کر پھر اس طرح جم جانا کہ نہ تو کوئی طمع ہلا سکے۔ نہ کوئی خود ڈرا سکے۔ سمندر کی طرح پر جوش، پہاڑ کی طرح مضبوط!

    تزول الجبال الراسیات و قلبھم علی العھد لا یلوی ولا یتغیر!

اس شرط کے لیے اور زیادہ کیا کہوں ؟ کامیابی کی جڑ فتح و مراد کا سرچشمہ، ایمان کا خلاصہ، عمل کی روح، خدا کی رحمت کا وسیلہ اگر ہے تو صرف یہی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿الأحقاف: ١٣﴾

جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے، تو پھر ان کے لیے نہ تو کسی طرح کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم!

 

 

بیگم صاحبہ مولانا کا تار بنام گاندھی جی

 

ہم ذیل میں بیگم مولانا کا وہ تار درج کرتے ہیں، جو اُنہوں نے مولانا کی سزا یابی کے بعد مہاتما گاندھی کو احمد آباد اور بردولی کے پتوں پر دیا تھا۔ لیکن سنٹرل ٹیلیگراف آفس کلکتہ نے اسے روک لیا۔

"میرے شوہر مولانا ابوالکلام آزاد کے مقدمہ کا فیصلہ آج سنا دیا گیا، انہیں صرف ایک سال قید سخت کی سزا دی گئی۔ یہ نہایت تعجب انگیز طور پر اس سے بدرجہ کم ہے جس کے سننے کے لیے ہم تیار تھے۔ اگر سزا اور قید قومی خدمات کا معاوضہ ہے تو اپ تسلیم کریں گے کہ اس معاملہ میں بھی ان کے ساتھ نا انصافی برتی گئی۔ یہ تو کم سے کم بھی نہیں ہے، جسکے وہ مستحق تھے۔ میں آپ کو اطلاع دینے کی جرات کرتی ہوں کہ بنگال میں جو جگہ ان کی خدمات کی خالی ہوئی ہے، ان کے لیے میں نے اپنی ناچیز خدمات پیش کر دیں ہیں اور وہ تمام کام بدستور جاری رہیں گے جو اِن کی موجودگی میں انجام پاتے تھے۔ میرے لیے یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے لیکن میں خدا سے مدد کی پوری اُمید رکھتی ہوں۔ البتہ ان کی جگہ صرف بنگال ہی میں خالی نہیں ہے بلکہ تمام ملک میں اور اس کے لیے سعی کرنا میرے دسترس سے بالکل باہر ہے۔ ”

"میں پہلے چار سال تک ان کی نظر بندی کے زمانے میں اپنی ایک ابتدائی آزمائش کر چکی ہوں، اور میں کہہ سکتی ہوں کہ اس دوسری آزمائش مین بھی پوری اتروں گی۔ گزشتہ پانچ سال سے میری صحت نہایت کمزور ہو گئی ہے، دماغی محنت سے بالکل مجبور ہوں۔ اس لیے باوجود میری خواہش کے مولانا ہمیشہ اس سے مانع رہے کہ میں کسی طرح کی محنت اور مشغولیت کے کام میں حصہ لوں۔ لیکن میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ ان کی سزا یابی کے بعد مجھے اپنی ناچیز ہستی کو ادائے فرض کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔ میں آج سے بنگال پراونشل خلافت کمیٹی کے تمام کاموں کو اپنے بھائی کی اعانت سے انجام دوں گی۔”

"اُنہوں نے مجھے سے کہا ہے کہ ان کے پُر محبت و احترام سلام کے بعد یہ پیغام آپ کو پہنچا دوں کہ اس وقت دونوں فریق میں سے کسی فریق کی حالت بھی فیصلہ یا صلح کے لیے تیار نہیں ہے۔ نہ گورنمنٹ، نہ ملک اس لیے ہمارے آگے صرف اپنے تئیں تیار کرنے ہی کام درپیش ہے۔ بنگال جس طرح آج سب سے آگے ہے آئندہ منزل میں بھی پیش پیش رہے گا براہ عنایت "بردولی تعلقہ” پر بنگال پراونس کے نام کا بھی اضافہ کر دیجئے اور اگر کوئی وقت فیصلہ کا آئے، تو لوگوں کی رہائی کو اتنی اہمیت نہ دیجئے جتنی آج کل دی گئی ہے رہائی کو بالکل نظر انداز کر کے مقاصد کے لیے شرائط کا فیصلہ کرائیے "۔

٭٭٭

 

 

 

٭٭٭

ٹائپنگ: محمد شمشاد خان، فاطمہ قدوسی، محمد وارث، ابو کاشان، پاکستانی، سیدہ شگفتہ

پروف ریڈنگ: محمد عمر بنگش، اعجاز عبید

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید