FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

قرآن مقدس اور حدیث مقدس

تالیف

محمد حسین میمن

 

مقدمہ

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    الحمد للّٰہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدالمرسلین وعلی وآلہ وأصحابہ اجمعین۔ امابعد !

    اگر ہم غور کریں کہ کتب احادیث میں زیادہ تر کس کتاب حدیث کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ کتاب صحیح بخاری ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے محدثین کی جماعت کے سامنے تیار کیا۔

    صحیح بخاری میں درج تمام احادیث نبی کریمﷺ تک پہنچتی ہیں اور ان کا احادیث صحیحہ ہونا ضوء النھار کی طرح واضح اور روشن ہے اسی لئے محدثین کی جماعت نے امام بخاری رحمہ اللہ کو صحیح بخاری مرتب کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائنی المتوفی ۴۰۸ھ فرماتے ہیں۔

    ’’اھل الصنعۃ مجمعون علی ان الأخبار التی اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بصحۃ اصولھا ومتونھا ولا یحصل الخلاف فیھا بحال وان حصل فذاک اختلاف فی طرقھا ورواتھا ‘‘ (فتح المغیث ج 1ص64النکت لابن حجر جلد1صفحہ377)

    ’فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے تمام اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے ‘۔

    صحیحین کی صحت پر اجماع کا دعوی حافظ ابن حجرعسقلانی،حافظ ابو نصر السجزی، امام ابو عبداللہ الحمیدی، حافظ ابو بکر الجوزقی، امام الحرمین الجوینی اور حافظ العلائی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم نے کیا ہے۔

    امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:

    ولا نعلم من حملۃ الحدیث وحفاظھم من استقصی فی انتقاد الرواۃ ما استقصی محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ مع امامتہ وتقدمہ فی معرفۃ الرجال وعلل الاحادیث۔ (المعرفۃ للبیہقی ج3ص217)

    ’ہم نہیں جانتے کہ حفاظ حدیث میں سے کسی نے روایوں کی تنقید میں اتنا اہتمام کیا ہو جتنا محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے کیا ہے وہ معرفت رجال اور علل حدیث کے سب سے فائق امام تھے ‘۔

    الحمد للہ امت کا اجماع ہے کہ بخاری میں تمام تر احادیث احادیثِ صحیحہ ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ صحیح بخاری کی صحت پر امت کا اجماع ہونے کے باوجود بھی اسے ہی کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ؟تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مذاہب کی جو بنیادی کتب ہیں ان کا سو۱۰۰ فیصد صحیح ثابت کرنا ناممکن ہے لیکن اسلام وہ واحد دین ہے جس کا سو۱۰۰ فیصد صحیح ہونا حقیقت ہے۔ مثلاً مذہب مسیحت کو لے لیں۔

مذہب مسیحیت:۔

    مسیحیوں کے نزدیک انجیل کو کتاب مقدس تسلیم کیا جاتا ہے اور وہ دراصل چار بڑے صحیفوں پر مشتمل ہے۔

    1)متی کی انجیل

    2)مرقس کی انجیل

    3)لوقا کی انجیل

    4)یوحنا کی انجیل

    ان میں سے کوئی صحیفہ بھی عیسی علیہ السلام کا نہیں اور یہ کتابیں خود اس قدر مجہول الاصل ہیں کہ ان پر کچھ بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

    (1)پہلی کتاب مسیح علیہ السلام کے حواری متی کی طرف منسوب ہے اور یہ تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ متی کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ متی کی اصل کتاب جس کا نام لوجیا (logia)تھا مفقود ہے۔

    (2)دوسری کتاب مرقس کی طرف منسوب ہے اور عموماً ً تسلیم کیا جاتا ہے کہ مرقس خود ہی اس کا مصنف ہے لیکن یہ ثابت ہے کہ وہ عیسی علیہ السلام سے نہیں ملا اور نہ ہی ان کے حواریوں میں سے ہے۔

    (3)تیسری کتاب لوقا ہے جو لوقا کی طرف منسوب ہے یہ بات بھی بالکل مسلّم ہے کہ لوقا نے کبھی مسیح علیہ السلام کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے استفادہ کیا۔ وہ پولوس (St. Paul) کا مرید تھا اور یہ بھی ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام اور لوقا کے درمیان سلسلہ روایت کی کڑی غائب ہے۔

    (4)چوتھی کتاب جو یوحنا کی انجیل کہلاتی ہے جدید تحقیق کے مطابق مشہور یوحنا حواری کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ کسی مجہول الحال شخص کی ہے جس کا نام یوحنا تھا۔ یہ کتاب مسیح علیہ السلام کے بہت بعد 90ء میں یا اس کے بھی بعد لکھی گئی ہے۔ یعنی چاروں اناجیل کا مسیح علیہ السلام تک پہنچا نانا ممکن ہے۔ اسی طرح ہندو مذہب۔

    ہندو مذہب:۔

    ہندو مذہب کی ایک معین تعریف بیان کرنا انتہائی دشوار مرحلہ ہے کیونکہ ہندومت ان معنوں میں کوئی مذہب ہی نہیں ہے جس کے لئے عموماً یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور نہ ہی ہندو مذہب کا کوئی بنیادی عقیدہ ہے جس سے اس کی پہچان ہو۔ اسی وجہ سے ہندو مذہب کی تعریف کرنے میں محققین کو بہت دقّت پیش آئی ہیں۔

(Guru Parsad Sen. Introduction To The Study of Hinduism Pg:9)

    کوئی کہتا ہے کہ ہندو مذہب رسوم،عبادات،عقائد،روایات،اور صنمیات کا مجموعہ ہے۔

(Lyall. Religious Systems of the World P:114)

    کوئی کہتا ہے کہ ’’وہ تمام باشندگان ہند جن کااسلام،جین مت،بدھ مت،مسیحیت،پارسی،یہودی یا دنیا کے کسی اور دوسرے مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور جن کا طریقہ عبادات وحدانیت سے لے کر بت پرستی تک وسیع ہو اور جن کے دینیات کلیۃ ً سنسکرت زبان میں لکھے ہوئے ہوں ہندو ہیں۔

(Census Report ,Baroda.1901.pg:120)

    گویا ہندو مذہب کیا ہے اس کا بانی کون ہے کچھ معلوم نہیں۔

بدھ مذہب :۔

    گوتم بدھ نے اپنی زندگی میں نہ تو کوئی کتاب لکھی اور نہ ہی لکھوائی گوتم بدھ کی تعلیمات کیا تھیں اس بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں بیان کیا جا سکتا۔ بدھ مذہب کے متعلق ایک مصنف لکھتا ہے کہ اس مذہب میں بھکشوؤں نے اصل مذہب کے اصولوں کو تبدیل کر دیا ہے اس نے عقائد اور احکام میں بہت کچھ ترمیم کی اور اصل سوتروں کو بدل کر نئے سوتر بنا لئے دیکھئے میکس وولر کا دیباچہ سیکرٹ بکس آف دی بدھسٹس۔

(Hackman, Buddhism as a Religion ,p.51.52)

    معلوم ہوا کہ بدھ مذہب بھی ایک ناقابل یقین مذہب ہے۔

    قارئین کرام یہ ہے حال ان مشہور مذاہب کا، کہ ان کی بنیادی کتب،ان کے عقائد سب کے سب ناقابل یقین ہیں یہی وجہ ہے کہ کرسچن مشنریز حسد کی آگ میں جل کر اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ اسلام کو بھی ان مذاہب کی صفوں میں لانا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرسچن مشنریز ہماری کتب احادیث کی صحت کو مشکوک بنانا چاہتی ہیں اور اس کے لئے وہ مختلف طریقے اور حربے استعمال کر رہی ہیں اور ہمارے نام نہاد مسلمان ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں،کتاب قرآن مقدس اور بخاری محدث،بھی ان ہی سازشوں کی ایک کڑی ہے اور یہ صحیح بخاری (حدیث کی صحیح ترین کتاب) کی صحت کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش ہے۔ یہ کتاب ایسے ہی ایک آلہ کار علامہ احمد سعید کا کارنامہ ہے جو اسلام کے خلاف لکھی گئی ہے علامہ احمد سعید اسی روش کو اختیار کئے ہوئے ہیں جس روش کو مستشرقین نے اختیار کیا تھا۔

    مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ایک تو مؤلف نے صحیح حدیث پر طعن کیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی گھٹیا زبان سے محدثین رحمۃ اللہ علیہم پر جو نکتہ چینی کی ہے وہ ناقابل برداشت ہے اور ختم نبوت پر جو ان کی کاری ضرب ہے وہ سزاکی مستحق ہے۔ (یہ کتاب) ’’قرآن مقدس اور حدیث مقدس‘‘ آپ کے ہاتھ میں ہے اس میں ان احادیث کا جواب دیا گیا ہے جس پر علامہ احمد سعید نے اپنی حدیث دشمنی ثابت کی ہے اور صحیح حدیث کو قرآن کریم کے خلاف ٹھہرا کر من گھڑت ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے جو کہ ایک ناکام سعی ہے۔ ان جیسے اسلام دشمن آلہ کاروں نے بیشمار کتابیں مختلف ادوار میں تحریر کیں لیکن ہر دور میں علماء حق نے ان کا دنداں شکن جواب دیا اور ان کی سازشوں کو باذن اللہ بے نقاب کیا۔

    ’’وَقُل جَاءَ الحَقُّ وَزَہَقَ البَاطِلُإِنَّ البَاطِلَ کَانَ زَہُوقا‘‘ (الاسراء 18/17)

    ’’اور کہیئے :کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو ہے ہی مٹنے کے لئے ‘‘۔

    کتاب قرآن مقدس اور حدیث مقدس بھی ان اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ہے جو کہ علامہ احمد سعید نے بے جا اٹھائے ہیں ان شاء اللہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کو بخوبی علم ہو جائے گا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کس قدر احتیاط اور توجہ سے کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ تصنیف کی ہے جسے امت نے کتاب اللہ کے بعد کا درجہ دیا ہے۔

   میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ہمیں احادیث مبارکہ کا دفاع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کو ایسے کفر اور گستاخی سے محفوظ رکھے۔

    (آمین)

    محمد حسین میمن (خادم حدیث )

٭٭٭

 

اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے کیا مراد ہے؟

    اعتراض نمبر1:۔

    اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے کیا مراد ہے ؟

    احمد سعید خان ملتانی جن کی جہالت ان کی تحریر میں عیاں ہے نے اپنی کتاب میں یہ جملہ’’ اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ پر اعتراض کیا ہے اور اسے شرک کے ضمن میں داخل کیا ہے۔

    (قرآن مقدس اور بخاری محدث ص5)

    جواب:۔

میرے خیال میں مصنف کو کتب عقائد پڑھنے کی اشد ضرورت ہے ممکن ہے کہ نبی کریمﷺ کی حدیث دشمنی میں ان کے تمام عقائد کورے ہو گئے ہوں۔ مغالطہ کہاں سے پیدا ہوا !جب سے کتاب اللہ سے مراد صرف اور صرف قرآن مجید ہی لیاگیااسی دن سے اس جہالت کی ابتداء ہوئی حالانکہ کتاب اللہ کا اطلاق قرآن مجید کے ساتھ ہر صحیح حدیث پر بھی ہوتا ہے۔ مثلاً

    ’’إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللّٰہِ اثنَا عَشَرَ شَہراً فِی کِتَابِ اللّٰہِ یَومَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ مِنہَا أَربَعَۃٌ حُرُمٌ ‘‘ (التوبہ 36/9)

    ’’یقیناً اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ (12)ہے کتاب اللہ میں اس دن سے جس دن اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا جس میں چار مہینے حرمت والے ہیں ‘‘۔

    مندرجہ بالا آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ بارہ مہینوں کی گنتی کتاب اللہ میں موجود ہے۔ اگر ہم کتاب اللہ سے مراد یہاں صرف’’ قرآن‘‘ ہی لیں تو یقیناً ہم کبھی بھی ان مہینوں کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے اگر ہم کتاب اللہ سے مراد’’ قرآن مجید اور صحیح احادیث ‘‘لیں جیساکہ آیت سے بھی واضح ہے تو یقیناً ہم ان مہینوں کو پالیں گے۔ بارہ مہینوں کی گنتی نبی کریمﷺ کی صحیح احادیث ہی سے ثابت ہیں۔ مثلاً

    1)السنن الکبری للنسائی کتاب النکاح باب البناء فی شوال جلد3رقم الحدیث5572

    2)صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ : ان عدۃ الشھور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رقم الحدیث 4662

    3)صحیح بخاری کتاب الطب باب الجذام رقم الحدیث 5707

    4)صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقال رمضان أو۔ ۔ ۔ رقم الحدیث 1899-

    5)المنتظم لابن الجوزی،جلد2ص39

    مندرجہ بالا حوالہ جات میں بارہ مہینوں کی گنتی موجود ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ قرآن کریم کے علاوہ صحیح احادیث بھی کتاب اللہ میں شامل ہیں اسی طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ایک حدیث موجود ہے :

    ’’دو اعرابی رسول اللہﷺ کے پاس آئے ایک نے کہا یارسول اللہﷺ میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا میں نے اس کے فدئیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپﷺ نے فرمایا سنو! میں تم میں کتاب اللہ سے صحیح فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے لڑکے پر سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے (کیونکہ وہ کنوارا تھا) اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ اپنی غلطی کا اقرار کر لے تو اسے سنگسار کر دینا۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ اسے رجم کر دیا گیا ‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الصلح باب اذاصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم الحدیث2695، صحیح مسلم کتاب الحد ود باب من اعترف علی نفسہ بالزنارقم الحدیث1697)

    نبی کریمﷺ نے جو فیصلہ صادر فرمایا وہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان ضرور کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کا اطلاق صرف قرآن پر ہی نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کی تمام صحیح احادیث پر بھی ہوتا ہے۔ علامہ صاحب کو جہالت اور کم علمی کے نشے میں یہ نکتہ نظر نہ آیا۔

    ’’جب آنکھیں ہوں بند تو آفتاب کا کیا قصور‘‘

    پس قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے مطالعہ سے ثابت ہوا کہ صحیح احادیث بھی مأخذ شریعت ہے یعنی صحیح احادیث بھی قرآن کریم کی طرح وحی ہیں جو من جانب اللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

    وَمَا یَنطِقُ عَنِ الہَوٰی۔ إِن ہُوَ إِلَّا وَحیٌ یُّوحٰی

    ’’نبی کریمﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے مگر وہ بولتے ہیں جو وحی کی جاتی ہے ‘‘

    (النجم 4-3/53)

    آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ احادیث بھی وحی ہیں اور یہ بھی من جانب اللہ ہیں،اب اگر کوئی شخص قرآن اور صحیح احادیث میں تفریق کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے نہ کہ قرآن و حدیث کا مصنف نے بڑی ہوشیاری اور فریب جوئی سے حدیث کو (یعنی جو کتاب اللہ ہے)شرک قرار دیا۔ مندرجہ ذیل آیت کے بارے میں مصنف کا کیا خیال ہے ؟

    مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَد أَطَاعَ اللّٰہَ (النساء80/4)

    ’’ جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی ‘‘۔

    میرے خیال میں یہاں بھی مصنف کو شرک ہی نظر آیا ہو گا ؟ کیونکہ اللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ نبیﷺ کی اطاعت کا ذکر کیا ہے۔ محترم قارئین اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے مراد اما م بخاری رحمہ اللہ کی جمع کردہ صحیح احادیث ہیں جو من جانب اللہ ہیں ان کو شرک گرداننا لغو اور جہالت ہے اور سبیل المؤمنین کے خلاف ہے۔

٭٭

نبی کریمﷺ کا خود کشی کا ارادہ اور مصنف کی چالبازی

    اعتراض نمبر2 :۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 13پر صحیح بخاری کی ایک حدیث ذکر کرتا ہے کہ:

    ’’مراراً کئی یتردی من رؤوس شواھق الجبال فکلما أوفی بذروۃ جبل لکی یلقی منہ نفسہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (صحیح بخاری کتاب التعبیر رقم الحدیث۔ 6982)

    ’’ وحی نہ آنے کی وجہ سے رنج کے مارے کئی بار آپﷺ خودکشی کرنے پر تیار ہو گئے اگر جبریل علیہ السلام آ کر دلاسہ نہ دیتے کہ آپﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو آپﷺ خودکشی کرنے پر کئی بار تیار ہو گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مصنف آگے لکھتا ہے کہ ’’یہ ہے امام بخاری اور ان کے معتمد علیہ استاذ امام زہری کا مذہب جو بڑی خوشی کے ساتھ امام بخاری نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے بار بار آپﷺ سے کفر کی تیاری کرواتے (معاذاللہ)نہ بخاری کو قرآن کا علم نہ ان کے امام زہری کو علم نہ امام بخاری کو آپ(ﷺ ) کی حیثیت نبوی کا پاس نہ زہری ایسے بکواسی آدمی کو ! دونوں نے مل کر آپﷺ سے کئی بار کفر پر مرنے کی تیاری کروائی۔ (قرآن مقدس۔ ۔ ۔ ۔ ص14-13)

    جواب:۔

    قارئین کرام آپ نے دیکھا کس قدربکواس اور لفاظی کے ساتھ مصنف نے نبی کریمﷺ کی حدیث اور محدثین کی جماعت کو نشانہ بنایا۔ تف ہے ایسی لفاظی پر۔ مصنف نے اس حدیث کو پیش کرنے سے پہلے ایک قاعدہ ذکر کیا کہ خودکشی کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے اور دلیل کے طور پر سورۃ یوسف کی آیت87ذکر کی۔ مصنف نے بڑے دھڑلے سے امام بخاری رحمہ اللہ کو اور امام زہری رحمہ اللہ کو بکواسی اور لاعلم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ دونوں تو اتنے عظیم عالم تھے پوری امت ان پر آج تک رشک کرتی ہے۔ اور رہا سوال مصنف علامہ احمد سعید کا تو ان کی قابلیت تو یہیں سے آشکارا ہو جاتی ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث جس پر وہ اپنا زہر گھول رہا ہے وہ تو ابتدائی وحی تھی اور سورہ یوسف تو کافی سالوں بعد نازل ہوئی جس سے وہ خودکشی کی حرمت ثابت کر رہے ہیں۔ اندازہ کیجئیے !مصنف کس قدر جاہل اور بکواسی ہے۔

    دوسری بات صحیح بخاری کی حدیث میں ’’ارادے ‘‘کا ذکر ہے یعنی اس ارادے کے ساتھ پہاڑ پر نبی کریمﷺ چڑھ جایا کرتے تھے لیکن جبریل علیہ السلام آ کر انھیں دلاسا دیتے تو نبی کریمﷺ ارادے سے باز آ جاتے تھے کیونکہ ابھی نبی کریمﷺ کو وحی کے ذریعے اس ارادے سے نہیں روکا گیا تھا۔ اس کی مثال میں قرآن سے پیش کرتا ہوں کہ :نبی کریمﷺ نے اپنے لئے شہد حرام قرار دیا تھا قرآن کریم سورہ تحریم میں فرماتا ہے کہ :

    یٰٓا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (التحریم 1/66)

    ’’اے نبی ! جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں کرتے ہیں۔ ‘‘

    بتایئے آپ کیا کہیں گے اس آیت مبارکہ کے بارے میں نبی کریمﷺ نے ایک چیز کو اپنے لئے حرام کر دیا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا تھا۔ یقیناً ہم یہی کہیں گے کہ اس آیت مبارکہ سے پہلے نبی کریمﷺ کو روکا نہیں گیا تھا بالکل اسی طرح اس وقت نبی کریمﷺ کو اس فعل(ارادے) سے وحی کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا۔ اس بات کو ایک دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

    مریم علیہا السلام کو جب حمل ٹھہرا تو قرآن کریم فرماتا ہے۔

    قَالَت یَا لَیتَنِی مِتُّ قَبلَ ہٰذَا وَکُنتُ نَسیاً مَّنسِیّاً (مریم 23/19)

    ’’کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور میرا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا۔ ‘‘

    غور طلب بات ہے کہ مریم علیہا السلام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے مرنے کی آرزو کی کیا مصنف اس آیت کو بھی اسلام دشمنی قرار دے گا۔ اگر نہیں تو پھر صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف اتنا بغض کیوں ؟؟مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے اپنی کتاب کے صفحہ 13پر حدیث نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہﷺ نے موت کی تمنا رکھنے والے کو پسند نہ کیا اور موت کی تمنا کرنے سے منع فرما دیا‘‘۔

    قارئین کرام مندرجہ بالا حدیث جس سے مصنف نے حجت پکڑی ہے اسے امام الدنیا، امیرالمحدثین، شیخ الاسلام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف صحیح بخاری میں نقل کیا ہے۔ مصنف نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ 14پر امام بخاری رحمہ اللہ کو دشمن رسالت باور کرایا ہے مصنف کی اس حالت کو کیا کہیں یہ تو نشہ اور مستی کی حالت ہے یا تو یہ مصنف کی جہالت اور کم علمی کا نشہ ہے یا پھر یہ یہود و نصاریٰ کا آلہ کار ہے۔ یہ صرف شیطان کی پیروی ہے اس کے سوا کچھ نہیں امام بخاری رحمہ اللہ امام المحدثین ہیں جن کی عظمت کو امت مسلمہ تسلیم کرتی ہے مصنف نے جو ان پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی ہے وہ کوشش ان شاء اللّٰہ تباہ و برباد ہو کر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے :

    ’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤمِنِین ‘‘ (الشعراء 3/26)

    ’’(اے نبیﷺ )ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے۔ ‘‘

    اس آیت کے بارے میں مصنف کا کیا جواب ہے؟کیا اس آیت کے بارے میں بھی مصنف وہی روّیہ رکھے گا جو حدیث کے بارے میں ہے نہیں تو پھر حدیث پر اعتراض کیوں ؟اسی لئے کہ مصنف جاہل ہے۔ مصنف کا اعتراض بے ادبی، لغویات اور بکواس پر مبنی ہے جو ایک ادنی سے ادنی طالب علم پر بھی عیاں ہے۔

٭٭

نبیﷺ پر جادو ہونے پر اعتراض

    اعتراض نمبر3:۔

    مصنف اپنی کتاب’ قرآن مقدس اور بخاری محدث ‘کے صفحات 17,16,15اور18میں حدیث سحرپر اعتراض کرتا ہے اور ہشام کو کذاب مدلس کہتا ہے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ پر جو جادو ہوا اسے مشتبہ بنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔

    جواب:۔

    کاش مصنف قرآن کریم کو عقل کی آنکھ جو کہ حالت سکر( نشہ) کی وجہ سے غائب ہے سے پڑھ لیتا تو اسے صحیح بخاری کی یہ حدیث مشتبہ نظر نہ آتی اور نہ ہی وہ لفاظی کرتا۔ مصنف نے بڑی چالاکی سے آیت کے ترجمہ اور مفہوم کو کچھ کا کچھ بنا دیا۔ کیونکہ مصنف خائن ہے مصنف نے اپنے مؤقف پر چند آیات سے غلط استدلال کیا ہے۔

    1)وَلَا یُفلِحُ السَّاحِرُ حَیثُ أ َتٰی( طہ69/20)

    ’’جادوگر کہیں سے بھی آ جائے کامیاب نہیں ہو گا ‘‘۔

    2)إِلاَّ عِبَادَکَ مِنہُمُ المُخلَصِینَ ( حجر15 40/)

    ’’تیرے مخلص بندوں پر میری کسی شرارت کا اثرنہ ہو گا‘‘۔

    3)وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً ( فرقان8/25)

    ’’اور ظالموں نے کہا نہیں وہ اتباع کرتے مگر سحرزدہ آدمی کی ‘‘۔

    1)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جادو گر کبھی بھی کامیاب نہ ہو گا تو یقیناً کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے کہ لبید بن اعصم جس نے نبی کریمﷺ پر جادو کیا تھا وہ کامیاب ہو گیا بلکہ اسے تو منہ کی کھانی پڑی۔

    2) آیت مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ (شیطان کہتا ہے کہ)تیرے مخلص بندوں پر میرا کوئی زور نہ ہو گا اگر ہم صحیح حدیث کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ شیطان نے بہت کچھ چاہا لیکن وہ پوار نہ ہوسکا اور وہ جادو نبیﷺ کی دینی زندگی پر اثر انداز نہ ہوسکا اور اللہ نے اپنے نبی کو بچا لیا۔

    (3)جہاں تک سورہ فرقان کی آیت کا تعلق ہے تو وہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور جادو نبیﷺ پر مدینہ میں ہوا تھا لہٰذا اس آیت سے استدلال غلط ہے دوسری بات یہ ہے کہ مسحوراً کے لغوی معنی ہے۔

    ’’ ذاھب العقل مفسرا ‘‘

    ’’عقل کا جانا اور بگاڑ پیدا ہونا‘‘ (لسان العرب جلد6ص186)

    یعنی جس کی عقل ہی ختم ہو گئی ہو۔ (جیساکہ سعید خان ملتانی کی)لیکن جب ہم اس باب میں صحیح احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو ایسی کوئی بات کسی حدیث میں نہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ اعتراض نبیﷺ پر قرآن پیش کرنے کی وجہ سے کفار کرتے تھے نہ کہ جادو کی وجہ سے۔

    اب ہم ان شاء اللہ مفصل جواب دیں گے۔

    جادو کی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں !

    ’’کتاب الجھاد باب ھل یعفی عن الذ می اذا سحر،رقم الحدیث3175

    ’’کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ،رقم الحدیث 3268

    ’’کتاب الطب باب السحر، رقم الحدیث5763 5766,

    کتاب الطب باب ھل یستخرج السحر رقم الحدیث5765

    ’’کتاب الادب باب قول اللہ ان اللہ یأمرکم بالعدل، رقم الحدیث 6063

    ’’کتاب الدعوات باب تکریر الدعا،رقم الحدیث 6391

    موصوف نے حدیث کے مرکزی راوی ہشام رحمہ اللہ پر طعن کیا اور انہیں کاذب گردانا ہے۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ جرح کس سے نقل کی ہے ایک تو نبی کریمﷺ پر الزام لگایادوسرے قرآن کریم کے معنی میں تحریف کی جہاں تک تعلق امام ہشام کا ہے تو ان کو ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

    ’وقد احتج بھشام جمیع الائمۃ ‘ (مقدمہ فتح الباری ص625)

    ’’یقیناً ہشام سے تمام ائمہ نے احتجاج پکڑا ہے۔ (یعنی ہشام کی روایت کو بطور دلیل وحجت پکڑا ہے) ‘‘

    محمد بن سعد نے کہا :

    ’’کان ثقۃ ثبتا کثیر الحدیث حجۃ ‘‘

    ’’ثقہ تھے ثبت تھے زیادہ احادیث روایت کرنے والے تھے حجت تھے ‘‘

    ابو حاتم نے کہا :

    ’’ ثقۃ امام فی الحدیث ‘‘

    ’’ثقہ اور حدیث کا امام ہے ‘‘

    (تہذیب الکمال امام مزی،الکاشف امام ذھبی،تقریب التھذ یب ابن حجر العسقلانی،طبقات ابن سعد )

    مصنف نے جو الزام امام ہشام رحمہ اللہ پر لگایا ہے وہ بلا دلیل ہے یا تو مصنف اسماء رجال کے علم سے بالکل ناواقف ہے یا پھر مصنف انتہائی درجے کا بدنیت ہے۔ دوسرااعتراض مصنف کا یہ ہے کہ آپﷺ علیل ہو گئے خلاف واقعہ باتیں کرنے لگے آپﷺ نڈھال ہو گئے۔ (قرآن مقدس اور بخاری محدث۔ ص17)

    قارئین کرام ہم ذیل میں صحیح بخاری کی مکمل حدیث نقل کر دیتے ہیں روایت نقل کرنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ یہ شیطانی چال اور مکر و فریب مصنف کا ہے جو حدیث دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔

    ’’خود تو بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ‘‘

   ۔ ۔ ۔ عن ھشام عن أبیہ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت سحر رسول اللہﷺ رجل من بنی زریق یقال لہ لبید بن الاعصم حتی کان رسول اللہﷺ یخیل الیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (صحیح بخاری کتاب الطب باب السحررقم الحدیث5763)

    ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بنی زریق کے ایک شخص (یہودی )لبید بن الاعصم نے نبی کریمﷺ پر جادو کر دیا آپﷺ کا یہ حال ہو گیا کہ آپﷺ کو خیال ہوتا جیسے ایک کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ کام آپﷺ نے نہیں کیا ہوتا ایک دن یا ایک رات ایسا ہوا کہ آپﷺ میرے پاس تھے مگر میری طرف متوجہ نہ تھے بس دعا کر رہے تھے اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا عائشہ میں اللہ تعالیٰ سے جو بات دریافت کر رہا تھا وہ اس نے (اپنے فضل سے ) مجھ کو بتلا دی میرے پاس دو فرشتے آئے(جبریل اور میکائیل) ایک تو میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا میرے قدموں کے پاس اب ایک دوسرے سے پوچھنے لگا یہ تو کہو ان صاحب ( محمدﷺ ) کو کیا بیماری ہو گئی اس نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے پہلے فرشتے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے دوسرے نے کہا لبید بن الاعصم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔

    خط کشیدہ الفاظ قابل غور ہیں۔ قارئین کرام جادو کا اثر نبی کریمﷺ پر صرف اتنا ہوا کہ آپﷺ کا دنیاوی معاملہ متاثر ہوا یعنی آپﷺ کو خیال ہوتا کہ کوئی کام آپﷺ نے کیا جبکہ وہ کام نہیں کیا ہوتا۔ افسوس مصنف نے انتہائی غلو سے کام لیا اور پیغمبرﷺ کی حدیث کی عبارت میں خیانت کی اور اس کے مفہوم کو تبدیل کر دیا۔ حالانکہ اسی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میں نے اللہ سے دعا کی یعنی عبادات اسی طرح جاری تھیں جس طرح بقیہ زندگی میں۔ اگر جادو اتنا ہی اثر انداز ہو جاتا (جیسے مصنف نے باور کرانے کی کوشش کی )تو آپﷺ اللہ سے دعا ہی نہیں کرتے۔ ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ مصنف نے بغیر کسی دلیل کے حدیث پر اعتراض کیا۔

    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آپ کو لوگوں کی ایذا سے محفوظ رکھے گااسی وجہ سے جادو کے باوجود نبی کریمﷺ نے نہ کبھی نماز چھوڑی نہ ہی چار کی جگہ دو رکعت پڑھی،اور نہ کبھی ایسا ہوا کہ مغرب کی جگہ عشاء پڑھ لی یہ جادو صرف نبی کریمﷺ کے دنیاوی معاملات پر اثر انداز ہوا تھا نہ کہ دینی کیونکہ دینی معاملات کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خو دلیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

    إِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ (الحجر 9/15)

    ’’ ذکر کو ہم ہی نے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘۔

    نوٹ:(ذکر سے مراد یہاں قرآن اور صحیح حدیث دونوں ہیں )

    ایک اور بات کہ جادو کے اثر سے نبی کریمﷺ بھول جایا کرتے تھے اگر یہ بھول نبوت کے منافی ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے :

    ’’فَلَمَّا بَلَغَا مَجمَعَ بَینِہِمَا نَسِیَا حُوتَہُمَا‘‘ (الکھف61/18)

    ’’کہ جب موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی دونوں دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو وہ اپنی مچھلی بھول گئے‘‘

    بلکہ قرآن کریم تو یہاں تک فرماتا ہے :

    سَنُقرِؤُکَ فَلَا تَنسٰٓی o إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہ (الاعلی 6/87)

    ’’ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم نہ بھولو گے مگر وہ جو اللہ چاہے۔ ‘‘

    جب بھول اور نسیان قرآن سے ثابت ہے تو پھر صحیح بخاری کی حدیث پر اعتراض کیوں ؟مولانا مودودی مرحوم اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں راقم ہیں کہ :

    ’’۔ ۔ ۔ ۔ کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں (یعنی جادو کی کیفیت کے دوران)آپﷺ قرآن مجید بھول گئے ہوں،یا کوئی آیت غلط پڑھی ہو۔ یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہو گیا ہو یا کوئی ایسا کلام وحی کی حیثیت پیش کر دیا ہو۔ جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو۔ ۔ ۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آ جاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہو جاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکی تھی اسے ایک جادو گر کے جادو نے چت کر دیا۔ لیکن آپ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپﷺ اپنی جگہ محسوس کر کے پریشان ہوتے رہے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن جلد6ص555-554)

    الحمد للہ یہ بات عیاں ہوئی کہ وہ نقشہ جو مصنف نے اپنی کتاب میں کھینچا وہ بالکل لغو بکواس اور سراپا الزام ہے نبی کریمﷺ پر قرآن کریم جادو کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے۔ جب موسٰی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا تو موسٰی علیہ السلام نے فرمایا :

    قَالَ بَل أَلقُوا فَإِذَا حِبَالُہُم وَعِصِیُّہُم یُخَیَّلُ إِلَیہِ مِن سِحرِہِم أَنَّہَا تَسعٰیoفَأَوجَسَ فِی نَفسِہِ خِیفَۃً مُّوسَی (طہ66-67/20)

    ’’موسٰی علیہ السلام نے فرمایا تم ہی ڈالو پھر ان کے سحر کے اثر سے موسٰی علیہ السلام کو خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یکدم دوڑنے لگ گئیں،پس موسٰی علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘‘۔

    دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

    فَلَمَّآ أَلقَوا سَحَرُوٓا أَعیُنَ النَّاسِ وَاستَرہَبُوہُم (اعراف116/7)

    ’’پھر جب انہوں نے رسیاں پھینکی تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر سحر کیا اور انہیں خوف زدہ کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    ان دونوں آیات سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب جادو گروں نے اپنی رسیاں ڈالیں تو جادو کے اثر سے لوگ بھی خوف زدہ ہوئے اور موسی علیہ السلام بھی،یعنی لوگوں پر اور موسی علیہ السلام پر جادو کا اثر ہوا۔ جب موسٰی علیہ السلام پر جادو اثر کرسکتا ہے تو نبی کریمﷺ پر کیونکر نہیں کرسکتا ؟حالانکہ قرآن کریم نے موسٰی علیہ السلام کو نبیﷺ کا مماثل قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

    إِنَّا أَرسَلنَآ إِلَیکُم رَسُولاً شَاہِداً عَلَیکُم کَمَآ أَرسَلنَآ إِلٰی فِرعَونَ رَسُولاً

    ’’ہم نے تمہاری طرف اسی طرح کا رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ایک رسول بنا کر بھیجا۔ ‘‘

    (المزمل 15/73)

    انبیاء علیہم السلام تو بے شمار گذرے لیکن جتنی مماثلت موسٰی علیہ السلام اور نبی کریمﷺ کے درمیان تھی اتنی مماثلت کسی اور نبی کے ساتھ نہ تھی۔ مثلاً دونوں ماں باپ سے پیدا ہوئے دونوں کی شادی اور ان کے ہاں اولاد ہوئی موسٰی علیہ السلام نے ہجرت کی تو آپﷺ نے بھی ہجرت کی موسٰی علیہ السلام کے دور کا فرعون ہلاک ہوا تو نبی کریمﷺ کے دور کا فرعون ابو جہل بھی ہلاک ہوا، موسٰی علیہ السلام نے جہاد کیا نبی کریمﷺ نے بھی جہاد کیا،موسٰی علیہ السلام کے جانشین ان کے خاندان نبوت کا فرد نہیں بلکہ صحابی یوشع بن نون بنے تو آپﷺ کے جانشین بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اسی طرح موسٰی علیہ السلام پر جادو ہوا تو نبی کریمﷺ پر بھی جادو ہوا یہ وہ حقائق ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آتا ہے اب ان حقائق سے انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو ملحد ہو گا یا اس کا تعلق دین محمدیﷺ سے نہیں ہو گا۔

    لہٰذا مصنف کے تمام اعتراضات صرف اور صرف حدیث دشمنی کی وجہ سے ہے باقی حق آپ کے سامنے ہے۔

٭٭

 

    اللہ کے بندہ کا آنکھ کان ہاتھ پاؤں ہونے پر بے جا اعتراض

    اعتراض نمبر4:۔

    مصنف لکھتا ہے ’’امام بخاری کہتا ہے اللہ پاک بندے میں حلول کر کے اس کے اعضاء بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بندہ کے کان ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ بندہ میرے کانوں سے سنتا ہے میرے پاؤں سے چلتا ہے میں بندہ کی آنکھ بن جاتا ہوں اور وہ میری آنکھ سے دیکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کتاب الرقاق 963پر بڑے جذبات کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے مذہب کی ترجمانی کر کے قرآن سے خود اللہ کریم سے بغاوت کی روایت ٹانک دی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (قرآن مقدس۔ ۔ ۔  ص20,19)

    جواب :۔

    مصنف نے حسب عادت یہاں بھی انتہائی درجہ کی خیانت کی ہے حدیث کے الفاظ میں ہیر پھیر کر کے حدیث کے مفہوم کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس حدیث کو اس طرح ذکر فرماتے ہیں :

    ’’قال رسول اللہﷺ :ان اللہ قا ل من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع رقم الحدیث 6502)

    ’’نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گامیں اس کو یہ خبر دیتا ہوں کہ میں اس سے لڑوں گا اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی عبادت مجھ کواس سے زیادہ پسند نہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے،نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ )اور میرا بندہ( فرض ادا کرنے کے بعد)نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں پس جب اس سے محبت کرتا ہوں تومیں اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے وہ اگر مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ‘‘

    مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں بنیادی نکتہ ’’اللہ تعالیٰ کا قرب ہے‘‘ اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اپنے صبح  و شام گزارے گا فرائض کی پابندی کرے گا تو اسے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہونا،کان ہونا،آنکھیں ہونا،پیر ہونا،اس سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے میں حلول کر جاتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب نیک بندہ کوئی کام کرتا ہے اور وہ اس کے لئے اپنی نگاہیں استعمال کرتا ہے تو وہ اپنی نگاہیں ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھوں کا بھی ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ کی رضا ہوتی ہے وہ اپنے قدموں کو وہاں لے جاتا ہے جہاں اللہ کی خوشنودی ہوتی ہے یہی حدیث مبارکہ کا مطلب ہے۔

    دوسرا مطلب،میدان جہاد میں جب یہ اللہ کا نیک بندہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو دشمن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی مدد اس کے ہاتھ پاؤں،نظروں،کے ذریعے کرتا ہے۔

    تیسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتا ہے اور اس کی رضا مندی کے لئے اپنے جوارح کو استعمال کرتا ہے یہی مطلب ہے نبی کریمﷺ کی حدیث کا مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

    ’’فَلَم تَقتُلُوہُم وَلـٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُم وَمَا رَمَیتَ إِذ رَمَیتَ وَلـٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی‘‘

    (الانفال 17/8)

    ’’کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا لیکن انہیں اللہ تعالیٰ نے قتل کیا اور جب آپ نے مٹی پھینکی تو     وہ آپﷺ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی ‘‘۔

    اگر کوئی شخص بدنیتی سے غلط مطلب لینا چاہے تو یقیناً اس آیت مبارکہ سے بھی غلط مطلب اخذ کرسکتا ہے جس طرح موصوف نے حدیث مبارکہ سے غلط مفہوم اخذ کئے۔ آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کافروں پر پھینکی کیا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ زمین پر آ گیا تھا یعنی کیا یہ آیت وحدت الوجود اور وحدت الشہود والوں کے باطل نظریے کو تقویت دیتی ہے لیکن ہم جوابا ً یہ کہیں گے کہ نبی کریمﷺ کا پھینکنا (کافروں کی طرف)اللہ تعالیٰ کا پھینکنا یوں تھا کہ پھینکا تونبی کریمﷺ نے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نسبت اس لئے کی کہ اس کی رمی (یعنی نبیﷺ کے پھینکنے )میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال تھی۔ بلکہ یہی جواب ہے حدیث مبارکہ کا کہ اس بندے کا ہاتھ بننے سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے میں حلول ہو گیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ شامل حال ہو جاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئیے حافظ ابن حجر کی فتح الباری جلد 11ص414تا422)

٭٭

 

    اللہ تعالیٰ کا زمین کو روٹی بنا کر پیش کرنا اور مصنف کا قدرت باری تعالیٰ کا انکار

    اعتراض نمبر 5:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ21پر صحیح بخاری کی حدیث پر اعتراض کرتا ہے۔

    لیکن امام بخاری ؒ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی طرح اپنے ہاتھ سے روٹی پکا کے جنتیوں کو کھلائے گا جس طرح بندے روٹی کو ڈھال کر توے پر پکا کر اور آگ سے سینک کر دستر خوان پر رکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ پاک بھی اپنے ہاتھ سے زمین کی روٹی بنا کر اور ڈھال کر دستر خوان پر رکھے گا اور ستر ہزار بہشتی مہمان کھائیں گے۔

    جواب:۔

    مصنف نے یہاں حسب عادت بدنیتی سے کام لیا ہے۔ حدیث کا بیان دراصل کچھ اور ہے اور مصنف نے اس کو کچھ اور بنا دیا ہے۔ اور حدیث سابقہ کی طرح مندرجہ بالا حدیث کے متن میں بھی مصنف نے خیانت کی ہے اپنی طرف سے الفاظ گھڑ کر حدیث کے مفہوم کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے جو انتہائی شرمناک عمل ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مصنف علوم الحدیث سے بالکل ہی نابلد ہے۔ نہ تو اسے روایت حدیث کا علم ہے اور نہ ہی متن حدیث کا۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ احادیث کے انکار کے بجائے کسی اہل علم کے سامنے دو زانو ہو کر علوم حدیث کو سمجھ لیتا۔

    ’’لیکن میں تو ڈوبوں گا اور تمہیں بھی لے ڈوبوں گا صنم‘‘

    مصنف کی جہالت تو آپ کے سامنے ہی ہے۔ قارئین کرام اس حدیث میں جو روٹی کا ذکر ہے میں اس پر بحث کرنے سے پہلے حدیث کا متن اور صحیح ترجمہ آپ کے سامنے پیش کروں گا ان شاء اللہ اس کے بعد ہم بحث کریں گے کہ اس حدیث مبارکہ سے کتنے خوبصورت موتی نکلتے ہیں جس کو مصنف اپنی جہالت کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر رہا۔

    قال رسول اللہﷺ :۔ ’’ تکون الارض یوم القیٰمۃ خبزۃ واحدۃ یتکفوھا الجبار بیدہ کما یکفاً احدکم۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    (صحیح البخاری کتاب الرقاق باب یقبض اللّٰہ الارض یوم القیامۃ رقم الحدیث6520)

    ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی،اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے جنتیوں کی مہمان نوازی کے لئے اس کو الٹے پلٹے گا جیسے تم میں سے کوئی مسافر اپنی روٹی الٹ پلٹ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔

    قیامت کے دن زمین کو اللہ کے ہاتھ میں لینے کے بارے میں تو قرآن مجید میں بھی وارد ہوا ہے :

    وَالأَرضُ جَمِیعاً قَبضَتُہُ یَومَ القِیَامَۃ (الزمر /39 67)

    ’’قیامت کے دن ساری زمین اللہ کی مٹھی میں ہو گی ‘‘۔

    رہا سوال کہ اللہ تعالیٰ زمین کو روٹی بنا کر اہل جنت کی میزبانی کرے گا۔ تو لگتا ہے کہ مصنف کو اللہ کے قادر ہونے میں شک ہے اور اس کو اپنے ایمان کی تجدید کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ارشاد فرمایا : ان اللہ علی کل شئی قدیر‘‘ ’’واللہ علی کل شئی قد یر ‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو وہ اس چیز پر بھی قادر ہے کہ زمین کو روٹی بنا کر اہل جنت کی میزبانی کرے۔

    قارئین کرام اس حدیث مبارکہ سے جو بات واضح ہوتی ہے اس کا تعلق (Astronomy)علم فلکیات سے بھی ہوسکتا ہے جس کا علم مصنف کو نہیں کیونکہ مصنف ایک تنگ نظر اور بدنیت شخص ہے اور اس کے اعتراضات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پہنچ صرف روٹی تک ہی محدود ہے یہ حدیث معجزہ پر مبنی ہے باقی رہا دنیا کی روٹی سے جنت کی نعمتوں کو مشابہت دینا تو یہ اعتراض بھی فضول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

    َا رُزِقُوا مِنہَا مِن ثَمَرَۃٍ رِّزقاً قَالُواہٰـذَا الَّذِی رُزِقنَا مِن قَبلُ (البقرۃ 25/2)

    ’’جب کبھی وہ جنت کے پھلوں میں سے رزق دئیے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے ‘‘۔

    غور فرمائیں جنتی لوگوں کو جب جنت میں پھل دئیے جائیں گے تو وہ محسوس کریں گے انہوں نے اس سے پہلے یعنی دنیا میں بھی ایسے ہی ملتے جلتے پھل کھائے اب مصنف اس آیت مبارکہ کے بارے میں کیا کہے گا جو اس آیت مبارکہ کا جواب ہو گا وہی جواب اس حدیث کا بھی ہے۔ ان شاء اللّٰہ۔

    لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے کاش مصنف حدیث پر اعتراض سے پہلے قرآن پر غور کر لیتا۔

٭٭

 

    ام البشر حواء ؑ کی خیانت کی حقیقت

    اعتراض نمبر 6:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 22پر لکھتا ہے کہ:

    انہوں نے(امام بخاری رحمہ اللہ نے) لعنتی راویوں پر اعتماد کلی کر کے ام البشر حضرت حوا ء کو خیانت کرنے والیوں میں ذکر کر دیا بلکہ تمام عورتوں کا خیانت کرنے میں بنیادی نکتہ آغاز  حواء ہی کو ذکر کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    جواب :۔

قارئین کرام اللہ کے رسولﷺ کی حدیث مبارکہ ہے جو شخص کسی پر لعنت کرتا ہے اگر وہ اس کا مستحق نہیں تو لعنت کہنے والے پر ہی لوٹتی ہے حدیث کا مفہوم وہ نہیں جسے مصنف نے یہاں بیان کیا ہے اصل حدیث اس طرح ہے:

    ’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی (ﷺ ) نحوہ یعنی لولا بنواسرائیل لم یخنزاللحم ولولا حواء لم تخن أنثی زوجھا۔

    (صحیح بخاری کتاب الأنبیاء باب خلق آدم وذ ریتہ رقم الحدیث 3330)

    ’’نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت نہ سڑتا،اگر حوا ء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند سے دغا نہ کرتی ‘‘۔

    مصنف کا خیال ہے کہ دغا ام البشر حواء کی وجہ سے ہوتا ہے، جو کہ جہالت پر مبنی ہے۔ مصنف کے پاس علم تو ہے ہی نہیں اب ایسا لگتا ہے کہ عقل سے بھی کورا ہے جناب اگر حواء پیدا ہی نہ ہوتیں تو ’’علامہ سعید خان ملتانی ‘‘ کہاں سے پیدا ہوتے یعنی علامہ صاحب نے حدیث میں جو خیانت کی ہے تو اگر حواء پیدا ہی نہ ہوئی ہوتیں تو علامہ صاحب بھی نہ ہوتے اگر علامہ صاحب بھی نہ ہوتے تو خیانت بھی نہ ہوتی،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خیانت حواء نے سکھائی۔ قارئین کرام مجھے امید ہے کافی حد تک آپ سمجھ چکے ہوں گے۔

    حدیث کا مفہوم ہر گز یہ نہیں کہ حواء کی خیانت فحاشی ہے نعوذباللہ بلکہ اس کا یہ مفہوم ہے کہ شیطان نے پہلے حواء کو بہکایا اور وہ صنف نازک تھیں کمزور تھیں اور ان کے ذریعے آدم علیہ السلام کو بہکایا اور قرآن میں بھی درخت کا پھل کھانے کی نسبت آدم وحواء دونوں کی طرف کی گئی ہے۔

٭٭

 

نبی کریمﷺ کی ابو طالب کے لئے سفارش اور مصنف کی ہیرا پھیری

    اعتراض نمبر 7:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 25پر نبی کریمﷺ کی احادیث کو مشتبہ بنا رہا ہے یعنی مصنف کی تحریر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ شاتم رسول ہے ایسے شخص کی سزا اسلام میں صرف ا ور صرف قتل ہے مصنف مزید اعتراض پیش کرتا ہے کہ:

    نبی کریمﷺ نے فرمایا اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں :’’لعلہ تنفعہ شفاعتی یوم القیٰمۃ ‘‘ ’’کہ امید ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت سے اس کو نفع ہو۔

    اس حدیث کو رد کرنے کے لئے مصنف نے قرآن پاک کی آیت پیش کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

    ’’ماکان للنبی والذین آمنوا۔ ۔ ۔ ۔ (التوبہ/9 113)

    ’’نبیﷺ اور ایمان والوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر واضح ہو گیا کہ۔ ۔ ۔ مشرکین جہنمی ہوتے ہیں ‘‘۔

    جواب :۔

    قارئین کرام یہاں پر مصنف نے جو جھانسہ دینے کی کوشش کی ہے،وہ قابل غور ہے !

    قیامت میں نبی کریمﷺ سفارش کریں گے اور مصنف یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ سفارش ناجائز ہے حالانکہ سورہ توبہ میں استغفار کرنے کی ممانعت ہے اور نبی کریمﷺ سے کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت کے حکم کے بعد آپ نے کبھی ان کے لئے استغفار کیا ہو۔ استغفار کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے آخرت میں نہیں۔ اور آخرت میں نبیﷺ سفارش کرینگے اپنے چچا کی،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریمﷺ کی سفارش ابو طالب کو فائدہ دے گی تو اس بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا :

    ’’فیجعل فی ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغلی منہ دماغہ‘‘۔

    (صحیح بخاری کتاب مناقب الأنصار باب قصۃ ابی طالب رقم الحدیث 3885 )

    ’’پس کر دیا جائے گا وہ( ابو طالب )آگ کے پایاب چشمے میں اور آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس کی وجہ سے اس کا دماغ کھولے گا ‘‘۔

    یعنی ابو طالب کواس کے ٹخنوں تک آگ پہنچے گی جس سے اس کا دماغ کھولے گا۔ استغفار تو یہ ہے کہ معاف کر دیا جائے یہاں تو کسی قسم کی معافی کا کوئی سوال ہی نہیں انکو ٹخنوں تک عذاب کیوں دیا جائے گااس کا جواب یہ ہے کہ جرم جتنا بڑا ہو گا اس کی سزا اتنی ہی سخت ہو گی ابوطالب نے پوری زندگی نبی کریمﷺ کی مخالفت نہیں کی یعنی ابو جہل، ابو لہب کے مقابلے میں ان کا جرم کم تھا لہٰذا جتنا جرم اتنی سزا۔ مصنف کا اعتراض اس وقت صحیح ہوتا کہ جب ابو طالب کو معاف کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ آگ ہی میں رہے گا۔ اگر مصنف اس سزا کو معافی پر محمول کرتا ہے تو میرا مصنف سے سوال ہے کہ کیا وہ ان آگ کی جوتیوں کے لئے تیار ہے ؟(ویسے حرکتیں تو اس کی یہی ثابت کر رہی ہیں )لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔

٭٭

 

ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا جہنم میں جانا اور مصنف کا انکار حدیث

    اعتراض نمبر 8:۔

    مصنف اپنی جہالت اور بدنیتی کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ 24پر صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کرتا ہوا معترض ہے۔ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے:

    ’’اے رب تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ زندہ کرنے کے دن میں تجھ کو ذلیل نہ کروں گا چنانچہ اس سے بڑی ذلت اور کیا ہو گی کہ میرا باپ جہنم میں چلا جائے ‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیائ474 )

    آگے رقمطراز ہے :

    قرآن میں عدم بصیرت کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو امام بخاری نے اللہ کا وعدہ بنا دیا حالانکہ قرآن میں کتنا صاف لکھا ہوا ہے کہ خلیل اللہ نے دنیا ہی میں اپنے باپ سے برأت کا اعلان کر دیا تھا تو قیامت میں کیسے کہہ سکتے تھے۔

جواب:۔

قارئین کرام اس مسئلہ میں دو باتیں ہیں اول یہ کہ مصنف کا فہم اللہ نے سلب کر لیا ہے اور وہ احادیث کو سمجھ نہیں سکتا اور دوئم مصنف خیانت اور غلو میں اتنا آگے پہنچ چکا ہے کہ حق اسے نظر ہی نہیں آتا۔

    امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں اس طرح سے ذکر کیا ہے :

    ’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبیﷺ قال:یلقی ابراھیم اباہ آزر یوم القیٰمۃ وعلی وجہ آزرقترۃ وغبرۃ۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلارقم الحدیث3350)

    ’’نبی کریمﷺ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار ہو گی،ان سے کہیں گے کہ میں نے (دنیا میں ) تم سے نہیں کہا تھا میری نافرمانی نہ کرنا آزر کہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا اس وقت ابراہیم علیہ السلام (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے پروردگار تو نے (میری دعا قبول کی تھی،جو سورہ شعراء 87/26میں ہے )مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھ کو رسو ا نہیں کروں گا اس سے زیادہ کونسی رسوائی ہو گی۔ میرا باپ ذلیل ہوا جو تیری رحمت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بہشت تو کافروں پر حرام کر دی ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کو کہا جائے گا ذرا اپنے پاؤں کے تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو ایک بجّو نجاست سے لتھڑا ہوا ہے اور (فرشتے) اس کے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیں گے‘‘۔

    حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں :۔

    1)ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ ان کی رسوائی نہ ہو۔

    2)سورہ شعراء میں ہے کہ ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ اے اللہ مجھ کو رسوا نہ کرنا۔

    3)اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو رسوائی سے بچایا نہ کہ آزر کو۔

    4) آزر کے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوئی بجو کی صورت میں ہی اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

    مذکورہ بالا نتائج سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے اور الحمد للہ کسی محدث یا مفسر نے اس حدیث کو قرآن کے خلاف نہیں سمجھا۔ لیکن مصنف کونا معلوم یہ حدیث قرآن کے خلاف کیسے نظر آئی۔ یقیناً یہ ایک بدنیت انسان ہے۔

    لہٰذا حدیث مبارکہ قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ مصنف حدیث کے خلاف ہے۔

٭٭٭

 

کیا متعہ زنا ہے ؟

    اعتراض نمبر 9:۔

    مصنف صفحہ 28پر لکھتا ہے:

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متعہ جیسی لعنت کو زنا میں داخل کیا اور فواحش کی مد میں اس کو ذکر کیا اور فرمایا :لاتقربوا لزنا صفحہ 30پر مزید لکھتا ہے :لیکن امام بخاری آپﷺ کے ذمہ قرآن کی صریح مخالفت لگاتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے اپنے اصحاب کو شہوت رانی کے لئے اور چھپی یاری کے لئے زنا کی یعنی متعہ کی اجازت عام دے دی تھی۔

    جواب:۔

    مصنف نے یہ ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے کہ کسی بھی طریقے سے متعہ کو زنا قرار دے دیا جائے قارئین کرام اگر ہم متعہ کی اجازت کے بارے میں اس کا پس منظر کا مطالعہ کریں تو یقیناً ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ متعہ صرف تین یوم کے لئے جائز رکھا اس کے بعد قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا ہے مصنف نے متعہ کی اجازت کی حدیث تو پیش کر دی لیکن اس کی حرمت والی روایت کو ہڑپ کر گیا۔ صحیح بخاری ہی میں یہ حدیث موجود ہے :

    ’’ان النبیﷺ نھی عن المتعۃ وعن لحوم الحمر الأھلیۃ زمن خیبر ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب النکاح باب نھی رسول اللہﷺ عن نکاح المتعۃ آخرارقم الحدیث5115)

    ’’نبی کریمﷺ نے خیبر کی جنگ میں متعہ اور سدھائے ہوئے گدھوں کے گوشت سے منع کیا ‘‘۔

    یعنی خیبر کے دن ہی متعہ کی حرمت ثابت ہو چکی تھی،اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ متعہ کی اجازت کیوں دی گئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافی عرصے سے میدان جہاد میں گامزن تھے اور وہ اپنی ازواج سے دور رہے ان کی اس مجبوری کو دیکھ کر اللہ کے نبیﷺ نے3دن کے لئے متعہ کی اجازت دے دی پھر قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ متعہ اور نکاح میں کیا فرق ہے دراصل ان دونوں میں قدر مشترک اللہ کی اجازت ہے نکاح جو کہ عمومی حالت میں انسان کرتا ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم عورتوں کی شرمگاہوں کو اللہ کے حکم سے حلال کرتے ہو۔ یعنی نکاح میں جو اصل چیز ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے اور جہاں تک متعہ کا تعلق ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے اور اس کی اجازت بھی نبیﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور اب اس کے بعد اسے حرام کر دیا گیا اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے یعنی دونوں کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے۔ لہٰذا امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ متعہ کی تین یوم تک نبی کریمﷺ نے اجازت دی تھی اس کے بعد قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھیئے سبل السلام شرح بلوغ المرام للصنعانی،نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار للشوکانی) حافظ ابن حجر فتح الباری میں اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں

    ’’وقد وردت عدۃ احادیث صحیحۃ صریحۃ بالنھی عنھا بعد الاذن فیھا‘‘

    ’’کئی احادیث صحیحہ صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں متعہ کی ممانعت میں اس کی اجازت کے بعد‘‘

    (فتح الباری جلد9ص208)

    لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔

٭٭

 

    قرآن کریم کی تعلیم حق مہر کے عوض میں اور مصنف کے اٹکل

    اعتراض نمبر 10:۔

    مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 31پر قرآن کریم میں اضافہ کرنے کی ناپاک جرم کی جسارت کی۔ وہ لکھتا ہے :

    قرآن مقدس میں نکاح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ عورت کا حق مہر مال ہونا ضروری ہے عورت کے بضع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسامال دیا جائے جس کی مالیت ہو۔ ۔ ۔ ۔ اور مال بھی ایسا ہو جس کو عرف عام میں مال کہا جاتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ردی کاغذ کا ٹکڑا۔ ۔ ۔ درخت کا گرا ہوا یا توڑا ہوا کوئی پتہ۔ ۔ ۔ یا پھٹا پرانا کپڑا۔ ۔ ۔ ۔ یا لوہے تانبے کا چھلہ انگوٹھی اس کو مال نہیں کہا جاتا مال بھی وہ جو بضع کے بدلے عورت کے لئے نفع مند ہو اور اس کی مالیت ہو۔ لوہے تانبے کی انگوٹھی تو ویسے ہی حرام ہے اس کی اسلام میں مالیت بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔

    جواب:۔

    مصنف نے جھوٹ اور الزام تراشی میں ہندو پنڈت کی لکھی ہوئی کتاب رنگیلا۔ ۔ ۔ ۔ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

    مصنف نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف اور صرف جھوٹ ہے جس کا تعلق قرآن سے نہیں بلکہ قرآن کریم نے نکاح اور مہر کے مسئلہ کے لئے نبی کریمﷺ (یعنی احادیث)کی طرف رجوع کا حکم صادر فرمایا ہے اب دیکھئے وہ حدیث جس پر مصنف نے بلاوجہ اعتراض کیا ہے جس میں انسانی مشکلات کا حل موجود ہے۔

    ’’ أن امرأۃ عرضت نفسھا علی النبیﷺ فقال لہ رجل یا رسول اللہﷺ زوجنیھا فقال ماعندک۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب النکاح باب عرض المرأۃ نفسھا علی الرجل الصالح رقم الحدیث5121)

    ’’ایک عورت نے رسول اللہﷺ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اتنے میں ایک شخص بولا یا رسول اللہﷺ (اگر آپ کو اس کی خواہش نہ ہو تو) مجھ سے اس کا نکاح کر دیجئے آپﷺ  نے پوچھا تیرے پاس کچھ ہے کہنے لگا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے آپﷺ نے فرمایا جا کچھ تو لے آ کچھ نہ ہو تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی وہ گیا پھر لوٹ کر آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم مجھ کو تو کچھ نہیں ملا لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی البتہ یہ تہہ بند(ازار) میرے پاس ہے اس میں سے آدھا ٹکڑا میں اس کو دے دیتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ آخر وہ شخص (مایوس ہو کر) بیٹھ گیا بڑی دیر تک بیٹھا رہا (پھر چلنے کے لئے تیا ر ہوا )رسول اللہﷺ نے (اس کو جاتا ہوا) دیکھ کر بلایا یا کسی اور سے بلوایا اور پوچھا،بھلا تجھ کو قرآن میں سے کیا کیا یاد ہے وہ کہنے لگا فلاں فلاں سورت اسے یاد ہے آپﷺ نے فرمایا جا ہم نے ان سورتوں کے بدلے یہ عورت تیری ملکیت (نکاح) میں دے دی‘‘۔

    نبی کریمﷺ کی یہ حدیث ان غریبوں اور مسکینوں کے لئے سہولت بہم پہنچا رہی ہے جو ایک انگوٹھی دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ان کو ایسی سہولت فراہم کر دی گئی کہ آتی قیامت تک ایسے لوگ نکاح سے محروم نہیں رہیں گے۔ جہاں تک مصنف کے جھوٹ اور لغو کا تعلق ہے،لوہے کی انگوٹھی اسلام میں مالیت کا مقام نہیں رکھتی،تومیں مصنف کو چیلنج کرتا ہوں کہ یہ الفاظ قرآن کریم کی کس آیت کا ترجمہ ہے ؟کیا یہ قرآن کریم میں تحریف نہیں ؟قرآن کریم نے ایک اصول ذکر کیا ہے :

    ’’لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفساً إِلاَّ وُسعَہَا‘‘(البقرۃ 286/2)

    ’’اللہ تعالیٰ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جو اس کی بساط سے باہر ہو ‘‘۔

    اس شخص کے پاس مہر دینے کی طاقت ہی نہ تھی حتی کے لوہے کی ایک انگوٹھی دینے کی بھی استطاعت نہ تھی ایسے لوگوں کے لئے نبی کریمﷺ کی صحیح حدیث نے سہولت بہم پہنچائی اور یہ حدیث ہرگز قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کریم کے عین مطابق ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 32پر اسی حدیث پر نئے انداز سے اعتراض اٹھایا اور وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ حدیث میں ذکر ہے کہ اس صحابی کو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ کو کچھ قرآن یاد ہے تو اس کے عوض ہم نے آپ کا نکا ح اس عورت سے کر دیا۔

    مصنف کہتا ہے کہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے کہ قرآن کی سورت کے عوض نکاح کر دیا جائے اور قرآن کی تبلیغ کا معاوضہ حرام ہے ؟میں پوچھتا ہوں کہ اس بات کی ممانعت قرآن کی کس آیت میں ہے کہ قرآن کے عوض نکاح نہ کرو؟؟یہ تو مصنف سیدھے سادھے مسلمانوں کو محض دھوکا دینا چاہتا ہے قرآن دکھا کر قرآن سے لوگوں کو پھیرنا یہ بھی عجیب طریقہ ہے۔

    جہاں تک معاملہ اس حدیث کا ہے تو حدیث خرید و فروخت اور سودابازی کا مسئلہ نہیں سمجھا رہی بلکہ یہاں تو ایک سہولت مہیا کرنا مقصود ہے نہ کہ قرآن کو بیچنا جہاں تک مصنف کے فہم کا تعلق ہے تو مصنف کی عبارت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی اشاعت کے جو ادارے ہیں ان سب کو تالا لگانا پڑے گا کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی اشاعت کے اخراجات ادا کرتے ہیں اور وصول بھی کرتے ہیں جیسے کہ مصنف بھی اپنی کتاب( حالانکہ حدیث دشمنی کوئی دینی کام نہیں ) کے لئے اشتہار بازی کرتا ہے دیکھئے اس کی کتاب کے صفحہ123’’ہر قسم کے معیاری پرنٹنگ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیلئے تشریف لائیں جماعت کے احباب کے لئے خصوصی رعایت اور ریٹ کم ‘‘ اسے تو چاہیے تھا کہ وہ کہہ دیتا کہ میرے گناہ کی سزا اللہ کے ذمے (کیونکہ مصنف ثواب کا کام تو کر ہی نہیں رہا ) ہے۔

    لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔

٭٭

 

کتے کے جھوٹے پانی سے وضو اور امام بخاری کا موقف

    اعتراض نمبر11:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 33پر لکھتا ہے قرآن وسنت سے پاک پانی یا پاک مٹی کے بغیر وضو اور طہارت نہیں ہوسکتی ماء طہور کے بغیر طہارت حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ طہارت و وضو کے لئے جو پانی استعمال ہو چکا ہو دوبارہ اسی مستعمل پانی سے بھی وضو ء نہیں ہوسکتا قرآن میں فرمایا ’’ان لم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا‘‘ اگر پاک پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی سے وضو کر لو۔ یعنی تیمم کر لو جب وضو کے قائم مقام تیمم میں پاک مٹی ضروری ہوئی تو پھر اصل یعنی وضو میں پاک پانی ضروری کیوں نہ ہو گا۔ ۔ ۔

    جواب:۔

    حسب عادت مصنف نے یہاں بھی قرآن پر بے جا الزام لگایا ہے جو آیت مصنف نے پیش کی وہ سورۃ المائدہ کی آیت 6ہے اس کا ترجمہ یوں ہے۔

    ’’اگر تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو پاکیزہ مٹی سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    اس آیت کو پیش کر کے مصنف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اگر کتا کسی پانی میں منہ ڈال دے تو وہ نجس ہو جاتا ہے یہ کس آیت سے استدلال لیا گیا ہے ؟؟جہاں تک امام زہری کا تعلق ہے جس پر مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 34پر تنقید کی ہے کہ :

    ’’قال الزھری اذاولغ الکلب فی اناء لیس لہ وضوء غیرھ یتوضابہ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب الوضوء باب الماء الذی یغسل بہ شعرالانسان جلد1باب 33)

    ’امام زہری کہتے ہیں اگر کسی برتن میں کتا منہ ڈالے اس کے علاوہ اور پانی نہ ہو تو کتے کے اس جھوٹے سے وضو کیا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘۔

    یہ قول امام زہری کا حالت اضطرابی کے لئے ہے یعنی قرآن کہتا ہے کہ اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو یعنی حالت اضطرابی میں اگر مٹی سے تیمم کو جائز قرار دیا گیا تو وہ تو بالاولی پانی ہی ہے جس میں کتے نے منہ ڈالا ہے۔ یعنی امام زہری کا استدلال حالت مجبوری پر محصور ہے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ مصنف اعتراض سے پہلے سلف کے ا قوال کی طرف بھی رجوع کر لیتا۔

    اب رہی بات اس حدیث کی جس کا ذکر مصنف صفحہ34پرکرتا ہے۔

    ’’اذاشرب الکلب فی اناء أحدکم فلیغسلہ سبعا‘‘

    ’’جب کتا کسی برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات7دفعہ دھویا جائے۔

    یہ حدیث عمومی حالت پر دلالت کرتی ہے امام زہری کا قول اضطراری حالت کے لئے ہے لہٰذا حالت مجبوری اور حالت عمومی دونوں کے لئے قواعد الگ الگ ہیں مصنف نے بڑی چالاکی سے ان دونوں کیفیات کو ٹکرانے کی ناکام سعی کی ہے۔

٭٭

 

مصنف کا لایمسہ الاالمطھرون سے غلط استدلال

    اعتراض نمبر12:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 42پر لکھتا ہے کہ:

    قرآن مقدس میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ قرآن کو ناپاک آدمی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا’’لایمسہ الاالمطھرون‘‘ نیز احادیث صحاح بھی تصریح کر رہی ہیں کہ قرآن کی تلاوت ناپاک بدن سے نہیں کی جاتی اور خاص جنبی آدمی تو قرآن کی تلاوت یا ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ۔

    جواب:۔

    قارئین کرام مصنف خود کو ماہر تفسیر و الحدیث امام انقلاب کہتا ہے لیکن یہ بہت بڑا جاہل شخص ہے اسے تو اس آیت ’’لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا المُطَہَّرُونَ‘‘ کا مطلب ہی نہیں معلوم۔ فقط بکواس کرتا ہے۔

    مصنف نے آیت کا رخ جنبی کی جانب موڑا ہے یہ جہالت ہے اس کا تعلق انسانوں کے لمس (چھونے)سے ہے ہی نہیں۔ اس آیت میں ’’ یَمَسُّہُ‘‘کی ضمیر لوح محفوظ کی طرف راجع ہے ’’مُطَہَّرُونَ ‘‘ سے مراد فرشتے ہیں نہ کہ انسان قرآن کریم کی ثقاہت میں کوئی شک نہیں کیونکہ اس کا نزول ایسی جگہ سے ہوتا ہے جہاں شیطان کی پہنچ نہیں۔

    جہاں تک مؤمن کے ناپاک ہونے کا تعلق ہے قرآن میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ جنبی ناپاک ہوتا ہے ؟یہاں مصنف نے حدیث سے استدلال کیا تو باقی جگہ پر حدیث کو چھوڑنا اور طعن کرنے کا کیا مقصد ہے ؟لہذا آیت مبارکہ کا اشارہ فرشتوں کی طرف ہے اور اس آیت سے جنابت کا مسئلہ نکالنا محض جہالت ہے۔ اگر ہم نبی کریمﷺ کے اسوہ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپﷺ نے شاہان عجم کو قبول اسلام کے لئے خطوط بھیجے تھے ان میں بھی قرآنی آیات مکتوب تھیں۔ فلیتدبر

    لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔

٭٭

 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنے آپ میں نفاق سے ڈرنا اور اس کی حقیقت

    اعتراض نمبر13:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 37پر اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک روایت ذکر کرتا ہے کہ :

    ’’ادرکت ثلثین من أصحاب النبیﷺ کلھم یخاف النفاق علی نفسہ‘‘

    ( بخاری 79/1)

    ’’کہ میں نے تیس(30)اصحاب رسولﷺ کو ایسی حالت میں پایا ہے کہ تمام کے تمام اس سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں ہم منافق نہ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    جواب:۔

    یہاں مصنف نے انتہائی درجہ کی علمی خیانت کی ہے اور اس نے ترجمہ کو اتنے غلط انداز میں بیان کیا ہے کہ بات کہیں سے کہیں چلی گئی اس کی اصل وجہ مصنف کی عربی سے ناواقفیت ہے۔ صحیح ترجمہ میں ذیل میں بیان کر دیتا ہوں :

    ’’میں نے تیس صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا کہ وہ اپنے آپ میں نفاق سے ڈرتے تھے ‘‘۔

    یعنی ان کو اپنے ایمان کی حفاظت کا ڈر تھا اور منافقت سے بیزاری تھی یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ جماعت ہر وقت اپنے ایمان کا جائزہ لیتی تھی اگر اپنے آپ کو منافقت سے ڈرانا غلط ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کس آیت میں ہے۔ بلکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے :

    ’’ وَالَّذِینَ یُؤتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُہُم وَجِلَۃٌ أَنَّہُم إِلٰی رَبِّہِم رَاجِعُونَ‘‘(مؤمنون 60/23)

    ’’ اور وہ اللہ کی راہ میں جو بھی دیں مگر ان کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ‘‘۔

    آیت مبارکہ پر غور فرمائیں کہ ایمان والے جب بھی خرچ کرتے ہیں تو ان کے دل دھڑکتے ہیں (کہ اللہ کے ہاں مقبول ہو گا کہ نہیں )بتائیے دل کا دھڑکنا کیوں ؟ یہ دھڑکنا صرف اور صرف تقوی ہے اور اس کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جیساکہ بخاری میں ام حارثہ رضی اللہ عنہما کا قصہ موجود ہے :

    ’’کہ حارثہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہنے لگیں یارسول اللہﷺ آپ حارثہ رضی اللہ عنہ کا مجھ سے تعلق جانتے ہیں اگر وہ جنت میں ہوا تو میں صبر کروں گی اور اجر کی امید رکھوں گی اگر دوسری جگہ ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں (یعنی رونا پیٹنا) فرمایا : بربادی ہو تیرے لئے (یہاں کلمۃ ویحکاستعمال ہوا ہے جو عام طور پر اپنے اصل معنی کے لئے نہیں بولا جاتا ) کیا تو نے بچہ گم کر دیا ہے ؟کیا وہ ایک جنت ہے ؟ وہ تو کئی ساری جنتیں ہیں اور وہ (حارثہ ) جنت الفردوس میں ہے ‘‘۔

    (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ والنار رقم الحدیث 6550)

    اسی وجہ سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہانے نبیﷺ سے پوچھا :

    ’’کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں چوریاں کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا: نہیں اے صدیق کی بیٹی بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں صلوۃ قائم کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ نا مقبول نہ ہو جائیں ‘‘۔ (ترمذی کتاب التفسیرباب ومن سورۃ المؤمنین 3175)

    لہٰذا صحابہ کا نفاق سے ڈرنا یہ محض تقوی کی علامت ہے۔ مثلاًً حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو بکر رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا :کیا حال ہے حنظلہ؟ میں نے کہا : حنظلہ کے دل میں نفاق آگیا۔ (تعجب سے)فرمایا سبحان اللہ کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس ہوتے ہیں وہ جنت اور جہنم یاد دلاتے ہیں یہاں تک کہ گویا کہ ہم (جنت و جہنم کو) دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر جب ہم نبی کریمﷺ کے پاس سے نکل جاتے اور گھر بار اور مال و اولاد میں گھل مل جاتے تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے پھر میں اور ابو بکر گئے حتی کہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئے میں نے کہا : حنظلہ کے دل میں نفاق آگیا یارسول اللہ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : کس بات پر ؟میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں آپ ہمیں جنت و جہنم یاد دلاتے ہیں گویا کہ ہم جنت وجہنم دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر جب ہم آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں اور گھر بار اور مال و اولاد میں گھل مل جاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے اگر تم ہمیشہ اسی حالت میں رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو اور ذکر میں تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ کبھی اسطرح اور کبھی اسطرح یعنی ایک گھڑی میں آخرت کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور ایک گھڑی میں دنیاوی معاملات میں مشغول ہو۔ آپﷺ نے یہ جملہ تین دفعہ ارشاد فرمایا۔

    (صحیح مسلم کتاب التوبۃ باب فضل دوام الذکر۔ ۔ ۔ ۔ 2750)

    لہٰذا صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہتان اور امام بخاری رحمہ اللہ کو صحابہ دشمن کہنا یہ محض گمراہی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔

٭٭

 

صحابہ کرامؓ کا نبی کریمﷺ سے سوال کرنا

    اعتراض نمبر 14:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 38اور 39پر لکھتا ہے:

    قرآن مقدس میں غیر اسلامی اور غیر ضروری اشیاء کی بحث و تمحیص میں پڑنے سے اللہ کریم نے منع فرمایا مثلاً :’’لاتسئلوا عن أشیاء ان تبد لکم تسؤکم‘‘ً یہ پوچھنا کہ یا حضرت میرے باپ کا کیا نام تھا یا میرا باپ مرگیا تھا۔ ۔  ۔

    لیکن بخاری صاحب جن کی نظر صرف روایات کے کثیر ڈھیر (یہ الفاظ مؤلف کی کم علمی اور خیانت کی دلیل ہے)کی طرف تھی۔ ’’نھینا فی القرآن أن نسأل النبی‘‘ (بخاری 15/1)’’کہ اللہ نے ہم کو قرآن میں سوال کرنے سے منع کیا ہے ‘‘۔

    حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہے اور بہتان بلکہ قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ نے تاکید کے ساتھ فرمایا :

    ’’فاسئلوااھل الذکر ان کنتم لاتعلمون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    جواب:۔

    محترم قارئین مصنف نے قرآن کریم کے ترجمہ میں اپنی گمراہ اور باطل سوچ کا اضافہ کیا ہے (کہ میرے باپ کا کیا نام تھا میرا باپ مرگیا۔ ۔ ۔ ۔ )یہ الفاظ کہیں بھی قرآن کریم میں نہیں بلکہ یہ محض قرآن پر جھوٹ ہے جو مصنف نے حدیث کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنی طرف سے گھڑا ہے۔ اور رہی بات صحیح بخاری کی حدیث کی کہ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں نبیﷺ سے سوال کرنے سے قرآن نے روکا۔ انس رضی اللہ عنہ کا مطلب دینی مسائل نہیں بلکہ وہ سوالات جو کہ عبث ہیں ان سے قرآن نے روکا اور جہاں تک تعلق ہے قرآن کریم کی اس آیت کا جس میں ذکر ہے کہ :

    ’’سوال کرو اہل ذکر سے (اگر آپ نہیں جانتے )‘‘

    تو یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیﷺ سے سوالات کئے جن کا تعلق دنیا اور آخرت کے مسائل سے تھا۔ ( صحیح بخاری کتاب الایمان، صحیح بخاری کتاب التفسیر، جامع ترمذی کتاب التفسیر وغیرہ)

    اور جتنے بھی مسائل نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ،جہاد،فلاح،حسن سلوک،خیر خواہی،ان تمام کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبیﷺ سے پوچھا کرتے تھے۔ لہٰذا انس رضی اللہ عنہ کا جن سوالات سے ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ صرف اور صرف ان باتوں کے بارے میں تھا جن کا تعلق کسی بھی زاویہ سے خیر کے ساتھ نہیں تھا۔ لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔

٭٭

 

نبی کریمﷺ کے دور میں عام مسلمانوں پر عذاب قبر اور مصنف کا اعتراض

    اعتراض نمبر 15:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 40اور41پر لکھتا ہے کہ:۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اللہ کا پیغمبرﷺ ’’یزکیھم ‘‘ان کو پاک کر رہا ہے اب ان میں کسی قسم کی پلید ی نہیں ہے نہ ظاہری اور نہ باطنی اور اللہ نے بھی صاف فرمایا ’’لکن یرید ان یطھرکم‘‘ تو اللہ کا ارادہ پورا ہوا اور وہ ہر طرح پاک ہو گئے۔ ۔

    لیکن بخاری محدث نے بڑے زور سے ایک جھوٹی روایت قرآن کے صریح خلاف نقل کر دی جس سے صحابہ کرام کو بدنام کیا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپﷺ کا دو قبروں سے گزر ہوا ان دونوں انسانوں پر عذاب ہو رہا تھا تو فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اب سوال یہ ہے کہ وہ دو انسان کون تھے (معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون تھے لیکن بلاوجہ اعتراض کرنا مصنف کا مشغلہ بن چکا ہے )اور کیا تھے اگر وہ دونوں جاہلی کافر و منافق تھے تو قرآن کی نص قطعی کے خلاف جو آپﷺ کو منع کر رہی ہے آپﷺ نے ان کے لئے سفارش کس طرح فرمائی ؟ اور اگر یہ دونوں مسلمان تھے تو صحابی کے علاوہ کوئی اور دوسرا نہیں ہوسکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    جواب:۔

    مصنف اپنی عادت خبیثہ کے مطابق عام مسلمانوں کو حدیث سے بد ظن کرنا چاہتا ہے اس کی یہ جستجو کے ’’ھباء منثورا‘‘ مانند ہے جو کہ ایک ہی جھونکے میں ریت ہو گیا۔ الحمد للہ۔ مصنف نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ جن کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا وہ صحابی تھے یعنی اگر کوئی شخص ان کو صحابی تصور کر لے تو قرآن کا انکار آتا ہے لیکن یہ کوشش مصنف کے اندھے پن کے سوا کچھ نہیں کیونکہ صحیح بخاری میں یہ حدیث اس طرح ہے :

    ’’مرّ النبیﷺ ۔ ۔ ۔ فسمع صوت انسانین یعذ بان فی قبورھما فقال النبیﷺ یعذ بان۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب الوضو ء باب من الکبائر أن لایستترمن بولہ رقم الحدیث 216)

    ’’نبیﷺ گزرے تو۔ ۔ ۔ دوانسانوں کی آواز سنی جن کو عذاب دیا جا رہا تھا قبروں میں پس نبی کریمﷺ نے

    فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ ۔ ۔ ‘‘

    مصنف کا اس حدیث پر اعتراض یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو اللہ نے نبی (ﷺ ) کے ذریعے تزکیہ کر دیا تھا تو پھر انکو عذاب کیسا،اگر ان پر عذاب ہو رہا ہے تو یہ قرآن کے خلاف ہے اور اگر یہ افراد صحابی نہیں ہیں توپھرمسلمان بھی نہیں۔

    قارئین کرام یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص اسلاف کے طریقے کو چھوڑ تا ہے تو وہ خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے،مصنف نے صحیح حدیث کو قرآن کے خلاف سمجھ کر ہی اتنا بڑا جرم کیا ہے کہ ان کی سزا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    ان دو قبروں میں جن کو عذاب ہو رہا تھا کسی حدیث میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ وہ صحابی تھے (صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے نبیﷺ کو ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان کی حالت میں فوت ہوا )

    حافظ ابن حجر راقم ہیں :

    ’’لم یعرف اسم المقبورین ولااحد ھما ‘‘ (فتح الباری جلد1ص425)

    ’’ان قبر والوں کے نام پہچانے نہیں گئے ‘‘۔

    یعنی وہ صحابی نہ تھے اگر مصنف کہتا ہے کہ وہ صحابی تھے تو دلیل مصنف کے ذمے ہے جس سے مصنف پہلے ہی بری ء الذمہ ہو گیا کہ وہ دو انسان کو ن تھے نہ معلوم ہونے پر اتنا نشانہ بنایا اگر معلوم ہوتا تو پتہ نہیں مصنف کیا ستم ڈھاتا ؟؟اگر وہ دونوں مسلمان تھے تو صحابی کے علاوہ کوئی دوسرا کون ہوسکتا ہے ؟یہ دعوی بھی اس کی کم علمی اور جہالت پر مبنی ہے۔ الحمد للہ اگر ہم کتب احادیث اور کتب رجال و تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کتنے ہی ایسے مسلمان تھے جو نبیﷺ کے وقت میں زندہ تھے لیکن ان کو صحابی کا رتبہ نہ مل سکا ( کیونکہ ان کی ملاقات نبیﷺ سے ثابت نہ ہوئی )مثلاً،

    1)نجاشی

    2)اویس قرنی

    3)یحی بن ابی حازم وغیرہم۔

    یہ وہ اشخاص ہیں جو مسلمان تھے لیکن نبی کریمﷺ کے دور میں ہونے کے باوجود ان کا شمار صحابہ میں نہیں ہوتا۔

    لہٰذا مصنف کا اعتراض کہ نبیﷺ کے وقت میں صرف اور صرف صحابی ہی مسلمان ہوسکتا ہے یہ محض مصنف کا وہم اور پاگل پن ہے۔

    لہٰذا عذاب قبر جن دو اشخاص کو ہو رہا تھا وہ صحابی نہیں بلکہ عامۃ المسلمین میں سے تھے۔ واللہ اعلم !

    لہٰذا اعتراض فضول ہے۔

٭٭

مردے کا قبر میں جوتے کی آہٹ سننا

    اعتراض نمبر16:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 44میں لکھتا ہے۔ ۔ ۔ مردہ ’’یسمع قرع نعالھم ‘‘مر دہ ان کے جوتوں کی آہٹ بھی سن لیتا ہے (بخاری 178/1)

    اس حدیث کو لکھنے سے پہلے صفحہ43پر لکھتا ہے کہ قرآن مقدس میں ایک نہیں بیسیوں آیات صراحت کے ساتھ کہتی ہیں موت کے بعد کوئی مردہ نہیں سن سکتا۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد صفحہ 44پر صحیح بخاری کی حدیث پر طعن کرتا ہے کہ قلیب بدر کے موقع پر ابن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چونک پڑے کہ یا رسول اللہﷺ ہم کو تو آپ نے پڑھایا ہے کہ مردے نہیں سنتے اب آپ ’’کیف تکلم اجسادا لا أرواح لھا۔ ۔ ۔ آپﷺ ہی کو تو اللہ نے فرمایا تھا کہ آپﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور اب آپ ہی ان بے روح دھڑوں سے کلام کر رہے ہیں ؟تو آپﷺ نے فرمایا،،الٓان یسمعون۔ تو صحابہ سمجھ گئے۔

    جواب:۔

    قارئین کرام یہ بات تو سوفیصد ثابت شدہ ہے کہ مصنف نے کبھی حدیث تو کیا قرآن بھی دل کی آنکھ سے نہیں پڑھا اگر پڑھ لیتا تو ٹیڑھ نہ رہتی۔ مصنف پرلے درجے کا جھوٹا اور خائن ہے یہ سراسر جھوٹ ہے کہ بیسیوں آیتیں صراحت کے ساتھ کہتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ’۔ مردہ نہیں سن سکتا‘۔ بکواسی مصنف سے میرا سوال ہے کہ بیسیوں کیا کوئی ایک آیت بھی قرآن میں دکھا دے کہ’ مردہ نہیں سن سکتا ‘مجھے یقین ہے کہ مصنف اور اس کی آل قیامت تک یہ نہیں دکھا سکتے محترم قارئین قرآن یہ کہتا ہے کہ انسان اور جن مردے کو نہیں سنا سکتے لیکن اللہ سنوا سکتا ہے۔

    اب ہم امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث مبارکہ پر تبصرہ کرتے ہیں جس کو مصنف نے قرآن کے خلاف سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنایا۔

    ’’ان رسول اللہﷺ قال:ان العبد اذاوضع فی قبرہ وتولی عنہ اصحابہ وانہ لیسمع قرع نعالھم۔ ۔ ۔ ‘‘ (بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر1374 )

    ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص مرتا ہے اور اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آوازسنتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    دوسری حدیث۔ ۔ ۔

    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

    ’’اطلع النبیﷺ علی أھل القلیب فقال وجد تم۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر رقم الحدیث 1370)

    ’’جو کافر بدر کے دن اندھے کنویں میں ڈال دئیے گئے تھے رسول اللہﷺ نے ان پر جھانکا اور فرمایا تمہارے رب نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا لوگوں نے عرض کیا ’’آپﷺ مردوں کو پکارتے ہیں ‘‘

    فرمایا تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے وہ جواب نہیں دے سکتے۔

    ان دونوں صحیح احادیث کو مصنف نے بغیر تحقیق کے قرآن کے خلاف باور کرایا اور قرآن کم فہمی کی تہمت امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ پر لگائی جو کہ مصنف کی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ قارئین کرام مصنف نے امام بخاری رحمہ اللہ پر تو الزام گھڑ دیا کہ ’’امام بخاری کاش کہ روایت سے پہلے کلام اللہ القرآن کا مفہوم معلوم کر لیتے۔ ۔ ۔ ۔ عرض کرتا چلوں الحمد للہ امام بخاری رحمہ اللہ کی مکمل نظر قرآن کریم اور حدیث رسولﷺ پر تھی لیکن مصنف کی مثال ایسی ہے۔ ’’صُمٌّ بُکمٌ عُمیٌ فَہُم لاَ یَرجِعُونَ‘‘ (البقرۃ18/2)

    مندرجہ بالا دونوں احادیث مبارکہ نبی کریمﷺ کے معجزے پر دلالت کرتی ہے اور معجزہ کہتے ہی اس چیز کو جو عمومی حالات سے ہٹ کر ہو۔ معجزہ کا انکار کرنا یہ تو کفر ہے اور ضلالت کی واضح دلیل ہے قرآن پاک ایک قاعدہ ذکر کرتا ہے۔ جسکومصنف اپنے غبی پن اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر رہا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

    ’’ إِنَّ اللّٰہَ یُسمِعُ مَن یَّشَاء ُ وَمَآ أَنتَ بِمُسمِعٍ مَّن فِی القُبُورِ ‘‘(الفاطر22/35)

    ’’اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے لیکن آپﷺ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ‘‘۔

    آیت مبارکہ میں لفظ استعمال ہوا ہے ’’یسمع ‘‘یہ مضارع کا صیغہ ہے عربی میں مضارع دو زمانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ حال اورمستقبل۔ یعنی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے سنوادے یعنی سنوابھی رہا ہے اور مستقبل میں بھی سنوا سکتا ہے۔ مردوں کو سنا نا یہ اللہ کی قدرت ہے لیکن نبیﷺ نہیں سنا سکتے ہاں اگر اللہ سنوانا چاہے تو وہ سنوا سکتا ہے۔

    اب ان دونوں صحیح احادیث پر غور فرمائیں ایک میں ذکر ہے کہ مردے قدموں کی آہٹ سنتے ہیں اور دوسری روایت میں ہے کہ قلیب بدر کے موقع پر نبیﷺ نے کفار کو سنایا۔ ان دونوں احادیث کا مطلب ہے کہ دونوں جگہوں پر اللہ نے سنوایا نہ کہ نبی کریمﷺ نے کیونکہ قرآن یہ واضح اشارہ دیتا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنوادے تو یہاں بھی اللہ ہی نے اپنے نبیﷺ کے ذریعے سنوایا تو بتایئے یہ ایسی کونسی بات ہے کہ جو سمجھ میں نہیں آنے والی ہو؟

    زیر بحث حدیث خاص موقع کے لئے ہی دلالت کرتی ہیں اسی لئے صحابی نے تعجب کے ساتھ پوچھا کہ کیا مردے سنتے ہیں ؟نبیﷺ نے جواب دیا ہاں یہ اس وقت تم سے زیادہ سن رہے ہیں۔ نبی کریمﷺ کا یہ فرمانا ’’اس وقت‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ معجزہ تھا اور معجزہ ہوتا ہی ہے عمومی حالات سے ہٹ کر۔

    معجزہ کا انکار انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اور معجزہ کا ذکر تو قرآن کریم بھی کرتا ہے جیسے عیسی علیہ السلام کا مردوں کا زندہ کرنا وغیرہ۔

    تو کیا مصنف اس کو بھی افسانہ کہے گا۔

٭٭

 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فتنوں سے خوف اور مصنف کی علمی خیانت

    اعتراض نمبر17:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ51پر صحیح بخاری سے ایک حدیث نقل کرتا ہے کہ:

    صحابی رسولﷺ کو کہا گیا کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کو صحبت نبوی نصیب ہوئی اور بیعت رضوان بھی نصیب ہوئی تو براء بن عازب رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ بھتیجے تجھ کو کیا خبر کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد کیا کیا بدعتیں جاری کی ہیں۔ ۔ ۔ (بخاری 599/2)

    ’’اور ادھر آپﷺ نے فرمایا تھا ’’من احدث حدثا اواوی محدثا فعلیہ لعنت اللہ ‘‘تو کیا    صحابی یہ لعنت اپنے اوپر فٹ کر رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    جواب:۔

    قارئین کرام اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ مصنف کا یہ انداز تحریر حدیث دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے وگرنہ نبی کریمﷺ کی حدیث کسی اور بات پر دلالت کرتی ہے اور صحابی کا قول کسی اور معنی پر دلالت کرتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی حدیث جس امر پر دلالت کرتی ہے وہ ہے بدعت شرعی اصطلاح میں دین میں نئے کام کو ثواب کی نیت سے جاری کرنا،اسے شرعی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں۔ رہا مسئلہ صحابی کے قول کا جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کتاب المغازی میں ذکر کیا ہے کہ:

    ’’لقیت البراء بن عازب رضی اللہ عنہ فقلت :طوبی لک۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ رقم الحدیث 4170)

    ’’علا ء بن مسیب اپنے والد سے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے کہا کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کو نبیﷺ کی صحبت بھی ملی اور بیعت رضوان میں بھی شریک ہوئے تو براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بھتیجے تجھ کو کیا خبر کہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد ہم نے کیا کیا نئے معاملات کیئے‘‘۔

    آخر ی لفظ ’’احد ثنا ‘‘ سے مصنف نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بدعتی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے یہ مصنف کی تنگ نظری ہے جسے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’احد ثنا‘‘ سے یہاں مراد نبی کریمﷺ کے انتقال کے بعد کی جنگیں (جو غلط فہمی کی بنا ء پر ہوئیں )مثلاً جمل اور صفین وغیرہ نہ کہ بدعت، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ:

    ’’یشیر الی ما وقع لھم من الحروب وغیرھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (فتح الباری جلد7ص572)

    ’یعنی صحابی رسول کا ’’احد ثنا‘‘ کہنا اشارہ ہے ان لڑائیوں کی طرف (جمل صفین وغیر ہ)‘

    لہٰذا مصنف کی علمی خیانت بھی آپ پر عیاں ہے کہ انہوں نے نہ قرآن کو چھوڑا نہ ہی نبی کریمﷺ کو اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو مصنف کا یہ الزام حدیث دشمنی کی کھلی دلیل ہے جو قابل مذمت ہے۔

٭٭

 

عورت سے دبر زنی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا موقف

    اعتراض نمبر 18:۔

    مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 52-53میں صحیح بخاری سے ایک روایت نقل کی اور لکھتا ہے کہ:۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نسآؤکم حرث لکم ‘‘کی تفسیر عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ فرمائی ہے کہ دبر زنی کرنی چاہیے اور یہ معنی ہیں ’’ انی شئتم‘‘ کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بخاری کتاب التفسیر )

    جواب :۔

    گمراہ فرقوں کی یہ پہچان ہے کہ وہ آدھی بات نقل کرتے ہیں اور آدھی بات کو چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بات اصل معنی اور مطلب سے ہٹ جائے مصنف نے بھی یہی حرکت کی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول اور آیت سے استدلال کچھ اور تھا لیکن مصنف نے اپنی ذہنی خباثت کو محدثین و صحابہ کرام پر فٹ کرنے کی کوشش میں کچھ سے کچھ بنا دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث کتاب التفسیر میں اس طرح ذکر کی ہے نزلت فی کذ اوکذا: اس بارے میں نازل ہوئی (مصنف نے مکمل حدیث ذکر نہ کی )جس کی وضاحت اسی باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہو رہی ہے۔

    قارئین کرام اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ دبر زنی کرنے کا موقف منحرف مصنف کا ہوسکتا ہے لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ جیسی پاکیزہ شخصیت کا نہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب بات صحیح بخاری میں کہیں نہیں ہے یہ صرف اور صرف بہتان ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف درج ذیل حدیث سے واضح ہو رہا ہے :

    نافع مولی ابن عمر سے کہا گیا کہ آپ کے بارے میں بہت کہا گیا ہے کہ آپ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عورتوں سے دبر زنی کا فتوی دیا۔ نافع نے کہا یہ لوگ میرے اوپر جھوٹ باندھتے ہیں لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے ایک دفعہ ابن عمر مصحف سے تلاوت کر رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے (نِسَآؤُکُم حَرثٌ لَّکُم )فرمایا : اے نافع جانتے ہو اس آیت کا کیا معاملہ ہے ؟ ہم اہل قریش اپنی عورتوں کے پیچھے سے آتے تھے (یعنی پیچھے سے لیکن بچہ پیدا کرنے کے مقام ) جب ہم مدینہ آئے اور انصاری عورتوں سے نکاح کیا اور ان سے ایسا چاہا تو انہیں ناگوار گزرا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: نِسَآؤُکُم حَرثٌ لَّکُم۔

    (السنن الکبری للنسائی باب عشرۃ النساء رقم الحدیث 8978)

    اگر مصنف امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ حدیث جابرؓ پر غور کر لیتا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ’ یہود کہا کرتے تھے کہ اگر عورت کے پیچھے سے جماع کریں تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ‘۔ تو کبھی بھی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    غور فرمائیے کہ بچہ کس عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے یا پھر مصنف نے کوئی نیا انکشاف کیا ہے !لہٰذا بخاری کی روایت پر اعتراض فضول ہے۔ یہ بدنیت مصنف کی محض بے لگام اتہام ہے۔

٭٭

 

نبی کریمﷺ کی گانے بجانے کی ترغیب اور اس کی حقیقت ؟

    اعتراض نمبر 19:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحات 55،56اور57پر لکھتا ہے کہ ـ:

    قرآن مقدس میں لہو و لعب منافقوں،یہودیوں، نصرانیوں اور کافروں کا پیشہ مذکور ہوا ہے خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ومن الناس من یشتری لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللہ ‘‘اللہ کے راستے دین سے روک رکھنے کا اصل مقصد یہی لہو و لعب گانے بجانا اور شیطانی بانسری کی چیزیں ہیں جن سے انسان دائرہ انسانیت میں بھی رہنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بخاری صاحب۔ ۔ ۔ ۔ بے لگان اتہام نبیﷺ پر لگاتے ہیں کہ ’’زفت امرأ ۃ الی رجل من الانصار۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’پہنچائی گئی ایک عورت بذریعہ شادی ایک انصاری مرد کی طرف تو فرمایا رسول اللہﷺ نے اے عائشہ کیا کچھ ہے تمہارے پاس لہو یعنی گانے بجانے خوش گپیاں عیش و نشاط کی چیزوں سے۔ ۔ ۔ ‘‘ (بخاری 775/2)

    گانے بجانے کی توتیاں ربانے طبلے اللہ کے راستے سے روکنے کا سبب بنتے ہیں تو پھر کیا آپﷺ ُ انصاریوں کو قرآن کے خلاف تربیت دیتے رہے تھے؟اور کیا اپنے گھر بھی ایسی فحش چیزیں اور لہویات رکھا کرتے تھے ؟۔ ۔ ۔

    جواب:۔

    مصنف نے جس دیدہ دلیری سے حدیث کے متن میں تحریف کی ہے تاریخ میں ایسے تحریف کرنے والا شاید ہی کوئی ہو قرآن کریم کی آڑ میں مصنف نے احادیث کے انکار کا جو طرز اختیار کیا ہے وہ ناقابل معافی جرم ہے۔ مصنف نے صحیح حدیث کے متن میں تحریف کر کے اسے قرآن کے خلاف ٹھہرایا ہے یہی طریقہ مستشرقین کا رہا ہے یعنی مصنف مستشرقین کا ایجنٹ معلوم ہوتا ہے گویا یہ یہود اور نصاریٰ کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ قرآن کریم کی جو آیت مصنف نے پیش کی ہے کہ :

    ’’وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشتَرِی لَہوَ الحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیلِ اللّٰہِ بِغَیرِعِلم‘‘

    (سورہ لقمان 6/31)

    ’’لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو اس لئے بے ہودگی خریدتا ہے کہ بغیر علم کے اللہ کی راہ سے بہکا دے ‘‘۔

    اس آیت کے پیش کرنے کے بعد مصنف لہو و لعب گانا بجانا بانسری وغیرہ کو حرام قرار دے رہا ہے۔ لیکن کوئی مصنف سے یہ تو پوچھے کہ ’’لَہوَ الحَدِیثِ ‘‘’’بے ہودگی‘‘سے مراد کیا گانا بجانے ہے یعنی اس آیت میں تو صرف بے ہودگی کا ذکر ہے بانسری کا ذکر تو ہے ہی نہیں آخر مصنف نے یہ سارے نتیجے کہاں سے اخذ کئے ؟شاید ابلیس نے اس کے کان میں یہ مطلب پھونک دیا۔ قارئین اندازہ فرمائیں ایک جگہ تو مصنف کتب احادیث خصوصاً صحیح بخاری کو افسانہ گردانتا ہے اور دوسری طرف انہی کتب احادیث سے اپنے مطلب کی باتوں کو بڑے پر حجت انداز میں اخذ کرتا ہے ایسے دوغلے پن پراسلام منافقت کی مہر لگاتا ہے۔ اب آپ کے سامنے میں صحیح بخاری کی وہ حدیث نقل کرتا ہوں جس کو مصنف نے قرآن کے خلاف ٹھہرا کر بڑی ہوشیاری سے انکار کے چور دروازے کھولنے کی کوشش کی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم فرماتے ہیں :

    ’’النسوۃ اللا تی یھدین المرأۃ الی زوجھا ‘‘

    ’’جو عورتیں دلہن کو (دولہا کے پاس )لے جائیں وہ گاتی بجاتی جا سکتی ہیں۔

    پھر اس کے ذیل میں حدیث پیش کرتے ہیں

    ’’عن عائشۃ رضی اللہ عنہا أنھا زفت امرأۃ الی رجل من الانصار فقال۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب النکاح رقم الحدیث 5162)

    ’’عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ وہ ایک دلہن کو ایک انصار ی مرد (دلہے) کے پاس لے گئیں آنحضرتﷺ نے ارشاد مبارک فرمایا عائشہ تمہارے ساتھ کچھ گانا بجانا تو تھا ہی نہیں ( چپ چاپ دلہن کو لے گئیں ) دیکھو انصار لوگ گانا بجانے سے خوش ہوتے ہیں ‘‘۔

    اس حدیث میں گانا بجانے کے الفاظ موجو دہیں لیکن دوسری حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کہ وہ گانا بجانے والیاں جس سے بجا رہی تھیں وہ دف تھا اور گانا بجانے والیاں کوئی پیشہ ور نہ تھیں مصنف نے جو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے وہ ان گانوں کو جدید موسیقی کے آلات پر استدلال کر کے کچھ اور ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ ناکام کوشش ہے۔

    نبی کریمﷺ کے وقت میں جس چیز سے موسیقی کا استدلال لیا جاتا تھا وہ صرف دف تھا جیسا کہ صحیح بخاری کتاب العیدین میں حدیث مذکور ہے اور وہ بھی خوشی کے اظہار کے لئے تاکہ نکاح کا اعلان ہو جائے کیونکہ غیر اعلانیہ نکاح سے اسلام روکتا ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا : ’’اعلنوا للنکاح ‘‘کہ نکاح کا اعلان کرو، اور دف بجانا بھی اس خوشی کے زمرے میں آتا ہے۔ رہی بات گانے کے کیا الفاظ ہوتے ہیں وہ بھی الفاظ کتب احادیث میں درج ہیں۔

    جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر فرمایا ہے کہ :

    ’’عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ :انصار کی ایک یتیم لڑکی کی شادی میں میں دلہن کے ساتھ گئی جب لوٹ کر آئی تو آپﷺ نے پوچھا کہ تم نے دولہا والوں کے پاس جا کر کیا کیا ہم نے کہا سلام کیا اور مبارک باد دی آپﷺ نے فرمایا ایک گانا بجانے والی لونڈی کو کیوں ساتھ نہ لے گئی جو دف بجاتی گاتی جاتی ہے میں نے عرض کیا کہ وہ کیا گاتی ؟آپﷺ نے فرمایا یوں گاتی ’’ہم آئے تمہارے گھر میں ہم آئے تمہارے گھر میں مبارک ہو ہم کو مبارک ہو تم کو بہت برکت ہووئے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    اندازہ کیجئے جس گانے کو مصنف بے حیائی کی باتیں کہتا ہے یہی وہ الفاظ ہیں جو کہ اچھے اشعار کی صورت میں پڑھے گئے۔ یہ کسی بھی طرح سے قرآن کے خلاف نہیں ہے یعنی وہ بجانے والیاں محض دف ہی بجائیں اور بجانے والیاں بھی پیشہ ور نہ ہوں اور وہ اشعار بھی اس طرح کے تھے جو کہ حقیقت پر مبنی تھے جس میں جھوٹ کی ذرہ برابر بھی آمیزش نہ تھی،ان اشعار کو آج کے بے ہودہ شرکیہ و کفریہ گانوں پر استدلال کرنا سراسر ظلم ہے جو کہ حدیث دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ہم احادیث کا مطالعہ کریں تو نبی کریمﷺ نے سختی سے موسیقی کو حرام قرار دیا ہے جس کو خائن مصنف نے نظر  انداز کر دیا۔ نبی کریمﷺ کے وقت میں اچھے اچھے اشعار پڑھنے والے لوگ موجود تھے لیکن وہ بھی اشعار شریعت کی حد میں رہتے ہوئے بغیر کسی موسیقی کے آلات کے پڑھے جاتے تھے۔ عظیم محدث شیخ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تحریم الٓات الطرب ‘‘ صفحہ126میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ موسیقی کے بغیر ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اچھے اشعار پڑھا کرتے تھے۔

    لہٰذا مصنف کا اعتراض کالعدم ہے اور یہ اعتراض صرف افک پر مبنی ہے جو کہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

٭٭

 

عائشہ رضی اللہ عنہا کا چھ برس کی عمر میں نکاح، نو برس کی عمر میں رخصتی اور مصنف کی گستاخی

    اعتراض نمبر20:۔

    مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 57،58پراماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے چھ برس کی عمر میں نکاح اور نو برس کی عمر میں رخصتی کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور وہ لکھتا ہے :

    قرآن کریم میں نکاح (شادی) کے لئے بلوغت کو شرط رکھا گیا ہے ’’حتی اذا بلغوا النکاح‘‘ کی نص خود اللہ کے رسولﷺ پر نازل ہوئی۔ ۔ ۔ لیکن بخاری صاحب اپنی روایت کے ذریعے آپﷺ کا نابالغ لڑکیوں کے ساتھ جنسی کھیل کھیلنا ثابت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں :’’ان النبیﷺ تزوجھا وھی بنت ست سنین وبنٰی بھا وھی بنت تسع‘‘ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کیساتھ آپﷺ کی شادی ہوئی تو ان کی عمر چھ سال تھی جب بنا فرمایا تو نو سال کی تھی۔ ‘‘ (771/2)

    جواب :۔

    مصنف نے پھر وہی لغو اور رنگ آمیز شیطانی ترجمہ کیا ہے آخر نازیبا الفاظ ’’جنسی کھیل وغیرہ مصنف اپنی تحریر میں کہاں سے لایا۔ سیدھے سادھے ترجمہ کو اتنا رنگ آمیز بنایا کہ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ مصنف دراصل جس گھٹیا اور بازاری سوچ کا حامل ہے مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی جنسی باوا ہے سیدھی سادھی بات کو زبردستی جنسی جامہ پہنا کر اسے عوام کے سامنے پیش کر کے اسے مسرت ہوتی ہے۔ مصنف نے حدیث تو دور کی بات کبھی قرآن بھی آنکھ کھول کر نہیں پڑھا ہو گا اگر پڑھا ہوتا تو اسے یہ آیت ضرور معلوم ہو جاتی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :

    ’’وَاللَّائِی یَئِسنَ مِنَ المَحِیضِ مِن نِّسَائِکُم إِنِ ارتَبتُم فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشہُرٍ وَّاللَّائِی لَم یَحِضنَ ‘‘ (الطلاق 65/4)

    ’’اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں کچھ شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض شروع نہ ہوا ہو۔

    اس آیت مبارکہ میں ان عورتوں کی عدت جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اور وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض آیا ہی نہیں ہے تین ماہ ہے قابل غور ہے وہ عورتیں جنہیں حیض ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔

    نکاح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    طلاق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    عدت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    عورت کا پہلے نکاح ہوا بعد میں طلاق ہوئی اس کے بعد عدت تین ماہ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ تو اس عورت کی بھی عدت کا ذکر فرماتا ہے جو ابھی نابالغہ ہے اب مصنف اس آیت کی کیا تاویل پیش کرے گا ؟دراصل مصنف وہم اور پاگل پن کا شکار ہو گیا ہے مصنف نے بلوغت کی عمر ہی کو نکاح کے لئے شرط ٹھہرایا دراصل نکاح کی کئی وجوہات ہوتی ہیں ایک تو آدمی نکاح کرتا ہے اپنے دامن کو پاک وصاف رکھنے کے لئے دوسرے حصول اولاد کے لئے عرب معاشرے میں لڑکی جلد بالغ ہو جایا کرتی ہے جیساکہ امام دارقطنیؒ  اپنی سنن میں ذکر فرماتے ہیں کہ :

    ’’عباد بن عبادمہلبی کہتے ہیں میں نے اپنی قوم میں ایک عورت کو پایا جو اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا نو سال کی عمر میں اور اس بیٹی نے بھی نوسال کی عمر میں جنم دیا اس طرح وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی‘‘۔ (دارقطنی کتاب النکاح رقم الحدیث 3836)

    اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عورت نو سال کی عمر میں بالغ ہو جاتی ہے۔ جیساکہ موجودہ دور میں اس کی مثال ہے روزنامہ(the dawn) 29مارچ 1966 میں خبر شائع ہوئی کہ افریقہ میں ایک 8سالہ بچی حاملہ ہوئی اور نو سال کی عمر میں اس نے بچہ جنم دیا۔

    ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں جو واقعتاً بھی اس بات کی دلیل ہیں (مزید تفصیل کے لئے میری کتاب اسلام کے مجرم کون ؟کا مطالعہ مفید رہے گا )رہا معاملہ حدیث کا تو وہاں ذکر کچھ اور ہے۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

    ’’میرا نکاح نبیﷺ سے چھ سال کی عمر میں ہوا تھا۔

    ’’وبنٰی بی وأنا بنت تسع سنین ‘‘

    لفظ بنا کا ترجمہ رخصتی ہوتا ہے مصنف نے اس لفظ کا شیطانی ترجمہ کیا ہے کہ’ جنسی کھیل تماشہ ‘جو کہ سراسر غلط ہے ’’حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے :

    ’’میرا نکاح نبیﷺ سے چھ برس کی عمر میں ہوا اور نو برس کی عمر میں رخصتی‘‘۔ دراصل مختلف ممالک میں بلوغت کی عمر مختلف ہوتی ہے بلکہ ایک ہی ملک میں بلوغت کی عمر میں تفاوت پایا جاتا ہے لہٰذا مصنف کا یہ ثابت کرنا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا نابالغ تھیں تو یہ سراسربدنیتی اور خیانت ہے۔

    اور مصنف کا یہ کہنا کہ سورۃ القمر نبوت کے پانچویں سال نازل ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر مکہ میں آپﷺ پندرہ سال رہے۔ بالکل بے بنیاد اور بلا دلیل ہے۔

    مصنف یہ بتائے کہ یہ کہاں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا ابھی بچی ہی تھیں کہ سورۃ القمر کی آیات یاد ہو گئیں تھیں ؟

    عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ محمدﷺ پر مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور میں بچی تھی کھیلتی کودتی تھی ’’بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی وأمر ‘‘(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ القمر 4876)

    ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول اور غزوہ بدر کے درمیان سات سال کا عرصہ تھا۔ (الجامع لأ حکام القرآن )

    اور تاریخ کی روایات اس بات پر شاہد ہیں کہ نبی کریمﷺ مکہ میں تیرہ سال رہے نہ کہ پندرہ سال جیسا مصنف کا کہنا ہے۔ (البدایہ والنھایہ)

    اور عائشہ رضی اللہ عنھا کی رخصتی سنہ 1ھ میں ہوئی جیساکہ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر کیا ہے۔ اس اعتبار سے جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی عمر تین سال تھی۔ اور اس وقت کی خبر دینا کوئی عجیب بات نہیں۔

    مندرجہ بالا سطور سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں :

    1)ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا سورۃ القمر کی آیات یاد کرنے کا ذکر مصنف کا جھوٹ ہے۔

    2)نبی کریمﷺ کی مکہ میں اقامت بعد از بعثت کا عرصہ تیرہ سال ہے۔

    3)آیت کے نزول اور غزوہ بدر میں سات سال کا عرصہ ہے اور غزوہ بدر سنہ2ھ میں وقوع پذیر ہوا۔

    4)عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی سنہ 1ھ میں 9سال کی عمر میں ہوئی۔

٭٭

 

نبیﷺ کا عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا فتنے ادھر سے ہیں

    اعتراض نمبر 21:۔

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 59پر لکھتا ہے کہ :

    قرآن پاک میں اہل بیت نبوی کی فضیلت میں کئی آیات اور سورتیں نازل ہوئی ہیں اور خاص کر عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو یہ شرف حاصل ہے کہ نزول قرآن ان کے بسترراحت پر ہوا۔ اور ’’ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا‘‘کا مژدہ انکو سنا کر مطمئن کر دیاگیا۔ ۔ ۔ ۔ کسی شرارتی راوی کی روایت کے پیش نظر امام بخاری باب باندھتے ہیں ’’باب ماجا ء فی بیوت ازواج النبیﷺ وما نسب من البیوت الیھن ‘‘ (بخاری438/1)تحت الباب کہتے ہیں :

    ’’قال النبیﷺ خطیبا فاشارنحو مسکن عائشہ ؓ فقال ھاھنا الفتنۃ ثلاث من حیث یطلع قرن الشیطان ‘‘۔

    ’’آپﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہیں سے فتنہ اٹھے گا تین مرتبہ فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ام المؤمنین کو فتنہ باز ثابت کرنے کیلئے ’’نحوسکن عائشہ رضی اللہ عنہ کا جملہ خلط کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    جواب :۔

    غیر اخلاقی ترجمہ اور بات کو اس کے پس منظر سے ہٹانا کہاں کی دیانت داری ہے کاش کہ مصنف اس اعتراض سے پہلے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ لیتا کہ :

    ’’اے ایمان والو گما ن سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ ‘‘ (الحجرات 12/49)

    قارئین کرام مصنف بدگمان اور وہمی ہے اس چیز نے مصنف کو اندھا کر دیا حتیٰ کہ مصنف ہر صحیح بات کو بھی غلط سمجھتا ہے۔ اما م بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث مبارکہ کو کئی مقامات پر درج فرما یا ہے۔ مثلاً۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ رقم الحدیث3279،

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب المناقب باب5 رقم الحدیث3511،

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب الطلاق باب الاشارۃ فی الطلاق والاموررقم الحدیث5296،

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب الفتن باب قول النبیﷺ الفتنۃ من قبل المشرق رقم الحدیث 7092،

    ان ابواب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو کہیں مفصل اور کہیں اختصارسے ذکر فرمایا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

    ’’قام النبیﷺ خطیبا فأشار نحومسکن عائشہ ؓ فقال ھاھنا الفتنۃ ثلاثا۔ من حیث یطلع قرن الشیطان۔

    (صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب ماجاء فی بیوت أزواج النبیﷺ وما نسب من البیوت الیھن رقم الحدیث 3104)

    نبیﷺ نے کھڑے کھڑے خطبہ کی حالت میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (یعنی پورب کی طرف)تین بار ارشاد فرمایا ادھر ہی سے فتنے نکلیں گے یہیں سے شیطان کا سر نمودار ہو گا۔

    دوسری حدیث صحیح بخاری میں کچھ اس طرح سے ہے :

    ’’عن ابن عمر رضی اللہ عنہ انہ سمع رسول اللہﷺ وھو مستقبل المشرق یقول: الا ان الفتنۃ ھاھنا من حیث یطلع قرن الشیطان‘‘۔

    (صحیح بخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺ الفتنۃ من قبل المشرق رقم الحدیث 7093)

    ’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ پورب (مشرق )کی طرف منہ کئے ہوئے تھے فتنہ ادھر سے نمودار ہو گا جہاں سے شیطان کی چوٹی نکلتی ہے۔ ‘‘

    ایک اور حدیث جو کچھ اس طرح سے ہے :

    ’’عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال ذکر النبیﷺ اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنافی یمننا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺ الفتنۃ من قبل المشرق رقم الحدیث 7094)

    ’’رسول اللہﷺ نے یوں دعا فرمائی یا اللہ ہمارے ملک شام میں برکت دے یا اللہ ہمارے یمن کے ملک میں برکت دے صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ یہ بھی فرمایئے ہمارے نجد کے ملک میں آپ نے پھر یہی دعا کی یا اللہ ہمارے ملک شام میں برکت دے یا اللہ ہمارے یمن کے ملک میں برکت دے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یہ بھی فرمایئے ہمارے نجد کے ملک میں میں سمجھتا ہوں تیسری بار جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا (کہ نجد کے لئے بھی دعا فرمایئے )تو آپﷺ نے فرمایا وہیں تو زلزلے آئیں گے فتنے پیدا ہوں گے وہیں سے شیطان کی چوٹی نمودار ہو گی۔ ‘‘

    ان احادیث میں نبی کریمﷺ نے اس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا جو زلزلے اور دوسری شکلوں میں نمودار ہوئے پہلی حدیث میں جو ذکر کیا گیا ہے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہاں سے فتنے نمودار ہوں گے حدیث کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جس جگہ نبی کریمﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے بالکل اسی کے پورب کی طرف عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ تھا یعنی کہ سمت کی طرف اشارہ فرمایا نہ کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف کہ فتنے یہاں سے نمودار ہوں گے۔

    میں کراچی میں حدیث کانفرنس میں تھا میرے درس کے بعد سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا ایک صاحب نے اسی حدیث کے بارے میں اعتراض کیا اور انہوں نے کہا کہ صحیح بخاری میں ایک حدیث کے مطابق فتنے کی جگہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر ہے اسی لئے تو نبی کریمﷺ نے اس کی طرف اشارہ کیا (نعوذ باللہ من ذٰلک)میں نے ان کو جواب دیا کہ نبی کریمﷺ کا عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف اشارہ فرمانا سمت کو ظاہر کرنا تھا جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی واضح صراحت منقول ہے کہ آپ نے نام لے کر فرمایا جیسا کہ طبرانی کی حدیث میں نجد کی جگہ کو فتنہ کی جگہ قرار دیا گیا ہے تو نبی کریمﷺ کا عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف اشارہ دراصل پورب (مشرق) کی طرف اشارہ مقصود تھا میں نے ایک مثال کے ذریعے ان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی میں نے ان سے کہا (وہ میرے داہنی طرف کھڑے تھے) کہ میرے داہنے طرف شیطان ہے اور یہ بات کہتے ہوئے میں نے ان کی طرف اشارہ کیا تو وہ برا مان گئے اور مجھ سے کہا کہ آپ نے میری طرف اشارہ کر کے مجھے شیطان بنا دیا ؟میں نے کہا بھائی قرآن کریم کہتا ہے کہ :

    ’’ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَینِ أَیدِیہِم وَمِن خَلفِہِم وَعَن أَیمَانِہِم وَعَن شَمَآئِلِہِم ‘‘    (الاعراف 17/7)

    ’’پھر میں ان( انسانوں )کے آگے سے پیچھے سے،دائیں سے بائیں سے گھیر لوں گا ‘‘۔

    یعنی آیت کی روسے داہنے طرف سے بھی شیطان آئے گا اور انسان کو بہکائے گا۔ لہٰذا میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے داہنے طرف کھڑے ہیں میں صرف سمت کے لئے آپ کی طرف اشارہ کر رہا ہوں نہ کہ آپ کو شیطان کہہ رہا ہوں۔ اس مزاح کے بعد لوگوں نے خوب سمجھ لیا کہ نبی کریمﷺ کا عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد صرف سمت کی رہنمائی تھی دوسر ی حدیث میں خصوصاً ذکر موجود ہے کہ نبی کریمﷺ نے پورب یعنی مشرق کی طرف دعا نہ کی کیونکہ وہاں سے فتنے نمودار ہوں گے۔ لہٰذا حدیث پر اعتراض لاعلمی اور تعصب کی وجہ سے ہے۔

    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

    ’’اللہ کے رسولﷺ نے دعا مانگی یا اللہ ہمارے صاع اور مد میں برکت عطا فرما الٰہی ہمارے یمن اور شام میں برکت عطا فرما لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا ! اے اللہ کے نبیﷺ ہمارے عراق کے لئے بھی (دعا کریں )آپﷺ نے فرمایا:وہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا اور فتنے ابلیس کے۔ بلاشبہ جور و جفا مشرق ہے ‘‘ (المعجم الکبیر (13422)مجمع الزوائد (3/305)

    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

    ’’میں نے دیکھا اللہ کے رسولﷺ عراق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں :خبردار! بے شک فتنہ یہاں سے نمودار ہو گا خبردار بلاشبہ فتنہ یہاں سے نمودار ہو گا۔ آپﷺ نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ (احمد 143/2ابن ابی شیبہ185/12)

    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

    ’’اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا :’’کفر کا سر چشمہ مشرق ہے۔

    (بخاری کتاب بدء الخلق باب خیر مال المسلم غنم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3301صحیح مسلم کتاب الایمان باب تفاضل اھل الایمان فیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رقم الحدیث 52)

    معلوم ہوا کہ نبیﷺ کا اشارہ مشرق کی طرف تھا۔ لہذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔

٭٭

 

فرشتہ کا عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر اٹھا لانا

    اعتراض نمبر22:۔

    مصنف صفحات 60اور61میں لکھتا ہے کہ:

    بخاری کی ایک اور جھوٹی روایت جس میں راویان حدیث کی کئی تخریب کاریاں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ دو مربتہ تو مجھے خواب میں دکھائی گئی کوئی ایک مرد ہے جو تجھے ریشمی ٹکڑے میں اٹھا لایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب اس با ت کو بھی رہنے ہی دیجئے کہ کوئی مرد غیر محرم صدیقہ کی تصویر کو کس طرح اٹھا لایا ؟ اگر فرشتہ ہوتا تو آپﷺ ضرور فرماتے کہ وہ مرد جبریل تھا ؟ اور اس کو بھی رہنے دیجئیے کہ تصویر کشی کرنے والوں پر آپﷺ نے لعنت کیوں فرمائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی کریمﷺ کا خواب تو یقیناً وحی ہونا تھا پھر آ پﷺ نے وحی کے اندر اگر کی قید کیوں لگائی۔

    جواب:۔

    قارئین کرام نبی کریمﷺ کی احادیث کا استہزا کرنا اور احادیث کے معانی میں خیانت کرنا مصنف کا شیوہ ہے یہاں بھی اس نے من پسند استنباطات کر کے حدیث کو قابل اعتراض ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ نہ معلوم کہ بوقت اعتراض مصنف باؤلے کتے کے کاٹنے سے باؤلا ہو چکا تھا(ناراض نہ ہوں یہ الفاظ مصنف نے صفحہ 59پر محدثین کے حق میں استعمال کیئے ہیں ) یا پھر حدیث دشمنی نے اسے باؤلا کر دیا۔

    مصنف کا اعتراض کہ کوئی مرد غیر محرم صدیقہ کی تصویر کو کس طرح اٹھا لایا۔ آپﷺ نے تصویر کشی کرنے والوں پر لعنت کیوں فرمائی اگر اللہ کی طرف سے تھی تو تصویر کشی جائز ہوتی ؟ان تمام باتوں کا اتنا جواب کافی ہے کہ یہ نبیﷺ کا خواب تھا لیکن بد دیانت باؤلا مصنف کی تشفی کے لئے مزید تحریر کئے دیتے ہیں۔

    کوئی مرد غیر محرم صدیقہ کی تصویر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر فرشتہ ہوتا تو آپﷺ ضرور فرماتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ

    قارئین کرام احادیث ایک دوسرے کی شرح کرتی ہیں اور اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں پانچ مقامات پر ذکر کیا ہے لیکن خائن مصنف نے ایک جگہ سے ٹکڑا نقل کر کے حدیث میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

    صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تصویر اٹھا لانے والا یقیناً فرشتہ ہی تھا۔ ملاحظہ کیجئے :صحیح بخاری کتاب النکاح باب النظر الی المرأۃ قبل التزویج رقم الحدیث 5125:۔

    ’’عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت :قال لی رسول اللہﷺ ۔ أریتک فی المنام یجی ء بک الملک فی سرقۃ من حریر،فقال لی :ھذہ امرأتک فکشفت عن وجھک الثوب فاذا أنت فقلت ان یک ھذا من عنداللہ یمضہ ‘‘۔

    ’’عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم مجھے خواب میں دکھلائی گئی تمہیں فرشتہ ریشمی ٹکڑے میں لایا تو اس نے مجھ سے کہا یہ تمہاری بیوی ہے پس میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو تم ہی تھیں تو میں نے کہا : اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اللہ اسے کر دے گا ‘‘۔

    تو اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ لانے والا فرشتہ ہی تھا لیکن شاید ہٹ دھرم مصنف کو اطمینان نہ ہوا ور وہ یہ کہے کہ دوسری روایت میں آدمی (رجل) کا لفظ کیوں آیا ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتہ کبھی کبھی بشر کی صورت میں بھی آیا کرتا تھا۔

    جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    فَأرسَلنَا إِلَیہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّاً (سورہ مریم 17/19)

    ’’پھر ہم نے اس کے پاس (مریم علیہ السلام )اپنی روح (جبریل علیہ السلام )کو بھیجا پس وہ پورا آدمی بن کر آیا ‘‘ مزید دیکھئے صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان والاسلام والاحسان۔ ۔ ۔ ۔ الخ

    فرشتے نے تصویر کشی نہیں کی تھی بلکہ وہ نبی کریمﷺ کا خواب تھا اگر مان لیا جائے کہ اس سے مراد تصویر کشی ہے تو کیا خواب میں نظر آنے والی تصویریں بیدار ہونے کے بعد بھی برقرار رہتی ہیں۔ ہر گز نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے نہ اس میں نبیﷺ کو کوئی شک تھا نہ امام بخاری رحمہ اللہ کو اس میں کوئی شک تھا۔ (لیکن خبیث مصنف کو نبی کریمﷺ کی احادیث کے وحی ہونے میں شک ہے )نبیﷺ کو خواب کے وحی ہونے میں کوئی شک نہیں تھا۔ اگر کی قید اس لئے لگائی کہ تردد اس بات میں تھا کہ یہ وحی والا خواب اسی طرح سوفیصدواقع ہو گا جس طرح دیکھا ہے یا اس کی کوئی تعبیر ہے ؟ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں اور ان خوابوں کی دوقسمیں ہیں :

    -1جس طرح خواب دیکھا ہے ہو بہو اسی طرح واقع ہو جائے۔

    -2یا ان خوابوں کی تعبیر ہے۔

    (فتح الباری مذکورہ حدیث کی شرح کے باب میں )

    اور انبیاء کے خواب کی تعبیر کی کئی مثالیں ہیں جیساکہ یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ سور ج چاند اور گیارہ ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اور اس کی تعبیر طویل عرصہ بعد اس صورت میں سامنے آئی کہ ان کے والدین اور بھائی جب یوسف علیہ السلام کے دربار میں آئے تو سجدے میں گر پڑے۔

    (دیکھئے سورہ یوسف آیات100-99-4)اور اسی طرح نبی کریمﷺ نے اپنے خواب میں دودھ کی تعبیر علم سے کیا۔ (دیکھئے صحیح البخاری کتاب التعبیر باب اللبن رقم الحدیث 7006)

    الحمد للہ حدیث اعتراض سے پاک ہے۔

٭٭

 

ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ

    اعتراض نمبر23

    مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 62پرلکھتا ہے :

    لیکن بخاری صاحب خلیل اللہ علیہ السلام کو جھوٹ بولنے والا نبی روایت کر رہا ہے۔ ’’لم یکذب ابراھیم الاثلث کذبات ‘‘(بخاری 761/2)اوراس صحیح حدیث کو راویوں کا جھوٹ گردانا ہے اور قرآن کے خلاف ظاہر کر کے اسے رد کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔

    جواب :۔

    حدیث کے الفاظ تو مصنف کو جھوٹ معلوم ہوئے اور اس حدیث پر پر زور رد کی کوشش کی ہے جو کہ محل نظر ہے۔ اگر مصنف قرآن کریم کا مطالعہ کرتا تو وہ بخوبی اس مسئلے کو سمجھ جاتا۔ جس جھوٹ کا ذکر نبی کریمﷺ کی حدیث میں ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

    وَتَاللّٰہِ لَأَکِیدَنَّ أَصنَامَکُم بَعدَ أَن تُوَلُّوا مُدبِرِینَ فَجَعَلَہُم جُذَاذاً إِلا کَبِیراً لَّہم لَعَلَّہُم إِلَیہِ یَرجِعُونَ (الانبیاء 57-58/21)

    ’’اور اللہ کی قسم میں ضرور تمہارے بتوں کے ساتھ چال چلوں گا تمہارے پیٹھ پھیر کر چلے جانے کے بعد۔ پس ٹکڑ ے ٹکڑے کر ڈالے ان بتوں کو سوائے بڑے بت کے تاکہ وہ اس کی طرف لوٹیں ‘‘۔

    پھر جب وہ مشرکین بت خانہ میں آئے تو بہت برہم ہوئے اور پوچھا :

    ’ قَالُوآ َٔأَنتَ فَعَلتَ ہَذَا بِآلِہَتِنَا یَا إِبرَاہِیمُoقَالَ بَل فَعَلَہُ کَبِیرُہُم ہَذَا فَاسأَلُوہُم إِن کَانُوا یَنطِقُونَ (الانبیاء 62-63/21)

    ’’اے ابراہیم کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت تم نے کی ہے ؟ابراہیم نے جواب دیا نہیں بلکہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہے ان بتوں ہی سے پوچھو اگر یہ بولتے ہیں ‘‘۔

    قارئین کرام یہ قرآن مجید کی آیت آپ کے سامنے ہیں اب آپ بتائیں بت توڑے ابراہیم علیہ السلام نے اور الزام ٹھہرایا بڑے بت پر کیا یہ جھوٹ نہیں ؟اگر نہیں تو پھر جھوٹ کیا ہے ؟ اور جھوٹ کس چیز کا نام ہے ؟ لہٰذا مصنف قرآن کریم کی آیت کا جواب دے وگرنہ حدیث کو قبول کرے۔ (مفصل جواب کے لئے میری آڈیوسی ڈی منکرین حدیث کے 102سوالات کے جوابات ملاحظہ کیجئے )

٭٭

 

نبی رحمتﷺ اور اونٹوں کا پیشاب پلوانا

    اعتراض نمبر 24:۔

    مصنف اپنی کتاب صفحہ 64پر لکھتا ہے ’’قرآن پاک میں مسلمانوں کے لئے حرام اور پلید چیزوں کے استعمال سے دور رہنے کا حکم ہے اور حلال طیب استعمال کرنے کا حکم ہے۔ ۔ ۔ اور نبی کریمﷺ نے حرام اشیاء سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نجس اور پلید اشیاء کو ان پر حرام الا ستعما ل کہا لیکن بخاری میں ایک اور جھوٹی روایت ہے جس میں اللہ کے رسولﷺ نے اونٹوں کے پیشاب پینے کا حکم دیا۔ ۔ ۔ ۔ (بخاری 1005/2)

    جواب :۔

    الحمد للہ قارئین کرام یہ بات میں نے ثابت کی ہے کہ مصنف علوم القرآن اور علوم الحدیث سے تو ناواقف ہے ہی بلکہ وہ عصری علوم سے بھی ناواقف ہے اس حدیث مبارکہ کا تعلق (میڈیکل) سے ہے اسے حدیث کی حکمت کیسے معلوم ہو گی اس نے تو صرف اور صرف ظاہری چیز کو دیکھتے ہوئے اعتراض کرنا سیکھا ہے۔ حکمت تو اسے ملے گی جو قرآن و حدیث کو من و عن تسلیم کرے گا ان شا ء اللہ۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بالبان الابل رقم الحدیث 5685پر ذکر فرمایا ہے :

    ’’عن انس رضی اللہ عنہ أن ناسا کان بھم سقم قالوا : یا رسول اللہﷺ آونا وأطعمنا‘‘

    ’’انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا مدینے میں کچھ لوگوں کو (پیٹ کی )بیماری ہو گئی انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم کو رہنے کا ٹھکانہ بتلائیں اور ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کر دیجئے جب و ہ صحت یاب ہو گئے تو کہنے لگے مدینے کی آب و ہوا غلیظ ہے آپ نے ان کو حرہ میں اتارا (ایک جگہ کا نام ہے) وہاں صدقے کے اونٹ رہا کرتے تھے آپﷺ نے فرمایا دودھ پیا کرو‘‘۔

    (دوسری حدیث میں ہے کہ اونٹنی کا دودھ اور پیشاب پیا کرو )یہ وہ حدیث ہے جس کو مصنف تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حدیث ہمارے لئے باعث فخر ہے اگر ہم اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو 1400سال پہلے نبی کریمﷺ نے جو علاج تجویز کیا آج (Medical Science)اس کو ثابت کرتی ہے الحمد للہ جو لوگ نبی کریمﷺ کے پا س آئے تھے ان کا تعلق قبیلہ ’’عکل اور عرینہ سے تھا ان کو استسقاء کی بیماری ہو گئی تھی یعنی ان کے پیٹ میں یا پھیپڑوں میں پانی بھر گیا تھا جدید طبی اصطلاح میں اس بیماری کو (Ascites)ایسائیٹیذ کہا جاتا ہے۔ اوراس بیماری میں اونٹنی کا پیشاب مؤثر ہے ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب ’’علاج نبویﷺ اور جدید سائنس ‘‘میں رقمطراز ہیں :

    ’’گوجرانوالہ سے چار سال کا ایک بچہ گردوں اور جگر کی خرابی کی وجہ سے میوہسپتال لاہور کے بچہ وارڈ میں زیر علاج تھا بچے کے پیٹ میں سے کئی بار پانی نکالا گیا اور کورٹی سون کی گولیوں کے مسلسل استعمال سے اس کی حالت قابل رحم تھی۔ وہ پہلا مریض تھا جس کو ارشاد نبویﷺ کی تعمیل میں اونٹنی کا دودھ اور پیشاب پلایا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اس بچے کے اونٹنی کے پیشاب اور دودھ پینے کی وجہ سے )ایک ماہ میں پیٹ بالکل صاف ہو گیا۔ دوسرے ماہ کمزوری جاتی رہی اور جلد ہی صحت یاب ہو گیا۔ ‘‘ (جلد3ص305)

    غور فرمائیں نبی کریمﷺ کی حدیث اس بچے کے لئے باعث رحمت ہوئی جس سے وہ بچہ مستفید ہوا اگر ہم اس بچے یا ان کے والدین سے پوچھیں تو یقیناً وہ یہ کہے بغیر نہ رہیں گے کہ نبی کریمﷺ کی حدیث تو ہمارے لئے معجزہ بن گئی۔ اور واقعتاً ایسا ہی ہے۔

    ایک مشہور سیاح ڈاؤٹی اپنی کتاب ( 1,Arabia Petra 2,Arabia Deserta)میں لکھتا ہے : 1924میں میں نے پورے عرب کا دورہ کیا اور اس نے یہ دو کتابیں لکھیں اس شخص نے کثرت سے عرب میں سفر کیا یہ اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ جزیرہ عرب کے سفر کے دوران ایک موقع پر وہ بیمار پڑ گیا۔ پیٹ پھول گیا رنگ زرد پڑ گیا۔ اور اسے زرد بخار کی طرح ایک بیماری ہو گئی جس کا اس نے دنیا میں مختلف ممالک میں علاج کروایا لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ آخر کار جر منی میں کسی بڑے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اس علاقے میں جائے جہاں وہ بیمار پڑا تھا ممکن ہے کہ وہاں کوئی مقامی طریقہ علاج ہو یا کوئی عوامی انداز کا دیسی علاج ہو۔ کہتا ہے کہ جب وہ واپس گیا تو جس بدّو کو اس نے خادم کے طور پر رکھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا تو پوچھا یہ بیماری آپ کو کب سے ہوئی ہے؟ اس نے بتایا کہ کئی مہینے ہو گئے اور میں بہت پریشان ہوں۔ اس نے کہا کہ ابھی میرے ساتھ چلیں۔ اسے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ایک ریگستان میں اونٹوں کے باڑے میں لے جا کر کہا کہ وہ کچھ دن یہاں رہے اور اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے علاوہ کچھ نہ پیئے۔ ایک ہفتے بعد علاج کر کے وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اور اسے بہت حیرت ہوئی۔

    یہ واقعہ میں نے تفصیل سے اس لئے ذکر کیا ہے کہ الحمدللہ حدیث کی صراحت ہر طریقے سے ہوتی ہے اگر مصنف کو معلوم نہ ہوسکا تو اس میں مصنف کی کم علمی کا قصور ہے نہ کہ نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ کا۔ (مزید تفصیل کے لئے میری کتاب حدیث اور جدید سائنس اور اسلام کے مجرم کون؟ کا مطالعہ کریں )

٭٭

 

نعمان بن ابی الجون الکندی کی بیوہ بیٹی کا نکاح

    اعتراض نمبر 25:۔

    مصنف صفحات69تا 72میں بعض احادیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے :

    لیکن امام بخاری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپﷺ پر یہ الزام آور روایت ذکر کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپﷺ کا ایک عیاش عورت سے نکاح کرنے کی کوشش کرنا ثابت ہو رہا ہے۔ مزید لکھتا ہے :۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ کافرہ اور کافر کی بیٹی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مزید لکھتا ہے : نعوذ باللہ عورت پر اتنا فریفتہ ہو گئے اس کی شہرت حسن سن کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس نخوت زادی نے کتنی کمینہ واری سے جواب دیا کہ تیرے ایسے بازاری کو میری جیسی ملکہ کس طرح اپنا نفس دے سکتی ہے۔ (قرآن مقدس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ص69تا72)

    جواب :۔

    قارئین کرام مصنف بارہا حدیث دشمنی اور توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔ اور یہاں تو ایک مسلمان عورت پر تہمت کا ارتکاب کیا ہے کہتا ہے : ایک عیاش عورت۔ اور مصنف اسے نہیں جانتا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

    ’’إِنَّ الَّذِینَ یَرمُونَ المُحصَنَاتِ الغَافِلَاتِ المُؤمِنَاتِ لُعِنُوا فِی الدُّنیَا وَالآخِرَۃِ وَلَہُم عَذَابٌ عَظِیمٌ ‘‘ (النور 23/24)

    ’’جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ‘‘۔

    ’’وَالَّذِینَ یَرمُونَ المُحصَنَاتِ ثُمَّ لَم یَأتُوا بِأَربَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجلِدُوہُم ثَمَانِینَ جَلدَۃً وَّلَا تَقبَلُوا لَہُم شَہَادَۃً أَبَداً وَأُولَئِکَ ہُمُ الفَاسِقُونَ ‘‘ (النور 4/24)

    ’’جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں ‘‘۔

    رہی بات کہ وہ عورت کون تھی اور نبی کریمﷺ کا اس سے کیا تعلق تھا ؟ تو اس کا جواب طبقات ابن سعد میں ہے کہ نعمان بن ابی الجون الکندی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اسلام کی حالت میں کہا یارسول اللہﷺ میں عرب کی بہت خوبصورت بیوہ سے آپ کی شادی نہ کر دوں جو اپنے چچا زاد کی بیوی تھی اور وہ فوت ہو گیا تو وہ آپ سے نکاح کرنا چاہتی ہے (وہ بیوہ نعمان کی بیٹی تھی )نبی کریمﷺ نے فرمایا ہاں تو اس نے کہا کہ کسی کو بھیج دیجئے اسے لانے کے لئے۔ تو نبی کریمﷺ نے ابو اسید رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا (جو اس حدیث کے راوی ہیں۔ )یعنی کہ وہ عورت نبی کریمﷺ کی بیوی بن چکی تھی اسلئے کہ اس کے باپ نے اسے نبیﷺ کو اس کی رغبت کی بناء پر پیش کیا اور نبی کریمﷺ نے قبول کیا۔

    رہا اعتراض کہ نبی کریمﷺ نے یہ کیوں کہا کہ (اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے ) تو یہ صرف تالیف قلبی کے لئے کہا تھا لیکن افسوس ہے بے حیا مصنف کی جسارت پر کہ کہتا ہے اس عورت نے کہا (تیرے ایسے بازاری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )جبکہ سوقۃ بازاری کو نہیں بلکہ رعایا کے کسی ایک فرد یا کثیر الافراد کو کہتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عورت نے ایسا کیوں کہا اور اس کے بعد یہ بھی کہا (اعوذباللہ منک ) میں تم سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں۔ اس لئے کہ وہ عورت نبی کریمﷺ کو نہیں جانتی تھی کیا نبی کریمﷺ کو نہ جاننے سے کفر لازم آتا ہے۔ ہز گز نہیں۔ لیکن مصنف کہتا ہے (وہ کافرہ اور کافر کی بیٹی تھی۔ )

    ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے کسی شخص کو کفر کے ساتھ پکارا (یعنی کافر کہا )یا کہا اے اللہ کے دشمن اور وہ ایسا نہیں (جسے پکارا گیا )تو یہ قول کہنے والے پر ہی لوٹ آئے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ وھو یعلم رقم الحدیث61)

    نبی کریمﷺ کے دور میں ایسے لوگ موجود تھے جو نبی کریمﷺ کو نہیں جانتے تھے جیساکہ وہ عورت جسے نبی کریمﷺ نے صبر کی تلقین کی اور اس نے جھڑک دیا لیکن پتہ چلنے پر کہ نبی کریمﷺ تھے معذرت کرنے چلی آئی۔ (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب ماذکر ان النبیﷺ لم یکن لہ بواب رقم الحدیث 7154)

    اس عورت کانبی کریمﷺ کو نہ جاننے کی دلیل صحیح بخاری میں ہی موجود ہے کہ اس عورت سے کہا گیا کہ تم جانتی ہو کہ یہ کون ہیں ؟تو اس نے کہا :نہیں۔

    (کتاب الاشربۃ باب الشرب من قدح النبیﷺ وآنیتہ رقم الحدیث5637)

    الحمد للہ حدیث بدگمان و بے حیا مصنف کے اعتراض سے پاک ہے۔

٭٭

 

نبیﷺ کا عبداللہ بن ابی (منافق )کا جنازہ پڑھنا اور مصنف کا قرآن پر جھوٹ

    اعتراض نمبر26:۔

    مصنف نے اپنی کتاب قرآن مقدس۔ ۔ ۔ ۔ ص72-73 میں صحیح بخاری کی حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اسے قرآن کے متصادم ٹھہرانے کی کوشش کی ہے اور وہ لکھتا ہے :

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دسویں رکوع میں آیت ہے ’’استغفرلھم اولاتستغفرلھم‘‘اور آیت لاتصل علی احد منھم مات ابدا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت بطور پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اتار کر یہ سبق دیا تاکہ آپﷺ کسی منافق کافر کے لئے کوئی سفارش یا استغفار نہ کریں اسی لئے آپﷺ نے ابی ابن سلول کا جنازہ بھی نہ پڑھا اور نہ اس کے لئے استغفار کیا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بخاری صاحب نبیﷺ پر صریح جھوٹ پر مبنی روایت لاتے ہیں کہ آپﷺ نے ابن سلول کا جنازہ پڑھا تب یہ آیت نازل ہوئیں اور دوسرا جھوٹ راویوں کا یہ مان لیا کہ آپﷺ کو استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لئے اس کا جنازہ آپﷺ نے پڑھایا۔ ان الفاظ کے بعد مصنف نے اپنی عادت قبیحہ کے مطابق انتہائی غیر اخلاقی الفاظ کا اعادہ کیا۔

    جواب :۔

    قارئین کرام بڑی عجیب بات ہے نبی کریمﷺ جو صاحب وحی تھے کو نعوذ باللہ قرآن سمجھ میں نہ آیا لیکن مصنف کو بہترین انداز میں قرآن سمجھ میں آ گیا۔ جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے مفسر اور معلم قرآن بنایا وہ مصنف کی نگاہ میں قبول نہیں کیا عجیب انصاف ہے ؟مصنف نے نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کریم پر بھی الزامات عائد کئے ہیں مصنف لکھتا ہے کہ ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے روکا تھا پھر بھی نبی کریمﷺ نے جنازہ پڑھا۔

    مصنف کا یہ کہنا قرآن کریم پر افتراء ہے بلکہ قرآن کریم میں ہے :

    ’’ إِن تَستَغفِر لَہُم سَبعِینَ مَرَّۃً فَلَن یَّغفِرَ اللّٰہُ لَہُم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (التوبۃ 80/9)

    ’’اگر آپ ان (منافقوں )کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے اللہ ان کو معاف نہیں کر ے گا ‘‘۔

    یہی آیت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت پیش کی تھی جب نبی کریمﷺ عبداللہ بن ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھانے کھڑے ہوئے تو نبی کریمﷺ نے جواباً مسکراتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ سترّمرتبہ سے زیادہ استغفار اس کے گناہ معاف کرا سکتا ہے تو میں یقیناً سترّ مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔

    اب قرآن کریم پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ استغفار کے بارے میں فرمایا یعنی نبی کریمﷺ نے جنازہ اس لئے پڑھایا کہ آپﷺ رحمت للعالمین ہیں آپ نے اپنی رحمت کو مقید نہ کیا بلکہ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے یعنی اس وقت نماز جنازہ کی ممانعت وارد نہ ہوئی تھی صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے ستر بار بھی استغفار سے یہ منافق بخشے نہ جائیں گے لیکن ابھی اختیار باقی تھا جب صحابی رسولﷺ نے نبیﷺ کو روکا تھا بعد میں وہ خود فرماتے ہیں (کہ انہوں نے استغفار کے لئے نبی کریمﷺ کو کیوں روکا )مجھے اپنی گستاخی پر بہت افسوس ہونے لگا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں میں نے ا یسی جرأت کیوں کی؟ (مسند احمد 371/3) لہٰذا اللہ کے نبی کریمﷺ کے فہم سے کوئی شخص بھی قیامت تک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اور کسی امتی کی کیا جرأت کہ وہ پیغمبر کائنات محمد مصطفیﷺ پر تنقید کرے مصنف کو چاہیے کہ وہ توبہ کرے اور صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرے ورنہ اس حالت میں موت کفر پر ہو گی جہاں تک بات ہے نبی کریمﷺ کے فہم دین کی تو جب نبیﷺ جنازہ پڑھا چکے تو اللہ تعالیٰ نے حکم نافذ فرمایا کہ:

    ’’وَلاَ تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِّنہُم مَّاتَ أَبَداً وَّلاَ تَقُم عَلَیَ قَبرِہٖ‘‘ (التوبہ 84/9)

    ’’ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازے کی نماز ہر گز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا‘‘۔

    عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپﷺ نے پڑھی نہ کسی کے لئے استغفار کیا۔

    (سنن ترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ التوبہ رقم الحدیث 3097)

    بقول مصنف آیت (إِن تَستَغفِر لَہُم سَبعِینَ مَرَّۃً۔ ۔ ۔ ۔ التوبہ80/9) سے نماز جنازہ کی ممانعت ثابت ہوتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ آیت کیوں نازل فرمائی کہ آپ ان پر نماز جنازہ نہ پڑھیں۔ دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نماز جنازہ سے روکا نہیں گیا تھااسی لئے نبی کریمﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی اب دوسری آیت میں واضح ممانعت فرما دی گئی اس کے بعد اللہ کے نبیﷺ نے کبھی بھی استغفار نہیں فرمایا لہٰذا حدیث پاک پر اعتراض فضول ہے۔

٭٭

 

کیا امام بخاری صحابہ کرام کو مرتد قرار دیتے ہیں ؟

    اعتراض نمبر 27:۔

    مصنف اپنی کتاب صفحہ-76 75پر لکھتا ہے :قرآن مقدس کا مصداق جتنا صحابہ کرام کی سیرت پاک ہے اتنا سوائے آپﷺ کے سوا اور کوئی ہو یہ ممکن نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بالکل برعکس امام بخاری کے روات کے نزدیک صحابہ کرام کی جماعت معاذاللہ مرتد ہونے کی حالت میں اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ’’ان نا سامن اصحابی یوخذ بھم ذات الشمال فاقول اصحابی۔ ۔ ۔ ‘‘ بخاری 473/1)’’میرے محبوب اور پیارے صحابہ کی جماعت کو گرفت میں لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے پیارے ہیں تو مجھے کہا جائے گا تو جب سے ان سے جدا ہو کر دنیا سے چلا گیا تھا یہ برابر مرتد ہی ہوتے رہے تھے۔ ۔ ۔ ‘‘

    جواب :۔

    اس صحیح حدیث میں بھی مصنف نے خیانت کی ہے حدیث کے الفاظ کا مفہوم تبدیل کر کے الزام کا رخ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف موڑ دیا جو کہ ایک حد تک کفر ہے اس حدیث میں جو مرتد لوگوں کے بارے میں آگاہی کی جارہی ہے وہ ہر گز ہرگز صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت نہیں بلکہ یہ محض ایک الزام ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دشمنی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو اس طرح ذکر فرماتے ہیں :

    ’’قال النبیﷺ :أنا فرطکم علی الحوض لیرفعن الی رجال منکم۔ ۔ ۔

    (صحیح بخاری کتاب الفتن باب ماجاء فی قول اللہ تعالیٰ واتقوا فتنۃ لاتصیبن۔ ۔ ۔ ۔ 7049)

    ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا میں حوض کوثر پر تم لوگوں کا پیش خیمہ ہوں گا۔ اور تم میں سے کچھ لوگ مجھ تک اٹھائیں جائیں گے (میرے پاس لائے جائیں گے)جب میں ان کو (پانی)دینے کے لئے جھکوں گا تو وہ ہٹا دیئے جائیں گے میں عرض کروں گا پروردگار یہ تو میرے اصحاب ہیں ارشاد ہو گا تم نہیں جانتے کہ انہوں نے جو جو (دین میں ) نئی باتیں تمہارے بعد نکالیں ‘‘۔

    حدیث پر غور فرمائیے کہ ان لوگوں کو جب نبی کریمﷺ کے سامنے لایا جائے گا تو نبی کریمﷺ ارشاد فرمائیں گے ’’اصحابی‘‘ یعنی میرے اصحاب، اصحاب سے کیا مراد ہے ؟یہ کون لوگ ہیں ؟مصنف نے تو لفظ اصحاب کو توڑ موڑ کر صحابہ کی جماعت رضی اللہ عنہم پر پھیرا جو کہ دین میں خیانت ہے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہ کو خراج تحسین ہو کہ انہوں نے ایسے منکرین حدیث اور بد زبان کا منہ بند کرنے کے لئے ہر چند احادیث کا دفاع فرمایا۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ حدیث ذکر کی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ آپ اپنی امت میں سے بعد میں آنے والوں کو کیسے پہچانیں گے ؟ فرمایا کہ مجھے بتاؤ اگر کسی کی سفید چمکتی پیشانی اور سفید ٹانگوں والا گھوڑا سیاہ گھوڑوں کے درمیان تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا۔ صحابہ نے جواب دیا کیوں نہیں !فرمایا : وہ لوگ آئیں گے اور ان کے اعضائے وضو چمک رہے ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح مسلم کتاب الطھارہ باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء رقم الحدیث 249)

    ان آثار سے نبی کریمﷺ اپنی امت کے لوگوں کو پہچانیں گے اب اگر اصحاب سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے تو یہ بالکل سیاق کے خلاف ہے کیونکہ نبی کریمﷺ اپنے اصحاب کو بخوبی چہروں سے پہچانتے تھے کہ یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں یہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں یہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا صحابی کایہ فرمانا کہ آپ کیسے پہچانیں گے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصحاب سے مراد امتی ہیں جیساکہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قالت اسماء عن النبیﷺ قال انا علی حوضی انتظر من یرد علی فیؤخذ بناس من دونی فأقول امتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    (صحیح بخاری کتاب الفتن باب واتقوا فتنۃ لاتصیبن۔ ۔ ۔ ۔ رقم الحدیث7048)

    ’’اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا :(کہ قیامت کے دن) میں اپنے حوض پر ہوں گا اتنے میں کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے،ان کو فرشتے گرفتار کر لیں گے میں کہوں گا یہ تو میری امت کے لوگ ہیں،جواب ملے گا آپ نہیں جانتے کہ یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔

    پچھلی حدیث میں اصحاب کا لفظ وارد ہوا ہے جسکی وضاحت اگلی حدیث سے ہوتی ہے کہ اصحاب سے مراد صحابہ نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کے امتی ہیں درمیان میں جو حدیث نقل کی ہے وہ مزید اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ صحابی نے پوچھا کہ آپ کیسے اپنی امت کے لوگوں کو پہچانیں گے یعنی نبی کریمﷺ سے پوچھا جا رہا ہے کیونکہ نبیﷺ نے ہر امتی سے ملاقات نہیں کی اسی وجہ سے نبی کریمﷺ نے جواب دیا ’’وضو کے آثار سے ‘‘مزید اگر ہم غور کریں تو’’ لغت‘‘ میں بھی اصحاب کا مطلب صرف صحابہ کرام نہیں بلکہ اصحاب کا مطلب ’’اتباع کرنے والے ‘‘ ہیں یعنی قیامت تک جو شخص نبی کریمﷺ کی اتباع کرنے والا ہو گا وہ آپ کے اصحاب (یعنی امتی) میں ہو گا۔ (دیکھیئے المعجم الوسیط ص507 ) ایک مثال سے میں سمجھانا چاہوں گا کہ اگر کسی مسئلے پر اما م ابو حنیفہ فتوی دیتے ہیں تو کتب شروحات اور کتب فقہ میں اس طرح لکھا ہوتا ہے :’’الیہ ذھب اصحاب ابی حنیفۃ ‘‘کہ اسی طرف ابو حنیفہ کے اصحاب گئے۔ اس سے مراد صرف وہ نہیں جو امام ابو حنیفہ کے وقت کے تھے بلکہ اصحاب سے مراد ہر زمانہ میں ہر وہ شخص ہے جو امام ابو حنیفہ کی رائے کو مانتا ہے۔ اسی طرح سے نبیﷺ کا یہ فرمانا کہ میرے اصحاب میرے سامنے لائیں جائیں گے اس سے مراد صرف صحابہ رضی اللہ عنہم نہیں بلکہ نبیﷺ کی امت کے وہ لوگ بھی ہیں جو بعد میں آئینگے۔ لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔

٭٭

 

قرآن کا سات حروف پر نازل ہونا اور مصنف کا جھوٹ

    اعتراض نمبر28

    قرآن مقدس جس شان سے نازل کیا گیا اسی شان سے جمع ہوا حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں جمع ہونے والا قرآن وہ یہی ہے جو اس وقت پوری دنیا میں موجود ہے حفظی قرأت والا قرآن موجود اور محفوظ ہے کوئی دوسری قرأت اس میں موجود نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن امام بخاری اپنی کتاب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام پر ایسی روایات لاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خود رسول اللہﷺ نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو کچھ قرأت سکھائی اور بعض کو اس کے خلاف سکھائی اور یوں ان میں اختلاف کا سبب خود آپﷺ بنے۔ ۔ ۔ (قرآن مقدس۔ ص76-78)

    جواب

    معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے سات حروف میں اترنے پر مصنف کو اعتراض ہے ان کا یہ دعوی کہ قرآن کریم کی مختلف قرأ توں کا وجود نہیں تنگ نظری اور کم علمی کی واضح دلیل ہے۔ مصنف کو حدیث سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی اور وہ اس حدیث کو بھی قرآن کے خلاف سمجھ کر رد کر رہا ہے میں مصنف سے سوال کرتا ہوں کہ اب جو موجودہ قرأت ہے وہ بھی انہی قرأتوں میں شامل ہے اگر یہ قرأت قابل قبول ہے اور بقیہ ناقابل قبول تو اس کی دلیل کیا ہے ؟؟؟ مسئلہ قرأت میں سات حروف سے مراد سات قرآن نہیں بلکہ سات لہجے ہیں جن کو خائن مصنف نے قرآن لکھا۔ ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

    ’’قال کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراء ۃ أنکرتھا علیہ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھاباب بیان القرآن انزل علی سبعہ احرف )

    ’’میں مسجد میں تھا ایک شخص داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا اس نے ایسی قرأت کی کہ مجھے بری معلوم ہوئی۔ پھر دوسرا شخص داخل ہوا اس نے دوسرے طریقے سے قرأت کی ‘‘۔

    حدیث مذکور سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اختلاف قرآن میں نہیں بلکہ قرأت کے،لب و لہجہ میں ہے اسی وجہ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس طرح پڑھنا نا گوار گزرا۔ جب یہ معاملہ نبی کریمﷺ تک پہنچا تو آپﷺ نے فرمایا :

    ’’ان ھذا القرآن انزل علی سبعۃ احرف فاقرؤواماتیسر منہ ‘‘

    ’’یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے پس جو حرف تمہیں آسان ہو اس میں تم تلاوت کرسکتے ہو ‘‘۔

    اور بہت سارے ممالک میں انہی سا ت حروف پر مشتمل مختلف قرأتیں رائج ہیں اصل جو نکتہ ہے وہ لہجہ ہی کا ہے نہ کہ قرآن مختلف ہیں (جیساکہ مصنف بیان کرتا ہے )اور لہجہ مختلف ہونا یہ کوئی انہونی بات نہیں مثلاً،انگلش زبان کئی ممالک اور شہروں میں مختلف انداز سے بولی جاتی ہے۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ New yorkمیں لہجہ اور انداز مختلف ہے۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ Texasکی انگریزی زبان کا لہجہ مختلف ہے۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ Detroitکا لہجہ مختلف ہے۔

   ۔ ۔ ۔ ۔ Chicagoکا لہجہ مختلف ہے۔

    لیکن ان تمام جگہوں پر انگریزی ہی بولی جاتی ہے۔ اب آپ اردو زبان ہی کو لیجئے یہ زبان تمام ہندوستان میں بولی جاتی ہے اس کے باوجود دہلی اور یوپی کے لہجے میں فرق ہے جو ہر جگہ اس لہجہ میں نہیں بولی جاتی۔ پنجاب کا لہجہ علیحدہ ہے۔ سندھ کا لہجہ الگ ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان تمام مختلف لہجوں کو اردو ہی مانتے ہیں اور یہ ایک ہی زبان ہے اسی طریقے سے حدیث میں بھی سات حرفوں کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ سات لہجے جس پر مصنف نے اعتراض کیا ہے جو کہ ناقابل اعتراض ہے۔ رہی بات مصنف کے اس قول کی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے گلے میں پھندا ڈال کر گھسیٹ کر دربارِ نبویﷺ میں لے جاتے اور ان کے درمیان خانہ جنگی ہوتی۔ یہ محض افتراء، جھوٹ اور الفاظ کی ہیرا پھیری ہے جہاں تک گلے میں پھندا ڈالنے کا تعلق ہے تواگر اس جملہ کو ہم اس طرح سمجھیں کہ ’’صحابی نے دوسرے صحابی کے گلے میں پھندا ڈالا ‘‘مثلاً، ممکن ہے کہ گلے میں پھندا ڈالنے والے نے صرف حدیث کی محبت میں ایسا کیا ہو اور پھندا اس طرح سے ڈالا ہو کہ دوسرے صحابی کو تکلیف نہ ہوئی ہو اور اس طرح سے لے گئے کہ دونوں الفت کے ساتھ نبی کریمﷺ کے پاس جا رہے ہوں یقیناً دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کا کچھ ایسا ہی معاملہ تھا لیکن مصنف صرف الفاظ کو غلط مفہوم دیتا ہے جس میں مصنف کو بڑی مہارت ہے اگر مصنف ہی کی سوچ سے ہم قرآن کریم پڑھیں گے تو یقیناً وہاں بھی مشکل پیش ہو گی، مثلاً، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

    ’’قَالَ یَا ابنَ أُمَّ لَا تَأخُذ بِلِحیَتِی وَلَا بِرَأسِی ‘‘ (طہ۔ 94/20)

    ’’ہارون نے کہا ! اے میری ماں کے بیٹے میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو ‘‘۔

    یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسی علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال پکڑے۔ اگر مصنف کے مزاج تعصبی سے ترجمہ کریں تو اس آیت کا ترجمہ بھی کچھ کا کچھ ہو جائے گا۔ لیکن یہاں پر مصنف ضرورایسا ترجمہ نہیں کرے گا تو یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی مصنف اپنی سوچ پاکیزہ رکھے اور حدیث کے متن کو منفی نہ لے جائے بلکہ اس کیلئے مثبت سوچ رکھے۔ رہی بات مصنف کے اس قول کی کہ صحابہ میں خانہ جنگی ہوئی یہ محض بہتان ہے احادیث کبھی بھی اختلافات کا باعث نہیں بنتیں۔ اس موضوع کے لئے میری سی ڈی دیکھئے ’’حدیث اختلافات کو جنم نہیں دیتی ‘‘ا ن شاء اللہ مفید ثابت ہو گی۔

٭٭

 

عبداللہ بن ابی کے حامیوں اور مؤمنوں میں لڑائی۔ اور مؤمنین کے دو گروہوں میں صلح کرانا

    اعتراض نمبر29

    قرآن پاک میں مسلمانوں کے دو گروہوں میں اگر لڑائی ہو جائے تو حکم ربانی ہے کہ ان کے درمیان صلح کرو او۔ ۔ ۔ ۔ وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ حجرات کی یہ آیت باتفاق علماء فتح خیبر کے بعد نازل ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ عبداللہ بن ابی جبکہ ابھی کافر تھا۔ ۔ اس کی پارٹی اور جو رسول اللہﷺ کے ساتھ اصحاب کی جماعت تھی باتوں باتوں میں ان کے درمیان آپﷺ کی موجودگی میں لاٹھیوں اور جوتوں کے ساتھ لڑائی ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ (بخاری کتاب الصلح 371)

   ۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ وہ لڑائی مؤمنوں اور کافروں کے درمیان تھی۔ ۔ ۔ ۔ ابن ابی اس لڑائی کے وقت کٹر کافر تھا ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا وہ مسلمانوں کی فتح اور شا ن و شوکت غزوہ بدر میں دیکھ کر بعد میں منافقانہ اسلام لایا تھا۔

    (قرآن مقدس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ص79-80)

    جواب:

    مصنف نے سورہ حجرات کے بارے میں لکھا کہ باتفاق علماء فتح خیبر کے بعد نازل ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ میں پوچھتا ہوں مصنف کن علما ء کی بات کر رہا ہے ؟ایک جگہ تو ان علماء کا حوالہ نقل کرتا ہے اور ان سے استدلال کرتا ہے اور دوسری جگہ ان ہی علماء کو لعنتی کہہ کر اور ان پر اپنی من گھڑت جرح کر کے انہیں رد کر دیتا ہے یعنی مصنف کے قول اور فعل میں سنگین تضاد (منافقت)موجود ہے جو کہ انہی علماء کی اصطلاح میں ایسے شخص کی بات مردود ہو جاتی ہے یعنی مصنف کا حوالہ مصنف کے گلے کا پھندا بن گیا کیا خوب کہا کسی نے :

    ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘

    رہی بات مصنف کے اس اعتراض کی کہ جب سورہ حجرات کی آیت ’’اگر دو ایمان والوں کی جماعت آپس میں لڑیں تو دونوں میں صلاح کروا دو۔ ۔ ۔ ۔ کا نزول جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’کتاب الصلح ‘‘ میں ذکر فرمایا وہ اسطرح سے ہے۔

    ’’ان انسا قال قیل للنبیﷺ لوأتیت عبداللہ بن ابی فانطلق الیہ النبیﷺ ورکب۔ ۔ ۔ ‘‘

    (صحیح بخاری کتاب الصلح باب ما جاء فی الاصلاح بین الناس رقم الحدیث 2691 )

    ’انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبیﷺ سے کہا گیا اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے چلیں (تو بہتر ہے) یہ سن کر آپﷺ ایک خچر پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے مسلمان آپ کے ساتھ چلے وہاں کی زمین کھاری تھی جب آپﷺ اس (مردود) کے پاس پہنچے تو کہنے لگا چلو پرے ہٹو تمہارے گدھے کی بدبو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔ یہ سن کر ایک انصاری بولے اللہ کی قسم رسول اللہﷺ کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبو دار ہے اس پر عبداللہ کی قوم کا ایک شخص غصہ ہوا اور اس نے انصاری کو گالی دی تو دونوں طرف کے لوگوں کو غصہ آیا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو کھجور کی شاخوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارنے لگے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ (سورہ حجرات کی )یہ آیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤمِنِینَ اقتَتَلُوا۔ ۔ ۔ ۔ اس بات میں اتری ‘۔

    اس حدیث پر مصنف کے دو اعتراضات ہیں ایک کہ آپس میں لاٹھیاں اور جوتیاں چلیں۔ دوم۔ آیت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دو ایمان والوں کی جماعت میں لڑائی ہو تو صلح کرا دی جائے حدیث میں تو دو ایمان والوں کی جماعتیں ہیں ہی نہیں ایک طرف تو مسلمان ہیں دوسری طرف عبداللہ بن ابی اور اس کا لشکر جو ابھی ایمان نہیں لایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اعتراض نمبر ایک کا جواب:ابن ابی کا نبی کریم (ﷺ ) کے ساتھ گستاخی کرنا اور صحابی رضی اللہ عنہ کا جواب دینا یہ تو یقیناً ایمان کی علامت ہے ایسا کون امتی ہے جو یہ برداشت کرے کہ اس کے سامنے اس کے نبی محمدﷺ کی بے ادبی ہو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو جواب دیا وہ ایمانی حالت کی دلیل ہے مصنف کی حالت تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘لہٰذا گستاخی کی سزا وہ بھی نبوت کے منہج میں تو وہ صرف اور صرف موت ہے۔

    اعتراض نمبر دو کا جواب :اس کا جواب یہ ہے کہ جس حدیث کو مصنف نے بطور اعتراض پیش کیا ہے یقیناً یہ حدیث اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے الحمد للہ صحیح ہے۔ مصنف کا اعتراض کم علمی اور بدنیتی کی واضح دلیل ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب عبداللہ ابن ابی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں لڑائی ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :جب ایمان والوں کے درمیاں لڑائی ہو تو ان میں صلح کروا دی جائے اب اعتراض یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس گروہ سے جھگڑا ہوا وہ تو کافر تھا کیونکہ عبداللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ دیکھئے (منۃ المنعم۔ عمدۃ القاری ) اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایک دوسری حدیث کو شامل کرنا ہو گا جس سے یہ بات واضح ہو جائیگی کہ عبداللہ بن ابی کا لشکر ابھی ایما ن نہیں لایا تھا لیکن جب یہ مسئلہ درپیش آیا تواس وقت بعض ایمان والے بھی ان کے ساتھ موجود تھے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں :

    ’’التسلیم فی مجلس فیہ اخلاط من المسلمین والمشرکین ‘‘

    ’اگر کسی مجلس میں مسلمان،مشرک سب طرح کے لوگ ہوں جب بھی مجلس والوں کو سلام کرسکتے ہیں ‘۔

    آگے حدیث میں بیان ہے :

   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اخبرنی اسامہ بن زید ان النبیﷺ رکب حمارا علیہ اکاف تحتہ قطیفۃ فدکیۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (صحیح بخاری کتاب الاستئذان )

    ’اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہﷺ ایک خچر پر سوار تھے جس پر پالان تھی اس پر ایک چادر فدک کی پڑی ہوئی تھی۔ آپﷺ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپﷺ سعد بن معاذ کی عیادت کے لئے بنو حارث بن خزرج کے محلے میں جا رہے تھے (وہ بیمار تھے ) یہ اس وقت کا ذکر ہے جب جنگ بدر نہیں ہوئی تھی۔ آپﷺ (راستے میں )ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان،مشرک،بت پرست،یہود سب موجود تھے ان میں ابن ابی بن سلول (مشہور منافق)بھی تھا اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ جب گدھے کی گرد مجلس والوں تک پہنچنے لگی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھانک لی،پھر کہنے لگا جی ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہﷺ نے مجلس والوں کو سلام کیا (معلوم ہوا کہ اس گروہ میں مسلمان بھی موجود تھے) پھر آپﷺ ٹہر گئے خچر سے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا قرآن پڑھ کر ان کو سنایا۔ ۔ ۔ ۔ ‘

    اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب نتیجہ یہ نکلا کہ اس پہلی حدیث میں مفصل ذکر نہیں تھا کہ عبداللہ بن ابی کے گروہ کے علاوہ وہاں دوسرے مسلمان بھی تھے لیکن اسی حدیث نے (جو کہ پچھلی حدیث کی کڑی ہے )اس بات کی مکمل وضاحت کر دی لہٰذا اسی بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اے ایمان والوں اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرا دو یہاں سے مراد ابن ابی نہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو ان کے ساتھ تھے علامہ عینی ؒ عمدۃ القاری میں رقمطراز ہیں :’’وقد جاء ھذا المعنی مبینا فی ھذا الحدیث فی کتاب الاستئذان من روایۃ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (عمدۃ القاری جلد13ص397)

    ’’اور یہ معنی اس حدیث میں اسامہ بن زید کی روایت سے کتاب الاستئذان میں وضاحت کے ساتھ آیا ہے‘‘۔

    ابو العباس القرطبی المفہم میں رقمطراز ہیں

    ’’والطائفۃ التی غضبت لعبداللّٰہ کان منھا منافقون علی رأی عبداللہ ومنھا مؤمنون حملھم علی ذالک بقیۃ حمیۃ الجاھلیۃ ونزغۃ الشیطان‘‘ (المفھم جلد3ص658)

    ’’اور جو گروہ عبداللہ (بن ابی)کی حمایت میں غصہ ہوا اس میں بعض منافقین تھے عبداللہ کی رائے پر اور اس میں بعض مومنین تھے جنہیں غیرت جاہلی اور شیطان کے وسوسہ نے اس بات پر ابھارا ‘‘۔

    لہٰذا شارحین کی ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں کچھ ایمان والے لوگ بھی موجود تھے یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ :اگر کسی مجلس میں مسلمان مشرک سب طرح کے لوگ ہوں جب بھی مجلس والوں کو سلام کرسکتے ہیں لہٰذا یہ بات عیاں ہوئی کہ اس مجلس میں مسلمان بھی تھے الحمد للہ اسی گروہ کو مخاطب کر کے قرآن نے فرمایا :’’وَإِن طَائِفَتَانِ۔ ۔ ۔ ۔ لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے۔

٭٭

 

اللہ کے پیغمبر کا چیونٹیوں کا جلانا اور مصنف کا انکار حدیث

    اعتراض نمبر 30

    قرآن مقدس میں بیان ہوا کہ جو شئے مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہو اس سے کبھی نفع کی توقع نہ ہو تو اس کو مٹا دیا جانا چاہیے اسی لئے رسول اللہﷺ نے پانچ جانوروں کو بھی قتل کر دینے کا حکم دے دیا اور فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقتلوا الخمس الفوسقۃ۔ ۔ ۔ لیکن امام بخاری ایک قصہ نقل کرتے ہیں جو غالباً کسی یہودالنسل کا بتایا ہوا ہے جس میں ایک پیغمبر کا اللہ کی تسبیح کرنے والے جانداروں کو قتل کرنا ثابت ہے حالانکہ ایسا فعل انبیاء کی سیرت سے قطعاً میل نہیں کھاتا۔ ۔ ۔ ۔ کہ اللہ کے ایک نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کا پورا استہان جلوا دیا۔ ۔ ۔ ۔ (قرآن مقدس۔ ۔ ۔ ص81-82)

جواب:

    وَمَن أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرٰی عَلَی اللّہِ کَذِباً أَو کَذَّبَ بِآیَاتِہٖ إِنَّہُ لاَ یُفلِحُ الظَّالِمُون (الانعام 21/6)

    ’’اور اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اللہ کی آیات کو جھٹلائے۔ ایسے ظالموں کو کامیابی نہ ہو‘‘۔

    مصنف نے ہر جگہ نہ صرف احادیث کے ترجمہ میں گڑبڑ کی ہے جسکی نشاندہی پچھلے صفحات میں کی گئی ہے بلکہ کئی مرتبہ قرآن کریم کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جو  واقعتاً آیات وعید کا مستحق ہے علامہ سعید نے قرآن کریم پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے اور کہا کہ قرآن مقدس میں جو بیان ہوا ہے۔ جو شئے مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہو اس سے کبھی نفع کی توقع نہ ہو تو اس کو مٹا دینا چاہیے۔ یہ کس آیت کا ترجمہ ہے ؟یقیناً جو شخص اللہ کے نبیﷺ کی احادیث سے بغض رکھے گا اس کا یہی حال ہو گا اور اس کی مت ماری جائے گی جیسے مصنف کی۔ ایک جگہ تو حدیث کا رد لیکن دوسری جگہ استدلال بھی حدیث ہی سے واہ کیا خوب!

    جہاں تک مصنف کے اعتراض کا تعلق ہے اگر مصنف قرآن کی تلاوت کر لیتا تو یقیناً اسے اس اعتراض کی جرأت نہ ہوتی مثلاً،قرآن کریم موسی علیہ السلام کا قصہ ذکر کرتا ہے کہ جب موسی علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تو

    فَانطَلَقَا حَتّٰی إِذَا لَقِیَا غُلَاماً فَقَتَلَہُ قَالَ أَقَتَلتَ نَفساً زَکِیَّۃً بِغَیرِ نَفس (الکھف74/18)

    ’’چنانچہ وہ دونوں پھر چل کھڑے ہوئے حتی کہ ایک لڑکے کو ملے جسے خضر علیہ السلام نے مار ڈالا موسی علیہ السلام نے کہا تم نے ایک بے گناہ شخص کو مار ڈالا جس نے کسی کا خون نہ کیا تھا ؟‘‘

    اس آیت مبارکہ میں خضر علیہ السلام سے ایک قتل کا ذکر ہے کہ وہ نفسا زکیہ یعنی بغیر کسی جرم کے اس شخص کو قتل کرڈالا اب مصنف اس آیت کے بارے میں کیا کہے گا ؟ لازما ً کوئی تاویل کرے گا۔ تو جس طرح قرآن کو سمجھنے کے لئے اچھے گمان کی ضرورت پڑتی ہے بالکل اسی طرح حدیث کو سمجھنے کے لئے بھی اچھے گمان کی ضرورت پڑے گی۔ وہاں تو محض چونٹیاں تھیں یہ بات تو مصنف کو قابل اعتراض نظر آگئی اب یہاں آیت میں تو ایک انسان ہے اس کا مصنف کے پاس کیا جواب ہو گا؟

    قارئین کرام ان تمام معاملات کا تعلق انبیاء کے ساتھ خاص تھا چیونٹیوں کو جلانے کے بعد اللہ کی یہ منشاء ہے کہ اس نے آئندہ ممانعت صادر فرما دی اس سے پہلے ان کی شریعت میں ممانعت نہیں ہو گی یہ عین ممکن ہے دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کی بات میں کیا حکمت ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ جب ہم موسی اور خضر علیہم السلام کے واقعے کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں حکمتیں ہی نظر آتی ہیں لہٰذا ایمان لانا ہمارا کام ہے کھوج لگانا یہ صرف شیطان کا وسوسہ ہے۔

٭٭

 

سورہ نحل کی آیت کا شان نزول اور مصنف کا راویوں پر الزام

    اعتراض نمبر 31

    ’’ولاتکونواکالتی نقضت غزلھامن بعد قوۃ انکاثا‘‘ (النحل )

    لیکن داد دیجئے امام بخاری کو جو قرآن کی اس آیت کی تفسیر ایک عورت کا واقعہ بتاتے ہیں جو خرقاء نامی مکہ میں رہتی تھی اور صبح کو سوت کات کر شام کو توڑ موڑ دیتی تھی پھر کما ل تعجب ہے کہ بخاری صاحب ایسی تفسیر سدی کذاب اور ان کے تلمیذ احمق صدقہ بن ابی عمران پر اعتماد کر کے اپنی کتاب میں درج کر دیتے ہیں۔ ۔

    قال ابن عیینہ عن صدقۃ انکاثا خرقاء کانت اذا أبرمت غزلھا نقضتہ۔ ۔ ۔ ۔

    (بخاری 683،قرآن مقدس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ص82-83)

    جواب

    قرآن کریم کی آیت ’’وَلاَ تَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَت غَزلَہَا۔ ۔ ۔ ۔ (النحل92/16)

    ’اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

    اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد مصنف نے علم رجال اور علم جرح و تعدیل میں اپنی چودھراہٹ جمانے کی ناکام کوشش کی اس کوشش میں مصنف کی بدنیتی اور جہالت مزید عیاں ہوئی۔ قارئین کرام :مصنف نے رواۃ پر جرح کی اور سدی کو کذاب کہا جسکا ترجمہ (حالات زندگی)ہم کتاب کے آخر میں پیش کریں گے اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ سدی باوجود معتبر ہونے کے بخاری کے رجال میں سے نہیں ہے۔

    رہا اعتراض صدقہ بن ابی عمران پر تو یہ مصنف کی ناقص تحقیق ہے کہ انہوں نے صدقہ کو صدقہ بن ابی عمران کہا جبکہ صدقہ بن ابی عمران بخاری کے راویوں میں سے نہیں۔ اور یہاں صدقہ ابو الہذیل مراد ہے جن سے امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا جیسا کہ امام بخاری نے اپنی تاریخ کبیر میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا حدیث مصنف کے ناپاک اعتراض سے پاک ہے۔ اور یہ کہنا کہ تلمیذ احمق صدقہ بن ابی عمران تو کتاب کے آخر میں ان کے بارے میں ذکر کر دیا جائے گا۔

٭٭

 

    شیاطین کا آسمان سے خبریں اچکنا اور شہابیوں کا حملہ

    اعتراض نمبر 32

    قرآن مقدس کے نزول سے قبل تو شیاطین الجن کو کوئی آسمانی خبر فرشتوں کی آپس میں گفتگو کے ذریعہ آدھی پونی سن لی جا سکتی تھی مگر نزول قرآن کے بعد ان کے لئے اللہ نے شہاب ان کو بھسم کرنے والے مقرر کر دیئے۔ ۔ ۔ ۔ قرآن میں ہے ’’واناکنانقعد منھامقاعدللسمع فمن یستمع الآن یجدلہ شھابارصدا ‘‘ اور سطح آسمان کے قریب کچھ ٹھکانوں میں سننے کے لئے جا بیٹھتے تھے پس جو وہاں سننے کے لئے پہنچے تو اپنے لئے ایک شعلہ جلا دینے والا تیار پاتا ہے یعنی اب کسی جن کا پہلے کی طرح سننا ممکن نہیں رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    لیکن امام بخاری کی قرآن میں بصیرت کی داد دیجئے کہ وہ نزول قرآن کے بعد بھی اس کے قائل ہیں کہ جن شیاطین اب بھی کوئی نہ کوئی فرشتوں کی بات سن کر اپنے کاہن مریدوں کو بتا دیتے ہیں اس لئے کاہنوں کی وہ بات سچی ثابت ہوتی ہے اور اسی سچی بات میں اور جھوٹ ملا لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

    ’ان الملئکۃ تنزل فی العنان وھو السحاب۔ ۔ ۔ ‘(بخاری 456 بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ)

    بخاری صاحب کا شغل چونکہ روایات میں لگن ہی تھا اس لئے ان کی توجہ سورۃ الجن،سورۃ الحجر، الصافات کی طرف نہ ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (قرآن مقدس۔ ۔ ۔ ۔ ص83-84)

    جواب

    الحمد للہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر قرآن کریم پر بھی تھی اور نبی کریمﷺ کے فرمان پر بھی کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ دونوں (قرآن و صحیح حدیث )کو نجات اور ہدایت کا ذریعہ سمجھتے تھے لیکن مجھے افسوس ہے مصنف کے اعتراض پر کہ ان کی نظر قرآن کریم پر بھی نہیں کیونکہ قرآن کی بصیرت تو اہل علم کے لئے ہے جاہلوں کو تو صرف سلام کہہ کر ہی گزر جانا چاہیے کیونکہ جاہل خود تو گمراہ ہوتا ہی ہے باقیوں کو بھی گمراہی کی بھینٹ چڑھادیتا ہے رہی بات امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث کی جس کو مصنف نے قرآن کے خلاف سمجھا وہ کچھ اس طرح سے ہے۔

    ’’انھا سمعت رسول اللہﷺ ان الملئکۃ تنزل فی العنان ھوالسحاب فتذکر الامر قضی فی السماء۔ ۔ ۔ ۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ رقم الحدیث3210)

    ’عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے بادل میں فرشتے اترتے ہیں اور آسمان میں اللہ کے جو احکامات صادر ہوئے ان کا ذکر کرتے ہیں، شیطان کیا کرتے ہیں ؟ چپکے سے بادل پر  جا کر فرشتوں کی باتیں اڑا لیتے ہیں اور اپنے پجاریوں کو خبر دیتے ہیں اور پجاری ایک سچی بات میں سو باتیں جھوٹ اپنے دل سے ملا دیتے ہیں ‘۔

    ایک اصول ہے کہ عدم ذکر سے عدم وجود لازم نہیں آتا یعنی کسی چیز کے ذکر نہ کرنے سے کسی چیز کا نہ ہونا لازم نہیں آتا اس حدیث میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ان کو شہاب سے مار نہیں پڑتی بلکہ ایک اور حدیث ہے جس میں صراحتاً ذکر ہے کہ وہ جاتے ضرور ہیں آسمان کی طرف مگر ان کو وہاں مار پڑتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

    ’’ایک مرتبہ آپﷺ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعتاً ً ایک ستارا ٹوٹا اور روشنی ہو گئی آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ دور جاہلیت میں جب ایسا واقعہ ہوتا تو تم کیا کہتے تھے؟صحابہ رضی اللہ عنہم کہنے لگے کہ ہم تو یہی کہتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی مرگیا یا پیدا ہوا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا یہ کسی کی زندگی یا موت سے نہیں ٹوٹتا بلکہ ہمارا رب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو حاملان عرش تسبیح کرتے ہیں پھر آسمان والے فرشتے جو ان کے قریب ہوتے سبحان اللہ کہتے ہیں۔ حتی کہ سبحان اللہ کی آواز اس آسمان تک پہنچتی ہے پھر چھٹے آسمان والے ساتویں آسمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا وہ انہیں خبر دیتے ہیں یعنی اسی طرح ہر نچلے آسمان والے اوپر آسمان والوں سے پوچھتے ہیں حتی کہ یہ خبر آسمان دنیا تک پہنچتی ہے اور شیطان اچک کر سننا چاہتے ہیں تو ان کو مار پڑتی ہے اور وہ کچھ بات سن کر اپنے یاروں (کاہنوں )پر ڈال دیتے ہیں وہ خبر تو حق ہوتی ہے مگر وہ اسے بدل اور گھٹا بڑھا دیتے ہیں۔

    (سنن الترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ سبأ رقم الحدیث3224)

    اس حدیث کے بیان سے معلوم ہوا کہ شیاطین خبر لینے جاتے ضرور ہیں لیکن ان کو مار پڑتی ہے لہٰذا پچھلی حدیث میں صراحت نہ تھی لیکن دوسری حدیث نے مکمل وضاحت کر دی۔ قرآن کریم میں بھی اس بات کا اشارہ ملتا ہے لیکن بدنیت مصنف صرف اور صرف حدیث پر غیر ضروری اعتراض کیا ہے یہ اس کی جہالت کا نتیجہ ہے۔

    لاً یَسَّمَّعُونَ إِلَی المَلَإِ الأَعلَی وَیُقذَفُونَ مِن کُلِّ جَانِبٍ oدُحُوراً وَلَہُم عَذَابٌ وَاصِبٌoإِلَّا مَن خَطِفَ الخَطفَۃَ فَأَتبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ (الصافات 8-10/37)

    ’وہ ملأ اعلیٰ کی باتیں سن ہی نہیں سکتے اور ہر طرف سے ان پر (شہاب)پھینکے جاتے ہیں تاکہ وہ بھاگ کھڑے ہوں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے تاہم اگر کوئی ایک بات لے اڑے تو ایک تیز شعلہ تعاقب کرتا ہے ‘۔

    آیت مبارکہ میں جو ممانعت ہے وہ ملأ اعلی کی طرف جانا ہے جو کہ ان(شیاطین) کے لئے ناممکن ہے لیکن ملأ اعلی سے یہ خبر ہوتے ہوئے آسمان دنیا تک پہنچتی ہے تو وہاں سے یہ شیاطین خبر کو اچک لیتے ہیں جیساکہ آیت مبارکہ میں اشارہ موجود ہے کہ ’’تاہم اگر کوئی بات لے اڑے تو ایک تیز شعلہ تعاقب کرتا ہے۔ یعنی اب بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی خبر یا بات لے اڑے تو شعلہ تعاقب کرتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ حدیث کسی بھی طرح سے قرآن کے خلاف نہیں بلکہ مصنف بلاوجہ حدیث کو قرآن کے خلاف کہہ کر ایمان والوں کو گمراہی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔ قارئین کرام آج بھی شہاب سینکڑوں کی تعداد میں فضاء میں داخل ہوتے ہیں۔

    فروری میں ایک مصنوعی سیارہ (The pegasus 11)چھوڑا گیا جس نے خلاء میں داخل ہونے والے شہابیوں (Meteroids)کی مقدار کو ریکارڈ کیا۔ خلاء میں روزانہ 100ملین شہابئے داخل ہوتے ہیں اور تمام ہی فضاء میں جل جاتے ہیں۔ ( Merit Student Encylopedia)شہابیوں کی ایسی بارش شیاطین کو آسمان کی جانب چڑھنے سے روکتی ہے۔

    نوٹ :۔ موجودہ دور میں بے شمار احادیث کی حقانیت سامنے آئی ہے اس موضوع کی تفصیل کے لئے میری کتاب ’’حدیث نبوی اور جدید سائنس ‘‘کا مطالعہ کریں۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.siratulhuda.com/forums/showthread.php/3933-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3

پیشکش: ابو بکر

تدوین اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید