FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فن لینڈ کا تعلیمی نظام

تحقیق و تصنیف: محمود الحسن عالمیؔ

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں

انتساب

تعلیمی لحاظ سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے نام

’عوامی جمہوریہ فن لینڈ شمالی یورپ میں واقع ایک خود مختار اور آزاد فلاحی ریاست ہے۔ فن لینڈ کا ہلسنکی شہر آبادی کے اعتبار سے فن لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ فنش دار الحکومت ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ فن لینڈ نے روس سے آزادی حاصل کرتے ہوئے اپنا پہلا یومِ آزادی  6-دسمبر-1917ء کو منایا۔ اِس کی سرکاری زبانوں میں ’فنش‘ اور ’سویڈش‘ شامل ہے۔ اِس کے جنوب میں خلیج فن لینڈ (سوؤمِن لاھتی)، شمال میں ناروے (نوریا)، مشرق میں روس (وینایا) اور مغرب میں سمندر اور سوئیدن (روؤتسی) واقع ہیں۔ فن لینڈ کی کُل آبادی تقریباً 55 لاکھ اور جغرافیائی رقبہ تقریباً 338,455 km²  ہے۔ آپ سرِ زمین فن لینڈ کو جھیلوں کی سرزمین بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ قدرت نے اِسے تقریباً 187,888 انتہائی پُر کشش، دلنشین اور بے نظیر جھیلوں سے بڑی تعداد میں نواز رکھا ہے، جن کی بہتی جوانی کی کشش ہر سال متجسس سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو فن لینڈ میں اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔ لیکن آپ یقین کیجیے کہ اگر آج میرا قلم فن لینڈ کے اِس رسمی تعارف کے حوالے سے جنبش میں آیا ہے۔ تو اِس جنبشِ قلم کی وجہ وہ بانہیں پھیلاتی، مچلتی ہوئی فنش جھیلیں نہیں بلکہ اِس کا وہ بہترین ملکی تعلیمی نظام ہے جو مجھے فن لینڈ کی اُن پُر کشش جھیلوں سے بھی زیادہ پُر کشش، مُتاثر کن اور دلفریب لگتا ہے جو اِسے صرف شمالی یورپ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بین الاقوامی تعلیمی نظاموں میں ممتاز، اعلیٰ اور قابلِ تحسین بناتا ہے۔

فن لینڈ 2000ء سے 2018ء تک ’’پیسا ٹیسٹ‘‘ میں لگاتار شرکت کر رہا ہے۔ ’’پیسا ٹیسٹ‘‘ ’’پروگرام فار انٹرنیشنل سٹوڈینٹ اسیسمینٹ ٹیسٹ‘‘ کا مخفف ہے۔ یعنی کہ یہ دنیا کا سب بڑا عالمی امتحان ہے کہ جس میں خود کو تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ خیال کرنے والے ممالک کے 15 سالہ طالبان علم شرکت کرتے ہیں جن میں اُن کی فکری صلاحیتوں اور علمی قابلیتوں کو تین جدید ترین مضامین یعنی ریاضی، مطالعاتی قابلیت (ریڈنگ) اور سائنس کے ذریعے پرکھا جاتا ہے۔ اِس عالمی امتحان کے نتائج سے نہ صرف کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام کی اعلیٰ معیاری کا پتہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ نتائج میں اعلیٰ کار کردگی دکھانے والے ممالک کو سائنسی، فکری و علمی اعتبار سے ذہین و فطین اور روشن مستقبل رکھنے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نتائج اُن ممالک کی عزت و منزلت اور صنعت و تجارت پر براہِ راست اور بلا واسطہ دونوں لحاظ سے بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اِسی عالمی امتحان میں فن لینڈ نے 2000ء تا 2012ء تک درجۂ اول (فرسٹ پوزیشن) حاصل کرتے ہوئے، لگاتار 12 سال تک اِس عالمی امتحان پر راج کیا ہے اور 2012ء کے بعد بھی 2018ء کے آخری ’’پِیسا ٹیسٹ‘‘ تک فن لینڈ کے طلباء کی کارکردگی اِس عالمی امتحان میں نہایت اعلیٰ اور قابلِ تحسین رہی ہے جو فن لینڈ کے تعلیمی نظام کے بے نظیر و بہترین ہونے کی ایک ناقابل فراموش دلیل ہے۔

 اگر میں فن لینڈ کے اِس قدر بہترین تعلیمی نظام کے پس منظر کو دیکھوں تو مجھے یہ بات نہایت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ اُنھوں نے اِس راز کو پا لیا ہے کہ اقوام کی لازوال بقا اور ناقابل تسخیر ترقی و خوشحالی فوجی اور عسکری قوتوں میں نہیں بلکہ علم کی طاقت میں ہوتی ہے۔ کوئی قوم جغرافیائی لحاظ سے اگر کسی فوجی و عسکری قوت کے اندھا دھند زور سے تباہ و برباد بھی کر دی جائے۔ لیکن وہ نظریاتی لحاظ سے تب تک مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹائی نہیں جا سکتی کہ جب تک کوئی اُس قوم کی قومی انفرادیت کے تحت علمی ذہانت کو مکمل طور پر ختم نہ کر دئے اور فن لینڈ کا شمار تو اُن ممالک میں ہوتا ہے کہ جو پچھلی چند ہی صدیوں میں کئی بار فوجی طاقت کے بل بوتے پر تباہ و برباد اور غیر اقوام کے غلام ہو چکے ہیں یعنی فن لینڈ عظیم شمالی جنگ 1709ء کی روسی غلامی سے لے کر (روس-فن لینڈ) جنگ بندی 1944ء تک کئی بار مکمل طور پر جانی و مالی اعتبار سے تباہ حال، روسی غلام اور بدترین شکست کا شکار ہو چکا ہے، لیکن فن لینڈ نے جنگی انتقامات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو رواں رکھنے کی بجائے اپنی قومی انفرادیت کے تحت اپنی علمی ذہانت اور فکری قابلیت کو زندہ رکھا اور اپنے تعلیمی نظام کو یورپی ترقی یافتہ ممالک کی اندھی تقلید سے دُور رکھتے ہوئے اور اپنی فوجی طاقت کو اندھا دھند بڑھتے ہوئے، تباہ کن ایٹم بمز بنانے کی بجائے، اپنے ملکی تعلیمی نظام پر مالی اور نظریاتی اعتبار سے بھرپور توجہ دی اور آج فن لینڈ کا تعلیمی نظام دنیا کے سب سے بہترین تعلیمی نظام ہونے کا عالمی اعزاز اپنے نام کرتے ہوئے، دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ میرے اِس دعویٰ کی غیر جذباتیت اور بلا تعصب حقانیت کا ایک سرسری اندازہ آپ اِن تین باتوں سے لگائیے کہ آج فن لینڈ میں شرح خواندگی دنیا میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً 99% ہے اور دیگر تعلیمی لحاظ سے نہایت طاقتور ممالک سے لے کر دنیا کے عالمی سُپر پاورز ممالک تک سب فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی کئی خصوصیات کو اپنے ہاں نافذ کر نے کے خواہشمند ہیںٕ نیز اِسی زبردست تعلیمی نظام کی بدولت آج فن لینڈ کا شمار دنیائے یورپ کے سب سے کم ترین بد عنوان ممالک میں ہوتا ہے کہ یہاں عدل و انصاف کا نظام عام سماجی سطح سے لے کر ملک کی اعلیٰ سیاسی سطح تک مجموعی طور پر رائج ہے۔ تو آئیے، اپنی تحریر کا ذرا سا دھارا بدلتے ہوئے فن لینڈ کی اُن تعلیمی خصوصیات، اختراعات اور اصلاحات کا تفصیلی اور تقابلی تجزیہ کرتے ہیں کہ جو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک سے لے کر ترقی یافتہ ممالک کے لیے یکسر مفید، مثالی اور متاثر کن نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

 

 (۱) داخلے کی عمر

 

فن لینڈ کے اسکولز میں صرف 7 سالہ بچوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے، یعنی فن لینڈ میں لازمی تعلیم کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے۔ اِس 7 سالہ عمر کی حد کے پیچھے میرے مطابق یہ حکمت کارِ فرما ہو سکتی ہے کہ بچے اِسی 7 سال کی ابتدائی عمر سے قبل شعوری اور لا شعوری طور پر اپنی بقیہ تمام زندگی کی تمام تر ترجیحات، جذبات اور نظریات کی سرسری اور نا پختہ بنیادیں رکھتے ہیں جو کہ پھر بقیہ زندگی کے ماحولیاتی اور نظریاتی اثرات کے ارتقائی منازل سے گزرتی ہوئی مزید پختہ ہو جاتی ہیں یا پھر بالکل ہی بے معنی سی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ لہذا اِسی نُوعمری کے ابتدائی 7 سالہ دورانیے میں رسمی تعلیم سے بھی کئی گنا زیادہ غیر رسمی تعلیم یا ابتدائی گھریلو تعلیم مفید و مناسب رہتی ہے کہ بچے 7 سال تک کھیل ہی کھیل میں گھریلو غیر رسمی تعلیم اور دوستوں سے اپنے ذاتی مشاہدات اور آزادانہ تجزیے کی بنا پر، فطرت اور ثقافت کو محسوس کر تے ہوئے آزادانہ سوچ سکتے ہیں اور اپنی اِسی کم عمری کی نعمت کی بدولت، رسمی تعلیم کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہوئے، اپنے غیر معمولی اور غیر رسمی زاویۂ نگاہ سے دنیا کو دیکھ سکتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ اپنا بچپن بھرپور انداز میں آزادی سے جی سکتے ہیں یوں اِن سارے مراحل میں گزر کر 7 سالہ فنش بچوں میں اسکول تک پہنچنے سے پہلے ہی لا شعوری اور شعوری طور پر علم دوستی، علمی تحقیق و جستجو کا رجحان پیدا ہو چکا ہوتا ہے جبکہ اِس کے برعکس ہمیں دیگر ممالک میں 3 تا 5 سال تک کے کم عمر بچوں کو اسکولز میں داخل کروانے کی مثالیں ملتی ہیں جو کہ نہ صرف کم سِن بچوں کے بچپن پر بے جا شدید دباؤ ڈالتے ہوئے اُن کی اُس پیدائشی آزادی پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے کہ جو اُنھیں قدرت نے بطورِ تحفہ و نعمت عطا کی ہے بلکہ ایک باپ کی نگاہِ شفقت اور ماں کی آغوش کو فراموش کرتے ہوئے قدرت الہٰی میں تحریف کرنے کے بھی مترادف ہے۔

 (۲) غیر رسمی گھریلو/ابتدائی تعلیم

فن لینڈ میں ایک ملازمت یافتہ فنش ماں کو بچے کی پیدائش پر حکومت کی جانب سے ملازمت سے، مکمل چار ماہ کی چھٹی کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور اگر اِس کے بعد بھی والدین میں سے کوئی ایک اپنے بچے کی نگہداشت کے لیے ملازمت سے چھٹی لینا مناسب سمجھے تو اُسے مزید چھ ماہ کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ بآسانی دی دئے جاتی ہے۔ نیز فنش حکومت کی جانب سے، اہلیت کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فنش والدین کو بچے کی پیدائش پر ایک خطیر رقم ’چائیلڈ بینیفٹ سکیم‘ کے تحت دی جاتی ہے یہ سکیم بچے کے 17 سال کے ہونے تک جاری و ساری رہتی ہے اِس سکیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اِس سے والدین کے لیے رسمی تعلیم سمیت غیر رسمی گھریلو تعلیم کی فراہمی کو مالی اعتبار سے بھی یقینی بنایا جا سکے لہذا یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ میں والدین ابتدائی گھریلو تعلیم کو نہایت صحت مندانہ طریقہ سے با آسانی دیتے ہیں۔ گھریلو غیر رسمی تعلیم کے حوالے سے یہاں یہ بات بھی قابل غور اور دلچسپ ہے کہ فن لینڈ میں والدین کو بچوں کی پیدائش پر، حکومت کی جانب سے ضروری سامان نگہداشت ’’بے-بی باکس‘‘ کے ساتھ ساتھ ایسی تعلیمی ہدایات بھی دی جاتی ہیں کہ جس میں والدین کو بچوں کی غیر رسمی تعلیمی نشو و نما سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس تعلیمی نشو و نما کی اہمیّت کے حوالے سے فنش ماہرِ تعلیم ایوا ہجالا کہتی ہیں کہ ’’ابتدائی گھریلو تعلیم زندگی بھر کی تعلیم کا پہلا اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔‘‘ اعصابی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دماغ کی نشو و نما کا 90 % حصہ بچے کی زندگی کے ابتدائی پانچ سالوں کے دوران ہی تحریک و استعمال میں آ جاتا ہے، اور 85 % عصبی راستے اسکول جانے کی عمر یعنی 7 سال سے پہلے ہی نشو نما پا جاتے ہیں۔ لہذا اِنھی تعلیمات کی آگاہی سے فنش والدین پچپن ہی سے اپنے بچوں کی اخلاقی اقدار اور ذہنی و فکری قابلیت کو پختہ بناتے ہوئے اُنھیں مستقبل کے ایک قیمتی ملکی سرمایہ میں ڈھال دیتے ہیں۔ اِس مقصد کے پیش نظر اکثر فنش والدین بچوں کو ابتدائی و غیر رسمی تعلیم ڈے کیئر سنٹر، کنڈرگارٹن اور پِری اسکول کے ذریعے بھی دینا پسند کرتے ہیں۔ یہ تمام تعلیمی ادارے دیگر حکومتی اسکولز کی طرز کے سنجیدہ اور رائج العام تعلیمی ادارے ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی اِن اداروں کی ابتدائی تعلیم کو لازمی تعلیم سمجھا جاتا ہے یہ فنش والدین کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اِن اداروں کے ذریعے ابتدائی تعلیم فراہم کرے یا پھر بچوں کو گھریلو طرز پر مبنی ابتدائی غیر رسمی تعلیم فراہم کریں۔ آپ اِن نجی اداروں کو بچوں کے تفریح خانے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں کھیل، مستی و کود میں ہی نہایت چھوٹی سطح پر بنیادی اخلاقی اور علم دوست تعلیمات کو کتابی الفاظ و لہجے کے بغیر صرف زبانی، عملی اور جدید و دلچسپ ٹیکنالوجکل ذرائع سے سکھایا جاتا ہے اور اگر آپ فن لینڈ میں اپنے بچوں کو کنڈرگارٹن بھیجتے ہیں تو فنش حکومت بچوں کی نگہداشت کے لیے خصوصی اہتمام کرتی ہے اور ہر سال بچوں کے خرچے کے واسطے سالانہ تقریباً 3842 یورُوز کی خطیر رقم بھی والدین کے حوالے کرتی ہے۔ نیز کنڈرگارٹن عملے کا انتخاب بھی کم از کم بیچلرز کی تعلیم پر ہوتا ہے تاکہ بچوں کی نگہداشت اور تربیت اعلی سطح کی ہو۔ اِن تربیتی اداروں کی ابتدائی و غیر رسمی تعلیم بچوں کے لیے کتنی کار آمد ہوتی ہے اِس حوالے سے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ مشہور ماہر تعلیم اِیوا پینِٹیلا کہتی ہے کہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ ڈے کیئر سنٹر اور پِری اسکول میں بچوں کا داخلہ اُن کے لیے بہت اچھا ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہ جگہ نہیں ہے کہ جہاں والدین کام پر جاتے وقت اپنے بچہ پھینک جاتے ہیں۔ (تاکہ وہ بچے کی حفاظت اور نگہداشت کی پریشانی سے آزاد ہو جائیں۔) بلکہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں آپ کے بچے کھیلنے اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ نئے نئے دوست بنانے آتے ہیں۔ لہذا بہترین تعلیمی سمجھ بوجھ رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو ڈے کیئر سنٹر میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ اور کنڈرگارٹن کے متعلق اِیوا پینِٹیلا کہتی ہے کہ ’’کنڈر گارٹن میں بچوں کو بنیادی طور پر یہ سکھایا جاتا ہے کہ ’سیکھا کیسے جاتا ہے۔؟‘ مطالعاتی قابلیت (ریڈنگ) اور ریاضی کے متعلق باضابطہ ہدایات سکھانے کی بجائے اُنھیں فطرت، جان داروں اور زندگی کے دائرے کار کے متعلق سکھایا جاتا ہے۔‘‘

(۳) مفت مساوی تعلیم

فن لینڈ میں تمام تر تعلیمی ادارے سرکاری تحویل یا نگرانی کے زیر اثر ہیں یعنی فن لینڈ میں کوئی شخص تعلیم کی فراہمی کے نام پر ذاتی ملکیت کی نوعیت کے مہنگے ترین تعلیمی کاروباری اڈے ’پرائیوٹ ایجوکیشن سنٹر‘ چلا ہی نہیں سکتا ہے لہذا وہاں تعلیم کا حصول نہایت آسان، عام اور مفت ہے نیز اسکول کی تعلیم سے وابستہ تمام اشیاء مفت فراہم کی جاتی ہیں مثلاً کتابیں، بستے اور سامان اسٹیشنری وغیرہ مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہے فنش اسکولز میں بہت زیادہ کتابوں، کاپیوں اور بھاری بھر کم بیگ کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے۔ بہرحال اِسی مفت مساوی فنش تعلیم کی وجہ سے ہی فنش اسکولز کے مابین زیادہ داخلوں کی دوڑ اور اچھے اور بُرے اسکولز کی جاگیرداری قائم نہیں ہو پاتی ہے اور نہ ہی وہاں نجی اور حکومتی اسکولز کے اختلاف سے مختلف تعلیمی مسائل جنم لے پاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں تمام مالی طبقوں یعنی امراء، متوسطین اور غرباء کے بچے ایک ہی جماعت میں کرسی سے کرسی جوڑ کر ہر حوالے سے مساوات پر مبنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

(۴) یکساں تعلیمی نظام اور نصاب

فن لینڈ کے تمام تر تعلیمی اداروں میں سرکاری سطح پر ایک ہی تعلیمی نظام اور نصاب رائج ہے اور اِسی طرح مالی یا نسلی برتری کی تمیز روا رکھے بغیر ہر فنش شہری کو یکساں تعلیمی نظام سے مستفید کیا جاتا ہے۔ جس سے فنش طالبانِ علم میں مساوات اور انفرادی خود اعتمادی جیسی عظیم خصوصیات جنم لیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اِسی یکساں تعلیمی نظام کی برکت سے فنش طالبانِ علم میں بچپن ہی سے طبقہ واری سوچ کا خاتمہ کرنے کی حد درجہ کاوش کی جاتی ہے۔ یکساں نصاب اور یکساں تعلیمی نظام ہونے کے سبب وہ نظریاتی طور پر اپنی قومی یکجہتی کے زیرِ سایہ ترقی کرتے ہیں۔ نیز حکومتی رائج شدہ نصاب و نظام کو بدلتے ہر چند سالوں کے بعد زمانے کی جدت کے پیشِ نظر نئی سائنسی و فنی تعریفوں، ایجادات و اصلاحات کے مطابق ہم آہنگ کیا جاتا ہے اور تعلیمی نصاب مرتب کرتے وقت طلباء کی ذہنی سطح اور رجحانات کو خوب مد نظر رکھتے ہوئے دلچسپ اور آسان فہم بنایا جاتا ہے۔ یہاں اِس ضمن میں یہ بات بھی نہایت اہم اور دلچسپ ہے کہ فن لینڈ میں تعلیمی نصاب صرف الفاظ کی صورت میں کتابوں کے اوراق پر تحریر کردہ نہیں ہوتا بلکہ نصاب کا آدھا حصہ جہاں الفاظ کی صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہی نصاب کا تقریباً آدھا حصہ عملی کام (پراکٹیکل ورک) پر مشتمل ہوتا ہے یعنی کتاب میں جو فنش طلباء کو الفاظ کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے اُس کا عملی اطلاق (پراکٹیکل ایپلیکیشن) بھی کر دکھایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں میری عملی اطلاق سے مراد خصوصاً سائنسی طریقہ کار کے حامل مضامین اور موضوعات ہیں جو کہ مشاہدہ، تجربہ و تجزیہ کے قابل ہونے کی بنا پر عملی اطلاق (پراکٹیکل ایپلیکیشن) کے قابل ہوتے ہیں ناکہ وہ مضامین یا موضوعات ہے جو مجموعی طور پر عملی اطلاق سے بالاتر ہوتے ہیں۔ مثلاً معاشرتی علوم، تاریخ، ادب یا مذہبی مضامین جو صرف نظریات و واقعات کی دنیا میں، الفاظ کے پیراہن کو اُوڑھے ہوئے صرف کتابوں ہی کی صورت موجود ہوتے ہیں اِن کے عملی اطلاق کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اُس زمانے میں ’ٹائم ٹریول‘ کے ذریعے طلباء کو اُس موضوع سے منسلک زمانے میں پہنچا کر براہ راست آنکھوں دیکھا مشاہدہ کروایا جائے یا پھر کوئی ایسی مشین دریافت کی جائے جس میں یہ قابلیت ہو کہ وہ کُل جہاں کے ماضی کو روزِ ازل سے ایک فلم کی صورت میں پردۂ اسکرین پر دکھا سکے جبکہ فی الحال یہ دونوں ایجادات اور مشورے ناممکنات ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں نیز یہ کہ ادب کے قارئین کے لیے یہ سائنسی نظریات پر مبنی سائنسی مشورے ذرا مبہم اور غیر دلچسپ بھی ہو سکتے ہیں۔ لہذا خلاصہ کلام یہ کہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ معاشرتی علوم پر سائنسی علوم کی طرز کا پختہ عملی اطلاق (پرایکٹیکل ایپلیکیشن) نہیں ہو سکتا لہذا فن لینڈ میں اُن مضامین و موضوعات کو نوجوانوں کی ذہنی دلچسپی سے ہم آہنگ جدید ترین ذرائع سے سکھا کر، عملی اطلاق کا ایک حد تک حق ادا کر دیا جاتا ہے یعنی کہ ایجوکیشن اینیمیشن، فلمز، ڈاکومینڑیز، گیمز وغیرہ کے ذریعے معاشرتی علوم کو فنش طالبانِ علم کے ذہن میں نہایت آسانی اور دلچسپ طریقے سے فلما دیا جاتا ہے جس سے معاشرتی علوم کے نظریات و واقعات اپنی ممکنہ اصل اور شفافیت سے طالب علموں کے ذہنوں میں دیر پا حافظے (لانگ-ٹرم میموری) کا حصہ بن جاتے ہیں۔

(۵) دوپہر کا کھانا (اسکول مِیل)

حکومتِ فن لینڈ 1948ء سے اپنے تعلیمی اداروں میں ہائی اسکولز کی سطح تک مفت دوپہر کا کھانا ’’اسکول مِیل‘‘ فراہم کر رہی ہے اور اِس حوالے سے فن لینڈ دنیا کا وہ سب پہلا ملک ہے کہ جس نے ایک وسیع پیمانے پر، یعنی اپنی ملکی سطح پر، شعبۂ تعلیم و تدریس کے لیے مفت خوراک رسانی کے نظام کو متعارف کروایا۔ فنش اسکولز میں موجود خوراک رسانی کا نظام (اسکول کیئرٹنگ سسٹم) اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اسکول کو ایسا متوازن، پُر کشش اور گرم کھانا فراہم کیا جائے جو طلباء و اساتذہ سمیت سارے اسکولی عملے کی صحت مندی کے لیے ممد و معاون ہو اور خصوصاً طلباء کی عمر اور رجحان کے مد نظر اُن کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے بہترین و مناسب ہو۔ یہ دوپہر کا کھانا ایک بڑی پلیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھانے کی پلیٹ کا آدھا حصہ تازہ سلاد اور پکی ہوئی سبزیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک اُبلے آلو، پاستہ یا چاولوں نے پلیٹ کا ایک تہائی حصہ گھیرا ہوتا ہے۔ آخری ایک چوتھائی حصے میں کٹی مچھلی کے گوشت کا ایک ٹکڑا یا مارجرین اور بریڈ ہوتا ہے۔ (مچھلی کا گوشت صرف گوشت خور طلباء کو اُن کی مرضی و پسند کی بنا پر فراہم کیا جاتا ہے۔) نیز مشروبات میں ایک پانی اور ایک دُودھ کا بھرا ہوا گلاس پینے کی خاطر فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دوپہر کے کھانے کے یہ وہ بنیادی اجزاء ہے جو کہ طبی لحاظ سے ایک نہایت متوازن اور صحت مند غذا کو جنم دیتے ہیں اور فنش طالبانِ علم کی ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی صحت کو توانا اور مضبوط بناتے ہوئے فن لینڈ کی تعلیمی ترقی کا ایک اہم راز ہے اِسی بنا پر حکومتِ فن لینڈ اِس مفت کھانے (اسکول مِیل) کی فراہمی کو مستقبل کی سرمایہ کاری کہتی ہے جبکہ میرے مطابق اِس مفت کھانے (اسکول مِیل) سے حکومت فن لینڈ اپنے مخصوص قومی و ثقافتی طرز پر مبنی مہذبانہ کھانے کے آداب کو اپنے بچوں کو عملی طور پر سکھانے کی ایک کامیاب کاوش کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فنش والدین کو اسکول لنچ کی تیاری کی کوفت سے بھی آزاد کرواتی ہے۔ بہرحال درج ذیل بالا کھانے کے منیو میں طلباء کی پسند اور مقامی و موسمی تبدیلیوں کے پیشِ نظر اکثر مناسب ترامیم بھی کی جاتی ہیں اور اِن ترامیم کے حوالے سے طلباء، والدین اور دیگر اسکولی عملے سے بھی مشاورت کی جاتی ہے۔ خاص تہواروں یا مخصوص دِنوں میں خاص غذاؤں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ذائقے کی یکسانیت دُور ہو سکے۔ بالآخر اساتذہ اور طلباء ایک ساتھ، دسترخوان پر بیٹھ کر لذیذ و من پسند کھانا تناول کرنے کے ساتھ ساتھ حد درجہ بے تکلفانہ اور دوستانہ تعلق کے شیریں بھرے، میٹھے جام، محبت بھری چُسکیاں لیتے ہوئے نوش فرماتے ہیں اور خصوصاً طلباء کھانے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار اور صاف ستھرے ماحول میں اساتذہ کی علمی صحبت سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ مفت کا کھانا کھانے کے بعد طلباء برتنوں اور دسترخوان وغیرہ کی صاف صفائی بھی خود ہی اچھے طریقے سے کرتے ہیں لیکن آپ پریشان نہ ہوئیے کہ یہ صاف صفائی مفت کے کھانے کے عوض یا نام نہاد نظم و ضبط کے نام پر ہرگز نہیں کروائی جاتی، بلکہ طلباء کو زندگی کے عملی، گھریلو اور خصوصاً ازدواجی میدان میں ہر فن مولا بنانے کے لیے کروائی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ طلباء کو شعوری و لاشعوری دونوں لحاظ سے یہ باور کروانے کی بھی ایک بہترین کاوش ہے کہ کھانے کے برتن دھونا یا صاف ستھرائی کرنا مرد و عورت کی دو اجناس میں صرف ایک جنس یعنی عورت پر ہی بطورِ صنفی کردار، ہرگز فرض نہیں ہے، بلکہ مرد اگر فرصت تلے گھر میں برتنوں اور صاف ستھرائی کے بوجھ تلے دبی عورت کا ہاتھ بٹاتے ہوئے، ایک اچھے بیٹے، اچھے بھائی اور خصوصاً سب سے بڑھ کر ایک اچھے شوہر کی حیثیت سے برتن دھو لے یا گھر کی صاف ستھرائی کر لے تو اُس کی مردانگی کی شان میں کوئی کمی واقع نہ ہو گی اور نہ بطورِ صنفی کردار کے ایسا کرنا غیر فطری، معیوب یا گناہ و جرم کے ضمن میں آئے گا یعنی آپ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی اِس حوالے سے کمال دُور اندیشی اور اعلیٰ علمی قامت تو دیکھے کہ بنیادی جبلی ضرورت کی بھوک مٹاتے، یعنی طلباء کو مفت مزے دار کھانے کِھلاتے ہوئے بھی بہت کچھ سکھا رہے اور برتن دھلواتے بھی برابر سکھاتے ہوئے تعلیم دئے رہے ہیں لیکن تعلیم کا یہ طریقہ تدریس اتنا مزے دار اور دلچسپ ہے کہ عوام الناس کو گمان ہی نہیں ہوتا کہ کھلاتے، پِلاتے اور برتن دُھلواتے ہوئے بچہ کیا کیا کچھ شعوری اور لاشعوری طور پر سیکھ رہا ہے کہ جو اگر صرف وہ نصابی کتب کے رسمی الفاظ تلے سِیکھتا، تو اُسے یہ سب کچھ سیکھنے لیے خاصی طلب و محنت درکار تھی۔ بہرحال فنش طلباء کھانے پینے اور برتن دھونے سے لا شعوری و غیر رسمی طور پر سیکھنے کے بعد دوبارہ رسمی و شعوری تعلیم کے حصول کے لیے، چاق و چوبند کمر کستے ہوئے، اپنی اپنی جماعتوں میں جا گھستے ہیں۔

(۶) اسکول کی وردی اور جسمانی آرائش و زیبائش

فن لینڈ کے تمام تعلیمی اداروں میں اسکول کی ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیمی سطح تک طالبان علم پر کوئی خاص وردی یا مخصوص یونیفارم کو مسلط نہیں کیا گیا ہے۔ گویا فنش طلباء اپنے سارے زمانۂ طالب علمی میں اپنی پسند کا لباس پہنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں کہ جس میں وہ خود کو پُر سکون اور محفوظ محسوس کریں اور اِسی طرح ناخنوں اور بالوں کو بڑھانے، رنگنے یا کسی بھی من پسندیدہ انداز سٹائل میں رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جسمانی زیبائش و آرائش پر قدغن لگائی گئی ہے۔ بس اِن سب آزادیوں کے پس منظر میں ایک بنیادی شرط کارِ فرما ہے کہ جسمانی زیبائش و آرائش اور لباس و حلیہ علاقائی اور معاشرتی اعتبار سے غیر مہذبانہ نہ ہوں۔ لہذا آپ کو فن لینڈ میں طلباء من چاہے پاجامے اور ٹی شرٹز میں ملبوس، پُر انداز (سٹائیلیش) بالوں کے ساتھ اور خوب جسمانی آرائش و زیبائش میں سجے ہوئے اسکولز / کالجز آتے دکھائی دیں گے۔ یہ تمام غیر روایتی آزادیاں فنش طلباء کو سہل الحصول تعلیم پر راغب کرتی ہیں۔ نیز فنش تعلیمی ماہرین کے مطابق اصل مقصد تعلیم فراہم کرنا ہے لہذا اِن آزادیوں کو دینے سے تعلیم پر مجموعی طور پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ فنش طالبانِ علم کو لباس و زیبائش کی آزادی سے متعلقہ متوقع نقصانات کے پیشِ نظر علمی طور پر آگاہ کر کے اُن کی ذہن سازی ہی ایسی کر دی گئی ہے کہ وہ مجموعی طور پر اِن آزادیوں کے فطری و معمولی استعمال کی طرف ہی راغب رہتے ہیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ صنعتِ آرائش (کاسمیٹکس) کی عالمی منڈی میں فن لینڈ کا شمار ایک غیر اہم کاروباری منڈی کے طور پر ہوتا ہے کہ عام طور پر یہاں کے مقامی فنش مرد اور خصوصاً خواتین جسمانی آرائش و زیبائش کے معاملے میں معمولی حد سے آگے غیر معمولی نرگسیت یا خبط و جنون کا شکار نہیں ہیں۔ نیز لباس کے معاملے میں فن لینڈ کا شمار ایک اچھے فیشن ایبل ملک میں ہونے کے باوجود، خود پسندی یا نرگسیت کی غیر معمولی سطح پر فیشن پرست ملک کے طور پر ہرگز نہیں ہوتا ہے۔

اب اگرچہ فنش تعلیمی اداروں میں لباس و زیبائش سے متعلقہ یہ آزادیاں شاید آپ کے مذہبی یا معاشرتی و ثقافتی ادب و حیا کے تصور کے منافی ہو لیکن فن لینڈ کے علاقائی اور معاشرتی تصورات کے مطابق عین مہذبانہ اور جائز ہیں یعنی حاصلِ گفتگو یہ کہ آپ بنیادی طور پر اِس غیر روایتی طریقۂ تدریس کو دیکھئے اور اپنے علاقائی اور ثقافتی نظریات کے پیش نظر اِس کا نفاذ کیجئے ناکہ لباس و زیبائش کے حوالے سے اِن تعلیمی آزادیوں کی اصل کو نظر انداز کرتے ہوئے نام نہاد نظم و ضبط یا، جزوی اختلافات کے زیرِ اثر اخلاقی یا مذہبی فتوے لگانے شروع کر دیں کہ جس طرح تعلیمی لحاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی اداروں میں مخصوص لباس یعنی یونیفارم کو فتویٰ کی متشدد حد تک جبراً نافذ کرتے ہوئے رسمی تعلیم کے حصول کا ایک باقاعدہ اور لازم ملزوم حصہ بنا دیا گیا ہے کہ وہاں کے تعلیمی اداروں میں اگر کوئی بیچارا بھولا بھٹکا طالب علم بغیر یونیفارم کے داخل ہو جائے تو وہ داخل ہوتا تو ایک طالب علم کی حیثیت سے ہے لیکن نِکلتا اِک پِیٹے ہوے مظلوم کی حیثیت سے ہے یعنی یونیفارم کی خلاف ورزی کو، تعلیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور نام نہاد اساتذہ کی انا پرست آنکھوں میں کھٹکتی، حکم عدولی شمار کرتے ہوئے کسی ذہنی یا جسمانی اذیت سے نواز کر دیگر طلباء کے لیے سر عام نمونۂ عبرت بنا دیا جاتا ہے اور اِس حوالے سے حدِ ستم تو یہ کہ جس پر شاید آپ کے لیے یقین کرنا بھی مشکل ہو جائے، لیکن آپ یقین کیجیے کہ اپنے متحرک قلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں کئی نام نہاد اعلیٰ یونیورسٹی تعلیم فراہم کرنے والے ایسے تنگ نظر تعلیمی ادارے بھی ہیں کہ جو اِس اعلیٰ تعلیمی سطح پر بھی اپنے زیر تسلط طلباء پر یونیفارم کی پابندی کو مخلوط تعلیم کے زیرِ سایہ مرد و خواتین طلباء میں فطری کشش ثقل میں صرف ثقل پیدا کرنے کے لیے نام نہاد نظم و ضبط کے نام پر جبراً نافذ کرتے ہیں جبکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے طلباء کی علمی زندگیوں میں یونیفارم صرف ایک ٹائی کی گرہ کو صحیح طرحداری سے باندھنے کے ماسواء کسی کام نہیں آتا اور مرد و خواتین کی فطری کشش ثقل کو یونیفارم کی جبراً پابندی جیسے روایتی طریقوں سے یا کسی بھی اور طور سے ہمہ پہلو دبایا یا روکا ہرگز نہیں جا سکتا ہے، کہ آپ اِس حوالے سے بس طلباء کو علمی طور پر اپنے معاشرتی و مذہبی نظریات تلے قائل کر کے اِس کشش ثقل کی لہروں کی سمت کو ذرا سا بدل کر، مہذبانہ بنا سکتے ہیں وگرنہ آپ ہی بتلائیے کہ ایسا کونسا لباس ہے کہ جس میں سے مخالفِ جنس کی نظریں پار نہیں ہو سکتیں، نقشے اور راستے تراش نہیں لیتیں؟

لہٰذا یونیفارم کے حوالے سے میری ذاتی متناسب رائے یہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں کسی بھی سطح پر مخصوص لباس یعنی یونیفارم کو بطورِ قانون جبراً نافذ کرنے کی بجائے اِسے طلباء کے آزادانہ اختیار پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ چاہے تو اپنا گھریلو لباس پہن کر آئے یا پھر کسی تعلیمی ادارے کا تجویز کردہ لباس زیبِ تن کرے کہ اِس طرح اُن طلباء کے لیے بھی گنجائش نکل جائے گی کہ جو کسی ذاتی، مالی یا نفسیاتی وجہ سے گھریلو ملبوسات پہن کر آنے میں قباحت و دقت محسوس کرتے ہیں اور اِس مزاج کے برعکس اُن طلباء کے لیے بھی اِس رائے میں وسعت موجود ہے کہ جو طلباء تعلیمی اداروں میں اپنے من پسندیدہ اور خوش نما گھریلو ملبوسات پہن کر آنے میں اطمینان و خوشی محسوس کرتے ہیں بس اِس آزادانہ اختیار میں یہ ایک بنیادی شرط کار فرما ہونی چاہیے کہ لباس چاہے گھریلو ہو یا تعلیمی ادارے کا تجویز کردہ، رائج معاشرتی و ثقافتی نظریات سے بالکل ہی متصادم نہ ہو کیونکہ بصورتِ دیگر ایک طالب علم خود ہی خواہ مخواہ معاشرتی منفی رویوں کو دعوت دیتے ہوئے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارے گا۔

 

(۷) فرشی صوفے (بین بیگز) اور من چاہے اطوارِ بیٹھک

فنش اسکولز کی کلاسز میں بچوں کو روایتی کرسیوں پر بٹھانے کی بجائے نہایت آرام دہ فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھایا جاتا ہیں کیونکہ فنش ماہرینِ تعلیمی نفسیات کے مطابق بچے فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھ کر 20% زیادہ سیکھتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھنے کے علاوہ بھی طلباء کسی بھی اپنی پسندیدہ مناسب حالت میں یعنی لیٹ کر، چلتے ہوئے، چار زانو بیٹھ کر یا ٹیک لگاتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ مقصد تو صرف بہترین طور پر پڑھنا اور سیکھنا ہی ہے۔ اب جو ہمارے تعلیمی لحاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی اداروں می پڑھتے وقت مخصوص انداز میں بیٹھنے کے نام نہاد آداب رائج ہے اُن کی کھوکھلی مقصدیت کو دیکھ کر مجھے اکثر شدید طنزیہ ہنسی آ جاتی ہے اور شاہد آج کے بعد آپ بھی اِس طنزیہ ہنسی کی گونج اپنے اندر محسوس کرنے لگیں۔ بہرحال مختصر یہ کہ اگر آپ فن لینڈ کی اسکولز کلاسز کا دورہ کرے تو وہاں بچوں کے پڑھنے کا انداز ہمارے تعلیمی لحاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک کے روایتی، پُر تشدد اور نام نہاد نظم و ضبط کے عین برعکس نہایت ہی بے ترتیب اور غیر روایتی ہو گا۔

 

(۸) تعلیمی اداروں کی کمرہ بند اور کھلی جماعتیں

فن لینڈ کے تعلیمی اداروں میں یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف اپنے تعلیمی ادارے یا اپنی کلاس کی جغرافیائی حدود میں ہی قید ہو کر روایتی طریقے سے پڑھیں، بلکہ آپ ادارے یا اپنی کلاس سے باہر کسی بھی پُر سکون و دلنشین مقام پر کلاسز لیتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں مثلاً ندی یا سمندر کے کنارے روح پرور رومانوی ہواؤں کے سنگ، جنگل میں سایہ دار درختوں کے سائے تلے یا پارک کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وغیرہ۔ کیونکہ فنش اساتذہ کا ماننا ہے کہ ہر جگہ پر سِیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے اور اِس اعتبار سے فنش طلباء کے لیے فن لینڈ کی ساری زمین ہی ایک وسیع علمی درسگاہ (کلاس) کی حیثیت رکھتی ہے اور اِسی طرح فنش اساتذہ کو فن لینڈ کی ساری زمین پر تنے ہوئے ابر آلود آسمان کی طرح ہر آن و ہر جاہ علم و حکمت کے موتیوں کی برسات، برسانے کو تیار رہنا چاہئے۔ عرض یہ کہ فن لینڈ کی اِن بے سرحد، جماعتوں کا مقصد یہ ہے کہ طالبانِ علم پتھروں کی بنی دیواروں کی قید سے نکل کر قدرت و ثقافت کی آزادانہ خوبصورتی کو محسوس کرتے ہوئے سیکھ سکے اور بند کلاسز کے روایتی ماحول سے نکل کر آزاد کھلی فضاؤں میں دلچسپی، جستجو اور تجسّس کے ساتھ علم حاصل کر سکیں۔ یہاں اِس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فنش تعلیمی اداروں کی پتھروں کی چار دیواری سے بنی بند کلاسز بھی نہایت کشادہ، مُعطر، خوبصورت اور فنی، سائنسی و ٹیکنالوجیکل اشیاء سے آراستہ ہوتی ہیں اور کسی فنی نمائش گاہ، سائنسی تجربہ گاہ یا بازیچۂ اطفال (چائیلڈ پلے اسٹیشن) کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں اور فن لینڈ کے شدید سرد درجہ حرارت کے باوجود متناسب درجۂ حرارت کی فضاء سے لبریز، طلباء کی آنکھوں کو بھاتی ہوئی روشنیوں کو سمیٹے ہوئے، شور کی آلودگی سے حد درجہ پاک ہوتی ہیں۔ نیز ایک جماعت میں طلباء کی اوسطاً تعداد تقریباً 20 ہوتی ہے جو کہ بہترین تعلم و تدریس کے حوالے سے فنش تعلیمی نظام کی دُور اندیشی تلے وسعتِ نظر کی نمائندہ مثال ہے۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں کلاسز پتھریلی دیواروں کی چار دیواری میں مقید 50 50 طلباء سے بھری ہوئی، ایک گھٹن زدہ ماحول کی عکاس ہوتی ہیں اور کئی کلاسز میں تو بنیادی سہولیات یعنی مناسب درجہ حرارت، بجلی، شور اور گرد و غبار سے پاک صاف ستھرا ماحول بھی موجود نہیں ہوتا ہے ہاں البتہ بجلی کی بندش تلے پنکھوں کے منجمد پَر اور بجھے ہوئے بلب، حبس زدہ دیواریں، شور کی آلودگی، اور عجیب سی بو کے انتظامات ہر کلاس میں مساوات اور برابری کی بنیاد پر فراہم ہوتے ہیں اور اب جہاں تک ادارے سے باہر کسی جگہ پر کلاس لگانے یعنی پڑھنے، پڑھانے اور سیکھنے سکھانے کا تعلق ہے تو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اِس تصور کو دیوانے کی خیالی دنیا کے ادھورے خواب سے تشبیہ دے کر، ایک طنزیہ قہقہہ یا جذباتی بھڑک لگاتے ہوئے نہایت بے دردی سے اُڑا دیا جاتا ہے۔

 

(۹) سزا کے متشدد نظام کی عدم موجودگی

فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں میرے لیے اِک بے حد مُتاثر کن اور پُر کشش بات یہ بھی ہے کہ وہاں طلباء کو اساتذہ یا انتظامی عملے کی جانب سے کسی بھی قسم کی سزا یا پُر تشدد رویے کا سامنا ہرگز نہیں ہوتا ہے یعنی کہ فنش تعلیمی اداروں میں مار کٹائی، تذلیل یا کسی بھی حوالے سے جسمانی یا ذہنی تشدد کرنا نہ صرف قانونی جرم ہے بلکہ وہاں اجتماعی طور پر ہمیں اِس سزا کے متشدد نظام کا کہی دُور دُور تک تصور بھی نہیں ملتا ہے۔ اِس کی ایک بڑی وجہ میرے مطابق یہ ہے کہ وہاں اجتماعی طور پر اساتذہ اور طالبانِ علم میں اعتماد اور محبت کے دوستانہ اور کسی حد تک بے تکلفانہ مضبوط رشتے قائم ہوتے ہیں۔ جو ایک طالب علم اور استاد کے درمیان تمام غلط فہمیوں، بد اخلاقیوں اور پر تشدد رویہ جات کے درمیان ایک آہنی دیوار کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے سزا کے متشدد نظام کا خاتمہ کرتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ قانونی جرم ہونے کے ڈر سے بھی کوئی استاد غصے میں اپنے رتبہ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طالب علم کو ذہنی یا جسمانی طور پر ہراساں کرنے سے کَتراتا ہے۔ عرض حاصلِ کلام یہ کہ فن لینڈ میں اساتذہ طلباء کو نہایت با اخلاق اور پُر شفقت تدریسی طریقے کے زیر اثر تعلیم سے نوازتے ہیں جو طالبان علم اور اساتذہ کے درمیان علمی مباحث اور سوالات و جوابات کے پُر امن اور با ادب متواتر سلسلے کو جاری رکھتا ہے۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں سزا کے متشدد نظام کو عملی طور پر تعلم و تدریس کا ایک باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یعنی اِس وحشیانہ و غیر انسانی اَمر کو طلباء کی نام نہاد، دُور اثر فلاح کے نام پر ایک عام طریقۂ تدریس اور جائز عمل میں بدل دیا گیا ہے لہذا پھر اِسی وجہ سے ہمیں اِن ممالک میں آئے روز اِس قسم کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک اور بد کردار جلاد نے استاد کے مقدس لبادے میں چھپ کر ایک طالب علم کو ذہنی یا جسمانی طور پر شدید زخمی کرتے ہوئے نظریاتی یا طبی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

 

(۱۰) ہوم ورک

2016ء تک فن لینڈ کے اسکولز میں بہت کم ہوم  ورک دیا جا تا تھا۔ جبکہ 2016 ء کے بعد اِسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ تاکہ بچے اسکول سے چھٹی کے بعد اپنے خاندان، دوستوں اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو وقت دے سکیں، اور ہوم ورک کے ذہنی دباؤ سے بالاتر ہو کر، اپنے ذاتی، عملی و نظریاتی مشاہدات کے زیرِ سایہ اپنے بچپن کو، خوب آزادانہ انداز میں جی سکے۔ یہاں اِس ضمن میں یہ قابل توجہ پہلو بھی اخذ ہوتا ہے کہ ہوم ورک نہ دینے کی فنش تعلیمی اختراع سے آپ اِس بات کا اندازہ لگائیے کہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کے تحت اسکولز میں روزانہ کی بنیاد پر تعلیم کو دیے جانے والے تقریباً 4، 5 گھنٹے (سکول ہارز) ہی فنش طلباء کے لیے مجموعی طور پر اِتنے موثر ہوتے ہیں کہ اِنھی چند تعلیمی گھنٹوں سے خوب مستفید ہونے کے بعد، اُنھیں مزید گھر کے لیے کسی الگ تعلیمی محنت (ہوم ورک) یا کسی الگ درس بہَ عوض معاوضہ یعنی ’ٹیوشن‘ وغیرہ کے اہتمام کی ضرورت ہرگز نہیں رہتی ہے۔ نیز یہ کہ اگر آج صرف اسکولی تعلیمی گھنٹوں (سکولز ہارز) پر منحصر فنش طلباء، سابقہ ذکر کردہ اِن دونوں انتظامات کا انتظام کیے بغیر، ذہین و فطین عالمی طلباء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں تو اِس بات سے آپ فن لینڈ کے اسکولز میں دیے جانے والے اُن تقریباً 4٫5 موثر تعلیمی گھنٹوں کی اعلیٰ علمی قابلیت، ارسالِ علم کی قوت اور تعلیمی صلاحیت کا اندازہ بھی بخوبی طور پر لگا سکتے ہیں۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اسکولی تعلیمی گھنٹوں (سکول ہارز) کی قوتِ ارسال علم اور علمی قابلیت و صلاحیت کی ضعیفی اور کھوکھلاہٹ کا اندازہ آپ اِس بات سے بخوبی طور پر لگا سکتے ہیں کہ وہاں طلباء کو اسکولی تعلیمی گھنٹوں (اسکول ہارز) میں بغیر مناسب وقفۂ تفریح کے لگاتار پڑھانے کے باوجود، تدریس کردہ تعلیم کو امتحانی نقطۂ نظر سے تیار کروانے کے لیے، کم از کم دو تین گھنٹوں پر مشتمل تحریری و زبانی ہوم ورک دیا جاتا ہے کہ جس کی تکمیل کے لیے پھر طلباء کے لیے الگ سے ’ٹیوشن‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اِس پر بھی اُن بچارے طلباء کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ اُنھیں اسکول ہوم ورکز کے ساتھ ساتھ سالانہ امتحانات کی تیاری کے نام پر، الگ ٹیوشن ہوم ورکز دیے جاتے ہیں کہ جن کی تکمیل کے واسطے پھر وہ مظلوم طلباء ٹیوشن سے واپس گھر آنے پر، راتوں کی نیندوں کو خود پر حرام کیے، گھٹنوں لکھنے اور رٹا لگانے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یوں اِن ہوم ورکز کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ایک طالب علم کو ایک ایسے ڈگری زدہ، روبوٹ نما انسان میں بدل دیتے ہیں۔ جو اپنے گھر کی چار دیواری میں، حلال و حرام کی تمیز سے نابلد، معاشی انقلاب لانے والی ایک نوکر روبوٹ مشین تو ضرور بن سکتا ہے لیکن معاشرے میں کسی بھی سطح پر نظریاتی انقلاب لانے والا اِک با اخلاق اور مُدبر انسان ہرگز نہیں، کیونکہ اِن اسکول اور ٹیوشن کے حد درجہ طویل اور کٹھن ہوم ورکز نے اُس طالب علم کا معصومانہ بچپن یا عہدِ شباب میں تجسس بھرا زمانۂ طالب علمی، ذہنی تناؤ تلے بے دردی سے کچل دیا ہوتا ہے۔

 

(۱۱) جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم

فن لینڈ کے اسکولز میں ٹیکنالوجی، جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ وغیرہ کا تعلیمی مقاصد کے لیے بھر پور استعمال کیا جاتا ہے اور طلباء کو مختلف عوامی ویب سائٹز اور کئی مخصوص دلچسپ تعلیمی ایپس مثلاً :یو ٹیوب، گوگل، فیس بک، پلانٹ نیٹ، پکچر دِیس، ڈولنگو، برڈ نیٹ، وغیرہ اور دیگر بہت سی چھوٹی، بڑی تعلیمی ایپس سے تعلیم فراہم کی جاتی ہے نیز علمی تحقیق و تعلم کے حوالے سے طلباء کو وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ ویب سائٹس کا ہمہ پہلو استعمال سکھایا جاتا ہے۔ لہذا فنش طلباء درج ذیل بالا جدید ٹیکنالوجیکل ایپس سمیت اَن گِنت انٹرنیٹ عوامی ویب سائٹز اور جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے موبائلز، ٹیبلٹز اور لیپ ٹاپز وغیرہ کے ذریعے مختلف تعلیمی اسینمٹسز اور پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔ نیز ہر فنش کلاس میں طلباء کے لیے سفید یا سیاہ تختے کے ساتھ ساتھ اِک بڑی پردہ اسکرین (ایل-سی-ڈی اور پروجیکٹرز) کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ جس کی مدد سے فنش اساتذہ دورانِ خطاب، اپنے بات کے فہم کے عکاس تصاویر و الفاظ کو تختہ سیاہ پر منجمد اور پردۂ اسکرین پر رقص کرواتے ہوئے طلباء کے اذہان میں گہرائی سے اُتار دیتے ہیں۔

 اِس طریقۂ کار کا میرے مطابق سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ فنش طلباء کی شخصیت میں ابتدائی زمانۂ طالب علمی ہی سے ایک بہترین اور جدید ذہنیت کا مالک محقق جنم لے لیتا ہے جو نئے سوالات یا مسائل کو پیدا یا دریافت کرنے اور اِن کا حل جدید اطوار سے فراہم کرنے میں ماہرانہ انداز کا حامل ہو جاتا ہے اور بحیثیتِ ایک طالب علم ٹیکنالوجی کا علمی مقاصد کے لیے مثبت استعمال اور دورانِ تحقیق باہمی مدد (گروپ ورک) کے تحت قائدانہ اور دو بدو تعاون کی مثبت خصوصیات کا عملی مجسم بھی بننے لگتا ہے۔ نیز پھر یہی جدید تحقیقی طریقہ کار، بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک فنش طلباء کی ذہنی نشو و نما کرتے ہوئے اُنھیں مستقبل میں عظیم مفکرین، مدبرین، سائنسدانوں اور اپنے اپنے شعبہ جات میں فنکار لوگوں کے علمی سانچوں میں ڈھال دیتا ہے اور آج شاید اِسی جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع پر منحصر جدید تحقیق نے فنش طلباء کو اِس قابل کر دیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں دنیا کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں جس کی مثالیں تو بہت سی دی جا سکتی ہیں لیکن میری اِس بات کی حقانیت و تصدیق میں یہی چند دو امثال کافی ہے کہ اربوں ڈالرز کا کاروبار کرنے والی مشہورِ زمانہ موبائل پروڈکشن کمپنی ’نوکِیا‘ کے بانی بھی نوجوانانِ فن لینڈ ہیں اور عالمی طور پر کھیلے جانے والی ’انگری برڈ‘ اور ’کیش آف کلینز‘ موبائل سافٹ وئیرز گیمز کے بانی بھی فنش فارغ التحصیل طلباء ہی ہیں۔

 

 (۱۲) تفریح و تعطیلات

 

تفریح کے حوالے سے فن لینڈ میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’جو علم آپ مزے اور لطف کے بغیر سیکھتے ہیں اُسے آپ جلد ہی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔‘ لیکن جب فن لینڈ کی اِس مشہورِ زمانہ کہاوت سے بے خبر ایک امریکی محقق نے فنش اسکولز کے مختلف اوقات میں دورے کیے تو ہر بار یہی دیکھا کہ وہاں ہر وقت بچے شور و غل کرتے ہوئے، کھیل و کود میں مگن ہوتے ہیں۔ یہ دلچسپ منظر دیکھنے کے بعد وہ بہت حیران ہوا اور اسکول انتظامیہ سے پوچھا کہ ’’یہ پڑھتے کب ہیں، اور اتنے اچھے نمبر کیسے لے لیتے ہیں؟‘‘ تو اُسے بتاتا گیا کہ یہاں طالب علموں کو ہر 45 منٹ کی کلاس کے بعد 15 منٹ کی تفریح دی جاتی ہے جبکہ فن لینڈ میں اسکول کا عموماً دورانیہ 9:00 یا 9:45 تا 2:00 یا 2:45 بجے تک، تقریباً 5 گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی اِن 5 گھنٹوں میں بھی 15، 15 منٹوں کی تفریحات کو ملا کر کل 75 منٹ کی تفریح وقفے وقفے سے دی جاتی ہے۔ اِن 15، 15 منٹوں کی وقفہ دار تفریحات کے پیچھے، میری ذاتی رائے سے موافق یہ نفسیاتی حکمت کارِ فرما ہے کہ نفسیاتی تحقیق کے مطابق ہمارا ذہن توجہ کے ساتھ صرف 45 منٹ کی مسلسل آموزش کو ہی بہترین طریقے سے استعمال میں لا سکتا ہے اور اگر اِس کے بعد بھی مسلسل آموزش برقرار رکھی جائے تو آموزش یعنی سیکھنے کا عمل آہستہ آہستہ نہایت سُست رفتار اور بھرپور اُکتاہٹ تلے بے توجہی کا شکار ہو جاتا ہے لہذا دوبارہ صحت مند، متوجہ اور دلچسپ آموزش اُسی صورت ممکن ہے کہ جب آپ ذہن کو تازہ کرنے کے لیے کم از کم 15 منٹ کا توقف فرماتے ہوئے ایک چھوٹی سی تفریح لے لے اور میری اِس بات کی تصدیق فنش اساتذہ کے اِس موقف سے بھی ہوتی ہے کہ بقول فنش اساتذہ ’’15 منٹ کی تفریح کے بعد واقعی ہی ہمارے طلباء ذہنی طور پر تر و تازہ جسم کے ساتھ اُچھلتے کودتے ہوئے کلاسز میں داخل ہوتے ہیں نیز ہفتہ و اتوار کی مکمل چھٹی اُنھیں ہفتہ بھر کی تھکن سے دُور کرتے ہوئے پھر سے تر و تازہ انداز میں سیکھنے پر راغب کرتی ہے۔

اب جہاں تک تعطیلات کا تعلق ہے تو فن لینڈ میں ایک تعلیمی سال کا دورانیہ صرف 190 دِنوں پر محیط ہے یعنی پورے سال میں ہفتہ اتوار کی، دیگر خاص تقریبات/ تہواروں اور خاص موسمی وقفوں کی چھٹیاں ملا کر تقریباً چھ مہینے چھٹیاں ہوتی ہیں گویا کہ اِس حساب سے یہ دنیا کے عالمی تعلیمی نظاموں میں سب سے چھوٹا تعلیمی سال بنتا ہے۔ لیکن آپ اِس حوالے سے یہ قابل فکر و دلچسپ پہلو تو ملاحظہ فرمائیں کہ دنیا میں سب سے کم تعلیمی دورانیہ رکھنے کے باوجود، دنیا میں سب سے شاندار و اعلی تعلیمی نتائج رکھنے کا راز صرف اہل فن لینڈ ہی جان پائے ہیں۔

 

(۱۳) بازیچۂ اطفال

فنش اسکولز میں بازیچۂ اطفال ٹیکنالوجی اور جسمانی کھیلوں کی سہولیات سے مزین ہوتے ہیں۔ نیز تفریح کے اوقات میں طلباء کو کلاسز سے باہر بازیچۂ اطفال میں جا کر کھیلنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں بچوں کو بازیچۂ اطفال میں مختلف ٹیکنالوجی اور جسمانی کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے فقدان کا سامنا ہوتا ہے اور جہاں دیگر کئی ممالک میں تفریحی دورانیے کو کم سے کم کیا جا رہا ہے تو وہیں تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں طلباء کے تفریحی دورانیے کو اکثر بطورِ سزا منسوخ یا ملتوی کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور اِس حوالے سے حدِ ستم تو یہ ہے کہ کئی تعلیمی مراکز میں دورانیۂ تفریح نام کی کوئی چیز ہمیں سرے سے ہی نہیں ملتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف تفریح کے حوالے سے فن لینڈ میں اِتنی احتیاط بَرتی جاتی ہے کہ تفریح کے دورانیے میں طلباء کے سر پر چڑھ کر بے جا روک ٹوک کرنے کی بجائے طلباء کو کھیلتے وقت مکمل خود مختاری دی جاتی ہے۔ جبکہ ہمیں اِس کے عین برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اسکول کے تفریحی دورانیے کے مابین بھی بے جا روک ٹوک اور اسکولز انتظامیہ کی با رعب غنڈہ گردی دیکھنے کو ملتی ہے۔

دراصل میرے مطابق تفریح کے حوالے سے ہمارے تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اِس قدر متشدد رویے اِس لیے ہیں کیونکہ کہ وہاں عام طور پر کھیل اور سِیکھنے کو دو الگ الگ چیزوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ نفسیاتی و سائنسی تحقیق سے آج یہ بات تجرباتی سطح پر بھی ثابت ہو چکی ہے کہ بچے کھیل کے ذریعے بھی بہت کچھ سِیکھتے ہے اور وہ کچھ سیکھتے ہیں کہ جو شاید آپ اُنھیں رسمی اور باضابطہ تعلیم سے بھی نہیں سکھا سکتے ہیں یا پھر اُس اعلیٰ معیاری سے نہیں سکھا سکتے کہ جس اعلیٰ معیاری سے وہ کھیل ہی کھیل میں مفت سیکھتے ہیں نیز چھوٹے بچوں کے لیے کھیل سیکھنے کے عمل (لرننگ ایکٹیویٹی) کی حوصلہ افزائی کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ نیز کھیل بچوں کو زیادہ دلچسپ انداز میں سکھانے، قائدانہ صلاحیتوں کو اُبھارنے اور اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ مضبوط تعلقات اِستوار کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے اور جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تب بھی کھیل سکھانے اور تخلیقی و جسمانی صلاحیتوں کو اُبھارنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کھیل اور آموزش (سیکھنے کا عمل) میرے مطابق اپنے تعلیمی فہم کے اعتبار سے ہرگز دو مختلف اشیاء نہیں اور میری ذاتی رائے کے مطابق کھیل طلباء کے لیے سب اطوارِ تدریس میں سے سب سے زیادہ با اثر، آسان اور کامیاب طریقۂ تدریس ہے۔

 

(۱۴) ذہنی درجہ بندی

 

فن لینڈ کے اسکولز میں طلباء کی ذہنی سطح کے پیشِ نظر کسی بھی قسم کی ذہنی درجہ بندی کرنے کو جرم خیال کیا جاتا ہے۔ یعنی کہ وہاں طلباء کو ذہنی سطح کی نام نہاد پیمائش کے مرحلے سے گزارتے ہوئے لائق یا نالائق اور ’سکشن اے-بی-ڈی یا سی‘ جیسے طبقاتی درجوں میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ وہ اِس بات سے بخوبی طور پر آگاہ ہیں کہ ہر بچہ الگ الگ اکتسابی یا پیدائشی ’گاڈ گفٹیڈ‘ خصوصیات کے ساتھ ذہین ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ بچہ آپ کے تعلیمی یا معاشرتی اقدار کی وضع کردہ ذہانت کی ایک، دو یا چند مخصوص نشانیوں پر پورا نہ اُتر پائے، پھر اگرچہ وہ دیگر کئی حوالوں سے ذہانت کے اعلیٰ ترین مراتب پر فائض ہو لیکن کیونکہ وہ مراتب آپ کی مخصوص معاشرتی یا تعلیمی اقدار میں غیر اہم یا بے معنی ہیں لہذا وہ بچہ آپ کے نام نہاد معاشرتی یا تعلیمی معیارات کے مطابق نالائق، کُند ذہن اور بے وقوف ٹھہرایا جائے گا۔ مثال کہ طور پر اگر کوئی بچہ طبیعیات (فزکس) یا ریاضی (میتھ) جیسے اعلیٰ مراتب سائنسی مضامین میں دلچسپی یا توجہ نہ ہونے کے باعث اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا لیکن وہ مصوری (پینٹنگ)، موسیقی (میوزک) یا خطاطی جیسے اعلیٰ فہم فنی مضامین میں بہتری کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن کیونکہ اب وہ سائنسی مضامین کی دوڑ میں پیچھے ہے لہذا تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کی پالیسی ’’چند میں فیل، سب میں فیل‘‘ کے تحت اُس بچے کے نالائق، کُند ذہن اور بے وقوف ہونے پر مہر لگا دی جائے گی جبکہ اِس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے گا کہ وہ کن مضامین میں سائنسی فہم کے حامل بچوں سے بھی زیادہ ذہین و فطین ہے اور پھر اِسی صرفِ نظر اور تنگ نظری کے سبب اُس پر کسی ایک مخصوص شعبے سے وابستہ چند مضامین جبراً مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں طلباء کو ذہنی طبقاتی درجوں میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جاتا ہے اور ہر فنش طالب علم کو ذہین و فطین مانتے ہوئے اُسے پوری آزادی سے اپنے پسندیدہ مضمون میں ترقی کرنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں گویا کہ تعلیمی ترقی کے سفر میں ایک فنش طالب علم کے اساتذہ یا والدین اُس پر ہرگز اِس طرح کی آراء مسلط نہیں کرتے کہ تمہیں صرف یہی چند مخصوص مضامین پڑھ کر مستقبل میں صرف اِسے فلاں شعبے سے منسلک ہونا ہے کہ اِس کے علاوہ تمہارے پاس انتخاب کے واسطے دیگر مضامین سے متعلقہ شعبہ جات ہرگز میسر نہیں ہیں۔ بہر حال اِس ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابلِ تحریر ہے کہ کیونکہ فن لینڈ میں ایک دوسرے سے مختلف علمی ذہنیت و فہم کے حامل طلباء کو ایک ہی جماعت میں بِٹھایا جاتا ہے لہذا جب مختلف شعبہ جات یا مضامین میں ذہین لوگ ایک ہی جماعت میں علمی بیٹھک لگاتے ہیں تو اِن کے باہمی علمی مباحث اور خوش گپیوں سے نہ صرف تقابلِ علوم اور تخلیقی سرگرمیوں کے لیے ایک بہترین علمی فضاء جنم لیتی ہے بلکہ یہی علمی فضاء طلباء کو مخصوص دائرے سے باہر سوچنے، عملی مساوات اور خود اعتمادی جیسی عظیم مثبت خصوصیات عطا کرتی ہے اور یوں فنش تعلیم میں ذہنی طبقہ واری نظام کا جڑ سے خاتمہ ہو جاتا ہے۔

 

(۱۵) ۸ سالہ آزاد امتحانی دورانیہ

 

فن لینڈ کے اسکولز میں طلباء سے ابتدائی تقریباً 8 سالوں تک کسی بھی قسم کا معیاری، رسمی یا لازمی امتحان ہرگز نہیں لیا جاتا ہے۔ یعنی کہ اگر ایک بچے نے 7 سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ لیا ہے تو اُس سے پہلا باضابطہ تحریری امتحان تقریباً تقریباً 15 سال کی عمر میں لیا جائے گا۔ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے میں اساتذہ خود ہی ایک طالب علم کی کار کردگی کے معیار کو پرکھتے ہوئے، اُس کی تعلیمی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور طلباء کی غلطیوں اور کمزوریوں کو پُر امن علمی طریقے سے آگاہ کرتے ہوئے، اصلاح کی بھرپور کاوشیں کرتے ہیں نیز اِس دورانیے میں بچے کی تعلیمی کار کردگی سے والدین کو بھی مکمل طور پر باخبر رکھا جاتا ہے۔ گویا اِس 8 سالہ آزاد امتحانی طریقہ کار سے معیاری، رسمی اور باضابطہ امتحانات لیے بغیر ہی ہر سال والدین کے سامنے زبانی مشاورت یعنی والدین-اساتذہ گفت و شنید (پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ) کے ذریعے ایک سالانہ تعلیمی رزلٹ کارڈ رکھ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اِس کے عین برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک میں 3 تا 5 سالہ کم سن بچے کو اسکول میں داخلہ کروانے کے ساتھ ہی اُس سے ہر سال میں آئے روز، اَن گِنت چھوٹے، بڑے تحریری و زبانی امتحانات لیے جاتے ہیں اور خصوصاً سال کے تین ماہ بعد سہہ ماہی امتحان (فرسٹ ٹرم ایگزمز) میں ایک تہائی نصاب کا، پھر چھ ماہ بعد آدھے نصاب کا شش ماہی امتحان (مڈ سیکنڈ ٹرم ایگزیمز) کی صورت میں، اور سال کے آخر میں، اگلی جماعت میں منتقلی کا فیصلہ کن سالانہ امتحان (اینول ایگزیمز) یعنی کُل تین بڑے، لازمی اور باضابطہ امتحانات، بچوں کو جس نفسیاتی دباؤ کے شکنجے تلے جکڑتے ہوئے لیے جاتے ہیں اُس کی مکمل روداد صرف ایک الگ مضمون کی ہی متحمل ہو سکتی ہے۔

تاہم مزید یہ کہ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے کے دوران فنش طلباء کو بہترین آموزش و تعلم کے حوالے سے جو فوائد ہوتے ہیں اُن میں سب سے اہم اور بڑا فائدہ میرے مطابق یہ ہے کہ 7 تا 15 سال کے کم عمر فنش طلباء امتحانات کے ذہنی دباؤ و خوف سے بالکل آزاد ہوتے ہوئے صرف اور صرف بہترین طور پر سیکھنے اور سمجھنے پر اپنی بھرپور توجہ صَرف کر سکتے ہیں یعنی اِس حوالے سے اُن کی اولین ترجیح بغیر سوچے، سمجھے لفظی رٹا لگاتے ہوئے امتحان میں اعلیٰ نمبر یا درجے (پوزیشنز) حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ معیار کی آموزش حاصل کرنا ہوتا ہے کہ جس آموزش کا اُنھیں مکمل ادراک اور عملی اطلاق معلوم ہو اور اِسی طرح یہ 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیہ فنش اساتذہ کو بچوں کی نظریاتی بنیادیں میں ابتدائی چند اینٹیں رکھنے کے حوالے سے اِس غالب مقصد سے بھی آزاد کرتا ہے کہ جس کے زیر اثر تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے اساتذہ اپنے کم عمر طلباء کو اِس واحد غالب مقصد کے ساتھ پڑھاتے ہیں کہ اُن کے طلباء امتحانات میں اچھے نمبروں کے ساتھ ساتھ، اُن کے نام پر سو فیصد کلاس رزلٹ کی ٹرافی بھی لے آئے۔ پھر چاہے اِن نمبروں کی دوڑ میں ایک کم عمر طالب علم کی ابتدائی نظریاتی بنیادیں چاہے کتنی ہی نا پختہ، کمزور یا ادھوری نہ رہ جائیں اِس سے انھیں کوئی خاص غرض نہیں کہ اُن کے نزدیک ایک کامیاب استاد کی تدریس کے حوالے سے ترجیح اول کے طور پر یہی کامیابی ہے کہ اُس کے زیر تعلیم ایک بچہ اچھے نمبر لے کر اگلی جماعت میں منتقل ہو جائے اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے سینے پر بھی اعلیٰ نمبرز کا تمغۂ حسن کارکردگی بھی چمکا جائے۔

 نیز امتحانات کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فن لینڈ میں 15 سالہ عمر کے بعد شروع ہونے والے، زمانہ طالب علمی کے تمام چیدہ چیدہ باضابطہ امتحانات کے نتائج سر عام آویزاں ہرگز نہیں کیے جاتے ہیں تاکہ طلباء کو احساسِ ندامت یا کمتری، مقابلہ بازی اور تکبر و حسد وغیرہ کے منفی جذبات سے بچاتے ہوئے اُن کی تعلیمی کار کردگی کو مکمل راز داری سے محفوظ بنایا جا سکے۔

(۱۶) رٹا بازی کی مزاحمت

فن لینڈ میں لفظی رٹا لگانا اِک قابل مزاحمت تعلیمی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں میری لفظی رٹا لگانے کی اصطلاح سے مراد خصوصاً یہ ہے کہ ایسی معلومات یا علم جو طالب علم صحیح غور و تفکر کیے بغیر، صرف تیز زبانی کے سہارے اِس توجہ سے یاد کرے کہ اُس کا ذہنی حافظہ بمشکل صرف الفاظ یا جملوں کی ترتیب کو محفوظ کر پائے ناکہ معلومات یا علم کے حقیقی فہم یا مطالب کو سمجھے۔ لہذا اہلِ فن لینڈ بھی لفظی رٹا بازی کی اِسی تعریف کے پیشِ نظر یہ بات بخوبی طور پر جانتے ہیں کہ لفظی رٹا بازی سے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے طلباء امتحانات میں با مشقت طریقے سے اعلیٰ نمبر یا ایک کھوکھلی کاغذی سند تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن معلومات یا علم کے حقیقی فہم اور علمی اطلاق کا عشر عشیر بھی حاصل کر نہیں پاتے ہیں کہ جس سے طالبانِ علم صرف انسان نما روبوٹ یا وکی- پیڈین طلباء کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں یعنی وکی- پیڈین طلباء کی میری اِس نئی تجویز کردہ اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ جن طلباء کے پاس دنیائے جدید کے سب سے مشہور اور بڑے مخزن العلوم وکی-پیڈیا (انسائیکلوپیڈیا آف وکی-پیڈیا) طرز کا الفاظ اور جملوں پر مشتمل منظم مواد تو بڑی تعداد میں موجود ہوتا ہے لیکن اُنھیں جملوں یا الفاظ پر مبنی علم کا زندگی میں عملی و نظریاتی اعتبار سے بروقت و مناسب استعمال ہرگز معلوم نہیں ہوتا ہے۔ آپ اِس اصطلاح کو اِس مثال سے بھی، کچھ یوں با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی کے عملی و نظریاتی ہر دو میدانوں میں وکی-پیڈین طلباء کے پاس کثیر تعداد میں موجود، لفظی رٹا بازی کے سہارے حاصل کردہ معلومات کی مثال ایسے حسین مردہ جسم کی سی ہے کہ جس میں روح نہ ہو لیکن اُس کی ظاہری کھوکھلی خوبصورتی چند لمحوں کے لیے ظاہری حسن پرستوں کے لیے دلفریب بن جائے البتہ روح نہ ہونے کے باعث وہ خوبصورت لیکن مردہ جسم جلد ہی اپنی بدبو کے باعث ظاہری حسن پرستوں کے لیے بھی آخرکار مستقل طور پر بے رغبتی اور ناپسندیدگی کا محور بن جائے یعنی عین اِسی طرح لفظی رٹا باز، وکیپیڈین طلباء بھی اپنے ظاہری یا کھوکھلے حسن کی بناء وقتی طور پر ظواہر پرست عوام الناس کو فریب دہی سے متاثر کرتے ہوئے ایک محدود پیمانے پر فائدہ تو دئے دیتے ہیں لیکن مستقل طور پر ایک بے روح، مردہ علمی وجود ہونے کی بناء پر بہت جلد ہی لوگوں کے لیے بے رغبتی اور ناپسندیدگی کا محور بن جاتے ہیں۔ لہذا اِسی سارے مقدمے کے پیش نظر فنش اساتذہ اپنے طلباء کو مختلف موضوعات اور مضامین کو ایسے اطوارِ تدریس سے سکھاتے ہیں کہ وہ طلباء کو اِس حد درجہ ذہن نشین ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے انداز یا الفاظ میں اُس متعلقہ موضوع کو نہ صرف بیان کرنے کی بدرجہ اَتم صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ طلباء میں اُس موضوع یا مضمون سے متعلقہ اِتنا اعلیٰ قابلیت کا معیار پیدا کر دیا جاتا ہے کہ وہ نصابی کتب کے محدود دائرے سے ہٹ کر بھی اپنے آزادانہ زاویہ نگاہ سے اُس موضوع میں جدت پیدا کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ اِسی تخلیقی صلاحیت کی بناء پر ایک دلچسپ فرق بھی یہاں عرض کرتا چلوں کہ میرے مطابق فن لینڈ کی رسمی تعلیم اور دیگر تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کی رسمی تعلیم میں اِس حوالے سے یہی بنیادی فرق ہے کہ دیگر تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے طالب علم نصابی کتب کی پیدا کردہ ایک محکوم مخلوق ہوتے ہیں جبکہ فن لینڈ کے طالب علم نصابی کتب کے ایک جدت پسند خالق ہوتے ہیں۔

 

(۱۷) پیشہ ورانہ تعلیم

پیشہ وارانہ تعلیم (وُکیشنل ایجوکیشن) بنیادی طور پر ایسی تعلیم ہے کہ جو لوگوں کو مختلف ہنر یا ملازمتوں جیسے تجارت، دستکاری یا بطور ٹیکنیشین کام کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اِسی بنا پر پیشہ ورانہ تعلیم کو اکثر تعلیمِ ہنر، فنی یا تکنیکی (ٹیکنیکل) تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تعلیم عالمی سطح پر اُن طلباء کے مالی مستقبل اور ذہنی ہم آہنگی کے لیے نہایت کار آمد تصور کی جاتی ہے کہ جن کا شوق عام رسمی تعلیم سے ہٹ کے تعلیمِ ہنر سیکھنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ پیشہ وارانہ تعلیم کا ایک عمومی تعارف ہے اور فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں اِسی پیشہ وارانہ تعلیم کو نہایت اعلیٰ اہمیت و افادیت حاصل ہے یعنی فن لینڈ میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو سائنسی علوم کی تعلیم کی طرح ہی قابل رشک اور عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایک فنش طالب علم کو اسکول کی نو سالہ ابتدائی تعلیم کے بعد سولہ سال کی عمر میں ہی یہ اختیار دے دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو باقاعدہ رسمی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرے یا پھر وہ اعلیٰ یونیورسٹی تعلیم کا انتخاب کرے۔ البتہ اعلیٰ یونیورسٹی تعلیم سے پہلے ثانوی تعلیم میں بھی فنش طلباء کو پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر سے اخذ کردہ بنیادی فنی صلاحیتیں سکھا دی جاتی ہیں۔ جو کہ روز مرہ کی عملی زندگی میں اُن کے لیے نہایت معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً دیوار میں کیل لگانا یا سوراخ کرنا، لکڑی یا دیگر دھاتوں سے بنی اشیاء کی مرمت کرنا اور مختلف پیشہ وارانہ ہتھیاروں کا عملی استعمال کرنا وغیرہ۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر صرف ملکی دساتیر کے اوراق تلے دب کے رہ گئی ہے اور ہمیں وہاں حکومتی سرپرستی میں رسمی پیشہ وارانہ تعلیم ہنر کا حقیقی طور پر، عملی نفاذ دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔ کہ اُن ممالک میں عام طور پر بچوں کو پیشہ وارانہ تعلیم نہایت غیر صحت مندانہ اور غیر رسمی طریقے سے دی جاتی ہے اور آج اِسی وجہ سے اُن ممالک میں عام معاشرتی سطح پر پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو اکثر مجموعی طور پر چائلڈ لیبر کے زیرِ اثر شمار کیا جاتا ہے۔ نیز پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کے طلباء کو اَن پڑھ مزدور اور گنوار کہا جاتا ہے اور پیشہ ورانہ تعلیم ہنر کے کسی شعبے میں مہارت یافتہ آدمی کو سند یافتہ یا پڑھا لکھا آدمی کہنے کی بجائے ناخواندہ کاری گر کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ لہٰذا پھر اِسی طبقاتی تقسیم کی بنا پر اِن تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں ایک غیر رسمی پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر سے فارغ التحصیل کاری گر اور عام رسمی تعلیم سے فارغ التحصیل سند یافتہ آدمی کی ماہانہ آمدن، معاشرتی عزت و اقدار، رہن سہن اور طرزِ زندگی میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے جو کہ امیر اور غریب کے بدترین طبقاتی نظام کو جنم دینے کا ایک اہم باعث بنتا ہے اور اِسی طبقاتی نظام کی بدولت پھر اُن ممالک میں عوامی سطح پر پیشہ وارانہ تعلیم ہنر کو نہ صرف سرے سے تعلیم ہی نہیں گردانا جاتا، بلکہ رسمی تعلیم کے مد مقابل اِس کی اہمیت کو نہایت پست ترین اور آخری درجوں میں رکھا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ تعلیمی حوالے سے پسماندہ ممالک میں آج پیشہ ورانہ تعلیم مجموعی طور پر نہایت غیر صحت مندانہ اور چائلڈ لیبر کے زیر اثر دی جاتی ہے لہٰذا یہ صرف مالی مستقبل کے اعتبار سے غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کے لیے مختص کر دی گئی ہے کہ حکمران طبقہ یا امراء اپنے بچوں کو غیر رسمی پیشہ وارانہ تعلیم سے نوازنے کو اپنی بد ترین تذلیل اور خاندانی پستی شمار کرتے ہوئے اِسے کمی کمین کی مفلوج تعلیم کہتے ہیں۔

(۱۸) غیر معمولی آموزش (فِینامینا بیسڈ لرنگ)

2016-17ء میں فن لینڈ نے دنیا کے سب سے جدید، غیر روایتی اور انقلابی طریقۂ تدریس ’غیر معمولی آموزش‘ (فِینامینا بیسڈ لرنگ) کو متعارف کروایا اور آج جہاں فن لینڈ کا سارا تعلیمی نظام غیر معمولی آموزش (فِینامینا بیسڈ لرنگ) کے پُر کشش علمی مدار کے گرد گھوم رہا ہے، تو وہیں تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک سے لے کر، ترقی یافتہ ممالک تک سب اِس کی بے مثال تدریسی جدت و ندرت اور اعلیٰ تاثیر کی بے تحاشہ کششِ ثقل کے علمی مدار میں جکڑتے ہوئے، مداح سرائی کرنے پر مجبور ہیں۔

دراصل غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس کا ایسا غیر روایتی، انقلابی اور عملی نظام ہے کہ جس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ طلباء کو صرف کتابی معلومات یا درسی کتب (ٹیکسٹ بُکس) سے، مختلف اور الگ الگ مضامین و علوم کی تقسیم تلے سکھانا نہایت غیر مناسب اور روایتی تدریسی عمل ہے۔ لہذا غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس کے مطابق ہمیں طلباء کو مختلف مضامین/علوم کو با حیثیت الگ الگ پڑھانے کی بجائے، مختلف مضامین و علوم کی وضع کردہ مخصوص سرحدوں کو توڑتے ہوئے اور مختلف مضامین و علوم کے نظریات کا غیر منقسم وسیع مطالعہ کرتے ہوئے، صرف ایک موضوع یا مسئلے کی وحدت تلے تقابلِ علوم کی تکنیک و طریقۂ کار سے پڑھنا چاہیے۔ یعنی اِس طریقۂ تدریس و تعلم میں تمام مضامین و علوم کو ایک موضوع و مسئلے کی یک جہتی تلے سمو کر تجزیہ و حل پیش کیا جاتا ہے کیونکہ فنش تعلیمی ماہرین کے مطابق جب زندگی مختلف مضامین و علوم کی مخصوص سرحدوں میں قید ہو کر ترتیب وار امتحان نہیں لیتی، بلکہ آزادانہ طور کئی مضامین و علوم میں سے نظریات کو گتھم گتھا کرتے ہوئے مسائل کو اٹھائے دیتی ہے اور جب کسی انسان کو زندگی کے عملی میدان میں حقیقی مسائل درپیش آتے ہیں تو وہ اپنے تمام حاصل کردہ علوم سے بحیثیت کُل نتیجہ اخذ حاصل کرتے ہوئے رہنمائی حاصل کرتا ہے تو پھر سیدھی سی بات ہے کہ دنیا کے روایتی طریقۂ ہائے تدریس طلباء کو کسی موضوع یا مسئلے کے تجزیے و حل کے واسطے، جزوی اعتبار سے یعنی الگ الگ مضامین سے جزوی نتائج تلے رہنمائی کیوں دیتے ہیں؟ لہٰذا زندگی کے عملی میدان میں اِسی روایتی طریقۂ تدریس تلے غیر عملی رہنمائی سے چھٹکارہ پانے کے لیے ہم نے زندگی کے عملی میدان کے حقیقی مسائل و موضوعات سے عین موافق طریقہ تدریس ’غیر معمولی آموزش‘ (پی-ایچ-بی-ایل) کو متعارف کروایا ہے۔

تاہم مزید یہ کہ طلباء کو صرف کتابی معلومات یا درسی کتب (ٹیکسٹ بُکس) سے سکھانا اِس حوالے سے بھی غیر مؤثر اور پریشان کُن ہے۔ کہ اِس سے طلباء اِس ذہنی اُلجھن میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ اِس کتابی یا لفظی معلومات کا حقیقی زندگی کے عملی میدان میں عملی اطلاق (پریکٹیکل ایپلیکیشن) کہاں ہے؟ لہٰذا غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس کے مطابق ہمیں طلباء کو صرف کتابی اور لفظی معلومات دینے کی بجائے، اُن کی عمر اور ذوق کے پیشِ نظر، زندگی سے متعلقہ حقیقی موضوعات اور حقیقی مسائل (رِیل ورلڈ پرابلمز) دینے چاہیے۔

غیر معمولی آموزش (رِیل ورلڈ پرابلمز) طریقۂ تدریس میں تحقیق و تعلم کے کئی مراحل ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے میں مسئلے یا موضوع کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر طلباء اُس موضوع یا مسئلے پر باہمی تعاون ’گُروپ ورک‘ کی مدد سے علمی تحقیقات کا آغاز کرتے ہیں اور دورانِ تحقیق مختلف مشاہدات اور تجربات کے تحت اُس موضوع یا مسئلے کا تفصیلی، تنقیدی اور تقابلی تجزیہ کرتے ہیں اور آخرکار سب طلباء مل کر اُس مسئلے یا موضوع سے متعلق ایک ختمی نتیجہ یا جامع رپورٹ مرتب کرتے ہیں جس میں اُس مسئلے یا موضوع کا نہ صرف حل و جواب پیش کیا جاتا ہے بلکہ اُس زیرِ تحقیق مسئلے و موضوع کی تنقیدی و تقابلی نقطۂ نظر سے ساخت، تاریخ، احساسیت، وجوہات، اہمیت و افادیت، فوائد و نقائص پر بھی بھرپور روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ طلباء اُس رپورٹ کی حقانیت مختلف مضامین/علوم کے نظریات اور طریقۂ کار سے بھی استفادہ کرتے ہوئے، بحیثیت کُلی ثابت کرتے ہیں اُور سب سے آخری مرحلے میں یہ رپورٹ اساتذہ کو مختلف رائج طریقوں سے پیش کر دی جاتی ہے اور پھر اساتذہ اِس رپورٹ کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اِس پر کوئی اصلاحی یا حوصلہ افزاء تبصرہ فرما دیتے ہیں۔ اب جیسا کہ آپ نے یہ بغور ملاحظہ فرما ہی لیا ہو گا کہ ’پی-ایچ-بی-ایل‘ طریقۂ تدریس و تعلم کے اِن سارے مراحل میں اساتذہ کا کردار معلومات کے فراہم کنندہ کی بجائے صرف پسِ پشت رہنما یا رہبر کی حیثیت سے کام کرتا ہے یعنی کہ اگر اِس حوالے سے یوں کہا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہو گا کہ غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس میں طلباء خود کو خود ہی سکھاتے ہیں اِس کی بجائے کہ وہ اپنے کسی استاد سے روایتی طور ہر سیکھتے ہوئے ہر آن اُس کے محتاج و لکیر کے فقیر بنے رہیں، اور یاد رہے کہ غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) ہمیشہ بنیادی طور پر عملی طریقے کار پر ہی منحصر ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ آموزش ہمیشہ نہایت سنجیدہ طریقۂ کار سے سیکھی جائے بلکہ اکثر کھیل یا ظرافت کے طرز پر بھی منحصر ہوتی ہے۔ البتہ یہ اصول طے ہے کہ اگرچہ یہ سنجیدہ ہو یا مضحکہ خیز لیکن صرف لفظی و کتابی آموزش کی بجائے اِس کا دارومدار عملی اطلاق (پریکٹیل ایپلیکیشن) اور حقیقی مسائل (رِیل ورلڈ پرابلمز) پر مبنی آموزش پر ہی ہوتا ہے۔

اگر غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) کے فوائد و ثمرات پر بات کی جائے تو اِس طریقۂ کار کے کثیر ترین اور جامع فوائد ہے لیکن کیونکہ اِن سب کا مکمل احاطہ کرنا اِس مضمون میں ممکن نہیں لہذا صرف چند اہم اور بنیادی فوائد کا یہاں تذکرہ کرنا مناسب رہے گا۔ غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس فنش طلباء میں نہ صرف تخلیقی، تقابلی اور تنقیدی سوچ کی نشو و نما کرتا ہے بلکہ اُنھیں جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم سے باہمی تعاون تلے اجتماعی تحقیق (گروپ ری-سرچ) کرنے، طلباء میں دوستانہ علمی ماحول کو برقرار رکھنے، عملی اور تجرباتی اعلیٰ ذہنیت کی تعمیر و تشکیل کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور دیر-پا آموزش کی ذہن نشینی کو بھی یقینی بناتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنھیں اساتذہ کے وضع کردہ دائرے کے باہر خود مختاری اور آزادی سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی بخشتا ہے۔ لہذا میں اِنھی سب اسباب و فوائد اور درج ذیل بالا سارے مقدمے کی بنا پر غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس کو کسی موضوع یا مسئلے میں ایک حد درجہ پی۔ ایچ ڈی کرنے کے مترادف سمجھتا ہوں اور اِسی ضمن میں غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) کی مختصر لیکن جامع اور آسان فہم تعریف بھی پیشِ خدمت ہے کہ غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) دراصل کسی مسئلے یا موضوع میں تنقیدی، تقابلی، تخلیقی اور عملی طریقہ کار سے اعلیٰ فہم حاصل کرنے کا نام ہے۔ عرض خلاصۂ کلام یہ کہ اگر درج ذیل بالا تمام تر مقدمے کو ذہن نشین رکھ کر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ’پی-ایچ-بی-ایل‘ طریقۂ تدریس و تعلم نہ صرف صدیوں پرانے روایتی، بوسیدہ اور کتابی طریقہ تدریس و تعلم کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہے بلکہ یہ آج کا وہ ہمہ پہلو جدید ترین اور انقلابی طریقۂ تدریس و تعلم ہے کہ جو میرے مطابق مستقبل میں فن لینڈ کی سرحدوں سے باہر بھی تعلیمی لحاظ سے ترقی پذیر ممالک کا ایک متفقہ طریقۂ تدریس و تعلم بنے گا۔

 

(۱۹) شعبۂ معلمی (ٹیچنگ پروفیشن)

 

تحریر کے اِس نکتے پر پہنچ کر میرے ذہن میں یہ مشہور محاورہ پوری شدت کے ساتھ گونج رہا ہے کہ ’شعبۂ معلمی، پیشۂ پیغامبری ہے۔‘ لیکن اگر آپ محاورات کی مثالی اور خیالی دُنیا سے باہر جھانک کر دیکھنا پسند فرمائیں تو آپ کو یہ ہیبت ناک منظر بھی دکھائی دئے گا کہ آج تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں یہی پیشۂ پیغامبری، یعنی شعبۂ معلمی (ٹیچنگ پروفیشن) اہل اور نا اہل کی تمیز کو روا رکھے بغیر عموماً سر عام نیلام ہو رہا ہے۔

لیکن مجھے اِس سے بھی زیادہ یہ بات قابلِ تشویش لگتی ہے کہ پسماندہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں قانونی طور پر بھی ایک استاد کی اہلیت کو بھانپنے کا معیار تعلیمی اسناد پر مشتمل صرف ایک کاغذی سی-وی (کیریکولم ویٹا) پر ہی تو ہوتا ہے یعنی عموماً وہاں اساتذہ کے انتخاب کے وقت صرف ایک کاغذی سی-وی میں درج تحریری قابلیت کو ہی کو مرکزی اور اولین ترجیح بنایا جاتا ہے اور اِس کے بعد دیگر تمام تر وہ عناصر کہ جو ایک اچھے استاد کے انتخاب میں انتہائی ضروری اور اہم ترین تصور کیے جاتے ہیں مثلاً کسی اُمیدوار کی اخلاقی اقدار، علمی ذہانت، وسیع النظری ’آؤٹ آف باکس‘، جدت پسندی وغیرہ اور دیگر بہت سے نفسیاتی و علمی معیارات کو اکثر یا تو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے یا پھر اِن عناصر پر ایک سرسری اور نامکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ یعنی کہ انتخاب کے وقت ایک اعلیٰ کاغذی سی-وی آنے کے بعد اِن تمام عناصر کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ جبکہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں تعلیمی اسناد پر مشتمل اِن کاغذی سی-ویوں کی علمی وقعت صرف برائے نام حیثیت کی حامل ہوتی ہے اور یہ کسی امیدوار کی علمی شخصیت کی مکمل عکاسی ہرگز نہیں کر سکتی ہے کیونکہ آپ اِن ممالک میں مختلف تعلیمی اسناد کو لفظی رٹا بازی یا فریب دہی و نقالی سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لہذا جہاں کی تعلیمی اسناد انسانی کردار یا ذہانت میں کوئی متوقع اور موثر تبدیلی لائے بغیر بھی آسانی سے حاصل ہو سکے، وہاں شعبۂ معلمی کے امیدواروں کی دیگر غیر تحریری قابلیتوں کو پرکھے بغیر اُسے صرف سی-وی میں درج تعلیمی اسناد کی بناء پر مسندِ تدریس یعنی استاد کے رتبے پر بیٹھا دینا، سراسر پیشۂ پیغامبری کی تقدیس اور قوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ نیز پھر یہی وجہ ہے کہ آپ کو شعبۂ معلمی میں اِس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اور مفلوج انتخاب کے زیرِ اثر تعلیمی اداروں میں استاد کے مقدس لبادے میں چھپے ہوئے، طلباء کو ذہنی طور پر ہراساں کرنے والے جلاد بھی ملیں گے اور طلباء کی چمڑی اُدھیڑ کے رکھ دینے والے پُر تشدد اندھے قاتل بھی۔

لیکن اِس کے عین برعکس اگر آپ فن لینڈ میں ہیں تو وہاں پیشۂ پیغامبری (ٹیچنگ پروفیشن) کی یہ تذلیل آپ کو کہیں دُور دُور تک نظر نہیں آئے گی کیونکہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں ایک استاد کا درجہ و رتبہ ہر اعتبار سے سب سے اہم اور بلند ترین ہوتا ہے اور اُنھیں بطورِ استاد تمام شعبہ جات سے وابستہ ماہرین کا خالق تصور کرتے ہوئے عزت و تکریم کی سب سے اُونچی مسند پر بٹھایا جاتا ہے کہ جہاں ریاست کے حاکم وقت سے لے کر عدلیہ کے حج اور فوج کے سپہ سالار تک سبھی حقیقی معنوں میں آداب بجا لاتے ہیں۔ اِسی بلند تکریم کے سبب حکومت کی جانب سے تمام اساتذہ کو خطیر تنخواہوں سے نوازا جاتا ہے۔ جو اساتذہ کی قابلیت، تجربے و عہدے کے اعتبار سے کم از کم 1,750 یورُوز تنخواہ سے شروع ہوتی ہوئی، عمومی اوسط تنخواہ 3,570 یورُوز سے گزرتی، اعلیٰ ترین سطح پر 5,570 یورُوز تنخواہ تک جا پہنچی ہے کہ یہ خطیر الرقم تنخواہیں کسی طور سے بھی دیگر تمام شعبہ جات سے وابستہ فنش ماہرین مثلاً: آرمی، ڈاکٹرز، انجنئیرز، پولیس، اور وکلاء وغیرہ کی تنخواہوں سے کم نہیں ہیں بلکہ اگر آپ اِسے فنش معاشرے میں پیشۂ مُعلمی کو عطا کردہ عزت و منزلت کے بھاری بھرکم وزن کے ساتھ، دولت کے ترازو میں تولیں، تو یقیناً آپ کو واضح طور پر صرف ایک فنش استاد کی اکیلی تنخواہ ہی سب تنخواہوں پر بھاری و بھرکم اور مقدم محسوس ہو گی۔

فن لینڈ میں اساتذہ کے تدریسی گھنٹے (ورکنگ ہارز) ایک دن میں 75 منٹ کی وقفہ دار تفریح تلے تازہ دم ہوتے ہوئے، تقریباً 4 گھنٹے، یعنی ہفتے میں صرف پانچ دن اور کُل بیس گھنٹے مقرر کیے گئے ہیں۔ تاکہ فنش اساتذہ مسلسل تدریس کے نفسیاتی الجھاؤ و دباؤ سے آزاد ہو کر، مختصر لیکن جامع وقت میں سلسلۂ تدریس کو اپنی پوری قابلیت، متانت و خوش اسلوبی کے ساتھ رواں رکھ سکیں۔ جبکہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اساتذہ کے تدریسی گھنٹے (ورکنگ ہارز) خطرناک ترین حد تک بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور وہ اِس طرح کے ایک دن میں ایک استاد کو صرف بمشکل 20,30 منٹ کی تفریح تلے لگاتار تقریباً 6,5 گھنٹوں تک پِیسا جاتا ہے پھر ٹیوشنز کے نام پر مزید 4,5 گھنٹوں تک الگ سے اُس کی حسبِ توفیق چٹنی پیسی جاتی ہے جبکہ طلباء سے لیے گئے آئے روز پرچوں کی جانچ پڑتال، حاضری رجسٹر کا ریکارڈ اور حسب موقع نہ جانے کیا کیا کچھ اساتذہ کے لیے الگ سے وقت طلب و دقیق ہوم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔

فن لینڈ میں اساتذہ سے محاسبہ و احتساب کا کوئی روایتی یا عملی نظام ہرگز موجود نہیں ہے۔ احتساب و محاسبہ کے مرحلے سے نہ گزارنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اُنھیں مطلق العنان بادشاہوں کی طرح، اُن کے اختیارات سمیت بالکل کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اُن سے غلط طریقۂ تدریس، یا غیر ذمہ دارانہ رویے پر باز پرس کر سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ فنش والدین اپنے بچوں کے حوالے سے اساتذہ کی تدریس میں عدم مداخلت کا اصول اِس مضبوط اعتماد کے سہارے تلے اپنائے ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے بچوں کا استاد فنش تعلیمی اداروں کے کٹھن انتخابی معیارات سے گزر کر منتخب ہوا ہے تو باقی پھر ہمیں اُس کے متعلق کسی بھی اخلاقی یا علمی پہلو سے تفتیش و محاسبہ کی ضرورت ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ تفتیشی کام ہم سے بہت پہلے باصلاحیت و ماہر تفتیشی افسران کر چکے ہیں لہذا ہم اُن کے شفاف انتخاب تلے اپنے بچوں کے استاد پر مجموعی طور پر مکمل اعتبار و اعتماد کرتے ہوئے اُن کے طریقہ تدریس میں عدم مداخلت کے اصول کو اپناتے ہیں اور اُن کی اخلاقی اور علمی قابلیت پر اعتماد کرنے کے بعد، ہمارا یہ اعتراف عین حق بجانب ہے کہ ہم بحیثیت والدین اساتذہ کی طرح فنِ تدریس میں اتنے ماہر نہیں ہیں کہ اساتذہ کو یہ پڑھا سکیں کہ پڑھایا کیسے جاتا ہے؟ لہذا ایک فنش استاد جو بھی ہمارے بچوں اور اپنے طلباء کے حق میں کرے گا، بہتر ہی کرے گا۔ عین اِسی طرح فنش والدین کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ اور اربابِ اختیار بھی ایک فنش استاد کے طریقۂ تدریس میں عدم مداخلت کی پالیسی کو، اعتماد کی مضبوط رسی سے تھامے ہوئے ہیں کہ اُن کے بقول اگرچہ کہ ہم ایک استاد کے انتخاب کے حوالے سے نہایت محتاط اور سخت ہے لیکن ایک استاد کے انتخاب کے بعد بے جا مداخلت کیے بغیر، اُس کو مکمل آزادی اور خود مختار انفرادیت کے ساتھ پڑھانے دینا اُس کا عین حق ہے۔ نیز ہمارا ایک استاد پر اِس قدر مضبوط اعتماد کی ایک اہم پس پردہ وجہ اساتذہ کو لگاتار دی جانے تربیتی ہدایات (ٹیچرز ٹریننگ) بھی ہیں۔

شاید یہی وہ تمام وجوہات ہے کہ فن لینڈ میں شعبۂ معلمی (ٹیچنگ پروفیشن) میں داخل ہونا ہرگز کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر روز فن لینڈ میں ہزاروں انتہائی اعلیٰ سند یافتہ اور بھاری بھرکم سی-ویوں کے حامل افراد فنش شعبۂ معلمی میں بطورِ امیدوار، ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہیں لیکن اُن میں سے بمشکل صرف چند سو سب سے بہترین امیدوار ہی فن لینڈ کے تعلیمی اداروں کے ہمہ پہلو پرکھتے، انتخابی معیارات پر اُتر کر مسندِ معلمی یعنی استاد کے رتبے تک پہنچ پاتے ہیں۔ کیونکہ فن لینڈ میں آپ کو ایک استاد بننے کے لیے کم ازکم ماسٹر ڈگری کے ساتھ ساتھ تدریس شروع کرنے سے پہلے لمبی مدت کا ایک تربیتی کورس بھی چاہیے۔ یہ تربیتی کورس (ٹیچرز ٹریننگ) کے ضمن میں شعبۂ مُعلمی کے امیدواروں کو پڑھایا جاتا ہے، جو کہ ملازمت کے بعد بھی ہر ہفتے میں دو گھنٹے تواتر اور باقاعدگی کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔ اِس تربیتی کورس (ٹیچرز ٹریننگ) میں اساتذہ کو بنیادی طور پر یہ سکھایا جاتا ہے کہ پڑھایا اور سکھایا کیسے جاتا ہے؟ اور اِس مقصد کے لیے مختلف ماہرینِ تعلیم کی مدد لیتے ہوئے تمام نو وارد سمیت تجربہ کار اساتذہ کی بھی نہایت جامع علمی، نفسیاتی اور اخلاقی تربیت کی جاتی ہے جس میں اُنھیں مختلف اطوارِ تدریس اور تدریس اور طلباء سے وابستہ نفسیاتی، اخلاقی اور دیگر تمام علمی پہلوؤں و مسائل سے مکمل طور پر آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی جماعت میں ہر ذہنی معیار (مینٹل لیول) کے طالب علم کے لیے ہر لحاظ سے ایک قابلِ فہم، مفید، اور شفیق استاد ثابت ہو سکے۔ نیز میرے مطابق اساتذہ کو اِس تربیتی (ٹیچرز ٹریننگ) سکھانے کے جو دو سب سے بڑے اور بنیادی فائدے ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ طلباء اور اساتذہ کے مابین نسل در نسل آنے والے ذہنی فاصلوں (جنریشن گیپ) کے سبب جو مشکلات سِیکھنے اور سکھانے کے حوالے سے رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں، اُن تمام ذہنی فاصلوں کو یہ تربیتی کورس حتیٰ الامکان ختم کر دیتا ہے۔ جس کی بدولت اساتذہ زمانے کی جدت کے پیشِ نظر طلباء کی جدید فکری اور نظریاتی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے بہترین طور پر سکھانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ باہمی غلط فہمیوں اور بے جا تکلفات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ اِس تربیتی کورس (ٹیچرز ٹریننگ) کا یہ ہوتا ہے کہ فنش اساتذہ دورانِ تدریس بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں یعنی کہ یہ تربیتی کورس اُن میں کھبی ایک طالب علم کی متجسس اور محققانہ طبیعت کو مرنے نہیں دیتا، جس کی بدولت وہ اِس غرور اور فریب میں مبتلاء نہیں ہو پاتے کہ بطورِ استاد اُن کا حاصل کردہ علم ہر قسم کی تنقید یا اصلاح سے پاک ہوتے ہوئے حرف آخر ہے۔ تاہم مزید یہ کہ فنش تعلیمی نظام کے زیرِ انتظام شعبۂ معلمی کے ضمن میں یہاں یہ غیر روایتی بات بھی قابل ذکر ہے کہ فنش اسکولز میں ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختصص اساتذہ یعنی (سپیشلسٹ ٹیچرز) رکھنے کی بجائے، تمام مضامین کے لیے، 6 سالوں تک، صرف ایک ہی استاد رکھا جاتا ہے جو کہ شاملِ نصاب تمام مضامین کو نہایت اعلیٰ افہام اور ماہرانہ طریقۂ تدریس کے ساتھ پڑھاتا ہے جبکہ اِس کے برعکس ہمارے روایتی تعلیمی نظاموں میں ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختصص استاد (سپیشلسٹ ٹیچرز) کو رکھا جاتا ہے اور وہی روایتی دلیل دی جاتی ہے کہ ’جس کا کام اُسی کو ساجھے‘ لہذا ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختصص استاد (سپیشلسٹ ٹیچرز) رکھنا ہی بہتر ہے اور شاید تعلیمی لحاظ سے ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کے اسکولز منتظمین اِس حوالے سے اپنی جگہ پر بالکل سچے ہوتے ہیں کہ بقول اُن کے ہمارے پاس ایسے قابل اساتذہ کی شدید کمی ہوتی ہے جو کہ ’ہر فن مولا‘ کے محاورے پر مصدق آتے ہوئے کئی سالوں تک شاملِ نصاب تمام مضامین کو بخوبی طور پر پڑھا سکیں، لہذا ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختصص اساتذہ (سپیشلسٹ ٹیچرز) رکھنا، ہماری آزادانہ مرضی نہیں بلکہ مجبوری ہوتی ہے۔ واقعی ہی یہ دلیل اُن معاشروں میں کافی حد تک معقول اور قابلِ قبول ہو سکتی ہے کہ جہاں تدریسی نقطۂ نظر سے اساتذہ شاملِ نصاب مضامین میں سے صرف ایک یا بمشکل دو، تین مضامین میں ماہرانہ تدریسی خصوصیات کے حامل ہوں اور دیگر شاملِ نصاب مضامین میں نہ ہونے کے برابر یا سرسری سی واقفیت رکھتے ہوں لیکن جیسا کہ اُوپر بیان ہو چکا ہے کہ فن لینڈ میں اساتذہ کا علمی دائرہ کار نہایت وسیع النظر اور جامع العلوم ہوتا ہے لہٰذا وہ ایک سے زائد کئی مضامین/علوم پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہوئے بآسانی تمام مضامین کو مختصص اساتذہ (سپیشلسٹ ٹیچرز) سے بھی بہتر طور پر تدریس کر سکتے ہیں۔ بہتر طور پر اِس لحاظ سے کہ الگ الگ مضامین پڑھانے والے مختصص اساتذہ جماعت میں صرف تقریباً 45 منٹ گزارتے ہیں اور اِس محدود دورانیے میں وہ ایک طالب علم کی ذہانت، شخصیت اور نفسیات کو صرف اپنے مضمون میں حاصل کردہ کار کردگی پر تولتے ہوئے اُس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر اُسی رائے کے تحت اُس سے شفقت آمیز یا تحقیر آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ جبکہ ظاہری سی بات ہے کہ کسی طالب علم کی مجموعی طور پر ذہانت، شخصیت اور نفسیات وغیرہ کو اِس قدر مختصر دورانیے میں ایک محدود نقطۂ نظر پر تولتے ہوئے، ایک نام نہاد تجزیاتی رائے دینا، صرف تنگ نظری پر مبنی جہالت کے ماسواء کچھ نہیں ہے لیکن یہ تجزیاتی رائے دینا اُس 6 سالوں تک تمام مضامین پڑھانے والے، مستقل مزاج استاد کے لیے ہرگز کوئی مشکل کام نہیں ہے جو کہ ہر ایک الگ الگ مضمون میں اپنے ایک طالب علم کی کار کردگی کو بخوبی طور پر جانتا ہے اور اِسی بناء پر وہ اُس طالب علم کی مجموعی طور پر شخصیت، ذہانت و نفسیات کے متعلق نہ صرف ایک نہایت جامع رائے دے سکتا ہے، بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُسے کہاں، کس مضمون میں کتنی توجہ درکار ہے اور اُس کا مجموعی طور پر سِیکھنے اور سمجھنے کا ذہنی فہم کس معیار کا حامل ہے لہذا میں نے بطورِ استاد کس مناسب انداز یا طریقۂ تدریس سے اپنے اِس طالب علم کے ذہنی معیار سے ہم آہنگ ہو کر فلاں، فلاں مضمون میں اِس کی کمزوریوں اور کج فہمیوں کو دُور کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ فنش شعبۂ معلمی میں یہ 6 سالہ مدت ایک استاد اور طالب علم کے مابین ذہنی و دلی ہم آہنگی، پُر محبت اور حد درجہ دوستانہ تعلقات کی فضاء بندی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

 

(۲۰) تعلیمی امداد اور قرضے

 فن لینڈ میں طلباء کو تعلیمی امداد یا قرضوں کی فراہمی کی ایک باقاعدہ تاریخ رہی ہے۔ جس کی ابتدا 1969ء میں طلباء کو فنش حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے ابتدائی تعلیمی قرضوں سے ہوتی ہے۔ جبکہ بعد ازاں 1972ء میں طلباء کو تعلیمی قرض کے ساتھ ساتھ تعلیمی امداد کی فراہمی کو باقاعدہ طور پر یقینی بنایا گیا۔ تعلیمی قرض کی واپس ادائیگی کو فنش طلباء کے لیے مزید آسان اور معاشی بوجھ سے آزاد بنانے کے لیے 1983ء میں تعلیمی قرض پر رعایتی شرح متعارف کروائی گئی۔ 1992ء میں طلباء کی مالی امداد کے حوالے سے ایک بڑی انقلابی اصطلاح نافذ کی گئی کہ جس کے تحت طلباء کی تعلیمی امداد کے لیے تعلیمی قرض سے متعلقہ جو متناسب رقم مقرر کی گئی تھی، اُس رقم میں مزید اضافہ کر دیا گیا اور اِسے قانونی طور پر محصول کا پابند بناتے ہوئے تعلیمی قرض کی رعایتی شرح کو کمرشل تعلیمی قرض (کمرشل سٹوڈینٹ لون) میں بدل دیا گیا اور یوں فن لینڈ نے اِن سارے تاریخی تجربات کے سفر سے گزرنے کے بعد اپنے طلباء کی مالی امداد کو طلباء کی اہلیت کے معیار اور نتائج سے مربوط کر دیا یعنی جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے طلباء جو تعلیمی کار کردگی میں کچھ خاص مظاہرہ اور ترقی نہیں کر رہے ہیں تو وہ تعلیمی میدان میں مالی مدد کے اہل نہیں ہے اور طلباء کو عطا کردہ تعلیمی قرض کی واپس ادائیگی اُسی صورت میں ہی ضروری تصور کی جائے گی کہ جب طلباء دیگر ذرائع سے کافی آمدن حاصل کر رہے ہوں گے۔ دراصل فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں طلباء کو مالی امداد دینے کا بنیادی مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ فنش طلبا ء کو مستقبل میں ایک کام چور دولت پسند انسان بنایا جا سکے بلکہ یہ ہے کہ تمام فنش طلباء کو مساویانہ بنیادوں پر حصولِ علم اور مستقبل میں ایک من پسندیدہ پیشہ اختیار کرنے کا بنیادی حق فراہم کیا جا سکے اور یہ کہ طلباء بغیر کسی معاشی بوجھ کی کوفت کو برداشت کیے اپنی تعلیم کو مکمل معاشی آزادی کے ساتھ جاری و ساری رکھ سکیں اور اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی توجہ کو تقسیم کرتے ہوئے آمدنی کے دوسرے ذرائع پر توجہ نہ دے سکیں۔ نیز آپ یوں سمجھ لیجئے کہ فنش حکومت کی طرف سے طلباء کو عطا کردہ یہ تعلیمی قرض طلباء اور فنش حکومت، دونوں فریقین کے لیے ایک بے حد منافع بخش اُدھار کی حیثیت رکھتے ہیں اور خصوصاً فنش حکومت کے لیے طلباء کو فراہم کردہ یہ تعلیمی قرض اُس بہترین قومی کاروباری سرمایہ کاری (نیشنل بزنس انویسٹمنٹ) کی حیثیت رکھتے ہیں کہ پھر جس کے بے حد کثیر منافع کو فن لینڈ بطورِ اِک خوشحال معاشی ریاست کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کئی دہائیوں تک کئی کھاتی رہتی ہے۔

 

(۲۱) تعلیم پر خطیر مالی خرچ

 

حکومتِ فن لینڈ نے اپنی جی-ڈی-پی کا ایک خطیر حصہ شعبۂ تعلیم کے لیے وقف کر رکھا ہے اور فن لینڈ کے 2020ء کے قومی تعلیمی خرچ (نیشنل ایجوکیشن بجٹ) کے مطابق 6.8 بلین یورُوز شعبۂ تعلیم و تہذیب کے لیے مختص کیے گئے تھے نیز 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق حکومتی سطح پر 13.5 بلین یورُوز تعلیم پر خرچ کیے گئے تھے لہذا اِن تمام اعداد و شمار سے یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ فن لینڈ اپنی جی-ڈی-پی کے لحاظ سے حکومتی سطح پر تعلیم پر خرچ کرنے کے حوالے سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک شعبۂ تعلیم کے لیے مختص معاشی تعلیمی بجٹ کو انتہائی قابلِ تشویش اور پست ترین سطح پر رکھتے ہیں اور پھر اِسی کم معیاری تعلیم کی فراہمی کے نتیجے میں امیر اور غریب کی علیحدہ علیحدہ تعلیم کا طبقاتی تصور اُبھرتا ہے کہ جس سے تعلیم اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ کر صرف نجی تعلیمی اداروں کی مہنگی لیکن ترقی یافتہ تعلیم اور حکومتی تعلیمی اداروں کی مفت لیکن پسماندہ تعلیم کے درمیان ایک خود غرض اور کاروباری کھیل کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے جبکہ ہم عموماً یہی سمجھتے ہیں کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک شعبۂ تعلیم کے لیے اِس قدر کم خرچ، معاشی تعلیمی بجٹ رکھنے کو اِس لیے مجبور ہے کہ مجموعی طور پر اِن ممالک کی معیشتیں کمزور اور بدحال ہیں اور وہ اعلیٰ تعلیمی بجٹ کا بوجھ اپنے نازک معاشی کندھوں تلے نہ اُٹھا پائیں گی۔ جبکہ اعلیٰ معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے، بد حال معیشت کا مسئلہ نہ تو کوئی بنیادی مسئلہ ہے اور نہ ہی کوئی اِتنا مشکل حل طلب مسئلہ ہے۔ کیونکہ انسانی تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کا بنیادی مسئلہ کمزور معیشتوں کا نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ شعبۂ تعلیم پر اپنی بھرپور قومی توجہ مرکوز نہ کرنے، اور کاہلی و غفلت کی چادر اوڑھتے ہوئے کمزور منصوبہ بندی کا ہوتا تھا۔ میری اِس بات کی دلالت پر ایسے کئی ممالک کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جن کی معیشتیں جنگ و جدل کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ حال ہو گئیں حتیٰ کہ وہاں بنیادی ضروریات کی فراہمی کی قلت نے بھی مستقل ڈیرے جما لیے، لیکن اُن ممالک نے اپنے شعبۂ تعلیم کو اپنے دیگر تمام ملکی انتظامی شعبہ جات پر فوقیت دیتے ہوئے ترسیلِ علم و تعلیم کو اپنا نصب العین بنایا اور آج دنیا کی طاقتور معیشتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ مثلاً اِس حوالے سے پہلا ملک تو بذات خود زیرِ بحث ملک فن لینڈ ہی ہے کہ جیسا کہ اُوپر بیان ہو چکا ہے کہ عظیم شمالی جنگ 1709ء سے لے کر روس-فن لینڈ جنگ بندی 1944ء تک یعنی تقریباً ڈھائی سو سالوں کے فنش پُر انتشار دورانیے میں فن لینڈ کی معیشت مکمل طور پر تباہ حال ہو چکی تھی لیکن فن لینڈ نے اپنی اِس تباہ حال معیشت کے باوجود اپنے تمام تر ملکی انتظامی شعبہ جات پر شعبۂ تعلیم کو فوقیت دیتے ہوئے نظریاتی و مالی اعتبار سے اپنی پھر پور قومی توجہ اِسی پر صَرف کر دی اور آج اپنے مختصر رقبے اور دنیا کی معاشی سُپر پاورز میں گھرے ہونے کے باوجود یورپ کی ایک خوش حال معیشت بن چکا ہے۔ اِس حوالے سے دوسری مثال جاپان کی ہے کہ جس کو جنگ عظیم دوم (45- 1939ء) کے بھیانک نتائج نے یورپی ممالک کی تباہ حال معیشتوں کی صف میں سرِ فہرست کھڑا کر دیا لیکن جاپان نے فن لینڈ کی طرح اپنے تمام تر ملکی انتظامی شعبہ جات پر شعبۂ تعلیم کو فوقیت دیتے ہوئے، اپنا نظریاتی نصب العین شعبۂ تعلیم کی اعلیٰ معیاری کو بنایا اور آج دنیا کی نہایت طاقتور ترین معیشتوں کی صف میں امامت کے منصب پر فائض ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ اعلیٰ معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے قوموں کی خوش حال یا بد حال معیشتوں کے اتار چڑھاؤ کا سلسلہ بنیادی اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اصل بنیادی مسئلہ کسی قوم کا تعلیم پر اپنی بھرپور اور مخلصانہ ارادی قوت کے ساتھ توجہ دینے یا نہ دینے کا ہے۔

 

(۲۲)۔ اخلاقی تربیت

 

فنش تعلیم کے مقاصد کا محور و مرکز ایک طالب علم کی انسانی اقدار کے حوالے سے بہترین اخلاقی تربیت کرنا ہوتا ہے اور فن لینڈ میں اِسی بنیادی مقصد کے پیش نظر گھریلو غیر رسمی تعلیم سے لے کر اعلیٰ ثانوی رسمی تعلیم تک تعلیمی نظام کا ایک طویل دائرہ کار چلایا جاتا ہے کہ آخر کار جس سے گزر کر ایک طالب علم اپنے تعلیمی سفر کے اختتام پر معاشرے کی توقعات کے مطابق ایک کامیاب انسان بنے یا نہ بنے، لیکن انسانی متفقہ اخلاقیات کے پیشِ نظر اور حقوقِ العباد کے ضمن میں ایک عاقل و ذی شعور انسان ضرور بن جاتا ہے۔ گویا کہ فن لینڈ میں تعلیمی مقاصد کی پس پردہ روح بنیادی طور پر انسانی اقدار پر مشتمل اخلاقی تربیت ہی ہوتی ہے لہٰذا فن لینڈ میں ایک بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی والدین اُس کی اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ صَرف کرتے ہیں اور خصوصاً اِس ضمن میں گھر کے بڑے بزرگ، اپنی پُر شفقت صحبت کے زیرِ سایہ، بچوں کو سبق آموز کہانیاں سناتے ہیں۔ نیز مجموعی طور پر، معاشرے کے بھی تمام کردار مثلاً: ڈاکٹر، چوکیدار، مذہبی رہنما، دوکاندار وغیرہ اپنے اپنے شعبہ جات میں عملی دیانتداری سے کام لیتے ہوئے، بچے کی عملی طور پر اخلاقی تربیت کرتے ہیں یعنی کہ اِس حوالے ایک کم سن فنش بچے کے لیے پورا معاشرہ ہی پہلی اخلاقی درسگاہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ پھر اِسی طرح جب بچہ 7 سال کی عُمر کو پہنچتا ہے تو ترسیل اخلاقیات کا یہ فریضہ باقاعدہ ایک رسمی تعلیمی ادارہ یعنی اسکول سنبھال لیتا ہے جہاں اُسے رسمی تعلیم کے زیرِ اثر اخلاقی تربیت دی جاتی ہے۔ بالآخر یونیورسٹی کی اعلیٰ ثانوی تعلیم تک پہنچنے تک ایک فنش طالب علم اخلاقیات کے معاملے میں اکمل و کامل ہرگز نہ سہی لیکن عاقل و بالغ ضرور ہو جاتا ہے اور اِس اخلاقی پختگی کا اجتماعی اور ریاستی سطح پر احساسیت کا اندازہ آپ اِن دو باتوں سے بھی بخوبی طور پر لگا سکتے ہیں کہ فن لینڈ میں ریاستی مجرموں کے لیے بنائے گئے قید خانے، پسماندہ ممالک کے ہوٹلوں سے بھی بہت بہتر، آرام رساں اور پُر سکون ہوتے ہیں نیز فن لینڈ میں تمام بیروزگار فنش شہریوں کو ریاست کی جانب سے ایک قابل اطمینان رقم، ماہانہ مفت وظیفے کے تحت فراہم کی جاتی ہے۔ اب جہاں تک تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے تعلیمی نظاموں میں ترسیل اخلاقیات کا تعلق ہے تو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں مقاصدِ تعلیم کا محور و مرکز صرف ملکی دساتیر کے دبے ہوئے خاموش اوراق تلے ہی ترسیل اخلاقیات رہ گیا ہے۔ آج درحقیقت وہاں منظر تو یہ ہے کہ عموماً اِن ممالک میں حصولِ تعلیم کا واحد بنیادی اور اہم مقصد طلباء کو صرف ایک ملازمت یافتہ نوٹ چھاپنے والی ATM مشین میں بدلنا رہ گیا ہے کہ جس سے طلباء کی اکثریت صرف ایک خود غرض دولت مند طبقے تک بمشکل پہنچ پاتی ہے اور پھر اِسی خود غرض نظام کی پیداوار یہ دولت مند شخصیات اخلاقی اقدار سے بالکل آزاد اور نابلد ہونے کی بناء پر جب اور جیسے چاہے اپنے سے معاشی لحاظ سے کم تر لوگوں کا استحصال کرتی ہیں۔ گویا کہ آپ کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اخلاقیات کو عملی طور پر غیر اہم سمجھتے ہوئے پسِ پُشت ڈالنے والے، بڑے بڑے جاگیردار اور رئیس افراد تو کثیر تعداد میں ملیں گے لیکن شاید انسانی متفقہ اخلاقی اقدار کے معنوں میں صرف چند دولت مند انسان آپ کو کہیں دُور دُور تک دکھائی نہ دیں گے۔

 

(۲۳) ہر آن خوش مزاج طلباء

 

اقوام متحدہ کی عالمی رپورٹ کے مطابق مملکتِ فن لینڈ مارچ 2018ء تا مارچ 2022ء تک یعنی سابقہ تقریباً 5 سالوں سے دنیا کے سب سے خوشحال ترین ممالک کی فہرست میں سے پہلے نمبر پر مسلسل برقرار ہے جبکہ 2018ء سے پہلے 2012ء کی پہلی عالمی خوشحال ترین ممالک کی رپورٹ تک فنش قوم نے تقریباً 160 اقوام کی فہرست میں کبھی بھی ساتویں نمبر سے نیچے جھک کر نہیں دیکھا، بلکہ ہر سال یہ آہستہ آہستہ پلکیں اُٹھاتی، سربلند ہوتی رہی کہ بالآخر 2018ء کی عالمی خوشحال ترین اقوام کی فہرست میں یہ درجہ اول کی مسند پر، اِتنے قاتل اور ستم ظریفانہ تبسّم کے ساتھ مسکراتے ہوئے جا بیٹھی کہ اب سابقہ 5 سالوں سے سب یورپی ممالک اِس کے سحرِ تبسم میں گرفتار ہیں۔ جبکہ میرے مطابق اِس سحرِ تبسم کو قائم و دائم رکھنے کے پس منظر میں خاص طور پر فن لینڈ کا تعلیمی نظام سامری منتر کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اِس طرح کہ فن لینڈ میں ابتدائی اسکول کے زمانے ہی سے بچوں کو ہر لحاظ سے خوش اور پُر اطمینان رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اِس مقصد کے پیشِ نظر ہر اسکول میں ایک فلاحی تنظیم سرگرمِ عمل ہوتی ہے جو بچوں کی خوشیوں کے حصول لیے کام کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر آپ فنش اسکولز میں طلباء کا معائنہ کریں تو عموماً وہاں آپ کو تمام طلباء نفسیاتی و جسمانی ہر دو اعتبار سے نہایت خوش و چست نظر آئیں گے۔ نیز اسکول میں فنون لطیفہ یعنی موسیقی، آرٹ، کرافٹ، مصوری وغیرہ سمیت جسمانی ورزش کی تعلیم پر بھی خاص زور دیا جاتا ہے۔ جبکہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اگر ایک بچہ اسکول کے زمانۂ طالبِ علمی میں خوش و خرم اور پُر اطمینان نظر آئے تو اُسے اساتذہ سمیت عزیز و اقارب کی مشکوک نگاہوں تلے تقریباً کچھ اِس قسم کے دھمکی آمیز طعنے آئے روز موصول ہوتے ہیں کہ ’تمہاری اِس موج، مستی اور بے فکری سے تو یہی لگتا ہے کہ آج کل تمہارا اپنی پڑھائی پر بالکل بھی دھیان نہیں ہے لہٰذا تم سُدھر جاؤ وگرنہ ہمیں سُدھارنا خوب آتا ہے۔‘  گویا کہ اُن ممالک میں ایک طالب علم کے عزیز و اقارب اور اساتذہ لا شعوری یا شعوری طور پر یہ جانتے ہوتے ہیں کہ ہمارے ملک کی پسماندہ رسمی تعلیم بچوں کے لیے خاصی غیر دلچسپ، خشک اور مشکل ہے تو پھر یہ اِس پسماندہ تعلیم کی بحیثیت بے بس کڑی ہونے کے باوجود، اتنے خوش اور بے فکر کیسے ہو سکتے ہیں۔ لہذا پھر یہی وجہ ہے کہ جب وہاں کسی بچے کے والدین اُس کو خوش یا کھیل و کود میں مگن دیکھتے ہیں تو ابتدائی سوالات ہی یہ کرتے ہیں کہ اسکول کا ہوم ورک مکمل کر لیا کہ نہیں۔۔۔؟، کیا کل اسکول سے کوئی چھٹی ہے جو تم یوں سر عام جشن منا رہے ہو۔۔۔؟ لگتا ہے کہ آج تم نے اسکولز ٹیسٹز کی تیاری کچھ زیادہ ہی جلدی ہی کر لی ہے، شاباش۔۔۔!، آج بڑے خوش نظر آرہے ہو ہمیں بھی تو بتلاؤ کہ کن کن امتحانات (ٹیسٹز) میں اچھے نمبر لے کر اسکول سے آ رہے ہو۔۔۔؟، خیر تو ہے، اچھل کود تو یوں رہے ہوں جیسے آج کا پرچہ بہت اچھا رہا۔۔۔؟ اور اِسی طرح کے اسکولی زندگی سے جڑے اَن گِنت سوالات جن کو سن کر ایک طالب علم کو لا شعوری یا شعوری طور یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُس کی زندگی میں جائز و قانونی خوشی و اطمینان کا محور و مرکز صرف والدین کے سامنے میرے متعلق سب اساتذہ کی اچھی آراء، سب مضامین میں اعلیٰ کار کردگی، امتحانات و پرچہ جات میں اعلیٰ نمبرز کی کامیابی اور ہوم ورکز کی باقاعدگی وغیرہ سے ہی مربوط ہے۔ مختصر یہ کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں اسکول کے کام اور خوشی کے اوقات کو الگ الگ شمار کیا جاتا ہے اور جہاں تک موسیقی، رقص، کرافٹ، آرٹ اور جسمانی ورزش وغیرہ کی تعلیم وغیرہ کا تعلق ہے تو اُسے تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں شروع ہی سے اسکولز کی رسمی تعلیم کے دائرہ کار میں کوئی باقاعدہ طور پر سکھایا نہیں جاتا ہے۔ البتہ اِن سب علوم کے لیے الگ الگ مراکز قائم ہیں۔ جو کہ ہرگز اُن ممالک میں اسکول کی ابتدائی رسمی تعلیم کے ضمن میں نہیں آتے ہیں۔

 

(۲۴) جنسی تعلیم

 

میرے مطابق حصولِ خوراک اور حصولِ جنس انسان کی ایسی دو بنیادی جبلی خواہشات اور بنیادی محرک ہیں کہ اول تو یہ کہ جن کی تسکین و تکمیل انسانی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے اور دوم یہ کہ اِنھی دو جبلی محرکات و خواہشات کے حصول کے لیے ایک انسان کسی نہ کسی سطح پر، پوری زندگی تا دم حیات مسلسل متغیر و متحرک رہتا ہے نیز اِن دو بنیادی خواہشات اور محرکات کو ہمہ پہلو، مکمل طور دبانا کسی بھی انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں ہے البتہ آپ صرف قوتِ علم کے تحت ہی اِن کی تکمیل و تسکین کا راستہ ذرا سا بدلتے ہوئے اپنے معاشرتی، ثقافتی و مذہبی نظریات تلے، اپنے طور پر اِنھیں مہذبانہ و شائستہ بنا سکتے ہیں۔ لہذا پہلے بنیادی و جبلی محرک یعنی خوراک کے ضمن میں آپ قوتِ علم سے آراستہ فنش تعلیمی نظام کی کامیاب کاوشیں اوپر نقطۂ نمبر پانچ میں تفصیلی طور ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ رہا اب دوسرا بنیادی و جبلی محرک یعنی ’جنس‘ تو اِس ضمن میں قوتِ علم سے آراستہ ریاستِ فن لینڈ نے حصولِ جنس سے متعلقہ تمام پہلوؤں کو علمی قوت کے سہارے ذرا سا موڑتے ہوئے، اپنے ثقافتی و معاشرتی نظریات کے تحت مہذبانہ و شائستہ بنانے کے لیے اسکولز کی ابتدائی تعلیم سے ہی جنسی تعلیم کی فراہمی نو عمر طلباء کے لیے لازمی قرار دی ہے۔ تاکہ نو عمر طلباء اپنی جنسی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی اِن معمولات میں رسمی تعلیم کے محتاط اور محفوظ طریقے سے، فنش سماجی و ثقافتی نظریات کے زیرِ سایہ اور حیاتیاتی سائنس کی روشنی عاقل و بالغ ہو جائیں اور خود کو اور اپنے گرد و نواح کو جنسی امراض و جرائم سے محفوظ کر سکیں۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے ناخواندہ و پسماندہ ممالک میں جنسی تعلیم کو رسمی تعلیم کے ضمن میں دینا نہایت معیوب، قابل مذمت اور اکثر جرم و گناہ کے صیغے میں تصور کیا جاتا ہے اگرچہ کہ پھر یہ الگ بات ہے اِن ممالک میں جنسی تعلیم کو لے کر یہ بے جا متشدد اور نام نہاد پاکیزہ رویے صرف منافقت اور ظاہری شرم و حیا کے جاہلانہ یا غلو پسندانہ تصورات پر مبنی ہوتے ہیں۔ جبکہ وہاں حقیقی منظر نامہ تو یہ ہوتا ہے کہ نو عمر طلباء کو جنسی تعلیم، رسمی تعلیم کے، محفوظ اور محتاط طریقوں سے فراہم کرنے کی جس قدر شدید مذمّت کی جاتی ہے۔ اُتنا ہی غیر رسمی انداز میں نہایت غیر محفوظ، مضر اور نا قابلِ اعتماد طریقوں سے بچے تک جنسی تعلیم بہم پہنچا دی جاتی ہے۔ اِس حوالے سے سب سے پہلا کردار ایک بچہ کے اُن عزیز و اقارب اور اہل محلہ کا ہوتا ہے کہ جو تعلقاتِ مرد و زن پر مشتمل نہایت واضح انداز میں بیہودہ اور غلیظ گالیاں نکالتے ہیں کہ جب یہ گالیاں بچے کی قوتِ سماعت سے ٹکراتی ہیں۔ تو وہ اپنی فطری متجسس روح کو حرکت میں لاتے ہوئے اِن گالیوں کے مطالب کو سمجھنے کی بھرپور کوششیں کرتا ہے اور پہلی، دوسری یا تیسری بار نہ سہی لیکن آہستہ آہستہ جلد ہی وہ اِن بے ہودہ گالیوں کے مطالب سے آگاہ ہوتے ہوئے جنسی تعلیم کے نہایت منفی پہلوؤں کو اخذ کرنے لگتا ہے۔ دوسرا کردار بچے کے اُن ہم جولیوں اور ہم عمر دوستوں کا ہوتا ہے کہ جو خود جنسی تعلیم کے حوالے سے اپنے ہم عمر دوستوں کی طرح نیم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اِس حوالے سے اپنی آدھی ادھوری، غلط و صحیح معلومات اپنے ہم عمر دوستوں کو حیرانی اور لطف کے ملے جلے تاثرات تلے، دل لگی یا اشراکِ علم کی خاطر بتلاتے ہیں۔ تیسرا کردار جدید ٹیکنالوجی پر منحصر اُن جدید ذرائع ابلاغ، نیٹ، فلمز اور ڈراموں وغیرہ کا ہوتا ہے کہ جن تک رسائی ہونے سے اصل و نقل اور خیر و شر کی تمیز سے نابلد بچے اپنے نا پختہ فہم کے زیرِ سایہ یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں بہرحال اِن تین اہم اطوار کے علاوہ بھی دیگر کئی غیر رسمی اور غیر محفوظ طریقوں سے بچے اِن ممالک میں جنسی تعلیم سے متعلقہ آگاہی حاصل کرتے ہیں لیکن یہ آگاہی بھی اتنی غیر صحت مندانہ ہوتی ہیں کہ ایک بچہ جنسی تعلیم کے حوالے سے صحیح اور غلط، مستند اور غیر مستند معلومات میں تمیز ہی نہیں کر سکتا ہے۔ نتیجتاً کئی بچے اِس مرحلے میں کوئی مستند رہنمائی نہ ہونے کی صورت میں اکثر جنسی امراض و جرائم یا کم از کم ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کہ جس سے بچوں کی بحیثیت طالب علم خوش اسلوبی و متانت سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں بھرپور متاثر ہوتی ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ فن لینڈ میں فنش طلباء کو باقاعدہ رسمی تعلیم کے محتاط اور محفوظ اطوار کے زیرِ اثر جنسی تعلیم فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے زمانۂ طالب علمی میں قدرت کی طرف سے عطاء کردہ اِن فطری جنسی جذبات کو رسمی تعلیم کے محفوظ اور محتاط طریقوں سے سمجھ سکیں اور اِن جذبات کو بدرجہ اتم اپنے لیے اور بدرجۂ دوم اپنے گرد نواح کے لیے ہمہ پہلو و ہمہ وقت، محفوظ اور پُر سکون بنا سکیں۔ نیز اسکولز و کالجز کی صحت مندانہ تعلیم کو ہر قسم کے جنسی مرض و جرم کے بغیر پوری متانت و خوش دلی کے ساتھ، فطری معمول کے مطابق جاری رکھ سکیں۔ اب اگرچہ آپ کو فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں رائج شدہ جنسی تعلیم کے نصاب سے اپنے مذہبی و سماجی عقائد کے زیرِ اثر اختلاف ہو لیکن اِن اختلافات کی بناء پر آپ اِس سارے کے سارے جنسی تعلیم کے تدریسی نظام کو غلط کہتے ہوئے، مکمل طور پر فراموش ہرگز نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیائے جدید کے تمام مذاہب، اور ثقافتیں نظریاتی لحاظ سے اور مجموعی طور پر اِس بات پہ متفق ہیں کہ انسان کے جنسی جذبات کے اظہار کو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر حد درجہ پُر سکون اور دیگر انسانیت کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ لہذا تعلیمی لحاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک میں آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظاموں کو فنش تعلیمی نظام کی اندھی تقلید سے بالا تر رکھتے ہوئے انسانی متفقہ اقدار کے پیشِ نظر، اپنے ثقافتی و مذہبی عقائد کی روشنی میں جنسی تعلیم کے اِس نظامِ تدریس کو اپنے ہاں نافذ کریں تاکہ معصوم بچوں اور نو عمر طلباء کی جنسی زندگی کو ابتداء ہی سے سب کے لیے محفوظ اور ہمہ پہلو خوشحال بنایا جا سکے۔

 

(۲۵) ذہنی و جسمانی صحت

 

فنش قوم اپنے طلباء کی ذہنی و جسمانی صحت کی حفاظت و نگہداشت کے متعلق بہت حساس قوم ہے اور اِس حساسیت کا اندازہ آپ اِس بات سے لگائیے کہ اہل فن لینڈ نے اپنے ملکی نظام نگہداشتِ صحت (ایف-ایس-ایچ-ایس) کے ماتحت، طلباء کی جسمانی و ذہنی تندرستی کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ ایک خصوصی تنظیم قائم کر رکھی ہے۔ 1954ء میں (قومی تنظیم برائے یونیورسٹی طلباء) (ایس-وائے-ایل) نے فنش سٹوڈینٹ ہیلتھ سروس یعنی نگہداشتِ صحت برائے فنش طلباء کے نام سے ایک ایسی تنظیم قائم کی کہ جو لاکھوں فنش طلباء کو نہ صرف جسمانی صحت و طبی نگہداشت کی سہولیات فراہم کرتی ہے بلکہ طلباء کی ذہنی تندرستی کو بھی ہر لحاظ سے ممکن بنانے کی کوشش کر تی ہے۔ دراصل طلباء کی نگہداشتِ صحت سے متعلقہ ’ایف-ایس-ایچ-ایس‘ تنظیم خصوصاً اعلیٰ تعلیم سے وابستہ بالغ نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی ہمہ پہلو صحت و تندرستی کی بنیاد پر قائم کردہ ایک فلاحی تنظیم ہے جو بالغ طلباء کو دندان سازی، مختلف ذہنی کیفیات و صدمات، جسمانی تندرستی، تولیدی صحت اور جنسی مسائل وغیرہ کے متعلق جامع رہنمائی و نگہداشت فراہم کرتی ہے۔ یہاں اِس ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فنش طلباء اپنی صحت سے متعلقہ ایف-ایس-ایچ-ایس تنظیم کی کار کردگی کا جائزہ لینے، اصلاح و ترامیم کرنے اور تبلیغ و ترویج کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیم سے متعلقہ فیصلہ سازی بھی میں نہایت سرگرمِ عمل رہتے ہیں جو کہ فنش طلباء کی انسانی صحت سے متعلقہ اعلیٰ فہمی کی بھی ایک نمائندہ مثال ہے۔ نیز فنش طلباء کی اِسی بہترین قدر دانی نے ہی آج فن لینڈ کو دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں کی فہرست میں امامت کے منصب پر فائض کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ اِس کے برعکس اگر ہم تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں طالبانِ علم کی صحت سے متعلقہ اقدامات کا جائزہ لے تو سب سے پہلے شاید یہی بات ہی آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے کہ اِن ممالک میں عمومی طور پر طلباء کے ذہنی صدمات و مسائل کو صحت کی کمزوری میں سرے سے ہی شمار نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ ذہنی کیفیات و مسائل وغیرہ کا تعلق براہ راست ظواہر سے نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ تو بنیادی طور پر انسان کے باطنی نظام کے ذاتی اور انفرادی تاثُر کی پیداوار ہوتی ہے اور اِن ذاتی و انفرادی تاثُرات کے تحت ذہنی کیفیات و مسائل کو تو صرف وہی افراد سمجھ سکتے ہیں جو اگرچہ سند یافتہ نہ ہوں لیکن با شعور اور حساس انسان ہوں۔ جبکہ عموماً اِن ممالک میں تعلیمی ادارے مجموعی طور پر ایسے لوگوں کے سپرد ہوتے ہیں جو کہ اگرچہ سند یافتہ لیکن بے حس اور تنگ نظر انسان ہوتے ہیں۔ جو طلباء کے ذہنی مسائل کو صحت کی کمزوری میں سرے سے ہی شمار نہیں کرتے اور صرف جسمانی صحت کی ظاہری خرابی کو ہی بمشکل عدمِ تندرستی یعنی بیماری میں شمار کرتے ہیں حاصلِ کلام یہ کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں طلباء کی ذہنی صحت کے ساتھ استحصال کرنے والے بدرجہ اتم خود تعلیمی ادارے ہی ہوتے ہیں کہ جس کا میں نہایت مفصل اور جامع بیان درج ذیل بالا کئی نقاط میں کر چکا ہوں۔ اب جہاں تک اِن ممالک میں طلباء کی جسمانی صحت کا تعلق ہے تو عین ذہنی صحت کی طرح جسمانی صحت کے ساتھ استحصال کرنے والے بھی عموماً، پسماندہ ممالک کے یہی تعلیمی ادارے ہی ہوتے ہیں جو کہ طلباء کی نام نہاد، دُور اندیش فلاح کے نام پر جسمانی تشدد اور سزاؤں کو رواں رکھتے ہیں۔ نیز اِن ممالک میں طلباء کی صحت سے متعلقہ کوئی خصوصی تنظیم نہیں ہوتی، بلکہ مقامی طلباء عام ملکی صحت سے متعلقہ میسر سہولیات اور شفاء خانوں ہی سے امیر اور غریب کے فرق تلے، زیرِ علاج رہتے ہیں۔

 

(۲۶) طلباء کی رہائش و قیام

 

جیسا کہ آپ کو سابقہ تمام نکات کے مجموعی فہم سے یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ فن لینڈ میں طلباء کے لیے فکری اور نظریاتی اعتبار سے کس قدر فیاضی اور وسعتِ نظر موجود ہے۔ عین اِسی طرح فن لینڈ میں طلباء کی رہائش و قیام کے لیے جغرافیائی اور زمینی وسعت بھی بے مثال اور مُتاثر کن ہے اور وہ اِس طرح کہ فن لینڈ کے ہر شہر میں طلباء کی رہائش و قیام کے لیے ایک ہاوزنگ تنظیم سرگرمِ عمل ہوتی ہے جو کہ نہ صرف مقامی بلکہ بیرون ملک سے بھی تعلق رکھنے والے تمام طلباء کو رہائش و قیام کے واسطے رہائشی کمرے (فلیٹس) نہایت مناسب اور معقول قیمت پر فراہم کرتی ہے۔ فن لینڈ میں طلباء کے لیے اِن ہاوزنگ تنظیموں کا زیادہ تر قیام 1960ء تا 1970ء کے اوائل میں عمل میں لایا گیا تھا اور آج سالِ رواں تک یہ اپنی تعلیمی خدمات کے تقریباً 82 سالوں میں طلباء کو نہایت محفوظ اور بہترین طرزِ تعمیر پر مبنی رہائش گاہیں فراہم کرنے میں نہایت کامیاب و کامران رہی ہیں۔ یہ رہائش گاہیں عموماً کسی تعلیمی ادارے کے قریب ہی تعمیر کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ہرگز صرف کسی ایک فنش تعلیمی ادارے کے طلباء کے لیے مختص نہیں ہوتی ہے بلکہ فن لینڈ کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے وابستہ تمام طلباء کے لیے مساوی طور پر دستیاب ہوتی ہیں اور یہی وہ بات ہے کہ فن لینڈ میں تمام فنش طلباء کو عطاء کردہ مساوی رہائش و قیام کا حق نہ صرف اِسے عالمِ یورپ کی بلکہ کُل عالم کی طلباء ہاوزنگ تنظیموں میں ممتاز و اعلیٰ حیثیت سے سرفراز کرتا ہے۔ کیونکہ اِس کے برعکس دنیا کے زیادہ تر ممالک میں طلباء کے لیے تیار کردہ رہائش گاہیں عموماً کسی ایک خاص تعلیمی ادارے کے زیرِ تسلط ہوتے ہوئے صرف اُسی تعلیمی ادارے کے طلباء کے لیے مختص ہوتی ہے اور پھر اِن رہائش گاہوں میں انتظامی معمولات سے لے کر صاف ستھرائی اور سب سے بڑھ کر، نو وارد طلباء کے ساتھ ہراس (ریگنگ) کے جو مسائل ہیں وہ ایک الگ دکھ بھری داستان کے محتاج ہیں۔

 

(۲۷) تعلیمِ بالغاں

 

فن لینڈ میں ایک سڑک کے کنارے پر ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جس میں کچھ اِس طرح کی منظر کشی کی گئی ہے کہ ایک مطالعہ میں محو، شخص گہرے پانی میں غرق ہو رہا ہے لیکن تب بھی پڑھ رہا ہے یا اُسے دیکھ کر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پڑھو چاہے تم ڈوب ہی کیوں نہ رہے ہو۔ اب اگر آپ اِس فنش مجسمے کی زندہ روح یا عملی تصویر کو دیکھنے کے مشتاق ہیں تو آئیے آپ کو فن لینڈ کی غیر رسمی تحریک، ’تحریک تعلیمِ بالغاں‘ سے متعارف کرواتے ہیں۔ فنش غیر رسمی تعلیمِ بالغاں میں معاشرے کے پڑھے لکھے، با شعور اور فارغ التحصیل اشخاص حصہ لیتے ہیں تا کہ وہ اپنی رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، زندگی کے آخری لمحات تک، کسی نہ کسی نئے کورس میں داخلہ لیتے ہوئے ہمہ وقت سیکھ سکیں۔ مثلاً غیر رسمی تعلیمِ بالغاں سے مرعوب، فن لینڈ کے ضعیف العمر خواتین و حضرات نئی نئی زبانیں، دستکاریاں، فنون لطیفہ، علوم اور جدید مہارتیں وغیرہ سیکھنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ گویا کہ فنش سند یافتہ طلباء، رسمی تعلیم کے اعتبار سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی، اپنے زمانۂ طالب علمی کو زندگی بھر کے عرصے پر محیط کیے، ہمیشہ سمجھتے اور سیکھتے رہتے ہیں، کہ پھر وہ چاہے طبی عمر کے اعتبار سے جد امجد بن جائے یا جد الاجداد، لیکن علمی عمر کے اعتبار سے وہ خود کو ہمیشہ ایک جوشیلے، گرم خوں، نوجوانوں کی مانند ہی سمجھتے ہیں اور علم کو سیکھنے کی دوڑ میں طبی عمر یا کسی بھی قسم کی بے جا معاشرتی قدر یا رویے کو خاطر خواہ لائے بغیر، فنش نو جوان طلباء کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ عین اُسی پتھر کے مجسمے میں نصب، مطالعے میں محو شخص کی طرح کہ جس کی زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے موت کے بے کراں سمندر میں غروب ہو رہا ہے لیکن وہ اپنی عمر کے اِن آخری لمحات میں بھی کتاب کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا۔ مزید یہ کہ اگر آپ فن لینڈ میں غیر رسمی تعلیمِ بالغاں کے تاریخی پسِ منظر کو ملاحظہ فرمائیں تو صرف 1960ء میں ہی فنش تعلیم بالغاں کے مراکز کی تعداد دوگنی ہو کر تقریباً 280 تک پہنچ گئی تھی۔ یہاں تک کہ آج یہ تعلیم بالغاں کے غیر رسمی مراکز فن لینڈ کی تمام بلدیات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، اور فن میں نہایت وسیع پیمانے پر اپنی خدمات کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ اِس ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فن لینڈ میں شہریوں کی اپنی تعلیمی ضروریات کے پیشِ نظر اِس قسم کے بلدیاتی تعلیمی ادارے دنیا بھر میں اپنی طرز کے منفرد تعلیمی ادارے شمار کیے جاتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ عہد حال میں فن لینڈ کے تقریباً 140 اضلاع میں ایسے متحرک جامعات سرگرم عمل ہے کہ جن میں پڑھائے جانے والے مضامین کا ایک تہائی حصہ غیر رسمی تعلیم بالغاں کی تشریح و توضیح کے لیے وقف کردہ ہے نیز فن لینڈ میں تعلیم بالغاں کی فراہمی کے مقصد کے پیشِ نظر، عوامی و حکومتی سطح پر خطیر مالی امداد بھی قابل تحسین ہے اب اگر ہم فن لینڈ میں تعمیر و تعلیم بالغاں کے لیے کیے جانے والے اِن سارے انتظامات کے مقاصد پر بات کریں تو کیونکہ اُن سب مقاصد کا احاطہ کرنا اِس مضمون میں ممکن نہیں لہذا صرف ایک بنیادی مقصد ہی گوش گزار ہے کہ فن لینڈ میں تعلیمِ بالغاں کی فراہمی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مساویانہ شراکت داری کی بنیاد پر، تمام فنش شہریوں کو زندگی بھر کے علمی ارتقاء سے گزارتے ہوئے، موت کے نرغے تک فنش معاشرے کے لیے ایک مفید، پُر امن، انصاف پسند اور با شعور انسان بنایا جا سکے۔

مندرجہ ذیل بالا 27 نکات کی روشنی میں ہم فن لینڈ کے اِس روایت شکن اور زبردست تعلیمی نظام کے متعلق یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ فن لینڈ نے پوری دنیا کے قدامت پسند، بے بنیاد، کھوکھلے یا کم از کم سُست رفتار تعلیمی نظاموں کے سامنے ایک ایسا زبردست اصولی تعلیمی نظام تعلیم کھڑا کیا ہے جو کہ مجموعی طور پر دنیا کے تمام تعلیمی لحاظ سے ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کے لیے نظریاتی اختلافات کی بنا پر، اگرچہ مکمل طور پر اکمل و کامل نمونہ نہ سہی، لیکن یکسر طور ایک مثالی اور مُتاثر کن نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم فن لینڈ کی اِن بہترین اور اصولی تعلیمی خصوصیات، اصلاحات اور اختراعات کو فنش تعلیمی نظام کی اندھی تقلید سے بالا تر رکھتے ہوئے، اپنی نظریاتی و ثقافتی اقدار کے مطابق مناسبت، لچک اور جدت کے ساتھ نافذ کریں تاکہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک اپنے تعلیمی نظاموں میں موجود قدیم، کھوکھلی، لغو اور غلامانہ منفی تعلیمی اقدار سے چھٹکارا پاتے ہوئے خود کو ایک شاندار تعلیمی مستقبل رکھنے والے ممالک میں بدل سکیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل