FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فضائل نماز

 

 

شیخ الحدیث حضرت

               مولانا زکریا کاندھلوی

نوراﷲ مرقدہ

 

خطبہ و تمہید

 

بسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، نَحْمَدُہٗ وَنَشْکُرُہٗ وَنُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ وَعَلٰٓی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَاَتْبَاعِہٖ الْحُمَاۃِ لِلدِّیْنِ الْقَوِیْمِ وَبَعْدُ فَھٰذِہٖ اَرْبَعُوْنَۃٌ فِیْ فَضَائِلِ الصَّلٰوۃِ جَمَعْتُھَا اِمْتِثَالًا لِاَمْرِعَمِّیْ وَصِنْوِاَبِیْ رَقَاہُ اللّٰہُ اِلَی الْمَرَاتِبِ الْعُلْیَا وَوَفَّقَنِیْ وَ اِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی۔

 

اَمَّابَعْد:اس زمانہ میں دین کی طرف سے جتنی بے توجہی اور بے التفاتی کی جا رہی ہے وہ محتاج بیان نہیں حتیٰ کہ اہم ترین عبادت نماز جو بالاتفاق سب کے نزدیک ایمان کے بعد تمام فرائض پر مقدم ہے اور قیامت میں سب سے اوّل اسی کا مطالبہ ہوگا اس سے بھی نہایت غفلت اور لا پروائی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ دین کی طرف متوجہ کرنے والی کوئی آواز کانوں تک نہیں پہنچتی۔ تبلیغ کی کوئی صورت بار آورنہیں ہوتی۔ تجربہ سے یہ بات خیال میں آئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاک ارشادات لوگوں تک پہنچانے کی سعی کی جائے۔ اگر چہ اس میں بھی جو مزاحمتیں حائل ہیں وہ بھی مجھ سے بے بضاعت کیلئے کافی ہیں تاہم اُمید یہ ہے کہ جو لوگ خالی الذہن ہیں اور دین کا مقابلہ نہیں کرتے ہیں یہ پاک الفاظ انشا اللہ تعالیٰ اُن پر ضرور اثر کریں گے اور کلام و صاحب کلام کی برکت سے نفع کی توقع ہے نیز دوسرے دوستوں کو اس میں کامیابی کی اُمیدیں زیادہ ہیں جن کی وجہ سے مخلصین کا اصرار بھی ہے اس لئے اس رسالہ میں صرف نماز کے متعلق چند احادیث کا ترجمہ پیش کرتا ہوں چونکہ نفس تبلیغ کے متعلق بندئہ ناچیز کا ایک مضمون رسالہ فضائل تبلیغ کے نام سے شائع ہو چکا ہے اس وجہ سے ا س کو سلسلہ تبلیغ کا نمبر۲ قرار دے کر فضائل نماز کے نام سے موسوم کرتا ہوں ۔

وَمَا تَوْ فِیْقِیْ اِلَّا بِاللہ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ۔

نماز کے بارے میں تین قسم کے حضرات عام طور پر پائے جاتے ہیں ۔ ایک جماعت وہ ہے جو سرے سے نماز ہی کی پرواہ نہیں کرتی، دوسرا گروہ وہ ہے جو نماز بھی پڑھتے ہیں اور جماعت کا اہتمام بھی کرتے ہیں مگر لا پروائی اور بری طرح سے پڑھتے ہیں اسلئے اس رسالہ میں تینوں مضامین کی مناسبت سے تین باب ذکر کئے گئے ہیں اور ہر باب میں نبی اکرمﷺ کے پاک ارشادات اور ان کا ترجمہ پیش کر دیا ہے۔ مگر ترجمہ میں وضاحت اور سہولت کا لحاظ کیا ہے، لفظی ترجمہ کی زیادہ رعایت نہیں کی۔ چونکہ نماز کی تبلیغ کرنے والے اکثر اہل علم بھی ہوتے ہیں اسلئے حدیث کا حوالہ اور اس کے متعلق جو مضامین اہل علم سے تعلق تھے وہ عربی میں لکھ دیئے گئے ہیں کہ عوام کو اُن سے کچھ فائدہ نہیں ہے اور تبلیغ کرنے والے حضرات کو بسا اوقات ضرورت پڑ جاتی ہے اور ترجمہ و فوائد وغیرہ اردو میں لکھ دیئے گئے ہیں ۔

 

باب اول: نماز کی اہمیت کے بیان میں

 

اس باب میں دو فصلیں ہیں ۔ فصل اوّل میں نماز کی فضیلت کا بیان ہے اور دوسری فصل میں نماز کے چھوڑنے پر جو وعید اور عتاب حدیث میں آیا ہے اس کا بیان ہے۔

 

               فصل اول: نماز کی فضیلت کے بیان میں

 

۱۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰي خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ ْٗہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقامِ الصَّلوٰۃِ وَاِیْتاَئِ الذَّکَوٰۃِ وَالَحجِّ وَصَوْمِ رَمضَانَ۔(متفق علیہ) (وقال المنذری فی الترغیب رواہ البخاری و مسلم ر غیر ھما عن غیر واحد م الصحابۃ )

حضرت عبد بن عمر رضی اﷲ عنہ ، نبی کریمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے سب سے اول لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی گواہی دینا یعنی اس بات کا اقرار کرنا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اس کے بعد نماز کاقائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا، رمضان المبارکے روزے رکھنا۔

ف: یہ پانچوں چیزیں ایمان کے بڑے اصول اہم ارکان ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس پاک حدیث میں بطورِ مثال کے اسلام کو ایک خیمہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو پانچ ستونوں پر قائم ہوتا ہے پس کلمہ شہادت خیمہ کی درمیانی لکڑی کی طرح ہے اور بقیہ چاروں ارکان بمنزلہ ان چار ستونوں کے ہیں جو چاروں کونوں پر ہوں ۔ اگر درمیانی لکڑی نہ ہو تو خیمہ کھڑا ہو ہی نہیں سکتا اور اگر یہ لکڑی موجود ہو اور چاروں طرف کے کونوں میں کوئی سی لکڑی نہ ہو تو خیمہ قائم تو ہو جائے گا لیکن جونسے کونے کی لکڑی نہیں ہوگی وہ جانب ناقص اور گری ہوئی ہوگی۔ اس پاک ارشاد کے بعد اب ہم لوگوں کو اپنی حالت پر خود ہی غور کر لینا چاہیے کہ اسلام کے اس خیمہ کو ہم نے کس درجہ تک قائم کر رکھا ہے۔ اور اسلام کا کونسا رکن ایسا ہے جس کو ہم نے پورے طور پر سنبھال رکھا ہے۔ اسلام کے یہ پانچوں ارکان نہایت اہم ہیں حتی کہ اسلام کی بنیاد انہی کو قرار دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کیلئے بحیثیت مسلمان ہونے کے ان سب کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ مگر ایمان کے بعد سب سے اہم چیز نماز ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺسے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کے یہاں سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ نماز۔ میں نے عرض کیا اس کے بعد کیا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک۔ میں عرض کیا اس کے بعد کونسا ہے۔ ارشاد فرمایا جہاد۔ ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں علماء کے اس قول کی دلیل ہے کہ ایمان کے بعد سب سے مقدم نماز ہے۔ اس کی تائید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے جس میں اِرشاد ہے اَلصَّلوٰۃُ خَیْرُ مَو ضُوْعِ یعنی بہترین عمل جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کیلئے مقرر فرمایا وہ نماز ہے ۔آھ ۔ اور احادیث میں کثرت سے یہ مضمون صاف اور صحیح حدیثوں میں نقل کی گیا ہے کہ تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے۔ چنانچہ جامِع صغیر میں حضرت ثوبانؔؓ ، ابن عمروؔؓ ، سلمہؔ ، ابو امامہؔ ، عبادۃؔ رضی اﷲ عنہم پانچ صحابہؓ سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے اور حضرت ابن مسعودؓ سے اپنے وقت پر نماز کا پڑھنا افضل ترین عمل نقل کیا گیا ہے حضرت ابن عمرؓ اور ام فروَہؓ سے اول وقت نماز پڑھنا نقل کیا گیا ہے۔ مقصد سب کا قریب قریب ایک ہی ہے۔

۲۔ عَنْ اَبِیْ ذَرِ اَنَّ النَّبِیَّﷺ خَرَجَ فِی الشِّتَائِ وَالْوَرَقُ یَتَہاَفَتُ فَاَخَذَبِغُصْنِ مِّنْ شَجَرَۃِ قَالَ فَجَعَلَ ذٰلِکَ الْوَرَقُ یَتَہاَفَتُ فَقَالَ یَآاَباَذَرِ قُلْتُ لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اِنَّ الْعَبْدَالْمُسْلِمَ لَیُصَلِّی الصَّلوٰۃَ یُرِیْدُ بِہاَ وَجْہَااللّٰہِ فَتَہاَفَتُ عَنْہ‘ ذُنُوْبَہ‘ کَماَ تَہاَفَتَ ھٰذَاالْوَرَقُ عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ۔

(رواہ احمدباسنادحسن کذا فی الترغیب)

حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ سردی کے موسم میں باہر تشریف لائے اور پَتے درختوں پر سے گر رہے تھے آپؐ نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتّے اور بھی گرنے لگے آپﷺنے فرمایا اے ابوذر مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس سے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گر رہے ہیں ۔

ف: سردی کے موسم میں درختوں کے پتے ایسی کثرت سے گرتے ہیں کہ بعضے درختوں پر ایک بھی پتہ نہیں رہتانبی اکرم ﷺ کا پاک اِرشاد ہے کہ اخلاص سے نماز پڑھنے کا اثر بھی یہی ہے کہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ایک بھی نہیں رہتا۔ مگر ایک بات قابل لحاظ ہے عُلماء کی تحقیق آیات قرآنیّہ اور احادیث نبویہ کی وجہ سے یہ ہے کہ نماز وغیرہ عبادات سے صرف گناہِ صغیرہ معاف ہوتے ہیں ، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا اس لئے نماز کے ساتھ توبہ و اِسْتِغْفَار کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ البتہ حق تعالیٰ شانہٗ اپنے فضل سے کسی کے گناہ کبیرہ بھی معاف فرمادیں تو دوسری بات ہے۔(جامع صغیر)

۳۔ عَنْ اَبِیْ عُثْمَاؓنَ قَالَ کُنْتُ مَعْ سلْمَانَؓ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَاَ خَذَ غُصْنًا مِّنْہَا یَا بِسًا فَہَزَّہٗ حَتّٰی تَحَاتَّ وَرَقُہٗ ثُمَّ قَالَ یَا اَبَا عُثْمَانَ اَلاَ تَسْئَلُنِیْ لِمَ اَفْعَلُ ھٰذَ قُلْتُ وَلِمَ تَفْعَلُہْ قَالَ ھٰکَذَافَعَلَ بِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺوَ اَنَا مَعَہٗ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ وَاَخَذَ َمنْھَاغُصْنًا یَا بِسًا فَھَزَّہ‘ حَتّٰی تَحَاتَّ وَرَقُہ‘ فَقَالَ یَا سَلْمَانُ الاَ تَسْئَالُنِیْ لِمَ اَفْعَلُ ھٰذَاقُلْتُ وَلِمَ تَفْعَلُہ‘ قَالَ اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا تَوَضَّائَفَاَحْسَنَ الْوُ ضُوْئَ ثُمَّ صَلَّی الصَّلٰوت الْخَمْسَ تَحَاتَّتْ خَطَایَاہِکَمَا تَحَاتَّ ھَذَا الْوَرَقُ وَقَالَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفِیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَیِّئَاتِط ذَالِکَ ذِ کْریٰ لِلذَّاکِرِیْنَ ط (رواہ احمد وا لنسائی والطبرانی ورواہ احمد محتج بھم فی الصحیح الا علی بن ذیدکذافی الترغیب)

ابوعثمان رضی اﷲعنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا اُنہوں نے اس درخت کی ایک خشک ٹہنی پکڑ کر اس کو حرکت دی جس سے اُس کے پتے گر گئے پھر مجھ سے کہنے لگے کہ ابو عثمان تم نے مجھ سے یہ نہ پوچھا کہ میں نے یہ کیوں کیا۔ میں نے کہا بتا دیجئے کیوں کیا اُنہوں نے کہامیں کہا بتا دیجئے کیوں کیا اُنہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھاآپﷺ نے بھی درخت کی ٹہنی پکڑ کر اسی طرح کیا تھا جس سے اس ٹہنی کے پتّے جھڑ گئے تھے پھر حضورﷺ نے ارشا د فرمایا تھا کہ سَلمان پوچھتے نہیں کہ میں نے اس طرح کیوں کیا میں نے عرض کیا کہ بتادیجئے کیوں کیا آپﷺے ارشاد فرمایا تھا کہ جب مسلمان اچھی طرح سے وضو کرتا ہے پھر پانچوں نمازیں پڑھتا ہے اس کی خطائیں اس سے ایسی ہی گر جاتی ہیں جیسے یہ پتے گرتے ہیں

پھر آپﷺنے قرآن کی آیت اَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِتلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ قائم کر نماز کو دن کے دونوں میں اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیکیاں دور کردیتی ہیں گناہوں کو ،یہ نصیحت ہے ،نصیحت ماننے والوں کے لئے۔

ف: حضرت سلمانؓ نے جو عمل کرکے دکھلایا یہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے تعشق کی ادنیٰ مثال ہے۔ جب کسی شخص کو کسی سے عشق ہوتا ہے اس کی ہر ادا بھاتی ہے اور اسی طرح ہر کام کے کرنے کو جی چاہا کرتا ہے جس طرح محبوب کو کرتے دیکھتا ہے۔ جو لوگ محبت کا ذائقہ چکھ چکے ہیں وہ اُسکی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ،نبی اکرم ﷺکے ارشادات نقل کرنے میں اکثر ان افعال کی بھی نقل کرتے تھے جو اس ارشاد کے وقت حضورﷺنے کیے تھے۔ نماز کا اہتمام اور اس کی وجہ سے گناہوں کا معاف ہونا جس کثرت روایات میں ذکر کیا گیا ہے اس کا اِحاطہ کرنا دُشوار ہے۔ پہلے بھی متعدد روایات میں یہ مضمون گزر چکاہے علما نے اس کو صغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے جیسا پہلے معلوم ہو چکا۔ مگر احادیث میں صغیرہ کبیرہ کی کوئی قید نہیں ہے مُطلق گناہوں کا ذکر ہے۔ میرے والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے تعلیم کے وقت اس کی دو وجہیں اِرشاد فرمائی تھیں ۔ ایک یہ کہ مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ اُس کے ذمّہ کوئی کبیرہ ہو۔ اولاً تو اس سے گناہ کبیرہ کا صادر ہونا ہی مشکل ہے اور اگر ہو بھی گیا تو بغیر توبہ کے اس کو چین آنا مشکل ہے۔ مسلمان کی مسلمانی شان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جب اس سے کبیرہ صادر ہو جائے تو اتنے رو پیٹ کر اس کو دھو نہ لے اس کو چین نہ آئے۔ البتہ صغیرہ گناہ ایسے ہیں کہ ان کی طرف بسا اوقات التفات نہیں ہوتا ہے اور ذمہ پررہ جاتے ہیں ۔جو نماز وغیرہ سے معاف ہو جاتے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص اخلاص سے نماز پڑھے گا اور آداب و مستحبات کی رعایت رکھے گا، وہ خود ہی نہ معلوم کتنی مرتبہ توبہ و استغفار کرے گا۔ اور نماز میں التحیات کی اخیر دعا اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ الخ میں تو توبہ و استغفار خود ہی موجود ہے۔ ان روایا ت میں وضو کو بھی اچھی طرح سے کرنے کا حکم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے آداب و مستحبات کی تحقیق کرکے ان کا اِہتمام کرے مثلاًایک سنت اس کی مسواک ہی ہے۔ جس کی طرف عام طور پر بے توجہی ہے حالانکہ حدیث میں وارد ہے کہ جو نماز مسواک کرکے پڑھی جائے وہ اس نماز سے جو بلا مسواک پڑھی جائے ستر درجہ افضل ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ مسواک کا اِہتمام کیا کرو۔ اس میں دس فائدے ہیں ۔ منہ کو صاف کرتی ہے۔ اللہ کی رضا کا سبب ہے، شیطان کو غصہ دلاتی ہے، مسواک کرنے والے کو اللہ محبوب رکھتے ہیں اور فرشتے محبوب رکھتے ہیں ، مسوڑھوں کو قوت دیتی ہے،بلغم کو قطع کرتی ہے، منہ میں خوشبو پیدا کرتی ہے، صفراء کو دور کرتی ہے، نگاہ کو تیز کرتی ہے ، منہ کی بدبو کو زائل کرتی ہے اور اس سب کے علاوہ یہ ہے کہ سنت ہے(منہبات ابن حجر)علماء نے لکھا ہے کہ مسواک کے اہتمام میں ستر فائدے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا نصیب ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل افیون کھانے میں سترمضرتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ یاد نہیں آتا ۔ اچھی طرح وضو کرنے کے فضائل احادیث میں بڑی کثرت سے آئے ہیں ۔ وضو کے اَعضاء قیامت کے دن روشن اور چمک دار ہونگے اورحضورﷺ فوراًاپنے امتی کو پہچان جائیں گے۔

۴۔ الف: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ سَمَعْتُ رسول اللّٰہ ﷺ یَقُوْلُ اَرَأَیْتُمْ لَوْاَنَّ نَھْرًا بِبَابِ اَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ھَلْ بَقِیَ مِنْ دَرَنِہٖ شَیْئٌ قَالُوالَایَبْقٰی مِنْ دَرَنِہٖ شَیْء قَالَ فَکَذٰلِکَ مَثَلُ الصَّلَوٰتِ الْخَمْسِ یَمْحُوااﷲُ بِھِنَّ الْخَطَایَا (رواہ البخاری ومسلم والترمذے والنسایٔ ورواہ ابن مجہ من حدیث عثمان کذافی الترغیب)

حضرت ابوہریرہؓ، نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺنے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا بتائو اگر کسی شخص کے دروازہ پر نہر جاری ہو جس میں وہ پانچ مرتبہ روزانہ غسل کرتا ہو کیا اُس کے بدن پر کچھ میل باقی رہے گا۔ صحابہ ؓنے عرض کیا کہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا حضورﷺنے فرمایا کہ یہی حال پانچوں نمازوں کا ہے کہ اللہ جل شانہٗ ان کی وجہ سے گناہوں کو زائل کردیتے ہیں ۔

۴۔ ب : عَنْ جَابِر قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ مثَلُ الصَّلٰوتِ الخَمْسِ کَمَثَلِ نَھْرٍ جَارٍ غَمْرٍ عَلٰی بَابِاَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مَنْہ‘ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ۔(رواہ مسلم کذافی الترغیب)

حضرت جابر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺ کا اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس کا پانی جاری ہو اور بہت گہرا ہو۔ اس میں روزانہ پانچ دفعہ غسل کرے۔

ف: جاری پانی گندگی وغیرہ سے پاک ہوتا ہے اور پانی جتنا بھی گہرا ہوگا اتنا ہی پاک اور شفاف ہوگا اسی لئے اس حدیث میں اس کا جاری ہونا اور گہرا ہونا فرمایا گیا ہے اور جتنے صاف پانی سے آدمی غسل کرے گا اتنی ہی صفائی بدن پر آئے گی۔ اسی طرح نمازوں کی وجہ سے اگر آداب کی رعایت رکھتے ہوئے پڑھی جائیں ، تو گناہوں سے صفائی حاصل ہوتی ہے۔ جس قسم کا مضمون اِن دو حدیثوں میں اِرشاد ہوا ہے اس قسم کا مضمون کئی حدیثوں میں مختلف صحابہؓ سے مختلف الفاظ میں نقل کیا گیا ہے۔ ابوسعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضوراقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ پانچوں نمازیں درمیانی اوقات کیلئے کفارہ ہیں یعنی ایک نماز سے دوسری نماز تک جو صغیرہ گناہ ہوتے ہیں ہو نماز کی برکت سے مُعاف ہوجاتے ہیں ۔ اُس کے بعد حضورﷺنے ارشاد فرمایا مثلاًایک شخص کا کوئی کارخانہ ہے جس میں وہ کچھ کاروبار کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بد ن پر کچھ گردوغبار میل کچیل لگ جاتا ہے اور اس کے کارخانے اور مکان کے درمیان میں پانچ نہریں پڑتی ہیں ۔ جب وہ کارخانہ سے گھر جاتا ہے تو ہر نہر پر غسل کرتا ہے۔ اسی طرح سے پانچوں نمازوں کا حال ہے کہ جب کبھی درمیانی اوقات میں کچھ خطا اور لغزش وغیرہ ہوجاتی ہے تو نمازوں دُعا اِسْتِغْفار کرنے سے اللہ جل شانہٗ بالکل اس کو مُعاف فرمادیتے ہیں ۔نبی اکرم ﷺ کا مقصود اس قسم کی مثالوں سے اس امْر کا سمجھا دینا ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے نمازوں کو گناہوں کی معافی میں بہت قوی تاثیر عطا فرمائی ہے اور چونکہ مثال سے بات ذرا اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے اس لئے مختلف مثالوں سے حضورﷺنے اس مضمون کو واضح فرمادیا ہے۔ اللہ جل شانہٗ کی اس رحمت اور وسعت مغفرت اور لطف و انعام اور کرم سے ہم لوگ فائدہ نہ اٹھائیں تو کسی کا کیا نقصان ہے اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں ۔ ہم لوگ گناہ کرتے ہیں ، نافرمانیاں کرتے ہیں ، حکم عدولیاں کرتے ہیں تعمیل اِرشاد میں کوتاہیاں کرتے ہیں اس کا مقتضی یہ تھا کہ قادر عادل بادشاہ کے یہاں ضرور سزا ہوتی اور اپنے کئے کو بھگتتے، مگر اللہ کے کرم کے قربان کہ جس نے اپنی نافرمانیاں اور حکم عدولیاں کرنے کی تلافی کا طریقہ بھی بتا دیا اگر ہم اس سے نفع حاصل نہ کریں تو ہماری حماقت ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت اور لطف تو عطا کے واسطے بہانے ڈھونڈتے ہیں ۔ ایک حدیث میں اِرشاد ہے کہ جو شخص سوتے ہوئے یہ ارادہ کرے کہ تہجد پڑھونگا اور پھر آنکھ نہ کھلے تو اس کا ثواب اس کو ملے گا اور سونا مفت میں رہا۔ کیا تھکانا ہے اللہ کی دین اور عطا کا، اور جو کریم اس طرح عطائیں کرتا ہو اُس سے نہ لینا کتنی محرومی اور کتنا زبردست نقصان ہے۔

۵۔ عَنْ حُذَیْفَۃَؓ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَﷺ اِذَاحَزَبَہ‘ اَمْرٌفَزَعَ اِلَی الصَّلٰوۃِ۔(اخرجہ احمد وابوداودوابن جریرکذافی الدرالمنثور)

حضرت خذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی سخت امْر پیش آتا تھا تو نماز کی طرف فوراََ متوجہ ہوتے تھے۔

ف: نماز اللہ کی بڑی رحمت ہے اس لئے ہر پریشانی کے وقت میں ادھر متوجہ ہوجانا گویا اللہ کی رحمت کی طرف متوجّہ ہے اور جب رحمت الٰہی مساعد و مددگار ہو تو پھر کیا مجال ہے کسی پریشانی کی کہ باقی رہے۔ بہت سی روایتوں ميں مختلف طور سے یہ مضمون وارد ہوا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین جو ہر قدم پر حضورﷺکا اتباع فرمانے والے ہیں ان کے حالات میں بھی یہ چیز نقل کی گئی ہے۔ حضرت ابو دردائؓ فرماتے ہیں کہ جب آندھی چلتی تو حضور اقدسﷺ فوراًمسجد میں تشریف لے جاتے تھے اور جب تک آندھی بند ہو جاتی مسجد سے نہ نکلتے۔ اس طرح جب سورج یا چاند گرہن ہوجاتاتو حضورﷺ تو حضورﷺفوراًنماز کی طرف متوجہ ہو جاتے ۔ حضرت صہیبؓ، حضوراقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ پہلے اَنبیاں کا بھی یہی معمول تھا کہ ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ یک مرتبہ سفر میں تھے راستہ میں اطلا ع ملی کہ بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ اونٹ سے اُترے دو رکعت نماز پڑھی پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور پھر فرمایا کہ ہم نے وہ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور قرآن پاک کی آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَالصَّلوٰۃِتلاوت کی۔ ایک اور قصہ اسی قسم کا نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں اُن کے بھائی قثم کے انتقال کی خبر ملی۔ راستہ سے ایک طرف ہوکر اُونٹ سے اُترے، دو رکعت نماز پڑھی اور التحیات میں بہت دیر تک دعائیں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد اُٹھے اور اُونٹ پر سوار ہوئے اور قرآن پاک آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِا الصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃ’‘ اِلَّاعَلیَ الْخَاشِعِیْنَ تلاوت فرمائی۔

ترجمہ :اور مدد حاصل کرو صبر کے ساتھ اور نماز کے ساتھ اور بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے، اُن پر دشوار نہیں ۔ خشوع کا بیان تیسرے باب میں مفصل آرہا ہے۔ انہیں کا ایک اور قصّہ ہے کہ اَزواجِ مطہرات ؓ میں سے کسی کے انتقال کی خبر ملی تو سجدہ میں گر گئے۔ کسی نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات تھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ حضورﷺکا ہم کو یہی ارشاد ہے کہ جب کوئی حادثہ دیکھو تو سجدہ میں (یعنی نماز میں ) مشغول ہوجائو اس سے بڑا حادثہ اور کیا ہوگا کہ ام المومنین ؓ کا انتقال ہو گیا۔حضرت عبادہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے انتقال کا وقت جب قریب آیاتو جو لوگ وہاں موجود تھے اُن سے فرمایا کہ میں ہر شخص کو اس سے روکتا ہوں کہ وہ مجھے روئے اور جب میری روح نکل جائے تو ہر شخص وضو کرے اور اچھی طرح سے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے وضو کرے اور پھر مسجد میں جائے اور نماز پڑھ کر میرے واسطے استغفار کرے۔ اس لئے کہ اللہ جل شانہٗ نے وَاسْتَعِیْنُوْ بالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ کا حکم فرمایا ہے ۔ اس کے بعد مجھے قبر کے گڑھے میں پہنچا دینا حضرت ام کلثومؓ کے خاوند حضرت عبدالرحمن بیمار تھے اور ایک دفعہ ایسی سکتہ کی سی حالت ہو گئی کہ سب نے انتقال ہو جانا تجویز کر لیا۔ حضرت ام کلثومؓ اُنہیں اور نماز کی باندھ لی۔ نماز سے فارغ ہوئیں تو حضرت عبدالرحمن کو بھی افاقہ ہوا۔ لوگوں سے پوچھاکیا میری حالت موت کی سی ہوگئی تھی لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا کہ دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ چلو احکم الحکمین کی بارگاہ میں تمہارا فیصلہ ہونا ہے وہ مجھے لے جانے لگے تو ایک تیسرے فرشتے آئے اور اُن دونوں سے کہا کہ تم چلے جائو یہ ان لوگوں میں ہیں جن کی قسمت میں سعادت اسی وقت لکھ دی گئی تھی جب یہ ماں کے پیٹ میں تھے اور ابھی ان کی اولاد کو ان سے اور فوائد حاصل کرنے ہیں ۔ اس کے بعد ایک مہینہ تک حضرت عبدالرحمن زندہ رہے پھر انتقال ہوا۔

حضرت نضرؓ کہتے ہیں کہ دن میں ایک مرتبہ سخت اندھیرا ہوگیا ۔ میں دوڑا ہوا حضرت انسؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دریافت کیا کہ حضورﷺکے زمانہ میں بھی کبھی ایسی نوبت آئی ہے۔ انہوں نے فرمایا خدا کی پناہ ، حضورﷺکے زمانہ میں تو ذرا بھی ہوا تیز چلتی تھی تو ہم سب مسجدوں کو دوڑ جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آ گئی۔ عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کے گھر والوں پر کسی قسم کی تنگی پیش آتی، تو اُن کو نماز کا حکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے۔ وَائْ مُرْ اَھْلَکَ بِا لصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا لَا نَسْئَلُکَ رِزْقاَ الآیۃ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیٔ اور خود بھی اس کا اہتمام کیجئے ہم آپ سے روزی کموانا نہیں چاہتے روزی تو آپ کو ہم دیں گے۔ایک حدیث میں اِرشا د کہ جس شخص کوئی بھی ضرورت پیش آئے دینی ہو یا دنیو ی ا س کاتعلق مالک الملک سے ہو یا کسی آدمی سے، اس کو چاہیے کہ بہت اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ جل شانہ ٗکی حمدوثنا کرے اور پھر درود شریف پڑھے اس کے بعد یہ دُعا پڑھے تو انشاء اللہ اس کی حاجت ضرور پوری ہوگی۔دعا یہ ہے:۔

{ لاَ اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرِّ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَا تَدَعْ لِی ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ یَآ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ وَلَا ہَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَلَا حَاجَۃً ہِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَہَا یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ }

وہبؒ بن منبہؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نماز کے ذریعہ طلب کی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کو جب کوئی حادثہ پیش آتا تھا وہ نماز ہی کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ جس پر بھی کوئی حادثہ گذرتا وہ جلدی سے نماز کی طرف رجوع کرتا۔ کہتے ہیں کوفہ میں ایک قلی تھا جس پر لوگوں کو بہت اِعتماد تھا امین ہونے کی وجہ سے تاجروں کا سامان روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا۔ ایک مرتبہ وہ سفر میں جارہا تھا۔ راستہ میں ایک شخص اس کو ملا۔ پوچھا کہاں کا ارادہ ہے۔ قلی نے کہا فلاں شہر کو۔ وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی وہاں جانا ہے۔ میں پائوں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دینار کرایہ پر مجھے خچر پر سوار کرلے۔ قلی نے اس کو منظور کر لیا وہ سوار ہوگیا۔ راستہ میں ایک دو راہہ ملا۔ سوار نے پوچھا کدھر کو چلنا چاہیے۔ قلی نے شارع عام کا راستہ بتایا۔ سوار نے کہا یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے اور جانور کے لئے بھی سہولت کا ہے کہ سبزہ اس پر خوب ہے۔ قلی نے کہا میں نے یہ راستہ دیکھا نہیں ۔ سوار نے کہا میں بارہا اس راستہ پر چلا ہوں ۔ قلی نے کہا اچھی بات ہے اسی راستہ کو چلے۔ تھوڑی دور چل کر وہ راستہ ایک وحشت ناک جنگل پر ختم ہوگیا۔ جہاں بہت سے مردے پڑے تھے۔ وہ شخص سواری سے اُترااور کمر سے خنجر نکال کر قلی کے قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ قلی نے کہا، ایسا نہ کر۔ یہ خچر اور سامان سب کچھ لے لے یہی تیرا مقصود ہے مجھے قتل نہ کر۔ اس نے نہ مانا اور قسم کھالی کہ پہلے تجھے مارونگا پھر یہ سب کچھ لونگا۔ اس نے بہت عاجزی کی مگر اُس ظالم نے ایک بھی نہ مانی۔ قلی نے کہا اچھا مجھے دو رکعت آخری نماز پڑھنے دے۔ اُس نے قبول کیا اور ہنس کر کہا۔ جلدی سے پڑھ لے ان مردوں نے بھی یہی درخواست کی تھی مگر اُن کی نمازنے کچھ بھی کام نہ دیا۔ اس قلی نے نماز شروع کی۔ الحمد شریف پڑھ کر سورت بھی یاد نہ آئی۔ اُدھر وہ ظالم کھڑا تقاضا کر رہا تھاکہ جلدی ختم کر۔ بے اختیار اُسکی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی{ اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ } یہ پڑھ رہاتھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہواجس کے سر پر چمکتا ہوا خَود (لوہے کی ٹوپی) تھا اُس نے نیزہ مار کر اُس ظالم کو ہلاک کردیا ۔ جس جگہ وہ ظالم گرا ، آگ کے شعلے اس جگہ سے اُٹھنے لگے۔ یہ نمازی بے اختیا ر سجدہ میں گر گیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ نماز کے بعد اُس سوار کی طرف دوڑا۔ اُس سے پوچھاکہ خدا کے واسطے اتنا بتادو کہ تم کون ہو کیسے آئے۔ اُس نے کہا کہ میں { اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ }کا غلام ہوں اب تم مامون ہو جہاں چاہے جائو۔ یہ کہ کر چلاگیا۔ درحقیقت نماز ایسی یہ بڑی دولت ہے کہ اللہ کی رضا کے علاوہ دنیا کے مصائب سے بھی اکثر نجات کا سبب ہوتی ہے، اور سکونِ قلب تو حاصل ہوتا ہی ہے۔ ابن سیر ؒ کہتے ہیں کہ اگر مجھے جنت کے جانے میں اور دو رکعت نماز پڑھنے میں اختیار دے دیا جائے تو میں دو رکعت ہی کو اختیا ر کروں گا۔ اس لئے کہ جنت میں جانا میری اپنی خوشی کے واسطے ہے اور دو رکعت نماز میں میرے مالک کی رضا ہے۔ حضورﷺکا ارشاد ہے۔ بڑا قابل رشک ہے وہ مسلمان جو ہلکا پھلکا ہو(یعنی اہل و عیال کا بوجھ نہ ہو) نماز سے وافر حصہ اس کو ملا ہو۔ روزی صرف گزارے کے قابل ہو جس پر صبر کرکے عمر گزار دے۔اللہ کی عبادت اچھی طرح کرتا ہو۔ گمنامی میں پڑا ہو۔ جلدی سے مرجاوے۔ نہ میراث زیادہ ہو نہ رونے والے زیادہ ہوں ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنے گھر میں نماز کثرت سے پڑھا کرو، گھر کی خیر میں اضافہ ہوگا۔

۶۔ عَنْ اَبِیْ مُسْلِمٍ نِ التَّغْلَبِیِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی اَبِیْ اُمَامَۃَوَھُوَفِی الْمَسْجَدِ فَقُلْتُ یَااَبَااُمَامَۃَاِنَّ وَاُذْنَیْہِ ثُمَّ قَامَ اِلَی صَلٰوۃٍمَّفْرُوْضَۃٍ غَفَرَاﷲُ لَہ‘ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ مَا مَشَتْ اِلَیْہِ رِجْلَاہُ وَقَبَضَتْ عَلَیْہِ یَدَاہُ وَسَمِعَتْ اِلَیْہِ اُذُنَاہُ وَنَظَرَتْ اِلَیْہِ عَیْنَاہ‘ وَحَدَّثَ بِہٖ نَفْسُہ‘ مِنْ سُوْئٍ فَقَالَ وَاﷲِ لَقَدْ سَمِعْتُہ‘ مِنَ النَّبِیِّ ﷺ مِرَارًا۔(رواہ احمدوالغالب علی سند ہ الحسن وتقدم لہ شواھدفی الوضوء کذافی الترغیب قلت وقدروی معنی الحدیث عن ابی امامۃ بطرق فی مجمع الزوائد)

ابو مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپکی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی اکرم ﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ جل شانہ، اس دن وہ گناہ جوچلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس کے ہاتھوں نے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوں سے کیاہواوروہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں ۔سب کو معاف فرما دیتے ہیں حضرت ابو امامہ نے فرمایا کہ میں نے یہ مضمون نبی اکرم ﷺ سے کئی دفعہ سنا ہے

ف : یہ مضمون بھی کئی صحابہؓ سے نقل کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت عبداللہ صنابحیؓ، حضرت عمروؓ بن عبسہ وغیرہ حضرات سے مختلف اَلفاظ کے ساتھ متعدد روایات میں ذکر کیا گیا ہے اور جو اہل کشف ہوتے ہیں اُن کو گناہوں کا زائل محسوس بھی ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا قصہ مشہور ہے کہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرما لیتے تھے کہ کونسا گناہ اس میں دھل رہا ہے۔ حضرت عثمان کی ایک روایت میں نبی اکرم ﷺْ کا یہ اِرشاد بھی نقل کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو اس بات سے غرور نہیں ہونا چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھمنڈ پر کہ نماز سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں جرأت نہیں کرنا چاہیے اس لئے کہ ہم لوگوں کی نماز اور عبادات جیسی ہوتی ہیں اُن کو اگر حق تعالیٰ جل شانہ، اپنے لطف و کرم سے قبول فرمالیں تو اُن کا لطف، احسان و اِنعام ہے ورنہ ہماری عبادتوں کی حقیقت ہمیں خوب معلوم ہے۔ اگرچہ نماز کا یہ اثر ضروری ہے کہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں مگر ہماری نماز بھی اس قابل ہے اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ ا س وجہ سے گناہ کرنا کہ میرا مالک کریم ہے معاف کرنے والا ہے انتہائی بے غیرتی ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہوئی کہ کوئی شخص یوں کہے کہ اپنے ان بیٹوں سے جو فلاں کام کریں درگزر کرتا ہوں تو وہ نالائق بیٹے اس وجہ سے کہ باپ نے درگزر کرنے کو کہہ دیا ہے جان جان کر اُس کی نافرمانیاں کریں ۔

۷۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ کَانَ رَجُلَانِ مِنْ بَلِیِّ حَیٌّ مِّنْ قُضَاعَۃَ اَسْلَمَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَاسْتُشْھِدْ اَحَدُ ھُمَا وَاُخِّرَ الْاٰخَرُ سَنَۃً قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اﷲِ فَرَأَیْتُ الْمُؤَخَّرَ مِنْھُمَااُدْخِلَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الشَّھِیْدِ فِتِعِجَّبْتُ لِذٰلِکَ فَاَصْبَحْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ﷺ اَوْذُکِرَ لِرَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَلَیْسَ قَدْصَامَ بَعْدَہ‘ رَمَضَانَ وَصَلّٰی سِتَّۃَ اٰلَافِ رَکْعَۃٍ وَکَذَا وَکَذَا رَکْعَۃً صَلٰوۃَ سَنَۃٍ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو صحابی ایک ساتھ مسلمان ہوئے اُن میں سے ایک صاحب جہاد میں شہید ہوگئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد انتقال ہوا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد اِنتقال ہوا تھا اُن شہید سے بھی پہلے جنت میں ہوگئے تو مجھے بڑا تعجب ہواشہید کا درجہ تو بہت اونچا ہے ہو پہلے جنت میں داخل ہوتے ۔ میں حضورﷺسے خود عرض کیا یا کسی اور نے عرض کیا تو حضور اقدسﷺارشاد فرمایا کہ جن صاحب کا بعد میں اِنتقال ہوا ان کی نیکیاں نہیں دیکھتے کتنی زیادہ ہوگئیں ایک رمضان المبارک کے پورے روزے بھی اُن کے زیادہ ہوئے اور چھ ہزار اور اتنی اتنی رکعتیں نماز کی ایک سال میں اُن کی بڑھ گئیں ۔

(رواہ احمد باسنادحسن ورواہ ابن ماجۃوابن حبان فی صحیہ والبیھقی کھم عن طلھۃ بنحوہ اطول منہ وزادابن ماجہ وابن حبان فی احرہ فلما بیینھما اطول ما بین السما والارض کذا فی التر غیب ولفظ احمد فی النسخۃ التی با ید ینا اوکذاوکذا رکعۃ بلفظ اووفی الد را خرجہ مالکٔ وا حمد والنسائی وابن خزیمۃوالحا کم والبییہقی فے شعب الایمان عامر بن سعد قال سمعت سعد اونا سامن الصحا بۃ یقو لون کان رجلان اخران فی عہد رسول اللّٰہ ﷺ وکان احدہما افضل من الاخر فتونی الزی ہو افضلہما ثم عمر الاخر بعدہ اربعین لیلۃ الحدیث وقد ا خرج ابوداؤد بعنی حدیث الباب من حدیث عبید بن خا لد بافظ قتل احدہما وما ت الاخر بعدہ بجمعۃ الحدیث) ۔

ف: اگرایک سال کے تمام مہینے انتیس دن کے لگائے جائیں اور صرف فرض اور وتر کی بیس رکعتیں شمار کی جائیں تب بھی چھ ہزار نو سو ساٹھ رکعتیں ہوتی ہیں اور جتنے مہینے تیس دن کے ہوں گے بیس بیس رکعتوں کا اضافہ ہوتا رہے گا اور سنتیں اور نوافل بھی شمار کئے جائیں تو کیا ہی پوچھنا ۔ ابن ماجہ میں یہ قصّہ اور بھی مفصل آیا ہے اس میں حضرت طلحہ ؓ جو خواب دیکھنے والے ہیں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو آدمی حضوراقدسﷺکی خدمت میں ایک ساتھ آئے اور اکھٹے مسلمان ہوئے ایک صاحب بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے تھے وہ ایک لڑائی میں شہید ہو گئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد اِنتقال ہوا، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں اور وہ دونوں صاحب بھی وہاں ہیں ۔ اندر سے ایک شخص آئے اور اُن صاحب کو جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا تھا اندر جانے کی اجازت ہوگئی اور جو صاحب شہید ہوئے تھے وہ کھڑے رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اندر سے ایک شخص آئے اور اُن شہید کو بھی اجازت ہوگئی اور مجھ سے کہا کہ تمہارا ابھی وقت نہیں آیا تم واپس چلے جاؤ۔ میں نے صبح کو لوگوں سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا۔ سب کو اس پر تعجب ہوا کہ ان شہید کو بعد میں اجازت کیوں ہوئی ان کو تو پہلے ہونی چاہیے تھی۔ آخر حضورﷺسے لوگوں نے اس کا تذکرہ کیا توحضورﷺنے اِرشاد فرمایا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسولﷺاللہ وہ شہید بھی ہوئے اور بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے بھی تھے اور جنت میں یہ دوسرے صاحب پہلے داخل ہوگئے حضورﷺنے اِرشادفرمایا، کیا انہوں نے ایک سال عبادت زیادہ نہیں کی عرض کیا، بیشک کی۔ اِرشاد فرمایا، کیا انہوں نے پورے ایک رمضان کے روزے اُن سے زیادہ نہیں رکھے عرض کیا گیا بیشک رکھے۔ اِرشاد فرمایا کیا انہوں نے اتنے اتنے سجدے ایک سال کی نمازوں کے زیادہ نہیں کئے۔ عرض کیا گیا بیشک کئے۔ حضورﷺنے فرمایا پھر اِ ن دونوں میں آسمان زمیں کا فرق ہوگیا۔

اس نوع کے واقعہ کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے ۔ ابوداؤد شریف میں دو صحابہؓ کا قصّہ اسی قسم کا صرف آٹھ دن کے فرق سے ذکر کیا گیا ہے کہ دوسرے صاحب کا اِنتقال ایک ہفتہ بعد ہوا پھر بھی وہ جنت پہلے داخل ہوگئے۔ حقیقت میں ہم لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں کہ نماز کتنی قیمتی چیز ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ حضوراقدس ﷺْ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے۔ حضورﷺکی آنکھ کی ٹھنڈک جو انتہائی محبت کی علامت ہے معمولی چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ دو بھائی تھے ان میں سے ایک چالیس روز پہلے اِنتقال کر گئے۔ دوسرے بھائی کا چالیس روز بعد اِنتقال ہوا۔ پہلے بھائی زیادہ بزرگ تھے۔ لوگوں نے اُن کو بہت بڑھانا شروع کر دیا۔ حضورﷺنے اِرشاد فرمایا کیا دوسرے بھائی مسلمان نہ تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بیشک مسلمان تھے مگر معمولی درجہ میں تھے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ ان چالیس دن کی نمازوں نے اُن کو کس درجہ تک پہنچا دیا ہے۔ نماز کی مثال ایک میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو دروازہ پر جاری ہو اور آدمی پانچ دفعہ اس میں نہاتا ہو تو اس کے بدن پر کیا میل رہ سکتا ہے اس کے بعد پھر دوبارہ حضورﷺنے فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ اس کی نمازوں نے جو بعد میں پڑھی گئیں اس کو کس درجہ تک پہنچا دیا ہے۔

۸۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ عَنْ رَسُوْلِ ﷺ اَنَّہ‘ قَالَ یُبْعَث مُنَادٍ عِنْدَ حَضْرَۃِکُلِّ صَلٰوۃِ فَیَقُوْلُ یَا بَنِیْ اٰدَمَ قُوْمُوْا فَاَطْفِئُوْا مَا اَوْقَدْتُّم عَلٰی اَنْفُسِکُمْ فَیَقُوْمُوْنَ فَیَتَطَہَّرُوْنَ وَیُصَلُّونَ اظُّہْرَ فَیُغْفَرُلَہُمْ مَا بَیْنَہُمَا فَاِذَا حَضَرَتِ الْعَصْرُ فَمِثْلُ ذٰلِکَ فَاِذَا حَضَرَتِ الْمَغْرِبُ فَمِثْلُ ذٰلِکَ فَاِذَا حَضَرَتِ الْعَتَمَۃُ فَمِثْلُ ذٰلِکَفَیَنَامُوْنَ فَمُدْلِجٌ فِیْ خَیْرٍ وَمُدْ لِجٌ فِیْ شَرٍّ۔(قال المنذری رواہ مالک واللفظ لہ واحمد ماسناد حسن والنسائی وابن خزیمۃ فی صحیحہ)۔

حضوراقدسﷺکا اِرشا د ہے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو ایک فرشتہ اعلان کرتاتا ہے کہ اے آدم کی اولاد اٹھواور جہنم کی اس آگ کو جسے تم نے (گناہوں کی بدولت) اپنے اوپر جلانا شروع کردیا ہے بجھاؤ چنانچہ (دیندار لوگ) اُٹھتے ہیں وضو کرتے ہیں ظہر کی نماز پڑھتے ہیں جس کی وجہ ان کے گناہوں کی (صبح سے ظہر تک کی) مغفرت کر دیجاتی ہے اسی طرح پھر عصر کے وقت پھر مغرب کے وقت پھر عشاء کے وقت (غرض ہر نماز کے وقت یہی صورت ہوتی ہے) عشاء کے بعد لوگ سونے میں مشغول ہوجاتے ہیں اس کے

بعد اندھیرے میں بعض لوگ برائیوں زنا کاری بدکاری، چوری وکی طرف چل دیتے ہیں اور بعض لوگ بھلائیوں (نماز، وظیفہ۔ذکر وغیرہ) کی طرف چلنے لگتے ہیں ۔

ف: حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے یہ مضمون آیا ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے لطف سے نماز کی بدولت گناہوں کو معاف فرماتے ہیں اور نماز میں چونکہ استغفارخود موجود ہے جیسا کہ اوپر گذرا اسلئے صغیرہ اور کبیرہ ہر قسم کے گناہ اس میں داخل ہوجاتے ہیں بشرطیکہ دل سے گناہوں پر ندامت ہو۔ خود حق تعالی شانہ کاارشاد ہے۔اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِوَزُلَفًا مِّنْ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ ط جیسا کہ حدیث (۳) میں گزرا ۔

حضرت سلمان ؓ ایک بڑے مشہور صحابی ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب عشاء کی نماز ہو لیتی ہے تو تمام آدمی تین جماعتوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ایک وہ جماعت ہے جس کے لئے یہ رات نعمت ہے اور کمائی ہے اور بھلائی ہے۔ وہ حضرات ہیں جو رات کی فرصت کو غنیمت سمجھتے ہیں اور جب لوگ اپنے اپنے راحت وآرام اور سونے میں مشغول ہوجاتے ہیں تو یہ لوگ نماز میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ ان کی رات ان کے لئے اجروثواب بن جاتی ہے۔ دوسری وہ جماعت ہے جس کیلئے رات وبال ہے عذاب ہے یہ وہ جماعت ہے جو رات کی تنہائی اور فرصت کو غنیمت سمجھتی ہے اور گناہوں میں مشغول ہو جاتی ہے اُن کی رات ان پر وبال بن جاتی ہے۔ تیسری وہ جماعت ہے جو عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتی ہے اس کے لئے نہ وبال ہے نہ کمائی، نہ کچھ گیا اور نہ آیا۔

۹۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ بِنْ رَبْعِیٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اِنِّی افْتَرَضْتُ عَلٰی اُمَّتِکَ خَمْسَ صَلٰواتٍ وَعَھِدْتُ عِنْدِیْ عَھْدًااَنَّہ‘ مَنْ حَافِظَ عَلَیْھِنَّ لِوَقْتِھِنَّ اَدْخَلْتُہُالْجَنّۃَ فِیْ عَھْدِیْ وَمَنْ لَّمْ یُحَافِظْ عَلَیْھِنَّ فَلَا عَھْدَ لَہ‘ عِنْدِیْ۔(کذافی الدرالمنثوربروایت ابی داود و ابن ماجۃوفیہایضا اخرج مالک وابن ابی شیبۃ و احمدد اود و النسایو ابن حبان والبقی عن عبادۃ بن الصامت فذکرمعنی حدیث الباب مرفوعاباطول منہ)

حضورﷺکا اِرشاد ہے کہ حق تعالی جل شانہٗ نے یہ فرمایا کہ میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور اس کا میں نے اپنے لئے عہد کرلیا ہے کہ جو شخص ان پانچوں نمازوں کو اُن کے وقت پر ادا کرنے کا اِہتمام کرے اس کو اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کرونگا اور جو اِن نمازوں کا اہتمام نہ کرے تو مجھ پر اُسکی کوئی ذمہ داری نہیں ۔

ف:ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون اور وضاحت سے آیاہے کہحق تعالی جل شانہٗ نے پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں جو شخص ان میں لاپروائی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ اچھی طرح وضو کرے اور وقت پر ادا کرے خشوع وخضوع سے پڑھے۔ حق تعالیٰ جل شانہٗ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے اور جو شخص ایسا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اُس سے نہیں ، چاہے اس کی مغفرت فرمائیں چاہے عذاب دیں کتنی بڑی فضیلت ہے نماز کی کہ اس کے اِہتمام سے اللہ کے عہد میں اورذمہ داری میں آدمی داخل ہوجاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی معمولی سا حاکم یا دولت مند کسی شخص کو اطمینان دلادے یا کسی مطالبہ کا ذِ مہ دار ہوجائے یا کسی قسم کی ضمانت کرلے تو وہ کتنا مطمئن اور خوش ہوتا ہے اور اُس حاکم کا کس قدر احسان مند اور گرویدہ بن جاتا ہے۔ یہاں ایک معمولی عبادت پر جس میں کچھ مشقت بھی نہیں ہے مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ عہد کرتا ہے پھر بھی لوگ اس چیز سے غفلت اور لاپروائی کرتے ہیں ۔ اِس کسی کا کیا نقصان ہے، اپنی ہی کم نصیبی اور اپنا یہ ضرر ہے۔

۱۰۔ عَنْ اِبْنِ سُلْمَانَ اَنَّ رَجُلًا مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِﷺ حَدَّثَہ‘ قَالَ لَمَّا فَتَحْنَاخَیْبَرَاَخْرَجُوْا غَنَائِمَھُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبِیِ فَجَعَلَ النَّاسُ یَتَبَا یَعُوْنَ غَنَائِمَھُمْ فَجَائَ رجُلٌ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِلَقَدْرَبِحْتُ رِبْحًا مَارَبِحَ الْیَوْمَ مِثْلَہ‘ اَحَدٌ مِّن اَھْلِ الْوَادِیْ قَالَ وَیْحَکَ وَمَارَبِحْتَ قَالَ مَازِلْتُ اَبِیْعُ وَاَبْتَاعُ حَتّٰی رَبِحْت ثَلٰثَ مِائَۃِ اُوْقِیَۃٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ اَنَااُنَبِّئُکَ بِخَیْر رَجُلٍ رَبِحَ قَالَ مَاھُوَیَارَسُوْلَ اﷲِ قَالَ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَالصَّلٰوۃِ۔ (اخرجہ ابوداودوسکت عنہ المذری)

ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ لڑائی میں جب خیبر کو فتح کرچکے تو لوگوں نے اپنے مالِ غنیمت کو نکالا جس میں متفرق سامان تھا اور قیدی تھے اور خرید و فروخت شروع ہوگئی (کہ ہر شخص اپنی ضروریات خریدنے لگا اور دوسری زائد چیزیں فروخت کرنے لگا ، اتنے میں ایک صحابیؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے آج کی اس تجارت میں اس قدر نفع ہوا کہ ساری جماعت میں سے کسی کو بھی اتنا نفع نہیں مل سکا۔ حضورﷺنے تعجب سے پوچھا کہ کتنا کمایا اُنہوں نے عرض کیا کہ حضورمیں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اوقیہ چاندی نفع میں بچی حضورﷺ نے اِرشاد فرمایا میں تمہیں بہترین نفع کی چیز بتاؤں انہوں نے عرض کیا حضورمیں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اوقیہ چاندی نفع میں بچی حضورﷺنے اِرشاد فرمایا میں تمہیں بہترین نفع کی چیز بتاؤں انہوں نے عرض کیا حضور ضرور بتائیں اِرشاد فرمایاکہ فرض نماز کے بعد دو رکعت نفل۔

ف: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم تقریباًچار آنہ کا۔ تو اس حساب سے تین ہزار روپیہ ہوا۔ جس کے مقابلہ میں دو جہان کے بادشاہ کا ارشاد ہے کہ یہ کیا نفع ہوا۔ حقیقی نفع وہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنے والا اور کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اگر حقیقت میں ہم لوگوں کے ایمان ایسے ہی ہو جائیں اور دو رکعت نماز کے مقابلہ تین ہزار روپے کی وقعت نہ رہے تو پھرواقعی زندگی کا لطف ہے اور حق یہ ہے کہ نماز ہے ہی ایسی دولت۔ اسی وجہ سے حضوراقدس سیدالبشر فخر رسل ﷺنے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے۔ اور وصال کے وقت آخری وصیت جو فرمائی ہے اس میں نماز کے اِہتمام کا حکم فرمایا ہے (کنزالعمال) متعددحدیثوں میں اس کی وصیت مذکور ہے منجملہ ان کے حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ آخری وقت میں جب زبان مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے اس وقت بھی حضوراقدسﷺنماز اور غلاموں کے حقوق کی تاکید فرمائی تھی۔ حضرت علیؓ سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ آخری کلام حضوراَقدسﷺ کا نماز کی تاکید اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم تھا (جامع صغیر) حضوراقدسﷺْ نے نجد کی طرف ایک مرتبہ جہاد کے لئے لشکر بھیجا جو بہت ہی جلدی واپس لوٹ آیا اور ساتھ ہی بہت سارا مال غنیمت لے کر آیا۔ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا کہ اتنی ذرا سی مدت میں اتنی بڑی کامیابی اور مال و دولت کے ساتھ واپس آ گیا۔ حضورﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس سے بھی کم وقت میں اس مال سے بہت زیادہ غنیمت اور دولت کمانے والی جماعت بتاؤں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح کی نماز میں جماعت میں شریک ہوں اور آفتاب نکلنے تک اسی جگہ بیٹھے رہیں ۔ آفتاب نکلنے کے بعد (جب مکروہ وقت جو تقریباً بیس منٹ رہتا ہے نکل جائے) تو دو رکعت (اشراق کی) نماز پڑھیں ۔ یہ لوگ بہت تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ دولت کمانے والے ہیں ۔ حضرت شفیق ؒ بلخی مشہورصوفی اور بزرگ ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے پانچ چیزیں تلاش کیں اُن کو پانچ جگہ پایا (۱) روزی کی برکت چاشت کی نماز میں ملی اور (۲) قبر کی روشنی تہجد کی نماز میں ملی (۳) منکر نکیر کے سوال کا جواب طلب کیا تو اس کو قرأت میں پایا اور (۴) پل صراط کا سہولت سے پار ہونا روزہ اور صدقہ میں پایا اور (۵) عرش کا سایہ خلوت میں پایا (نزہۃالمجالس) حدیث کی کتابوں میں نماز کے بارے میں بہت ہی تاکید اور بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے تبرکا ًچند احادیث کا صرف ترجمہ لکھا جاتا ہے۔

(۱) حضورﷺکا اِرشاد ہے کہ اللہ جل شانہ نے میری امت پر سب چیزوں سے پہلے نماز فرض کی اور قیامت میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا (۲) نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو (۳)آدمی کے اور شرک کے درمیان نماز ہی حائل ہے (۴) اسلام کی علامت نماز ہے جو شخص دل کو فارع کر کے اور اوقات اور مستحبات کی رعایت رکھ کر نماز پڑھے وہ مومن ہے (۵) حق تعالیٰ شانہ ‘نے کوئی چیز ایمان اور نماز سے افضل فرض نہیں کی اگر اس سے افضل کسی اور چیز کو فرض کرتے تو فرشتوں کو اس کا حکم دیتے فرشتے دن رات کوئی رکوع میں ہے کوئی سجدے میں (۶) نماز دین کا ستون ہے (۷) نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے (۸) نماز مومن کا نور ہے (۹) نماز افضل جہاد ہے (۱۰) جب آدمی نماز میں داخل ہوگا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کی طرف پوری توجہ فرماتے ہیں جب وہ نماز سے ہٹ جاتا ہے تو وہ بھی توجہ ہٹا لیتے ہیں (۱۱)جب کوئی افت آسمان سے اترتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹ جاتی ہے (۱۲) اگر ادمی کسی وجہ سے جہنم میں جاتا ہے تو اس کی آگ سجدے کی جگہ کو نہیں کھاتی(۱۳) اﷲ نے سجدہ کی جگہ کو آگ پر حرام فرما دیا ہے (۱۴) سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اﷲ کے نزدیک وہ نماز ہے جو وقت پر پڑھی جائے (۱۵) اﷲ جل شانہ کو آدمی کی ساری حالتوں میں سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس کو سجدہ میں پڑا ہوا دیکھی کہ پیشانی زمین سے رگڑ رہا ہے (۱۶) اﷲ جل شانہ کے ساتھ آدمی کو سب سے زیادہ قرب سجدہ میں ہوتا ہے (۱۷) جنت کی کنجیاں نماز ہیں (۱۸) جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اﷲ جل شانہ کے اور اس نمازی کے درمیان پردے ہٹ جاتے ہیں جب تک کہ کھانسی وعیرہ میں مشغول نہ ہو (۱۹) نمازی شہنشاہ کا دروازہ کھٹکٹاتا اور یہ قاعدہ ہے کہ جو دروازہ کھٹکٹاتا ہی رہے تو کھلتا ہی ہے (۲۰) نماز کا مرتبہ دین میں ایسا ہی ہے جیسا کہ سر کا درجہ ہے بدن میں (۲۱) نماز دل کا نور ہے جو اپنے دل کو نورانی بنانا چاہے (نماز کے ڈریعہ سے ) بنا لے (۲۲) جو شخص اچھی طرح وضو کر اس کے اعد خشوع و خضوع سے دو یا چار رکعت نماز فرض یا نفل پڑھ کر اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے اﷲ تعالی شانہ معاف فرما دیتے ہیں (۲۳) زمین کے جس حصہ پر نماز کے ذریعہ سے اﷲ کی یاد کی جاتی ہے وہ حصہ زمین کے دوسرے ٹکڑوں پر فخر کرتا ہے (۲۴) جو شخص دو رکعت نماز پڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتا ہے تو حق تعالی شانہ وہ دعا قبول فرما لیتے ہیں خواہ فوراً ہو یا کسی مصلحت سے کجھ دیر کے بعد مگر قبول ضرور فرماتے ہیں (۲۵) جو شخص تنہائی میں دو رکعت نماز پڑھے جس کو اﷲ اور اس کے فرشتوں کے سوا کوئی نہ دیکھے تو اس کی جہنم کی آگ سے بری ہونے کا پروانہ مل جاتاہے (۲۶) جو شخص ایک فرض نماز ادا کرے اﷲ جل شانہ کے یہاں ایک مقبول دعا اس کی ہو جاتی ہے (۲۷) جو پانچوں نمازوں کا اہتمام کرتا رہے ان کے رکوع و سجود اور وضو وغیرہ کو اہتمام کے ساتھ اچھی طرح سے پورا کرتا رہے جنت اس کے لئے واجب ہو جاتی ہے اور دوزخ اس پر حرام ہو جاتی ہے (۲۸)مسلمان جب تک پانچوں نمازوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے شیطان اس سے ڈرتا رہتا ہے اور جب وہ نمازوں میں کوتاہی کرنے لگتا ہے تو شیطان کو اس پر جرأت ہو جاتی ہے اور اس کے بہکانے کی طمع کرنے لگتا ہے (۲۹) سب سے افضل عمل اول وقت نماز پڑھنا ہے (۳۰) نماز ہر متقی کی قربانی ہے (۳۱) اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل نماز کو اول وقت پڑھنا ہے (۳۲) صبح کو جو شخص نماز کو جاتا ہے اس کے ہاتھ میں ایمان کا جھنڈا ہوتا ہے اور جو بازار کو جاتا ہے اس کے ہاتھ میں شیطان کا جھنڈا ہوتا ہے (۳۳) ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتوں کا ثواب ایسا ہے جیسا کہ تہجد کی چار رکعتوں کا (۳۴) ظہر سے پہلے چار رکعتیں تہجد کی چار رکعتوں کے برابر شمار ہوتی ہیں (۳۵) جب آدمی نماز کو کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الٰہیہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے (۳۶)افضل ترین نماز آدھی رات کی ہے مگر اس کے پڑھنے والے بہت ہی کم ہیں (۳۷) میرے پاس حضرت جبرئیل آئے اور کہنے لگے اے محمد ﷺ خواہ کتنا ہی آپ زندہ رہیں آخر ایک دن مرنا ہے اور جس سے چاہیں محبت کریں آخر ایک دن اس سے جدا ہونا ہے اور آپ جس قسم کا بھی عمل کریں (بھلا یا برا ) اس کا بدلہ ضرور ملے گا اس میں کو ئی تردد نہیں کہ مؤمن کی شرافت تہجد کی نماز ہے اور مومن کی عزت لوگوں سے استغنا ہے (۳۸) اخیر رات کی دو رکعتیں تمام دنیا سے افضل ہیں اگر مجھے مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو امت پر فرض کر دیتا(۳۹) تہجد ضرور پڑھا کرو کہ تہجد صالحین کا طریقہ ہے اور اﷲ کے قرب کا سبب ہے تہجد گناہوں سے روکتا ہے اور خطاؤں کی معافی کا ذریعہ ہے اس سے بدن کی تندرستی بھی ہوتی ہے (۴۰) حق تعالیٰ شا نہ‘ کا ارشاد ہے کہ اے آدم کی اولاد تو دن کے شروع میں چار رکعتوں سے عاجز نہ بن میں تمام دن تیرے کاموں کی کفایت کروں گا ۔

حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے نماز کے فضائل اور ترغیبن ذکر کی گئی ہیں چالیس کے عدد کی رعایت سے اتنے پر کفایت کی گئی کہ اگر کوئی شخص ان کو حفظ یاد کر لے تو چالیس حدیثیں یاد کرنے کی فضیلت حاصل کرلے گا حق یہ ہے کہ نماز ایسی بڑی دولت ہے کہ اس کی قدر وہی کر سکتا ہے جس کو اﷲ جل شانہ نے اس کا مزہ چکھا دیا ہو اسی دولت کی وجہ سے حضور نے اپنی آنکھ کی ٹھنڈک اس میں فرمائی اور اسی لذت کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ رات کا اکثر حصہ نماز ہی میں گذار دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وصال کے وقت خاص طور پر نماز کی وصیت فرمائی اور اس کے اہتمام کی تاکید فرمائی متعدد احادیث میں ارشاد نبوی نقل کیا گیا اِتَّقُواللّٰہَ فِی الصَّلٰوۃ ’’نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرتے رہو ‘‘حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ تمام اعمال میں مجھے نماز سب سے زیادہ محبوب ہے ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ایک رات مسجد نبوی پر گزرا حضوراَقدسﷺنماز پڑھ رہے تھے مجھے بھی شوق ہوا حضور کے پیچھے نیت باندھ لی حضورﷺسورہ بقرہ پڑھ رہے تھے میں نے خیال کیا کہ سو آیتوں پر رکوع کر دیں گے مگر جب وہ گزر گئیں اور رکوع نہ کیا تو میں نے سوچا دو سو پر رکوع کریں گے مگر وہاں بھی نہ کیا تو مجھے خیال ہوا کہ سورت کے ختم ہی پر کرین گے جب سورت ختم ہوئی تو حضورنے کئی مرتبہ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورہ آل عمران شروع کردی میں سوچ میں پڑ گیا آخر میں نے خیال کیا کہ آخر اس کے ختم پر تو رکوع کریں ہی گے حضور نے اس کو ختم فرمایا اور تین مرتبہ اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورئہ مائدہ شروع کردی اس کو ختم کر کے رکوع کیا اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھتے رہے اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی پڑھتے رہے جوسمجھ میں نہ آیا اس کے بعد اسی طرح سجدہ میں سبْحانَ رَ بی الْاَ عْلٰی بھی پرھتے رہے اس کے ساتھ کجھ اور بھی پڑھتے تھے اس کے بعد دوسری رکعت میں سورہ انعام شروع کردی میں حضور کے ساتھ نماز پڑھنے کی ہمت نہ کر سکا اور مجبور ہو کر چلا آیا پہلی رکعت میں تقریاً پانچ سیپارے ہوئے اور پھر حضور اقدس ﷺ کا پڑھنا جو نہایت اطمینان سے تجوید اور ترتیل کے ساتھ ایک ایک آیت جدا جدا کر کے پڑھتے تھے ایسی صورت میں کتنی لانبی رکعت ہوئی ہوگی انہیں وجوہ سے آپ کے پاؤں پر نماز پڑھتے پڑھتے ورم آ جاتا تھا مگر جس چیز کی لذت دل میں اتر جاتی ہے اس میں مشقت اور تکلیف دشوار نہیں رہتی ابو اسحق سبیحی مشہور محدث ہین سو برس کی عمر میں انتقال فرمایا اس پر افسوس کیا کرتے تھے کہ بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے نماز کا لطف جاتا رہا دو رکعتوں میں صرف دو سورتیں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھی جاتی ہیں زیادہ نہیں پڑھا جاتا ( تہذیب التہذیب ) یہ دو سورتیں بھی پونے چار پاروں کی ہیں محمد بن سماک فرماتے ہیں کہ کوفہ میں میرا ایک پڑوسی تھا اس کے ایک لڑکا تھا جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا اور رات بھر نماز میں اور شوقیہ اشعار میں رہتا تھا وہ سوکھ کر ایسا ہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑہ رہ گیا اس کے والد نے مجھ سے کہا کہ تم اس کو ڈرا سمجھاؤ میں ایک مرتبہ اپنے دروازہ پر بیٹھا ہوا تھا وہ سامنے سے گزرا میں نے اسے بلایا وہ آیا سلام کرکے بیٹھ گیا میں نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ کہنے لگا چچا شاید آپ محنت میں کمی کا مشورہ دیں گے چچا جان میں نے اس محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ دیکھیں کون شخص عبادت میں زیادہ کوشش کرے انہوں نے کوشش اور محنت کی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف بلا لئے گئے جب وہ بلائے گئے تو بڑی خوشی اور سرور کے ساتھ گئے ان میں سے میرے سوا کوئی باقی نہیں رہا میرا عمل دن میں دوبار ان پر ظاہرہوتا ہو گا وہ کیا کہیں گے جب اس میں کوتاہی پائیں گے چچاجان ان جوانوں نے بڑے بڑے مجاہدے کئے ان کی محنتیں اور مجاہدے بیان کرنے لگا جن کو سنکر ہم لوگ متحیر رہ گئے اس کے بعد وہ لڑکا اٹھ کر چلا گیا تیسرے دن ہم نے سنا کہ وہ بھی رخصت ہو گیا ۔ رحمہ اﷲرحمۃ واسعۃ( نزہتہ) اب بھی اس گئے گذرے زمانے میں اﷲ کے بندے ایسے دیکھے جاتے ہیں جو رات کا اکثر حصہ نماز میں گزار دیتے ہیں اور دن دین کے کاموں تبلیغ و تعلیم میں منہمک رہتے ہیں حضرت مجدد الف ثانی کے نام نامی سے کون شخص ہندوستان میں ناواقف ہو گا ان کے ایک خلیفہ مولانا عبدالواحد لاہوری نے ایک دن ارشاد فرمایا کیا جنت میں نماز نہ ہو گی کسی نے عرض کیا کہ حضرت جنت میں نماز کیوں ہو وہ تو اعمال کے بدلہ کی جگہ ہے نہ کہ عمل کرنے کی اس پر ایک آہ کھینچی اور رونے لگے اور فرمایا کہ بغیر نماز کے جنت میں کیونکر گزرے گی ایسے ہی لوگوں سے دنیا قائم ہے اور زندگی کو وصول کرنے والی حقیقت میں یہی مبارک ہستیاں ہیں اﷲ جل شانہ اپنے لطف اور اپنے پر مر مٹنے والوں کے طفیل اس روسیاہ کو بھی نواز دے تو اس کے لطف عام سے کیا بعید ہے ایک پر لطف قصہ پر اس فصل کو ختم کرتا ہوں حافظ ابن حجر نے منیہات میں لکھا ہے ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں خوشبو ،عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے حضورﷺکے پاس چند صحابہؓ تشریف فرما تھے حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ فرمایا اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں آپ کے چہرہ کا دیکھنا اپنے مال کو آپ پر خرچ کرنا اور یہ کہ میری بیٹی آپ کے نکاح میں ہے حضرت عمر ؓنے فرمایا سچ ہے اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں امر بالمعروف نہی عن المنکر اچھے کاموں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا اور پرانا کپڑا حضرت عثمان ؓنے فرمایا آپ نے سچ کہا اور مجھے تیں چیزیں محبوب ہیں بھوکو کو کھلانا ننگوں کپڑا پہنانا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا حضرت علی ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ فرمایا اور مجھے تین چیزیں پسند ہیں مہمان کی خدمت ،گرمی کا روزہ اور دشمن پر تلوار ۔اتنے میں حضرت جبریئل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھے حق تعالیٰ شا نہ‘ نے بھیجا ہے اور فرمایا کہ اگر میں ( یعنی جبرئیل) دنیا والوں میں ہوتا تو بتاؤں مجھے کیا پسند ہوتا حضور ﷺنماز دین کا ستون ہے نے ارشاد فرمایا بتاؤ عرض کیا بھولے ہووں کو راستہ بتانا غریب عبادت کرنے والوں سے محبت رکھنا اور عیال دار مفلسوں کی مدد کرنا اور اللہ جل شانہٗ کو بندوں کی تین چیزیں پسندہیں ( اﷲ کی راہ میں ) طاقت کا خرچ کرنا ( مال سے ہو یا جان سے) اور گناہ پرندامت کے وقت رونا اور فاقہ پر صبر کرنا ۔

حافظ ابن قَیِّمؒ در زادالمعادمیں تحریر فرماتے ہیں کہ نماز روزی کو کھینچنے والی ہے صحت کی محافظ ہے بیماریوں کو رفع کرنے والی ہے دل کی تقویت پہنچاتی ہے چہرہ کو خوبصورت اور منور کرتی ہے جان کو فرحت پہنچاتی ہے اعضاء میں نشاط پیدا کرتی ہے کاہلی کو دفع کرتی ہے شرح صدر کا سبب ہے ۔رُوح کی غذا ہے ۔دل کو منور کرتی ہے ۔اﷲ کے انعام کی محافظ ہے اور عذاب الٰہی سے حفاظت کا سبب ہے شیطان کو دور کرتی ہے اور رحمن سے قرب پیدا کرتی ہے غرض روح اور بدن کی صحت کی حفاظت میں اس کو خاص دخل ہے اور دونوں چیزوں میں اس کی عجیب تاثیر ہے نیز دنیا اور آخرت کی مضرتوں کے دور کرنے میں اور دونوں جہان کے منافع پیدا کرنے میں اس کو بہت خصوصیت ہے ۔

٭٭

 

               فصل دوم: نماز کے چھوڑنے پر جو وعید اور عتاب حدیث میں آیا ہے اس کا بیان

 

حدیث کی کتابوں میں نماز نہ پڑھنے پر بہت سخت سخت عذاب ذکر کئے گئے ہیں نمونے کے طور پر چند حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں سجی خبر دینے والے کا ایک ارشاد بھی سمجھ دار کے لئے کافی تھا مگر حضور اقدس ﷺکی شفقت کے قربان کہ آپ نے کئی کئی طرح سے اور بار بار اس چیز کی طرف متوجہ فرمایا کہ ان کے نام لیوا ان کی امت کہیں اس میں کوتاہی نہ کرنے لگے پھر افسوس ہے ہمارے حال پر کہ ہم حضور کے اس اہتمام کے باوجود نماز کا اہتمام نہیں کرتے اور بے غیری اور بے حیائی سے اپنے کو امتی اور متبع رسول اور اسلام کا دھنی بھی سمجھتے ہیں ۔

۱۔ عَنْ جَابِرِؓ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الرَّجُلاِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃ۔(رواہ احمد و مسلم) وَقَالَ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ۔ (ابوداودوالنسای ولفظہ لیس بین العبد وبین الکفر الاترکُ الصَّلٰوۃوالترمذی ولفظہ قال بین الکفروالایمان ترک الصلوۃ وابن ماجۃ ولفظہ قال بین العبد وبین الکفر ترالصلوۃکذافی التراغیب للمنذری وقال السیوطی فی الدرالحدیث جابراخرجہ ابن ابی شیبۃواحمدومسلم وابوداودوالترمذی النسای وابن ماجۃ ثم قال واخراج ابن ابی شیبۃواحمدوابوداودوالترمذی وصححہ والنسای وابن ماجۃ و ان حبان والحاکم وصححہ عن بُرَیدَۃَ مَرْفُوْعًا اَلْعَھْدُالَّذِیْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمُ الصَّلٰوۃ فَمَنْ تَرَکَھَاَ فَقَدْ کَفَر

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز چھوڑنا آدمی کو کفر سے ملادیتا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ بندہ کو اور کفر کو ملانے والی چیز صرف نماز چھوڑنا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔

ف : اس قسم کا مضمون اور بھی کئی حدیثوں میں آیا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ ابر کے دن نماز جلدی پڑھا کرو کیونکہ نماز چھوڑنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ ابر کی وجہ سے وقت کا پتہ نہ چلے اور نماز قضا ہو جائے اس کو بھی نماز کا چھوڑنا ارشاد فرمایا کتنی سخت بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز کے چھوڑنے والے پر کفر کا حکم لگانے میں گو علماء نے اس حدیث کوانکار کے ساتھ مقید فرمایا ہے مگر حضور ﷺکے ارشاد کی فکر اتنی سخت چیز ہے کہ جس کے دل میں ذرا بھی حضور اقدس ﷺ کی وقعت اور حضور ﷺکے ارشاد کی اہمیت ہو گی اس کے لئے یہ ارشادات نہایت سخت ہیں اس کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ جیسا کہ حضرت عمرؓ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓوغیرہ حضرات کا یہی مذہب ہے کہ بلا عذر جان کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے ائمہ میں سے حضرت امام احمد بن حنبل اسحق بن راہویہ ابن مبارک کا بھی یہی مذہب نقل کیا جاتا ہے اللہم احفظنا منہ۔

۲۔ عَنْ عُبَادَۃَبْن الصَّامتِؓ قَالَ أَوْ صَانِیْ خَلِیْلِی ْرَسُوْلُ اﷲِﷺ بِسَبْعِ خِصَالٍ فَقَالَ لَا تُشْرِکُوْابِاﷲِ شَیْئًاوَّاِنْ قُطِعْتُمْ اَوْ حُرِّقْتُمْ اَوْصُلِّبْتُمْ وَلَا تَتْرُکُوالصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدِیْنَ فَمَنْ تَرَکَھَا مُتَعَمِّداً افَقَد خَرَجَ مِنَ المِلَّۃِ وَلَا تَرْکَبُوْا الْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّھَاسَخَطُ اﷲِ وَلَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ فَاِنَّھَا رَأْسُ الْخَطَایَاکُلِّھَا۔(الحدیث رواہ الطبرانی ومحمد بن نصرفی کتابی الصلوۃباسنادین لاناس بھما کذافیالترغیب وھکذاذکرہ السیوطی فی الدرالمنثورواعزہ الیھمافی المشکوۃ بروایۃ ابن ماجۃعن ابن ابی الدرداء نحوہ

حضرت عبادہؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضوراقدسﷺ نے سات نصیحتیں کی ہیں جن میں سے چار یہ ہیں اول یہ کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ بناؤ چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا تم جلا دئے جاؤ یا تم سولی چڑھا دئے جاؤ دوسری یہ کہ جان کر نماز نہ چھوڑو جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے وہ مذہت سے نکل جاتا ہے تیسری یہ کہ اﷲ تعالی کی نافرمانی نہ کرو کہ اس سے حق تعالی ناراض ہو جاتے ہیں جوتھی یہ کہ شراب نہ پیو کہ وہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔

ف: ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو الدردا ؓ بھی اسی قسم کا مضمون نقل فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب ﷺ نے وصیت فرمائی کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ کرنا خواہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا آگ میں جلا دیا جائے دوسری نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑنا جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے اﷲ تعالی شانہ بری الذمہ ہیں تیسری شراب نہ پینا کہ ہر برائی کی کنجی ہے۔

۳۔ عَنْ مُّعَاؓذِبْنِ جَبَلٍ قَالَ اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ بِعَشْرِ کَلِمَاتٍ قَالَ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ شَیْاً وَّاِنْ قُتِلْتَ اَؤحُرِّقْتَ وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِد یْکَ وَاِنْ اَمَرَاکَاَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَھْلِکَ وَمَالِکَ وَلَا تَتْرُکَن صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّدًافَاِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًافَقَدْبَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُاﷲِ وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرَاَفَاِنَّہ‘ رَأْسُ کُلِّ فَاحِشَۃٍ وَاِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اﷲِ وَاِیَّاکَ وَالْفِرَارَمِنَ الزَّحْفِ وَاِنْ ھَلَکَ النَّاسُ وَاِنْ اَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ فَاثْبُتُ وَاَنْفِقْ عَلٰی اَھْلِکَ مِنْ طَوْلِکَ وَلَا تَرْفَعْ عَنْھُمْ عَصَاکَ اَدَبًاوَاَخِفْھُمْ فِی اﷲِ۔

حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اقدسؐ نے دس باتوں کی وصیت فرمائی (۱) یہ کہ اﷲ کیساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تو قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے (۲) والدین کی نافرمانی نہ کرنا گو وہ تجھے اس کا حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے یا سارا مال خرچ کر دے (۳) فرض نماز جان کر نہ چھوڑنا جو شخص فرض نماز جان کر چھوڑ دیتا ہے اﷲ کا ذمہ اس سے بری ہے (۴)شراب نہ پینا کہ یہ ہر برائی اور فحش کی جڑہے(۵) اﷲ کی نافرمانی نہ کرنا کہ اس سے اﷲ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے (۶) لڑائی میں نہ بھاگنا چاہے سب ساتھی مر جائیں (۷) اگر کسی جگہ وبا پھیل جاوے (جیسے طاعون وغیرہ) تو وہاں سے نہ بھاگنا اپنے گھر ولوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرنا (۹) تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا (۱۰) اﷲ تعالیٰ سے انکو ڈراتے رہنا۔

(رواہ احمدوالطبرنی فی الکبیرواسناد احمدصحیح لوسلم من الانقطاع فان عبدالرحمن ابن جبیر لم یسمع من معاذذافی الترغیب الیھما عزاہ السیوطیفی الدرولم یذکرالا نقطاع ثم قال واخرج الطبرانی عن امیمۃ مولۃرسول اﷲ ﷺ قالت کنت اصب علی رسول اﷲ علیہ وسلم وضوء ہ فدخل رجل فقال اوصنی فقال لاتشرک باﷲشیا وان قطعت او حرقت خمرا فانہ مفتاح کل شرولاتترکن صلوۃمتعمداً فمن فعل ذلک فقد برات منہ ذمۃاﷲورسولہ)۔

ف: لکڑی نہ ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بے فکر نہ ہوں کہ باپ تنبیہ نہیں کرتا اور مارتا نہیں جو چاہے کرتے رہو بلکہ ان کو حدود شرعیہ کے تحت کبھی کبھی مارتے رہنا چاہئے کہ بغیر مار کے اگثرتنبیہ نہیں ہوتی آج کل اولاد کو شروع میں تو محبت کے جوش میں تنبیہ نہیں کی جاتی جب وہ بری عادتوں میں پختہ ہو جاتے ہیں تو پھر روتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ اولاد کے ساتھ محبت نہیں سخت دشمنی ہے کہ اس کو بری باتوں سے روکا نہ جائے اور مارپیٹ کو محبت کے خلاف سمجھا جائے کون سمجھ دار اس کو گوارا کر سکتا ہے کہ اولاد کے پھوڑے پھنسی کو بڑھایا جائے اور اس وجہ سے کہ نشتر لگانے سے زخم اور تکلیف ہو گی عمل جراحی نہ کرایا جائے بلکہ لاکھ بچہ روئے منہ بنائے بھاگے بہرحال نشتر لگانا ہی پڑتا ہے بہت سی حدیثوں میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ بچہ کو سات برس کی عمر میں نماز کا حکم کرو اور دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو اور اچھی باتوں کی ان کو عادت ڈالو حضرت لقمان حکیم کا ارشاد ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لئے ایسی ہے جیسا کہ کھیتی کے لئے پانی حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو تنبیہ کرے یہ ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر علہ کا ہوتا ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی اس شخص پر رحمت کرے جو گھر والوں کو تنبیہ کے واسطے گھر میں کورا لٹکائے رکھے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے افضل عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھا طریقہ تعلیم کرے۔

۴۔ عَنْ نَوفَلِ بْنِ مُعٰوِیَۃَؓ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ فَاتَتُہُ صَلٰوۃٌفَکَاَنَّمَا وُتِرَاَھْلُہ‘ وَمَالُہ‘۔(رواہ ابن حبان فی صحیحہ کذافی الترغیب

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کی ایک نماز بھی فوت ہو گئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال و دولت سب چھین لیا گیا ہو۔

زادالسیوطی فی الدروالنسائی ایضاقلت ورواہ احمد فی مندہ) ۔

ف: نماز کا ضائع کرنا اکثر یا بال بچوں کی و جہ سے ہوتا ہے کہ ان کی خیر خبر میں مشغول رہے یا مال و دولت کمانے کے لالچ میں ضائع کی جاتی ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز کا ضائع کرنا انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے گویا بال بچے اور مال و دولت سب ہی چھیں لیا گیا اور اکیلا کھڑا رہ گیا یعنی جتنا خسارہ اور نقصان اس حالت میں ہے اتنا ہی نماز کے چھوڑنے میں ہے یا جس قدر رنج و صدمہ اس حالت میں ہو اتنا ہی نماز کے چھوٹنے میں ہونا چاہئے اگر کسی شخص سے کوئی معتبر آدمی یہ کہہ دے اور اسے یقین آ جائے کہ فلاں راستہ لٹتا ہے اور جو رات کو اس راستہ سے جاتا ہے تو ڈاکو اس کو قتل کر دیتے ہیں اور مال چھیں لیتے ہیں تو کون بہادر ہے کہ اس راستہ سے رات کو چلے رات کو تو درکنار دن کو بھی مشکل سے اس راستہ کو چلے گا مگر اﷲ کے سچے رسول کا یہ پاک ارشاد ایک دو نہیں کئی کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے اور ہم مسلمان حضورﷺ کے سچے ہونیکا دعوٰی بھی جھوٹی زبانوں سے کرتے ہیں مگر اس پاک ارشاد کا ہم پر اثر کیا ہے ہر شخص کو معلوم ہے۔

۵۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلٰوتَیْنِ مِنْ غَیْرِعُذْرٍ فَقَدْاَتٰی بَابًا مِنْ اَبُوَابِ الْکَبَآئِرِ۔

نبی اکر م ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص دو نمازوں کو بلا کسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر پہنچ گیا۔

(رواہ الحا کم و قال حنش ھوابن قیس ثقۃ وقال الحافظ بل واہ بمرۃ لا نعلم احمدوثقہ غیر حصین بن نمیرکذافی الترغیب زادالسیوطی فی الدرالترمذی ایضا و ذکرفی الالی لہ شواھد اکذافی التعقبات وقال الحدیث اخرجہ الترمذی وقالحنش ضعیف ضعفہ احمد وغیرہ والعملعلی ھذاعند اھل العلم فاشار بذلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقدصرح غیر واحد بان من ولیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ لم یکن اسناد یعتمد علی مثلہ۱ہ)

ف: حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تین چیز میں تاخیر نہ کر ایک نماز جب اس کا وقت ہو جائے دوسری جنازہ جب تیار ہو جائے تیسری بے نکاحی عورت جب اس کے جوڑ کا خاوند مل جائے ( یعنی فوراً نکاح کر دینا ) بہت سے لوگ جو اپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیں اور گویا نماز کے پابند بھی سمجھے جاتے ہیں وہ کئی کئی نمازیں معمولی بہانہ سے سفر کا ہو دوکان کا ہو ملازمت کا ہو گھر آ کر اکھٹی ہی پڑھ لیتے ہین یہ گناہ کبیرہ ہے کہ بلا کسی عذر بیماری وغیرہ کے نماز کو اپنے وقت پر نہ پڑھا جاوے گو بالکل نماز نہ پڑھنے کے برابر گناہ نہ ہو لیکن بے وقت پڑھنے کا بھی سخت گناہ ہے اس سے خلاصی نہ ہوئی۔

۶۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍوؓ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہ‘ ذَکَرَ الصَّلٰوۃَ یَوْمًا فَقَالَ مَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا کَا نَتْ لَہ‘ نُوْرًا وَّبُرْہَانًا وَّ نَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَّمْ یُحَا فِظْ عَلَیْہَا لَمْ یَکُنْ لَّہ‘ نُوْرٌ وَّلَابُرْہَانٌ وَّ لَا نَجَاۃٌ وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلْفٍ ـ

ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے نماز کا ذکر فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ وہ شخص نماز کا اہتمام کرے تو نماز اس کیلئے قیامت کے دن نور ہو گی اور حساب پیش ہونے کے وقت حجت ہو گی اور نجات کا سبب ہو گی اور جو شخص نماز کا اہتمام نہ کرے اس کیلئے قیامت کے دن نہ نور ہو گا اور نہ اس کے پاس کوئی حجت ہو گی اور نہ نجات کا کوئی ذریعہ اس کا حشر فرعون ہامان اور ابی بن خلف کیساتھ ہو گا۔

ف: فرعون کو تو ہر شخص جانتا ہے کہ کس درجہ کا کافر تھا حتی کہ خدائی کا دعوی کیا تھا اور ہامان اس کے وزیر کا نام ہے اور ابی بن خلف مکہ کے مشرکین میں سے بڑا سخت دشمن اسلام تھا ہجرت سے پہلے نبی اکرم ﷺ سے کہا کرتا تھا کہ میں نے ایک گھوڑا پالا ہے اس کو بہت کچھ کھلاتا ہوں اس پر سوار ہو کر ( نعوذ باﷲ) تم کو قتل کروں گا حضور نے ایک مرتبہ اس سے فرمایا تھا کہ انشاء اﷲ میں ہی تجھ کو قتل کروں گا احد کی لڑآئی میں وہ حصور اقدس ﷺ کو تلاش کرتا پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر وہ آج بچ گئے تو میری خیر نہیں چنانچہ حملہ کے ارادہ سے وہ حضور کے قریب پہنچ گیا صحابہ نے ارادہ بھی فرمایا کہ دور ہی سے اس کو نمٹا دیں حضور نے ارشاد فرمایا کہ آنیدو جب وہ قریب ہوا تو حضور ﷺنے ایک صحابی کے ہاتھ میں سے برچھا لے کر اس کے مارا جو اس کی گردن پر لگا اور ہلکا سا خراش اس کی گردن پر آ گیا مگر اس کی وجہ سے گھوڑے سے لڑھکتا ہوا گرا اور کئی مرتبہ گرا اور بھاگتا ہوا اپنے لشکر میں پہنچ گیا اور چلاتا تھا کہ خدا کی قسم مجھے محمد ﷺ نے قتل کر دیا کفار نے اس کو اطمینان دلایا کہ معمولی خراش ہے کوئی فکر کی بات نہیں مگر وہ کہتا تھا کہ محمد نے مکہ میں کہا تھاکہ میں تجھ کو قتل کروں گا خدا کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں مر جاتا لکھتے ہیں کہ اس کے چلانیکی آواز ایسی ہو گئی تھی جیسا کہ بیل کی ہوتی ہے ابو سفیان نے جو اس لڑائی میں بڑے زوروں پر تھا اس کو شرم دلائی کہ اس ذرا سی خراش سے اتنا چلاتا ہے اس نے کہا تجھے خبر بھی ہے کہ یہ کس نے ماری ہے یہ محمد کی مار ہے مجھے اس سے جس قدر تکلیف ہو رہی ہے لات اور غزی ( دو مشہور بتوں کے نام ہیں ) کی قسم اگر یہ تکلیف سارے حجاز والوں کو تقسیم کر دی جائے تو سب ہلاک ہو جائیں محمد نے مجھ سے مکہ میں کہا تھا کہ میں تجھ کو قتل کروں گا میں نیاسی وقت سمجھ لیا تھا کہ میں ان کے ہاتھ سے ضرور مارا جاؤں گا میں ان سے چھوٹ نہیں سکتا اگر وہ اس کہنے کے بعد مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں اس سے بھی مرجاتا چنانچہ مکہ مکرمہ پہنچنے سے ایک دن پہلے وہ راستہ ہی میں مر گیا ہم مسلمانوں کے نہایت غیرت اور عبرت کا مقام ہے کہ ایک کافر پکے کافر اور سخت دشمن کو تو حضور ﷺکے ارشاد کے سچا ہونیکا اس قدر یقین ہو کہ اس کو اپنے مارے جانے میں ذرا بھی تردد یا شک نہ تھا لیکن ہم لوگ حضورﷺ کو نبی ماننے کے باوجود حضور ﷺکو سچاماننے کے باوجود حضورﷺ کے ارشادات کو یقینی کہنے کے باوجود حضورﷺ کے ساتھ محبت کے دعوے کے باوجود حضورﷺ کی امت میں ہو نے پر فخر کے باوجود کتنے ارشادات پر عمل کرتے ہیں اور جن چیزوں میں حضورﷺ نے عذاب بتائے ہیں ان سے کتنا ڈرتے ہیں کتنا کانپتے ہیں یہ ہر شخص کے اپنے ہی گریبان میں منہ ڈال کر دیکھنے کی بات ہے کو ی ٔدوسرا کسی کے متعلق کیا کہہ سکتا ہے ابن حجر نے کتاب الزواجر میں قارون کا بھی فرعون وغیرہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اکثر انہی وجوہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھین پس اگر اس کی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہو گا اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ اور وزارت ( یعنی ملازمت یا مصاحبت ) ہے تو ہامان کے ساتھ اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ اور جب ان لوگوں کے ساٹھ اس کا حشر لو گیا تو پھر جس قسم کے بھی عذاب احادیث میں وارد ہوئے خواہ وہ حدیثیں متکلم فیہ ہوں ان میں کوئی اشکال نہیں رہا کہ جہنم کے عذاب سخت سے سخت ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کو اپنے ایمان کی وجہ سے ایک نہ ایک دن ان سے خلاصی ہو جائے گی اور وہ لوگ ہمیشہ کیلئے اس میں رہیں گے لیکن خلاصی ہونے تک کا زمانہ کیا کچھ ہنسی کھیل ہے نہ معلوم کتنے ہزار برس ہوں گے۔

۷۔ قَالَ بَعُضُھُمْ وَرَدَفِی الْحَدِیْثِ اَنَّ مَنْ حَافَظَ عَلَی الصَّلٰوۃِ اَکْرَمَہُ اﷲُ تَعَالٰی بِخَمْسِ خِصَالٍ یَرْفَعُ عَنْہُ ضِیْقَ الْعَیْشِ وَعَذَابَ الْقَبْرِ وَیُعْطِیْہِ اﷲُ کِتَابَہ‘ بِیَمِیْنِہٖ وَ یَمُرُّ عَلَی الصِّرَاطِ کَالْبَرْقِ وَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَمَنْ تَھَاوَنَ عَنِ الصِّلٰوۃِ عَاقَبَہُ اﷲُ بِخَمْسَ عَشَرَۃَ عُقُوْبَۃً خَمْسَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَثَلٰثَۃٌ عِنْدَالْمَوْتِ و ثَلٰثٌ فِیْ قَبْرِہٖ وَ ثَلَاثٌ عِنْدَ خُرُوْجِہٖ مِنَ الْقَبْرِ فَاَمَّا الَّلَواتِیْ فِی الدُّنْیَا فَالْاُوْلٰی تُنْزَعُ الْبَرَکَۃُ مِنْ عُمْرِہٖ یَمُوْتُ ذَلِیْلًا وَالثَّانِیَۃُ یَمُوْتُ جُوْعًا وَّالثَّالِثَۃُ یَمُوْتُ عَطْشَانًا وَلَوْسُقِیَ بِحَارُ الدُّنْیَا مَا رَوِیَ مِنْ عَطْشِہٖ اَضْلَاعُہ‘ وَوَ الثَّانِیَۃُ یُوْقَدُ عَلَیْہِ الْقَبْرُ نَارًافَیَتَقَلَّبُ عَلَی الْجَمَرِ لَیْلًا وَّنَھَارًا وَ الثَّالِثَۃُ یُسَلَّطُ عَلَیْہِ فِیْ قَبْرِہٖ ثُعْبَانٌ اِسْمُہُ الشَّجَاعُ الْاَقْرَعُ عَیْنَاہُ مِنْ نَّارَوَاَظْفَارُہ‘ مِنْ حَدِیْدٍ طُوْلُ کُلِّ ظُفْرٍ مَسِیْرَۃُ یَوْمٍیُکَلِّمُ الْمَیِّتَ فَیَقُوْلُ اَنَا الشُّجَاعُ الْاَقْرَعُ وَصَوْتُہ‘مِثْلُ الرَّعْدِ الْقَاصِفِ یَقُوْلُ اَمَرَنِیْ رَبِّیْٓ اَنْ اَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ اِلٰی بَعْدِ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَاَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الظُّھْرِ اِلَی الْعَصْر وَاَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلَی الْمَغْرِبِ وَاَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ اِلَی الْعِشَآئِ وَاَضْرِبَکِ عَلٰی تَضْیِیْع صَلٰوۃالْعِشَآئِ اِلَی الْفَجْرِ فَکُلَّمَا ضَرَبَہٗ ضَرْبَۃً یَغُوْصُ فِی الْاَرْضِ سَبْعِیْنَ ذِرَاعًا فَلَایَزَالُ فِی الْقَبْرِ مُعَذَّبًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَاَمَّاالَّتِیْ تُصِیْبُہٗ عِنْدَ خُرُوْجِہٖ مِنَ الْقَبْرِفِیْ مَوْقِفِ الْقِیَامَۃِ فَشِدَّۃُ الْحِسَابِ وَسَخَطُ الرَّبِّ وَدُخُوْلُ النَّارِ وَفِی رِوَایَۃٍ فَاِنَّہٗ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْھِہٖ ثَلَاثَۃُ اَسْطُرً مَّکْتُوْبَاتٌ اَلسَّطْرُ الْاَوَّلُ یَا مُضَیِّعَ حَقِّ اﷲِ السَّطْرُ الثَّانِیْ یَا مَخْصُوْصًا بِغَضَبِ اﷲِ الثَّالِثُ کَمَا ضَیَّعْتَ فِی الدُّنْیَا حَقَّ اﷲِ فَأٰیِسٌ الْیَوْمَ اَنْتَ مِنْ رَّحْمَۃ اﷲِ

ایک حدیث میں آیاہے کہ جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے حق تعالیٰ شانہٗ پانچ طرح سے اس کااکرام و اعزاز فرماتے ہیں ایک یہ کہ اس پر سے رزق کی تنگی ہٹا دیجاتی ہے دوسرے یہ کہ اس سے عذاب قبر ہٹا دیا جاتا ہے تیسرے یہ کہ قیامت کو اس کے اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے (جن کا حال سورہ الحاقہ میں مفصل مذکور ہے کہ جن لوگوں کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دئے جائیں گے وہ نہایت خوش وخرم ہر شخص کو دکھاتے پھریں گے) اور چوتھے یہ کہ پل صراط پر سے بجلی کی طرح گذر جائیں گے پانچویں بغیر حساب جنت میں د اخل ہونگے اور جوشخص نمار میں سستی کرتا ہے اس کو پندرہ طریقہ سے عذاب ہوتا ہے پانچ طرح دنیا میں اور تین طرح موت کے وقت اور تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد۔ دنیا کے پانچ تویہ ہیں اول یہ کہ اس کی زندگی میں برکت نہیں ہوتی دوسرے یہ کہ صلحاء کا نور اس کے چہرہ سے ہٹادیا جاتا ہے تیسرے یہ کہ اس کے نیک کاموں کا اجر ہٹا دیاجاتا ہے چوتھے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں پانچویں یہ کہ نیک بندوں کی دعائوں میں اس کا استحقاق نہیں رہتا اورموت کے وقت کے تین عذاب یہ ہے کہ اول ذلت سے مرتا ہے دوسرے بھوکا مرتاہے تیسرے پیاس کی شدت میں موت آتی ہے، اگر سمندر بھی پی لے تو پیاس نہیں بجھتی۔ قبرکے تین عذاب یہ ہے اول اس پر قبر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں

دوسرے قبر میں آگ جلادی جاتی ہے تیسرے قبر میں ایک سانپ اس پر ایسی شکل کا مسلط ہوتا ہے جس کی آنکھیں آگ کی ہوتی ہیں اور ناخن لوہے کہ اتنے لانبے کہ ایک دن پورا چل کر اس کے ختم تک پہنچا جائے اس کی آواز بجلی کی کڑک کی طرح ہوتی ہے وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے ربنے تجھ پرمسلط کیا ہے کہ تجھے صبح کی نمازضائع کرنیکی و جہ سے آفتاب کے نکلنے تک مارے جاؤں اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک مارے جاؤن اور پھر عصر کی نماز ضائع کرنے کی و جہ سے غروب تک مغرب کی نماز کی و جہ سے عشاء تک اور عشاء کی نماز کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں ضائع کرنیکی و جہ سے آفتاب کے نکلنے تک مارے جاؤں اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک مارے جاؤن اور پھر عصر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے غروب تک مغرب کی نماز کی وجہ سے عشاء تک اور عشاء کی نماز کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں جب وہ ایک دفعہ اس کو مارتا ہے تو اس کی و جہ سے وہ مردہ ستر ہاتھ زمین میں عشاء کی نماز کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں جب وہ ایک دفعہ اس کو مارتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ مردہ ستر ہاتھ زمین میں دھنس جاتا ہے اسی طرح قیامت تک اس کو عذاب ہوتا رہے گا اور قبر سے نکلنے کے بعد کے تین عذاب یہ ہیں : ایک حساب سکتی سے کیا جائے گا دوسرے حق تعالیٰ شا نہ‘ کا اس پرغصہ ہو گا تیسرے جہنم میں داخل کر دیا جائے گا یہ کل میزان چودہ ہوئی ممکن ہے کہ پندرھواں بھول سے رہ گیا ہو اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کے چہرہ پر تین سطریں لکھی ہوئی ہوتی ہیں پہلی سطر او اﷲ کے حق کو ضائع کرنے والے دوسری سطر او اﷲ کے غصے کیساتھ مخصوص تیسری سطر جیسا کہ تو نے دنیا میں اﷲ کے حق کوضائع کیا آج تو اﷲ کی رحمت سے مایوس ہے۔

(ماذکرفی ھذاالحدیث من تفصیل العدد لا یطابق جملۃ الخمس عشرۃ لان المفصل اربع عشرۃ فقط فلعل الرای نسی الخمس عشر کذافی الزواجر لابن حجرالملکی قلت وھو کذلک فان ابا اللیث السمرقندی ذکرالحدیث فی قرۃ العیون فجعل ستہ فی الدنیا فقال الخامسۃ تمقتہ الخلائق فی الدار الدنیا والسادس لیس لہ حظ فی دعاء الصالحین ثم ذکر الحدیث بتمامہ ولم یعزہ الی احد وفی تنبیہ الغافلین للشیخ نصربن محمد ابراھیم السمرقندی یقال من داوم علی الصوۃ الخمس فی الجاعۃ اعطاہ اﷲ خمس خصال ومن تھاون بھافی الجماعۃ عاقبہ اﷲ باثنی عشر خصلۃ ثلثۃ فی الدنیا ثلثۃ عند الموت وثلثۃ فی القبر وثلثۃ یوم القیامۃ ثم ذکرنحوھاثم قال وروی عن ابی ذر عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم نحو ھذا وذکر السیوطی فی ذیل الالی بعد ما اخج بمعناہ من تخریج ابن النجار فی تریخ بغداد بستدہالی ابی ہریرۃ قال فی المیزان ہذا حدیث بطل رکبہ محمد بن علی بن عباس علی ابی بکر بن زیاد النیسا بوری قلت لکن ذکر الحافظ فی المنبہات عن ابی ہریرۃ مرفوعا الصلوۃ عماد الد ین وفیہا عشر خصال الحدیث ذکرتہ فی الہندیہ ونکر الغزالی فی دقائق ائق الاخبار بنحو ہذا اتم منہ وقال من حافظ علیہا اکرمہ اللہ بخس عشرۃ الخ مفصلا)

ف: یہ حدیث پوری اگرچہ عام کتب حدیث میں مجھے نہیں ملی لیکن اس میں جتنی قسم کے ثواب اور غزاب ذکر کئے گئے ہیں ان کی اکثر کی تائید بہت سی روایات سے ہوتی ہے جن میں سے بعض پہلے گذر چکی ہیں اور بعض آگے آ رہی ہیں اور پہلی روایات میں بے نمازی کا اسلام سے نکل جانا بھی مذکور ہے تو پھر جس قدر غزاب ہو تھوڑا ہے البتہ یہ ضرر ہے کہ یہ کچھ مذکور ہے اور آئیندہ آ رہا ہے وہ سب اس فعل کی سزا ہے اس کے مستحق سزا ہونے کے بعد اور اس دفعہ کی فرد جرم کے ساتھ ہی ارشاد خداوندی ہے ان اﷲ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشائکہ اﷲ تعالیٰ شرک کی تو معافی نہیں فرمائیں گے اس کے علاوہ جس کی دل چاہے معافی فرمادیں گے اس آیت شریفہ اور اس جیسی آیات اور احادیث کی بنا پر اگر معاف فرمادیں تو زہے قسمت احادیث میں آیا ہے کہ قیامت میں تین عدالتیں ہیں ایک کفر و اسلام کی اس میں بالکل بخشش نہیں دوسری حقوق العباد کی اس میں حق والے کا حق ضرور دلایا جائے گا چاہے اس سے لیا جائے جس کے ذمہ ہے یا اس کو معاف فرمانے کی مرضی ہو تو اپنے پاس سے دیا جائے گا تیسری عدالت اﷲ تعالی ٰکے اپنے حقوق کی ہے اس میں بخشش کے دروازے کھول دئے جائیں گے اس بناء پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے افعال کی سزائیں تو یہی ہیں جو احادیث میں وارد ہوئیں لیکن مراحم خسروانہ اس سے بالاتر ہیں ان کے علاوہ اور بھی بعض قسم کے عذا ب اور ثواب احادیث میں آئے ہیں بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ کا معمول تھا کہ صبح کی نماز کے بعد صحابہ سے دریافت فرماتے کہ کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے اگر کوئی دیکھتا تو بیان کر دیتا حضور اس کی تعبیر ارشاد فرما دیتے۔ایک مرتبہ حضور نے حسب معمول دریافت فرمایا اس کیے بعد ارشاد فرمایاکہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ دو شخص آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے اس کے بعد بہت لمبا خواب ذکر فرمایا جس میں جنت دوزخ اور اس میں مختلف قسم کے غذاب لوگوں کو ہوتے ہوئے دیکھے منجملہ ان کے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا سر پتھر سے کچلا جارہا ہے اور اس زور سے پتھر مارا جاتا ہے کہ وہ پتھر لڑھکتا ہوا دور جا پڑتا ہے اتنے اس کو اٹھایا جاتا ہے وہ سر پھر ویسا ہی ہو جاتا ہے تو دوبارہ اس کو زور سے مارا جاتا ہے اسی طرح اس کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے حضور نے اپنے دونوں ساتھیوں سے دریافت فرمایا کہ یہ کون شخص ہے تو انہوں نے بتایا کہ اس شخص نے قرآن شریف پڑھا تھا اور اس کو چھوڑ دیا تھا اور فرص نماز چھوڑ کر سو جاتا تھا ایک دوسری حدیث میں اسی قسم کا ایک اور قصہ ہے جس میں ہے کہ حضور نے ایک جماعت کے ساتھ یہ برتاؤ دیکھا تو حضرت جبرئیل ں سے دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز میں سستی کرتے تھے مجاہد کہتے ہیں کہ جو لوگ نماز کے اوقات معلوم کرنے کا اہتمام رکھتے ہیں ان میں ایسی برکت ہوتی ہے جیسی حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد میں ہوئی حضرت انس ؓ حضورﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص دنیا سے ایسے حال میں رخصت ہو کہ اخلاص کا ساتھ ایمان رکھتا ہو اس کی عبادت کرتا ہو نماز پڑھتا ہو زکوٰۃ ادا کرتا ہو تو وہ ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گا کہ حق تعالیٰ شا نہ‘ اس سے راضی ہوں گے حضرت انسؓ حضورﷺ سے حق تعالیٰ شا نہ‘ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں کسی جگہ غذاب بھیجنے کا ارادہ کرتا ہوں مگر وہاں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اﷲ کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں اخیر راتوں میں استغفار کرتے ہیں تو عذاب کو موقوف کر دیتا ہوں حضرت ابو دردؓا نے حضرت سلمان ؓ کو ایک خط لکھا جس میں یہ لکھا کہ مسجد میں اکثر اوقات گزارا کرو میں نے حضور سے سنا ہے کہ مسجد متقی کا گھر ہے اور اﷲ جل شانہ نے اس بات کا عہد فر ما لیا ہے کہ جو شخص مسجد میں اکثر رہتا ہے اس پر رحمت کروں گا اس کو راحت دونگا اور قیامت میں پل صراط کا راستہ آسان کر دوں گا اور اپنی رضا نصیب کروں گا حضرت عبداﷲ بن مسعود حضور سے نقل کرتے ہیں کہ جب مردہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو جو لوگ قبر تک ساتھ گئے تھے واپس بھی نہیں ہوتے کہ فرشتے اس کے امتحان کے لئے آتے ہیں اس وقت اگر وہ مؤمن ہے تو نماز اس کے سر کے قریب ہوتی ہے اور زکوۃ دائیں جانب اور روزہ بائیں جانب اور باقی جتنے بھلائی کے کام کئے تھے وہ پاؤں کی جانب ہو جاتے ہیں اور ہر طرف سے اس کا احاطہ کر لیتے ہیں کہ اس کے قریب تک کوئی نہیں پہنچ سکتا فرشتے دور ہی سے کھڑے ہو کر سوال کرتے ہیں ایک صحابی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب حضور کے گھر والوں پر خرچ کی کچھ تنگی ہوتی تو آپ ان کو نماز کا حکم فرماتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے تلاوت فرماتے و امر اھلک بالصلوۃ واصطبر علیھا لا نسئلک رزقاً نحن نرزقک و العاقبۃ للتوی اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیجئے اور خود بھی اس کا اہتمام کرتے رہئے ہم آپ سے روزی (کموانا) نہیں چاہتے روزی تو ہم دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیز گاری ہی کا ہے حضرت اسماء کہتی ہیں میں نیحضور سے سنا کہ قیامت کے دن سارے آدمی ایک جگہ جمع ہوں گے اور فرشتہ جو بھی آواز دے گا سب کو سنائی دے گی اسوقت اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جو راحت اور تکلیف میں ہر حال میں اﷲ کی حمد کرتے تھے یہ سنکر ایک جماعت اٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائے گی پھر اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جو راتوں کو عبادت میں مشغول رہتے تھے اور ان کے پہلو بستروں سے دور رہتے تھے پھر ایک جماعت اٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائے گی پھر اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارت اور خرید و فروخت اﷲ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی تھی پھر ایک جماعت اٹھے گیاور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائے گی ایک اور حدیث میں بھی یہی قصہ آیا ہے اس میں بہ بھی ہے کہ اعلان ہو گا آج محشر والے دیکھیں گے کہ کریم لوگ کون ہیں اور اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارتی مشاغل اﷲ کے ذکر اور نماز سے نہیں روکتے تھے شیخ نصر سمر قندی نے تنبیہ الغافلین میں بھی یہ حدیث لکھی ہے اس کے بعد لکھا ہے کہ جب یہ حضرات بغیر حساب کتاب چھوٹ چکیں گے تو جہنم سے ایک ( عنق ) لمبی گردن ظاہر ہو گی جو لوگوں کی پھاندتی ہوئی چلی آئے گی اس میں دو چمکدار آنکھیں ہوں گی اور نہایت فصیح زبان ہو گی وہ کہے گی کہ میں ہر اس شخص پر مسلط ہوں جو متکبر بد مزاج ہو اور مجمع میں سے ایسے لوگوں کو اس طرح چن لے گی جیسا کہ جانور دانہ چگتا ہے ان سب کو چن کر جہنم میں پھینک دے گی اس کے بعد پھر اسی طرح دوبارہ نکلے گی اور کہے گی کہ اب میں ہر اس شخص پر مسلط ہوں جس نے اﷲ کو اور اس کے رسول کی ایذادی ان لوگوں کو بھی جماعت سے چن کر لے جائے گی اس کے بعد سہ بارہ پھر نکلے گی اور اس مرتبہ تصویر والوں کو چن کر لے جائے گی اس کے بعد جب یہ تینوں قسم کے آدمی مجمع سے چھٹ جائیں گے تو حساب کتاب شروع ہو گا کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں شیطان آدمیوں کو نظر آ جاتا تھا ایک صاحب نے اس سے کہا کہ کوئی ترکیب ایسی بتا کہ میں تجھ جیسا ہوجاؤں شیطان نے کہا کہ ایسی فرمائش تو آج تک مجھ سے کسی نے بھی نہیں کی تجھے اس کی کیا ضرورت پیش ائی انہوں نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے شیطان نے کہ اس کی ترکیب یہ ہے کہ نماز میں سستی کر اور قسم کھانے میں ذرا پرواہ نہ کر جھوٹی سچی ہر طرح کی قسمیں کھایا کر ان صاحب نے کہا کہ میں اﷲ سے عہد کرتا ہوں کہ کبھی نماز نہ چھوڑوں گا اور کبھی قسم نہ کھاؤں گا شیطان نے کہا کہ تیرے سوا مجھ سے چال کے ساتھ کسی نے کچھ نہیں لیا میں نے بھی عہد کر لیا کہ آدمی کو کبھی نصیحت نہیں کروں گا ۔

حضرت ابی ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا اس امت کو رفعت و عزت اور دین کے فروغ کی بشارت دو لیکن دین کے کسی کام کو جو شخص دنیا کے واطے کرے آخرت میں اس کاکوئی حصہ نہیں ایک حدیث میں آیا ہے حضور اقدس ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حق تعالیٰ شا نہ‘ کی بہتریں صورت میں زیارت کی مجھ سے ارشاد ہوا کہ محمد ملا اعلی والے یعنی فرشتے کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں میں نے عرض کیا مجھے تو علم نہیں تو حق تعالیٰ شا نہ‘ نے اپنا دست مبارک میرے سینہ پر رکھ دیا جس کی ٹھنڈک سینہ کے اندر تک محسوس ہوئی اور اس کی برکت سے تمام عالم مجھ پر منکشف ہو گیا پھر مجھ سے ارشاد فرمایا اب بتاؤ فرشتے کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ درجہ بلند کرنے والی چیزوں میں اور ان چیزوں میں جو گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں اور جماعت کی نماز کی طرف جو قدم اٹھتے ہیں ان کے ثواب میں اور سردی کے وقت وضو کو ا چھی طرح سے کرنے کے فضائل میں اور ایک نماز کے بعد سے دوسری نماز تک انتظار میں بیٹھے رہنے کی فضیلت میں جو شخص ان کا اہتمام کرے گا بہتریں حالت میں زندگی گذارے گا اور بہترین حالت میں مرے گا متعدد احادیث میں آیا ہے حق تعالیٰ شا نُہ‘ ارشاد فرماتے ہیں اے ابن آدم تو دن کے شروع میں میرے لئے چار رکعت پرھ لیا کر میں تمام دن کے تیرے کام بنا دیا کروں گا تنبیہ الغافلیں میں ایک حدیث لکھی ہے کہ نماز اﷲ کی رضا کا سبب ہے فرشتوں کی محبوب چیز ہے انبیاء کی سنت ہے اس سے معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے دعا قبول ہوتی ہے رزق میں برکت ہوتی ہے یہ ایمان کی جڑ ہے بدن کی راحت ہے دشمن کے لئے ہتھیار ہے نمازی کے لئے سفارشی ہے قبر میں چراغ ہے اور اس کی وحشت میں دل پہلانے والی ہے منکر نکیر کے سوال کا جواب ہے اور قیامت کی دھوپ میں سایہ ہے اور اندھیرے میں روشنی ہے جہنم کی آگ کے لئے آڑ ہے اعمال کی ترازو کا بوجھ ہے پل صراط پر جلدی سے گزارنے والی ہے جنت کی کنجی ہے حافظ ابن حجر نے منبیہات میں حضرت عثمان غنی ؓ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص نماز کی محافظت کرے اوقات کی پابندی کے ساتھ اس کا اہتمام کرے حق تعالیٰ شا نُہ‘ نو چیزوں کیساتھ اس کا اکرام فرماتے ہیں اول یہ کہ اس کو خودمحبوب رکھتے ہیں دوسرے تندرستی عطا فرماتے ہیں تیسرے فرشتے اس کی حفاظت فرماتے ہیں چوتھے اس کے گھر میں برکت عطا فرماتے ہین پانچویں اس کے چہرہ پر صلحاء کے انوار ظاہر ہوتے ہیں چھٹے اس کا دل نرم فرماتے ہیں ساتویں وہ پل صراط پر بجلی کی طرح سے گزر جائے گا آٹھویں جہنم سے نجات فر ما دیتے ہیں نویں جنت میں ایسے لوگوں کا پروس نصیب ہو گا جن کے بارے میں لا خوف علیھم و لا ھم یخزنون الایۃ وارد ہے یعنی قیامت میں نہ ان کو کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں کے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس خوبیان ہیں چہرہ کی رونق ہے دل کا نور ہے بدن کی راحت اور تندرسی کا سبب ہے قبر کا انس ہے اﷲ کی رحمت اترنے کا ذریعہ ہے آسمان کی کنجی ہے اعمالناموں کی ترازو کا وزن ہے ( کہ اس سے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے ) اﷲ کی رضا کا سبب ہے جنت کی قیمت ہے اور دوزخ کی آر ہے جس شخص نے اس کو قائم کیا اس نے دین کو قائم رکھا اور جس نے اس کو چھوڑا اپنے دین کو گرا دیا ایک حدیث میں وارد ہوا کہ گھر میں نماز پڑھنا نور ہے نماز سے اپنے گھروں کو منور کیا کرو اور یہ تو مشہور حدیث ہے کہ میری امت قیامت کے دن وضو اور سجدہ کی وجہ سے روشن ہاتھ پاؤں والی روشن چہرہ والی ہو گی اسی علامت سے دوسری امتوں سے پہچانی جائے گی ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آسمان سے کوئی بلا آفت نازل ہوتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹا لی جاتی ہے متعدد احادیث میں آیا ہے کہ اﷲ تعالی نے جہنم پر حرام کر دیا ہے کہ سجدہ کے نشان کو جلاے (یعنی اگر اپنے اعمال بد کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل بھی ہو گا تو سجدہ کا نشان جس جگہ ہو گا اس پر آگ کا اثر نہ ہوسکے گا ) ایک حدیث میں ہے کہ نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے اور صدقہ اس کی کمر توڑ دیتا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ نماز شفاء ہے دوسری جگہ اس کے متعلق ایک قصہ نقل کیا کہ حضرت ابو ہریرہ ایک مرتبہ پیٹ کے بل لیٹء ہو تھے حضورؐ نے دریافت فرمایا کیا پیٹ میں درد ہے عرض کیا جی ہاں فرمایا اٹھ نماز پڑھ نماز میں شفاء ہے حضور اقدسﷺ نے ایک مرتبہ جنت کو خواب میں دیکھا تو حضرت بلال کے جوتوں کے گھسیٹنے کی آواز بھی سنائی دی صبح کو حضورﷺنے پوچھا کہ تیرا وہ خصوصی عمل کیا ہے جس کی وجہ سے جنت میں بھی تو ( دنیا کی طرح سے) میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا عرض کیا کہ رات دن میں جس وقت بہی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو وضو کرتا ہوں اس کے بعد ( تحیۃ الضو کی ) نماز جتنی مقدر ہو پڑھتا ہوں سفیری نے کہا ہے کہ صبح کی نماز چھوڑنے والے کو ملائکہ اور فاجر سے پکارتے ہین اور ظہر کی نماز چھوڑنے والے کو او خاسر (خسارہ والے ) سے اور عصر کی نماز چھوڑنے والے کو عاصی سے اور مغرب کی نماز چہوڑنے والے کو کافر سے اور عشاے کی نماز جھوڑنے والے کو او مضیع ( اﷲ کا حق ضائع کرنے والے سے پکارتے ہیں علامہ شعرانی فرماتے ہین کہ یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ مصیبت ہر اس آبادی سے ہٹا دی جاتی ہے کہ جہاں کے لوگ نمازی ہوں جیسا کہ ہر اس آبادی پر نازل ہوتی ہے جہاں کہ لوگ نمازی نہ ہوں ایسی جگہوں میں زلزلوں کا آنا بجلیوں کا گرنا مکانوں کا دھنس جانا کچھ بھی مستبعد نہیں اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میں تو نمازی ہوں مجھے دوسری سے کیا غرص اس لئے کہ جب بلا نازل ہوتی ہے تو عام ہوا کرتی ہے ( خود حدیث شریف میں مذکور ہے کسی نے سوال کیا کہ ہم لوگ ایسی صورت میں ہلاک ہو سکتے ہیں کہ ہم میں صلحا موجود ہوں حضورﷺنے ارشاد فرمایا ہاں جب خباثت کا غلبہ ہو جائے ) اسلئے کہ ان کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی وسعت کے موافق دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور اچھی باتوں کا حکم کریں ۔

۸۔ رُوِیَ اَنَّہُ عَلَیَہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ قَالَ مَنْ تَرَکَٔ الصَّلٰوۃَ حَتّٰی مَضٰی وَ قْتُھَا ثُمَّ قَضٰی عُذِّبَ فِی النَّارِ حُقْبًا وَ الْحُقْبُ ثَمَانُوْنَ سَنَۃً وَالسَّنَۃُ ثَٰلثُمِا ئَۃٍ وَّسِتُّوْنَ یَوْمًا کُلُّ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ۔

حضور ﷺ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضا کر دے گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہو گا ( اس حساب سے ) ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی۔

( کذافی مجالس الابرار قلت لم اجدہ فیما عندی من کتب الحدیث الاان مجالس الابرار مدحہ شیخ مشائخنا الشاہ عبد العزیز الدہلوی ثم قال الرغب فی قولہ تعالی لا بثین فیہا الحقابا قیل جمع الحقب ای الدہر قیل والحقبۃ ثمانون عاما والصحیح ان الحقبۃ مدۃ من الزمان مبہمہ و اخراج ابن کثیر فی تفسیر قولہ تعالی فویل للمصلین الذین ہم عن صلوتہم ساہون عن ابن عباس ان فی جہنّم لوادیا تسعیذ جہنّم من ذلک الوادی فی کل یوم ار بماتۃ مرۃ اعد ذلک الوادی للمرائتین من امت محمد الحدیث وذکر ابو للیث السمرقندی فی قرۃ العیون عن ابن عباس وہو مسکن من یوخر الصلوۃ عن وقتہا و عن سعد بن ابی وقاص مرفوعا الذین ہم عن صلوتہم ساہون قال ہم الذین یوخرون الصلوۃ عن وقتہا وصحح الحاکم البیہقی وقفہ وخراج الحاکم عن عبد اللّٰہ فی قولہ تعالی فسوف یلقون غیا قال واد فی جہنّم بعید القعر خبیث الطعم وقال صحیح الاسناد)۔

ف: حقب کے معنی لغت میں بہت زیادہ زمانہ کے ہیں اکثر حدیثوں میں اس کی مقدار یہی آئی ہے جو اوپر گذری یعنی اسی سال در منژور میں متعدد روایات سے یہی مقدار منقول ہے حضرت علی ؓ نے ہلال ہجری سے دریافت فرمایا کہ حقب کی کیا مقدار ہے انہوں نے کہا کہ حقب اسی برس کا ہوتا ہے اور ہر برس بارہ مہینے کا اور ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن ایک ہزار برس کا حضرت عبداﷲبن مسعود سے بھی صحیح روایت سے اسی برس منقول ہین حضرت ابو ہریرہ نے خود حضور اقدس ﷺ سے یہی نقل کیا ہے کہ ایک حقب اسی سال کا ہوتا ہے اور ایک سال تین سو ساٹھ دن کا اور ایک دن تمھارے دنوں کے اعتبار سے ( یعنی دنیا کے موافق) ایک ہزار سال کا یہی مضمون حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے بھی حضورﷺ سے نقل فرمایا ہے اس کے بعد حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس بھروسہ پر نہیں رہنا چاہئے کہ ایمان کی بدولت جہنم سے آکر نکل جائیں گے اتنے سال یعنی دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس جلنے کے بعد نکلنا ہو گا وہ بھی جب ہی کہ اور وجہ زیادہ پڑے رہنے کی نہ ہو اس کے علاوہ اور بھی کجھ مقدار اس سے کم و زیادہ حدیث میں آئی ہے مگر اول تو اوپر والی مقدار کئی حدیثوں کمیں آئی ہے اسلئے یہ مقدم ہے دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ آدمیوں کی حالت کے اعتبار سے کم و بیش ہو۔

ابواللیث سمرقندی نے قرۃ العیون میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے جو شخص ایک فرض نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے اس کا نام جہنم کے دروازہ پر لکھ دیا جاتا ہی اور اس کو اس میں جانا ضروری اور حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا یہ کہو کہ اے اﷲ ہم میں کسی کو شقی محروم نہ کر پھر فرمایا جاتے ہو شقی محروم کون ہے صحابہ کے استفسار پر ارشاد فرمایاکہ شقی محروم نماز کا چھوڑنے والا ہے اس کا کوئی حصہ اسلام میں نہیں ایک حدیث میں ہے کہ دیدہ دانستہ بلا عذر نماز چھوڑنے والا ہیاس کا کوئی حصہ اسلام میں نہیں ایک حدیث میں ہے کہ دیدہدہ و دانستہ بلا عذر نماز چھڑنے والے کی طرف حق تعالی قیامت میں التفات ہی نہ فرمائیں گے اور عزاب الیم (دکھ دینے والا عذاب ) اس کو دیا جائے گا ایک حدیث سے نقل کیا ہے کہ دس آدمیوں کو خاص طور سے عزاب ہو گا منجملہ ان کے نماز کا چھوڑنے والا بھی ہے کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے اور فرشتے منہ اور پشت پر ضرب لگا رہے ہوں گے جنت کہے گی کہ میرا تیرا کوئی تعلق نہیں نہ میں تیرے لئے نہ تو میرے لئے دوزخ کہے گی کہ آ جا میرے پاس آ جا تو میرے لئے ہے میں تیرے لئے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جہنم کی ایک وادی (جنگل) ہے جس کا نام لم لم اس میں سانپ ہیں جو اونٹ کی گردن کے برابر موٹے ہیں اور ان کی لمبائی ایک مہینہ کی مسافت کے برابر ہے اس میں نماز چھوڑنے والوں کو غذاب دیا جائے گا ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک میدان ہے جس کا نام جب الحزن ہے وہ بچھوؤں کا گھر ہے اور ہر بچھو خچر کے برابر بڑا ہے وہ بھی نماز چھوڑنے والوں کو ڈسنے کے لئے ہیں ہاں مولائے کریم معاف کر دے تو کون پوچھنے والا ہے مگر کوئی معافی چاہے بھی تو ابن حجر نے زواجر میں لکھا ہے کہ ایک عورت کا انتقال ہو گیا تھا اس کا بھائی دفن میں شریک تھا اتفاق سے دفن کرتے ہوئے ایک تھیلی قبر میں گر گئی اس وقت خیال نہیں آیا بعد میں یا آئی تو بہت رنج ہوا چپکے سے قبر کھول کر نکالنے کا ارادہ کیا قبر کو کھولا تو وہ آگ کے شعلوں سے بھر رہی تھی روتا ہوا ماں کے پاس آیا اور حال بیان کیا اور پوچھا کہ یہ بات کیا ہے ماں نے بتایا کہ وہ نماز میں سستی کرتی تھی اور قضا کر دیتی تھی اعا ذنا اﷲ منہا۔

۹۔ عَنْ اَبِیْ ھُرِؓیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاسَھْمَ فِی الْاِسْلَامِ لِمَنْ لَّاصَلٰوۃَ لَہٗ وَلَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّاوُضُوْئَ لَہٗ۔

حضور اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام میں کوئی بھی حصہ نہیں اس شخص کا جو نماز نہ پڑھتا ہو اور بے وضو کی نماز نہیں ہوتی دوسری حدیث میں ہے کہ دین بغیر نماز کے نہیں ہے نماز دین کے لیے ایسی ہے جیسا آدمی کے بدن کیلئے سر ہوتاہے۔

(اخرجہ البزار واخرج الحاکم عن عائشۃ مرفوعا صححہ ثلث احلف علیھن لایجعل اﷲ من لہ سھم فی الاسلام کمن لا سھم لہ وسھام الاسلام الصوم و الصلوۃ و الصدقۃالحدیث واخرج الطبرانی فی الاوسط عنابی عمر مرفوعا لا دین لمن لاصلوۃ لہ انماموضع الصلوۃمن الدین کموضع الراس من الجسد کذافی الدرالمنثور)

ف: جو لوگ نماز نہ پڑھ کر اپنے کو مسلمان کہتے ہیں یا حمیت اسلامی کے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں وہ حضور اقدس ﷺ کے ان ارشادات پر زرا غور کر لیں اور جن اسلاف کی کامیابیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھتے ہیں ان کے حالات کی بھی تحقیق کریں کہ وہ دین کو کس مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی پھر دنیا ان کے قدم کیوں نہ چومتی حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ کی آنکھ میں پانی اتر آیا لوگوں نے عرض کیا کہاس کا علاج تو ہو سکتا ہے مگر چند روز آپ نماز نہ پڑھ سکیں گے انہوں نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا میں نے حضورﷺسے سنا ہے کہ جو شخص نماز نہ پڑھے وہ اﷲ جل شانہ کے یہاں ایسی حالت میں حاصر ہو گا کہ حق تعالیٰ شا نہ‘ اس پر ناراض ہوں گے ایک حدیث میں آیا ہے کہ لوگوں نے کہا پانچ دن لکڑی پر سجدہ کرنا پڑء گا انہوں نے فرمایا کہ ایک رکعت بھی اس طرح نہیں پڑھوں گا عمر بھر بینائی کو صبر کر لینا ان حضرات کے یہاں اس سے سہل تھا کہ نماز چھوڑیں حالانکہ اس عذر کی وجہ سے نماز کا چھوڑنا جائز بھی تھا حضرت عمر ﷲ کے اخیر زمانہ میں جب برچھا مارا گیا تو ہر وقت خون جاری رہتا تھا اور اکثر اوقات غفلت رہتی تھی حتی کہ اسی غفلت میں وصال بھی ہو گیا مگر بیماری کے ان دنوں میں جب نماز کا وقت ہوتا تو ان کو ہوشیار کیا جاتا اور نماز کی درخواست کی جاتی وہ اسی حالت میں نماز ادا کرتے اور یہ فرماتے کہ ہاں ہاں صرور جو شخص نماز نہ پڑھے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہمارے یہاں بیمار کی خیر خواہی راحت رسانی اس میں سمجھی جاتی ہے کہ اس کو نماز کی تکلیف نہ دی جائے بعد میں فدیہ دے دیا جائے گا ان حصرت کے یہاں خیر خواہی یہ تھی جو عبادت بھی چلتے چلاتے کر سکے دریغ نہ کیا جائے یبین تفاوت رہ از کجا است تا بہ کجا۔

حضرت علی ؓ نے ایک مرتبہ حضورﷺسے ایک خادم مانگا کہ کاروبار میں مدد کرے حضورؐ نے فرمایاکہ یہ تین غلام ہیں جو پسند ہو لے لو انہوں نے عرض کیا آپ ہی پسند فرما دیں حضورؐ نے ایک شخص کے متعلق فرمایا کہ اس کو لے لو یہ نمازی ہے مگر اس کو مارنا نہیں ہمیں نمازیوں کے مارے کی ممانعت ہے اس قسم کا واقعہ ایک اور صحابی اوالہیثم کے ساتھ بھی ہوا انہوں نے بھی حضورﷺسے غلام مانگا تھااس کے بالمقابل ہمارا ملازم نمازی بن جائے تو ہم اس کو طعن کرتے ہیں اور حماقت سے اس کی نماز میں اپنا حرج سمجھتے ہیں حضرت سفیان ثوری ؒپر ایک مرتبہ غلبہ حال ہوا تو سات روز تک گھر میں رہے نہ کھاتے تھے نہ پیتے تھے نہ سوتے تھے شیخ کو اس کی اطلاع کی گئی دریافت کیا کہ نماز کے اوقات تو محفوظ رہتے ہیں (یعنی نماز کے اوقات کا تو اہتمام رہتا ہے ) لوگوں نے عرض کیا کہ نماز کے اوقات بیشک محفوظ ہیں فرمایا الحمد ﷲ الذی لم یجعل للشیطان علیہ سبیلاتمام تعریف اﷲ ہی کے لئے ہے جس نے شیطان کواس پرمسلط نہ ہونے دیا ( بہجۃ النفوس)

٭٭٭

 

 

 

 

باب دوم: جماعت کے بیان میں

جیسا کہ شروع رسالہ میں لکھا جا چکا ہے بہت سے حضرات نماز پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ نبی اکرم ﷺسے جس طرح نماز کے بارہ میں بہت سخت تاکید آئی ہے اسی طرح جماعت کے بارہ میں بھی بہت سے تاکیدیں وارد ہوئی ہیں اس باب میں بھی دو فصلیں ہیں پہلی فصل جماعت کے فضائل میں دوسری فصل جماعت کے چھوڑنے پر عتاب میں

 

               فصل اول: جماعت کے فضائل میں

 

۱۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲ ِصَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلٰوۃُ الْجَمَاعَۃِ اَفْضَلُ مِنْ صَلٰوۃِ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔

حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ہو تی ہے۔

(رواہ مالک والبخاری و مسلم والترمذی ولنسائی کذافی الترغیب)

ف: جب آدمی نماز پڑھتا ہے اور ثواب ہی کی نیت سے پڑھتا ہے تو معمولی سی بات ہے کہ گھر میں نہ پڑھے مسجد میں جاکر جماعت سے پڑھ لے کہ نہ اس میں کچھ مشقت ہے نہ دقت اور اتنا بڑا ثواب حاصل ہوتا ہے کن شخص ایسا ہو گا جس کو ایک روپے کے ستائیس یا اٹھائیس روپے ملتے ہوں اور وہ ان کو چھوڑ دے مگر دین کی چیزوں میں اتنے بڑے نفع سے بھی بے توجہی کی جاتی ہے اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی پرواہ نہیں اس کا نفع ہم لوگوں کی نگاہ میں نفع نہیں دنیا کی تجارت جس میں ایک آنہ دو آنہ فی روپیہ نفع ملتا ہے اس کے پیچھے دن بھر خاک چھانتے ہیں آخرت کی تجارت جس میں ستائیس گنا نفع ہے وہ ہمارے لئے مصیبت ہے جماعت کی نماز کے لئے جانے میں دکان کانقصان سمجھا جاتا ہے بکری کا بھی نقصان بتایا جاتا ہے دکان کے بند کرنے کی بھی دقت کہی جاتی ہے لیکن جن لوگوں کے یہاں اﷲ جل شانہ کی عظمت ہے اﷲ کے وعدوں پر ان کو اطمینان ہے اس کے اجرو ثواب کی کوئی قیمت ہے اس کے یہاں یہ لچر عذر کچھ بھی وقعت نہیں رکھتے ایسے ہی لوگوں کی اﷲ جل شانہ نی کلام پاک میں تعریف فرمائی ہے رجال لا تلھیھم تجارۃ الایۃ تیسرے باب کے شروع میں پوری آیت مع ترجمہ موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کا جومعمول اذان کے ب عد اپنی تجارت کے ساتھ تھا وہ حکایات صحابہ کے پانچویں باب ْین مختصر طور پر گزر چکا سالم حداد ایک بزرگ تھے تجارت کرتے تھے جب ازان کی آواز سنتے تو رنگ متغیرہو جاتا اور زرد پڑ جاتا بے قرار ہو جاتے دکان کھلی چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے اور یہ اشعار پڑھتے :

اذا ما دعا دا عیکم قمت مسرعا مجیبا لمولی جل لیس لہ مثل

جب تمہارا منادی( مؤذن) پکارنے کے واسطے کھڑا ہو جاتا ہے تو میں جلدی سے کھڑا ہو جاتا ہوں ایسے مالک کی پکار کو قبول کرتے ہوئے جس کی بڑی شان ہے اس کا کوئی مثل نہیں :

و یصفر لونی خیفۃ و مھابۃ و یرجع لی عن کل شغل بہ شغل،

اور میرا رنگ خوف اور ہیبت سے زرد پڑ جاتا ہے اوراس پاک زات کی مشغولی مجھے ہر کام سے بے خبر کر دیتی ہے۔

و حقکم مالذلی غیر ذکرکم و ذکر سوا کم فی فمی قط لا یحلو،

تمہارے حق کی قسم تمہارے زکر کے سوا مجھے کوئی چیز بھی لذیذ نہیں معلوم ہوتی اور تمہارے سوا کسی کے ذکر میں بھی مجھے مزہ نہیں آتا ۔

متی یجمع الایام بینی و بینکم و یفرج مشتاق اذا جمع الشمل،

دیکھئے زمانہ مجھ کو اور تم کو کب جمع کرے گا اور مشتاق تو جب ہی خوش ہوتا ہے جب اجتماع نصیب ہوتا ہے ،

فمن شاھدت عیناہ نور جمالکم یموت اشتیاقاً تحوکم قط لا یسلو،

جس کی آنکھوں نے تمھارے جمال کا نور دیکھ لیا ہے تمھارے اشتیاق میں مر جائے گا کبھی بھی تسلی نہیں پا سکتا ۔

حدیث میں آیا ہے کہ جو لوگ کثرت سے مسجد میں جمع رہتے ہوں وہ مسجد کے کھونٹے ہیں فرشتے ان کے ہم نشیں ہوتے ہیں اگر وہ بیمار ہو جائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں اور وہ کسی کام کو جائیں تو فرشتے ان کی اعانت کرتے ہیں ۔

۲۔ عَنْ اَبِیْ ھُرِؓیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلٰوۃُِ الرَّجُلِ فِیْ جَمَاعَۃٍ تَضْعَفُ عَلٰی صَلٰوتِہٖ فِیْ بَیْتِہٖ وَفِی سُوْقِہٖ خَمْسًا وَّعِشْرِیثْنَ ضِعْفًا وَّذٰلِکَ اَنَّہٗ اِذَا تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ الْوُضُوْئَ ثُمَّ خَرَجَ اِلَیالْمَسْجِدِ لَایُخْرِجُہٗ اِلَّا الصَّلٰوۃَ لَمْ یَخْطُ خُطْوَۃً اِلَّا رُفِعَتْ لَہٗ بِھَا دَرَجَۃٌ وَحُطَّ عَنْہٗ بِھَا خَطِیْئَۃٌ فَاِذَا صَلّٰی لَمْ تَزَلِ الْمَلَآ ئِکَۃُ تُصَلِّیْ عَلَیْہِ مَادَامَ فِی مُصَلاَّہُ مَا لَمْ یُحْدِثْ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ وَلَایَزَالُ فِیْ صَلٰوۃٍ مَا انْتَظَرَالصَّلٰوۃَ۔(رواہ البخاری واللفظ لہ ومسلم وابو داودوالترمذی وابن ماجۃ کذافی الترغیب)

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی کی وہ نماز جو جماعت سے پڑھی گئی ہو اس نماز سے جو گھر میں پڑھ لی ہو یا بازار میں پڑھ لی ہو پچیس درجہ المضاعت ہو تی ہے اور بات یہ ہے کہ جب آدمی وصو کرتا ہے اور وضو کو کمال درجہ تک پہنچا دیتا ہے پھر مسجد کی طرف صرف نماز کے ارادہ سے چلتا ہے کوئی اور ارادہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اور ایک خطا معاف ہو جاتی ہے اور پھرجب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ با وضو بیٹھا رہے گا فرشتے اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے ۔

ف :پہلی حدیث میں ستائیس درجہ کی زیادتی بتلائی گئی تھی اور اس حدیث میں پچیس درجہ کی ان دونوں حدیثوں میں جو اختلاف ہوا ہے علماء نے اس کے بہت سے جوابات تحریر فرمائے ہیں جو شروح حدیث میں مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ ہے کہ نمازیوں کے حال کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعضوں کو پچیس درجہ کی زیادتی ہوتی ہے اور بعضوں کو اخلاص کی وجہ سے ستائیس کی ہو جاتی ہے بعص علماء نے نماز کے اختلاف پر محمول فرمایا ہے کہ سری نمازوں میں پچیس ہے اور جہری میں ستائیس ہے بعض نے ستائیس عشاء اور صبح کیلئے بتایا ہے کہ ان دونوں نمازوں میں جانا مشکل معلوم ہوتا ہے اور پچیس باقی نمازوں میں بعض شراح نے لکھا ہے کہ اس امت پر اﷲ تعالی کی طرف سے انعامات کی بارش پڑھتی ہی چلی گئی جیسا کہ اور بھی بہت سے جگہ اس کا ظہور ہے اس لئے اول پچیس درجہ تھا بعد میں ستائیس ہو گیا بعص شراح نے ایک عجیب بات سمجھی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا ثواب پہلی حدیث سے بہت زیادہ ہیاس لئے کہ اس حدیث میں یہ ارشاد نہیں کہ وہ پچیس درجہ کی زیادتی ہے بلکہ یہ ارشاد ہے کہ پچیس درجہ المضاعت ہو تی ہے جس کا ترجمہ دو چند اور دو گنا ہوگا ہے یعنی یہ کہ پچیس مرتبہ تک دو گنا اجر ہوتا چلا جاتا ہے اسصورت میں جماعت کی ایک نماز کا ثواب تین کروڑ پینتیس لاکھ چون ہزار چار سو بتیں (۳۳۵۵۴۴۳۲) درجہ ہوا حق تعالیٰ شا نُہ‘ کی رحمت سے یہ ثواب کچھ بعید نہیں اور جب نماز کے چھوڑنے کا گناہ ایک حقبہ ہے جو پہلے باب میں گذرا تو اس کے پڑھنے کاثواب یہ ہونا قرین قیاس بھی ہے اس کے بعد حضورؐ نے اس طرف اشارہ فرمایاکہ یہ تو خود ہی عور کر لینے کی چیز ہے کہ جماعت کی نماز میں کس قدر اجر و ثواب اور کس کس طرح حسنات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جو شخص گھرسے وضو کر کے محض نماز ی نیت سے مسجد میں جائے تو اس کے ہر ہر قدم پر ایک نیکی کا اضافہ اور ایک خطا کی معافی ہوتی چلی جاتی ہے بنو سلمہ مدینہ طیبہ میں ایک قبیلہ تھا ان کے مکانات مسجد سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی کہیں منتقل ہو جائیں حضورؐ نے ارشاد فرمایا وہیں رہو تمہارے مسجد تک آنیکا ہر ہر قدم لکھا جاتا ہے ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے نماز کو جائے وہ ایسا ہے جیسا کہ گھر سے احرام باندھ کر حج کو جائے ادس کے بعد حضور ﷺ ایک اور فضیلت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکا تو اس کے بعد جب تک مصلے پر رہے فرشتے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں فرشتے اﷲ کے مقبول اور معصوم بندے ہیں ان کی دعا کی برکات خود ظاہر ہیں محمد بن سما ایک بزرگ عالم ہیں جو امام ابو یوسف اور امام محمد کے شاگرد ہیں ایک سو تین برس کی عمر میں انتقال ہوا اس وقت دو سو رکعات نفل روزانہ پڑھتے تھے کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی صرف ایک مرتبہ جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ہے اس کی مشغولی کی وجہ سے تکبیر اولی فوت ہو گئی تھی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری جماعت کی نماز فوت ہو گئی تھی تو میں نے اس وجہ سے کہ جماعت کی نماز ثواب پچیس درجہ زیادہ ہے اس نماز کو پچیس دفعہ پڑھا تاکہ وہ عدد پورا ہوجائے تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ محمد پچیس دفعہ نماز تو پڑھ لی مگر ملائکہ کی آمیں کا کیا ہو گا ملائکہ کی آمین کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احادیث میں یہ ارشاد نبوی آیا ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہتا ہے تو ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں جس شخص کی آمین ملائکہ کی آمین کیساتھ ہو جاتی ہے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو خواب میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے مولانا عبدالحی صاحب فرماتے ہیں کہ اس قصے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جماعت کاثواب مجموعی طور سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اکیلے میں حاصل ہو ہی نہیں سکتا چاہے ایک ہزار مرتبہ اس نماز کو پڑھ لے اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایک آمین کی موافقت ہی صرف نہیں بلکہ مجمع کی شرکت نماز سے فراغت کے بعد ملائکہ کی دعا جسکا اس حدیث میں ذکر ہے ان کے علاوہ اور بہت سے خصوصیات ہیں جو جماعت ہی میں پائی جاتی ہیں ایک ضروری امر یہ بھی قابل لحاظ ہے علماء نے لکھا ہے کہ فرشتوں کی اس دعا کا مستحق جب ہی ہو گا جب نماز نماز بھی ہو اور اگر ایسے ہی پڑھی کہ پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر منہ پر مار دی گئی تو پھر فرشتوں کی دعا کا مستحق نہیں ہوتا۔

۳۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ مَنْ سَرَّہٗ اَنْ لْقَی اﷲَ غَدًا مُسْلِمًا فَلْیُحَافِظْ عَلٰی ھٰٓؤُلَآ ئِ الصَّلَوٰاتِ حَیْثُ یُنَادٰی بِھِنَّ فَاِنَّ اﷲَ تَعَالٰی شَرَعَ لِنَبِیِّکُمْ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُنَنَ الْھُدٰی وَاِنَّھُنَّ مِنْ سُنَنِ الْھُدٰی وَلَوْاَنَّکُمْ صَلَّیْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ کَمَایُصَلِّیْ ھٰذَا الْمُتَخَلِّفُ فِیْ بَیْتِہٖ لَتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ وَلَوْتَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ و َمَامِنْ رَّجُلٍ یَتَطَھَّرُ فَیُحْسِنَ الطُّھُوْرَ ثُمَّ یَعْمِدُ اِلٰی مَسْجِد مِّنْ ھٰذِہِ الْمَسَاجِد اِلَّاکَتَباﷲُ لَہٗ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَخْطُوْھَا حَسَنَۃً وَّیَرْفَعُہٗ بِھَا دَرَجَۃً وَیَحُطُّ عَنْہُ بِھَا سَیِئَۃً وَلَقَدرَأَیْتُنَا وَمَایَتَخَلَّفُ عَنْھَا اِلَّا مُنَافِقٌ مَّعْلُوْمُ النِّفَاقِ وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ یُؤْتٰی بِھَا یُھَادٰی بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتّٰی یُقَامَ فِی الصَّفِّ وَفِیْ رَوَایَۃِ لَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَایَتَخَلَّفُ عَنِ الصَّلٰوۃِ اِلَّامُنَافِقٌ قَدْ عُلِمَ نِفَاقُہٗ اَوْمَرِیْضٌ اِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَمْشِیْ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتّٰی یَأْتِیَ الصَّلٰوۃ وَقَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲ ﷺ عَلَّمَنَا سُنَنِ الْھُدٰی وَاِنَّ مِنْ سُنَنِ الْھُدَیٍ الصَّلٰوۃُ فِی الْمَسْجِدِ الَّذِیْ یُوئَ ذَّنُ فِیْہِ۔ِرواہ مسلم وابوداودو النسائی وابن ماجۃ کذافی الترغیب والدالمنثور والسنۃ الھدی وتارکھا یسوجب اساء ۃ کالجماعۃ والاذان والزوائد وتارکھا لا یستوجب اساء ۃ کسیراالنبی ﷺ فیلباسہ وقعودہ کذافی نور الانواراالاضافۃ فی سنۃ الھدی بیانیۃ ای سیۃ گی گدی والحمل مبالغۃ کذافی قمر الاقمار)

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ کل قیامت کے دن اﷲ جل شانہ کی بارگاہ میں مسلمان بنکر حاضر ہو وہ ان نمازوں کر ایسی جگہ ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں اذان ہوتی ہے ( یعنی مسجد میں ) اسلئے کہ حق تعالیٰ شا نہ‘ نے تمہارے نبی علیہ الصلوۃ و السلام کیلئے ایسی سنتیں جاری فرمائی ہیں جو سراسر ہدایت ہیں انہیں میں سے یہ جماعت کی نمازیں بھی ہیں گر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے جیسا کہ فلاں شخص پڑھتا ہے تو تم نبیﷺ کی سنت کے چھوڑنے والے ہو گے اور یہ سمجھ لو کہ اگر نبی اکرم ﷺ کی سنت کے چھوڑنے والے ہو گے اور یہ سمجھ لو کہ اگرنبی اکرم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤگے اور جو شخص اچھی طرح وضو کر ے اس کے بعد مسجد کی طرف جائے تو ہر ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جائے گی اور ایک ایک درجہ بلند ہوگا اور ایک ایک خطا معاف ہو گی اور ہم تو اپنا یہ حال دیکھتے تھے کہ جو شخص کھلم کھلا منافق ہو وہ تو جماعت سے رہ جاتا تھا ورنہ حضورؐ کے زمانہ میں عام منافقوں کی بھی جماعت چھوڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی یا کوئی سخت بیمار ورنہ جو شخص دو آدمیوں کے سہارے سے گھسٹتا ہوا جا سکتا تھا وہ بھی صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔

ف: صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے یہاں جماعت کا اس قدر اہتمام تھا اگر بیمار بھی کسی طرح جماعت میں جا سکتا تھا تو وہ بھی جا کر شریک ہو جاتا تھا چاہے دو آدمیوں کو کھینچ کر لے جانے کی نوبت آتی اور یہ اہتمام کیوں نہ ہوتا جب کہ ان کے اور ہمارے آقا نبی اکرمﷺ کو اسی طرح کا اہتمام تھا چنانچہ حضور اقدس ﷺ کے مرص الوفات میں یہی صورت پیش آتی کہ مرض کی شدت کی وجہ سے بار بار غشی ہوتی تھی اورکئی کئی دفعہ وضو کا پانی طلب فرماتے تھے آخر ایک مرتبہ وضو فرمایا اور حضرت عباس ؓاور ایک دوسرے صحابی کے سہارے سے مسجد میں تشریف لے گئے کہ زمیں پر پاؤں مبارک اچھی طرح جمتا بھی نہ تھا حضرت ابوبکر ؓ نے تعمیل ارشاد میں نماز پڑھانا شروع کر دی تھی حضورﷺجا کر نماز میں شریک ہوئے حضرت ابو دردؓا فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ اﷲ کی عبادت اس طرح کر گویا وہ بالکل سامنے ہے اور تو اس کو دیکھ رہا ہے اوراپنے آپ کو مردوں کی فہرست میں شمار کیا کر (زندوں میں اپنے کو سمجھ ہی نہیں کہ پھر نہ کسی بات کی خوشی نہ کسی بات سے رنج) اور مظلوم کی بد دعا سے اپنے بچا اور جو تو اتنی بھی طاقت رکھتا ہو کہ زمین پر گھسٹ کر عشا ء اور صبح کی جماعت میں شریک ہو سکے تو دریغ نہ کر ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ منافقوں پر عشاء اور صبح کی نماز بہت بھاری ہے اگر ان کو یہ معلوم ہو جاتا کہ جماعت میں کتنا ثواب ہے تو زمین پر گھسٹ کر جاتے اور جماعت سے ان کو پڑھتے۔

(۴) عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا فِیْ جَمَاعَۃٍ یُّدْرِکُ التَّکْبِیْرَۃَ الْاُوْلٰی کُتِبَ لَہٗ بَرَآئَۃٌ مِّنَ النَّارِ وَبَرَآئَ ۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ ۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص جالیس دن اخلاص کے ساتھ ایسی طرح نماز پڑھے کہ تکبیر اولی فوت نہ ہو تو اس کو دو پروانے ملتے ہیں ایک پروانہ جہنم سے چھٹکارے کا دوسرا نفاق سے بری ہونے کا۔

(رواہ الترمذی وقال لااعلم احدارفعہ الاماروی مسلم بن قتیبۃ عن طعمۃبن عمر وقال المملی ومسلم وطعمۃ وبقیۃ رواتہ ثقاۃ کذافی الترغیب قلت ولہ شواھد من حدیث عمر رفعہ من صلی فی مسجد جماعۃ اربعین لیلۃ لا تفوتہ الکعۃ الاولی من صلوۃ العشاء کتب اﷲ لہ بھا عتقا من الناررواہ ابن ماجۃ واللفظ لہ والترمذی وقال نحو حدیث انس یعنی المتقدمولم یذکر لفظہ وقال مرسل یعنی ان عمارۃ الراوی عن انس لم یدرک النساوعزاہ فی منتخب الکنزالیالبھقی فیالشعب وابن عساکر وابن النجار)

ف: یعنی جو اس طرح چالیس دن اخلاص سے نماز پڑھے کہ شروع سے امام کے ساتھ شریک ہو اور نماز شروع کرنے کی تکبیر جب امام کہے تو اسی وقت یہ بھی نماز میں شریک ہو جائے تو وہ شخص نہ جہنم میں داخل ہو گا نہ منافقوں میں داخل ہو گا منافق وہ لوگ کہلاتا ہیں جو اپنے کو مسلمان ظاہر کریں لیکن دل میں کفر رکھتے ہوں اور چالیس دن کی خصوصیت بظاہراس وجہ سے ہے کہ حالات کے تغیر میں چالیس دن کو خاص دخل ہے چنانچہ آدمی کی پیدائش کی ترتیب جس حدیث میں آئی ہے اس میں بھی جالیس دن تک نطفہ رہنا پھر گوشت کا ٹکڑا چالیس دن تک اسی طرح چالیس چلاس دن میں اس کا تغیر ذکر فرمایا ہے اسی وجہ سے صوفیاء کہ یہاں چلہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی برسوں بھی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوتی ۔

۵۔ عَنْ اَبِیْ ھُرِؓیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ فَاَحْسَنَ وُضُوْئَ ہٗ ثُمَّ رَاحَ فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا اَعْطَاہُ اﷲِ مِثْلاَجْرِمَنْ صَلَّاھَاوَحَضَرَھَا لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْأً۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو کر پھر مسجد میں نماز کیلئے جائے اور وہاں پہنچ کر معلوم ہو کہ جماعت ہو چکی توبھی اس کو جماعت کی نماز کا ثواب ہو گا اور ثواب کیوجہ سے ان لوگوں کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوتی جنہوں نے جماعت سے نماز پڑھی ہے ۔

(رواہ ابوداودوالنسائی والحکم وقال صحیح علی شرط مسلم کذافی الترغیب وفیہ ایضاعن سعیدبن المسیب قال حضررجلامن الانصارالموت فقال انی محدثکم حدیثا ما احد ثکموہ الا احعتسابا انی سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول اذاتوضاء احدکم فاحسن الوضوء الحدیث وفیہ فان اتی المسجد فصلی فی جماعۃ غفرلہ فان اتی المسجد وقد صلوابعضاوبقھی صلی ما ادرک واتم ما بقی کان کذ الک فان اتی المسجد وقد صلوا فاتم الصلوۃ کان کذالک رواہ ابوداود)۔

ف: یہ اﷲ کا کس قدر انعام و احسان ہے کہ محض کوشش اور سعی پر جماعت کا ثواب مل جائے گو جماعت نہ مل سکے اﷲ کی اس دین پر بھی ہم لوگ خود ہی نہ لیں تو کسی کا کیا نقصان ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ محض اس کھٹکا سے کہ جماعت ہو چکی ہو گی مسجد میں جا ملتوی نہ کرنا چاہء اگر جا کر معلوم ہو کہ ہو چکی ہے تب بھی تواب تو مل ہی جائے گا البتہ اگر پہلے سے یقینامعلوم ہو جائے کہ جماعت ہو چکی ہے تو مضائقہ نہیں ۔

۶۔ عَنْ قُبَاثِؓ بْنِ اَشْیَمَ اللَّیْثِیِّؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّم صَلٰوۃُ الرَّجُلَیْنِ یَؤُمُّ اَحَدُھُمَا صَاحِبُہٗ اَزْکٰی عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ صَلٰوۃِ اَرْبَعَۃٍ تَتُرٰی وَصَلٰوۃُ اَرْبَعَۃٍ اَزْکٰی عِنْدَاللّٰہِ مِنْ صَلٰوۃِ ثَمَانِیَۃٍ تَتُرٰی وَصَلٰوۃُ ثَمَانِیَۃٍ یَؤُمُّہُمْ اَحَدُ ہُمْ اَزْکٰی عِنْدَاللّٰہِ مِنْ صَلٰوۃِ مِائَۃٍ تَتْرٰی (رواہ البزار و الطبرانی باسنادلا باس کذا فی التر غیب و فی محمع الزوائد رواہ البزار والطبرانی فے الکبیر ورجال الطبانی موثقون وعزاہ فی الحامع ۔الصغیر الی الطبرانی و البیہقی ورقم لہ نا لصحۃ وعن ابی بن کعب رفعہ بمعنی حدیث الباب وفیۃ قصۃ وفی اخرہ وکلما کثر فہو احب الی اللہ عزوجل رواہ احد وابوداود و النسائی وابن خزیزیمۃ وابن خبان فی صحیحہما والحاکم وقد جزم یحیی بن معین و الذہلی بصحۃ ہذا الحدیث کذانی الترغیب)

نبی اکرم ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ دو آدمیوں کی جماعت کی نماز کہ ایک امام ہو ایک مقتدی اﷲ کے نزدیک چار آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نماز سے زیادہ پسندیدہ ہے اسی طرح چار آدمیوں کی جمماعت کی نماز آٹھ آدمیوں کی متفرق نماز سے زیادہ محبوب ہے اور آٹھ آدمیوں کی جماعت کی نماز سو آدمیوں کی متفرق نمازوں سےبڑھی ہوئی ہے ایک دوسری حدیث میں ہے اسی طرح جتنی بڑی جماعت میں نماز پڑھی جائے گی وہ اﷲ کو زیادہ محبوب ہے مختصر جماعت سے۔

ف توبھی اس کو جماعت کی نماز کا ثواب ہو گا اور ثواب کیوجہ سے ان لوگوں کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوتی جنہوں نے جماعت سے نماز پڑھی ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دو چار آدمی مل کر گھر دوکان وغیرہ پر جماعت کر لیں وہ کافی ہے اول تو اس میں مسجد کا ثواب شروع ہی سے نہیں ہوتا دوسرے کثرت جماعت کے ثواب سے بھی محرومی ہوتی ہے مجمع جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی االلہ تعالی ٰکو زیادہ محبوب ہے اور جب اﷲ تعالی کی خوشنودی کے واسطے یک کام کرنا ہیتو پھرجس طریقہ میں اس کی خوشنودی زیادہ اسی طریقہ سے کرنا چاہئے ایک حدیث میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ شا نہ‘ تین چیزوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ایک جماعت کی صف کو ایک اس شخص کو جو آدھی رات (تہجد) کی نماز پڑھ رہا ہو تیسرے اس شخص کو جو کسی لشکر کے ساتھ لڑ رہا ہو ۔

۷۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِنِ السَّاعِدِؓیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَشِّرِالْمَشَّا ئِیْنَ فِی الظُّلَمِ اِلَی الْمَسَا جِدِ بِالنَّوْرِالتَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ

(رواہ ابن ما جۃوابن خزیمۃ فی صیحہ والحاکم واللفظ لہ و قال صیح علی شرط الشیخین کذافی الترغیب وفی المشکوۃ بروایۃالترمذی و دابی داؤد عن بریدۃ ثم قال رواہ ابن ماجہ عن سھل ابن سعد وانس اھ قلت ولہ شاھد فی منتحب کنزالعمال بروایۃ الطبرانی عن ابی امامۃ بلفظ بشرالمدلجین الی فی الظلم بمنابر من نوریوم القیامۃ یفذع الناس ولایفرعون ذکرالسیو طی فی الدالمنشور فی تفسیر قو لہ تعا لی(انما یعر مساجد اللہ) عدۃ روایات فی ہذا المعنی)۔

حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اندھیرے میں مسجدوں میں بکثرت جاتے رہتے ہیں ان کو قیامت کے دن کے پورے پورے نور کی کوشخبری سنا دے۔

ف : یعنی آج دنیا میں اندھیری رات میں مسجد میں جانے کی قدر اس وقت معلوم ہو گی جب قیامت کا ہولناک منظر سامنے ہوگا اور ہر شخص مصیبت میں گرفتار ہو گا آج کے اندھیروں کی مشقت کا بدلہ اور اس کی قدر اس وقت ہو گی جب ایک جمکتا ہوا نور اور آفتاب سے کہیں زیادہ روشنی ان کے ساتھ ساتھ ہو گی ایک حدیث میں ہے کہ وہ قیامت کے دن نور کے منبروں پر ہوں گے اور بے فکر اور لوگ گھبراہٹ میں ہونگے ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شا نُہ‘ قیامت کے دن ارشاد فرمائیں گے کہ میرے پڑوسی کہاں ہیں فرشتے عرص کریں گے کہ آپ کے پڑوسی کون ہیں ارشاد ہو گا کہ مسجدوں کو آباد کرنے والے ایک حدیث میں آیا ہے کہ اﷲ تعالی کو سب جگہوں سے زیادہ محبوب مسجدیں ہیں اور سب میں زیادہ نا پسند بازار ہیں ایک حدیث میں ہے کہ مسجدین جنت کے باع ہیں ایک صحیح حدیث میں وارد ہے حصرت ابو سعید حضورﷺسے نقل کرتے ہیں جس شخص کو دیکھو کہ مسجد کا عادی ہے تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو اس کے بعد انما یعمر مساجد اﷲ یہ آیت تلاوت فرمائی یعنی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اﷲ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ایک حدیث میں وارد ہے کہ مشقت کے وقت وصو کرنا اور مسجد کی طرف قدم اٹھانا اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھے رہنا گناہوں کو دھو دیتا ہے ایک حدیث میں وارد ہے کہ جو شخص جتنا مسجد سے دور ہو گا اتنا ہی زیادہ ثواب ہوگا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر ہر قدم پر اجرو ثواب ہے اور جتنی دور مسجد ہو گی اتنے ہی قدم زیادہ ہوں گے اسی وجہ سے بعض صحابہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے تھے ایک حدیث میں ایا ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگرلوگوں کوان کاثواب معلوم ہو جائے تو لڑائیوں سے ان کو حاصل کیا جائے ایک ازان کہنا دوسری جماعت کی نمازوں کے لئے دوپہر کے وقت جانا تیسری پہلی صف میں نماز پڑھنا ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ قیامت کے دن جب ہر شخص پریشان حال ہو گا اور آفتاب نہایت تیزی پر ہوگا سات آدمی ایسے ہوں گے جو اﷲ کی رحمت کے سایہ میں ہوں گے ان میں ایک شخص وہ بھی ہو گا جس کا دل مسجد میں اٹکا رہے کہ جب کسی ضرورت سے باہر آئے تو پھر مسجد ہی میں واپس جانے کی خواہش ہو ایک حدیث میں وارد ہے جو شخص مسجد سے الفت رکھتا ہے اﷲ جل شانہ اس سے الفت فرماتے ہیں ۔

شریعت مطہرہ کے ہر حکم میں خیر و برکت اجر و ثواب تو بے پایاں ہے ہی اس کے سات بہت سی مصلحتیں بھی ان احکام میں جو ملحوظ ہوتی ہیں ان کی حقیقت تک پہنچنا تو مشکل ہے ک اﷲ جل شانہ کے علو اوران کے مصالح تک کس کی رسائی ہے مگر اپنی اپنی استعداد اور حوصلہ کے موافق جہاں تک اپنی سمجھ کام دیتی ہے ان کی مصالح بھی سمجھ میں آتی ہیں اور جتنی استعداد ہوتی ہے اتنی ہی خوبیاں ان احکام کی معلوم ہوتی رہتی ہیں علماء نے جماعت کی مصالح بھی اپنی اپنی سمجھ کے مو افق تحریر فرمائی ہیں ہمارے حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب نور اﷲ مرقدہ نے حجۃ اﷲ البالغہ میں ایک تقریر اس کے متعلق ارشاد فرمائی ہے جس کا ترجمہ اور مطلب یہ ہے کہ :

رسم و رواج کے مہلکات سے بچنے کے لئے اس سے زیادہ نافع کوئی چیز نہیں کہ عبادات میں سے کسی عبادت کو ایسی عام رسم اور عام رواج بنا لیا جائے جو علی الاعلان ادا کی جائے اور ہر شخص کے سامنے خواہ سمجھدار ہو یا نا سمجھ وہ ادا کی جا سکے اس کے ادا کرنے میں شہری اور غیر شہری برابر ہوں مسابقت اور تفاخر اسی پر کیا جائے اور ایسی عام ہو جائے کہ ضروریات زندگی میں اس طرح داخل ہو جائے کہ اس اس علیحدگی نا ممکن اور دشوار بن جائے تا کہ وہ اﷲ کی عبادت کے لئے مؤید ہو جائے اور وہ رسم و رواج جو مؤجب مضرت و نقصان تھا رہی حق کی طرف کھینچنے والا بن جائے اور چونکہ عبادات میں کوئی عبادت بھی نماز سے زیادہ مہتم بالشان اور دلیل و حجت کے اعتبار سے بڑھی ہوئی نہیں اسلئے صروری ہوا کہ آپس میں اس کے رواج کو خوب شائع کیا جائے اوراس کے لئے خاص طور سے اجتماع کیا جائے اور آپس میں اتفاق سے اس کو ادا کیا جائے نیز ہر مذہب اور دین میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مقتدا ہوتے ہیں کہ ان کا اتباع کیا جاتا ہے اور کچھ لوگ دوسرے درجہ میں ایسے ہوتے ہیں جو کسی معمولی سی ترغیب و تنبیہ کے محتاج ہوتے ہیں اور کچھ لوگ تیسرے درجہ میں بہت ناکارہ اور صعیف الاعتقاد ایسے بھیہوتے ہیں جن کو اگر مجمع میں عبادت کا مکلف نہ کیا جائے تو وہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے عبادت بھی چھوڑ دیتے ہیں اس وجہ سے مصلحت کا مقتضا یہی ہے کہ سب سب لوگ اجتماعی طور پر عبادات کو ادا کریں تا کہ جو لوگ عبادت کو چھوڑنے والے ہیں وہ عبادت کرنے والوں سے ممتاز ہو جائیں اور رغبت کرنیوالوں اور بے رغبتی کرنے والوں میں کھلا تفاوت ہو جائے اور ناواقت لوگ علماء کے اتباع سے واقف بن جائیں اور جاہل لوگوں کو عبادت کا طریقہ معلوم ہو جائے اور اﷲ کی عبادت ان لوگوں میں اس پگھلی ہوئی چاندی کی طرح سے ہو جائے جو کسی ماہر کے سامنے رکھی جائے جس سے جائز نا جائز اور کھرے کھوٹے میں کھلا فرق ہو جائے جائز کی تقویت کی جائے اور نا جائز کو روکا جائے۔

اس کے علاوہ مسلمانوں کے ایسے اجتماع میں جس میں اﷲ کی طرف رغبت کرنے والے اس کی رحمت کے طلب کرنے والے اس ڈرنے والے موجود ہوں اور سب کے سب اﷲ ہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوں برکتوں کے نازل ہونے اور حرمت کے متوجہ ہونیکی عجیب خاصیت رکھی ہے۔نیز امت محمدیہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ اﷲ کا بول بالا ہو اور دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ ہو اور یہ ممکن نہیں جب تک یہ طریقہ رائج نہ ہو سب کے سب عوام خواص شہر کے رہنے والے اور گؤں کے رہنے والے چھوٹے بڑے ایک جگہ جمع ہو کر اس چیز کو جو اسلام کا سب سے بڑا شعار ہے اور سب سے بالاتر عبادت ہے ادا نہ کی ان وجوہ سے شریعت جمعہ اور جماعت کے اہتمام کی طرف متوجہ ہوئی ان کے اظہار و اعلان کی ترغیبیں اور چھوڑنے پرعیدیں نازل ہوئیں اور چونکہ اظہار و اجتماع صرف ایک محلہ اور قبیلہ کا ہے اور ایک تمام شہر اور محلہ کا اجتماع ہر وقت سہل ہے اور تمام شہر کا ہر وقت مشکل ہے کہ اس میں تنگی ہے اسلئے محلہ کا اجتماع ہر نماز کے وقت قرار دیا اور جماعت کی نمازاس کیلئے مشروع ہوئی اور تمام شہر کا اجتماع آٹھویں دن قرار دیا اور جمعہ کی نماز اس کیلئے تجویز ہوئی ۔

٭٭

 

 

               فصل دوم: جماعت کے چھوڑنے پر عتاب کے بیان میں

 

حق تعالیٰ شا نہٗ نے اپنے احکام کی پابندی پر جیسے کہ انعامات کا وعدہ فرمایا ہے ایسے ہی تعمیل نہ کرنے پر ناراضی اور عتاب بھی فرمایا ہے یہ اﷲ کا فضل ہے کہ تعمیل میں بے گراں انعامات کا وعدہ ہے ورنہ بندگی کا مقتضا صرف عتاب ہی ہونا چاہئے تھا کہ بندگی کا فرص ہے تعمیل ارشاد پھر اس پر انعام کے کیا معنی اور نافرمانی کی صورت میں جتنا بھی عتاب و عذاب ہو وہ بر محل کہ آقا کی نافرمانی سے بڑھ کر اور کیا جرم ہو سکتا ہے پس کسی خاص عتاب یا تنبیہ کے فرمانے کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی اﷲ جل شانہ اور اس کے پاک رسول نے ہم پر شفقت فرمائی کہ طرح طرح سے متنبہ فرمایا اس کے نقصانات بتائے مختلف طور سے سمجھایا پھر بھی ہم نہ سمجھیں تو اپنی ہی نقصان ہے۔

۱۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ النِّدَآئَ فَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنِ اتِّبَا عِہٖ عُذْرٌ قَالُوْاوَ مَاالْعُذْرُقَالَ خَوْفٌ اَوْمَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْہُ الصَّلٰوۃُ الَّتِیْ صَلّٰی۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آوز سنے اور بلا کسی عذر کے نماز کو نہ جائے( وہیں پڑھ لے ) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ عذر سے کیا مراد ہے ارشاد ہوا کہ مرض ہو یا کوئی خوف ہو ۔

(رواہ ابوود ابن حبان فی صحیحہ وابن ماجۃ بخوہ کذ ا فی التر غیب وفی المشکوۃ رواہ ابودؤد والد ار وطبنی)۔

ف: قبول نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس نماز پر جو ثواب اورانعام حق تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے ہوتا وہ نہ ہو گا گو فرص ذمہ سے اتر جائے گا اور یہی مراد ہے ان حدیثون سے جن میں آیا ہے کہ اس کی نماز نہیں ہوتی اس لئے کہ ایساہونابھی کچھ ہونا ہوا جس پر انعام و اکرام نہ ہوا یہ ہمارے امام کے نزدیک ہے ورنہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک ان احادیث کی بناء پر بلا عذر جماعت کا چھوڑنا حرام ہے اور جماعت سے پڑھنا فرص ہے حتی کہ بہت سے علماء کے نزدیک نماز ہوتی ہی نہیں حنفیہ کے نزدیک اگرچہ نماز ہو جاتی ہے مگرجماعت کے چھوڑنے کا مجرم تو ہو ہی جائے گا حضرت ابن عباس سے ایک حدیث میں یہ بھی نقل کیا گیا کہ اس شخص نے اﷲ کی نافرمانی کی اور رسول کی نافرمانی کی حضرت ابن عباس کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی اوز سنے اور جماعت سے نماز نہ پڑھے نہ اس نے بھلائی کا ارادہ کیا نہ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت میں حاضر نہ ہو اس کے کان پگھلے ہوئے سیسے سے بھر دیئے جاویں یہ بہتر ہے ۔

۲۔ عَنْ مَعَاذِ بْنِ اَنَسٍ عَنْ رَّسُوْلِ اﷲِﷺ اَنَّہٗ قَالَ اَلْجَفَآئُ کُلُّ الْجَفَآئِ وَالْکُفْرُوَ النِّفَاقُ مَنْ سَمِعَ مُنادِیَ اﷲِ یُنَادِیْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فلَاَ یُجِیْبُہٗ۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ سرا سر ظلم ہے اور کفر ہے اور نفاق ہے اس شخص کا فعل جو اﷲ کے منادی( یعنی مؤذن) کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے ۔

(رواہ احمد والطبرانی من روایۃ زبان بن فائد کذافی الترتیب وفی مجمع الزوائد رواہ الطبرانی فی الکبیر و زبان ضعفہ ابن معین و وثقہ ابو حاتمہ ا ھ وغزاہ فی الجامع الصغیر الی الطبیانی و رقم لہ با لضعف)

ف: کتنی سخت وعید اور ڈانٹ ہے اس حدیث پاک میں کہ اس کی اس حرکت کو کافروں کا فعل اور منافقوں کی حرکت بتایا ہے کہ گویا مسلمان سے یہ بات ہو ہی نہیں سکتی ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ آدمی کی بدبختی اور بد نصیبی کے لئے یہ کافی ہے کہ موذن کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے سلیمان بن ابی حثمہ جلیل القدر لوگوں میں تھے حضورﷺکے زمانہ میں پیدا ہوئے مگر حضورﷺسے روایت سننے کی نوبت کم عمری کی وجہ سے نہیں آئی حضرت عمر نے ان کو بازار کا نگران بنا رکھا تھا ایک دن اتفاق سے صبح کی نماز میں موجود نہ تھے حضرت عمر ؓ اس طرف تشریف لے گئے تو ان کی والدہ سے پوچھا کہ سلیمان آج صبح کی نماز میں نہیں تھے والدہ نے کہا کہ رات بھر نفلوں میں مشغول رہا نیند کے غلبہ سے آنکھ لگ گئی آپ نے فرمایا میں صبح کی جمعہ میں شریک ہوں یہ مجھے اس سے پسندیدہ ہے کہ رات بھر نفلیں پڑھوں ۔

۳۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ اٰمُرَ فِتْیَتِیْ فَیَجْمَعُوْالِیْ حُزْمًا مِنْ حَطَبٍ ثُمَّ اٰتِیْ قَوْمًا یُّصَلُّوْنَ فِیْ بُیُوْ تِھِمْ لَیْسَتُ بِھِمْ عِلَّۃٌ فَاُ حَرِّ قُھَا عَلَیْھِمْ۔

حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کر کے لائیں پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جا کر ان کے گھروں کو جلا دوں ۔

(رواہ مسلم ابوداود وابن ما جۃ والترمذی کذافی الرغیب قال السیوطی فی الدر اخرج ابن ابی شیبۃ و البخاری و مسلم و ابن ما جۃ عن ابی ھریرہ رفعہ اثقل الصلوۃ علی المنافقین صلوۃ العشاء وصلوۃ الفجر ولویعلمون ما فیھما لا تو ھما ولو حبوا ولقد ھممت امر بالصلوۃ فتقام الحدیث بنحوہ۔)

ف:نبی اکرم ﷺ کو باوجود اس شفقت اور رحمت کے جو امت کے حال پر تھی اور کسی شخص کی ادنی سی تکلیف بھی گوارا نہ تھی ان لوگوں پر جو گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اس قدر غصہ ہے کہ ان کے گھروں میں آگ لگا دینے کو بھی آمادہ ہیں ۔

۴۔ عَنْ اَبِی الدَّرْدَاؓئِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَا مِنْ ثَلاٰ ثَۃِ فِیْ قَرْیَۃٍ وَّلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِیْھِمُ الصَّلٰوۃُ اِلَّا اسْتَحْوَذَ عَلَیْھِم الشَّیْطٰنُ فَعَلَیْکُمْ بِا لْجَمَا عَۃِ فَاِ نَّمَایَاْ کُلُ الذِّئْبُ مِنَ الْغَنَم الْقَاِیَۃَ۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس گاؤں یا جنگ میں تین آدمی ہوں اور وہاں با جماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے اسلئے جماعت کو ضروری سمجھو بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے ۔

(رواہ احمد و ابوداود ولنسائی وابن حبان فی صھیحیھما والحاکم و زادرزین فی جا معہ وان جامعہ الصغیر با لصحۃ و صححہ الحاکم و اقرہ علیہ الذھبی۔)

ف: اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کھیتی باڑی میں مشغول رہتے ہیں اگر تین آدمی ہوں تو ان کو جماعت سے نماز پرھنا چاھئے بلکہ دو کو بھی جماعت سے پڑھنا اولی ہے کسان عام طور سے اول تو نماز پڑھتے ہی نہیں کہ ان کے لئے کھیتی کی مشغولی اپنے نزدیک کافی عذر ہے اور جو بہت دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکیلے ہی پڑھ لیتے ہیں حالانکہ اگر چند کھیت والے بھی ایک جگہ جمع ہو کر پڑھیں تو کتنی بری جماعت ہو جائے اور کتنا بڑا ثواب حاصل کریں چار پیسے کے واسطے سردی گرمی دھوپ بارش سب سے بے نیاز ہو کر دن بھر مشغول رہتے ہیں لیکن اتنا بڑا ثواب ضائع کرتے ہین اور اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ یہ لوگ اگر جنگ میں جماعت سے نماز پڑھیں تو اور بھی زیادہ ثوا ب حق تعالٰی جل شانہ کا سبب ہوتا ہے حتی کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ پچاس نمازوں کا ثواب ہو جاتا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب کوئی بکریاں چرانے والا کسی پہاڑ کی جڑ میں ( یا جنگ میں ) آذان کہتا ہے اور نماز پڑھنے لگتا ہے تو حق تعالیٰ جل شانہ اس سے بے حد خوش ہوتے ہیں اور تعجب و تفاخر سے فرشتوں فرماتے ہیں دیکھو جی میرا بندہ اذان کہہ کر نماز پڑھنے لگا یہ سب میرے ڈر کی وجہ سے کر رہا ہے میں نے اس کی مغفرت کر دی اور جنت کا داخلہ طے کر دیا ۔

۵۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ رَّجَلٍ یَّصُوْمُ النَّھَارَ وَ یَقُوْمُ اللَّیْلَ وَلَا یَشْھَدُ الْجَمَا عَۃَ وَلَا الْجُمُعَۃَ فَقَالَ ھٰذَا فِی النَّارِ۔

حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے کسی نے پوچھا کہ ایک شخص دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات بھر نفلیں پڑھتا ہے مگر جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا ( اس کے متعلق کیا حکم ہے) آپ نے فرمایا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔

(رواہ الترمذی موقوفا کذافی الترغیب وفی تنبعہ الغافلین روی عن مجاھد ان رجلا جاء الی ابن عباس فقال با ابن عباس ماتقول فی رجد فذکرہ بلفظہ ذاد فی ا خہ فا ختلف الیہ ژھرا یسا لہ عن ذلک وھو یقال ھو فی النار۔)

ف : گو ایک خاص زمانہ تک سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے نکل آئے کہ بہرحال مسلمان ہے مگر نہ معلوم کتنے عرصہ تک پڑا رہنا پڑے گا جاہل صوفیوں میں وظیفون اور نفلوں کا تو زور ہوتا ہے مگر جماعت کی پرواہ نہیں ہوتی اس کو وہ بزرگی سمجھتے ہیں حالانکہ کمال بزرگی اﷲ کے محبوب کا اتباع ہے ایک حدیث میں وارد ہے کہ تین شخصوں پر حق تعالیٰ جل شانہ لعنت بھیجتے ہیں ایک اس شخص پر جس سے نمازی(کسی معقول وجہ سے ) ناراض ہوں اور وہ امامت کرے دوسرے اس عورت پر جس کا خاوند اس سے ناراض ہو تیسرے اس شخص پر جو اذان کی آواز سنے اور جماعت میں شریک نہ ہو ۔

۶۔ اَخْرَجَ اِبْنِ مَرْدَوَیْہِ عَنْ کَعْبِ الْحِبْرِ قَالَ وَالَّذِیْ اَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوْسَیٰ وَالْاِنْجِیْلَ عَلٰی عِیْسیٰ وَالزَّبُوْرَ عَلَی دَاوٗدَ وَالْفُرْقَانَ عَلٰی مُحَمَّدٍ اُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْاٰیَاتُ فِی الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوبَاتِ حَیْثَ یُنَادٰی بِہِناَّ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ اِلٰی قَوْلِہِ وَہُمْ سَالِمُونَ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ اِذَا نُوْدِیَ بِہا۔واخرج البیہقی فی الشعب عن سعید بن جبیر قال الصلوت فی الجما عات واخرج البیہقی عن ابن عباس قال الرجلیسمع الااذان فلا یجی بالصلوۃ کذافی الدرالمنثور قلت وتمام الایۃ)(یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃً وَّقَدْکَانُوْ یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُودِ وَھُمْ سَالِمُوْنَ)۔

حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے تورات حضرت موسی ٰپر اور انجیل حضرت عیسی پر اور زبور حضرت داؤد پر(علی نبینا و علیہم الصلوۃ والسلام) نازل فرما یااور قرآن شریف سید نا محمد ﷺ پر نازل فرمایا کہ یہ آیتیں فرض نمازوں کو جماعت سے ایسی جگہ پڑھنے کے بارہ میں جہاں اذان ہوتی ہو نازل ہوئی ہیں (ترجمہ آیات) جس دن حق تعالیٰ جل شانہ ساق کی تجلی فرمائیں گے( جو ایک خاص قسم کی تجلی ہو گی) اور لوگ اس دن سجدہ کیلئے بلائے جاویں گے تو یہ لوگ سجدہ نہیں کر سکیں گے ان کی آنکھیں شرم کے مارے جھکی ہوئیی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی اسلئے کہ یہ لوگ دنیا میں سجدہ کی طرف بلائے جاتے تھے اور صحیح سالم تندرست تھے (پھر بھی سجدہ نہیں کرتے تھے )

ف: ساق کی تجلی ایک خاص قسم کی تجلی ہے جو میدان حشر میں ہو گی اس تجلی کو دیکھ کر سارے مسلمان سجدہ میں گر جائیں گے مگر بعض لوگ ایسے ہوں گے اس کے بارے میں تفسیریں مختلف وارد ہوئی ہیں ایک تفسیر یہ ہے جو کعب احبار ؓ سے منقول ہے اور اسی کے موافق حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ وغیرہ سے بھی منقول ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں جمات کی نماز کے واسطے بلائے جاتے تھے اور جماعت کی نماز نہیں پرھتے تھے دوسری تفسیر بخاری شریف میں حضرت ابو سید خدری ؓسے منقول ہے کہ میں نے حضورﷺسے سنا کہ یہ لوگ وہ ہوں گے جو دنیا میں ریا اور دکھلاوے کے واسطے نماز پڑھتے تھے تیسری تفسیر یہ ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں جودنیا میں سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے تھے جوتھی تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد منافق ہیں واﷲ اعلم و علمہ اتم۔

بہر حال اس تفسیر کے موافق جس کو حضرت کعب احبارؓ قسم کھا کر ارشاد فرما رہے ہین اور حضرت ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی امام تفسیر سے اس کی تائید ہوتی ہے کتنا سخت معاملہ ہے کہ میدان حشر میں ذلت و نکبت ہو اور جہان سارے مسلمان سجدہ میں مشغول ہوں اس سے سجدہ ادا نہ ہو سکے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے وعیدیں جماعت کے چھوڑنے پر آئی ہیں مسلمان کے لئے تو ایک بھی وعید کی ضرورت نہیں کہ اﷲ اور اس کے رسول کا حکم و ارشاد ہی سب کچھ ہے اورجس کو اس کی قدر نہیں اس کے لئے ہزار طرح کی وعیدین بھی بیکار ہیں جب سزا کا وقت آئے گا تو پشیمانی ہو گی جو بیکار ہو گی۔

تیسرا باب: خشوع خضوع کے بیان میں

 

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پرھتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو جماعت کا بھی اہتمام فرماتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی بری طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نماز بجائے اس کے ثواب و اجر کا سبب ہو ناقص ہونے کی وجہ سے منہ پر مار دی جاتی ہے گو نہ پڑھنے سے یہ بھی بہتر ہے کیونکہ نہ پڑھنے کی صورت میں جو عذاب ہے وہ بہت زیادہ سخت ہے اور اس صورت میں یہ ہوا کہ وہ قابل قبول نہ ہوئی اور منہ پر پھینک کر مار دی گئی اس پر کوئی ثواب نہیں ہوا لیکن نہ پڑھنے میں جس درجہ کی نافرمانی اور نخوت ہوتی وہ تو اس صورت میں نہ ہوگی البتہ یہ مناسب ہے کہ جب آدمی وقت خرج کرے کاروبار جھوڑے مشقت اٹھائے تو اس کی کوشش کرنا چاہئے کہ جتنی زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی پڑھ لے اس میں کوتاہی نہ کرے حق تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے گو وہ قربانی کے بارے میں ہے مگر احکام تو سارے ایک ہی ہیں فرماتے ہیں لن ینال الحومھا و لا دماءھا و لکن ینالہ التقوی منکم نہ تو حق تعالیٰ جل شانہ کے پاس ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اس کے پاس تو تمھارا تقوی اور اخلاص پہنچتا ہے پس جس درجہ کا اکلاص ہو گا اسی درجہ کی مقبولیت ہو گی حضرت مغاذ ؓ ارشاد فرماتے ہین کہ حضور اقدس ﷺ نے جب مجھے یمن کو بھیجا تو میں نے آخری وصیت کی درخواست کی حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ دین کے ہر کام میں اخلاص کا اہتمام کرنا کہ اخلاص سے تھوڑا عمل بھی بہت کچھ ہے حضرت دثوبان کہتے ہیں کہ میں حضورؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اخلاص والوں کے لئے خوش حال ہے کہ وہ ہدایت کے چراغ ہیں ان کی وجہ سے سخت سے سخت فتنے دور ہو جاتے ہیں ایک حدیث میں حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی ضعیف لوگوں کی برکت سے اس امت کی مدد فرماتے ہیں نیز ان کی دعا سے ان کی نماز سے ان کے اخلاص سے نماز کے بارے میں اﷲ جل شانہ کا ارشاد ہے فویل لمصلین الذین ھم عن صلوتھم ساھون الذین ھم یرائون بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو ایسے ہیں کہ دکھلاوا کرتے ہیں بے خبر ہونے کی بھی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ وقت کی خبر نہ ہو قضا کر دے دوسرے یہ کہ متوجہ نہ ہو ادھر ادھر مشعول ہو تیسرے یہ کہ یہی خبر نہ ہو کتنی رکعتیں ہوئیں دوسری جگہ منافقین کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے

واذا قامو الی الصلوۃ قامو کسالی یرائون الناس و لا یذکرون اﷲ الا قلیلاً

اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں ( کہ ہم بھی نمازی ہیں ) اور اﷲ تعالی کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت تھوڑا سا ایک جگہ چند انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوۃ والسلام کا ذکر فرما کر ارشاد ہے

فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلوۃ واتبعو الشہوت فسوف یلقون غیا

پس ان نبیوں کے بعد بعضے ایسے نا خلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشان نفسانیہ کے پیچھے پر گئے سو عنقریب آخرت میں خرابی دیکھیں گے غی کا ترجمہ لغت میں گمراہی ہے جس سے مراد آخرت کی خرابی اور ہلاکت ہے اور بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ غی جہنم کا ایک طبقہ ہے جس میں لہو پیپ وغیرہ جمع ہو گا اس میں یہ لوگ ڈال دئے جایں گے ایک جگہ ارشاد ہے

و ما منعھم ان تقبل منھم نفقتھم الا انھم کفرو باﷲ وبرسولہ و لا یاتون الصلوۃ الا و ھم کسالی و لا ینفقون الا و ھم کارھون

(ترجمہ) اور ان کی خیر خیرات مقبول ہونے سے اور کوئی چیز بجز اس کے مانع نہیں ہے کہ انہوں نے اﷲ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور نماز نہیں پڑھتے مگر کاہلی سے اور نیک کام میں حرج نہیں کرتے مگر گرانی سے اس کے بالمقابل اچھی طرح سے نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ارشاد ہے ۔

قد افلح المٔومنون ہھم فی صلاتھم خاشعون والذیین ھم عن الغو معرضون و الذیین ھم للزکوۃ فاعلون والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم او ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین فم ببتغی ورآ ذالک فالٔک ھم العادون و الذین ھم لامانتیھم وعہدھم راعون و الذین ھم علیٰ صلوٰھم یحافظون اولآئک ھم الوارثون الذین یرثون الفردوس ط ھم فیھا خالدون و انھا لکبیرۃ الا عی الخاشعین ہ الذین یظنون انھم ملاقوا ربھم وانھم الیہ راھعون

ترجمہ: بے شک کامیابی اور فلاح کو پہنچ گئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو لغویات سے اعراض کرنے والے ہیں اور جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں ( یا اپنے اخلاق کو درست کرنے والے ہیں )اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیبیوں اور باندیوں کے کہ ان میں کوئی حرج نہین البتہ جو ان کے علاوہ اور جگہ شہوت پوری کرنا چاہیں وہ لوگ حد سے گزرنے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدو پیمان کی رعایت کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کا اہتمام کرنے والے ہیں یہی لوگ جنت کے وارث ہیں جو فردوس کے وارث بنیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہیں گے حدیث میں آیا ہے کہ فردوس جنت کا اعلی اور افصل ترین حصہ ہے وہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں اسی پر عرش الٰہی ہو گا جب تم جنت کی دعا کیا کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو دوسری جگہ نماز کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے :

ترجمہ: بے شک نماز دشوار ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ بھی دشوار نہیں یہ وہ لوگ ہیں جواس کا خیال رکھتے ہیں کہ بلا شبہ وہ اپنے رب سے قیامت میں ملنے والے ہیں اور مرنے کے بعد اسی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے:

فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ رِجَالُ لَا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃُ وَّلَا بَیْعُ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکوٰۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیِہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُیَرْزُق منُ یشاُ بِغَیْرِ حِسَاب

ترجمہ: ایسے گھروں میں جن کے متعلق اﷲ جل شانہ نے حکم فرما دیا ہے کہ ان کا ادب کیا جائے ان کو بلند کیا جائے ان میں صبح شام اﷲ کی تسبیح کرتے ہیں ایسے لوگ جن کو اﷲ کی یاد سے اور نماز کے قائم کرنے سے اور زکوۃ کے دینیسے نہ تو تجارت غافل کرتی ہے نہ خرید و فروخت غفلت میں دالتی ہے وہ لوگ ایسے دن کی سختی سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی ( یعنی قیامت کا دن اور وہ لوگ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ اﷲ جل شانہ ان کے نیک اعمال کا بدلہ ان کو عطا فرماویں اور بدلہ سے بھی بہت زیادہ انعامات اپنے فصل سے عطا فرماویں اور اﷲ جل شانہ، تو جس کو چاہتے ہیں بے شمار عطا فرما دیتے ہیں ۔

تو وہ داتا ہے کہ دینے کے لیے

در تری رحمت کے ہیں ہر دم کھلے

حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نماز قائم کرنے سے یہ مراد ہے کہ اس کے رکوع سجدہ کو اچھی طرح ادا کرے ہمہ تن متوجہ رہے اور خشوع کے ساتھ پڑھے قتادہ ؓ سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ نماز کا قائم کرنا اس کے اوقات کی حفاظت رکھنااور وضو کا اور رکوع سجدے کا اچھی طرح ادا کرنا ہے یعنی جہاں جہاں قرآن شریف میں اقام الصلوۃ اور یقیمون الصلوۃ آیا ہے یہی مراد ہے یہی لوگ ہیں جن کی تعریف دوسری جگہ ان الفاظ سے ارشاد فرمائی گئی

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْ سَلَامَاً وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامَاً

اور رحمن کے خاص بندے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر عاجزی سے اکڑ کر نہیں چلتے اور جب ان سے جاہل لوگ ( جہالت کی) بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سلام ( یعنی سلامتی کی بات کرتے ہیں جو رفع شر کی ہو یا بس دور ہی سے سلام) اور یہ وہ لوگ ہیں جو رات بھر گزار دیتے ہیں اپنے رب کے لئے سجدے کرنے میں اور نماز میں کھڑے رہنے میں آگے ان کے اور چند اوصاف ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہے

اُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃَ وَّ سَلَامَاً خَالِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرَّا وَّمُقَامَاً

ترجمہ یہی لوگ ہیں جن کو جنت کے بالا خانے بدلہ میں دئے جائیں گے اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا( یا دین پر ثابت قدم رہے) اور جنت میں فرشتوں کی طرف سے دعا و سلام سے استقبال کیا جاوے گا اور اس جنت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیا ہی اچھا ٹھکانہ اور رہنے کی جگہ ہے دوسری جگہ ارشاد ہے

وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامُٗ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ

( ترجمہ) اور فرشتے ہر دروازہ سے داخل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلام ( اور سلامتی) ہو اس وجہ سے کہ تم نے صبر کیا( یا دین پر مضبوط اور ثابت قدم رہے) پس کیا ہی اچھا انجام کار ٹھکانہ ہے انہیں لوگوں کی تعریف دوسری جگہ ان الفاظ سے فرمائی گئی ہے

تَتَجَافَی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفَاً وَطَمَعَاً وَ مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسُٗ مَّا اُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً بِمَا کَانُوْ یَعْمَلُوْنَ

( ترجمہ) وہ لوگ ایسے ہیں کہ ات کو ان کے پہلو ان کی خواب گاہوں اور بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں ( کہ نماز پڑھتے رہتے ہیں اور) اپنے رب کو عذاب کے ڈر سے اور ثواب کی امید میں پکارتے رہتے ہیں اور ہماری عطا کی ہوئی چیزوں سے خرچ کرتے ہیں سوکوئی بھی نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کے لئے کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان پردہ غیب میں موجود ہے جو بدلہ ہے ان کے نیک اعمال کا انہیں لوگوں کی شان میں ہے

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَعُیُوْنٍ اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتَاہُمْ رَبَّہُمْ اِنَّہُمْ کَانُوْ قَبْلَ ذَلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ

( ترجمہ) بے شک متقی لوگ جنتوں اور پانی کے چشموں کے درمیان میں ہوں گے اور ان کو ان کے رب اور مالک نے جو کچھ ثواب عطا فرمایا اس کو خوشی خوشی لے رہے ہوں گے اور کیوں نہ ہو کہ وہ لوگ اس سے پہلے( دنیا میں ) اچھے کام کرنے والے تھے وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کرنے والے تھے ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے

اَمَّنْ ہُوَ قَانِتُ اٰنَآئَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَ قَائِمَاً یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَاب

( ترجمہ) کیا برابر ہو سکتا ہے بے دین) اور وہ شخص جو عبادت کرنے والا ہو رات کے اوقات میں کبھی سجدہ کرنے والا ہو اور کبھی نیت باندھ کر کھڑا ہونے والا ہو آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو ( اچھا آپ ان سے یہ پوچھیں ) کہیں عالم اور جاہل برابر ہو سکتا ہے ( اور یہ ظاہر ہے کہ عالم اپنے رب کی عبادت کرے ہی گا اور جو ایسے کریم مولا کی عبادت نہ کرے وہ جاہل بلکہ اجہل ہے ہی) نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو اہل عقل ہیں ایک جگہ ارشاد

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوعَاً اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعَاً وَ اِذَامَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعَا اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلٰوتِہِمْ دَائِمُوْنَ

(ترجمہ) اس میں شک نہیں کہ انسان غیر مستقل مزاج پیدا ہوا ہے کہ جب کوئی تکلیف اس کو پہنچتی ہے تو بہت زیادہ گھبرا جاتا ہے اور جب کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے کہ دوسرے کو یہ بھلائی نہ پہنچے مگر(ہاں ) وہ نمازی جو اپنی نماز کے ہمیشہ پابند رہتے ہیں اور سکون و وقار سے پڑھنے والے ہیں آگے ان کی اور چند صفتیں ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہے کہ

وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ اُولٰئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُکْرَمُون

اور وہ لوگ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کا جنتوں میں اکرام کیا جائے گا ان کے علاوہ اور بھی بہت سے آیات ہیں جن میں نماز کا حکم اور نمازیوں کے فضائل ان کے اعزاز و اکرام ذکر فرمائے گئے ہیں اور حقیقت میں نماز ایسی ہی دولت ہے اسی وجہ سے دو جہاں کے سردار فخر رسل حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اسی وجہ سے حضرت ابراہیم خلیل اﷲ دعا فرماتے ہیں رب اجعلنی مقیم صلوٰ ۃ و من ذریتی ربنا و تقبل دعاًء (اے رب مجھ کو نماز کا خاص اہتمام کرنے والا بنا دے اور میری اولاد میں سے بھی ایسے لوگ پیدا فرما جو اہتمام کرنے والے ہوں اے ہمارے رب میری یہ دعا قبول فرمالے اﷲ کا ایک پیارا نبی جس کو خلیل ہونے کا بھی فخر ہے وہ نماز کی پابندی اور اہتمام کو اﷲ ہی سے مانگتا ہے خود حق سبحانہ و تقدس اپنے محبوب سید المرسلین کو حکم فرماتے ہیں

و امر اہلک با لصلوٰۃ و اصطبر علیھا لا نسلک رزقا نحن نرزقک والعاقبۃ لتقوی۔

( ترجمہ )اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہئے اور خود بھیاس کا اہتمام کیجئے ہم آپ سے روزی (کموانا) نہیں چاہتے روزی تو آپ کو ہم دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیز گاری کا ہے حدیث میں آیا ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کو کچھ تنگی وغیرہ پیش آتی تو گھر والوں کو نماز کا حکم فرماتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے اور یہی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا بھی معمول نقل کیا گیا کہ جب بھی ان حضرات کو کوئی دقت پیش آتی تو نماز میں مشغول ہو جاتے مگر ہم لوگ اس اہم چیز سے ایسے غافل اور بے نیاز ہیں کہ اسلام اور مسلمانی کے لمبے لمبے دعووں کے باوجود بھی ادھرمتوجہ نہیں ہوتے بلکہ اگر کوئی بلانے والا کہنے والا کھڑا ہوتا ہے تو اس پر فقرے کستے ہیں اس کی مخالفت کرتے ہیں مگر کسی کا کیا نقصان ہے اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں اور جو لوگ نماز پڑھتے بھی ہیں ان میں سے بھی اکثر ایسی پڑھتے ہیں جس کو نماز کے ساتھ مذاق سے اگر تعبیر کیا جائے تو بیجا نہیں کہ اکثر ارکان بھی پورے طور سے ادا نہیں کرتے خشوع و خصوع کا تو کیا ذکر ہے حالانکہ نبی اکرم ﷺ کا نمونہ سامنے ہے وہ ہر کام خود کر کے دکھلا گئے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے کارنامے بھی سامنے ہیں ان کا اتباع کرنا چاہئے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے چند قصے نمونہ کے طور پر اپنے رسالہ حکایات صحابہ میں لکھ چکا ہوں یہاں ان کے اعادہ کی ضورت نہیں البتہ اس رسالہ میں چند حکایات صوفیاء کی نقل کرنے کے بعد چند ارشادات نبی اکرم ﷺ کے نقل کرتا ہوں ۔

شیخ عبدالواحد مشہور صوفیاء میں ہیں فرماتے ہیں کہ ایک روز نیند کا اتنا غلبہ ہوا کہ رات کو دو وظائف بھی چھوٹ گئے خواب میں دیکھآ کہ ایک نہایت حسین خوبصورت لڑکی سبز ریشمی لباس پہنے ہوئے ہے جس کے پاؤں کی جوتیاں تک تسبیح میں مشغول ہیں کہتیہے کہ میری طلب میں کوشش کر میں تیری طلب میں ہوں اس کے بعد اس نے چند شوقیہ شعر پڑھے یہ خواب سے اٹھے اور قسم کھا لی کہ رات کو نہیں سوؤں گا کہتے ہیں کہ چالیس برس تک صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی۔

شیخ مظہر سعدی ایک بزرگ ہیں جو اﷲ جل شانہ کے عشق و شوق میں ساٹھ برس تک روتے رہے ایک شب خواب میں دیکھا گویا ایک نہرہے جس میں خالص مشک بھرا ہوا ہے اس کے کناروں پر موتیوں کے درخت سونے کی شاخوں والے لہلہا رہے ہیں وہاں چند نو عمر لڑکیاں پکار پکار اﷲ کی تسبیح میں مشغول ہیں انہوں نے پوچھا تم کون ہو تو انہوں نے دو شعر پڑھے جن کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو لوگوں کے معبود اور محمد ﷺ کے پروردگار نیانے ان لوگوں کے واسطے پیدا فرمایا ہے جو رات کو اپنے پروردگار کے سامنے اپنے قدموں پر کھڑے رہتے ہیں اور اپنے اﷲ سے مناجات کرتے رہتے ہیں ۔

ابوبکر ضریر کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک نوجوان غلام رہتا تھا دن بھر روزہ رکھتا تھا اور رات بھر تہجد پڑھتا ایک دن وہ میرے پاس آیا اور بیان کیا کہ میں اتفاق سے آج رات سو گیا تھا خواب میں دیکھا کہ محراب کی دیوار پھٹی اس میں سے چند لڑکیاں نہایت ہی حسین اور خوبصورت ظاہر ہوئین مگر ایک ان میں نہایت بد صورت بھی ہے میں نے ان سے پوچھا تم کون ہو اور یہ بد صورت کون ہے وہ کہنے لگیں کہ ہم تیری گذشتہ راتیں ہیں اور یہ تیری آج کی رات ہے ۔

ایک بزرگ کہتے ہیں کہ مجھے ایک رات ایسی گہری نیند آئی کہ آنکھ نہ کھلی میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ایسی نہایت حسین لڑکی ہے کہ اس جیسی میں نے عمر بھر نہیں دیکھی اس میں سے ایسی تیز خوشبو مہک رہی تھی کہ میں نے ویسی خوشبو بھی کبھی نہیں سونگھی اس نے مجھے ایک کاغز کا پرجہ دیا جس میں تین شعر لکھے ہوئے تھے ان کا مطلب یہ تھا کہ تو نیند کی لذت میں مشغول ہو کر جنت کے بالا خانوں سے غافل ہو گیا جہاں ہمیشہ تجھے رہنا ہے اور موت بھی وہاں نہ آئے گی اپنی نیند سے اٹھ سونے سے تہجد میں قرآن پڑھنا بہت بہتر ہے کہتے ہیں اس کے بعد سے جب مجھے نیند آتی ہے اور یہ اشعار یاد آتے ہیں تو نیند بالکل اڑ جاتی ہے۔

حضرت عطا ؒفرماتے ہیں کہ میں ایک بازار میں گیا وہاں ایک باندی فروخت ہو رہی تھی جو دیوانی بتائی جاتی تھی میں نے سات دینار میں خرید لی اور اپنے گھر لے آیا جب رات کا کچھ حصہ گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہ اٹھی وضو کیا نماز شروع کر دی اور نماز میں اس کی یہ حالت تھی کہروتے روتے اس کا دم نکلا جاتا تھا نماز کے بعد اس نے مناجات شروع کی اور کہنے لگی اے میرے معبود آپ کو مجھ سے محبت رکھنے کی قسم مجھ پر رحم فرما میں نے اس سے کہا کہ اس طرح نہ کہو بلکہ یوں کہو کہ مجھے تجھ سے محبت رکھنے کی قسم یہ سنکر اس کو غصہ آ گیا اور کہنے لگی قسم ہے اس زات کی اگر اس کو مجھ سے محبت نہ ہوتی تو تجھے میٹھی نیند نہ سلاتا اور مجھے یوں نہ کھڑا رکھا پھراوندھے منہ گر گئی اور چند شعر پڑھے جن کا مطلب یہ ہے کہ بے چینی برھتی جارہی ہے اور دل جلا جا رہا ہے اور صبر جاتا رہا اور آنسو بہہ رہے ہیں اس شخص کو کس طرح قرار آ سکتا ہے جس کو عشق و شوق اور اضطراب سے چین ہی نہیں اے اﷲ اگر کوئی خوشی کی چیز ہو تو اس کو عطا فرما کر مجھ پر احسان فرما اس کے بعد بلند آواز سے یہ دعا کی کہ یا اﷲ میرا اور آپ کا معاملہ اب تک پوشیدہ تھا اب مخلوق کو خبر ہو چلی اب مجھے اٹھا لیجئء یہ کہہ کر زور سے ایک چیخ ماری اور مر گئی۔

اسی قسم کا ایک وقعہ حضرت سری کے ساتھ بھی پیش آیا کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خدمت کے لئے ایک باندی خریدی ایک مدت تک وہ میری خدمت کرتی رہی اور اپنے حالت کا مجھ سے اخفاے کرتی اس کی نماز کی ایک جگہ متعین تھی جب کام سے فاغ ہو جاتی وہاں جا کر نماز میں مشغول ہو جاتی ایک رات میں نے دیکھا کہ وہ کبھی نماز پڑھتی ہے اور کبھی مناجات میں مشُغول ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ آپ اس محبت کے وسیلہ سے جو مجھے آپ سے ہے کہنے لگی میرے آقااگر اس کو مجھ سے محبت نہ ہوتی تو تمھیں نماز سے بٹھلا کر مجھے کھڑا نہ کرتا سری کہتے ہیں جب صبح ہوئی تو میں نے اس کو بلا کر کہا کہ تو میری خدمت کے قابل نہیں اﷲ ہی کی عبادت کے لایق ہے اس کو کچھ سامان دے کر آزاد کر دیا۔

حضرت سری سقطی ایک عورت کا حال فرماتے ہیں کہ جب وہ تہجد کی نماز کو کھڑی ہوتی تو کہتی اے اﷲ ابلیس بھی تیرا ایک بندہ ہے اس پیشانی بھی تیرے قبضہ میں ہے وہ مجھے دیکھتا ہے اور میں اسے نہیں دیکھ سکتی تو اسے دیکھتا ہے اور اس کے سارے کاموں پر قادر ہے اور وہ تیرے کسی کام پر بھی قدرت نہیں رکھتا اے اﷲاگر وہ میری برائی چاہے تو تو اس کو دفع کر اور وہ میرے ساتھ مکر کرے تو تو اس کے مکر کا انتقام لے میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتی ہوں اور تیری مدد سے اس کو دھکیلتی ہوں اس کے بعد وہ روتی رہتی تھی حتی کہ روتے روتے اس کی ایک آنکھ جاتی رہی لوگوں نے اس سے کہا خدا سے ڈر کہیں دوسری آنکھ بھی نہ جاتی رہے اس نے کہا اگر یہ آنکھ جنت کی آنکھ ہے تو اﷲ جل شانہ اس سے بہتر عطا فرمائین گے اور اگر دوزخ کی آنکھ ہے تو اس کا دور ہی ہونا اچھا ہے ۔

شیخ ابو عبداﷲ جلا فرماتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے میرے والد سے مچھلی کی فرمائش کی والد صاحب بازار تشریف لے گئے میں بھی ساتھ تھا مچھلی خریدی گھر تک لانے کے واسطے مزدور کی تلاش تھی کہ ایک نو عمر لڑکا جو پاس ہی کھڑا تھا کہنے لگا چچا جان اسے اٹھانے کے واسطے مزدور چاہئے کہا ہاں اس لڑکے نے اپنے سر پر اٹھائی اور ہمارے ساتھ چل دیا راستہ میں اس نے ازان کی آواز سن لی کہنے لگا اﷲ کے منادی نے بلایا ہے مجھے وضو بھی کرنا ہے نماز کے بعد لے جا سکوں گا آپ کا دل چاہے انتظار کر لیجئے ورنہ اپنی مچھلی لیجئے یہ کہہ کر مچھلی رکھ کر چلا گیا میرے والد صاحب کو خیال آیا کہ یہ مزدور لڑکا تو ایسا کرے ہمیں بطریق اولی ٰ اﷲ پر بھروسہ کرنا چاہئے یہ

سوچ کر وہ بھی مچھلی رکھ کر مسجد میں چلے گئے نماز سے فارغ ہو کر ہم سب آئے تو مچھلی اسی طرح رکھی ہوئی تھی اس لڑکے نے اٹھا کر ہمارے گھر پہنچادی گھر جا کر والد نے یہ عجیب قصہ والدہ کو سنایا انہوں نے فرمایا کہ اس کو روک لو وہ بھی مچھلی کھا کر جائے اس سے کہا گیا اس نے جواب دیا کہ میرا تو روزہ ہے والد نے بہت اصرار کیا کہ شام کے وقت یہیں آ کر افطار کرلے لڑکے نے کہا میں ایک دفعہ جا کر دوبارہ نہیں آتا یہ ممکن ہے کہ میں پاس ہی مسجد میں ہوں شام کو آپ کی دعوت کھا کر چلا جاؤں گا یہ کہہ کر وہ قریب ہی مسجد میں چلاگیا شام کو بعد مغرب آیا کھانا کھایا اور کھانے سے فراغت پر اس کو تخلیہ کی جگہ بتا دی ہمارے قریب ہی ایک اپاہج عورت رہا کرتی تھی ہم نے دیکھا کہ وہ بالکل اچھی تندرت آ رہی ہے ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کس طرح اچھی ہو گئی کہا میں نے اس مہمان کے طفیل سے دعا کی تھی کہ یا اﷲ اس کی برکت سے مجھے اچھا کر دے میں فوراً اچھی ہو گئی اس کے بعد جب ہم اس کے تخلیہ کی جگہ اس کو دیکھنے گئے تو دیکھا دروازے بند ہیں اور اس مزدور کا کہیں پتہ نہیں ۔

ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ ان کے پاؤں میں پھوڑا نکل آیا طبیبوں نے کہا اگر ان کا پاؤں نہ کاٹا گیا تو ہلاکت کااندیشہ ہے ان کی والدہ نے کہا ابھی ٹھہر جاؤ جب یہ نماز کی نیت باندھ لیں تو کاٹ لینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ان کو خبر بھی نہ ہوئی ۔

ابو عامر کہتے ہیں کہ میں نے ایک باندی دیکھی جو بہت کم داموں میں فروخت ہو رہی تھی جو نہایت دبلی پتلی تھی اس کا پیٹ کمر سے لگ رہا تھابال بکھرے ہوئے تھے میں نے اس پر رحم کھا کر اس کو خرید لیا اس سے کہا کہ ہمارے ساٹھ بازار چل رمضان المبارک کے واسطے کچھ ضروری سامان خرید لیں کہنے لگی اﷲ کا شکر ہے جس نے میرے واسطے سارے مہینے یکساں کر دئے وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتی رات بھر نماز پڑھتی جب عید قریب آئی تو میں نے ا س سے کہاکہ کل صبح بازار چلیں گے تو بھی ساتھ چلنا عید کے واسطے کچھ ضروری سامان خرید لائیں گے کہنے لگی میرے آقا تم تو دنیا میں بہت ہی مشغول ہو پھر اندر گئی اور نماز میں مشغول ہو گئی اور اطمینان سے ایک ایک آیت مزے لے لے کر پڑھتی رہی حتی کہ اس آیت پر پہنچی و یسقی من ماے صدید الایت سورہ ابراہیم اس آیت کو بار بار پڑھتی رہی اور ایک چیخ مار کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔

ایک سید صاحب کا قصہ لکھاہے کہ بارہ دن تک ایک ہی وضو سے ساری نمازیں پڑھیں اور پندرہ برس مسلسل لیٹنے کی نوبت نہیں آئی کئی کئی دن ایسے گزر جاتے کہ کوئی چیز چکھنے کی نوبت نہ آتی تھی۔

اہل مجاہدہ لوگوں میں اس قسم کے واقعات بہت کثرت سے ملتے ہیں ان حضرات کی حرص تو بہتquot;; ہی مشکل ہے کہ اﷲ جل شانہ نے ان کو پیدا ہی اس لئے فرمایا تھا لیکن جو حضرات اکابر کہ دوسرے دینی اور دنیوی مشاغل میں مشغول تھے ان کی حرض بھی ہم جیسوں کو دشوار ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے سب ہی واقف ہیں خلفاء راشدین کے بعد انہیں کا شمار ہے ان کی بیوی فرماتی ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز سے زیادہ وضو اور نماز میں مشغول ہونے والے اور بھی ہوں گے مگر ان سے زیادہ اﷲ سے ڈرنے والا میں نے نہیں دیکھا عشاء کی نماز کے بعد مصلے پر بیٹھ جاتے اور دعا کے واسطے ہاتھ اٹھاتے اور روتے رہتے حتی کہ اسی میں نیند کا غلبہ ہوتا تو آنکھ لگ جاتی پھر جب کھل جاتی تو اسی طرح روتے رہتے اور دعا میں مشغول رہتے کہتے ہیں کہ خلافت کے بعد سے جنابت کے غسل کی نوبت نہیں آئی ان کی بیوی عبدالملک بادشاہ کی بیٹی تھیں باپ نے بہت سے زیورات جواہر دیئے تھے اور ایک ایسا ہیرا دیا تھا جس کی نظیر نہیں تھی آپ نے بیوی سے فرمایا کہ دو باتوں میں سے ایک اختیار کر لے مجھے یہ چیز ناگوار ہے کہ میں اور وہ مال ایک گھر میں جمع رہیں بیوی نے عرض کیا کہ وہ مال کیا چیز ہے میں اس سے کئی چند زیادہ پر بھی آپ کو نہیں چھوڑ سکتی یہ کہہ کر سب بیت المال میں دابڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو ایسے ہیں کہ دکھلاوا کرتے ہیں بے خبر ہونے کی بھی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ وقت کی خبر نہ ہو قضا کر دے دوسرے یہ کہ متوجہ نہ ہو ادھر ادھر مشعول ہو تیسرے یہ کہ یہی خبر نہ ہو کتنی رکعتیں ہوئیں دوسری جگہ منافقین کے بارے میں ارشاد خداوندی ہےخل کردیا آپ کے انتقال کے بعد جب عبدالملک کا بیٹا یزید بادشاہ بنا تو اس نے بہن سے دریافت کیا اگر تم چاہو تو تمھارا زیور تم کو واپس سے دیا جائے فرمانے لگیں کہ جب میں ان کی زندگی میں اس سے خوش نہ ہوئی تو ان کے مرنے کے بعد اس سے کیا خوش ہوں گی مرض الموت میں آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مرض کے متعلق کیا خیال کیا جاتا ہے کسی نے عرض کیا کہ لوگ جادو سمجھ رہے ہیں آپ نے فرمایا یہ نہیں پھر ایک غلام کو بلایا اس سے پوچھا کہ مجھے زہر دینے پر کس چیز نے تجھ کو آمادہ کیا اس نے کہا سو دینار دیئے گئے اور آزادی کا وعدہ کیا گیا آپنے فرمایا وہ دینار لے آ اس نے حاضر کئے آپ نے ان کو بیت المال میں داخل فرما دیا اور اس غلام سے فرمایا تو کسی ایسی جگہ چلا جا جہاں تجھے کوئی نہ دیکھے انتقال کے وقت مسلمہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ نے ا ولاد کے ساتھ ایسا کی جوکسی نے بھی نہیں کیا ہو گا آپ کے تیرہ بیٹے ہیں اور ان کے لئے نہ کوئی روپیہ آپ نے چھوڑا نہ پیسہ آپ نے فرمایا ذرا مجھے بٹھا دو بیٹھ کر فرمایا کہ میں نے ان کا کوئی حق نہیں دبایا اورجو دوسروں کا حق تھا وہ ان کو دیا نہیں پس اگر وہ صالح ہیں تو اﷲ جل شانہ خود ان کا کفیل ہے قرآن پاک میں ارشاد :

و ھو یتولی الصالحین ( وہی متولی ہے صلحاء کا) اور اگر وہ گناہ گار ہیں تو ان کی مجھے بھی کچھ پرواہ نہیں ،

حضرت امام احمد بن حنبل جو فقہ کے مشہور امام ہیں دن بھر مسائل میں مشغول رہنے کے باوجو درات دن میں تین سو رکعات نفل پڑھتے تھے حضرت سعید بن جبیر ایک رکعت میں پورا قرآن شریف پڑھ لیتے تھے حضرت محمد بن منکدر حفاظ حدیث میں ہیں ایک رات تہجد میں اتنی کثرت سے روئے کہ حد نہ رہی کسی نے دریافت کیا تو فرمایا تلاوت میں یہ آیت آ گئی تھی و بدا لھم من اﷲ ما لم یکون یحتسبون اخیر تک ( سورہ زمر ع۵) اوراس کی آیت میں اس کا ذکر ہے کہ اگر ظلم کرنے والوں کے پاس دنیا کی ساری چیزیں ہوں اور اتنی ہی ان کے ساتھ اور بھی ہوں تو وہ قیامت کے دن سخت عذاب سے چھوٹنے کے لئے فدیہ کے طور پر دینے لگیں اس کے بعدارشاد ہے و بدالھم آیت اور اﷲ کی طرف سے ان کے لئے (عذاب کا) وہ معاملہ پیش آئے گا جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا اور اس وقت ان کواپنی تمام بداعمالیاں ظاہر ہو جائیں گی حضرت محمد بن منکدر وفات کے وقت بھی بہت گھبرا رہے تھے اور فرماتے تھے کہ اسی آیت سے ڈر رہا ہوں ۔

حضرت ثابت بنانی حفاظ حدیث میں ہیں اس قدر کثرت سے اﷲ کے سامنے روتے تھے کہ حد نہیں کسی نے عرض کیا کہ آنکھیں جاتی رہیں گی فرمایا کہ ان آنکھوں سے اگر روئیں نہیں تو فائدہ ہی کیا ہے اس کی دعا کیا کرتے تھے کہ یا اﷲ اگر کسی کو قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہو سکتی ہو تو مجھے بھی ہو جائے ابو سنان کہتے ہیں خدا کی قسم میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ثابت کو دفن کیا دفن کرتے ہوئے لحد کی ایک اینٹ گر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں میں اپنے ساتھی سے کہا دیکھو یہ کیا ہو رہاہے اس نے مجھے کہا چپ ہو جاؤ جب دفن کر چکے تو ان کے گھر جا کر ان کی بیٹی سے دریافت کیا کہ ثابت کا عمل کیا تھا اس نے کہا کیوں پوچھتے ہو ہم نے قصہ بیان کیا اس نے کہاکہ پچاس برس شب بیداری کی اور صبح کو ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یا اﷲ اگر تو کسی کو یہ دولت عطا کر کہ وہ قبر میں نماز پڑھے تو مجھے بھی عطا فرما حضرت امام ابو یوسف باوجود علمی مشاغل کے جو سب کو معلوم ہیں اور ان کے علاوہ قاضی القضاۃ ہونے کی وجہ سے قضا کے مشاغل علیحدہ تھے لیکن پھر بھی دو سو رکعات نوافل روزانہ پڑھتے تھے حضرت محمد بن نصر مشہور محدث ہیں اس انہماک سے نماز پرھتے تھے جس کی نظیر مشکل ہے ایک مرتبہ پیشانی پر ایک بھڑ نے نماز میں کاٹا جس کی وجہ سے خون بھی نکل آیا مگر نہ حرکت ہوئی نہ خشوع خضوع میں کوئی فرق آیا کہتے ہیں کہ نماز میں لکڑی کی طرح سے بے حرکت کھڑے رہتے تھے حضرت بقی بن مخلد روزانہ تہجد اور وتر کی تیرہ رکعت میں ایک قرآن شریف پڑھا کرتے تھے حضرت ہناد ایک محدث ہیں ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی زیادہ روتے تھے ایک مرتبہ صبح کو ہمیں سبق پرھاتے رہے اس کے بعد وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر زوال تک نفلیں پڑھتے رہے دوپہر کو گھر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر میں آ کر ظہر کی نماز پڑھائی اور عصرتک نفلوں میں مشغول رہے پھر عصر کی نماز پڑھائی اور قرآن پاک کی تلاوت مغرب تک فرماتے رہے مغرب کے بعد میں واپس چلا آیا میں نے ان کے ایک پڑوسی سے تعجب سے کہا کہ یہ شخص کس قدر عبادت کرنے والے ہیں اس نے کہا کہ ستر برس سے ان کا یہی عمل ہے اور اگر تم ان کی رات کی عبادت دیکھو گے تو اور بھی تعجب کرو گے ۔

مسروق ایک محدث ہیں ان کی بیوی کہتی ہیں کہ وہ نمازیں اتنی لمبی لمبی پڑھا کرتے تھے کہ ان کی پنڈلیوں پر ہمیشہ اس کی وجہ سے ورم رہتا تھا اور میں ان کے پیچھے بیٹھی ہوئی ان کے حال پرترس کھا کر رویا کرتی تھی سعید بن المسیب کے متعلق لکھا ہے کہ پچاس برس تک عشاء اور صبح ایک ہی وضو سے پڑھی اور ابو المعتمر کے متعلق لکھا ہے کہ چالیس برس تک ایسا ہی کیا امام غزالی نے ابو طالب مکی سے نقل کیا کہ چالیس تابعیوں سے تواتر کے طریق سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ عشاء کی وضوسے ضبح کی نماز پڑھتے تھے ان میں سے بعض کا چالیس برس تک یہی عمل رہا حضرت امام اعظم رحمتہ اﷲ علیہ کے متعلق تو بہت کثرت سے یہ چیز نقل کی گئی کہ تیس یا جالیس یا پچاس برس غشاء اور صبح ایک وضو سے پڑھیاور یہ اختلاف نقل کرنیوالوں کے اختلاف کی وجہ سے ہے کہ جس شخص کو جتنے سال کا علم ہوا اتنا ہی نقل کیا لکھا ہے کہ آپ کا معمول صرف دوپہر کو تھوڑی دیر سونے کا تھا اور یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ دوپہر کے سونے کا حدیث میں حکم ہے حضرت امام شافعی صاحب کا معمو ل تھا کہ رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نمازمیں پڑھتے تھے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں کئی روز تک امام شافعی کے یہاں رہا صرف رات کو تھوڑی دیر سوتے تھے حضرت امام احمد ابن حنبل تین سے رکعتیں روزانہ پڑھتے تھے اور جب بادشاہ وقت نے آپ کے کوڑے لگوائے اور اس کی وجہ سے ضعف بہت ہو گیا تو ڈیڑھ سو رہ گئی تھیں اور تقریباً اسی برس کی عمر تھی ابو عتاب سلمی چالیس برس تک رات بھر روتے تھے اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ان کے علاوہ ہزاروں لاکھوں واقعات توفیق والوں کے کتب تواریخ میں مذکور ہیں جن کا احاطہ بھی دشوار ہے نمونہ اور مثال کے لئے یہی واقعات کافی ہیں حق تعالٰی جَلَّ شانُہ مجھے بھی اور ناظرین کو بھی ان حضرات کے اتباع کا کچھ حصہ اپنے لطف و فصل سے نصیب فرمائیں ۔آمین۔

۱۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاِسرٍؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَنْصَرِفُ وَمَا کُتِبَ لَہٗ اِلَّاعُشْرُ صَلٰوتِہٖ تُسْھُعَا ثُمُنُھَا سُبُعُھَا سُدُسُھَاخُمُسُھَا رُبُعُھَا ثُلُثُھَا نِصْفُھَا۔

نبی اکرم ﷺ کا راشاد ہے کہ آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے اسی طرح بعض کیلئے نواں حصہ بعض کیلئے آٹھواں ساتواں چھٹا پانچواں چوتھائی تہائی آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔

(رواہ ابوداؤد وقال المنذری فی الترغیب رواہ ابوداؤد والنسائی وابن حبان فی صحیحہ بنحوہ اہ وعزاہ فی الجامع الصغیر الی احمد وابی داودٔ وابن حبان ورقم لہ بالصحیح وفی المنتخب عزاہ الی احمد ایضا وفی الدر المنثور اخرج احمد عن ابی الیسر مرفوعا منکم من یصلی الصلوۃ کاملۃ ومنکم من یصلی النصف والثلث والربع حتی بلغ العشر قال المنذری فی الترغیب رواہ النسائی باسناد حسن واسم ابی الیسر کعب بن عمرو السلسی شھدبدرا)

ف: یعنی جس درجہ کا خشوع اور اخلاص نماز میں ہوتا ہے اتنی ہی مقدار اجر و ثواب کی ملتی ہے حتی کہ بعض کو پوری اجر کا دسواں حصہ ملتا ہے اگر اس کے موافق خشوع خضوع ہو اور بعض کو آدھا مل جاتا ہے اور اسی طرح دسویں سے کم اور آدھے سے زیادہ بھی مل جاتا ہے حتی کہ بعض کو پورا پورا اجر مل جاتا ہے اور بعض کو بالکل بھی نہیں ملتا کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہوتی ایک حدیث میں آیا ہے کہ فرض نماز کے لئے اﷲ کے یہاں ایک خاص وزن ہے جتنی اس میں کمی رہ جاتی ہے اس کا حساب کیا جاتا ہے احادیث میں آیا ہے کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے خشوع اٹھایا جائے گا کہ پوری جماعت میں ایک شخص بھی خشوع سے پڑھنے والا نہ ملے گا ۔

۲۔ رُوِیَ عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی الصَّلٰواتِ لِوَقْتِھَا وَاَسْبَغَ لَھَا وُضُوْئَھَا وَاَتَمَّ لَھَا قِیَامَھَا وَخُشُوْعَھَا وَرُکُوْعَھَا وَسُجُوَدَ ھَا خَرَجَتْ وَھِیَ بَیْضَآء ُ مُسْفِرَۃٌ تَقُوْلُ حَفِظَکَ اﷲُ کَمَا حَفِظْتَنِیْ وَمَنْ صَلَّاھَا لِغَیْرِ وَقْتِھَاوَلَمْ یُسْبِغُ لَھَا وُضُوْئَھَا وَلَمْ یُتِمَّ لَھَا خُشُوْعَھَا وَلَارُکُوْعَھَا وَلَا سُجُوْدَھَا خَرَجَتْ وَھِیَ سَوْدَائُ مُظْلِمَۃٌ تَقُوْلُ ضَیَّعَکَ اﷲُ کَمَا ضَیَّعْتَنِیْ حَتّٰی اِذَا کَانَتْ حَیْثُ شَآئَ اﷲُ لُفَّتْ کَمَا یُلَفُّ الثَّوْبُ الْخَلِقُ ثُمَّ ضُرِبَ بِھَا وَجْھُہٗ۔

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے وضو بھی اچھی طرح کرے خشوع و خضوع سے بھی پڑھے کھڑا بھی پورے وقار سے ہو پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح سے اطمینان سے کرے غرض ہر چیز کو اچھی طرح ادا کرے تو وہ نماز نہایت روشن جمکدار بن کر جاتی ہے اور نمازی کودعا دیتی ہے کہ اﷲ تعالی شانہ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تو نے میری حفاظت کی اور جو شخص نمازکو بری طرح پڑھے وقت کو بھی ٹال دے وضو بھی آچھی طرح نہ کرے رکوع سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بری صورت سے سیاہ رنگ میں بد دعا دیتی ہوئی جاتی ہے کہ

اﷲ تعالی تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تو نے مجھے ضائع کیا اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔

(رواہ الطبرانی فی الا وسط کذافی التغیب والدر المثور وغزاد فی المتخب الی البیہقی فے الشغیب وفیہ ایضاً بروایۃ عبادہ ص بمعناہ وزاد فی الا ولی بعد قولہ کما حفضتنی ثم اصعد بھا الی السَّماء ولھا ضوء ونور فقتحت لہ ابواب السَّماء حتّٰی ینتھی بھا الی اﷲ فَتَشفع لصا حبہاوقال فی الثّانیۃ وغلقت دونھا ابواب السَّماء وعزاہ فی الدّر الی البزار والطبرانی وفی الجامع الصغیر حدیث عبادۃ الی الطیالِسی وقال صَحیحٌ)

ف: خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو نماز کو اچھی طرح پڑھیں کہ اﷲ کی اہم ترین عبادت ان کے لئے دعا کرتی ہے لیکن عام طور سے جیسی نماز پڑھی جاتی ہے کہ رکوع کیا تو وہیں سے سجدے میں چلے گئے سجدے سے اٹھے تو سر اٹھانے بھی نہ پائے تھے کہ فوراً کوّے کی سے ٹھونگ دوسری دفعہ ماردی ایسی نماز کا جو حشر ہے وہ اس حدیث شریف میں ذکر فرما ہی دیا اور پھر جب وہ بربادی کی بد دعا کرے تو اپنی برباد ی کا گلہ کیوں کیا جائے یہی وجہ ہے کہ آج کل مسلمان گرتے جا رہے ہیں اور ہر طرف تباہی ہی تباہی کی صدائیں گونج رہی ہیں ایک دوسرری حدیث میں بھی یہی مضمون وارد ہوا ہے اس میں یہ بھی اضافہ ہے کہ جو نماز خشوع خضوع سے پڑھی جاتی ہے آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں وہ نہایت نورانی ہوتی ہے اور نمازی کیلئے حق تعالی جل شانہ کی بارگاہ میں سفارشی بنتی ہے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جس نماز میں رکوع اچھی طرح نہ کیا جائے کہ کمر پوری جھک جائے اس کی مثال اس عورت کی سی ہے جو حاملہ ہو اور جب بچہ ہونے کا وقت قریب آ جائے تو اسقاط کر دے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو روزے سے بجز بھوکا اور پیاسا رہنے کے کوئی حاصل نہیں اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں جن کو جاگنے کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی ۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے حضور اقدس ﷺ سے سنا کہ جو قیامت کے دن پانچوں نمازیں ایسی لے کر حاضر ہو کہ ان کے اوقات کی بھی حفاظت کرتا رہا ہو اور وضو کا بھی اہتمام کرتا رہا ہو اور ان نمازوں کو خشوع خضوع سے پڑھتا رہا ہو تو حق تعالیٰ جل شانہ نے عہد فر ما لیا ہے کہ اس کو عزاب نہیں کیا جائء گا اور جو ایسی نمازیں نہ لے کر حاضر ہو اس کے لئے کو ئی وعدہ نہیں ہے چاہے اپنی رحمت سے معاف فرمادیں چاہے عذاب دیں ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اﷲ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں حضورؐ نے اہتمام کی وجہ سے تین مرتبہ یہی دریافت فرمایا اور صحابہ کرام یہی جواب دیتے رہے اس کے بعد ارشاد ہوا کہ حق تعالیٰ جل شانہ اپنی عزت اور اپنی بڑائی کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ جو شخص ان نمازوں کو اوقات کی پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے گا میں اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو پابندی نہ کرے گا تو میرا دل چاہے گا رحمت سے بخش دوں گا ورنہ عذاب دوں گا ۔

۳۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ اَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلٰوتُہٗ فَاِنْ صَلُحَت فَقَدْ اَفْلَحَ وَاَنْجَحَ وَاِنْ فَسَدَتْ خَابَ وَخَسِرَ وَاِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِیْضَۃٍ قَالَ َالرَّبُّ اُنْظُرُوْاھَل لِّعَبْدِیْ مِنْ تَطَوُّعٍ فَیُکْمَلُ بِھَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِیْضَۃِ ثُمَّ یَکُوْنُ سَآئِرُ عَمَلِہٖ عَلٰی ذٰلِکَ۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرص نماز کا حساب کیا جائے گا اگر نماز اچھی نکل آئی تو وہ شخص کامیاب ہو گااوربامراد اور اگر نماز بیکار ثابت ہوئی تو وہ نامراد خسارہ میں ہو گا اور اگر کجھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشاد خداوندی ہو گا کہ دیکھو اس بندہ کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کر دیا جائے اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کر دی جائے گی اس کے بعد پھراسی طرح باقی اعمال روزہ زکوۃ وغیرہ کا حساب ہو گا ۔

(رواہ الترمذی وحسنہ النسائی وابن ماجہ والحاکم وصححہ کذافی الدرو فی المنتخب بروایۃ الحاکم فی الکنی عن ابن عمر اوّل ما افترض اﷲ علی امّتی الصلوات الخمس و اوّل مایرفع من اعمالھم الصلوت الخمس الحدیث بطولہ بمعنی حدیث الباب وفیہ ذکر الصیام والزکوٰۃ نحو الصلوۃ و فی الدر اخرج ابو یعلٰی عن انس رفعہ اوّل ما افترض اﷲعلی الناس من دینھم الصّلٰوۃ واٰخر بیقی الصلوۃ واوّل مایحاسب بہ الصّلواۃ یقول اﷲانظروانی صلوۃ عبدی فان کانت تامۃ کتبت تامۃ وان کانت ناقصۃ قال انظرواھل لہ من تطع الحدیث فیہ ذکر الزکوٰۃ والصدقۃ وفیہ ایضا اخراج ابن ماجۃ والحاکم عن تمیم الداری مرفوعاً اوّل مایحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلوتہ الحدیث وفی اٰخرہ ثم الزکوٰۃ مثل ذٰلک ثم تو خذ الا عمال حسب ذٰلک وعزاہ السیوطی فی الجامع الی احمد ابی داؤدوالحاکم وابن ماجۃ ورقم لہ بالصحیح)

ف : اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ آدمی کو نفلوں کا ذخیرہ بھی اپنے پاس کافی رکھنا چاہئے کہ اگر فرضوں میں کچھ کو تا ہی نکلی تو میزان پوری ہو جائے بہت سے لوگ کہہ دیا کرتے ہیں جی ہم سے فرض ہی پورے ہو جائیں تو بہت غنیمت ہے نفلین پرھنا تو بڑے آدمیوں کا کام ہے اس میں شک نہیں کہ فرض ہی اور پورے پورے ہو جائیں تو بہت کافی ہیں لیکن ان کا بالکل پورا پورا ادا ہو جانا کونسا سہل کام ہے کہ ہر ہر چیز بالکل پوری ادا ہو جائے اور جب تھوڑی بہت کوتاہی ہوتی ہے تو اس کے پورا کرنے کے لئے نفلوں بغیر چارہ کار نہیں ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون زیادہ وضاحت سے آیا ہے ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی نے عبادات میں سب سے پہلے نماز کو فرص فرمایا ہے اور سب سے پہلے اعمال میں سے نماز ہی پیش کی جاتی ہے اور سب سے پہلے قیامت میں نماز ہی کا حساب ہو گا اگر فرض نمازوں میں کچھ کمی رہ گئی تو نفلوں سے اس کو پورا کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد اسی طرح روزوں کا حساب کیا جائے گا اور فرص روزوں میں جو کمی ہو گی وہ نفل روزوں سے پوری کر دی جائے گی اور پھر زکوۃ کا حساب اسی طریقہ سے ہو گا ان سب چیزروں میں نوافل کو ملا کر بھی اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہو گیا تو وہ شخص خوشی خوشی جنت میں داخل ہو جائے گا ورنہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا خود نبی اکرم ﷺ کا معمول یہی تھا کہ جو شخص مسلمان ہوتاسب سے اول اس کو نماز سکھائی جاتی ۔

۴۔ عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ قُرَطٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَّلُ مَایُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَلصَّلٰوۃُ فَاِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ سَآئِرُ عَمَلِہٖ وَاِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَآئِرُ عَمَلِہٖ۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کا حساب کیا جائے گا اگر وہ اچھی اور پوری نکل آئی تو باقی اعمال بھی پورے اتریں گے اور اگر وہ خراب ہو گئی تو باقی اعمال بھی خراب نکلیں گے۔

حضرت عمر ؓنے اپنے زمانہ خلافت میں ایک اعلان سب جگہ کے حکام کے پاس بھیجا تھاکہ سب سے زیادہ مہتمم بالشان چیز میرے نزدیک نماز ہے جو شخص اس کی حفاظت اور اس کا اہتمام کرے گا وہ دین کے اور اجزاء کا بھی اہتمام کر سکتا ہے اور جو اس کو ضائع کر دے گا وہ دین کے اور اجزاء کو زیادہ برباد کر دے گا ۔

(رواہ الطبرانی فی الا وسط ولا باس باسادہ انشااﷲ کذافی الترغیب وفی المنتخب بروایۃ الطبرانی فی الا وسط و ایضاً عن بلفظہ وفی التر غیب عن ابی ھریرۃ رفعہ الصّلٰوۃ ثلثۃ اثلاث الطہور ثلث والسجود ثلث فمن اداھا بحقہا قبلت منہ وقبل منہ سائر عملہٖ ومن ردت علیہ صلوتہ ردعلیہ سائر عملہٖ رواہ البزار وقال لا نعلمہ مرفوعاً الا من حدیث المغیرۃ بن مسلم قال الحافظ واسنادہ حسن اھ واخراج مالک فی الموطا ان عمران الخطاب کتب الی عمالہ ان اھم امورکم عندی الصّلوۃ من حفضھااو حافظ علیہا حفظ دینہ ومن ضیعہا نھولما سواھا اضیع کذافی الدر

ف: نبی اکرم ﷺ کے اس پاک ارشاد اور حضرت عمر ؓ کے اس اعلان کا منشاء بظاہر یہ ہے جو دوسری حدیث میں آیا ہے کہ شیطان مسلمان سے اس وقت تک ڈرتا رہتا ہے جب تک وہ نماز کا پابند اور اس کو اچھی طرح اداکرتا رہتا ہے کیونکہ خوف کی وجہ سے اس کو زیادہ جرأت نہیں ہوتی لیکن جب وہ نماز کو ضائع کر دیتا ہے تو اس کی جرات بہت بڑھ جاتی ہے اور اس آد می کے گمراہ کرنیکی امنگ پیدا ہو جاتی ہے اورپھربہت سے مہلکات اور بڑے بڑے گناہوں میں اس کو مبتلا کر دیتا ہے اور یہی مطلب ہے حق سبحانہ و تقدس کے ارشاد ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاے و المنکر کا جس کا بیان قریب ہی آ رہا ہے ۔

۵۔ عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ اَبِیْ قَتَاؓدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَسْوَأُ النَّاسِ سَرِقَۃً نِ اَلَّذِی یَسْرِقُ صَلٰوتَہٗ قَالُوْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ یَسْرِقُ صَلٰوتَہٗ قَالَ لَایُتِمُّ رُکُوْعَھَا وَلَا سُجُوْدَھَا۔

نَبیٔ اکرم ﷺ کا اِرشاد ہے کہ بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نما میں سے بھی چوری کرلے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسُوْلَ اللہ نماز میں سے کس طرح چوری کرے گا۔ اِرشاد فرمایا کہ اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے نہ کرے۔

(رواہ الدارمی وفی الترغیب رواہ احمد و الطبرانی وابن خزیمۃفی صحیحہ وقال صحیح الا سناداھ وفی المقاصد الحسنۃ حدیث ان اسوء الناس سرقۃ رواہ احمد والدارمی فی مسند یھما من حدیث الولید بن مسلم عن الا وزاعی عن یحیٰی بن ابی کثیر عن عبداﷲبن ابی قتادۃ عن ابیہ مرفوعاًوفی لفظ بحذف ان وصححہ ابن خزیمۃ والحاکم وقال انہ علی شرطھما ولم یخرجاہ لروایۃ کاتب الا وزاعی لہ عنہ عن یحیٰی عن ابی سلمۃ عن ابی ھریرۃ ورواہ احمد ایضاً و الطیالسی فی مسند یھما من حدیث علی بن زید عن سعید بن المسیب عن ابی سعید الخدری بہ مرفوعا وروایۃ ابی ھریرۃ عند ابن منیع وفی الباب عن عبداﷲ بن مغفل و عن النعمان بن مرۃ عند مالک مرسلا اٰخرین اھ وقال المنذری فی الترغیب لحدیث ابن مغفل رواہ ابن الطبرانی فی معاجمہ الثلثۃ باسناد جید وقال لحدیث ابی ھریرۃ رواہ الطبرانی فی الا وسط وابن حبان فی صحیحہ والحا کم وقال صحیح الا سناد قلت وحدیث ابی سعید ذکر ھما الیرطی فی الجامع الصغیر ورقم بالصحیح)

ف:یہ مضمون کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے اول تو چوری خود ہی کس قدر ذلت کی چیز ہے اور چور کو کیسی حقارت سے دیکھا جاتا ہے پھر چوری میں بھی اس حرکت کو بدترین چوری ارشاد فرمایا ہے کہ رکوع سجدہ کو اچھی طرح نہ کرے حضرت ابو الدردا فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت علم دنیا سے اٹھ جانے کا وقت ( منکشف ہوا) ہے حضرت زیاد صحابی ؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ علم ہم سے کس طرح اٹھ جائے گا ہم لوگ قرآن شریف پڑھتے ہی اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں ( اور وہ اسی طرح اپنی اولاد کو پڑھائیں گے اور سلسلہ چلتا رہے گا ) حضورﷺنے فرمایا میں تو تجھے برا سمجھ دار خیال کرتا تھا یہ یہود و نصاری بھی تو توراۃ انجیل پڑھتے پڑھاتے ہیں پھر کیا کار آمد ہوا ابو درداء کے شاگرد کہتے ہیں کہ میں نے دوسرے صحابی حضرت عبادہؓ سے جا کر یہ قصہ سنایاانہوں نے فرمایا کہ ابو درداء سچ کہتے ہیں اور میں بتاؤں کہ سب سے پہلے کیا چیز دنیا سے اتھے گی سب سے پہلے نماز کا خشوع اٹھ جائے گا تو دیکھے گا کہ بھری مسجد میں ایک شخص بھی خشوع سے نماز پڑھنے والا نہ ہو گا حضرت حذیفہ ؓ جو حضورؐ کے راز دار کہلاتے ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے نماز کا خشوع اٹھایا جائے گا ایک حدیث میں آیا ہے کہ حق تعالٰی جَلَّ شانُہ اس نماز کی طرف توجہ ہی نہیں فرماتے جس میں رکوع سجدہ اچھی طرح نہ کیا جائے ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ آدمی ساٹھ برس تک نماز پڑھتا ہے مگر ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی کہ کبھی رکوع اچھی طرح کرتا ہے تو سجدہ پورا نہیں کرتا سجدہ کرتا ہے تو رکوع پورا نہیں کرتا حضرت مجدد الف ثانی نور اﷲ مرقدہ نے اپنے مکاتیب (خطوط) میں نماز کے اہتمام پر بہت زور دیا ہے اور بہت سے گرامی ناموں میں مختلف مضامین پر بحث فرمائی ہے ایک گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملانے کا یاور رکوع میں انگلیوں کو علیحدہ علیحدہ کرنے کا اہتمام بھی ضروری ہے شریعت نے انگلیوں کو ملانے کاکھولنے کا حکم بے فائدہ نہیں فرمایا ہے یعنی ایسے معمولی آداب کی رعایت بھی ضروری ہے اسی سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ نماز میں کھڑے ہونے کی حالت میں سجدہ کی جگہ نگاہ کا جمائے رکھنا اور رکوع کی حالت میں پاؤں پر نگاہ رکھنا اور سجدہ میں جا کر ناک پر رکھنا اور بیٹھنے کی حالت میں ہاتھوں پر نگاہ رکھنا نماز میں خشوع کو پیدا کرتا ہے اوراس سے نماز میں دلجمعی نصیب ہوتی ہے جب ایسے معمولی آداب بھی اتنے اہم فائدے رکھتے ہیں تو بڑے آداب اور سنتوں کی رعایت تم سمجھ لو کہ کس قدر فائدہ بخشے گی۔

۶۔ عَنْ اُمِّ رُوْمَانَؓ وَالِدَۃِ عَائِشَۃَؓ قَالَتْ رَآنِیْ اَبُوْبَکْرِنِالصِّدِّیْقْ ص اَتَمَیَّلُ فِیْ صَلٰوتِیْ فَزَجَرَنِیْ زَجَرۃً کِدْتُّ اَنْصَرِفُ مِنْ صَلٰوتِیْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّم یَقُوْلُ اِذَا قَامَ اَحَدُکُمْ فِی الصَّلٰوۃِ فَلْیُسْکُنِ اَطْرَافَہٗ لَایَتَمَیَّلُتَمَیُّلَ الْیَھُوْدِ فَاِنَّ سُکُوْنَ الْاَطْرَافِ فِی الصَّلٰوۃِمِنْ تَمَامِ الصَّلٰوۃِ۔

حضرت عائشہ ؓ کی والدہ ام رومانؓ فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھی نماز میں ادھر ادھر جھکنے لگی حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے دیکھ لیا تو مجھے اس زور سے ڈانٹا کہ میں ( ڈر کی وجہ سے ) نماز توٹنے کے قریب ہو گئی پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے حضورﷺ سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہو تو اپنے بدن کو بالکل سکون سے رکھے یہود کی طرح ہلے نہیں بدن کے تمام اعضاء کا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونیکا جزو ہے ۔

(اخرجہ الحکیم الترمذی من طریق القاسم بن محمد عن اسماء بنت ابی بکر عن اُّم رومان کذافی الدر وعزاہ السیرطی فی الجامع الصغیر الی ابی نعیم فی الحلیۃ وابن عدی فی الکامل و رقم لہ بالضعف وزکر ایضاً برویۃ ابن عسا کر عن ابی بکرص من تمام الصلوۃ سکون الاطراف) ۔

ف: نماز کے درمیان میں سکون سے رہنے کی تاکید بہت سی حدیثوں میں آئی ہے نبی اکرم ﷺ کی عادت شریفہ اکثر آسمان کی طرف دیکھنے کی تھی کہ وحی کے فرشتے کا انتظار رہتا تھا اور جب کسی چیز کا انتظار ہوتا ہے تو اس طرف نگاہ بھی لگ جاتی ہے اسی وجہ سے کبھی نماز میں بھی نگا ہ اوپر اٹھ جاتی تھی جب قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون نازل ہوئی تو پھر نگاہ نیچے رہتی تھی صحابہ ؓ کے متعلق بھی حدیث میں آیا ہے کہ اول اول ادھر ادھر توجہ فرما لیا کرتے تھے مگر اس آیت شریفہ کے نازل ہونے کے بعد سے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ اسی آیت شریفہ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ جب نماز کو کھڑے ہوتے تھے تو کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے ہمہ تن نماز کی طرف متوجہ رہتے تھے اپنی نگاہوں کو سجدہ کی جگہ رکھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ حق تعالیٰ جل شانہ ان کی طرف متوجہ ہیں حضرت علی ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ خشوع کیا چیز ہے فرمایا کہ خشوع دل میں ہوتا ہے ( یعنی دل سے نماز میں متوجہ رہنا) اور یہ بھی اس میں داخل ہے کہ کسی طرف توجہ نہ کرے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ خشوع کرنے والے وہ ہیں جو اﷲ سے ڈرنے والے ہیں اور نماز میں سکون سے رہنے والے ہیں حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ نفاق کے خشوع سے اﷲ ہی سے پناہ مانگو صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ نفاق کا خشوع کیا چیز ہے ارشاد فرمایا کہ ظاہر میں تو سکون ہو اور دل میں نفاق ہو حضرت ابو درداء بھی اس قسم کا ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں جس میں حضورﷺکا یہ ارشاد نقل کیا کہ نفاق کا خشوع یہ ہے کہ ظاہر بدن تو خشوع والا معلوم ہو اور دل میں خشوع نہ ہو حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ دل کا خشوع اﷲ کا خوف ہے اور نگاہ کو نیچی رکھنا حضورﷺنے ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں ڈاڑھی پر ہاتھ پھیر رہا ہے ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو بدن کے سارے اعضاء میں سکون ہوتا حضرت عائشہ ؓ نے حضورﷺسے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے ارشاد فرمایا کہ یہ شیطان کا نماز میں اچک لینا ہے ایک مرتبہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ نماز میں اوپر دیکھتے ہین وہ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ نگاہیں اوپر کی اوپر ہی رہ جائین گی بہت سے صحابہ ؓ اور تابعین سے نقل کیا گیا ہے کہ خشوع سکون کا نام ہے یعنی نماز نہایت سکون سے پڑھی جائے متعدد احادیث میں حضورﷺکا ارشاد ہے کہ نماز ایسی طرح پڑھا کرو گویا یہ آکری نماز ہے ایسی طرح پڑھا کرو جیسا کہ وہ شخص پڑھتا ہے جس کو یہ گمان ہو کہ اس وقت کے بعد مجھے دوسری نماز کی نوبت ہی نہ آئے گی۔

۷۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍؓ قَالَ سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِ اﷲِ تَعَالٰی اِنَّ الصَّلٰوۃ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ فَقَالَ مَنْ لَّمْ تَنْھَہٗ صَلٰوتُہٗ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ فَلَا صَلٰوۃَ لَہٗ(اخرجہ ابن ابی حاتم وابن مردویہ کذافی الدرالمنثور)

حضور اقدس ﷺ سے کسی نے حق تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد ان الصلوۃ تنہی الخ ( بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور نا شائستہ حرکتوں سے ) کے متعلق دریافت کیا تو حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی نماز ایسی نہ ہو اور اس کو بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں ۔

ف : بے شک نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے اور اس کو اپنی اصلی حالت پر پڑھنے کا ثمرہ یہی ہے کہ وہ ایسی نامناسب باتوں سے روک دے اگر یہ بات پیدا نہیں ہوئی تو نماز کے کمال میں کمی ہے بہت سے حدیثوں میں یہ مضمون وارد ہوا ہے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نماز میں گناہوں سے روک ہے اور گناہوں سے ہتانا ہے حضرت ابو العالیہؓ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد ان الصلوۃ تنہی کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں تین چیزیں ہوتی ہیں اخلاص اﷲ کا خوف اﷲ کا زکر جس نماز میں یہ چیزیں نہیں وہ نماز ہی نہیں اخلاص نیک کاموں کا حکم کرتا ہے اور اﷲ کا خوف بری باتوں سے روکتا ہے اور اﷲ کا ذکر قرآن پاک ہے جو مستقل طور پر اچھی باتوں کا حکم کرتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے حضرت ابن عباس ؓ حضور اقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ جو نماز بری باتوں اور نامناسب حرکتوں سے نہ روکے وہ نماز بجائے اﷲ کے قرب کے اﷲ سے دوری پیدا کرتی ہے حضرت حسن بھی حضور اقدسﷺ سے یہی نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی نماز اس کو بری باتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں اس نماز کی وجہ سے اﷲ سے دوری پیدا ہوتی ہے حضرت ابن عمر ؓ نے بھی حضور اقدس ﷺ سے یہی مضمون نقل فرمایا ہے حضرت ابن مسعود ؓ حضور اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو نماز کیاطاعت نہ کرے اس کی نماز ہی کیا اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ بے حیائی اور بری باتوں سے رکے حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا رہتا ہے اور صبح ہوتے چوری کرتا ہے حضورﷺنے فرمایا کہ اس کی نماز اس کو اس فعل سے عنقریب ہی روک دے گی اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص بری باتوں میں مشغول ہو تو اس کو اہتمام سے نماز میں مشعول ہونا چاہئے بری باتیں اس سے خود ہی چھوٹ جائیں گی ہر ہر بری بات کے چھوڑنے کا اہتمام دشوار بھی ہے اور دیر طلب بھی اور اہتمام سے نماز میں مشغول ہو جانا آسان بھی ہے اور دیر طلب بھی نہیں اس کی برکت سے بری باتیں اس سے اپنے آپ ہی چھوٹتی چلی جاویں گی حق تعالیٰ جل شانہ مجھے بھی اچھی طرح نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔

۸۔ عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ طُوْلُ الْقُنُوْتِ ـاخرجہ ابن ابی شیبۃ ومسلم والترمذی وابن ماجۃ کذافی الدرالمنثوروفیہ ایضاً عَنْ مُجَاھِدٍ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَقُوْمُوْالِلّٰہِ قَانِتِیْنَ قَالَ مِنَ الْقُنُوْتِ الرُّکُوْعُ وَالْخُشُوْعُ وَ طُوْلُ الرُّکُوعِ یَعْنِیْ طُوْلَ الْقِیَامِ وَ غَضُّ الْبَصَرِوَخَفْضُ الْجَنَاح وَالرَّھْبَۃُ لِلّٰہ وَ وَکاَنَ الْفُقَہَآئُ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍصَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ اَحَدُھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ یَہَابُ الرَّحْمٰنَ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی اَنْ یَّلْتَفِتَ اَوْ یَقْلِبَ الْحَصٰی اَوْیَشُدَّ بَصَرَہٗ اَوْ یَعْبَثَ بِشَیْیٍٔ اَوْ یُحَدِّثَ نَفْسَہٗ بِشَییٍٔ مِّنْ اَمْرِالدُّنْیَا اِلَّا نَاسِیًا حَتّٰی یَنْصَرِفَ ۔

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ افضل نماز وہ ہے جس میں لمبی لمبی رکعتیں ہوں مجاہد کہتے ہین کہ حق تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد قومو ﷲ قانتین ( اور نماز میں ) کھڑے رہو اﷲ کے سامنے مؤدب اس آیت میں رکوع بھی داخل ہے اور خشوع بھی اور لمبی رکعت ہونا بھی اور آنکھوں کو پست کرنا بازوؤں کو جھکانا ( یعنی اکڑ کے کھڑا نہ ہونا) اور اﷲ سے ڈرنا بھی شامل ہے کہ لفظ قنوت میں جس کااس آیت میں حکم دیا گیا یہ سب چیزیں داخل ہیں حضور اقدس ﷺ کے صحابہ ؓ میں سے جب کوئی شخص نماز کو کھڑا ہوتا تھا تو اﷲ تعالی سے ڈرتا تھا اس بات سے کہ ادھر ادھر دیکھے یا ( سجدہ میں جاتے ہوئے ) کنکریوں کو الٹ پلٹ کرے ( عرب میں صفوں کی جگہ کنکریاں بچھائی جاتی ہیں ) یا کسی لغو چیز میں مشغول ہو یا دل میں کسی دنیاوی چیز کا خیال لائے ہاں بھول کے خیال آ گیا ہو تو دوسری بات ہے ۔

(اخرجہ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریروابن المندروابن حاتم والاصبہانی فی الترغیب والبیہقی فے شعب الا یمان اھ وھذا اٰخرما اردت ایرادہ فی ھذہ العجالۃ رعایۃ لعرد الا بعین واﷲ ولی التوفیق وقد وقع الفراغ منہ لیلۃ الترویۃ من سنۃ سبع و خمسین بعد الف وثلث مائۃ والحمدﷲ اولا واٰخراً)

ف: قومو ﷲ قانتین کی تفسیر میں مختلف ارشادات وارد ہوئے ہیں ایک یہ بھی ہے کہ قانتین کے معنی چپ چاپ کے ہیں ابتداء زمانہ میں نماز میں بات کرنا سلام کا جواب دینا وغیرہ وغیرہ امور جائز تھے مگر جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو نماز میں بات کرنا ناجائز ہو گیا حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور نے اس بات کا عادی بنا رکھا تھا کہ جب میں حاضر ہوں تو گو حضورؐ نماز میں مشغول ہوں میں سلام کرتا حضورؐ جواب دیتے ایک مرتبہ میں حاضر ہوا حضورؐ نماز میں مشغول تھے میں نے حسب عادت سلام کیا حضورؐ نے جواب نہیں دیا مجھے سخت فکر ہوا کہ شاید میرے بارے میں اﷲ جل شانہ کے یہاں سے کوئی عتاب نازل ہوا ہو نئے اور پرانے خیالات نے مجھے گھیر لیا پرانی پرانی باتیں سوچتا تھا کہ شاید فلاں بات پر حضورؐ ناراض ہو گئے ہوں شاید فلانی بات ہو گئی ہو جب حضورؐ نے سلام پھیر لیا تو ارشاد فرمایا کہ حق تعالٰی جَلَّ شانُہ اپنے احکام میں جو چاہتے ہیں تبدیلی فرماتے ہین حق تعالیٰ جل شانہ نے نماز میں بولنے کی ممانعت فرما دی اور یہ ایت تلاوت فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ نماز میں اﷲ کے ذکر اس کی تسبیح اس کی حمد و ثناء کے سوا بات کرنا جائز نہیں ۔

معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں کہ جب مدینہ طیبہ مسلمان ہونے کے لئے حاضر ہوا تو مجھے بہت سی چیزیں سکھائی گئیں منجملہ ان کے یہ بھی تھا کہ جب کوئی چھینکے اور الحمد ﷲ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اﷲ کہنا چاھئے چونکہ نئی تعلیم تھی اس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نماز میں نہ کہنا چاہئے ایک صاحب کو نماز میں چھینک آئی میں نے جواب میں یرحمک کہا آس پاس کے لوگوں نے مجھے تنبیہ کے طور پر گھورا مجھے اس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نماز میں بولنا جائز نہیں اس لئے میں نے کہا کہ ہائے افسوس تمھیں کیا ہوا کہ مجھے کڑوی کڑوی نگاہوں سے گھورتے ہو مجھے اشارہ سے ان لوگوں نے چپ کرا دیا میری سمجھ میں تو آیا نہیں مگر میں چپ ہو گیا جب نماز ختم ہو چکی تو حضور اقدس ﷺ نے ( میرے ماں باپ آپ پر قربان) نہ مجھے مارا نہ ڈانٹا نہ برا بھلا کہا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ نماز میں بات کرنا جائز نہی نماز تسبیح و تکبیر اور قراۃ قرآن ہی کا موقع ہے خدا کی قسم حضورﷺجیسا شفیق استاذ نہ میں نے پہلے دیکھا نہ بعد میں ۔

دوسری تفسیر حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ قانتین کے معنی خاشعین کے ہیں یعنی خشوع سے نماز پڑھنے والے اسی کے موافق مجاھد یہ نقل کرتے ہیں جو اوپر ذکر کیا گیا کہ یہ سب چیزیں خشوع میں داخل ہیں یعنی لمبی لمبی رکعات کا ہونا اور خشوع خضوع سے پڑھنا نگاہ کو نیچی رکھنا اﷲ تعالی سے ڈرنا حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ابتداء میں حضور اقدس رات کو جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے آپ کو رسی سے باندھ لیا کرتے کہ نیند کے غلبہ سے گر نہ جائیں اس پر طہ ما انزلنا علیک القرآن لتشقی نازل ہوئی اور یہ تو مضمون کئی حدیثوں میں آیا ہے کہ حضورﷺاتنی طویل رکعت کیا کرتے تھے کہ کھڑے کھڑے پاؤں پر ورم آ جاتا تھا اگرجہ ہم لوگوں پر شفقت کی وجہ سے حضورﷺ نے یہ ارشاد فرما دیا کہ جس قدر تحمل اور نباہ ہو سکے اتنی محنت کرنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ تحمل سے زیادہ بار اٹھانے کی وجہ سے بالکل ہی جاتا رہے چنانچہ ایک صحابی ؓ عورت نے بھی اسی طرح رسی میں اپنے کو باندھنا شروع کیا تو حضورﷺ نے منع فر ما دیا مگر اتنی بات ضرور ہے کہ تحمل کے بعد جتنی لمبی نماز ہو گی اتنی ہی بہتر اور افضل ہو گی آخر حضورؐ کا اتنی لمبی نماز پڑھنا کہ پاؤں مبارک پرورم آ جاتا تھا کوئی بات تو رکھتا ہے صحابہ کرام ؓ عرض بھی کرتے کہ سورہ فتح میں آپ کی مغفرت کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے فرما لیا ہے تو حضورﷺ ارشاد فرماتے کہ پھر میں شکر گذار بندہ کیوں نہ بنوں ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حضور اقدس ﷺ نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سینہ مبارک سے رونے کی آواز ( سانس رکنے کی وجہ سے ایسی مسلسل آتی تھی جیسا چکی کی آواز ہوتی ہے ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ایسی آواز ہوتی تھی جیسا کہ ہنڈیا کے پکنے کی آواز ہوتی ہے۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں میں نے حضور ﷺکو دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے کہ اسی حال میں صبح فرما دی متعدد احادیث میں ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہ چند آدمیوں سے بے حد خوش ہوتے ہیں منجملہ اس کے وہ شخص ہے جو سردی کی رات میں نرم بستر پر لحاف میں لپٹا ہوا لیٹا ہو اور خوبصورت دل میں جگہ کرنے والی بیوی پاس لیٹی ہو اور پھر تہجد کے لئے اٹھے اور نماز میں مشغول ہو جائے حق تعالیٰ جل شانہ اس شخص سے بہت ہی خوش ہوتے ہیں تعجب فرماتے ہیں باوجود عالم الغیب ہونے کے فرشتوں سے فخر کے طور پر دریافت فرماتے ہیں کہ اس بندہ کو کس بات نے مجبور کیا کہاس طرح کھرا ہو گیا فرشتے عرض کرتے ہیں کہ آپ کے لطف و عطایا کی امید نے اور آپ کے عتاب کے خوف نے ارشاد ہوتا ہے کہ اچھا جس چیز کی اس نے مجھ سے امید رکھی وہ میں نے عطا کی اورجس چیز کا اس کو خوف ہے اس سے امن بخشا حضورؐ کا ارشاد ہے کہ کسی بندہ کو کوئی عطا اﷲ کی طرف سے اس سے بہتر نہیں دی گئی کہ اس کو دو رکعت نماز کی توفیق عطا ہو جائے۔

قرآن و حدیث میں کثرت سے وارد ہوا ہے کہ فرشتے ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے ہیں احادیث میں آیا ہے کہ ایک جماعت ان کی ایسی ہے جو قیامت تک رکوع ہی میں رہے گی اور ایک جماعت اسی طرح ہر وقت سجدہ میں مشغول رہتی ہے اور ایک جماعت اسی طرح کھڑی رہتی ہے حق تعالٰی جَلَّ شانُہ نے مؤمن کیلئے یہ اکرام و اعزاز فرمایا کہ ان سب چیزوں کامجموعہ اس کو دو رکعت نماز میں عطا فرما دیا تا کہ فرشتوں کی ہر عبادت سے اس کو حصہ مل جائے اور نماز میں قرآن شریف کی تلاوت ان کی عبادتوں پر اضافہ ہے اور جب یہ فرشتوں کی عبادتوں کا مجموعہ ہے تو انہیں کی سی صفات سے اسمیں لطف میسر ہو سکتا ہے اسی لئے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ نماز کے لئے اپنی کمر اور پیٹ کو ہلکا رکھا کرو کمر کو ہلکا رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ بہت سے جھگڑے اپنے پیچھے نہ لگاؤ اور پیٹ کو ہلکا رکھنا ظاہرہے زیادہ سیر ہو کر نہ کھاؤ اس سے کاہلی سستی پیدا ہوتی ہے۔

صوفیہ کہتے ہیں کہ نماز میں بارہ ہزار چیزیں ہیں جن کو حق تعالیٰ جل شانہ نے بارہ چیزوں میں منضم فرمایا ہے بارہ کی رعایت ضروری ہے تا کہ نماز مکمل ہو جائے اور اس کا پورا فائدہ حاصل ہو یہ بارہ حسب ذیل ہیں اول علم حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ علم کے ساتھ تھوڑا سا عمل بھی جہل کی حالت کے بہت سے عمل سے افضل ہے دوسرے وضو تیسرے لباس چوتھے وقت پانچویں قبلہ کی طرف رخ کرنا چھٹے نیت ساتویں تکبیر تحریمہ آٹھویں نماز میں کھڑا ہونا نویں قرآن شریف پڑھنا دسویں رکوع گیارہویں سجدہ بارہویں التحیات میں بیٹھنا اور ان سب کی تکمیل اخلاص کے ساتھ ہے پھر ان بارہ کے تین تین جزو ہیں اول علم کے تین جزو یہ ہیں کہ فرضوں اور سنتوں کو علیحدہ علیحدہ معلوم کرے دوسرے یہ معلوم کرے کہ وضو اور نماز میں کتنی چیزیں فرض ہیں کتنی سنت ہیں تیسرے یہ معلوم کرے کہ شیطان کس کس مکر سے نمازمیں رخنہ ڈالتا ہے اس کے بعد وضو کے بھی تین جزو ہیں اول یہ کہ دل کو کینہ اور حسد سے پاک کرے جیسا کہ ظاہری اعضاء کو پاک کر رہا ہے دوسرے ظاہری اعضاء کو گناہوں سے پاک رکھے تیسرے وضو کرنے میں نہ اسراف کرے نہ کوتاہی کر پھر لباس کے بھی تین کزو ہیں اول یہ کہ حلال کمائی سے ہو دوسرے یہ کہ پاک ہو تیسرے سنت کے موافق ہو کہ ٹخنے وغیرہ ڈھکے ہوئے نہ ہوں تکبر اور بڑائی کے طور پر نہ پہنا ہو پھر وقت میں بھی تین چیزوں کی رعایت ضروری ہے اول یہ کہ دھوپ ستاروں وغیرہ کی خبر گیری رکھے تا کہ اوقات صحیح معلوم ہو سکیں ( اور ہمارے زمانہ میں اس کے قائم مقام گھڑی گھنٹے ہو گئے ہیں ) دوسرے اذان کی خبر رکھے تیسریدل سے ہر وقت نماز کے وقت کا خیال ر کھے کبھی ایسا نہ ہو کہ وقت گذر جائے پتہ نہ چلے پھر قبلہ کی طرف منہ کرنے میں بھی تین چیزوں کی رعایت رکھے اول یہ کہ ظاہری بدن سے ادھر متوجہ ہو دوسرے یہ کہ دل سے اﷲ کی طرف توجہ رکھے کہ دل کا کعبہ وہی ہے تیسرے مالک کے سامنے جس طرح ہمہ تن متوجہ ہونا چاہئے اس طرح متوجہ ہو پھر نیت بھی تین چیزوں کی محتاج ہے اول یہ کہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے دوسرے یہ کہ اﷲ کے سامنے کھڑا ہے اور وہ دیکھتا ہے تیسرے یہ کہ وہ دل کی حالت کو بھی دیکھتا ہے پھر تکبیر تحریمہ کے و۱قت بھی تین چیزوں کیرعایت کرنا ہے اول یہ کہ لفظ صحیح ہو دوسرے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے ( گویا اشارہ ہے کہ اﷲ کے ماسوا سب چیزوں کو پیچھے پھینک دیا ) تیسرے یہ کہ اﷲ اکبر کہتے ہوئے اﷲ کی بڑائی اور عظمت دل میں بھی موجود ہو پھر قیام یعنی کھڑے ہونے میں بھی تین چیزیں ہیں اول یہ کہ نگاہ سجدہ کی جگہ رہے دوسرے دل سے اﷲ کے سامنے کھڑے ہونے کا خیال کرے تیسرے کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو کہتے ہیں کہ جو شخص نماز میں ادھر ادھر متوجہ ہو اس کی مثال ایسی جیسے کوئی شخص بری مشکل سے دربانوں کی منت سماجت کر کے بادشاہ کے حضورؐ میں پہنچے اور جب رسائی ہو اور بادشاہ اس کی طرف متوجہ ہو تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے ایسی صورت میں بادشاہ اس کی طرف کیا توجہ کرے گا پھر قراء ت میں بھی تین چیزوں کی رعایت کرے صحیح ترتیل سے پڑھے دوسرے اس کے معنی پر غور کرے تیسرے جو پڑھے اس پرعمل کرے پھر رکوع میں بھی تین چیزیں ہیں اول یہ کہ کمر کو رکوع میں بالکل سیدھا رکھے نہ نیچا کرے نہ اونچا( علماء نے لکھا ہے کہ سر اور کمر اور سرین تینوں چیزیں برابر رہیں ) دوسرے ہاتھوں کی کہنیاں کھڑی رہیں تیسرے تسبیحات کو عظمت سے پڑھے پھر بیٹھنے میں بھی تین چیزوں کی رعایت کرے اول یہ کہ دایاں پاؤں کھڑا کرے اور بائیں پر بیٹھے دوسرے یہ کہ عظمت کے ساتھ معنی کی رعایت کر کے تشہد پڑھے کہ اس میں حضورؐ پر سلام ہے مؤمنین کے لئے دعا ہے پھر فرشتوں پر اور دائیں بائیں جانب جو لوگ ہیں اس پر سلام کی نیت کرے پھر اخلاص کے بھی تین جزو ہیں اول یہ کہ اس نماز سے صرف اﷲ کی خوشنودی مقصود ہو دوسرے یہ سمجھے کہ اﷲ ہی کی توفیق سے یہ نماز ادا ہوئی تیسرے اس پر ثواب کی امید رکھے حقیقت میں نماز میں بڑی خیر اور بڑی برکت ہے اس کا ہر ذکر بہت سی خوبیوں کو اور اﷲ کی بڑائیوں کو لئے ہوئے ہے ایک سبحانک اللھم ہی کو دیکھ لیجئے جو سب سے پہلی دعا ہے کہ کتنے فضائل پر حاوی ہے سبحانک اللھم یا اﷲ تیری پاکی کا بیان کرتا ہوں کہ تو ہر عیب سے پاک ہے ہر برائی سے دور ہے و بحمدکجتنی تعریف کی باتیں ہیں اور جتنے بھی قابل مدح امور ہیں وہ سب تیرے لئے ثابت ہیں اور تجھے زیبا و تبارک ا سمک تیرا نام بابرکت ہے اور ایسا با برکت ہے کہ جس چیز پر تیرا نام لیا جائے وہ بھی با برکت ہو جاتی ہے و تعالی جدک تیری شان بہت بلند ہے تیری عظمت سب سے بالاتر ہے و لا الہ غیرک تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں نہ کوئی زات پرستش کے لائق کبھی ہوئی نہ ہے اسی طرح رکوع میں سبحان ربی العظیم میرا عظمت اور بڑائی والا رب ہر عیب سے بالکل پاک ہے اس کی بڑائی کے سامنے اپنی عاجزی اور بیچارگی کا اظہار ہے کہ گردن کا بلند کرنا غرور اور تکبر کی علامت ہے اور اس کا جھکا دینا نیاز مندی اور فرماں برداری کا اقرار ہے تو رکوع میں گویا اس کا اقرار ہے کہ تیرے احکام کے سامنے اپنے کو جھکاتا ہوں اور تیری اطاعت اور بندگی کو اپنے سر پر رکھتا ہوں میرا یہ گنہگار جسم تیرے سامنے حاضر ہے اور تیری بارگاہ میں جھکا ہوا ہے تو بیشک بڑائی والا ہے اور تیری بڑائی کے سامنے میں سرنگوں ہوں اسی طرح سجدہ میں سبحان ربی الاعلی میں بھی اﷲ کی بے حدرفعت اور بلندی کا اقرار ہے اور اس بلندی کا ساتھ ہر بڑائی اور عیب سے پاکی کا اقرار ہے اپنے سر کو اس کے سامنے ڈال دینا ہے جو سارے اعضاء میں اشرف شمار کیا جاتا ہے اور اس میں محبوب ترین چیزیں آنکھ کان ناک زبان ہیں گویا اس کا اقرار ہے کہ میری یہ سب اشرف اور محبوب چیزیں تیرے حضورﷺمیں حاضراور تیرے سامنے زمین پر پڑی ہوئی ہیں اس امید پر کہ تو مجھ پر فضل فرمائے ار رحم کرے اور اس عاجزی کا پہلا ظہور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر مؤدب کھڑے ہونے میں تھا اس پر ترقی اس کے سامنے سر جھکا دینے میں تھی اور اس پر بھی ترقی اس کے سامنیزمین پر ناک رگڑنے اور سر رکھ دینے میں ہے اسی طرح پوری نماز کی حالت ہے اور حق یہ ہے کہ یہی اصلی ہیت نماز کی ہے اور یہی ہے وہ نماز جو دین و دنیا کی فلاح و بہبود کا زینہ ہے حق تعالیٰ جل شانہ اپنے لطف سے مجھے اور سب مسلمانوں کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اور جیسا کہ مجاہد نے بیان کیا ہے فقہاء صحابہؓ کی یہی نماز تھی وہ جب نماز میں کھڑے ہوتے تھے اﷲ سے ڈرتے تھے حضرت حسن ؓ جب وضو فرماتے تو جہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھاکسی نے پوچھا یہ کیا بات ہے تو ارشاد فرمایا کہ ایک بڑئے جبار بادشاہ کے حضورؐ میں کھڑے ہونیکا وقت آ گیا ہے پھر وضو کر کے جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ فرماتے (آیت) ترجمہ یا اﷲ تیرا بندہ تیرے دروازہ پر حاصر ہے ایاحسان کرنیوالے اور بھلائی کا برتاؤ کرنے والے بد اعمال تیرے پاس حاضر ہے تو نے ہم لوگوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ اچھے لوگ بروں سے در گذر کریں تو اجھائی والا یاور میں بدکار ہوں اے کریم میری برائیوں سے ان خوبیوں کی بدولت جن کا تو مالک ہے در گذر فرما اس کے بعد مسجد میں داخل ہوتے ۔

حضرت زین العابدین روزانہ ایک ہزار رکعت پڑھتے تھے تہجد کبھی سفر یا حضر میں ناغہ نہیں ہوا جب وضو کرتے تو چہرہ زرد ہو جاتا تھا اور جب نماز کوکھڑے ہوتے تو بدن پر لرزہ آ جاتا کسی نے دریافت کیا تو فرمایا کیا تمھیں خبر نہیں کہ کس کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں ایک مرتبہ نماز پڑھ رہے تھے کہ گھر میں آگ لگ گئی یہ نماز میں مشغول رہے لوگوں نے عرض کیا تو فرمایا کہ دنیا کی آگ سے آخرت کی آگ نے غافل رکھا آپ کا ارشاد ہے کہ مجھے تکبر کرنے والے پر تعجب ہے کہ کل تک ناپاک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہو جائے گا پھر تکبر کرتا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ تعجب ہے کہ لوگ فنا ہونے والے گھر کے لئے تو فکر کرتے ہیں ہمیشہ رہنے والے گھر کی فکر نہیں کرتے آپ کا معمول تھا کہ رات کو چھپ کر صدقہ کیا کرتے لوگوں کو یہ خبر بھی نہ ہوتی کہ کس نے دیا جب آپ کا انتقال ہوا تو سو گھر ایسے نکلے جن کا گزارہ آپ کی اعانت پر تھا ۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ جب نماز کا وقت آتا تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا بدن پر کپکپی آ جاتی کسی نے پوچھا تو ارشاد فرمایا کہ اس امانت کے ادا کرنے کا وقت ہے جس کو آسمان و زمین نہ اٹھا سکے پہاڑ اس کے اٹھانے سے عاجز ہو گئے میں نہیں سمجھتا کہ اس کو پورا کر سکوں گا یا نہیں ۔

حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ جب اذان کی آواز سنتے تو اس قدر روتے کہ چادر تر ہو جاتی رگیں پھول جاتیں آنکھیں سرخ ہو جاتیں کسی نے عرص کیا کہ ہم تو اذان سنتے ہیں مگر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا آپ اس قدر گھبراتے ہیں ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائیکہ موذن کیا کہتا ہے تو راحت و آرام سے محروم ہو جائیں اور نیند اڑ جائے اس کے بعد اذان کے ہر ہر جملہ کی تنبیہ کو مفصل ذکر فرمایا ۔

ایک شخص نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ذوالنون مصری کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی جب انہوں نے اﷲ اکبر کہا تو لفظ اﷲ کے وقت ان پر جلال الٰہی کا ایسا غلبہ تھا گویا ان کے بدن میں روح نہیں رہی بالکل مبہوت سے ہو گئے اورجب اکر زبان سے کہا تو میرا دل ان کی اس تکبیر کی ہیبت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

حضرت اویس قرنی مشہور بزرگ اور افضل ترین تابعی ہیں بعض مرتبہ رکوع کرتے اور تمام رات اسی حالت میں گزار دیتے کبھی سجدہ میں یہی حالت ہوتی کہ تمام رات ایک سجدہ میں گزار دیتے ۔

عصام نے حضرت حاتم زاہد بلخی سے پوچھا کہ آپ نماز کس طرح پڑھتے ہیں فرمایا کہ جب نماز کا وقت آتا ہے اول نہایت اطمینان سے اجھی طرح وضو کرتا ہوں پھر اس جگہ پہنچتا ہوں جہاں نماز پڑھنا ہے اور اول نہایت اطمینان سے کھڑا ہوتا ہوں کہ گویا کعبہ میرے منہ کے سامنے ہے اورمیرا پاؤں پل صراط پر ہے داہنی طرف جنت ہے بائیں طرف دوزخ ہے موت کا فرشتہ میرے سر پر ہے ا ور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے پھر کوئی اور نماز شاید میسر نہ ہو اور میرے دل کی حالت کو اﷲ ہی جانتا ہے اس کے بعد نہایت عاجزی کے ساتھ اﷲ اکبر کہتا ہوں پھر معنی کو سوج کر قرآن پڑھتا ہوں تواضع کے ساتھ رکوع کرتا ہوں عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں اور اطمینان سے نماز پوری کرتا ہوں اس طرح کہ اﷲ کی رحمت سے اس کے قبول ہونے کی امید رکھتا ہوں اور اپنے اعمال سے مردود ہو جانے کا خوف کرتا ہوں عصام نے پوچھا کہ کتنی مدت سے آپ ایسی نماز پڑھتے ہیں حاتم نے کہا تیس برس سے عصام رونے لگے کہ مجھے ایک بھی نماز ایسی نصیب نہ ہوئی کہتے ہیں کہ حاتم کی ایک مرتبہ جماعت فوت ہوگئی جس کا بے حد اثر تھا ۔ ایک دو ملنے والوں نے تعزیت کی اس پر رونے لگے اور یہ فرمایاکہ اگر میرا ایک بیٹا مر جاتا تو آدھا بلخ تعزیت کرتا ایک روایت میں آیا ہے کہ دس ہزار آدمیوں سے زیادہ تعزیت کرتے جماعت کے فوت ہونے پر ایک دو آدمیوں نے تعزیت کی یہ صرف اس وجہ سے کہ دین کی مصیبت لوگوں کی نگاہ میں دنیاکی مصیبت سے ہلکی ہے۔

حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ بیس برس کے عرصہ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اذان ہوئی ہو اور میں مسجد میں پہلے سےحضرت عبداﷲ بن عباس ؓ جب اذان کی آواز سنتے تو اس قدر روتے کہ چادر تر ہو جاتی رگیں پھول جاتیں آنکھیں سرخ ہو جاتیں کسی نے عرص کیا کہ ہم تو اذان سنتے ہیں مگر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا آپ اس قدر گھبراتے ہیں ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائیکہ موذن کیا کہتا ہے تو راحت و آرام سے محروم ہو جائیں اور نیند اڑ جائے اس کے بعد اذان کے ہر ہر جملہ کی تنبیہ کو مفصل ذکر فرمایا ۔ موجود نہ ہوں محمد بن واسع کہتے ہیں کہ مجھے دنیا میں صرف تین چیزیں چاہئیں ایک ایسا دوست ہو جو میری لعزشوں پر متنبہ کرتا رہیایک بقدر زندگی روزی جس میں کوئی جھگڑا نہ ہو ایک جماعت کی نماز ایسی کہ اس میں جو کوتاہی ہو جائے وہ تو معاف ہو اور جو ثواب ہو وہ مجھے مل جائے حصرت ابو عبیدۃ بن الجراح نے ایک مرتبہ نماز پڑھائی نماز کے بعد فرمانے لگے کہ شیطان نے اس وقت مجھ پر ایک حملہ میرے دل میں یہ خیال دالاکہ میں افضل ہوں ( اس لئے کہ افضل کو امام بنایا جاتا ہے) آئندہ کبھی بھی نماز نہیں پڑھاؤں گا میمون بن مہران ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لے گئے تو جماعت ہو چکی تھی انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھا اور فرمایا کہ نماز کی فضیلت مجھے عراق کی سلطنت سے بھی زیادہ محبوب تھی ۔

کہتے ہیں کہ ان حضرات کرام میں سے جس کی تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی ،تین دن تک اس کا رنج کرتے تھے اور جس کی جماعت جاتی رہتی سات دن تک اس کا افسوس کرتے تھے بکر بن عبد اﷲ کہتے ہیں کہ اگر تو اپنے مالک اپنے مولا سے بلا واسطہ بات کرنا چاہے تو جب چاہے کر سکتا ہے کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا صورت ہے فرمایا کہ اچھی طرح وضو کر اور نماز کی نیت باندھ لے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺہم سے باتیں کرتے تھے اور ہم حضورﷺسے باتیں کرتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آ جاتا تو ایسے ہو جاتے گویا ہم کو پہچانتے ہی نہیں اور ہمہ تن اﷲ کی طرف مشغول ہو جاتے تھے سعید تنوخی جب تک نماز پڑھتے رہتے مسلسل آنسوؤں کی لڑی رخساروں پر جاری رہتی خلف بن ایوب سے کسی نے پوچھا کہ یہ مکھیاں تم کو نماز میں دق نہیں کرتیں کہنے لگے کہ میں اپنے کو کسی ایسی چیز کا عادی نہیں بناتا جس سے نماز میں نقصان آئے یہ بدکار لوگ حکومت کے کوروں کو برداشت کرتے رہتے ہیں محض اتنی سے بات کے لئے کہ لوگ کہیں گے کہ بڑا متحمل مزاج ہے اور پھراس کو فخریہ بیان کرتے ہیں میں اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہوں اور ایک مکھی کیوجہ سے حرکت کر نے لگوں ۔

بہجۃ النفوس میں لکھا ہے کہ ایک صحابی ؓ رات کو نماز پڑھ رہے تھے ایک چور آیا اور گھوڑا کھول کر لے گیا لے جاتے ہو ئے اس پرنظر بھی پڑ گئی مگر نماز نہ توڑی بعد میں کسی نے کہا بھی کہ آپ نے پکڑ نہ لیا فرمایا جس چیزمیں میں مشغول تھا وہ اس سے بہت اونچی تھی۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہ کا تو قصہ مشہور ہے کہ جب لڑائی میں ان کے تیر لگ جاتے تو وہ نمازہی میں نکالے جاتے چنانچہ ایک مرتبہ ران میں ایک تیر گھس گیا لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی نہ نکل سکا آپس میں مشورہ کیا کہ جب یہ نماز میں مشغول ہوں اس وقت نکالا جائے آپ نے جب نفلیں شروع کیں اور سجدہ میں گئے تو ان لوگوں نے اس کوزور سے کھینچ لیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو آس پاس مجمع دیکھا فرمایا کیا تم تیر نکالنے کے واسطے آئے ہو لوگوں نے عرض کیا کہ وہ تو ہم نے نکال بھی لیا آپ نے فرمایا مجھے خبر ہی نہیں ہوئی ۔

مسلم بن یسار جب نماز پڑھتے تو گھر والوں سے کہہ دیتے کہ تم باتیں کرتے رہو مجھے تمہاری باتوں کا پتہ نہیں چلے گا ربیع کہتے ہیں کہ میں جب نماز میں کھڑا ہوتا ہوں مجھ پر اس کا فکر سوار ہو جاتا ہے کہ مجھ سے کیا کیا سوال و جواب ہو گا عامر بن عبداﷲ جب نماز پڑھتے تو گھر والوں کی باتوں کی تو کیا خبر ہوتی ڈھول کی آواز کا بھی پتہ نہ چلتا تھا کسی نے ان سے پوچھا کہ تمہیں نماز میں کسی چیز کی بھی خبر ہوتی ہے فرمایا ہاں مجھے اس کی خبر ہوتی ہے کہ ایک دن اﷲ کی بارگاہ میں کھڑا ہونا ہوگا اور دونوں گھروں جنت یادوزخ میں سے ایک میں جانا ہوگا انہوں نے عرض کیا یہ نہیں پوچھتا ہماری باتوں میں سے بھی کسی کی خبر ہوتی ہے فرمایا کہ مجھ میں نیزوں کی بھالیں گھس جائیں یہ زیادہ اچھا ہے اس سے کہ مجھے نماز میں تمھاری باتوں کا پتہ چلے ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر آخرت کا منظر اس وقت میرے سامنے ہو جائے تو میرے یقین اور ایمان میں اضافہ نہ ہو ( کہ غیب پر ایمان اتنا ہی پختہ ہے جتنا مشاہدہ پر ہوتا ہے ) ایک صاحب کا کوئی عضو خراب ہو گیا تھاجس کے لئے اس کے کاٹنے کی ضرورت تھی لوگوں نے تجویز کیا کہ جب یہ نماز کی نیت باندھیں اس وقت کاٹنا چاہئے ان کو پتہ بھی نہ چلے گا چنانچہ نماز پڑھتے ہوئے اس عضو کو کاٹ دیا گیا ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا تمہیں نماز میں دنیا کا بھی خیال آ جاتا ہے انہوں نے فرمایا کہ نہ نماز میں آتا ہے نہ بغیر نماز کے ایک اور صاحب کا قصہ لکھا ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ تمھیں نماز میں کوئی چیز یاد آ جاتی ہے انہوں نے فرمایاکہ نماز سے بھی زیادہ کوئی محبوب چیز ہے جو نماز میں یاد آئے۔

بہجۃ النفوس میں لکھاہے کہ ایک بزرگ کی خدمت میں ایک شخص ملنے کے لئے آیا وہ ظہر کی نماز میں مشغول تھے وہ انتظار میں بیٹھ گیا جب نماز سے فارغ ہو چکے تو نفلوں میں مشغول ہو گئے اور عصر تک نفلیں پرھتے رہے یہ انتظار میں بیٹھا رہا نفلوں سے فارغ ہوئے تو عصر کی نماز شروع کر دی اور اس سے فارغ ہو کر دعا میں مشعول ہو گئے اورمغرب تک مشغول رہے پھر مغرب کی نماز پڑھی او ر نفلیں شروع کر دیں عشاء تک اس میں مشغول رہے یہ بیچارہ انتظار میں بیٹھا رہا عشاء کی نماز پڑھ کر پھر نفلوں کی نیت باندھ لی اور صبح تک اس میں مشعول رہے پھر صبح کی نماز پڑھی اور ذکر شروع کر دیا اوراورادو وظائف پڑھتے رہیاسی مصلے پربیٹھے بیٹھے آنکھ جھپک گئی تو فوراً آنکھوں کو ملتے ہوئے اٹھے استغفار و توبہ کرنے لگے اور یہ دعا پڑھی اعوذ باﷲ من عین لا تشبع من النوم ( اﷲ ہی سے پنا مانگتا ہوں ایسی آنکھ سے جو نیند سے بھرتی ہی نہیں )۔

ایک صاحب کا قصہ لکھاہے کہ وہ رات کو سونے لیٹتے تو کوشش کرتے کہ آنکھ لگ جائے مگر جب نیند نہ آتی تو اٹھ کر نماز میں مشغول ہو جاتے اور عرض کرتے اﷲ تجھ کو معلوم ہے کہ جہنم کی آگ کے خوف نے میری نیند اڑا دی اور یہ کہہ کر صبح تک نمازمیں مشغول رہتے

ساری رات بے چینی اور اضطراب یا شوق و اشتیاق میں جاگ کر گزار دینے کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں ہم لوگ اس لذت سے اتنے دور ہو گئے ہیں کہ ہم کو ان واقعات کی صحت میں بھی تردد ہونے لگا لیکن اول تو جس کثرت اور تواتر سے یہ واقعات نقل کئے گئے ہیں ان کی تردید میں ساری ہی تواریخ سے اعتماد اٹھتا ہے کہ واقعہ کی صحت کثرت نقل ہی سے ثابت ہوتی ہے دوسرے ہم لوگ اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو آئے دن دیکھتے ہیں جو سینما اور تھیٹر میں ساری رات کھڑے کھڑے گزار دیتے ہیں کہ نہ ان کو تعب ہوتا ہے نہ نیند ستاتی ہے پھر کیا وجہ کہ ہم ایسے معاصی کی لذتون کا یقین کرنے کے باوجود ان طاعات کی لذتوں کا انکار کریں حالانکہ طاعات میں اﷲ تعالی شانہ کی طرف سے قوت بھی عطا ہوتی ہے ہمارے اس تردد کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم ان لذتوں سے نا آشنا ہیں اور نابالع بلوغ کی لذتوں سے نا واقف ہو تا ہی ہے حق تعالٰی جَلَّ شانُہ اس لذت تک پہنچا دیں تو زہے نصیب۔

 

               آخری گزارش

 

صوفیہ نے لکھا ہے کہ نماز حقیقت میں اﷲ جل شانہ کے ساتھ مناجات کرنا اور ہم کلام ہونا ہے جو غفلت کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا نماز کے علاوہ اور عبادتیں عفلت سے بھی ہو سکتی ہیں مثلاً زکوۃ ہے کہ اس کی حقیقت مال کا خرچ کرنا ہے یہ خود ہی نفس کو اتنا شاق ہے کہ اگر غفلت کے ساتھ ہو تب بھی نفس کو شاق گذرے گا اسی طرح روزہ دن بھر کا بھوکا پیاسا رہنا صحبت کی لذت سے رکنا کہ یہ سب چیزیں نفس کو مغلوب کرنے والی ہیں غفلت سے بھی اگر متحقق ہوں تو نفس کی شدت اور تیزی پر اثر پڑے گا لیکن نماز کا معظم حصہ ذکر ہے قرات قرآن ہے یہ چیزیں اگر غفلت کی حالت میں ہوں تو مناجات یا کلام نہیں ہیں ایسی ہی ہیں جیسے کہ بخار کی حالت میں ہذیان ہوتی ہے کہ جو چیز دل میں ہوتی ہے وہ زبان پر ایسے اوقات میں جاری ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی مشقت ہوتی ہے نہ کوئی نفع اسی طرح چونکہ نماز کی عادت پڑ گئی ہے اس لئے اگر توجہ نہ ہو تو عادت کے موافق بلا سوچے سمجھے زبان سے الفاظ نکلتے ہیں گے جیسا کہ سونے کی حالت میں اکثر باتیں زبان سے نکلتی ہیں کہ نہ سننے والا اس کو اپنے سے کلام سمجھتا ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہے اسی طرح حق تعالیٰ جل شانہ بھی ایسی نماز کی طرف التفات اور توجہ نہیں فرماتے جو بلاارادہ کے ہو اس لئے نہایت اہم ہے کہ نماز اپنی وسعت و ہمت کے موافق پوری توجہ سے پڑھی جائے لیکن یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اگر یہ حالات اور کیفیات جو پچھلوں کی معلوم ہوئی ہیں حاصل نہ بھی ہوں تب بھی نماز جس حال سے بھی ممکن ہو ضرور پڑھی جائے یہ بھی شیطان کاایک سخت ترین مکر ہو تا ہے وہ یہ سمجھائے کہ بری طرح پڑھنے سے تو نہ پڑھنا ہی اچھا ہے یہ غلط ہے نہ پڑھنے سے بری طرح کا پڑھنا ہی بہتر ہے اس لئے کہ نہ پڑھنے کا جو عذاب ہے وہ نہایت ہی سخت ہے حتیٰ کہ علماء کی ایک جماعت نے اس شخص کے کفر کا فتوی دیا ہے جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے جیسا کہ پہلے باب میں مفصل گزر چکا ہے ۔البتہ اس کی کوشش ضرور ہونا چاہئے کہ نماز کاجو حق ہے اور اپنے اکابر اس کے مطابق پڑھ کر دکھا گئے ہیں حق تعالیٰ جل شانہ اپنے لطف سے اس کی توفیق عطا فرمائیں اور عمر بھر میں کم از کم ایک ہی نماز ایسی ہو جائے جو پیش کرنے کے قابل ہو اخیر میں اس امر پر تنبیہ بھی ضروری ہے کہ حضرات محدثین رضی اﷲ عنہم اجمعین کے نزدیک فضائل کی روایات میں توسع ہے اور معمولی ضعف قابل تسامح باقی صوفیہ کرام رحمہم اﷲ کے واقعات تو تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں اور ظاہر ہے کہ تاریخ کا درجہ حدیث کے درجہ سے کہیں کم ہے ۔

وَمَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاﷲِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ رَبَّنَاظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ رَبَّنَالَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا، رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلُنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ، وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔وَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ حَلْقِہٖ سَیِّدِ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ وَعَلٰیٓ اٰلِہِ وَاَصْحَابِہٖ وَاَتْبَاعِہِمْ وَحَمَلَۃِ الدِّیْنِ الْمَتِیْنِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔

محمد زکریا کاندھلوی عفی عنہ

شب دوشنبہ ۷ محرم ۱۳۵۸؁ ھ

ماخذ:

http://www.ownislam.com/articles/fazil-e-ammal-urdu/2079-fazail-namaz-by-sheikh-ul-hadith-zakariyya?showall=1

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید