FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

عہد نامہ جدید

               حصہ چہارم۔ کتاب ۴۳ : یوحنا

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

۴۳۔ کتاب یوحنا

 

 

 

 

 

 

باب : 1

 

1 دنیا کی ابتدا ء سے پہلے کلام وہاں تھا کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔

2 وہ

3 سب چیزیں اس کے ذریعے پیدا ہوئیں۔ اس کے بغیر کو ئی چیز نہیں بنی۔

4 اس میں حیات تھی اور وہ زندگی دنیا کے لوگوں کے لئے نور تھی۔

5 نور تاریکی میں چمکتا ہے لیکن تاریکی اس نور پر کبھی قابو نہ پا سکی۔

6 یوحنّا نامی ایک آدمی تھا اس کو خدا نے بھیجا تھا۔

7 یوحناّ لوگوں سے اس نور کے متعلق کہنے آیا تا کہ یوحناّ کے ذریعہ لوگ نور کے متعلق جان سکیں اور مان سکیں۔

8 یوحناّ خود نور نہ تھا لیکن وہ لوگوں کو نور کے متعلق بتا نے آیا۔

9 سچاّ حقیقی نور دنیا میں آ رہا تھا۔یہ نور جس نے تمام لوگوں کو روشنی دی۔

10 وہ دنیا میں پہلے ہی سے مو جود تھا دنیا اسی کے وسیلے سے پیدا ہو ئی لیکن دنیا کے لو گوں نے اسے نہیں پہچا نا۔

11 وہ اپنی دنیا میں آیا لیکن اس کے اپنے لوگوں نے اسے قبول نہ کیا۔

12 کچھ لو گوں نے اسے قبول کیا جنہوں نے قبول کیا وہ ایمان لائے اور جو ایمان لائے ان کو کچھ عطا کیا گیا اس نے ان کو خدا کی اولاد ہو نے کا حق دیا۔

13 یہ بّچے اس طرح نہیں پیدا ہوئے جس طرح عام بّچے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اس طرح نہیں پیدا ہوئے جیسا کہ کسی ماں باپ کی تمنا یا  خواہش سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو خدا نے خود پیدا کیا۔

14 کلام نے انسان کی شکل لیا اور ہم لوگوں میں رہا۔ ہم نے اس کا جلا ل دیکھا۔ جیسا کہ با پ کے اکلوتے بیٹے کا جلا ل۔ کلام سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا۔

15 یوحناّ نے اپنے بارے میں لوگوں سے کہا۔ یوحناّ نے واضح کیا کہ یہ وہی ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا تھا وہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زیادہ عظیم ہے اسلئے کہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔

16 کلام سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا اور ہم تمام نے اس سے زیادہ سے زیادہ فضل پایا۔

17 شریعت تو موسیٰ کے ذریعہ دی گئی لیکن فضل اور سچا ئی یسوع مسیح کے ذریعہ ملی۔

18 کسی نے کبھی بھی خدا کو نہیں دیکھا لیکن اکلوتا بیٹا خدا ہے وہ باپ سے قریب ہے اور بیٹے نے ہمیں بتا یا کہ خدا کیسا ہے۔

19 یروشلم کے یہودیوں نے چند کاہنوں اور لا وی کو یوحناّ کے پاس بھیجا یہ پوچھنے کے لئے کہ وہ کون ہے ؟

20 یوحناّ نے کھلے طور پر کہا اور اقرار کیا میں مسیح نہیں ہوں۔

21 یہودیوں نے یوحناّ سے پوچھا، پھر تم کون ہو ؟ کیا تم ایلیاہ ہو ؟ یوحناّ نے جواب دیا، میں ایلیاہ نہیں ہوں۔ پھر یہودیوں نے پوچھا، کیا تم نبی ہو؟ یوحنا نے کہا، نہیں میں نبی نہیں ہوں۔

22 تب یہود یوں نے پوچھا، پھر تم کون ہو؟ اپنے بارے میں بتا ؤ اور کہو تا کہ انہیں جواب دے سکیں۔ جس نے ہمیں بھیجا ہے۔ تم اپنے بارے میں کیا کہتے ہو۔

23 یوحناّ نے یسعیاہ نبی کے الفا ظ کہے،

24 یہ یہودی فریسیوں کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔

25 ان لوگوں نے یوحناّ سے پوچھا، تم کہتے ہو کہ تم مسیح نہیں ہو اور یہ بھی کہتے ہو کہ تم ایلیاہ نہیں ہو اور نبی بھی نہیں پھر تم بپتسمہ لوگوں کو کیوں دیتے ہو؟

26 یوحناّ نے جواب دیا، میں لوگوں کو پانی سے پبتسمہ دیتا ہوں لیکن تم میں ایک آدمی ہے جسے تم نہیں پہچانتے۔

27 وہ آدمی میرے بعد آئے گا میں تو اس کی جو تیوں کے تسمے کھولنے کے بھی قابل نہیں ہوں۔

28 یہ سب کچھ دریائے یردن کے پار بیت عنیاہ کے علا قے میں ہوا جہاں یوحناّ لوگوں کو بپتسمہ دے رہا تھا۔

29 دوسرے دن یوحناّ نے دیکھا کہ یسوع اس کی طرف آ رہے ہیں۔یوحناّ نے کہا دیکھو یہ خدا کا میمنہ ہے یہ دنیا سے گنا ہوں کو لے جا نے آیا ہے۔

30 یہ وہی آدمی ہے جس کی بات میں تم سے کہہ رہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آئے گا اور وہ مجھ سے عظیم ہو گا کیوں کہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔ اور وہاں ہمیشہ سے رہا تھا۔

31 حتیٰ کہ میں اسے جانتا نہ تھا وہ کون تھا لیکن میں لوگوں کو پانی سے بپتسمہ دینے کیلئے آیا۔اس طرح اسرائیلی جان سکتے ہیں کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔

32 یوحناّ نے کہا، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ مسیح کون ہے لیکن خدا نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کے لئے بھیجا اور خدا نے مجھ سے کہا کہ روح ایک آدمی پر نازل ہو گی اور وہ وہی آدمی ہو گا جو لوگوں کو مقدس روح سے بپتسمہ دے گا یوحناّ نے کہا، میں نے دیکھا کہ وہ روح آسمان سے نیچے آئی وہ روح ایک کبوتر کی مانند تھی اور اس پر بیٹھ گئی

33

34 اسی لئے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔

35 دوسرے دن یوحناّ دوبارہ وہاں اپنے دو شاگردوں کے ساتھ تھے۔

36 جب یو حنا نے دیکھا کہ یسوع وہاں آ رہے ہیں تو اس نے کہا،خدا کے میمنہ کو دیکھو۔

37 جب ان دونوں شاگردوں نے یوحنا کو یہ کہتے ہوئے سنا تو یسوع کے پیچھے ہو لئے۔

38 جب یسوع نے پلٹ کر دیکھا کہ دونوں اس کی تقلید کر رہے ہیں تو یسوع نے پو چھا، تم کیا چاہتے ہو ؟ دونوں نے کہا، اے ربّی یعنی استاد آپ کہاں ٹھہرے ہیں ؟

39 یسوع نے جواب دیا، تم میرے ساتھ آؤ اور دیکھو تب دونوں یسوع کے ساتھ گئے اور اس جگہ کو دیکھا جہاں یسوع ٹھہرے تھے۔ اور اس دن وہ یسوع کے ساتھ ٹھہرے یہ تقریباً چار بجے کا وقت تھا۔

40 وہ دونوں آدمی یسوع کے متعلق یوحنا سے سن کر یسوع کے ساتھ ہو گئے ان دونوں میں سے ایک آدمی جس کا نام اندر یاس جو شمعون پطرس کا بھا ئی تھا۔

41 اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ اپنے بھا ئی شمعون کی تلاش میں نکلا اور اس سے کہا، ہم نے مسیحا ( جس کے معنی مسیح ) کو پا لیا۔

42 پھر اندر یاس نے شمعون کو یسوع کے پاس لا یا یسوع نے شمعون کو دیکھا اور کہا،کیا تم یو حنا کے بیٹے شمعون ہو ؟ تم کیفا یعنی پطرس کہلاؤ گے۔

43 دوسرے دن یسوع نے طے کیا کہ گلیل جائے اور وہ فلپ سے مل کر کہا، میرے ساتھ ہو لے

44 فلپ کا تعلق شہر بیت صیدا سے تھا یہ شہر اندریاس اور پطرس کا بھی تھا۔

45 فلپ نے نتن ایل سے مل کر کہا، یاد کرو کہ شریعت میں موسیٰ نے کیا لکھا تھا موسیٰ نے لکھا تھا کہ ایک شخص آنے والا ہے۔ اور دوسرے نبیوں نے بھی اس کے متعلق لکھا تھا ہم نے اس کو پا لیا اس کا نام یسوع ہے جو یوسف کا بیٹا ہے اور وہ ناصری ہے۔

46 لیکن نتن ایل نے فلپ سے کہا،ناصرت ! کیا کو ئی اچھی چیز ناصرت سے آ سکتی ہے ؟ فلپ نے جواب دیا، آؤ اور دیکھو۔

47 یسوع نے دیکھا نتن ایل اس کی طرف آ رہا ہے تو کہا، یہ شخص جو آ رہا ہے حقیقت میں اسرائیلی ہے اس میں کو ئی خامی نہیں ہے۔

48 نتن ایل نے پوچھا،تم مجھے کیسے جانتے ہو ؟ یسوع نے جواب دیا، میں نے تمہیں اس وقت دیکھا جب تم انجیر کے درخت کے نیچے تھے جبکہ فلپ نے تمہیں میرے متعلق بتا یا تھا۔

49 تب نتن ایل نے یسوع سے کہا،اے استاد آپ خدا کے بیٹے ہیں آپ اسرائیل کے بادشاہ ہیں۔

50 یسوع نے نتن ایل سے کہا، میں نے تم سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں انجیر کے درخت کے نیچے دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تم مجھ پر یقین رکھتے ہو۔ لیکن ! تم اس سے بھی زیادہ عظیم چیزیں دیکھو گے۔

51 یسوع نے مزید کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں تم سب کو ئی دیکھو گے کہ آسمان کھلا ہے اور خدا کے فرشتے اوپر جا رہے ہیں اور ابن آدم پر نیچے آ رہے ہیں۔

52

 

باب : 2

 

1 دو دن بعد گلیل میں شہر قانا میں ایک شادی ہو ئی جہاں یسوع کی ماں تھی۔

2 یسوع اور اس کے ساتھی بھی شادی میں مدعو کئے گئے تھے۔

3 شادی کی تقریب میں جب مئے ختم ہو گئی تب یسوع کی ماں نے کہا، ان کے پاس مزید مئے نہیں ہے۔

4 یسوع نے اس سے کہا، اے عورت تم یہ نہ کہو کہ مجھے کیا کر نا ہے ؟ میرا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔

5 یسوع کی ماں نے نوکروں سے کہا، تم وہی کرو جو یسوع کرنے کو کہے۔

6 اس جگہ چھ پتھر کے بڑے مٹکے رکھے تھے جنہیں یہودی صفائی طہارت کے لئے استعمال کرتے تھے ہر مٹکے میں ۲۰یا ۳۰ گیلن پانی کی گنجائش تھی۔

7 یسوع نے خدمت گزاروں سے کہا، ان برتنوں کو پانی سے بھر دو اور خدمت گاروں نے برتنوں کو پانی سے لبریز کر دیا۔

8 یسو ع نے ان خدمت گاروں سے کہا، اس میں سے تھو ڑا پانی نکالو اور اس کو دعوت کے میر کے پاس لے جاؤ۔ چنانچہ خدمت گاروں نے پانی کو دعوت کے میر کے پاس پیش کیا۔

9 اور جب دعوت کے میر نے اس کا مزہ چکھا تو معلوم ہوا کہ پانی مئے میں تبدیل ہو گیا تھا ان لوگوں نے یہ نہیں جانا کہ مئے کہاں سے آئی لیکن خدمت گار جو پانی لائے تھے انہیں معلوم تھا کہ مئے کیسے آئی۔ دعوت کے میر نے دولہا کو طلب کیا۔

10 اور دولہا سے کہا، لوگ ہمیشہ پہلے بہترین مئے سے تواضع کرتے ہیں اور جب پی کر سیر ہو جاتے ہیں تب ناقص مئے دیتے ہیں لیکن تم نے عمدہ مئے اب تک بچا رکھی ہے۔

11 یہ پہلا معجزہ تھا جو یسوع نے کیا۔ اس معجزے کو اس نے گلیل کے شہر قا نا میں کیا اور اس طرح اپنی عظمت کو دکھا یا اور اس کے ساتھی ایمان لائے۔

12 تب یسوع اپنی ماں بھائیوں اور شاگردوں کے ساتھ کفر نحوم کو گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہرا۔

13 یہودیوں کی فسح قریب تھی چنانچہ یسوع یروشلم گئے۔

14 یسوع یروشلم میں ہیکل گئے وہاں اس نے دیکھا کہ لوگ وہاں مویشی بھیڑ کبوتر فروخت کر رہے ہیں۔ اور دوسرے لوگ میز پر بیٹھے ہوئے پیسوں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔

15 یسوع نے رسّیوں سے کو ڑا تیار کیا اور لوگوں کو ڈرا کر انہیں اور تمام مویشی بھیڑوں اور کبوتروں کو ہیکل کے باہر کر دیئے اور میز پر بیٹھے لوگوں کے پاس جا کر ان کی میز کو الٹ دیئے اور با ہر کر دیئے اور ان کی رقم کو پھیلا دیئے۔

16 تب یسوع نے ان لوگوں سے کہا جو کبوتر فروخت کر رہے تھے، یہ سب کچھ لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کی جگہ نہ بناؤ۔

17 جب یہ واقعہ پیش آیا تب یسوع کے شاگردوں نے یاد کیا کہ صحیفوں میں جو لکھا ہے :

18 یہودیوں نے یسوع سے کہا، ہم کو کونسا ایسا معجزہ دکھا ؤ گے جو یہ ثابت کرے کہ تم ایسا کر نے کا حق رکھتے ہو۔

19 یسوع نے جواب دیا، اس ہیکل کو تباہ کر دو میں اس کو پھر تین دن میں بنا دوں گا۔

20 یہودیوں نے کہا، لوگوں نے اس ہیکل کو بنانے میں ۴۶ سال لگائے ہیں کیا تمہیں یقین ہے کہ دوبارہ اس کو تین دن میں بناؤ گے ؟

21 لیکن ہیکل کہنے سے یسوع کی مراد اپنا بدن تھا۔

22 جب وہ مردوں میں سے زندہ ہوا تب اس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ اس نے ایسا کہا تھا اور انہوں نے صحیفے پر اور یسوع کے قول پر ایمان لایا۔

23 جب یسوع فسح کی تقریب پر یروشلم میں تھے کئی لوگوں نے اس کے معجزوں کو دیکھ کر یسوع پر ایمان لائے۔

24 لیکن یسوع نے ان پر بھروسہ نہیں کیا کیوں کہ یسوع کو وہ تمام لوگ معلوم تھے۔

25 یسوع یہ ضروری نہیں سمجھا کہ کوئی اسے لوگوں کے بارے میں بتائے اس لئے کہ اسے معلوم تھا کہ ان لوگوں کے دماغوں میں کیا ہے۔

 

باب : 3

 

1 فریسیوں میں سے نیکو دیمس نامی ایک شخص تھا۔ وہ یہودیوں کا ایک اہم سر براہ تھا۔

2 ایک رات نیکو دیمس یسوع کے پاس آیا اور کہا، اے استاد ! ہم جانتے ہیں کہ تم استاد ہو جو خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہو۔ کو ئی اور آدمی ان معجزوں کو بغیر خدا کی مدد کے نہیں دکھا سکتا۔

3 یسوع نے جواب دیا،میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ آدمی کو دو با رہ پیدا ہو نا چاہئے اگر وہ دوبارہ نہیں پیدا ہوتا تو وہ خدا کی بادشاہت میں نہیں رہ سکتا ہے۔

4 نیکو دیمس نے کہا، لیکن ایک آدمی جو پہلے ہی بوڑھا ہے وہ کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔ آدمی دوبارہ اپنی ماں کے جسم میں داخل نہیں ہو سکتا اسی لئے کو ئی آدمی دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔

5 لیکن یسوع نے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ آدمی کو پانی اور روح سے پیدا ہو نا چاہئے اگر آدمی پانی اور روح سے پیدا نہیں ہو تا ہے۔ تو خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

6 ایک آدمی کا جسم اس کے والدین کے ذریعے پیدا ہو تا ہے لیکن ایک آدمی کی روحانی زندگی صرف روح سے پیدا ہو تی ہے۔

7 میرے کہنے سے حیران مت ہو تم کو دوبارہ پیدا ہو نا چاہئے۔

8 ہوا کا جھونکا کہیں سے بھی چل سکتا ہے تم ہوا کے جھو نکے کو سن سکتے ہو لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہوا آئی کہاں سے اور کہاں جائے گی یہی ہر اس آدمی کے ساتھ ہو تا ہے جو روح سے پیدا ہو تا ہے۔

9 نیکو دیمس نے پوچھا، یہ سب کس طرح ممکن ہے۔

10 یسوع نے کہا، اگر چہ کہ تم ایک یہودیوں کے اہم استاد ہو پھر بھی تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔

11 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ہم جو کچھ جانتے ہیں اس کے متعلق بات کرتے ہیں ہم وہی کہتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں لیکن تم لوگ یہ نہیں قبول کرتے جو ہم تم سے کہتے ہیں۔

12 میں تم سے ان چیزوں کے متعلق جو زمین پر ہیں کہہ چکا ہوں لیکن تم مجھ پر یقین نہیں کرتے ہو تو پھر تم کس طرح اس بات کا یقین کرو گے اگر میں تمہیں آسمانی باتوں کے متعلق بتاؤں۔

13 کو ئی بھی آسمان تک نہیں گیا سوائے اس کے جو آسمان سے آیا یعنی ابن آدم۔

14 موسیٰ نے صحرا سے سانپ اٹھا لیا اسی طرح ابن آدم کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔

15 اسلئے وہ آدمی جو ابن آدم پر ایمان لا تا ہے وہ دائمی زندگی پاتا ہے۔

16 ہاں! خدا نے دنیا سے محبت رکھی ہے اسی لئے اس نے اس کو اپنا بیٹا دیا ہے۔ خدا نے اپنا بیٹا دیا تا کہ ہر آدمی جو اس پر ایمان لائے جو کھوتا نہیں مگر ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے۔

17 خدا نے اپنا بیٹا دنیا میں اسلئے بھیجا کہ وہ قصور واروں کا فیصلہ کرے بلکہ خدا نے اپنا بیٹا اس لئے بھیجا کہ اس کے ذریعہ دنیا کی نجات ہو۔

18 جو شخص خدا کے بیٹے پر ایمان لا تا ہے اس پر سزا کا حکم نہیں ہو گا لیکن جو اس پر ایمان نہیں لا تا اس کی پرسش ہو گی اس لئے کہ وہ خدا کے بیٹے پر ایمان نہیں لایا۔

19 لوگوں کی عدالت اس طرح ہو گی کہ نور دنیا میں آیا لیکن انسان نیکی کی طرف نہیں آیا وہ گناہ کی طرف ما ئل ہوا۔کیوں کہ وہ بری حرکتیں کرتا ہے۔

20 ہر آدمی جو بری چیز کر تا ہے وہ نیکی نہیں کرتا اور نیکی کی طرف نہیں آتا کیوں کہ نیکی کی طرف آنے سے اس کی برائیاں ظاہر ہو تی ہیں۔

21 لیکن جو شخص سچا راستہ اختیار کر تا ہے نور کی طرف بڑھتا ہے وہ جانتا ہے کہ نیک کام وہ جو کرتا ہے خدا کی طرف سے ہے۔

22 اس کے بعد یسوع اور اس کے ساتھی یہوداہ علا قہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں یسوع نے قیام کر کے لوگوں کو بپتسمہ دیا۔

23 یوحناّ نے بھی لوگوں کو عنین میں پبتسمہ دیا۔عنین سالم کے قریب ہے۔ یوحناّ نے وہاں کے لوگوں کو بپتسمہ دیا کیوں کہ وہاں پانی کی بہتات تھی۔ لوگ وہاں بپتسمہ کے لئے جاتے تھے

24 یہ واقعہ یوحناّ کے قید میں ڈالے جا نے سے پہلے کا ہے۔

25 یوحناّ کے کچھ شاگردوں نے دوسرے یہودی سے بحث و  مباحثہ کیا مذہبی پاکیزگی سے متعلق وضاحت چاہتے تھے۔

26 یوحناّ کے شا گرد اس کے پاس آئے اور کہا، اے استاد کیا آپ کو وہ آدمی یاد ہے جو دریائے یر دن کے اس پار آپ کے سا تھ تھا آپ لوگوں کو اس کے متعلق کہہ رہے تھے۔ وہ شخص بپتسمہ دے رہا تھا اور کئی لوگ اس کے پاس جا رہے تھے۔

27 یوحناّ نے کہا، آدمی وہی لے سکتا ہے خدا اسے جو عطا کرے۔

28 جو کچھ میں نے کہا تم لوگوں نے سن لیا میں یسوع نہیں ہوں میں وہی ہوں جسے خدا نے اس کی راہ بتا نے کے لئے بھیجا۔

29 دلہن صرف دولہا کے لئے ہو تی ہے۔ دوست جو دولہا کی مدد کرتے ہیں سنتے ہیں اور دولہا کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اور یہ دوست جو دولہا کی آواز سنتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور وہی خوشی میں محسوس کر تا ہوں اور میری خوشی اب مکمل ہو گئی ہے۔

30 وہ بہت عظمت وا لا ہو گا اور میری اہمیت کم ہو گی۔

31 جو آسمان سے آیا ہے دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ عظیم ہے اور وہ آدمی جو زمین سے تعلق رکھتا ہے زمین کا ہے وہ زمین کی چیزوں کے متعلق ہی کہے گا۔ لیکن جو آسمان سے آیا ہے وہ سب سے عظیم ہے۔

32 اس نے جو کچھ دیکھا اور سنا ہے وہی کہتا ہے لیکن لوگ اس کے کہنے کو نہیں مانتے۔

33 وہ آدمی جو یسوع کا کہا مانتا ہے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا ہمیشہ سچ ہی کہتا ہے۔

34 خدا نے اس کو بھیجا اور وہی کہتا ہے جو خدا نے کہا خدا نے اس کو روح کا پو را اختیار مکمل طور پر دیا۔

35 باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے اور اس کو ہر چیز پر اختیار دیا ہے۔

36 جو شخص بیٹے پر ایمان لائے اس کی زندگی ہمیشہ کی زندگی اور جو شخص بیٹے کی اطاعت نہ کرے اس کی ابدی زندگی نہیں اور خدا کا غضب ایسے انسان پر ہو تا ہے۔

 

باب : 4

 

1 فریسیوں نے سنا کہ یوحنا سے زیادہ یسوع اپنے شاگرد بنا رہا ہے اور انہیں بپتسمہ دے رہا ہے۔

2 لیکن یسوع نے بذات خود لوگوں کو بپتسمہ نہیں دیا اس کے شاگردوں نے اس کی طرف سے لوگوں کو بپتسمہ دیا۔

3 یسوع نے سنا کہ فریسیوں نے اس کے متعلق سنا ہے۔

4 یسوع نے یہوداہ سے واپس ہو کر گلیل پہنچا گلیل کے راستے سے جاتے وقت یسوع کو سامریہ سے گزرنا پڑا۔

5 سامریہ میں یسوع کی آمد شہر سوخار میں ہو ئی یہ شہر اسی کھیت کے قریب ہے جسے یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔

6 یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ یسوع اپنے لمبے سفر سے تھک چکے تھے وہ دوپہر کا وقت تھا اور وہ کنوئیں کے قریب بیٹھ گئے۔

7 ایک سامری عورت کنویں کے قریب پانی لینے آئی یسوع نے اس سے کہا، براہ کرم مجھے پینے کے لئے پانی دو۔

8 اس وقت یسوع کے شاگرد شہر کھا نا لا نے کے لئے گئے تھے۔

9 سامری عورت نے کہا، مجھے تعجب ہے کہ تم مجھ سے پینے کے لئے پانی مانگ رہے ہو۔ تم یہودی ہو اور میں سامری عورت ہوں (یہودی سامریوں کے دوست نہیں ہیں )

10 یسوع نے کہا، جو خدا دیتا ہے اس کے بارے میں نہیں جانتے اور تجھے نہیں معلوم کہ میں کون ہوں اور تجھ سے پانی مانگ رہا ہوں۔ اگر ان باتوں کو تو جانتی تو تو مجھ سے پوچھتی اور میں تجھے زندگی کا پانی دیتا۔

11 عورت نے کہا، جناب ! آپ کے پاس کو ئی چیز نہیں جس سے پانی لیں اور کنواں بہت گہرا ہے پھر کس طرح آپ مجھے زندگی کا پانی دیں گے۔

12 کیا تو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہمیں یہ کنواں دیا ہے ؟اور خود وہ اس کے بیٹے اور اس کے مویشی نے اس سے پانی پیا ہے۔

13 یسوع نے جواب دیا،ہر آدمی جو اس سے پانی پئے گا وہ پھر بھی پیا سا ہو گا۔

14 لیکن جو کو ئی اس پانی کو جو میں اس کو دوں گا پئے گا وہ ابد تک پیا سا نہ ہو گا اور میرا دیا ہوا اس کے لئے ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے ہو گا۔

15 عورت نے یسوع سے کہا، تو پھر وہ پانی مجھے دے تاکہ پھر کبھی پیا سی نہ رہوں اور نہ ہی پھر کبھی پانی لینے یہاں آؤ ں۔

16 یسوع نے کہا، جا اور جا کر اپنے شوہر کو لے آ۔

17 عورت نے جواب میں کہا، میں شوہر نہیں رکھتی۔ یسوع نے کہا،تو نے سچ کہا کہ تیرا شوہر نہیں۔

18 جب کہ تو پانچ شوہر کر چکی ہے اور تو جس کے ساتھ اب ہے وہ تیرا شوہر نہیں اور یہ تو نے سچ کہا۔

19 عورت نے کہا،میں دیکھ رہی ہوں کہہ تم نبی ہو۔

20 ہمارے باپ دادا نے اس پہاڑی پر عبادت کی لیکن تم یہودی یہ کہتے ہو کہ یروشلم ہی وہ صحیح جگہ ہے جہاں عبادت کی جانی چاہئے۔

21 یسوع نے کہا، اے عورت یقین کر کہ وہ وقت آ رہا ہے کہ نہ تم یروشلم جاؤ گی اور نہ ہی پہاڑی پر خدا کی عبادت کرو گی۔

22 سامری لوگ کچھ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو تم خود نہیں جانتے، ہم یہودی جانتے ہیں کس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں سے ہے۔

23 وہ وقت آ رہا ہے اور وہ اب یہاں ہے جب کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے۔ تو مقدس باپ ایسے ہی لوگوں کو چاہتا ہے جو اس کے پرستار ہوں۔

24 خدا روح ہے اور اس کے پرستاروں کو روح اور سچائی سے پرستش کرنی ہو گی۔

25 عورت نے جواب دیا،میں جانتی ہوں کہ مسیحا (یعنی مسیح) آ رہے ہیں اور جب وہ آئیں گے ہمیں ہر چیز سمجھائیں گے۔

26 یسوع نے کہا، وہی شخص تم سے بات کر رہا ہے اور میں ہی مسیح ہوں۔

27 اس وقت یسوع کے شاگرد شہر سے واپس آئے وہ لوگ بہت حیران ہوئے کہ یسوع ایک عورت سے بات کر رہا ہے لیکن کسی نے بھی یہ نہ پو چھا، آپ کو کیا چاہئے اور آپ اس عورت سے کیوں بات کر رہے ہو۔

28 تب وہ عورت پانی کا مٹکا چھوڑ کر واپس شہر چلی گئی اور اس نے شہر میں لوگوں سے کہا۔،

29، ایک آدمی نے مجھ سے ہر وہ بات کہی ہے جو میں نے کیں آؤ اور اس کو دیکھو ممکن ہے وہ مسیح ہو۔

30 اور لوگ یسوع کو دیکھنے شہر سے آنے لگے۔

31 جب وہ عورت شہر میں تھی یسوع کے شاگردوں نے التجا کی، اے استاد کچھ کھا ئیے۔

32 لیکن یسوع نے جواب دیا، میرے پاس کھا نے کے لئے ایسا کھا نا ہے جسے تم نہیں جانتے۔

33 پھر شاگرد آپس میں سوال کر نے لگے، کیا کو ئی یسوع کے کھا نے کے لئے کچھ لا یا ہے؟

34 یسوع نے کہا، میرا کھا نا یہی ہے کہ اس کی مرضی کے مطابق کام کروں جس نے مجھے بھیجا ہے۔ میری غذا یہی ہے کہ میں اس کام کو ختم کروں جو خدا نے میرے ذمہ کیا ہے۔

35 جب تم بوتے ہو تو کہتے ہو کہ فصل آنے میں چار مہینے چاہئے لیکن میں تم سے کہتا ہوں اپنی آنکھیں کھولو اور لوگوں کو دیکھو وہ فصل کی مانند کٹنے کے لئے تیار ہیں۔

36 اور فصل کاٹنے والا اپنی اجرت پا تا اور بیرونی زند گی کے لئے اناج جمع کر تا ہے تاکہ فصل بونے اور کاٹنے والا دونوں خوش رہیں۔

37 لوگ جو کہتے ہیں وہ صحیح ہے فصل کو ئی بوتا ہے اور فائدہ دوسرا اٹھا تا ہے۔

38 میں نے تمہیں فصل کی کاشت کے لئے بھیجا جس کے بونے میں تم نے محنت نہیں کی لیکن دوسروں نے محنت کی اور تم ان کی محنت کا پھل پاتے ہو۔

39 اس شہر کے کئی سامری لوگ یسوع پر ایمان لے آئے ان لوگوں نے اس عورت کی بات پر یقین کیا جو اس نے کہا تھا، یسوع نے وہ سب کچھ کہا جو میں نے کیا۔

40 سامری یسوع کے پاس آئے اور اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے پاس ٹھہرے اس طرح یسوع نے ان کے پاس دو دن قیام کیا۔

41 جو کچھ یسوع نے کہا اس پر بہت سارے لوگ نے ایمان لائے۔

42 لوگوں نے عورت سے کہا، سب سے پہلے ہم یسوع پر ایمان لائے کیوں کہ تم نے ہم سے کہا۔ لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ہم خود ان سے سن چکے ہیں۔ ہمیں سچا ئی معلوم ہے کہ وہی نجات دہندہ ہے جو دنیا کو بچا لے گا۔

43 دو دن بعد یسوع نے شہر چھو ڑا اور گلیل روا نہ ہو گئے۔

44 یسوع کہہ چکے تھے کہ اس سے قبل لوگوں نے اپنے ہی شہر میں کسی نبی کی عزت نہیں کی تھی۔

45 جب یسوع گلیل پہونچے تو لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔ ان لوگوں نے وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جو یروشلم میں یسوع نے فسح کی تقریب پر ان کے سامنے کئے تھے۔

46 یسوع دوبارہ گلیل شہر قانا روانہ ہوئے۔ قا نا ہی وہ شہر ہے جہاں یسوع نے پانی کو مئے میں تبدیل کیا تھا۔ با دشاہ کے افسروں میں ایک اہم افسر کفر نحوم کے شہر میں رہتا تھا اس افسر کا ایک لڑ کا بیمار تھا۔

47 لوگوں کو معلوم ہوا کہ یسوع یہوداہ سے آئے ہیں اور گلیلی میں ہیں اور وہ لوگ شہر قانا میں یسوع کے پاس گئے اور استد عا کی کہ یسوع شہر کفر نحوم کو آئے اور اس لڑکے کا علا ج کرے۔ افسر کا لڑ کا قریب مر چکا تھا۔

48 یسوع نے اس سے کہا، جب تک تم لوگ معجزات اور عجیب و غریب چیزیں نہیں دیکھو گے مجھ پر ایمان نہیں لا ؤ گے۔

49 باد شاہ کے وزیر نے درخواست کی کہ میرا بچہ مر نے کے قریب ہے اس کی موت سے پہلے چلیں۔

50 یسوع نے کہا، جاؤ تمہارا بچہ زندہ رہے گا ! اور اس شخص کو یسوع کے بات پر ایمان تھا یسوع کے کہنے پر اپنے گھر روانہ ہوا۔

51 راستے ہی میں اس آدمی کا خادم ملا اس نے کہا، تمہارا لڑکا اب صحتیاب ہے۔

52 تب اس نے خادم سے پوچھا، میرا بچہ کس وقت اچھا ہوا۔ خادم نے جواب دیا، گذشتہ کل تقریباً ایک بجے اس کا بخار کم ہوا۔

53 اس لڑکے کے باپ (افسر) نے خیال کیا ایک بجے کا وقت وہی وقت تھا جس وقت یسوع نے کہا تھا،تمہارا لڑکا زندہ رہے گا، تب اس نے اور اس کے گھر کے تمام لوگ یسوع پر ایمان لائے۔

54 یہ دوسرا معجزہ تھا جو یسوع نے یہوداہ سے گلیلی آنے کے بعد کیا تھا۔

 

باب : 5

 

1 اس کے بعد یہودیوں کی ایک تقریب پر یروشلم روانہ ہوئے۔

2 یروشلم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو پانچ برآمدوں پر مشتمل ہے اور عبرانی زبان میں بیت حسدا کہلا تا ہے۔

3 کئی بیمار اندھے لنگڑے اور فالج زدہ لوگ اس حوض کے پاس رہتے ہیں اور پانی کے ہلنے کے منتظر رہتے ہیں

4 آیت۳ کے آخر میں کچھ یونانی صحیفوں میں یہ حصّہ جوڑا گیا ہے، وہ پانی کے بہنے کا انتظار کئے اور کچھ حالیہ صحیفوں میں آیت ۴جوڑی گئی ہے، کبھی خداوند کا فرشتہ آ کر حوض کے پانی کو ہلایا ۔فرشتہ کے ایسا کر نے کے بعد کوئی بھی بیمار شخص جو سب سے پہلے اس میں اترتا تو اسے شفاء مل جاتی چاہے اسے کیسی ہی بیماری کیوں نہ ہو۔

5 اسی مقام پر ایک شخص تھا جو تقریباً اڑتیس سال سے بیمار تھا۔

6 جب یسو ع نے اس کو وہاں پڑے ہوئے دیکھا اور یہ جان کر کہ وہ اڑتیس سال سے بیمار ہے اس سے پو چھا، کیا تو صحت پا نا چاہتا ہے۔

7 اس آدمی نے جواب دیا، جناب میرے پاس کو ئی آدمی نہیں جو مجھے اس وقت مدد دے سکے جب فرشتہ پانی کو ہلا تا ہے اور جب تک میں جاؤں کوئی دوسرا اس میں اتر جاتا ہے۔

8 یسوع نے اس سے کہا، اٹھ اپنا بستر اٹھا اور چل۔

9 وہ شخص فوراً اچھا تندرست ہو گیا اور اپنا بستر اٹھا کر چلنے لگا۔ یہ واقعہ جس وقت ہوا وہ دن سبت دن کا تھا۔

10 اس لئے یہودیوں نے جو آدمی تندرست ہوا تھا اس سے کہا، آج سبت کا دن ہے ہماری شریعت کے خلاف ہے کہ تم اپنا بستر سبت کے دن اٹھاؤ۔

11 لیکن اس آدمی نے کہا، جس آدمی نے مجھے شفا دی اس نے کہا کہ اپنا بستر اٹھا ؤ اور چلو۔

12 یہودیوں نے اس سے دریافت کیا، کون ہے وہ آدمی جس نے تمہیں بستر اٹھا کر چلنے کے لئے کہا۔

13 لیکن وہ آدمی جس کو شفاء ملی تھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا اس مقام پر کئی آدمی تھے اور یسوع وہاں سے جا چکے تھے۔

14 بعد میں یسوع اس آدمی سے ہیکل میں ملے یسوع نے اس سے کہا، دیکھو تم اب تندرست ہو چکے ہو لیکن اب گناہوں سے اور بری باتوں سے بچنا، ورنہ تمہارا براہو گا۔

15 تب وہ آدمی وہاں سے نکل کر ان یہودیوں کے پاس پہونچا اور کہا یسو ع ہی وہ آ دمی تھے جس نے مجھے تندرست کیا۔

16 یسوع نے اس طرح کی شفاء سبت کے دن کی تھی۔اس وجہ سے اور یہودیوں نے یسوع کے ساتھ برا کرنا شروع کیا۔

17 لیکن یسوع نے یہودیوں سے کہا، میرا باپ کبھی کام سے نہیں رکتا اسلئے میں بھی کام کرتا رہوں گا۔

18 ان باتوں نے یہودیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اسے قتل کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے تو یسوع نے شریعت کی خلاف ورزی کی پھر خدا کو اپنا باپ کہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بنایا۔

19 یسوع نے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا بیٹا وہی کرتا ہے جو وہ اپنے باپ کو کرتے دیکھے۔

20 باپ بیٹے سے محبت کر تا ہے اسلئے وہ سب کچھ اپنے بیٹے کو بتا تا ہے جو وہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس سے بھی بڑے کام دکھلا تا ہے جس سے تم حیران ہو جاؤ گے۔

21 جیسے باپ مردوں کو زندہ اٹھا تا ہے۔اس طرح بیٹا جسے چاہے وہ بھی مردوں کو زندہ اٹھا تا ہے۔

22 کیوں کہ باپ کسی کی عدالتی کار روائی نہیں کر تا اسلئے سب کچھ بیٹے کے سپرد کر تا ہے۔

23 اس لئے لوگ جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں اسی طرح بیٹے کی بھی عزت کریں گے اور جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا گو یا وہ باپ کی عزت نہیں کر تا۔ وہ باپ ہی ہے جس نے بیٹے کو بھیجا ہے۔

24 میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر کو ئی میرا کلام سن کر جو بھی میں نے کہا ہے، اس پر ایمان لا تا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے تو اس کو ہمیشہ کی زندگی نصیب ہو تی ہے۔ اس پر کسی بھی قسم کی سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔

25 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک اہم وقت آ نے والا ہے بلکہ ابھی بھی ہے جو لوگ گناہ میں مرے ہیں وہ خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سن رہے ہیں وہ رہیں گے۔

26 زندگی کی دین باپ کے طرف سے ہے اس لئے باپ نے بیٹے کو اجازت دی ہے کہ زندگی دے۔

27 باپ نے بیٹے کو عدالت کا بھی اختیار دیا ہے کیوں کہ وہی ابن آدم ہے۔

28 اس پر تعجب کر نے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ وقت آ رہا ہے جب کہ مرے ہوئے لوگ جو قبروں میں ہیں اس کی آواز سن سکیں گے۔

29 تب وہ لوگ اپنی قبروں سے نکلیں گے اور جنہوں نے اچھے اعمال کئے ہیں انہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور جن لوگوں نے برائیاں کیں ہیں انہیں مجرم قرار دیا جائے گا۔

30، میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا جس طرح مجھے حکم ملتا ہے اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں اسی لئے میرا فیصلہ صحیح ہے کیوں کہ میں اپنی خوشی یا مرضی سے نہیں کر تا۔ لیکن میں وہی کر تا ہوں جس نے مجھے اپنی خوشی سے بھیجا ہے۔

31، اگر میں لوگوں سے اپنے متعلق کچھ کہوں تو وہ میری گواہی پر کبھی یقین نہیں کریں گے اور جو میں کہتا ہوں وہ نہیں مانیں گے۔

32 لیکن ایک دوسرا آدمی ہے جو لوگوں سے میرے بارے میں کہتا ہے اور میں جانتا ہوں وہ جو میرے بارے میں کہتا ہے وہ سچ ہے۔

33، تم نے لوگوں کو یوحناّ کے پاس بھیجا اور اس نے تم کو سچاّئی بتائی۔

34 میں ضروری نہیں سمجھتا کہ کوئی میری نسبت لوگوں سے کہے مگر میں یہ سب کچھ تم کو بتاتا ہوں تاکہ تم بچے رہو۔

35 یوحناّ ایک چراغ کی مانند تھا جو خود جل کر دوسروں کو روشنی پہنچا تا رہا اور تم نے چند دن کے لئے اس روشنی سے استفادہ حاصل کیا۔

36، لیکن میں اپنے بارے میں ثبوت رکھتا ہوں جو یوحناّ سے بڑھ کر ہے جو کام میں کرتا ہوں وہی میرا ثبوت ہے اور یہی چیزیں میرے باپ نے مجھے عطا کی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بھیجا ہے۔

37 جس باپ نے مجھے بھیجا ہے میرے لئے ثبوت بھی دیئے ہیں لیکن تم لوگوں نے اس کی آواز نہیں سنی اور تم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ کیسا ہے۔

38 میرے باپ کی تعلیمات کا کو ئی اثر تم میں نہیں کیوں کہ تم اس میں یقین نہیں رکھتے جس کو باپ نے بھیجا ہے۔

39 تم صحیفوں میں بغور ڈھونڈتے ہو یہ سمجھتے ہو کہ اس میں تمہیں ابدی زندگی ملے گی۔ لیکن ان صحیفوں میں تمہیں میرا ہی ثبوت ملے گا۔ جو میری طرف اشارہ ہے۔

40 لیکن تم لوگ جس طرح کی زندگی چاہتے ہو اس کو پا نے کے لئے میرے پاس نہیں آتے۔

41 میں نہیں چاہتا کہ لوگ میری تعریف کریں۔

42 لیکن میں تمہیں جانتا ہوں کہ تمہیں خدا سے محبت نہیں۔

43 میں اپنے باپ کی طرف سے آیا ہوں میں اسی کی طرف سے کہتا ہوں پھر بھی مجھے قبول نہیں کرتے لیکن جب دوسرا آدمی خود اپنے بارے میں کہتا ہے تو تم اسے قبول کرتے ہو۔

44 تم چاہتے ہو ہر ایک تمہاری تعریف کرے لیکن اس کی کوشش نہیں کرتے جو تعریف خدا کی طرف سے ہو تی ہو۔ پھر تم کس طرح یقین کرو گے۔

45 یہ نہ سمجھنا کہ میں باپ کے سامنے کھڑا ہو کر تمہیں ملزم ٹھہراؤں گا موسیٰ ہی وہ شخص ہے جو تمہیں ملزم ٹھہرائے گا۔ اور تم غلط فہمی میں ان سے امید لگائے بیٹھے ہو۔

46 اگر تم حقیقت میں موسیٰ پر یقین رکھتے ہو تو تمہیں مجھ پر بھی ایمان لا نا چاہئے اسلئے کہ موسیٰ نے میرے بارے میں لکھا ہے۔

47 تمہیں اس کا یقین نہیں کہ موسیٰ نے کیا لکھا ہے اسلئے جو میں کہتا ہوں ان چیزوں کے متعلق تم کیسے یقین کرو گے ؟

 

باب : 6

 

1 اس کے بعد یسوع گلیل کی جھیل کے اس پار پہونچے۔

2 کئی لوگ یسوع کے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے یسوع کے معجزوں کو دیکھا اور بیماروں کو شفاء بخشتے دیکھا۔

3 یسوع اوپر پہاڑی پر گئے وہ وہاں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔

4 یہودیوں کی فسح کی تقریب کا دن قریب تھا۔

5 یسوع نے دیکھا کہ کئی لوگ ان کی جانب آ رہے ہیں۔ یسوع نے فلپ سے کہا،ہم اتنے لوگوں کے لئے کہاں سے روٹی خرید سکتے ہیں تا کہ سب کھا سکیں ؟

6 یسوع نے فلپ سے یہ بات اس کو آزمانے کے لئے کہی یسوع کو پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ کیا ترکیب سوچ رکھے ہیں۔

7 فلپ نے جواب دیا،ہم سب کو ایک مہینہ تک کچھ کام کرنا چاہئے تا کہ ہر ایک کو کھا نے کے لئے روٹی حاصل ہو سکے اور انہیں کم سے کم کچھ غذا میسّر ہو۔

8 دوسرا ساتھی اندر یاس تھا جو سائمن پطرس کا بھا ئی تھا اندریاس نے کہا۔

9، یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑے اور دو مچھلیاں ہیں لیکن یہ ان سب کے لئے کا فی نہیں ہو گا۔

10 یسوع نے کہا، لوگوں سے کہو کہ بیٹھ جائیں۔ وہاں اس مقام پر کافی گھاس تھی وہاں ۵۰۰۰ آدمی تھے اور وہ سب بیٹھ گئے۔

11 تب یسوع نے روٹی کے ٹکڑے لئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیا اسی طرح مچھلی بھی دی اس نے ان کو جتنا چاہئے تھا اتنا دیا۔

12 سب لوگ سیر ہو کر کھا چکے جب وہ لوگ کھا چکے تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، بچے ہوئے ٹکڑوں کو جمع کرو اور کچھ بھی ضائع نہ کرو۔

13 اس طرح شاگردوں نے تمام ٹکڑوں کو جمع کیا اور ان لوگوں نے بارلی کی روٹی کے پانچ ٹکڑوں سے ہی کھانا شروع کیا اور ان کے ساتھیوں نے تقریباً بارہ ٹوکریوں میں ٹکڑے جمع کئے۔

14 لوگوں نے یہ معجزہ دیکھا جو یسوع نے انہیں بتا یا لوگوں نے کہا، یہی نبی ہے جو عنقریب دنیا میں آنے والے ہیں۔

15 پس یسوع یہ بات معلوم کر کے کہ لوگ اسے آ کر بادشاہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے وہ دوبارہ تنہا پہاڑی کی طرف چلے گئے۔

16 اس رات یسوع کے شاگرد گلیل جھیل کی طرف گئے۔

17 اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا اور یسوع ان کے پاس اب تک واپس نہیں آئے تھے۔اور ان کے شاگرد ایک کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے پاس کفر نحوم جانے لگے۔

18 اس وقت ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔اور جھیل میں زور دار لہریں اٹھ رہیں تھیں۔

19 وہ کشتی میں تین یا چار میل گئے تب انہوں نے دیکھا کہ یسوع پانی پر چل رہے تھے اور کشتی کی طرف آ رہے تھے اور یہ دیکھ کر ان کے شاگرد ڈر گئے۔

20 لیکن یسوع نے ان سے کہا، ڈرو مت یہ میں ہوں۔

21 اتنا سن کر ان کے ساتھی بہت خوش ہوئے اور یسوع کو کشتی میں لے لیا اور کشتی جلد ہی واپس کنا رے آ گئی جہاں وہ جا نا چاہتے تھے۔

22 دوسرے دن لوگ جھیل کے پار جو لوگ ٹھہرے ہوئے تھے انہیں معلوم تھا کہ یسوع کشتی میں اپنے شاگردوں کے ساتھ نہیں گئے بلکہ صرف ان کے شاگرد ہی کشتی میں گئے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ صرف وہی کشتی وہاں تھی۔

23 لیکن جب تبریاس سے چند کشتیاں آئیں اور آ کر وہیں ٹھہریں جہاں ان لوگوں نے گزشتہ دن روٹی کھا ئی تھی اور جہاں خداوند نے شکر ادا کیا تھا۔

24 جب لوگوں نے دیکھا کہ یسوع اور ان کے ساتھی اس وقت وہاں نہیں تھے، تو لوگ کشتی میں سوار ہو کر کفر نحوم کی جانب روانہ ہوئے تا کہ یسوع سے ملیں۔

25 لوگوں نے دیکھا کہ یسوع جھیل کے دوسری طرف ہے ان لوگوں نے یسوع سے کہا، اے استاد ! آپ یہاں کب آئے ؟

26 یسوع نے جواب دیا، تم لوگ مجھے کیوں تلاش کر رہے ہو۔ کیا تم اسلئے مجھے تلاش کر رہے ہو کہ معجزے دکھا تا پھروں اور اپنی قوت کا مظاہرہ کروں ہرگز نہیں! میں تم سے سچ کہتا ہوں تم مجھے اس لئے تلاش کر رہے ہو تم لوگ پیٹ بھر روٹی کھا کر تسّلی کرو۔

27 دنیا کی غذائیں خراب اور تباہ ہو جانے والی ہیں۔لہذا ایسی غذا کو مت حاصل کرو بلکہ ایسی غذا کو تلاش کرو جو ہمیشہ اچھی ہو اور تمہیں ابدی زندگی دے سکے ابن آدم ہی تم کو ایسی غذا دے گا خدا جو باپ ہے وہ یہ ظاہر کر چکا ہے کہ وہ ابن آدم کے ساتھ ہے۔

28 لوگوں نے یسوع سے پوچھا، ہمیں کیا کرنا چاہئے تا کہ خدا کا کام جو وہ چاہتا ہے کر سکیں ؟

29 یسوع نے کہا، خدا تم سے یہی چاہتا ہے کہ اس نے جس کو بھیجا ہے اس پر ایمان لاؤ۔

30 لوگوں نے کہا، تم کیا معجزہ دکھا ؤ گے تا کہ یہ ثا بت ہو جائے کہ تم ہی وہ ہو جسے خدا نے بھیجا ہے۔ ایسا کو ئی معجزہ تم دکھا ؤ تب ہی ہم تمہارا یقین کریں گے کہ تم کیا کرو گے۔

31 ہما رے آباء و اجداد کو خدا نے ریگستان میں منّ ( کھا نے کی نعمتیں) عطا کی تھی اور یہ صحیفوں میں لکھا ہے اور خدا انہیں کھا نے کے لئے جنت سے روٹی بھیجواتا تھا۔

32 یسوع نے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک موسیٰ ہی نہیں تھے جو تمہارے لوگوں کے لئے آسمان سے روٹی لا یا کرتے تھے در اصل وہ میرا باپ ہے جو تم لوگوں کو آسمان سے روٹی دیتا ہے۔

33 خدا کی روٹی کیا ہے ؟ جو روٹی خدا دیتا ہے وہ وہی ہے جو آسمان سے آ کر دنیا کو اپنی زندگی دیتی ہے۔

34 لوگوں نے کہا، جناب تو یہ روٹی ہمیشہ کے لئے دلائیں۔

35 تب یسوع نے کہا، میں ہی وہ روٹی ہوں جو زندگی دیتی ہے۔جو بھی میرے پاس آتا ہے۔ وہ کبھی بھو کا نہیں رہے گا۔ اور جو مجھ پر ایمان لا یا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔

36 میں تم سے بھی یہ پہلے ہی کہہ چکا ہوں تم مجھے دیکھ چکے ہو لیکن تم کو اب تک یقین نہیں آ رہا ہے۔

37 میرا باپ میرے لوگوں کے پاس بھیجتا ہے ہر ایک شخص میرے پاس آتا ہے جو بھی میرے پاس آتا ہے میں اسے قبول کرتا ہوں۔

38 میں آسمان سے آیا ہوں اور اپنی مرضی پو ری کر نے کے لئے نہیں آیا بلکہ خدا کی مرضی کے مطابق کر نے کے لئے آیا ہوں۔

39 مجھے ان لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں کھونا چاہئے جن کو خدا نے میرے پاس بھیجا ہے اور ان کو میں آخرت کے دن زندہ اٹھاؤں گا اور یہی کچھ وہ مجھ سے چاہتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔

40 ہر آدمی جو بیٹے کو دیکھتا ہے اور اس پر ایمان لا تا ہے اس کو ابدی زندگی حا صل ہو تی ہے اور اسی آدمی کو میں آخرت کے دن زندہ اٹھاؤں گا، اور یہی میرا باپ چاہتا ہے۔

41 یہودیوں نے یسوع کے متعلق شکایت کرنی شروع کر دی کیوں کہ اس نے کہا، تھا میں روٹی ہوں جو خدا کی طرف سے آسمان سے آیا ہوں۔

42 یہودیوں نے کہا، یہ یسوع ہے ہم اس کے باپ اور ماں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔یسوع تو یوسف کا بیٹا ہے اس لئے وہ اب ایسا کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں آسمان سے آیا ہوں؟

43 لیکن یسوع نے کہا، ایک دوسرے سے شکایت کرنی بند کرو۔

44 باپ وہی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور لوگوں کو میرے پاس لاتا ہے جنہیں آخرت کے دن اٹھاؤں گا اگر باپ کسی کو میرے پاس نہ لائے تو ایسا آدمی میرے پاس نہیں آ سکتا۔

45 یہ بات نبیوں نے لکھی ہے، خدا تمام لوگوں کو تعلیم دیتا ہے اور لوگ جو باپ سے سن کر سیکھتے ہیں وہ میرے پاس آتے ہیں۔،

46 میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ہر کسی نے باپ کو نہیں دیکھا ہے سوائے اس آدمی کے جو باپ کی طرف سے آیا ہے۔

47 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو شخص مجھ پر ایمان لا تا ہے وہی ابدی زندگی پا سکتا ہے۔

48 میں وہ روٹی ہوں جو حیات بخشتی ہے۔

49 تمہارے آبا ء و اجداد نے ریگستان میں منّ کھایا لیکن وہ فوت ہو گئے۔

50 میں وہ روٹی ہوں جو آسمان سے آئی ہے اور جو یہ روٹی کھائے گا وہ کبھی نہیں مرے گا۔

51 میں حیات کی روٹی ہوں جو آسمان سے آئی ہے اور جس نے اس کو استعمال کیا اس نے ہمیشہ کی زندگی پا ئی ہے یہ روٹی جو میں دیتا ہوں میرا جسم ہے میں یہ جسم دوں گا تا کہ لو گ اس دنیا میں زندگی پا سکیں۔

52 اس پر یہودیوں نے آپس میں بحث و مباحثہ شروع کیا اور کہا، یہ شخص کس طرح اپنا جسم ہمیں کھا نے کو دے گا ؟

53 یسوع نے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہیں ابن آدم کے جسم کو کھا نا چاہئے اور اس کے خون کو پینا چاہئے۔اگر تم ایسا نہیں کرتے ہو تو تمہیں حقیقی زندگی نصیب نہیں ہو گی۔

54 جس نے میرے جسم کو غذا بنائی اور خون کو پیا اس نے لا فانی زندگی پا ئی اور ایسے آدمی کو میں آخرت کے دن اٹھاؤں گا۔

55 میرا جسم اور خون سچی مشروب ہے۔

56 اور جو میرا جسم کھا تا ہے اور خون پیتا ہے ایسا آدمی میں ہوں اور مجھ میں وہ رہتا ہے۔

57 باپ نے مجھے بھیجا اور میں باپ کی وجہ سے رہتا ہوں۔ اسی طرح جو مجھے غذا کے طور پر استعمال کریں گے میری وجہ سے وہ رہیں گے۔

58 میں اس روٹی کی ما نند نہیں ہوں جو ہما رے آباء و اجداد نے ریگستان میں کھا ئی تھی حالانکہ وہ کھاتے تھے مگر اوروں کی طرح انہیں بھی موت آئی۔ میں وہ روٹی ہوں جو آسمان سے آ ئی ہے اور جس نے اس روٹی کو کھایا کیا اس نے حقیقی زندگی پائی۔؟

59 یسوع نے یہ تمام باتیں اس وقت کہیں جب کفر نحوم میں یہودی عبادت گاہ میں لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے۔

60 کئی شاگردوں نے یسوع کی تعلیمات کو سنا اور سن کر کہا، یہ تعلیم تو بہت مشکل ہے اس کو کون قبول کرے گا ؟۔

61 یسوع اچھی طرح جان گیا کہ یہ شاگرد اس کے متعلق شکایت کر رہے ہیں۔ تب یسوع نے کہا کیا تم میری تعلیمات کی وجہ سے پریشان ہو؟

62 اگر تم ابن آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا تو کیا ہو گا ؟

63 یہ جسم کچھ بھی نہیں حا صل کر سکتا۔یہ تو روح ہے۔ جو انسان کو زندگی بخشتی ہے۔اور یہی باتیں جو میں نے کہی ہیں وہ روح کی ہیں جو تمہیں زندگی دیتی ہیں۔

64 لیکن تم میں سے کچھ لوگ ان باتوں کا یقین نہیں کرو گے۔کیوں کہ یسوع نے جان لیا کہ کون یقین نہیں کر رہا ہے۔اور اس بات کو وہ شروع سے ہی جان گیا تھا کہ کون انہیں دھو کا دے گا۔

65 یسوع نے کہا، جس آدمی کو با پ نہ بھیجے وہ آدمی میرے پاس نہیں آ سکتا۔

66 جب یسوع نے یہ باتیں کہیں اس کے بہت سے شاگردوں نے اسے چھوڑ دیا۔وہ یسوع کی باتوں پرعمل کرنا چھوڑ دیا۔

67 یسوع نے اپنے بارہ رسولوں سے یہ بھی پوچھا، کیا تم بھی مجھے چھوڑنا چاہتے ہو؟

68 سائمن پطرس نے یسوع سے کہا،، خداوند ہم کہاں جا سکتے ہیں آپ کے پاس کلام ہے جو ہمیں ہمیشہ کی زند گی دے سکتا ہے۔

69 ہم کو آپ پر عقیدہ ہے ہم جانتے ہیں کہ آپ ہی وہ مقدس ہستی ہیں جو خدا کی طرف سے ہیں۔

70 تب یسوع نے کہا، میں تم بارہ کو منتخب کرتا ہوں لیکن تم میں ایک شیطان ہے۔

71 یہ بات یسوع نے یہوداہ کے متعلق کہی تھی جو سائمن اسکریوتی کا بیٹا تھا۔ یہوداہ بارہ مریدوں میں سے ایک تھا لیکن بعد میں یسوع کا مخالف ہو گیا۔

 

باب : 7

 

1 اس کے بعد یسوع نے ملک گلیل کے اطراف میں سفر کئے یسوع یہوداہ میں سفر کرنا نہیں چاہتے تھے کیوں کہ وہاں کے یہودی اسے قتل کر نے کی کوشش میں تھے۔

2 اور یہودیوں کی پناہوں کی تقریب قریب تھی۔

3 تب یسوع کے بھا ئیوں نے کہا، تو یہ جگہ چھوڑ کر یہوداہ چلے جا تا کہ جو معجزہ تو دکھا تا ہے وہ تمہارے شاگرد بھی دیکھیں۔

4 اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ لوگوں میں پہچانا جائے تو پھر ایسے شخص کو جو کچھ وہ کرتا ہے چھپا نا نہیں چاہئے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ظاہر کرو تاکہ وہ سب تمہارے معجزے دیکھ سکیں۔

5 حتیٰ کہ یسوع کے بھا ئی کو بھی ان پر یقین نہیں تھا۔

6 یسوع نے اپنے بھا ئیوں سے کہا، ابھی میرے لئے صحیح وقت نہیں آیا لیکن کو ئی بھی وقت تمہارے جانے کے لئے مناسب ہے۔

7 دنیا تم سے نفرت نہیں کر سکتی وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے کیوں کہ میں ان کو ان کی برائیاں بتا تا ہوں جو وہ کرتے ہیں۔

8 اس لئے تم تقریب کے موقع پر جاؤ میں اس بار تقریب پر نہیں آؤں گا کیوں کہ ابھی میرے لئے صحیح موقع نہیں آیا۔

9 یہ سب کچھ کہنے کے بعد یسوع نے گلیل میں قیام کیا۔

10 اسلئے یسوع کے بھائیوں نے ان کے کہنے کے مطابق تقریب کے موقع پر جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ان کے جانے کے بعد یسوع بھی وہاں چلے گئے اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا۔بلکہ پوشیدہ ہو گئے۔

11 تقریب کے موقع پر یہودی یسوع کی تلاش میں تھے کہہ رہے تھے کہ وہ کہاں ہے ؟

12 وہاں ایک بڑا گروہ لوگوں کا تھا جو خفیہ طور پر یسوع کے بارے میں ہی باتیں کر رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا، یسوع ایک اچھا آدمی ہے، لیکن دوسروں نے کہا، نہیں وہ لوگوں کو بے وقوف بنا تا ہے۔

13 لیکن کسی نے بھی کھلے طور پر یسوع کے سامنے ایسا نہیں کہا کیوں کہ لوگ یہودی قائدین سے ڈرتے تھے۔

14 تقریب لگ بھگ آدھی ختم ہو چکی تھی تب یسوع عبادت گاہ میں داخل ہوا اور تعلیم شروع کی۔

15 یہودی بڑے حیران ہوئے انہوں نے کہا، یہ شخص تو اسکول میں نہیں پڑھا پھر اتنا سب کچھ اس نے کس طرح سیکھا ؟۔

16 یسوع نے جواب دیا، جو کچھ میں تعلیم دیتا ہوں وہ میری اپنی نہیں میری تعلیمات اس کی طرف سے آتی ہیں جس نے مجھے بھیجا ہے۔

17 اگر کو ئی یہ چاہے کہ وہ وہی کرے جو خدا چاہتا ہے تب وہ جان جائے گا کہ میری تعلیمات خدا کی طرف سے ہیں۔وہ لوگ جان جائیں گے کہ یہ تعلیمات میری اپنی نہیں ہیں۔

18 کوئی شخص جو اپنے خیالات لوگوں کو بتا تا ہے گویا وہ اپنی عزت بڑھا نے کے لئے کر تا ہے اگر چہ کو ئی شخص جو اس کی عزت بڑھا نے کی کو شش کرے جس نے اس کو بھیجا ہے تو ایسا شخص قابل بھروسہ سچّا ہے۔ اور اس میں کو ئی جھو ٹ نہیں ہے۔

19 کیا موسیٰ نے تم کو شریعت نہیں دی ؟لیکن تم میں سے کسی نے اس کی فرماں برداری نہیں کی تم لوگ مجھے کیوں مارنا چاہتے ہو ؟

20 لوگوں نے جواب دیا، ایک خبیث تم میں آیا ہے اور تمہیں دیوانہ کر دیا ہے ہم تمہیں مار نے کی کو شش نہیں کر رہے ہیں؟

21 یسوع نے کہا، میں نے ایک معجزہ کیا اور تم سب حیران ہوئے۔

22 موسیٰ نے تمہیں ختنہ کر نے کا قانون دیا لیکن حقیقت میں موسیٰ نے تمہیں ختنہ نہیں کر وایا ختنہ کا طریقہ ہم لوگوں سے آیا جو موسیٰ سے قبل رہے تھے اس لئے کبھی تم لوگ بچے کی ختنہ سبت کے دن بھی کرتے ہو۔

23 اس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ ایک آدمی سبت کے دن ختنہ کر کے موسیٰ کی شریعت کو پورا کرتا ہے اور اگر میں سبت کے دن کسی کو شفاء دیتا ہوں تو پھر کیوں غصہ کرتے ہو ؟

24 اس قسم کا محاسبہ (جانچنے کا طریقہ )چھوڑ دو راستی سے ہر چیز کا محاسبہ کرو کہ سچ کیا ہے۔

25 تب کچھ لوگوں نے جو یروشلم میں رہتے تھے کہا، یہی وہ شخص ہے جسے مار ڈالنے کے کو شش کی جا رہی ہے؟

26 لیکن وہ اس جگہ تعلیمات دیتا ہے جہاں اس کو ہر کو ئی دیکھ اور سن سکے۔ مگر کسی نے اس کو تعلیمات دینے سے نہیں رو کا۔ ہو سکتا ہے کہ قائدین نے فیصلہ کیا ہو کہ وہ حقیقت میں مسیح ہے۔

27 لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا مکان کہاں ہے اور حقیقی مسیح جب آئے گا کو ئی نہ جانے گا کہ وہ کہاں سے آئے گا۔

28 یسوع اس وقت بھی ہیکل میں تعلیمات دے رہے تھے اس نے کہا، ہاں تم مجھے جانتے ہو اور یہ بھی جا نتے ہو کہ میں کہاں سے آ یا ہوں لیکن میں اپنی مرضی سے نہیں آیا میں تو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں جو سچاّ ہے تم اس کو نہیں جانتے۔

29، لیکن میں اسے جانتا ہوں کیوں کہ میں اس سے ہوں اور اسی نے مجھے بھیجا ہے۔

30 جب یسوع نے یہ سب کہا تو لوگوں نے یسوع کو پکڑ نے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی یسوع کو چھونے تک کے لائق نہ تھا۔اسلئے کہ یسوع کو قتل کر نے کا ابھی صحیح وقت آیا ہی نہیں تھا

31 لیکن بہت سا رے آدمی یسوع پر ایمان لا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا ہم اب بھی یسوع کے منتظر ہیں کہ وہ آئے جب وہ آئے گا تو کیا اور معجزے دکھائے گا ؟بہ نسبت اس آدمی کے جو دکھا یا تھا۔نہیں! یہی آدمی مسیح ہے۔

32 فر یسیوں نے یسوع کے بارے میں ان باتوں کو کہتے ہوئے سنا۔ اس لئے کاہنوں کے رہنما نے اور فریسیوں نے ہیکل کے حفاظتی دستہ کو یسوع کی گرفتاری کے لئے بھیجا۔

33 تب یسوع نے کہا، میں کچھ دیر تم لوگوں کے ساتھ رہوں گا اس کے بعد میں اس کے پاس جاؤں گا جس نے مجھے بھیجا ہے۔

34 تم مجھے تلا ش کرو گے لیکن مجھے نہیں پا ؤ گے۔ اور میں جہاں بھی ہوں وہاں تم نہیں آسکو گے۔

35 یہودیوں نے ایک دوسرے سے پوچھا، آ خر یہ آدمی کہاں جائے گا جسے ہم نہ پا سکیں گے کیا یہ آدمی یو نان کے شہروں کو جائے گا جہاں ہما رے لوگ رہتے ہیں؟ کیا وہ یونان جائے گا جہاں ہمارے لوگ ہیں۔کیا وہ ہما رے لوگوں کو یونان میں تعلیم دے گا۔

36 یہ آدمی کہتا ہے کہ تم لوگ مجھے تلاش کرو گے لیکن پا نہ سکو گے اور یہ بھی کہتا ہے جہاں میں ہوں وہاں تم نہیں آسکو گے۔ اس کے ایسا کہنے کا کیا مطلب ہے ؟

37 تقریب کا آخر دن جو اہم دن تھا آگیا۔اس دن یسوع نے کھڑے ہو کر لوگوں سے بلند آواز میں کہا، جو بھی پیاسا ہے اس کو میرے پاس آ نے دو کہ اس کی پیاس بجھے۔

38 جو آدمی مجھ پر ایمان لائے گا اس کے دل سے آب حیات بہے گا۔ ایسا صحیفوں میں لکھا ہے۔

39 یسوع نے یہ بات مقدس روح کے بارے میں کہی کیوں کہ یہ روح اب تک نازل نہیں ہو ئی تھی۔ کیوں کہ یسوع کی اب تک موت نہیں ہوئی تھی اور اسے جلا ل کے ساتھ اٹھا یا نہیں گیا تھا۔ لیکن بعد میں جو لوگ یسوع پر ایمان لائے ان پر روح نا زل ہو گی۔

40 جب لوگوں نے یہ باتیں سنی تو کہا، یہ آدمی سچ مچ نبی ہے۔

41 دوسروں نے کہا، یہ مسیح ہے کچھ اور لوگوں نے کہا، مسیح گلیل سے نہیں آئے گا۔

42 صحیفوں میں ہے کہ مسیح داؤد کے خاندان سے ہو گا اور صحیفہ کہتا ہے بیت اللحم سے آئے گا جہاں داؤد رہتا تھا۔

43 اس طرح لوگوں نے یسوع کے متعلق آپس میں کسی بات پر اتفاق نہیں کیا۔

44 کچھ لوگ یسوع کو گرفتار کر نا چاہتے تھے لیکن کوئی بھی ایسا نہ کر سکا۔

45 لہٰذا ہیکل کے حفاظتی دستہ کاہنوں کے رہنما اور کاہنوں و فریسیوں کے پاس واپس گیا اور فریسیوں اور کاہنوں نے پو چھا، تم نے یسوع کو کیوں نہیں پکڑا ؟

46 ہیکل کے حفاظتی دستہ نے جواب دیا، اس نے ایسی باتیں کہیں جو کسی انسان نے آج تک نہیں کہیں۔

47 فریسیوں نے کہا، یسوع نے تمہیں بھی گمراہ کر دیا۔

48 کیا کوئی سردار اس پر ایمان لا یا ہے یا نہیں۔ کیا کوئی فریسیوں میں ایمان لائے ہیں ؟ نہیں۔

49 مگر وہ لوگ جو شریعت سے واقف نہیں وہ خدا کے لعنتی ہیں۔

50 لیکن نیکو دیمس جو ان میں سے تھا اور اس کا تعلق جماعت سے ہی تھا۔ وہی ایک ایسا تھا جو یسوع کو پہلے ہی دیکھ چکا تھا کہا۔

51، ہماری شریعت یہ اجازت نہیں دیتی کہ کسی شخص کو اس وقت تک مجرم نہ مانیں جب تک یہ نہ جان لیں کہ وہ کیا کہتا ہے جب تک ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ اس نے کیا کیا ہے۔

52 یہودی سردار نے کہا، کیا تمہارا تعلق بھی گلیل سے ہے۔ صحیفوں میں تلا ش کرو تب تمہیں معلوم ہو گا کہ کو ئی بھی نبی گلیل سے نہیں آئے گا۔

53 تمام یہودی سردار نکلے اور گھر کو روانہ ہوئے۔

 

باب : 8

 

1 یسوع زیتون کی پہاڑی پر چلے گئے۔

2 صبح سویرے وہ پھر سے ہیکل میں آگیا۔ تمام لوگ یسوع کے پاس جمع ہوئے۔ تب وہ بیٹھ گئے اور لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔

3 شریعت کے استاد اور فریسیوں نے وہاں ایک عورت کو لائے جو زنا کے الزام میں پکڑی گئی۔ اس کو ڈھکیل کر لوگوں کے سا منے کھڑا کیا گیا۔

4 یہودیوں نے کہا، اے استاد یہ عورت زنا کے فعل میں پکڑی گئی ہے۔

5 موسیٰ کی شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس عورت کو جو ایسا گناہ کرے اسے سنگسار کیا جائے۔ اب آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

6 ان لوگوں نے یہ سوال محض اسے آ ز ما نے کے لئے پوچھ رہے تھے تا کہ اس طرح اس کی کوئی غلطی پکڑیں لیکن یسوع نے جھک کر ز مین پر انگلی سے کچھ لکھنا شروع کیا۔

7 تب یہودی سردار یسوع سے اپنے سوال کے متعلق اصرار کر نے لگے تب یسوع اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا، یہاں تم میں کو ئی ایسا آدمی ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو اور ایسا آدمی اگر ہے تو اس عورت کو پتھر مارنے میں پہل کرے۔

8 اور یسوع نے دوبارہ جھک کر زمین پر کچھ لکھا۔

9 یہ سن کر سب کے سب چھوٹے بڑے ایک ایک کر کے وہاں سے کھسکنے لگے یہاں تک کہ یسوع وہاں اکیلا رہ گیا اور وہ عورت بھی وہیں کھڑی رہ گئی۔

10 یسوع دوبارہ کھڑا ہوا اور کہا،اے خاتون وہ تمام لوگ کہاں ہیں؟ کیا کسی نے بھی تجھے مجرم قرار نہیں دیا؟

11 عورت نے جواب دیا، کسی نے بھی کچھ نہیں کہا ؟ تب یسوع نے کہا، میں بھی تم پر الزام کا حکم نہیں لگاتا ہوں۔ تم یہاں سے چلی جا ؤ اور آئندہ کوئی گناہ نہ کرنا۔

12 بعد میں یسوع نے دوبارہ لوگوں سے کہا، میں دنیا کا نور ہوں جو بھی میری پیر وی کرے گا وہ اندھیرے میں نہیں چلے گا۔ بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔

13 لیکن فریسیوں نے یسوع سے پوچھا،تم جب بھی کچھ کہتے ہو تو سب کچھ اپنی گواہی میں کہتے ہو تمہاری گواہی قا بل  قبول نہیں اس لئے ہم اس کو قبول نہیں کرتے۔

14 یسوع نے کہا، ہاں یہ سب کچھ میں اپنے متعلق گواہی میں کہتا ہوں کیوں کہ یہی سچ ہے اور لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کیوں کہ میں جانتا ہوں میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جاؤں گا میں تم لوگوں کی مانند نہیں ہوں تم نہیں جانتے کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جاؤں گا۔

15 تم لوگ اپنی انسانی صلاحیت کے مطابق میرا فیصلہ کرتے ہو۔ میں کسی کا ایسا کوئی فیصلہ نہیں کر تا ہوں جیسا کہ تم کرتے ہو۔

16 اور اگر میں کوئی فیصلہ کروں تو وہ فیصلہ سچاّ ہو گا۔کیوں کہ جب میں کچھ فیصلہ کر تا ہوں تو میں اکیلا نہیں ہوتا۔بلکہ میرا باپ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ بھی میرے ساتھ ہو تا ہے۔

17 تمہاری شریعت یہ کہتی ہے کہ جبد و گواہ کسی کے بارے میں کچھ کہیں تو اس کو سچ مانو اور ان کی گوا ہی کو قبول کرو۔

18 میں اسی طرح انہیں میں سے ایک گواہ ہوں جو اپنی گوا ہی دیتا ہوں اور میرا باپ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ دوسرا گواہ ہے۔

19 لوگوں نے پوچھا، تمہارا باپ کہاں ہے ؟ یسوع نے جواب دیا، تم نہ مجھے جانتے ہو اور نہ ہی میرے باپ کو جب تم لوگ مجھے جان جاؤ گے تب میرے باپ کو بھی جان جا ؤ گے۔

20 یسوع یہ سا ری باتیں ہیکل میں تعلیم دیتے ہوئے کہہ رہے تھیاس وقت وہ بیت المال کے قریب تھے اور کسی نے اس کو پکڑا نہیں کیوں کہ اس کا وقت نہیں آیا تھا۔

21 دوبارہ یسوع نے لوگوں سے کہا، میں تمہیں چھوڑ جا تا ہوں اور تم مجھے ڈھونڈتے رہو گے اور اپنے گنا ہوں میں ہی مرو گے تم وہاں نہیں آسکتے جہاں میں جا رہا ہوں۔

22 پھر یہودیوں نے آپس میں کہا، کیا یسوع اپنے آپ کو مار ڈالے گا ؟ کیوں کہ اسی لئے اس نے کہا جہاں میں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں آ سکتے۔

23 لیکن یسوع نے ان یہودیوں سے کہا تم لوگ نیچے کے ہو اور میں اوپر کا ہوں۔ تم اس دنیا سے تعلق رکھتے ہو لیکن میں اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتا۔

24 میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ تم اپنے گنا ہوں کے ساتھ مرو گے۔یقیناً تم اپنے گنا ہوں کے ساتھ مرو گے اگر تم نے ایمان نہیں لا یا کہ میں وہی ہوں۔

25 تب یہودیوں نے پوچھا، پھر تم کون ہو ؟یسوع نے جواب دیا، میں وہی ہوں جو شروع سے تم سے کہتا آیا ہوں۔

26 مجھے تمہارے بارے میں بہت کچھ کہنا ہے اور فیصلہ کر نا ہے لیکن میں لوگوں سے وہی کہتا ہوں جو میں نے اس سے سنا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور وہ سچ کہتا ہے۔

27 لوگ سمجھے نہیں کہ یسوع کس کے متعلق کہہ رہے ہیں۔ یسوع ان سے باپ کے متعلق کہہ رہا تھا۔

28 اسی لئے لوگوں نے یسوع سے کہا، تم لوگ ابن آدم کو اوپر بھیجو گے تب تمہیں معلوم ہو گا میں وہی ہوں۔ جو کچھ میں کرتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کرتا ہوں بلکہ جو کچھ مجھے باپ نے سکھا یا وہی کہتا ہوں۔

29 اور جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے میں وہی کر تا ہوں۔ جس سے وہ خوش ہو اسی لئے اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔

30 جب یسوع یہ باتیں کہہ رہے تھے تو کئی لوگ اس پر ایمان لائے۔

31 یسوع نے ان یہودیوں سے جو اس پر ایمان لائے تھے کہا، اگر تم لوگ میری تعلیمات پر قائم رہو تو حقیقت میں میرے شاگرد ہو گے۔

32، تب ہی تم سچا ئی کو جان لو گے اور یہ سچا ئی ہی تمہیں آزاد کرے گی۔

33 یہودیوں نے جواب دیا، ہم ابراہیم کے لوگ ہیں اور کسی کی بھی غلا می میں نہیں رہے اور تم یہ کیوں کہتے ہو کہ آ زاد ہو جاؤ گے۔

34 یسوع نے جواب دیا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ہر وہ آدمی جو گناہ کر تا ہے غلام ہے گناہ اس کا آقا ہے

35 ایک غلام اپنے خاندان کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہ سکتا لیکن ایک بیٹا اپنے خاندان کے ساتھ ہمیشہ رہ سکتا ہے۔

36 اس لئے اگر بیٹا تم کو آزاد کرتا ہے تو تم حقیقت میں آزاد ہو۔

37 میں جانتا ہوں کہ تم لوگ ابراہیم کی نسل سے ہو تم لوگ مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو کیوں کہ تم لوگ میری تعلیم پر عمل کر نا نہیں چاہتے۔

38 میں تم لوگوں سے وہی کہتا ہوں جسے میرے باپ نے مجھے دکھا یا ہے۔ لیکن تم صرف وہ کرتے ہو جو تم نے تمہارے باپ سے سنا ہے۔

39 یہودیوں نے کہا، ہما را باپ ابراہیم ہے۔ یسوع نے کہا، اگر تم حقیقت میں ابراہیم کے بیٹے ہو تو وہی کرو گے جو ابرا ہیم نے کیا۔

40 میں وہی آدمی ہوں جس نے تم سے سچ کہا ہے جو اس نے خدا سے سنا: لیکن تم لوگ میری جان لینا چاہتے ہو اور ابراہیم نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا۔

41 اور جو تم کر رہے ہو وہ ایسا ہے جیسا کہ تمہارے باپ نے کیا ہے۔ لیکن یہودیوں نے کہا، ہم ایسے بچے نہیں جنہیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہما را باپ کون ہے ہما را ایک باپ ہے یعنی خدا۔

42 یسوع نے ان یہودیوں سے کہا،اگر خدا ہی حقیقت میں تمہارا باپ ہے تو تم لوگ مجھ سے بھی محبت رکھتے کیوں کہ میں خدا ہی کی طرف سے آیا ہوں اور اب میں یہاں ہوں اور میں اپنے آپ سے نہیں آیا بلکہ خدا نے مجھے بھیجا ہے۔

43 تم یہ باتیں جو میں کہتا ہوں نہیں سمجھتے کیوں کہ تم میری تعلیم کو قبول نہیں کر تے۔

44 شیطان ابلیس تمہارا باپ ہے اور تم اس کے ہو اور اپنے باپ کی خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہو ابلیس شروع سے ہی قاتل ہے کیوں کہ وہ سچا ئی کا مخالف ہے اس میں سچا ئی نہیں وہ جو کہتا ہے جھوٹ کہتا ہے ابلیس جھوٹا ہے اور جھوٹوں کا باپ ہے۔

45 میں سچ کہتا ہوں اس لئے تم مجھ پر یقین نہیں کرتے۔

46 تم میں سے کون ہے جو میرے گناہ کو ثا بت کرے؟ اگر میں سچ کہتا ہوں تو تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے ؟۔

47 وہ جو خدا کا ہو تا ہے وہ خدا کی سنتا ہے لیکن تم خدا کے نہیں ہو اور یہی وجہ ہے کہ تم خدا کو نہیں مان تے۔

48 یہودیوں نے کہا، ہمارا کہنا یہ ہے کہ تم سامری ہو اور یہ کہ تم پر بد روح کا اثر ہے جو تمہیں پا گل کر چکی ہے، کیا ہمارا ایسا کہنا سچ نہیں؟

49 یسوع نے جواب دیا، مجھ میں کو ئی بد روح نہیں میں اپنے باپ کی عزت کرتا ہوں لیکن تم لوگ میری عزت نہیں کر تے۔

50 میں اپنی بزرگی نہیں چاہتا ہاں ایک وہ ہے جو مجھے بزرگی دینا چاہتا ہے وہی ایک ہے جو فیصلہ کرے گا۔

51 میں سچ کہتا ہوں اگر کوئی آدمی میری تعلیمات کی اطاعت کرتا ہے تو وہ کبھی نہیں مرے گا۔

52 یہودیوں نے یسوع سے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ تجھ میں بد روح ہے حتیٰ کے ابراہیم اور دوسرے نبی بھی مر گئے لیکن تم کہتے ہو کہ جس نے تمہاری تعلیمات کی اطاعت کی وہ کبھی نہ مرے گا

53 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ہما رے باپ ابراہیم سے زیادہ عظیم ہو ابراہیم کا اور دوسرے نبیوں کا بھی انتقال ہوا!تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو ؟۔

54 یسوع نے جواب دیا، اگر میں اپنے آپ کی عزت کروں تو میری عزت کچھ بھی نہیں۔ وہ جو عزت دیتا ہے وہ میرا باپ ہے اور جسے تم کہتے ہو کہ وہ تمہارا خدا ہے۔

55 لیکن حقیقت میں تم ا سے نہیں جانتے اور میں اسے جانتا ہوں اگر میں کہوں کہ اسے نہیں جانتا تو میں بھی تمہاری طرح جھوٹا ہوں مگر میں اسے جانتا ہوں اور جو کچھ وہ کہے اس پر عمل کرتا ہوں۔

56 تمہارا باپ ابراہیم میرے آنے کا دن دیکھنے کے لئے بہت خوش تھا چنانچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا۔

57 یہودیوں نے یسوع سے کہا، کیا تم نے ابراہیم کو دیکھا ابھی تو تم پچاس برس کے بھی نہیں ہو۔ اور (تم کہتے ہو ) کہ تم نے ابراہیم کو دیکھا ہے۔

58 یسوع نے جواب دیا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ابراہیم کی پیدائش سے قبل میں ہوں۔

59 جب یسوع نے کہا تو ان لوگوں نے پتھر اٹھا یا تا کہ اس کو مارے لیکن وہ چھپ کر ہیکل سے نکل گیا۔

 

باب : 9

 

1 جب یسوع جا رہے تھے تو اس نے ایک اندھے آدمی کو دیکھا جو پیدائشی اندھا تھا۔

2 یسوع کے شاگردوں نے اس سے پوچھا، اے استاد یہ آدمی پیدائشی اندھا ہے لیکن یہ کس کے گناہ کی سزا ہے کہ وہ اندھا پیدا ہوا ہے کیا اس کے اپنے گناہ میں یا پھر اس کے والدین کے گناہ میں؟

3 یسوع نے جواب دیا،، یہ نہ اس کا گناہ تھا اور نہ ہی اس کے والدین کا یہ اس لئے اندھا پیدا ہوا تھا تا کہ جب میں اس اندھے کو بینا ئی دوں تو لوگ خدا کی طاقت کو جان سکیں۔

4 اب جبکہ یہ دن کا وقت ہے ہمیں اس کے کام کو جا ری رکھنا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے رات آ رہی ہے اور کوئی آدمی رات میں کام نہیں کر سکتا۔

5 اب جبکہ میں دنیا میں ہوں میں دنیا کا نور ہوں۔

6 یسوع نے یہ کہہ کر مٹی پر تھوکا اور اس مٹی کو گوندھا اور اس کو اندھے کی آنکھوں پر لگایا۔

7 یسوع نے اس آدمی سے کہا، جا ؤ اور جا کر شیلوخ (یعنی بھیجا ہوا ) کے حوض میں دھو لے۔ اس طرح وہ حوض میں گیا۔ اس نے دھو یا اور واپس گیا۔ اب وہ دیکھنے کے قابل ہوا۔

8 اس سے پہلے لوگوں نے دیکھا تھا کہ وہ اندھا بھیک مانگا کر تا تھا۔یہ لوگ اور اس اندھے کے پڑو سی نے کہا، دیکھو کیا یہ وہی نہیں جو بھیک مانگا کر تا تھا؟

9 بعض نے کہا، ہاں یہ وہی ہے لیکن کچھ دوسرے لوگوں نے کہا،نہیں یہ وہ اندھا نہیں مگر ایسا دکھا ئی دیتا ہے۔تب اس اندھے نے خود کہا، میں وہی اندھا ہوں جو پہلے اندھا تھا۔

10 لوگوں نے پوچھا، پھر تیری بینا ئی کیسے واپس آ ئی۔ ؟

11 اس آدمی نے کہا، وہ آدمی جسے لوگ یسوع کہتے ہیں اس نے مٹی اور لعاب کو ملا یا اور اس کو میری آنکھوں پر لگایا پھر اس نے کہا کہ میں شیلوخ میں جا کر آنکھیں دھولوں میں نے ویسا ہی کیا اور اب میں دیکھ سکتا ہوں۔

12 لوگوں نے پوچھا، وہ آدمی کہاں ہے؟، اس آدمی نے جواب دیا، میں نہیں جانتا۔

13 تب لوگوں نے اس آدمی کو فریسیوں کے پاس لا یا اور کہا یہی وہ آدمی ہے جو پہلے اندھا تھا۔

14 یسوع نے مٹی اور لعاب کو ملا کر اس کی آنکھوں پر لگایا اور اس کو بینائی واپس دلا یا جس دن یسوع نے یہ کیا وہ سبت کا دن تھا۔

15 فریسیوں نے اس آدمی سے پوچھا، تمہاری بینا ئی کس طرح واپس آئی ؟ اس آدمی نے جواب د یا، یسوع نے میری آنکھوں پر مٹی لگائی اور آنکھیں دھو نے کو کہا جب میں نے آنکھیں دھو لیں تو مجھے بینا ئی مل گئی۔

16 کچھ فریسیوں نے کہا، یہ آدمی سبت کے دن کی پابندی کو نہیں مانتا اس لئے وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ دوسروں نے کہا، لیکن جو آدمی گنہگار ہے وہ معجزہ کیسے کر سکتا ہے یہ یہودی آپس میں ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔

17 یہودیوں کے سردار نے اس آدمی سے دوبارہ پوچھا، اس آدمی نے تمہیں شفاء دی اور تم دیکھ سکتے ہو اس کے با رے میں تم کیا کہتے ہو ؟، اس آدمی نے جواب دیا، وہ نبی ہے۔

18 یہودی اب بھی یقین نہیں کر رہے تھے کہ واقعی اس آدمی کے ساتھ ایسا کو ئی واقعہ ہوا ہے۔ انہیں یہ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ آدمی پہلے اندھا تھا اور اب بینا ہو گیا۔

19 اس لئے انہوں نے اس کے والدین کو بلا کر پو چھا، کیا تمہارا بیٹا اندھا تھا؟ اور کیا تم کہتے ہو کہ وہ پیدائشی اندھا تھا اور اب کس طرح دیکھ سکتا ہے ؟،

20 اس کے والدین نے جواب دیا ہاں یہی ہما را بیٹا ہے اور یہ اندھا ہی پیدا ہوا تھا۔

21 لیکن ہم نہیں جانتے وہ اب کیسے بینا ہو گیا اور اس کو کس نے بینا ئی دی اسی سے پو چھو وہ بالغ ہے وہ اپنے بارے میں کہے گا۔

22 اس کے والدین نے یہودیوں کے سر دار کے ڈر سے ایسا کہا کیوں کہ یہودیوں نے فیصلہ کر لیا تھا جو بھی یسوع کو مسیح ما نے گا اس کو سزا دیں گے اور یہودی سر دار انہیں اپنی یہودی عبا دت گاہ میں داخل نہیں ہو نے دیں گے۔

23 اسی لئے اس کے والدین نے کہا، وہ بالغ ہے اسی سے پو چھو۔

24 چنانچہ یہودی سردار نے دو بارہ اس آدمی کو جو پہلے اندھا تھا بلا یا، اور کہا تو خدا کی حمد کر اور سچ بتا ہم تو جانتے ہیں کہ یہ آدمی گنہگار ہے۔

25 اس آدمی نے جواب دیا،میں یہ نہیں جانتا کہ وہ گنہگار ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ میں پہلے اندھا تھا اب دیکھ سکتا ہوں۔

26 یہودی سردار نے پو چھا، اس نے تمہارے ساتھ کیا کیا اور کس طرح تمہاری آنکھوں کو شفاء دی۔

27 اس آدمی نے کہا، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں لیکن تم لوگ سننا نہیں چاہتے پھر دوبارہ کیوں سننا چاہتے ہو ؟ کیا تم اس کے شاگرد ہو نا چاہتے ہو ؟

28 یہودی سردار اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تم ہی اس کے شاگرد ہو ہم تو موسیٰ کے عقیدت مند ہیں۔

29 ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے کلام کیا تھا ہم نہیں جانتے کہ کہاں سے یہ آدمی آیا ہے ؟

30 تب اس آدمی نے کہا، بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آیا ہے مگر اس نے مجھے بینا ئی دی۔

31 ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خدا گنہگاروں کی نہیں سنتا لیکن خدا ان کی سنتا ہے جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں۔

32 یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے ایسے آدمی کو جو پیدائشی اندھا تھا اس کو بینا ئی دی ہے۔

33 وہ آدمی خدا کی طرف سے آیا ہے اگر وہ خدا کی طرف سے نہیں آیا ہو تا تو وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔

34 یہودی سردار نے کہا، تو خود گنہگار پیدا ہوا ہے تو ہم کو کیا سکھاتا ہے ؟ اور انہوں نے اسے باہر نکال دیا۔

35 یسوع نے سنا کہ یہودی سردار نے اس آدمی کو پھینک دیا اس لئے جب اس نے اسکوپا یا تو پو چھا، کیا تم ابن آدم پر ایمان رکھتے ہو۔ ؟

36 اس آدمی نے پو چھا،ابن آدم کون ہے مجھے بتائیے تا کہ میں اس پر ایمان لاؤں

37 یسوع نے کہا،تم اس کو دیکھ چکے ہو اور جو تجھ سے باتیں کرتا رہا وہی ابن آدم ہے۔

38 اس آدمی نے جواب دیا، اے خداوند ہاں میں ایمان لایا، تب وہ آدمی جھک گیا اور یسوع کی عبادت کر نے لگا۔

39 یسوع نے کہا، میں اس دنیا میں فیصلہ کے لئے آیا ہوں۔میں آیا ہوں تا کہ اندھوں کو بینائی ملے اور جو دیکھ کر بھی نہ سمجھے وہ اندھے رہیں گے۔

40 چند فریسی جو یسوع کے قریب تھے سن کر کہا، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھے ہیں ؟

41 یسوع نے کہا اگر تم حقیقت میں اندھے ہوتے تو گنہگار نہ ہوتے مگر اب یہ کہتے ہو کہ تم دیکھ سکتے ہو تو تم گنہگار ہو۔

 

باب : 10

 

1 یسوع نے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر کوئی آدمی بھیڑ خانہ میں داخل ہو گا وہ دروازہ کے ذریعے آئے گا لیکن وہ کسی اور طرف سے چڑھ کر آئے تو وہ چور ہے جو بھیڑ چرانے آ تا ہے۔

2 لیکن جو دروازہ سے داخل ہو گا وہ چرواہا ہے جو بھیڑوں کا نگہبان ہو گا۔

3 اور دربان اس کے لئے دروازہ کھول دے گا اور وہ چرواہا ہے اور بھیڑیں اپنے چرواہے کی آواز سنتی ہیں وہ اپنی بھیڑوں کو نام سے بلا کر لے جاتا ہے۔

4 جب وہ اپنی تمام بھیڑوں کو باہر نکال لیتا ہے تو وہ ان کے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اس کے پیچھے چلتی ہیں کیوں کہ وہ اس کی آواز کو پہچانتی ہیں۔

5 اور بھیڑیں کسی غیر شخص کے پیچھے جسے وہ نہیں جانتیں نہیں جائیں گی۔ وہ اس غیر آدمی سے دور بھا گے گی کیوں کہ وہ اس کی آواز کو نہیں پہچانتی۔

6 یسوع ان سے یہ قصّہ کہا۔لیکن لوگ سمجھ نہیں سکے کہ اس قصّے کا کیا مطلب ہے۔

7 اس لئے یسوع نے ان سے دو بارہ کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں بھیڑوں کا دروازہ ہوں۔

8 اور جو کوئی مجھ سے پہلے آئے ہیں وہ چور اور ڈاکو تھے اور بھیڑوں نے ان کی آواز نہ سنی۔

9 میں دروازہ ہوں اور جو کوئی میرے ذریعے داخل ہو گا وہی نجات پائے گا اور اندر باہر جا نے کا مستحق ہو گا اور جو کچھ وہ چاہے گا پائے گا۔

10 چور تو چرانے اور مارنے تباہ کر نے کے لئے آتا ہے۔ لیکن میں زندگی دینے کے لئے آیا ہوں جو خوبی اور اچھا ئی سے بھر پور ہے۔

11، میں ایک اچھا چرواہا ہوں اور اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کے لئے اپنی زندگی دیتا ہے۔

12 لیکن مزدور جسے بھیڑوں کی نگہداشت کے لئے اجرت دی جاتی ہے وہ چرواہے سے مختلف ہے۔ اجرت پا نے والا مزدور بھیڑوں کا مالک نہیں ہو تا لہذا جب مزدور یہ دیکھتا ہے کہ بھیڑ یا آ رہا ہے تو وہ بھاگ جا تا ہے اور بھیڑوں کو چھو ڑ دیتا ہے تب بھیڑیا حملہ کرتا ہے اور انہیں منتشر کر دیتا ہے۔

13 وہ مزدور اس لئے بھا گ جاتا ہے کہ وہ صرف ملازم ہے اور اسے بھیڑوں کی فکر نہیں ہو تی۔

14، میں اچھا چرواہا ہوں میں بھیڑوں کو اسی طرح جانتا ہوں جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو اور اسی طرح بھیڑیں بھی مجھے جانتی ہیں میں ان بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں۔

15

16 میری اور بھیڑیں بھی ہیں جو اس بھیڑ خانہ میں نہیں ہیں مجھے ان کو بھی لا نا ہے۔وہ میری آواز سنیں گی آئندہ ایک جھنڈ ہو گا اور ان کا ایک چرواہا ہو گا۔

17 باپ مجھ سے محبت کرتا ہے اس لئے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تا کہ اس کو پھر واپس لے سکوں۔

18 کوئی بھی مجھ سے میری جان چھین نہیں سکتا۔بلکہ میں ہی اسے دیتا ہوں اور ایسا کر نے کا مجھے حق ہے اور اختیار ہے کہ واپس لوں یہ حکم مجھے میرے باپ نے دیا ہے۔

19 ان باتوں پر یہودی آپس میں ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔

20 ان میں سے بہت سے یہودیوں نے کہا، اس میں بد روح آ گئی ہے اور اسے دیوانہ بنا دی ہے کیوں اسے سنیں۔

21 لیکن کچھ یہودیوں نے کہا، ایک آدمی بد روح کے زیر اثر ہو ایسی باتیں نہیں کر سکتا۔کیا ایک بد روح اندھے آدمی کو بینائی دے سکتی ہے کبھی نہیں۔

22 جاڑے کا موسم تھا اور یروشلم میں نذر کی تقریب تھی۔

23 یسوع ہیکل کے سلیمانی برآمدہ میں تھا۔

24 یہودی یسوع کے اطراف جمع تھے اور انہوں نے کہا، کب تک تم ہمیں اپنے بارے میں تنگ کرتے رہو گے ؟اگر تم مسیح ہو تو ہمیں صاف صاف کہہ دو۔

25 یسوع نے جواب دیا میں تو تم سے کہہ چکا ہوں لیکن تم یقین نہیں کرتے میں اپنے باپ کے نام پر معجزہ دکھا تا ہوں وہ معجزے خود میرے گواہ ہیں کہ میں کون ہوں۔

26 لیکن تم لوگ مجھ پر یقین نہیں کرتے کیوں کہ تم میری بھیڑ میں سے نہیں ہو۔

27 میری بھیڑیں میری آواز پہچانتی ہیں میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے ساتھ چلتی ہیں۔

28 میں اپنی بھیڑوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ کبھی بھی ہلاک نہیں ہوں گی اور کو ئی بھی انہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا۔

29 میرا باپ جس نے مجھے بھیڑیں دی ہیں وہ سب سے بڑا ہے۔ کو ئی بھی آدمی میرے باپ کے ہاتھوں سے انہیں نہیں چھین سکتا۔

30 میرا باپ اور ہم ایک ہی ہیں۔

31 یہودیوں نے یسوع کو مار ڈالنے کے لئے پھر پتھّر اٹھائے۔

32 لیکن یسوع نے ان سے دو بارہ کہا، میں نے اپنے باپ کی طرف سے بہت اچھے کام کئے اور وہ تم سب دیکھ چکے ہو اور تم ان اچھے کاموں کی وجہ سے مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو ؟،

33 یہودیوں نے کہا،ہم تمہیں سنگسار کرنا چاہتے ہیں اسلئے نہیں کہ تم نے اچھے کام کئے بلکہ اس لئے کہ تم خدا سے گستاخی کرتے ہو۔ تم تو صرف ایک آدمی ہو لیکن اپنے آپ کو خدا کہتے ہو۔

34 یسوع نے جواب دیا، یہ تمہاری شریعت میں لکھا ہے، میں نے کہا کہ تم دیوتا ہو۔

35 جب کہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور صحیفوں کا باطل ہو نا ممکن نہیں۔

36 تم مجھ سے یہ کیوں کہتے ہو کہ میں خدا کے خلاف کہہ رہا ہوں۔ کیوں کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں میں ہی ایک ایسا ہوں خدا نے مجھے چن کر دنیا میں بھیجا۔

37 اگر میں اپنے باپ کے مقاصد کو پو را نہیں کرتا تو مجھ پر ایمان مت لاؤ۔

38 لیکن اگر میں وہی کروں جسے باپ نے کیا ہے تب تو تمہیں اس پر یقین کرنا چاہئے جو میں کرتا ہوں۔ تم شاید مجھ میں یقین نہیں رکھتے، لیکن جو چیزیں میں کرتا ہوں اس پر تمہیں یقین کر نا چاہئے۔ تب تم جانو گے اور سمجھو گے کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں۔

39 یہودیوں نے دوبارہ یسوع کو گرفتار کر نے کی کوشش کی لیکن یسوع ان کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔

40 یسوع پھر دریائے یردن کے پار چلے گئے جہاں یوحنا بپتسمہ دیا کرتا تھا یسوع نے وہاں قیام کیا۔

41 کئی لوگ یسوع کے پاس آئے اور کہا، یوحنا نے کبھی کو ئی معجزہ نہیں دکھایا اور جو کچھ یوحنا نے اس آدمی کے متعلق کہا وہ سچ ہے۔

42 اور وہاں موجود لوگوں میں کئی لوگ یسوع پر ایمان لائے۔

 

باب : 11

 

1 بیت عنیاہ کے شہر میں ایک لعزر نا می آدمی تھا جو بیمار ہوا یہ وہی شہر تھا جہاں مریم اور اس کی بہن مار تھا رہتی تھیں۔

2 یہ وہی مر یم تھی جس نے خداوند یسوع پر عطر لگا کر اپنے بالوں سے اس کے پاؤں پونچھی تھی۔ لعزر مریم کا بھا ئی تھا جو بیمار تھا۔

3 مریم اور مارتھا نے یسوع کو یہ پیغام بھیجی تھی کہ خداوند تمہارا عزیز دوست لعزر بیمار ہے۔

4 یسوع نے یہ سن کر کہا، یہ بیماری اس کی موت کے لئے نہیں بلکہ یہ بیما ری خدا کا جلا ل ہے تا کہ اس کے ذریعہ خدا کے بیٹے کا جلا ل ظاہر ہو۔

5 یسوع ما رتھا اور اس کی بہن مریم اور لعزر کو عزیز رکھتا تھا۔

6 جب یسوع نے سنا کہ وہ بیمار ہے تو وہ جس جگہ ٹھہرے تھے وہاں مزید دو دن رہے۔

7 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، ہمیں یہوداہ کو وا پس جانا چاہئے۔

8 شاگردوں نے جواب دیا، اے استاد تھوڑی دیر پہلے یہوداہ کے یہودی تو آپ کو سنگسار کر کے مار نا چاہتے تھے۔ اور انہوں نے ایسا کر نے کی کوشش کی ہے اور آپ واپس وہیں جانا چاہتے ہیں۔

9 یسوع نے جواب دیا، دن کے بارہ گھنٹے روشنی رہتی ہے اگر کوئی دن کی روشنی میں چلے تو ٹھو کر سے نہیں گرے گا۔ کیوں کہ وہ دنیا کی روشنی دیکھتا ہے۔

10 لیکن اگر کو ئی رات کوچلے تو وہ ٹھو کر سے گرتا ہے کیوں کہ روشنی نہ ہو نے کی وجہ سے دیکھ نہیں پاتا۔

11 یہ باتیں کہنے کے بعد یسوع نے کہا، ہما را دوست لعزر اس وقت سو رہا ہے۔ لیکن میں وہاں اسے جگا نے کے لئے جا رہا ہوں۔

12 شاگردوں نے کہا، مگر اے خداوند وہ سو رہا ہے تو وہ اچھا ہو گا۔

13 یسوع نے اس کی موت کے بارے میں کہا لیکن شاگردوں نے سمجھا کہ فطری نیند کی با بت کہا ہے۔

14 تب یسوع نے صاف طور سے کہا، لعزر مرگیا۔

15 اور میں اس لئے خوش ہوں کہ میں وہاں نہ تھا میں تمہارے لئے خوش ہوں۔ کیوں کہ اب تم مجھ پر ایمان لا ؤ گے اب ہم اس کے پاس چلیں۔

16 تب تھا مس نے جو توام کہلا تا تھادوسرے شاگردوں سے کہا، ہم بھی یہوداہ جائیں گے اور یسوع کے ساتھ مریں گے۔

17 یسوع بیت عنیاہ پہنچے وہاں جا کر اسے معلوم ہوا کہ لعزر کو مرے ہوئے چار دن ہو گئے اور وہ قبر میں ہے۔

18 بیت عنیاہ یروشلم سے تقریباً دو میل دور تھا۔

19 کئی یہودی مریم اور مار تھا کو اس کے بھائی لعزر کی موت کے واقع پر تسلی دینے یروشلم سے آئے تھے۔

20 مارتھا یسوع کے آنے کی خبر سن کر باہر اس سے ملنے گئی لیکن مریم گھر میں رہی۔

21 مارتھا نے یسوع سے کہا، اے خداوند اگر تم یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مر تا۔

22 اس کے باوجود میں جانتی ہوں کہ جو کچھ بھی تو خدا سے مانگے گا تو وہ تجھے دے گا۔

23 یسوع نے کہا، تمہارا بھا ئی دو بارہ زندہ اٹھے گا۔

24 مارتھا نے کہا میں جانتی ہوں کہ میرا بھا ئی زندہ اٹھے گا جب کہ دوسرے لوگ موت کے بعد اٹھائے جائیں گے۔

25 یسوع نے اس سے کہا، میں ہی حشر ہوں اور زندگی میں ہی ہوں جو لوگ مجھ پر ایمان لائیں گے حا لا نکہ وہ مریں گے مگر پھر بھی زندہ رہیں گے۔

26 اور جو لوگ زندہ رہ کر مجھ پر ایمان لائے کیا وہ سچ مچ میں کبھی نہیں مریں گے۔مارتھا کیا تم اس پر ایمان لا ؤ گی؟

27 مارتھا نے جواب دیا،ہاں اے خداوند! میں ایمان لا تی ہوں کہ تم مسیح ہو، خدا کا بیٹا مسیح جو دنیا میں آنے وا لے تھے۔

28 اتنا کہہ کر مارتھا چلی گئی اور اپنی بہن مریم کو اکیلے لیجا کر کہی، استاد یہاں ہے اور وہ تمہارے بارے میں پو چھ رہے ہیں۔

29 جب مریم نے سنا تو وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہو ئی اور یسوع سے ملنے چلی گئی۔

30 یسوع ابھی گاؤں میں نہیں پہونچے تھے وہ ابھی تک اسی مقام پر تھے جہاں مارتھا اسے ملی تھی۔

31 یہودی جو ابھی تک مریم کے ساتھ گھر میں تھے اور اس کو تسلّی دے رہے تھے انہوں نے دیکھا مریم جلدی سے اٹھی اور گھر کے باہر چلی گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ وہ لعزر کی قبر کی طرف جا رہی ہے اور وہاں جا کر روئے گی اسلئے وہ اس کے پیچھے چلے۔

32 مریم اس مقام تک گئی جہاں یسوع تھے جب اس نے یسوع کو دیکھا، اس کی قدم بوسی کی اور کہا،خداوند اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھا ئی نہ مرتا۔

33 یسوع نے دیکھا مریم رو رہی تھی اور جو یہودی اس کے ساتھ آئے تھے وہ بھی رو رہے تھے۔ یسوع اپنے دل میں بہت رنجیدہ ہوا وہ پریشان ہو گئے۔

34 یسوع نے پو چھا،تم نے لعزر کو کہاں رکھا ہے؟ انہوں نے کہا اے خداوند! آئیے اور دیکھئے۔

35 یسوع روئے۔

36 یہودیوں نے کہا، دیکھو !یسوع لعزر کو بہت چاہتا تھا۔

37 لیکن چند یہودیوں نے کہا، یسوع نے اندھے کو بینائی دی۔ پھر لعزر کو کچھ نہ کچھ کر کے اس کو مر نے سے کیوں نہیں روکا ؟

38 یسوع پھر رنجیدہ ہو گئے۔ یسوع لعزر کے قبر پر آیا۔ یہ ایک غار تھا اور پتھر سے ڈھکا ہوا تھا۔

39 یسوع نے کہا، پتھر کو ہٹائے مارتھا نے کہا، لیکن اے خداوند لعزر کو مرے ہوئے چار دن ہو گئے اور اس سے بد بو آ رہی ہے۔ مارتھا مرے ہوئے لعزر کی بہن تھی۔

40 یسوع نے مارتھا سے کہا، یاد کرو میں نے تم سے کیا کہا تھا میں نے کہا تھا اگر تم ایمان لاؤ گی تو خدا کا جلال دیکھو گی۔

41 تب انہوں نے غار کے داخلہ کا پتھر ہٹایا تب یسوع نے دیکھ کر کہا، اے باپ میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے میری سن لی۔

42 میں جانتا ہوں کہ تو ہمیشہ میری سنتا ہے مگر میں نے یہ اس لئے کہا کہ آس پاس جو لوگ کھڑے ہیں اور وہ ایمان لے آئیں اس بات پر کہ تو نے مجھے بھیجا ہے۔

43 اتنا کہہ کر یسوع نے بلند آواز سے پکا رے، لعزر باہر نکل آ،

44 مردہ شخص باہر آیا اس کے ہاتھ پاؤں کفن میں لپٹے ہوئے تھے اس کا چہرہ رومال سے ڈھکا ہوا تھا۔

45 وہاں کئی یہودی تھے جو مریم سے ملنے آئے تھے۔ جنہوں نے یسوع کا کارنامہ دیکھا تو ایمان لائے۔

46 ان میں سے چند یہودی فریسیوں کے پاس گئے اور جو کچھ دیکھا وہ سب کہا۔

47 تب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا،ہمیں کیا کرنا ہو گا یہ آدمی تو کئی معجزے دکھا رہا ہے۔

48 اگر ہم خاموش رہیں اور اسے اسی طرح کرنے دیں گے تو سب لوگ جو اس پر ایمان لائیں گے پھر روم کے لوگ آ کر ہماری قوم اور ہیکل کو تباہ کر دیں گے،۔

49 ان میں سے کائفا نامی شخص نے جو اس سال اعلیٰ کاہن تھا کہا، تم لوگ کچھ نہیں جانتے۔

50 بہتر ہے کہ تم میں سے ایک آدمی قوم کے واسطے مر جائے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو لیکن تم لوگ یہ نہیں سمجھتے۔

51 کائفا نے خود نہیں سوچا۔ وہ اس سال اعلیٰ کاہن تھا اور اسی لئے وہ پیشین گوئی کر رہا تھا کہ یسوع یہودی قوم کے لئے مریں گے۔

52 ہاں یسوع یہودی قوم کے لئے جان دیں گے۔ وہ خدا کے دوسرے فرزندوں کے لئے بھی مریں گے جو ساری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ وہ ان سبھوں کو جمع کر کے ایک بنانے کے لئے مریں گے۔

53 اس دن سے یہودی سردار نے منصوبہ ترتیب دینا شروع کیا کہ کس طرح یسوع کو قتل کریں۔

54 اس وجہ سے یسوع اعلانیہ طور پر ان لوگوں کے ساتھ سفر کرنا ترک کیا۔یسوع یروشلم سے روانہ ہو کر ریگستان کے قریب ایک جگہ ٹھہر گئے اس کا نام ا فرائم تھا وہاں یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ ٹھہرے رہے۔

55 ان دنوں یہودیوں کی فسح کی تقریب قریب تھی کئی لوگ فسح سے پہلے یروشلم گئے تا کہ اپنے آپ کو پاک کر لیں۔

56 لوگ یسوع کو تلاش کر رہے تھے وہ ہیکل میں کھڑے ہوئے تھے اور آپس میں ایک دوسرے سے پو چھ رہے تھے کہ تم کیا سمجھتے ہو کیا وہ تقریب پر آئیں گے ؟

57 لیکن سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یسوع کے متعلق ایک خاص حکم جاری کیا انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو پتہ چل جائے کہ یسوع کہاں ہے تو اس کی اطلاع دینی چاہئے تا کہ سبھی سردار کاہن اور فریسی اس کو گرفتار کر سکیں۔

 

باب : 12

 

1 فسح کی تقریب سے چھ دن پہلے یسوع بیت عنیاہ گئے جہاں لعزر رہتا تھا اور جس کو یسوع نے موت سے زندہ کیا تھا۔

2 بیت عنیاہ میں ان لوگوں نے یسوع کے لئے شام کا کھا نا تیار کیا اور ما تھا خدمت میں تھی لعزر ان میں شامل تھا جو یسوع کے ساتھ کھا نے بیٹھے ہوئے تھے۔

3 مریم نے جٹا ماسی کا خالص اور بیش قیمت عطر یسوع کے پاؤں پر چھڑکا پھر اس کے پاؤں کو اپنے بالوں سے پونچھا اور سارے گھر میں عطر کی خوشبو پھیل گئی۔

4 یہوداہ اسکریوتی بھی وہاں تھا جو یسوع کے شاگردوں میں تھا جو بعد میں یسوع کا مخا لف بن گیا تھا۔ یہوداہ نے کہا۔،

5، یہ عطر کی قیمت تین سو چاندی کے سکوں کی ہو گی اس کو فروخت کر کے ان پیسوں کو غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔

6 یہوداہ کو غریبوں کی فکر نہ تھی اور اس نے یہ بات اس لئے کہی کیوں کہ وہ ایک چور تھا اور وہ ان میں سے تھا جنکے پاس ان لوگوں کی دی ہوئی رقم کی تھیلی ہو تی تھی۔ اور یہوداہ کو جب بھی موقع ملتا اس میں سے چرا لیتا تھا۔

7 یسوع نے کہا، اسے مت روکو یہ اس کے لئے صحیح ہے کہ وہ ایسا کرے اور یہ میرے دفن کی تیار یاں ہیں۔

8 کیوں کہ غریب تو تمہارے ساتھ ہمیشہ رہیں گے لیکن میں تمہارے پاس نہیں رہوں گا۔

9 کئی یہودیوں نے سنا کہ یسوع بیت عنیاہ میں ہیں چنانچہ وہ ان لوگوں کو دیکھنے گئے اور ساتھ ہی لعزر کو بھی وہی لعزر جسے یسوع نے مر دہ سے زندہ کئے تھے۔

10 اس طرح کاہنوں کے رہنما نے لعزر کو بھی مار دینے کا منصوبہ بنایا۔

11 لعزر کی وجہ سے کئی یہودی اپنے سردار کو چھوڑ رہے تھے اور یسوع پر ایمان لا رہے تھے۔اسی لئے یہودی سرداروں نے لعزر کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔

12 دوسرے دن لوگوں نے سنا کہ یسوع یروشلم آ رہے ہیں۔ یہ لوگ فسح کی تقریب پر یروشلم آئے ہوئے تھے۔

13 ان لوگوں نے کھجور کی ڈالیاں لیں اور یسوع سے ملنے چلے اور پکارنے لگے،

14 یسو ع کو گدھا ملا اور وہ اس پر سوار ہوئے۔ جیسا کہ صحیفہ کہتا ہے۔

15، اے شہر صیون مت ڈر

16 اس وقت یسوع کے شاگردوں نے ان باتوں کو نہیں سمجھا لیکن جب یسوع اپنے جلال پر آئے تو انہیں یاد آیا کہ سب کچھ اسی کے متعلق لکھا گیا تب شاگردوں نے سمجھا اور یاد کیا کہ لوگوں نے کیا سلوک کیا ہے۔

17 اس وقت یسوع نے لعزر کو زندہ کیا تو کئی لوگ اس کے ساتھ تھے اور وہ اس خبر کو پھیلا رہے تھے۔

18 اسی وجہ سے کئی لوگ یسوع سے ملنے گئے کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ یسوع نے لعز رکے ساتھ معجزہ دکھا یا۔

19 تب فریسیوں نے ایک دوسرے سے کہا، دیکھو ہمارا منصوبہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے تمام لوگ اس کی پیروی کر رہے ہیں۔

20 و ہیں پر چند یونانی لوگ بھی تھے جو فسح کی تقریب کے موقع پر عبادت کرنے آئے تھے۔

21 یہ یونانی لوگ فلپس کے پاس گئے فلپس بیت صیدا گلیل کا رہنے والا تھا اور اس سے کہا،ہم یسوع سے ملنا چاہتے ہیں۔

22 فلپس نے اندر یاس سے کہا، تب فلپس اور اندریاس دونوں نے یسوع سے کہا۔

23 یسوع نے ان سے کہا وقت آگیا ہے کہ ابن آدم جلال پا نے والا ہے۔

24 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ گیہوں کا ایک دا نہ زمین پر گر کر مر جا تا ہے تب ہی زمین سے کئی اور دانے پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر وہ نہیں مرتا تو پھر وہ ایک ہی دانہ کی شکل میں ہی رہتا ہے۔

25 جو شخص اپنی ہی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ کھو دیتا ہے لیکن جو شخص اس دنیا میں اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کر تا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے وہ ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے۔

26 جو شخص میری خدمت کرے وہ میرے ساتھ ہو لے اور میں جہاں بھی ہوں میرے غلام میرے ساتھ ہوں گے۔ میرا باپ ان کو بھی عزت دے گا۔ جو میری خدمت کریں گے۔

27 اب میری جان گھبراتی ہے پس میں کیا کروں۔ کیا میں کہوں کہ اے باپ مجھے ان تکالیف سے بچا ! نہیں میں خود ان تکالیف کو سہنے آیا ہوں۔

28 اے باپ اپنے نام کی عظمت و جلال رکھ لے۔ تب ایک آواز آسمان سے آئی، میں نے اس نام کی عظمت و جلال کو قائم رکھا ہے۔

29 جو لوگ وہاں کھڑے تھے انہوں نے اس آواز کو سن کر کہا بادل کی گرج ہے لیکن دوسروں نے کہا نہیں، یہ تو فرشتہ ہے جو یسوع سے ہم کلام ہوا۔

30 یسوع نے لوگوں سے کہا،یہ آواز میرے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے تھی۔

31 اب دنیا کی عدالت کا وقت آ پہونچا ہے۔ اب دنیا کا حاکم (شیطان ) دنیا سے نکال دیا جائے گا۔

32 اور مجھے بھی زمین سے اٹھا لیا جائے گا جب ایسا ہو گا میں سب لوگوں کو اپنے پاس لے لوں گا۔

33 اس طرح یسوع نے بتا یا کہ وہ کس طرح کی موت مرے گا۔

34 لوگوں نے کہا لیکن،ہماری شریعت بتا تی ہے مسیح ہمیشہ کے لئے رہے گا پھر تم ایسا کیوں کہتے ہو کہ ابن آدم کو اوپر اٹھا لیا جائے گا یہ ابن آدم کون ہے ؟

35 تب یسوع نے ان سے کہا،کچھ دیر تک نور تمہارے ساتھ ہے جب تک نور تمہارے ساتھ ہے تاریکی تم پر غالب نہ آئے گی اور جو تاریکی میں چلتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔

36 جبکہ نور تمہارے پاس ہے لہذا اب تم نور پر ایمان لاؤ تا کہ تم نور کے بیٹے بنو۔ جب یسوع نے اپنا کہنا ختم کیا اور ایسی جگہ گئے جہاں لوگ اسے پا نہیں سکے۔

37 یسوع نے کئی معجزے دکھائے اور لوگوں نے سب کچھ دیکھا اس کے باوجود اس پر ایمان نہیں لائے۔

38 اس سے یسعیاہ نبی کے کلام کی وضاحت ہوئی جو اس نے کہا:

39 اس کی ایک اور وجہ تھی جس سے وہ ایمان نہ لائے جیسا کہ یسعیاہ نے کہا:

40، خدا نے انہیں اندھا

41 یسعیاہ نے یہ اسلئے کہا کہ اس نے اس عظمت و جلال کو دیکھا تھا اس لئے یسعیاہ نے اس کے بارے میں ایسا کہا۔

42 کئی لوگوں نے یسوع پر ایمان لایا حتیٰ کہ یہودی سرداروں نے بھی اس پر ایمان لائے مگر وہ فریسیوں سے ڈرتے تھے اسلئے انہوں نے اعلانیہ طور پر اپنے ایمان لا نے کو ظاہر نہیں کیا۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ کہیں انہیں یہودیوں کی عبادت گاہ سے نکال نہ دیا جائے۔

43 اسلئے کہ انہیں خدا کی تعریف کی بجائے لوگوں کی تعریف چاہئے تھی۔

44 یسوع نے بلند آواز سے کہا، جو مجھ پر ایمان لاتا ہے تو وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتا گویا وہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لا تا ہے۔

45، جو مجھے دیکھتا ہے گویا اس نے میرے بھیجنے والے کو دیکھا۔

46 میں نور ہوں،اور اس دنیا میں آیا ہوں۔ تا کہ لوگ مجھ پر ایمان لائیں اور جو کوئی مجھ پر ایمان لائے گا وہ تاریکی میں نہ رہے گا۔

47، میں اس دنیا میں لوگوں کا انصاف کر نے نہیں آیا بلکہ لوگوں کو پا نے کے لئے آیا ہوں تو پھر میں وہ نہیں ہوں کہ لوگوں کا انصاف کروں جو میری تعلیمات کو سنکر ایمان نہ لائے میں اسے مجرم ٹھہراؤں۔

48 جن لوگوں نے میری باتیں سنیں اور ایمان نہیں لائے انہیں مجرم ٹھہرا نے والا ایک ہی ہے۔ جو کچھ میں نے تمہیں سکھایا اور اس کے مطابق آخری دن اس کا فیصلہ ہو گا۔

49 کیوں کہ جن چیزوں کی میں نے تعلیم دی ہے وہ میری اپنی نہیں۔ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسی نے کہا کہ کیا کہنا ہے کیا کرنا ہے۔

50 اور میں جانتا ہوں کہ ہمیشہ کی زندگی باپ کے احکام پر عمل کر کے ملتی ہے چنانچہ جو کچھ کہتا ہوں وہ سب باتیں باپ ہی کی ہیں جس نے مجھے کہنے کے لئے کہا۔

 

باب : 13

 

1 فسح کی تقریب کے قریب یسوع نے جان لیا کہ وقت آ پہنچا ہے کہ دنیا سے نکل کر باپ کے پاس جاؤں۔ اس نے دنیا میں ہمیشہ ان لوگوں سے محبت کی جو ان کے اپنے تھے۔ اس وقت انہوں نے اپنی محبت کا پوری طرح اظہار کیا۔

2 یسوع اور اس کے شاگرد رات کے کھا نے پر تھے۔ شیطان ابلیس یہوداہ اسکریوتی کے دل میں بات ڈال چکا تھا کہ وہ یسوع کے خلاف ہو جائے۔یہوداہ شمعون کا بیٹا تھا۔

3 یسوع کو باپ نے ہر چیز پر اختیار دے دیا تھا یسوع یہ جان گئے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ خدا کی طرف سے آیا ہے اور واپس خدا کے پاس ہی جا رہا ہے۔

4 وہ جب کھا نا کھا رہے تھے یسوع نے کھڑے ہو کر اپنے کپڑے اتا رے اور رومال اپنی کمر سے باندھا۔

5 یسوع پھر برتن سے پانی ڈال کر اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے اور اسے پھر اپنے رومال سے پو نچھا جو اس کی کمر میں بندھا تھا۔

6 یسوع پھر شمعون پطرس کے پاس آئے پھرپطرس نے یسوع سے کہا،اے خداوند آپ میرے پیر نہ دھوئیں۔

7 یسوع نے کہا، اب تم نہیں جانتے کہ میں کیا کر رہا ہوں لیکن بعد میں تمہاری سمجھ میں آ جائے گا۔

8 پطرس نے کہا،میں آپ کو اپنے پیر کبھی نہیں دھو نے دوں گا۔یسوع نے جواب دیا، اگر میں تمہارے پاؤں نہ دھوؤں تو پھر تم میرے لوگوں میں سے نہیں ہو گے۔

9 شمعون پطرس نے کہا، اے خداوند ! میرے پیر دھو نے کے بعد میرے ہا تھ اور میرا سر بھی دھو ڈالو۔

10 یسوع نے کہا، جو نہا چکا ہے اس کو سوائے پاؤں کے کسی اور عضو کو دھونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس کا پورا بدن صاف ہے اس کو صرف پیر ہی دھو نے کی ضرورت ہے اور تم لوگ پاک ہو۔ لیکن سب کے سب پاک نہیں۔

11 یسوع یہ جان گئے تھے کہ کون اس کا مخالف ہے اسی لئے اس نے کہا، تم میں ہر کو ئی پاک نہیں۔

12 جب یسوع ان کے پاؤں دھو چکے تو پھر کپڑے پہن کر واپس میز پر آ گئے یسوع نے پوچھا،کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے لئے کیا کیا ؟

13 تم مجھے استاد اور خداوند کہتے ہو یہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو کیوں کہ میں وہی ہوں۔

14 میں تمہارا خداوند اور استاد ہوں لیکن میں نے تمہارے پیر ایک خا دم کی طرح دھوئے اس لئے تم بھی آپس میں ایک دوسرے کے پیر دھوؤ۔

15 میں نے ایسا اس لئے کیا تا کہ تمہارے لئے ایک مثال قائم ہو اس لئے تمہیں بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ہی کر نا چاہئے جیسا کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا۔

16 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک خادم اپنے آقا سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا اور نہ قاصد ہی اپنے بھیجنے والے سے بڑا ہو سکتا ہے۔

17 اگر تم یہ جانتے ہو تب تم خوش رہو گے اگر یہ سب تم کرو گے۔

18، میں تم سب کے بارے میں نہیں کہتا ہوں۔میں جن کو منتخب کیا ہوں انہیں میں جانتا ہوں لیکن جو صحیفہ میں ہے وہ پو را ہو گا۔ جو میرے ساتھ کھانے میں شریک رہا وہی میرا مخا لف ہوا۔

19 اب میں اس کے ہو نے سے پہلے خبر دار کر تا ہوں تا کہ جب یہ واقعہ ہو جائے تو تم ایمان لا ؤ کہ میں وہی ہوں۔

20 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جس نے میرے بھیجے ہوئے کو قبول کیا گویا اس نے مجھے قبول کیا اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔

21 یہ باتیں کہہ کر یسوع نے اپنے آپ کو تکلیف میں محسوس کیا اور اعلانیہ طور پر کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک میرا مخالف ہو گا۔

22 یسوع کے شاگردوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور وہ سمجھ نہیں سکے کہ یسوع کس آدمی کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔

23 ایک شاگرد جو یسوع کے قریب تھا اور یسوع کی طرف جھک کر بیٹھا ہوا تھا اور وہ یسوع کا چہیتا شاگرد تھا۔

24 شمعون پطرس نے اس کو اشارہ سے کہا کہ پو چھو یسوع اس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔

25 اور وہ شاگرد اسی طرح قربت کے سہارے سے کہا، اے خداوند کون ہے جو تمہارا مخالف ہو گا ؟

26 یسوع نے جواب دیا،میں اس روٹی کو ڈبو کر ایک شخص کو دوں گا وہ و ہی ہے اور یسوع نے ایک روٹی کا ٹکڑا لیا اور اس کو برتن میں ڈبو کر یہوداہ اسکریوتی کو دیا جو شمعون کا بیٹا تھا۔

27 جب یہوداہ نے روٹی لی شیطان یہوداہ میں سما گیا۔ یسوع نے یہوداہ سے کہا، جو تو کر نا چاہتا ہے وہ جلدی سے کر،۔

28 میز پر بیٹھے ہوئے شاگردوں میں کسی نے نہ سمجھا کہ یسوع نے اس کو ایسا کیوں کہا۔

29 چونکہ یہوداہ کے پاس رقم کی تھیلی رہتی تھی اس لئے شاگردوں نے سمجھا شاید یسوع کی مرضی یہ ہے کہ یہوداہ بازار جا کر تقریب کے لئے کچھ خرید لائے یا پھر وہ سمجھے کہ شاید یسوع یہوداہ کو یہ کہنا چاہتا ہے کہ غریبوں میں کچھ بانٹ دے۔

30 یہوداہ روٹی کا ٹکڑا لیا اور فوراً باہر چلا گیا۔یہ رات کا وقت تھا۔

31 جب یہوداہ چلا گیا تو یسوع نے کہا، اب ابن آدم جلال پا رہا ہے۔ اور خدا نے ابن آ دم سے جلال پایا۔

32 اگر خدا اس کے ذریعے جلال پاتا ہے تب خدا بھی بیٹے کو جلال دیتا ہے اور اس کو جلد ہی جلال دے گا۔

33 یسوع نے کہا،میرے بچوں میں تمہارے ساتھ صرف مختصر عرصے کے لئے رہوں گا تم مجھے ڈھونڈو گے اور جیسا میں نے یہودیوں سے کہا تھا اسی طرح تم سے اب بھی کہتا ہوں، میں جہاں جا رہا ہوں تم نہیں آسکتے۔

34 اب میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں ایک دوسرے سے محبت کرو جیسا کہ میں نے تم سے محبت کی تھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت کرو۔

35 سب لوگ یہ جان جائیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو اگر تم ایک دوسرے سے محبت کرو گے۔

36 شمعون پطرس نے یسوع سے کہا، اے خداوند آپ کہاں جا رہے ہیں۔یسوع نے کہا، جہاں میں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں آسکتے وہاں بعد میں تم میرے پیچھے آؤ گے۔

37 پطرس نے کہا، اے خداوند ! میں اب آپ کے پیچھے کیوں نہیں آسکتا میں آپ کے لئے مر نے کو تیار ہوں۔

38 یسوع نے جواب دیا کیا تم حقیقت میں اپنی زندگی میرے لئے دو گے میں سچ کہتا ہوں جب تک مرغ بانگ نہ دے گا تب تک تو تین بار میرا انکار کرے گا کہ تو مجھے نہیں جانتا ہے۔

 

باب : 14

 

1 یسوع نے کہا، اپنے دل کو تکلیف نہ دو خدا پر اور مجھ پر بھروسہ رکھو۔

2 میرے با پ کے گھر میں کئی کمرے ہیں اگر یہ سچ نہ ہو تا تو میں تم سے کبھی نہ کہتا۔ میں وہاں جا رہا ہوں تا کہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں۔

3 جب میں وہاں جا کر تمہارے لئے جگہ بنا لوں تب دوبارہ میں پھر آؤں گا۔ اور میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اور تب تم میرے ساتھ جہاں میں ہوں وہاں تم بھی رہنا۔

4 اور تم اس راہ کو جانتے ہو جہاں میں جا رہا ہوں۔

5 تھوما نے کہا،ا ے خداوند! ہم نہیں جانتے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں پھر ہم کس طرح راہ کو جانیں گے ؟

6 یسوع نے جواب دیا،میں راستہ ہوں میں سچا ئی ہوں اور زندگی بھی۔ میں ہی ایک ذریعہ ہوں جس سے تم باپ کے پاس جا سکتے ہو۔

7 اگر تم حقیقت میں مجھے جان گئے ہوتے تو میرے باپ کو بھی جانتے اب تم اسے جانتے ہو اور تم نے اسے دیکھ لیا ہے۔

8 فلپ نے یسوع سے کہا، اے خداوند ! ہمیں اپنے باپ کو دکھا ؤ یہی ہم چاہتے ہیں۔

9 یسوع نے جواب دیا، فلپ میں اتنے عرصہ سے تمہارے ساتھ ہوں اور تمہیں مجھے جاننا چاہئے۔جس شخص نے مجھے دیکھا ہے اس نے باپ کو بھی دیکھا ہے پھر تم ایسا کیوں کہتے ہو کہ ہمیں باپ کو دکھا ؤ؟

10 کیا تمہیں یقین نہیں ہے کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے جو کچھ میں تمہیں کہہ چکا ہوں وہ میری طرف سے نہیں بلکہ باپ مجھ میں ہے اور وہ اپنا کام کر رہا ہے۔

11 جب میں یہ کہوں کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں تو یقین کر نا چاہئے یا پھر معجزے کی وجہ سے ایمان لے آ ؤ جو میں نے کئے۔

12 میں سچ کہتا ہوں جو شخص مجھ میں یقین رکھتا ہے اور ایمان رکھتا ہے اور جو کام میں کرتا ہوں وہ بھی کرے۔ہاں! وہ اس سے بھی بڑا کام کرے گا جو میں نے کئے ہیں۔کیوں کہ میں باپ کے پاس جا رہا ہوں۔

13 اگر تم میرے نام سے کچھ چا ہو گے میں تمہارے لئے کروں گا اس طرح باپ کی عظمت و جلال کا اظہار بیٹے کے ذریعے ہو گا۔

14 اگر تم میرے نام سے کچھ چا ہو گے میں تمہارے لئے کروں گا۔

15، اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو تم وہی کرو گے جس کا میں نے حکم دیا ہے۔

16 میں باپ سے استدعا کروں گا تو وہ تمہارے لئے دوسرا مدد گار دے گا۔ اور وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا۔

17 وہ مدد گار یعنی روح حق جسے دنیا تسلیم نہیں کرتی کیوں کہ دنیا نہ اسے جانتی ہے اور نہ دیکھتی ہے لیکن تم جانتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تم میں رہے گی۔

18، میں تمہیں اس طرح تنہا نہیں چھوڑوں گا جیسے بغیر والدین کے بچے رہتے ہیں میں دوبارہ تمہارے پاس آؤں گا۔

19 بہت کم وقت میں دنیا کے لوگ مجھے پھر نہ دیکھیں گے لیکن تم مجھے دیکھو گے تم زندہ رہو گے اس لئے کہ میں زندہ ہوں۔

20 اس روز تم جان جاؤ گے کہ میں با پ میں ہوں۔ اور یہ بھی جان جا ؤ گے تم مجھ میں ہو اور میں تم میں ہوں۔

21 اگر کوئی شخص میرے احکام کو جانتا ہے اور اس پر عمل کر تا ہے تو ایسا شخص حقیقت میں مجھ سے ہی محبت کرتا ہے اور میرا باپ بھی اس سے محبت کرتا ہے جو مجھ سے محبت کرے گا اور میں خود کو اس پر ظاہر کروں گا اور میں اس سے محبت کروں گا اور اپنے آپ کو اس پر ظاہر کروں گا۔

22 تب یہوداہ نے ( یہوداہ اسکر یوتی نہیں )کہا، اے خداوند تم اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کرنے کا منصوبہ کیوں بنا رہے ہو اور دنیا پر کیوں نہیں ؟

23 یسوع نے جواب دیا، اگر کو ئی آدمی مجھ سے محبت کرے گا تو میرے کلام پر عمل کرے گا۔ میرا باپ اس سے محبت کرے گا۔ میں اور میرا باپ اس کے ساتھ رہے گا۔

24 لیکن جو شخص مجھ سے محبت نہیں رکھتا میری تعلیمات پر عمل نہیں کرتا۔ اور یہ تعلیمات جو تم سنتے ہو حقیقت میں میری نہیں ہیں بلکہ میرے باپ کی طرف سے ہیں جس نے مجھے بھیجا ہے۔

25، میں تم سے یہ سب کچھ کہہ چکا ہوں جبکہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔

26 لیکن مددگار تمہیں ہر چیز کی تعلیم دے گا یہ مددگار جو مقدس روح ہے تمہیں میری ہر بات کی یاد دلائے گا۔یہ مددگار مقدس روح ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا۔

27، میں تمہیں اطمینان دلا تا ہوں یہ میرا اپنا اطمینان ہے تمہیں دیتا ہوں مگر اس طرح نہیں جیسا کہ دنیا تمہیں دیتی ہے اس لئے مت گھبرا ؤ اور نہ ڈرو۔

28 تم سن چکے ہو جو کچھ کہ میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں جانتا ہوں لیکن میں پھر تمہارے پاس آؤں گا۔اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو تم خوش ہو گے کیوں کہ میں باپ کے پاس جا رہا ہوں۔ کیوں کہ باپ مجھ سے زیادہ عظیم ہے۔

29 میں تم سے کچھ ہو نے سے قبل سب باتیں کہہ چکا ہوں۔ تا کہ جب ہو جائے تو تم یقین کر سکو۔

30 میں تم سے اور زیادہ بات نہیں کروں گا کیوں کہ دنیا کا حا کم (ابلیس ) آ رہا ہے اس کا مجھ پرکو ئی اختیار نہیں ہے۔

31 لیکن دنیا کو یہ جاننا چاہئے کہ میں باپ سے محبت کر تا ہوں اس لئے میں وہی کچھ کر تا ہوں جو باپ نے مجھ سے کرنے کو کہا ہے آؤ ہم یہاں سے چلیں گے۔

 

باب : 15

 

1 یسوع نے کہا، میں انگور کی حقیقی بیل ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔

2 میری ہر شاخ جو پھل نہیں لاتی وہ کا ٹ ڈالتا ہے اور ہر شاخ کو چھانٹتا ہے جو پھل لا تی ہے تاکہ اور پھل زیادہ ہو۔

3 میری تعلیمات جو تم کو ملی ہے جس کی وجہ سے تم پاک ہو۔

4 تم مجھ میں ہمیشہ قائم رہو اور میں تم میں ہمیشہ قائم رہوں گا کوئی بھی شاخ جو درخت سے الگ تنہا ہو پھل نہیں لا تی اس لئے اسے درخت سے قائم لگے رہنا ہے اور یہی معاملہ تمہارے ساتھ بھی ہے اگر مجھ پر قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔

5، میں انگور کا درخت ہوں اور تم اس کی شاخیں ہو اگر کوئی شخص مجھ پر قائم رہے اور میں اس میں رہوں زیادہ پھل لائے گا۔ میرے بغیر تم کچھ نہ کر سکو گے۔

6 اگر کوئی شخص مجھ میں قائم نہ رہا تو اس کی مثال اس شاخ کی ہے جسے پھینک دی جا تی ہے۔اور وہ شاخ مردہ ہو جاتی ہے یعنی سوکھ جا تی ہے لوگ سوکھی شاخ اٹھا کر آگ میں جلا دیتے ہیں۔

7، مجھ میں قائم رہو اور میری تعلیمات پر عمل کرو اگر تم ایسا کرو تو تم جو چا ہو طلب کرو اور وہ تمہیں دی جائیں گی۔

8 تم بہت سے پھل لاؤ اور ثابت کر دو کہ تم میرے شاگرد ہو اور میرے باپ کا جلا ل اسی سے ہے۔

9 میں تم سے محبت اس طرح کرتا ہوں جس طرح باپ مجھ سے کرتا ہے تم میری محبت میں قائم رہو۔

10 میں نے اپنے باپ کے احکام کی تعمیل کی اور اس کی محبت کو قائم رکھا اسی طرح اگر تم بھی میرے احکام کی تعمیل کرو تو تم میری محبت میں قائم رہو گے۔

11 یہ سب کچھ میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ تم ویسے ہی خوش رہو جس طرح میں ہوں میں چاہتا ہوں کہ تمہاری ہر خوشی مکمل ہو جائے۔

12 میں حکم دیتا ہوں کہ جیسی محبت میں نے تم سے رکھی ہے اسی طرح تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔

13 سب سے زیادہ محبت یہ ہے کہ آدمی اپنے دوستوں کے لئے اپنی جان دے دیں۔

14 اگر تم وہ چیزیں کرو جس کا میں نے حکم دیا ہے تو تم میرے دوست ہو۔

15 میں تمہیں اور دوبارہ خادم نہیں کہوں گا کہ خادم نہیں جانتا کہ اس کا آقا کیا کر رہا ہے۔ لیکن میں تمہیں دوست کہتا ہوں کیوں کہ میں وہ سب کچھ کہہ چکا ہوں جو میں نے باپ سے سنی ہیں۔

16 تم نے مجھے منتخب نہیں کیا بلکہ میں نے تمہارا انتخاب کیا ہے کہ تم جا کر پھل لا ؤ۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ پھل تمہاری زندگی میں قائم رہے۔تب ہی باپ تمہیں ہر وہ چیز دے گا جو تم میرے نام سے مانگو۔

17 یہ تم کو میرا حکم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔

18، اگر دنیا تم سے نفرت کرے تو یہ یاد رکھو کہ دنیا مجھ سے پہلے ہی نفرت کر چکی ہے۔

19 اگر تم دنیا کے ہوتے تو دنیا تمہیں اپنے لوگوں جیسا عزیز رکھتی چونکہ تم دنیا کے نہیں ہو کیوں کہ میں نے تمہیں دنیا سے چن لیا ہے اسی لئے دنیا نفرت کر تی ہے۔

20 جو کچھ میں نے تم سے کہا اسے یاد رکھو کہ خادم اپنے آقا سے بڑا نہیں ہوتا اگر لوگوں نے مجھے ستایاہے تو تمہیں بھی ستائیں گے۔ اور اگر لوگ میری تعلیمات پر عمل کئے ہیں تو وہ تمہاری بات پر بھی عمل کریں گے۔

21 لوگ یہ سب کچھ میرے نام کی وجہ سے تمہارے ساتھ کریں گے اور یہ لوگ اس کو نہیں جانتے جس نے مجھے بھیجا ہے۔

22 اگر میں نہ آتا اور دنیا کے لوگوں سے نہ کہتا تب وہ گناہ کے مجرم نہ ہو تے۔لیکن ا ب میں انہیں کہہ چکا ہوں اس لئے وہ گناہ کی معافی کا جواز نہیں دے سکتے۔

23 جو مجھ سے نفرت کرتا ہے وہ میرے باپ سے بھی نفرت کرتا ہے۔

24 میں نے لوگوں میں ایسے کام کئے کہ اس سے پہلے کسی نے نہیں کئے اگر میں ایسا نہ کرتا تو وہ گنہگار ٹھہرتے لیکن وہ سب کام جو میں نے کیا انہوں نے دیکھا ہے۔ اور اب بھی مجھ سے اور میرے باپ سے نفرت کرتے ہیں۔

25 لیکن یہ سب اس لئے ہوا کہ ان کی شریعت میں جو لکھا ہوا تھا وہ سچ ثابت ہوا انہوں نے بلا وجہ مجھ سے نفرت کی۔

26 میں تمہارے پاس مدد گار بھیجوں گا جو میرے با پ کی طرف سے ہو گا وہ مددگار سچا ئی کی روح ہے جو باپ کی طرف سے آتی ہے جب وہ آئے تو میرے بارے میں گواہی دے گی۔

27 اور تم بھی لوگوں سے میرے بارے میں کہو گے کیوں کہ تم شروع ہی سے میرے ساتھ ہو۔

 

باب : 16

 

1، میں نے تم سے یہ باتیں اس لئے کہیں تا کہ تم اپنا ایمان نہ کھو دو۔

2 لوگ تمہیں یہودی عبا دت خانے سے نکال دیں گے ہاں یہ وقت آ رہا ہے کہ لوگ تمہیں مار نے کو خدا کی خدمت کر نے کے برا بر سمجھیں گے۔

3 لوگ ایسا اس لئے کریں گے کہ نہ انہوں نے باپ کو جانا اور نہ مجھے۔

4 میں اب تمہیں یہ سب کچھ کہتا ہوں تا کہ جب ان چیزوں کا وقت آئے تو تمہیں یاد آ جائے کہ میں نے تم کو خبر دار کر دیا تھا۔

5 اب میں جا رہا ہوں اس کے پاس جس نے مجھے بھیجا ہے اور تم میں سے کو ئی نہیں پوچھتا کہ تم کہاں جا رہے ہو ؟

6 تمہارے دل غم سے بھرے ہوئے ہیں کیوں کہ میں تم سے یہ باتیں کہہ دیا ہوں۔

7 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے بہتر ہے کیوں کہ اگر میں جاتا ہوں تو تمہارے لئے مددگار بھیجوں گا۔ اگر میں نہیں جاؤں تو تمہارے پاس مددگار نہ آئے گا۔

8 جب مدد گار آئے تو وہ دنیا کی خرابی کو ثابت کرے گا اور گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں بھی بتائے گا۔

9 مددگار دنیا کی غلطی کو ثابت کرے گا کیوں کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے۔

10 وہ ثابت کرے گا کہ دنیا راستبازی میں غلط ہے۔کیوں کہ میں اپنے باپ کے پاس جا رہا ہوں اور تم پھر مجھے نہ دیکھو گے۔

11 وہ مددگار یہ ثابت کرے گا عدالت کے بارے میں دنیا کو اس لئے کہ اس دنیا کے حا کم(ابلیس ) کو پہلے ہی مجرم ٹھہرا دیا گیا ہے۔

12، مجھے تم سے اور بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کر سکو گے۔

13 لیکن جب روح حق آئے گا تو تم کو سچا ئی کی راہ دکھائے گا۔ روح حق اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ وہ وہی کہے گا جو وہ سنتا ہے وہ تمہیں وہی کہے گا جو کچھ ہو نے والا ہے۔

14 روح حق میری عظمت و جلا ل کو ظاہر کرے گا اس لئے کہ وہ مجھ سے ان چیزوں کو حا صل کر کے تمہیں کہے گا۔

15 جو کچھ باپ کا ہے وہ میرا ہے۔ اسی لئے میں نے کہا وہ روح مجھ سے ہی حا صل کر کے تمہیں معلوم کرائے گا۔

16، تھوڑی ہی دیر بعد تم مجھے نہ دیکھو گے۔ پھر اس کے تھوڑی ہی دیر بعد ہی تم مجھے دوبا رہ دیکھو گے۔

17 بعض شاگردوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا، اس کا کیا مطلب ہے کہ جو یسوع کہتا ہے، تھوڑی دیر بعد تم نہ دیکھو گے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں مجھے دو بارہ دیکھو گے ؟، اور پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ جب وہ کہتا ہے کہ میں باپ کے پاس جا رہا ہوں۔

18 شاگردوں نے پو چھا، اس کا کیا مطلب ہے جب وہ کہتا ہے تھوڑی دیر بعد؟ہم لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔

19 یسوع نے دیکھا کہ شاگرد کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لئے یسوع نے اپنے شاگردوں سے پو چھا، کیا تم میری اس بات کی تحقیق چاہتے ہو جو میں نے تم سے کہی کہ تھوڑی دیر بعد تم مجھے نہ دیکھو گے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں دوبا رہ دیکھ لو گے ؟

20 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم رو ؤ گے اور رنجیدہ ہو گے مگر دنیا خوش ہو گی تم رنجیدہ ہو گے لیکن تمہاری رنجیدگی ہی تمہاری خوشی بنے گی۔

21 جب عورت بچہ جنتی ہے تو اس کو درد ہو تا ہے کیوں کہ اس کا وقت آ چکا ہے لیکن جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ درد کو بھول جا تی ہے کیوں کہ وہ خوش ہو تی ہے کہ دنیا میں ایک بچہ پیدا ہوا۔

22 یہی کچھ تمہارے ساتھ ہے اب تم رنجیدہ ہو لیکن میں تم سے پھر ملوں گا تو تم خوش ہو گے۔ اور کو ئی بھی تمہاری خوشی تم سے نہیں چھین سکتا۔

23 اس دن تم مجھ سے کچھ نہ پو چھو گے میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا باپ تم کو ہر چیز دے گا جو تم میرے نام سے مانگو گے۔

24 تم نے میرے نام سے اب تک کچھ نہیں مانگا۔مانگو اور تمہیں ملے گا تا کہ تمہیں کامل خوشی مل سکے۔

25، میں نے یہ باتیں تم سے تمثیل میں کہیں لیکن ایک وقت آئے گا تب میں تم سے اس طرح تمثیل سے باتیں نہ کہوں گا میں تم سے واضح الفاظ میں باپ کے متعلق کہوں گا۔

26 اس دن تم باپ سے میرے نام پر مانگو گے اور میرا مطلب یہ کہ مجھے باپ سے تمہارے لئے درخواست کی ضرورت نہیں۔

27 اس لئے کہ باپ خود تم سے محبت کر تا ہے وہ تمہیں اس لئے عزیز رکھتا ہے کیوں کہ تم مجھے عزیز رکھتے ہو اور تم نے میرے خدا کی جانب سے آنے پر ایمان لا یا۔

28 میں باپ کے پاس سے اس دنیا میں آیا اور اب میں دنیا چھوڑ رہا ہوں اور با پ کے پاس جا رہا ہوں۔

29 تب یسوع کے شاگردوں نے کہا، اب آپ صاف صاف کہتے ہو اور کوئی تمثیل نہیں کہتے۔

30 اب ہم جان چکے ہیں کہ آپ سب کچھ جانتے ہو۔ حتیٰ کے کوئی تم سے سوال کرے آپ اس سے پہلے اس کا جواب دے سکتے ہو۔ اور ہم اسی سبب سے ایمان لاتے ہیں کہ آپ خدا کی طرف سے آئے ہو۔

31 یسوع نے کہا،تو کیاتم اب ایمان لاتے ہو ؟

32 سنو!، وقت آ رہا ہے کہ تم میں سے ہر ایک بکھر کر اپنے گھروں کی راہ لو گے اور مجھے اکیلا چھوڑ دو گے تو بھی میں کبھی اکیلا نہیں ہوں کیوں کہ باپ میرے ساتھ ہے۔

33، میں نے تم سے یہ باتیں اس لئے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پا ؤ اس دنیا میں تمہیں تکلیفیں ہوں گی لیکن مطمئن رہو کہ میں نے دنیا کو فتح کیا ہے۔

 

باب : 17

 

1 جب یسوع یہ ساری باتیں کہہ چکے تو اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا کر کہا ! اے باپ ! وہ وقت آگیا ہے کہ بیٹے کو جلا ل عطا کر تا کہ بیٹا تمہیں جلا ل دے سکے۔

2 تم نے بیٹے کو ہر بشر پر اختیار دیا تا کہ میں ان کو ابدی زندگی دے سکوں جن کو تو نے میرے حوالہ کیا ہے۔

3 اور یہی ابدی زندگی ہے کہ آدمی تجھے جان سکے کہ تو ہی سچا خدا ہے اور یسوع مسیح کو جان سکے جسے تو نے بھیجا ہے۔

4 وہ کام جو تو نے میرے ذمہ کیا تھا میں وہ ختم کیا۔ اور تیرے جلا ل کو زمین پر ظا ہر کیا۔

5 اور اب اے باپ اپنے ساتھ مجھے جلا ل دے اور اسی جلا ل کو دے جو دنیا بننے سے پہلے تیرے ساتھ مجھے حا صل تھا۔

6 تو نے مجھے دنیا میں سے چند آدمیوں کو دیا میں نے تیرے بارے میں انہیں بتا یا میں نے یہ بھی بتا یا کہ تو کون ہے وہ آدمی تیرے ہی تھے جو تو نے مجھے دیئے تھے۔ انہوں نے تیری تعلیمات پر عمل کیا۔

7 اب انہوں نے یہ جان لیا کہ جو کچھ تو نے مجھے دیا وہ تیری ہی طرف سے تھا۔

8، جو تو نے مجھے دیا تھا، اسی تعلیمات کو میں نے ان لوگوں کو دی۔ انہوں نے تعلیمات کو قبول کیا۔ اور سچ مانا کہ میں تیری ہی طرف سے آیا ہوں اور ایمان لائے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے۔

9 ان کے لئے میں دعا کرتا ہو ں۔ میں دنیا کے لوگوں کے لئے دعا نہیں کرتا لیکن میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں جو تو نے مجھے دیا کیوں کہ وہ تیرے ہیں۔

10 جو کچھ میرے پاس ہے وہ تیرا ہی ہے جو کچھ تیرا ہے وہ میرا ہے اور انہی کی وجہ سے یہ لوگ میرے جلا ل کو لاتے ہیں۔

11 آئندہ میں دنیا میں نہ ہوں گا اب میں تیرے پاس آ رہا ہوں اور اب یہ لوگ دنیا میں رہیں گے مقدس باپ انہیں محفوظ رکھ اپنے نام کے وسیلہ سے جو تو نے مجھے بخشا ہے تا کہ وہ متفق ہوں جیسا کہ ہم متفق ہیں۔

12 میں نے تیرے اس نام کے وسیلے سے جب تک رہا ان کی حفاظت کی اور ان کو بچائے رکھا ان میں سے ایک آدمی نہیں کھو یا سوائے ایک جس کا انتخاب ہلا کت کے لئے تھا۔ وہ اس لئے ہلا ک ہوا تا کہ صحیفوں کا لکھا پورا ہو۔

13، اب میں تیرے پاس آ رہا ہوں لیکن میں ان چیزوں کے لئے جب تک میں دنیا میں ہوں دعا کرتا رہوں تا کہ ان لوگوں کو میری خوشی حا صل ہو۔

14 میں نے تیرا کلام (تعلیمات) انہیں پہنچا دیا اور دنیا نے ان سے نفرت کی۔ دنیا نے ان سے اس لئے نفرت کی کہ وہ اس دنیا کے نہیں جیسا کہ میں اس دنیا کا نہیں۔

15 میں یہ نہیں کہتا کہ تو انہیں دنیا سے اٹھا لے بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ تو انہیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھ۔

16 جیسا کہ میں اس دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔

17 تو انہیں سچا ئی سے اپنی خدمت کے لئے تیار کر تیری تعلیمات سچ ہیں۔

18 میں نے انہیں دنیا میں بھیجا جس طرح تو نے مجھے بھیجا۔

19 میں اپنے آپ کو خدمت کے لئے تیار کر رہا ہو ں۔ یہ ان ہی کے لئے کر رہا ہوں تا کہ وہ میری سچی خدمت کر سکیں۔

20، میں ان لوگوں کے لئے دعا کر تا ہوں بلکہ میں ان تمام لوگوں کے لئے دعا کر تا ہوں جو ان کی تعلیمات سے مجھ پر ایمان لائے۔

21 اے باپ ! میں دعا کرتا ہوں کہ تمام لوگ جو مجھ پر ایمان لائے ایک ہوں جس طرح میں تجھ میں ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ وہ بھی ہم میں متفق ہو جائیں۔ تا کہ دنیا ایمان لائے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے۔

22 میں نے انہیں وہی جلال دیا ہے جسے تو نے مجھے دیا تھا۔ میں نے انہیں یہ جلا ل دیا تا کہ وہ ایک ہو سکیں جیسے تو اور میں ایک ہیں۔

23 میں ان میں ہوں اور تو مجھ میں ہے تا کہ وہ تمام بالکل ایک ہو جائیں اور دنیا جان لے کہ تو نے مجھے بھیجا ہے۔اور تو نے ان سے ایسی محبت کی جس طرح مجھ سے۔

24، اے باپ! میں چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کو تو نے مجھے دیا ہے وہ میرے ساتھ ہر جگہ رہیں جہاں میں رہتا ہوں تا کہ وہ میرے جلا ل کو دیکھیں جو تو نے مجھے دیا ہے کیوں کہ تو دنیا کے وجود کے پہلے سے مجھے عزیز رکھتا ہے۔

25 اے اچھے باپ دنیا نے تجھے نہیں جانا لیکن میں تجھے جانتا ہوں اور یہ لوگ جانتے ہیں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے۔

26 میں نے انہیں بتا یا ہے کہ تو کیا ہے اور لگا تار بتا تا رہوں گا کہ جو محبت تجھ کو مجھ سے ہے وہ انہیں ہو اور میں ان میں رہوں۔

 

باب : 18

 

1 یسوع دعا ختم کر کے اپنے شاگردوں کے ساتھ وادی قدرون کے پار گئے جہاں زیتون کا ایک باغ تھا۔ وہ اور اس کے شاگرد اس میں گئے۔

2 یہوداہ اس جگہ کو جانتا تھا کیوں کہ یسوع اکثر اپنے شا گردوں کے ساتھ یہیں ملا کر تا تھا۔ یہ وہ یہوداہ تھا جو یسوع کا مخالف تھا۔

3 اور یہوداہ سپاہیوں کے دستہ کے ساتھ وہاں آیا یہوداہ اپنے ساتھ چند سردار کاہنوں اور فریسیوں کے حفاظتی دستوں کو لے آیا تھا جن کے پاس مشعل،لالٹین اور ہتھیار تھے۔

4 یسوع ان سب باتوں کو جو اس کے ساتھ ہو نے وا لی تھی جانتے تھے۔ یسوع باہر آئے اور پو چھے کسے دیکھنے کے لئے تم آئے ہو ؟

5 ان آدمیوں نے جواب دیا، یسوع نا صری، یسوع نے کہا، میں یسوع ہوں ( یہوداہ جو یسوع کا دشمن تھا ان کے ساتھ کھڑا تھا )

6 جب یسوع نے کہا، میں یسوع ہوں تب وہ آدمی پیچھے ہٹے اور زمین پر گر گئے۔

7 پھر یسوع نے کہا تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو۔ لو گوں نے کہا، یسوع ناصری کو۔

8 یسوع نے کہا،میں تم سے سچ کہہ چکا ہوں کہ میں یسوع ہوں اگر تم مجھے ڈھونڈ رہے ہو تو ان دوسروں کو جانے دو۔

9 یہ اس نے اس لئے کہا کہ جو قول تو نے دیا وہ پورا ہو جن آدمیوں کو تو نے مجھے دیا میں نے کسی کو بھی نہ کھویا۔

10 شمعون پطرس کے پاس تلوار تھی اس نے نکا ل کر اعلیٰ کاہن کے خادم پر وار کر کے اس کا داہنا کان اڑا دیا (اس خادم کا نام ملخس تھا )۔

11 یسوع نے پطرس سے کہا، تلوار کو نیام میں رکھ لے میں اس پیالہ کو جو باپ نے دیا ہے کیوں نہ قبول کروں۔

12 تب سپاہیوں اور ان کے افسروں اور یہودیوں نے یسوع کو پکڑا اور باندھ دیا۔

13 اور اسے حناّ کے پاس لائے۔ حناّ در اصل کائفا کا خسر تھا۔ کائفا ہی اس سال اعلیٰ کاہن تھا۔

14 کا ئفا ہی وہ شخص تھا جس نے یہودیوں سے کہا تھا سارے آدمیوں کے لئے ایک آدمی کا مر نا بہتر ہے۔

15 شمعون پطرس اور یسوع کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد یسوع کے ساتھ گئے۔یہ شاگرد اعلیٰ کاہن سے واقف تھا اسلئے وہ یسوع کے ساتھ اعلیٰ کاہن کے مکان کے آنگن میں گئے۔

16 لیکن پطرس دروازہ کے با ہر ہی رہا۔ وہ شاگرد جو اعلیٰ کاہن کو جانتا تھا واپس آیا اور اس لڑ کی سے بات کی جو دربان تھی اور وہ پطرس کو اندر لائی۔

17 دروازہ پر کھڑی لڑکی نے پطرس سے کہا کیا تم بھی اس کے شاگردوں میں سے ایک ہو ؟ پطرس نے کہا، نہیں میں نہیں ہوں۔

18 سردی کی وجہ سے خادم اور پیادے آگ دہکا رہے تھے اور اس کے ارد گرد کھڑے لوگ آگ تاپ رہے تھے اور پطرس بھی انہی کے ساتھ کھڑا ہو کر آگ تاپ رہا تھا۔

19 اعلیٰ کاہن نے یسوع سے اس کے شاگردوں کی اور تعلیم کی بابت پوچھا۔

20 یسوع نے جواب دیا، میں نے ہمیشہ علانیہ طور پر لوگوں سے کہا اور میں نے ہیکل میں اور یہودی عبادت گاہ کے اندر بھی کہا۔جہاں تمام یہودی جمع تھے۔ میں نے کبھی کوئی بات خفیہ نہیں کی۔

21 پھر تم مجھ سے کیوں پوچھتے ہو ؟، ان سے پو چھو جنہوں نے میری تعلیمات کو سنا جو کچھ میں نے کہا وہ جانتے ہیں ؟

22 جب یسوع نے ایسا کہا تو پیادوں میں ایک جو وہاں کھڑا تھا یسوع کے چہرے پر مارا اور کہا تو اعلیٰ کاہن کو اس طرح جواب دیتا ہے ؟

23 یسوع نے کہا،اگر میں نے غلط کہا تو جو کو ئی یہاں ہے وہ کہے کہ کیا غلط ہے اگر میں نے سچ کہا ہے تو پھر مجھے مارتے کیوں ہو۔

24 پھر حنّا نے یسوع کو کائفا اعلیٰ کاہن کے پاس بھیج دیا یسوع اس وقت بندھے ہوئے تھے۔

25 شمعون پطرس آ گ کے قریب کھڑا آ گ تاپ رہا تھا دوسرے آدمی نے پطرس سے کہا، کیا تم اس آدمی کے شاگردوں میں سے ایک ہو ؟لیکن پطرس نے کہا،نہیں میں نہیں ہوں۔

26 اعلیٰ کاہن کے خادموں میں سے ایک نے جو اس کا رشتہ دار تھا جس کا کان پطرس نے کا ٹا تھا کہا، کیا میں نے تجھے اس کے ساتھ باغ میں نہیں دیکھا تھا۔

27 لیکن پطرس نے دوبارہ کہا، نہیں میں اس کے ساتھ نہیں تھا، اور اسی وقت مرغ نے بانگ دی۔

28 اس کے بعد یہودیوں نے یسوع کو کائفا کے مکان سے رومی گورنر کے محل کو لے گئے یہ صبح کا وقت تھا۔ یہودی گور نر کے محل کے اندر نہیں گئے وہ اپنے آپ کو نا پاک نہ کر نا چاہتے تھے۔ کیوں کہ وہ فسح کا کھا نا کھانا چاہتے تھے۔

29 تب پیلا طس نے باہر آ کر ان سے کہا، تم لوگ اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟، اس نے کیا برائی کی ہے ؟

30 یہودیوں نے جواب دیا، یہ بڑا خراب آدمی ہے اسلئے ہم اسے تمہارے پاس لائے ہیں۔

31 پیلاطس نے یہودیوں سے کہا، تم اسے لے جاؤ اور اپنی شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرو ؟یہودیوں نے جواب دیا، لیکن تمہارا قانون ہمیں کسی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔

32 یہ اس لئے ہوا تا کہ یسوع کی بات پو ری ہو جو اس نے موت کے متعلق کہی تھی۔

33 پیلاطس واپس گور نر کے محل میں گیا اور یسوع کو بلا کر پو چھا،کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے ؟

34 یسوع نے کہا،کیا یہ سوال تمہارا ہے ؟ یا پھر دوسروں نے میرے بارے میں تجھ سے کہا ؟

35 پیلاطس نے کہا، میں یہودی نہیں ہوں! یہ تو تمہارے لوگ اور ان کے سردار کاہن تھے جنہوں نے تمہیں میرے پاس لے آیا۔ تم نے کیا برائی کی ہے ؟

36 یسوع نے کہا،میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں اگر میری بادشاہت اس دنیا کی ہو تی تب میر ے خادم یہودیوں کے خلاف لڑے ہوتے تا کہ مجھے یہودیوں کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ لیکن میری بادشاہت کسی اور جگہ کی ہے۔

37 پیلاطس نے کہا،تو پھر تم بادشاہ ہو! یسوع نے کہا، تمہارا خود کا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہوں، یہ سچ ہے میں اسی لئے پیدا ہوا تھا اور اسی لئے دنیا میں آیا تاکہ سچائی کی گواہی دوں اور ہر وہ شخص جو سچ سے تعلق رکھتا ہے وہ میری آواز سنے۔،

38 پیلاطس نے کہا، سچائی کیا ہے؟، اور اتنا کہہ کر وہ باہر یہودیوں کے پاس دوبارہ گیا اور ان سے کہا، میں اس کا کچھ جرم نہیں پا تا ہوں۔

39 مگر تمہارے رواج کے مطابق فسح پر میں ایک قیدی کو رہا کرتا ہوں کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے لئے اس یہودیوں کے بادشاہ کو چھو ڑ دوں؟

40 یہودی چّلا اٹھے اور کہا، نہیں! اس کو نہیں برّبا کو چھو ڑ دو ( برّبا ایک ڈاکو تھا )

 

باب : 19

 

1 تب پیلاطس نے حکم دیا کہ یسوع کو لے جا کر کوڑے لگائے جائیں۔

2 سپاہیوں نے کانٹوں کا تاج بنایا اور اس کے سر پر پہنایا اور اس کو ارغوانی رنگ کے کپڑے پہنائے۔

3 اور اس کے قریب یکے بعد دیگر آ کر اس کے چہرے پر طمانچے مارتے ہوئے کہتے، اے یہودیوں کے بادشاہ! آداب۔

4 پیلاطس دوبارہ باہر آ کر یہودیوں سے کہا ! دیکھو میں یسوع کو تمہارے پاس باہر لا رہا ہوں میں تمہیں بتا نا چاہتا ہوں کہ میں نے ایسی کو ئی چیز نہیں پائی جسکی بناء پر اسے مجرم قرار دوں۔

5 تب یسوع باہر آئے اس وقت وہ کانٹوں کا تاج پہنے ہوئے تھے اور ارغوانی لباس بدن پر تھا پیلاطس نے یہودیوں سے کہا، یہ رہا وہ آدمی۔

6 سردار کاہن اور یہودی سپاہیوں نے یسوع کو دیکھا تو پکار اٹھے، اس کو صلیب پر چڑھا دو ! صلیب پر چڑھا دو ! لیکن پیلاطس نے کہا،تم ہی اس کو لے جاؤ اور صلیب پر چڑھا دو کیوں کہ میں اس کا کچھ بھی جرم نہیں پا تا ہوں۔

7 یہودیوں نے کہا،ہم اہل شریعت ہیں اور اس شریعت کے مطابق اس کو مر نا چاہئے کیوں کہ اس نے کہا وہ خدا کا بیٹا ہے۔

8 جب پیلاطس نے یہ سنا تو وہ مزید ڈر گیا اور۔

9 پیلاطس گور نر کے محل کے اندر واپس چلا گیا اور یسوع سے پو چھا،تو کہاں کا ہے ؟، لیکن یسوع نے کو ئی جواب نہیں دیا۔

10 پیلاطس نے کہا، تم مجھ سے کچھ کہنے سے انکار کرتے ہو۔ یاد رکھو میں وہ اختیار رکھتا ہوں کہ تم کو چھوڑ دوں یا صلیب پر چڑھا کر ماردوں۔

11 یسوع نے کہا،اگر خدا تمہیں یہ اختیار نہ دیتا تب تمہارا مجھ پر کچھ اختیار نہ ہو تا جسے خدا نے تمہیں دیا ہے۔ اس لئے جس نے مجھے تیرے حوالے کیا اس کا گناہ زیادہ ہے بنسبت تیرے۔

12 اس کے بعد پیلاطس نے کوشش کی کہ اسے چھوڑ دے مگر یہودیوں نے چلا کر کہا، جو آدمی اپنے آپ کو بادشاہ کہے وہ قیصر کا مخالف ہے اگر تو اسے چھوڑے گا تو قیصر کا خیر خواہ نہیں ہے۔

13 پیلاطس سے یہودیوں نے جو کہا وہ سنا اور یسوع کو باہر اس جگہ پر لے آیا اور فیصلہ کر نے کی نشست پر بیٹھا، اس جگہ کو سنگ چبوترہ (ارامی زبان میں گبّتھّا) کہتے ہیں۔

14 یہ وقت دو پہر کا تھا تقریباً چھٹا گھنٹہ تھا فسح کی تیاری کا دن تھا۔ پیلاطس نے یہودیوں سے کہا، تمہارا بادشاہ یہاں ہے۔

15 یہودی چیخ رہے تھے لے جاؤ اسے ,لے جاؤ اسے ,اور صلیب پر چڑھا دو!، پیلاطس نے یہودیوں سے پو چھا،تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے بادشاہ کو صلیب پر چڑھا دوں ؟ تب سردار کاہنوں نے کہا،ہمارا بادشاہ صرف قیصر ہے!،

16 اس کے بعد پیلا طس نے یسوع کو ان کے حوالے کیا کہ مصلوب کیا جائے۔

17 یسوع نے خود اپنی صلیب اٹھا ئی اور اس جگہ جو کھو پڑی کی جگہ کہلاتی تھی، گئے۔ (عبرانی زبان میں اس جگہ کو گولگتّا، کہا جاتا ہے )

18 گولگتّا کے مقام پر انہوں نے یسوع کو اور ساتھ دو اور آدمیوں کو صلیب پر چڑھا دیا۔ دو آدمی یسوع کے دو طرف تھے اور یسوع ان دونوں کے درمیان میں تھے۔

19 پیلاطس نے ایک تختی نشان کے طور پر لکھی اور صلیب پر لگا دی جس پر لکھا تھا یسوع ناصری یہودیوں کا بادشاہ،۔

20 تختی ارامی ,لاطینی ,اور یونانی زبانوں میں لکھی ہوئی تھی۔ جس کو بہت سے یہودیوں نے پڑھا کیوں کہ یہ جگہ جہاں انہوں نے یسوع کو مصلوب کیا وہ جگہ شہر کے قریب تھی۔

21 سردار یہودی کاہنوں نے پیلاطس سے کہا،اس کو یہودیوں کا بادشاہ نہ لکھو بلکہ ایسا لکھو اس شخص نے کہا تھا میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں۔

22 پیلاطس نے کہا، جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کو تبدیل کر نا نہیں چاہتا۔

23 جب سپاہیوں نے یسوع کو مصلوب کیا تو ان لوگوں نے ان کے کپڑے لے لئے ان لوگوں نے کپڑوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہر سپا ہی نے ایک ایک حصہ لیا ان لوگوں نے ان کا کر تا بھی لے لیا یہ بغیر سلا ہوا اوپر سے نیچے تک بنا ہوا تھا۔

24 سپاہیوں نے کہا اس کو نہ پھا ڑو بلکہ اس کے لئے قرعہ ڈالیں تا کہ معلوم ہو کہ یہ کس کے حصہ میں آیا ہے۔ یہ اس لئے ہوا تا کہ صحیفے میں جو لکھا ہوا ہے وہ پو را ہو سکے۔ جو اس طرح سے ہے:

25 یسوع کی ماں صلیب کے پاس کھڑی تھی اور اس کی ماں کی بہن کلوپاس کی بیوی مریم اور مریم مگدلینی کے ساتھ کھڑی تھی۔

26 یسوع نے اپنی ماں اور شاگرد جس کو وہ عزیز رکھتے تھے دیکھے اور اپنی ماں سے کہا، اے عورت تیرا بیٹا یہاں ہے اور یسوع نے شاگرد سے کہا،

27 یہاں، تمہاری ماں ہے، اس کے بعد سے شاگرد نے یسوع کی ماں کو اپنے ہی گھر میں رہنے دیا۔

28 اس کے بعد یسوع نے جان لیا کہ سب کچھ ہو چکا اور صحیفہ کا لکھا ہوا پو را ہوا تو اس نے کہا، میں پیا سا ہوں۔،

29 وہاں پر سر کہ سے بھرا ایک مرتبان تھا چنانچہ سپاہیوں نے اسپنج کو سرکہ میں بھگو کر اسے زوفے کی شا خ پر رکھ کر اس کو دیا۔ یسوع نے اسے منھ سے لگا یا۔

30 جب سر کہ یسوع نے پیا تو کہا، سب کچھ تمام ہوا، اور گردن ایک طرف جھکا دی اور اپنی جان دے دی۔

31 یہ دن تیا ری کا دن تھا۔ اور دوسرے دن خاص سبت کا دن تھا یہودی نہیں چاہتے تھے کہ سبت کے دن اس کا جسم صلیب پر ہی رہے اس لئے انہوں نے پیلا طس سے کہا کہ اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں اور لاشیں اتا ری جائیں۔

32 چنانچہ سپاہیوں نے آ کر پہلا آدمی جو مصلوب ہوا تھا اس کی ٹانگیں توڑ دیں اور دوسرے آدمی کی بھی ٹانگیں توڑ دیں جو یسوع کے ساتھ تھا۔

33 لیکن جب سپا ہی نے یسوع کے قریب آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو انہوں نے اس کی ٹانگیں نہیں توڑی۔

34 لیکن ایک سپا ہی نے اپنے بھا لے سے اس کے بازو کو چھید ڈالا اور اس سے ایک دم خون اور پانی نکلا۔

35 جس نے یہ دیکھا اس نے گواہی دی اور وہ گواہی سچی ہے وہ سچ کہتا ہے تا کہ تم بھی ا یمان لاؤ۔

36 یہ تمام واقعات صحیفے کے پورے ہونے کے لئے ہوئے، اس کی کوئی ہڈی نہ توڑی جائے گی۔

37 لیکن ایک دوسرے صحیفے کے مطابق لوگ، اس کو دیکھیں گے جس نے بر چھی ما را۔

38 ان واقعات کے بعد ایک شخص یوسف نامی جو آرمینہ کا رہنے والا تھا اور یسوع کا شاگرد تھا پیلا طس سے یسوع کی لاش لے جا نے کی اجازت چا ہی۔یوسف یسوع کا خفیہ شا گرد تھا۔ کیوں کہ وہ یہودیوں سے ڈرتا تھا پیلا طس نے اجازت دے دی۔ تب یوسف آ کر یسو ع کی لاش لے گیا۔

39 نیکو دیمس بھی آیا۔ نیکو دیمس وہ شخص تھا جو یسوع سے ملنے رات کو آیا تھا نیکو دیمس تقریباً ایک سو پا ؤنڈ مصا لحے لے آیا جو مرّ اور عود سے ملے ہوئے تھے۔

40 ان دونوں نے یسوع کی لا ش کو لے لیا اور لاش کو سوتی کپڑے میں خوشبو کے ساتھ کفنایا جیسا کہ یہودیوں کے یہاں دفن کا طریقہ ہے۔

41 جس سجگہ یسوع کو صلیب ہر چڑھایا گیا وہاں ایک باغ تھا اس باغ میں ایک نئی قبر تھی جس میں اب تک کسی کو نہیں دفن کیا گیا تھا۔

42 ان آدمیوں نے یسوع کو اس قبر میں رکھا کیوں کہ وہ قریب تھی اور یہودیوں نے اپنے سبت کے دن کی تیاری شروع کر دی۔

 

باب : 20

 

1 ہفتہ کا پہلا دن مریم مگد لینی قبر پر آئی ابھی تاریکی تھی دیکھا کہ قبر کا پتھر ہٹا ہوا ہے۔

2 وہ دوڑ کر شمعون پطرس اور دوسرے شاگردوں کے پاس گئی۔(جو یسوع سے محبت کرتے تھے ) مریم نے کہا، انہوں نے خداوند کو قبر سے نکال لیا ہے پتہ نہیں انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔

3 پھر پطرس اور شاگرد قبر کی طرف گئے۔

4 وہ دونوں دوڑ رہے تھے لیکن شاگرد پطرس سے زیادہ تیز دوڑا اور سب سے پہلے قبر پر پہونچا۔

5 شاگرد نے قبر میں دیکھا کہ سوتی کپڑے کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے لیکن وہ اندر نہیں گیا۔

6 شمعون پطرس ان کے پیچھے ہی پہونچا اس نے قبر میں جا کر دیکھا کہ سوتی کپڑے کے ٹکڑے پڑے تھے۔

7 اس نے یہ بھی دیکھا جو رومال یسوع کے سر پر لپیٹا تھا اس کو لپیٹ کر ان ٹکڑوں سے علیٰحدہ کچھ دور پڑا تھا۔

8 تب دوسرا شاگرد اندر آیا یہ وہ شاگرد تھا جو قبر پر پہلے پہونچا تھا جو کچھ اس نے دیکھا اور یقین کیا۔

9 کیوں کہ وہ اب تک صحیفوں کو نہ جانتے تھے جس کے مطابق مسیح کو مردوں میں سے زندہ ہو نا تھا۔

10 پس وہ شاگرد واپس گھر چلے گئے۔

11 لیکن مریم قبر کے با ہر کھڑی رو تی رہی اور روتے ہوئے اس نے قبر میں جھانک کر دیکھا۔

12 مریم نے دیکھا دو فرشتے جو سفید لباس میں ملبوس وہاں بیٹھے تھے جہاں یسوع کی لا ش کو رکھا گیا تھا ایک فرشتہ یسوع کے سرہا نے بیٹھا تھا اور دوسرا فرشتہ یسوع کے پاؤں کی طرف بیٹھا تھا۔

13 فرشتوں نے مریم سے پوچھا،اے عورت تم کیوں رو رہی ہو ؟مریم نے جواب دیا، کچھ لوگ میرے خداوند کی لاش لے گئے ہیں میں نہیں جانتی ان لوگوں نے اسے کہاں رکھا ہے۔

14 جب مریم نے یہ کہہ کر رخ پھیرا تو دیکھا کہ یسوع کھڑا ہے لیکن وہ نہیں سمجھی کہ وہ یسوع ہے۔

15 یسوع نے اس سے پو چھا، اے عورت ! تو کیوں رو رہی ہے اور کس کو ڈھونڈ رہی ہے؟

16 یسوع نے اس سے کہا،اے مریم ! اور مریم نے یسوع کی جانب مڑ  کر عبرانی زبان میں کہا، ربوّنی، (جس کے معنیٰ استاد کے ہیں )

17 یسوع نے اس کو کہا،مجھے مت چھو نا کیوں کہ میں ابھی تک اپنے باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں (شاگردوں ) کے پاس جا کر کہو کہ میں اپنے اور تمہارے باپ کے پاس اوپر جا رہا ہوں۔ میں اوپر اپنے اور تمہارے خدا کے پاس جا رہا ہوں۔

18 مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں سے کہا، میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں۔

19 ہفتہ کا پہلا دن تھا اسی دن شام میں سب شاگرد جمع تھے۔ دروازوں کو یہودیوں کے ڈر سے بند رکھا تھا۔ تب یسوع آ کر ان کے درمیان کھڑا ہوا۔

20 اور کہا تم پر سلامتی ہو، یہ کہہ کر اس نے شاگردوں کو اپنا ہاتھ اور بازو دکھا یا پس شاگردوں نے خداوند کو دیکھا اور بہت خوش ہوئے۔

21 یسوع نے دوبارہ کہا،تم پر سلامتی ہو باپ نے مجھے یہاں بھیجا ہے اسی طرح اب میں تم سب کو بھیجتا ہوں۔

22 یسوع نے ان پر پھو نکا اور کہا روح مقدس لو۔

23 جن لوگوں کا گناہ تم معاف کرو ان کا گناہ معاف اور جنہیں معاف نہ کرو ان کا گناہ معاف نہ ہو گا۔

24 تھو ما جسے توام بھی کہتے ہیں۔ یسوع کے آنے کے وقت دوسرے شاگردوں کے ساتھ نہ تھا۔ تھو ما ان بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔

25 دوسرے شاگردوں نے تھو ما سے کہا، ہم نے خداوند کو دیکھا تب تھو ما نے کہا، میں جب تک اس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں اور ان سورا خوں میں اپنے ہا تھ نہ ڈالوں اور جب تک میں اپنا ہاتھ اس کے بازو پر نہ رکھوں میں یقین نہیں کر تا۔

26 ایک ہفتہ بعد دوبارہ شاگرد گھر میں جمع تھے اور تھو ما بھی ان کے ساتھ تھا اس وقت دروازہ بند تھا۔ یسوع وہاں آ کر ان کے درمیان کھڑے ہو گئے یسوع نے کہا، سلامتی ہو تم پر۔

27 تب یسوع نے تھو ما سے کہا، اپنی انگلی یہاں رکھو اور اپنے ہاتھ میرے بازو میں رکھو اور مزید شک میں نہ پڑو اور اعتقاد رکھو۔

28 تھو ما نے یسوع سے کہا، اے میرے خداوند اے میرے خدا۔

29 یسوع نے اس سے کہا تم نے مجھے دیکھا اور ایمان لائے لیکن جن لوگوں نے مجھے بغیر دیکھے ایمان لائے وہ قابل مبارک باد ہیں۔

30 یسوع نے اور کئی معجزے دکھائے جو اس کے شاگردوں نے دیکھا وہ تمام معجزے اس کتاب میں نہیں لکھے گئے۔

31 لیکن یہ اس لئے لکھے گئے کہ تم ایمان لا ؤ کہ یسوع ہی مسیح ہے جو خدا کا بیٹا ہے تا کہ اس طرح ایمان لا کر تم اس کے نام سے زندگی پا ؤ۔

 

باب : 21

 

1 اس کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبر یاس کی جھیل کے پاس اپنے شاگردوں پر ظاہر کیا وہ اس طرح کیا۔

2 چند شاگرد وہاں جمع تھے جن میں شمعون پطرس، تو ما،نتن ایل،جو قانا گلیل کا تھا اور زبدی کے دو بیٹے اور دوسرے دو شاگردتھے۔

3 شمعون پطرس نے کہا،میں مچھلی کے شکار پر جا رہا ہوں دوسروں نے کہا، ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے پھر سب مل کر کشتی پر سوار ہوئے۔ اس رات انہوں نے کچھ بھی شکار نہ کیا۔

4 صبح یسوع کنا رے پر آ کر کھڑے ہو گئے مگر شاگردوں نے پہچا نا نہیں کہ یہ یسوع ہے۔

5 تب یسوع نے شاگردوں سے کہا، دوستو کیا تم نے مچھلی کا شکار کیا؟ شاگردوں نے جواب دیا، نہیں

6 یسوع نے کہا، اپنے جال کشتی کے دائیں جانب پھینکو اس طرف تمہیں مچھلیاں ملیں گی چنانچہ شاگردوں نے ویسا ہی کیا پھر شاگردوں نے جال میں اتنی مچھلیاں پائیں کہ اس جال کو کھینچ نہ سکے۔

7 تب اس شاگرد نے جو یسوع کو عزیز تھا پطرس سے کہا، یہ تو خداوند ہے اور پطرس نے اس سے یہ کہتے ہوئے سن کر کہ، وہ آدمی خداوند ہے اپنا کرتا کمر سے باندھ کر (پطرس کام کر نے کے لئے اپنے کپڑے اتار چکے تھے ) پانی میں کود پڑا

8 دوسرے شاگرد کشتی میں سوار مچھلیوں کا جال کھینچتے ہوئے آئے کیوں کہ وہ کنارے سے زیادہ دور نہ تھے صرف لگ بھگ سو گز کی دوری پر تھے۔

9 جب شاگرد کشتی سے باہر آئے تو انہوں نے کوئلوں کی آ گ دیکھی جس پر مچھلی اور روٹی رکھی ہو ئی تھی۔

10 تب یسوع نے کہا،کچھ مچھلیاں جو تم ابھی پکڑے ہو لے آؤ۔

11 شمعون پطرس کشتی میں جا کر مچھلیوں کے جال کو کنارے پر لے آیا جو بہت سی بڑی مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا جس میں تقریباً ۱۵۳ مچھلیاں تھیں اس کے با وجود وہ نہ پھٹا۔

12 یسوع نے ان سے کہا، آؤ کھا نا کھا ؤ لیکن کو ئی بھی شاگرد نہ پو چھ سکا کہ وہ کون ہے ؟ وہ جان گئے کہ وہ خداوند ہے۔

13 یسوع نے آ کر انہیں روٹی اور مچھلی دی۔

14 یہ تیسرا موقع تھا جب یسوع مر کر جی اٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کے سامنے ظاہر ہوا۔

15 جب وہ کھا نا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا، اے یو حناّ کے بیٹے شمعون ! کیا تو ان لوگوں سے زیا دہ مجھ سے محبت کر تا ہے ؟پطرس نے جواب دیا، ہاں! اے خداوند تم جانتے ہو کہ آپ مجھے کتنے عزیز ہیں۔ تب یسوع نے پطرس سے کہا، میرے میمنوں کی دیکھ بھال کر۔

16 دوبارہ یسوع نے پطرس سے کہا، اے یو حناّ کے بیٹے شمعون ! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟ پطرس نے جواب دیا ہاں اے خداوند تم جانتے کہ میں تمہیں عزیز رکھتا ہوں۔ تب یسوع نے پھر پطرس سے کہا، میرے بھیڑوں کی نگہبانی کر۔

17 تیسری مرتبہ یسوع نے پطرس سے پوچھا، اے یوحناّ کے بیٹے شمعون ! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟، پطرس بہت رنجیدہ ہوا کیوں کہ یسوع نے تین بار یہ پوچھا، کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟، پطرس نے کہا،اے خداوند تم ہر بات جانتے ہو تم یہ بھی جاتے ہو کہ میں تمہیں عزیز رکھتا ہو ں۔ یسوع نے پطرس سے کہا، تو میری بھیڑوں کی نگہبانی کر۔

18 میں تم سے سچ کہتا ہوں جب تم جوان تھے اپنی کمر کس کر جہاں چاہتے جاتے تھے مگر جب تو بوڑھا ہو گا تو دوسرا آدمی تیری کمر کسے گا اور جہاں تو نہ جا سکے گا وہاں لے جائے گا۔

19 یسوع نے ان باتوں کے ذریعہ بتایا کہ پطرس کی کس قسم کی موت سے خدا کا جلا ل ظاہر ہو گا، اتنا کہہ کر اس نے کہا،میرے پیچھے آ۔

20 پطرس نے پلٹ کر اس شاگرد کو پیچھے آتا ہوا دیکھا جس کو یسوع عزیز رکھتے تھے اور اس نے شام کے کھانے کے وقت اس کے سینہ پر سر رکھ کر پوچھا تھا! خداوند آپ کا مخا لف کون ہو گا ؟

21 جب پطرس نے دیکھا کہ وہ شاگرد پیچھے ہے تب یسوع سے پوچھا، خداوند اس کا کیا حال ہو گا ؟

22 یسوع نے جواب دیا، ہو سکتا ہے میں آنے تک اسے رہنے دوں لیکن تجھے اس سے کیا تو میرے پیچھے آ۔

23 پس دوسرے بھا ئیوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ یہ شاگرد جسے یسوع عزیز رکھتا ہے نہیں مرے گا۔ لیکن یسوع نے ایسا نہیں کہا کہ وہ نہیں مرے گا اس نے صرف یہی کہا، ہو سکتا ہے میرے آنے تک اسے رہنے دوں لیکن تجھے اس سے کیا۔

24 یہ وہی شاگرد ہے جو ان باتوں کو کہتا ہے اور جس نے اس کو لکھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا کہنا سّچا ہے۔

25 اور کئی کام ہیں جو یسوع نے کئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر بات کو لکھا جائے تو ساری دنیا بھی ان ساری کتابوں کے لئے جسے لکھی جائے نا کا فی ہو گی۔

٭٭٭

ماخذ:

http://gospelgo.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید