FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

 (۲۲)

 

 

مرتّب: ارشد خالد

 

معاون مدیر: ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (برمنگھم)

 

 

 

 

 

عکاس اب انٹرنیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے

http: //akkas-international.blogspot.de/

اور

http: //issuu.com/akkas

 

ناشر: مکتبہ عکاس

AKKAS PUBLICATIONS

House No 1164 Street No 2 Block C

National Police Foundation ,Sector O-9

Lohi Bhair, Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

………………………………………………………….

E- Mail:

akkasurdu2@gmail.com

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

اپنی بات

 

فیض صدی کے آغاز میں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے تسلیم الٰہی زلفی کی ایک کتاب شائع کی گئی تھی۔ اس کا نام تھا ’’فیض احمد فیض: بیروت میں ‘ ‘ ۔ اگرچہ اس کتاب کے بارے میں تب ہی بعض ادیبوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن حال ہی میں اشفاق حسین کی کتاب ’’فیض بیروت میں: حقیقت یا فسانہ؟‘ ‘  شائع ہوئی ہے تو اندازہ ہوا ہے کہ تسلیم الٰہی زلفی کی کتاب میں فیض احمد فیض کے بارے میں زیادہ تر من گھڑت باتیں لکھی گئی ہیں۔ اشفاق حسین نے اس سلسلہ میں جو حقائق بے نقاب کیے ہیں اس سے ایک طرف فیض شناسی کے باب میں ہونے والی افسانہ طرازیوں کی درستی ہو سکے گی تو دوسری طرف افسانہ طرازوں کی ایسی حوصلہ شکنی ہو گی کہ دوبارہ کوئی ایسی کتاب لکھنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔ اس شمارے میں اس حوالے سے چند مضامین شامل کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس کے نتیجہ میں اشفاق حسین کی کتاب کو مزید محققانہ نگاہ سے پڑھا جا سکے گا۔

فیض احمد فیض کے نام سے خوامخواہ کی شہرت کمانے کا سلسلہ فیض احمد فیض کی وفات کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ تب ایک تعزیتی جلسہ میں فیض احمد فیض سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے والے ایک صاحب نے تبرک کے طور پر فیض احمد فیض کا پاجامہ لینے کا ذکر کیا۔ فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض جلسہ میں موجود تھیں، انہوں نے اُسی وقت اسٹیج پر آ کر ایسی عقیدت مندی کو رد کرتے ہوئے توہمات سے اپنی اور فیض احمد فیض کی بیزاری کا اعلان کیا۔ اب تسلیم الٰہی زلفی نے بھی پا جامہ جیسے لطیفہ نما کئی فرضی قصوں سے اپنی کتاب کوبڑی دلیری سے پیش کیا ہے۔

اکادمی ادبیات اسلام آباد کی جانب سے ایسی کتاب کا شائع کیا جانا، بے شک غیر ارادی طور پر ہوا ہو گا۔ فیض صدی کے آغاز میں فیض احمد فیض کے نام پر جو کچھ لکھا جا رہا تھا، اسے پڑھے بغیر واہ واہ ہو رہی تھی۔ زلفی کی کتاب بھی اسی رویے کے نتیجہ میں شائع ہو گئی۔ کسی نے اسے توجہ سے پڑھنے کی زحمت نہ کی۔ اس تجربہ کے بعد امید ہے کہ ادب و ثقافت سے متعلق سرکاری ادارے ان معاملات میں اپنی ذمہ داری کو پہلے سے زیادہ توجہ دے سکیں گے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ادب و ثقافت کے حوالے سے سند ھ کی حکومت کے محکمہ ثقافت نے بھی کچھ ایسی ہی حرکت کی ہے۔ ایک کتاب ’’زبانِ یارِ من دانش‘ ‘ (A History of Danish Literature) محکمہ ثقافت حکومت سندھ کی جانب سے شائع کی جا رہی ہے۔ کتاب ابھی فروری ۲۰۱۶ء تک شائع ہو کر ریلیز نہیں ہوئی۔ کتاب قارئین کے لیے دستیاب ہو گی تو اندازہ کیا جا سکے گا کہ اس میں کتنی علمی تحقیق سے کام لے کر ڈنمارک کے ادب کی تاریخ بیان کی گئی ہے یا پھر کس حد تک ترجمہ بلا حوالہ کی کاری گری کی گئی ہے۔ یہ کتاب ڈنمارک میں مقیم ایک پاکستانی خا تون صدف مرزا کے نام سے شائع ہو رہی ہے۔ لیکن یہاں حیران کن واقعہ یہ ہوا ہے کہ ۲۳نومبر۲۰۱۵ء کوڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں اس کتاب کی تقریب رونمائی کی گئی ہے۔ پروف ریڈنگ کے لیے دی گئی ڈمی پر ٹائٹل سجا کر تقریب رونمائی کر دی گئی ہے۔ اس کاسرکاری لحاظ سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سندھ حکومت میں ثقافت کی مشیر محترمہ شرمیلا فاروقی اس کتاب کی رونمائی کے لیے بہ نفسِ نفیس کوپن ہیگن تشریف لے گئیں۔ ہمارا حسنِ ظن ہے کہ شرمیلا فاروقی صاحبہ کو اصل حقائق سے بے خبر رکھا گیا ہو گا اور انہوں نے دفتری رپورٹس کے مطابق یہ دورہ کر لیا ہو گا۔ عین ممکن ہے اس دفتری کاروائی میں بعض بابو لوگوں نے اپنے ڈنمارک کے سفر کی گنجائش بھی نکال لی ہو۔ لیکن علم و ادب کے نام پرسرکاری اداروں میں ایسی جعلی وارداتیں نہایت افسوس ناک ہیں۔ اگر حکومت کے ادبی و ثقافتی اداروں میں علم و ادب کے نام پر اس طرح کی کاروائیاں ہونے لگیں تو پھر علم اور جہالت اور ادب اور بے ادبی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔

ڈینش ادب کے حوالے سے حکومت سندھ جو کتاب شائع کر رہی ہے، جس کی تقریب رونمائی کوپن ہیگن میں ۲۳نومبر کو ہو چکی ہے، ہم فروری ۲۰۱۶ء میں بھی اس کتاب کی اشاعت کے منتظر ہیں۔ کتاب عوام کے لیے دستیاب ہو گی تو اس بارے میں مزید علمی و غیر علمی حقائق سامنے آتے جائیں گے۔

پاکستان کی مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں سے درخواست ہے کہ علمی و ادبی معاملات میں ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو درباری نوعیت کے سرکاری ملازمین اور مصاحبین کے ہاتھوں قومی خزانے کی طرح علم و ادب کے خزانے بھی لُٹ جائیں گے اور اس شعبہ میں مکمل طور پر کھوٹے سکوں کا راج ہو کر رہ جائے گا۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

فرحت نواز ایک لمبے وقفہ کے بعد شعر و ادب کی طرف آئی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ اس پر مختلف ادیبوں کی طرف سے اظہارِ خیال سامنے آ رہا ہے۔ اب تک جو کچھ سامنے آ چکا ہے اس کا ایک مناسب سا انتخاب اور چند نئے مضامین کے ساتھ فرحت نواز کے لیے ایک گوشہ ترتیب دیا گیا ہے۔ عکاس کے ابتدائی دور میں، رحیم یار خان کے ادبی ماحول میں، عکاس کو فرحت نواز کا قلمی تعاون حاصل رہا تھا، یہ گوشہ اس تعاون کے اعتراف کی بھی ایک صورت ہے۔

عکاس کے اس شمارہ کے باقی مندرجات حسبِ معمول ہیں۔

ارشد خالد

 

 

 

 

 

ادبی تھیوری کا مغالطہ ۔۔۔ عامرسہیل (ایبٹ آباد)

 

ادب کی تفہیم کے ضمن میں ادبی تھیوری کا ذکر جس شد و مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے اُس کی وجہ سے کچھ ایسے مغالطے بھی جنم لے رہے ہیں جن پر سوچنا ضروری ہے۔ ادبی تھیوری کا باضابطہ آغاز ارسطو کی بوطیقا سے ہوتا ہے۔ ارسطو اپنے عہد کے مروجہ سماجی اور سائنسی علوم و فنون کا منتہی تھا لیکن ادبی شعریات کی تھیوری مرتب کرتے وقت اُس نے صرف اعلا ادبی فن پاروں کی روشنی میں اپنے تنقیدی افکار و نظریات وضع کیے۔ بوطیقا ایک خالص ادبی دستاویز ہے جس میں ادب کے علاوہ کسی اور علم یا فن کا سہارا لینے کا رجحان نہیں ملتا بلکہ ادبی فن پاروں سے ایسے عمومی اُصولوں کا استخراج کیا گیا ہے جن کی مدد سے جہاں ایک طرف ادب فہمی کے نئے در وا ہوئے وہاں اِن اُصولوں کا اطلاق ادبی دنیا میں وسعت کا باعث بھی بنا ہے۔ ادبی تھیوری کی اسی روایت کو لانجائنس، فلپ سڈنی، ڈرائیڈن، شیلے، میتھیو آرنلڈ، ایلیٹ اور ہمارے ہاں الطاف حسین حالیؔ نے جاری رکھا۔ ساٹھ کی دہائی میں اسی ادبی تھیوری کو فرانس، جرمنی، روس اور انگریزی ممالک کے چند جید حکما و فضلا نے لسانیات، بشریات، عمرانیات، مصوری اورکسی حد تک سائنسی علوم کے زیر سایہ پروان چڑھانے کا ڈول ڈالا۔ اب ہوا یہ کہ مذکورہ علمی میدانوں میں جو نظریات مرتب شکل میں سامنے آ چکے تھے اُن سب کا اطلاق براہ راست ادب پر بھی کر دیا گیا۔ یہ بظاہر ایک بہت بڑا انقلاب نظر آتا ہے لیکن اس کے مضمرات پر ابھی تک ہماری ( زیادہ تر اُردو نقادوں کی)نظر نہیں پڑی۔

سماجی علوم ( ادب کے علاوہ ) میں جو نظریات سامنے آئے اُس کی بدولت اِن علوم میں خاصی پیش رفت بھی ہوئی اور یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ تمام نظریات اپنے اپنے محدود ڈسپلن کے اندر رہ کر ہی کار آمد ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ یہ سب علمی کاوشیں اپنی مخصوص حدود، نوعیت اور افادہ کی پیداوار ہیں۔ ان نظریات سے حاصل شدہ علم خالص ادب کی سرحدوں سے ٹکراتا ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ادب کی تفہیم میں بھی ان کی اجارہ داری قبول کر لیں اور ان کے حدود نا آشنا اطلاقات اور مطالبات کو حتمی تسلیم کر لیں۔ ادب کی راست تفہیم میں ان نظریات پر انحصار کرنا نہ صرف ادبی حدود و ثغور سے تجاوز کرنا ہے بلکہ ادب فہمی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت اُردو ادب میں جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، ردِ ساختیات، تانیثیت، نوآبادیات، مابعد نوآبادیات اور گئے تھیوری ( (gay theory کے گرما گرم موضوعات خاص خاص تناظرات کے ساتھ چلتے چلے جا رہے ہیں۔ اور تماشا یہ ہے کہ ادب کی ہر تخلیق کو اب انھی دستیاب اصطلاحات کے سانچوں میں فٹ کر کے تجزیہ و تحلیل کے مراحل طے کرائے جا رہے ہیں۔

اب کسی ادبی فن پارے کو ان نام نہاد جدید ڈسپلن کے حوالے سے پرکھنے اور پڑھنے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اصل متن کو فرضیوں کے انبار تلے ڈھیر کر دیا ہے اور دیگر علوم کو اس قدر حاوی کر دیا ہے کہ ادبی فن پارہ کہیں بیچ ہی میں دب کر دم توڑ دیتا ہے۔ ادبی فن پارے کی موت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ مصنف کی موت کا اعلان پہلے کر دیا جائے تا کہ مادر پدر آزاد متن کو حسب منشا موڑا توڑا جا سکے۔ ادب کی اس تفہیمی کار روائی کو ’’ بین العلومیت‘ ‘  کا تڑکا لگا دیا گیا تا کہ اس ادبی جائزے بلکہ نا جائزے کو بھاری بھرکم اصطلاح میں چھپایا جا سکے۔ اگر اسی کا نام ادبی تھیوری ہے تو پھر اسے دور سے سلام۔ ہمارے ہاں مغربی چربہ ساز نقادوں نے ادب کی حدود اس قدر وسیع کر دی ہیں کہ اب اس میں باقی سب کچھ تو موجود ہے صرف ادب غائب ہے۔ اتنی بات تو ایک ادنیٰ قاری بھی جانتا ہے کہ کسی بھی سماجی یا سائنسی علم کو ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ کہ اس علم کی تعریف اتنی محدود کر دی جائے کہ اُس کی ممکنہ اصل صفات کا ذکر بھی کم کم آنے پائے یا پھر اُس کی تعریفی حدود کو اتنا پھیلا دیا جائے کہ دیگر علوم بھی از خود اُس میں شامل نظر آئیں۔ ہمارے نقادوں نے دوسرے طریقے میں سہولت سمجھی اور اسے کامیابی سے آزما بھی ڈالا۔ ادبی تھیوری کے جید اور پیشہ ور نقادوں نے قاری کو آسانی مہیا کرنے کی خاطر ایسے ایسے رنگین شیشوں کے چشمے تیار کر لیے ہیں کہ اب ہر قاری اپنی پسند کا رنگین چشمہ پہن کر ادب کا بالاستعیاب مطالعہ کر سکتا ہے۔

مغرب میں بلا شبہ تنقید نے خاصی ترقی کی لیکن وہاں نئے نظریات میں رد و قبول کا ارتقائی فطری عمل بھی جاری و ساری رہا ہے جس کے باعث ہر تازہ فکر اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے پوری طرح منسلک نظر آتی ہے اور اپنا معقول جواز بھی رکھتی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں اندھی تقلید اصل مسئلے کو عجیب ماورائی دھند میں گم کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی مغرب کے چبائے نوالوں کو رواج دینے کا فیشن عام ہے۔ اُردو میں ادبی تھیوری کے نام پر دیگر علوم کو فروغ دینے کا عمل جس تیزی سے جاری و ساری ہے اُسے دیکھ کر خوف آتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا اُردو ادب محض دوسروں سماجی علوم کی حاشیہ برداری کا فریضہ ہی انجام دینے کے قابل رہ جائے گا۔ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہر زندہ ادب مشترک انسانی اقدار کو موضوع بناتا ہے اور اس سے فیض یاب ہونے کے لیے لازمی ہے کہ مصنف کو زندہ سمجھا جائے اور اُس کے ارادی منشا کی قدر افزائی بھی کی جائے۔

ادبی تھیوری کے تانے بانے ساختیاتی مظاہر کی مدد سے بھی تیار کیے گئے تھے اور ان مظاہر کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ متن کو ہی سب کچھ فرض کر کے مصنف کو نکال باہر کر دیا گیا۔ (یہ منفی رویہ آگے چل کر یہ تقاضا بھی کر سکتا ہے کہ ہر نئی آنے والی کتاب پر مصنف کا نام لکھنے کا تکلف بھی نہ کیا جائے ) اس کے مطابق متن خود مختار اور خود مکتفی ہے جبکہ قاری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے متن سے برآمد یا درآمد کرے۔ اس ادبی عقیدے نے من مانی اور من چاہی تشریحات و تعبیرات کا جو طومار لگایا اُسے دیکھ کر مصنف خود ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ متن کو تمام تکلفات سے آزاد کرنا بھی ایک لایعنی عمل ہے۔ ساختیات کہتی ہے کہ ایک فن پارہ جب الفاظ کی ترتیب و تشکیل کے مراحل طے کر لیتا ہے تو اُس کے لیے یہ جاننا قطعاً ضروری نہیں ہوتا کہ مصنف اسے کس خیال کے تحت معرضِ وجود میں لایا تھا، اب متن کو سامنے رکھ کر عام قاری یا خاص ناقد مراقبہ کرے گا اور پھر اس کا کشف جو بتائے گا وہی درست ہو گا۔ یہاں عمومی نوعیت کے کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فن پارہ اپنی ذات میں ایک کامل مفہوم رکھتا ہے تو کیا یہ مفہوم پیدا کرنے میں مصنف کا کوئی کردار نہیں ؟کیاکسی فن پارے میں جو ایک معنی موجود ہے یا کثیر معانی کے دریا بہہ رہے ہیں اب اُن میں مصنف کا کوئی حصہ نہیں بنتا؟کیا ہم یہ فرض کر لیں کہ فن پارے سے جو معانی کشید کیے جا رہے ہیں وہ مصنف کے ذہن میں نہیں تھے اور نہ اُن تک وہ پہنچ سکتا تھا؟کیا فن پارے میں موجود معانی کا سیل بے پناہ از خود پیدا ہوا ہے یا کوئی اور بھی اس کا ذمہ دار ہے ؟آخر یہ فرضیہ کیوں قائم کیا جائے کہ متن میں موجود معانی صرف قاری ہی کے ذہن میں آ سکتے ہیں اور وہی اس کا مکلف ہے ؟مصنف کو اُس کی تصنیف سے بے دخل کر کے ہم ایسے کون سے ارفع مقاصد حاصل کر رہے ہیں جو اس سے قبل ممکن الحصول نہ تھے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے جدید تنقیدی رویے بالآخر قاری کو بھی نکال باہر کر دیں اور متن ہی کو دیوتا سمجھ کر اُس کی پرستش شروع کر دیں۔ اس نوع کے مزید کئی سوال ادبی تھیوری کے جدید علم برداروں سے پوچھے جا سکتے ہیں۔ یہاں ایک بات اور بھی کہنے کی جسارت کروں گا کہ کسی خاص تہذیبی و ثقافتی تناظر میں جنم لینے والا نظریہ جہاں اُس خاص ملک کی فلاح و بہبود اور سماجی فکر میں مثبت کردار ادا کرتا ہے وہیں وہ نظریہ کسی دوسری ثقافت میں سم قاتل بن سکتا ہے۔ ادبی تھیوری اور اس کے متعلقات اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں اُردو ادب میں مغربی سماجی تحریکوں اور رویوں کو جس اہتمام کے ساتھ جوڑا توڑا جا رہا ہے اُس سے تو یہی متبادر ہوتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ اُردو ادب کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کی بقا کا آخری حل بھی اسی میں پوشیدہ ہے اور اگر ان جدید آلات کی معاونت حاصل نہ کی گئی تو ہم سب اَن پڑھ اور جاہل بن کر رہ جائیں گے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ان جدید نظریات کو اُردو ادب میں متعارف کرانے کے چکروں میں مغربی تصورات کی بالا دستی بلکہ دہشت گردی کو اُردو سماج میں مستحکم کر رہے ہیں ؟ان نظریات کا مطالعہ اُردو دان طبقے کے دل و دماغ پر کچھ اس خوب صورت انداز میں اپنا تسلط جما رہا ہے جس کے باعث مغربی قوت کا رعب اور خوف بالواسطہ یا بلا واسطہ ہماری نفسیاتی تربیت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ جدیدیت، ما بعد جدیدیت، نوآبادیات اور مابعد نو آبادیات جیسے تصورات جب اُردو ادب میں وارد ہوئے تو ان کی دخل اندازی نے ہمارے اُردو ادب کو اتنا کچھ دیا نہیں جتنا کہ لے لیا ہے۔ مجھے ان تصورات کے علمی ہونے میں کوئی شک نہیں اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُردو ادب میں ان کی آمد بعض سیاسی مقاصد بھی رکھتی ہے جس سے با خبر ہونا لازمی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کا بڑا مقصد بظاہر اُردو اور دیگر زبانوں کی ترویج و اشاعت تھا لیکن درپردہ وہ ہندوستان پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہ رہے تھے اور تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ اپنے تمام مضموم ارادوں میں کامیاب بھی رہے تھے۔ ہمارے نئے اور پرانے نقادوں کو اس بات کا یقیناً علم ہے کہ ادب ہر جائی ہوتا ہے اور یہی ہرجائیت ادب کی روح کا خاصہ ہے۔ ہم آج جس نظریے کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں کل اُس کا چلن بازار سے اُٹھ جائے گا اور ایک بار پھر ہمارا واسطہ مصنف اور اُس کے ارادی منشا سے پڑے گا۔ وہ دن دور نہیں جب تخلیق کار کی تخلیقات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تازہ کاری کا حسن برقرار رکھیں گی اور ان سے منسلکہ مغربی تنقیدی تصورات اور اصطلاحات کی آب و تاب گم ہو جائے گی۔ اُس وقت ہمارے نقاد حضرات کسی نئی بشارت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔ عالمی ادب کے معمار اپنی روایات اور اُن سے حاصل ہونے والے تجربات کو فوقیت دیتے ہیں اور کسی خاص نظریے یا شخص کو تقدیس کے لبادوں میں لپیٹ کر اُس کی پرستش نہیں کرتے اور جذباتیت سے بچتے بچاتے ادبی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں سیاسی اور ادبی مقاصد کے باہمی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر نئی اور علمی اصطلاح کو بے سوچے سمجھے ادب پر تھوپ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آج کا اُردو ادب دنیائے علم کی سماجی اور سائنسی اصطلاحوں اور تحریکوں کی تجربہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہہ نہیں کہ ادب میں ارتقا اور تبدیلی کا عمل ناگزیر ہے لیکن ہر تبدیلی اپنا ایک فکری جواز بھی رکھتی ہے جس سے آگاہ ہونا نقاد کی اخلاقی اور علمی ذمہ داری ہے۔ اُردو ادب میں اس فکری جواز پر شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے، کیوں کہ جب مغرب سے ہمیں بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلائے تنقیدی سانچے وافر مقدار میں مہیا ہو جاتے ہیں تو پھر ایسی بیگار کا کیا جواز باقی رہتا ہے !اس سہل انگاری نے اُردو ادب میں لا ادبی تحریک کا راستہ ہموار کرنا شروع کر دیا ہے۔

بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے

یہ ہم سفر مرے کتنے گریز پا نکلے

ادبی تھیوری صرف اُسی صورت میں اپنی فکری ذمہ داری پوری کرے گی جب اس کی اساس ادبی فن پاروں پر اُستوار ہو گی نہ کہ سماجی علوم و فنون کے مسائل و مظاہر اور اُن کے بے صرفہ اطلاقات پر۔ ادبی معاملات میں اُردو والوں کی مغرب زدگی بھی دوہرے معیار کی حامل ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اُردو والوں کا مغرب والوں کے ساتھ تخلیقی سطح پر مکالمہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مغرب کے تخلیقی فن پارے ہمارے ہاں کتنے لوگ پڑھتے ہوں گے ؟ اول تو ان فن پاروں کے اُردو تراجم کی رفتار ہی خاصی کم ہے اتنی کم کہ اس کی مدد سے آپ کسی روایت کا کھوج نہیں لگا سکتے (اصل زبان میں مطالعہ کرنے والوں کی تعداد ممکن ہے کہ ایک فیصد تک ہو) اور بیشتر تراجم کا تعلق پرانے یا قدیم متون کے ساتھ ہوتا ہے اور اُس وقت تک پُلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہوتا ہے اُس کا انداز لگانا کارے دارد۔ معاصر مغربی تراجم کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُردو والے مغرب کے تخلیقی تجربے میں شامل ہونے سے بوجوہ قاصر ہیں۔ ثقافتی بُعد کا مسئلہ اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ دوسری طرف مغرب میں جیسے ہی ادب یا دیگر علوم و فنون میں اُصول سازی کا عمل شروع ہوتا ہے اور نئے رجحانات پر فکری مباحث چھڑنے لگتے ہیں ہمارے ادیب اور نقاد بھی فوراً اُنھی مسائل پر بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے نقادجس اندھے اعتماد اور تیقن کے ساتھ ان جدید رویوں پر بولتے ہیں سُن کر تعجب ہوتا ہے کہ مغرب کے وہ مسائل جو ایک خاص صورت حال کی پیداوار ہیں اور جن کا ظہور فکری اور تاریخی ارتقا کا مرہونِ منت ہے وہ اچانک را توں رات ہمارا مسئلہ کیسے بن گئے ؟کیا ہمارا یہ ادبی رویہ کوئی منطقی جواز رکھتا ہے ؟کیا اُردو ادب اب محض اسی قابل رہ گیا ہے کہ ہم مغرب کی ہر فکری تبدیلی کو ہنگامی بنیادوں پر اپنا مسئلہ بنا لیں۔ اگر ہمارے ناقدین اتنے ہی با شعور اور صاحب بصیرت ہیں تو اپنی ثقافتی صورت حال کو سمجھ کر اور فکری روایت کو پیش نظر رکھ کر خود اُصول سازی کیوں نہیں کرتے ؟ ادبی تحریکات، رجحانات اور تجربات کا تعلق کسی ملک یا تہذیب کی مخصوص صورت حال سے ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ فرانس، امریکہ، روس اور انگلستان میں کسی مسئلے پر ایک نظریہ سامنے آیا اور ہمیں یہ احساس ہونے لگے کہ یہ مسئلہ تو ہمارا بھی ہے اور پھر افراتفری کے عالم میں اُس کے اطلاقات کی فکر میں سرگرداں ہو جائیں۔ اگر ہم ایسا سمجھتے ہیں تو اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اُصول تطبیق کو کائنات کی آخری صداقت مان کر اصل تحقیق و جستجو سے اپنا پیچھا چھڑا لیا ہے۔ یہ اصولِ تطبیق اصلاً علم کلام کی ایک اصطلاح اور حربہ ہے جسے مذہبی معاملات میں برتا جاتا ہے اور عموماً اس کے نتائج علمی حوالے سے ٹھوس نہیں ہوتے کیوں کہ ادھر اُدھر کی تحقیقات کو بروئے کار لا کر کسی مخصوص عقیدے کو عقلی و نقلی دلیل سے مزین کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ مسلم فکر کو اُصول تطبیق کا نقصان یہ ہوا کہ اصل فلسفیانہ اور سائنسی افکار کا بہتا دریا آہستہ آہستہ خشک ہوتا چلا گیا۔ اب یہی حربہ اُردو ادب میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ادب میں اس وقت فکری بحران اور انتشار کی سی کیفیت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت اُردو ادب کے یہی جدید دانشور مغرب کے علمی ادبی خزانوں کو اُن کے اصل پس منظر اور پیش منظر سے کاٹ کر مختلف ادبی اصناف پر چسپاں کرنے میں مصروف ہیں، جدید کاروں کا یہ فر قہ خود کو بزعم خویش پڑھا لکھا اور روشن خیال سمجھتا ہے اور باقیوں کو قدامت پرست اور کم سواد کہہ کر مطمئن ہو جاتا ہے،

ہر فکر کے باطن میں اُس کا رد بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ میشل فوکو نے ساختیات پر جو ضرب کاری لگائی اُس کی وجہ سے ساختیات کا اپنے پیروں پر کھڑا رہنا ممکن نہیں رہا۔ فوکو نے انسانی فطرت، سماج، ثقافت اور ادب کی مشترکہ میراث اور باہمی تعلقات کی طرف جو توجہ دلائی اُس کی وجہ سے فکر انسانی میں ایک نئی طرز فکر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس فکر کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ انسانی فکر شعور کی جادوئی اور موضوعی حد بندیوں سے باہر نکل کر اپنے ارد گرد پھیلی محسوس اشیا اور مظاہر کے حوالے سے اپنے مسائل کی تفہیم کی جانب راغب ہوتی جا رہی ہے۔ ادب کو اُس کا جائز مقام دلانے میں بھی فوکو کے افکار توجہ طلب ہیں۔ ادب کی خدمت یہ نہیں ہے کہ اُس پر ادھر اُدھر کے افکار لاد کر اس کی اصل صورت کو مسخ کر دیا جائے اور ادبی اقدار کو دیگر اقداری نظام کے تناظر میں دیکھنے کی روش اپنائی جائے بلکہ ادب صرف اُنہی علوم کی مداخلت برداشت کر سکتا ہے جو اس کی اصلیت کو برقرار رکھتے ہوئے ادب فہمی میں معاونت کریں۔ مغرب پسند نقادوں کو یہ خاطر نشان رہے کہ خود مغرب میں ادبی تھیوری کی حشر سامانیوں کے خلاف بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ لیکن مقام تعجب ہے کہ مغرب میں ادبی تھیوری کی محدودیت اور اس کی اصولی مخالفت کے ضمن میں جو کچھ لکھا گیا ہم اُردو والوں نے اُس سے کچھ زیادہ تعرض نہیں کیا۔

ادبی تھیوری کے رطب و یابس میں صحت مند تنقید کی رہنمائی کے لیے چند گوہر آب دار بھی موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جا رہا ہے اور کیا جانا چاہیے لیکن ادب کے ’’ بین العلومی مطالعات‘ ‘  کا نعرہ خطرناک ہے کیوں کہ یہ طریقِ کار بالآخر اُس نقطے پر منتج ہو گا جہاں ادب کا وجود معدوم ہوتے ہوتے دوسرے علوم میں ضم ہو جائے گا۔ دنیا کے تمام علوم و فنون اپنی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے نت نئے پیراڈئم قبول کرتے ہیں اور ادب کے ساتھ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس یہ تو یہی گمان گزرتا ہے کہ ادب کی منفرد حیثیت کو ختم کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔ خدا کرے کہ میر یہا گمان غلط ثابت ہو۔

 

٭٭٭

 

 

 

 

سکندر حیات میکن (شاہ پور، سرگودھا) ۔۔۔ انور سدید کی شاعری

 

سفر اس کائنات کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ انسان مختلف جہتوں میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اسی طرح اُردو ادب کے فطری ادیب بھی اپنا تخلیقی سفر جاری رکھتے ہیں۔ جس طرح ایک جینوئن ادیب کبھی ادب سے ریٹائر نہیں ہوتا اسی طرح اس کا قلم، کتاب کے ساتھ رشتہ اور ادبی دنیا کی سیر جاری رہتی ہے۔ اسی قبیل کے ادیبوں کی صف سے تعلق رکھنے والے ایک کثیر الجہت ادبی شخصیت کے مالک ڈاکٹر انور سدید بھی ہیں۔ انور سدید نے اُردو ادب کی تمام اصناف میں نمایاں اور زندہ رہنے والا کام کیا ہے۔ ان کی روشن تخلیقات اُردو ادب کے ماتھے کا جھُومر ہیں۔

انور سدید نے اُردو شاعری میں بھی ایک خاص انداز کے تحت اپنا شعری سفر شروع کیا۔ حمد و نعت کے ساتھ ساتھ نظمیں اور غزلیں ان کے کلام میں نمایاں ہیں۔ انور سدید کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ’’پرندہ سفر میں ‘ ‘  کے عنوان سے مقبول اکیڈمی، لاہور سے ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا۔ اس غزلیہ مجموعے میں انور سدید کی ۴۶ غزلیں شامل ہیں۔ انور سدید نے اپنی ملازمتی مصروفیات کے بعد جب ادب سے رشتہ جوڑا تو انھوں نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ اپنے شعری ذوق کو بھی پروان چڑھایا۔ ان کے اس شعری ذوق کی پرورش میں ڈاکٹر وزیر آغا کا بڑا ہاتھ ہے اور خود انور سدید، ڈاکٹر وزیر آغا کو اپنا محسن کہتے ہیں۔ سجاد نقوی ان کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر انور سدید نے ایک عرصہ ادب سے جدا رہنے کے بعد جب ڈاکٹر وزیر آغا کے ایماء پر ۱۹۶۶ء میں اُردو تنقید سے اپنی نثرنگاری کا آغاز کیا تو ۱۹۶۸ء تک پہلے دو سال ’’اوراق‘ ‘  کی نظموں اور غزلوں سے دل بہلاتے رہے۔ ۱۹۶۸ء شروع ہوا تو ایک ساتھ انور سدید کے اندر شاعری کی دیوی بیدار ہوئی۔ پہلے ایک رومانی غزل پھر جدید نظم کی برکھا شروع ہو گئی۔ ’’پتھر‘ ‘  اور ’’نروان‘ ‘  اور ’’زمین‘ ‘  تین نظموں سے انور سدید کی شاعری کا آغاز ہوا۔ ‘ ‘ [۱]

۱۹۶۸ء میں انور سدید نے اپنی پہلی غزل لکھی۔ اس کے بعد انور سدید کا شعری سفر ابھی تک جاری ہے۔ انھوں نے مختلف شعری اصناف میں اپنی فکری و فنی بصیرتوں کا اظہار کیا ہے۔ انور سدید کا شعری کلام ملک کے مختلف ادبی رسائل و جرائد کی زینت بنتا رہا۔ انور سدید نے اپنی جس غزل سے شعری سفر کا آغاز کیا وہ غزل ملاحظہ کیجیے:

آرزو نے جس کی پوروں تک تھا سہلایا مجھے

خاک آخر کر گیا، اس چاند  کا سایہ مجھے

گھپ اندھیرے میں بھی اس کا جسم تھا چاندی کا شہر

چاند جب نکلا تو وہ سونا نظر آیا مجھے

آنکھ پر تنکوں کی چلمن، ہونٹ پر لوہے کا قفل

اے دلِ بے خانماں کس گھر میں لے آیا مجھے

کس قدر تھا مطمئن میں پیڑ کے سایے تلے

چاندنی مجھ پر چھڑک کر تو نے بہکایا مجھے

میں بساطِ گل کو ترسا عمر بھر انور سدیدؔ

آج پھولوں پر لٹا کر کیوں ہے تڑپایا مجھے

پروفیسر سجاد نقوی کے بقول انور سدید نے اپنی پہلی نعت ۱۹۷۱ء میں لکھی جو مولانا ظفر علی خان کی زمین میں تھی۔ انور سدید کی پہلی نعت اور رسولِ مقبولﷺ سے محبت کا خصوصی اظہار دیکھیے:

انسانیت کی آنکھ کا تارا تمہیں تو ہو

ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا تمہیں تو ہو

تسکینِ قلب اور راحتِ جاں ہے تمہارا نام

مشکل میں سب نے جس کو پکارا تمہیں تو ہو

دنیا تمہارے مصحف زیبا کی اک کرن

عقبی کے آسمان کا تارا تمہیں تو ہو

انور سدیدؔ تیرے غلاموں کا ہے غلام

اس کے دل حزیں کا سہارا تمہیں تو ہو[۲]

انور سدید کا شعری ذوق یوں جستہ جستہ پروان چڑھتا رہا اور وہ شاعری میں ارتقائی منازل طے کرتے چلے گئے۔ زیرِ نظر مجموعے میں ان کی غزلوں کا انتخاب شامل ہے۔ بلا شبہ انور سدید اُردو غزل کے مزاج سے اچھی طرح آشنا ہیں اور اُردو غزل کی تاریخ بھی ان سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے انور سدید کی ادبی اور فن کارانہ مہارت نے اچھی غزل کہنے میں انھیں فائدہ پہنچایا ہے۔ تسلسل اور روانی ان کی غزلوں کا خاصا ہے۔ ان کی غزل اشکِ رواں کی طرح رواں رہتی ہے۔ موسیقیت اور غنائی تاثیر نے ان کے کلام میں ایک چاشنی پیدا کر دی ہے۔ انھوں نے انور سدید کی ردیف میں جو غزل لکھی؛ اس میں صوتی آہنگ اور تنوع بہت کمال ہے۔

کون پوچھے گا بھلا تجھ کو یہاں انور سدید

اپنے کاندھے پر اٹھا، بار گراں انور سدید

خود ہی رولے دیکھ کر اہلِ جہاں کی بے رخی

اور خود ہی پونچھ لے اشکِ رواں انور سدید

روز و شب کی اس مسافت سے نمٹنے کے لیے

دھوپ کو اپنا بنا لے سائباں انور سدید

وقت کا بس یہ تقاضا ہے سجا لے آج تو

کاغذی پھولوں سے ایوانِ خزاں انور سدید

دھوپ کا سائباں اوڑھ کر زندگی بسر کرنے والے انور سدید نے اپنی غزل کا آنگن ہر سو گلاب کے پھولوں سے مزین رکھا ہے۔ انھوں نے صعوبتوں کی گھڑیوں میں طمانیت کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کی غزلوں میں مایوسی اور محرومی کو دخل نہیں ہے۔ ان کی آنکھیں خواب دیکھتی ہیں اور خوابوں کے گلشن میں انور سدید مہکتا اور چہکتا نظر آتا ہے۔

وہ آنکھ جس سے غزل میری اکتساب ہوئی

وہ آنکھ جاگتی رہتی ہے میرے خوابوں میں

غمِ دوراں ان کی غزلوں کا اہم موضوع ہے۔ سماج میں بدلتی اور ڈولتی ہوئی زیست کا نوحہ ان کی غزلوں میں نمایاں ہے۔ انور سدید نے تہذیبی رنگوں، اخلاقیات اور اقدار کی پاسداری کو بھی خوب نبھایا ہے۔ انھوں نے اچھوتے خیالات میں نادر موضوعات کو سمویا ہے۔ ان کی غزلوں میں زندگی کی روانی خوب ہے۔ انور سدید کی عمر کی پختگی ان غزلوں میں نمایاں ہے۔ کہیں بھی کچے جذبات اور نام نہاد محبتوں کا رونا نہیں رویا گیا۔ بلکہ وہ عمر بھر قولِ سدید کے قائل رہے ہیں اور منافقانہ رویوں سے انھوں نے خود کو دور ہی رکھا ہے۔

در اس نے اپنے دل کا کشادہ نہیں کیا

ہم نے بھی اس طرف کا ارادہ نہیں کیا

برتا جو اس نے بخل مروت میں دوستو!

ہم نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا

مجید امجد کی زمین میں لکھی گئی غزل بھی بہت عمدہ ہے اور مجید امجد کو خراج کا ایک خوب صورت ذریعہ بھی ہے۔ اس غزل کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

غریب لفظوں کو تو نے تو نگری دے دی

ہیں تیرے سرِ نہاں کا بیاں گلاب کے پھول

یہ نوحہ تیری زمیں کا ثمر مجید امجدؔ

تری زمیں پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

انور سدید کی شاعری عصری تقاضوں سے بھری ہوئی ہے۔ شب کی ویرانیوں میں چراغ جلتا ہے اور چراغ کے الاؤ سے اس کا دل سلگتا ہے۔ لیکن انور سدید کے لہجے میں پھر بھی محبت کی رمق باقی رہتی ہے۔ غمِ دوراں کی تلخیوں سے وہ خود کو تلخ نہیں کرتے ہیں۔ اس پر اگر زمیں نا مہرباں ہونے لگتی ہے تو وہ اپنا آشیانہ آسمانوں سے پرے ڈھونڈنے لگتا ہے اور اپنا بارِ زیست خود ہی اٹھاتا ہے۔ انور سدید کے لبوں پر تبسم کی زر  فشانی نہیں جاتی اور وہ وعدہ فردا پر زندگی کاٹ دیتا ہے۔ انور سدید کی غزل مروتوں، محبتوں اور وعدوں کی امین نظر آتی ہے۔ وہ موم کا پیکر نہیں وفا کا پیکر نظر آتا ہے۔

نقد جان دے کر بھی میں نے کچھ صلہ مانگا نہ تھا

جاتے جاتے دے گیا سوغات دیمک دیکھ لے

وعدہ فردا پہ میں نے کاٹ ڈالی زندگی

جانے والا لوٹ کر آیا نہ اب تک دیکھ لے

فطرت سے انور سدید کی ازلی قربت کا اندازہ ان کی غزلوں سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی غزلوں میں پھولوں، خوشبوؤں، گلابوں، پرندوں، درختوں، جنگلوں، بارشوں، ستاروں اور پانیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ فطرت کے رنگوں میں وہ اپنی غزل میں عالمگیر پیغام بھی دے جاتے ہیں۔ گھروں اور گھروں کے لٹنے کا دکھ ایک داخلی و خارجی اظہار ہے۔ دوسری طرف زمین پر رہنے والے خاکسار عروج اور بلندیوں سے خائف نہیں ہوتے جب کہ اونچی اڑانیں اڑنے والے ہی بلندیوں سے پستیوں کا شکار ہوتے ہیں۔

پیوستہ جو زمیں سے شجر تھا، وہ بچ گیا

آندھی اڑا کے لے گئی اونچے درخت کو

شاخیں کٹیں تو گھونسلے سارے بکھر گئے

حسرت سے دیکھتے ہیں پرندے درخت کو

ان مظاہر فطرت سے انور سدید کی تخلیقی اور فکری سطح بلند ہوتی نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں اپنی ذات سے فطرت کی طرف سفر کیا ہے جو ایک اہم عمل ہے۔

انور سدید نے ان غزلوں میں سادگی اور معصومیت کے ساتھ ایک سنجیدہ طرزِ اظہار کو اپنایا ہے۔ انھوں نے ان غزلوں میں عام فہم الفاظ کے ذریعے گہرے اور سنجیدہ مطالب کی طرف قارئین کی توجہ مرکوز کی ہے۔ ان کے اشعار گہری معنویت سے لبریز ہیں اور مختلف پرتوں میں ان کی تفہیم ممکن ہو پاتی ہے۔

عہدِ حاضر اک مشین اور اس کا کارندہ ہوں میں

ریزہ ریزہ روح میری ہے مگر زندہ ہوں میں

میں جو کہتا ہوں سمجھتا ہی نہیں کوئی اسے

جیسے ملبے میں دبی بستی کا باشندہ ہوں میں

زندگی کو ایک کڑے کوس کی مسافت سمجھ کر انور سدید نے اپنی غزل میں کاٹا ہے۔ زندگی کے اس سفر میں انھوں نے دھوپ کے سائباں اور فطرت کو اپنا ہم جولی بنایا ہے۔ دل کے طاق میں رکھے یادوں کے دیپ روشن رکھے ہیں کبھی آنسوؤں سے کبھی خون سے لیکن اس چراغ کو بجھنے نہیں دیتے۔ رات ان کی غزل میں ایک خاص معنوی بصریت اور بصارت کے تحت در آئی ہے۔ اسی طرح وہ کبھی کبھار شام کا پنکھ بھی ہلاتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں میں صبح کی روشنی کے جگنو ہمیشہ ٹمٹماتے رہتے ہیں۔

پلکوں پہ جھولتی ہوئی شفاف چلمنیں

کل رات میرا ان سے عجب سلسلہ رہا

٭٭٭

رات کے منظر میں جب تکتا ہوں جلتے چاند کو

گھونپ دیتی ہے میرے سینے میں خنجر چاندنی

انور سدید کی غزل میں جو اسلوب استعمال ہوا ہے وہ خالص انور سدید کا ہے۔ انھوں نے اپنی مہارت سے ایک عمدہ اور سنجیدہ اسلوب برتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مٹھاس اور شیرینی اس اسلوب میں آمیخت ہو گئی ہے۔ خیر الدین انصاری، انور سدید کی غزل کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر انور سدید کی غزل میں عصری تقاضوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ سماجی مسائل بہ رنگِ دگر شعر کے قالب میں ڈھل گئے ہیں۔ اس کے ہاں سیاسی، ثقافتی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کا اظہار کہیں واضح الفاظ میں اور کہیں اشاروں، کنایوں اور استعاروں کی مدد سے ہوتا ہے۔ ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے علامت کے استعمال پر مکمل قدرت حاصل ہے۔ ‘ ‘ [۳]

شاعرانہ علائم و  روموز سے انور سدید پوری طرح واقف ہیں لیکن انھوں نے اپنی غزل کو گنجلک تراکیب اور گجھے ہوئے استعاروں، کنایوں کی کھچڑی نہیں بننے دیا۔ عمومی سطح کا رجحان ان کے ہاں غالب ہے لیکن اس پر سنجیدگی اور گہرائی کا رنگ واضح طور پر چڑھا ہوا ہے۔ ان کی سوچ اور موضوعات میں ندرت بھی ہے اور ایک جہانِ معنی بھی آباد نظر آتا ہے۔ انور سدید کی غزل کا پیام یہی ہے کہ خوش رہو اور زندگی کی تلخیوں کو آب شیریں سمجھ کر پیتے جاؤ لیکن کسی صورت میں خود کو زیست کے بہاؤ سے مت اُلجھاؤ۔ ہمیشہ خوشیاں بانٹو اور خوش رہو۔

باتیں تمام ان کی سنو گوشِ ہوش سے

اپنی طرف سے کچھ نہ کہو اور خوش رہو

وہ کج ادا ہیں گر تو نہ شکوہ کرو کبھی

بہتر ہے زہر عشق پیو اور خوش رہو

شکوہ کیا زمانے کا تو اس نے یہ کہا

جس حال میں ہو زندہ رہو، اور  خوش رہو

اقبال فیروز، انور سدید کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’بیج جس طرح ایک کونپل سے پودے اور پودے سے تناور درخت بن کر پھل، پھول اور خوشبو بکھیرتا ہے، اسی طرح ایک قطرہ نیساں جب سیپی کے سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے تو کچھ عرصہ بعد وہی قطرہ آب انمول موتی بن کر زیب گلوئے شہر یار ہوتا ہے۔ انور سدید کے اشعار انہی موتیوں کے مشابہ ہیں جو مطالعے کی موسلہ دھار بارش کے دوران ان کے دماغ کی سیپی میں کسی خیال خوش خرام کی مانند اترے اور کشا کش حیات کے تھپیڑوں سے پرورش پا کر شعر آبدار کے قالب میں ڈھل گئے۔ ‘ ‘ [۴]

 

حوالہ جات

 

۱۔                             سجاد نقوی، ڈاکٹر انور سدید: شخصیت و فن، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۱۰ء، ص۳۲۶

۲۔                             ایضاً، ص۳۴۸

۳۔                             خیر الدین انصاری، تقدیم، مشمولہ، پرندہ سفر میں، انور سدید، مقبول اکیڈمی، لاہور، ۲۰۰۹ء، ص۱۸

۴۔                             پرندہ سفر میں …، اقبال فیروز، مشمولہ، تبصراتی مطالعے، مرتب، ملک مقبول احمد، مقبول اکیڈمی، لاہور،

۲۰۱۵ء۔، ص۱۶۵

٭٭٭

 

 

عباس خان کی ناول نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر پرویز شہریار  (نئی دہلی)

 

عباس خان کی شخصیت بر صغیر ہند و پاک کے سنجیدہ ادبی حلقوں میں محتاج تعارف قطعی نہیں ہے۔ آپ کا شمار دونوں ممالک کے اُن ادیبوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی متواتر تحریروں کے ذریعے بہت تیزی سے آسمانِ ادب پر اپنے فکشن کے ذریعے نئی بلندیاں سر کی ہیں اور اس کے اُفق پر اپنے دستخط درج کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

گذشتہ دہائیوں میں فکشن کی دُنیا میں ایک زبردست بدلاؤ آیا ہے۔ ناقدینِ ادب کی دیرینہ شکایت تھی کہ اردو کشن میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انھیں اپنی رایوں پر اب نظر ثانی کرنے کی ضرورت در پیش آ گئی ہے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پاکستان میں بھی افسانوی ادب کے آفاق کی مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔ نئی بلندیاں طے کی جا رہی ہیں اور موضوعات کی نئی کہکشاؤں کا تیزی سے ظہور ہو رہا ہے۔

کوئی ایک دو نام ہوں تو اُن کا شمار بھی کیا جائے، حالیہ برسوں میں درجنوں معرکۃ  الآرا ناول ہندوستان میں اور اتنے ہی ناول پاکستان میں بھی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں جو کہ ایک نئی سحر کی آمد کے نقیب معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ناول صرف گذشتہ اکیسویں صدی کے اولیں دہائی میں وجود میں آئے ہیں اور یقیناً ان ناول نگاروں نے اپنے سماج کو اپنے ماحول کو اور اپنے گرد و پیش کی آبادی کو گہرائی سے متاثر کیا ہے۔ ادبی سماجیات کے مطالعے سے اس پر مزید روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس دور کے افسانوی ادب سے سیاسی اور تہذیبی اقدار کی نمایاں تبدیلیوں کا انکشاف بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جس طرح سماج ادب کو متاثر کرتا ہے، اسی طرح ہر دور کا ادب بھی اپنے متداول سماج اور اس کی ثقافت کو بدلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

ناول کے ارتقا کے اس تناظر میں عباس خان کا   ناول ’زخم گواہ ہیں ‘  بھی اپنے سنجیدہ ادبی حلقے کو بدرجہ احسن متاثر کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے اس سے پہلے ’ میں اور امراؤ جان ادا‘  کے علاوہ ’تو اور تو‘ کے ذریعے بھی اپنی شناخت مستحکم کرا ئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عباس خان نے ’ دھرتی بنام آکاش‘ ، ’تنسیخ انسان‘ ، ’قلم، کرسی اور وردی‘ ، ’اس عدالت میں ‘  اور ’جسم کا جوہڑ‘  جیسے افسانوی مجموعے کے ذریعے افسانوی ادب کے دامن کو نئے موسم کے پھولوں سے بھرے ہیں۔ عباس خان افسانچے بھی لکھتے رہے ہیں اور ان کی زود نویسی کا یہ عالم ہے کہ اب تک ان کے کئی عدد افسانچوں کے بھی مجموعے منظر عام پر آ کر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے نام یوں ہیں: ’ستاروں کی بستیاں ‘ ، ’ریزہ ریزہ کائنات‘  اور ’پل پل‘  وغیرہ۔ اس کے علاوہ، ’دن میں چراغ‘  ان کے اخباروں میں لکھے کالموں کا مجموعہ ہے۔ جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مجموعہ کا انگریزی میں "Light Within” کے نام سے ترجمہ ہو چکا ہے جو بہت مقبول ہوا اور اس کے دادو تحسین کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ تا دمِ تحریر فلسفیانہ موضوع پر مبنی عباس خان کی ایک کتاب اور منصۂ شہود پر آ گئی ہے جس کا نام ہے، ’سچ‘  اور’ دراز قد بونے ‘  جو کہ شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ یہ اپنے آپ میں اسمِ بامسمیٰ ثابت ہوا ہے کیونکہ اس میں انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ

قد آور ہو گئے خاموش جب سے

بہت بڑھ چڑھ کے بونے بولتے ہیں

عباس خان کے ناول ’زخم گواہ ہیں ‘  پر بحث کے آغاز سے قبل میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شخصیت پر ایک نگاہ ڈال لی جائے تو بے محل نہ ہو گا۔ ان کا اصلی نام غلام عباس خان ہے لیکن قلمی نام صرف عباس خان ہی لکھنا پسند آیا۔ چنانچہ، اس حوالے سے فرزندِ علامہ اقبال انھیں عباس چہارم کہا کرتے ہیں۔ عباس خان کی پیدائش دستیاب ریکارڈ کے مطابق 15 دسمبر1943ہے۔ آپ کی پیدائش صوبۂ پنجاب کے ضلع بھکر کے ایک تحصیل بستی گجہ میں ہوئی، جہاں سے دریائے سندھ خاموشی اور گہرائی کا پیغام اپنے کناروں پر آباد باشندوں کو صبح و مسا دیتا رہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عباس خان کی شخصیت میں بھی مفکرانہ گہرائی اور گیرائی جزو لاینفک کے طور پر جمع ہو گئی ہیں۔ عباس خان نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قانون اور سیاسیات میں گریجویشن اور پوسٹ کریجویشن کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ آپ کا تعلق زمیندار خاندان سے تھا۔ لہٰذا، عدلیہ اور احتساب کی سرکاری ملازمت یعنی جج کے عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد انھوں نے زمینداری کو اپنا تا حیات مشغلہ بنا رکھا ہے۔ ان کے قلم کی جولانی سب سے پہلے 1966 میں ’آخری شام‘  کے نام سے ایک افسانے کی شکل میں منظر عام پر آئی اور پھر اس کے بعد سے دادو تحسین کا ایک سلسلہ جو شروع ہوا تو وہ آج تک جاری ہے۔

عام حالات میں کسی ناول پر بات کرتے ہوئے اس کے متن سے مکالمہ کرنا ہی کافی ہوتا ہے لیکن ’زخم گواہ ہیں ‘  ایک ایسا ناول ہے جس کا موضوع بہت ہی نازک اور خطرناک قسم کا ہے۔ اس موضوع پر لکھنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس موضوع سے ناول نگار کا تعلق بہت گہرا ئی سے مربوط رہا ہے۔ اس لیے، ناول نگار عباس خان کے عہدے کا ذکر یہاں لازمی اور ناگزیر ہو جاتا ہے۔

اس ناول کا موضوع پاکستان کی عدلیہ ہے۔ ایک ایسے ملک کی عدلیہ جسے مملکت خداداد سمجھا جاتا ہے۔ جہاں عدل و انصاف کو ایمان کا لازمی جُز تصور کیا جاتا ہے، جہاں کی موجودہ صورتِ حال نہ صرف اس وقت طوائف الملوکی سے دو چار ہے بلکہ یہ صورتِ حال پہلے بھی کچھ بہتر نہیں تھی۔ تبھی تو اس حالت زار کو دیکھ کے علامہ اقبال کو کہنا پڑا تھا ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا                لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا

لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ ناول1984 میں پہلی بار شائع ہوا۔ اس وقت صورت حال اس سے مختلف تھی۔ کسی بھی جمہوریت میں عوام کا سیاسی پارٹیوں سے تشکیل شدہ حکومت پر اعتماد ہو یا نہ ہو لیکن ملک کی عدلیہ پر اعتماد ضرور ہوتا تھا۔ کسی بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کا دارومدار اس ملک کی عدالت اور اس کے عدالتی نظام پر ہوتا ہے۔ عدالتوں کا سر براہ جج ہوتا ہے اور یہاں ’زخم گواہ ہیں ‘  میں ناول نگار خود ہی جج رہ چکا ہے۔ جج کے عہدے پر فائز رہ کر فاضل ناول نگار نے عدالت کی تمام تر کار روائیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اوراس کی خامیوں کا بچشم خود مشاہدہ بھی کیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مقدس صحائف گیتا، بائیبل اور قرآن کو ہاتھ میں لے کر حلف لیا جاتا ہے کہ جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے کچھ نہ کہوں گا۔ اس حلف برداری کے بعد جو بھی ہوتا ہے، اس سے ہم اور آپ سبھی لوگ واقف ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا کذب بیانی سے یہاں کام لیا جاتا ہے، اس سے زیادہ کسی اور سماجی ادارے میں نہ لیا جاتا ہو گا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اُس ناول نگار کا جو روزانہ کے منافقانہ امور کا خود چشم دید گواہ رہا ہو اُس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ اس کا ضمیر یہ سب کچھ کس طرح برداشت کرتا ہو گا۔ بے حسی اور بات ہے لیکن ایک حساس شخص کے لیے جو ایک فنکار بھی ہو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھنے جیسا رد عمل ظاہر کرنا کس قدر اذیت ناک اور صبر آزما رہا ہو گا۔ وہ بھی ایک دو نہیں ملازمت کی پوری مدت اس کی شہادت میں جس نے گزاری ہو، اس کا قلم بھلا کیونکر خاموش رہ سکتا تھا۔ لہٰذا عباس خان نے اخلاقی جرأت سے کام لیتے ہوئے قلم کو اپنے ہاتھوں میں سنبھال لیا اور عدالتی نظام کے کمزور پہلوؤں کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا تاکہ اس تلخ و تند تریاق سےامراض کا صفایا کیا جا سکے گا۔ سماج کے ایک انتہائی حساس ادارے کے جسم کے متاثرہ عضووں کی جراحی کی تاکہ فاسد مواد کا اخراج ہو سکے اور عدل و انصاف کی روح بحال ہو، اُس کی تطہیر ہو جائے اور معاشرہ شیشے کی طرح شفاف نظر آنے لگے۔ اپنی طنز کی نشتر زنی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس ناول میں جہاں کہیں بھی موقعہ ملا ہے تہذیبی اقدار کے منافقانہ رویوں کا مزاحیہ پیرائے میں استہزا اُڑانے میں بھی دریغ نہیں کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اُن کے پیشِ نظر مقصد صرف اور صرف اِصلاح معاشرہ رہا ہے۔

ناول کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان مر جاتا ہے لیکن اس پر عدالت میں چلنے والی مقدمہ بازی ختم نہیں ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ Delay in justice is denial of justice یہ کسی بھی مہذب سماج کا انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس موضوع پر لکھتے وقت ہر کوئی محتاط رہنا چاہتا ہے، مبادا توہینِ عدالت اور استہزا کا معاملہ نہ درج ہو جائے۔ لہٰذا، عباس خان اس نظام کی کوتاہیوں پر قلم اُٹھاتے وقت طنز و مزاح کا پیرایہ اظہار اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا ورنہ اس تحریر پر بھی ایک لامتناہی شنوائیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا تھا اور مصنف کو منصف کے سامنے ملزم کے کٹہرے پر کھڑا ہونا پڑ سکتا تھا۔ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے کیونکہ سعادت حسن منٹو جیسے عظیم افسانہ نگاروں نے بھی اس خواہ مخواہ کی آگ سے اپنا دامن بچانے کے لیے ’’سیاہ حاشیے ‘ ‘  جیسے افسانچے لکھے تھے جس کا اندازِ بیان طنزیہ و مزاحیہ تھا۔ ان کے پیشِ نظر بھی مقصد وہی نشتر زنی کے ذریعے سماج کے مفلوج حصوں کی جراحی کرنی تھی، تاکہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے نام سماج کے نہاد اور خودساختہ ٹھیکیداروں کے دماغ سے تعصبات کے کیڑوں کو نکالا جا سکے۔

’زخم گواہ ہیں ‘  کے قصے کا لبِ لباب یہ ہے کہ دو مقدمات عدالت میں فیصلے کے لیے زیر غور ہیں۔ ان میں سے ایک مقدمہ مجیدؔ کا ہے، جسے ہم ناول میں ویلن کہہ سکتے ہیں۔ اُس نے نکاح کے تنسیخ کا مقدمہ چلا رکھا ہے۔ دوسرا بیوی کے گھر آباد ہونے کا ہے جو اسی مذکورہ مقدمے کے جواب میں جہاں آرا کے شوہر گل میرؔ نے خود اپنی بیوی کو حاصل کرنے کی خاطر دائر کر رکھا ہے۔ گل میر کو ہم اس ناول کا ہیرو مان سکتے ہیں۔ چھ سات سال کا عرصہ بیت جاتا ہے اور وکیلوں کی مہربانی سے تاریخ پر تاریخ پڑتی جاتی ہے۔ کبھی جج نہیں تو کبھی وکیل نہیں تو کبھی گواہ نہیں تو کبھی دستاویز نہیں اور کبھی سب کچھ میسر آ جائے تو غیر ضروری جرح کی طوالت سے مقدمہ آگے کھسکنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔ اوپر سے وکیلوں کی فیس بھرنے کے لیے موکلوں کو غیر قانونی طریقے سے روپے حاصل کرنے پڑتے ہیں، اس پر انھیں جیل ہو جاتی ہے اور وہ مزید مقدموں میں پھنس جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جہاں آرا ٹی بی جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اوراس سے پہلے کہ عدالت کسی نتیجے پر پہنچے، جہاں آراؔ کی موت ہو جاتی ہے۔ لیکن اس پر بھی مقدمہ ختم نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ شوہر کا وکیل بیوی کے ورثاء مسل اور قائم مقام کے طور پر جہاں آرا کی ماں بخت بھریؔ جو کہ تب تک اندھی ہو کر سڑک پر بھیک مانگنے لگتی ہے، اس پر مقدمہ چلانا چاہتا ہے کیونکہ اب جہاں آرا کی وہی واحد وارث ہے۔

ناول کا پلاٹ کچھ اس انداز سے تشکیل دیا گیا ہے کہ عدالت میں کسی موکل کے قدم رکھنے سے لے کر فیصلہ ہونے تک کے سبھی مراحل سے اور اس کے سبھی پیچ و خم سے قاری پوری طور پر واقف ہو جاتا ہے۔ عدالت کے ماحول ہے، میں اسٹامپ پیپر سے لے کر منصف کے فیصلے تک جتنے بھی عدالتی امور ہیں، اس سے وابستہ افراد سے سابقہ پڑتا ہے۔ نظامِ عدلیہ ایک الگ ہی دُنیا کا نام ہے، جہاں کسی عام انسان کا روز مرہ کی زندگی میں گزر نہیں ہوتا۔ لیکن ایک بار کوئی اس چکر ویو میں پھنس جائے تو پھرا بھیمنو کی طرح تمام عمر باہر نکلنے کا سراغ ڈھونڈتا رہ جاتا ہے۔ خود عباس خان نے ناول کے ابتدائی صفحات پر چند مقولات نقل کیے ہیں، جن سے عدالت کے اندر باہر کے پُر اسرارکاروبار کی نقاب کشائی ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں ان اقوال کا ذکر بے محل نہ ہو گا:

’’وکیل ایک ایسا تعلیم یافتہ انسان ہے جو آپ کی جائیداد آپ کے دشمنوں سے بچا کر خود رکھ لیتا ہے۔ ‘ ‘  (لارڈ برائم)

’’اگر قانون کی زبان ہوتی تو وہ سب سے پہلے قانون دانوں کی شکایت کرتا۔ ‘ ‘  (لارڈ ہیلی فاکس)

’’جج قانون کا ایک ایسا طالب علم ہے جو اپنے امتحان کے پرچے کود مارک کرتا ہے۔ ‘ ‘  (بیکن)

ان مقولات میں طنز کی مختلف جہات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک شگفتگی بھی ہے، مزاح کی چاشنی بھی ہے اور طنز کی کاٹ بھی ہے۔ ناول کے مرکزی کردار میں ایک نسوانی کردار بخت بھریؔ کا ہے۔ دوسری اس کی بیٹی جہاں آرا ہے اور تیسرا نرینہ کردار گل میرؔ کا ہے۔ جہاں آرا کی نظر میں گل میر ایک اچھا شوہر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس نان و نفقہ کا انتظام کرنے کے لیے چند گدھے ہیں، مٹی ڈھونے کے بورے ہیں، کسیاں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ سر چھپانے کے لیے اپنا گھر ہے۔ جہاں آرا کی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر اس کی ماں بخت بھری اپنی بیٹی کا نکاح گل میر سے کرا دیتی ہے۔ لیکن کہانی میں دلچسپ موڑ تب آتا ہے جب درمیان میں کہیں سے مجیدؔ آ ٹپکتا ہے۔ وہ کراچی شہر سے خوب پیسے کما کر لاتا ہے۔ شہر میں رہ کر چالاک اور ہوشیار ہو جاتا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ جہاں آرا کی اس سے شادی ہو جائے۔ اس لیے تنسیخ نکاح کی خاطر عدالت میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے۔

کردار کے انتخاب میں عباس خاں نئے اشتراکی نظریے سے قربت کا ثبوت دیتے ہوئے سماج کے بالکل ہی نادار طبقے سے کردار لیے ہیں جن کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھیک مانگ کے اپنے گذر اوقات کر رہے ہوتے ہیں۔

اس ناول کے مرکزی کرداروں میں جہاں آرا کا بہت ہی اہم رول ہے۔ مجید اگراس کے منگیتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو گل میر اس کا شوہر نامراد ہے۔ یہ اپنے کو کسی حسن کی ملکہ سے کم نہیں سمجھتی ہے۔ اب ذرا اس کا حلیہ دیکھئے کہ عباس خان نے کس ڈب سے بیان کیا ہے:

نلکے کی ہتھی جتنا قد، مٹر کے دانے برابر آنکھیں، بجلی کے بلب کی شکل والا سر، موٹر کی ڈگی کی طرح کھلنے والا منھ اور کلر شور والی بارانی زمین میں لیٹ بوئی جانے والی جو کی فصل کی طرح سر پر پتلے پتلے بال، پاؤں بڑے بڑے، ٹانگیں پنسل سیکچھ زیادہ موٹی اور چلتی ایسے جیسے پھسلنے کا خطرہ، کمر، سینے اور بازوؤں کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈر لگتا ہے۔ رنگ البتہ گورا تھا۔ اس کی خاص وجہ ہے جس کا آگے چل کر ذکر آئے گا۔ (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 23 )

کرداروں کی تشکیل میں عباس خان نے اپنے تمام تر مشاہدے جھونک دئیے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس میں ایک فقیر کی نفسیات کو کس طرح اُبھارا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

نا توؔ پر جب نزع کا عالم طاری ہوتا ہے تو وہ چونکہ صدا لگانے والا ایک فقیر ہے۔ لہٰذا نزع کے عالم میں بھی پکارتا رہتا ہے۔

’’ بابا اللہ کے نام پر، بابا اللہ کے نام پر۔ ‘ ‘  حتیٰ کہ کلمہ اور درود پڑھنے کی جگہ بھی وہ یہی دہرا رہا تھا۔ ’’ بابا اللہ کے نام پر ‘ ‘  سبھی لوگ کوشش کر کے تھک چکے تھے اور روح نہیں نکل رہی تھی۔ لہٰذا نا تو کی بیوی بخت بھری نے آ کر جب نا تو کے کان میں زور سے کہا تو جسد خاکی سے روح پرواز کر جاتی ہے۔

’’جہاں آرا کے ابا! کاسہ بھر گیا ہے، شام بھی ہو گئی ہے، لہٰذا اب گھر چلیں۔ یہ سنتے ہی نا تو نے کلمہ پڑھا اور جان مالک حقیقی کے سپرد کر دی۔ ‘ ‘  (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 54)

کرداروں کے ناموں سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کردار سماج کے نہ صرف نادار بلکہ اَن پڑھ اور ان گھڑ طبقے سے لیے گئے ہیں جو اپنے آپ میں ایک طنز سے کم نہیں۔ نورے  کُکی، محمد پکارے، اکبر ٹاکی، بشیر برچھے، حاکم شتربان، رب نواز مٹکی وغیرہ، وغیرہ۔

جہاں آرا جب سات سال کی ہوئی اور دو گھڑے ایک ساتھ اٹھانے لگی تو سمجھ لیا گیا کہ جوان ہو گئی۔ جہاں آرا کو اس کے ناناسیفل نے اُس کی فنِ گدا گری کی مکمل تربیت دی۔ اس تربیت کے دوران تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل بھی اس نے خود ہی کرایے۔ بھیک مانگتے مانگتے جب وہ دو پہر کے وقت سستانے بیٹھتا تو جہاں آرا کو بھیک مانگنے کے گُر سکھایا۔ یہ گر اس نے کیسے سیکھائے ذرا ملاحظہ فرمائیے:

’’دیکھو بیٹی ہم فقیر ہیں۔ شرم جھجک سے ہم لوگوں کے کام رُک جاتے ہیں۔ ہمارے واسطے حوصلہ بہت ضروری ہے، انکساری ہمارے لیے اکسیر ہے۔ موقع کے مطابق صدا لگاؤ، آدمی کی حیثیت دیکھ کر اُسے ہمدردی پر اُکساؤ…کوئی میک اپ کرنے والی بڑھیا سامنے آئے تو بار بار دہراؤ، اللہ یہ حسن و جمال قائم رکھے، فقیرنی کا سوال ہے۔ کوئی حاملہ دیکھو تو سب سے پہلے کہو اندر باہر خیر ہو، فقیرنی مدد مانگتی ہے … کچہری میں جاؤ تو مخالف کی شکست کا ورد کرو اور اسٹیشن پر جاؤ تو سفر کا صدقہ مانگو… ان باتوں کو جب اچھی طرح سمجھ لو گی تو پیٹ بھرنا تمھارے لیے کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ ‘ ‘  (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 56)

عباس خان کے اس ناول میں شگفتہ جملوں اور مزاحیہ فقروں کی جا بجا جھلکیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ مثلاً یہ اقتباس دیکھیے:

’’مفلس کی زندگی میں صرف دو ہی تو دن ہوتے ہیں۔ ایک وہ جب شادی ہوتی ہے، دوسرا وہ جب بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اس (بخت بھری) کے لیے پہلا دن ہی نہیں آ رہا تھا۔ جیسے خاوندوں کی ساری دُنیا میں راشننگ ہو گئی ہو۔ خاوند صرف اسے ہی ملے گا جس کے پاس خوبصورتی کا راشن کارڈ ہو اور جس پر دولت کی مہر لگی ہو۔ ‘ ‘  (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر 36)

’’ کہتے ہیں دو بھوکوں نے دُنیا کو ہلا ڈالا۔ روٹی کا بھوکا کارل مارکس اور جنس کا بھوکا فرائیڈ… ظاہراً کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی۔ کارل مارکس ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد تھا۔ وہ اچھے اچھے اداروں میں پڑھا اور اکثر معقول جگہوں پر رہائش اختیار کی۔ وہ کبھی بغیر کھانا کھائے نہ سویا۔ فرائیڈ کو عورتوں کی کمی نہ تھی۔ کئی لوگ اپنی بیٹیاں اور دوسری عزیزائیں جو نفسیاتی مریض ہوتیں بغرض علاج اُس کے پاس چھوڑ جاتے۔ وہ تنہا کمروں میں ان کو زیر مشاہدہ رکھتا اور علاج کرتا۔ ‘ ‘

ایک جگہ ظریفانہ جملہ ملاحظہ فرمائیں عباس خاں لکھتے ہیں کہ:

’’انسان بھوک اور جنس کی طاقتوں کے درمیان پس رہا ہے … چاہیے تو یہ تھا کہ بھوک لگتی کھانا مل جاتا، جنس تنگ کرتی تو مرد عورت کو مل جاتا اور عورت مرد کو۔ دونوں کام کر کے انسان آگے بڑھ جاتا اور کوئی بڑا کام کرتا۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کرتے کرتے تخلیق کے معراج تک پہنچ جاتا۔ (زخم گواہ ہیں، صفحہ نمبر37)

عباس خان کے انفرادی تخلیقی رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس وقت کے ایک عظیم ناول نگار عبد الصمد نے لکھا ہے کہ:

’’عباس خاں کے افسانوں کو پڑھ کر شدت سے یہ احساس ہوا کہ انھوں نے اپنے کسی پیش رو کا اثر قبول نہیں کیا اور اپنے لیے بالکل نئی راہ نکالی جو اُن کی شناخت میں بھی معاون ثابت ہوئی……کرافٹ میں شپ کو جس طرح انھوں نے برتا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں … عباس خاں نکے افسانوں کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شعور و احساس کی ساری کھڑکیاں کھُل گئی ہیں اور ان سے تازہ اور خوشگوار ہوائیں آ رہی ہیں ……‘ ‘

عباس خاں نے ناول کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں معیاری افسانے بھی تخلیق کیے ہیں۔ اس کے علاوہ اُنھیں افسانچہ نگاری سے بھی اُتنا ہی لگاؤ رہا ہے جتنا کے افسانے اور ناول سے ہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے عبد القادر فاروقی نے لکھا ہے کہ عباس خان کو تینوں ہی اصناف میں یکساں مہارت حاصل ہے:

’’وہ جتنے اچھے افسانے و ناول لکھتے ہیں اتنے ہی اچھے افسانچے بھی لکھتے ہیں۔ بیک وقت ان اصناف پر یکساں عبور کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ‘ ‘

اسی طرح سے رام لعل نے عباس خان کے ایک افسانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عباس خان طبقاتی کشمکش کے معاملے میں بورژوا طبقے سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے بلکہ انھیں پرولتاری طبقے سے سروکار رہتا ہے اور ایسا سروکار رکھتے ہیں جس میں کوئی ریا کاری یا منافقت والی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس طبقے سے جذباتی سطح پر جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ رام لعل کا یہ قول ہر چند کہ افسانوں کے لیے ہے تاہم اس کا اطلاق ان کے ناولوں پر بھی ہوتا ہے:

’’مجھے یہ افسانہ حسب معمول آپ (عباس خاں ) کی باریک بینی، جزئیات نگاری اور مقصد کی طرف قدم قدم بڑھنے کی خاصیت کی بنیاد پر پسند آیا۔ آپ کے افسانوں میں (ناولوں میں بھی) عام آدمی کے لیے جو ہمدردی ہے، وہ بورژوا ہمدردی ہرگز نہیں ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ لکھنے والے کے اندر سے پھوٹ رہی ہے اور وہ خود بھی اسی طبقے کا ایک فرد ہے۔ ‘ ‘

قدرت اللہ شہاب نے بتایا کہ عباس خان کے فکشن میں جو جزئیات اور مشاہدات کی تفصیلات ہوتی ہیں، انھیں دیکھ کے یوں لگتا ہے گویا یہ کہانیاں نہیں بلکہ آپ بیتیاں بن گئی ہیں۔ عباس خاں بہت باریک بینی سے ذاتی مشاہدات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ عباس خان کے فن کی امتیازات کی بنا پران کے فکشن کے اسلوب کی شناخت دور ہی سے ہو جاتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب کے الفاظ میں یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’عباس خان کا کہانی بیان کرنے کا طریقہ منفرد ہے۔ بڑی سنجیدگی سے جزئیات کے ذریعے کہانی کی تعمیر کیے جاتے ہیں پھر نقطۂ عروج پر پہنچ کر دفعتاً طنز کی تلوار کو میان سے نکال کر ایک بھرپور وار کرتے ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے عباس خاں کی کہانیاں قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں اور سوچنے پر مائل کر دیتی ہیں …‘ ‘

عباس خان کے زبان و بیان کی داد سلام بن رزاق نے بھی دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عباس خان کی اکہری نثر میں ابلاغ کا کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ عباس خان کی نثر سریع الفہم ہوتی ہے۔ انھوں نے ان کی سادہ، سلیس اور رواں بیانیہ کے امتیازی اوصاف کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’اُن کی زبان نہایت سادہ، صاف اور سریع الفہم ہے۔ ان کے افسانوں کی تفہیم میں ترسیل کا المیہ پیش نہیں آتا بلکہ ان کا بیانیہ اس قدر شفاف ہے کہ افسانے کا کوئی منظر ہو یا منظر کا کوئی گوشہ قاری پر یوں روشن ہو جاتا ہے کہ اسے کسی بھی طرح کی ذہنی کسرت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پہلی قرأت میں ہی افسانے کے سارے ابعاد منکشف ہو جاتے ہیں۔ ‘ ‘

اسی طرح آپ دیکھیں کہ ایک طرف اگر طارق اسمعیل ساغر افسانے میں کہانی کو زندہ رکھنے کا سہرہ عباس خان کے سر باندھتے ہیں تو دوسری طرف سلطان اخترجیسے ادب شناس اور نکتہ سنج اُن کے افسانوں اور ناولوں میں اصلاح معاشرہ کے عناصر کو فوقیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے کرداروں کی نفسیاتی موشگافیوں کو بھی اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتنی ساری خوبیوں سے مزین تخلیقی کاوشوں پر داد و تحسین سے نوازتے ہوئے ان کے یہ الفاظ دیکھیے:

’’عباس خان کی کہانیاں انسانی نفسیات کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں تو وہیں انسان کی ذہنی الجھنوں کو سلجھانے کا کام بھی کرتی ہیں۔ عباس خان اصلاحِ معاشرہ کے علمبردار ہیں۔ وہ اپنی کہانیوں کے ذریعے اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ‘ ‘

اکثر ہم سب نے کورٹ کچہریوں میں وکیلوں کو اپنے مؤکل کے ذریعے کرائے پر لائے گئے ان پڑھ اور اوگڑھ گواہان کو جھوٹی گواہی دینے کے بارے میں سنتے آئے ہیں۔ عباس خان نے اس ناول میں ایسے وکلا کے کر توت کا کس طرح سے پردہ فاش کیا ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

’’سارے ایک ہی تفصیل بیان کریں، کمی بیشی نہ ہو۔ کچھ دیر بعد میں پوچھوں گا۔ مدعا علیہ کو کیا ہوا تو تم نے کہنا ہے۔ وہ پاگل ہو گیا تھا۔ اب بھی اسے پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں۔ یہ کافی عرصے لا پتہ بھی رہا ہے۔ آخر میں عدالت کو بتانا کہ اس نے دوسری شادی مدعا علیہ کی اجازت کے بغیر کی، غیر فطری عمل بھی کرتا تھا، حق مہر ادا نہیں کیا، اب فریقین میں سخت ناچاقی ہے، دونوں ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کر تیار نہیں، عدالت میں مجبوراً ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں، عدالت کا ڈر نہ ہو تو ایک دوسرے کو کچا چبا جائیں اور حدود اللہ قائم رہنا اب نا ممکن ہے۔ ‘ ‘  (زخم گواہ ہیں، صفحہ 149)

کس طریقے سے کسی پریشان حال انسان کو کورٹ کچہری میں انصاف کے لیے منصف کے پاس پہنچنے سے پہلے وہاں موجود معاونِ عملۂ عدالت کے خون نچوڑنے والے پنجوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہ عملہ اُسے عموماً عدالتی کاروائیوں میں معاونت کرنے کے بجائے ہر قدم پر فیس کے نام پر لوٹنا شروع کر دیتا ہے اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کوئی ان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تو یہ سب مل کے جنگلی کتوں اور بھیڑیوں کی طرح اُسے بھنبھوڑنے لگتے ہیں۔ ان کی دہائی سننے والا وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ نیچے سے اوپر تک سبھی اس کام میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ غلام حسین بلوچ نے اس ناول کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ

’’اس کے سامنے عرائض نویسوں، اسٹام فروشوں، وکلاء کے منشیوں، گواہان، وکلاء، عدالت کے اہل کاروں اور ججوں کی شخصیات کھلتی چلی جاتی ہیں۔ قاری اس عرائض نویس سے ملتا ہے جو تا ہے کہ اس کو خاص اجرت دی جائے تو وہ ایسا دعویٰ لکھ دے گا کہ اس کو پڑھ کر جج کو کمرۂ عدالت گھومتا نظر آئے گا۔ ‘ ‘

یہ تو رہی بات عرائض نویسوں کی۔ اب وکیلوں کی لن ترانی دیکھئے جسے عباس خان نے ان کی روح کی گہرائیوں تک بے نقاب کر دیا ہے۔ بقول غلام حسین بلوچ ملاحظہ فرمائیں:

’’ قاری کا آمناسامنا وکلاء صاحبان سے بڑے زور شور سے ہوتا ہے۔ ایک وکیل صاحب دعویٰ دائر کیے بغیر اپنی طرف سے مؤکل کو تاریخیں دئیے رکھتے ہیں، دوسرے جج کے نام پر پیسے لیتے ہیں اور تیرے نے ہر پھٹے میں ٹانگ اڑا رکھی ہے۔ وہ نائب تحصیلدار اور سول جج کی عدالت کے کیس لے لیتے ہیں … ‘ ‘

عباس خان کی تحریروں میں شگفتگی اور تلخی دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ انھوں نے بہت سنجیدگی سے معاشرتی مسائل کو اپنے فکشن کے ذریعے طشت از بام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مسائل کو منظر عام پر لانے کے پیچھے اصلاحِ معاشرہ کا جذبہ کار فرما رہا ہے۔ اُن کے قلم میں روانی ہے کبھی کبھی یہ قلم طنز میں بجھا ہوا نشتر بھی بن جاتا ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی بھی ان دیکھی ہوئی سماوی یا ماورائی باتیں نہیں کرتے۔ بلکہ اپنے گرد و پیش کے ماحول میں موجود برائیوں پر سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔ وہ زمین سے جڑی ہوئی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ معاشرے کے جسم سے فاسدمواد کو نکال باہر کرنے میں ہی عافیت ہے۔ لہٰذا اس کے لیے وہ تلخ و شیریں ہر طرح کے حربے بروئے کار لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں جا بجا طنز و مزاح کے پہلو بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی گرفت انسانی نفسیات اور جذبات پر کافی مضبوط ہے۔ عباس خان نا گفتہ بہ باتوں کو بھی اس سلیقے سے پیش کر جاتے ہیں کہ بد مزگی کے بجائے پڑھنے والے کے ذہن میں شگفتگی اور تازگی برقرار رہتی ہے۔ عباس خان اسی گد گداہٹ کے دوران معاشرے کے سڑے گلے اعضاء کی جراحی کر کے اس کے فاسد مواد کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

آخر میں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ عباس خان ایک ایسے ناول نگار ہیں جن کا اسلوب منفرد ہے، اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی اس تحریر میں جس طرح سے قانون، کورٹ کچہری اور پولیس والوں کی اصطلاحات کا تخلیقی استعمال کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ نہ اس سے پہلے کسی نے اس طرح کی اصطلاحات سے ادبی جمالیات کی تشکیل کا کام لیا ہے اور نہ ہی آئندہ کسی سے اس حد تک توقع کی جا سکتی ہے۔ اس میدان میں عباس خان ہی کی اجارا داری قائم رہے گی۔ عباس خان جتنا وکیلوں اور ججوں کی اداؤں اور عشوہ سامانیوں سے واقف ہیں، میرا خیال ہے دُنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا ناول نگار اتنا واقف ہو گا۔ اس ناول کی اپنی تاریخی حیثیت بھی ہے۔ آج اتنا کچھ بدل جانے کے باوجود بر صغیر کی عدالتوں میں حالات جس کے تس بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا، جب تک ایسے حالات بنے رہیں گے، عباس خان کے ناول کی معنویت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ روز افزوں اس میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 اردو ادب میں فنِ ترجمہ نگاری کی روایت ۔۔۔ ابنِ عاصی (جھنگ)

 

ترجمہ کیا ہے ؟ یا اس کی تعریف کن الفاظ میں کی جا سکتی ہے ؟یقیناً یہ ایک اہم، سنجیدہ اور دلچسپ سوال ہے اور اس کی حیثیت بھی بنیادی نوعیت کی قرار دی جا سکتی ہے لیکن بنظرِ غائر دیکھا اور پرکھا جائے تو یہ کوئی ایسا سادہ اور ہلکا سوال نہیں ہے کہ اس کا جواب چند فقروں میں دے کر کسی کہ مطمئن کر دیا جائے یاد رہے کہ یہ فن کسی بھی دوسرے تخلیقی کام سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے کیونکہ ایک خیال کو تخلیق کا جامہ پہنانے والا شاید اتنا زیادہ نہیں سوچتا ہے جتنا کہ کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں اس تخلیق کو منتقل کرنے والا سوچتا ہے کیونکہ تخلیق تو ایک طرح سے جبری اور فطری تقاضے کا نتیجہ ہوتی ہے جیسا کہ مرزا غالب نے کہا ہے

شعر خود کردہ تقاضائے کہ گردو فن ما

اور شاید اسی لیے ڈاکٹر جمیل جالبی کو فنِ ترجمہ کے ادق ہونے کا یقین ہے، لکھتے ہیں

’’ترجمے کا کام یقیناً ایک مشکل کام ہے اس میں مترجم، مصنف کی شخصیت، فکرو اسلوب سے بندھا ہوتا ہے ایک طرف اس زبان کا کلچر، جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر، جس میں ترجمہ کیا جا رہا ہے، یہ دوئی خود مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے۔ (۱)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ایسا جان جوکھوں ولا کام ہے تو پھر اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟در اصل یہ کام انسا نکی تہذیبی، سماجی، ثقافتی، لسانی، فکری حتیٰ کہ مذہبی ترقی و ضرورت ہے صاف ظاہر ہے کہ جب کوئی انسان کسی دوسرے کو اپنا مدعا اپنے دل کا حال اور مافی الضمیر بیان نہیں کر پائے گا تو وہ کیسے، اگلا قدم، اٹھانے میں کامیاب ہو گا؟یقیناً شروع میں ایک دوسرے کی زبان سے نا آشنا لوگ، اشاروں کی زبان، میں ایک دوسرے سے، ہم کلام، ہوتے ہوں گے اور اس دوران کچھ مخصوص اقسام کی آوازیں بھی شاید انہوں نے وضع کر لی ہوں گی جن کی مدد سے وہ، سماجی رشتے، قائم کرنے میں کامیاب رہے ہوں گے لیکن کیا وہ پوری طرح سے اپنے مطالب اور مفاہیم کا سلسلہ قائم کر پائے ہوں گے ؟یقیناً ایسا نہیں ہوا ہو گا اب چونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ، ادھوری بات، سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا ہے اس لیے اس نے، پوری بات، سننے اور پہچانے کے لیے اس زبان کو سمجھنے کا فیصلہ کیا ہو گا اور جب زبان سیکھ لی ہو گی تو پھر یہ بھی سوچا ہو گا کہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کے اسرارو رموز سے آگاہ کیا جانا چاہیے تاکہ ان کو ایسی دشواری اور الجھن پیش نہ آئے، جیسی کہ کبھی انہیں پیش آئی تھی بس اسی سوچ نے پھر ترجمہ نگاری کی روایت ڈالی، اسی لیے ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں

’’ترجمہ نگاری ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں۔ ‘ ‘ (۲)

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے فرمانروا، بغداد کے عباسی خلفاء، اور مصر کے فاطمی خلفاء، علم و ادب کے خاصے رسیا تھے اور انہوں نے نہ صرف دنیا کے نامور شہہ پاروں کو عربی زبان میں ترجمہ کروایا بلکہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں لائبریریاں قائم کر کے منفرد اور قابلِ تقلید مثالیں بھی قائم کیں، بغداد کی، بیت الحکمت، اور مصر کی، بیت الحکم، جیسی لائبریریاں اپنی مثال آپ تھیں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود اردو زبان، بر صغیر پاک و ہند میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ روایت تقریباً پندرھویں صدی کے نصف آخر میں اپنی ابتدائی شکل میں نظر آتی ہے اسی لیے یہ مانا جاتا ہے کہ یہی دور اردو زبان کے آغاز اور ارتقاء، دونوں لحاظ سے بہت اہم ہے۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بعض اوقات مترجم کو شارح بننا پڑتا ہے (حالانکہ ترجمہ اور تشریح دو الگ الگ راستے ہیں )لیکن ایسا عموماً شاعری کے میدان میں ہوتا ہے کیونکہ شاعری میں تمثیل، تخیل، علامت، تلمیح، استعارے اور تشبیہہ کو ہو بہو منتقل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے، پروفیسر مسکین علی حجازی لکھتے ہیں

’’علمی ادبی اور فنی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا خاصا دشوار کام ہے، یہ کام وہی شخص صحیح طور پر کر سکتا ہے جو متعلقہ علم، صنفِ ادب یا فن کا ماہر ہونے کے علاوہ دونوں زبانوں پر مکمل طور پر قادر ہو۔ ‘ ‘ (۳)

ایک عام رائے یہ بھی ہے کہ سولہویں اور خصوصاً سترھویں صدی کا زمانہ جنوبی ہند میں، عہدِ زریں، کہلانے کا مستحق ہے اسی زمانے میں ترجمہ نگاری اور اردو زبان دونوں حوالے سے ایسے ایسے شاہکار تخلیق ہوئے کہ جن کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے اسی دور میں تمام تراجم مشرقی زبانوں سے کیے گیے جن میں فارسی، عربی، سنسکرت اور برج بھاشا وغیرہ شامل ہیں۔

مغلوں کے عہد میں سرکاری اور مقامی ضرورتوں کے کارن مختلف زبانوں سے فارسی میں اور فارسی سے ان زبانوں میں لازمی طور پر تراجم ہوتے ہوں گے لیکن مغل بادشاہوں نے ہندوستانی ادب کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی اکبر کے دور میں ایسے ہندوؤں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو فارسی سے بخوبی واقف تھے کہا جاتا ہے کہ اکبر کو سنسکرت سے خاص لگاؤ تھا اسی لیے اس نے سنسکرت سے شاعری، فلسفہ، ریاضی اور الجبرا وغیرہ کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کروایا اکبر ہیم کے عہد میں کئی علماء نے مل کر، مہا بھارت، کا فارسی میں ترجمہ کرنا شروع کیا جو ۱۵۹۱ء میں مکمل ہوا اسی زمانے میں، لیلاوتی، نل ومن، تاجک اور، ہری بنس، وغیرہ کے تراجم تیار ہوئے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ترجموں کی تیاری میں برہمن اور مسلمان عالم دونوں برابر کے شریک تھے۔

ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں

’’ترجمے کا کام صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھادوسری ہجری کے وسط میں ہندوستان سے باہر کے مسلمانوں کے ہندوستانوں علمی تعلقات قائم ہو چکے تھے ۷۷۰ء میں سندھ سے ایک وفد خلیفہ منصور عباسی کے دربار میں گیا تھا اس وفد میں ایک ایسے پنڈت بھی شامل تھے جو ہئیت اور ریاضیات کے ماہر تھے یہ پنڈت اپنے ساتھ ہئیت کی مشہور کتاب، سدھانت، لے گیا تھا خلیفہ کو جب اس کتاب کے مندرجات کا علم ہوا تو اس نے اپنے دربار کے ایک ریاضی دان ابراہیم فرازی کو حکم دیا کہ وہ اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کرے جو پنڈت اپنے ساتھ یہ کتاب

لے کر بغداد گیا تھا اسے علم ہئیت میں غیر معمولی مہارت کی وجہ سے بہت عزت حاصل ہوئی بغداد کے دو عالم اور ماہر ہئیت ابراہیم فرازی اور یعقوب بن طارق پنڈت کے شاگرد ہو گئے ان دونوں شاگردوں نے اپنے اپنے طریقے سے، سدھانت، کے بنیادی اصولوں کو عربی میں منتقل کیا، ہئیت کے علاوہ ریاضی اور دوسرے علوم کی کتابوں کا بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا ان میں دو کتابوں بہت اہم ہیں، ایک، کلیلہ و دمنہ، اور دوسری، بوزاسف و بلوہر،۔۔ ۔۔ ۔۔ کلیلہ ودمنہ، پنچ تتر، کا ترجمہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساسانیوں کے عہد میں ان دونوں کتابوں کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ دنیا کی بہت سی ترقی یافتہ زبانوں میں عربی سے ان کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ ‘ ‘ (۴)

کہا جاتا ہے کہ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے سب سے پہلی کتاب، نشاۃ العشق، ہے یہ ایک صوفی بزرگ عبداللہ حسینی (جو حضرت بندہ نواز گیسو دراز کے پوتے تھے )نے اردو میں ترجمہ کی لیکن اس سے بھی بعض محققین سخت اختلاف رکھتے ہیں ان کے خیال میں یہ کہنا اور ثابت کرنا قدرے مشکل ہے کہ اردو میں پہلا ترجمہ کون سا ہے ؟ان کے خیال میں شاہ میراں جی خدا نما نے ابو الفضائل عبداللہ بن محمد عین القضاۃ ہمدانی کی تصنیف، تمہیداتِ ہمدانی، کا عربی سے اردو میں جو ترجمہ کیا تھا وہ اردو کا پہلا ترجمہ ہے، بعض اس کو بھی نہیں مانتے ان کے خیال میں ملا وجہی نے پہلی بار شاہ جی نیشاپوری کی فارسی تصنیف، دستور عشاق، کا اردو میں ترجمہ، سب رس، کے نام سے کیا، ۱۷۰۴ء شاہ ولی اللہ قادری نے شیخ محمود کی فارسی تصنیف، معرفت السلوک، کا اردو میں ترجمہ کیا، اٹھارھویں صدی عیسوی کے شروع میں سید محمد قادری کی فارسی تصنیف، طوطی نامہ، کا ترجمہ ہوا تقریباً اسی زمانے میں فضل علی فضلی نے ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب، روضۃ الشہدا، کا اردو میں ترجمہ، کربل کتھا، کے نام سے کیا، ان ترجموں کے بارے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ کوئی باقاعدہ ترجمے نہیں بلکہ کتابوں کی تلخیص یا آزاد ترجمے ہوتے تھے اور ماہرین کے نزدیک ان ترجموں میں ان سائنٹیفک اصولوں کی پابندی نہیں کی گئی جو اچھے ترجموں کے لیے ازبس ضروری ہے۔

دیکھا جائے تو عادل شاہی دور میں بھی ترجمہ نگاری خوب پھلتی پھولتی نظر آتی ہے اس دور کے اہم شاعر رستمی کی نظم، خاور نامہ، در اصل ایک فارسی نظم کا ترجمہ ہے مگر رستمی نے کمال خوبصورتی اور مہارت سے ترجمہ کر کے اسے اپنی بنا لیا اس کا زمانہ تصنیف ۱۴۴۹ ہے اسی طرح اس عہد کے ایک دوسرے شاعر ملک خوشنود کی مثنوی، ہشت بہشت، خاصی مشہور ہے یہ نظم امیر خسرو کی فارسی نظم پر مشتمل ہے پھر، مقیمی، جو فارسی شاعر تھا، نے ایک ہندی لوک کتھا، چندر بدن مہیار، بڑے دلکش اسلوب میں لکھی ہے ۱۵۵۴ء میں علی عادل شاہ ثانی برسر اقتدار آیا اس کے عہد میں بیجا پور کے باکمال شاعر، نصرتی، کے ڈنکے بجے، مثنوی کی ہئیت میں اس کی تین کتابیں بہت مشہور ہوئیں جن میں سے، گلشنِ عشق، اور علی نامہ، کو آج بھی سراہا جاتا ہے بیجا پور کے ایک نابینا شاعر ط، ہاشمی، کی تصنیف، یوسف و زلیخا، جو ایک آزاد ترجمہ ہے، بھی ایک اہم چیز ہے۔

اسی طرح قطب شاہی دور میں ترجمہ نگاری پر اچھا وقت رہا اس دور میں ملا وجہی، محمد قلی، قطب شاہ کے عہد کا بہت اعلیٰ پائے کا نثر نگار اور شاعر تھا۱۶۳۵ء میں ملا وجہی نے اپنی شہرہ آفاق، سب رس، ترجمہ کی اس کا اسلوب مقفیٰ ہونے کے باوجود سادہ و پرکار ہے اس ترجمہ کو دیکھ کر ڈاکٹر سید عابد حسین عابد کی حقانیت پر بے اختیار ایمان لانے کو دل چاہتا ہے، لکھتے ہیں۔

’’ترجمے کو ادبی قدرو قیمت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم کے ساتھ وہ آب و رنگ، وہ چاشنی، وہ خوشبو، وہ مزا بھی آ جائے، جو اصل عبارت میں موجود تھا۔ ‘ ‘ (۵)

قطب شاہی دور کا ایک اور بڑا شاعر، غواصی، تھا اس کا مقام، ملک الشعراء، جیسا تھا اس کی مشہور تصنیف، سیف الملوک و بدیع الجمال، اور، طوطی نامہ، ۱۶۳۱ء میں لکھی گئی، طرزِ بیان میں سادگی اور کمال کی روانی ہے اس دور کا ایک اہم شاعر، ابنِ نشاطی، ہے اس کی مثنوی، پھول بن، دکنی اردو کے خزینہ ادب کا انمول رتن کہلاتی ہے، پھول بن، فارسی تصنیف،ب تین، پر مشتمل ہے لیکن شاعر کی بے پناہ تخلیقی صلاحیت اور فنکاری نے اس داستان کی پیچیدہ کہانی کو اپنا بنا لیا ہے۔

عیسائیوں نے جب ہندوستان میں تاجروں کے بھیس میں قدم رکھا تو ان کے مبلغین نے اپنی مذہبی کتابیں ترجمہ اور تالیف کر کے شائع کیں اٹھارویں صدی کے وسط میں انہوں نے عیسائیت کے پرچار اور فروغ کے لئے توریت اور انجیل کے اردو ترجمے شائع کیے، کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی پلہ کتاب، کتابِ پیدائش کے پہلے چار بابوں کا ترجمہ ہندوستانی، ہے یہ ترجمہ، بنجمن شولٹز (BENJAMAIN SCHULTZE)نے کیا تھا اس کے بعد اسی شولٹز نے، کتابِ دانیال، کا اردو ترجمہ شائع کیا (ان کتابوں کی فہرست، سی اے گیریرسن، نے اپنی کتاب، ہندوستان کا لسانی جائزہ، جلد نہم میں دی ہے )

اسی اٹھارویں صدی کے خاتمے سے کچھ پہلے دلی میں قرآن شریف کے دو ترجمے ہوئے یہ مشہور بزرگ شاہ ولی اللہ کے دو صاحبزادوں مولانا شاہ رفیع الدین اور ان کے چھوٹے بھائی شاہ عبدالقادر نے کیے دونوں ترجموں میں ۹ سال کا فرق ہے شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ تھا اس میں ہر لفظ کا اس طرح کیا گیا کہ اردو فقروں کی ساخت بالکل بدل گئی چونکہ سلاست اور روانی نہ تھی اس لیے اس کا اصل مفہوم سمجھنے میں دقت ہوتی تھی یہ ترجمہ ۱۷۸۶ء میں ہوا تھا عبدالقادر کا ترجمہ ۱۷۹۵ء میں ہوا پہلے کے مقابلے میں زیادہ آسان، شگفتہ، سلیس اور رواں تھا ان تراجم کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں وہ بھی اس مقدس کتاب کو سمجھ لیں پڑھ لیں یہ ابتدائی مساعی ادبی نہیں تاریخی زمرے میں زیادہ شمار کی جاتی ہے۔

مذہبی کتابوں کے علاوہ ۱۷۷۵ء میں فارسی داستان، قصہ چار درویش، کا ترجمہ حسین عطا تحسین نے کیا اصل میں اس کے مصنف، محمد معصوم تھے، کتاب کا نام، نو طرز مرصع، ہے تحسین فارسی کی کئی کتابوں کے مصنف تھے لیکن اردو ادب میں اس ترجمے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اس دور کی ایک کتاب، بہادر نامہ، بھی ملتی ہے جس میں سرنگا پٹم، کی تاریخ ٹیپو سلطان کی جنگ تک جاتی ہے خیال ہے کہ یہ بھی کسی فارسی تصنیف کا حصہ یا ترجمہ ہے اس طرح پنڈت دیا شنکر کول کا نام ان کی تصنیف، گلزارِ نسیم، کی وجہ سے زندہ رہے گا، یہ مثنوی لکھنوی طرز تحریر کی نمائندہ مانی جاتی ہے پنڈت جی نے الف لیلیٰ کی کچھ کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا مگر لازوال شہرت ان کی مترجمہ مثنوی، گلزارِ نسیم، کی وجہ سے نصیب ہوئی یہ بہت طویل مثنوی پنڈت جی کے استاد آتش کے کہنے پر مختصر ہوئی، اس مثنوی کا اردو ادب میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں ان میں ماں کا خواب، بچے کی دعا، ایک مکڑی اور مکھی، ایک گائے اور بکری، ایک پہاڑ اور گلہری (ماخوذ ازایمرسن)، ہمدردی (ماخوذ از ولیم کوپر)، آفتاب (ترجمہ، گایتری)پیامِ صبح (ماخوذ از لانگ فیلو)، عشق اور موت (ماخوذ از ٹینی سن)ِ، رخصت اے بزمِ جہاں (ماخوذازایمرسن)وغیرہ وغیرہ۔

دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے آخر میں یہی کہنا ہے کہ ادبیات میں تراجم کا سلسلہ رکا نہیں ہے اب دیکھنا بس یہ ہے کہ موجودہ دور اور مستقبل میں ترجمے کے ہمہ گیر ادبی و تمدنی اثرات کو کس طرح قبول کیا جاتا ہے۔۔ ۔ ؟

٭٭

 

 حوالہ جات

 

۱۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، ارسطو سے ایلیٹ تک، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، طبع ہفتم، ۲۰۰۳، ص۱۳

۲۔ رشید امجد، فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث، مشمولہ رودادِ سیمینار۔۔ ۔ اردو زبان میں ترجمے کے مسائل، ص۴۲

۳۔ مسکین علی حجازی، ڈاکٹر، صحافتی زبان، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۷، ص۷۳

۴۔ خلیق انجم، مترجمہ فنِ ترجمہ نگاری، انجمن ترقی اردو ہندی نئی دہلی، طبع سوم۱۹۹۴، ص۱۰

۵۔ مشمولہ بیاض مبارک، مرتبہ سید زوار حسین زیدی، ص۵۶

٭٭٭

 

 

 

 

 

رضیہ اسماعیل کے دوہے …ایک مطالعہ ۔۔۔ محفوظ الحسن (بہار۔ انڈیا)

 

دوہا خالص ہندوستانی صنفِ شاعری ہے۔ امیر خسروؔ سے لے کر آج تک شعرا دوہے پر طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اس کی تاریخ طویل ہے اور تسلسل قائم۔ ابتدا میں اس کی رفتار دھیمی رہی ہے۔ پھر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جب اس کی آواز کم کم سنائی دیتی رہی ہے۔ بیسویں صدی میں دوہے نے نئی انگڑائی لی ہے اور نئی شان سے شعری افق پر اس کی جلوہ گری ہوئی ہے۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ عالمی سطح پر دوہا نگاری کو فروغ ہوا ہے اور برصغیر ہند و پاک کے علاوہ خلیجی ممالک، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی وغیرہ میں مقیم ہندوستانی و پاکستانی شعرا نے اسے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ دوہے کی اس مقبولیت کا راز میرے خیال میں غزل سے اس صنف کی قربت کا ہونا ہے۔ قربت سے میری مراد غزل کے اشعار کا ظاہری طور پر ایک دوسرے سے بے ربط ہونے سے ہے۔ یعنی جس طرح غزل کا ہر شعر ایک اکائی ہوتا ہے اور مکمل بھی، اسی طرح دوہا بھی اپنے آپ میں مکمل اکائی ہوتا ہے۔ میرے مطالعہ کی حد تک۔

کاگا سب تن کھائیو چُن چُن کھائیو ماس

دو نیناں مت کھائیو پیا ملن کی آس

کو پہلا دوہا قرار دیا گیا ہے۔ یہ دوہا بِرہن کے جذبات کا عکاس ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ عشق دوہے کی بنیاد میں شامل ہے۔ لیکن جیسے جیسے علم کا دریا وسیع ہوتا گیا، دائرہ پڑھتا اور پھیلتا گیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہوتی گئی۔ دوہے کے موضوعات و مضامین میں بھی وسعت آتی گئی۔ آج کا دوہا نگار صرف عشق، حسن، ہجر و وصال کے حصار میں مقیّد نہیں بلکہ وسیع تر کائنات اس کی نگاہوں میں ہے۔ لہٰذا آج کے دوہے میں وسیع تر کائنات کے حالات کی عکاسی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

قبل اس کے کہ میں رضیہ اسماعیل کے دوہوں پر گفتگو کروں، میں چاہتا ہوں کہ ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی شاعر کے دوہے کے تعلق سے خیالات نذرِ قارئین کروں تاکہ صنف دوہا، اس کی فنی حیثیت و شناخت اور مضامین و موضوعات کے تعلق سے واقفیت ہو جائے۔

تیرہ، گیارہ ماترا، بیچ بیچ و شرام

دو مصرعوں کی شاعری، دوہا جس کا نام

(فراز حامدی)

نا مانگے پچیس یہ، نا راکھے تئیس

دوہے کی ہر سطر میں حرف سجیں چوبیس

 

تیرہ پر لے سانس پھر باقی گیارہ جوڑ

دوہے کے اس روپ کی نہیں ادب میں ہوڑ

 

دو مصرع میں باندھ کر داد، نصیحت، پریت

بھید کھولنا جگت کے ہے دوہے کی رِیت

 

فعلن، فعلن، فاعلن، فعلن، فعلن، فاع

دوہے کا یہ وزن ہے، کہتے ہیں طباع

(تاج قائم خانی)

میرے خیال میں صنف دوہا کے فن اور موضوع پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا میں رضیہ اسماعیل کے دوہوں پر گفتگو کی ابتدا کرتا ہوں۔

کسی فن کار کے فن پر گفتگو کے لئے اس فن کار کی شخصیت اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس کے فکر و فن کے مکمل نمونے جب تک سامنے نہ ہوں، انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ میں نے رضیہ اسماعیل کو ’’پرواز‘ ‘  کے علاوہ کہیں نہیں پڑھا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی نثری یا شعری مجموعہ پیشِ نظر رہا ہے۔ ایسی صورت میں ساحر شیوی کے ذریعے مرسلہ محض پچاس ساٹھ دوہوں کی روشنی میں میں جو گفتگو کروں گا ممکن ہے اس سے رضیہ اسماعیل کی فن کاری کے پورے سچ پر روشنی نہ پڑ سکے۔ لہٰذا قارئین سے پہلے ہی معذرت کر لیتا ہوں کہ اگر میں رضیہ اسماعیل کو اچھی طرح پیش نہ کر سکوں تو مجھے معاف فرمائیں گے۔

رضیہ اسماعیل کے دوہے میرے پیشِ نظر ہیں۔ ان کے مطالعہ سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول تو یہ ہے کہ رضیہ اسماعیل اپنے ماضی سے خوب واقف ہیں۔ اسلامی تاریخ ان کی نظروں میں ہے۔ انھوں نے اس کا نہ صرف گہرائی سے مطالعہ کیا ہے بلکہ اس کو دل کی گہرائیوں میں اتارا ہے اور اس پر عمل پیرا رہی ہیں۔ دوم یہ کہ انھوں نے اپنے دوہوں میں حمد و نعت کے مضامین کو بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے نیز حمد کہتے وقت دیوانگی اور نعت کے وقت ہشیاری کو اپنے پیشِ نظر رکھا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ انھوں نے عورت کی مختلف جذباتی کیفیات کو بڑی خوبی سے دوہوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اور چوتھی چیز یہ کہ اخلاقی تقاضے بھی ان کے پیشِ نظر رہے ہیں۔

ان کے دوہوں سے کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں کہ میں اپنی گفتگو کو مدلل کروں۔ حمدیہ اور نعتیہ دوہے تقریباً تمام دوہا نگاروں نے لکھے ہیں لیکن رضیہ اسماعیل کی حمد نگاری اور نعت نگاری نیز ان کی اسلامی و انسانی تاریخ سے واقفیت کا اندازہ لگانا ہو اور ان کا منفرد اظہاریہ دیکھنا ہو تو مندرجہ ذیل دوہے ملاحظہ فرمائیں۔

اونچی تیری شان ہے مولا، اونچا راج سنگھاسن

عیب نہیں کوئی تجھ میں مولا، کیوں کر گنوں محاسن

 

سارے جگ کا رکھوالا تو، ہم تیرے محتاج

حکم عدولی کرتے ہوئے کیوں آئے نہ ہم کو لاج

 

کالی کملی کاندھے پر تھی، آنکھ بڑی متوالی

ڈوب رہی بحرِ عصیاں میں دنیا اس نے بچا لی

 

کفر و شرک کی کالی آندھی سنے نہ کوئی بات

ٹھان لی جی میں لیکن اس نے، دے کے رہیں گے مات

 

دُرِّ یتیم بنایا اس کو، بھید بڑا تھا گہرا

دُکھ اس کی جاگیر بنائے، اس پر غم کا پہرا

 

آدم کو جنت سے نکالا، کیسا تھا یہ ناٹک

حشر تلک اب اس جنت کا بند رہے گا پھاٹک

 

جنت میں جانے کی ہائے کیا کیا شرطیں رکھ دیں

اوپر سے ابلیس کی باگیں کتنی ڈھیلی کر دیں

 

تیری عبادت کریں فرشتے، اور انھیں کیا کام

سارے کام تو ہم کو سونپے، پھر بھی ہم بدنام

 

آتما تن کا ایسا ناتا، بھید نہ کوئی پائے

جب تو چاہے تیرا فرشتہ آ کر روح لے جائے

 

ابراہیم کی آنکھ کا تارا، ماں کا راج دُلارا

اک بچے کی قربانی نے سب کا بخت سنوارا

 

صفا سے لے کر مردہ تلک پھرتی تھی ماری ماری

چاروں اور وہ کھوجے جَل کو، سمے بڑا تھا بھاری

 

تین سو تیرہ تیرے مجاہد، کھڑی کفار کی فوج

ہار کہاں سکتے ہیں ربّا، کریں جو حق کی کھوج

مندرجہ بالا دوہوں میں آپ کو یقیناً حمد و نعت کا نرالا اور اچھوتا انداز نظر آیا ہو گا۔ انسان اور فرشتوں کا فرق، روح اور بدن کی حقیقت، آدم کا جنت سے نکلنا، حضرت ابراہیم اور اسماعیل کی قربانی، حضرت ہاجرہ کی پریشانی، زم زم کا چشمہ بہنا، جنگِ بدر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے کرب ناک پہلوؤں کو کس خوب صورتی سے ادب کے قالب میں ڈھالا ہے، اسے صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ضرورتاً ہندی الفاظ کے استعمال سے اثر آفرینی کا کام لیا گیا ہے۔ اسے فن کارانہ چابک دستی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے کی کوشش بھی کم اہم نہیں۔

مندر جاؤ، مسجد جاؤ، ربّ تو ایک ہے بھائی

وہ ہی احد، وہ ہی واحد، دوئی کا ہے بنائی

اس دوہے میں لفظ ’’کا ہے ‘ ‘  جو خالص بہاری لفظ ہے، کا استعمال کر کے فن کار نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ زبان زبان ہوتی ہے، کسی ایک علاقے کی جاگیر نہیں۔ پھر ’’کا ہے ‘ ‘  کے استعمال نے جو ایک فطری انداز پیدا کر دیا ہے، اس کی داد نہ دینا قرینِ انصاف نہیں۔

میں نے پہلے کہیں لکھا ہے کہ رضیہ عورت ہیں لہٰذا انھوں نے مختلف ساعتوں میں عورتوں کے جذبات کی بھی خوب عکاسی کی ہے۔ ان دوہوں میں حسن کی چھیڑ چھاڑ ہے، عشق کی تڑپ ہے، برہ اور برہن کا دکھ ہے، ملن کی آس ہے، وصال کی خوشبو ہے، ملن کا جوش ہے، ایک دوسرے میں سما جانے کی تمنا اور کھو جانے کی آرزو ہے۔ یہ سب کچھ نرا بیان نہیں بلکہ شاعرانہ اقدار کی پاس داری کے ساتھ فکری و فنی حسن کی آمیزش کا خوب صورت نمونہ بھی ہے۔ یہاں اگر پیا کے لئے سپردگی ہے تو پیا سے دو دو ہاتھ کرنے کی دھمکی بھی ہے۔ یعنی رضیہ کی عورت محض مجبور نہیں بلکہ خود اپنے وزن وقار کو بھی محسوس کرتی ہے۔

رضیہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ زمانہ حسن و عشق کا دشمن ہوتا ہے لہٰذا انھوں نے حسن کو زمانے سے بچنے کی بھی صلاح دی ہے۔ چند دوہے ملاحظہ فرمایئے۔

بستی بستی، قریہ قریہ دھواں اڑاتے پھرتے ہو

کس کی دید کی آس لگائے اشک بہاتے پھرتے ہو

 

خواب چرائے آنکھوں کے یہ راتوں کی بے خوابی

دھول اڑے انکھین نگری میں بڑھے ہے جب بے تابی

 

عشق کی مے ہم پی بیٹھے ہیں، یار نظر نہ آئے

مرتے دم تک اس کو کھوجیں، چاہے جہاں چھپ جائے

 

عشق تِرے نے من کے اندر ایسی جوت جگائی

تیرے بنا کچھ نظر نہ آئے، حاضر کُل خدائی

 

جیم جدائی کی گھڑیاں اب بیتیں نہیں اکیلے

آن ملو اب ساجن تم بھی کس کارن کے میلے

 

دُور نظر سے ہو جاؤ پر دل سے دُور نہ ہونا

لاکھ جتن سے پیار خزانہ پایا، اب نہ کھونا

 

رات مرادوں والی آئی، گجرا ہر سو مہکے

خوشبو اُڑتی پھرے سانوریا، من کا پنچھی چہکے

دھیمی دھیمی پریم کی اگنی کیسے من کو جلائے

دل کی پیتم اپنی بھاشا کوئی سمجھ نہ پائے

 

برکھا اور بادل کو دیکھو، کھیلیں آنکھ مچولی

من سے میرے ہُوک سی اٹھے کہاں مِرا ہمجولی

 

لوک لاج کو تج کے میں تو چلی پیا کے ساتھ

روک سکو تو روک لو مجھ کو، پکڑا پی کا ہاتھ

 

پکڑ کے پی کا ہاتھ چلی ہو، اتنا رہے گمان

نظر نہ لاگے پیار کو تیرے، بیری کُل جہان

 

کاجل، ٹیکا، مہندی، پائل سب ہی شور مچائیں

یاد کریں بچھڑے پیتم کو، ہر دم اُسے بلائیں

 

سو گئے تارے، نیند کے مارے اور جاگے اِک بِرہن

لوٹ کے جانے کب آؤ گے، چوکھٹ پر ہیں نینن

 

میں سلفے کی لاٹ ہوں سجناں، تو گھبرو پنجابی

سیدھے راہ پہ آ جا ورنہ ہو گی بڑی خرابی

 

تو پنجاب کا گھبرو ہے تو میں بھی روپ کٹاری

دیکھے مجھ کو جو بھی تاکے اور نہ کوئی ناری

 

پھوڑ دی گاگر بیچ بجریا، لاج اسے نہ آئے

گھاگرا چولی بھیگا، گوری لاج سے مرتی جائے

 

گوری بن میں جھولا جھولے، گیت مِلن کے گائے

آئے ساجن چپکے سے اور من کے پھول کھلائے

اتنا ہی نہیں غریبوں، بے کسوں اور لاچاروں کی کس مپرسی پر رضیہ آٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہیں۔

پی کے خون غریبوں کا اب لوگ بنے دھن وان

حال غریب کا کوئی نہ پوچھے، کہاں ہے تُو بھگوان؟

اور پھر یہ اخلاقی درس بھی ملاحظہ ہو۔

عقل کے اندھو ! کیوں کہتے ہو، یہ تیرا یہ میرا

کون سدا جگ میں رہنے کا، چڑیاں رین بسیرا

 

جو گی والا پھیرا سب کا، جگ تیرا نہ میرا

من میں پیار کی جوت جگا لو، جس میں گھور اندھیرا

اور آخر میں علم و جہل کے تعلق سے یہ دوہا ملاحظہ ہو۔

علم تو ہے اک نقطہ سائیں، کا ہے سمجھ نہ آوے

جاہلوں جیسی باتیں کر کے کیوں تو اسے بڑھاوے

رضیہ پاکستان نژاد اور برطانوی شاعرہ ہیں۔ ان کے دوہوں میں پاکستانی یا برصغیر کی عورت تو نظر آتی ہے مگر برطانوی عورت نظر نہیں آتی، کم از کم ان دوہوں کی حد تک جو مجھے بھیجے گئے ہیں۔

رضیہ کی دوسری ادبی اور سماجی مصروفیات بھی ہیں جہاں انھوں نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں نے غزل، نظم اور نثر کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ رضیہ کو سلیقۂ گفتار بھی حاصل ہے اور سلیقۂ اظہار بھی۔ الفاظ کے استعمال پر، زبان و بیان پر دسترس بھی ہے اور ادبی اقدار کا تحفظ بھی ان کو آتا ہے۔

فنی و عروضی سطح پر ان دوہوں کی کیا حیثیت ہے ؟ اس کا فیصلہ تو وہ کریں گے جو ماہرِ عروض ہیں۔ میری نظر میں رضیہ کے دوہے قابلِ مطالعہ ضرور ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

وفا حجازی۔۔ ۔ امید کے چراغ روشن کرنے والا شاعر ۔۔۔ نوشی گیلانی

 

یوں تو اب نظریاتی بنیادوں پر ادبی دبستانوں کا وجود حد سے بڑھی ہوئی شخصیات پرستی کی دھند میں گم ہو چکا ہے۔ یعنی اب ادبی فیصلے نظریات کی کسوٹی پر نہیں بلکہ ’’ حسب استطاعت‘ ‘  ذاتی پسند اور نا پسند پر ہو رہے ہیں۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے تجزیہ گو، تجزیہ نگار ’’ رومانوی ادبستان‘ ‘  ترقی پسند دبستان اور دیگر مکاتبِ فکر کو کم کم ہی موضوع بناتے ہیں۔ سماجی اور اقتصادی اُتار چڑھاؤ اور انسانی ذہن پر اس کے اثرات کے ساتھ ساتھ ایک جزوی سبب شاید یہ بھی ہے کہ رومانوی داستانوں کو ’’ رومان پرستوں ‘ ‘  ترقی پسند داستانوں کو ’’ ترقی پسندوں ‘ ‘  نے ویسا ہی نقصان پہنچایا ہے جیسا کہ مذہبی سطح پر اسلام کو ’’ مذہبی انتہا پرستوں ‘ ‘ نے۔

ذرا غور سے دیکھا جائے فی زمانہ ہم کسی پہلو سے ایک رائے قائم کرتے ہیں اور اس ’’ رائے ‘ ] کو اس شدت ست اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں کہ وہ ہمیں ایک ’’ نظریہ‘ ‘  لگنے لگتی ہے۔ ساتھ ہی یہ توقع بھی یقین بن جاتی ہے کہ دوسروں کو بھی ہماری رائے پر ایمان لے آنا چاہئے اور اس معاملے میں کسی لچک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

خیر، اثبات و انکار کی اس بحث سے گریز کرتے ہوئے شخصی اور اجتماعی شعوری سطح پر یہ احساس رائے گانی اپنی جگہ لیکن ابھی سفر جاری ہے۔ عصر حاضر کا اور متاثر کن ادبی حوالے بھی زندہ ہیں۔ اردو زبان و ادب کی گذشتہ دہائیوں کا اگر جائزہ لیں تو بے شمار کام اور بہت سے معتبر نام یوں ہی سامنے آ جاتے ہیں کہ دل پذیرائی کو جھک جاتا ہے۔ تاریخی و جغرافیائی منظر و پس منظر سانس لیتی ہوئی زبانوں اور ان میں تخلیق کئے جانے والے ادب کا حصہ ہوتے ہیں۔ ملتان اور اس کے گرد و نواح کے علاقے صوفیاء اور اولیا ء کے محبوب پڑاؤ رہے۔ شاید انہی کا فیض ہے کہ ہر دور میں یہاں دلکش و گلنار شعر و ادب وجود میں آتا رہا۔ بالخصوص شاعری نے تو اپنے انوکھے پن کی وہ چھب دکھائی کہ مثال بنی۔ ایسی ہی ایک با کمال شخصیت تھے جناب وفا حجازی:

خطرے میں خود پہرے دار کی جان نہ ہو گھر ہو لیکن اتنا عالی شان نہ ہو

سارا ریوڑ سہما سہما بیٹھا ہے دیکھ افق کی سمت کوئی طوفان نہ ہو

اور تو سارے دکھ مجھ کو منظور وفاؔ مولا میرا بیٹا نا فرمان نہ ہو

وفا حجازی کا تعلق کبیر والا سے تھا ان کی ساری زندگی حروف و معانی کی آبیاری میں ہی بسر ہوئی۔ اور 31 اکتوبر1984ء شدید علالت کے بعد ملتان نشتر ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ میلے جسموں کی چاندنی‘ ‘  ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔

لوگ اک پل میں وہ تعمیر کرانے لگ جائیں جس کی بنیاد اُٹھانے میں زمانے لگ جائیں

تیرگی ایسی کہ شاخوں پہ گماں ہوتا ہے خود پرندے ہی نشیمن نہ جلانے لگ جائیں

وفا حجازی کی شاعری میں بھی ان کی شخصیت کی طرح نظریاتی استدلال و نرم آہنگ امتزاج موجود ہے۔ لہجے میں مصلحت کا الجھاؤ نہیں بلکہ بر ملا سادگی ہے۔ بھر پور پیغام دیتی ہے۔

گفتگو تنہائیوں کی بام و در کرنے لگے لوگ جانے کس جگہ اب دن بسر کرنے لگے

نازش اہلِ ہنر اس مرحلے پہ آ گئی کاروبار اب پتھروں کا شیشہ گر کرنے لگے

دیکھنا پھر اک عمارت دفعتاً گر جائے گی دیکھنا وہ پھر کسی کے دل میں گھر کرنے لگے

ان کے ہاں عجب مطمئن سا اضطراب اور انقلابی سا عجز ہے۔ یہ رچاؤ پڑھنے والے کو بہت آ ہستگی سے اسیر کر لیتا ہے۔

تیری نظر بھی اُٹھی ہے گردِ سفر کے ساتھ تیرا بھی ہے لگاؤ کسی در بدر کے ساتھ

طائر ہو اور کنجِ قفس میں اسیر ہو کتنا بڑا مذاق ہے یہ بال و پر کے ساتھ

اب کارواں کا فیصلہ لمحوں کے ہاتھ ہے اب گفتگو کا وقت نہیں راہبر کے ساتھ

اپنی تخلیقات میں وہ آس پاس بکھرے مناظر کی اوٹ میں جھانکتے اور سماجی، سیاسی اور دیگر محرکات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ وصف ایک ذمہ دار اور آرزو مند شاعر میں ہی پایا جاتا ہے۔ تبھی تو ان کے اشعار میں اداسی کے سائے ضرور ہیں لیکن یاسیت کا شائبہ بھی نہیں۔

تیغ و صلیب و دار کا محشر دکھائی دے

ہر چیز میرے قد کے برابر دکھائی دے

صحرا کو اس خیال سے طے کر رہا ہوں میں

ممکن ہے تیرے شہر کا منظر دکھائی دے

ان منظروں کی تہہ میں کوئی حادثہ نہ ہو

دیدہ وروں کی آنکھ مجھے تر دکھائی دے

٭٭٭

وہ اگر پرسش احوال کو آنے لگ جائیں

بے بسی ہم تیرا تہوار منانے لگ جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک گوشہ فرحت نواز کے لیے

ان کے شعری مجموعہ ’استعارہ مِری ذات کا‘ کے حوالے سے

 

فرحت نواز ایک زمانے میں متحرک ادبی شخصیت ہوا کرتی تھیں۔ شاعری، ترجمہ، تنقید اور ادارت تک ان کی ادبی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلا ہوا تھا۔ پھر شادی کے بعد گھر اور بچوں کو زیادہ وقت دینے کی وجہ سے ادبی دنیا سے دور ہو گئیں۔ اب ایک عرصہ کے بعد ادبی دنیا میں واپس آئی ہیں تو اپنا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ لے کر آئی ہیں۔ اس شعری مجموعہ میں جن ادیبوں کے تاثرات شامل ہیں اور کتاب چھپنے کے بعد اس پر جو ردِ عمل سامنے آیا، اس کا ایک انتخاب یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح چند نئے اور غیر مطبوعہ مضامین بھی اس گوشہ میں شامل ہیں۔ فرحت نواز اس وقت گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج رحیم یار خان میں ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ انگریزی کی سربراہ اور وائس پرنسپل کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔

ارشد خالد

٭٭٭

 

شعری مجموعہ ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ انٹرنیٹ پر ان لنکس پر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

http: //issuu.com/haiderqureshi/docs/poetry_book_by_farhat_nawaz

یونی کوڈ میں

http: //www.punjnud.com/PageList.aspx?BookID=4453&BookTitle=Isteara%20Meri%20Zaat%20Ka

٭٭٭

 

 

 

مختصر کوائف

مرتب: ارشد خالد

 

تاریخ پیدائش: ۱۷جون ۱۹۵۷ء۔ سرکاری کاغذات میں: ۱۲ اگست ۱۹۵۷ء

مقام پیدائش: ڈیرہ نواب صاحب

تعلیم:

میٹرک: گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول۔ رحیم یار خان۔

ایف ایس سی، بی اے: گورنمنٹ کالج فار ویمن، رحیم یار خان

ایم اے اکنامکس (ریگولر)اور ایم اے انگلش (پرائیویٹ): اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور

ملازمت:

انگریزی کی لیکچر ر: گورنمنٹ گرلز کالج علی پور۔ ضلع مظفر گڑھ۔ ۸دسمبر ۱۹۸۴ء سے۔

انگریزی کی لیکچر ر: گورنمنٹ کالج فار ویمن رحیم یار خان۔ ۱۹ ستمبر ۱۹۸۷ء سے۔

موجودہ پوزیشن: ہیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ اور وائس پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج رحیم یار خان

مطبوعہ کتب: استعارہ مِری ذات کا (شعری مجموعہ۔ مطبوعہ ۲۰۱۵ء)

منزلاں تے پندھیڑے (اردو افسانوں کے سرائیکی تراجم کا مجموعہ۔ ۱۹۸۰ء)

چونڑویاں نظماں (وزیر آغا کی نظموں کے سرائیکی تراجم۔ ۱۹۸۰ء)

۱۹۸۰ء کے منتخب افسانے (انتخاب۔ ۱۹۸۱ء)

The Day Shall Dawn (اکبر حمیدی کی غزلوں کا انگریزی ترجمہ

بہ اشتراک: جمیل آذر، حامد برگی)

جدید ادب خانپور کی شریک مدیر۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۶ء تک

کالج میگزین ’’ لمعہ ‘ ‘ کے انگریزی سیکشن کی نگران

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا ‘ ‘ میں شامل تاثرات

 

ڈاکٹر رشید امجد (راولپنڈی)

 

فرحت نواز جذبوں کی کو ملتا اور نرول پن کی شاعرہ ہے۔ اس کے یہاں پُر پیچ فلسفوں اور بڑے بڑے آدرشوں کی جگہ خواب زدگی کی ایک ایسی کیفیت ہے جو اپنے اندر خلوص و محبت کا ایک سمندر چھپائے ہوئے ہے۔۔ ۔۔ میرا خیال ہے کہ کسی شعر میں بڑا فلسفہ یا آدرش ہو نہ ہو، خلوص کی کو ملتا اور جذبے کا نرول پن ہونا ضروری ہے۔ اس حوالے سے مجھے فرحت نواز کے یہاں ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

فرحت نواز نے اپنی بہت سی ہم عصر شاعرات کی طرح جنس کے کچے پن کے اظہار کو ذریعہ بنا کر شہرت کی سیڑھی چڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے یہاں جذبہ روح کی ایک بنیادی طلب ہے اور رومان محض جسمانی محبت نہیں بلکہ وجدانی کیفیات کا عکاس ہے۔ محبوب پہلی نظر میں جیتا جاگتا انسان ہے مگر پوری نظم کے تخلیقی عمل میں گوشت کی لذتیں منہا ہو کر روح کی رنگینیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی نظمیں سادہ سی محسوس ہوتی ہیں، لیکن ایک مصرعہ یا لفظ کو وہ اس طرح تخلیقی حرکت دیتی ہے کہ نظم کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ فرحت کی شاعری میں خوف، شک اور متزلزل کیفیت کی تکون بنتی ہے۔ وہ زلزلوں کی زمین پر کھڑی وہ عورت ہے جس کے اندر کی عورت جاگ بھی رہی ہے مگر زلزلوں کی دھمک اور اردگرد کی صورتحال سے خوفزدہ بھی ہے۔ وہ نہ تو اس عورت کو سلانا چاہتی ہے اور نہ ہی جگائے رکھنے پر آمادہ ہے۔ یہیں پر اس کی شاعری کا بنیادی تنازعہ جنم لیتا ہے۔ سوال ابھرتے ہیں اور ان سوالوں کا کشکول لیے وہ کبھی تو جذبوں کی وادیوں میں اترتی ہے اور کبھی فکر کی گھاٹیاں طے کرتی نظر آتی ہے۔ سوال اس کی ہر نظم میں ہے مگر وہ پرانے شاعروں کی طرح اس کا دو ٹوک منطقی جواب نہیں دیتی بلکہ اشاروں اور کنایوں کی صورتحال میں لا کر چھوڑ دیتی ہے۔۔ ۔۔

ایک بات جو اسے بہت سے دوسرے شاعروں سے منفرد کرتی ہے یہ کہ اس کے سارے تجربے اس کے اپنے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں، ننھے ننھے دکھ اور ایک مختصر سا ماحول بظاہر اس کی شاعری کے دائرے کو خاصا مختصر کر دیتا ہے مگر اس محدود دائرے میں ایک سچائی ہے اور وہ ہے اس کا اپنا آپ۔ کہ وہ نہ تو دوسرے کے تجربوں اور جذبوں کو دہراتی ہے اور نہ اپنے آپ کو دوسروں کے ذہن میں رکھ کر سوچتی ہے۔ اس کی دنیا مختصرسہی مگر اپنی ہے اور یہی اپنا پن اس کے جذبوں کو کو ملتا اور نرول پن عطا کرتا ہے، اس حوالہ سے مجھے اس کی نظموں میں ایک سوندھا پن اور اپنی مٹی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پروفیسرمظہر مہدی (جواہر لال نہرو یونیورسٹی۔ دہلی)

 

فرحت نواز کی شاعری کا دائرہ وسیع ہے، لا محدود نہیں۔ لیکن اُس دائرے کے مرکز میں جو نقطہ ہے وہ لا محدود ہے۔ یہ وہی انسانی جذبہ اور وہی آرزو ہے جو اس کے اندر ازل سے موجود ہے اور اُس کے رنج و الم کا سبب ہے۔ ان کی شاعری اس ازلی آرزو کی تکمیل کی جستجواور اُس سے حاصل شدہ پرانے انسانی تجربوں کے نئے ذاتی احساس کا اظہار ہے کہیں تصنع سے عاری اور کہیں انوکھا۔ (آبلے ہو گئی ہیں آنکھیں

کیا انگارہ تھا وہ شخص)لیکن ان کی شاعری وہاں ہمیں خوش کن حیرت میں ڈال دیتی ہے جہاں اس ازلی انسانی جذبے کیا تھاہ گہرائی اور گیرائی شجر کے روپ میں نمودار ہوتی ہے اور شجر سے ہوا کے رشتے کا علامتی لیکن بامعنی اظہار ہوتا ہے۔ فرحت نواز نے ان علامتوں کو خلق کر کے انسانی تجربے میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے اور میرے خیال میں کسی بھی شاعری کی سب سے بڑی خوبی اسی کو سمجھنا چاہئے۔

ان کی شاعری میں خوابوں کا ایک جہاں آباد ہے اور آنکھوں نے ایک الگ دنیا بسا رکھی ہے۔ ان کو یوں توکلاسیکی اور جدید دونوں قسم کے شعراء نے برتا ہے لیکن فرحت نواز کے یہاں اُن کی اتنی جہتیں ملتی ہیں کہ ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

(خواب جو اپنے لیے اب ہیں سرابوں کی طرح اپنی آنکھوں میں انہیں بھر بھر کے پانی سوچنا)

فرحت نواز کی شاعری کا ایک اہم جزو گھریلو زندگی کا سرد گرم ہے لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اس میں انہوں نے ماں کو مرکزی اہمیت دی ہے۔ دیگر امور کے علاوہ ماہرین نفسیات کے نظریے، ادبیاتِ عالم، ہندوستانی فلمیں اور ساحر لدھیانوی جیسے افراد کی زندگیوں نے یہ درس دیا کہ ماں اور بیٹے کے درمیان محبت ایک فطری شے ہے۔۔ ۔۔ اس کے برعکس فرحت نواز نے اپنی شاعری میں اس مستحکم خیال کوsubvert کر کے نسائی حسیت کا ثبوت فراہم کیا۔ ان کی شاعری کا اچھا خاصا حصہ ماں اور بیٹی کے رشتے کو محیط ہے۔ (تضاد، آئینے سے ایک سوال، دعا، بابل، بابل تیری یاد آئے، کاش)۔ یہ حقیقت پسندانہ رویہ نسائی شاعری میں ایک نیا در وا کرتا ہے۔ اس مقام پر اس امکان کو نشان زد کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فرحت نواز کی رقصِ وحشت کروں، بَن باس میں ایک دعا، مَنّت کے دھاگے، نا انصافی، جہاں پناہ، تیز چلتی ہوا نے تماشا کیا جیسی نسائی حسیت سے لبریز نظمیں کل اُن کا شناس نامہ بننے والی ہیں۔

فرحت نواز کی شاعری کا دیگر قابلِ توجہ پہلو ان کا سماجی اور سیاسی سروکار ہے۔ اعلان فرما دو، انوکھی تاجپوشی، فرعون کی کرسی، اب نیا دور ہے اور امن کی فاختہ کے نام سیریز کی نظمیں اس کا اشاریہ ہیں کہ فرحت نواز انسان کی ازلی آرزوؤں اور تمناؤں کی شکست و ریخت کی دنیا سے باہر قدم رکھ رہی ہیں اور اپنے معاشرے کے گرد و پیش کی بدصورتی کے سیاسی اور سماجی اسباب کی جستجو میں ہیں۔ ایسا امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں ان اسباب کی جستجوان کی شاعری کا غالب موضوع بن سکتے ہیں۔

انہوں نے زبان کو روایت سے الگ ہو کر بھی برتا ہے لیکن ان کا یہ عمل دانستہ کے بجائے فطری معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے اس عمل میں کئی نئی تراکیب بھی وضع کی ہیں اور اردو لغت کو متموّل کیا ہے۔

خوش آمدید فرحت نواز!آپ ہی کی دنیا آپ کا استقبال کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

عبداللہ جاوید (کینیڈا)

 

چھوٹے بڑے حصاروں میں گھری ہو ئی زندگی گزارتے ہوئے اور خود کو ٹوٹتے پھوٹتے اور ٹکڑوں میں بٹتے ہوئے دیکھتے اور بر داشت کر تے ہوئے فرحت نواز نے کو ئی بیس برس نمٹا دیئے۔ ان بیس برسوں کی شعر و ادب سے لا تعلقی کے دوران اس کے اندر کی شخصیت جس کو ’’ذ ات ‘ ‘  سے منسوب کیا جا سکتا ہے، چھوٹے بڑے سب حصاروں سے آزاد اور شخصیت کی قطع برید سے محفوظ، لا شعور اور تحت الشعور کے نہاں خانوں میں مستور رہی بقول اس کے:

’’لگ بھگ دو دہائی پہلے ملک ادب سے خود اختیاری جلا وطنی کا فیصلہ کر تے وقت مجھے بالکلیہ خیال نہ آ یا تھا کہ جن لفظوں سے میں آنکھ چرائے جا رہی ہوں وہ پیچھے سے مجھے بلاتے رہیں گے۔ ان کی آواز پر میں کئی بار پتھر ہو ئی اور ان کی محبت کے جا دو نے مجھے کئی بار زندہ کیا۔ اس جلا وطنی کے دوران اس آواز سے میں اپنا تعلق نہیں توڑ سکی۔ ‘ ‘  چند باتیں کے زیرِ عنوان فرحت نواز نے یہ اعتراف کیا ہے لیکن ان ہی باتوں میں وہ یہ لکھ رہی ہیں ’’ شادی کے بعد گھر، شوہر، اور بچوں کی ذمہ داریوں کو بھی شعری لطافتوں کا ایک روپ سمجھا۔ زندگی کے روایتی رویوں میں انہی لطافتوں نے مجھے شعر و ادب سے یکسر دور نہیں جانے دیا۔ ‘ ‘

فرحت نواز کی غزلیہ شاعری ہو کہ نظمیہ شاعری یا پھر اس کے ماہئے، موضوع اور اسلوب بیان کے تنوع سے معمور اور یکسا نیت سے محفوظ و ما مون ملتے ہیں۔۔ اس نے کسی ایک مکتب یا تحریک تک اپنی شاعری کو محدود نہیں ہونے دیا۔ کہیں کہیں اس کی شاعری نسائیت کی تحریک سے مملو محسوس ہو تی بھی ہے تو اس کو اس حد تک ذاتی بنا دیا ہے کہ قاری کو تحریک کا نہ تو کو ئی جھنڈا نظر آ تا ہے اور نہ کو ئی پو سٹر یا بینر۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے اپنی چند ایک نظموں میں ’’ عورت ‘ ‘  کا مقدمہ لڑا ہے۔ لیکن ایسی نظموں کی موضوع عورت، خاتون خانہ ہے، حقوقِ نسواں کی علمبردار خواتین نہیں۔ اس کا مقدمہ تو صرف یہ ہے کہ اگر شوہر گھر کا بادشاہ ہے تو عورت گھر کی ملکہ کیوں نہیں ہے۔

فرحت نواز کا زیرِ نظر شعری مجموعہ سچی اور اچھی شاعری پڑھنے کی چا ہت رکھنے اور کرنے والوں کو ما یوس نہیں کرے گا۔

٭٭٭

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘  میں شامل ’’پیش لفظ‘ ‘ سے اقتباس ۔۔۔ حیدر قریشی (جرمنی)

 

فرحت نواز کو شعر و ادب کی دنیا میں پھر سے متحرک کرنے کے لیے میں نے جب اپنا مضمون ’’فرحت نواز کی نظمیں ‘ ‘ لکھا تھا تب ایسا کرنا میری صدق دلانہ کاوش تو ضرور تھی لیکن مجھے خود اندازہ نہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں فرحت نواز اتنے مختصر سے عرصہ میں اپنا شعری مجموعہ شائع کر لیں گی۔ سو اب جو یہ مجموعہ شائع ہو رہا ہے تو مجھے اس کی اشاعت کی خبر سے دلی خوشی ہو رہی ہے۔

لگ بھگ ربع صدی کے عرصہ پر محیط فرحت نواز کی شاعری میں محبت کی مختلف النوع کیفیات کو عمومی طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اِدھر ہمارے بعض دانشوروں نے شاعری میں محبت کے موضوع کو بہت کمتر درجہ کی چیز قرار دے رکھا ہے۔ محبت کا موضوع اتنا ہی پرانا ہے جتنا پرانا آدم و حوا کا قصہ، اور اتنا ہی نیا ہے جتنا ہم سب کی زندگیوں میں چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ موجود ہے۔ فرحت نواز کی محبت کی شاعری ان کے ذاتی تجربوں کی زائیدہ ہے، اس وجہ سے یہ روایتی محبت کی شاعری نہیں رہتی۔ اس میں ایک اوریجنل سی خوشبو موجود ہے۔ تاہم محبت سے ہٹ کر بھی ان کی شاعری میں موضوعاتی تنوع ملتا ہے۔ ماں، باپ، شوہر، بچے، بھائی، بہن، ان کی شاعری میں اپنے اپنے حقیقی روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ویمن ڈے پر لکھی گئی ان کی دو نظمیں اور امن کی فاختہ کے نام تین نثری نظمیں عالمی حوالے سے ان موضوعات کو نبھا رہی ہیں۔ وطنِ عزیز میں دہشت گردی کی شدید لہر کو فرحت نواز نے گہرے دکھ کے ساتھ اپنا موضوع بنایا ہے۔ جبکہ معاشرے میں کسی اختیار اور طاقت کے بَل پر فرعونیت کا مظاہرہ کرنے والی قوتوں کو بھی فرحت نواز نے مختلف انداز سے اپنا موضوع بنایا ہے۔ اتنے موضوعاتی تنوع کے باوجود ان کی شاعری میں محبت کا موضوع سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ قومی اور عالمی دونوں سطح پر انسانی معاشرے میں امن اور محبت کے فروغ کی متمنی ہیں۔

عام طور پر جب کسی شاعر یا ادیب کا کوئی تخلیقی مجموعہ شائع ہوتا ہے تو اس کے معاً بعد اس کے ہاں ایک ٹھہراؤ یا عارضی خاموشی آ جاتی ہے۔ جیسے تخلیق کار کچھ سستا رہا ہے، کچھ دیر کے لیے دَم لے رہا ہے۔ تاہم فرحت نواز کے ہاں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ استعارہ مِری ذات کاکی اشاعت کے معاً بعد ان کے شعری اظہار میں ایک دَم پھوٹ بہنے والے چشمے جیسی کیفیت نمایاں ہو گی۔ اسی مجموعہ میں شامل ان کی نئی شاعری سے اندازہ کر رہا ہوں کہ ان کے تخلیقی اظہار میں مزید بہاؤ آئے گا۔ ان کی تازہ نظموں، غزلوں میں بیس سال کے سکوت کا ٹوٹنا جلترنگ کی جھنکار اور چہکارجیسا لگ رہا ہے۔ اور ان میں مجھے فرحت نواز کے اگلے شعری مجموعے کی شاعری کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (انگلینڈ)

 

فرحت نواز کا پہلا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ اپنی تمام تر شعری نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ میرے سامنے ہے اور میں سوچ رہی ہوں کہ خواب دیکھنے والی آنکھ نے اپنی بات کہنے میں اتنی دیر کیوں کی؟آنکھ کی گود تو کبھی خوابوں سے ویران نہیں ہوتی۔ خواب ٹوٹ سکتے ہیں، بکھر سکتے ہیں، ان کی تعبیریں بدل سکتی ہیں مگر خواب کبھی نہیں مرتے۔ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ریزہ ریزہ خواب، کرچی کرچی خواب، بکھرتے خواب، ادھورے خواب، کسی بھی نام سے پکاریں خواب تو خواب ہی رہتے ہیں۔ پھر فرحت تو خواب گر ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ لگتا ہے فرحت نے ایک طویل عرصہ یادوں کے تپتے ہوئے صحرا میں آبلہ پائی کی ہے۔ مگر یہ یادیں آکاس بیل کی طرح جسم و جاں سے لپٹی ہی رہتی ہیں۔ یادیں بے وفائی نہیں کرتیں۔ ان کے زخم ہر موسم میں پھول بن کر خوشبوؤں کا ہالہ کئے رکھتے ہیں۔ اور فرحت نے ان یادوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانے کی بجائے ان کے لمس اپنے اندر سموئے ہیں۔ وہ ان خوشبوؤں اور رنگوں سے خوب واقف ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’عورت محبت کی وہ کہانی ہے کہ جب اختتام کو پہنچتی ہے تو ایک نیا آغاز پاتی ہے۔ ‘ ‘ فرحت نواز کا یہ شعری مجموعہ اسی آغاز اور اختتام۔۔ ۔ اور پھر آغاز کی کہانی سنا رہا ہے۔ فرحت اس شعری مجموعہ میں محبتوں کے کئی اختتام اور کئی آغاز کرتی نظر آ رہی ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ’’اپنی ذات سے باہر بیٹھنا ‘ ‘ بہت بڑی بات ہے مگر اب میرا فرحت کو مشورہ ہے کہ اپنی بات کہہ کر عرفانِ ذات کے جس مرحلے سے آپ گزری ہیں، اب ذرا اندر کے موسموں کی بھی خبر لیں۔ یقیناً وہ بھی بدل چکے ہوں گے اور آپ سے گفتگو کرنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ اپنی بات کہتی رہیے، ہم سنتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

شیما سیال (خان پور)

 

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ از فرحت نواز پوری وارفتگی، پوری وابستگی، پوری سپردگی اور پوری بندگی کے ساتھ میرے سامنے ہے۔ کئی سال پہلے سکول لائف کے دوران ادبی دنیا میں قدم رکھنے والی لڑکی آج اس منتر کی نہ سمجھ میں آنے والی رمز کو سمجھ گئی ہے، جس سے سوکھے پتوں کے ڈھیر کو گھر میں آنے سے کوئی نہ روک سکا۔

بندگی، وارفتگی، وابستگی، سپردگی وہ جذبے، وہ رشتے ہیں، رشتوں کی وہ کڑیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد کے لوگوں، معاشرتی، مذہبی، قومی، سماجی، آفاقی، زمینی رویوں اور محبتوں کی اساس ہیں۔ یہ دودھ، میدے اور مٹی اور پانی کا وہ ملن ہے، جس سے گندھ کر انسان کے اندر شاعری جنم لیتی ہے۔ سجل، نرمل، کومل احساسات فطرت کے وہ سر چشمے ہیں جن کے بطن میں اتر کر تخیل آفاقیت کی منزل کو چھوتا ہے۔ پھر بقول شاعر ؎

آسماں

تیرا احسان ہے

اپنے سائے میں رکھا ہے تو نے مجھے

میری اوقات کیا

تیری رُتبے میں کیا شان ہے

تجھ پہ معراج کی شب

محمدؐ نے رکھے تھے

اپنے مبارک قدم!

(نعتیہ۳)

یا پھر ؎

میں ہوں منزل کڑی مسافت کی

اُس کے چہرے پہ ہے تھکن شاید

کڑی مسافت رکھنے والے کیلئے ایک تھکے چہرے سے کیا مسکان کی امید ہو سکتی ہے۔ ایک پُر امید مسکراہٹ، یہ وہ خواب ہے جس کی تعبیر ایک شاعر ہی جان سکتا ہے۔

ہمارے شہر کا موسم پرانا ہے جدائی کا

ہمارے شہر آؤ نا کبھی موسم نیا لے کر

خدا اور انسان یہ دو وسیلے ہیں جن سے محرومی، مجذوبی، یا پھر غنائیت اور بھرپائی والی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے تو یوں وارد ہوتا ہے۔

تو محبت کا خدا ہے تو دیارِ دل پر

کچھ صحیفے ہی وفاؤں کے اتارے ہوتے

اور یہ بھی کہ

تیرے صدقے جاؤں میں

تیرا بلاوا ہو

سر کے بَل آؤں میں

بابل، ماہیے، امن کی فاختہ، ٹائم آؤٹ اور وہ بہت کچھ، حقیقت، خواب، نیم خوابی، خواہش، کہانی، افسانہ،

ذات کے استعارے میں موجود۔ چھوٹے شہر کی بڑی شاعرہ۔ جس کا شعر جتنی بار پڑھا جائے، پہلے سے زیادہ لطف دے۔ میٹھی چٹکی بھرے۔

مٹی گارا تھا وہ شخص

پھر بھی پیارا تھا وہ شخص

پھر دیا تو نے کسی دور کی منزل کا پتہ

پھر سفر پاؤں کے چھالوں میں اتر جائے گا

دور کی منزل کے سفر کا پاؤں کے چھالوں میں اتر جانا کمال بندش ہے۔ فرحت نواز کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ ایک بار نہیں خود کو کئی بار پڑھوانے کی طاقت رکھتا ہے۔ جگہ جگہ آگے جا کر واپس آنا پڑتا ہے۔ ٹھہرنا پڑتا ہے۔ اور جہاں بندہ ٹھہر گیا، وہیں پڑاؤ ہو گیا۔

اگلے سفر سے پہلے کا پڑاؤ!

٭٭

اتنا ہوائے سرد کا لہجہ کرخت ہے

دہشت سے کانپ کانپ اُٹھا ہر درخت ہے

(فرحت نواز)

٭٭٭

 

 

 

پروین عزیز (خان پور)

 

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ فرحت نواز کا شعری سفر نامہ ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے کوئی شاعرہ لمبی مسافت طے کرنے کے بعد آپ کو بیرونی اور اندرونی (External & External )طور پر گزرنے والی ہر واردات کا حال احوال پوری دل جمعی، ایمانداری اور خلوص سے دے رہی ہے۔ فرحت نواز کی یہ شعری سرگزشت پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے وہ کانٹوں میں رہتے ہوئے پھولوں جیسی باتیں سوچتی ہے۔ اندھیروں میں روشنی سوچتی ہے۔ بے گھری میں دیوار و در کی صورت بناتی ہے۔ نفرت کے گھنے جنگل میں بھی خوشبو کے پیچھے بھاگتی ہے۔ دشت میں بھی محبتوں کی سرشت کاسراغ لگا لیتی ہے۔ اُسے اپنے ’’بخت‘ ‘  کا علم ہے لیکن پھر بھی محبتوں کے گھروندے بناتی رہتی ہے اور بناتی رہے گی۔ کوششِ ناتمام کے عمل سے گزرنا اُس کا کام ہے۔ کوشش کے رنگ لانے کا انتظار نہیں کرتی۔

محبت اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اگر وہ اس کتاب کا نام ’’استعارہ مِری محبت کا‘ ‘ رکھتی تو شاید زیادہ حسبِ حال ہو جاتا۔ اُس کی ذات کا استعارہ ’’محبت‘ ‘ ہی ہے۔ شاید اس بات کا علم کم لوگوں کو ہے۔ حمد و نعت سے لے کر کتاب کے آخری لفظ تک وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑتی۔ خود تنہا رہ کراُس نے ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ ہمارے ہاتھوں میں تھما کر ہمیں تنہائی کے دکھ سے بچا لیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ کی اشاعت پر  چند موصولہ  مطبوعہ تاثرات

 

ڈاکٹر انور سدید (لاہور)

 

مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے ۲۰ برس کے بن باس کو خیرباد کہہ دیا اور پھر تخلیقی دنیا کی طرف لوٹ آئیں۔ آپ

فطری شاعرہ ہیں اور اپنے جذبات و احساسات کا اظہار پوری روانی اور تازگی سے کرتی ہیں۔ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ میری درخواست ہے کہ اب ادب کی طرف آ گئی ہیں تواس سلسلے کو جاری رکھیں۔

مکتوب بنام فرحت نواز۔ جنوری ۲۰۱۶ء کی کسی تاریخ کو بھیجا گیا۔ تاریخ درج نہیں ہے۔

٭٭

 

ایوب خاور (لاہور)

 

چلو اچھا ہوا فرحت اپنے زمانے میں واپس لوٹ آئی۔ نظمیں اور غزلیں پڑھتے ہوئے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ اگر یہ پرانی شاعری ہے جو انہوں نے پرانی کاپیوں اور الماریوں میں سے لفظ لفظ ڈھونڈ کر نکالی ہیں اور اسے اپنی ذات کا استعارہ بنایا ہے تو یقیناً یہ ایک ایسا تخلیقی استعارہ ہے جو شاعری کے مستقبل میں ہمیشہ دمکتا رہے گا۔ اس کتاب میں ایک ایسی عورت کیcreative sensibilityمنظوم ہوتی نظر آتی ہے جس نے زندگی کو 360 کے تمام زاویوں سے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ اپنے تخلیقی شعور میں جذب کر کے اظہار کے ایک ایسے سانچے میں ڈھالا ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر نظر آنے والی خواتین کے شعری شعور کے نصیب میں نہیں ہے۔ وقت ملا تو اس کتاب پر ایک باقاعدہ مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا۔ مکتوب بنام حیدر قریشی۔ ۱۷ مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭

 

ڈاکٹر عابد سیال (اسلام آباد)

 

آپ کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ موصول ہوا۔ بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے یاد رکھا۔

کتاب بہت خوبصورتی اور سلیقے سے شائع ہوئی ہے اور معتبر لکھنے والوں کی آراء سے آپ کی شاعری کے وقار کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب ابھی موصول ہوئی ہے سوتفصیل سے نہیں دیکھ پایا۔ جستہ جستہ جن اشعار پر نظر پڑی ہے، آپ کی ہنر مندی کا قائل ہوا ہوں۔ انشاء اللہ تفصیل سے دیکھوں گا۔ آپ کو بہت مبارکباد!

مکتوب بنام فرحت نواز۔ ۱۹مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭

 

س۔ ن (ملتان) انچارج ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت ملتان

 

فرحت نواز کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ منظرِ عام پر آیا ہے۔ آج سے بیس سال قبل ان کی شاعری کا طوطی بولتا تھا۔ پھر وہ گھریلو زندگی میں مصروف ہو گئیں۔ حیدر قریشی کی تحریک پر انہوں نے اپنے کلام کو کتابی شکل دی ہے۔ بقول ڈاکٹر رشید امجد ان کی نظموں میں ایک سوندھا پن اور اپنی مٹی کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر مظہر مہدی کی رائے میں فرحت کی شاعری کا دائرہ وسیع ہے، لامحدود نہیں۔ حیدر قریشی کی رائے میں ان دو نظمیں اور امن کی فاختہ کی تین نثری نظمیں عالمی حوالے سے اپنے موضوعات کو نبھا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل، شہناز خانم عابدی، شیما سیال اور پروین عزیز کی آراء بھی شامل ہیں۔ ۲۱۰ صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ مطبوعہ ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت ملتان۔ ۲۵ مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭

 

ناصر علی سید (پشاور) مدیر ادبی صفحہ روزنامہ آج پشاور

 

’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ ایک ایسی شاعرہ کا مجموعہ ہے جو دو دہائیوں تک شعر سے روٹھی رہی اور پھر ہمہ وقت کارِ ادب سے جڑے ہوئے جرمنی کے حیدر قریشی نے ایسی صلح کرائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا عمدہ مجموعہ ترتیب دیا کہ بقول حیدر قریشی انہیں بھی اندازہ نہ تھا کہ اتنے مختصر وقت میں یہ سب ممکن ہوا۔

عبداللہ جاوید نے اس کتاب کے بہت اچھے مقدمہ میں صحیح لکھا ہے کہ فرحت نواز نے شعروں میں مختصر افسانے لکھے ہیں۔ برف بھی ہوں، موم بھی سورجوں نے آ لیا

’’فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے ‘ ‘ میں ذکر کیا گیا۔ مطبوعہ ’’ادب سرائے ‘ ‘ روزنامہ آج پشاور۔ ۱۰دسمبر۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

استعارہ مِری ذات کا ۔۔۔ ڈاکٹرانورسدید (لاہور)

 

تارکِ وطن دانشور عبداللہ جاوید نے جب فرحت نواز کی شاعری کی پہلی کتاب ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘

پڑھی تو انہوں نے برملا کہا کہ ’’اس کی شاعری میں سادگی، معصوم خیالی اور ایک عجیب سی تازہ کاری پڑھنے والے کے باطن کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ‘ ‘ میں نے عبداللہ جاوید کے اس فیصلہ کن جملے کا تجزیہ کیا تو بنیادی بات یہ نظر آئی کہ فرحت نو ازکی پرورش جنوبی پنجاب کے خطے کے دو شہروں خان پور اور رحیم یار خان میں ہوئی ہے۔ یونیورسٹی تعلیم کے مراحل بھاولپور میں طے ہوئے جو اول الذکر شہروں کا ہم مزاج ہے۔ ان شہروں کے باشندوں کوسادگی، صداقت اور خلوص کی دولت سے مبدائے فیاض نے بڑی فراوانی سے نوازا ہے۔ چنانچہ شعراء شاعری کریں، افسانہ نگار افسانے لکھیں اور دانشور اپنے داخلی خیالات کو لفظوں کا جامہ پہنائیں تو ان کی صادق معصوم خیالی اور محبت ان کے باطن کا آئینہ بن جاتی ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کی شاعری شمالی پنجاب کی شاعری سے مزاج کے اعتبار سے مختلف ہے۔ فرحت نواز کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے تخلیقی عمل میں اس فضا سے اپنے اظہار کا زاویہ خود تراشا ہے اور اس کی شہادت جرمنی سے حیدر قریشی مدیر ’’جدید ادب‘ ‘ نے دی ہے کہ ’’فرحت نواز کی محبت کی شاعری ان کے ذاتی تجربوں کی زائیدہ ہے، اس وجہ سے یہ روایتی محبت کی شاعری نہیں رہتی، اس میں ایک اوریجنل سی خوشبو موجود ہے ‘ ‘ ۔

جناب حیدر قریشی کا ذکر آیا ہے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ بہت عرصہ پہلے انہوں نے خان پور جیسے دور افتادہ

مقام سے نئے ادب کا ایک معیاری رسالہ جاری کیا تواس میں جن مقامی ذہانتوں کو اہمیت دی ان میں فرحت نواز بھی شامل تھیں۔ حیدر قریشی نے ہی ان کے باطن سے ایک معصوم فکر اور تازہ کار شاعرہ بازیافت کی، جس نے شاعری میں اپنی انفرادیت بہت جلد تسلیم کروانی۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے اسلام آباد میں اہلِ قلم کانفرنس منعقد کی تو جنوبی پنجاب کی نمائندگی کے لیے فرحت نواز کو مدعو کیا۔ لیکن پھریوں ہوا کہ حیدر قریشی ’’جدید ادب‘ ‘ کی اشاعت معطل کر کے سیاحتِ جہاں پر نکل کھڑے ہوئے اور فرحت نواز نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔ اور پھر والدین نے ان کی شادی کر دی اور وہ اپنی نئی ذمہ داریاں نبھانے لگیں تو شاعری قصۂ پارینہ بن گئی۔ حیدر قریشی صاحب نے جرمنی سے ’’جدید ادب‘ ‘ کی اشاعت کی تجدید کی تو فرحت نواز کو بھی دوبارہ ادب میں لے آئے۔ لیکن ادب سے بیس برس کی غیر حاضری نے ان کو زندگی کے نئے تجربات اور انوکھے مشاہدات سے متعارف کرا دیا تھا۔ اور ان کے فکری دامن کو موضوعات کے تنوع سے ثروت مند بنا دیا۔ چنانچہ ربع صدی پہلے کی تخلیق کاری ایک نئے روپ میں سامنے آئی تو اس میں فرحت نواز کی تخلیقی انفرادیت

میں آپ بیتی کے ساتھ جگ بیتی کے عناصر بھی موجود تھے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں پڑھنے کے بعد تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ فطری شاعرہ ہیں اور وہ معمولی بات کو غیر معمولی بنانے کا فن جانتی ہیں۔ ان کی کتاب بلاشبہ ان کی ذات کا استعارہ ہے لیکن ان کی نظموں، غزلوں اور ماہیوں میں زمانے کی آواز بھی شامل ہے۔ ان کی نظموں میں سے ’’ہمیشہ دل کی مانی ہے ‘ ‘ ، ’’فراق رُت میں اچانک ملاقات‘ ‘ ، ’’بن باس میں ایک دعا‘ ‘ ، ’’ایک روشن دیا‘ ‘  میں فرحت نواز مجھے ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن اور شاہدہ حسن وغیرہ سے مختلف شاعرہ محسوس ہوئی ہے، جو روایت کی عدم دریدگی میں بھی اپنی نسائیت کے اظہار کا قرینہ تلاش کر لیتی ہے۔ اور دیکھئے کہ وہ غزل کی دو سطروں میں سنجوگ کس منفرد انداز میں باندھتی ہیں۔

مری محبت کی کھیتیاں تو ہری رہیں گی تم اپنی چاہت کے موسموں کا خیال رکھنا

پھر دیا تو نے کسی دور کی منزل کا پتہ پھر سفر پاؤں کے چھالوں میں اتر جائے گا

شاعری کی یہ خوبصورت کتاب ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ سفید کاغذ پر کتابت اجلی ہے۔ سرورق سادہ لیکن با معنی اور فکر انگیز ہے۔ ملنے کا پتہ: مکان نمبر 1164، گلی نمبر 2، بلاک سی۔ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن سیکٹر O-9۔ لوہی بھیر، اسلام آباد۔

مطبوعہ سنڈے میگزین۔ روزنامہ نوائے وقت، لاہور۔ ۱۲

جولائی ۲۰۱۵ء

ماہنامہ ’’ الحمراء‘ ‘ لاہور۔ شمارہ اگست ۲۰۱۵ء

٭٭

 

 

 

 

 ’’نسائی زندگی کی جبریت کی عکاس شاعرہ: فرحت نواز‘ ‘  ۔۔۔ شہناز خانم عابدی (کینیڈا)

 مضمون سے اقتباس

 

’’ استعارہ مری ذات کا ‘ ‘  فرحت نواز کا شعری مجموعہ میرے سامنے ہے۔

’’استعارہ کے معنی ہیں کسی لفظ کو اصل معنی کے بجائے کسی اور معنی میں استعمال کرنا جب کہ ان دونوں معنوں میں مشابہت کا تعلق ہو۔ ‘ ‘

فرحت نواز نے اپنے جذبات، احسا سات اور اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو پوری سچائی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔ یوں ان کی شاعری کی یہ اوّلین کتاب ان کی ذات کا استعا رہ بن کر پڑھنے والوں کے سامنے آ ئی ہے۔

فرحت نواز اردو شعر و ادب کے آ سمان پر چمکنے والا ایسا ستارہ ہے، جو طلوع ہو ا، دیکھنے والوں کو اپنی نئی نویلی، نو وارد، چمک دمک سے متوجہ ہی نہیں متاثر بھی کیا اور ٹوٹے بغیر بیس برسوں پر محیط عزلت کے دھندلکوں میں رو پوش رہ کر ایک مر تبہ پھر نمو دار ہو ا، اپنے وجود کی پوری درخشانی کے ساتھ۔ دو دہائیوں کی پر دہ پوشی کا خیال کیا جائے اور فرحت نواز کی اس کتاب کو پڑھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سچی شاعری کے سوتے کو وقت اور حالات کے سنگلاخ سے سنگلاخ پتھر بھی لا محدود مدت تک بند نہیں کر سکتے۔ سچا اور توا نا تخلیقی تموج پتھروں کو تو کیا پہاڑوں کو بھی تسخیر کر لیتا ہے۔

فرحت نواز عصرِ جدید کی شاعرہ ہیں لیکن ان کے خیال میں روایات سے مکمل انحراف جدت پسندی کے لوازمات میں نہیں آتا چنانچہ ان کا یہ شعری مجموعہ ہما ری تہذیبی روایت کے مطابق حمدیہ اور نعتیہ کلام سے شروع ہوتا ہے۔ ہو نا بھی چاہئیے۔ عقیدت کے اس کلام کو پڑھتے وقت میں نے بھی یہ محسوس کیا ہے کہ فرحت نوازنے اس اصول کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ ’’ با خدا دیوانہ باش و با محمدﷺ ہوشیار۔ ‘ ‘  ان کی نعتوں میں سر شا ری کی کیفیت ہے۔:

استعا رہ میری ذات کا ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں فرحت نواز نے نسا ئی زندگی کے سچے سیدھے روپ کچھ اس طرح نظمائے ہیں کہ مر حلہ وار بچپن، کچی عمر، جوانی، ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے اور خوابوں کے شہزادوں کی آ مد کا انتظار کرتے اور ان خوابوں سے قطع نظر کر کے خانہ داری کے بندھن میں بندھنے اور سسرال کے فریم ورک میں اپنی جگہ بنانے بیٹی سے بہو، بہوسے ماں کے مرتبے تک پہنچنے کی روئداد کو ایک مونتاج کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اگر خواتین شاعرات کی شاعری کو پیشِ نظر رکھ کر بات کی جائے تو ہم یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ فرحت نواز ہم عصر شاعرات سے قطعی مختلف لہجے اور اسلوب کی شاعرہ ہے اور ایک علیحدہ مقام کی حقدار بھی۔

 

شہناز خانم عابدی کے مضمون ’’نسائی زندگی کی جبریت کی عکاس شاعرہ: فرحت نواز‘ ‘ سے اقتباس

مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔ شمارہ ۲۱۔ ستمبر ۲۰۱۵ء

اس مضمون کا ایک حصہ تاثرات کے طور پر ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ میں بھی شامل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘  ۔۔۔ نسیم انجم (کراچی)

 

عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنزاسلام آباد کے زیر اہتمام ایک کتاب ’’استعارہ میری ذات کا‘ ‘  BPH پرنٹر لاہور سے شائع ہوئی ہے اور اس کی مصنفہ فرحت نواز صاحبہ ہیں جو کہ رحیم یار خان میں رہائش پذیر ہیں اور ایک مقامی کالج میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں تقریباً بیس سال بعد انھوں نے گلستان شاعری میں دوبارہ قدم رکھا ہے اس اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ وہ اب تخلیق سے رشتہ جوڑے رکھیں گی۔

اور یہ اعتماد اس لیے پیدا ہوا کہ حیدر قریشی نے انٹرنیٹ پر انھیں دوبارہ دریافت کر لیا تو یقیناً فرحت کی حوصلہ افزائی ہوئی، امید کی شمع روشن ہوئی اور تخلیقی صلاحیتیں کاغذ پر اپنا رنگ جمانے کے لیے بے چین ہو گئیں، میں نے فرحت نواز کی نظمیہ و غزلیہ شاعری کے علاوہ ’’ماہیئے ‘ ‘  بھی پڑھے ان کی شاعری نے مجھے اس لیے متاثر کیا کہ انھوں نے معاشرتی سچائیوں کو شاعری کا پیکر عطا کیا ہے، فرحت کی شاعری ان کی ذات کے گرد بھی گھومتی ہے اور زمانے کے چلن رسم و رواج کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ ان کی شاعری میں اتنا دم ہے کہ قاری کو پڑھنے پر مجبور کر دے، جناب عبداللہ جاوید نے ان کی شاعری کے بارے میں کہا ہے کہ:

’’اس نے کسی مکتب یا تحریک تک اپنی شاعری کو محدود نہیں ہونے دیا، کہیں کہیں اس کی شاعری نسائیت کی تحریک سے مملو محسوس ہوتی بھی ہے تو اس کو اس حد تک ذاتی بنا دیا ہے کہ قاری کو تحریک کا نہ تو کوئی جھنڈا نظر آتا ہے اور نہ کوئی پوسٹر یا بینر۔ فرحت نواز کی منظومات میں ایسی نظمیں بھی ملتی ہیں جن پر آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے تو چند ایک ایسی نظمیں بھی ہیں جن پر جگ بیتی کا، ان نظموں سے قاری کا واسطہ پڑتا ہے جو فکر آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ فکر انگیز بھی ہیں‘‘

فرحت نواز کی شاعری کی ابتدا حمد ’’ میرے پیارے خدا‘ ‘  سے ہوئی ہے۔ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز التجا کی صورت اختیار کر گئی ہے، رب سے مانگنے کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔

خدا،

سن میری التجا

بخش دینا گنہ

میرا نامۂ اعمال

روشن نہیں ہے ذرا

میں نے نیکی نہیں کی

میری نیت میں اخلاص آیا نہیں

ایک سجدہ بھی ایسا ادا نہ ہوا

جس میں مری طلب صرف تو ہی رہا۔

نعت کا مطلع ملاحظہ فرمایئے۔

الٰہی دے مجھے توفیق شان مصطفیؐ لکھوں

قلم زم زم سے دھولوں پھر محمدؐ مجتبیٰ لکھوں

سبحان اللہ۔ فرحت نواز کی شاعری میں کہیں ندرت نظر آتی ہے تو کسی شعر میں سطوت نمایاں ہے، یہی ان کی شاعری کا انداز فکر ہے۔ ’’انوکھی تاجپوشی‘ ‘  ’’فرعون کی کرسی‘ ‘  ’’اب نیا دور ہے ‘ ‘  یہ وہ نظمیں ہیں جن میں سماج کی تلخ حقیقتیں، اقتدار کی ہوس اور حکم حاکم مرگ مفاجات کے معاملات کو شاعری کی زبان خو صورتی اور درد مندی کے احساس کے ساتھ عطا کر دی ہے، فرحت نواز کی شاعری میں دل کا درد، روح کا کرب اور زمانے کی نا انصافیاں اور نا ہموار معاشرے کی وہ راہیں نظر آتی ہیں جن پر چلنے والوں کے پاؤں لہو لہان ہو جاتے ہیں لیکن منزل کی طلب آگے بڑھنے اور مزید چلنے کا درس دیتی ہے یہ معاملہ فرحت نواز کے ساتھ نہیں تمام اہل قلم کے ساتھ ہے کہ حساس ہونے کے ناطے دل چھلنی ہو چکا ہے۔

مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس۔ کراچی۔ ۲۶

اپریل ۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

حرفِ ناتمام: کچی عمر سے پکی عمر کا سفر ۔۔۔ زاہد نوید (اسلام آباد)

 

کچی عمر سے پکی عمر کا شعری سفر کتاب ’’استعارہ مِری ذات کا‘ ‘ کی صورت میں اس وقت میرے سامنے ہے۔ اس شعری مجموعے میں فرحت نواز نے اپنی زندگی کے سارے تجربات یکجا کر کے انہیں بہت دلنشیں انداز میں وہ پیرایۂ اظہار دیا ہے جس کی وجہ سے فرحت نواز بجا طور پرپاکستانی شعری ادب میں اور خاص طور پر ہماری سنجیدہ اور معقول شاعرات کی صف میں اپنی حیثیت منوا سکتی ہیں۔ شاعرات میں ادا جعفری، فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر نے جو طرح ڈالی اور جیسا پکا کام کیا اس کو سامنے رکھیں تو کسی اور پاکستانی شاعرہ کے کلام کی تفہیم اور معیار کا تعین کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ اس کسوٹی پر بھی فرحت نواز کا کلام ابتدائی دور کے علاوہ نک سک سے نہایت عمدہ دکھائی پڑتا ہے۔ فرحت کی شاعری دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، چنانچہ کتاب میں اس کے ابتدائی کلام کی شمولیت سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ناپختگی سے پختگی کے تخلیقی سفر میں فکری ارتقا کی منزلوں کی خبر ضرور ملتی ہے۔

کتاب اپنے مواد کے حوالے سے تو بہرحال ترتیب پاہی جاتی ہے اصل مسٔلہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کا نام کیا رکھا جائے۔ شیکسپئر نے تو کہہ دیا کہ نام میں کیا رکھا ہے، پھول کو چاہے جس بھی نام سے پکارو، اس کی خوشبو تو وہی رہے گی۔ اب اتنے بڑے رائٹر نے ایسا کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا لیکن شاعری کی کتاب اچھے عنوان اور ٹائٹل کے بغیر ہر دل کی عزیز نہیں ہو سکتی۔ یہ میری رائے ہے، ہو سکتا ہے غلط ہو لیکن میرا ایسا ماننا ہے۔ اس تناظر میں زیرِ نظر کتاب کا نام مجھے خیال و فکر کی ایک ایسی دنیا میں لے گیا جو اتفاق سے میری اپنی دنیا بھی ہے۔ اسی لئے اللہ بخشے، محمد منشا یاد نے کبھی مجھے کہا تھا کہ زاہد نوید، تمہاری شاعری میں ’میں ‘  اس قدر زیادہ ہے کہ بہتر ہے تم اپنی ہونے والی کتاب کا نام ’میں ‘  رکھ لو۔

خیر، فرحت نواز نے اپنی کتاب کا نام رکھا ہے ’’ استعارہ مری ذات کا‘ ‘ ۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کی شاعری اس کی ذات کا استعارہ ہے۔ اپنی شاعری کے مواد کے لئے اس نے بہت کچھ اپنی ذات سے مستعار لیا ہے۔ سماج کی بنیادی اکائی گھر ہے، اور گھر کا مرکز ہے وہ ذات جسے خاتون خانہ کہتے ہیں۔ یہ زندگی کا جبر ہے کہ کروڑوں خواتین گھر گرہستی کی تنہائیوں اور پنہائیوں میں گم گشتہ ہو جاتی ہیں اور اپنی تخلیقی توانائی بھی گھر کی نذر کر دیتی ہیں لیکن فرحت نواز ایک فنکار بھی ہے اس لئے بقول اس کے ملکِ ادب سے بیس سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے با وجود گم ہونے سے صاف بچ گئی۔ اور اس میں فعال کردار برادرم حیدر قریشی کا ہے جنہوں نے گھر گرہستی کے مرچ مصالحے، غیر شاعرانہ ماحول سے ایک شاعرہ کو ڈھونڈ نکالا۔ تو بات ہو رہی تھی سطرِ عنواں کی۔ اس کتاب کے تمام فلیپ نگاروں کی متفقہ رائے ہے کہ محبت اس کی شاعری کا مرکزی استعارہ ہے اور وہ لوگ جن کے درمیان پاکستانی عورت کی دنیا آباد ہے، اس کی شاعری کے کردار ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس نے ان کرداروں کے حوالے سے اپنی تخلیقی اور فکری توانائی کو کیا رخ دیا ہے۔ کیا یہ محض سیدھی سادی سپاٹ شاعری ہے یا اس میں جذب و فکر کی لو بھی موجود ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ دوسری بات درست ہے البتہ اندازِ بیان، دھیما، دلنشیں، سلیس اور نسوانی ہے۔ حالانکہ میں ادب و شاعری کو نسائی اور مردانہ ادب میں تقسیم کرنے کی غلطی نہیں کرتا پھر بھی کہتا ہوں کہ پاکستانی سماج میں بسنے والی شاعرات کو ایسا ادب ہی تخلیق کرنا ہے جس میں نسوانی لہجہ خوشبو کی طرح مہک رہا ہو۔ ایک بات جو میں نے اس کتاب کے مطالعے کے بعد محسوس کی وہ یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں بسنے والی عورت شاعرہ ہو یا نہ ہو مذہبی ضرور ہوتی ہے۔ نہیں یقین تو ’’استعارہ میری ذات کا‘ ‘  کی ابتدائی نظمیں پڑھ لیجئے۔ میری بات پر آپ کو یقین آ جائے گا۔ شعری اعتبار سے ان کی نظموں کا پلہ بھاری ہے۔ نظمیں میں نے زیادہ شوق سے پڑھی ہیں۔ ایک نظم ملاحظہ ہو:

میں نصف اپنا کب کا

اسے دے چکی ہوں

مرے پاس ہے نصف باقی مرا

جسے اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے مجھے

مگر بات یہ بھی نہیں مانتا وہ

مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت۔ راولپنڈی۔ ۲۹مارچ ۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

 

 

استعارہ مری ذات کا  ۔۔۔ جان عالم (مانسہرہ)

 

فرحت نواز کا شعری مجموعہ ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ منظرِ عام پر آیا۔ شروع کے صفحات سے معلوم ہوا کہ شاعرہ نے عرصہ بیس سال تک شاعری سے کنارہ کشی کی اور اُنہیں معروف شاعر جناب حیدر قریشی نے تحریک دے کر دوبارہ شعری فضا میں لایا۔ شاعرہ نے اس کا اعتراف کتاب کے آغاز میں کیا ہے اور کسی بڑے دعوے کی بجائے انکساری سے سچ بولتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ؛

’’!!۔۔ ۔ اپنی کچی عمر سے شروع کی گئی شاعری سے لے کر اس پختگی کی عمر تک کا لکھا ہوا جو کچھ مجھے مل سکا، وہ سب ملا جلا اور کچا پکا اس کتاب میں شامل ہے۔ ‘ ‘ (چند باتیں۔ صفحہ۱۲)

کتاب کے مطالعے سے شاعرہ کا اعتراف سچ دکھائی دیتا ہے۔ کہیں کچی عمر کا بے ساختہ پن نظر آتا ہے تو کہیں پختہ عمر کا گہرا رنگ۔ آغاز کا دعائیہ دیکھئے: نظم کا عنوان ہے ’’میرے پیارے خدا‘ ‘ عنوان کچی عمر کی بے ساختگی کا اظہار ہے۔ اب نظم دیکھیں۔ یہاں پختہ کاری کی جھلک دکھائی دیتی ہے:

خدا۔۔ ۔۔ !

سُن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ مری التجا

بخش دینا گنہ

میرا نامۂ اعمال

روشن نہیں ہے ذرا

میری نیت میں اخلاص آیا نہیں

ایک سجدہ بھی ایسا ادا نہ ہوا

جس میں میری طلب

صرف تُو ہی رہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

خدا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ !!

سن مری التجا

مجھ کو اپنا بنا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

ایک اور نظم ملاحظہ کیجئے جس کا عنوان ’’ نعتیہ ‘ ‘ ہے۔ اگر چہ یہ خوبصورت حمدیہ ہے۔ دیکھئے:

بتاؤ کوئی ایک ایسا محب

جو یہ کہہ دے کہ تم سب

محبت کرو میرے محبوب سے

اور انعام میں

سب کو جنت بھی دے !!

فرحت نواز کی نظموں میں شعریت کم اور statements زیادہ ہیں۔ نظم پڑھتے ہوئے نثر کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ نظم ’کاش‘ یا نظم’ بابل تیری یاد آئے ‘  کی بیشتر لائنیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسی نظموں میں جذبہ تو پایا جاتا ہے مگر اس کا شاعرانہ اور فنکارانہ اظہار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر اچھے خیال بُرے پیرایۂ اظہار کی بھینٹ چڑھ کر محض خبر بن جاتے ہیں۔ نظم ’’ دعا ‘ ‘ کی لائنیں ملاحظہ ہوں:

ماں کے دودھ کو پینے والے

چھوٹے بچوں کے چہروں سے

کتنی معصومی اور کتنا نور چھلکتا رہتا ہے

ایسے نور کی مجھ میں کوئی لہر نہیں ہے

ماں کے دودھ کا ذائقہ تو میں بھول گئی ہوں

سوہنے ربّا!

میری ماں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا

میں اُس کو اتنا خوش کر دوں

جس سے میرا

جنت میں جانا

غیر یقینی نہ رہ جائے

مجھے یقیں ہے

جنت کی نہروں میں ہر دم بہنے والا دودھ

یقیناً ماں کے دودھ ایسا ہی ہو گا!

ایک خوبصورت نظم ’’انوکھی تاج پوشی‘ ‘  ملاحظہ کیجئے۔ اس میں شاعرہ نے گویا خوبصورتی سے پاکستان کی ستر سالہ سیاسی تاریخ پر بلیغ تبصرہ کر دیا ہے:

ایک مسند بہت معتبر

جس پہ مسند نشیں

سر کٹا شخص ہے

وہ مصر ہے میری تاج پوشی کرو

حکمِ حاکم بھی مرگِ مفاجات ہے

کوئی ہیبت زدہ، کوئی حیرت زدہ

کوئی کالر میں منہ دے کے ہنستا ہوا

جا کے رکھ دیتا ہے

تاج کو

سر کٹے شخص کے ہاتھ پر !

فرحت نواز کی غزلوں سے چند اشعار قارئین کے مطالعہ کے لئے:

تیری سوچوں میں گر نیند بھی آ جائے

جاگتے رہتے ہیں آنکھوں میں تیرے خواب

ہمارے خواب بھی اپنے کہاں ہیں

کسی کی یاد نے آ کر بنے ہیں

آج سوچوں تو سانس رکتی ہے

صبر کتنا کیا تجھے کھو کر

جب سے وہ زندگی بنا میری

تب سے جینا بھی ہو گیا مشکل

کتاب میں غزلیات، نظمیات کے علاوہ اُردو ماہیے بھی شامل ہیں۔ چند خوبصورت ماہیے بھی ملاحظہ کیجئے:

گھر شام کو آؤں گا

ہنستی ہوئی ملنا

گجرے بھی لاؤں گا

 

خوشیوں کا گھیرا ہے

ساجن کا بازو

اب تکیہ میرا ہے

 

وہی خوشبو ڈھونڈتی ہوں

ساجن کا کُرتا

کبھی تکیہ چومتی ہوں

کتاب ’’استعارہ مری ذات کا‘ ‘ فرحت نواز کی گوشہ نشینی سے پہلے اور بعد کا کل سرمایہ ہے۔ حیدر قریشی صاحب تحسین کے سزاوار ہیں کہ انہوں نے کنجِ عزلت سے فرحت نواز کو ادبی دُنیا میں لا کھڑا کیا۔

کتاب عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز اسلام آباد کے زیرِ اہتمام چھپی۔ 208 صفحات کی اس کتاب کی قیمت250روپے ہے۔

مطبوعہ سہ ماہی شعر و سخن مانسہرہ۔ شمارہ نمبر ۶۴۔ اکتوبر تا دسمبر۲۰۱۵ء

٭٭٭

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل