FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

عورت ثریٰ سے ثریا تک

مولوی نایاب سیتامڑھی

شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند

اسلام کے بابرکت ظہور سے قبل حیات انسانی میں حد درجہ کجی، انحراف اور بے راہ روی کے ساتھ ساتھ ایک زبردست المیہ یہ بھی تھا کہ وہ عورتوں کے حوالے سے عجیب و غریب اور انسانیت سے بعید تصورات رکھتے تھے، ان کے ساتھ زندگی بھی گذارتے، انھیں حصولِ اولاد کا ذریعہ بھی بناتے، بلکہ ان سے ہر ممکن خواہشات کی تکمیل کرتے، مگر ان کا مرتبہ ان کی نگاہوں میں بس اتنا سا تھا کہ وہ عام حالات میں شہوانی تسکین کا ذریعہ یا بیوی ہونے کی صورت میں حصول اولاد کی مشین تھی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عورت کو انتہائی غیر عادلانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ہر نوع کی سماجی اور شخصی برائی کا سرچشمہ، گوناگوں سیئات کا پیش خیمہ اور زندگی میں پیش آنے والی تمام تر آفات و بلیات کا واحد سبب بھی خیال کیا جاتا تھا۔
پھر یہ رجحانات عورت کے تئیں صرف غیر مہذب اور تمدن نا آشنا قوموں ہی کے نہیں تھے، بلکہ بڑی بڑی تہذیب یافتہ اور تاریخ میں اپنی تہذیب، اپنے تمدن، اپنی ترقی اور اپنے عروج کی دھاک بٹھانے والی قومیں بھی ان پست ترین اور حد درجہ زبوں خیالات سے مستثنیٰ نہ تھیں۔
تفصیل کا یہاں موقع نہیں، ہم ان تہذیبوں میں سے چند ایک کی روداد بہ اجمال بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے، تاکہ حق پرستوں کے یقین میں اضافہ ہو اور سچائی سے سرگردانی کے شکاروں کی آنکھوں سے تذبذب و تردد کی دبیز پٹی ہٹ جائے۔ (ان شاء اللہ)

عورت تہذیبِ یونان میں

ابتدائی دور میں صورت حال یہ تھی کہ اخلاقی نظریہ، قانونی حقوق اور معاشرتی برتاؤ ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت انتہائی گری ہوئی تھی، یونانی خرافیات (Mythology) میں ایک فرضی عورت پانڈورا (Pandora) کو اسی طرح تمام مصائب و آفات کا موجب قرار دیا گیا تھا، جس طرح یہودی خرافیات میں حضرت حوا کو، حضرت حوّا کے تئیں اس غلط افسانے کی شہرت نے جس طرح یہودی ومسیحی اقوام کے قانونی معاشرتی اور اخلاقی رویوں پر زبردست اثر ڈالا ہے وہ کسی صاحبِ بصیرت اور اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں، قریب قریب ایسا ہی اثر پانڈورا کے حوالے سے اس یونانی توہم کا اہل یونان پر پڑا۔ ان کی نگاہ میں عورت ایک ادنیٰ درجہ کی مخلوق تھی اور معاشرت کے ہر پہلو میں اس کا مرتبہ گرا ہوا تھا، عزت و شرافت کے تمام حقوق صرف اور صرف مردوں کے ساتھ مخصوص تھے، عورتیں ان سے یکسر محروم تھیں۔
تمدنی ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں خواتین کے تئیں یہ طرزِ عمل تھوڑی سی ترمیم کےساتھ برقرار رہا اور علم کی روشنی کا صرف اتنا اثر ہوا کہ عورت کی قانونی حیثیت تو ماقبل ہی کی طرح رہی، البتہ معاشرتی پہلو میں کچھ تغیرات رونما ہوئے، اسے گھر کی ملکہ بنا دیا گیا، عصمت و عفت کے آبگینے کی حفاظت کی جانے لگی اور شریف یونانیوں کے ہاں پردے کا چلن عام ہو گیا۔
مگر رفتہ رفتہ اس بے چاری کو پہلے سے بھی زیادہ المناک و اندوہناک مقام تک پہنچا دیا گیا اور ایک زمانہ وہ آیا جب اسے صرف وہوسناکی اور شہوت رانی کا ذریعہ بنا کر رکھ دیا گیا اور مآل کار یہی چیز تہذیبِ یونان کی تاریخ کے پردے سے نابود ہو جانے کا سبب بنی۔

عورت تہذیبِ روم میں

یونانیوں کے بعد جس قوم کو تہذیب و تمدن میں بامِ عروج نصیب ہوا، وہ اہل روم تھے، مگر یہاں بھی اتار چڑھاؤ کا وہی افسوسناک پہلو ہمارے سامنے نظر آتا ہے، جو یونانیوں کے دائمی زوال کا سبب بنا۔
رومی لوگ جب وحشت کی تاریکی سے نکل کر تاریخ کے روشن منظر پر نمودار ہوئے، تو ان کے نظامِ معاشرت کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ مرد اپنے خاندان کا سردار ہے، اس کو اپنی بیوی پر حقوقِ مالکانہ حاصل ہیں ، بلکہ بعض حالات میں وہ اپنی رفیقۂ حیات اور زندگی کے ہر نشیب و فراز میں اس کی غم خواری و غم گساری کرنے والی بیوی کو قتل تک کر دینے کا مکمل اختیار رکھتا ہے، پھر جب وحشت کم ہوئی اور تہذیب میں رومیوں کا قدم آگے بڑھا، تو اگرچہ قدیم خاندانی نظام برقرار رہا، مگر سابقہ سخت گیریوں میں کچھ توازن پیدا ہوا اور اعتدال قائم کرنے کی کوشش کی گئی، بلکہ ایک زمانے تک رومیوں کے نظامِ حیات میں عورتوں کے بارے میں معتدل اور متوازن رجحانات پائے جاتے رہے، چنانچہ عورت کو قابلِ قدر سمجھا جانے لگا، اس کی عزت و عصمت کی حفاظت کی جانے لگی، عورت و مرد کے تعلق کی شکل صرف نکاح کو قرار دیا گیا، ایک عورت کو اسی وقت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا جب وہ کسی خاندان کی ماں ہو اور بیسوا طبقہ بھی گرچہ موجود تھا، مگر معاشرے میں اس کو اور اس کے گرد طواف کرنے والے کو معاشرے کا ذلیل فرد تصور کیا جاتا تھا۔
لیکن تہذیب و تمدن میں رفتہ رفتہ ترقی کے مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کے تعلق سے ان کے نظریات بھی بدلنے شروع ہو گئے اور ایک زمانہ وہ آیا کہ نکاح صرف ایک قانونی معاہدہ بن کر رہ گیا، جس کا قیام و بقاء فریقین کی رضامندی پر منحصر تھا، ازدواجی تعلق کی ذمہ داریوں کو بہت ہلکا لیا جانے لگا، عورت کو وراثت اور ملکیتِ مال کے حقوق اس شان سے دیے گئے کہ وہ باپ اور شوہر کے قبضے سے بالکل ہی آزاد ہو گئی اور زن و مرد کے درمیان غیر نکاحی تعلقات کا عیب رومی معاشرے سے ایسا ناپید ہوا کہ اپکٹیٹس (Epictetus) جو فلاسفۂ رواقیین میں سخت ترین محتسبِ اخلاق مانا جاتا ہے، وہ اپنے شاگردوں کو یوں ہدایت کرتا ہے کہ: ’’جہاں تک ہوسکے شادی سے پہلے عورت کی محبت سے اجتناب کرو، مگر جو اس معاملے میں ضبط نہ رکھ سکیں، انھیں ملامت بھی نہ کرو۔ ‘‘
پھر ایک دن وہ آیا کہ عورت صرف اور صرف سامانِ تعیش اور ذریعۂ لذت اندوزی بن کر رہ گئی، شہوانیت، عریانیت اور فواحش کا طوفانِ بلا خیز بپا ہو گیا، تھپیڑوں میں بے حیائی وعریانیت کے مظاہرے ہونے لگے، ننگی اور نہایت ہی فحش تصویریں ہر گھر کی زینت ٹھہریں، قحبہ گری کے کاروبار کو حیرت ناک حد تک ترقی ملی اور ان کا ذوقِ شہوت پرستی اس قدر شباب پر تھا کہ اس کا اثر زندگی کی ہنگامہ خیزیوں اور پیہم تکان سے چور ذہن کو فرحت بخشنے والے کھیلوں پر بھی پڑا، چنانچہ رومیوں میں فلورا (Flora) نامی کھیل کو قبولِ عام حاصل تھا، اس لیے کہ اس میں لڑکیاں برہنہ ہو کر دوڑتی تھیں، جنھیں دیکھ کر شائقین محظوظ ہوتے تھے۔
قصہ کوتاہ یہاں بھی عورت تہذیب و ترقی کے مختلف ادوار سے گذر کر بالآخر شہوت پرستی وہوس رانی کے اسی نقطے پر آ ٹھہرتی ہے، جہاں اسے تہذیبِ یونان نے پہنچایا تھا اور انجام کار تہذیب روم کا قصرِ شوکت و عظمت بھی ایسا پیوندِ خاک ہوا کہ پھر اس کے کھنڈرات کا بھی نام و نشان نہ رہا۔

عورت قدیم مسیحی یورپ میں

یونان و روم کے نیرِ اقبال کے گہنانے اور آفتابِ عظمت کے کجلانے کے بعد مسیحیت آئی اور اس نے عورت کی زبوں حالی اور اس کے حقوق کے استحصال کی روک تھام کا بیڑا اٹھایا اور اوّل اوّل اس نے عمدہ خدمات انجام دیں، مگر افسوس کہ اس کا نظریہ بھی صنفِ نازک کے بارے میں انتہاپسندانہ ہی واقع ہوا، چنانچہ آباءِ مسحیین کا ابتدائی اور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ عورت گناہوں کی ماں اور برائی کی جڑ ہے، معصیت کی تحریک کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ ہے، تمام انسانی مصائب کا آغاز اسی سے ہوا ہے، اس کا عورت ہونا ہی اس کے شرمناک ہونے کے لیے کافی ہے، اس کو اپنے حسن و مہ وَشی پر نازاں نہیں ، بلکہ پشیمان ہونا چاہیے، کیوں کہ پیاسی نگاہوں کو دعوتِ نظارہ دینے والا اس کا یہ جمالِ جہاں آراء شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، اس کو دائماً اور لازماً کفارہ ادا کرتے رہنا چاہیے، کیوں کہ وہ دنیا اور اہلِ دنیا ہر دو کے لیے مصیبتوں کی پیامبر اور آفتوں کی علم بردار ہے۔
ترتولیان (Tertulian) جو ابتدائی دور کے ائمہ مسیحیت میں سے ہے، عورت کے متعلق مسیحی نظریہ کی ترجمانی یوں کرتا ہے کہ: ’’وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجرِ ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر ’’مرد‘‘ کو غارت کرنے والی ہے‘‘، کرائی سوسسٹم (Chrysostum)جس کو مسیحیت کے اولیائے کبار میں شمار کیا جاتا ہے، لکھتا ہے: ’’عورت ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دل ربا اور ایک آراستہ مصیبت ہے۔ ‘‘
پیروانِ دین مسیح کا دوسرا نظریہ یہ بھی تھا کہ عورت و مرد کا باہمی تعلق خواہ نکاح ہی کے ذریعے ہو بہ جائے خود نجس اور قابلِ احتراز چیز ہے، پھر یہ راہبانہ اور تجردانہ تصور مسیحیت شریعت کے زیرِ اثر جتنے قوانین مغربی دنیا میں نافذ ہوئے ان کی خصوصیات یہ تھیں :
(۱) معاشی حیثیت سے عورت کو کلیتاً بے بس کر کے اسے مرد کی ملکیت میں دے دیا گیا، وراثت میں اس کےحقوق محدود تھے اور ملکیت میں محدود تر، چنانچہ وہ اپنی کمائی ہوئی دولت سے بھی دست بردار تھی اور اس کی ہرشی کا مالک اس کا شوہر تھا۔
(۲) طلاق اور خلع کی سرے سے اجازت نہ تھی، خانگی حالات چاہے جس قدر بھی بدحالی کا شکار ہو جائیں، اگر زوجین میں ناچاقی حد سے بڑھ جاتی اور بہ ظاہر مصالحت کی کوئی سبیل نہ نکلتی، تو اس کے تدارک کی ان کے ہاں بس یہ شکل تھی کہ زن و شوہر کے درمیان تفریق کر دی جائے اور تا عمر دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں، نکاحِ ثانی کی اجازت نہ مذہب کی رو سے تھی اور نا ہی سماج اس کا روادار تھا اور اب ان کے لیے دو ہی شکلیں رہ جاتی تھیں کہ یا تو وہ بقیہ مدتِ حیات راہب اور راہبہ بن کر گذاریں یا پوری زندگی بدکاری وہوس کاری کی نذر کر دیں۔
(۳) شوہر کے مرنے کی صورت میں بیوی کے لیے اور بیوی کی موت کے بعد شوہر کے لیے دوسرے نکاح کی اجازت نہ تھی، مسیحی مذہب کے ٹھیکے دار کہتے تھے کہ یہ محض شہوت رانی اور ہوس کی بندگی ہے ان کی زبان میں اس فعل کا نام ’’مہذب زناکاری‘‘ تھا۔

دنیا کی دیگر تہذیبیں اور عورت

یہ حالت تو دنیا کی دو عظیم الشان تہذیبوں اور پھر تیسری مسیحی تہذیب کا گہوارہ رہنے والی مغربی دنیا کی تھی، مگر دنیا کے دیگر ممالک مصر، بابل اور ایران بھی عورت کا کوئی مرتبہ جو انسانیت نوازی پر مبنی ہوتسلیم کرنے کو کسی طور پر تیار نہ تھے۔

عورت ہندوستانی معاشرے میں

اسی طرح ہندوستانی سماج کا نظریہ بھی عورت کی بابت ماسبق اقوام سے مختلف نہ تھا، جو آج بھی ہندو معاشرے میں بہت حد تک موجود ہے، چنانچہ عورت ان کے ہاں ایک داسی اور مرد اس کا سوامی اور پتی دیو یعنی مالک و معبود ہوتا، اس کو بچپن میں باپ کی، جوانی میں شوہر کی اور بیوگی میں اولاد کی مملوکہ بن کر رہنا پڑتا، اسے شوہر کی چتا پر بھینٹ چڑھا دیا جاتا، اس کو وراثت اور دیگر حقوقِ ملکیت سے محروم کیا جاتا، اس پر نکاح کے انتہائی سخت قوانین مسلط کیے جاتے، جن کے زیرِ اثر وہ اپنی رضا اور پسند کے بغیر ایک مرد کے حوالے کر دی جاتی، اور پھر تاحینِ حیات کسی بھی صورت میں وہ اس کی ملکیت سےنہیں نکل سکتی، ہندوؤں میں عورت کو یہودیوں اور یونانیوں کی طرح گناہوں کی جڑ اور مصائب کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا اور اس کی مستقل حیثیت تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا تھا، دوسری جانب جب اس پر محبت کی نگاہ ہوتی تھی تو خواہشات کا کھلونا بنا لی جاتی، وہ مرد کے اعصاب پر اس طرح چھا جاتی کہ خود بھی ڈوبتی تھی اور مردوں کو بھی قعرِ ہلاکت میں پہنچا کر دم لیتی تھی، چنانچہ یہ لنگ اور یونی کی پوجا، یہ عبادت گاہوں میں عریاں اور جڑواں مجسّمے، یہ دیوداسیاں، یہ ہولی کی رنگ رلیاں اور یہ دریاؤں کے نیم عریاں اشنان، آخر کس چیز کی یادگار ہیں ؟ اسی بامِ مارگی ہی کے تو باقیات غیر صالحات ہیں جو ایران، بابل، یونان، اور روم کی طرح ہندوستان میں بھی تہذیب و ترقی کی انتہاء کے بعد وبا کی طرح پھیلی اور ہندو قوم کو غیر منتہی مدت کے لیے تنزل و انحطاط کی عمیق ترین کھائی میں پھینک گئی۔

عورت عرب جاہلیت میں

جب تہذیب و تمدن کے مراکز اور تاریخِ اقوام میں اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور اپنے عروج کی چھاپ چھوڑنے والی قوموں کی نگاہوں میں عورت ہر طرح کی پستی اور زبوں حالی کی حق دار تھی اور انسان کی حیثیت سے ملنے والی خداداد شرافت و کرامت اور بزرگی میں اس کا کوئی حصہ نہیں تھا، تو سرزمینِ حجاز کا کیا کہنا، وہ تو وادی غیر ذی زرع اور فطرتاً بنجر واقع ہوئی تھی اوراس کا اثر وہاں کے مکینوں پر بھی کامل تھا، چنانچہ وہ علم و تمدن سے خار کھائے بیٹھے تھے، تہذیب اور شائستگی سے انھیں خداواسطے کا بیر تھا، حسنِ اخلاق اور حسنِ سلوک کے نام سے بھی وہ ناآشنا تھے، کسی کو اس کے حقوق دینا اور دلانا ان کی جاہلی غیرت و شجاعت کے لیے چیلنج تھا، ان کے ہاں کوئی نظم و ضبط نہ تھا، وجہ ظاہر تھی کہ وہ لوگ کسی کے تابع اور زیر حکومت رہنا جانتے ہی نہ تھے۔
متذکرہ بالا گو نا گوں خبیث اوصاف کےساتھ ساتھ ان کے اندر ایک اور خبیث ترین وصف یہ تھا کہ ان کے معاشرے میں عورت کے لیے کسی طرح کی شرافتِ انسانی کا کوئی خانہ نہ تھا، اس کےساتھ ظلم، تعدی، جفا کیشی اور ہر طرح کی بدسلوکی کا رواج عام تھا، اس کے حقوق کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ پامال کیا جاتا، اس کے کمائے ہوئے مال پر بھی مرد اپنی ملکیت جتاتا، ترکہ و میراث میں اس کا کوئی حصہ نہ تھا، شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد نکاحِ ثانی کی اجازت نہ تھی، قرآن کریم نے عورتوں پر اس جاں گسل زیادتی کی مخالفت کی اور ممانعتی حکم نازل فرمایا (البقرہ:۲۳۳) دیگر اسبابِ زندگی اور حیوانات کی طرح وہ بے چاری بھی وراثت کے طور پر مرنے والے کے وارثین میں منتقل ہوتی رہتی، اس سے بھی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا (نساء:۱۹) اشیائے خوردنی میں بہت سی چیزیں مردوں کے لیے خاص کر لی گئی تھیں، عورتوں کا ان میں کوئی حصہ نہ تھا، قرآن کریم نے ان کی اس زیادتی کا ذکر کیا ہے (انعام:۱۳۹) اکثر تو غیرت و جاہلیت کی وجہ سے اور بسا اوقات فقر وتنگدستی کی بنا پر لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے بھی نہ چوکتے، جب لڑکی پیدا ہوتی تو ان کے چہرے فق ہو جاتے، پژمردگی اور اضمحلال دور ہی سےٹپکتے ہوئے نظر آتے، ان کے دل گھٹتے رہتے اور انھیں اتنی عار محسوس ہوتی کہ وہ معاشرے سے، اپنے ملاقاتیوں سے اور دید و شنید رکھنے والوں سے بھاگے پھرتے اور یہی عار اور شرمندگی انھیں اپنی لڑکی کے زندہ درگور کر دینے جیسے غیرانسانی اور خالص وحشیانہ فعل پر ابھارتی اور وہ ایسا بہیمانہ اقدام کر ڈالتے، فرزدق شاعر کے دادا صعصعہ بن ناجیہ نے ظہورِ اسلام سے قبل تک تین سو لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا تھا اور وہ سرزمینِ عرب سے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی وبا کو ختم کرنے والے پہلے شخص تھے، اسلام لانے کے بعد کئی اصحابِ نبی ﷺ نے اس اس سلسلے کے بڑے ہی درد انگیز اور جگر خراش واقعات بیان کیے ہیں۔

عورت اسلام کے سایۂ رحمت میں

تاریخ کے مختلف اور بھیانک مراحل سے گذرنے کے بعد چھٹی صدی عیسوی میں بھی عورت اسی ذلت و خواری، اسی آہ و زاری اور اسی بے یاری و مددگاری کے المناک دوراہے پر کھڑی تھی، جہاں صدیوں پہلے اسے کبھی تہذیبِ یونان و روم نے پہنچایا تھا، اس کا کرب انتہا کو پہنچ چکا تھا اور بہ ظاہر کوئی بھی اس کا مونس و یاور نہ تھا۔
بالآخر صنفِ لطیف کے درد کی کَسک اوراس کی پیہم سسکیوں نے رحمتِ خداوندی میں جولانی پیدا کی اور پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حراء کی پہاڑی سے جہاں آپؐ کو بنی نوع انسان کے لیے بالعموم نسخۂ کیمیا اثر دے کر مبعوث فرمایا، وہیں آپؐ کی بعثت صدیوں سے دبی کچلی صنف عورت کے لیے بھی سراپا لطف و رحمت ثابت ہوئی، آپؐ نے خدائی تعلیمات اور اپنے شبانہ روز کے اعمال کے ذریعے عورت کی حیثیت اور اس کی قدر و منزلت کو واشگاف کیا، لوگوں کے قلوب پر اس کی کرامت و شرافت کا نقش بٹھایا اور تا ابد کے لیے عورت کو مقام و مرتبے کی اس معراج تک پہنچا دیا کہ اس سے بلند مرتبہ بشری تصورات سے باہر ہے۔
آئیے ہم قدرے غائرانہ نظر سے دیکھیں کہ اسلام نے عورت کو کب کیا مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اور بہ چشمِ خویش و حقیقت بیں مشاہدہ کریں کہ اسلام نے، بلکہ صرف اسلام نے صنفِ لطیف کو کس طرح ثریٰ سے ثریا تک پہنچانے کا عظیم القدر کارنامہ انجام دیا ہے۔

اسلام میں ماں کا مرتبہ

یہ ایک مسلّم الثبوت حقیقت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا بنائی اور اس ویرانۂ آباد نما میں رونق، دیدہ زیبی اور دل فریبی پیدا کرنے کی غرض سے ماں کے مقدس وجود کو وجود بخشا، یہی وجہ ہے کہ ماں کے اندر پاکیزگی اور تخلیقیت کا لافانی ذخیرہ مخفی ہے، ماں سے بہتر اور برتر دنیا میں کوئی ذات نہیں، ماں ایک ایسا لفظ ہے جو کام و دہن کو لذت بخشتا اور کانوں میں شہد گھولتا ہے، ماں کی پیشانی میں نور، آنکھوں میں سرور، باتوں میں بے لوث محبت، دل میں ناپید کنار دریائے رحمت، ہاتھوں میں بے پناہ شفقت، پیروں میں بے بہا نعمت جنت اور ماں کی آغوش میں بے پایاں راحت وسکون ہے، ماں کا ذکر آتے ہی ہر انسان کے دل میں ، بلکہ اس کی رگ رگ میں ایک لطیف احساس ابھر آتا ہے، وہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہو، ماں کے لمس اور اس کی گود کے گرم احساس کو کبھی نہیں بھول پاتا، انسان پر جب کوئی آفت ٹوٹ پڑتی ہے، کوئی دکھ پریشانی اور تکلیف پہنچتی ہے تو خدائے لایزال کے بعداسے اس دنیائے دوں میں اگر کوئی غم خوار نظر آتا ہے، تو وہ صرف ماں کی ذاتِ اقدس ہے ؎
شدتِ حالات نے جب جب بھی ٹھکرایا مجھے
صرف ماں تھی جس نے بڑھ کر لے لیا آغوش میں
ماں کی عظمت و رفعت افلاک کی وسعتوں سے پرے ہے، ماں کے قدموں کی دھول میں شفقت کے پھول اگتے ہیں، ماں ایسی دھوپ ہے جہاں صدق و صفا کے موتی چمکتے ہیں، ماں ایسی روشنی ہے جس میں ممتا اور محبت کی کلیاں خنداں نظر آتی ہیں، ماں ایک ایسا نور ہے جس میں تپش نہیں ہوتی، ماں ایک تابندہ ستارہ ہے جو زندگی کی تاریکیوں میں روشنی بکھیرتا ہے، ماں ایسا دیپ ہے جس کی تابش کے آگے زہرہ و مریخ اور کہکشاں کی روشنی بھی ہیچ ہے، ماں کی نظرِ کرم و لطف و عنایت ابرِ رحمت کا خوش گوار سایہ ہے، ماں کا دل سمندر سے بھی زیادہ عمق رکھتا ہے جہاں ہر رنج و غم چھپ جاتے ہیں، ماں ایسی راگ ہے جس کی لے اور لوری زندگی میں لگنے والے بڑے سے بڑے زخم کی ٹیس اور چبھن کو چن لیتی ہے، ماں ایسا چمن زار ہے جس کے گلوں پر کبھی پژمردگی نہیں آتی، ماں ایک ایسی خوشبو ہے جس کے وجود سے پوری کائنات معطر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ماں دنیا والوں کے لیے قدرت کا عظیم ترین تحفہ اور خداوندی انعام ہے۔
اسلام نے بھی اولِ دن سے ہی دنیا کی اس مقدس ترین ہستی کی عظمت، قداست، کرامت، حرمت اور اس کے جذبے کی صداقت کا بھرپور احساس اور لحاظ کیا اور ماں کو وہ مرتبۂ بلند و بالا بخشا کہ اس کے زیرِ قدم جنت بسادی، اس عظیم ہستی کے احترام و تکریم کو اس کی اولاد پر واجب قرار دیا اور اپنے تابعداروں کو یہ ہدایت دی کہ خدا ورسولؐ کے بعد عزت اور احترام کی سب سے زیادہ حق دار تمہاری ماں ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور ﷺ کے پاس آیا اور اس نے دریافت کیاکہ اللہ کے رسولؐ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’أمُّکَ‘‘ قال: ’’ثُمَّ مَنْ؟‘‘ قَالَ: ’’أمُّکَ‘‘ قَالَ: ’’ثم من؟‘‘ قال: ’’أبُوْکَ‘‘. (بخاری ج۲ ص۸۸۳، مسلم ج۲ ص ۳۲۲)
اس حدیث پاک سے بہ وضاحت و صراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے حسنِ برتاؤ اور حسنِ اخلاق کی سب سے زیادہ حق دار اس کی ماں ہے اور ماں کا حق اولاد پر باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے۔
قرآنِ کریم نے بھی جہاں خدائے واحد کی پرستش اور عبادت کی جگہ جگہ تلقین کی ہے اور ساتھ ہی والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا ہے، وہیں متعدد مقامات پر ماں کے زمانۂ حمل، ولادت اور رضاعت کی جاں گسل تکلیفوں کو ذکر کر کے اس کے مرتبے کے سوا ہونے اوراس کے حقِ تعظیم و تکریم کے فزوں تر ہونے پر واضح اشارہ دیا ہے۔
معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: ’’میرے والد جاہمہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ : ’’میرا جہاد میں جانے کا ارادہ ہے اور اس سلسلے میں میں آپ ﷺ کے پاس مشورے کو حاضر ہوا ہوں ‘‘ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: ’’ہلْ لَکَ مِنْ أمٍ؟‘‘ قال ’’نَعَمْ‘‘ قال: ’’فَألزَمْہا، فإنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ رِجْلَيہا‘‘. (نسائی ج۲ ص۵۳)
(آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تمہاری ماں حیات ہیں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’ہاں ‘‘ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’انھیں کی خدمت گزاری میں لگے رہو، کیوں کہ ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے‘‘)۔
ایسے وقت میں جب کہ اسلام کی وسعت محدود تر تھی، کفارِ مکہ کی یورش کا خطرہ ہمہ وقت منڈلاتا رہتا تھا اور مسلمانانِ مدینہ کے قلوب پر ہر گھڑی یہ اندیشہ چھایا رہتا کہ نہ معلوم کب اور کس جانب سے دشمنانِ اسلام کی کون سی ٹولی مسلمانوں کا قصہ پاک کر دینے کو آ دھمکے، ایسی تشویشناک صورتِ حال کا تقاضا تو یہی تھا کہ آپ ﷺ حضرت جاہمہؓ کو رزم گاہ حق و باطل کی طرف رخ کرنے کا حکم دیتے، مگر آپ ﷺ نے حالات کی حد درجہ نزاک کے علی الرغم اپنے صحابیؓ کو ماں کی خدمت کا نہ صرف حکم دیا، بلکہ اس کے التزام کی ہدایت فرمائی اور علت یہ بتلائی کہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے۔ دنیا کے کسی بھی دھرم اور مذہب میں ماں کے تئیں ایسا اعلیٰ ترین تصور کب پیش کیا گیا ہو گا؟

ماں کی نافرمانی سخت ترین گناہ

حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’إنَّ اللّٰہ حَرَّمَ عَلَيکُمْ عُقُوْقَ الأُمَّہاتِ‘‘ (بخاری ج۱ ص۲۰۰، مسلم ۲ ص۷۵)
(اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے اوپر ماؤں کے عقوق (یعنی ان کی عدم بجا آوری) کو حرام قرار دیا ہے)
جب تک ماں باپ کسی ناجائز کام کا حکم نہ کریں اس وقت تک ماں باپ کی اطاعت ضروری اور نافرمانی حرام ہے، یہاں تک کہ علماء کرام نے فرمایا کہ اگر بیٹے نے نفل کی نیت باندھ رکھی ہو اور ماں باپ لا علمی میں کسی کام سے آواز دیں، تو نیت توڑ کر آنا ضروری ہے۔
حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں، جس کا عذاب فی الفور ہونا چاہیے اور جو عذاب باقی رہ جائے وہ اس کے علاوہ ہے۔ ‘‘ (الادب المفرد)
حضرت عمران بن حصینؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’زنا، شراب خوری اور چوری کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ: ’’سب بے حیائیاں ہیں اور ان پر عذاب ہو گا‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا ’’ہاں سب سے بڑا گناہ تمہیں نہ بتاؤں وہ ہے اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا، آپ ﷺ اس وقت تکیہ لگائے بیٹھے تھے اس کے بعد سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’اور جھوٹی گواہی‘‘۔ (الادب المفرد)
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور قریش مکہ کے (حدیبیہ والے) معاہدے کے زمانے میں میری ماں جو اپنے مشرکانہ مذہب پر قائم تھی (سفر کر کے مدینے میں ) میرے پاس آئیں، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ: ’’إنَّ أمِّی قَدِمَتْ عَلَی وَہی رَغِبَۃٌ، أَفَأصِلُہا؟ قال: ’’نَعَمْ صِلِی أمَّکَ‘‘. (بخاری ج۱ ص۳۵۷، مسلم ج۲ ص۸۸۴)
(میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ خدمت کی خواہاں ہیں، کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اپنی امی کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘)۔
حضرت اسماءؓ صدیق اکبرؓ کی صاحبزادی اور دوسری ماں سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بڑی بہن تھیں، روایات میں ان کی ماں کا نام ’’قيلہ بنت عبدالعزی‘‘ مذکور ہے، انھیں حضرت ابوبکرؓ نے زمانۂ جاہلیت ہی میں طلاق دے کر الگ کر دیا تھا، صلح حدیبیہ کے زمانے میں جب مسلمانوں کو مکہ اور کفار کو مدینہ آمد و رفت کی اجازت تھی، وہ اپنی صاحبزادی سے ملاقات کی خاطر آئیں، حضرت اسماءؓ نے دریافت کیا کہ میری ماں جو مشرکہ ہیں کچھ خواہش لے کر میرے یہاں آئی ہیں، یعنی وہ چاہتی ہیں کہ میں ان کی کچھ خدمت کروں، بعض شراحِ حدیث نے ’’راغبۃ‘‘ کا ترجمہ منحرف ہونے سے اور بیزار ہونے سے کیا ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ میری والدہ مجھ سے ملنے آئی ہیں، لیکن وہ دینِ اسلام سے بیزار ہیں، ایسی صورت میں میرا ان سے کیا برتاؤ ہونا چاہیے؟ ماں ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ حسن سلوک کروں یا کفر و شرک کی بنا پر ان سے ترکِ تعلق اور بے رخی اختیار کروں ؟ تو رسول اللہ نے انھیں ہدایت فرمائی کہ ان کی خدمت کرو اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرو جو ماں کا، ماں ہونے کی وجہ سے حق ہے۔
قرآن کریم میں سورئہ لقمان میں بھی اولاد کو یہی ہدایت ہے کہ اگر ماں باپ کا فرو مشرک ہوں اور اپنی اولاد کو بھی کفر کو اختیار کرنے پر مجبور کریں، تو ان کا حکم نہ مانا جائے البتہ خدمت اور حسن سلوک میں پھر بھی کوتاہی نہ برتی جائے۔

اسلام میں بیٹی کی حیثیت

قبل از اسلام بیٹی کی پیدائش عالمی معاشرے میں نحوست کی علامت سمجھی جاتی تھی، بلکہ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف طبقاتِ انسانی میں لڑکی کو ایک بوجھ اور مصیبت باور کیا جاتا ہے اور اس کی پیدائش چہرے پر رونق اور شادابی لانے کی بہ جائے پژمردگی اور افسردگی کا سبب بن جاتی ہے۔
اسلام نے بتایا کہ بیٹی کا وجود باعثِ ننگ و عار ہونے کی بہ جائے رحمتِ خداوندی کے نزول کا سبب ہے، بلکہ جذبۂ صادق اور کامل شفقت و رافت کے ساتھ اس کی تربیت، اس کی تعلیم، اس کی حقوق رسانی اور اس کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا جنت میں داخلے کا باعث ہو گا۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ عَالَ جَارِييتَينِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَاءَ يوْمَ القِيامَۃِ أَنَا وَہوْ کَہاتَينِ وَضَمَّ أَصَابِعَہٗ‘‘. (مسلم ج۲، ص۳۳)
(جو شخص دو لڑکیوں کی ان کے بلوغ تک پرورش کرے تو قیامت کے دن، میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے، راوی کہتے ہیں کہ ’’پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا‘‘)

لڑکیاں دوزخ سے بچاؤ کا سامان

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مَنِ ابْتُلِی مِنْ ہذِہٖ الْبَنَاتِ بِشَیءٍ فَحَسَّنَ إلَيہنَّ کُنْ لَہٗ سِتْراً مِنَ النَّارِ‘‘. (بخاری شریف ج۱ ص۱۹۰، مسلم شریف ج۲ ص۳۳۰)
(جس شخص پر اللہ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی (اور اس نے اس ذمہ داری کو نبھایا اور) ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا، تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جنت سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی)۔
یعنی اگر انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم رسید ہونے والا ہو گا، تو وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کی بنا پر بخش دیا جائے گا اور باری تعالیٰ اس کے لیے دخولِ جنت کا حکم صادر فرما دیں گے۔

لڑکیوں اور بہنوں کی عمدہ تربیت کا صلہ

بیٹی کے ساتھ ساتھ اگر کوئی شخص اپنی بہن کی بھی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری لے لے اور اپنی وسعت بھر ان کی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے تو ایسا شخص بہ زبانِ وحی ترجمان جنت کا مستحق بن جاتا ہے۔
حضرت ابوسعد خدریؓ نے حضورﷺ سے روایت کیا ہے: ’’مَنْ کَانَتْ لَہٗ ثَلٰثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلٰثُ أَخَواتٍ أَوْ بِنْتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأحْسَنَ صُحْبَتَہنَّ وَاتَّقٰی اللّٰہ فِيہنَّ فَلَہٗ الْجَنَّۃُ‘‘. (ترمذی شریف ج۲ ص۱۳)
(جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہا تو اس کو بدلے میں جنت ملے گی)

لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ یکساں رویہ اپنائیں
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ کَانَتْ لَہٗ اُنْثٰی فَلَمْ يئِدْہا، وَلَمْ يفہنْہا وَلَمْ يوْثِرْ وَلَدَہٗ عَلَيہا – يعْنِی الذُّکُوْرَ – أَدْخَلَہٗ اللّٰہ الْحَنَّۃَ‘‘. (مشکوٰۃ شریف ص۴۲۳، مسند احمد ج۱ ص۲۲۳)
(جس کےپاس لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ اس کی توہین کرے اور نہ برتاؤ میں لڑکے کو اس پر ترجیح دے (یعنی دونوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھے) تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا)۔

اسلام میں بیوی کا مقام و مرتبہ

اسلام نے پوری انسانیت کو باخبر کیا کہ بیوی تمہارے لیے اللہ کی دی ہوئی ایک بڑی نعمت ہے، تمہاری ہم راز و دم ساز، تمہاری رفیقۂ حیات، تمہاری زندگی کے نشیب و فراز میں تمہاری غم خوار و غم گسار، بلکہ زندگی کے ہر گام پر تمہارے لیے سکون و طمانیت کا سامان کرنے والی ہے، اس وجہ سے اگر تمہارے حقوق کی ادائیگی میں اس سے کچھ تقصیر سرزد ہو جائے، تو بھی اس کے ساتھ حسنِ معاشرت کا معاملہ کرو۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ خَيراً فَإنَّہنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعِ وَإنَّ أَعْوَجَ شَیءٍ فِی الصِّلَعِ أَعْلَاہ فإنْ ذَہبْتَ تُقِيمُہٗ کَسَرْتَہٗ وإنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ يزَلْ أَعْوَجَ فَاَسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيراً‘‘. (بخاری شریف ج۱ ص۶۴۹، مسلم شریف ج۱ ص۴۷۵)
(اے لوگو! بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کے بارے میں وصیت حاصل کر لو، اس لیے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے زیادہ کجی پسلی کے اوپری حصے میں ہوتی ہے اگر تم اس کو زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے، تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اپنے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لیے عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے بارے میں میری وصیت قبول کرو)۔
یعنی اگر کوئی شخص زبردستی اور تشدد کے بل بوتے پر عورت کی فطری کجی کو دور کرنے کی کوشش کرے گا، تو کامیابی کی بہ جائے افتراق اور علیحدگی کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے کہ دماغ و زبان میں کجی اس کی فطرت میں داخل ہے اور یہ اس کے لیے موجبِ ننگ نہیں ، بلکہ یہ تواس کی ادا و ناز ہے، لہٰذا اگر تم ان سے کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو، تو اس کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ بہتر سلوک اور دل داری کا معاملہ کرو، لفظ ’’اِسْتَوْصُوْا‘‘ سے آپ ﷺ نے کلام کا آغاز فرمایا تھا اور اسی لفظ پر آپ نے اپنی بات ختم فرمائی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ کو بیویوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کا کس قدر اہتمام تھا۔

نیک عورت نعمتِ عظمیٰ

عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اَلدُّنْيا کُلُّہا مَتَاعٌ وَخَيرُ مَتَاعِ الدُّنْيا اَلْمَرْأۃُ الصَّالِحَۃُ‘‘. (مسلم شریف ج۱ ص۴۷۵)
(دنیا کی حیثیت ایک سامان کی سی ہے اور دنیا کا بہترین سامان نیک عورت ہے)۔
احادیث مبارکہ میں نیک عورتوں کی متعدد علامتیں بیان کی گئی ہیں، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ نیک عورت وہ ہے جو شوہر کی آخرت پر (یعنی اعمال آخرت پر) معاون ہو، بعض میں آیا کہ بہترین عورت وہ ہے جو اپنی ذات اور شوہر کے اموال میں کسی گناہ کی جویا نہ ہو اور کسی خیانت کا ارتکاب نہ کرے، ایک اور روایت میں نیک عورت کی یہ علامتیں بتلائی گئی ہیں کہ: جب شوہر کوئی حکم دے (شرعی دائرے میں رہ کر) تو بیوی اس کی اطاعت کرے، جب شوہر اسے دیکھے تو اسے قلبی سرور حاصل ہو، جب شوہر کسی بات پر قسم کھا لے، تو بیوی اسے بری کر دے اور جب شوہر گھر سے غائب ہو تو بیوی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں خیانت سے محترز رہے۔ (الترغیب والترہیب ج۳ ص۴۱)

اسلام کی نظر میں بہترین شخص

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’أَکْمَلُ الْمُؤمِنِينَ إيمَاناً أَحْسَنُہمْ خُلْقاً وَخِيارُکُمْ لنسائہٖ‘‘. (ترمذی شریف ج۱ ص۲۱۹)
(سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے، جس کے اخلاق عمدہ ہوں اور تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ثابت ہو)

اپنی بیوی سے نفرت نہیں، محبت کرو!

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’لَا ييفْرُکُ مُؤمِنٌ مُؤمِنَۃً إنْ کَرِہ مِنْہا خُلْقاً رَضِی مِنْہا آخَرَ‘‘. (مسلم شریف ج۱ ص۴۷۵)
(کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی کوئی عادت اس کی نظروں میں ناپسندیدہ ہے تو دوسری کوئی عادت پسندیدہ بھی ہو گی)
یعنی اگر بیوی میں کوئی ایسی عادت ہے جو شوہر کی نگاہ میں قابل اعتراض اور مکروہ ہو، تو اس کی بنا پر وہ اسے نفرت و کراہت کا شکار نہ بنائے، بلکہ اس کے دیگر خصائلِ محمودہ کو دیکھتے ہوئے اس سے درگزر کا معاملہ کرے، یہ حدیث شریف آیت کریمہ: ’’وَعَاشِرُوْہنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ کَرِہتُمُوْہنَّ فَعَسٰی أنْ تَکرَہوا شَيئًا وَّ يجْعَلَ اللّٰہ فِيہ خَيراً کَثِيراً‘‘. (نساء:۱۹) کی سچی اور واضح تشریح ہے۔
متذکرہ بالا ٹھوس اور روشن حقائق کے پیش نظر یہ بات برملا اور بہ بانگِ دُہل کہی جا سکتی ہے (اور کسی عقلِ دانا اور نگاہ بینا رکھنے والے شخص کو اس سے انکار کی مجال بھی نہیں ہوسکتی) کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے، جس نے عورت کو صدیوں کی ذلت اور برسہا برس کے ظلم و جور کی اندوہناک کھائیوں سے نکال کر عظمت وتقدس اور عفت و پاکیزگی کی انتہا تک پہنچا دیا، اس کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جس کا عُشرِ عشیر بھی دنیا کی اب تک کی تمام تر تہذیبیں نہ دے سکیں اور اس کی آغوشِ شفقت و رحمت میں صنفِ لطیف کو وہ سکون و طمانیت حاصل ہوئی کہ تاریخِ انسانیت کا کوئی بھی مذہب اور تحریک ہزاروں دعووں کے با وصف اسے وہ سکون بخشنے میں کبھی کامیاب نہ ہوئی۔

تہذیبِ جدید کی غلط اندیشیاں

یہ حقیقت بھی ہر قلب سلیم پر آشکارا ہو جانی چاہیے کہ تہذیبِ جدید کے عورت کو اس کے حقوق دیے جانے کے پر فریب نعرے، دانایانِ فرنگ کی طرف سے مساواتِ مرد و زن کی اٹھتی ہوئی صدائیں، مغرب اور مغربی دسترخوان کے زلہ خواروں کی طرف سے صنفِ اناث کے معاشی استقلال کی صدا ہائے بازگشت اور اپنی ہوسناکی و شیطنت کو تسکین فراہم کرنے کی غرض سے زن و شوہر کے آزادانہ باہمی اختلاط کا ڈنکا پیٹنا، ان سب کے پیچھے بشری قوتوں کی کم کوشیاں اور اذہانِ انسانی کی غلط اندیشیاں کارفرما ہیں، یہی وجہ ہے کہ تہذیبِ نو اپنی عمر کی صرف اور صرف دو ڈھائی صدیاں بتانے کے بعد ہی پوری طرح مخدوش، شکستہ اور بنی نوع انسانی کی خدمت انجام دینے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج جو پوری انسانیت ذلت ورسوائی، فحاشی و بے حیائی اور انسانیت کے رتبے سے ہزار درجہ گرے ہوئے افعالِ قبیحہ و شنیعہ میں ملوث نظر آ رہی ہے یہ سب اسی تہذیب کی دَین ہے اور کوئی بھی صاحب بصیرت انسان ادنیٰ تامل کے بغیر یہ پیش گوئی کرسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہی اس تہذیب کے کَل پرزے بکھرا چاہتے ہیں۔

حرفِ انتہاء

اسلام کی آمد سے پہلے جو تہذیبیں عالمِ وجود میں آئیں اور ان میں جو صنفِ نازک کے ساتھ نا انصافی کا، جور و جبر کا اورہوس رانی و شہوت پرستی کا رویہ اپنایا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان تمام تہذیبوں کے معاشرتی، تمدنی اور اخلاقی قوانین میں تفریط کا بھیانک عنصر غالب تھا، ان کے علم بردار معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتے تھے، مگر عورت کو (جو انسانیت کا نصف حصہ ہے) کوئی مقام و مرتبہ دیے بغیر اور اسے کسی حیثیت کے قابل سمجھے بغیر اور جہاں تک بات ہے تہذیبِ جدید اور اس کی سیہ کاریوں کی، تو سچ تو یہ ہے کہ اس کے اولین معمار قدیم مسیحی تہذیب میں عورت کے خلاف سنگ دلانہ اصولِ معاشرت میں نرمی پیدا کرنے اور معاشرے میں اسے ایک لائق مقام و مرتبہ دلانے کی نیت لے کر اٹھے تھے، مگر افسوس کہ اس تہذیب کی آبادکاری جن اصولوں کو سامنے رکھ کر انجام دی گئی اور جن نقاط کو اس کی ترقی کے اہم عوامل کی حیثیت سے اختیار کیا گیا، ان سب میں افراط کا چور پوشیدہ تھا، چنانچہ رفتہ رفتہ اس منحوس تہذیب کے سہارے عورت ذلت ورسوائی کے ٹھیک اسی مقام تک پہنچ گئی جو تہذیبِ یونان و روم اور قدیم مسیحی یورپ میں اس کا مقدر تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ عورت کو ایک ممتاز شناخت دلانے، معاشرے میں اسے اس کے لائق قدر و منزلت عطا کرنے، اسے عظمت و تکریم کا زریں تاج پہنانے اوراس کے تمام حقوق (خواہ خانگی ہوں یا سماجی، شخصی ہوں یا اجتماعی) بے کم وکاست بخشنے میں مکمل طور پر اگر نقطۂ عدل کو کوئی پا سکا ہے تو وہ صرف ’’مذہب اسلام‘‘ ہے اور آج بھی اگر انسانی سماج کی سب سے ذلیل، فریب خوردہ، شیاطین الانس کی زیاں کاریوں کی شکار اور گُرگہائے انسان نما کی فریب دہی و بہیمیت کا تختۂ مشق بننے والی معصوم صنفِ نازک کو اس کا کھویا ہوا ’’وقار‘‘، اس کی گمشدہ ’’عزت‘‘، اس کی سلب کردہ ’’قدر و منزلت‘‘ اور سعادت اگر مل سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف ’’اسلام‘‘ کی آغوشِ رحمت میں۔
٭٭٭
ماخذ:
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11، جلد: 95 ‏، ذی الحجۃ 1432 ہجری مطابق نومبر 2011ء
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Aurat%20Sura%20se%20Surayya%20Tak_MDU_11_Nov_11.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید