فہرست مضامین
- علم الانسان
- باب نمبر 6: پیدائش
- 80۔ پیدائش کا عمل
- 81۔ مادی جسم کی پیدائش کا آغاز
- 82۔ پیدائشی فارمولہ
- ۱۔ تخلیق
- ۲۔ جسم کی تیاری
- ۳۔ جسم کی ترتیب
- ۴۔ جسم کا نقشہ
- DNA-5 کی معلومات
- 6۔ نظام عصبی
- ۷۔ خلیہ مادہ اور روح
- ۸۔ جسم میں روح
- ۹۔ انفرادی روح
- ۱۰۔ جسم کی روح
- ۱۱۔ روح کا مرکز
- ۱۲۔ جسم کی روح خود کہاں ہے
- ۱۳۔ انسان کی روح
- ۱۴۔ تمام انسانوں کی روح
- ۱۵۔ کائنات کی روح
- ۱۶۔ روح کا منبع
- ۱۷۔ واحد روح
- ۱۸۔ روح کہاں ہے ؟
- ۱۹۔ روح کائنات سے مربوط ہے
- ۲۰۔ واحد حقیقت
- ۲۱۔ جسمانی ساخت
- (۱)۔ موروثی پروگرام
- وراثتی نوعی قانون
- ۲۔ ذاتی پروگرام
- ۱۔ خلیوں میں تناسب
- ۲۔ اعضا ء کا تناسب
- ۳۔ جسمانی نظام میں تناسب
- ۴۔ جسمانی ساخت میں تناسب
- ۵۔ انواع میں تناسب
- ۱۔ تقدیر کیا ہے
- ۲۔ تقدیر میں کیا تحریر ہے
- (1) عمل
- (۲)رزق
- (۳)عمر
- (۴)انجام
- ۳۔ تقدیر کے دو حصے
- (1) مرتب پروگرام
- ۲۔ لازمی قوانین
- ۱۔ ہدایت کیا ہے
- ۲۔ ہدایت کی دو صورتیں
- (1) باطنی ہدایات
- (2) ظاہری ہدایات
- ۳۔ ہدایت اور تقدیر میں فرق
- باب نمبر 7: حرکت
- باب نمبر8 : عمل
- 86۔ عمل
- 87۔ عمل کیا ہے
- 88۔ عمل کیسے ظہور میں آ رہا ہے
- 89۔ عملی فارمولہ
- ۱۔ روح کی مرتب پروگرام سے (تقدیر)اطلاع
- ۲۔ ہدایت
- ۳۔ منفی اطلاعات
- ۴۔ نفس (AURA) کا فیصلہ
- ۵۔ دماغ کا کام
- ۶۔ دماغی عمل
- ۷۔ جسمانی عمل
- ۸۔ عمل کے بعد
- 90۔ اعمال
- 91۔ آزاد ارادہ
- 92۔ پابند مخلوقات و موجودات
- 93۔ اچھا یا برا عمل
- 94۔ اچھا عمل
- 95۔ برا عمل
- 96۔ عمل کا خلاصہ
- 97۔ انسانی زندگی
- 98۔ نفوس کی درجہ بندی
- باب نمبر۹: موت
- 99۔ موت
- 100۔ زندگی
- (101)۔ موت کی تعریف
- 102۔ جسم میں روح کی عدم موجودگی
- نظریہ نمبر:۔ ﴿136﴾۔ ﴿ جسم میں روح کی عدم موجودگی کی مزید صورتیں بھی ہیں جو کہ موت نہیں ہیں۔ ﴾
- (i)۔ خلیاتی تخریب
- نظریہ نمبر:۔ ﴿137﴾۔ ﴿خلیہ میں روح کی عدم موجودگی سے خلیہ کی موت واقع ہو جاتی ہے ، یا خلیات میں روح کی عدم موجودگی سے خلیات کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن خلیہ یا خلیات کی موت جسم کی موت نہیں ہے۔ ﴾
- (ii)۔ فالج
- (iii) نیند
- 103۔ موت کیا ہے
- 104۔ روح کا رابطہ
- 105۔ موت کا وقت
- 106۔ ری وائینڈ
- 107۔ فیتہ کاٹ دیا گیا
- 108۔ موت کا عمل
- 109۔ روح کی واپسی
- 110۔ جسم سے روح نکل جانے کے بعد
- (i)۔ بے حرکت
- (ii)۔ انتشار
- 111۔ موت کا خلاصہ
- 112۔ جسم کی موت
- باب نمبر۔ ۱۰ : زندگی کے بعد زندگی
- باب نمبر ۱۱: انتقال
- 117۔ انتقال
- 118۔ انتقالی فارمولہ
- 119۔ انسانی سفری روداد
- 120۔ انتقال کیا ہے
- 121۔ موت اور انتقال میں فرق
- 122۔ انسان جا کہاں رہا ہے
- -123دو احکامات
- 124۔ علیین
- 125۔ سجیین
- 126۔ انسان کہاں منتقل ہو گیا
- 127۔ عالمِ برزخ(نفس کی دنیا)
- 128۔ عالمِ برزخ (نفس کی دنیا)کہاں ہے
- 129۔ برزخ(نفس کی دنیا) میں انسانی صورت
- 130۔ برزخی (نفس کی)رہائش گاہ
- 131۔ برزخ(نفس کی دنیا) کیسی ہے
- 132۔ نفسی زندگی
- 133۔ مقید نفس
- 134۔ آزاد نفس
- 135۔ اجسام کی تعداد
- 136۔ روشنی کا جسم
- 137۔ نور کا جسم
- 138۔ تمام باطنی لطیف اجسام (نفس AURA)فانی ہیں
- 139۔ برزخ انتظار گاہ ہے
- 140۔ قیامت
- 141۔ دوبارہ زندگی
- 142۔ انسان کائناتی مسافر ہے
- 143۔ انسانی کہانی
- 144۔ انسانی سفر کے پانچ ادوار
- 145۔ انسانی زندگی کا سفر آغاز تا اختتام
- باب نمبر۔ 12: تاریخی جواب
- 146۔ انسانی تعریف میں ناکامی کے اسباب
- 147۔ آواگون
- 148۔ نظریۂ ہبوطِ آدم
- 149۔ نظریۂ جبرو قدر
- AURA- 150چکراز کیا ہیں ؟
- سبٹل باڈیز SUBTLE BODIESAURA
- چکراز CHAKRAS
- 151۔ روح کے حصے
- 152۔ نظریہ ارتقا (Theory of Evolution)
- (i)۔ پہلی غلطی (جد امجد)
- (ii)۔ دوسری غلطی (پانی میں )
- (iii)۔ تیسری غلطی (نفسِ واحدہ)
- (iv)چوتھی غلطی(ارتقا)
- 153۔ روح اور ربّ
- 154۔ انسان کیسا مجموعہ ہے ؟
علم الانسان
﴿خزائن العرفان﴾
جلد دوم
روبینہ نازلی
http://unifiedscience.info/
rubina.nazlee@yahoo.com
باب نمبر 6: پیدائش
الذی خلق فسوی والذی قدر فھدی
ترجمہ: وہ جس نے تخلیق کیا، تناسب قائم کیا وہ جس نے تقدیر بنائی اور ہدایت دی۔
مادی جسم کی پیدائش
نظریہ نمبر۔ رحم مادر میں مادی جسم روح کے پروگرام سے ترتیب پا رہا ہے
80۔ پیدائش کا عمل
ہم تخلیق کے عنوان سے تفصیلی وضاحت کر آئے ہیں کہ صرف پہلا انسان یا پہلا جوڑا” تخلیق ” کے عمل سے گزرا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی انسان تخلیق کے عمل سے نہیں گزرا۔ تمام تر انسان "پیدا ” ہوتے ہیں۔ یا” پیدائش "کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اگرچہ انسان کی تخلیق کا تذکرہ پہلی دفعہ میں نے اس کتاب میں کیا ہے لیکن سائنسی تحقیقات کی بدولت پیدائش کے عمل سے تو آج سبھی واقف ہیں لیکن یہاں ہم پیدائش کے کچھ مزید مراحل کا تذکرہ ایک نئے انداز میں اپنے نئے نظریات کے ذریعے کرنے جا رہے ہیں۔
آج ہر شخص جانتا ہے کہ ہر بچہ ماں کی کوکھ سے ۹ ماہ کے عرصہ میں جنم لیتا ہے اور جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے ہم نے اس ۹ ماہ کے دورانِ حمل کی تمام تر تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔ مثلاً انزال کے وقت جسم سے خارج ہونے والے مادہ حیات (منی Semen ) کی قلیل مقدار 300 سے 400 ملین اسپرمز (Sperms) یا اندازاً ایک مکعب سینٹی میٹر مادہ حیات میں 2کروڑ سپرمز(Sperms) ہوتے ہیں ان کروڑوں خلیوں میں سے ہر ایک بچے کی تشکیل کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ ان کروڑوں سپرمز(Sperms) میں سے بمشکل ایک عورت کے بیضے میں داخل ہو کر اسے بارور کرتا ہے اور ایک خلیہ ایک ملی میٹر کا دس ہزارواں حصہ ہے۔ فیلوپین ٹیوب (Flopion Tube)سے رحم تک آنے میں اس بارور بیضے کو کم و بیش تین دن لگتے ہیں۔ اس سفر کے دوران یہ بیضہ بڑی تیزی کے ساتھ مختلف خلیوں میں تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ان خلیوں کا ایک گچھہ سا بن جاتا ہے یہ گچھا چلتا ہوا رحم کے استر تک پہنچتا ہے اور اس میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس گچھے میں تقریباً دو سو خلیے ہوتے ہیں جسے اب "جنین ” (Embryo)کہتے ہیں۔ اس وقت اس کی جسامت ایک نقطے کے برابر ہوتی ہے۔ جب بیضہ بار آور ہوتا ہے تو یہ رحمی نالی کے ساتھ ساتھ اس جگہ سے گزرتا ہے جہاں کروموسوم کی تیاری اور خلیوں کی تقسیم کا عمل جاری ہوتا ہے۔ یہ بارور بیضہ تقریباً ایک ہفتے بعد رحم کی رطوبت دار جھلی (Endometrium) میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ رحم میں موجود جنین پر دو تہیں ہوتی ہیں ان میں سے اندرونی تہہ تو آگے چل کر بچے میں تبدیل ہو جاتی ہے جب کہ بیرونی تہہ بچے کی آنول نال (Placenta) کی شکل اختیار کر لیتی ہے
ابتدائی ہفتوں میں مضغہ یا جنین محض ایک چھوٹی سی مچھلی کی مانند نظر آتا ہے ، حمل کے چوتھے ہفتے کے آغاز پر اس کا برائے نام دل بن کر دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔ عصبی نظام اور اندرونی اعضاء بھی بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی ہفتے کے اختتام پر دماغ، ریڑھ کی ہڈی، آنکھیں، کان اور ناک نیز گردے اور پھیپھڑے بھی تشکیل پانے لگتے ہیں۔ وہ جنین جس کا آغاز ایک نقطے سے ہوا تھا، اب تقریباً تین ملی لیٹر 0.12″ تک بڑھ چکا ہوتا ہے اور اس کا وزن پانچ سو گنا زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔ تیسرے مہینے کے آخر تک یہ ایک واضع انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے اس مرحلے پر اس کو (FETUS) کہتے ہیں۔ تین مہینے کے اس جنین کا وزن تقریباً ۲۸ گرام (ایک اونس) اور لمبائی ۷ سینٹی میٹر (2.75″ انچ )ہوتی ہے۔ اب اس کے بازو اور ٹانگیں بھی واضع ہو جاتی ہیں جن میں انگلیاں بھی نظر آتی ہیں اب یہ ٹانگوں کو چلا سکتا ہے انگلیوں کو بند کر سکتا سر کو گھما سکتا اور اپنا منہ کھول اور بند کر سکتا ہے چوتھے مہینے میں یہ اپنے بازو اور ٹانگیں پھیلا بھی سکتا ہے اب اس کی ماں اپنے پیٹ میں بچے کی نیند اور جاگنے کو محسوس بھی کر سکتی ہے۔ اس مرحلے پر وہ ہچکی بھی لیتا ہے۔ ساتویں مہینے میں بچے کی نمو کا آخری مرحلہ شروع ہوتا ہے آٹھویں اور نویں مہینے میں اس کے جسم پر چربی بنتی ہے اور قدرت اس کے اندرونی اور بیرونی اعضاء پر آخری نقاشی کرتی ہے۔ استقرارِ حمل کے نویں مہینے میں بچے کا وزن 2.25 سے 5.5 کلوگرام ( 5 سے 12 پاؤنڈ) اور لمبائی 43 سے 56 سینٹی میٹر ( 17 سے 22 انچ) ہوتی ہے۔ یعنی نو ماہ پہلے ایک نقطے سے آغاز کر کے آج حرکت کرتا ہوا انسان وجود میں آ گیا۔
لیکن کیا واقعی یہ سارا کارنامہ محض ایک نطفے کا ہے ؟
یہ تو بتایا جاتا ہے کہ ایک نطفے سے آغاز کر کے کیسے کیسے مرحلوں سے گزر کر بچہ پیدائش کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ اتنا پیچیدہ اتنا منظم نظام کیسے انجام پا رہا ہے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پیدائش کایہ نو ماہ پر مشتمل تمام عمل خود کار ہے۔
یہ کیسا خود کار عمل ہے جو قرنوں سے خود بخود جاری ہے اس میں کوئی خامی کوئی کمی پیشی نہیں ہوتی یہ کیسی مشین ہے جو خود بخود بے نقص انسان تیار کیئے ہی چلی جا رہی ہے۔ اگر دنیا کا سب سے ذہین انسان یہ کہہ دے کہ یہ سوئی خود بخود بنی ہے تو یقیناً سب اس ذہین آدمی کو خبطی قرار دے دیں گے کیونکہ کوئی یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ سوئی خود بخود بھی بن سکتی ہے۔
جب ایک سوئی خود بخود نہیں بن سکتی تو دنیا کی سب سے پیچیدہ مشین جس کے اسرار صدیوں برس سے کھلتے ہی چلے آ رہے ہیں وہ خود بخود کیسے بن سکتی ہے۔ آخر وہ کیسے لوگ ہیں جو یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ سوئی خود بخود بن سکتی ہے لیکن یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ انسان خود بخود بن جاتا ہے اور کوئی اس کا بنانے والا ڈیزائن کرنے والا نہیں ہے۔
آج سب جانتے ہیں کہ خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا اور اس حقیقت کی سب سے بڑی گواہ خود جدید سائنس ہے جدید سائنس نے آج ہر قسم کے اتفاقات کی سو فیصد نفی کر دی ہے۔ کائنات کا سب سے چھوٹا وجود ہو یا بڑے سے بڑا وجود کچھ بھی اتفاقات کا نتیجہ نہیں ہر وجود اپنی جگہ پر فٹ اور بڑا خاص ہے سب کچھ پری پلینڈ اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے کسی بڑے دماغ کی بڑی کارستانی۔ لہذا اتفاق سے یا خود بخود کچھ نہیں ہوتا
لہذا انسان کی پیدائش کا عمل بھی خود کار نہیں بلکہ پری پلینڈ ہے اور باقاعدہ پروگرام کے تحت بڑی سخت نگرانی میں انسان پیدائش کے طویل اور انتہائی مشکل مراحل سے گزرتا ہے۔ اگرچہ بظاہر ہم سائنسی تحقیقات کی بدولت پیدائش کے ہر عمل سے پوری واقفیت حاصل کر چکے ہیں لیکن یہ معلومات ادھوری معلومات ہیں۔ کیونکہ جسم کو روح ترتیب دے رہی ہے جب کہ موجودہ پیدائشی عمل میں روح کا کہیں تذکرہ ہی نہیں بلکہ سائنسدان کہہ دیتے ہیں کہ اس عمل میں روح کی کہیں گنجائش ہی نہیں۔ لہذا مادی جسم کی پیدائش کے مراحل پہ بڑی بڑی کتابیں تو موجود ہیں لیکن ان میں کہیں بھی روح کا تذکرہ نہیں اور مادی جسم کی رحم مادر میں پیدائش کا عمل روح کے تذکرے کے بغیر کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ لہذا اب یہاں ہم پیدائش کے عمل کو ایک نئے انداز سے متعارف کروا رہے ہیں۔ اور اس نامکمل بیان کو روح کے تذکرے کے ساتھ مکمل کرنے جا رہے ہیں۔
لہذا اب ہم مادی جسم کے پیدائشی مراحل کو اپنے نئے نظریات کے ذریعے ایک نئے انداز سے پیش کرتے ہیں۔
81۔ مادی جسم کی پیدائش کا آغاز
نظریہ نمبر۔ ﴿66﴾۔ ﴿ مادی جسم کی پیدائش کا آغاز نطفے سے ہوتا ہے۔ لیکن فقط نطفہ جسم تیار نہیں کر سکتا انسان فقط چند گرام کے نطفے سے وجود میں نہیں آ سکتا۔ نطفہ طویل اور پیچیدہ پیدائشی عمل کا فقط ایک جز اور ایک مرحلہ ہے۔ اور یہ مرحلہ بھی مادی جسم کی پیدائش کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ ﴾
آج تک کی تمام تر سائنسی و تجرباتی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم فقط یہ جان پائے ہیں کہ چند گرام کے نطفے سے انسان وجود میں آ جاتا ہے۔
لیکن کیا یہ بالکل درست بات ہے؟ ہرگز نہیں !
انسانی تخلیق کے دیگر مراحل روح، نفس اور پہلے جسم کی تخلیق کا تذکرہ تخلیق کے عنوان سے ہم کر آئے ہیں لہذا تخلیق کے عمل سے گزرنے والے پہلے جوڑے کے ذریعے ہی پیدائش کے عمل کا آغاز ہوا۔ لہذا اب ہر جسم پیدائش کے ذریعے ہی تخلیق پاتا ہے لیکن یہ کام فقط نطفے کا نہیں۔ نطفہ فقط ایک مرحلہ ہے پیدائش کے عمل کا۔ جب کہ پیدائش کے بہت سے دیگر مراحل طے کر کے انسانی مادی وجود مکمل ہوتا ہے ، کام کرتا ہے ، متحرک ہوتا ہے ، زندہ رہتا ہے۔ جب کہ موجودہ سائنس محض نطفے کی کارکردگی کو ہی جان پائی ہے۔ اب یہ کہ دینے سے کام نہیں چلے گا کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے اب ہمیں ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے کہ
کائنات کی یہ سب سے پیچیدہ مشینری مادی جسم کیسے خود کار ہے ؟کیسے متحرک ہے ؟ اس کا اندرونی نظام کیسے خود کار ہے ؟
یہ وجود کیسے بن رہا ہے؟کیسے ہر کل پرزہ اپنی جگہ فٹ بیٹھا ہے ؟
کیسے ہر کام بڑے موقع کی مناسبت سے ہو رہا ہے؟
کیسے جسمانی اعمال ہو رہے ہیں؟ اور اس انتہائی منظم اور خود کار سسٹم کو ہدایات کہاں سے مل رہی ہیں؟
کیسے جنین کا تعین ہو رہا ہے؟
کیسے جسم ایک دوسرے سے مشابہ بھی ہیں مختلف بھی؟ کیسے یہ مشینری متحرک ہے اور کیسے موت کی صورت میں خودکار حرکت خود بخود رک جاتی ہے ؟ یہ سب کیسے ہو رہا ہے؟جسمانی تعمیر کا اتنا بڑا اتنا پیچیدہ منصوبہ ظاہر ہے خود بخود یا اتفاقاً نہیں ہو سکتا نہ ہی یہ سب محض نطفے کا کمال ہے۔ جب کہ موجودہ سائنس محض نطفے کی کارکردگی کو ہی جان پائی ہے۔ اب یہ کہ دینے سے کام نہیں چلے گا کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے بلکہ نطفے کی کار کر دگی کے علاوہ مادی جسم کے دیگر پیدائشی مراحل کو جاننا انہیں الگ الگ شناخت کرنا انتہائی ضروری ہے درحقیقت پیدائش کا عمل اتفاقاً یا خود بخود یا محض نطفے سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ پیدائش کا پورا عمل ایک بہت ہی خاص فارمولے کے تحت انجام پاتا ہے اور اب ہم یہاں اسی خاص فارمولے کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا پیدائش کے مخصوص عمل کو بیان کرنے کے لئے یہاں ہمیں ایک پیدائشی فارمولہ پیش کرنا ہو گا۔
82۔ پیدائشی فارمولہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿67﴾۔ ﴿ہر مادی جسم کی پیدائش کا فارمولہ درج ذیل چار نکات پر مشتمل ہے۔
( ۱)۔ تخلیق (2)۔ تناسب (3)۔ تقدیر ) (4۔ ہدایات
تمام تر انسانوں کے مادی اجسام کی پیدائش کا عمل اس چار نکاتی فارمولے کے تحت انجام پاتا ہے یہ چاروں نکات بھی مزید مراحل پہ مشتمل ہیں جن کا تفصیلی تذکرہ آگے آئے گا۔
چار نکاتی فارمولے کے تحت کیسے جسم پیدائش کے عمل سے دوچار ہوتا ہے اور یہ فارمولہ کہاں سے آیا؟ یہ جاننا ضروری ہے۔
لہذا یہ کہہ دینا ہرگز کافی نہیں کہ پیدائش کا عمل محض ایک نطفے سے خود بخود مکمل ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ جاننا ضروری ہے کہ چار نکاتی فارمولے کے تحت یہ پیدائش کا عمل کیسے انجام پا رہا ہے۔
اب ہم ہر انسان کے پیدائشی عمل کے اس چار نکاتی( تخلیق، تناسب، تقدیر، ہدایات )فارمولے کی مسلسل وضاحت کریں گے
لہذا مادر رحم میں پیدائش کے عمل میں پہلا مرحلہ ہے تخلیق کا۔
۱۔ تخلیق
مادی جسم کی پیدائش کا پہلا مرحلہ
﴿روح جسم تخلیق کر رہی ہے ﴾
۱۔ تخلیق
رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کا پہلا مرحلہ ہے تخلیق
نظریہ نمبر۔ ﴿68﴾۔ ﴿نطفہ نہیں بلکہ روح جسم تخلیق کر رہی ہے۔ ﴾
یہ روح ہی ہے جو نطفے سے لے کر جسم کی تکمیل تک ہر لمحہ جسم ترتیب دے رہی ہے اور ہر لمحہ جسم تخلیق کر رہی ہے۔
روح خالق کائنات کا حکم (پروگرام ) ہے۔ یعنی سادہ لفظوں میں ہر جسم کا تخلیق کار خود خالق کائنات ہے۔
انرجی کے ا ختلاط سے خلیات اور خلیات کے اختلاط سے جسم بن رہا ہے۔
روح ہی وہ شے ہے جس سے وجود عدم سے وجود کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں روح کے پروگرام پر رحم مادر میں جسم کیسے تخلیق پا رہا ہے
۲۔ جسم کی تیاری
نظریہ نمبر:۔ ﴿69﴾۔ ﴿روح جسم کی تیاری کا پروگرام دے رہی ہے۔ ﴾
اگرچہ بظاہر یہ عمل فقط نطفے کے ذریعے انجام پا رہا ہے لیکن اس تمام عمل کا مکمل پروگرام روح مہیا کر رہی ہے۔ نطفہ درحقیقت جسم کی تیاری کا پہلا نہیں دوسرا مرحلہ ہے۔
روح بچے کی جسمانی تیاری کا مکمل فارمولہ مکمل پروگرام ہے۔ جیسا پروگرام ہے جیسی ہدایات ہیں ویسا ہی بچہ تیار ہو گا۔
مرد، عورت، کالا یا گورا، لمبا، چھوٹا، خوبصورت یا بدصورت جیسا روح کا پروگرام جسم کی تیاری کے لئے ملا ہے ویسی ہی تخلیق ترتیب پا کر انسانی صورت میں ظاہر ہو گی۔ نطفے سے لیکر آخری مرحلے تک جسمانی پیدائش کا تمام پروگرام روح کا پروگرام ہے۔ یعنی ہر لمحہ خالق مخلوق کو تخلیق کر رہا ہے اپنے ذاتی ارادے اور ذاتی اختیار اور ذاتی پروگرام (روح ) کے ذریعے۔ لہذا چند گرام کے نطفے سے آغاز کر کے جس پیدائشی عمل سے گزر کر پورا انسان ابھر کر سامنے آتا ہے اس پیدائشی عمل کا تمام تر دارومدار روح پر منحصر ہے۔
محض نطفے کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے اور وہ اپنا کام پورا کرے اور جسم تیار ہو جائے پھر بھی روح کی عدم موجودگی سے یہ تخلیقی عمل تکمیل نہیں پا سکتا۔ مثلاً تخلیقی عمل کے مکمل ہونے کے باوجود ؛
(1) بچہ مردہ پیدا ہو گا۔ (روح کی عدم موجودگی کے سبب)۔
اور اگر روح پورا پروگرام نہ دے تو بچہ مردہ ہونے کے ساتھ ساتھ
(2) ادھورا پیدا ہو گا۔ لہذا روح
(1)۔ روح اس جسم کی زندگی بھی ہے
(2)۔ انسانی جسم کی مکمل تیاری کا پروگرام بھی دے رہی ہے یا انسانی جسم تیار کر رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ روح یہ کام کیسے کر رہی ہے۔ ہم نے یہاں یہ کہا ہے کہ جسم روح تیار کر رہی ہے۔
جب کہ سائنسدانوں کا خیال یہ ہے کہ جسم کروڑوں سیلز سے مل کر بنتا ہے جیسے عمارت بلاکس سے بنتی ہے ایسے ہی جسم سیلز سے بنتا ہے اسی لئے وہ سیلز کو جسمانی بلڈنگ کے بلاکس کہتے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ خیال درست ہے لیکن یہ مکمل بیان نہیں ہے۔ کروڑوں سیلز سے مل کر جسم تو بنتا ہے لیکن کیسے؟
سیل جسم کا بہت چھوٹا یونٹ ہے جسے مائیکرواسکوپ کی مدد سے دیکھا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے سیل کے مرکز میں نیوکلیس کے اندر کروموسوم اور کروموسومDNA پر مشتمل ہے دریافت کر لیا ہے۔ اور اب DNA کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مختلف اقسام کے خلیے مختلف طریقوں سے اپنے اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔ لیکن کیسے؟ کیسے ہر خلیہ اپنا اپنا کام خود بخود کر رہا ہے ؟ نظام عصبی کیسے کام کر رہا ہے ؟ DNA کے پاس معلومات کہاں سے آئیں؟ رگ، پٹھے، دل، گردے سب کیسے اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں؟
یہ سب تو انسان سے بھی زیادہ سمجھدار ہیں کوئی غلطی نہیں کرتے ایسا کام کر رہے ہیں کہ ایک انتہائی پیچیدہ مشینری (جسم) خود بخود کام کر رہی ہے۔ اور وہ کیا وجوہات ہیں کہ یہ انتہائی خودکار مشینری فقط موت کی صورت میں ہر قسم کا کام بند کر دیتی ہے ، دل، جگر، گردے، پھیپھڑے ، نظام عصبی، خلیے سبھی کچھ تو ہے ٹھیک ٹھاک ہے اپنی جگہ موجود ہے اپنی جگہ قائم ہے پھر یہ حرکت کیوں رک گئی ہر خلیے ہر عضو نے اپنا کام کیوں بند کر دیا؟ کیسے کروڑوں خلیوں سے مل کر بننے والا مضبوط جسم فقط موت کی صورت میں بے نشان ہو گیا بالکل ایسے جیسے تھا ہی نہیں۔
کیا واقعی کروڑوں سیلز کے جڑنے سے انسانی جسم بنتا ہے ؟ کیا ہم ایسے سیلز اکھٹے کر کے انسان تشکیل دے سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ جسمانی عمارت سیلز تیار نہیں کر رہے بلکہ یہ جسمانی عمارت روح تعمیر کر رہی ہے۔
لیکن کیسے؟
مادہ پرست تو آج بھی اس سامنے کی دریافت شدہ سائنسی حقیقت یعنی روح کو جھٹلا دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ مادی جسم میں روح کی کہیں کوئی گنجائش نہیں۔
جب کہ ہم یہاں نہ صرف مادی جسم اور روح کے تعلق کی مسلسل وضاحت کریں گے بلکہ یہ بھی بتائیں گے کہ روح جسم کیسے تیار کر رہی ہے۔
۳۔ جسم کی ترتیب
نظریہ نمبر:۔ ﴿70﴾۔ ﴿دو اجسام کو یکجا کر کے ترتیب دینے والی روح ہے۔ ﴾
یعنی خلیے نہیں بلکہ روح جسم ترتیب دے رہی ہے۔ دو خلیوں کو روح مرکب کرتی ہے اس کے علاوہ دو اجسام کو مرکب کر کے جسم ترتیب دینے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
یعنی روح (انرجی Energy ) خلیوں کو مرکب کر کے اجسام ترتیب دے رہی ہے۔
جب کہ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جسم کروڑوں سیلز سے مل کر بنتا ہے جیسے عمارت اینٹوں سے بنتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
سیلز محض جسم کی اینٹیں تو ہیں لیکن صرف اینٹوں سے عمارت کی تعمیر ممکن نہیں اگر ان اینٹوں کے درمیان انہیں جوڑنے والا مسالہ نہ ہو۔ اس مسالے کے بغیر صرف اینٹوں سے پوری عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اینٹیں تو فقط ایک جز ہیں عمارت کی تعمیر کا۔
اسی طرح سیلز بھی فقط ایک مرحلہ ایک جز ہے جسمانی عمارت کی تعمیر کا اور فقط اس ایک جز سے پوری جسمانی عمارت مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ان سیلز کو جوڑنے والی روح (Energy) نہ ہو۔
روح کے بغیر سیلز یکجا ہو کر جسمانی عمارت تعمیر نہیں کر سکتے۔
یہ روح ہی ہے جو خلیوں کو باہم مربوط کر رہی ہے یہ روح ہی ہے جو کروڑوں خلیوں کو ترتیب دے کر باہم مربوط کر کے جسمانی عمارت تعمیر کر رہی ہے۔
۴۔ جسم کا نقشہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿71﴾۔ ﴿جسم کا نقشہ جسم کی تیاری کا تمام پروگرام روح فراہم کر رہی ہے۔ ہر خلیے کے پاس روح کا پروگرام ہے جس کے مطابق ہر خلیہ وجود پاہا ہے اور اپنا کام کر رہا ہے۔ ﴾
خلیہ جسم کا بہت چھوٹا یونٹ ہے جسے مائیکروسکوپ کی مدد سے دیکھا جاتا ہے سائنسدانوں نے اس ننھے وجود کی اندر کی دنیا بھی دریافت کر لی ہے۔
اتنے ننھے وجود میں اتنی پیچیدگی اور اس کے پاس اتنی معلومات کہاں سے آئیں؟
مختلف قسم کے خلیے مختلف قسم کے کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ہر خلیہ کے پاس روح کا پروگرام ہے ہر خلیہ اسی پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ ہر خلیے کو اس کے کام کا پروگرام دے رہی ہے روح
DNA-5 کی معلومات
نظریہ نمبر:۔ ﴿72﴾۔ ﴿ DNA کے پاس معلومات روح کی معلومات ہیں۔ ﴾
جسم کروڑوں سیلز سے مل کر بنتا ہے۔ سیلز کے مرکز میں نیوکلیئس ہوتا ہے۔ نیوکلیئس کے اندر کروموسوم (Chromosomes)۔ کروموسوم DNA یعنی ڈی اوکسی رائبو نیوکلیئک ایسڈ پر مشتمل ہوتا ہے اسی DNA کو جین بھی کہتے ہیں۔ ہمارے جسم کے بارے میں تمام معلومات DNA میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس لئے ماہرین اسے کتاب زندگی "Book Of Life” کہتے ہیں۔ مثلاً اس جین میں آپکے بالوں کا رنگ، آنکھوں کی پتلیوں کا رنگ، جسم اور چہرے کے خدوخال۔ آپ کا قد، جسم میں سیلز کی تقسیم، ہڈیوں ، گوشت، پٹھوں کی ساخت غرض جسم کے حوالے سے تمام معلومات DNA میں درج ہوتی ہیں۔ جسمانی معلومات کے ساتھ بعض وراثتی عادات و اطوار بھی ریکارڈ ہوتی ہیں۔ سائنسدان DNA کو جسم کی ڈائیریکٹری قرار دیتے ہیں جسے وہ ابھی تک پڑھ نہیں سکے ہیں۔ صرف ایک سیل میں موجود DNA کی تفصیلات لکھنے کیلئے اخبار کے ایک لاکھ صفحات سیاہ کرنے ہوں گے ایک انسانی DNA کے لئے 3 ارب 10 کروڑ الفاظ درکار ہوں گے۔ DNA چار اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔
(1) (G – Guanine)
(2) (T – Thymine)
(3) (C – Cytocine)
(4) (A – Adenine)
ان اجزا ء کو جنیوم کہا جاتا ہے۔ انہی کے الٹ پلٹ سے جسم کی پوری عمارت بنتی ہے۔ مثلاً کون کون سے کوڈ سے ہڈیاں بنتی ہیں کون کون سے کوڈ سے رگ پٹھے، بال، خون، ناخن اور دیگر اعضا کون سے کوڈ سے ہوتی ہے۔ ان کوڈز کے سیٹ کو جنیوم پروجیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کے اندر جنیوم کے تیس لاکھ جوڑے ہوتے ہیں جو تقریباً50 سے 100 خلیاتی جینز میں مرتسمCode ہوتے ہیں لیکن ابھی ان کوڈز کو پڑھنے کی کوشش جاری ہے۔
DNA کے پاس اتنی معلومات کہاں سے آئیں۔
DNA کے پاس معلومات روح کی معلومات ہیں لہذا جسم کا ہر خلیہ اسی روح کے پروگرام پر اپنا اپنا کام انجام دے رہا ہے روح ہر خلیے کو اس کا پروگرام مہیا کر رہی ہے۔
6۔ نظام عصبی
نظریہ نمبر:۔ ﴿73﴾۔ ﴿نظامِ عصبی روح کے پروگرام پر کام کر رہا ہے۔ روح نظام عصبی کو قائم اور متحرک رکھے ہوئے ہے۔ ﴾
جسم انسانی ہڈیوں کے ڈھانچہ سے پیوستہ عضلات و اعصاب کا مجموعہ ہے جو خلیات سے مرکب ہے۔ اگرچہ خلیات بناوٹ کی اکائی کے لحاظ سے یکساں ہوتے ہیں لیکن کارکردگی کے لحاظ سے مختلف مثلاً اعصابی خلیے ، گوشت کے خلیے اور ہڈی کے خلیے اپنے اپنے کام اپنے اپنے طریقوں سے سر انجام دیتے ہیں۔ زندہ رہنا، مختلف افعال سرانجام دینا اور مناسب وقت پر آنے والے نئے خلیوں کے لئے جگہ خالی کرنا پرانے خلیوں کی خودکشی ان ذہنی احکامات کے تحت ہوتا ہے جو خودکار اعصابی نظام Parasympathetic System کے تحریکی اشاروں کی صورت میں انہیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اشارے خلیے کو تین اطراف سے موصول ہوتے ہیں۔ اول خود خلیے کا نیوکلیئس اور اس میں موجود DNA اور جینز دوسرا دیگر خلیے اور ان کا ترسیلی نظام، تیسرا اعصابی خلیے اور ان کا ترسیلی نظام۔ یہ تمام ترسیلی نظام دو طرفہ کام کرتے ہیں یعنی دماغ اور مختلف مقامات پر واقع مراکز سے احکامات کی وصولی اور خلیوں کو ترسیل، خلیوں کے حالات، احکامات کی تعمیل بصورت عمل و رد عمل کے ذریعے متعلقہ کارٹیکس کو مطلع رکھنا۔ یہ تمام اعصابی افعال کیمیائی برقی قوت سے تشکیل پاتے ہیں۔ ان برقی کیمیائی لہروں کی رفتار عام برقی لہروں سے بہت کم ہوتی ہے۔ یہ رو عصبانیوں سے گزر کر حرام مغز کو اور وہاں سے دماغ کو پہنچتی ہے اور وہاں سے حرکی اعصاب میں منتقل ہو جاتی ہے۔ مختصراً جانداروں میں نظام عصبی کی بدولت کام کرنے یا روکنے کی سکت اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو اس نظام عصبی کو قائم اور متحرک رکھے ہوئے ہے۔ اور کیسے؟ خلیوں کو تین اطراف سے موصول ہونے والے تحریکی اشارے دماغ اور مختلف مقامات پر واقع مراکز سے احکامات کی وصولی اور خلیوں کو ترسیل اور خود خلیہ اور DNA کی معلومات یہ سب روح کی بدولت ہے۔ یہ سارا نظام روح کے مرتب پروگرام پر کام کر رہا ہے۔
۷۔ خلیہ مادہ اور روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿74﴾۔ ﴿خلیہ اور جسم کا ہر چھوٹا بڑا یونٹ مادہ اور روح ہے۔ ﴾
خود جسم اور جسم کا ہر چھوٹے سے چھوٹا یونٹ اور بڑے سے بڑا یونٹ مادہ اور روح (Energy) ہے۔
لہذا ہر خلیہ ہر یونٹ اسی روح (انرجی) سے زندہ ہے متحرک ہے اور جب اس خلیے میں سے یہ روح یہ انرجی نکل جاتی ہے تو یہ خلیہ مردہ ہو جاتا ہے جسے ہم خلیے کی خودکشی کہتے ہیں اب خلیہ وہ کام سر انجام نہیں دے سکتا جو وہ روح کے پروگرام پہ انجام دے رہا تھا۔ لہذا
(1) ہر خلیہ یا جسم کا ہر چھوٹا بڑا یونٹ روح اور مادہ ہے۔
(2) ہر خلیہ یا جسم کا ہر چھوٹا بڑا یونٹ روح (Energy) سے زندہ ہے۔
(3) ہر خلیے کے پاس حرکت و عمل کا پروگرام ( روح کا پروگرام ) ہے۔
۸۔ جسم میں روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿75﴾۔ ﴿روح (Energy) پورے جسم میں ہر جگہ موجود ہے۔ ﴾
جسم کے ہر عضو، ہر یونٹ ہر ذرے میں روح ہے۔
پورے جسم میں ہر جگہ روح موجود ہے۔
DNA کے پاس روح کا پروگرام موجود ہے۔
نظام عصبی کو تحریک دینے والی روح ہے۔
ہر خلیے ہر عضو کے پاس روح کا پروگرام ہے۔ جس پہ وہ عمل پیرا ہے اور روح کی انرجی سے زندہ اور متحرک ہے۔
دو خلیوں کو مرکب کر کے جسم تعمیر کرنے والی بھی روح ہے۔
AURA میں بھی روح ہے۔
جسم کی زندگی روح ہے۔
جسم کا فیول روح ہے۔
حرکت و عمل کا پروگرام روح ہے۔
پورے جسم کے ہر عضو ہر ذرے کی زندگی اور حرکت و عمل کا مکمل پروگرام روح ہے۔
لہذا جسم میں روح ہر جگہ موجود ہے۔
۹۔ انفرادی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿76﴾۔ ﴿جسم کے ہر چھوٹے بڑے یونٹ کے پاس انفرادی روح (Energy) ہے۔ ﴾
جسم کے ہر بڑے سے بڑے عضو اور ہر چھوٹے سے چھوٹے یونٹ چاہے وہ خلیہ ہو یا عضو سب کے پاس اپنی انفرادی انرجی (روح)ہے۔
لہذا جسم کے ہر یونٹ کے پاس اپنی انفرادی روح (زندگی، انرجی)ہے جسم کے ہر یونٹ کے پاس اپنا انفرادی حرکت و عمل کا پروگرام ہے ہر خلیہ اپنا کام جانتا ہے ہر خلیے کے پاس حرکت و عمل کا اپنا انفرادی پروگرام موجود ہے روح کی صورت میں۔ اسی اپنے اپنے انفرادی پروگرام کے تحت جسم کا ہر عضو ہر یونٹ زندہ ہے، متحرک ہے۔ اپنا اپنا کام سرانجام دے رہا ہے۔ لہذا خود جسم اور جسم کا ہر بڑا یا چھوٹا یونٹ
(1) مادہ اور روح ہے۔
(2) روح کے ذریعے زندہ ہے۔
(3) روح کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔
(4) روح کی عدم موجودگی سے مردہ ہے۔
(5) ہر یونٹ اسی روح (انرجی) کی ایک (مادی) صورت ہے
یعنی درحقیقت خلیہ اور ہر یونٹ (چاہے وہ بڑا ہو یا انتہائی چھوٹا)فقط انرجی (روح) ہے۔
۱۰۔ جسم کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿77﴾۔ ﴿پورے جسم میں ایک ہی روح (Energy) ہے۔ ﴾
یہ بھی عجیب بات ہے کہ جسم کے ہر ذرے ہر عضو ہر چھوٹے بڑے یونٹ کے پاس اپنی اپنی انفرادی روح (حرکت و عمل کا پروگرام) ہے یعنی جسم کا ہر ذرہ اپنی انفرادی حیثیت، اپنا ذاتی حرکت و عمل کا پروگرام اپنی ذاتی زندگی اور اپنی انفرادی روح رکھتا ہے۔ اور جسم کے لا شمار ذروں میں تقسیم در تقسیم ہونے کے باوجود پورے جسم کی ایک ہی واحد روح ہے۔
یعنی جسم کا ہر یونٹ اپنی اپنی انفرادی روح بھی رکھتا ہے اور پورے جسم میں بھی ایک ہی روح (Energy) ہے۔
اور یہی پورے جسم کی "ایک روح” جسم کے ہر عضو ہر ذرے کو انفرادی روح ( زندگی، انرجی، حرکت و عمل کا پروگرام) بھی دے رہی ہے اور یہی روح ہر ذرے کی انفرادی روح میں تقسیم ہونے کے باوجود بھی واحد ہی ہے ناقابل تقسیم ہے۔ اور ہر حالت میں اپنی وحدانیت بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لہذا
(1) جسم کے ہر ذرے ہر یونٹ کے پاس انفرادی روح (Energy پروگرام) ہے۔
(2) پورے جسم میں بھی ایک ہی انفرادی واحد روح ہے۔
(3) یہی واحد روح جسم کے ہر یونٹ میں بھی ہر یونٹ کی انفرادی روح (انرجی، پروگرام) کی صورت میں بھی موجود ہے۔
۱۱۔ روح کا مرکز
نظریہ نمبر:۔ ﴿78﴾۔ ﴿جسم میں روح کا مرکز دل ہے۔ ﴾
یا یوں کہنا درست ہو گا کہ جسم کے ہر یونٹ میں روح کا "ہر مرکز ” ( ہر دل) ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے "روح” ، "ہر مرکز” اور "ہر دل” کا جاننا ضروری۔ (اگرچہ ہم اس کی مسلسل وضاحت کر آئے ہیں )۔
روح انرجی ہے۔
ہر مرکز۔ ہر مرکز سے مراد جسم کے ہر چھوٹے بڑے یونٹ کا درمیان یا اس کا مرکز ہے۔
ہر دل۔ اور ہر یونٹ کا مرکز ہی در اصل جسم کے ہر چھوٹے بڑے یونٹ کا دل ہے۔
جسم کے ہر یونٹ کے ہر مرکز کو یہاں ہم نے ہر دل کہا ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے ہر چھوٹے سے چھوٹے یونٹ کے مرکز میں روح (Energy) ہے
یعنی جسم کا ہر چھوٹے سے چھوٹا یونٹ مادہ (جسم) اور روح (Energy) پر مشتمل ہے۔
لہذا جسم کے ہر یونٹ کے مرکز میں روح (Energy) ہے۔ لہذا جسم میں روح کا ہر مرکز اپنی جگہ دل ہے۔
صرف جسم کے ہر مرکز میں ہی دل نہیں ہے بلکہ مجموعی جسم کا مرکز بھی دل ہی ہے۔
اور پورے مجموعی جسم میں روح کا مرکز وہ دل ہے جو سینے کے بائیں جانب دھڑک رہا ہے۔ اور یہ مجموعی جسم کا دل تمام مرکزوں کا مرکز ہے۔ یعنی جسم میں اور جسم کے ہر مرکز کو سپلائی ہو رہی انرجی (روح) کا مین پاور اسٹیشن یا مرکز یہی دل ہے یہیں سے انرجی ( روح) تمام جسم کے تمام تر مراکز(تمام دل) کو سپلائی ہو رہی ہے۔
لہذا جسم میں روح (Energy) کا مرکز یہی مرکزی دل ہے۔ جو جسم کے ہر مرکز کا مرکز ہے۔ یعنی جسم کے ہر یونٹ کے مرکز کا مرکز دل ہے اور دل روح کا مرکز ہے۔
سادہ الفاظ میں یوں کہنا ہو گا کہ جسم کے ہر ذرے میں روح ہے اور جسم کے ہر ذرے کی روح کا مرکز دل ہے یعنی دل وہ پاور اسٹیشن ہے جہاں سے انرجی جسم کے ہر یونٹ کے مرکز کو سپلائی ہو رہی ہے۔ یہ روح جس کا مرکز دل ہے اگرچہ روح کا مرکز دل ہے لیکن جسم کے ہر ذرے کے مرکز یا دل میں موجود روح اپنے مرکز(دل) میں نہیں ہے۔ جسم کے ہر ذرے میں موجود روح جسم میں ہے ہی نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جسم کے ہر ذرے کے مرکز میں موجود روح خود کہاں ہے۔
۱۲۔ جسم کی روح خود کہاں ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿79﴾۔ ﴿پورے جسم کے اندر ہر خلیے ہر ذرے میں موجود روح جسم میں نہیں ہے بلکہ جسم سے باہر ہے۔﴾
اگرچہ روح کا مرکز دل ہے لیکن روح دل میں نہیں ہے۔ اگرچہ پورے جسم میں ہر جگہ ہر خلیے ہریونٹ کے مرکز میں روح (Energy) اور اس کا پروگرام موجود ہے اور ہر خلیہ ہر عضو روح کے اسی پروگرام پر عمل پیرا ہے لیکن یہ جسم کی روح جسم میں ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود بذات خود جسم کے اندر نہیں ہے بلکہ یہ جسم سے باہر ہے۔ یہ بھی شائد عجیب اور سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ روح جسم کے ہر یونٹ میں موجود بھی ہے لیکن جسم کے باہر بھی ہے۔ یعنی روح خود تو جسم کے باہر ہے لیکن اس کی انرجی اس کا پروگرام جسم کے ہر گوشے میں موجود ہے۔ اس کی مثال بجلی کے نظام کی سی ہے۔ مثلاً
سارے گھر میں بجلی دوڑ رہی ہے گھر کے اندر کی ہر شے اسی بجلی سے متحرک ہے فریج کے اندر بھی بجلی ہے پنکھے اور ٹی وی میں بھی لیکن ہر شے میں موجود بجلی کہیں باہر سے آ رہی ہے مین بورڈ بھی اس کا منبع نہیں ہے بلکہ گھرکے اندر دوڑنے والی بجلی کہیں باہر سے آ رہی ہے۔
لہذا جسم کے اندر دوڑنے والی بجلی جسم کے ہر عضو ہر یونٹ میں موجود بجلی (روح) بھی دراصل باہر سے آ رہی ہے۔ اگرچہ جسم میں اس کا مرکز دل ہے لیکن اس مرکز میں روح خود موجود نہیں بلکہ
روح جسم میں نہیں روح جسم کے باہر ہے۔
۱۳۔ انسان کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿80﴾۔ ﴿کائنات کے ہر انسان کے پاس اپنی انفرادی روح ہے ﴾
دنیا میں اربوں انسان ہیں۔ ہر انسان کے اندر انفرادی روح ہے۔ مثلاً جو روح (Energy) میرے یعنی "روبینہ نازلی” کے جسم میں ہے وہ روح (Energy) میرے جسم اور حرکت و عمل کا ایک مکمل پروگرام ہے ایک مکمل مقداری فارمولہ ہے۔
میرے اندر یہ روح یہ انرجی ایک انفرادی مقداری فارمولہ ہے۔ اتنی مقدار کا اور ایسا ہی مقداری فارمولہ یا حرکت و عمل کا پروگرام کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
کسی بھی رابعہ رضوی یا سلیم یا درخت یا پہاڑ کا مقداری فارمولہ "روبینہ نازلی” کے مقداری فارمولے سے مختلف مقداری فارمولہ ہے۔
ان فارمولوں میں چاہے تھوڑا ہی فرق ہو لیکن فرق ضرور ہے۔ اور یہی مقداری فرق انفرادیت پیدا کر رہا ہے روبینہ نازلی یا رابعہ رضوی میں۔ یا مرد اور عورت میں انفرادیت بھی اسی فارمولے کے فرق سے ظاہر ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ اسی فرق کے سبب جڑواں بچوں میں حد درجہ مماثلت کے باوجود انفرادیت برقرار رہتی ہے
اگر ہر وجود کے مقداری فارمولے میں یہ فرق نہ ہو تو دو انسانوں میں ہم فرق نہیں کر سکتے یا دو جنسوں میں فرق کرنا ممکن نہ رہے یا درخت اور پہاڑ کو الگ سے شناخت کرنا دشوار ہو۔ لہذا ہر وجود ایک مکمل اور منفرد فارمولہ ہے۔
اور ہر فارمولے کی انرجی (روح) کی مقدار میں واضع فرق ہے۔ لہذا کائنات کے ہر شخص کی روح واحد اور منفرد روح ہے۔
۱۴۔ تمام انسانوں کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿81﴾۔ ﴿تمام انسانوں میں ایک ہی روح (Energy) ہے۔ ﴾
اگرچہ ہر انسان کے پاس انفرادی روح ہے اور ہر روح ایک الگ اور منفرد مقداری فارمولہ ہے اور ہر مقدار ہمیشہ اپنی انفرادیت اور وحدانیت برقرار رکھتی ہے
پھر بھی ہر جسم کی انفرادی روح اور ہر جسم کے ہر یونٹ کی انفرادی روح میں تقسیم در تقسیم ہونے کے باوجود تمام انسانوں میں فقط ایک ہی روح (Energy)ہے۔ اور یہ ایک ہی روح ہر حیثیت میں اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے یعنی۔
(1) تمام انسانوں کی روح بھی واحد ہے۔
(2) ہر جسم کی روح بھی واحد ہے۔
(3) جسم کے ہر ذرے کی روح بھی واحد ہے۔
(4) یعنی ایک ہی روح تمام انسانوں کی ہر انفرادی روح کی صورت میں بھی موجود ہے اور ہر ذرے کی انفرادی روح کی صورت میں بھی موجود ہے۔
۱۵۔ کائنات کی روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿82﴾۔ ﴿پوری کائنات یا کائناتوں کی ایک ہی روح (Energy) ہے۔ ﴾
اگرچہ جسم کے ہر یونٹ کے پاس انفرادی روح (Energy)ہے اور ہر جسم کی بھی اپنی انفرادی روح (Energy)ہے اور تمام انسانوں کی بھی ایک ہی روح (Energy)ہے اور پوری کائنات کی بھی ایک ہی روح (Energy)ہے۔
ہر جسم کی انفرادی روح اور جسم کے ہر یونٹ کی انفرادی روح اور کائناتوں کی روح میں تقسیم در تقسیم ہونے کے باوجود کائنات کی روح واحد ہے۔
کائنات اور اس کا ہر ذرہ وہ بڑے سے بڑا وجود ہو یا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ تمام میں ایک ہی روح (Energy)ہے۔ اور ہر ذرے کی روح منفرد روح ہے اور ہر حالت میں اپنی انفرادیت اور اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے۔ اور ہر ذرے کی وحدانیت اور انفرادیت برقرار رہنے کے باوجود اور انرجی تقسیم در تقسیم ہونے کے باوجود اجتماعی حیثیت میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھتی ہے۔ یعنی
(1) جسم کے ہر ذرے کی روح(Energy) بھی واحد ہے۔
(2) ہر جسم کی روح(Energy) بھی واحد ہے۔
(3) تمام انسانوں میں بھی ایک ہی واحد روح (Energy)ہے۔
(4) کائنات کے ہر وجود میں واحد روح (Energy)ہے۔
(5) پوری کائنات میں ایک ہی روح(Energy) ہے ، اور یہ پوری روح واحد ہے۔
لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ انسان میں کوئی اور روح(Energy) ہے جانور میں کوئی اور روح (Energy)درخت میں کوئی اور یا انسانوں کی روح اعلی ہے اور حیوانات میں کوئی کمتر روح ہے۔ ہر وجود میں ایک ہی روح((Energyہے ہاں لیکن ہر وجود کی روح (Energy)کی مقدار میں فرق ہے ہر وجود کی روح (Energy)کی مرکب حالت میں فرق ہے۔ ہر وجود کا پروگرام منفرد اور مختلف پروگرام ہے۔ اور اسی انفرادیت کی وجہ سے کائنات کا ہر وجود دوسرے سے مختلف ہے منفرد ہے۔ انسانوں کا پروگرام منفرد ہے درختوں کا الگ، جانوروں کا الگ لہذا کائنات کا ہر وجود اسی انفرادی پروگرام کی وجہ سے منفرد ہے۔ لہذا ایک ہی روح (Energy)مختلف اور منفرد موجودات کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
ایک ہی روح (Energy)پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی صورت میں موجود ہے کیسے؟
۱۶۔ روح کا منبع
نظریہ نمبر:۔ ﴿83﴾۔ ﴿روح کا منبع پاور اسٹیشن ہے۔ ﴾
یہ ہمارے جسم کی روح جو جسم کے ہر یونٹ میں بھی ہے دل میں بھی ہے اور جسم کے باہر بھی ہر جگہ موجود ہے اس روح کا منبع ایک مین پاور اسٹیشن ہے۔
جیسے گھر کے اندر بجلی ہر شے کے اندر ہے یہ بجلی مین بورڈ سے نہیں پھوٹ رہی بلکہ کہیں باہر تاروں کھمبوں کے ذریعے گھر میں آ رہی ہے۔ تاریں کھمبے بھی اس بجلی کا منبع نہیں بلکہ یہ بجلی کہیں مین پاور اسٹیشن سے آ رہی ہے یہی مین پاور اسٹیشن اس بجلی کا منبع ہے۔
اسی طرح روح کا منبع بھی ایک مین پاور اسٹیشن ہے۔
۱۷۔ واحد روح
نظریہ نمبر:۔ ﴿84﴾۔ ﴿ کائنات کے ہر وجود کی روح واحد (Energy)(نا قا بل تقسیم)ہے۔ ﴾
نظریہ نمبر۔ ﴿85﴾۔ ﴿پوری کائنات میں بھی ایک ہی روح (Energy)ہے۔ انرجی اجتماعی حیثیت میں بھی واحد ہے۔﴾
﴿روح (Energy)اجتماعی حیثیت میں بھی واحد ہے اور کائنات کی تمامتر موجودات میں منقسم ہونے کے باوجود بھی اپنی وحدانیت برقرار رکھتی ہے۔ ﴾
ایک ہی روح یا واحد روح کائنات کی واحد روح کیسے ہر ذرے کی حیثیت میں بھی واحد ہے اور اجتماعی حیثیت میں بھی واحد ہے اب ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
روح کی تعریف میں ہم یہ بتا آئے ہیں کہ روح انرجی ہے توانائی ہے۔ اور یہ توانائی (Energy) واحد ہے۔
یہ توانائی مرکب نہیں ہے۔
اس انرجی کے علاوہ توانائی کی جتنی بھی اقسام سے ہم واقف ہیں وہ مرکب توانائیاں ہیں۔ لہذا کائنات کا ہر وجود اسی واحد انرجی کے مرکبات کا مجموعہ ہے۔
فقط کائنات کی یہ اصل "انرجی” (روح) ہی غیر مرکب ہے۔ یعنی پوری کائنات میں ایک ہی انرجی ہے۔ یہاں ہم نے انرجی کی دو حیثیتوں کا تذکرہ کیا ہے
(1) اجتماعی حیثیت
(2) انفرادی حیثیت
(1) اجتماعی حیثیت: انرجی اجتماعی حیثیت میں بھی واحد ہے۔ لہذا پوری کائنات میں ایک ہی روح (Energy)ہے۔
(2) انفرادی حیثیت: ہر ذرے میں انفرادی روح ہے ہر ذرہ اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے اور یہ وحدانیت کہیں نہیں ٹوٹتی اسی انفرادیت کے سبب ہم مرد عورت، درخت، پہاڑ غرض کائنات کی ہر شے کو انفرادی حیثیت میں شناخت کرتے ہیں۔
یعنی ایک ہی روح مختلف مقداروں میں منقسم بھی ہے ، مختلف مقداروں میں مرکب بھی ہے پھر بھی تقسیم در تقسیم ہونے کے باوجود ہر وجود میں بھی واحد ہے اور اجتماعی حیثیت میں بھی واحد ہے یعنی روح (Energy) کی وحدانیت انفرادی یا اجتماعی کسی حیثیت میں نہیں ٹوٹتی۔
یہ شائد نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ہم اس کی وضاحت ایک سادہ سی مثال سے کرتے ہیں۔
ہمارے گھر میں بجلی آ رہی ہے پورے گھر میں دوڑ رہی ہے گھر کی ہر شے فریج پنکھے ، ٹی وی وغیرہ سب اسی بجلی سے چل رہے ہیں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بلب میں کوئی اور بجلی ہے اور ٹی وی میں کوئی اور ایک ہی بجلی ہر وجود میں مختلف مقداروں میں موجود ہے (اسی طرح ایک ہی روح جسم کے ہر ذرے میں موجودہ ہے )۔
یہ بجلی تاروں کھمبوں کے ذریعے ہمارے گھر میں دوڑ رہی ہے۔ یہ تاریں اور کھمبے بھی بجلی کا منبع نہیں بلکہ یہ کہیں مین پاور اسٹیشن سے آ رہی ہے۔ یعنی مین پاور اسٹیشن سے لیکر ہمارے گھر تک جو بجلی کا سلسلہ ہے وہ تمام ایک ہی سلسلہ ہے یوں نہیں کہ کھمبوں میں کوئی اور بجلی مین پاور اسٹیشن میں کوئی اور گھر میں کوئی اور ہے بلکہ بجلی ایک ہی ہے اور یہ تسلسل کہیں ٹوٹا نہیں لہذا ایک ہی بجلی ہر وجود میں مختلف مقدار میں موجود بھی ہے اور مختلف قسم کی موجودات کو حرکت میں بھی رکھے ہوئے ہے۔
بالکل ایسا ہی تسلسل ہے کائنات میں کائناتی انرجی(روح) کا لہذا ایک ہی مین پاور اسٹیشن سے ایک ہی انرجی(روح) پوری کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کو مختلف مقداروں میں میسر آ رہی ہے نہ کم نہ زیادہ۔
اور یہ تسلسل برقرار ہے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی لہذا
(1) واحد روح (یا ایک ہی انرجی(Energy))۔
(2) ہر وجود میں انفرادی حیثیت میں بھی موجود ہے۔
(3) اور اجتماعی حیثیت میں اپنی واحدانیت بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
۱۸۔ روح کہاں ہے ؟
نظریہ نمبر:۔ ﴿86﴾۔ ﴿روح بیک وقت ہر جگہ موجود ہے۔ ﴾
یہ روح (Energy)خالق کائنات کا حکم ہے اور اسی حکم سے تمام کائنات اور اس کی تمام تر موجودات مسلسل متحرک ہیں۔ یہ حکم انرجی ہے یہ انرجی حرکت و عمل کا پروگرام ہے اسی حکم انرجی یا روح سے
ہر وجود اسی روح (Energy)سے وجود ہے۔
ہر وجود اسی روح (Energy)سے تخلیق ہو رہا ہے۔
ہر وجود اس کی عدم موجودگی سے فنا ہو رہا ہے۔
ہر وجود اسی روح (Energy)سے زندہ ہے۔
ہر وجود اسی روح(Energy) سے متحرک ہے۔
ہر وجود اسی روح (Energy)کا ایک مقداری و مرکب فارمولہ ہے۔
یہی روح (Energy)مختلف مرکب حالتوں میں مختلف موجودات (وجود) ہے۔
یہ تمام موجودات جو انرجی ہی کی مختلف مرکب حالتیں ہیں یہ موجودات انرجی ہی کی ایک شکل (AURA) سے متحرک ہیں۔
خود کار مشینری روح (Energy)کے پروگرام سے متحرک ہے۔
نظام عصبی کو تحریک دینے والی روح (Energy)ہے۔
DNAکے پاس روح (Energy)کا پروگرام ہے۔
ہر خلیے میں روح(Energy) اور اس کا پروگرام موجود ہے۔
AURA میں بھی روح (Energy)ہے۔
دو خلیوں کو مرکب کر کے جسم بنانے والی روح (Energy)ہے۔
جسم کے ہر جوڑ ہر خلیے میں روح (Energy)اور اس کا پروگرام ہے۔
روح (Energy)ہی کے پروگرام سے جسم کو جسمانی اعمال کی ہدایات وصول ہو رہی ہیں جس سے جسمانی عمل کی عملی صورت ظاہر ہو رہی ہے۔
جب روح ((Energyخود ہی خود سے مرکب ہو کر مختلف روپ دھارتی ہے تو مختلف موجودات کی صورت میں ظاہر ہوئی جس کو کبھی ہم مادہ کہتے ہیں کبھی پلازمہ، کبھی گیس، کبھی پانی، کبھی ہوا، کبھی آگ، کبھی درخت، کبھی پہاڑ، کبھی صحرا، کبھی دریا، کبھی جانور، کبھی انسان۔ جب یہ موجودات انرجی کے خارج ہونے سے فنا ہو جاتی ہیں یا جب انرجی یہ مرکب حالت چھوڑ دیتی ہے تو یہ موجودات فنا ہو جاتی ہیں تو فقط پیور انرجی باقی رہ جاتی ہے اور یہی پیور انرجی ہی حقیقت ہے باقی تمام موجودات مفروضے ہیں۔
لہذا روح خالق کائنات کا حکم ہے یہ حکم حرکت کا منظم و مسلسل پروگرام ہے اور اسی روح سے مرکب تمام موجودات اسی حکم کے منظم پروگرام پر عمل پیرا ہیں لہذا ہر وجود کی موجودگی، حرکت و عمل، زندگی، ارادی و غیر ارادی اعمال کا منبع یہی روح ہے۔
لہذا روح (Energy)جسم تخلیق کر رہی ہے۔ جسمانی مشینری کو چلا رہی ہے۔ اسی روح (Energy)کے جسم میں ہونے کو ہم زندگی کہتے ہیں اور اسی روح (Energy)کے جسم میں نہ ہونے کو ہم موت کہتے ہیں، اسی روح (Energy)کی تخلیق کو ہم جسم کہتے ہیں اور اسی روح (Energy)کے نہ ہونے سے اسی جسم یا انسان کا کہیں نشان بھی باقی نہیں بچتا۔ یعنی خود جسم انرجی کی ایک ہیت ایک مظاہرہ یا انرجی کا ایک مرکب ہے۔ یعنی جسم انرجی ہے درحقیقت۔ (یعنی رب کا حکم)
کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان واحد انرجی کے مختلف مظاہرے ہیں کائنات کی واحد حقیقت انرجی ہے جو رب کا حکم ہے۔
یعنی کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان خالق کا حکم (پروگرام، انرجی)ہے۔
۱۹۔ روح کائنات سے مربوط ہے
نظریہ نمبر﴿87﴾۔ ﴿روح پوری کائنات سے مسلسل مربوط ہے۔ ﴾
پاور اسٹیشن کی انرجی نزول کر رہی ہے یہی انرجی مختلف موجودات کی شکل دھار رہی ہے یہی انرجی ہر وجود میں مختلف مقدار میں موجود ہے یعنی ہر وجود میں پاور اسٹیشن سے ہر لمحہ مربوط ہے۔
جیسے بجلی مین پاور اسٹیشن سے کھمبوں تاروں کے طویل سلسلے سے ہوتی ہوئی ہمارے گھر تک پہنچ رہی ہے اور پورے گھر میں روشنی ہے فریج ٹی وی، بلب غرض گھر کی ہر شے اسی سے چل رہی ہے متحرک ہے۔ یعنی بلب جو روشن ہے اس میں بجلی مین پاور اسٹیشن سے آ رہی ہے۔ یعنی یہ بلب مین پاور اسٹیشن کی بجلی سے روشن ہے لیکن یہ بجلی کے تمام تر وسیع سلسلے سے مربوط بھی ہے ایسا نہیں ہے کہ گھر میں فقط بلب مین پاور اسٹیشن کی بجلی سے روشن ہے ، ایسا نہیں ہے ریفریجریٹر کسی اور ذریعے سے متحرک ہے بلکہ جو بجلی بلب میں ہے وہی ٹی وی میں بھی ہے ، اسی سے ریفریجریٹر چل رہا ہے وہی بجلی پنکھے میں ہے وہی تاروں اور کھمبوں میں ہے ہر وجود اسی بجلی کے سلسلے کا تسلسل ہے۔
لہذا روح جو کہ بذات خود انرجی ہے اور یہ روح پاور اسٹیشن کے طویل سلسلے سے مربوط ہے روح کائنات کے ہر وجود سے مربوط ہے۔ پاور اسٹیشن کی انرجی نزول کر کے ایک طویل سلسلے کے تحت ہر وجود تک پہنچ رہی ہے اور کائنات کاہر وجود بشمول انسان انرجی کے اس تسلسل سے مسلسل مربوط ہے۔
۲۰۔ واحد حقیقت
نظریہ نمبر۔ ﴿88﴾۔ لہٰذا ا کائنات اور اس کی تمامتر تخلیقات( موجودات بشمول انسان ) کی ایک ہی حقیقت ایک ہی اصل ہے اور وہ ہے انرجی(Energy)(روح یا رب کا حکم)۔ ﴾
کائنات کا ہر وجود اسی انرجی (Energy)کی مختلف شکلیں یا مرکبات ہیں۔
ہر وجود انرجی (Energy)کے ایک ہی تسلسل کا حصہ ہے اور اس سے مسلسل مربوط ہے۔
روح(Energy) ہر لمحہ کائناتی اجسام تخلیق کر رہی ہے۔
مادی جسم بھی روح(رب کا حکم(پروگرام) کی تخلیق ہے۔
یعنی کائنات اور کائنات کی تمام تر موجودات رب کا حکم(پروگرام) ہیں۔ اسی حکم پر عمل پیرا اور اس سے مسلسل مربوط ہیں۔
کائنات کی اصل کائنات کی واحد حقیقت کائنات کا تخلیقی مادہ واحد انرجی (Energy)ہے جو رب کا حکم ہے یعنی
جو کچھ بھی موجود ہے یا وجود رکھتا ہے سب رب کا حکم(پروگرام) ہے
ابتدا میں پیدائش کے عنوان کے ساتھ ہم نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مادر رحم میں نطفہ نہیں بلکہ روح جسم تخلیق کر رہی ہے اب یہاں تک پہنچ کر ہم اس نظریے کی تفصیلاً وضاحت کر چکے ہیں۔ تخلیق کے عنوان سے یہ وضاحت تو ہم کر آئے ہیں کہ رحم مادر میں پورا انسان خود بخود یا محض نطفے سے نہیں بلکہ روح کے پروگرام کے عین مطابق ترتیب پا رہا ہے۔ اب یہاں ہم یہ وضاحت کریں گے کہ روح کا یہ پروگرام کیا ہے اور کیسے روح کے پروگرام کے مطابق جسم ترتیب و تخلیق پا رہا ہے۔
۲۱۔ جسمانی ساخت
نظریہ نمبر:۔ ﴿89﴾۔ ﴿پیدائش کے عمل میں جسمانی ساخت روح کے دو پروگراموں سے ترتیب پا رہی ہے۔ ﴾
(1) موروثی پروگرام۔
(2) ذاتی پروگرام۔
لہذا اب ہم یہاں یہ وضاحت کریں گے کہ روح کا یہ پروگرام (جسمانی ترتیب کا فارمولہ)دو حصوں پر مشتمل ہے۔ لہذا پیدائش کے عمل میں رحم مادر میں جسمانی ساخت روح کے پروگرام سے تو ترتیب پا رہی ہے اور یہ روح کا پروگرام دو حصوں پر مشتمل ہے۔
جسمانی ساخت سے ہماری مراد مادی جسم یا پوری جسمانی شخصیت ہے جس میں جنس کا تعین، قد کاٹھ، رنگ و روپ اس کے علاوہ عادات و اطوار کردار وغیرہ یعنی پوری انسانی شخصیت
یہ جسمانی ساخت ہر شخص کی مختلف ہے۔ اگرچہ دنیا میں اربوں انسان ہیں لیکن ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے حالانکہ سب انسان ہیں اور ایک جیسے جسم رکھتے ہیں لیکن ایک ہی طرز کے تمام اجسام ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اور ہر انسان میں یہ اختلاف اور انفرادیت پیدائش کے عمل میں ہی مکمل ہو جاتی ہے آئیے دیکھتے ہیں کے ہر انسان کے اندر پیدائش کے عمل میں یہ انفرادیت کیسے جنم لے رہی ہے۔ جسمانی پیدائش کا عمل نو ماہ کے عرصے پر مشتمل ہے اور یہ نو ماہ کا عرصہ دو ادوار پر مشتمل ہے لہذا انسانی جسم کی تیاری کا عمل روح کے دو مختلف پروگراموں سے ترتیب پا رہا ہے۔ اور یہی روح کے دو مختلف پروگرام ہر انسان کو مختلف بنا رہے ہیں۔
(۱)۔ موروثی پروگرام
نظریہ نمبر:۔ ﴿90﴾۔ ﴿120دن تک بچے کا جسم موروثی پروگرام (روح) سے ترتیب پاتا ہے۔ ﴾
اسی موروثی پروگرام کے تحت انسان وراثتی خصوصیات رکھتا ہے اور اسی روح کے موروثی پروگرام کے تحت ہر انسان نسل در نسل انسان ہے۔
یہ موروثی پروگرام بچے کے والدین کا پروگرام ہے جو والدین کے جراثیم سے بچے میں منتقل ہو رہا ہے۔ ماں اور باپ دونوں کے جراثیم اپنی اپنی انفرادی روح (انرجی، پروگرام ) رکھتے ہیں۔
لہذا یہ جراثیم یکجا ہو کر جسم کی ترتیب کا کام شروع کرتے ہیں تو یہ کام ماں اور باپ کے پروگراموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لہذا موروثی پروگرام میں نطفے کی کارکردگی نمایاں ہے اور یہ نطفہ اپنا کام کر رہا ہے ماں باپ کے روح کے پروگراموں پر۔ اور ماں اور باپ کے جراثیموں کے ذریعے بچے کے اندر ماں اور باپ کی وراثت منتقل ہو رہی ہے۔ اور ماں کے شکم کے ذریعے یہ وراثت نسل در نسل منتقل ہوتی ہی چلی آ رہی ہے۔ لہذا
وراثتی نوعی قانون
نظریہ نمبر:۔ ﴿91﴾۔ ﴿پیدائشی وراثت پہلی ماں کی کوکھ سے منتقل ہو رہی ہے اور آخری انسان تک منتقل ہو گی﴾
لہذا یہ موروثی خصوصیات کا پروگرام ماں کی کوکھ سے ہر انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ موروثی پروگرام کائنات کی پہلی ماں سے چلا ہے اور آخری انسان تک منتقل ہو گا – اور اسی نسل در نسل وراثتی منتقلی کا نتیجہ ہے کہ
(1) ہر انسان دوسرے انسان کی طرح انسان ہی ہوتا ہے لہذا ابتدا کا انسان بھی ویسا ہی انسان تھا جیسا کہ آج کا انسان ( ابتداء کا انسان حیوان تھا یا انسان کا بتدریج ارتقاء ہوا یہ نظریہ ہر قسم کے نوعی قانون کے خلاف ہے )۔
(2) اسی وراثتی منتقلی کی وجہ سے انسان اپنے والدین سے مشابہت رکھتا ہے۔
(3) اسی وراثتی منتقلی کی وجہ سے انسان اپنے خاندان سے مشابہت رکھتا ہے۔
(4) اسی وراثتی منتقلی کے سبب سے انسانوں میں تقاضے مشترک ہیں۔
لہذا وراثتی منتقلی کے سبب ہی انسان کی جسمانی ساخت چال ڈھال، انداز، کردار اس کے آباء و اجداد سے مشابہ ہوتے ہیں۔ دراصل یہ موروثی پروگرام ابتداء کے انسان یا پہلی ماں سے چل رہا ہے اور انتہا کے انسان تک منتقل ہو گا یعنی یہ موروثی پروگرام ماں کے پیٹ سے نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ لہذا موروثی قانون کے مطابق
کائنات کا پہلا انسان بھی آج کے انسان جیسا انسان ہی تھا اور تمام انسان ایک ہی جوڑے کی نسل ہیں اور یہ نوعی تسلسل آخری انسان تک منتقل ہو گا
لہذا رحم مادر میں پیدائش کے ابتدائی 120 دن ہر انسان کا جسم اسی نسل در نسل موروثی پروگرام یعنی والدین کے جراثیم سے ترتیب پاتا ہے۔
۲۔ ذاتی پروگرام
نظریہ نمبر:۔ ﴿92﴾۔ ﴿120 دن بعد رحم مادر میں بچے کے جسم کو ذاتی پروگرام (روح) مل جاتا ہے۔ یعنی باقی 150 دن بچے کا جسم اپنے ذاتی پروگرام(اپنی روح) سے ترتیب پاتا ہے۔ ﴾
لہذا 120 دن بعد بچے کا جسم اسی ذاتی پروگرام (روح ) سے ترتیب پاتا ہے۔ ذاتی پروگرام انسان کی ذاتی شخصی انفرادیت کا پروگرام ہے لہذا رحم مادر میں باقی کے 150 دن جسم اسی ذاتی پروگرام(اپنی روح) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی ذاتی پروگرام کی وجہ سے۔
ایک انسان تمام انسانوں کی طرح ہونے کے باوجود اپنا انفرادی تشخص رکھتا ہے۔
ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے اس کی ذات، صفات، شکل، رنگ و روپ، قد کاٹھ، کالا گورا، کردار غرض ہر شے دوسرے انسان سے مختلف اور منفرد ہوتی ہے اسی انفرادیت کے سبب ہم ہر انسان کو دوسرے انسان سے امتیازی حیثیت میں شناخت کرتے ہیں ہر انسان میں انفرادیت روح کے ذاتی پروگرام یا ذاتی روح سے آتی ہے۔
جنس۔ جنس کا تعین بھی روح کے پروگرام کے مطابق ہوتا ہے۔ جو روح کا پروگرام ہو گا وہی جنس تخلیقی تکمیل تک پہنچے گی یعنی مرد ہو یا عورت مکمل مرد یا مکمل عورت نامکمل مرد یا نا مکمل عورت۔
ادھورا یا پورا زندہ یا مردہ، گورا یا کالا، لمبا یا چھوٹا، خوبصورت یا بدصورت۔ ان سب باتوں کا تعین روح کے پروگرام سے ہوتا ہے۔
نطفے کی کارکردگی یا وراثتی اضافے کے ساتھ جیسا روح کا پروگرام ہو گا ویسی ہی صورت تخلیقی عمل سے گزر کر سامنے آئے گی اور یہ روح خالق کا علم یا حکم ہے۔ یعنی جو خالق کا حکم ہو گا وہی صورت ہو گی۔ یعنی خالق نے جو کینوس پہ رنگ بکھیرے وہی تصویر ابھری۔ جو خالق نے چاہا اور جیسا چاہا ویسی ہی تخلیق سامنے آتی ہے۔
لہذا ہر انسان کی جسمانی شخصیت دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ اپنی شخصیت میں اپنے آباؤ اجداد سے بھی مشابہت رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ اربوں انسانوں کے درمیان اپنی انفرادیت بھی برقرار رکھتا ہے یعنی اپنی انفرادی شخصیت کا مالک بھی ہوتا ہے۔
لہذا موروثی خصوصیات نطفے (موروثی پروگرام) کے ذریعے اس میں منتقل ہوتی ہیں اور ذاتی خصوصیات ذاتی روح کے ذریعے۔ یوں روح کے دو پروگراموں سے انسان کی شخصیت اور اس کی ظاہری جسمانی ساخت ترتیب پاجاتی ہے۔
تخلیقی خلاصہ
یہاں ہم تذکرہ کر رہے ہیں رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کے عمل کا لہذا ہم نے پیدائش کے عنوان کی ابتدا کرتے ہوئے مادی جسم کے پیدائشی فار مولے کے جو چار نکات پیش کیئے تھے اس میں سے ایک نکتہ تخلیق کی اب یہاں وضاحت مکمل ہوئی یہاں مادی جسم کی پیدائش کے حوالے سے ہم نے یہ وضاحت کی ہے کہ مادی جسم کے سب سے چھوٹے ذرے سے لے کر پورے وجود تک تخلیقی عمل سر انجام دے رہی ہے روح یعنی روح مادی جسم تخلیق کر رہی ہے۔ ماں کی کوکھ میں مادی جسم کس فارمولے کے تحت ترتیب پا رہا ہے اب اس فارمولے کے ایک مرحلے تخلیق کی وضاحت تو ہو گئی لہذا اب ہم اس پیدائشی فارمولے کے دوسرے نکتے یا مرحلے کی وضاحت کرتے ہیں تناسب کے عنوان سے۔
(2) ۔ تناسب
رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کا دوسرا مرحلہ ہے تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿93﴾۔ ﴿ رحم مادر میں پیدائش کے ہر مرحلے میں مادی جسم میں توازن اور تناسب قائم کر رہی ہے روح۔﴾
جسمانی مشینری انتہائی پیچیدہ مشینری ہے اس کے باوجود متوازن ہے۔ پیدائش کے ہر مرحلے میں مادی جسم میں توازن اور تناسب قائم کر رہی ہے روح
اربوں انسان ہیں ہزاروں پیدا ہو رہے ہیں۔ ہر ہر پیدا ہونے والا ایک مخصوص طریقے اور ترتیب سے پیدا ہو رہا ہے اور جسم کو بہت ہی مناسب انداز میں ترتیب دے رہی ہے روح۔ اور ایسے ترتیب دے رہی ہے کہ اربوں انسان پیدا ہو چکے ہیں جو سارے کے سارے انسان ہیں ایک جیسے بھی ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور متناسب بھی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جسمانی مشینری کو روح کیسے متوازن اور متناسب کر رہی ہے۔ روح جسم کو ہزا رہا طریقے سے متناسب بنا رہی ہے جن میں سے کچھ کا یہاں ہم تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۔ خلیوں میں تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿94﴾۔ ﴿ خلیوں کو بڑے تناسب سے بلڈنگ بلاکس کی طرح ترتیب دے رہی ہے روح۔ ﴾
اگرچہ کروڑوں خلیوں سے جسم بنا ہے یہ تو سب جانتے ہیں مگر ابتداء میں محض ایک جرثومے سے آغاز ہوتا ہے۔ پھر ماں اور باپ کے جرثومے مل کر بچے کے جسم کا آغاز کرتے ہیں۔ اور ان جرثوموں کو بلڈنگ بلاکس کی طرح جسمانی صورت میں تخلیق و ترتیب دے رہی ہے روح یہ ایک سے دو۔ دو سے چار بڑھ رہے ہیں پھیل رہے ہیں ترتیب پا رہے ہیں روح کے پروگرام کے عین مطابق۔ یعنی خلیوں کے تناسب کا پروگرام دے رہی ہے روح، خلیوں کو متناسب کر رہی ہے روح۔ سائنسدانوں کے مطابق خلیے جسم ترتیب دے رہے ہیں
جی ہاں خلیے ہی بلڈنگ بلاکس کی طرح جسم ترتیب دے رہے ہیں لیکن یہ کام وہ خود بخود نہیں کر رہے بلکہ خلیے جسم ترتیب دے رہے ہیں روح کے پروگرام کے عین مطابق
۲۔ اعضا ء کا تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿95﴾۔ ﴿اعضاء کو متناسب کر رہی ہے روح﴾
اعضاء چھوٹے بڑے نہیں ہیں۔ کم یا زیادہ نہیں ہیں۔ اربوں انسان ہیں ہر انسان میں یہ اعضاء موجود ہیں ہر عضو کی مخصوص ساخت اور خصوصیات ہیں ہر عضو اپنی جگہ صحیح اور فٹ بیٹھا ہے۔ ہر عضو کو جسم کی عین مناسبت سے ترتیب دے رہی ہے روح۔
لہذا اعضاء ایک دوسرے سے ہم آہنگ بھی ہیں اور اپنا اپنا انفرادی کام بھی جانتے ہیں۔
مثلاً دل جگر گردے ہر عضو کی مخصوص ساخت ہے ہر عضو کا اپنا مخصوص کام ہے ہر عضو معتدل ہے اپنے کام میں یہ نہیں ہے کہ دل اپنی رفتار سے زیادہ دھڑک رہا ہے یا گردے باقی جسم کے مقابلے میں کم کام کر رہے ہیں۔ ہر عضو پوری جسمانی مطابقت کے مطابق ٹھیک ترتیب پا رپا ہے کام کر رہا ہے اور اعضاء میں یہ ہم آہنگی اور تناسب پیدا کر رہی ہے روح۔ ہر عضو کو انفرادی ترتیب بھی دے رہی ہے اپنا انفرادی کام بھی سمجھا رہی ہے اور تمام اعضاء کو جسمانی مناسبت سے بھی متوازن رکھے ہوئے ہے۔ لہذا ہر عضو جسم کی عین مناسبت سے بالکل صحیح ہے اپنی جگہ فٹ ہے۔ لہذا اعضاء کو صحیح تناسب سے ترتیب دے رہی ہے روح۔
۳۔ جسمانی نظام میں تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿96﴾۔ ﴿جسمانی نظام میں تناسب پیدا کر رہی ہے روح﴾
انسانی جسم ایک انتہائی پیچیدہ مشینری ہے اور اس پیچیدہ مشینری کا اندرونی و بیرونی نظام انتہائی متناسب ہے کوئی بدنظمی کوئی بے قاعدگی نہیں ہر عضو اپنا مخصوص کام سرانجام دے رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کھانے کا عمل تو واقع ہو گیا نظام انہضام بند ہے یا دوران خون کام نہیں کر رہا یا گردے اپنے کام سے کوتاہی کر رہے ہیں، یا ہاتھ بے مقصد ہلے جا رہے ہیں، یا منہ چلے جا رہا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ ہر اندرونی و بیرونی عضو ہر وقت اپنے مخصوص کام میں مصروف ہے اور جسم کا ہر کام بڑے موقع کی مناسبت سے اپنے وقت پر پروگرام کے عین مطابق انجام پا رہا ہے۔
اور دنیا کی یہ سب سے پیچیدہ مشینری خودکار ہے کیونکہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ اسے کوئی چلا نہیں رہا بلکہ یہ خود چل رہی ہے۔ جب کہ ایسا ہے نہیں بلکہ اس خود کار مشینری کو روح چلا رہی ہے یہ جسمانی مشینری خود کار طریقے سے کام کر رہی ہے روح کے پروگرام پر جیسے کمپیوٹر اپنے مخصوص پروگرام پر خودکار کام کرتا ہے۔ اور روح خالق کا حکم ہے لہذا خالق خود اس مشینری کو چلانے اور متحرک کرنے والے ہیں لہذا بظاہر خود کار نظر آنے والا پورا اندرونی و بیرونی جسمانی نظام روح کے پروگرام کے عین مطابق انتہائی متوازن اور متناسب ہے۔ جسمانی انتہائی پیچیدہ مشینری میں اس نظام کو قائم کر رہی ہے روح۔ اور جسمانی نظام میں اس تناسب کو برقرار بھی رکھے ہوئے ہے روح۔
لہذا جسم کا ہر چھوٹے سے چھوٹا یونٹ انفرادی طور پر بھی منظم ہے اور اجتماعی حیثیت میں بھی منظم ہے اور پیدائشی مراحل میں ہر جسم کے اندر یہ تناسب پیدا کر رہی ہے روح۔
۴۔ جسمانی ساخت میں تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿97﴾۔ ﴿ ہر جسم میں انفرادی تناسب قائم کر رہی ہے روح﴾
دنیا میں اربوں انسان ہیں سب کے تقریباً ایک ہی نوعیت کے اجسام ہیں۔ اجسام کی مشینری، اعضاء اجزائے ترکیب سب ایک ہی جیسے ہیں لیکن تناسب کا اتنا حسین امتزاج ہے اجزائے ترکیبی کا وہ فارمولہ ہے کہ ہم ہر جسم کو الگ سے شناخت کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ تمام جسم ایک جیسی مشینری ہونے کی وجہ سے گڈمڈ ہو رہے ہیں۔ ایک جیسی مشینری ہونے کے باوجود ہر وجود دوسرے سے الگ ہے ہم ہر وجود کو دوسرے سے الگ شناخت کرتے ہیں۔ یہ مرد ہے یہ عورت، یہ احمد ہے یہ مریم جب کہ اگر انسان ایک جیسی مشینریاں بنائے تو ایک جیسی لاتعداد مشینریوں میں سے ہر ایک کو علیحدہ شناخت کرنا ناممکن ہے جب کہ اربوں اجسام میں انفرادی تناسب قائم کر رہی ہے روح جو کہ رب کا حکم ہے ! لہذا انسان یہ نہیں کر سکتا جب کہ خالق نے یہ خصوصیت محض اپنی مشینری انسان میں رکھی ہے۔
۵۔ انواع میں تناسب
نظریہ نمبر:۔ ﴿98﴾۔ ﴿انواع میں تناسب قائم کر رہی ہے روح جو رب کا حکم ہے یعنی انواع میں تناسب قائم کیا ہے خالق نے ﴾
دنیا میں اور کائنات میں بے شمار موجودات لاتعداد انواع ہیں سب کا نظام الگ اور متناسب ہے ہر نوع اپنا انفرادی نظام رکھتی ہے لہذا انسان کے انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے اور شیر کے شیر کا اور درخت کے بیج سے درخت اگتا ہے۔ اور ہر نوع کا نظام انتہائی متناسب ہے۔ اور انواع میں تناسب قائم کر رہی ہے روح۔
جسمانی ساخت میں بھی یہی حد درجہ کا تناسب قائم ہے جس کی وجہ سے انسان تمام انواع میں منفرد ہے۔
اپنی ذاتی حیثیت میں منفرد ہے۔
ہر عضو منفرد اور متناسب ہے۔
جسمانی نظام میں تناسب قائم ہے۔
اور ہر انسان متوازن و مناسب بالکل ٹھیک پورا انسان ہے۔
مادی جسم کو منفرد بنانے کے لئے ہزار ہا قسم کے تناسب قائم کر رہی ہے روح۔ جن میں سے چند کا یہاں ہم نے تذکرہ کر دیا لہذا مادی جسم میں پیدائش کے دوسرے مرحلے میں روح جسم میں تناسب قائم کر رہی ہے اس کی تو وضاحت ہو گئی اب مادی جسم کی پیدائش کا تیسرا مرحلہ ہے تقدیر۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رحم مادر میں مادی جسم کی پیدائش کے تیسرے مرحلے میں روح تقدیر کے عنوان سے کیا کر رہی ہے۔
(3) ۔ تقدیر
ہر کام مقرر تقدیر ہے
مادی جسم کی پیدائش کا تیسرا مر حلہ ہے تقدیر
۱۔ تقدیر کیا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿99﴾۔ ﴿تقدیر کتاب زندگی ہے جس میں انسان کی پوری زندگی درج ہے۔ (روح کی ایک صورت یہی مرتب شدہ کتاب ہے ﴾
( ہم روح کی تعریف میں یہ وضاحت کر آئے ہیں کہ روح زندگی ہے انرجی ہے ، حکم ہے، اور مرتب پروگرام بھی ہے اور روح کے اسی مرتب پروگرام کو یہاں ہم نے تقدیر کہا ہے اور اب یہاں ہم روح کی ایک اور خصوصیت یعنی تقدیر(مرتب پروگرام) کی وضاحت کریں گے کہ کیسے مادی جسم کے پیدائشی مراحل میں روح کا یہ مرتب پروگرام یعنی تقدیر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے اپنے اندر اس کے ہر جینز ہر یونٹ میں لکھا ہوا ہے۔ جیسے کمپیوٹر خود بخود کام کرتا ہے لیکن اپنے اندر درج پروگرام(ہارڈ ڈسک) کے عین مطابق یعنی کمپیوٹر میں پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے مطابق کام کرتا ہے انسان کے پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے اسی پروگرام کی وجہ سے انسان کے اندر خود کار حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔
لہذا رحم مادر میں آغاز پیدائش کے 120 دن بعد نئے تشکیل پانے والے جسم کے ہر یونٹ کو یہ تحریری پروگرام (تقدیر)یعنی ذاتی جسمانی تعمیر اور ذاتی حرکت و عمل کا پروگرام مل جاتا ہے
یہ تحریری پروگرام روح کے ذریعے پورے جسم کو وصول ہوتا ہے اور اسی روح کے ذریعے جسم کے ہر یونٹ کو اس کی حرکت و عمل کا مکمل پروگرام وصول ہو جاتا ہے یہی پورے جسم اور جسم کے ہر یونٹ کی حرکت و عمل کا تحریری پروگرام جو ہر یونٹ کے مرکز میں تحریر ہے۔ یہی تقدیر ہے۔
120 دن تک تو جسم نطفے سے پرورش پاتا رہا یعنی ماں اور باپ کے جرثوموں سے لہذا 120 دن تک تو جسم والدین کے جرثوموں کے پروگراموں کے مطابق ترتیب پاتا رہا۔
لیکن 120 دن بعد زیر تعمیر جسم کو اپنا ذاتی تعمیر کا پروگرام یعنی تقدیر مل گئی ہے۔ اب اس کا باقی جسم اسی اپنے ذاتی پروگرام سے ترتیب پائے گا۔
اور یہی ذاتی پروگرام اس انسان کے اندر( اربوں انسانوں کے درمیان) انفرادیت پیدا کرے گا۔
لیکن کتابِ زندگی محض جسمانی ترتیب کا پروگرام ہی نہیں ہے بلکہ یہ کتاب انسان کی پوری زندگی کی کہانی(مسودہ) ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کتابِ زندگی(تقدیر) میں جسمانی ترتیب کے پروگرام کے علاوہ کیا کیا لکھا ہے۔ تقدیر کتاب زندگی یعنی ایک تحریر تو ہے لیکن اس مرتب کتا ب میں کیا لکھا ہے۔
۲۔ تقدیر میں کیا تحریر ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿100﴾۔ ﴿یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ان چار ابواب کے عنوانات درج ذیل ہیں۔
(۱)عمل
(۲)رزق
(۳)عمر
(۴)انجام
لہذا کتاب تقدیر میں ان چار عنوانات چار ابواب کے تحت تحریری مواد موجود ہے۔ ﴾
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان چار عنوانات کے تحت چار ابواب کے اندر کیا تحریر ہے۔ لہذا تقدیر کا پہلا باب ہے عمل آئیے دیکھتے ہیں اس باب میں عمل کے عنوان کے ساتھ کیا تحریر ہے
(1) عمل
نظریہ نمبر:۔ ﴿101﴾۔ ﴿کتاب زندگی (تقدیر)میں انسان کا ہر عمل لکھا ہوا(ریکارڈ) ہے۔ ﴾
ماں کے رحم میں ۱۲۰ دن کے بعد سے لے کر موت تک انسان نے جو بھی حرکت اور جو بھی عمل کرنا ہے وہ تمام پروگرام اس کتاب زندگی میں تحریر ہے۔ جو چاہے اپنی روح کی آنکھ سے پڑھ لے۔
لہذا 120 دن بعد جب رحم مادر میں بچے کے جسم میں روح داخل ہوتی ہے تو اس کا باقی جسم اسی ذاتی تحریر سے تشکیل پاتا ہے۔ اس تعمیر کا سارا پروگرام اور پوری زندگی کی جسمانی حرکت و عمل کا پروگرام تقدیر میں درج ہے۔
ہاتھ ہلانا ہے ، چلنا ہے ، بیٹھنا ہے ، کھانا ہے ، سونا ہے ، جاگنا ہے۔ غرض ماں کے رحم میں ۱۲۰ دن کے بعد سے لے کر موت تک انسان جو بھی حرکت اور جو بھی عمل کرتا ہے وہ اس کتاب زندگی میں تحریر ہے۔ 120 دن بعد رحم مادر میں بچے کے جسم میں روح داخل ہوتے ہی ہاتھوں پیروں کی حرکت شروع ہو جاتی ہے لہذا رحم مادر میں ہی بچہ سننے چونکنے اور محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسا وہ غیر ارادی طور پر کرتا ہے اور بچے کی یہ غیر ارادی حرکت و عمل کتاب زندگی میں لکھی تحریر کی وجہ سے ہے لہذا پوری زندگی انسان اسی پروگرام کے مطابق ارادی و غیر ارادی حرکت و عمل کرتا ہے۔ انسان کی پوری زندگی کا ہر عمل و حرکت کتاب زندگی میں تحریر ہے اور اس تحریر کے ذریعے جسمانی عمل کیسے واقع ہو رہا ہے یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے لہذا جسمانی عمل کیسے واقع ہو رہا ہے اس کا ذکر آگے آئے گا۔
ابھی جسمانی تعمیر کا فارمولہ مکمل نہیں ہوا لہذا جب ہم مکمل فارمولے سے آگاہی حاصل کر لیں گے تبھی ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ کتاب زندگی یعنی تقدیر میں درج تحریر کے ذریعے کیسے ذاتی جسمانی عمل واقع ہو رہا ہے۔ فی الحال ہمیں یہ جاننا ہے کہ کتاب زندگی میں کیا کیا لکھا ہے۔
(۲)رزق
نظریہ نمبر:۔ ﴿102﴾۔ ﴿انسان کا رزق بھی تقدیر میں لکھا ہے۔ ﴾
یعنی ہر انسان کا مخصوص رزق اس کی تقدیر میں لکھا ہے۔ یہ رزق کتنا ہے کہاں سے ملے گا کب ملے گا سب لکھا ہے۔ حتی کہ رزق پہ بھی لکھا ہے کہ اسے فلاں کھائے گا اور اس فلاں کے علاوہ اس کو کوئی دوسرا کھا نہیں سکتا۔ اب اسی لکھے ہوئے کے مطابق انسان اپنے رزق کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی کو کم ملے گا کسی کو زیادہ یہ ہے رزق کے مالک کی منصفانہ تقسیم اور کائنات کے کاروبار کو چلانے کا منفرد طریقہ۔ لہذا اسی انفرادی تقسیم سے کوئی امیر ہے کوئی غریب کوئی فقیر ہے کوئی بادشاہ غرض زندگی کا ہر چھوٹا بڑا کاروبار چل رہا ہے۔ اگر یہ منصفانہ تقسیم نہ ہو تو کاروبار حیات نہ چلے۔ ہر شخص کا مخصوص رزق اس کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ لیکن اس کو حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً ایک بیت المال ہے جہاں ہر شخص کے نام کا رزق پڑا ہے تو انسان کوشش کرے اور جا کر اپنا رزق وصول کر لے۔
کچھ لوگ تھوڑی سی کوشش سے اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں کچھ زیادہ کوشش کر کے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ وہ زیادہ کوشش زیادہ حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں لیکن زیادہ نہیں پا سکتے کیونکہ ہر شخص امیر بننا چاہتا ہے مگر باوجود کوشش کے ہر شخص امیر نہیں ہو سکتا ایسے دنیا کا کاروبار نہیں چل سکتا لہذا زیادہ کوشش سے بھی انسان اپنا حصہ ہی وصول کرتا ہے لہذا دنیا کے سارے کام چھوڑ کر صرف رزق کے پیچھے بھاگنا بھی عقل مندی نہیں ہے۔ لیکن بعض ایسے کاہل ہوتے ہیں کہ اپنا حصہ بھی وصول نہیں کرتے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہی بیٹھے رہتے ہیں لہذا ایسے فقیروں کا حصہ کوئی اﷲ کا بندہ بھیک کی صورت میں ان کی جھولی میں ہی ڈال جاتا ہے لیکن یہ بات اچھی نہیں یہ قابل شرم بات ہے انسان کو حتی المقدور کوشش تو کرنی ہی چاہیے تاکہ وہ اپنی روزی با عزت طریقے سے حاصل کر سکے۔
بعض دفعہ بعض مہربان لوگ اپنے حصے کے رزق سے زیادہ پا لیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں لہذا اضافی رزق دراصل ان لوگوں کا رزق ہے جو دوسروں کی مدد پر صرف کرتے ہیں یعنی دوسروں کے کام آ کر ان کی مدد کر کے انسان اضافی رزق پا سکتا ہے۔ یعنی دوسروں کا رزق جو وہ اپنے ہاتھوں سے ان میں تقسیم کرتا ہے۔
رزق لکھا ہوا ہوتا ہے وہ مل ہی جائے گا اور جتنا لکھا ہے اتنا ہی ملے گا۔ لیکن مختلف لوگ اپنے ہی رزق کو دو مختلف طریقوں سے حاصل کرتے ہیں۔ کچھ صحیح طریقوں سے کوشش کرتے ہیں تو کچھ لوگوں کی کوشش غلط ہوتی ہے۔
لہذا صحیح کوشش سے اپنی قسمت کے رزق کو کچھ لوگ حلال رزق میں بدل لیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ غلط طریقے اختیار کر کے اپنی قسمت کے رزق کو حرام کر لیتے ہیں۔ لہذا اپنا مقدر اپنا رزق بھیک میں نہ مانگیئے نہ ہی اس کے حصول کے لئے 24 گھنٹے دیوانے بنے رہیئے۔ دنیا میں اور بھی مفید کام ہیں۔
لہذا رزق تقدیر میں لکھا ہے اسے حاصل کیجئے مثبت کوشش سے کم وقت میں اگر رزق میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے جیسے دوسرے غریب انسانوں کی مدد کیجئے۔
(۳)عمر
نظریہ نمبر:۔ ﴿103﴾۔ ﴿کتابِ زندگی کے کل صفحات تقدیر میں تحریر ہیں۔ ﴾
ماں کے پیٹ سے زندگی کے اختتام تک کتنی عمر ہے یہ تقدیر میں تحریر ہے۔ ﴾
انسان کی زندگی ایک کتاب یا ایک فلم کی مانند ہے چھوٹی کتاب ہے یا موٹی ایک گھنٹے کی فل ہے یا تین گھنٹے کی۔ اور انسان اسی مقرر فلم یا کتاب( تقدیر) کے مطابق مقرر زندگی گزارتا ہے۔ اور جب یہ کتاب ختم ہو جاتی ہے تو زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔
اسی طرح انسانی زندگی کسی کتاب یا فلم کی مانند ہے ہر انسان کی کتاب کے صفحات تقدیر میں تحریر ہیں ہر انسان کی زندگی کی فلم کے گھنٹے تقدیر میں درج ہیں۔ کوئی لمبی عمر کا ہے تو کوئی چھوٹی عمر کا۔ لہذا ہر دن زندگی کی کتاب کے یہ صفحے پلٹتے ہیں اور انسان ان صفحات پے لکھی اپنی زندگی اپنی تقدیر اپنی مرضی سے جیتا ہے اور بلآخر یہ کتاب زندگی ایک دن ختم ہو جاتی ہے اور جب تقدیر کی یہ تحریر ختم ہوتی ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ہر دن یہ صفحات نہ پلٹیں انسان کو زندگی گزارنے کا یہ مرتب پروگرام نہ ملے تو انسان کے اندر کسی بھی حرکت و عمل کا پیدا ہو نا محال ہے۔ یہ پروگرام انسان کو ملتا ہے تو وہ اس پروگرام میں رد و بدل کر کے اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ہے۔ انسان یہ کتاب (تقدیر) خود نہیں لکھتا بلکہ اسی خالق کی ودیعت کردہ کتابِ زندگی کے مسودے میں ترمیم و اضافہ کرتا ہے۔
لہذا خالق کی ودیعت کردہ یہ کتاب زندگی کسی کی مختصر ہے تو وہ جوانی میں ہی مر جاتا ہے کوئی ساٹھ ستر یا سو سال اور بعض تو دو سو سال کی عمر بھی پا لیتے ہیں اور پچھلے زمانوں میں تو لوگ ہزاروں برس کے ہوتے تھے۔
لہذا جتنی عمر کتاب زندگی میں درج ہے اتنی ہی انسان کی عمر ہے۔ کتاب میں جتنے صفحات ہیں اتنے ہی انسان ماہ و سال دنیا میں بسر کرے گا۔ جب انسان کی زندگی کی یہ تحریر ختم ہو جاتی ہے تو انسان کی زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے کتابِ زندگی کے اوراق میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ یعنی تقدیر میں اس کی واپسی کا ٹائم بھی تحریر ہے۔ لہذا نسان ایک مخصوص مدت کی پہلے سے مقرر کردہ زندگی جیتا ہے۔ لہذا ماں کے پیٹ سے زندگی کے اختتام تک کی تمام کتاب تقدیر میں تحریر ہے اور جب یہ تحریر ختم ہو جاتی ہے تو انسان کی زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔
(۴)انجام
نظریہ نمبر:۔ ﴿104﴾۔ ﴿انسان کے اپنے اندر اس کی تقدیر میں اس کا انجام بھی لکھا ہوا موجود ہے۔ ﴾
چونکہ انسان خالق کی تخلیق خالق کا علم ہے لہذا خالق یقیناً جانتا ہے کہ ہر شخص ذاتی ارادے سے کیا کیا عمل کرے گا لہذا انسان کے خالق نے انسان کے اندر اس کا انجام بھی لکھ دیا۔
جب کہ انسان کا علم ابھی اس حد تک نہیں پہنچا کہ وہ اپنے ہی ارادوں کو جان لے۔ انسان اس انجام کو اپنے ذاتی ارادوں سے پہنچتا ہے انسان کو ہر عمل کی مثبت اطلاع ملتی ہے لیکن وہ اس اطلاع پر عمل ذاتی ارادے سے کرتا ہے۔ (جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا عمل کے عنوان سے )
اگر انسان کی پوری زندگی کے مجموعی اعمال برے ہیں تو وہ برا انسان ہے لہذا اس کا انجام بھی بد ہے۔
زندگی میں زیادہ اچھے عمل کرنے والے کا انجام یہ ہوا کہ وہ پاس ہے وہ اچھا انسان ہے۔ پاس یا فیل یہی نتیجہ، نتیجہ آنے سے پہلے ہی لکھا ہے تقدیر میں۔
اور یہ نتیجہ امتحانِ زندگی سے پہلے لکھا ہے خالق نے اپنے علم سے اس لئے کہ وہ ہر شخص کو اور اس کے ذاتی عمل کو (جسے خود ہر شخص نہیں جانتا) پہلے سے جانتا ہے۔
اور یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ خالق اس لئے سب کچھ جانتا ہے کہ سب کچھ اسی کا ہے اسی نے سب کچھ پیدا کیا ہے۔ تو جس نے پیدا کیا، جس کی ملکیت ہے وہ کیوں نہ جانے۔ درحقیقت تمام موجودات اور مخلوقات خالق ہی کا علم ہیں۔
۳۔ تقدیر کے دو حصے
نظریہ نمبر:۔ ﴿105﴾۔ ﴿تقدیر انسان کی پوری زندگی کی مرتب کتاب تو ہے لیکن انسان اس تحریر شدہ کتاب کا پابند نہیں ہاں اس پوری کتاب میں درج چند قوانین کا وہ پابند ہے۔ ﴾
جس طرح ریاست میں انسان اپنی مرضی سے رہتا ہے وہ کسی کا پابند نہیں ہوتا لیکن ریاست میں اپنی مرضی سے رہنے بسنے کی باوجود اس پر کچھ ریاستی قوانین لاگو ہوتے ہیں جن کی اسے پابندی کرنا ہوتی ہے مثلاً وہ کسی کو قتل نہیں کر سکتا، کسی کی چیز نہیں چھین سکتا یعنی ریاست کے قوانین کا وہ پابند ہے لیکن قوانین کی پابندی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ریاست کا غلام یا پابند ہے یا اس کی پوری زندگی اسی پابندی پر مشتمل ہے۔ یہ پابندی محض چند ضروری قوانین تک محدود ہے وہ بھی ریاست کے نظم و ضبط کے قیام کے لئے اس ریاست میں انسان پوری طرح آزاد ہے۔
اسی طرح انسان کے اندر جو تحریر (تقدیر) ہے وہ اس کا پابند نہیں لیکن کچھ قوانین ہیں جو اس پہ لاگو آتے ہیں جن کا وہ پابند ہے۔ لہذا اسی ترتیب سے تقدیر (کتاب زندگی) کے دو حصے ہیں۔
(۱) مرتب پروگرام (۲) لازمی قوانین
(1) مرتب پروگرام
نظریہ نمبر:۔ ﴿106﴾۔ ﴿تقدیر انسان کی پوری زندگی کی تحریری کتاب ہے جس میں انسان کی پوری زندگی تحریر ہے لیکن انسان اس کا پابند نہیں ہے ﴾
انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے اپنے اندر اس کے ہر جینز ہر یونٹ میں لکھا ہوا ہے۔ جیسے کمپیوٹر میں پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے مطابق کام کرتا ہے انسان کے پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے اسی پروگرام کی وجہ سے انسان کے اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔
مثلاً تقدیر میں تحریر ہے کہ
دوپہر کو ایک بجے بھوک لگے گی لہذا کھانا کھانا چاہیئے اسی تقدیر میں لکھے کے مطابق دوپہر کو ایک بجے بھوک لگے گی اور کھانے کی خواہش بیدار ہو گی۔ اب انسان اپنی تقدیر میں لکھے اس پہلے سے ترتیب شدہ پلان کا پابند نہیں انسان اپنی مرضی کا مالک ہے لہذا چاہے توا س ترتیب شدہ پلان کی ترتیب بدل دے یعنی ایک بجے کھانا نہ کھائے یا کھانے کے بجائے کچھ اور کھا لے یا کھائے ہی نہ۔ لہذا ہو گا وہی جوا نسان کی مرضی ہے۔
لہذا انسان کی مرضی وہ تقدیر کی فطری پروگرام پر عمل کر لے یعنی ایک بجے کھانا کھا لے
اس کی مرضی تقدیر کے اس مرتب پروگرام میں رد و بدل کر لے یا اس پہ عمل ہی نہ کرے۔
اگر انسان اپنی مرضی سے اسی تقدیری پروگرام پر عمل کرتا ہے تو یہ فطری طرز زندگی ہے یہ عمل صحیح ہے اگر اس کے مدمقابل کوئی دوسرا مثبت عمل کرتا ہے تو وہ بھی صحیح ہے۔ لیکن اس تقدیری پروگرام پر عمل درآمد کے لئے وہ کوئی منفی طریقہ اختیار کرتا ہے تو یہ غیر فطری طرز عمل ہے۔ جو غلط ہے۔ لہذا انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پورا پروگرام تو اس کے اندر تحریر ہے لیکن انسان اس تحریر کا پابند نہیں بلکہ انسان عمل کے لئے آزاد ہے۔
۲۔ لازمی قوانین
نظریہ نمبر:۔ ﴿107﴾۔ ﴿انسان عمل کے لئے آزاد ہے تو تقدیر میں تحریر چند قوانین کا پابند بھی ہے۔ ﴾
جن میں سے چند کا یہاں ہم ذکر کرتے ہیں۔
(i) جسمانی ساخت: رحم مادر میں جیسا بھی انسانی جسم تیار ہوتا ہے یہ محض انسان کی تقدیر ہے، رنگ، قد کاٹھ، دل گردے ان کے کام جیسے بھی ہیں یہ انسان کی تقدیر ہے لہذا انسان ذاتی ارادے سے خود اپنی شخصیت میں ترمیم و اضافہ نہیں کر سکتا۔
انسانی ارادے کے بغیر مرد یا عورت کا فرق یعنی جنس کا تعین تخلیقی عمل کے دوران ہوتا ہے کسی عضو میں کمی پیشی بھی ہو سکتی ہے عموماً ٹھیک مرد اور ٹھیک عورت پیدا ہوتے ہیں لیکن کوئی جنسی معذوری بھی ہو جاتی ہے ، جسم میں کوئی کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے ، کوئی کالا ہوتا ہے کوئی گورا، کوئی موٹا کوئی پتلا، کوئی اندھا کوئی لنگڑا کوئی پیدائش کے وقت ہی مر جاتا ہے کوئی لمبی عمر جیتا ہے۔ یہ سب تقدیر کا پروگرام ہے جو تقدیر کی صورت میں تحریر ہے جو خالق کا حکم ہے۔
(نوٹ:۔ اگرچہ آجکل جنیٹک کے ماہرین جینز کو الٹ پلٹ کر کتاب زندگی کی ترتیب بدل دیتے ہیں لیکن اس سے کچھ زیادہ مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکتے )۔
(ii) خود کار مشینری:۔ جسمانی مشینری خودکار سسٹم کے تحت متحرک ہے اور اس مشینری کے پاس اور مشینری کے ہر عضو ہر یونٹ کے پاس تحریری پروگرام موجود ہے لہذا ہر عضو اسی تقدیر کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اسی پروگرام کی وجہ سے انسان کے اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔
لہذا اس جسمانی سسٹم میں انسانی ارادے کا عمل دخل نہیں بلکہ یہ روح کا تقدیری پروگرام ہے لہذا ہر یونٹ اپنے تحریری پروگرام کا پابند ہے۔ اور جسم کا خود کار اندرونی سسٹم کتاب تقدیر کے عین مطابق ہے۔ لہذا تقدیر روح کا تحریری پروگرام ہے جو خالق کا حکم ہے اسی سے یہ خود کار مشینری متحرک ہے اسی حکم سے بند ہو گی نہ کہ انسان کے ذاتی ارادہ سے۔
کچھ مزید قوانین
بعض جگہ انسان تقدیر کے کڑے قوانین کی زد میں ہے مثلاً موت زندگی یہ انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ نہ مرے یا پیدا ہی نہ ہو یا جوانی میں نہ مرے یا سب لوگ امیر ہونا چاہتے ہیں یہ بھی ممکن نہیں بعض دفعہ ہزار کوشش کے بعد بھی انسان کے ہاتھ خالی رہتے ہیں۔ زمینی مادی قوانین کے مطابق تو جو کام جو کوشش کی ہے اس کا رزلٹ آنا چاہیے لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ پیدائش کے وقت، پیدائش کے بعد، عملی زندگی میں قدم قدم پہ ہمیں اسی اٹل تقدیر کا تجربہ ہوتا ہے جب ہم پوری پلاننگ پوری کوشش کے بعد بھی ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں جب وہ نہیں ہوتا جو ہم چاہتے ہیں ، یا ہم آئینہ دیکھ کر کہتے ہیں کہ مجھے ایسا نہیں ایسا ہونا چاہیے تھا ہمیں تقدیر کے اس اٹل تحریری پروگرام کا سامنا اکثر کرنا پڑتا ہے اور یہ تقدیر کے اٹل قوانین کائنات کے بیلنس سسٹم کا حصہ ہیں اگر سب کچھ انسان کی مرضی اس کے اختیار میں ہوتا تو شائد کائنات اتنے عرصے نہ چل سکتی جتنا کہ چل چکی ہے۔ دراصل ہمارا اور کائنات کا سسٹم کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور یہ اٹل قوانین کائنات کے توازن کے لئے ضروری ہیں۔
خلاصۂ تقدیر
خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا پروگرام اس کے اپنے اندر اس کے ہر جینز ہر یونٹ میں لکھا ہوا ہے۔ جیسے کمپیوٹر میں پروگرام ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے مطابق کام کرتا ہے انسان کے پاس بھی کمپیوٹر کی طرح حرکت و عمل کا پروگرام ہے اسی پروگرام کی وجہ سے انسان کے اندر حرکت و عمل کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن انسان عمل کے لئے اس پروگرام کا پابند نہیں بلکہ عمل کے لئے انسان آزاد ہے اور عمل انسان ذاتی ارادے سے کرتا ہے۔ لیکن انسان اپنی تقدیر میں تحریر کچھ قوانین کا پابند بھی ہے ان لازمی قوانین میں اس کے ذاتی ارادے کا عمل دخل نہیں ہے۔ یعنی انسان محض چند ضروری قوانین کا پابند ہے
لیکن انسان عمل ذاتی ارادے سے کرتا ہے انسان عمل کے لئے آزاد ہے۔
یہاں ہم مادی جسم کی پیدائش کے فارمولے کی وضاحت کر رہے ہیں لہذا اس فارمولے کے تین نکات تخلیق، تناسب، اور تقدیر کی تو یہاں وضاحت مکمل ہوئی اب اس فارمولے کا اگلا چوتھا مرحلہ ہے ہدایت۔
(۴)۔ ہدایت
بے شک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آئی(۲۳)۵۳
مادی جسم کی پیدائش کا چوتھا مرحلہ ہے ہدایت
۱۔ ہدایت کیا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿108﴾۔ ﴿اندر سے ایک آواز اٹھ رہی ہے جو ہر عمل کے لئے ہماری مثبت راہنمائی کرتی ہے۔ یہ” ہدایت” ہے۔ اور یہ ہدایت روح کی آواز ہے۔ ﴾
عموماً ہم اس اندر کی آواز کو "ضمیر کی آواز” کہتے ہیں لیکن اس اندر کی آواز کا اصل نام ” ہدایت ہے "۔
اچھے کام کی ترغیب، برے کام کی ممانعت اور برے عمل پر ملامت اسی آواز کی طرف سے ہے اور اسی کو کہتے ہیں ہدایت۔ اور انسان کو صحیح سمت کی طرف ہدایت دے رہی ہے روح۔ یعنی یہ آواز جسے ضمیر کی آواز کہہ دیا جاتا ہے دراصل روح کی مسلسل اور مثبت ہدایات ہیں۔ یہ روح کی ہدایات دراصل ہر عمل کے لیے مثبت ترغیبی پروگرام ہے۔
لہذا انسان اچھا یا برا عمل تو اپنی مرضی سے کر رہا ہے لیکن اس سے پہلے کہ انسان اپنی مرضی کا عمل کرے اندر کی یہ ہدایت انسان کی راہنمائی کر دیتی ہے کہ جو عمل وہ کرنے جا رہا ہے یہ اچھا عمل ہے یا برا۔ روح کی یہ ہدایت اچھے عمل کی ترغیب دیتی ہے تو برے عمل کے مضمرات بھی بیان کر دیتی ہے۔ لہذا اس ہدایت کی وجہ سے انسان یہ جانتا ہے کہ وہ جو عمل اپنی مرضی سے کرنے جا رہا ہے وہ اچھا ہے یا برا۔ لہذا انسان انجانے میں نہیں بلکہ اپنی مرضی سے جانتے بوجھتے اچھا یا برا عمل کرتا ہے۔ لہذا روح کی ہدایت نہ صرف اچھے برے عمل کی وضاحت کر رہی ہے بلکہ برائی کی مذمت اور غلط عمل پر ملامت بھی کرتی ہے لہذا یہ انسان کی ذاتی مرضی ہے۔
چاہے تو اس "ہدایت ” پر عمل کر کے اچھا عمل کر لے
چاہے تو اس "ہدایت” کو رد کر کے برا عمل کر لے۔ لہذا انسان اپنے اچھے برے عمل کا خود سو فیصد ذمہ دار ہے
۲۔ ہدایت کی دو صورتیں
نظریہ نمبر:۔ ﴿109﴾۔ ﴿ ہدایت کی دو صورتیں ہیں۔ ﴾
(1) باطنی ہدایات
(2) ظاہری ہدایات
(1) باطنی ہدایات
نظریہ نمبر:۔ ﴿110﴾۔ ﴿باطنی ہدایات انسان کو اپنے اندر روح کی آواز کے ذریعے مل رہی ہیں۔ ﴾
یہ مثبت ہدایات ہر عمل کی اطلاع کے ساتھ ہی موصول ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ انہیں مثبت ہدایات یعنی روح کی آواز کو ضمیر کی آواز کہا جاتا ہے۔ یہ روح کی ہدایات مثبت ہدایات ہیں انہی مثبت ہدایات پہ مبنی ہونا چاہیے ہمارا طرز زندگی تبھی ہمارا طرز عمل اور طرز زندگی درست طرز زندگی قرار پائے گا۔
لہذا اندر کی اس آواز کے ہوتے ہوئے انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تو غلط یا صحیح کا علم ہی نہیں تھا۔ اور میں نے بد عمل انجانے میں کئیے۔ کوئی مجھے بتانے والا نہیں تھا لہذا انسان کے اچھے برے عمل کی راہنمائی کے لئے روح کی ہدایات کے علاوہ ایک اور صورت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اور وہ صورت ہے ظاہری ہدایات۔
(2) ظاہری ہدایات
نظریہ نمبر:۔ ﴿111﴾۔ ﴿ ہر عمل کے لئے ہدایت کی ظاہری صورت ہے آسمانی کتابیں۔ ﴾
لہذا کونسا عمل اچھا ہے کونسا برا، کیا کام کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے اس کی مکمل ہدایات ہمارے پاس باقاعدہ تحریری طور پر آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ وہی خالق جو انسان کے اندر سے اس کی ہر عمل کے لئے رہنمائی کر رہا ہے اسی نے ظاہری صورت یعنی آسمانی کتابوں کے ذریعے بھی انسان کی رہنمائی کی ہے۔ یعنی آج ہر عمل کے لئے ہدایات (ہر قسم کی اچھائی برائی کی تفصیلات)ہمارے باطن میں ہدایات کی صورت میں بھی موجود ہیں اور ہمارے پاس آسمانی کتابوں کی صورت میں بھی یہ تحریر موجود ہے۔
ظاہری ہدایات دراصل باطنی ہدایات کی ظاہری شکل ہیں یعنی باطنی ہدایات روح (تقدیری ریکارڈ حرکت و عمل کا) ہیں تو ظاہری ہدایات جسم (آسمانی کتابیں ) ہیں۔
یعنی ہر عمل کی تقدیری اطلاع موصول ہونے کے ساتھ ہی اس اطلاع پر عمل درآمد کے لیے ہدایات موصول ہونے لگتی ہیں وہ ہدایات دو طرزوں میں ہمارے پاس موجود ہیں۔
(1) روح کی آواز (باطنی ہدایات)
(2) آسمانی کتابیں (ظاہری ہدایات)
انسان کے ذاتی ارادے سے کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے ہر عمل کی پوری تفصیلات (کہ یہ عمل اچھا ہے یا بُرا برا ہے تو اس کے کیا کیا مضمرات ہیں اچھا ہے تو اس کے کیا کیا فائدے ہیں )روح کی اس آواز یعنی ہدایات کے زریے انسان کو مل جاتی ہیں لہذا ان ہدایات کے آ جانے کے بعد انسان یہ بہانہ نہیں تراش سکتا کہ مجھے تو خبر ہی نہیں تھی اور یہ بُرا عمل مجھ سے انجانے میں ہو گیا اگر مجھے کوئی سمجھانے بتانے والا ہوتا تو میں یہ بُرا عمل نہ کرتاجب کہ سمجھانے اور بتانے والا خود اس کے اندر (جسے انسان نے ضمیر کا نام بھی دے رکھا ہے )سے اسے خبردار کر رہا ہے۔ لہذاہمارا طرز زندگی اور ہر عمل انہیں دو مثبت ہدایات میں سے کسی ایک ہدایت پہ مبنی ہونا چاہیے تبھی ہمارا طرز زندگی صحیح طرز زندگی ہو گا۔ اور اسی طرز زندگی میں توازن اور ترتیب ہو گی۔
۳۔ ہدایت اور تقدیر میں فرق
تقدیر۔ تقدیر انسانی زندگی کا مرتب پروگرام ہے جس میں انسان کی پوری زندگی کے ہر لمحے کی پوری تفصیلات مرتب ہیں اسی مرتب پروگرام سے ہر عمل کی اطلاع آتی ہے تو انسان اسی اطلاع میں اپنی مرضی سے ردو بدل کر کے عمل کرتا ہے
ہدایت۔ عمل کے لئے مرتب پروگرام (تقدیر)سے اطلاع آ جانے کے بعد اس اطلاع پر عمل درآمد کے لئے مثبت ترغیبی پروگرام بھی ملنے لگتا ہے یہ ہدایت ہے مثلاً
بھوک کی اطلاع تقدیری اطلاع ہے اور
کھانے کا عمل مثبت ہونا چاہیے یہ اطلاعات ہدایات ہیں۔ تقدیر انسان کی پوری زندگی کا مرتب پروگرام ہے جس پر انسان اپنی مرضی سے عمل کرتا ہے تو ہدایات ہر عمل کے لئے مثبت ترغیب ہے۔ اس کی مزید تفصیلی وضاحت عمل کے باب میں آگے آ رہی ہے۔
خلاصۂ پیدائش:
پچھلے صفحات میں میں نے مادی جسم کی پیدائش کا فارمولہ پیش کیا تھا لہذا پیدائشی فارمولے سے آغاز کر کے مسلسل وضاحت کے بعد اب جا کر اس مادی جسم کے پیدائشی فارمولے (تخلیق، تناسب، تقدیر، ہدایات) کی وضاحت مکمل ہوئی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
رحمِ مادر میں نطفے سے لے کر پیدائش تک جسم روح کے پروگرام کے عین مطابق تیار ہو رہا ہے۔
جسم کی تیاری کے بعد تیار جسم کے پاس اب پوری زندگی کی حرکت و عمل کا ا اپنا روح کا پروگرام موجود ہے۔ اور اب یہ نیا تیار انسان اسی روح کے پروگرام کے ذریعے پوری زندگی اپنی مرضی کی حرکت و عمل کرے گا۔
باب نمبر 7: حرکت
حرکت، حکم(مرتب پروگرام) ہے
وکان امر اللہ قدرا مقدورا
اور اللہ کا حکم مقرر تقدیر ہے (۳۸)(۳۳)
۸۳۔ حرکت
۸۴۔ غیر ارادی حرکات
۸۵۔ ارادی حرکات
83۔ حرکت
نظریہ نمبر۔ ﴿112﴾۔ ﴿انسان کی ہر حرکت روح کی اطلاعات کی بدولت ہے۔ ﴾
روح ایک مکمل مرتب پروگرام(تقدیر) ہے۔ اس مرتب پروگرام میں انسان کی ایک ایک حرکت تحریر ہے۔ اسی مرتب پروگرام سے ہر عمل کے لئے ہر حرکت کی اطلاع آتی ہے۔ اس اطلاع کے بعد ہی حرکت و عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر روح کے مرتب پروگرام سے حرکت کی اطلاع نہ آئے تو حرکت ممکن ہی نہیں۔
انسان دو طرح کی حرکات کر رہا ہے
(۱)۔ ارادی حرکات
(۲)۔ غیر ارادی حرکات
84۔ غیر ارادی حرکات
نظریہ نمبر۔ ﴿113﴾۔ ﴿ غیر ارادی حرکات روح کا مرتب پروگرام(تقدیر) ہیں۔ ﴾
ہر غیر ارادی حرکت روح کا مرتب پروگرام ہے۔ اور اسی مرتب پروگرام کے مطابق ہر غیر ارادی حرکت واقع ہو رہی ہے، جیسے کمپیوٹر یا روبوٹ میں پروگرام محفوظ ہوتا ہے اور وہ اسی پروگرام پہ کام کرتے ہیں بالکل اسی طرح انسان کے اندر بھی پروگرام محفوظ ہے اور انسان بھی اپنے اندر محفوظ پروگرام کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ لہذا غیر ارادی حرکات روح کے مرتب پروگرام کے عین مطابق ہیں۔
مادی جسم ایک انتہائی پیچیدہ اور مسلسل متحرک مشینری ہے۔ اگرچہ نیند اور بے ہوشی کی کیفیات میں بظاہر جسم بے حرکت نظر آتا ہے، لیکن ایسی ساکت حالتوں میں بھی جسم بے حرکت نہیں ہوتا بلکہ ان حالات میں بھی جسم کے اندر باہر مسلسل حرکت و عمل جاری ہوتا ہے اور جسم میں زندگی اور حرکت موجود رہتی ہے۔ کسی بھی حادثے، بیماری، بے ہوشی کی حالت میں جسم کی حرکت نہیں تھمتی، جسم ہر صورت میں متحرک رہتا ہے۔ فقط موت کی صورت میں جسم میں حرکت ختم ہوتی ہے موت کے علاوہ جسم چاہے برسوں کوما میں رہے یا نیند میں ہو با حرکت ہوتا ہے لہذا انسانی جسم مسلسل متحرک مشینری ہے اور اس مسلسل متحرک مشینری(مادی جسم) کی غیر ارادی حرکات روح کے مرتب پروگرام(تقدیر) کی بدولت ہیں۔ غیر ارادی حرکات کی چند صورتیں درج ذیل ہیں۔
خلیات کی حرکت
ہر خلیہ متحرک ہے، جاندار ہے، اپنا کام جانتا ہے، اپنا کام کر رہا ہے روح کے مرتب پروگرام(تقدیر) کے مطابق۔ یعنی کے ہر خلیہ کے پاس حرکت و عمل کے لئے روح کا پروگرام ہے
اعضاء کی حرکت
اعضاء انفرادی حیثیت میں بھی متحرک ہیں اپنا کام کر رہے ہیں، لہذا ہر عضو کا اپنا مخصوص و مقرر کام مخصوص حرکت مخصوص عمل ہے۔ لہذا دل ایک خاص و مقرر رفتار سے دھڑکتا ہے، گردے اپنا مقرر و مخصوص کام کرتے ہیں۔ لہذا ہر عضو کے پاس اپنا اپنا مقرر و مخصوص کام ہے اور ہر عضو کو اس کا انفرادی مقرر و مخصوص کام دے رہی ہے روح، لہذا روح کے مرتب پروگرام(تقدیر) پر جسم کے تمام اعضاء اپنا اپنا مقرر و مخصوص انفرادی کام سر انجام دے رہے ہیں۔ لہذا جسم کے ہر عضو کی انفرادی حرکت روح کا مرتب پروگرام ہے۔
جسم کی اجتماعی حرکت
جسم کا ہر خلیہ ہر یونٹ ہر عضو انفرادی حرکات(کام)کے علاوہ مجموعی طور پر بحیثیت جسم بھی متحرک ہیں۔ پوری جسمانی مشینری بحیثیت مجموعی جسم کے طور پر روح کے پروگرام کے عین مطابق منظم، مسلسل، متحرک ہے۔ لہذا جسمانی مشینری کی اندرونی غیر ارادی حرکات بھی روح کے مرتب پروگرام کے عین مطابق ہیں تو جسمانی مشینری کی بیرونی غیر ارادی حرکات بھی روح کے مرتب پروگرام کے عین مطابق ہیں۔
یوں نہیں ہے کہ اعضاء کی حرکت بے ترتیب ہے دل بے تحاشا دھڑک رہا ہے، منہ خود بخود ہلے جا رہا ہے یا ہاتھ بلا وجہ ہل رہے ہیں۔ جسمانی اعضاء کی اندرونی بیرونی غیر ارادی حرکات میں ترتیب و توازن روح کے مرتب پروگرام کی بدولت ہے۔
کبھی ہم فارغ بیٹھے ہوتے ہیں کبھی سو رہے ہوتے ہیں ان تمام کیفیات میں ہماری اندرونی و بیرونی جسمانی مشینری مسلسل متحرک ہوتی ہے۔
ہاتھوں پیروں میں حرکت ہے، کان، آنکھیں ، ناک سب متحرک اور جاندار ہیں، یعنی انسان کوئی ارادی حرکت نہ بھی کرے تب بھی جسم کے اندر باہر حرکت کا سلسلہ کسی وقت رکتا نہیں اور جسم کے اندر باہر حرکت کا یہ منظم تسلسل روح کے مرتب پروگرام کے عین مطابق ہے یعنی جسم جو خود کار مشینری کی طرح کام کر رہا ہے تو یہ خود کا ر مشینری کمپیوٹر کی طرح ایک پروگرام (روح)کے مطابق خود کار متحرک ہے۔ لہذا
انسانی جسم کی اندرونی بیرونی ہر غیر ارادی منظم و مسلسل حرکت روح کا مرتب پروگرام ہے۔
85۔ ارادی حرکات
نظریہ نمبر۔ ﴿114﴾۔ ﴿مادی جسم کی ارادی حرکات کی اطلاعات بھی روح کے مرتب پروگرام(تقدیر) سے موصول ہوتی ہیں لیکن ان اطلاعات پہ عمل درآمد نفس (AURA)کے پروگرام کے مطابق ہوتا ہے ﴾
یعنی روح کے مرتب پروگرام سے عمل کی اطلاع آ جانے کے بعد انسان اس اطلاع پہ اپنی مرضی سے رد و بدل کر کے عمل کرتا ہے یہ ارادی حرکات ہیں یعنی ارادی حرکات انسان اپنے ذاتی ارادے سے کر رہا ہے۔
چند مخصوص غیر ارادی حرکات کے علاوہ انسان کی پوری زندگی انہیں ارادی حرکات پر مشتمل ہوتی ہے۔ لہذا انسانی جسم کی حرکت کی ترتیب کچھ یوں بنی
غیر ارادی حرکات۔ روح کا مرتب پروگرام(تقدیر)جس سے جسمانی مشینری خود کار متحرک ہے
ارادی حرکات۔ ذاتی ارادہ(نفس کا فیصلہ)۔ ارادی حرکات کی اطلاعات بھی روح کی اطلاعات ہیں جن پہ عمل درآمد انسان اپنے ارادے سے کر رہا ہے۔
اب جسمانی مشینری کی حرکت و عمل کی ترتیب کچھ یوں بنی کہ
جسمانی مشینری جو روح کے مرتب پروگرام کے عین مطابق خودکار متحرک ہے اس متحرک اور با صلاحیت مشینری جسم کو نفس اپنے مقاصد کے لئے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے گا اور اس جسمانی مشینری سے اپنی مرضی کے اعمال سر انجام دے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ روح کے مرتب پروگرام کے عین مطابق متحرک و مستعد خودکار جسمانی مشینری سے نفس کیسے اپنی ذاتی مرضی کے ارادی اعمال سر انجام دے رہا ہے۔
اب ہم آگے ﴿عمل ﴾ کے عنوان سے جائزہ لیں گے کہ انسان اپنے خود کار متحرک جسم سے کیسے اپنی مرضی کے اعمال سر انجام دے رہا ہے۔
باب نمبر8 : عمل
عملوں کا دارومدار نیتوں (ذاتی ارادہ)پر ہے
1۔ عمل
2۔ عمل کیا ہے
3۔ عمل کیسے ظہور میں آ رہا ہے۔
4۔ عملی فارمولہ
۱۔ روح کی(مرتب تقدیر) اطلاع
۲۔ ہدایات
۳۔ منفی اطلاعات۔
۴۔ نفس (AURA) کا فیصلہ
۵۔ دماغ کا کام
۶۔ دماغ کا عمل
۷۔ جسمانی عمل درآمد
۸۔ عمل کے بعد
5۔ اعمال
6۔ ذاتی ارادہ
7۔ پابند مخلوقات و موجودات
8۔ اچھا یا برا عمل
9۔ اچھا عمل
10۔ بُرا عمل
11۔ عمل کا خلاصہ
12۔ انسانی زندگی
13۔ نفوس کی درجہ بندی
۱۔ نفس امارہ
۲۔ نفس لوامہ
۳۔ نفس مطمئنہ
86۔ عمل
نظریہ نمبر:۔ ﴿115﴾۔ ﴿ عمل مادی جسم کی انفرادی خصوصیت ہے۔ اور عمل کا ظہار مادی جسم کے ذریعے ہو رہا ہے ﴾
عمل مادی جسم کی انفرادی خصوصیت ہے۔ مادی جسم میں رہتے ہوئے ہی انسان وہ اعمال کر سکتا ہے جو اس کی حقیقی آخری و ابدی زندگی میں کام آئیں گے یعنی مادی جسم کے اعمال یا عملی زندگی وہ امتحانی پرچہ ہے جس میں فیل یا پاس ہونے کی صورت میں اس کی ابدی زندگی کا تمام تر انحصار ہے۔
یہ "عمل” جس کا اظہار مادی جسم کے ذریعے ہو رہا ہے۔ یہ عمل روح، نفس، جسم کے اشتراک سے ظہور میں آ رہا ہے۔
لہذا روح و نفس سے عدم واقفیت کی صورت میں جسمانی عمل کا جاننا دشوار ہے۔ اب چونکہ ہم نے پچھلے صفحات میں روح، نفس اور جسم کی اصل شناخت، تعریف اور تعارف پیش کر دیا ہے۔ لہذا روح، نفس اور جسم سے حقیقی واقفیت کے بعد درحقیقت اب ہم "عمل” کی تعریف کے قابل ہوئے ہیں لہذا اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ "عمل” کیا ہے اور کیسے واقع ہو رہا ہے۔
لہذا ہم یہ وضاحت کر آئے ہیں کہ روح(Energy) مرتب پروگرام ہے اور نفس(AURA) جسم کی حرکی قوت اور فیول ہے لہذا جس طرح حرکت نفس کی خصوصیت ہے اسی طرح جسم کی خصوصیت عمل ہے۔
لہذا روح کی اطلاع پہ نفس (AURA) جسم کو حرکت و عمل کا پروگرام پہنچاتا ہے تو جسمانی عمل واقع ہوتا ہے۔ اگرچہ عمل مادی جسم کی انفرادی خصوصیت ہے لیکن یہ عمل روح، نفس و جسم کے اشتراک سے ظہور میں آ رہا ہے۔ لہذا انسانی حرکت و عمل کی صورت درج ذیل ہو گی۔
روح + نفس + مادی جسم = انسانی حرکت و عمل
لہذا ایک متحرک انسان کا ہر عمل درج ذیل ترتیب سے ظہور میں آ رہا ہے۔
(1) روح کی اطلاعات
(2) نفس کی تحریک
(3) جسم کا مظاہرہ = عمل
عمل کیا ہے؟
روح، نفس و جسم کے اشتراک سے جسمانی عمل کیسے ظہور میں آ رہا ہے اب ہم اس عمل کی تفصیلی وضاحت کرتے ہیں۔
87۔ عمل کیا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿116﴾۔ ﴿ عمل روح (تقدیر)کا مرتب پروگرام ہے ﴾
ہم تقدیر کے عنوان سے ذکر کر آئے ہیں کہ تقدیر میں انسان کی پوری زندگی ہر ہر حرکت ہر عمل ریکارڈ ہے۔
لہذا حرکت کے علاوہ انسان کا ہر عمل بھی تقدیر میں پہلے سے ریکارڈ ہے۔ یعنی وہ عمل جو ہم نے اپنی مرضی سے انجام دینے ہیں وہ پہلے سے کتاب تقدیر میں محفوظ ہیں۔ اور اگر عمل کا پورا پروگرام ریکارڈ نہ ہوتا تو عمل ناممکن تھا۔ جس طرح کمپیوٹر میں پروگرام فیڈ ہوتا ہے اور کمپیوٹر اسی پروگرام کے تحت کام کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح مادی جسم کی حرکت و عمل کا پورا پروگرام بھی جسم کے اندر فیڈ ہے اور اسی پروگرام کے اوپر جسمانی حرکت و عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ مثلاً جسم کے تقدیری مرتب پروگرام میں سونے، کھانے، پینے غرض ہر عمل کا پروگرام محفوظ ہے۔ نیند کی اطلاع اس ریکارڈ پروگرام کی طرف سے جسم کو موصول ہو گی تبھی جسم نیند کا شکار ہو گا۔ تقدیری ریکارڈ سے بھوک کی اطلاع آئے گی تبھی کھانے کا عمل واقع ہو گا۔
غرض جسمانی مشینری کی ہر حرکت ہر عمل تقدیری ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان کا ہر حرکت و عمل جو تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوا ہے ریکارڈ ہے وہ کیسے انسان کی ذاتی مرضی سے اچھے یا برے عمل کی جسمانی مظاہراتی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔
88۔ عمل کیسے ظہور میں آ رہا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿117﴾۔ ﴿مختلف مدارج طے کر کے عمل تقدیر ی ریکارڈ سے جسمانی مظاہراتی صورت اختیار کر رہا ہے۔ عملی مدارج کی وضاحت کے لئے یہاں ہمیں ایک عملی فارمولہ پیش کرنا ہو گا﴾
درج ذیل مدارج طے کر کے ایک عمل ظہور میں آتا ہے
89۔ عملی فارمولہ
۱۔ پاور اسٹیشن کی اطلاع
i
۲۔ روح کی(مرتب تقدیر) اطلاع
۳۔ ہدایات
i
۴۔ منفی اطلاعات
i
۵۔ نفس (AURA) کا فیصلہ
i
۶۔ دماغ کا کام
i
۷۔ دماغ کا عمل
i
۸۔ جسمانی عمل درآمد
درج ذیل مدارج طے کر کے ایک عمل کا ظہور ہوتا ہے اب ہم اس آٹھ نکاتی فارمولے کی مسلسل وضاحت کریں گے جس سے یہ وضاحت ہو گی کہ ایک عمل مختلف مدارج طے کر کے کیسے ظہور میں آ رہا ہے۔ مثلاً ہم یہ دیکھتے ہیں کہ "کھانے کا عمل” کیسے واقع ہوتا ہے۔ لہذا کھانے کے عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔
۱۔ روح کی مرتب پروگرام سے (تقدیر)اطلاع
عمل کا پہلا مرحلہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿118﴾۔ ﴿سب سے پہلے عمل کے لیے روح کے ریکارڈ (تقدیر) سے اطلاع موصول ہوتی ہے۔ ﴾
ہم وضاحت کر آئے ہیں کہ ہر عمل پہلے سے کتاب تقدیر میں ریکارڈ ہے لہذا اسی ریکارڈ پروگرام سے جسم کو ہر عمل کے لیے اطلاعات مل رہی ہیں۔
لہذا عمل کے آغاز میں اسی روح کے تقدیری ریکارڈ سے پہلے مرحلے میں جسم کو بھوک کی اطلاع موصول ہوتی ہے اس رح کی اطلاع کے ملنے سے جسم کے اندر بھوک کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ لہذا بھوک، پیاس، رونا، ہنسنا، چلنا، پھرنا، مرنا، جینا ہر ارادی و غیر ارادی اطلاعات روح کی اطلاعات( ریکارڈ پروگرام) ہیں۔
اگر روح کے ریکارڈ پروگرام سے مسلسل اور منظم ترتیب سے جسم کو ہر عمل کی اطلاعات موصول نہ ہوں یعنی اگر بھوک کی اطلاع نہ آئے تو انسان کھا نہ سکے نیند کی اطلاع نہ آئے تو سو نہ سکے۔ ہر حرکت ہر عمل پہ عمل درآمد کے لیے روح کی طرف سے اطلاع کا موصول ہونا لازم ہے اس عمل کی اطلاع کے بغیر عمل ممکن نہیں۔ لیکن محض اطلاع سے عمل واقع نہیں ہو جاتا روح کے مرتب پروگرام سے عمل کی اطلاع عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔ لہذا روح کی طرف سے بھوک کی اطلاع آ جانے کے بعد دوسرا مرحلہ ہے ہدایت
۲۔ ہدایت
نظریہ نمبر۔ ﴿119﴾۔ ﴿ہدایت عمل کے لئے مثبت ترغیبی پروگرام ہے جو روح (رب)کی طرف سے براہ راست موصول ہو رہا ہے ﴾
ہدایت ” عمل ” کا دوسرا مرحلہ ہے۔
جیسا کہ ہدایت کے عنوان سے ذکر ہو چکا ہے کہ یہ روح کی وہ آواز ہے جسے عموماً ” ضمیر ” کے عنوان سے شناخت کیا جاتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ہدایت یعنی روح کی آواز "عمل ” کے دوسرے مرحلے پہ کیا کردار ادا کر رہی ہے۔
لہذا پہلی روح کی اطلاع تھی یعنی۔ بھوک کا احساس
دوسری ہدایت ہے۔ یعنی عمل کے لیے جائز طریقے اختیار کرنا چاہییے یعنی کما کر کھانا چاہیے
لہذا روح کے مرتب پروگرام سے عمل کے لیے بھوک کے احساس کی اطلاع تو آ گئی لیکن اب کھانے کا عمل کیسے واقع ہو گا۔
لہذا اب اس بھوک کے احساس کی اطلاع پہ عمل درآمد کے لئے روح کی طرف سے مثبت ہدایات آنے لگیں یعنی کھانے کا یہ عمل جائز ہونا چاہئیے ، یا کما کر کھانا چاہیے۔ یا چوری جرم ہے ، جرم کی سزا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ اور اس قسم کی ہدایات اطلاع کے وارد ہوتے ہی آنے لگیں لہذا۔ یہ ہدایات عمل کے لئے مثبت ترغیبی پروگرام ہے۔ لہذا
عمل کا پہلا مرحلہ۔ بھوک کا احساس۔ روح کے مرتب پروگرام سے اطلاع
عمل کا دوسرا مرحلہ۔ ہدایات۔ عمل کے لئے روح کی آواز اور مثبت ترغیبی پروگرام ہے۔
اب عمل تیسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے لہذا عمل کا تیسرا مرحلہ ہے
۳۔ منفی اطلاعات
نظریہ نمبر:۔ ﴿120﴾۔ ﴿عمل کے تیسرے مرحلے میں منفی اطلاعات بھی آنے لگیں۔ یہ شیطانی اطلاعات ہیں ﴾
روح کے مرتب پروگرام سے بھوک کی اطلاع آتے ہی کھانے کے عمل پر عمل درآمد کے لیے مثبت ہدایات کے ساتھ ساتھ منفی اطلاعات بھی آنے لگتی ہیں۔ یہ شیطانی اطلاعات ہیں
لہذا اب کھانے کا عمل تیسرے مرحلے میں داخل ہو گیا اور اس کی صورت درج ذیل ہو گی۔
(1)۔ تقدیری روح کی اطلاع۔ ۔ ۔ بھوک کا احساس۔
(2)۔ ہدایت۔ ۔ ۔ مثبت اطلاعات ( کھانے کا عمل مثبت ہونا چاہیے )۔
(3)۔ منفی اطلاعات۔ ۔ ۔ کھانے کے عمل کے لیے ناجائز طریقہ آسان ہو گا۔
لہذا جیسے ہی تقدیر کے مرتب پروگرام (روح) سے بھوک کی اطلاع جسم میں نمودار ہوئی تو کھانے کے عمل کے لئے مزید مثبت و منفی اطلاعات آنے لگیں یعنی ہدایت یہ موصول ہوئی کہ کھانے کا عمل جائز ہونا چاہیے مشقت سے کما کر کھانا چاہیے ذلت کی تن آسانی ٹھیک نہیں یہ جرم ہے جرم کی سزا ہے۔
اس کے ساتھ ہی منفی اطلاعات بھی آنے لگیں
چرا کر کھانا تو بہت آسان ہے لہذا ذرا سے کھانے کے لئے مشقت کے پاپڑ کیوں بیلے جائیں
روح کے مرتب تقدیری پروگرام اور ان تمام تر اطلاعات کے ملنے پر انسان کیسے عمل کر رہا ہے اور کیا عمل کر رہا ہے ؟
۴۔ نفس (AURA) کا فیصلہ
عمل کا چوتھا مرحلہ
نظریہ نمبر :۔ ﴿121﴾۔ ﴿جسمانی عمل درآمد کا فیصلہ نفس(AURA) کا فیصلہ ہو گا۔ ﴾
یہ ہے عمل کا چوتھا مرحلہ
سب سے پہلے عمل کے لئے روح کی اطلاع آئی یعنی جسم کے اندر بھوک کا احساس بیدار ہو گیا اور اس اطلاع کے آ جانے کے بعد مزید مثبت و منفی ہدایات بھی آ گئیں اب نفس کو عمل کے لئے تمام تر اطلاعات موصول ہو گئیں لہذا اب عمل درآمد کی کیا مثبت و منفی صورت ہونی چاہیے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار اب نفس کو ہے۔ لہذا چوتھے مرحلے میں عمل کی ترتیب درج ذیل ہو گی۔
(1) روح کی اطلاع :۔ روح کے مرتب پروگرام (تقدیر) سے جسم کے اندر بھوک کا احساس بیدار ہو گا یعنی بھوک کی اطلاع ملی۔
(2) ہدایت:۔ اس کے ساتھ ہی کھانے کے عمل کے لئے مثبت ہدایات بھی ملنے لگیں کہ کھانے کا عمل مثبت عمل ہونا چاہیے۔
(3) منفی اطلاع:۔ شیطان کی طرف سے منفی ترغیبی پروگرام بھی موصول ہونے لگا کہ ناجائز طریقے آسان ہیں۔
(4) نفس کا فیصلہ:۔ عمل کے لئے تمام تر اطلاعات آ جانے کے بعد عمل کا عملی منصوبہ اپنی مرضی سے ترتیب دے گا نفس۔
لہذا بھوک کی اطلاع آتے ہی مثبت ہدایات کے ذریعے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کھانے کا عمل مثبت ہونا چاہیے نیز اس مثبت عمل کے فائدے بھی اس اندر کی آواز نے بتا دئیے دیگر منفی اطلاعات کے ذریعے ناجائز طریقہ کار بھی معلوم ہو گیا جب کہ روح کی آواز (ہدایت) نے ناجائز طریقے کے مضمرات سے بھی آگاہ کر دیا لہذا اب انسان کسی بھی کام پے عمل درآمد سے پہلے ہی عمل کی تمام تر جزئیات سے آگاہ ہو چکا ہے۔ یعنی عمل پے عمل درآمد سے پہلے ہی انسان اس عمل کی اچھائی برائی سے واقف ہو چکا ہے۔ اب عمل کی تمام تر جزئیات سے واقفیت کے بعد عمل کیا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ نفس اپنے ذاتی ارادے سے کرے گا۔ لہذا اب فقط نفس کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کھانے کی اطلاع یعنی بھوک کے احساس پر ؛
کھانا کھائے
یا کھانا نہ کھائے
چرا کر کھا لے
یا کما کر کھا لے
یا نفس اپنی ذاتی مرضی سے کھانے کے عمل کی کوئی تیسری راہ نکال لے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کھانے کے عمل کے لئے تمام تر اطلاعات کے آ جانے کے بعد انسان اب کھانے کا عمل کیسے سر انجام دے گا۔
لہذا نفس نے بھوک کی تمام تر اطلاعات مل جانے پر یہ پروگرام ترتیب دیا ہے کہ بھوک محسوس ہو رہی ہے لہذا اب کھانا کھانا ہے اور دیگر یہ کہ کھانے کا عمل مثبت ہونا چاہیے۔
لہذا نفس نے روح کی اطلاع یعنی بھوک کے احساس پے کھانے کا پروگرام تو تیار کر لیا لیکن ابھی فقط کھانے کے عمل کا پروگرام ترتیب پایا ہے ابھی اس پروگرام پے عمل درآمد باقی ہے لہذا ابھی عمل پے عمل درآمد کا فارمولہ مکمل نہیں ہوا بلکہ عمل پر بے عمل درآمد کے لئے کچھ اور پیچیدہ اور طویل مراحل ابھی باقی ہیں جنہیں طے کر کے عمل عملی صورت میں ظاہر ہو گا۔
لہذا چوتھے مرحلے کے اختتام تک پہنچ کر عمل کا پور ا عملی پروگرام ترتیب پا گیا ہے اب نفس یہ ترتیب شدہ عمل کا پروگرام بھیج دے گا دماغ کو یعنی اگلے پانچویں مرحلے میں کھانے کے عمل کا اگلا کام ہے "دماغ کا کام”
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ پانچویں مرحلے میں کھانے کے عمل کے عملی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دماغ کیا کام کر رہا ہے۔
۵۔ دماغ کا کام
عمل کا پانچواں مرحلہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿122﴾۔ ﴿دماغ، نفس (AURA) کے ترتیب شدہ کھانے کے پروگرام کو جوں کا توں جسم پہ اپلائی کر دے گا۔ ﴾
یہ ہے دماغ کا کام یعنی عمل کا پانچواں مرحلہ
یعنی کھانے کا جو بھی پروگرام نفس نے ترتیب دیا ہے دماغ اس پروگرام کو جوں کا توں جسم پہ اپلائی کر دے گا جب کہ آج تک سائنسدان یہ خیال کرتے رہے ہیں کہ عملی فیصلے کا اختیار دماغ کے پاس ہے۔
وہ ابھی تک محض اتنا دریافت کر پائے ہیں کہ جس وقت کوئی چیز دماغ میں درج ہوتی ہے اس وقت دماغی خلیوں میں کیمکل اور مادی تبدیلیاں ہونے لگتی ہیں سائنسدان دماغ کے اندر ہو رہی کیمکل اور مادی تبدیلیوں کا تذکرہ تو کر رہے ہیں لیکن یہ تبدیلیاں کیسے رونما ہو رہی ہیں ان کا محرک اور منبع کیا ہے وہ کونسے بیرونی ذرائع ہیں جو دماغ کے اندر تبدیلیاں اور تحریک پیدا کر رہے ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں جب کہ یہ بیرونی ذرائع ( جن کا کوئی ذکر نہیں کرتا ) نہ ہوں تو دماغ میں کسی تحریک کا پیدا ہونا محال ہے۔
اب جب کہ ماہرین الفا، بیٹا اور تھیٹا لہروں کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں اس قسم کے مشاہدات کے بعد بھی ہر قسم کی جسمانی تحریک کا ذمہ دار دماغ کو ٹھہرانا ٹھیک نہیں۔ لہذا اس حقیقت کو تسلیم کیجئے کہ دماغ میں تحریک بیرونی ذرائع سے پیدا ہو رہی ہے۔ لہذا پچھلے تمام صفحات میں ہم نے انہی بیرونی ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے دماغی کیمیکل و مادی تحریکات کا لمبا چوڑا بیک گراونڈ بیان کیا ہے جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ۔
(i) دماغ کے اندر ہونے والی تبدیلیاں اور تحریک نفس(AURA) کے اشاروں نفس کے پروگرام سے ہو رہی ہیں۔
(ii) نفس (AURA) کو اس پروگرام کی اطلاع ملی ہے روح سے۔
(iii) اور روح پاور اسٹیشن (خالق) کا حکم (انرجی، مرتب پروگرام) ہے۔
لہذا دماغ میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا نہ صرف یہ کہ لمبا چوڑا بیک گراونڈ ہے بلکہ دماغی تحریک کا براہ راست تعلق خالق سے ہے
لہذا پاور اسٹیشن(خالق) سے مرتب پروگرام (تقدیر) پہلے روح کو ملا روح سے ہر عمل کی اطلاعات بالترتیب نفس کو ملنے لگیں۔ نفس ہر اطلاع کو اپنی مرضی سے ترتیب دے کر دماغ کو بھیج دیتا ہے اور دماغ عمل کے اس پروگرام کو جسم پے اپلائی کر دیتا ہے۔ یعنی دماغ کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا ایک لمبا چوڑا بیرونی بیک گراؤنڈ ہے جس کا براہ ر است تعلق نفس، روح اور پوری کائنات اور براہ راست خالق سے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دماغ، نفس(AURA) کے پروگرام کو کیسے پورے جسم پہ جوں کا توں اپلائی کر رہا ہے لہذا اب ہم دماغ کے اندر کی تحریکات یا دماغ کے اندرونی عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔
۶۔ دماغی عمل
نظریہ نمبر:۔ ﴿123﴾۔ ﴿دماغ نفس(AURA) کے ترتیب شدہ پروگرام کو دماغ کے کھربوں خانوں میں بڑی ترتیب سے خانہ در خانہ تقسیم کر دیتا ہے۔ ﴾
لہذا کھانے کا وہ پروگرام جو (AURA) نے روح کی اطلاع اور دیگر مثبت و منفی اطلاعات کے ملنے کے بعد ترتیب دیا ہے اس اس پروگرام پہ عمل درآمد کے انتظامات کر رہا ہے دماغ یعنی۔
دماغ پروگرام مینیجر ہے !
لہذا نفس نے جو عمل کی اطلاع پہ کھانے کا عملی پروگرام ترتیب دیا ہے اسی پروگرام کو دماغ نے پورے جسم کے ہر ہر خلیے ہر ہر یونٹ کو بھیج دیا ہے لہذا پورے جسم کے ہر خلیے ہر یونٹ نے اس پروگرام پہ جو کردار ادا کرنا ہے وہ کردار وہ کام سمجھا رہا ہے دماغ۔ لہذا کھانے کے مخصوص پروگرام پہ عمل درآمد کے لئے خلیے نے کیا کردار ادار کر نا ہے اعصاب و عضلات کو کیا کرنا ہو گا خون رگ پٹھے جگر گردے ہاتھ پیر ناک کان غرض جسم کے اندرونی بیرونی ہر چھوٹے بڑے یونٹ کو اس کے کام کی پوری تفصیل پورا پروگرام بھیجے کا دماغ اب دماغ نے AURA کا پورا ترتیب شدہ پروگرام بڑی ترتیب اور تنظیم سے جسم کے ہر یونٹ کو بھیج دیا ہے اب اسی ترتیب کے مطابق جسمانی عمل واقع ہو گا۔
۷۔ جسمانی عمل
(چھٹا مرحلہ)
نظریہ نمبر:۔ ﴿124﴾۔ ﴿دماغی احکامات کے موصول ہوتے ہی جسم کا ہر یونٹ اپنے اپنے کام سے لگ جاتا ہے ﴾
یہ ہے عمل کا چھٹا مرحلہ۔
اس مرحلے میں دماغی احکامات کے ملتے ہی جسمانی عمل شروع ہو جاتا ہے دماغ کمپیوٹر کی طرح خود کا ر مشینری ہے اور دماغ کو ایسی پیچیدہ مشینری کا پروگرام ملا روح سے اور اسی روح کے پروگرام کی وجہ سے دماغ و جسم کا ہر خلیہ ہر یونٹ زندہ ہے متحرک ہے اپنا کام جانتا ہے یعنی جسم کے ہر خانے ہر خلیے میں کام کی صلاحیت ہے روح کے مرتب پروگرام کی وجہ سے۔ اسی روح کے پروگرام کے سبب جسمانی خود کار سسٹم منظم و مربوط ہے ایسا نہیں کہ ہاتھ یا پیر خو بخود ہل رہے ہیں منہ چلے جا رہا ہے دل بے ترتیب دھڑک رہا ہے سب کچھ اپنی جگہ بڑا منظم اور مربوط ہے (روح کے مرتب پروگرام کی وجہ سے )
اب روح کے مرتب پروگرام(تقدیر) کے عین مطابق جسم کا ہر چھوٹا بڑا جاندار، متحرک، با صلاحیت یونٹ کسی بھی حرکت و عمل کے لیے منتظر اور چوکس ہے آرڈر یا روح کی اطلاع کا۔
لہذا جیسے ہی دماغ نے AURA کے پروگرام کو خانہ در خانہ تقسیم کیا ویسے ہی جسم کے ہر چھوٹے بڑے یونٹ کو اس کا کام مل گیا لہذا ہر چھوٹا بڑا یونٹ اپنے کام سے لگ گیا۔ یہ کام مخصوص اور محدود ہے لہذا جتنا اور جیسا پروگرام ہو گا عین وہی عمل ظہور میں آئے گا۔ لہذا کھانا مخصوص مقدار میں مخصوص وقت یا مخصوص حالات میں کھایا جائے گا۔ یعنی کھانے کا تمام عمل منظم مربوط مکمل اور AURA کے پروگرام کے عین مطابق ہو گا۔
جسم کا ہر چھوٹا بڑا یونٹ انہی دماغی احکامات کے مطابق اپنے اپنے کام سے لگ گیا۔ لہذا جسم کے اندر بھوک کا احساس پیدا ہوا، پیر میں حرکت ہوئی، ہاتھ کھانے کے لیے متحرک ہوئے، ناک نے خوشبو سونگھی، زبان نے ذائقہ محسوس کیا، منہ چلنے لگا، جسم کی اندرونی مشینری بھی اس کھانے کا بندوبست کرنے میں مصروف ہو گئی۔ لہذا پوری جسمانی مشینری دماغی احکامات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے AURA کے پروگرام پہ عمل درآمد میں مصروف ہو گئی۔
لہذا روح کی اطلاع پر (AURA) کے پروگرام پہ دماغی احکامات کے ذریعے جسمانی عمل واقع ہو گیا۔
جسمانی عمل تو واقع ہو گیا لیکن (AURA) کا پروگرام "کھانا کھانا ہے ” کا پروجیکٹ ابھی مکمل نہیں ہوا بلکہ ابھی یہ عمل جاری ہے۔ ابھی دماغ کو بہت سے کام کرنے ہیں۔ لہذا اب یہ عمل ساتویں مرحلے میں داخل ہو گیا۔
۸۔ عمل کے بعد
(ساتواں مرحلہ)
نظریہ نمبر:۔ ﴿125﴾۔ ﴿ عمل کے بعد دماغ اس کھانے کے عمل ( جو واقع ہو چکا ہے ) کی ایک ایک تفصیل کو دماغ کے مختلف خانوں (فولڈرز) میں محفوظ کر دے گا۔ ﴾
یہ ہے عمل کا ساتواں مرحلہ
اب وہ عمل جو واقع ہو چکا ہے اس کا تمام تر ڈیٹا ریکارڈ ہو چکا جو اب مختلف خانوں (فولڈرز) میں محفوظ ہو گیا۔ موجود ہے۔
دماغ کس کس فائل کو کس کس فولڈر میں رکھ رہا ہے آگے ہم یہی تذکرہ کریں گے۔ دماغ کے عنوان سے
دماغی ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارا دماغ بیک وقت پیغامات وصول بھی کرتا ہے آگے روانہ بھی کرتا ہے۔ یہ پیغامات عصبی نظام میں موجود کروڑوں خلیات کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ پیدائش سے پہلے اور بعد میں ان خلیات میں ربط بڑھتا رہتا ہے چنانچہ ان کے درمیان ایک پیچیدہ جال (نیٹ ورک) بن جاتا ہے ابھی تک ماہرین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس جال میں کس قسم کی یادیں یا خیالات ہوتے ہیں اب ہم آگے اسی پیچیدہ جال کو سلجھائیں گے ” دماغ کے عنوان سے ”
اب یہاں تک پہنچ کر عمل کی عملی تفصیلات مکمل ہوئیں جس میں ہم نے بالترتیب وضاحت کی کہ ایک عمل کیسے مختلف پیچیدہ اور طویل مراحل سے گزر کر جسمانی عمل کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ یہاں ہم نے جسمانی عمل کا تفصیلی بیک گراونڈ بیان کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جسم کا کوئی بھی عمل دماغی فیصلے سے نہیں بلکہ نفس(AURA) کی ذاتی مرضی سے ہو رہا ہے (عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے )۔ جسم کا ہر عمل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔ ہر عمل کا برا ہ راست تعلق روح نفس اور خالق سے ہے۔
90۔ اعمال
نظریہ نمبر:۔ ﴿126﴾۔ ﴿لہذا ہماری زندگی کی ہر حرکت ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے اور یہی ریکارڈ اعمال ہیں ﴾
لہذا تقدیر(روح) کے مرتب پروگرام سے ارادی و غیر ارادی حرکت و عمل کے لئے اطلاعات آ رہی ہیں۔ ان اطلاعات پہ انسان اپنی مرضی سے رد و بدل کر کے عمل کر رہا ہے اور یہ عمل ریکارڈ ہو رہے ہیں اور یہ حرکت و عمل کی ریکارڈنگ(تیار فلم) ہی اعمال نامہ ہے۔
لہذا ہر حرکت ہر عمل کی تمام تر تفصیلات (اطلاع سے لے کر عمل کے اختتام تک ) ریکارڈ ہو رہی ہیں۔ اسی طرح اسی ترتیب سے انسان کی پوری زندگی کی ہر حرکت ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے اور اس ریکارڈ کو ہم دیکھیں گے۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنی ویڈیو ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر اس ریکارڈ فلم کو دیکھتے ہیں۔
بالکل اسی طرح انسان کے اندر بھی ریکارڈنگ کا سسٹم نصب ہے لیکن یہ آٹومیٹک سسٹم بہت جدید ہے ہمارے پاس ریکارڈنگ کے جو سسٹم ہیں اس میں محض آڈیو ویڈیو ریکارڈ ہوتا ہے۔ جب کہ انسان کے اندر نصب ریکارڈنگ سسٹم میں آڈیو ویڈیو کے علاوہ انسان کی نیت اس کے محسوسات اور ارادے تک ریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہے لہذا اس ریکارڈنگ میں انسان کی ہر حرکت، ہر عمل (اندرونی و بیرونی) اس کے محسوسات اس کے ارادے تک ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ جب یہ زندگی کی ریکارڈنگ مکمل ہو جائے گی تو انسان اپنی اس ریکارڈ فلم کو دیکھے گا۔ اور اپنی یہ فلم دیکھنے کے بعد انسان اپنے جرائم کا ذمہ دار دوسروں کو نہیں ٹھرا سکتا دنیا میں کچھ لوگ بہت چالاک بنتے ہیں۔ مجرم اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہیں حتی کہ گناہ گار اپنے آپ کو بے قصور اور بے گنا ہوں کو گناہگار ثابت کر دیتے ہیں۔ قتل چوری، جرائم کر کے دوسروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے جرائم کو مجبوری اور کچھ موروثی بیماری قرار دیتے ہیں لیکن اعمال نامے میں تو نیت بھی درج ہے۔ موت کے بعد آج مجرم اپنی فلم میں اپنے ذہن کا منصوبہ تک دیکھ رہا ہے۔ آج اپنا نامہ اعمال دیکھ کر بد از خود اپنی بدی کا اقرار کریں گے نیک آج خوش ہیں اپنی زندگی کی ریکارڈ فلم دیکھ کر کے دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ ہمیں صلہ ضرور ملے گا۔
91۔ آزاد ارادہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿127﴾۔ ﴿ انسان آزاد ارادے کا مالک ہے۔ ﴾
اب عمل کی تفصیلی وضاحت کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اگرچہ انسان کی کتاب (تقدیر) میں انسان کی پوری زندگی کی ہر ہر حرکت ہر عمل ریکارڈ ہے اور اسی ریکارڈ سے اسے ہر ارادی و غیر ارادی عمل کی اطلاع مل رہی ہے اور اسی اطلاع پہ جسمانی عمل درآمد کی صورت واقع ہوتی ہے اس کے باوجود
انسان تقدیر کا پابند نہیں ہے بلکہ آزاد ارادے کا مالک ہے روح کے مرتب پروگرام سے پہلے ہر عمل کی اطلاع آتی ہے پھر ان اطلاعات میں نفس اپنی ذاتی مرضی سے رد و بدل کر کے عملی صورت دیتا ہے
مثلاً کتاب تقدیر سے جسم کو بھوک کی اطلاع ملی تو جسم کے اندر بھوک کا احساس بیدار ہوا۔
روح کی اطلاع (تقدیری پروگرام) یعنی بھوک کے احساس کو نفس (AURA) مادی جسم کو یوں منتقل کر رہا ہے۔
میرا خیال ہے مجھے بھوک لگی ہے مجھے کھانا کھا لینا چاہیئے۔
مادی جسم، نفس (AURA) کی خواہشات یا ترغیبات کو نفس کی تحریک پر عملی جامہ پہناتا ہے جسے ہم کھانے کا عمل کہتے ہیں۔ لہذا ہمارے روز مرہ کے تمام اعمال اسی ترتیب سے ترتیب پاتے ہیں۔
روح کی ریکارڈ تقدیری اطلاع پر نفس (AURA) کے تحریک دلانے پر جسمانی عمل واقع ہوا۔ یہ روح کی ہدایت پر مثبت عمل درآمد ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ عمل محض نفس یعنی انسان کی ذاتی مرضی پہ منحصر ہے۔
چاہے تو ان تقدیری ریکارڈ اطلاعات کو قبول کر لے چاہے تو رد کر دے۔
لہذا روح کی ریکارڈ تقدیری اطلاع یعنی بھوک کے احساس کے باوجود نفس جسم کو کھانے کی ترغیب و تحریک نہ دے تو کھانے کا عمل واقع نہیں ہو گا۔ (لیکن یہاں تقدیر کے ان قوانین کا ذکر نہیں جن کا انسان غیر ارادی طور پر پابند ہے )۔
لہذا تقدیری ریکارڈ پروگرام پر عمل درآمد ہو گا یا نہیں ہو گا یہ فقط نفس (AURA) کی مرضی پر منحصر ہے۔
لہذا جسم کو تقدیری اطلاع (بھوک کا احساس) ملنے پر جسمانی عمل وہی ہو گا جو نفس (AURA) کا فیصلہ ہو گا۔
یعنی تمام تر اطلاعات کے باوجود عمل انسان خود اپنے ذاتی ارادے اپنی خواہش اپنی مرضی سے کرتا ہے۔
92۔ پابند مخلوقات و موجودات
نظریہ نمبر:۔ ﴿128﴾۔ ﴿ انسان (اور جنات جیسی چند دیگر مخلوقات جو جزوی طور پر ذاتی ارادے کی مالک ہیں ) کے علاوہ کوئی مخلوق آزاد ارادہ کی مالک نہیں ہر مخلوق تقدیر کے مخصوص مرتب پروگرام کی پابند ہے۔ اور اسی مخصوص پروگرام پر عمل پیرا ہے۔﴾
مثلاً سورج کا پروگرام یہ ہے کہ وہ صبح ایک مخصوص وقت پر مخصوص مقام سے نمودار ہو گا اور شام کو ایک مخصوص وقت اور مخصوص مقام پہ غروب ہو گا۔ سورج کا مخصوص جگہ اور وقت سے نمودار ہونا اور اپنے مخصوص مقام پہ سفر کرنا اور مخصوص منزل پر غروب ہونا اس کا تقدیری مرتب پروگرام ہے۔
سورج اپنا ذاتی ارادہ نہیں رکھتا کہ اپنی اس مخصوص روٹین میں تھوڑا ردو بدل کر لے۔ اپنے ذاتی ارادے سے مشرق کی بجائے شمال سے نکل آئے یا راستہ بدل کر چلے یا تھوڑا لیٹ نکل آئے یا مغرب کی بجائے کسی اور سمت نکل جائے ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے کہ وہ ذاتی ارادہ رکھتا ہی نہیں۔ فقط انسان ذاتی ارادے کا مالک ہے۔ انسان کے علاوہ کائنات کی تمام موجودات مخصوص تقدیری پروگرام کی پابند ہیں (ان میں ذاتی ارادہ نہیں ) تبھی کائنات کا سسٹم اتنا منظم ہے۔
جب کہ انسان اپنے ذاتی ارادے کے انتہائی غلط استعمال سے کائنات کے بیلنس سسٹم کو انتہائی متاثر کر رہا ہے۔
93۔ اچھا یا برا عمل
نظریہ نمبر:۔ ﴿129﴾۔ ﴿عمل کی پہلے سے ریکارڈ شدہ تقدیری اطلاع، ہدایت اور منفی اطلاعات کے بعد اچھے یا برے عمل کا فیصلہ انسان خود کرتا ہے اپنے ذاتی ارادے کا استعمال کرتے ہوئے۔ ﴾
لہذا تقدیر کے مرتب پروگرام سے جب جسم کو بھوک کی اطلاع موصول ہوئی تو بھوک کے اس احساس اس اطلاع کے ملتے ہی نفس کو تمام تر مثبت و منفی اطلاعات بھی موصول ہو گئیں لہذا اب فیصلے کا اختیار نفس(انسان) کے پاس ہے۔
دیکھئے اب نفس بھوک کی اطلاع پہ عمل درآمد کے لئے کونسے طریقے کا انتخاب کرتا ہے۔
روح کی ہدایت کا تجویز کردہ جائز طریقہ یا
شیطانی اطلاعات کا تجویز کردہ ناجائز طریقہ یا اپنی ذاتی خواہش پر مبنی کوئی تیسرا طریقہ
لہذا اچھے یا برے عمل کی صورت درج ذیل ہو گی۔
94۔ اچھا عمل
نظر یہ نمبر۔ ﴿130﴾۔ ﴿اچھے عمل انسان اپنی مرضی سے انجام دے رہا ہے ﴾
اچھے عمل کی صورت درج ذیل ہو گی۔
(1) تقدیر کے مرتب پروگرام سے اطلاع۔ ۔ ۔ بھوک کا احساس۔
(2) ہدایت(روح کی آواز)۔ ۔ ۔ عمل پر عمل درآمد کا طریقہ مثبت ہونا چاہیے۔
(3) منفی اطلاع (شیطانی اطلاع)۔ ۔ ۔ عمل پر عمل درآمد کے لئے ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے
(4) نفس کا ذاتی فیصلہ۔ تمام تر مثبت و منفی اطلاعات کے موصول ہو جانے پر نفس اپنے ذاتی اختیار سے عمل پر عمل درآمد کا انتخاب کرے گا
(5) دماغ نفس کے ترتیب شدہ عملی منصوبے کو جوں کا توں جسم پر اپلائی کر دے گا۔
6جسمانی عمل درآمد۔ لہذا نفس کی ذاتی مرضی سے ترتیب شدہ عملی منصوبے کے عین مطابق جسمانی عمل واقع ہو گا
تقدیر کے مرتب پروگرام سے عمل کی اطلاع جب جسم کو ملی تو جسم میں بھوک کا احساس بیدار ہوا
اس اطلاع کے ملتے ہی روح کی ہدایت یعنی مثبت ترغیب بھی آنے لگی کہ عزت کی روزی بہتر ہے۔
منفی اطلاعات بھی ملنے لگیں کہ چرا کر کھا لینا آسان ہے۔ اب تمام تر اطلاعات موصول ہو گئیں لہذا بھوک کے احساس پہ کھانے کے عمل پہ عمل درآمد کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے یہ فیصلہ کرنا ہے نفس (انسان) کو،
اب نفس (AURA) اگر روح کی مثبت ہدایات کو قبول کر کے جسم کو مثبت طریقے سے کھانے کے عمل کی تحریک دیتا ہے اور انسان کھانے کا عمل مثبت طریقے سے انجام دیتا ہے تو یہ انسان کا اچھا عمل ہے۔
اور یہ اچھا عمل ذاتی اختیار سے کرنے والا انسان اچھا انسان ہے۔
اور یہ اچھا عمل انسان (نفس) نے اپنے ذاتی ارادے سے منتخب کیا ہے۔
95۔ برا عمل
نظریہ نمبر۔ ﴿131﴾۔ ﴿اپنے برے اعمال کا انسان سو فیصد خود ذمہ دار ہے ﴾
برے عمل کی صورت درج ذیل ہو گی۔
(1) تقدیر کے مرتب پروگرام سے اطلاع۔ ۔ ۔ بھوک کا احساس
(2) ہدایت۔ ۔ ۔ مثبت ترغیب
(3) منفی اطلاع۔ ۔ ۔ منفی ترغیب
(4) نفس کا فیصلہ۔
(5) دماغ کا کام۔
(6) جسمانی عمل درآمد۔
تقدیر کے ریکارڈ پروگرام سے جسم کو جب بھوک کی اطلاع ملی تو جسم میں بھوک کا احساس بیدار ہوا۔
اس اطلاع کے ساتھ ہی اس اطلاع پہ عمل درآمد کے لیے مثبت ترغیبی پروگرام روح کی طرف سے ملنا شروع ہو گیا کہ کھانے کا عمل مثبت ہونا چاہیے کما کر کھانا چاہیے۔
اس ہدایت کے ساتھ ہی منفی شیطانی اطلاعات بھی ملنے لگیں کہ چرا کر کھانا آسان ہے اب فیصلہ نفس (AURA) کی ذاتی مرضی بر منحصر ہے۔
اگر نفس چرا کر کھانے کی جسم کو ترغیب اور تحریک دیتا ہے لہذا اس تحریک کے تحت جسمانی عمل چوری کر کے کھانا ہے تو انسان کا یہ عمل
برا عمل ہے اور یہ برا عمل کرنے والا انسان برا انسان ہے۔
اور یہ برا عمل انسان نے اپنی مرضی، خواہش اور ذاتی ارادے کے تحت کیا۔
عمل کے لیے نفس اپنے ذاتی ارادے اور خواہش کے تحت ہر مثبت و منفی اطلاعات کو رد کر کے کوئی تیسری راہ بھی نکال سکتا ہے جو منفی بھی ہو سکتی ہے مثبت بھی لہذا تقدیر کا تحریری پیغام اور مثبت و منفی اطلاعات اگرچہ انسان کو موصول ہو رہی ہیں لیکن اچھے برے عمل کا انتخاب نفس (AURA) کے ذاتی ارادے پر منحصر ہے لہذا عمل وہی ہو گا جو نفس یعنی انسان کی خواہش ہو گی۔
لہذا اچھا عمل یا برا عمل انسان کے ذاتی ارادے کے تابع ہے چاہے تو تقدیر کے لکھے کو قبول کر کے اسی پہ عمل کر لے
چاہے تو مثبت ہدایت کو قبول کر کے مثبت عمل کر لے
عمل کے لئے چاہے تو منفی طریقہ اختیار کر لے
بہر حال عمل کی تمام تر ذمہ داری انسان کی ذاتی مرضی پہ ہے۔
آجکل بعض لوگ خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے اپنے اعمال کا ذمہ دار موروثی خصوصیات کو قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ایسا ہے نہیں۔ موروثی خصوصیات انسان کے اندر موجود ہیں لہذا موروثی خصوصیات کو عملی جامعہ پہنانا یا نہ پہنانا انسان کے ذاتی اختیار میں ہے۔
انسان اس ذاتی اختیار کو استعمال میں لاتے ہوئے چاہے تو اپنے اندر موجود اپنے آباؤ اجداد کی سی بہادری کا مظاہرہ کرے اور چاہے تو اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہ کرے اور بزدل اور کاہل الوجود بنا رہے۔
چاہے تو ذاتی اختیار سے اپنے اجداد کی طرح چوری کرے چاہے تو نہ کرے۔
چاہے تو اپنے ذاتی اختیار سے اپنے اجداد کے پیشے اور صلاحیتیں اختیار کر لے چاہے تو نہ کرے۔
لہذا تقدیر میں ہر ہر عمل ہر ہر حرکت ریکارڈ ہونے کے باوجود ہر عمل کی مظاہراتی صورت وہی ہو گی جو انسان اپنے ذاتی ارادے سے عمل کرے گا۔ (سوائے چند تقدیری قوانین کے )
لہذا انسان تقدیر کا پابند نہیں بلکہ اپنے ہر اچھے برے عمل کا سو فیصد ذمہ دار ہے۔
96۔ عمل کا خلاصہ
یہاں ہم نے جسمانی عمل کا تفصیلی بیک گراونڈ بیان کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جسم کا کوئی بھی عمل دماغی فیصلے سے نہیں بلکہ نفس(AURA) کی ذاتی مرضی سے ہو رہا ہے (عملوں کا دارومدار نیتوں )ذاتی مرضی ذاتی خواہش پر ہے ) جسم کے اعمال دماغی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ جسم کا ہر عمل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔ ہر عمل کا براہ راست تعلق روح نفس اور خالق سے ہے۔ لہذا عمل کی جو تفصیلات یہاں میں نے بیان کیں ہیں ان کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے۔
عمل کا فارمولہ
۱۔ خالق کا حکم یعنی(روح)
۲۔ روح( یعنی حرکت و عمل کا مرتب و مکمل پروگرام یعنی تقدیر
۳۔ ( تقدیر یعنی روح کے مرتب پروگرام سے کھانے کی اطلاع
۴۔ ہدایات۔ کھانے کے عمل کے لیے مزید مثبت ترغیبی پروگرام
۵۔ منفی اطلاعات۔ کھانے کے عمل کے لیے مزید اطلاعات یعنی منفی(شیطان کی طرف سے ) ترغیبی پروگرام
۶۔ نفس کا فیصلہ۔ عمل کی تمام تر اطلاعات آ جانے کے بعد عمل پہ عمل درآمد کے لئے نفس کا فیصلہ
۷۔ دماغ کا کام۔ نفس کے ترتیب شدہ عملی پروگرام کو دماغ جوں کا توں جسم پر اپلائی کر دے گا
۸۔ جسمانی عمل درآمد۔ اور اسی منظم ترتیب کے مطابق جسم کا ہر یونٹ نفس کے عملی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہو جائے گا اور یوں مجموعی جسم کا ایک عمل ظہور میں آئے گا۔ لیکن ابھی عمل مکمل ہو جانے کے بعد بھی عمل کا عمل مکمل نہیں ہوا بلکہ ابھی عمل کا عمل جاری ہے لہذا
۹۔ عمل کے بعد۔ عمل مکمل ہونے کے بعد دماغ اسے مختلف خانوں (فولڈرز)میں محفوظ کر دے گا۔
۱۰۔ اعمال۔ ہر عمل کی یہ تمام تر ریکارڈ تفصیلات اعمال ہیں۔
عمل کی اس صورت اس تفصیل سے یہ ثابت ہو گیا کہ انسان عمل کے لیے آزاد ہے، انسان تقدیر کا پابند نہیں۔ وہ فیصلے اپنی مرضی سے کرتا ہے۔
97۔ انسانی زندگی
نظریہ نمبر۔ ﴿132﴾۔ ﴿انسانی زندگی حرکت و عمل کا مرتب پروگرام ہے۔ ﴾
لہذا انسانی زندگی کی عملی تصویر کچھ یوں بنے گی۔
(1)۔ (روح) مرتب پروگرام۔ (زندگی کا مسودہ)
(2)۔ (جسم) جسمانی حرکت و عمل۔ (پہلے سے مرتب مسودے میں ترمیم و اضافہ کے بعد ریکاڈنگ کا عمل)
(3)۔ اعمال۔ (تیار فلم (اعمال نامہ)
روح کے مرتب پروگرام کے مطابق انسان پوری زندگی اپنی مرضی سے اعمال سرانجام دیتا ہے۔ کبھی وہ روح کے مرتب پروگرام پر ہی چلتا ہے۔ کبھی اس پروگرام میں اپنے ذاتی ارادے سے تبدیلی کر لیتا ہے۔
اور یہ تبدیلی کبھی مثبت ہوتی ہے تو کبھی منفی۔ مثبت تبدیلی کرنے والا انسان اچھا انسان ہے اور مرتب پروگرام میں منفی تبدیلی ( اپنے ذاتی ارادے سے ) کرنے والا ’برا ا انسان ہے۔
لہذا جب روح کا یہ حرکت و عمل کا مرتب پروگرام ختم ہو جاتا ہے تو زندگی کا اختتام ہو جاتا ہے۔ یعنی زندگی کی فلم مکمل ہو گئی۔
یہی انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کی ریکارڈنگ یعنی مکمل فلم اعمال نامہ ہے۔ جسے ہم ملاحظہ کریں گے۔
98۔ نفوس کی درجہ بندی
نظریہ نمبر۔ ﴿133﴾۔ ﴿زندگی کی اسی ریکارڈ فلم کے مطابق نفوس کی درجہ بندی ہو گی﴾
ہماری زندگی کی پوری فلم ریکارڈ ہو چکی ہے۔ اسی ریکارڈ سے پتہ چلے گا کہ انسان نے روح کے مرتب پروگرام کو اپنے ذاتی ارادے سے ملیامیٹ کر دیا یا اسے مزید سنوار دیا۔ لہذا اعمال کے اسی ریکارڈ کے مطابق نفوس کی درجہ بندی ہو گی۔ ویسے تو ہر نفس درجہ بدرجہ ہے، درجے میں ایک آگے ہے تو دوسرا اس سے آگے اور تمام انسان اپنے اپنے اعمال کی مناسبت سے درجہ بدرجہ اپنے اپنے انفرادی مقام پر اپنی اپنی حیثیت میں موجود ہیں۔ لیکن اپنے اپنے ذاتی درجات کے علاوہ بحیثیت مجموعی نفوس کو تین مختلف درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یا یوں کہنا مناسب ہو گا کہ اعمال کی مناسبت سے نفوس تین طرح کے ہوتے ہیں
۱۔ نفس امارہ
جس انسان (نفس)نے روح کے مثبت مرتب پروگرام کو رد کر کے اپنے نفس کے ذاتی ارادے سے بُرے اعمال کر کے اس پروگرام کو ملیامیٹ کر دیا یا بگاڑ دیا تو اس انسان کی پوری زندگی کے ریکارڈ سے یہ طے ہو گیا کہ یہ انسان برا انسان ہے اور یہ نفس، نفس امارہ ہے۔
۲۔ نفس لوامہ
اور جس انسان نے روح کے مرتب پروگرام کو اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی مرضی کے استعمال سے سنوارا ہے تو یہ انسان اچھا انسان ہے۔ اور پوری زندگی کے عملی ریکارڈ سے یہ طے پا گیا کہ یہ نفس، نفس لوامہ ہے
۱۔ نفس مطمئنہ
نفس مطمئنہ والے لوگ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی یا اپنے نفس کی خواہشات کو ترک کر کے اپنی پوری زندگی روح کے مثبت مرتب پروگرام (تقدیر یا مذہب)کے مطابق گزار دی۔ لہذا پوری زندگی کی ریکارڈ فلم سے یہ طے پا گیا کہ یہ نفس، نفس مطمئنہ ہے یہ لوگ اپنے رب کے مطیع اور فرمانبردار بندے ہیں اور انہیں کو نفس مطمئنہ کہا جاتا ہے۔
لہذا انسان کے اچھے یا برے ہونے کا تعین یا نفوس کی درجہ بندی انسان کے عمل کی یہی ریکارڈ فلم (اعمال نامہ) کرے گی۔
لہذا انسان اپنے اچھے برے عمل کا ذاتی اختیار رکھتا ہے۔ اور روح کا مرتب پروگرام اور روح کی وجہ سے ارادی اور غیر ارادی حرکات انسان کے ذاتی ارادے کی ضرورتیں ہیں۔
ظاہر ہے جب انسان کے پاس جسم ہو گا اس میں حرکت ہو گی تبھی انسان ذاتی مرضی کے عمل کے قابل ہو گا۔ جسمانی مشینری دل، دماغ ہاتھ پیر روح کے پروگرام کے مطابق صحیح کام کر رہے ہوں گے تبھی انسان ذاتی ارادے اور عمل کے اظہار کے قابل ہو گا۔ لہذا انسانی زندگی کی عملی تصویر کچھ یوں بنے گی۔
(1)۔ روح مرتب پروگرام۔ (زندگی کا پہلے سے مرتب مثبت مسودہ)
(2)۔ جسمانی حرکت و عمل۔ (زندگی کے مسودے میں انسان کی ذاتی مرضی سے مثبت و منفی ترمیم و اضافے کے بعد ریکاڈنگ کا عمل)
(3)۔ اعمال۔ (تیار اور ریکارڈ فلم (اعمال نامہ)
باب نمبر۹: موت
ہاں ہاں جب جان گلے کو پہنچ جائے گیO
اور کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کر لے اور وہ سمجھ لے گا کہ یہ جدائی کی گھڑی ہے O
اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گیO
اس دن تیرے رب ہی کی طرف ہانکنا ہے O ۲۶۔ ۳۰ (۷۵)
۹۹۔ موت
۱۰۰۔ زندگی
۱۰۱۔ موت کی تعریف۔ ۱۰۲۔ جسم میں روح کی عدم موجودگی۔
(i)خلیاتی تخریب۔
(ii)۔ فالج۔
(iii)نیند
(۴) موت
۱۰۳۔ موت کیا ہے۔
۱۰۴۔ روح کا رابطہ۔
۱۰۵۔ موت کا وقت۔
۱۰۶۔ ری وائینڈ
۱۰۷۔ فیتہ کاٹ دیا گیا
۱۰۸۔ موت کا عمل
۱۰۹۔ روح کی واپسی
۱۱۰۔ روح نکلنے کے بعد
(i)۔ بے حرکت
(ii)۔ انتشار
۱۱۱۔ موت کا خلاصہ
۱۱۲۔ جسم کی موت
99۔ موت
آج جدید تحقیقات کی روشنی میں ہم انسانی جسم کا بہت زیادہ علم رکھتے ہیں اور اسی علم کی روشنی میں آج ہم انسانی اعضاء عناصر جسمانی عوامل سب سے واقف ہیں لیکن ہر لحاظ سے منفرد یہ خون گوشت عضلات رگ پٹھوں خلیوں کا مجموعہ جسم جب موت کا شکار ہوتا ہے تو یہ کائنات کی انتہائی پیچیدہ مشینری مادی جسم موت کی صورت یک لخت غیر متحرک ہو جاتی ہے۔ اور نہ صرف غیر متحرک ہوتی ہے بلکہ موت کے بعد کچھ ہی دنوں میں پانچ چھ فٹ کے متحرک وجود کا نشان ہی نہیں ہوتا۔ کچھ ہی دنوں میں پورا وجود بے نشان ہو جاتا ہے۔ یا مٹی میں مل کر مٹی ہی کا حصہ بن جاتا ہے۔ اب شناخت مشکل ہے کہ مٹی کونسی ہے اور جسمانی ذرات کونسے ہیں۔
پورا متحرک وجود جو چند دن پہلے موجود تھا موت کے بعد اس وجود کا نشان ہی نہ رہا۔ ہڈیاں خون گوشت پوری جسمانی مشینری فقط موت کی صورت میں ہر شے کا نشان مٹ گیا۔ آخر کیسے؟
تمام تر دماغی و جسمانی صلاحیتوں والا تندرست و توانا وجود کیسے موت کی صورت میں یکلخت بے حرکت اور بے نشان ہو جاتا ہے۔
آخر کیا ہے یہ موت؟
خلیوں کی تخریب، بیماری، حادثہ، طبعی موت سائنسدان موت کی یہ اور اس جیسی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اور اس جیسی تمام وجوہات موت کی وجوہات نہیں ہیں نہ ہی کسی بیماری یا حادثے سے موت واقع ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ان تمام وجوہات کی موجودگی میں بھی انسان زندہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ تمام وجوہات موت کی وجوہات نہیں ہیں۔ درحقیقت موت کی وجہ کچھ اور ہی ہے !
لہذا اب ہمیں جان ہی لینا چاہیے کہ آخر وہ کیا شے ہے جس کی وجہ سے یہ جسمانی مشینری متحرک ہے ، موجود ہے اور آخر وہ کیا شے ہے جس کی غیر موجودگی سے یہ انتہائی فعال مشینری یکلخت
(i) بے حرکت ہو جاتی ہے۔ (ii) اور پھر بے نشان ہو جاتی ہے۔
مادی جسم پہ صدیوں کی تمامتر سائنسی تحقیق و تجربات کے باوجود ہم جسم کے وجود اور موت کی صورت میں وجود کی عدم موجودگی کا سبب دریافت نہیں کر پائے ہیں ، نہ ہی ابھی تک ہم زندگی یا موت کی تعریف کر پائے ہیں۔ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جسم کی زندگی کیا ہے ؟ اور موت کیا ہے؟
100۔ زندگی
نظریہ نمبر۔ ﴿134﴾۔ ﴿مادی جسم میں روح کی موجودگی کا نام زندگی ہے۔ ﴾
جب تک اجسام میں روح موجود ہے اجسام زندہ ہیں اور جب روح جسم میں سے نکل جاتی ہے تو جسم بے حرکت اور مردہ ہو جاتا ہے۔
بیماری، حادثہ یا معذوری ہونے کے باوجود انسان زندہ ہوتا ہے بعض اوقات مہلک بیماری کا شکار مریض جس کی زندگی کی امید نہیں برسوں زندہ رہتا ہے۔
بعض اوقات طبعی طور پر انسان پہ موت طاری ہو جاتی ہے لیکن وہ زندہ ہوتا ہے۔
بعض دفعہ کوما کی حالت میں ہوتا ہے لیکن زندہ ہوتا ہے۔
بعض دفعہ کسی سنگین حادثے میں جسمانی اعضاء ضائع ہو جاتے ہیں بعض دفعہ دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے بعض دفعہ حرکت و عمل سے محروم ہو جاتا ہے لیکن زندہ ہوتا ہے ، زندہ رہتا ہے۔
نیند کی حالت بھی کوما یا موت کی سی ہے لیکن انسان زندہ ہے کیوں اور کیسے؟
روح کے سبب!
جب تک روح جسم میں ہے ٹکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ کر دیں جسم زندہ ہی رہے گا، معذور ہو یا بوڑھا یا بیمار وہ زندہ رہنے پہ مجبور ہے جب تک اس کے جسم میں روح باقی ہے وہ زندہ ہے۔ لہذا جسم یا اجسام میں زندگی کا سبب روح ہے۔
(101)۔ موت کی تعریف
نظریہ نمبر۔ ﴿135﴾۔ ﴿مادی جسم سے روح کے خارج ہو جانے کا نام موت ہے۔ ﴾
موت جسم پہ طاری ہوتی ہے یا اجسام موت کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی بھی جسم سے روح کے خارج ہو جانے پر جسم موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
بے ہوشی، بیماری، نیند، کوما کی کیفیت موت نہیں ایسی تمام حالتوں میں انسان زندہ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ جسم تندرست ہوتا ہے کوئی بیماری نہیں لیکن انسانی جسم موت کا شکار ہو جاتا ہے ایسا جسم سے روح کے خارج ہو جانے سے ہوتا ہے۔
موت کی توجیہات پہلے شاید کچھ مختلف بیان کی جاتی تھیں یعنی طبعی موت، پیدائش میں پیچیدگی، کوئی حادثہ، بیماری یا قتل، کوئی نہ کوئی سبب موت کا ضرور بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ تمام وجوہات موت کے اسباب تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ اسباب موت کی وجہ نہیں ان اسباب کے سبب موت واقع نہیں ہوتی۔ ان تمام وجوہات کے باوجود روح جسم میں ہے تو انسان زندہ ہے۔ روح کے جسم سے نکل جانے کا نام موت ہے وہ جسم چاہے کتنا ہی تندرست و توانا اور زندگی سے لبریز کیوں نہ ہو، جسم چاہے کسی بچے کا ہو یا بوڑھے کا یا کسی جوانِ رعنا کا روح کے اس جسم سے خارج ہونے سے یہ جسم مردہ ہے۔ جو چند دن بعد نابود ہو جائے گا۔ جسم کے اعضا ء مٹ جائیں گے خلئے منتشر ہو جائیں گے ایک نظر آنے والا حقیقی وجود نظروں سے اوجھل ہو جائے گا، ایسے کہ نشان بھی نہ رہے گا۔ روح جسم میں تھی تو جسم جسم تھا موجود تھا نظر آ رہا تھا حرکت کر رہا تھا اور جب روح جسم سے خارج ہو گئی تو جسم بے حرکت ہو گیا اور پھر بے نشان ہو کر مٹ گیا جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔
لیکن اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے کہ
مادی جسم میں ’’ موت‘‘ کی صورت میں اگرچہ روح کی عدم موجودگی موت ہے
لیکن جسم میں روح کی ’’محض‘‘ عدم موجودگی موت نہیں ہے کیونکہ روح تو جسم میں آتی جاتی رہتی ہے۔ یعنی جسم میں روح کی عدم موجودگی کی مزید صورتیں بھی ہیں جو کہ موت نہیں ہیں
102۔ جسم میں روح کی عدم موجودگی
نظریہ نمبر:۔ ﴿136﴾۔ ﴿ جسم میں روح کی عدم موجودگی کی مزید صورتیں بھی ہیں جو کہ موت نہیں ہیں۔ ﴾
موت کے علاوہ جسم میں روح کی عدم موجودگی کی مزید درج ذیل صورتیں بھی ہیں۔
(i) خلیاتی تخریب (ii) فالج (iii) نیند، بیہوشی
(i)۔ خلیاتی تخریب
نظریہ نمبر:۔ ﴿137﴾۔ ﴿خلیہ میں روح کی عدم موجودگی سے خلیہ کی موت واقع ہو جاتی ہے ، یا خلیات میں روح کی عدم موجودگی سے خلیات کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن خلیہ یا خلیات کی موت جسم کی موت نہیں ہے۔ ﴾
جب کہ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ موت حیاتیاتی خلیات کی تخریب کا وقت ہے۔
جسم انسانی میں تمام تر خلیات کی تخریب و تعمیر کا عمل پوری زندگی میں تقریباً سات بار ہوتا ہے یعنی پرانے خلیے مرجاتے ہیں نئے ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اگر ہم خلیات کی تخریب کو موت تصور کریں تو اس حساب سے انسان پوری زندگی میں سات بار مرتا ہے اور سات بار جیتا ہے۔ خلیوں کی تعمیر و تخریب کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے لہذا خلیوں کی تخریب و تعمیر کا عمل موت کا عمل نہیں ہے بلکہ زندگی کا عمل ہے یعنی نہ تو خلیے کی موت انسان کی موت ہے نہ ہی خلیاتی تخریب موت کا سبب ہے۔ بلکہ خلیوں کی تخریب و تعمیر کا عمل زندگی میں جسم میں جاری رہتا ہے۔
درحقیقت خلیہ یا خلیات میں روح کی عدم موجودگی سے محض خلیہ یا خلیات کی موت ہوتی ہے جس کی تفصیل ہم پچھلے صفحات میں بیان کر آئے ہیں۔ یعنی خلیہ ایک جاندار وجود ہے جو اپنا کام جانتا ہے اپنا کام کر رہا ہے اور ہر خلیے کے پاس یہ حرکت و عمل کا پروگرام روح کا پروگرام ہے۔ لہذا خلیہ میں روح کی عدم موجودگی سے۔
(1) خلیہ اپنا کام بند کر دیتا ہے
(2) بے حرکت ہو جاتا ہے
(3) مر جاتا ہے۔
لیکن محض خلیہ یا خلیات کی موت سے جسم مردہ نہیں ہوتا خلیہ میں روح کی عدم موجودگی محض خلیہ کی موت ہے۔ اور محض خلیہ کی موت جسم کی موت نہیں ہے۔
(ii)۔ فالج
نظریہ نمبر۔ ﴿137﴾۔ ﴿جسم کے کسی حصے میں روح کی عدم موجودگی جسم کے اس حصے کی موت ہے لیکن یہ جسم کی موت نہیں ﴾
یعنی جسم کے کسی حصے یا عضو سے روح کے خارج ہو جانے سے اس حصے کی موت واقع ہو جاتی ہے لہذا وہ حصہ
۱۔ اپنا کام بند کر دیتا ہے۔
۲۔ بے حرکت ہو جاتا ہے
۳۔ مر جاتا ہے
لہذا اس حصے میں روح تھی جس کی وجہ سے وہ حصہ یا عضو
۱۔ متحرک تھا
۲۔ اپنا کام کر رہا تھا
۳۔ زندہ تھا
لہذا جسم کے کسی حصے میں روح کی عدم موجودگی اس حصے کی موت ہے۔
لیکن جسم کے کسی حصے کی موت بھی جسم کی موت نہیں ہے۔
(iii) نیند
نظریہ نمبر:۔ ﴿138﴾۔ ﴿ جسم میں روح کی عدم موجودگی کی ایک کیفیت نیند کی بھی ہے حالت نیند میں روح جسم سے علیحدہ ہوتی ہے لیکن یہ روح کی جسم سے وقتی علیحدگی کی کیفیت ہے اور روح کی اس وقتی علیحدگی سے جسم موت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ جسم پہ نیند کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ﴾
نیند اور بے ہوشی کی کیفیات جسم میں روح کی عدم موجودگی کی کیفیات ہیں۔ لیکن ان کیفیات میں روح کی عدم موجودگی کے باوجود انسان زندہ ہوتا ہے یعنی نیند یا بیہوشی کی تمام تر کیفیات موت کی کیفیات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند یا بے ہوشی کی حالت میں اگرچہ روح اور نفس (AURA) جسم کو چھوڑ گئے ہیں لیکن مستقل طور پر نہیں۔ ان کیفیات میں اگرچہ ایک مردہ انسان کی طرح انسان بے حرکت و عمل ہوتا ہے اور روح اور (AURA) اگرچہ جسم سے چلے گئے ہیں لیکن جسم سے برا ہ راست رابطے میں ہیں۔ اور اسی رابطے کی وجہ سے جسم میں زندگی موجود ہے۔
اگر روح اور نفس(AURA) جسم سے یہ رابطہ منقطع کر لیں تو نیند یا بے ہوشی موت میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اگر یہ روح اور نفس کا رابطہ جسم سے جڑا رہے تو چاہے برسوں جسم کو ما یا بے ہوشی میں رہے وہ زندہ ہی رہے گا۔
لہذا جسم میں روح کی صرف عدم موجودگی موت نہیں کیونکہ روح تو نیند بے ہوشی وغیرہ کی صورت جسم میں آتی جاتی رہتی ہے لہذا فالج نیند یا بیہوشی، حادثہ یا بیماری موت کے اسباب نہیں۔ نہ ہی خلیاتی تخریب سے موت واقع ہوتی ہے۔ لہذا روح کی جسم میں عدم موجودگی سے فقط نیند، بے ہوشی وغیرہ کی کیفیات نمودار ہوتی ہیں۔
یعنی روح کی جسم میں فقط عدم موجودگی بھی موت نہیں۔
تو پھر موت کیا ہے ؟
103۔ موت کیا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿140﴾۔ ﴿ روح کی جسم سے مستقل علیحدگی موت ہے۔ ﴾
جب روح جسم سے مستقل طور پر علیحدہ ہو جاتی ہے تب جسم پر موت واقع ہو جاتی ہے۔
جب کہ بے ہوشی یا نیند کی حالت میں روح اگرچہ جسم سے علیحدہ ہوتی ہے لیکن مستقلاً نہیں بلکہ یہ جسم سے اپنا رابطہ برقرار رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں روح کی عدم موجودگی کے باوجود اگرچہ جسم بظاہر بے حرکت نظر آتا ہے لیکن وہ نہ صرف زندہ ہوتا ہے بلکہ اس میں حرکت بھی موجود ہوتی ہے۔ روح کی جسم سے وقتی علیحدگی کی وضاحت تو ہو گئی لیکن موت یعنی روح کی جسم سے مستقل علیحدگی کو جاننے کے لئے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ روح جسم سے کیسے مربوط ہے۔ اور یہ رابطہ موت کی صورت میں مستقل طور پر کب اور کیسے ٹوٹتا ہے۔
104۔ روح کا رابطہ
نظریہ نمبر:۔ ﴿141﴾۔ ﴿ روح ایک برقی تار کے ذریعے جسم سے مربوط ہے۔ ﴾
روح انرجی ہے اور اگرچہ روح خود جسم سے باہر ہے لیکن یہ انرجی یعنی روح خود اور نفس(AURA) کی صورت پورے جسم میں بھی دور کر رہی ہے۔
اور یہ روح و نفس جسم سے ایک برقی تار کے ذریعے جڑا ہوا ہے جسم میں روح کا یہ برقی سسٹم بالکل بجلی کے سسٹم جیسا ہے۔ جیسے بیرونی بجلی تاروں کے ذریعے پورے گھر میں سپلائی ہو رہی ہوتی ہے بالکل اسی طرح روح کی بیرونی انرجی ایک برقی سسٹم کے تحت جسم کے اندر کام کر رہی ہے۔
لہذا جب روح و نفس (AURA) نیند یا بے ہوشی کی صورت میں جسم سے نکلتے ہیں تو یہ برقی تار یا انٹینا جسم سے جڑا رہتا ہے۔ اور اسی مسلسل برقی رابطے کے ذریعے روح و نفس جسم سے باہر ہونے کے باوجود مادی جسم سے مسلسل مربوط رہتے ہیں۔ مادی جسم اور روح و نفس کے اس رابطے کی مثال بالکل ٹی وی اور اس کے انٹینے جیسی ہے۔ لہذا اسی برقی رابطے کی وجہ سے جسم برسوں کوما میں پڑے رہنے کے باوجود زندہ ہوتا ہے۔
روح ایک برقی تار کے ذریعے جسم سے مربوط تو ہے لیکن کیا کسی حادثے یا بیماری سے یہ رابطہ ٹوٹتا ہے ؟
اس کا جواب ہے نہیں۔
کسی حادثے یا بیماری سے یہ رابطہ نہیں ٹوٹ سکتا
تو پھر یہ رابطہ کب ٹوٹتا ہے ؟ اور کیسے ٹوٹتا ہے ؟
105۔ موت کا وقت
نظریہ نمبر:۔ ﴿142﴾۔ ﴿ مسودۂ زندگی (تقدیر) کا اختتام موت کا وقت ہے۔ ﴾
یعنی موت پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے وقت پر واقع ہوتی ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کل یہ انسان ٹھیک ٹھاک تھا اور آج یہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے یا حادثے میں مرگیا تو موت کے بارے میں ہمارا یہ تصور ٹھیک نہیں ہے۔
کسی بھی حادثے یا بیماری سے انسان اچانک نہیں مرتا بلکہ اس کی موت تو پہلے سے طے شدہ پروگرام ہے۔ انسانی زندگی کی ابتداء سے انتہا یعنی انسان کی زندگی کے پہلے دن سے موت تک کا پروگرام اس کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا اور روح تقدیر کا یہ ریکارڈ پروگرام جسم کو بھیج رہی تھی اور روح کے اسی پروگرام پہ انسان اپنے (نفس) ارادے سے رد و بدل کر کے حرکت و عمل کر رہا تھا۔ انسان کو روح کی طرف سے جو حرکت و عمل کا پروگرام مل رہا تھا جب وہ تحریر شدہ پروگرام(تقدیر) مکمل ہو گیا، ختم ہو گیا لہذا اب روح کی طرف سے جسم کو حرکت و عمل کے لیے کوئی پروگرام کوئی اطلاع نہی ملے گی لہذا جسم میں نہ تو کوئی حرکت نمودار ہو گی نہ ہی انسان اپنے ذاتی ارادے کے استعمال کے قابل رہا ہے۔ لہذا روح کے مرتب پروگرام (تقدیر) کا اختتام دراصل زندگی کا اختتام ہے۔ اور مسودہ زندگی کا اختتام دراصل موت کا وقت ہے۔ یہ مسودہ زندگی پہلے سے مرتب مخصوص صفحات کی کتاب تھی جس کا اب اختتام ہو گیا ہے۔
اسی مرتب تحریر یعنی تقدیر کے موصول ہونے کے بعد انسان اپنے ذاتی ارادے سے اس میں رد و بدل کر کے عمل کر رہا ہے اور اس کا یہ عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ لہذا یہ مخصوص صفحات کی کتاب ختم ہوئی تو انسان کی زندگی کی ریکارڈنگ بھی ختم ہو گئی یعنی زندگی کی فلم مکمل ہو گئی لہذا زندگی کا اختتام ہو گیا۔ اب زندگی کے اختتام پر موت کے عمل کا آغاز ہو گا۔
106۔ ری وائینڈ
نظریہ نمبر:۔ ﴿143﴾۔ ﴿زندگی کی فلم مکمل ہونے کے بعد ری وائینڈ ہو گی۔ ﴾
روح کے پاس انسانی زندگی کی حرکت و عمل کا مکمل مرتب پروگرام (تقدیر) ہے۔ اسی تحریری اطلاع کے ملنے کے بعد انسان اس اطلاع میں مثبت یا منفی رد و بدل کر کے حرکت و عمل کرتا ہے اور یوں اس کی حرکت و عمل، اعمال کی صورت میں ریکارڈ ہوتی جاتی ہے۔ لہذا جب حرکت و عمل کا یہ مرتب پروگرام اختتام کو پہنچتا ہے تو جسمانی حرکت و عمل کا بھی اختتام ہو جاتا ہے۔ لہذا جیسے ہی روح کے مرتب پروگرام سے آخری عمل کی اطلاع آ جاتی ہے اور اس اطلاع پہ آخری عمل بھی مکمل ہو جاتا ہے تو یہ فلم مکمل ہو جاتی ہے۔
اور یہ اعمال کی فلم تکمیل کے بعد ری وائینڈ ہوتی ہے۔
جیسے کیمرے کی آخری تصویر کھنچ جانے کے بعد فلم خود بخود ری وائینڈ ہوتی ہے بالکل اسی طرح زندگی کی فلم مکمل ہو چکنے کے بعد ری وائینڈ ہوتی ہے۔ جب ہم وی سی آر پر فلم دیکھتے ہوئے اسے ری وائینڈ کرتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے سے کئی گھنٹوں کی فلم کے مناظر بڑی تیز رفتاری کے ساتھ منٹوں میں گزر جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب انسانی فلم مکمل ہونے کے بعد ری وائینڈ ہوتی ہے تو ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پوری زندگی کے گذشتہ تمام واقعات تیزی سے نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ لہذا یہ وقت ہے زندگی کے اختتام کا۔
اب زندگی کی فلم مکمل ہو کر ری وائینڈ بھی ہو گئی اب کیا ہو گا۔
107۔ فیتہ کاٹ دیا گیا
نظریہ نمبر:۔ ﴿144﴾۔ ﴿ موت کے آرڈر پر برقی تار کاٹ دیا گیا۔ ﴾
زندگی کی فلم مکمل ہونے کے بعد جب ری وائینڈ ہو چکی تو موت کے آرڈر پراس زندگی کی فلم کا فیتہ کاٹ دیا گیا۔
اس برقی تار (رگِ دل) کے کٹتے ہی روح و نفس جو اس برقی تا ر سے جسم سے جڑے تھے الگ ہو گئے۔ روح جسم سے نکل گئی اس برقی تار کے کٹتے ہی روح و جسم کا رابطہ مستقل طور پر منقطع ہو جاتا ہے۔ اور یہی روح و جسم کی مستقل علیحدگی موت ہے۔ روح جو جسم کی انرجی جسم کی حرکت و عمل کا پروگرام تھی وہ جسم سے نکل گئی وہ برقی تار کاٹ دی گئی جس کے ذریعے روح کی بجلی پورے جسم میں دوڑ رہی تھی اس برقی تار کے کٹنے سے جسمانی بجلی کا سسٹم ختم ہو گیا۔ اس برقی تار کے کٹتے ہی روح جسم کو خیرباد کہہ دے گی اور یہی موت ہے۔ ورنہ بے ہوشی یا نیند کی حالت میں اگرچہ روح جسم سے چلی جاتی ہے لیکن اس برقی تار کی وجہ سے روح و جسم کا رابطہ قائم رہتا ہے۔ لہذا جب تک روح جسم سے یہ برقی رابطہ جوڑے رکھتی ہے تو انسان چاہے برسوں بے ہوش رہے وہ زندہ رہتا ہے۔ لیکن جب روح کا یہ برقی کنکشن کٹ جاتا ہے تو جسم موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ جسم تندرست و توانا ہی کیوں نہ ہو۔ اس برقی کنکشن کے کٹتے ہی یہ تندرست و توانا جسم بے حرکت و عمل ہو جائے گا۔ ختم ہو جائے گا۔ لہذا جب زندگی کی فلم مکمل ہو گئی تو فیتہ کاٹ دیا گیا لیکن ابھی موت کا عمل مکمل نہیں ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ برقی تار کے کٹنے کے بعد کیا ہوا؟یہ فیتہ کٹ جانے کے بعد بھی موت کا عمل جاری ہے۔
108۔ موت کا عمل
نظریہ نمبر:۔ ﴿145﴾۔ ﴿ جسم سے روح کے نکلنے کا عمل موت کا عمل ہے۔ ﴾
لہذا برقی تار کے کٹتے ہی روح جسم سے نکل رہی ہے۔ چونکہ جسم پر موت روح کے نکلنے سے واقع ہوتی ہے لہذا موت کا عمل جسم سے روح کے نکلنے کا عمل ہے۔ لہذا وہ روح جو جسم کے ہر یونٹ ہر خلیے میں تھی اسی روح کے جسم کے ہر خلیے ہر رگ و ریشے سے نکلنے کا عمل موت کا عمل ہے۔ اور جسم کے ہر رگ و ریشے سے روح کے نکلنے کا عمل ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔
جب کسی اچانک حادثے یا بیماری کے سبب کوئی مر جاتا ہے اور ہم اس کی موت کا اعلان کر دیتے ہیں تو اس اچانک موت کا سبب ہرگز کوئی حادثہ یا بیماری نہیں بلکہ موت کا پروگرام تو طے شدہ پروگرام تھا۔ یہ جسے ہم اچانک موت کہہ رہے ہیں جس کا سبب ہم نے بیماری یا حادثہ قرار دیا ہے اس موت کا عمل تو بہت پہلے سے شروع ہو چکا ہے اور موت کے اعلان کے بعد بھی جاری ہے۔
جسم موت کا شکار ہوتا ہے اور جیسے طویل تخلیقی مراحل سے گزر کر جسم عدم سے وجود میں آیا تھا اسی طرح اب یہ جسم موت کے طویل مراحل سے گزر کر وجود سے عدم ہو گا۔
لہذا موت کا عمل شروع ہو رہا ہے برقی تار کے کٹنے سے۔ لہذا برقی تار کے کٹتے ہی روح جسم سے نکل رہی ہے۔
109۔ روح کی واپسی
نظریہ نمبر:۔ ﴿156﴾۔ ﴿روح ناک کے راستے جسم سے باہر نکلے گی۔ ﴾
روح کوئی ٹھوس شے نہیں روح جسم میں ایسے ہی ہے جیسے بجلی پورے گھر میں تاروں کے ذریعے دوڑ رہی ہے ہر شے بجلی سے متحرک و روشن ہے۔ ایسے ہی روح بجلی کی طرح جسم کے ہر خلیے ہر یونٹ میں دوڑ رہی ہے۔ ہر خلیے ہر عضو کو متحرک، منظم، مربوط اور زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اب ہر ہر خلیے سے روح نکلے گی۔ یعنی جسم کا ہر زرہ ہر خلیہ جسم کی موت کے ساتھ انفرادی موت کا شکار بھی ہو گا۔ لہذا جسم کے ہر ذرے ہر خلیے میں ٹوٹ پھوٹ، کھنچاؤ، بے چینی، ہر رگ و ریشے میں تکلیف ہو گی۔ گھٹن گھبراہٹ اور بے چینی کی کیفیت میں آنکھیں پھیل کر چاروں طرف گھومنے لگتی ہیں۔ کہ ہے کوئی بچاؤ کا راستہ، ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا۔ اب وہ حال ہے کہ جھاڑ پھونک کو بد عقیدگی تصور کرنے والے اس پر بھی آمادہ نظر آتے ہیں۔ مرنے والے کی خواہش ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اس کیفیت سے چھٹکارا پا سکے۔
جسم کھنچ کر اکٹھا ہو رہا ہے۔
پنڈلی سے پنڈلی لپٹ رہی ہے۔
یہ تمام تر کیفیات جسم سے روح کے اخراج کی ہیں۔ جسم کے ہر رگ و ریشے سے روح نکلنے کا عمل ایسے ہی ہے جیسے کانٹے دار جھاڑی پہ باریک کپڑا ڈال دیا جائے اور پھر اسے کھینچنے کی کوشش کی جائے اور اس کوشش میں وہ تار تار ہو جائے۔ اب جو روح جسم کے ہر رگ و ریشے سے کھنچی جا رہی ہے تو جسم کی کیفیت اسی بوسیدہ کپڑے کی سی ہے یعنی تار تار۔ لہذا جسم سے روح نکل رہی ہے تو سب سے پہلے ٹانگوں سے جان نکلے گی
ٹانگوں سے نکلنا شروع ہو گی اور اوپر کی طرف سرکے گی۔
لہذا ہر خلیے ہر جوڑ سے سرکتے سرکتے اب یہ جان (روح) گلے تک آ پہنچی۔
۔ (روح) گلے تک آ پہنچی
اب گلے میں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کچھ اٹک رہا ہے گلے میں کوئی گولا سا پھنس رہا ہے جس کی وجہ سے سانس رکتی محسوس ہو رہی ہے۔ کھینچ کر سانس لینا پڑ رہا ہے۔ یہ گلے میں جو گولا سا پھنس رہا ہے یہ آپ کی جان(روح) ہے جو گلے تک آ پہنچی۔ لہذا اب یہ جان (روح) گلے سے مزید آگے سرکے گی تو سر میں آ جائے گی اور پھر سر کے درمیان سے سرک کر یہ پیشانی کے بیچ میں یعنی پیشانی میں آ جائے گی۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پیشانی کے بیچ میں خلاء سا بن گیا ہے ما تھا ٹھنڈا محسوس ہو رہا ہے۔ اب روح (جان) پیشانی سے مزید آگے سرکے گی اور پیشانی سے سرک کر ناک میں آ گئی۔
ناک میں آ گئی
اب یہ کیفیت ہے کہ روح ناک کے راستے نکلنا ہی چاہتی ہے۔ یہ کیفیت کچھ ایسی ہے جیسے زکام کے وقت ناک سے پانی ٹپکتا ہے۔ ناک سے پانی ٹپکنے کے احساس کے ساتھ انسان جلدی سے ناک کے نیچے ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ اب بالکل یہی کیفیت ہے۔ اب روح ناک کے راستے نکلنا ہی چاہتی ہے۔ لہذا روح نکلنے کے احساس کے وقت غیر اختیاری طور پر انسان ایسے ہی ناک کے نیچے ہاتھ رکھ لیتا ہے جیسے پانی ٹپکنے کے احساس سے رکھ لیتا ہے۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نتھنوں کو چیر کر نکلنا چاہتی ہے۔ لہذا برقی تار کٹتے ہی روح ناک سے باہر ہو جائے گی۔ اور انسانی مادی جسم محض لمبا سا سانس کھینچ کر بے جان رہ جائے گا۔ بغیر روح کے ! جیسے کسی بھی مشین میں فقط ایک بٹن بند کرنے سے بجلی یکلخت بند ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح ایک آرڈر (موت کا حکم) کے ذریعے موت پیروں سے ابتدا کر کے ناک کے ذریعے یکلخت جسم سے باہر نکل جاتی ہے۔ بالکل بجلی یا ہوا کی طرح یہ عمل سیکنڈوں کا ہے۔
لیکن یہ لمحوں کا عمل لمحوں میں بھی ظہور میں آ سکتا ہے اور یہ لمحوں کا عمل ہفتوں مہینوں پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔ اچھے لوگوں کی روح لمحوں میں ہوا کی طرح نکل جاتی ہے۔ برے لوگوں کی روح ہفتوں، مہینوں میں جوڑ جوڑ سے سرکتی ہے جیسے کانٹے دار جھاڑی سے باریک کپڑا گھسیٹا جا رہا ہو۔ جوڑ جوڑ میں تکلیف
گھبراہٹ بے چینی کبھی ایک حصے سے جان گئی تو ہفتوں بعد دو سر سے۔ یعنی لمحوں کا عمل مہینوں پہ محیط ہو گیا۔
اب وہ روح جو بجلی کی طرح پورے جسم میں دوڑ رہی تھی وہ روح برقی تار کے کٹتے ہی جسم کے ہر رگ و ریشے سے (طویل مراحل طے کر کے )خارج ہو گئی۔
لیکن روح کے خارجِ جسم ہو جانے کے بعد بھی موت کا عمل مکمل نہیں ہوا بلکہ جسم میں ابھی موت کا عمل جاری ہے۔
جسم سے روح نکلنے کا عمل تو مکمل ہو گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد موت کا کونسا مرحلہ باقی ہے۔
110۔ جسم سے روح نکل جانے کے بعد
نظریہ نمبر۔ ﴿147﴾۔ ﴿جسم سے روح نکل جانے کے بعد جسم مزید دو کیفیات کا شکار ہو گا۔ یا جسم سے روح نکل جانے کے بعد جسم پہ مزید دو کیفیتیں نمودار ہوں گی
(i)۔ بے حرکت۔
(ii)۔ انتشار۔ ﴾
(i)۔ بے حرکت
نظریہ نمبر۔ ﴿148﴾۔ ﴿جسم سے روح کے اخراج کے بعد جسم کی پہلی کیفیت حرکت و عمل کا مفقود ہونا ہے۔ ﴾
روح کے جسم سے خارج ہو جانے کے بعد مادی جسم پر جو پہلی کیفیت طاری ہوتی ہے وہ حرکت و عمل کا مفقود ہونا ہے۔ ایک چلتا پھر تا، سوچتا سمجھتا، حرکت کرتا وجود روح کے خارج جسم ہو جانے سے یکلخت بے حرکت ہو جاتا ہے۔ بے عمل ہو جا تا ہے۔ کوما بے ہوشی یا نیند کی کیفیت میں اگرچہ بظاہر جسم بے حرکت ہوتا ہے لیکن جسم میں جان اور حرکت موجود ہوتی ہے۔ جب کہ روح کے جسم سے مستقل اخراج کے بعد جسم بالکل بے حرکت ہو جاتا ہے۔ اب اس جسم کے ٹکڑے ہی کیوں نہ کر دیں اس میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہو سکتی۔ لیکن فقط حرکت و عمل کے مفقود ہونے سے موت کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ موت کا عمل ابھی جاری ہے۔ موت کے عمل کا اگلا مرحلہ ہے انتشار۔
(ii)۔ انتشار
نظریہ نمبر۔ ﴿149﴾۔ ﴿جسم سے روح نکل جانے کے بعد موت کا دوسرا مرحلہ ہے انتشار یعنی مادی جسم میں تغیر کا رونما ہونا۔ ﴾
روح کے جسم سے خارج ہونے کے بعد دوسری کیفیت جو شروع ہوتی ہے وہ ہے خلیوں کا انتشار۔ جسم کا جوڑ جوڑ خلیہ خلیہ منتشر ہونے لگتا ہے جو خلیے روح کی وجہ سے مرکب تھے روح کے جسم سے جانے کے بعد اب وہ مرکب نہیں رہ سکتے لہذا خلیہ خلیہ منتشر ہو گیا بکھر گیا اور اس انتشار کے نتیجے میں وجود وجود نہ رہا بے نشان ہو گیا کچھ بھی نہ بچا۔
کچھ عرصے بعد ڈھونڈئیے نظر آنے والے گوشت پوست کے وجود کا نشان بھی نہ ملے گا کہ کہاں گیا کیسے گیا۔ روح کے نکلتے ہی یہ کیسا انتشار برپا ہوا ہے کہ
وجود کا وجود ہی نہ رہا۔ (زندگی میں خلیوں کی تخریب اور موت واقع ہونے کے بعد خلیوں کی تخریب میں فرق ہے۔ زندگی میں خلیوں کی تخریب کے عمل میں تمام خلیے یکدم نہیں مرتے بلکہ یکے بعد دیگرے مرتے اور تعمیر ہوتے رہتے ہیں یہ خلیوں کی تعمیر و تخریب موت کا نہیں بلکہ زندگی کا عمل ہے لہذا کوما میں برسوں پڑا رہنے والا وجود جوں کا توں موجود ہوتا ہے جب کہ موت کی صورت میں روح کے مستقل طور پر خارج از جسم ہو جانے کے بعد تمام تر خلیے مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ خلیوں کی دوبارہ تعمیر نہیں ہوتی۔ تمام تر خلیے مر کر مستقل طور پر فنا ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ موت کے بعد انتشار کا پروگرام مکمل ہوتا ہے تو پورے وجود کا نشان بھی نہیں بچتا حتی کہ گوشت پوست کے علاوہ ہڈیاں تک اس انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پورا وجود ایسے ذروں میں بکھرتا ہے کہ کچھ دنوں میں ہی پورے وجود کا کہیں نشان بھی نہیں ہوتا)۔ موت کی صورت میں روح کے مستقل طور پر خارج از جسم ہونے سے موت کی یہ دونوں کیفیات جنم لیتی ہیں اور موت کا عمل مکمل ہوتا ہے اور اسی کو موت کہتے ہیں۔ ورنہ برسوں لوگ بے حرکت و عمل پڑے رہتے ہیں لیکن ان کا وجود برقرار رہتا ہے برسوں کوما میں رہتے ہیں لیکن نہ تو مرتے ہیں نہ وجود منتشر ہوتا ہے اس لئے کہ ان پر موت طاری نہیں ہوئی روح جسم میں موجود ہے۔ لہذا موت کا عمل واقع نہیں ہوا لہذا فقط بے حرکت و بے عمل ہونے سے بھی موت واقع نہیں ہوتی یا موت بے حرکت و عمل ہو جانے کا نام بھی نہیں ہے۔ جب تک موت کا عمل مکمل نہیں ہو گا موت واقع نہیں ہو گی چاہے کوئی بھی حادثہ ہو جائے۔ لہذا
۱۔ جسم کے ہر یونٹ ہر خلیے کے پاس روح کا پروگرام تھا۔
۲۔ جسم روح کی وجہ سے زندہ تھا۔
۳۔ خلیوں کو باہم مرکب کر کے جسم ترتیب دینے والی بھی روح تھی۔
لہذا روح کی عدم موجودگی سے
۱۔ خلیہ اپنا کام نہیں کر سکتا۔
۲۔ زندہ نہیں رہ سکتا۔
۳۔ تمام خلیات باہم مربوط نہیں رہ سکتے۔
لہذا روح کی مستقل عدم موجودگی یعنی موت کی صورت میں
جسم میں کوئی حرکت و عمل واقع نہیں ہو سکتی،
جسم جسمانی حالت میں مربوط نہیں رہ سکتا،
یعنی موت کی صورت میں جسم نہ صرف یہ کہ بے حرکت و عمل ہو جاتا ہے بلکہ وجود، وجود سے عدم ہو جاتا ہے۔ فنا ہو جاتا ہے۔
یہی موت ہے۔ جسم کی موت۔
111۔ موت کا خلاصہ
اب یہاں تک پہنچ کر موت کی تعریف مکمل ہوئی۔
ہم تفصیلاً مرحلہ وار بیان کر آئے ہیں کہ جسم پہ موت کیسے واقع ہوتی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
آج تک موت کی وجوہات خلیوں کی انتہائی تخریب، حادثہ، بیماری وغیرہ بیان کی جاتیں رہیں ہیں۔
جب کہ یہاں نئے نظریات کے ذریعے موت کی تعریف کرتے ہوئے ہم نے وضاحت کی ہے کہ
۱۔ موت کا سبب خلیاتی تخریب، حادثہ، بیماری (یا دیگر وجوہات )نہیں ہیں۔
۲۔ موت کا واحد سبب روح کی جسم سے مستقل علیحدگی ہے۔ لہذا جب روح جسم کو مستقل طور پر چھوڑ جاتی ہے تو جسم موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
۳۔ انسانی موت کسی بھی حادثے یا بیماری کی وجہ سے اچانک واقع نہیں ہو جاتی بلکہ موت ایک طویل اور پیچیدہ مرحلہ ہے جو بہت پہلے سے طے شدہ پروگرام ہے۔
لہذا اچانک نہیں بلکہ طے شدہ وقت پہ موت کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
یعنی کوئی نہیں جانتا کہ یہ صحیح و سالم شخص اچانک مرنے والا ہے نہ ہی اس کی طبعی موت کا اعلان ہوا ہے لیکن موت کا وقت (یعنی روح کی واپسی)آ گیا ہے لہذا صحیح و سالم شخص کے اندر موت کا عمل شروع ہو گیا ہے لہذا
۴۔ کتابِ تقدیر کا اختتام ہوا۔
۵۔ اب روح کے مرتب پروگرام(تقدیر)سے عمل کی آخری اطلاع آئے گی۔
۶۔ آخری عمل مکمل ہوتے ہی۔
۷۔ زندگی کی فلم ری وائنڈ ہو گی۔
۸۔ پھر برقی تار(رگِ دل) کاٹ دی جائے گی۔
۹۔ روح جسم سے الگ ہو جائے گی۔
۱۰۔ روح ناک کے راستے جسم سے باہر نکلے گی۔
۱۱۔ برقی تار کے کٹتے ہی جسم کے ہر رگ و ریشے سے روح نکلنے کا عمل لمحوں میں بھی مکمل ہو سکتا ہے اور ہفتوں مہینوں پہ مشتمل تکلیف دہ اور طویل مرحلہ بھی ہو سکتا ہے۔
جسم سے روح نکل جانے کے بعد یعنی موت کے اعلان کے بعد
۱۲۔ جسم ہمیشہ کے لئے بے حرکت و عمل ہو جاتا ہے۔
۱۳۔ جسم کا ہر ہر خلیہ جو روح کی وجہ سے مربوط تھا، منتشر ہو جاتا ہے۔ اور وجود وجود سے عدم ہو جاتا ہے
یہی موت ہے۔
موت جسم کے بے روح، بے حرکت و عمل اور بے نشان ہو جا نے کا نام ہے۔
112۔ جسم کی موت
نظریہ نمبر۔ ﴿150﴾۔ ﴿لیکن یہ موت فقط جسم کی موت ہے۔ جسم موت کا شکار ہوا ہے انسان نہیں۔ ﴾
انسان تو ابھی زندہ ہے، موجود ہے۔
موت جسم کے بے روح، بے حرکت اور بے نشان ہو جانے کا نام ہے اور اس موت کا شکار فقط مادی جسم ہوا ہے۔
اور انسان محض مادی جسم نہیں ہے۔
انسان روح +نفس+مادی جسم کا مجموعہ ہے۔
ابھی تو محض مادی جسم کی موت ہوئی ہے ۱ابھی باقی انسان یعنی روح و نفس تو باقی ہیں۔
وہ کہاں گئے۔؟
یہ جاننا ابھی باقی ہے۔
باب نمبر۔ ۱۰ : زندگی کے بعد زندگی
۱۔ کیا انسان کا اختتام ہو گیا
۲۔ زندگی کے بعد زندگی
۳۔ زندگی اور موت کے تجربات
۴۔ موت کے بعد
113۔ کیا موت کی صورت انسان کا اختتام ہو گیا
نظریہ نمبر:۔ ﴿151﴾۔ ﴿انسان کبھی نہیں مرتا اجسام مر جاتے ہیں۔ ﴾
جی ہاں ابھی فقط جسم کی موت ہوئی ہے انسان کی نہیں۔ اس لیے کہ انسان محض جسم نہیں۔ موت جسم کے بے روح بے حرکت اور پھر بے نشان یعنی فنا ہو جانے کا نام ہے اس موت کا شکار فقط مادی جسم ہوتا ہے۔
کیا مادی جسم کے ساتھ انسان کا خاتمہ ہو جاتا ہے ؟اس کا جواب ہے نہیں انسان کبھی نہیں مرتا یا اصل انسان یعنی اس کی روح کبھی نہیں مرتی۔
اس کا ثبوت وہ خواب یا روحانی واقعات ہیں جن میں ہم اپنے مردہ عزیز و اقارب کا مشاہدہ زندوں کی طرح کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ یہ خواب یا مشاہدات و، واقعات فریب نظر ہیں یا وہم ہیں تو یہ بے انتہا بے عقلی کی بات ہے۔
۱۔ اول تو جو شے ہے جس کا تصور ہے خیال ہے یا وہم ہے وہ موجود ہے۔
۲۔ دوم یہ کیسا وہم اور فریب ہے جس میں پوری دنیا کے لوگ ہمیشہ سے مبتلا ہیں یہ وہم اور فریب تو ہر شخص کو ہمیشہ سے ہے۔
جس طرح ہم ٹی وی پر متحرک تصویروں کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض وہم ہے نظر کا دھوکہ یا خود فریبی ہے کہ جس سے یہ تصویریں ہمیں متحرک نظر آ رہی ہیں۔ ہم اس لئے اس عمل کو جھٹلا نہیں سکتے کے ہم سب ان متحرک تصویروں کے وجود اور وجوہات سے آگاہ ہیں کہ کس طریقے سے یہ فلم ہمیں متحرک نظر آ رہی ہے۔ اگر کوئی اسے وہم قرار دے یا فریب نظر تو ہم بلا شبہ اسے قبل مسیح کا کوئی فرد سمجھیں گے جو علم اور عقل سے عاری کسی غار سے اٹھ آیا ہے۔ اس غار سے اٹھ آنے والے آدمی جیسی ہی کیفیت آج ہماری ہے اس لئے کہ ایسی ہی فلم سے مشابہ خواب یا ماورائی واقعات کے مسلسل تاریخی تسلسل کو ہم محض اس لئے جھٹلا دیتے ہیں کہ یہ ہمارے علم کی ذد میں نہیں آتے ہم تجربے و مشاہدے میں آنے والے ان بے شمار واقعات کو محض اس لئے فریبِ نظر قرار دیتے ہیں کیونکہ ہم اس عمل کی حقیقت سے نا واقف ہیں۔ جب کہ یہ انکار محض لاعلمی پر مبنی غیر حقیقی رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مردہ اجسام کے علاوہ اصل انسان اور اس کی حقیقت اور خصوصیات تک سے نا آشنا ہیں۔ یعنی ہم اپنے آپ ہی سے بے خبر ہیں۔ ہم روح و نفس سے ناواقف ہیں یعنی اپنے آپ سے نا واقف ہیں۔ جب کہ ہمارے نفس یا روح کی آنکھیں جو دراصل ہماری آنکھیں ہیں خواب کی حالت میں کسی ا ور ہی دنیا(روح و نفس کی دنیا) میں جھانک رہی ہیں ہم کہیں اور کسی اور ہی حالت میں موجود ہیں کسی اور ہی دنیا میں موجود ہیں وہاں ہم گھوم پھر رہے ہیں اپنے مردہ عزیزو اقارب کو دیکھ رہے ہیں ان سے ملتے ہیں گفت و شنید کرتے ہیں اور بہت سے مشاہدے کرتے ہیں۔ اور حالتِ بیداری میں غافل شعور جو ان حرکات و اعمال کے محرک سے ناواقف ہے اسے حقیقت تسلیم کرنے میں تعامل کرتا ہے اور اسے خواب کا نام دے دیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا محض جسم موت کا شکار ہو کر فنا ہوتا ہے ورنہ انسان تو ہمیشہ زندہ رہتا ہے اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ بلکہ جسمانی موت کے بعد روح و نفس کے انتقال کے بعد انسانی خصوصیات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ فقط وہ جسم مردہ ہوتا ہے جس میں رہتے ہوئے انسان اپنا مظاہرہ کر رہا تھا۔ جسم مردہ ہوا
ہے انسان جوں کا توں موجود ہے ہاں وہ جسم کی موت کی صورت میں کہیں اور منتقل ہو گیا ہے۔ یہ جسم تو فقط لباس تھا جو انسان نے اتار پھینکا۔ اور خود تو انسان اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ انسان کہیں سے آیا ہے اور کہیں جا رہا ہے۔
114۔ زندگی کے بعد زندگی(Life After Life)
ڈاکٹر ریمنڈ موڈی نے اپنی کتاب لائف آفٹر لائف میں ایک سو پچاس کے قریب مر کر زندہ ہوئے لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے موت کے بعد کے مشاہدات میں پندرہ مشترک باتوں کا ذکر کیا ہے جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ موت کی صورت میں انسان انتہائی کرب سے دوچار ہوتا ہے اور پھر وہ موت کے بعد اپنے آپ کو اپنے جسم کے پاس کھڑا پاتا ہے یعنی موت کے بعد اب وہ جسم سے باہر ہے اور اپنے جسم کو دیکھ رہا ہے۔ کمرے میں اپنے دیگر مردہ رشتے داروں کو اپنے استقبال کے لئے موجود پاتا ہے ایک اجنبی اس کو انجان منزل کی طرف لیکر چل پڑتا ہے۔
وہ ہوا میں اڑرہا ہے تاریک غار سے گزرتا ہے غار کے دوسری طرف روشنی ہے وہاں اس کی ملاقات نوری ہستی سے ہوتی ہے جو اس سے اس کی زندگی کے متعلق سوال کرتی ہے اور پھر اس کی پوری زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح آ جاتی ہے۔
ڈبلیوایچ مائرز (Fredric W. H. Myers) نے اپنی کتاب Human Personality and its survival of Bodily Death میں سینکڑوں واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے سپرٹ (Spirit)کہتے ہیں۔
افلاطون کی تحریروں میں موت کے تجربات کثرت سے بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر افلاطون کہتا ہے کہ زندہ آدمی کا مادی جسم جب روحانی وجود سے الگ ہو جاتا ہے تو یہ مردہ حالت میں چلا جاتا ہے اور انسان کا روحانی وجود اپنے مادی جسم کی پابندیوں سے مبراء ہو جاتا ہے جو اس مادی بدن کی وجہ سے ہیں۔ یعنی یہ مادی بدن اپنے بوجھ کی وجہ سے حرکت اور رفتار وغیرہ کے سلسلہ میں محدود ہے لیکن روحانی وجود ان بندھنوں سے آزاد ہے افلاطون کا وقت کے بارے میں یہ نظریہ تھا کہ یہ اس طبعی زندگی ہی کا ایک عنصر ہے۔ اور موت کے بعد والی زندگی میں وقت کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہاں پہ دوسرے ابدی عناصر ہیں۔ جو وقت پہ بھی غالب ہیں۔ یعنی موت کے بعد ہم ابدیت میں داخل ہو کر وقت کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
نیز انسانی نفس جب مادی جسم سے الگ کیا جاتا ہے تو اس کی ملاقات ان نفوس سے ہوتی ہے جو اس سے پہلے دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں۔ وہ ان سے بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ بھی اس سے دنیا کے حالات معلوم کرتے ہیں۔ وہ نو وارد کی تسلی تشفی بھی کرتے ہیں اور درپیش آئندہ سفر میں اس کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ نیز مرنے والے نفوس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ موت کے وقت ایک کشتی آئے گی جو ان کو اس دنیا کے پار دوسرے کنارے تک لے جائے گی جہاں انہیں موت کے بعد رہنا ہو گا۔ افلاطون اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ یہ ارضی جسم انسان کے لئے ایک قید خانہ ہے۔ موت ان قیود سے آزادی کا نام ہے۔ اور پھر انسان ایک وسیع تر جہان میں پہنچ کر سکھ کا سانس لیتا ہے۔ افلاطون کے مطابق یہ دنیاوی زندگی نہ سمجھی کی زندگی ہے اپنی پیدائش سے پہلے انسانی نفس شعور کی اونچی منازل پہ قائم ہوتا ہے۔ وہاں سے اتر کر وہ اس مادی جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ ہستی (مادی جسم ) اس کے لئے سو جانے والی بات کی مانند ہے دنیاوی جسم میں داخل ہونے سے پہلے انسانی نفس کے پاس جو اونچا ادراک تھا وہ مادی جسم کی کثافت کی وجہ سے دھندلا جاتا ہے اور وہ سب حقائق اور سچائیاں جو اس سے پہلے معلوم تھیں انہیں بھول جاتا ہے۔ اس لئے موت درحقیقت جاگنے پرانی یادیں واپس لانے کا نام ہے۔ جس کے بعد انسان کا شعور بہت تیز ہو جاتا ہے۔
موت تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
(اقبال)
افلاطون کے مطابق انسانی نفس جب مادی جسم سے علیحدہ ہوتا ہے تو وہ چیزوں کی فطری حقیقت کو سمجھنے کا بہت شعور رکھتا ہے۔
پادری لیڈبیٹر اپنی کتاب (Invisible Helpers) میں لکھتا ہے موت کے بعد آسٹرل باڈی آسٹرل ورلڈ میں چلی جاتی ہے اگر مرنے والا بدکار ہو تو وہ زمین کے پاس بھٹکتا رہتا ہے۔ وہ اپنی وراثت دوسروں کے پاس دیکھ کر کڑھتا اور جلتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی ترقی اور دشمنوں کی زندگی پر دانت پیستا ہے۔ ذہنی اضطراب کی اس آگ میں صدیوں جلنے کے بعد اسے طبقۂ بالا میں جانے کی اجازت ملتی ہے۔
ان نظریات کے علاوہ آجکل اور ا چکراز کا مشاہدہ بھی کیا جا رہا ہے۔ O.B.E (Out Of Body Experience) بھی کیے جا رہے ہیں جن میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک زندہ آدمی اپنے مادی جسم کے بغیر جسم سے الگ ہو کر ہوا میں اڑ رہا ہے۔ دیوار کے آر پار گزر جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے جسم سے باہر ہو تو اس
کے جسم پر چوٹ کا اثر نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
کیا واقعی زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے یا مر کر انسان دوبارہ جی اٹھتا ہے۔
یا اس کا دوسرا جنم ہو جاتا ہے ؟
ایسا کچھ نہیں ہے نہ تو انسان مر کر دوبارہ جی اٹھا ہے نہ یہ دوبارہ زندگی ہے نہ ہی یہ کوئی دوسرا یا تیسرا جنم ہے۔
تجربات و مشاہدات کے باوجود اس قسم کے تصورات محض لاعلمی پر مبنی ہیں جن کی کوئی علمی حیثیت نہیں۔ ایسا کہنے والے انسان کی روح اس کے نفس سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کہہ رہے ہیں اب جب کہ ہم نے روح و نفس کی وضاحت کر دی ہے تو درحقیقت اب ہم اس بات کو سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں کہ انسان موت کے بعد کن حالات سے دوچار ہوتا ہے۔ اور اب ہم موت کے بعد کے ان حالات کو صحیح طور پر ترتیب دینے کے قابل ہوئے ہیں۔
115۔ زندگی اور موت کے تجربات
نظریہ نمبر۔ ﴿152﴾۔ ﴿مر کر زندہ ہوئے لوگوں کے مشاہدات اور OBE یا ESP کے ذریعے کئے جانے والے مشاہدات میں فرق ہے۔ ﴾
2) ۱۔ مر کر زندہ ہوئے لوگوں کے مشاہدات مر چکے لوگوں کے بارے میں مشاہدات ہیں۔ اور یہ مادی جسم کی موت کے بعد کے مشاہدات ہیں۔
۲۔ جب کہ ESP یا OBE میں جو مشاہدات و تجربات کئے جاتے ہیں وہ زندہ لوگ، زندہ لوگوں کے ذریعے کرتے ہیں اور یہ زندگی کے مشاہدات ہیں۔
زندگی، موت، انتقال میں امتیازی فرق موجود ہے لہذا
زندگی کے حالات و واقعات، مشاہدات، تقاضے ، طرزیں مختلف ہیں اور موت اور موت کے بعد یعنی انتقال کے حالات و واقعات، تجربات و مشاہدات، تقاضے طرزیں مختلف ہیں۔
جب کہ آج تک تجربہ و مشاہدہ کرنے والے جو مر کر زندہ ہوئے لوگوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں یا ESP یا OBE کر رہے ہیں انہوں نے زندگی، موت، انتقال سب کے مشاہدات، تجربات حالات و واقعات کو گڈمڈ کر کے رکھ دیا ہے (ایسا وہ روح و نفس، زندگی، موت اور انتقال سے لاعلمی کی وجہ سے کرتے ہیں ) اور اسی ملے جلے ملغوبے سے وہ نتائج اخذ کرتے ہیں اور ظاہر ہے اس بے بنیاد کھچڑی سے صحیح نتائج نکلنا محال ہے۔
ہم نے چونکہ پچھلے صفحات میں روح و نفس کی شناخت قائم کر لی ہے اور زندگی اور موت کی بھی علیحدہ سے وضاحت کر دی ہے لہذا اب ہم اس ملغوبے سے موت کے بعد کے حالات کو بھی نکال کر انتقال کے عنوان سے بالترتب بیان کرتے ہیں۔
116۔ موت کے بعد
انسان روح+نفس(لطیف اجسام) کا مجموعہ ہے۔ لہذا موت کی صورت جسم تو مر گیا لیکن سوال یہ ہے کہ جسم کی موت کے بعد اس جسم میں موجود روح و نفس کا کیا ہوا۔ کیا جسم کے ساتھ وہ بھی مر گئے۔ کیا جسم کی موت کے ساتھ ہی انسان کا اختتام ہو گیا۔
مادہ پرست تو ہمیشہ مادی جسم کی موت کو ہی انسان کا اختتام کہتے رہے ہیں۔ اور آج بھی یہی کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن آج اس ہٹ دھرمی کا کوئی جواز باقی نہیں بچا جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ محض مادی جسم کی موت سے انسان کا اختتام نہیں ہوتا۔
آج جدید تحقیقات، مراقبہ، اور مشاہدات کے ذریعے زندگی میں بھی زندہ انسانوں کے انسانی باطن (روح و نفس )کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور موت کے بعد بھی۔ لہذا آج یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ مادی جسم کی موت سے انسان کا اختتام ہو گیا بلکہ آج اس سوال کا جواب دینا ہو گا، اس حقیقت کا سراغ لگانا ہو گا کہ اس جسم میں موجود روح ونفس کا کیا ہوا۔ اگرچہ مراقبہ، مشاہدہ اور جدید تحقیقات کے ذریعے زندہ اور مردہ لوگوں کے باطن کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے لیکن یہ تجربات و مشاہدات کرنے والے ابھی تک اس جہان باطن کو سمجھ نہیں پائے۔ جب وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ فقط جسم مرا ہے انسان تو جوں کا توں موجود ہے اورا(AURA) کی صورت متحرک یادداشت کی صورت تو وہ سمجھ نہیں پاتے کے آخر مادی جسم کی موت کے بعد،
۱۔ انسان مختلف اجسام کی صورت میں کیسے موجود ہے۔
۲۔ کیا وہ ابھی زندہ ہے۔
۳۔ اور جسم کی موت کے بعد بھی ایک انسان کے اتنے مختلف طرح کے اجسام کی موجودگی کاکیا مطلب ہے،
۴۔ کیا یہ روح اور اس کے حصے ہیں۔
۵۔ یا انسان کو دوسرا جسم دے دیا گیا۔ کیا یہ اس کا دوسرا جنم ہے۔
ہم پچھلے صفحات میں ان تمام سوالات کے جوابات دے آئے ہیں۔ (یعنی روح و نفس و اجسام کی الجھی گتھی سلجھا کر تمام کی انفرادی و اجتماعی شناخت قائم کر دی ہے۔ اور جسم کے علاوہ انسانی باطن (روح +نفس(لطیف اجسام) کی شناخت قائم کی ہے۔)
جب کہ سائنسدانوں کے پاس ابھی تک ان سب سوالوں کے جوابات نہیں ہیں۔ ۔ جب وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ایک ہی مثال ملتی ہے اور وہ ہے۔ آواگون، لہذا وہ اس کا حل آواگون میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اس مسئلے کے حل کا کوئی اور ذریعۂ علم ہے بھی نہیں۔
لہذا باطن کا تجربہ و مشاہدہ کرنے والے موت کے بعد انسان کی دیگر اجسام میں موجودگی کو دوسرا جنم تصور کر لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل خلاف عقل بات ہے۔
مراقبہ و مشاہدہ کے ذریعے دو قسم کے تجربات کیے جاتے ہیں
۱۔ زندہ لوگ اپنا یا اپنے جیسے زندہ لوگوں کے باطن کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
۲۔ زندہ لوگ مردہ لوگوں کے باطنی اجسام کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
مردہ شخص کے باطنی مشاہدے کے بعد اس مردے کی دیگر اجسام میں موجودگی کو دوسرا جنم قرار دینا کسی حد تک تو قابل قبول ہے۔ لیکن زندہ شخص جو اپنے اور دیگر زندہ لوگوں کے باطنی اجسام کا مشاہدہ کر رہا ہے اس کا کیا مطلب ہوا۔
ذرا غور کیجئے مراقبہ و مشاہدہ کرنے والا شخص زندہ ہے۔ اور یہ زندہ شخص اپنے آپ کو یا دیگر زندہ و مردہ لوگوں کو دیگر اجسام کی صورت متحرک دیکھتا ہے۔ لہذا صاف ظاہر ہے کہ یہ مشاہدہ کرنے والے زندہ شخص کا دوسرا جنم نہیں ہے۔ کیونکہ ابھی تو وہ زندہ ہے اور اپنے باطن کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ لہذا زندہ شخص کا زندگی میں ہے دوسرا جنم نہیں ہو سکتا۔ لہذا انتہائی بے ڈھنگے پن سے موت کے بعد انتقال کے عمل کو دوسرا جنم قرار دینے کے بجائے آئیے سنجیدگی سے تحقیق کر تے ہیں کہ جسم کی موت کے بعد کیا ہوا۔ ابھی فقط مادی جسم کی موت ہوئی ہے۔ ا ب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسان کے باقی ا جزاء یعنی روح و نفس کا کیا ہوا۔
مادی جسم کی موت کے بعد انسان کے حالات جاننے کے اب ہمارے پاس د و طریقے ہیں۔
۱۔ موت کے بعد کے حالات جاننے کے لئے سب سے اہم معلومات مذہبی معلومات ہیں۔
ان مذہبی معلومات کو انتہائی محنت سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ
۱۔ ہمیشہ ان مذہبی معلومات سے غلط نتائج ا خذ کیئے گئے۔
۲۔ اور انہی غلطیوں سے آواگون جیسے نظریات نے جنم لیا۔
۲۔ موت کے بعد کے حالات جاننے کا دوسرا طریقہ ہے جدید تحقیقات۔
لہذا مراقبہ مشاہدہ اور جدید تحقیقات کے ذریعے اب ہم مادی جسم کی موت کے بعد انسان کے حالات بہت اچھی طرح جان سکتے ہیں۔
لہذا مادی جسم کی موت کے بعد کوئی زندگی یا دوسرا یا تیسرا جنم نہیں ہے بلکہ مادی جسم کی موت کے بعد انتقال ہے۔
ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ یہ انتقال کیا ہے۔؟
لہذا اب یہاں ہم مادی جسم کی موت کے بعد انسان کے انتقال کی بالترتیب وضاحت کریں گے۔
باب نمبر ۱۱: انتقال
ترجمہ:ضرور تم منزل بہ منزل چڑھو گے۔ (۱۹) ۸۴
ترجمہ: اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے
اور سب کے سفر کا رخ اللہ ہی کی طرف ہے۔ (۴۲) ۲۴
۱۱۷۔ انتقال۔
۱۱۸۔ انتقالی فارمولہ
۱۱۹۔ انسان کی سفری روداد۔
۱۲۰۔ انتقال کیا ہے۔
۱۲۱۔ موت اور انتقال میں فرق۔
۱۲۲۔ انسان کہاں جا رہا ہے۔
۱۲۳۔ دو احکامات
۱۲۴۔ علیین
۱۲۵۔ سجیین
۱۲۶۔ انسان کہاں منتقل ہو گیا۔
۱۲۷۔ عالم برزخ۔
۱۲۸۔ عالم برزخ کہاں ہے۔
۱۲۹۔ برزخ میں انسانی صورت۔
۱۳۰۔ برزخی رہائش گاہ۔
۱۳۱۔ برزخ کیسی ہے۔
۱۳۲۔ نفسی زندگی۔
۱۳۳۔ مقید نفس۔
۱۱۳۴۔ آزاد نفس۔
۱۳۵۔ اجسام کی تعداد۔
۱۳۶۔ روشنی کا جسم۔
۱۳۷۔ نور کا جسم۔
۱۳۸۔ تمام باطنی اجسام فانی ہیں۔
۱۳۹۔ برزخ انتظار گاہ۔
۱۴۰۔ قیامت۔
۱۴۱۔ دوبارہ زند گی۔
۱۴۲۔ انسان کائناتی مسافر ہے۔
۱۴۳۔ انسانی کہانی۔
۱۴۴۔ انسانی سفر کے پانچ ادوار۔
۱۴۵۔ انسانی زندگی کا سفر آغاز تا اختتام۔
117۔ انتقال
نظریہ نمبر۔ ﴿153﴾۔ ﴿لہذا جسم کی موت کے بعد اس جسم میں موجود باقی انسان یعنی اس انسان کی روح اور نفس اس مردہ جسم کو چھوڑ کر کہیں منتقل ہو گئے بقیہ انسان کی اسی منتقلی کو انتقال کہتے ہیں۔ آئیے موت کے بعد اس انتقال کی وضاحت کرتے ہیں ﴾
یاد کیجئے انسان زمینی مخلوق نہیں ہے۔ انسان کسی اور سیارے یعنی جنت سے زمین پہ وارد ہوا تھا(انسان کی جنت سے زمین پہ آمد کی تفصیلات پچھلے صفحات میں تخلیق کے عنوان سے بیان کر آئی ہوں )انسان کی تخلیق جنت میں ہوئی۔ انسان جنت کا رہائشی تھا وہیں رہتا بستا تھا۔ ایک جرم کی پاداش میں سزا کے طور پر انسان کو مختصر مدتِ حیات کے لئے زمینی سیارے پر منتقل کر دیا گیا۔ زمین پر اس کا قیام مختصر و محدود ہے یہاں وہ کچھ عرصہ قیام کرے گا پھر اُسے واپس اپنی رہائش گاہ یعنی جنت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ اسی زمین سے جنت کی طرف واپسی کے عمل کو منتقلی یعنی انتقال کہتے ہیں۔ انسان کا جنت سے زمین تک آمد کا سفر تخلیقی عمل تھا تو اسی طرح انسان کا زمین سے جنت(آخرت) تک کا سفر فنائی عمل یعنی انتقال ہو گا۔ جیسے انسانی تخلیق کا عمل بالترتیب واقع ہوا تھا ایسے ہی انسان واپسی کا سفر(انتقال) بھی بالترتیب طے کرے گا۔ انسان کا تخلیقی سفر درج ذیل مدارج پر مشتمل تھا۔
۱۔ واحد انرجی کے یکلخت انتشار سے
۲۔ تمام تر ارواح کی پیدائش عمل میں آئی
۳۔ انرجی ایک قدم اور نیچے اُتری مزید منتشر ہوئی تو نفوس کی پیدائش کا عمل واقع ہوا۔
۴۔ پھر پہلے (آدم)مادی جسم کی تخلیق کا عمل واقع ہوا
۵۔ پھر جوڑے کا قیام عمل میں آیا یعنی حوا کی پیدائش
۶۔ جوڑے (آدم و حوا) کو جنت سے زمینی سیارے پہ اُتارا گیا
۷۔ اس جوڑے سے پیدائش کے عمل کا آغاز ہوا اور اس طریقے سے نوعِ انسانی کا قیام عمل میں آیا۔
انسان کا جنت سے زمین تک کا تمام سفر تخلیقی عمل پر مشتمل تھا۔ اور جیسے انسان جنت سے بالترتیب زمین پہ اُترا ہے اسی طرح بالترتیب زمین سے جنت کی طرف منتقل ہو گا۔ اور یہ واپسی کا سفر(انتقال)فنائی سفر ہو گا۔ اور جس طرح ہم نے آمد کے سفر کے لئے تخلیقی فارمولہ پیش کیا تھا اسی طرح اب ہمیں فنائی سفر یعنی انتقال کی وضاحت کے لئے ایک انتقالی فارمولہ پیش کرنا ہو گا۔
118۔ انتقالی فارمولہ
نظریہ نمبر۔ ﴿154﴾۔ ﴿انتقالی فارمولے کی ترتیب درجِ ذیل ہو گی۔ یعنی انسان کی واپس منتقلی کی ترتیب درجِ ذیل ہو گی
۱۔ مادی جسم کی موت۔
۲۔ نفس کی موت۔
۳۔ روح کی واپسی۔ ﴾
انسان جنت (آخرت) سے آیا ہے اور وہیں جا رہا ہے۔ لہذا اس سفر کی صورت کچھ یوں بنی
119۔ انسانی سفری روداد
انسان کی جنت سے زمین پہ آمد (تخلیق) انتقال(انسان کی جنت کی طرف واپسی)
i
واحد انرجی سے روح کی واپسی
i
ارواح کی پیدائش نفس کی موت
i
نفوس کی پیدائش مادی جسم کی موت
i
مادی جسم کی تخلیق موت انتقال
انسان کی جنت سے زمین پر آمد کی تفصیلات تو ہم تخلیق کے عنوان سے پچھلے صفحات میں بیان کر آئے ہیں۔ اب یہاں میں نے جو مزید انتقالی فارمولہ پیش کیا ہے اب یہاں ہم اس انتقالی فارمولے کی بالترتیب وضاحت کریں گے تب سمجھ میں آئے گا کہ انتقال سے دراصل ہماری کیا مراد ہے۔
120۔ انتقال کیا ہے
نظریہ نمبر:۔ ﴿155﴾۔ ﴿مادی جسم کی موت کے بعد(مادی جسم سے مفارقت کے بعد) باقی انسان( روح+نفس) کی نفس کی دنیا( عا لم برزخ) میں منتقلی انتقال ہے۔ ﴾
یعنی انسان (روح+نفس) نے جسم کی موت کے بعد مادی جسم کو چھوڑ کر کہیں اور ہی بسیرا کر لیا۔ انسان کی اسی منتقلی کو انتقال کہتے ہیں۔
یعنی انسان تو موجود ہے اس کا جسم مرگیا لہذا انسان اسے چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو گیا۔ روح مادی جسم میں تھی تو مادی جسم زندہ تھا متحرک تھا۔ یہی روح جب مادی جسم سے نکل گئی تو اب یہ جسم مردہ ہے۔ لیکن ابھی روح و نفس باقی ہیں۔ لہذا اب مادی جسم کی موت کے بعد انسان کی موجودہ صورت ہے
روح+نفس(لطیف اجسام)=انسان
یعنی محض جسم مرا ہے انسان تو جوں کا توں موجود ہے اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ بلکہ مادی جسم کی موت کے بعد تو انسان کی خصوصیات میں مزید اضافہ ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ انسان کا دوسرا جنم ہے۔ اب ہم انسان کے اس انتقال کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں۔ فرض کیجئے ہمارے درمیان ایک شخص ہے جس کا نام احمد ہے۔ ہم سب احمد کے کردار، خوبیوں، خامیوں اور اس کی تمام شخصیت سے واقف ہیں۔ اسی احمد کے جسم میں گولی لگی ! جس کے نتیجے میں اس کی روح نے اس کا جسم چھوڑ دیا۔ یہ جسم مردہ ہو گیا !
لیکن احمد اب بھی موجود ہے !
وہی احمد جسے ہم سب جانتے ہیں۔ جس کے کردار اور شخصیت کو ہم پوری طرح جانتے ہیں۔ وہی احمد اپنی پوری شخصیت سمیت موجود ہے۔ اس کی عقل حواس پورے طور پر کام کر رہے ہیں۔ بس فرق آیا ہے تو یہ کہ اب اس ا حمد نے مادی جسم اپنے اوپر سے اتار دیا اب وہ مادی جسم کو اپنے عملی ارادوں کے لئے استعمال نہیں کر سکتا اس لیے کہ مادی جسم اب مر چکا ہے اور انسان کی صلاحیتوں کے اظہار کے قابل نہیں رہالہذا انسان اعمال یا عمل کی دنیا سے نکل آیا لہذا اب وہ مادی جسم کے ذریعے اعمال سر انجام نہیں دے سکتا لہذا اب انسان مادی جسم استعمال نہیں کر سکتا اس کے علاوہ مادی جسم کی موت کی صورت میں انسان کی شخصیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہاں اضافہ ہی ہوا ہے۔
یہ احمد اپنی شخصیت کا مظاہرہ جس مادی جسم کے ذریعے کر رہا تھا وہ جسم اب گولی لگ جانے کی صورت میں مردہ ہے بے حرکت ہے۔ اب وہ جسم احمد کی خصوصیات کے مظاہرے کے قابل نہیں رہا۔ لیکن احمد اور اس کی خصوصیات جوں کی توں موجود ہیں۔ اب وہ ایک نئی حالت(روح+نفس)میں موجود ہے
لیکن اس منتقلی سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ یہ اس کا دوسرا جنم ہے۔ انسان جسم کی موت کے بعد دوبارہ پیدا نہیں ہوا ! بلکہ یہ اس کے ایک ہی جنم کی روداد ہے۔ پہلے یہ انسان مادی جسم میں تھا تو زندہ تھا اب مر چکا ہے۔ زندگی سے مراد ہے مادی جسم کی زندگی اور موت سے مراد ہے مادی جسم کی موت۔ روح یا نفس کی موت نہیں
یہ انسان جو زندگی (پیدائش) کی صورت میں کہیں سے وارد ہوا تھا اب مادی جسم سے مفارقت کے بعد وہیں واپس جا رہا ہے اور موت کی صورت مادی جسم سے منتقلی اس کے ایک ہی سفر کی روداد ہے یہ انسان کے پہلے جنم یا ایک ہی زندگی کی کہانی ہے۔ اور انسان کی آمد (پیدائش یا تخلیق) اور واپسی (منتقلی) کی روداد کو سمجھنے کے لئے نفس اور روح کو جاننا ضروری ہے۔ روح اور نفس اور اس انتقال سے لاعلمی کی بدولت آواگون کرما یا چکرا جیسے نظریات نے جنم لیا ہے۔
مثلاً مراقبہ اور مشاہدہ کرنے والے جب خود کو مادی جسم کے بغیر کسی اور لطیف وجود کی صورت موجود پاتے ہیں اور اپنے دیگر باطنی اجسام کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ اسے دوسرا جنم تصور کر لیتے ہیں اور دیگر اجسام کی موجودگی کو آواگون کے نظریے کی تصدیق تصور کرتے ہیں۔
جب کہ مراقبہ کے ذریعے مشاہدہ کرنے والوں کو غور کر نا چاہییے کے کہ ابھی وہ مرے نہیں زندہ ہیں ان کا جسم زندہ ہے اور وہ دیگر اجسام کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایسے ہی مشاہدات کی بنا پر انسان کی مادی جسم سے لطیف جسم میں منتقلی کو دوسرا جنم تصور کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ دوسرا جنم نہیں بلکہ انسان مادی جسم سے مفارقت کے بعد برزخ میں منتقل ہو چکا ہے اور یہ واپسی کا سفر ہے اور یہ دوسرا جنم نہیں بلکہ منتقلی کا عمل ہے فنا کا عمل ہے۔ اور اس فنا کے عمل اور اس انتقالی روداد کو جاننے کے لئے ضروری ہے روح اور نفس کا جاننا۔ جس کی ہم تفصیلی وضاحت پچھلے صفحات میں کر آئے ہیں۔ لہذا ان تفصیلات کو جان لینے کے بعد در حقیقت اب ہم انتقالی روداد کے بیان کے قابل ہوئے ہیں۔ اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ انتقال کیا ہے۔
121۔ موت اور انتقال میں فرق
اگرچہ موت اور انتقال دونوں الفاظ زیر استعمال ہیں لیکن ان دونوں الفاظ کو ایک ہی معنی یعنی، موت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دونوں الفاظ میں فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ جب کہ موت اور انتقال میں واضح فرق موجود ہے۔
۱۔ موت کا مطلب ہے جسم کی موت۔ انسان کی موت نہیں۔
۲۔ انتقال کا مطلب ہے جسم کی موت کے بعد اس جسم میں موجود انسان کی منتقلی یعنی اس جسم میں موجود انسان کہیں اور منتقل ہو گیا۔
لہذا جسم کی موت سے انسان کی موت واقع نہیں ہو جاتی۔ اس لئے کہ انسان محض جسم نہیں اس کے اندر نفس بھی ہے روح بھی ہے۔ اور ابھی تو فقط جسم کی موت ہوئی ہے۔
لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں مر گیا تو اس سے مراد اس شخص کے جسم کی موت ہوتی ہے۔
اسی مردہ شخص کے بارے میں جب ہم کہتے ہیں کہ انتقال کر گیا۔ تو اس سے مراد ہے کہ وہ شخصیت جو اس جسم میں تھی وہ اس جسم کی موت کے بعد اس جسم سے نکل گئی، منتقل ہو گئی۔ کیونکہ اب یہ جسم مردہ ہے اور اس شخصیت کے اظہار کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
انسان اور انسانی شخصیت جسم کی موت کے بعد بھی موجود ہے۔ اس کی ایک عام سی مثال ہے ہمارا لباس۔ ہم روزمرہ میں لباس بدلتے ہیں۔ لباس پھٹ بھی جاتا ہے۔
لیکن لباس پھٹنے، بدلنے یا بدلتے رہنے سے ہم نہیں بدل جاتے۔ لہذا لباس بدلنے کے بعد بھی ہم اور ہمارا جسم ہماری شخصیت وہی رہتی ہے۔ ہاں لباس بدل جاتا ہے۔ یہی مثال ہے انتقال کی۔ بالکل اسی طرح انسانی شخصیت پر سے (موت کی صورت)مادی جسم کا لباس اترنے سے
۱۔ انسانی شخصیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
۲۔ موت کی صورت مادی جسم حرکت و عمل سے عاری ہو گیا(اس شخصیت کے جسم سے نکل جانے سے )
۳۔ لیکن محض مادی جسم حرکت و عمل سے عاری ہوا ہے انسان (روح+نفس)نہیں۔
۴۔ فرق محض یہ پڑا ہے کہ مادی جسم کی موت کے بعد انسان اب اس مادی جسم کو ارادی حر کت و عمل کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود
۵۔ موت کے بعد انسانی خصوصیات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ مزید اضافہ ہو گیا۔ ہزاروں گنا اضافہ۔
۶۔ لہذا مادی جسم کی موت کے بعد جسم کا خاتمہ ہوا ہے انسان کا اختتام نہیں ہو گیا۔ بلکہ انسانی شخصیت میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ جس کی صورت کچھ یوں بنی۔
موت سے پہلے کا انسان =(روح+نفس(لطیف اجسام)+مادی جسم)=زندہ انسان
موت کے بعد کا انسان=روح+نفس(لطیف اجسام)=مردہ انسان
مادی جسم سے مفارقت کے بعد اگرچہ اب انسان جسمانی اعمال انجام نہیں دے سکتا تو کیا ہوا۔ اب وہ نفس کی صورت موجود ہے۔
جسم میں رہتے ہوئے وہ محدود صلاحیتوں کا مالک تھا تو جسم سے مفارقت کے بعد اب وہی انسان لا محدود صلاحیتوں کا مالک انسان ہے۔
لہذا موت کے بعد انتقال کی صورت انسانی صلاحیتوں میں کمی نہیں اضافہ ہو ا ہے اب مادی جسم سے مفارقت کے بعد انسان منتقل تو ہو گیا لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کہاں منتقل ہو گیا، اور جسم کو زمین پر چھوڑ کر آخر انسان جا کہاں رہا ہے۔
اب یہاں ہم انتقال سے متعلق مذہبی معلومات کو ترتیب دیتے ہیں
122۔ انسان جا کہاں رہا ہے
نظریہ نمبر 156 ۔ ﴿موت کے فوراً بعد انسان اپنے رب سے ملاقات کرنے جا رہا ہے۔ ﴾
افلاطون موت کے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کے موت کے وقت انسان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ ایک کشتی آئے گی جوان کو اس دنیا کے پار دوسرے کنارے تک لے جائے گی۔جہاں انہیں موت کے بعد رہنا ہو گا۔ اس کے خیال میں یہ جسم ایک قید خانہ ہے جب کہ موت ان قیود سے آ زادی کا نام ہے۔ اور پھر انسان ایک وسیع تر جہان میں پہنچ کر سکھ کا سانس لیتا ہے۔ موت کے فوراً بعد آدمی کو اس کے مستقبل سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ مقدس ہستی اس کے سامنے اس کے دنیا میں کئے ہوئے اچھے اور بُرے اعمال کھول کر رکھ دیتی ہے۔
پہلی بار افلاطون کی یہ تحریر پڑھ کر مجھے لگا کہ افلاطون اس زمانے کی کوئی مذہبی یا پھر کوئی روایتی الف لیلوی داستان بیان کر رہا ہے۔
لیکن برسوں کی تحقیق، تجربات، مشاہدات، اور مسلسل غور و فکر کے بعد آج میں بھی اسی الف لیلوی داستان کا نظارہ کر رہی ہوں۔ اور جدید تحقیقات بھی اسی حقیقت کی گواہی دے رہی ہیں اور مذاہب بھی انہی حقائق کی نشاندہی کرتے آئے ہیں۔ در حقیقت یہ داستان حقیقت پر مبنی ہے۔ لیکن ہمیشہ اس حقیقت سے صرفِ نظر کیا گیا
ہوا یوں کہ روح و نفس سے لا علمی کے سبب اس داستان کو خلط ملط کیا جاتا رہا اور اسی خلط ملط سے یہ داستان بری طرح الجھ گئی ہے۔ جب کہ آج یہاں ہم اسی داستان کو ترتیب دیں گے۔ آج ہم جدید تحقیقات کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ فرشتوں ، جنات وغیرہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں بلکہ آج ہم انسان کی روح و نفس اور انسان کی موت کے بعد کے حالات کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لہذا آج یہ کہنا غلط ہو گا کہ جسم کی موت اور مادی جسم سے مفارقت کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا۔ آج ہمیں یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ موت کے ساتھ ہی انسان کی منتقلی کے انتظامات ہونے لگتے ہیں۔ لہذا انسان کو لینے کے لئیے فرشتے آئے ہیں
موت کے بعد محض کشتی ہی نہیں آئی بلکہ فرشتے بھی آئے ہیں لہذا اب ہم موت کے بعد کے حالات کو ترتیب دیتے ہیں اور اس قصے کو بالترتیب بیان کرتے ہیں۔
لہذا انسان کی روح تو جسم سے نکل گئی لیکن یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو جاتا بلکہ انسان کی روح نکالنے کے لئے باقاعدہ فر شتے آتے ہیں۔ یہ فرشتے فرشتہ صورت بھی ہو سکتے ہیں (نیک لوگوں کے لئیے ) اور مجرموں کے لئے تو یہ بیڑیاں لائے ہیں۔ بڑی وردیاں پہن کر آئے ہیں یہ تو بالکل سپاہی لگ رہے ہیں۔ مجرموں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ یہ فرشتے جنہوں نے خالق کے حکم کے مطابق روح کو بڑے وعدے وعید کے بعد جسم میں ڈالا تھا کہ ایک مقررہ مدت پہ تمہیں واپس آنا ہے۔ اب وہ روح نکالنے آئے ہیں تو روح کو اس کا عہد یاد کراتے ہیں کہ یاد کرو تم نے واپسی کا عہد کیا تھا۔ نیک لوگوں کے لئے تو یہ لمحہ خوشی اور آزادی کا ہے جب کہ بدوں کے لئے گرفتاری و قید کا لمحہ ہے۔ لہذا نیک تو بخوشی واپسی کے لئے تیار ہیں جب کہ بدوں کو تعامل ہے۔ ایسے مجرموں کے لئے گرفتاری کا آڈر آیا ہے کہ نکالو اپنی روح اے فرشتوں ان کے جوڑ جوڑ پر مار مار کر نکالو ان کی روح، انہیں پکڑو گھسیٹو گرفتار کر لو۔ لہذا نیک لوگوں کی روح تو با آسانی نکل جاتی ہے جب کہ بدوں کی بڑی دیر کانٹوں پہ گھسٹتی ہے کیونکہ فرشتے زبردستی اسے پکڑ کر گھسیٹ رہے ہیں۔ اور بلا آخر فرشتے روح کا یہ کنکشن کاٹ دیتے ہیں۔ اور روح جسم سے جدا ہو جاتی ہے۔ اب جسم تو مر گیا زمین ہی پہ رہ گیا اب یہ فرشتے روح کو لے کر چلے ہیں سواری بھی آئی ہے ۔ جی ہاں یہ فرشتے پیدل نہیں بلکہ اپنے ساتھ سواری بھی لائے ہیں۔
افلاطون کے خیال میں یہ سواری کشتی ہے۔ لیکن یہ سواری محض کشتی نہیں، ہاں یہ سواری کشتی بھی ہو سکتی ہے، آبدوز، بس جہاذ یا راکٹ بھی ہو سکتی ہے۔
دراصل فرشتے ہر اچھی بُری روح کے لئے حسبِ مراتب سواری لائے ہیں۔ اعلی مرتبہ شخصیت کے لئے شاہی سواری ہے، براق(برق رفتار)، یعنی راکٹ سے
بھی جدید اور تیز رفتار سواری جو طویل ترین سفر کو پلک جھپکتے میں طے کر لے گی۔
یہ سواری راکٹ جہاز یا آبدوز بھی ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی بس بھی ہو سکتی ہے اور افلاطون کے مطابق کوئی کشتی بھی۔ ہو سکتا ہے کسی کے لئے محض پہیوں والی ریڑھی آئی ہو ہو سکتا ہے کسی کو یہ لمبا طویل سفر چلتے گھسٹتے پیدل ہی طے کرنا ہو۔ بحر حال سواری اعمال کی مناسبت سے حسبِ مراتب ہی ہو گی۔
دیگر مسافر بھی ہیں
اس سواری میں ایک آپ ہی مسافر نہیں ہے۔ اور بھی مسافر ہیں سواری فُل ہے۔ اس سواری کے تمام مسافر ہم مرتبہ ساتھی ہیں۔ کیونکہ محض ایک شخص کی موت نہیں ہوئی بلکہ اس جیسے اور بھی بہت سے لوگ فوت ہوئے ہیں۔ یعنی یہ فرشتے ایک ہی جیسے ہم مرتبہ لوگوں کو ایک سواری میں بٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ بُرے لوگ ہیں تو سواری بھی بُری ہے اور یہ مسافر اس بُری اور بد وضع سواری میں ٹھنسے ہوئے پسینے کی بو اور شور سے گھبرا رہے ہیں۔ کچھ روحیں نیک اعمال کے سبب خوشبو دار ہو گئیں ہیں۔
جب کہ بُرے لوگوں کی بد اعمالیوں، گنا ہوں نے ان کے نفوس کو بگاڑ دیا جسموں کو گلا دیا۔ اب بد بو اُٹھ رہی ہے۔ یہ ہے اعمال کی بو۔ انہیں رب سے ملاقات کے لئے لے جانے والے فرشتے ان کی اس خوشبو و بد بو سے متاثر ہو رہے ہیں۔ خوشبو والے نیک شخص کو پسند کرتے ہیں توبدکی بدبو سے گھبرا رہے ہیں۔
مسافر اور سفر ناگوار ہے۔ کچھ کو یوں لگ رہا ہے جیسے وہ کسی بلیک ہول میں گر رہے ہیں، کچھ خود کو کسی خطرناک پہاڑپہ چڑھتا پاتے ہیں۔
اچھے لوگ ہیں تو سواری بھی اچھی ہے اور سفر بھی اچھا ہے۔ سواری بڑی اچھی فرنشڈ، صاف ستھری اور کھلی ہے۔ سوار بڑے اچھے، صاف ستھرے، سوٹڈ بوٹڈ ہیں۔ اچھی گاڑی روانی سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ کوئی خوبصورت سیارہ آتا ہے تو وہاں گاڑی رک جاتی ہے۔ سب مسافر اس حسین منظر کا نظارہ کرنے گاڑی سے اُترتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موت کی صورت میں مادی جسم سے مفارقت کے فوراً بعد فرشتے مختلف سواریوں پہ سوار کر کے ان سواروں کو با اہتمام کہاں لے جا رہے ہیں۔
رب سے ملاقات
فرشتے روح کو جسم سے نکالتے ہی رب سے ملاقات کے لئے لے جا رہے ہیں۔
لیکن کچھ بدبخت ایسے ہیں کہ وہ مرتے ہی ایسے پھنستے ہیں کہ یہ رب سے ملاقات بھی ان کے نصیب میں نہیں ہوتی۔
لہذا مرتے ہی(جسم کی موت کے بعد)انسان(اس کی روح)کو رب کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔
مر کر زندہ ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہماری ایک بزرگ ہستی سے ملاقات ہوئی۔ نوٹ کر لیجیے وہ بزرگ کوئی ہستی نہیں بلکہ وہ بزرگ جس سے مر کر لوگ ملاقات کرتے ہیں سب سے بزرگ تر یعنی ہم سب کے خالق ہیں۔
یعنی موت کے بعد بزرگ ہستی سے ملاقات دراصل رب سے ملاقات ہے۔
مرتے ہی انسان اپنے خالق کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اب انسان کا رب اس سے سوال کرتا ہے۔
میرے لئے کیا (یعنی زندگی بھر کیا اچھے اعمال کئے )لائے ہو۔؟
اور پھر جواباً خالق نے خود ہی انسان کو اس کی پوری زندگی دکھا دی ا ور انسان نے چند لمحوں میں اپنی پوری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ اپنی نظروں کے سامنے ایسے دیکھ لیا جیسے وہ دنیا میں اپنی نظروں کے سامنے فلم چلتی دیکھتا تھا۔ آج یہاں ، اس وقت انسان کی بولتی بند ہو گئی (آج اس کی زبان بند ہے آج اس کے ہاتھ پیر (اس کی حرکت و عمل کا اپنا ریکارڈ)گواہی دیں گے )انسان نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اس کی اس ریکارڈ فلم میں اس کی پوری زندگی کا ہر ہر عمل ہر حرکت ریکارڈ ہے حتی کہ اس انوکھے ریکارڈ میں تو اس کی نیت اس کا ارادہ تک ریکارڈ ہے۔ اب کیا ہو گا۔ سوچ کر تو آیا تھا کہ رب کے سامنے یہ یہ جھوٹ بو لوں گایہ بہانہ بنا دوں گا، اپنے اعمال کا قصور وار فلاں کو ٹھہرا دوں گا۔ لیکن اب اپنا یہ اعمال نامہ(ریکارڈ فلم)دیکھنے کے بعد تو کہنے سننے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ (آج اپنا حساب کرنے کے لئے تو خود ہی کافی ہے ) لہذا یہ ریکارڈ دیکھ لینے کے بعد دو باتوں کا فیصلہ ہو گیا
۱۔ انسان کی پوری زندگی کے ریکارڈ سے معلوم ہو گیا کہ یہ کس درجہ کا انسان ہے (اچھا ہے یا بُرا انسان ہے )
۲۔ اس کے انجام کا تعین ہو گیا کہ اچھا انجام ہے یا بُرا۔
یہ سب انسان نے خود ملاحظہ کر لیا اور یہ دیکھ کر بد انسان تو مایوس ہو گیا اب التجا کر رہا ہے کہ ایک بار اسے دوبارہ زند گی دے دی جائے تو وہ اچھے اعمال کرے گا لیکن اس کی اس التجا کو فضول قرار دے کر رد کر دیا گیا ہے اس لئے کہ موجودہ زند گی اسی مقصد کے لئے دی گئی تھی جس میں وہ ناکام رہا اور اب دوبارہ یہ مطالبہ کرنا بے کار ہے لہذا رب کے سامنے اس حاضری کے بعد اب دو احکامات کا نفاذ ہوا ہے۔
-123دو احکامات
اب اس حاضر انسان کے لئے رب نے دو احکامات جاری کیئے ہیں۔
۱۔ اس حاضر شخص کے اعمال کا ریکارڈ(اعمال نامہ)، ریکارڈ روم(علیین یاسجیین) میں محفوظ کر دو۔
۲۔ اس شخص کو حساب کے دن( یومِ حشر) تک کے لئے ایک عارضی رہائش گاہ (برزخ) میں منتقل کر دیا جائے۔
لہذا انسان نے پوری زندگی اپنی مرضی سے جو بھی اعمال سر انجام دیئے اس کا پورا ریکارڈ موت کے بعد محفوظ کر دیا گیا اب انسان اس ریکارڈ میں کوئی اچھا بُرا اضافہ نہیں کر سکتا۔ یہ ریکارڈ دو مختلف جگہوں پر محفوظ کیئے گئے ہیں۔
124۔ علیین
جن کے اعمال اچھے ہیں ان کے لئے الگ ریکارڈ روم ہے ، جس کا نام علیین ہے۔ اس ریکارڈ روم میں اچھے لوگوں کی زندگی کی ریکارڈ سی ڈیز(ڈیٹا) محفوظ کی گئی ہیں۔
125۔ سجیین
جن کے اعمال بُرے ہیں ان کے لئے الگ ریکارڈ روم ہے ، جس کا نام سجیین ہے۔ اس ریکارڈ روم میں بُرے لوگوں کی زندگی کی ریکارڈ سی ڈیز محفوظ کی گئی ہیں۔
اب انسان کے اعمال کا ریکارڈ تو علیین اور سجیین یعنی ریکارڈ روم میں محفوظ کر دیا گیا ہے اب انسان کسی دوسرے تیسرے جنم کی فرضی داستان کے ذریعے اس ریکارڈ میں ذاتی ارادے سے کوئی رد و بدل نہیں کر سکتا جب تک انسان زندہ تھا جب تک وہ اپنے اعمال نامے میں رد و بدل کر سکتا تھا اچھے اعمال کر کے اسے اچھا ریکارڈ بنا سکتا تھا لیکن مادی جسم کی موت کے بعد یہ ریکارڈ اس سے لے کر ریکارڈ روم میں محفوظ کر دیا گیا ہے لہذا اب انسان اس ریکارڈ میں کوئی رد و بدل نہیں کر سکتا اب یہ ریکارڈ اچھا بُرا جیسا بھی ہے اسی ریکارڈ کے مطابق حساب کے دن اس سے حساب لیا جائے گا۔ اعمال کا ریکارڈ تو محفوظ ہو گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی انسان کہاں گیا۔
126۔ انسان کہاں منتقل ہو گیا
موت کے بعد انسان کو عارضی طور پر برزخ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اور انسان برزخ میں حساب کا دن آنے تک عارضی قیام کرے گا۔ موت کے بعد انسان منتقل تو ہو گیا لیکن آخر انسان کہاں منتقل ہو گیا۔؟سوال یہ ہے کہ یہ برزخ کیا ہے۔؟ اور یہ برزخ کہاں ہے۔؟ اور مادی جسم کی موت کے بعد انسان کہاں۔؟اور کس صورت۔؟ اور کن حالات میں موجود ہے۔؟
127۔ عالمِ برزخ(نفس کی دنیا)
انسانی مادی نظر کے سامنے ایک پردہ حائل ہے یہی پردہ برزخ ہے۔
یعنی برزخ کہیں اور نہیں اسی زمین پر موجود ہے لیکن مادی آنکھ اسے دیکھ نہیں پا رہی مادی آنکھ کی راہ میں ایک پردہ حائل ہے اور اسی پردے کی موجودگی کے سبب زندہ لوگوں کو اپنے قریب موجود پردے کے پیچھے اپنے مُردہ عزیز و اقارب نظر نہیں آ رہے۔ اس غیر مُرئی پردے نے ایک ہی زمین پر موجود زندہ و مُردہ لوگوں کو دو الگ الگ جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس برزخی پردے کی دنیاوی مثال سمندری پانی کی ہے سمندر کے پانی میں میٹھا اور کھارا پانی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک غیر مُرئی پردہ حائل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی جگہ پر موجود مائع کھارا اور میٹھا پانی ایک دوسرے سے الگ رہتا ہے اور مکس نہیں ہوتا۔ ایسی ہی غیر مرئی دیوار زندہ اور مردہ انسانوں کے درمیان حائل ہے یہی پردہ برزخ ہے۔ جسم کی موت کے بعد انسان اس پردے کے دوسری طرف داخل ہو جاتا ہے اب انسان مادی جسم سے باہر ہے اب اس کی نظر وسیع ہے اب اس کی نظر میں کوئی پردہ حائل نہیں، اصل میں یہ پردہ ہماری اپنی نظر کی راہ میں حائل ہے ، اس لئے کہ برزخی دنیا روشنی کی فضا ہے اور ہماری نظر ہماری ہی زمین پر موجود روشنی کی اس لطیف فضا اور اس روشنی کی لطیف فضا میں موجود روشنی کے اجسام کی صورت موجود اپنے عزیزو اقارب اور دیگر روشنی کی اشیاء کا مشاہدہ نہیں کر سکتی جب کہ دنیا میں ہی کچھ لوگ جن کی نظر کی وسعت زیادہ ہوتی ہے وہ برزخی دنیا اور برزخی لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، مخصوص عبادت وریاضت کے ذریعے بھی اپنے اندر روشنی کا مہیج بڑھا کر ہم اس برزخی دنیا کا اور اپنے مُردہ رشتہ داروں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اب جب کہ انسان جسم کی موت کے بعد مادی کثیف لباس اُتار کر اسی برزخی دنیا میں اس برزخی پردے کے دوسری طرف آ گیا ہے، یعنی اب چونکہ انسان خود روشنی کے جسم کی صورت میں روشنی کی فضا میں موجود ہے لہذا اب اس کی نظر وسیع ہے اب انسان اپنی روشنی کی وسعتِ نظر سے پوری روشنی کی دنیا بلکہ مزید دنیاؤں کے نظارے کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ برزخ کہاں ہے
128۔ عالمِ برزخ (نفس کی دنیا)کہاں ہے
جہاں انسان کا جسم ہے وہیں انسان کا برزخ قائم ہو گیا ہے۔
مادی جسم کی موت کے بعد ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے رواج کے مطابق مردہ جسم کا انتظام کرتے ہیں کچھ مردہ جسم کو زمین کے نیچے قبر میں دفنا دیتے ہیں ، کچھ جسم کو جلا کر اس کی راکھ دریا میں بہا دیتے ہیں، کچھ جسم کو چیل کووں کی خوراک بننے کے لئے الگ رکھ دیتے ہیں، اور کچھ بھوکے انسان مُردوں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ بہر حال جسم کے ساتھ جو بھی ہو اسے اس کی موجودہ حالت میں قبر میں رکھا جائے یا جلا دیا جائے یا ذروں کی صورت میں بکھیر دیا جائے یا وہ چیل کووں یا انسانوں کے پیٹ میں چلا جائے۔ جسم جہاں بھی ہو گا وہیں اس کا برزخ قائم ہو جائے گا۔
129۔ برزخ(نفس کی دنیا) میں انسانی صورت
برزخ میں انسانی صورت درج ذیل ہو گی
برزخ میں انسانی صورت = مُردہ جسم +نفس +روح =انسان
مُردہ جسم جہاں بھی ہے باقی انسان یعنی نفس اور روح بھی وہیں موجود ہیں۔ (لہذا اس برزخی رہائش گاہ میں پورا انسان یعنی مردہ مادی جسم( چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو)نفس، روح سب موجود ہے۔ اب اس رہائش گاہ میں جسم مُردہ حالت میں موجود ہے لہذا انسان اب اس مُردہ جسم کا استعمال نہیں کر سکتا اب انسان مادی جسم سے اعمال سرانجام دے کر اپنے اعمال نامے میں کوئی اچھا بُرا اضافہ نہیں کر سکتا اعمال نامہ جسم کی موت کے ساتھ ہی انسان سے لے لیا گیا ہے جیسے امتحان گاہ میں پیپر کا ٹائم ختم ہوتے ہی پیپر واپس لے لیا جاتا ہے۔ لہذا یومِ حساب کے لئے انسان نے جو بھی اعمال کرنے تھے وہ مادی جسم میں رہتے ہوئے کر لئے اب جسم کی موت کے بعد ایک پیپر کی طرح انسان سے اس کا تیار کردہ اعمال نامہ واپس لے لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق اب اس سے حساب ہو گا لہذا مادی جسم برزخی رہائش گاہ میں بے کار پڑا ہے۔ اب جو انسان نفس کی صورت متحرک ہے تو اپنے انہیں اعمال کے حساب سے متحرک ہے جو وہ دنیا میں زندگی میں کر آیا ہے۔ اچھے عمل کئیے تھے تو نفس ان اچھے اعمال سے صحت مند، فعال اور متحرک ہو گیا ہے۔ برے عمل کئیے تھے تو گنا ہوں سے نفس بیمار اور مردہ جسم کی طرح بے کار پڑا ہے۔
جسم کی موت کے بعد جہاں بھی جسم ہے وہیں پر باقی انسان بھی موجود ہے اگر جسم قبر میں ہے تو اس جسم کی روح اور نفس بھی یہیں موجود ہیں لہذا جہاں جسم ہے وہیں ہے پورا انسان۔ لہذا برزخ میں انسانی صورت درجِ ذیل ہے۔
برزخ میں انسانی صورت = مُردہ جسم +نفس +روح =انسان
130۔ برزخی (نفس کی)رہائش گاہ
لہذا جہاں انسان کا جسم ہے وہیں اس کی برزخی رہائش گاہ کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ انسان کے اعمال کے مطابق انسان کی اس عارضی رہائش گاہ کو ترتیب دے دیا گیا ہے۔ یہ رہائش گاہ بالکل ویسی ہی ہے جیسی دنیا میں تھی یعنی جیسا انسان کا گھر دنیا میں تھا ویسا ہی گھر برزخ میں ہو گا۔ عموماً ہر شخص کی برزخی رہائش گاہ اس کے اعمال کے مطابق ہوتی ہے لہذا اعمال عمومی ہیں تو برزخی رہائش گاہ دنیاوی رہائش گاہ کی ہی صورت ہو گی لیکن اگر اعمال اچھے یا بہت اچھے ہیں تو یہ برزخی رہائش گاہ اعمال کے حساب سے اچھی اور بہت اچھی ہو گی۔ اگر اعمال برے ہیں تو رہائش گاہ بھی اسی مناسبت سے ہو گی۔ یعنی برزخی رہائش گاہ اعمال کے حساب سے حسبِ مرتبہ دی جائے گی۔
131۔ برزخ(نفس کی دنیا) کیسی ہے
برزخ رنگ و روشنی کی نرم و لطیف دنیا ہے۔ یہاں بشمول انسان سب کچھ وہی ہے جو سب کچھ دنیا میں موجود تھا، فرق یہ ہے کہ مادی دنیا میں سب کچھ مادی تھا یہاں سب کچھ رنگ و نور سے بنا ہوا ہوتا ہے۔
دراصل انسان اور (ہر مادی شے )جسمانی مادی جسم کی موت کے بعد اپنا یہ مادی کثیف جسم اپنے اوپر سے اُتار دیتا ہے اور یہ کثیف لباس اُتارنے کے بعد اب انسان ہے تو وہیں موجود لیکن اپنی لطافت اور موجودہ روشنی کی ہیئت کی وجہ سے مادی آنکھ سے اوجھل ہو گیا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان ہمارے درمیان ہی موجود ہے لیکن اس نے کوئی سلیمانی ٹوپی پہن لی ہے اس لئے ہمارے درمیان ہونے کے باوجود نظر نہیں آتا۔ لہذا برزخ بھی ایک باریک پردے کے پیچھے ہم سے تھوڑا سا اوپر ہمارے ہی سیارۂ زمین پر موجود ہے، ہاں بس ہم اپنی کوتاہ نظری کی بدولت اسے دیکھ نہیں پا رہے
اب انسان برزخی دنیا میں اپنی برزخی رہائش گاہ پر عارضی قیام کرے گا اور یہ برزخی زندگی نفسی زندگی ہے۔
132۔ نفسی زندگی
برزخی زندگی نفسی (AURA)زندگی ہے۔ مادی جسم تو موت کا شکار ہو گیا جب کہ نفس (AURA)ابھی زندہ اور متحرک ہے اور موت کے بعد کی زندگی نفسی زندگی ہے۔
یہاں عالمِ برزخ میں اگرچہ انسان کا جسم بھی اس کی برزخی رہائش گاہ میں ہی موجود ہے لیکن یہ مُردہ جسم انسان نے پُرانے کپڑے کی طرح اپنے جسم سے اُتار دیا ہے لہذا اب یہ مادی جسم برزخی رہائش گاہ کے ایک کونے میں کسی بے کار بوسیدہ کپڑے کی طرح پڑا ہے۔ لہذا اس برزخی رہائش گاہ میں پورا انسان یعنی مادی جسم( چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو)نفس، روح سب موجود ہے۔ اب اس رہائش گاہ میں جسم مُردہ حالت میں موجود توہے لیکن انسان اب اس مُردہ جسم کا استعمال نہیں کر سکتا اب انسان مادی جسم سے اعمال سرانجام دے کر اپنے اعمال نامے میں کوئی اچھا بُرا اضافہ نہیں کر سکتا اعمال نامہ جسم کی موت کے ساتھ ہی انسان سے لے لیا گیا ہے جیسے امتحان گاہ میں پیپر کا ٹائم ختم ہوتے ہی پیپر واپس لے لیا جاتا ہے۔ لہذا یومِ حساب کے لئے انسان نے جو بھی اعمال کرنے تھے وہ مادی جسم میں رہتے ہوئے کر لئے اب جسم کی موت کے بعد ایک پیپر کی طرح انسان سے اس کا تیار کردہ اعمال نامہ واپس لے لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق اب اس سے حساب ہو گا لہذا مادی جسم برزخی رہائش گاہ میں بے کار پڑا ہے۔ اب جو انسان نفس کی صورت متحرک ہے تو اپنے انہیں اعمال کے حساب سے متحرک ہے جو وہ دنیا میں زندگی میں کر آیا ہے۔ لہذا برزخ میں انسان کی زندگی نفسی زندگی ہے اور یہ زندگی انسان کے دنیاوی اعمال کے نتیجے کی مناسبت سے ہے۔
133۔ مقید نفس
مادی زندگی میں بُرے اعمال کرنے والے بُرے انسان کا نفس موت کے بعد مقید نفس ہے۔
زندگی میں اعمال بُرے تھے تو نفس آزاد نہیں بلکہ برزخی رہائش گاہ میں مقید ہے۔ یہ قید اس کی دنیاوی مجرمانہ سر گرمیوں کا نتیجہ ہے جیسے ایک مجرم کو جُرم کے بعد بطورِ سزا جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اسی طرح نفس کو زندگی کی بد اعمالیوں کے صلے میں برزخ میں اس کی برزخی رہائش گاہ میں قید کر دیا گیا ہے۔
134۔ آزاد نفس
جس شخص کے دنیا میں اعمال اچھے تھے اس کا نفس برزخ میں آزاد ہے اور نفس برزخی دنیا میں اپنے ان اچھے اعمال کی وجہ سے صحت مند، فعال اور متحرک ہو گیا ہے۔ لہذا اپنے اعمال کے مطابق کائناتوں کی سیر کرتا پھر رہا ہے۔
عالمِ برزخ میں انسان اب نفس کی صورت متحرک ہے۔ لہذا برزخی زندگی نفسی زندگی ہے۔ اور نفس محض مفروضہ نہیں بلکہ جسم ہے لطیف جسم اور نفس محض جسم بھی نہیں بلکہ اجسام کے مجموعے کویہاں ہم نے نفس کہا ہے۔ یعنی تمام تر اجسام نفس ہیں اور برزخ میں انسان چونکہ اب نفس کی صورت میں موجود ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان اپنے ان تمام تر اجسام کے ساتھ برزخ میں کیسے اور کیا کر رہا ہے۔
نفس کے اجسام۔ باطن مجموعہ ہے روح +نفس کا اور نفس مجموعہ ہے تمام تر اجسام کا لہذا تمام تر باطنی اجسام نفس کے زُمرے میں آئیں گے جب کہ مشاہدہ کرنے والے ان لطیف اجسام کو روح یا روح کے حصے یا ماورائی یا باطنی مخلوق یا کچھ اور کہ دیتے ہیں یہ سب ان کی ذاتی اختراعات ہیں دراصل یہ تمام لطیف اجسام نفس کے اجسام ہیں جس کی ہم پچھلے صفحات میں وضاحت کر آئے ہیں۔
135۔ اجسام کی تعداد
نظریہ نمبر۔ ﴿157﴾۔ ﴿اعمال مجسم ہو جاتے ہیں لہذا ایک شخص کے جتنے زیادہ مسلسل اور اچھے اعمال ہیں اتنے ہی اس کے باطنی اجسام ہیں ﴾
اب سوال یہ ہے کہ ان نفسی اجسام کی تعداد کیا ہے۔
ماضی میں اور آج بھی مشاہدہ کرنے والے جو بھی اور جتنا بھی مشاہدہ کرتے ہیں اپنے اسی مشاہدے کے مطابق وہ ان لطیف اجسام کی تعداد کا تعین کرتے ہیں۔ مثلاً بعض کا خیال ہے کہ یہ لطیف اجسام روح کے حصے ہیں جن کی تعداد تین ہے، کچھ کا خیال ہے کہ یہ چکراز یا سبٹل باڈیز ہیں جن کی تعداد سات ہے ، کوئی یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کی یہ لطیف نفسی اجسام دراصل باطنی مخلوقات ہیں جن کی تعداد سولہ ہے۔ در حقیقت یہ تمام اندازے باطن سے لاعلمی پر مبنی غلط اندازے ہیں۔ لہذا مشاہدہ کرنے والا جو ذاتی مشاہدہ کرتا ہے وہ اپنے اس مشاہدے کو اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہے۔ لہذا باطنی اجسام کا مشاہدہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ اس کا ذاتی مشاہدہ ہے جس کا اطلاق ہر شخص پر نہیں ہو گا دوسری بات یہ ہے کہ مشا ہدے کے بیان کے یہ الفاظ بھی اس کے ذاتی الفاظ ہیں جو علمی معیار پر پورے نہیں اُترتے جن کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔ حقیقت میں
ہر پیدا ہونے والے عام شخص کے پیدائشی طور پر نفس کے تین اجسام ہوتے ہیں (۱۔ مادی جسم، ۲۔ روشنی کا جسم، ۳۔ نور کا جسم)جب کہ عملی یعنی اعمال کی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اچھے اور مستقل اعمال کرنے والے لوگوں کے یہ مستقل اعمال مزید اجسام کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، یعنی اچھے لوگوں کے مزید نفسی اجسام بھی ہوتے ہیں۔ یہ عملی نفسی اجسام کتنے ہوتے ہیں کیسے ہوتے ہیں۔ تو جواب یہ ہے کہ جس شخص کے جتنے اچھے مستقل اعمال ہو گے اتنے ہی اس کے اجسام ہوں گے، لہذا کسی شخص کے باطنی اجسام کا تعین وہی شخص کر سکتا ہے جو اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ محض اندازے سے کسی یا ہر شخص کے باطنی اجسام کا تعین کرنا غلطی ہے اور ایک شخص کے باطنی اجسام کی تعداد کو ہر شخص کے باطنی اجسام کی تعداد قرار دینا بھی بڑی غلطی ہے۔ لہذا اب یہاں ہم باطنی اجسام کی تعداد کا صحیح معیار قائم کرتے ہیں۔
۱۔ ہر انسان کے پیدائشی باطنی اجسام کی تعداد=روشنی کا جسم+نور کا جسم
۲۔ موت کے بعد ہر شخص کے باطنی اجسام کی تعداد=اعمال کے حساب سے ہو گی جتنے اچھے اور مستقل اعمال ہوں گے اتنے ہی باطنی اجسام زیادہ ہوں گے۔
کچھ لوگوں نے اپنے اعمالِ بد سے اپنے پیدائشی اجسام(روشنی و نور کے اجسام)کو بھی خراب کر لیا لہذا یہ بھی مادی جسم کی طرح موت کے بعد نیم مُردہ حالت میں پڑے ہیں اپنی بد اعمالیوں کے نتیجے میں اپنی پرواز کی قدرتی صلاحیتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ اچھے اعمال والوں کے اچھے اعمال نے ان کے نہ صرف موجودہ روشنی و نور کے اجسام کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے بلکہ ان کے مزید اعمال مزید اجسام کی صورت میں ان کے ساتھ ہیں لہذا موت کے بعد اچھے لوگوں کی صلاحیتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے لہذا موت کے بعد اب تو وہ ہواؤں میں اُڑتے پھر رہے ہیں
136۔ روشنی کا جسم
نظریہ نمبر۔ ﴿158﴾۔ ﴿مادی جسم کی موت کے بعد اب انسان روشنی کے جسم کی صورت موجود ہے ﴾
مادی جسم کی موت کے بعد اب انسان اپنے مادی جسم سے نکل کر اپنے روشنی کے لطیف جسم (نفسAURA) کے اندر موجود ہے۔ یہی انسان جب مادی جسم اور مادی ذرات میں قید تھا تو ان ذرات کے بوجھ تلے دبا زمین سے چپکا ہوا تھا انسان کے پاؤں زمین پر ٹکے ہوئے تھے وہ اس وزن کو اُٹھائے زمین پر گھسٹتا تھا لیکن جسم کی موت کے بعد اب انسان نے اپنے اوپر سے یہ بوجھ اُتار دیا ہے اب انسان زمین سے ذرا سا بلند ہو گیا ہے اب وہ زمین پر چلتا نہیں ہے اب وہ اپنے نفس کے جسم کے ساتھ ہوا میں پرواز کرتا ہے انسان کا یہ نفسی جسم روشنی کا جسم ہے اور انسان اب اس روشنی کے جسم کے ساتھ روشنی کی فضاء میں موجود ہے اب انسان کی رفتار روشنی کی رفتار ہے لہذا اب انسان اپنے نفس کے اجسام کے ساتھ کسی راکٹ کی طرح پرواز کرتا ہے اور ہواؤں فضاؤں میں اُڑتا ہوا کائنات کے سیاروں کی سیر کرتا پھرتا ہے۔ کچھ عرصہ روشنی کے جسم میں رہ کر انسان اس لباسِ جسم کو بھی اپنے اُوپر سے اُتار دے گا جیسے اس نے کچھ عرصہ مادی دنیا میں مادی جسم کے ساتھ بسر کیا پھر مادی جسم کی موت کے بعد اس جسم کو اُتار دیا اسی طرح کچھ عرصہ روشنی کے جسم کے ساتھ انسان روشنی کی دنیا میں رہے بسے گا پرواز کرے گا پھر اپنی مدتِ حیات پوری کر کے یہ روشنی کا جسم بھی مر جائے گا تو انسان اس جسم کو بھی اپنے اُوپر سے اُتار دے گا۔ مادی جسم بھی مر گیا روشنی کا جسم بھی مر گیا لیکن انسان ابھی بھی موجود ہے ابھی تک انسان کا اختتام نہیں ہوا۔
137۔ نور کا جسم
نظریہ نمبر۔ ﴿159﴾۔ ﴿اب روشنی کے جسم کی موت کے بعد انسان کا اختتام نہیں ہو گیا بلکہ اب انسان نور کے جسم کے اندر نور کی فضا میں موجود ہے۔ ﴾
اب انسان روشنی کی فضا سے ذرا اور اُوپر اُٹھ کر نور کی فضا میں آ گیا ہے جیسے وہ مادی جسم سے نکل کر تھوڑا اُوپر اُٹھ کر روشنی کی فضا میں داخل ہو گیا تھا اسی طرح اب اس نے اپنے اُوپر سے روشنی کا لبادہ بھی اُتار دیا اب وہ مزید لطیف ہو کر ایک درجہ اور اوُپر اُٹھ آیا ہے کچھ عرصہ انسان اس نور کے جسم کے ساتھ نور کی دنیا میں رہے بسے گا پھر اپنی مدتِ حیات پوری کر کے یہ نور کا جسم بھی مر جائے گا اور اس جسم کو بھی انسان اپنے اُوپر سے اُتار دے گا۔ لیکن اس جسم کی موت کے بعد بھی انسان کا اختتام نہیں ہوا ابھی بھی انسان موجود ہے لہذا
138۔ تمام باطنی لطیف اجسام (نفس AURA)فانی ہیں
نظریہ نمبر۔ ﴿160﴾۔ ﴿تمام اجسام مر جاتے ہیں۔ روح باقی رہ جاتی ہے۔ ﴾
جب کہ باطن کا مشاہدہ کرنے والے باطنی اجسام کو روح تصور کر کے ان لطیف اجسام کو لا فانی تصور کرتے ہیں۔ جب کہ درحقیقت تمام باطنی لطیف اجسام نہ تو روح ہیں نہ ہی روح کے حصے نہ ہی یہ لطیف باطنی اجسام کوئی مخلوق ہیں بلکہ یہ تمام اجسام محض نفس ہیں اور تمام باطنی اجسام اپنی مدت حیات پوری کر کے مر جاتے ہیں۔
برزخ کے اندر یونہی لباسِ جسم بدلتے بد لتے زینہ بہ زینہ اوپر چڑھتے چڑھتے ایک مقام پر انسان ہر لباسِ جسم اپنے اُوپر سے اُتار دے گا اور ہر جسم کے بغیر محض روح کی صورت رہ جائے گا، روح میں کوئی تغیر و تبدل نہیں نہ ہی روح مرتی ہے یہ جوں کی توں اور اتنی ہی اور ویسی ہی رہتی ہے۔ روح انرجی ہے اور ہر شخص کی روح واحد انرجی ہے ، اور ہر انفرادی انرجی(روح) نے ایک واحد انرجی(پاور اٹیشن کی انرجی یعنی خالق سے آغاز کیا تھا، یعنی خالق کے حکم(انرجی)نے یکلخت منتشر ہو کر تمام تر ارواح کی صورت اختیار کی تھی اور اسی انرجی کے پروگرام سے انسان کی تخلیق و پیدائش کے مراحل مکمل ہوئے تھے اب فنا کے مراحل طے کر کے جو یہ واحد انرجی باقی بچی ہے تو اب دوبارہ یہ انر جی(روح) اپنے منبع (پاور اسٹیشن ) میں ضم ہو جائے گی یہی روح کی منزل ہے، یعنی روح جہاں سے آئی تھی یا چلی تھی وہیں پہنچ گئی، یعنی روح رب سے جا ملی۔ اب انسان نے جہاں سے اور جیسے ابتدا کی تھی جہاں سے اور جیسے آیا تھا بالکل اسی ترتیب سے واپس اپنی منزل پر جا پنہچا اب جیسے ابتدا میں واحد انرجی کے سوا کچھ نہیں تھا اب بھی واحد انرجی کے سوا کچھ نہیں ہے اب کہیں انسان کا نشان بھی نہیں ہے
لہذا مادی جسم مادی دنیا میں منتشر ہو گیا
روشنی کا جسم روشنی کی دنیا میں منتشر ہو گیا
نور کا جسم نور کی فضا میں بکھر گیا
روح رب سے جا ملی
اب یہاں انسان کا اختتام ہوا۔ انسان جو روح، نفس(اجسام)، جسم کا مجموعہ تھا، اب اس وقت نہ روح ہے نہ جسم نہ نفس۔ اب پورے انسان کا کہیں نشان بھی نہیں ایسے جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں
جب مُراقبہ و مشاہدہ کرنے والے مر جانے والوں کو جسم کی موت کے بعد لطیف اجسام کی صورت میں برزخ یعنی ایک لطیف فضا میں موجود پاتے ہیں تو نفس کے اجسام کو نئے اجسام اور برزخی نفسی دنیا کو نئی دنیا تصور کر لیتے ہیں وہ جسم کی موت کو تو انسان کا اختتام تصور کرتے ہیں لہذا انسان کے اختتام کے بعد ان کے خیال میں ان دیگر لطیف اجسام کی ایک نئی اور انوکھی لطیف فضا میں موجودگی کا مطلب ہے دوسرا جنم، یعنی وہ انسان جس کا موت کی صورت میں اختتام ہو گیا وہ اب نئے جسم کے ساتھ نئی دنیا میں پھر جی اُٹھا ہے۔ یہ سب باطل گمان ہیں جو مذہبی اطلاعات کو سمجھنے کی کوشش میں قائم کئیے گئے در حقیقت ایسا کچھ نہیں ہے۔ انسان جسمانی موت کے بعد عملی زندگی کا اختتام ہو گیا ہے اب انسان یومِ حساب کے انتظار میں برزخ میں مخصوص حالات میں کچھ دیر کو رُک گیا ہے۔ لہذا برزخ کا یہ عارضی قیام دوسرا جنم نہیں بلکہ ایک انسان کے پہلے جنم کی واپسی کی روداد ہے جو مذاہب نے صحیح بیان کی تھی لیکن انسان نے اسے بُری طرح اُلجھا کر خلط ملط کر کے ان اطلاعات کو نت نئے فلسفوں (آواگون، کرما، چکرا، ارتقائ)کی صورت میں بیان کیا خلاصہ یہ ہے کہ آج تک کا انسان ان مذہبی اطلاعات کو نہ تو خود ہی سمجھ سکا ہے نہ ہی سمجھا سکا ہے اپنے ان غلط نظریات (آواگون، ارتقاء، کرما، چکرا)کو آج تک ثابت تو کر نہیں سکا لیکن اپنے ان نظریات کو مذہبی عقیدے تصور کر کے ان سے دستبردار بھی نہیں ہو پا رہا۔ آج ہم نے یہاں وضاحت کر دی ہے کہ یہ نظریات نہ تو مذہبی عقیدے ہیں نہ ہی سائنسی نظریات ہیں محض غلط فہمیوں پر مبنی غلط تاریخی مفروضے ہیں جن کی کوئی مذہبی یا سائنسی حقیقت نہیں ہے۔
139۔ برزخ انتظار گاہ ہے
برزخ دراصل ایک انتظار گاہ ہے اور اس انتظار گاہ میں فیصلے کا دن آنے تک انسان کو رُک کر انتظار کرنا ہے۔ جیسے کوئی مسافر ویٹنگ روم میں بیٹھ کر ٹرین کے آنے کا انتظار کرتا ہے ایسے ہی انسان برزخ میں رُک کر منتظر ہے حساب کے دن کا یعنی برزخ ایک انتظار گاہ ہے یہ کوئی مستقل رہائش گاہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں انسان کو برزخ میں ٹھرا کر کیوں انتظار کروایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی کچھ لوگ تو مر چکے ہیں برزخ میں داخل ہو گئے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں اور ابھی مر کر برزخ میں داخل نہیں ہوئے لہذا باقی تمام لوگوں کی مر کر برزخ میں منتقلی تک انتظار کرنا ہے اور یہ برزخی انتظار قیامت پر ختم ہو گا۔
140۔ قیامت
زندگی ابتداء سے جاری ہے اور ایک سے دو دو سے چار یہ ہمیشہ بڑھتی پھولتی رہی ہے اور رہے گی کوئی حادثہ کوئی نسل کُشی زندگی کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ ہاں لیکن ایک خدائی حکم یکلخت ہر قسم کی زندگی کو ختم کر دے گا، یہی قیامت ہے قیامت کا مطلب ہے ایک خدائی حکم کے ذریعے یکلخت ہر قسم کی زندگی کا اختتام۔ جب قیامت کی صورت میں ہر موجودہ شے کا اختتام ہو جائے گا تو سب انسان(اور اس کے ساتھ ہی تمام موجودہ اشیاء ) بھی مر کر برزخ میں داخل ہو جائیں گے اس کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہو گا۔ اگلا مرحلہ ہے دوبارہ زندگی۔
141۔ دوبارہ زندگی
انسان سے اس کے اچھے بُرے اعمال کا حساب لینے کے لئے اسے دوبارہ زندگی دی جائے گی۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ جس خالق نے انسان کو پہلی بار محض اپنے حکم (انرجی، روح) سے ترتیب وار تخلیق کیا تھا وہی خالق (جب اس کی منشا ہو گی )دوبارہ اپنے ایک حکم سے اسی انسان کو اسی ترتیب سے دو بارہ ترتیب دے دے گا۔ اور خالق کو یہ سب کرنے کے لئے محض حکم(پروگرام) دینا ہو گا اور اس حکم کے عین مطابق اسی پرانے انسان کی ترتیب و تخلیق کا پرا جیکٹ مکمل ہو جائے گا لہذا
۱۔ نور کی فضا سے نور کے وہی ذرات جو نور کے جسم کی موت کی صورت نور کی فضا میں منتشر ہوئے تھے سے نور کے جسم کی دوبارہ یکجائی ہو گی اور وہی پرانا نور کا جسم دوبارہ موجود ہو جائے گا اسی طرح
۲۔ روشنی کی فضا سے روشنی کے وہی ذرات جو روشنی کے جسم کی موت کی صورت روشنی کی فضا میں منتشر ہوئے تھے سے روشنی کے جسم کی دوبارہ یکجائی ہو گی اور وہی پرانا روشنی کا جسم دوبارہ موجود ہو جائے گا اسی طرح
۳۔ مادی زمین سے مادی جسم کے وہی ذرات جو مادی جسم کی موت کی صورت مادی زمین میں منتشر ہوئے تھے سے مادی جسم کی دوبارہ یکجائی ہو گی اور وہی پرانا مادی جسم دوبارہ موجود ہو جائے گا لہذا
جس جس فضا میں جس جس زمین پر انسان نے اپنا لباس جسم اتارا تھا اس اس فضا سے یہی ذرات دوبارہ اکھٹے کر کے وہی پرانا انسان دوبارہ تشکیل دے دیا جائے گا۔
یہ ہے انسان کا دوسرا جنم اور دوبارہ زندگی (اور اس دوبارہ زندگی میں انسان وہی پرانا انسان ہے ) اور یہ دوسرا جنم انسان کو اس کی عملی زندگی کے اختتام کے بعد ملا ہے اور یہ دوسرا جنم انسان کو اپنی پہلی زندگی کا حساب دینے کے لیے ملا ہے۔ لہذا اب انسان کو زندگی میں کیے ہوئے ہر عمل کا حساب دینا ہو گا۔
یہ ہے یوم حساب، آج انسان سے اس کے ایک ایک عمل(جو اعمال نامے میں ریکارڈ ہیں )کا حساب ہو گا، اوراسی اعمال نامے کے حساب سے یہ تعین بھی ہو چکا ہے کہ یہ انسان کیسا انسان ہے۔ نفس امارہ ہے یا نفس لوامہ ہے یا نفس مطمئنہ ہے انسان کی حیثیت کے تعین کے بعد اسی حیثیت کے حساب سے انسان کو جنت یا جہنم بھیج دیا جائے گا۔
یہ ہے انسان کا آخری ٹھکانہ یعنی جنت۔
یہیں سے انسان نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور با لا آخر طویل مسافت طے کر کے انسان پھر اپنے ٹھکانے (جنت)پر واپس آ پہنچا ہے۔
142۔ انسان کائناتی مسافر ہے
سائنسدان ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ انسانی زندگی کے لیے موضوع سیارہ فقط زمین ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کائناتی مسافر ہے اور کائنات میں بہت سے سیارے ہیں کہیں گرمی ہے کہیں برف جمی ہے کہیں پانی ہے کہیں پانی نہیں ہے، غرض کائنات میں لا شمار سیارے ہیں اور ہر سیارہ فضا اور عناصر یعنی ماحول کے اعتبار سے مختلف اور منفرد سیارہ ہے اور انسان کی تخلیق کائناتوں کی ساخت کے عین مطابق ہے یعنی انسان کائناتوں کے ہر سیارے پہ جانے رہنے سہنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت انسان زندگی میں بھی استعمال کر سکتا ہے اور زندگی کے بعد بھی۔ زندگی میں اختیاری کوشش تو انسان کی انتہائی محدود ہے لہذا کہا جاتا ہے کہ انسان چاند پر جا پہنچا ہے۔ یعنی مادی انسان کی پہنچ ابھی تک چاند تک ہی ہو پائی ہے۔
لیکن غیر اختیاری طور پر انسان اپنی آدھی زندگی اپنی روح اور نفس کے ذریعے حالت نیند میں کائنات کی سیر میں بسر کرتا ہے سارے جہان میں اڑتا پھرتا ہے اور اپنی اس حقیقی کائناتی سیاحت کو خواب کہہ کر مذاق میں اڑا دیتا ہے۔ مادی جسم کی موت کے بعد بھی انسان اپنے اعمال کے مطابق اپنے نفوس کے مختلف اجسام کے ذریعے کائنات کے مختلف سیاروں کی سیر کرتا پھرتا ہے، مختلف سیاروں پر انسان رہتا بستا ہے ہر جسم اپنی مدت حیات پوری کر کے مر جا تا ہے اور روح لباس جسم بدلتے بدلتے ہر سیارے کی سیر کرتے کرتے با لا آخر ہر لباس جسم اتار کر فقط روح رہ جاتی ہے اور یہ انفرادی روح بھی اجتماعی واحد انرجی(پاور اسٹیشن) میں زم ہو جاتی ہے۔ لہذا یہاں انسان کا خاتمہ ہو ا۔ انسان جہاں سے اور جیسے آیا تھا ویسے ہی اور وہیں پہنچ گیا۔
یہ ہے انسان کے طویل ترین سفر کی مختصر روداد۔ دنیا بھر کے افسانے بگھارنے والے صدیوں کے انسان کی اپنی روداد آج اس کتاب میں ہم نے بیان کی ہے۔
اس طویل انسانی روداد کا خلاصہ درج ذیل ہے
143۔ انسانی کہانی
۱۔ انسان کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا لہذا سب سے پہلے انسان خالق کے علم میں محض ایک پروگرام کی صورت میں ظاہر ہوا اور جب خالق اپنے اس پروگرام پر عمل پیرا ہوا تو اس نے یہ پروگرام(حکم) جاری کر دیا لہذا اس پروگرام کے عین مطابق انسانی تخلیق کا مرحلہ وار عمل شروع ہوا لہذا پہلے مرحلے میں
۲۔ واحد انرجی کے یکلخت انتشار سے ہر انفرادی، روح، نے جنم لیا اس کے بعد ترتیب وار
۳۔ پروگرام کے عین مطابق انسان کا باطن، بھی ترتیب پا گیا۔ اس کے بعد
۴۔ پہلے انسان کے ، مادی جسم، کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔ اس کے بعد
۵۔ روح، نفس، مادی جسم کو یکجا کر دیا گیا اور یوں پہلا انسان جیتی جان ہوا
۶۔ انسان کا جوڑا (اس کی بیوی) پیدا کیا گیا۔
۷پہلے جوڑے سے پیدائش کے عمل کا آغاز ہو ا اور نوعی تسلسل کے ذریعے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔
۸۔ اور آج کی موجودہ تمام نسل انسانی اسی پہلے خالق کے تخلیق کردہ جوڑے کی نسل ہے۔
144۔ انسانی سفر کے پانچ ادوار
انسان کا یہ کائناتی سفر پانچ ادوار پر مشتمل تھا۔ یہ پانچ ادوار درج ذیل ہیں
۱۔ عالم امر۔ خالق کے علم میں (یعنی سب سے پہلے انسان ایک پروگرام کی صورت ہارڈ ڈسک(خالق کے علم میں )میں موجود تھا۔
۲۔ عالم ارواح۔ ہر انسان کا انفرادی پروگرام یعنی روح
۳۔ عالم مادی۔ روح +نفس +جسم =انسان
۴۔ مردہ جسم +روح+عالم برزخ۔ نفسی زندگی=روح +نفس(لطیف اجسام) =انسان
عالم آخرت۔ دوبارہ زندگی = مادی جسم + روح +نفس(لطیف اجسام) =انسان
انسان کے اس کائناتی سفر کی روداد کو اس کتاب میں میں تفصیلاً بیان کر آئی ہوں اب ہم اس تفصیلی روداد کو ایک مختصر نقشے سے ظاہر کرتے ہیں۔
145۔ انسانی زندگی کا سفر آغاز تا اختتام
واحد انرجی سے /
۔ ۔ ۔ /۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ / /دوبارہ زندگی / اب پھر فقط واحد انرجی رہ گئی انسان / ارواح کی پیدائش کا کہیں نشان بھی نہی حساب، کتاب، سزا، جزا ء / اب روح پھر واحد انرجی میں مل گئی /
نفوس کی تخلیق
/ / جنت، جہنم(آخری ٹھکانہ)
پہلے مادی جسم(آدم) کی تخلیق روح (انرجی)کی واپسی
/ /
حوا کی پیدائش واحد روح(انرجی) رہ گئی
/ /
پہلا جوڑا مکمل ہوا نفوس(لطیف اجسام) کی موت
/ /
پہلے جوڑے سے پیدائش کا آغاز برزخی زندگی(نفسی زندگی)
/ /
پیدائش کے ذریعے نوعی تسلسل کا قیام مادی جسم کی موت
/ /
موت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴿انتقال﴾۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کی واپسی
باب نمبر۔ 12: تاریخی جواب
حصہ اول میں ہم نے انسان سے متعلق پرانے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے جبکہ
حصہ دوئم میں ہم نئے نظریات کے ذریعے برسوں کے حل طلب تشنہ سوالات کے جوابات
دیے ہیں اور انسان کی تعریف اور تفصیلی تعارف پیش کیا ہے۔
اب اپنے نئے نظریات کی روشنی میں ہم کچھ مزید تاریخی سوالات کے جوابات دیں گے۔
146۔ انسانی تعریف میں ناکامی کے اسباب
سوال نمبر۱۷۔ انسانی تعریف میں ناکامی کے کیا اسباب ہیں؟
جواب۔ ہزاروں برس سے انسان پر مختلف پہلوؤں سے کام ہو رہا ہے لیکن ان ہزاروں برسوں میں آج تک انسان کی تعریف سامنے نہیں آ سکی کہ آیا انسان ہے کیا۔ کیا وجہ ہے کہ ہزاروں برس کی تحقیقات، تجربات، تجزیات کے باوجود آج تک انسان کی تعریف سامنے نہیں آ سکی؟ہزاروں برس سے انسان پہ کام ہو رہا ہے اور بے نتیجہ ہے اور انسان کا علم ابھی تک اپنی ابتدائی حالت میں ہے یہ آگے کیوں نہیں بڑھا؟ یہ بے نتیجہ کیوں ہے ؟ ہزاروں برس سے انسانی کام میں ہر دور کے لوگوں نے کچھ یکساں غلطیاں کی ہیں اور انہیں مسلسل غلطیوں کی وجہ سے آج تک انسان کی تعریف ممکن نہیں ہوئی۔ وہ غلطیاں کیا ہیں جو ہر دور کے لوگ کرتے آئے ہیں۔ یہاں ہم ان غلطیوں کی نشاندہی کریں گے۔ چھوٹی چھوٹی بے شمار غلطیوں کے علاوہ دو بڑی بنیادی غلطیاں ہر دور میں کی گئی ہیں۔
(1) انسانی مجموعے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جب کہ انسان روح، نفس، جسم کی ایک خاص ترکیب اور تخلیق ہے۔
(2) لہذا اس خاص ترکیب سے لاعلمی کے سبب انسان آج تک خاص انسانی تخلیق کو سمجھنے سے قاصر رہا۔
(3)انسان کہیں سے آیا ہے تو کہیں جا بھی رہا ہے ا ور یہ واپسی کی خاص ترتیب فنائی ترتیب ہے۔ اور انسان سے لا علمی کی وجہ سے اس فنائی ترتیب کو بھی نہیں سمجھا گیا۔
اور یہی وجوہات ہیں کہ آج تک انسان کی تعریف ممکن نہیں ہو سکی۔
درحقیقت انسان محض مادی جسم نہیں بلکہ ایک خاص الخاص مجموعہ ہے اس کا وسیع و عریض باطن بھی ہے جو روح اور رنگ برنگے لطیف اجسام کا مجموعہ ہے۔ لیکن آج تک انسان کو اس مجموعی حیثیت میں سمجھنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی اور ظاہر ہے ادھوری کوششوں کے پورے نتائج برآمد نہیں ہو سکتے اور انسانی کام میں یہی دو غلطیاں کی گئی ہیں جبھی آج تک انسانی تعریف ممکن نہیں ہو سکی۔ انسان مادی جسم کے علاوہ ایک وسیع و عریض باطن بھی رکھتا ہے اس کے اندر روح و نفس بھی ہے اس کے اندر باہر طرح طرح کے برقی و مادی سسٹم کام کر رہے ہیں۔ یہ آفاقی اطلاعات مذاہب نے انسان کو دیں تھیں لیکن انسان کبھی پورے طور پر ان آفاقی اطلاعات کو سمجھ نہیں پایا اس لئے کہ کبھی اس نے خود کو مجموعی حیثیت میں سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کچھ لوگ محض روح پہ کام کرتے رہے تو کچھ محض جسم پہ کچھ ارتقاء کو ثابت کرنے پر تلے رہے تو کچھ نفس کے جال میں پھنس گئے لیکن کسی نے انسان کو مجموعی حیثیت میں جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
انسان یہ کوشش کرتا بھی تو کیسے آج تک یہی فیصلہ نہیں ہو پایا کہ آخر انسان ہے کیسا مجموعہ؟ آج تک اس کی مجموعی حیثیت کا ہی تعین نہیں ہو سکا۔ اور آخر انسان کی مجموعی حیثیت کا تعین ہوتا بھی کیسے۔
۲۔ کیونکہ آج تک اس کے انفرادی اجزاء روح و نفس کی شناخت تک ممکن نہیں ہوئی۔ انسان اگرچہ روح، نفس (AURA) چکراز کا جدید تحقیقات کے بل بوتے پر تجربہ و مشاہدہ تو کر رہا ہے لیکن سمجھ نہیں پا رہا کہ آخر یہ سب کیا ہے ، وہ انسان کے وسیع و عریض باطن کو دیکھ کر حیران ضرور ہو رہا ہے لیکن اسے شناخت نہیں کر پا رہا اسے کوئی نام نہیں دے پا رہا ابھی تک ان تمام کا باہم ربط قائم نہیں کر پا رہا۔ ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ تمام تر تحقیقات کے باوجود انسان آج تک اسی ضد پر اڑا ہوا ہے کی مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے جس میں روح کی کہیں کوئی ضرورت نہیں جب کہ روح پر کام کرنے والے روح کو اصل اور جسم کو بے معنی کہہ رہے ہیں۔ جب تک انسان کو مجموعی حیثیت میں شناخت نہیں کیا جائے گا انسان کی تعریف ممکن نہیں۔ انسان کی تعریف میں ناکامی کا اہم سبب یہ بھی ہے کہ خالق کائنات نے انسان کو ایک خاص ترتیب سے تخلیق کیا ہے اور اسی طرح ایک خاص ترتیب سے انسان فنا کے گھاٹ اتر جائے گا یعنی انسان کہیں سے آیا ہے اور کہیں جانا ہے۔ یعنی انسان زمینی نہیں بلکہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے جو اپنے سیارے (جنت) سے بچھڑ کر زمین پر اپنی خطاؤں کے سبب آ پہنچا اور اب اسے واپس لوٹنا ہے۔ ہر دور کے انسان نے انسان کی زمین پر آمد اور واپسی کی سفری روداد کو سمجھنے میں غلطی کی اور اسے بری طرح خلط ملط کر کے رکھ دیا جس سے ارتقاء اور آواگون جیسے غلط نظریوں نے جنم لیا۔ جس طرح کائنات ابتداء میں تخلیق کے مختلف مراحل سے گزری ہے۔
۱۔ اسی طرح انسان ابتداً خاص تخلیقی مراحل سے گزرا ہے۔
۲۔ اسی طرح وہ خاص فنائی مراحل بھی طے کرے گا۔
یہ خاص تخلیقی و فنائی مراحل جب زیر بحث آئے تو فلسفیوں نے۔
۳۔ ان تخلیقی و فنائی مراحل کو سمجھنے میں غلطی کی۔
۴۔ دوسرے ان تخلیقی و فنائی مراحل کو خلط ملط کر دیا۔
۵۔ لہذا تخلیقی ترتیب کو سمجھنے کی غلطی نے ارتقاء جیسے بودے نظریے کو جنم دیا۔
۶۔ اور فنائی ترتیب کو سمجھنے کی غلطی نے آواگون جیسے نظریات کو جنم دیا۔
یہ تمام اطلاعات صحیح مذہبی اطلاعات تھیں جنہیں بری طرح بے ترتیب کر دیا گیا۔ لہذا تخلیقی و فنائی ترتیب کو سمجھنے کی غلطی نے جہاں ارتقاء، آواگون، جبر قدر جیسے مسائل کو جنم دیا وہیں روح، نفس، جسم کی گتھیاں سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گئیں۔ جن مفکروں اور فلسفیوں نے آواگون اور ارتقاء جیسے بودے فلسفوں کو جنم دیا وہ اپنے ان غلط فلسفوں کو مذہبی آفاقی عقیدے تصور کر کے آج تک ان پر اڑے بھی ہوئے ہیں۔ جب کہ ان بودے فلسفوں کو جنم دینے والے نہ صرف خود گمراہ ہوئے بلکہ ہزاروں برسوں تک قوموں کو گمراہ کرتے آئے ہیں اور برسوں ایک بڑا علمی بحران پیدا کئے رکھا ہے۔
147۔ آواگون
(REINCARNATION)
ترجمہ۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس بھیج دیجیے تاکہ میں نیک عمل کروں اس میں جسے میں چھوڑ آیا ہوں (یعنی دنیا) جواب ہو گا، ہر گز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ فضول میں کہہ رہے ہیں اب ان کے درمیان ایک برزخ حائل ہے۔ وہ اس میں قیامت کو اُٹھنے تک رہیں گے۔
۱۔ آواگون۔ (REINCARNATION)
تناسخ کا عقیدہ ہندو مذہب کا خصوصی شعار ہے جو اس کا قائل نہیں وہ ہندو دھرم کا فرد نہیں۔ ‘باس دیو’ ” ارجن ” کو عقیدہ تناسخ کی حقیقت سمجھاتے ہوئے بتاتا ہے کہ
"موت کے بعد اگرچہ جسم فنا ہو جاتا ہے۔ لیکن روح باقی رہتی ہے اور وہ اپنے اچھے اعمال کی جزاء اور برے اعمال کی سزا بھگتنے کے لئے دوسرے اجسام کے لباس پہن کر اس دنیا میں لوٹ آتی ہے اور یہ چکر غیر متناہی مدت تک جاری رہتا ہے۔ ”
ویدوں میں ذکر ہے کہ !
"روح جسم کو چھوڑ کر نئے جسم میں داخل ہوتی ہے اور یوں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ ”
۲۔ کرما کا نظریہ (KARMA)
بدھ ازم میں بھی آواگون کا عقیدہ بنیادی اساس ہے۔ جسے زندگی کا چکر یا "کرما” کہتے ہیں۔ ان کے مطابق
انسان بار بار مر کر دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کا اگلا جنم اس کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے۔
اور ان کے خیال میں اس بار بار کے جینے مرنے کے تسلسل سے اس وقت ہی انسان کو نجات مل سکتی ہے جب وہ وجود حقیقی میں کھو جاتا ہے۔ جب بھی روح مادہ کے قفس کو توڑ کر آزاد ہو جاتی ہے تو وہ ہر قسم کے رنج و الم سے محفوظ رہتی ہے۔ ان کے خیال میں ایک بار مرنے کے بعد انسان دوسرے جنم میں کسی اور وجود میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہ وجود انسانی، حیوانی بلکہ نباتاتی بھی ہو سکتا ہے۔ پہلے جنم میں اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں تھیں اس کے مطابق اس کو نیا وجود دیا جاتا ہے۔ جس میں ظاہر ہو کر وہ طرح طرح کی مصیبتوں ، بیماریوں اور ناکامیوں میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اگر اس نے اپنی پہلی زندگی میں نیکیاں کی تھیں تو اس کو ان کا اجر دینے کے لیے ایسا قالب بخشا جاتا ہے جس میں ظاہر ہونے سے اس کو گذشتہ نیکیوں کا اجر ملتا ہے اور اس طریقہ کار کو کرما (KARMA) کا نظریہ کہا جاتا ہے۔
(مراقبہ کے ذریعے مشاہدہ کرنے والے حضرات اور آج کے جدید محققین جب روح کو مادی جسم کے علاوہ نئے روپ نئے لباس میں دیکھتے ہیں تو وہ اسے کرما کے نظریے کی تصدیق تصور کرتے ہیں۔ )
کم و بیش اہل یونان کا بھی یہی عقیدہ تھا۔
داتا گنج بخش علی ہجویری اپنی کتاب کشف المحبوب میں لکھتے ہیں !
"ملحد جو روح کو قدیم کہتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں اور سوائے اس کے کسی اور شے کو فاعل و مدبر نہیں سمجھتے۔ ارواح کو معبود قدیمی اور مدبر ازلی قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی روح ایک شخص کے جسم سے دوسرے شخص کے جسم میں چلی جاتی ہے اور عیسائی بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اگرچہ بظاہر کہتے کچھ اور ہیں اور ہندو چین و ماچین میں تو سب کے سب لوگ اسی بات پر متفق ہیں "شیعوں، قرامطیوں اور باطنیوں کا بھی یہی عقیدہ رہا ہے اور حلولیوں کے دونوں گروہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
۳۔ آواگون عقیدہ نہیں ہے
تناسخ کے عقیدہ کے بارے میں "رگ وید ” کی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ جب آریہ ہندوستان آئے تو ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا کے مرنے کے بعد انسان بار بار دوبارہ جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
بلکہ آریہ کا اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ !
(جو لوگ گناہ کی زندگی بسر کرتے ہیں انہیں مہادیوتا "وارونا” یعنی زمین کے سب سے نچلے حصے میں ایک خوفناک جگہ دوزخ میں بھیج دیا جاتا ہے اور جو لوگ راستی اور پاکبازی کی زندگی بسر کرتے ہیں انہیں فردوس بریں (جنت) میں بھیج دیا جاتا ہے۔ )
لیکن یہاں آنے کے بعد انہوں نے دراوڑوں کو عقیدہ تناسخ کا قائل پایا تو وہ بھی اس پر ایمان لے آئے۔
آواگون کو مذہبی عقیدہ سمجھنے والے مذاہب سمیت تمام مذاہب موت کے بعد برزخ، جنت و جہنم کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اور اصل مذہبی کتابوں میں کہیں بار بار جینے مرنے کی کوئی مذہبی دلیل موجود نہیں۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ آواگون عقیدہ نہیں محض باطل نظریہ ہے پھر آدھی دنیا اسے عقیدے کے طور پر کیوں تسلیم کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس باطل نظریے نے عقیدے کی صورت اختیار کیسے کی۔؟
۴۔ باطل نظریے نے عقیدے کی صورت کیسے اختیارکی؟
ذرا تھوڑی دیر کے لیے تعصب کو بالائے طاق رکھ دیجئے اور پھر جائزہ لیجئے۔
آج اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ قدیم مذاہب میں تبدیلی ہوئی۔
(2) مذہبی پیشواؤں نے آسمانی اطلاعات میں زمینی فلسفیانہ اضافے کئے۔
سب جانتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں غلط عقیدوں کے رواج کا سو فیصد امکان ہے۔ اور آواگون کا عقیدہ بھی ایسی ہی صورت حال کا شاخسانہ ہے۔ یعنی صحیح آسمانی اطلاعات میں فلسفیانہ زمینی اضافوں سے جنم لینے والا باطل نظریہ جو عقیدے کی صورت اختیار کر گیا۔ اگرچہ صحیح مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی گئی اس میں فلسفیانہ اضافے کئے گئے اس کے باوجود اگر زمینی فلسفوں کو کائناتی اطلاعات سے الگ کر کے محض آسمانی اطلاعات کا جائزہ لیں تو حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔ اور اب ہم یہی کریں گے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ مذہبی اطلاعات کیا ہیں اور ان میں کیا اضافے کئے گئے ؟اور ان مذہبی اطلاعات میں اضافوں سے ایک بے بنیاد اور غلط مفروضے نے مذہبی عقیدے اور سائنسی نظریے کی صورت کیسے اختیار کر لی۔
۵۔ مذہبی اطلاعات
بنیادی غلطی یہ ہے کہ مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی گئی۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ مذہبی اطلاعات کیا ہیں اور ان اطلاعات کو سمجھنے میں کیا غلطی کی گئی جس سے آواگون جیسے نظریات نے جنم لیا۔
مذہبی اطلاعات درجِ ذیل ہیں۔
۱۔ امریکہ کے ریڈ انڈین سمجھتے تھے کہ روحیں ایک خاص مسکن میں چلی جاتی ہیں۔
۲۔ جب کہ قدیم افریقی سمجھتے تھے کہ نیک روحیں دیوتاؤں سے جا ملتی ہیں۔
۳۔ جب کہ قدیم مصریوں کا ایمان تھا کہ مرنے کے بعد انسان کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ لہذا مرنے کے بعد انسان کی روح اور ہمزاد (جسے بع اور کع کہتے تھے ) اس کے مقبرے میں رہنے لگتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ بع کا میل جول مرنے والے کے عزیزوں دوستوں کے ساتھ رہتا ہے جب کہ کع دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے۔
۴۔ جب کہ یہودیوں کے کلاسیکل ورک سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق موت کے بعد NEFESH ختم ہو جاتا ہے۔ روح کو ایک عارضی جگہ بھیج دیا جاتا ہے اس کی پاکیزگی کے عمل کے لئے عارضی جنت میں جب کہ Neshama کو واپس پلاٹونک ورلڈ میں اپنے محبوب سے وصال کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔
۵۔ جب کہ مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتابوں کے مطابق مرنے کے بعد انسان بعض مخصوص حالات میں برزخی(نفسی یعنی روح و نفس کے ساتھ) زندگی بسر کرتا ہے پھر آخرت ہے جہاں اس کا واسطہ جنت یا جہنم سے پڑے گا یا اس کی آخری قیام گاہ جنت یا جہنم ہو گی۔
۶۔ جب کہ ویدوں میں ذکر ہے کہ روح جسم کو چھوڑ کر نئے جسم میں داخل ہوتی ہے اور یوں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
۷۔ باس دیو بھی ارجن کو عقیدہ تناسخ کی حقیقت سمجھاتے ہوئے یہی بتا رہا ہے کہ "موت کے بعد اگرچہ جسم فنا ہو جاتا ہے لیکن روح باقی رہتی ہے اور اپنے اچھے اعمال کی جزاء اور برے اعمال کی سزا بھگتنے کے لئے دوسرے اجسام کے لباس پہن کر اس دنیا میں لوٹ آتی ہے اور یہ چکر غیر متناہی مدت تک جاری رہتا ہے۔ ”
یہاں ہم نے کچھ مذہبی اطلاعات اکٹھی کی ہیں۔ ان اطلاعات کا بغور جائزہ لیجئے کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ انسان بار بار جنم لیتا ہے اور نہ ہی ان چیدہ اطلاعات کے علاوہ کسی بھی صحیح مذہبی اطلاع میں بار بار جنم کا ذکر موجود ہے۔ بلکہ مذاہب میں انسان کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اسے جو اعمال بھی کرنے ہیں دنیاوی زندگی ہی
میں کر لے موت کے بعد نہ تو نیک اعمال کی آزادی ہو گی نہ اسے عمل کے لئے دوبارہ زندگی ملے گی۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام مختلف اور متضاد مذہبی اطلاعات میں سے کونسی اطلاع درست اطلاع ہے۔
جواب یہ ہے کہ تمام اطلاعات درست اطلاعات ہیں۔ یہ اطلاعات بڑی ترتیب وار اطلاعات تھیں۔ لیکن پہلے تو ہر اطلاع کی ترتیب کو خلط ملط کیا گیا پھر اس خلط ملط سے نتائج اخذ کر لئے گئے جو آج آواگون جیسے نظریوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ ان تمام مذہبی اطلاعات میں دو باتوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
(۱)جسم کی موت کے بعد روح جسم کو چھوڑ کر نئے جسم میں داخل ہوتی ہے اور یوں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
(2) موت کے بعد انسان دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے جسے برزخ جنت یا جہنم کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کونسی اطلاع درست ہے۔ یا صحیح آسمانی اطلاع کونسی ہے۔
تو جواب یہ ہے کہ دونوں اطلاعات صحیح آسمانی اطلاعات ہیں۔ اور دونوں اطلاعات بڑی ترتیب وار اطلاعات تھیں۔ لیکن پہلے تو ہر اطلاع کی ترتیب کو خلط ملط کیا گیا پھر دونوں اطلاعات کو خلط ملط کر دیا گیا۔ دونوں صحیح اطلاعات اور الگ الگ اطلاعات ہیں جبکہ
عموماً ان دونوں مذہبی اطلاعات کو ایک دوسرے کی نفی تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا جنت و جہنم کو ماننے والے آواگون کے نظریات کی نفی کرتے ہیں تو آواگون کو مذہبی عقیدہ سمجھنے والوں کے خیال میں جسم کی موت کے بعد انسان (روح)دوسرے اجسام کے روپ میں نمودار ہوتا ہے اور ان کے خیال میں روح کا جسم کی موت کے بعد دیگر اجسام کی صورت میں نمودار ہونے کا مطلب ہے انسان کی دوبارہ زندگی اور ان کے خیال میں زندگی کا یہ لا متناہی چکر بس چلتا ہی رہتا ہے۔
اور وہ کسی جنت دوزخ یا آخرت کو خاطر میں نہیں لاتے۔
انہی اطلاعات کو جب روحانی مشقیں کرنے والے حضرات نے یا فلسفیوں نے بیان کیا تو آواگون کے نظریے کی صورت میں بیان کیا۔ حالانکہ یہ اطلاعات اور دیگر اطلاعات دراصل آواگون کے نظریے کی نفی کر رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہر دور کے روحانی پیشواؤں اور فلسفیوں نے آواگون کی تصدیق کیوں کی
اب ہم ان اطلاعات کا جائزہ لیتے ہیں جس سے یہ الجھن دور ہو گی۔
۶۔ تصورِ آخرت
اکثر مذاہب جنت، جہنم اور آخرت کے عقیدے کے قائل ہیں لہذا اس مذہبی اطلاع میں تو کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔ لیکن اس عقیدے کے ماننے والے روح کے لباس بدل کر دوبارہ نمودار ہونے کو اپنے تصورِ آخرت کی نفی سمجھتے ہیں۔ جب کہ روح لباس بدلتی ہے یہ ہر مذہب کی صحیح آسمانی اطلاع ہے اور یہ اطلاع تصورِ آخرت کی نفی نہیں کرتی بلکہ اسی سفرِ آخرت کی ہی ایک کڑی ہے۔ لہذا اگرچہ آخرت کے ماننے والے آواگون جیسے لغو نظریات سے بچے رہے لیکن وہ اس صحیح اطلاع(کہ روح دیگر لباسِ اجسام میں نمودار ہوتی ہے )کو بھی کبھی سمجھ نہیں پائے۔
۷۔ روح لباس بدلتی ہے
جسم کی موت کے بعد روح جسم کو چھوڑ کر نئے جسم (نفس کے اجسام یا دیگر اعمال کے اجسام )میں داخل ہوتی ہے اور یوں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
یہ اطلاع صحیح آسمانی اطلاع ہے لیکن بد قسمتی سے ہر دور میں اس اطلاع کو سمجھنے میں غلطی کی گئی اور اسی غلطی سے جنم لیا آواگون نے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان نے موت کو ہمیشہ انسان کا اختتام تصور کیا ہے حالانکہ موت فقط جسم کا اختتام ہے انسان کا اختتام نہیں ہے۔ اس لئے کہ انسان محض جسم نہیں جسم کی موت کے بعد انسان کی روح اور نفس ابھی باقی ہیں اور مادی جسم کی موت کے بعد انسان نفس کے اجسام میں موجود ہوتا ہے۔
جب کہ روح کا تذکرہ کرنے والے ، مشاہدہ کرنے والے لوگ تھے جب انہوں نے انسان کو موت کے بعد مادی جسم کے بغیر بھی کسی اور لباسِ جسم میں موجود پایا تو اسے انہوں نے دوسرا جنم تصور کر لیا۔ لہذا ان معلومات سے مستفید ہوتے ہوئے سوامیوں اور فلسفیوں نے جب اس مذہبی اطلاع کو بیان کیا تو انہوں نے بھی اسے دوسرا جنم قرار دیا مزید انسان ان اطلاعات کو سمجھنے اور سمجھانے کے چکر میں اپنی اپنی عقل کے فلسفیانہ اضافے بھی کرتا رہا نتیجہ ارتقاء اور آواگون جیسے باطل نظریوں کو صورت میں سامنے آیا جو آج عقیدوں کی صورت میں موجود ہیں حالانکہ یہ محض فلسفیانہ نظریے ہیں جو ہر طرح سے باطل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان زندہ تھا تخلیقی مراحل طے کر رہا تھا جب مرگیا تو اب وہ جو کہیں سے آیا تھا اب واپسی کے سفر پہ روانہ ہو رہا ہے یعنی انسان تخلیقی مراحل طے کر چکنے کے بعد فنائی مراحل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور موت اسی انسان کے فنائی مراحل کی پہلی سیڑھی ہے۔ موت سے انسان کا اختتام نہیں ہوا بلکہ انسان کے فنائی عمل کا آغاز ہوا ہے انسان کے واپسی کے سفر کا آغاز ہے موت۔ لیکن یہ سفر دوسری زندگی نہیں نہ ہی یہ سفر زندگی کا سفر ہے بلکہ یہ موت یا (انتقال ) ہی کا سفر ہے۔ یہ سفر، سفرِ آخرت ہے۔
جسم مر جاتا ہے روح نہیں مرتی وہ جسم کو چھوڑ کر نئے نئے لباسِ جسم بدلتی مختلف سیاروں سے ہوتی ہوئی اپنے سفر آخرت پر روانہ ہو جاتی ہے۔ جسم کی موت کے بعد روح کے لباس بدلنے اور انسان کے جسمانی موت کے بعد بھی کسی اور جسم کی صورت میں موجود ہونے کو دوسرا جنم سمجھ لیا گیا۔
مذاہب نے تو انسان کے سفر آخرت کی درجہ بدرجہ روداد سنائی تھی اور یہ روداد انسان کی ابتداء سے انتہا تک کی روداد تھی۔ یہ روداد تھی تو بڑی ترتیب وار لیکن انسان نے اسے بری طرح خلط ملط کر کے رکھ دیا۔ اس ساری روداد کا تعلق انسان سے ہے۔ ان تمام مسائل کی جڑ انسان کی خود سے لاعلمی ہے اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہزاروں برس کا انسان خود کو نہیں جان پایا۔ ا بھی تک انسان اپنی موت سے ناواقف ہے ابھی تک اس پر زندگی کے راز نہیں کھلے ابھی تک وہ اپنی تخلیق اپنی پیدائش سے ناواقف ہے۔ وہ آج تک نہیں جان پایا کہ خود اس کے اندر کیسے کیسے نظام کام کر رہے ہیں آخر وہ کیسا مجموعہ ہے ؟ اسی ناواقفیت کے سبب وہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔؟ کہاں جا رہا ہے؟کیسے جا رہا ہے؟
اگر کبھی اس موضوع پر غیر سنجیدہ کوششیں کی بھی گئیں ہیں تو ایسی بے ربط کوششوں سے آواگون، ارتقاء اور جبر و قدر جیسے مسائل نے جنم لیا ہے
ہر دور کے انسان نے یہ غلطی اس لئے کی کہ وہ اپنے آپ سے ہی لاعلم ہے۔ لہذا تمام تر تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر
ان مذہبی اطلاعات کا دوبارہ بغور جائزہ لیجئے۔ اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ
۱۔ ان اطلاعات میں کہیں بھی دوسرے جنم کا تذکرہ نہیں ہے
۲۔ ان اطلاعات میں جسم کی موت کے بعد برزخی حالات کا ذکر ہو رہا ہے۔ اور یہ ذکر زندگی کا ذکر نہیں ہے بلکہ موت کے بعد کا ذکر ہے اور یہ کسی دوسرے جنم کی نہیں انسان کے پہلے ہی جنم کی روداد ہے۔ لہذا مذہبی اطلاعات درجِ ذیل ہیں
(1) جسم کی موت کے بعد روح جسم کو چھوڑ کر دوسرا لباس بدلتی ہے یا نئے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔
(2) موت کے بعد انسان دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے جسے برزخ جنت یا جہنم کہتے ہیں۔
دونوں بالترتیب صحیح اطلاعات ہیں لہذا خالق کائنات نے انسان کو ایک خاص ترتیب سے تخلیق کیا ہے اور ایسے ہی وہ خاص فنائی مراحل سے گزرتا ہے۔ انسان پیدائش سے پہلے کہیں سے آیا ہے اور موت کے بعد کہیں جا رہا ہے۔
لہذا جسم مر جاتا ہے روح نہیں مرتی وہ جسم کو چھوڑ کر نئے نئے لباسِ جسم بدلتی مختلف سیاروں سے ہوتی ہوئی اپنے سفر آخرت پر روانہ ہو جاتی ہے۔ جسم کی موت کے بعد روح کے لباس بدلنے اور انسان کے جسمانی موت کے بعد بھی کسی اور جسم کی صورت میں موجود ہونے کو دوسرا جنم سمجھ لیا گیا۔
۸۔ آواگون کا مسئلہ حل ہو گیا
اب چونکہ ہم اس کتاب میں نئے نظریات کے ذریعے انسانی مجموعے، انسانی تخلیق، پیدائش، موت، انتقال کی تفصیلاً وضاحت کر آئے ہیں لہذا ان نئے نظریات کی روشنی میں اب
صدیوں کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ لہذا اب اپنی اپنی مذہبی اطلاعات کا دوبارہ جائزہ لیجیے جن میں کہیں بھی آواگون کا تذکرہ نہیں ہے یہ محض سوامیوں ، فلسفیوں کے اضافے ہیں اصل اطلاعات ہمارے نئے نظریات کا دفاع کر رہی ہیں لہذا مذہبی اطلاعات اور ہمارے نظریات کے مطابق اصل معاملہ یہ ہے کہ
۱۔ انسان روح، نفس، جسم کا مجموعہ ہے لہذا
۲۔ مادی جسم کی موت کے بعد فقط جسم کا اختتام ہوا ہے
۳۔ ابھی روح و نفس باقی ہیں
۴۔ لہذا اب انسان روح نفس کی صورت نفس کی دنیا میں موجود ہے۔ یعنی مادی جسم کا انسان اب مادی جسم سے مفارقت کے بعد روح و نفس کی صورت موجود ہے۔ یعنی مادی جسم کی موت کے بعد انسان کی صورت درجِ ذیل ہے۔
مردہ جسم +روح ّ+نفس =انسان
۵۔ پہلے انسان مادی لباس میں موجود تھا اب جسم کی موت کے بعد انسان نے یہ لباس اتار دیا اب یہی انسان روح کے ایک اور لباس نفس میں موجود ہے
۶۔ اب انسان نفس کی دنیا میں نفس کے اجسام کے ساتھ قیام کرے گا۔
۷۔ اس نفس کی دنیا میں انسان نفس کے دیگر اجسام کے ساتھ دیگر سیاروں کی سیر کر سکتا ہے۔
۸۔ مادی جسم کی طرح نفس بھی مر جائے گا تو انسان(روح) یہ لباس چھوڑ کر نفس کے نوری لباس میں آ جائے گا۔
۹۔ مادی جسم کی طرح نفس کے تمام اجسام بھی مر جائیں گے۔
۱۰۔ اب انسان ہر قسم کا لباسِ جسم اُتار کر فقط روح کی صورت موجود ہے۔
۱۱۔ روح انرجی ہے واحد انرجی یہ واحد انرجی جہاں سے آئی تھی وہیں واپس اپنے مقام (پاور اسٹیشن)میں ضم ہو جائے گی۔ اب کچھ بھی نہیں بچا
لہذا مادی جسم موت کی صورت مادی زمین پہ بکھر گیا
نفس کے اجسام نفسی فضاؤں (عالم برزخ) میں بکھر گئے
روح(انرجی)رب (پاور اسٹیشن)سے جا ملی
اب اس وقت روح، نفس، جسم کے زندگی سے بھر پور انسان کا کہیں نشان بھی نہیں ہے جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔
اب جب بھی رب کی منشاء ہو گی وہ حساب کے دن(یومِ آخرت)اسی بے نام و نشان انسان کے ہر روح نفس جسم کے ذرات کو ہر سیارے (زمین، اور دیگر نفسی سیاروں )سے اکٹھا کر کے وہی پرانا انسان ترتیب دے دے گا۔ اور اس سے اس اپنی ودیعت کردہ زندگی کا حساب مانگ لے گا(کہ اس جان کے ساتھ تم نے کیا کیا جو میں نے تم کو دی تھی)
لہذا یہ تھی جسم کی موت کے بعد انسان کی واپسی کے سفر کی روداد جو مذاہب نے بیان کی تھی جسے سوامیوں، فلسفیوں نے جب بیان کیا تو آواگون کی صورت میں بیان کیا اور انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ وہ کبھی ان اطلاعات کو صحیح طور پر سمجھ ہی نہیں پائے لہذا آواگون کا عقیدہ محض غلط فہمی پر مشتمل ہے جس کی کوئی مذہبی یا سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اب جب کہ آواگون کی ساری حقیقت یہاں ہم نے کھول کر بیان کر دی ہے۔ لہذا اب اس ہٹ دھرمی یعنی آواگون کی کوئی بنیاد باقی نہیں بچی۔ لہذا صدیوں بعد یہ مسئلہ(آواگون، کرما، یا چکرا)بھی حل ہوا۔
148۔ نظریۂ ہبوطِ آدم
نظریۂ ہبوطِ آدم یہ ہے کہ آدم علیہ السلام جنت میں بنائے گئے پھر وہاں سے انہیں زمین پر بھیج دیا گیا۔
اس مذہبی کہانی کو کچھ یوں ترتیب دیا گیا کہ، خالقِ کائنات نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے لئے فرشتوں سے تمام روئے زمین کی مٹی منگوائی پھر جنت میں اس مٹی کو پانی سے گوندھا اور جب وہ مٹی اچھی طرح تیار ہو گئی تو پھر اس تیار مٹی سے خالق نے بُت بنایا اور خالق نے یہ تمام کام اپنے ہاتھوں سے کیا لہذا جب یہ بُت تیار ہو گیا تو خالقِ کائنات نے اپنی روح سے کچھ اس میں پھونک دیا جس سے اس مٹی کے بُت میں جان پڑ گئی اب یہ مٹی کا بُت با حرکت انسان اور صاحبِ عقل و دانش ہو گیا پھر آدم کی پسلی سے حضرتِ حوا کو پیدا کیا گیا۔ لہذا پہلا جوڑا مکمل ہوا۔ کچھ عرصہ یہ دونوں جنت میں مقیم رہے لیکن شیطان کے بہکاوے میں آ کر انہوں نے جنت کے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا لہذا اسی جُرم کی پاداش میں ان دونوں کو ایک مخصوص عرصے کے لئے بطورِ سزا زمینی امتحان گاہ پر اُتار دیا گیا۔
پروفیسر چارلوٹ ویلسProf Charlotte Wallace) ( اپنی کتابA Study Of Evolution میں نظریۂ ہبوطِ آدم پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
ہبوطِ آدم کا نظریہ دراصل بائبل میں درج حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے واقعہ پر مبنی ہے، جس کی بنیاد پر عیسائی کلیسا نے بے شمار روایات کو جنم دیا ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہبوطِ آدم کا نظریہ محض بائبل کے بیان پر مبنی نہیں ہے بلکہ آدم یعنی پہلے انسان کی تخلیق کی یہ کہانی ہر مذہب نے سُنائی ہے لہذا بائبل ہو یا قُرآن یا کوئی بھی صحیح مذہبی آسمانی کتاب ہو ہر آسمانی کتاب میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کی یہ کہانی موجود ہے۔
اور ہر صحیح آسمانی مذہبی کتاب میں موجود کائنات کے پہلے انسان کی تخلیق کی یہ داستان ہی صحیح داستان ہے۔
اس صحیح مذہبی داستان کے علاوہ پہلے انسان کی تخلیق کے بارے میں آج تک ہمارے پاس کوئی دیگر مستند ذریعہ علم موجود نہیں ہے نہ ہی کسی سائنسی یا تحقیقی ذریعے سے آج تک انسانی تخلیق کا کھوج لگایا جا سکا ہے۔ لہذا
۱۔ پہلے انسان کی تخلیق سے متعلق مذہبی داستان تو درست داستان ہے لیکن
۲۔ موجودہ مروجہ مذہبی داستان درست داستان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
۳۔ اکثر مذاہب میں ترمیم و اضافوں کے بعد تبدیلی آ گئی لہذا آج وہ اپنی اصل درست حالت میں نہیں ہیں
۴۔ مزید یہ کہ ان موجودہ مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں بھی غلطی کی گئی۔ لہذا
۵۔ پہلے انسان کی تخلیق سے متعلق مذہبی کہانی بڑی بالترتیب اور صحیح کہانی تھی۔
اس بالترتیب صحیح مذہبی کہانی کو بے ترتیب کر کے سمجھنے میں غلطی کی گئی۔ اب خالقِ کائنات بیٹھ کر مٹی کے بُت تو بنانے سے رہا وہ تو بس کہہ دیتا ہے بس حکم(پروگرام) دے دیتا ہے اور ہر ذرہ اس حکم پر عمل درآمد میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہی آفاقی حقیقت ہے جسے غلط طور پر سمجھا گیا اور غلط طور پر سمجھایا گیا لہذا مذہبی طبقہ اسی غلط کہانی کو مذہبی کہانی تصور کرتا رہا جب کہ سائنسدان کبھی بھی اس غلط کہانی کو سائنسی نظریے کے طور پر قبول نہ کر سکے۔ اس لئے کہ غلطی پر سائنسدان نہیں بلکہ مذہبی پیشوا تھے جنہوں نے کبھی مذہبی اطلاعات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اس کتاب میں ہم نے نئے نظریات کے ذریعے انسانی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے اور انسانی تخلیق کو با لترتیب درست کر کے بیان کیا ہے۔ لہذا آج ہمارے جدید نظریات اور صحیح (آسمانی کتابوں سے اخذ شدہ غلط کہانیاں اور نظریات نہیں )مذہبی کہانی جو صحیح آسمانی کتابوں میں موجود ہے میں سو فیصد مماثلت موجود ہے۔ میں نے برسوں کی تحقیق کے بعد جو انسانی کہانی اس پوری کتاب میں بیان کی ہے اس کا خلاصہ درجِ ذیل ہے۔
۱۔ خالق نے حکم (تخلیق کا مکمل پروگرام) دیاتو
۲۔ اس حکم(پروگرام) کے عین مطابق مادی جسم کی تخلیق کا خودکار آغاز ہوا
۳۔ لہذا جسم کے لئے ہر مخصوص زرہ حکم(پروگرام)کے مطابق اپنے کام سے لگ گیا اور یوں زمینی عناصر سے مادی جسم کی تخلیق کا آغاز ہوا زمینی عناصر میں پانی، مٹی اور دیگر تمام زمینی عناصر موجود تھے لہذا انسانی جسم کی تخلیق میں مٹی بھی ہے پانی بھی اور اسی جیسے دیگر سینکڑوں عناصر بھی ہیں اور ان تمام کی ایک خاص الخاص ترکیب ہے انسان۔
۴۔ خالق کے حکم (پروگرام)کے مطابق زمینی عناصر سے مادی جسم کی تخلیق کا عمل ایسے ہی ہے جیسے ایک بیج زمین میں بو دیں تو اس محض بیج سے پورا درخت اُگ آتا ہے۔ جیسے ایک بیج سے پورا درخت اُگ آتا ہے بالکل اسی طرح ایک حکم سے پورا انسان تخلیق پا گیا۔ حکم(پروگرام) وہ بیج تھا جس سے پودے کی طرح پورا جسم تیار ہو گیا۔ یعنی جب خالق نے زمینی عناصر کو مادی جسم کی تیاری کا حکم (پروگرام) دیا توہر زرہ اس پروگرام کے مطابق جسم کی تیاری میں لگ گیا اور جیسے ایک بیج سے پودا ایک مخصوص عرصے میں درخت بنتا ہے بالکل ایسے ہی حکم(پروگرام ) کے مطابق زمینی عناصر کی ترتیب سے طویل مراحل طے کر کے ایک طویل عرصے میں جسم کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔
اب جب طویل تخلیقی مراحل طے کر کے مادی جسم تیار ہو گیا تو اس جسم میں حرکت و عمل کے لئے خالق نے روح(انسانی حرکت و عمل کا مکمل پروگرام) ڈال دی اور یوں انسان جیتی جان ہوا
پھر پہلی عورت ،حوا، کو پیدا کیا گیا اور یوں پہلا انسانی جوڑا معرضِ وجود میں آیا۔
اس پہلے جوڑے کے ذریعے پیدائش کے سلسلے کا آغاز ہوا لہذا پہلے انسان آدم کی تخلیق ہوئی اور باقی تمام نوعِ انسانی پیدائش کے طریقے سے پیدا ہوئی اور ہوتی ہے۔
لہذا پہلے جوڑے سے پیدائش کا آغاز ہوا اور نوعی تسلسل قائم ہوا اور آج تمام موجودہ نوعِ انسانی اسی واحد جوڑے کی نسل ہیں۔ یعنی تمام انسانوں نے ایک انسان(نفسِ واحدہ) سے آغاز کیا ہے اور تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔
یہ ہیں ہماری برسوں کی تحقیقات کے نتائج جو صحیح مذہبی اطلاعات کی نہ صر ف تصدیق کر رہے ہیں بلکہ صحیح مذہبی کہانیوں سے سو فیصد مماثلت بھی رکھتے ہیں۔
149۔ نظریۂ جبرو قدر
تقدیر کے حوالے سے عیسائیوں نے نظریۂ جبر(Fixed Destiny)پیش کیا
نظریۂ جبر کے مطابق انسان محض مجبور ہے۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوتا ہے وہ محض اس کی تقدیر اور پہلے سے ہی طے شدہ ہے اور ہو کر ہی رہے گا۔
سیکیولر تہذیب نے تقدیر کے اس نظریۂ جبر کو رد کر دیا اور اس کی جگہ انسان کے غیر محدود اختیار(Absolute Free)کا نظریہ لائے۔ اس نظریے کے مطابق انسان غیر محدود اختیار کا مالک ہے اور با اختیار ہے لہذا جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق فرد کے ذاتی اعمال یا قومی واقعات محض مادی وجوہات کا نتیجہ ہیں جن پر قابو پا کر انہیں معرضِ وجود میں آنے سے روکا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں نے بھی بلاوجہ اس فلسفے کو اختیار کیا حالانکہ ان کے پاس اس فضول بحث کا کوئی جواز نہیں تھا پھر بھی دو فرقے جبریہ اور قدریہ وجود میں آئے۔ جبریہ انسان کی مجبوری کے قائل تھے تو قدریہ انسان کو اپنی قسمت کا مالک سمجھتے تھے۔ جب کہ حضرت علی اس بحث سے بہت پہلے سادہ الفاظ میں اس مسئلے کا حل پیش کر چکے تھے۔ جب حضرت علی سے سوال کیا گیا کہ انسان کتنا با اختیار ہے اور کتنا مجبور ہے تو انہوں نے سوال کرنے والے سے جواباً کہا کہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو جاؤ، جب وہ یہ کر چکا تو کہا اب دوسری ٹانگ بھی اُٹھا لو۔ اس پر وہ بول اُٹھا یہ میں کیسے کر سکتا ہوں۔ حضرت علی نے کہا تیرے سوال کا یہی جواب ہے، تم ایک حد تک آزاد ہو اور ایک حد تک مجبور۔
آج جدید سائنسی تحقیقات نے سیکیولر تہذیب کے نمائندہ سائنسدانوں کو اپنے اختیار(Free Will)کے نظریے پر نظرِ ثانی پر مجبور کر دیا ہے۔ لہذا جدید تحقیقات کی روشنی میں سائنسدانوں کو کہنا پڑ رہا ہے کہ انسانی جینز کے اندر آدمی کی سوچ، صحت اور تقدیر بند ہے۔ ہمارے جینز کے اندر پروگرام شدہ ٹائم کلاک ہیں جن کے مطابق ہماری نشو و نما ہوتی ہے، ہم جو کچھ بھی ہیں ہماری عادات، ذہن، صحت، جسم کی شکل، سوچ اور ہماری زندگی کے حالات کا زیادہ تر انحصار ہمارے جینز کی بناوٹ پر ہے، یعنی انسانی تقدیر اور نہ جانے کون کونسی تفصیل اس خورد بینی جرثومے پہ پہلے سے لکھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ آج کا انسان جدید تحقیقات کے نتیجے میں اپنے جینز پہ لکھی تقدیر کا مطالعہ تو کر رہا ہے لیکن جینز سے متعلق ان دریافتوں نے سائنسدانوں کو حیران کر دیا ہے۔ انسان جدید تحقیقات کے نتیجے میں اپنے جینز پہ لکھی تقدیر کا مطالعہ تو کر رہا ہے لیکن یہ نہیں سمجھ پا رہا کہ وہ اپنے اندر لکھی اپنی تقدیر کا غلام ہے یا آزاد ہے۔
ابھی تک تو سائنسدانوں نے اتنا ہی دریافت کیا ہے کہ انسان جو کچھ کر رہا ہے یا اسے جو کچھ کرنا ہے وہ سب کچھ تو اس کی تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوا ہے۔
اس دریافت نے سائنسدانوں کو حیران اور پریشان کر دیا ہے انسان جو کچھ کر رہا ہے یا اسے جو کچھ کرنا ہے اگر وہ سب کچھ انسان کی تقدیر میں پہلے سے لکھا ہو ا ہے تو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اپنی تقدیر کا غلام ہے ، تو کیا انسان عمل کے لئے تقدیر کا پابند ہے۔؟ تو کیا انسان آزاد ارادے کا مالک نہیں ہے۔؟یہ دریافتیں در حقیقت سائنسدانوں کو پھر اسی صدیوں پُرانے جبر و قدر کے دورا ہے پر لے آئیں ہیں، یہ وہی برسوں پُرانے سوالات ہیں جن پہ جبریہ و قدریہ فرقے صدیوں اُلجھے تو رہے لیکن کوئی جواب نہ دے سکے، کوئی حل نہ ڈھونڈ سکے۔ آج جدید تحقیقات کے نتائج کے طور پر پھر وہی برسوں پُرانے سوال سائنسدانوں کے سامنے سوالیہ نشان بنے کھڑے ہیں۔ یعنی
۱۔ کیا ہم اپنے اندر پہلے سے تحریر تقدیر کے غلام ہیں۔؟
۲۔ ہم اپنی جینز پر پہلے سے لکھی ہوئی اپنی تقدیر پر کتنا اختیار رکھتے ہیں، کیا ہم اسے بدل سکتے ہیں۔؟
۳۔ فرد و اقوام کے اعمال و واقعات کا تعین اگر پہلے سے تقدیر کے پروگرام میں طے پا چکا ہے تو کیا انسان ان واقعات کو معرضِ وجود میں آنے سے روک سکتا ہے۔؟
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ جبریہ (Fixed Destiny)ہوں یا قدریہ (Absolute Free)یا جدید سائنسدان تمام ہزاروں برس سے اس مسئلہ تقدیر یا مسئلہ جبر و قدر میں اُلجھے تو ہوئے ہیں لیکن یہ تمام آج تک اس مسئلے کا کوئی حل ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے ہیں (اگرچہ وہ جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے اپنی تقدیر کا مطالعہ بھی کر رہے ہیں )۔ یعنی صدیوں میں بھی ہر قسم کے محقق، فلسفی اور سائنسدان مسلۂ جبرو قدر کو سلجھانے میں ناکام رہے ہیں
جب کہ آج ہم نے اس کتاب میں اس صدیوں کے مسئلے (جبر (Fixed Destiny)و قدر(Absolute Free)کا حل پیش کر دیا ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہم مادی جسم کی پیدائش کے عنوان سے بیان کر آئے ہیں کہ ماں کے رحم میں جب بچہ نطفے سے آغاز کرتا ہے تو آغاز سے
۱۔ پہلے ۱۲۰ دن بچے کی جسمانی تعمیر اس کے والدین کی موروثی شخصیت کے مطابق والدین کے نطفے سے ہوتی ہے
۲۔ ۱۲۰ دن بعد بچے کی جسمانی تعمیر کے لئے ذاتی پروگرام(تقدیر) مل جاتا ہے۔ لہذا اگلے ۱۵۰ دن بچے کی تعمیر اس کے ذاتی انفرادی پروگرام سے انجام پاتی ہے، لہذا انسان
۳۔ انسان 44.44 فیصد موروثی شخصیت کا مالک ہے اور
۴۔ انسان 55.56 فیصد ذاتی انفرادی شخصیت کا مالک ہے۔
تقدیر کا مرتب پروگرام (جو مادرِ رحم میں آغازِ پیدائش کے ۱۲۰ دن بعد انسان کو مل جاتا ہے )محض جسمانی ساخت کی ترتیب و تعمیر کا پروگرام نہیں ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی کی ہر حرکت ہر عمل اس کتابِ زندگی یعنی تقدیر میں پہلے سے تحریر ہے۔
۵۔ انسان کی پوری زندگی کی ہر حرکت ہر عمل اس کی کتابِ زندگی یعنی تقدیر میں پہلے سے تحریر تو ہے لیکن
۶۔ انسان اپنی اس مرتب تحریر(تقدیر) کا پابند نہیں ہے۔ (انسان تقدیر کے محض چند قوانین کا پابند بھی ہے مثلاً زندگی موت وغیرہ یہ پابندی بالکل ایسے ہے جیسے ایک آزاد شہری ریاست کے نظم و ضبط کے لئے کچھ ریاستی قوانین کا پابند ہوتا ہے )
لہذا کتابِ تقدیر میں پہلے سے مرتب تحریر سے ہر حرکت ہر عمل کی اطلاع آ جانے کے بعد
۷۔ انسان عمل اپنے ذاتی ارادے سے کرتا ہے۔ ایک عمل کیسے واقع ہوتا ہے اس کا تفصیلی بیان ہم عمل کے عنوان سے کر آئے ہیں اور اس عمل کے اس بیان میں یہ وضاحت بھی ہو چکی ہے کہ اعمال کا محرک محض مادی وجوہات نہیں ہیں بلکہ ہر حرکت ہر عمل روح و نفس، کائنات اور خالقِ کائنات سے مربوط ہے یعنی ہر حرکت ہر عمل جو انسان اپنی مرضی اپنے ارادے سے سرانجام دے رہا ہے وہ طویل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔
ہمارے ان جدید نظریات کی روشنی میں جبر و قدر کا مسئلہ پورے طور پر حل ہو گیا ہے اور اس مسئلے کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب بھی سامنے آ گیا ہے جسے اب یہاں ہم سوال و جواب کی صورت میں دُہرا دیتے ہیں۔
سوال نمبر ۱۔ کیا انسان (نظریہ جبرFixed Destinyاور جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق )اپنے اندر تحریر تقدیر کا پابند ہے۔؟
جواب۔ انسان اپنے اندر تحریر تقدیر کا پابند یا غلام نہیں ہے۔ انسان کی تقدیر میں انسان کی پوری زندگی کی محض تحریر(پروگرام) ہے ہر حرکت ہر عمل کے لئے جب انسان کو اپنے اندر کی تحریر سے اطلاع مل جاتی ہے تو اس اندر کی تحریری اطلاع پر عمل در آمد انسان اپنے ذاتی ارادے سے کرتا ہے۔ انسان اس تقدیر کی اطلاع میں اپنے ذاتی ارادے سے رد و بدل کر کے ہر عمل اپنی مرضی سے سر انجام دیتا ہے۔ لیکن
انسان تقدیر کے محض چند قوانین کا پابند بھی ہے مثلاً زندگی موت، جسمانی شخصیت کی تعمیر وغیرہ یہ پابندی بالکل ایسے ہے جیسے ایک آزاد شہری ریاست کے نظم و ضبط کے لئے کچھ ریاستی قوانین کا پابند ہوتا ہے۔
سوال نمبر ۲۔ کیا انسان غیر محدود اختیار( (Absolute Free)کا مالک ہے۔؟
جواب۔ انسان غیر محدود اختیار( (Absolute Free)کا مالک ہے چاہے تو کو با اپنی تقدیر کی تحریر پہ ہی عمل پیرا ہو جائے، چاہے تو اس میں رد و بدل کر کے عمل کر لے چاہے تو عمل کی ہر قسم کی اطلاعات کو رد کر کے اپنی مرضی سے عمل کے لئے کوئی تیسرا راستہ اختیار کر لے۔
سوال نمبر ۳۔ کیا فرد و اقوام کے اعمال و واقعات کا محرک محض مادی وجوہات ہیں۔؟
جواب۔ فرد و اقوام کے اعمال کا محرک محض مادی وجوہات نہیں ہیں بلکہ ہر حرکت ہر عمل روح و نفس، کائنات اور خالقِ کائنات سے مربوط ہے یعنی ہر حرکت ہر عمل طویل کائناتی تسلسل کا حصہ ہے۔
سوال نمبر۴۔ کیا انسان اپنی مرضی سے فرد و اقوام کے اعمال و واقعات پر قابو پا کر واقعات کو معرضِ وجود میں آنے سے روک سکتا ہے۔؟کیا انسان اپنی مرضی سے اپنے اور قوم کے حالات و واقعات کو بدل سکتا ہے۔؟
جواب۔ انسان اپنی مرضی سے فرد و اقوام کے اعمال و واقعات پر قابو پا کر واقعات کو معرضِ وجود میں آنے سے روک سکتا ہے اور انسان اپنی مرضی سے اپنے اور قوم کے حالات و واقعات کو بدل بھی سکتا ہے۔
ہر عمل کے لئے آزاد ہونے کے ساتھ ہی انسان تقدیر کے محض چند قوانین کا بحر حال پابند بھی ہے جیسے کہ ایک آزاد شہری چند ریاستی قوانین کا پابند ہوتا ہے، اور یہ پابندی ریاست کے نظم و ضبط کے قیام کے لئے ہوتی ہے ، آزاد شہری کی پابندی کے لئے نہیں۔ لہذا عمل کی تمام تر آزادی کے باوجود انسان ان چند حالات و واقعات کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا جو اس پابندی کے زُمرے میں آتے ہیں۔
لہذا اب یہاں صدیوں کا مسئلہ جبر و قدر بھی آج یہاں ہم نے حل کر دیا۔ جس کے مطابق انسان ہر عمل کے لئے آزاد ہے اور اپنے ہر اچھے بُرے عمل کا ذاتی طور پر ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ (مزید تفصیلات کے لئے پڑھیے عنوان۔ پیدائش، عنوان۔ تقدیر، عنوان۔ عمل)
AURA- 150چکراز کیا ہیں ؟
برسوں مادہ پرست سائنسدان انسان کے باطنی تشخص کا یہ کہہ کر انکار کرتے رہے کہ انسان محض مادی جسم ہے جس میں کہیں روح کی ضرورت نہیں اور آج سائنسدان خود انسانی باطن کو دریافت کر بیٹھے ہیں اور انسان کے اندر موجود اس پیچیدہ نظام کو دیکھ کر حیران ہیں۔ لہذا
۱۹۳۰ء کی دہائی میں روس میں کر لین (Karlain)نامی الیکٹریشن نے اتفاقی طور پر ایک ایسا کیمرہ ایجاد کیا جس نے پہلی دفعہ انسان کے باطنی وجود "AURA” کی تصویر کشی کر لی۔ اس (Karlain Photography) سے اس لطیف وجود "AURA” کو باقاعدہ طور پر دیکھ لیا گیا۔ یہ مختلف رنگوں پر مشتمل لہروں کا ہالہ ایک ہیولے کی طرح لطیف جسم تھا۔ یہ لطیف جسم بالکل انسان کے مادی جسم سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ جسمانی و ذہنی کیفیات کے مطابق مختلف رنگ و ارتعاش منعکس کرتا ہے۔ یہ لطیف جسم AURAانسانی جسم سے چند انچ اوپر مادی جسم سے متصل ہوتا ہے۔
انسانی جسم کے تمام تر تقاضے اسی روشنی کے جسم میں پیدا ہوتے ہیں۔ خون کی طرح ہر انسان کا AURA بھی مختلف ہوتا ہے۔
سبٹل باڈیز SUBTLE BODIESAURA
"AURA”کے اندر مزید سات اجسامSUBTLE BODIES کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ ہر سات اجسام کے مختلف لیول اور سب لیول ہوتے ہیں۔
چکراز CHAKRAS
چکراز CHAKRAS وہ پوائنٹس ہیں جن سے توانائی ہمارے جسم میں داخل اور خارج ہوتی ہے یہ خلائی سطح (ETHERIC LEVEL) پر موجود ہوتے ہیں۔ جسے ہم دوہرا جسم بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ بالکل ہمارے مادی جسم کی شکل اختیا ر کر لیتے ہیں۔ چکراز جب صحیح کام کر رہے ہوں تو پہیے کی طرح گھومتے رہتے ہیں۔ سات ” 7 ” بنیادی چکراز ہیں جو کہ جسم کے اگلے اور پچھلے حصے میں موجود ہوتے ہیں اور اندر کی طرف مڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ AURA میں مزید چکراز ہوتے ہیں جو کہ جسم سے زیادہ فاصلے پر ہوتے ہیں۔
AURA کی دریافت تو آج ۱۹۳۰ء میں ہوئی ہے لیکن تمام ادوار میں انسان کے اس باطنی تشخص کا تذکرہ ہوتا آیا ہے بلکہ AURA سے متعلق ماضی کی معلومات آج کی جدید تحقیقات کے مقابلے میں زیادہ مستند معلومات ہیں مثلاً
قدیم ادوار میں یونانی، رومی، ہندو اور عیسائی اقوام میں ان کی مذہبی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں میں ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا جسے انگریزی میں ہالو HALO اور قدیم یونانی اور لاطینی زبان میں اوراAURA اور ایرولا AUREOLA کہا جاتا تھا۔ اور آج اسی ماضی کی مناسبت سے ہی نئے دریافت شدہ لطیف جسم کا نام AURA رکھا گیا ہے۔ افلاطون کی تحریروں میں بھی موت کے واقعات میں AURA کا تذکرہ موجود ہے ارسطو نے اسے روح حیوانی کہا جب کہ ہزاروں سال پہلے کے فراعنہ مصر AURA کو بع کہتے تھے۔ تبتی لاما ہوا میں اڑنے اور اپنے AURA کو جسم سے الگ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ جب کہ مسلمان، یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں میں ایسے روحانی ماہرین پائے جاتے تھے جو نہ صرف اپنے AURA کو جسم سے الگ کر لیتے تھے بلکہ اس سے کام بھی لیتے تھے ہوا میں اڑتے پلک جھپکتے میں ہزاروں میل کے فاصلے طے کر لیتے اور بہت سے روحانی کرتب دکھاتے تھے۔
مسلمانوں کی تحریروں میں بھی جا بجا AURA کا تذکرہ اور اس کی خصوصیات کا ذکر ملتا ہے۔ یہ تذکرے آج کی تحقیقات سے سو فیصد مماثلت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے AURA کو دیگر ناموں سے پکارا ہے۔ مثلاً نسمہ، جسم مثالی، روح حیوانی، روح ہوائی، روح یقظہ وغیرہ وغیرہ۔
قدیم چینیوں میں بھی AURA کا تصور پایا جاتا تھا وہ اسے P.O کہتے تھے۔ جب کہ یہودیوں کے کام میں اسے Nefesh کہا گیا ہے۔
اگرچہ AURA کا تذکرہ ہزاروں برس سے ہو رہا تھا لیکن عرصہ دراز تک مادی سائنسدان انسان کے باطن کو غیر مرئی اور غیر اہم کہہ کر جھٹلاتے آ رہے تھے پھر کچھ روحانی کرتبوں سے متاثر ہو کر کچھ سائنسدان اسے الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ (E.M.F) ہیومن انرجی فیلڈ اور بائیو انرجی کے نام سے شناخت کرنے لگے اور بلآخر سائنسدانوں نے ۱۹۳۰ء میں اس کی تصویر کشی بھی کر لی۔
آج AURA پر تحقیق و تحریر کے در وا ہیں مغربی ممالک میں اس پر لیبارٹریز میں کام ہو رہا ہے کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ بلکہ وہ لوگ تو اس AURA کو کام میں لے کر جاسوسی کا کام بھی لے رہے ہیں اور اس کے ذریعے مریخ تک جا پہنچے۔ مثلاً
امریکہ کا CIA کا خفیہ جاسوسی کا ادارہ (Sun Strcak/Stragate) روحانی صلاحیتوں کے مالک جاسوسوں کو جدید سائنسی طریقوں سے روحانی تربیت دے کر روحانی سراغ رسانی کا کام لیتا ہے۔ اور یہ روحانی تربیت یافتہ افراد روحانی وجود AURA کو استعمال میں لا کر دشمن کے خفیہ منصوبوں کا گھر بیٹھے سراغ لگاتے ہیں۔ درحقیقت یہ دشمن کے ہتھیاروں کو گھر بیٹھے ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کے دماغوں کو گھر بیٹھے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ یہ گھر بیٹھے اپنے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں انسان کے باطنی رخ پر نہ صرف روحانی بلکہ سائنسی تجربات ہو رہے ہیں اور سائنسدان ایٹم کی طرح انسان کے اندر جھانک کر اس وسیع و عریض دنیا کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ابھی سمجھ نہیں پا رہے۔ اسی وجہ سے چکراز اور آواگون (Reincarnation)میں مماثلت تلاش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔ جب کہ کچھ لوگ AURA یا لطیف اجسام کو روح یا روح کا حصہ بھی کہتے ہیں
یہ AURA کیا ہے ؟ مادی جسم سے اس کا کیا اور کیسا ربط ہے ؟ یہ سوالات جوں کے توں حل طلب ہیں۔ جب کہ اس کتاب میں نئے نظریات کے ذریعے ہم نے ان تمام سوالوں کے تفصیلاً جواب دے دیئے ہیں۔ لہذا یہاں اس
۱۔ AURAکی اصل شناخت قائم کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے
۲۔ AURAنفس ہے۔ AURA کا اصل نام نفس ہے۔
جب کہ آج جدید محقق AURA اور نفس پر الگ الگ حیثیتوں میں کام کر رہے ہیں۔ نفس پر اس کی مفروضہ حیثیت میں کام ہو رہا ہے جب کہ AURA پر شناخت کے بغیر انفرادی تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اور علمی میدان میں اتنی بڑی بڑی اور واشگاف غلطیاں کی جا رہی ہیں جس کی وجہ لا علمی ہے پختہ تحقیق کی ضرورت ہے ہر علمی موضوع کو۔ اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ہر وجود کا اپنا منفرد نام اور منفرد شناخت ہے۔ اور یہ روح یا نفس جیسے نام مذہبی نام ہیں۔ ماضی میں ہر قوم نے ان ناموں کو اپنی زبان میں ادا کیا جس کے نتیجے میں روح و نفس و جسم کی ایسی الجھن پیدا ہوئی جو آج تک نہیں سلجھی اور انسان ایک معمہ بن کر رہ گیا تھا۔
اس کتاب میں برسوں کی مسلسل تحقیق و غور و فکر کے بعد میں نے یہ صدیوں کے مسائل حل کئے ہیں روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کی ہے۔ لہذا اب ان صدیوں کی غلطیوں کو درست فرما لیں اور نوٹ کر لیں کہ
۲۔ AURAنفس ہے۔ AURA کا اصل نام نفس ہے۔
۳۔ لہذا نفس کی دیگر مفروضہ تعریفیں درست نہیں، نفس کوئی مفروضہ خواہش نہیں بلکہ ایک لطیف جسم ہے جسے آج AURAکا نام دے دیا گیا ہے۔
۴۔ لہذا یہاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ AURAروح نہیں ہے بلکہ جسم ہے ، نفس کا جسم
۵۔ AURAروشنی کا جسم ہے۔
۶۔ AURAجسمانی حرکت و عمل کا سبب ہے یہ جسم کا فیول ہے۔
۷۔ AURAاگرچہ جسمانی حر کت و عمل کا سبب ہے اور اس کی غیر موجودگی سے جسم حر کت و عمل سے محروم ہو جاتا ہے لیکن اس کے با وجود
AURAجسم کی زندگی نہیں ہے جیسا کہ عموماً تصور کیا جاتا ہے۔ AURAکی غیر موجودگی سے جسم موت کا شکار نہیں ہوتا۔
جسم کی زندگی و موت کا سبب روح ہے۔ جو نفس سے منفرد شے ہے
۸۔ AURAانسان کے وسیع و عریض باطن کا ایک جز ایک جسم ہے۔ لیکن یہ مادی جسم کی طرح باطن کا بنیادی جسم ہے اگرچہ باطن کے دیگر اجسام بھی نفس ہیں AURA نفس کا ایک جسم ہے لیکن یہی بنیادی نفس بھی ہے۔ یعنی نفس کے اس جسم کا نام بھی نفس ہی ہے۔ قصہ مختصر
AURA دراصل نفس ہے۔
151۔ روح کے حصے
سوال : کیا روح کے حصے ہیں ؟
جواب: جی نہیں روح کے کوئی حصے نہیں ہیں !
روح کے حصے نہیں ہیں ! اس امر کی شہادت ہر دور کے مفکروں، محققوں نے دی ہے۔ مراقبہ کرنے والے لاکھوں عام افراد جو روح کا علم نہیں رکھتے لیکن مراقبہ کی بدولت روح کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ بھی اس مشاہدے کے بعد یہی کہتے ہیں کہ روح کے حصے نہیں ہیں۔ اگر روح کے حصے نہیں ہیں تو پھر ہر دور میں روح کو حصوں میں تقسیم کیوں کیا گیا ہے ؟
بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ہر دور میں جب روح کی تعریف کرنے کی کوشش کی گئی تو ہمیشہ اسے بیک وقت دو متضاد حالتوں میں بیان کیا گیا مثلاً ہر دور میں روح کی تعریف کرنے والے روح کی تعریف کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ
۱۔ روح ناقابل تقسیم ہے۔
۲۔ ناقابلِ تقسیم کہہ کر ساتھ ہی اسے حصوں میں بھی تقسیم کر دیتے ہیں۔
مثلاً ہزاروں برس قبل کا یونانی فلسفی ارسطو روح کو ایک ایسی اکائی تصور کرتا تھا جو اپنی ذات میں ہر لحاظ سے مکمل ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ روح کو دو حصوں روح حیوانی اور روح انسانی میں بھی تقسیم کرتا تھا۔ حیوانی روح کو وہ نچلے درجے کی بتاتا ہے جب کہ اعلیٰ درجے کی روح کو وہ ذہن کا نام دیتا ہے۔
ارسطو کے بعد بھی ہر دور کے مفکروں نے ایسے ہی حصوں کا تذکرہ کیا ہے۔
مثلاً خواجہ شمس الدین عظیمی کے مطابق انسان کے اندر جو صلاحیتیں کام کرتی ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ یہ تینوں کرنٹ محسوسات کے تین ہیولے ہیں اور ہر ہیولا مکمل تشخص رکھتا ہے۔ ہر کرنٹ سے انسان کا ایک جسم وجود میں آتا ہے اس طرح آدمی کے تین وجود ہیں۔
(1) روح حیوانی۔
(2) روح انسانی۔
(3) روح اعظم۔
جب کہ قدیم مصریوں نے بع اور کع کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کا ایمان تھا کہ مرنے کے بعد انسان کی دوسری زندگی شروع ہوتی ہے اور اس کے بع اور کع اس کے جسم سے نکل کر اس کے مقبرے میں رہنے لگتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ بع کا میل جول مرنے والے کے عزیزوں دوستوں کے ساتھ رہتا ہے جب کہ کع دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے اور دیوی دیوتاؤں کے ہمراہ رہنے لگتا ہے۔ ان کے خیال میں کسی آدمی کے ہمیشہ زندہ رہنے کی یہی صورت تھی کہ بع اور کع جسم کو پہچانتے ہوں۔
قدیم چینیوں نے بھی روح کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
(1) پو P.O :۔ یہ انسان کی شخصیت کا نظر آنے والا حصہ ہے جو کہ اس کے جسم سے جڑا ہوتا ہے۔
(2) ہن HUN :۔ یہ نہ نظر آنے والا حصہ ہے جو کہ جسم میں موجود ہوتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ جسم سے ہمشہ بندھا ہو۔ جب وہ پھر رہا ہو تو ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور اگر وہ ظاہر ہو گا تو اصل جسم کی صورت میں ظاہر ہو گا جب کہ اصل جسم اس سے دور ہوتا ہے۔ اصل جسم میں P.O موجود ہوتا ہے۔
اگر HUN مستقل طور پر جسم سے دور رہے تو جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
بعض یہودیوں نے بھی روح کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
(1) NEFESH، (2) RUACH، )3) NESHAMA
(1) NEFESH
روح کا سب سے نچلا حیوانی حصہ۔ یہ انسان کی جسمانی خواہشات سے تعلق رکھتا ہے۔ تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے اور جسم میں پیدائش کے وقت داخل ہوتا ہے۔ باقی کے دو حصے پیدائش کے وقت داخل نہیں ہوتے لیکن وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بنتے ہیں اور ان کا بننا انسان کی حرکات اور اس کے اعتقادات پر منحصر ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے یہ انہی لوگوں میں پایا جاتا ہے جو روحانی طور پر بیدار ہوں۔
(2) RUACH
یہ ہے درمیانی روح یا Spirit۔ اس میں اخلاقی پہلو پایا جاتا ہے اور یہ اچھے اور برے میں تمیز کرتی ہے اور اسی کو ہم سائیکی اور Ego بھی کہتے ہیں۔
(3) NESHAMA
سب سے اونچے درجے کی روح سب سے برتر حصہ یہ انسان کو تمام تر زندہ چیزوں سے منفرد بناتی ہے اس کا تعلق انر سے ہے۔ یہ انسان کو زندگی کے بعد کے فائدوں سے لطف اندوز ہونے میں مدد دیتی ہے۔ روح کا یہ حصہ یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں کو پیدائش کے وقت دے دیا جاتا ہے۔ اور یہ کسی بھی فرد کو اس کی موجودگی اور خدا کی موجودگی کا علم دیتا ہے۔ ( اور آج جدید تحقیقات سے انسان کے باطن میں AURA اور چکراز اور Subtle Bodies کی دریافت سے یہ تعداد تو تین سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے )۔
کیا واقعی روح کے حصے ہیں ان معلومات سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ واقعتاً روح کے حصے ہیں۔ جب کہ ایسا ہے نہیں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہزاروں برس سے لوگ روح کو ناقابل تقسیم بھی کہہ رہے ہیں اور اسے حصوں میں بھی تقسیم کر رہے ہیں اور اس تقسیم کے تذکرے میں بھی تھوڑی بہت رد و بدل اور کمی بیشی کے علاوہ مماثلت پائی جاتی ہے تقریباً سبھی نے ایک سی نوعیت کے حصے بخرے کیئے ہیں روح کے۔
درحقیقت روح کے حصے نہیں ہیں روح کو بعض غلط فہمیوں کی بنا پر حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہ غلطیاں درجِ ذیل ہیں۔
(1) شناخت کی غلطی۔
(2) باطن سے لاعلمی۔
(1) شناخت کی غلطی
مذہبی کتابوں میں روح کا تذکرہ تو موجود ہے اور یہ مذہبی اطلاعات ہی روح یا انسان سے متعلق صحیح ترین اطلاعات ہیں لیکن ان اطلاعات پر کبھی کسی نے سیر حاصل غور و فکر نہیں کیا لہذا کوئی اسے پورے طور پر آج تک نہیں سمجھ پایا۔ جنہوں نے یہ کوشش کی انہوں نے ان اطلاعات میں اپنے فکری اضافے کر کے ان تعریفوں کو خلط ملط کر کے بری طرح الجھا دیا ہے وگرنہ مذاہب نے روح کو حصوں میں تقسیم نہیں کیا تو پھر یہ روح کو تقسیم کرنے والے کون ہیں آیئے ذرا جائزہ لیتے ہیں۔
روح کے حصے ہیں ! یہ تعریف عام تعریف نہیں ہے۔ عام لوگ تو روح کو ہی نہیں جانتے لہذا روح کے حصوں کو کیا جانیں گے۔
روح کے حصے ہیں یہ ایک آدھ تعریف ہمیں ہزاروں برس کے کاموں میں کہیں کہیں اور خال خال ہی ملتی ہے اور یہ تعریف فکری تعریف نہیں ہے۔ بلکہ یہ تعریف کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے روحانی مشقوں کی بدولت روح کا اور انسان کے باطن کا مشاہدہ کیا ہے۔ انسان کے باطنی تشخص کا مشاہدہ و تجربہ رکھنے والے ہی روح کو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
ہر دور کے لوگ ہزاروں برس سے یہ غلطی کر رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسان کے باطنی اجسام کا مشاہدہ تو کرتے ہیں لیکن انہیں شناخت نہیں کر پاتے اور شناخت نہ کر سکنے کی وجہ باطن سے لاعلمی ہے۔
(2) باطن سے لاعلمی
جس طرح ایٹم کے اندر ایک جہان دریافت ہو چکا ہے اور یہ دریافتیں تا حال جاری ہیں اسی طرح انسان کے اندر بھی انسانوں نے ایک جہان دریافت کر لیا ہے۔ جب کہ باطن کا مشاہدہ کرنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں جواس جہان باطن کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ اور چونکہ اس جہان باطن کے بارے میں کوئی علم کوئی معلومات موجود نہیں ہیں لہذا ہر دور کے لوگوں نے اپنی زبان اپنے الفاظ اور اپنے انداز فکر میں اس کا تعارف کروایا ہے۔ انہوں نے مختلف لطیف اجسام کا مشاہدہ کیا اور انہیں روح کے حصے قرار دیا کسی نے دو اجسام کا تذکرہ کیا کسی نے تین اور جدید دریافتوں میں تو AURA کے اندر چکراز کی تعداد سات دریافت ہو چکی ہے۔ اور مزید مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
انہیں باطنی اجسام کو مشاہدہ کرنے والوں نے روح بھی کہا اور روح کے حصے بھی قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ لطیف اجسام روح کے حصے ہیں تو پھر ان میں سے روح کونسی ہے ؟ درحقیقت نہ تو ان میں سے کوئی روح ہے اور نہ ہی یہ تمام دو یا تین یا سات اجسام روح کے حصے ہیں۔ یہ تقسیم باطن سے لاعلمی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ مذاہب نے باطن کو چیدہ چیدہ بیان کیا ہے لیکن اس بیان کو پوری طرح سمجھا نہیں گیا ان معلومات پر سیر حاصل ریسرچ کی ضرورت تھی اور ان معلومات سے استفادہ کرنے والوں نے بھی ان معلومات کو سمجھنے کی بجائے الجھا کر بری طرح خلط ملط کر دیا۔ اور یہی غلطی (لاعلمی کی وجہ سے ) مشاہدہ کر نے والوں نے کی۔ باطن کے بارے میں کوئی صحیح معلومات تو موجود نہیں تھیں لہذا انہوں نے جو مشاہدہ کیا اپنی معلومات کے مطابق اپنے انداز اور الفاظ میں اسے بیان کر دیا۔ اور اس جہان باطن سے لاعلمی کے سبب ہی ہر دور کے لوگ یہ دو بڑی غلطیاں کرتے رہے ہیں۔
(1)۔ وہ تمام لطیف اجسام میں سے روح کو شناخت نہیں کر پائے۔
(2)۔ لطیف اجسام کو روح اور روح کے حصوں کے طور پر متعارف کرواتے رہے۔ اور ان تمام کو انہوں نے برے طریقے سے خلط ملط بھی کر دیا کیونکہ وہ ان تمام کی انفرادی شناخت نہیں رکھتے تھے۔
(3)روح کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے لیکن روح کو روح کے طور پر شناخت نہیں کیا جاتا۔
(4)روح کی تعریف کرنے والے جب روح کو ناقابلِ تقسیم کہہ کر پھر خود اسے حصوں میں بھی تقسیم کرنے لگتے ہیں۔ روح کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں اور لطیف اجسام کو بھی روح اور اس کے حصوں کے طور پر بیان کرتے ہیں تو خود ہی اپنی تضاد بیانیوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور بلاآخر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ جو روح ہے اس کی تعریف ممکن نہیں۔
لہذا لطیف اجسام نہ روح ہیں اور نہ ہی یہ تمام روح کے حصے ہیں اور نہ ہی یہ تقسیم و تعریف درست ہے۔
تو پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر انسان سے وابستہ ان لطیف اجسام کی کیا حقیقت ہے یہ لطیف اجسام روح کے حصے نہیں ہیں تو کیا ہیں اور خود روح کیا ہے ؟
اس کتاب میں روح کی پوری تاریخ میں ہم نے ان تمام سوالوں کے جواب دے دیئے ہیں اور صدیوں کے اس مسئلے کا حل پیش کر کے صدیوں کی اس اُلجھن کو سُلجھا دیا ہے۔ لہذا
۱۔ روح و نفس کی انفرادی شناخت قائم کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ
۲۔ تمام تر مادی و لطیف اجسام روح نہیں ہیں نہ ہی لطیف اجسام روح کے حصے ہیں
۳۔ تمام تر اجسام(مادی و لطیف) نفس ہیں۔
۴۔ روح جسم نہیں ہے۔
۵۔ روح ان تمام اجسام سے الگ اور منفرد ایک انرجی ہے !
روح واحد انرجی ہے۔
لہذا اب ہر روح و نفس کی انفرادی شناخت یہاں ہم نے قائم کر دی ہے جس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ
روح و اجسام الگ الگ اور انفرادی حیثیت کے مالک ہیں لہذا لطیف اجسام روح یا روح کے حصے نہیں (جیسا کہ ماضی میں بیان کیا جاتا رہا)بلکہ لطیف اجسام نفس ہیں۔ روح اجسام سے الگ شے ہے یہ واحد انرجی ہے جو ناقابلِ تقسیم ہے۔ لہذا روح کے کوئی حصے بخرے نہیں ہیں۔ لہذا روح سے متعلق صدیوں کی الجھنیں دور ہو گئیں اور یہ مسئلہ بھی آج یہاں حل ہوا۔
152۔ نظریہ ارتقا (Theory of Evolution)
ہم پچھلے صفحات میں "انسان کی ابتدائی تعریف” کے عنوان سے یہ بحث کر آئے ہیں کہ نظریۂ ارتقا محض ایک غیر سائنسی مفروضہ ہے۔ اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس باطل نظریے کی بنیاد کیا ہے۔ اور اس باطل مفروضے نے عقیدے اور پھر سائنسی نظریے کی صورت کیسے اختیار کی۔ آیئے جائزہ لیتے ہیں۔
ایک برطانوی یہودی چارلس رابرٹ ڈارون نے اپنی کتاب (The Origin of Species by means of Natural Selection) یعنی فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور۔
میں ان نظریات کا اظہار کیا کہ ‘ انسان کی تخلیق نہیں ہوئی بلکہ حیوانی سطح سے ارتقاء ہوا ہے جس پہ ماحول کے اثرات ہیں۔ اربوں سال پہلے غیر متوازن ماحول میں یک خلوی جرثومے (Unicellular Organism) سے حیات پانی میں شروع ہوئی۔ وہیں نمود کی فطری خواہش کی وجہ سے ترقی کرتی رہی۔ وہیں سے مینڈکوں کی ایک نسل خشکی پر آ گئی۔ جن مینڈکوں کو درختوں پر چڑھنے کا شوق ہوا وہ بالا آخر اڑنے والے جانور بن گئے۔ انہی میں سے کچھ خشکی پر خوراک و حفاظت کی تلاش میں مختلف اشکال میں بٹ گئے۔ جن میں سے کچھ بندر بن گئے۔ بقاء کی یہ جنگ کروڑوں سالوں سے جاری ہے جس کے نتیجے میں کمزور ناپید ہوتے گئے اور طاقتور بقاء کے لئے موزوں ثابت ہوئے۔
یوں بندروں سے ترقی کر کے ایک نسل آدمیوں کی وجود میں آ گئی۔ یعنی ڈارون کے مطابق انسان موجودہ صورت میں بندر (APE)سے پروان چڑھا ہے۔ مزید یہ کہ فطری انتخاب کے ذریعے ایک سے دوسری انواع وجود میں آتی ہیں یعنی کسی بھی ایک نوع کی اصل (Origin) کوئی دوسری نوع ہے۔
ڈارون سے پہلے ہزاروں برس قبل کے قدیم یونانی فلسفیوں انکسا مندر اور ابندرقلیس نے بھی یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسان کی موجودہ شکل ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ انسان نے رفتہ رفتہ حیوانی حالت سے ارتقاء کی ہے۔ اس کے بعد بھی اکثر فلسفیوں نے انسان کو حیوان کی ترقی یافتہ شکل ہی قرار دیا کسی نے اسے سیاسی حیوان کہا تو کسی نے معاشرتی کسی نے ہتھیار بنانے والا حیوان کہا تو کسی نے حیوانِ ناطق۔
اگرچہ نظریہ ارتقاء (Theory of Evolution) کو انیسویں صدی کے وسط میں سائنسی نظریے کی حیثیت سے متعارف کروایا گیا لیکن اسے سائنسی نظریہ ثابت کرنے کی کوششیں کوئی ڈیڑھ سو سال سے جاری ہیں جب کہ یہ نظریہ محض ڈیڑھ سو سال پرانا بھی نہیں۔
درحقیقت ہزاروں برس قبل قدیم یونانیوں نے یہ نظریہ علمی دنیا میں متعارف کروایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء ڈارونزم نہیں بلکہ یونانزم ہے
اس ہزاروں برس قدیم نظریے پر ہزاروں برس سے تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اور تحقیق و تجربات کی روشنی میں ہزاروں برس سے اس نظریے کی مسلسل نفی بھی ہو رہی ہے۔ آج جب کہ پورے طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ارتقائی نظریات انسان کے انسان ہونے ، اور تمام انواع کے نوعی تسلسل کی نفی کرتے ہیں بلکہ ہر قسم کی مذہبی، تاریخی اور سائنسی شہادتوں سے بھی متصادم ہیں۔ آج جہاں اس نظریے کے خلاف ہمارے پاس سائنسی، تاریخی اور مذہبی ثبوت و شواہد کے ڈھیر موجود ہیں تو وہیں نظریہ ارتقاء کے اثبات میں آج ہمارے پاس ایک بھی شہادت ایک بھی دلیل نہیں۔ آج جب کہ ارتقائی نظریہ کے فریب کا پردہ پورے طور پر چاک ہو چکا ہے اس کے باوجود ارتقاء پرست اس کے دفاع پر ڈٹے ہوئے ہیں آخر کیوں؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے کہ آخر ارتقاء پرست اتنا بڑا ارتقائی ڈھونگ رچاکر قوموں کو گمراہ کر کے علمی بحران پیدا کرنے کی کوشش کیوں کرتے رہے ہیں؟یہ جاننے کے لئے ارتقائی نظریات کا پس منظر جاننا ضروری ہے اور پس منظر جاننے کے لئے ارتقاء پرستوں کا جاننا ضروری ہے۔
لہذا دو طبقات نے اس نظریے کو قبول کیا۔ (بلکہ اس نظریے کو جنم دینے والے بھی یہی دو طبقے ہیں )
(1) لا مذہب حلقے۔
(2) ارتقائی نظریے کو مذہبی عقیدہ سمجھنے والے۔
(1) لامذہب حلقے
یہ نظریہ ہزاروں برس قدیم نظریہ ہے اور لا مذہب حلقے کی پیداوار ہے جو ہمیشہ سے خالق کائنات کے انکاری رہے ہیں اور کائنات کو اتفاقی حادثہ قرار دیتے رہے ہیں۔ لہذا آج بھی لا مذہب حلقوں نے اس کی خوب پذیرائی کی ہے۔ اور ان میں یہ نظریہ مقبول عام ہے۔ اگرچہ ہر قسم کی سائنس۔ اتفاقات کی نفی کر رہی ہے۔ اور یہ پورے طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ ایک خلیے سے لیکر انسان تک کائنات اور اس کی تمام تر موجودات میں کہیں بھی اتفاقات کا کوئی دخل نہیں۔ ہر تخلیق بڑی خاص ہے سب کچھ بڑا منظم، مربوط اور ترتیب یافتہ ہے کسی بڑے ذہن کا بڑا مضبوط پلان۔ لا مذہب حلقے آج اس سامنے کی حقیقت کو جھٹلا بھی نہیں سکتے لیکن بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسے تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں اسی لئے ارتقاء کے اتفاقی نظریات ان کے لئے بڑے خوش کن ہیں۔ اب یہ لوگ ثابت شدہ سامنے کی حقیقت سے نظریں چرا کر ایک ثابت شدہ غیر سائنسی باطل مفروضے کی آڑ لے رہے ہیں۔
امریکی فلکیات دان ہیوگ روس اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں۔
"الحاد (Theism) ڈارونزم اور اٹھارویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کے فلسفوں سے وجود میں آنے والے تقریباً تمام ازموں کی بنیاد اس غلط مفروضے پر ہے کہ کائنات لامحدود (Infinite) ہے۔ وحدانیت (Singularity) ہمیں کائنات اور جو کچھ اس کائنات میں ہے اور جس میں زندگی بھی شامل ہے اس کے قبل، ماوراء، پس و پشت موجود اصل سبب (God) کے آمنے سامنے لے آئی ہے۔
(2) مذہبی عقیدہ
اگرچہ ارتقائی نظریے کی بنیاد رکھنے والے لا مذہب حلقے ہیں۔ لیکن اس نظریے پہ سب سے زیادہ کام جدید دور میں ہوا ہے اور آج جدید دور میں ارتقاء کا نظریہ دوبارہ پیش کرنے والے مذہبی لوگ ہیں اور اس کی حمایت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اسے ایک مذہبی عقیدہ تصور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کے خلاف مسلسل سائنسی شہادتیں میسر آنے کے بعد بھی کچھ لوگ اس کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ اسے مذہبی عقیدہ تصور کر کے ہر ممکن طریقے سے ثابت کرنے کے درپے ہیں اور ان کی انہیں کوششوں سے ارتقاء کی نفی ہو رہی ہے۔
جب کہ حقیقت حال سے واقفیت کے بعد آج کچھ ماہرین بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ارتقائی فریب سے نکلنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ جیسا کہ برٹش میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے سینئر رکازیات داں "کولن پیٹرسن” نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔
"کیا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا سکتے ہیں جو ارتقاء کے بارے میں ہو، کوئی ایسی بات جو سچ ہو؟
میں نے یہ سوال "فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری، کے ارضیاتی عملے سے کیا۔ اور جو واحد جواب مجھے ملا وہ خاموشی تھی۔ پھر میں بیدار ہو گیا اور مجھے احساس ہو گیا کہ میر ی ساری زندگی ارتقاء کو کسی نہ کسی طرح ایک الہامی حقیقت سمجھتے رہنے کے فریب میں ضائع ہو گئی ہے۔ ”
درحقیقت ارتقاء نہ تو کوئی مذہبی عقیدہ ہے نہ ہی کوئی سائنسی نظریہ ہاں ایک غلط مفروضہ ہے جسے بعض وجوہات کی بنا پر الہامی حقیقت تصور کر کے کچھ لوگ اسے ہر ممکن طریقے سے ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ ارتقاء محض باطل مفروضہ ہے جس کی کوئی سائنسی حیثیت نہیں ہے لیکن اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لامذہبوں کے اس باطل مفروضے نے مذہبی عقیدے کے صورت کیسے اختیار کی۔ درحقیقت
۱۔ جدید ارتقائی نظریات د ر اصل مذہبی اطلاعات سے اخذ شدہ نظریات ہیں۔
۲۔ مذہبی اطلاعات غلط نہیں تھیں بلکہ مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی گئی۔
۳۔ اسی غلطی سے غلط نظریات اخذ کئے گئے۔
۴۔ اور آج انہی غلط نظریات کو ارتقاء پرست مذہبی اطلاعات تصور کرتے ہیں۔
آئے جائزہ لیتے ہیں کہ وہ مذہبی اطلاعات کیا تھیں جن سے یہ ارتقائی مفروضہ اخذ کیا گیا۔
۳۔ مذہبی اطلاعات
یہ جدید ارتقائی نظریہ ایک برطانوی یہودی چارلس رابرٹ ڈارون نے پیش کیا۔ چارلس سائنسدان نہیں تھا بلکہ ایک شوقیہ حیاتیات دان (Amateur Biologist) تھا۔ جس نے اپنی کتاب The Origin of Species by Means of Natural Selection (یعنی فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور) میں ارتقائی نظریات کی تجدید نو کی۔
ڈارون کے ان ارتقائی نظریات کی بنیاد دو نظریات ہیں۔
(1) اربوں سال پہلے غیر متوازن ماحول میں یک خلوی جرثومے (Unicellular Organism) سے حیات پانی میں اتفاقاً شروع ہوئی۔
(2) تخلیق نہیں ہوئی بلکہ ارتقاء ہوا ہے۔
یہ دونوں نکات مذہبی اطلاعات سے مستعار لئے گئے ہیں۔ وہ مذہبی اطلاعات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) ابتدائی ماحول غیر متوازن تھا۔
(2) حیات کا مادہ پانی ہے۔
(3) تمام اشیاء نفس واحدہ سے وجود میں آئی ہیں۔
(4) ماضی میں ایک نا خلف یہودی قوم پر آسمانی عذاب اترا جس کے نتیجے میں وہ بندر بنا دیئے گئے۔
یہ آسمانی مذہبی اطلاعات غلط نہیں تھیں۔ یہ اطلاعات درست ہیں۔ لیکن ان اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی گئی اسی غلطی سے غلط نظریات اخذ کئے گئے۔
(i)۔ پہلی غلطی (جد امجد)
ڈارون نے پہلی اور بنیادی غلطی یہ کی کہ بندر کو انسان کا جد امجد قرار دے دیا۔ اس نے یہ غلطی کیوں کی؟
اس نے یہ غلطی مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں کی۔ مذہبی اطلاع کیا تھی؟
"سبت کا قانون توڑنے کی پاداش میں شہر "ایلا” کے ستر (70) ہزار یہودی بندر بنا دئیے گئے تھے۔ ”
اس طلاع سے اگر یہ اخذ کر لیا جائے کہ آج کی موجودہ نسل انہی بندر بن جانے والوں کی نسل ہے تو یہ سراسر غلطی ہے۔
دوبارہ جائزہ لیجئے۔
(1) تمام دنیا کے نہیں فقط شہر ایلا کے ستر ہزار یہودی بندر بنائے گئے تھے۔
(2) دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ بندر بنا دیئے جانے والے پیدائشی طور پر تو انسان ہی تھے یعنی انسانوں کی جنس میں غیر معمولی اچانک تبدیلی کی گئی تھی اور ایک نوع سے دوسری نوع میں جینیاتی تبدل کے بعد نوعی تسلسل قائم نہیں رہ سکتا۔ لہذا ان بندر بن جانے والوں کی اولاد نہیں ہو سکتی تھی۔
(3) تیسرے وہ تمام بندر بن جانے والے اپنی یہ حالتِ عذاب دیکھ کر تین دن کے اندر اندر مر گئے تھے۔ لہذا ان میں نوعی تسلسل قائم نہیں ہوا تھا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہ انسان سے بندر بنائے جانے والے وہیں مٹ گئے بے نام و نشان ہو گئے۔
لہذا کوئی آج کا انسان ان بندروں کی نسل یا اولاد نہیں ہے۔
لہذا اس واقعے کو لے کر بلاوجہ انسان کو بندر کی اولاد قرار دینا نہ صرف مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی ہے بلکہ سائنس بھی آج اس کی نفی کرتی ہے جدید تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ارتقاء ہوا ہی نہیں کسی حیوانی نسل کا تعلق انسانی نسل سے نہیں تمام انسان ایک ماں کی اولاد ہیں اور ارتقاء نہیں تخلیق ہوئی ہے۔
(ii)۔ دوسری غلطی (پانی میں )
جب ڈارون نے یہ کہا کہ انسان موجودہ صورت میں بوزنے (APE) سے پروان چڑھا ہے تو پھر اسے یہ بھی بتانا تھا کہ بوزنہ کیسے بوزنہ بنا ہے۔ لہذا اسے ابتداء سے آغاز کرنا پڑا یعنی زمین پر پہلی زندگی سے۔ لہذا اس نے کہا۔
اربوں سال پہلے غیر متوازن ماحول میں یک خلوی جرثومے سے حیات پانی میں شروع ہوئی۔ وہیں نمود کی فطری خواہش کی وجہ سے ترقی کرتی رہی۔ وہیں سے مینڈکوں کی ایک نسل خشکی پر آ گئی۔ جن مینڈکوں کو درختوں پر چڑھنے کا شوق ہواوہ بالا آخر اڑنے والے جانور بن گئے۔ انہی میں سے کچھ خشکی پر خوراک اور حفاظت کی تلاش میں مختلف اشکال میں بٹ گئے جن میں سے کچھ بندر بن گئے۔ بقاء کی یہ جنگ کروڑوں سالوں سے جاری ہے جس کے نتیجے میں کمزور ناپید ہوتے گئے۔ اور طاقتور بقاء کے لئے موزوں ثابت ہوئے۔
پچھلے ابواب میں (انسان کی ابتدائی تعریف ) میں ہم اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرائے ہیں کہ ڈارون کا یہ مفروضہ ارتقاء نہیں ہوا بلکہ اچانک تخلیق ہوئی ہے۔ ڈارون نے یہ مفروضہ نظریات درجِ ذیل مذہبی اطلاعات سے قائم کیئے
۱۔ ماحول غیر متوازن تھا
۲۔ تمام اشیاء نفسِ واحدہ سے بنی ہیں
۳۔ آغاز پانی سے ہوا
اصل میں ڈارون کائناتی یا مذہبی اطلاع کہ غیر متوازن ماحول میں تمام اشیاء نفس واحدہ سے بنی ہیں اور تمام کاآغازپانی سے ہوا ان مذہبی اطلاعات کی تشریح ان الفاظ میں کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ نفس واحدہ یا یک خلوی جرثومہ جس سے تمام اشیاء بنی ہیں وہ پانی میں نمودار ہوا یعنی پہلی زندگی ڈارون کے مطابق یک خلوی جرثومے کی پیدائش پانی میں ہوئی۔ مذہبی اطلاعات کے بارے میں ڈارون کے تمام اندازے غلط تھے یا یوں کہنا درست ہو گا کہ ڈارون نے صحیح کائناتی اطلاعات سے غلط نتائج اخذ کیے۔ مثلاً
کائناتی مذہبی اطلاعات کچھ یوں ہیں کہ ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی یا حیات کا مادہ پانی ہے۔ اس اطلاع سے ڈارون نے یہ نتیجہ نکالا کہ حیات کا آغاز پانی میں ہوا جب کہ حیات پانی میں شروع نہیں ہوئی بلکہ کائناتی اطلاع یہ ہے کہ حیات پانی میں نہیں بلکہ حیات پانی سے شروع ہوئی۔
ڈارون کے نظریات کے برعکس یہ حیات پانی سے کیسے شروع ہوئی اس کا ذکر ہم تخلیق کے عنوان سے کر آئے ہیں کہ پانی ایک حیاتی عنصر یا تخلیق کا ایک مرحلہ یا جز ہے یعنی سادہ الفاظ میں انسان کی تخلیق میں پانی کا استعمال بھی ہوا۔
لہذا حیات ڈارونی نظریات کے مطابق پانی میں شروع نہیں ہوئی بلکہ
حیات پانی سے شروع ہوئی۔ پانی حیات کا ایک مر حلہ ہے حیات کا مادہ ہے
جب کہ تمام اشیاء نفس واحدہ سے وجود میں آئیں۔
(iii)۔ تیسری غلطی (نفسِ واحدہ)
سوال یہ ہے کہ نفس واحدہ سے کیا مراد ہے۔ ڈارون نے نفس واحدہ سے مراد یک خلوی جرثومہ لی تھی اور یہی اس کی بنیادی غلطی تھی۔ تمام اشیاء نفس واحدہ سے وجود میں آئیں۔ یہ اطلاع مذاہب
نے ہمیں دی ہے اور یہ اطلاع صحیح اطلاع ہے لیکن اس اطلاع کو سمجھنے میں ہمیشہ غلطی کی گئی ہے۔
(1) پہلی غلطی یہ ہے کہ نفس واحدہ کو یک خلوی جرثومہ تصور کر لیا گیا ہے۔
(2) یہ تصور کر لیا گیا کہ محض جاندار نفس واحد ہ سے وجود میں آئے۔
نفس واحدہ ہرگز کوئی جرثومہ نہیں ہے۔ جرثومہ چاہے یک خلوی ہو مادہ ہے۔ جب کہ نفس مادہ نہیں ہے۔
آج سب جانتے ہیں کہ بعض آسمانی کتابیں اپنی اصلی حالت میں نہیں ہیں بلکہ وہ تراجم ہیں۔ جب کہ آسمانی کتابوں کے الفاظ مخصوص مواد کے مخصوص الفاظ ہیں جن سے نتائج اخذ کرنے کے لئے ان کا اصلی حالت میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر ان الفاظ میں رد و بدل کر دیا جائے تو ہم ان کے معنی و مفہوم کو کھو دیتے ہیں ان الفاظ کا فی زمانہ ترجمہ بھی ان کا نعم البدل نہیں ہے۔ الفاظ کی ترتیب میں غلطی نے بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔ لہذا اگر ہم آسمانی کتابوں سے کچھ نتائج اخذ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے تراجم سے ہم اصل حقیقت کا کھوج نہیں لگا سکتے ہمیں اصل آسمانی الفاظ ہی اصل حقیقت تک پہنچا سکتے ہیں۔
نفس واحدہ بھی ایسی ہی اطلاع ہے جس کا غلط ترجمہ یک خلوی جرثومہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ کے طور پر یک خلوی جرثومہ کو نفس واحدہ تصور کر لینا محض غلطی ہے اور اس یک خلوی جرثومے کو مذہبی اطلاع سمجھ لینا اور بڑی غلطی ہے۔ جب کہ انہی غلطیوں کو آسمانی اطلاعات سمجھ کر سائنسدان تک ارتقائی نظریات کو مذہبی عقیدہ تصور کرتے رہے ہیں۔
یہ تصور بھی عام ہے کہ محض جاندار اشیاء نفس واحدہ سے وجود میں آئیں۔ جب کہ نفس واحدہ سے زندگی کا آغاز ہوا اس سے مراد مخصوص جاندار نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ نفس واحدہ سے کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کا آغاز ہوا
(1) یہ نفس واحدہ کیا ہے؟
(2) اور اس نفس واحدہ سے زندگی (کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کا آغاز کیسے ہوا؟
اس کے جوابات ہم اپنے نئے نظریات میں پیش کر آئے ہیں۔ لہذا ان نئے نظریات کی روشنی میں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ
۱۔ نفسِ واحدہ یک خلوی جرثومہ (Unicellular Organism)نہیں ہے
۲۔ نفسِ واحدہ کا مطلب ہے ایک جان اور اس ایک جان سے دو حقیقتیں مراد ہیں۔
۳۔ ۱۔ پہلا واحد انسان، ۲۔ واحد انرجی
لہذا مذاہب میں پہلے انسان اور کائنات کے واحد تخلیقی مادے یعنی واحد انرجی کو نفس واحدہ کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان ایک ہی واحد انرجی کے مختلف روپ ہیں، لہذا سب کچھ واحد انرجی سے بنا ہے، پہلا انسان بھی۔
اور اسی پہلے انسان(نفسِ واحدہ یا ایک جان) کی نسل ہے تمام نوعِ انسانی۔ لہذا نفسِ واحدہ کا مطلب یہ ہے کہ
تمام انسان ایک پہلے انسان یعنی فقط ایک جان (نفسِ واحدہ)سے پیدا ہوئے
اور پہلے انسان سمیت کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بشمول انسان ایک ہی واحد انرجی سے بنے ہیں۔
(iv)چوتھی غلطی(ارتقا)
جب یہ سوال اُٹھا کہ حیات کا آغاز کیسے ہوا تو ہمیشہ ہی اس حیات کے آغاز کو یا تو جنیاتی تغیر نوعی تغیر سے جوڑا گیا اسے جانوروں کی نسل بتایا گیا یا اس آغاز کو کائناتی تخلیقی تسلسل سے جوڑ دیا گیا حالانکہ یہ محض غلط فہمیاں ہیں ، انسان کا کسی تخلیقی تسلسل سے کوئی تعلق کوئی واسطہ نہیں۔ چاہے وہ کوئی نوع ہو یا کائنات ہو انسان ہر نوع اور کائنات کے ہر وجود سے منفرد انفرادی تخلیق ہے۔ لہذا جب بھی کسی نوع سے یا کائنات سے انسان کی تخلیق کو منسوب کر کے انسان کی تخلیق کا راز جاننے کی کوشش کی گئی تو یہی غلط کوشش انسانی تخلیق کو بے نقاب کرنے میں رکاوٹ بنی۔ ظاہر ہے غلط کوششوں سے صحیح نتائج بر آمد نہیں ہو سکتے۔ (انسان کی انفرادی تخلیق کا تفصیلی تذکرہ میں تخلیق کے عنوان سے پچھلے صفحات میں کر آئی ہوں۔ )
نتائج
نظریہ ارتقاء سے متعلق اس باب میں ہم نے ارتقاء کا بیک گراؤنڈ جاننے کی کوشش کی ہے۔
اس سے پہلے (انسان کی ابتدائی تعریف)کے عنوان سے پہلے ابواب میں یہ سیر حاصل بحث کی جا چکی ہے کہ ارتقاء محض غیر سائنسی مفروضہ ہے جو بعض غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔
اس باب میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس غلط مفروضے نے کیسے جنم لیا۔
(1)۔ یہ قدیم نظریہ دراصل لامذہبوں کی پیداوار ہے۔
(2)۔ اور آج ارتقاء کو نظریہ ماننے والے دو مخصوص طبقات ہیں۔ (i)۔ لامذہب حلقے، (ii)۔ اسے مذہبی عقیدہ سمجھنے والے۔
(3)۔ ارتقاء کو مذہبی عقیدہ تصور کرنے والوں نے اسے سائنسی نظریہ ثابت کرنے کی اندھا دھند کوششیں کیں جو بے سود رہیں۔ ارتقاء کو مذہبی عقیدہ کیوں سمجھا جاتا ہے ؟
(4)۔ دراصل یہ جدید ارتقائی نظریات مذہبی اطلاعات سے اخذ کیئے گئے تھے۔
(5)۔ یہ مذہبی اطلاعات تو ٹھیک تھیں۔
(6)۔ لیکن ان مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں غلطی کی گئی۔
(7)۔ اور اس غلطی سے غلط ارتقائی نظریات نے جنم لیا۔
(8)۔ اور ارتقاء پرست ان غلط نظریات کو صحیح آسمانی اطلاعات تصور کر کے ان کی اندھا دھند تقلید کرتے رہے۔
(9)۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غلط فہمی کی بنا پر جنم لینے والے غلط نظریات آج ہر میدان میں بری طرح پٹ گئے ہیں۔ ہر قسم کی سائنس نے ان ارتقائی نظریات کی نفی کر دی ہے۔ جس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ نظریات دراصل آفاقی اطلاعات نہیں بلکہ محض ان اطلاعات سے اخذ شدہ مفروضے ہیں۔ جب کہ صحیح آفاقی اطلاعات کے نتائج ہمیشہ درست نکلتے ہیں اگر یہ نظریات آفاقی اطلاعات ہوتے تو ہر قسم کی سائنس ان کی گواہی دیتی جب کہ ایسا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ۔ اسے عقیدہ تصور کرنے والے اب اپنے اس تصور سے دستبردار ہو رہے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے
نئے نظریات میں یہاں ہم نے وضاحت کر دی ہے کہ
انسان منفرد طور پر تخلیق ہوا ہے وہ کائناتی یا کسی بھی تخلیقی تسلسل کا حصہ نہیں ہے
لہذا انسان کا تعلق کسی حیوانی نسل سے نہیں ہے۔
لہذا پہلے انسان کی نفسِ واحدہ(واحد انرجی) سے تخلیق ہوئی پھر اس کا جوڑا بنا پھر اس پہلے جوڑے سے پیدائش کا آغاز ہوا اور نوعی تسلسل قائم ہوا اور آج کی تمام نوعِ انسانی اسی واحد جوڑے کی نسل ہیں۔ ا س کتاب میں ہم نے فقط ارتقائی مفروضے کی نفی ہی نہیں کی بلکہ یہ ثابت کیا ہے کہ ارتقائی مفروضہ نہ تو کوئی مذہبی عقیدہ ہے نہ ہی اس کی کوئی سائنسی حیثیت ہے انسان کا ارتقاء نہیں ہوا بلکہ تخلیق ہوئی ہے اور ہم انسان کی تخلیق کی بھی وضاحت کر آئے ہیں۔ لہذا اس تفصیلی بیان کے بعد اب یہاں یہ صدیوں کا ارتقائی مسئلہ بھی حل ہوا۔
153۔ روح اور ربّ
سوال:۔ کیا روح اور رب ایک ہیں۔ ؟
جواب:۔ روح اور رب ایک نہیں ہیں۔
جب کہ کئی مذاہب کے لوگ روح اور رب کو ایک ہی تصور کرتے ہیں۔ مثلاً ہندوازم میں سنسکرت کا لفظ ” Jiva ” روح سے مطابقت رکھتا ہے جس کا مطلب ہے انفرادی روح یا ذات اور آتما (ATMAN) کا مطلب ہے روح یا خدا۔
اس عقیدے کے مطابق آتما برہمن کا کچھ حصہ ہے جو ہمارے اندر آ گیا ہے اور روح برہمن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
سکھ روح کو یونیورسل (Universal Soul) روح کا حصہ مانتے ہیں ان کے مطابق روح کائنات کا حصہ ہے اور کائنات خدا۔
وہ روح کو آتما اور رب کو پرماتما کہتے ہیں۔
AGGS (AAD GURU GRANTH SAHIB) میں ہے
Soul (ATMA) to be part of Universal Soul which is God (Parmatma)
بدھسٹ بھی آتما اور پرماتما کے عقائد سے مماثلت رکھتے ہیں۔
تبتی مختلف روحانی مشقیں کرتے ہیں ان میں سے ایک گروہ چاڈ کا خیال ہے کہ روح جزو خدا ہے اسے جسم کی آلائشوں سے پاک کرنا کمال بندگی ہے۔ جب کہ یو گا کے چند اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ یہ دھیان پیدا کرنا کہ کائنات میں صرف ایک ہی حقیقت موجود ہے اور اپنے آپ کو اس حقیقت کا جز سمجھنا۔
لہذا مراقبہ کرنے والے جب روح کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ روح کائنات سے مربوط اور اس کا حصہ ہے اپنے رب سے مربوط ہے۔ وہ روح کو یونیورسل حقیقت قرار دیتے ہیں۔
کیا واقعی روح اور رب ایک ہیں۔ ان تعریفوں سے بظاہر تو ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ کہ روح اور رب ایک ہی ہیں۔
یہ تعریفیں دراصل مذہبی آفاقی اطلاعات ہیں۔ جنہیں سمجھنے میں غلطی کی جا رہی ہے۔
دوبارہ پڑھیئے اور ذرا غور کیجئے ان تعریفوں میں یہ نہیں کہا جا رہا کہ روح اور رب ایک ہیں۔
بلکہ ان تعریفوں میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ روح کا تعلق رب سے ہے روح جز خدا ہے ، روح خدا کی صفت ہے۔ رب کی شے ہے۔ روح رب سے جڑی ہوئی
ہے رب سے متعلق ہے روح اور رب کا قریبی تعلق ہے۔ لیکن اس تعلق واسطے رابطے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ روح اور رب ایک ہی ہیں۔ یہ نتیجہ از خود اخذ شدہ ہے کہ روح اور رب ایک ہی ہیں ورنہ ان آفاقی اطلاعات میں یہ پیغام ہرگز نہیں ہے۔
احمد مل کا مالک ہے تو مل اس کی ملکیت ہے ہم احمد کی مل کو احمد نہیں بلکہ اس کی ملک کہتے ہیں۔ میں روبینہ نازلی ہوں میری تحریر روبینہ نازلی نہیں اگرچہ وہ میری ہی تحریر ہے۔
اسی طرح روح یا کائنات یا کچھ بھی یا سب کچھ رب کا ہے اسی سے مربوط ہے لیکن پھر بھی رب نہیں۔ لہذا اگر روح جزو خدا ہے بھی تو خدا نہیں۔
اگر روح رب سے جڑی ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ رب ہے۔
لہذا سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ مذاہب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ روح رب نہیں بلکہ رب کی ایک صفت یا رب کا امر ہے وہ رب کی ہے رب کی طرف سے ہے اور رب سے مربوط ہے۔ لیکن رب کی یہ شے خود رب نہیں۔ لہذا روح اور رب ایک ہیں یہ کائناتی اطلاعات نہیں ہے۔
بلکہ صحیح کائناتی اطلاعات سے اخذ شدہ مفروضہ ہے جس نے عقیدے کی صورت اختیار کی اور اس عقیدے نے نت نئے مسائل کھڑے کئے مثلاً روح کو رب تصور کر کے ارواح کی پوجا کا رواج عام ہوا۔
لہذا دوبارہ ان تمام مذہبی اطلاعات کو بڑے غور سے پڑھیے ان اطلاعات میں یہ وضاحت موجود
ہے کہ روح رب نہیں بلکہ روح رب کی ایک صفت ہے رب کی بے تحاشا خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔
154۔ انسان کیسا مجموعہ ہے ؟
سوال۔ انسان کیسا مجموعہ ہے؟
جواب۔ ہزاروں برس سے آج تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ آخر انسان کیسا مجموعہ ہے۔ ہر دور میں روح و جسم کا بھی تذکرہ ہوتا رہا اور آج بھی سائنسدان سائنسی طریقوں سے اس کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں اور اُلجھ رہے ہیں۔ اور آج بھی یہ سوال جوں کا توں ہمارے سامنے موجود ہے کہ آخر !انسان کتنے اور کیسے کیسے اجسام کا کیسا مجموعہ ہے؟
اور آخر اس کے اندر کتنے اور کیسے کیسے نظام کام کر رہے ہیں۔ جتنا انسان اپنے اندر جھانک کر دیکھتا ہے اتنا ہی الجھتا چلا جا رہا ہے۔ اور ہزاروں برس سے انسان اسی الجھن میں مبتلا ہے۔ یونانی فلسفیوں نے انسان کو دو نظاموں یا دو جسموں کا مجموعہ قرار دیا تھا یعنی انہوں نے انسان کو جسم و ذہن کا مجموعہ قرار دیا۔ یونانی فلسفی ذہن اور روح میں امتیاز نہیں برتتے تھے اور ذہن کو روح سے تشبیہ دیتے تھے۔ لہذا ذہن سے ان کی مراد روح ہوتی تھی یعنی یونانی فلسفیوں کے مطابق انسان "روح و جسم کا مجموعہ ہے "یونانی فلسفی روحانی مشاہدات و تجربات کی بدولت کسی نہ کسی حد تک کچھ نظاموں سے آگاہ تو تھے لیکن وہ انہیں صحیح طور پر شناخت نہیں کر پائے۔ وہ انسان کو دو نظاموں کا مجموعہ بھی قرار دیتے ہیں اور غیر اختیاری طور پر کسی تیسری سمت کسی تیسرے نظام کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ یونانیوں کی طرح آج کے جدید محقق بھی انسان کو دو نظاموں جسمانی اور اثیری کا مجموعہ قرار دیتے ہیں جب کہ وہ انسان کے اندر محض دو نظام نہیں بلکہ ایک نیا ہی جہان دریافت کر بیٹھے ہیں۔ جس کی تعداد کا تعین بھی نہیں کر پائے ہیں آج تک۔
جب کہ مسلمانوں نے انسان کو تین نظاموں کا مجموعہ قرار دیا یعنی انسان تین جسم یا تین روحوں سے مرکب ہے اسے انہوں نے تین کرنٹ بھی کہا۔ اور انسان کو روح نفس و جسم کا مجموعہ قرار دیا۔
مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی اقوام میں بھی روح و نفس کا تصور پایا جاتا ہے اور دونوں کی مذہبی کتابوں میں روح و نفس کا تذکرہ موجود ہے لیکن مذہبی کتابوں کی اطلاعات کو کسی نے سمجھنے کی زحمت نہیں کی جب کہ کلاسیکل لٹریچر میں ہمیں کہیں نہ کہیں کچھ معلومات مل ہی جاتی ہیں مثلاً Kabbalah (esoteric jewish mysticism) کے کام Zohar کے مطابق انسان سے وابستہ تین اجسام کا سراغ ملتا ہے۔
(1) Nefesh. (2) Ruach. (3) Neshama
قدیم چینیوں نے بھی مادی جسم کے علاوہ دو مزید اجسام کا تذکرہ کیا جسے انہوں نے 1. P.O. 2. HUN کہا۔
قدیم مصریوں نے بھی مادی جسم کے علاوہ دو مزید اجسام کا تذکرہ کیا انہوں نے ان اجسام کو بع اور کع کے نام سے پکارا جب کہ مختلف عقائد میں دو اجسام کے تذکرے کے علاوہ ہمیں مختلف النوع قسم کے عقائد بھی ملتے ہیں۔
مثلاً ایک وسیع پیمانے پر عقیدہ کی حیثیت رکھنے والا آواگون کا نظریہ یا عقیدہ ہے۔ جس کے مطابق انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتا ہے۔ دوسرے جنم میں اسے ایک دوسرا جسم ملتا ہے وہ جسم انسانی، حیوانی بلکہ نباتاتی بھی ہو سکتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یعنی ایک جسم ختم ہوتا ہے تو دوسرے جنم میں انسان کو کوئی دوسرا جسم دے کر دوبارہ زندگی دے دی جاتی ہے۔ اس حساب سے تو یہ اندازہ لگا نا دشوار ہے کہ انسان کتنے اور کیسے کیسے نظاموں کا مجموعہ ہے۔ اس عقیدے کے حساب سے تو ہر انسان کے بارے میں الگ حساب لگانا ہو گا کہ اس انسان کو کتنے اور کیسے کیسے جنم ملے کبھی وہ کسی سبزی کے روپ میں ظاہر ہوا کبھی جانور کبھی درخت اور کبھی کسی اور روپ میں۔ لہذا یہ حساب کتاب انسانی بس کا نہیں ہے۔
قدیم ادوار میں یونانی، رومی، ہندو اور عیسائی اقوام میں ان کی مذہبی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں میں مادی جسم کے علاوہ ان کا ہیولا بھی دکھایا جاتا تھا جسے انگریزی میں ہالو Halo قدیم یونانی میں AURA اور لاطینی میں AUREOLA کہا جاتا تھا۔ جس کا تذکرہ صدیوں سے ہو رہا تھا آج اسی AURA کی جدید سائنسی دریافت بھی ہو گئی اور اس انسان کے باطنی لطیف وجود
AURA کے اندر مزید سات اجسام (Subtle Bodies) بھی دریافت کر لئے گئے ہر سات اجسام کے سات مختلف لیول اور سب لیول ہوتے ہیں۔ سائنسدان AURA کے اندر چکراز کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ سات بنیادی چکراز ہوتے ہیں جب کہ سات کے علاوہ بھی AURA میں مزید چکراز دریافت ہوئے ہیں۔ یعنی جدید تحقیقات کے مطابق تو دو، تین یا سات نظاموں سے بھی کہیں زیادہ نظام انسان کے اندر دریافت ہو چکے ہیں اور یہ دریافتیں ابھی جاری ہیں۔ آج انسان، انسان کے اندر Subtle Bodies, Chakras, AURA کا مشاہدہ تو کر رہا ہے لیکن اجسام کے چکر کو سمجھ نہیں پا رہا اور اس اجسام کے چکر کو کچھ لوگ آواگون سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ سات جنموں سات جسموں اور انسان سے وابستہ اجسام میں مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ آواگون کے عقیدے دو نظاموں ، تین نظاموں یا جدید دریافتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کوئی مماثلت نہیں۔
آخر انسان کے مادی جسم سے کتنے اور کیسے کیسے اجسام یا نظام وابستہ ہیں آج کا انسان ان نت نئے اجسام اور نظاموں کے چکر میں بری طرح الجھ چکا ہے اور آج کوئی اس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ انسان کیسا مجموعہ ہے ؟اور آج تک کوئی انسان کی مجموعی تعریف کا تعین نہیں کر سکا؟
آج اپنے نئے نظریات میں ہم نے صدیوں کے ان اُلجھے مسائل کو حل کر کے ان تمام سوالوں کے جوابات دے دیئے ہیں۔ لہذا
(1) پہلی مرتبہ انسان کے انفرادی اجزاء (روح، نفس، جسم)کو متعارف کروایا ہے۔ ان تمام کی انفرادی شناخت قائم کی ہے، تعریف اور تعارف بھی کیا ہے۔
(2) اور اس کے بعد مجموعی انسان کی تعریف اور تعارف بھی کر دیا ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ انسان کتنے اور کیسے کیسے اجسام یا نظاموں کا مجموعہ ہے۔ یہ پوری کتاب انہیں صدیوں سے اُلجھے ہوئے مسائل کے حل پر مشتمل ہے۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
۱۔ سوال۔ انسان کیسا مجموعہ ہے۔
جواب۔ انسان روح، نفس، مادی جسم کا مجموعہ ہے۔
۲۔ مادی جسم۔ ظاہری مادی جسم مادی عناصر کا مجموعہ ہے۔
۳۔ نفس کیا ہے۔؟
جواب۔ نفس سے مراد ہے اجسام۔ روشنی، نور اور دیگر سیاروں کے عناصر اور دیگر مختلف مرکبات پر مشتمل انسان سے وابستہ تمام مختلف لطیف وجود نفس ہیں۔
۴۔ سوال روح کیا ہے۔؟
جواب۔ روح واحد(غیر مرکب) انرجی ہے۔
اور ان تمام کا مجموعہ ہے انسان۔ یعنی انسان محض ظاہر ہی نہیں اس کا وسیع و عریض باطن بھی ہے۔ لہذا
ظاہر۔ ۔ مادی جسم ہے تو
باطن۔ ۔ روح +نفس(لطیف اجسام)
اور انسان مجموعہ ہے =مادی جسم +روح +نفس(باطنی اجسام)
کتابیات
۱۔ قرآن مجید
۲۔ احادیث نبوی
۳۔ انجیل مقدس
۴۔ اسلام اور جدید سائنس(ڈاکٹر محمد طاہر القادری)
۵۔ ضیاء النبی (۱۲۴۔ پیر محمد کرم شاہ الاذہری)
۶۔ بلوغ الاعرب (جلد دوئم۳۱۱، ۳۱۲)
۷۔ کشف المحجوب (داتا گنج بخش علی ہجویری)
۸۔ کیمیائے سعادت (امام غزالی)
۹۔ عین الفقر (حضرت سلطان با ہو)
۱۰۔ حیات بعد الموتَ (سلطان بشیر محمود)
۱ ۱۔ حجۃ البالغہ۔ (شاہ ولی اﷲ)
۱۲۔ الروح ماہتیا
۱۳۔ کتاب الرواح۔ (ابن قیم)
۱۴۔ تذکرۃ الروح
۱۵۔ جنگ (۱۳ جولائی)
۱۶۔ سائنس ڈائجسٹ
۱۷۔ الطاف القدس۔ (شاہ ولی اﷲ)
۱۸۔ ما وری (سلطان بشیر محمود، ٹامک سائنٹسٹ)
۱۹۔ نفسیات (سید اظہر علی)
۲۰۔ ھمعات (شاہ ولی اﷲ)
۲۱۔ مقابیں المجالیس(خواجہ غلام فرید)
۲۲۔ رگ وید
۲۳۔ پیسفک فرینڈ (دسمبر۱۹۹۵ء)(خبر نامہ جاپان۱۹۹۶ء)۔
۲۴۔ ورلڈ سولائزیشن اذ(ای، ایم، برنز اورپی، ایل، رالف۱۱۴)
۲۵۔ قلندر شعور(خواجہ شمس الدین عظیمی) ۲۶۔ عالم ارواح(رئیس امروہوی)
۲۷۔ روحانی ڈائجسٹ
۲۸۔ انسائیکلو پیڈیا
۲۹۔ البدور البازغہ۔ (شاہ ولی اﷲ)
۳۰۔ تمہید (وہیب ابن قبر)
۳۱۔ مراقبہ (خواجہ شمس الدین عظیمی)
۳۲۔ من کی دنیا (ڈاکٹر غلام جیلانی برق)
۳۳۔ وکی پیڈیا
۳۴ A Study Of Evolution (Prof Charlotte Wallace) ۳۵The Origin of Species by Means Of Natural Selection (Charls Rabort Darwin)
۳۶Life After Life (Raymond Moody)
۳۷The Creation Of The Universe (Harun Yahya)
۳۸what is life (mrs. gaskal)
۳۹invisible helpers (led beter)
٭٭٭
مصنفہ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ
پروف ریڈنگ، اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید