فہرست مضامین
علمِ عروض کا آغاز اور نشات
(ایک غیر تقدیسی، معروضی جائزہ)
ڈاکٹر جواد علی
ترجمہ: عمر فاروق
ریسرچ ایسوسی ایٹ، ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
عروض شعر کی میزان ہے۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اس پر جانچ کر با وزن اور وزن سے ساقط شعر میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ مؤرخین نے عروض نام رکھنے کی بہت سی وجوہات بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ خلیل بن احمد الفراہیدی کو عروض (بطور علم) ایجاد کرنے کی تحریک مکہ میں ہوئی، اور مکہ بلاد العَروض میں سے ہے۔ چنانچہ اس علم کو عروض کہا گیا۔ ۲ ایک توجیہ یہ ہے کہ شعر کو اس پر عرض، یعنی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عروض نام، شعر کے عَروض کے باعث معروف ہوا، جو شعر کے ہر دو مصرعوں کے فواصل (یعنی حصوں ) میں سے پہلے مصرعے کے آخری حصے کو کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے پہلے مصرعے کو عروض بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ دوسرا مصرع اس پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ دوسرے مصرعے کو شطر کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ عروض شعر کے اسالیب و طرق اور اس کے عمود کا نام ہے، جیسے بحرِ طویل۔ [یعنی قصیدے کی ہیئت عمود یا ستون کے مانند ہوتی ہے]۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ فلاں قصیدہ ایک عروض میں ہے۔ جب کہ قوافی ضروب (واحد: ضرب) کہلاتے ہیں۔ ۳ ایک توجیہ یہ بھی کی جاتی ہے کہ (اس علم کو) عروض اس لیے کہا گیا کہ اگر شعر کا نصفِ اول معلوم ہو تو شعر کی تقطیع آسان ہو جاتی ہے۔ ۴ بعض کا خیال ہے کہ عروض، عرض یعنی پیش کیے جانے یا پرکھنے کے باعث کہا جاتا ہے، کہ شعر (مقررہ) اوزان پر پیش کیا جاتا ہے، تو جو ان کے مطابق ہو وہ درست قرار پاتا ہے، جب کہ عدم مطابقت رکھنے والا غلط۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عروض نام اس وجہ سے پڑا کہ دامنِ کوہ میں راستے کو بھی عَروض کہا جاتا ہے۔ مراد یہ کہ عروض وہ راستہ ہے جس پر عرب، شعر کہنے میں چلے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بیت الشِّعر (شعر کے دو مصرعوں ) کو بیت الشَّعر (اونٹ وغیرہ کے بالوں سے بنے موٹے ترپال نما کپڑے سے بنائے گھر، یعنی بادیہ نشینوں کی جائے رہائش خیمہ) سے تشبیہ دی گئی۵، تو (شعر کے علم) عَروض کو، جو اس کا وزن برقرار رکھتا ہے، (خیمے کا وزن برقرار رکھنے والے) عَروض کے مشابہ قرار دیا گیا، جو (خیمے کے درمیان کھڑے) لکڑی کے مستول کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح شعر کے اسباب کو خیمے کی اسباب (رسیوں ) سے، اور اوتاد کو خیمے کے اوتاد (میخوں یا کھونٹیوں ) سے، نیز شعر کے فواصل کو خیمے کے فواصل (اجزاء) سے تشبیہ دی گئی۔ ۶ علم العَروض، شعر اور قافیے کا علم ہے، اور علم الوزن یا وزنِ شعر اس کا مترادف ہے۔ اس کی تعریف میں علمائے عروض کا شدید اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں عروض کے مولد و منشا اور اس کے منصۂ شہود پر آنے کی کیفیت کا کوئی واضح علم نہیں۔ ۷
میرے خیال میں عروض نام رکھے جانے کے سلسلے میں علماء کا یہ شدید اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لفظ اسلام سے پہلے بھی مستعمل رہا، اور خلیل کا رکھا ہوا نام نہیں ، بلکہ جاہلی دور کا ایک قدیم لفظ ہے جس سے مراد شعر کو دیکھنا، پرکھنا اور اس کے مختلف اسالیب و طرق اور اجزاء پر غور کرنا ہے۔ اگر یہ لفظ اسلامی دور میں خلیل کا وضع کیا ہوا ہوتا تو اس کی توجیہ میں اتنا اختلاف نہ ہوتا، اور خلیل عروض کا نام رکھنے کا سبب یوں نظر انداز نہ کرتا۔ نیز یقینی طور پر علماء خلیل سے عروض کی وجہِ تسمیہ ضرور دریافت کرتے۔ اس سلسلے میں واضح رہے کہ علماء کی یہ روش معروف ہے کہ اگر زمانہ ما قبلِ اسلام کی کوئی ایسی بات ان کے سامنے آتی ہے جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے، تو وہ اسباب و علل کے سلسلے میں مختلف و متبائن آراء اور توجیہات بیان کرتے ہیں۔ اگر عروض اسلامی دور میں وضع کیے گئے علوم اور اصطلاحات میں سے ہوتا تو وہ اس کی تعبیر و توجیہ میں اس قدر اختلاف نہ کرتے۔ عروض کی تعریف میں ان کا یہ شدید اختلاف اس کی قدامت کی دلیل ہے۔ یہ کہنے میں ہمارا قیاس اسی بات پر ہے کہ علماء قدیم اصطلاحات اور ناموں کی سلسلے میں اختلافی آراء و توجیہات ہی بیان کرتے ہیں۔
اسلامی دور میں ایک گروہ نے کہا کہ عروض کی ضرورت نہیں ، کیوں کہ جو عروض کے مطابق شعر کہتا ہے وہ تکلف اور آورد سے کام لیتا ہے، جب کہ طبعِ سلیم اور سلیقے کے تحت شعر کہنے والے کے اشعار طبعی ہوتے ہیں اور عیوب سے پاک۔ ۸ عروض کی یہ مخالفت یقیناً علمِ عروض کے ظہور و تدوین اور اس کے اصول و قواعد رائج ہو جانے کے بعد سامنے آئی، جب عروضیوں نے یہ کوشش کی کہ وہ شعر اور شعراء پر اپنا علم لاگو کریں۔ حال آں کہ شعراء اپنے سلیقے اور اور عادتِ ثانیہ بن جانے والی اس معروف روش کے مطابق شعر کہتے تھے، جو ان کی طبع کے موافق ایک وہبی روش تھی۔ یوں وہ عروض کی پروا نہیں کرتے تھے۔ جب کہ عروض ایک علم بن چکا تھا جو ان لوگوں کے حافظے کا حصہ تھا جو ویسا اچھا شعر نہیں کہتے تھے جو موزوں طبعی اور جذبِ درون سے وجود میں آتا ہے، اور شعریت اور جذبے سے بھر پور ہوتا ہے۔ (اس کے بالمقابل) عروض کے ماہر کا شعر عام طور تکلف سے پُر، آورد کا حامل ہوتا ہے اور ان شعراء کے اشعار کا ہم پلہ نہیں ہوتا جو (بے جا قیود کے دباؤ سے) آزاد ہو کر شعر کہتے ہیں۔ بلکہ عروضیوں کی طبیعت میں شعریت کا وہبی عنصر پایا ہی نہیں جاتا۔ وہ محض عروض جاننے کے باعث شاعر بن جاتے ہیں۔
عام طور پر لوگوں میں یہ بات معروف ہے کہ عروض اسلامی دور میں ایجاد ہوا۔ ابو عبدالرحمن الخلیل بن احمد بن عَمرو بن تمیم الفراہیدی الازدي الیحمدي (170-100، 175ھ)۹ نے اسے وضع کیا، اور اس کے اوزان نکالے اور بحریں متعین کیں۔ ’’خلیل نحوی مسائل کے استخراج اور درست قیاس کا ماہر تھا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے عروض کی بنیاد رکھی اور اشعارِ عرب کو اس سے تقویت بہم پہنچائی‘‘۱۰، اور یوں صاحب العَروض کے لقب سے پہچانا گیا۔ ۱۱ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’’انتہائی درست قیاس کرنے والا، اور نحوی مسائل اور ان کی تعلیل میں غایت درجہ کی مہارت کا حامل تھا‘‘۱۲۔ ’’وہ پہلا شخص تھا جس نے علمِ عروض کا استخراج کیا، اور زبان کی تدوین کی۔۔۔ اور وہی پہلے پہل عربوں کے اشعار کو محفوظ کرنے والا تھا۔۔۔ اس کے بارے میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ وہ اشعار کی تقطیع کر رہا تھا کہ اس کا بیٹا ملنے آیا، اور اسے اس حالت میں دیکھا تو واپس ہوا اور لوگوں سے جا کر کہنے لگا کہ میرا باپ پاگل ہو گیا ہے۔ یہ سن کر لوگ خلیل کے پاس آئے اور وہ اسی حالت میں ، یعنی تقطیع کر رہا تھا۔ لوگوں نے جب اسے بتایا کہ اس کا بیٹا اس کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے، تو وہ [بیٹے سے مخاطب ہو کر] گویا ہوا: [از بحرِ کامل]
لَوْ کُنْتَ تَعْلَمُ مَا اَقُوْلُ، عَذَرْتَنِيْ اَوْ کَنْتُ اَجْھَلُ مَا تَقُوْلُ، عَذَلْتُکَا
لٰکِنْ جَھِلْتَ مَقَالَتِيْ، فَعَذَلْتَنِيْ وَعَلِمْتُ اَنَّکَ جَاھِلٌ، فَعَذَلْتُکَا‘‘۱۳
[اگر تو یہ جانتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ، تو مجھے معذور جانتا۔ یا میں اس بات سے واقف نہ ہوتا کہ تُو کیا کہہ رہا ہے، تو میں تجھے ملامت کرتا۔ لیکن تُو میری بات سے نا واقف رہا، سو مجھے برا بھلا کہنے لگا، اور میں جانتا ہوں کہ تو لا علم ہے، سو (اس لاعلمی پر) میں تجھے ملامت کرتا ہوں۔ ]‘‘
خلیل خود بھی شاعر تھا۔ مؤرخین نے اس کے کچھ اشعار نقل کیے ہیں۔ ۱۴ ابن قُتَیبَۃ انھیں نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے: ’’یہ شعر نری آورد ہیں ، اور کم تر کاریگری کا نمونہ۔ علماء کے شعر اسی طرز کے ہوتے ہیں ، جن کا آمد و سہولت سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا، جیسے الاصمعي، ابن المقفَّع اور خلیل کے اشعار۔ خلف الاحمر ان میں ایک استثناء ہے۔ وہ ان میں آمد اور شعریت ہر دو اعتبار سے بہتر تھا‘‘۱۵۔
ابو الحسین احمد بن فارس نحو اور عروض پر گفت گو کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ہم یقیناً اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے کہ دیہی، شہری اور بادیہ نشین، سب کے سب عرب لکھائی اور حروف سے واقف تھے۔ قدیم دور کے عرب بھی ویسے ہی تھے جیسے آج ہم ہیں۔ ہم میں سب لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے۔ ابو حَیَّۃ [جیسے ان پڑھ لوگ] کل بھی موجود تھے، جب کہ لوگ اس سے بہت عرصہ پہلے بھی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ پیغمبرِ اسلام کے اصحاب میں کاتبین بھی تھے۔ کیا ابو حیّۃ کا ان پڑھ ہونا ان کے خلاف دلیل بن سکتا ہے؟
’’جو بات ہم لکھائی اور حروف کے بارے میں کرتے ہیں ، وہی إعراب اور عَروض کے سلسلے میں کہی جا سکتی ہے۔ اس بات کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم حُطَیئَۃ کا وہ قصیدہ پڑھتے ہیں جس کی ابتدا ہے: [از بحرِ کامل]
شَاقَتْکَ اَظْعَانٌ لِلَیْلَی دُوْنَ نَاظِرَۃٍ بَوَاکِرْ
[دکھائی دینے سے پہلے، منہ اندھیرے لیلیٰ [کے روانہ ہونے والے قافلے] کے ہودوں نے تجھے شوق دلایا۔ ]
…تو ہمیں سارے قوافی اپنے ترنم و اعراب میں رفع، یعنی پیش کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اگر حطیئۃ کو اعراب کا علم نہ ہوتا تو اس کے قوافی اعراب میں ضرور مختلف ہوتے، کیوں کہ بغیر قصد و ارادہ کے اتفاقاً ان کا ایک ہی حرکت والا ہونا ممکن نہیں۔
’’اگر کوئی یہ کہے کہ تواتر کے ساتھ روایات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ ابو الاسود نے پہلے پہل اعراب وضع کیے اور خلیل نے عروض پر بات کی، تو [جواباً] ہم یہی کہیں گے کہ ہم اس بات سے انکاری نہیں ، بلکہ ہمارے خیال میں یہ دونوں علم قدیم ہیں ، [ایک لمبا] عرصہ گزر جانے پر یہ محو [یا کم یاب] ہو گئے، اور ان کے جاننے والے کم تر۔ اس کے بعد مذکورہ دونوں اصحاب نے ان کی تجدید کی۔ اعراب کے حوالے سے ہم پہلے ہی دلائل پیش کر چکے ہیں۔ جہاں تک عروض کا تعلق ہے تو اس کے متعارف و معلوم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ مشرکین نے جب قرآن سنا تو ان کا یا ان میں سے بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ شعر ہے۔ اس پر ولید بن مغیرہ نے اعتراض کیا اور کہا کہ محمد جو کچھ پڑھتے ہیں ، مَیں نے اسے شعر کے اقراء۱۶ پر پرکھا، کیا ہزج، کیا رجز اور کیا دوسرے [اقراء]، مگر یہ ان میں کسی سے مشابہ دکھائی نہ دیا۔ کیا ولید یہ بات شعر کی بحور سے ناواقف رہ کر کہہ سکتا تھا؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گزشتہ زمانے اور پہلی صدیوں میں کچھ علوم موجود تھے، جو ناپید [یا کم یاب] ہو گئے اور کچھ عرصہ پہلے ان کی تجدید [یا تدوین] ہوئی۔ وہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے کی صورت منقول اور اصلاح پذیر ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ ان کی یہ بات درست ہو۔ ‘‘۱۷
’’صحابۂ رسول اور دیگر قدماء کے اعراب سے واقف ہونے کی دلیل مصحفِ قرآن کی کتابت ہے، جس میں واو، یاء، ہمزہ، مد اور قصر والے الفاظ، نحویوں کی تعلیلات کے مطابق ہیں۔ انھوں نے یاء والے الفاظ یاء کے ساتھ اور واو والے واو کے ساتھ لکھے ہیں ، اور اگر ہمزہ سے ماقبل حرف ساکن تھا (جیسے: خَبئ، دِفئ، مِلء میں )، تو ہمزہ نہیں لکھا۔ اس طرح یہ چیز حجت بن گئی، اور [یہی وجہ ہے کہ] کئی علماء مصحف کا اتباع ترک کرنے کو ناپسند کرتے ہیں۔ ‘‘۱۸
اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن فارس کی رائے میں جاہلی دور کے عرب، ابو الاسود الدُّؤَلي اور الخلیل بن احمد الفراہیدی سے پہلے اعراب اور عروض سے واقفیت رکھتے تھے۔ نیز ان دو اصحاب کی فضیلت یہ ہے کہ انھوں نے پہلوں کے علم کی جمع و تدوین کی۔ ان کی یہ فضیلت کوئی کسی طور بھی کم نہیں کر سکتا۔ ہمارا اخذ کردہ یہ نتیجہ منطق کے اصولوں کے عین مطابق ہے، کیوں کہ یہ بات قطعاً معقول نہیں ہو سکتی کہ کوئی شخص زبان یا شعر کے قواعد وضع کرے اور اسے قبل ازیں کلام کی اقسام اور اقراء کے اختلاف، نیز زبان اور نحو کے بنیادی اصولوں کا علم نہ ہو، جن سے واقف ہونا لازم ہے، تاکہ ان پر بنیادی قواعد کی عمارت استوار کی جا سکے، اور اس علم کا احاطہ، نیز اس کی مختلف شاخوں سے پورے طور پر واقفیت ممکن ہو۔ اعراب اور عروض کے قواعد، جیسے زبان اور عروض کے علماء بتاتے ہیں کہ وہ ایسے اشخاص کے وضع کردہ ہیں جو اس سے پہلے زبان کے قواعد اور شعر سے متعلق امور کے بارے میں ناواقفِ محض تھے، قطعاً ناممکن ہے۔
ایک تاریخی روایت میں ہے کہ پیغمبرِ اسلام مسجد میں داخل ہوئے اور ایک شخص کو دیکھا جو عربوں کے انساب، ان کی جنگوں ، اشعار اور زبان کے بارے میں لوگوں کو بتا رہا تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ: ’’یہ علم ایسا ہے جو ناواقف کو نقصان نہیں پہنچاتا، اور جاننے والے کو فائدہ نہیں دیتا۔ علم دراصل تین ہیں : محکم آیات کا علم، یا عدل پر مبنی فریضہ، یا سنتِ ثابتہ۔ ان علاوہ باقی علوم فاضل یا زائد ہیں ‘‘۱۹۔ مذکورہ امور وہ تھے جن کے بارے میں جاہلی دور کے اہلِ علم و فضل بات کیا کرتے تھے، اور شعر ان موضوعات میں پہلے درجہ پر تھا۔ اس سے مراد فقط شعر پڑھنا نہیں تھا، بلکہ وہ شعر پڑھتے ہوئے اس سے متعلق مناسبات و واقعات اور شعر کے محاسن و عیوب کا ذکر بھی کیا کرتے تھے۔ لہٰذا میرا نہیں خیال کہ اعراب سے بھی محض مفرد الفاظ مراد ہوتے ہوں ، بلکہ وہ تمام امور زیرِ بحث آتے ہوں گے جو اعراب سے تعلق رکھتے ہیں ، جن میں بول چال کی اغلاط، اور زبان کے استعمال میں عربوں کے اصول و قواعد (سبھی باتیں شامل ہیں )۔
مؤرخین کا کہنا کہ جس بات نے خلیل کو علمِ عروض وضع کرنے پر آمادہ کیا، وہ یہ تھی کہ خلیل ٹھٹھیروں کے بازار یا دھوبیوں کے گھاٹ سے گزر رہا تھا۔ وہاں اس نے کوٹنے کی مختلف آوازیں سنیں ، جو اسے اچھی معلوم ہوئیں۔ اس پر اس نے کہا: بخدا میں اس حوالے سے ایک دقیق علم وضع کروں گا۔ یوں اس نے شعر کی حدود کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے عروض ایجاد کیا، اور اس کی سولہ بحریں نکالیں ۲۰۔ ۲۱یہ واقعہ مؤرخین کے قصوں میں سے ایک بے رس، بے کیف قصہ ہے۔ اس قسم کے قصے کہانیاں وہ اس وقت وضع کرتے ہیں جب ان سے ایسے امور کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جن کے بارے میں انھیں کچھ علم نہیں ہوتا۔ کیا یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ خلیل نے شعر کی بحور، ٹھٹھیروں کے ہتھوڑا کوٹنے کی ان ناگوار اور پریشان کن، سمع خراش آوازوں سے اخذ کیں ہوں جو سوچ فہم کو انسان کے ذہن سے دور بھگا دیتی ہیں اور دماغ میں جو کچھ علم موجود ہو، غائب ہو جاتا ہے؟ مذکورہ قصہ مؤرخین کی اپنی اختراع ہے، جسے انھوں نے اس علم کی ایجاد کے سبب کے طور پر وضع کیا، اور یوں ٹھٹھیروں کے ہتھوڑا کوٹنے اور شعر کی تقطیع کے درمیان (خواہ مخواہ کا ایک) ربط پیدا کر دیا۔
میری نظر میں یہ بات قطعاً معقولیت کی حامل نہیں ہے کہ خلیل نے اوّلاً دورِ جاہلیت۲۲ میں پائے جانے والے نظمِ شعر کے اصولوں سے واقفیت بہم پہنچائے بغیر عروض کا علم وضع کر لیا ہو، کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ محض ذکاوتِ حس نے کسی سابقہ علم، قواعد اور معروف و مقرر اصولوں کو جانے بغیر، محض لاوجود سے (ex nihilo) علمِ عروض اختراع کیا ہو۔ یہ بات بھی معقول نہیں کہ خلیل نے جاہلی شعراء کے ہاں موجود علم سے رجوع کیے بغیر (شعر و عروض سے متعلق) نام، اصطلاحات اور تعریفات خود سے وضع کر ڈالی ہوں ، اور اس ضمن میں پہلے سے مقرر کی گئی اصطلاحات اور قواعد سے استفادہ نہ کیا ہو۔ مؤرخین کی روایات میں مذکور ہے کہ دورِ جاہلیت کے لوگ شعر کا علم رکھتے تھے، جیسے یہ ضرب المثل کہ: ’شعر کہنے سے شدید غم نے روک دیا‘ (حَالَ الجَرِیْضُ دُوْنَ الْقَرِیْض)، یا جیسے قریش کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کو شاعر کہنے پر ولید بن مغیرہ کا یہ قول کہ : ’’میں شعر سے واقف ہوں ، اس کے رجز، ہزج اور قریض کو جانتا ہوں ، اور [پیغمبر جو کچھ کہتے ہیں ] وہ یہ چیز نہیں ‘‘۲۳۔ یا جیسے ابو ذر الغِفَاري سے روایت ہے کہ ان کے بھائی انیس نے ان سے کہا کہ: ’’میں ایک شخص سے ملا ہوں جسے یہ زعم ہے کہ اسے خدا نے بھیجا ہے۔ جب ابوذر نے پوچھا کہ لوگ [اس کے بارے میں ] کیا کہتے ہیں ؟تو انیس نے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ وہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے۔ انیس خود بھی شاعر تھا۔ کہنے لگا: بخدا، میں نے اس کے کلام کو شعر کے اقراء پر پرکھا تو وہ کسی کی زبان پر مناسب نہیں بیٹھتا، یعنی شعر کے اسالیب و طرق اور اس کی بحور سے لگّا نہیں کھاتا‘‘۲۴۔ (اسی طرح) ایک تاریخی روایت ہے کہ اہلِ یثرب شعر میں إقواء اور إکفاء سے واقف تھے، اور انھیں شعر کے عیوب میں شمار کرتے تھے۔ ۲۵ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رجز، ہزج، رمل، قصیدہ، وغیرہ جاہلی دور والوں کی اصطلاحات ہیں۔ نیز یہ کہ عروض کی بیش تر اصطلاحات زمانہ ما قبلِ اسلام میں معروف رہی ہیں ، وہ ان کی زندگی سے ماخوذ ہیں ، اور یکسر نئی اصطلاحات نہیں کہ ہم کہیں یہ خلیل کی ایجاد کردہ ہیں ، چنانچہ عروض کا علم ایک نیا علم ہے جسے اس نے اپنے مشاہدے اور ذکاوت کے بل بوتے پر، اصولِ شعر کے بارے میں کسی سابقہ علم کے بغیر وضع کیا۔
ایک تاریخی روایت یہ بھی ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے جب رسول کی زبانی قرآن کی تلاوت سنی اور اس کی تعریف کی، تو قریش نے اس سے کہا: یہ شعر ہے۔ ربیعہ نے کہا: نہیں ، میں اسے شعر کے اقراء پر پرکھ چکا ہوں ، یہ شعر نہیں ہے۔ اقراء الشعر سے مراد شعر کے طریقے اور اقسام ہیں۔ ۲۶ حُطَیئَۃ سے زُہَیر بن ابی سُلمٰی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: ’’میں نے قوافی کے سلسلے میں اس سے زیادہ باعلم کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق قوافی کو جیسے چاہے استعمال میں لاتا ہے‘‘۲۷۔ یہ بات کوئی ایسا شخص نہیں کہہ سکتا جو شعر، اس کے اسالیب و طرق اور بحور و اقسام سے واقف نہ ہو۔
میری رائے میں جاہلی دور کے شعراء پہلے سے علمِ شعر (عروض) سے واقفیت رکھتے تھے جو اسلام سے قبل وضع کیا گیا، (جس کے تحت) انھیں اپنے قدیم اسلاف سے بحروں کے مطابق شعر نظم کرنے کے اصول و قواعد مہیا ہوئے۔ وہ بحروں کے بارے میں جانتے تھے، اور غالباً انھوں نے ان بحروں کے نام بھی رکھے ہوئے تھے، بعینہٖ جس طرح عامی زبان یا مقامی بولیوں کے شعراء آج کل کیا کرتے ہیں ، جن میں اکثریت ایسے شعراء کی ہوتی ہے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ تاہم وہ اپنی زبان کے اسالیب و طرق سے واقف ہوتے ہیں ، انھیں نام دیتے ہیں ، ان کی تعریفیں متعین کرتے ہیں ، اور ان کے لیے اوزان بھی وضع کرتے ہیں ، کہ جن پر وہ شعر کو پرکھ سکیں۔ انھی اوزان کے مطابق وہ شعر کے بارے میں فیصلہ صادر کرتے ہیں ، اور کسی کی شاعری پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کے حسن و قبح کو جانچتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ اپنے متوارث و معروف علم کی میزان پر پرکھتے ہیں۔ دورِ حاضر کے بعض مؤلفین نے مقامی زبان کی شاعری پر کتابیں بھی تالیف کی ہیں ، اور اس کے اسالیب و طرق اور اصولوں ، قاعدوں کی تدوین بھی کی ہے۔ خلیل کا کام بھی اسی نوعیت کا ہے۔ اس نے شعراء کے ہاں بحروں ، ان کے اسالیب و طرق اور اصول و قواعد کے بارے میں جو کچھ معروف تھا، اس کی جمع و تدوین کی، جسے اس نے ایک کتاب میں اکٹھا کر دیا۔ اسی وجہ سے وہ علمِ عروض کا مؤسس قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ (در حقیقت) وہ اس علم کے بکھرے ہوئے اجزاء کو اکٹھا اور شعر کے قواعد اور بحروں کو مدون کرنے والا ہے۔ ہمارے نزدیک وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ کام انجام دیا، جو یقیناً داد اور شکریے کا مستحق ہے۔ ۲۸
اس جمع و تدوین کے سلسلے میں جس چیز نے خلیل کی معاونت کی، وہ اس کی عراق میں موجودگی تھی۔ اہلِ عراق اسلام سے قبل نحو، شعر اور زبان کا مطالعہ بروئے کار لایا کرتے تھے۔ انھوں نے یونانیوں کا زبان، نحو اور شعر سے متعلق علم اپنی علمی و تہذیبی زبان سریانی میں ترجمہ کیا۔ اس انتقالِ علم نے ان کے اپنے متوارث علوم و معارف کی تہذیب و تدوین میں مدد دی، بایں طور کہ انھوں نے قیاس سے کام لے کر اپنے ان علوم کو سائنسی انداز سے مرتب کیا جو ان کے ہاں متداول تھے۔ جب ان میں سے کچھ لوگ اسلام لائے، یا مسلمانوں سے ان کا میل جول ہوا، تو عربوں کے ہاں زبان و شعر سے متعلق جو کچھ مواد موجود تھا، خاص طور پر عراق کے عیسائی عربوں کے ہاں ، تو انھوں نے اپنے زبان و شعر کے علم کو اس قسم کے علوم سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب (جیسے ابو الاسود الدُّؤَلي اور الخلیل بن احمد) کے سامنے پیش کیا، اور ان کی یہی پیش کش علومِ نحو و عروض کی نِیو رکھنے کا باعث بنی۔ بعض علماء نے یقیناً یہ بات محسوس کی (اور اسے بیان بھی کیا)، جیسے الصَّفَدي نے لکھا ہے کہ: ’’یونانی شعر کا مخصوص وزن ہوتا ہے، اور یونانیوں کے ہاں شعر کی بحروں کے لیے ایک علمِ عروض موجود تھا۔ تفاعیل ان کے ہاں [شعر کے] ہاتھ اور پاؤں کہلاتے ہیں۔ میرا خیال میں یہ بات بعید نہیں کہ خلیل بن احمد تک یہ باتیں پہنچی ہوں ، اور اسے عروض وضع کرنے میں ان سے مدد ملی ہو‘‘۲۹، ۳۰۔ یوں وہ ’’پہلا شخص قرار پاتا ہے جس نے علمِ عروض کا استخراج کیا، اور اس میں عربوں کی شاعری کو محصور کیا‘‘۳۱۔ تاہم اس لحاظ سے وہ عروض کا مخترع یا اسے عدم سے وجود میں لانے والا قرار نہیں پاتا۔ بعض مستشرقین کے خیال میں بھی ارسطو کے عروض (Prosody) نے خلیل کو عربی عروض وضع کرنے کا طریقہ بتایا، اور شعر کے تفاعیل اور بحریں استنباط کرنے میں رہنمائی کی۔ ۳۲
خلیل نے علمِ عروض کہاں سے اخذ کیا؟ اس بارے میں ابن خَلِّکان کی ایک منفرد رائے ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’اسے [یعنی خلیل کو] سُر تال اور نغمے کی سمجھ بوجھ حاصل تھی، جس نے اسے علمِ عروض ایجاد کرنے کی راہ سجھائی، کیوں کہ موسیقی اور شعر اپنے ماخذ کے لحاظ سے ایک ہیں ‘‘۳۳۔ خلیل موسیقی کے علم سے بخوبی واقف تھا۔ اس کی تالیفات میں ایک (کتاب النغم) بھی ہے۔ یعنی وہ خوب اچھی طرح موسیقی سے آگاہ تھا، اور اس کے مقطَّعہ جات (تحلیلی و ترکیبی ٹکڑوں ) اور اوزان کا علم رکھتا تھا۔ وہ شعر اور اس کے اوزان سے بھی واقف تھا۔ یہ بات خاص طور پر واضح ہے کہ شعر، موسیقی اور غناء کے مابین قدیمی ربط ہے۔ ’’عرب [حدی سے مشابہت رکھنے والا ایک راگ] نَصب گایا کرتے تھے، اور نغمہ الاپتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ نیز شعر کو گنگنا کر موزوں کیا کرتے۔ حسّان بن ثابت کے بقول: [از بحرِ بسیط]
تَغَنَّ بِالشِّعْرِ إِمَّا اَنْتَ قَائِلُہُ : إِنَّ الْغِنَائَ لِھَذَا الشِّعْرِ مِضْمَارُ‘‘۳۴
[اگر تم شعر کہتے ہو تو اسے گنگناؤ۔ بے شک غناء شعر کے زقند بھرنے کا میدان ہے]
روایت ہے کہ خلیفہ عمر بن خطّاب نے ایک دن نابغہ جعدی سے کہا: ’’مجھے اپنی اس گنگناہٹ (غناء) میں سے کچھ سناؤ جسے خدا نے تمھارے لیے معاف کر دیا ہے [یعنی شعر]۔ اس پر نابغہ نے ایک بول سنایا۔ عمر نے کہا: کیا یہ تمھارا اپنا کہا ہوا ہے؟ وہ بولا: ہاں ، تو خلیفہ نے کہا: میں [بھی] اسے اکثر خطّاب کے اونٹوں کے پیچھے [یعنی انھیں چراتے ہوئے] گنگنایا کرتا تھا‘‘۳۵۔ سو اگر عرب شعر کو گنگنا کر وزن میں لاتے تھے، تو بعید نہیں کہ خلیل پہلے سے عربوں کی اس عادت کا وہبی ادراک رکھتا ہو۔
ہماری اس کتاب (المفصل في تاریخ العرب قبل الإسلام) کی پانچویں جلد میں تفصیلاً ذکر آیا ہے۳۶ کہ شعر، غناء کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ غنائ، شعر کے گنگنانے کو کہتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے: تَغَنَّی بِالشِّعر (اس نے شعر گنگنایا، یعنی کہا)، اور فُلاَنٌ یَتَغَنَّی بِفُلاَنَۃ (لفظاً: فلاں مرد نے فلاں عورت کے بارے میں عشق و محبت کا اظہار کیا)، یعنی اس عورت کے بارے میں شعر کہا۔ شعر کا حدی خوانی سے بھی تعلق ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے: حَدَا بِہِ، یعنی کسی کے متعلق شعر کہا۔ ۳۷ لہٰذا غنائ، نغمہ و وزن ہوا، اور اس لیے اسے موزوں کلام، یعنی شعر (جو گانے کے سُر سے مناسبت رکھتا ہے) کے ساتھ عمل میں لایا جاتا ہے۔ جاحظ کے بقول: ’’عرب موزوں سُروں کو تقطیعی ٹکڑوں میں گاتے ہیں ، جب کہ عجمی الفاظ کو کھینچتے ہیں ، جس سے وہ دبتے اور کھلتے ہیں تاآنکہ سُر وزن میںا جائے۔ یوں وہ موزوں کو غیر موزوں پر لا چسپاں کرتے ہیں ‘‘۳۸۔ ابن رشیق کا کہنا ہے: ’’موسیقار یہ سمجھتا ہے کہ لذیذ ترین بات ساری کی ساری سُر [میں پائی جاتی] ہے۔ ہمیں علم ہے کہ اوزان سُروں کے قواعد ہیں ، تو اشعار بہر صورت [سارنگی کے] تانتوں کی کسوٹی قرار پاتے ہیں ، با وجودے کہ سُروں کے ماہر کا کام اس کی قدر کو کم کر دیتا ہے، اسے خادم کے زمرے میں ڈال دیتا ہے، اور احساسِ عزت کے مرتبے سے گرا دیتا ہے۔ تاہم، شاعر کے رتبے میں کوئی گراوٹ نہیں ہوتی، بلکہ شعر، شاعر کو علمیت کا رعب عطا کرتا ہے، اور حکمت کی عظمت کا طیلسان پہناتا ہے‘‘۳۹۔
یہ بات مستبعد نہیں کہ جاہلی دور کے شعراء اپنے شعر گایا کرتے تھے، اور شعر گنگناتے وقت رباب ایسے موسیقی کے آلات بھی استعمال کرتے تھے، جس طرح آج کل کے بدو شعراء کیا کرتے ہیں ۴۰۔ اُمَوی دور کے شاعر عُروۃ بن اُذَینَۃ کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ ’’نہایت پاکیزہ ذوق رکھنے والا، ذہین اور رنگِ تغزل کا حامل شاعر تھا۔ وہ نو عمری میں گانے کے سُر بناتا اور گیت لکھا کرتا، جنھیں مغنّی لوگ اپنے نام منسوب کر لیا کرتے تھے‘‘۴۱۔ عروہ شعرائے مدینہ میں سے تھا۔ ۴۲
دورِ جاہلیت کے لوگوں کا شاعری، شعر سے متعلق فنون کے علم اور اسالیب و طرق میں ماہر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ان کے ہاں شعری بحروں کا استعمال مختلف موقعوں کی مناسبت سے پایا جاتا ہے، نیز وہ نغمہ و سُر اور الفاظ کی نغمگی کو شعر کہنے میں بنیاد بناتے ہیں ، تاکہ وہ اس موقع کی مناسبت سے موزوں ہو جس کے لیے اسے لکھا جائے۔ (چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ) گانے (یا خوشی کے موقعے) کے لیے الگ بحور ہیں ، جب کہ جنگ و قتال سے مناسبت رکھنے والی بحور الگ، جو دلوں کو جوش و جذبے سے بھرتی اور لڑائی بھڑائی پر ابھارتی ہیں۔ اسی طرح سفر کے لیے اس سے مناسبت کے حامل وزن، نیز رنج و غم اور رثاء کے موقعوں کے لیے ان کے مناسب اوزان۔ یہ سب بحور و اوزان موقع و مناسبت کے علم اور طبعی سلیقے، نیز طبیعت کو صورتِ حال کے مطابق ڈھالنے پر مبنی ہیں۔ بحور و اوزان کے اس استعمال کا تاریخی روایات میں ذکر پایا جاتا ہے۔ یہ موقعے اور مناسبات ہی ہیں جن کے تحت بحریں ایجاد ہوئیں۔ ۴۳
جاہلی دور کے لوگ شعر کا خوب ادراک رکھتے تھے۔ تاریخ میں اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ لوگ شعر کے اسالیب و طرق اور عیبوں خامیوں کو جانتے تھے۔ وہ شعراء کی اغلاط پکڑتے، اور اگر کوئی شعر کے اصولوں اور اس کے سُر نغمے، نیز معروف و معلوم انداز سے گریز کرتا، تو اس پر گرفت کرتے تھے۔ یہ امر اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ شاعر، با وجودے کہ وہ موزوں طبعی، سلیقے اور وہبی و وجدانی طور پر شعر کہتا ہو، مگر وہ شعر نظم کرنے میں متوارث و معلوم قواعد و ضوابط اور (سینہ بہ سینہ حاصل ہونے والے) اصولوں کی پابندی کرتا تھا، بعینہٖ جیسے ہم آج کل کے لوک شعراء کو دیکھتے ہیں جو عامی زبان اور مقامی بولی میں شعر کہتے ہیں ، مگر اپنے ہاں مقرر و معلوم اصول و ضوابط کے مطابق، اور ان اسالیب و طرق کے لحاظ سے جنھیں وہ خاص نام دیتے ہیں ، جو کسی کتاب میں مدون نہیں ہوتے، بلکہ انھیں زبانی یاد ہوتے ہیں ، خاص طور پر جب کہ لوک شعراء کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی۔
اس بات کی تائید لسان العرب کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے: ’’ابو الحسن الاخفش کے بقول قوافی میں نَصب یہ ہے کہ قافیہ عیب سے پاک اور مکمل ہو، اور اگر ایسا مجزوء (یعنی دونوں مصرعوں میں ایک ایک رکن کم والے) شعر میں ہو، تو اسے نصب نہیں کہتے، خواہ یہ قافیہ مکمل کیوں نہ ہو۔ اخفش کا کہنا ہے کہ یہ بات ہم نے [پرانے] عربوں سے سنی ہے۔ اخفش یہ بھی کہتا ہے کہ یہ خلیل کا دیا ہوا نام نہیں ہے، بلکہ یہ سب نام [جاہلی دور کے] عربوں کے رکھے ہوئے ہیں ‘‘۴۴۔ سو معلوم ہوا کہ نام اور اصول و قواعد (زمانہ ما قبلِ اسلام کے) عربوں سے اخذ کیے گئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عربوں کے ہاں شعر کے اصول و ضوابط کا علم پہلے سے موجود تھا، اور خلیل نے اپنی ذہانت اور عربوں کے علوم کی تلاش و تفحص سے عروضی قواعد کو اکٹھا کیا، اور شعراء اور شاعری کے علم اور اصطلاحات سے واقف لوگوں سے متعلقہ معلومات بہم پہنچائیں ، اور ان سب کو ملا کر عروض کا علم تشکیل دیا۔
یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ ارسطو نے شعر اور عروض (Prosody) پر ایک کتاب تالیف کی تھی۔ اس میں شعرو قصیدہ کے وزن (Metre) پر بات کی۔ نیز تفعیلات اور شعر کی اقسام کا بھی ذکر کیا۔ اس زمانے کے علماء نے اس کتاب کا مطالعہ کیا، اور سریانی لوگوں نے ظہورِ اسلام سے قبل اس کتاب کو دیکھا اور بعد از اسلام یہ کتاب عربی زبان میں بھی ترجمہ ہوئی۔ ابن الندیم لکھتا ہے: ’’بوطیقا کے بارے میں ، جس کا مطلب ہے شعر: اسے ابو بِشر مَتّٰی نے سریانی سے عربی میں منتقل کیا، اور یحییٰ بن عدی نے [بھی اس کا] ترجمہ کیا‘‘۴۵۔ کتاب الشعر کا یہ عربی ترجمہ شائع شدہ صورت میں دستیاب ہے۔ یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اہلِ عراق میں سے بابلی، نیز دیگر لوگوں نے شعر نظم کرنے اور ابیات کی تالیف و ترتیب کے قواعد و اصول وضع کیے تھے۔ بعید نہیں کہ یہ اصول و قواعد متاخر دور کے عراقیوں کے توسط سے اسلامی دور تک پہنچے، جو خلیل کے علم میں آئے، اور اسے (عربی) عروض وضع کرنے کی تحریک ملی۔
میرا خیال میں علمِ عروض کی نشات کے بارے میں قطعی رائے قائم کرنے کے لیے جاہلی دور کی ان عربی اصطلاحات کی تلاش و تحقیق ضروری ہے جو زمانۂ جاہلیت میں اور ظہورِ اسلام کے وقت رائج تھیں۔ نیز شعر کے معرضِ وجود میں آنے اور اسے نظم کرنے کے اصولوں کی جانچ پڑتال عمل میں لائی جائے، اور سامی اقوام (یعنی کلدانیوں ، عبرانیوں ) کے ہاں شعری اصطلاحات کا تتبع اور خلیل سے منسوب عربی اصطلاحات کے ناموں سے ان کا تقابل کیا جائے، تاکہ ان کے درمیان باہم تعلق کا علم ہو سکے۔ اسی طرح سامی اقوام کے ہاں شعر کی بحروں ، اس کے تفاعیل اور انھیں نظم کرنے کے اصول بھی جاننا ضروری ہیں۔ اور یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ ان اقوام کے پاس شعر نظم کرنے کے اصول و قواعد موجود تھے، جن کے مطابق شعراء اپنے اشعار نظم کیا کرتے تھے۔ ۴۶
عروض میں بحر یا بحور کے مستعمل الفاظ دورِ جاہلیت کے لوگوں کے ہاں معروف تھے۔ لغت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ اگر کوئی شاعر پُر گو ہے، تو اس کے لیے (اِستَبحَرَ) کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ۲۷ جب حارث بن معاذ بن عفراء، حسّان بن ثابت کے پاس آیا، کہ انھیں نجاشی کی ہجو میں شعر کہنے پر آمادہ کرے جس نے انصار کی ہجو کی تھی، تو حسّان نے (ارتجالاً) آٹھ شعر اسے کہہ دیے، اور پھر توقف کیا اور کافی دیر دروازے کے پاس کھڑے یہ کہتے رہے: وَاللَّہِ مَا اَبحَرتُ (لفظاً: بخدا، میں اس سمندر [بحر] میں سفر نہیں کر سکا/ کر پا رہا)۔ ۴۸ ایک تاریخی بیان یہ ہے کہ ابوبکر بن ابی قحافہ، نابغہ کو دیگر شعراء پر مقدم جانتے تھے۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’’وہ بہترین شعر کہتا ہے، خوشگوار ترین بحر منتخب کرتا ہے، اور سب سے دور تک [بحر کی] گہرائی میں جاتا ہے‘‘۴۹۔ چنانچہ اسی مفہوم سے بحر، بحور الشعر اور بحور العَروض کی اصطلاحیں اخذ کی گئیں۔
لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ شعر کے اسالیب و طرق، اس کی بحروں اور مقاصد و جہات سے پورے طور پر واقف تھے۔ وہ شعر کی اقسام اور دیگر مذکورہ امور پر اقراء الشعر کی اصطلاح کا اطلاق کیا کرتے تھے۔ ۵۰ علاوہ بریں ، وہ شعر کی تنقیح و تہذیب اور کانٹ چھانٹ کرتے رہتے تا آں کہ انھیں پورا اطمینان ہو جاتا۔ جن اشعار کو اچھی طرح مُحکَم اور مُجَوَّد (یعنی پختہ و عمدہ) نہ بنایا جاتا، اسے شعرٌ خَشِیب یا شعرٌ مخشوب (یعنی ردی، غیر صافی، کم تر شعر) کہا جاتا، جو منقَّح (خوب درست کردہ) اور مجوَّد (عمدہ بنایا گیا) کا الٹ ہے۔ جَندَل بن مُثَنّٰی کا قول ہے: [از بحرِ رجز]
قَدْ عَلِمَ الرَّاسِخُ فِي الشِّعْرِ الْاَرِبْ
وَالشُّعَرَائُ اَنَّنِيْ لاَ اَخْتَشِبْ
حَسْرَی رَذَایَاھُمْ وَلَکِنْ اَقْتَضِبْ۵۱
[شعر و شاعری کے فن سے خوب واقفیت رکھنے والا، ماہر شخص جانتا ہے، اور (خود) شعراء بھی اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ مَیں (کبھی) ردی اور کم عِیار شعر نہیں کہتا۔ (علاوہ بریں ) ان شعراء کے (تربیت یافتہ) ناقے (ذرا سے سفر میں ) نڈھال ہو کر رہ جاتے ہیں ، جب کہ مَیں ایک بن سدھائی اونٹنی پر (دور دراز کا) سفر کرتا ہوں (اور وہ تھکن کا شکار نہیں ہوتی)]۔
شعر کے اقراء سے مراد اس کے طرق و اسالیب اور اقسام ہیں۔ اس کا واحد قَروٌ اور قِريٌ ہے۔ ۵۲
إکفاء قافیے کے چھے عیوب میں سے ایک ہے۔ وہ چھے عیوب یہ ہیں : إیطاء، تضمین، إقواء، إصراف، إکفاء اور سِناد۔ فصحائے عرب إکفاء سے واقف تھے۔ یہ عیب شعر کے آخر میں واقع ہوتا ہے، اور قافیے میں اختلاف پیدا کر دیتا ہے۔ جو شاعر رَوِيّ (یعنی جس حرف پر قافیہ مبنی ہوتا ہے) کی حرکات میں اختلاف پیدا کر دے، اس کے بارے میں (اَکفَاَ)، یا (اَکفَاَ الشَّاعِرُ) کہا جاتا ہے (یعنی اس نے روي کی حرکت میں اختلاف پیدا کیا)۔ شاعر نابغہ إکفاء کیا کرتا تھا۔ اسے ٹوکا گیا، تو وہ اس عیب سے اجتناب کرنے لگا اور بعض جگہ (جہاں عیب کا مرتکب ہوا تھا) اس کی تصحیح بھی کی۔ ۵۳
إقواء بھی قافیے کا ایک عیب ہے۔ اس حوالے سے بھی نابغہ کے بارے میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب وہ یثرب آیا، اور اپنا مشہور دالیۃ (دال روي والا) قصیدہ پڑھا، تو اس پر عیب جوئی کی گئی۔ لیکن وہ عیب والی جگہ پر متنبہ نہ ہو سکا۔ عیب إقواء کا تھا۔ پھر جب مغنیہ نے اس کے قصیدے کو گایا، تو واو الوصل (جملے کو ملانے والے واو) کو ٹال گئی۔ اس پر نابغہ کو إقواء کا احساس ہوا، اور اس نے معذرت کی، اور (جیسا کہ روایت میں آیا ہے) عیب کو یوں بدل دیا: [بحرِ کامل]
وَبِذَاکَ تَنْعَابُ الْغُرَابِ الْاَسْوَدِ۵۴
[۔۔۔ اور کالے کوّے نے اس بات (یعنی سفر اور جدائی) کی خبر دی ہے۵۵]
پھر گویا ہوا: ’’میں یثرب میں آیا تو میری شاعری میں (ایک طرح کا) تصنع تھا۔ اب جب کہ میں واپس جا رہا ہوں تو اشعر العرب (عرب کا سب سے بڑا شاعر) ہو کر‘‘۵۶۔ بِشر بن ابی خازم بھی اپنے شعروں میں إقواء کیا کرتا تھا۔ ۵۷ اس کے بھائی نے (اس پر گرفت کی اور) کہا کہ تو إقواء کرتا ہے۔ ۵۸
ایک طرف مؤرخین نابغہ کو إکفاء اور إقواء کا مرتکب گردانتے ہیں ، نیز یہ کہ وہ تنبیہ کے باوجود اس کا ادراک نہ کر سکا، تا آں کہ اہلِ یثرب نے بہانے سے إقواء کی طرف توجہ دلائی، تو اسے عیب کا علم ہوا، اور وہ وہاں سے یہ کہتا روانہ ہوا کہ: میں یثرب آیا تو میرے شعروں میں تکلف تھا۔ اب جب کہ واپس جا رہا ہوں تو (اشعر العرب) بن کر، تو دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ ابو ذَکوان، جو شعر کی خوب پرکھ رکھنے والا شخص تھا، نابغہ کے بارے میں کہتا ہے: ’’میں نے اس سے زیادہ شعر کے سلسلے میں کسی کو با علم نہیں پایا۔ نیز یہ بھی کہا کہ: اگر کوئی فصیح و بلیغ لکھاری ان معانی کو بیان کرنا چاہے جو نابغہ نے نظم کیے ہیں ، تو اس کے کلام سے کئی گنا زیادہ لکھنا پڑے گا۔ وہ نابغہ کی شاعری کو باقی سارے شعراء کے اشعار پر افضل گردانتا تھا‘‘۔ ۵۹، ۶۰
إقواء یہ ہے کہ حرفِ روی کی حرکات میں اختلاف ہو۔ کچھ مرفوع (یعنی نحوی لحاظ سے پیش والے) ہوں ، کچھ منصوب (نحوی لحاظ سے زبر والے) اور کچھ مجرور (نحوی لحاظ سے زیر والے)۔ (یہ بھی) کہا گیا کہ شعر کے عَروض (یعنی پہلے مصرع کے آخری رکن) کے اندر موجود فاصلہ میں ایک حرف کی کمی کو إقواء کہتے ہیں۔ (اَقوَی فِي الشِّعر)کا مطلب ہے قوافی میں اختلاف پیدا کرنا۔ (نیز یہ بھی) کہا گیا کہ ایک شعر میں رفع اور دوسرے میں جرّ کو إقواء کہتے ہیں۔ کلامِ عرب میں إقواء کثرت سے پایا جاتا ہے، مگر رفع اور جر کے اجتماع کی صورت میں۔ تاہم، اختلافِ صوت کے لحاظ سے إقواء کا عیب بھی عربوں کے کلام میں اکثر موجود ہے۔ ۶۱ ’’ابو عَمرو بن العَلاء کا کہنا ہے کہ إقواء قوافی میں نحوی اعراب کے اختلاف کو کہتے ہیں ، یعنی ایک قافیہ مرفوع ہو اور دوسرا مجرور، جیسے نابغہ کے ان شعروں میں : [بحرِ بسیط]
قَالَتْ بَنُوْ عَامِرٍ: خَالُوْا بَنِيْ اَسَدٍ یَا بُؤْسَ لِلْجَھْلِ ضَرَّاراً لِاَقْوَامِ
[بنو عامر کہتے ہیں کہ بنو اسد کو چھوڑ دو (اور ان کے حلیفوں کو نکال باہر کرو)۔ برا ہو اس جہالت کا، جو قوموں کے لیے سمِّ قاتل ہے۔ ]
اسی قصیدے میں وہ کہتا ہے:
تَبْدُوْ کَوَاکِبُہُ وَالشَّمْسُ طَالِعَۃٌ لَا النُّوْرُ نُوْرٌ، وَلَا اْلإِظْلاَمُ إِظْلاَمُ‘‘۶۲
[سورج سر پر ہے، لیکن (جنگ سے اڑنے والے غبار کی شدت نے وہ تیرگی پھیلائی ہے کہ) دن میں ستارے نمایاں ہو رہے ہیں (یعنی گرد و غبار میں تلواریں چمک دکھا رہی ہیں )۔ نہ روشنی روشنی ہے، اور نہ تیرگی تیرگی۔ ]
[پچھلے شعر کا قافیہ زیر کے ساتھ (مجرور) آیا ہے، اور دوسرے شعر میں پیش کے ساتھ (مرفوع)۔ ]
’’بعض لوگ اسے إکفاء کہتے ہیں ، اور ان کے خیال میں شعر کے اندر فاصلہ میں ایک حرف کی کمی إقواء کہلاتی ہے، جیسے حَجل بن نَضلَہ کے ان اشعار میں ، جس نے عَمرو بن کُلثوم کی بیٹی نوار کو قیدی بنایا اور اسے لے کر صحرا میں سفر کیا: [بحرِ کامل]
حَنَّتْ نَوَارُ، وَلاَتَ ھَنَّا حَنَّتِ وَبَدَا الَّذِيْ کَانَتْ نَوَارُ اَجَنَّتِ
لَمَّا رَاَتْ مَائَ السَّلاَ مَشْرُوْباً وَالْفَرْثَ یُعْصَرُ فِي اْلإِنَائِ، اَرَنَّتِ
[نوار (اپنے گھر کی حضری زندگی کی طرف لوٹنے اور عزیزوں سے ملنے کے لیے) شدّتِ شوق سے تڑپ اٹھی۔ وہاں (صحرا کی ریگِ رواں کے اندر) وہ اس شوق کا اظہار نہ کرتی (تو بہتر تھا، کہ) اپنے بدن کا جو کچھ حصہ اس نے ڈھانک رکھا تھا، وہ (اس کی اس تڑپ اور بے تابی کے دوران) نمایاں ہو گیا۔ (پھر صحرا کی تلخ و ترش زندگی میں ) جب اس نے دیکھا کہ اونٹنی کے جنین کی جھلّی کا پانی پینا پڑ رہا ہے، اور (اوجھ سے نکالے گئے) گوبر کو برتن میں نچوڑ کر پانی حاصل کیا جا رہا ہے، تو وہ (ناز و نعم کی پروردہ لڑکی) پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ]
اسے إقواء کا نام دیا گیا، کیوں کہ اس نے عَروض (یعنی پہلے مصرع کے آخری رکن) کی قوت کم کر دی ہے۔ [إقواء کے لُغوی معانی میں خالی اور محتاج ہونا، نیز رسی (حبل) کو کہیں سے موٹا اور کہیں باریک بٹنا شامل ہیں ]۔ اگر (شعر میں مشروباً کی جگہ) مُتَشَرَّباً پڑھا جائے تو مصرع درست ہو جاتا ہے۔ ۶۳
ابو العلاء المَعَرّي نے رسالۃ الغفران میں إقواء (اور اس جیسے دیگر عیوب) پر بھی بات کی ہے۔ وہ (اپنے فکری سفر کے دوران) اِمرَؤُ القیس سے إقواء کے بارے میں دریافت کرتا ہے، اور پھر اسی کی زبانی جواب دیتا ہے۔ معری اس سے کہتا ہے: ’’[یہ شعر] کیسے پڑھا جائے گا: [بحرِ کامل]
جَالَتْ لِتَصْرَعَنِيْ فَقُلْتُ لَھَا: اقْصِرِيْ
إِنِّيْ امْرُؤٌ صَرْعِيْ عَلَیْکِ حُرَامُ
[اونٹنی نے (پھرتی سے بھاگ کر یوں ) چکر کاٹا کہ جیسے مجھے گرا دے گی۔ تو میں نے اس سے کہا: ایسا مت کرو (سنبھلو)، کہ میں وہ شخص ہوں جسے گرانا تمھارے لیے روا نہیں۔ ]
کیا تم حرامُ پڑھو گے، اور إقواء کرو گے؟ یا حرامِ کہو گے، اور حَذَامِ اور قَطَامِ کے ساتھ قافیہ درست رکھو گے؟ دوسری ریاست کے بعض علماء کے خیال میں إقواء تمھارے لیے جائز قرار نہیں پاتا۔ امرؤ القیس [جواب میں ] کہتا ہے: ہمارے نزدیک إقواء کرنے میں کوئی حرج نہیں ‘‘۔ ۶۴ اس (تخیلاتی گفتگو) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معری کے نزدیک جاہلی دور میں شعراء کے ہاں إقواء ناپسندیدہ نہیں تھا، بلکہ اسلامی دور میں اسے عیب گردانا گیا۔
إیطاء بھی علمائے شعر کے ہاں ایک اصطلاح ہے۔ ان کے ہاں اَوطَاَ کا مطلب ہے لفظاً اور معناً ایک قافیے کو دہرانا، بایں طور کہ قافیہ معرفہ اور نکرہ ہونے کے لحاظ سے بھی یکساں ہو۔ اگر لفظ ایک ہو اور معنی مختلف تو إیطاء نہیں ہو گا، اور اسی طرح معرفہ اور نکرہ کا اختلاف واقع ہو تب بھی۔ بعض کے نزدیک إیطاء اس لفظ کے دوبارہ لانے کو کہتے ہیں جسے ایک دفعہ قافیہ بنایا جا چکا ہو، جیسے ایک قافیہ لفظ رجل ہو، اور دوسرا بھی رجل۔ یہ عربوں کے ہاں بلا اختلاف عیب سمجھا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کبھی اس عیب کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں إیطاء کو قبیح سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ إیطاء شاعر کے پاس مواد (یعنی الفاظ اور موضوعات) کی کمی پر دلالت کرتا ہے، جس کے سبب وہ اپنے قصیدے میں ایک قافیہ لفظاً اور معناً دہرانے پر مجبور ہوا، اور یہ بات ان کے نزدیک (کلام میں ) عجز اور (طبع میں ) رکاوٹ کے مترادف ہے۔ إیطاء کے اصل معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے راستے میں پھر سے اسی جگہ پر قدم رکھتے ہوئے چلے جو پہلے بھی زیرِ قدما چکی ہو۔ قافیے کی تکرار کا مفہوم اسی سے متبادر ہے۔ ابو عَمرو بن العَلاء کے خیال میں : ’’إیطاء عربوں کے نزدیک عیب نہیں ، اور یہ قافیے کے دوبارہ لانے کو کہتے ہیں ‘‘۔ ہاں ، اگر قصیدے میں إیطاء کثرت سے وارد ہو، تو عیب ہو گا۔ ۶۵
تضمین کا حامل شعر وہ ہے جس کے معنی اگلے شعر میں پہنچ کر پورے ہوں۔ (تضمین کی حیثیت) کے بارے میں علماء کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عیب ہے، جب کہ دیگر اسے عیب شمار نہیں کرتے۔ مؤخر الذکر اصحاب کے مطابق عرب دو وجہ سے تضمین کو سے جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ دو وجوہ سماع اور قیاس ہیں۔ سماع اس لحاظ سے کہ تضمین عربوں کے ہاں کثرت سے وارد ہوئی ہے، اور قیاس اس لیے کہ عربوں نے شعر کو اس انداز پر وضع کیا کہ تضمین ان کے نزدیک جائز قرار پائے۔ تاہم، جو لوگ تضمین کے جواز کے قائل نہیں ، بلکہ اسے قبیح سمجھتے ہیں ، ان کی دلیل یہ ہے کہ قصیدے کا ہر شعر قائم بالذات ہوتا ہے، (جب کہ تضمین سے پچھلا شعر اگلے کا محتاج ہو جاتا ہے)۔ اس لیے تضمین ان کے نزدیک قبیح قرار پاتی ہے۔ اس سلسلے میں علمائے شعر نابغہ اور دیگر شعراء کے ہاں سے تضمین کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ۶۶ جب کہ غیر عرب سامی اقوام، نیز آریائی قوموں کے ہاں یہی تضمین ایک معروف و مقبول چیز ہے۔ ان کے شعروں میں معانی اس طرح آپس میں مربوط ہوتے ہیں کہ ایک شعر کا مطلب دوسرے کے ساتھ ملائے بغیر واضح نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کے ہاں قطعے (بند/ stanza) یا قصیدے (نظم/ poem) کے اشعار ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں ، خاص طور پر رزمیہ داستانوں (epics) اور غنائی شاعری (lyrical poetry) میں۔
شعر میں إصراف یہ ہے کہ اس میں إقواء در آیا ہو، اور قوافی میں باہم (اعرابی حرکت کا) اختلاف واقع ہو۔ ۶۷ جب کہ سِناد (حرفِ روی سے پہلے آنے والے متصل حرفِ مد) رِدف کے اختلاف کو کہا جاتا ہے۔ اخفش کا کہنا ہے: ’’جہاں تک میں نے عربوں سے سِناد کے بارے میں سنا ہے، وہ شعر کے آخر میں کسی بھی بے قاعدگی کو سِناد کا نام دیتے ہیں ، اور اس میں کوئی شرط لاگو نہیں کرتے۔ یہ سِناد عربوں کے نزدیک عیب گردانا جاتا ہے‘‘۔ ایک شاعر نے سِناد کی جانب یوں اشارہ کیا ہے: [بحرِ بسیط]
فِیْہِ سِنَادٌ وَإِقْوَاءٌ وَتَحْرِیْدُ۶۸
[(فلاں شخص کے) شعر میں سِناد، إقواء اور تحرید پائی جاتی ہے۔ ]
کسی شے کی تحرید سے مراد اُسے ٹیڑھا کرنا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ سِناد قوافی میں حرفِ رِدف کا اختلاف ہے، بایں صورت کہ ایک قافیے میں (یائے لین کے ساتھ]) عَلَیْنَا کہا جائے اور دوسرے میں (یائے معروف سے) فِیْنَا۔ ۶۹
جاحظ اوتاد، اسباب، خَرم اور زِحاف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’خلیل نے جس انداز پر قصیدے کے اوزان وضع کیے، نیز ارجاز۷۰ اور بحروں کے نام رکھے، عرب شعر کے ارکان کو اِن ناموں سے نہیں جانتے تھے، نہ وہ اوزان ہی کو یہ نام دیا کرتے تھے جیسے خلیل نے بحروں کو نام دیے کہ یہ بحرِ طویل ہے اور یہ بسیط، یہ بحرِ مدید اور یہ وافر، اور یہ بحرِ کامل یا ان جیسی دیگر بحور، یا جیسے وہ اوتاد، اسباب، خرم اور زحاف وغیرہ کا ذکر کرتا ہے۔ عرب اپنے اشعار میں سِناد، إقواء اور إکفاء کا ذکر کرتے ہیں۔ إیطاء کے بارے میں مَیں نے نہیں سنا۔ [اسی طرح] وہ قصیدۃ، رَجَز، سجع اور خطبۃ، نیز حرفِ روي اور قوافی کا بھی ذکر کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں : یہ بیت (شعر) ہے اور یہ مصراع (مصرع)‘‘۔ ۷۱
علمائے شعر نے شاعر کے لیے وہ ضرورت جائز قرار دی ہے جو نثر نگار کے لیے مباح نہیں۔ اسے وہ (ضرورتِ شعری) کا نام دیتے ہیں اور اس ضمن میں کچھ مثالیں بھی پیش کرتے ہیں ، جن میں سے بعض کے بارے میں وہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں ، جب کہ دیگر کے لیے اِعراب میں کوئی گنجائش نکالتے ہیں ، اور چند ایک امور کو اعرابی لحاظ سے (قطعی طور پر) عیب شمار کرتے ہیں۔ ۷۲ المزھر میں درج ہے کہ: ’’شعراء کلام کے سردار ہوتے ہیں۔ وہ ممدود کو مقصور اور مقصور کو ممدود کر لیتے ہیں۔ وہ تقدیم اور تاخیر کو بروئے کار لاتے ہیں۔ إیماء، کنایۃ اور اشارے سے کام لیتے ہیں۔ نیز ایک شے کو (مجازاً) دوسرا نام دیتے ہیں ، اور استعارۃ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اعراب میں غلطی، یا لفظ کا نادرست استعمال ان کے لیے روا نہیں ہے‘‘۔ ۷۳
بروکلمان عروض کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’اگرچہ قدیم شعراء کے ہاں عروض کے سلسلے میں ہمارے پاس مواد ناکافی ہے، لیکن اس کے باوجود آج ہم یہ بات بطور حقیقتِ واقعہ کَہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں فن مضبوط بنیادوں پر استوار تھا۔ شعرائے متقدمین کے بعض قصائد میں یقیناً ایسے اشعار ملتے ہیں جو اس عروض سے سے خارج دکھائی دیتے ہیں جسے خلیل بن احمد نے وضع کیا، یا جو کچھ سعید بن مَسعَدۃ الاخفش نے عروض پر اپنی کتاب میں درج کیا، جیسے مرقَّش الاکبر، عَبِید بن الابرص، عَمرو بن قمیۂ، امرؤالقیس اور سُلمِی بن ربیعۃ کے قصائد سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کم تر شواہد سے اس مختصر تشکیلی مرحلے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کے بارے میں ہمیں ابھی تک واقفیت بہم نہیں پہنچی۔
’’بعد [یعنی متاخر دور] کے شعراء نے عربی عروض کے قواعد و ضوابط سے نجات پانے کی بہت کوششیں کیں ، لیکن بہت کم ان کی خلاف ورزی کر سکے۔ ‘‘۷۴
الإکلیل میں الحسن بن احمد بن یعقوب الھمداني عربی شاعری، عروضی قوانین اور علمِ عروض کے تسلط سے شعراء کی بغاوت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سعید بن ابحر الہمداني (جو ایک موزوں طبع بدو شاعر تھا) نے مجھے کچھ [ایسے] شعر سنائے [جو مروجہ بحور سے ہٹ کر ہیں ]: [اصل کتاب کی عدم دستیابی کے سبب ان اشعار کا مفہوم اپنے سیاق کے لحاظ سے پورے طور پر واضح نہ ہو سکا۔ سو، ان کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ ]
یَا سَمْعُ، یَا بَصَرِيْ، لَوْ جَائَ کُمْ خَبَرِيْ
لَکَانَ فِيْ عُذْرِ نَاعٍ عَلَی کُوْرٖ
وَفِيْ بَنِيْ عَامِرٍ نَاعٍ عَلَی خَاطِرٍ
وَفِيْ قِرَی صَافِرٍ حُزْنٌ وَتَثْبِیْرُ
(فخر و مباہات اور شجاعت و تہور کا بیان کرنے والے) خاص جاہلی مزاج کے شعرا کا شعر کے زحافات میں اپنا ایک مسلک تھا جسے آج کل لوگ نا پسند کرتے ہیں ، جیسے عَلقَمَۃ کا قول ہے: [بحرِ طویل]
وَمِنَّا الَّذِيْ یُوْدِيْ بِسَبْعَۃِ آلاَفٍ غُلاَماً صَغِیْراً مَا یَشُدُّ إِزَارَا
[اور ہم میں سے وہ بھی ہے جو اتنا چھوٹا ہے کہ تہ بند تک نہیں باندھ سکتا، مگر وہ سات ہزار لشکریوں کو ٹھکانے لگا دیتا ہے۔ ]
[اس شعر میں عروض (پہلے مصرعے کے آخری حصے) اور ضرب (دوسرے مصرعے کے آخری حصے) کو برابر رکھا گیا ہے، در آں حالے کہ بحرِ طویل میں عروض اور ضرب ہم قافیہ (مصرَّع) ہوئے بغیر بطور رکنِ صحیح (مفاعیلن) نہیںا سکتے۔ ایسا صرف قصیدے کے مطلعے میں ہوتا ہے۔ ]
اور علقمہ ہی کا قول ہے: [بحرِ بسیط]
کَاَنَّ بِہِ سَیِّدٌ حُلاَحِلٌ تَصِرُّ مِنْ دُوْنِہِ الطُّرُوْقُ
[وہ ایک ایسا بہادر سردار ہے جس کا نام سن کر (لوگ ایک طرف، گھروں تک کے) دروازے (خوف سے کانپنے، یعنی) چرچرانے لگتے ہیں۔ ]
[یہ شعر بحرِ بسیط مخلّع میں ہے، یعنی ہر مصرعے میں ایک ایک رکن کے حذف کے ساتھ چھے رکنی (مسدس) بحر، جس کا تیسرا اور چھٹا رکن (مستفعلن) کی بجائے کر خبن اور قطع کے ساتھ مزاحف ہو کر (فعولن) آتا ہے۔ جب کہ یہاں پہلے مصرعے میں یہ مفاعلن (حُلاَحِلٌ) آیا ہے۔ ]
ایامِ جدیس (عربوں کی ایک قدیم جنگ) کے بارے میں لکھے گئے حِمیَری شاعر کے قصیدے کا نصفِ اول ایک روی میں ہے، اور نصفِ آخر دوسرے روی میں : [اس کی بحر غیر واضح ہے]
لِلَّہِ عَیْناً مَنْ رَاَی حَسَّانَ قَتِیْلاً فِيْ سَالِفِ الاَحْقَابِ
[بخدا وہ آنکھ کیا آنکھ ہو گی جس نے پچھلے زمانے میں حسان کو مقتول دیکھا ہو گا۔ ]
مالک بن الحُصَیب اللغوي کے شعر بھی اسی قبیل کے ہیں ، جو (حلفِ ربیعہ) کے بارے میں ہیں : [شعر ٹھیک منقول نہ ہونے، اور اصل کتاب کی عدم دستیابی کے باعث محض پہلے مصرعے کی بحر واضح ہے، یعنی بحرِ کامل، جس کے آخر میں (جیسا کہ نیچے مذکور ہے) دو حرف زائد ہیں۔ جب کہ دوسرا مصرع بحر کے لحاظ سے مختل ہے۔ ترجمہ بھی سیاق و سباق غیر واضح ہونے کی وجہ سے کسی قدر تخمینی ہے۔ ]
اَنَا مَالِکٌ، وَاَنَا الَّذِيْ جَدَّدْتُ حِلْفاً لِکِنْدَۃَ قَبْلَنَا قَدْ کَانَ سَلَفَا
[میرا نام مالک ہے، اور میں ہوں جس نے اس معاہدے کی تجدید کی جو بہت پہلے طے ہوا تھا (اور قریب تھا کہ ختم ہو جائے)۔ ]
اس کے وزن میں دو حرف زائد ہیں۔ ۷۵
ہمدانی کی کتابوں میں ، اور اس کے علاوہ (دیگر مؤلفین کے ہاں ) وارد ہونے والے شعری ذخیرے، خاص طور پر یمن کے قدیم شعرا، اور دیگر یمنی، نیز عمومی لحاظ سے جنوبی عربوں نے جو اپنے خاص اسلوب میں شعر نظم کیے، مستقبل میں ان کا مطالعہ علمی دنیا پر یقیناً ایک بڑا احسان ہو گا، اور اس سے جاہلی دور کی شاعری کے بارے میں علماء کے حالیہ نظریات تبدیل ہو سکتے ہیں۔
شعری دواوین اور ادبی کتب میں اس بات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ شعراء نے (معروف) عروضی یا نحوی قواعد کی خلاف ورزی کی۔ مثال کے طور پر امرؤالقیس کا یہ قول کہ: [بحرِ طویل]
کَاَنَّ اَبَاناً فِيْ اَفَانِیْنِ وَدْقِہِ کَبِیْرُ اُنَاسٍ فِيْ بِجَادٍ مُزَمَّلُ
[موسلا دھار بارش میں اَبان پہاڑ [اپنی روئیدگی سمیت] یوں لگ رہا تھا جیسے [سردی سے ٹھٹھرتے] کسی بوڑھے شخص نے دھاری دار، منقّش چادر اوڑھ رکھی ہو۔ ]
اس شعر کے آخر میں لام مضموم ہے، جب کہ پورے قصیدے میں یہ (حرفِ روی) مکسور ہے۔ ۷۶ اسی طرح کچھ دیگر عیوب بھی ہیں جو امرؤالقیس کی شاعری میں پائے جاتے ہیں۔ ۷۷ عَبِید بن الابرص کے قصیدے میں ہے: [بحرِ بسیط]
اَقْفَرَ مِنْ اَھْلِہَ مَلْحُوْبُ فَالْقُطَّبِیَّاتُ فَالذَّنُوبُ
[پہلے ملحوب، پھر قطبیات اور ذَنوب اپنے باسیوں سے خالی ہو گئے۔ ]
یہ قصیدہ بحرِ بسیط مخلّع میں ہے۔ اس میں شاید ہی کوئی شعر ایسا ہو جو تفاعیل (ارکان) میں کمی بیشی سے بچا ہو۔ ۷۸مرقَّش الاکبر کا قصیدہ، جس کا مطلع ہے: [بحرِ سریع]
ھَلْ بِالدِّیَارِ اَنْ تُجِیْبَ صَمَمْ لَوْ کَانَ رَسْمٌ نَاطِقاً کَلَّمْ
[کیا (احباب سے خالی ہو جانے والے) دیار اس لیے جواب نہیں دے رہے کہ وہ سنتے نہیں ؟ (نہیں ، ایسا بالکل نہیں ! وہ ضرور سنتے ہیں ، مگر بول نہیں سکتے، اور) اگر یہ آثار بول سکتے تو (ضرور) جواب دیتے۔ ]
یہ قصیدہ بحرِ سریع میں ہے، اور اس کے کئی مصرعہ جات وزن کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، جیسے ذیل کے شعر کا دوسرا مصرع:
مَا ذَنْبُنَا فِيْ اَنْ غَزَا مَلِکٌ مِنْ آلِ جَفْنَۃَ حَازِمٌ مُرْغِمْ
[اس میں ہماری کچھ خطا نہ تھی (جو تیاری کے باوجود ہم دھوکا کھا گئے)، کہ آلِ جفنہ کے ایک باتدبیر اور زبردست بادشاہ نے ہم پرا حملہ کیا تھا؟!]
۔۔۔ جو بحرِ کامل کے وزن میں ہے۔ ۷۹ اسی طرح عدي بن زید بن العبادي کے اشعار میں بھی گڑبڑ بیان کی جاتی ہے، جس میں وہ بحرِ سریع سے بحرِ مدید کے وزن میں جا پڑا۔ ایسے ہی سُلمِي بن ربیعۃ کے نونیہ قصیدے کی مثال ہے:
إِنَّ شِوَاءً وَنَشْوَۃً وَخَبَبَ الْبَازِلِ الْاَمُوْنِ
[بلا شبہہ بھنا ہوا گوشت اور شراب، اور پختہ عمر کی، آزمودہ کار اونٹنی کی دو گامی چال۔۔۔ ]
یہ قصیدہ خلیل کے وضع کردہ عروض کے خلاف پڑتا ہے۔ ۸۰
وزن کا یہی اضطراب عدي بن زید بن العبادي کے قصیدے میں دیکھا جا سکتا ہے: [بحرِ سریع]
تَعْرِفُ اَمْسِ مِنْ لَمِیْسَ الطَّلَلْ مِثْلَ الْکِتَابِ الدَّارِسِ الاَحْوَل۸۱
[لمیس سے جدائی کے عرصہ بعد تمھارا جب اِدھر سے گزر ہو گا، تو اس دیار کے کھنڈر بن جانے والے آثار ہی دیکھ پاؤ گے، بعینہٖ جیسے سال بھر کی مٹ چکی عبارت کے محض نشانات باقی رہ جاتے ہیں۔ ]
یہ بحرِ سریع کے وزن میں ہے، جب کہ اس کے بعض مصرعہ جات اس وزن سے ہٹ کر ہیں ، جیسے مندرجہ ذیل شعر کا دوسرا مصرع:
اَنْعِمْ صَبَاحاً، عَلْقَمَ بْنَ عَدِيْ اَثَوَیْتَ الْیَوْمَ اَمْ تَرْحَلْ
[اے علقم بن عدی! صبح بخیر ہو۔ کیا تمھارا آج کے دن ٹھہرنے کا ارادہ ہے یا کوچ کر جانے کا؟]
۔۔۔ جو بحرِ مدید میں جا پڑا ہے۔ ۸۲
یہ اور اس قسم کے دیگر شواہد ایک خاص مطالعے کے متقاضی ہیں۔ ان اشعار کی اہمیت اس بات میں پنہاں ہے کہ یہ جاہلی دور میں عروض کے ارتقاء کے بارے میں ایک متعین علمی رائے قائم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بات معقول نہیں ہے کہ جاہلی دور کے شعراء اُن امور سے غافل رہے ہوں جنھیں اسلامی دور کے علماء نے وزن کا اضطراب اور قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اگر ہم وزن کی اس خلاف ورزی کا دیگر سامی اقوام کے ہاں وزنِ شعر سے تقابل کریں ، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلاف ورزی نہیں ہے، کیوں کہ ایک شعر کو پورے قطعے یا قصیدے کے وزن میں نہیں رکھا گیا، بلکہ وہ شعر کے وزن میں محدود رہتے تھے۔ چنانچہ قطعہ یا قصیدہ ان کے ہاں ایک خاص ترتیب کے ساتھ کسی نغمے یا وزن میں ہوتا تھا، خواہ ایک بحر سے تیار ہوا ہو یا ایک سے زائد بحروں سے۔ اور شاید یہی جاہلی دور کے ہاں قصیدے کا انداز رہا ہو گا۔ پھر (اوزان و بحور کے) ان اضطرابات سے اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ جاہلی دور کے عروض میں ایسی چیزیں بھی تھیں جو خلیل کے علم میں نہیں آئیں۔ نیز یہ بات بھی کہ اسلامی دور کا عروض جاہلی دور کے پورے عروض کی نمائندگی نہیں کرتا۔
خلیل کی عروض پر ایک کتاب بھی ہے، جس کا نام (کتاب العَروض) بتایا جاتا ہے، جو مفقود ہے۔ یہ اس موضوع پر لکھی گئی پہلی کتاب ہے، اور غالب گمان ہے کہ اس کا نام یہی ہے۔ خلیل کی ایک دوسری کتاب (کتاب النَّغَم) ہے۔ ایک اور کتاب (کتاب الإیقاع) کے نام سے ہے۔ ایک کتاب (کتاب الشواہد) ہے۔ اسی طرح ایک (کتاب النَقْط والشَّکْل) کے عنوان سے ہے، اور ایک (کتاب فائت العین) کے نام سے۔ ۸۳
ابوالحسن سعید بن مسعدۃ الاخفش (215ھ، 221ھ)، جو سِیبوَیہ کے ساتھیوں میں سے تھا، اس کی بھی عروض پر ایک کتاب ہے جس نام (کتاب العَروض) ہے۔ ۸۴
خلیل زبان کے بارے میں اپنی وسعتِ علم کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے، اور عربی زبان کی پہلی لغات اسی کے نام منسوب کی جاتی ہے، جس کا نام (کتاب العین) ہے۔ اس میں حروف کو حلق اور حلق کے کوے سے نکلنے والے مخارج پر ترتیب دیا گیا ہے۔ ۸۵یہ ترتیب، جیسا کہ بعض مستشرقین کا احتمال ہے، خلیل نے سنسکرتی حروف ابجد کی ترتیب سے اخذ کی، جس تک رسائی کا توسط خراسان (کا علاقہ) بنا جو ہندی ثقافت سے گہرا ربط رکھتا تھا۔ ۸۶ بعض علماء (کتاب العین) کو خلیل کی تالیف قرار نہیں دیتے، بلکہ اس کی نسبت لیث بن نصر السیّار الخراساني سے کرتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ خلیل نے (کتاب العین) کے شروع سے لے کر حرفِ غین تک کا ایک جز مرتب کیا تھا، اور لیث نے اس کی تکمیل کی۔ اسی وجہ سے اس کتاب کا آغاز اس کی انتہا سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ۸۷
ہند کے لوگ شعر سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ ان کی دینی کتب شعر میں منظوم ہوئیں۔ البیرونی نے، جو ہندوستان کے بارے میں وسیع معلومات رکھتا تھا، (اہلِ ہند کے شعر سے) اس شدید لگاؤ کو محسوس کیا، اور لکھا کہ: ’’بیش تر اہلِ ہند اپنی منظوم چیزوں سے شدید محبت رکھتے ہیں ، اور ان کو پڑھنے کا التزام کرتے ہیں ، خواہ ان کے معنوں سے محض لا علم ہوں۔ وہ [لَے میں ] شعر پڑھنے پر خوشی سے انگلیاں چٹخانے لگتے ہیں ، جو پسندیدگی کی علامت ہے۔ وہ نثری کلام کی طرف مائل نہیں ہوتے، خواہ اسے جاننا، سمجھنا آسان کیوں نہ ہو‘‘۔ وہ اپنے اشعار ایک کسوٹی پر پرکھتے تھے، اور (انھوں نے) ’’شعر کی ساخت کے سانچے بنا رکھے تھے۔ متحرک اور ساکن حروف کے لیے [الگ الگ] حسابی علامتیں تھیں ، جن کے ذریعے وہ موزوں کلام کہتے تھے۔ [خود] ’ہند‘ کا لفظ بھی خفیف [لگھو] اور ثقیل [گرو] حرفوں سے بنا ہے‘‘، جن سے وہ اپنے تصور کردہ اوزان کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ ۸۸ سو اگر اہلِ ہند کے ہاں (مقررہ) تفعیلات تھے، جن سے وہ شعر کو پرکھتے تھے، اور جو خلیل کے تفعیلات سے زیادہ قدیم عہد سے تعلق رکھتے ہیں ، تو کیا ممکن نہ ہو گا کہ خلیل نے اپنے تفعیلات ان ہندی تفعیلات سے اخذ کیے ہوں ، جب کہ ہند اور الاَبُلَّۃ (جو اسلامی دور میں بصرہ کہلایا) کے مابین قدیمی روابط رہے ہیں۔ نیز اہلِ ابلَّہ میں بہت سے باشندے ہند سے (نقل مکانی کر کے) وہاں ا بسے تھے۔
جب اہلِ علم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خلیل ہی عروض کی معروف بحروں کا موجد ہے، وہی ان کے وزن متعین کرنے والا ہے، اور پھر یہ کہ وزن کے معیارات کی بنیاد کہ جن پر بحور کو جاننے کے لیے شعر پرکھے جاتے، وہ سب (ف ع ل) سے تشکیل پائے ہیں ، تو لازم ہے کہ یہ نام خلیل کا اپنا اختراع کیا ہوا ہو۔ مجھے کو
ئی شخص ایسا نہیں ملا جو اس امر کی (مناسب) وضاحت پیش کر سکا ہو کہ خلیل نے یہ معیار کیوں کر ایجاد کیا؟ اور اسے کس لیے اس خاص نام سے موسوم کیا؟ میری نظر میں اس موضوع کو اہمیت دینا، اور اہلِ ہند کے ہاں پائے جانے والے شعری اوزان کا مطالعہ کرنا ایک قابلِ ستائش کام ہو گا۔ یوں ان کے پیمانہ ہائے شعر کے بارے میں مکمل واقفیت کا حصول ممکن ہو گا، (اور اس بات کا علم ہو سکے گا کہ) عربی تفعیلاتِ شعر کا اہلِ ہند کے شعری تفعیلات کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے۔ (اسی طرح) ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ ابن جِنّی، تفعیل سے شعر کی تقطیع بھی مراد لیتا تھا، کیوں کہ شعر کا وزن ان اجزاء یا ارکان سے کیا جاتا ہے جن کا مادہ یا بنیادی حروف (ف ع ل) ہیں۔ ۸۹
حواشی
۱۔ ڈاکٹر جواد علی (1907-1987ء) دورِ جدید کے ابتدائی عراقی محققین و مؤرخین میں سے تھے۔ ہمبرگ یونیورسٹی، جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عراقی مقتدرۂ عربی زبان (مجمع اللغۃ العربیۃ العراقیۃ) کے بانی رکن تھے۔ بغداد یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ ہارورڈ یونیورسٹی، امریکا میں بھی بطور زائر استاد (وزیٹنگ پروفیسر) پڑھاتے رہے۔ ان کی مطبوعہ کتابوں میں عربوں کی قبل از اسلام تاریخ پر دو تصنیفات (متوسط در ہشت مجلد، اور مفصل در دہ مجلد)، تاریخ العرب في الإسلام، اور اصنام العرب شامل ہیں۔ وہ تاریخ نگاری میں جرمن مؤرخ Leopold von Ranke کے پیروِ مسلک تھے، جو تاریخی واقعات کو بالکل اسی طرح بیان کرنے کا قائل تھا جیسے وہ وقوع پذیر ہوئے۔ ڈاکٹر جواد علی کے خیال میں مؤرخ کا اپنے جذباتی اور مذہبی میلانات، نیز کسی خاص مکتبۂ فکر کے ساتھ بے لچک وابستگی کو اپنی تاریخ نگاری سے الگ رکھنا ضروری ہے۔ ان کے نزدیک حکومت کا تاریخ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ایک گھناؤنا فعل ہے، جس کی وجہ سے یقیناً تاریخ کو شک کی نظر سے دیکھا گیا اور بڑی حد تک وہ جھوٹ کا پلندہ بھی بن کر رہ گئی۔ موجودہ دور میں بھی سیاسی نقطۂ نظر کے تحت لکھی جانے والی تاریخ، نیز جنگی واقعات اور ذاتی معاملات کے بیان میں کذب و افترا کا سلسلہ خاص طور پر جاری ہے۔
۲۔ تاج العروس (41/5)، (عرض)۔
۳۔ اللسان (184/7)، (عرض)۔
۴۔ الخوارزمی، مفتاح العلوم (51)۔
۵۔ ابو العَلاء المَعَرِّي کے بقول: [از بحرِ بسیط]
اَلْحُسْنُ یَظْہَرُ فِي الْبَیْتَیْنِ رَوْنَقُہُ :: بَیْتٌ مِنَ الشَّعْرِ وَبَیْتٌ مِنَ الشِّعْرِ
[حسن کی چمک دمک دو ’بیتوں ‘ میں ظاہر ہوتی ہے: اونٹ کے بالوں سے بنے ترپال کے بیت (خیمے) کے اندر اور شعر کے (دو مصرعوں والے) بیت میں۔ ]
۶۔ ؟، نزھۃ الجلیس (115/1)۔
۷۔ Ency., Vol., I, 463.
۸۔ نزھۃ الجلیس (116/1)۔
۹۔ الفہرست (69 وما بعدھا)، (دوسرا مقالہ)، القفطي، إنباہ الرواۃ (342/1)۔
۱۰۔ الفہرست (70)۔
۱۱۔ السیوطی، بغیۃ الوعاۃ (243)، یاقوت حموی، إرشاد (181/4)، ابن الانباری، نزھۃ (55)۔
۱۲۔ ابن الانباری، نزھۃ الالباء (29)۔ ۱۳۔ نزھۃ الالبائ، (29 وما بعدھا)۔
۱۴۔ المحاسن والاضداد (50)، الشعر والشعراء (16/1)، (630/2)۔
۱۵۔ الشعر والشعراء (16/1)۔
۱۶۔ شعر کے اقراء سے مراد اس کے طرق و اسالیب اور اقسام ہیں۔
۱۷۔ الصاحبي (36 وما بعدھا)
۱۸۔ الصاحبي في فقہ اللغۃ وسنن العرب في کلامھا (38 وما بعدھا)۔
۱۹۔ کلینی (12)۔
۲۰۔ خلیل نے دراصل پندرہ بحروں کا استخراج کیا، جب کہ سولھویں بحر ابوالحسن الاخفش کی اضافہ کردہ ہے۔ یہ اخفش وہی نحوی ہے جس کے حوالے سے (بُزِ اخفش) کا چٹکلا مشہور ہے۔
۲۱۔ نزھۃ الجلیس (124/1)۔
۲۲۔ ’جاہلیت‘ (جاھلیۃ) ایک اصطلاح ہے، جس سے مراد یکسر جہالت نہیں۔ استعمال کے لحاظ سے جہل یا جہالت (جھالۃ) کا لفظ علم کے علاوہ حلم کا بھی متضاد شمار ہوتا ہے، اور یوں اس کا اطلاق ’جنگ‘ پر بھی کیا جاتا ہے۔ زمانۂ ما قبلِ اسلام کا شاعر عَمرو بن کلثوم (جو اصحابِ معلقات میں سے ہے) کہتا ہے: [بحرِ وافر]
اَلاَ، لاَ یَجْھَلَنْ اَحَدٌ عَلَیْنَا :: فَنَجْھَلَ فَوْقَ جَھْلِ الْجَاھِلِیْنَا
[خبردار! کوئی ہم پر جنگ مسلط (کرنے کی جرات) نہ کرے۔ ورنہ (جواباً) ہم کسی بھی جنگ جُو سے بڑھ کر جنگ لڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ]
ما قبلِ اسلام کے زمانے کو ’جاہلیت‘ کا زمانہ اس لیے کہا گیا کہ عربوں میں وہ کسی برتر اصول کو خاطر میں نہ لانے کا دور تھا۔ ورنہ وہ لوگ کچھ ایسے جاہل بھی نہ تھے۔ علوم ان کے ہاں بھی پائے جاتے تھے، اور ان کا خرد مندانہ استعمال بھی وہ جانتے تھے۔ گو خاص انداز کی اور محدود پیمانے پر، مگر فضل و دانش کی محافل اس وقت بھی منعقد ہوا کرتی تھیں۔ شاعری، جو عربوں کے احوال و وقائع کی دستاویز بھی ہے، ایسی پختہ شکل میں ملتی ہے کہ جاہل لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ جب کہ اس شاعری کے بہت کم حصے کی صحت (authenticity) مشکوک (apocryphal) ہے۔ [ملاحظہ ہو: مصادر الشعر الجاہلي، ناصر الدین الاسد]رہی ’’جاہلیت‘‘ تو وہ بعد از اسلام اب بھی پائی جاتی ہے، اور اس میں مسلمانوں کی ’شرکت‘ بھی مقامی و عالمی ہر دو سطح پر خاصی بھر پور ہے، جو یقیناً شرم کی بات ہے۔
۲۳۔ اللسان (350/5)۔
۲۴۔ الطبقات (220/4)، صادر، تاج العروس (371/1)، الکویت، الفائق (518/1)، تاج العروس (103/1)، (قرا)، الإصابۃ (88/1)، (رقم 289)۔
۲۵۔ الموشح (59)۔
۲۶۔ اللسان (175/15)، (قرا)، (اقراء الشعر انواعہ وطرقہ وبحورہ)، تاج العروس (103/1)، (قرا)، الفائق (518/1)، ابن سعد، الطبقات (1/4، 116 وما بعدھا)۔
۲۷۔ الشعر والشعراء (81/1)۔
۲۸۔ یہ بات، قدرے اختلاف کے ساتھ، قرآن کی تدوین و کتابت کے مشابہ ہے۔ تاریخی قرائن اور قرآن اپنی داخلی شہادت کے مطابق اس زمانے میں پائے جانے والے ایک خاص کاغذ رَق (vellum) کے منشور (کھلے) پارچوں پر لکھا، پیغمبر کی وفات کے وقت موجودہ ترتیب کے مطابق کتابی شکل میں موجود تھا، جسے المصحف الاِمام (بنیادی نسخہ) کہتے تھے۔ اسی کے مطابق بعد میں دیگر نسخے کتابت کروا کے صوبائی دارالحکومتوں میں بھیجے گئے۔ مصنف اگر بروایتِ پیغمبر وہ مافوق ہستی ہے جسے عرب اللّہ کا نام دیتے تھے، تو جامع و مرتبِ قرآن خود جنابِ پیغمبر تھے۔ خلفاء محض ’ناشرینِ قرآن‘ تھے، اور منتشر اجزاء اور ان میں انفرادی حافظے پر بھروسے کے باعث جنم لینے والے اختلافات کو ختم کرنے والے۔ قرآن کی مختلف قرأتوں کا شاخسانہ لوگوں کے پاس انھی منتشر اجزا (اور ان پر مبنی روایات) کی وجہ سے سامنے آیا، اور بعد میں مسلمانوں کا معذرت خواہانہ رویہ بھی۔ (ضمنا) رہی وحی کی حقیقت تو اسے قدیم اور جدید الٰہیات کی بحثوں میں صرع سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [جمع و تدوینِ قرآن اور قرائتوں کے حوالے سے ملاحظہ ہو: جمع القرآن، تمنّا عمادی، اعجاز القرآن و اختلافِ قراء ت، مصنفِ سابق، مذاہبِ عالم کی آسمانی کتابیں ، غلام احمد پرویز، قضایا ومناقشات، الجزء الثالث من المؤلفات الکاملۃ للدکتور إسماعیل احمد ادہم، مرتبہ کردہ: الدکتور احمد إبراہیم الہواري، ص 421 تا 428]
قرآن اور زبان و عروض کے علوم میں فرق یہ ہے کہ یہ علوم پہلے سے جمع شدہ تھے نہ مکمل۔ خلیل نے عربوں سے عروض کے منتشر اجزاء لے کر بابلی(سریانی)، یونانی اور سنسکرتی علمِ عروض، نیز اپنی ریاضی دانی اور موسیقی کے علم سے استمدادکرتے ہوئے اسے مدون کیا۔ اُس طرح لا وجود یا عدم سے (ex nihilo/ out of nothing) یہ علم اختراع نہیں کیا جیسے ہمارے ہاں تقدیساً مشہور ہے۔
۲۹۔ نزھۃ الجلیس (116/1)۔
۳۰۔ صلاح الدین الصَّفَدي کے اصل الفاظ یہ ہیں جو ابن ساعد الانصاري کی زبانی مندرج ہیں : ’’ان الشعر الیوناني لہ وزنٌ مخصوص، وللیونان عَروضٌ لبحور الشعر، والتفاعیل عندھم تُسمَّی الایديَ والارجلَ۔۔۔ ولا یبعد ان یکون [قد] وصل إلی الخلیل بن احمد شيئٌ من ذلک، فاعانہ علی إبراز العروض إلی الوجود‘‘۔ [الغیث المُسجَم في شرح لامیۃ العجم، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ط2، 1411ھ/ 1990ء، ج1، ص54۔ ]
اسی طرح البیرونی نے واضح کیا ہے کہ ’’عربی اور یونانی عروض سنسکرتی عروض کی جانب راجع ہے‘‘، اور خلیل ’’عربی عروض وضع کرنے سے قبل سنسکرتی عروض کا علم رکھتا تھا‘‘۔ جب کہ ماخذ بننے والا ’’یہ سنسکرتی عروض قدیم بابلی عروض سے ماخوذ ہے‘‘۔ [کتاب ما للھند من مقولۃ مقبولۃ في العقل او مرذولۃ، ابو ریحان البیروني منقول از: موازین الشعر العربي باستعمال الارقام الثنائیۃ، محمد طارق الکاتب، مطبعۃ مصلحۃ الموانیٔ العرقیۃ، بصرہ، ط1، 1391ھ ؍ 1971ء، ص 38۔ ]
۳۱۔ نزھۃ الجلیس (124/1)۔
۳۲۔ Freytag. Darstellung d. Arabi, Verskunst, S., 18, William Lindsay Alexander, A Cyclopaedia of Biblical Literature, Vol. I, p. 188.
۳۳۔ ابن خلکان (216/1 وما بعدھا)۔ اور تأٹ (غنائfrom Syriac, Si
۳۴۔ المرزبانی، الموشح (39)۔
۳۵۔ العقد الفرید (90/4)۔
۳۶۔ (105 وما بعدھا)۔
۳۷۔ اللسان (135/15)، (غني)، تاج العروس (272/10)۔
۳۸۔ رسائل الجاحظ (158/2)۔
۳۹۔ العمدۃ (26/1)۔
۴۰۔ جاہلی دور کے صاحبِ معلقہ شاعر اعشیٰ کو اسی مناسبت سے صنَّاجۃ العرب کا لقب دیا گیا، یعنی شعر گا کر پیش کرنے والا۔
۴۱۔ العقد الفرید (96/4)۔
۴۲۔ الاغاني (105/21 وما بعدھا)، الشعر والشعراء (483/2)، المرتضی، امالي (408 وما بعدھا)، السمط (236)، درۃ الغواص (135)، المعارف (492)۔
۴۳۔ معروف لبنانی ادیب سلیمان البستاني (وفات: 1925ء)، جس نے ہومر کی ایلیڈ کے عربی نظم میں ترجمے کے ساتھ پہلا عربی انسائیکلو پیڈیا بھی ترتیب دیا، نے ایلیڈ کے ترجمے پر اپنے مبسوط مقدمے میں بحور کی موضوع اور موقع سے مطابقت کا قدرے مختصر مگر جامع انداز میں ذکر کیا ہے۔ سلیمان بستانی کے استقرائی مطالعے سے متبادر نتیجے کے مطابق بحرِ طویل دیگر بحور کے مقابلے میں پھیلاؤ کے حامل مضامین کو اپنے اندر سمیٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ چنانچہ اس میں فخر و حماسہ، تشبیہ و استعارہ پر مبنی اظہاریے، واقعات و حوادث اور اشیاء کے وصف و بیان کے لیے پوری پوری گنجائش موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدماء کے ہاں اس کا استعمال دوسری بحروں کے تناسب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ بحرِ بسیط قریب قریب طویل کے برابر شمار ہوتی ہے، لیکن اس میں طویل جتنے مضامین سمیٹنے کی گنجائش نہیں ، نہ یہ الفاظ و تراکیب باندھنے میں اُس کے جتنی لچک رکھتی ہے۔ تاہم، یہ اس لحاظ سے بحرِ طویل پر فوقیت کی حامل ہے کہ اس میں پختگی کے ساتھ نرمی کا عنصر بھی بار پا لیتا ہے، جس کے سبب ما قبلِ اسلام کے بدوی شعراء سے زیادہ اس کا استعمال شہری زندگی میں آنکھ کھولنے والے شعراء کے قصائد میں ملتا ہے۔ بحرِ کامل سات حروف پر مشتمل ارکان والی بحروں میں مکمل ترین بحر مانی جاتی ہے، اور یہی اس کی وجہِ تسمیہ ہے۔ یہ بحر ہر نوع کے اشعار کہنے کے لیے موزوں ہے، اور قدماء و متاخرین ہر دو کے ہاں اس کا استعمال کثرت سے پایا جاتا ہے۔ انشائیہ سے زیادہ خبریہ اور نرمی سے زیادہ سختی کے حامل اسلوب کے لیے یہ مناسب ترین بحر ہے۔ بحرِ وافر کا شمار سب سے زیادہ لچک دار بحور میں ہوتا ہے۔ سختی پیدا کرنا چاہیں تو اس کے لیے مناسب، اور رقت و نرم روی اپنانا چاہیں تو اس سے بھی عین مطابقت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں فخریہ کے ساتھ ساتھ بہترین رثائیہ قصائد بھی کہے گئے۔ اس طرح سلیمان بستانی نے بحرِ خفیف، رمل، سریع، متقارب، متدارک اور بحرِ رجز کے موقع و استعمال اور ان سے مناسبت رکھنے والے مضامین کا تذکرہ کیا ہے۔ سلیمان بستانی نے اپنے مذکورہ منظوم ترجمے میں ان دس بحور کا استعمال کیا، اور استعمال و مناسبت کا ذکر بھی انھی تک محدود رکھا۔
۴۴۔ اللسان (761/1)، (نصب)۔ ۴۵۔ الفہرست (363 وما بعدھا)۔
۴۶۔ Otto Weber, Die Literatur der Babylonier und Assyrer, Leipzig, 1907, S. 35.
۴۷۔ اللسان (44/4)۔
۴۸۔ اللسان (55/4 وما بعدھا)، دیوان حسان (131 وما بعدھا)۔
۴۹۔ العمدۃ (95، 136 وما بعدھا)۔ ۵۰۔ تاج العروس (371/1)، الکویت۔
۵۱۔ تاج العروس (354/2)۔ ۵۲۔ تاج العروس (293/10)، (قرو)۔
۵۳۔ تاج العروس (396/1)، الکویت، العمدۃ (164/1 وما بعدھا)، الموشح (60)۔
۵۴۔ مروجہ دیوان میں یہ مصرع إقواء کے عیب کے ساتھ ہی مذکور ہے: (وَبذَاکَ خَبَّرَنَا الْغُدَافُ الْاَسْوَدُ)، یعنی مجرور حرفِ روی یہاں مرفوع باندھا گیا ہے۔
۵۵۔ واضح رہے کہ عرب ثقافت میں کوا (غُراب) جدائی اور دوری کے علامتی معنوں میں لیا جاتا ہے۔ جب کہ برِّصغیر کی مقامی ہندی روایت میں یہی کوّا (کاگا) آمد اور ملن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان دو متضاد معنوں کو برِّصغیر کے عربی کے ایک شاعر غلام علی آزاد بلگرامی نے ذیل کے دو اشعار میں اکٹھا کیا ہے: [بحرِ طویل]
سَمِعْتُ غُرَابَ الْھِنْد یُضْحِيْ مُبَشِّراً بِعَوْدِ حَبِیْبٍ، یَا لَہُ مِنْ مُبَشِّرِ
اَلاَ یَا غُرَابَ النَّجْدِ، اَنْتَ شَقِیْقُہُ فَمَا لَکَ تُؤْذِيْ ھَائِاً بِالتَّطَیُّرِ
[میں ہندوستانی کاگ کی آواز سنتا ہوں ، تو وہ مجھے آمدِ محبوب کی بشارت دیتا کتنا بھلا لگتا ہے۔ مگر اسی وقت نجد کے غُراب کی سمع خراش آواز میرے کان میں پڑتی ہے، تو میں تڑپ کر رہ جاتا ہوں ، اور ’تصوّرِ جاناں ‘ کا سارا لطف غارت ہو کر رہ جاتا ہے۔ او نجد و حجاز کے غراب! تُو ہند کے اس کوّے کا بھائی ہی تو ہے۔ تجھے کسی دل زدہ سے کیا بیر ہے کہ یہ اگر اسے نیک فال دے کر خوش کرتا ہے، تو فوراً تُو اسے اپنی بد شگونی سے دکھ پہنچانے لگتا ہے؟!]
۵۶۔ اللسان (209/15 وما بعدھا)، الشعر والشعراء (39/1، 190)، (دار الثقافۃ)، الموشح (59 وما بعدھا)۔
۵۷۔ الموشح (60)۔
۵۸۔ الشعر والشعراء (146)۔
۵۹۔ روایات کے اس تضاد کو مختلف علاقوں کے عربوں کی باہم چشمک، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مثال کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ نیز اسلامی دور کی چپقلشوں نے بھی ان میں اپنا حصہ ڈالا، اور اس قسم کی کئی روایات بعد از اسلام بھی وضع اور مشہور ہوئیں۔
۶۰۔ إنباہ الرواۃ (10/3)، دیوان المعاني (17/1)، المصون (156)، بغیۃ الوعاۃ (375)۔
۶۱۔ تاج العروس (307/10)، (قوو)۔
۶۲۔ الشعر والشعراء (39/1)، (دار الثقافۃ)۔
۶۳۔ الشعر والشعراء (39/1 وما بعدھا)۔
۶۴۔ رسالۃ الغفران (320)۔
۶۵۔ اللسان (200/1)، (وطیٔ)، تاج العروس (135/1)، (وطیٔ)، الشعر والشعراء (41/1)۔
۶۶۔ اللسان (258/13 وما بعدھا)، (ضمن)، تاج العروس (265/9)، (ضمن)، العمدۃ (84/2)، (باب التضمین والإجازۃ)۔
۶۷۔ اللسان (193/9)۔
۶۸۔ اللسان (223/3)۔
۶۹۔ الشعر والشعراء (40/1)۔
۷۰۔ رجز کی جمع، یا اراجیز جمع اُرجوزۃ، یعنی بحرِ رجز میں لکھی گئی مختصر نظمیں جنھیں عربوں کی تنقیدی اصطلاح میں قصیدے سے الگ شمار کیا جاتا ہے، اور بحرِ رجز میں شعر کہنے والے کو شاعر کی جگہ اصطلاحاً راجز کا نام دیا جاتا ہے۔
۷۱۔ البیان والتبیین (139/1)۔
۷۲۔ الشعر والشعراء (42/1 وما بعدھا)۔
۷۳۔ المزھر (471/2)۔
۷۴۔ کارل بروکلمان، تاریخ الادب العربي (54/1)۔
۷۵۔ الإکلیل (49/2 وما بعدھا)۔
۷۶۔ شوقی ضیف، العصر الجاھلي (185)۔
۷۷۔ دیکھیے اس کا قصیدہ: عیناک دمعھا سجال :: کان شانیھما اوشال [دیوانہ (189)، العصر الجاھلي (184)]
۷۸۔ العصر الجاھلي (184)۔
۷۹۔ مصدرِ سابق۔
۸۰۔ مصدرِ سابق۔
۸۱۔ مصدرِ سابق (185)۔
۸۲۔ مصدرِ سابق۔
۸۳۔ الفھرست (71)۔
۸۴۔ الفھرست (84)
۸۵۔ الفھرست (70 وما بعدھا)
۸۶۔ John A. Haywood, Arabic Lexicography, p. 8.
۸۷۔ القفطی، إنباہ الرواۃ (343/1)، المزھر (76/1)۔
۸۸۔ البیرونی، تحقیق ما للھند من مقولۃ (66)۔
۸۹۔ تاج العروس (65/8)، (فعل)۔
٭٭٭
ماخوذ از مجلہ ’معیار‘ اسلام آباد، شمارہ ۹
تشکر: سید زبیر اشرف ، جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید