FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

عرفان القرآن

 

تفسیری ترجمہ

حصہ دوم

               ڈاکٹر طاہر القادری

 

 

سُورة الْأَعْرَاف

سورت : مکی  ترتیب تلاوت : 7  ترتیب نزولی : 39

رکوع : 24 آیات : 206      پارہ نمبر : 8, 9

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ الف، لام، میم، صاد (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o

2۔ (اے حبیبِ مکرّم!) یہ کتاب ہے (جو) آپ کی طرف اتاری گئی ہے سو آپ کے سینۂ (انور) میں اس (کی تبلیغ پر کفار کے انکار و تکذیب کے خیال) سے کوئی تنگی نہ ہو (یہ تو اتاری ہی اس لئے گئی ہے) کہ آپ اس کے ذریعے (منکرین کو) ڈر سنا سکیں اور یہ مومنین کے لئے نصیحت (ہے)o

3۔ (اے لوگو!) تم اس (قرآن) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اور اس کے غیروں میں سے (باطل حاکموں اور) دوستوں کے پیچھے مت چلو، تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہوo

4۔ اور کتنی ہی بستیاں (ایسی) ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا سو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یا (جبکہ) وہ دوپہر کو سو رہے تھےo

5۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب آ گیا تو ان کی پکار سوائے اس کے (کچھ) نہ تھی کہ وہ کہنے لگے کہ بیشک ہم ظالم تھےo

6۔ پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم یقیناً رسولوں سے بھی (ان کی دعوت و تبلیغ کے ردِّ عمل کی نسبت) دریافت کریں گےo

7۔ پھر ہم ان پر (اپنے) علم سے (ان کے سب) حالات بیان کریں گے اور ہم (کہیں) غائب نہ تھے (کہ انہیں دیکھتے نہ ہوں)o

8۔ اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا حق ہے، سو جن کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گےo

9۔ اور جن کے (نیکیوں کے) پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان پہنچایا، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھےo

10۔ اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہوo

11۔ اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا)، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہواo

12۔ ارشاد ہوا: (اے ابلیس!) تجھے کس (بات) نے روکا تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا، اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے مٹی سے بنایا ہےo

13۔ ارشاد ہوا: پس تو یہاں سے اتر جا تجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تو یہاں تکّبر کرے پس (میری بارگاہ سے) نکل جا بیشک تو ذلیل و خوار لوگوں میں سے ہےo

14۔ اس نے کہا: مجھے اس دن تک (زندگی کی) مہلت دے جس دن لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گےo

15۔ ارشاد ہوا: بیشک تو مہلت دیئے جانے والوں میں سے ہےo

16۔ اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قَسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں) o

17۔ پھر میں یقیناً ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا، اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گاo

18۔ ارشاد باری ہوا: (اے ابلیس!) تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو میں ضرور تم سب سے دوزخ بھر دوں گاo

19۔ اور اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ (دونوں) جنت میں سکونت اختیار کرو سو جہاں سے تم دونوں چاہو کھایا کرو اور (بس) اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گےo

20۔ پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ان (کی نظروں) سے پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کر دے اور کہنے لگا: (اے آدم و حوا!) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت (کا پھل کھانے) سے نہیں روکا مگر (صرف اس لئے کہ اسے کھانے سے) تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے (یعنی علائقِ بشری سے پاک ہو جاؤ گے) یا تم دونوں (اس میں) ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے (یعنی اس مقامِ قرب سے کبھی محروم نہیں کئے جاؤ گے)o

21۔ اور ان دونوں سے قَسم کھا کر کہا کہ بیشک میں تمہارے خیرخواہوں میں سے ہوںo

22۔ پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہو گئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہےo

23۔ دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گےo

24۔ ارشادِ باری ہوا: تم (سب) نیچے اتر جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں، اور تمہارے لئے زمین میں معیّن مدت تک جائے سکونت اور متاعِ حیات (مقرر کر دیئے گئے ہیں گویا تمہیں زمین میں قیام و معاش کے دو بنیادی حق دے کر اتارا جا رہا ہے، اس پر اپنا نظامِ زندگی استوار کرنا)o

25۔ ارشاد فرمایا: تم اسی (زمین) میں زندگی گزارو گے اور اسی میں مَرو گے اور (قیامت کے روز) اسی میں سے نکالے جاؤ گےo

26۔ اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریںo

27۔ اے اولادِ آدم! (کہیں) تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، ان سے ان کا لباس اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھا دے۔ بیشک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتےo

28۔ اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی (طریقہ) پر پایا اور اﷲ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ فرما دیجئے کہ اﷲ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کرتے ہو جو تم خود (بھی) نہیں جانتےo

29۔ فرما دیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور تم ہر سجدہ کے وقت و مقام پر اپنے رُخ (کعبہ کی طرف) سیدھے کر لیا کرو اور تمام تر فرمانبرداری اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کیا کرو۔ جس طرح اس نے تمہاری (خلق و حیات کی) ابتداء کی تم اسی طرح (اس کی طرف) پلٹو گےo

30۔ ایک گروہ کو اس نے ہدایت فرمائی اور ایک گروہ پر (اس کے اپنے کسب و عمل کے نتیجے میں) گمراہی ثابت ہو گئی۔ بیشک انہوں نے اﷲ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا تھا اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیںo

31۔ اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo

32۔ فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجئے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیںo

33۔ فرما دیجئے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو) اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ تم اﷲ کا شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور (مزید) یہ کہ تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کہو جو تم خود بھی نہیں جانتےo

34۔ اور ہر گروہ کے لئے ایک میعاد (مقرر) ہے پھر جب ان کا (مقررہ) وقت آجاتا ہے تو وہ ایک گھڑی (بھی) پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیںo

35۔ اے اولادِ آدم! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیتیں بیان کریں پس جو پرہیزگار بن گیا اور اس نے (اپنی) اصلاح کر لی تو ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ (ہی) وہ رنجیدہ ہوں گےo

36۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان (پر ایمان لانے) سے سرکشی کی، وہی اہلِ جہنم ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo

37۔ پھر اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے؟ ان لوگوں کو ان کا (وہ) حصہ پہنچ جائے گا (جو) نوشۃٔ کتاب ہے، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) آئیں گے کہ ان کی روحیں قبض کر لیں (تو ان سے) کہیں گے: اب وہ (جھوٹے معبود) کہاں ہیں جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے تھے؟ وہ (جواباً) کہیں گے کہ وہ ہم سے گم ہو گئے (یعنی اب کہاں نظر آتے ہیں) اور وہ اپنی جانوں کے خلاف (خود یہ) گواہی دیں گے کہ بیشک وہ کافر تھےo

38۔ اﷲ فرمائے گا: تم جنوں اور انسانوں کی ان (جہنّمی) جماعتوں میں شامل ہو کر جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں دوزخ میں داخل ہو جاؤ۔ جب بھی کوئی جماعت (دوزخ میں) داخل ہو گی وہ اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب اس میں سارے (گروہ) جمع ہو جائیں گے تو ان کے پچھلے اپنے اگلوں کے حق میں کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! انہی لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا سو ان کو دوزخ کا دوگنا عذاب دے۔ ارشاد ہو گا: ہر ایک کے لئے دوگنا ہے مگر تم جانتے نہیں ہوo

39۔ اور ان کے اگلے اپنے پچھلوں سے کہیں گے: سو تمہیں ہم پر کچھ فضیلت نہ ہوئی پس (اب) تم (بھی) عذاب (کا مزہ) چکھو اس کے سبب جو کچھ تم کماتے o

4تھے0۔ بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرکشی کی ان کے لئے آسمانِ (رحمت و قبولیت) کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہو جائے (یعنی جیسے یہ ناممکن ہے اسی طرح ان کا جنت میں داخل ہونا بھی ناممکن ہے)، اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیںo

41۔ اور ان کے لئے (آتشِ) دوزخ کا بچھونا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہو گا، اور ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیںo

42۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلّف نہیں کرتے، یہی لوگ اہلِ جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گےo

43۔ اور ہم وہ (رنجش و) کینہ جو ان کے سینوں میں (دنیا کے اندر ایک دوسرے کے لئے) تھا نکال (کے دور کر) دیں گے ان کے (محلوں کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ کہیں گے: سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا، اور ہم (اس مقام تک کبھی) راہ نہ پا سکتے تھے اگر اﷲ ہمیں ہدایت نہ فرماتا، بیشک ہمارے رب کے رسول حق (کا پیغام) لائے تھے، اور (اس دن) ندا دی جائے گی کہ تم لوگ اس جنت کے وارث بنا دیئے گئے ہو ان (نیک) اعمال کے باعث جو تم انجام دیتے تھےo

44۔ اور اہلِ جنت دوزخ والوں کو پکار کر کہیں گے: ہم نے تو واقعتاً اسے سچّا پالیا جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے فرمایا تھا، سو کیا تم نے (بھی) اسے سچّا پایا جو وعدہ تمہارے ربّ نے (تم سے) کیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کے درمیان ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہےo

45۔ (یہ وہی ہیں) جو (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے تھے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے تھےo

46۔ اور (ان) دونوں (یعنی جنتیوں اور دوزخیوں) کے درمیان ایک حجاب (یعنی فصیل) ہے، اور اَعراف (یعنی اسی فصیل) پر کچھ مرد ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے۔ اور وہ اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ وہ (اہلِ اَعراف خود ابھی) جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے حالانکہ وہ (اس کے) امیدوار ہوں گےo

47۔ اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھیری جائیں گی تو وہ کہیں گے: اے ہمارے ربّ! ہمیں ظالم گروہ کے ساتھ (جمع) نہ کرo

48۔ اور اہلِ اعراف (ان دوزخی) مردوں کو پکاریں گے جنہیں وہ ان کی نشانیوں سے پہچان رہے ہوں گے (ان سے) کہیں گے: تمہاری جماعتیں تمہارے کام نہ آسکیں اور نہ (وہ) تکبّر (تمہیں بچا سکا) جو تم کیا کرتے تھےo

49۔ کیا یہی وہ لوگ ہیں (جن کی خستہ حالت دیکھ کر) تم قَسمیں کھایا کرتے تھے کہ اﷲ انہیں اپنی رحمت سے (کبھی) نہیں نوازے گا؟ (سن لو! اب انہی کو کہا جا رہا ہے:) تم جنت میں داخل ہو جاؤ نہ تم پر کوئی خوف ہو گا اور نہ تم غمگین ہو گےo

50۔ اور دوزخ والے اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں (جنّتی) پانی سے کچھ فیض یاب کر دو یا اس (رزق) میں سے جو اﷲ نے تمہیں بخشا ہے۔ وہ کہیں گے: بیشک اﷲ نے یہ دونوں (نعمتیں) کافروں پر حرام کر دی ہیںo

51۔ جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا لیا اور جنہیں دنیوی زندگی نے فریب دے رکھا تھا، آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جیسے وہ (ہم سے) اپنے اس دن کی ملاقات کو بھولے ہوئے تھے اور جیسے وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھےo

52۔ اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہےo

53۔ وہ صرف اس (کہی ہوئی بات) کے انجام کے منتظر ہیں، جس دن اس (بات) کا انجام سامنے آجائے گا وہ لوگ جو اس سے قبل اسے بھلا چکے تھے کہیں گے: بیشک ہمارے رب کے رسول حق (بات) لے کر آئے تھے، سو کیا (آج) ہمارے کوئی سفارشی ہیں جو ہمارے لئے سفارش کر دیں یا ہم (پھر دنیا میں) لوٹا دیئے جائیں تاکہ ہم (اس مرتبہ) ان (اعمال) سے مختلف عمل کریں جو (پہلے) کرتے رہے تھے۔ بیشک انہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور وہ (بہتان و افتراء) ان سے جاتا رہا جو وہ گھڑا کرتے تھےo

54۔ بیشک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی کائنات) کو چھ مدتوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا فرمایا پھر (اپنی شان کے مطابق) عرش پر استواء (یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجراء) فرمایا۔ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔ خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔ اﷲ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی (تدریجاً) پرورش فرمانے والا ہےo

55۔ تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتاo

56۔ اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہےo

57۔ اور وہی ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ (ہوائیں) بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم ان (بادلوں) کو کسی مردہ (یعنی بے آب و گیاہ) شہر کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر ہم اس (بادل) سے پانی برساتے ہیں پھر ہم اس (پانی) کے ذریعے (زمین سے) ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم (روزِ قیامت) مُردوں کو (قبروں سے) نکالیں گے تاکہ تم نصیحت قبول کروo

58۔ اور جو اچھی (یعنی زرخیز) زمین ہے اس کا سبزہ اﷲ کے حکم سے (خوب) نکلتا ہے اور جو (زمین) خراب ہے (اس سے) تھوڑی سی بے فائدہ چیز کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اسی طرح ہم (اپنی) آیتیں (یعنی دلائل اور نشانیاں) ان لوگوں کے لئے بار بار بیان کرتے ہیں جو شکرگزار ہیںo

59۔ بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا: اے میری قوم (کے لوگو!) تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقیناً مجھے تمہارے اوپر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف آتا ہےo

60۔ ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے کہا: (اے نوح!) بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں (مبتلا) دیکھتے ہیںo

61۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوںo

62۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور تمہیں نصیحت کر رہا ہوں اور اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo

63۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد (کی زبان) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں (عذابِ الٰہی سے) ڈرائے اور تم پرہیزگار بن جاؤ اور یہ اس لئے ہے کہ تم پر رحم کیا جائےo

64۔ پھر ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا سو ہم نے انہیں اور ان لوگوں کو جو کَشتی میں ان کی معیّت میں تھے نجات دی اور ہم نے ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا، بیشک وہ اندھے (یعنی بے بصیرت) لوگ تھےo

65۔ اور ہم نے (قومِ) عاد کی طرف ان کے (قومی) بھائی ہُود (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، کیا تم پرہیزگار نہیں بنتےo

66۔ ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (یعنی دعوتِ حق کی مخالفت و مزاحمت) کر رہے تھے کہا: (اے ہود!) بیشک ہم تمہیں حماقت (میں مبتلا) دیکھتے ہیں اور بیشک ہم تمہیں جھوٹے لوگوں میں گمان کرتے ہیںo

67۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی حماقت نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوںo

68۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا امانت دار خیرخواہ ہوںo

69۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد (کی زبان) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں (عذابِ الٰہی سے) ڈرائے، اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد (زمین پر) جانشین بنایا اور تمہاری خلقت میں (قد و قامت اور) قوت کو مزید بڑھا دے، سو تم اﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo

70۔ وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس (اس لئے) آئے ہو کہ ہم صرف ایک اﷲ کی عبادت کریں اور ان (سب خداؤں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے؟ سو تم ہمارے پاس وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے ہو اگر تم سچے لوگوں میں سے ہوo

71۔ انہوں نے کہا: یقیناً تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب واجب ہو گیا۔ کیا تم مجھ سے ان (بتوں کے) ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (خود ہی فرضی طور پر) رکھ لئے ہیں جن کی اﷲ نے کوئی سند نہیں اتاری؟ سو تم (عذاب کا) انتظار کرو میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوںo

72۔ پھر ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت کے باعث نجات بخشی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہ تھےo

73۔ اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گاo

74۔ اور یاد کرو جب اس نے تمہیں (قومِ) عاد کے بعد (زمین میں) جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں سکونت بخشی کہ تم اس کے نرم (میدانی) علاقوں میں محلات بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر (ان میں) گھر بناتے ہو، سو تم اﷲ کی (ان) نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھروo

75۔ ان کی قوم کے ان سرداروں اور رئیسوں نے جو متکّبر و سرکش تھے ان غریب پسے ہوئے لوگوں سے کہا جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے: کیا تمہیں یقین ہے کہ واقعی صالح (علیہ السلام) اپنے ربّ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جو کچھ انہیں دے کر بھیجا گیا ہے بیشک ہم اس پر ایمان رکھنے والے ہیںo

76۔ متکبّر لوگ کہنے لگے: بیشک جس (چیز) پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے سخت منکر ہیںo

77۔ پس انہوں نے اونٹنی کو (کاٹ کر) مار ڈالا اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہوo

78۔ سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo

79۔ پھر (صالح علیہ السلام نے) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت (بھی) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند (ہی) نہیں کرتےo

80۔ اور لوط(علیہ السلام) کو (بھی ہم نے اسی طرح بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم (ایسی) بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جسے تم سے پہلے اہلِ جہاں میں سے کسی نے نہیں کیا تھاo

81۔ بیشک تم نفسانی خواہش کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے ہوo

82۔ اور ان کی قوم کا سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کہنے لگے: ان کو بستی سے نکال دو بیشک یہ لوگ بڑے پاکیزگی کے طلب گار ہیںo

83۔ پس ہم نے ان کو (یعنی لوط علیہ السلام کو) اور ان کے اہلِ خانہ کو نجات دے دی سوائے ان کی بیوی کے، وہ عذاب میں پڑے رہنے والوں میں سے تھیo

84۔ اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش کر دی سو آپ دیکھئے کہ مجرموں کا انجام کیسا ہواo

85۔ اور مدین کی طرف (ہم نے) ان کے (قومی) بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آچکی ہے سو تم ماپ اور تول پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں اس (کے ماحولِ حیات) کی اصلاح کے بعد فساد بپا نہ کیا کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (اس الُوہی پیغام کو) ماننے والے ہوo

86۔ اور تم ہر راستہ پر اس لئے نہ بیٹھا کرو کہ تم ہر اس شخص کو جو اس (دعوت) پر ایمان لے آیا ہے خوفزدہ کرو اور (اسے) اﷲ کی راہ سے روکو اور اس (دعوت) میں کجی تلاش کرو (تاکہ اسے دینِ حق سے برگشتہ اور متنفر کر سکو) اور (اﷲ کا احسان) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تو اس نے تمہیں کثرت بخشی، اور دیکھو فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہواo

87۔ اور اگر تم میں سے کوئی ایک گروہ اس (دین) پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ایمان لے آیا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا تو (اے ایمان والو!) صبر کرو یہاں تک کہ اﷲ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہےo

پاره قَالَ الْمَلَأُ

88۔ ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو سرکش و متکبر تھے کہا: اے شعیب! ہم تمہیں اور ان لوگوں کو جو تمہاری معیت میں ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے بہر صورت نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں پلٹ آنا ہو گا۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اگرچہ ہم (تمہارے مذہب میں پلٹنے سے) بے زار ہی ہوںo

89۔ بیشک ہم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھیں گے اگر ہم تمہارے مذہب میں اس امر کے بعد پلٹ جائیں کہ اللہ نے ہمیں اس سے بچا لیا ہے، اور ہمارے لئے ہرگز (مناسب) نہیں کہ ہم اس (مذہب) میں پلٹ جائیں مگر یہ کہ اللہ چاہے جو ہمارا رب ہے۔ ہمارا رب اَز روئے علم ہر چیز پر محیط ہے۔ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کر لیا ہے، اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری (مخالف) قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہےo

90۔ اور ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (و انکار) کے مرتکب ہو رہے تھے کہا: (اے لوگو!) اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کی تو اس وقت تم یقیناً نقصان اٹھانے والے ہو جاؤ گےo

91۔ پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo

92۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (وہ ایسے نیست و نابود ہوئے) گویا وہ اس (بستی) میں (کبھی) بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (حقیقت میں) وہی نقصان اٹھانے والے ہو گئےo

93۔ تب (شعیب علیہ السلام) ان سے کنارہ کش ہو گئے اور کہنے لگے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کر دی تھی پھر میں کافر قوم (کے تباہ ہونے) پر افسوس کیونکر کروںo

94۔ اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کے باشندوں کو (نبی کی تکذیب و مزاحمت کے باعث) سختی و تنگی اور تکلیف و مصیبت میں گرفتار کر لیا تاکہ وہ آہ و زاری کریںo

95۔ پھر ہم نے (ان کی) بدحالی کی جگہ خوش حالی بدل دی، یہاں تک کہ وہ (ہر لحاظ سے) بہت بڑھ گئے۔ اور (نا شکری سے) کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی (اسی طرح) رنج اور راحت پہنچتی رہی ہے سو ہم نے انہیں اس کفرانِ نعمت پر اچانک پکڑ لیا اور انہیں (اس کی) خبر بھی نہ تھیo

96۔ اور اگر (ان) بستیوں کے باشندے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے (حق کو) جھٹلایا، سو ہم نے انہیں ان اَعمالِ (بد) کے باعث جو وہ انجام دیتے تھے (عذاب کی) گرفت میں لے لیاo

97۔ کیا اب بستیوں کے باشندے اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب (پھر) رات کو آپہنچے اس حال میں کہ وہ (غفلت کی نیند) سوئے ہوئے ہیںo

98۔ یا بستیوں کے باشندے ا س بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب (پھر) دن چڑھے آجائے اس حال میں کہ (وہ دنیا میں مدہوش ہوکر) کھیل رہے ہوںo

99۔ کیا وہ لو گ اللہ کی مخفی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ پس اللہ کی مخفی تدبیر سے کوئی بے خوف نہیں ہوا کرتا سوائے نقصان اٹھانے والی قوم کےo

100۔ کیا (یہ بات بھی) ان لوگوں کو (شعور و) ہدایت نہیں دیتی جو (ایک زمانے میں) زمین پر رہنے والوں (کی ہلاکت) کے بعد (خود) زمین کے وارث بن رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے باعث انہیں (بھی) سزا دیں، اور ہم ان کے دلوں پر (ان کی بداَعمالیوں کی وجہ سے) مُہر لگا دیں گے سو وہ (حق کو) سن (سمجھ) بھی نہیں سکیں گےo

101۔ یہ وہ بستیاں ہیں جن کی خبریں ہم آپ کو سنا رہے ہیں، اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ (پھر بھی) اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے، اس طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہےo

102۔ اور ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد (کا نباہ) نہ پایا اور ان میں سے اکثر لوگوں کو ہم نے نافرمان ہی پایاo

103۔ پھر ہم نے ان کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے (درباری) سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان (دلائل اور معجزات) کے ساتھ ظلم کیا، پھر آپ دیکھئے کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔o

104۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے فرعون! بیشک میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (آیا) ہوںo

105۔ مجھے یہی زیب دیتا ہے کہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا (کچھ) نہ کہوں۔ بیشک میں تمہارے رب (کی جانب) سے تمہارے پاس واضح نشانی لایا ہوں، سو تُو بنی اسرائیل کو (اپنی غلامی سے آزاد کر کے) میرے ساتھ بھیج دےo

106۔ اس (فرعون) نے کہا: اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو اسے (سامنے) لاؤ اگر تم سچے ہوo

107۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گیاo

108۔ اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہو گیاo

109۔ قومِ فرعون کے سردار بولے: بیشک یہ (تو کوئی) بڑا ماہر جادوگر ہےo

110۔ (لوگو!) یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے، سو تم کیا مشورہ دیتے ہوo

111۔ انہوں نے کہا: (ابھی) اس کے اور اس کے بھائی (کے معاملہ) کو مؤخر کر دو اور (مختلف) شہروں میں (جادوگروں کو) جمع کرنے والے افراد بھیج دوo

112۔ وہ تمہارے پاس ہر ماہر جادوگر کو لے آئیںo

113۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: یقیناً ہمارے لئے کچھ اُجرت ہونی چاہیے بشرطیکہ ہم غالب آجائیںo

114۔ فرعون نے کہا: ہاں! اور بیشک (عام اُجرت تو کیا اس صورت میں) تم (میرے دربار کی) قربت والوں میں سے ہو جاؤ گےo

115۔ ان جادوگروں نے کہا: اے موسیٰ! یا تو (اپنی چیز) آپ ڈال دیں یا ہم ہی (پہلے) ڈالنے والے ہو جائیںo

116۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: تم ہی (پہلے) ڈال دو پھر جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو زمین پر) ڈالا (تو انہوں نے) لوگوں کی آنکھوں پرجادو کر دیا اور انہیں ڈرا دیا اور وہ زبردست جادو (سامنے) لے آئےo

117۔ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ (اب) آپ اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیں تو وہ فوراً ان چیزوں کو نگلنے لگا جو انہوں نے فریب کاری سے وضع کر رکھی تھیںo

118۔ پس حق ثابت ہو گیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے (سب) باطل ہو گیاo

119۔ سو وہ (فرعونی نمائندے) اس جگہ مغلوب ہو گئے اور ذلیل ہوکر پلٹ گئےo

120۔ اور (تمام) جادوگر سجدہ میں گر پڑےo

121۔ وہ بول اٹھے: ہم سارے جہانوں کے (حقیقی) رب پر ایمان لے آئےo

122۔ (جو) موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا رب ہےo

123۔ فرعون کہنے لگا: (کیا) تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا؟ بیشک یہ ایک فریب ہے جو تم (سب) نے مل کر (مجھ سے) اس شہر میں کیا ہے تاکہ تم اس (ملک) سے اس کے (قبطی) باشندوں کو نکال کر لے جاؤ، سو تم عنقریب (اس کا انجام) جان لوگےo

124۔ میں یقیناً تمہارے ہاتھوں کو اور تمہارے پاؤں کو ایک دوسرے کی الٹی سمت سے کاٹ ڈالوں گا پھر ضرور بالضرور تم سب کو پھانسی دے دوں گا o

125۔ انہوں نے کہا: بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیںo

126۔ اور تمہیں ہمارا کون سا عمل برا لگا ہے؟ صرف یہی کہ ہم اپنے رب کی (سچی) نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس پہنچ گئیں۔ اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو (ثابت قدمی سے) مسلمان رہتے ہوئے (دنیا سے) اٹھالےo

127۔ اور قومِ فرعون کے سرداروں نے (فرعون سے) کہا: کیا تو موسیٰ اور اس کی (اِنقلاب پسند) قوم کو چھوڑ دے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور (پھر کیا) وہ تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ اس نے کہا: (نہیں) اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کر دیں گے (تاکہ ان کی مردانہ افرادی قوت ختم ہو جائے) اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے (تاکہ ان سے زیادتی کی جا سکے)، اور بیشک ہم ان پر غالب ہیںo

128۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا: تم اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بیشک زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور انجامِ خیر پرہیزگاروں کے لئے ہی ہےo

129۔ لوگ کہنے لگے: (اے موسیٰ!) ہمیں تو آپ کے ہمارے پاس آنے سے پہلے بھی اذیتیں پہنچائی گئیں اور آپ کے ہمارے پاس آنے کے بعد بھی (گویا ہم دونوں طرح مارے گئے، ہماری مصیبت کب دور ہو گی؟) موسیٰ (علیہ السلام) نے (اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے) فرمایا: قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور (اس کے بعد) زمین (کی سلطنت) میں تمہیں جانشین بنا دے پھر وہ دیکھے کہ تم (اقتدار میں آکر) کیسے عمل کرتے ہوo

130۔ پھر ہم نے اہلِ فرعون کو (قحط کے) چند سالوں اور میووں کے نقصان سے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریںo

131۔ پھر جب انہیں آسائش پہنچتی تو کہتے: یہ ہماری اپنی وجہ سے ہے۔ اور اگر انہیں سختی پہنچتی، وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے (ایمان والے) ساتھیوں کی نسبت بدشگونی کرتے، خبردار! ان کا شگون (یعنی شامتِ اَعمال) تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتےo

132۔ اور وہ (اہلِ فرعون متکبرانہ طور پر) کہنے لگے: (اے موسیٰ!) تم ہمارے پاس جو بھی نشانی لاؤ کہ تم اس کے ذریعے ہم پر جادو کر سکو، تب بھی ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیںo

133۔ پھر ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں،گھن، مینڈک اور خون (کتنی ہی) جداگانہ نشانیاں (بطورِ عذاب) بھیجیں، پھر (بھی) انہوں نے تکبر و سرکشی اختیار کئے رکھی اور وہ (نہایت) مجرم قوم تھےo

134۔ اور جب ان پر (کوئی) عذاب واقع ہوتا تو کہتے: اے موسیٰ! آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں اس عہد کے وسیلہ سے جو (اس کا) آپ کے پاس ہے، اگر آپ ہم سے اس عذاب کو ٹال دیں تو ہم ضرور آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو (بھی آزاد کر کے) آپ کے ساتھ بھیج دیں گےo

135۔ پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے جس کو وہ پہنچنے والے ہوتے وہ عذاب ٹال دیتے تو وہ فوراً ہی عہد توڑ دیتےo

136۔ پھر ہم نے ان سے (بالآخر تمام نافرمانیوں اور بدعہدیوں کا) بدلہ لے لیا اور ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا، اس لئے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کی (پے در پے) تکذیب کی تھی اور وہ ان سے (بالکل) غافل تھےo

137۔ اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سرزمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی، اور (یوں) بنی اسرائیل کے حق میں آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہو گیا اس وجہ سے کہ انہوں نے (فرعونی مظالم پر) صبر کیا تھا، اور ہم نے ان (عالیشان محلات) کو تباہ و برباد کر دیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنا رکھے تھے اور ان چنائیوں (اور باغات) کو بھی جنہیں وہ بلندیوں پر چڑھاتے تھےo

138۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر (یعنی بحرِ قلزم) کے پار اتارا تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس جا پہنچے جو اپنے بتوں کے گرد (پرستش کے لئے) آسن مارے بیٹھے تھے، (بنی اسرائیل کے لوگ) کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایسا (ہی) معبود بنا دیں جیسے ان کے معبود ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: تم یقیناً بڑے جاہل لوگ ہوo

139۔ بلاشبہ یہ لوگ جس چیز (کی پوجا) میں (پھنسے ہوئے) ہیں وہ ہلاک ہو جانے والی ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ (بالکل) باطل ہےo

140۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: کیا میں تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں، حالانکہ اسی (اللہ) نے تمہیں سارے جہانوں پر فضیلت بخشی ہےo

141۔ اور (وہ وقت) یاد کرو جب ہم نے تم کو اہلِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں بہت ہی سخت عذاب دیتے تھے، وہ تمہارے لڑکوں کو قتل کر دیتے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے زبردست آزمائش تھیo

142۔ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ہم نے اسے (مزید) دس (راتیں) ملا کر پورا کیا، سو ان کے رب کی (مقرر کردہ) میعاد چالیس راتوں میں پوری ہو گئی۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا: تم (اس دوران) میری قوم میں میرے جانشین رہنا اور (ان کی) اصلاح کرتے رہنا اور فساد کرنے والوں کی راہ پر نہ چلنا (یعنی انہیں اس راہ پر نہ چلنے دینا)o

143۔ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا تو (کلامِ ربانی کی لذت پا کر دیدار کا آرزو مند ہوا اور) عرض کرنے لگا: اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کر لوں، ارشاد ہوا: تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکوگے مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کر لوگے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ اَنوار سے) اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو عرض کیا: تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوںo

144۔ ارشاد ہوا: اے موسیٰ! بیشک میں نے تمہیں لوگوں پر اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ذریعے برگزیدہ و منتخب فرما لیا۔ سو میں نے تمہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے تھام لو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤo

145۔ اور ہم نے ان کے لئے (تورات کی) تختیوں میں ہر ایک چیز کی نصیحت اور ہر ایک چیز کی تفصیل لکھ دی (ہے)، تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو اور اپنی قوم کو (بھی) حکم دو کہ وہ اس کی بہترین باتوں کو اختیار کر لیں۔ میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا مقام دکھاؤں گاo

146۔ میں اپنی آیتوں (کے سمجھنے اور قبول کرنے) سے ان لوگوں کو باز رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں (تب بھی) اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں (پھر بھی) اسے (اپنا) راستہ نہیں بنائیں گے اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھ لیں (تو) اسے اپنی راہ کے طور پر اپنالیں گے، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل بنے رہےo

147۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے اعمال برباد ہو گئے۔ انہیں کیا بدلہ ملے گا مگر وہی جوکچھ وہ کیا کرتے تھےo

148۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا (جو) ایک جسم تھا، اس کی آواز گائے کی تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ہی انہیں راستہ دکھا سکتا ہے۔ انہوں نے اسی کو (معبود) بنا لیا اور وہ ظالم تھےo

149۔ اور جب وہ اپنے کئے پر شدید نادم ہوئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ واقعی گمراہ ہو گئے ہیں (تو) کہنے لگے: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہمیں نہ بخشا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گےo

150۔ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف نہایت غم و غصہ سے بھرے ہوئے پلٹے تو کہنے لگے کہ تم نے میرے (جانے کے) بعد میرے پیچھے بہت ہی برا کام کیا ہے، کیا تم نے اپنے رب کے حکم پر جلد بازی کی؟ اور (موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی) تختیاں نیچے رکھ دیں اور اپنے بھائی کے سر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا (تو) ہارون (علیہ السلام) نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! بیشک اس قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ (میرے منع کرنے پر) مجھے قتل کر ڈالیں، سو آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالم لوگوں (کے زمرے) میں شامل نہ کریںo

151۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما دے اور ہمیں اپنی رحمت (کے دامن) میں داخل فرما لے اور تو سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہےo

152۔ بیشک جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا ہے انہیں ان کے رب کی طرف سے غضب بھی پہنچے گا اور دنیوی زندگی میں ذلت بھی، اور ہم اسی طرح افترا پردازوں کو سزا دیتے ہیںo

153۔ اور جن لوگوں نے برے کام کئے پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آئے (تو) بیشک آپ کا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہےo

154۔ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ تھم گیا تو انہوں نے تختیاں اٹھالیں اور ان (تختیوں) کی تحریر میں ہدایت اور ایسے لوگوں کے لئے رحمت (مذکور) تھی جو اپنے رب سے بہت ڈرتے ہیںo

155۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر مَردوں کو ہمارے مقرر کردہ وقت (پر ہمارے حضور معذرت کی پیشی) کے لئے چن لیا، پھر جب انہیں (قوم کو برائی سے منع نہ کرنے پر تادیباً) شدید زلزلہ نے آپکڑا تو (موسیٰ علیہ السلام نے) عرض کیا: اے رب! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں کو اور مجھے ہلاک فرما دیتا، کیا تو ہمیں اس (خطا) کے سبب ہلاک فرمائے گا جو ہم میں سے بیوقوف لوگوں نے انجام دی ہے، یہ تو محض تیری آزمائش ہے، اس کے ذریعے تو جسے چاہتا ہے گمراہ فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے، سو ُتو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہےo

156۔ اور تو ہمارے لئے اس دنیا (کی زندگی) میں (بھی) بھلائی لکھ دے اور آخرت میں (بھی) بیشک ہم تیری طرف تائب و راغب ہوچکے، ارشاد ہوا: میں اپنا عذاب جسے چاہتا ہوں اسے پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںo

157۔ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo

158۔ آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جلاتا اور مارتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایمان لاؤ جو (شانِ اُمیّت کا حامل) نبی ہے (یعنی اس نے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق سے زیادہ جانتا ہے اور کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطنِ مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے) جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکوo

159۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق کی راہ بتاتے ہیں اور اسی کے مطابق عدل (پر مبنی فیصلے) کرتے ہیںo

160۔ اور ہم نے انہیں گروہ در گروہ بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا، اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، سو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، پس ہر قبیلہ نے اپنا گھاٹ معلوم کر لیا، اور ہم نے ان پر اَبر کا سائبان تان دیا، اور ہم نے ان پر منّ و سلویٰ اتارا، (اور ان سے فرمایا:) جن پاکیزہ چیزوں کا رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ، (مگر نافرمانی اور کفرانِ نعمت کر کے) انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کر رہے تھےo

161۔ اور (یاد کرو) جب ان سے فرمایا گیا کہ تم اس شہر (بیت المقدس یا اریحا) میں سکونت اختیار کرو اور تم وہاں سے جس طرح چاہو کھانا اور (زبان سے) کہتے جانا کہ (ہمارے گناہ) بخش دے اور (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا (تو) ہم تمہاری تمام خطائیں بخش دیں گے، عنقریب ہم نیکو کاروں کو اور زیادہ عطا فرمائیں گےo

162۔ پھر ان میں سے ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی، دوسری بات سے بدل ڈالا، سو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا اس وجہ سے کہ وہ ظلم کرتے تھےo

163۔ اور آپ ان سے اس بستی کا حال دریافت فرمائیں جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب وہ لوگ ہفتہ (کے دن کے احکام) میں حد سے تجاوز کرتے تھے (یہ اس وقت ہوا) جب (ان کے سامنے) ان کی مچھلیاں ان کے (تعظیم کردہ) ہفتہ کے دن کو پانی (کی سطح) پر ہر طرف سے خوب ظاہر ہونے لگیں اور (باقی) ہر دن جس کی وہ یومِ شنبہ کی طرح تعظیم نہیں کرتے تھے (مچھلیاں) ان کے پاس نہ آتیں، اس طرح ہم ان کی آزمائش کر رہے تھے بایں وجہ کہ وہ نافرمان تھےo

164۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ نے (فریضۂ دعوت انجام دینے والوں سے) کہا کہ تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کر رہے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا جنہیں نہایت سخت عذاب دینے والا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے حضور (اپنی) معذرت پیش کرنے کے لئے اور اس لئے (بھی) کہ شاید وہ پرہیزگار بن جائیںo

165۔ پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے (یعنی نہی عنِ المنکر کا فریضہ ادا کرتے تھے) اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھےo

166۔ پھر جب انہوں نے اس چیز (کے ترک کرنے کے حکم) سے سرکشی کی جس سے وہ روکے گئے تھے (تو) ہم نے انہیں حکم دیا کہ تم ذلیل و خوار بندر ہو جاؤo

167۔ اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب آپ کے رب نے (یہود کو یہ) حکم سنایا کہ (اللہ) ان پر روزِ قیامت تک (کسی نہ کسی) ایسے شخص کو ضرور مسلّط کرتا رہے گا جو انہیں بری تکلیفیں پہنچاتا رہے۔ بیشک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے، اور بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان (بھی) ہےo

168۔ اور ہم نے انہیں زمین میں گروہ در گروہ تقسیم (اور منتشر) کر دیا، ان میں سے بعض نیکوکار بھی ہیں اور ان (ہی) میں سے بعض اس کے سوا (بدکار) بھی اور ہم نے ان کی آزمائش انعامات اور مشکلات (دونوں طریقوں) سے کی تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریںo

169۔ پھر ان کے بعد ناخلف (ان کے) جانشین بنے جو کتاب کے وارث ہوئے، یہ (جانشین) اس کم تر (دنیا) کا مال و دولت (رشوت کے طور پر) لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں: عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا، حالانکہ اسی طرح کا مال و متاع اور بھی ان کے پاس آجائے (تو) اسے بھی لے لیں، کیا ان سے کتابِ (الٰہی) کا یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق (بات) کے سوا کچھ اور نہ کہیں گے؟ اور وہ (سب کچھ) پڑھ چکے تھے جو اس میں (لکھا) تھا، اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں، کیا تم سمجھتے نہیں ہوo

170۔ اور جو لوگ کتابِ (الٰہی) کو مضبوط پکڑے رہتے ہیں او ر نماز (پابندی سے) قائم رکھتے ہیں (تو) بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتےo

171۔ اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو (یوں) بلند کر دیا جیسا کہ وہ (ایک) سائبان ہو اور وہ (یہ) گمان کرنے لگے کہ ان پر گرنے والا ہے۔ (سو ہم نے ان سے فرمایا: ڈرو نہیں بلکہ) تم وہ (کتاب) مضبوطی سے (عملاً) تھامے رکھو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ان (احکام) کو (خوب) یاد رکھو جو اس میں (مذکور) ہیں تاکہ تم (عذاب سے) بچ جاؤo

172۔ اور یاد کیجئے جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے)۔ ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھےo

173۔ یا (ایسا نہ ہو کہ) تم کہنے لگو کہ شرک تو محض ہمارے آباء و اجداد نے پہلے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد (ان کی) اولاد تھے (گویا ہم مجرم نہیں اصل مجرم وہ ہیں)، تو کیا تو ہمیں اس (گناہ) کی پاداش میں ہلاک فرمائے گا جو اہلِ باطل نے انجام دیا تھاo

174۔ اور اسی طرح ہم آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ (حق کی طرف) رجوع کریںo

175۔ اور آپ انہیں اس شخص کا قصہ (بھی) سنا دیں جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں پھر وہ ان (کے علم و نصیحت) سے نکل گیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیاo

176۔ اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان (آیتوں کے علم و عمل) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہو گیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا، تو (اب) اس کی مثال اس کتے کی مثال جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے (تب بھی) زبان نکالے رہے۔ یہ ایسے لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سو آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریںo

177۔ مثال کے لحاظ سے وہ قوم بہت ہی بری ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور (درحقیقت) وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہےo

178۔ جسے اللہ ہدایت فرماتا ہے پس وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہراتا ہے پس وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo

179۔ اور بیشک ہم نے جہنم کے لئے جِنّوں اور انسانوں میں سے بہت سے (افراد) کو پیدا فرمایا وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیںo

180۔ اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے انحراف کرتے ہیں، عنقریب انہیں ان (اعمالِ بد) کی سزا دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیںo

181۔ اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیںo

182۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ہم عنقریب انہیں آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف لے جائیں گے ایسے طریقے سے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہو گیo

183۔ اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں، بیشک میری گرفت بڑی مضبوط ہےo

184۔ کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ انہیں (اپنی) صحبت کے شرف سے نوازنے والے (رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو جنون سے کوئی علاقہ نہیں، وہ تو (نافرمانوں کو) صرف واضح ڈر سنانے والے ہیںo

185۔ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی؟ اور اس میں کہ کیا عجب ہے ان کی مدتِ (موت) قریب آچکی ہو، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گےo

186۔ جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے (کوئی) راہ دکھانے والا نہیں، اور وہ انہیں ان کی سرکشی میں چھوڑے رکھتا ہے تاکہ (مزید) بھٹکتے رہیںo

187۔ یہ (کفار) آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، اسے اپنے (مقررہ) وقت پر اس (اللہ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آجائے گی، یہ لوگ آپ سے (اس طرح) سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، فرما دیں کہ اس کا علم تو محض اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتےo

188۔ آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کر لیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصب رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭o

٭ڈر اور خوشی کی خبریں بھی اُمورِ غیب میں سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مطلع فرماتا ہے کیونکہ مِن جانبِ اللہ ایسی اِطلاع علی الغیب کے بغیر نہ تو نبوت و رسالت متحقق ہوتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ادا ہو سکتا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں فرمایا گیا ہے: وَمَا ھُوَ عَلَی الغَیبِ بِضَنِین ٍ(التکویر، 81: 24) (اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) غیب بتانے میں ہر گز بخیل نہیں)۔ اس قرآنی ارشاد کے مطابق غیب بتانے میں بخیل نہ ہونا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے اگر باری تعالیٰ نے کمال فراوانی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو علوم و اَخبارِ غیب پر مطلع فرمایا ہو، اگر سرے سے علمِ غیب عطا ہی نہ کیا گیا ہو تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غیب بتانا کیسا اور پھر اس پر بخیل نہ ہونے کا کیا مطلب؟ سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطلع علی الغیب ہونے کی قطعاً نفی نہیں بلکہ نفع و نقصان پر خود قادر و مالک اور بالذات عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

189۔ اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر جب مرد نے اس (عورت) کو ڈھانپ لیا تو وہ خفیف بوجھ کے ساتھ حاملہ ہو گئی، پھر وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ گراں بار ہوئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں اچھا تندرست بچہ عطا فرما دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گےo

190۔ پھر جب اس نے انہیں تندرست بچہ عطا فرما دیا تو دونوں اس (بچے) میں جو انہیں عطا فرمایا تھا اس کے لئے شریک ٹھہرانے لگے تو اللہ ان کے شریک بنانے سے بلند و برتر ہےo

191۔ کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ (خود) پیدا کئے گئے ہیںo

192۔ اور نہ وہ ان (مشرکوں) کی مدد کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور نہ اپنے آپ ہی کی مدد کرسکتے ہیںo

193۔ اور اگر تم ان کو (راہِ) ہدایت کی طرف بلاؤ تو تمہاری پیروی نہ کریں گے۔ تمہارے حق میں برابر ہے خواہ تم انہیں (حق و ہدایت کی طرف) بلاؤ یا تم خاموش رہوo

194۔ بیشک جن (بتوں) کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ بھی تمہاری ہی طرح (اللہ کے) مملوک ہیں، پھر جب تم انہیں پکارو تو انہیں چاہئے کہ تمہیں جواب دیں اگر تم (انہیں معبود بنانے میں) سچے ہوo

195۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چل سکیں، یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑ سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سن سکیں؟ آپ فرما دیں: (اے کافرو!) تم اپنے (باطل) شریکوں کو (میری ہلاکت کے لئے) بلا لو پھر مجھ پر (اپنا) داؤ چلاؤ اور مجھے کوئی مہلت نہ دوo

196۔ بیشک میرا مددگار اللہ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ہے اور وہی صلحاء کی بھی نصرت و ولایت فرماتا ہےo

197۔ اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیںo

198۔ اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ سن (بھی) نہیں سکیں گے، اور آپ ان (بتوں) کو دیکھتے ہیں (وہ اس طرح تراشے گئے ہیں) کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ (کچھ) نہیں دیکھتےo

199۔ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیںo

200۔ اور (اے انسان!) اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ (ان امور کے خلاف) تجھے ابھارے تو اللہ سے پناہ طلب کیا کر، بیشک وہ سننے والا جاننے والا ہےo

201۔ بیشک جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ہے، جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے (تو وہ اللہ کے امر و نہی اور شیطان کے دجل و عداوت کو) یاد کرنے لگتے ہیں سو اسی وقت ان کی (بصیرت کی) آنکھیں کھل جاتی ہیںo

202۔ اور (جو) ان شیطانوں کے بھائی (ہیں) وہ انہیں (اپنی وسوسہ اندازی کے ذریعہ) گمراہی میں ہی کھینچے رکھتے ہیں پھر اس (فتنہ پروری اور ہلاکت انگیزی) میں کوئی کوتاہی نہیں کرتےo

203۔ اور جب آپ ان کے پاس کوئی نشانی نہیں لاتے (تو) وہ کہتے ہیں کہ آپ اسے اپنی طرف سے وضع کر کے کیوں نہیں لائے؟ فرما دیں: میں تو محض اس (حکم) کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کیا جاتا ہے یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں o

204۔ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo

205۔ اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہو جاؤo

206۔ بیشک جو (ملائکہ مقربین) تمہارے رب کے حضور میں ہیں وہ (کبھی بھی) اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور (ہمہ وقت) اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیںo

 

 

سُورة الْأَنْفَال

سورت : مدنی        ترتیب تلاوت : 8  ترتیب نزولی : 88

رکوع : 10 آیات : 75 پارہ نمبر : 9, 10

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ (اے نبئ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہوo

2۔ ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)o

3۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیںo

4۔ (حقیقت میں) یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے ان کے رب کی بارگاہ میں (بڑے) درجات ہیں اور مغفرت اور بلند درجہ رزق ہےo

5۔ (اے حبیب!) جس طرح آپ کا رب آپ کو آپ کے گھر سے حق کے (عظیم مقصد) کے ساتھ (جہاد کے لئے) باہر نکال لایا حالانکہ مسلمانوں کا ایک گروہ (اس پر) ناخوش تھا o

6۔ وہ آپ سے اَمرِ حق میں (اس بشارت کے) ظاہر ہو جانے کے بعد بھی جھگڑنے لگے (کہ اللہ کی نصرت آئے گی اور لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فتح نصیب ہو گی) گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور وہ (موت کو آنکھوں سے) دیکھ رہے ہیںo

7۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کے) جڑ کاٹ دےo

8۔ تاکہ (معرکۂ بدر اس عظیم کامیابی کے ذریعے) حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ (معرکۂ حق و باطل کی اس نتیجہ خیزی کو) ناپسند ہی کرتے رہیںo

9۔ (وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لئے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوںo

10۔ اور اس (مدد کی صورت) کو اللہ نے محض بشارت بنایا (تھا) اور (یہ) اس لئے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور (حقیقت میں تو) اللہ کی بارگاہ سے مدد کے سوا کوئی (اور) مدد نہیں، بیشک اللہ (ہی) غالب حکمت والا ہےo

11۔ جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دےo

12۔ (اے حبیبِ مکرم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لئے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں، سو تم (بشارت و نصرت کے ذریعے) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی کافروں کے دلوں میں (لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں سو تم (کافروں کی) گردنوں کے اوپر سے ضرب لگانا اور ان کے ایک ایک جوڑ کر توڑ دیناo

13۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کی، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ (اسے) سخت عذاب دینے والا ہےo

14۔ یہ (عذابِ دنیا) ہے سو تم اسے (تو) چکھ لو اور بیشک کافروں کے لئے (آخرت میں) دوزخ کا (دوسرا) عذاب (بھی) ہےo

15۔ اے ایمان والو! جب تم (میدانِ جنگ میں) کافروں سے مقابلہ کرو (خواہ وہ) لشکرِ گراں ہو پھر بھی انہیں پیٹھ مت دکھاناo

16۔ اور جو شخص اس دن ان سے پیٹھ پھیرے گا، سوائے اس کے جو جنگ (ہی) کے لئے کوئی داؤ چل رہا ہو یا اپنے (ہی) کسی لشکر سے (تعاون کے لئے) ملنا چاہتا ہو، تو واقعتاً وہ اللہ کے غضب کے ساتھ پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ (بہت ہی) برا ٹھکانا ہےo

17۔ (اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا، اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے، اور یہ (اس لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo

18۔ یہ (تو ایک لطف و احسان) ہے اور (دوسرا) یہ کہ اللہ کافروں کے مکر و فریب کو کمزور کرنے والا ہےo

19۔ (اے کافرو!) اگر تم نے فیصلہ کن فتح مانگی تھی تو یقیناً تمہارے پاس (حق کی) فتح آچکی اور اگر تم (اب بھی) باز آجاؤ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم پھر یہی (شرارت) کرو گے (تو) ہم (بھی) پھر یہی (سزا) دیں گے اور تمہارا لشکر تمہیں ہرگز کفایت نہ کرسکے گا اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو اور بیشک اللہ مومنوں کے ساتھ ہےo

20۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہوo

21۔ اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے (دھوکہ دہی کے طور پر) کہا: ہم نے سن لیا، حالانکہ وہ نہیں سنتےo

22۔ بیشک اللہ کے نزدیک جانداروں میں سب سے بدتر وہی بہرے، گونگے ہیں جو (نہ حق سنتے ہیں، نہ حق کہتے ہیں اور حق کو حق) سمجھتے بھی نہیں ہیںo

23۔ اور اگر اللہ ان میں کچھ بھی خیر (کی طرف رغبت) جانتا تو انہیں (ضرور) سنا دیتا، اور (ان کی حالت یہ ہے کہ) اگر وہ انہیں (حق) سنا دے تو وہ (پھر بھی) روگردانی کر لیں اور وہ (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہیںo

24۔ اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گےo

25۔ اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں ہی کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں (بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے اور اس پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں شریک کر لئے جائیں گے)، اور جان لو کہ اللہ عذاب میں سختی فرمانے والا ہےo

26۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اَقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرتِ مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اَموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکوo

27۔ اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے (ان کے حقوق کی ادائیگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالانکہ تم (سب حقیقت) جانتے ہوo

28۔ اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تو بس فتنہ ہی ہیں اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس اجرِ عظیم ہےo

29۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہےo

30۔ اور جب کافر لوگ آپ کے خلاف خفیہ سازشیں کر رہے تھے کہ وہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو (وطن سے) نکال دیں، اور (اِدھر) وہ سازشی منصوبے بنا رہے تھے اور (اُدھر) اللہ (ان کے مکر کے ردّ کے لئے اپنی) تدبیر فرما رہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہےo

31۔ اور جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں (تو) وہ کہتے ہیں: بیشک ہم نے سن لیا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس (کلام) کے مثل کہہ سکتے ہیں یہ تو اگلوں کی (خیالی) داستانوں کے سوا (کچھ بھی) نہیں ہےo

32۔ اور جب انہوں نے (طعناً) کہا: اے اللہ! اگر یہی (قرآن) تیری طرف سے حق ہے تو (اس کی نافرمانی کے باعث) ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب بھیج دےo

33۔ اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوںo

34۔ (آپ کی ہجرتِ مدینہ کے بعد مکہ کے) ان (کافروں) کے لئے اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اللہ انہیں (اب) عذاب نہ دے حالانکہ وہ (لوگوں کو) مسجدِ حرام (یعنی کعبۃ اللہ) سے روکتے ہیں اور وہ اس کے ولی (یا متّولی) ہونے کے اہل بھی نہیں، اس کے اولیاء (یعنی دوست) تو صرف پرہیزگار لوگ ہوتے ہیں مگر ان میں سے اکثر (اس حقیقت کو) جانتے ہی نہیںo

35۔ اور بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، سو تم عذاب (کا مزہ) چکھو اس وجہ سے کہ تم کفر کیا کرتے تھےo

36۔ بیشک کافر لوگ اپنا مال و دولت (اس لئے) خرچ کرتے ہیں کہ (اس کے اثر سے) وہ (لوگوں کو) اللہ (کے دین) کی راہ سے روکیں، سو ابھی وہ اسے خرچ کرتے رہیں گے پھر (یہ خرچ کرنا) ان کے حق میں پچھتاوا (یعنی حسرت و ندامت) بن جائے گا پھر وہ (گرفتِ الٰہی کے ذریعے) مغلوب کر دیئے جائیں گے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گےo

37۔ تاکہ اللہ (تعالیٰ) ناپاک کو پاکیزہ سے جدا فرما دے اور ناپاک (یعنی نجاست بھرے کرداروں) کو ایک دوسرے کے اوپر تلے رکھ دے پھر سب کو اکٹھا ڈھیر بنا دے گا پھر اس (ڈھیر) کو دوزخ میں ڈال دے گا، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیںo

38۔ آپ کفر کرنے والوں سے فرما دیں: اگر وہ (اپنے کافرانہ اَفعال سے) باز آجائیں تو ان کے وہ (گناہ) بخش دیئے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور اگر وہ پھر وہی کچھ کریں گے تو یقیناً اگلوں (کے عذاب در عذاب) کا طریقہ گزر چکا ہے (ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو گا)o

39۔ اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہےo

40۔ اور اگر انہوں نے (اطاعتِ حق سے) روگردانی کی تو جان لو کہ بیشک اللہ ہی تمہارا مولیٰ (یعنی حمایتی) ہے، (وہی) بہتر حمایتی اور بہتر مددگار ہےo

پاره وَاعْلَمُواْ

41۔ اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہےo

42۔ جب تم (مدینہ کی جانب) وادی کے قریبی کنارے پر تھے اور وہ (کفّار دوسری جانب) دور والے کنارے پر تھے اور (تجارتی) قافلہ تم سے نیچے تھا، اور اگر تم آپس میں (جنگ کے لئے) کوئی وعدہ کر لیتے تو ضرور (اپنے) وعدہ سے مختلف (وقتوں میں) پہنچتے لیکن (اللہ نے تمہیں بغیر وعدہ ایک ہی وقت پر جمع فرما دیا) یہ اس لئے (ہوا) کہ اللہ اس کام کو پورا فرما دے جو ہو کر رہنے والا تھا تاکہ جس شخص کو مرنا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے مرے اور جسے جینا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے جئے (یعنی ہر کسی کے سامنے اسلام اور رسول برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت پر حجت قائم ہو جائے)، اور بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo

43۔ (وہ واقعہ یاد دلائیے) جب آپ کو اللہ نے آپ کے خواب میں ان کافروں (کے لشکر) کو تھوڑ ا کر کے دکھایا تھا اور اگر (اللہ) آپ کو وہ زیادہ کر کے دکھاتا تو (اے مسلمانو!) تم ہمت ہار جاتے اور تم یقیناً اس (جنگ کے) معاملے میں باہم جھگڑنے لگتے لیکن اللہ نے (مسلمانوں کو بزدلی اور باہمی نزاع سے) بچا لیا۔ بیشک وہ سینوں کی (چھپی) باتوں کو خوب جاننے والا ہےo

44۔ اور (وہ منظر بھی انہیں یاد دلائیے) جب اس نے ان کافروں (کی فوج) کو باہم مقابلہ کے وقت (بھی محض) تمہاری آنکھوں میں تمہیں تھوڑا کر کے دکھایا اور تمہیں ان کی آنکھوں میں تھوڑا دکھلایا (تاکہ دونوں لشکر لڑائی میں مستعد رہیں) یہ اس لئے کہ اللہ اس (بھر پور جنگ کے نتیجے میں کفار کی شکستِ فاش کے) امر کو پورا کر دے جو (عند اللہ) مقرر ہو چکا تھا، اور (بالآخر) اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیںo

45۔ اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo

46۔ اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےo

47۔ اور ایسے لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے گھروں سے اِتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھلاتے ہوئے نکلے تھے اور (جو لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے تھے، اور اللہ ان کاموں کو جو وہ کر رہے ہیں (اپنے علم و قدرت کے ساتھ) احاطہ کئے ہوئے ہےo

48۔ اور جب شیطان نے ان (کافروں) کے لئے ان کے اَعمال خوش نما کر دکھائے اور اس نے (ان سے) کہا: آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں (ہو سکتا) اور بیشک میں تمہیں پناہ دینے والا (مددگار) ہوں۔ پھر جب دونوں فوجوں نے ایک دوسرے کو (مقابل) دیکھ لیا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور کہنے لگا: بیشک میں تم سے بے زار ہوں، یقیناً میں وہ (کچھ) دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہےo

49۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دل میں (کفر کی) بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ان (مسلمانوں) کو ان کے دین نے بڑا مغرور کر رکھا ہے، (جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ) جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو (اللہ اس کے جملہ امور کا کفیل ہو جاتا ہے)، بیشک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہےo

50۔ اور اگر آپ (وہ منظر) دیکھیں (تو بڑا تعجب کریں) جب فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کی پشتوں پر (ہتھوڑے) مارتے جاتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ دوزخ کی) آگ کا عذاب چکھ لوo

51۔ یہ (عذاب) ان (اعمالِ بد) کے بدلہ میں ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے اور اللہ ہرگز بندوں پر ظلم فرمانے والا نہیںo

52۔ (ان کافروں کا حال بھی) قومِ فرعون اور ان سے پہلے کے لوگوں کے حال کی مانند ہے۔ انہوں نے (بھی) اللہ کی آیات کا انکار کیا تھا، سو اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کے باعث (عذاب میں) پکڑ لیا۔ بیشک اللہ قوت والا سخت عذاب دینے والا ہےo

53۔ یہ (عذاب) اس وجہ سے ہے کہ اللہ کسی نعمت کو ہرگز بدلنے والا نہیں جو اس نے کسی قوم پر اَرزانی فرمائی ہو یہاں تک کہ وہ لوگ اَز خود اپنی حالتِ نعمت کو بدل دیں (یعنی کفرانِ نعمت اور معصیت و نافرمانی کے مرتکب ہوں اور پھر ان میں احساسِ زیاں بھی باقی نہ رہے تب وہ قوم ہلاکت و بربادی کی زد میں آجاتی ہے)، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo

54۔ یہ (عذاب بھی) قومِ فرعون اور ان سے پہلے کے لوگوں کے دستور کی مانند ہے، انہوں نے (بھی) اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا تھا سو ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں ہلاک کر ڈالا اور ہم نے فرعون والوں کو (دریا میں) غرق کر دیا اور وہ سب کے سب ظالم تھےo

55۔ بیشک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے (بھی) بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا پھر وہ ایمان نہیں لاتےo

56۔ یہ (وہ) لوگ ہیں جن سے آپ نے (بارہا) عہد لیا پھر وہ ہر بار اپنا عہد توڑ ڈالتے ہیں اور وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتےo

57۔ سو اگر آپ انہیں (میدانِ) جنگ میں پالیں تو ان کے عبرت ناک قتل کے ذریعے ان کے پچھلوں کو (بھی) بھگا دیں تاکہ انہیں نصیحت حاصل ہوo

58۔ اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتاo

59۔ اور کافر لوگ اس گمان میں ہرگز نہ رہیں کہ وہ (بچ کر) نکل گئے۔ بیشک وہ (ہمیں) عاجز نہیں کر سکتےo

60۔ اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) اس (دفاعی تیاری) سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو اور ان کے سوا دوسروں کو بھی جن (کی چھپی دشمنی) کو تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے، اور تم جو کچھ (بھی) اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم سے ناانصافی نہ کی جائے گیo

61۔ اور اگر وہ (کفار) صلح کے لئے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہو جائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیشک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہےo

62۔ اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشیo

63۔ اور (اسی نے) ان (مسلمانوں) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بیشک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہےo

64۔ اے نبئ (معّظم!) آپ کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لیo

65۔ اے نبئ (مکرّم!) آپ ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دیں (یعنی حق کی خاطر لڑنے پر آمادہ کریں)، اگر تم میں سے (جنگ میں) بیس (20) ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو (200) (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) سو (ثابت قدم) ہوں گے تو کافروں میں سے (ایک) ہزار پر غالب آئیں گے اس وجہ سے کہ وہ (آخرت اور اس کے اجرِ عظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے (سو وہ اس قدر جذبہ و شوق سے نہیں لڑ سکتے جس قدر وہ مومن جو اپنی جانوں کا جنت اور اللہ کی رضا کے عوض سودا کر چکے ہیں)o

66۔ اب اللہ نے تم سے (اپنے حکم کا بوجھ) ہلکا کر دیا اسے معلوم ہے کہ تم میں (کسی قدر) کمزوری ہے سو (اب تخفیف کے بعد حکم یہ ہے کہ) اگر تم میں سے (ایک) سو (آدمی) ثابت قدم رہنے والے ہوں (تو) وہ دو سو (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار (کافروں) پر غالب آئیں گے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (یہ مومنوں کے لئے ہدف ہے کہ میدانِ جہاد میں ان کے جذبۂ ایمانی کا اثر کم سے کم یہ ہونا چاہیئے)o

67۔ کسی نبی کو یہ سزاوار نہیں کہ اس کے لئے (کافر) قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں ان (حربی کافروں) کا اچھی طرح خون نہ بہا لے۔ تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو، اور اللہ آخرت کی (بھلائی) چاہتا ہے، اور اللہ خوب غالب حکمت والا ہےo

68۔ اگر اللہ کی طرف سے پہلے ہی (معافی کا حکم) لکھا ہوا نہ ہوتا تو یقیناً تم کو اس (مال فدیہ کے بارے) میں جو تم نے (بدر کے قیدیوں سے) حاصل کیا تھا بڑا عذاب پہنچتاo

69۔ سو تم اس میں سے کھاؤ جو حلال، پاکیزہ مالِ غنیمت تم نے پایا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

70۔ اے نبی! آپ ان سے جو آپ کے ہاتھوں میں قیدی ہیں فرما دیجئے: اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں بھلائی جان لی تو تمہیں اس (مال) سے بہتر عطا فرمائے گا جو (فدیہ میں) تم سے لیا جا چکا ہے اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

71۔ اور (اے محبوب!) اگر وہ آپ سے خیانت کرنا چاہیں تو یقیناً وہ اس سے قبل (بھی) اللہ سے خیانت کر چکے ہیں سو (اسی وجہ سے) اس نے ان میں سے بعض کو (آپ کی) قدرت میں دے دیا، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo

72۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے (مگر) انہوں نے (اللہ کے لئے) گھر بار نہ چھوڑے تو تمہیں ان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین (کے معاملات) میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں (مدد نہ کرنا) کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح و امن کا) معاہدہ ہو، اور اللہ ان کاموں کو جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہےo

73۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں، (اے مسلمانو!) اگر تم (ایک دوسرے کے ساتھ) ایسا (تعاون اور مدد و نصرت) نہیں کرو گے تو زمین میں (غلبۂ کفر و باطل کا) فتنہ اور بڑا فساد بپا ہو جائے گاo

74۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہےo

75۔ اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور انہوں نے راہِ حق میں (قربانی دیتے ہوئے) گھر بار چھوڑ دیئے اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ لوگ (بھی) تم ہی میں سے ہیں، اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (صلہ رحمی اور وراثت کے لحاظ سے) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہےo

 

 

 

سُورة التَّوْبَۃ

سورت : مدنی        ترتیب تلاوت : 9  ترتیب نزولی : 11

رکوع : 16 آیات : 129      پارہ نمبر : 10, 11

 

1۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے بے زاری (و دست برداری) کا اعلان ہے ان مشرک لوگوں کی طرف جن سے تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا (اور وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہے تھے)o

2۔ پس (اے مشرکو!) تم زمین میں چار ماہ (تک) گھوم پھر لو (اس مہلت کے اختتام پر تمہیں جنگ کا سامنا کرنا ہو گا) اور جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز عاجز نہیں کر سکتے اور بیشک اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہےo

3۔ (یہ آیات) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جانب سے تمام لوگوں کی طرف حجِ اکبر کے دن اعلانِ (عام) ہے کہ اللہ مشرکوں سے بے زار ہے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی (ان سے بری الذمّہ ہے)، پس (اے مشرکو!) اگر تم توبہ کر لو تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ تم ہرگز اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے، اور (اے حبیب!) آپ کافروں کو دردناک عذاب کی خبر سنا دیںo

4۔ سوائے ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ (اپنے عہد کو پورا کرنے میں) کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ پر کسی کی مدد (یا پشت پناہی) کی سو تم ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک ان کے ساتھ پورا کرو، بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہےo

5۔ پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

6۔ اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواست گار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دیں، یہ اس لئے کہ وہ لوگ (حق کا) علم نہیں رکھتےo

7۔ (بھلا) مشرکوں کے لئے اللہ کے ہاں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہاں کوئی عہد کیوں کر ہو سکتا ہے؟ سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجدِ حرام کے پاس (حدیبیہ میں) معاہدہ کیا ہے سو جب تک وہ تمہارے ساتھ (عہد پر) قائم رہیں تم ان کے ساتھ قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہےo

8۔ (بھلا ان سے عہد کی پاسداری کی توقع) کیونکر ہو، ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پا جائیں تو نہ تمہارے حق میں کسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی عہد کا، وہ تمہیں اپنے مونہہ سے تو راضی رکھتے ہیں اور ان کے دل (ان باتوں سے) انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر عہد شکن ہیںo

9۔ انہوں نے آیاتِ الٰہی کے بدلے (دنیوی مفاد کی) تھوڑی سی قیمت حاصل کر لی پھر اس (کے دین) کی راہ سے (لوگوں کو) روکنے لگے، بیشک بہت ہی برا کام ہے جو وہ کرتے رہتے ہیںo

10۔ نہ وہ کسی مسلمان کے حق میں قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد کا، اور وہی لوگ (سرکشی میں) حد سے بڑھنے والے ہیںo

11۔ پھر (بھی) اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں، اور ہم (اپنی) آیتیں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم و دانش رکھتے ہیںo

12۔ اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قََسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیںo

13۔ کیا تم ایسی قوم سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قََسمیں توڑ ڈالیں اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو جلاوطن کرنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے تم سے (عہد شکنی اور جنگ کی) ابتداء کی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو بشرطیکہ تم مومن ہوo

14۔ تم ان سے جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان (کے مقابلہ) پر تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینوں کو شفا بخشے گاo

15۔ اور ان کے دلوں کا غم و غصہ دور فرمائے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا، اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہےo

16۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم (مصائب و مشکلات سے گزرے بغیر یونہی) چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ (ابھی) اللہ نے ایسے لوگوں کو متمیّز نہیں فرمایا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور (جنہوں نے) اللہ کے سوا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سوا اور اہلِ ایمان کے سوا (کسی کو) محرمِ راز نہیں بنایا، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہوo

17۔ مشرکوں کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں درآنحالیکہ وہ خود اپنے اوپر کفر کے گواہ ہیں، ان لوگوں کے تمام اعمال باطل ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ دوزخ ہی میں رہنے والے ہیںo

18۔ اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گےo

19۔ کیا تم نے (محض) حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی آبادی و مرمت کا بندوبست کرنے (کے عمل) کو اس شخص کے (اعمال) کے برابر قرار دے رکھا ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لے آیا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ لوگ اللہ کے حضور برابر نہیں ہو سکتے، اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo

20۔ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے وہ اللہ کی بارگاہ میں درجہ کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں، اور وہی لوگ ہی مراد کو پہنچے ہوئے ہیںo

21۔ ان کا رب انہیں اپنی جانب سے رحمت کی اور (اپنی) رضا کی اور (ان) جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے دائمی نعمتیں ہیںo

22۔ (وہ) ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے بیشک اللہ ہی کے پاس بڑا اجر ہےo

23۔ اے ایمان والو! تم اپنے باپ (دادا) اور بھائیوں کو بھی دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو محبوب رکھتے ہوں، اور تم میں سے جو شخص بھی انہیں دوست رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیںo

24۔ (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo

25۔ بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اور (خصوصاً) حنین کے دن جب تمہاری (افرادی قوت کی) کثرت نے تمہیں نازاں بنا دیا تھا پھر وہ (کثرت) تمہیں کچھ بھی نفع نہ دے سکی اور زمین باجود اس کے کہ وہ فراخی رکھتی تھی، تم پر تنگ ہو گئی چنانچہ تم پیٹھ دکھاتے ہوئے پھر گئےo

26۔ پھر اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر اور ایمان والوں پر اپنی تسکین (رحمت) نازل فرمائی اور اس نے (ملائکہ کے ایسے) لشکر اتارے جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جو کفر کر رہے تھے، اور یہی کافروں کی سزا ہےo

27۔ پھر اللہ اس کے بعد بھی جس کی چاہتا ہے توبہ قبول فرماتا ہے (یعنی اسے توفیقِ اسلام اور توجہِ رحمت سے نوازتا ہے)، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

28۔ اے ایمان والو! مشرکین تو سراپا نجاست ہیں سو وہ اپنے اس سال کے بعد (یعنی فتحِ مکہ کے بعد 9 ھ سے) مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں، اور اگر تمہیں (تجارت میں کمی کے باعث) مفلسی کا ڈر ہے تو (گھبراؤ نہیں) عنقریب اللہ اگر چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے مال دار کر دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

29۔ (اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریںo

30۔ اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے) پہلے کفر کر چکے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیںo

31۔ انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیںo

32۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریںo

33۔ وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگےo

34۔ اے ایمان والو! بیشک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دینِ حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کئے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیںo

35۔ جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لئے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھےo

36۔ بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (ازخود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر) تم سے جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہےo

37۔ (حرمت والے مہینوں کو) آگے پیچھے ہٹا دینا محض کفر میں زیادتی ہے اس سے وہ کافر لوگ بہکائے جاتے ہیں جو اسے ایک سال حلال گردانتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام ٹھہرا لیتے ہیں تاکہ ان (مہینوں) کا شمار پورا کر دیں جنہیں اللہ نے حرمت بخشی ہے اور اس (مہینے) کو حلال (بھی) کر دیں جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے۔ ان کے لئے ان کے برے اعمال خوش نما بنا دیئے گئے ہیں اور اللہ کافروں کے گروہ کو ہدایت نہیں فرماتاo

38۔ اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین (کی مادی و سفلی دنیا) کی طرف جھک جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے)o

39۔ اگر تم (جہاد کے لئے) نہ نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا فرمائے گا اور تمہاری جگہ (کسی) اور قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہےo

40۔ اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بیشک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جبکہ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہےo

41۔ تم ہلکے اور گراں بار (ہر حال میں) نکل کھڑے ہو اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (حقیقت) آشنا ہوo

42۔ اگر مالِ (غنیمت) قریب الحصول ہوتا اور (جہاد کا) سفر متوسط و آسان تو وہ (منافقین) یقیناً آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن (وہ) پُرمشقّت مسافت انہیں بہت دور دکھائی دی، اور (اب) وہ عنقریب اللہ کی قَسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں استطاعت ہوتی تو ضرور تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوتے، وہ (ان جھوٹی باتوں سے) اپنے آپ کو (مزید) ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ وہ واقعی جھوٹے ہیںo

43۔ اللہ آپ کو سلامت (اور باعزت و عافیت) رکھے، آپ نے انہیں رخصت (ہی) کیوں دی (کہ وہ شریکِ جنگ نہ ہوں) یہاں تک کہ وہ لوگ (بھی) آپ کے لئے ظاہر ہو جاتے جو سچ بول رہے تھے اور آپ جھوٹ بولنے والوں کو (بھی) معلوم فرما لیتےo

44۔ وہ لوگ جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آپ سے (اس بات کی) رخصت طلب نہیں کریں گے کہ وہ اپنے مال و جان سے جہاد (نہ) کریں، اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہےo

45۔ آپ سے (جہاد میں شریک نہ ہونے کی) رخصت صرف وہی لوگ چاہیں گے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں سو وہ اپنے شک میں حیران و سرگرداں ہیںo

46۔ اگر انہوں نے (واقعی جہاد کے لئے) نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو وہ اس کے لئے (کچھ نہ کچھ) سامان تو ضرور مہیا کر لیتے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ ان کے کذب و منافقت کے باعث) اللہ نے ان کا (جہاد کے لئے) کھڑے ہونا (ہی) ناپسند فرمایا سو اس نے انہیں (وہیں) روک دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم (جہاد سے جی چرا کر) بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہوo

47۔ اگر وہ تم میں (شامل ہو کر) نکل کھڑے ہوتے تو تمہارے لئے محض شر و فساد ہی بڑھاتے اور تمہارے درمیان (بگاڑ پیدا کرنے کے لئے) دوڑ دھوپ کرتے وہ تمہارے اندر فتنہ بپا کرنا چاہتے ہیں اور تم میں (اب بھی) ان کے (بعض) جاسوس موجود ہیں، اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہےo

48۔ درحقیقت وہ پہلے بھی فتنہ پردازی میں کوشاں رہے ہیں اور آپ کے کام الٹ پلٹ کرنے کی تدبیریں کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آپہنچا اور اللہ کا حکم غالب ہو گیا اور وہ (اسے) ناپسند ہی کرتے رہےo

49۔ اور ان میں سے وہ شخص (بھی) ہے جو کہتا ہے کہ آپ مجھے اجازت دے دیجئے (کہ میں جہاد پر جانے کی بجائے گھر ٹھہرا رہوں) اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے، سن لو! کہ وہ فتنہ میں (تو خود ہی) گر پڑے ہیں، اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہےo

50۔ اگر آپ کو کوئی بھلائی (یا آسائش) پہنچتی ہے (تو) وہ انہیں بری لگتی ہے اور اگر آپ کو مصیبت (یا تکلیف) پہنچتی ہے (تو) کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے کام (میں احتیاط) کو اختیار کر لیا تھا اور خوشیاں مناتے ہوئے پلٹتے ہیںo

51۔ (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے کہ ہمیں ہرگز (کچھ) نہیں پہنچے گا مگر وہی کچھ جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے، وہی ہمارا کارساز ہے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہیےo

52۔ آپ فرما دیں: کیا تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں (یعنی فتح اور شہادت) میں سے ایک ہی کا انتظار کر رہے ہو (کہ ہم شہید ہوتے ہیں یا غازی بن کر لوٹتے ہیں)، اور ہم تمہارے حق میں (تمہاری منافقت کے باعث) اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ اپنی بارگاہ سے تمہیں (خصوصی) عذاب پہنچاتا ہے یا ہمارے ہاتھوں سے۔ سو تم (بھی) انتظار کرو ہم (بھی) تمہارے ساتھ منتظر ہیں (کہ کس کا انتظار نتیجہ خیز ہے)o

53۔ فرما دیجئے: تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز وہ (مال) قبول نہیں کیا جائے گا، بیشک تم نافرمان لوگ ہوo

54۔ اور ان سے ان کے نفقات (یعنی صدقات) کے قبول کئے جانے میں کوئی (اور) چیز انہیں مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منکر ہیں اور وہ نماز کی ادائیگی کے لئے نہیں آتے مگر کاہلی و بے رغبتی کے ساتھ اور وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ (بھی) نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ وہ ناخوش ہوتے ہیںo

55۔ سو آپ کو نہ (تو) ان کے اموال تعجب میں ڈالیں اور نہ ہی ان کی اولاد۔ بس اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں انہی (چیزوں) کی وجہ سے دنیوی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوںo

56۔ اور وہ (اس قدر بزدل ہیں کہ) اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جو (اپنے نفاق کے ظاہر ہونے اور اس کے انجام سے) ڈرتے ہیں (اس لئے وہ بصورتِ تقیہ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتے ہیں)o

57۔ (ان کی کیفیت یہ ہے کہ) اگر وہ کوئی پناہ گاہ یا غار یا سرنگ پا لیں تو انتہائی تیزی سے بھاگتے ہوئے اس کی طرف پلٹ جائیں (اور آپ کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہ رہیں مگر اس وقت وہ مجبور ہیں اس لئے جھوٹی وفاداری جتلاتے ہیں)o

58۔ اور ان ہی میں سے بعض ایسے ہیں جو صدقات (کی تقسیم) میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں، پھر اگر انہیں ان (صدقات) میں سے کچھ دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جائیں اور اگر انہیں اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو وہ فوراً خفا ہو جاتے ہیںo

59۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتاo

60۔ بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

61۔ اور ان (منافقوں) میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو نبی (مکرّم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں: وہ تو کان (کے کچے) ہیں۔ فرما دیجئے: تمہارے لئے بھلائی کے کان ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان (کی باتوں) پر یقین کرتے ہیں اور تم میں سے جو ایمان لے آئے ہیں ان کے لئے رحمت ہیں، اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو (اپنی بدعقیدگی، بدگمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہےo

62۔ مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) زیادہ حق دار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو راضی کرتے، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیونکہ دونوں کی رضا ایک ہےo

63۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے تو اس کے لئے دوزخ کی آگ (مقرر) ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، یہ زبردست رسوائی ہےo

64۔ منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نازل کر دی جائے جو انہیں ان باتوں سے خبردار کر دے جو ان (منافقوں) کے دلوں میں (مخفی) ہیں۔ فرما دیجئے: تم مذاق کرتے رہو، بیشک اللہ وہ (بات) ظاہر فرمانے والا ہے جس سے تم ڈر رہے ہوo

65۔ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ ہم تو صرف (سفر کاٹنے کے لئے) بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ فرما دیجئے: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ مذاق کر رہے تھےo

66۔ (اب) تم معذرت مت کرو، بیشک تم اپنے ایمان (کے اظہار) کے بعد کافر ہو گئے ہو، اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف بھی کر دیں (تب بھی) دوسرے گروہ کو عذاب دیں گے اس وجہ سے کہ وہ مجرم تھےo

67۔ منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بیشک منافقین ہی نافرمان ہیںo

68۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے آتشِ دوزخ کا وعدہ فرما رکھا ہے (وہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے، وہ (آگ) انہیں کافی ہے، اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے ہمیشہ برقرار رہنے والا عذاب ہےo

69۔ (اے منافقو! تم) ان لوگوں کی مثل ہو جو تم سے پہلے تھے۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ پس وہ اپنے (دنیوی) حصے سے فائدہ اٹھا چکے سو تم (بھی) اپنے حصے سے (اسی طرح) فائدہ اٹھا رہے ہو جیسے تم سے پہلے لوگوں نے (لذّتِ دنیا کے) اپنے مقررہ حصے سے فائدہ اٹھایا تھا نیز تم (بھی اسی طرح) باطل میں داخل اور غلطاں ہو جیسے وہ باطل میں داخل اور غلطاں تھے۔ ان لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں برباد ہو گئے اور وہی لوگ خسارے میں ہیںo

70۔ کیا ان کے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے تھے، قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیم اور باشندگانِ مدین اور ان بستیوں کے مکین جو الٹ دی گئیں، ان کے پاس (بھی) ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے تھے (مگر انہوں نے نافرمانی کی) پس اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ (انکارِ حق کے باعث) اپنے اوپر خود ہی ظلم کرتے تھےo

71۔ اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo

72۔ اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہو گی)، یہی زبردست کامیابی ہےo

73۔ اے نبی (معظم!) آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ برا ٹھکانا ہےo

74۔ (یہ منافقین) اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (کچھ) نہیں کہا حالانکہ انہوں نے یقیناً کلمہ کفر کہا اور وہ اپنے اسلام (کو ظاہر کرنے) کے بعد کافر ہو گئے اور انہوں نے (کئی اذیت رساں باتوں کا) ارادہ (بھی) کیا تھا جنہیں وہ نہ پا سکے اور وہ (اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل میں سے) اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا، سو اگر یہ (اب بھی) توبہ کر لیں تو ان کے لئے بہتر ہے اور اگر (اسی طرح) روگرداں رہیں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت (دونوں زندگیوں) میں دردناک عذاب میں مبتلا فرمائے گا اور ان کے لئے زمین میں نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگارo

75۔ اور ان (منافقوں) میں (بعض) وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے (دولت) عطا فرمائی تو ہم ضرور (اس کی ر اہ میں) خیرات کریں گے اور ہم ضرور نیکو کاروں میں سے ہو جائیں گےo

76۔ پس جب اس نے انہیں اپنے فضل سے (دولت) بخشی (تو) وہ اس میں بخل کرنے لگے اور وہ (اپنے عہد سے) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئےo

77۔ پس اس نے ان کے دلوں میں نفاق کو (ان کے اپنے بخل کا) انجام بنا دیا اس دن تک کہ جب وہ اس سے ملیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ سے اپنے کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی اور اس وجہ سے (بھی) کہ وہ کذب بیانی کیا کرتے تھےo

78۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے بھید اور ان کی سرگوشیاں جانتا ہے اور یہ کہ اللہ سب غیب کی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہےo

79۔ جو لوگ برضا و رغبت خیرات دینے والے مومنوں پر (ان کے) صدقات میں (ریاکاری و مجبوری کا) الزام لگاتے ہیں اور ان (نادار مسلمانوں) پر بھی (عیب لگاتے ہیں) جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے سو یہ (ان کے جذبۂ اِنفاق کا بھی) مذاق اڑاتے ہیں، اللہ انہیں ان کے تمسخر کی سزا دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہےo

80۔ آپ خواہ ان (بدبخت، گستاخ اور آپ کی شان میں طعنہ زنی کرنے والے منافقوں) کے لئے بخشش طلب کریں یا ان کے لئے بخشش طلب نہ کریں، اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادتِ کریمانہ کے پیشِ نظر) ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo

81۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کے باعث (جہاد سے) پیچھے رہ جانے والے (یہ منافق) اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہو رہے ہیں وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کہتے تھے کہ اس گرمی میں نہ نکلو، فرما دیجئے: دوزخ کی آگ سب سے زیادہ گرم ہے، اگر وہ سمجھتے ہوتے (تو کیا ہی اچھا ہوتاo

82۔ پس انہیں چاہیئے کہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں (کیونکہ آخرت میں انہیں زیادہ رونا ہے) یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کماتے تھےo

83۔ پس (اے حبیب!) اگر اللہ آپ کو (غزوۂ تبوک سے فارغ ہونے کے بعد) ان (منافقین) میں سے کسی گروہ کی طرف دوبارہ واپس لے جائے اور وہ آپ سے (آئندہ کسی اور غزوہ کے موقع پر جہاد کے لئے) نکلنے کی اجازت چاہیں تو ان سے فرما دیجئے گا کہ (اب) تم میرے ساتھ کبھی بھی ہرگز نہ نکلنا اور تم میرے ساتھ ہو کر کبھی بھی ہرگز دشمن سے جنگ نہ کرنا (کیونکہ) تم پہلی مرتبہ (جہاد چھوڑ کر) پیچھے بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے تھے سو (اب بھی) پیچھے بیٹھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہوo

84۔ اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں (کیونکہ آپ کا کسی جگہ قدم رکھنا بھی رحمت و برکت کا باعث ہوتا ہے اور یہ آپ کی رحمت و برکت کے حق دار نہیں ہیں)۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئےo

85۔ اور ان کے مال اور ان کی اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ فقط یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں کے ذریعے انہیں دنیا میں (بھی) عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر (ہی) ہوںo

86۔ اور جب کوئی (ایسی) سورت نازل کی جاتی ہے کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی معیت میں جہاد کرو تو ان میں سے دولت اور طاقت والے لوگ آپ سے رخصت چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: آپ ہمیں چھوڑ دیں ہم (پیچھے) بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہو جائیںo

87۔ انہوں نے یہ پسند کیا کہ وہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں، بچوں اور معذوروں کے ساتھ ہو جائیں اور ان کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی ہے سو وہ کچھ نہیں سمجھتےo

88۔ لیکن رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیںo

89۔ اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہےo

90۔ اور صحرا نشینوں میں سے کچھ بہانہ ساز (معذرت کرنے کے لئے دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں) آئے تاکہ انہیں (بھی) رخصت دے دی جائے، اور وہ لوگ جنہوں نے (اپنے دعویٰ ایمان میں) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے جھوٹ بولا تھا (جہاد چھوڑ کر پیچھے) بیٹھے رہے، عنقریب ان میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا دردناک عذاب پہنچے گاo

91۔ ضعیفوں (کمزوروں) پر کوئی گناہ نہیں اور نہ بیماروں پر اور نہ (ہی) ایسے لوگوں پر ہے جو اس قدر (وسعت بھی) نہیں پاتے جسے خرچ کریں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے خالص و مخلص ہو چکے ہوں، نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

92۔ اور نہ ایسے لوگوں پر (طعنہ و الزام کی راہ ہے) جبکہ وہ آپ کی خدمت میں (اس لئے) حاضر ہوئے کہ آپ انہیں (جہاد کے لئے) سوار کریں (کیونکہ ان کے پاس اپنی کوئی سواری نہ تھی تو) آپ نے فرمایا: میں (بھی) کوئی (زائد سواری) نہیں پاتا ہوں جس پر تمہیں سوار کر سکوں، (تو) وہ (آپ کے اذن سے) اس حالت میں لوٹے کہ ان کی آنکھیں (جہاد سے محرومی کے) غم میں اشکبار تھیں کہ (افسوس) وہ (اس قدر) زادِ راہ نہیں پاتے جسے وہ خرچ کر سکیں (اور شریک جہاد ہو سکیں)o

93۔ (الزام کی) راہ تو فقط ان لوگوں پر ہے جو آپ سے رخصت طلب کرتے ہیں حالانکہ وہ مال دار ہیں، وہ اس بات سے خوش ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں اور معذوروں کے ساتھ رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، سو وہ جانتے ہی نہیں (کہ حقیقی سود و زیاں کیا ہے)o

پاره یعْتَذِرُونَ

94۔ (اے مسلمانو!) وہ تم سے عذر خواہی کریں گے جب تم ان کی طرف (اس سفرِ تبوک سے) پلٹ کر جاؤ گے، (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے: بہانے مت بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے، ہمیں اﷲ نے تمہارے حالات سے باخبر کر دیا ہے، اور اب (آئندہ) تمہارا عمل (دنیا میں بھی) اﷲ دیکھے گا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی (دیکھے گا) پھر تم (آخرت میں بھی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں ان تمام (اعمال) سے خبردار فرما دے گا جو تم کیا کرتے تھےo

95۔ اب وہ تمہارے لئے اﷲ کی قََسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف پلٹ کر جاؤ گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو، پس تم ان کی طرف التفات ہی نہ کرو بیشک وہ پلید ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کمایا کرتے تھےo

96۔ یہ تمہارے لئے قَسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، سو (اے مسلمانو!) اگرتم ان سے راضی بھی ہو جاؤ تو (بھی) اﷲ نافرمان قو م سے راضی نہیں ہو گاo

97۔ (یہ) دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور (اپنے کفر و نفاق کی شدت کے باعث) اسی قابل ہیں کہ وہ ان حدود و احکام سے جاہل رہیں جو اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل فرمائے ہیں، اور اﷲ خوب جاننے والا، بڑی حکمت والا ہےo

98۔ اور ان دیہاتی گنواروں میں سے وہ شخص (بھی) ہے جو اس (مال) کو تاوان قرار دیتا ہے جسے وہ (راہِ خدا میں) خرچ کرتا ہے اور تم پر زمانہ کی گردشوں (یعنی مصائب و آلام) کا انتظار کرتا رہتا ہے، (بَلا و مصیبت کی) بری گردش انہی پر ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo

99۔ اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اﷲ کے حضور تقرب اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بیشک وہ ان کے لئے باعثِ قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اﷲ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

100۔ اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہو گیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہےo

101۔ اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں (بعد میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی جملہ منافقین کا علم اور معرفت عطا کر دی گئی)۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ (دنیا ہی میں) عذاب دیں گے٭ پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گےo

٭ ایک بار جب ان کی پہچان کرا دی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبۂ جمعہ کے دوران ان منافقین کو نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا، یہ پہلا عذاب بصورتِ ذلت و رسوائی تھا؛ اور دوسرا عذاب بصورتِ ہلاکت و مُقاتلہ ہوا جس کا حکم بعد میں آیا۔

102۔ اور دوسرے وہ لو گ کہ (جنہوں نے) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو (غلطی سے) ملا جلا دیا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول فرمالے، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

103۔ آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo

104۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ بیشک اﷲ ہی تو اپنے بندوں سے (ان کی) توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات اپنے دستِ قدرت سے) وصول فرماتا ہے اور یہ کہ اﷲ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہےo

105۔ اور فرما دیجئے: تم عمل کرو، سو عنقریب تمہارے عمل کو اﷲ (بھی) دیکھ لے گا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی) اور اہلِ ایمان (بھی)، اور تم عنقریب ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے، سو وہ تمہیں ان اعمال سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہتے تھےo

106۔ اور کچھ دوسرے (بھی) ہیں جو اللہ کے (آئندہ) حکم کے لئے مؤخر رکھے گئے ہیں وہ یا تو انہیں عذاب دے گا یا ان کی توبہ قبول فرمالے گا، اور اﷲ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

107۔ اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیار کی ہے (مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے پہلے ہی سے جنگ کر رہا ہے، اور وہ ضرور قَسمیں کھائیں گے کہ ہم نے (اس مسجد کے بنانے سے) سوائے بھلائی کے اور کوئی ارادہ نہیں کیا، اور اﷲ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیںo

108۔ (اے حبیب!) آپ اس (مسجد کے نام پر بنائی گئی عمارت) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں۔ البتہ وہ مسجد، جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، حق دار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں، اور اﷲ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہےo

109۔ بھلا وہ شخص جس نے اپنی عمارت (یعنی مسجد) کی بنیاد اللہ سے ڈرنے او ر (اس کی) رضا و خوشنودی پر رکھی، بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی جو گرنے والا ہے۔ سو وہ (عمارت) اس معمار کے ساتھ ہی آتشِ دوزخ میں گر پڑی، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo

110۔ ان کی عمارت جسے انہوں نے (مسجد کے نام پر) بنا رکھا ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں (شک اور نفاق کے باعث) کھٹکتی رہے گی سوائے اس کے کہ ان کے دل (مسلسل خراش کی وجہ سے) پارہ پارہ ہو جائیں، اور اﷲ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

111۔ بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، سو وہ (حق کی خاطر) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کئے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہےo

112۔ (یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوں سے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قربِ الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجئےo

113۔ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیںo

114۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ (یعنی چچا آزر، جس نے آپ کو پالا تھا) کے لئے دعائے مغفرت کرنا صرف اس وعدہ کی غرض سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے، پھر جب ان پر یہ ظاہر ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے زار ہو گئے (اس سے لاتعلق ہو گئے اور پھر کبھی اس کے حق میں دعا نہ کی)۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے دردمند (گریہ و زاری کرنے والے اور) نہایت بردبار تھےo

115۔ اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہئے، بیشک اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہےo

116۔ بیشک اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساری بادشاہی ہے، (وہی) جِلاتا اور مارتا ہے، اور تمہارے لئے اﷲ کے سوا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار (جو اَمرِ الہیٰ کے خلاف تمہاری حمایت کر سکےo

117۔ یقیناً اﷲ نے نبی (معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر (بھی) جنہوں نے (غزوۂ تبوک کی) مشکل گھڑی میں (بھی) آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کی اس (صورتِ حال) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق، نہایت مہربان ہےo

118۔ اور ان تینوں شخصوں پر (بھی نظرِ رحمت فرما دی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہو گئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہو گئیں اور انہیں یقین ہو گیا کہ اﷲ (کے عذاب) سے پناہ کا کوئی ٹھکانا نہیں بجز اس کی طرف (رجوع کے)، تب اﷲ ان پر لطف وکرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بیشک اﷲ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہےo

119۔ اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو o

120۔ اہلِ مدینہ اور ان کے گرد و نواح کے (رہنے والے) دیہاتی لوگوں کے لئے مناسب نہ تھا کہ وہ رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے (الگ ہو کر) پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ ان کی جانِ (مبارک) سے زیادہ اپنی جانوں سے رغبت رکھیں، یہ (حکم) اس لئے ہے کہ انہیں اﷲ کی راہ میں جو پیاس (بھی) لگتی ہے اور جو مشقت (بھی) پہنچتی ہے اور جو بھوک (بھی) لگتی ہے اور جو کسی ایسی جگہ پر چلتے ہیں جہاں کاچلنا کافروں کو غضبناک کرتا ہے اور دشمن سے جو کچھ بھی پاتے ہیں (خواہ قتل اور زخم ہو یا مالِ غنیمت وغیرہ) مگر یہ کہ ہر ایک بات کے بدلہ میں ان کے لئے ایک نیک عمل لکھا جاتا ہے۔ بیشک اللہ نیکوکاروں کا اَجر ضائع نہیں فرماتاo

121۔ اور نہ یہ کہ وہ (مجاہدین) تھوڑا خرچہ کرتے ہیں اور نہ بڑا اور نہ (ہی) کسی میدان کو (راہِ خدا میں) طے کرتے ہیں مگر ان کے لئے (یہ سب صرف و سفر) لکھ دیا جاتا ہے تاکہ اللہ انہیں (ہر اس عمل کی) بہتر جزا دے جو وہ کیا کرتے تھےo

122۔ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں، تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیںo

123۔ اے ایمان والو! تم کافروں میں سے ایسے لوگوں سے جنگ کرو جو تمہارے قریب ہیں (یعنی جو تمہیں اور تمہارے دین کو براہِ راست نقصان پہنچا رہے ہیں) اور (جہاد ایسا اور اس وقت ہو کہ) وہ تمہارے اندر (طاقت و شجاعت کی) سختی پائیں، اورجان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہےo

124۔ اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان (منافقوں) میں سے بعض (شرارتاً) یہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کون ہے جسے اس (سورت) نے ایمان میں زیادتی بخشی ہے، پس جو لوگ ایمان لے آئے ہیں سو اس (سورت) نے ان کے ایمان کو زیادہ کر دیا اور وہ (اس کیفیتِ ایمانی پر) خوشیاں مناتے o

1ہیں25۔ اور جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے تو اس (سورت) نے ان کی خباثتِ (کفر و نفاق) پر مزید پلیدی (اور خباثت) بڑھا دی اور وہ اس حالت میں مرے کہ کافر ہی تھےo

126۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک بار یا دو بار مصیبت میں مبتلا کئے جاتے ہیں پھر (بھی) وہ توبہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیںo

127۔ اورجب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں، (اور اشاروں سے پوچھتے ہیں) کہ کیا تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر وہ پلٹ جاتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتےo

128۔ بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo

129۔ اگر (ان بے پناہ کرم نوازیوں کے باوجود) پھر (بھی) وہ روگردانی کریں تو فرما دیجئے: مجھے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں اسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہوں اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہےo

 

 

سُورة یوْنـُس

سورت : مکی  ترتیب تلاوت : 10        ترتیب نزولی : 51

رکوع : 11 آیات : 109      پارہ نمبر : 11

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیںo

2۔ کیا یہ بات لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مردِ (کامل) کی طرف وحی بھیجی کہ آپ (بھولے بھٹکے ہوئے) لوگوں کو (عذابِ الٰہی کا) ڈر سنائیں اور ایمان والوں کو خوشخبری سنائیں کہ ان کے لئے ان کے رب کی بارگاہ میں بلند پایہ (یعنی اونچا مرتبہ) ہے، کافر کہنے لگے: بیشک یہ شخص تو کھلا جادوگر ہےo

3۔ یقیناً تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی و زیریں کائنات) کو چھ دنوں (یعنی چھ مدتوں یا مرحلوں) میں (تدریجاً) پیدا فرمایا پھر وہ عرش پر (اپنے اقتدار کے ساتھ) جلوہ افروز ہوا (یعنی تخلیقِ کائنات کے بعد اس کے تمام عوالم اور اَجرام میں اپنے قانون اور نظام کے اجراء کی صورت میں متمکن ہوا) وہی ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے (یعنی ہر چیز کو ایک نظام کے تحت چلاتا ہے۔ اس کے حضور) اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں، یہی (عظمت و قدرت والا) اللہ تمہارا رب ہے، سو تم اسی کی عبادت کرو، پس کیا تم (قبولِ نصیحت کے لئے) غور نہیں کرتےo

4۔ (لوگو!) تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (یہ) اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ بیشک وہی پیدائش کی ابتداء کرتا ہے پھر وہی اسے دہرائے گا تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے، اس کا بدلہ جو وہ کفر کیا کرتے تھےo

5۔ وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو، اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر درست تدبیر کے ساتھ، وہ (ان کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے جو علم رکھتے ہیںo

6۔ بیشک رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور ان (جملہ) چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں (اسی طرح) ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو تقویٰ رکھتے ہیںo

7۔ بیشک جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیوی زندگی سے خوش ہیں اور اسی سے مطمئن ہو گئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیںo

8۔ انہی لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کے بدلہ میں جو وہ کماتے رہےo

9۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کے باعث (جنتوں تک) پہنچا دے گا، جہاں ان (کی رہائش گاہوں) کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی (یہ ٹھکانے) اُخروی نعمت کے باغات میں (ہوں گے)o

10۔ (نعمتوں اور بہاروں کو دیکھ کر) ان (جنتوں) میں ان کی دعا (یہ) ہو گی: ”اے اللہ! تو پاک ہے“ اور اس میں ان کی آپس میں دعائے خیر (کا کلمہ) ”سلام“ ہو گا (یا اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی طرف سے ان کے لئے کلمۂ استقبال ”سلام“ ہو گا) اور ان کی دعا (ان کلمات پر) ختم ہو گی کہ ”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے“o

11۔ اور اگر اللہ (ان کافر) لوگوں کو برائی (یعنی عذاب) پہنچانے میں جلدبازی کرتا، جیسے وہ طلبِ نعمت میں جلدبازی کرتے ہیں تو یقیناً ان کی میعادِ (عمر) ان کے حق میں (جلد) پوری کر دی گئی ہوتی (تاکہ وہ مَر کے جلد دوزخ میں پہنچیں)، بلکہ ہم ایسے لوگوں کو جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں چھوڑے رکھتے ہیں کہ وہ بھٹکتے رہیںo

12۔ اور جب (ایسے) انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں اپنے پہلو پر لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ (ہمیں بھلا کر اس طرح) چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی ہمیں (کبھی) پکارا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے (غلط) اَعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے تھےo

13۔ اور بیشک ہم نے تم سے پہلے (بھی بہت سی) قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو (ان کے عمل کی) سزا دیتے ہیںo

14۔ پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ (اب) تم کیسے عمل کرتے ہوo

15۔ اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کے سوا کوئی اور قرآن لے آئیے یا اسے بدل دیجئے، (اے نبیِ مکرّم!) فرما دیں: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو فقط جو میری طرف وحی کی جاتی ہے (اس کی) پیروی کرتا ہوں، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بیشک میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوںo

16۔ فرما دیجئے: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہی میں اس (قرآن) کو تمہارے اوپر تلاوت کرتا اور نہ وہ (خود) تمہیں اس سے باخبر فرماتا، بیشک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo

17۔ پس اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلا دے۔ بیشک مجرم لوگ فلاح نہیں پائیں گےo

18۔ اور (مشرکین) اللہ کے سوا ان (بتوں) کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور (اپنی باطل پوجا کے جواز میں) کہتے ہیں کہ یہ (بت) اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں، فرما دیجئے: کیا تم اللہ کو اس (شفاعتِ اَصنام کے من گھڑت) مفروضہ سے آگاہ کر رہے ہو جس (کے وجود) کو وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں (یعنی اس کی بارگاہ میں کسی بت کا سفارش کرنا اس کے علم میں نہیں ہے)۔ اس کی ذات پاک ہے اور وہ ان سب چیزوں سے بلند و بالا ہے جنہیں یہ (اس کا) شریک گردانتے ہیںo

19۔ اور سارے لوگ (ابتداء) میں ایک ہی جماعت تھے پھر(باہم اختلاف کر کے) جدا جدا ہو گئے، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی (کہ عذاب میں جلد بازی نہیں ہو گی) تو ان کے درمیان ان باتوں کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہوتا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیںo

20۔ اور وہ (اب اسی مہلت کی وجہ سے) کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ان کے رب کی طرف سے کوئی (فیصلہ کن) نشانی کیوں نازل نہیں کی گئی، آپ فرما دیجئے: غیب تو محض اللہ ہی کے لئے ہے، سو تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوںo

21۔ اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت سے لذت آشنا کرتے ہیں تو فوراً (ہمارے احسان کو بھول کر) ہماری نشانیوں میں ان کا مکر و فریب (شروع) ہو جاتا ہے۔ فرما دیجئے: اللہ مکر کی سزا جلد دینے والا ہے۔ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے، جو بھی فریب تم کر رہے ہو (اسے) لکھتے رہتے ہیںo

22۔ وہی ہے جو تمہیں خشک زمین اور سمندر میں چلنے پھرنے (کی توفیق) دیتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے ہو اور وہ (کشتیاں) لوگوں کو لے کر موافق ہوا کے جھونکوں سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں تو (ناگہاں) ان (کشتیوں) کو تیز و تند ہوا کا جھونکا آلیتا ہے اور ہر طرف سے ان (سواروں) کو (جوش مارتی ہوئی) موجیں آگھیرتی ہیں اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ (اب) وہ ان (لہروں) سے گھر گئے (تو اس وقت) وہ اللہ کو پکارتے ہیں (اس حال میں) کہ اپنے دین کو اسی کے لئے خالص کرنے والے ہیں (اور کہتے ہیں: اے اللہ!) اگر تو نے ہمیں اس (بَلا) سے نجات بخش دی تو ہم ضرور (تیرے) شکر گزار بندوں میں سے ہو جائیں گےo

23۔ پھر جب اللہ نے انہیں نجات دے دی تو وہ فوراً ہی ملک میں (حسبِ سابق) ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ اے (اللہ سے بغاوت کرنے والے) لوگو! بس تمہاری سرکشی و بغاوت (کا نقصان) تمہاری ہی جانوں پر ہے۔ دنیا کی زندگی کا کچھ فائدہ (اٹھالو)، بالآخر تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے، اُس وقت ہم تمہیں ان اَعمال سے خوب آگاہ کر دیں گے جو تم کرتے رہے تھےo

24۔ بس دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا پھر اس کی وجہ سے زمین کی پیداوار خوب گھنی ہو کر اُگی، جس میں سے انسان بھی کھاتے ہیں اور چوپائے بھی، یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی (پوری پوری) رونق اور حسن لے لیا اور خوب آراستہ ہو گئی اور اس کے باشندوں نے سمجھ لیا کہ (اب) ہم اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں تو (دفعۃً) اسے رات یا دن میں ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا تو ہم نے اسے (یوں) جڑ سے کٹا ہوا بنا دیا گویا وہ کل یہاں تھی ہی نہیں، اسی طرح ہم ان لوگوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں جو تفکر سے کام لیتے ہیںo

25۔ اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے، اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرماتا ہےo

26۔ ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ بھی ہے، اور نہ ان کے چہروں پر (غبار اور) سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت و رسوائی، یہی اہلِ جنت ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo

27۔ اور جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں (ان کے لئے) برائی کا بدلہ اسی کی مثل ہو گا، اور ان پر ذلت و رسوائی چھا جائے گی ان کے لئے اللہ (کے عذاب) سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ہو گا (یوں لگے گا) گویا ان کے چہرے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیئے گئے ہیں۔ یہی اہلِ جہنم ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo

28۔ اورجس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے: تم اور تمہارے شریک (بتانِ باطل) اپنی اپنی جگہ ٹھہرو۔ پھر ہم ان کے درمیان پھوٹ ڈال دیں گے۔ اور ان کے (اپنے گھڑے ہوئے) شریک (ان سے) کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھےo

29۔ پس ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے کہ ہم تمہاری پرستش سے (یقیناً) بے خبر تھےo

30۔ اس (دہشت ناک) مقام پر ہر شخص ان (اعمال کی حقیقت) کو جانچ لے گا جو اس نے آگے بھیجے تھے اور وہ اللہ کی جانب لوٹائے جائیں گے جو ان کا مالکِ حقیقی ہے اور ان سے وہ بہتان تراشی جاتی رہے گی جو وہ کیا کرتے تھےo

31۔ آپ (ان سے) فرما دیجئے: تمہیں آسمان اور زمین (یعنی اوپر اور نیچے) سے رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کان اور آنکھوں (یعنی سماعت و بصارت) کا مالک کون ہے، اور زندہ کو مُردہ (یعنی جاندار کو بے جان) سے کون نکالتا ہے اور مُردہ کو زندہ (یعنی بے جان کو جاندار) سے کون نکالتا ہے، اور (نظام ہائے کائنات کی) تدبیر کون فرماتا ہے؟ سو وہ کہہ اٹھیں گے کہ اللہ، تو آپ فرمائیے: پھرکیا تم (اس سے) ڈرتے نہیںo

32۔ پس یہی (عظمت و قدرت والا) اللہ ہی تو تمہارا سچا رب ہے، پس (اس) حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہوسکتا ہے، سو تم کہاں پھرے جارہے ہوo

33۔ اسی طرح آپ کے رب کا حکم نافرمانوں پر ثابت ہوکر رہا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گےo

34۔ آپ (ان سے دریافت) فرمائیے کہ کیا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتداء کرے پھر (زندگی کے معدوم ہو جانے کے بعد) اسے دوبارہ لوٹائے؟ آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی (حیات کو عدم سے وجود میں لاتے ہوئے) آفرینش کا آغاز فرماتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ (بھی) فرمائے گا، پھر تم کہاں بھٹکتے پھرتے ہوo

35۔ آپ (ان سے دریافت) فرمائیے: کیا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرسکے، آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی (دینِ) حق کی ہدایت فرماتا ہے، تو کیا جو کوئی حق کی طرف ہدایت کرے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے یا وہ جو خود ہی راستہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اسے راستہ دکھایا جائے (یعنی اسے اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے جیسے کفار اپنے بتوں کو حسبِ ضرورت اٹھا کر لے جاتے)، سو تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسے فیصلے کرتے ہوo

36۔ ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں، بیشک گمان حق سے معمولی سا بھی بے نیاز نہیں کرسکتا، یقیناً اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیںo

37۔ یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ (کی وحی) کے بغیر گھڑ لیا گیا ہو لیکن (یہ) ان (کتابوں) کی تصدیق (کرنے والا) ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوچکی) ہیں اور جو کچھ (اللہ نے لوح میں یا احکامِ شریعت میں) لکھا ہے اس کی تفصیل ہے، اس (کی حقانیت) میں ذرا بھی شک نہیں (یہ) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ہےo

38۔ کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خود گھڑ لیا ہے، آپ فرما دیجئے: پھر تم اس کی مثل کوئی (ایک) سورت لے آؤ (اور اپنی مدد کے لئے) اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہوo

39۔ بلکہ یہ اس (کلامِ الٰہی) کو جھٹلا رہے ہیں جس کے علم کا وہ احاطہ بھی نہیں کرسکے تھے اور ابھی اس کی حقیقت (بھی) ان کے سامنے کھل کر نہ آئی تھی۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی (حق کو) جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں سو آپ دیکھیں کہ ظالموں کا انجام کیسا ہواo

40۔ ان میں سے کوئی تو اس پر ایمان لائے گا اور انہی میں سے کوئی اس پر ایمان نہ لائے گا، اور آپ کا رب فساد انگیزی کرنے والوں کو خوب جانتا ہےo

41۔ اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو فرما دیجئے کہ میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے، تم اس عمل سے بری الذمہ ہو جو میں کرتا ہوں اور میں ان اَعمال سے بری الذمہ ہوں جو تم کرتے ہوo

42۔ اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو (ظاہراً) آپ کی طرف کان لگاتے ہیں، تو کیا آپ بہروں کو سنا دیں گے خواہ وہ کچھ عقل بھی نہ رکھتے ہوںo

43۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو (ظاہراً) آپ کی طرف دیکھتے ہیں، کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا دیں گے خواہ وہ کچھ بصارت بھی نہ رکھتے ہوںo

44۔ بیشک اللہ لوگوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ (خود ہی) اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیںo

45۔ اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا دنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے، وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے۔ بیشک وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا تھا اور وہ ہدایت یافتہ نہ ہوئےo

46۔ اور خواہ ہم آپ کو اس (عذاب) کا کچھ حصہ (دنیا میں ہی) دکھا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں (اور ہم آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ایسا کریں گے) یا (اس سے پہلے) ہم آپ کو وفات بخش دیں، تو انہیں (بہر صورت) ہماری ہی طرف لوٹنا ہے، پھر اللہ (خود) اس پر گواہ ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیںo

47۔ اور ہر امت کے لئے ایک رسول آتا رہا ہے۔ پھر جب ان کا رسول (واضح نشانیوں کے ساتھ) آچکا (اور وہ پھر بھی نہ مانے) تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا، اور (قیامت کے دن بھی اسی طرح ہو گا) ان پر ظلم نہیں کیا جائے گاo

48۔ اور وہ (طعنہ زنی کے طور پر) کہتے ہیں کہ یہ وعدۂ (عذاب) کب (پورا) ہو گا (مسلمانو! بتاؤ) اگر تم سچے ہوo

49۔ فرما دیجئے: میں اپنی ذات کے لئے نہ کسی نقصان کا مالک ہوں اور نہ نفع کا، مگر جس قدر اللہ چاہے۔ ہر امت کے لئے ایک میعاد (مقرر) ہے، جب ان کی (مقررہ) میعاد آپہنچتی ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیںo

50۔ آپ فرما دیجئے: (اے کافرو!) ذرا غور تو کرو اگر تم پر اس کا عذاب (ناگہاں) راتوں رات یا دن دہاڑے آپہنچے (تو تم کیا کر لوگے) وہ کیا چیز ہے کہ مجرم لوگ اس سے جلدی چاہتے ہیںo

51۔ کیا جس وقت وہ (عذاب) واقع ہو جائے گا تو تم اس پر ایمان لے آؤ گے، (اس وقت تم سے کہا جائے گا:) اب (ایمان لا رہے ہو؟ اس وقت کوئی فائدہ نہیں) حالانکہ تم (استہزاءً) اسی (عذاب) میں جلدی چاہتے تھےo

52۔ پھر (ان) ظالموں سے کہا جائے گا: تم دائمی عذاب کا مزہ چکھو، تمہیں (کچھ بھی اور) بدلہ نہیں دیا جائے گا، مگر انہی اعمال کا جو تم کماتے رہے تھےo

53۔ اور وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا (دائمی عذاب کی) وہ بات (واقعی) سچ ہے؟ فرما دیجئے: ہاں میرے رب کی قسم یقیناً وہ بالکل حق ہے۔ اور تم (اپنے انکار سے اللہ کو) عاجز نہیں کرسکتےo

54۔ اگر ہر ظالم شخص کی ملکیت میں وہ (ساری دولت) ہو جو زمین میں ہے تو وہ یقیناً اسے (اپنی جان چھڑانے کے لئے) عذاب کے بدلہ میں دے ڈالے، اور (ایسے لوگ) جب عذاب کو دیکھیں گے تو اپنی ندامت چھپائے پھریں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں ہو گاo

55۔ جان لو! جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اللہ ہی کا ہے۔ خبردار ہو جاؤ! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتےo

56۔ وہی جِلاتا اور مارتا ہے اور تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گےo

57۔ اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لئے رحمت (بھی)o

58۔ فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo

59۔ فرما دیجئے: ذرا بتاؤ تو سہی اللہ نے جو (پاکیزہ) رزق تمہارے لئے اتارا سو تم نے اس میں سے بعض (چیزوں) کو حرام اور (بعض کو) حلال قرار دے دیا۔ فرما دیں: کیا اللہ نے تمہیں (اس کی) اجازت دی تھی یا تم اللہ پر بہتان باندھ رہے ہوo

60۔ اور ایسے لوگوں کا روزِ قیامت کے بارے میں کیا خیال ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں، بیشک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر (لوگ) شکر گزار نہیں ہیںo

61۔ اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ جس حال میں بھی ہوں اور آپ اس کی طرف سے جس قدر بھی قرآن پڑھ کر سناتے ہیں اور (اے امتِ محمدیہ!) تم جو عمل بھی کرتے ہو مگر ہم (اس وقت) تم سب پر گواہ و نگہبان ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو، اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر واضح کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں (درج) ہےo

62۔ خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گےo

63۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہےo

64۔ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہےo

65۔ (اے حبیبِ مکرّم!) ان کی (عناد و عداوت پر مبنی) گفتگو آپ کو غمگین نہ کرے۔ بیشک ساری عزت و غلبہ اللہ ہی کے لئے ہے (جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے)، وہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo

66۔ جان لو جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے سب اللہ ہی کے (مملوک) ہیں، اور جو لوگ اللہ کے سوا (بتوں) کی پرستش کرتے ہیں (درحقیقت اپنے گھڑے ہوئے) شریکوں کی پیروی (بھی) نہیں کرتے، بلکہ وہ صرف (اپنے) وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ محض غلط اندازے لگاتے رہتے ہیںo

67۔ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم اس میں کام کاج کر سکو)۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیںo

68۔ وہ کہتے ہیں: اللہ نے (اپنے لئے) بیٹا بنا لیا ہے (حالانکہ) وہ اس سے پاک ہے، وہ بے نیاز ہے۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی مِلک ہے، تمہارے پاس اس (قولِ باطل) کی کوئی دلیل نہیں، کیا تم اللہ پر وہ (بات) کہتے ہو جسے تم (خود بھی) نہیں جانتےo

69۔ فرما دیجئے: بیشک جو لوگ اللہ پرجھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گےo

70۔ دنیا میں (چند روزہ) لطف اندوزی ہے پھر انہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے پھر ہم انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اس کے بدلے میں جو وہ کفر کیا کرتے تھےo

71۔ اور ان پر نوح (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمائیے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم (اولادِ قابیل!) اگر تم پر میرا قیام اور میرا اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا گراں گزر رہا ہے تو (جان لو کہ) میں نے تو صرف اللہ ہی پر توکل کر لیا ہے (اور تمہارا کوئی ڈر نہیں) سو تم اکٹھے ہوکر (میری مخالفت میں) اپنی تدبیر کو پختہ کر لو اور اپنے (گھڑے ہوئے) شریکوں کو بھی (ساتھ ملا لو اور اس قدر سوچ لو کہ) پھر تمہاری تدبیر (کا کوئی پہلو) تم پر مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ (جو جی میں آئے) کر گزرو اور (مجھے) کوئی مہلت نہ دوo

72۔ سو اگر تم نے (میری نصیحت سے) منہ پھیر لیا ہے تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا، میرا اجر تو صرف اللہ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں (اس کے حکم کے سامنے) سرِ تسلیم خم کئے رکھوںo

73۔ پھر آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا پس ہم نے انہیں اور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے (عذابِ طوفان سے) نجات دی اور ہم نے انہیں (زمین میں) جانشین بنادیا اور ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا، سو آپ دیکھئے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ڈرائے گئے تھےo

74۔ پھر ہم نے ان کے بعد (کتنے ہی) رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا سو وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے پس وہ لوگ (بھی) ایسے نہ ہوئے کہ اس (بات) پر ایمان لے آتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے۔ اسی طرح ہم سرکشی کرنے والوں کے دلوں پر مُہر لگا دیا کرتے ہیںo

75۔ پھر ہم نے ان کے بعد موسیٰ اور ہارون (علیھما السلام) کو فرعون اور اس کے سردارانِ قوم کی طرف نشانیوں کے ساتھ بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھےo

76۔ پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا (تو) کہنے لگے: بیشک یہ تو کھلا جادو ہےo

77۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: کیا تم (ایسی بات) حق سے متعلق کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آچکا ہے، (عقل و شعور کی آنکھیں کھول کر دیکھو) کیا یہ جادو ہے؟ اور جادوگر (کبھی) فلاح نہیں پا سکیں گےo

78۔ وہ کہنے لگے: (اے موسیٰ!) کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ تم ہمیں اس (طریقہ) سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو (گامزن) پایا اور زمین (یعنی سرزمینِ مصر) میں تم دونوں کی بڑائی (قائم) رہے؟ اور ہم لوگ تم دونوں کو ماننے والے نہیں ہیںo

79۔ اور فرعون کہنے لگا: میرے پاس ہر ماہر جادوگر کو لے آؤo

80۔ پھر جب جادوگر آگئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا: تم (وہ چیزیں میدان میں) ڈال دو جو تم ڈالنا چاہتے ہوo

81۔ پھر جب انہوں نے (اپنی رسیاں اور لاٹھیاں) ڈال دیں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: جو کچھ تم لائے ہو (یہ) جادو ہے، بیشک اللہ ابھی اسے باطل کر دے گا، یقیناً اللہ مفسدوں کے کام کو درست نہیں کرتاo

82۔ اور اللہ اپنے کلمات سے حق کا حق ہونا ثابت فرما دیتا ہے اگرچہ مجرم لوگ اسے ناپسند ہی کرتے رہیںo

83۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا، فرعون اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں، اور بیشک فرعون سرزمینِ (مصر) میں بڑا جابر و سرکش تھا، اور وہ یقیناً (ظلم میں) حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھاo

84۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم (واقعی) مسلمان ہوo

85۔ تو انہوں نے عرض کیا: ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا ہے، اے ہمارے رب! تو ہمیں ظالم لوگوں کے لئے نشانہء ستم نہ بناo

86۔ اور تو ہمیں اپنی رحمت سے کافروں کی قوم (کے تسلّط) سے نجات بخش دےo

87۔ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ تم دونوں مصر (کے شہر) میں اپنی قوم کے لئے چند مکانات تیار کرو اور اپنے (ان) گھروں کو (نماز کی ادائیگی کے لئے) قبلہ رخ بناؤ اور (پھر) نماز قائم کرو، اور ایمان والوں کو (فتح و نصرت کی) خوشخبری سنا دوo

88۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے ہمارے رب! بیشک تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی میں اسبابِ زینت اور مال و دولت (کی کثرت) دے رکھی ہے، اے ہمارے رب! (کیا تو نے انہیں یہ سب کچھ اس لئے دیا ہے) تاکہ وہ (لوگوں کو کبھی لالچ اور کبھی خوف دلا کر) تیری راہ سے بہکا دیں۔ اے ہمارے رب! تو ان کی دولتوں کو برباد کردے اور ان کے دلوں کو (اتنا) سخت کردے کہ وہ پھر بھی ایمان نہ لائیں حتیٰ کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیںo

89۔ ارشاد ہوا: بیشک تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی، سو تم دونوں ثابت قدم رہنا اور ایسے لوگوں کے راستہ کی پیروی نہ کرنا جو علم نہیں رکھتےo

90۔ اور ہم بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے گئے پس فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدّی سے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب اسے (یعنی فرعون کو) ڈوبنے نے آلیا وہ کہنے لگا: میں اس پر ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس (معبود) کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (اب) مسلمانوں میں سے ہوں o

91۔ (جواب دیا گیا کہ) اب (ایمان لاتا ہے)؟ حالانکہ تو پہلے (مسلسل) نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد بپا کرنے والوں میں سے تھاo

92۔ (اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے (عبرت کا) نشان ہوسکے اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں (کو سمجھنے) سے غافل ہیںo

93۔ اور فی الواقع ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کے لئے عمدہ جگہ بخشی اور ہم نے انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا تو انہوں نے کوئی اختلاف نہ کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم و دانش آپہنچی۔ بیشک آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھےo

94۔ (اے سننے والے!) اگر تو اس (کتاب) کے بارے میں ذرا بھی شک میں مبتلا ہے جو ہم نے (اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وساطت سے) تیری طرف اتاری ہے تو (اس کی حقانیت کی نسبت) ان لوگوں سے دریافت کر لے جو تجھ سے پہلے (اللہ کی) کتاب پڑھ رہے ہیں۔ بیشک تیری طرف تیرے رب کی جانب سے حق آ گیا ہے، سو تُو شک کرنے والوں میں سے ہرگز نہ ہو جاناo

95۔ اور نہ ہرگز ان لوگوں میں سے ہو جانا جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے ورنہ تُو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گاo

96۔ (اے حبیبِ مکرّم!) بیشک جن لوگوں پر آپ کے رب کا فرمان صادق آچکا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گےo

97۔ اگرچہ ان کے پاس سب نشانیاں آجائیں یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب (بھی) دیکھ لیںo

98۔ پھر قومِ یونس (کی بستی) کے سوا کوئی اور ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو اور اسے اس کے ایمان لانے نے فائدہ دیا ہو۔ جب (قومِ یونس کے لوگ نزولِ عذاب سے قبل صرف اس کی نشانی دیکھ کر) ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیوی زندگی میں (ہی) رسوائی کا عذاب دور کر دیا اور ہم نے انہیں ایک مدت تک منافع سے بہرہ مند رکھاo

99۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے، (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہو جائیںo

100۔ اور کسی شخص کو (اَز خود یہ) قدرت نہیں کہ وہ بغیر اِذنِ الٰہی کے ایمان لے آئے۔ وہ (یعنی اللہ تعالی) کفر کی گندگی انہی لوگوں پر ڈالتا ہے جو (حق کو سمجھنے کے لئے) عقل سے کام نہیں لیتےo

101۔ فرما دیجئے: تم لوگ دیکھو تو (سہی) آسمانوں اور زمین (کی اس وسیع کائنات) میں قدرتِ الٰہیہ کی کیا کیا نشانیاں ہیں اور (یہ) نشانیاں اور (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والے (پیغمبر) ایسے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے جو ایمان لانا ہی نہیں چاہتےo

102۔ سو کیا یہ لوگ انہی لوگوں (کے بُرے دنوں) جیسے دِنوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ فرما دیجئے کہ تم (بھی) انتظار کرو میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوںo

103۔ پھر ہم اپنے رسولوں کو بچا لیتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو اس طرح ایمان لے آتے ہیں، (یہ بات) ہمارے ذمۂ کرم پر ہے کہ ہم ایمان والوں کو بچا لیںo

104۔ فرما دیجئے: اے لوگو! اگر تم میرے دین (کی حقانیت کے بارے) میں ذرا بھی شک میں ہو تو (سن لو) کہ میں ان (بتوں) کی پرستش نہیں کرسکتا جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو لیکن میں تو اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں موت سے ہمکنار کرتا ہے، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں (ہمیشہ) اہلِ ایمان میں سے رہوںo

105۔ اور یہ کہ آپ ہر باطل سے بچ کر (یک سُو ہو کر) اپنا رخ دین پر قائم رکھیں اور ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوںo

106۔ (یہ حکم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وساطت سے امت کو دیا جارہا ہے:) اور نہ اللہ کے سوا ان (بتوں) کی عبادت کریں جو نہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، پھر اگر تم نے ایسا کیا تو بیشک تم اس وقت ظالموں میں سے ہو جاؤ گےo

107۔ اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

108۔ فرما دیجئے: اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق آ گیا ہے، سو جس نے راہِ ہدایت اختیار کی بس وہ اپنے ہی فائدے کے لئے ہدایت اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہو گیا بس وہ اپنی ہی ہلاکت کے لئے گمراہ ہوتا ہے اور میں تمہارے اوپر داروغہ نہیں ہوں (کہ تمہیں سختی سے راہِ ہدایت پر لے آؤں)o

109۔ (اے رسول!) آپ اسی کی اتباع کریں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور صبر کرتے رہیں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہےo

 

 

سُورة ہُود

سورت : مکی  ترتیب تلاوت : 11        ترتیب نزولی : 52

رکوع : 10 آیات : 123      پارہ نمبر : 11, 12

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں، یہ وہ) کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم بنا دی گئی ہیں، پھر حکمت والے باخبر (رب) کی جانب سے وہ مفصل بیان کر دی گئی ہیںo

2۔ یہ کہ اللہ کے سوا تم کسی کی عبادت مت کرو، بیشک میں تمہارے لئے اس (اللہ) کی جانب سے ڈر سنانے والا اور بشارت دینے والا ہوںo

3۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدقِ دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقتِ معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا اور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا (یعنی اس کے اَعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اَجر و درجات عطا فرمائے گا)، اور اگر تم نے روگردانی کی تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوںo

4۔ تمہیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے، اور وہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےo

5۔ جان لو! بیشک وہ (کفار) اپنے سینوں کو دُہرا کر لیتے ہیں تاکہ وہ اس (خدا) سے (اپنے دلوں کا حال) چھپا سکیں، خبردار! جس وقت وہ اپنے کپڑے (جسموں پر) اوڑھ لیتے ہیں (تو اس وقت بھی) وہ ان سب باتوں کو جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ آشکار کرتے ہیں، بیشک وہ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جاننے والا ہےo

پاره وَمَا مِن دَآبَّةٍ

6۔ اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہےo

7۔ اور وہی (اﷲ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی و زیریں کائناتوں) کو چھ روز (یعنی تخلیق و اِرتقاء کے چھ اَدوار و مراحل) میں پیدا فرمایا اور (تخلیقِ اَرضی سے قبل) اس کا تختِ اقتدار پانی پر تھا (اور اس نے اس سے زندگی کے تمام آثار کو اور تمہیں پیدا کیا) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہتر ہے، اور اگر آپ یہ فرمائیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے تو کافر یقینًا (یہ) کہیں گے کہ یہ تو صریح جادو کے سوا کچھ (اور) نہیں ہےo

8۔ اور اگر ہم ان سے چند مقررہ دنوں تک عذاب کو مؤخر کر دیں تو وہ یقینًا کہیں گے کہ اسے کس چیز نے روک رکھا ہے، خبردار! جس دن وہ (عذاب) ان پر آئے گا (تو) ان سے پھیرا نہ جائے گا اور وہ (عذاب) انہیں گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھےo

9۔ اور اگر ہم انسان کو اپنی جانب سے رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر ہم اسے (کسی وجہ سے) اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ نہایت مایوس (اور) ناشکرگزار ہو جاتا ہےo

10۔ اور اگر ہم اسے (کوئی) نعمت چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو ضرور کہہ اٹھتا ہے کہ مجھ سے ساری تکلیفیں جاتی رہیں، بیشک وہ بڑا خوش ہونے والا (اور) فخر کرنے والا (بن جاتا) ہےo

11۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کرتے رہے، (تو) ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہےo

12۔ بھلا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس میں سے کچھ چھوڑ دیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور اس سے آپ کا سینہء (اَطہر) تنگ ہونے لگے (اس خیال سے) کہ کفار یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا، (ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اے رسولِ معظم!) آپ تو صرف ڈر سنانے والے ہیں (کسی کو دنیوی لالچ یا سزا دینے والے نہیں)، اور اﷲ ہر چیز پر نگہبان ہےo

13۔ کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے، فرما دیجئے: تم (بھی) اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اﷲ کے سوا (اپنی مدد کے لئے) جسے بھی بلا سکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہوo

14۔ (اے مسلمانو!) سو اگر وہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو یقین رکھو کہ قرآن فقط اﷲ کے علم سے اتارا گیا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس کیا (اب) تم اسلام پر (ثابت قدم) رہو گےo

15۔ جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتیo

16۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اکارت ہو گئے جو انہوں نے دنیا میں انجام دیئے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہو گیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیونکہ ان کا حساب پورے اجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)o

17۔ وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہے اور اﷲ کی جانب سے ایک گواہ (قرآن) بھی اس شخص کی تائید و تقویت کے لئے آ گیا ہے اور اس سے قبل موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب (تورات) بھی جو رہنما اور رحمت تھی (آچکی ہو) یہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں، کیا (یہ) اور (کافر) فرقوں میں سے وہ شخص جو اس (قرآن) کا منکر ہے (برابر ہوسکتے ہیں) جبکہ آتشِ دوزخ اس کا ٹھکانا ہے، سو (اے سننے والے!) تجھے چاہئے کہ تو اس سے متعلق ذرا بھی شک میں نہ رہے، بیشک یہ (قرآن) تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتےo

18۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھتا ہے، ایسے ہی لوگ اپنے رب کے حضور پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے: یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، جان لو کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہےo

19۔ جو لوگ (دوسروں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں، اور وہی لوگ آخرت کے منکر ہیںo

20۔ یہ لوگ (اﷲ کو) زمین میں عاجز کر سکنے والے نہیں اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار ہیں۔ ان کے لئے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا (کیونکہ) نہ وہ (حق بات) سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ (حق کو) دیکھ ہی سکتے تھےo

21۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان پہنچایا اور جو بہتان وہ باندھتے تھے وہ (سب) ان سے جاتے رہےo

22۔ یہ بالکل حق ہے کہ یقینًا وہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیںo

23۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اپنے رب کے حضور عاجزی کرتے رہے یہی لوگ اہلِ جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo

24۔ (کافر و مسلم) دونوں فریقوں کی مثال اندھے اور بہرے اور (اس کے برعکس) دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے۔ کیا دونوں کا حال برابر ہے؟ کیا تم پھر (بھی) نصیحت قبول نہیں کرتےo

25۔ اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، (انہوں نے ان سے کہا:) میں تمہارے لئے کھلا ڈر سنانے والا (بن کر آیا) ہوںo

26۔ کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں تم پر دردناک دن کے عذاب (کی آمد) کا خوف رکھتا ہوںo

27۔ سو ان کی قوم کے کفر کرنے والے سرداروں اور وڈیروں نے کہا: ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم نے کسی (معزز شخص) کو تمہاری پیروی کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ہمارے (معاشرے کے) سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے (جو بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں)، اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری (یعنی طاقت و اقتدار، مال و دولت یا تمہاری جماعت میں بڑے لوگوں کی شمولیت الغرض ایسا کوئی نمایاں پہلو) بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیںo

28۔ (نوح علیہ السلام نے) کہا: اے میری قوم! بتاؤ تو سہی اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر بھی ہوں اور اس نے مجھے اپنے حضور سے (خاص) رحمت بھی بخشی ہو مگر وہ تمہارے اوپر (اندھوں کی طرح) پوشیدہ کر دی گئی ہو، تو کیا ہم اسے تم پر جبراً مسلّط کر سکتے ہیں درآنحالیکہ تم اسے ناپسند کرتے ہوo

29۔ اور اے میری قوم! میں تم سے اس (دعوت و تبلیغ) پر کوئی مال و دولت (بھی) طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور میں (تمہاری خاطر) ان (غریب اور پسماندہ) لوگوں کو جو ایمان لے آئے ہیں دھتکارنے والا بھی نہیں ہوں (تم انہیں حقیر مت سمجھو یہی حقیقت میں معزز ہیں)۔ بیشک یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات سے بہرہ یاب ہونے والے ہیں اور میں تو درحقیقت تمہیں جاہل (و بے فہم) قوم دیکھ رہا ہوںo

30۔ اور اے میری قوم! اگر میں ان کو دھتکار دوں تو اﷲ (کے غضب) سے (بچانے میں) میری مدد کون کر سکتا ہے، کیا تم غور نہیں کرتےo

31۔ اور میں تم سے (یہ) نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں (یعنی میں بے حد دولت مند ہوں) اور نہ (یہ کہ) میں (اﷲ کے بتائے بغیر) خود غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں (انسان نہیں) فرشتہ ہوں (میری دعوت کرشماتی دعوؤں پر مبنی نہیں ہے) اور نہ ان لوگوں کی نسبت جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر جان رہی ہیں یہ کہتا ہوں کہ اﷲ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نہ دے گا (یہ اﷲ کا امر اور ہر شخص کا نصیب ہے)، اﷲ بہتر جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، (اگر ایسا کہوں تو) بیشک میں اسی وقت ظالموں میں سے ہو جاؤں گاo

32۔ وہ کہنے لگے: اے نوح! بیشک تم ہم سے جھگڑ چکے سو تم نے ہم سے بہت جھگڑا کر لیا، بس اب ہمارے پاس وہ (عذاب) لے آؤ جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو اگر تم (واقعی) سچے ہوo

33۔ (نوح علیہ السلام نے) کہا: وہ (عذاب) تو بس اﷲ ہی تم پر لائے گا اگر اس نے چاہا اور تم (اسے) عاجز نہیں کرسکتےo

34۔ اور میری نصیحت (بھی) تمہیں نفع نہ دے گی خواہ میں تمہیں نصیحت کرنے کا ارادہ کروں اگر اﷲ نے تمہیں گمراہ کرنے کا ارادہ فرما لیا ہو، وہ تمہارا رب ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo

35۔ (اے حبیبِ مکرّم!) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے، فرما دیجئے: اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہے تو میرے جرم (کا وبال) مجھ پر ہو گا اور میں اس سے بری ہوں جو جرم تم کر رہے ہوo

36۔ اور نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی کہ (اب) ہرگز تمہاری قوم میں سے (مزید) کوئی ایمان نہیں لائے گا سوائے ان کے جو (اس وقت تک) ایمان لا چکے ہیں، سو آپ ان کے (تکذیب و استہزا کے) کاموں سے رنجیدہ نہ ہوںo

37۔ اور تم ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے (کوئی) بات نہ کرنا، وہ ضرور غرق کئے جائیں گےo

38۔ اور نوح (علیہ السلام) کشتی بناتے رہے اور جب بھی ان کی قوم کے سردار اُن کے پاس سے گزرتے ان کا مذاق اڑاتے۔ نوح (علیہ السلام انہیں جوابًا) کہتے: اگر (آج) تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو (کل) ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے جیسے تم تمسخر کر رہے ہوo

39۔ سو تم عنقریب جان لوگے کہ کس پر (دنیا میں ہی) عذاب آتا ہے جو اسے ذلیل و رسوا کر دے گا اور (پھر آخرت میں بھی کس پر) ہمیشہ قائم رہنے والا عذاب اترتا ہےo

40۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا اور تنور (پانی کے چشموں کی طرح) جوش سے ابلنے لگا (تو) ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جنس میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (لے لو) سوائے ان کے جن پر (ہلاکت کا) فرمان پہلے صادر ہو چکا ہے اور جو کوئی ایمان لے آیا ہے (اسے بھی ساتھ لے لو)، اور چند (لوگوں) کے سوا ان کے ساتھ کوئی ایمان نہیں لایا تھاo

41۔ اور نوح (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ اس میں سوار ہو جاؤ اﷲ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے۔ بیشک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

42۔ اور وہ کشتی پہاڑوں جیسی (طوفانی) لہروں میں انہیں لئے چلتی جا رہی تھی کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ ان سے الگ (کافروں کے ساتھ کھڑا) تھا: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ رہo

43۔ وہ بولا: میں (کشتی میں سوار ہونے کے بجائے) ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا: آج اﷲ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر اس شخص کو جس پر وہی (اﷲ) رحم فرما دے، اسی اثنا میں دونوں (یعنی باپ بیٹے) کے درمیان (طوفانی) موج حائل ہو گئی سو وہ ڈوبنے والوں میں ہو گیاo

44۔ اور (جب سفینۂ نوح کے سوا سب ڈوب کر ہلاک ہو چکے تو) حکم دیا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان! تو تھم جا، اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری، اور فرما دیا گیا کہ ظالموں کے لئے (رحمت سے) دوری ہےo

45۔ اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا: اے میرے رب! بیشک میرا لڑکا (بھی) تو میرے گھر والوں میں داخل تھا اور یقینًا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہےo

46۔ ارشاد ہو: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے، پس مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو، میں تمہیں نصیحت کئے دیتا ہوں کہ کہیں تم نادانوں میں سے (نہ) ہو جاناo

47۔ (نوح علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ سوال کروں جس کا مجھے کچھ علم نہ ہو، اور اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور مجھ پر رحم (نہ) فرمائے گا (تو) میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گاo

48۔ فرمایا گیا: اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ جو تم پر ہیں اور ان طبقات پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں، اور (آئندہ پھر) کچھ طبقے ایسے ہوں گے جنہیں ہم (دنیوی نعمتوں سے) بہرہ یاب فرمائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب آپہنچے گاo

49۔ یہ (بیان ان) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، پس آپ صبر کریں۔ بیشک بہتر انجام پرہیزگاروں ہی کے لئے ہےo

50۔ اور (ہم نے) قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم اﷲ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے لئے کوئی معبود نہیں، تم اﷲ پر (شریک رکھنے کا) محض بہتان باندھنے والے ہوo

51۔ اے میری قوم! میں اس (دعوت و تبلیغ) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر فقط اس (کے ذمۂ کرم) پر ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتےo

52۔ اور اے لوگو! تم اپنے رب سے (گناہوں کی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں (صدقِ دل سے) رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے روگردانی نہ کرناo

53۔ وہ بولے: اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لیکر نہیں آئے ہو اور نہ ہم تمہارے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ ہی ہم تم پر ایمان لانے والے ہیںo

54۔ ہم اس کے سوا (کچھ) نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تمہیں (دماغی خلل کی) بیماری میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہود (علیہ السلام)نے کہا: بیشک میں اﷲ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان سے لاتعلق ہوں جنہیں تم شریک گردانتے ہوo

55۔ اس (اﷲ) کے سوا تم سب (بشمول تمہارے معبودانِ باطلہ) مل کر میرے خلاف (کوئی) تدبیر کر لو پھر مجھے مہلت بھی نہ دوo

56۔ بیشک میں نے اﷲ پر توکل کر لیا ہے جو میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، کوئی چلنے والا (جاندار) ایسا نہیں مگر وہ اسے اس کی چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے (یعنی مکمل طور پر اس کے قبضۂ قدرت میں ہے)۔ بیشک میرا رب (حق و عدل میں) سیدھی راہ پر (چلنے سے ملتا) ہےo

57۔ پھر بھی اگر تم روگردانی کرو تو میں نے واقعۃً وہ (تمام احکام) تمہیں پہنچا دیئے ہیں جنہیں لے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا ہوں، اور میرا رب تمہاری جگہ کسی اور قوم کو قائم مقام بنا دے گا، اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے۔ بیشک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہےo

58۔ اور جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا (تو) ہم نے ہود (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ ایمان والوں کو اپنی رحمت کے باعث بچا لیا، اور ہم نے انہیں سخت عذاب سے نجات بخشیo

59۔ اور یہ (قومِ) عاد ہے جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر جابر (و متکبر) دشمنِ حق کے حکم کی پیروی کیo

60۔ اور اس دنیا میں (بھی) ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن (بھی لگے گی)۔ یاد رکھو کہ (قومِ) عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا تھا۔ خبردار! ہود (علیہ السلام) کی قومِ عاد کے لئے (رحمت سے) دوری ہےo

61۔ اور (ہم نے قومِ) ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا)۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا اور اس میں تمہیں آباد فرمایا سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہےo

62۔ وہ بولے: اے صالح! اس سے قبل ہماری قوم میں تم ہی امیدوں کا مرکز تھے، کیا تم ہمیں ان (بتوں) کی پرستش کرنے سے روک رہے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ہیں؟ اور جس (توحید) کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو یقینًا ہم اس کے بارے میں بڑے اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیںo

63۔ صالح (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! ذرا سوچو تو سہی اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر (قائم) ہوں اور مجھے اس کی جانب سے (خاص) رحمت نصیب ہوئی ہے، (اس کے بعد اس کے احکام تم تک نہ پہنچا کر) اگر میں اس کی نافرمانی کر بیٹھوں تو کون شخص ہے جو اﷲ (کے عذاب) سے بچانے میں میری مدد کرسکتا ہے؟ پس سوائے نقصان پہنچانے کے تم میرا (اور) کچھ نہیں بڑھا سکتےo

64۔ اور اے میری قوم! یہ اﷲ کی (خاص طریقہ سے پیدا کردہ) اونٹنی ہے (جو) تمہارے لئے نشانی ہے سو اسے چھوڑے رکھو (یہ) اﷲ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمہیں قریب (واقع ہونے والا) عذاب آپکڑے گاo

65۔ پھر انہوں نے اسے (کونچیں کاٹ کر) ذبح کر ڈالا، صالح (علیہ السلام) نے کہا: (اب) تم اپنے گھروں میں (صرف) تین دن (تک) عیش کر لو، یہ وعدہ ہے جو (کبھی) جھوٹا نہ ہو گاo

66۔ پھر جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا (تو) ہم نے صالح (علیہ السلام) کو اور جو ان کے ساتھ ایمان والے تھے اپنی رحمت کے سبب سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے (بھی نجات بخشی)۔ بیشک آپ کا رب ہی طاقتور غالب ہےo

67۔ اور ظالم لوگوں کو ہولناک آواز نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس طرح کی کہ اپنے گھروں میں (مُردہ حالت میں) اوندھے پڑے رہ گئےo

68۔ گویا وہ کبھی ان میں بسے ہی نہ تھے، یاد رکھو! (قومِ) ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا تھا۔ خبردار! (قومِ) ثمود کے لئے (رحمت سے) دوری ہےo

69۔ اور بیشک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے، انہوں نے سلام کہا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جوابًا) سلام کہا، پھر (آپ علیہ السلام نے) دیر نہ کی یہاں تک کہ (ان کی میزبانی کے لئے) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئےo

70۔ پھر جب (ابراہیم علیہ السلام نے) دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (کھانے) کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں اجنبی سمجھا اور (اپنے) دل میں ان سے کچھ خوف محسوس کرنے لگے، انہوں نے کہا: آپ مت ڈریئے! ہم قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیںo

71۔ اور ان کی اہلیہ (سارہ پاس ہی) کھڑی تھیں تو وہ ہنس پڑیں سو ہم نے ان (کی زوجہ) کو اسحاق (علیہ السلام) کی اور اسحاق (علیہ السلام) کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی بشارت دیo

72۔ وہ کہنے لگیں: وائے حیرانی! کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی (ہو چکی) ہوں اور میرے یہ شوہر (بھی) بوڑھے ہیں! بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہےo

73۔ فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہےo

74۔ پھر جب ابراہیم (علیہ السلام) سے خوف جاتا رہا اور ان کے پاس بشارت آچکی تو ہمارے (فرشتوں کے) ساتھ قومِ لوط کے بارے میں جھگڑنے لگےo

75۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، آہ و زاری کرنے والے ہر حال میں ہماری طرف رجوع کر نے والے تھےo

76۔ (فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتاo

77۔ اور جب ہمارے فرستادہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) وہ ان کے آنے سے پریشان ہوئے اور ان کے باعث (ان کی) طاقت کمزور پڑ گئی اور کہنے لگے: یہ بہت سخت دن ہے (فرشتے نہایت خوب رُو تھے اور حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی قوم کی بری عادت کا علم تھا سو ممکنہ فتنہ کے اندیشہ سے پریشان ہوئے)o

78۔ (سو وہی ہوا جس کا انہیں اندیشہ تھا) اور لوط (علیہ السلام) کی قوم (مہمانوں کی خبر سنتے ہی) ان کے پاس دوڑتی ہوئی آگئی، اور وہ پہلے ہی برے کام کیا کرتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: اے میری (نافرمان) قوم! یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لئے (بطریقِ نکاح) پاکیزہ و حلال ہیں سو تم اﷲ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں (اپنی بے حیائی کے باعث) مجھے رسوا نہ کرو! کیا تم میں سے کوئی بھی نیک سیرت آدمی نہیں o

7ہے9۔ وہ بولے: تم خوب جانتے ہو کہ ہمیں تمہاری (قوم کی) بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں، اور تم یقینًا جانتے ہو جو کچھ ہم چاہتے ہیںo

80۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: کاش! مجھ میں تمہارے مقابلہ کی ہمت ہوتی یا میں (آج) کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتاo

81۔ (تب فرشتے) کہنے لگے: اے لوط! ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے، پس آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کچھ حصہ میں لے کر نکل جائیں اور تم میں سے کوئی مڑ کر (پیچھے) نہ دیکھے مگر اپنی عورت کو (ساتھ نہ لینا)، یقینًا اسے (بھی) وہی (عذاب) پہنچنے والا ہے جو انہیں پہنچے گا۔ بیشک ان (کے عذاب) کا مقررہ وقت صبح (کا) ہے، کیا صبح قریب نہیں ہےo

82۔ پھر جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا تو ہم نے (الٹ کر) اس بستی کے اوپر کے حصہ کو نچلا حصہ کر دیا اور ہم نے اس پر پتھر اور پکی ہوئی مٹی کے کنکر برسائے جو پے در پے (اور تہ بہ تہ) گرتے رہےo

83۔ جو آپ کے رب کی طرف سے نشان کئے ہوئے تھے، اور یہ (سنگ ریزوں کا عذاب) ظالموں سے (اب بھی) کچھ دور نہیں ہےo

84۔ اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام کو بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہےo

85۔ اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھروo

86۔ جو اﷲ کے دیئے میں بچ رہے (وہی) تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو، اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوںo

87۔ وہ بولے! اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اموال کے بارے میں چاہیں (نہ) کریں؟ بیشک تم ہی (ایک) بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ (رہ گئے) ہوo

88۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! ذرا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے عمدہ رزق (بھی) عطا فرمایا (تو پھر حق کی تبلیغ کیوں نہ کروں؟)، اور میں یہ (بھی) نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر (حق کے خلاف) خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کر رہا ہوں، میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے (تمہاری) اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اﷲ ہی (کی مدد) سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوںo

89۔ اور اے میری قوم! مجھ سے دشمنی و مخالفت تمہیں یہاں تک نہ ابھار دے کہ (جس کے باعث) تم پر وہ (عذاب) آپہنچے جیسا (عذاب) قومِ نوح یا قومِ ہود یا قومِ صالح کو پہنچا تھا، اور قومِ لوط (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں (گزرا)o

90۔ اور تم اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور (صدقِ دل سے) توبہ کرو، بیشک میرا رب نہایت مہربان محبت فرمانے والا ہےo

91۔ وہ بولے: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمہیں اپنے معاشرے میں ایک کمزور شخص جانتے ہیں، اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگ سار کر دیتے اور (ہمیں اسی کا لحاظ ہے ورنہ) تم ہماری نگاہ میں کوئی عزت والے نہیں ہوo

92۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! کیا میرا کنبہ تمہارے نزدیک اﷲ سے زیادہ معزز ہے، اور تم نے اسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو گویا) اپنے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ بیشک میرا رب تمہارے (سب) کاموں کو احاطہ میں لئے ہوئے ہےo

93۔ اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ کام کرتے رہو میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ تم عنقریب جان لوگے کہ کس پر وہ عذاب آپہنچتا ہے جو رسوا کر ڈالے گا اور کون ہے جو جھوٹا ہے، اور تم بھی انتظار کرتے رہو اور میں (بھی) تمہارے ساتھ منتظر ہوںo

94۔ اور جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا تو ہم نے شعیب (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ ایمان والوں کو اپنی رحمت کے باعث بچالیا اور ظالموں کو خوفناک آواز نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں (مردہ حالت) میں اوندھے پڑے رہ گئےo

95۔ گویا وہ ان میں کبھی بسے ہی نہ تھی۔ سنو! (اہلِ) مدین کے لئے ہلاکت ہے جیسے (قومِ) ثمود ہلاک ہوئی تھیo

96۔ اور بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (بھی) اپنی نشانیوں اور روشن برہان کے ساتھ بھیجاo

97۔ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس، تو (قوم کے) سرداروں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم درست نہ تھاo

98۔ وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا بالآخر انہیں آتشِ دوزخ میں لا گرائے گا، اور وہ داخل کئے جانے کی کتنی بری جگہ ہےo

99۔ اور اس دنیا میں (بھی) لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اور قیامت کے دن (بھی ان کے پیچھے رہے گی)، کتنا برا عطیہ ہے جو انہیں دیا گیا ہےo

100۔ (اے رسولِ معظم!) یہ (ان) بستیوں کے کچھ حالات ہیں جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں ان میں سے کچھ برقرار ہیں اور (کچھ) نیست و نابود ہو گئیںo

101۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے (خود ہی) اپنی جانوں پر ظلم کیا، سو ان کے وہ جھوٹے معبود جنہیں وہ اﷲ کے سوا پوجتے تھے ان کے کچھ کام نہ آئے، جب آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آیا، اور وہ (دیوتا) تو صرف ان کی ہلاکت و بربادی میں ہی اضافہ کر سکےo

102۔ اور اسی طرح آپ کے رب کی پکڑ ہوا کرتی ہے جب وہ بستیوں کی اس حال میں گرفت فرماتا ہے کہ وہ ظالم (بن چکی) ہوتی ہیں۔ بیشک اس کی گرفت دردناک (اور) سخت ہوتی ہےo

103۔ بیشک ان (واقعات) میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے۔ یہ (روزِ قیامت) وہ دن ہے جس کے لئے سارے لوگ جمع کئے جائیں گے اور یہی وہ دن ہے جب سب کو حاضر کیا جائے گاo

104۔ اور ہم اسے مؤخر نہیں کر رہے ہیں مگر مقررہ مدت کے لئے (جو پہلے سے طے ہے)o

105۔ جب وہ دن آئے گا کوئی شخص (بھی) اس کی اجازت کے بغیر کلام نہیں کر سکے گا، پھر ان میں بعض بدبخت ہوں گے اور بعض نیک بختo

106۔ سو جو لوگ بدبخت ہوں گے (وہ) دوزخ میں (پڑے) ہوں گے ان کے مقدر میں وہاں چیخنا اور چلّانا ہو گاo

107۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین (جو اس وقت ہوں گے) قائم رہیں مگر یہ کہ جو آپ کا رب چاہے۔ بیشک آپ کا رب جو ارادہ فرماتا ہے کر گزرتا ہےo

108۔ اور جو لوگ نیک بخت ہوں گے (وہ) جنت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین (جو اس وقت ہوں گے) قائم رہیں مگر یہ کہ جو آپ کا رب چاہے، یہ وہ عطا ہو گی جو کبھی منقطع نہ ہو گیo

109۔ پس (اے سننے والے!) تو ان کے بارے میں کسی (بھی) شک میں مبتلا نہ ہو جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں۔ یہ لوگ (کسی دلیل و بصیرت کی بنا پر) پرستش نہیں کرتے مگر (صرف اس طرح کرتے ہیں) جیسے ان سے قبل ان کے باپ دادا پرستش کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور بیشک ہم انہیں یقیناً ان کا پورا حصۂ (عذاب) دیں گے جس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گیo

110۔ اور بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی پھر اس میں اختلاف کیا جانے لگا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے صادر نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان ضرور فیصلہ کر دیا گیا ہوتا، اور وہ یقینًا اس (قرآن) کے بارے میں اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیںo

111۔ بیشک آپ کا رب ان سب کو ان کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا، وہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینًا وہ اس سے خوب آگاہ ہےo

112۔ پس آپ ثابت قدم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی (ثابت قدم رہے) جس نے آپ کی معیت میں (اﷲ کی طرف) رجوع کیا ہے، اور (اے لوگو!) تم سرکشی نہ کرنا، بیشک تم جو کچھ کرتے ہو وہ اسے خوب دیکھ رہا ہےo

113۔ اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جو ظلم کر رہے ہیں ورنہ تمہیں آتشِ (دوزخ) آچھوئے گی اور تمہارے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار نہ ہو گا پھر تمہاری مدد (بھی) نہیں کی جائے گیo

114۔ اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہےo

115۔ اور آپ صبر کریں بیشک اﷲ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں فرماتاo

116۔ سو تم سے پہلے کی امتوں میں ایسے صاحبانِ فضل و خرد کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو زمین میں فساد انگیزی سے روکتے بجز ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے جنہیں ہم نے نجات دے دی، اور ظالموں نے عیش و عشرت (کے اسی راستے) کی پیروی کی جس میں وہ پڑے ہوئے تھے اور وہ (عادی) مجرم تھےo

117۔ اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ بستیوں کو ظلمًا ہلاک کر ڈالے درآنحالیکہ اس کے باشندے نیکوکار ہوںo

118۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (مگر اس نے جبراً ایسا نہ کیا بلکہ سب کو مذہب کے اختیار کرنے میں آزادی دی) اور (اب) یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گےo

119۔ سوائے اس شخص کے جس پر آپ کا رب رحم فرمائے، اور اسی لئے اس نے انہیں پیدا فرمایا ہے، اور آپ کے رب کا فرمان پورا ہو چکا بیشک میں دوزخ کو جِنّوں اور انسانوں میں سے سب (اہلِ باطل) سے ضرور بھر دوں گا o

120۔ اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اَطہر) کو تقویت دیتے ہیں، اور آپ کے پاس اس (سورت) میں حق اور نصیحت آئی ہے اور اہلِ ایمان کے لئے عبرت (و یاددہانی بھی)o

121۔ اور آپ ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے فرما دیں: تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو (اور) ہم (اپنے مقام پر) عمل پیرا ہیںo

122۔ اور تم (بھی) انتظار کرو ہم (بھی) منتظر ہیںo

123۔ اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لئے ہے اور اسی کی طرف ہر ایک کام لوٹایا جاتا ہے سو اس کی عبادت کرتے رہیں اور اسی پر توکل کئے رکھیں، اور تمہارا رب تم سب لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہےo

 

 

سُورة یوْسُف

سورت : مکی  ترتیب تلاوت : 12        ترتیب نزولی : 53

رکوع : 12 آیات : 111      پارہ نمبر : 12, 13

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیںo

2۔ بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکوo

3۔ (اے حبیب!) ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اس قرآن کے ذریعہ جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے، اگرچہ آپ اس سے قبل (اس قصہ سے) بے خبر تھےo

4۔ (وہ قصّہ یوں ہے) جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے والد گرامی! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہےo

5۔ انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی پُر فریب چال چلیں گے۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہےo

6۔ اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا اور تم پر اور اولادِ یعقوب پر اپنی نعمت تمام فرمائے گا جیسا کہ اس نے اس سے قبل تمہارے دونوں باپ (یعنی پردادا اور دادا) ابراہیم اور اسحاق (علیھما السلام) پر تمام فرمائی تھی۔ بیشک تمہارا رب خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

7۔ بیشک یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں (کے واقعہ) میں پوچھنے والوں کے لئے (بہت سی) نشانیاں ہیںo

8۔ (وہ وقت یاد کیجئے) جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا کہ واقعی یوسف (علیہ السلام) اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم (دس افراد پر مشتمل) زیادہ قوی جماعت ہیں۔ بیشک ہمارے والد (ان کی محبت کی) کھلی وارفتگی میں گم ہیںo

9۔ (اب یہی حل ہے کہ) تم یوسف (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالو یا دور کسی غیر معلوم علاقہ میں پھینک آؤ (اس طرح) تمہارے باپ کی توجہ خالصتًا تمہاری طرف ہو جائے گی اور اس کے بعد تم (توبہ کر کے) صالحین کی جماعت بن جاناo

10۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو قتل مت کرو اور اسے کسی تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دو اسے کوئی راہ گیر مسافر اٹھا لے جائے گا اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو (تو یہ کرو)o

11۔ انہوں نے کہا: اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہو گیا ہے آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم یقینی طور پر اس کے خیر خواہ ہیںo

12۔ آپ اسے کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے وہ خوب کھائے اور کھیلے اور بیشک ہم اس کے محافظ ہیںo

13۔ انہوں نے کہا: بیشک مجھے یہ خیال مغموم کرتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ اور میں (اس خیال سے بھی) خوف زدہ ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس (کی حفاظت) سے غافل رہوo

14۔ وہ بولے: اگر اسے بھیڑیا کھا جائے حالانکہ ہم ایک قوی جماعت بھی (موجود) ہوں تو ہم تو بالکل ناکارہ ہوئےo

15۔ پھر جب وہ اسے لے گئے اور سب اس پر متفق ہو گئے کہ اسے تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں تب ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی: (اے یوسف! پریشان نہ ہونا ایک وقت آئے گا) کہ تم یقینًا انہیں ان کا یہ کام جتلاؤ گے اور انہیں (تمہارے بلند رتبہ کا) شعور نہیں ہو گاo

16۔ اور وہ (یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک کر) اپنے باپ کے پاس رات کے وقت (مکاری کا رونا) روتے ہوئے آئےo

17۔ کہنے لگے: اے ہمارے باپ! ہم لوگ دوڑ میں مقابلہ کرنے چلے گئے اور ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے بھیڑئیے نے کھا لیا، اور آپ (تو) ہماری بات کا یقین (بھی) نہیں کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوںo

18۔ اور وہ اس کے قمیض پر جھوٹا خون (بھی) لگا کر لے آئے، (یعقوب علیہ السلام نے) کہا: (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے (حاسد) نفسوں نے ایک (بہت بڑا) کام تمہارے لئے آسان اور خوشگوار بنا دیا (جو تم نے کر ڈالا)، پس (اس حادثہ پر) صبر ہی بہتر ہے، اور اﷲ ہی سے مدد چاہتا ہوں اس پر جو کچھ تم بیان کر رہے ہوo

19۔ اور (ادھر) راہ گیروں کا ایک قافلہ آپہنچا تو انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا سو اس نے اپنا ڈول (اس کنویں میں) لٹکایا، وہ بول اٹھا: خوشخبری ہو یہ ایک لڑکا ہے، اور انہوں نے اسے قیمتی سامانِ تجارت سمجھتے ہوئے چھپا لیا، اور اﷲ ان کاموں کو جو وہ کر رہے تھے خوب جاننے والا ہےo

20۔ اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے (جو موقع پر آگئے تھے اسے اپنا بھگوڑا غلام کہہ کر انہی کے ہاتھوں) بہت کم قیمت گنتی کے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا کیونکہ وہ راہ گیر اس (یوسف علیہ السلام کے خریدنے) کے بارے میں (پہلے ہی) بے رغبت تھے (پھر راہ گیروں نے اسے مصر لے جا کر بیچ دیا)o

21۔ اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا تھا (اس کا نام قطفیر تھا اور وہ بادشاہِ مصر ریان بن ولید کا وزیر خزانہ تھا اسے عرف عام میں عزیزِ مصر کہتے تھے) اس نے اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا: اسے عزت و اکرام سے ٹھہراؤ! شاید یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین (مصر) میں استحکام بخشا اور یہ اس لئے کہ ہم اسے باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی علمِ تعبیرِ رؤیا) سکھائیں، اور اﷲ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo

22۔ اور جب وہ اپنے کمالِ شباب کو پہنچ گیا (تو) ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علمِ (تعبیر) عطا فرمایا، اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو صلہ بخشا کرتے ہیںo

23۔ اور اس عورت (زلیخا) نے جس کے گھر وہ رہتے تھے آپ سے آپ کی ذات کی شدید خواہش کی اور اس نے دروازے (بھی) بند کر دیئے اور کہنے لگی: جلدی آجاؤ (میں تم سے کہتی ہوں)۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ! بیشک وہ (جو تمہارا شوہر ہے) میرا مربّی ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے رکھا ہے۔ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گےo

24۔ (یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا) اور بیشک اس (زلیخا) نے (تو) ان کا ارادہ کر (ہی) لیا تھا، (شاید) وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا۔٭ اس طرح (اس لئے کیا گیا) کہ ہم ان سے تکلیف اور بے حیائی (دونوں) کو دور رکھیں، بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے (برگزیدہ) بندوں میں سے تھےo

٭ (یا انہوں نے بھی اس کو طاقت سے دور کرنے کا قصد کر لیا تھا۔ اگر وہ اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھ لیتے تو اپنے دفاع میں سختی کر گزرتے اور ممکن ہے اس دوران ان کا قمیض آگے سے پھٹ جاتا جو بعد ازاں ان کے خلاف شہادت اور وجہ تکلیف بنتا، سو اﷲ کی نشانی نے انہیں سختی کرنے سے روک دیا۔)

25۔ اور دونوں دروازے کی طرف (آگے پیچھے) دوڑے اور اس (زلیخا) نے ان کا قمیض پیچھے سے پھاڑ ڈالا اور دونوں نے اس کے خاوند (عزیزِ مصر) کو دروازے کے قریب پا لیا وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب (دیا جائے)o

26۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: (نہیں بلکہ) اس نے خود مجھ سے مطلب براری کے لئے مجھے پھسلانا چاہا اور (اتنے میں خود) اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے (جو شیر خوار بچہ تھا) گواہی دی کہ اگر اس کا قمیض آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹوں میں سے ہےo

27۔ اور اگر اس کا قمیض پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچوں میں سے ہےo

28۔ پھر جب اس (عزیزِ مصر) نے ان کا قمیض دیکھا (کہ) وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا تو اس نے کہا: بیشک یہ تم عورتوں کا فریب ہے۔ یقیناً تم عورتوں کا فریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہےo

29۔ اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور (اے زلیخا!) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے تھیo

30۔ اور شہر میں (اُمراء کی) کچھ عورتوں نے کہنا (شروع) کر دیا کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس سے مطلب براری کے لئے پھسلاتی ہے، اس (غلام) کی محبت اس کے دل میں گھر کر گئی ہے، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھ رہی ہیںo

31۔ پس جب اس (زلیخا) نے ان کی مکارانہ باتیں سنیں (تو) انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے مجلس آراستہ کی (پھر ان کے سامنے پھل رکھ دیئے) اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دے دی اور (یوسف علیہ السلام سے) درخواست کی کہ ذرا ان کے سامنے سے (ہوکر) نکل جاؤ (تاکہ انہیں بھی میری کیفیت کا سبب معلوم ہو جائے)، سو جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام کے حسنِ زیبا) کو دیکھا تو اس (کے جلوۂ جمال) کی بڑائی کرنے لگیں اور وہ (مدہوشی کے عالم میں پھل کاٹنے کے بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور (دیکھ لینے کے بعد بے ساختہ) بول اٹھیں: اﷲ کی پناہ! یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو بس کوئی برگزیدہ فرشتہ (یعنی عالمِ بالا سے اترا ہوا نور کا پیکر) ہےo

32۔ (زلیخا کی تدبیر کامیاب ہو گئی تب) وہ بولی: یہی وہ (پیکرِ نور) ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور بیشک میں نے ہی (اپنی خواہش کی شدت میں) اسے پھسلانے کی کوشش کی مگر وہ سراپا عصمت ہی رہا، اور اگر (اب بھی) اس نے وہ نہ کیا جو میں اسے کہتی ہوں تو وہ ضرور قید کیا جائے گا اور وہ یقینًا بے آبرو کیا جائے گاo

33۔ (اب زنانِ مصر بھی زلیخا کی ہم نوا بن گئی تھیں) یوسف (علیہ السلام) نے (سب کی باتیں سن کر) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو نے ان کے مکر کو مجھ سے نہ پھیرا تو میں ان کی (باتوں کی) طرف مائل ہو جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہو جاؤں گاo

34۔ سو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی اور عورتوں کے مکر و فریب کو ان سے دور کر دیا۔ بیشک وہی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo

35۔ پھر انہیں (یوسف علیہ السلام کی پاک بازی کی) نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی یہی مناسب معلوم ہوا کہ اسے ایک مدت تک قید کر دیں (تاکہ عوام میں اس واقعہ کا چرچا ختم ہو جائے)o

36۔ اور ان کے ساتھ دو جوان بھی قید خانہ میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں (انگور سے) شراب نچوڑ رہا ہوں، اور دوسرے نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، اس میں سے پرندے کھا رہے ہیں۔ (اے یوسف!) ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیںo

37۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: جو کھانا (روز) تمہیں کھلایا جاتا ہے وہ تمہارے پاس آنے بھی نہ پائے گا کہ میں تم دونوں کو اس کی تعبیر تمہارے پاس اس کے آنے سے قبل بتا دوں گا، یہ (تعبیر) ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائے ہیں۔ بیشک میں نے اس قوم کا مذہب (شروع ہی سے) چھوڑ رکھا ہے جو اﷲ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیںo

38۔ اور میں نے تو اپنے باپ دادا، ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) کے دین کی پیروی کر رکھی ہے، ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم کسی چیز کو بھی اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، یہ (توحید) ہم پر اور لوگوں پر اﷲ کا (خاص) فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتےo

39۔ اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! (بتاؤ) کیا الگ الگ بہت سے معبود بہتر ہیں یا ایک اﷲ جو سب پر غالب ہےo

40۔ تم (حقیقت میں) اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہو مگر چند ناموں کی جو خود تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (اپنے پاس سے) رکھ لئے ہیں، اﷲ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری۔ حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے، اسی نے حکم فرمایا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی سیدھا راستہ (درست دین) ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo

41۔ اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ) اپنے مربّی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا، اور رہا دوسرا (جس نے سر پر روٹیاں دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہوo

42۔ اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجۃً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہےo

43۔ اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں، انہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے (دیکھے) ہیں اور دوسرے (سات ہی) خشک، اے درباریو! مجھے میرے خواب کا جواب بیان کرو اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہوo

44۔ انہوں نے کہا: (یہ) پریشاں خوابیں ہیں، اور ہم پریشاں خوابوں کی تعبیر نہیں جانتےo

45۔ اور وہ شخص جو ان دونوں میں سے رہائی پا چکا تھا بولا، اور (اب) اسے ایک مدت کے بعد (یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا ہوا وعدہ) یاد آ گیا: میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا سو تم مجھے (یوسف علیہ السلام کے پاس) بھیجوo

46۔ (وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا:) اے یوسف، اے صدقِ مجسّم! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائےo

47۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ دائمی عادت کے مطابق مسلسل سات برس تک کاشت کرو گے سو جو کھیتی تم کاٹا کرو گے اسے اس کے خوشوں (ہی) میں (ذخیرہ کے طور پر) رکھتے رہنا مگر تھوڑا سا (نکال لینا) جسے تم (ہر سال) کھا لوo

48۔ پھر اس کے بعد سات (سال) بہت سخت (خشک سالی کے) آئیں گے وہ اس (ذخیرہ) کو کھا جائیں گے جو تم ان کے لئے پہلے جمع کرتے رہے تھے مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم محفوظ کر لوگےo

49۔ پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو (خوب) بارش دی جائے گی اور (اس سال اس قدر پھل ہوں گے کہ) لوگ اس میں (پھلوں کا) رس نچوڑیں گےo

50۔ اور (یہ تعبیر سنتے ہی) بادشاہ نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو (فورًا) میرے پاس لے آؤ، پس جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے؟ بیشک میرا رب ان کے مکر و فریب کو خوب جاننے والا ہےo

51۔ بادشاہ نے (زلیخا سمیت عورتوں کو بلا کر) پوچھا: تم پر کیا بیتا تھا جب تم (سب) نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کی راست روی سے بہکانا چاہا تھا (بتاؤ وہ معاملہ کیا تھا)؟ وہ سب (بہ یک زبان) بولیں: اﷲ کی پناہ! ہم نے (تو) یوسف (علیہ السلام) میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیزِ مصر کی بیوی (زلیخا بھی) بول اٹھی: اب تو حق آشکار ہو چکا ہے (حقیقت یہ ہے کہ) میں نے ہی انہیں اپنی مطلب براری کے لئے پھسلانا چاہا تھا اور بیشک وہی سچے ہیںo

52۔ (یوسف علیہ السلام نے کہا: میں نے) یہ اس لئے (کیا ہے) کہ وہ (عزیزِ مصر جو میرا محسن و مربّی تھا) جان لے کہ میں نے اس کی غیابت میں (پشت پیچھے) اس کی کوئی خیانت نہیں کی اور بیشک اﷲ خیانت کرنے والوں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتاo

53۔ اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعویٰ) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

54۔ اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لئے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں (یعنی آپ کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا ہے)o

55۔ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوںo

56۔ اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتےo

57۔ اور یقیناً آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقویٰ پر گامزن رہےo

58۔ اور (قحط کے زمانہ میں) یوسف (علیہ السلام) کے بھائی (غلہ لینے کے لئے مصر) آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف (علیہ السلام) نے انہیں پہچان لیا اور وہ انہیں نہ پہچان سکےo

59۔ اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا (تو) فرمایا: اپنے پدری بھائی (بنیامین) کو میرے پاس لے آؤ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں (کس قدر) پورا ناپتا ہوں اور میں بہترین مہمان نواز (بھی) ہوںo

60۔ پس اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو (آئندہ) تمہارے لئے میرے پاس (غلہ کا) کوئی پیمانہ نہ ہو گا اور نہ (ہی) تم میرے قریب آسکو گےo

61۔ وہ بولے: ہم اس کے بھیجنے سے متعلق اس کے باپ سے ضرور تقاضا کریں گے اور ہم یقیناً (ایسا) کریں گےo

62۔ اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ان کی رقم (جو انہوں نے غلہ کے عوض اد اکی تھی واپس) ان کی بوریوں میں رکھ دو تاکہ جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹیں تو اسے پہچان لیں (کہ یہ رقم تو واپس آگئی ہے) شاید وہ (اسی سبب سے) لوٹ کر آجائیںo

63۔ سو جب وہ اپنے والد کی طرف لوٹے (تو) کہنے لگے: اے ہمارے باپ! (آئندہ کے لئے) ہم پر غلہ بند کر دیا گیا ہے (سوائے اس کے کہ بنیامین ہمارے ساتھ جائے) پس ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیں (تاکہ) ہم (مزید) غلہ لے آئیں اور ہم یقیناً اس کے محافظ ہوں گےo

64۔ یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں اس کے بارے میں (بھی) تم پر اسی طرح اعتماد کر لوں جیسے اس سے قبل میں نے اس کے بھائی (یوسف علیہ السلام) کے بارے میں تم پر اعتماد کر لیا تھا؟ تو اﷲ ہی بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہی سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہےo

65۔ جب انہوں نے اپنا سامان کھولا (تو اس میں) اپنی رقم پائی (جو) انہیں لوٹا دی گئی تھی، وہ کہنے لگے: اے ہمارے والد گرامی! ہمیں اور کیا چاہئے؟ یہ ہماری رقم (بھی) ہماری طرف لوٹا دی گئی ہے اور (اب تو) ہم اپنے گھر والوں کے لئے (ضرور ہی) غلہ لائیں گے اور ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے، اور یہ (غلہ جو ہم پہلے لائے ہیں) تھوڑی مقدار (میں) ہےo

66۔ یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا یہاں تک کہ تم اﷲ کی قسم کھا کر مجھے پختہ وعدہ دو کہ تم اسے ضرور میرے پاس (واپس) لے آؤ گے سوائے اس کے کہ تم (سب) کو (کہیں) گھیر لیا جائے (یا ہلاک کر دیا جائے)، پھر جب انہوں نے یعقوب (علیہ السلام) کو اپنا پختہ عہد دے دیا تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس پر اﷲ نگہبان ہےo

67۔ اور فرمایا: اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں اﷲ (کے اَمر) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئےo

68۔ اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا، تمہیں کیا خبر!) بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتےo

69۔ اور جب وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس جگہ دی (اسے آہستہ سے) کہا: بیشک میں ہی تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس تو غمزدہ نہ ہو ان کاموں پر جو یہ کرتے رہے ہیںo

70۔ پھر جب (یوسف علیہ السلام نے) ان کا سامان انہیں مہیا کر دیا تو (شاہی) پیالہ اپنے بھائی (بنیامین) کی بوری میں رکھ دیا بعد ازاں پکارنے والے نے آواز دی: اے قافلہ والو! (ٹھہرو) یقیناً تم لوگ ہی چور (معلوم ہوتے) ہوo

71۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: تمہاری کیا چیز گم ہو گئی ہےo

72۔ وہ (درباری ملازم) بولے: ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا اور جو کوئی اسے (ڈھونڈ کر) لے آئے اس کے لئے ایک اونٹ کا غلہ (انعام) ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوںo

73۔ وہ کہنے لگے: اﷲ کی قسم! بیشک تم جان گئے ہو (گے) ہم اس لئے نہیں آئے تھے کہ (جرم کا ارتکاب کر کے) زمین میں فساد بپا کریں اور نہ ہی ہم چور ہیںo

74۔ وہ (ملازم) بولے: (تم خود ہی بتاؤ) کہ اس (چور) کی کیا سزا ہو گی اگر تم جھوٹے نکلےo

75۔ انہوں نے کہا: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں سے وہ (پیالہ) برآمد ہو وہ خود ہی اس کا بدلہ ہے (یعنی اسی کو اس کے بدلہ میں رکھ لیا جائے)، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیںo

76۔ پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہےo

77۔ انہوں نے کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو کوئی تعجب نہیں) بیشک اس کا بھائی (یوسف) بھی اس سے پہلے چوری کر چکا ہے، سو یوسف (علیہ السلام) نے یہ بات اپنے دل میں (چھپائی) رکھی اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا، (دل میں ہی) کہا: تمہارا حال نہایت برا ہے، اور اﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کر رہے ہوo

78۔ وہ بولے: اے عزیزِ مصر! اس کے والد بڑے معمر بزرگ ہیں، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیں، بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں پاتے ہیںo

79۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ کہ ہم نے جس کے پاس اپنا سامان پایا اس کے سوا کسی (اور) کو پکڑ لیں تب تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گےo

80۔ پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) سے مایوس ہو گئے تو علیحدگی میں (باہم) سرگوشی کرنے لگے، ان کے بڑے (بھائی) نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اﷲ کی قسم اٹھوا کر پختہ وعدہ لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں جو زیادتیاں کر چکے ہو (تمہیں وہ بھی معلوم ہیں)، سو میں اس سرزمین سے ہرگز نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت (نہ) دے یا میرے لئے اﷲ کوئی فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہےo

81۔ تم اپنے باپ کی طرف لوٹ جاؤ پھر (جا کر) کہو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے (اس لئے وہ گرفتار کر لیا گیا) اور ہم نے فقط اسی بات کی گواہی دی تھی جس کا ہمیں علم تھا اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھےo

82۔ اور (اگر آپ کو اعتبار نہ آئے تو) اس بستی (والوں) سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے اور اس قافلہ (والوں) سے (معلوم کر لیں) جس میں ہم آئے ہیں، اور بیشک ہم (اپنے قول میں) یقیناً سچے ہیںo

83۔ یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: (ایسا نہیں) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے مرغوب بنا دی ہے، اب صبر (ہی) اچھا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان سب کو میرے پاس لے آئے، بیشک وہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہےo

84۔ اور یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف (علیہ السلام کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھےo

85۔ وہ بولے: اﷲ کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف (ہی) کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ قریب مرگ ہو جائیں گے یا آپ وفات پا جائیں گےo

86۔ انہوں نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اﷲ کے حضور کرتا ہوں اور میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo

87۔ اے میرے بیٹو! جاؤ (کہیں سے) یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی خبر لے آؤ اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اﷲ کی رحمت سے صرف وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیںo

88۔ سو جب وہ (دوبارہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو کہنے لگے: اے عزیزِ مصر! ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر مصیبت آن پڑی ہے (ہم شدید قحط میں مبتلا ہیں) اور ہم (یہ) تھوڑی سی رقم لے کر آئے ہیں سو (اس کے بدلے) ہمیں (غلہ کا) پورا پورا ناپ دے دیں اور (اس کے علاوہ) ہم پر (کچھ) صدقہ (بھی) کر دیں۔ بیشک اﷲ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہےo

89۔ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سلوک) کیا تھا کیا تم (اس وقت) نادان تھےo

90۔ وہ بولے: کیا واقعی تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے فرمایا: (ہاں) میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے بیشک اﷲ نے ہم پر احسان فرمایا ہے، یقیناً جو شخص اﷲ سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو بیشک اﷲ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتاo

91۔ وہ بول اٹھے: اﷲ کی قسم! بیشک اﷲ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور یقیناً ہم ہی خطاکار تھےo

92۔ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: آج کے دن تم پر کوئی ملامت (اور گرفت) نہیں ہے، اﷲ تمہیں معاف فرما دے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہےo

93۔ میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے، اور (پھر) اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤo

94۔ اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا ان کے والد (یعقوب علیہ السلام) نے (کنعان میں بیٹھے ہی) فرما دیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کروo

95۔ وہ بولے: اﷲ کی قسم یقیناً آپ اپنی (اسی) پرانی محبت کی خود رفتگی میں ہیںo

96۔ پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo

97۔ وہ بولے: اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (اﷲ سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے، بیشک ہم ہی خطاکار تھےo

98۔ یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں عنقریب تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، بیشک وہی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

99۔ پھر جب وہ (سب اَفرادِ خانہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) یوسف (علیہ السلام) نے (شہر سے باہر آکر ہزارہا سواریوں، فوجیوں اور لوگوں کے ہمراہ شاہی جلوس کی صورت میں ان کا استقبال کیا اور) اپنے ماں باپ کو تعظیماً اپنے قریب جگہ دی (یا انہیں اپنے گلے سے لگا لیا) اور (خوش آمدید کہتے ہوئے) فرمایا: آپ مصر میں داخل ہو جائیں اگر اﷲ نے چاہا (تو) امن و عافیت کے ساتھ (یہیں قیام کریں)o

100۔ اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اوپر تخت پر بٹھا لیا اور وہ (سب) یوسف (علیہ السلام) کے لئے سجدہ میں گر پڑے، اور یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اے ابا جان! یہ میرے (اس) خواب کی تعبیر ہے جو (بہت) پہلے آیا تھا (اکثر مفسرین کے نزدیک اسے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا تھا) اور بیشک میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا ہے، اور بیشک اس نے مجھ پر (بڑا) احسان فرمایا جب مجھے جیل سے نکالا اور آپ سب کو صحرا سے (یہاں) لے آیا اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کر دیا تھا، اور بیشک میرا رب جس چیز کو چاہے (اپنی) تدبیر سے آسان فرما دے، بیشک وہی خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo

101۔ اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کے علم سے نوازا، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی)، مجھے حالتِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دےo

102۔ (اے حبیبِ مکرّم!) یہ (قصّہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (برادرانِ یوسف) اپنی سازشی تدبیر پر جمع ہو رہے تھے اور وہ مکر و فریب کر رہے تھےo

103۔ اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریںo

104۔ اور آپ ان سے اس (دعوت و تبلیغ) پر کوئی صلہ تو نہیں مانگتے، یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لئے نصیحت ہی تو ہےo

105۔ اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیںo

106۔ اور ان میں سے اکثر لوگ اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے مگر یہ کہ وہ مشرک ہیںo

107۔ کیا وہ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان پر اﷲ کے عذاب کی چھا جانے والی آفت آجائے یا ان پر اچانک قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہوo

108۔ (اے حبیبِ مکرّم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوںo

109۔ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی (مختلف) بستیوں والوں میں سے مَردوں ہی کو بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی فرماتے تھے، کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ (خود) دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا، اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتےo

110۔ یہاں تک کہ جب پیغمبر (اپنی نافرمان قوموں سے) مایوس ہو گئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے (یعنی ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا) تو ان رسولوں کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جسے چاہا (اسے) نجات بخش دی، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتاo

111۔ بیشک ان کے قصوں میں سمجھ داروں کے لئے عبرت ہے، یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لے آئےo

 

 

سُورة الرَّعْد

سورت : مدنی        ترتیب تلاوت : 13        ترتیب نزولی : 96

رکوع : 6    آیات : 43 پارہ نمبر : 13

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ الف، لام، میم، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ کتابِ الٰہی کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ کی جانب نازل کیا گیا ہے (وہ) حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتےo

2۔ اور اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے (خلا میں) بلند فرمایا (جیسا کہ) تم دیکھ رہے ہو پھر (پوری کائنات پر محیط اپنے) تختِ اقتدار پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو نظام کا پابند بنا دیا، ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کے لئے (اپنے اپنے مدار میں) چلتا ہے۔ وہی (ساری کائنات کے) پورے نظام کی تدبیر فرماتا ہے، (سب) نشانیوں (یا قوانینِ فطرت) کو تفصیلاً واضح فرماتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کا یقین کر لوo

3۔ اور وہی ہے جس نے (گولائی کے باوجود) زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے، اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اس نے دو دو (جنسوں کے) جوڑے بنائے (وہی) رات سے دن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اس میں تفکر کرنے والوں کے لئے (بہت) نشانیاں ہیںo

4۔ اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جھنڈدار اور بغیر جھنڈ کے، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، اور (اس کے باوجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں، بیشک اس میں عقل مندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیںo

5۔ اور اگر آپ (کفار کے انکار پر) تعجب کریں تو ان کا (یہ) کہنا عجیب (تر) ہے کہ کیا جب ہم (مر کر) خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم اَز سرِ نو تخلیق کئے جائیں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا انکار کیا، اور انہی لوگوں کی گردنوں میں طوق (پڑے) ہوں گے اور یہی لوگ اہلِ جہنم ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo

6۔ اور یہ لوگ رحمت سے پہلے آپ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے کئی عذاب گزر چکے ہیں، اور (اے حبیب!) بیشک آپ کا رب لوگوں کے لئے ان کے ظلم کے باوجود بخشش والا ہے اور یقیناً آپ کا رب سخت عذاب دینے والا (بھی) ہےo

7۔ اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس (رسول) پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ (اے رسولِ مکرّم!) آپ تو فقط (نافرمانوں کو انجامِ بد سے) ڈرانے والے اور (دنیا کی) ہر قوم کے لئے ہدایت بہم پہنچانے والے ہیںo

8۔ اﷲ جانتا ہے جو کچھ ہر مادہ اپنے پیٹ میں اٹھاتی ہے اور رحم جس قدر سکڑتے اور جس قدر بڑھتے ہیں، اور ہر چیز اس کے ہاں مقرر حد کے ساتھ ہےo

9۔ وہ ہر نہاں اور عیاں کو جاننے والا ہے سب سے برتر (اور) اعلیٰ رتبہ والا ہےo

10۔ تم میں سے جو شخص آہستہ بات کرے اور جو بلند آواز سے کرے اور جو رات (کی تاریکی) میں چھپا ہو اور جو دن (کی روشنی) میں چلتا پھرتا ہو (اس کے لئے) سب برابر ہیںo

11۔ (ہر) انسان کے لئے یکے بعد دیگرے آنے والے (فرشتے) ہیں جو اس کے آگے اور اس کے پیچھے اﷲ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں، اور جب اﷲ کسی قوم کے ساتھ (اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے) عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے مقابلہ میں کوئی مددگار ہوتا ہےo

12۔ وہی ہے جو تمہیں (کبھی) ڈرانے اور (کبھی) امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا ہے اور (کبھی) بھاری (گھنے) بادلوں کو اٹھاتا ہےo

13۔ (بجلیوں اور بادلوں کی) گرج (یا اس پر متعین فرشتہ) اور تمام فرشتے اس کے خوف سے اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں، اور وہ کڑکتی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے اسے گرا دیتا ہے، اور وہ (کفار قدرت کی ان نشانیوں کے باوجود) اﷲ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں، اور وہ سخت تدبیر و گرفت والا ہےo

14۔ اسی کے لئے حق (یعنی توحید) کی دعوت ہے، اور وہ (کافر) لوگ جو اس کے سوا (معبودانِ باطلہ یعنی بتوں) کی عبادت کرتے ہیں، وہ انہیں کسی چیز کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ ان کی مثال تو صرف اس شخص جیسی ہے جو اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلائے (بیٹھا) ہو کہ پانی (خود) اس کے منہ تک پہنچ جائے اور (یوں تو) وہ (پانی) اس تک پہنچنے والا نہیں، اور (اسی طرح) کافروں کا (بتوں کی عبادت اور ان سے) دعا کرنا گمراہی میں بھٹکنے کے سوا کچھ نہیںo

15۔ اور جو کوئی (بھی) آسمانوں اور زمین میں ہے وہ تو اﷲ ہی کے لئے سجدہ کرتا ہے (بعض) خوشی سے اور (بعض) مجبوراً اور ان کے سائے (بھی) صبح و شام (اسی کو سجدہ کرتے ہیں، تو پھر ان کافروں نے اﷲ کو چھوڑ کر بتوں کی سجدہ ریزی کیوں شروع کر لی ہے؟)o

16۔ (ان کافروں کے سامنے) فرمایئے کہ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ آپ (خود ہی) فرما دیجئے: اﷲ ہے۔ (پھر) آپ (ان سے دریافت) فرمایئے: کیا تم نے اس کے سوا (ان بتوں) کو کارساز بنا لیا ہے جو نہ اپنی ذاتوں کے لئے کسی نفع کے مالک ہیں اور نہ کسی نقصان کے۔ آپ فرما دیجئے: کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں یا کیا تاریکیاں اور روشنی برابر ہو سکتی ہیں۔ کیا انہوں نے اﷲ کے لئے ایسے شریک بنائے ہیں جنہوں نے اﷲ کی مخلوق کی طرح (کچھ مخلوق) خود (بھی) پیدا کی ہو، سو (ان بتوں کی پیدا کردہ) اس مخلوق سے ان کو تشابُہ (یعنی مغالطہ) ہو گیا ہو، فرما دیجئے: اﷲ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ایک ہے، وہ سب پر غالب ہےo

17۔ اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا تو وادیاں اپنی (اپنی) گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں، پھر سیلاب کی رَو نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا، اور جن چیزوں کو آگ میں تپاتے ہیں، زیور یا دوسرا سامان بنانے کے لئے اس پر بھی ویسا ہی جھاگ اٹھتا ہے، اس طرح اﷲ حق اور باطل کی مثالیں بیان فرماتا ہے، سو جھاگ تو (پانی والا ہو یا آگ والا سب) بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے، اﷲ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہےo

18۔ ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے رب کا حکم قبول کیا بھلائی ہے، اور جنہوں نے اس کا حکم قبول نہیں کیا اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو سو وہ اسے (عذاب سے نجات کے لئے) فدیہ دے ڈالیں (تب بھی) انہی لوگوں کا حساب برا ہو گا، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہےo

19۔ بھلا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے حق ہے، اس شخص کے مانند ہو سکتا ہے جو اندھا ہے، بات یہی ہے کہ نصیحت عقل مند ہی قبول کرتے ہیںo

20۔ جو لوگ اﷲ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو نہیں توڑتےo

21۔ اور جو لوگ ان سب (حقوق اﷲ، حقوق الرسول، حقوق العباد اور اپنے حقوقِ قرابت) کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور اپنے رب کی خشیّت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیںo

22۔ اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا (حسین) گھر ہےo

23۔ (جہاں) سدا بہار باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو بھی نیکوکار ہو گا اور فرشتے ان کے پاس (جنت کے) ہر دروازے سے آئیں گےo

24۔ (انہیں خوش آمدید کہتے اور مبارک باد دیتے ہوئے کہیں گے:) تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہےo

25۔ اور جو لوگ اﷲ کا عہد اس کے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تمام (رشتوں اور حقوق) کو قطع کر دیتے ہیں جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں انہی لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہےo

26۔ اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور وہ (کافر) دنیا کی زندگی سے بہت مسرور ہیں، حالانکہ دنیوی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک حقیر متاع کے سوا کچھ بھی نہیںo

27۔ اور کافر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) پر اس کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری، فرما دیجئے: بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے (نشانیوں کے باوجود) گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے اپنی جانب رہنمائی فرما دیتا ہےo

28۔ جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اﷲ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہےo

29۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے (آخرت میں) عیش و مسرت ہے اور عمدہ ٹھکانا ہےo

30۔ (اے حبیب!) اسی طرح ہم نے آپ کو ایسی امت میں (رسول بنا کر) بھیجا ہے کہ جس سے پہلے حقیقت میں (ساری) امتیں گزر چکی ہیں (اب یہ سب سے آخری امت ہے) تاکہ آپ ان پر وہ (کتاب) پڑھ کر سنا دیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور وہ رحمان کا انکار کر رہے ہیں، آپ فرما دیجئے: وہ میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہےo

31۔ اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعے پہاڑ چلا دیئے جاتے یا اس سے زمین پھاڑ دی جاتی یا اس کے ذریعے مُردوں سے بات کرا دی جاتی (تب بھی وہ ایمان نہ لاتے)، بلکہ سب کام اﷲ ہی کے اختیار میں ہیں، تو کیا ایمان والوں کو (یہ) معلوم نہیں کہ اگر اﷲ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت فرما دیتا، اور ہمیشہ کافر لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی (نہ کوئی) مصیبت پہنچتی رہے گی یا ان کے گھروں (یعنی بستیوں) کے آس پاس اترتی رہے گی یہاں تک کہ اﷲ کا وعدۂ (عذاب) آپہنچے، بیشک اﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتاo

32۔ اور بیشک آپ سے قبل (بھی کفار کی جانب سے) رسولوں کے ساتھ مذاق کیا جاتا رہا سو میں نے کافروں کو مہلت دی پھر میں نے انہیں (عذاب کی) گرفت میں لے لیا۔ پھر (دیکھئے) میرا عذاب کیسا تھاo

33۔ کیا وہ (اﷲ) جو ہر جان پر اس کے اعمال کی نگہبانی فرما رہا ہے اور (وہ بت جو کافر) لوگوں نے اﷲ کے شریک بنا لئے (ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں)۔ آپ فرما دیجئے کہ ان کے نام (تو) بتاؤ۔ (نادانو!) کیا تم اس (اﷲ) کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جس (کے وجود) کو وہ ساری زمین میں نہیں جانتا یا (یہ صرف) ظاہری باتیں ہی ہیں (جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں) بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) کافروں کے لئے ان کا فریب خوش نما بنا دیا گیا ہے اور وہ (سیدھی) راہ سے روک دیئے گئے ہیں، اور جسے اﷲ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہو سکتاo

34۔ ان کے لئے دنیوی زندگی میں (بھی) عذاب ہے اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے، اور انہیں اﷲ (کے عذاب) سے کوئی بچانے والا نہیںo

35۔ اس جنت کا حال جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے (یہ ہے) کہ اس کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کا پھل بھی ہمیشہ رہنے والا ہے اور اس کا سایہ (بھی)، یہ ان لوگوں کا (حسنِ) انجام ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا، اور کافروں کا انجام آتشِ دوزخ ہےo

36۔ اور جن لوگوں کو ہم کتاب (تورات) دے چکے ہیں (اگر وہ صحیح مومن ہیں تو) وہ اس (قرآن) سے خوش ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور ان (ہی کے) فرقوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس کے کچھ حصہ کا انکار کرتے ہیں، فرما دیجئے کہ بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اﷲ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ ٹھہراؤں، اسی کی طرف میں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہےo

37۔ اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو حکم بنا کر عربی زبان میں اتارا ہے، اور (اے سننے والے!) اگر تو نے ان (کافروں) کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ تیرے پاس (قطعی) علم آچکا ہے تو تیرے لئے اﷲ کے مقابلہ میں نہ کوئی مددگار ہو گا اور نہ کوئی محافظo

38۔ اور (اے رسول!) بیشک ہم نے آپ سے پہلے (بہت سے) پیغمبروں کو بھیجا اور ہم نے ان کے لئے بیویاں (بھی) بنائیں اور اولاد (بھی)، اور کسی رسول کا یہ کام نہیں کہ وہ نشانی لے آئے مگر اﷲ کے حکم سے، ہر ایک میعاد کے لئے ایک نوشتہ ہےo

39۔ اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہےo

40۔ اور اگر ہم (اس عذاب کا) کچھ حصہ جس کا ہم نے ان (کافروں) سے وعدہ کیا ہے آپ کو (حیاتِ ظاہری میں ہی) دکھا دیں یا ہم آپ کو (اس سے قبل) اٹھا لیں (یہ دونوں چیزیں ہماری مرضی پر منحصر ہیں) آپ پر تو صرف (احکام کے) پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہےo

41۔ کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ ہم (ان کے زیرِ تسلّط) زمین کو ہر طرف سے گھٹاتے چلے جا رہے ہیں (اور ان کے بیشتر علاقے رفتہ رفتہ اسلام کے تابع ہوتے جا رہے ہیں)، اور اﷲ ہی حکم فرماتا ہے کوئی بھی اس کے حکم کو ردّ کرنے والا نہیں، اور وہ حساب جلد لینے والا ہےo

42۔ اور بیشک ان لوگوں نے بھی مکر و فریب کیا تھا جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں سو ان سب تدبیروں کو توڑنا (بھی) اﷲ کے اختیار میں ہے۔ وہ خوب جانتا ہے جو کچھ ہر شخص کما رہا ہے، اور کفّار جلد ہی جان لیں گے کہ آخرت کا گھر کس کے لئے ہےo

43۔ اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں، فرما دیجئے: (میری رسالت پر) میرے اور تمہارے درمیان اﷲ بطورِ گواہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس (صحیح طور پر آسمانی) کتاب کا علم ہےo

 

 

سُورة إِبْرَاہِیم

سورت : مکی  ترتیب تلاوت : 14        ترتیب نزولی : 72

رکوع : 7    آیات : 52 پارہ نمبر : 13

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ (عظیم) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی جانب لے آئیں (مزید یہ کہ) ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف (لائیں) جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہےo

2۔ وہ اﷲ کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے، اور کفّار کے لئے سخت عذاب کے باعث بربادی ہےo

3۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتے ہیں اور (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس (دینِ حق) میں کجی تلاش کرتے ہیں۔ یہ لوگ دور کی گمراہی میں (پڑ چکے) ہیںo

4۔ اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لئے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے، پھر اﷲ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، اور وہ غالب حکمت والا ہےo

5۔ اور بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ (اے موسیٰ!) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے)۔ بیشک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے (اور) خوب شکر بجا لانے والے کے لئے نشانیاں ہیںo

6۔ اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: تم اپنے اوپر اللہ کے (اس) انعام کو یاد کرو جب اس نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دی جو تمہیں سخت عذاب پہنچاتے تھے اور تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی جانب سے بڑی بھاری آزمائش تھیo

7۔ اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo

8۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اگر تم اور وہ سب کے سب لوگ جو زمین میں ہیں کفر کرنے لگیں تو بیشک اللہ (ان سب سے) یقیناً بے نیاز لائقِ حمد و ثنا ہےo

9۔ کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، (وہ) قومِ نوح اور عاد اور ثمود (کی قوموں کے لوگ) تھے اور (کچھ) لوگ جو ان کے بعد ہوئے، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا (کیونکہ وہ صفحۂ ہستی سے بالکل نیست و نابود ہو چکے ہیں)، ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آئے تھے پس انہوں نے (اَز راہِ تمسخر و عناد) اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں ڈال لئے اور (بڑی جسارت کے ساتھ) کہنے لگے: ہم نے اس (دین) کا انکار کر دیا جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور یقیناً ہم اس چیز کی نسبت اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہوo

10۔ ان کے پیغمبروں نے کہا: کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے، (جو) تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو تمہاری خاطر بخش دے اور (تمہاری نافرمانیوں کے باوجود) تمہیں ایک مقرر میعاد تک مہلت دیئے رکھتا ہے۔ وہ (کافر) بو لے: تم تو صرف ہمارے جیسے بشر ہی ہو، تم یہ چاہتے ہو کہ ہمیں ان (بتوں) سے روک دو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سو تم ہمارے پاس کوئی روشن دلیل لاؤo

11۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا: اگرچہ ہم (نفسِ بشریت میں) تمہاری طرح انسان ہی ہیں لیکن (اس فرق پر بھی غور کرو کہ) اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے (پھر برابری کیسی؟)، اور (رہ گئی روشن دلیل کی بات) یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر تمہارے پاس کوئی دلیل لے آئیں، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہئےo

12۔ اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں درآنحالیکہ اسی نے ہمیں (ہدایت و کامیابی کی) راہیں دکھائی ہیں، اور ہم ضرور تمہاری اذیت رسانیوں پر صبر کریں گے اور اہلِ توکل کو اللہ ہی پر توکل کرنا o

1چاہیے3۔ اور کافر لوگ اپنے پیغمبروں سے کہنے لگے: ہم بہرصورت تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں لوٹ آنا ہو گا، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گےo

14۔ اور ان کے بعد ہم تمہیں ضرور (اسی) ملک میں آباد فرمائیں گے۔ یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لئے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدۂ (عذاب) سے خائف ہواo

15۔ اور (بالآخر) رسولوں نے (اللہ سے) فتح مانگی اور ہر سرکش ضدی نامراد ہو گیاo

16۔ اس (بربادی) کے پیچھے (پھر) جہنم ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گاo

17۔ جسے وہ بمشکل ایک ایک گھونٹ پیئے گا اور اسے حلق سے نیچے اتار نہ سکے گا، اور اسے ہر طرف سے موت آگھیرے گی اور وہ مر (بھی) نہ سے گا، اور (پھر) اس کے پیچھے (ایک اور) بڑا ہی سخت عذاب ہو گاo

18۔ جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے، ان کی مثال یہ ہے کہ ان کے اعمال (اس) راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز آندھی کے دن سخت ہوا کا جھونکا آ گیا، وہ ان (اَعمال) میں سے جو انہوں نے کمائے تھے کسی چیز پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ یہی بہت دور کی گمراہی ہےo

19۔ (اے سننے والے!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی حکمت) کے ساتھ پیدا فرمایا۔ اگر وہ چاہے (تو) تمہیں نیست و نابود فرما دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق لے آئےo

20۔ اور یہ (کام) اللہ پر (کچھ بھی) دشوار نہیں ہےo

21۔ اور (روزِ محشر) اللہ کے سامنے سب (چھوٹے بڑے) حاضر ہوں گے تو (پیروی کرنے والے) کمزور لوگ (طاقتور) متکبروں سے کہیں گے: ہم تو (عمر بھر) تمہارے تابع رہے تو کیا تم اللہ کے عذاب سے بھی ہمیں کسی قدر بچا سکتے ہو؟ وہ (اُمراء اپنے پیچھے لگنے والے غریبوں سے) کہیں گے: اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں بھی ضرور ہدایت کی راہ دکھاتے (ہم خود بھی گمراہ تھے سو تمہیں بھی گمراہ کرتے رہے)۔ ہم پر برابر ہے خواہ (آج) ہم آہ و زاری کریں یا صبر کریں ہمارے لئے کوئی راہِ فرار نہیں ہےo

22۔ اور شیطان کہے گا جبکہ فیصلہ ہو چکے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا تھا، سو میں نے تم سے وعدہ خلافی کی ہے، اور مجھے (دنیا میں) تم پر کسی قسم کا زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (باطل کی طرف) بلایا سو تم نے (اپنے مفاد کی خاطر) میری دعوت قبول کی، اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ (خود) اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں (آج) تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو۔ اس سے پہلے جو تم مجھے (اللہ کا) شریک ٹھہراتے رہے ہو بیشک میں (آج) اس سے انکار کرتا ہوں۔ یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہےo

23۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں (وہ) ان میں اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے، (ملاقات کے وقت) اس میں ان کا دعائیہ کلمہ ”سلام“ ہو گاo

24۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا، اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے کہ پاکیزہ بات اس پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیںo

25۔ وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریںo

26۔ اور ناپاک بات کی مثال اس ناپاک درخت کی سی ہے جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے، اسے ذرا بھی قرار (و بقا) نہ ہوo

27۔ اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔ اور اللہ ظالموں کو گمراہ ٹھہرا دیتا ہے۔ اور اللہ جو چاہتا ہے کر ڈالتا ہےo

28۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتِ (ایمان) کو کفر سے بدل ڈالا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتار دیاo

29۔ (وہ) دوزخ ہے جس میں جھونکے جائیں گے، اور وہ برا ٹھکانا ہےo

30۔ اور انہوں نے اللہ کے لئے شریک بنا ڈالے تاکہ وہ (لوگوں کو) اس کی راہ سے بہکائیں۔ فرما دیجئے: تم (چند روزہ) فائدہ اٹھا لو بیشک تمہارا انجام آگ ہی کی طرف (جانا) ہےo

31۔ آپ میرے مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ نماز قائم رکھیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے رہیں اس دن کے آنے سے پہلے جس دن میں نہ کوئی خرید و فروخت ہو گی اور نہ ہی کوئی (دنیاوی) دوستی (کام آئے گی)o

32۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رزق کے طور پر پھل پیدا کئے، اور اس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیاo

33۔ اور اس نے تمہارے فائدہ کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردش کرتے رہتے ہیں، اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دن کو بھی (ایک نظام کے) تابع کر دیاo

34۔ اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہےo

35۔ اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریںo

36۔ اے میرے رب! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تُو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

37۔ اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیںo

38۔ اے ہمارے رب! بیشک تو وہ (سب کچھ) جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ہم ظاہر کرتے ہیں، اور اللہ پر کوئی بھی چیز نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ ہی آسمان میں (مخفی ہے)o

39۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام دو فرزند) عطا فرمائے، بیشک میرا رب دعا خوب سننے والا ہےo

40۔ اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo

41۔ اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے)٭اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہو گاo

٭ (یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والد تارخ کی طرف اشارہ ہے، یہ کافر و مشرک نہ تھے بلکہ دینِ حق پر تھے۔ آزر دراصل آپ کا چچا تھا، اس نے آپ علیہ السلام کو آپ علیہ السلام کے والد کی وفات کے بعد پالا تھا، اس لئے اسے عرفاً باپ کہا گیا ہے، وہ مشرک تھا اور آپ کو اس کے لئے دعائے مغفرت سے روک دیا گیا تھا جبکہ یہاں حقیقی والدین کے لئے دعائے مغفرت کی جا رہی ہے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ اسے امتِ محمدی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نمازوں میں بھی برقرار رکھ دیا گیا۔)

42۔ اور اللہ کو ان کاموں سے ہرگز بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم انجام دے رہے ہیں، بس وہ تو ان (ظالموں) کو فقط اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں (خوف کے مارے) آنکھیں پھٹی رہ جائیں گیo

43۔ وہ لوگ (میدانِ حشر کی طرف) اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑتے جا رہے ہوں گے اس حال میں کہ ان کی پلکیں بھی نہ جھپکتی ہوں گی اور ان کے دل سکت سے خالی ہو رہے ہوں گےo

44۔ اور آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیں جب ان پر عذاب آپہنچے گا تو وہ لوگ جو ظلم کرتے رہے ہوں گے کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی دیر کے لئے مہلت دے دے کہ ہم تیری دعوت کو قبول کر لیں اور رسولوں کی پیروی کر لیں۔ (ان سے کہا جائے گا) کہ کیا تم ہی لوگ پہلے قسمیں نہیں کھاتے رہے کہ تمہیں کبھی زوال نہیں آئے گاo

45۔ اور تم (اپنی باری پر) انہی لوگوں کے (چھوڑے ہوئے) محلات میں رہتے تھے (جنہوں نے اپنے اپنے دور میں) اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا حالانکہ تم پر عیاں ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا اور ہم نے تمہارے (فہم کے) لئے مثالیں بھی بیان کی تھیںo

46۔ اور انہوں نے (دولت و اقتدار کے نشہ میں بدمست ہو کر) اپنی طرف سے بڑی فریب کاریاں کیں جبکہ اللہ کے پاس ان کے ہر فریب کا توڑ تھا، اگرچہ ان کی مکّارانہ تدبیریں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اکھڑ جائیںo

47۔ سو اللہ کو ہرگز اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا نہ سمجھنا! بیشک اللہ غالب، بدلہ لینے والا ہےo

48۔ جس دن (یہ) زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ اللہ کے رُوبرو حاضر ہوں گے جو ایک ہے سب پر غالب ہےo

49۔ اور اس دن آپ مجرموں کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھیں گےo

50۔ ان کے لباس گندھک (یا ایسے روغن) کے ہوں گے (جو آگ کو خوب بھڑکاتا ہے) اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپ رہی ہو گیo

51۔ تاکہ اللہ ہر شخص کو ان (اَعمال) کابدلہ دے دے جو اس نے کما رکھے ہیں۔ بیشک اللہ حساب میں جلدی فرمانے والا ہےo

52۔ یہ (قرآن) لوگوں کے لئے کاملاً پیغام کا پہنچا دینا ہے، تاکہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے اور یہ کہ وہ خوب جان لیں کہ بس وہی (اللہ) معبودِ یکتا ہے اور یہ کہ دانش مند لوگ نصیحت حاصل کریںo

 

 

 

سُورة الْحِجْر

سورت : مکی  ترتیب تلاوت : 15        ترتیب نزولی : 54

رکوع : 6    آیات : 99 پارہ نمبر : 13, 14

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ (برگزیدہ) کتاب اور روشن قرآن کی آیتیں ہیںo

2۔ کفار (آخرت میں مومنوں پر اللہ کی رحمت کے مناظر دیکھ کر) بار بار آرزو کریں گے کہ کاش! وہ مسلمان ہوتےo

3۔ آپ (غمگین نہ ہوں) انہیں چھوڑ دیجئے وہ کھاتے (پیتے) رہیں اور عیش کرتے رہیں اور (ان کی) جھوٹی امیدیں انہیں (آخرت سے) غافل رکھیں پھر وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گےo

4۔ اور ہم نے کوئی بھی بستی ہلاک نہیں کی مگر یہ کہ اُس کے لئے ایک معلوم نوشتۂ (قانون) تھا (جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی اور اپنے انجام کو جا پہنچے)o

5۔ کوئی بھی قوم (قانونِ عروج و زوال کی) اپنی مقررہ مدت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے ہٹ سکتی ہےo

6۔ اور (کفار گستاخی کرتے ہوئے) کہتے ہیں: اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے! بیشک تم دیوانے ہوo

7۔ تم ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتے اگر تم سچے ہوo

8۔ ہم فرشتوں کو نہیں اتارا کرتے مگر (فیصلۂ) حق کے ساتھ (یعنی جب عذاب کی گھڑی آپہنچے تو اس کے نفاذ کے لئے اتارتے ہیں) اور اس وقت انہیں مہلت نہیں دی جاتیo

9۔ بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گےo

10۔ اور بیشک ہم نے آپ سے قبل پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھےo

11۔ اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا تھا مگر یہ کہ وہ اس کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھےo

12۔ اسی طرح ہم اس (تمسخر اور استہزاء) کو مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیںo

13۔ یہ لوگ اِس (قرآن) پر ایمان نہیں لائیں گے اور بیشک پہلوں کی (یہی) روش گزر چکی ہےo

14۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ (بھی) کھول دیں (اور ان کے لئے یہ بھی ممکن بنا دیں کہ) وہ سارا دن اس میں (سے) اوپر چڑھتے رہیںo

15۔ (تب بھی) یہ لوگ یقیناً (یہ) کہیں گے کہ ہماری آنکھیں (کسی حیلہ و فریب کے ذریعے) باندھ دی گئی ہیں بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہےo

16۔ اور بیشک ہم نے آسمان میں (کہکشاؤں کی صورت میں ستاروں کی حفاطت کے لئے) قلعے بنائے اور ہم نے اس (خلائی کائنات) کو دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کر دیاo

17۔ اور ہم نے اس (آسمانی کائنات کے نظام) کو ہر مردود شیطان (یعنی ہر سرکش قوت کے شرانگیز عمل) سے محفوظ کر دیاo

18۔ مگر جو کوئی بھی چوری چھپے سننے کے لئے آگھسا تو اس کے پیچھے ایک (جلتا) چمکتا شہاب ہو جاتا ہےo

19۔ اور زمین کو ہم نے (گولائی کے باوجود) پھیلا دیا اور ہم نے اس میں (مختلف مادوں کو باہم ملا کر) مضبوط پہاڑ بنا دیئے اور ہم نے اس میں ہر جنس کو (مطلوبہ) توازن کے مطابق نشو و نما دیo

20۔ اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے اور ان (انسانوں، جانوروں اور پرندوں) کے لئے بھی جنہیں تم رزق مہیا نہیں کرتےo

21۔ اور (کائنات) کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے مگر یہ کہ ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے صرف معیّن مقدار کے مطابق ہی اتارتے رہتے ہیںo

22۔ اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں پھر ہم آسمان کی جانب سے پانی اتارتے ہیں پھر ہم اسے تم ہی کو پلاتے ہیں اور تم اس کے خزانے رکھنے والے نہیں ہوo

23۔ اور بیشک ہم ہی جلاتے ہیں اور مارتے ہیں اور ہم ہی (سب کے) وارث (و مالک) ہیںo

24۔ اور بیشک ہم اُن کو بھی جانتے ہیں جو تم سے پہلے گزر چکے اور بیشک ہم بعد میں آنے والوں کو بھی جانتے ہیںo

25۔ اور بیشک آپ کا رب ہی تو انہیں (روزِ قیامت) جمع فرمائے گا۔ بیشک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہےo

26۔ اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھاo

27۔ اور اِس سے پہلے ہم نے جنّوں کو شدید جلا دینے والی آگ سے پیدا کیا جس میں دھواں نہیں تھاo

28۔ اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوںo

29۔ پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑناo

30۔ پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیاo

31۔ سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیاo

32۔ (اللہ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہواo

33۔ (ابلیس نے) کہا: میں ہر گز ایسا نہیں (ہو سکتا) کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے تخلیق کیا ہےo

34۔ (اللہ نے) فرمایا: تو یہاں سے نکل جا پس بیشک تو مردود (راندۂ درگاہ) ہےo

35۔ اور بیشک تجھ پر روزِ جزا تک لعنت (پڑتی) رہے گیo

36۔ اُس نے کہا: اے پروردگار! پس تو مجھے اُس دن تک مہلت دے دے (جس دن) لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گےo

37۔ اللہ نے فرمایا: سو بیشک تو مہلت یافتہ لوگوں میں سے ہےo

38۔ وقتِ مقررہ کے دن (قیامت) تکo

39۔ ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گاo

40۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیںo

41۔ اللہ نے ارشاد فرمایا: یہ (اخلاص ہی) راستہ ہے جو سیدھا میرے در پر آتا ہےo

42۔ بیشک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنہوں نے تیری راہ اختیار کیo

43۔ اور بیشک ان سب کے لئے وعدہ کی جگہ جہنم ہےo

44۔ جس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان میں سے الگ حصہ مخصوص کیا گیا ہےo

45۔ بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گےo

46۔ (ان سے کہا جائے گا:) ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤٍ o

47۔ اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گےo

48۔ انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گےo

49۔ (اے حبیب!) آپ میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں ہی بیشک بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوںo

50۔ اور (اس بات سے بھی آگاہ کر دیجئے) کہ میرا ہی عذاب بڑا دردناک عذاب ہےo

51۔ اور انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کی خبر (بھی) سنائیےo

52۔ جب وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے (آپ کو) سلام کہا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہم آپ سے کچھ ڈر محسوس کر رہے ہیںo

53۔ (مہمان فرشتوں نے) کہا: آپ خائف نہ ہوں ہم آپ کو ایک دانش مند لڑکے (کی پیدائش) کی خوشخبری سناتے ہیںo

54۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: تم مجھے اس حال میں خوشخبری سنا رہے ہو جبکہ مجھے بڑھاپا لاحق ہو چکا ہے سو اب تم کس چیز کی خوشخبری سناتے ہوo

55۔ انہوں نے کہا: ہم آپ کو سچی بشارت دے رہے ہیں سو آپ نا امید نہ ہوںo

56۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کی رحمت سے گمراہوں کے سوا اور کون مایوس ہو سکتا ہےo

57۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے دریافت کیا: اے (اللہ کے) بھیجے ہوئے فرشتو! (اس بشارت کے علاوہ) اور تمہارا کیا کام ہے (جس کے لئے آئے ہو)o

58۔ انہوں نے کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیںo

59۔ سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھرانے کے، بیشک ہم ان سب کو ضرور بچا لیں گےo

60۔ بجز ان کی بیوی کے، ہم (یہ) طے کر چکے ہیں کہ وہ ضرور (عذاب کے لئے) پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہےo

61۔ پھر جب لوط (علیہ السلام) کے خاندان کے پاس وہ فرستادہ (فرشتے) آئےo

62۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: بیشک تم اجنبی لوگ (معلوم ہوتے) ہوo

63۔ انہوں نے کہا: (ایسا نہیں) بلکہ ہم آپ کے پاس وہ (عذاب) لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ شک کرتے رہے ہیںo

64۔ اور ہم آپ کے پاس حق (کا فیصلہ) لے کر آئے ہیں اور ہم یقیناً سچے ہیںo

65۔ پس آپ اپنے اہلِ خانہ کو رات کے کسی حصہ میں لے کر نکل جائیے اور آپ خود ان کے پیچھے پیچھے چلئے اور آپ میں سے کوئی مڑ کر (بھی) پیچھے نہ دیکھے اور آپ کو جہاں جانے کا حکم دیا گیا ہے (وہاں) چلے جائیےo

66۔ اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اس فیصلہ سے بذریعہ وحی آگاہ کر دیا کہ بیشک اُن کے صبح کرتے ہی اُن لوگوں کی جڑ کٹ جائے گیo

67۔ اور اہلِ شہر (اپنی بد مستی میں) خوشیاں مناتے ہوئے (لوط علیہ السلام کے پاس) آپہنچےo

68۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: بیشک یہ لوگ میرے مہمان ہیں پس تم مجھے (اِن کے بارے میں) شرم سار نہ کروo

69۔ اور اللہ (کے غضب) سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کروo

70۔ وہ (بد مست لوگ) بولے: (اے لوط!) کیا ہم نے تمہیں دنیا بھر کے لوگوں (کی حمایت) سے منع نہیں کیا تھاo

71۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو (تو بجائے بدکرداری کے ان سے نکاح کر لو)o

72۔ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بیشک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیںo

73۔ پس انہیں طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سخت آتشیں کڑک نے آلیاo

74۔ سو ہم نے ان کی بستی کو زِیر و زَبر کر دیا اور ہم نے ان پر پتھر کی طرح سخت مٹی کے کنکر برسائےo

75۔ بیشک اس (واقعہ) میں اہلِ فراست کے لئے نشانیاں ہیںo

76۔ اور بیشک وہ بستی ایک آباد راستہ پر واقع ہےo

77۔ بیشک اس (واقعۂ قومِ لوط) میں اہلِ ایمان کے لئے نشانی (عبرت) ہےo

78۔ اور بیشک باشندگانِ اَیکہ (یعنی گھنی جھاڑیوں کے رہنے والے) بھی بڑے ظالم تھےo

79۔ پس ہم نے ان سے (بھی) انتقام لیا، اور یہ دونوں (بستیاں) کھلے راستہ پر (موجود) ہیںo

80۔ اور بیشک وادئ حجر کے باشندوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایاo

81۔ اور ہم نے انہیں (بھی) اپنی نشانیاں دیں مگر وہ ان سے رُوگردانی کرتے رہےo

82۔ اور وہ لوگ بے خوف و خطر پہاڑوں میں گھر تراشتے تھےo

83۔ تو انہیں (بھی) صبح کرتے ہی خوفناک کڑک نے آپکڑاo

84۔ سو جو (مال) وہ کمایا کرتے تھے وہ ان سے (اللہ کے عذاب) کو دفع نہ کر سکاo

85۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے عبث پیدا نہیں کیا، اور یقیناً قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، سو (اے اخلاقِ مجسّم!) آپ بڑے حسن و خوبی کے ساتھ درگزر کرتے رہئےo

86۔ بیشک آپ کا رب ہی سب کو پیدا فرمانے والا خوب جاننے والا ہےo

87۔ اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورۂ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہےo

88۔ آپ ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے جن سے ہم نے کافروں کے گروہوں کو (چند روزہ) عیش کے لئے بہرہ مند کیا ہے، اور ان (کی گمراہی) پر رنجیدہ خاطر بھی نہ ہوں اور اہلِ ایمان (کی دل جوئی) کے لئے اپنے (شفقت و التفات کے) بازو جھکائے رکھئےo

89۔ اور فرما دیجئے کہ بیشک (اب) میں ہی (عذابِ الٰہی کا) واضح و صریح ڈر سنانے والا ہوںo

90۔ جیسا (عذاب) کہ ہم نے تقسیم کرنے والوں (یعنی یہود و نصاریٰ) پر اتارا تھاo

91۔ جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے (کر کے تقسیم) کر ڈالا (یعنی موافق آیتوں کو مان لیا اور غیر موافق کو نہ مانا)o

92۔ سو آپ کے رب کی قسم! ہم ان سب سے ضرور پرسش کریں گےo

93۔ ان اعمال سے متعلق جو وہ کرتے رہے تھےo

94۔ پس آپ وہ (باتیں) اعلانیہ کہہ ڈالیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ مشرکوں سے منہ پھیر لیجئےo

95۔ بیشک مذاق کرنے والوں (کو انجام تک پہنچانے) کے لئے ہم آپ کو کافی ہیںo

96۔ جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بناتے ہیں سو وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گےo

97۔ اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیںo

98۔ سو آپ حمد کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کیا کریں اور سجود کرنے والوں میں (شامل) رہا کریںo

99۔ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپ کی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂ وصالِ حق)o

 

 

 

سُورة النَّحْل

سورت : مکی  ترتیب تلاوت : 16        ترتیب نزولی : 70

رکوع : 16 آیات : 128      پارہ نمبر : 14

 

               بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحیِم

 

1۔ اللہ کا وعدہ (قریب) آپہنچا سو تم اس کے چاہنے میں عجلت نہ کرو۔ وہ پاک ہے اور وہ ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیںo

2۔ وہی فرشتوں کو وحی کے ساتھ (جو جملہ تعلیماتِ دین کی روح اور جان ہے) اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل فرماتا ہے کہ (لوگوں کو) ڈر سناؤ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری پرہیزگاری اختیار کروo

3۔ اُسی نے آسمانوں اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اس کا) شریک گردانتے ہیںo

4۔ اُسی نے انسان کو ایک تولیدی قطرہ سے پیدا فرمایا، پھر بھی وہ (اللہ کے حضور مطیع ہونے کی بجائے) کھلا جھگڑالو بن گیاo

5۔ اور اُسی نے تمہارے لئے چوپائے پیدا فرمائے، ان میں تمہارے لئے گرم لباس ہے اور (دوسرے) فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے (بھی) ہوo

6۔ اور ان میں تمہارے لئے رونق (اور دل کشی بھی) ہے جب تم شام کو چراگاہ سے (واپس) لاتے ہو اور جب تم صبح کو (چرانے کے لئے) لے جاتے ہوo

7۔ اور یہ (جانور) تمہارے بوجھ (بھی) ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر جانکاہ مشقت کے نہیں پہنچ سکتے تھے، بیشک تمہارا رب نہایت شفقت والا نہایت مہربان ہےo

8۔ اور (اُسی نے) گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو (پیدا کیا) تاکہ تم ان پر سواری کر سکو اور وہ (تمہارے لئے) باعثِ زینت بھی ہوں، اور وہ (مزید ایسی بازینت سواریوں کو بھی) پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتےo

9۔ اور درمیانی راہ اللہ (کے دروازے) پر جا پہنچتی ہے اور اس میں سے کئی ٹیڑھی راہیں بھی (نکلتی) ہیں، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب ہی کو ہدایت فرما دیتاo

10۔ وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہوo

11۔ اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اگاتا ہے، بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہےo

12۔ اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں، بیشک اس میں عقل رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیںo

13۔ اور (حیوانات، نباتات اور معدنیات وغیرہ میں سے بقیہ) جو کچھ بھی اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا فرمایا ہے جن کے رنگ (یعنی جنسیں، نوعیں، قسمیں، خواص اور منافع) الگ الگ ہیں (سب تمہارے لئے مسخر ہیں)، بیشک اس میں نصیحت قبول کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہےo

14۔ اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤo

15۔ اور اسی نے زمین میں (مختلف مادوں کو باہم ملا کر) بھاری پہاڑ بنا دیئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ (اپنے مدار میں حرکت کرتے ہوئے) تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکوo

16۔ اور (دن کو راہ تلاش کرنے کے لئے) علامتیں بنائیں، اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیںo

17 کیا وہ خالق جو (اتنا کچھ) پیدا فرمائے اس کے مثل ہو سکتا ہے جو (کچھ بھی) پیدا نہ کر سکے، کیا تم لوگ نصیحت قبول نہیں کرتےo

18۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

19۔ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہوo

20۔ اور یہ (مشرک) لوگ جن (بتوں) کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیںo

21۔ (وہ) مُردے ہیں زندہ نہیں، اور (انہیں اتنا بھی) شعور نہیں کہ (لوگ) کب اٹھائے جائیں گےo

22۔ تمہارا معبود، معبودِ یکتا ہے، پس جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منکر ہیں اور وہ سرکش و متکبّر ہیںo

23۔ یہ بات حق و ثابت ہے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ سرکشوں متکبّروں کو پسند نہیں کرتاo

24۔ اور جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے؟ (تو) وہ کہتے ہیں: اگلی قوموں کے جھوٹے قصے (اتارے ہیں)o

25۔ (یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں) تاکہ روزِ قیامت وہ اپنے (اعمالِ بد کے) پورے پورے بوجھ اٹھائیں اور کچھ بوجھ اُن لوگوں کے بھی (اٹھائیں) جنہیں (اپنی) جہالت کے ذریعہ گمراہ کئے جا رہے ہیں، جان لو! بہت بُرا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیںo

26۔ بیشک اُن لوگوں نے (بھی) فریب کیا جو اِن سے پہلے تھے تو اللہ نے اُن (کے مکر و فریب) کی عمارت کو بنیادوں سے اکھاڑ دیا تو ان کے اوپر سے ان پر چھت گر پڑی اور ان پر اس طرف سے عذاب آپہنچا جس کا اُنہیں کچھ خیال بھی نہ تھاo

27۔ پھر وہ اُنہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا اور ارشاد فرمائے گا: میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے حق میں تم (مومنوں سے) جھگڑا کرتے تھے؟ وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہیں گے: بیشک آج کافروں پر (ہر قسم کی) رسوائی اور بربادی ہےo

28۔ جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر (بدستور) ظلم کئے جا رہے ہوں، سو وہ (روزِ قیامت) اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کریں گے (اور کہیں گے:) ہم (دنیا میں) کوئی برائی نہیں کیا کرتے تھے، کیوں نہیں بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کیا کرتے تھےo

29۔ پس تم دوزخ کے دروازوں سے داخل ہو جاؤ، تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو، سو تکبّر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہےo

30۔ اور پرہیزگار لوگوں سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے؟ وہ کہتے ہیں: (دنیا و آخرت کی) بھلائی (اتاری ہے)، ان لوگوں کے لئے جو نیکی کرتے رہے اس دنیا میں (بھی) بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی بہتر ہے، اور پرہیزگاروں کا گھر کیا ہی خوب ہےo

31۔ سدا بہار باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اِن میں اُن کے لئے جو کچھ وہ چاہیں گے (میسّر) ہو گا، اس طرح اللہ پرہیزگاروں کو صلہ عطا فرماتا ہےo

32۔ جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نیکی و طاعت کے باعث) پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں، (ان سے فرشتے قبضِ روح کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں:) تم پر سلامتی ہو، تم جنت میں داخل ہو جاؤ ان (اَعمالِ صالحہ) کے باعث جو تم کیا کرتے تھےo

33۔ یہ اور کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے اِس کے کہ ِان کے پاس فرشتے آجائیں یا آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آپہنچے، یہی کچھ ان لوگوں نے (بھی) کیا تھا جو اِن سے پہلے تھے، اور اللہ نے اُن پر ظلم نہیں کیا تھا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھےo

34۔ سو جو اَعمال انہوں نے کئے تھے انہی کی سزائیں ان کو پہنچیں اور اسی (عذاب) نے انہیں آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھےo

35۔ اور مشرک لوگ کہتے ہیں: اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی بھی چیز کی پرستش نہ کرتے، نہ ہی ہم اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم اس کے (حکم کے) بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے، یہی کچھ ان لوگوں نے (بھی) کیا تھا جو اِن سے پہلے تھے، تو کیا رسولوں کے ذمہ (اللہ کے پیغام اور احکام) واضح طور پر پہنچا دینے کے علاوہ بھی کچھ ہےo

36۔ اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو، سو اُن میں بعض وہ ہوئے جنہیں اللہ نے ہدایت فرما دی اور اُن میں بعض وہ ہوئے جن پر گمراہی (ٹھیک) ثابت ہوئی، سو تم لوگ زمین میں سیر و سیاحت کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہواo

37۔ اگر آپ ان کے ہدایت پر آجانے کی شدید طلب رکھتے ہیں تو (آپ اپنی طبیعتِ مطہرہ پر اس قدر بوجھ نہ لائیں) بیشک اللہ جسے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اسے ہدایت نہیں فرماتا اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوتاo

38۔ اور یہ لوگ بڑی شدّ و مد سے اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں کہ جو مَر جائے اللہ اسے (دوبارہ) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo

39۔ (مُردوں کا اٹھایا جانا اس لئے ہے) تاکہ ان کے لئے وہ (حق) بات واضح کر دے جس میں وہ لوگ اختلاف کرتے ہیں اور یہ کہ کافر لوگ جان لیں کہ حقیقت میں وہی جھوٹے ہیںo

40۔ ہمارا فرمان تو کسی چیز کے لئے صرف اِسی قدر ہوتا ہے کہ جب ہم اُس (کو وجود میں لانے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اُسے فرماتے ہیں: ”ہو جا“ پس وہ ہو جاتی ہےo

41۔ اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر (طرح طرح کے) ظلم توڑے گئے تو ہم ضرور انہیں دنیا (ہی) میں بہتر ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا اجر تو یقیناً بہت بڑا ہے، کاش! وہ (اس راز کو) جانتے ہوتےo

42۔ جن لوگوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر توکل کئے رکھتے ہیںo

43۔ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo

44۔ (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریںo

45۔ کیا وہ برے مکر و فریب کرنے والے لوگ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا (کسی) ایسی جگہ سے ان پر عذاب بھیج دے جس کا انہیں کوئی خیال بھی نہ ہوo

46۔ یا ان کی نقل و حرکت (سفر اور شغلِ تجارت) کے دوران ہی انہیں پکڑ لے سو وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتےo

47۔ یا انہیں ان کے خوف زدہ ہونے پر پکڑ لے، تو بیشک تمہارا رب بڑا شفیق نہایت مہربان ہےo

48۔ کیا انہوں نے ان (سایہ دار) چیزوں کی طرف نہیں دیکھا جو اللہ نے پیدا فرمائی ہیں (کہ) ان کے سائے دائیں اور بائیں اَطراف سے اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے پھرتے رہتے ہیں اور وہ (درحقیقت) طاعت و عاجزی کا اظہار کرتے ہیںo

49۔ اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے جملہ جاندار اور فرشتے، اللہ (ہی) کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ (ذرا بھی) غرور و تکبر نہیں کرتےo

50۔ وہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے (اسے) بجا لاتے ہیںo

51۔ اور اللہ نے فرمایا ہے: تم دو معبود مت بناؤ، بیشک وہی (اللہ) معبودِ یکتا ہے، اور تم مجھ ہی سے ڈرتے رہوo

52۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے اور (سب کے لئے) اسی کی فرمانبرداری واجب ہے۔ تو کیا تم غیر اَز خدا (کسی) سے ڈرتے ہوo

53۔ اور تمہیں جو نعمت بھی حاصل ہے سو وہ اللہ ہی کی جانب سے ہے، پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اسی کے آگے گریہ و زاری کرتے ہوo

54۔ پھر جب اللہ اس تکلیف کو تم سے دور فرما دیتا ہے تو تم میں سے ایک گروہ اس وقت اپنے رب سے شرک کرنے لگتا ہےo

55۔ (یہ کفر و شرک اس لئے) تاکہ وہ ان (نعمتوں) کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں عطا کر رکھی ہیں، پس (اے مشرکو! چند روزہ) فائدہ اٹھا لو پھر تم عنقریب (اپنے انجام کو) جان لو گےo

56۔ اور یہ ان (بتوں) کے لئے جن (کی حقیقت) کو وہ خود بھی نہیں جانتے اس رزق میں سے حصہ مقرر کرتے ہیں جو ہم نے انہیں عطا کر رکھا ہے۔ اللہ کی قسم! تم سے اس بہتان کی نسبت ضرور پوچھ گچھ کی جائے گی جو تم باندھا کرتے ہوo

57۔ اور یہ (کفار و مشرکین) اللہ کے لئے بیٹیاں مقرر کرتے ہیں وہ (اس سے) پاک ہے اور اپنے لئے وہ کچھ (یعنی بیٹے) جن کی وہ خواہش کرتے ہیںo

58۔ اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہےo

59۔ وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیںo

60۔ ان لوگوں کی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (یہ) نہایت بری صفت ہے، اور بلند تر صفت اللہ ہی کی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہےo

61۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کے عوض (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو اس (زمین) پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں مقررہ میعاد تک مہلت دیتا ہے، پھر جب ان کا مقرر وقت آپہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیںo

62۔ اور وہ اللہ کے لئے وہ کچھ مقرر کرتے ہیں جو (اپنے لئے) ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کے لئے بھلائی ہے، (ہرگز نہیں!) حقیقت یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ ہے اور یہ (دوزخ میں) سب سے پہلے بھیجے جائیں گے (اور اس میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیئے جائیں گے)o

63۔ اللہ کی قسم! یقیناً ہم نے آپ سے پہلے (بھی بہت سی) امتوں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان (امتوں) کے لئے ان کے (برے) اعمال آراستہ و خوش نما کر دکھائے، سو وہی (شیطان) آج ان کا دوست ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہےo

64۔ اور ہم نے آپ کی طرف کتاب نہیں اتاری مگر اس لئے کہ آپ ان پر وہ (اُمور) واضح کر دیں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں اور (اس لئے کہ یہ کتاب) ہدایت اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لے آئی ہےo

65۔ اور اللہ نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ زمین کو اس کے مردہ (یعنی بنجر) ہونے کے بعد زندہ (یعنی سرسبز و شاداب) کر دیا۔ بیشک اس میں (نصیحت) سننے والوں کے لئے نشانی ہےo

66۔ اور بیشک تمہارے لئے مویشیوں میں (بھی) مقامِ غور ہے، ہم ان کے جسموں کے اندر کی اس چیز سے جو آنتوں کے (بعض) مشمولات اور خون کے اختلاط سے (وجود میں آتی ہے) خالص دودھ نکال کر تمہیں پلاتے ہیں (جو) پینے والوں کے لئے فرحت بخش ہوتا ہےo

67۔ اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم شکّر اور (دیگر) عمدہ غذائیں بناتے ہو، بیشک اس میں اہلِ عقل کے لئے نشانی ہےo

68۔ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیںo

69۔ پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو ان پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لئے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہےo

70۔ اور اللہ نے تمہیں پیدا فرمایا ہے پھر وہ تمہیں وفات دیتا (یعنی تمہاری روح قبض کرتا) ہے۔ اور تم میں سے کسی کو ناقص ترین عمر (بڑھاپا) کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ (زندگی میں بہت کچھ) جان لینے کے بعد اب کچھ بھی نہ جانے (یعنی انسان مرنے سے پہلے اپنی بے بسی و کم مائیگی کا منظر بھی دیکھ لے)، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہےo

71۔ اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیںo

72۔ اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (یعنی بیویوں) سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے/ نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا، تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیںo

73۔ اور اللہ کے سوا ان (بتوں) کی پرستش کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے ان کے لئے کسی قدر رزق دینے کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ہی کچھ قدرت رکھتے ہیںo

74۔ پس تم اللہ کے لئے مثل نہ ٹھہرایا کرو، بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتےo

75۔ اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے (کہ) ایک غلام ہے (جو کسی کی) ملکیت میں ہے (خود) کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور (دوسرا) وہ شخص ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے عمدہ روزی عطا فرمائی ہے سو وہ اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا ہے، کیا وہ برابر ہو سکتے ہیں، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر (بنیادی حقیقت کو بھی) نہیں جانتےo

76۔ اور اللہ نے دو (ایسے) آدمیوں کی مثال بیان فرمائی ہے جن میں سے ایک گونگا ہے وہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے وہ (مالک) اسے جدھر بھی بھیجتا ہے کوئی بھلائی لے کر نہیں آتا، کیا وہ (گونگا) اور (دوسرا) وہ شخص جو (اس منصب کا حامل ہے کہ) لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور وہ خود بھی سیدھی راہ پر گامزن ہے (دونوں) برابر ہو سکتے ہیںo

77۔ اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اللہ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا ا س سے بھی تیز تر، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےo

78۔ اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حالت میں) باہر نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجا لاؤo

79۔ کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اڑتے رہتے) ہیں، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیںo

80۔ اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو (مستقل) سکونت کی جگہ بنایا اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے (عارضی) گھر (یعنی خیمے) بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے وقت اور (دورانِ سفر منزلوں پر) اپنے ٹھہرنے کے وقت ہلکا پھلکا پاتے ہو اور (اسی اللہ نے تمہارے لئے) بھیڑوں اور دنبوں کی اون اور اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلو استعمال اور (معیشت و تجارت میں) فائدہ اٹھانے کے اسباب بنائے (جو) مقررہ مدت تک (ہیں)o

81۔ اور اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ کئی چیزوں کے سائے بنائے اور اس نے تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور (کچھ) ایسے لباس جو تمہیں شدید جنگ میں (دشمن کے وار سے) بچاتے ہیں، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتِ (کفالت و حفاظت) پوری فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے حضور) سرِ نیاز خم کر دوo

82۔ سو اگر (پھر بھی) وہ رُوگردانی کریں تو (اے نبیِ معظم!) آپ کے ذمہ تو صرف (میرے پیغام اور احکام کو) صاف صاف پہنچا دینا ہےo

83۔ یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر کافر ہیںo

84۔ اور جس دن ہم ہر اُمت سے (اس کے رسول کو اس کے اعمال پر) گواہ بنا کر اٹھائیں گے پھر کافر لوگوں کو (کوئی عذر پیش کرنے کی) اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ (اس وقت) ان سے توبہ و رجوع کا مطالبہ کیا جائے گاo

85۔ اور جب ظالم لوگ عذاب دیکھ لیں گے تو نہ ان سے (اس عذاب کی) تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گیo

86۔ اور جب مشرک لوگ اپنے (خود ساختہ) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے: اے ہمارے رب! یہی ہمارے شریک تھے جن کی ہم تجھے چھوڑ کر پرستش کرتے تھے، پس وہ (شرکاء) انہیں (جواباً) پیغام بھیجیں گے کہ بیشک تم جھوٹے ہوo

87۔ اور یہ (مشرکین) اس دن اللہ کے حضور عاجزی و فرمانبرداری ظاہر کریں گے اور ان سے وہ سارا بہتان جاتا رہے گا جو یہ باندھا کرتے تھےo

88۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے روکتے رہے ہم ان کے عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے اس وجہ سے کہ وہ فساد انگیزی کرتے تھےo

89۔ اور (یہ) وہ دن ہو گا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہےo

90۔ بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo

91۔ اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالانکہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہوo

92۔ اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کات لینے کے بعد توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، تم اپنی قَسموں کو اپنے درمیان فریب کاری کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ (اس طرح) ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ہو جائے، بات یہ ہے کہ اللہ (بھی) تمہیں اسی کے ذریعہ آزماتا ہے، اور وہ تمہارے لئے قیامت کے دن ان باتوں کو ضرور واضح فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھےo

93۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم (سب) کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرما دیتا ہے، اور تم سے ان کاموں کی نسبت ضرور پوچھا جائے گا جو تم انجام دیا کرتے تھےo

94۔ اور تم اپنی قَسموں کو آپس میں فریب کاری کا ذریعہ نہ بنایا کرو ورنہ قدم (اسلام پر) جم جانے کے بعد لڑکھڑا جائے گا اور تم اس وجہ سے کہ اللہ کی راہ سے روکتے تھے برے انجام کا مزہ چکھو گے، اور تمہارے لئے زبردست عذاب ہےo

95۔ اور اللہ کے عہد حقیر سی قیمت (یعنی دنیوی مال و دولت) کے عوض مت بیچ ڈالا کرو، بیشک جو (اجر) اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (اس راز کو) جانتے ہوo

96۔ جو (مال و زر) تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے، اور ہم ان لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا ضرور ان کا اجر عطا فرمائیں گے ان کے اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے رہے تھے o

97۔ جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھےo

98۔ سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود (کی وسوسہ اندازیوں) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریںo

99۔ بیشک اسے ان لوگوں پر کچھ (بھی) غلبہ حاصل نہیں ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیںo

100۔ بس اس کا غلبہ صرف انہی لوگوں پر ہے جو اسے دوست بناتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہیںo

101۔ اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتےo

102۔ فرما دیجئے: اس (قرآن) کو روحُ القدس (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور (یہ) مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہےo

103۔ اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ (کفار و مشرکین) کہتے ہیں کہ انہیں یہ (قرآن) محض کوئی آدمی ہی سکھاتا ہے، جس شخص کی طرف وہ بات کو حق سے ہٹاتے ہوئے منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن واضح و روشن عربی زبان (میں) ہےo

104۔ بیشک جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں ہدایت (یعنی صحیح فہم و بصیرت کی توفیق بھی) نہیں دیتا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہےo

105۔ بیشک جھوٹی افترا پردازی (بھی) وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیںo

106۔ جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہےo

107۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت پر عزیز رکھا اور اس لئے کہ اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo

108۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر مُہر لگا دی ہے اور یہی لوگ ہی (آخرت کے انجام سے) غافل ہیںo

109۔ یہ حقیقت ہے کہ بیشک یہی لوگ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہیںo

110۔ پھر آپ کا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے آزمائشوں (اور تکلیفوں) میں مبتلا کئے جانے کے بعد ہجرت کی (یعنی اللہ کے لئے اپنے وطن چھوڑ دیئے) پھر جہاد کئے اور (پریشانیوں پر) صبر کئے تو (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

111۔ وہ دن (یاد کریں) جب ہر شخص محض اپنی جان کی طرف سے (دفاع کے لئے) جھگڑتا ہوا حاضر ہو گا اور ہر جان کو جو کچھ اس نے کیا ہو گا اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاo

112۔ اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھےo

113۔ اور بیشک ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے آپکڑا اور وہ ظالم ہی تھےo

114۔ پس جو حلال اور پاکیزہ رزق تمہیں اللہ نے بخشا ہے، تم اس میں سے کھایا کرو اور اللہ کی نعمت کا شکر بجا لاتے رہو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہوo

115۔ اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا ہے، پھر جو شخص حالتِ اضطرار (یعنی انتہائی مجبوری کی حالت) میں ہو، نہ (طلبِ لذت میں احکامِ الٰہی سے) سرکشی کرنے والا ہو اور نہ (مجبوری کی حد سے) تجاوز کرنے والا ہو، تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

116۔ اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گےo

117۔ فائدہ تھوڑا ہے مگر ان کے لئے عذاب (بڑا) دردناک ہےo

118۔ اور یہود پر ہم نے وہی چیزیں حرام کی تھیں جو ہم پہلے آپ سے بیان کر چکے ہیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھےo

119۔ پھر بیشک آپ کا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی سے غلطیاں کیں پھر اس کے بعد تائب ہو گئے اور (اپنی) حالت درست کر لی تو بیشک آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

120۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام تنہا ذات میں) ایک اُمت تھے، اللہ کے بڑے فرمانبردار تھے، ہر باطل سے کنارہ کش (صرف اسی کی طرف یک سُو) تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھےo

121۔ اس (اللہ) کی نعمتوں پر شاکر تھے، اللہ نے انہیں چن (کر اپنی بارگاہ میں خاص برگزیدہ بنا) لیا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دیo

122۔ اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بیشک وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گےo

123۔ پھر (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کریں جو ہر باطل سے جدا تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھےo

124۔ ہفتہ کا دن صرف انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا، اور بیشک آپ کا رب قیامت کے دن اُن کے درمیان اُن (باتوں) کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھےo

125۔ (اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہےo

126۔ اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہےo

127۔ اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریںo

128۔ بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ (خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان (بھی) ہوںo

٭٭٭

تشکر عبد الستار منہاجین، مرتب کتاب

پروف ریڈنگ، ای بک: اعجاز عبید