FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں

 

ترجمہ: سب کھوسو

 

انتخاب و ترتیب وپیشکش:  عامر صدیقی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

فہرست

 

مترجم کے قلم سے.. 6

کچھ عباس سارنگ اورس ب کھوسو کی ادبی کاوش کے بارے میں. 10

 

بھوک ایک روگ. 13

سندھی زبان قومی زبان. 16

بھروسے کی موت.. 19

بیوہ. 21

زندگی وقت کی رہن. 23

پرندوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی. 26

فقیر کی صدا 27

یہ بال کس کا ہے ؟. 28

صدیوں کے بچھڑے وجود 30

جن کا کوئی نہیں ہے.. 32

کردار کی تلاش میں. 34

آلو 35

تھر کی ویرانی. 36

سگریٹ اور راکھ. 38

گلدان. 39

زندہ باد 40

مردانگی. 41

غسل خانہ. 42

روٹھا ہوا بوسہ 43

دھوبی کا کتا 44

بے مقصد زندگی. 45

کتے کی بھوک. 46

بوسہ 47

مرد اور گھوڑا 48

شلوار. 49

مینڈک شیر کی کھال میں. 50

کوشش لا حاصل. 51

ڈسٹ بن. 52

آخری کوشش… 53

ناراض ہونٹ.. 54

سسکی. 55

گھایل میرا گیت.. 56

گمشدہ بوسہ 57

انجانے خوف میں مبتلا. 58

دشمن. 59

ہونٹوں کی قسم. 61

میں ایک بندر ہوں ! 62

آخری گولی. 63

اپنے ہی تو تھے. 65

ایک منٹ کی خاموشی. 66

نوکری اور فارملٹی. 67

مرد کی حیا 71

آخری بوسہ 73

وفادار کتا 74

کرودھی. 75

ضدی بچہ 76

انسان بنا رہا ہوں. 77

 

 

 

 

 

 

 

مترجم کے قلم سے

 

 

عباس سارنگ سندھ کے ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت کے حامل ہیں۔  قدرت نے انہیں کئی صلاحیتوں سے نوازا ہے، نثر نویس ہیں ان کی نثری تحریریں سماج کا پرتو ہیں۔  ان کی کہانیاں داخلی اور خارجی کیفیت کی عکاس ہیں۔  وہ شاعر بھی ہیں، شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔  ان کی نثری نظمیں دلفریب منظر نگاری کے ساتھ ساتھ فن و فکر کی حامل ہوتی ہیں۔  جس میں سماج کا درد ہوتا ہے، داخلی کیفیتوں کا مظہر ہوتی ہیں۔  وہ ایک اچھے مصور بھی ہیں، انہوں نے رنگوں کا سہارا لینے کی بجائے لفظوں کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا اور لفظوں کے ذریعے سماج کا عکس پیش کرتے رہتے ہیں۔  ان کی تخلیقوں میں بہت ہی خوبصورت رنگ نظر آتے ہیں۔

ادب نے طویل قصہ گوئی سے اپنے سفر کی ابتدا کی، لوگوں کے پاس بہت فارغ وقت ہوتا تھا اور وہ فارغ وقت میں قصہ سنتے تھے۔  پھر طویل قصوں کی جگہ ناولوں نے لے لی اور پھر ناول تخلیق ہونے لگے۔  وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج بھی بدلنے لگے پھر لکھاری کہانیاں تخلیق کرنے لگے۔  قارئین طویل کہانی سے اکتا نے لگے پھر مختصر کہانی تخلیق ہونے لگی۔

ہربرٹ جارج ویلس (ایچ جی ویلس) انگلینڈ 1866-1946کا کہنا ہے کہ ’’ کوئی بھی چھوٹی سی تخلیق جو کہ بیس منٹ میں پڑھ لی جائے، اسے کہانی کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘

سندھ کے مشہور ادیب کہانی نویس ڈاکٹر نجم عباسی رقم طراز ہیں کہ کہانی ’’کہن‘‘ سے اخذ کی گئی ہے۔  جس کا مطلب ہے ’’کہنا‘‘۔

برصغیر کے نامور افسانہ نگار منشی پریم چند کہتے ہیں ’’زندگی کے کسی بھی ایک پہلو اور جذبے کو افسانہ کہا جاتا ہے۔ ‘‘

اردو کے مشہور افسانہ نگار غلام عباس رقم کرتے ہیں ’’افسانہ نگاری ادب کی سب سے زیادہ آسان صنف ہے، افسانہ نثر کی تمام اصناف میں اس لیے برتری رکھتا ہے کہ وہ چند صفحات میں لکھا جا سکتا ہے اور زندگی کی حقیقت کو پیش کر سکتا ہے۔ ‘‘

1819 میں پہلی کہانی امریکہ میں واشنگٹن ارونگ نے لکھی جس کا عنوان تھا ’’اسکیچ بک‘‘ جس کا مفہوم صرف تفریح مہیا کرنا بتایا گیا۔

امریکہ کے ایڈگر ایلن پو نے کہانی کی صنف کو مقبول بنانے میں کردار ادا کیا، روس میں ٹالسٹائی، گوگوف اور چیخوف، فرانس میں موپاسان، بالزاک اور انگلینڈ میں چارلس ڈکسن، او ہینری، ولیم سڈنی، جنوبی ایشیا میں منشی پریم چند کو بانی تصور کیا جاتا ہے۔

آج مختصر کہانی تخلیق ہونے لگی ہے، یوں ادب کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔  آج دو چار سطروں میں کہانی لکھی جار ہی ہے۔  مختصر کہانی کو پسند کیا جا رہا ہے۔  عباس سارنگ نے بھی اپنی توجہ اس طرف مبذول کر لی اور کئی مختصر کہانیاں تخلیق کر ڈالیں۔  اب تک اس کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔  عباس سارنگ کی مختصر کہانیاں زندگی کے قریب ہیں، جن میں حقیقت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔  قارئین نے ان کی کہانیوں کو سراہا ہے۔

سندھی ادبی سنگت جیکب آباد کی جانب سے ضرورت محسوس کی گئی کہ کہانیوں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جائے تاکہ اردو کے قارئین بھی سندھ کے ایک ادیب کی تخلیقوں سے آشنا ہو سکیں۔  اسطرح دوستوں نے ترجمہ کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد کر دی۔  حالانکہ میں بھی اردو پڑھنے کی حد تک اردو زبان سے واقفیت رکھتا ہوں۔  میں ادیب نہیں ہوں، مادری زبان سندھی ہونے کی وجہ سے مذکر مونث کا مسئلہ آڑے رہتا ہے۔  اردو کے لیکچرار جناب طارق تنولی گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد سے مدد لی۔  انہوں نے اس سارے مواد کو پڑھا اور نوک پلک سنوارنے میں میری رہنمائی کی۔  جناب طارق تنولی کی بدولت یہ کتاب قارئین تک پہنچ رہی ہے۔  میں طارق صاحب کا انتہائی مشکور ہوں۔  اس کے ساتھ سیکریٹری سندھی ادبی سنگت جیکب آباد عاجز شہزاد نے اس کتاب کو کمپوز کر کے سنوارا ان کا بھی مشکور ہوں۔

سب کھوسو

جیکب آباد

21-01-2017

٭٭٭

 

 

 

کچھ عباس سارنگ اورس ب کھوسو کی ادبی کاوش کے بارے میں

 

سندھی زبان اپنی قدامت، وُسعت، خوبصورتی، اظہار مطلب اور شیرینی کی وجہ سے منفرد ہی نہیں بلکہ اپنی مثال آپ ہے۔  بزبان سندھی ادباء اور شعراء نے ادب کے مختلف شعبوں میں ہمہ جہت تخلیقی کام کیا ہے۔  بیشتر لکھاری اپنی نظم و نثر میں بالادست طبقہ کی عوام کے خلاف روا رکھی گئی ستم رانیوں اور زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور ان مسائل و مصائب کو بڑی عمدگی کے ساتھ پیش اور اجاگر کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ایک عام فرد کو لاحق ہیں۔  گویا یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ سندھی ادب اپنے عصر کا نمائندہ اور ترجمان ہے اور اس نے معاشرے کے کچلے اور پسے ہوئے طبقہ کو زبان دی ہے۔  ہمارے معاشرے کی ناہمواریوں اور اس میں رائج نا انصافیوں کو نمایاں اور اجاگر کرنے میں سندھی اہل قلم کا کردار ہمیشہ ہی سے مثالی اور قابل ذکر رہا ہے۔  اور یہ امر یقیناً سرا ہے جانے کے لائق ہے کہ سندھ کے چھوٹے شہر اور قصبات باوجود پسماندہ اور درماندہ ہونے کے ادبی حوالے سے بڑے باثروت اور زرخیز واقع ہوئے ہیں۔  خصوصاً یہاں رہائش پذیر نژاد نو سے تعلق رکھنے والے ادیب اور شاعر حضرات ادبی امور جس خوبی سے سرانجام دے رہے ہیں وہ قابل رشک اور لائق تقلید ہے۔  جیکب آباد کے تاریخی شہر سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت نوجوان شاعر اور ادیب عباس سارنگ کا نام نامی بھی اس حوالے سے ممتاز، معروف اور نمایاں ہے کہ موصوف گذشتہ ایک عرصہ سے نظم و نثر کے میدان میں خامہ فرسائی کر رہے ہیں اور ہر دو شعبوں میں انہوں نے اپنی لیاقت اور قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔

عباس سارنگ کی تحریر کردہ مختصر کہانیوں کا مجموعہ حال ہی میں بزبان سندھی ’’مئل مکھ‘‘ کے زیر عنوان منصۂ شہود پر آیا ہے۔  یہ ان کی تاحال شایع ہونے والی چوتھی کتاب ہے۔  ان کی لکھی گئی کہانیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے عباس سارنگ کی قوت مشاہدہ اور تحریری صلاحیتوں کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔  عباس نے اپنی ان مختصر کہانیوں میں بڑے بڑے موضوعات کو اس کمال مہارت کے سمو کر پیش کعا ہے کہ فی الواقع ’’دریا کو کوزے میں بند کرنے ‘‘ کا محاورہ عملاً بھی سچ ثابت کر دکھایا ہے۔

ان مختصر کہانیوں میں عباس سارنگ نے وہ کڑوا اور تلخ سچ پیش کیا ہے، جس کا سامنا کرنے سے عموماً سبھی کتراتے اور گھبراتے ہیں۔  عباس کی لکھی گئی ان کہانیوں میں ہمیں ہماری زندگی کی ہر وہ جھلک اور ہر وہ رنگ ملتا ہے جن سے ہمارا ہر روز ہی سابقہ یا واسطہ پڑتا ہے۔  عباس نے اپنی کہانیوں میں وہ سارے انسانی جذبات اور احساسات پیش کیے ہیں جو ایک عام فرد کی روز مرہ کی زندگی کا جزولاینفک ہیں، مثلاً پیار، نفرت، غم، غصہ، یاس، رجائیت، دُکھ، سکھ، تبسم، آنسو اور ہنسی۔  غرض وہ سبھی کچھ جو ہم اپنے آس پاس ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔  گویا عباس کی یہ کہانیاں ایک ایسا آئینہ ہیں جو ہمیں ہمارے معاشرے کا ہر عکس دکھانے میں کامیاب ثابت ہوا ہے۔

عباس سارنگ کی تحریر کردہ مختصر سندھی کہانیوں کو نامور سینیئر ادیب سکندر بختیار کھوسو المعروفس ب کھوسو صاحب نے اس نفاست اور عمدگی کی ساتھ اردو کا جامہ پہنایا ہے کہ ان کے ترجمہ پر بھی طبع زاد تحریر ہونے کا گمان گذرتا ہے۔  موصوف نے ترجمہ جیسے مشکل کام کو جس خوبی کمال سے نبھایا ہے اس پر وہ بجا طور پر داد کے سزاوار ہیں۔

جناب عباس سارنگ اورس ب کھوسو صاحب کی یہ سعی مشکور سندھی اور اردو اہل زبان کے مابین ہم آہنگی اور یک جہتی کے لیے یقیناً خضر راہ ثابت ہو گی۔  ہر دو اصحاب کے لیے اس لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ

عبارت ان کی بہت اچھی خط بھی ہو خوب

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!!!

طارق تنولی، جیکب آباد۔

٭٭٭

 

 

 

 

بھوک ایک روگ

 

غلام حسین آخر کرتا بھی تو کیا کرتا، اس کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔

ہر روز صبح کو وہ مزدورں کی منڈی میں بیٹھ کر اداس آنکھوں سے مایوس چہرے کے ساتھ واپس گھر لوٹ آتا تھا۔  اس کی بیوی بھی ایک سمجھدار بیوی کا کردارادا کرتے ہوئے کہتی تھی۔

’’غلام علی کے ابا! آج بھی خالی ہاتھ لوٹ آئے ہو!‘‘

غلام حسین اپنی بیوی کے سوال جس میں کچھ تسلی، کچھ دلاسہ اور دکھ بھی شامل ہوتا تھا، کے جواب میں کہتا تھا۔

’’ہاں غلام علی کی ماں ! آج بھی مزدوری نہیں ملی، مگر مولا مالک ہے، آسانی کرے گا، آخر کچھ نہ کچھ بندوبست ہو ہی جائے گا۔ ‘‘

گمبھیرتا سے جوں ہی چارپائی پر بیٹھا تو محسوس ہوا کہ چارپائی کی آواز بھی اس کے دکھ میں شریک ہے۔

’’پانی پیو گی؟‘‘ اس کی بیوی نے پوچھا۔

’’ہاں، گلا بھی خشک ہو گیا ہے۔ ‘‘ وہ سوچنے لگا کہ آج اللہ بخش سے ملنے چلا جاؤں، شاید ان کی ٹولی (گروپ) میں شامل ہو کر کچھ مل جائے۔  پہلے بھی ان کے ساتھ جاتا تھا مگر وہ مالکوں کے ساتھ بی ایمانی کرتے ہیں۔  اس لئے تو میں اس ٹولی سے جدا ہو گیا تھا۔  وہ سوچ ہی رہا تھا تو اس کی بیوی پانی کا گلاس آگے بڑھاتے ہوئے بولی۔

’’لو! پانی پیو، اداس کیوں ہو، کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

خالی گلاس لوٹاتے ہوئے اس نے کہا۔  ’’ سوچ رہا تھا کہ دوبارہ اللہ بخش کی ٹولی میں شامل ہو جاؤں، مگر ان کی بی ایمانی کی عادت کی وجہ سے ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ‘‘

’’تمہاری مرضی، رب پاک آسانی کرے گا، دو چار سو بچا رکھے ہیں، اس سے گذارہ ہو جائے گا۔ ‘‘

اپنی بیوی کے ان الفاظ نے اسے تسلی دی اور وہ چارپائی پر لیٹ گیا۔  کہتے ہیں کہ بندے کے من میں ایک اور اللہ میاں کے من میں کچھ اور۔

نہ جانے کتنے دن گذر گئے، غلام حسین ہر روز منڈی سے ہاتھ خالی لوٹتا تھا۔  اس کی بیوی کی جمع پونجی دو چارسو بھی ختم ہو گئے۔  کہتے ہیں کہ خدا کے سوا غریبوں کا کوئی نہیں ہے۔  لوگوں نے بھی غلام حسین سے منہ موڑ لیا تھا۔  غلام حسین دیکھ رہا تھا کہ اللہ بخش والے دن دگنی ترقی کرتے جا رہے تھے، مگر غلام حسین کی ایمانداری نے بھوک کے سوا اسے کچھ نہیں دیا۔  اس کی بیوی اور بچے روٹی کے لئے پریشان تھے۔  اس کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا اور اس سے رہا نہ گیا اور وہ اللہ بخش کی ٹولی میں شامل ہو گیا۔  پہلے دن اسے اچھا خاصہ حصہ ملا اور وہ پیسے لے کر بیوی کے ہاتھ میں تھما دیئے۔  یوں لگا جیسے وہ اپنے ضمیر کا سودا کر آیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

سندھی زبان قومی زبان

 

اس وقت اس نے بڑا قہقہہ لگایا۔

جب ایک کالے انگریز نے اس کی مادری زبان کو گدھے چرانے والوں کی زبان کہا۔

اس نے کالے انگریز کی میز پر رکھے ہوئے دنیا کے گول نقشے کو زور سے گھماتے ہوئے کہا۔

’’تمہارے باپ گورے انگریز نے میری سندھی زبان کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سندھ میں اس کو سرکاری زبان کے طور پر لاگو کر دیا تھا۔  تم اپنے باپ کے حلالی بیٹے بننے کے بجائے بغض سے اس زبان کو گدھے چرانے والوں کی زبان کہہ رہے ہو۔ ‘‘

ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے دوبارہ کہا۔

’’تم ہمیشہ حقیقتوں کو کیوں نظر انداز کرتے ہو۔  اس لے کہ تمہیں یہ رویہ سکھایا گیا ہے۔  تمہارا دوش نہیں ہے، تماری نہ کوئی قوم ہے اور نہ ضمیر ہے۔  میں بھی پاگل ہوں اپنا سر دیوار سے ٹکرا رہے ہوں۔  مگر میرا خون رنگ ضرور لائے گا۔

وہ کالے انگریز سے سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلانے کے موضوع پر بحث کر رہا تھا تو اس وقت ایک خوبصورت قدآور عورت کمرے میں داخل ہوئی تو اس وقت کالا انگریز ادب سے کھڑا ہو گیا اور اس کی کرسی پر وہ عورت بیٹھ گئی۔  یہ عورت وقت کی وزیر تھی جو کہ اپنی تقریروں میں ہمیشہ سندھی زبان قومی زبان کا راگ گاتی رہتی تھی۔

مجھے دیکھتے ہوئے کہا:  ’’کیا مسئلہ ہے ؟‘‘

میں نے ابھی اپنی بات شروع ہی نہیں کی تھی کہ کالا انگریز درمیان میں بول پڑا۔

’’میڈم مسئلہ کچھ بھی نہیں ہے، ایک بحث تھی سندھی زبان قومی زبان پر۔ ‘‘

وزیر صاحبہ نے کہا:  ’’یہ تو اچھی بات ہے کہ سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے۔ ‘‘

وزیر صاحبہ کے اس رٹے رٹائے ہوئے جملے نے مجھے مشتعل کر دیا۔

’’حکومت بھی آپ کی پارٹی کی ہے تو پھر کرتے کیوں نہیں ؟‘‘

’’یہ ہمارے بس میں نہیں ہے، ہاں ! البتہ کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’حکومت بھی آپ کی اور پھربھی کوشش کی جا رہی ہے، مجھے بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ‘‘

’’کیا مطلب ہے تمہارا، قانون سازی میں وقت تو لگتا ہے نہ۔۔ ۔ ‘‘

’’قانون سازی کون کرے گا؟ تمہارے جاہل نمائندے، جو کہ اس کالے انگریز کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں اور آپ لوگ تو شو پیس ہیں، میڈم!‘‘

’’اگرچہ کچھ نہیں کر سکتے تو پھر ہماری طرف آ جائیں، جہاں سندھی زبان قومی زبان کے نعرے کے تحت ایک طویل قطار بن رہی ہے اور روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

بھروسے کی موت

 

’’بیٹی! یوں کیوں رو رہی ہو۔۔ ۔ ؟‘‘

’’بابا! یہ مت پوچھیں۔۔ ۔ ‘‘

’’پھر بھی پتہ تو چلے کہ یوں زارو قطار کیوں روئی جا رہی ہے، مجھ سے یہ دیکھا نہیں جا رہا۔ ‘‘

’’بابا! میں اجڑی ہوئی ہوں، میرا کوئی بھی وارث نہیں ہے، میرا شہر اوکاڑہ ہے، ابھی اس ٹرین میں چڑھی ہوں، جہاں یہ رکے گی وہی میری منزل ہو گی۔ ‘‘

’’بیٹی! تمہارا کوئی وارث وغیرہ نہیں ہے، پھر بھی کوئی تو ضرور ہو گا؟‘‘

’’بابا! میں سچ کہہ رہی ہوں، میرا کوئی بھی نہیں ہے۔  بچپن میں ہی میرے ماں باپ فوت ہو گئے۔  میری پھوپھی نے مجھے پالا تھا۔  ایک مہینہ پہلے وہ بھی گذر گئی۔  کچھ دن عزیزوں کے پاس ٹھہری مگر وہ بھی مجھ سے بیزار ہو گئے۔  دوسرا کوئی راستہ نہ دیکھ کر نکل پڑی، اب جو بھی اور جیسا بھی ہو مجھے اپنائے تو میں اس سے بیاہ کر کے اس کے ساتھ رہ لوں گی۔ ‘‘

’’عجیب زمانہ ہے، یہاں کوئی بھی کسی کا نہیں ہے۔  رشتوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔  نہ رو بیٹی، میرے ساتھ چلو، میں کچھ کر لوں گا۔ ‘‘

’’چاچا! میرے ساتھ ظلم ہو گیا ہے۔۔ ۔ ‘‘

’’کیوں بیٹا! بات تو منہ سے اچھی نکالو۔ ‘‘

’’کیا اچھی بات نکالوں، تمہارے کہنے پر میں نے اس لڑکی سے شادی کی۔  وہ تو مجھے برباد کر گئی دو دن ہوئے گھر سے شادی کے زیور وغیرہ لے کر فرار ہو گئی ہے۔  اس کا فوٹو بھی اخبار میں چھپا ہے، وہ کورٹ میں پیش ہوئی ہے۔  اس کے عزیزوں نے کا کہنا ہے کہ اسے زبردستی اغوا کر کے یہاں لایا گیا ہے۔ ‘‘

’’لڑکی، اس کے عزیز، شادی، زیور، زبردستی اغوا اور ہم لوگوں نے اغوا۔۔ ۔ ‘‘

یہ سوچتے ہوئے چاچا ہکا بکا رہ گیا۔  اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ دنیا میں انسان یوں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

بیوہ

 

’’سنو نایاب!‘‘

’’ہاں کہو۔۔ ۔ ‘‘

’’میرے ساتھ شادی کرو گی؟‘‘

ایک لمبی خاموشی۔۔ ۔

’’کیوں نایاب! میں تمہارے لائق نہیں ہوں کیا؟‘‘

’’نہیں ایسی بات نہیں۔ ‘‘

’’پھر شادی کی بات پر خاموشی کیوں ؟‘‘

’’اب میں تمہیں کیا بتاؤں، پاگل میں شادی شدہ اور بچوں کی ماں ہوں۔ ‘‘

’’او نو۔۔ ۔ ‘‘

’’ او یس۔۔ ۔ ‘‘

’’جانتی ہو، ایسا کیوں کر بیٹھا، کیونکہ تم شادی شدہ لگتی نہیں ہو۔ ‘‘

’’سچ۔۔ ۔ ‘‘

’’میں جھوٹ نہیں بولتا۔ ‘‘

’’مجھے پتہ ہے۔ ‘‘

’’بھلا ایک اجازت دو۔۔ ۔ ‘‘

’’کیسی؟‘‘

’’تم سے عشق کرتا رہوں۔ ‘‘

’’ہاں، کیوں نہیں، عشق تو میں بھی تم سے کرتی ہوں۔  تم سے شادی بھی کر سکتی ہوں، کیونکہ میں بیوہ ہوں۔  مگر شادی کروں گی تو میرے بچے یتیم ہو جائیں گے۔  اب میں ماں بھی ہوں تو باپ بھی۔ ‘‘

’’پھر نایاب! ایک مہربانی کرو۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’اپنے سینے سے دور مت کرنا، اپنے تن سے جدا مت کرنا۔ ‘‘

’’چل پاگل کہیں کا۔۔ ۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی وقت کی رہن

 

’’سنو تو۔۔ ۔ ‘‘

’’ہاں کہو، سن رہی ہوں۔۔ ۔ ‘‘

’’یوں نہیں۔۔ ۔ ‘‘

’’پھر کیسے۔۔ ۔ ؟‘‘

’’میرے سامنے بیٹھو۔۔ ۔ ‘‘

’’مجھے کام کرنا ہے۔۔ ۔ ‘‘

’’ہاں پھر کر لینا۔۔ ۔ ‘‘

’’میں سن رہی ہوں، کہو۔۔ ۔ ‘‘

’’ایسے نہیں پلیز۔۔ ۔ ‘‘

’’باز نہیں آؤ گے، ٹھیک ہے میں بیٹھ جاتی ہوں، اب کہو۔۔ ۔ ‘‘

۔۔ ۔  فقط اسے دیکھتا رہا۔

’’یار! اب کچھ کہو بھی یا صرف منہ دیکھتے رہو گے کیا۔۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں کہتا ہوں، ہم ایک دوسرے سے کتنے دور ہو گئے ہیں نا۔  ایک دوسرے کیلئے وقت نہیں نکال رہے۔  بس کمانے کی مشین بن گئے ہیں، صبح کو میں آفس اور تم سکول، آفس سے دیر آنے پر میں آ کر سو جاتا ہوں اور پھر صبح کو وہی زندگی، آج اتوار ہے تو تم پھر گھر کے کام میں مصروف ہو۔ ‘‘

’’پھر کیا کریں۔۔ ۔ ؟‘‘

’’بے رخی سے ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔۔ ۔ ؟‘‘

’’پھر کیا کہوں۔۔ ۔ ؟ میرا جواب تو یہی ہے نہ۔  پتہ نہیں تمہں کیوں بے رخی نظر آ رہی ہے۔۔ ۔ ‘‘

’’یوں کرو، اپنی شادی والے فوٹو تو نکال کر لاؤ، دیکھیں اور ماضی کے خوبصورت لمحات کو یاد کریں۔ ‘‘

’’میرے پاس وقت نہیں ہے، کسی اور وقت میں دیکھ لیں گے۔  میں جار ہی ہوں دوسرے کمرے میں، کام پڑا ہے۔ ‘‘

’’فوٹو نکال کر دو، تو میں خود ہی دیکھ لیتا ہوں۔۔ ۔ ‘‘

’’ایک منٹ، میرے موبائل پر کال آ رہی ہے۔۔ ۔ ‘‘

’’کس کی کال ہے۔۔ ۔ ؟‘‘

’’شہلا کی۔۔ ۔ ‘‘

’’اچھا تو پھر تم کافی دیر تک آپس میں باتیں کرتی رہو گی؟‘‘

’’نہیں نہیں۔۔ ۔ ‘‘

اس کی بیوی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔  وہیں اسے بیڈ پر نیند آ گئی۔  دو گھنٹے کے بعد وہ اٹھا اور اپنی بیوی کو دیکھنے کے لئے دوسرے کمرے میں گیا، اس کی بیوی اپنی دوست شہلا سے فون پر بات کر رہی تھی، وہ واپس آ کر اپنے کمرے میں پھر سو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پرندوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی

 

’’چاچا وریام ! کل آپ کا کبوتر اڑ کر سرحد پار چلا گیا تھا، کیا وہ واپس لوٹا؟‘‘

نوجوان سجن نے اپنے چچا وریام سے پوچھا، جو کہ کبوتروں کا آشیانہ صاف کر رہا تھا۔

’’ہاں بیٹا، پہنچا ہے، مگر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘

’’چاچا اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ کہیں مارا نہ گیا ہو، سرحد پر گولیاں چل رہی ہیں، روزانہ آدمی مر رہے ہیں۔ ‘‘

چچا وریام نے سجن کی بات سن کر اپنی گردن گھماتے ہوئے کہا،

’’بیٹا! پرندوں کی کوئی بھی سرحد نہیں ہوتی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

فقیر کی صدا

 

فقیر راستے پر جا رہا تھا تو کتوں نے بھونکتے ہوئے سے اس پر حملہ کیا۔  فقیر کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔  بس صرف اپنے تحفظ کے لیے کتوں پر لاٹھی گھماتے ہوئے آگے نکل گیا۔  فقیر کی صدا جاری رہی اور کتوں کی بھونک پیچھے رہ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بال کس کا ہے ؟

 

’’اس شہر میں گھر سے دور رہتے ہوئے اپنے آپ کو مسجد کے تنکی کی طرح پاک سمجھتے ہو۔  پھر ظالم یہ لمبا سنہری اور صحت مند بال تمہارے کوٹ پر کہاں سے آیا؟‘‘

یوں لگا کہ میری آفس کے سینئر نے جسیے میری چوری پکڑ لی ہو، ۔  بال کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے بات کو اور آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’جس محلے میں رہتے ہو، وہاں کوئی دوشیزہ پھنسائی ہے کیا؟‘‘

میں نے کہا:  ’’نہیں سر!‘‘

’’پھر یہ بال کہاں سے آیا، کیا چکر ہے ہینڈسم بوائے ؟‘‘

میں اپنے سینئر کو وہ سب کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا کہ یہ بال کہاں سے آیا ہے اور کس کا ہے، مگر وہ مسلسل ضد کر رہا تھا، مجبور ہو کر مجھے بتانا پڑا۔

’’سر! اصل میں یہ بال کسی دوشیزہ کا نہیں ہے، بلکہ آپ کی والدہ کا ہے جس کو آپ نے بوجھ سمجھ کر گھر سے نکال دیا تھا۔ میں اپنی والدہ سمجھ کر اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے اور ہر روز ان سے مل کر دعائیں لے کر آتا ہوں، ان کا ہی بال مجھ لگ گیا ہے۔‘‘

یہ سن کر میرا سینئر میرا سامنا نہ کر سکے اور میں اپنے کام میں جُت گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

صدیوں کے بچھڑے وجود

 

صرف سنتا تھا، مگر اعتبار نہں کرتا تھا، ایک مرتبہ کسی دوست نے کہا:

’’صاحب! معاشرے میں بڑا گند ہو گیا ہے، ہر روز کچروں کے ڈھیروں سے حرامی بچوں کی لاشیں مل رہی ہیں۔  انہیں شرم نہیں آتی، لوگوں کی حیا شرم ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ‘‘

اس نے سنی ان سنی کر دی اور ہونٹوں میں بڑبڑایا۔

’’ایسا نہیں ہو گا۔۔ ۔ ‘‘

مگر لاتعداد خدشوں نے اسے گھیر لیا تھا۔  پھر ایک مرتبہ کسی اخبار میں ایک ایسی ہی خبر پڑھی کہ شہر میں کچرے کے ڈھیر سے نو مولود بچے کی لاش ملی ہے۔  محلے والوں نے مل کر اسے دفنا دیا۔  اس وقت بھی اس کے ہونٹوں پر ہلکی سے جنبش تھی۔

’’صحافی بھی بادشاہ لوگ ہیں، جب ان کے پاس کوئی خبر نہیں ہوتی تو یہ ایسی خبر چلا دیتے ہیں۔ ‘‘

اس خبر سے نظریں ہٹا کر دوسری خبر پڑھنے میں مگن ہو گیا۔  آفس کا وقت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے گھر جا رہا تھا، سول ہسپتال کے عقبی روڈ پر لوگوں کی اتنی آمد رفت نہیں ہوتی تھی۔  کچرے کے ڈھیر (ڈسٹ بن)  کی چار دیواری کے نزدیک سے گذر رہا تھا کہ اس کے کانوں پر معصوم بچے کے رونے کی آواز پڑی۔  اس نے ادھر ادھر نظریں گھمائیں اور کان دھرے، مگر اسے آگے پیچھے کوئی نظر نہیں آیا۔  بچے کے رونے کی آواز مزید بڑھتی جا رہی تھی، وہ ایک دم رک گیا اور پھر تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے ڈسٹ بن کی چار دیواری کے اندر چلا گیا۔  دیکھا کہ ایک نو مولود ننگا وجود تڑپ رہا تھا، اس سے رہا نہ گیا اس نے اٹھا کر اپنی چھاتی سے لگا لیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  یہ دنیا کا عام آدمی نہیں تھا جوکہ یوں ہی کچرے کے ڈھیر سے گذر جاتا، دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ایسے رو رہے تھے جیسے کہ صدیوں سے بچھڑے وجود آپس میں ملے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

جن کا کوئی نہیں ہے

 

کچھ کتے ایک کتیا کے پیچھے جا رہے تھے اور ان کے پیچھے کچھ بچے، جو کہ میلے کچلے کپڑوں پہنے ہوئے ننگے پاؤں تھے۔  کتے اور کتیا کے پیچھے دوڑے جار رہے تھے۔  کبھی اس چوک پر کبھی اس چوک پر نظر آنے لگے، کبھی اس چوک پر انہیں ’’ارے، اپنی ماں کے پیچھے اس کے یار دوڑاتے جا رہی کیا، بھاگو یہاں سے۔ ‘‘ پر کسی اور چوک پر لوگوں کا ڈرانا دھمکانا، ’’ارے حرامی! کتے کی اولاد ہو کیا؟ ان کے پیچھے بھاگتے جار ہے ہو؟‘‘

بچوں کو ان ڈرانے دھکمانے کی کوئی پرواہ نہیں تھی، وہ اپنے کام سے جُتے رہے۔  آخر کار ایک کتا کتیا پر چڑھ گیا، یہ دیکھ کر تمام بچے مزا لینے لگے۔

اسی چوک سے ایک فوٹو گرافر کا گذر ہوا، وہ یہ منظر دیکھ کر زیر لب بولا۔

’’واہ کل بچوں کا عالمی دن ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی تصویر نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

اور دوسرے دن اخبار میں فوٹو چھپا۔  ساری دنیا میں اس تصویر کی اور فوٹو گرافر کی دھوم مچ گئی۔  مگر وہی بچے اب تک انہی چوکوں پر موجود رہتے ہیں، جن کا کوئی بھی نہیں ہے، آگے کتے اور پیچھے وہ ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کردار کی تلاش میں

 

اسے اچھے کرداروں کی تلاش تھی، اس نے سوچا کہ اچھے کردار کہاں تلاش کروں۔  اس جدید دور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اخباروں اور ٹی وی چینل پر اس نے اشتہار دے دیا کہ اچھے کرداروں کی سخت ضرورت ہے، اس اشتہار کے چھپنے کے بعد تین دن کے اندر درج ذیل پتہ پر درخواست ارسال کی جا سکتی ہیں اور چوتھے دن انہیں انٹرویو کے لئے آنا ہے۔  سفارش کرنے والے کردار کو نا اہل سمجھا جائے گا۔

تین دن گذرنے کے بعد بھی اسے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، تو یہ بڑا حیران ہو گیا اور پھر خوش ہوا کہ اچھے کردار سوئے ہوئے ہیں۔  ابھی مجھے گندے کردار کی ضرورت ہے۔  اس نے آکاش پر چمکتے ہوئے چاند پر نظر ڈالی اور تھوک پھینکا تو وہ اس کے ہی چہرے پر آ کر گرا اوروہ بے حیائی سے چہرا صاف کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 آلو

سبزی مارکیٹ میں بڑی بھیڑ تھی، میں اپنے کزن کے ساتھ وہاں سے گذر رہا تھا، اسے بھی اپنے گھر کے لے سبزی خریدنی تھی۔  حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ اس بھیڑ میں بھی گدھا گاڑی والے بھی گذر رہے تھے۔  ہم دونوں اس بھیڑ میں لوگوں سے کندھا ٹکراتے ہوئے نکل آئے۔  میرے کزن نے ایک ریڑھی سے سبزی خرید ی، جہاں بھیڑ کم تھی میں جائزہ لے رہا تھا۔  اس ماحول میں ایک فقیرنی مختلف ریڑھی والوں سے خیرات مانگ رہی تھی۔  کسی سے پیاز، کسی سے آلو تو کسی سے لہسن خیرات میں لے رہی تھی۔  اس نے میرے نزدیک والے ریڑھی دان سے اللہ کے نام پر مانگا تو اس نے ایک آلو دیا جو کہ اس کے ہاتھوں سے گر گیا۔  اور وہ جھک کر آلو اٹھانا چاہا، جوں ہی اس نے جھک کر آلو اٹھانا چاہا تو آنے والے دوسرے گاڑے کے گدھے کی لات سے ریڑھی کے نیچے چلا گیا، اس نے جھک کر دیکھا تو منہ سے بے ساختہ الفاظ نکالے:  ’’ بدبخت نالی میں چلا گیا۔ ‘‘ اور پھر آگے بڑھ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 تھر کی ویرانی

 

لوہے کا شیر بڑا بھوکا تھا اور وہ شکار کی تلاش میں تھا، جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے، وہ پینسل سے بنی جھاڑیوں کے پیچھے ربڑ کی ہرنیوں پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔  اس کی آنکھوں میں آگ کے شعلے تھے۔  اس کی آنکھیں آگ کی تھیں، شیر اپنے سکہ سے بنے پاؤں سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔  اس کی ساری توجہ ربڑ کی بنی ہوئی ہرنیوں پر تھی، کہتے ہیں کہ شکاری سے زیادہ شکار ذہیں ہوتا ہے۔  مگر ظالم لوہے کا شیر مسلسل تاک میں آگے بڑھ رہا تھا اور ربڑ کی ہرنیاں خطرناک ماحول سے بے نیاز ہو کر چاندی کا گھاس کھا رہی تھیں اور ان میں کچھ چشمے سے روشنی کا پانی پی رہی تھیں۔

لوہے کا شیر نزدیک پہنچ کر پینسل سے بنی ہوئی جھاڑیوں کے پیچھے چھپتے ہوئے مناسب موقع کی تاک میں تیار ہو کر بیٹھ گیا۔  ربڑ کی ہرنیاں روشنی کا پانی پی کر خوشی سے چھلانگیں لگا رہی تھیں اور کچھ تو لوہے کے شیر کے نزدیک آ گئیں اور شیر نے جو یہ موقع دیکھا تو وہ ربڑ کی ہرنیوں پر جھپٹ پڑا اور پھر ربڑ کی ہرنیوں میں تہلکہ مچ گیا۔  اچانک حملہ ہونے پر حواس باختہ ہو گئیں۔  جیسے ہی لوہے کے شیر نے ربڑ کی ہرنی کے گردن کو دبوچا تو لوہے کے شیر کو یوں لگا کہ جیسے اس کے پاؤں کے نیچے سے دھرتی کھسکتی جا رہی ہے اور تانبے کے پنجرے میں ہے اور تھوڑی دیر کے بعد لکڑی کی بندوقوں والے مٹی سے بنے آدمی شیر کے ارد گرد بندوقیں تانے کھڑے تھے۔  جس ربڑ کی ہرنی کا سانس روکنے کے لیے گرن دبوچی تھی وہ تھر کی ریت کی بنی ہوئی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 سگریٹ اور راکھ

 

اس نے سگریٹ کا بڑا کش لگاتے ہوئے کہا۔

فہمیدہ! آج ہمیشہ کے لے تمہیں الوداع کہنا چاہتا ہوں۔

اب تم سے میرا جی بھر گیا ہے۔

فہمیدا کچھ نہ کہہ سکی صرف ایش ٹرے اور سگریٹ کی راکھ کو دیکھتی رہی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 گلدان

 

اس کی سہیلی نے اس سے پوچھا،

’’یہ گلدان کوئی خاص گلدان ہے کیا، مجھے تو عام سا گلدان ہی لگ رہا ہے۔ ‘‘

اس سوال پر اس نے کہا،

’’یہ گلدان کوئی خاص گلدان بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عام گلدان ہے۔  خاص اس لئے نہیں ہے کہ یہ عام دوکان سے خریدا ہوا ہے، مگر اب یہ عام اس لئے نہیں رہا کہ، کیونکہ یہ گلدان میرے شوہر نے آج سے بیس سال پہلے مجھے شادی کی رات گفٹ کیا تھا، جو کہ آج اس دنیا میں نہیں موجود نہیں رہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ رو پڑی جبکہ گلدان میں پڑے تازہ پھول مسکرا رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 زندہ باد

 

ہر طرف زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے تھے۔  اس نے دیکھا کہ سب نعرے بیکار ہیں یہ ان کے نعرے ہیں جو کہ دھرتی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔  یہ سب نا سمجھ ہیں کچھ کرنا پڑے گا۔  پھر اس نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔  دھرتی زندہ باد، دھرتی والے زندہ باد۔  نعروں میں شکتی تھی اور پھر ہر طرف یہی نعرے گونجنے لگے، دھرتی زندہ باد، دھرتی والے زندہ باد۔

 

 

 

 

 مردانگی

 

زن، زن، سدھر جاؤ۔۔ ۔

کیوں ! میں نے کیا کیا ہے، تم آگ بگولہ ہو گئے ہو۔

دیکھو، میں کہہ رہا ہوں، آج سے تمہارا باہر نکلنا بند ہے۔

کیوں ؟

میرے ساتھ بکواس نہ کرو۔

مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔

رنڈی، رنڈی کیا کہہ رہی ہو، میں مرد ہوں مرد۔

ہونہہ مرد، دیکھی ہے تمہاری یہ مردانگی۔۔ ۔

 

 

 

 

 

 غسل خانہ

 

اس کی ماں نے کہا۔

بیٹی جاؤ غسل خانے سے تولیہ تو لے کر آؤ۔

وہ ہراس شدہ ہرنی کی طرح ڈر کر رک گئی، پہلی بار ایسا نہیں ہوا تھا، مگر جب بھی اس نے لفظ غسل خانہ سنا، اس کے جس م میں عجیب کپ کپاہٹ پیدا ہو جاتی تھی۔  کیونکہ ایک دن تنہا ئی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے کزن نے اسے غسل خانے میں چونکا دیا تھا۔

 

 

 

 

  روٹھا ہوا بوسہ

 

گیتا نے نیلے رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی، ہونٹوں پر ساون کے پسند کی سرخی لگائی، اور زیادہ خوبصورت نظر آنے کیلئے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کو بھی نیل پالش کر لی اور ساون کا انتظار کرنے لگی۔  دل ہی دل میں اس نے ساون کو اپنے پاس بیٹھا دیکھا۔  جس نے جھپی لگا دی، اسے ہونٹون پر بوسہ دیا، مگر رات بیت گئی، گیتا خود کو صبح کو تنہا دیکھتی ہے۔

 

 

 

 

 دھوبی کا کتا

 

اچانک اس نے ایک عورت کو چادری میں دیکھا تو اس کے پیچھے لگ پڑا اور تصور میں اپنے آپ سے بات کرنے لگا۔

’’بہت ہی خوبصورت عورت ہے، پہلے تو اسے اپنے محلے میں نہیں دیکھا۔  کنجری کی شوخی تو دیکھو، آج اگر پھنس جائے تو اللہ میاں سے اور کیا چاہیے۔  مڑ کر اس نے دیکھا ہے، تیز قدموں سے چلی جا رہی ہے۔  کہاں جائے گی، ارے یہ تو میری گلی میں جا رہی ہے، ہے کون؟ ارے یہ کون ہے، وہ تو میرے گھر میں چلی گئی۔ ‘‘

وہ خود بھی جلدی سے اپنے گھر میں داخل ہو گیا، شال اتارتے ہوئے اس کی بیوی نے اس کے منہ پر پانچ انگلیاں گھما دیں۔  ’’بھڑوے ! گھر میں تو بڑی شرافت کی باتیں کرتے ہو۔ ‘‘

 

 

 

 

 بے مقصد زندگی

 

’’ارشاد صاحب! تمہارے پیارے دوست نے رات خودکشی کر لی۔ ‘‘

اس نے ارشاد سے کہا۔

’’واہ، بہت ہی دلیر آدمی تھا، مجھ جیسا بزدل نہیں تھا، آخرکار اس بے مقصد واہیات زندگی سے چھٹکارہ حاصل کر لیا۔ ‘‘ ارشاد بولا

 

 

 

 

 کتے کی بھوک

 

شہری کتے نے بھوک مٹانے کیلئے ادھر ادھر تانک جھانک کی، مگر شہری کتے کو آج کھانے کیلئے کوئی اچھی خوراک نہیں مل سکی تھی۔  وہ ڈسٹ بن کے کچرے کے ڈھیر میں گھس گیا، تھوڑی دیر بعد کپڑے میں لپٹی ایک گٹھڑی کو اپنے دانتوں سے دبوچے باہر کھینچتا چلا آ رہا تھا اور اس کو اپنے دانتوں کی مدد سے کھولنے کی کوشش کی۔  شہری کتے کی محنت بارآور ہو گئی۔  گٹھڑی آسانی سے کھل گئی اور کتے کے آگے نومولود بچے کا گوشت تھا اور اپنی بھوک ختم کرنے کیلئے وہ گوشت کھانے میں مصروف ہو گیا اور دل ہی دل میں وہ شہر والوں کا مشکور نظر آنے لگا۔

 

 

 

 

 بوسہ

 

’’سنو۔۔ ۔ ‘‘

’’ہاں کہو پیاری۔۔ ۔ ‘‘

’’صرف ہونٹوں سے بوسہ لو گے یا آگے بھی بڑھو گے ؟‘‘

’’نہیں، مجھے صرف ہونٹوں کی چاہت کی طلب ہے، ہونٹوں کے بوسوں سے دیئے روشن ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’دلبر مجھے معاف کرنا، میں جذباتی ہو گئی تھی۔ ‘‘

 

 

 

 

 مرد اور گھوڑا

 

چچا خدا بخش اپنے گھوڑے کو بگھی میں جوتتے وقت اکثر کہا کرتا تھا کہ مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ ‘‘

مگر ہوا کچھ یوں کہ اس جدید مشینری کے دور میں دونوں بھوک کی وجہ سے مر گئے۔  محلے والوں نے گھوڑی کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا اور چچا خدا بخش پر محلے والوں نے رحم کھاتے ہوئے چندہ کر کے دفنا دیا۔

 

 

 

 

 شلوار

 

’’کیا ساری رات نشے میں تھیں ؟‘‘

نوجوان بیٹی نے اپنے ماں سے پوچھا جو کہ بیدار ہونے کے بعد صبح کوباورچی خانے میں بیٹھی ناشتہ تیار کر رہی تھی۔

’’کیوں یہ کیسا سوال کیا ہے ؟‘‘

بیٹی نے اپنی آنکھوں سے ماں کی شلوار کی طرف اشارہ کیا، جو کہ اس نے الٹی پہن رکھ تھی۔

 

 

 

 

 مینڈک شیر کی کھال میں

 

جنگل کے ایک مینڈک کو جنگل میں کہیں بھی عزت نصیب نہیں ہوتی تھی۔  بلکہ اس کی ٹراں ٹراں سے جنگل کے دیگر جانور اس سے نفرت کرتے تھے۔  ایک دن وہی مینڈک جنگل میں ادھر ادھر پھُدتا پھر رہا تھا تو اسے ایک مرے ہوئے شیر کی کھال مل گئی۔  اس نے سوچا کیوں نہ جنگل کے دیگر جانوروں پر رعب جمانے کے لئے شیر کی کھال پہن لوں اور عزت کا مزہ بھی لوں۔  مینڈک نے شیر کی کھال پہن کر جنگل کے جانوروں پر رعب جمانے اور جھوٹی عزت کا مزہ لینے کے لئے نکل پڑا۔  جنگل کے جس بھی جانور نے اسے دیکھا تو نہ اس سے ڈرا اور نہ ہی کسی نے اس کی عزت کی، کیونکہ مینڈک نے کھال تو شیر کی پہن لی تھی، مگر چال وہی بے ڈھنگی تھی۔  چلتے وقت وہ کو در رہا تھا اور دھاڑے کے بجائے ٹرا رہا تھا۔

 

 

 

 

 کوشش لا حاصل

 

وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور حساب میں بہت ہوشیار تھی، حساب والے ٹیچر بھی اسے پسند کرتے تھے۔  میں تو اس کے دراز گیسو اور خوبصورت وجود پر شاعری کر چکا تھا اور اسے سناتا بھی تھا۔  مگر اسے شاعری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، میں نے اسے اپنے طرف متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی مگرمری کوشش لاحاصل نکلی۔

 

 

 

 

 ڈسٹ بن

 

میں نے اسے اکثر روتے ہوئے دیکھا، درد تھا، جس کا علاج اس نے رونے میں ڈھونڈ رکھا تھا۔  میں اسے رونے سے روکتا رہا، مگر ناکام رہا۔  کل رات میں جوں ہی میں اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر داخل ہوا تو، اس وقت وہ اپنے آنسو ٹشو سے صاف کر کے ٹشو کو ڈسٹ بن میں پھینک رہی تھی۔

فہمیدہ، اپنے یہ قیمتی آنسو یوں ڈسٹ بن کے حوالے تو نہ کرو۔

میری اس تجویز پر وہ ڈسٹ بن کو حیرت سے تکتی رہی۔

 

 

 

 آخری کوشش

’’پھر یوں کرو، مجھ سے علیحدہ رہو، مگر مجھ سے طلاق نہ لو، اگر اتنا ضد تم کر رہی ہو تو۔‘‘

ثمینہ خاموش رہی، کوئی جواب نہیں دیا، اس کے رویے سے معلوم ہوا کہ ثمینہ نے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔  جاوید ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا رہا۔  کیسا اتفاق تھا دونوں میں، ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی اور ایک دوسرے سے عشق ہو گیا اور ایک دوسرے سے نبھانے کے وعدے بھی ہو گئے، مگر وقت نے دونوں کو علیحدگی کے چورا ہے پر لا کھڑا کر دیا۔

جاوید نے ثمینہ سے کہا ’’ثمینہ! میں تمہیں طلاق دینے کیلئے تیار ہوں، کیونکہ میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں۔  میں آج بھی تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔  میں تمہارا مشکور ہوں کہ تم نے مجھے محبت کرنا سکھائی، تم نہ ہوتی تو میں عشق کو سمجھ نہ پاتا۔  جس چورا ہے پر ہم آ کرکھڑے ہوئے ہیں اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے، بلکہ میرے عشق کی کمزوری ہے۔ ‘‘

جاوید نے ثمینہ کو طلاق تو دے دی مگر اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر امنڈ پڑا اور ثمینہ جاوید کا گھر چھوڑ کر چلی گئی۔

 

 

 

 

 ناراض ہونٹ

 

’’تمہارے ہونٹ سیاہ ہو گئے ہیں، کیا ہوا ہے ملہار؟‘‘

’’یار سچ بتاؤں۔۔ ۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’سرخ ہونٹ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں۔ ‘‘

اور پھر اس کی آنکھوں سے کوئی سیلاب امڈ پڑا۔

 

 

 

 

 سسکی

 

اسے بڑے قہقہے لگاتے دیکھ کر اس نے پوچھا۔

’’بڑے خوش ہو سارنگ!‘‘

سارنگ نے آلودہ آنکھوں سے کہا

’’ہاں یار بہت۔۔ ۔ ‘‘

 

 

 

 

 گھایل میرا گیت

 

میراں نے میرا گیت گا کر خاموش ہوئی تو میں کتنی دیر اس کی میٹھی آواز کے سحر میں مبتلا رہا اور اس کے چہرے سے اپنی نظریں ہٹا نہ سکا۔  میرے بے جان گیت میں اس نے جان ڈال دی تھی۔

’’صاحب، اچھا لگا؟‘‘

میراں کے اس سوال پر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔

’’اچھا کیا ہوتا ہے میراں، تم نے تو کمال کر دیا ہے، تم گایا نہ کرو۔ ‘‘

’’صاحب، تم نے کہا اور میں گا بیٹھی، نہیں تو میں تو کب سے دل شکستہ ہو چکی ہوں۔ ‘‘

 

 

 

 

 گمشدہ بوسہ

 

سنو!

جی!

پچھلے سال تم نے میرے ہونٹوں کو چوما تھا۔

ہاں ہاں یاد ہے۔

ٍوہ بوسہ مجھ سے کہیں کھو گیا ہے۔

صاف کہہ دو نا دوسرا چاہیے۔۔ ۔

اتنا کہہ کر وہ ہنس پڑی۔

 

 

 

 

 

 انجانے خوف میں مبتلا

 

وہ سوچ رہی تھی۔

سب کچھ تو چھن گیا تھا مجھ سے، مگر اب میرے پاس جو الفاظ بچے ہیں، وہ چھن تو نہیں جائیں گے، یہ الفاظ تو میری جمع پونجی ہیں۔  بس یہی الفاظ تو ہیں جس کی کمائی آج تک میں کھا رہا ہوں۔  کہانی لکھنا تو میں نے کب کا چھوڑ دیا ہے۔۔ ۔  اور شاعری۔۔ ۔  شاعری تو ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی ہے۔

اب تو میں فقط پیسوں کی خاطر کالم لکھ رہا ہوں، جو کہ مجھے خود بھی سمجھ نہیں آتے۔  اپنی ہی باتوں کو دوسرے کالم میں رد کر دتیا ہوں اور اپنے مطلب اور مفاد کے لیے دوبارہ حمایت میں لکھتا ہوں۔  آج ایک ماہ ہو گیا ہے، مجھ سے کالم نہیں لکھا جا سکا۔  میرے الفاظ مجھ سے روٹھ کر کہیں چھپ گئے ہیں، کہاں۔۔ ۔  اور کیوں؟؟؟

اس کے ہاتھ میں سگریٹ کا ٹوٹا جل کر راکھ بن چکا تھا۔

 

 

 

 

 

 دشمن

 

جب وہ اپنے دشمن اور اس کی بیوی کو بیدردی سے قتل کر چکے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔  وہ بڑے بڑے قہقہے لگا رہے تھے اور خوشیاں دوبالا کرنے کے لیے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کرتے رہے تھے۔  اچانک کمرے میں ایک بچے کے رونے کی آواز آئی وہ سب ایک دم خاموش ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف تکنے لگے۔  ان میں سے ایک آدمی کمرے میں داخل ہو گیا اور ایک بچے کو جھولے میں روتا ہوا دیکھا۔  فوراً اس بچے کو جھولے سے نکال کر باہر لے آیا اور وہ سب بچے کو دیکھنے لگے۔  بچے کو اٹھا کر لے آنے والے نے کہا:  ’’اب اس کا کیا کریں ؟‘‘

دوسرے آدمی نے کہا:  ’’اڑے یہ دشمن کا بیٹا ہے، تم یوں کرو اس کو اوپر ہوا میں پھینکو تو میں اسے گولی کا نشانہ بناؤں اور دشمنی کا خوب مزہ لوں۔ ‘‘

اس کے ان الفاظ پر سب نے خونخوار قہقہے لگائے اور پھر معصوم بچہ جو مشکل سے ایک سال کا ہو گا، اس آدمی نے جیسے ہی ہوا میں اوپر پھینکا تو دوسرے طرف سے چلنے والے کلاشنکوف کی گولیاں اس کے نرم و نازک بدن کو چیرتی ہوئیں دیوار سے جا لگیں اور معصوم بچے کا گوشت ہوا میں اڑ رہا تھا۔  فضا میں انسانیت رو رہی تھی اور وہ درندے خوشی سے ہنس رہے تھے۔

 

 

 

 

 ہونٹوں کی قسم

 

وہ مجھ سے اتنا ناراض ہوئی کہ میں نے سوچا کہ اب وہ مجھ سے کبھی بھی بات نہیں کرے گی، رابطہ بالکل ختم کر دیا تھا۔  جب میں فون کال کرتا تو وہ منقطع کر دیتی تھی۔  یہ سلسلہ ایک یا دو دن نہیں بلکہ کافی دن تک چلتا رہا۔  پریشانی کے عالم میں یہ سوچتا رہا کہ کیا کروں ؟

یہ پتہ تھا کہ ہر عورت کو اپنی تعریف بہت پسند آتی ہے، مگر یہ الگ قسم کی عورت تھی۔  اپنی تعریف سن کر مجھ سے صلح کر لیگی یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔  پھر بھی نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اسے میسیج کر دیا کہ ’’مجھ سے ناراض نہ ہو، تمہیں تمہاری خوبصورت ہونٹوں کی قسم ہے۔ ‘‘

میرا میسیج جوں ہی سیل فون سے سینٹ ہوا، دوسری لمحے اس کی کال آ گئی۔  اٹینڈ کی تو اس نے کہا ’’ایسا میسیج پہلے کیوں نہیں کیا۔ ‘‘

اور وہ مسکرا اٹھا۔

 

 

 

 

 میں ایک بندر ہوں !

 

بندر کے مالک کے ہاتھ میں لاٹھی تھی، رسی بندر کے گلے میں اور دوسرا سرا اس کے مالک کے ہاتھ میں تھا، جس نے لاٹھی کے اشاروں سے کہا۔

’’ناچ دکھاؤ۔ ‘‘ بندر ناچنے لگا۔  ’’بہادر بن کر دکھاؤ۔ ‘‘ بندر نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بہادر کی طرح گھومنے لگا۔  ’’جینٹل مین بن کہ دکھاؤ۔۔ ۔  دلھن بن کے دکھاؤ۔۔ ۔  بندوق چلا کے دکھاؤ۔۔ ۔  سارے پبلک کو سلام کر کے دکھاؤ۔۔ ۔  اور اب ڈبہ اٹھاؤ اور لوگوں سے دس دس روپے لو تو تمہیں کیلے کھلاؤں۔ ‘‘

پھر بندر ایک ایک آدمی کے آگے ڈبہ لے جاتا ہے اور جب میرے سامنے آیا تو مجھے یوں لگا کہ وہ بندر تو میں خود ہوں۔  پھرمیں وہاں ٹھہر نہ سکا اور بھیڑ میں سے نکل آیا اورمیں اس سمے مشکل سے سانس لے پار ہا تھا۔

 

 

 

 

 آخری گولی

 

میرے گاؤں کے لوگ ہر بات میں اٹل ہیں، دوستی نبھانے میں اٹل اور پھر دشمنی رکھنے میں بھی اٹل۔

تقریباً ایک سال پہلے ہمارے نزدیک والے گاؤں کے لوگوں نے معمولی بات پر ہمارے گاؤں کا ایک نوجوان قتل کر دیا تھا۔  بات یہیں تک محدود نہ رہی، ہمارے گاؤں کے لوگوں نے بھی اس گاؤں کے ایک معزز شخص کو قتل کر کے بدلہ چکا دیا۔

بس پھر تو گاؤں میں مورچے لگ گئے، ہر رات کو ایک دوسرے کے اوپر شدید فائرنگ کی جاتی تھی۔  دونوں گاؤں کے لوگ اس تاک میں رہتے تھے کہ کوئی ہتھے چڑھ جائے تواس کو مار کر بدلے کی آگ بجھائیں۔  یہ سلسلہ اس وقت سے لے کر آج تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے، اب تو یہ روز کا معمول بن گیا ہے۔

لوگ مرتے رہے اور قتل کی تعداد گیارہ تک جا پہنچے، جبکہ نزدیکی گاؤں کے دس لوگ قتل ہو چکے تھے۔  اس لیے ہمارے گاؤں کے لوگ سرخ آنکھیں کر کے گھوم رہے تھے کہ تعداد برابر کی جائے اور یہ موقع کب ملے گا، لوگ اسی تاک میں رہتے تھے۔

آج صبح جیسے ہی ہمارے گاؤں کے کبوتر اڑے تو نزدیک والے گاؤں کے کبوتروں نے بھی اڑان بھری اور پھر آپس میں گھل مل گئے۔  دونوں گاؤں کے کبوتر مل کر دونوں گاؤں کے اوپر چکر لگانے لگے اور پرواز کرتے رہے، مگر ان میں دونوں گاؤں کے لوگوں کی طرح کوئی دشمنی نظر نہیں آئی۔

 

 

 

 

 اپنے ہی تو تھے

 

اپنے ہونٹ سی لیے ہیں کیا، ایک لفظ بھی نہیں اگل سکتے ؟

ارے کیا کر رہے ہو، میں پوچھتا ہوں۔

آخر تمہاری بہن کے کپڑے کس نے تار تار کیے اور عزت کس نے لوٹ لی؟

کیا تمہیں علم ہے۔۔ ۔

ارے حرامی صرف روتے ہی رہو گے کیا، کچھ بتاتے کیوں نہیں ؟

اس کا باپ چلا چلا کر پوچھتا رہا۔  آخرکار اس نے اتنا ہی کہا،

’’اپنے ہی تھے، اپنی دھرتی کے تھے، اپنے ہی سندھی تھے۔ ‘‘

اور پھروہ زارو قطار روتا رہا، دوسری طرف اس کی بہن بسنتی کمرے میں سسکیاں بھرتی رہی۔

 

 

 

 

 ایک منٹ کی خاموشی

 

ادبی پروگرام اپنے اختتام پر تھا تو اسٹیج سیکریٹری نے اعلان کیا:  ’’انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ سندھ کے نامور شاعر دلیر سندھی انتقال کر گئے ہیں۔  سارا سندھ اس غم میں مبتلا ہے۔  جناب دلیر سندھی اپنی ساری زندگی شاعری کے لیے وقف کر کے اپنی دھرتی ماں کا قرض چکا گئے ہیں۔  ان کی المناک موت پر ہم ایک منٹ کی خاموشی اختیار کریں گے تاکہ ہم سندھ دھرتی کے مہان کوی کا قرض اتار سکیں۔  آپ سے استدعا ہے کہ ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے تاکہ ہم یہ ثابت کر سکیں کہ ہم مردہ پرست نہں ہیں۔ ‘‘

یہ کہ کر اسٹیج سیکریٹری نے جیب سے موبائیل فون نکال کر وقت کی رفتار کو دیکھنا شروع کیا، ہال میں خاموشی چھا گئی۔  ایک منٹ سے پہلے ہی اسٹیج سیکریٹری کے موبائیل فون کی گھنٹی بجی اور سارے ہال کی خاموشی ٹوٹ گئی۔

 

 

 

 

 نوکری اور فارملٹی

 

 

ٹرن۔۔ ۔  ٹرن۔۔ ۔  ٹرن۔۔ ۔

جی سر!

باقی کون ہے ؟

ایک لڑکا بیٹھا ہوا ہے۔

ٹھیک ہے اس کو اندر بھیج دو۔

بہتر سر!

مگر ٹھہرو۔

یس سر!

میں گھر فون پر بات کر لوں، آدھا گھنٹے کے بعد اسے اندر بھیجنا۔

جی سر!

صاحب مصروف ہیں، تھوڑا انتظار کریں۔

ٹرن۔۔ ۔  ٹرن۔۔ ۔  ٹرن۔۔ ۔

جی سر!

بھیجو۔

May I come in sir?

Yes

شکریہ

سر یہ میرے ڈاکیومینٹ ہیں

Ok

تعلیم

سر ایم اے سندھی فرسٹ کلاس

پر بابا ہم نے تو انٹر پاس کے لیے اشتہار دیا تھا۔

آپ بالکل درست فرما رہے ہیں سر۔

پھر

سر میں انٹر بھی پاس ہوں

ہوشیار لگ رہے ہو

سر اس میں ہوشیاری کی کیا بات ہے

اچھا اچھا یہ بتاؤ

جی سر

سوال تو سوچنے دو۔  ہاں یاد آیا، بتاؤ مور انڈا دیتا ہے یا بچہ؟

سر مور

ہاں بابا مور

سر مور نر ہے، یعنی مرد وہ انڈا یا بچہ کہاں سے دے گا؟

تم الٹا میرا سوال میرے اوپر تھونپنا چاہتے ہو، میں کوئی جاہل ہوں مجھے پتہ نہیں ہے۔

سر میں نے یہ کب کہا کہ ّآپ نہیں جانتے مگر میں وضاحت کر رہا تھا۔

نام کیا ہے ؟

سر ڈاکیومینٹ میں لکھا ہوا ہے، جو کہ آپ کے سامنے پڑے ہوئے ہیں۔

ٹائیپنگ جانتے ہو؟

مگر سر

کبھی تو ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

مگر سر آپ نے اشتہار میں ٹائیپنگ کا ذکر تو نہیں کہا۔

بھرحال اب تو تمہیں پتہ چل گیا ہے نا

جی سر!

اب جا سکتے ہو۔

سر نتیجہ۔

ارے بابا رزلٹ پوچھ کر کیا کرو گے، جاؤ گھر بیٹھ جاؤ یہ صرف فارملٹی ہے۔

 

 

 

 

 مرد کی حیا

 

اس نے کہا، اب رات کو نیند بھی نہیں آتی، کروٹیں بدل بدل کر تھک جاتی ہوں۔

کیوں ؟میں نے پوچھا

آنکھیں بند کرتی ہوں تو وہ چلا آتا ہے۔  اس نے کہا

کیا کرتا ہے تمہیں ؟ میں نے پوچھا

صرف دیکھتا ہی رہتا ہے۔  اس نے کہا

میں نے کہا: پھر دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے ؟

اس نے کہا:  مجھے حیا آتی ہے۔

اس سے حیا کس بات کی؟ میں نے کہا

مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا۔  اس نے کہا

وہ تمہیں فقط دیکھتاہی تو رہتا ہے، ہاں اگر کچھ کرے گا بھی تو وہ تمہیں اپنی بانہوں میں بھر لے گا اور تمہارے گالوں پر ایک بوسہ دے گا، اور تمہارے گرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دے گا، اگر تم نے ان ہونٹوں کا مزہ لے لیا تو یہ حیا پیار میں بدل جائے گا۔

تو یہ پیار ہے ؟ اس نے پوچھا

اور نہیں تو کیا! میں نے کہا

پھر تو ایسی حیا اس کو بھی آتی ہو گی؟

اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، کیونکہ میں بھی ایک عورت تھی مرد نہیں تھا۔

 

 

 

 

 آخری بوسہ

 

میری پیاری اماں، تو اب مجھے اجازت دے کہ میں اپنی دھرتی کے لیے جنگ کرنے جاؤں ؟

ماں کے آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے۔

اپنے بہادر جوان بیٹے کے منہ سے یہ سن کر اس کی گردن فخر سے اونچی ہو گئی۔

ماں نے لرزتی مگر گرجتی آواز سے کہا، جاؤ بیٹا !اپنی دھرتی کے لیے جنگ کرو، ہاں ایک بات یاد رکھنا، گولی سینے پر کھانا، اگر گولی پیٹھ پر لگی تو میں تجھے دودھ نہیں بخشوں گی۔

یہ کہ کر ماں نے اپنے جوان بیٹے کے ماتھے پر آخری بوسہ دیا اور جب اس کے بیٹے کی لاش آئی تو اس کا سارا جس م گولیوں سے چھلنی تھا، مگراس کی پیٹھ پر ایک بھی گولی نہیں تھی۔

 

 

 

 

 وفادار کتا

 

بات تو معمولی سی تھی، مگر وقت کا چرخہ ایسا چلا تھا کہ بیٹے کے ہاتھوں میں بندوق تھی اور سینہ اس کے باپ کا تھا۔  دونالی بندوق کے دونوں کارتوس باپ کا سینہ چیرتے ہوئے سوراخ کر کے دوسری اور آر پار ہو گئے۔  باپ کو تڑپنے کا موقع بھی نہیں ملا۔  ایک ہی پل میں وہ ٹھنڈا ہو گیا۔  یہ منظر اس کی ماں اور بیوی دونوں دیکھ رہی تھیں، مگر کچھ کرنے کے بس میں نہیں تھیں۔  مگر گھر کا وفادار کتا جو کہ اس کے باپ نے ہی پالا تھا، مالک کے مرنے کا صدمہ سہ نہیں سکا اور اسی رات مر گیا۔

 

 

 

 

 کرودھی

 

کئی سالوں سے وہ اکیلا ہے، تہمینہ سے عشق کیا، مگر وہ اس کے عشق کی ریاضت کو سجھ نہ سکی۔  زندگی میں کورا کاغذ ہی رہ گیا۔  کچھ دن پہلے تہمینہ اسے بازار میں مل گئی۔  مل کر ایک ہوٹل میں دونوں نے کافی پی۔  اچانک تہمینہ نے اسے عشق میں ناکامی کا سبب بتایا، یوں لگا جیسے اس پر الزام لگا رہی تھی۔

’’جمال! جتنا تم پیار کرتے ہو اتنا پیار لینا بھی جانتے ہو، جس کو تم پیار کرتے ہو وہ تمہارے دیے ہوئے پیار سے تنگ ہو کر تمہیں چھوڑ جاتی ہیں، تم پیار میں بڑے کرودھی ہو۔ ‘‘

 

 

 

 

 ضدی بچہ

 

پیار کرکر کے اس نے مجھے پیار کرنا سکھا دیا، جب پیار کرنا سیکھ لیا تو میں نے بھی اس سے پیار کرنا شروع کر دیا اور اس سے پیار کرنے کی ضد کر بیٹھا اس نے مسکرا کر کہا۔

پاگل! پیار کرنے کی ضد مجھ سے مت کرو، مجھے پیار کرنا نہیں آتا، پیار سکھانا آتا ہے۔

 

 

 

 

 انسان بنا رہا ہوں

 

کیا کر رہی ہو؟

پاگل، آدمی بنا رہی ہوں۔

کیسے ؟

جیسے میں اور تم بنائے گئے ہیں۔

وہ کیسے ؟

دیکھو اس طرح۔

یہ غلط کام ہے۔

یہ غلط ہے یا صحیح مگر میں اور تم ایسے ہی بنائے گئے ہیں۔

مطلب!

مطلب تمہارا باپ اور ماں اور پھر میرا باپ اور میری ماں آپس میں ملے تو میں اور تم تخلیق ہو گئے۔

تم میں تو ذرا بھی شرم نہیں، تم میرے اور اپنے والدین کے لیے ایسے گندے الفاظ کہہ رہے ہو۔

پیاری، یہ حقیقت ہے، ناراض کیوں ہوتی ہو؟

نہیں یہ حقیقت نہیں بے حیائی ہے، میں تم جیسے بے شرم کے ساتھ رہ نہیں سکتی۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل