FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

آخری گیت اور دیگر افسانے

 

 نینا پال کے نمائندہ افسانے

 

 

انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

فہرست

 

نینا پال کا مختصر تعارف.. 3

 

ایسا کیوں. 4

پرانا پیکیج 30

آخری گیت.. 43

سگریٹ بجھ گئی. 68

کاغذ کا ٹکڑا 91

دوہرا بندھن. 117

 

 

 

 

 

نینا پال کا مختصر تعارف

 

نینا پال، ہندی کی ایک مشہور ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعرہ ہیں۔ آپ تیس جون ۱۹۵۰ء میں انبالہ، مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئیں۔  آجکل آپ لیسٹر، انگلینڈ میں مقیم ہیں۔  آپ کا جتنا کام ابھی تک سامنے آ چکا ہیں ان میں ناولوں میں رہائی، تلاش، کچھ گاؤں گاؤں کچھ شہر شہر، کہانیاں کے مجموعات میں اٹھکیلیاں، فاصلہ ایک ہاتھ کا، شرافت وراثت میں نہیں ملتی اور شاعری میں کسک، نعمت، انجمن اور ملاقاتوں کا سفر نامی مجموعے شامل ہیں۔  آپ کی ادبی خدمات پر آپ کو پرمانند سنہا سمان اور سمترا کماری سنہا سمان سے نوازا گیا ہے۔

 

 

 

 

ایسا کیوں

 

گاڑی چلنے ہی والی تھی کہ وہ بھاگتی ہوئی آ کر اس پر چڑھ گئی۔  ڈبے میں آ کر وہ ڈری ہوئی سی چھپ چھپ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، جیسے کسی سے بچنے کی کوشش کر رہی ہو۔

ایک دس گیارہ سال کی معصوم سی بچی، جس کے کندھے سے اسکول بیگ لٹک رہا ہے اور اس نے اسکول کی یونیفارم پہن رکھی ہے۔  صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ لڑکی گھر سے بھاگ کر کہیں جا رہی ہے۔

جب گاڑی نے رفتار پکڑ لی تو اس بچی نے ایک لمبی سانس لی۔  اسکول بیگ کو اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کس کر سینے سے لگا لیا۔  ذرا سی بھی آواز ہوتی تو وہ گھبرا جاتی۔  کسی کے قدموں کی آہٹ سنتی تو اپنے بیگ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی۔  شاید اسے اب بھی یہ ڈر تھا کہ کہیں کوئی اسے پہچان نہ لے۔  اسکول بیگ کو ایسے سینے سے دبوچا ہوا تھا، جیسے کوئی ڈرا ہوا بچہ اپنی ماں کے سینے سے لگ کر خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔

جب اسے یقین ہو گیا کہ اب یہاں کوئی نہیں آ سکتا تو وہ لمبی سانس کھینچ کر سیٹ پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔  لیکن اب بھی کوئی اس کے پاس سے گذرتا تو وہ چونک جاتی۔

سامنے والی سیٹ پر ایک ادھیڑ عمر کی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔  وہ بہت دھیان سے اس لڑکی کی حرکتیں دیکھ رہی تھی۔  شاید وہ اس کی گھبراہٹ سمجھ رہی تھی۔  اس عورت نے چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھ لیا تھا کہ اس لڑکی کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔  صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لڑکی گھر والوں کی اجازت کے بغیر کہیں جا رہی ہے۔  آخر کیا مجبوری ہو سکتی ہے جو اس چھوٹی سی عمر میں اس بچی نے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا ہے۔  اتنے چھو ٹی بچی کا اکیلے سفر کرنا۔  وہ عورت سوچنے لگی کہ مجھے باتوں میں لگا کر اس سے پوچھنا ہو گا کہ یہ کہاں جا رہی ہے۔

اس لڑکی کی نظریں جیسے ہی اپنے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی عورت سے ٹکرائیں تو وہ عورت ہولے سے مسکرا دی، جسے دیکھ کر اس لڑکی نے جھینپ کر نظریں جھکا لیں، گویا کوئی چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی ہو۔

بچی کی طرف دیکھتے ہوئے اس عورت کو تین چار دن پہلے کا ایک حادثہ یاد آ گیا۔  یہ سامنے بیٹھی عورت ایک سو شل ورکر رہے۔  یہ ایک سمیرٹین گروپ میں بھی کام کرتی ہے۔  سمیرٹین ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے پیاروں سے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے کام کرتی ہے۔  بالخصوص ظلم سہنے والے وہ بچے جو کسی سے بھی دل کی بات بتانے سے قاصر ہوتے ہیں، پھر ہار کر غلط قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔  کبھی کبھار تو ان کا چھوٹا سا دماغ خود کو ہی ان سب کا سبب سمجھنے لگتا ہے۔

آپ سمیرٹین گروپ کے کسی بھی ممبر سے مل نہیں سکتے۔  باہمی بات چیت صرف ٹیلیفون ہی سے ممکن ہے۔  اس لیے اکثر وہ لوگ جو کسی اور سے اپنے دل کی بات نہیں بتا سکتے، وہ بلا جھجھک ان سے بات کر کے اپنے دل کا بوجھ کم کر لیتے ہیں۔  اس ادارے کے رکن اپنوں سے ستائے ہوئے بچوں کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

اس عورت کو دو تین دن پہلے ہی ایک ڈری سہمی لڑکی کا فون آیا تھا۔  ’’ہیلو ‘‘ عورت نے اسپیکر اٹھا کر کہا۔

دوسری طرف سے تیز تیز سانسیں لینے کی آوازیں تو آ رہی تھیں، مگر کوئی بولا نہیں۔  شاید کوئی، بات کرنے کے لیے ہمت جمع کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔  اس سے پہلے کہ وہ گھبرا کر فون نہ کاٹ دے، وہ عورت بڑی نرم آواز سے بولی۔  ’’دیکھئے، آپ گھبرائیے نہیں۔ آپ جو کوئی بھی ہیں، ہم آپ کو نہیں دیکھ سکتے۔  اس لیے جو بات کہنی ہے، بلا جھجھک مجھ سے کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘

دوسری طرف سے ایک بچی کی سسکتی سی، سست آوازآئی۔  ’’ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘

’’کیوں بیٹا آپ کو کس بات سے ڈر لگ رہا ہے ؟‘‘

دوسری طرف سے پھر خاموشی چھا گئی۔

’’آپ اندھیرے سے ڈرتی ہیں ؟‘‘ خاتون نے پیار سے پوچھا۔

’’وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔  وہ مجھے ہرٹ کرتا ہے۔ ‘‘ ایک روہانسی سی آواز آئی۔

’’آپ کی ممی ہیں نا۔  آپ ان سے بات کریں۔ ‘‘ عورت نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں ماں میری بات نہیں مانیں گی۔  مجھے ہی مارے گی، وہ ماں کا بوائے فرینڈ ہے۔ ‘‘ بچی کی سہمی سی آواز آئی۔

اس خاتون کا ما تھا ٹھنکا، ’’اور کیا کہتا ہے وہ آپ سے بیٹا؟‘‘

’’وہ گندی چیزیں کرتا ہے۔  جب وہ مجھے کِس کرتا ہے تو بالکل اچھا نہیں لگتا۔  وہ کہتا ہے کہ میں نے ممی کو کچھ بتایا تو وہ مجھے اور میری ماں دونوں کو قتل کرد ے گا۔  وہ بہت برا ہے۔  میں گھر سے بھاگ جاؤں گی۔ ‘‘ وہ لڑکی روتے ہوئے بولی۔

’’دیکھو بیٹے، میری بات توجہ سے سنو۔  تم کتنے سال کی ہیں اور کہاں سے بول رہی ہیں ؟‘‘

اس سے پہلے کہ وہ عورت اس بچی کو باتوں میں الجھا کر کچھ کر پاتی، ادھر سے گھبرائی ہوئی آواز آئی۔  ’’وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے ادھر آ رہا ہے۔ ‘‘ اور فون بچی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

’’اچھا تو تم یہاں چھپی بیٹھی ہو۔  میں کہاں کہاں تمہیں ڈھونڈ کر آ رہا ہوں۔  مجھ سے بچنا اتنا آسان نہیں ہے جینی۔ ‘‘ کسی مرد کی بھدی ہنسی کی آواز آئی، ’’چلو گھر۔ ‘‘

’’نہیں میں گھر نہیں جاؤں گی۔ ‘‘ وہ لڑکی روتے ہوئے بولی۔  پھرزوردار چانٹے کی آواز اور چیخ سنائی دی۔

چونکہ رسیور لٹکا ہوا تھا، اس لئے ادھر بیٹھی عورت سب کچھ سن رہی تھی۔  مگر وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی۔  بس اس کے دوبارہ فون کرنے کا انتظار کرنے لگی۔  لیکن دوبارہ فون نہیں آیا۔

جینی بیٹھے بیٹھے اس حادثے میں کھو گئی، جب وہ مدد کیلئے کسی کو فون کر رہی تھی، تبھی ڈیوڈ اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ گیا تھا۔  وہ اسے کیسے جانوروں کی طرح کھینچ رہا تھا۔

فون بوتھ سے اسے باہر کھینچ کر ڈیوڈ نے غصے سے پوچھا، ’’کس کو فون کر رہی تھی؟‘‘

’’کسی کو بھی نہیں۔  تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے ؟‘‘

’’ابھی بتاتا ہوں کہ میں کون ہوتا ہوں ؟‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اندھیرے کونے کی طرف اسے گھسیٹ کر لے جانے لگا۔

اس کی گندی نیت سمجھ کر جینی نے زور سے اس کے ہاتھ پر کاٹا، پکڑ ڈھیلی ہوتے ہی وہ فوری طور پر گھر کی طرف بھاگی۔  ڈیوڈ بھی جینی کے پیچھے بھاگتا ہوا گھر میں گھسا۔  اس کے ایک ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا۔

’’ارے یہ تمہارے ہاتھ میں چوٹ کہاں سے لگی؟‘‘ جینی کی ماں سوزن نے جلدی سے پوچھا۔

’’کچھ نہیں چھوٹی سی چوٹ ہے۔ ‘‘

ڈیوڈ اپنے کمرے میں جاتے ہوئے بولا، ’’ذرا اپنی بیٹی سے پوچھو، اس وقت کس کو فون کر رہی تھی۔ ‘‘

’’اٹس نن آف یور بزنس۔ ‘‘ جینی، ڈیوڈ کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے بولی۔

’’جینی میں دیکھ رہی ہوں کہ تم کتنی بدتمیز ہوتی جا رہی ہو۔  یہ کون سا طریقہ ہے، ڈیوڈ سے بات کرنے کا؟ وہ تمہیں کتنا پیار کرتا ہے۔ ‘‘

’’مجھے اس کا ایسا پیار نہیں چاہیے۔  آئی ہیٹ ہم۔ ‘‘

’’خاموش۔ ‘‘ ایک زوردار چانٹا جینی کے منہ پر پڑا۔  ’’نہ جانے اس لڑکی کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔  چلوسیدھے اپنے کمرے میں جاؤ اور جب تک میں نہ کہوں باہر مت نکلنا۔ ‘‘

جینی روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔

’’بچوں پر اتنا نہیں بگڑتے سوزن۔  جینی ابھی چھوٹی ہے۔ ‘‘ ڈیوڈ نے آ کر سوزن کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’اس کا اتنا بھی لاڈ مت کرو ڈیوڈ کہ وہ بگڑ جائے۔ ‘‘ سوزن کا غصہ اب بھی کم نہیں ہوا تھا۔

’’چلو چھوڑو غصہ، تم کھانا لگاؤ میں اسے لے کر آتا ہوں۔ ‘‘

ڈیوڈ کے قدموں کی آواز سن کر جینی تیزی سے پلنگ کی دوسری طرف ہو گئی۔

’’جینی۔ ‘‘ ڈیوڈ، سوزن کو سناتے ہوئے باہر ہی زور سے بولتا ہوا جینی کے کمرے کی طرف بڑھا۔

’’چلو ڈارلنگ، آؤ کھانا کھائیں۔ ‘‘ جینی کو ڈارلنگ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

’’مجھے بھوک نہیں ہے۔ ‘‘ جینی تیزی سے بولی اور پلنگ کے دوسری طرف ہو گئی۔

’’دیکھو ڈارلنگ، کھانے پر غصہ نہیں اتارتے۔ ‘‘ ڈیوڈ بولتے ہوئے جینی کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔

اس چھوٹے سے کمرے میں جینی کہاں تک اس سے بچ سکتی تھی۔  اس نے ماں کو بلانے کے لیے جیسے ہی منہ کھولا، ڈیوڈ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔  ڈیوڈ نے آگے بڑھ کر جینی کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔  جینی اس کی مضبوط بانہوں میں تلملا رہی تھی۔  کہاں وہ چھوٹی سی دس سال کی بچی اور کہاں وہ چھ فٹ کا آدمی۔  وہ اس سے کس طرح مقابلہ کر سکتی تھی۔  ڈیوڈ نے جیسے ہی اپنا منہ نیچے کیا تو جینی نے اس کا گندہ ارادہ بھانپ کر اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں سے اس کا منہ نوچنے کی کوشش کی، مگر وہ بھدی سی ہنسی ہنستا رہا۔  ڈیوڈ نے لا کر جینی کو کرسی پر سوزن کے سامنے بٹھا دیا۔

’’دیکھو یہ تمہیں کتنا پیار کرتا ہے۔  اب تو یہ جلد ہی تمہارا ڈیڈی بننے والا ہے۔  بس پھر ہم ایک فیملی کی طرح رہیں گے ‘‘

’’ یہ میرا ڈیڈی نہیں بن سکتا.۔ ممی آپ نہیں جانتیں کہ یہ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’جینی۔ ‘‘ ڈیوڈ کی زوردار آواز آئی تو جینی کے ہاتھ سے چمچ گر گیا، ’’خاموشی سے اپنا کھانا کھاؤ اور جاؤ اپنے کمرے میں۔ ‘‘

جینی نے ڈرتے ہوئے جلدی سے تھوڑا سا کھاناکھایا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔

جینی کا دل بہت گھبرا رہا تھا۔  اب تو ڈیوڈ کی ہمت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔  وہ ماں کے سامنے ہی اس کے کمرے میں بے دھڑک آنے جانے لگا تھا۔  اپنی گھبراہٹ چھپانے کیلئے جینی نے ایک کتاب اٹھا کر اپنی توجہ دوسری طرف لگانے کی کوشش کی۔  نہ جانے کیوں وہ بہت ڈر رہی تھی، کاش وہ ممی کو سب کچھ بتا سکتی۔

جینی کو آج دادی ماں کی بہت یاد آ رہی تھی۔  اگر دادی ماں ہوتیں تو ڈیوڈ جیسے درندے سے بچا لیتیں۔ جینی نے اپنا دروازہ اندر سے بند کیا اور کپڑے بدل کر بستر پر لیٹ گئی۔  وہ کروٹیں بدلنے لگی۔  ڈر کے مارے آج اسے نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔  ذرا سی آہٹ سے چونک کر دروازے کی طرف دیکھنے لگتی۔

آدھی رات گزر چکی تھی۔  جینی گہری نیند میں سو رہی تھی۔  دروازے پر ہلکی سی آواز سن کر اس کی نیند کھل گئی۔  کیا دیکھتی ہے کہ اندھیرے میں کوئی بڑی احتیاط سے اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔  ڈر کی وجہ سے جینی کی چیخ نکل گئی۔

چیخ سنتے ہی وہ پرچھائیں کمرے سے باہر بھاگ گئی۔  اتنے میں سوزن تیزی سے بیٹی کے کمرے کی طرف لپکتی ہوئی آئی، ’’جینی۔ ‘‘ وہ اس کے کمرے کی بتی جلاتے ہوئے بولی، ’’کیا بات ہے ؟‘‘

جینی کس کر رضائی اپنے ارد گرد لپیٹ کے بستر پر بیٹھی کانپ رہی تھی۔  اس کے چہرے کا رنگ سفید چادر سا ہو رہا تھا۔  ماں کو دیکھتے ہی وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولی، ’’مما وہ یہاں آیا تھا؟‘‘

’’کون، کون آیا تھا؟‘‘ اس سے پہلے کہ جینی کچھ کہتی، ڈیوڈ کمرے میں آ گیا۔  اس نے آتے ہی پوچھا، ’’کیا ہوا سوزن یہ چیخ کی آواز کس کی تھی؟‘‘

’’شاید جینی نے کوئی برا خواب دیکھا ہے۔ ‘‘

’’جینی آر یو آل رائٹ ڈارلنگ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈیوڈ آگے بڑھا اور محبت سے جینی کا چہرہ چھونے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو جینی نے جلدی سے رضائی کو درمیان میں کر دیا۔

’’دور رہو۔  میرے پاس مت آنا۔ ‘‘ وہ روتے ہوئے بولی، ’’مما اسے بولو میرے کمرے سے باہر چلا جائے۔ ‘‘

’’جینی۔ ‘‘ماں کی زور سے بولی، ’’ابھی معافی مانگو ڈیوڈ سے۔  میں اب تمہاری بدتمیزی اور برداشت نہیں کروں گی۔ ‘‘

’’چھوڑو سوزن بچی ہے۔ ‘‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’’نہیں اسے تمیز سکھانی ہی پڑے گی، ایسے نہیں چلے گا۔  ” سوزن غصے سے بولی، ’’چلو بہت ہو گیا تماشا۔ سو جاؤ اب۔ ‘‘سوزن کمرے سے باہر جانے لگی تو جینی گڑگڑاتے ہوئے بولی، ’’مما آپ آج میرے پاس سو جاؤ۔ ‘‘

’’ارے تم چھوٹی سی بچی نہیں ہو۔  دو دن کے بعد تم گیارہ سال کی ہو جاؤ گی۔  مجھے اور ڈیوڈ کو کل کام پر بھی جانا ہے۔  اب تم آرام سے سو جاؤ۔  پہلے ہی ہماری کافی نیند خراب ہو چکی ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر سوزن، ڈیوڈ کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

جینی کو اس کے بعد نیند نہیں آئی۔  اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کیں، ڈیوڈ کمرے میں آ جائے گا۔  جینی نے سوچا کہ اگر ممی نے ڈیوڈ سے شادی کر لی تو پھر اس کے لیے اور بھی مشکل ہو جائے گی۔  شیر جب ایک بار خون کا ذائقہ چکھ لیتا ہے تو وہ بار بار خون کرتا ہے۔  ڈیوڈ کے خطرناک ارادوں سے جینی کو بہت ڈر لگنے لگا تھا۔  وہ اسی کشمکش میں تھی کہ کسے بتائے اور کس طرح بتائے۔

جینی نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کیا۔  اس نے سوچا کہ وہ ایک ہی گھر میں ڈیوڈ کے ساتھ رہ کر محفوظ نہیں رہ سکتی۔  اب اس کا گھر سے دور چلے جانا بہت ضروری ہو گیا تھا۔  اسے ایک دم اپنی آنٹی کا خیال آیا۔  اس کے ڈیڈی کی بہن، جو لیورپول میں رہتی ہیں، وہ ضرور اس کی مدد کریں گی۔  یہی سوچ کر وہ لیورپول کے لیے اکیلی ہی چل پڑی۔  جب ایک جھٹکے کے ساتھ گاڑی اسٹیشن پر رکی توجینی اپنے خیالوں سے جاگی۔  لوگ گاڑی سے اترنے اور چڑھنے لگے۔  اس نے جلدی سے سامنے کی سیٹ پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ وہ عورت اب بھی اپنی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔  جینی گھبرائی سی ادھر سے اُدھر دیکھ رہی تھی۔  اس عورت نے مسکرا کر جینی سے پوچھا، ’’آپ کہاں جا رہے ہو بیٹا؟‘‘

’’لیورپول۔ ‘‘اس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔

’’اتنی دور آپ اکیلے ہی جا رہے ہو؟‘‘

جینی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

کچھ سوچتے ہوئے عورت نے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور دو سینڈوچ نکال کر اسے جینی کی طرف بڑھا کر بولی، ’’سینڈوچ کھاؤ گی؟‘‘ جینی نے للچائی نظروں سے سینڈوچ کی طرف دیکھا اور پھرنفی میں سر ہلا کر پلکیں جھکا لیں۔

’’لے لو، دیکھو میں بھی کھا رہی ہوں۔ ‘‘ عورت نے پیار سے کہا۔

بچی نے تھینک یو کہہ کر سینڈوچ لے لیا۔  سینڈوچ کھا کر عورت نے کہا "میرا نام ورُونیکا ہے۔  آپ کا نام کیا ہے بیٹا؟‘‘

’’جی جینی۔ ‘‘اس نے پہلی بار مسکرا کر جواب دیا۔  اب اس کا خوف شاید کچھ کم ہو رہا تھا۔

’’لیورپول آپ کس کے پاس جا رہی ہیں ؟‘‘

’’اپنے ڈیڈی کی سسٹر کے پاس۔ ‘‘اب وہ تھوڑا کھلنے لگی تھی۔

’’آپ پہلے کبھی …‘‘ بات پوری ہوتی، اس سے پہلے ہی ٹی ٹی آ گیا ٹکٹ چیک کرنے۔

جب ٹی ٹی، جینی کے پاس آیا تو اس نے ڈرتے ہوئے جیب سے ٹکٹ نکال کر کانپتے ہاتھوں سے آگے بڑھا دیا۔

ٹی ٹی نے ایک نظر اس کے اسکول یونی فارم اور بیگ پر ڈال کر کہا، ’’تمہیں اس وقت اسکول میں ہونا چاہئے تھا، ینگ لیڈی۔ ‘‘پھر پلٹ کر سامنے بیٹھی ورُونیکا کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ’’یہ لڑکی آپ کے ساتھ ہے ؟‘‘

ورُونیکا آہستہ سے مسکرا دی تو ٹی ٹی آگے بڑھ گیا۔  جینی نے ایک بار پھر اسکول بیگ کو سینے کے ساتھ مضبوطی سے لگا لیا اور ڈری نظروں سے ورُونیکا کو دیکھنے لگی۔

جب ٹی ٹی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تو ورُونیکا نے جینی سے سوال کیا، ’’جینی آپ جانتی ہیں کہ لیورپول میں آپ کی آنٹی کہاں رہتی ہیں ؟‘‘

’’جی میرے پاس آنٹی کا پتہ ہے۔ ‘‘وہ بھولپن سے بولی، ’’آنٹی بہت اچھی ہیں۔  میرے ہر برتھ ڈے پر مجھے کارڈ اور پیسے بھیجتی ہیں۔ ‘‘ جینی نے خوش ہو کر کہا۔

اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی ورُونیکا بولی، ’’ایک بات بتاؤ جینی، تمہیں ٹکٹ کس طرح ملا۔  چھوٹے اور اکیلے بچے کو کوئی ٹکٹ فروخت نہیں کرتا، پھر تم نے اس گاڑی کا ٹکٹ کس طرح خرید لیا؟‘‘

جینی پہلے تو جھجکی، پھر آہستہ سے بولی، ’’میں نے جھوٹ بول کر لیا ہے۔  ایک بوڑھی عورت ٹکٹ خرید رہی تھیں۔  میں نے اس سے کہا کہ میری ممی چھوٹے بھائی بہن کے ساتھ وہاں بیٹھی ہیں۔  وہ میرا ٹکٹ لینا بھول گئی ہیں، تو پلیز آپ میرے لئے ٹکٹ لے لیجیے۔  وہ عورت جلدی میں تھیں۔  انہوں نے مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا اور ٹکٹ لے کر دے دیا۔ ‘‘جینی نے اتنے بھولپن سے بتایا کہ ورُونیکا ہنس دی۔

’’جینی آپ کی آنٹی جانتی ہیں کہ آپ ان کے پاس آ رہی ہیں ؟‘‘ ورُونیکا نے پوچھا تو جینی نے نہ میں سر ہلا دیا۔

ورُونیکا سوچ میں پڑ گئی کہ یہ لڑکی خود نہیں جانتی کہ کہاں جا رہی ہے۔  کہیں یہ غلط لوگوں کے ہاتھ میں نہ پڑ جائے۔  مجھے اس کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔

ادھر جینی سوچ رہی تھی کہ یہ عورت میری کچھ نہیں لگتی مگر اس کی آواز میں کتنی مٹھاس ہے۔  یہ کتنے پیار سے باتیں کرتی ہے، بالکل دادی ماں کی طرح۔

دادی ماں کی یاد آنے سے جینی کی پلکیں بھیگ گئیں۔

ورُونیکا بہت محتاط اندازسے جینی کے چہرے پر تبدیل ہوتے جذبات کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔  اسے اس چھوٹی سی بچی پر ترس آ رہا تھا۔  ورُونیکا نے دھیرے سے جینی سے پوچھا تو وہ چونک گئی۔

’’جینی، ممی کو نہیں معلوم کہ آپ آنٹی سے ملنے لیورپول جا رہی ہو؟‘‘ جینی نے بسورتے منہ سے نفی میں سر ہلا دیا۔  صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ کتنی ڈری ہوئی ہے۔

ورُونیکا کو اب پورا یقین ہونے لگا کہ یہ وہی لڑکی ہے، جس نے دو تین دن پہلے اسے فون کیا تھا۔

’’آپ کے ڈیڈی ہیں جینی؟‘‘ ورُونیکا نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔

’’ممی ڈیڈی کی بہت پہلے طلاق ہو چکی ہے۔  ڈیڈی بہت اچھے ہیں۔  وہ دوسری شادی کر کے دبئی چلے گئے ہیں۔ ‘‘پھر وہ کچھ اداس ہو کر بولی، ’’مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا، کوئی نہیں چاہتا۔  ماں ہر وقت ڈانٹتی اور مارتی رہتی ہیں۔  کبھی دوسرے بچوں کی ممی کی طرح محبت نہیں کرتیں۔ ‘‘جینی آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔  پھر ایک لمبی سانس کھینچ کر اس نے آہستہ سے کہا، ’’ممی کے پاس بوائے فرینڈ ہے۔  وہ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔  معلوم ہے ورُونیکا آج میری سالگرہ ہے۔  میں پورے گیارہ سال کی ہو گئی ہوں۔ ‘‘

’’پیدائش کا دن مبارک ہو جینی۔  اب تو آپ بڑی اور سمجھدار ہو گئی ہیں نا۔ ‘‘ورُونیکا، جینی کا ڈر ہٹا کر اس کا اعتمادپانا چاہتی تھی۔  ورُونیکا پکا کرنا چاہتی تھی کہ یہ وہی ٹیلیفون والی لڑکی ہے، تاکہ وہ اس کی کچھ مدد کر سکے۔

’’اور کیا کہتا ہے بیٹا ڈیوڈ آپ سے ؟‘‘ ورُونیکا نے پیار سے پوچھا۔

"ڈیوڈ نے آج صبح ہی مجھ سے کہا کہ اب میں بڑی ہو گئی ہوں۔  وہ مجھے ایک خاص تحفہ دے گا۔  جو ہم دونوں کی سیکرٹ بات ہو گی۔  اگر میں نے ممی کو نہیں بتایا تو وہ اور بھی تحفے دے گا۔  مجھے اس کے تحفے نہیں چاہئے۔  وہ گندہ ہے۔  مجھے ہرٹ کرتا ہے۔ ‘‘جینی آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔

’’آنٹی سے کب بات ہوئی تھی آپ کی جینی؟‘‘ورُونیکا کی گمبھیر آواز آئی۔

’’ آنٹی نہیں جانتی کہ میں آ رہی ہوں۔ ‘‘وہ ڈرتے ہوئے بولی۔

’’ہوں۔ ‘‘ورُونیکا نے سوچا جیسے بھی ہو اسے اس ڈیوڈ جیسے درندے سے بچا نا ہو گا۔  اس سے بچنے کے چکر میں یہ کہیں کسی اور غلط ہاتھوں میں نہ پڑ جائے۔  مجھے اس کے لیے کچھ کرنا ہو گا اور وہ بھی جلدہی۔  اس وقت ورُونیکا کا پیشہ ورانہ دماغ تیزی سے سوچ رہا تھا۔

گاڑی تیز رفتار سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔  ورُونیکا نے سوچا کہ لیورپول پہنچنے سے پہلے ہی کچھ لوگوں کو مطلع کر کے ان کی مدد حاصل کرنی ہو گی۔

’’جینی کافی پیو گی بیٹا؟‘‘ جینی سونی آنکھوں سے ورُونیکا کی طرف دیکھ کر سوچنے لگی۔  یہ عورت کتنی اچھی ہے۔  میری ماں ایسی کیوں نہیں ہے۔  اسے سوچ میں دیکھ کر ورُونیکا نے کہا، ’’جینی تم میرے سامان کا خیال رکھنا، میں ابھی کافی لے کر آئی۔‘‘

جینی سے دور ہوتے ہی ورُونیکا نے سوشل سروس کو، پھر پولیس کو فون کر کے ساری اطلاع دے دی۔  اگلا اسٹیشن لیورپول ہی تھا۔  جینی کو ان سب کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ چلا۔

جیسے جیسے لیورپول قریب آ رہا تھا، ویسے ویسے جینی کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہونے لگی۔  یہ سوچ کر اس کا دل بیٹھنے لگا کہ وہ لیورپول میں کسی کو بھی نہیں جانتی۔  اگر آنٹی اس پتے پر نہ ملیں تو۔  اگر انہوں نے مجھے اپنے گھر رکھنے سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا۔  اس کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ گھر واپس جا سکے۔

جینی یہی سوچ کر پریشان ہونے لگی کہ ماں ویسے ہی اس سے محبت نہیں کرتی، اگر ناراض ہو کر گھر سے نکال دیا تو وہ کہاں جائے گی۔  گھر میں رہتی ہے تو ڈیوڈ کے چنگل سے نہیں بچ سکتی۔  ممی، ڈیوڈ سے محبت کرتی ہیں۔  وہ تو ڈیوڈ کی جھوٹی باتوں پر یقین کر کے مجھے ہی مجرم ٹھہرائے گی۔  چھوٹی سی بچی اور اتنی بڑی سوچ۔  جینی کا پورا جسم زور سے کانپ گیا۔  خوف سے اس کا گورا رنگ اور بھی سفید پڑنے لگا تھا۔

ورُونیکا، جینی کے دل کی حالت سمجھ رہی تھی۔  وہ ایک عورت کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی ہے، بچپن میں وہ بھی اپنوں کا شکار ہو چکی ہے۔  کئی بار گھر میں رہنے والے درندے ہی نہیں چھوڑتے۔  معصوم سی بچیاں خوف اور شرم کے مارے گھر میں کسی سے کچھ نہیں کہہ پاتیں۔

ورُونیکا نے پیار سے جینی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک کر بڑی معصوم نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔  اس وقت وہ ڈرے ہوئے چڑیا کے ایسے بچے کی مانند لگ رہی تھی، جس پر بلی بس جھپٹٹا مارنے ہی والی ہو۔  جینی کی آنکھوں میں ورُونیکا کو ایک درد اور خوف دکھائی دیا، جس کا کبھی اس نے بھی تجربہ کیا تھا۔

ورُونیکا بڑے پیار سے بولی، ’’گھبراؤ مت بیٹا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ورُونیکا کی ہمدردی سے بھرپور آواز سن کر جینی سسک کر رو پڑی۔  ورُونیکا نے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ طوفانی پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔

جینی بڑی اداس آواز میں بولی، ’’مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔  ممی ڈیوڈ سے کیوں شادی کر رہی ہے۔  وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔  ممی یہ سب کیوں نہیں سمجھتی۔ ‘‘

’’ہم آپ کی ممی کو سمجھائیں گے۔ ‘‘

ورُونیکا کی بات سن کر جینی تیزی سے بولی، ’’نہیں نہیں ممی مجھے بہت ڈانٹے گی کہ کسی اجنبی کے ساتھ میں نے گھر کی بات کیوں کی۔  پلیز آپ ان سے کچھ نہ بتائیں۔‘‘

گاڑی جیسے ہی لیورپول اسٹیشن پر رکی۔  جینی اپنا بستہ سینے سے لگائے گاڑی سے نیچے اتر کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔  ورُونیکا اس کے پیچھے ہی تھی۔  جینی جب اور لوگوں کے پیچھے آگے بڑھنے لگی تو پیچھے سے ورُونیکا کی آواز آئی، ’’ذرا رکو جینی۔ ‘‘ورُونیکا کی آواز میں ایک ایسا بھاری پن تھا کہ جینی وہیں ٹھٹک گئی اور سوالیہ نظروں سے ورُونیکا کی جانب دیکھنے لگی۔

اتنے میں دو خواتین نے آ کر ورُونیکا کو اپنا تعارف کرایا۔  یہ سادہ وردی میں پولیس کی خواتین تھیں۔

’’سوشل سروس سے کوئی نہیں آیا؟‘‘ ورُونیکا نے پوچھا۔

’’جی آج جمعہ ہے۔  ہمیں یہی کہا گیا ہے کہ آپ سے زیادہ اچھے طریقے سے اسے کون سنبھال سکتا ہے۔  اگر ضرورت پڑی تو پیر کو آپ کی مدد کے لئے کوئی آ جائے گا۔ ‘‘

’’ہوں۔ ‘‘ورُونیکا نے کچھ سوچتے ہوئے جینی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’جینی بیٹا، آپ کے پاس جو آنٹی کا پتہ ہے وہ ذرا دکھائیں۔ ‘‘

جینی تھوڑا گھبرا گئی تو ورُونیکا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے بولی، ’’ڈرو مت جینی۔  یہ جو سامنے خاتون کھڑی ہیں نا، یہ پتہ لگا کر بتائیں گی کہ آپ کی آنٹی اس ایڈریس پر ہیں کہ نہیں۔  نہیں تو تم اکیلی یوں ہی اس انجان شہر میں بھٹکتی رہو گی۔ ‘‘

جینی کچھ سوچنے لگی تو ورُونیکا آواز میں مٹھاس بھر کر بولی، ’’مجھ پر یقین ہے نا جینی۔  میں تمہیں کبھی نقصان نہیں پہنچاؤں گی، بس اتنا یقین رکھنا۔ ‘‘

جینی کچھ نہ بولی۔  بس ورُونیکا کی طرف دیکھتی رہی۔  اس نے خاموشی سے آنٹی کا پتہ جیب سے نکال کر ہاتھ آگے بڑھا دیا۔  جینی دل ہی دل سوچنے لگی۔  مجھے ورُونیکا پر یقین کرنا ہی ہو گا۔  میں ویسے بھی لیورپول میں کسی کو نہیں جانتی۔

یہ ڈیوڈ سے بچتے ہوئے اب میں اور کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔  اس کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو بھر آئے۔

ورُونیکا کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔  اس نے کچھ سوچتے ہوئے ان میں سے ایک پولیس خاتون سے کہا، ’’آئیے، میں اور جینی بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں جینی کے آنٹی کے پاس۔ ‘‘ پھر ورُونیکا نے دوسری پولیس خاتون کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ دیکھئے، آپ کسی ہوٹل میں ایک ڈبل کمرہ بک کر کے ہمیں فون کر دیجئے۔ ‘‘

جو پتہ جینی نے دیا تھا وہاں پہنچ کر پولیس خاتون نے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی۔

جینی کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔  وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتے ہوئے سوچنے لگی کے وہ اس کو رکھنے کیلئے مان جائیں۔  مگر ہر سوچنے والی بات پوری ہو جائے تو انسان نہ جانے کیا کچھ سوچنے لگے۔

گھنٹی کی آواز سن کر کسی عورت نے دروازہ کھولا اور حیرانی سے دیکھنے لگی۔

’’ آنٹی۔ ‘‘جینی خوشی سے چیختی ہوئی آنٹی کے گلے سے لپٹ گئی۔

آنٹی گھبرا کر بولی، ’’جینی آپ یہاں سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘

جینی روتے ہوئے بولی، ’’ آنٹی میں آپ کے پاس رہنے آئی ہوں۔  ماں کا بوائے فرینڈ گندہ ہے۔  میں وہاں نہیں رہوں گی۔ ‘‘

’’آپ لوگ اندر آئیے۔ ‘‘ آنٹی نے سنجیدہ آواز میں کہا۔

گھر کے اندر آ کر وہ جینی سے بولیں، ’’جینی آپ اندر جا کرا پنے بے بی کزن کے ساتھ کھیلو بیٹا۔ ‘‘

ورُونیکا نے جینی کے بارے میں جتنا جانتی تھی سب کچھ آنٹی کو بتا دیا۔

آنٹی نے کچھ سوچتے ہوئے گھمبیر ہو کر کہا، ’’یہ ایک یا دو ہفتوں کی بات ہوتی تو میں جینی کو ہنس کر اپنے پاس رکھ لیتی۔  دیکھئے میرے اپنے بھی تین بچے ہیں۔  میرا شوہر اتنا نہیں کماتا کہ وہ ایک اور بچے کی ذمہ داری لے سکے۔  پھر جینی کی ماں سوزن، وہ تو ہمیں چین سے نہیں رہنے دے گی۔  اس نے میرے بھائی کی ہی زندگی جہنم بنائی ہوئی تھی۔  میں جینی سے محبت کرتی ہوں۔  یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔  بٹ آئی ایم سوری۔  میں یہ کمٹمنٹ نہیں لے سکتی۔  ہمیں سوزن سے دشمنی بہت مہنگی پڑے گی۔ ‘‘

آخر جس بات کا ورُونیکا کو ڈر تھا وہی ہوا۔  صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ جینی کی آنٹی اس سے محبت کرتی ہے۔  وہ شاید اسے اپنے پاس رکھ بھی لیتی، مگر وہ اس کی ماں سوزن سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی۔  ان سب کے درمیان میں بے چاری جینی پس رہی تھی۔  جب ماں باپ کسی وجہ الگ ہو جاتے ہیں یا ان کی آپس میں نہیں بنتی تو اس کا اثر سب سے زیادہ بچوں پر ہوتا ہے۔  کبھی کبھی تو یہ معصوم بچے ماں باپ کے الگ ہونے میں خود کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور بڑوں کے معاشرے میں یہ ننھے دماغ الجھ کے رہ جاتے ہیں۔

جینی کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔  وہ سوچنے لگی کہ گھر تو چھوڑ آئی ہے، اب اتنے بڑے جہان میں وہ کہاں جائے گی۔  جینی نے من ہی من طے کر لیا کہ وہ مر جائے گی۔  مگر جس گھر میں ڈیوڈ جیسا شکاری رہتا ہے وہاں ہرگز نہیں جائے گی۔

بیتاب سی جینی، آنٹی کے گھر سے باہر آئی۔  ورُونیکا کی طرف آنسوؤں بھری نظروں سے دیکھ کر کہا، ’’ تھینک یو ورُونیکا۔ ‘‘ اور اپنا بیگ سینے سے لگائے چلنے لگی۔

’’کہاں جا رہی ہو جینی؟‘‘ ورُونیکا نے اسے روکتے ہوئے پوچھا۔

’’پتہ نہیں۔ ‘‘جینی نے پلکیں جھکائے روہانسی آواز میں کہا۔

جینی کو اداس اور کھوئی سی دیکھ کر ورُونیکا کو اس پر بہت ترس آ رہا تھا۔  اس وقت اس چھوٹی سی بچی کو ماں کی گود کی سخت ضرورت تھی۔  ورُونیکا بھی تو ایک ماں ہے۔  اس کا جی چاہ رہا تھا کہ بڑھ کر اس معصوم کو گلے سے لگا لے۔

وہ محبت سے بولی، ’’جینی دیکھو بیٹا، اسے کسی قسم کا دباؤ نہیں سمجھنا۔  میں سوشل سروس میں ایک اونچی پوسٹ پر کام کرتی ہوں۔  مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ تمہاری ملاقات کسی غلط انسان سے نہیں ہوئی بلکہ مجھ سے ہوئی ہے۔  میری ایک بیٹی ہے جو شادی کے بعد اپنے گھر میں رہتی ہے۔  میں اپنے چھوٹے سے گھر میں بس اکیلی رہتی ہوں۔  تم جب تک چاہو میرے ساتھ میرے گھر میں رہ سکتی ہو۔  وہاں تمہیں کسی طرح کی بھی تکلیف نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی ڈیوڈ جیسے شیطان کا خطرہ۔  اگر چاہو گی تو ہم تمہارے لئے کوئی اچھا سا ضرورت مند خاندان ڈھونڈ لیں گے، جہاں بچوں کی قدر ہو۔  تمہیں بھی تمہارے حصے کی محبت ملنی چاہیے بیٹا۔ ‘‘

جینی، ورُونیکا کی باتیں سن کر سسکتی رہی۔  اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔  ورُونیکا بھی اس کے لیے اجنبی ہے۔  اب اگر وہ یہاں سے بھاگے تو کہاں جائے۔  اتنے بڑے جہان میں کوئی بھی تو نہیں جس کے گلے لگ کر وہ رو سکے۔  مایوس ہو کر اس نے خود کو تقدیر کے حوالے کر دیا۔  بے بسی اس کی آنکھوں سے برس رہی تھی۔

کہتے ہیں نہ کہ جس کا کوئی نہیں ہوتا، اس کا خدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ کھول ہی دیتا ہے۔  ورُونیکا، جینی کو لے کر ہوٹل میں چلی گئی۔  ہوٹل میں آنے سے پہلے ورُونیکا نے ایک خاتون پولیس سے کہہ دیا تھا کہ جینی کی ممی اور اس کے بوائے فرینڈ کو ہوٹل میں آنے کا پیغام بھیج دو۔

ادھر جینی جب اسکول سے گھر نہیں آئی تو سوزن کو فکر ہونے لگی۔  اسے اب خیال آیا کہ جینی کچھ دنوں سے پریشان سی بھی لگ رہی تھی۔  پھر خود ہی اس خیال کو دل سے نکال دیا یہ کہہ کر کہ اس عمر میں لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہونا فطری ہوتا ہے۔

ڈیوڈ اپنے طریقے سے پریشان تھا.۔  اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جینی جیسی سیدھی سادی لڑکی کبھی گھر چھوڑ کر بھی بھاگ سکتی ہے۔  جینی اپنی زبان کھولے، اس سے پہلے اسے جینی کو تلاش کرنے ہی ہو گا۔  وہ ضرور یہیں کہیں اسی شہر میں ہو گی۔

ڈیوڈ کو گھر میں گھستے دیکھ کر سوزن نے کہا، ’’ڈیوڈ ابھی تک جینی نہیں آئی۔  کیا تمھارے ساتھ اس کی کوئی بات تو نہیں ہوئی۔  جب تم اسے اسکول چھوڑنے جا رہے تھے ؟‘‘

’’نہیں صبح تو وہ بہت خوش تھی۔  جب میں نے اس سے کہا کہ آج اسے ہم ایک بہت بڑا برتھ ڈے سرپرائز دینے والے ہیں۔ ‘‘

’’تو پھر وہ کہاں گئی؟ لگتا ہے ہمیں پولیس میں رپورٹ درج کرانی پڑے گی۔ ‘‘سوزن بولی۔

’’نہیں نہیں۔ ‘‘ڈیوڈ نے جلدی سے کہا، ’’پولیس کو کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ابھی اسے ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ ‘‘

ڈیوڈ الٹے قدم پھر گھر سے باہر چلا گیا۔

سوزن سوچنے لگی کہ جینی اس کی کچھ نہیں لگتی۔  پھر بھی یہ اس کا کتنا خیال رکھتا ہے۔  ادھر جینی ہے کہ اس سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی۔

ڈیوڈ کو اپنی جان کی پڑی تھی۔  اس لیے اس نے سوزن کو پولیس میں جانے کے لیے منع کیا تھا۔  اس کا شیطان دماغ سوچ رہا تھا کہ اگر جینی مل گئی تو وہ اسے اپنی قید میں رکھے گا اور ایسی جگہ چھپائے گا۔  جہاں کسی کو اس کا نشان تک نہ مل سکے۔  جینی صرف میری ہے۔  اسے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا، پولیس بھی نہیں۔

ڈیوڈ کے موبائل کی گھنٹی بجی تو اس کے خیالوں کو جھٹکا لگا۔

’’ہیلو ڈیوڈ، جینی کا پتہ چل گیا ہے۔ ‘‘ دوسری جانب سے سوزن کی آواز آئی، ’’وہ لیورپول میں ہے۔  اب وہاں جانا ہے اسے لینے کیلئے۔ تم کہاں ہو جلدی گھر آؤ۔‘‘سوزن ایک سانس میں سب کچھ کہہ گئی۔

چاہے سوزن بیٹی کو ڈانٹتی ہو، محبت نہ کرتی ہو مگر ہے تو اس کی ماں ہی۔  کبھی تو بیٹی کے درد سے دل میں تکلیف ہوتی ہو گی۔

جینی کی ممی اپنے بوائے فرینڈ ڈیوڈ کے ساتھ لیورپول میں بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچی۔ جینی کو دیکھتے ہی ڈیوڈ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں، جو ورُونیکا سے چھپا نہ رہ سکا۔

’’جینی مائی ڈارلنگ۔ ‘‘ڈیوڈ آگے بڑھا جینی کو گلے سے لگانے کے لیے۔  جینی سہم کر ورُونیکا کے پیچھے ہو گئی۔  یہ دیکھ کر سوزن کو اچھا نہیں لگا۔  تھوڑی دیر پہلے بیٹی کے لیے جوپیار دل میں امنڈ رہا تھا، اس کی جگہ غصے نے لے لی اور وہ تنک کر بولی، ’’دیکھا اس احسان فراموش کو۔  میں جانتی تھی یہ لڑکی کچھ نہ کچھ گل ضرورکھلائے گی۔ ‘‘ پھر اس نے سب کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے کہا، ’’ڈیوڈ اس کا باپ نہ ہو کر بھی اسے کتنا پیار کرتا ہے۔  یہ تو پیدا ہی ہمارا خون پینے کیلئے ہوئی ہے۔  دوسری طرف اس کا باپ ہے جس نے اسے کبھی پیارہی نہیں کیا۔ ‘‘

’’یہ سچ نہیں ہے، وہ مجھ سے پیار کرتے تھے۔  یہ تو آپ ان سے لڑتی رہتی تھیں اور نہ جانے کیا کیا جھوٹی سچی باتیں کر کے ان کا دل دکھاتی رہتی تھیں کہ میں ان کی بیٹی نہیں ہوں۔ ‘‘جینی روتے ہوئے بولی۔

’’محبت کرتا ہوتا تو میرے سر اپنی مصیبت پٹک کر نہ جاتا۔ ‘‘جینی کی ماں تنک کر بولی۔

’’چل بہت تماشا ہو چکا۔  ڈیوڈ تیرے لئے کتنا پریشان تھا۔  گھر چل، میں تجھے گھر سے بھاگنے کا مطلب سمجھاتی ہوں۔ ‘‘سوزن ہاتھ پکڑ کر جینی کو اپنی جانب کھینچنے لگی۔

جینی نے جھٹکے سے ہاتھ ماں کے ہاتھ سے چھڑایا اور رو کر بولی، ’’میں آپ لوگوں کو نہیں جانتی۔  آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔ ‘‘اور دور جا دیوار کی طرف منہ کر کے سسکنے لگی۔  ڈیوڈ یہ سب دیکھ کر محبت سے جینی کی جانب بڑھنے لگا تو ایک پولیس خاتون نے اسے وہیں روک کر کہا، ’’آپ نے شاید سنا نہیں کہ جینی نے کیا کہا ہے۔  آپ جا سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ارے ایسے کیسے جا سکتے ہیں۔  جینی میری بیٹی ہے۔  وہ ابھی نا بالغ ہے۔  میری مرضی کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتی۔  نہ جانے آپ لوگوں نے اس کے چھوٹے سے دماغ میں کیا بھر دیا ہے۔  میں اب اسے لے کر جا رہی ہوں۔  آپ ہوتے کون ہیں میری بیٹی کو روکنے والے۔ ‘‘ سوزن غصے سے بولی۔

پولیس کی ایک خاتون نے اپنا آئیڈنٹیٹی کارڈ نکال کر سامنے کر دیا۔  کارڈ پر نظر پڑتے ہی ڈیوڈ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔  سوزن بھی سکتے میں آ گئی۔  مگر وہ خود کو سنبھال کر بولی، ’’آپ کس جرم میں میری بیٹی کو یہاں روک رہے ہیں ؟‘‘

ڈیوڈ نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا، ’’ہاں ہاں سوزن ٹھیک کہہ رہی ہے۔  آپ زبردستی جینی کو یہاں نہیں روک سکتے۔ ‘‘

ورُونیکا جو اب تک خاموش کھڑی تھی، آہستہ سے آگے آ کر بولی، ’’دیکھئے میں ایک سوشل ورکر ہوں اور یہ دونوں پولیس آفیسرز ہیں۔  جینی نے ہمیں سب کچھ بتا دیا ہے۔  اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔  کیوں مسٹر ڈیوڈ؟‘‘

’’چلو سوزن، ان سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔  ہم گھر جا کر ہی کچھ کریں گے۔ ‘‘ ڈیوڈ، سوزن کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے جانے لگا تو پیچھے سے آواز آئی، ’’ہم جلد ہی آ کر آپ سے ملیں گے مسٹر ڈیوڈ۔ ‘‘

ورُونیکا نے روتی ہوئی جینی کے آنسو پونچھے۔  وہ سسکیاں بھرتے ہوئے اس کے گلے سے لگ کر بولی، ’’ورُونیکا دیکھو، ممی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

پرانا پیکیج

 

نہ جانے اسے کس کا انتظار تھا۔

وہ سجتی سنورتی اور شیشے کے آگے گھنٹوں کھڑی ہو کر خود کو تکتی رہتی۔  ذرا سا آنچل ڈھلک جاتا تو یوں شرما جاتی، مانو کسی نے جان بوجھ کر آنچل سرکا دیا ہو۔  اچانک بھاگ کر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگتی کہ آنے والا کہیں راستہ نہ بھول جائے۔

راستہ تو وہ اس روز بھولی تھی۔  کتنا ڈر گئی تھی وہ۔  بات ہی کچھ ایسی تھی۔  اتنا بھی کیا اپنے خیالوں میں کھونا کہ راستے کا ہی پتہ نہ رہے۔  بس ایک غلط موڑ اور میلوں لمبی سڑک۔  یہی تو کمال ہے انگلینڈ کی صاف ستھری لمبی سڑکوں کا۔

سردی کاموسم، لمبا ہائی وے۔  گھنی ڈراؤ نی دھند۔  سائن بورڈ بھی تو دھند کی وجہ سے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہے تھے کہ جان سکے کہ آخر وہ کس راستے پر ہے۔  حوصلہ بڑھانے کو کچھ تھا تو آگے جاتی کاروں کی لال ٹمٹماتی بتیاں۔  پرس میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے لگی تو موبائل بھی ندارد۔  شاید جلدی میں وہیں رہ گیا ہو گا۔  تیرے کام بھی تو جلدی کے ہوتے ہیں آرتی۔  وہ خود کو کوسنے لگی۔

خوف سے اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ کانپ رہے تھے۔  اگر پٹرول ختم ہو گیا تو۔۔ ۔  کار اچانک خراب ہو گئی تو۔۔ ۔  ایسے خراب موسم میں کس سے مدد مانگو گی۔  آنکھوں میں آنسو بھرنے کی وجہ سے سامنے مزید دھندلا دکھائی دینے لگا۔ اندر سے ایک آواز آئی، شانت ہو جا آرتی۔

شانت تو میں اس دن بھی تھی، جب وِکاس ہمیشہ کیلئے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔  پردیس جہاں اپنا کہنے کیلئے صرف چند دوست ہوں۔  ہمت تو تب بھی نہیں ہاری تھی۔  دو، دو جابس کر کے بچوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کر کے اس قابل بنایا کہ آج وہ سر اونچا کر کے معاشرے میں رہ رہے ہیں۔  وِکاس تو ایسے گئے کہ ایک بار انہوں نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

لیکن مجھے تو اگلے موڑ پر ہی مڑنا ہے۔  آرتی کی نگاہ ایک دم سامنے دھندلے سے سائن بورڈ پر گئی تو اس نے سکون کی سانس لی۔  سفید اسٹریٹ لائٹ بلب اس دھند میں پیلے ہو کر جگمگا رہے تھے۔  آرتی کی نظر پٹرول کی سوئی پر گئی تو ابھی آدھا ٹینک باقی تھا۔

وکاس کی یہی تو ایک اچھی عادت تھی کہ وہ پٹرول کے ٹینک کو ہمیشہ اوپر تک بھرا رکھتے تھے۔  کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی ہم دوسروں کی عادتیں اپنا ہی لیتے ہیں۔  پھر چاہے وہ اچھی ہوں یا۔۔ ۔۔  محنت کرنا بھی تو وکاس نے ہی سکھایا تھا۔

کام پر سے آتے ہی جب وہ آرتی کو کچن میں یوں اِدھر سے اُدھر ہاتھ چلاتے دیکھتے تو پیار سے پاس آ جاتے۔  ’’لاؤ سبزی میں کاٹ دیتا ہوں۔  آرتی تم تھک گئی ہو گی۔ ‘‘

’’ لیجیے سارا دن کام کر کے آپ آئے ہیں۔  بیٹھئے میں چائے لے کر آتی ہوں۔‘‘روز شام کی چائے وہ دونوں ایک ساتھ ہی پیتے تھے باتیں کرتے ہوئے۔

’’آرتی تم بھی کیا سوچتی ہو گی کہ کس فقیرسے پالا پڑا ہے۔  ارے کہاں ہندوستان میں نوکر چاکر میں پلی میری آرتی اور یہاں میرے بچوں کیلئے کتنا کام کرتی ہے۔ ‘‘ وکاس اداس ہوتے ہوئے بولے۔

’’میرے بچے نہیں ہمارے بچے۔ ‘‘آرتی نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’ہاں جانتا ہوں آرتی۔ ‘‘ وکاس نے ایک لمبی سانس چھوڑی۔

سانس لینے میں وکاس کو اس دن کتنی تکلیف ہوئی ہو گی۔  جب اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔  بھگوان کا لاکھ شکر ہے کہ میں گھر پر تھی۔  کس طرح ایک ایک سانس کیلئے وہ تڑپ رہے تھے۔ ا یمبو لنس نے تو آنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی۔  لیکن وکاس کو جانے میں شاید بہت جلدی تھی۔  ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا، جسے میں کس کے پکڑ ہی نہ پائی اور وہ چلے گئے۔

ان کے ہونٹ بغیر کچھ بولے خاموش ہو گئے۔  جانے والا کتنا خود غرض ہو جاتا ہے۔  یہ بھی نہیں سوچتا کہ جو پیچھے چھوٹ رہے ہیں، وہ کس کے سہارے زندہ رہیں گے۔  کئی بار زندہ رہنا بھی ایک مجبوری ہو جاتی ہے اپنے لئے نہ سہی دوسروں کیلئے ہی سہی۔

گرمی سردی، بھوک پیاس کی پروا کئے بنا، جن بچوں کے سکھ دکھ کا خیال رکھا جاتا ہے، وہی بڑے ہونے پر اپنے بڑوں کو بوجھ سمجھنے لگیں تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

ماں نہ جانے کس دھات کی بنی ہوتی ہے۔  جسے بچوں کے کڑوے بولوں سے بھی تکلیف نہیں ہوتی۔  ان کی ایک مسکراہٹ دن بھر کی تھکن دور کر دیتی ہے۔  بچے کا ایک لمس اس کا سارا درد مٹا دیتا ہے۔  کبھی کبھی کسی کے چھوٹے سے لمس کیلئے بھی ترس جاتے ہیں۔  جی چاہتا ہے کوئی کس کے بانہوں میں بھر لے اور محبت سے بالوں میں انگلیوں الجھا کر سلا دے۔

اس وقت تو آرتی دھند اور بتیوں کو دیکھ رہی تھی۔  کھمبے کے اوپر چمکتے پیلے بلب ایسے لگ رہے تھے مانو ایک قطار میں دیے جل رہے ہوں۔  ہاں دیوں سے یاد آیا، دیوالی آنے والی ہے۔  ہوں، وہ بھی ایک دیوالی تھی۔۔ ۔  آرتی کہیں کھو گئی۔۔ ۔

’’آرتی تمہاری ایک یہی بری عادت ہے کہ بات کرتے ہوئے جانے کن خیالوں میں کھو جاتی ہو۔  تم نے بتایا نہیں کہ دیوالی میں کیا شاپنگ کرنی ہے۔ ‘‘وکاس نے آرتی کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے پوچھا۔

’’آپ کو معلوم تو ہے، ہر سال آپ ہی تو شاپنگ کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ ہاں کرتا تو ہوں تم ساتھ جو نہیں چلتیں۔  تم نے آج تک مجھ سے کچھ نہیں مانگا آرتی۔  میں چاہتا ہوں کہ اس دیوالی پر کوئی تمہاری پسند کا تحفہ دوں تمہیں۔  بتاؤ کیا چاہئے۔ ‘‘

آرتی تھوڑی دیر وکاس کو دیکھتی رہی۔  پھر ہنس کر کچن میں جاتے ہوئے بولی۔  ’’ وہ تحفہ ہی کیا جو مانگ کر لیا جائے۔ ‘‘

’’لگتا ہے آرتی میں تمہیں کبھی خوش نہیں رکھ پایا۔ ‘‘

آرتی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ سوچنے لگی کہ جب وکاس خوش ہوتے ہیں تو کتنی اچھی باتیں کرتے ہیں اور موڈ خراب ہوتے ہی طعنوں کے ساتھ تنکا تنکا اڑا دیتے ہیں۔

ماں نے ہی کہاں میرے ارمانوں کا خیال کیا تھا جووکاس کرتے۔  ایک لڑکی جب جوانی کی دہلیز پر پاؤں رکھتی ہے تو شادی کی باتیں ہی اسے گدگدانے لگتی ہیں۔  وہ نجانے مستقبل کے کتنے خواب بننے لگتی ہے۔  جس میں وہ اور اس کا راجکمار۔۔ ۔۔

’’آرتی بیٹا تووکاس سے شادی کر لے گی۔ ‘‘

’’ماں وکاس میرے جیجو ہیں۔  میری بہن کے شوہر۔  آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔ ‘‘

’’تیری بہن ہمیں ہی نہیں اپنے پیچھے دو چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے دور چلی گئی ہے اور پھر۔۔ ۔ ‘‘

’’ماں۔ ‘‘آرتی درمیان میں ہی ماں کو روکتے ہوئے بولی، ’’ جیجو انگلینڈ میں رہتے ہیں۔  انہیں اچھی سے اچھی لڑکی مل سکتی ہے۔  پھر میں ہی کیوں۔ ‘‘

’’ ہاں بیٹا تیرے جیجو کو تو بیوی مل سکتی ہے، لیکن بچوں کو ماں نہیں ملے گی۔  ماں کی محبت صرف تم ہی ان کو دے سکتی ہو، کیونکہ وہ تمہاری بہن کے بچے ہیں۔ ‘‘ ماں پیار سے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔

’’ماں اپنی بہن کے شوہر کو اس نظر سے کس طرح دیکھوں گی۔  پھر آپ کو میری اور جیجو کی عمر کا فرق نہیں معلوم کیا۔ ‘‘

’’بیٹا، شوہر چاہے عمر میں بیوی سے کتنا بھی بڑا ہو۔  بیوی کی ہر ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  بچوں کی خاطر ہی سہی ہاں کر دے۔ ‘‘

موسی کہتا ہوا تین سال کا وکی بھاگتا ہوا آ کر آرتی کے ساتھ لپٹ گیا۔ آرتی کا جی چاہا کہ ان ننھی سی بانہوں کو جھٹک دے۔  نکل جائے اس گھیرے سے۔  پر وہ جتنا ان کو دورکرنے کی کوشش کرتی وہ بانہیں اسے اور کس لیتیں۔  ٹھیک اسی طرح جیسے ہوا میں آزاد اڑتے ہوئے بھنورے کو چڑیا اپنی چونچ میں پکڑ لیتی ہے۔  وہ چھوٹنے کے لئے پر پھڑپھڑاتا ہے۔۔ ۔ ڈنک مارنے کی کوشش کرتا ہے۔۔  اور آخر میں تھک ہار کر دم توڑ دیتا ہے۔

آرتی تڑپی نہیں، لیکن رات بھر سسکتی ضرور رہی۔  دوسری صبح ایک نئی آرتی کی پیدائش ہوئی۔  اس کے ارمانوں کا قتل کر کے قسمت کا فیصلہ سنایا گیا، عمر بھر کی قید میں بند کر دیا گیا۔  ایک اٹھارہ سالہ لڑکی دو بچوں کی ماں بن گئی۔  اس نے اپنی ہر خوشی بہن کے بچوں پر نچھاور کر دی۔

’’مم میری اسکول کی ٹائی کہاں ہے۔ ‘‘

’’وہیں ہو گی جہاں شام کو اتار کر پھینکی تھی۔ ‘‘آرتی نے اسی کے لباس کے نیچے سے ٹائی اٹھاتے ہوئے کہا، ’’ تھوڑے بہت تو ہاتھ پاؤں چلایا کرو انیل۔ ‘‘

’’مم آپ نے ہی تو کہا ہے کہ ہمارا کام صرف پڑھنا ہے۔  باقی سب آپ پر چھوڑ دیں۔ ‘‘انیل شوخی سے بولا تو آرتی مسکراہٹ نہ چھپا سکی۔

ہاں آرتی نے ہی بچوں سے کہا ہے کہ اسے اسکول سے کبھی کوئی شکایت نہیں چاہئے۔

شکایت لفظ شاید آرتی کے لغت میں ہی نہیں ہے۔  وکاس کے کڑوے بولوں پر بھی اس نے کبھی زبان نہیں کھولی تھی۔ شادی کے بعد آرتی نے جب اپنی اولاد نہ پیدا کرنے کی بات ماں سے بتائی تو وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بیٹی کو سمجھانے لگیں، ’’بیٹا ایک عورت تبھی پوری سمجھی جاتی ہے۔  جب وہ اپنی کوکھ سے بچے کو جنم دیتی ہے۔  اصلی ممتا کا مطلب وہ تبھی سمجھ پاتی ہے۔  اگر تمہاری کوئی اولاد نہ ہوئی تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔ ‘‘

آرتی ایک ننھے منے بیٹے کو جنم دے کر بہت خوش تھی۔  اس نے سوچا اب میں اپنے بڑے بچوں کو بھی بھرپور ممتا دے پاؤں گی۔

چھوٹے بیٹے سونو کو پیار کرتا دیکھ کر وکاس سے بولے بغیر رہا نہ گیا، ’’ آرتی۔۔ ۔  اب تمہارا اپنا بیٹا آ گیا ہے تو بہن کے بچوں کو بھول نہیں جانا۔ ‘‘ سونو کو پیار کرتا ہاتھ وہیں رک گیا۔  بڑی مشکل سے آرتی نے آنکھوں میں ابلتے ہوئے آنسوؤں کو چھپایا۔  اب تو وہ بیٹے سے پیار کرتے ہوئے بھی ڈرتی کہ کہیں وکاس غصے میں بچوں کے سامنے ہی نہ کچھ بول دیں۔

وکاس کا مزاج دن بدن چڑچڑاپن ہوتا جا رہا تھا۔ کام پر بھی اکثر ان کی جھڑپ کسی نہ کسی سے ہو جاتی۔

’’ وکاس کیا بات ہے یار تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔ ‘‘اس کے دوست پنکج نے وکاس کو سست دیکھ کر پوچھا۔

’’کیا بتاؤں یار آج کل بہت جلد تھک جاتا ہوں۔ ‘‘

’’ارے بھائی جب اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کرو گے۔  تو یہی حالت ہو گی۔ ‘‘پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔

کوئی اور وقت ہوتا تو وکاس اس بات کا اچھا خاصا جواب دیتے، مگر آج وہ کچھ ٹھیک محسوس نہیں کر رہے تھے۔  کام سے بھی جلدی گھر آ گئے۔

بستر پر کروٹیں لیتے ہوئے وکاس کی نظر گھڑی پر پڑ گئی۔

’’آرتی، وکی نہیں آیا ابھی تک ساڑھے دس بج گئے ہیں۔ ‘‘

’’آ جائے گا۔  وہ دوستوں کے ساتھ اپنی سالگرہ منا رہا ہے۔  آپ کا بیٹا اب بڑا ہو گیا ہے۔  اس کی فکر کرنا چھوڑیئے۔ ‘‘ آرتی کپڑے سنبھالتے ہوئے بولی۔

’’ ہاں، اب میں اپنے بچوں کی فکر نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔  تجھے کیا تیرا تو گھر کے اندر محفوظ بیٹھا ہے نا۔ ‘‘

’’ وکاس۔ ‘‘آج پہلی بار آرتی کے منہ سے شوہر کا نام نکلا تھا۔  آرتی کو حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی بڑی بات سن کر بھی اس کی سانسیں کس طرح چل رہی ہیں۔  مگر ایسے ہی ہر بات پہ سانسیں رکنے لگیں تو انسان روزانہ نجانے کتنی بار مرے۔

سانسیں رکی ضرور لیکن آرتی نہیں وکاس کی۔  دل کا دورہ پڑنے سے وہ سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔  آرتی بن دیپک کے آرتی ہو کر رہ گئی۔  بغیر اُف کئے، دن رات محنت کر کے اس نے پورے گھر کو سنبھالا۔

عورت دیکھنے میں کمزور ضرور ہوتی ہے۔  مگر ہمت میں وہ آدمی سے کہیں آگے ہوتی ہے۔  آرتی نے ہر درد کو سینے میں دبا کر ہونٹ سی لئے۔

اف تو اس دن بھی اس کے ہونٹوں سے نہیں نکلا تھا۔  جب وکی نے اعلان کیا تھا، ’’ مم اس سے ملو میری دوست روبی۔ ‘‘

وکی ایک انگریز لڑکی کو گھر لے کر آیا تھا۔

’’روبی اور میں ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں۔  مم ہم دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شادی بھی چرچ میں کریں گے تاکہ خرچہ کم آئے۔  ٹھیک کیا نا مم۔ ‘‘

آرتی کو گم سم دیکھ کر وکی نے پھر پوچھا، ’’مم ٹھیک ہو نا۔ ‘‘

’’ ہاں بیٹا، جب تم دونوں نے مل کر فیصلہ کیا ہے تو ٹھیک ہی ہو گا۔ ‘‘

’’دیکھا تم یوں ہی ڈر رہی تھیں۔ ‘‘وکی، روبی کی طرف دیکھ کر بولا، ’’ میں کہتا نہیں تھا کہ میری مم ہماری شادی سے بہت خوش ہو جائے گی۔ ‘‘

بڑے بھائی نے جو راستہ چنا تھا چھوٹے دونوں بھی اسی راستے پر چلے۔  جب وہ اپنی شادی پر ہی زبان نہ کھول سکی تو بچوں کو کیا روکتی۔

اپنے ارمانوں کے ساتھ وہ ایک بار پھر بہہ گئی۔  بھرا پورا گھر ہوتے ہوئے بھی وہ بالکل اکیلی تھی۔  بچوں نے شادی کر کے اپنے الگ گھر بسا لیے۔  جہاں ماں کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔  تہوار بھی آتے تو وہ اکیلی مناتی۔

’’آرتی اس بار دیوالی پر کیا کر رہی ہو۔  بھئی تمہاری تو تینوں بہویں انگریز ہیں۔  دیوالی کہاں مناتی ہوں گی۔ ‘‘ آرتی کی سہیلی مینو نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔

آرتی کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، ’’نہیں مینو۔ ‘‘وہ چہچہاتی آواز میں بولی، ’’انگریز ہیں تو کیا ہو۔  اس بارسب بچے گھر آئیں گے۔  مینو، جی چاہتا ہے کہ اس دیوالی پر کچھ خاص کروں جو بچے بھی زندگی بھر یاد رکھیں۔ ‘‘

’’بھئی پھر تو ہمیں دعوت دینا مت بھولنا۔ ‘‘

’’نہیں نہیں اس بار تو پورا شہر میرے ساتھ دیوالی منائے گا۔ ‘‘ آرتی مسکرا کر بولی۔

’’اف کئی بار تمہاری باتیں میری سمجھ سے باہر ہوتی ہیں آرتی۔ ‘‘مینو نے کہا۔

’’جب میں ہی نہیں سمجھ پاتی تو تمہیں کیا سمجھاؤں۔ ‘‘اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

آرتی گھر آ کر سوچنے لگی۔  چند روز تو بچے ہیں۔  سارے کام اکیلے کس طرح کر پاؤں گی۔  وہ دیوار پر ٹنگی شوہر کی تصویر کی طرف دیکھ کر پیار سے بولی، ’’کیا وکاس، آپ تو صرف تصویر میں ٹنگے مسکرا رہے ہیں۔  یہ بھی نہیں کہ آ کر تھوڑی مدد کر دیں۔  آپ دیوالی پر مجھے تحفہ دینا چاہتے تھے نا۔  اس بار میں اپنے سارے ارمان پورے کر لوں گی۔  ٹھیک ہے نا۔ ‘‘

’’ہاں ایک بات کی آپ سے شکایت ہے۔  کہہ دوں۔  اجی چھوڑیئے۔  جب کہنا تھا تب نہیں کہا تو آج بھی کیوں کہوں۔  اس دیوالی پر میں اپنی سیج اپنے ہاتھوں سجاؤں گی۔  سیج ہی نہیں پورے گھر کو دلہن بناؤں گی، آپ میرا ساتھ دیں گے نا۔‘‘

آرتی بیتابی سے دیوالی کا انتظار کرنے لگی۔  اس نے اپنے ہاتھوں سے سارا گھر پینٹ کیا۔  گھر میں نئی بتیاں لگائیں۔ نئے پردے، نیافرنیچر۔  ہر پرانی چیز کو باہر پھینک دیا۔

آرتی اکثر وکاس کی تصویر سے باتیں کرتی۔

’’وکاس آج میری شادی ہے۔  آپ آئیں گے نہ میری شادی پر۔  آپ نے تو پہلی رات مجھے پرانے بستر پر سلایا تھا۔  اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔  پرانے پیکج کو کتنا بھی نئے کاغذ میں لپیٹ لو، چیز تو پرانی ہی نکلے گی۔  ویسے جس ایک لمحے پر ہر نئی نویلی دلہن کا حق ہوتا ہے۔  آپ نے وہ بھی چھین لیا اس وقت میرا مقابلہ کسی اور سے کر کے۔ ‘‘

آرتی نے گالوں پر گرم پانی سرکتا محسوس کیا۔  تو بڑی بے رحمی سے اسے اپنے گالوں سے جھٹک دیا۔

’’ارے سورج ڈھلنے والا ہے۔  مجھے ذرا جلدی ہاتھ چلانا چاہئے۔  مہمان آ جائیں گے۔ ‘‘اس نے الماری سے سرخ ستارے جڑی ساڑی نکالی۔  کنگنا، جھومر، ٹیکا، پازیب۔ سب سے خود کو سجانے لگی۔

جب آرتی نے خود کو آئینے میں دیکھا تو اپنا کھِلاہوا روپ دیکھ کر شرما کے سمٹ گئی۔  آہستہ سے آگے بڑھ کر اس نے آئینے کو چوم لیا۔ ڈرائنگ روم میں بتیاں اور دیے جگمگا رہے تھے۔

دلہن سی سجی سنوری آرتی۔  ساڑی کے پلو سے آدھا ما تھا ڈھکا ہوا۔  شرماتی ہوئی آہستہ سے چھو ٹے چھوٹے قدم اٹھاتی۔  وہ ایسے آگے بڑھ رہی تھی جیسے پریتم سے ملنے جا رہی ہو۔  دیوں کی تیز روشنی سے آرتی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔  آنکھیں بھیگنے سے دیے کی ایک لو چار دکھائی دینے لگیں۔  ہر دیے سے نکلتی چار ننھی ننھی بانہیں اسے اپنی طرف بلانے لگیں۔  آرتی خود کو روک نہ پائی۔  اس کے قدم آگے بڑھنے لگے۔  ان پھیلتی ہوئی بانہوں کے گھیرے نے آرتی کو جکڑ لیا۔  آرتی کے گال حیا سے تمتما رہے تھے۔  وہ دیے کی لو کو گلے لگا کر شرما کے آگے کی طرف جھکنے لگی۔۔ ۔  اور جھکتی ہی چلی گئی۔۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

آخری گیت

 

سارا ہال بھرا ہوا تھا۔  یہ سونل کا پہلا بڑا میوزک کنسرٹ تھا۔  آج وہ اپنے ڈیڈی کا سپنا سچ کرنے جا رہی تھی۔  ڈیڈی جن سے اس نے چارسال تک بات نہیں کی تھی۔  دکھ اس کی ہر سانس میں بسا ہوا تھا۔  آج اپنی اینجل کا گانا سن کرڈیڈی کا سینہ فخر سے بھر جائے گا۔  وہی سینہ جس کی وجہ سے وہ موت کے دروازے پر کھڑے تھے۔

کپل کھانستے کھانستے دوہرے ہوئے جا رہے تھے۔  انہیں سانس لینے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی۔  ان کا ایک ہاتھ سینے پر تھا تو دوسرے سے کرسی تھامے ہوئے تھے کہ کھانستے ہوئے کہیں توازن نہ کھو دیں۔  انہوں نے سانس لینے کے لئے سر کو تھوڑا اونچا کیا ہی تھا کہ کھانسی کا دوسرا دور شروع ہو گیا۔  سونل نے والد کی ایسی حالت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔  اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔  اتنے میں اس کا چھوٹا بھائی چراغ ایک ہاتھ میں پانی کا گلاس اور دوسرے ہاتھ میں انہیلر لے کر بھاگتا ہوا آیا۔

سونل، ڈیڈی سے ناراض ضرور تھی۔  لیکن وہ انہیں اس حالت میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔  سونل کا اپنے ڈیڈی کی طرف سے ناراض ہونا کسی حد تک مناسب بھی تھا۔  وہ اس وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے تھے۔  جب سونل کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔  ڈیڈی نے صرف اور صرف اپنے لئے ہی سوچا۔  وہ بغیر اپنے بچوں سے ملے، بغیر کچھ کہے، گھر چھوڑ کر چل دیئے۔  وہ ڈیڈی کو اس بات کیلئے کبھی بھی معاف نہیں کر سکتی۔

’’کس نے کس کو چھوڑا ہے اور کس کی بے وفائی کی سزا کس کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ ‘‘

یہ اپنے میں ہی کچھ ایسے سوال ہیں، جو سوال ہی بن کے رہ گئے۔  سونل کے سوال، جواب ڈھونڈتے ہوئے ایک اور نیا سوال کھڑا کر دیتے۔  ممی سے بھی آج کل اس کی اکثر جھڑپ ہو جاتی۔  آج تو ممی نے اسے اور بھی بھڑکا دیا۔

’’بچو، تمہارے ڈیڈی چاہتے ہیں کہ یہ گرمی کی چھٹیاں تم دونوں ان کے ساتھ میبل تھورپ میں بِتاؤ اور میں نے انہیں ہاں کہہ دیا ہے۔ ‘‘

’’کیا؟ ہم سے پوچھنا بھی کسی نے مناسب نہیں سمجھا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔  ہر وقت کیا انہی کی مرضی چلے گی۔ ‘‘سونل تنک کر بولی۔

’’سونل۔ ‘‘ممی اونچی آواز میں بولیں، ’’وہ تمہارے ڈیڈی ہیں۔  ان کا بھی کچھ حق ہے اپنے بچوں پر۔ ‘‘

’’حق۔  حق کی بات تو ممی نے نہ ہی کریں تو ہی اچھا ہو گا۔  کیا اس وقت ہمارا حق نہیں بنتا تھا۔  یہ جاننے کا کہ آخر ڈیڈی ہمیں کچھ بتائے بغیر چلے کیوں گئے۔  وہ بھی مجھے منجدھار میں چھوڑ کر۔  کتنی شرم آئی تھی مجھے اپنے دوستوں کے سامنے۔  میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘

’’دیکھو سونل کبھی زندگی انسان کو ایسے مقام پر لے آتی ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی کچھ فیصلے لینے پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’چاہے اس کیلئے کتنوں کے دل ٹوٹیں، ممی میں اب بڑی ہو گئی ہوں۔  سو پلیز آئی نیڈ این ایکس پلینیشن۔ ‘‘

جواب دینے کے بجائے انجلی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘سونل گالوں پر سرکتے آنسوؤں کو ہٹاتے ہوئے بولی، ’’نہ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں اور نہ ہی بات کرنا۔ ‘‘

چراغ جو چپ چاپ کھڑا ساری بات سن رہا تھا۔  اچک کر بہن سے بولا، ’’یو آر سو سٹبرن۔  کبھی ڈیڈی کے فون کا جواب تک نہیں دیتی۔ ‘‘

‘اٹس نن آف یور بزنس، سمجھے۔ ‘‘سونل غصے سے بولی۔

’’انف بوتھ آف یو۔  میں اب کوئی اور بدتمیزی نہیں سنوں گی۔ ‘‘انجلی کی آواز آئی تو دونوں خاموش ہو گئے، ’’تم اب چھوٹی سی بچی نہیں ہو سونل۔  گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی جا رہی ہو۔  یہ چھٹیاں ڈیڈی کے ساتھ گزار لو، بعد میں کرتی رہنا اپنی من مانی۔ ‘‘

’’ممی یہ میبل تھورپ وہی ہے نا، سکیگ نیس کے پاس۔  اوہ سونل سوچو ہم پورے دو ماہ سمندر کے پاس رہیں گے۔  سچ کتنا مزہ آئے گا، ڈیڈی کے ساتھ لہروں سے ریس لگا کر۔ ‘‘چراغ، سونل کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔  تو اس نے بھائی کا ہاتھ جھٹک دیا۔

’’ ہاں بیٹا۔ ‘‘انجلی آواز میں مٹھاس بھر کر بولی، ’’ تمہارے ڈیڈی تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ‘‘

’’جھوٹ۔ ‘‘سونل کی تڑپتی ہوئی آواز آئی، ’’وہ صرف اپنے سنگیت سے پیار کرتے ہیں یا پھر۔۔ ۔  جس کیلئے انہوں نے ہمیں چھوڑا۔  مجھے نفرت ہے ان کے ہارمونیم اور تان پورے سے۔  جس دن ڈیڈی ہماری زندگی سے گئے۔  میں نے اُسی دن قسم کھائی تھی کہ اب میں کبھی نہیں گاؤں گی۔ ‘‘

یہ قسم بھی نا، انسان غصے میں آ کر لے تو لیتا ہے۔  لیکن آگے کیا ہونے والا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔

’’زندگی بہت چھوٹی ہے بیٹا۔  نجانے کب کیا ہو جائے اور پچھتانے کا بھی وقت نہ ملے۔ ‘‘

سونل پچھتائی ہی تو تھی ڈیڈی کی ایسی حالت دیکھ کر۔  ڈیڈی کی محبت میں تو کوئی کمی نہیں آئی تھی۔  چار طویل سالوں کے بعد اپنی بیٹی کو سامنے دیکھ کر کپل تو صرف اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔  ان کی گڑیا اتنی جلدی بڑی ہو گئی۔  ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے۔ جب وہ پریشان سے ہاسپٹل میں اِدھر سے اُدھر ٹہل رہے تھے۔  انجلی کا درد ان سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ انجلی دردِ زہ سے تڑپ رہی تھی۔

’’مسٹر سنہا آپ کی بیوی کو ہم نے انجکشن دے دیا ہے۔  ہماری یہی کوشش رہے گی کہ بچہ نارمل پیدا ہو۔  آپ بھی تھوڑا آرام کر لیجئے۔  سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

کپل ایک کپ چائے لے کر ویٹنگ روم میں ایک کونے پہ رکھی کرسی پر جا کر بیٹھ گئے۔

وہ رات بھر کے جگے ہوئے تھے۔  کرسی کی پشت سے سر ٹکاتے ہی ان کی نیند سے بوجھل آنکھیں بند ہونے لگیں۔  وہ نیند میں کیا دیکھتے ہیں کہ سارا کمرا ایک روشنی سے بھر گیا ہے۔  دروازے سے ایک عورت سفید کپڑے پہنے ہوئے اندر آتی ہے۔  عورت کے چہرے پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔  اس کی بانہوں میں گلابی لباس میں لپٹا ایک بنڈل تھا۔  اس نے آگے بڑھ کر وہ بنڈل کپل کے ہاتھوں میں دے دیا۔

’’مسٹر سنہا۔ ‘‘نرس نے کپل کو کندھے ہلا کر جگایا۔  ’’مسٹر سنہا مبارک ہو۔  آپ ایک پیاری سی بیٹی کے باپ بن گئے ہیں۔ ‘‘

’’انجلی کیسی ہے نرس۔ ‘‘کپل نے جلدی سے پوچھا۔

’’آپ کی بیوی اور بیٹی دونوں بالکل ٹھیک ہیں۔ ‘‘نرس نے مسکرا کر جواب دیا۔

‘ ‘کیا میں انہیں دیکھ سکتا ہوں ؟۔ ‘‘

’’ کیوں نہیں۔  آئیے میرے ساتھ۔ ‘‘

’’اوہ میری اینجل۔ ‘‘ کپل کا دل دھڑک رہا تھا اور ہاتھ کانپ رہے تھے بیٹی کو اٹھاتے ہوئے۔

’’یاد ہے اس کا نام ہم نے سونل رکھا ہے اینجل نہیں۔ ‘‘انجلی شرماتے ہوئے کمزور آواز میں بولی۔

’’تم کچھ بھی کہو انجلی۔  لیکن میرے لئے تو یہ اینجل ہے۔ ‘‘کپل جذباتی ہو کر بولے، ’’ بہت شکریہ اتنی پیاری بیٹی دینے کے لئے۔ ‘‘اور جھک کر بیوی کی پیشانی کا بوسہ لے لیا۔

پیار تو آج بھی وہ اپنی روٹھی ہوئی بیٹی کو کرنا چاہتے تھے۔  اسے بتانا چاہتے تھے کہ اس سے بڑھ کر ان کیلئے دنیا میں اور کوئی چیز نہیں۔

’’ ڈیڈی۔ ‘‘چراغ بھاگ کر اپنے ڈیڈی سے لپٹ گیا۔  تو وہ خیالوں سے جاگے۔  کپل کی آنکھیں تو صرف بیٹی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں، ’’ہائے اینجل کیسی ہے میری گڑیا۔ ‘‘

’’آپ شاید اور چیزوں کی طرح یہ بھی بھول گئے ہیں کہ میرا نام اینجل نہیں سونل ہے۔ ‘‘وہ بغیر ڈیڈی کے گلے لگے، بے رخی سے آگے بڑھ گئی۔

کپل کی بانہیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔  درد کی ایک لہر ان کی آنکھوں سے گزر گئی۔  انجلی نے دھیرے سے کپل کا بازو چھو کر کہا، ’’ تھوڑا وقت دو اسے۔  ابھی ناراض ہے۔ پر ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘

وقت کب کس کیلئے رکتا ہے۔  ہاں انسان ضرور تھک ہار کر دھیما پڑ جاتا ہے۔

تھکن تو آج کل کپل کو بھی رہنے لگی تھی۔  وہ تھوڑا سا بھی کوئی کام کرتے تو سانس پھولنے لگتی۔  ایک بہت بڑے اسٹیج شو کی وہ آج کل دن رات تیاری کر رہے ہیں۔  وہ چاہتے ہیں کہ سونل بھی ان کے ساتھ گائے۔  لیکن کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

بچپن میں سونل کو گانا سکھاتے ہوئے کپل جان گئے تھے کہ تھوڑی سی محنت کے بعد یہ ایک بہت اچھی گلوکارہ بن سکتی ہے۔  اس کے گلے کی مٹھاس اور سروں کا درد ان کے ماہر کانوں نے کئی بار سنا تھا اور دل نے محسوس بھی کیا تھا.۔  ایک بار تو وہ ایک سرگم میں الجھے ہوئے تھے کہ سونل نے گاتے گاتے اس میں ایسے سر لگائے کہ کپل حیران رہ گئے۔

’’ ڈیڈی میں نے ایک گانا بنایا ہے سنیں گے۔ ‘‘

’’ ہاں سناؤ نہ بیٹا، ہم بھی دیکھیں کہ ہماری اینجل نے کون سی دھن بنائی ہے۔ ‘‘

سونل زور زور سے میز پر طبلہ بجا کر انگریزی دھن کی نقل میں گانے لگی۔

کپل کچھ دیر تو سنتے رہے پھر پیار سے بولے، ’’بیٹے یہ کیسا گانا ہے۔ ‘‘

’’ ڈیڈی یہ آج کے زمانے کا گانا ہے۔  آج کل لوگ ایسے ہی تو گانے کو پسند کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ ہاں بیٹا گانا اچھا ہے، بہت اچھا۔  مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ ایسے گانے جتنی جلدی بنتے ہیں، اتنی جلدی ہی ختم بھی ہو جاتے ہیں۔  دھن وہ جو لوگ سالوں یاد رکھیں اور بول وہ جو کانوں کے راستے دل میں اتر جائیں۔  ایسے گانے ہمیشہ لوگوں کی زبان پر اور ان کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ‘‘

’’ایسا سنگیت آج کل کہاں ملتا ہے ڈیڈی۔ ‘‘

’’ملتا ہے بیٹا۔ ‘‘کپل جلدی سے بولے، ’’یہ سنگیت تو فطرت کے ذرے ذرے میں بسا ہوا ہے۔  کبھی خاموشی میں بیٹھ کر بھنوروں کی گن گن سنو۔  کبوتروں کی گٹرگوں سنو۔  کوئل، پپیہا، ان سب کی آوازوں میں تم کو ایک ردھم بھرا سنگیت سنائی دے گا۔  ان کا سنگیت لے کر جو دھن بنے گی نا اینجل۔  وہ اپنے آپ میں ایک نایاب سنگیت ہو گا۔  تم ایسا سنگیت بنا سکتی ہو۔  میں نے تمہاری آواز میں وہ تڑپ محسوس کی ہے۔  بس تمہیں صحیح راستے کی ضرورت ہے۔ ‘‘کپل اپنی دھن میں بولتے جا رہے تھے، جسے سونل سحر زدہ ہو کر سن رہی تھی۔

آج وہی سونل ڈیڈی کے گانے کی آواز سن کر پریشان ہو اٹھی۔  ’’اف روز صبح صبح ڈیڈی کیا جتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘کپل تو سارے دروازے بند کر کے اپنے کمرے میں موسیقی کا ریاض کر رہے تھے۔  جس کی آواز سونل کے کانوں میں پڑ گئی تھی۔  مگر آج ڈیڈی یہ کیا گا رہے ہیں۔  بول اور دھن اسے کچھ جانی پہچانی لگی۔  کپل کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ وہی دھن گانے لگے۔  جو گھر چھوڑنے سے پہلے وہ سونل کو اسکول کمپیٹشن میں گانے کیلئے سکھا رہے تھے۔  تھوڑی دیر تک سونل سنتی رہی۔  بے خیالی میں سونل بھی وہ دھن گنگنانے لگی۔  اسے یوں لگا جیسے وہ بھی ڈیڈی کے ساتھ بیٹھ کر سُر سے سُر ملانے کی کوشش کر رہی ہو۔

اچانک کپل کو زور سے کھانسی آئی۔  کھانسی کی آواز نے سونل کو بھی خیالوں سے جگا دیا۔  اس کے دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا۔  کھانسی رکتے ہی کپل پھر سے وہی دھن گانے لگے۔  سونل خود کو اور نہ روک سکی۔  وہ پاؤں پٹختی ہوئی سیدھے ڈیڈی کے کمرے میں داخل ہوئی۔

’’ڈیڈی۔ ‘‘بیٹی کی آواز سن کر کپل کا گانا رک گیا، ’’آپ کیا جتانا چاہتے ہیں۔  جو کچھ بھی آپ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں نہ، وہ کبھی نہیں ہو گا۔  پلیز جب تک میں یہاں ہوں۔  میرے سامنے آپ نہ ہی گائیں تو اچھا ہو گا۔ ‘‘

کپل خاموش نظروں سے کچھ سوچتے ہوئے بیٹی کو دیکھتے رہے۔  ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس طرح سمجھائیں۔  ایسا نہ ہو کہ پھر بہت دیر ہو جائے۔

چراغ، ڈیڈی کو ڈھونڈتے ہوئے باہر آیا تو دیکھتا ہے کہ ڈیڈی دور سمندر کے کنارے کھڑے لہروں کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔  ابھی تو لہریں بہت پرسکون دکھائی دے رہی ہیں۔  لیکن جب وہ ہواؤں کے سنگ آنکھ مچولی کھیلتی ہیں، تب یہی لہریں طوفان کی شکل اختیار کر کے سب کچھ تہس نہس کر دیتی ہیں۔

آج صبح اپنے اندر اٹھتے جواربھاٹے کو کپل نے ہمیشہ کی طرح لمبی سانس لے کر ٹھنڈا کر دیا۔  وہ اپنی بیٹی کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔  سونل باہر سے کتنی بھی سخت کیوں نہ نظر آئے۔  لیکن اس کا دل موم سے بھی زیادہ نرم ہے۔  جسے پگھلانے کے لئے آگ نہیں محبت کی ضرورت ہے۔

وقت کا انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کتنی دیر سے وہ سمندر کنارے کھڑے لہروں کا کھیل دیکھ رہے تھے کہ پیچھے سے ایک جانی پہچانی آواز آئی۔  ’’لگتا ہے کہ ان لہروں کے ساتھ آج کوئی نئی دھن بن رہی ہے۔ ‘‘پلٹ کے دیکھا تو پیٹر اور گوتم وہاں مسکراتے ہوئے کھڑے تھے۔

’’کیا بات ہے بھئی۔  آج سورج الٹی سمت سے کیسے نکل آیا۔  جو ہمارے پیارے دوست اپنی گہری نیند چھوڑ کر، صحت بنانے چلے آئے۔ ‘‘ کپل نے چھیڑتے ہوئے کہا۔

’’کیا کریں تمہاری طرح ہم صبح سویرے آ۔۔ ۔  آ۔۔ ۔  آ۔۔ ۔  کرنے نہیں اٹھ سکتے۔ ‘‘

’’اوہ ہاں اس ’آ،  سے یاد آیا، پیٹر میں چرچ میں بیٹھ کر سنگیت کا ریاض کر سکتا ہوں۔  بات یہ ہے یار کہ ان گرمیوں کی چھٹیوں میں بچے میرے ساتھ وقت گزارنے آئے ہوئے ہیں۔  میں انہیں سوتے میں پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘

’’کیوں نہیں۔  مگر تمہیں معلوم ہے کہ چرچ میں ریپئرنگ کا کام چل رہا ہے۔  دھول مٹی کافی ہو گی۔  پھر تمہیں دمہ بھی رہتا ہے۔ ‘‘ پیٹر نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’یار تھوڑے دنوں کی تو بات ہے، آج کل میں کچھ نئی دھنوں پر کام کر رہا ہوں، جنہیں درمیان میں نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘کپل بولے۔

’’ٹھیک ہے اگر آپ دھول میں سروائیو کر سکتے ہو تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ ‘‘ پیٹر بولا۔

’’وہ دیکھو میرا بہادر بیٹا کس طرح بھاگتا ہوا آ رہا ہے۔ ‘‘کپل کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

’’یقیناً یہ تو ماننے والی بات ہے۔  جس بہادری سے کل سونل نے اس گرتے ہوئے بچے کو بچایا۔  وہ کوئی معمولی کام نہیں تھا۔  بھئی آج کل کے بچے دوسروں کی کہاں پرواہ کرتے ہیں۔ ‘‘

’’سونل نے۔ آخر کیا کیا میری سونل نے۔ ‘‘کپل نے بے چینی سے پوچھا۔

’’تمہیں نہیں پتہ۔  سونل نے کل جلدی نہ دکھائی ہوتی تو نہ جانے اس بچے کا کیا ہوتا۔  ایک پانچ چھ سال کا بچہ گھوڑوں والی رائیڈ پہ سوار تھا۔  وہی جہاں گول چکر گھومتا رہتا ہے اور ایک کھمبے کے سہارے گھوڑے بھی اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ تو بس ماں پہ نظر پڑتے ہی اس بچے نے خوش ہو کر ایک ہاتھ چھوڑ کر ہلانا چاہا۔  اتنے میں وہ اپنا توازن کھو بیٹھا۔  اس سے پہلے کہ وہ بچہ نیچے گرتا، سونل نے جلدی سے آ کر اس بچے کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔  ایسا کرتے وقت اس کے ہاتھ میں چوٹ بھی لگ گئی تھی۔  مان گئے کپل بڑے بہادر بچے تمہارے۔ ‘‘

’’ڈیڈی کی بہادری تو تب پتہ چلے گی۔  جب وہ میرے ساتھ دوڑ لگائیں گے۔‘‘ پیچھے سے چراغ کی آواز آئی۔

’’یہ بات ہے تو چلو ہو جائے۔ ‘‘

لیکن گیارہ سال کے لڑکے کے ساتھ کپل کا مقابلہ ہی کیا۔  بھاگتے بھاگتے کپل کو کھانسی آنے لگی۔  وہ سانس لینے کے لئے رکے اور پھر دوڑ پڑے۔  ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بڑے زور کا کھانسی کا دورہ پڑا۔  کپل دونوں ہاتھوں سے پسلیوں کو یوں تھامے ہوئے تھے مانو وہ بہت تکلیف میں ہوں۔  منہ میں کچھ عجیب سی کڑواہٹ محسوس ہوئی۔  تو جیب سے رو مال نکال کر منہ صاف کرتے ہوئے وہ چونک گئے۔  رو مال پر خون کے سرخ داغ دکھائی دیے۔  اس سے پہلے کہ چراغ کی نظر اس رو مال پر پڑتی۔  انہوں نے جلدی سے وہ رو مال جیب میں رکھ لیا۔

’’یو آر ٹو سلو ڈیڈی۔ ‘‘

’’اب کیا کریں بیٹے۔  تمہارے ڈیڈی بوڑھے ہو رہے ہیں۔  اچھا یہ بتاؤ آج صبح سونل تمہیں ڈانٹ کیوں رہی تھی۔ ‘‘

’’وہی پرانی بات ڈیڈی۔  کمرہ اتنا گندا رکھتا ہے۔  اپنے کپڑے نہیں سنبھالتا، بلا، بلا، بلا۔۔ ۔  بس لڑکیوں کو سوائے صفائی کے اور آتا ہی کیا ہے۔  دے ڈونٹ نو۔  ہاؤ ٹو انجوائے لائف۔ ‘‘

’’بہت بولنے لگے ہو چرا غ۔  اچھا یہ بتاؤ تمہاری بہن کا پسندیدہ رنگ کون سا ہے۔‘‘

’’ہوں۔۔ ۔  وہی اسکائی بلیو رنگ۔ ‘‘چراغ سوچتے ہوئے بولا۔

’’چلو تو ٹھیک ہے کل باپ بیٹا کچھ کام کریں گے۔ ‘‘

کام تو کیا دونوں نے سارا دن۔  بیچ میں کپل کو کھانسی ضرور آتی رہی۔  لیکن وہ رکے نہیں۔

’’ ویٹ سونل۔ ‘‘سونل اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تو چراغ نے روکا۔  ’’ پہلے یہ پکڑو سیزر۔ ‘‘

’’میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔  اس وقت کوئی گیم کھیلنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ ‘‘

’’یہ کوئی گیم نہیں ہے۔  میں بھی تھکا ہوا ہوں۔ ‘‘چراغ ہاتھ ہلاتے ہوئے بولا، ’’صبح سے تمہارا کام ہی تو کر رہا ہوں۔  پہلے یہ سیزر لے کر کوئن کی طرح ربن کاٹو، تب کمرے میں جا سکتی ہو۔ ‘‘

سونل کچھ لمحے کھڑی بھائی کو دیکھتی رہی۔  پھر غصے سے بولی، ’’لاؤ سیزر۔ ‘‘دروازہ کھلتے ہی کمرے کی بدلی ہوئی رنگت دیکھ کر سونل وہیں کھڑی رہ گئی۔  دیواروں پر اس کا دل پسند رنگ، نئے پردے، نیا بستر۔  حیران ہو کر اس نے چراغ کی طرف دیکھا تو وہ فوری طور پر بولا، ’’آئیڈیا تو یہ ڈیڈی کا تھا۔  لیکن ہیلپ میں نے کی ہے۔‘‘

صبح سونل کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہے کہ ڈیڈی اس کے سرہانے کھڑے، بڑے پیار سے اپنی سوئی ہوئی بیٹی کو دیکھ رہے ہیں۔  ایک لمحے کو باپ بیٹی کی نظریں ملیں۔  سونل کا جی چاہا کہ اٹھ کے ڈیڈی کے گلے لگ جائے۔  مگر اس نے نظریں گھما لیں۔  ایک طویل سانس لے کر کپل کمرے سے باہر آ گئے۔  سونل کی بند پلکوں سے دو آنسو ڈھلک گئے۔

آنسو تو اس وقت کپل کی آنکھوں میں بھی بھر آئے تھے۔  جب ڈاکٹر نے ان کو بتایا کہ انہیں لنگ کینسر ہے۔  کینسر تھا بھی اپنی ایڈوانس اسٹیج پر جہاں وہ جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل رہا تھا۔

اس کا مطلب بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔  کپل نے اداس لہجے میں پوچھا۔

’’تم نے اپنی ہر امید جگانے میں بہت دیر کر دی ہے کپل۔  اب میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ ‘‘

’’اچھا ڈاکٹر سچے دل سے ایک جواب دیں کہ کتنا وقت ہے میرے پاس؟‘‘

’’ کچھ زیادہ نہیں کپل۔ ‘‘

’’دو ماہ، پانچ ماہ کتنے ڈاکٹر ۔۔ ۔  پلیز مجھ سے کچھ چھپانا نہیں۔ ‘‘

’’ایک سال بھی کاٹ جاؤ تو خود کو خوش قسمت سمجھنا۔  مگر یہ وقت آسان نہیں ہو گا کپل۔ ‘‘

’’ڈاکٹر ایک گزارش کر سکتا ہوں۔  میرے کینسر کے بارے میں کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہئے۔  بالخصوص میرے بچوں کو۔  میں ان کے ساتھ اپنی زندگی کے بیتے ہوئے وقت کو جینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’کب تک کپل۔  یہ چیز زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ ‘‘

بچے چاہے ماں باپ سے کتنے بھی ناراض کیوں نہ ہوں۔  ان کے اندر چھپی محبت آخر ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جاتی ہے۔

آج ڈیڈی کے گانے کی آواز کیوں نہیں آ رہی۔  ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔  آج کل وہ کھانستے بھی بہت ہیں۔  کہیں میں ان کے ساتھ زیادہ سخت تو نہیں ہو رہی۔  سوچتے ہوئے سونل کی توجہ باہر پرندوں کی چہچہاہٹ کی جانب چلی گئی۔

پرندوں کی ایسی آوازیں لندن جیسے شہر میں کہاں۔  وہاں کی دوڑ دھوپ کی زندگی، جہاں صبح اٹھتے ہی سب کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔  کسی کے پاس اتنا وقت ہی کہاں ہے، جو پرندوں کی طرف دھیان دے سکے۔  پھر بند گھر، ڈبل گلیس کھڑکیاں جہاں سے ہوا آنے کی بھی گنجائش نہ ہو وہاں پرندوں کی آواز کہاں سے سنائی دے گی۔  آج ڈیڈی کے گانے کی آواز کیوں نہیں سنائی دے رہی۔  گاؤن پہن کر سونل تیزی سے ڈیڈی کے کمرے کی طرف گئی۔  وہاں نہ ڈیڈی تھے نہ ہارمونیم اور نہ ہی کی بورڈ۔  سونل نے سوچابس۔۔ ۔  اب اور نہیں۔  میں ڈیڈی کو مزیدتکلیف نہیں دے سکتی۔  سونل کچن میں جا کر ناشتہ بنانے لگی۔

گھر کے باہر سے ہی بڑی اچھی خوشبو آ رہی تھی۔  ’’نہیں، یہ خوشبو میرے گھر سے کس طرح آ سکتی ہے۔ ‘‘ کپل چرچ سے آتے ہوئے سوچنے لگے۔  میں تو بچوں کو سوتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں۔  کہیں میں گیس پہ کچھ رکھ کر بھول تو نہیں گیا۔  آج کل یاد داشت بھی تو کچھ ایسی ہی ہو رہی ہے۔  جلدی سے کچن کا دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سونل پوریاں تل رہی ہے اور چراغ بھاپ سے بھری پوڑیاں کھا رہا ہے۔

’’ ہائے ڈیڈی۔ ‘‘ چراغ کی آواز سنتے ہی سونل پلٹی، ’’آئیے ڈیڈی آپ بھی ناشتہ کر لیجئے۔ ‘‘ کپل حیرانی سے بیٹی کو دیکھنے لگے۔  ’’آئیے بیٹھیے نا سب ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ‘‘ سونل نے پلیٹ میں پھولی ہوئی پوری رکھتے ہوئے کہا۔  باپ بیٹی دونوں خاموشی سے کھا تو رہے تھے۔  لیکن دونوں کے دلوں میں کتنے ہی شکوے شکایتیں سر اٹھا رہے تھے۔  پہلی بار سونل نے آنکھ بھر کر ڈیڈی کی طرف دیکھا اور پتہ چلا کہ ڈیڈی بہت کمزور ہو گئے ہیں۔

کمزور تو کپل کی ہمت پڑ گئی تھی بیٹی کی محبت دیکھ کر۔  ’’کیا میں بیٹی کا کنیا دان بھی اپنے ہاتھوں نہیں کر پاؤں گا۔  میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں۔۔ ۔۔  اب تک جو میں سہہ رہا ہوں کیا وہ کم ہے۔  چراغ بھی کتنا چھوٹا ہے۔  ویسے چراغ کی اتنی فکر نہیں ہے۔  اس کا خیال رکھنے کے لئے نیرج جو ہے۔  مجھے فکر ہے تو صرف سونل کی ہے۔ ‘‘

سونل کو تب فکر ہوئی جب شام کو ڈیڈی گھر پر نہیں ملے۔  چراغ کے سامنے بسکٹ کا پیکٹ کھلا ہوا تھا۔  وہ ایک کے بعد ایک بسکٹ کھا رہا تھا۔  ’’چراغ یہ کھانا کھانے کا وقت ہے بسکٹ کا نہیں۔  ڈیڈی دیکھیں گے تو ناراض ہوں گے۔  ویسے ڈیڈی ہیں کہاں ؟‘‘

’’وہ آج ابھی تک چرچ سے نہیں آئے اور مجھے بھوک لگی ہے۔ ‘‘

چرچ جہاں روز کپل سنگیت کا ریاض کرنے جاتے ہیں۔  آج کل وہ ایک بہت بڑے کنسرٹ کی تیاری میں مصروف ہیں۔  چرچ میں قدم رکھتے ہی سونل نے پورے ماحول میں دھول محسوس کی۔  کپل ہارمونیم پر کوئی دھن بجاتے، اسے فوری طور پر کاغذ پر لکھتے، پھر زور سے سُر ملاتے اور اسی دھن کو دوسری طرح سے بجانے لگتے۔

تھوڑی دیر تک اسی طرح چلتا رہا۔  کپل آہستہ آہستہ گانے لگے۔  انہوں نے سر لگانے کی کوشش کی ہی تھی کہ کھانسی آ گئی۔  کھانسی کو روکنے کے لئے کپل نے زور سے سانس اندر کھینچی تو ہوا میں دھول ہونے کی وجہ سے اور زور سے کھانسی ہونے لگی۔  کھانستے ہوئے کپل ہارمونیم پر ہی جھک گئے۔  تھوڑی دیر کے بعد جب اونچے ہوئے تو سارا رو مال خون سے سرخ تھا۔

’’ڈیڈی۔ ‘‘سونل ایک دم کپل کی طرف بھاگی۔  اس نے آ کر ڈیڈی کو سہارا دیا۔  کپل بیٹی کی بانہوں میں جھول گئے۔  انہوں نے سونل کی کراہتی ہوئی آواز سنی۔  ’’اوہ ڈیڈی آئی ایم سوری۔ ‘‘ کپل پر بیہوشی چھا گئی۔

جب ہوش آیا تو سوچنے لگے کہ میں یہاں کیسے۔ کپل نے چاروں طرف آنکھیں گھمائیں۔  سامنے نظر اٹھی تو سونل اور گوتم بیٹھے تھے۔

’’بس۔۔  دوستی کا یہی صلہ دیا آپ نے کپل۔  میں تو اسی دھوکے میں رہا کہ تمہارا دوست ہوں۔  اتنا کچھ اکیلے ہی سہتے رہے اور دوستوں کو کانوں کان خبر نہیں۔ ‘‘

’’یار ذرا سی کھانسی ہی تو ہے ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘سونل منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ روکتی کمرے سے باہر بھاگ گئی۔  ’’کیا سونل جانتی ہے گوتم۔ ‘‘ کپل گھمبیر آواز میں بولے۔

’’سونل بچی نہیں ہے کپل۔  اس نے سب کچھ پتہ کر لیا ہے۔ ‘‘

کپل کچھ سوچتے ہوئے بولے۔  ’’ذرا اپنا فون دینا گوتم۔  ہیلو انجلی۔  ہاں میں ٹھیک ہوں۔  سنو میں سونل کو اور پریشان نہیں دیکھ سکتا۔  چاہتا ہوں تم جتنی جلدی ممکن ہو آ کر بچوں کو واپس لے جاؤ۔ ‘‘

اچانک انجلی کو آتا دیکھ کر سونل سب سمجھ گئی، ’’میں لندن نہیں جاؤں گی ممی۔‘‘سونل نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں جانا ہو گا۔  میں تمہاری بدتمیزی اور نہیں سہہ سکتا۔ ‘‘کپل نے سختی سے کہا۔

’’میں جانتی ہوں ڈیڈی آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔  میں آپ کو تنہا چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘

’’دیکھو بیٹا۔ ‘‘ انجلی جو ابھی تک خاموشی سے سب کچھ سن رہی تھی محبت سے بولی، ’’تم جلد ہی یونیورسٹی جانے والی ہو۔  ابھی تو تمہاری زندگی کی شروعات ہے۔  تھوڑی سی نادانی سے اپنا کیریئر مت خراب کرو۔  چاہو تو اگلی اپنی ساری چھٹیاں ڈیڈی کے ساتھ ہی گزارنا۔  اس وقت میرے ساتھ چلو۔ ‘‘

’’آپ سمجھتی کیوں نہیں ہیں۔  ڈیڈی کو میری ابھی ضرورت ہے۔  وہ بہت بیمار ہیں ممی۔  ویسے بھی میں اٹھارہ سال کی ہو چکی ہوں۔  آپ میری مرضی کے خلاف، ہمیشہ کی طرح مجھے فورس نہیں کر سکتیں۔ ‘‘

انجلی ابھی بیٹی کی باتوں سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ پیچھے سے چراغ کی آواز آئی، ’’میں بھی نہیں جاؤں گا سونل کو اکیلا چھوڑ کے ممی۔ ‘‘

’’ تمہارے اسکول اور دوستوں کا کیا ہو گا۔ ‘‘

’’یہاں بھی بہت سے اسکول ہیں۔ ‘‘چراغ منہ بنا کر بولا۔

’’دیکھ لیا۔  تم چھوٹے بھائی کو بھی بگاڑ رہی ہو۔ ‘‘انجلی آنکھیں پونچھتی ہوئی بولی، ’’ چلو بہت ہو گیا تماشا۔  اب تم دونوں اپنا سامان پیک کرو۔  تاکہ ہم رات ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائیں۔ ‘‘

’’آؤ چراغ میں تمہارا سامان پیک کرنے میں مدد کرتی ہوں۔  تم جانتے ہو کہ ممی تمہارے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ ‘‘سونل نے پیار سے بھائی کو سمجھایا، ’’اب تم جاؤ میں ڈیڈی کے ٹھیک ہوتے ہی آ جاؤں گی۔ ‘‘

’’دیکھ لیا کپل۔  میں جانتی تھی کہ تمہیں دیکھتے ہی بیٹی کا خون اپنے رنگ دکھائے گا۔  ٹھیک ہے۔  اگر یہ اپنا کیریئر خراب کرنے پر ہی تلی ہوئی ہے تو اس کی مرضی۔  اب یہ اٹھارہ سال کی جو ہو چکی ہے۔  اپنا بھلا برا خود جانتی ہے۔ ‘‘

بھلا برا تو نہیں جانتی ہاں والد کے ساتھ وقت ضرور بسر کرنا چاہتی ہے، اب وقت ہی تو کپل کے پاس نہیں تھا۔  دن بہ دن ان کی صحت گرتی جا رہی تھی۔  کمزوری کے سبب ان کا زیادہ وقت بستر میں ہی گزرتا۔  سونل انہیں سمندر کنارے ٹہلانے لے جاتی۔  جہاں وہ چند قدم چل کر ہی ہانپنے لگتے۔  جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا جا رہا تھا۔  سونل انہیں ایک لمحے کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی۔  گوتم کی بھی یہی کوشش رہتی کہ روزاپنے دوست سے آ کر ملے اور سونل کا تھوڑا ہاتھ بٹائے۔

ہاتھ بٹانے سے زیادہ سونل کو مورل سپورٹ کی ضرورت تھی۔  ایک گوتم انکل ہی تو تھے جن سے وہ کوئی بات کر سکتی تھی۔

’’انکل میں نے ڈیڈی کو مار ڈالا۔  میری وجہ سے ہی آج ڈیڈی کی ایسی حالت ہے۔ ‘‘

’’بیٹے ایسا نہیں سوچتے۔  تمہارے آنے سے تو میرے دوست کی زندگی تھوڑی بڑھ گئی ہے۔  دیکھتی نہیں کہ کپل کتنا خوش ہے۔ ‘‘

’’انکل میں ڈیڈی کیلئے کچھ ایسا کرنا چاہتی ہوں جسے ڈیڈی اپنے ساتھ لے کر جائیں۔‘‘

’’تم ایسا کر سکتی ہو سونل۔  کپل ہمیشہ کہتے ہیں کہ میری اینجل کے گلے میں سرسوتی کا گھر ہے۔  تمہارے ڈیڈی جس کنسرٹ کی تیاری کر رہے ہیں۔  اُسے تم پورا کرو۔ ‘‘

’’میں یہ کس طرح کر سکتی ہوں انکل۔  چار پانچ سال سے میں نے گانا تو کیا، گنگنا کر بھی نہیں دیکھا اور پھر ڈیڈی اس حالت میں میری کچھ مدد بھی تو نہیں کر سکتے۔  اکیلے یہ سب مجھ سے نہیں ہو گا۔ انکل کچھ اور سوچئے۔ ‘‘

’’جانتی ہو اس سے تمہارے ڈیڈی کو کتنی خوشی ملے گی۔  یہ ان کی زندگی کا سب سے نایاب تحفہ ہو جائے گا۔  کنسرٹ میں ابھی تقریباً ًدو ماہ باقی ہیں۔  بس دعا کرو کہ اس وقت تک میرے دوست کو کچھ نہ ہو۔ ‘‘

’’انہیں کچھ نہیں ہو گا انکل۔ ‘‘ اور روتے ہوئے سونل، گوتم کے سینے سے لگ گئی۔

سینے سے ہی تو لگنا چاہتی تھی وہ اپنے ڈیڈی کے۔  سونل نے کپل کے لکھے سرگم پر کام کرنا شروع کر دیا۔  اس نے دل میں عہد کیا کہ وہ ڈیڈی کے خواب کو ضرورپورا کرے گی۔

گوتم روز آ کر کپل کے پاس بیٹھ جاتا تاکہ سونل چرچ میں جا کر ریاض کر سکے۔  سارا کام چپ چاپ ہو رہا تھا۔  سونل کے ذہن میں ایک ہی لگن تھی۔  اس کنسرٹ میں ڈیڈی کے لئے گانا اور گوتم انکل کے اعتماد کو جیتنا۔

کنسرٹ کی تاریخ آ گئی۔  آج کپل بار بار بے ہوش ہو رہے تھے۔  ڈاکٹر وں نے کہہ دیا تھا کہ کسی بھی وقت جا سکتے ہیں۔  سونل نے انجلی کو بلا لیا تھا۔

’’کپل۔۔ ۔  یار تمہیں تھوڑی دیر رکنا ہو گا۔ ‘‘ گوتم نے بھیگی آواز میں کہا’ ‘آج تمہاری بیٹی تمہیں زندگی کا سب سے بڑا تحفہ دینے والی ہے۔  تم ابھی نہیں جا سکتے میرے دوست۔  انجلی اسے روکو۔  اس بچی نے بڑی تکلیف سہہ کر اس کے لئے کچھ تیار کیا ہے۔ ‘‘انجلی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔

ٹھیک وقت پر کپل کے کانوں کے پاس ریڈیو رکھ کر انجلی نے آن کر دیا۔

کپل کے دوست گوتم کی آواز آئی۔  ’’جیسا کہ یہاں بیٹھے کافی لوگ جانتے ہیں کہ کپل صاحب اس وقت اسپتال میں ہیں۔  اس کنسرٹ کی بکنگ بہت پہلے ہی ہو گئی تھی۔  جس کی تیاری کپل کر رہے تھے کہ اچانک اس جان لیوا بیماری کے بارے میں انہیں پتہ چلا۔  انہوں نے اپنی اس بیماری کو چھپا کر سنگیت کا کام جاری رکھا۔  انہوں نے تو ہمت نہیں ہاری۔  لیکن بیماری کے ہاتھ ذرا زیادہ ہی لمبے نکلے۔  ان کی جگہ ان کی بیٹی اینجل ان کے لکھے اور کمپوز کئے گانے آپ کے سامنے پیش کرے گی۔  وہ کپل کے لکھے آخری گانے کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز کرے گی۔  تو تالیوں کے ساتھ خیر مقدم کیجئے اینجل کا۔ ‘‘سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

’’ ڈیڈی۔ ‘‘سونل کی آواز سن کر کپل کی بند ہوتی آنکھیں کھل گئیں۔  ’’ ڈیڈی آپ سن رہے ہیں نا۔  آپ کا آخری لکھا نغمہ آپ کی اینجل کا پہلانغمہ ہو گا۔  یہ آپ کی بیٹی، دنیا کے ہر کونے میں آپ کے سنگیت کو لے جا کر سنائے گی۔  آئی لو یو ڈیڈی۔ ‘‘

تالیوں کی گونج کے ساتھ اینجل نے آلاپ شروع کر دیا۔  خاموشی چھا گئی۔  وہ موسیقی میں ڈوب گئی۔  ایک ایک سُر اس کے دل سے نکل رہا تھا۔  اسے یوں لگا گویا ڈیڈی سامنے بیٹھے ہارمونیم بجا رہے ہوں۔  سونل کی آواز میں اتنا درد اورسُر میں اتنا سوز تھا کہ سننے والوں کی پلکیں بھی بھیگ گئیں۔  بیٹی کا گانا سن کر کپل کی آنکھوں میں تھوڑی دیر کیلئے چمک آ گئی۔

پروگرام ختم ہوتے ہی سب لوگ اینجل سے ملنا چاہتے تھے لیکن اینجل اپنے ڈیڈی سے۔  وہ اسپتال کی طرف بھاگی۔  انجلی اپنی طرف سے کپل کو باتوں سے الجھانے کی پوری کوشش کر رہی تھی کہ کپل سو نہ جائیں۔  ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اگر کپل سو گئے پھر شاید اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔  انجلی آج سونل کا نہیں کپل کی اینجل کا انتظار کر رہی تھی۔

’’انجلی۔۔ ۔  نیرج کیسا ہے۔ ‘‘ایک دم کپل کی آواز سن کر انجلی چونکی۔  اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔  جس نیرج کی وجہ آپ کی یہ حالت ہوئی ہے، اس وقت بھی آپ کو اس کی یاد آ رہی ہے۔  آپ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کپل۔

’’ ہاں انجلی۔۔ ۔  اُس دن تم بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ ‘‘کپل کمزور آواز میں بولے۔

’’خوش۔۔ میں تو اس دن کو کو ستی ہوں جب میں اور نیرج بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوٹل سے باہر نکل رہے تھے اور سامنے آپ کھڑے تھے۔ آپ کی وہ بے یقینی سے بھری حیران آنکھیں، مجھے اکثر راتوں کو جاگا جاتی ہیں۔  آپ اگر میری بے وفائی کی سزا دیتے تو شاید مجھے آج اتنی تکلیف نہ ہوتی۔  یہی میری سب سے بڑی سزا ہے کپل۔  جو آپ نے ہمیں اتنی آسانی سے معاف کر دیا۔ ‘‘

’’تم ایک بہت اچھی ماں ہو انجلی۔  بس خیال رہے کہ اینجل کو اس بارے میں کبھی پتہ نہ چلے۔ ‘‘وہ ڈوبتی آواز میں بولے۔

’’آئی ڈونٹ بِیلِیو۔  اٹ واز یو ممی۔ ‘‘دروازے پر اینجل کھڑی سب سن رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

سگریٹ بجھ گئی

 

گھر کے ارد گرد پولیس نے پیلے رنگ کی ٹیپ کا گھیرا ڈال دیا۔

سامنے سے نکلنے والا ہر راہگیر چند لمحوں کے لئے کھڑا ہو کر سوچنے لگتا کہ اس گھر میں کیا ہوا ہے ؟

اس گھر میں کسی کی موت ہوئی ہے۔  جس کی معلومات ڈاکیے سے ملی ہے۔  جب ڈاکیا لیٹر باکس میں خط ڈال رہا تھا، تو اسے اندر سے ایک عجیب طرح کی بد بو آئی۔  اس نے دروازے پر دستک دی۔  اندر کوئی ہلچل نہ ہوئی۔  پوسٹ مین کو کسی انہونی کا شک ہونے لگا۔  اس نے جیب سے موبائل نکال کر پولیس کا نمبرملادیا۔

پولیس کا نمبر کیا ملایا کہ شور مچاتی ہوئی دو پولیس کی گاڑیاں اور ایک ایمبولینس چند لمحوں میں وہاں پہنچ گئیں۔  اپنے چہرے پر ماسک پہن کر پولیس آفیسر نے دروازے کو زور سے دھکیلا۔  لیکن وہ اندر سے بند تھا۔  پہلے پولیس نے ’ماسٹر کی ‘  کی مدد سے تالا کھولنا چاہا۔  بہت سے ڈبل گلیز تالے ’ما سٹر کی‘ سے بھی نہیں کھلتے۔  آخر میں تھک ہار کر وہ دروازے پر لگا تالا توڑ کر اندر گھسے۔

اندر گھستے ہی انہیں زور کی بدبو آئی۔  کمرے میں بہت گرمی تھی۔  گیس فائر پوری تیزی سے جل رہا تھا۔  آگ کے سامنے ہی روکنگ چیئر پر ایک مرد بیٹھا تھا۔  یہ بدبو اسی سے آ رہی تھی۔  اتنی گرمی کی وجہ سے اس کے جسم کی جلد بھی پگھل کر ڈھلکنے لگی تھی۔  یہیں سے سڑے گوشت کی بو آ رہی تھی۔  کرسی سے نیچے لٹکتے اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں ایک سگریٹ دبی ہوئی تھی۔  جو نہ جانے کب کی، ایک طویل راکھ کی لکیر چھوڑ کر بجھ چکی تھی۔

اس مردہ شخص کی ٹانگوں پر ایک لفافہ پڑا ملا۔  یہ سوچ کر کہ شاید کوئی اشارہ مل جائے۔  پولیس آفیسر نے وہ لفافہ کھولا۔ اس سے ایک کارڈ نکلا، جس میں لکھا تھا۔

’’ہم سب کی طرف سے آپ کو اپنی پینسٹھویں سالگرہ کی بہت مبارک ہو – پُنِیت‘‘

لفافے کو پلٹ کر دیکھا تو تیس دسمبر کی لوفرو کی مہر لگی ہوئی تھی۔  آفیسر نے وہ کارڈ دوبارہ لفافے میں ڈال دیا۔  ہو سکتا ہے یہ کارڈ چھٹیوں کی وجہ سے دو جنوری کو ملا ہو۔  ان دنوں سردی بھی تو غضب کی تھی۔

پولیس نے پورے گھر کا معائنہ کیا۔  ان کے ساتھ آئے ہوئے فوٹوگرافر نے ہر کونے سے کمرے کی تصویریں اتاریں۔  کرسی پر بیٹھے اس مرد کی ہر زاویے سے بہت سی تصویریں لی گئیں۔  کرسی کے گرد چاک سے ایک لکیر کھینچ کر پولیس کا کام یہاں پر ختم ہوا۔

ان کا کام ختم ہوتے ہی ایمبولینسوں سے پیرامیڈکس کو بلایا گیا۔  پیرامیڈکس نے ماسک ہی نہیں ہاتھوں میں سفید رنگ کے دستانے بھی پہنے ہوئے تھے۔  پہلے لاش کی جانچ پڑتال کی گئی۔  پیرامیڈکس نے پولیس کے حکم سے گیس فائر بند کر دیا گیا۔  بغیر پوسٹ مارٹم کے یہ بتانا مشکل تھا کہ موت کتنے دن پہلے ہوئی تھی۔

لاش کے چیک ہو جانے کے بعد اس لاش کو ایک کمبل میں لپیٹ دیا گیا۔  ایمبولینس سے اسٹریچر لا کر لاش کو آرام سے اس پر لٹا دیا۔  پھر وہ پورا اسٹریچر ایمبولینس کے اندر لے گئے۔

ایمبولینس جس تیزی سے شور مچاتی ہوئی آئی تھی۔  اب اتنی ہی اداسی سے آہستہ سے سرکتی ہوئی وہاں سے روانہ ہو گئی۔

دروازے پر نیا تالا لگوا کر پولیس نے اس پر بھی پیلے رنگ کا ٹیپ لگا دیا۔

جس گھر سے لاش ملی ہے، یہ سارا کونسل کا ایریا ہے۔  یہاں زیادہ تر بزرگ یا ساٹھ سال سے اوپر کے سنگل لوگ ہی رہتے ہیں۔  جِلین جو اس گھر سے تین چار گھروں کے فاصلے پر ہی رہتی ہے۔  پولیس اور ایمبولینس کی آوازیں سن کر بے چینی سے دیکھنے چلی آئی۔

’’روزی یہ تمہارے پڑوسی کے گھر میں کیا ہوا ہے ؟‘‘

’’یہاں میرے پڑوس میں جو شخص رہتا تھا، اس کی موت ہو گئی ہے۔  ابھی پولیس تفتیش کرنے آئی تھی۔  انہی سے پتہ چلا ہے۔ ‘‘

’’یسوع مسیح۔ ‘‘جِلین اپنے سینے پر کراس بناتے ہوئے بولی، ’’کچھ پتہ چلا اس کی موت کب ہوئی اور کیسے ہوئی؟‘‘

’’نہیں جِلین پولیس گھر گھر جا کر یہی پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ کون تھا۔  پڑوسی ہونے کے ناطے میں تو بس اتنا ہی جانتی ہوں کہ اس کا نام گھنشیام گپتا تھا۔  وہ بہت ہی بھلا انسان تھا۔  جو نہ کسی کے لینے میں تھا، نہ دینے میں تھا۔  ایک بہت ہی تنہا انسان۔  جسے کبھی اس کے بچے یا رشتہ دار ملنے نہیں آئے۔ ‘‘

’’اکیلے تو ہم سب ہیں روزی۔  نہ جانے ہمارا انجام کیسا ہو گا۔ ‘‘ جِلین اداس ہوتے ہوئے بولی۔

’’ایسا مت سوچو جِلین۔  ہم سب ہیں نہ یہاں ایک دوسرے کے لئے۔ ‘‘

’’کب تک۔  جب وقت آئے گا تو کیا معلوم کون کہاں ہو گا۔ ‘‘اس نے چلتے ہوئے کہا۔

پولیس بھی بس اتنا ہی معلوم کر پائی کہ اس میت کا نام گھنشیام گپتا تھا۔  پوسٹ مارٹم کے مطابق اس کی موت اکتیس دسمبر اور دو جنوری کے درمیان میں ہوئی ہے۔  آج ستائیس جنوری ہے۔  اس کا مطلب پچیس دن سے اوپر ہو گئے اس کی موت کو۔  ہمیں جلد ہی معلوم کرنا چاہیے کہ یہ کارڈ بھیجنے والا کون ہے۔  پولیس اس کے خاندان کے بارے میں جاننے کے لئے اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

کام تو کسی کا نہیں رکتا چاہے کیسا بھی موسم کیوں نہ ہو۔  گرمی ہو یا سردی۔  لگتا ہے اس سال کچھ زیادہ ہی سردی پڑ رہی ہے۔  دستانوں کے اندر بھی انگلیاں سردی کے مارے جیسے سکڑ رہی ہوں۔

اس دن بھی ایسے ہی کڑاکے دار سردی تھی۔  برطانیہ کے لوگ وائٹ کرسمس مانگتے ہیں۔  لیکن موسم کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ کرسمس کے مقام پر اس سال وائٹنو سال ضرورہو گا۔

کل رات سے ہی برفباری ہو رہی ہے۔

نئے سال کا آغاز کتنی گرمجوشی سے ٹھنڈی برف کے پھوئے اڑاتے ہوئے ہوا۔  موسم خزاں کے بعد جن ننگے درختوں کی ڈالیاں شرم سے جھکی ہوئیں تھیں۔ وہ آج سفیدبرف کے کپڑے پہن کس طرح فخر سے سر اٹھائی جھوم جھوم کر زمین پر سفید موتیوں کی چادر بچھا رہی ہیں۔

فطرت کا ایک اتنا خوبصورت نظارہ، جس نے راتوں رات سفید رنگ پھیلا کر پورے ماحول کوپوتر کر دیا کہ جسے دیکھ کر انسان تو کیا جانوراور پرندے بھی اپنی سدھ بدھ کھو دیں۔

سدھ بدھ تو گھنشیام کی کھو چکی ہے۔  انگلیوں میں سگریٹ دبائے روکنگ چیئر کو کھینچ کر وہ لمبے شیشے کے دروازے کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔  اس دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا برآمدہ اور اس کے آگے گارڈن ہے۔  گھر کو دوسرے گھروں سے علیحدہ کرنے کیلئے گارڈن کے ارد گرد لکڑی کی فینس لگی ہوئی ہے، جو بھورے رنگ کی ہے۔  موسمِ خزاں ہونے کی وجہ سے گارڈن میں کوئی پھول پتی دکھائی نہیں دے رہی۔  دھیرے دھیرے سب کچھ برف سے ڈھکتا چلا جا رہا ہے۔

برف کو دیکھ کر گھنشیام کو اپنی چھوٹی بیٹی رِچا کی یاد آ گئی۔

’’ پاپا دیکھئے نا کتنی زوروں کی برف گر رہی ہے۔  چلئے سنو مین بنائیں۔ ‘‘

’’بیٹا اتنی سردی میں بیمار ہو گئیں تو ماں ہم دونوں کو ڈانٹے گی۔ ‘‘گھنشیام، رِچا کو کوٹ پہناتے ہوئے بولے۔

’’پاپا چلئے نہ بس چھوٹا سا بنائیں گے۔ ‘‘اس نے دونوں ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا۔  جن میں گاجر، ٹماٹر اور کھیرے تھے۔

گھنشیام بیٹی کی بات نہ ٹال سکے اور چل پڑے دونوں باپ بیٹی گرتی برف میں سنو مین بنانے۔  ایک بڑا سا برف کا پتلا بنایا گیا۔  گاجر سے اس کی ناک، ٹماٹر کی پھانک سے ہونٹ اور کھیرے کے دو گول ٹکڑے کاٹ کر اس سنو مین کی آنکھیں بنائی گئیں۔  برف میں کام کرتے ہوئے دونوں باپ بیٹی کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔

پرانی یادوں میں کھویا گھنشیام انجانے میں ہی اپنے ہاتھوں کو مل کر گرم کرنے لگا۔

باہر کی ٹھنڈی برف بھی اس کے اندر اٹھتے سوچوں کے ابال کو نہ روک سکی۔  کہاں گیا وہ سب کچھ۔  ایک چھوٹی سی بھول سے جیسے زندگی ہی رک گئی ہو۔  آخر کب تک وہ اپنی غلطیوں کی صلیب کو ڈھوتا رہے گا۔  کہنے کو وہ چار بچوں کا باپ ہے۔  ایک بھراپورا خاندان ہے اس کا۔  کہاں ہے وہ خاندان جسے اس کے بے بنیاد شک اور جھوٹے گھمنڈ نے ٹھوکر مار دی۔  بچے اس کے ہو کر بھی اس کے نہیں رہے۔ نہیں یہ جھوٹ ہے۔  وہ سب تو آج بھی اسی کے ہیں، مگر وہ ہی ان کا نہ ہو سکا۔

دروازے پر ایک آواز سن کر اس کی سوچ کو جھٹکا لگا۔  بد دلی سے بڑبڑاتے ہوئے وہ اٹھا۔  لوگوں کے پاس پتہ نہیں کتنا بیکار وقت اور پیسہ ہے، جو یوں ہی کاغذوں کے پلندے دوسروں کے گھروں میں پھینکتے رہتے ہیں۔

ارے یہ تو کوئی خط لگتا ہے۔  اس پر لوفبرو کی مہر دیکھ کر خط اس کے ہاتھ سے گرگیا۔  سالوں پہلے ایسا ہی ایک خط آیا تھا۔  کتنا فخر محسوس کیا تھا اس نے اسے اپنی جیت سمجھ کر کہ۔۔ ۔۔ ۔

چلو سیما نے اپنی غلطی مان ہی لی۔  ضرور معافی مانگ کر مجھے واپس بلایا ہو گا۔  آخر شوہر ہوں اس کا۔  مگر لفافہ کھولتے ہی اس کا سر گھوم گیا کہ یہ انہونی کیسے ہو گئی۔  ایک بھارتی بیوی ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔  مارواڑی خاندان میں یہ پہلی ایسی عورت ہو گی جس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہو۔  ضرور کسی نے اسے سکھایا ہو گا۔

ہاں ہیں نہ اسے سکھانے والے ایک اتُل اور دوسری الکا۔

وہ سیما جس کو وہ کتنا کچھ کہہ دیتا تھا۔  جواب دینے کی جگہ پر وہ خاموشی سے آنسو بہاتی ہوئی کمرے سے باہر چلی جاتی تھی۔  آج اس میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی۔

وہ عورت کی ہمت اور طاقت کو شاید بھول گیا تھا۔  آج سیما نے وہ کر کے دکھا دیا۔  جس کی وہ اسے ہمیشہ دھمکی دیتا آیا ہے۔  بیوی کی طرف سے آیا طلاق نامہ اس کے ہاتھوں میں کانپ رہا تھا۔  اسے اس طلاق نامے پر دستخط کر کے واپس بھیجنا ہے۔

سنار زیورات تراشنے کیلئے چھوٹی سی ہتھوڑی بڑے پیار سے زیورات پر چلاتا ہے۔  وہیں لوہار کو لوہے کا سامان بنانے کیلئے ہتھوڑا زور سے مارنا پڑتا ہے۔  آج سیما نے بھی ایک ہی وار میں برسوں کےد بی ہوئی توہین کے غبار کو نکال دیا۔

یہ سب کرنا اس کے لئے بھی آسان نہیں تھا.۔  شادی کے سولہ سالوں میں اس نے سینکڑوں بار سنا ہو گا ’’میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ ‘‘برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔  ابھی تک وہ چار بچوں کی وجہ سے خاموش تھی۔  خاموشی بھی کبھی جوار بھاٹے کی طرح چڑھ کر سارا لاوا اگل کر پرسکون ہو جاتی ہے۔

سکون تو اب گھنشیام کا ختم ہو چکا تھا۔  اسے ابھی تک عورت کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔

اندازہ ہوتا بھی تو کیسے۔  انڈیا سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی برطانیہ میں اس کی انگریزی زبان کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا۔  جب اس کا ’کان پوریا لہجہ‘  کبھی بچے بھی نہ سمجھ پاتے تو وہ ان پر جھلا اٹھتا۔  ادھر سیما بھی ہندوستان ہی سے پڑھ کر آئی ہے۔  اس کی پڑھائی مشنری اسکول میں ہونے کی وجہ سے اسے برطانیہ میں آ کر انگریزی بولنے یا سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔  ایک مرد اور ہندوستانی شوہر ہونے کے ناطے، گھنشیام کس طرح برداشت کر سکتا تھا کہ اس کی بیوی اس سے آگے نکل جائے۔

برداشت تو سیما کرتی آ رہی تھی، جسے گھنشیام اس کی کمزوری سمجھ کر اسے ذہنی دباؤ دینے سے نہ چوکتا۔  ایک وفادار عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے، مگر اپنے کردار پر شک کبھی برداشت نہیں کر سکتی۔  ایک تو وہ کام سے تھکی ہاری آتی اور آتے ہی شوہر کی زبان سے پھول برسنے لگتے۔  آخر میں بات ہمیشہ اسے چھوڑ دینے پر ہی ختم ہوتی۔  گھنشیام نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی گیڈر بھبھکیوں کا جواب کبھی ایسا بھی مل سکتا ہے۔

سگریٹ کے کش کھینچتے ہوئے، ہاتھ میں خط لے کر گھنشیام روکنگ چیئر پر بیٹھ گیا۔  اب یہ کرسی ہی تو اس کی اکلوتی ساتھی ہے، جو اسے آرام دینے کے ساتھ، پرانی یادوں میں لے جا کر اس کی غلطیوں کا احساس بھی دلاتی رہتی ہے۔

ان غلطیوں کا احساس جنہیں سیما ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی۔  گھنشیام اسے عورت کی کمزوری سمجھتا رہا۔  کسی پر ہاتھ اٹھانے سے صرف جسم پر چوٹ لگتی ہے۔  مگر یہ روز روز کے طعنے دل پر گہرا گھاؤ چھوڑ کر، سوراخ کر کے نکل جاتے ہیں۔

سوراخ تو آج یہ سردی کرتی جا رہی ہے سارے جسم میں۔  برف باری کی رفتار اور بڑھ گئی تھی۔  اب تو ساتھ میں تیز ہوا بھی چلنے لگی تھی۔  جسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا گویا برف میں ایک طوفان اٹھا ہو۔  باہر ایسا ماحول دیکھ کر گھنشیام کو اور سردی لگنے لگی۔  اس نے کندھے پہ پڑی شال کو اپنے چاروں طرف لپیٹ لیا اور اٹھ کر جلتی ہوئی گیس فائر کو تھوڑا سا اور اونچا کر دیا۔  گھنشیام نے اس بڑے دروازے کے پاس سے روکنگ چیئر کو کھینچ کر اس گیس فائر کے سامنے رکھ دیا۔

یہ گرتی برف ہمیشہ اس کے دل میں گرما گرم چائے پینے کی خواہش جاگا دیتی ہے۔  کچن میں جا کر اس نے ایک پتیلی میں پانی ڈالا اور گیس پر اسے چڑھاتے ہوئے پھر خیالوں میں کھو گیا۔

’’ ذرا اچھی سی کڑک چائے تو پلاؤ اور ہاں دیکھو آج دو چمچ چینی بھی ڈال دینا۔  پھیکی چائے پی پی کر منہ کا ذائقہ بھی خراب ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’آپ جانتے ہیں کہ آپ کے لئے چینی ٹھیک نہیں ہے۔  مشکل سے آپ کی انسولین کم ہوئی ہے۔ ‘‘سیما چائے بناتے ہوئے بولی۔

’’چاہے تم کچھ بھی کر لو یہ میری شوگر کی بیماری تو پیچھا چھوڑنے والی ہے نہیں۔  کم سے کم چائے تو مطلب کی پی لینے دیا کرو۔ ‘‘

ہاتھ میں جلتی سگریٹ سے جب انگلیاں جلیں تو اس کی سوچ کی ڈور ٹوٹی۔  گیس پہ رکھی چائے کا پانی ابل کر آدھارہ گیا تھا۔  گھنشیام نے اس میں بھر کے دو چمچ چائے کی پتی کے ڈالے۔  آدھا کپ دودھ کا۔  تین چمچ چینی کے ڈال کر اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ سیما کو چڑا رہا ہو، اس نے چائے کو خوب ابالا۔  آج وہ ایسی چائے پینا چاہتا تھا۔  جو اس کے کلیجے کے ساتھ اس کی ساری پرانی یادوں کو بھی جلا کر راکھ کر دے۔  بالکل اس جلتی ہوئی سگریٹ کی طرح۔

ایسا ہی ایک ابال اس دن سیما کے سینے میں بھی اٹھا تھا۔  اس کے سامنے کچھ کاغذ بکھرے پڑے تھے۔  وہ جنہیں پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔  آج گھنشیام نے رحم کی ہر حد کو توڑ دیا تھا۔  طلاق نامے پر تو دستخط کرنے ہی تھے۔  مگرساتھ میں ایک پرچہ بھی تھا۔

’’لو آج میں تمھیں ہی نہیں تمہارے بچوں کو بھی طلاق دیتا ہوں۔ ‘‘

سیما کبھی ایک کاغذ اٹھاتی اور کبھی دوسرا۔  پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے۔  گھبراہٹ کی وجہ سے ساڑی کا پلو دانتوں میں دبا کر زور سے کھینچ دیتی۔  ایک دستخط اور سولہ سال کا رشتہ ختم۔  یہ سات پھیرے، سات وچنوں سے بندھے رشتے کیا اتنے کمزور ہوتے ہیں جس کا فیصلہ ایک کاغذ کا ٹکڑا کر لیتا ہے۔

کیا یہ وہی سیما ہے جو دفتر میں روزانہ نجانے کتنے بڑے فیصلے لیتی ہے۔  سارا دن کتنے ہی خطوط پر دستخط لیتی اور کرتی ہے۔  آج اس کاغذ پر دستخط دیکھتے ہوئے اس کا تمام وجود کیوں کانپنے لگا؟ وہ بچوں کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گی؟ وہ معاشرے کی نظروں کا سامنا اکیلی کس طرح کرے گی؟ دوش تو سب اسی کو دیں گے۔

ایک عورت شوہر کے ظلم سہتی ہوئی، خاموشی سے جیتی رہے تو معاشرہ خوش ہے۔  لیکن جہاں اس نے سر اٹھایا۔  کتنے ہی جوتے اس کو کچلنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔  وہ جانتی ہے کہ اس کے اس فیصلے کو ماں اور بھیا کبھی نہیں مانیں گے۔  اس میں اوریئنٹڈ سوسائٹی میں پیدا ہوتے ہی لڑکی کی زبان کو سی دیا جاتا ہے۔  شوہر کا ہر ظلم برداشت کرنا، بہترین گرہستی کا سمبل سمجھا جاتا ہے۔  قربانی ہی عورت کا دوسرا نام ہے۔

دروازے پر دستک سن کر سیما کے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ چھوٹ کر میز پر یوں بکھر گئے کہ گویا وہ کوئی چوری کرتی ہوئی پکڑی گئی ہو۔ دیکھا تو سامنے اس کے دوست الکا کھڑی تھی۔

سیما کے صبر کا بند سارے بندھن توڑتا پوری رفتار سے بہہ نکلا۔

’’ سب کچھ ختم ہو گیا الکا۔ ‘‘وہ اس کے سامنے کاغذ بڑھاتے ہوئے ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔

’’کچھ ختم نہیں ہوا سیما۔ ‘‘کاغذ پڑھتے ہوئے الکا نے سیما کو گلے لگا لیا، ’’ یہ تو تمہاری نئی زندگی کی شروعات ہے۔  سنبھالو اپنے آپ کو۔  کیا یہ میری وہی بہادر سہیلی سیما ہے۔۔ ۔ ‘‘

’’میں ٹوٹ چکی ہوں الکا۔ ‘‘

’’اجی جس کے چار چار سہارے، ستونوں کی مانند ایک ساتھ کھڑے ہوں، وہ کس طرح ٹوٹ سکتی ہے۔  آفس کی شیرنی کو یہ سب زیب نہیں دیتا سیما۔  ہمیں اپنی دوست کی ایک یہ ہی ادا تو پسند ہے کہ جس کی محبت میں کوئی آواز نہیں اور ٹوٹے تو جھنکار نہیں۔ ‘‘

جھنکار تو اس دن ہوئی تھی، جب وہ تھکی ہاری رات کو آٹھ بجے گھر لوٹی تھی۔  دروازہ کھولتے ہی گھنشیام اس پر بپھر پڑے۔  ’’کبھی گھڑی بھی دیکھ لیا کرو مہارانی۔ ‘‘

’’معاف کرنا شام، میٹنگ ذرا زیادہ ہی لمبی کھنچ گئی۔ ‘‘

’’یہ تمہارا کون سا آفس ہے، جو آدھی رات تک کھلا رہتا ہے۔  تمہیں یہ بھی بھلا دیتا ہے کہ گھر میں تمہارا شوہر اور بچے ہیں۔  وہ بھی تمہارا انتظار کرتے ہیں۔ ‘‘

سیما کا آج کا دن آفس میں ویسے ہی برا گزرا تھا۔  یہ نیا باس پرمود ناگر جب سے آیا ہے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرتا رہتا ہے۔  سیما کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔  سارا دن کچھ کھانے کی بھی فرصت نہیں ملی تھی۔  اوپر سے گھر آتے ہی ہمیشہ کی طرح گھنشیام کا کراس ایگزامنیشن۔  وہ بڑے پرسکون لہجے میں بولی، ’’بچوں کے پاس آپ جو ہیں شام۔  میں جانتی ہوں آپ انہیں کبھی میری کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔ ‘‘

’’ ہاں میں گھر میں بچوں کی آیا بنا رہوں، تمہاری نوکری کرتا رہوں۔  یہی تو چاہتی ہو نہ تم۔ ‘‘

’’کسی کو تو کام کرنا ہے نہ شام۔ ‘‘

ابھی سیما کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ گھنشیام تڑپ کر بولے۔  ’’’تمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے۔  میں ہڈ حرام ہوں۔  تمہاری کمائی پر جی رہا ہوں۔  جانتی ہو کہ تم سے زیادہ کماتا ہوں میں۔  چار دن مجھے نوکری سے گھر کیا بھیج دیا کہ تم دکھانے لگیں اپنے رنگ۔  ایک دن چھوڑ دوں گا تو نکل جائے گا سارا غرور۔  دیکھتا ہوں کس طرح پالتی ہو نوکری کے ساتھ بچوں کو۔ ‘‘

‘شام پلیز آہستہ بو لئے۔  بچے کہیں سن نہ رہے ہوں۔ ‘‘

’’اچھا ہے جو وہ بھی سنیں اپنی ماں کے کرتوتوں کو۔  یہ آج پھر اتُل آیا تھا نہ تمہیں چھوڑنے۔ ‘‘

’’آپ ہی تو صبح مجھے کام پر چھوڑ کر آئے تھے۔  آپ کی کار سروس کے لئے جانے والی تھی۔  پھر اگر اتُل مجھے چھوڑ کر گیا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔  ہمارا گھر اس کے راستے میں ہی تو پڑتا ہے۔ ‘‘

’’صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ تم دونوں کے درمیان کچھ چل رہا ہے۔ ‘‘

’’شام اتنا گندا الزام لگانے سے پہلے یہ تو سوچ لیا ہوتا کہ میں آپ کی بیوی اور چار بچوں کی ماں ہوں۔ ‘‘ سیما ہمیشہ کی طرح روتی ہوئی بغیر کچھ کھائے وہاں سے جانے لگی تو گھنشیام پیچھے سے بولے۔

’’میں کل صبح لیڈز جا رہا ہوں۔  کل صبح تک بھی کیوں رکو۔  ابھی جا رہا ہوں۔  مجھے جاب پر واپس بلا لیا گیا ہے۔ ‘‘

’’شام کچھ دن اور ابھی بچوں کے پاس رک جاتے۔  میرے آفس میں کافی گڑبڑ چل رہی ہے۔ ‘‘سیما جاتے ہوئے رک گئی۔

’’کیوں کیا میں تمہارے بچوں کی آیا ہوں۔ ‘‘گھنشیام چلا کر بولے۔

’’یہ بچے آپ کے بھی تو ہیں۔ ‘‘

’’نہیں یہ میرے نہیں تمھارے بچے ہیں۔  سنبھالو اپنی گرہستی کو اکیلے۔  میں بھی دیکھتا ہوں تم کتنی دیر تک۔۔ ۔  مجھے تم سے اور تمہارے بچوں سے کوئی مطلب نہیں۔ ‘‘اوپر بیڈروم کا دروازہ زور سے بند ہوا۔  جس کا سیما کو ڈر تھا وہی ہوا۔  بچوں نے سب کچھ سن لیا تھا۔

سنایا اور سکھایا تو گھنشیام نے تھا۔  جانے سے پہلے اپنی منجھلی بیٹی رینو کو۔

’’رینو بیٹا پاپا کا ایک کام کرو گی۔ ‘‘

’’جی پاپا۔ ‘‘

’’یہ ہم دونوں کے بیچ کی بات ہو گی۔  مما کو اس بارے میں کچھ نہیں بتانا۔  تم تو جانتی ہی ہو کہ مما تمہیں کتنا ڈانٹتی ہیں۔  تم میری لاڈلی بیٹی ہو، اس لئے تم کو یہ کام سونپ کر جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’بولئے پاپا مجھے کیا کرنا ہو گا۔ ‘‘

’’میں کل صبح لیڈز واپس جا رہا ہوں۔  آپ صرف اپنی مما پر نظر رکھنا کہ وہ کتنے بجے کام سے گھر آتی ہیں اورا تُل انکل ساتھ میں آتے ہیں کہ نہیں۔ ‘‘

’’ا تُل انکل مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے پاپا۔ ‘‘

’’میں جانتا ہوں بیٹا۔  اسی لئے تو یہ کام تمہاری بڑی بہن کو نہیں بلکہ تمہیں سونپ رہا ہوں۔ ‘‘

’’آئی لو یو پاپا۔ ‘‘رینو، پاپا سے لپٹتے ہوئے بولی۔

’’ٹھیک ہے بیٹا۔  میں تمہیں فون کرتا رہوں گا۔ ‘‘

آج گھنشیام نے چھوٹی سی بچی کے ذہن میں بھی شک کا بیج ڈال دیا تھا۔

یہ بیکار کا شک گھنشیام کو نجانے کہاں لے جائے گا۔  وہ تو سیما کی کوئی منطق سننے کو تیار نہیں ہیں۔  سیما کی فیمی نیٹی سے گھائل ہو گئے ہیں۔  آدمی کو اپنی مسکیو لنیٹی کا اتنا گھمنڈ۔  اب میں ان کو دکھاؤں گی کہ مرد کے بغیر بھی عورت مکمل ہے۔  سیما کی آنکھوں کے آنسو سوکھ گئے۔  نہیں وہ بے بس عورت بن کر نہیں جیے گی۔

سیما آفس میں بیٹھی کچھ خطوط پڑھ رہی تھی کہ پرمود اس کے کمرے میں آیا۔

’’ سیما جی آج شام کو کام کے بعد کچھ دوسرے کمیونٹی سینٹرز کے ساتھ میں نے میٹنگ رکھی ہے، جس میں آپ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ‘‘

’’سوری مسٹر ناگر۔  میری جاب ایگریمنٹ میں مہینے میں صرف ایک لیٹ نائٹ میٹنگ کے بارے میں لکھا ہے اور وہ میٹنگ کل ہو چکی ہے۔  میں ساڑھے پانچ کے بعد نہیں رک سکتی۔  آپ میرے بغیر چاہیں تو یہ میٹنگ کر سکتے ہیں۔ ‘‘سیما نے ایسی گھمبیر آواز میں کہا کہ پرمود آگے کچھ کہہ نہ سکا۔

یہ آج اتنی سنجیدہ کیوں ہے، پرمود سوچنے لگا۔  ضرور کل رات شوہر کے ساتھ تو تو میں میں ہوئی ہو گی۔  یہی تو میں چاہتا ہوں۔  کام میں تو اسے کوئی ہرا نہیں سکتا۔  ایسے ہی سہی۔

ایسے ہی سوچتے ہوئے پرمود آگے کچھ اور منصوبے بنانے لگا سیما کو تنگ کرنے کیلئے۔  اسی سیما کی جگہ پر کوئی انگریز عورت ہوتی تو پرمود اس کے تلوے چاٹ رہا ہوتا۔  مگر ایک ہندوستانی مرد کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ آفس میں کسی ہندوستانی عورت کی معلومات اس سے زیادہ ہو۔

معلومات لینے کیلئے ہی تو گھنشیام نے رینو کو فون کر ڈالا یہ جانے بغیر کہ آج سیما گھر پرہے۔  فون اس کی بڑی بہن رنبھا نے اٹھایا۔

’’ہیلو رنبھا بیٹے فون ذرا رینو کو دینا۔ ‘‘

’’جی پاپا۔ ‘‘

’’کس کا فون ہے رنبھا؟ ‘‘سیما نے جاننا چاہا۔

’’پاپا کا ہے مم، وہ رینو سے بات کرنا چاہتے ہیں۔  ویسے وہ اکثر رینو سے بات کرتے ہیں۔ ‘‘

اُدھر رینو بول رہی تھی، ’’جی پاپا۔۔ ۔  نہیں ممی آج کل بہت جلدی گھر آتی ہیں۔  میں ہمیشہ ان پر نظر رکھتی ہوں۔  کون اتُل انکل، وہ تو جب سے آپ گئے ہیں کبھی بھی گھر نہیں آئے۔ ‘‘

یہ سنتے ہی سیما کا سر جھنجھنا اٹھا۔  شام اتنی چھوٹی سی بچی سے جاسوسی کروا رہے ہیں، وہ بھی اپنی ماں کی۔  سیما نے فون رینو کے ہاتھ سے لے لیا۔

’’آپ جانتے ہیں کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں شام۔  اپنا کام نکالنے کیلئے ایک چھوٹی سی بچی کے دماغ میں اپنی ماں کے خلاف زہر بھر رہے ہیں۔  کتنی اچھی تربیت کر رہے ہیں نہ اپنے بچوں کی۔ ‘‘

’’جب گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلتا تو اسے ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ گھنشیام غصے سے بولے۔

’’بزدلوں کی طرح بچوں کو استعمال کرنا چھوڑیئے اور مجھ سے بات کریں کہ آپ کیا جاننا چاہتے ہیں۔  ابھی تک میں ایک بیوی کا دھرم نبھا کر خاموش تھی۔  لیکن آج آپ نے ایک ماں کی ممتا کو للکارا ہے۔  جو میں ہر گز برداشت نہیں کر سکتی۔ ‘‘

’’آج تمہاری ہمت اتنی بڑھ گئی ہے جو مجھ سے ایسے بات کر رہی ہو۔  ہاں اتُل جو آ گیا ہے تمہاری زندگی میں۔ ‘‘

’’بس۔۔ ۔  اب آگے ایک اور لفظ نہیں۔  آپ میری ہمت دیکھنا چاہتے ہیں نہ تو دیکھئے۔ ‘‘سیما نے فون پٹخا۔  اس کا سارا جسم پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔

کیا یہ وہی انسان ہے جس کے ساتھ میں نے سولہ سال گزارے ہیں۔  اتنی کڑواہٹ۔

سیمانے غصے سے فون اٹھا کر ایک نمبر گھمایا، ’’ہیلو ٹیلی فون ایکسچینج۔ ‘‘

’’میں سیما گپتا بول رہی ہوں۔  میں اپنا فون نمبر تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’کوئی خاص وجہ۔  آپ کب سے بدلنا چاہتی ہیں میڈم۔ ‘‘اُدھر سے آواز آئی۔

’’جی ذاتی وجہ ہے۔  آج سے ہی بدل دیجئے تو اچھا ہے۔ ‘‘

سیما نے فون ہی نہیں بدلا بلکہ اپنی زندگی کا صفحہ ہی بدل دیا۔  گھنشیام نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی دھمکیوں کا اتنا سخت جواب آئے گا۔

گھنشیام چاہ کر بھی پھر کبھی لوفبرو نہ آ پائے .۔  کیا منہ لے کر آتے۔  خود ہی تو سیما سے کہہ دیا تھا کہ بچوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔  یہ ایک ماں کے ساتھ ان بچوں کا بھی توہین تھی۔

سیما نے ہمت نہ ہاری۔  ایک اکیلی عورت کیلئے آسان نہیں کہ وہ ڈیمانڈینگ جاب کرتے ہوئے بھی بچوں کوا چھی تربیت اور اچھی تعلیم دے۔

کام پر جب دیکھو پرمود ناگر کوئی نہ کوئی مشکل پیدا کرتا ہی رہتا۔  سیما لوفبرو جیسے چھوٹے شہر میں رہتی ہے۔  لوگوں کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ وہ شوہر سے الگ ہو گئی ہے۔  یہ سن کر پرمود ناگر کی ہمت تھوڑی اور بڑھ گئی۔

سیما، پرمود کے آفس کے باہر سے نکل رہی تھی کہ کچھ سن کر وہیں ٹھٹک گئی۔

پرمود بول رہا تھا، ’’ ایک نوجوان عورت چاہے دوسروں کے سامنے کتنی بھی سخت کیوں نہ بن جائے، لیکن اکیلے میں کبھی تو دل مچلتا ہو گا۔  اب وہ وقت دور نہیں جب وہ خود آ کر یہاں بیٹھے گی۔ ‘‘ پرمود اپنی ٹانگ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہا تھا اور باقی اس کے چیلے چپاٹے سب ہنس رہے تھے۔

سب کی ہنسی ہی نہیں منہ بھی بند ہو گئے۔  جب دروازے پر سیما کو کھڑے دیکھا۔

سیما آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اندر آئی۔  وہ سیدھی آ کر پرمود کے سامنے کھڑی ہو گئی، ’’کیا کہہ رہے تھے آپ مسٹر ناگر۔  میں نے ٹھیک سے سنا نہیں۔ ‘‘

پرمود، سیما کو وہاں کھڑا دیکھ کر سٹپٹا گیا۔  لیکن فوراً ہی خود کو سنبھالتے ہوئے بولا، ’’بس یوں ہی کچھ۔  شوہر کی طرف سے چھوڑی ہوئی عورتوں کی بات کر رہے تھے کہ ایسی عورتوں کو معاشرہ کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ‘‘

’’یہ شاید آپ سولہویں صدی کی بات کر رہے تھے مسٹر ناگر، جب عورت پوری طرح سے شوہر کے اوپر انحصار کرتی تھی۔  میں آپ کو یاد دلا دوں کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔  آج کی پڑھی لکھی عورت خود پر انحصار کرتی ہے اوراپنے خاندان کو بلند کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہے۔  آپ ٹانگ پر ہاتھ مار کر کچھ کہہ رہے تھے۔  ایسے ہی صدیوں پہلے کسی نے ٹانگ پر ہاتھ مار کر یہی الفاظ کہے تھے اور اس کا حشر کیا ہوا تھا، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ‘‘

’’میں تو یہاں آج شام کی میٹنگ کے بارے میں کچھ بات کرنے آئی تھی۔  لیکن دیکھ رہی ہوں کہ آپ اس سے زیادہ خاص باتوں میں مصروف ہیں۔  آپ کو وقت ملے تو ہم کچھ کام کی بات کر لیں گے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے سیما نے پرمود کا آفس چھوڑ دیا۔

چھوڑنا تو گھنشیام بھی چاہتا ہے ان یادوں کو۔  چائے کا کپ لے کر وہ گیس فائر کے سامنے روکنگ چیئر پر بیٹھ گیا۔  اس کے دوسرے ہاتھ میں وہی خط تھا جو ابھی تک اس نے کھول کر نہیں دیکھا تھا۔

سوچتے ہوئے کہ اس بار سردی کچھ زیادہ ہی پڑ رہی ہے۔  وہ چائے کی چسکیاں لینے لگا۔  گرم چائے تھوڑی کڑوی، تھوڑی میٹھی۔  ہر گھونٹ کلیجے میں گرماہٹ چھوڑتے ہوئے نیچے اترنے لگا۔

اسے بائیں بازو میں ہلکا سا درد محسوس ہوا۔  اس نے خود کو تسلی دی کہ سردی بہت ہے شاید اس لئے درد ہو رہا ہو گا۔  اب جوانی تو رہی نہیں بڑھاپے میں اعضاء بھی تو ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔  اس نے شال کو تھوڑا اور لپیٹ لیا۔

درد تو اس دن بھی اٹھا تھا، جب وہ شکایت لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔

’’ڈاکٹر یہ کبھی کبھی سینے میں اور کبھی بازو میں ہلکا سا درد ہونے لگتا ہے۔  شاید بدہضمی کی وجہ سے ہو۔ ‘‘

وجہ جاننے کیلئے ہی ڈاکٹر نے چیک کرتے ہوئے کہا، ’’مسٹر گپتا آپ ڈائی بیٹک ہو۔  ہر وقت یہ سگریٹ آپ کے ہونٹ کے ساتھ چپکی رہتی ہے۔  ایک ابھی بجھنے نہیں پاتی کہ آپ دوسری سلگا لیتے ہو۔  چھوڑ کیوں نہیں دیتے اس زہر کو۔ ‘‘

’’ سب کچھ تو چھوٹ گیا ہے ڈاکٹر ۔  اب اسے بھی چھوڑ دوں گا تو جیوں گا کس کے سہارے۔  یہ میری سانسوں کے ساتھ جلتی ہے۔  اس کے بجھتے ہی گھنشیام بھی بجھ جائے گا۔ ‘‘اور ایک زوردار قہقہہ مار کر گھنشیام کرسی چھوڑ کر اٹھ گیا۔

ڈاکٹر جانتے ہیں کہ اس قہقہے کے پیچھے کتنا درد چھپا ہے۔

اس درد کی دوا کوئی ڈاکٹر نہیں دے سکتا۔  چائے کاخالی کپ پاس رکھی میز پر رکھتے ہوئے اس کی نگاہ اس خط کی طرف اٹھ گئی۔

اس نے کانپتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا۔

اندر سے ایک کارڈ جھانک رہا تھا۔  گھنشیام نے جلدی سے کارڈ کو نکال کر پڑھا۔

’’ہم سب کی طرف سے آپ کو اپنی پینسٹھویں سالگرہ کی بہت مبارک ہو – پُنیت۔‘‘

کارڈ بیٹے کی جانب سے تھا۔  اوہ۔۔ ۔  تو آج میری سالگرہ ہے۔  اگر میں پینسٹھ کا ہو گیا ہوں تو سیما بھی تو ساٹھ سال کی ہونے والی ہے۔  کیسی لگتی ہو گی وہ سفیدبالوں کے ساتھ۔  اب تو چہرے پر بھی ہلکی سی جھریاں پڑ گئی ہوں گی۔  جھریاں کے ساتھ تو وہ اور بھی خوبصورت نظر آتی ہو گی۔  بھئی نانی دادی بھی تو بن گئی ہے اور ایک میں ہوں۔

طلاق یافتہ شوہر، نا کام باپ اور بز دل گرانڈ ڈیڈ۔  یہی تو ہے شناخت میری۔  سیما کو تو شرم آتی ہو گی بچوں کے سامنے میرا نام لیتے ہوئے بھی۔

شرم آئے بھی تو کیوں نہ۔  میں ہوں ہی اس قابل۔  جس نے بچوں کو تو چھوڑا، اپنے ناتی پوتوں کی صورت تک نہیں دیکھی۔  مجھ سے زیادہ بدنصیب اور کون ہو گا۔

بائیں بازو کے ساتھ اب تو سینے میں بھی درد اٹھنے لگا تھا۔  لفافہ ہاتھ سے پھسل کر گود میں گر گیا۔

گھنشیام نے مشکل سے داہنا ہاتھ بلند کر کے سگریٹ کا ایک زور دار کش لیا۔  سارا سینہ سگریٹ کے دھوئیں سے بھرگیا۔  اسے سخت کھانسی آئی۔  کھانستے ہوئے اس نے پھر سے کش لینے کی کوشش کی۔  اس وقت وہ ہاتھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔  ہاتھ میں اتنی بھی طاقت نہیں بچی تھی کہ دُکھتے ہوئے سینے پر رکھ سکے۔  سانسیں پہلے تیز اور پھر سست ہونے لگیں۔  جلتی ہوئی سگریٹ راکھ کی لمبی لکیر چھوڑتی ہوئی انگلیوں میں سلگ کر بجھ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

کاغذ کا ٹکڑا

 

اچانک کیٹ کی آنکھ کھل گئی۔

اتوار کا دن یعنی چھٹی کا دن۔  پورے ہفتے میں ایک ہی تو دن ملتا ہے دیر تک سستانے کے لئے۔  کہیں کوئی ذرا سا بھی کھٹکا نہیں۔  سب آرام سے سو رہے تھے۔

کیٹ کی آنکھوں میں نیند کہاں۔  بھئی ڈھیر سارے کام جو کرنے ہیں۔  یہ وقت مناسب ہے اپنا کام کرنے کیلئے۔  اچھا ہے جیمی ابھی سویا ہوا ہے۔  وہ تو اٹھتے ہی گھر میں اُدھم مچا دے گا۔  چھٹی کا دن ہو اور جیمی، کیٹ کو آرام سے کچھ کام کرنے دے۔

جیمی کیٹ کا چھوٹا بھائی ہے۔  وہ جتنا اپنی بہن سے محبت کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ اسے کیٹ کو تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے۔  ویسے بھائی کے ساتھ پنگے لینے میں وہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔  کچھ سوچتے ہوئے ایک ہی چھلانگ میں کیٹ نے بستر چھوڑ دیا۔

کیٹ کو گھر سجانا بہت اچھا لگتا ہے۔  مام اسے پورے گھر کی ترتیب تو بدلنے نہیں دیں گی۔  پر وہ اپنا کمرہ تو اپنے ڈھنگ سے رکھ سکتی ہے۔  کیٹ آ کر کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو کر اس کی اونچائی کو آنکھوں سے ناپنے لگی۔

چاہے کیٹ پانچ فٹ چار انچ لمبی ہو پھر بھی بغیر کسی چیز پہ کھڑے ہوئے پردے کے بریکٹ تک ہاتھ نہیں جائے گا۔  نیچے جا کر گیراج سے چھوٹی سیڑھی نہیں لا سکتی۔  سب کی آنکھ کھل جائے گی۔  اس نے پاس پڑی کرسی کو کھینچا۔  یہ کیا کرسی کی ٹانگیں تو ہل رہی ہیں۔  شاید چولیں ڈھیلی ہو گئی ہوں۔  ڈیڈ اٹھیں گے تو ان سے بولوں گی۔

کیٹ کی نگاہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پڑے اسٹول پر گئی۔  اسٹول کی اونچائی اور اس کی لمبائی کو ملا کر ہاتھ پردے کے بریکٹ تک پہنچ گیا۔  کیٹ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔  اس نے ایک کندھے پر نیا پردہ ڈالا اور دوسرے پر جھاڑن۔  اسٹول پر کھڑی ہو کر پرانے پردے کا ایک ایک ہک کھول کر اسے نکالنے لگی۔  سارے ہک نکال کر پرانا پردے کو نیچے قالین پر پھینک دیا۔  جھاڑن سے بریکٹ پر سے دھول صاف کر کے اس نے اس میں نیا پردہ ٹانگا۔  ایسے ہی دوسری طرف کے پردے کو بھی لٹکایا۔

کیٹ کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔  اس نے پرا نے لحاف کا غلاف، تکیے کے غلاف اور چادر کو نکال کر تمام نئے بچھا دیے۔  پھر دور کھڑی ہو کر کمرے کا معائنہ کرنے لگی۔

آسمانی رنگ کے پردے جن کے ارد گرد گلابی بارڈر لگا ہوا تھا۔  بستر پر پردوں سے میل کھاتا ہوا ہلکے نیلے رنگ کا لحاف کا غلاف۔  اس پر چھوٹے چھوٹے گلابی پھول بہت جچ رہے تھے۔  کیٹ نے کھڑکی کے سامنے سے پلنگ کو کھینچ کر کمرے کے دوسرے کونے میں کیا۔  میز کو کھڑکی کے قریب کر دیا۔  اب اُس پر کھڑکی سے آئی اچھی خاصی روشنی پڑ رہی تھی۔  جھاڑن سے میز کو صاف کر کے اس پر کتابوں کو ٹھیک سے لگایا۔  بجلی کا ساکٹ تھوڑی فاصلے پر تھا۔  میز پر رکھے ٹیبل لیمپ کے تار کو پورا سیدھا کرنے سے وہ ساکٹ تک پہنچ گیا۔  کمرے کا معائنہ کرنے کے بعد کیٹ نے دروازے کے پیچھے ٹنگی جینز کو اتارا۔  جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں کچھ ریزگاری تھی۔  ساری ریزگاری نکال کر اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر پھیلا دی۔  دھلنے والے اور بھی کپڑے جمع کئے۔  ان گندے کپڑوں کی گٹھڑی بنا کر وہ انہیں نیچے لے گئی واشنگ مشین میں ڈالنے کیلئے۔

کیٹ نے گھڑی پر نظر ڈالی۔  ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔  مام ڈیڈ کو جگا دینا چاہئے۔  اس نے بجلی کی کیتلی میں پانی بھر کر اسے چالو کر دیا۔  ایک ٹرے میں ٹی پاٹ رکھ کر اس میں دو ٹی بیگ ڈالے۔  پلیٹ میں کچھ بسکٹ رکھ کر اسے بھی ٹرے میں رکھ دیا۔  پانی کیتلی میں ابل چکا تھا۔  ابلتا پانی ٹی پاٹ میں ڈالا۔  ٹرے میں دودھ، چینی، چمچ رکھ کر کیٹ، مام ڈیڈ کے کمرے کی طرف چل دی۔

کیٹ میں بچپن سے ہی خود انحصاری ہے۔  اگر اسے کچھ چاہئے تو مام ڈیڈ سے پیسے نہیں مانگتی بلکہ وہ خود یا تواپنی پاکٹ منی سے ہر ہفتے پیسے بچاتی رہتی ہے یا کچھ کام کر کے پیسے اکٹھا کرتی ہے۔  تیرہ سال کی عمر سے ہی کیٹ اسکول جانے سے پہلے اخبار ڈالا کرتی تھی۔  چاہے جیسا بھی موسم کیوں نہ ہو، وہ صبح اٹھ کراپنی سائیکل پر سوار ہو کر لوگوں کے گھروں میں اخبار ڈالنے کے بعد ہی گھر آ کر ناشتا کرتی تھی۔  لوگوں کے گھروں میں اخبار ڈالنے کے پیسے ملتے ہیں۔  جسے بچے خوشی سے کرتے ہیں۔

اتوار کو تمام کام دیر سے ہوتے ہیں۔  باقی تمام دن تو سب لوگ صبح ٹوسٹ، بسکٹ وغیرہ کھا کر جاتے ہیں۔  اسکول اور کام پر جانے کی جلدی جو ہوتی ہے۔  پر اتوار کے دن سب ایک ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں۔  اس دن ناشتا بنانے کا کام ڈیڈ کا ہوتا ہے۔  انگلش ناشتا سب کی پلیٹوں میں دو سوسیج، ایک فرائیڈ انڈا، بیکن، مشروم، فرائیڈ ٹوسٹ اور بیکڈ بینز، گرما گرم چائے یا کافی کے ساتھ۔

اتنا تگڑا اور دیر سے کئے گئے ناشتے کے بعد دوپہر کے کھانے کی ضرورت ہی کسے ہوتی ہے۔  شام کا کھانا ضرور وقت سے پہلے مل جاتا ہے۔  سنڈے روسٹ، جس کا سب کو انتظار ہوتا ہے۔

نیند کھلتے ہی جیمی، کیٹ کے کمرے کی طرف بھاگا اس کو جگانے۔  پر اندر آتے ہی اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

’’ واؤ یہ سب کیا ہے کیٹ۔ ‘‘

’’کیوں تمہیں کیا دکھائی دے رہا ہے۔ ‘‘

’’ مام ڈیڈ جلدی آئیے، دیکھئے کیٹ نے کیا کیا ہے۔ ‘‘

ہیزل اور ہنری بستر چھوڑ کر جلدی سے کیٹ کے کمرے کی طرف آئے۔

’’کیا ہوا ہے۔  ارے یہ سب تم نے کب کیا بیٹا۔  بہت خوبصورت کیٹ۔  یہ چیزیں تم نے کب خریدیں۔  بھئی ذرا سی بھنک بھی نہیں لگنے دی۔  دیکھئے نا ہنری، کیٹ نے تو کمرے کا روپ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ‘‘

جیمی کہاں خاموش رہنے والا تھا، ’’ ضرور اس نے یہ سب خریدنے کیلئے پیسے مام سے لئے ہوں گے ڈیڈ۔  مجھے بھی اب سے زیادہ پاکٹ منی چاہئے۔ ‘‘

’’ہوں، اس کے لئے آپ کو بھی کیٹ کی طرح کچھ کام کرنا پڑے گا بیٹا۔  پاکٹ منی یوں ہی نہیں بڑ ھ جاتی۔ ‘‘

ہنری ہر ہفتے اپنے دونوں بچوں کو جیب خرچ دیتے ہیں۔  بچوں کو معلوم ہے کہ پیر کی صبح ان کی جیب گرم ہوتی ہے۔  اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ پیسے ایک ہی دن میں خرچ کریں یا کسی ضروری وقت کیلئے بچا کر رکھیں۔  یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لڑکیاں فضول خرچ ہوتی ہیں یا لڑکے۔

کیٹ کو فضول خرچی بالکل بھی پسند نہیں ہے۔  اسے ہر چیز اپنے بل بوتے پر خود پیسے جمع کر خریدنی اچھی لگتی ہے۔  اس کی عادت ہے کہ وہ اکثر ریزگاری ڈریسنگ ٹیبل پر چھوڑ دیتی ہے۔  بھئی یہ اس کا کمرہ ہے وہ جہاں چاہے، جیسے چاہے اپنی چیزیں رکھ سکتی ہے۔  اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ جیمی جب چاہے، بغیر پوچھے اس پر ہاتھ صاف کر لے۔

جیمی جانتا ہے کہ کیٹ ایک دو بار نہ کر کے آخر میں وہ جو مانگ رہا ہے اسے دے دے گی۔  چھوٹا بھائی ہو اور بڑی بہن کو تنگ نہ کرے تو اسے کھانا کیسے ہضم ہو۔

جیمی کو جب بھی کچھ چاہئے ہوتا ہے، تو وہ بہن کے کمرے کی طرف چل پڑتا ہے۔

’’ جیمی تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ میرے کمرے میں مت آیا کرو۔  میں ابھی اپنا کمرہ ٹھیک کر کے گئی ہوں اور دیکھو تم نے آتے ہی کیا حالت بنا دی ہے۔ ‘‘

’’ مجھے پنسل چاہئے۔  وہی ڈھونڈ رہا ہوں۔ ‘‘

’’چاہئے تو مجھ سے مانگو۔  اپنا کمرہ تو کباڑخانہ بنا کر رکھتے ہو۔  جہاں ڈھونڈو کچھ تو ملتا کچھ ہے۔  مجھ سے پوچھے بغیر یوں میری چیزوں کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

’’ضرورت کیسے نہیں ہے۔  تم کبھی کمرے میں ہوتی ہو کبھی نہیں۔ ‘‘بات کرتے ہوئے جیمی کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اٹھ گئی، ’’ ارے اتنے سارے پیسے۔ ‘‘اس نے کیٹ کی ریزگاری مٹھی میں بھری اور کمرے سے باہر بھاگ گیا۔

’’جیمی میرے پیسے دو ادھر۔  جیمی رکو۔ ‘‘دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے لگے۔  ’’ڈیڈ دیکھو نا یہ ہمیشہ میرے پیسے لے کر بھاگ جاتا ہے۔ ‘‘

’’شکایتی ٹٹو۔  ڈیڈ کوئی بات مت سنیے اس رونٹی بلی کی، اے کِٹی کِٹی۔  کم پُوسی کم۔ ‘‘جیمی اسے چھیڑ کر کمرے کے دوسرے کونے میں ہو گیا۔

’’ڈیڈ۔ ‘‘

’’جیمی یہ کیا تماشا لگائے رکھتے ہو ہر وقت۔  جب دیکھو اسے تنگ کرتے رہتے ہو۔ ‘‘

’’ارے ارے کیٹ سنبھل کر بیٹا۔  ابھی دروازے سے ٹکرا جاتی۔ تم بھی نہ جیمی۔  یہ گھر ہے یا ریس کا میدان۔  آخر بڑی بہن ہے یہ تمہاری۔ ‘‘ ہیزل ذرا اونچی آواز میں بولی۔

’’اچھا یہ بڑی بہن جب مجھ سے پنگے لیتی ہے اس وقت تو آپ کچھ نہیں کہتے۔  جب یہ مجھے اے جمی جمی۔  کم ڈو گی کم، کہہ کر بلاتی ہے اس وقت تو آپ اور ڈیڈ ہنستے ہو۔  آپ لوگوں کو بھی کوئی اچھا نام نہیں سوجھے تھے اپنے بچوں کیلئے، کتے بلیوں کے نام رکھ دیئے ہیں۔  جسے دیکھو بس کیٹ کی ہی سائیڈ لیتا ہے۔  میں تو اس گھر کا سوتیلا بیٹا ہوں۔ ‘‘جیمی غصے سے مٹھی میں بند پیسوں کو میز پر پھینک کر پیر پٹکتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

ہیزل اور ہنری نے منہ پر ہاتھ رکھ لئے کہ کہیں ہنسی زور سے نہ نکل جائے۔  نہیں تو جیمی اور بھی تنک جائے گا۔

جیمی گھر میں سب سے چھوٹا ہے۔  سب کا لاڈلا ہے۔  لیکن ہنری یہ بھی نہیں چاہتے کہ لاڈ سے وہ بگڑ جائے۔

ماں کا دل ہے نا۔  ہیزل بولے بغیر نہ رہ سکی، ’’غصہ دلادیا نا بیچارے کو۔  تم بھی تو کیٹ ہر وقت چھوٹے بھائی سے پنگے لیتی رہتی ہو۔ ‘‘

’’ اس میں کیٹ کا کیا قصور ہے۔ ‘‘ہنری نے آگے بڑھ کر کہا۔

’’آپ ہمیشہ کیٹ کی طرفداری کرنا چھوڑیں براہ مہربانی۔  یہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔  ہر جگہ اپنے پیسے پھیلا کر رکھتی ہے۔  بھائی کو تنگ کرنے کیلئے۔ ‘‘

’’ مام ہم دونوں کو ایک جیسی پاکٹ منی ملتی ہے۔  جیمی اپنے پیسے ایک ہی دن میں اڑا دے، تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔  وہ میرا کمرہ ہے۔  میں جہاں چاہوں اپنی چیزیں رکھوں۔  گھر میں کوئی ڈاکو تھوڑا ہی بستے ہیں، جو میں اپنی ہر چیز کو تالے میں رکھوں گی۔  آپ دونوں رہنے دیجئے۔  میں جانتی ہوں جیمی کو کیسے منانا ہے۔ ‘‘

’’دیکھئے ہیزل بچوں سے گھر کتنا ہرا بھرا لگتا ہے۔  ہم اوپر سے ناراضگی ضرور دکھاتے ہیں۔ لیکن جب تک گھر میں کچھ شور نہ ہو توکیسے پتہ چلے گا کہ اس گھر میں بچے بھی رہتے ہیں۔  دو سال کے بعد کیٹ یونیورسٹی چلی جائے گی۔  میرا تو یہی سوچ کر دل بیٹھا جاتا ہے کہ گھر ایک دم سُونا ہو جائے گا۔  کیٹ اپنے چھوٹے بھائی کو کتنا پیار کرتی ہے اور جیمی جو ذرا ذرا سی بات کیلئے کیٹ کے کمرے کی طرف بھاگتا ہے۔  وہ سب سے زیادہ اپنی بہن کو مس کرے گا۔ ‘‘

مس تو آج بس ہو جائے گی اگر اس نے تیز قدم نہ بڑھائے۔  اتنی تیز ہوا میں چلنا بھی تو آسان نہیں۔  ایک توبرفانی ہوا، اوپر سے بارش۔  چھتری بھی ایسی کے ہوا میں بار بار پلٹ جاتی ہے۔

کیٹ سے تھوڑا آگے ایک دبلی پتلی عورت جا رہی تھی۔  اس نے ایک ہاتھ میں کافی بھاری سامان سے بھرا ہوا بیگ اٹھایا ہوا تھا اور دوسرے میں بارش سے بچنے کے لئے چھتری۔  ہوا کا تیز جھونکا آیا اور وہ عورت سنبھلتے ہوئے بھی لڑکھڑا گئی۔  جب تک وہ بیگ سنبھالتی اس کے ہاتھ سے چھتری چھوٹ کر ہوا میں قلابازیاں کھاتے دور کہیں اڑ گئی۔  وہ عورت بھاگتے ہوئے تیزی سے بس اسٹینڈ کی چھوٹی سی چھت کے نیچے آ کر کھڑی ہو گئی اور لوگوں نے بھی جن کے پاس چھاتے تھے اس عورت کیلئے چھت کے نیچے کھڑے ہونے کے لئے جگہ بنا دی۔

بس اسٹینڈ کی چھت کے نیچے اتنی جگہ کہاں۔  لوگ بغیر آواز کئے بارش میں بھاگتے ہوئے ٹھٹھر رہے تھے۔  اگر یہ بس چھوٹ گئی تو بیس منٹ اور اس کھلے بس اسٹاپ پر اس سرد ہوا کے گولوں میں سب کو انتظار کرنا پڑے گا۔

بس اسٹاپ پر لوگوں کی قطار لمبی ہوتی جا رہی تھی۔  پانچ بجے تمام دفتر بند ہو جاتے ہیں۔  بینک میں کام کرنے والے بھی اسی وقت چھوٹتے ہیں۔  ویسے تو زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں، پھر بھی کچھ کیٹ جیسوں کو تو صرف بس سے ہی گھر پہنچنا پڑتا ہے۔  اس وقت سب کو گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔  اتنی سردی میں کون یہاں کھڑا رہنا چاہتا ہے۔

کیٹ آ کر اس لمبی قطار میں سب سے پیچھے کھڑی ہو گئی۔  چاہے جتنی بھی لمبی قطار کیوں نہ ہو ہر ایک اپنی باری آنے کا انتظار کرتا ہے۔  کوئی دھکم پیل نہیں ہوتی۔  بس پیچھے سے ہی کافی بھری ہوئی آئی۔  کچھ مسافروں کو اسی بس اسٹاپ پر اترنا تھا۔  تھوڑے سے اور مسافروں کو لے کر بس پھر چل پڑی۔  چاہے انتظار کرتے مسافروں کی کتنی بھی لمبی قطار کیوں نہ ہو۔  بس ڈرائیور اتنے ہی لوگوں کو لے گا جتنا قانون میں لکھا ہوا ہے۔  اس بات کے لئے اسے مسافروں کا بھی پورا تعاون حاصل ہے۔  یہ انہی کی حفاظت کیلئے تو کیا گیا ہے۔

دوسری بس کے آنے میں ابھی قریب پندرہ منٹ تھے۔  کیٹ نے گو کہ گرم کوٹ، مفلر، دستانے، ٹوپی، سردی سے بچاؤ کے سارے کپڑے پہنے ہوئے تھے، پھر بھی سرد ہوا ایسی تھی کہ کپڑوں کو چیرتی ہوئی جسم تک پہنچ رہی تھی۔  سردی کے مارے کوئی بار بار رو مال سے ناک پونچھ رہا تھا، تو کوئی دونوں ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے منہ سے پھونکیں مار کر خود کو گرم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سب خاموشی سے سردی سہتے ہوئے اگلی بس کا انتظار کر رہے تھے۔

’’مام آج کتنی سردی ہے اور کیٹ ابھی تک نہیں آئی۔  کیٹ بہت گریڈی ہوتی جا رہی ہے۔  اسے کام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ‘‘

’’بیٹا کام صرف ضرورت کے لئے ہی نہیں ہوتا۔  کیٹ ابھی سے عادت ڈال لے گی تو اس کے لئے بھی اچھا ہے۔  اصلی محنت کا وقت تو تب آئے گا جب وہ ڈگری لے کر یونیورسٹی سے باہر نکلے گی۔  ڈگری حاصل کرنے کے بعد نجانے اسے کہاں نوکری ملتی ہے۔ تم بھی جب تک گھر میں ہو، آرام کر لو۔ ‘‘

’’ آرام، اب یہ چھوٹا بچہ نہیں ہے ہیزل۔  کیٹ اس کی عمر میں صبح اٹھ کر اخبار ڈال کر پھر اسکول جاتی تھی۔  سیکھو کچھ اپنی بہن سے۔ ‘‘

’’ہاں تو جیمی تم صبح مجھ سے پاکٹ منی بڑھانے کی بات کر رہے تھے۔ ‘‘

’’یس ڈیڈ۔ ‘‘جیمی جلدی سے خوش ہو کر بولا۔

’’ اس کے لئے تم کو ہاتھ پاؤں چلانے ہوں گے۔  بغیر محنت کئے تو کھانا بھی منہ میں نہیں جاتا۔  تم تیرہ سال کے ہونے والے ہو۔  اسکول جانے سے پہلے اخبار کیوں نہیں ڈالتے۔ ‘‘

’’نہیں ڈیڈ میں اتنی سردی میں صبح اٹھ کر گھر سے باہر نہیں جا سکتا۔ ‘‘

’’کیوں، تمہاری بہن بھی تو پیسہ کمانے کے لئے اتنی سردی میں گھر سے باہر رہتی ہے۔ ‘‘

’’کیٹ ٹھنڈی ہوا میں باہر نہیں گھومتی۔  کیفے کے اندر سینٹرلی ہیٹنگ ہے جہاں وہ کام کرتی ہے۔ ‘‘

کیٹ، کوسٹا کافی ہاؤس میں جمعہ کی دوپہر اور ہفتہ کوپورے دن کام کرتی ہے۔  یہ کوسٹا کافی ہاؤس، نوٹنگھم کے مشہور شاپنگ سینٹر وکٹوریہ کے باہر ہی ہے۔  نوٹنگھم میں دو بڑے شاپنگ سینٹر ہیں، برڈ مارش اور وکٹوریہ۔  کوسٹا کافی ہاؤس، وکٹوریہ شاپنگ سینٹر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہفتہ کو یہاں بہت بھیڑ ہوتی ہے۔  اس دن وہاں کام کرنے والوں کو ٹپ بھی اچھی خاصی مل جاتی ہے۔

کیٹ پندرہواں سال پار کر چکی ہے۔  پڑھائی میں ہوشیار ہے۔  وہ جی سی ایس ای (جنرل سر ٹیفیکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن)کے امتحان کی تیاری کر رہی ہے۔  کیٹ کو کوسٹا کافی پینا بہت پسند ہے، جو اس کو پیسوں کے حساب سے مہنگی لگتی ہے۔  کیٹ نے سوچا کہیں اور ہفتے کی جاب کرنے سے تو اچھا ہے کہ کوسٹا کیفے میں ہی کام ڈھونڈ لے۔  پیسوں کے ساتھ کم قیمت پر کافی بھی پینے کو مل جایا کرے گی۔

کافی کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے ہنری سنجیدگی سے بولے، ’’ٹھیک ہے جیمی، تمہیں پیپربوائے بننا اچھا نہیں لگتا تو تم ہر ہفتے میری اور مام کی کار صاف کر دیا کرو۔  اس کے لئے جو پیسے ہم باہر کار کی دھلائی کے لئے دیتے ہیں وہ تم کو دے دیا کریں گے۔  خیال رہے کار چمکتی ہوئی ملنی چاہئے۔  بولو منظور ہے۔ ‘‘

جیمی کا کھلا ہوا چہرہ اتر گیا، ’’ٹھیک ہے۔  لیکن میں گرم پانی سے دھوؤں گا، ٹھنڈے سے نہیں۔ ‘‘

ہنری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور ہٹ گئی، ’’یہ تمہارے اوپر منحصر ہے کہ تم کیا کرتے ہو۔  میں آج ہی کار شیمپو اور پالش لے آتا ہوں، بس جُٹ جاؤ کام میں۔ ‘‘

کیٹ کام پر سے گھر آئی۔  اس کی چھوٹی سی ناک سردی کے مارے سرخ ہو رہی تھی۔  ابھی تو اکتوبر کا مہینہ ہے اور سردی کا یہ حال۔  یہ سب روس سے آنے والی سرد ہواؤں کا اثر ہے۔  ورنہ تو اکتوبر کے مہینے میں تو سردی کی شروعات ہی ہوتی ہے۔

کیٹ نے دستانے اتار کر کرسی پر پھینکے اور گرم ہیٹر کے اوپر ہاتھ رکھ کر اس کی گرمی لینے لگی۔

’’مام میں جلدی سے شاور لے کر آتی ہوں۔  آپ تب تک میرے لئے گرما گرم چائے بنا دو۔ ‘‘

’’آہ ہا، کیا ٹھاٹ ہیں کوئن آف انگلینڈ کے۔  آتے ہی حکم چلانے لگی ہے۔ ‘‘ جیمی گھر میں ہو اور کوئی ہنگامہ نہ ہو۔

کیٹ غصے سے اس کی طرف دیکھتی ہوئی، باتھ روم کی طرف مڑتے ہوئے بولی، ’’مام آپ کو یاد ہے گزشتہ سال ہمارے یہاں فرانس سے ایک فرانسیسی لڑکی مارگریتا ٹھہرنے کے لئے آئی تھی۔  انگلش طور طریقے اور زبان اچھی طرح سیکھنے کے لئے۔ ‘‘

’’ ہاں یاد ہے۔  بڑی اچھی لڑکی تھی۔  ہم اس کے فرانسیسی لہجے میں رک رک کر انگریزی بولنے پر کتنا ہنستے تھے۔  وہ بھی اتنی بھلی لڑکی کہ کبھی اس نے برا نہیں مانا۔  وہ ہنسی ہنسی میں اتنی جلدی سب کچھ سیکھ گئی تھی۔  تمہارے یوتھ ایکسچینج میں اس بار کوئی اور لڑکی آ رہی ہے کیا۔ ‘‘

’’نہیں مام، نہا کر آؤں پھر آپ سے بات کرتی ہوں۔ ‘‘

کھانے کی میز پر صرف مام اور جیمی کو دیکھ کرہیزل سے پوچھا، ’’مام آج ڈیڈ دکھائی نہیں دے رہے۔ ‘‘

’’ بیٹا، ڈیڈ کی آج کلائنٹس کے ساتھ میٹنگ ہے۔  وہ کھانا بھی باہر ہی کھائیں گے۔  ہاں کیٹ تم یوتھ ایکسچینج کے بارے میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ ‘‘

’’جی مام اس بار ہمارے کالج سے چار طالب علم منتخب ہوئے ہیں فرانس جانے کے لئے اور ان میں میرا نام بھی ہے۔  مام میں آج تک کبھی برطانیہ سے باہر نہیں گئی، اسی بہانے پڑھائی کے ساتھ تھوڑا سا گھومنا بھی ہو جائے گا۔  یاد ہے ہم نے مارگریتا کو کتنا گھمایا تھا۔ ‘‘

’’بیٹا تمہارے تو فرانسیسی زبان میں اتنے اچھے نمبر آئے۔  پھر کیا ضرورت ہے وہاں جانے کی۔ ‘‘

’’مام اچھے نمبر آنا دوسری بات ہے۔  لیکن ان کا رہن سہن، طور طریقے تو ان کے درمیان رہ کر ہی سیکھے جا سکتے ہیں۔  یہ ایک بہت ہی اچھا موقع ہے، جسے میں کھونا نہیں چاہتی۔  ہماری ٹیچر نے ایک فارم دیا ہے جس پر ڈیڈ کے دستخط چاہیئیں۔‘‘

’’صبح ڈیڈ سے دستخط کروا لینا، ویسے جانا کتنے دنوں کے لئے ہے۔ ‘‘

’’بس ایک ہفتے اور ہاں مام اس کے لئے پاسپورٹ کی بھی ضرورت ہو گی۔  جس کے لئے مجھے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ چاہئے۔ ‘‘

’’کیا۔ ‘‘ہیزل کا کھانا کھاتے ہوئے ہاتھ وہیں رک گیا، ’’یہاں برتھ سرٹیفکیٹ کہاں سے آ گیا۔ ‘‘

’’مام اس میں اتنی حیرت کی کیا بات ہے۔  پہلی بار میں ملک سے باہر جا رہی ہوں۔  اس کے لئے پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔  جسے بنوانے کے لئے برتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’کیوں، تمہارے پاس اسٹوڈنٹ کارڈ بھی تو ہے۔ ‘‘

’’پاسپورٹ کے لئے اسٹوڈنٹ کارڈ نہیں برتھ سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں مام۔ ‘‘کیٹ تھوڑا جھنجھلا کر بولی۔

’’ٹھیک ہے ڈیڈ سے بولوں گی، وہ تمہارا پاسپورٹ بنوا دیں گے۔ ‘‘

’’اب آپ کی بیٹی بڑی ہو گئی ہے۔  وہ اپنے کام خود کرنا جانتی ہے۔ ‘‘

’’ ہاں ہاں جانتی ہوں تُو بہت بڑی ہو گئی ہے۔  لیکن ایسی قانونی چیزوں کی تمہیں ابھی سمجھ نہیں ہے اور پھر پاسپورٹ سے مطلب ہے نا، وقت آنے پر مل جائے گا۔ ‘‘

’’نہیں مام میں جلد ہی یونیورسٹی جانے والی ہوں۔  آپ کیا سوچتی ہیں کہ وہاں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے میں ڈیڈ کو بلاؤں گی۔  آپ مجھے میرا برتھ سرٹیفکیٹ دے دیں۔  آج کل تمام کام آن لائین ہو جاتے ہیں۔  اگر ضرورت پڑی تو میں ڈیڈ سے مدد لے لوں گی۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، ضروری کاغذات تمہارے ڈیڈ ہی رکھتے ہیں۔  رات کو ان سے بات کروں گی۔ ‘‘

ہیزل نے بیٹی کو تو سمجھا دیا، لیکن خود اندر تک ہل گئی، ’’ہنری نے کتنی بار کہا تھا کہ کیٹ کو سب کچھ بتا دو۔  میں ہی ہمت نہیں جٹا سکی۔  ہنری کیٹ کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔  اگر کیٹ نے غصے میں آ کر کچھ کہہ دیا تو وہ سہہ نہیں پائیں گے۔  ٹوٹ جائیں گے۔ ‘‘

ہیزل کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔  اسے بار بار اِدھر سے اُدھر کروٹیں بدلتے دیکھ کر ہنری نے پوچھ ہی لیا، ’’ ہیزل میں دیکھ رہا ہو کہ تم کچھ پریشان ہو۔  کیا بات ہے ڈارلنگ۔  مجھے نہیں بتاؤ گی۔ ‘‘ ہنری نے پیار سے ہیزل کو اپنی جانب کھینچ کر پوچھا۔

’’ہنری جس بات کو ہم برسوں سے چھپاتے آ رہے ہیں۔  اس کو ظاہر کرنے کا وقت آ گیا ہے۔  آج کیٹ اپنا برتھ سرٹیفکیٹ مانگ رہی تھی۔ ‘‘

’’دیکھا نا۔  میں تم سے کب سے کہہ رہا تھا کہ کیٹ کو اصلیت بتا دو، تم ہی آنا کانی کرتی رہیں۔  ہر بچے کو اپنے بارے میں جاننے کا پورا حق ہے۔  کیٹ اب چھوٹی بچی نہیں ہے۔  پندرہ سال کی ہو چکی ہے۔ ‘‘

’’سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرح بتاؤں، کیا کہوں۔  نجانے وہ اس بات کو کس طرح لے گی۔  حقیقت جان کر پتہ نہیں کیسا سلوک کرے۔  ٹھیک ہے کل صبح جب میں کیٹ سے بات کروں تو آپ بھی میرے ساتھ رہنا۔ ‘‘

ہیزل کی بات کو درمیان میں کاٹتے ہوئے ہنری جلدی سے بولے، ’’نہیں ڈارلنگ یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔  یہ تمہارا کام ہے اور تم ہی کرو گی۔  میں کیٹ کی آنکھوں کے سوالات کے جواب نہیں دے پاؤں گا۔ ‘‘ہنری نے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔  رات دونوں ہی ٹھیک سے سو نہیں سکے۔

ہیزل کی آنکھ کھلی تو دیکھا ہنری بستر پر نہیں ہیں۔  گاؤن پہن کر وہ جلدی سے نیچے آئی۔  ہنری جانے کے لئے تیار کھڑے تھے۔

’’آج ہفتہ ہے۔  ہنری کہاں جا رہے ہیں۔  ٹھیریئے چائے تو پی کر جائیے۔ ‘‘

’’نہیں ہیزل مجھے جلدی ہے۔ ‘‘اور ہنری دروازہ بند کر کے چلے گئے۔

ہیزل وہاں کھڑی دروازے کو دیکھتی رہی۔  آج اتنے سالوں میں پہلی بار ہنری اسے اور بچوں کو بائے بولے بغیر گھر سے باہر گئے ہیں۔

’’میری وجہ سے ہنری آج ناراض ہو کر گئے ہیں۔  مجھے بیٹی کو سب کچھ بتانا ہی ہو گا۔  نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو۔  کیٹ سمجھدار ہے۔  وہ کوئی غلط فیصلہ نہیں لے گی۔ ‘‘

کیٹ تیار ہو کر نیچے آئی۔  وہ سیدھے ڈائیننگ روم میں گئی۔  ارے آج ڈیڈ ابھی تک نیچے نہیں آئے۔  ہفتہ کے دن تو ڈیڈ چائے بھی یہیں پیتے ہیں اور اخبار بھی دیر تک پڑھتے ہیں۔

‘ڈیڈ۔ ‘‘کیٹ نے زور سے آواز لگائی۔

’’ ڈیڈ گھر پر نہیں ہیں۔  آج انہیں کچھ کام تھا، صبح ہی چلے گئے ہیں۔ ‘‘

’’ بائے کر کے بھی نہیں گئے۔ ‘‘

’’تم دونوں سو رہے تھے اس لئے نہیں جگایا۔  کیٹ یہ تمہارا برتھ سرٹیفکیٹ۔ ‘‘دیتے ہوئے ہیزل کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

کیٹ جلدی سے وہ کاغذ ماں کے ہاتھ سے لے کر پڑھنے لگی۔  ہیزل کی نظریں بیٹی کے چہرے پر تھیں۔  کاغذ کو پڑھتے ہوئے کیٹ کے ماتھے پر تھوڑا بل دکھائی دیا۔

’’ مام اس پر تو ڈیڈی کے نام کی جگہ کسی کرسٹوفر او نیل کا نام لکھا ہے۔  آپ نے شاید مجھے کوئی غلط کاغذ دے دیا ہے۔ ‘‘

’’بیٹے یہی صحیح کاغذ ہے۔ ‘‘ہیزل کی گہری آواز آئی، ’’ یہ تمہارا ہی برتھ سرٹیفکیٹ ہے۔ ‘‘

’’لیکن اس میں ڈیڈی کی جگہ کسی اور کا نام لکھا ہے۔ ‘‘

’’تمہارے بائیلوجیکل والد کا نام کرسٹوفر او نیل ہی ہے۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘کیٹ نے وہ کاغذ وہیں سامنے پڑی میز پر زور سے پھینک دیا، ’’نہیں، تم مذاق کر رہی ہیں نامام۔  میرے ڈیڈ کا نام ہنری اسمتھ ہے اور میں ہوں ان کی بیٹی کیٹ اسمتھ۔ ‘‘

’’کاغذ پر جو لکھا ہے وہ سچ ہے بیٹا۔ ‘‘

’’ سچ ہے تو مجھے آج تک اندھیرے میں کیوں رکھا گیا۔  جس انسان کو میں جانتی نہیں۔  کبھی اس کا نام نہیں سنا۔  اسے دیکھا نہیں وہ میرا باپ کس طرح ہو سکتا ہے۔  صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا دکھا کر کہہ دیا کہ میں اپنے ڈیڈ کی بیٹی نہیں کسی اجنبی کی بیٹی ہوں۔ ‘‘ کیٹ نے گال سے آنسو جھٹکتے ہوئے کہا، ’’ میں یہ نہیں مانتی۔  میں کیٹ اسمتھ اپنے ڈیڈ ہنری اسمتھ کی بیٹی ہوں۔  میں ڈیڈ کے منہ سے یہ سب سننا چاہتی ہوں کہ میں ان کی بیٹی نہیں ہوں۔ ‘‘

’’اوہ کیٹ میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں۔ ‘‘

‘اگر ایسا کچھ ہے تو کیوں پندرہ سال تک اس بات کو مجھ سے چھپا کر رکھا گیا۔  ہر بچے کو پورا حق ہوتا ہے اپنے بارے میں جاننے کا۔  اگر جیمی کے ساتھ بھی کوئی ایسی بات ہوئی ہے تو پلیز اسے فوری طور پر بتا دیجئے۔ جیمی کے ڈیڈ کون ہیں مام۔‘‘

ہیزل ایسے سوالوں کے لئے تیار نہیں تھی۔  لڑکھڑانے سے پہلے اس نے پاس پڑی کرسی کا سہارا لے لیا۔

’’بتائیے مام، میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے۔ ‘‘کیٹ آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی۔

’’جیمی میرا اور ہنری کے بیٹا ہے۔ ‘‘ہیزل نے پلکیں جھکا کر یوں کہا جیسے وہ کوئی گناہ کر رہی ہو۔

’’کاش، آپ نے مجھے یہ سب پہلے بتایا ہوتا مام۔ ‘‘

’’ہم تمہیں اس درد سے دور رکھنا چاہتے تھے بیٹا۔ ‘‘

’’درد۔ ‘‘ کیٹ بھرائی ہوئی آواز میں بولی، ’’ یہ درد اس درد سے کہیں بڑا ہے مام، جس کی آپ بات کر رہی ہیں۔  آپ نہیں سمجھ پائیں گی۔ ‘‘ روتے ہوئے کیٹ دروازہ بند کر کے گھر سے باہرچلی گئی۔  ایک بار پھر ہیزل کے چہرے پر دروازہ بند کیا گیا۔

یوں دروازے زور سے بند کرنا اور غصہ کرنا، ہنری کے مزاج کے برعکس ہے۔  بس آج ہو گیا۔  اپنا پریشان ذہن لئے ہنری اِدھر سے اُدھر کار بھگاتے رہے۔  کیٹ جسے وہ جان سے بھی زیادہ پیارکرتے ہیں، جانے سچائی سننے کے بعد وہ کیا کرے۔  وہ ابھی بچی ہی تو ہے۔  اسے بہت ٹھیس لگی ہو گی۔  وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح سچائی کیٹ کے سامنے آئے۔

کہیں کیٹ کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اور جیمی، وہ تو اپنی بہن کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔  اس نے کیٹ سے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا تو۔  کیٹ اس سب کو کیسے ہینڈل کرے گی۔  وہ تو ٹوٹ ہی جائے گی۔

’’نہیں میں ٹوٹوں گی نہیں۔  ایک کاغذ کا ٹکڑا میرے اور میرے ڈیڈ کے بیچ نہیں آ سکتا۔  ایک ایسا انسان جس نے پندرہ برسوں تک خبر نہ لی۔  میرا ڈیڈ کیسے ہو سکتا ہے۔  نجانے کس حال میں اس نے مام کو چھوڑاہو گا۔ اس بات کے لئے میں مام سے بہت ناراض ہوں۔  شاید انہیں جلدی معاف بھی نہ کر پاؤں۔  ان کی وجہ سے ڈیڈ بغیر کسی سے کچھ بولے گھر سے باہر چلے گئے۔  آج میرے ڈیڈ کو اس بات سے بہت دکھ پہنچا ہو گا۔  وہ خود کو مجرم مان کر مجھ سے نظریں چرا رہے ہیں۔  میرا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔  آئی ایم سوری ڈیڈ جو میری وجہ آپ کو یہ سب برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جیمی میرا ہاف برادر۔  وہ یہ سب سن کر کہیں بدل تو نہیں جائے گا۔  ابھی وہ بہت چھوٹا ہے۔  یہ جاننے کے بعد کہیں ہمارا رشتہ ہی نہ بدل جائے۔ ‘‘

ادھر ہنری سوچ رہے تھے، ’’ آج اگر میری گڑیا بدل گئی تو میں جیتے جی مر جاؤں گا۔ ‘‘ہنری اندر ہی اندر گھٹ رہے تھے۔  اس میں ہیزل بیچاری بھی کیا کرتی۔  اس کا بس اتنا ہی عیب تھا کہ وہ اسقاط حمل نہیں کرانا چاہتی تھی۔  کرسٹوفر کو صرف بیوی چاہیے تھی۔ ہیزل نہیں جانتی تھی کہ جس انسان کی محبت میں وہ پھنس گئی ہے۔  وہ ایک نمبر کا شرابی ہے۔  اسے روز شام کو شراب اور عورت چاہئے تھی، بچے نہیں۔  وہ حاملہ بیوی پر ہاتھ بھی اٹھانے لگا تھا۔

ہیزل کو اپنے بچے کا ڈر تھا۔  ہار کر وہ ایک دن سوشل سروس میں پہنچ گئی اور وہاں کے سوشل ورکر کو ساری بات بتائی، فوری طور پر اس کی حفاظت اور رہنے کے لئے مکان دے دیا گیا۔  کرسٹوفر کو پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا۔

کیٹ ابھی پانچ ماہ کی تھی، جب ہیزل کی ملاقات ہنری سے ہوئی۔

چھوٹی سی، بھورے بال اور نیلی آنکھوں والی کیٹ کو دیکھتے ہی ہنری نے اسے گود میں اٹھا لیا۔  پہلے دن سے ہی انہوں نے اسے گلے لگا لیا۔  ہیزل سے شادی کر کے انہوں نے کیٹ کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔  قانونی طریقے سے انہوں نے کیٹ کو گود لے کر اسے اپنا نام تو دے دیا۔  لیکن برتھ سرٹیفکیٹ سے کرسٹوفر کا نام نہ ہٹا سکے۔

ہٹا تو جیمی رہا تھا کھڑکی کے سامنے سے پردوں کو۔  ہمیشہ ادھم مچانے والے جیمی کا چہرہ آج سنجیدہ تھا۔  اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو کچھ ریز گاری ہی نکلی۔  وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا سیڑھیوں سے نیچے اترا۔  فساد کی جڑ وہ کاغذ کا ٹکڑا اب بھی میز پر وہیں پڑا ہوا تھا، جہاں کیٹ اسے پھینک کر گئی تھی۔

جیمی نے ماں کو دونوں ہاتھوں میں سر روک رکھ کر کرسی پر بیٹھے پایا۔  وہ کچھ دیر کھڑا ماں کو دیکھتا رہا۔  ایک چھوٹی سی بات نے سارے گھر کا ماحول ہی بدل دیا تھا۔  کچھ چیزیں ہوتی ہی منحوس ہیں۔  ایسی چیزوں کو ان کی صحیح جگہ رکھنا چاہئے۔

جیمی نے آگے بڑھ کر میز پر پڑا کیٹ کا برتھ سرٹیفکیٹ اٹھایا۔  بڑی بے دردی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں ہوا میں اچھال دیا۔  ایک لمحے ماں کی طرف دیکھتا رہا۔  ایک مجرم کی مانند ہیزل کی پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔

’’ مام مجھے دس پونڈ چاہئیں۔ ‘‘

ہیجل نے بھیگی پلکیں اٹھا کر بیٹے کی طرف دیکھا۔

’’کوئی سوال نہیں مام دس پونڈ دیجئے۔  پاکٹ منی ملتے ہی آپ کو لوٹا دوں گا۔ ‘‘پیسے لے کر جیمی گھر سے باہر چلا گیا۔

باری باری سے سب ہیزل سے منہ موڑ کر چلے گئے۔  کسی نے پلٹ کر اتنا بھی نہ دیکھا کہ اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔  وہ تو کسی کو اپنے آنسو بھی نہیں دکھا سکتی۔

ہیزل کو کیٹ کی نہیں ہنری کی فکر تھی۔  جن کو وہ اس درد سے بچانا چاہتی تھی، جب وہ ہی نہیں سمجھے تو کسی اور کو کیا کہے۔  وہ جانتی ہے کہ اس طرح اس بات کا انکشاف ہونے سے کیٹ سے زیادہ ہنری کو دکھ پہنچا ہے۔  وہ تو چاہتی ہی نہیں تھی کہ یہ بات کبھی کیٹ کے سامنے آئے۔

سامنے سے کسی کو آتا دیکھ کر جیمی کے پاؤں وہیں رک گئے۔  کیٹ سر نیچے جھکائے، کہیں دور کھوئی، چلی آ رہی تھی۔  اس نے سامنے کھڑے جیمی کو بھی نہیں دیکھا۔

’’کیٹ یہاں کیا کر رہی ہو۔  اس وقت تو تمہیں کیفے میں ہونا چاہئے۔ ‘‘

’’نہیں جیمی آج دل نہیں جانے کا۔ ‘‘

’’یہ ہوئی نا بات۔  میرا بھی دل بہت کر رہا تھا اپنی بہن کے ساتھ گھومنے کا۔  چلو آج میں تمہیں تمہاری من پسند کافی پلاتا ہوں۔  ڈرو مت میرے پاس پیسے ہیں۔ تم بھی کیا یاد رکھو گی اپنے رئیس بھائی کو۔ ‘‘

کیٹ کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔  اس نے بڑھ کر جیمی کو گلے لگا لیا۔  چند گھنٹوں میں میرا بھائی اتنا بڑا ہو گیا۔

جیمی کے ہاتھوں میں ایک ٹرے تھی، جس میں دو کپ کافی اور دو پیسٹریاں تھیں۔  وہ ٹرے میز پر رکھتے ہوئے بولا، ’’کیٹ کیا ایک کاغذ کا پرزہ تمہاری زندگی میں اتنی ویلیو رکھتا ہے کہ تم ڈیڈ سے ناراض ہو گئیں۔ ‘‘

’’میں ناراض نہیں ہوں جیمی صرف ہرٹ ہوئی ہوں۔  مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ جیسا ہم اپنے مام ڈیڈ پر بھروسہ رکھتے ہیں، ویسا وہ اپنے بچوں پر کیوں نہیں رکھتے۔  یہ جانتے ہوئے بھی کہ جب ایک دن وہ کاغذ ہمارے سامنے آئے گا تو ہمیں کتنی تکلیف ہو گی۔  ہمارا یقین ڈگمگا جائے گا۔  کیوں ہم سے ہر بات چھپائی جاتی ہے۔  ہم چھوٹے ضرور ہیں مگر اتنے نا سمجھ نہیں جتنا بڑے ہمیں سمجھتے ہیں۔  جانتے ہو مام ڈیڈ جب کبھی ہم پر غصہ کرتے ہیں یا مارتے ہیں، ہم تب بھی انہی کے ساتھ جا لپٹتے ہیں۔ کیوں ؟ کیوں کہ وہ ہمارے اپنے ہیں۔  ہمیں کبھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔  درد ہمیں ہوتا ہے تو تکلیف انہیں۔  میری وجہ سے آج ڈیڈ کو کتنا دکھ ہوا ہو گا۔  اپنی بیٹی کو یہ سب بتانا مام کیلئے بھی آسان نہیں رہا ہو گا۔  جیمی جب میں چھوٹی تھی۔  رات کو ڈر جانے پر میں موم کے پاس نہیں بلکہ ڈیڈ کی بانہوں میں جا کر سو جاتی تھی۔ ایک وہ انسان، جس نے کبھی پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔  وہ ہمارے ڈیڈ کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’کیٹ، مام ڈیڈ دونوں بہت اداس ہیں۔  چلو گھر چلیں۔ ‘‘

’’چلو جیمی۔  نجا نے مام پر کیا گزر رہی ہو گی۔  ہم سب نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ ‘‘

گھر کے اندر آتے ہی سامنے مام کو نہ پا کر کیٹ نے آواز لگائی ‘ ‘مام کہاں ہیں آپ۔  بھئی جلدی سے کچھ کھانے کو دیجئے بہت بھوک لگی ہے۔ ‘‘

’’کیٹ، جیمی۔ ‘‘ہیزل کے اداس چہرے پر تھوڑی سی رونق آ گئی۔  لیکن لاکھ کوشش کے بعد بھی وہ اپنی سوجی ہوئی آنکھیں بچوں سے نہ چھپا سکی، ’’بیٹھو میں تم دونوں کے لئے سینڈوچ بنا کر لاتی ہوں۔ ‘‘

’’سینڈوچ تو جیمی بھی بنا سکتا ہے۔ ‘‘

’’کیوں میں کیوں۔  کیا زمانہ آ گیا ہے۔  خود دونوں بڑے آرام سے بیٹھیں اور بچے سے کام کر وائیں۔  جانتی ہیں اسے چائلڈ سلیوری کہتے ہیں۔ ‘‘ جیمی پاؤں پٹختا ہوئے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

’’ مام، ڈیڈ ابھی نہیں آئے ؟‘‘

’’ نہیں بیٹا۔ ‘‘ہیزل نے طویل سانس چھوڑتے ہوئے کہا۔

’’ہوں۔ ‘‘کیٹ نے اٹھ کر دوبارہ کوٹ پہن لیا۔  وہ کہیں جانے لگی تو پیچھے سے ہیزل نے پکارا، ’’اب تم کہاں چل دیں، تمہیں تو بھوک لگی تھی۔ ‘‘

’’آپ سینڈوچ تیار رکھیں میں ابھی آئی۔ ‘‘

کیٹ جانتی ہے کہ ڈیڈ اسے کہاں ملیں گے۔  اس کے پاؤں خود بخود ہی دریا کی طرف اٹھ گئے۔  یہ ہے نوٹنگھم کا مشہور دریائے ٹرینٹ۔  اسے دور بنچ پر بیٹھا ہوا کوئی شخص نظر آیا۔  وہ اس طرف بڑھ گئی۔  یہ وہ جگہ ہے جہاں ہنری چھوٹی سی کیٹ کو لے کر آیا کرتے تھے۔  سامنے بہتا ہوا دریا۔  اس میں تیر تی بطخیں اور آتے جاتے لوگ۔

ہنری کے ہاتھ میں ایک پتوں سے بھری ڈالی ہے۔  وہ بے خیالی میں اس ڈا لی کا ایک ایک پتہ توڑ کر نیچے پھینک رہے ہیں۔  بالکل ویسے ہی جیسے بچپن میں کیٹ کیا کرتی تھی۔  بولتے ہوئے ایک ایک پتہ پھینکا کرتی تھی۔  ’’ڈیڈی لو می، ڈیڈی لو می ناٹ۔ ‘‘

پیچھے سے دو بانہیں ہنری کے گلے میں آ گئیں۔  کسی نے ہلکے سے گال کا بوسہ لیا، ’’آئی لو یو ڈیڈ۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

دوہرا بندھن

 

دیو کے قدم تیزی سے کار پارکنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔  آج کام پر اتنی دیر ہو گئی کہ وقت کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔  بیچاری مام پریشان ہو رہی ہوں گی۔  انہیں ایک فون تک نہیں کر پایا۔  ’’آج کس کے ڈانٹ کھانے کے لیے تیار ہو جا بیٹا دیو۔ ‘‘خود سے باتیں کرتے ہوئے اس نے کار اسٹارٹ کر دی۔  ادھر کیتھرین سے بھی کام کے بعد ملنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔  ’’وہ منہ پھلا کر بیٹھی ہو گی۔  مام کو منانا بہت آسان ہے مگر کیتھی، افوہ۔  اس کا غصہ تو اس وقت جانے کون سے آسمان پر ہو گا۔ ‘‘یہ سوچتے ہوئے دیو جیسے ہی گھر کے دروازے پر پہنچا تو سامنے ریکھا، اس کی مام انتظار میں کھڑی ملی۔

دیو مسکراتے ہوئے پیار سے ماں کے گلے لگ گیا۔

’’مام آپ کیوں ایسے دروازے پر کھڑی رہتی ہیں، تھک جاتی ہوں گی۔ ‘‘

’’ ہاں ہاں کتنی فکر ہے ماں کی وہ تو دیکھ ہی لیا ہے۔  سارا دن ایک فون کرنے کی بھی فرصت نہیں ملی تجھے۔ ‘‘ ریکھا مصنوعی غصے سے بولی۔

"کیا کروں، آج یورپ کے کچھ کلائنٹس کے ساتھ میٹنگ تھی، بس اسی میں تھوڑی دیر ہو گئی۔  آئیے نا بہت زور سے بھوک لگی ہے مام۔  میں فریش ہو کر آتا ہوں آپ جلدی سے کھانا لگا دیجیے۔ ‘‘دیو بچوں کی طرح مچلتے ہوئے بولا۔  کوئی انسان کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو جائے ماں کو دیکھتے ہی چھوٹا سا بچہ بن جاتا ہے۔

’’ایک تو دیر سے آتے ہو اور دوسرا گھوڑے پہ سوار ہو کر۔ ‘‘ریکھا بڑے فخر سے بیٹے کو پیار سے دیکھتے ہوئے بولی۔

’’جانتی ہیں مام آج سارا دن کام میں اتنا بزی تھا کہ چائے پینے کا بھی وقت نہیں ملا۔ ‘‘

’’تو کیوں کرتے ہو اتنا کام جو کچھ کھانے پینے کی بھی فرصت نہ رہے۔  بیوی آ گئی تو یہ سب نہیں چلے گا۔  سوچتی ہوں کہ اب روز شام کو دروازے پر کھڑی ہو کر تمہارا انتظار کرنے والی آ ہی جانی چاہیے۔ ‘‘

’’ہاں مام اب کیتھرین میرا انتظار کرے گی یا مجھ سے کروائے گی۔  یہ تو وقت ہی جانتا ہے۔ ‘‘

’’کیتھرین؟‘‘

’’جی مام کیا آپ ابھی تک نہیں سمجھیں۔  میں اور کیتھی کتنے پرانے دوست ہیں۔‘‘

’’ہاں جانتی ہوں بیٹا کہ تم دونوں بہت اچھے دوست ہو۔ مگر شادی تو کسی اپنی کمیونٹی کی ہی لڑکی سے کرنی چاہیے نا۔ ‘‘

’’واہ ماں، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ محبت کسی سے اور سے اور شادی کسی اور سے۔ کیتھرین نے اس وقت میرا ساتھ دیا ہے۔  جب ہم بہت نازک دور سے گزر رہے تھے۔  میرے لئے اس سے اچھا جیون ساتھی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور پھر کسی لڑکی سے بنا ملے، بنا جانے صرف اس لیے تو شادی نہیں کر سکتا نہ کہ وہ میری اپنی کمیونٹی سے ہے۔ ‘‘

’’مگر بیٹے کبھی ہم اپنے ملک جائیں گے تو وہاں میں کیا کہوں گی کسی کو، کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور اس نے بھی اپنی مرضی سے گوری سے شادی کر لی۔  لوگ طعنے ماریں گے تمہاری ماں کو۔ ‘‘

’’کیوں مام؟ جب ہمارا ان کی کسی بات میں انٹرفئیرینس نہیں ہے تو پھر ہم اپنی زندگی اپنے طریقے سے کیوں نہیں جی سکتے۔  کیوں ہم ہمیشہ اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ہمارے رشتہ دار کیا کہیں گے، جن سے ہم سالوں کے بعد ملتے ہیں ؟ اب آپ ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیجیے۔  وقت بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ ‘‘

’’لیکن بیٹے ماں کے بھی تو کچھ ارمان ہوتے ہیں نا۔  جب ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ اسے لے کر نہ جانے کیا کچھ سپنے دیکھنے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’خواب بچے بھی دیکھتے ہیں مام۔  کیا مجھے ان خوابوں کو پورا کرنے کا کوئی حق نہیں جن میں صرف کیتھی ہے ؟ کسی اور لڑکی کے بارے میں تو میں کچھ سوچ بھی نہیں سکتا۔ ‘‘ دیو کی آواز تھوڑی اونچی ہو گئی۔

’’پر دیو۔۔ ۔ ‘‘

’’نہیں مام، آپ کب یہ مانیں گی کہ اب یہی ہمارا ملک ہے، جہاں ہم رہتے ہیں۔  آپ سوچتی ہیں کہ ہم کبھی انڈیا واپس چلے جائیں گے، نہیں۔  میں یہیں پیدا ہوا ہوں، یہیں کماتا کھاتا ہوں اور اسی ملک کی لڑکی سے شادی بھی کروں گا۔ ‘‘

’’لیکن۔ ‘‘

’’بس مام، بہن کی شادی کا انجام آپ کے سامنے ہے۔  مجھے تو بیچارے جیجو پر ترس آتا ہے، جنہوں نے بہن کو کتنا پیار دیا۔  اگر میری بیوی نے ایسا کیا ہوتا تو میں اپنے گھر سے نہ نکلتا بلکہ ان دونوں کو دھکے دے کر گھر سے باہر کر دیتا۔  ویسے بھی آنکھیں موند کر آپ کی پسند کی لڑکی سے شادی کر کے میں جیجو کی طرح اپنی زندگی برباد نہیں کر سکتا۔  میں اسی سے شادی کروں گا جسے میں بہت سالوں سے جانتا ہوں۔ ‘‘

بیٹے کی باتیں سن کر ریکھا کا چہرہ ایک دم اتر گیا۔

ماں کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ بولا، ’’مجھے معلوم ہے اس وقت یہ باتیں آپ کو بہت کڑوی لگ رہی ہوں۔  لیکن بنا سوچے سمجھے اور دباؤ میں آ کر شادی کرنے سے ایک نہیں کتنے ہی جیون برباد ہو جاتے ہیں مام۔ ‘‘

’’جو کچھ جیجو کے ساتھ ہوا ہے ضروری نہیں کہ تمہارے ساتھ بھی ہو دیو۔ ‘‘

’’پلیز مام سمجھنے کی کوشش کریں۔  اس بارے میں مجھ پر زور مت ڈالئے گا۔  میرا مقصد آپ کا دل نہیں دکھانا۔ آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں، لیکن میری زندگی مجھے میرے طریقے سے جینے دیجیے۔  اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔  میں نے اور کیتھی نے جلد ہی شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘‘

’’فیصلہ جب تم لوگوں نے کر ہی لیا ہے تو میں کون ہوتی ہوں کچھ بولنے والی؟‘‘

بولا تو دیو جسے سن کر ریکھا کو ایک اور جھٹکا لگا، ’’اور ہاں مام جیسے ہی ہماری شادی کی تاریخ پکی ہو جائے گی۔  ہم آپ کو بتا دیں گے۔ ‘‘

اب اپنے ہی بیٹے کی شادی کی تاریخ پکی کرنے میں اس کے مشورہ کی بھی کسی کو ضرورت نہیں رہی۔

میرے مشورہ کی ضرورت تو اس کے پاپا کو بھی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔  اگر مانی ہوتی تو ونی کا یہ حال نہ ہوتا۔  آج پھر ایک بار بولنے سے پہلے ہی ریکھا کی زبان کو بند کر دیا گیا تھا۔  آگے دیو سے کیا باتیں ہوئیں اسے کچھ بھی یاد نہیں۔  بس ایک ہی بات اس کے دل پر ہتھوڑے مارتی رہی۔

’’دیدی کی شادی کا انجام آپ کے سامنے ہے۔ ‘‘

بہن، ہاں دیو کی بڑی بہن ونی۔  چھوٹی سی ونی، جب اپنی توتلی آواز میں انگریزی بولتی تو اس کے پاپا اُتل کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آ جاتی۔  وہ بیٹی کو انگریزی بولنے کے لیے مزید حوصلہ افزائی کرتے۔  ریکھا کچھ مخالفت کرے اس سے پہلے ہی اسے ڈانٹ کر خاموش کرا دیا جاتا تھا۔  بیٹی توتلی آواز میں انگریزی نظمیں سناتی تو انہیں بہت اچھا لگتا۔

اچھا کیوں نہ لگتا۔  اتل جب انڈیا چھوڑ کر برطانیہ آئے تھے تو اس وقت یہاں کا ماحول کچھ اور ہی تھا۔  انگریز لوگ ایشین کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے۔  ان کے ہندوستانی لہجے سے انگریزی بولنے پر ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔  یورپیوں کو یہ بھی ڈر تھا کہ ہندوستانی لوگ محنتی ہوتے ہیں۔  یہ ہم سے ہماری جابس چھین لیں گے۔  اتنا پڑھے لکھے ہو کر بھی اتل نے اس ملک میں بہت کچھ سہا۔

سہا تو ریکھا نے بھی لیکن خاموشی سے۔  سارا دن فیکٹری میں کام کرنے کے بعد آتے ہی وہ کچن میں لگ جاتی۔  ایک لمحے کا بھی آرام نہیں تھا اسے۔  بچوں کے اسکول کی پڑھائی بھلے مفت تھی، لیکن اوپر کے خرچے بھی تو بہت تھے۔  ریکھا رات کو بستر پر لیٹتی تو ڈر سے کراہ بھی نہیں سکتی تھی کہ کہیں اتل کے کانوں میں آواز نہ پڑ جائے۔  یہی وجہ تھی کہ ان کے بچے جب انگریزی لہجے میں انگلش بولتے تو انہیں یہ سوچ کر خوشی ہوتی کہ ہمارے بچے بھی انگریز بچوں سے کم نہیں ہیں۔  وہ تو یہی چاہتے تھے کہ جو عذاب انہوں نے سہا ہے۔  ان کے بچے اس سے دور رہیں۔  وہ دور ضرور ہو گئے مگر اپنی ثقافت سے۔

وہ ثقافت جو بچوں کے لیے کتابوں تک رہ گئی تھی۔  بیٹی ونی تو ہر طرح سے انگریزی رنگ میں رنگ چکی تھی، کلبوں میں جانا، رات دیر تک گھر سے باہر رہنا۔  ماں روکتی تو سخت جواب مل جاتا، ’’مام آئی ایم ناٹ اے چائلڈ۔  آئی کین لک آفٹر مائی سیلف۔ ‘‘

ہاں وہ اپنا کیسا لک آفٹر کر رہی ہے۔  یہ تو ماں کو اپنے سامنے ہی نظر آ رہا ہے۔  غیر ملکی ثقافت نے بچوں کو یہ تعلیم ضرور دی ہے کہ اپنے سے بڑوں کو کیسے جواب دیا جائے۔  جب اپنا ہی بچہ ماں باپ سے یہ کہہ دے کہ ’’کتنے سال ہو گئے آپ کو انڈیا سے یہاں آئے۔ لیکن اب بھی آپ وہیں کے دقیانوسی اصول، خیالات جانے کیا کیا لے کر چل رہے ہیں۔  پلیز ہمیں ان دو ملکوں کے دوہرے بندھن میں مت باندھیں۔  آپ بھی تھوڑا آگے بڑھیں اور ہمیں بھی اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینے دیجیے۔ ‘‘ اس وقت خاموشی سے بچوں کا منہ دیکھنے کے سوائے کوئی اور چارہ بھی تو نہیں ہوتا۔

منہ دکھانے کے خوف سے ہی تو اتل چاہ کر بھی کبھی واپس انڈیا نہیں جا پائے۔  ان کے جیسے اور بھی سینکڑوں خاندان اپنے ہی بچوں کے سامنے ہار مان چکے تھے۔  ایک ماں ہر مشکل کا ڈٹ کا سامنا کر سکتی ہے۔  لیکن اپنے پیٹ کے جایوں کے سامنے خاموش ہو جانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔  اس کے لیے کون کس کو دوش دے۔

دوش تو سارا ونی کا بھی نہیں تھا۔  یہ راستہ بھی اسے اپنوں نے ہی دکھایا تھا۔  اب وہ انگریزی بولتی ہی نہیں تھی بلکہ انگریزوں کے طور طریقے اور رنگ ڈھنگ بھی اپنا رہی تھی۔  ریکھا کا دل کسی انجانے خوف سے کانپ اٹھتا۔  مگر یہ اس کی مجبوری تھی یا شوہر سے مخالفت کا ڈر، جو وہ بیٹی کے بھٹکتے قدم نہ روک سکی۔

’’مام میں دوستوں کے ساتھ جا رہی ہوں۔  آنے میں دیر ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ونی بیٹے تمہارے سارے ہی انگریز دوست ہیں۔  ایک بھی بیچ میں انڈین ہوتا تو مجھے تسلی رہتی۔ ‘‘ ریکھا نے تھوڑا پریشان ہو کر کہا۔

’’اوہ مام پلیز، اب پھر سے شروع نہ ہو جانا۔ ‘‘

باپ کی مانند بیٹی بھی، زبان کھلنے سے پہلے ہی ریکھا کو خاموش کرا دیتی۔

خاموش ہونے کی جگہ پر، کاش اس وقت ریکھا نے اس بات کی مخالفت کی ہوتی تو شاید بیٹی کے گھر سے باہر اٹھتے قدموں پر کچھ روک لگا پاتی ’’کئی بار اپنی ہی خاموشی مجبوری بن کر خود پر بھاری ثابت ہو جاتی ہے۔ ‘‘

ریکھا کی مجبوری ہی تو تھی جو بیٹی کو دلدل میں گرنے سے روک نہ سکی۔  ونی کئی بار راتوں کو بھی گھر سے باہر رہنے لگی تھی۔  ہمارے ہندوستانی رسم و رواج جسے گناہ سمجھتے ہیں۔  وہ یہاں کا ماڈرن کلچر سمجھا جاتا ہے۔  جو ریکھا کے اپنے بچے بخوبی اپنا رہے تھے۔

اپنایا تو ہمیں اس ملک نے اس دولت سے، جس نے اپنے ہی بچوں کے سامنے ہمارے منہ پر تالے لگا دیئے۔  مانا اس ملک میں رہ کر ہم نے بہت دولت کمائی ہے۔  پر اس دولت نے ہمیں دیا کیا، تنہائی۔  جو زندگی کی سب سے بڑی لعنت ہے۔  جب اولاد ہونے پر بھی کوئی تنہا ہو۔  بیمار ہونے پر کوئی پانی دینے والا نہ ہو، تو اس سے بڑی لعنت اور کیا ہو سکتی ہے۔  جب دیکھتے ہی دیکھتے بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو کتنی ہی امیدیں ماں باپ کے دلوں میں جنم لینے لگتی ہیں۔

امید تو آج ایک بار پھر ریکھا کی ٹوٹی تھی۔  کس طرح اپنا ہی بچہ یہ کہہ کر چل دیا کہ ’’شادی کی تاریخ پکی ہو جانے پر آپ کو بتا دیا جائے گا۔ ‘‘ جیسے میں اس کی ماں نہیں شادی میں آنے والی ایک مہمان ہوں۔

مہمانوں سے تو اس دن گھر بھرا ہوا تھا۔  کتنے خوش تھے سب۔  اُتل ہیتھرو ایئرپورٹ گئے ہوئے تھے۔  اپنے دوست پرمود اور اس کے خاندان کو لینے کے لئے۔  دونوں دوست اب رشتہ دار جو بننے والے تھے۔  ونی بھی منتظر تھی اپنے ہونے والے شوہر سنیم سے ملنے کے لئے۔ ویسے سنیم اس کے لیے انجان نہیں تھا۔  پر وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ گول مٹول سا سنیم ڈاکٹر بن کے کیسا لگتا ہے۔

بھئی اچھا کیوں نہیں لگے گا پڑھا لکھا اٹھائیس سال کا بانکا گبرو جوان ہے سنیم۔

شادی کے بعد ونی کو سنیم کے ساتھ اتنا خوش دیکھ کر اس کے دوستوں کو کچھ جلن سی محسوس ہوئی۔  جو ونی دن رات ان کے ساتھ رہتی تھی، انپے پیسے لٹاتی تھی۔  اسے وہ اتنی آسانی سے کیسے جانے دیتے۔  انہوں نے اسے ہندوستانی دلہن کہہ کر چڑانا شروع کر دیا۔  ونی جس نے ہمیشہ خود کو انگریز سمجھا، وہ اپنے لئے ہندوستانی لفظ کس طرح برداشت کر سکتی تھی اور وہ بھی انگریز دوستوں کے سامنے۔  ثابت کرنے کے لیے اس نے دوبارہ کلبوں میں آنا جانا شروع کر دیا۔  بس دوست یہی تو چاہتے تھے۔

دوستوں کے چاہنے کا خیال نہ کر کے اگرونی نے اپنے شوہر کا خیال کیا ہوتا۔  تو شاید اس کے لڑکھڑاتے قدموں کو سہارا مل جاتا۔  کوئی اگر مضبوط ہو تو کسی کی کیا مجال جو اسے اپنے ارادوں سے ہلا سکے۔  ونی تو شروع سے ہی کنفیوزڈ لڑکی تھی، جو دو ثقافتوں کی جھولی میں جھول رہی تھی۔  اس نے تو یہ سوچا تھا کہ وہ سنیم کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لے گی۔

پر کچھ رنگ اتنے پکے ہوتے ہیں کہ ان پر آسانی سے کوئی اور رنگ نہیں چڑھ سکتا۔  شاید سنیم بہت جذباتی انسان تھا۔  وہ نیا نیا انڈیا سے آیا تھا۔  ابھی اس پر یہاں کے طور طریقوں کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا۔  سنیم نے سوچا کہ آہستہ آہستہ اپنی محبت سے وہ بیوی کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔  وہ اپنے اُتل انکل سے بہت محبت کرتا تھا۔  نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے گھر میں کسی کو بھی کسی قسم کی کوئی تکلیف ہو۔  شاید ونی نے اس کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا تھا۔

فائدہ اٹھانا کبھی دوسروں کے ساتھ ساتھ خود پر بھی بھاری پڑ جاتا ہے۔ سنیم سارے دن کا تھکا ہوا گھر آیا تو دیکھتا ہے کہ ونی کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔

’’حضور کی سواری کہاں جانے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ ‘‘سنیم نے چھیڑتے ہوئے پیار سے پوچھا۔

’’میں کلب جا رہی ہوں۔ ‘‘ونی بے رخی سے بولی۔

اس بے رخی کو نظر انداز کر کے سنیم نے بانہیں ونی کی کمر میں ڈال کر کہا، ’’بھئی ہم نے تو سوچا تھا۔  آج کی شام ہم اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ گزاریں گے، آج میں بہت تھکا ہوا ہوں ونی۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ اس کی بات پوری ہوتی، ونی بے رخی سے اس کا ہاتھ جھٹک کر بولی،

’’تھکے ہو تو جا کر سو جاؤ۔  میں کوئی سولہویں صدی کی فرمانبردار عورت تو ہوں نہیں۔  جو روز شام کو گھر بیٹھ کر شوہر کی خدمت کروں گی۔  اگر تمہیں صحیح معنوں میں اپنی تھکن مٹانی ہے تو تم بھی چلو میرے ساتھ کلب۔ ‘‘ سنیم ابھی یہاں کے رنگ ڈھنگ سے دور ہی تھا۔  وہ خاموشی سے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

اس رات تو ونی نے حد ہی کر دی تھی۔  بتانا مشکل تھا کہ ’’ونی نے کچھ کھو یا، یا سنیم کا صبر ٹوٹا۔ ‘‘ آدھی رات کو نشے میں چُور ونی اپنے ایک شرابی انگریز دوست کے ساتھ گھر آتی ہے۔

گھر کے باہر کار رکنے کی آواز سن کر سنیم نے جیسے ہی دروازہ کھولا۔  اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوا۔  آج ونی نے شادی شدہ زندگی کی ہر حد کو پار کر دیا تھا۔  وہ شراب کے نشے میں دھت، اپنے دوست کے بدن سے چپکی، اس کا بوسہ لے رہی تھی۔  دروازہ کھلنے کی آہٹ سن کر بھی وہ الگ نہیں ہوئے۔  سنیم ہی اس شرمناک منظر کو اور نہ دیکھ سکا اور آنکھیں جھکا کر اندر کمرے میں چلا آیا۔  ایک خوددار شوہر اپنی بیوی کو کسی اورمرد کی بانہوں میں کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

برداشت تو ونی بھی نہیں کر پا رہی تھی اپنے نشے کو۔  وہ لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے میں آئی۔

کمرے میں آتے ہی سنیم سوفے سے اٹھتے ہوئے بولا، ’’ ونی گھڑی دیکھی تم نے اور اس وقت یہ کون تھا تمہارے ساتھ۔ ‘‘

’’میں تمہارے ہر سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتی۔  ابھی مجھے نیند آ رہی ہے۔  تم اپنی وکالت صبح کر لینا۔ ‘‘

’’میں صبح تک انتظار نہیں کر سکتا۔  دیکھو ونی میں تمہارا شوہر ہوں اور اس طرح تمہیں دلدل میں گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘سنیم آگے بڑھتے ہوئے محبت سے بولا۔

’’نہیں دیکھ سکتے تو چلے جاؤ اپنے ملک واپس۔  تمہیں روکا کس نے ہے۔  تنگ آ چکی ہوں میں تمہاری روز روز کی روک ٹوک سے۔  اتنا تو میرے پاپا نے بھی مجھے کبھی نہیں ٹوکا تھا۔ ‘‘وہ بے رخی سے بولی۔

’’کاش۔  انہوں نے وقت پر تمہیں روکا ہوتا تو تمہاری زندگی برباد ہونے سے بچ جاتی۔ ‘‘

’’ برباد تو تم نے کر رکھا ہے میری زندگی کو۔  تم سے شادی کا مطلب یہ نہیں کہ میں تمہاری غلام ہو گئی ہوں اور اپنے دوستوں کو چھوڑ دوں اور ہاں اس وقت میں تمہاری تقریر سننے کے موڈ میں نہیں ہوں سمجھے۔ ‘‘ وہ لڑکھڑاتے ہوئے بولی۔

سمجھ تو سنیم کو نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔  اس طرح رات کو وہ کوئی تماشا کھڑا کرنا نہیں چاہتا تھا۔  شوہر کے ہوتے ہوئے بیوی آدھی رات کو نشے کی حالت میں کسی مرد کو گھر لے کر آئے۔  ایک شوہر کے لئے اس سے زیادہ شرمناک بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔  ویسے بھی آج کل ونی کی حرکتوں سے وہ کافی پریشان رہنے لگا تھا۔  ونی بات بات پر اس سے جھگڑنے کا بہانہ ڈھونڈتی رہتی۔  تاکہ وہ اسے نیچا دیکھا سکے۔  وہ جب دیکھو طنز کرتی رہتی، ’’تم ہندوستانی کتنے بھی پڑھ لکھ کیوں نہ جاؤ لیکن رہو گے دیہاتی ہی۔  آج زمانہ کتنا ترقی کر رہا ہے اور تم وہی اپنے پرانے اصولوں میں بھٹک رہے ہو۔  یہاں ہر کوئی اپنی زندگی اپنے طریقے سے جیتا ہے مسٹر۔  میں آزاد خیالات کی لڑکی ہوں۔  تم مجھے باندھ کر نہیں رکھ سکتے۔ ‘‘

بندھا ہوا تو سنیم تھا۔  ایک طرف اپنی بیوی سے اور دوسری طرف اپنے اصولوں سے، اپنی ثقافت سے۔  وہ دونوں کو ہی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

کبھی دوسروں کو خوش کرنے کے چکر میں انسان اپنا سکھ چین کھو دیتا ہے۔  سنیم ابھی تک پاپا اور اتل انکل کی دوستی کی وجہ سے خاموش تھا۔  اسے یقین تھا کہ ایک دن ونی کو بھی اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ وہ کسی کی بیاہتا بیوی ہے۔  مگر نہیں، وہ کتنا غلط تھا۔  ونی بہت آگے نکل چکی تھی۔  اس میں سدھرنے کے کوئی علامت ہی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔  آج تو سنیم کے صبر نے بھی اس سے بے وفائی کر دی۔  وہ اور ذلت نہ سہہ سکا۔  اس نے بغیر کسی سے ایک لفظ بولے، اسی وقت ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ دیا۔  سنیم نے تو گھر چھوڑا۔  مگر اتل یہ دکھ نہ سہہ سکے۔  انہوں نے جہان ہی چھوڑ دیا۔  جس دن انہوں نے بیٹی کی شادی کی بات سوچی تھی کتنا خوش تھے۔

’’ریکھا یہ پرمود کا بیٹا سنیم کیسا رہے گا ہماری ونی کے لئے ؟‘‘ اتل نے بیوی سے پوچھا۔

’’سنیم تو بہت اچھا لڑکا ہے۔  لیکن کیا ہماری ونی واپس انڈیا جانے کے لیے تیار ہو جائے گی؟‘‘

’’ارے اسے جانے کی کیا ضرورت ہے۔  ہم سنیم کو یہاں بلا لیں گے۔  وہ ڈاکٹر ہے اسے تو یہاں کسی بھی ہاسپٹل میں فوراً نوکری مل جائے گی۔ ‘‘

’’نوکری تو مل جائے گی لیکن سوچ لیجیے۔  آپ ونی کی چال ڈھال تو دیکھ ہی رہے ہیں۔  پھر پرمود بھائی صاحب مانیں گے بیٹے کو اتنی دور بھیجنے کے لیے ؟ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ وہ ہندوستانی ثقافت میں پلا بڑا ہے۔  کیا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ کر پائیں گے ؟ ‘‘

’’تم عورتیں تو یوں ہی فکر کرتی ہو۔  دیکھنا شادی کے بعد ہماری ونی بھی بدل جائے گی۔  آخر وہ میری بیٹی ہے۔  ہمیں اپنے بچوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ‘‘

اس بھروسے کے بھروسے ہی تو انسان کیا کچھ سوچ لیتا ہے۔

بس اتل کو یہی غم لے گیا ہے کہ پرمود نے آنکھیں موند کر یاری نبھائی مگر میں نے توڑ دیا یار کا بھروسہ۔  اپنے ہی دوست کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔  بس اسی غم کے ساتھ انہوں نے بیوی کو چھوڑ کرموت کو سینے سے لگا لیا۔  ریکھا نے شوہر کو تو کھویا ہی، وہ بیٹی سے بھی ہمیشہ کیلئے دور ہو گئی۔

اب بیٹے سے دور ہونے کا ڈر اسے ستا رہا تھا۔  جب اپنے پیٹ کی جائی ہوئی اپنی نہیں رہی تو کیتھی تو پرائی ہے، انگریز ہے۔  بالکل الگ ماحول میں پلی ہوئی۔  جب اپنے ہی بچے اپنے نہ رہے تو دوسروں سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔

کسی امید کے ٹوٹنے سے کتنا درد ہوتا ہے۔  یہ ریکھا سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے۔  وہ سوچنے لگی کہ کیا اب بیٹے کا منہ دیکھنے کو بھی ترس جایا کرے گی؟ پوتے پوتیوں کو گود میں کھلانے کی حسرت ہی رہ جائے گی؟ بھارت واپس بھی تو نہیں جا سکتی۔  لوگوں کے طعنے سننے سے تو اچھا ہے کہ یہیں اسی ملک میں گھٹ کر جتنی زندگی بچی ہے، کاٹ لی جائے۔

ہاں وہ زندگی ہی تو کاٹ رہی ہے، جب سے یہاں آئی ہے، ایک کے بعد ایک غم کاٹ کر۔  جب خوشی سے زیادہ غم ملیں تو ان کو سہتے ہوئے انسان درد کا درد بھی بھول جاتا ہے۔  پہلے ملک چھوٹا، پھر شوہر، اب باری باری بچے بھی اپنا رنگ دکھا کر دور ہوتے جا رہے ہیں۔

اب جو ہو رہا تھا وہ کیا کم تھا کہ بیٹے نے ایک اور جھٹکا دے دیا، ’’مام آپ تو جانتی ہیں کہ کیتھرین ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے۔ کیتھی کی مام چاہتی ہیں کہ ہماری شادی چرچ میں ہو۔  آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں۔ ‘‘

’’اعتراض؟‘‘ ریکھا حیران ہو کر بولی، ’’کیتھرین ایک کیتھولک لڑکی ہے۔  کیتھولک چرچ میں شادی کرنے کا مطلب جانتے ہو دیو۔  تمہیں بھی ہندو مذہب چھوڑ کر کیتھولک بننا پڑے گا، تبھی تمہاری شادی اس چرچ میں ہو پائے گی۔  اس کا مطلب تم کیتھرین کے لیے اپنا دھرم بھی چھوڑ دو گے۔ ‘‘

’’مام آپ جانتی ہیں کہ میں دھرم ورھم کو نہیں مانتا۔  میں ایک انسان ہوں اور انسانیت ہی میرا مذہب ہے۔  پھر کیتھولک بنوں یا ہندو رہوں، کیا فرق پڑتا ہے مام، رہوں گا تو آپ کا بیٹا ہی نا۔ ‘‘

’’اب بیٹے بھی کب تک رہو گے پتہ نہیں۔ ‘‘ریکھا نے اپنے امنڈتے ہوئے آنسوؤں کو پی لیا، ’’جب تم نے ٹھان ہی لی ہے تو اعتراض کر کے ہو گا بھی کیا بیٹا۔  شادی تمہاری ہے۔  جیسا ٹھیک سمجھو کرو۔ ‘‘ریکھا ا اپنی اداسی چھپاتے ہوئے بولی۔

اداسی بیٹے نے تو نہیں دیکھی۔  ہاں کیتھی کی نظر سے نہ چھپ سکی۔  اسے دونوں کی گفتگو کی زبان تو زیادہ سمجھ نہیں آئی۔  کیونکہ باتیں آدھی انگلش اور آدھی ہندی میں ہو رہی تھیں۔  پھر بھی جو اسے سمجھنا تھا وہ سمجھ گئی۔

سمجھ تو دیو نہیں سکا کیتھی کی بات کو۔  دیو کار میں بیٹھنے لگا تو کیتھی بولی، ’’دیو میں سوچتی ہوں کہ ہم پہلے مندر میں شادی کریں گے۔  پھر چرچ میں۔ ‘‘

’’کیا ؟ آر یو میڈ کیتھی؟ پلیز تم کم ہی سوچا کرو تو اچھا ہے۔  پہلے ہی ہم بجٹ سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور اس پر دوسری شادی کا خرچہ۔  یہ تمہارے دماغ میں آیا بھی کس طرح؟ پھر جب مام کو سب کچھ منظور ہے۔  تم نے دیکھا کہ انہوں نے کسی بات پر بھی اعتراض نہیں کیا۔  تو پھر یہ سب کس لیے۔ ‘‘

’’منظور ہے اسی لیے تو۔ ‘‘کیتھی کچھ سوچتے ہوئے بولی، ’’ عورتوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ‘‘کیتھی نے خود سے جملہ پورا کر دیا تو دیو منہ بنا کر رہ گیا۔

کیتھرین کو رنگ برنگے لہنگا چولی میں دلہن کے روپ میں سجا دیکھ کر دیو منہ بنانا بھول گیا۔  یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ دیسی لباس میں دلہن بن کر زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی یا چرچ میں سفید گاؤن میں لپٹی ہوئی۔  دلہن کسی بھی ذات یا مذہب کی کیوں نہ ہو شادی کے وقت توروپ نکھر ہی آتا ہے۔

شادی ہو جانے کے بعد دیو اور کیتھی کے کہنے پر بھی ریکھا نے اپنی نوکری نہیں چھوڑی۔

اس نے سوچا اگر میں کام نہیں کروں گی۔  تو اتنا لمبا وقت کس طرح بسر کر پائے گی۔  دیو اور کیتھی بھی کچھ وقت کے بعد اپنے نئے گھر میں چلے گئے تھے۔  اب تو ریکھا نے اکیلے رہنے کی عادت بھی ڈال لی تھی۔  پھر بھی وہ ایک ماں ہے۔  بچوں کے انتظار میں کان ہر وقت دروازے پر ہی لگے رہتے۔

دروازے سے اندر آتے ہوئے کیتھی کچھ جھنجھلا کر مصنوعی غصے سے بولی، ’’جلدی کرو دیو تم تو میتھیو سے بھی چھوٹے ہو۔  تیار ہونے میں اتنی دیر کرتے ہو۔ ‘‘

’’ارے مام کے گھر ہی تو جانا ہے۔ ‘‘ دیو جیکٹ پہنتے ہوئے بولا۔

’’ ہاں تو مام کے گھر بھی وقت سے پہنچنا چاہیے جناب۔  جانتے نہیں کہ آج دیوالی ہے۔  مام بیچاری اکیلے سارا کام کر رہی ہوں گی۔ ‘‘

’’تو وہاں جا کر بھی تم کون سا کام کرنے والی ہو۔ ‘‘ دیو نے چھیڑتے ہوئے کہا۔

’’آپ کی طرح نہیں کہ وہاں پہنچتے ہی چھوٹے بچے کی طرح ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاؤ اور مام پہ حکم چلانے لگو۔ مام ایک کپ چائے ملے گی پلیز۔ ‘‘

’’ارے ہاں چائے سے یاد آیا۔  اس بار تم مام سے اچھی سی چائے بنانا ضرور سیکھ لینا۔ ‘‘ کیتھی نے تکیا اٹھا کر زور سے دیو کی جانب پھینکا۔  جسے قہقہے لگا کر دیو نے راستے میں ہی روک لیا۔  جب بھی مام کے گھر جانا ہوتا کیتھی اور دیو کی پہلے ہی چھیڑ چھاڑ شروع ہو جاتی۔

چھیڑنے کا مزا تو ریکھا بھی بھرپور لیتی جب بچے گھر پر ہوتے۔  وہ ہمیشہ بہو کا ساتھ دیتی تو دیو چڑ جاتا۔  ریکھا ویسے تو دیوالی کی تیاریوں میں بزی ہے، مگر کان دروازے پر پوتے کی آواز سننے کے لیے لگے ہیں۔

’’دادی ماں۔ ‘‘باہر ہی سے میتھیو کی آواز آئی تو ریکھا لپک کر دروازے کی جانب بڑھی۔  گھر طرح طرح کے پکوانوں اور اس کی خوشبوؤں سے بھرا ہوا تھا۔

’’ہیپی دیوالی مام۔ ‘‘

’’بڑی دیر کر دی بچو۔ ‘‘ریکھا پیار سے بولی۔

’’اٹس ڈیڈی۔  دادی ماں۔ ‘‘

’’تمہارے ڈیڈی تو ہیں ہی لیزی۔ ‘‘

’’ییہ۔ ‘‘ میتھیو تالی بجا کر ڈیڈی کو چڑاتے ہوئے بولا، تو دیو اس کے پیچھے بھاگنے لگے مارنے کے لئے۔ بچے یہی تو چاہتے ہیں۔

’’ارے بھئی اتنی اچھی خوشبوئیں آ رہی ہیں۔  میری تو بھوک تیز ہو رہی ہے۔  چلیں مام تیزی سے پوجا کی تھالی تیار کریں۔ ‘‘کیتھی، ریکھا کو کچن کی طرف لے جاتے ہوئے بولی۔

’’جانتی ہوں کھانا دیکھ کر تم لوگ سب کچھ بھول جاتے ہو۔ ‘‘ریکھا قہقہے لگا کر پوجا کی تھالی سجانے لگی تو کیتھی ان کے ہاتھ سے تھالی لے کر بولی، ’’ مام آج تھالی میں سجاؤں گی۔  آپ مجھے بتائیں کیا کیا رکھنا ہے۔ ‘‘کیتھی نے ریکھا کی مدد سے ایک بڑی سی تھالی میں رنگ برنگی رنگولی بھی بنائی۔  رنگولی دیکھ کر میتھیو بھی اس میں مزید رنگ بھرنے لگا۔  بچوں کو تو ویسے بھی رنگ برنگی چیزیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔

متوجہ تو کیتھی کو دور پڑی مٹھائی کر رہی تھی۔  ریکھا کچن سے پٹاخے اور مٹھائی لے کر آئی تو کمرے میں بہو کہیں دکھائی نہیں دی، ’’ارے یہ کیتھی چلی گئی؟ ابھی تو اسے بڑی زور سے بھوک لگی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’اس کی مت پوچھو مام، اسے تو یہاں آتے ہی بھوک لگ جاتی ہے۔ ‘‘

’’میں سب سن رہی ہوں۔  آپ مام سے میری جو بھی شکایت کر رہے ہیں۔‘‘ کمپیوٹر روم سے کیتھی بولی۔  جہاں سے موسیقی کی آواز آ رہی تھی۔

’’مام آرتی شروع ہونے والی ہے، جلدی سے پوجا کے لیے تیار ہو جائیں۔  اور ہاں آج پوجا میں کروں گی۔ ‘‘

’’تم کس طرح کرو گی؟ نہیں نہیں پوجا مام کو کرنے دو۔  تمہیں نہیں آتی کرنی۔ ‘‘ دیو جلدی سے بولا۔

’’ارے بھئی نہیں آتی تو میں سکھا دوں گی۔  پوجا گھر کی بہو ہی کرتی ہے بیٹا۔ ‘‘

کیتھی نے دیو کو زبان دکھا کر پوجا کی تھالی اپنے ہاتھ میں لے لی اور پاس ہی صوفے پہ رکھے اسکارف سے اپنا سر ڈھک کر جیسے جیسے مام نے بتایا، بڑی لگن سے وہ پوجا کرنے لگی۔

اتنے میں دوسرے کمرے سے کمپیوٹر پر موسیقی کے ساتھ ’’اوم جے جگدیش ہرے۔ ‘‘ آرتی شروع ہو گئی۔  کیتھی بھی اپنے انگریزی لہجہ میں آرتی کے ساتھ سر سے سُر ملا کر گانے لگی۔  پوتے نے آگے بڑھ کر سب کے ماتھے پر چندن کا ٹیکہ لگایا۔  دیو مسکراتے ہوئے خاموشی سے تالی بجاتا رہا۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل