فہرست مضامین
عامر صدیقی کے کچھ افسانے
عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
چکن کا رشتہ
کہنے کو تو یہ یقیناً ہفتے کا دن تھا، اس دن گو کہ بہت سے کاروباری مراکز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور تعلیمی ادارے وغیرہ بند ہی ہوتے ہیں، مگر شاہراہوں اور اس کی ذیلی سڑکوں پر چہار سُو پھیلا اور بے ترتیبی سے بہتا، بے ہنگم اور منہ زور ٹریفک، اپنے پورے زور و شور سے اپنی اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں تھا، یا یوں کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ خود کو رواں دواں رکھنے کی سعیء لاحاصل کر رہا تھا۔ دھواں چھوڑتی باوا آدم کے زمانے کی بسیں، جو روز رات کو اپنے مکینکوں کے آپریشن تھیٹروں میں ایک کبھی نہ ختم ہو سکنے والی مرمتوں، اوور ہالنگ اور جگاڑ کے عمل سے گذرتی ہیں۔ چلتی کا نام گاڑی کی عملی تصویر بنی، پریشر ہارنوں کا بھیانک راگ الاپتی، دھیرے دھیرے چل رہی تھیں۔ ان کی پیروی میں تھیں، چمچماتی کاریں، سوزوکی کیری ڈبے اور پک اپس۔ مگر جس قسم کی مخلوق کی سب سے زیادہ بھرمار تھی، وہ تھے چنگ چی، رکشے اور موٹر سائیکلیں۔ اور ساتھ ہی تھیں ان کی من مانیاں، منہ زوریاں اور بد معاشیاں۔ ہر دستیاب ہو سکنے والی جگہ پر اپنے آپ کو گھسیڑنے کی کوشش کرتی یہ مخلوق، ٹریفک کو جام کرنے کے لئے سونے پر سہاگے کا کام سر انجام دیتی نظر آ رہی تھی۔ ہر کوئی جلد بازی کا شکار نظر آ رہا تھا، کہ جیسے یہ اس کا آخری سفر ہو یا پھر سفرِآخرت۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ فوراً سے پیشتر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچے۔ اسی خواہش کے نتیجے میں سبھی آپس میں گتھم گتھا سے ہو گئے تھے۔ لگتا تھا کہ کسی غیر مرئی ایڈہیسو کی بڑی ساری پھوار ڈال کر، انہیں آپس میں چپکا دیا ہو۔ چند منٹوں کے سفر کا دورانیہ بڑھ کر گھنٹوں پر محیط ہوتا نظر آ رہا تھا۔
کسی قدر دیر سے ہی سہی مگر ایک معجزانہ طریقے سے میں نمائش چورنگی تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ مگر اب جب آگے ایم اے جناح روڈ پر نظر پڑی، تو دور تک گاڑیوں کا اژدحام دیکھ کر رہے سہے توتے بھی پرواز کرتے نظر آئے، ہاں آسمان تو بہر حال خالی ہی تھا۔ ” اب تو مارا گیا۔ ” میرا صبر کا بند ٹوٹ گیا اور میرے منہ سے اچانک نکل پڑا، ” اب کیا ہو گا”۔ اگرچہ میرا آفس جو کہ صدر، ایمپریس مارکیٹ کے پاس واقع ایک پرانی بلڈنگ میں تھا، یہاں سے صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔ مگراس رش کی وجہ سے لگتا نہیں تھا کہ میں ایک گھنٹے سے بھی پہلے آفس پہنچ پاؤں۔ میرا ذہن سرپٹ دوڑنے لگا، ” سوچو۔۔ سوچو”۔ دفعتاً میرے دماغ کی پھرکی گھومی اور مجھے یاد آیا کہ اگر میں گاڑی گھما کر اور تھوڑا رونگ وے جا کر، اگر لائنز ایریا سے شارٹ کٹ لوں، تو وقت رہتے آفس پہنچ سکتا ہوں۔
لائنز ایریا، میری جنم بھومی،
میرے معصوم بچپن کو سہارا دینے والی
میری پالن ہار
مجھے اس کٹھور دنیا سے مقابلہ کرنے کی ہمت دینے والی
میرے سوچوں کو مہمیز کرنے والی
میری ماں، ایک ایسی ماں جس کو اس کے نا خلف بچے اولڈ ہوم میں رکھ کر، اسے بھول کر، سالوں سے اپنی دنیا میں مگن ہو چکے ہوں۔
یا چڑیوں کے بچوں کی طرح ہوں، جو ایک بار اڑنے کی طاقت پانے پر، پھر کبھی اس گھونسلے کی جانب مڑ کر نہیں دیکھتے، جہاں انہوں نے پرواز کرنا سیکھا تھا۔ اس آسمان کی وسعتوں کو جانا تھا۔ خود کو پہچان دی تھی۔
میں نے جلدی سے اپنی سوچ پر عمل کیا، ورنہ میرے پیچھے اور آ جانے والی گاڑیوں کے رہتے، یہ بھی نا ممکن ہو جاتا۔ اب میں لائنز ایریا والی مین سڑک پر تھا۔ اس پر ٹریفک کا فِلو کافی کم تھا۔ میں نے سکون کی ایک بھرپور سانس لی۔ پورے سینے میں ٹھنڈک سی اتر گئی، ایسا لگا جیسے ابھی تک میں سانس روکے ہی بیٹھا تھا۔ انسان بھی کتنا عجیب ہے، ذرا ذرا سی باتوں پر پریشان ہو جاتا ہے اور ذرا ذرا پر خوش۔
آج سالوں بعد میں اس سڑک پر آیا تھا، میں نے ہی اس جگہ سے تعلق توڑا تھا، میں ہی بے وفا نکلا تھا۔ اچانک میری نظر اپنی دائیں جانب کی دکانوں پر پڑی۔ ایک طریقے سے اس علاقے کی سوغات کی دکانیں۔ ریوڑی، گجک، تل کے لڈو، دیسی مٹھائیوں اور اسی طرح کی دیگر اشیاء بنانے والی دکانیں۔ اب ان کی تعداد مجھے پہلے سے کافی کم لگ رہی تھیں۔ اور کمی کیوں نا ہوتی، اب وہ پہلے والی مانگ جو نہیں رہی ہو گی۔ اب بچے کیا بڑے طرح طرح کے غیر ملکی ذائقوں اور لذتوں سے آشنا جو ہو گئے ہیں۔ اوپر سے مارکیٹنگ کا ہشت پا آکٹوپس، ہم سبھی کو کچھ ایسے جکڑے ہوئے ہے کہ اب اس سے بچنا محال ہے، جو یہ چاہئیں گے، ہمیں اسی پر چلنا پڑے گا۔ جو یہ کھلانا چاہیں گے، وہ ہی ہمارا قومی پکوان بن جائے گا۔ پرانی شرابیں اب نئی بوتلوں میں، دیدہ زیب پیکنگ میں پیش کی جا رہی تھیں۔ پرانا بن کباب اب متروک ہوتا جا رہا تھا، اس کا کوئی اسپاؤنسر جو نہیں تھا، اس کی کوئی فوڈ چین جو نہیں تھی، اس کے ٹی وی پر اشتہار جو نہیں چلتے تھے۔ ہاں اب اس کا موڈیفائیڈ ورژن برگر، ہر ایک کی اولین ترجیح ضرور بنا ہوا تھا۔ پسندیدہ کھانوں کی ٹاپ فائیو لسٹ میں براجمان، وجہ وہی ہے، جو اوپر بیان کی جا چکی ہے۔
میری پہلی چیخ اسی علاقے میں سنائی دی تھی، میری آنکھیں اسی علاقے کے ایک بوسیدہ سے کوارٹر میں کھلی تھیں۔ اسی کی پر پیچ گلیوں میں میرا بچپن گذرا تھا، یہیں میں نوجوانی کی سرحد تک پہنچا تھا۔ سسک سسک کر، تڑپ تڑپ کر۔
میں اور میرا بڑا بھائی، اپنے ماں باپ کی فقط یہی دو نشانیاں تھیں۔ ان کی پوری زندگی کے دو اہم کارنامے۔ ایک پسماندہ علاقے کے ٹوٹے پھوٹے، بوسیدہ کوارٹر کے غریب، لاچار اور مجبور بچے کن کن تکلیفوں اور احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں، میں اس سے بخوبی آشنا ہوں۔ اردگرد پھیلی بھوک پیاس، غربت، افلاس، ناداری، بے چارگی اور ذلت کے گھناؤنے، ڈراؤنے، مضبوط پنجے تلے دبے تھے سسکتے، روتے، چیختے، کراہتے ہوئے بھوکے پیاسے، غریب، نادار، لاچار، ذلیل کیڑے مکوڑے نما بے شمار انسان۔
شاید میرا حشر بھی ان تمام لوگوں سے کچھ جدا نہ ہوتا، اگر میرا بڑا بھائی احمد نہ ہوتا۔ میرے ماں باپ نے تو صرف مجھے پیدا کر دینے کوہی کا فی جانا۔ اُس مالکِ حقیقی نے فقط اتنی ذمے داری دے کر انہیں اتارا تھا کہ وہ جب دو اجسام اس کٹھور دنیا میں مزید انجیکٹ کر دیں، تو ان کا کام ختم، ان کی ذمے داری خلاص۔ اب واپسی کی راہ پکڑو۔ اور ان کے بعد یہ ذمے داری اٹھائی تھی، مجھ سے دس سال بڑے میرے بھائی احمد نے۔ کہنے کو تو میرا بھائی تھا، مگر کئی رشتوں کی الگ الگ محبتیں، اس کے ایک مہربان وجود میں موجزن تھیں۔ وہ میرا بھائی تھا،، ماں بھی اور باپ بھی۔ وہ میرا مربی بھی تھا، میرا استاد بھی۔ وہ میرا نگہبان بھی تھا اور قدردان بھی۔ مگر ان سب سے بڑھ کر رہا اس سے دوستی کا رشتہ۔
وہ سات سال کی عمر سے علاقے کی ایک ریوڑی گجک بنانے والے کارخانے میں کام پر لگ گیا تھا۔ سات سال کا بچہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ چھوٹے گیری سے شروع ہونے والی اس نوکری میں، کام سیکھنے سے پہلے شروع شروع کے کئی سالوں تک صرف استاد کی لاتیں، گھونسے، مار کٹائی اور گالیاں ہی رنگروٹوں کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔ کافی سارے اس آزمائشی کٹھن دور میں بھاگ جاتے ہیں، پر جو استقامت سے جمے رہتے ہیں وہ ہی مقدر کے سکندر بنتے ہیں، یعنی استاد کے سینے اور ہاتھوں میں موجود غیر کتابی علم اور ہنر کے اگلے وارث، مستقبل میں استاد بن کر اسی استادی شاگردی کے سائیکل کو گھمانے کے لئے ایک دم ٹناٹن تیار۔
مجھے اچھی یاد ہے، اس وقت شاید میری عمر کوئی لگ بھگ چھ سال کی رہی ہو، روزانہ کارخانے سے واپسی پر بھائی مجھے نہلاتا، پھر خود نہا دھو کر صاف کپڑے پہنتا، پھر ہم دونوں اکٹھے کھانا کھاتے، پھر وہ مجھے باہر گھمانے لے جاتا، پھر کسی سنسان سے تھلے پر بیٹھ کر اپنی جیب پر ہاتھ مار کر کہتا۔
"بتا منے میں آج تیرے لئے کیا لایا ہوں۔ ”
میں چھ سال کا تو تھا، مگر اتنا بھی بھولا یا اللہ میاں کی گائے ٹائپ بچہ نہیں تھا، جتنے آج کے ممی پاپا ٹائپ بچے ہوتے ہیں، میں لائینز ایریا کی گلیوں میں پرورش پاتا بچہ تھا، جہاں بقا اسی میں ہے کہ آپ جلد از جلد بچپنے کے بھولپنے کو خیر آباد کہہ دیں۔ ورنہ آپ کی خیر نہیں۔ گدھ تو چاروں جانب ہیں ہی۔
بھائی کے اس ہر روز پوچھے جانے والے سوال کا جواب مجھے ازبر تھا۔ مگر میں معصوم بن جاتا اور نہیں میں مُنڈی ہلا دیتا۔ بھائی میرے اس انداز سے نہال ہو جاتا، پھر وہ اپنی جیب سے وہ سوغاتیں، وہ من وسلوی نکالتا، جو اس کی جیب میں چھپی ہونے کے باوجود اپنی مہک سے اپنے ہونے کا، اپنے وجود کا پتہ دے رہی ہوتیں تھیں۔ ریوڑی، گجک، الائچی دانے، مصری کی ڈلیاں، رنگ برنگی سونف، سنگترے کی قاشوں والی مٹھائی، میووں بھری پاپڑیاں۔ ان کا ذائقہ، ان کی لذت آج اتنے سال گزرنے کے باوجود میرے ذہن کے کسی نہاں خانے میں چھپی بیٹھی ہے۔ آج بھی میرے منہ میں اپنی مٹھاس بھر دیتی ہیں۔ اس پر روز بھائی کا یہ پوچھنا۔ "بتا منے میں آج تیرے لئے کیا لایا ہوں۔ ”
علاقے کی مروجہ روایت سے ہٹ کر اس نے مجھے ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرایا۔ گو وہ خود تو چاہتے ہوئے بھی تعلیم حاصل نہ کر سکا تھا، اور بچپن سے ہی دیہاڑی کمانے اور کام سیکھنے پر لگ گیا تھا، مگر اسے بہرحال تعلیم کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ وہ اپنی تشنہ خواہشوں کی تکمیل مجھ میں پوری ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔
میں اسکول جاتا رہا تھا اور وہ ریوڑیاں، گجک بناتا رہا۔ بچپن میں ملی میری ہر آسودگی اسی کی مرہونِ منت تھی۔ ہر خوشی کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا۔ ہر آرام، ہر آسائش کے عقب میں اسی کی ان تھک محنت تھی۔ میٹرک کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی تک وہ مجھے پڑھاتا رہا اور مجھے ایم بی اے کرا کر ہی اس نے سکون کی سانس لی۔ گویا اپنی زندگی کا مقصود پا لیا ہو۔ مجھے یاد ہے وہ دن، جب میری ایم بی اے میں دوسری پوزیشن آئی تھی اور یونیورسٹی کے کانووکیشن میں وہ میرے مرحوم والدین کی نمائندگی میں موجود تھا۔ میڈل اور ڈگری وصول کرتے ہوئے میں نے اسٹیج سے نیچے مسکراتے ہوئے دیکھا، بھائی کے خوشی دیدنی تھی اور چہرہ تمتما رہا تھا۔ بھائی کی آنکھوں میں یہ پہلی بار تھا جب جگنو چمکے۔
میرے شاندار تعلیمی پس منظر کی وجہ سے جلد ہی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مجھے اچھے عہدے کی پیش کش ہوئی اور میں نے اسے قبول کر لیا۔ ابھی نوکری کرتے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ایک دن بھائی نے بڑے دُلار سے کہا۔
"اب تمہاری نوکری لگ گئی ہے۔ اب تمہاری شادی ہو جانی چاہئے۔ ”
"اور تم کب تک سنیاس لیتے رہو گے۔ پہلے بھائی تمہاری شادی ہو گی پھر میری۔ "میں نے جوابی وار کیا۔ ” مجھے بھی ایک عدد بھابھی چاہئے۔ ” اور پھر اس کے پینتیس سالہ جوان، مگر الاؤ کی تپش اور گرم گرم چپکتی چاشنی گزیدہ، مرجھائے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔
"چلو دیکھتے ہیں۔ اس نا کارہ، جاہل کو کوئی اپنی بیٹی دیتا ہے یا نہیں۔ ”
"تم بس ہاں کرو۔، باقی مجھ پر چھوڑ دو۔ میں خالہ نصیبن سے بات کرتا ہوں۔ "، نصیبن خالہ علاقے کی جگت خالہ تھیں۔ اور ہم دونوں پر خاص مہربان بھی۔
"ٹھیک ہے، جو تمہاری مرضی، مگر اس کے بعد تمہیں بھی دیر نہیں کرنی۔ ” اس نے سرنڈر کرتے ہوئے کہا۔
پھر جلد ہی ایک شریف مگر غریب گھرانے میں، خالہ نصیبن نے ایک رشتہ نکال لیا۔ اتفاق سے لڑکی کا باپ بھی دیسی مٹھائیوں کے کاروبار سے ہی وابستہ تھا اور بھائی کی شرافت اور کام میں اس کی مہارت کا معترف بھی، سوسارے معاملات آسانی سے طے ہوتے چلے گئے اور حلیمہ میری بھابھی بن کر اس کوارٹر میں آ گئیں۔ بھائی کی آنکھوں میں یہ دوسری بار تھا جب جگنو چمکے۔
حلیمہ بھابھی گو واجبی صورت اور نیم خواندہ تھیں۔ مگر سگھڑاپے اور سمجھداری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ چھڑوں کے بے ترتیب، کام چلاؤ اور جگاڑی رہن سہن کو، انہیں نے بہت جلد ایک منظم، مر تّب گرہستی میں تبدیل کر دیا۔ زندگی بہت دنوں بعد ایک ڈگر پر آ گئی۔ اور بھائی کو ان کے ایثار و قربانی کا بھرپور صلہ خدا نے انہیں، بھابھی کی شکل میں اس دنیا میں بھی دے دیا۔
بھابھی گو عمر میں مجھ سے کچھ خاص بڑی نہیں تھیں۔ مگر میں ان سے اُس بے تکلفی سے بات نہیں کرتا تھا، جیسے میں اپنے بھائی سے تم وغیرہ کہہ کر بات کرتا تھا۔ لیکن بھابھی کو میں ہمیشہ آپ جناب سے مخاطب کرتا اور انہیں ہمیشہ ایک ماں کی عزت دیتا۔
زندگی اپنے راستے رواں دواں تھی۔ اور میرا شادی کو ٹالنا بھی برقرار۔ تبھی اسی دوران مجھے کمپنی نے ایک پیکج کے تحت بنگلہ اور گاڑی آفر کی۔ بنگلے کے لئے شادی کی بھی شرط تھی۔ اور اس پیکج سے فائدہ نہ اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بات تو کفرانِ نعمت کی مصداق ہوتی۔ میں نے بھائی بھابھی کو اس کے متعلق بتایا۔ ان کی کی باچھیں کھِل گئیں۔
” اب اونٹ آیا پہاڑ تلے "، بھائی کے پہلے الفاظ یہ ہی تھے۔
"دیکھنا میں اپنے بھائی کے لئے کیسی حور پری تلاشتی ہوں۔ "بھابھی کی مسرت دیکھنے کے قابل تھی۔
” پہلے اس سے تو پوچھ لو کیا پتا کوئی چکر چلا کر بیٹھا ہو، ویسے ایسا ہے تو نہیں۔ اپنے بھائی کی طرح ایک دم بھوندو ہے۔ ” بھائی نے یہ کہہ کر استفہامیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
بھابھی بھی بھوندو والی بات پر مسکرا اٹھیں، اور کہا۔ "ہاں بھئی، اب کوئی تاڑ رکھی ہے تو بتاؤ، تاکہ ہمارا کام بھی آسان ہو اور پھوکٹ کی گدھا مزدوری سے بچیں۔ کیوں جی۔ ” بھابھی نے بھائی کو آنکھ ماری۔
ان باتوں کے دوران میں حمیرا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
حمیرا ایک اعلی تعلیم یافتہ، خوبصورت اور بولڈ لڑکی تھی۔ آفس میں میرے ساتھ ہی کام کرتی تھی۔ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی حمیرا، بہادر آباد کے ایک ہزار گز کے کوٹھی نما بنگلے میں رہتی تھی۔ روپے پیسے کی اسے کوئی تمنا نہیں تھی، یہ اس کا جاب کرنا بھی، اس کے ٹائم پاس کا فقط ایک ذریعہ بھر تھا یا شاید خود انحصار ہو کر اپنی زندگی مست قلندر اسٹائل میں جینے کا حصول۔ اس سے ہوئی پہلی ملاقات میں ہی، میں نے محسوس کیا کہ یہ میرے لئے پوری طرح پرفیکٹ ہے۔ اور شاید ایسی ہی سوچ لئے وہ بھی بیٹھی تھی۔ یہاں کوئی محبت کا اظہار تو کرنا نہیں تھا، الفت کی کوئی پینگیں تو نہیں بڑھانی نہیں تھیں۔ ٹو دی پوائنٹ بات کرنے تھی۔ اور وہ میں نے کی اور اثبات میں جواب پایا۔ پھر جلد ہی ہماری شادی طے ہو گئی۔ شادی والے دن بھابھی تو مجھ پر اور حمیرا پر نہال ہوئی جا رہی تھیں۔ اور رہے بھائی، تو یہ تیسری بار تھا جب ان کی آنکھوں میں جگنو چمکے۔
شادی طے ہوتے ہی کمپنی نے اپنا وعدہ پورا کیا اور نارتھ ناظم آباد میں ایک دو سو چالیس گز کا بنگلہ اور ایک نئے ماڈل کی کار مجھے دے دی۔ چنانچہ میں حمیرا کو رخصت کرا کے یہیں لایا۔ شاندار جہیز سے یہ پہلے ہی سیٹ کیا جا چکا تھا۔ زندگی ایک دم حسین ہو گئی تھی۔ اسٹیٹس والی۔ ماڈرن اور اپر لائف اسٹائل والی بھی۔
حمیرا نے شادی کے بعد جاب چھوڑ دی۔ اب اس کا زیادہ تر وقت فیشن میگزینوں کے مطالعے یا فوڈ چینلز سے طرح طرح کے پکوانوں کی آزمودہ ترکیبوں کو نوٹ کرنے اور ان کو بنانے، اور پھر ان کو گھر میں آئے دن ہونے والی مہمان داریوں اور پارٹیوں میں پیش کرنے میں لگنے لگا تھا۔ حمیرا کو اچھے کھانے اور انہیں بنانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ مجھے امید تو نہیں تھی کہ اس نے یہ کہاوت سنی ہوئی ہو کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہوتے ہوئے گذرتا ہے، مگر اس کی عملی تصویر بہرحال وہ تھی۔ نئے نئے دیسی کھانوں اور بدیسی پکوانوں کی وہ بڑی ماہر ہوتی جا رہی تھی، ایک بار جو بھی اس کی ڈشیں ٹرائی کرتا، اس کی تعریف کئے بنا نہ رہتا۔ تقریباً روز ہی کوئی نہ کوئی مہمان آتا۔ کبھی اس کے بھائی فارن سے آ رہے ہیں، کبھی اس کی بہنیں اسلام آباد یا لاہور سے آ رہی ہیں۔ کبھی اس کے ممی ڈیڈی کی شادی کی سالگرہ ہے، کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ غرض کہ زوردار دعوت چلتی۔ روزانہ کی بنیاد پر بنائی جانے والی ڈھیر ساری اس کی ڈشوں کے لئے یہ ضروری بھی تھا۔
شادی کے بعد، شروع شروع کے چند مہینوں تک بھائی اور بھابھی بھی کبھی کبھار چکر لگا لیتے تھے۔ مگر جلد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ حمیرا کی آنکھوں میں چھپی بیٹھی ہے، دبی دبی سی ایک شکایت کہ تم لوگ کیوں آتے ہو۔ اوپر سے سر جھاڑ منہ پہاڑ۔ نہ اپنے حلیہ کی پروا ہے نہ دوسروں کی عزت کی۔ محلے دار، عزیز رشتے داروں، گھر آئے مہمانوں کی تو بات ہی کیا، ماسیاں، نوکرانیاں تک سوالیہ اور طنزیہ نظروں سے دیکھنے لگتی ہیں۔ منہ پر تو کوئی نہیں بولتا، مگر کسی کی سوچ کا گلہ بھلا کون گھونٹ سکتا ہے۔ کیا سوچتے ہوں گے کہ میرے شوہر کے ایسے رشتے دار ہیں۔ یہ بات بھائی بھابھی نے بھی محسوس کر لی تھی، رفتہ رفتہ انہوں نے آنا کم کر دیا، پانچ سال پہلے، وہ آخری بار تھا، جب وہ دونوں مونا کی پیدائش کی تقریب میں آئے تھے۔ مجھے ان کا نہ آنا بڑا کھلتا تھا، شاید ایک بار میں خود ہی ان سے ملنے گیا بھی، مگر لگژری کار پر پڑی لکیروں نے، اس علاقے کو ہمیشہ کے لئے نو گو ایریا بنا دیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ رشتوں کی گرمی پراسٹیٹس اور کلاس ڈیفرینس کی برف کی تہہ دبیز سے دبیز تر ہوتی چلی گئی اور وقت دبی چاپ آگے بڑھتا رہا۔
مجھے اچانک بریک لگانا پڑا، کار کو بھی اور اپنی سوچوں کو بھی۔ "لعنت ہو۔ "۔ ایک سبزی والا اپنا ٹھیلا لے کر نجانے کہاں سے نمودار ہوا کر، اچانک گاڑی کے سامنے آ گیا تھا۔ اور اب الٹا مجھے ہی خشمگیں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے میں اس کے ذاتی باغیچے میں اس کی مٹر گشتی کے دوران دخل در معقولات دے بیٹھا ہوں۔ ابھی میں اِسے کچھ سنانے کا ارادہ باندھ ہی رہا تھا کہ مجھے اس کی بغل میں کھڑا ایک شناسا چہرہ نظر آیا۔ میرے بھائی کا چہرہ۔ وہ میری ہی طرف کچھ اچنبھے بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ شاید اپنے تخیل کا دھوکا سمجھ رہے ہوں۔ پھر وہ پر یقین ہو کر، مجھے پہچان گئے تھے کیوں کہ ایک ملکوتی چمک سے ان کا چہرہ منور تھا۔
” میرے بھائی۔ ” انہوں نے بے اختیار آواز لگائی۔ میں نے بھی ان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ مگر دو وجوہات سے رکنا میرے بس میں نہیں تھا۔ ایک تو پیچھے آتی گاڑیوں کے ہارن، جو ذرا سا رکنے پر ہی بجنا شروع ہو گئے تھے۔ دوسرے آفس میں میٹنگ، جو خاص طور پر چھٹی والے دن رکھی گئی تھی، کیوں کہ آج شام ہمارا ایک خاص کلائنٹ انگلینڈ جا رہا تھا۔ ا س لئے یہ میٹنگ کسی اور دن ٹالی نہ جا سکتی تھی۔
” بھائی میں آپ کو فون کرتا ہوں۔ ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ "میں چِلایا اور گاڑی بھگاتا، آفس کی جانب رواں دواں ہو گیا۔
آفس میں روز کا روٹین ورک تو تھا نہیں، بس ایک میٹنگ ہی نبٹانی تھی۔ میٹنگ کے دوران ہوئے بریک میں، میں نے اپنا موبائل نکالا، حمیرا کا مسیج آیا تھا۔ "ایمپریس مارکیٹ سے، گوشت اور گروسری کا دیگرسامان لانا نہ بھولنا۔ لسٹ میں نے رات ہی آپ کے وولٹ میں رکھ دی ہے اور ساتھ پیسے بھی۔ "، میں نے اپنا وولٹ نکالا۔ اس میں ایک چھوٹا سا لفافہ تھا، میں نے لفافہ کھولا۔ سامان کی لسٹ کے ساتھ بیس ہزار روپے رکھے تھے۔ گوشت اور گروسری کا سامان میں ایمپریس مارکیٹ سے ہی لیا کرتا تھا۔ ایک تو چیزیں اچھی مل جاتیں، دوسرا کچھ بچت بھی ہو جا کرتی تھی۔ پھر سارا سامان بھی ایک ہی جگہ سے مل جاتا تھا۔ میں نے ٹائم پاس کے لئے لسٹ کھولی۔ لکھا تھا۔
” علی بھائی آ رہے ہیں وِد فیملی، کچھ ان کی سالی کی شادی وغیرہ کا معاملہ ہے۔ رات آپ کے سونے کے بعد فون آیا تھا ان کا۔ ابھی ابھی کراچی پہنچے ہیں۔ سسرال میں ٹھہریں گے۔ پھر انہیں وقت ملے یا نہ ملے، اس لئے آج رات کا کھانا وہ ہمارے ہاں کریں گے۔ ہفتے کو میری جلدی آنکھ نہیں کھلتی، اسی لئے لسٹ بنا کر رکھ رہی ہوں۔ ساتھ پیسے بھی ہیں۔ اور ہاں جلد از جلد آنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ آپ جلدی آئیں گے تو میں دعوت کی صحیح طرح تیاری کر سکوں گی۔ ” علی، حمیرا کے بڑے بھائی تھے اور کینیڈا میں اپنا ایک بڑا بزنس چلا رہے تھے۔ اور دونوں ہاتھوں سے ڈالر چھاپ رہے تھے۔ اب تقریباً تین سال بعد پاکستان آئے تھے۔
میں نے آگے نظریں دوڑائیں، نیچے سامان کی تفصیل لکھی تھی۔
’’بیف کے روکھے پارچے اسٹیک کے لئے چاہئیں قصائی کو بول دیجئے گا۔ آدھا کلو سائز کے چار عدد
مٹن چاپیں۔ تین کلو
روکھا مٹن کا گوشت دو کلو
چکن کا گوشت چار کلو
پاپلیٹ مچھلی دو کلو
جھینگے۔ آپ جانتے ہیں کس سائز کے لینے ہیں ۔۔ دو کلو‘‘
ابھی میں دیگر سامان بھی دیکھنا چاہ رہا تھا کہ باس نے بریک ختم ہونے کا اشارہ کیا۔ میں نے جلدی سے لسٹ اور پیسوں کو وولٹ میں رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
میٹنگ خلافِ توقع ایک بجے تک نپٹ گئی۔ ایک مشن تو بخیر و خوبی نبٹ گیا تھا۔ اب دوسرا مشن درپیش تھا یعنی خریداری کا۔ میں نے سامان زیادہ ہونے کی وجہ پیون کو روک لیا تھا۔ اس کو ساتھ لئے میں ایمپریس مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ سب سے پہلے میں نے ننھے قصائی سے بیف کے روکھے پارچے نکلوانے کا کہا، وہ ران ہی کھول رہا تھا۔ اسٹیک کے پارچے ران میں موجود گوشت سے ہی بنتے ہیں، جنہیں کسوڑوں کی زبان میں گولے کا گوشت کہا جاتا ہے۔ ننھا قصائی میرا خاص خیال کرتا ہے۔ کبھی اتفاق سے میں گوشت لینے آؤں اور گوشت اچھا نہ ہو، وہ مجھ سے کہتا ہے کہ بھائی تم گھر جاؤ میں خود لے کر آتا ہوں، یہ ایک طریقے سے اس کا کوڈ تھا کہ آج گوشت آپ کے مطلب کا نہیں ہے۔ آج بھی اس نے ران کھولتے ہوئے مجھے آنکھ ماری اور کہا۔
"آپ تو لیٹ آئے ہیں، صفائی کے بعد بچا تو آپ کو دوں گا۔ ان باجیوں کا پہلا حق ہے۔ یہ پہلے سے کھڑی ہیں۔ ” اس پر وہاں کھڑی بے شمار عورتوں نے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔ جب کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ ننھا قصائی کیا کوڈ ورڈ بول گیا۔ قصائیوں کی ایک الگ ہی زبان ہوتی ہے، یہ ان کے کام میں بڑی معاون بھی ہوتی ہے۔ بہرحال ابھی ننھے کا مفہوم تھا کہ ذرا میں ران کے اوپر کے نرّے، چربی، چھچھڑے اور آڑا سیدھا گوشت، ان عورتوں کو ٹکا دوں تو آپ کو اندر سے صاف گوشت کے پارچے نکال کر دیتا ہوں۔ اسی بارے میں ایک کہاوت بھی مشہور ہے کہ نانبائی کی اگاڑی اور قصائی کی پیچھاڑی اچھی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ تنور میں اگر جلدی جاؤ گے تو اچھی، صاف، بِنا دھوئیں والی، بنا جلی روٹیاں ملیں گی۔ اور کیوں کہ قصائی اچھا گوشت آخر دم کر بچا کر رکھنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ پہلے سارا آلتو فالتو گوشت بک جائے، ہڈیاں ٹھکانے لگ جائیں، تو آخر میں اپنے انمول رتن نکالوں گا۔ ہر کوئی یہ بات نہیں سمجھتا اور جلدی مچاتا ہے۔ ورنہ اصول یہ ہے دکان پر جا کر خاموشی سے کھڑے ہو جاؤ، قصائی کے لاکھ پوچھنے پر بھی خاموش رہو اور جہاں دیکھو کہ اب اپنے مطلب کا گوشت ہے جھٹ آرڈر دے دو، اب سستی کرنا مناسب نہیں۔
"ٹھیک ہے تم ان باجیوں کو دو اور بچے تو میرے لئے پیک کر کے رکھ دینا۔ جب تک میں تمہارے بھائی کے درشن کر کے آتا ہوں۔ ”
اس کا بھائی اسی مارکیٹ میں ہوتا تھا مگر مٹن کا کام کرتا تھا۔ اس کے پاس مجھے زیادہ دیر نہیں لگی۔ اس سے فارغ ہو کر میں مچھلی اور جھینگے لینے چلا گیا۔ اب فقط چکن کا گوشت بچا تھا۔ چنانچہ میں نے اسے بھی لے لیا۔ فارمی چکن کا گوشت، دیگر گوشتوں کی فہرست میں سب سے نیچے جگہ پاتا ہے۔ سب سے سستا گوشت اور سب سے بے سواد بھی یہی گوشت ہوتا ہے۔ جہاں مجھے بیف پارچے پانچ سو روپے پر کلو، مٹن سات سو روپے، مٹن روکھا ہزار روپے، پاپلیٹ بڑے سائز کی پندرہ سو روپے، ٹائیگر جھینگے بارہ سو روپے پرکلو پڑے تھے۔ وہی چکن ڈھائی سو روپے پر کلو ملا تھا۔ گو کہ یہ دعوت سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ اور مرغوب بھی نہیں تھا۔ مگر اسے لینا بھی ضروری تھا۔ گھر میں یہ ماسیوں اور دیگر نوکروں کا کھابا تھا۔ وقت گذرنے کے خیال سے میں جلدی سے ننھے قصائی کے پاس دوبارہ پہنچا، اب تک وہ اپنی دکان بڑھا چکا تھا اور ہاتھ میں میرا شاپر ہی پکڑے بیٹھا تھا۔ اس سے فارغ ہو کر میں نے لسٹ کا دیگر سامان لیا، پھر پیون کو لئے پارکنگ تک پہنچا، جہاں ایک پارکنگ مافیا کی زیرِ نگرانی میں روز اپنی گاڑی کھڑی کرتا تھا۔ سامان گاڑی میں رکھ کر میں نے پیون کا فارغ کیا اور ساتھ ہی سو کا ایک نوٹ بھی اسے دے دیا۔ اَن آفیشل کام کرنے پر بیچارے کا اتنا حق تو بنتا ہی ہے۔ شکر ہے واپسی میں روڈ کھلا ملا اور میں سکون سے گھر پہنچ گیا۔
"شکر ہے آپ ٹھیک ٹائم پر آ گئے۔ ” حمیرا نے بیقراری سے کہا۔ "سب لسٹ کے مطابق لائے ہیں نا۔ ”
” ایسا کبھی ہوا ہے۔ آپ کا حکم ہو اور پھر اس میں کوتاہی ہو جائے۔ ”
” اوکے اوکے ابھی سوال جواب کا وقت نہیں۔ آپ فریش ہو جائیں۔ اتنی دیر میں، میں سامان نکلواتی ہوں اور پھر کھانا لگواتی ہوں۔ ”
” ایز یو وش۔ ارے ہاں مونا کہاں ہے ؟”
” آج اس کی بیسٹ فرینڈ سوہا کی برتھ ڈے ہے۔ ہمارا بھی بلاوا تھا۔ مگر علی بھائی کے آنے کی وجہ سے کینسل کر دیا۔ میں ابھی ابھی اسے چھوڑ کر آ رہی ہوں۔ شام کو پارٹی ختم ہونے سے پہلے ہی، وہ اسے اپنے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں گے۔ ”
” ٹھیک ہے۔ ویسے بھی اس کے ماموں آ رہے رہیں۔ آج پہلی بار ان سے ملے گی۔ پہلے جب وہ مونا سے ملے تھے، تو وہ دو سال کی تھی۔ ”
حمیرا نے جواب میں صرف سر ہلایا اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔
کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر میں نے سوچا تھوڑا سو لیا جائے۔ تاکہ تازہ دم ہو جاؤ۔
شام کو چھ بجے تک مہمان آ گئے۔ علی بھائی، بھابھی اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی نور جو لگ بھگ ہماری مونا کی عمر کی تھی۔ اتنے دنوں بعد ان لوگوں سے ملاقات ہو رہی تھی۔ خوب رنگ جما۔ ہر دو جانب نے اپنی اپنی پٹاریاں کھول دیں۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا۔ اور پھر ان سب کے بعد طرح طرح کے لذیذ ڈشوں سے بھرپور ڈنر۔ حمیرا نے لگتا تھا کہ آج اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائی تھی۔ اس کے تجربہ کار اور ہنر مند ہاتھوں نے کھانوں کو گویا نئی جہت دی تھی۔ کیا کیا نہیں تھا ڈائیننگ ٹیبل پر۔ مٹن چوپس، المونیم فوائل بیکڈ پومفریٹ، سیزلنگ ٹرے پر رکھے فل ڈن اسٹیگ وِد ساس اینڈ ویجی، مٹن پلاؤ، مٹن کے ریشمی گلاوٹی کباب، مٹن قورمہ، پران کری، فرائیڈ پران، ساتھ میں رائتہ، رشین سلاد، چٹنیاں، لچھیدار پراٹھے اور اوون میں بنے قلچے۔ ساتھ کولڈ ڈرنک اور میٹھے میں لوکی کا حلوہ، ٹرائفل اور آئس کریم۔ غرض کہ سبھی کو لطف آ گیا۔ سبھی نے سیر ہو کر کھایا، اور ساتھ ہوتی رہیں حمیرا کی تعریفیں بھی، جو وہ مسکرا مسکرا کر قبول کرتی رہی۔
ابھی کھانے سے فارغ ہو کر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہی تھے، مونا بھی آ گئی۔ گھر آئے اجنبیوں کو دیکھ کر پہلے تو تھوڑا ہچکچائی، پھر اپنی تربیت کے مطابق قریب آئی اور ادب سے سب کو سلام کیا اور میری گود میں چڑھ گئی۔ اور نور کی طرف دیکھنے لگی۔
"بیٹا، شرماؤ نہیں۔ ” علی بھائی نے اسے اپنے پاس بلایا۔
"یہ آپ کے ریلَیٹِو ہیں۔ آپ کے ماموں جو کنیڈا میں رہتے ہیں۔ یہ آپ کی ممانی اور یہ آپ کی کزن نور۔ ” میں نے سب کا مونا سے تعارف کروایا۔
"ہاں ہم آپ کے ریلَیٹِو ہیں یعنی رشتے دار۔ اور رشتے میں آپ کے ماموں لگتے ہیں اور نام ہے علی۔ "علی بھائی نے کسی پرانی فلم کا ایک مشہور ڈائیلاگ مزاحیہ انداز میں بولا۔ اس پر ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔ جو دونوں بچیوں کی ہچکچاہٹ کے لئے اکسیر ثابت ہوا اور پھر تھوڑی دیر بعد، وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایسے بیٹھی تھیں۔ جیسے بہت پرانی دوست ہوں۔
ایک بجے علی بھائی نے جانے کی اجازت مانگی۔ ان کو رخصت کر کے ہم اندر آ گئے۔ اچانک مونا اپنے کمرے سے باہر نکلی اور دوڑتی ہوئی ہمارے پاس آ گئی۔
"ارے تم ابھی تک سوئی نہیں۔ بہت بری بات ہے۔ "حمیرا نے کہا۔
"ماموں لوگ گئے۔ ” مونا نے کہا۔
"ہاں بیٹا۔ مگر اتنی رات کو بھی آپ جاگ رہی ہیں۔ دیکھیں ممی کتنی ناراض ہیں۔ "میں نے مونا سے کہا۔
"ارے ممی پاپا ناراض نا ہوں۔ ہم آپ کے ریلَیٹِو ہیں یعنی رشتے دار۔ اور رشتے میں آپ کی بیٹی لگتے ہیں اور نام ہے مونا۔ "مونا نے علی بھائی اسٹائل میں کہا۔ میں مونا کی پِک کرنے کی صلاحیت سے حیران رہ گیا۔
” توبہ ہے۔ یہ آج کل کے بچے بھی۔ ” حمیرا نے تیوری چڑھائی۔ ” چلو اپنے روم میں۔ مجھے ابھی کافی سارے کام کرنے ہیں۔ ” پھر وہ اسے کھنچتی ہوئی چلی گئی۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور سگریٹ پینے چھت پر چلا آیا۔ میں کوئی عادی سگریٹ نوش تو نہیں ہوں۔ مگر آج کے بھرپور کھانے کے بعد سوچا۔ چند سُٹّے مار لئے جائیں۔ چھت کا بلب خراب تھا، اسی لئے موبائل کی ٹارچ جلا لی۔ چھت پر کتنا سکون اور شانتی تھی۔ پیکٹ سے ایک سگریٹ منتخب کر کے جلائی اور ایک طویل کش اندر اتارا۔ رُوتھ مینز لائٹ کا خوشبودار دھواں جیسے ہی سینے میں اترا، طمانیت بھرا ایک احساس تمام رگ و جاں میں پھیل گیا۔ ٹھیک اسی وقت میرا موبائل بجا۔ دیکھا تو ایک میسیج تھا، احمد بھائی کا میسیج۔ میں نے اسے کھولا، لکھا تھا۔
"میں آج تمام دن تمہارے فون کا انتظار کرتا رہا۔ آج جب کئی سال بعد تم کو دیکھا، تو بڑا اچھا لگا۔ تمہاری بھابھی سے بھی تمہارا بتایا۔ وہ نیک بخت تو نہال ہی ہو گئی۔ تمہارے متعلق پوچھنے لگی۔ میں نے کہا کہ اس نے فون کرنے کا کہا ہے، اسی سے پوچھنا۔ سارا دن ہم دونوں تمہارے فون کا انتظار کرتے رہے۔ تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر پھر یاد آیا آج اتوار کی رات ہے شاید تم جاگ رہے ہو۔ ہو سکے تو کبھی ملاقات کرنا۔ تمہاری بھابھی تمہیں بہت یاد کرتی ہے۔ ”
میسیج پڑھ کر میں شرمندہ سا ہو گیا۔ میں اپنی دنیا میں اتنا مگن ہو گیا تھا کہ اپنے باپ سمان بھائی کو بھی بھول بیٹھا۔ اس کی قربانی، اس کے ایثار، اس کی محبت، غرض اس سے جڑی ہر چیز کو اپنی زندگی سے مٹا چکا تھا۔ تف ہے مجھ پر۔ مانا حمیرا کو ان کا آنا پسند نہیں مگر وہ منہ سے تو بہرحال کچھ نہیں کہتی تھی اور رہا میں، تو میں اس علاقے میں جا نہیں سکتا تھا۔ مگر کہیں اور تو بھائی بھابھی سے ملاقات ہو سکتی تھی۔ کتنے سالوں تک میں نے ان کی کوئی خیر خبر بھی نہ لی۔ انہوں نے تو جب مجھے اپنی زندگی جیتے دیکھا تو چپکے سے اس سے نکل گئے۔ اپنے وجود کو گندا سمجھ کر، میرے چمکدار لائف اسٹائل سے دوری بنا لی کہ کہیں ان کی غربت کا کوئی داغ اس پر نہ لگ جائے۔ اپنی بے حسی، احسان فراموشی اور گھٹیا پنے پر مجھے رونا آ گیا۔ تبھی نیچے سے حمیرا کی آواز آئی، وہ مجھے بلا رہی تھی۔ میں نے جلدی جلدی ایک میسیج لکھا۔ اور انہیں بھیج دیا۔
"بھائی بھابھی میں کل دن میں آپ سے تفصیل سے بات کرتا ہوں، خدا حافظ۔ "، پھر نیچے اتر آیا۔
اتوار والے دن میں تھوڑا دیر سے اٹھتا ہوں۔ مگر آج خلافِ توقع میں نو بجے ہی اٹھ بیٹھا۔ عجیب خالی پن کا احساس نس نس میں سرائیت کئے ہوئے تھا۔ ماضی کی ایک حسین یاد، بھائی کا ایک انمول جملہ میری زبان پر آ گیا۔ "بتا منے میں آج تیرے لئے کیا لایا ہوں۔ ”
بستر سے اٹھتے ہوئے میں ایک نکتے تک پہنچ گیا تھا۔ باتھ روم سے فریش ہو کر نکلا تو دیکھا، حمیرا ابھی تک سوئی ہوئی ہے۔ میں نے موبائل اٹھایا اور کچن آ گیا۔ کافی مکسچر سے کافی نکال کر میں لان میں آ گیا۔ آرام کرسی پر بیٹھ کر، کافی پیتے ہوئے میں نے بھائی بھابھی کو فون لگایا اور ان سے دل کھول کر باتیں کیں۔ لبِ لباب یہ کہ سارے گلے شکوے دور کئے اور ساتھ ساتھ آج رات کے کھانے کی دعوت بھی، میں نے انہیں دے ڈالی۔ پہلے تو وہ دونوں آمادہ نہ ہوئے پھر میرے اصرار پر، اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ میں نے سکون کا سانس لیا اور اندر چلا آیا۔ اب بارہ بج رہے تھے۔ حمیر ابھی جاگ گئی تھی اور مونا کو ناشتہ کرا رہی تھی۔
"صبح ہی صبح کوئی بڑا خاص فون آیا تھا۔ میں نے کئی بار جا کر دیکھا، پھر ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ”
"ہاں احمد بھائی اور بھابھی سے بات ہو رہی تھی۔ آج رات کے کھانے پر انہیں بلایا ہے۔ انتظام کر لینا۔ کوئی مسئلہ تو نہیں۔ ” میں نے حمیرا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ نہ پہلے تھا۔ نہ اب ہے۔ ڈونٹ وری۔ ” اس نے سادہ لہجے میں کہا۔
” تھینکس۔ ” اس کی اسی بات پر میں خوش ہو گیا۔
آج مونا نے بھی اپنی چند اسکول فرینڈز کو دعوت دی ہوئی تھی۔ وہ اور اس کی دوستیں مل کر، مونا کے کمرے میں دھما چوکڑی مچا رہی تھیں۔ چار بجے تک بھائی بھابھی بھی آ گئے۔ میں نے مین گیٹ پر ان کا استقبال کیا۔ اور آگے بڑھ کر بھائی کے گلے لگ گیا۔ پھر نم آنکھوں سے ماں جیسی بھابھی کو سلام کیا۔ پھر انہیں لئے ساتھ لئے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔ ابھی بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حمیرا نے بھی کمرے کے اندر جھانکا اور دور سے ہی بھائی بھابھی کو سلام کیا۔ پھر کہا۔ ” میں ذرا کچن میں مصروف ہوں۔ "اور الٹے قدم لوٹ گئی۔ میں نے تھوڑی شرمندگی سے بھائی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ چہرے پر خوشی کا اظہار ضرور تھا مگر ان کی آنکھوں میں آج کوئی جگنو نہیں چمک رہا تھا۔ کچھ تھا تو فقط پاتال سا گھپ اندھیرا۔
"اصل میں، جب سے آپ کا سنا ہے، کچن میں ہی لگی ہوئی ہے۔ ” مجھ سے خود اپنی آواز نہیں پہچانی گئی۔
جواب میں دونوں مسکرا دیئے۔
"مونا کہاں ہے۔ اب تو ماشاء اللہ کافی بڑی ہو گئی ہو گئی۔ ”
"جی ابھی اس کو بلاتا ہوں۔ اصل میں اس کی دوستیں آئی ہوئی ہیں۔ تو ان میں لگی ہوئی ہے۔”
باتوں کا رسمی سلسلہ جاری ہو گیا تھا۔
پھر باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا، یہ سلسلہ گھر میں کام کرنے والی نے آ کر منقطع کیا۔
” صاحب، کھانا لگ گیا ہے۔ بی بی جی بلا رہی ہیں۔ ”
"آئیے آئیے۔ کھانا کھاتے ہیں۔ ” پھر وہ میری معیت میں ڈائننگ ٹیبل تک پہنچے۔ میں نے ٹیبل پر نظریں گھمائیں کہ دیکھو کیا کیا ہے۔ ٹیبل پر موجود تھا۔ چکن بریانی، چکن قورمہ، نان اور زردہ۔ میں نے زخمی نگاہوں سے کچن کے دروازے سے جھانکتی حمیرا کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر اور بے سواد تھا۔ فارمی چکن کے گوشت کی طرح۔
تبھی نہ جانے کدھر سے مونا ٹپک پڑی، مگر پھر مہمانوں کی موجودگی محسوس کر کے میری گود میں چڑھ گئی اور ٹکر ٹکر انہیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔ پھر میری طرف منہ کر کے بولی۔ ” پاپا، کیا یہ بھی ریلَیٹِو ہیں یعنی رشتے دار، ان سے ہمارا کون سا رشتہ ہے ؟” مونا کے جملے میں، علی بھائی کے کل بولے جانے والے ڈائیلاگ کی باقیات تھیں۔
میں نے ایک زخمی نظر بھائی بھابھی پر ڈالی اور پھر ٹیبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"بیٹا ان سے ہمارا چکن کا رشتہ ہے ”
٭٭٭
کچرے والا
میری آنکھ عموماً اس کی تیز اور لگاتار دی جانے والی آوازوں سے کھل جاتی تھی۔
’’کچرے والا بھئی۔۔ کچرے والا۔‘‘
رات گئے تک لکھنے لکھانے کے کاموں میں مشغولیت اکثر و بیشتر دو ڈھائی بجا دیتی تھی۔ ایسے میں صبح صبح کچی نیند سے اٹھنا ذرا مسئلہ ہی لگتا تھا۔ مگر اٹھنا تو بہرحال پڑتا ہی تھا۔ کچرا دینا جو ضروری تھا۔ میری بیوی اور بچے اپنی نفاستِ طبع کے باعث کچرے کے ڈس بن اٹھاتے ہوئے کتراتے تھے۔ بیوی تو علم بغاوت بلند کرتے ہوئے یہاں تک کہہ چکی تھی کہ مجھ سے نہیں ہوتا یہ کام سویرے سویرے۔ اگر میں یہ کروں گی تو پھر سارا دن مجھے اس کی بدبو کے سوا کچھ اورسونگھنا محال ہو جائے گا۔ پھر نہ کہنا کہ سالن جل گیا یا مصالحہ صحیح طریقے سے بھنا نہیں۔ صبح سویرے در پیش اس مسئلے کا حل میں نے یہ نکالا کہ کچرے سے بھرے ڈس بن رات کو ہی گھر سے باہر رکھنا شروع کر دیئے۔ لیکن چند دنوں میں ہی کچرے میں موجود قابلِ استعمال اشیاء کیلئے ہونے والی آوارہ کتوں کی باہمی لڑائیوں اور شریر بلیوں کی چڑھائیوں نے ہمارے سمیت پوری گلی کی ہی نیندیں اڑا دیں۔ سامنے رہنے والے بیگ صاحب تو با قاعدہ تنتناتے ہوئے آن ٹپکے اور شکایتی انداز میں گویا ہوئے، ’’جناب آپ کا یہ کچرے کے ڈس بن رات کو گھر سے باہر رکھنا کچھ مناسب نہیں۔ کیا آپ کو پوری رات چلی پانی پت کی اس لڑائی کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ میرے پوتے تو ان آوازوں سے چیخیں مار مار کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ پھر پوری رات خود بھی جاگتے ہیں اور ہمیں بھی جگاتے ہیں۔‘‘
اب میرے پاس فقط معذرت خواہانہ انداز میں اپنی غلطی کی معافی مانگنے اور کچرا اندر رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
کچرے والا لڑکا، اپنے بوڑھے معذور باپ کے ساتھ ایک گدھا گاڑی میں آیا کرتا تھا۔ وہ آوازیں لگاتا، گھروں کی گھنٹیاں بجاتا اور کنڈیاں کھڑکاتا آگے آگے چلتا۔ اس دوران پیچھے پیچھے اس کا باپ گدھا گاڑی دھیمی رفتار سے آگے بڑھاتا رہتا۔
چودہ پندرہ سال کے اس کچرے والے افغانی لڑکے کی بلند آواز یں گلی میں داخل ہوتے ہی سنائی دینے لگتی تھیں اور میں کسمسا کر اٹھنے کی کوشش میں جٹ جاتا تھا۔ آخرکار اس کی بجائی گھنٹی پر اٹھ بیٹھتا اور ڈس بن اٹھا تا ہوا گیٹ کھولتا اور انہیں باہر رکھ دیتا، پھر ان کے خالی ہونے کے انتظار میں کھڑا ہو جاتا اور چپ چاپ اسے اور اس کے تیزی سے چلتے ہاتھ پیروں کو دیکھتا رہتا۔ اس کی حالتِ زار پرکڑھتا رہتا۔ مجھے اس پر بہت ترس بھی آتا تھا، یہی وجہ تھی کہ میں اکثر اسے رات کا بچا کھانا اور پرانے کپڑے وغیرہ اسے دیتا رہتا تھا۔ سامنے والے بیگ صاحب یہ دیکھتے تو کہتے۔
’’آپ کا یہ کھانا وغیرہ انہیں دینا ایک ایکدم بیکار ہے۔ یہ لوگ صاف ستھرے کھانے کے عادی نہیں۔ میں نے اس لڑکے کو خود کچرے میں سے بریانی کی بوٹیاں نکال کر کھاتے دیکھا ہے۔ اور آپ جو اسے ہر ہفتے اپنے پرانے کپڑے دے دیتے ہیں، کبھی آپ نے اسے پہنے دیکھا ہے۔ یقیناً یہ بیچ دیتے ہوں گے۔ میں نے خود صدر میں پرانے کپڑے بکتے دیکھے ہیں۔‘‘
میں بیگ صاحب کی بات پر ہمیشہ مسکرا کر رہ جاتا۔
اندرونِ سندھ سے آئے مہمانوں کی واپسی کے بعد سے میں محسوس کر رہا تھا رات کو اکثر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا تھا۔ لگتا کہ جیسے کسی کیڑے نے کاٹا ہے، مچھر کی موجودگی کا امکان بھی، گلوب جلانے کی وجہ سے رد کرنا پڑا۔ پھراس مسئلے کا حل میں نے یہ نکالا کہ رات کو ایمرجنسی لائٹ لے کر بستر پر ساکت لیٹا رہا۔ بیس پچیس منٹوں کے بعد پیٹ پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر میں نے پیٹ کو چھوا اور اُس انجان چیز کو چٹکیوں کی گرفت میں لیتے ہوئے ایمرجنسی لائٹ جلا دی۔ یہ ایک کھٹمل تھا۔ ’’ یہ کہاں سے آ گیا۔‘‘میں نے اپنا سر ہی پیٹ لیا جلدی سے اپنی بیوی نائلہ کو اٹھا یا۔ وہ بھی اسے دیکھ کر ششدر رہ گئی۔
’’جب ہی تو میں کہوں، رات اتنی بے آرامی میں کیوں کٹ رہی تھی۔ مانیں یا نہ مانیں۔ یہ ضرور آپ کے ان رشتے داروں کی ہی کرامت ہے۔ وہ ہی انہیں اپنے سامان کے ساتھ لائے ہوں گے۔‘‘
اس کی بات مناسب تھی، چنانچہ میں نے اثبات میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’بات تو یہی لگتی ہے پر اب اس کا جلد حل نہ نکالا گیا تو یہ اپنی تعداد میں اضافہ کر کے سارے گھر میں پھیل جائیں گے۔ کم بخت کھٹ۔۔ ۔‘‘
میرے منہ سے لفظ کھٹمل نکلنے سے پہلے ہی میری بیوی نے میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، ’’ان کا نام نہیں لینا چاہیے، ورنہ یہ مزید ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’تم بھی کیا ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کی بات کرتی ہو، ویسے یہ راز علم حیوانیات والوں کونہ بتا دینا۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے۔
نائلہ نے کچھ ایسے انداز میں میری طرف دیکھا، جیسے وہ میری لاعلمی کا ماتم کر رہی ہو، ’’ٹھیک ہے، اب اس ضمن میں، میں کیا کہہ سکتی ہوں ویسے یہ ٹوٹکہ لوگوں کا آزمودہ ہے اور ضروری تو نہیں کہ جو باتیں، سائنس کی کتابوں میں نہ لکھیں ہوں، وہ سب توہم پرستیاں ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ سائنس والے اپنے جہل کی بدولت ہی ان سب باتوں سے انجان ہوں اب تک۔ خیر میں صبح احسان بھائی کو فون کرتی ہوں، آپ کو تو شاید علم نہیں ہو گا، مگر چند ماہ پہلے ان کے گھر میں بھی یہی موذی اپنے درشن کروانے آ دھمکا تھا۔ وہ لوگ کافی پریشان رہے، کئی مشہور برانڈز کی کیڑے مار دوائیں اور اسپرے استعمال کئے، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، پھر احسان بھائی کے کسی زمیں دار دوست نے انہیں کوئی دوائی بھجوائی تھی، اس کے تیزاثرسے ہی یہ بلا ٹلی۔ شاید وہ دوا اب بھی ان کے پاس موجود ہو۔ میں معلوم کرتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے بول دو انہیں اس بارے میں، خیر ابھی تو سو ؤ۔‘‘میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
کہنے کو تو میں سونے لیٹ گیا، مگر پوری رات ہی بے چینی کے عالم میں گذری۔ ڈراؤنے ڈراؤنے خواب نظر آتے رہے، جس میں ڈائنوسار کی جسامت کے کھٹمل میرے اوپر حملہ آور ہوتے رہے۔
صبح کچرے والے کی گھنٹی پر میری آنکھ ذرا مشکل سے کھلی۔ جلدی جلدی بستر چھوڑا اور ڈس بن اٹھا کر کچرا دینے چل پڑا۔ وہ جب ڈس بن اٹھانے میرے پاس آیا تو میں نے اسے بہت بجھا بجھا اور نڈھال سا پایا۔ اس کی روایتی پھرتی بھی مفقود تھی۔
’’خیر ہے، کیا طبیعت خراب ہے؟‘‘میں نے استفسار کیا۔
’’ہاں صاحب، کل رات سے نزلہ زکام کھانسی ہو رہا ہے، شاید ابھی بخار بھی ہے۔‘‘اس نے ڈس بن گدھا گاڑی میں خالی کرتے ہوئے کہا۔
’’تو کوئی گولی وغیرہ کھائی یا ڈاکٹر وغیرہ کو دکھایا۔‘‘
’’کیا صاحب، یہ تو ذرا سا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی دوا کی اپنی اوقات کہاں۔ لوٹ پوٹ کرخود ہی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ فکر مت کرو۔‘‘ اس نے لا پروائی سے کہا اور ڈس بن میرے پاس رکھتے ہوئے، اگلے مکان کی جانب بڑھ گیا۔ کہنے کو تواس نے کہہ دیا کہ فکر نہ کرو، مگر میں فکر مند تھا، کیونکہ مجھے اس کی خراب حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ شدید نوعیت کے وائرل اٹیک کا شکار ہے، جس کا مطلب اسے کئی دن آرام کرنا چاہئے اور باقاعدگی سے دوا دارو بھی کرنا چاہئے۔
’’پھراس کی غیر حاضری میں اتنے دنوں تک گھر کے کچرے کا کیا ہو گا۔‘‘ ایک خود غرضانہ سوچ اندر سی ابھری۔ ’’چلو ہمیں کیا، وہ نہیں تو کوئی اور ہو گا اس کی جگہ، اس کا کوئی بھائی بند۔‘‘اپنے خیال کے کٹھور پن سے میں خود کانپ گیا۔ میں ڈس بن ہاتھ میں لئے کچھ دیر تک اسے کھانستا دیکھتا رہا، پھر اندر آ گیا۔
ناشتے وغیرہ کے بعد ایک مسودے کو نظرِ ثانی کیلئے لے کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ نائلہ آ گئی۔
’’میں احسان بھائی کو فون کر دیا ہے۔ ان کے پاس ابھی بھی وہ دوا بچی ہے۔ کہہ رہے تھے کہ کسی کے ہاتھ آج ہی بھجوا دیں گے۔ ساتھ انہوں نے اس کے استعمال کا طریقہ بھی سمجھا دیا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے یہ بہت اثر دار دوا ہے۔ مگر ساتھ ہی شدید زہریلی بھی۔ بہت احتیاط سے استعمال کی جائے۔ ڈالتے ہوئے منہ پر لازمی کپڑا وغیرہ باندھ لیں۔ اور بعد میں اچھی طرح ہاتھ ضرور دھوئیں۔ ان شاء اللہ، ایک ہی بار ڈالنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، جیسے ہی آئے مجھے بتا دینا میں ڈال دوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
دوا شام آئی تک آ گئی۔ کھانسی کے شربت کی خالی بوتل میں وہ دوا موجود تھی۔ احسان بھائی نے نائلہ کو دوا ڈالنے کا مکمل طریقہ سمجھا دیا تھا۔ لہذا میں اس سے پوچھتا گیا اور ڈالتا گیا۔ اس سے فراغت پا کر میں نے ہاتھ وغیرہ اچھی طرح دھوئے اور شیشی کو ایک پلاسٹک شاپر میں ڈال کر ڈسٹ بن کے حوالے کر دیا۔ چند گھنٹوں کے انتظار کے بعد کمرہ، ایک پرسکون نیند لینے کیلئے ایکدم تیار تھا۔
کھٹملوں سے نجات ملی تو اس کے بعد کئی راتیں بہت سکون سے گذر گئیں۔ یہاں تک کہ میں صبح کچرا دینے بھی نہیں اٹھ سکا۔ اور یہ ذمے داری عارضی پر نائلہ نے اٹھا لی۔ اور جلد ہی مجھے اس بارے میں متنبہ بھی کر دیا۔
لاشعور سے شعور میں آنے کا سبب کچرے والے کی آواز ہی تھی۔ میں غنود گی کے عالم میں اٹھا اور ڈس بن لے کر باہر رکھ دیئے۔ کچرا سمیٹنے والا پرانا لڑکا موجود نہیں تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور یہ کام کر رہا تھا۔ شاید اس کا کوئی چھوٹا بھائی وغیرہ تھا۔ میں نے گاڑی پر بیٹھے اس کے باپ کی طرف دیکھا اس کا چہرہ روندھا ہوا تھا۔ اسی وقت بیگ صاحب بھی اپنی ڈس بن لے کر باہر نکل آئے۔
’’السلام وعلیکم بیگ صاحب۔۔ صبح بخیر۔۔ ۔ سب خیریت ہے نا؟‘‘
’’میں تو ٹھیک ہوں، لیکن کیا آپ کو پتہ چلا، وہ جو لڑکا پہلے کچرا سمیٹنے آتا تھا، تین دن پہلے مر گیا ہے۔‘‘
’’کیسے بھئی، اچانک وہ تو بھلا چنگا تھا۔ آخری بار جب اسے دیکھا تو اسے بس نزلہ زکام ہی تھا۔‘‘
’’ہاں جی نزلہ زکام ہی تھا۔ وہ میں آپ کو کہتا نہیں تھا کہ یہ لوگ کچرے میں سے بھی چیزیں اٹھا کر کھا جاتے ہیں۔ بس کچرے چھانٹتے ہوئے اسے کھانسی کے شربت کی آدھی بھری شیشی مل گئی اور اس نے وہ پی ڈالی۔ بس جناب چند گھنٹوں میں ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ نجانے کس نے وہ بوتل۔۔ ۔۔‘‘ بیگ صاحب کی بات جاری تھی۔ مگر میرے حواسوں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔
٭٭٭
کیوں کہ میں نے اب سوچنا شروع کر دیا ہے
سوچنا شاید سب سے مشکل کام ہے، یہی وجہ ہے کہ کم ہی اس کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔۔۔
میں نے بھی آج سے سوچنا شروع کر دیا ہے، اب چاہے آپ ہوں یا کوئی دوسرا، میرے سوچنے پر اب کوئی بھی پابندی نہیں لگا سکتا۔ ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جب سبھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ سوچنا ہی تو ہمیں، آپ کو نجات دے گا۔ پھر آپ آخر سوچتے کیوں نہیں۔ سوچنے میں جاتا ہی کیا ہے۔ یہ کوئی بجلی، پانی، گیس، موبائل اور دیگر شہری سہولیات جیسا تو ہے نہیں کہ جہاں اِن کے پاس سے ذرا سا گزرنے پر بھی، ان کا میٹر چلنا شروع ہو جائے۔ جہاں ان تمام بنیادی شہری ضروریات کا حصول آپ کو ایک بڑی قیمت چکا کر ہی حاصل ہوتا ہے۔ وہاں سوچنے جیسی چیز تقریباً مفت ہی ہے۔
سوچتا تو میرا دوست، میرا سنگی ساتھی، میرا یار بھورا بھی تھا۔ اور کچھ زیادہ ہی سوچتا تھا۔ اور وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں اس قسم کی ذہنی عیاشیوں کے لئے نہ تو وقت تھا اور نہ ہی اجازت۔
صدیوں سے غلامی نما مزدوریوں، نوکریوں، چاکریوں، میں جکڑے انسان نما رو بوٹ، جن کا ذہن سالہاسال کی مسلسل بندشوں، پابندیوں اور جکڑن کے بعد اتنا بوجھل، مد ہوش، لاچار، بے کس اور مجبور ہو چکا تھا کہ وہ اب خود پر ہونے والے کسی بھی نوعیت کے استحصال اور ظلم کو محسوس ہی نہیں کر پاتے تھے یا زیادہ سے زیادہ اسے قسمت کا لکھا مان کر اپنے نصیب، اپنی حالت پر صابر و شاکر تھے۔
میرے یار بھورا کی سوچوں میں تھا، یہ بے رحم معاشرہ، وڈیرے کا ظلم، اپنی غریبی، ناداری، کم ہمتی اور طبقاتی نا انصافی، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور۔۔
میرے یار بھورا کے خیالوں میں گتھے تھے، بھوک سے بلکتے، سسکتے ننگ دھڑنگ بچے، پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے سوکھے، بار بار کے نچے جسموں کو چھپانے کی کوشش میں جٹی عورتیں، وڈیرے کی گالیاں، لاتیں، ٹھوکریں سہتے سہتے جوانی میں ہی بوڑھے ہو جانے والے ڈھانچے نما مرد۔
میں اس کو ہر دم، ہر لمحے، ہر پل، ہر سانس گم صم ہی دیکھا کرتا تھا۔ ’’اتنا نہ سوچا کر رے بھورا، چریا ہو گیا ہے ایکدم۔ لگتا ہے تجھے اب حیدرآباد کے چریا اسپتال میں داخل کروانا ہی پڑے گا۔ ‘‘میں اس سے ٹھٹھول کرتا۔ وہ میری طرف اپنی بڑی بڑی کالی سیاہ آنکھوں سے دیکھتا۔۔ اس کی کالی سیاہ آنکھوں کی سیاہی، پاتال کی سیاہی سے ادھار لی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔
مایوسی بلیک ہول سے کہیں زیادہ سیاہ ہوتی ہے ۔۔۔
ہم دونوں ہی اس گاؤں رہتے تھے۔ ایک روایتی گاؤں میں۔ اس کا باپ وڈیرے کا نوکر تھا۔ ایک پشتینی نوکر۔ میرے باپ کی گاؤں میں کریانہ کی دکان تھی۔ جیسے آج بڑے بڑے شاپنگ مالز کا دعوی ہے کہ ہمارے ہاں سوئی سے لے ہوائی جہاز تک سبھی ملتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہماری دکان بھی، گو کہنے میں کریانہ کی دکان بھر ہی تھی، مگر یہاں دال چاول سے لے کر سبزی گوشت تک، سوئی سے لے کر زرعی آلات کے عمومی نوعیت کے سامان تک، بچے کی پیدائش میں درکار چیزوں سے لے کر سفرِ آخرت کیلئے معاون ضروری اشیاء تک، سب کچھ موجود ہوتا تھا۔ اس اکلوتی اور بھرپور چلتی دکان کی بدولت ہی، ہم گاؤں میں نسبتاً خوشحال اور گنے چنے چند آسودہ حال گھرانوں میں جگہ پاتے تھے۔
میری یادوں کی تختی پر پختہ روشنائی سے لکھی روشن تحریر کے مطابق، بھورا سے میری پہلی ملاقات گاؤں کے ہی سرکاری اسکول میں ایک پھٹی پرانی بوری پر ہوئی تھی۔ ہم دونوں ہی کا کچی پہلی کا پہلا دن تھا۔ اور اسکول ماسٹر نے ہم دونوں کو ایک ساتھ ہی سٹا کر بٹھا دیا تھا۔ اتنا سٹا کر کہ اس کے بعد سب چاہ کر بھی ہمیں الگ نہیں کر سکے تھے۔
ازلی رشتے بھی بہرحال کسی دنیاوی عمل سے ہی وجود میں آتے ہیں ۔۔۔
اس دن ہوئی وہ پہلی ملاقات بہت جلد دوستی کے اٹوٹ رشتے میں تبدیل ہو گئی۔ اور جلد ہم گاؤں میں یک جان دو قالب کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ اسکول کے بعد بھی ہمارا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، کبھی کھیتوں میں گنے توڑتے، کبھی نہر پار جھڑ بیریاں ڈھونڈتے، کبھی ٹیوب ویل کی ہودی میں ٹھنڈے یخ پانی میں خود کو ڈبوتے، کبھی اپنے جانی دشمن اسکول ماسٹر رحیم کے گھر پر پتھر مار کر چھپتے، کبھی کنویں کے اندر منہ کر کے آوازیں نکالتے اور ان سب کے بعد کبھی کبھار اپنے اپنے باپوں سے پٹتے، گزرتا تھا۔
’’بابا روٹی بھلے پیٹ بھر نہ دے، مگر پیٹ بھر مار دینے کا بھرپور حق رکھتا ہے۔ ‘‘باپ کا ڈنڈا، کسی چقماق پتھر سا بنا لگتا تھا جو بھورا کے جسم پر برس کراس کے اندر، کہیں بہت اندر دبی چنگاریاں باہر نکالنے میں مشاق ہو گیا تھا۔ پر باپ بھی کیا کرتا، اس کے لاشعور کے نہاں خانوں میں کہیں دبی بدلے کی آگ، اصل حقدار تک تو بوجوہ نہ پہنچ پاتی تھی۔ ہاں بیٹے کو تحفے میں دینے کے بعد تھوڑی سرد ضرور ہو جاتی تھی۔
سارا کھیل ہی اس آگ کا ہے۔ یہاں بھی آگ ہے اور وہاں بھی آگ ۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی بھی مزید پروان چڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کے ہم دونوں نویں جماعت میں آ گئے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آتی جا رہی تھی کہ بھورا اب اکثر و بیشتر باتیں کر تے کرتے کسی انجانی سوچوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ اپنے دماغ کی لا متناہی حد تک پھیلی چراگاہوں میں، اپنی سوچوں کو کسی کھلے ریوڑ کی طرح آزاد چھوڑ دیتا تھا۔ نفرتوں، ذلتوں کی کٹیلی، نوکدار جھاڑیاں کھا کر انتقام کی قوت پیدا کرنے کیلئے۔ اسکا محدود شعور، لا شعور کی لا محدودیت کے آخری کنارے کی تلاش کی سعی لاحاصل میں مصروف تھا۔ وہ کئی با توں پر اس دنیا اور مافیہ کے بندھنوں سے آزاد ہونے پر کمربستہ نظر آتا تھا۔ وہ گویا اس دنیا سے، اس کائنات سے بھی پرے نکل جاتا تھا۔ کسی نئی اور بہتر دنیا کی تلاش میں۔ میں اس کی اس کیفیت سے ڈر جاتا تھا۔ اور اکثر اس کو جھنجھوڑ کر ہوش میں لانے کی کوشش کرتا۔
’’ تجھے نہ داخل کرا دوں چریا وارڈ میں۔ ‘‘ وہ میرے اکثر کیے جانے والے مذاق پر تلملا کر کہتا۔
’’کیا سوچتا رہتا ہے۔ ‘‘ میں ہمیشہ پوچھے جانے والے سوال کو پھر کسی جواب کی امید میں دھراتا۔ پر جواب ہمیشہ کی طرح ندارد ہی ہوتا۔
’’اتنا نہ سوچا کر، صحیح نہیں ہوتا اتناسوچنا۔ ‘‘
’’میں کیا کرو، اب ان سوچوں پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ نجانے کیوں اب میں اپنے آپ کو نارمل محسوس نہیں کرتا۔ ‘‘ اس کی آواز میں بے چارگی ہوتی۔
’’بے حسی بھی کیا اچھی چیز ہے۔ لا علمی میں بھی کیسا مزہ ہے۔ اپنی سوچوں کو دبانے میں کتنا سواد ہے۔ ڈھیٹ بنے رہنے میں کتنا لطف ہے۔ ‘‘ اس نے بقراطی جھاڑی۔ میں تو اسے اس وقت بقراطی ہی سمجھتا تھا۔ میرے فہم سے بلند باتیں تھیں۔
’’پتہ نہیں کیا بات ہے۔ اب وہ ساری باتیں، جنہیں اب تک میں ایک روٹین کی چیز سمجھتا تھا۔ اب جب میں اس پر گہرائی میں جا کر غور کرتا ہوں تو بے چین ہو جاتا ہوں۔ تم شاید براہِ راست تو ان سب سے واقف نہیں ہو، ظاہر ہے ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر سے تمہارا تعلق ہے۔ تمہیں اپنی پیٹ کی آگ بھرنے کیلئے کسی وڈیرے کی لاتیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر بہرحال یہ سب تمہارے سامنے کی ہی تو باتیں ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کی غربت، افلاس، بھوک، پیاس، لاچارگی، بے بسی، تم سے کچھ اتنی زیادہ چھپی ہوئی بھی نہیں ہے۔ ہم سب کے نصیب میں تو جیسے اماوس کی لمبی سیاہ رات چھا گئی ہے۔ یہ سب میرے لئے ناقابلِ قبول ہے۔ میں اس سیاہ اندھیری رات کو چیر دینا چاہتا ہوں۔ اس کو امیدوں، خوشیوں کے چمکتے سورج سے روشن کر دینا چاہتا ہوں۔ ایک بہتر کل میں بدل دینا چاہتا ہوں۔ میں صرف اپنی زندگی ہی کے بارے نہیں سوچتا، ایسا کرنے سے تو میری سوچ بہت محدود ہو جائی گی۔ بلکہ میں تو سبھی گاؤں والوں کی زندگیوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ اورسوچتا رہوں گا۔ ‘‘ وہ ایک گہری سانس لیتا ہے، پھر میرے طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہتا۔
’’میں چاہتا ہوں تو بھی ان سب با توں کو سمجھ، میرے دکھ کو محسوس کر۔ وڈیرا، ایک بلا ہے۔ ایک ایسی بلا، جس کی خوراک صرف ہاریوں، کسانوں کا خون اور پسینہ اور ان کی عورتوں کی چمڑی اور ہڈیاں ہیں۔ ‘‘
’’ارے میرے یار، میرے سنگھی ساتھی، مجھ سے زیادہ اس گاؤں میں کون ہے، جو تیری با توں کو سمجھتا ہے۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ تو اپنی سوچوں سے اس گاؤں کے نصیب نہیں بدل سکتا۔ تو انہیں وڈیرے کے ظلم و بر بریت سے نہیں نکال سکتا۔ اس کی سفاکیت کے آگے تو کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ ہاری، کسانوں کو ان کا جائز حق بھی نہیں دلا سکتا۔ نہ بھوک سے بلکتے بچوں کو پیٹ بھر کھانا دے سکتا ہے اور نہ لٹی پٹی عورتوں کی عصمتیں ان کو واپس دے سکتا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اس گاؤں کی کتنی ہی نسلیں اس وڈیرے کے آباء و اجداد کے ہاتھوں فنا ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ سب تو صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے اور شاید مستقبل بھی اس سے آلودہ ہو گا۔ ‘‘میں کہتا چلا گیا۔
’’ ہاں اور ایک بات اپنی گرہ سے باندھ لے، آج میرے بھرپور اصرار پر تو نے اپنا آپ میرے سامنے کھول کر رکھ تو دیا ہے، پر آئندہ پھر کبھی یہ سب اپنے منہ سے نہ نکالنا۔ وڈیرے اور اس کے گماشتوں کو تیری ان با توں کی بھنک بھی پڑ گئی تو تیری خیر نہیں۔ ساتھ میں تیرا باپ بھی بے موت مارا جائے گا۔ ‘‘ میں نے اسے ناصحانہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر اس نے میری با توں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔
’’کیا؟ میرا باپ بے موت مارا جائے گا۔ ہر روز تھوڑا تھوڑا، گھٹ گھٹ، سسک سسک کر مرنے سے کہیں زیادہ اچھا ہے کہ وہ ایک جھٹکے میں ہی مارا جائے۔ ‘‘مایوسی کی چادر اوڑھے اس کے الفاظ مجھ میں اداسی بھر گئے۔
لفظوں کے جسم میں احساس کی روح چھپی ہوتی ہے ۔۔۔
وقت آگے بڑھا۔ تھوڑا سا اور آگے۔ اور ہم دونوں نے میٹرک پاس کر لیا۔ چند سال پہلے میرے باپ نے میرے بڑے بھائی کو شہر بھجوا دیا تھا، اپنے کام کے سلسلے میں۔ وہ وہاں رہ کر دکان کیلئے تھوک کی خریداریاں کیا کرتا تھا۔ اس نے بھی گاؤں کے ہی اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ پھراس نے شہر میں اپنی موجودگی کو غنیمت جان کر اپنی پڑھائی کے سلسلے کو بھی آگے بڑھایا۔ اور بی کام کر کے ایک اچھی کمپنی میں بھرتی ہو گیا۔ وہاں سیٹ ہونے پر اس نے مجھے بھی اپنے پاس شہر بلوا لیا تاکہ میں بھی اپنی آگے کی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ گاؤں سے نکل کر شہر آنے والے اکثر اس کی روشنیوں میں کھو کر اپنے ماضی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ میرا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ میں بھی گاؤں کے پینڈو سے شہر کا ماڈرن لڑکا بن گیا۔ کیوں کہ میرے میٹرک میں اچھے نمبر آئے تھے، اس لئے ایک اچھے کالج میں میرا داخلہ ہو گیا۔ اور میں اس نئے سیٹ اپ میں کھو گیا۔ اور بھورا کی یادیں جو شروع شروع میں بہت تکلیف دیتی تھیں، آہستہ آہستہ ماند پڑتی گئیں۔
انسان کی بقا کا دارومدار نسیان پر ہے ۔۔۔
وقت کی گھڑی چل رہی تھی۔ بھائی اب ایم بی اے پاس تھا اور میں ایک کوالیفائیڈ انجینئر۔ حالات میں بہت بدلاؤ آ چکے تھے۔ بابا نے بھی اپنی دکان ختم کر دی تھی۔ اب وہ ہمارے ہی ساتھ رہتے تھے۔ گاؤں سے ہمارا رشتہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو چکا تھا۔ پیچھے بچا بھی کیا تھا۔ فقط بزرگوں کی چند بوسیدہ قبریں یا پھر بھورا۔ کبھی کبھار بس کچھ اڑتی اڑتی خبریں ہی ہمارے اندر گاؤں سے جڑی بھولی بسری یادوں کو تازہ کر دیتی تھیں۔ ایسی ہی کئی خبریں مختلف اوقات میں سنائی دیتی رہیں۔ بھورا کا باپ کسی حادثے کا شکار ہو کر مر گیا تھا۔ بھورا اس کے بعد گاؤں چھوڑ کر چلا گیا تھا اور نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ بھورا کے باپ کی موت کے کچھ عرصے بعد وڈیرے کی حویلی پر ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وڈیرہ اور اس کے گھر کے سبھی افراد مارے گئے تھے۔ اب گاؤں صدیوں بعد وڈیروں کی حکمرانی سے آزاد تھا۔ ہاریوں، کسانوں نے وڈیرے کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور اس کے مالک بن بیٹھے تھے۔ ہر جانب سکون تھا، ہر طرف شانتی تھی۔ سبھی کی زندگیاں اب پہلے سے بہت بہتر تھیں۔ ہاں بھورا ڈاکو اور اس کے ساتھیوں نے بھی ضرور سر اٹھایا تھا۔ وڈیرے کو مارنے والا بھی بھورا ڈاکو ہی تھا۔ اس کی کار روائیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ پولیس اس کی تلاش میں تھی، مگر وہ ایک چھلاوہ بنا ہوا تھا۔ یہ اچھی بات تھی کہ اس کا نشانہ طرف وڈیرے اور ساہوکار ہی بنتے تھے۔ غریبوں کا تو ایک لحاظ سے مسیحا تھا۔ وہ اس سے بہت خوش تھے۔ اور اس کو کوئی نیا سلطانہ ڈاکو قرار دے رہے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مسیحا کبھی نہیں مرتا۔ صرف نام بدل لیتا ہے۔
نئی سیاسی تبدیلیوں کے بعد شہر میں اب ایک نئی سیاسی جماعت برسرِاقتدار آ چکی تھی۔ گو کہ اس جماعت کے سربراہ کی سر گرمیاں ہمیشہ سے ہی مشکوک اور مجرمانہ انداز کی رہی تھیں۔ مگر اقتدار میں آ کر تواسے خوب کھل کر کھیلنے کا موقعہ مل گیا تھا۔ اب پورے شہر میں اس کی حکمرانی جو تھی۔ پورے شہر پر اس کا ہی قانون چلتا تھا۔ روزانہ فائرنگ کے کئی واقعات ہوتے اور اس کے نتیجے میں کئی بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ سڑکوں پر چلنا گویا موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔ سارا شہر یرغمال سا بن چکا تھا۔ سبھی ڈرے ہوئے تھے۔ کون کب مارا جائے، کون کب اغوا ہو جائے، کون کب لٹ جائے، کون کب کسی بھٹکتی ہوئی گولی کا شکار بن جائے، کوئی نہیں جانتا تھا۔
دانے دانے کی طرح، گولی گولی پر بھی اس کے کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔۔۔
اس سیاسی جماعت نے پورے شہر میں جگہ جگہ اپنے دفاتر کھول لئے تھے۔ جو جرائم کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ ہر شخص ان کی چیرہ دستیوں سے خود کو بچانے کی تگ و دو میں لگا تھا۔ اس جماعت کے غنڈہ نما کارکن جب چاہتے شرفاء کو اپنے دفاتر میں بلا کر ذلیل کرتے۔ یا ان کی عزتیں سرِبازار اچھالتے۔ اس شہر کا باسی ہونے کے ناطے میں بھی ان سب کا چشم دید گواہ تھا اور اپنی جانب سے پوری کوشش کرتا تھا کہ ان لوگوں سے جہاں تک ممکن ہو سکے، بچوں۔ مگر ایک دن اپنی تمام تر احتیاطوں کے باوجود میں ان کے چنگل میں پھنس ہی گیا۔
میں اپنے آفس جانے کیلئے معمول کے مطابق گھر سے نکلا۔ میں گاڑی چلانے میں ہمیشہ احتیاط سے کام لیتا ہوں۔ اور نارمل اسپیڈ سے ہی گاڑی چلاتا ہوں۔ آج بھی میں نارمل طریقے سے جا رہا تھا کہ دفعتاً سڑک کی رونگ سائیڈ سے ایک جیپ گولی کی تیزی سے آئی سیدھی میری جانب بڑھی۔ ممکنہ تصادم سے بچنے کیلئے میں نے پوری طاقت سے بریک لگا دیے، مگر پھر بھی وہ جیپ میری گاڑی سے ٹکرا ہی گئی۔
جیپ میں سے موجود لوفر ٹائپ کے چند لڑکے اترے اور سیدھے میری جانب آئے۔ پھر ان میں سے ایک بولا۔
’’سالے، اندھا ہو گیا ہے۔ نظر نہیں آتا۔ ‘‘
میں بھی گاڑی سے اتر گیا۔ اور اپنی گاڑی پر نظر ڈالتے ہوئے غصے سے کہا۔ ’’نظر شاید تم لوگوں کو نہیں آتا۔ ایک تو غلطی خود کی اوپر سے سینہ زوری بھی دکھا رہے ہو۔ ‘‘
’’ اچھا تو ہماری غلطی ہے۔ تیری تو ۔۔۔ ۔ ‘‘
وہ لڑکے میری بات پر مشتعل ہو گئے اور مجھے گھیر کر مارنے لگے۔ میں بھی اپنے دفاع میں ان سے بھڑ گیا۔ گاؤں کا پلا بڑا میں شاید ان پر بھاری بھی پڑ جاتا، مگر پھر نجانے کہاں سے ایک اور جیپ آ گئی۔ اس میں بھی اسی ٹائپ کے لڑکے سوار تھے۔ شاید انہیں کے ساتھی تھے۔ اوپر سے یہ نئے آنے والے اسلحہ بردار بھی تھے۔ انہوں نے پستولیں نکالیں اور ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ اب لڑائی رک چکی تھی اور وہ سب مشتعل لڑکے میرے چاروں جانب گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔
’’گاڑی میں ڈالو اسے۔ دفتر چل کر اس کو مزہ چکھائیں گے۔ ‘‘ان نئے آنے والوں میں سے کوئی بولا۔ پھر انہوں نے مجھے اسلحے کے زور پر جیپ میں بٹھا لیا اور اپنے دفتر لے گئے۔
وہ کون سا ظلم تھا جو انہوں نے مجھ پر وہاں نہ توڑا تھا۔ مجھے ایک ایسے جرم کی بھیانک سزا دی گئی تھی جو میں نے کیا ہی نہیں تھا۔ میں سر سے پاؤں تک زخموں سے لہولہان ہو گیا تھا۔ سارے جسم سے خون نکل رہا تھا۔ کئی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ پھر انہوں نے اپنا غصہ ٹھنڈا ہونے پر مجھے کسی ویران سڑک پر نیم مردہ حالت میں پھینک کر چلے گئے۔ میں کیسے اسپتال پہنچا مجھے نہیں پتہ۔ کس نے مجھے وہاں پہنچایا کچھ معلوم نہیں۔
ہاں میری آنکھ جب کھلی تو میں اسپتال کے بستر پر تھا۔ سر سے پاؤں تک پٹیوں میں لپٹا ہوا۔ دونوں ٹانگوں پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ بابا اور بھائی بستر کے ایک جانب مغموم سے بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر وہ میرے قریب آئے۔ پھر بابا بولے۔
’’کیسا ہے رے تو۔ ‘‘ میں نے جواب دینا چاہا مگر کچھ بول نا سکا۔ شاید جبڑا بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ میں انہیں بس ٹکر ٹکر خالی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔
مجروح جسم تو پلاسٹر سے جڑ سکتا ہے۔ پر مجروح روح کے لئے کوئی پلاسٹر نہیں بنا ۔۔۔
جسم پر ٹوٹی قیامت سے زیادہ روح پر لگے گھاؤ مجھے اذیت پہنچا رہے تھے۔ ذلت اور بے عزتی کا احساس گویا روح کو ہی کچلے دے رہا تھا۔ یہ شہر ہے یا جنگل۔ ایسا تو شاید کسی جنگل میں بھی نہیں ہوتا۔ رہ رہ کر ان ظالموں کے چہرے میری نگاہوں کے سامنے گھومتے رہتے۔ غم اور اس سے بڑھ کر غصہ میری رگوں میں دوڑتا رہتا۔
اسپتال میں داخل ہوئے مجھے آج پورے پندرہ دن ہو چکے تھے۔ بابا کو تو میں نے دوسرے ہی دن اشارے سے بتا دیا تھا کہ آپ کو یہاں میرے پاس چوبیس گھنٹے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں مجھے بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ آپ صرف شام کو ملنے آ جا یا کریں۔
اب میں خود کو کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔ زیادہ تر زخم اب سوکھ چکے تھے۔ میں اب یہاں سے جانا چاہتا تھا۔ مگر ڈاکٹر کا کہنا تھا ایک ہفتہ مزید یہاں رہنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ میں آنکھیں موندے لیٹا اپنے خیالوں میں گم تھا کہ مجھے ایک جانی پہچانی خوشبو محسوس ہوئی۔ میرے دوست کی خوشبو۔ میں نے تڑپ کر آنکھیں کھولیں۔ وہ میرا دوست بھورا ہی تھا۔ گو کہ اب اس کا زیادہ تر چہرہ گھنی بھوری داڑھی مونچھوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ لمبے لمبے گھنگھرال ے پٹّے اور بڑی بڑی خوفناک لال آنکھیں۔ خاکی رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس اور اجرک لپیٹے۔ جسم اس کا پہلے کے مقابلے میں تھوڑا بھاری ہو چکا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اٹھنا چاہا۔
’’میرے یار۔ میرے دوست۔ ‘‘ میرے لب کپکپائے۔
’’ لیٹا رے۔ لیٹا رے۔۔ کیسا ہے تو؟ ‘‘ اس نے مجھے اپنے بڑے بڑے سخت ہاتھوں سے دوبارہ لٹاتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا۔
’’تیرے سامنے ہوں۔ ‘‘
’’ہمم۔ دیکھ ہی رہا ہوں۔ شہر آیا ہوا تھا ایک ضروری کام سے۔ سوچا اس بار تجھ سے ملے بغیر نہیں جانا۔ تیری بہت یاد آ رہی تھی۔ اب صبر نہیں ہو پا رہا تھا۔ تین دن پہلے تیرے گھر گیا تو تیرے بارے میں پتہ چلا۔ اور اُن کے بارے میں بھی جنہوں نے تجھے اس حال پر پہنچایا۔ بہرحال دو دن تک چند ضروری اور ناگزیر کاموں میں مشغول رہا۔ اب ان سے فارغ ہو کر میں سیدھا تجھ سے ملنے یہاں چلا آیا۔ ‘‘
"بس یار چھوڑ اتنی لمبی تمہید کو، تو بتا کیسا ہے ؟ کیا کر رہا ہے ؟ ‘‘ میں اس کو اچانک پا کر گویا اپنی ساری تکلیفوں کو، اپنے سارے زخموں کو، اپنی ساری ٹوٹی ہڈیوں کو جیسے بھول سا گیا۔ اک جوش و جذبہ میرے نس نس میں سرایت کر گیا ہو جیسے۔ ساری اذیتیں، ساری تکلیفیں، ساری چوٹیں، ساری ٹیسیں، جیسے ایک آن میں مٹ گئی ہوں، میرے دوست کی بدولت۔
وقت تو سارا ایک سا ہی ہوتا ہے، اس کو مختلف تو ہمارا سوچنا بناتا ہے ۔۔۔
’’ ایک دم فٹ فاٹ، ایک دم تگڑا۔ مجھے کیا ہونا ہے۔ اور میرا کون کیا بگاڑ سکتا ہے۔ ‘‘اس کی آواز میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔
’’گاؤں کی سنا، میں سنا تھا کہ تیرے بابا کسی حادثے کے نتیجے میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ یار جب میں نے یہ سنا تھا تو بہت دکھی ہوا تھا۔ مگر مجھ تک یہ خبر بہت دیر سے پہنچی تھی۔ میں نے تجھ سے رابطہ کرنا چاہا تھا۔ مگر پتہ لگا تھا کہ تو گاؤں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ مجھے ذرا تفصیل سے بتا۔ ‘‘
وہ میرے قریب رکھے ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ اور اجرک کے پلو کو مزید اپنے چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے، مجھے اپنے باپ کے ساتھ پیش آئے حادثے کی اور اس کے نتیجے میں خوداس پر کیا بیتی، ان سب کی تفصیل اگلے ایک گھنٹے تک بتاتا رہا، جس کا لبِ لباب یہ تھا۔
’’میرے باپ کو وڈیرے نے ایک غلطی کی پاداش میں سزا کی غرض سے اپنے کارندوں کے ہاتھوں اتنا پٹوایا کہ اس کا نحیف جسم اس کو برداشت نہ کر سکا اور وہ مر گیا۔ اس کی موت پر پردہ ڈالنے کیلئے وڈیرے نے اس کی لاش کو چلتے تھریشر کے نیچے دے دیا اور مشہور کر دیا کہ وہ اپنی غلطی کی وجہ سےا س کی زد میں آ گیا ہے۔ اس پر ہوئے تشدد کے سارے نشان تھریشر نے چھپا لئے تھے۔ پر مٹھی میں سمائے جانے والے، چھوٹے سے گاؤں میں سبھی کو اصل بات کا علم تھا۔ مگر اس ظالم کا کوئی کیا بگاڑ سکتا تھا۔ میں نے اپنے باپ کی کٹی پھٹی لاش کو جیسے تیسے زمین کے سپرد کیا اور گاؤں سے نکل گیا اور کچے کی طرف چلا گیا۔ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی جمالو ڈاکو تک میری خبر پہنچ چکی تھی۔ اس نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنا بیٹا بنا کر اپنے ڈکیت گروہ میں شامل کر لیا۔ اس کی گروہ میں میرے جیسے اور بھی بہت سے نوجوان ایسے تھے جو وڈیروں اور ساہو کار بنیوں کے ستائے ہوئے تھے۔ ایک تو میں پڑھا لکھا تھا، دوسرے خاص مجھے جمالو نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ لہذا جب ایک پولیس مقابلے میں جب جمالو مارا گیا تو سبھی ڈاکوؤں نے مجھے متفقہ طور پر گروہ کا سردار مان لیا۔ پھر میں نے خود پر اور اپنے جیسے سارے مظلوموں پر کئے جانے والے ایک ایک ظلم کا حساب لینا شروع کیا۔ اس ظالم وڈیرے اور اس کے پورے خاندان کو تو سب سے پہلے لوٹا اور اس کے بعد قتل کر دیا۔ پھر اس کی حویلی کو آگ لگا دی۔ اس دن سارا گروہ بہت خوش تھا، مال جو بہت تگڑا لگا تھا، کروڑوں روپے کے گہنے اور نقدی۔ ہاں زمینوں کے سارے کاغذات بھی ہاتھ لگے تھے۔ جو بعد میں، میں نے سبھی گاؤں والوں میں بانٹ دئے، آخر وہ ان ہی کی زمینیں تھیں، جو گروی کی شکل میں وڈیرے کے چنگل میں پھنسی تھیں۔ اس کی موت سے ہی ہمارے گاؤں میں خوشحالی آئی اور ظلم و بربریت کی لمبی سیاہ رات کا خاتمہ ہوا۔ ان کروڑوں روپوں سے میں نے اپنے گروہ کو خوب ترقی دی۔ ان کو زیادہ جدید ہتھیار لے کر دیئے۔ ان کو مزید ماہر بنایا۔ اُس ظالم وڈیرے کی موت اور اس کے نتائج کو دیکھ کر میں خود انگشت بدنداں رہ گیا کہ صرف ایک شخص کی موت کتنا بڑا انقلاب لا سکتی ہے۔ اب میری زندگی کا مقصد لوگوں کو اس جیسے مزید وڈیروں اور ساہو کار بنیوں سے آزاد کرانا تھا۔ میری بچپن کی سوچوں کو جیسے عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا تھا۔ ”
میں اس کی داستان سن کر ششدر رہ گیا۔ یہ سب میری سوچ سے آگے کا تھا۔
’’تو تو نے اپنی سوچوں کو عملی شکل دے ہی دی۔ ‘‘
"ہاں یار دیکھ نا، یہ سوچیں ہی تو ہماری نجات دہندہ ہیں۔ جب تک ہم خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف نہیں اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ظالم اپنے ظلم ہم پر ڈھاتے رہیں گے۔ ہماری بے حسی ہی تو ان کی اصل طاقت ہے۔ ہمارا کسی پر ہوتے ظلم پر، اس بات پر شکر ادا کرنا کہ ہم تو محفوظ ہیں۔ اصل تباہی کی جڑ ہے۔ آج وہ، کل تمہاری باری ہے۔ اپنی طرف آنے والے ممکنہ خطرے کا ادراک کر کے اس کے خلاف ڈٹ جانا ہی اصل بات ہے۔ نہ یہ کہ منہ ہی چھپا لیا جائے۔ ‘‘
انسان اور شتر مرغ میں کوئی اور چیز ملتی رکھتی ہو یا نہیں، خطرے کے وقت زمین میں منہ دبا لینا خوب مماثلت رکھتا ہے ۔۔۔
’’ شکر ہے کہ میں نے ظلم سے نجات پانے کیلئے سوچا اور اپنی سوچ کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ ‘‘
میں اس کی با توں پر مبہوت سا اسے تکا ہی جا رہا تھا۔
اس نے اپنی بغل میں دبا ایک اخبار نکالا اور میرے سامنے کر دیا۔ ایک بڑی سرخی تھی۔
’’ ۔۔۔ پارٹی کے سیاسی دفتر پر مسلح افراد کا حملہ۔ دس ہلاکتیں۔ کئی شدید زخمی۔ مسلح حملہ آور با آسانی فرار۔ مخالف سیاسی پارٹی پر شبہ کا اظہار۔ ‘‘
’’ دو دن اسی میں مصروف رہا۔ ‘‘
میں نے طمانیت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ یہ شہر بھی ایک گاؤں ہی ہے۔ یہاں بھی وہی وڈیرا شاہی موجود ہے۔ فرق بس یہ ہے یہاں انہوں نے سیاسی لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ ایک فاشسٹ پارٹی کے غنڈے ایم این اے اور ایم پی اے کے روپ میں گھوم رہے ہیں۔ لوگ وہاں بھی ظلم کا شکار تھے، یہاں بھی ہیں۔۔ لوگ وہاں بھی نا انصافی کا شکار تھے، یہاں بھی ہیں۔۔ لوگ وہاں بھی گھٹ گھٹ کر سانس لیتے تھے، یہاں بھی لیتے ہیں۔ وہاں بھی لوگ بنیوں کے استحصال کا شکار تھے، یہاں بھی فیکٹری مالکان کے استحصال کا شکار ہیں۔ ان سب سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے۔ ‘‘
اس نے اپنے نیفے سے گن نکال کر میرے ہاتھ میں دے دی۔ اسکا ٹھنڈا لوہا میرے اندر کی جمی برف کو پگھلا گیا۔ میں نے اسے مضبوطی سے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور دوسرے سے بھورا کو تھام لیا۔
” ڈر اے شہری وڈیرے۔ کیوں کہ میں نے لوگوں کو تجھ سے نجات دلانے کیلئے اب سوچنا شروع کر دیا ہے۔ ‘‘
٭٭٭
پانچ قبریں
آج بھی مجھے اچنبھے میں دیکھ کر وہ بوڑھا بول ہی پڑا، ’’یہ پانچ قبریں میرے پانچ دوستوں کی ہیں۔ ان پانچوں کا مجھ پر جو احسان ہے وہ میں کبھی نہیں اتار سکتا، ایسا احسان بھلا کب کسی نے، کسی کے ساتھ کیا۔ اب میرا فرض ہے کہ میں روز ان کی قبروں پر آؤں اور ان کی ارواح کے لئے دعائیں مانگوں۔‘‘
’’مجھے بھی اسی بات پر حیرت ہوتی کہ ان پانچ مختلف ناموں والی قبروں سے آپ کا بھلا کیا رشتہ ہے۔ جو آپ روز بلا ناغہ آتے ہیں۔ شاید ان سے آپ کا احسان کا رشتہ ہو؟ ویسے تاریخ کے صفحات ایسے محسنوں کے ناموں سے بھی بھرے پڑے ہیں۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی دوسروں کی مدد کی۔ یقیناً اس کے پیچھے کوئی کہانی ہو گی۔‘‘
’’بجا فرمایا، یہ میرے دوستوں کی قبریں ہیں۔ ان پانچوں نے میرے لئے کچھ ہٹ کر کیا تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہم سبھی دوست ایک تجارتی سفر کیلئے بمبئی سے کراچی، ایک بحری جہاز میں روانہ ہوئے۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ ہماری زندگیاں بدلنے والی ہیں۔ تیسری شب ایک بھیانک طوفان میں ہمارا جہاز پھنس گیا، تجربے کار کپتان اور عملے کے دیگر افراد نے بہت کوششیں کیں، مگر وہ اسے تباہ ہونے سے بچا نہیں سکے، خوش قسمتی سے ہم سبھی چھ دوستوں کو ایک بچاؤ کشتی مل گئی۔ اور ہم اس میں سوار ہو گئے۔ اور اپنی آنکھوں سے جہاز ڈوبتے دیکھتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ہم ہی بچ پائے ہیں۔ صبح ہم نے پایا کہ ہم تھے اور دور دور تک پھیلا سمندر تھا۔ افراتفری میں کھانے کی کوئی چیز بھی اپنے ساتھ نہیں لا سکے تھے۔ کئی دن اسی بھوک پیاس کے عالم میں گذر گئے۔ ہم سبھی کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی تھی مگر ایک دوست کی حالت تو بہت ہی خراب لگ رہی تھی۔ ہم سبھی سوچوں میں گم تھے، اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے تبھی اس نے اپنی نحیف آواز میں کہا کہ میں مر جاؤں تو پلیز مجھے سمندر برد نہیں کرنا، اپنے استعمال میں لے لینا، یہ میری تم سے گذارش بھی ہے اور آخری وصیت بھی۔ یہ کہتے ہوئے اس کی گردن لڑھک گئی۔ سبھی کے منہ سے نکلا نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم سے یہ نہیں ہو پائے، ہم کس طرح اپنے ہی۔۔۔۔۔؟
ہمارے دلی جذبات ہونا ایک بات تھی اور کئی دنوں کی بھیانک اور نا قابل برداشت بھوک ہونا دوسری بات، ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ مکروہ فعل سر انجام دینا پڑا۔ تبھی اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ زندگی سے بڑھ کر پیاری کوئی دوسری چیز، انسان کو نہیں ہوتی۔ جب بات اس کی زندگی پر بن آتی ہے تو وہ اسے بچانے کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
خیر جناب، ایک ایک کر کے میرے دوست مرتے رہے، اور ہم ہر مرنے والے کو کھاتے رہے جہاں تک کہ سبھی مر گئے اور آخر میں، میں بچا۔ میں کئی دنوں تک اکیلا کشتی میں پڑا رہا، تبھی خوش قسمتی سے مچھیروں کے ایک ٹرالر نے مجھے دیکھ لیا، یوں میں بچ پایا اور آج آپ کے سامنے ہوں۔‘‘
وہ اٹھا اور خاموشی سے جانے لگا۔
’’ اگر آخر میں آپ ہی بچے تھے تو ان کی یہ قبریں کہاں سے آ گئیں۔ کیوں قبروں کے لئے تو۔۔ ۔؟‘‘میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں آواز دی۔
وہ مڑا اور شہادت کی انگلی اپنے سر پر رکھتا ہوا بولا، ’’خود ہی سوچ لو۔‘‘
٭٭٭
چنبیلی
’’تو جناب میں کیا کہہ رہا تھا، اوہ ہاں یاد آیا۔ میرے یہ گلاب سبھی کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اُس دن بھی جب پولیس کا سراغرساں گھر میں داخل ہوا تومیں ہاتھ میں بڑی ساری قینچی لئے، انہیں گلاب کے پودوں کے پاس کھڑا، تراش خراش میں مصروف تھا۔ وہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور چپ چاپ ان کی طرف دیکھتا رہا۔ آخر میں نے ہی پہل کی، ’’میری بیوی کا کچھ سراغ ملا۔‘‘
’’تفتیش جاری ہے۔ گتھیاں سلجھنے لگی ہیں۔ لگتا ہے جلد ہی میں کسی منطقی انجام تک پہنچ جاؤں گا۔‘‘اس نے گھمبیر انداز سے کہا۔ ’’لگتا ہے تمہیں گلابوں کا بہت شوق ہے۔ بڑی اچھی طرح سے ان کی دیکھ بھال کرتے ہو۔ کافی بڑے بڑے اور خوب سرخ رنگت والے گلاب ہیں۔ تمہارے تجربے اور ہنر مندی کا منہ بولتا ثبوت۔‘‘
’’ارے کیسی ہنر مندی اور کہاں کا تجربہ۔ یہ تو اس کی غیر موجودگی میں شوق چڑھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ لفظ گلاب اس کی زندگی میں کیا معنی رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو گلابوں کا بہت شوق تھا۔ مگر وہ کبھی انہیں لگا نہیں پائی۔ جب بھی لگاتی، پودے جل جاتے۔ اُسی کیلئے میں یہ سب کر رہا ہوں۔ ویسے ان کے بڑے سائز اور چٹک سرخ رنگت میں میرے تجربے کا دخل نہیں، یہ تو اُس مخصوص نامیاتی کھاد کی کرامت ہے، جو میں نے تجرباتی طور پر دینا شروع کی ہے۔ میرا شوق کا شوق ہوا اورکچھ کمائی بھی الگ سے کر لیتا ہوں۔‘‘میں نے قینچی سے ایک سوکھی مگر مضبوط شاخ کو کاٹتے ہوئے کہا اور اس کی جانب دیکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کا دھیان میری باتوں کی طرف نہیں تھا۔ وہ گلاب کے پودوں کی جڑوں کے پاس کسی چیز کو بغور دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک اس کے منہ سے نکلا۔ ’’ارے یہ کیا؟‘‘
’’خیر جانے دیں ان سب باتوں کو، تو میں کہہ رہا تھا کہ اب تو میرے گلاب پہلے کے مقابلے میں مزید بڑے اور سرخ ہو چکے ہیں۔ پورے شہر میں آپ کو ایسے شاندار گلاب نہیں ملیں گے۔ اب تو ان کی کامیاب کاشت کے بعد میں دیگر پھولوں کا بھی سوچ رہا ہوں۔۔ ۔۔ تو آپ کیا کہتے ہیں۔ جلدی سے ایک درجن عمدہ سے گلاب، اپنی بیوی سے پیک کرا دیتا ہوں۔۔ ۔ ارے چنبیلی کہاں ہو؟ ۔ پتہ نہیں کہاں رہ جاتی ہے یہ۔ کام پرتو دھیان ہی نہیں ہے۔‘‘
٭٭٭
کافی وِد انڈر ٹیکر
’’بس جانب دس سے پندرہ منٹ آپ کو مزید لگیں گے، جب تک آپ ہمارے یہاں کی اسپیشل کافی سے لطف اندوز ہوں۔‘‘
’’بہت شکریہ۔۔ ۔ ویسے دیوار پر لگے ان فوٹوز کی کیا کہانی ہے۔ اور کیا آپ کے متعلق وہ افواہیں درست ہیں، جن کے مطابق آپ کا تعلق یہاں کے پر اسرار قبیلے سے ہے، جو ماضی میں اپنی آدم خوری کیلئے بدنام تھا۔‘‘
’’ جی آپ نے صحیح سنا، میرا تعلق اسی قبیلے سے ہے اور یہ فوٹوز میرے آباء و اجداد کے ہیں۔ ان میں وہ اپنی آخری انسانی خوراک کو پکا رہے ہیں۔ آخری اس لئے کہ اس کے بعد انہیں سرکار کی جانب سے بنائے گئے قوانین کا پابند کر دیا گیا تھا۔ جس کی رُو سے کسی بھی انسان کو کھانا، قتل کے زمرے میں شمار ہوتا تھا۔‘‘
’’پھر ان سخت قوانین کے نتیجے میں کیا یہ عادت چھوٹ گئی۔‘‘
’’بہت معذرت کے ساتھ، یہ کوئی عادت نہیں تھی، یہ تو ہماری جبلت میں شامل تھی۔ صدیوں سے جاری آدم خوری آپ کے ڈی این اے تک میں رچ بس جاتی ہے۔ اور اس کی چاٹ نسل در نسل چلتی رہتی ہے۔ کئی لوگوں نے حکم عدولی کی اور موت کی سزا پائی۔ یہاں تک کہ میرے دادا کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔‘‘
’’ سو سیڈ۔ تو کیا اب بھی۔۔ ۔۔‘‘
’’ارے نہیں جناب اب کہاں۔ یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔۔ یقین جانئے کہ میری زبان انسانی گوشت کے چٹک دارسواد سے قطعی انجان ہے۔ ویسے آپ کو ہمارے یہاں کی کافی کیسی لگی۔‘‘
’’بہت بہترین۔ اس ذائقے کی کافی میں نے پہلے کبھی نہیں پی۔ خوشبو بھی لاجواب ہے۔‘‘
’’جی، اس ریسیپی کے موجد میرے والد تھے۔ یہ لیجئے آپ کے انکل کی استھیاں بھی آ گئیں۔‘‘
’’ تھینک یو سو مچ، اس ونڈر فل فیونرل کیلئے آپ کا بہت شکریہ۔۔ ۔ ویسے اگر ایک کپ کافی اور پلا دیں تو بہت عنایت ہو گی۔‘‘
’’ارے جناب عنایت کیسی۔ ابھی لیجئے۔ اب تو آپ سے ملنا جلنا لگا ہی رہے گا۔‘‘
٭٭٭
غبارے
بستی میں بہت چہل پہل تھی مگر اسی کے ایک ہوٹل پر تین غبارے والے اپنے غباروں سے مبرا ڈنڈے، کسی شکست خوردہ سپاہی کی خالی بندوق کی طرح، زمین پر ڈالے سرجھکائے بیٹھے تھے۔
’’اب ہم کیا کریں گے۔‘‘
’’اُس نے رزق کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
’’اب یہاں تو ہمیں روزی ملنے کی نہیں۔‘‘
’’کہیں کسی بچی ہوئی بستی ہی اب ہمیں دو وقت کی روٹی دے سکتی۔‘‘
’’صحیح کہا کوئی بچی ہوئی بستی ہی۔۔ ۔‘‘
’’جہاں کی زمین غبارے نہیں اگاتی ہو۔‘‘
پھر تینوں نے ایک اداسی بھری نظر سامنے موجود سائن بورڈ پر لگے اشتہار پر ڈالی۔ جس پر لکھا تھا۔
’’ضبط تولید کے لئے درکار ضروری اشیاء اب محکمے کی جانب سے سب کو مفت فراہم کی جائیں گی۔ منجانب محکمہ بہبودِ آبادی‘‘
سائن بورڈ کے نیچے بہت سارے بچے غباروں سے کھیل رہے تھے۔
٭٭٭
مکان
اس نئے مکان میں آئے ہمارا دوسرا دن تھا، ہم سے مراد میں اور میرے دو چھوٹے بچے۔ کافی جستجو اور تلاش کے بعد، میں اس مکان کو کھوج پائی تھی۔ شہر کے ہنگاموں سے دور، ایک الگ تھلگ پرسکون علاقے میں واقع یہ مکان، مجھے اور میرے بچوں کو بہت پسند آیا تھا۔ قریب ترین آبادی بھی یہاں سے میلوں دور تھی۔ اور یہی تو ہم چاہتے تھے۔ یہاں آزادی سے میرے بچے گھوم پھر سکتے تھے۔ کوئی ان کو دیکھنے والا، کوئی انہیں تنگ کرنے والا، کوئی انہیں ڈرانے والا نہ تھا۔
گو کہ ہم یہاں شفٹ ہو گئے۔ پر پہلے والے مکان کی یادیں تو بہرحال ہمارے دل میں موجود رہیں گی۔ کیا زبر دست جگہ تھی۔ میرے شوہر نے اسے کھوجا تھا۔ گو کہ یہ دو منزلہ عمارت، جس کی بالائی منزل پر ہم رہتے تھے اور نچلی منزل ایک عرصے سے خالی تھی، سالخوردہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، مگر ہمیں اس کی یہی خامی بہت پسند آئی۔ یہاں پڑوسیوں کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا اور آبادی بھی کافی دور تھی۔ بچے آرام و سکون سے پوری عمارت میں گھومتے رہتے اور چھپن چھپائی جیسا ہمارا خاندانی اور من پسند کھیل کھیلتے رہتے۔
کچھ عرصے بعد اسی مکان میں میرا شوہر بھی مجھ سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گیا تھا۔ وہ گو کہ بڑا مہذب اور شریف تھا۔ مگر اسے لوگوں کو تنگ کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ میں اس کی اس عادت سے سخت خفا رہتی تھی۔ اور اس کو سمجھایا کرتی کہ بیکار کسی کو تنگ نہ کیا کرو۔ پریشان نہ کیا کرو۔ یہ شریفوں کا شیوہ نہیں۔ کبھی کوئی پلٹ کر جواب بھی دے سکتا ہے۔ پر وہ میری سنتا کب تھا۔ اسے اپنے اس اکلوتے شوق میں بہت لطف آتا تھا۔ گو کہ وہ تنگ کرنے سے آگے کبھی نہیں بڑھا، مگر پھر بھی شومیِ قسمت اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑا، جب اس کی حرکتوں پر کسی نے اس کا جواب دیا اور وہ مجھ سے ہمیشہ کیلئے دور چلا گیا۔ نجانے وہ کس جہان میں اور کس عالم میں ہو گا، کسے خبر، کون جانے۔
پھر ایک دن اچانک وہ کڑا وقت آ ہی گیا، جس کو سوچ کر ہی میری روح فنا ہوتی تھی۔ نچلی منزل میں نجانے کہاں سے ایک فیملی آ کر آباد ہو گئی۔ میں نے بچوں کو گھر میں چھپا لیا۔ ان کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی اور ہنگامی بنیادوں پر کسی نئی رہائش کی تلاش شروع کر دی۔
یہاں آ کر ہم سبھی نے سکون کا سانس لیا تھا۔ ہم لمبی لمبی سیروں پر جاتے، پہاڑ چڑھتے، ویرانوں میں گھومتے۔ اور خوب مزے کرتے۔ اسی بے فکری میں کئی مہینے گذر گئے۔ مگر، جب ایک صبح ہم سیر پر نکلے تو پایا کہ آس پاس کے علاقے میں بڑے بڑے ہورڈنگ لگ رہے ہیں۔ زمین کی پیمائش کی جا رہی ہے۔ اور بلڈوزروں کے چلنے سے زمین کانپ رہی ہے۔ اور میں بچوں کو چپکا کر سوچ رہی ہوں کہ اب پھر سے کوئی دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈنا پڑے گا۔
٭٭٭
مرتبان
’’گو کہ صاحب میں بس ابھی دکان بند کرنے ہی والا تھے۔ پھر بھی آپ کا سامان پیک کرتے ہوئے، جلدی جلدی آپ کے سوال کا جواب بھی دیتا جاتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ زلزلہ انتہائی بھیانک تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ زمین سے اٹھتی لہریں سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیں گی۔ جدھر نظریں دوڑائیں، تباہی و بربادی کا عالم تھا، ہر طرف چیخ و پکار تھی، کراہیں تھیں، رونا دھونا تھا۔ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے لوگوں کی پکاریں تھیں۔ قیامت اس سے کیا کم ہو گی؟ ۔۔ ۔ اورجیسا کے آپ دیکھ ہی ہیں کہ میرا ذریعۂ معاش پہاڑی جڑی بوٹیوں اور ان جانوروں پر ہے، جو طبّی نقطۂ نظر سے فائدہ مند ہیں۔ سواس دن بھی میں جنگل میں انہیں کی تلاش میں نکلا ہوا تھا۔‘‘
میں بخوبی جانتا تھا کہ میں کہاں بیٹھا ہوا ہوں اور کس مقصد سے آیا ہوں، پھر بھی غیر ارادی طور پر میری نگاہیں دکان کی اطراف گھوم گئیں۔ نیم تاریکی میں جو کچھ میں دیکھ پایا، وہ تھیں شیشے کے بڑے بڑے مرتبانوں میں بند انواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں، سوکھے کیڑے مکوڑے اور شفاف محلول میں ڈوبے جنگلی جانوروں کے مردہ اجسام۔
’’ زلزلے کے جھٹکے وہاں جنگل میں بھی محسوس ہوئے۔ لیکن اتنے نہیں۔ میں نے اپنی سائیکل اٹھائی اور تیزی سے یہاں آیا۔ میرا مکان بھی ڈھے چکا تھا۔ ممتا سے محروم میرا چھ ماہ کا بچہ اور اس کی خادمہ دونوں ملبے تلے دب چکے تھے۔ میں پاگلوں کی طرح اکیلے ہی ملبہ ہٹانے لگا۔ وہاں میری مدد کرنے والا بھی بھلا کون تھا۔ میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ اس وقت تک اپنے کام میں جٹا رہا، جب تک میں نے اپنے بچے کو ملبے سے نکال نہیں لیا۔‘‘وہ کچھ دیر تک ہاتھ میں موجود گلاب کی خشک پتیوں کو دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا، ’’بس اس دن سے ایسا خوف بیٹھا صاحب کہ اب میں کبھی بھی اپنے بچے کو خود سے جدا نہیں کرتا ہوں۔ اب وہ ہر جگہ میرے ساتھ جاتا ہے، یہاں تک کے جنگل میں بھی۔‘‘
میں سامان لے کر باہر نکلا۔ اتنی دیر میں اس نے بھی شٹر گرا دیا۔ اور سائیکل پر بیٹھ کر مجھے سلام کرتا ہوا، جنگل کی جانب جاتی تنگ پگڈنڈی پر چڑھ گیا۔ اس کی سائیکل کے اسٹینڈ پر ایک مرتبان رکھا ہوا تھا۔
٭٭٭
نئی صبح
موسمِ بہار کے پہلے دن، سُونی، سخت اور بنجر زمین نے، ایک لمبی، مد ہوشی بھری نیند سے بیدار ہو کر، سبز رنگ کے کپڑے پہن لئے۔ موسمِ بہار کی نرم گرم، زندگی بھری اور خوشبودار ہوا، ایک مہربان ماں کی طرح سبھی کو چھوتی ہوئی محسوس ہونے لگی، سبھی کے پھیپھڑوں میں ٹھنڈک سی بھرنے لگی اور دلوں میں چپکے سے اترتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔ سبھی آزادی کی چاہ میں مبہم، پرانے، برسوں کے زنگ میں آلودہ، مگر آزمائے ہوئے، تجر بے کرنے لگے۔
ہنسنے، بولنے کے تجربے۔
ہنسنے دینے، بولتے دینے کے تجربے۔
گانے، گنگنانے کے تجربے۔
گانے دینے، گنگنانے دینے کے تجربے۔
سانس لینے کے تجربے۔
سانس لینے دینے کے تجربے۔
جینے کے تجربے۔
جینے دینے کے تجربے۔
موسمِ بہار کے ہر رنگ کو اپنے اندر سمو لینے کے لئے تجربے۔
نشیلے موسم میں کسی کو ساتھ لے کر، گھومنے کے تجربے۔
گزری سردیاں غیر معمولی طور پر شدید ہونے کی وجہ سے، اس موسمِ بہار کی روح مکمل طور پر نشے میں تھی اور چاہتی تھی کہ سب اُسی کی طرح ہو جائیں۔ وہ ہر سیپ کے اندر کسی موتی کی تشکیل ہوتے دیکھنا چاہتی تھی۔
اس صبح سویرے جاگنے پر، میں نے سب سے پہلے اور بہت عرصے بعد، ایک فرحت بخش انگڑائی لی، پھر اپنی کھڑکی سے باہر دیکھا اور پایا کہ نیلے، شفاف آسمان میں ایک مہربان، گرم، چمکیلا سورج، میرے ہمسایوں کے گھروں کے اوپر، گرمی پھیلاتا ہوا چمک رہا تھا۔ اس کی گرمی میں، کسی باپ کی سی گرم جوشی تھی۔ کھڑکیوں میں لٹکے پردے جھوم جھوم کر لہرا رہے تھے۔ کیوں کہ بادِ نسیما یک رسیلا، میٹھا گیت، مدھر طریقے سے گا رہی تھی اور سڑکوں پر نکل آئے، لوگ مسرور اور شاداں گھوم رہے تھے۔ اور رہی گاڑیوں کی آوازیں، وہ اب سماعتوں پر گراں نہیں رہی تھیں، وہ آوازیں، اب ایک جیوک بوکس میں تبدیل ہو چکی تھیں۔
میں باہر چلا گیا، اپنی روح کو روشن کرنے کے لئے۔
مجھے پتہ نہیں، مگر ایسا تھا ضرور کہ جو مجھ سے ملا، مسکرا کر ملا، یہاں تک کے میرا بد ترین دشمن بھی، اگر اْسے اب بھی دشمن کہا جائے تو۔ محبت کی ہوا، گرم روشنی کو، اپنے جلو میں لئے سبھی تک پہنچ گئی۔ تقریباً سبھی نے ایک زبان ہو کر کہا کہ اب سارے شہر میں محبت کی ہوا بہہ رہی ہے۔ لمبی، اندھیری، سرد راتیں اب قصۂ پارینہ ہیں۔ ان تمام نوجوان عورتوں کو، جنھوں نے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر آئندہ بچے پیدا نہ کرنے کی قسمیں کھائی تھیں، اب جب میں نے اس صبح، انہیں سڑکوں پر دیکھا، تو ان کی آنکھوں کی گہرائی میں پوشیدہ چمک، عزم اور ولولہ تھا۔
میں نے اچانک اوپر دیکھا، سورج میری ہی طرف دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔
٭٭٭
نہاری ہاؤس
انور کی اس نہاری ہاؤس میں اکثر آنے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ یہاں پورے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ لذیذ اور منفرد ذائقے والی نہاری ملتی تھی۔ بلکہ یہاں آنے کی ایک وجہ اس کے کام کے حوالے سے بھی تعلق رکھتی تھی۔ وہ افرادی قوت فراہم کرتا تھا۔ اور اس مد میں کمیشن پاتا تھا۔ اور یہ ہوٹل تو اس کے بڑے کلائنٹ میں شمار ہوتا تھا۔
بڑھتے ہجوم کے باوجود اسے سیٹھ کے کاؤنٹر کے پاس والی ہی میز مل گئی۔ کافی دیر تک جب کوئی آرڈر لینے نہیں آیا تو اس نے سیٹھ کو آواز لگائی۔
’’اورسیٹھ، سناؤ کیا حال چال ہیں، دھندہ کیسا چل رہا ہے۔ مجھے اتنی دیر ہو گئی کوئی آرڈر لینے ہی نہیں آیا۔ ذرا ایک اسپیشل نہاری تو منگوا دو۔‘‘
’’ ارے واہ انور، ایک دم بڑھیا۔ تم سناؤ کیا چل رہا ہے۔ معافی، دیر لگ رہی ہے تمہیں، ادھر چھوکروں کا ذرا مسئلہ ہے۔ کمی چل رہی ہے۔ سالے ٹکتے ہی نہیں۔‘‘
’’ارے کیا سیٹھ وہ جو پچھلے ہفتے آٹھ پہاڑی لڑکے دیئے تھے۔ ان کا کیا ہوا نظر نہیں آ رہے۔ اور لوچا ووچا کچھ نہیں، یہ آج کل کے لڑکے حرام خور ہو گئے ہیں۔ کھانا جانتے ہیں پر کام نہیں ہوتا ان سے۔ خیر میرے ہوتے تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت۔ بولو کتنے لڑکے بھیجوں۔ لڑکوں کی تازہ تازہ کھیپ آئی ہے۔‘‘
’’دس پندرہ تو بھیج ہی دو، ہوٹل کا رش تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔ گراہکی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘‘
’’دس پندرہ؟‘‘ وہ ششدر رہ گیا۔ زیادہ لوگوں کا مطلب، زیادہ کمیشن۔ ہال کی جانب اس کی نظریں غیر ارادی طور پر اٹھ گئیں، ہال معمول کے مقابلے میں دگنا بھرا تھا اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ ’’سیٹھ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔‘‘اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اور بھاری کمیشن کا سوچ کر مسکرا اٹھا۔
’’ہاں، اتنے تو میں مانگتا ہی ہوں۔ اور ہاں پہاڑی چھوکرے ہی لانا۔‘‘
’’پر سیٹھ، وہ تو پھر بھاگ جا۔۔ ۔‘‘اس کے جملہ ادھورا رہ گیا۔ سیٹھ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’بولا نا، اب سے ادھر پہاڑی چھوکرے ہی چلیں گے اور ہاں پہلے کے طرح ہی ہٹے کٹے اور قد آور ہوں۔ اور ہاں، ان کے بھاگنے کی مجھے پرواہ نہیں، تم ہو نا۔‘‘
اس نے اثبات میں اپنی گردن ہلائی، اور اپنی نہاری کی طرف متوجہ ہو گیا۔ گرم گرم نہاری سے اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس نے لوازمات ڈالتے ہوئے، بے قراری سے پہلا نوالہ لیا۔
’’واہ سیٹھ۔ تمہاری نہاری تو دن بدن لاجواب ہوتی جا رہی ہے۔ اب تو گوشت کی بوٹی بھی پہلے سے بڑی دینے لگے ہو، ایک دم رسدار، چربیلی، اور نرم۔‘‘
اس نے نہاری کی تعریف کرتے ہوئے سیٹھ کی جانب دیکھا۔ پر وہ چاروں جانب سے ادائیگی کرتے گاہکوں سے گھرا تھا۔ اس کی نظریں دفعتاً ہال کی جانب اٹھ گئیں، ہال میں اب تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اور ہوٹل کے باہر، اپنی باری کا انتظار کرتے گاہکوں کی طویل قطار دور تک چلی گئی تھی۔
٭٭٭
سیاہ گڑھے
وہ ایک خونی لٹیرا تھا۔ اس کے سر پر انعام تھا، اس کی موت یقینی تھی اور اس وقت وہ کسی انجان راستے پر لگاتار کئی دنوں سے بھاگا چلا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے تھے مسلح سپاہی اور ان کے خونخوار کتے۔ یہ اس کی بقا کا سوال تھا۔ رکنا مطلب موت۔ وہ رک نہیں سکتا تھا۔ مگراسے اچانک رکنا پڑا۔ اچانک سامنے آئے دو گہرے سیاہ گڑھوں نے اس کا راستہ روک لیا تھا۔ وہ ٹھٹک گیا، اس نے ان سیاہ گڑھوں اور ان کو پار کر کے آنے والی گھاٹی میں رہنے والے لوگوں کے متعلق مبہم مگر کچھ پراسرارسا سن رکھا تھا۔ سپاہیوں اور کتوں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں۔ اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ وہ دونوں گڑھوں کے بیچ بنے تنگ راستے پر چڑھ گیا اور جیسے ہی اس کے پار اترا، اس کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اور وہ بیہوش ہو گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو روشن دان سے چھن چھن کر آتی روشنی میں پایا کہ وہ کسی کوٹھری میں بند ہے۔ ابھی وہ صورت حال کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ تبھی کوٹھری کا دروازہ کھلا اور ایک با رعب بوڑھا اندر آیا۔ جو قدیم طرز کا لبادہ پہنے تھا، جس نے اس کا پورا منہ ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ ’’میں معافی چاہتا ہوں میرا قطعی ارادہ یہاں آنے کا نہیں تھا۔ پر میرے پیچھے سپاہی پڑے تھے۔ میں جلد ہی یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘‘
’’اب تک تو ایسا ہوا نہیں کہ کوئی یہاں سے زندہ واپس گیا ہو۔ تم بھی نہیں جا سکو گے۔ کل صبح تمہیں مار دیا جائے گا۔ ویسے بھی واپس جا کر تمہیں مرنا ہی ہے۔‘‘
’’مجھ پر رحم کرو۔ کوئی تو حل ہو گا کہ میں زندہ بھی رہوں اور یہاں بھی رہوں۔ کیونکہ اب میرے لئے واپسی کی راہ مفقود ہو چکی ہے۔‘‘
’’پھر تو ایک ہی حل ہے کہ تم ہمارے جیسے ہو جاؤ۔‘‘
’’تمہارے جیسے؟ میں تمہارا جیسا ہی ہوں۔‘‘
’’نہیں تم ہمارے جیسے نہیں ہو۔ لیکن اگر تم را ضی ہو، ہمارا جیسا بننے پر تو خوش آمدید۔‘‘
’’میں راضی ہوں۔ مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔‘‘ اس نے بیتابی سے کہا۔ ابھی اس کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ گھنٹا بجنے کی تیز آوازیں آنے لگیں۔
’’یہ آواز کیسی؟‘‘
’’اس کا مطلب کہ بارہ بج گئے اور دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا۔ میں تمہارے لئے کھانا لاتا ہوں۔ ویسے یہ گھنٹا صرف دن میں کھانے پر بلانے کیلئے بجایا جاتا ہے۔ جب سب کام پر دور دور ہوتے۔ رات کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
سوچوں میں ڈوبے ہوئے اس نے کھانا کھایا اور کھاتے ہی اس پر غنودگی سوار ہو گئی۔ نیم بیداری، نیم بیہوشی کی حالت میں وہ ایک سپنا دیکھ رہا تھا کہ اس کے پیچھے پیچھے سپاہی اور کتے ہیں اور وہ بھاگتا چلا جا رہا ہے۔ بھاگتے بھاگتے اچانک دو سیاہ گڑھے آ جاتے ہیں اور وہ ان میں گر جاتا ہے۔ اور گرتا چلا جاتا۔ درد کے شدید احساس کے ساتھ گڑھوں کی کبھی نا ختم ہو سکنے والی تاریکی، اسے ڈرا دیتی ہے۔ وہ چیخنا شروع کر دیتا ہے اور ہڑبڑا کر بیدار ہو جاتا ہے۔ کوٹھری میں گھپ اندھیرا تھا۔ اور گھنٹے کی آواز کوٹھری میں گونج رہی تھی۔
٭٭٭
کارنس
’’میں اسے گڑیا سے کھیلنے نہیں دوں گی۔ ‘‘
کمرے کے سناٹے کو چیرتی، تین سایوں میں سے ایک کی سرگوشی ابھری۔۔ ۔۔ ۔۔ اور دلوں میں اتر گئی۔۔ ۔۔
…سنگدلی، سفاکیت، پختہ ارادہ
… تذبذب، نیم دلی، پس و پیش
… مظلومیت، بے بسی، تاریکی
’’چوں چوں چوں ‘‘
’’اس کارنس کو صاف کرو۔۔ ۔۔ سارے گھر کو بھنکا دیا ہے۔ جہیز میں اور تو کچھ لائی نہیں کلموہی، سوائے ان منحوس پرندوں کے۔۔ ۔ ‘‘
… تہمت، بہتان، اتہام
… تردد، نیم رضامندی، فرمانبرداری
… نصیب، قسمت،ا ٓنسو
’’چوں چوں ‘‘
’’بس میں نے کہہ دیا، اس گھر میں گڑیا نہیں آنے دوں گی۔۔ ۔۔ ‘‘
’’میں بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ‘‘
’’میں گڑیا سے ہی کھیلوں گی۔۔ ۔۔ ‘‘
’’چوں چوں چوں ‘‘
’’کارنس سے گند ہٹاؤ ابھی۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘
… بدبو، تعفن، سرانڈ
… قصد، عزم، کار روائی
… چیخیں، سسکیاں، کراہیں
’’چیں چیں چیں ‘‘
’’چیں چیں چیں ‘‘
خون، سفیدی، زردی
زردی، سفیدی، خون
٭٭٭
الگنی کی تلاش میں بھٹکتا پیار
’’جھاگ نہیں بن رہا۔ ‘‘
’’تھوڑا پاؤڈر اور ڈالو نا۔ ‘‘
’’بہت جھاگ بن جائے گا۔ ‘‘
’’تمہارا کیا جاتا ہے۔ ‘‘
’’میرا کیا جائے گا؟ میرا ہی تو جاتا ہے۔۔ ۔ اچھا اسے بھی دھو ڈالو، اوراسے بھی۔ ‘‘
’’جھاگ مر جائے گا۔۔ ۔ ‘‘
’’کام چل جائے گا۔ ‘‘
’’بہت مشکل ہے۔ ویسے بھی الگنی چھوٹی ہے۔ ‘‘
’’الگنی بڑی کئے دیتا ہوں۔ ‘‘
’’مگر جھاگ کا کیا؟ اور اب پاؤڈر بھی نہیں۔ ‘‘
’’تم کیا ان سے دھوتی ہو۔ ‘‘
’’کون میں؟ اور کس سے بھلا۔ تم کیا سمجھے ؟‘‘
’’میں سمجھا۔۔ ۔۔ ‘‘
’’کیا سمجھے؟‘‘
’’ارے جھاگ نیچے گر رہا ہے۔ ‘‘
’’کچھ نہیں، لاؤ کیا دھونا ہے، کیا زندگی؟‘‘
’’رائیگاں گئی۔ ‘‘
’’قسمت؟‘‘
’’وہ تو پھوٹی نکلی۔ ‘‘
’’روپیہ پیسہ۔ ‘‘
’’ہاتھوں کا میل تھا۔ سو اتار پھینکا۔ ‘‘
’’تو جوانی۔ ‘‘
’’اسے ادھار پر لیا تھا، واپس کر دی۔ ‘‘
’’عزت۔ ‘‘
’’ٹکے بھاؤ بیچ دی۔ ‘‘
’’شہرت۔ ‘‘
’’بہت داغدار ہے۔ تمہارے بس کی بات نہیں۔ ‘‘
’’پھر حوصلے کا کیا۔ ‘‘
’’ماند پڑ گیا۔ ‘‘
’’اور جذبات۔ ‘‘
’’ان کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔ ‘‘
’’حسن ہی سہی۔ ‘‘
’’اب کہاں، ناپید ہو چکا۔ ‘‘
’’بشاشت۔ ‘‘
’’اس پر حالات کا پکا رنگ چڑھ چکا ہے۔ اب یہ نہ اترے گا۔ ‘‘
’’تو پھر اپنی کھال ہی اتار کر دو۔ ‘‘
’’کئی بار اتاری جا چکی، اب اتاری تو پھٹ جائے گی۔ ‘‘
’’جب کچھ دھلوانا ہی نہیں تو اتنا جھاگ کیوں بنوایا؟‘‘
’’پیار کو جو دھلوانا تھا۔ ‘‘
’’فقط ایک پیار کو؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’پکا۔ ‘‘
’’پکا اور ہاں خوب رگڑ رگڑ کر دھونا اور اچھی طرح نچوڑنا۔ ‘‘
’’ارے کتنا گندہ ہے۔ ‘‘
’’ہاں صدیوں سے یونہی جو پڑا تھا، کسی الگنی کی تلاش میں۔ ‘‘
٭٭٭
بیر بہوٹی کی تلاش میں
میں بیر بہوٹی کی تلاش میں تھا۔
کہاں کہاں نہیں بھٹکا۔
نامعلوم اور خوابیدہ عدم کو ممکنات میں لے آیا۔
ساتوں آسمان، تمام جنتیں، سارے جہنم۔
یہاں تک کہ تخلیق کی دیوار گریہ تک بھی جا پہنچا۔
چیخوں اور کراہوں کی موسلادھار بارش کی پھسلن کو ان دیکھا کر کے۔
نا امیدی کے بھنور میں امید کے پر لگا کر
روح کی بے کسی کو متاعِ عزیز جان کر
بدن کی شکستگی و کہنگی کو مومیائی بنا کر
نفس کی منہ زوری کو لگام ڈال کر
ہر خواہش، ہر امید، ہر تمنا، ہر چاہت کو پیچھے دھکیلتے۔۔ ۔۔
فقط بیر بہوٹی کو پانے کی چاہ میں۔۔ ۔۔ ۔
ایک جھلک دیکھنے کی آرزو میں۔۔ ۔۔ ۔
میں دیوار پر چڑھ گیا۔ اور اب میرے سامنے تھے، تمام مناظر، تمام موجودات۔۔ ۔ ساحل پر پڑی کسی مردہ سیپ کی مانند۔۔ ۔ بے ٹھور۔۔ ۔ بے سدھ۔۔ ۔ بے بال وپر۔۔ ۔ بے پا۔۔ ۔۔ بے بود۔۔ ۔ مگر بیر بہوٹی۔۔ ۔ بیر بہوٹی کہاں تھی۔۔ ۔
کسی نے مجھ سے کہا تھا۔۔ ۔
’’ اس کی تلاش تو بہت آسان ہے۔۔ ۔
اسے پانی کی تلاش ہے۔۔ ۔۔
توُ اسے پانی کی بھینٹ دے اور وہ تجھے مل جائے گی۔۔ ۔ ‘‘
پر میں نہ مانا۔ میں مان بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں تھی۔
’’پانی جیسی حقیر شے۔۔ ۔ مجھے بیر بہوٹی کے شایانِ شان نہیں لگتی۔۔ ‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ تُو ماننے والا نہیں۔۔ ۔ اگر ماننے والا ہوتا تو بھلا بیر بہوٹی کی تلاش ہی کیوں ہوتی تجھے، وہ خود تجھ تک پہنچ جاتی۔ جا پھر اسے اپنے طریقے سے تلاش کر۔ ‘‘
سوچوں کو پرے ڈال کر میں دیوار سے نیچے اترا۔۔ ۔۔ اور بڑبڑایا، ’’اگر اسے پانی کا ہی تحفہ دینا ہے تو یہ پھر میرے مطابق ہو گا۔۔ ۔ ’’میں ‘‘۔۔ ۔ میں ہوں۔۔ کوئی مشت غبار تو نہیں ہوں۔۔ ‘‘
اب میں ساتوں سمندروں کی جستجو میں تھا۔ بیر بہوٹی کے لئے، اس کی شان کے مطابق، تحفے کی تلاش میں۔۔
اور
وہیں دور کہیں، کسی سوکھے صحرا میں لب دم کوئی شخص، اپنی بے بسی پر بے اختیار رو پڑا۔۔ اسکی آنکھوں سے چند قطرے گرے۔۔ ۔ اور ریت میں جذب ہو گئے۔۔ ۔
بہر بہوٹی کو اس کی بھینٹ مل گئی تھی۔۔ ۔۔ ۔
٭٭٭
سوراخ
’’پڑوسیوں اور میرے بیچ میں یہی ایک دیوار حائل ہے۔ اسی دیوار میں وہ آرپارسوراخ ہے۔ جس سے میں ان کی جانکاری لیتی رہتی تھی۔۔ ۔۔ ۔ جی، صرف جانکاری ہی۔ مگر آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں کہ جیسے مجھے کن سوئیاں اور ٹوہ لینے کی پرانی عادت ہے۔ ارے نہیں۔۔ ۔ خیر چلئے ہیں یہ میرے منورنجن کے اکلوتے سہارے۔۔ جستجو کا سامان۔۔ ۔ ٹوہ کا ذریعہ۔۔ ۔ مجھ سی بے بس، لاچار، زمانے کی ٹھکرائی اس بڑھیا کی اکلوتی تفریح۔۔ ۔ اب اس کے سوا اور کروں بھی کیا۔ ویسے بھی اگر میں یہ سب نہیں کرتی تو کیا آپ اس وقت میرے پاس ہوتے ؟ بولئے نا؟ خیر، تومیں گھنٹوں اپنی ایک آنکھ میچ کر دوسری جانب دیکھتی رہتی کہ پڑوسن کیا کر رہی ہے، اس کا شوہر کیا کر رہا ہے۔ کیا پک رہا ہے، کیا کھایا جا رہا ہے، کیا پھینکا جا رہا ہے۔ ان کے بیچ لڑائی جھگڑا کیوں بڑھتا جا رہا ہے۔ ہا تھا پائی تک بات کیوں پہنچ رہی وغیرہ وغیرہ۔ میرا یقین کیجیے۔۔ یہ سب دیکھ کر مجھے ایسا لطف ملتا کہ ایسا تو اپنی جوانی کے دنوں میں سنیما دیکھ کر بھی نہیں ملتا تھا۔۔ ۔ اس سوراخ سے میں اتنا کچھ دیکھ چکی ہوں کہ ہزاروں کہانیاں آپ کو ابھی ابھی سنا دوں۔ مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کی دلچسپی کا محور، فقط وہ آخری واقعہ ہی ہے۔۔ ۔ تو جناب جیسا میں نے کہا کہ ان کے بیچ ہا تھا پائی ہوناروز کا ہی معاملہ بن گیا تھا۔ اس رات بھی جب یہ سب کچھ شروع ہوا تو میں نے دیکھا کہ پڑوسی نے دیوار سے چپکی، ڈری سہمی اپنی بیوی پر، لوہے کی سلاخ اس زور سے پھینکی کہ وہ اس کی گردن کے آر پار ہوتے ہوئے دیوار میں بہت گہرائی تک دھنس گئی۔۔ ۔۔ تو جناب یہ تھا وہ پورا واقعہ۔۔ ۔۔ ویسے میرا تو بہت نقصان ہو گیا، دیکھئے اب دوسرے پڑوسی کب آتے ہیں اور کب مجھے اپنی اس اکلوتی تفریح کو کرنے کا موقع ملتا ہے۔۔ ۔۔ ہاں ان سب میں ایک فائدہ البتہ ضرور ہوا کہ اب مجھے سوراخ سے دیکھنے کیلئے اپنی ایک آنکھ بند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ ‘‘
٭٭٭
پچاس چھ لفظی کہانیاں
۱۔ پاکستان خدا ہی چلا رہا ہے۔
۲۔ استاد، دارُو، چرس سب چلیں گی۔
۳۔ تمہارا مضارع ہونا، اُنہیں منظور نہیں۔
۴۔ کاش! تم بھی کسٹم میں ہوتے۔
۵۔ آفیسر کھڑوس ہے، لاکھ مانگتا ہے۔
۶۔ آفیسر گرائیں تھا، سو بچ گیا۔
۷۔ انٹلیکچوئل نے ملک ٹھکانے لگا دیا۔
۸۔ یہاں پارسل کا خاص انتظام ہے۔
۹۔ تُو تو چلتی پھرتی بم ہے۔
۱۰۔ پڑھ کر کیا صاحب بننا ہے؟
۱۱۔ ہم نل کا پانی پینے والے۔
۱۲۔ غریب بچوں کے ساتھ نہیں کھیلو۔
۱۳۔ پڑھنے جاتے ہو یا سیاست کرنے؟
۱۴۔ رشوت نہیں، آج میرا روزہ ہے۔
۱۵۔ ’ایم اے ‘ کر کے بھی دبوں گی؟
۱۶۔ بڑی بے حیا ہے، گھونگھٹ نہِیں نکالتی۔
۱۷۔ کیا کہا! لڑکا سید نہیں ہے؟
۱۸۔ اپنے سامان کی خود حفاطت کریں۔
۱۹۔ ایک گولی ساری عمر کیلئے کافی۔
۲۰۔ کولہو کے بیل کو دِکھتا نہیں۔
۲۱۔ گاؤں میں عزت ملی، روٹی نہیں۔
۲۲۔ کتابی کیڑا، کتاب میں مرگیا۔
۲۳ بھوک سے مرا، گولی سے نہیں۔
۲۵۔ بیٹوں سے ماں نہ پل پائی۔
۲۶۔ زمیں بیچی، گاؤں سے نکل گیا۔
۲۷۔ آخری بوری کھیت میں بکھیر دی۔
۲۸۔ مچھر مارنے کیلئے، گلوب ہونا چاہئے۔
۲۹۔ بیٹا پڑھنے جانا، لڑکیاں پھنسانے نہیں۔
۳۰۔ کامیاب لیڈروں کا، سر کڑھائی میں۔
۳۱۔ اسے تندرست بیلوں کے سپنے آئے۔
۳۲۔ ’’فیس بک‘‘ تو پوری پڑھی، مگر فیل۔
۳۳۔ مزدوری چھوڑو، دلالی کروں، نوٹ چھاپو۔
۳۴۔ دانت نہ آنت، پر دل جوان۔
۳۵۔ بچے بھوکے تھے، ماں بے گھر تھی۔
۳۶۔ زندگی، کہانی ہوتی تو ایڈٹ کرتے۔
۳۷۔ بیٹے نے سیکھا، ماں بھولی چلنا۔
۳۸۔ وہ خاموش رہا، خاموشی بولتی رہی۔
۳۹۔ چلنے سے پگڈنڈی بنی، منزل ملی۔
۴۰۔ آخری سگریٹ بھی پھونک ڈالی ہے۔
۴۱۔ جیون کی پوٹلی، سکھ سے خالی!
۴۲۔ چھتری کھولو، بارش ہونے والی ہے۔
۴۳۔ وہ لانگ بوٹ کیوں پہنتا ہے؟
۴۴۔ روٹی تھی، نمک تھا، ذائقہ تھا۔
۴۵۔ گھر چھوٹا نہیں، ساتھ چلتا رہا۔
۴۶۔ سامان کم تھا، سفر آسان تھا۔
۴۷، کچھ کہوں؟ نہیں۔ گفتگو ہوتی رہی۔
۴۸۔ دیوار ٹوٹتی تو گھر بن پاتا۔
۴۹۔ قاتل مجھے مار کر بہت پچھتایا۔
۵۰۔ پتنگ اڑی، کٹی۔ رنجیدہ ہوا آکاش۔
٭٭٭
چودہ تیس لفظی کہانیاں
پاک انڈین بارڈر
’’سنو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کل چکن بریانی بڑھیا تھی۔‘‘
’’تمہاری دارو بھی لاجواب۔‘‘
’’لیکن آج ذرا سنبھلنا۔‘‘
’’کیوں۔‘‘
’’نیا افسر آیا ہے۔‘‘
’’میرا بھی۔‘‘
’’تو آج فقط دال۔‘‘
’’اور ادھر بس پانی۔‘‘
٭٭٭
ان حسینوں نے اجاڑی ہیں بستیاں
کسی پہاڑی پر رہتے تھے چند بے فکر سجن۔ چاروں جانب ان کی آوازیں اور قہقہے سنائی دیتے۔ پھر وہاں ایک خوبصورت عورت گئی۔ اب سنا ہے وہاں فقط الو بولتے ہیں۔
٭٭٭
گرم خون، ٹھنڈا پانی
’’ناس پیٹی، خون بہت گرم ہو گیا ہے تیرا۔ سارے خاندان میں ناک کٹوا دی۔ کنوئیں میں کود کر مر جا۔‘‘ ماں چلائی۔
’’کود جاتی ماں، پر پانی بہت ٹھنڈا ہے۔‘‘
٭٭٭
سب کچھ کھا گئے ختم کہانی
’’ایک تھا راجا، ایک تھی رانی، دونوں مر گئے، ختم کہانی۔‘‘دادی بولیں۔
’’ایک تھا راجا، ایک تھی رانی، سب کچھ کھا گئے، ختم کہانی۔‘‘ پوتا ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا۔
٭٭٭
فیس بک کا جنازہ
والد صاحب کی موت والی پوسٹ پر ہزار لائیکس اور دو سو کمنٹس آئے۔ کیا بات ہے میری۔ ہاں بس، جنازہ ذرا سُونا رہا، ملازمین لے کر دس افراد تھے۔
٭٭٭
دان
مندر میں لاکھوں کا دان چڑھا کر سیٹھ نیچے اترا تو سائیکل رکشے والا رک گیا۔
’’کیا لو گے۔‘‘
’’دس۔‘‘
’’منہ کو حرام لگا ہے، پانچ دوں گا، چلے گا۔‘‘
٭٭٭
بے زبان مخلوق
’’کون تھا۔‘‘
’’بھکاری تھا۔‘‘
’’کیا بولتا تھا۔‘‘
’’روٹی کا سوال کیا۔‘‘
’’ہڈ حرام ہیں سب۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’ٹامی کی خبر۔‘‘
’’دودھ، ملائی، گوشت دے دیا۔‘‘
’’خیال رکھا کرو۔ بیچاری، بے زبان مخلوق ہے۔‘‘
٭٭٭
انکریمنٹ
خبریں رکیں تھیں۔۔ انکریمنٹ جو رکا تھا۔۔ ۔
پھر اچانک انکریمنٹ کا اعلان ہوا۔۔ ۔
خبریں خوشی خوشی چل پڑیں۔۔ ۔
ایمرجنسی کی
نا انصافی کی
قتل کی
اغواء کی
سازشوں کی
فراڈ کی۔۔۔۔
٭٭٭
بوتل سلامت ہے
ٹکر زور کی لگی۔
گھٹنا گیا۔ اوپر سے گالیاں بھی ملیں۔
’’سالا، شرابی، اندھا۔‘‘
وہ خاموش رہا۔ بس جیب ٹٹولی، بوتل سلامت پا کر خوش ہوا اور لنگڑاتا چل دیا۔
٭٭٭
اندھیرا
روشنی مدھم ہوئی، نا انصافی کا اندھیرا بڑھا۔ اجالے اسے ڈرانے لگے۔۔ ۔۔ کب، کہاں، کیا ہو جائے۔۔ ۔۔ کچھ نہیں پتا۔۔ ۔۔ بہت سوچا۔۔ ۔ غور کیا۔۔ ۔۔ پھڑپھڑایا۔۔ ۔۔ تلملایا۔۔ مگر پھر اندھیرا راس آ گیا۔
٭٭٭
بات نہیں کرنی
’’ہیلو‘‘
’’کیا علی ہیں۔‘‘نسوانی آواز ابھری۔
’’وہ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’آپ کون؟‘‘
’’ نائلہ، ان کی بیوی۔ آپ کا نام؟‘‘
’’نہیں، اب مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ انداز غصیلا تھا۔
٭٭٭
روشن کوٹھی کے کالے دل
’’بڑی عالیشان کوٹھی ہے، روز روشنیوں سے چمکتی رہتی ہے۔‘‘
’’یہ تو ہے۔‘‘
’’چپا چپا روشن ہے۔‘‘
’’ سو تو ہے، لیکن مکینوں کے دلوں کے اندر گھپ اندھیرا پھیلا ہے۔‘‘
٭٭٭
خوبصورتی کی قیمت
پتے حاسد ہوئے۔۔
پھولوں نے سمجھایا، ’’ خوبصورتی کی ایک قیمت ہے۔ مثلِ طوائف دکانوں میں سج کر۔۔ چند روپیوں کے بدلے۔۔ ۔ بانہوں، گلوں میں لپٹو۔۔ پھر مسل کر۔۔ ۔ دھتکارے جاؤ۔‘‘
٭٭٭
سیٹھ کا کتا
(اردو کا پہلا ون ایکٹ تیس لفظی ڈرامہ)
منظر: ( جھونپڑے میں ماں، بچے )
بچہ: ’’اگلا جنم ہوتا ہے؟‘‘
ماں: ’’ہاں‘‘
بچہ: ’’کچھ بننے کی دعا مانگو؟‘‘
ماں: ’’ضرور‘‘
بچہ: ’’ سیٹھ کا کتا بننا چاہوں گا‘‘
(پردہ گرتا ہے )
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں