فہرست مضامین
ظل محمَّدِی
عرف
امامت محمَّدِی
مولانا محمد جونا گڑھی
حضرات!
مولانا محمد صاحب رحمہ اللہ کا زیر نظر مضمون سب سے پہلے اخبار”محمدی” دہلی کے شمارہ 13 جلد 16میں 15 مارچ سنہ 1943ء کو شائع ہوا تھا۔
دوسری بار یہی مضمون ایک رسالے کی شکل میں بنام” ظل محمدی عرف امامت محمدی” اشاعت پذیر ہوا۔
عوام کی آگاہ کے خیال سے اب اسے پھر شائع کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ نقلی اماموں کی ہوس کاریوں کا شکار نہ ہوں۔
وَمَا تَوفِیقِی اِلَّا باللہِ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نَحمَدُہ وَ نُصَلِّی عَلیٰ رَسُولِ الکَرِیم۔
اس سے پہلے اخبار محمدی کے نمبر ۳ جلد ۱۴ میں ایک بسیط مضمون اسی مسئلے پر نکل چکا ہے اور اس سے پہلے بھی دو مضمون اسی مسئلے پر "محمدی” میں اور بھی شائع ہو چکے ہیں۔ جن مقامات میں امامت کا وبائی کیڑا اب تک پیدا نہیں ہوا وہ حضرات اس مضمون کی اہمیت کا احساس گونہ کریں لیکن جہاں یہ فتنہ پیدا ہو چکا ہے وہاں کے اصحاب خوب جانتے ہیں کہ اس کے شعلے کس قدر بلند ہو چکے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے کس قدر افتراق اور شقاق جماعت میں رونما ہو گیا ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ مدعیان امامت کے خلاف دلائل کا ایک بیش قیمت ذخیرہ دنیا کے سامنے پیش کر دیں۔ لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَن بَیِّنَۃ وَیَحْیَىٰ مَنْ حَیَّ عَن بَیِّنَۃ تاکہ ہر شخص اپنے لئے راستہ صاف کر لے اور جو حق پر قائم رہے وہ بھی بدلائل اور جو باطل پر مرنا چاہے وہ بھی بعد از دلائل گو اس سے پہلے کے تین نمبروں میں بہت سے دلائل آ چکے ہیں لیکن آج میں انشاء اللہ آپ کو صرف وہ حدیثیں سناؤں گا جو اس مسئلے کو ایسا صاف کر دیں جس کے بعد کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے۔ وَالتَّو فیقُ بِیَدِاللہِ۔
1۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ : ” مَا مِنْ أُمَّتِی أَحَدٌ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِینَ، النَّاسِ، شَیْئًا لَمْ یَحْفَظْہُمْ بِمَا یَحْفَظُ بِہِ نَفْسَہُ وَأَہْلَہُ، إِلا لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃ الْجَنَّۃ ”
المعجم الصغیر للطبرانی » بَابُ الْمِیمِ » مَنِ اسْمُہُ مُحَمَّدٌ
رقم الحدیث: 919
المعجم الأوسط للطبرانی » بَابُ الْمِیمِ » مَنِ اسْمُہُ : مُحَمَّدٌ
رقم الحدیث: 7795
"یعنی میری امت میں سے جو بھی مسلمانوں کے کسی امر کا والی بنے، پھر جس طرح وہ اپنے آپ کو اور اپنی اہل و اعیال کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح مسلمانوں کی حفاظت نہ کرے تو اسے جنت کی خوشبو تک نہ ملے گی۔ ”
پس معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے امام امیر اور خلیفہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال اور مسلمانوں کی حفاظت پر اور انہیں دشمنان دین کی ایذاؤں اور ان کی ماتحتی سے بچانے پر قادر ہو اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ جنت سے محروم ہے۔
اگر وہ امامیہ ہمیشہ یہ حدیث پیش کرتا رہتا ہے کہ تم میں سے کوئی رات نہ گزارے، صبح نہ کرے، شام نہ کرے، مگر اس حالت میں کہ اس کا امام ہو۔
یاد رہے کہ اول تو اس حدیث کے شروع میں ہے مَنِ استطاع یعنی جسے طاقت ہو وہ ایسا کرے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں غیر مسلم حکومت ہے اس لئے جس طرح اس حکومت سے جہاد کی طاقت سردست ہم میں نہیں اسی طرح ان کی حکومت میں رہتے ہوئے اپنی سلطنت یعنی خلافت و امارت قائم کرنے کی بھی طاقت ہم میں نہیں۔ پس ہم من استطاع میں سردست داخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ وقت جلد لائے۔
دوسرے اس روایت میں ہے
2۔ وَلَکِنِّی أَکْرَہُ أَنْ أُبَایِعَ أَمِیرَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلَى أَمِیرٍ وَاحِدٍ
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَۃ الْمُبَشَّرِینَ بِالْجَنَّۃ۔ .. » بَاقِی مُسْنَد المُکْثِرِینَ مِنَ
الصَّحَابَۃ » مسْنَدُ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ۔ ..
رقم الحدیث: 11030
یعنی دو اماموں سے بیعت کرنا حرام ہے جب تک ایک امام کی بیعت پر تمام مسلمانوں کا اجتماع نہ ہو جائے تب تک بیعت کرنا ہی مکروہ ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے کہ جب دو اماموں کے لئے بیعت کی جائے تو ان دونوں میں سے پچھلے کو قتل کر دو۔ اس لئے ٹھیک بات تو یہ ہے کہ موجودہ ہندوستانی دعویدارانِ امامت پہلے آپس میں نمٹ لیں یہاں تک کہ ایک رہ جائے۔
تیسرے یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کا راوی بشیر بن حرب ہے۔
راوی کا حکم یہاں دیکھیں۔
عن عمرو البکالی قال : سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم یقول
” إِذَا کَانَ عَلَیْکُمْ أُمَرَاءُ یَأْمُرُونَکُمْ بِالصَّلاۃ وَالزَّکَاۃ وَالْجِہَادِ، فَقَدْ حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ سَبَّہُمْ، وَحَلَّ لَکُمُ الصَّلاۃ خَلْفَہُمْ ”
المعجم الکبیر للطبرانی » بَابُ الْوَاوِ » وَائِلُ بْنُ حَجَرٍ الْحَضْرَمِیُّ القیل » بَابٌ
رقم الحدیث: 13581
"یعنی جب تم پر ایسے امیر امام ہوں جو تمہیں نماز کا، زکوٰۃ کا اور جہاد کا حکم دیں تو اس وقت ان کو برا کہنا تم کو حرام ہو گا اور ان کی اطاعت تمہارے لئے حلال ہو گی۔ ”
معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم نہ دینے والے اماموں کو برا کہنا اور ان کی اطاعت نہ کرنا شرعیت کا حکم ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ نماز و زکوٰۃ کا حکم بھی مثل نہتے بے قدرت لوگوں کو دنیا مراد نہیں۔ بلکہ امام ڈنڈے کے زور سے زکوٰۃ اور جہاد قائم رکھے گا اور جو ایسا نہ کر سکے وہ شرعاً امامت کا اہل نہیں۔
اس امامت بمعنی امارت و خلافت کے فرائض منصبی بھی بذبان رسول معظم معصومﷺ سن لیجئے :
3۔ زرین جییش قال انی سمعت رسول اللہ یقول۔
فَأَمَّا الْبَرَّۃ فَتَعْدِلُ فِی الْقَسْمِ، وَیُقْسَمُ بَیْنَکُمْ فَیْأکُمْ بِالسَّوِیَّۃ
المعجم الکبیر للطبرانی » بَابُ الظَّاءِ » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِی حَدِیثِ عَبْدِ اللَّہِ۔ .. » وَخَالَفَہُمْ إِسْرَائِیلُ
رقم الحدیث: 10067
"یعنی نیک امامت وہ ہے جو عدل و انصاف کے ساتھ تقسیم کرے اور مال غنیمت وفے کو تم میں برابری کے ساتھ بانٹ دے۔ ”
لیکن موجودہ دعویدارانِ امامت تو کفر کے غلام ہیں نہ یہ جہاد کر سکیں نہ ان کے ہاتھ اسلام سے برسرِ پیکار آنے والے کافروں کے مالِ غنیمت آئیں نہ انہیں تقسیم کی ضرورت پس منصب امامت کے لائق یہ ہرگز نہیں اس لئے کہ فرائض امامت ان کے بس کے نہیں6۔
4۔ عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ قَا لَ قَالَ رَسولَ اللہِﷺ:
سیکون أمراء من بعدی یأمرونکم بما تعرفون ویعملون ما تنکرون فلیس أولئک علیکم بأئمۃ
مجمع الزوائد، الصفحۃ: 5/230
"یعنی میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو تمہیں تو وہ حکم کریں گے جو تم جانتے ہو( یعنی اپنے حقوق تم سے طلب کریں گے وغیرہ) لیکن خود وہ کریں گے جس سے تم انکاری ہو(یعنی فرائض امامت ادانہ کریں گے یا نہ کر سکیں گے ) یاد رکھو یہ تمہارے امام نہیں۔ ”
پس آج کل کے موجودہ مدعیان امامت خواہ ہندوستان وغیرہ کے کسی حصہ کے ہوں ان کی امامت کے ماننے سے اللہ کے رسولﷺ ہمیں منع فرماتے ہیں۔ صاف ارشاد ہے کہ یہ لوگ امام نہیں۔
5۔ عن عَلَى عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ
” لَا یَحِلُّ لِلْخَلِیفَۃ مِنْ مَالِ اللَّہِ إِلَّا قَصْعَتَانِ : قَصْعَۃ یَأْکُلُہَا ہُوَ وَأَہْلُہُ، وَقَصْعَۃ یَضَعُہَا بَیْنَ یَدَیْ النَّاسِ ”
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَۃ الْمُبَشَّرِینَ بِالْجَنَّۃ۔ .. » مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ
رقم الحدیث: 565
"یعنی امام و خلیفہ کے لیے اللہ کے مال (یعنی بیت المال) میں سے صرف دو پیالوں (برتنوں ) کے سوا اور کچھ حلال نہیں۔ ایک برتن اپنے اور اپنے گھر والوں کے کھانے پینے کے لیے دوسرا برتن مہمان کے سامنے رکھنے کے لئے۔ ”
یہ بھی یاد رہے کہ یہ چیز بھی امام کی ملکیت نہیں۔ چنانچہ جب امام اوّل خلیفۃ المسلمین امیر المومنین صدیق اکبر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انتقال کا وقت آتا ہے تو آپ اپنی صاحبزادی امَّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں بیت المال کی ہیں انہیں مربے بعد بیت المال میں داخل کرا دینا:
6۔ فإنا کنا ننتفعبذلک حین کنا نلی أمر المسلمین
المعجم الکبیر » العشرۃ المبشرون بالجنۃ، رقم: 38
"کیوں کہ ان سے نفع اٹھانے کے حقدار ہم وہیں تک تھے جب تک مسلمانوں کے کام کے ہم ولی تھے۔ ”
لیکن آج کل تو آپ جانتے ہوں گے کہ موجودہ امامت تو ہے ہی صرف ٹکے رولنے کے لیے۔ چنانچہ مدعی امامت علاوہ نقدی کے ہزار ہا روپے کی غیر منقول جائیدادیں اور زمینیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔
7۔ عن سعد بن تمیم قال : قلت یا رسول اللہ مَا لِلْخَلِیفَۃ بَعْدَکَ ؟ قَالَ : ” مَا لِی مَا رَحِمَ ذَا الرَّحِمِ، وَأَقْسَطَ فِی الْقِسْطِ، وَعَدَلَ فِی الْقِسْمَۃ ”
المعجم الکبیر للطبرانی » بَابُ السِّینِ » سَعْدُ بْنُ تَمِیمٍ أَبُو بِلالٍ السَّکُونِیُّ، رقم الحدیث: 5324
"حضرت سعد پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ! آپ کے بعد جو خلیفہ اور امام ہو اس کا حق کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرا ہے جب تک کہ قابل رحم لوگوں پر رحم کرے، انصاف اور عدل کا دامن نہ چھوڑے اور مسلمانوں میں (مال غنیمت وغیرہ) کی تقسیم عدل کے ساتھ کرے۔ ”
مسلمانو! بتلاؤ کہ یہ تہی دست غلامانِ کفر نہ تو مظلوموں کی امداد پر قادر ہیں نہ ان کے گھر عدالتیں ہیں، جن میں یہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں نہ یہ کافر سلطنتوں سے جہاد کر سکتے ہیں جس کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کا وقت آئے۔ پھر یہ امامت ہے یا قیامت؟
8۔عَن اَبِی بَکرِ اَنَّ رَسولَ اللہِﷺ قَالَ ” مَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِینَ شَیْئًا، فَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ أَحَدًامُحَابَاۃ، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃ اللَّہِ، لَا یَقْبَلُ اللَّہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، حَتَّى یُدْخِلَہُ جَہَنَّمَ”
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَۃ الْمُبَشَّرِینَ بِالْجَنَّۃ۔ .. » مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ » مُسْنَدُ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ۔ ..
رقم الحدیث: 21
"یعنی جو شخص مسلمانوں کے کسی کام کا والی ہو پھر ان پر کسی کو امیر و امام بنا لے محض اس کی محبت کی وجہ سے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ نہ اس کے فرائض قبول نہ نوافل وہ جہنمی شخص ہے۔ ”
موجودہ زمانے کے وہ دعویدارانِ امامت جو اپنے بعد یہ منصب اپنے فرزندوں کو محض اپنی محبت کی وجہ سے سونپ کر گئے ہیں اللہ جانے کے اللہ کے ہاں ان کا کیا حال ہو گا؟
9۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ” لا تَقُومُ السَّاعَۃ حَتَّى یَبْعَثَ اللَّہُ أُمَرَاءَ کَذَبَۃ، وَوُزَرَاءَ فَجَرَۃ، وَأُمَنَاءَ خَوَنَۃ، وَقُرَّاءً فَسَقَۃ سِمَتُہُمْ سِمَۃ الرُّہْبَانِ، وَلَیْسَ لَہُمْ رَغْبَۃ، أَوْ قَالَ : لَیْسَ لَہُمْ رَعْبَۃ أَوْ قَالَ : رَعَۃ فَیُلْبِسُہُمُ اللَّہُ فِتْنَۃ غَبْرَاءَ مُظْلِمَۃ یَتَہَوَّکُونَ فِیہَا تَہَوُّدَ الْیَہُودِ فِی الظُّلَمِ ”
البحر الزخار بمسند البزار » البحر الزخار مسند البزار » مُسْنَدُ معاذ بْن جبل رضی اللہ عَنْہُ۔ » أَوَّلُ الْخَامِسِ وَالْعِشْرِینَ، واللہ المعین من۔ ..
رقم الحدیث: 2311
"یعنی قیامت قائم ہونے سے پہلے جھوٹے امیر و امام، بدکار وزیر خیانت کار اور فاسق قاریوں کا ہونا ضروری ہے۔ ان کی حالت ظاہری تو عیسائیوں کے درویشوں کی سی ہو گی۔ لیکن نہ انہیں رغبت ہو گی نہ ان کی رعیت ہو گی نہ وہ پرہیز گار ہوں گے۔ ان پر فتنے نازل ہوں گے جو غبار آلودہ اندھیریوں والے ہوں گے جن میں وہ مثل یہودیوں کے حیران و سرگرداں رہیں گے۔ ”
10۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ : ” یَکُونُ عَلَیْکُمْ أُمَرَاءُ ہُمْ شَرٌّ عِنْدَ اللَّہِ مِنَ الْمَجُوسِ
المعجم الصغیر للطبرانی » بَابُ الْمِیمِ » مَنِ اسْمُہُ مُحَمَّدٌ
رقم الحدیث: 1015
"یعنی تم پر ایسے امام ہوں گے کہ جو مجوسیوں سے بدتر ہوں گے۔ ”
11۔ عَنْ أَبِی بَرْزَۃ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ” إِنَّ بَعْدِی أَئِمَّۃ، إِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ أَکْفَرُوکُمْ، وَإِنْ عَصَیْتُمُوہُمْ قَتَلُوکُمْ : أَئِمَّۃ الْکُفْرِ، وَرُءُوسُ الضَّلالَۃ ”
مسند أبی یعلى الموصلی » تَابِعُ مُسْنَدِ أَبِی ہُرَیْرَۃ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ۔ .. » شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ
رقم الحدیث: 7383
"یعنی میرے بعد ایسے امام ہوں گے کہ اگر تم انہیں مان لو گے تو وہ تمہیں کافر بنا دیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ یہ کفر کے امام اور گمراہی کے سردار ہوں گے۔ ”
پس
بہر دست نباید دا ددست
طبرانی کی حدیث میں ہے کہ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ حضور ایسے وقت میں ہم کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا:
12۔ ” کَمَا صَنَعَ أَصْحَابُ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، نُشِرُوا بِالْمَنَاشِیرِ وَحُمِلُوا عَلَى الْخَشَبِ مَوْتٌ فِی طَاعَۃ خَیْرٌ مِنْ حَیَاۃ فِی مَعْصِیَۃ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ”
المعجم الصغیر للطبرانی » بَابُ الْفَاءِ » مَنِ اسْمُہُ الْفَضْلُ
رقم الحدیث: 751
"یعنی ان گمراہ کن اماموں کے زمانے میں تم وہی کرنا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کیا کہ آروں سے چیرے گئے اور سولیوں پر لٹکا دیے گئے۔ (لیکن بروں کی اطاعت قبول نہیں کی) یاد رکھو اطاعت اللہ میں مرجانا اس زندگی سے بہت ہی بہتر ہے جو نافرمانی اللہ میں گزرے۔ ”
13۔ عن عبادۃ بن الصامت قال : ذکر رسول اللہ – صلى اللہ علیہ و سلم – الأمراء فقال : ” یکون علیکم أمراء إن أطعتموہم أدخلوکم الناروإن عصیتموہم قتلوکم ”
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » کتاب الخلافۃ » باب فی أئمۃ الظلم والجور وأئمۃ الضلالۃ
رقم الحدیث: 9209
"یعنی تم پر ایسے امیر’امام اور خلیفہ ہوں گے کہ اگر تم ان کا کہا کرو گے تو وہ تمہیں جہنم میں پہنچا دیں گے اور اگر نا فرمانی کرو گے تو وہ تمہیں قتل کروا ڈالیں گے۔ ”
14۔ عن علی رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ و سلم قال: ” غَیْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ عِنْدِی عَلَیْکُمْ مِنَ الدَّجَّالِ : أَئِمَّۃ مُضِلُّونَ ”
مسند أبی یعلى الموصلی » مُسْنَدُ عَلیِّ بْنِ أَبِی طَالبٍ
رقم الحدیث: 457
"یعنی دجال سے بھی زیادہ مجھے تم پر ڈر ان اماموں کا ہے جو گمراہ کرنے والے ہوں گے۔ ”
15۔ عن معاذ بن جبل قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: ” ثَلاثُونَ نُبُوَّۃ وَمُلْکٌ، وَثَلاثُونَ مُلْکٌ وَجَبَرُوتٌ، وَمَا وَرَاءَ ذَلِکَ فَلا خَیْرَ فِیہِ ”
المعجم الأوسط للطبرانی » بَابُ الْوَاوِ » مَنِ اسْمُہُ وَلِیدٌ
رقم الحدیث: 9506
"یعنی تیس سال تک تو خلافت منہاج نبوت پر رہے گی پھر جبریہ ملوکیت ہو جائے گی۔ اس کے بعد تو امامت خیر سے خالی ہو جائے گی۔ ”
یہ ہمارا زمانہ ہے کہ اس میں مدعیان امامت کی موجودہ خانہ ساز امامت بے خیر اور پر از شر ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
16۔ عَنِ ابنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ :
” أَوَّلُ ہَذَا الأَمْرِ نُبُوَّۃ وَرَحْمَۃ، ثُمَّ یَکُونُ خِلافَۃ وَرَحْمَۃ، ثُمَّ یَکُونُ مُلْکًا وَرَحْمَۃ، ثُمَّ یَکُونُ إِمَارَۃ وَرَحْمَۃ، ثُمَّ یَتَکادَمُونَ عَلَیْہِ تَکادُمَ الْحُمُرِ
المعجم الکبیر للطبرانی » بَابُ الظَّاءِ » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِی حَدِیثِ عَبْدِ اللَّہِ۔ ..
رقم الحدیث: 10984
"یعنی یہ امر اسلام ابتداء تو نبوت اور رحمت ہے پھر خلافت اور رحمت ہو گا، پھر امارت اور رحمت ہو گا، پھر تو امارت کے لئے ایک پر ایک اس طرح گرنے لگے گا جیسے گدھے۔ ”
یہ ہمارا زمانہ ہے کہ باوجود ضعف کے، باوجود امامت کے قابلیت نہ ہونے کے چو طرف سے دعوے دار کھڑے ہو گئے ہیں بزبان رسول معصوم مثل گدھوں کے ہیں۔
17۔ عَن زَیدِبنِ ثَابِت رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُول اللہِﷺ :” بِئْسَ الشَّیْءُ الإِمَارَۃ لِمَنْ أَخَذَہَا بِغَیْرِ حَقِّہَا فَتَکُونُ عَلَیْہِ حَسْرَۃ یَوْمَ الْقِیَامَۃ”
المعجم الکبیر للطبرانی » بَابُ الزَّایِ » مَنِ اسْمُہُ زَیْدٌ » زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیُّ یُکْنَى أَبَا سَعِیدٍ۔ ..
رقم الحدیث: 4694
"یعنی بغیر حق کے امام بن جانا یہ بدترین چیز ہے۔ قیامت کے دن اس پر سخت افسوس ہو گا۔ ”
برادران! موجودہ اماموں کا سارا زور اس مسئلے پر صرف جلَب زر’ اخذ مال اور کشید زکٰوۃ کے لیے ہے جسے وہ ہضم کر جاتے ہیں اور صاف کہہ دیتے ہیں کہ امام سے حساب لینے والا کون؟ اس لیے میں آپ کو ایک واقعہ سنا کر سرِدست اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ پھر ان شاء اللہ مزید بیان کسی اور نمبر میں آئے گا۔
حضرت امیر معاویہ جمعہ کے لیے منبر پر کھڑے ہوئے بیان میں یہ بھی فرما جاتے ہیں کہ مال غنیمت سب ہمارا مال ہے۔ یہ فے جو کفار سے حاصل ہوتی ہے یہ بھی ہمارا حق ہے۔ ہم جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں ! اس پر کوئی کچھ نہیں بولتا۔
دوسرے جمعے کے خطبے میں بھی یہ جملہ پھر دہراتے ہیں، لیکن مجمع آج بھی خاموش ہے۔
اب تیسرا جمعہ آتا ہے۔ اور آپ اپنے خطبے میں پھر یہی فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہیں ایک صاحب غصے سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں۔
: کَلا، إِنَّمَا الْمَالُ مَالُنَا وَالْفَیْءُ فَیْئُنَا، مَنْ حَالَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُ حَکَّمْنَاہُ إِلَى اللَّہِ بِأَسْیَافِنَا
"یعنی آپ کا قول غلط ہے۔ بلکہ یہ مال صرف ہمارا ہی مال ہے اور غنیمت و فے کے مالک ہم ہی ہیں۔ سنو ہم میں اور اس می جو بیچ میں آئے گا، ہم اپنی تلواریں اپنے کندوں پر رکھ لیں گے،ن یہاں تک کے اللہ ہم میں اور ان میں فیصلہ کر دے۔
حضرت معاویہؓ خاموش ہو گئے۔ گھر پہنچ کر اسے بلوا لیا۔ سب لوگ کانپنے لگے کہ دیکھئے اب کیا ہو؟
تھوڑی دیر بعد جب عام اجازت ہو گئی تو لوگوں نے وہاں جا کر دیکھا کہ وہ تو حضرت امیر کے ساتھ ان کے تخت پر تشریف فرما ہیں۔ اب حضرت امیر معاویہ نے لوگوں سے فرمایا۔ ” اس نے مجھے زندہ کر لیا اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں برکت دے، سنو!
"میں نے رسول اللہﷺسے سنا تھا کہ ایسے امام بھی ہونے والے ہیں کہ جو اپنی سب باتیں لوگوں سے منوا لیں گے، اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی تردید کے لیے کھڑا ہو۔ یہ جہنم مین ذلت کے ساتھ ڈال دیے جائیں گے۔ چونکہ پہلے اور دوسرے جمعے میں میرے اس خلافِ حق جملے پر کسی نے مجھے جواب نہیں دیا۔ اس لیے میں تو ڈر گیا کہ میں بھی انہیں اماموں میں سے نہ ہو ں۔ لیکن تیسرے جمعے کو یہ با ہمت دیندار شخص کھڑے ہو گئے اور حق بات زبان سے نکالی۔ میری بات کاٹ دی، اور مجھے زندہ رکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھائے !۔
المعجم الکبیر » باب المیم » من اسمہ معاویۃ » معاویۃ بن أبی سفیان بن حرب بن أمیۃ » من روى عن معاویۃ من أہل مصر » أبو قبیل حی بن ہانئ عن معاویۃ
رقم الحدیث: 925
تاریخ الإسلام الذہبی » الطبقۃ السادسۃ » تراجم أَہْل ہَذِہِ الطبقۃ » حرف المیم » مُعَاوِیَۃ بن أَبِی سفیان ع۔ صخر بن حرب بن أمیۃ بن۔ ..
رقم الحدیث: 1862
سَر دَست میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور اپنے دوستوں سے کہا ہوں کہ روپڑی تنمیم ہو یا دہلوی امامت یا بنگالی منڈلی اور مدعیانِ امامت صرف اس کے دعوے سے مرعوب نہ ہو جاؤ صرف اتنا سن کر کہ بیعت نہ کرنے والا جاہلیت کی موت مرنے والا ہے وغیرہ، ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کر لو، بلکہ یہ سمجھو کہ اس کے لیے شرط اولین یہ ہے کہ وہ آزاد خود مختار مسلم بادشاہ ہو۔ اس وقت بے بیعت والے پر یہ حدیث چسپاں ہو گی۔ یہ لوگ مدّعی وہ امام نہیں ہیں۔
ان کی مثال اور ان کی دلیل کی مثال بالکل وہی ہے، جو مرزا غلام احمد قادیانی کی اور حضرت عیسیٰ کے آنے کے متعلق پیشین گوئیوں والی حدیثوں کی ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ بیعت کا مسئلہ ہے، لیکن اس کے لائق یہ مدعی نہیں جس طرح یہ سچ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں لیکن مرزا غلام احمد وہ عیسیٰ نہیں۔
ہر ہاتھ کو عاقل ید بیضا نہیں کہتے
جس پاس عصا ہو اسے موسیٰ نہیں کہتے
پس، ان دلائل پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے ان جھوٹے اماموں کا ساتھ چھوڑ کر ظلِ محمدی میں آ جایئے اور ان سے کہہ دیجئے۔
کس نیاید بزیر سایہ بوم
گرہما از جہاں شود معدوم
18۔عَنْأَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
لِقُرَیْشٍ : ” إِنَّ ہَذَا الْأَمْرَ لَا یَزَالُ فِیکُمْ وَأَنْتُمْ وُلَاتُہُ حَتَّى تُحْدِثُوا أَعْمَالًا، فَإِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِکَ، سَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ شِرَارَ خَلْقِہِ
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَۃ الْمُبَشَّرِینَ بِالْجَنَّۃ۔ .. » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِیثُ أَبِی مَسْعُودٍ عُقْبَۃ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِیّ۔ ..
رقم الحدیث: 21766
(رواہ طبرانی)
"یعنی اے قریشیو! امر خلافت و امامت تم میں ہی رہے گا اور تم ہی اس کے والی ہو یہاں تک کہ تم نئی بدعتیں کرنے لگو گے اس وقت اللہ تعالیٰ تم پر اپنی بدترین مخلوقات مسلط کر دے گا۔ ”
یہی ہوا قریش میں سے امامت نکل گئی اور آج ہندوستانی غلام امامت کے دعویدار بن بیٹھے ہیں جو بزبانِ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام بدترین مخلوقات ہیں۔
19۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :
َحَدٌّ یُقَامُ فِی الأَرْضِ بِحَقِّہِ أَزْکَى فِیہَا مِنْ مَطَرٍ أَرْبَعِینَ عَامًا ”
المعجم الکبیر للطبرانی » بَابُ الظَّاءِ » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِی حَدِیثِ عَبْدِ اللَّہِ۔ .. » أَحَادِیثُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ۔ ..
رقم الحدیث: 11773
"یعنی ایک حد کا قائم ہونا چالیس سال کی بارش سے زیادہ بہتر ہے اور ہر طرح کی ترقی کا باعث ہے۔ ”
پس جن اماموں کی امامت چوروں، زانیوں وغیرہ پر حد جاری نہیں کر سکتی یا نہیں کرتی۔ یہ زمین کے بوجھ ہیں اور ان کا زمانہ اللہ کے نزدیک بدترین زمانہ ہے۔
20۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ” إِذَا بُویِعَ لِخَلِیفَتَیْنِ فَاقْتُلُوا الأَحْدَثَ مِنْہُمَا ”
المعجم الأوسط للطبرانی » بَابُ الْأَلِفِ » بَابُ مَنِ اسْمُہُ : إِبْرَاہِیمُ
رقم الحدیث: 2822
صحیح مسلم » کِتَاب الْإِمَارَۃ » بَاب إِذَا بُویِعَ لِخَلِیفَتَیْنِ
رقم الحدیث: 3450
(رواہ البزار)
"یعنی جب دو اماموں کے ہاتھ پر بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کر دو۔ ”
پس ہمارے زمانے میں چاروں طرف سے جو اماموں کی چیخ و پکار ہو رہی ہے حدیث کی رو سے ان سب کو پہلے نمٹ لینا چاہیے یہاں تک کہ ایک رہ جائے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو ان کی طرف بیعت کے لئے ہاتھ بڑھانا حرام ہے۔
21۔ عن عبد اللہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ ان رسول اللہﷺ ” إِذَا کَانَ فِی الأَرْضِ خَلِیفَتَانِ فَاقْتُلُوا آخِرَہُمَا ”
مسند الشامیین للطبرانی » مِنْ فَضَائِلِ سَعِیدِ بْنِ بَشِیرٍ
رقم الحدیث: 2720
المعجم الکبیر للطبرانی » بَابُ الْمِیمِ » مَنِ اسْمُہُ مُعَاوِیَۃ » مُعَاوِیَۃ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبِ بْنِ۔ ..
رقم الحدیث: 16094
"یعنی زمین پر جب دو امام ہو جائیں تو پچھلے کو قتل کر دو۔ ” اب بتلاؤ یہ درجنوں امام بیعت کے قابل ہیں یا کسی اور چیز کے ؟
22۔ عَنْ عُبَادَۃ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ” أَقِیمُوا حُدُودَ اللَّہِ فِی الْقَرِیبِ وَالْبَعِیدِ وَلَا تَأْخُذْکُمْ فِی اللَّہِ لَوْمَۃ لَائِمٍ ”
سنن ابن ماجہ » کِتَاب الصَّلَاۃ » أَبْوَابُ مَوَاقِیتِ الصَّلَاۃ
رقم الحدیث: 2533
"یعنی اللہ کی حدوں کو جاری کر و قریب والوں میں بھی اور دور والوں میں بھی۔ خبردار اس بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔ ”
لیکن موجودہ مدعیانِ امامت تو خود اپنے گھر کے مقدمات بھی دوسروں کی عدالتوں میں لئے پھرتے ہیں۔ ان غلاموں سے اس پر عمل کہاں ہو سکتا ہے ؟ پس انہیں امام ماننا اللہ کے دین کی ہنسی اڑانا ہے۔
23۔ عن شداد ابن اوس قال سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم یذکر الإمارۃ فقال : ” أول الإمارۃ ملامۃ، وثانیہا ندامۃ، وثالثہا عذاب من اللہ یوم القیامۃ، إلا من رحم وعدل، وقال : ہکذا وہکذا بیدہ بالمال ”
المعجم الکبیر » باب الشین » من اسمہ شداد » شداد بن أوس الأنصاری » ما أسند شداد » عنبسۃ بن أبی سفیان عن شداد
رقم الحدیث: 7186
"یعنی امامت کا ذکر کرتے ہوئے حضورﷺ نے فرمایا اس کا اوّل ملامت ہے اس کا ثانی ندامت ہے اور اس کا ثالث قیامت کا عذاب ہے بجزان کے جو رحم کریں عدل کریں اور بے روک دوسروں کو مال دیتے رہیں۔ ”
فرمایئے !موجودہ امام نہ تو کسی پر رحم کر سکیں کیوں کہ یہ خود دوسروں کے رحم پر جیتے ہیں نہ یہ عدل کر سکیں کیونکہ یہ خود رعیت ہیں۔ تو مال کے دینے کا وقت ہی نہیں کہاں ہے۔ پھر یہ تو ایسے چور اور ڈاکو ہیں کہ مسلمانوں کی زکوٰتیں بھی ڈکارجائیں ان کے فطرے اور قربانی کی کھالیں بھی نوچ کھائیں۔ یہ دینے کا تو نام ہی نہیں جانتے۔ ہاں لینے کے لئے ان کی زنبیل ہر وقت کھلی رہتی ہے۔
24۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
إن الرجل إذا کان أمیرا، فتظالم الناس بینہم، فلم یأخذ لبعضہم من بعض، انتقم اللہ منہ
المعجم الکبیر » باب الراء » من اسمہ رافع » رافع بن أبی رافع الطائی
رقم الحدیث: 4467
"یعنی جب لوگ ایک دوسرے پر ظلم کریں اور امام ان سے بدلہ نہ لے تو اللہ تعالیٰ خود امام کو اپنے انتقام میں پکڑ لیتا ہے۔ ”
اللھم ارنا الحق حقا وار زقنا اتباعہ۔
الراقم الحاجز
محمد بن ابراہیم میمن جونا گڑھی
مدرس مدرسہ محمدیہ
مالک و منصرم اخبار محمدی
امام غرباء اور ان کے مریدوں نے شرک کا دروازہ کھول رکھا ہے
حضرات! آپ کے سامنے رسالہ مقالہ بنام”ظل محمدی” عرف "امامت محمدی” پیش کر دیا گیا ہے۔ اس سے آپ کے سامنے امامت شرعی کی حقیقت واضح ہو جائے گی اور جعلی اور نقلی اماموں کا پول کھل جائے گا۔ اس غور سے کل مرد اور عورتیں پڑھیں اور مصنوعی اماموں سے خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
و نیز اس سے بھی خطر ناک مسئلہ ان کا شرکیہ منتروں، جنتروں سے دم جھاڑہ کرنے کا ہے۔ یہ فرقہ اس میں مولوی عبد الوہاب صاحب صدری اور ان کے لڑکے مولوی عبد الستار کا پیرو ہے۔ مولوی عبد الوہاب صاحب اپنی زندگی میں کافی عرصے تک اس کی اشاعت کرتے رہے۔ آخر کار بغیر توبہ فوت ہو گئے۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے مولوی عبد الستار کی بھی یہ ہی روش ہے۔ لہٰذا آپ مولوی صاحب اور ان کے صاحبزادے کے الفاظ مشرکانہ ان کے صحیفہ سے پڑھیں۔ یہ ایک سوال قائم کر کے پھر اس کا جواب خود ہی اس طرح لکھتے ہیں :
س: شرکیہ الفاظ سے سانپ و کتے وغیرہ کے کاٹے ہوئے پر دم کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
ج: بہتر تو نہیں ہاں اگر کسی مسلمان کی خیر خواہی کے لئے بوقت مجبوری ضرورت کر بھی دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لقولہ علیہ السلام من الستطاع ان ینفع اخاہ فلیفعل۔ (فتح) (صحیفہ ماہِ رمضان المبارک سنہ 45)
اس صحیفہ کے ٹائیٹل پر مولوی عبد الوہاب کے دستخط بحیثیت مالک و مولوی عبد الجلیل کے دستخط بحیثیت ایڈیٹر کے ثبت ہیں۔ اور مولوی عبد الستار کے دستخط بحیثیت مفتی کے اس طرح ہیں۔ مفتی ابو محمد عبد الستار غفرلہ الغفار المہاجری۔ اس صورت سے یہ تینوں اس شرکیہ دم جھاڑے پر متفق اور شریک ہیں۔
جب یہ فتویٰ عوام کے سامنے آیا اور لوگوں نے پڑھا تو مولوی عبد الوہاب سے لوگوں نے کہا کہ اہل حدیث اور شرک؟ کیا قرآن مجید کی آیات اور احادیث کی دعائیں اور علاج معالجے سے مار گزیدہ اور کتے اور بچھو کے کاٹے ہوئے اور جادو لگے ہوئے کے لئے دم کرنا کافی نہیں۔ جس سے جناب کو شرک کی لعنت اختیار کرنی پڑی؟
اس پر مولوی عبد ا لوہاب صاحب اس سے بھی اور کئی قدم آگے بڑھ گئے اور اس طرح گویا ہوئے :
سانپ، بچھو،کتے وغیرہ زہریلے جانوروں کے کاٹے ہوئے پر شرکیہ الفاظ سے غیر مسلم یا مسلم (جس کو زمانہ جاہلیتس کوئی رقیہ یاد ہے ) دم جھاڑا کر دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن یہ جواز ہر جگہ ہر وقت نہیں ہے بلکہ جہاں پہ دیگر علاج ناممکن ہے یعنی جہاں پہ دیگر مسلم شخص نہیں ہے یا ہے تو ادعیہ ماثورہ نہیں جانتا یا ادعیہ ماثورہ بھی جانتا ہے لیکن ادعیہ ماثورہ کے استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ ہر ایک بیماری کے لئے شفا ہے۔ معوذتین بڑا رقیہ ہے۔ لیکن وہ مسحور جس کا سحر مدفون ہے اس پر یہ آیتیں دم کیجئے کچھ فائدہ نہیں جب تک اس دفن کئے ہوئے سحر کو نہ نکالا جائے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ پر جب جادو کیا گیا تو آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے آئے اور انہوں نے بتایا کہ فلاں کنوئیں میں فلاں چیزوں کے اندر آپ پر جادو کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ نے وہ جادو نکلوا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپ کے بال لے کر ان پر گرہ دی گئی ہے۔ آپ معوذتین کی ادھر ایک ایک آیت پڑھتے ہوئے ادھر ایک ایک گرہ کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کلی شفا بخشی۔
غور طلب یہاں پر یہ ہے کہ اس وقت تو جبرائیل علیہ السلام اور آپ کو بتایا کہ فلاں جگہ جادو مدفون ہے۔ لیکن آج جب کہ جبرئیل علیہ السلام آ کر ہمیں نہیں بتاتے تو لامحالہ جادو گر جو اس کام سے واقفیت رکھتا ہے اس سے کھلوانا پڑے گا۔ اور اب یہ ظاہر بات ہے کہ جادو گر شرکیہ الفاظ اور شنیعہ افعال کرتے کراتے ہیں اور یہ چیز حرام ہے۔ لیکن ایسی لاچاری و مجبوری کی صورت میں جائز ہے۔ (صحیفہ دہلی، ماہ جمادی الثانی سنہ 46)
حضرات! آپ نے ان کی ان ہفوات کو غور سے ملاحظہ فرمائیں۔ مسلم اور غیر مسلم کا شرکیہ الفاظ سے جھاڑ پھونک کی اجازت دے رہے ہیں ادھر قرآن مجید سے شفا ہونے کا انکار کر رہے ہیں۔ اوپر سے الحمد شریف اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر دم کرنے کو بے فائدہ کہتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے کچھ فائدہ نہیں۔ (معاذاللہ)
ادھر جادو گروں کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کا رتبہ عطا فرما رہے ہیں۔
جب مولوی عبد الوہاب کا تمرد اس حد تک پہنچ گیا تو دہلی کے اہل حدیثوں کی طرف سے علمائے اہل حدیث کی خدمت میں مولوی عبد الوہاب کے یہ صحیفے پیش کئے گئے اور ان سے دریافت کیا گیا کہ ایسے شخص کے متعلق آپ حضرات فرمائیں کہ کیا صحیفے کی یہ عبارتیں شرک باللہ کے دروازے نہیں کھول رہیں ؟ ونیز ایسے شخص کے متعلق آپ حضرات کا کیا فتویٰ ہے ؟
جس پر علماء نے بالا اتفاق فتویٰ دیا کہ:
"یہ کلمات شرکیہ و کفریہ ہیں مولوی عبد الوہاب کو ان سے توبہ کر کے موحد ہونا چاہیے ورنہ ان سے مسلمان قطع تعلق کر لیں۔ ”
جن علماء نے ان کے متعلق مشرک ہونے کا فتویٰ دیا ان کے نام ہیں :
مولانا سید ابو الحسن صاحب نبیرہ حضرات میاں صاحب دہلوی رحمہ اللہ
مولانا عبد الرحمٰن صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمہ اللہ
مولانا عبد الواحد صاحب غزنوی رحمہ اللہ
مولانا محمد داؤد صاحب غزنوی
مولانا محمد اسماعیل صاحب گوجرانوالہ
مولانا ابو الا ابو لاقاسم صاحب بنارسی رحمہ اللہ
مولانا محمد یوسف صاحب فیض آبادی رحمہ اللہ
مولانا احمد اللہ صاحب محدث رحمہ اللہ
مولانا شرف الدین صاحب محدث رحمہ اللہ
مولانا محمد یونس صاحب قریشی وہلوی رحمہ اللہ
مولانا حافظ عبد اللہ صاحب روپڑی
مولانا عبد التواب صاحب ملتانی
مولانا محمد صاحب سورتی رحمہ اللہ پروفیسر جامعہ ملیہ
مولانا عبد الوہاب آروی
مولانا عبد الغفور صاحب غزنوی رحمہ اللہ
مولانا محمد حسین صاحب غزنوی رحمہ اللہ
مولانا عبید اللہ صاحب اٹاوی رحمہ اللہ
مولانا عبد الحکیم صاحب محدث نصیر آبادی رحمہ اللہ
مولانا عبد الغنی صاحب جودھ پور والے رحمہ اللہ
مولانا حکیم حافظ عبید الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ عمر پوری وغیرہ۔ جن کی تعداد 61 ہے۔ ملاحظہ ہو” متفقہ فتاویٰ علمائے اہل حدیث مطبوعہ آرمی پریس دہلی۔
لیکن مولوی عبد الوہاب صاحب پر ان علماء کے فتووں کا کوئی اثر نہ ہو۔ اور اپنی مولویت پر اتر آئے اور برابر شرک پر اڑے رہے۔
ایک دفعہ اپنے فرزند مولوی عبد الستار اور چند مریدوں کے ساتھ حج کو گئے۔ کسی مخبر نے جلالت الملک سلطان ابن سعود رحمہ اللہ کو ان کے متعلق خبر کر دی۔ سلطان موصوف نے ان کو اپنے دربار میں بلا کر ان سے توبہ کرنے کو کہا مگر یہ صاحب کس کی ماننے والے تھے۔ آخر سلطان نے ان کے خلاف ایک حکم جاری فرمایا اور کہا کہ اگر یہ شخص توبہ کر لے تو خیر ورنہ میں اور جملہ موحدین ان سے بیزار ہیں۔ ملاحظہ ہو فتاویٰ علمائے نجد مترجم مطبوعہ دہلی۔
آخر مولوی عبد الوہاب انہیں شرکیہ عقائد کا ارمان لے کر بغیر توبہ فوت ہو گئے۔ اب ان کے بعد ان کے صاحب زادے مولوی عبد الستار انہیں باتوں پر اڑے ہوئے ہیں۔
جماعت اہل حدیث کے مقتدر عالم و اہل قلم مولانا امام خان صاحب نو شہروی مقیم لاہور لکھتے ہیں :
ہماری جماعت کے ایک عالم دین کا تمرد و طغیان کا مولوی عبد الوہاب صاحب ملتانی اپنے وفورِ علم اور کثرت شزوذ(در شدوز) کی وجہ سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کا آخری اجتہاد مسئلہ دم جھاڑہ ہے۔ شرکیہ منتروں سے یعنی یہ کہ مسموم ہویا مریض مار گزیدہ یا مصروع ای من کان شرکیہ الفاظ سے تعویذ یا دم کیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جماعت اہل حدیث کی نزاکت توحید اسے کسی عنوان گوارا نہیں کر سکتی تھی اور نہ کر سکی۔ آخر جماعت ہی سے مولوی عبد الوہاب کا اخراج کر دیا گیا،
وہ حسین ہیں تو ہوا کریں، وہ جو مہ جبین ہیں تو کیا کریں
مری حسرتوں کا کیا ہے خوں، مرے دل سے وہ تو اتر گئے
مولوی عبد الوہاب اس حسرت کو لے کر قبر میں جا سوئے اور ان کے بعد ان کے خلف الصدق عبد الستار صاحب اسی دم جھاڑے کا ارمان لئے بیٹھے ہیں۔ مدعی توحید اور اس قسم کے شرک ہائے جلی؟(تراجم علمائے اہلحدیث صفحہ 183، مطبوعہ جید پریس دہلی)
حضرات! اب تو آپ کو ان کی پوزیشن معلوم ہو گئی۔ مولوی عبد الوہاب صاحب تو فوت ہو چکے مگر مولوی عبد الستار اور ان کے مریدوں کے لئے ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اگر ان میں اللہ کا خوف ہے تو ان کو اور ان کے مریدوں کو چاہیے کہ فوراً توبہ کر کے اپنا توبہ نامہ صحیفہ میں شائع کر کے اعلان کر دیں کیونکہ صحیفہ ہی سے شرک کی یہ آواز اٹھی ہے لہٰذا اسی میں اعلان توبہ بھی ہو۔ ورنہ جو وعیدیں بت پرستوں اور گور پرستوں وغیرہ پر قرآن مجید میں موجود ہیں ان سے یہ کب بچ سکتے ہیں ؟
ایک عذر اور اس کا جواب
بہت سے حضرات فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے تو مولوی عبد الستار وغیرہ کبھی ایسی باتوں کا ذکر نہیں فرماتے۔ لہٰذا ہم کیسے تسلیم کریں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اب تو آپ کو ان کے صحیفے کے حوالوں سے سب کچھ معلوم ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب تو ہوشیار ہو جاؤ۔ دیھک لکھتم کے بکتم نہیں چلا کرتی۔
بعض حضرات فرماتے ہیں ! اجی ہمارے یہاں تو کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم ایسے فرقوں میں گسنے پر مجبور ہیں۔ سو واضح ہوکہ اس کے متعلق آپ کو غلط فہمی لگی ہوئی ہے کیا جماعت اہل حدیث کے علمی ادارے اعلیٰ پیمانے کی جمعیتیں اور کانفرنسیں، بہترین دینی مدارس نہایت عمدہ عمدہ مساجد، اچھے جید علمائے اہل حدیث جو کہ اپنے وعظ و رشد سے لوگوں کو مستفید فرما رہے ہیں ملک میں موجود نہیں ؟ کیا تم ان باتوں کا انکار کر سکتے ہو؟
میں نے تمہارے آگے ساری باتیں کھول کر رکھ دی ہیں۔
لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَن بَیِّنَۃ وَیَحْیَىٰ مَنْ حَیَّ عَن بَیِّنَۃ۔ (الانفال:42)
اب جو چاہے دلائل کو دیکھتے ہوئے ہلاک اور گمراہ ہو اور جو چاہے دلائل کو دیکھتے ہوئے ایمان کی زندگی گزارے۔
٭٭٭
کمپوزنگ: أبوبکرالسلفی
ماخذ: اردو مجلس ڈاٹ نیٹ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید