FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

طلسم

 

(افسانوی مجموعہ)

 

 

                انجینئر محمد فرقان سنبھلی

 

انتساب

 

والدہ مرحومہ

عبیدہ خاتون

کے نام

 

 

 

 

پیش لفظ

 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا ایک خواب تھا جو میں نے دیکھا تھا۔ اس کے لیے بیسویں صدی کی آخری دہائی میں کئی کوششیں کیں لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود داخلہ نہ لے سکا۔ یونیورسٹی میں داخلہ تب ممکن ہوا جب کہ میں اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دوستوں عزیزوں کے کہنے پر پی۔ایچ۔ڈی کا فارم بھرا اور جون ۲۰۱۱ء میں شعبہ اردو میں ریسرچ کرنے کے لیے داخل ہوا۔خوش قسمتی یہ رہی کہ بطور سپروائزر عالمی سطح پر شہرت یافتہ نقاد اور بے حد مشفق استاد پروفیسر ابوالکلام قاسمی کے زیر نگرانی کام کرنے کا موقع فراہم ہوا۔انھوں نے جس طرح میری زبان کی باریکیوں کے تعلق سے خامیوں کو درست کرنے میں مدد کی اور جس طرح میری مشکلات کو دور کرنے کی کوششیں کیں اسی کا نتیجہ ہے کہ میں اپنی ریسرچ کومکمل کرنے کے قریب ہوں ورنہ داخلہ لیتے وقت تو یہی سوچتا تھا کہ شاید چھ ماہ بعد ریسرچ چھوڑنا پڑے۔ اسی دوران شعبہ کی ریسرچ ایسو سی ایشن کے پروگراموں میں مقالے و افسانے پڑھنے کا موقع ملا۔ میں نے کئی افسانے موقر ادبی شخصیات کی صدارت میں پڑھے جنھیں کافی پسند کیا گیا۔پروفیسر قاضی عبدالستار ،پروفیسر خورشید احمد، صدر شعبہ پروفیسر عقیل احمد ،پروفیسر سید محمد ہاشم ،پروفیسر طارق چھتاری ،پروفیسر صغیر افراہیم ،غضنفر ،اشعر نجمی وغیرہ نے افسانے سنے اور جس طرح کی حوصلہ افزائی کی اس نے میرے نئے مجموعے کی اشاعت کی راہیں ہموار کیں۔

حاصل کلام یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی علمی و ادبی فضا نے میری افسانہ نگاری پر فکری اور فنی نقطۂ  نظر سے بڑا مثبت اثر ڈالا۔ مجھے اعتراف ہے کہ پہلے مجموعہ ’’آب حیات‘‘ کی اشاعت کے وقت فکشن ،اس کے بنیادی مسائل، فن افسانہ نگاری اور فکشن کی تنقید کے متعلق بہت زیادہ معلومات نہیں تھیں۔لیکن علی گڑھ آ کر مجھے اساتذہ کی شفقتوں سے کافی کچھ سیکھنے کا موقع فراہم ہوا۔ یہ میرے اساتذہ کرام اور عزیز و اقارب کے مشوروں اور ہدایات کا فیض ہے کہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق افسانے لکھنے کی تحریک پا سکا۔ریسرچ ایسو سی ایشن کے اب تک کے آخری جلسہ میں جو کہ معروف فکشن نگار پدم شری قاضی عبدالستار کے زیر صدارت منعقد ہوا تھا اس میں مجھے ’’طلسم ‘‘ افسانہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔افسانہ کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستار نے اپنے صدارتی خطبہ میں میرے افسانے کی تعریف کی۔اس سے مجھے افسانہ کے فن پر طبع آزمائی جاری رکھنے کا حوصلہ ملا۔

میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آب حیات‘‘ سال ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا اور اس کو بہار اردو اکادمی نے گراں قدر اعزاز ’’اختر اورینوی ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ اس افسانوی مجموعہ کا ایک افسانہ ’’آب حیات ‘‘تھا جو کہ سائنس فکشن پر مبنی تھا۔اس میں پانی کے ختم ہونے کا ماحولیات پر اثر انداز ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ افسانہ بہت پسند کیا گیا اس لیے مجموعہ کا نام بھی اسی افسانے کے عنوان کی مناسبت سے رکھ دیا گیا۔اب یہی اتفاق دوبارہ ہونے جا رہا ہے کہ ’’طلسم‘‘ کی کامیابی نے میرے دوسرے افسانوی مجموعہ کا عنوان ’’طلسم‘‘ طے کر دیا۔طلسم کے کچھ افسانے شائع ہو چکے ہیں تو کچھ مختلف یونیورسٹیز اور انجمنوں کے پروگراموں میں پڑھے گئے ہیں۔جب کہ کئی افسانے پچھلے مجموعے سے بہ وجوہ مستعار لیے گئے ہیں۔طلسم کے افسانوں پر قارئین کی آراء کا انتظار رہے گا۔آخر میں ان تمام اساتذہ ،عزیز و اقارب اور ناقدین کا شکریہ جنھوں نے کسی بھی طور میرے اس مجموعے کی اشاعت تک کے مرحلے میں تعاون کیا۔ شریک حیات شمیم فاطمہ کا بے حد شکریہ کہ وہ میری ہر تحریر کی پہلی قاری اور پہلی ناقد ہوتی ہیں۔

 

انجینئر محمد فرقان سنبھلی

 

 

 

انصاف

 

۳۰؍ستمبر ۲۰۱۰ء ! الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ بابری مسجد ملکیت مقدمے کا عجیب و غریب فیصلہ سنا چکی تھی۔ ثبوت پر اعتقاد کو فوقیت دیتے ہوئے جج صاحبان نے ایک ایسا فیصلہ سنادیا تھا جس سے ایک فریق اور اس کے ہمنواؤں کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے تھے۔ٹی وی چینلوں پر فیصلے کو لے کر تنقیدی نشریات جاری تھیں۔ شہر کے گنجان آبادی میں واقع ایک گھر میں کئی دوست چائے کی چسکیوں کے درمیان ٹی وی پر نظریں گڑائے تھے۔

’’حد ہو گئی یہ تو‘‘۔ احسان نے مایوسی کے عالم میں کہا۔

’’یہ بھی بھلا کوئی فیصلہ ہے۔‘‘ منجیت سنگھ بھی بولے بنا نہ رہ سکا۔

’’کیوں بھئی اس فیصلے میں کیا برائی ہے۔ تینوں فریقین کو برابر جگہ تو مل گئی ہے نا۔‘‘ ارجن تیاگی نے فیصلے کی حمایت میں ووٹ دیا۔

’’کیا اعتقاد کی بنیاد پر عدالتیں فیصلہ کر سکتی ہیں ‘‘۔ احسان نے بری طرح جھنجھلا تے ہوئے کہا۔’’اگر آئین اور ثبوت کو نظر اندا ز کر کے فیصلے دیئے جانے لگے تو کتنا بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے کسی نے سوچا بھی ہے ‘‘۔

’’بیشک عدالتوں کو ثبوت کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ تو آئین کا نفاذ مشکل ہو جائے گا اور ہر طرف بدامنی پھیل جائے گی ‘‘۔منجیت نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’جس طرح اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ ہندوؤں کے حق میں کیا گیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ فیصلے کے پس پشت مذہبی تعصب کارفرما ہے۔‘‘مائیکل نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

’’اگر ہمارے فاضل جج صاحبان خود کو مذہب سے بالاتر نہیں رکھ سکتے تھے تو بہتر تھا کہ وہ ججی کے فرائض سے خود ہی ہٹ جاتے اور کسی دیگر کو یہ ذمہ داری دے دیتے۔ ‘‘منجیت سنگھ نے کہا تو تینوں اس کا منھ دیکھنے لگے۔

’’یہ بھلا کیسے ہوسکتا تھا۔‘‘ارجن نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔

’’دنیا میں کون سا کام ناممکن ہے دوست۔ ‘‘احسان نے منجیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔

’’ہمارے پیارے نبی ؐ نے تو خود ایسا کیا تھا جب کہ ان کے سامنے ان کے داماد کا مقدمہ پیش ہوا تھا۔‘‘

’’چلودوست تم ہمیں سناؤ کہ کیسے تمہارے نبی ؐ نے مثال قائم کی تھی۔‘‘تینوں ہمہ تن گوش ہو گئے۔

٭

’’زینبؓ …خیریت تو ہے بیٹی‘‘

حضرت خدیجہؓ نے زینبؓ کو پسینے میں شرابور وحشت زدہ ہرنی کی طرح گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو بے اختیار ان کی طرف لپکیں۔ زینبؓ کو بانہوں میں بھر کر محبت بھرے لہجے میں بولیں :

’’کیا ہوا بیٹی… تم اس قدر بدحواس سی کیوں ہو؟‘‘

’’اماں … میں نے دین اسلام میں مکمل شمولیت کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘زینبؓ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا اور اپنے اندر طویل عرصہ سے جاری کفرو ایمان کی جنگ کی پوری داستان خدیجہؓ کے گوش گزار کر دی۔

خدیجہؓ زینبؓ کو ساتھ لے کر حضور اکرمؐ کے پاس پہنچی۔ انھیں زینبؓ کے دل کا حال کہہ سنایا۔ زینبؓ کے فیصلے پر حضور ؐ بہت خوش ہوئے اور ان کی آنکھ سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے۔

’بیٹی میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کوئی اور نہیں کہ تم داخل اسلام ہو جاؤ۔مگر بیٹی …‘‘

’’مگر کیا ابّا جان‘‘

’’یہ راہ بڑی پر خار ہے بیٹی ‘‘۔حضورؐ نے آگاہ کیا۔

’’مجھے علم ہے ابا جان‘‘۔ زینبؓ پر عزم تھیں۔

’’داخل اسلام ہوتے ہی تمہارا سسرال سے رشتہ بھی منقطع ہو جائے گا۔‘‘

’’لیکن اللہ سے تو رشتہ جڑ جائے گا۔‘‘

’’اور ابو العاص… اس کے بارے میں بھی تم نے سوچ لیا ہے ‘‘۔

زینبؓ حضورؐ کی بات مکمل ہوتے ہی زار و قطار رونے لگیں۔ شوہر کی محبت اور تڑپ ان کے چہرے سے عیاں تھی۔زینبؓ بے حد جذباتی ہو گئی تھیں۔

’’اب تک ان ہی کی وجہ سے مجبور تھی ورنہ دل تو کب کا اللہ کی وحدانیت پر ایمان لا چکا تھا۔‘‘زینبؓ کا گلا رندھ گیا تھا۔ ’’میں جانتی ہوں ابا حضور ؐ کہ ہمارا جدا رہنا مشکل ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ بھی جلد اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ تب میں ایک مرتبہ پھر ان کی خدمت کر سکوں گی۔‘‘

حضور ؐ بیٹی کے جذبۂ  ایمان سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے زینبؓ کو ڈھیروں دعائیں دیں۔’’اللہ تم پر رحمت کی بارش فرمائے اور وہ دن جلد آئے کہ ابو العاص بھی راہ حق پر آ جائے۔ ‘‘

٭

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔نئے دین میں کم ہی لوگ شامل ہوئے تھے لیکن اس نے مکہ میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ مشرکین حضورؐ کے خلاف لام بند ہونے لگے تھے۔ نئے دین میں حضورؐ کی بیٹی زینبؓ  اور ان کے داماد ابو العاص ابن الربیع بقیط بھی شامل نہیں تھے۔ ان کی شادی حضورؐ کی نبوت سے قبل ہو چکی تھی۔ ابو العاص حضرت خدیجہؓ کی سگی بہن ہالہ کے بیٹے تھے۔ حضورؐ نے ابو العاص کو ان کی نیک فطرت اور پاکیزہ خصلت کے سبب زینبؓ کے لیے منتخب کیا تھا۔ جبکہ ہالہ بھی زینبؓ کی عادات اور اخلاق میں شائستگی کی وجہ سے انھیں پسند کرتی تھیں۔دونوں شادی کے بعد اپنی ازدواجی زندگی سے پوری طر ح مطمئن تھے۔

بعد نبوت جب زینبؓ مائکے جاتیں تو اپنے والد کی ایمان سے بھری باتیں سن کر دم بخود رہ جاتیں۔ دھیرے دھیرے ان کے اندر بھی ایمان کی شمع روشن ہونے لگی تھی۔لیکن ابو العاص کو کسی مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے کاروبار اور زینبؓ کی قربت میں ہی خوش تھے۔ زینبؓ نے نئے دین کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کسی سے نہیں کیا تھا۔وہ ابو العاص کے مذہب کے متعلق خیالات سے واقف تھیں اس لیے انھیں بھی اپنے جذبات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ان کے اندر کفر و ایمان کے درمیان جنگ جاری تھی۔زینبؓ کو جب محسو س ہوا کہ اب اللہ پر ایمان اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ بد عقیدہ شوہر کی محبت بھی ان کے قدموں کو نہیں روک سکتی تو انھوں نے دین اسلام میں داخل ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور وہ سسرال کو خیرباد کہہ کر مائکے چلی آئیں۔

حضورؐ نے اگلے ہی دن زینبؓ کو کلمہ پڑھا کر مشرف بہ اسلام کر لیا۔ یہ خبر اہل مکہ پر بجلی بن کر ٹوٹی۔ خبر نے اہل مکہ کو بے حد متفکر کر دیا تھا۔ وہ فکر مند تھے کہ اب اسلام نے بڑے گھرانوں پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔

حضورؐ کی دو بیٹیاں رقیہؓ اور ام کلثومؓ ابولہب ہاشمی کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے منسوب تھیں۔ حضورؐ کے ذریعہ اعلان حق بلند کرنے اور بتوں کی پوجا ترک کرنے کو کہنے پر ابولہب سخت ناراض ہو گیا تھا۔ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں کو غضبناک لہجے میں حکم دیا۔

’’میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ تم رقیہؓ اور ام کلثومؓ سے اپنا رشتہ منقطع کر لو۔‘‘

دونوں والد کے احکام پر بہت حیران ہوئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو تکنے لگے۔

’’لیکن ابّا … ‘‘عتبہ نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا۔

’’میرا حکم ہے تم ایسا کرو۔‘‘ابو لہب نے سخت لہجے میں کہا۔

’’لیکن کیوں …؟‘‘عتیبہ نے جاننا چاہا۔

’’ اس لیے کہ ان کے باپؐ نے ہمارے بتوں سے بغاوت کی ہے۔‘‘

’’مگر اس میں رقیہؓ اور ام کلثومؓ کا کیا قصو ر …‘‘ عتیبہ نے احتجاج کیا۔

’بھلے ہی نہ ہو…لیکن اس سے ان کی حوصلہ شکنی توہو گی۔‘‘ ابو لہب کا لہجہ مزید تیز ہو گیا تھا۔ ’’اور مجھے یقین ہے کہ تم میرے حکم کو ضرور مانو گے۔‘‘

ابو لہب نے بہ غور دونوں بیٹوں کو باری باری دیکھا۔ دونوں بیٹوں نے فوراً اپنے سر خم کر دیئے۔ ابو لہب کاچہرہ مسرت سے کھل اٹھا۔ بیٹوں پر فتح کی روداد سنانے   ابو لہب کفار مکہ کے پاس دوڑ گیا۔ کفار مکہ نے ابو  لہب کے کارنامے کو بہت سراہا۔ نتیجہ یہ کہ ابو لہب کفار مکہ کی جماعت لے کر ابو العاص کے گھر بھی جا دھمکا۔

ابو  لہب نے اپنے بیٹوں کے کارنامے کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہوئے ابو العاص سے کہا ’’تمہیں بھی اب زینبؓسے رشتہ توڑ لینا چاہیے۔‘‘

’’میں ایسا نہیں کرسکتا۔‘ ‘ابو العاص نے دو ٹوک انداز میں منع کر دیا۔ ابو العاص زینبؓ کے چلے جانے سے رنجیدہ تو تھے لیکن بیوی سے محبت ابھی سرد نہیں ہوئی تھی۔

’’توہم سمجھ لیں کہ تم بھی نئے مذہب کے دامن گیر ہو گئے ہو۔‘‘

’’بالکل نہیں۔ میں کسی مذہب کا پرستار نہیں۔‘‘

’’تو پھر وعدہ کرو کہ تم زینبؓ  کو محمد ؐ کے گھر ہی چھوڑ دو گے۔ اسے واپس نہ لاؤ گے۔‘‘

’’میں آپ سے اجازت چاہوں گا کہ مجھے زینبؓ کو گھر واپس لانے دیا جائے۔ ‘‘ابو العاص نے ابو لہب سے مودبانہ گزارش کی۔

’’اب یہ ممکن نہیں ابو العاص۔‘‘ ابو لہب غصے سے بے قابو ہو رہا تھا۔ مصلحتاً ضبط کے ساتھ بولا۔ ’’قبیلہ قریش میں خوبصورت اور خوب سیرت  لڑکیوں کی کمی نہیں ہے ابو العاص۔ ہم تمھاری شادی ان میں سے کسی سے بھی کرا دیں گے جسے تم پسند کرو گے۔‘‘

’’میری پہلی اور آخری پسند زینبؓ ہے۔‘‘

’’زینبؓ …زینبؓ…زینبؓ میں ایسا کیا ہے جو تم اپنے قبیلے سے بغاوت پر …‘‘

’’زینبؓ میری بیوی ہے اور اس جیسا خلوص ،محبت اور خدمت گزاری اہل قریش کی کسی اور لڑکی میں ممکن نہیں۔ بے شک زینبؓ کا بدل ممکن نہیں۔‘‘

ابو العاص نے ابو لہب کو مزید غصہ دلا دیا تھا۔ وہ تیز لہجے میں بولا۔

’’تم جس کے لیے مرے جا رہے ہو وہ خود تمہیں چھوڑ کر جا چکی ہے۔ اسے تمہاری فکر ہوتی تو وہ تمھیں یوں چھوڑ کر نہیں چلی جاتی۔ ‘‘ابو لہب نے ایک اور داؤ کھیلا۔

’’مجھے زینبؓ کے جانے کا ملال نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے ساتھ رہی۔ ‘‘

’’صاف کیوں نہیں کہتے کہ تم نے بغاوت کا پورا ارادہ کر لیا ہے۔ ‘‘

’’نہیں …بلکہ میں زینبؓ کی واپسی کا مطالبہ…‘‘

’’خاموش ابو العاص کہ تمہارے منھ سے بغاوت کی بو  آ رہی ہے۔ خبردار ہو کہ اب تم ہمارے دشمن ہو۔‘‘ ابو لہب غصے سے پاگل ہو گیا تھا۔وہ ابو العاص کو دھمکا کر واپس چلا گیا۔

ابو العاص نے بھلے ہی اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ حضورؐ کی بے حد عزت و احترام کرتے تھے۔ ابو العاص کو یقین تھا کہ وہ زینبؓ کی واپسی کا مطالبہ نہیں ٹھکرائیں گے۔ اسی یقین کے سہارے ابو العاص حضورؐ کے گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔

ابو العاص جب اپنی سسرال پہنچے تو حضورؐ صحابہؓ  کے ساتھ نماز میں مشغول تھے۔ ابو العاص انھیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے لگے۔ انھیں بھی اس روح پرور منظر نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ انھیں محسوس ہوا کہ ایک عجیب سا سکون ان کے اندر اتر آیا ہے۔ نماز کے بعد جب صحابہؓ رخصت ہو گئے تو ابو العاص نے حضورؐ سے زینبؓ کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ زینبؓ اب دین اسلام میں داخل ہو چکی ہے۔‘‘ حضورؐ نے ابو العاص سے سوال کیا۔

’’مجھے معلوم ہے جنابؐ۔‘‘

’’اسلام کے مطابق اب اس کی واپسی ممکن نہیں۔‘‘

’’پھر بھی میرا مطالبہ ہے کہ آپؐ زینبؓ کو میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں۔‘‘

’’لیکن کیوں …؟‘‘

’’اس لیے کہ آپ ؐ کے اعلان حق اور بتوں کی پرستش ترک کرنے کے اعلان سے اہل مکہ ناراض ہیں او زینبؓ کے قبول اسلام نے انھیں مزید ناراض کر دیا ہے۔‘‘

’’پھر…‘‘

’’اگر زینبؓ یہاں رہیں گی تو یہ لوگ آپؐ اور آپ کے صحابہؓ سے دشمنی کریں گے۔‘‘

’’لیکن میں ان سے لڑنا نہیں چاہتا۔‘‘

ابو العاص نے فوراً کہا۔ ’’ اگر آپ ؐ زینبؓ کو میرے ساتھ جانے دیں گے تو ان کا عتاب مجھ پر نازل ہو گا۔ آپ ؐ اور آ پکے صحابہؓ  محفوظ رہیں گے۔ ‘‘

حضورؐ سوچ میں پڑ گئے۔ ’’مجھے اپنی فکر نہیں لیکن صحابہؓ کے لیے مجھے تمہاری تجویز کو ماننا ہو گا۔‘‘حضورؐ نے مزید ارشاد فرمایا۔’’مجھے امید ہے کہ تم زینبؓ کو اس کے دین سے غافل کرنے کی کوشش نہیں کرو گے۔‘‘

’’میں بھلے ہی کسی دین کا پیروکار نہیں لیکن کسی کے مذہب میں مداخلت بھی میرا اصول نہیں۔‘‘

حضورؐ جانتے تھے کہ ابو العاص کتنا بھی بد مذہب کیوں نہ ہو لیکن وہ بات کا سچا اور پکّا ہے۔  انھوں ؐ نے زینبؓ کو ابو العاص کے ساتھ وداع کر دیا۔

٭

مکہ میں حضورؐ کے ذریعے نئے دین کی آمد نے جو ہلچل مچائی تھی اس کی وجہ سے حضورؐ اور مسلمانوں پر مشرکین نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی۔ حضورؐ صحابہؓ کے لیے فکر مند تھے کہ اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم صادر ہوا۔ مسلمانوں کا قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ مدینہ پہنچ کر مسلمان دین کی تبلیغ میں بے خوف و خطر مصرو ف ہو گئے۔

ہجرت کے دوسرے ہی سال مشرکین بڑے کروفر کے ساتھ مکہ سے بڑا لشکر لے کر تحریک اسلامی کو کچلنے کی غرض سے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ مجبوراً حضورؐ کو بھی جنگ کے لیے تیار ہونا پڑا۔کفار نے حضور ؐ کے چچا عباسؓ  اور حضرت علیؓ  کے بڑے بھائی عقیلؓ کو تو اپنے ساتھ ملا ہی لیا تھا ساتھ ہی ابو العاص کو بھی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے آمادہ کر لیا تھا۔ تین سو تیرہ جہادیوں کا اسلامی لشکر جنگ بدر میں اپنے جوش و جذبے اور اللہ کی مدد سے فتح یاب ہوا۔ بہت سے مشرکین قیدی بنا لیے گئے۔ ابو العاص بھی ابن جبیرؓ  انصاری کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔

سبھی جنگی قیدیوں کو حضورؐ کے سامنے پیش کیا گیا۔بہت سے قیدی ایمان لے آئے تھے اور بہت سے قیدیوں کے گھروں سے فدیہ آ چکا تھا اس لیے انھیں رہائی مل گئی تھی۔زینبؓ کو جب ابو العاص کی گرفتاری کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے دیور عمرو بن الربیع کے ہاتھ وہ بیش قیمتی ہار بطور فدیہ بھجوا دیا جو کہ حضرت خدیجہؓ نے انھیں جہیز میں دیا تھا۔

ابوالعاص کو جب حضور ؐ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ؐ بہت دیر تک ابو العاص کو دیکھتے رہے۔ حضورؐ نے جب فدیہ بطور بھیجا گیا ہار دیکھا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ حضورؐ نے صحابہ سے کہا ’’میں ابو العاص کا فیصلہ تم لوگوں پر چھوڑتا ہوں۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ ؐ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ صحابہؓ نے جب حضورؐ کو اشکبار دیکھا تو وہ خود بھی رنجیدہ ہو گئے۔ انھوں نے سمجھا کہ ہار دیکھ کر حضورؐ اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے تڑپ اٹھے ہیں۔

صحابہؓ نے فیصلہ دیا ’’ابو العاص کو رہا کر دیا جائے گا لیکن انھیں وعدہ کرنا ہو گا کہ وہ مکہ پہنچ کر زینبؓ کو حضورؐ کے پاس بھیج دیں گے اور فدیہ بطور بھیجا گیا ہار بھی واپس کر دیا جائے گا۔ ‘‘

ابو العاص رہا ہو کر اپنی قوم میں واپس لوٹ گئے۔لیکن زینبؓ کو مدینہ بھیجنے کا وعدہ نبھانا نہیں بھولے۔زینبؓ  کی جدائی میں وہ غمگین رہنے لگے تھے۔ غم ہلکا کرنے کے لیے انھوں نے خود کو کاروبار میں بری طرح مصروف کر لیا۔ادھر زینبؓ بھی ابو العاص سے جدائی کا غم برداشت نہیں کر پار ہی تھیں۔انھوں نے بھی خود کو دین کی خدمت میں اس طرح غرق کر لیا کہ ابو العاص کی جدائی کا غم بھول جائیں۔ لیکن دونوں کو پور ی طرح قرار میسر نہیں ہوا۔

ابو العاص کاروباری سلسلہ میں مشرکین کے قافلے کے ساتھ ملک عراق روانہ ہوئے تھے کہ راستہ میں اسلامی لشکر سے اس قافلے کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ایک مرتبہ پھر اسلامی لشکر کامیاب ہوا اور مشرکین کو گرفتار کر لیا گیا۔ صرف ابو العاص ہی کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ اتفاق سے وہ زینبؓ سے جا ملے اور زینبؓ نے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا۔

جب حضورؐ کے سامنے تمام قیدیوں کو پیش کیا گیا تو زینبؓ نے ابو العاص کے سلسلہ میں انکشاف کیا کہ وہ ان کی پناہ میں ہیں۔ حضورؐ کو اس با ت کا قطعی علم نہ تھا۔ا س لیے انھیں تعجب ہوا۔

حضورؐ نے صحابہؓ سے ارشاد فرمایا۔

’’آپ سب نے سنا کہ زینبؓ نے کیا کہا‘‘

’’ہاں رسول ؐ اللہ ہم نے خوب سنا۔‘‘صحابہؓ نے عرض کیا۔

حضورؐ نے مزید فرمایا ’’قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے زینبؓ کے بتانے سے قبل مجھے کچھ علم نہ تھا کہ ابو العاص کہا ں ہے۔‘‘

حضورؐ نے آگے کہا ’’اگر کوئی ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے تو سب پر لازم ہے کہ وہ اسے پناہ دیں۔‘‘

حضورؐ نے فوراً منصف کی حیثیت کو تر ک کر دیا۔اور فرمایا ’’میں ابو العاص کا معاملہ صحابہؓ کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں۔ ‘‘اتنا کہہ کر حضؤر گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ جہاں زینبؓ ان کی منتظر تھیں۔

’’بابا جان …ابو العاص …‘‘

’’بیٹی ابو العاص تمہاری پناہ میں ہے اس لیے اس کی خاطر تواضع کا خاص خیال رکھنا لیکن اس سے باہمی ربط و ضبط بھی نہ بڑھانا۔‘‘

’’بابا جان …ابو العاص اپنا وہ مال واپس چاہتے ہیں جو کہ لشکر نے ا ن سے لیا تھا۔‘‘زینبؓ نے عرض کیا۔

حضورؐ نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ’’بیٹی اب یہ صحابہؓ کے درمیان کا معاملہ ہے کہ میں یہ اختیار انھیں دے چکا۔اگر وہ واپس دینا چاہیں گے تو ابو العاص کو مل جائے گا ورنہ میں مجبور ہوں۔ ‘‘

زینبؓ نے جب یہ سنا کہ حضورؐ نے ابو العاص کا معاملہ صحابہؒ پر چھوڑ دیا ہے تو و ہ شدت جذبات سے رو پڑیں۔

’بابا جان …آپ نے کتنے ہی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ پھر کیا ابو العاص ان سے بھی گئے گزرے ہیں کہ آپ نے انھیں صحابہؓ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔‘‘زینبؓ کا شکوہ زبان پر آہی گیا تھا۔

حضورؐ بیٹی کے شکوہ پر تڑپ اٹھے۔ انھوں نے زینبؓ سے کہا۔

’’بیٹی میں نے کہا نہ تھا کہ دین کی راہ میں بہت کانٹے ہیں۔‘‘

’’لیکن بابا…‘‘

’’اسلام اور اللہ کی راہ میں ہمیں ثابت قدم رہنا ہو گا بیٹی۔‘‘

’’پر ابو العاص کا فیصلہ بھی تو آپ خود کر سکتے تھے۔‘‘

’’ کیا تم نہیں جانتیں کہ ابوا لعاص مجھے بھی عزیز ہے لیکن اس کا فیصلہ اگر میں خود کرتا تو طرفداری کے جرم کا مرتکب ہوسکتا تھا۔ کیونکہ ابو العاص آخر کو میرا داماد ہے۔ اس لیے میں نے اسے صحابہؓ کے حوالے کر دیا کہ وہ اسلام کی روح کے مطابق فیصلہ کر لیں۔‘‘

٭

تینوں دوست احسان کی زبان سے نکلے الفاظ کو سن کر مبہوت ہو گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

طلسم

 

فتح اندلس سے قبل بادشاہ راڈرک اپنے گھڑ سواروں کے ساتھ گھوڑے دوڑاتے ہوئے تیزی سے قلعہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ جسے اس نے حال ہی میں فتح کیا تھا۔ فتح کی چمک چہرے پر صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک اس نے گھوڑے کی باگیں کھینچ لیں گھوڑے بھیانک ہنہناہٹ کے ساتھ رکتے چلے گئے۔

ـ’’سپہ سالار…یہ پہاڑیوں کی اوٹ میں کون سی عمارت دکھائی دے رہی ہے۔‘‘

’’حضور…یہ تو وہی طلسماتی عمارت نظر آتی ہے جس کی اطلاع ہمارے مخبروں نے دی تھی۔‘‘

’’اوہ…ہم یہ عمارت دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’میری درخواست ہے حضور…کہ پہلے دربار سے فارغ ہو لیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے…لیکن ہم جلد از جلد اس عمارت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ عمارت ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔‘‘

بادشاہ راڈرک کا دربار لگا ہوا تھا۔ بادشاہ نے ضروری احکام صادر بھی نہیں کیے تھے کہ اچانک دو نہایت بوڑھے شخص نمودار ہوئے۔ انہوں نے زمانہ قدیم کے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی سفید قباؤں کے ساتھ کمر پر پُراسرار قسم کی چوڑی بیلٹ باندھے ہوئے تھے جس پر بارہ برجوں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ ہر برج کے نشان کے ساتھ کئی کئی چابیوں کے گچھے لٹکے ہوئے تھے۔ ان بوڑھوں میں سے ایک نے بادشاہ کو بتانا شروع کیا۔

’’ہرقل اعظم نے قدیم شہر کے قریب ایک قلعہ نما شاندار عمارت تعمیر کرائی تھی جس میں ایک طلسم بند ہے۔ عمارت کا راستہ بڑے وزنی پھاٹکوں سے بند کیا گیا ہے اور اس پھاٹک میں قفل پڑے ہوئے ہیں۔ ہر نئے تخت نشین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان میں اپنے قفل کا اضافہ کرے۔‘‘

’’اس کا کیا مطلب ہے‘‘ راڈرک حیران ہوا۔

بوڑھے نے کہنا جاری رکھا۔

’’جو بادشاہ اس طلسم کو کھولنے کی کوشش کرے گا وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔‘‘

اتنا کہہ کر بوڑھا خاموش ہو گیا۔ دربار میں سناٹا پَسرا ہوا تھا۔ اب دوسرے بوڑھے نے بولنا شروع کیا۔

’’ہم نسل در نسل اس طلسم کے محافظ ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ جس نے بھی اس طلسم کو افشا کرنے کی کوشش کی ہے وہ برباد ہو گیا… تو…اے بادشاہ آپ سے ہماری التجا ہے کہ آپ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح اس طلسم پر اپنا قفل ڈال دیں۔‘‘

بوڑھے ان مفروضات کو بیان کر کے غائب ہو گئے۔ لیکن بادشاہ راڈرک سمیت تمام درباریوں کو اشتیاق میں مبتلا کر گئے۔ ان میں سے کچھ خائف تھے تو کچھ اس طلسم کا راز دریافت کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ راڈرک بھی اسی گروہ میں شامل تھا۔

دربار برخاست ہو گیا تو راڈرک نے اپنے حجرۂ خاص میں شاہی مشیروں اور عہدے داران کا اجلاس منعقد کیا۔

’’میں اس طلسم کا راز دریافت کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہوں۔‘‘

’’حضور…بوڑھوں نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کی روشنی میں آپ کی یہ کوشش خطرناک ہو سکتی ہے‘‘ ایک مشیر نے کہا۔

’’مجھے خطروں سے کھیلنے کا شوق ہے۔‘‘

’’ پھر بھی آپ کو وہاں نہیں جانا چاہئے۔ اور اگر جانا ہی ہے تو پیش روؤں کی طرح اس طلسم پر اپنا قفل ڈال کر واپس آ جاناچاہیے‘‘وزیر نے صلاح دی۔

’’ہاں …اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘۔ وزیر کی صلاح پر اجلاس میں عام رائے قائم ہو گئی تو بادشاہ کو ضد چھوڑنی پڑی۔ طے پایا کہ بادشاہ کے ساتھ وزیر اور چند معتمد خاص قفل ڈالنے کی مہم پر جائیں گے۔

اگلے ہی دن راڈرک کا قافلہ پہاڑی کی طرف روانہ ہو گیا۔ راڈرک نے دیکھا کہ بہت اونچی پہاڑی پر ز مرد اور سنگ مرمر سے بنا پرانا لیکن خوبصورت برج قائم ہے۔ اس پہاڑی کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں جنہوں نے اس برج کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ گویا اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ راڈرک کا قافلہ جب برج والی پہاڑی کے نزدیک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ برج پر بڑی کاریگری سے طرح طرح کے نقش کندہ کیے گئے ہیں۔ یہ نقش سورج کی کرنوں کے پڑنے سے ہیرے کی طرح چمک رہے تھے۔ برج والی اس عمارت تک پہنچنے کے لئے پہاڑیوں کو کاٹ کر راستہ بنایا گیا تھا۔ راستہ جہاں ختم ہو رہا تھا وہاں ایک بڑا سا پھاٹک لگا ہوا تھا جس کے بیچ و بیچ بہت سے تالے (قفل )لٹکے ہوئے تھے۔ راڈرک کو بوڑھوں کی بات پر اب یقین ہو چلا تھا۔ یہ وہی تالے تھے جو اپنے اپنے دور حکومت میں اس سے پہلے گذر چکے بادشاہوں نے پھاٹک پر لگائے تھے۔ راڈرک کا قافلہ اب پھاٹک کے بالکل نزدیک پہنچ چکا تھا۔ راڈرک نے دیکھا کہ تمام تالے بالکل ایک جیسے ہی تھے اور ان پر سابقہ بادشاہوں کے نام کندہ تھے۔ پھاٹک پر راڈرک کے پہلے کے آخری بادشاہ کا تالا بھی لگا ہوا تھا۔ اچانک چار ہاتھوں نے ایک بڑا سا تالا راڈرک کی طرف بڑھایا جس پر راڈرک کا نام کندہ تھا راڈرک نے حیران ہو کر ادھر ادھر نظریں گھمائیں تو اسے دائیں بائیں کھڑے وہی دو بوڑھے دکھائی دیے جو اس کے دربار میں آئے تھے۔انہوں نے ہی راڈرک کے نام والا تالا پکڑ رکھا تھا۔ بوڑھوں نے بادشاہ سے پھر التجا کی۔

’’حضور…آگے بڑھیے اور اپنے نام کا قفل ڈال دیجئے‘‘

’’نہیں …‘‘ بادشاہ کی گرجدار آواز سن کر بوڑھے اور اس کے ساتھ آئے درباری بھی اچھل پڑے۔

’’نہیں …ہم یہ تالا بعد میں لگائیں گے پہلے اس طلسم کا راز دریافت کریں گے۔‘‘

بادشاہ کی بات نے دھماکہ کیا تھا جس کے اثر سے پورا قافلہ ہل گیا۔

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں بادشاہ حضور…طے تو یہ ہوا تھا کہ آپ قفل ڈال کر واپس ہو جائیں گے‘‘ وزیر نے ہمت کر کے منھ کھولا۔

’’ہاں …لیکن اب ہمارا ارادہ بدل گیا ہے۔ ہم اس طلسم کا راز دریافت کر کے ہی پھاٹک پر قفل ڈالیں گے۔

’’لیکن تب آپ قفل ڈالنے لائق نہ رہیں گے حضور‘‘۔ بوڑھوں نے بے خوف ہو کر ایک سُر میں جملہ ادا کیا۔

’’دیکھا جائے گا…‘‘ راڈرک نے انہیں تالے کھولنے کا حکم دیا۔

شاہی حکم سے مجبور ہو بوڑھوں نے تالے کھولنے شروع کیے۔ ایک ایک کر جب سارے تالے کھل گئے تو راڈرک نے کہا۔

’’میں اندر جا رہا ہوں …اگر تم میں سے کوئی واپس جانا چاہے تو جا سکتا ہے۔‘‘

کہتے کہتے راڈرک نے قدم پھاٹک کے اندر رکھ دیئے۔ اس کے پیچھے اس کا پورا قافلہ بھی اندر داخل ہو گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ کچھ دیر بعد جب ان کی آنکھیں ذرا دیکھنے لائق ہوئیں تو راڈرک کو محسوس ہوا کہ یہ ایک بڑے ہال نما کمرہ ہے جس کے دو طرف دروازے ہیں۔ جس طرف کے دروازے پر ہلکی روشنی دکھائی دے رہی تھی راڈرک اور اس کا قافلہ اسی طرف بڑھ چلا۔ ابھی وہ دروازے سے کچھ دور تھا کہ ایک دم کمرہ روشنی سے نہا اٹھا۔ سبھی حواس باختہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔

راڈرک کی نگاہ اچانک دروازے کی طرف اٹھی تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے بچی۔ دروازے پر ایک گرز بردار مجسمہ نصب تھا۔ جس کے منھ سے بار بار یہ تنبیہ ہو رہی تھی۔

’’خبردار…اندر جانے والا تباہ و برباد ہو گا…میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔‘‘

اس مجسمہ کے ہاتھ میں بڑا سا فولادی گرز تھا۔ راڈرک اور اس کے قافلے نے نہایت خوف کے عالم میں دیکھا کہ مجسمہ کے ہاتھ میں تھما گرز بار بار زمین پر گر رہا تھا جس سے ہیبت ناک آواز نکل رہی تھی راڈرک نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زور سے کہا۔

’’میں کسی بری نیت سے اندر نہیں جا رہا ہوں …میں یہاں کا بادشاہ ہوں۔ مجھے اندر جانے دو۔‘‘

راڈرک کی آواز نے جادو کا سا اثر کیا۔ مجسمہ کے ہاتھ کا اوپر نیچے ہوتا گرز ٹھہر گیا۔ خبردار کی آوازیں بھی آنی بند ہو گئیں۔ مجسمہ میں گھرگھراہٹ ہوئی اور وہ اپنے پیروں پر ہی گھوم کر ٹھیک راڈرک کے سامنے رک گیا۔ اس کی دہشت ناک آنکھیں راڈرک پر مرکوز تھیں جیسے کہ وہ راڈرک کے بادشاہ ہونے کی تصدیق کرنا چاہتی ہوں۔ اچانک مجسمہ نے راستہ خالی کر دیا۔

راڈرک کا قافلہ دروازہ پار کر گیا۔ اندر ہر طرف جادو بکھرا پڑا تھا۔ سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہیرے جواہرات کے ڈھیر لگے تھے۔ ان کی آنکھیں ہیروں کی چکا چوندھ سے چندھیا گئیں۔ راڈرک کے قافلے میں شامل لوگ ہیرے جواہرات پر للچائی نگاہیں ڈالنے لگے۔ ان ہیرے جواہرات کے ڈھیروں کے بیچ و بیچ ہر قل اعظم کی نصب کردہ میز رکھی تھی۔ میز پر ہیرے جڑاؤ ایک صندوق رکھا تھا۔ راڈرک ڈرتے ڈراتے اس صندوقچے کے قریب پہنچا۔ اس نے صندوقچہ کا قفل کھولا اور ڈھکن اٹھا دیا۔ یہاں ایک اور حیرت ان کی منتظر تھی۔ صندوقچے کے اندر ایک گڈے نما بت کھڑا تھا۔ اچانک اس بت کے اندر سے آواز آئی۔

’’اس صندوقچہ میں طلسم کا راز ہے اسے بادشاہ کے علاوہ کوئی اور تلاش نہیں کر سکتا…اور بادشاہ بھی سن لے…اسے خبردار رہنا چاہیے کہ جو کچھ اس پر ظاہر ہو گا وہ اس کی موت سے پہلے پہلے ضرور ہو کر رہے گا۔‘‘

راڈرک کے وزیر اور دوسرے لوگوں نے جب یہ سنا تو ان کے چہرے فق ہو گئے۔ انہوں نے بادشاہ سے لوٹ چلنے کا اصرار کیا۔ مگر بادشاہ کہاں ماننے والا تھا۔ اس نے صندوقچے کے اندرہاتھ ڈالا ایک قدیم پیپرس کا غذ اس کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس پر چند گھڑسواروں اور جلی ہوئی کشتیوں کی تصویریں نقش تھیں۔

بت کے اندر سے پھر آواز آئی۔

’’اونا فرمان بادشاہ…دیکھ…غور سے دیکھ…یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی وحدانیت کا اقرار کر چکے ہیں اور ظالموں کا صفایا کر نے سر سے کفن باندھ کر نکل چکے ہیں۔‘‘

راڈرک کی نگاہیں پیپرس کاغذ پر جم گئیں۔ اس نے بہ غور تصویروں کو دیکھا اور انہیں پہچاننے کی کوشش کی۔تبھی یوں لگا جیسے وہ تصویریں نہیں کوئی چلتی پھرتی دنیا دیکھ رہا ہے۔ تبھی روشنی دھند لانے لگی اور اس دھند لکے میں اسے مدھم سا منظر نظر آنے لگا۔جو دھیرے دھیرے صاف ہونے لگا۔تصویروں میں نقش لوگ حرکت میں آ چکے تھے۔ پیپرس کاغذ جنگ کے میدان میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ایک طرف صافہ باندھے لوگوں کی جماعت تھی تو دوسرے فریقین کے گلوں میں کراس لٹک رہے تھے پھر گھوڑوں کے دوڑنے اور ہتھیاروں کے چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تلواریں اور گرز چمکنے لگے ہر طرف حشر برپا دکھائی دے رہا تھا۔منظر بدلتے رہے کب تک یہ سلسلہ جاری رہا کوئی نہیں جان سکا۔سارا قافلہ مبہوت تھا اور اب جو منظر سامنے تھا اس میں صافہ باندھے لوگوں کے لشکر نے طارق ؔ زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیئے تھے۔ دوسرالشکر منتشر ہو گیا تھا۔ ان کا سردار جس نے سر پر شاہی تاج پہن رکھا تھا گھوڑے کو تیز تیز بھگائے لئے جا رہا  تھا۔ طارقؔ کا لشکر اس کے پیچھے تھا۔ بھاگتے بھاگتے وہ گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑا اور تبھی سارے منظر غائب ہو گئے۔

بادشاہ راڈرک اور اس کے قافلے پر اس بری طرح خوف طاری ہوا کہ وہ وہاں سے اندھا دھند باہر کی طرف بھاگے کسی نے بھی ہیرے جواہرات کی طرف نہیں دیکھا جو کہ اب سلگتے انگارے بنتے جا رہے تھے۔ وہ جیسے ہی کمرے کے اندر داخل ہوئے تو ایک اور حیرت ان کی منتظر تھی۔ گرز بردار پہریدار غائب تھا۔بدحواسی کے عالم میں وہ یہاں سے بھاگ کر پھاٹک کے باہر آئے جہاں انکے گھوڑے کھڑے ہوئے تھے۔ یہاں ایک دوسری حیرت سے ان کا سامنا ہوا۔ اس پر اسرار عمارت کے رکھوالے دونوں بوڑھوں کی لاشیں پھاٹک پر پڑی ہوئی تھیں۔ بادشاہ نے وقت گنوانا بہتر نہیں سمجھا اور فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ وہ بھاگتا چلا جا رہا تھا بھاگتا چلا جا رہا تھا۔بھاگتے بھاگتے جب اسے احساس ہوا کہ قافلے کے گھوڑوں کی ٹاپیں اس کے پیچھے نہیں آرہی ہیں۔ تو اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا…اس نے دیکھا پہاڑی پر ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔پتھر آگ کی شدت سے چٹخ رہے ہیں اور اُچھل اُچھل کر اِدھر اُدھر لڑھک رہے ہیں۔ اس کا قافلہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔مارے خوف کے راڈرک کے ماتھے پر پسینہ چھلک آیا۔ اس نے گھوڑے کو مزید ایڑ لگائی اور گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا…بھاگتے بھاگتے وہ میلوں کا سفر طے کر چکا تھا لیکن اس کا محل اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا وہ دوڑتا رہا دوڑتا رہا…اور اچانک اس کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی…راڈرک ایک چیخ مارتا ہوا زمین پر گر پڑا۔

٭٭٭

 

 

 

اور سرحد کھو گئی ؟

 

گلریز تیز تیز قدموں سے دیوانہ وار منزل کی طرف بڑھا چلا جا رہا تھا۔ فراق یا ر میں اس کی حالت مجنوں سے کسی طور کم نظر نہیں آتی تھی۔ بڑھی ہوئی داڑھی، پینٹ کے اوپر نیچا کرتا جس کے اوپری بٹن کھلے ہوئے تھے۔ کافی عرصے سے نہیں تراشے گئے لمبے لمبے با ل جو ہوا کے جھونکے سے اُتر کر اس کے ماتھے پر دراز ہو جاتے تو کبھی سائڈوں میں ڈھلک جاتے۔ انہیں سنبھالنے کی فرصت اور خیال گلریز کے دماغ میں آ ہی نہیں رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ کتنا فاصلہ طے کر چکا ہے اس کی اسے خبر نہیں تھی لیکن اسے لگ رہا تھا کہ منزل اب دور نہیں ہے۔

’’اے نوجوان۔رکو…کہاں جا رہے ہو ‘‘۔

ایک کڑک آواز نے گلریز کو چونکا دیا تھا۔ سامنے ایک فوجی اس کی طرف گن تانے کھڑا تھا۔ ’’میں انار سے ملنے جا رہا ہوں صاحب۔‘‘ گلریز نے بنا مرعوب ہوئے جواب دیا۔

’’انار…کون انار؟‘‘

’’میری منکو حہ ہے صاحب اُدھر‘‘۔ اس نے سامنے کچھ فاصلے پر بنے مکانات کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔

’’کیا …وہاں …تم وہا ں نہیں جا سکتے ‘‘۔ کڑک آواز پھر گونجی۔

’’لیکن کیوں صاحب…کل تک تو میں یہاں سے وہاں آرام سے جایا کرتا تھا۔‘‘

’’لیکن اب نہیں جا پاؤ گے …چلو واپس جاؤ۔‘‘

’’لیکن …وہاں میری انار…‘‘۔

’’کہا نا واپس جاؤ …اور…جا کر دوسری دلہن بھی ڈھونڈ لو ‘‘۔

فوجی کے بھدّے مذاق پر وہ تلملا کر رہ گیا۔ ابھی وہ واپسی کے لیے مڑ نا ہی چاہتا تھا کہ ایک دو شیزہ سے فوجی کی جھڑپ سن کر رک گیا۔

’’بھائی …میری ماں بہت بیمار ہے …مجھے ادھر دوا لینے جانا ہے …مجھے جانے دونہ۔‘‘

’’لیکن تمہارے محلہ میں بھی تو ڈاکٹر ہیں انہیں کیوں نہیں دکھاتی ہو۔‘‘

’’بھائی …مجھے جانے دونہ …ادھر جو ویدھ جی رہتے ہیں ان کی جڑی بوٹی میری ماں کو بہت فائدہ کرتی ہیں … انہیں ویدھ جی کی دوائی سے جلد آرام آ جاتا ہے … مجھے جانے دونہ بھائی۔‘‘

’’دیکھو …میری بات مانو …اور وہیں کسی ڈاکٹر سے علاج کرانے کی عادت ڈال لو…اب تم لوگ اس طرف نہیں جا سکتے۔‘‘

ابھی دو شیزہ پوری طرح مطمئن نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑے میاں آ کر فوجی گروپ سے بھِڑ گئے۔

’ارے فوجی بیٹا…دیکھو …ادھر میرا بیٹا شدید بیمار ہے …مجھے اسے دیکھنے جانا ہے… مجھے کچھ دیر کے لیے ادھر جانے دو نہ…بھگوان تمہارا بھلا کرے گا بیٹا۔‘‘

’’ارے کہا نا کہ ا ب تم لوگ ادھر کبھی نہیں جا سکتے۔ چلو واپس جاؤ۔‘‘ فوجی نے انہیں بھی ٹرکا دیا۔ لیکن بڑے میاں کہاں ماننے والے تھے۔

’’میں کیوں نہیں جا سکتا ادھر …میرا بیٹا رام سنگھ ادھر بیمار ہے…موت زندگی کے بیچ جنگ چل رہی ہے …تم کیسے نہیں جانے دو گے مجھے ؟…مجھے اپنے بیٹے سے ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا سمجھے۔‘‘ کہتے کہتے بڑے میاں کا گلا رندھ گیا تھا۔ فوجی بھی کچھ نا دم سا ہو گیا۔

’’بابا…میں مجبور ہوں …اب آپ دونوں کے درمیان یہ سر حد حائل ہو گئی ہے…میں اگر آپ کو جانے بھی دوں …تو ادھر کے فوجی آپ کو مار ڈالیں گے۔‘‘

’’اچانک یہ سرحد کہاں سے قائم ہو گئی۔کل تک تو یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘ گلریز نے فوجی سے پوچھا جواب تک چپ چاپ کھڑا تمام باتیں سن رہا تھا۔

’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو نوجوان…یہ سرحد آج ہی قائم ہوئی ہے۔‘‘

’’لیکن کیوں۔‘‘ گلریز کا لہجہ احتجاج سے بھر پور تھا۔

’’اس لیے کہ اب ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں …ہم آزاد ہیں …اب ہم سر اٹھا کر جئیں گے اور ہمارا ملک جنت نشاں بنے گا۔‘‘ فوجی کی آنکھوں میں جگنو چمک اٹھے تھے۔

’’لیکن ایسی آزادی کس کام کی فوجی بیٹا …کہ ہم اپنوں سے ہی دور کر دئیے جائیں۔‘‘ بڑے میاں کی کرب زدہ آوازپر فوجی خاموش رہ گیا۔

’’اور انکل انکل …ہمیں تو آپ وہاں جانے دیں گے نہ۔۔۔۔ہم وہاں روز کھیلنے جاتے ہیں۔‘‘ ایک چار پانچ سال کے بچے نے اچانک فوجی کی پینٹ کھینچ کر سوال کیا تو وہ سکتے میں رہ گیا۔ بچے کو وہ کیا جواب دے اس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا۔

’’اور صاحب جی …مجھے اپنی بھیڑ بکریاں چرانے بھی جانا ہے وہاں اچھی اچھی گھاس ہوتی ہے نہ۔‘‘ ایک سات آٹھ سال کے میلے کچیلے کپڑے پہنے بچے نے کہا تو بے اختیار فوجی کی آنکھیں بھی نم ہو اٹھیں۔

’’نہیں میرے بچو اب تم بھی وہاں نہیں جا سکتے۔ یہاں اب سرحد قائم ہو گئی ہے جو تمہیں وہاں جانے سے روک رہی ہے۔‘‘ نم ہوئی آنکھوں کا راز عیاں نہ ہو اس لیے فوجی نے دوسری طرف منھ گھما لیا۔

’’اللہ اس سرحد کو غارت کر دے۔‘‘ دو شیزہ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اونچی آواز میں دعا کی تو بر بس سبھی کی آوازیں اس کے ساتھ ملتی چلی گئی۔

’’آمین…آمین…ثم آمین۔‘‘

کہکشاں کا خوبصورت سیارہ – زمین ،جو شاید واحد سیارہ ہے جہاں انسانی مخلوق بستی ہے۔ اسی زمین کے ایک ملک کی کو کھ سے دوسرا ملک پیدا ہوا تھا۔ ملک کے وجود میں آنے سے قبل ایک خونریز داستان وجود میں آئی تھی جس نے نئے ملک کے قیام کی بنیاد رکھی تھی۔ قیام ملک سے قبل سوچا یہی گیا تھا کہ اب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہو گی اور ترقی و خوشحالی کا دور دورا ہو گا۔ لیکن یہ ممکن کیسے ہوتا۔ جب ممالک کا قیام فریب ، مکاری، عیاری اور عوام کی خواہشوں کے خلاف ہوا تھا۔ غیر یقینی کی فضا ، دلوں میں غبار زبان پر شکوے شکایات اور الزام تراشیاں۔ ایسے میں خوشحال معاشرہ کا تصور چہ معنی دارد۔ بہر حال دونوں ممالک کے درمیان ایک خط تقسیم قائم کر دی گئی۔ جس کے قیام نے ایک ہی نسل علاقہ اور ماحول تک کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔ خط تقسیم کے ذریعہ قیام پذیر سرحدوں کے پس منظر میں جو خونی تصادم کار فرما تھے اسی کا نتیجہ تھا کہ دونوں طرف کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے شدید غصہ تھا۔ لیکن خونی رشتوں کی مہک بھی کہیں نہ کہیں انہیں ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھی۔ سرحد کے قیام سے خاندان اور گھرانے تک تقسیم ہو گئے تھے۔ ایک ہی گھر اور خاندان کے کچھ لوگ ادھر تو کچھ سرحد پار ہو گئے تھے۔ سرحدی لکیر جہاں سے گذر رہی تھی وہاں وہاں زمین کے ساتھ ساتھ دل بھی ٹوٹ کر بکھرتے جا رہے تھے۔ اور یہ ٹوٹ کیا یہاں تک ہی رہنے والی تھی۔

٭

’’ارے …ارے …رکو بھئی …کہاں جا رہے ہو تم۔‘‘

’’جناب ہماری عبادت کا وقت ہو رہا ہے…ہمیں ادھر اپنی اولین عبادت گاہ میں عبادت کے لیے جانا ہے۔‘‘ بزرگوں اور نوجوانوں کی ٹولی کے قائد نے بے حد شائستگی کے ساتھ مدعا بیان کیا۔

جواب میں اتنی ہی بد تمیزی کا مظاہرہ ہوا۔

’’چپ کر و تم سب کے سب واپس چلے جاؤ…اسی میں تمہاری خیریت ہے۔‘‘

’’لیکن ہمارا عبادت کا مقدس ماہ چل رہا ہے …اس میں تو ہمیں ہماری اولین عبادت گاہ تک جانے دو…آخر ہم عبادت کے لیے ہی تو وہاں جانا چاہتے ہیں۔‘‘

ٹولی کے قائد نے بد تمیزی کو در گذر کرتے ہوئے اپنے مدعے کی وضاحت کی۔

’’کہا نہ چپ چاپ واپس چلے جاؤ…ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں سرحد پار نہ کرنے دی جائے۔اس لیے جان کی اماں چاہو تو واپس چلے جاؤ…ورنہ…‘‘

’’ورنہ کیا ؟‘‘ اس بار نوجوان کا خون ابل پڑا تھا۔

’’زبان لڑاتا ہے …تو ہم سے زبان درازی کرتا ہے…یو باسٹرڈ…‘‘ غصے سے کانپ رہے فوجی نے نوجوان کی طرف اپنی رائفل تان لی۔

’’سالے…گولی بھیجے میں اتار دوں گا…‘‘

اپنے ساتھی کو نوجوان سے الجھتا دیکھ اس کے اور ساتھی بھی مقابلے کے لئے آ کھڑے ہوئے تھے۔

’’زبان کو لگام دو ورنہ ہم بھی کم نہیں ہیں۔‘‘نوجوان گھبرایا نہیں اور کالر اونچا کر کے فوجیوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کے ساتھ اور بھی نوجوان تھے جو اس کی حمایت میں اس کی پشت پر آن کھڑے ہوئے تھے۔دونوں طرف سے تلوار یں کھینچتی دیکھ بزرگوں نے نوجوانوں کو سمجھا بجھا کر واپس لے جانے کی کوشش شروع کی لیکن وہ کہاں ماننے والے تھے۔ خالی ہاتھ وہ فوجیوں کے سامنے اکڑے کھڑے تھے۔ اچانک فوجی کے ہاتھ سے ٹریگر دبا اور سامنے کھڑے نوجوان کے سینے سے خون کا فوارہ ابل پڑا۔ یہ دیکھ کر باقی نوجوان غم و غصے سے پاگل اٹھے۔ انہوں نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ زمین پر پڑے ہوئے پتھر اٹھائے اور فوجیوں پر برسانے شروع کر دئیے۔ غم و غصہ اس قدر شدید تھا کہ فوجی بدحواس ہو گئے۔ انہوں نے باقاعدہ فائرنگ شروع کر دی۔ اور سرحد کو خون سے رنگ ڈالا۔

٭

خط تقسیم کے دونوں طرف دونوں ممالک کی افواج ہر وقت مستعد رہتی تھیں۔ لیکن ان کے درمیان میں محبت اور دشمنی کی انوکھی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ سرحد پر کھڑے دونوں طرف کے فوجی کسی وقت ایک دوسرے کے دوست بن کر قہقہے لگاتے نظر آتے تو اچانک دوستی دشمنی میں تبدیل ہو جاتی اور نوبت گولی باری تک پہنچ جاتی تھی۔ ایک شام دو فوجی دوست آپس میں مل رہے تھے۔

’’یار سردار ے …دلوں کے مقابلے سیاست جیت ہی گئی …اور…ا ب یہ آزادی کے نام پر سرحدہمارے تمہارے درمیان حائل ہو گئی ہے…وہ بھی کیا دن تھے جب ہم بے خوف ہو کر ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے اور ساتھ بیٹھ کر…غم غلط کرتے تھے…لیکن اب…‘‘

’’لیکن اب…اب…‘‘سردارے محض ہکلا کر رہ گیا۔

’’چل دل چھوٹا نہ کر یار…ہم تو فوجی ہیں اور ساتھ ساتھ ہیں۔ ملنے کے موقع تو نکال ہی لیا کریں گے ‘‘۔

’’اچھا اب اندھیرا ہو چلا ہے تو واپس ہو لے …کل پھر ملیں گے۔‘‘

سردارے جیسے ہی نو مینس لینڈ میں پہنچا اچانک ایک فائر کی آواز نے اسے چونکا دیا۔

’’کون ہے وہاں …‘‘ سردارے خاموش ہو کر زمین پر لیٹ گیا۔

’’اپنے ہاتھ اوپر کر کے سامنے آ جاؤ ورنہ میں گولی چلا دوں گا۔‘‘

’’ارے یہ تو سالا…‘‘کہتے کہتے سردارے اٹھ کھڑا ہوا۔

’’دھائیں ‘‘گولی کی آواز نے اندھیرے کو پھر چیر ڈالا تھا۔اور اس مرتبہ ایک چیخ بھی گونجی تھی۔ سردارے سینا پکڑ کر دوبارہ زمین پر گر پڑا تھا گولی نے اس کے دل کو بھید دیا تھا اس کی روح پرواز کر چکی تھی لیکن اس کی حیرت سے پھٹی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی اپنے کی ہی بے صبر گولی کا شکار ہو گیا تھا۔ نومینس لینڈ میں پڑی اس کی لاش کو اٹھانے بھی کوئی نہیں آیا تھا۔

لیکن سردارے کی موت کوئی آخری واقعہ نہیں تھا بلکہ بعد میں تو یہ معمول بن گیا۔ دونوں طرف کے نہ جانے کتنے فوجی جانے انجانے ایک دوسرے کی گولیوں کا شکار ہوتے گئے۔  کئی مرتبہ تو وہ اس طرح شکار ہوئے کہ انہیں پتہ ہی نہ تھا کہ وہ سرحد پار کرنے کی وجہ سے مارے گئے یا پھر دوست سے گلے ملنے کے خطا وار ہوئے۔ خون کی پیاسی سرحد بھی شاید ایسے موقعوں پر کہیں چھپ جاتی تھی۔ بہت سے عام انسان بھی گولیوں کا شکار ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کہ جانے انجانے نا سٹیلجیا(Nostalgia) کا شکار ہو کر اپنے رشتہ داروں عاشق و معشوق اور دوست احباب سے ملنے کی غرض سے سرحد پار کرنے کی پاداش میں مجرم ٹھہرے تھے۔

لیکن تب کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر یہ خط تقسیم یا سرحد اچانک غائب ہو جائے تو کیا ہو گا ؟وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے تھے بھلا نئے دور میں اس طرح کی بات سوچنا سخت حماقت سمجھی جانی تھی۔ نہ جانے یہ گلریز یا اس دوشیزہ، بڑے میاں یا پھر عوام کے ایک بڑے طبقے کی دعاؤں کا اثر تھا یا پھر معجزہ ! کہ اچانک سرحد غائب ہو گئی تھی چونکہ یہ معجزہ رونما ہو ہی چکا تھا اس لیے ٹی وی چینلوں پر مسلسل اسی کی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ خط تقسیم کے غائب ہونے کو اب تک کا سب سے پر اسرار معاملہ بتاتے ہوئے اس کے غائب ہونے کی صورتوں اور غائب کرنے والوں کی فہرست بھی زور شور سے نشر کی جا رہی تھی۔ سرحد غائب ہونے کی خبر نے دونوں ممالک کی حکومتوں کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن اسے موقع غنیمت جان کر دونوں ہی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ ساتھ ہی سرحد کو ڈھونڈ نے کے لیے اور سرحد کے غائب ہونے کی وجوہ تلاشنے کے لیے دو الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دے کر فوری طور پر کام شروع کرنے کی ہدایات جاری ہو چکی تھیں۔

سرحد گم ہو جانے سے دونوں حکومتیں اس قدر حواس باختہ تھیں کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آگے وہ کیا اقدامات کریں۔ سرحد غائب ہونے سے دونوں حکومتوں کے سامنے سب سے بڑی مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین تفریق کس بنیاد پر کی جائے۔ بات دراصل یہ تھی کہ دونوں ممالک کے عوام کی قد کاٹھی ، رنگ روپ سے لے کر رہن سہن بھی کافی حد تک ملتا جلتا تھا دوسری مشکل علاقہ کی پہچان کو لے کر ہو رہی تھی کیونکہ دونوں ممالک کے علاقوں کی زمین ، ماحول، آسمان، پہاڑ، ندیاں جنگل بھی ایک جیسے ہی تھے۔ وہ تو سرحدی لکیر ہی تھی جو کہ علاقہ کی پہچان قائم رکھے ہوئے تھی اور اب یہی لکیر غائب ہو گئی تھی۔

حکومتوں کے ذریعہ تشکیل دی گئی ٹیمیں سرحدی لکیر کی تلاش میں جگہ جگہ دنبشیں دے رہی تھیں۔ تلاش کر رہی ٹیم نے تاریخ سے پتہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ کچھ سال پہلے تو ایسی کوئی لکیر کہیں تھی ہی نہیں۔ یہ بھی سوچا گیا کہ سرحد پر مسلسل ہونے والی گولی باری میں تو یہ نازک لکیر غائب نہیں ہو گئی۔ کچھ کا یہ بھی خیال تھا کہ حساس طبیعت سرحدی لکیر مسلسل گولی باری سے عاجز آ کر خود ہی کہیں جا کر چھپ گئی ہے۔ ٹیم تلاش کرتے کرتے محکمہ آثار قدیمہ بھی پہنچی لیکن یہاں تو حالات اور زیادہ خراب ملے۔پتہ لگا کہ یہاں ان دو ممالک کے درمیان ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک کے درمیان کوئی خط تقسیم ہے ہی نہیں۔ خیال کیا گیا کہ اس دور میں سرحدی لکیر اسی طرح تحت الثریٰ میں چلی گئی ہے جیسے مقدس و یدوں کے عہد میں سر سوتی ندی غائب ہو گئی تھی۔

بہر حال مسئلے کا کوئی واجب حل کسی کو نہیں سوجھ رہا تھا۔ نہ سرحدی لکیر موجودہ زمانے میں کہیں دکھائی دے رہی تھی نہ تاریخ میں نہ مستقبل میں۔ یہاں تک کہ نہ آدمی کی نسل نہ اس کی شکل میں ، نہ ادب میں نہ فنون میں اور نہ ہی جغرافیہ میں۔ لکیر کیا غائب ہوئی سب کچھ ایک ساہی لگنے لگا تھا جیسے یہ دو ممالک نہ ہو کر ایک ہی ملک ہو اور اس میں رہنے والے ایک ہی ملک کے باشندے ہوں۔ سرحد کے غائب ہونے سے ایک اور پیچیدہ مسئلہ سامنے آیا تھا۔ صاف طور پر یہ پتہ نہیں لگ پا رہا تھا کہ کون کس کے خلاف ہے یہاں تو سبھی ایک دوسرے کی موافقت میں نظر آ رہے تھے۔ جب یہ پتہ نہ چلے کہ کون کس کے خلاف ہے تو انسان کی سب سے بڑی شناخت اس کی ہزاروں سال پرانی جنگ جوئی کی روایت کو دھچکا لگتا ہے۔ ایسے میں جنگ اور جدو جہد جیسے عظیم فرائض کا تقدس ہی مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ چونکہ جدو جہد ہی ترقی کی بنیاد ہے اس لیے انسانی ترقی کے التوا میں پڑنے کا خطرہ بھی لا حق تھا۔ حال یہ تھا کہ جدو جہد اور بے شمار قتل عام کی شکست نا پذیر ترکیبیں تعمیر اور تقسیم کرنے والے تمام ادارے اور کارخانے سب کے لیے مصیبتیں پیدا ہو گئیں تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک کے اقتصادی نظام پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے شروع ہو گئے تھے۔ جو کہ ممالک کے لیے چنتا کی بات تھی۔

سرحد بہر حال گم تھی۔ ویسے بھی جن گھنے جنگلوں ،ویرانوں اور سنگلاخ پہاڑوں سے ہو کر یہ خط تقسیم گذرتی تھی اسے ہر وقت نگاہ میں رکھنا بہت مشکل تھا۔لیکن اب جبکہ یہ گم ہو گئی تھی تو اسے ڈھونڈنا اور بھی مشکل کام نظر آرہا تھا۔ سرحد کی گمشدگی کے بعد خط تقسیم ڈھونڈنے والے لوگ اور عوامی بھیڑ دونوں ملکوں کے درمیان اتنی آزادی کے ساتھ آ جا رہی تھی کہ لگتا تھا اب دو ملک نہیں رہ گئے بلکہ دونوں مل کر ایک ملک ہو گئے ہیں۔ حالات اس قدر تبدیل ہو چکے تھے کہ سرحد کے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین میل جول، آمد رفت اتنی فطری ہو گئی تھی کہ شادی بیاہ اور عشق و عاشقی کے معاملات دوبارہ طے ہونے لگے تھے۔ اب بچے بھیڑ بکریاں چرانے اور کھیلنے کو د نے کے لیے آزادی سے آ جا رہے تھے تو بڑے میاں بھی شان کے ساتھ اپنے بیٹے سے ملنے جاتے تھے۔ وہ دوشیزہ بھی خوش تھی کہ اب وہ ماں کی دوا وید ھ جی سے لا سکتی تھی۔جس سے اس کی ماں کی طبیعت بھی کچھ سنبھل گئی تھی۔اور گلریز…وہ کہاں تھا ؟

رات کے گھنے اندھیرے میں ایک سایا تیزی سے چلتے چلتے چوڑی سڑک سے منسلک گلی میں داخل ہو گیا۔ گلی سنسان تھی۔ وہ چلتے چلتے یا تو تھک چکا تھا یا پھر احتیاطاً چال سست کر لی تھی۔ گھپ اندھیرے میں چلتا ہوا سایا بے حد پر اسرار لگ رہا تھا۔ سایا اچانک ایک شاندار بلڈنگ کے مضبوط گیٹ پر پہنچ کر رک گیا۔ اس نے اوپر سر اٹھایا تو مکان کی باہری دیوار میں لگے روشن دان پر کچھ روشنی دیکھ کر چونک پڑا۔

’’لگتا ہے وہ ابھی سوئی نہیں ہے …چلو اچھا ہی ہے۔‘‘

اس نے روشن دان کے آس پاس کی دیوار کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔روشن دان قدرے بڑا تھا اور اس میں خالی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔اس کے کافی قریب سے پانی کا پائپ نیچے تک آ رہا تھا۔ سایا اس پائپ کے سہارے اوپر چڑھنے لگا۔ روشن دان کے پاس پہنچ کر اس نے اندر جھانکا اندر کی طرف کمرے میں روشنی پھیلی ہوئی تھی اور ایک نوجوان خوبصورت لڑکی آرام کرسی پر آدھی لیٹی ہوئی دکھائی دی۔ وہ شاید کسی سوچ میں گم تھی کیونکہ ایک ٹک خلا میں گھور رہی تھی۔ سایا روشن دان پار کر کے کمرے کے اندر پہنچ گیا۔ دبے پاؤں چلتے ہوئے لڑکی کے ٹھیک پیچھے پہنچ کر چند سکنڈ کے لئے سانس رو کے کھڑا رہا۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ بڑھا کر لڑکی کی آنکھیں ڈھک لیں۔

’’ک…ک…کون‘‘ لڑکی کی آواز چیخ میں بدلتی اس سے پہلے ہی اس نے لڑکی کے منھ کو ہاتھ لگا کر بند کر دیا۔

’’پہچانو…تو ذرا…کون گستاخ تمہارے کمرے میں گھس آیا ہے۔‘‘ اس نے منھ سے ہاتھ ہٹا لیا۔’’گلریز …تم…تم یہاں ‘‘؟ خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات سے لڑکی کا چہرہ دمکنے لگا تھا۔

’’ہاں …انار…یہ میں ہوں …تمہارا اور صرف تمہارا گلریز۔‘‘

انار بے ساختہ گلریز سے لپٹ گئی۔اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تھیں۔ کافی دنوں کی جدائی کے بعد ملن کی عجیب و غریب کیفیت سے وہ محظوظ ہو رہی تھی۔

’’گلریز تم سرحد پار کر کے اس وقت کیسے یہاں آ گئے…تمہیں فوجیوں نے یہاں آنے کیسے دیا…کہیں تم فوجیوں کی نگاہ سے بچ کر نکلنے میں تو کامیاب نہیں ہو گئے ہو۔‘‘ انار اچانک پریشان دکھائی دینے لگی تھی۔

’’نہیں میری جان …ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ’’گلریز مطمئن ہو انار کی نرم و نازک زلفوں سے کھیلنے لگا۔

’’پھر تم آئے کیسے …خیر آ تو گئے…لیکن۔‘‘

’’خوشی کی خبر یہ ہے انار ہمارے درمیان حائل محبت کی دشمن سرحد اب غائب ہو گئی ہے…اب ہم آزاد ہیں۔‘‘

’’کیا…یہ تم کیا کہہ رہے ہو گلریز؟‘‘انار کی آواز میں بے یقینی جھلک رہی تھی۔

’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں …اب ہماری جدائی کے دن ختم سمجھو۔‘‘ گلریز جذبات کی رو میں بہک کر قدر تیز آواز میں بولنے لگا تھا۔

’’کون ہے …انار…انار تمہارے کمرے میں کون ہے۔‘‘ آواز لگاتے لگاتے انار کے والدین اس کے کمرے میں داخل ہو گئے تھے۔

’’اوہ …تو یہ تم ہو برخوردار…تم اتنی رات میں یہاں کس طرح پہنچ گئے…‘‘ یہ انار کے والد کی آواز تھی۔

’’بیٹا گلریز تم اتنی رات میں سرحد پار کر کے کیسے آ گئے …کہیں تم فوجیوں سے چھپ کر تو نہیں آئے ہو کہ وہ تمہیں ڈھونڈتے ہوئے یہاں آنے والے ہوں۔‘‘

’’نہیں …نہیں اماں …ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ انار گلریز سے پہلے ہی بول پڑی۔

’’پھر یہ یہاں کیسے ؟ ‘‘ انار کے والد قدر خفگی سے انار کو گھور تے ہوئے بولے۔ وہ ابھی تک الجھن کا شکار تھے۔

’’انکل…ہمارے درمیان حائل سرحد اچانک گم ہو گئی ہے …اور …میں صبح ہونے کا انتظار نہیں کر سکا …انکل اس سے پہلے کہ سرحددوبارہ واپس آ جائے میں چاہتا ہوں کہ آپ انار کی رخصتی طے کر دیں۔‘‘

گلریز نے بڑی بے باکی اور ہمت کے ساتھ یہ الفاظ ادا کیے تھے۔ انار کے گھر والے اس کی بیتابی کو سمجھ رہے تھے اور حیران بھی تھے کہ انار کی محبت نے اس کے اندر بلا کی خود اعتمادی بھر دی تھی۔ انار کے والد نے ایک مرتبہ انار کی طرف دیکھا اور وہ اس کے جذبات کو پہچان گئے۔ وہ سوچوں میں گم ہو گئے۔

’’تو انکل…‘‘

’’ٹھیک ہے جب سرحد گم ہو ہی گئی ہے تو پھر مجھے کیا اعتراض ہے تم کل اپنے والد صاحب کو لے کر آنا تب باقی کی بات کریں گے۔ کاش کہ یہ سرحد ہمیشہ کے لیے ہی غائب ہو جائے ‘‘۔ کہہ کر انار کے والد کمرے سے نکل گئے۔

’’آمین‘‘ سبھی نے  دہرایا۔

٭

’’بیٹارامو…رامو…کہاں ہے میرا بیٹا۔‘‘ رام سنگھ کے والد بڑے میاں اب آرام سے ٹہلتے ہوئے اپنے بیٹے کی عیادت کے لیے پہنچ گئے تھے۔

رامو کی بیوی جلدی سے سر پر دوپٹہ ڈال کر بڑے میاں کے استقبال کے لیے دروازہ پر آئی۔ اور ان کی چھڑی پکڑ کر اندر کمرے میں لے آئی جہاں رام سنگھ بستر علالت پر پڑا ہوا تھا۔

’’بابا…آپ…آپ کیسے آ گئے۔ ‘‘ رام سنگھ بدبدایا۔ وہ غنودگی کے عالم میں تھا۔

’’ارے بیٹا …اوپر والے نے ہماری سن لی ہے۔ اب ہمارے درمیان حائل سر حد غائب ہو گئی ہے…اور ہم پہلے کی طرح آزاد ہو گئے ہیں۔‘‘ بڑے میاں کی فرط جذبات میں ڈوبی آواز نے رام سنگھ پر جادو کا سا اثر کیا تھا۔ اس نے اپنی پوری آنکھیں کھول دیں۔

’’تو بتا بیٹا …اب تیری طبیعت کیسی ہے؟‘‘

’’اب ٹھیک ہوں بابا…بابا…مجھے معاف کر دو…کاش میں نے گھر نہ چھوڑا ہوتا تو آج ہم یوں پریشان نہ ہوتے۔‘‘ کہتے کہتے رام سنگھ کی آواز بھّرا گئی۔

’’اب جو ہوا سو ہوا۔ پہلے تو ٹھیک ہو جا تو ہم ساتھ ساتھ ہی رہیں گے۔‘‘

بوڑھے باپ کی آنکھیں بھی گیلی ہو گئی تھیں۔

’’لیکن بابا سرحد اچانک غائب کیسے ہو گئی۔‘‘ رام سنگھ کی بیوی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

’’بھگوان جانے بیٹی…لیکن یہ اچھا ہی ہوا…بھگوان کرے کہ یہ سرحد اب کبھی واپس نہ آئے۔‘‘

٭

’’کیلاش یار کچھ بھی ہو…دل خوش ہو گیا ‘‘ عادل خان نے کیلاش سے گلے ملتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک کہتے ہو دوست…اس سرحدنے تو ہم دوستوں کو بھی دشمن بنا رکھا تھا ‘‘

’’ہاں یار…لیکن اب سرحد نے غائب ہو کر ہمارے لیے جشن کا موقع فراہم کر دیا ہے …تو ہو جائے ایک ایک پیگ۔‘‘ گلاس میز پر جم گئے۔

’’یار…آج اگر سردارے زندہ ہوتا تو کتنا خوش ہوتا۔‘‘ دونوں کی آنکھیں اچانک نم ہو گئیں۔

’’کاش کہ یہ سرحدکبھی نہ ملے۔‘‘

’’آمین۔‘‘

٭

برفیلی پہاڑیوں میں ایک خونخوار سادکھنے والا شخص وائرلیس سیٹ پر بات کرنے میں مصروف تھا۔

’’ہیلو…ہیلو…ٹائگر اسپیکنگ …اووَر(Over)۔‘‘

’’انچارج کا لنگ …اوور۔‘‘

’’انچارج صاحب یہاں سرحد پر بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے…اوور۔‘‘

’’کیا ؟…کیا  ہوا…اوور۔‘‘

’’تمام جدو جہد کے بعد جو سرحد قائم ہوئی تھی وہ اچانک غائب ہو گئی ہے سر۔‘‘

’’کیا بکتے ہو …ہوش میں تو ہو۔‘‘

’’میں پورے ہوش میں ہوں سر…ہم سب خود بھی حیران ہیں کہ …‘‘

’’ضرور یہ تمہاری کوتا ہی ہے …تم لوگ نازک سی سرحدی لکیر کا تحفظ نہیں کر سکتے۔  آخر…تم ہو کس مرض کی دوا۔‘‘

’’سر اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے سر …وہ بالکل اچانک ہی غائب ہوئی ہے۔‘‘

’’شٹ اپ …لگتا ہے تم کو تحریک میں شامل کرنا ہماری بھول تھی ؟‘‘

’’نہیں …نہیں سر… ایسا مت کہے ہم جی جان سے تحریک کے ساتھ ہیں۔‘‘

’’کس نے غائب کی یہ پتہ لگایا؟‘‘

’’یہی تو پتہ نہیں لگ رہا سر…دونوں طرف بھی سب پریشان دکھ رہے ہیں۔‘‘

’’خیر…پتہ لگاؤ یہ کس کا کام ہے…تحریک کی کامیابی کے لیے سرحدی لکیر کا ملنا اور اس کا قائم رہنا بہت ضروری ہے …ڈھونڈو…چاہے اس کے لئے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے …اوور…اوور اینڈ آل۔‘‘

٭

چودھری ملک کی کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔ صدر نے تالیوں کی گڑگراہٹ کے درمیان ڈائس پر رکھے مائک کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولنا شروع کیا:

’’ممالک کے درمیان سے سرحد کا غائب ہو جانا نہ صرف یہ کہ تعجب خیز ہے بلکہ نہایت خطر ناک سازش بھی ہے۔ سرحد کے غائب ہونے سے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ آپکی ذہنی پرواز سے دور نہیں ہیں۔

اگر اس طرح سرحد یں غائب ہونے لگیں گی تو ہمارا اقتصادی نظام در ہم بر ہم ہو جائے گا۔ کیوں اور کیسے یہ آپ سب بخوبی سمجھ سکتے ہیں ؟ جن مہلک ہتھیاروں پر ہمارے سائنسدانوں نے کئی سال محنت کی ہے اور اب جب کہ ان کا کامیاب تجربہ بھی سامنے آ چکا ہے  تو ہم ان کا کریں گے کیا ؟ اگر سرحد کی بنا پر ہونے والی جنگیں بند ہو گئیں تو نہ صرف اقتصادی کمزوری پیدا ہو گی بلکہ انسانی ترقی کی راہیں بھی مسدود ہو کر رہ جائیں گی۔ انسانی ترقی رک جائے گی اور مسلسل دل دہلا دینے والی اڑچنیں پیدا ہو جائیں گی۔ تو کیا آپ لوگ انسانی تباہی کا منظر دیکھنا پسند کریں گے ؟‘‘

’’نہیں …‘‘ کئی سینیٹر اچانک ایک آواز ہو کر چیخے۔

’’لیکن سرحد غائب کیسے ہوئی؟‘‘ ایک مخالف جماعت کے سینیٹر نے سوال کیا۔

’’اس کا پتہ لگانے کے لیے کمیشن کی تشکیل زیر غور ہے۔‘‘

’’صدر محترم …مجھے لگتا ہے کہ یہ حرکت کسی ایلین (دوسرے سیارہ کی مخلوق) کی ہے۔‘‘ ایک سینیٹر نے بڑے پتے کی جانکاری مہیا کی تھی۔

’’ممکن ہے یہ ایلین کا ہی کام ہو؟‘‘ صدر محترم نے مشورہ قبول کر لیا۔

’’لیکن کیا ایلین ایسا کر سکتا ہے؟‘‘ ایک اور مخالف سینیٹر نے کہا۔

’’کر بھی سکتا ہے؟‘‘ صدر نے گول مول جواب دے کر بات ختم کرنے کی کوشش کی۔

’’بہر حال انسانی بقا اور اپنے اقتصادی نظام کو تقویت دینے کے لئے کھو گئی سرحد کو ہر حال میں کھو جنا ہو گا اور اس کے استحکام پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہو گا۔‘‘

اجلاس کے خاتمے کا اعلان ہوتے ہی سینیٹروں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔

٭

گلریز اور انار بہت خوش تھے۔ ان کی شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی دونوں طرف زور شور کے ساتھ تیاریاں چل رہی تھیں۔ بازاروں میں گھوم گھوم کر خریداری کی جا رہی تھی۔ گلریز نے انار کی پسند کی تمام جویلری اور جوڑے خریدے تھے۔ خود اپنے لیے بہت دل سے کریم کلر کی شیروانی جس پر بے حد نفیس کڑھائی کی گئی تھی خریدی تھی جسے وہ شادی کے دن پہنے والا تھا۔ گلریز اور انار کو ایک ایک پل بھاری گذر رہا تھا کہ جلد وہ ایک دوسرے کے ہو کیوں نہیں جاتے؟ اللہ اللہ کرتے کرتے آخر وہ دن آ ہی پہنچا جب انار وداع ہو کر گلریز کے گھر آ جانے والی تھی۔

بارات میں شامل ہونے والے تمام لوگ تیار ہونے میں لگے تھے گلریز بھی بڑے اہتمام کے ساتھ تیار ہو رہا تھا۔ اس نے بال سیٹ کرانے سے لے کر بلیچنگ کرانے تک کا خصوصی اہتمام کیا تھا ادھر انار کو بھی تیار کرنے کے لیے بیوٹی پارلر سے ایکسپرٹ بلائی گئی تھیں۔ بارات کی تیاری زور شور سے جاری تھی۔ سجی ہوئی بگھی بھی دروازے پر آ چکی تھی۔ تمام رسوم کی ادائیگی کے بعد دولہے کو بگھی میں سوار کرا دیا گیا اور بارات شان کے ساتھ انار کے گھر کی طرف روانہ ہوئی۔

٭

بارات دھیرے دھیرے شان کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی بارات دیکھنے کے لیے بھی خوب بھیڑ جٹ رہی تھی آتش بازی کے ساتھ بینڈ باجے نے جو رونق پیدا کی تھی اس میں گلریز کے دوستوں نے سہرے گا کر مزید رونق بخش دی تھی۔ خوش رنگ لباس پہنے نوجوان چہک رہے تھے اور بزرگوں کی نظر بچا کر ایک آدھ ٹھمکا بھی لگا لے رہے تھے۔ بارات کے دھیرے دھیرے چلنے سے گلریز بار بار پہلو بدل رہا تھا بہترین نقاشی دار بگھی میں بیٹھا گلریز دولہا بن کر واقعی کوئی شہزادہ نظر آ رہا تھا۔ اور یہ شہزادہ اپنی شہزادی سے ملنے کے لیے بیقرار ہوا جا رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ وہ کسی طرح اڑ کر انار کے پاس پہنچ جاتا اور اسے اڑا کر اپنے گھر لے آتا۔ لیکن گھر کے بزرگوں اور دوستوں کی بات مان کر اسے تمام روایتی کام انجام دینے پڑرہے تھے۔ بہر حال بارات خراماں  خراماں انار کے گھر کی طرف بڑھ رہی تھی اور اب انار کا گھر تو نہیں لیکن بارات کو ٹھہرانے والا منڈپ دکھائی دینے لگا تھا گلریز کو قدر اطمینان ہوا کہ چلو منزل اب قریب ہے۔تبھی…

’’ٹھہرو…آپ لوگ آگے نہیں جا سکتے۔‘‘ ایک گرج دار آواز نے پوری بارات کو چونکا دیا۔

’’ٹھہرجاؤ …آگے سرحد ہے…آپ سرحد عبور نہیں کر سکتے۔‘‘

گلریز نے سنا تو اسے لگا کسی نے اس کے سرپر بم پھوڑ دیا ہو۔ بارات میں کھلبلی مچ گئی۔ بینڈ باجا بند ہو گیا۔ سب حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔

’’لیکن سرحد تو غائب ہو گئی تھی نا۔‘‘ گلریز کی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

’’ہاں …لیکن اب یہ مل گئی ہے…کمبخت ایک نقشے میں چھپی بیٹھی تھی لیکن اب اسے پھر سے قائم کر دیا گیا ہے …اس لیے …آپ لوگ واپس جائیے۔ بارات سرحد پار نہیں جا سکتی۔‘‘ فوجی کی دو ٹوک بات نے بارات کے حوصلے پست کر دیے۔

گلریز کبھی اپنی بارات کی طرف دیکھ رہا تھا تو کبھی سامنے دکھ رہے سجے ہوئے منڈپ کو۔ وہ حیران تھا پریشان تھا اور حسرتوں کا یہ حشر اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اچانک وہ زور سے چیخا اور پھر چیختا ہی چلا گیا۔

’’سرحد کو گم کر دو…میری خوشیاں میرا انتظار کر رہی ہیں …جاؤ اس سرحد کو کہیں گم کر دو…‘‘

٭٭٭

 

شہادت کے بعد

 

جنگ ۷۲جاں نثاروں کی شہادت کے ساتھ ختم ہو چکی تھی۔خاک و خون سے آلودہ بے جان جسم ریگستان کی تپتی ریت پر پڑے ہوئے تھے ان کے سر دھڑوں سے غائب تھے۔منظر ایسا دہشت ناک تھا کہ دیکھنے والوں کے مضبوط دل بھی دہل اٹھتے۔

کوفہ کے حاکم کا دربار سجا ہوا تھا۔محفل جشن میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ایک سر تھال میں سجا کر حاکم کے سامنے پیش کیا گیا۔حاکم نے مطلوبہ سر دیکھتے ہی کھل کر قہقہہ لگایا۔لگتا تھا کہ اس پر جنون طاری ہو گیا ہے پھر اس نے ایک چھری اٹھا لی۔ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ وہ دھیرے دھیرے ٹہلتے ہوئے تھال میں رکھے سر کے قریب پہنچا اور اسے نازک اور بے جان ہونٹوں پر مارنے لگا۔بے جان ہونٹوں پر رقص کر رہی مسکراہٹ اس کی جنونی کیفیت کو ہوا دے رہی تھی اور شاید وہ ان مسکراتے لبوں کو زخمی کر کے اپنے جنون کی تسکین کرنا چاہتا تھا۔تبھی اس فعل کے خلاف محفل میں موجود ایک بزرگ نے صدائے احتجاج بلند کی۔

’’بس کرو …یہ وہ لب ہیں جو ہمارے آقا کابوسہ لیا کرتے تھے اور تم ان کی بے حرمتی کر رہے ہو…لعنت ہے تم پر۔ ‘‘

بزرگ کی بات حاکم کو بے حد ناگوار گذری اس نے خفا ہو کر کہا۔

’’بکواس مت کرو…اگر تم اس قدر بوڑھے نہ ہوتے تو تمھیں ابھی اسی وقت قتل کر دیتا۔اب جاؤ …اور میری آنکھوں کے سامنے سے دفع ہو جاؤ۔ ‘‘

’’یا خدا یہ تو نے کیسا حاکم مسلط کیا ہے جو کہ نیک انسانوں کو قتل کرتا ہے اور بے قصوروں کو غلام بناتا ہے۔‘‘کہتے ہوئے بزرگ محفل سے اٹھ کر چلے گئے۔

اچانک حاکم کی نظر قیدی بنائے گئے انسانی غول کی طرف اٹھی۔ کچھ کنیزوں کے درمیان بیٹھی ایک خاتون پر اس کی نظریں جم کر رہ گئیں۔ خاتون کے جسم پر حقیر سا لباس تھا جس سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھی۔ حاکم نے پہچاننے کی کوشش کی لیکن پھر اپنی غرور آمیز آواز میں کہا۔

’’یہ کون ہے ‘‘

جواب ملا ’’زینب‘‘

’’ستائش اس خدا کی جس نے تم لوگوں کورسوا کیا اور ہلاک کیا۔‘‘

اس پر زینب نے جواب دیا۔’’ہزار ستائش اس خدا کی جس نے ہمیں پاک ذات کے ذریعہ عزت بخشی اور پاک کیا نہ کہ جیساتو کہتا ہے۔‘‘

’’تو نے دیکھا خدا نے تیرے خاندان کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔‘‘

’’ا ن کے مقدر میں شہادت لکھی تھی اس لیے وہ مقتل میں پہنچ گئے لیکن بہت جلد تم بھی خدا کے سامنے حاضر ہو گے اور تب تم جواب دینے کے اہل قرار نہ پاؤ گے۔ ‘‘

’’خاموش‘‘ حاکم کی غضبناک آواز گونجی تو ایک مشیر نے مشورہ دیا۔

’’حضور …عورتوں کی باتوں کا خیال نہ کریں …ویسے بھی یہ غم سے پاگل ہو چکی ہیں۔ ‘‘

’’ہاں …تم ٹھیک کہتے ہو …بے شک یہ غم سے نڈھال ہیں کہ خدا نے ان کے سرکش سردار اور تمام باغیوں کی طرف سے میرا دل ٹھنڈ ا کر دیا ہے۔‘‘

اتنا سنتے ہی زینب اور دوسری خواتین نے بین شروع کر دیا۔

’’تو نے ہمارے سردار کو شہید کر دیا، ہمارے خاندان کو مٹا ڈالا ،میری شاخیں کاٹ ڈالیں ،میری جڑ تک اکھاڑ دی اس سے اگر تیرا دل ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہو جائے۔‘‘

حاکم مسکرا اٹھا ’’واہ کیا شجاعت ہے ؟‘‘

’’عورت کو شجاعت سے کیا سروکار ؟میری مصیبت نے مجھے شجاعت سے غافل کر دیا ہے اور جو کچھ میں نے کہا یہ میرے دل میں بھڑکی ہوئی آگ ہے۔ ‘‘

حاکم نے بے حد غضبناک آنکھوں سے زینب کو گھورا۔چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کرپا رہا ہے۔

پھر اس نے اپنے ایک خاص سپاہی کو حکم دیا کہ وہ زینب کے پیارے سردار کا سر ایک بانس پر نصب کرے اور اسے بادشاہ کے پاس پہنچا دے۔ ساتھ ہی تمام قیدیوں کو بھی بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔

٭

’’کیا خبر لائے ہو ‘‘۔ بادشاہ نے سپاہی سے پوچھا۔

’’فتح و نصرت کی بشارت لایا ہوں بادشاہ حضور۔ سردار اپنے جاں نثارو ں کے ساتھ ہم تک پہنچ گئے تھے ہم نے انھیں روکا اور مطالبہ کیا کہ وہ آپ کی اطاعت قبول کریں ورنہ جنگ کریں۔انھوں نے اطاعت پر جنگ کو ترجیح دی تو ہم نے طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ان پر حملہ کر دیا۔ ہم نے ان پر فتح پالی ہے ان کے لاشے میدان جنگ میں پڑے ہیں ان کے غبار آلود جسم دھوپ کی شدت اور ہوا کی تیزی سے خشک ہو رہے ہیں کپڑوں پر خون ہی خون ہے۔ ‘‘

بادشاہ کے دربار کے بعض امرا کی آنکھیں یہ حال سن کر اشکبار ہو گئیں۔ بادشاہ نے کنکھیوں سے یہ نظارہ دیکھا تو وہ بھی خو د کو غمگین جتاتے ہوئے بولا۔

’’حاکم یہ تم نے کیا کر دیا۔ تم اگر یہ قتل و غارت گری کرنے میں جلد بازی نہ کرتے تو میں تمھاری اطاعت پر خوش ہوتا مگر …تم نے جلد بازی کی۔‘‘

بیشک ہم آپس میں اپنا مسئلہ سلجھا سکتے تھے حاکم …آہ… تم نے یہ کیا کر ڈالا۔‘‘پھر اس نے سپاہی سے کہا ’’جاؤ میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جاؤ۔‘‘

بادشاہ نے بھی اپنی آنکھوں کو اشکبار ظاہر کرنے کے لیے انگلیوں کو آنکھوں پر رگڑا۔ پھر سردار کا بانس میں نصب سر جب بادشاہ کے سامنے لایا گیا تو اس نے ایک آنکھ سے انگلیوں کو ہٹایا اور سر کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی جنبش ہوئی۔اس نے سردار کے سر کو دیکھا اور ماتھے کا بوسہ لیا۔

’’سردار …اگر میں وہاں ہوتا تجھے ہرگز ہرگز قتل نہ ہونے دیتا۔ ‘‘پھر وہ اس انسانی غول کی طرف بڑھا جو کہ قیدی کی طرح اس کے سامنے لایا گیا تھا۔اس میں سے ایک نوعمر لڑکے کے سامنے رک گیا۔

’’تمھارے باپ نے میرے حق کو بھلایا۔ میری حکومت پر نظر رکھی۔لیکن مجھے اس کا کچھ شکوہ نہیں ہے۔ میں تمھارے دکھ میں شریک ہوں۔ ‘‘

لڑکا کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا۔’’خدا مغروروں اور فخر کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ ‘‘

بادشاہ خواتین قیدیوں کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے خواتین کو تسلی دی اور تاسف بھرے لہجے میں بولا۔

’’خدا اس حاکم کو سمجھے …اس نے جلد بازی کی …اگر وہ تم سے اپنا رشتہ سمجھتا تو ایسا کبھی نہ کرتا اور تمھیں ایسی حالت میں میرے پاس نہ بھیجتا۔ ‘‘

تبھی دربار میں بیٹھا ایک شخص اٹھا اور اس نے بادشاہ سے قیدی بنائی گئی لڑکیوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’حضور …یہ لڑکی مجھے عنایت کر دیجئے۔ ‘‘

اس پر زینب نے سخت اعتراض کیا۔

’’وحشی انسان نہ تجھے اس کا اختیار ہے اور نہ بادشاہ کو اس کا حق ہے کہ وہ ہم میں سے کسی کو تیرے حوالے کر سکے۔ ‘‘

’’خاموش…مجھے یہ پورا حق ہے اگر چاہوں تو ابھی یہ کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’ہرگز نہیں …خدا نے تمھیں یہ حق ہرگز نہیں دیا۔یہ بات الگ ہے کہ تم بے دین ہو جاؤ۔ ‘‘

بادشاہ خاموش ہو گیا۔ طلبگار شخص ہکا بکا کھڑا تھا۔

تناؤ کی وجہ سے بہت دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر بادشاہ نے قیدیوں کے بارے میں مشیروں سے مشورہ طلب کیا۔ بعض نے سخت کلامی کے ساتھ بدسلوکی کا مشورہ دیا۔لیکن ایک بزرگ مشیر نے کہا۔

’’یہ اس خاندان کی خواتین ہیں جنھیں ہم پاک سمجھتے ہیں اس لیے ان سے بہتر سلوک روا رکھا جانا چاہیے۔ ‘‘ کچھ دیگر درباریوں نے بھی ان کی تائید کی تو بادشاہ نے حکم صادر کیا۔

’’سب کو عزت کے ساتھ قیام کے لیے لے جاؤ اور انھیں کھانا اور علاج یا جو بھی ضرورت ہو مہیا کرو۔‘‘

کہہ کر بادشاہ حجرہ خاص میں چلا گیا۔

اسی اثنا میں تمام واقعات کی خبر بادشاہ کے گھر والوں خصوصاً ا س کی بیوی کو بھی لگ چکی تھی۔اس کی بیوی نے بادشاہ سے پوچھا۔

’’حضور …کیا سردا رکا سر آیا ہے ؟‘‘

’’ہاں …تم خوب روؤ …بین کرو…حاکم نے جلدی کی …قتل کر ڈالا…خدا اسے غارت کرے۔‘‘

بادشاہ کے محل میں جب سردار کے قافلے کی خواتین داخل ہوئیں تو ان کی حالت زار دیکھ کر بادشاہ کی بیوی اور دیگر خواتین رونے لگیں۔

سردار کی بیٹی نے بادشاہ سے سوال کیا ’’اے بادشاہ !ہم اس پاک ذات کی بیٹیاں ہیں جن کے دین پر تم بھی قائم ہو پھر بھی ہم کنیزوں جیسی حالت میں پہنچا دی گئیں۔ ‘‘

بادشاہ نے جواب دیا ’’نہیں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔‘‘

’’بخدا! ہمارے کان تک نوچ ڈالے گئے۔‘‘

’’تم لوگوں کا جتنا گیا ہے اس سے زیادہ تمھیں ملے گا۔‘‘

’’لیکن …‘‘

’’افسوس…حاکم تم نے میرا سر شرم سے جھکا دیا۔‘‘

بادشاہ نے اپنا سر پکڑ لیا۔

بادشاہ اپنے حجرہ خاص میں پہنچا۔اس نے اپنا من پسند مشروب طلب کیا۔پھر وہ اپنے پسندیدہ بستر پر دراز ہو گیا۔اچانک مرحوم سردار کا بیٹا اور بادشاہ کا بیٹا ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اچانک بادشاہ نے اپنے لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لڑکے سے پوچھا۔ ’’تو اس سے لڑے گا‘‘۔

’’……‘‘سردار کا بیٹا خلا میں گھورتا رہا۔

’’بتا…میرے بیٹے سے لڑے گا۔‘‘بادشاہ نے خمار آلودہ آواز میں کہا۔

اس نے کہہ دیا ’’یوں نہیں …ایک تلوار مجھے دو اور ایک اسے …پھر ہماری لڑائی دیکھو۔‘‘

بادشاہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا اور وہ ہنستا ہی چلا گیا …ہا…ہا…ہا

اچانک اس کے منھ سے نکلا ’’سانپ کا بچہ سانپ ہی ہوتا ہے…ہا…ہا … ہا۔اچھا ہوا کہ …‘‘

٭٭٭

 

 

 

آب حیات

 

عادل کو زمین سے روانہ ہوئے تقریباً ۸ گھنٹے ہو چکے تھے اور وہ اب خلا میں چکر لگا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے عادل کا خلائی طیارہ اپنی منزل ’’سطح مریخ (Mars)‘ ‘ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ عادل دل ہی دل میں بے حد خوش تھا اسے خلا کے نادر نظارے دیکھنے کا موقع جو مل گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ خلا سے زمین کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی اور ہندوستان کیسا لگ رہا تھا ؟عادل نے بھی دل میں سوچا کہ راکیش شرمانے کہا تھا ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اور یقیناً وہ بھی کچھ ا یسا ہی کہتا۔ ابھی وہ اور کچھ سوچ پاتا کہ اچانک طیارے کا رخ تبدیل ہو گیا۔زمین سے طیارے کا رشتہ منقطع ہو گیا تھا اور طیارہ بہت تیز رفتار سے ایک چمک دار گولے کی طرف بڑھ رہا تھا۔عادل گھبرا اٹھا اس نے اور اس کی ٹیم کے تمام لوگوں نے زمین سے رابطہ بحال کرنے اور واپس اپنی راہ پر طیارہ کو لوٹانے کی کوشش کی لیکن تمام کوششیں بے کار ہو گئیں۔عادل کا طیارہ دھند اور غبار کے بادلوں کو چیرتا چمکدار گولے میں سما گیا تھا۔

عادل نے اپنے چہرے پر کسی جاندار چیز کا لمس محسوس کیا تو اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔آنکھیں کھولتے ہی اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔

’’ت…تم…کون ہو‘‘۔عادل نے سامنے کھڑی ایک بے حد حسین دوشیزہ سے پوچھا جو کہ اس پر جھکی ہوئی تھی اور عادل کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ اسے چھو کر لے رہی تھی۔

دوشیزہ کے لب بدبدائے۔لیکن عادل نہ سمجھ سکا کہ اس حسین و جمیل دوشیزہ نے کیا کہا۔

عادل نے پھر پوچھا’’تم کون ہو لڑکی‘‘

اچانک لڑکی نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک آلہ نکال کر اس کے کچھ بٹن دبائے اور اس کے ہیڈ فون کو کانوں سے لگا لیا۔

’’اوہ…ڈیر…تم زمین (Earth)سے آئے ہو۔‘‘دوشیزہ نے بڑی مدہوش کر دینے والی آواز میں کہا جسے عادل نے صاف  طور پر سنا۔

’’کیا مطلب ہے تمہارا …اور یہ جگہ کون سی ہے ‘‘عادل نے دوشیزہ سے ایک اور سوال کر دیا۔

’’مائی ڈیر …یہ زمین سے ۹۸کروڑ پرکاش ورش دور…کوثر سیارہ ہے۔ اور تم یقیناً زمین کے واسی ہو۔‘‘دوشیزہ کی گھنگھرو بجاتی آواز پھر عادل کی سماعت سے ٹکرائی۔

’’لیکن میں یہاں کیسے آ پہنچا…‘‘ عادل چونکا۔

’’تم تو مارس پر جا رہے تھے نہ۔‘‘دوشیزہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’ہاں … لیکن تمھیں یہ سب کیسے پتا۔‘‘عادل حیران تھا۔

دوشیزہ پھر ہنسی۔’’ہمارا سیارہ ترقی کے معاملے میں زمین سے سیکڑوں سال آگے ہے۔‘‘

’’اوہ…‘‘ عادل نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ یقیناً یہاں کی ترقی بہت آگے تھی   اس نے دیکھا کہ آسمان میں ہیلی کوپٹر اور ہوائی جہاز ایسے اڑ رہے تھے جیسے دہلی کی سڑکوں پر کاریں دوڑتی ہیں ،۔ چاروں طرف ہریالی تھی اور اونچی  اونچی بلڈنگوں کی جگہ بہت دور دور بنگلہ نما مکان بنے تھے۔ عادل نے شدت سے محسوس کیا کہ یہاں کی ہریالی  مصنوعی سی لگ رہی ہے اور دہلی جیسی بھیڑ بھاڑ بھی یہاں نہیں۔

’’یہاں کی ہریالی مصنوعی سی کیوں لگ رہی ہے‘‘ عادل نے دوشیزہ سے پوچھا۔

دوشیزہ نے بڑی سرد آہ بھری اور درد بھری آوا زمیں کہا۔’’دراصل ہمارے سیارہ کی مخلوق نے ترقی تو بہت کی لیکن ترقی کی دوڑ میں اس نے قدرت کو بالکل ہی فراموش کر دیا تھا۔ جس کے سبب یہاں کی زندگی مصنوعی سی بن کر رہ گئی ہے۔‘‘

اچانک دوشیزہ نے کہا۔’’تمہارا نام عادل صدیقی ہے اور تم زمین کے ایک ملک ہندوستان سے آئے ہو۔‘‘دوشیزہ کی معلومات پر عادل کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔دوشیزہ نے پھر اپنا تعارف کرایا۔’’میرا نام عدینہ ہے اور میں اس سیارے کی راجکماری ہوں۔ تم اب ہمارے شاہی مہمان ہو ‘‘عدینہ نے کہا۔’’اب ہم شاہی محل چلتے ہیں ‘‘عدینہ نے کہا اور اپنے ایک ہاتھ سے عادل کا بازو تھاما اور دوسرے   ہا تھ پر لگی خوبصورت گھڑی کے ایک بٹن کو دبا دیا۔ اگلے ہی پل دونوں شاہی محل کے مہمان خانے میں تھے۔

’’تم یہاں آرام کرو۔میں تمہارے لیے کھانا بھجواتی ہوں۔ ‘‘ عدینہ جانے لگی تو عادل نے کہا’’ سنئے…میں نہانا چاہتا ہوں۔ ‘‘ عدینہ نے باتھ روم کی طرف اشارہ کیا اور بولی ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو یہاں پانی کی جگہ گرین کیمیکل سے نہانا پڑے گا۔‘‘عدینہ کی بات پر عادل بڑا حیران ہوا۔ وہ خوبصورت باتھ روم میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہاں چند بٹنوں کے علاوہ نہ کہیں ٹونٹی تھی اور نہ ہی شاور۔وہ جیسے ہی کپڑے اتار کر آگے بڑھا اچانک اسے اپنے اوپر نرم و نازک پانی جیسی کوئی چیز گرنے کا احساس ہواجس کا رنگ ہرا تھا۔

عادل نے ایک دم خود کو فریش محسوس کیا۔گرین کیمیکل خود بہ خود نکلنا بند ہو چکا تھا۔ عادل نے صفائی کے لیے تولیا کے بارے میں سوچا تو اچانک اسے ہلکی گرم ہوا جسم پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی اور چند سیکنڈ میں ہی وہ سوکھ چکا تھا۔

عادل باتھ روم سے باہر نکلا تو عدینہ اس کے انتظار میں صوفے پر دراز تھی۔ اسے آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی۔

عادل نے پہلی مرتبہ عدینہ کو غور سے دیکھا۔ درمیانہ قد، لب جیسے گلاب کی پنکھڑی، ستواں ناک، پرکشش ناک نقشہ اور ہرنی جیسی آنکھیں ،چہرے کا رنگ سرخ سپید،بالکل کسی حور کی طرح تھی عدینہ۔ لمبے گاؤن نما کپڑے جس پر بے حد باریک کام تھا جو کہ چاندی جیسی چمک بکھیر رہا تھا۔لباس نے عدینہ کی خوبصورتی کو دوبالا کر دیا تھا۔ لیکن عادل نے محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر شادابی نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ اتنے حسین پیکر میں یہ نقص کیوں رہ گیا۔

عادل بھی تقریباً ۲۶؍برس کا خوش رو نوجوان تھا۔ لمبا قد چوڑی پیشانی ،مضبوط بازو اور ہلکی سانولی رنگت اسے جاذب پیکر عطا کرتے تھے۔ دونوں نے ساتھ کھانا کھایا  کچھ دیر آرام کرنے کی ہدایت کر کے عدینہ چلی گئی۔

عادل نرم بستر پر  لیٹ گیا۔ اس کے دماغ میں بہت سے سوال گھوم رہے تھے ’’آخر اس سیارہ نے اتنی ترقی کی لیکن سب کچھ نقلی سا کیوں لگ رہا ہے۔کہیں کوئی تازگی کا احساس نہیں۔‘‘عادل سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ عادل سوچوں میں گم کب سوگیا اسے پتہ ہی نہ لگا۔

عادل جب جاگا تو اسے شدید پیاس لگی۔ اس نے کمرے میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی کہ کہیں پانی رکھا ہو لیکن اسے کہیں پانی دکھائی نہ دیا۔ ابھی وہ عدینہ کو بلانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک عدینہ کمرے میں داخل ہوئی۔

’’لگتا ہے آپ کو پیاس لگی ہے۔‘‘عدینہ نے پوچھا۔

’’ہاں کیا ایک گلاس پانی مل سکتا ہے۔‘‘

’’نہیں مائی ڈیئر ایک گلاس تو چھوڑو ایک بوند بھی نہیں مل سکتا۔ ‘‘عدینہ نے مایوسی سے کہا۔’’لو یہ گلابی شربت ہے یہ تمہاری پیاس بجھا دے گا۔‘‘عدینہ نے ایک گلابی شربت سے بھرا گلاس عادل کے ہاتھ میں دے دیا۔

عادل ایک ہی گھونٹ میں پورا گلاس خالی کر گیا۔ لیکن اس کی پیاس نہیں بجھی۔ اس نے ایک ایک کر کے کئی گلاس شربت پیا مگر اس کی پیاس پوری طرح نہیں بجھی۔

’’پلیزمجھے ایک گلاس پانی دو۔‘‘عادل نے عدینہ سے التجا کی۔

’’کاش کہ میں تمہارے لیے پانی لا سکتی۔‘‘عدینہ نے عادل کاہاتھ پکڑ کر بڑے مایوس انداز میں کہا۔

’’کیا تمہارے سیارے پر پانی نہیں ہے۔‘‘عادل نے پوچھا۔پانی کی طلب سے اس کا برا حال تھا اور اس کا گلا ابھی بھی خشک ہو رہا تھا۔

’’ہمارا سیارہ بھی تمہاری زمین کی طرح کبھی بڑا ہرا بھرا تھا۔یہاں جھیلیں ، تالاب اور ندیاں بھی تھیں اور سمندر بھی۔ زمین کی طرح یہاں بھی حسین موسم ہوتے تھے۔ لیکن ہمارے بزرگوں کی غلطی کا خمیازہ ہماری نسل کو بھگتنا پڑ ر ہا ہے۔ ‘‘عدینہ کی بات ختم ہوئی لیکن عادل کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔

’’کیا غلطی کی تمہارے بزرگوں نے ‘‘عادل نے دریافت کیا۔

’’ہمارے بزرگوں نے ترقی کے ایسے ایسے خواب دیکھے کہ ہمارا سیارہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ گیا کہ تمام آکاش گنگاؤں میں ہمارے برابر ترقی یافتہ کوئی سیارہ نہیں ہے۔یہاں تک کہ ہمارے سیارے کی مخلوق اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ وہ اب دور دراز کے سیاروں پر جا کر رہائش اختیار کرنے لگی ہے۔ تمہاری زمین پر بھی ہمارے بہت سے سائنسداں جا چکے ہیں اور تم لوگ انھیں ایلینس بلاتے ہو۔عدینہ کی باتوں کا عادل پر بڑا اثر ہوا۔

’’لیکن تمہارے اتنے ترقی یافتہ ہونے پر یہ بات سوالیہ نشان نہیں لگاتی کہ تم اپنے مہمان کو ایک گلاس پانی بھی مہیا نہیں کر سکتیں۔ حالانکہ تم نے بڑی بڑی سہولیات میری مہمان نواز ی میں مہیا کی ہیں۔‘‘

عادل کے دل کی بات عدینہ کے دل کو چبھی تھی۔وہ دل برداشتہ ہو کر بولی۔

’’کیا تمہیں واقعی پانی کی اتنی زیادہ ضرورت ہے۔ ‘‘

’’ہاں …تم نہیں سمجھتی لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر جلد مجھے پانی نہ ملا تو میں اپنی تمام تر توانائی کھو بیٹھوں گا۔‘‘عادل بیقراری کے عالم میں بولا۔

’’ٹھیک ہے میرے ساتھ آؤ ‘‘عدینہ نے عادل کی کلائی پکڑی اور اپنی گھڑی کا گرین بٹن دبایا۔

اگلے ہی پل وہ دونوں ایک اسٹیڈیم میں تھے جہاں کافی تماشائی جمع تھے۔ بیچ اسٹیڈیم کے گول گھیرے میں دوڑ کا میدان بنایا گیا تھا جس میں تقریباً ۱۰۰ سے بھی زائد لوگ دوڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔

’’یہ کیا جگہ ہے اور مجھے یہاں کیوں لائی ہو‘‘

’’یہ ہمارے سیارہ کا وسیع و عریض اسٹیڈیم ہے جس میں ہر سال آج ہی کے دن ایک خاص قسم کا مقابلہ ہوتا ہے اور اسے جیتنے والے شخص کو ملتا ہے وہ سامنے رکھا انعام۔‘‘عدینہ نے اپنے سامنے رکھے ایک شیشے کے جار کی طرف اشارہ کیا۔

’’اس میں کیا ہے‘‘ عادل نے پوچھا

’’آب حیات‘‘

’’کیا‘

’’ہاں اس جار میں آب حیات ہے ‘‘عدینہ نے عادل کو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔‘‘کیا تم اسے حاصل کرنا چاہو گے۔

عدینہ کے چیلنج پر عاد ل کی مردانگی میں ابال آ گیا۔

’’کیوں نہیں ڈیئر۔‘‘عادل نے اچانک کچھ یاد کرتے ہوئے کہا ’’لیکن پانی…‘‘

’’ہمارے سیارے پر ہر سہولت اور ہر اشیاء موجود ہے جو کسی بھی آکاش گنگا میں پائی جاتی ہو گی۔ لیکن ہمارے بزرگوں نے ترقی کی اندھی خواہش میں نہ صرف کنکریٹ کے جنگل کھڑے کیے بلکہ تالاب پاٹ ڈالے ،ہرے بھرے پیڑ کاٹ ڈالے اور یہاں تک قدرت کے ساتھ دشمنی کی کہ سیارے کی آب و ہوا آلودہ ہو گئی پانی سوکھ گیا۔  ندی نالے ختم ہو گئے۔یہاں کی مخلوق پانی کی قلت سے تِل تِل کر مرنے لگی۔اور دیکھتے دیکھتے کنکریٹ کے جنگل سوٗنے ہوتے گئے۔ ‘‘عدینہ شاید ماضی کو سامنے دیکھ رہی تھی اس لیے اس کی آنکھوں میں سے چند قطرے بہہ گئے۔ لیکن وہ بھی آنسو نہیں تھے کوئی نیلا کیمیکل ہی تھا۔

عادل کو اچانک یاد آیا کہ خود اس کے شہر میں بھی تو پانی کی قلت ہونے لگی تھی۔ اس کے باوجود اسے نالیوں میں بہانے میں لوگ جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اس کا شہر بھی تو کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے کہیں اس کا سیارہ بھی تو اس سیارہ کی طرح پانی سے محروم نہ ہو جائے گا۔

دوڑ شروع ہونے کی سیٹی بج چکی تھی۔ عادل بھی میدان میں اتر چکا تھا۔ تمام دیگر امیدوار اس کی جسمانی قوت کو دیکھ کر ہراساں ہو رہے تھے۔سیارہ کے دیگر امیدواروں کے جسم ظاہری طور پر تو طاقت ور لگ رہے تھے لیکن حرکات سے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ انسان نہیں کوئی مصنوعی روبوٹ ہیں۔ عادل نے دوڑ شروع کی یہ تقریباً پانچ میل فاصلے کے برابر کی دوڑ تھی۔

عادل نے جب زمین سے مارس سیارہ کا سفر شروع کیا تھا اس سے قبل ہی اسے بڑی سخت ٹریننگ دی گئی تھی۔اسی ٹریننگ کی بنیاد پر عادل دوڑ میں شریک ہوا تھا۔ پانچ میل کی مسافت طے کرنے کے درمیان بہت سی رکاوٹیں بھی حائل تھیں۔ جن سے پار پانے میں عادل کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ اب دوڑ کے آخری مرحلہ میں تھا۔لیکن طویل مسافت اور پیاس کی شدت نے اسے بے چین کر دیا تھا۔اس کے قدم لڑکھڑانے لگے تھے۔

عدینہ عادل کو مسلسل جوش دلا رہی تھی۔ عادل جب کراس لائن سے با مشکل پانچ میٹر کے فاصلے پر تھا تو اسے لگا کہ وہ اب اور نہیں دوڑ سکے گا۔تبھی عدینہ کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

’’دوڑو عادل …اب تم جیت چکے ہو …آب حیات تمہاری پہنچ میں آ چکا ہے۔‘‘

عادل نے اپنی تمام تر قوت کو جمع کیا اور وہ پانچ میل کی لائن کراس کرتے ہی گر پڑا۔

عادل جیت چکا تھا لیکن اس کی تمام تر توانائی صرف ہو چکی تھی۔ عدینہ نے اسے اٹھایا اور ’’آب حیات ‘‘کا جار اسے سونپ دیا۔

’’پانی…پلیز مجھے پانی چاہیے۔‘‘عادل نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے عدینہ سے کہا۔

عدینہ نے جار کا منھ کھولا اور اسے عادل کے منھ میں دے دیا عادل جی بھر کے سیراب ہوا۔ اسے لگا کہ آب حیات نے اسے دوسری زندگی دے دی ہے۔

’’عدینہ یہ آب حیات کون سا کیمیکل ہے۔‘‘

’’یہ تمہاری زمین کا پانی ہے عادل جسے ایلینس تمہاری زمین سے لے کر آتے ہیں۔کیوں کہ ہمارے سیارے پر پانی ختم ہو چکا ہے۔جسے پانی کی خواہش ہوتی ہے اسے اس سخت مقابلے سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کوئی لوگ اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں۔ ‘‘

عادل عدینہ کا منھ تکتا رہ گیا۔ اس نے سوچا ’’تو کیا وہ اتنی سخت مشقت محض ایک جارپانی کے لیے کر رہا تھا۔‘‘اسے پھر دھیان آیا کہ اگر زمین کے لوگ بھی پانی کو یوں ہی ضائع کرتے رہے اور قدرت سے مذاق بند نہ کیا تو خود ان کا سیارہ بھی پانی جیسی نعمت سے محروم ہو جائے گا۔‘‘

’’نہیں نہیں وہ زمین کے لوگوں کو اس سیارے کے حوالے سے خبردار کرے گا اور اسے جلد ہی یہاں سے زمین پر واپس جانا ہو گا۔‘‘عادل نے سوچا۔

’’عادل اگر تم اپنے سیارہ کے لوگوں کو بیدا ر کر دو گے تو ہمارے ایلینس وہاں سے پانی نہیں لا پائیں گے۔‘عدینہ نے عادل کے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔ اس نے مزید کہا ’’اس لیے اب تم کبھی واپس نہیں جا پاؤ گے۔‘‘

’’نہیں عدینہ پلیز مجھے واپس جانے دو۔ ورنہ تمہارے سیارے کی طرح میری پیاری زمین بھی پانی سے محروم ہو جائے گی۔ ‘‘عادل کے گڑگڑانے پر عدینہ خاموش کھڑی رہی۔عادل کو لگا کہ عدینہ پر ا س کی بات کا اثر ہو رہا ہے۔ اس نے مزید گڑگڑاتے ہوئے کہا ’’پلیز مجھے واپس جانے دو عدینہ‘‘۔

عدینہ نے دانت بھینچ لیے اور کلائی پر لگا بٹن دبا دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرا کچھ دُکھتا ہے کیا؟

 

اماں کی کھانسی سے رضیہ کی نیند اچاٹ ہو گئی۔وہ نیم و ا آنکھوں سے دوسرے کمرے میں لیٹی اماں کو ہی دیکھ رہی تھی۔ ’’مرنے دو بڑھیا کو…قاتل…اونہہ…نہیں جاؤں گی اسے دوا دینے…زندگی تباہ کر دی اس نے… اور اس کے بیٹے نے… ‘‘

رضیہ کے دماغ میں طوفان برپا تھا۔اماں کو کھانسی کا زبردست دورا پڑا تھا لیکن وہ آج نہ تو ان کے قریب گئی تھی اور نہ ہی روزانہ کی طرح پچکار کر انہیں دوا دینے کی کوشش کی تھی۔یہ اس کی لا شعوری حرکت تھی جس پر اسے خود بھی حیرانی ہوئی تھی۔

’’میں کہاں چاہتی تھی کہ یہ کھانس کھانس کر مر جائے …میں تو ہمیشہ اس کی لمبی عمر اور تندرستی کی دعا کرتی تھی…مگر…مگر…میرے خدا…تو نے مجھے دل و ذہن پڑھنے کی قوت کیوں نہیں دی ؟…دس سال گزرنے کے بعد …ہا ں جوانی کے دس سال … اف …کتنا طویل سفر…اور میں اب جا ن پائی کہ…کہ …ممتا کے نقاب میں کیسی چالاک ہے یہ بڑھیا…منہ سے مصری اوردل… دل کتنا کالا…یہ بڑھیا ممتا کا آنچل ڈال کر مجھے ایسے ڈھانپ لے گی…کب میں سوچ سکتی تھی …اور اس کا بیٹا…میں اس کے دل کا بھید بھلا کہاں لے پاتی …اگر ارشد بھائی اور اس بڑھیا کی باتیں نہ سن لیتی … میں تو اسے فرشتہ سمجھ بیٹھی تھی …او ر یہ…فرشتے کے روپ میں کیسی ڈائن نکلی …اف … ماں بیٹے نے مل کر میری جوانی کھا لی۔‘‘

رضیہ کا دل اماں کے مسلسل کھانسنے کی آواز پر بھی نہیں پسیجا۔

’’بیٹی…کھو…کھو…ب…بیٹی‘‘

’’بیٹی مت کہہ ڈائن…میں تری بیٹی ہوتی تو کیا تو میرے ساتھ ایسا کرتی… کبھی نہیں …ارے میں تو خود تیرے لئے دعائیں کرتی تھی…تجھے ماں کے درجے میں رکھتی تھی…مگر تو…تو نے تو ڈائن کو بھی مات دے دی۔‘‘رضیہ چاہتے ہوئے بھی چیخ نہیں سکی۔اس کی چیخ گلے میں ہی اٹکی رہ گئی۔

اماں کو لگا کہ رضیہ نے ان کی آواز نہیں سنی۔وہ کراہتے ہوئے اٹھیں۔پلنگ کے نیچے سے اگلدان اٹھایا۔

’’آک …تھو…‘‘

گلے میں اٹکا بلغم تھوکنے کے بعد سرہانے کے طاق سے یونانی معجون کی شیشی اٹھائی۔کانپتی انگلی سے معجون نکال کر چاٹ لی۔مہنگی دوا کے لئے گھر میں رقم بھی کہاں تھی۔ رضیہ کا ذہن اب بھی بھٹکا ہوا تھا۔

’’بڑھیا کا بیٹا تھا بڑا سمجھدار…دولت کمائی تو دو کام کرنے میں دیری نہیں کی… یہ کوٹھی نما مکان بنوایا اور شادی کر لی…چاند سی بیوی ملنے پر کیسے اترایا اترایا گھومتا… شروع میں ہر وقت میرے اردگرد منڈراتا رہتا۔مجھ پر ایسا لٹو ہوا کہ دوستوں کی بیویاں حسد کرتیں …اور جب گیا تو…تو…‘‘

رضیہ کی آنکھیں برس پڑیں مگر اس نے آنسوؤں کو بہنے سے روکا نہیں۔

’’حاسدوں کی نظر لگ گئی شاید…جب دوبئی جانے لگا تو کہتا …میرا بالکل دل نہیں کر رہا جانے کو…مگر اماں نہیں مانتی …کہتی ہیں یہی دن تو کمانے کے ہیں کچھ دن کما لو گے تو بیٹھ کر زندگی کے مزے لوٹنا…پھر کہنے لگا …تم پریشان کیوں ہوتی ہو یوں گیا اور یوں آیا…پر…وہ گیا تو…تو…میں اسے جلد آنے کو لکھتی…تو کہتا میری جان بس ذرا انتظار اور مجھے تمام رقم ملتے ہی میں تمھاری بانہوں میں ہوں گا…لیکن اسے نا آنا تھا تو وہ نہیں آیا…خدا جا نے اسے کس رقم کا  انتطارتھا…اور اب بھلا وہ کیوں آئے گا…اس جا دوگرنی نے …جو…اسے…‘‘

رضیہ کے اندر اتھل پتھل مچی تھی۔وہ کمرہ سے باہر نکلی اوربرآمدہ میں آ کر آرام کرسی پر بیٹھ گئی اس کے جھٹکے سے بیٹھنے پرکرسی کی پشت تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگی۔وہ جان بوجھ کر ایسی جگہ بیٹھی تھی کہ اماں کا پلنگ دروازہ کی راہ دکھائی دیتا رہے۔

رضیہ کو جاگتا دیکھ اماں نے اکھڑی سانسوں کے درمیان پھر اسے پکارا۔

’’بیٹی …تیرا کچھ دُکھتا ہے کیا‘‘

’’چپ رہ دشمن…‘‘رضیہ کے دل کی کھٹاس زبان پر نہیں آسکی۔اس نے اماں کی پکار کو ان سنا کر دیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

’’میں گھر میں آئی تو اس نے مجھے بیٹی کی طرح ہی رکھا…اس کا بیٹا بھی میرے ناز نخرے اٹھاتا…لیکن پھر…وہ دوبئی گیاتو لوٹا ہی نہیں …بس خط آتے …اور بڑی رقم …  دھیرے دھیرے خط آنے کم ہوئے اور …پھر رقم بھی۔‘‘

رضیہ بیٹھے بیٹھے تھک گئی تو اٹھ کر ٹہلنے لگی۔

’’تب اسے بڑا رنج ہوا تھا…اور مجھے؟…تب میں نے اسے ہی اپنا سب کچھ تصور کر لیا تھا۔اور اس نے بھی مجھے گلے سے لگائے رکھا …میں سمجھتی کہ یہ میرا درد سمجھتی ہے…اس نے بھی کم عمر سے رنڈاپا جھیلا تھا اور میں …میں بھی تو سہاگن جیسی زندگی نہیں گزار رہی …اکثر اپنا دکھ مجھ سے ساجھا کرنے بیٹھ جاتی…بہت چھوٹا تھا تابش… جب اس کا باپ مرا تھا۔گھر والے اس کی دوسری شادی کرانا چاہتے تھے…مگر اس نے تابش کے نام پر جوانی قربان کر دی…کیا ملا اسے قربانی کا صلہ…اونہہ…ٹھیک ہی تو ہوا …  یہ اسی لائق ہے…لیکن میں …میرا کیا قصور کہ۔‘‘

اچانک رضیہ کا غصہ پھر بھڑک اٹھا۔

’’اف مکار عورت…کہتی غریبی میں بھی عزت کا پاس کیا ہے بیٹی! بھوکی پیاسی رہ کر دن کاٹے لیکن کسی سے انگلی نہیں اٹھوائی…عورت کی عزت ہی اس کا گہنا ہے بیٹی … باتوں باتوں میں وہ یہ ہدایتیں کیوں کرتی ہے میں اچھی طرح سمجھتی …کبھی کبھی اسے جب غصہ آتا تو تابش پر بھڑک اٹھتی …مجھے تو میری اولاد نے جیتے جی مار ڈالا…بیاہ کر کے چلا گیا…اللہ اگر کوئی کھلونا دے دیتا تو تو بھی خوش رہتی اور میرا بھی جی بہلتا …پھر کتنے پیار سے مجھے گلے لگاتی اور کہتی …جب تجھے دیکھتی ہو ں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے سچ ہے انسان کو جینے کا بہانا بھی تو چاہئے۔‘‘

رضیہ جھٹکے سے کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’میں سوچتی…اماں تیرا بیٹا میر ے جینے کے کئی بہانے چھوڑ گیا ہے…تجھے چھوڑ گیا ہے اور…یہ جیل جیسا گھر چھوڑ گیا ہے …اس کے خط بھی تو جینے کا سہارا بن سکتے ہیں …اور ہاں …سہارا تو ایک بننے کے چکر میں تھا میرا… تیرا بھانجا…جو منہ اٹھائے چلا آتا اور مجھے ترچھی نظروں سے گھورتا رہتا…ایک دن تو حد ہو گئی…اکیلی دیکھ کر کہنے لگا۔ بھابی تو توخود سیانی ہے ، اگر دیوار باہر کو گر جائے تو لوگ اینٹیں اٹھا کر لے جاتے ہیں ، دیوار اندر کو گرے تو اچھا ہے۔ گھر کا مال گھر میں ہی رہے گا…پھر وہ کھی کھی کر کے ہنسنے لگا۔ میرا بھی پارہ ایک دم چڑھ گیا …میں نے بھی کہہ دیا …ویسے تو، تو بھی بہت سیانا ہے اگر گھر کا مال گھر میں ہی رکھنا تھا تو اپنی بہن سے شادی نہ کرتا …میری بات سے وہ خفا ہو گیا اور اس نے میرے چال چلن پر انگلی اٹھا کر برسوں کی ریاضت پر داغ لگا دیا۔ ‘ ‘

رضیہ کی نگاہ اماں کی طرف اٹھی اس نے حقارت سے اپنی نظریں گھما لیں۔ آرام کرسی پر دراز ہوتے ہی دوبا رہ خیالوں کی وادیوں میں کھو گئی۔

’’میرے اور راشد کے تعلقات کو لے کر اس کے بھانجے نے خوب کا ن بھرائی کی…یہ سچ ہے کہ میں راشد کو  پسند کرنے لگی تھی لیکن… کبھی اظہار نہیں کیا تھا…راشد ہمارے گھر دودھ دینے آتا تھا…بھانجے کی باتو ں میں آ کر اس نے راشد سے دودھ لینا بند کر دیا …اور میں نے جب پوچھا تو اس مکا ر عورت نے کیسا خوب صورت ڈھونگ رچا … کہنے لگی کہ مرا دودھ کہاں دیتا تھا نرا پانی بیچ رہا تھا …میں اسے خوابوں میں دیکھتی رہی… لیکن حقیقت سے نظریں نا چرا سکی…اور تب میں نے جانا…یہ عورت میری کیسی نگرانی کرتی تھی…یہ بیٹھی تو پڑوس میں ہوتی مگر آنکھ اور کا ن گھر کی طرف ہی لگے رہتے۔ ‘‘

’’بیٹی…‘‘اماں نے پھر رضیہ کو آواز دی۔خیالات کے بھنور میں پھنسی رضیہ خلا میں گھور رہی تھی۔ اماں کی آواز پر اس کے جسم میں کو ئی حرکت نہیں ہوئی۔

’’کہنے دو … میں نہیں جاؤں گی …اف میرا سر کس قدر دکھ رہا ہے…یہ بیماری بھی اسی کی لگائی ہوئی ہے…ہر وقت سوچنے سے سر بھاری رہنے لگا ہے۔ اکیلے پن سے پریشان دل کرتا ہے کہیں بھاگ جاؤ ں …پر کہاں …گھر جانے کو دل نہیں کرتاکہ بھائی اب اپنے گھر بار میں مگن ہیں اور ماں باپ رہے نہیں …اس جہنم کو چھو ڑ جاؤ ں بھی تو کہاں ؟‘‘

اماں کو پھر کھانسی کا دورہ پڑا تھا ان کی سانس اکھڑتی دیکھ رضیہ کا دل پسیج گیا۔اس نے اماں کو سہارا دے کر اٹھایا۔ کمر سہلاتے ہوئے چند گھونٹ پانی پلایا اور دھیرے سے بستر پر لٹا دیا۔

’’بیٹی…تیرا کچھ دکھتا ہے کیا؟ دکھ چھپانے سے کم نہیں ہوتا…تو اس طرح چپ نہ رہا کر…بیٹی…بات دل میں نہیں رکھتے …بتانے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے۔‘‘ اماں کی ان درد بھری باتوں نے رضیہ پر الٹا اثر کیا۔

’’اُنہہ …بڑی فکر ہے نا اسے میری…گھنّی عورت…میری جوانی چاٹ کر اسے سکون کیسے مل سکتا ہے…اور میں تو دل میں کوئی بات نہیں رکھتی تھی…سب اس کو بتاتی تھی مگر یہ…یہ تو پورا سمندر پی گئی اور ڈکار بھی نہیں لی۔‘‘ــ

’’کاش…کہ میں نے ارشد بھائی اور اس کی باتیں نہ سنی ہوتیں …میری زندگی تباہ تو نا ہوتی۔ارشد بھائی میرے اور اماں کے لئے کچھ سامان لائے تھے جو تابش نے ہمارے لئے دوبئی سے بھیجا تھا۔کچھ میکپ کا سامان تھا جو میں نے اب کرنا ہی چھوڑ دیا … بھلا میکپ کروں بھی تو کس کے لئے…کون دیکھنے کو بیٹھا ہے…ایک دو سوٹ اور کچھ دوسرا سامان…میرا بڑا دل کر رہا تھا کہ ان لوگوں کے پاس جا کر بیٹھوں اور تابش کے بارے میں پوچھوں …پر ہمت نا ہوئی…لاشعوری حرکت یہ سرزد ہوئی کہ میں دروازے کے قریب کھڑے ہو کر ان کی بات چیت سننے لگی…اور…تبھی …میرے اردگرد بم پھوٹنے لگے۔‘‘

’’بیٹا ارشد…تابش سے کہنا کہ وہ جلد واپس آ جائے…میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں …ایک بار آ کر مل تو جائے ورنہ میری روح بیقرار رہے گی…آخر وہ میری بات کیوں نہیں سنتا…‘‘

’’اماں -میں نے اسے بہت سمجھایا…مگر وہ آنے پر راضی نہیں ہوا…اب آپ سے کیا چھپاؤں …اس نے وہاں دوسری شادی کر لی ہے…اس کی بیوی نے اسے قید کر رکھا ہے…وہ اسے…‘‘

’’جانتی ہوں بیٹا…سب جانتی ہوں …اس نے مجھے بتایاتو تھا…اصل میں تابش کو دوبئی میں جو کام ملا تھا وہ اس کے بس کا روگ نہیں تھا…واپس میں اسے آنے نہیں دینا چاہتی تھی کہ یہاں بھی کیا کرتا؟تبھی اس نے بتایا تھا کہ ایک دولتمند لڑکی اس سے شادی کرنا چاہتی ہے…اگر وہ شادی کر لے گا تو ہر ماہ اچھی رقم گھر بھیج سکے گا…پھر…میرا دل پوتے کے لئے بھی مچل رہا تھا…میں پوتے کی صورت دیکھ کر مرنا چاہتی تھی…سو  اسے دوسری شادی کی اجازت دے دی…مگر میری قسمت ہی خراب ہے …بیٹا…کچھ مہینے تو اس نے بڑی رقم بھیجی …لیکن…پھر…پھر…‘‘

’’بڑھیا کی باتیں میرے کانوں میں پگھلے سیسے کی مانند داخل ہوئیں …میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا…جانے کیسے پلنگ تک پہنچی…میں رات کی سیاہی پھیلنے تک پلنگ پر ہی پڑی رہی…سوچتی رہی کہ اتنا کچھ سننے کے بعد بھی زندہ کیسے ہوں … میرے دل نے دھڑکنا بند کیوں نا کر دیا…تب سے یہ کئی مرتبہ پوچھ چکی ہے…بیٹی تیرا کچھ دُکھتا ہے کیا…لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا…شام سے تیز بارش ہو رہی تھی…رہ رہ کر بجلی کڑکتی…لگ رہا تھا کہ آج سب کچھ دھل کر صاف ستھرا ہو جائے گا…اور پھر دھڑام کی آواز نے مجھے چونکا دیا…لگتا ہے دیوار گر گئی…گرنا ہی تھی…اندر کو  گری…یا باہر کو…اس سے اب مجھے کیا فرق پڑنا تھا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

کیسا یہ عشق ہے

 

آگرہ کا یہ گھنی آبادی والا علاقہ دل آرا کی خاص پسند تھا اس نے اسی علاقہ میں ایک خوبصورت عمارت کی سب سے اوپری منزل کو کرائے پر لے لیا تھا۔ اسے یہ  لوکیشن بہت پسند تھی۔ اس لوکیشن کی  خاص بات یہ تھی کہ سب سے اوپری منزل سے تاج محل کا گنبد صاف دکھائی دیتا تھا اور ذرا سی کوشش کرنے پر نیچے کے باغات بھی۔ دل آرا کو یہ نظارہ بے حد دلچسپ لگتا تھا۔ وہ تاریخ کی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے مضمون سے عشق کی حد تک دلچسپی رکھتی تھی۔ پرانی تاریخی کتب اس کی کمزوری تھیں اور آج بھی وہ ملّا عبدالقادر بدایونی کی ’’منتخب التواریخ‘‘ کے مطالعہ میں غرق تھی کہ اچانک ہوا کے جھونکے سے کتاب کے صفحات خلط ملط ہو گئے اور اب جو صفحات اس کے  سامنے کھلے تھے اس پر عنوان تھا ’’ایک دل گداز داستان عشق‘‘۔ اسے عنوان میں بڑی کشش محسوس ہوئی۔دراصل وہ ابھی  اس عمر میں داخل تھی کہ رومانی کہانیاں خود بہ خود پرکشش لگنے لگتی ہیں۔ گلابی سردیوں کی کھلی دھوپ مکان کی تیسری منزل پر نہایت لطیف معلوم ہو رہی تھی سامنے تاج محل کا وہی دلکش گنبد تھا جس کی طرف وہ اکثر یونہی دیکھتی رہتی تھی۔اس نے دل گداز داستان عشق پڑھنی شروع کی۔ جیسے جیسے وہ ورق پلٹ رہی تھی ویسے ویسے اس کے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوتی جا رہی تھی۔

٭

سید موسیٰ کالپی کے معزز سادات خاندان کا نوجوان تھا جو کہ بادشاہ کی فوج میں ملازم تھا۔ جب اس نے آگرہ میں آ کر رہنا شروع کیا تو اس کی ملاقات ایک سنار کی بیٹی سے ہوئی اور وہ اس پر بُری طرح فریفتہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ جب شاہی لشکر رنتھنبور پر قبضے کے لئے روانہ ہوا تو وہ وہاں نہیں گیا اور قلعہ آگرہ کے نزدیک جمنا ندی کے کنارے ایک دوست کے مکان میں آ کر چھپ گیا۔ یہ مکان میر سید جلال کا تھا اور ان کے بالکل برابر میں ہی اس کی محبوبہ کا گھر تھا۔ ایک روز جب وہ مکان کی چھت پرگیا تواسے اپنی معشوقہ کا دیدار ہو گیا اور تب اسے پتہ لگا کہ سنار کی بیٹی کا نام موہنی ہے وہ تھی بھی دل موہ لینے والی۔کافی عرصے تک عاشق و معشوق چھت سے ہی ایک دوسرے کا دیدار کرتے رہے۔ کبھی کبھی موقع پا کر دل کی باتیں بھی کر لیتے۔ دونوں کا عشق جنون کو پہنچنے لگا تھا اور ان کی بے تابیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ جب ان کا صبر جواب دینے لگا تو ایک دن انھوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

موسیٰ نے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ موہنی کو اس کے گھر سے نکال لیا اور دونوں ننگ وناموس کا خیال ترک کر کے فرار ہو گئے۔ دونوں ایک دوسرے کے آغوش میں کئی روز تک موسیٰ کے دوست کے گھر میں چھپے رہے۔ سناروں کو جب موہنی کے غائب ہونے کا پتہ چلا تو کہرام مچ گیا۔ سناروں نے اسے ناموس کا مسئلہ سمجھ کر موسیٰ کے   رشتے داروں پر حملہ بول دیا۔ انھوں نے موسیٰ کے عزیزوں کو دھمکایا کہ اگر موہنی واپس نہ ملی تو بادشاہ سے شکایت کریں گے۔ موہنی کو جب معلوم ہوا تو اسے فکر لاحق ہو گئی۔ موہنی کو موسیٰ کی جان خود سے زیادہ عزیز تھی اور وہ موسیٰ کی جان خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ اس نے طے کیا کہ وہ موسیٰ کو سمجھائے گی اور خود واپس چلی جائے گی۔

’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو موہنی۔‘‘

’’سمجھنے کی کوشش کرو موسیٰ۔ وہ تمھیں مار ڈالیں گے۔‘‘

’’تم واپس جاؤگی تووہ تمھیں بھی قبول نہیں کر پائیں گے۔‘‘

’’نہیں …وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے…میں انھیں تم سے شادی کے لئے راضی کر لوں گی بس تم مجھے جانے کی اجازت دو …ہم جلد ملیں گے …ہمیشہ کے لیے…’’

’تم سمجھ نہیں رہی ہو…ہم الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور تمھارے گھر والے کبھی تمھاری شادی…مجھ سے نہ کریں گے۔‘‘

’’ایسا کچھ نہیں ہو گا…وہ مان لیں گے۔‘‘

موسیٰ کو ماننا ہی پڑا۔ دونوں جدا ہو گئے۔

موہنی گھر واپس پہنچ گئی۔ اسے دیکھتے ہی گھر کی خواتین اس کے گلے لگ کر رو پڑیں لیکن مر دسنار لال پیلے ہو اٹھے۔ انھوں نے موہنی کو سخت سست سنائیں اور اسے بالا خانہ میں قید کر دیا۔ جب اسے کئی روز تک قید رکھا گیا تو موہنی کی ہمت بھی جواب دے گئی۔درد کی شدت نے اسے بغاوت پر اکسانا شروع کر دیا۔

ادھر موسیٰ فراق یار میں تڑپ رہا تھا۔موہنی کو یاد کر کے روتا رہتا تھا۔ موہنی کی جدائی نے اسے دیوانہ کر دیا تھا۔ دھیرے دھیرے دونوں کے عشق کے چرچے عام ہو گئے۔ جہاں چار آدمی جمع ہوتے داستان عشق چھڑ جاتی پھر جس کے منھ جو بات چڑھتی کوٹھوں پہنچ جاتی۔

وقت گذرتا رہا لیکن عشق کی تپش میں کوئی کمی نہیں آئی حالانکہ دونوں نے اس درمیان میں چونکہ ملنے کی کوئی کوشش نہیں کی اس لئے سناروں کو یقین ہو گیا کہ اب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا ہے انھوں نے موہنی کو قید سے آزاد کر دیا۔ آزاد ہوتے ہی موہنی نے ایک ہمراہ کے ذریعہ موسیٰ کو کہلوا بھیجا کہ وہ اس کی یاد سے غافل نہیں ہوئی ہے اور ہر وقت اسے یاد کرتی ہے لیکن مصلحت کی بنا پر اس نے ایسی طرز اختیار کی تھی۔ اب وہ آزاد ہے۔ اس نے موسیٰ سے تمام انتظامات کرنے اور شہر سے باہر نکال لے جانے کی التجا بھی کی۔ دیوانے موسیٰ کے لئے تومن مانگی مراد مل گئی تھی اس نے فوراً سنگی ساتھیوں سے مشورہ کیا اور موہنی کو شہر سے باہر نکالنے کی ترکیب سوچنے لگا۔

موہنی کے گھر پر فقیروں کی ٹولی گاتے ہوئے بھیک مانگنے پہنچی تو موہنی انھیں دان دینے کے بہانے باہر نکل آئی۔ موسیٰ تو پوری تیاری سے آیا تھا اس نے موہنی کو ساتھ لے کر دوڑ لگا دی گلی کے باہر اس کے دوست گھوڑوں کے ساتھ تیار کھڑے تھے انہوں نے گھوڑوں پر دونوں کو کھینچا اور تیزی سے شہر کے باہر کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ تیزی سے فتح پور کی طرف دوڑے چلے جا رہے تھے کہ اتفاقاً شہر کوتوال جمال پہلوان ادھر آن نکلا۔ بدقسمتی سے ا س نے موہنی اور موسیٰ کو دیکھ لیا۔ وہ ان کے عشق کے چرچے سن چکا تھا۔ چونکہ دونوں کے مذہب الگ الگ تھے اس لئے اسے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں ان کی وجہ سے شہر میں فساد نہ ہو جائے۔ اس نے موسیٰ موہنی اور اس کے دوستوں کو گرفتار کر لیا۔ موسیٰ نے شہر کوتوال سے بہت التجا کی لیکن وہ نہیں پسیجا۔تب موہنی نے کوتوال کو اپنے عشق کے بابت سب کچھ بتا دیا اور تمام الزام اپنے سر لے لیا۔تب موہنی نے جب بہت اصرار کر کے موسیٰ اور اس کے دوستوں کو چھوڑنے کو کہا  تو کوتوال پسیج گیا اور اس نے موسیٰ کو تو رہا کر دیا۔ لیکن اس کے دوستوں کو قید میں ڈال دیا۔ موہنی کو اس کے گھر واپس بھیج دیا۔ حالانکہ کوتوال نے سخت ہدایت کی تھی کہ موہنی کے ساتھ خراب برتاؤ نہ کیا جائے لیکن جاہل سناروں کو اس قدر تیش آیا کہ انھوں نے موہنی کو ایک محفوظ مقام پر لے جا کر قید کر دیا۔ موسیٰ واپس شہر لوٹ آیا جہاں اسے اپنے دوستوں کی قید اور موہنی کو محفوظ جگہ بھیجنے کے بارے میں معلوم ہوا۔ وہ کیا کرتا رو پیٹ کر زندگی گذارنے لگا۔

موسیٰ کے دوست قاضی نے اپنے مخبروں کے ذریعہ آخر کار موہنی کا پتہ لگا لیا اور اسے چھڑانے کے لئے خود ہی روانہ ہو گیا۔ دوست کی حالت نے اس میں ایسی جرأت پیدا کیں کہ وہ اکیلا ہی دشمنوں کے علاقہ میں پہنچ گیا اس نے بڑی شجاعت سے کام لیا اور موہنی کو گھرسے نکال کر گھوڑا دوڑا دیا۔ دریائے جمنا کے کنارے کنارے گھوڑے کو بھگائے لے چلا۔ موہنی کے گھر والوں کو پتہ لگا تووہ ان کا پیچھا کرنے لگے۔ قاضی حالانکہ گھوڑے کو بڑی تیزی سے دوڑا رہا تھا لیکن راستہ تنگ تھا اور نالے اور گڈھے بھی بہت تھے اس لئے دشمنوں سے بچ کر نکلنے میں ناکام ہو رہا تھا۔ جب موہنی نے یہ حال دیکھا تو اس نے گھوڑے سے چھلانگ لگا دی اور قاضی سے کہا کہ وہ بچ کر نکل جائے۔ پھر کسی موقع پر پوری تیاری سے کوشش کرے۔لاچار قاضی منھ لٹکائے واپس موسیٰ کے پاس پہنچا جو کہ قلعہ میں قیام پذیر تھا۔اس نے تمام قصہ موسیٰ کے گوش گذار کیا تو وہ صدمے کے مارے قلعہ کی دیوار سے گر پڑا۔ موسیٰ شدت غم کی تاب نہ لا سکا۔ مرتے وقت اس نے انتہائی یاس و محرومی کے ساتھ بارگاہ تعالیٰ میں دعا کی کہ وہ اس لطیف درد کو مجھ بدنصیب کی روح کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رکھے۔

موسیٰ کی موت کی خبر شہر کوتوال کو بھی پہنچی تووہ بڑامایوس ہوا اور اس نے خود موسیٰ کے جنازہ میں شرکت کی۔ اس عاشق کی موت کی خبر شہر آگرہ میں آگ کی طرح پھیلی اور ایک بڑی تعداد موسیٰ کے جنازہ میں شریک ہوئی۔ کچھ جوشیلے دوستوں نے جنازہ کو موہنی کے گھر کی طرف موڑ دیا جہاں وہ اوپری کوٹھے پر قید کر دی گئی تھی۔ موہنی نے جب اپنے عاشق کا جنازہ دیکھا تووہ دیوانہ وار چیخ اٹھی وہ بار بار کہتی موسیٰ تم میرے ہو…تمھیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا…موت بھی نہیں …ہم ضرور ملیں گے…تم انتظار کرنا…‘‘ کچھ دنوں بعد موہنی کی چلانے کی آواز یں آنی بند ہو گئیں اب وہ مبہوت و متحیر نظر آتی۔ اس کا معمول بن گیا تھا کہ صبح سے شام تک کوٹھے پر کھڑی پراسرار نظروں سے اس جگہ کو تکتی رہتی جیسے وہ برابر جنازہ کو سامنے سے گزرتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ پھر اچانک ایک دن اس کی بے حسی ٹوٹ گئی۔ وہ بے قرار ہو کر کوٹھے سے نیچے اتر گئی اور دیوانہ وار بھاگتی ہوئی قلعہ کے اس حصے میں پہنچی جہاں اس کے عاشق موسیٰ کی قبر تھی۔ موہنی قبر پر گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ موہنی کے گھر والے جواس کے پیچھے پیچھے دوڑے چلے آرہے تھے انھوں نے قبر پر موہنی کو بُری طرح روتے دیکھا تو ان کے دل بھی پسیج گئے۔ انھوں نے موہنی کوسمجھابجھا کر لوٹا لے جانے کی کوشش کی لیکن جب وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تو اسے اسی حال میں چھوڑ دینے میں ہی بھلائی جانی اور موہنی اپنے عاشق کی قبر سے لپٹ کر اپنا سینہ پیٹتی رہی۔ وہ ماتم کرتے کرتے بیہوش ہو جاتی اور جب ہوش میں آتی توموسیٰ کے نام کا ورد کرتی رہتی۔ کہتے ہیں کہ ادھر سے گذرنے والے راہگیروں نے کسی شخص کو موہنی موہنی کی صدا دیتے بارہا سنا ہے بعض کا خیال ہے کہ یہ موسیٰ کی بے چین روح ہے۔ بہر حال موہنی نے اپنے عاشق کے سوگ میں کھانا پینا ترک کر دیا اور ایک دن اس قبر پر ماتم کرتے اس کی روح عالم ارواح کے لئے پرواز کر گئی۔ کہتے ہیں کہ ایک خاص دن اس جگہ یہ آوازیں آتی ہیں :

’’موسیٰ…میں اگلے جنم میں تمھیں ضرور ملوں گی۔‘‘

داستان ختم ہوئی تو اس کی  آنکھیں اشکبار تھیں۔ شام کا دھندلکا اب کروٹ لینے لگا تھا اور سورج چھپنا ہی چاہتا تھا۔ اچانک ایک تیز ہوا کے جھونکے نے اسے بری طرح چونکا دیا۔

’’تم رو کیوں رہی ہو موہنی…دیکھو میں تو تمھارے ہی پاس ہوں۔‘‘

’’ک…ک…کون ہو تم۔‘‘ دل آرا بوسیدہ سے کپڑے پہنے شخص کو اپنے اتنے قریب دیکھ لرز کر رہ گئی تھی۔

’’آہ… موہنی تم اپنے موسیٰ کو اتنی جلدی بھول گئیں۔‘‘ مرد نے تعاسف بھرے  لہجے میں کہا۔

’’لیکن…میں …میں …تو۔۔۔دل آرا۔۔۔‘‘

’’موہنی تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو…میں موسیٰ ہوں …دیکھو اب ہمارے دشمن بھی نہیں رہے…اب ہم شادی کریں گے اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔‘‘

’’موسیٰ…ل…ل…لیکن…تم تو مر چکے ہونا۔‘‘

’’اوہ…تو…لو…تم ہی کون سازندہ ہو۔‘‘ کہتے کہتے موسیٰ نے دل آرا کا ہاتھ پکڑا اور عمارت سے نیچے چھلانگ لگا دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

تقسیم کے داغی

 

ہندوستان میں اپنی شاندار رہائش گاہ میں آدم قد شیشے کے سامنے کھڑا ماؤنٹ بیٹن خود کونہار رہا تھا۔

’’ہیلو مسٹر ایڈمرل‘‘ اچانک اس کا ہم شکل آدم قد شیشے کے اندر ابھرا۔

’’تم کون ہو‘‘ ماؤنٹ بیٹن ہڑبڑا گیا۔

’’مجھے نہیں پہچانتے ایڈمرل۔میں وہی ہوں جسے تاریخ ایک نیا ملک بنانے کے لیے ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘‘

’’خاموش رہو‘‘ ماؤنٹ بیٹن مخفی خیالات کے ظاہر ہونے پر چیخ اٹھا۔

’’ایڈمرل-جس ملک کو سکندر، محمد بن قاسم، ترک اور افغان بھی یہاں رہ کر تقسیم کرنے کی ہمت نہ جٹا سکے اسے تم کیوں اور کیسے تقسیم کر سکوگے؟‘‘

ہم شکل کے سوال پر ماؤنٹ بیٹن کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

’’تم دیکھو گے کہ ہندوستان تقسیم ہو کر رہے گا۔ یہ ملک ہم سے آزاد تو ہو جائے گا لیکن میں یہاں ایسا بیج بو جاؤں گا کہ اگلے کچھ سالوں بعد یہ پھر ہمارے قدموں میں واپس آ جائے گا۔‘‘

اچانک ایڈونا کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ماؤنٹ بیٹن کا ہم شکل شیشے سے غائب ہو گیا۔

’’ایڈمرل ہم ہندوستان کیوں آئے ہیں جب کہ یہاں کا ماحول ہمارے لیے سازگار نہیں ہے۔‘‘

’’میں ہندوستان کو آزادی دینے آیا ہوں۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے انھیں آزادی دینے کا اعلان کرو اور واپس چلنے کی تیار کرو۔‘‘

’’اتنی جلدی کیا ہے مائی ڈیئر۔یہ تاریخ بنانے کا مقام ہے ذرا تاخیر تو ہو گی ہی۔‘‘

’’مطلب…‘‘

’’ایڈونا…تم نہرو کی اچھی دوست ہو میں چاہتا ہوں تم انھیں تیار کرو کہ وہ جناح کی منشا کے مطابق ملک تقسیم کی بات کو تسلیم کر لیں۔‘‘

’’وہ یہ بات کبھی تسلیم نہ کریں گے ‘‘ایڈونا نے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’لیکن تم ان سے یہ بات منوا سکتی ہو ڈیئر۔‘‘اتنا کہتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن کمرے سے باہر نکل گیا۔

٭

ماؤنٹ بیٹن اپنے وسیع و عریض لان میں بیٹھا شام کی چائے پی رہا تھا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے ایک اردلی برابر اس پر پنکھا جھل رہا تھا۔ اچانک اس کا ہم شکل چائے کے کپ سے نکل کر پھر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

’’ہیلو ایڈمرل‘‘ ہم شکل کی آواز کے سماعت سے ٹکراتے ہی ماؤنٹ بیٹن الرٹ ہو کر بیٹھ گیا۔

’’تم…تم اب کیوں آئے ہو‘‘

’’ایڈمرل میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی بات تمہارے دماغ میں کب اور کیسے آئی۔‘‘ہم شکل کے سوال پر ماؤنٹ بیٹن چراغ پا ہو گیا۔

’’میں نے ہمیشہ ہندوستان کومتحد رکھنے کی پیش کش کی ہے۔میں قطعی تقسیم ہند نہیں چاہتا۔‘‘

ہم شکل نے زور کا ٹھہاکا لگایا۔

’’خود سے جھوٹ بول رہے ہوایڈمرل‘‘

’’آخر تم میرے پیچھے کیوں پڑے ہو۔‘‘ماؤنٹ بیٹن نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔

’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم نے تقسیم ہند کا منصوبہ کب اور کیوں تیار کیا ‘‘

’’تم مجھ پر غلط الزام لگا رہے ہو۔تقسیم ہند کا منصوبہ میں نے نہیں محمد علی جناح نے تیار کیا ہے۔‘‘

’’تم غلط کہہ رہے ہو ایڈمرل۔ ‘‘ہم شکل کو بھی طیش آ گیا تھا۔‘‘کیا تم نہیں جانتے کہ جب لندن میں رحمت علی نے پاکستان بنانے کی تجویز جناح کے سامنے رکھی تھی تو جناح نے اسے ناممکن اور غلط خواب سے تعبیر کیا تھا۔‘‘ہم شکل کی بات پر ماؤنٹ بیٹن خاموش رہا۔ہم شکل نے بات جاری رکھی۔

’’کیا تمھیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جناح اپنا جما جمایا وکالت کا پیشہ اور سیاست چھوڑ کر لندن رہنے کے لیے چلے گئے تھے۔‘‘ماؤنٹ بیٹن اب بھی خاموش تھا۔

’’تم کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘ماؤنٹ بیٹن نے آخر چپی توڑتے ہوئے کہا۔

’’یہی کہ تقسیم ہندکی تیاری تمہاری حکومت نے بہت پہلے طے کر لی تھی جسے انجام دینے کے لیے تمہیں بھیجا گیا۔‘‘

’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘ماؤنٹ بیٹن نے احتجاج کیا۔

’’ارے رُکو ایڈمرل مجھے کہنے دو‘‘ ہم شکل بھر بول پڑا ’’تمہاری حکومت نے تمہارا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ تمہاری حکومت کا مقصد تھا کہ جہاں تک ممکن ہو ہند کی آزادی کو ٹالا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسے تقسیم کر کے اس حالت میں چھوڑا جائے کہ اگلے کچھ عرصے بعد پھر اس پر تسلط قائم کیا جا سکے۔‘‘

’’یہ سراسر الزام ہے۔میں نے کبھی بھی تقسیم کی بات نہیں کی ہمیشہ متحد ہندوستان کی با ت کی لیکن میں جناح کی ضد کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔‘‘ماؤنٹ بیٹن نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔

’’خود کو دھوکہ دے رہے ہو ایڈمرل۔تم اور تمہاری حکومت نے جناح کو مہرہ بنا کر شہ اور مات کا کھیل کھیلا ہے۔‘‘

’’تم …حد سے بڑھ رہے ہو۔‘‘ماؤنٹ بیٹن کا چہرہ تمتما گیا۔

’’غصہ مت کرو…ایڈمرل…کیا یہ تم  لوگو ں کی ہی چال نہیں تھی کہ جناح جیسا بے مذہب جو نہ قرآن پڑھتا تھا نہ عربی اردو سے اس کا کوئی واسطہ تھا جو نماز تک نہیں پڑھتا تھا پھر بھی وہ ہندوستان کے مذہبی مسلمانوں کا قائد بن گیا تھا۔‘‘

’’میں کہتا ہوں بکواس بند کرو‘‘ماؤنٹ بیٹن زور سے چیخ اٹھا۔تو ہم شکل بھی غائب ہو گیا۔ہم شکل کے جاتے ہی ماؤنٹ بیٹن نے ماتھے پر چھلکا پسینہ صاف کیا۔

٭

ماؤنٹ بیٹن کی رہائش گاہ پر ایک گاڑی رکی اس میں سے محمد علی جناح ہونٹوں میں سگاردبائے اترے اور سیدھے قدموں سے وائس رائے ماؤنٹ بیٹن کی ملاقات گاہ میں پہنچ گئے۔

’’تو آپ نے کیا فیصلہ کیا مسٹر جناح۔‘‘ماؤنٹ بیٹن نے پوچھا۔

’’میں مسلم لیگ کے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر کے ایک ہفتے میں کوئی جواب دے سکوں گا۔‘‘جناح نے جواب دیا اور سگار کا لمبا کش لیا۔

’’مسٹر جناح میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے میں جلد از جلدہندوستان کی تقسیم کا اعلان کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘

’’آپ کے پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنس نے تو آزادی جون ۱۹۴۸ء میں دینے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر آپ اتنی جلد بازی کیو ں کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ؟‘‘

جناح کے سوال کو ماؤنٹ بیٹن نے غور سے سنا۔

’’تم نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اب اگر برطانیہ حکومت تمھیں پاکستان دے رہی ہے تو تم کیوں نہیں موقع سے فیضیاب ہونا چاہتے۔‘‘

’’میں نے کبھی الگ ملک نہیں مانگا بلکہ ہندوؤں کے برابر حقوق کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘

’’تو تم یہ سمجھتے ہو کہ نہرو پٹیل کے رہتے تم ہند کے وزیر اعظم بن سکتے ہو ‘‘۔ ماؤٹن بیٹن نے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ جناح کی خاموشی سے ماؤنٹ بیٹن کا حوصلہ بڑھا۔

’’آخر آپ کو طشتری میں سجا کر پاکستان دیا جا رہا ہے تو آپ ہچک کیوں رہے ہیں۔‘‘

’’میرا ضمیر اسے گوارا نہیں کر رہا۔‘‘

’’کل کی میٹنگ میں کانگریس کی طرف سے نہرو، پٹیل اور آچاریہ کرپلانی موجود رہیں گے۔آپ کے ساتھ مسلم لیگ کی نمائندگی کے لیے لیاقت خان اور عبدالرب رہیں گے۔ میں میٹنگ میں تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کروں گا۔ آپ اس کی کھل کر حمایت کریں گے۔نہرو بھی مخالفت نہیں کریں گے۔‘‘

’’میں منصوبے کی کھل کر حمایت نہیں کرسکتا۔‘‘جناح کی بات پر ماؤنٹ بیٹن کا موڈ بگڑ گیا۔

’’لیکن کیوں …تم نے عوام کے سامنے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔بھلے ہی یہ جوش میں لیا گیا فیصلہ ہو لیکن اب آپ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔اگر تم نے ایسی کوشش کی تو تم مسلم قیادت کھو بیٹھو گے۔‘‘ماؤنٹ بیٹن کا تیر صحیح نشانے پر لگا تھا۔

’’لیکن پھر بھی …‘‘جناح تذبذب کا شکار ہو گئے۔

’’قائد کی یہی طاقت اور کمزوری ہے کہ وہ اپنی عام سبھا میں کہی بات کی نفی نہیں کرسکتا۔وہ اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ چاہے اس کا دل کتنا بھی کیوں نہ پچھتاتا رہے۔ وہ فیصلہ بدل نہیں سکتا۔‘‘ماؤنٹ بیٹن کی کوششیں جاری تھیں۔

’’کانگریسی لیڈر تقسیم کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔سکھ لیڈر بلدیو سنگھ بھی تقسیم کو منظوری دے چکے ہیں اب اگر آپ اپنی منظوری دے دیں تو تقسیم کا معاملہ ابھی اور اسی وقت حل ہوسکتا ہے۔‘‘ماؤنٹ بیٹن نے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔

’’کیا گاندھی جی اور مولانا آزاد بھی تیار ہیں۔‘‘جناح نے خلا میں گھورتے ہوئے سوال کیا۔

ماؤنٹ بیٹن نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا ’’شاید نہیں۔یہی لوگ دراصل تقسیم کے درمیان روڑہ ہیں۔‘‘

’’میں مسلم لیگی ساتھیوں سے مشورہ کر کے کوئی جواب دوں گا۔‘‘جناح نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن نے جناح کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

’’میں ایک تجویز اور پیش کرتا ہوں۔‘‘

’’کیا‘‘

’’میں کل جب تقسیم ہند کا منصوبہ میٹنگ میں پیش کروں تو آپ اس کی تائید…‘‘

’’میں تائید نہیں …‘‘جناح کی بات بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے کہا۔

’’اگر آپ اچانک جاگ اٹھے ضمیر کی بنیاد پر کھلے الفاظ میں تقسیم کی حمایت نہ کرسکیں تو آپ کسی بھی انداز میں اپنے سر کو تھوڑی جنبش دے دیں۔ اس کے کیا معنی ہوئے یہ طے کرنے کی ذمہ داری میں بہ خوبی نبھاؤں گا۔‘‘

٭

سر پر ٹوپی ،کالی شیروانی پہنے ہاتھ میں چھڑی لیے ایک داڑھی والے شخص نے بڑے سے ہال میں قدم رکھے تو وہاں پہلے سے موجود سوٹیڈ بوٹیڈ شخص استقبال کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔رسمی بات چیت کے بعد بہت جلد وہ مدعے کی بات پر آ گئے۔

’’پاکستان کا مطالبہ کر کے آپ اچھا نہیں کر رہے ہیں۔ سمجھنے کی کوشش کریئے۔ اگر آپ پاکستان لے لیں گے تب بھی مسلمان قوم کا بھلا نہیں کر پائیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ آنے والا وقت مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا ہو گا اور مجھے خوف ہے کہ یہ قوم کہیں اس صلے سے بھی محروم نہ رہ جائے جس کی وہ حقدار ہے۔ ‘‘

’’لیکن میری قوم کو یہ حق مل تو نہیں رہا۔‘‘

’’ہم مل کر یہ حق دلائیں گے لیکن آپ ملک کی تقسیم کا ارادہ ترک کر دیں۔ یقین مانئے نہ یہ آپ کے حق میں ہے اور نہ مسلمانوں کے حق میں۔ آپسی نا اتفاقی کا فائدہ انگریز اٹھانا چاہتے ہیں۔اگر آپ اپنے فیصلے کو نہ بدل سکے تو پھر دلوں کے درمیان سرحدیں حائل ہو جائیں گی اور نہ جانے کتنے دل ٹوٹ جائیں گے۔‘‘

’’لیکن آپ تو سب جانتے ہیں …ہندوؤں کے برابر حقوق کے مطالبے والی تمام تجاویز مسترد کی جاچکی ہیں ایسے میں …‘‘

’’اعتماد بھی کوئی چیز ہے میرے بھائی …‘‘

’’لیکن اب تو نہرو پٹیل بھی تقسیم کے لیے تیار ہیں۔‘‘

’’انھیں میں سنبھال لوں گا بس آپ اپنی کہئے۔ ‘‘

’’اگر یہ ممکن ہے تو آپ کوشش کر دیکھیں۔‘‘

٭

اجلاس کی گرمی نے سبھی کے چہروں پر پسینے کی بوندیں چمکا دی تھیں۔کیا کانگریسی اور کیا مسلم لیگی یہاں تک کہ ماؤنٹ بیٹن نے بھی گرمی کی شدت کو محسوس کیا۔

ماؤنٹ بیٹن نے جب تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا تو جناح خاموش رہے۔ انھوں نے نہ ’’ہاں ‘‘کی اور نہ ’’نا‘‘کہا۔ محض اپنے چہرے کو جنبش دے کر ذرا سا جھکا لیا۔ ان کے ہونٹوں میں لگا سگار زمین پر گر پڑا تھا اور وہ خلا میں جانے کیا تلاش کر رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

واپسی

 

حسن میاں بیس سال سے روڈویز محکمہ میں بس کنڈکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ حسن میاں جیسا ایماندار کنڈکٹر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا یہ ان کے اعلیٰ افسران بھی خوب جانتے تھے۔یہ شاید ان کی ایمانداری کی شہرت ہی تھی جس نے انھیں بیس سال نوکری کرنے کے باوجود بس کنڈکٹر ہی بنائے رکھا تھا اور ا ن کا پروموشن نہیں ہوا تھا۔

حسن میاں کی عمر جوانی کی دہلیز پار کرنے کی فکر میں تھی۔ چوڑی پیشانی، قدر لمبی ناک، چھوٹی چھوٹی آنکھیں کھچڑی بال اور شرعی داڑھی ان کے چہرے کو پر نور بناتے تھے۔

حسن میاں نے جب سے کنڈکٹری شروع کی تھی کبھی ایک ٹکٹ کی بھی ہیر پھیر نہیں کی تھی کبھی ان کے خلاف کوئی شکایت بھی درج نہیں ہوئی تھی۔ ان کے ساتھی کنڈکٹر انھیں کئی مرتبہ سمجھاتے بھی۔

’’ حسن بھائی کبھی کبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیا کرو۔‘‘

’’نہیں بھائی مجھے تنخواہ ہی کافی ہے ‘‘

’’مگر شادی ہو گی۔بیوی بچے ہوں گے تو اس تنخواہ میں کیسے گزارہ کرو گے۔‘‘

’’اللہ بہت بڑا ہے۔‘‘وہ آسما ن کی طرف دیکھ کر ہمیشہ یہی کہتے تھے۔

پھر سلمیٰ بیگم سے ان کی شادی ہو گئی۔ سلمیٰ بیگم بھی ان کے مزاج میں ایسی رنگی کہ دوستوں کی باتیں انھیں مذاق ہی لگیں۔ کیونکہ ان کی تنخواہ کے مطابق ہی سلمیٰ بیگم نے گھر کا نظام ڈھال لیا تھا۔ اور اگلے سال ان کے گھر میں ننھی معصوم سی گڑیا ’’ثنا‘‘ نے قدم رکھے تو حسن میاں کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا۔گھر کے اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور اب حسن میاں پریشان رہنے لگے تھے۔

اصغر بھی حسن میاں کے ساتھ ہی روڈویز میں ملازم ہوا تھا۔ اس نے جب حسن میاں کو پریشان دیکھا تو پوچھنے لگا۔’’کیا ہوا حسن ،کیوں پریشان ہو۔‘‘

’’کچھ نہیں ،بس ذرا مہینہ تنگ چل رہا ہے۔‘‘

’’کتنی بار سمجھایا تمہیں ،موقع دیکھ کر کچھ آمدنی کر لیا کرو۔اس زمانے میں سب ایسے ہی چلتا ہے دوست۔‘‘اصغر نے کہا۔

’’لیکن یہ گناہ ہے۔‘‘حسن میاں ابھی دین پر قائم تھے۔

’’ارے یار اگر تم دس ٹکٹ کی رقم بچا لو گے تو کون سا روڈویز کنگال ہو جائے گا۔‘‘

’’لیکن میرا ایمان تو ضائع ہو جائے گا۔‘‘

’’اف۔حسن تم کس مٹی کے بنے ہو۔ اس دنیا میں تم کہاں سے پیدا ہو گئے جہاں لوگوں کے ہر دن ایمان بکتے ہیں۔‘‘اصغر اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔

حسن میاں کو کبھی لمبے روٹ کی گاڑی پر کنڈکٹر نہیں بنایا گیا۔شاید اس کی وجہ بھی ا ن کی ایمانداری ہی تھی افسران کو پتہ تھا کہ یہ تو خود کچھ نہیں کماتے تو بھلا انھیں کیا دیں گے۔ اس لیے وہ محض ضلع سے تحصیل جانے والی بسو ں پر ہی چلتے تھے۔

حسن میاں کی تنخواہ مہینے کی ۲۵تاریخ آتے آتے آخری سانسیں لینے لگتی تھی۔ پھر اس مرتبہ تو عید کا تہوار بھی پڑ گیا تھا اس لیے ہاتھ کچھ زیادہ ہی تنگ ہو گیا تھا۔

’’ابا کل مجھے اپنی فیس جمع کرنی ہے ورنہ میرا نام اسکول سے کاٹ دیا جائے گا۔‘‘

حسن میاں کی بیٹی ثنا نے کہا تو حسن میاں کو بڑی تکلیف ہوئی۔ وہ نم آنکھوں سے ثنا کو تسلی دینے لگے۔ ’’نہیں بیٹا تمہاری فیس کا انتظام ہو جائے گا۔‘‘حسن میاں نے سوچا کہ انچارج آفیسر سے کچھ ایڈوانس کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن جب وہ روڈویز پر پہنچے تو پتہ لگا کہ انچارج چھٹی پر ہیں۔

اب وہ کیا کریں۔ انھوں نے سوچا چلو اصغر سے ہی کچھ اُدھار لے لیں۔ لیکن ان کی خوددار طبیعت نے گوارہ نہ کیا کہ وہ کسی سے ادھار مانگیں۔ پھر وہ فیس کا انتظام کیسے کریں۔ اسی سوچ میں گُم وہ ڈیوٹی جوائن کر کے بس میں سوار ہو گئے۔

انھوں نے ٹکٹ بنانے شروع کیے ہی تھے کہ ا ن کے تھیلے میں کل کے کئی ٹکٹ پڑے ہوئے مل گئے۔ جو کہ رقم واپسی کے بعد مسافر ان کے ہی پاس چھوڑ گئے تھے۔

’’اگر میں ان ٹکٹو ں کو فروخت کر دوں تو ثنا کی فیس کا انتظام ہوسکتا ہے۔‘‘

حسن میاں نے پہلی بار غلط بات سوچی تو ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک اٹھیں۔

’’نہیں نہیں …یہ گناہ مجھ سے نہیں ہو گا۔‘‘ حسن میاں کو ضمیر کی آواز سنائی دی۔

’’لیکن پھر ثنا کی فیس کا انتظام کیسے ہو گا۔‘‘ان کے اندر سے پھر آواز آئی۔

حسن میاں تذبذب کا شکار ہو گئے تھے وہ کیا کریں کیا نہ کریں۔چند روپئے کے لیے کیا وہ اپنا ایمان فروخت کر دیں۔ اگر وہ پکڑے گئے تو کتنی بدنامی ہو گی۔پھر ان کی سوچ نے پلٹا کھایا۔ ارے نہیں تمام لوگ کتنی کتنی بے ایمانی کرتے ہیں دہ کہاں پکڑے جاتے ہیں۔ وہ تو محض ایک بار ثنا کی فیس کے لیے ہی جرم کر رہے ہیں۔آئندہ کے لیے توبہ کر لیں گے۔حسن میاں کے اندر بھیانک جنگ جاری تھی۔ انسان اور شیطان کے درمیان ہوئی اس جنگ میں آخرکار شیطان نے بازی جیت لی۔

حسن میاں نے جلدی جلدی ٹکٹ فروخت کیے اور گاڑی منزل کی طرف بڑھ چلی۔راستے میں حسن میاں کادل دھڑ دھڑ کر رہا تھا کہ کہیں گاڑی چیک نہ ہو جائے۔ ایک ایک کر کے تمام اسٹیشن چھوٹ گئے اور اب وہ آخری اسٹیشن کے قریب تھے کہ اچانک ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔

’’کنڈکٹر صاحب …اے آر ایم صاحب گاڑی چیک کریں گے۔ ‘‘

ڈرائیور کی آواز حسن میاں کے کانوں میں پگھلے شیشے کی مانند داخل ہوئی۔ ان کا دل دھک سے رہ گیا۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں چھلک آئیں۔ وہ بے حرکت اپنی سیٹ پر بیٹھے رہ گئے۔

’’ارے یہ تو حسن میا ں کی گاڑی ہے۔‘‘ اے آر ایم جیسے ہی بس میں چڑھے تو ا ن کی نظر دروازے کے قریب ہی بیٹھے حسن میاں پر پڑ گئی۔

اے آر ایم نے مسافروں کی گنتی کرتے اسسٹنٹ کو آواز لگائی۔

’’ارے سنو چلو نیچے آ جاؤ اور دوسری گاڑی روکو۔ یہ حسن میاں کی گاڑ ی ہے۔ بیس سال میں ا ن کی گاڑی میں کبھی بے ایمانی نہیں ملی تو اب کیا ملے گی۔بے کار وقت ضائع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘اے آر ایم صاحب نے کہا تو ا ن کے اسسٹنٹ نے مسافروں کی گنتی کرنا ترک کر دیا۔ اور وہ نیچے اتر کر دوسری گاڑی روکنے کے لیے الرٹ ہو گیا۔

بس سے اترتے ہوئے اے آر ایم کی نگاہ حسن میاں کے چہرے پر پڑی تووہ پریشان ہو کر بولے۔ ’’لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔دیکھو حسن اگر صحت ٹھیک نہیں رکھو گے تو روڈویز کی خدمت کیسے کر پاؤ گے۔ اس لیے ابھی جا کر ڈاکٹر کو دکھانا۔‘‘ اے آرایم صاحب ہدایت دے کر نیچے اتر گئے۔ حسن میاں کو کاٹو تو خون نہیں۔ وہ تو بیہوش ہوتے ہوتے بچے تھے۔

جب ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھائی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم سے ٹکرائے تووہ ہوش میں آئے۔

ہوش میں آتے ہی انھیں تمام باتیں یاد ہو آئیں۔

’’اف…ان کی برسوں کی ایمانداری پر آ ج داغ لگتے لگتے رہ گیا۔‘‘انھوں نے دل میں سوچا۔ اور یہ ان کی ایمانداری کا ہی بھروسہ تھا کہ ان کی عزت بچ گئی تھی۔ لیکن انھوں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک تھا؟

’’نہیں …‘‘ان کے دل نے کہا۔ تو انھیں لگا کہ ان کا ایمان واپس آ گیا ہے۔ وہ شیطان کی قید سے رہا ہو گئے ہیں۔ اب وہ خود کو بے حد ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔

حسن میاں جیسے ہی بس اڈہ پر اترے انھوں نے تمام ٹکٹوں کا کیش جمع کرایا۔

’’یہ تو زیادہ روپئے جمع کر دیئے حسن صاحب آپ نے۔‘‘ کلرک نے پوچھا۔’’نہیں جناب، دراصل مجھ سے غلطی سے ۱۰ ٹکٹ کل کے واپسی والے بھی فروخت ہو گئے تھے۔ انھیں کیش کے ساتھ جمع کر لیجئے۔ ‘‘حسن میاں کے جواب پر کلرک اور کیشیئرحسن میاں کا چہرہ تکتے رہ گئے۔ ان کے دلوں میں حسن میاں کی عزت اور بڑھ گئی تھی۔

حسن میاں نے کمرے سے باہر نکل کر اپنی گیلی ہوئی آنکھیں رومال سے پونچھیں اور دھیرے دھیرے گھر کی طرف بڑھ چلے۔ ان کے قدم جیوں جیوں گھر کی طرف اُٹھ رہے تھے وہ سوچتے جا رہے تھے کہ ثنا کی فیس کا انتظام کیسے ہو گا؟وہ ثنا اور بیوی کا سامنا کیسے کر پائیں گے۔جب ثنا ان سے فیس کے روپئے کا مطالبہ کرے گی تو وہ کیا جواب دیں گے؟

٭٭٭

 

 

 

وراثت

 

’’ارے سنتی ہو …وہ پھر آ رہا ہے۔‘‘

’’اف…یہ لڑکا سمجھتا کیوں نہیں ؟‘‘

’’کیاسمجھے وہ …رقم کی ضرورت ہو گی اسے۔‘‘

’’ل…لیکن …یہ مکان اس کا تو نہیں ہے۔‘‘

’’اب! ہمارا بھی تو نہیں ہے۔‘‘

دونوں تاسف بھرے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ مرد نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔

’’کتنی بار اس لڑے کو سمجھایا کہ اپنے شہر میں ہی کوئی نوکری کر لے۔مگر …‘‘

’’کہتا تھا کیمیکل انجینئرنگ کیا ہے تو اس شہر میں کیا کروں گا۔‘‘

’’بھلا انجینئرنگ کرنے والے کیا سب ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔‘‘

’’اب کاہے کا افسوس کرتے ہو …تم ہی تو کہتے تھے میرا بیٹا بہت بڑا آدمی بنے گا۔‘‘

’’ہاں …لیکن…‘‘

’’تمھیں تو بھوت سوار تھا کہ لڑکے کو انجینئرنگ کراؤں گا تاکہ خوب پیسہ کما سکے۔ ‘‘

’’ہاں …مننے کی ماں تم ٹھیک کہتی ہو …لیکن کیا میرا ایسا سوچنا غلط تھا۔ کون باپ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ترقی نہ کرے۔‘‘وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بدبدایا۔

’’لیکن ترقی کا مطلب یہ تھوڑے ہی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر ملک سے بھاگ کھڑے ہو۔ ‘‘

’’وہ کہاں بھاگا بیچارہ…تم ہی تو چاہتے تھے کہ سال دو سال عرب چلا جائے اور وہاں سے اچھی رقم کما کر لے آئے تاکہ یہاں بزنس کرسکے۔‘‘

’’ہاں سچ کہتی ہو تم …میں بالکل چاہتا تھا …اور تم ہی کہو بھلا اس میں غلط کیا تھا …ہم نے جس غریبی کو جھیلا ہے تو کیا ہماری خواہش نہ ہوتی کہ بڑھاپے میں ذرا آرام کے ساتھ زندگی گزاریں۔ ‘‘

’’یہ تو ہے …اب یاد کرتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ مننے کی تعلیم کے لیے تم نے کس قدر محنت کی …یہاں تک کہ دوپہر کا کھانا بھی کھانے نہیں آتے تھے اوور ٹائم کرنے کے واسطے۔‘‘

’’ارے تو تم نے کیا کم دکھ اٹھائے ہیں مننے کی اماں …تم بھی تو دوپہر کا کھانا نہیں کھاتی تھیں۔ ‘‘

’’لو بھلا میں اکیلے کیسے کھا لیتی …تم بھوکھے پیٹ کام کرو اور میں کھا کھا کر موٹی ہوتی رہوں …یہ کون بات ہوئی بھلا؟‘‘

مرد نے بے حد پیار بھری نظرسے بیوی کو دیکھا۔

’’تبھی تم کتنی کمزور ہو گئی تھیں نا…اگر صحت کا خیال رکھتی توتمھیں ٹی بی جیسی بیماری تو نہ ہوتی۔‘‘

’’ارے مجھے کیا فرق پڑنا تھا …میں تو گھر میں ہی رہتی ہوں …لیکن تم دونوں کا خیال آتا ہے …تم مننے کو اچھا کھلانے کے چکر میں خود کتنے بیمار سے لگنے لگے تھے …اور مننا بھی بیچارا کہہ کہہ کر ہار جاتا تھا کہ ابّا اتنا کام نہ کرو …آپ کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے مگر آپ بھی کہاں ماننے والے تھے …اب پڑے کھانستے رہتے ہو…‘‘

’’ارے اگر میں اتنی محنت نہ کرتا تو مننا انجینئر بن پاتا کیا اور یہ مکان بن پاتا کیا؟‘‘   اس نے اپنے چھوٹے سے گھر کا معائنہ کیا۔دو کمرے ایک ڈرائنگ روم ،کشادہ کچن، باتھ روم اور ایک اسٹڈی روم …خاص مننے کے لیے …تاکہ اسے ڈسٹربینس نہ ہو … اور منے نے بھی تو کمال کیا …کیمیکل انجینئرنگ کرنے تک ہر کلاس میں فرسٹ آیا تھا۔

’’لیکن اب وہ اس مکان کو فروخت کر ڈالے گا تو…‘‘

’’تو …کیا…واقعی …‘‘

’’ہاں …وہ آیا تھا کسی کو دکھا بھی گیا ہے مکان۔‘‘

’’ہنہ…اب ہمارے اختیار میں بھی تو کچھ نہیں۔‘‘

’’لیکن اسے تو سوچنا چاہیے کہ اس کی پرورش کی طرح ہم نے اس مکان کو بھی تو خون پسینہ سے بنایا ہے تووہ اسے ایسے کیسے فروخت کر سکتا ہے خاص کر تب جب کہ ہم اس مکان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ‘‘

’’وقت کے ساتھ خیالات بھی توبدل جاتے ہیں …قسمت نے جب ہم پر ہی گرد ڈال دی تو بھلا وہ کیوں سوچنے لگا۔ ‘‘ مرد بھی مغموم نظر آنے لگا تھا۔

’’لگتا ہے وہ پھر آنے والا ہے مجھے اس کے قدمو ں کی آہٹ دورسے آتی محسوس ہو رہی ہے۔ ‘‘

’’تم اتنا کیوں سوچتی ہو …مٹی ڈالو اس قصے پر …چلو چائے بنا کر لاؤ…آج آخری بار اپنے مکان میں چائے پیتے ہیں مل کر۔‘‘

’’آخری بار کیوں بھلا ‘‘۔ مرد نے خالی نظروں سے بیوی کو دیکھا تو جیسے وہ بات سمجھ گئی ہو۔

’’آپ کیوں ادا س ہوتے ہیں …آنے دو آج اسے …میں اسے صاف منع کر دوں گی …جب تک ہم اس گھر میں ہیں اسے وہ نہ بیچے۔ ‘‘

’’ارے نہیں …مجھے لگتا ہے اب ہمیں ہی نیا ٹھکانہ ڈھونڈ لینا چاہیے۔‘‘

’’ہم کیوں نیا …کھو…کھو…کھو۔‘‘

’’کیا ہوا …لگتا ہے تمھاری کھانسی پھر بڑھ گئی ہے …اچھا یہ بریڈ مکھن لو اور ذرا کافی کی چسکی لو …شاید تمھیں کچھ آرام ملے۔‘‘

’’ہم کتنے خو ش تھے جب …جب سب مل کر اسی ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے تھے …سب ایک دوسرے کو کھلانے کی فکر کرتے تھے …مگر اب نہ تم کچھ کھاتے ہو …اور …اور وہ تو …‘‘عورت سبکنے لگی تو مرد نے پیٹھ تھپکتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اب تم زیادہ مت سوچو۔‘‘

’’کیسے نہ سوچوں …میں سچ کہتی ہوں …میرے بغیر تم بھی اکیلے ہو جاؤ گے …تب تم کیا کرو گے …سوچتی ہوں تو کلیجہ منھ کو آتا ہے۔‘‘

’’ارے تو تم کہاں جا رہی ہو…پریشان نہ ہو ٹھیک ہو جاؤ گی…‘‘ مرد نے اپنے سینے کو ذرا دباتے ہوئے کہا اور ماتھے پر چھلک آئے پسینے کو نیپکن سے صاف کرنے کی کوشش کی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔وہ عورت کے پاس کھسک آیا۔

’’لگتا ہے میری طبیعت آج زیادہ خرا ب ہے۔ ‘‘

’’میں مننے کو فون کرتی ہوں وہ ڈاکٹر کو  لیتا آئے گا۔ ‘‘

’’ارے اب مننا ہماری باتیں کہاں سن پاتا ہے …پتہ نہیں ہماری آواز اسے سنائی نہیں دیتی یا پھر وہ سن کر بھی …‘‘

’’میں پھر کہتی ہوں کہ اسے تم نے زیادہ چھوٹ نہ دی ہوتی تو آج وہ ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

’’اتنی بدگمانی ٹھیک نہیں بھئی…اس کی خطا نہیں ہے جب قسمت نے ہمیں وقت نہیں دیا ‘‘

’’وہ تو بیچارا سال دوسال میں چکر لگا ہی لیتا ہے۔ پھر فون بھی تو کرتا رہتا ہے۔ ‘‘

’’لیکن اس سے ہمیں کیا فائدہ؟‘‘

’’سچ کہتی ہو لیکن اس سے …اس کی کوتاہی تو ثابت نہیں ہوتی نا۔‘‘

’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں …وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے…ہم جو سوچتے ہیں وہ غلط ہے …اس کو ہمارے رہنے کا ٹھکانہ بیچنے کا فیصلہ ٹھیک ہے۔‘‘

’’تم ناراض مت ہونا …مجھے بھی لگتا ہے کہ وہ حق بجانب ہے اس لیے ہمیں بھی اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے چاہیئں۔ ‘‘

’’اب آپ پھر وہی باپ بننے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا بیٹا ہم سے دور ہو گیا۔‘‘

’’وہ دور نہیں ہے…دیکھو وہ آ رہا ہے …وہ ہمارے قریب ہی تو ہے۔‘‘

’’آنے دو میں اسے بھی گھر سے نکال دوں گی …کھو…کھو…کھو۔‘‘

دروازہ کے چرمرا کر کھلنے کی آواز سے روشن دان میں بیٹھے پرندے اُڑ گئے۔ دو قدموں نے دروازے کو عبور کر کے مکان کے اندر قدم رکھے۔ اس کے پیچھے ایک شاندار جوتے اندر آئے۔اندر داخل ہونے والے دونوں شخص مکان کا معائنہ کرنے لگے۔

’’دیکھا وہ پھر آ گیا اب کی تو کوئی موٹی آسامی لگتی ہے۔ کیسی شاندار پرسنلٹی ہے۔‘‘

’’تم اس کو منع کیوں نہیں کرتے کہ ہم یہاں ہیں تو یہ مکان نہ بیچے۔ ‘‘عورت نے بڑے نارمل لہجے میں کہا۔

’’اب کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ مرد کا چہرہ بجھا بجھا معلوم ہوتا تھا۔

’’سنو تو صحیح آخر یہ لوگ کیا بات کرتے ہیں …‘‘ مرد چائے کا کپ میز پر رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’مسٹر خان …یہ مکان آپ کا ہی ہے۔‘‘

’’جی جناب…میرے والدین نے بڑی محبت اور محنت سے اسے تعمیر کرایا تھا۔‘‘

’’تو تم اسے کیوں فروخت کر رہے ہو۔‘‘

’’دراصل میں گلف میں بزنس کرتا ہوں اور انڈیا آنا جانا نہیں ہو پاتا۔ اب بھی چند روز کی مہلت ملنے پر آیا ہوں اور اسے فروخت کر کے واپس چلا جاؤں گا۔ ‘‘

’’مسٹر خان …مکان ہمیں پسند ہے۔‘‘

’’جی …تو میں سودا پکا سمجھوں۔‘‘خان صاحب خوش ہو گئے۔

’’بالکل …لیکن یہ بتائیے کہ یہاں کوئی اب بھی رہتا ہے کیا۔‘‘

’’نہیں بالکل نہیں۔‘‘

’’لیکن یہ کپ ٹیبل پر رکھے ہیں اور ان میں بالکل تازہ سی چائے رکھی ہے اور جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ یہاں سے ابھی ابھی کوئی گیا ہے۔‘‘

’’کیا بات کرتے ہیں جناب …یہاں کوئی نہیں رہتا …میرے والدین اسی مکان میں رہتے تھے لیکن چھ سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔ تب سے یہ مکان بالکل خالی پڑا ہوا ہے۔ ‘‘

آنے والا شخص کبھی مسٹر خان کو دیکھتا اور کبھی مکا ن کی حالت کو اور کبھی میز پر رکھے چائے کے کپوں کو …یقیناً وہ مسٹرخان کی معلومات پر یقین نہیں کر پارہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

خوابوں کا تاجر

 

’’کیا بندہ کو رات قیام کا سکون میسر ہو گا؟‘‘کالے تندرست گھوڑے سے اترتے ہوئے مسافر نے سرائے کے مالک سے دریافت کیا۔

’ضرور ملے گا۔ گھوڑے کو اصطبل میں چھوڑ دو اور میرے ساتھ آؤ۔‘‘بزرگ سے دکھائی دینے والے شخص نے مسافر کو اسی لہجے میں جواب دیا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ بھی کر دیا۔ پتلے گلیارے کو پار کر کے وہ دونوں ایک بڑے ہال نما کمرے میں داخل ہوئے جس میں کئی پلنگ صاف چادروں سے آراستہ موجود تھے۔ سبھی پلنگ بھرے ہوئے تھے۔

’’تم یہاں بیٹھو۔‘‘بزرگ سرائے مالک نے مسافر کو کرسی پیش کرتے ہوئے کہا۔

’’میں تمہارے لیے ایک پلنگ کا انتظام کرتا ہوں ‘‘بزرگ فوراً باہر نکل گیا۔

’’کہاں سے آرہے ہو میاں ‘‘لمبی سی داڑھی اور سفید جُبّے میں ملبوس شخص نے مسافر سے دریافت کیا۔

’’جی میرا نام سراج الدین ہے اور میں رام گڑھ راجیہ سے مرشدآباد جا رہا ہوں واسطے تجارت کے۔‘‘مسافر سراج الدین نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنا تعارف کرایا۔ بعدہٗ باری باری کمرے میں موجودسبھی لوگوں نے اپنا تعارف کرایا۔

’’ہاں تو بھائیو سنو میں نے رات ایک بڑا حسین خواب دیکھا۔‘‘جمیل نے کہا۔

’’ضرور کوئی حسینہ نے دل دیا ہو گا ‘‘ساتھی بشیر نے مذاق اڑایا تو جمیل نے برا سا منھ بنایا۔ جمیل اور بشیر اچھے دوست تھے اور دونوں ایک ہی شہر کے رہنے والے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی باتوں کو مذاق میں اڑا کر تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے۔

’’اچھا بتاؤ کہ تم نے کیا دیکھا۔‘‘بشیر نے جمیل کو راضی کرنے کے لیے کہا۔

’’میں نے دیکھا کہ میں ایک خوبصورت مکان کے لان میں نرم گھاس پر لیٹا ہوا ہوں۔میرے اوپر چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھکا ہوا ہے اور میری بغل میں سورج بیٹھا مجھے نہار رہا ہے۔ ‘‘

’’ارے میاں تم تو اب آسمان کی سیرپر نکل گئے ہو۔ذرا جلدی لوٹ آنا کہ ہمیں زمیں کے مسائل پر بات کرنی ہے۔‘‘بشیر نے پھر جمیل کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔

’’بھائی میں ایک تاجر ہوں اور میں تم سے تمہارا یہ حسین خواب خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘سراج الدین نے جمیل کے پاس پہنچ کر اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔

’’لیکن خواب بھی کہیں فروخت ہوتے ہیں میاں ‘‘۔جمیل نے قدرے حیرانی سے کہا۔

’’بس آپ ہاں کر دیں۔ مجھے آپ سے یہ خواب خریدنا ہے۔ جو قیمت کہو دوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے مابدولت نے یہ خواب تمھیں ایک ہزار اشرفیوں میں فروخت کیا۔‘‘سچ مچ سراج الدین نے اپنی انٹی میں لگی تھیلی سے ایک ہزار اشرفیاں گن کر جمیل   کو دیں۔

’’اب یہ خواب میرا ہو گیا۔‘‘ سراج الدین نے فرط مسرت سے جمیل کا ہاتھ چوم لیا۔ جمیل اور بشیر سراج الدین کو اب بھی حیرت سے تکے جا رہے تھے۔

’’اچھا دوستو شب بخیر‘‘سراج الدین اپنے پلنگ پر لیٹا اور جلد ہی نیند کے آغوش میں چلا گیا۔

صبح اٹھ کر سراج الدین نے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو کر اسے شاہراہ پر دوڑا دیا۔ برق رفتار گھوڑے نے شام ہوتے ہوتے سراج الدین کو مرشد آباد پہنچا دیا۔ مرشدآباد پہنچ کر وہ سیدھا بازار پہنچا اور اس نے اونچے چبوترے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا۔

’’میں سراج الدین ہوں۔مشہور خوابوں کا تاجر۔آؤ اور مجھ سے جیسا چاہو خواب خرید لو۔‘‘سراج الدین کا اعلان اتنا عجیب و غریب تھا کہ اس کے چاروں طرف  بھیڑ جمع ہو گئی۔

’’چاہیے کسی کو کوئی بہترین خواب جو سچ ہو جائے۔‘‘سراج الدین کی آواز پر مجمع میں کاناپھوسی ہونے لگی۔خفیہ ذرائع نے سراج ا لدین تاجر کے خوابوں کی تجارت کے فلسفے کو معمہ بنا کر مرشد آباد کے بادشاہ شاہ زماں کو رپورٹ کی۔ بادشاہ خود بہت حیران ہوا۔اس نے اپنے مشیروں اور نجومیوں کو فوراً طلب کر کے اس بابت دریافت کیا۔

’’بادشاہ حضور آپ خوابوں کے تاجر سے وہ خواب خرید لیں جو اس نے مرشدآباد آتے وقت سرائے میں خریدا تھا۔ ‘‘بادشاہ کے ایک قابل نجومی نے بادشاہ کو مشورہ دیا۔

’’وہ خواب اگر آپ خریدنے میں کامیاب رہے تو آپ کی منھ مانگی مراد پوری ہو جائے گی۔‘‘نجومی نے بادشاہ کے تجسس کی آگ بھڑکا دی۔

بادشاہ خود بازار میں سراج الدین کی قیام گاہ پہنچا اور اس سے سرائے والا خواب فروخت کرنے کی درخواست کی۔

’’لیکن میں وہ خواب آپ کو فروخت نہیں کرسکتا۔وہ میں نے اپنی تجارت کے لیے نہیں بلکہ اپنی خواہش کے لیے خریدا ہے۔‘‘

’’لیکن مجھے وہی خواب چاہیے۔‘‘

’’آپ کوئی دوسرا خواب لے لیں بادشاہ حضور۔ میرے پاس اور بھی بہت سے اچھے خواب ہیں۔‘‘

’’اگر تم مجھے وہ خواب فروخت نہیں کرو گے تو میں تم کو گرفتار کر وا کر جیل بھیج دوں گا۔‘‘بادشاہ سراج الدین کی نا سے بے حد خفا ہو گیا تھا۔

’’بادشاہ حضور مجھے معاف فرمائیں …‘‘

’’گرفتار کر لو اسے اور تب تک قید میں رکھو جب تک کہ یہ اپنا خواب فروخت کرنے کو راضی نہ ہو جائے۔‘‘

’’رحم حضور …رحم…‘‘

سپاہیوں نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی۔ وہ تاجر کو گرفت میں لے کر شاہی محل کی طرف چل پڑے۔ جمع ہوئی بھیڑ یہ سوچ کر حیران پریشان تھی کہ بادشاہ کی سنک کا تو کوئی علاج نہیں لیکن یہ تاجر تو بادشاہ سے بھی گیا گزرا معلوم ہوتا ہے بھلا وہ خواب فروخت کرنے کیوں تیار نہ ہوا۔

سراج الدین تاجر کو لے کر سپاہیوں کا جتھا شاہی محل میں پہنچا۔ وہ قید خانے کی طرف جاہی رہے تھے کہ راستے میں شاہی باغ پڑا۔ باغ میں گلاب کے درخت کے قریب کھڑی ایک حسن کی دیوی پر یکایک تاجر کی نگاہ پڑ گئی۔

’’آہ…بے  مثال‘‘ تاجر کے منھ سے بربس نکلا۔

’’کیا ہوا…‘‘سپاہیوں نے تاجر کی آہ سنی تو پوچھنے لگے۔

’’یہ پری رو کون ہے دوستو۔‘‘سراج الدین تاجر نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سپاہیوں سے پوچھا۔ تو سپاہیوں نے اسے لات گھونسوں پر رکھ لیا۔

’’خبردار گندے انسان…وہ بادشاہ کی ہونے والی رانی صاحبہ ہیں۔‘‘

’’اوہ…لیکن یہ اتنی اداس کیوں ہے اور اس کے گرد سخت پہرہ کیوں ہے۔‘‘

’’اس نے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بادشاہ سے شادی نہیں کر سکتی۔ ‘‘

’’کیا…کیا خواب دیکھا ہے اس نے۔‘‘تاجر محو حیرت تھا۔

سپاہیوں کے سربراہ نے تاجر کے دو ہتھڑ جمایا تووہ  لڑکھڑا کر گر گیا۔

’’اسے کیوں مارا جا رہا ہے۔‘‘حسن کی دیوی نے سیدھے سپاہیوں کے قریب آ کر سوال کیا۔

’’ملکہ حضور …یہ بادشاہ سلامت کا قیدی ہے اور آپ کے بارے میں نازیبا کلمات بول رہا تھا۔‘‘ایک سپاہی نے خوش آمدانہ لہجے میں جواب دیا۔

’’میرا نام عارفہ ہے۔ تم کون ہو اجنبی۔لگتا ہے میں نے تمھیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘  حسن کی دیوی نے تاجر کا بغور جائزہ لیا۔

لمبا قد، چوڑا ما تھا، چوڑا سینا اور گھنگھرالے بال تاجر کی مردانہ وجاہت کے اہم عنصر معلوم ہو رہے تھے۔

’’میرا نام سراج الدین ہے اے ملکہ ٔحسن،اور میں خوابوں کا تاجر ہوں۔‘‘

’’چلو چلو اسے لے جا کر قید خانے میں ڈال دو۔‘‘سربراہ نے ہانک لگائی۔

سراج الدین کو لے جا کر قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ تاجر کو خواب فروخت کرنے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن بھلا کون ایسا کرسکتا تھا جب کہ تاجر نے بادشاہ کو صاف انکار کر دیا تھا۔ جو بھی سنتا وہی حیران ہوتا کہ بادشاہ کو یہ کیا سنک سوار ہوئی ہے کہ وہ من چاہا خواب خریدنا چاہتا ہے اس سے زیادہ لوگ تاجر کی قسمت کو کوستے کہ وہ بھلا کیوں نہیں راجہ کو کہہ دیتا کہ لو یہ خواب تمہارا ہوا۔ بھلا کہنے بھر سے کہیں ممکن تھا کہ اس کا خواب راجہ کومل جاتا۔

تاجر کو قید ہوئے پورے ایک ہفتے کا وقت گزر چکا تھا۔تاجر کو اب فکر کھائے جا رہی تھی کہ اگر وہ یہاں سے نہ نکل سکا تو اس کا خواب کیسے پورا ہو گا۔ بھلا ایک ہزار اشرفیاں کیا وہ یوں ہی ضائع ہو جانے دے گا۔ ان ہی خیالات میں گم و ہ قید خانے کے جالی دار دروازے پر پالتی مارے بیٹھا تھا کہ گھنگھرو کی طرح بجتی نرم و نازک نسوانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

’’کس سوچ میں گم ہوسوداگر۔‘‘

’’آپ…ملکہ حسن اور …یہاں ‘‘وہ عارفہ ہی تھی۔

’’ہاں …تم خوابوں کی تجارت کرتے ہو نہ ‘‘عارفہ کی مترنم آواز اس کے کانوں میں شہد گھول رہی تھی۔

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ …‘‘سراج الدین کو اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ عارفہ اس کے اتنے قریب موجود ہے۔وہ تو اسے دیکھنے کے بعد ہی اس کا اسیر ہو چکا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح اس سے گفتگو کا موقع ملے۔ اور خدا نے اسے یہ حسین موقع فراہم کر دیا تھا۔ خوشی خود اس کے گاؤں چلی آئی تھی اپنے پاؤں چل کر۔

’’میں بھی تم سے ایک خواب خریدنا چاہتی ہوں سوداگر۔‘‘

’’کیا…لیکن آپ تو خود سراپا خواب ہیں پھر آپ کو کسی خواب کی کیا ضرورت۔‘‘

عارفہ کھلکھلا کر ہنس پڑی لیکن ایک دم سے سنجیدہ ہو گئی۔

’’کیا تم مجھے ایک خواب دو گے۔‘‘ اس نے اصرار کیا۔

’’کون سا خواب چاہتی ہو۔میرے پاس تو بہت سے خواب ہیں۔‘‘

’’عام سی لڑکی ہوں بہت عام سی سوچ ہے میری ،ایک گھر ہو دریچہ ہو اور پھول سا بچہ ہو۔‘‘عارفہ نے گنگنا کر خواب بتایا۔

’’لیکن تم مجھ سے اور بھی اچھا خواب مانگ سکتی ہو…‘‘

’’نہیں مجھے صرف اتنی ہی خواہش ہے۔‘‘

’’لیکن تم تو بادشاہ کی رانی بننے جا رہی ہو تو پھر یہ خواب…‘‘

’’نہیں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔‘‘عارفہ نے بے حد سختی سے انکار کیا تو سراج الدین خاموش ہو گیا۔

’’بولو خواب فروخت کرو گے۔‘‘

’’ہاں -یہ خواب تو میرے پاس ہے اور میں تمھیں ابھی اسی وقت یہ خواب سونپتا ہوں۔ ‘‘

’’شکریہ میرے محسن…اور اس کی قیمت…‘‘

’’یہ میں نے تحفتاً تمھیں دیا ہے ‘‘سوداگر نے کہا تو عارفہ کی ہرنی جیسی آنکھوں نے خاموشی کے ساتھ اظہار تشکر کیا۔ پھر عارفہ پلٹی اور واپس چلی گئی۔

تاجر کو قید ہوئے ایک ماہ گزر گیا تھا۔ اس کی داڑھی مزید بڑھ گئی تھی ،کھانا پیٹ بھر نہ کھا سکنے کی وجہ سے جسم بھی قدرے کمزور ہو گیا تھا۔اس کے کپڑے بھی میلے تھے۔ اسے آج بادشاہ نے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔بادشاہ کے سپاہی اسے لینے آ چکے تھے۔وہ ان کے ہمراہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہونے چل دیا۔ جیسے ہی وہ اس باغ کے قریب سے گزرا جہا ں اس نے عارفہ کو پہلی بار دیکھا تھا تو شوق تجسس میں اس کی نظر باغ کی طرف اٹھی لیکن اسے وہاں عارفہ نظر نہیں آئی، اس کی اچانک چمک اٹھی آنکھیں مایوس ہو گئیں۔

’’کیا کہتے ہو تاجر…کیا تم اپنا خواب فروخت کرو گے۔تمھیں منھ مانگا دام ملے گا۔‘‘بادشاہ کے مشیر خاص نے اونچی آواز میں تاجر سے کہا۔

’’میرا فیصلہ اب بھی وہی ہے بادشاہ حضور۔‘‘

’’کیا بکتے ہو۔ ‘‘بادشاہ کا غصہ پھٹ پڑا۔ ’’تم دو ٹکے کے سوداگر تمہاری یہ مجال کہ تم میری حکم عدولی کرو۔‘‘

’’لیکن بادشاہ سلامت صرف اسی خواب کو کیوں خریدنا چاہتے ہیں جب کہ میرے پاس …‘‘

وزیر اعظم نے تاجر کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’بادشاہ سلامت عارفہ کو اپنی رانی بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ منع کرتی ہے۔ اگر تم وہ خواب بادشاہ کو دے دو تو عارفہ بادشاہ کے رشتہ میں آسکتی ہے۔کیوں کہ دنیا میں اگر چاند کے مشابہ کوئی ہے تو وہ عارفہ ہی ہے۔‘‘

’’وزیر اعظم کی بات پر تاجر کا سر چکرا گیا۔وہ جانتا تھا کہ عشق کے معاملات میں بادشاہ کبھی ہار ماننے والا نہیں۔ اسے اب اپنی زندگی تاریک نظر آنے لگی۔ اسے لگا کہ یا تو اب اس کی زندگی ختم ہوئی یا پھر اس کا خواب ٹوٹا۔

اچانک اسے یاد آیا کہ عارفہ تو اس سے عام لڑکی بننے کا خواب خرید چکی ہے تو بھلاوہ بادشاہ کی رانی کیسے بن سکتی ہے۔

’’لیکن بادشاہ حضور گستاخی معاف۔عارفہ تو مجھ سے پہلے ہی عام سی لڑکی ہونے کا خواب خرید چکی ہے۔اس لیے اب بھلا وہ کیسے رانی بن سکتی ہے۔‘‘

’’کیا…کیا کہا تم نے۔‘‘مشیر خاص اور بڑے نجومی نے ایک ساتھ کہا تو بادشاہ بھی مایوس ہو کر دھم سے سنگھاسن پر گر پڑا۔

’’ہاں وہ تو پہلے ہی عام لڑکی کا خواب مجھ سے لے چکی ہے۔‘‘

’’تب تو بادشاہ حضور یہ خواب خریدنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔‘‘نجومی نے مدھم آواز میں بادشاہ سے کہا اور ہاتھ باندھ کر گردن جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

’’ٹھیک ہے تاجر کو آزاد کر دیا جائے اوراسے ایک ہزار ایک سو اشرفیاں دے کر وداع کر دو۔‘‘بادشاہ بے حد غمزدہ تھا۔

’’اور عارفہ…‘‘ بادشاہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔

’’عارفہ عام زندگی چاہتی ہے نا…تو…اس کی شادی سراج الدین تاجر سے کر دی جائے۔‘‘بادشاہ نے بے حد ہلکی آواز میں حکم دیا اور اٹھ کر آرام گاہ میں چلا گیا۔

سراج الدین کو تو جیسے منھ مانگی مراد مل گئی تھی اس نے بادشاہ سے اشرفیاں وصول کیں اور عارفہ کے خیالوں میں گم ہو گیا۔

’’ہمیں افسوس ہے کہ عارفہ خانم سپاہیوں کو دھوکہ دے کر غائب ہو گئی ہیں۔‘‘سپاہ کے سربراہ نے سراج الدین کو مطلع کیا تو اس کا دل غمگین ہو گیا۔اسے فوراً خیال آیا کہ اس نے بادشاہ سے جو اشرفیاں وصول کی ہیں شاید یہ ا س کی لعنت ہے کہ اس کا خواب ادھورا رہ گیا۔ اسے بادشاہ نے خواب کی قیمت تو ادا نہیں کی اسے اچانک خیال آیا کہ بادشاہ کے دل میں یہ خیال آیا ہو گا کہ اگر چاند اسے نہ ملا تو کیا تاجر کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔شاید اسی لیے اس نے سو اشرفیاں زیادہ اسے دی ہیں۔ تاجر نے سوچا کہ وہ اشرفیاں واپس کر دے لیکن اب کیا ہوسکتا تھا بادشاہ اپنی خوابگاہ میں جا چکا تھا۔ سوداگر بھرے من اور بوجھل قدموں سے محل سے باہر آیا اور اپنے کالے گھوڑے پر سوار ہو کر چل دیا۔وہ سیدھا بازار میں آیا۔ اس نے اپنی قیام گاہ پہنچ کر آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔

سراج الدین دو دن اور رات تک مسلسل سوتا رہا۔ ایک ماہ کی قید اور عارفہ کے داغ مفارقت نے اسے بہت تھکا دیا تھا۔وہ جب دو دنوں کے بعد نیند سے جاگا تو اسے تیز بھوک لگی تھی۔ وہ اٹھا اور بازار سے اپنے لیے کھانا اور گھوڑے کے لیے چنے خرید لایا۔ پیٹ کی آگ بجھی تو اسے مستقبل کی فکر لاحق ہوئی۔اس نے پہلی فرصت میں طے کر لیا تھا کہ وہ اب خوابو ں کا کاروبار نہیں کرے گا۔وہ اب اپنے خواب کی تکمیل و الی بات بھی بھول جانا چاہتا تھا۔اس نے طے کیا کہ وہ اب ظروف کا کاروبار کرے گا۔

سراج الدین نے دھیرے دھیرے ظروف کا کاروبار خوب جما لیا۔اس نے محل کے قریب ہی ایک کشادہ مکان بھی تعمیر کرا لیا تھا جس میں کافی بڑا سا لان بھی تھا۔ وہ دن رات تجارت کے فروغ میں مصروف رہتا تھا۔ حمید (جو کہ اس کا وفادار نوکر تھا) نے اسے کئی مرتبہ شادی کرنے کا مشورہ دیا لیکن سراج الدین کو فرصت ہی کہاں تھی کہ وہ اس طرف غور کر پاتا۔ وہ پرانی تمام باتیں بھول چکا تھا۔

سراج الدین کافی عرصے کے بعد کاروباری ضرورت سے سفر پر نکلا تھا۔ وہ اپنے پسندیدہ کالے گھوڑے پر سوار تھا او ر سکندرآباد کی طرف جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا وفادار نوکر حمید بھی تھا۔ راستے میں سراج الدین کو تیز پیاس لگی۔ اس کے پاس جتنا بھی پانی تھا وہ راستے میں ختم ہو چکا تھا۔

’’حمید کہیں پانی مل سکتا ہے کیا۔‘‘سراج نے حمید سے پوچھا۔

’’وہ سامنے ایک مکان ہے شاید وہاں پانی مل جائے۔‘‘

حمید اور سراج مکان کے نزدیک پہنچ کر گھوڑوں سے اتر گئے۔ حمید نے دروازہ پر دستک دی۔’’کون ہے ‘‘؟ایک نسوانی آواز آئی۔

’’ہم مسافر ہیں کیا پینے کا پانی مل سکتا ہے خاتون۔‘‘حمید نے بے حد مہذب انداز میں خاتون سے درخواست کی۔

کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر اچانک دروازہ کھلا۔

’’لیجئے پانی پی لیجئے۔‘‘نسوانی آواز کی طرف دونوں کی نظریں اٹھیں۔

پانی سے بھری صراحی ہاتھ میں لیے ایک خوبصورت خاتون انھیں پکار رہی تھی۔ دونوں نے خوب ڈٹ کر پانی پیا۔

’’شکریہ خاتون‘‘سراج نے جیسے ہی واپسی کا ارادہ کیا اچانک اس کی نظر خاتون پر پڑی۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

’’عارفہ…‘‘سراج کے منھ سے بے خود ی کے عالم میں جو لفظ نکلا اس نے اس خاتون کو بھی چونکا دیا۔ خاتون نے بغورسراج کا جائزہ لیا۔

’’سوداگر‘‘فرط مسرت سے اس کا چہرہ لال ہو گیا۔

’’اوہ میرے خدا یہ تم ہو…عارفہ …تم کہاں غائب ہو گئیں تھیں۔ ‘‘سراج نے عارفہ سے شکوہ کیا۔

’’میں نے تم سے خواب تو حاصل کر لیا لیکن یہ اب تک بھی شرمندۂ  تعبیر نہ ہوسکا۔ لگتا ہے تم نے مجھے ادھورا تحفہ دیا تھا۔ ‘‘عارفہ نے بھی سراج سے شکوہ کر ڈالا۔ حمید دونوں کی بات کرتے ہوئے دیکھ کر حیران تھا۔

’’نہیں تمہارا خواب ضرور پورا ہو گا۔‘‘سراج نے دل میں سوچا۔پھر اچانک اس نے عارفہ سے سوال کیا۔’’لیکن تم محل سے غائب کیسے ہو گئیں۔‘‘

’’مجھے ایک سپاہی نے بڑا خطرہ اٹھا کر بھاگنے میں مدد کی اور اپنے اس گھر کا پتہ بھی دیا کہ مجھے یہاں چھپنے میں دقت نہ ہو۔ لیکن افسوس کہ وہ بادشاہ کے قہر سے محفوظ نہ رہ سکا۔‘‘

حمیدنے ما حول کو مزید رنگین کرتے ہوئے عارفہ سے درخواست کی کہ وہ سراج سے نکاح کر لے اور مرشدآباد والے گھر کو آباد کرے۔ عارفہ نے فوراً ہی رضامندی کا اظہار کیا۔ اور سراج کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو گئی۔

عارفہ کی رفاقت میں سراج بے حد خوش اور مطمئن تھا اسے ایک سال کب گزرا پتہ ہی نہ چلا۔ عارفہ نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا۔ اس مشغلے نے دونوں کی زندگی کو زیادہ گلزار کر دیا تھا۔

سراج الدین کو تین سال کے عرصہ میں حمید نے کاروباری مصروفیت سے دور رکھا تھا لیکن اب دھیرے دھیرے سراج نے اپنے کاروبار پر دھیان دینا شروع کر دیا تھا۔وہ حساب کتاب کرتے کرتے لان میں ہی لیٹ گیا۔ اس کا دوسال کا بیٹا بھاگتا ہوا آیا اور اس کی بغل میں آ کر بیٹھ گیا۔ سراج الدین کی چند سیکنڈ کے لیے تھکان کے سبب آنکھ لگ گئی اور جب اس کی آنکھ کھلی تو عارفہ اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور اسے اندر جا کرسونے کی تاکید کر رہی تھی۔

بالکل اچانک سراج الدین کے ذہن میں بجلی سی کوند گئی۔اسے اپناوہ خواب یاد ہو آیا جس کے لیے وہ بادشاہ تک سے لڑ گیا تھا۔

’’میں ایک خوبصورت مکان کے لان میں نرم گھاس پر لیٹا ہوا ہوں۔میرے اوپر چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھکا ہوا ہے اور میری بغل میں سور ج بیٹھا مجھے نہار رہا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نشہ

 

وہ اپنی حالت پر حیران نہیں مگر پریشان تھا۔ چلتا تھا تو لگتا کہ پاؤں رکھتا کہیں ہے اور پڑتے کہیں ہیں۔چہرہ ایسا کہ لگے ایک ڈرم شراب پی رکھی ہو۔ پتہ نہیں کس وجہ سے اس کی حالت اس قدر غیر ہو رہی تھی۔ تو کیا وہ کمزور ہو گیا تھا۔ وہ جیسے تیسے اپنی دوکان تک پہنچا۔ بازار تقریباً کھل چکا تھا اور آج اسے دوکان کھولنے میں دیر ہو گئی تھی آج ہی کیا وہ اکثر دیر سے ہی آتا تھا۔ اس نے بازار میں غیر معمولی ہلچل محسوس کی۔جو کہ بازار کی روزمرہ ہلچل سے کچھ الگ سی تھی۔ ابھی وہ دوکان کھولنا ہی چاہتا تھا کہ اسے لگا کوئی موٹی رسی جیسی چیز تیزی سے آئی اور اس کی دوکان کے شٹر کے اندر خالی جگہ کے راستے سرک گئی۔

’’وہ گیا …وہ…‘‘ کوئی چلا رہا تھا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ اس کی دوکان کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

’’ارے …وہ اس دوکان میں گھس گیا۔ ‘‘

’’کیا ہوا بھائی…کیا گھس گیا میری دوکان میں۔‘‘

’’سانپ …زہریلا سانپ ہے …آپ کی دوکان میں …‘‘ ایک گھبرائی ہوئی آواز نے جواب دیا۔

’’کیا …‘‘وہ حیران ہوا۔ اچانک اس کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی۔

’’میں اس کو جنگل سے پکڑ کر لایا تھا۔مگر اچانک وہ زور آور مجھے چکما دے کر نکل بھاگا۔‘‘ ایک شخص جو کرتا دھوتی پہنے اور سر پر پگڑی باندھے تھا اس سے کہہ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں پٹاری اور بین بھی پکڑ رکھی تھی اور ایک جھولا کاندھے سے لٹکا رکھا تھا۔

’’میں نے ابھی اس کو آپ کی دوکان میں گھستے دیکھا ہے۔ ‘‘

’’میری دوکان میں …اوہ…پھر۔‘‘

’’آپ شٹر کا تالا کھول کر ہٹ جائیں میں اسے پکڑ لوں گا۔‘‘

’’یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں ‘‘۔اس نے ضد کی۔

’’ارے یہ افیونچی سانپ پکڑے گا …آہا ہاہا…‘‘ ایک پڑوسی دوکان والا اس پر ہنس پڑا۔

’’تو کیا …میں پکڑ سکتا ہوں۔‘‘اس کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آئی تھی۔

’’نہیں بھائی …وہ بہت زہریلا ہے …آپ کو ڈس لے گا …مجھے ہی یہ کام کرنے دو۔‘‘سپیرا بولا۔

’’وہ مجھے ڈس لے گا…مجھے …‘‘اس کی آنکھوں میں جو چمک تھی اسے کوئی محسوس نہیں کرسکتا تھا۔

’’ہاں بھائی صاحب…وہ زہریلا ہے …خطرناک ہے ‘‘۔

’’تو…‘‘

’’وہ آپ کو ڈس لے گا…‘‘

’’تو…‘‘

’’تو …آپ…بچ نہیں پائیں گے۔ ‘‘

’’ہنہ …بڑا آیا زہریلا…دیکھتے ہیں۔ ‘‘کہہ کر اس نے دوکان کے تالے کھولنے شروع کر دیئے۔جب وہ تالے کھول چکا تو شٹر اٹھانے کے لیے نیچے جھکا۔

’’نہیں …نہیں …آپ مجھے پکڑنے دیں نہ‘‘

’’کیوں …‘‘اس نے پھر ضد کی۔

’’میں سانپ پکڑنے میں ماہر ہوں …اسے پکڑنے کا خاص طریقہ ہے … ورنہ یہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ‘‘سپیرے نے سمجھایا۔

’’ارے ہٹو…وہ مجھے کیا نقصان پہنچائے گا۔‘‘

سپیرا روکتا ہی رہ گیا اور اس نے شٹر اوپر اٹھا دیا۔

دوکان کے ایک کونے میں اسے سانپ کی پونچھ نظر آ گئی۔

’’رک جاؤ بھائی …ابھی میں نے اس کے دانت نہیں توڑے ہیں اور اس کے اندر زہر باقی ہے …مذاق نہ سمجھو بھائی اور پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘سپیرا اسے دوکان میں گھستے دیکھ کر گھبرا گیا۔لیکن وہ رکا نہیں اور دوکان کے اندر چلا گیا اور جب باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں خطرناک سانپ تھا۔ یہ نظارہ دیکھ کر کئی لوگ تو خوف سے کئی قدم پیچھے ہٹ گئے۔

’’کیا واقعی تم نے اس کے زہریلے دانت ابھی نہیں توڑے ہیں سپیرے۔‘‘وہ بے حد عجیب لہجے میں پوچھ رہا تھا۔سپیرا حیران پریشان تھا کہ یہ کمزور اور تھکا تھکا سا دکھنے والا شخص سانپ پکڑنے کا بھی ماہر ہے۔

’’سچ میں اس سانپ کے اندر ابھی زہر ہے۔ ‘‘ اس نے پھر پوچھا۔برسوں کا بیمار لگ رہا یہ شخص اب بھی سانپ کے زہر کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور سانپ اس کے ہاتھوں میں پھنکاریں مار رہا تھا۔

’’ہاں …مگر اسے جلد میرے حوالے کر دو…کہیں یہ تمھیں کاٹ نہ لے۔‘‘

’’کیا میں چیک کر لوں …کہ…اس کے اندر زہر ہے کہ نہیں۔‘‘اس کے ہونٹوں پر کھیل رہی ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے معنی تو بھلا کون سمجھ پاتا ہاں لوگ اسے افیونچی کے ساتھ جھکّی بھی کہنے لگے تھے۔

’’نہیں …نہیں …کیا غضب کرتے ہو بھائی۔‘‘سپیرا تقریباً چیخ ہی تو پڑا۔

’’اسے میری پٹاری میں رکھ دو تاکہ میں اسے بند کر لوں …جلدی کرو۔‘‘

’’نہیں …‘‘ وہ بھی تقریباً دہاڑا’’ میں پہلے چیک کروں گا اس کا زہر۔‘‘

جمع بھیڑ اس کی بے مطلب اور خطرناک ضد پر زیادہ حیران نہیں تھی کہ اس ضدی شخص کی حرکات عجیب ہی ہوتی تھیں۔

’’نہیں …رب کے واسطے …کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہو۔‘‘

’’کس سے کہہ رہے ہو …مجھ سے…‘‘

اس نے سپیرے کی ایک نہ سنی اور سانپ کی پھنکار کو منھ کھول کر زبان پر لے لیا۔ یہ تماشا دیکھ رہے مجمع کی سانسیں رک سی گئیں۔ سپیرے کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔سب کو لگا کہ اب وہ ضدی شخص زمین پر پڑا تڑپے گا مگر …وہ ضدی شخص تو بڑے آرام سے کھڑا زبان پر محسوس ہو رہی لذت سے محظوظ ہو رہا تھا۔تو کیا اسے سانپ نے نہیں کاٹا…نہیں زبان پر کاٹتے تو سبھی نے دیکھا …تو کیا اس کے اندر زہر نہیں تھا…لیکن سپیرا تو بتا رہا تھا کہ اس کے اندر بہت زہر ہے …پھر …کیا سپیرا جھوٹ بو ل رہا ہے۔’’لو بھائی …تم ٹھیک کہتے تھے اس کے اندر تو زہر ہے۔‘‘کہتے کہتے اس ضدی شخص نے سانپ سپیرے کی پٹاری میں بند کر دیا۔

مجمع حیرت کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا۔

پٹاری اٹھا کر سپیرے نے جلدی جلدی قدم اٹھائے اور ایک طرف کو چل دیا۔ دھیرے دھیرے بھیڑ بھی چھٹ گئی اور سب لوگ ضدی شخص کے تڑپنے کا انتظار کرنے کے بعد اپنی دوکانوں پر چلے گئے۔

سپیرے کو گئے چند ہی منٹ گزرے تھے اور ضدی شخص کے کارنامے کی خبر ابھی گرم ہی تھی کہ وہی سپیرا دوڑتا ہوا آیا اور اس ضدی شخص کی دوکان پر پہنچا۔ضدی شخص کو اپنے سامنے خوش و خرم دیکھ کر سپیرے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔اسے یہ شخص اب کچھ زیادہ توانا بھی لگ رہا تھا ایسے جیسے کہ اس کے اندر اچانک طاقت آ گئی ہو۔

’’تم ابھی تک زندہ ہو۔‘‘

’’ہاں …دیکھو میں بالکل زندہ ہوں۔‘‘ضدی شخص اب نہ شرابی لگ رہا تھا اور نہ ہی کمزور۔ چند منٹوں میں وہ غیر معمولی طور پر توانا لگ رہا تھا۔

’’مجھے حیرت ہے …تم اتنے زہریلے سانپ کے کاٹنے کے بعد بھی …‘‘

’’اور وہ …تمھارا …زہریلا…خطرناک …سانپ کہاں ہے۔‘‘

’’وہ ابھی مر گیا۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

آنر کلنگ

 

ارشد خاں اور بختاور خاں اکبر پور گاؤں کے سابقہ زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں بھائی قد و قامت کے اعتبار سے جہاں مساوی تھے وہیں مزاج اور اخلاق کے معاملے میں دونوں میں کوئی میل نہیں تھا۔ جہاں ارشد خاں بے حد نرم گفتار اور مخلص انسان بطور مشہور تھے وہیں بختاور اپنے بد اخلاق اور بد مزاج انداز کے لیے مشہور تھے۔اسی طرح ان کی بیویاں بھی مزاج اخلاق کے معاملے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔ارشد خان کی بیوی شاہین بیگم خوش اخلاق ،نرم دل اور بے حد  محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ ارشد خاں اور شاہین بیگم کی اکلوتی اولاد منیرا تھی جو کہ  انٹر میڈیٹ کی طالبہ تھی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ جب کہ بختاور خاں کی شادی چند ماہ قبل ہی ہوئی تھی ان کی بیوی طاہرہ بلا کی منہ پھٹ اور حسد رکھنے والی عورت تھی۔ وہ بظاہر تو سبھی سے بہت اخلاق سے پیش آتی لیکن اندر ہی اندر حسد میں گھلتی رہتی تھی۔باتوں کا ہنر وہ خوب جانتی تھی۔ بختاور خاں اس کی شوخ اداؤں اور لچھے دار باتوں میں کچھ اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ انھیں اس کی بدکلامی بھی شیریں معلوم ہوتی تھی۔

منیرا طاہرہ کی باتوں سے بہت لطف اندوز ہوتی تھی اس کا جب دل کرتا بختاور خاں کے گھر پہنچ جاتی جو کہ گاؤں سے شہر جانے والے راستہ پر واقع تھا اور منیرا کے اسکول کے راستے میں ہی پڑتا تھا۔

’’طاہرہ چچی…طاہرہ چچی…ارے کہاں ہو بھئی۔‘‘ منیرا آج اسکول سے آتے ہوئے بختاور خاں کے گھر چلی آئی تھی۔ بختاور خاں تو کھیتوں پر گئے ہوئے تھے۔ منیرا اس سے بہت ڈرتی تھی اس لیے وہ چچا کی عدم موجودگی میں ہی طاہرہ سے ملنے آتی تھی۔

’’کہاں چھپی ہو چچی‘‘

’’آئی …بنو…ابھی آئی۔‘‘طاہرہ کی عجلت بھری آواز پر منیرا چونکی۔وہ آواز کی سمت میں مزید آگے بڑھی اور سیدھے طاہرہ کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ تبھی کوئی بھاگتے ہوئے اس کے کمرے کے پچھلے دروازے سے نکلا۔ جب کہ طاہرہ اپنے است ویست کپڑے درست کرتی جلدی سے دروازہ پر آئی۔

’’چچی یہ ابھی کون بھاگا ہے۔‘‘

’کک…کوئی نہیں بنو…یہاں تو کوئی بھی نہیں۔‘‘طاہرہ گھبرا گئی۔اسے کاٹوتو خون نہیں۔

’’ارے یہ تو کلو سیفی کا لڑکا تھا نہ ملّن‘‘منیرا نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا تو طاہرہ خوف زدہ ہو گئی۔

’’نہیں بیٹا…یہاں کوئی نہیں تھا…تمھیں دھوکہ ہوا ہے۔‘‘

’’مگر چچی…میں نے …‘‘

’’اچھا یہ بتاؤ تمہار اس وقت کیسے آنا ہوا۔ ‘‘طاہرہ نے فوراً بات بدلی۔

’’وہ میں آپ سے ایک ساڑی لینے آئی تھی۔‘‘منیرا نادان فوراً طاہرہ کی باتوں میں الجھ گئی۔

’’ہاں …آؤ…دیتی ہوں نا‘‘۔ طاہرہ فورا ً تیار ہو گئی۔

منیرا کو بڑی حیرانی ہوئی۔چچی آج ایک دم کیسے ساڑی دینے تیار ہو گئیں۔ ورنہ تو وہ بہت کہنے پر بھی کچھ دینے کو تیار نہ ہوتی تھیں۔

’’کیا واقعی آپ…مجھے …یہ فریشر پارٹی میں پہننی ہے۔‘‘منیرا نے حیران ہوتے ہوئے بتایا۔

’’لے لو بنّو رانی …جو پسند آئے لے جاؤ۔ طاہرہ نے خلاف توقع اس کے لیے پوری الماری کھول دی۔

منیرا نے فوراً موقع کا فائدہ اٹھانا غنیمت جانا اور ایک نیلے رنگ کی ساڑی منتخب کر لی۔دراصل منیرا اور طاہرہ کی عمروں میں زیادہ فرق نہ تھا اور قد کاٹھی بھی تقریباً ایک ہی تھی۔

’’یہ لو اور جلدی گھر جاؤ تمہاری امی تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں گی۔ ‘‘طاہرہ نے اسے جلدی ٹالنے کی کوشش کی۔منیرا بھی خوشی خوشی جلد طاہرہ کے گھر سے نکل گئی۔

’’آ جاؤ …ملن ڈیر…آفت جا چکی۔‘‘

’’شکر ہے بلا ٹلی …آ ج تو مر ہی گئے تھے جانم۔‘‘ملن نے طاہرہ کو بانہوں میں بھر لیا۔

٭

منیرا آج جب کالج سے واپس لوٹی تو طاہرہ اس کی امّی شاہین بیگم کے پاس بیٹھی باتوں میں مشغول تھی۔

’’سلام طاہرہ چچی‘‘۔منیرا نے شرارتی انداز میں سلام کیا تو طاہرہ کا موڈ آف ہو گیا۔ اسے لگا کہ منیرا اس پر طنز کر رہی ہے۔ طاہرہ کا موڈ آف ہوتا دیکھ شاہین بیگم نے منیرا کو جھڑک دیا۔

’’چلو اوپر جاؤ …تمیز نہیں تمہیں منیرا…بڑوں سے ایسے کلام کرتے ہیں۔‘‘

’’اب اوپر جاؤ اور چائے بنا کر لاؤ چچی کے لیے۔‘‘

طاہرہ کے سامنے اپنی انسلٹ سے منیرا بھی خفا ہو گئی اور پیر پٹختی ہوئی اندر چلی گئی۔

’’دیکھا بھابھی …منیرا کے بھی اب پر نکلنے لگے ہیں۔ اسے ذرا قید کر کے رکھیے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ ‘‘طاہرہ نے بھڑاس نکالی۔

طاہرہ کے کہنے پر شاہین بیگم کو بڑی شرمندگی محسو س ہوئی۔ انھیں طاہرہ کی بات بے حد ناگوار گزری تھی لیکن وہ خاموش رہیں۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ بھی منیرا کی جوانی سے متفکر ہونے لگی تھیں۔ انھیں منیرا پر تو بڑا اعتماد تھا لیکن وہ زمانے سے بہت ڈرتی تھیں۔ اب طاہرہ کی باتوں نے اور ان کے دل میں پھانس چبھو دی تھی۔

اور پھر وہ دن آہی گیا جس سے شاہین بیگم خوف کھاتی تھیں۔

گاؤں کے کئی لوگوں نے کالج سے لوٹتی منیرا کو بختاور خاں کے مکان کے قریب ملن سے باتیں کرتے دیکھا تھا اور اس کی شکایت بہ ذریعہ طاہرہ ارشد خاں کے گوش گزار ہوئی تھی۔

’’ارے تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے طاہرہ…منیرا بہت اچھی لڑکی ہے۔‘‘ارشد خاں نے طاہرہ کو ٹالتے ہوئے کہا۔ لیکن طاہرہ کہاں ماننے والی تھی۔

’’آپ غفلت برت رہے ہیں بھائی صاحب۔ اس کا انجام بہت برا ہو سکتا ہے۔ ‘‘طاہرہ نے پرشکوہ انداز میں کہا اور پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

’’میں منیرا کو سمجھا دوں گا۔ تم پریشان نہ ہو۔‘‘ارشد خاں کے یہ جملے طاہرہ نے سنے ہی نہیں۔

’’منیرا …بیٹی…تم ملن سے کیا بات کر رہی تھیں۔‘‘شاہین بیگم نے منیرا سے پیار سے پوچھا تو وہ چونکے بغیر نہ رہ سکی۔

’’امی وہ بختاور چچا کے گھر میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں نے اسے منع کیا کہ بختاور چچا نہیں ہیں۔ ‘‘منیرا نے بڑی معصومیت سے کہا۔

’’بس…‘‘

’’ہاں اور پھر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔‘‘

’’چلو ٹھیک ہے بیٹا…لیکن اب تم اس کے منھ مت لگنا…زمانہ بہت خراب ہے بیٹی…‘‘ ماں نے بیٹی کو سمجھانا چاہا لیکن منیرا کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ شاید وہ ابھی ایسی باتیں سمجھنے کی اہل نہیں ہوئی تھی۔

اور پھر ایک دن منیرا کالج سے گھر آتے وقت غائب ہو گئی تھی۔ ارشد خاں اور شاہین بیگم بیٹی کی جدائی اور زمانے میں ہوئی فضیحت سے بے خد غمزدہ تھے۔

’’بھائی صاحب منیرا نے تو ہمیں منھ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔‘‘طاہرہ زہر اگلنے ارشد خاں کے گھر آ دھمکی۔

’’میں نے تو آپ کو خبردار بھی کیا لیکن آپ نے ایک نہ سنی میری۔‘‘طاہرہ ہاتھ نچا نچا کر ارشد خاں کو غیر ت دلا رہی تھی۔

’’ضرور وہ ملن کو بھگا لے گئی ہے۔‘‘طاہرہ نے جیسے بم پھوڑا ہو۔

’’نہیں …نہیں یہ نہیں ہوسکتا ‘‘۔ارشد خاں چیخ پڑے۔

’’کیا کمی چھوڑی تھی ہم نے منیرا کی پرورش میں جو اس نے ہمیں یہ دن دکھایا۔‘‘

شاہین بیگم بہت آبدیدہ ہو رہی تھیں۔

’’ارے نہیں بیگم منیرا تو بچی ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے وہ تو اس حرامزادے ملن نے اسے بہکادیا ہو گا۔‘‘ارشد خاں بھی شاہین بیگم کی طرح غمزد ہ تھے لیکن انھیں بیٹی پر بہت بھروسہ تھا۔

’’لو دیکھو  تو صحیح…اپنی لونڈیا تو سنبھلی نہیں۔دوسرے کو گالی دیتے ہیں۔‘‘ طاہرہ نے ناک بھوں سکوڑی۔

تبھی ارشد خاں کے سامنے بختاور نے منیرا کو لاپٹکا۔

’’لو بھائی جان یہ رہی منیرا…اس کو ملن کی گاڑی سے خود اترتے دیکھا ہے میں نے۔‘‘

ارشد خاں کو کاٹو تو خون نہیں۔وہ بختاور کی بات پر کچھ بولنا چاہتے تھے لیکن ان کے لب جیسے سِل گئے تھے۔وہ بدبدا کر رہ گئے۔

’’اس  لڑکی نے تو سارے خاندان کی ناک کٹوا دی۔ ‘‘طاہرہ نے شوہر کو مزید غصہ دلا دیا۔

’’نہیں چچا جان میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں تو جیسے کالج سے گھر کی طرف نکلی تو اچانک قریب آئی گاڑی کا دروازہ کھلا اور پتہ نہیں مجھے کسی نے اندر کھینچ لیا۔پھر کسی نے میرے منھ پر رومال رکھ دیا اور میں بے ہوش ہو…گئی۔‘‘منیرا نے صفائی دینے کی کوشش کی۔

’’خاموش ‘‘بختاور خاں خونی آنکھوں سے منیرا کو گھور رہے تھے۔

٭

’’بھائی صاحب رات کو چودھری نے برادری کی پنچایت بلائی ہے‘‘ بختاور خاں کی اطلاع پر ارشد خاں کا دل مزید دھڑ ک اٹھا۔

’’کس لیے‘‘ ارشد خاں جان بوجھ کر انجان بن رہے تھے۔

’’منیرا کوسزا دینے کے لیے۔‘‘

’’لیکن منیرا بچی ہے اگر اسے کسی نے ورغلا بھی دیا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔‘‘ارشد خاں نے مری آواز میں صدائے احتجاج بلند کرنی چاہی۔

’’چودھری کا کہنا ہے کہ برادری کی عزت کے لیے منیرا کو سزا دینی ہی ہو گی۔ ‘‘

بختاور کی باتوں نے ارشد خاں پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔ وہ خاموش بیٹھے خلا میں گھور رہے تھے۔بختاور خاں بھی بظاہر پریشان سے تھے۔ لیکن طاہرہ -اس کی طرف تو کسی کا دھیان نہیں تھا جو کہ چپکے چپکے مسکرا رہی تھی۔اس کے لبوں پر بڑی زہریلی مسکراہٹ تھی۔ جسے کوئی بھی محسوس نہیں کر سکا۔

٭

’’تو بس فیصلہ ہو گیا ارشد خاں۔‘‘چودھری نے کھاٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ تو ارشد خاں کا جسم تھرتھرا گیا۔

’’رحم چودھری …رحم…بچی نادان ہے …میں اسے سمجھا دوں گا۔‘‘

’’نہیں چودھری اور برادری کا فیصلہ کبھی نہیں بدلتا۔‘‘

’’چودھری میں اپنی بیٹی کو لے کر اس گاؤں سے چلا جاؤں گا۔اس کی شادی کر دوں گا اور تمام واسطے تعلق ختم کر لوں گا…مگر اتنی بڑی سزا مت دو چودھری۔‘‘

’’نہیں ارشد خاں …اگر آج منیرا کو چھوڑا گیا تو برادری کی تمام لڑکیوں کے سر بے حیائی سے کھل جائیں گے اور سب کی سب غیر برادری کے لڑکوں سے جا ملیں گی۔تب ہم کسے منھ دکھانے لائق رہ جائیں گے۔‘‘

چودھری پر ارشد خاں کے مسلسل بہتے آنسوؤں کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔‘‘ ’’چپ چاپ گھر میں ہی معاملہ نپٹا دو…ورنہ ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔‘‘حکم دے کر چودھری اور دیگر لوگ اٹھ کر چلے گئے۔

ارشد خاں پتھرائی آنکھوں سے دروازہ کو دیکھتے ہی رہ گئے۔

’’کیا انھیں خود ہی اپنی بیٹی کا گلا گھونٹنا ہو گا۔‘‘

ارشد خاں نے سوچا تو ان کی سبکی نکل گئی۔

’’نہیں نہیں وہ بھلا اپنی نازوں پلی اکلوتی اولاد کو اتنی سی بات کے لیے کیسے مار سکتے ہیں۔‘‘ارشد خاں سوچتے سوچتے اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔

گھر پر شاہین بیگم ان کی منتظر تھیں۔بے صبری سے دروازہ پر ہی برادری کی پنچایت کا حال معلوم کرنے لگیں۔ ارشد خاں خاموش رہے۔

’’آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔‘‘

ارشد خاں کے خشک ہوئے آنسو ایک مرتبہ پھر بہہ نکلے۔

انھوں نے روتے ہوئے چودھری کا حکم شاہین بیگم کے گوش گزار کر دیا۔

’’نہیں …یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘شاہین بیگم پچھاڑ کھا کر گر پڑیں۔

ارشد خاں نے بمشکل تمام انھیں سنبھالا۔

’’چلو بیگم سامان باندھو…ہم لوگ اسی وقت گاؤں چھوڑ دیں گے۔‘‘

ابھی وہ تیاری کر ہی رہے تھے کہ طاہرہ اور بختاور خاں آ دھمکے۔

’’بھائی صاحب بھاگنے سے بدنامی کا داغ نہیں دھل سکتا۔‘‘طاہرہ نے کہا تو ارشد خاں آبدیدہ ہو کر بولے۔

’’تو تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔‘‘ارشد خاں کی چیخ سن کر منیرا اچانک کمرے سے نکل کر باہر آ گئی۔

’’کیا ہوا ابا…آپ کیوں رو رہے ہیں۔‘‘وہ باپ کو چپ کرانے لگی۔

تبھی طاہرہ نے بختاور خاں کی طرف دیکھا۔آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہوئے۔

بجلی کی سی تیزی سے بختاور خاں نے منیرا کو دبوچ لیا اور اسے لے کے برابر کے کمرے میں بند ہو گیا۔ اندر سے منیرا کی گھٹی گھٹی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔

ارشد خاں اور شاہین بیگم نے بری طرح دروازہ پیٹ ڈالا۔

’’چھوڑ دے ظالم …میری پھول سی بچی کو …شاہین بیگم چیختی رہ گئیں۔ لیکن وحشی چچا کا دل نہ پسیجا اس کے ہاتھ کی پکڑ منیرا کے گلے پر سخت ہوتی گئی۔

دھیرے دھیرے منیرا کی آوازیں آنی بند ہو گئیں اور سکوت چھا گیا۔

پھر دروازہ کھلا اور وحشی چچا باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی منیرا کے ماں باپ اندر دوڑے۔

’’جلاد تو نے میری بیٹی کو مار ڈالا‘‘ شاہین کی آواز پر منیرا نے بے حد مری سی آواز نکالی۔’’امی …ابا‘‘

’’میری بیٹی…‘‘

’’بڑی سخت جان ہے یہ تو ‘‘طاہر ہ نے اپنے خاوند کو دیکھا جس پر وحشت سوار تھی۔

اس نے طاہرہ کی آنکھوں کی طرف دیکھا اور وہ اس کی جادوگری میں ایسا بدمست تھا کہ اچھے برے کا خیال نہ کر سکتا تھا۔

اس نے لاٹھی اٹھائی اور اسے منیرا کی گردن پر ٹھیک اس جگہ ٹکا دیا جہاں سے سانس کی نلی گزرتی تھی۔

’’گ…گوں …گو‘‘ منیرا کا دم گھٹنے لگا اور وہ بے دم ہو کر لڑھک گئی۔ ارشد خاں نے اس کی پلکیں بند کر دیں۔

’’خبر دار کسی سے مت کہنا کہ منیرا کے ساتھ کیا ہوا۔ اسے صبح تک دفنانے کا انتظام کرنا ہے …چلو  طاہرہ‘‘ ارشد خاں دھمکا کر واپس جانے لگا۔

’’ارے او جلّاد سن…میں سب کو چیخ چیخ کر بتاؤں گی کہ میری بیٹی کا قتل تم دونوں نے کیا ہے۔ ‘‘

’’او…و‘‘ طاہرہ نے مڑ کر دیکھا۔اس کی آنکھیں سوچنے والے انداز میں گھومیں۔چند لمحے کو اسے لگا کہ جیسے اس کا جسم کانپ گیا لیکن وہ جلد نارمل ہو گئی اور خاوند کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گئی۔

صبح فجر کی نماز کے بعد منیرا کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔

ارشد خاں اور شاہین بیگم غمزدہ سے گھر کے باہر آنگن میں بیٹھے تھے کئی رشتہ دار بھی مغموم سے ان کے پاس موجود تھے تبھی پولس کی جیپ ان کے قریب آ کر رکی۔

’’ارشد خاں اور شاہین بیگم کو اپنی بیٹی کو عزت کی خاطر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ ‘‘

’’لیکن یہ تو غلط ہے …‘‘ گاؤں کے پردھان نے مزاحمت کی۔

’’پردھان جی یہ آنر کلنگ کا معاملہ ہے۔خود ان کے بھائی بھابی گواہ ہیں کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہید کی ماں

 

میں جب خانم زہرہ کے گھر میں داخل ہوا تو وہ سفید چادر میں سرڈھانپے بے حد پرسکون انداز میں دالان میں بچھے تخت پر بیٹھی تھیں۔ ان کے چہرے پر نور الٰہی دمک رہا تھا جس نے مجھے کچھ مضطرب کر دیا تھا۔ بہر حال اپنے کام کو انجام تو دنیا ہی تھا۔ میں آگے بڑھا اور خاتون کو سلام کیا۔

’’میں ملک الموت ہوں خانم اور آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں۔‘‘

میری بات سن کر خاتون کے چہرے پر خوف کی جگہ بشاشت پیدا ہو گئی۔ میں بڑا حیران تھا کہ مجھے دیکھ کر تو سبھی ڈر جاتے ہیں لیکن یہ خاتون…

’’خوش آمدید…میں تمھارے ساتھ چلوں گی مگر…‘‘

’’مگر کیا…‘‘

’’مجھے تھوڑا وقت چاہیے…میں ابھی تمھارے ساتھ نہیں جا سکتی۔‘‘ میں سمجھاکہ خانم نے مجھے پہچانا نہیں ہے۔’’خانم آپ نے مجھے پہچانا نہیں …میں ملک الموت ہوں …اور آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں۔‘‘

’’صبر کرو…مجھے معلوم ہے کہ تم موت کے فرشتے ہو…لیکن میں جب تک اپنے بیٹے کی زیارت نہ کر لوں میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی…مجھے تھوڑا وقت چاہیے۔‘‘

’’لیکن میں اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرسکتا۔‘‘

ابھی میں خانم زہرہ کی طرف بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ مجھے واپس لوٹنے کا حکم ملا۔ میں سمجھ گیا کہ خانم کو مہلت دے دی گئی ہے۔

کرنل شمشاد کی بیوہ خانم زہرہ زندگی کی نصف صدی گزار چکی تھیں۔ شادی کے بعد کچھ سال تو ایسی شادمانی میں گزرے کہ غم کا احساس تک نہ ہوا۔ لیکن جب غم دامن گیر ہوا تواس نے اب تک ساتھ نہ چھوڑا تھا۔ دو بیٹے ان کی توجہ کا مرکز تھے لیکن ان کا بڑا بیٹا دوران جنگ گم ہو گیا تھا۔خانم کی آنکھیں اپنے بیٹے کے انتظار میں دروازے پر لگی رہتی تھیں خدا سے ہر وقت دعا کرتیں کہ ان کے بیٹے کی خیر خبر مل جائے۔ خدا پر یقین اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی تو دیوانہ وار دوڑ کر جاتیں اور ریسیور اٹھا کر پوچھنے لگتیں :

’’بیٹا گھر کب آرہے ہو۔‘‘ لیکن جب ادھر سے کوئی اور آواز سنتیں تو خاموش ہو کر رہ جاتیں۔

جب بھی ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی انھیں یہ خیال آتا، خیال نہیں امید، امید بھی نہیں بلکہ یقین ہوتا کہ ان کا بیٹا انھیں فون ملا رہا ہے۔ انھیں یقین تھا کہ ان کا بیٹا اتنا لا پرواہ نہیں ہوسکتا کہ وہ ان کی مزاج پرسی تک نہ کرے اور انھیں گم شدہ بیٹے کی ماں کہلانے کی اذیت ناک صورت حال سے نجات نہ دلائے۔

میں بیشک خانم زہرہ کی روح قبض کرنے آیا تھا لیکن نہ جانے ان میں ایسی کیا بات تھی کہ میں انھیں چھوڑ کرواپس نہ جا سکا۔ حالانکہ یہ میرے فرض کے خلاف تھا لیکن پھر بھی میں ان کی نگرانی کرنے لگا۔ شاید مجھے یہ اشتیاق تھا کہ پتا لگاؤں آخر خانم زہرہ کی موت کیوں ٹال دی گئی۔

میں دیکھ رہا تھا کہ خانم زہرہ صرف ٹیلی فون ہی نہیں دروازہ کی گھنٹی بجنے پر بھی بے چین ہو اٹھتی تھیں۔وہ بدبداتیں ’’اب کی بار وہی ہے۔‘‘ اس کے کپڑے دھو کر تیار کر لیتیں تاکہ آتے ہی بیٹا غسل کرے اور پھر وہ اس کو سینے سے لگا کر خوب پیار کریں اور پھر پوچھیں کہ وہ اس عرصے میں کہاں اور کن حالات میں رہا۔ پھر اچانک ان کے ذہن کو جھٹکا لگتا۔

’’اے لو…بیٹا دروازے پر کھڑا انتظار کر رہا ہے اور میں اس فکر میں ہوں کہ وہ پہلے نہائے یا میرے پاس بیٹھ کر احوال جنگ سنائے۔‘‘

اور جب وہ دروازہ کھولتیں تو ان کی آنکھیں پتھرا کر رہ جاتیں چہرے کی رونق غائب ہو جاتی۔

اب میں جو دیکھ رہا تھا وہ بالکل الگ ہی تجربہ تھا۔ خانم زہرہ کا دوسرا بیٹا سلطان بھی گھر کی قدیم روایت کے مطابق جنگ میں جانے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ وہ ماں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سلطان کے بار بار اصرار کرنے پر خانم زہرہ کو سلطان کا بچپن یاد آ رہا تھا۔ انھیں یاد آ رہا تھا سلطان جب اپنے والد کو جنگ پر جانے کے لیے تیار ہوتا دیکھتا توبربس اس کے ہونٹوں پہ یہ گیت مچلنے لگتا:

ماں مجھے بندوق دلا دے

میں بھی لڑنے جاؤں گا

سرحد پر دشمن کو ناکوں چنے چباؤں گا

لوٹ کے گھر نہ واپس آیا

شہید تومیں کہلاؤں گا

اور آج سچ مچ وہ وقت آ گیا تھا جب سلطان ان سے جنگ کی اجازت مانگ رہا تھا۔مگر وہ اسے جنگ میں جانے نہیں دینا چاہتی تھیں۔

’’دیکھو تمھاری عمر ابھی جنگ کی نہیں اگر جہاد کرنا ہی ہے تو میں بوڑھی ماں ہوں نا تم میری دیکھ بھال کرو…یہی تمھارا جہاد ہو گا۔‘‘

’’لیکن ماں میں اپنے بھائی کو بھی تلاش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’نہیں میرے بچے میں تمھیں جانے نہیں دے سکتی۔‘‘

’’لیکن کیوں ماں ……‘‘

’’ایک بیٹے کے گم شدہ ہونے کے بعد میں دوسرے بیٹے کی گم شدگی کا درد برداشت نہیں کرسکتی میرے بچے۔‘‘ خانم زہرہ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تھیں۔

’’لیکن میں گم شدہ نہیں ہوں گا۔‘‘

’’پھر کیاہو گے؟‘‘

’’خدا بہتر جانتا ہے۔ (اس نے دل میں سوچا یا تو شہید ہوں گا یا پھر تجھ سے آ کر ملوں گا)مگر وعدہ کرتا ہوں کہ گم شدہ نہیں ہوں گا۔‘‘

خانم زہرہ کسی طرح بھی سلطان کو اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ کیونکہ وہ چوتھے بیٹے کے بھی گم شدہ ہونے سے ڈرتی تھیں۔ ٹھیک بھی ہے اگر شہید ہو جائیں تو ایک نہ ایک دن صبر آ ہی جاتا ہے لیکن گم شدہ ہونے کا درد…؟ وہ سلطان سے کہہ رہی تھیں :

’’ایک بیٹے کا غم برداشت کر لیا اور پاگل نہیں ہوئی۔ یہی کیا کم ہے اب دوسرے بیٹے کا غم اٹھانے کا حوصلہ میرے اندر باقی نہیں۔‘‘

’’ماں میں نے وعدہ کیا ہے کہ میں گم نہیں ہوں گا۔‘‘

لیکن ماں کا دل نہیں مان رہا تھا۔ آخر بڑے بیٹے یا پھر سلطان کا گم شدہ ہونا کون سے ان کے اپنے اختیار میں تھا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ سلطان دل ہی دل میں جوسوچ رہا تھا وہ کتنا صحیح تھا۔

سلطان سوچ رہا تھا ’’اگر میں واپس آ گیا تو گم شدہ نہیں رہوں گا اور اگر شہید ہو گیا تو شہید کے قول کی ضمانت خدا کے ذمے ہوتی ہے اور وہ میرا وعدہ ضرور سچا کرے گا۔‘‘اس نے آخر کار ماں کو راضی کر ہی لیا۔

میں ملک الموت بیشک خانم زہرہ کی روح قبض کرنے آیا تھا لیکن اب سلطان اور خانم کی زندگیوں میں کچھ اس طرح الجھ کر رہ گیا تھا کہ اپنا فرض بھول انہیں کے تعاقب میں لگ گیا تھا۔

سلطان ماں سے اجازت لے کر جنگ کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔ کئی ماہ تک اس کے فون خانم کے پاس آتے رہے اور وہ انھیں حالات سے واقف کراتا رہا بدلے میں خانم زہرہ اس سے جلد واپس آنے کی گزارش کرتی رہیں تھیں۔

میں ایک روز میدان جنگ میں پہنچا تو دیکھا کہ سلطان جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گیا تھا میں نے اس کی روح قبض کر لی۔ سلطان جب عالم ارواح میں پہنچا تو وہاں اپنے بڑے بھائی سے مل کر بڑا خوش ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں کو یہ اطلاع مل جائے کہ اس کا بھائی لاپتہ نہیں ہوا بلکہ شہید ہو چکا ہے اور اب دونوں بھائی اپنی ماں کی شفاعت کے لیے دعاگو ہیں۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ا س کی ماں کو دونوں بھائیوں کی شہادت کی اطلاع فراہم کر دوں۔ میں بہر حال وعدہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ میرا کام نہیں تھا۔

میدان جنگ میں لاشوں کی شناخت کی جا رہی تھی۔ اب محض تین لاشوں کی شناخت کی جانا باقی تھیں جن میں سے ایک سلطان کی لاش تھی۔ دوران جنگ گرد و غبار اور سنگ ریزے گرنے سے ان تینوں لاشوں کی پہچان ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔ پھر بھی سلطان کے شہید ہونے کی خبر میں نے کسی طرح خانم زہرہ تک پہنچا دی تھی اور وہ اپنے بیٹے کی لاش وصول کرنے کے لیے روانہ ہو چکی تھیں۔ میں نے یہ اطلاع سلطان کو دی تووہ خدا کے حضور شکر بجا لایا کہ عنقریب ماں سے کیا اس کا وعدہ پورا ہو جائے گا۔ ا س کی ماں اس کی لاش تک پہنچ جائے گی اور اس کا دیدار کر لے گی تب وہ گم شدہ نہیں کہلائے گا وہ شہید کہلائے گا۔

اچانک میری نگاہ لاش گھر پر پڑی جہاں سے سلطان کی لاش کو ایک خاتون گریہ و زاری کے ساتھ اٹھا کر اپنے ساتھ لے جا رہی تھی لیکن یہ سلطان کی ماں نہیں تھی۔ سلطان کی روح اچانک تڑپ اٹھی۔

’’ارے یہ خاتون میری لاش کہاں لئے جا رہی ہیں۔ انھیں غلط فہمی ہو رہی ہے۔ لاش پہچاننے میں دھوکہ ہوا ہے‘‘ پھر سلطان کی روح مجھ سے مخاطب ہوئی۔

’’اگر یہ میری لاش لے جائیں گی تو میری ماں جو تھوڑی دیر میں لاش گھر پہنچنے والی ہیں وہ مجھے نہیں دیکھ پائیں گی اور میں نے وعدہ کیا ہے کہ میں گم شدہ نہیں ہوں گا۔ مجھے ماں سے شرمندہ ہونے سے بچالیجیے۔‘‘

میں سلطان کی التجا پر تذبذب کا شکار ہو گیا لیکن میں کر بھی کیا سکتا تھا کہ اس میں میرا دخل کچھ بھی نہیں تھا۔

سلطان کی لاش کا تابوت لے کر جو خاتون روانہ ہوئی تھیں وہ اپنے بیٹے ارسلان کی شناخت کرنے میں دھوکہ کھا گئیں تھیں اور سلطان کی لاش کو اپنے بیٹے کی لاش سمجھ کر اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گئی تھیں۔ تیزی سے دوڑتی گاڑی کی رفتار پہلے دھیمی ہوئی اور پھر جھٹکا کھا کر رک گئی۔

’’کیا ہوا ڈرائیور‘‘

’’میڈم آگے جام لگا ہے۔ گاڑیاں دھیرے دھیرے پاس ہو رہی ہیں۔‘‘

’’اوہ‘‘ ارسلان کی ماں نے گاڑی کے پچھلے حصے میں رکھے تابوت کودیکھا انھیں ارسلان کے بچپن کی یادوں نے گھیر لیا۔

ادھر سلطان کی ماں کی گاڑی بھی جام میں پھنسی ہوئی تھی۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کی گم شدگی اور سلطان کی شہادت کی خبر میں تال میل بٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں اور خلاف توقع پرسکون نظر آ رہی تھیں۔

بالکل اچانک انھیں محسوس ہوا کہ ان کا سلطان کہیں آس پاس ہی ہے۔ خانم زہرہ اپنے سلطان کی خوشبو خوب پہچانتی تھیں۔ اچانک سلطان کی خوشبو پا کر وہ بے قرار ہو اٹھیں گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئیں اور گاڑیوں کی قطار کے سہارے سہارے آگے بڑھتی چلی گئیں۔

ایک گاڑی کے پاس جا کر وہ رک گئیں۔ انھوں نے گاڑی کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہا تو ڈرائیور بول اٹھا:

’’کیا بات ہے مائی…کسے ڈھونڈ رہی ہو۔‘‘

’’اپنے بیٹے سلطان کو…‘‘ بے خیالی میں خانم زہرہ کویاد ہی نہیں رہا کہ سلطان شہید ہو چکا ہے۔

’’کیا ہوا…آپ کسے ڈھونڈ رہی ہیں …گاڑی میں تو میرے شہید بیٹے کی لاش ہے۔‘‘ ارسلان کی ماں نے سلطان کی ماں کو دیکھ کر کہا۔

’’اوہ…بہن کیا میں ایک نظر تمھارے بیٹے کو دیکھ لوں۔‘‘ خانم زہرہ کو خود پتا نہیں تھا کہ وہ ارسلان کی لاش کیوں دیکھنا چاہتی ہیں۔

تابوت کھول کر جیسے ہی کپڑا ہٹایا گیا خانم زہرہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔’’یہ تو میرا سلطان ہے۔اس کا چہرہ کتنا ہی مسخ کیوں نہ ہو جائے لیکن ماں کی آنکھیں دھوکہ نہیں کھا سکتیں ‘‘ وہ رونا اور چیخنا چاہتی تھیں لیکن سامنے ارسلان کی ماں کھڑی تھی اس لیے ضبط سے کام لیا۔

سلطان کو جب میں نے یہ اطلاع دی کہ اس کی ماں کو اس کی لاش مل گئی ہے اور وہ لاش کا چہرہ دیکھ چکی ہیں تو سلطان خدا کا شکر بجا لایا کہ اس کا وعدہ پورا ہو گیا تھا اور اب وہ ماں کے سامنے سرخرو تھا۔ ادھر خانم زہرہ ابھی کہنا ہی چاہتی تھیں کہ’’ بہن تم میرے بیٹے کی لاش کو اپنا بیٹا سمجھ رہی ہو در اصل یہ میرا بیٹا ہے۔ تبھی ارسلان کی ماں بول اٹھیں۔‘‘

’’خدا کا شکر ہے بہن کہ میرا بیٹا ارسلان مل گیا اور میں گم شدہ بیٹے کی ماں ہونے کے درد سے نجات پا گئی۔‘‘

خانم زہرہ نے اپنے درد کو سینے میں ہی چھپا لیا۔ اور پوچھا:

’’کیا گم شدہ کی ماں ہونا بہت مشکل ہے بہن۔‘‘

’’بہت مشکل ہے بہن…خداکسی کو یہ دن نہ دکھائے…میری ایک بہن کئی مہینوں سے گم شدہ بیٹے کے غم میں دروازے پر آنکھیں لگائے بیٹھی ہے اور خود ارسلان کے معذور والد گھر پر اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ بھی اپنے بیٹے کے گم شدہ ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔‘‘ کہتے کہتے ارسلان کی ماں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ خانم زہرہ نے آگے بڑھ کر ارسلان کی ماں کے آنسو پونچھ دیئے۔

’’بہن اگر کوئی اس کے والد سے جا کر کہہ دے کہ ارسلان گم شدہ ہو گیا ہے تو وہ (اللہ نہ کرے) اپنی جان ہی دے دیں گے اور خدا جانتا ہے کہ میں خود بھی اس کا حوصلہ نہیں رکھتی کہ گم شدہ کی ماں کہلاؤں۔‘‘ جانے کس جذبے سے مغلوب ہو کر ارسلان کی ماں خانم زہرہ کے کندھے پر سر رکھ کر پھپھک پڑیں۔

مجھے آج پھر حکم ملا تھا کہ میں زمین کی طرف پرواز کروں اور خانم زہرہ کی روح کو قبض کر لاؤں۔ خانم زہرہ نے اپنے بیٹے کی صورت کو غور سے دیکھا۔ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سلطان سے جاننا چاہتی ہیں کہ اب وہ کیا کریں ؟ کیا وہ اپنا دعویٰ پیش کریں اور سلطان کی لاش کو اپنے قبرستان میں لے جا کر دفن کر دیں یاپھر چپ چاپ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ دل چاہ رہا تھا کہ صبر کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ کر فریاد کریں لیکن خوف تھا کہ کہیں ارسلان کی ماں یہ صدمہ برداشت نہ کر پائیں۔ ایسی صورت میں دو زندگیوں کے تلف ہونے کا گناہ وہ اپنے سربھی نہیں لینا چاہتی تھیں۔

خانم زہرہ نے دیکھا کہ سلطان کے چہرے پر نور الٰہی دمک رہا ہے اور یہی پل تھا کہ خانم زہرہ نے حتمی فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے اپنے لبوں کو سلطان کی زخمی پیشانی پر رکھ کر آخری بوسہ دیا اور کہا:

’’بہت بہت شکریہ میرے بیٹے۔ تم نے اپنا وعدہ پورا کیا اور تم گم نہیں ہوئے…ہم بہت جلد ملیں گے۔‘‘

خانم زہرہ نے لاش کو ڈھک دیا اور ارسلان کی ماں سے کہا:

’’تمھارا نورانی شہید تمھیں مبارک ہو بہن۔‘‘

اچانک ان کے سینے میں شدید درد کی لہر اٹھی اور وہ خدا کے حضور سجدے میں گر پڑیں۔

٭٭٭

 

 

 

دائمی جہیز

 

جس نے بھی سنا کہ اشرف میاں اپنے ڈاکٹر بیٹے کا رشتہ ایک معمولی سے گھرانے میں طے کر آئے ہیں وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بات تھی ہی ایسی محلہ بھر میں یہ بات مشہور تھی کہ اشرف میاں بلا کے لالچی شخص ہیں۔علم سے قطعی شغف نہیں تھا۔انسان کو پرکھنے کی ان کی کسوٹی دولت تھی۔ انھوں نے تین بچوں کو چار پانچ کلاسیں پڑھا کر کاروبار میں لگا دیا تھا۔چوتھا لڑکا راشد ذرا چالاک نکلا اس نے اشرف میاں کو لاڈ پیا ر میں الجھا کر بی۔یو۔ایم۔ایس ڈگری حاصل کر لی تھی۔اشرف میاں نے اپنے تین بڑے بیٹوں کی شادیاں ایسے گھرانوں میں کی تھیں جہاں سے انھیں من موافق جہیز ملا تھا۔ پھر آخر چوتھے اور آخری لڑکے کو جان بوجھ کر کیو ں کھائی میں دھکیلا گیا یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

میں صبح چہل قدمی کرنے نکلا تو راستے میں طارق چچا مل گئے۔

’’کہاں جا رہے ہیں چچا جان‘‘ میں نے سلام کے بعد طارق چچا سے کہا۔

’’ارے بیٹا…ذرا ہوا خوری کرنے نکلا تھا۔ ‘‘

’’گھر پر توسب خیریت ہے۔‘‘

’’ہاں گھر پر تو سب ٹھیک ہے پر محلہ میں …‘‘طارق چچا کو اپنے گھر سے زیادہ محلہ پڑوس کی فکر لگی رہتی تھی۔

’’ محلہ میں کیا ہوا چچا۔‘‘

’’ارے سنا ہے اشرف میاں نے اپنے ڈاکٹر لڑکے کی شادی ایک ادنیٰ سے ماسٹر کی بیٹی سے طے کر دی۔ بھئی یہ تو کمال ہی ہو گیا۔‘‘

’’چچا اس میں کمال جیسی کیا بات ہے۔انھیں لڑکی پسند ہو گی تو رشتہ طے کر دیا۔‘‘

’’ارے تم اشرف کو جانتے نہیں ہو کیا۔ وہ ایک نمبر کا لالچی بنا جہیز لیے لڑکے کی شادی کرے تو حیرانی نہ ہو گی بھلا۔‘‘چچا طارق شروع ہو گئے۔‘‘اور بیٹا اس نے لڑکی دیکھ کر بھلا کب شادی کی ہے۔ہمیشہ مال ہی دیکھا ہے تبھی باقی تین بہوئیں سانولی، موٹی اور نہایت بے ڈول ہیں۔‘‘

چچا طارق اشرف میاں کی بہوؤں کے جسمانی جغرافیہ سے کچھ زیادہ ہی واقف لگ رہے تھے۔ویسے بھی محلہ بھر کی نسوانی جماعت سے انھیں کچھ زیادہ ہی لگاؤ تھا۔ ان کی صبح کی ہوا خوری بھی کچھ اسی لگاؤ کا نتیجہ تھی۔

’’ہوسکتا ہے کہ اشرف میاں اب سدھر گئے ہوں۔اور اب وہ واقعی غریب گھرانے میں شادی کر کے پرانے پاپ دھونا چاہتے ہوں۔ ‘‘میں نے بے وجہ جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔جسے طارق چچا نے فوراً مسترد کر دیا۔

’’میاں اشرف جیسے لوگ کبھی نہیں بدلتے۔دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ‘‘ طارق چچا نے اپنی لمبی سی داڑھی سہلاتے ہوئے کہا۔ تو میرا دل چاہا کہ ان سے کہہ دوں دال کالی ہو یا دال میں کالا ہو وہ سب اشرف میاں کا گھریلو اور ذاتی مسئلہ ہے اس میں مجھے اور آپ کو ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن پتہ تھا کہ اتنا سنتے ہی چچا بھڑک جائیں گے اور پھر انھیں سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اس لیے کنارے سے گزرنے میں ہی عافیت سمجھی اور میں آگے بڑھ گیا۔

آج صبح ہلکی بارش ہونے سے موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔ اس لیے صبح کی سیر کرنے والو ں کی بھیڑ کچھ زیادہ ہی تھی۔ ان میں نسوانی کردارو ں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ محلہ کے کئی بزرگ آج سیر کو کیوں نکلے ہیں میں یہ سمجھ رہا تھا۔ اچانک استاد قمرو سامنے پڑ گئے۔

’’کیسے ہو برخوردار‘‘ انھوں نے میری پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔ابّا کے قریبی دوستوں میں استاد قمرو بھی شامل تھے اس لیے وہ جب بھی ملتے پدرانہ شفقت ضرور ظاہر کرتے تھے۔

’’جی اچھا ہوں۔آج آپ کیسے مارننگ واک پر نکل آئے۔‘‘

میرے سوال پر وہ کچھ گڑبڑا گئے۔’’بس ذرا طبیعت بھاری ہو رہی تھی توسوچا کہ موسم کا مزہ ہی چکھ لوں۔ ‘‘میں اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ وہ کس موسم کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں۔

’’ارے بیٹا تم نے سنا وہ اشرف نے اپنے بیٹے کی شادی غریب …‘‘میں نے ان کی بات بیچ میں ہی لپک لی۔’’خاندان میں ماسٹر کی لڑکی سے طے کر دی ہے ‘‘

’’ہاں بیٹا سمجھ نہیں آتا اشرف اس رشتے پر تیار کیسے ہو گیا ‘‘انھوں نے ٹھوڑی کو سوچنے والے انداز میں ہاتھ سے پکڑا اور پھر داڑھی کے بال کھجانے لگے۔

’’انکل وہ اشرف میاں کا ذاتی معاملہ ہے ہم آپ کیوں پریشان ہوں۔ ‘‘میں اب واقعی سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ آخر اس رشتے میں کوئی نہ کوئی انوکھی بات ضرور ہے جس نے محلہ کے تمام بزرگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

’’ضرور لڑکی جادوگرنی ہے ورنہ اشرف میاں کو اس رشتے پر رام کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔‘‘استاد قمرو نے اپنا خدشہ بھی بیان کر ڈالا۔ اب تو برداشت کی حد ہی ہو گئی تھی۔میں نے ضروری کام کا بہانہ بنایا اور آگے بڑھ گیا۔

ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ ممبر شکیل سامنے پڑ گئے۔

سلام دعا اور خیریت وغیرہ کی رسمی گفتگو کے بعد وہ بھی اشرف میاں کے بیٹے کے رشتے اور شادی کو لے کر چرچا میں مشغول ہو گئے۔اور میرے احتجاج کے باوجود انھوں نے بھی فیصلہ صادر فرما دیا۔

’’ضرور لڑکی اور لڑکے کا معاشقہ چل رہا ہو گا۔ میاں -کچھ ایسی ویسی حرکت بھی ہو گئی ہو گی کہ اشرف میا ں کو منھ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ ‘‘

اب تو میرا تجسس بام عروج کو پہنچ رہا تھا۔ دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ جس بات اور رشتے کو لے کر محلہ کے تمام بزرگ پیٹ میں درد کیے بیٹھے ہیں اس کا راز ضرور پتہ لگانا چاہیے۔

میرے قدم خود بہ خود اشرف میاں کے گھر کی طرف اُٹھ گئے۔ جلد ہی میں اشرف میا ں کی بیٹھک پر پہنچ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی اشرف میاں نے اندر سے آواز لگائی۔

’’آؤ بھئی اندر آ جاؤ …بڑے دنوں بعد آنا ہوا۔‘‘اشرف میاں نے ہلکی مسکراہٹ سے استقبال کیا۔

’’جی جناب بس ادبی اور تعلیمی ذمہ داریوں نے الجھا لیا تھا۔‘‘

’’اورسناؤ آج کل کیا لکھ پڑھ رہے ہو ‘‘۔اشرف میاں نے میری لکھنے پڑھنے کی عادت کے متعلق سوال کیا۔‘‘

’’جی آج کل جہیز کے موضوع پر ایک ناول لکھ رہا ہوں۔ سنا ہے آپ نے اپنے بیٹے ڈاکٹر راشد کا رشتہ طے کر دیا ہے۔‘‘ میں جلد ہی مدعے کی بات پر آ گیا تھا۔

’’ہاں بیٹا اپنے رشتہ دار ہیں ماسٹر شرافت ان کی بیٹی کے ساتھ۔بڑی پیاری بچی ہے۔ ‘‘ان کی آنکھوں میں یکایک جگنو روشن ہو گئے تھے۔

’’لیکن جناب آپ نے اپنے تینوں بڑے لڑکوں کی شادی توایسے خاندانوں میں کی تھی جہاں سے اچھا جہیز ملے اور آپ کو ملا بھی۔ پھر ڈاکٹر صاحب کی شادی معمولی گھرانے میں کیوں …‘‘ میں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔

میرے سوال پر اشرف میاں نے زور کا قہقہہ لگایا۔

’’تم سے کس نے کہا کہ مجھے بہت سا جہیز اب نہیں ملے گا۔‘‘اشرف میاں نے الٹا مجھ سے ہی سوال کر دیا۔

’’ظاہر ہے معمولی گھرانے کے معمولی سے ماسٹر کی حیثیت بھلا زیادہ جہیز دینے کی کہاں ہو گی۔‘‘

میری بات پر اشرف میاں تھوڑے چوکنّے ہوئے لیکن کھلے نہیں۔ میرے بہت کریدنے پر بولے۔

’’اب تم سے کیا چھپانا بیٹے۔میں نے تین لڑکوں کی شادیاں کیں۔ انھوں نے مجھے بہت سا روپیہ جہیز میں دیا لیکن وہ کتنے سال ساتھ دیتا چار پانچ سال میں سب ختم ہو گیا۔‘‘ اشرف میاں نے چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد کہنا شروع کیا۔

’’اس بار میں چاہتا تھا کہ مجھے دائمی جہیز ملے۔ ‘‘

’’ایسا کون سا جہیز ہے۔‘‘میں بھی اشرف میاں کی بات پر الجھ کر رہ گیا۔

اچانک اشرف میاں کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔وہ رازدارانہ انداز میں گویا ہوئے۔

’’در اصل ماسٹر شرافت کی لڑکی ڈگری کالج میں لکچرر بن گئی ہے اسے ماہ میں چالیس ہزار کی تنخواہ تو ملے گی ہی۔ تینوں لڑکوں کے جہیز میں کل دس دس لاکھ ہی تو ملے تھے۔ اتنا تو یہ لڑکی ڈھائی تین سال میں ہی کما کر لے آئے گی۔ تو بتاؤ میرا انتخاب کہاں سے غلط ہے۔‘‘

اشرف میاں کے حساب کتاب پر میں واقعی حیران تھا۔

انھوں نے مزید انکشاف کیا۔

’’اور میں نے ماسٹر شرافت سے ایگریمنٹ لکھوایا ہے کہ وہ۴۰؍ فیصدی تنخواہ میرے اکاؤنٹ میں جمع کیا کرے گی۔‘‘اور بیٹا اس نے پہلی قسط تو جمع بھی کر دی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یقیں محکم ،عمل پیہم

 

زمانہ قدیم میں ہندوستا ن کی دو معروف ندیوں (جو ایک دوسرے سے قدرے نزدیک ہو کر رواں دواں تھیں )کے درمیان کے علاقہ میں ایک جھاڑیوں اور پیڑ پودوں سے بھرا میدان تھا۔ یہاں کئی طرح کے چرند پرند بستے تھے جو کہ روز شام کو ندی کنارے ٹہلنے نکلتے اور مند مند چلتی ہوا کا لطف حاصل کرتے تھے۔ ایک دن شام کے وقت جب چرند پرند ٹہلنے نکلے تو ہوا نے اپنی سریلی آواز میں سب کو مخاطب کیا۔

’’آج رات تم سب کو جاگ کر ایک خاص اور عجیب و غریب واقعہ کا انتظار کرنا چاہیے یہ کیسا ہو گا اور کہا ں ہو گا؟ یہ میں نہیں کہہ سکتی لیکن اس کے اظہار پر خوشیاں منائی جانی چاہئیں اور پروردگار کا شکر ادا کیا جانا چاہیے کیونکہ اس رات کے بعد کوئی بھی جیتی جاگتی چیز اپنی موجودہ حالت میں نہیں رہے گی۔ ‘‘

اتنا کہہ کر ہوا تو سن سن کرتی ہوئی آگے کی طرف بہہ گئی لیکن تمام چرند پرند اور پیڑ پودوں میں ہلچل مچ گئی۔ کسی خوشگوار تبدیلی کی آمد کے لیے دماغ انھیں آمادہ کر رہا تھا تو دل انھیں ہوا کی بات پر بھروسہ نہ کرنے کو اُکسا رہا تھا۔ آخر کار طے ہوا کہ تمام چرند پرند اور پیڑ پودوں کا اجلاس منعقد کر کے مشورہ طلب کیا جائے۔

دوپہر بعد پیپل کے درخت کے گھنے سائے میں اجلاس شروع ہوا۔کئی چرند پرند نے ہوا کو نہایت جھوٹا اورورغلانے والا قرار دیا اور اس کی بات پر یقین نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بہت سے چرند پرند تذبذب کا شکار ہو گئے اور وہ کوئی رائے قائم نہ کرسکے لیکن ہوا کی بات پر یقین کرنے کے حق میں کوئی رائے نہیں آئی جس کے بعد متفقہ طور پر ہوا کی بات کو ٹھکرا دیا گیا کہ ’’ہوا تو یوں ہی خواب دکھاتی ہے اس کی بات کا بھلا کیا بھروسہ۔‘‘ ایک ایک کر تمام چرند پرند شام کی ہوا کا لطف لینے نکل پڑے۔ لیکن سب کے درمیان ہوا کی پیشین گوئی موضوع گفتگو تھی۔

لومڑی کہہ رہی تھی۔’’ہوا تو بہکانے کے لیے مشہور ہے نہ جانے وہ اپنا کون سا مقصد حل کرنا چاہتی ہے۔ ‘‘

بھالو فوراً بولا۔’’لیکن بہن ہوا کی بات سچ بھی تو ہوسکتی ہے۔ ‘‘

تبھی کوّا بول پڑا۔’’ارے جانے بھی دو بھائی۔یہ ضرور ہوا کی کوئی خطرناک چال ہے۔‘‘

اس ناقابل یقین ماحول میں سبھی اندھیرا ہوتے ہی اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ رات کا اندھیرا گہرانے لگا تھا۔ایک ایک کر کے سبھی چرند پرند سو تے چلے گئے۔ ہرن، کتا، چڑیا سے لے کر ہاتھی تک سب ہوا کی بات کو بھول کر سوچکے تھے۔یہاں تک کہ رات بھر جاگنے والے اُلّو ،جگنو اور چمگادڑ بھی اونگھنے لگے تھے۔ جانوروں اور پرندوں کی آوازیں آنی بند ہو چکی تھیں اور مکمل سناٹا پسر چکا تھا۔

لیکن!

اسی جگہ ایک چھوٹا سا بھورا پرندہ اب بھی جاگ رہا تھا۔ اس نے حالانکہ اجلاس میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن وہ کسی حد تک ہوا کی بات پر یقین کرنے کو تیار تھا۔ اس نے سوچا:

’’اگر کوئی عجیب و غریب واقعہ پیش آتا ہے تو اسے دیکھنے کے لیے کسی کو تو جاگنا چاہیے۔ اس لیے میں ہی اس عجوبے کا انتظار کروں گا۔ اسے دیکھوں گا اور خوش ہو کر شکریہ ادا کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔‘‘

اس پرندہ نے ہر جھاڑی اور پیڑ سے گزارش کی کہ وہ اسے بیٹھ کر عجوبے کا انتظار کرنے دے لیکن سبھی نے اسے منع کر دیا۔

’’تم پرندے تو ہمیں دن بھر پریشان کرتے ہو‘‘ وہ بدبدائے اور بولے ’’ہمیں کم ا ز کم رات میں تو آرام کرنے دو۔‘‘

ایک اونچی ہری بھری جھاڑی کو اس پر رحم آ گیا اس نے پرندہ کو پکار کر کہا۔’’تم یہاں آ جاؤ مجھے اپنے آرام کی فکر نہیں ہے۔ تم میری کسی بھی شاخ پر بیٹھ جاؤ۔ میں بھی تمہارے ساتھ اس عجیب واقعہ کا انتظار کروں گی۔‘‘

رات اب شباب پر تھی۔

چھوٹے بھورے پرندے اور اونچی جھاڑی کو چھوڑ کر سارا جنگل سوگیا تھا۔ بھورے پرندے کو جیسے ہی نیند آنے لگتی تو وہ جھاڑی سے ایک کانٹا توڑ کر اپنے چبھا لیتا جس سے اس کی نیند درد کی شدت سے اچٹ جاتی تھی۔

رات کے تیسرے پہر اچانک چاند کی تیز روشنی جیسی چمک چاروں طرف بکھر گئی۔ جنگل کا ہر ذرہ اس روشنی میں نہا اٹھا۔ بھورا پرندہ اور جھاڑی بھی اس روشنی میں چمک اٹھے تھے وہ اس قدرت کے کرشمے کو دیکھ کر خوش ہونے لگے۔ اچانک یہ روشنی سمٹنے لگی اور ایک گولے کی شکل میں بدل گئی۔ پھر دھیرے دھیرے یہ گولا جنت کی طرف چل دیا۔ بھورا پرندہ اور جھاڑی اس گولے کو تب تک دیکھتے رہے جب تک کہ وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گیا۔

’’تم نے اسے دیکھا۔‘‘مسرت آمیز لہجے میں دونوں نے ایک دوسرے سے بہ یک وقت پوچھا۔

’’کتنا حیرت انگیز اور انوکھا۔‘‘

’’ہمیں سچ مچ خوشیاں منانی چاہئیں اور رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ‘‘

پرندہ اپنی مترنم آواز میں گا اٹھا۔ جھاڑی نے اپنے چمکتے پتوں کی سرسراہٹ سے تال دی۔ یہ ان کا شکریہ تھا۔ اس پراسرار روشنی کے لیے خوشی منانے اور رب کا شکر ادا کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہا جب تک کہ افق پر سورج کی پہلی کرن نمودار نہ ہو گئی۔

طلوع آفتاب کے ساتھ جب مخلو ق بیدار ہوئی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ایک جھاڑی کی ہر شاخ پر ’’گل قرمزی‘‘ اس طرح لہرا رہے تھے کہ جیسے گوہر فراخ دمک رہے ہوں۔ اور اسی جھاڑی کی سب سے اونچی شاخ پر ایک جلیل القدر پرندہ بیٹھا تھا جس کے شنگرفی سرخ پَر طلوع آفتاب کے ارغوانی رنگ سے بھی زیادہ چمکدار تھے۔

ہوا نے سن سن کرتی اپنی مخصوص آواز میں جنگل کی مخلوق سے کہا :’’دیکھا یہ ہوتا ہے یقین احترام اور قربانی کا پھل۔‘‘پھر ہوا جھاڑی کی طر ف متوجہ ہوئی۔’’ہرا رنگ زندگی اور قِرمِزی اور سرخ رنگ قربانی کی علامت ہے ان رنگوں سے ہمیشہ لہلہاتے رہو۔‘‘

پھر ہوا نے پرندے سے کہا۔

’’شنگرفی رنگ حوصلے اور عزم کی نشانی ہے۔ ان رنگوں کو آخرت تک اپناؤ اور ہمیشہ خوش رہو۔‘‘

بے یقینی کی کیفیت سے دوچار صبح جاگی مخلوق سرجھکائے کھڑی تھی دلوں میں حسرت لیے کہ کاش ……وہ ……۔

٭٭٭

 

 

 

 

خوشی تیرا انتظار رہا

 

آصف بڑے اعتماد کے ساتھ جل بورڈ کے دفتر میں داخل ہوا۔ وہ نوکری کی امید میں جل بورڈ کے دفتر پہنچا تھا۔

’’مسٹر آصف خان …‘‘

آواز سن کر آصف نے فائل سنبھالی اور انٹرویو کے لیے چیرمین صاحب کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ انٹرویو دے کر جب وہ باہر نکلا تو خاصا مطمئن تھا۔اسے کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا گیا تھا۔ وہ باہر آ کر اطمینان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ طویل انتظار کے بعد شاید آج اس کی قسمت کا تالا کھل جائے گا اور ا سے نوکری مل جائے گی۔ ابھی وہ سوچوں میں گم ہی تھا کہ اس کا بلاوا آ گیا۔ اب وہ چیر مین صاحب کے پی۔اے کے سامنے بیٹھا تھا۔ فون کا ریسیور نیچے رکھ کر پی۔اے اس سے مخاطب ہوئے۔

’’ہاں تو مسٹر آصف…آپ کا رکارڈ بہت اچھا ہے اور چیرمین صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ کا انٹرویو بھی اچھا ہوا ہے مگر …‘‘

’’مگر کیا سر …‘‘آصف نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

’’وہ …بات در اصل یہ ہے …کہ الیکشن قریب آرہے ہیں اور …منسٹر صاحب نے چیرمین صاحب سے چندہ …تم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’جی…جی…سر…کتنا چندہ دینا ہو گا۔‘‘ آصف نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

’’زیادہ نہیں بس …یہی کوئی بارہ لاکھ …اور ہمارے چیرمین صاحب تو بیچارے …بس پچاس ہزار میں ہی مان جائیں گے۔ ‘‘

پی۔اے نے تو بڑے آرام سے کہہ دیا مگر آصف کا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔

’’مگر سر…‘‘

’’تم پریشان نہ ہونا …یہ نوکری تمہیں ہی ملے گی …بس ذرا جلدی رقم کا انتظام کر لینا۔‘‘پی۔اے صاحب اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ بھی مجبوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ آصف سے ہاتھ ملاتے ہوئے پی۔اے کہہ رہے تھے۔

’’ہمیں تم جیسے ٹیلنٹڈ نوجوانوں کی ہی ضرورت ہے …بیسٹ آف لک۔‘‘

’’اگر میری اتنی ہی ضرورت ہے تو اتنی بڑی رقم کیوں طلب کر رہے ہیں جناب‘‘ وہ کہنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا تھا مگر سننے کے لیے کوئی رکا ہوتا تب نہ۔آصف بجھے قدموں سے جل بورڈ کے دفتر سے باہر نکلا۔

آصف جب کبھی بہت اداس ہوتا تھاتو اسے ہمیشہ ایک ہی شخص یاد آتا اور وہ تھی فریال۔ فریال ایک ہوٹل میں نوکری کرتی تھی لیکن اس کی ایک ٹانگ پولیو کی نذر ہو گئی تھی۔آصف اور فریال کے والد ایک ہی اسکول میں استاد تھے۔ دونوں خود بھی گہرے دوست تھے۔

’’تم اتنا پریشان کیوں ہوتے ہو …سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘فریال نے آصف کو دلاسا دینے کی کوشش کی۔

’’کیسے ٹھیک ہو جائے گا…‘‘

’’ارے تمہارا اتنا اچھا ریکارڈ ہے …انٹرویو بھی اچھا ہوا ہے …تو …کیسے نہیں دیں گے تمہیں نوکری۔‘‘

’’نہیں فریال…اب ریکارڈ اور انٹرویو نہیں بلکہ ٹوکن منی اہم ہو گئی ہے۔ ‘‘

آصف کھوکھلی ہنسی ہنسا تو فریال بھی دکھی ہو گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کہے۔

’’لیکن اتنی بڑی رقم ہم لائیں گے کہاں سے …؟‘‘

آصف اور فریال بہ خوبی جانتے تھے کہ دونوں کے والد اگر مل کر بھی رقم جمع کریں تب بھی اتنی بڑی رقم نہیں جٹا سکتے۔ فریال نے موبائل پر اپنا بینک کھاتا چیک کیا تو محض دو لاکھ روپئے ہی باقی تھے۔

’’اب کیا کریں …‘‘دونوں سر جوڑے اسی فکر میں ہلکان ہو رہے تھے کہ رقم کا انتظام کیسے کیا جائے۔کئی دن یوں ہی گزر گئے۔

دونوں ایک پارک میں بیٹھے آج پھر اسی معاملے پر غور و خوض کر رہے تھے۔

’’کیوں نہ ہم بینک سے لون(قرض) لے لیں۔‘‘ فریال نے کہا۔

’’لیکن کیسے …ہمارے پاس تو بندھک رکھنے کو بھی کچھ نہیں ہے۔‘‘

’’بد عنوانی بندکرو …انّاتم سنگھرش کرو… ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

ان کے سامنے سے اَنّا ہزارے کی حمایت میں ایک ریلی نکل رہی تھی۔ ریلی میں شامل لوگوں نے اَنّا مارکا ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔اچانک آصف کی نظر کالا کوٹ پہنے شخص پر جم گئی جس نے اَنّا کیپ پہن رکھی تھی۔اسے دیکھتے ہی آصف کو امید کی ایک کرن نظر آئی اور وہ دو ڑ کر اس کالے سوٹ والے شخص کے پاس پہنچ گیا۔یہ چیرمین صاحب کا پی۔اے تھا جو آصف کو اپنے سامنے پا کر بوکھلا سا گیا تھا۔

’’سر…سر…آپ تو بدعنوانی کے خلاف مورچہ لے رہے ہیں …تو … تو …مجھے بھی بنا ٹوکن منی نوکری دے دیجئے سر …پلیز۔‘‘

’’تم نے دیر کر دی آصف …آگے دیکھیں گے۔‘‘

’’لیکن سر…لیکن …آپ نے۔‘‘

’’کہا نہ تم نے دیر کر دی …‘‘ کالے سوٹ والے پی۔اے صاحب ریلی کے ساتھ آگے بڑھ گئے اور آصف بت بنا کھڑا رہ گیا۔

’’اب چلو بھی آصف …‘‘فریال نے کہا تو آصف دکھی آواز میں بولا۔

’’دیکھو تو فریال …یہ لوگ…بد عنوانی مٹانے چلے ہیں۔‘‘

وہ تھکے قدموں سے گھر واپس لوٹا۔اس نے بستر پر گر کر تکیے میں منھ چھپا لیا۔ آصف کے والد ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے۔ ٹی وی سے آوازیں نکل رہی تھیں۔

’’ملک بھر میں اَنّا کی لہر …بد عنوانی کا خاتمہ کرنے کی ٹھانی اَنّا نے …ملک بھر میں انّا کی حمایت میں نکلی ریلیاں …انّا تم سنگھرش کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

’’ہونھ …خالی نعرے لگانے سے بدعنوانی ختم ہو جائے گی کیا ؟‘‘آصف کا غبار کچھ اس صورت میں نکلا کہ اس کے والد بھی چونک اٹھے۔

’’کیا ہوا بیٹا…اَنّا تو اچھے کام کے لیے کوشش کر رہے ہیں تم کیوں ان سے ناراض ہو۔‘‘

’’میں انّا سے نہیں …ان کی ریلیوں میں شامل لوگوں سے ناراض ہوں ابّا … کیوں کہ یہ لوگ اَنّا کو بھی بیچ کھائیں گے۔‘‘

بیٹے کے منھ سے نکلی تلخ باتوں نے ان کے والد کو بہت کچھ سمجھا دیا۔

آصف بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔اگر فریال اسے سہارا نہ دیتی تو نہ جانے اس کا کیا ہوتا۔

فریال نے کوشش کر کے آصف کو ایک اور انٹرویو کے لیے تیار کر لیا۔ یہ ایک ایسے محکمہ میں اسامی نکلی تھی جہاں اوپری آمدنی کے مواقع نہیں تھے اس لیے شاید یہاں آصف کا کام بن سکتا تھا۔

آصف جب فریال کے بارے میں سوچتا تو اس پر بے اختیار پیار آ جاتا۔ کتنا خیال کرتی ہے ا س کا۔ لیکن جب اس کی بے کار ہو چکی ٹانگ کی طرف دیکھتا تومایوس ہو جاتا۔ وہ کہنے لگتا’’ اللہ اچھے لوگوں کی ہی آزمائش کیوں لیتا ہے؟‘‘فریال اسے سمجھانے لگتی۔’’ اللہ سب کے لیے اچھا ہی کرتا ہے۔اب دیکھو اگر اس کی ٹانگ ٹھیک ہوتی تو اس کو معذور کوٹے سے اتنی اچھی نوکری کیسے مل جاتی۔ بے شک اللہ نے مجھے ایک   طر ف کمزور بنادیا تو دوسری طرف مضبوطی بھی دے دی‘‘۔ آصف فریال کی خود اعتمادی پر حیران ہوتا۔

آصف فریال کے کہنے پر انٹرویو دینے چلا آیا تھا لیکن یہاں بھی اسے مایوسی ہاتھ لگی تھی۔ دراصل پوسٹ تو خالی تھی لیکن اس پر کسی معذور شخص کا ہی انتخاب ہوسکتا تھا۔ شاید فریال کو سیٹ رزور ہونے کی جانکاری نہیں تھی۔ آصف نے اپنا رکارڈ دکھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر درخواست کی کہ اسے نوکری پر رکھ لیا جائے۔

’’ بیٹا …بے شک تمہار ا انتخاب اس سیٹ پر ہو جاتا لیکن مجبوری یہ ہے کہ سیٹ معذوروں کے لیے رزرو ہے۔‘‘

’’کیا بنا رشوت مجھے نوکری مل جاتی۔‘‘

’’ارے بیٹا جب یہاں رشوت کھانے کے مواقع ہی نہیں ہیں تو بھلا کسی سے کوئی کیا مانگتا …تھوڑے بہت کی مانگ الگ ہے …‘‘

’’کتنی رقم…‘‘

’’نوکری کے ایک سال پورا ہونے پر نوکری پکّی کی جاتی ہے …تب ضرور آٹھ دس ہزار کی نوبت آ جاتی۔ ‘‘

’’اوہ‘‘

آصف نے کچھ دیر سوچا۔اسے یاد آیا کہ اس کی کمر میں ایک مرتبہ چوٹ لگی تھی تب سے کبھی کبھی اس کی ٹانگ میں کھنچاؤ سا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ کچھ وقت لنگڑا کر چلنے کو مجبور ہو جاتا ہے۔تو کیا اسے بھی معذور سرٹیفکیٹ مل سکتا ہے۔اچانک اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ آصف سیدھا معذور محکمے کے آفس پہنچا جہاں سے فارم لے کر اس نے سی۔ایم او آفس میں چیک اپ کرایا۔ نتیجہ معلوم کیا تو وہ سنّاٹے میں آ گیا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ معذوروں کے زمرے میں نہیں آتا۔

’’لیکن سر…میری ٹانگ …‘‘

’’مسٹر آصف…آپ کی معذوری اس قسم کی نہیں ہے جس میں کہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جا سکے …سوری۔‘‘کہہ کر ڈاکٹر بھی آگے بڑھ گیا۔ آصف کو اپنا مستقبل پھر تاریک نظر آنے لگا۔وہ آہستہ آہستہ سی۔ایم۔ او آفس سے باہر کی طرف چلنے لگا۔

’’سنو …تمہیں سرٹیفکیٹ چاہیے ؟‘‘ آصف کو کسی نے پیچھے سے پکارا تو اس نے مڑ کر دیکھا۔

’’اگر تم کچھ رقم خرچ کرو …تو…تمہیں معذورسرٹیفکیٹ مل جائے گا۔‘‘یہ ایک سفید کرتا پاجامہ پہنے ادھیڑ عمر شخص تھا جو کہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا آصف کے قریب آ گیا تھا۔

آصف نے رقم کی بات سنی تو وہ واپس مڑنے لگا۔

’’صرف دو ہزار روپئے میں کام بن سکتا ہے یہاں۔‘‘

صرف دو ہزار میں …‘‘ آصف چلتے چلتے رک گیا۔

’’کیا تم سچ کہتے ہو۔‘‘

’’بالکل سچ …اپنا تو دھندہ ہی یہی ہے میاں۔‘‘

’’لیکن میں رقم سرٹیفکیٹ ملنے پر ہی دو ں گا۔‘‘

’’ہا…ہا…ہا…ضرورت میں بھی سودا کر رہے ہو …اچھا چلو کچھ اب دے دو …باقی کام ہونے پر …‘‘

آصف نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔کل چار سو روپئے تھے۔اس نے تین سو روپئے ادا کیے اور باقی دینے کا وعدہ کیا۔ حالانکہ وہ زیادہ مطمئن نہیں تھا کہ یہ شخص اس کی مصیبت اتنی آسانی سے حل کرسکتا ہے۔اس نے ضروری اطلاعات نوٹ کرائیں اور گھر واپس چل دیا۔

آصف بارگاہ رب میں سجدہ ادا کر کے کھڑا ہوا تو اسے والد نے گلے لگا لیا۔ آصف کو نوکری ملنے پر اس کے والد مطمئن اور خوش تھے۔انھوں نے آصف کو ڈھیروں دعائیں دیں۔وہ فریال کے گھر بھی مٹھائی لے کر پہنچا۔فریال کے والد نے بھی اسے دعائیں دے کر رخصت کیا۔ اوپر کھڑی فریال نے بھی انگلیوں سے وی شیپ بنا کر آصف کی کامیابی کو سراہا۔

آصف کو کام کرتے ہوئے ایک سال گذر چکا تھا لیکن وعدے کے مطابق ابھی اسے پکّا نہیں کیا گیا تھا۔آصف جب جب درخواست دیتا اسے کچھ دن انتظار کے لیے کہہ دیا جاتا۔ آصف پہلے ہی پچاس ہزار کی رقم فریال سے اُدھار لے کر اپنے باس کو دے چکا تھا۔

ایک دن بے حد خراب موڈ میں آصف آفس پہنچا اس نے آج پھر نوکری پکّی کرنے کے وعدہ کو یاد دلایا۔لیکن جب اسے خاطر خواہ جواب نہیں ملا تو اس نے دھمکی دے دی کہ وہ اوپر شکایت کرے گا کہ اس سے پچاس ہزار روپئے بھی لے لیے گئے اور زیادہ رقم کا مطالبہ کر کے نوکری کو پکا کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ آصف نے سوچا  کہ رشوت لے چکے لوگوں کو اب عقل آ ہی جائے گی۔ وہ ڈریں گے کہ کہیں ان کی اوپر شکایت نہ کرد ی جائے۔ دل کی بھڑاس نکلی تو وہ سکون سے گھر پہنچا اور سو گیا۔

آج چھٹی کا دن تھا۔آصف فریال سے ملنے پارک پہنچ گیا۔ وہ ابھی بیٹھے بات کر ہی رہے تھے کہ سامنے سے جشن مناتا جلوس گذرتا ہوا دکھائی دیا۔ اَنّا کے مطالبات مان لیے جانے اور بدعنوانی کے خلاف مہم کے کامیاب ہو جانے کا جشن منایا جا رہا تھا۔ آصف اس جشن کو دیکھ کر منھ بسورنے لگا۔ جلوس کے گذرنے کے بعد دونوں خوش گپّیوں میں مصروف ہو گئے۔ وہ مستقبل کے خواب بنتے بنتے ایک کڑک دار آواز پر چونک اٹھے۔

’’آپ پولس کی گرفت میں ہیں مسٹر آصف…‘‘

’’م …م…میں …لیکن کیوں …‘‘آصف اپنے سامنے ایک پولس انسپکٹر اور کچھ پولس اہلکاروں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

’’یو آر انڈر اریسٹ…تمہارے آفس کی طرف سے دھوکہ دھڑی اور چار سو بیسی کی رپورٹ درج کرائی گئی ہے کہ تم نے معذور کوٹے کا سرٹیفکیٹ غلط طریقے سے حاصل کر لیا اور آفس کو گمراہ کر کے نوکری حاصل کی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

حیات و اجل کے درمیاں

 

کیا کوئی اس زندگی کو زندگی کہہ سکتاہے بھلا؟ ہر وقت خوف وہراس کے سائے، ہر وقت اندیشوں کی سراٹھائی، رہ رہ کر ذہن کو جھنجھوڑنے والی ماضی کی یادیں۔ ایسی زندگی میں کیا لطف اور کیا سرور۔ بس سانس ہے کہ چلی جاتی ہے بنا رُکے بنا تھکے۔ ورنہ تو زندگی کی کوئی علامت میرے اندر دکھائی نہیں دیتی۔ میں نہ سوتاہوں اور نہ میں اٹھنے کی سکت رکھتا ہوں۔ میں کسی سے باتیں کرنے کی خواہش رکھتا ہوں اور نہ لذیذ کھانے کاہی متمنی ہوں۔ یہاں تک کہ خوبصورت اور گداز جسم بھی مجھے نہیں لبھاتے۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ مین مردہ نہیں ہوں۔!

ویسے یہ سچ ہی توہے میں مردہ نہیں بلکہ زندگی سے ناراض ہوں اور موت سے شدید محبت کرتا ہوں …مگر…موت بھی ہے بالکل الھڑ محبوبہ…کسی طور وصل کا موقع نہیں دیتی۔ لیکن میں ایسا تو نہیں تھا… ہنسنا کھیلنا اور ہنگامے میری فطرت میں پہلے بھی شمار نہ تھے۔ پھر بھی…پھر ایسا کیا ہوا؟…کہ…کہ میں اب اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگاہوں …یہاں تک کہ گھر سے نکلنا بھی میرے لیے مشکل ہو گیا ہے۔

ہر وقت اور ہر لمحہ یہی سوچتارہتاہوں کہ زندگی کے بحر ذخار کاساحل کہاں ملے گا؟ دل بیقرار کو قرار کیسے آئے گا؟ ذہن و دل میں دہکتی آگ کب سرد ہو گی؟ اسی طرز پر سوچتے سوچتے وقت گذرتا رہتا ہے لیکن کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ سوجھتا ہے توبس اس ماحول اور زندگی سے فرار۔ مگر پھر جلد احساس ہو جاتا ہے کہ یہ فرار بھی آسان نہیں۔

میں اپنے بوسیدہ مکان کے بد رنگ بیڈروم میں آرام کرسی پر بیٹھا اب بھی انہیں خیالوں میں گم تھا۔ جب میں ذہنی طور پر زیادہ الجھن محسوس کرتا تو مجھے ’’گرین ٹی‘‘ کی طلب شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ اب بھی میں ذہنی طور پر بے حد ڈسٹرب تھا اور گرین ٹی کی طلب بھی شدت اختیار کر رہی تھی۔ میری بیوی راشدہ جسے میں پیارسے راشی کہتا تھا کو میری ’’گرین ٹی‘‘ کی طلب کا پتہ ماورائی طور پر ہو جاتا تھا۔ ادھر میری طلب میں شدت پیدا ہوئی اور چند منٹوں میں راشی گرین ٹی لیے حاضر۔ لیکن… آج…آج ایسا نہیں ہوا تھا!

میں زندگی سے مایوس اور موت کے پیار میں گم تھا اور ذہن الجھتے الجھتے اب گرین ٹی کی طلب شدت سے محسوس کر رہا تھا۔ کھیج کر ابھی میں راشی کو آواز دینا ہی چاہتا تھا کہ اچانک دروازہ کھلنے کی چرمراہٹ سنائی دی۔ میرے ہونٹوں پر تلخی کے آثار نمایاں ہو گئے۔ میں نے اپنا رخ مخالف سمت کو موڑ لیا شاید میں دیر سے آنے پر راشی سے غصّے کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔

مجھے کمرہ میں کسی نسوانی کردار کے ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے کپڑوں کی سرسراہٹ میرے قریب آتی محسوس ہو رہی تھی۔ کمرے میں عود حنا اور کافور کی ملی جلی مہک میرے نتھنوں سے ٹکرائی تومیں رخ پھیرنے پر مجبور ہو گیا۔

ک…ک…کون ہو تم۔‘‘

میں نے ذرا سر اوپر کیا تو ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ ایک نسوانی کردار جس نے سفید چوگا پہن رکھا تھا اور سرپر سفید مثلث کی طرح اسکارف تھا اسکارف کے اندر بے حد گہرا اندھکار تھا اور اس گھنے اندھکار میں دو دہکتے لال انگارے ٹنکے ہوئے تھے جو مسلسل مجھے گھورتے لگ رہے تھے۔ اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کی مالاتھی جو کسی رسٹ واچ کی طرح اس کے بائیں ہاتھ میں پڑی ہوئی تھی۔ یقیناً یہ راشی نہیں ہوسکتی تھی۔

’’کون ہوتم۔‘‘ میں نے لرزتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا۔ نسوانی کردار بنا جواب دیے سدھے قدموں سے چلتے میرے ایک دم سامنے آ کر رک گیا۔ کافور اور حنا کی ملی جلی مہک تیزی کے ساتھ میرے نتھنوں میں گھسی۔ اس کی سوچتی ہوئی موٹی موٹی آنکھوں میں بلا کی گہرائی نظر آتی تھی۔ ہونٹ نہایت سنجیدگی سے بھنچے ہوئے تھے۔ چہرہ سیپی کی طرح مرمریں اور بیضوی ہو گیا تھا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر مجھے گھور رہی تھی۔ یا شاید  پلکیں تھی ہی نہیں ؟

’’تم نے مجھے نہیں پہچانا؟‘‘

’’……‘‘ میں نے خالی نظروں سے اسے گھورا۔

’’میں وہی ہوں جسے تم بے پناہ محبت کرنے لگے ہو‘‘

’’میں …‘‘

’’ہاں تم…اور…یہ دعویٰ تو تمھارا ہی ہے نا۔‘‘

’’لیکن…میں تواب صرف موت کو ہی پیار کرتا ہوں۔‘‘

نسوانی کردار کی آنکھیں اچانک اور چمک اٹھیں یا یوں کہیں کہ دو انگارے مزید دہک اٹھے۔

’’میں موت ہی ہوں۔‘‘ اچانک جیسے کمرہ میں سناٹاچھا گیا۔

’’کیاتم…واقعی…‘‘ میں یقین نہیں کر پایا۔

’’ہاں …تم کیسے عاشق ہو جو اپنی محبوبہ کو بھی نہیں پہچانتے۔‘‘

موت نے ٹھہاکا لگایا۔ میں خاموش رہا۔ میں سوچ رہا تھا۔

کیا یہ وہ موت ہے جسے میں محبت کرنے لگا تھا۔ نہیں بھلا یہ وہ کیسے ہوسکتی ہے۔ میرے ذہن میں موت کا ایسا تصور بالکل نہیں تھا۔

’’سنو…میں تمھاری روز روز یاد کرنے سے تنگ آ کر یہ پوچھنے آئی ہوں کہ تم مجھے قبل از وقت ہی اتنی شدت سے کیوں یاد کرتے ہو‘‘؟

’’اوہ…‘‘میں اب سنبھل چکا تھا۔ میں نے ایک اطمینان کی سانس لی۔

’’مجھے جواب دو۔‘‘

’’مجھے تم سے محبت جوہے۔‘‘

’’لیکن کیوں …اتنی شدت سے تو کوئی مجھے یاد نہیں کرتا۔ بلکہ سب مجھ سے دور ہی رہنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’زندگی سے بیزار انسان موت سے محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

’’تم زندگی سے اتنا مایوس کیوں ہو۔‘‘ موت اپنا چوگاسمیٹ کر اب میرے سامنے پڑے گرد آلود صوفے پر بیٹھ گئی۔

’’میں نے زندگی کے ہاتھوں بہت غم اٹھائے ہیں مزید غموں سے سامنا میری قوت سے باہر ہے۔‘‘

’’میں بھی توسنوں …میرے عاشق کی داستان غم‘‘ اس کے انداز سے واضح تھا کہ وہ فرصت میں ہے اور میرے ان دکھوں کی داستان سننے کو بیتاب ہے جن کو میں نے ابھی تک صیغہ راز میں ہی رکھا تھا۔‘‘

’’تم واقعی سننا چاہتی ہو۔‘‘

’’ہاں …میرے محبوب ہاں۔‘‘ موت نے ایک دلربا انگڑائی سی لی۔ میں نے کہنا شروع کیا۔

’’میرابچپن روتے بسورتے گذرا، پھٹے پرانے چیتھڑے پہن ماں سے ایک ایک روپئے کے لیے ضد کرتے میں بڑاہوا۔ ٹوٹی ہوئی سلیٹوں اور چٹختی ہوئی تختیوں پر لکھتے چند درجے پاس کیے۔ بچپن کی کچی سپیدی سے نکل کر جب عہد شباب کی چمک اور رنگا رنگی نے اپنے آغوش میں لیا تو دنیا کی بے ثباتی اور رنگینی کا بہ یک وقت احساس ہوا۔ آنکھیں کھلیں تو دنیا کو قریب سے جاننے سمجھنے کی فکر لاحق ہوئی۔ لیکن واہ ری دنیا…جس قدر اس کو سمجھنا چاہا اتنا ہی الجھتا چلا گیا۔میری بصارت اور بصیرت نے نئی نئی اور ان کے وضع کردہ قوانین کی زد سے بچتے ہوئے زندگی گذارنے کی کوشش کی۔ پھر یوں ہوا کہ میں دیوانا وار گلی کوچوں میں آوارہ پھر نے لگا۔ اندر کی بے کلی مجھے بے سکون کیے ہوئے تھی۔ مجھے اپنی منزل کا پتہ تھا اور نہ ہی راستے کا۔ پھر بھی دوڑ رہا تھا…شاید میں خود سے فرار چاہنے لگا تھا…لیکن حالات نے مجھے شکست دے دی…میں ہار گیا…‘‘

’’مجھے دیر ہو رہی ہے…‘‘ موت کے چہرے پر ناگواری کے اثرات واضح تھے شاید وہ طویل گفتگو سے اکتا گئی تھی۔ لیکن میں نے اس کی بات کو ان سنا کر دیا اور بولنا جاری رکھا۔

’’آہستہ آہستہ میں تمام ہنگامہ آرائیاں ترک کرتا گیا اور احساس کمتری نے میرے اندر جڑیں جمانی شروع کر دیں۔ میری زندگی جو پہلے سے ہی تلخ تھی وہ اب مستقل تلخی میں تبدیل ہو گئی…‘‘

’’مجھے اب دیر ہو رہی ہے…اب میں چلو ں گی۔‘‘ موت صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں چونک پڑا۔ ’’تمھیں کہاں کی جلدی ہے۔‘‘

’’میرے پاس وقت کم ہے۔ تم کیا جانو مجھے دنیا کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پرواز کرنی پڑتی ہے۔ میں نے ابھی گجرات میں بہت کام کیا ہے فلسطین اور افغانستان جیسے علاقوں تک تو مجھے روز ہی آنا جانا پڑتا ہے۔ کشمیر اور پاکستان تومیری سیرگاہیں بن چکی ہیں۔ حالانکہ بہت سے علاقوں پر میں نے اپنے نائب معمور کر رکھے ہیں لیکن پسندیدہ مخصوص علاقوں پر میں خود ہی پرواز کرتی ہوں ‘‘۔ موت اپنی بادشاہت کے بیان کو خود طول دے رہی تھی۔ حالانکہ اس کی باتوں میں میری دلچسپی ناکے برابر تھی۔ ’’مجھے ہندوستان بے حد عزیز ہو چلا ہے کہ یہاں کے میدانوں میں خوشبوئیں اور جنگلوں میں وسعتیں اور پربتوں میں رعنائیاں ہیں۔ یہاں کی خواتین کی پیروں تک لٹکتی چوٹیوں اور تیکھے نین نقش تو دنیا بھر کے مردوں کی آہوں کاسبب ہیں۔ یہاں کے مرد دنیا کے لئے نمونہ امتیاز ہیں۔ لیکن میں اسے کچھ دیگر وجوہ کی بنا پر پسند کرنے لگی ہوں۔‘‘ موت ایک پل کو خاموش ہوئی۔

’’تم کن وجوہ کی بات کر رہی ہو۔‘‘ میں حیران ہوا کہ اسے اور کن چیزوں میں دلکشی نظر آئی تھی۔

’’مجھے پہلے تمھارا پنجاب بہت پسند تھا جہاں کی خالصتانی تحریک نے مجھے بھر پور روزگار کے مواقع عطا کیے تھے پھر تو ایودھیا نے مجھے سرشار کیا اور ابھی میری مدہوشی کم بھی نہ ہوئی تھی کہ گجرات نے میری امیدوں کو پروان چڑھا دیا۔حال ہی میں آسام اور مظفر نگر نے بھی مجھے خوب محظوظ کیا ہے…اور ہاں مجھے کشمیر نے تو کچھ زیادہ ہی مسحور کیا ہے میں یہاں منڈلانا اس لئے بھی پسند کرتی ہوں کہ وہاں سے زنگیان، قندھار، کابل اور اسلام آباد سے لے کر عراق وغیرہ تک کے علاقوں کی نگرانی بھی بہ خوبی کر لیتی ہوں …مجھے ابھی جھارکھنڈ کی طرف جانا ہے جہاں نکسلی بارودی سرنگ بچھائے ہوئے فوجی لشکر کا انتظار کر رہے ہیں۔ خیر تم یہ سب چھوڑو…وہاں میں اپنے نائب کو بھیج دیتی ہوں …تم اپنی کہانی جلد بیان کرو لیکن اختصار کے ساتھ۔‘‘

’’مجھے تمھاری آوارگی پر سچ مچ حیرت ہو رہی ہے۔‘‘

’’تمھاری محبوبہ کی یہی زندگی ہے میرے محبوب۔ موت کی بیقراری ہی اس کی زندگی ہے جو سکون کی لذت سے ناآشنا ہے۔ میری بیقراری تمھارے تصور کی محدود پرواز سے بھی بالاتر ہے۔ جسے تم سمجھ ہی نہیں سکتے۔‘‘

’’اوہ‘‘

’’اب تم وقت ضائع نہ کرو…‘‘

’’آہ…میری جلد باز محبوبہ…‘‘

’’ ذرا اختصار سے کام لینا کہ اختصار میں ہی گفتگو کا اصل حسن ہے۔‘‘

’’تم بھی حسن کی بات کرتی ہو؟‘‘  میں نے گویا طنز کیا تھا۔ لیکن موت نے میرے طنز پر دھیان نہیں دیا اور صوفے پر دوبارہ بیٹھ گئی۔اطمینان سے بیٹھنے کے بعد شاید اسے میرا طنز یاد ہو آیا تھا۔

’’بے شک موت حسن سے تشبیہ نہیں لیکن…لیکن وہ جدید اور قدیم میں توازن رکھتی ہے۔ خدا کا حکم ہے کہ دنیا ہر دم تازہ دِکھنی چاہیے۔ ا س لیے میں پرانی روح اٹھا لے جاتی ہوں کہ نئی روح جسم حاصل کرسکے۔ چونکہ توازن حسن ہے اس لیے میں بھی حسین ہوں۔‘‘ شاید موت زیر لب مسکرائی تھی۔

’’بہر حال…تو میں کہہ رہا تھا کہ احساس کمتری نے میرے اندر جڑیں جمالی تھیں۔ زندگی سے میں اس قدر مایوس ہو گیا تھاکہ تم سے پیار کر بیٹھا…اور اس پیار کی شدت تمھیں یہاں کھینچ ہی لائی…‘‘

’’ایک بات پوچھوں۔‘‘ موت کی اس بات پر میں نے پھر طنزکیا۔

’’لیکن تمھیں تو دیر ہو رہی ہے۔‘‘

موت کھلکھلائی۔ ’’ہاں …لیکن تم میرے محبوب ہو اور آداب عشق کے مطابق مجھے تمھاری بات سنی ہی پڑے گی…میں جاننا چاہتی ہوں کہ تمھیں زندگی میں کبھی خوشنما پل میسر ہی نہیں ہوئے کیا‘‘؟

اپنے محبوب کی اس ادا پر میں ماضی کے دھندلکوں میں گم ہونے لگا۔ ماضی کے گزرے ہوئے پل میری آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح گردش کرنے لگے۔ میں نے ایم اے کیا اور تلاش معاش میں چپلیں چٹخانے لگا لیکن بہت کوششوں کے بعد بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ اس مایوسی کے عالم میں مجھے راشی کاساتھ ملاجس نے مجھے حالات سے لڑنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا کیا۔ میں نے راشی سے بے پناہ محبت کی اور اس کی محبت میرے ذہن پرسنہری غبار بن کر چھائی رہتی تھی۔ میں نے چونکہ زیر تعلیم ہی راشی سے شادی کر لی تھی اس لیے میرے گھر والے بھی مجھ سے بدگمان ہو گئے تھے۔ پھر بھی میں اپنے ماحول اور سماج سے بے پرواہ ہو کر راشی کے آغوش کی نرم چھاؤں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹتا رہا۔ ان خوشیوں نے دل کو تو شاد کیا لیکن پیٹ کی آگ ٹھنڈی نہیں رہ سکی۔ اس آگ کے بھڑکنے سے محبت میں تلخ کلامیوں کا گذر ہونے لگا۔ محبت میں تلخ کلامیوں کے سبب دل بجھنے لگا مگر پیٹ کی آگ مزید بھڑکنے لگی۔ آگ کی تپش کو کم کرنے کی خاطر میں نے احساس کمتری کے عقب میں دبے کچلے اس جذبۂ  خود داری اس غرور نفس اس گھنے اندھکار میں چمکتی ننھی سی شمع کو بھی فنا کر ڈالا جس نے مجھے ہمیشہ پستی میں گرنے سے بچایا تھا۔ پیٹ کی آگ مسلسل تیز ہوتی رہی ایک الاؤسا تھا جو اندر دہک رہا تھا اور پھر آگ کی لپٹیں اس قدر بلند ہوئیں کہ میں اس خود ساختہ جہنم میں جل کر بھسم ہو گیا۔

’’تم صاف صاف کیوں نہیں بتاتے۔ یہ پہلیاں کیوں بجھا رہے ہو۔‘‘ مجھے لگا کہ موت کچھ جذباتی ہو گئی تھی اس نے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں۔ لیکن نہیں …بھلا موت کو رونے سے کیا مطلب؟

’’پھر مجھے ایک دن نوکری بھی مل گئی۔ میں تب بہت خوش ہوا تھا۔ راشی کے ساتھ مل کر سنہرے کل کے خواب بننے لگا تھا۔ لیکن میرے نقشے کے مطابق زمین کچھ کم تھی۔ میری مختصر آمدنی میں خواب کا مکمل ہونا مشکل تھا۔ حالانکہ راشی اتنے میں بھی خوش تھی مگر میں مطمئن نہیں تھا…‘‘

موت نے پھر بیچ میں ٹوکا ’’میں نے کہا کہ اجمال سے کام لو کہ اجمال گفتگو کاحسن ہے۔‘‘ وہ مسلسل اپنی کلائی کو موڑ کر اسے گھورتی رہی تھی لگا جیسے وہ ہڈی کی بنی مالا میں وقت گذرنے کا احساس کر رہی تھی۔ اچانک اس کی مالا میں ایک ہڈی سرخ انگارے کی طرح دہکنے لگی۔ اور وہ بول اٹھی ’’مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘

’’اف…تم آخر چلی کیوں نہیں جاتیں۔‘‘ میں نے قدر خفگی سے کہا۔

’’ناراض نہ ہو میرے  محبوب…میرا فرض مجھے پکار رہا ہے۔ میرے نائب روحوں کے انبار اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں اور وہ اب جھارکھنڈ نہیں جانا چاہتے جہاں نکسلی بم بلاسٹ کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔‘‘

’’اوہ…تم کیسی محبوبہ ہو…میری روح تولے جا نہیں رہیں اور تمام دنیا سے روح سمیٹتی گھوم رہی ہو۔‘‘

’’ہر روح کے جانے کا وقت متعین ہے تمھارا بھی ہے۔ جب تمھارا وقت آئے گا تو میں تم سے پوچھنے بھی نہیں آؤں گی…تم آخر وقت سے پہلے کیوں میرے ساتھ جانا چاہتے ہو…نا…نا…اب یہ مت کہنا کہ تمھیں مجھ سے پیار ہے۔‘‘

میں نے پھر اپنی کہانی شروع کر دی۔ حالانکہ موت کے ماتھے پر اب شکنیں ابھر آئی تھیں لیکن پتہ نہیں کیوں وہ میری باتیں سننے کے لیے رکی ہوئی تھی۔ میں پھر ماضی میں کھوتا چلا گیا۔ جس کمپنی میں ملازم تھا اس کی مالکن ایک خاتون تھی جو کہ دیکھنے میں جاذب نظر تھی لیکن بہت کم گوتھی۔ میں پتہ نہیں کیسے کمپنی کے معاملات ڈیل کرتے کرتے انیلا کے دل پر دستک دے آیا تھا۔ حالانکہ مجھے اس کا احسا س تب ہوا جب اس نے ایک سفر کے دوران واپسی پر مجھ سے نکاح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہوں۔

میں نے اپنے اور راشی کے بارے میں انیلا کو کبھی کچھ نہیں بتایا تھا۔ انیلا کی خواہش نے مجھے بے حد ڈسٹرب کر دیا تھا۔ میں خرابی صحت کا بہانہ کر کے کئی دن آفس  نہیں گیا۔ دراصل میں اس معاملے پریکسوئی کے ساتھ غور کرنا چاہتا تھا۔ راشی نے اس درمیان مجھے پریشان دیکھا لیکن سوال کچھ نہ کیا ویسے بھی وہ سوال بہت کم کرتی تھی۔ اس کی بڑی وجہ مجھ پر اس کا یقین کامل ہونا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ میں کیسے اس کے یقین کو توڑ دوں ؟ یا پھر انیلا کو کیا کہہ کر منع کروں۔اگر منع کروں تو… منع کرنے کی صورت میں نوکری جانے کا بھی خوف تھا۔ میں بڑی الجھن میں تھا کہ آخر کیا کروں ؟

پھر اچانک میری آنکھیں چمک اٹھیں۔ بالوں میں الجھی انگلیاں باہر نکل آئیں۔ مجھے ایک راہ سوجھ گئی تھی۔ میرے سوچنے کا زاویہ تبدیل ہو چکا تھا۔ اب مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے انیلا سے شادی کر لینی چاہیے۔ ایسی صورت میں میرے معاشی معاملات کی بہتری ممکن تھی۔ لیکن راشی…اس کا کیا کروں ؟

میں اپنے خطرناک منصوبے کو پورا کرنے کی ٹھان چکا تھا اس لیے اس کا بھی حل نکل آیا۔ راشی کی ایک بہن دبئی میں رہتی تھی اس نے ہم دونوں کو دبئی بلایا تھا اور ٹکٹ بھی بھیج دیے تھے۔ میں نے کام کی زیادتی کا بہانہ کر کے راشی کو اکیلے ہی دبئی روانہ کر دیا۔

انیلا اور ہماری شادی بے حد سادگی کے ساتھ ہوئی تھی کہ انیلا کو بھیڑ بھاڑ اور بڑی محفلیں پسند نہیں تھیں۔ کچھ دن تو عیش کے ساتھ گذرے لیکن اچانک مجھے معلوم ہوا کہ انیلا کی پہلے بھی شادی ہو چکی ہے مجھے یہ سن کر جھٹکا سالگا لیکن میں جلد سنبھل گیا کہ میں نے بھی تو راشی سے شادی کے بارے میں انیلا کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ انیلا کا ایک لڑکا بھی تھا جو ہاسٹل میں رہ کر پڑھ رہا تھا اور میں نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا۔

میں نے راشی سے بھی اس دوران تعلقات استوار رکھے تھے اور برابر اس سے فون پر باتیں کرتا رہا تھا۔ وہ خوش تھی کہ میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اسے روز فون کرتا تھا۔ میں انیلا سے چاہ کر بھی وہ محبت نہیں کرپا رہا تھا جو راشی سے کرتا تھا۔ ویسے بھی راشی اور انیلا میں بڑا فرق تھا۔ انیلا شوہر کو باندھ کر رکھنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے مجھے گھٹن کاسا احساس ہونے لگا تھا۔

’’اچھا اب میں چلتی ہوں ‘‘ اتنا کہہ کر موت دروازہ کی طرف بڑھ چلی۔ ’’نہیں …رک جاؤ‘‘۔ میں نے حکم سادیا۔ وہ سچ مچ رک گئی تھی۔ تو کیا وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی تھی۔ اور شاید اسی لیے میری بات سننے پر مجبور تھی۔

میں پھر شروع ہو گیا۔

’’انیلا جلد ہی بزنس میں دوبارہ سے مشغول ہو گئی اور اس نے مجھے بہت سی بندشوں میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ بے حد چالاک عورت ثابت ہوئی تھی۔ مجھے ایک مرتبہ پھر اپنے خواب چکنا چور ہوتے لگ رہے تھے کہ میرے دل میں ایک خیال نے سراٹھانا شروع کر دیا۔ ہماری رفاقت کو ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ انیلا کچھ بیمار سی رہنے لگی تھی۔ ڈاکٹر اسے اچھی سے اچھی دوائیاں تجویز کر رہے تھے مگر مرض بڑھتا جا رہا تھا۔ اصل ماجرا تو یہ تھا کہ مرض کیا ہے اسے پکڑ پانے میں ڈاکٹر ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ انیلا دھیرے دھیرے بستر سے لگ گئی اور وہ گھر سے ہی آفس سنبھالنے لگی۔ میں نے بہت چاہا کہ وہ مکمل آرام کرے اور آفس کی ذمہ داریاں مجھ پر چھوڑ دے لیکن وہ مسلسل ٹالتی رہی۔ اب میں نے خود اس کی تیمار داری اپنے ذمے لے لی تھی۔ اسے دوا دینے سے لے کر کھانا کھلانے تک سبھی کام میں نے اپنے ذمے کر لیے تھے۔ادھر راشی نے اپنا ویزا مزید تین ماہ کے لیے بڑھوا لیا تھا کہ وہ موقع سے پوری طرح لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔یہ میرے لیے بڑے اطمینان کی بات تھی۔

انیلا کی حالت روزبہ روز خراب ہوتی گئی۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ انیلا  مالک حقیقی سے جا ملی۔میں اداس تھا لیکن ساتھ ہی کہیں دل کے کونے میں یہ احساس بھی تھا کہ میں اب آزاد تھا اس گھٹن سے جو گذشتہ کچھ عرصے سے میرا مقدر بن گئی تھی۔

میں کئی روز انیلا کے گھر میں ہی قید رہا اور جب مجھے کمپنی کے وکیل ایم کے شاہ کا فون آیا تو میں تیار ہو کر ان سے ملنے کے لیے کمپنی کے دفتر چلا گیا۔ مسٹر شاہ انیلا کی وصیت کے متعلق مجھ سے گفتگو کرنا چاہتے تھے۔

میں مسٹر شاہ سے ان کے کمرے میں ہی ملا۔ جب انھوں نے میرے سامنے انیلا کی وصیت بیان کی تو میرے سرپر بم پھوٹ پڑا۔ میرے پیروں کے تلے سے زمین کھسک چکی تھی اور سرسے چھت غائب تھی۔ انیلا نے اپنے بیٹے کے نام تما م جائداد اور کمپنی کی ملکیت کر دی تھی میرے نام کا وصیت میں تذکرہ تک نہیں تھا۔ وصیت سے صاف پتہ لگا تھا کہ میں انیلا کا دل جیتنے میں ناکام رہا تھا۔ میں سخت صدمے میں تھا اور مارے رنج کے بت بن گیا تھا۔ میں نے کئی دن خود کو اسی بیڈ روم میں قید رکھا جس میں انیلا کے ساتھ شادی کے بعد رہتا تھا۔ اس دوران کھانے کی میز پر میری ملاقات انیلا کے بیٹے سے ہوئی وہ تقریباً دس سال کا تھا اور بالکل انیلا پرگیا تھا اس کی کنجی آنکھوں میں میرے لیے حقارت ہی حقارت تھی جو میں برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اسے شاید یہ لگتا تھا کہ اس کی اچھی بھلی ماں میری وجہ سے ہی اتنی جلدی موت کے آغوش میں چلی گئی تھی… اور… کون جانتا تھا کہ وہ سچ ہی سوچ رہا تھا…یا غلط…‘‘ یہ کہہ کر میں ذرا سانس لینے کے لیے رُکا تو موت مجھے بری طرح گھور رہی تھی۔ اس کے دو دہکتے انگارے زیادہ دہک کراب نیلے پڑ گئے تھے۔ میں سکپکا گیا کہ جیسے میری چوری پکڑ لی گئی ہو۔میرا چہرہ پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔

’’اوہ…تو…تم…‘‘ موت نے کہا تو مجھے لگا کہ وہ دانت کچکچا کر بول رہی ہے۔ تو کیا وہ غصہ ہو رہی تھی؟ میں لرز اٹھا تھا۔

’’پھر کیا ہوا…‘‘ دانتوں کے کچکچانے کی آواز پھر ابھری۔

’’میں کچھ دنوں کے بعد واپس اپنے اسی گھر میں لوٹ آیا۔ میری نوکری چھوٹنے کی اطلاع راشی کو ملی تو اس نے رخت سفرباندھ لیا۔ اسے معلوم تھا کہ اب میں ڈپریشن میں چلا جاؤں گا تو مجھے سنبھالنے کے لیے اس کی ضرورت ہو گی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ اپنے منصوبے میں ناکام میں کس طرح راشی کا سامنا کرپاؤں گا…تب سے میں صرف تمھارا انتظار کر رہا ہوں کہ اب مزید دل کا بوجھ اٹھانے کی سکت مجھ میں نہیں ہے۔‘‘ میں تقریباً رو پڑا تھا۔

’’ہوں …‘‘

’’میں نے تمھیں کہاں نہ تلاش کیا۔ رات کی اندھی وسعتوں اور دن کی چمکتی روشنیوں میں تمہیں صدائیں دیں۔ قلعوں کے شکستہ برجوں اور ٹوٹی ہوئی قبروں کے خوفناک شگافوں میں تمہیں پکارا۔ لیکن تم مجھے نہ ملیں۔اب جبکہ میں زندگی اور موت دونوں سے مایوس ہو چکا تھا تو تم خود ہی میرے پاس چلی آئیں۔‘‘

’’اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔‘‘ موت کی آواز نہایت کرخت تھی۔

’’مجھے اس عذاب سے مکتی دے دو…‘‘ کہتے کہتے میں پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔

’’مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں قید کر لو کہ میں ہمیشہ کے لیے زندگی سے فرار چاہتا ہوں کیونکہ زندگی وحشی ہے اس کے خونخوار جبڑوں میں لہو، پیپ گوشت کی دھجیوں کے سوا کچھ نہیں ہے تم رحم دل ہو۔ تمھارے لبوں کی محرابوں میں سکون اور سرور کی لافانی ندیاں ہیں۔ آؤ…آؤ…میرے قریب آ جاؤ…کہ مجھے سکون وسرور کی لذت سے محروم نہ کرو۔‘‘

’’موت کا قانون کہتا ہے کہ تمھیں سز املنی چاہیے بھیانک سزا۔‘‘

’’ہاں مجھے سزادو…کہ اب میں اپنے آپ سے اور نہیں لڑسکتا۔‘‘

’’نہیں …تم میرے قرب کی لذت کے اہل نہیں …تمھارا جرم قابل معافی نہیں …اس لیے تمھیں زندہ رہنا ہو گا…زندہ رہنا ہو گا…ہاں تمھیں زندہ رہنا ہو گا۔‘‘ اسی بازگشت کے درمیان موت دروازے کی طرف بڑھ چلی۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس مرتبہ وہ نہیں رکے گی۔

’’نہیں …تم میری محبوبہ ہو…تم مجھے یوں تشنہ نہیں چھوڑسکتیں۔‘‘ میں مسلسل چیخ رہا تھا لیکن عود اور حنا کی خوشبو مجھ سے مسلسل دور ہوتی جا رہی تھی۔

’’سنو…مجھے موت چاہیے…تم ایسے نہیں جا سکتیں …‘‘

’’کیا ہوا…کیاہوا…آپ کیوں چیخ رہے ہیں۔‘‘ راشی میرے سامنے سوال بنی کھڑی تھی اور میں لاجواب تھا۔ بمشکل میرے منھ سے نکلا۔

’’وہ…وہ…‘‘

’’کون…یہاں تو کوئی نہیں ہے۔‘‘

واقعی اب وہاں راشی کے سواکوئی نہ تھا۔ ’’میرے خدا میں اب کیا کروں۔‘‘ میں دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر روپڑا۔

’’پلیز مجھے بتاؤ…کیا بات ہے…آپ کیوں رو رہے ہیں۔‘‘ راشی بھی پریشان ہو اٹھی تھی۔ راشی مجھ سے برابر پوچھ رہی تھی۔ میں اسے کیا بتاؤں ؟ کیسے اسے بتاؤں کہ میں نے اس کے اعتماد کو کس طرح چوٹ پہنچائی ہے؟ میں اسے کیسے بتاؤں کہ میں نے انیلا کے ساتھ کیا کیا ہے؟ کیا وہ سن سکے گی یہ سب؟‘‘

’’نہیں …نہیں میں اسے کچھ نہیں بتا سکتا۔‘‘ اندر کے خوف نے پھر انگڑائی لی۔

’’تم بتاتے کیوں نہیں …کیا ہوا ہے جو آپ اتنے پریشان ہیں۔‘‘

میں نے سرذراسا اوپر اٹھایا۔ میرا چہرہ پوری طرح آنسوؤں میں تر تھا۔ جسے دیکھ کر راشی تڑپ کر رہ گئی۔

’’تم جاننا چاہتی ہو…توسنو…میں قاتل ہوں …میں نے خون کیا ہے… ہاں راشی…میں خونی ہوں …مجھے سزا ملنی چاہیے …ہاں میرے جرم کی یہی سزاہے کہ…مجھے زندہ رہنا ہو گا…مجھے زندہ رہنا ہو گا…‘‘ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا اور راشی میرے سامنے حیران پریشان کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہر خواہش پہ دم نکلے

 

میں بناکسی خواہش کے ریسٹورنٹ چلا آیا تھا جہاں رومی میری منتظر تھی۔ حالانکہ میں رومی سے محبت کا دعویٰ نہیں کرسکتالیکن رومی نے ضرور مجھ سے بے پناہ محبت کے دعوے کیے تھے۔ میں نے اپنی طرف سے اس کی حوصلہ شکنی ہی کی تھی اور گذشتہ ملاقات بھی نہایت تلخی پر ختم ہوئی تھی۔ مجھے امید تھی کہ وہ اب کبھی مجھ سے ملنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ لیکن ایسانہیں ہوسکا تھا۔

ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہی میری نظر کارنر ٹیبل پر نیم تاریکی میں بیٹھی رومی پر پڑی تو میں اس کے سامنے والی ٹیبل پرجا کر بیٹھ گیا۔ مجھے حیرت تھی کہ رومی نے خوش دلی کے ساتھ میرا استقبال کیا تھا۔

’’اچانک مجھے طویل عرصے کے بعد پریشان کرنے کی وجہ۔ ‘‘میرے سوال پروہ چہک اٹھی اور ایک شوخ ادا سے بولی ’’آپ کے پرستار جو ٹھہرے۔‘‘

’’دیکھو میرے پاس بے کار کی باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔‘‘ میں نے    بے رخی کا اظہار کیا۔

’’ایسی بھی کیا بے رخی جناب۔‘‘

’’خیر تم بتاؤ…‘‘

’’جنم دن مبارک ہو ڈیئر۔‘‘

کہتے ہوئے اس نے ایک گفٹ پیک میری طرف بڑھا دیا۔ میری ساری ناراضگی جاتی رہی۔ اس لیے نہیں کہ میں گفٹ کا لالچی تھا بلکہ اس لیے کہ مجھے اپنے جنم دن پر وِش کرنے والوں سے خاص انسیت پیدا ہو جاتی تھی۔

’’شکریہ… رومی‘‘

’’یہ ایک خاص گفٹ ہے ڈیئر۔ اس سے تم اپنی کسی ایک بڑی سے بڑی خواہش کو پورا کرا سکتے ہو۔یہ تمہیں بہت سی دولت بھی دے سکتا ہے۔‘‘

اپنی دانست میں اس نے مجھ پر طنز کیا تھا وہ سمجھتی تھی کہ دولت میری کمزوری ہے۔ چند اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد کافی ختم ہوتے ہی ہم ریسٹورنٹ سے باہر نکل آئے۔

بستر پر لیٹے لیٹے مجھے رومی کے گفٹ کا خیال آیا۔ جانے کس جذبے سے مغلوب ہو کر میں نے گفٹ پیک کھولا۔ اس میں ایک انگوٹھی رکھی ہوئی تھی جس میں لگا نگینہ اپنی چمک بکھیر رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک کاغذ بھی رکھا تھا۔

’’جان

تم میری محبت کو اس لیے ٹھکراتے ہونا کہ تم کو دولت چاہئے۔ توسنو میری انگوٹھی تمہاری یہ خواہش پوری کرسکتی ہے۔ اسے جوک مت سمجھنا۔ یہ انگوٹھی یقیناً تمہاری ایک خواہش پوری کرے گی۔ تم اس کو اپنی انگلی میں پہن کر تین مرتبہ گھمانا اور پھر اپنی خواہش کا اظہار کرنا۔اور خوش ہو جاؤ کہ میں اب تمھیں کبھی تنگ نہیں کروں گی… اوکے بائے۔‘‘

مجھے خط پڑھ کر کچھ دیر ہنسنا چاہئے تھا۔ بھلا یہ انگوٹھی میری خواہش کس طرح پوری کرسکتی ہے۔ اور تم کیا جانو رومی!  کہ میری خواہش ہے کیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے بھی نہیں پتہ میری خواہش کیا ہے۔ لیکن مجھے حیرت تھی۔مجھے انگوٹھی اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ مجھے اپنی خواہش کا اظہار انگوٹھی سے کرنا چاہئے۔ یہ کیوں تھا مجھے نہیں پتہ لیکن میں مجبور ہو رہا تھا۔

آخر کار میں نے طے کیا کہ میں انگوٹھی سے خواہش کا اظہار کروں گا۔ ایک کوشش کرنے میں حرج بھی کیا ہے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ کس خواہش کا اظہار کیا جائے۔ بہت سوچنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا مانگا جائے۔ میرا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔

ٹھیک ہے مجھے ایک گاڑی کی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے تو کیا میں گاڑی کا مطالبہ انگوٹھی سے کروں …لیکن کون سی گاڑی… ٹاٹا سفاری … مرسڈیز… نہیں مجھے تورالس رائل پسند ہے… ٹھیک ہے میں رالس رائل کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘

میں ابھی انگوٹھی کو انگلی میں پہننا ہی چاہتا تھا کہ اچانک میرے دماغ میں ایک دوسرا خیال پیدا ہوا۔

’’ارے لیکن گاڑی مل بھی جائے تو بھلا وہ کھڑی کہاں کروں گا۔ میرے پاس تو گیراج بھی نہیں ہے اور باہر کھڑی کرنے پر محلہ کے شیطان بچے اسے خراب کر دیں گے۔‘‘

’’پھر مجھے کیا کرنا چاہئے… تو کیوں نا میں ایک بڑا مکان مانگ لوں … خوبصورت سامکان…جس میں بڑا سالان ہو اور سردیوں میں یہاں بیٹھ کر میں دھوپ سینک سکوں … اور…اور…ہر مرتبہ برسات سے پہلے مجھے مکان کی مرمت جیسے کاموں سے بھی نجات مل جائے۔ … سچ کتنا دل گھبراتا ہے بارش سے…کہ کہیں بارش میں میرا مکان…ٹھیک ہے میں مکان کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘

میں نے ابھی انگوٹھی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک ایک خیال نے چونکا دیا۔

’’لیکن بنا بیوی کے بھلا گھر کس کام کا؟ میں تو یوں بھی دنیا میں اکیلا ہوں۔ اگر گھر ہو گا تواس کی صاف صفائی میرے لیے مسئلہ بن جائے گی اور پھرکسی ساتھی کے بغیر بڑے گھر میں دل بھی گھبرائے گا۔ تو کیا…تو کیا مجھے کسی خوبصورت بیوی کا مطالبہ کرنا چاہئے۔‘‘

اس خیال کے چلتے میرا ذہن رومی کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے سوچا کہ شادی اگر رومی سے کر لی جائے تو کیسا رہے۔

’’نہیں …حالانکہ وہ بلا کی خوبصورت ہے… مجھے پسند بھی کرتی ہے … لیکن …پھر بھی …اس میں وہ بات نہیں جو……‘‘

میرا دل رومی کے نام پر لبیک نہیں کہہ پایا تو میں نے سوچا کہ انگوٹھی سے ہی حسین و جمیل لڑکی سے شادی کرنے کا اظہار کیا جائے۔

’’لیکن پھر میرا ذہن بھٹکنے لگا۔

’’اف…میری مالی حالت تو بہت اچھی نہیں ہے۔ ایسے میں حسین و جمیل بیوی کے آنے سے اخراجات میں بھی اضافہ ہو جائے گا…اگر میں اس کی فرمائشیں پوری نہ کرسکا تو وہ جھگڑا کرے گی…ایسے میں تو میری زندگی اجیرن ہو جائے گی…پھر…پھر…ہاں مجھے انگوٹھی سے دولت کا مطالبہ کرنا چاہیے …لیکن دولت کتنی ہونی چاہئے…ایک کروڑ…نہیں پانچ کروڑ… پانچ کروڑ کافی نہیں ہو گی۔ کم از کم ایک ارب کی رقم تو انگوٹھی دے ہی سکتی ہے۔‘‘میرا دماغ بہت تیزی سے کام کر رہا تھا۔ میری خواہشیں سر اٹھانے لگی تھیں اور نئے نئے رنگ اختیار کرتی جا رہی تھیں۔ میں سوچنے لگا کہ ایک ارب کی رقم بھی بھلا کتنے دن چلے گی۔ کیوں نا میں انگوٹھی سے دنیا کاسب سے بڑا دولت مند بننے کا اظہار کروں … اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ مجھے دنیا کاسب سے بڑا دولت مند بنا دے۔

’’لیکن … میں کس کی طرح دولت مند بنوں … بل گیٹس کی طرح… نہیں روپرٹ مرڈوک کی طرح یا پھر…لیکن میں دولت مند بن بھی جاؤں تو کیا…بھلا دولت کتنی بھی کیوں نہ ہو ہرانسان کو ایک روز فنا ہونا ہے … تب اس دولت کا بھلا کیافائدہ … توکیا مجھے اپنی طویل عمر کی خواہش کرنی چاہئے…ہاں مجھے کم از کم ۷۵سال کی عمر چاہئے…نہیں سو(۱۰۰)…نہیں ۱۵۰سال…اف…بھلا اتنی لمبی عمر لے کر میں کیا کروں گا…تو…تو…کیا مانگوں …کیا مانگوں میں ‘‘۔ میں پریشان ہو رہا تھا۔ میرا دماغ چکرا رہا تھا۔ میں بیڈ سے اٹھ کر آرام کرسی پر آ کر بیٹھ گیا اور اپنی آنکھیں موند لیں۔ دماغ مسلسل سوچ رہا تھا۔ ذہن میں رہ رہ کر ایک پرانی خواہش ابھر رہی تھی۔ میں ایک کامیاب سیاستداں بننے کے خواب بنا کر تا تھا۔ تو کیا مجھے سیاستداں بننے کی خواہش کا اظہار انگوٹھی سے کرنا چاہئے۔

’’ہاں … میں بڑا اور کامیاب سیاستداں بننا چاہتا ہوں … لیکن کس طرح کاسیاستداں ؟ مہاتما گاندھی کی طرح یا پھر نہرو کی طرح یا راہل گاندھی کی طرح یا پھر نریندر مودی کی… نہیں نہیں مجھے زیادہ بڑے کینوس پرسوچنا چاہئے۔ تو کیا میں صدام حسین کی طرح بنوں یا پھر جارج بش،بل کلنٹن،براک اوباما یا پھر پتن کی طرح یقیناً مجھے طاقتور سیاستداں بننا چاہیے۔ طاقتور سیاستداں بنوں تو دنیا میری مٹھی میں ہو گی۔‘‘ میں نے اپنی مٹھیاں زورسے بند کر لی تھیں۔

’’دنیا کا سب سے طاقتور انسان بن کر میں دنیا پر حکومت کروں گا…ہاں تب کوئی طاقت مجھے کسی طرح روکنے ٹوکنے کی ہمت نہیں کر پائے گی… مجھے کوئی نہیں روک پائے گا…نا رشتہ دار…نا استاد… اور نا ہی دوست۔‘‘میری مٹھیاں کبھی کھلتی اور کبھی بند ہو جاتیں۔ میں جذبات کی رو میں بہنے لگا تھا۔

’’ہاں انگوٹھی مجھے دنیا کاسب سے طاقتورانسان بنا دے گی… تب مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہو گی…کسی کی بھی نہیں … یہاں تک کہ اس انگوٹھی کی بھی نہیں۔‘‘میں نے ایک حقارت بھری نظر سے انگوٹھی کی طرف دیکھا اوراسے دوراچھال دیا۔

’’ہاں … ہا… میں اب سب کو انگلی پرنچا سکوں گا… انگوٹھی… میری خواہش پوری کر… اور مجھے سب سے طاقتور انسان بنا دے… اور… ارے… انگوٹھی کہاں گئی… انگوٹھی کہاں گئی۔‘‘

میں انگوٹھی کوسب طرف دیکھ رہا تھا مگر انگوٹھی غائب تھی۔ میں دیوانا وار چیخ رہا تھا۔فرش پر بیڈ پر یہاں تک کہ کوڑے دان میں بھی۔سب جگہ میں انگوٹھی کو تلاش کر رہا تھا مگر وہ نہیں مل رہی تھی۔ میں اب حیران تھا اور پریشان بھی۔ ہاتھ آئی دولت میرے ہاتھ سے پھسل چکی تھی۔ اب میں کیا کروں ؟ سوچتے سوچتے مجھے صرف ایک ہی حل نظر آیا کہ رومی سے اس انگوٹھی کے متعلق بیان کروں شاید وہ بتا سکے کہ انگوٹھی کہاں غائب ہو گئی تھی۔ میں تیز تیز قدموں سے رومی کے گھر کی طرف چل دیا۔ راستے بھر طرح طرح کے خیال ذہن سے ٹکرا رہے تھے۔ کہیں وہ اس سے ملنے سے ہی انکار نہ کر دے۔ آخر میں نے اس کو کتنی مرتبہ ستایا تھا۔ اس کے جذبات کا خون کیا تھا۔ سوچتے سوچتے میں رومی کے گھر پہنچ گیا اور کال بیل کا بٹن دبا دیا۔

’’کون ہے‘‘ ایک بزرگ خاتون دروازے پر کھڑی اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔

’’میں … میں ‘‘ میں ہکلا گیا تھا بھلا کس طرح اپنا مدعا بیان کرتا۔ ’’آنٹی میں رومی کا دوست ہوں اور اس سے چند منٹ کے لیے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ بڑی ہمت جٹا کر میں نے یہ جملے ادا کیے۔ ’’نہیں مل سکتے۔‘‘ بزرگ خاتون نے افسردہ لہجے میں کہا تو مجھے سخت مایوسی کا احساس ہوا۔

’’آنٹی پلیز… مجھے صرف دو منٹ کے لیے رومی سے ملوا دیجئے۔ میرا اس سے ملنا بے حد ضروری ہے۔‘‘

’’بیٹا تم اس سے کیسے مل سکتے ہو۔ وہ تو دوسال پہلے مر چکی ہے۔ کسی سرپھرے کے عشق میں پڑکراس نے خود کشی کر لی تھی۔‘‘ کہتے کہتے خاتون کا چہرہ کرب سے بھر گیا تھا۔ اور میں … میرا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ کانوں کے پاس سیٹیاں سی بج رہی تھیں۔ میں بت بنا رومی کی ماں کو تکے جا رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سندرلال بنیا

 

سندرلال بنیا زندگی بھر کی کمائی میں کیے گئے ہیر پھیر کی معافی کرانے کے لیے اہل کنبہ کیدار ناتھ کی یاترا پر نکلا تھا اس نے اپنے تمام معاملات منشی کے سپرد کرنے کے بارے میں سوچا لیکن پھراس نتیجے پر پہنچا کہ منشی محض ٹھیے کی نگرانی کرے گا اسے یقین ہی نہیں تھا کہ اتنے سال اس کی سنگت میں رہا منشی ہیر پھیر نہیں کرے گا۔

کیدار ناتھ کے درشن کرنے کے بعد اسے بڑا لطیف احساس ہوا تھا۔ اسے لگا تھا کہ زندگی بھر کا بوجھ اتر گیا۔ اس کے اہل کنبہ بھی خوش تھے کہ پہلی مرتبہ سندرلال بنیا نے انکی خواہشات کا احترام کیا تھا۔ حالانکہ وہ تو ہرسال چار دھام کی یاترا پر جانے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ سندرلال بینے نے کھلی جیپ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کیا تھا جس میں اس کے ساتھ بیوی لکشمی بیٹا ضمیر اور بیٹیاں چنتا اور سرسوتی شامل تھے۔ تبھی اچانک موسم خراب ہونے لگا اور اس خراب موسم میں بھی انہوں نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔ جیپ دھیرے دھیرے پہاڑی راستوں پر آگے بڑھ رہی تھی اور کیدار ناتھ کے نظارے پیچھے چھوٹتے جا رہے تھے۔

اچانک تیز دھماکے نے سب کو بری طرح دہلا دیا۔ سندرلال نے سفر جاری رکھا۔ حالانکہ وہ فکر مند تھا کہ اتنا زبردست دھماکہ آخر کہاں اور کیونکر ہوا۔

سندر لال کی چھٹی حس نے خطرہ کا احساس کرایا تو اس نے گاڑی روک دی اور پیچھے مڑ کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ اسے دور پہاڑوں کے ٹوٹنے بکھرنے کا دہشت ناک منظر دکھائی دیا۔ وہ دم بخود سرپرنا چ رہی موت کو دیکھتا رہا۔ موت دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ سیلاب کا پانی تیز  دھار کے ساتھ نیچے آ رہا تھا اور اپنے راستے میں پڑنے والی کچی پکی عمارتوں کو بھی بہا لے آ رہا تھا۔

سندرلال نے خطرے کو بھانپ کر جیپ کو اسٹارٹ کرنا چاہا۔پرانے ماڈل کی جیپ آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھی۔ موت دھیرے دھیرے نیچے سرک رہی تھی سندرلال کا دماغ بھنا رہا تھا اچانک گاڑی اسٹارٹ ہو گئی اورسندرلال نے اسے ایک دوسرے راستے پر ڈال دیا۔ شاید اسے امید تھی کہ وہ موت کو دھوکہ دے سکتا ہے۔

اہل خانہ کو ابھی بھی خطرے کا زیادہ احساس نہیں ہوا تھا وہ بھجن گاتے ہنسی ٹھٹھولی کرتے چل رہے تھے۔ گاڑی اب جنگل میں داخل ہو چکی تھی پرانی گاڑی نہ تو تیز دوڑ رہی تھی اور نہ ہی اسے تیز دوڑایا جا سکتا تھا۔ گاڑی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک سندرلال نے بریک لگا دیئے۔

’’ک… کیا ہوا پتا جی۔‘‘بیٹی چِنتا کی گھبرائی آواز پرسندرلال نے چونک کر بیٹی کو دیکھا۔ ’’آگے راستہ بند ہے۔ … لگتا ہے پیڑ گرا ہے جس سے راستہ بند ہو گیا ہے۔‘‘

’’اوہ… اب کیا ہو گا۔‘‘یہ سرسوتی تھی سندرلال کی دوسری بیٹی۔

تبھی آٹھ دس بندوق دھاری بدمعاشوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔

’’چپ چاپ جو کچھ ہے ہمارے حوالے کر دو۔‘‘

’’مگر ہمارے پاس تو کچھ نہیں …ہم تو آفت کے مارے ہیں بھیا۔ ‘‘

’’چلو…چلو… ٹیم کھوٹا مت کرو… جوہے وہ نکالو ورنہ…‘‘

’’بھیا ہمارا سب کچھ تو اوپر ہی چھوٹ گیا۔ بڑی مشکل سے وہاں سے نکلے ہیں کہ جلدی گھر پہنچ جائیں … جانے دوبھیا… ہم تمہارے ہاتھ جوڑتے ہیں …‘‘ سندر لال سچ مچ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔‘‘

’’لیکن کچھ تو ہمیں چاہئے ضرور……اے تم ادھر آ جاؤ۔‘‘بدمعاش کی نظر چنتا پرپڑچکی تھی۔

’’میں …میں … نہیں۔‘‘

’’بھیاوہ میری بیٹی ہے… اس کا تم کیا کرو گے… ہمیں جانے دو بھگوان تمہارا بھلا کریں گے۔‘‘ سندرلال اب بھی ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ ایک ساتھ تمام بدمعاش ہنس پڑے۔

’’ہم اس کا  جو کریں لیکن تم اسے چھوڑ جاؤ… گاڑی اسٹارٹ کرو اور پھوٹو۔‘‘

بدمعاش نے چنتا کا ہاتھ پکڑکراسے کھینچ لیا۔

’’بابا بچاؤ… بابا مجھے چھڑاؤ…‘‘ چنتا چیخنے لگی۔ سندرلال تذبذب کا شکار ہو گیا۔

’’بھیا اسے چھوڑ دو…‘‘

’’تو تجھے رکھ لیں … ابے جاتا ہے کہ دوں ایک… ‘‘بدمعاش نے گھڑکا توسندرلال نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ اہل کنبہ کسمسا کر رہ گیا اور بدمعاشوں کے بیچ گھرکے ایک فرد کو چھوڑنے پر سبھی کے چہرے زرد ہو گئے۔

پیڑ ہٹتے ہی سندرلال نے گاڑی آگے بڑھا دی اسے خوف تھا کہ سیلاب پیچھا کرتا ہوا کبھی بھی ان تک پہنچ سکتا ہے اس لیے اس نے چنتا کی مسلسل کانوں میں پڑتی چیخوں سے دھیان ہٹانے کی کوشش کی۔

گاڑی پتھریلے راستے پر چلی جا رہی تھی۔ موسم مزید خراب ہوتا جا رہا تھا سیلاب کی زد میں آ جانے کی دہشت ،پتھروں کے کھائیوں میں گرنے کی بھیانک آواز اورانسانی چیخوں نے سندرلال کے دماغ میں تناؤ پیدا کر دیا تھا۔اچانک اسے لگا کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔

’’بابا… بابا… شیر۔‘‘ ضمیر کی ہیبت ناک آواز نے سندرلال کو چونکا دیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک شیر ان کی گاڑی کے پیچھے دوڑا چلا آ رہا تھا۔ اس جنگل میں شیر کا ملنا کوئی اہم بات نہیں تھی اہم بات تھی تو اس شیر کے تیور جو کہ بے حد خطرناک دکھائی پڑ رہے تھے لگتا تھا کہ کئی دن کا بھوکا ہے شیر بہت تیز دوڑ رہا تھا اور لگتا تھا کہ جلد جیپ تک پہنچ جائے گا۔سندرلال اوراس کے کنبے کی گھِگھّی بندھی ہوئی تھی۔ پھر بھی سندرلال بنیا کا دماغ چل رہا تھا۔ اس نے اچانک بیٹے ضمیر کو آواز دی۔

’’بیٹے لگتا ہے اب ہمارے بچھڑنے کا وقت قریب آ چکا ہے‘‘

’’ایسامت کہئے بابا… ‘‘ ضمیر ابھی بالغ نہیں ہوا تھا نئی عمر کا لڑکا بری طرح گھبرا گیا۔

’’بیٹا… شیر بھوکا ہے اور وہ اگر ہمیں پکڑ لے گا تو سبھی کو کھا جائے گا… بہتر یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک اس کی بھوک مٹا دے… تو … باقی لوگ بچ جائیں گے۔‘‘

’’لیکن بابا… میں ہی کیوں … بابا… یہ سروسوتی بھی تو ہے… ہمیشہ کمرے میں پڑی رہتی ہے… اسے کیوں نہیں … ‘‘

’’بیٹا سرسوتی نہ رہے گی تو ہماری سیواکون کرے گا۔‘‘ … بیٹا ہمیں معاف کر دو …   گاڑی سے کود جاؤ بیٹا…‘‘

’’آپ کیسے باپ ہیں ‘‘… ضمیر رو پڑا تھا۔ ’’اپنے کل دیپک کو بجھا رہے ہیں۔‘‘

بیٹا ابھی تیری ماں زندہ ہے اور میں بھی… اگر زندہ رہے توکل دیپک کئی اور آ جائیں گے‘‘

شیر اب بالکل قریب آ چکا تھا اس کی بھوکی دہاڑ سبھی کے دل دہلا دے رہی تھی۔جب ضمیر کسی طور اترنے کو راضی نہ ہوا تو مجبوراً سندرلال کے حکم پر اہل خانہ نے اسے نیچے پھینک دیا۔ ضمیر کی چیخیں پیچھے چھوٹتی جا رہی تھیں سندرلال نے جب مڑ کر دیکھا تو سخت جان سندرلال بھی دہل اٹھا اس کا بیٹا ضمیر شیر کی بھوک شانت کر رہا تھا شیر نے اسے بری طرح بھموڑ ڈالا تھا۔ سندرلال کے اندر ہلچل تھی لیکن عمر بھر بنیا گیری کرتے رہنے کی وجہ سے وہ نفع نقصان کاحساب لگانے میں ماہر ہو چکا تھا۔

گاڑی جنگل سے نکل کراب انسانی بستی کے قریب پہنچ چکی تھی۔ انسانی چیخیں پتھروں کے گرنے کی آوازیں اور شور شرابے سے گاڑی میں بیٹھے لوگوں کے کان پھٹ پڑ رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ شیر کی مصیبت سے تو جیسے تیسے بچ نکلے لیکن خطرناک ہوتا موسم اور پیچھے آ رہی تباہی سے ان کا بچ نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

بستی پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ بھیانک تباہی اوپر کے پہاڑوں میں ہو رہی ہے اور وہ لوگ بھی گاؤں خالی کر کے محفوظ علاقوں میں جا رہے ہیں کیونکہ کسی بھی وقت منداکنی ندی کی تباہ کن لہریں انہیں اپنے پنجے میں قیدکرسکتی ہیں۔ سندرلال کو جنگل میں گھسنے سے پہلے کے وہ عجیب و غریب منظر اب بھی آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔ ٹوٹتے پہاڑ بہتا پانی اور تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی عمارتوں کے نظارے اور…ضمیر کی چیخیں …اسے بھموڑنے کے شیر کے دل دہلانے والے نظارے اس کی آنکھوں کے آگے گھوم رہے تھے۔ اس نے گاڑی کو پھر سڑک پر دوڑا دیا۔

سندرلال کی نظریں سڑک پر جمی ہوئی تھیں سڑکوں کے کنارے جگہ جگہ لوگ سامان اٹھائے محفوظ علاقوں میں جانے کے لیے گاڑی تلاش کر رہے تھے۔سندرلال کی جیپ کو بھی انہوں نے روکنے کی بھرسک کوششیں کیں مگر سندرلال نے جیپ نہیں روکی اسے خوف تھا کہ انہیں لوٹا جا سکتا ہے۔ ابھی وہ اس بات کی خوشی منا بھی نہیں پایا تھا کہ گاؤں اور لوگ پیچھے چھوٹ گئے ہیں کہ تبھی ایک سادھو اچانک گاڑی کے سامنے آ گیا۔ مجبوراً سندرلال کو بریک مارنے پڑے‘‘ کہاں جاتے ہو… پتہ نہیں پہاڑوں میں تباہی ہو رہی ہے…‘‘

’’گروور ہم تو خوداس تباہی کے مارے ہیں اور جلد اپنے شہر پہنچ جانا چاہتے ہیں۔‘‘

اس نے اب تک کا ماجرا سادھو کوسناڈالا۔ سادھو کچھ متاثر سالگا لیکن تبھی اس کی نظر سندرلال کے اہل خانہ پر پڑی جن میں اب خواتین ہی باقی رہ گئیں تھیں۔

سادھو نے بتایا کہ وہ بھی پہاڑوں میں تپ کر رہا تھا تبھی آکاش وانی ہوئی کہ پہاڑ تباہ ہونے والے ہیں اس لیے یہاں سے دور نکل جا۔ میں چل پڑا اور تم… تم لوگ غلط راستے پرجا رہے ہو… مجھے ساتھ لے لو تو تمہیں صحیح راستہ بھی مل جائے گا اور میں بھی منزل پر پہنچ جاؤں گا… کیا کہتے ہو وتس۔‘‘ کہتے کہتے اس نے سرسوتی کی طرف عجیب سے انداز میں دیکھا۔ سادھو کی کیفیت اس وقت کیا تھی یہ کوئی نہیں بتا سکتا تھا لیکن محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سرسوتی پر بری طرح فدا ہو گیا ہے۔

سندرلال نے صحیح راستے کے لالچ میں سادھو کوساتھ لے لیا۔سادھو زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکا۔ اس نے براہِ راست سرسوتی سے گفتگو شروع کر دی۔ سندرلال کو سکھد آشچاریہ ہوا کہ سرسوتی جواس کی بیٹی تھی وہ کسی پنڈتائن کی طرح سادھو سے باتیں کر رہی تھی۔

’’گروجی … کیدار ناتھ کے درشن کرنے والے بھگتوں کے ساتھ بھگوان نے ایسا کیوں کیا کہ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘

’’اس کے راز وہی جانے… ویسے بھی جو آیا ہے اسے ایک دن جانا ہی ہے …‘‘

’’لیکن گرو جی… ایسی تباہی… کہ دیوتا کا مندر بھی…‘‘

’’وتس … بھگوان نے نہیں کہا ہے کہ پرکرتی سے چھیڑ چھاڑ مت کرنا ورنہ وہ تمہیں نہیں چھوڑے گی…‘‘

’’لیکن اس میں تو چند لوگ ہی شامل ہوں گے… پھرسب کے ساتھ…‘‘

’’ٹھہرو…‘‘سادھو کی آواز گونجی۔

سندرلال نے گاڑی روک دی تو سادھو نے نیچے اتر تے ہوئے کہا۔

’’یہاں سے سیدھے دس کوس جانا اور پھر وہاں دوراستے ملیں گے تمہیں دائیں راستے پر جانا  ہے… مگر یاد رکھنا تمہیں دائیں راستے پر ہی جانا ہے…‘‘

’’دھنیاواد بابا‘‘

’’لیکن ہماری دکشنا تو دیتے جاؤ وتس۔‘‘

’’بابا… ابھی معاف کرو… ہم تو وقت کے مارے اور پتھروں کی تباہی کے ستائے ہوئے ہیں دکشنا کے لیے ہمارے پاس اس وقت کچھ نہیں ہے۔‘‘ سندرلال نے سادھو کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے۔

’’سادھو سے مذاق کرتے ہووتس…تمہارے پاس تو ابھی بہت کچھ ہے۔‘‘

سادھو کی نظریں سرسوتی پرجم گئی تھیں۔‘‘ دکشنا تو تمہیں دینی ہی ہو گی وتس … اگر تم نے دکشنا نہیں دی تو تم راستہ بھول جاؤ گے… ہاں راستہ بھول جاؤ گے۔‘‘سادھو کی آواز اتنی تیز تھی کہ پہاڑی علاقہ گونج اٹھا۔سندرلال اب پس و پیش میں پڑ گیا کہ کیا کرے۔‘‘

’’بابا… میرے پاس … سرسوتی اور لکشمی کے علاوہ اب کچھ نہیں ہے…‘‘

’’ لکشمی کا ہم کیا کریں گے وتس… ہمیں تو تم سرسوتی دے دو‘‘

سندرلال بری طرح پریشان ہو گیا۔ ایک ایک کر کے اس کے گھر کے ممبران کم ہوتے جا رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا۔‘‘ ادھر منداکنی کی لہریں اونچی ہوئی جا رہی ہیں اور دکشنا دینے پرراستہ بھولنے کا خطرہ ہے… اف اب کیا کروں …‘‘ آخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔

’’بیٹی سرسوتی… تم تو خود بہت سیانی ہو… سادھو بابا نے تمہیں مانگا ہے… اب انہیں کیسے منع کروں … تم سمجھ رہی ہونا… ‘‘

’’ہاں … بابا میں سمجھ رہی ہوں … آپ چاہتے ہیں کہ میں بابا کے ساتھ چلی جاؤں۔‘‘ سرسوتی خود ہی گاڑی سے اتر گئی اور مسکراتے ہوئے سادھو بابا کے برابر جا کھڑی ہوئی اس نے پہلے سادھو بابا پر نظر ڈالی اورپھر سندر لال کی طرف دیکھا۔

’’بیٹی ہمیں معاف کرنا… الوداع۔‘‘

سرسوتی نے سادھو کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا پھر دونوں بن کی طرف جانے والی پگڈنڈی کی طرف چل پڑے۔ سندرلال نے سرسوتی کو جاتے دیکھا اور پھر گاڑی اسٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔

سندرلال سوچ رہا تھا کہ ابھی پتہ نہیں کتنا راستہ باقی ہے ایک ایک کر کے اس کے تمام جگر گوشے اس سے جدا ہو گئے اب صرف لکشمی بچی تھی اس کی بیوی۔ ہر وقت کی ساتھی۔ جسے اس نے مہارانی بنا کر رکھا تھا اس کے واسطے تمام رشتوں کو کھوٹا کیا تھا۔ اور اب وہ اس کے ساتھ اس بھیانک اور مشکل راستے پر منزل کی تلاش میں نکلا ہوا تھا۔

گاڑی چلاتے ہوئے اب اسے کچھ تھکان بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ پھر بھی وہ بڑھا چلا جا رہا تھا۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو وہ تازہ دم ہونے کے لیے کچھ دیر رک کر آرام ضرور کرتا لیکن پیچھے موت دوڑی چلی آ رہی تھی اور وہ اس سے بچنا چاہتا تھا۔

انسانی چیخوں اور گرتے پتھروں کا شور اب اسے زیادہ قریب محسوس ہو رہا تھا۔ تھکان کے ساتھ ان پر بھوک بھی حملہ آور ہو چکی تھی اور اسے شدت کے ساتھ بھوک کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ سادھو کے بتائے نشان سے ابھی دور تھا۔ گاڑی ٹوٹے پھوٹے پتھریلے راستے سے گذر رہی تھی سندرلال نے پنکچر کے ڈرسے بھوک کے باوجود ڈرائیونگ پر زیادہ توجہ مرکوز کر دی تھی۔ جس پہاڑی سٹرک سے سندرلال کی گاڑی گذر رہی تھی وہ تیکھے موڑ والی سڑک تھی اور بے حد جلدی جلدی موڑ آ جا رہے تھے۔

’’چر… چر… ‘‘سندرلال نے بڑی مہارت دکھائی ورنہ گاڑی کھڈ میں گرہی جاتی۔ جیسے ہی سندرلال نے باہر نکل کر دیکھا تواس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اگر بریک لگانے میں ذرا بھی دیر ہوئی ہوتی تو وہ گاڑی سمیت کھڈ میں گر چکا ہوتا۔ اس نے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو بری طرح چونک پڑا۔ لگتا تھا کہ موت کا اس علاقہ سے گذر ہو چکا تھا۔ یہاں تیزی سے پہاڑ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ سڑک جس پروہ دوڑے چلے آئے تھے کٹ کر ڈھ چکی تھی اور پانی کے تیز بہاؤ نے سب کچھ اپنے ساتھ لے جا کر کھائی میں دفن کر دیا تھا۔

جہاں سے یہ سڑک ٹوٹی تھی ٹھیک اس کے اوپر کی پہاڑی پر سیلابی قیامت گذر چکی تھی یہ وہ راستہ تھا جس پر جانے سے سادھو نے روکا تھا۔ من ہی من سندر لال نے سادھو کو دھنیاواد دیا۔

گاؤں سے آتی انسانی چیخوں نے سندرلال اوراس کی بیوی لکشمی کے ہوش اڑا دیئے تھے۔ سامنے سڑک کے دوسرے کنارے پر بھی بہت سے لوگ اسی کی طرح حیران پریشان کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔ آگے بڑھنے کا جب کوئی طریقہ سندرلال کو سمجھ میں نہیں آیا تواس کی ہمت جواب دے گئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اوپر گاؤں میں جا کر پہلے حالات کا جائزہ لیں گے اور ممکن ہوا تو وہاں سے مدد لینے کی کوشش کریں گے اور بھوک بھی شانت کرنی ہو گی۔

سندرلال اپنی بیوی لکشمی کوساتھ لے چڑھائی چڑھتا ہوا گاؤں پہنچ گیا۔ گاؤں کامنظرسندرلال اوراس کی بیوی کی روح تک کنپا گیا۔ چاروں طرف بربادی ہی بربادی تھی عمارتیں تاش کے پتوں کی طرح ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ دور تک کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ چاروں طرف پَسرے سناٹے سے سندرلال اوراس کی بیوی کے جسم میں کپکپی ہو رہی تھی۔ انہوں نے بہت دیر ادھر ادھر کھانے کی تلاش کی۔ چاہا کہ کچھ مل جائے لیکن ناکام رہے سب کچھ سیلاب کی نذر ہو چکا تھا۔ سندرلال سوچ نہیں پا رہا تھا کہ اب کیا کریں۔ وہ لکشمی سے بہت پیار کرتا تھا اس لیے وہ خود سے زیادہ اس کے لیے فکر مند تھا چاہتا تھا کہ کسی طرح اسے محفوظ مقام تک پہنچا دے مگر یہاں تو ہر طرف ہوٗ  کا عالم تھا۔ تبھی اسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ چونک کراسی سمت دیکھنے لگا۔

’’رام رام مہاراج…‘‘

’’تم یہاں کیسے زندہ ہو…‘‘

سندرلال نے دیکھا کہ ایک سادھو کاندھے پر بھاری پوٹلی لٹکائے تیز تیز قدموں سے چلا آ رہا ہے اس کے پاس آنے پرسندرلال نے سادھو سے کہا۔

’’مہاراج… آپ یہاں کیسے۔‘‘

’’بھیانک پرلے تھی وتس… بڑی بھیانک…اوردیکھوموسم پھر خراب ہو رہا ہے… کہیں پھر بھیانک سیلاب نہ آ جائے… چلو یہاں سے کسی سرکشت استھان پر چلتے ہیں۔‘‘ تبھی سادھو کی نظر لکشمی پر پڑی تووہ اسے للچائی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

’’مہاراج… آپ کے پاس کھانے کو کچھ مل جائے گا… ہم سب بھوک سے بے حال ہیں۔‘‘ سندرلال نے سادھو کی پوٹلی میں کھانے کے سامان ہونے کا اندازہ کر کے کہا۔

’’ہے تووتس… لیکن… وہ پھر لکشمی کو للچائی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ سندرلال سمجھ گیا کہ سادھو موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

’’مہاراج میں دام چکا دوں گا۔‘‘

’’ہے … ہے… بھئی آدمی سمجھدار ہو… یہ لودوبسکٹ کے پیکٹ ہیں …

خاص کیدار ناتھ کا پرساد … وتس … ان کے تمہیں چارسوروپئے دینے ہوں گے۔‘‘

سادھو کی نگاہیں لکشمی پرہی جمی تھیں۔

’’کیا… لیکن یہ تو پانچ روپئے والا پیکٹ…‘‘

’’وتس یہ قیمت بسکٹ کے پیکٹ کی نہیں بلکہ اس جگہ کی ہے جہاں تمہیں یہ بسکٹ بھی دینے والا کوئی اور نہیں ملے گا… پھر کیدار ناتھ جی کا پرساد بھی تو ہے۔‘‘

’’لیکن مہاراج… یہ تو بہت مہنگا ہے…‘‘

’’لے لیجئے نہ … مجھے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘ لکشمی کوسادھو کی نگاہیں اپنے اوپر گراں گزر رہی تھیں۔

’’لیکن…‘‘

’’میں بھوکی ہوں … اب اور برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘

’’ٹھیک ہے… دے دو… مگر میں صرف تین سوروپئے ہی دوں گا‘‘

’’اچھا وتس… یہ لے… بھگوان تیرا بھلا کرے۔‘‘

سادھو روپئے لے کر آگے بڑھا توسندر لال نے اس کا راستہ روک لیا۔

’’بھگون … اب تو آپ کا ہی سہارا ہے… ہمیں کسی بھی طرح یہاں سے نکالئے۔‘‘

تبھی آسمان میں گڑ گڑاہٹ سنائی دی۔ ہیلی کاپٹر ٹھیک انکے سرپر سے ہو کر گذر گیا لیکن وہ اشارہ تک نہ کرسکے۔ چونکہ یہ لوگ ایک کھنڈر میں کھڑے تھے توشاید راحت کے کام میں لگے اس ہیلی کاپٹر کی نگاہ میں نہیں آسکے۔سادھو نے سندر لال سے کہا‘‘ لگتا ہے… بھگوان نے ہمارے اوپر کرپا کی ہے اور راحت پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر بھیج دیا ہے۔‘‘

وہ بہت دیر انتظار کرتے رہے لیکن ہیلی کاپٹر واپس نہیں آیا۔ اب شام ہونے لگی تھی اورسردی کی شدت میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔ ان کے پاس نہ کوئی رضائی وغیرہ تھی اور نہ ہی زیادہ اونی کپڑے۔ انہوں نے رات کے مسائل کو سوچ کر گرم کپڑے ڈھونڈنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ سندرلال کو جہاں لکشمی کی چنتا تھی تو وہیں سادھو کی نگاہیں لکشمی پرہی گڑی ہوئی تھیں۔ بظاہر وہ آنکھیں موندیں بیٹھا تھا لیکن دراصل اس کی نگاہوں کا مرکز لکشمی ہی بنی ہوئی تھی۔ سندرلال کو بھی سادھو سے خوف لگنے لگا تھا لیکن وہ اس کاساتھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کہ اس کے بغیر وہ یہاں سے باہر نکلنے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سندر لال کو اچانک ایک گھر کے کھنڈر دکھے جس میں گھستے ہی اس کی گھگھی بندھ گئی۔ایک نوجوان لڑکی اور اس کے شوہر کی لاش پڑی ہوئی تھی اور کچھ دور ہی ایک ننھی سی بچی کی لاش پڑی تھی۔ مکان کی چھت ان پر گری تھی اور یہ ملبے میں دبے ہوئے تھے۔

اچانک سندرلال کی نظر نوجوان لڑکی کے ہاتھ اور گلے پر گئی تووہ حیران رہ گیا۔  گلے میں قیمتی نیکلس اور ہاتھوں میں خوبصورت اور قیمتی کنگن دکھائی دئیے۔ سندرلال کی نیت ان پر ڈول گئی اور اس نے لڑکی کی گردن سے نیکلیس نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تبھی لڑکی نے آنکھیں کھول دیں۔

’’ہم… ہمیں بچاؤ…بچاؤ… ہمیں بچاؤ۔‘‘

’’سندرلال لڑکی کو زندہ دیکھ خوفزدہ ہو گیا۔ لڑکی لینٹر کے نیچے بری طرح دبی ہوئی تھی سندرلال نے سوچا کہ مدد کرے لیکن تبھی اسے دور کہیں سے گڑگڑاہٹ سنائی دی تو وہ چوکنا ہو گیا۔ وہ واپس ہونا چاہتا تھا۔

’’مجھے بچاؤ… میرا دم… نکلا جا رہا ہے… بچاؤ۔‘‘

سندرلال کشمکش کا شکار ہو گیا۔ وہ کیا کرے۔ تبھی اس کی نگاہ پھر لڑکی کے گلے اور ہاتھوں پر پڑی تواس کے دماغ نے خوفناک فیصلہ کر لیا۔ وہ لڑکی کی طرف بڑھا۔ لڑکی اس امید میں جذباتی ہو گئی کہ اسے اب زندگی مل سکتی ہے۔ وہ سندرلال کے قدم گنتی رہی۔ سندرلال جیسے ہی لڑکی کے پاس پہنچا لڑکی کی بے ساختہ چیخ نکل گئی۔

’’… نہیں … مجھے ملبے سے نکالو… یہ کیا کر رہے ہو…‘‘

سندرلال لڑکی کے گلے اور ہاتھوں سے گہنے اتارنے لگا۔ اس پر لڑکی کے چیخنے کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ ویسے بھی یہاں اس کی آوازیں سن کون رہا تھا۔

سندرلال نے گہنے ہاتھ میں لے کر اس کی قیمت کا دل ہی دل اندازہ کیا اور بے اختیار مسکرا اٹھا۔ تبھی اسے ہیلی کاپٹر کی گڑگڑاہٹ پھرسنائی دی تووہ لکشمی کا ہاتھ پکڑ کر لڑکی کی چیخوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آواز کی سمت میں دوڑنے لگا۔دھیرے دھیرے لڑکی کی چیخیں دم توڑنے لگیں۔ وہ دوڑتے دوڑتے ایک کھلے میدان میں آ گئے جہاں پہلے سے ہی سادھو ہیلی کاپٹر کو اترنے کا اشارہ دے چکا تھا اور ہیلی کاپٹر دھیرے دھیرے میدان کی طرف اترنے لگا تھا۔

’’ہمارے پاس صرف دوسیٹیں ہیں فی الحال دو لوگ آ جائیں … باقی اگلے راؤنڈ میں ہم آ کر لے جائیں گے۔‘‘

’’مگر تب تک توہم مر کھپ جائیں گے۔‘‘ سندرلال چنتا میں پڑ گیا کہ کیا کرے۔

’’وتس تم پہلے تو ہمیں اوپر چڑھا لو… ہم بہت تھک گئے ہیں اور بیمار بھی ہیں۔‘‘

’’اوکے… آ جاؤ۔‘‘ ہیلی کاپٹر کے فوجی پائلٹ نے آواز دی۔

’’ارے نہیں اب کیا ہو گا… اب تو صرف ایک سیٹ …‘‘ سندرلال کا دماغ ماؤف ہو گیا۔

’’کم آن جلدی کرو… ہمیں دوبارہ بھی آنا ہے… اندھیرا بھی ہونے کو ہے… کم آن…فوجی چیخنے لگا توسندرلال نے مرے دل سے لکشمی کو ہیلی کاپٹر میں چڑھنے کا اشارہ کر دیا۔ حالانکہ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ اب بھی کشمکش کا شکار ہے۔

’’ارے سادھو بابا یہ اتنا بھاری جھولا کہاں لے جا رہے ہو… کیا ہے اس میں۔‘‘

فوجی نے تو مذاق میں کہا تھا مگرسادھو مہاراج اچانک بگڑ پڑے۔ تب فوجی کوشک ہوا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ اس نے جھولا چیک کرنے کی بات کہی توسادھو بابا گھبرا گئے فوجی کا شک اور گہرا ہو گیا اس نے جھولا کھول دیا۔

’’اوہ… نو… اتنا بڑا خزانہ … کہاں سے لائے ہوتم۔‘‘ فوجی کی آنکھیں سونے چاندی اور ہیرے کے زیورات دیکھ کر حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ سادھوبابا کی آواز حلق میں ہی اٹک گئی تھی۔

تبھی لکشمی ہیلی کاپٹر میں چڑھ گئی اور سیٹ پر بیٹھی ہی تھی کہ سندرلال چیخ اٹھا۔

’’روکو… لکشمی… روکو… میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا… میں بھی آ رہا ہوں …‘‘

سندرلال کی آوازیں پائلٹ نے ان سنی کر دیں اور ہیلی کاپٹر کو اوپر اٹھانے لگا۔ سندرلال ہیلی کاپٹر کی طرف دوڑنے لگا۔

’’ہیلی کاپٹر روکو… میری لکشمی کو میرے پاس چھوڑ دو… روکو… لکشمی…‘‘

سندرلال دوڑتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے قریب آنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہیلی کاپٹر اوپر اٹھ چکا تھا… سندرلال دوڑتا رہا اور چیختا رہا۔

’’لکشمی … روکو… تمہارے بغیر میں کیا کروں گا… روکو… ‘‘

ہیلی کاپٹر کو اوپر اٹھتا دیکھ سندر لال نے اسے پکڑنے کے لیے چھلانگ لگا دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

راجہ کا محل

 

کہرے کی چادر میں لپٹا یہ ایک اور نیا سویرا تھا۔ بھارت پور ضلع کا بہت بڑا اور تاریخی شہر۔ جس کے شاہراہ پر سیکڑوں لوگ دور کسی کے انتظار میں نظریں گڑائے  تھے۔

’’وہ دیکھو…وہ دیکھو…‘‘ اچانک بھیڑ میں ہلچل پیدا ہوئی۔’’وہ آ گئے …‘‘ بھیڑ میں سے کچھ آوازیں نمودار ہوئیں۔ کچھ میں تجسس تھا۔کچھ میں خوف اور کچھ میں جانے کیوں مسکراہٹ کی آمیز ش تھی۔

سب نے دیکھا اور وہ بس دیکھتے ہی رہ گئے۔

یہ بہت سے فیل سواروں کا غول تھا جو کہ دھیرے دھیرے بھیڑ کے قریب آتا جا رہا تھا۔

’’وہ آ گئے …وہ آ گ ئے…وہ آ  گئے‘‘ اچانک بھیڑ میں سے کچھ کمزور دل لوگ گھروں کی طرف دوڑ گئے۔تو کچھ فیل سواروں کی آگوانی کرنے لگے۔

فیل سواروں کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے اور کچھ کھدائی کاسامان بھی۔ وہ چنگھاڑتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے تو جیسے زمین کانپ اٹھی۔ فلک شگاف چنگھاڑ نے ماحول پر خوف طاری کر دیا تھا۔ فیل سواروں نے مست چال کے ساتھ چلتے ہوئے سرجو ندی کے کنارے ڈیرا جما لیا۔شہر بھر میں فیل سواروں کی آمد کی ہی چرچا تھی۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ وہ کیوں آئے ہیں لیکن انھیں اس بات میں دلچسپی تھی کہ وہ کیا کرنے آئے ہیں ؟فیل سوار جب بازار سے گزر رہے تھے تو کچھ کمزور دل لوگو ں کو فیلوں کے پاؤ ں کی دھمک ہتھوڑوں کی چوٹ کی مانندمحسوس ہو رہی تھی لیکن شہر کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو کہ اسی دھمک کو ڈھولک کی تھاپ کی طرح محسو س کر رہا تھا۔

شہر کی ایک مشہور بیٹھک میں بزرگوں کی ٹولی بھی فیل سواروں کی آمد پر گفتگو کر رہی تھی۔ بزرگوں کی ٹولی کا سردار ’’کبیر ‘‘ بے حد متفکر نظر آرہا تھا۔ ’’آخر یہ لوگ یہاں کیا کرنے والے ہیں۔‘‘ کبیر نے جھنجلائے لہجے میں کہا۔

’’وہ اپنے راجہ کا نیا محل تعمیر کریں گے‘‘ ایک بزرگ نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا۔

’’لیکن جس راجہ کی بادشاہت سارے جہاں پر ہو اسے یہیں اپنا محل بنانے کی ضد کیوں ہے ‘‘۔کبیر نے کہا تو کئی بزرگوں کے چہرے پر ناگواری کے سائے پھیل گئے۔

’’ارے بھیاجہاں تم پیدا ہوئے تھے وہیں تمھارا گھر ہے نہ ‘‘ایک دیگر بزرگ نے بڑے پتے کی بات کہی تھی۔

’’ یہ فیل سوار تو شہر بھر میں دہشت پھیلا رہے ہیں۔جو ان کے خلاف کچھ بولتا ہے اسے یہ جبراً خاموش کرا دیتے ہیں۔ اس طرح تو راجہ کا محل تعمیر ہو یا نہ ہو لیکن شہر میں بدامنی ضرور پھیل جائے گی۔ اور اس کا خمیازہ ہم سب بھگتیں گے۔ ‘‘کبیر کی بات سے کئی بزرگ متفق تھے۔

کبیر تقریباً ۶۰سال کا ایسا مرد تھا جس کے بازوؤں نے کبھی شیر کی گردن مروڑی تھی اور اب بھی خاصے مضبوط جسم کامالک تھا۔لمبے قد چہرے پر داڑھی چھوٹی اور اندر کو دھنسی آنکھیں۔ گول چہرے والے کبیر کی زندگی شان سے گزری تھی۔کسرتی جسم اس کا شوق رہا تھا۔ وہ بلا کا ذہین بھی تھا اور اس عمر میں بھی اس کی ذہانت قابل دید تھی۔ لوگ بیٹھک میں اس سے مشورے طلب کرتے تھے۔ اب بھی لوگ اس سے مشورہ طلب کر رہے تھے۔

’’فیل سوار بہت طاقت ور ہیں ہم کریں بھی تو کیا؟‘‘

’’فیل سواروں کے بابت میں نے شہر انتظامیہ سے بھی بات کی تھی۔‘‘کبیر نے اطلاع دی۔‘‘لیکن شہر انتطامیہ نے کوئی بات سنی تک نہیں۔ ایسالگتا ہے کہ وہ تو خود فیل سواروں کو تعاون کر رہے ہیں۔‘‘کبیر بے حد غصے میں تھا۔بنا کسی نتیجے پر پہنچے بیٹھک برخاست ہو گئی تھی۔

فیل سواروں نے گلی اور محلوں میں اپنی آمدو رفت تیز کر دی تھی۔ وہ لوگوں کے پاس جا کر انھیں اپنے راجہ کے محل کی تعمیر میں تعاون کے لیے اکسا رہے تھے۔وقت مقررہ پر سرجو کے کنارے جمع ہونے کی تاکید کر رہے تھے۔ وہ اپنے راجہ کے بلوان ہونے کابھی پورا یقین دلا رہے تھے۔ ان کے منصوبے تو خفیہ تھے ہی ان کی حکمت عملی کو لے کر شہریوں میں بڑی تشویش تھی۔

فیل سواروں کے غول کے غول تاریخی شہر کی فضا کو خوف زدہ کرنے کے لیے روز ہی وارد ہو رہے تھے۔ روز بہ روز فیل سواروں کی چنگھاڑ میں تیزی آتی جا رہی تھی۔ شہریوں پر محل کی تعمیر میں تعاون کرنے کی اپیلیں اب احکام میں بدلنے لگی تھیں۔وقت مقررہ اب بہت قریب تھا۔ شہر میں فیل سوارو ں کا آتنک چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انھوں نے شہر کی تمام طاقت اور طاقتور اشیا کو سحر زدہ کر دیا ہے۔ کوئی بھی ان کے خلاف کچھ بولنے کو تیار نہ تھا۔

لیکن شہر بھر میں ایک شخص تھا جو کہ مسلسل فیل سواروں کے ذریعہ پھیل رہی بد امنی پر فکرمند تھا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کا پیارا شہر مصیبتوں میں گھرتا جا رہا ہے۔ اس کی نظروں کے سامنے دو مختلف نظارے گھوم رہے تھے ایک میں وہ فیل سواروں کو چنگھاڑتے اور مغرور انداز میں زمین پھاڑتے دیکھ رہا تھا تو دوسری طرف ان کمزور لوگوں کا گروہ تھا جو کہ فیل سواروں کے خلاف غم و غصہ تو دکھا رہا تھا لیکن اندر سے خود کو بے آسرا سمجھ رہا تھا۔ کبیر کومحسوس ہوا کہ اگر یہی حال رہا تو چنگاری سلگ کر شہر کو تباہ کر ڈالے گی۔  لیکن وہ کرے تو کیا کرے۔

کبیر نے راجہ کے حضور درخواست گزاری کہ اب وہ ہی کچھ کر سکتا تھا۔ لیکن اسے سکون نہ ملا۔تب اس نے اپنی بزرگ ٹولی کے ساتھ وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ انھوں نے کبیر کی بات سے اتفاق جتاتے ہوئے شہر کو فوج کے حوالے کر دیا۔ شہر پر فوج کی تعیناتی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے کمانڈر کو احکام دیئے تھے کہ وہ پرانے راجہ کے محل کا تحفظ کرنے کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ فیل سواروں کی غلط حرکات کو روکنا ہے مگر تب جب کہ تمھیں یقین ہو جائے کہ محل کے تحفظ کے لیے ا ب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔ شرط سے بندھا فوج کا کمانڈر تاریخی شہر کا گھیرا ڈال کر بیٹھ گیا اور کبیر مطمئن ہو کر اپنی بیٹھک میں بیٹھ کر حقہ گڑگڑانے لگا۔

وقت مقررہ پر دریائے سرجو کے کنارے تمام فیل سواروں کا جم گھٹ لگا تھا۔ پتہ نہیں یہ فیل سواروں کے آتنک کا خوف تھا یا پھر بلوان راجہ سے عقیدت کہ بڑی تعداد میں شہری بھی محل تعمیر کی تقریب میں پہنچ گئے تھے۔ شہر انتظامیہ آج بڑی حرکت میں نظر آ رہا تھا۔ کوئی جگہ نہ تھی جہاں پولس کے سپاہی موجود نہ تھے۔ خبرنویسوں کی بھی بڑی فوج جٹی تھی۔ کبیر بھی اپنی بزرگوں کی ٹولی کے ساتھ موجود تھا۔

فیل سواروں کے سرداروں نے اتنا بڑا مجمع دیکھا تو ان کا جوش دوگنا ہو گیا۔ انھوں نے اپنی چنگھاڑ کی فریکوئنسی (Frequency)اتنی زیادہ کر دی کہ آسمان میں شگاف پڑنے کا خطرہ لاحق ہونے لگا۔

فیل سواروں کے ایک سردار نے اپنے بلوان راجہ کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے۔جذباتی انداز میں اس نے یہ بھی اشارہ دیا کہ آج کل ان کا راجہ بہت رنجیدہ ہے کیونکہ اس کے محل کی جگہ دوسرے راجہ نے اپنا محل بنوا دیا ہے۔ ہمیں واپس راجہ کا محل وہیں تعمیر کرنا ہے تاکہ ہمارا بلوان راجہ خوش ہو جائے اور ہمارے گناہ کبیرہ بخش دے۔

فیل سواروں نے دیکھا کہ شہریوں میں بھی جوش آنے لگا ہے۔ انھوں نے فلک شگاف نعرہ لگایا۔ ’’ہمیں آدیش کرو…راجہ کا محل کہاں بنانا ہے۔ ‘‘

لوہا گرم دیکھ فیل سواروں کے سردار نے آخری چوٹ کر دی۔

’’وہاں …‘‘ انگلی کے اشارے سے اس نے سامنے بنے قدیمی محل کی طرف اشارہ کیا۔‘‘محل وہیں بنانا ہے غلامی کی نشانی کو مٹانا ہے۔ ‘‘

فیل سوارو ں کے ساتھ پورے مجمعے کی نگاہیں قدیمی محل کی طرف اٹھ گئیں۔

’’ارے…یہ تو دوسرے راجہ کا قدیمی محل ہے۔یہ گرے گا تو شہر میں آگ لگ جائے گی۔‘‘

کبیرنے چلا کر کہا لیکن بھیڑ کے جوشیلے نعروں میں اس کی آواز دب کر رہی گئی۔ اس نے قدرے تیز آواز میں کہا’’سردار ہم تمھیں اس سے بھی اچھی جگہ دے سکتے ہیں جہاں پر راجہ کا عالی شان محل بن سکے اور وہ زیادہ حسین لگے گا۔‘‘

فیل سواروں کے سردار نے قدرے خفگی سے کہا ’’نہیں ہمارے بلوان راجہ کو تبھی اصلی خوشی ملے گی جب کہ غلامی کی یہ نشانی مٹے گی اور اس کی جگہ بلوان راجہ کا عالی شان محل تعمیر ہو گا۔‘‘

’’لیکن اس جگہ ہی کیوں …یہ محل گرا تو دوسرا راجہ ہم سے خفا ہو جائے گا۔‘‘ کبیر نے دریافت کیا تو بھیڑ میں کھسر پھسر ہونے لگی۔

’’اس لیے کہ ہمارا بلوان راجہ اسی جگہ پیدا ہوا تھا۔ کیا تم اپنی جائے پیدائش کو کسی کو دے سکتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے ابھی غلامی کی نشانی کو مٹانے اور بے مثال محل کی تعمیر کرنے کا آغاز کرنا ہے۔‘‘سردار نے پر جوش انداز میں مزید کہا’’ اور تم دوسرے راجہ سے بالکل خوف مت کھاؤ کیونکہ ہمارا راجہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ‘‘

’’پھر تمہارا بلوان راجہ خود ہی نیا محل کیوں نہیں تعمیر کر لیتا۔ ہم غریبوں کو کیوں ناحق اس امتحان میں مبتلا کر رہا ہے۔ ‘‘کبیر کی بات خود اس کے ساتھیوں کو بھی پسند نہیں آئی تھی۔

’’خاموش گستاخ…راجہ کی خوشی کا خیال رکھنا پرجا کا اہم فریضہ ہے اور تم تو خود پر جتنا رشک کرو کم ہے کہ اس عظیم کار خیر کے لیے تمہارا انتخاب کیا گیا ہے۔‘‘

کبیر کومحسوس ہوا کہ اب اس کی باتوں سے بھلا کیا ہونے والا ہے۔ فیل سواروں نے سردار کی طرف دیکھا تو اس نے محتاط اشارہ دے کر آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔ تمام فیل سواروں نے اپنے کھدائی کے اوزار نکالے اور قدیمی محل کی طرف دوڑ پڑے۔ کبیر اور اس کی بزرگ ٹولی کو احسا س ہو گیا کہ اب راجہ کا قدیمی محل نیست و نابود ہو کر رہے گا۔ وہ انتہائی بے چارگی کی حالت میں کھڑا تھا اچانک اس نے دیکھا کہ    خبر نویسوں کو کئی فیل سواروں نے اپنے نرغے میں لے لیا ہے اور و ہ اپنی چنگھاڑ سے انھیں ڈرانے دھمکانے میں لگے ہیں۔ اس نے انتظامیہ کو تلاش کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پوری انتظامیہ خواب خرگوش میں بدمست تھی اور وہ پورے معاملے سے انجان بنی ہوئی تھی۔

کبیر نے مایوسی کے ساتھ قدیمی محل کی طرف دیکھا۔فیل سواروں نے راجہ کے قدیم محل کومسمار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا ایک ستون منہدم ہو چکا تھا اور دوسرا عنقریب زمیں بوس ہونے والا تھا۔ اس کی نگاہ نے ایسا منظر بھی دیکھا کہ پولس کے لوگ فیل سواروں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ بہت سے شہری  بھی فیل سواروں کے تعاون کے لیے پہنچ گئے تھے۔ اچانک کبیر کو وزیر اعظم کے ذریعہ بھیجی گئی فوج کی یاد آئی۔ ’’ارے وہ کمانڈر کہاں ہے ‘‘کبیر نے پوچھا تو پتہ لگا کہ ایک نوجوان شہری نے پوری فوج کو شہر کے باہر تعینات دیکھا تھا اور وہ اب بھی وہیں ہے۔

کبیر تقریباً دوڑتے ہوئے فوج کے کمانڈر کے پاس پہنچا۔ اسے حالات سے آگاہ کیا تو کمانڈر فوراً حرکت میں آ گیا اور اس نے قدیمی محل اور جلسہ گاہ کا محاصرہ کر لیا۔ بزرگ ٹولی کے دم میں دم آیا کہ اب شاید حالات قابو میں آ جائیں۔ لیکن یہ کیا، فوج تو کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی۔ فیل سوار چاروں طرف دوڑ رہے تھے اور اپنے ہاتھ میں موجود کدال ،پھاوڑے اور ہتھوڑوں سے قدیمی محل کی دیواریں توڑنے میں لگے تھے۔

کبیر کمانڈر سے چلا کر بولا’’ کمانڈر کیا تم بھی فیل سواروں سے ملے ہوئے ہو۔روکتے کیوں نہیں انھیں۔‘‘

’’نہیں ہم ابھی کچھ نہیں کرسکتے ‘‘۔کمانڈر نے آسما ن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا جہاں چیل اور کوؤں کی اڑان کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آیا۔

’’کمانڈر …’’کبیر  گرجا‘‘ راجہ کا قدیمی محل منہدم ہونے والا ہے۔اگر یہ ہوا نہ رکی تو عذاب نازل ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔آخر تمہیں کس کا انتظار ہے۔‘‘

’’ہمیں ابابیلوں کے لشکر کا انتظار ہے ‘‘کمانڈر نے اطمینان سے کہا۔

’’کیا‘‘ کبیر کی آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑی تھیں۔

’’ہاں …ہم ابابیلوں کے لشکر کا انتظار کریں گے۔ ‘‘تمہیں پتہ نہیں ہے۔

ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم تبھی حرکت میں آئیں جب کہ ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنیوالا۔‘‘

’’لیکن یہ بیسویں صدی ہے کمانڈر…اب ابابیلوں کے لشکر کہاں سے آئیں گے ‘‘۔کبیر بے بسی کے ساتھ کبھی کمانڈر سے مخاطب ہوتا تو کبھی گرد و پیش کا جائزہ لینے لگتا تھا۔ اور اس کے دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا ستون بھی منہدم ہو گیا تھا۔ فیل سواروں کے سردار نے جشن منایا تھا اور وہ ٹھہاکے پر ٹھہاکے لگاتا جار ہا تھا۔ کبیر کا صبر اب جوا ب دیتا جا رہا تھا۔اس نے پھر کمانڈر سے کہا۔

’’کمانڈر اب تو حرکت میں آ جائیے۔ آپ تو خود طاقت ور ہیں آپ کو بھلا ابابیلوں کے لشکر کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

’’ارے کیا تم نہیں جانتے کہ ماضی میں جب ایک عظیم محل پر فیل سواروں نے حملہ کیا تھا تو ابابیلوں کے لشکر نے ہی اس کا تحفظ کیا تھا۔‘‘فوج کے کمانڈر نے نہایت فلسفیانہ انداز میں کبیر سے کہا‘‘ مجھے یقین ہے دوست کہ آج بھی ابابیلوں کا لشکر ضرور آئے گا۔‘‘

کبیر التجا کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح کمانڈر کو سمجھائے کہ جب ابابیلوں کے لشکر آئے تھے تب عظیم مرتبہ متقی اور پرہیزگارہستیاں موجود تھیں لیکن آج جب کہ انسان بھی انسان کہلانے کا حقدار نہیں تو غیبی مدد کیوں کر ملے گی۔

’’پریشان نہ ہو بزرگوار۔‘‘ کمانڈر نے جیسے اس کے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔

’’جب ماضی میں لشکر آیا تھا تو اب بھی ضرور آئے گا۔ہمیں اس کا انتظار کرنا ہے۔‘‘

کمانڈر نے ایک اچٹتی سی نگاہ قدیم محل منہدم کرتے فیل سواروں پر ڈالی اور پھر آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔

کمانڈ ر کے دو ٹوک انداز نے کبیر کو بے حد مایوس کر دیا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ سب کوئی بڑی سازش ہے۔دو راجاؤں کے محل کی آپسی رنجش برسوں کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کر رہی ہے اور ساتھ میں انسانیت کو بھی۔

’’لیکن اس سازش کو ناکام کیسے کریں۔ ‘‘اس نے سوچا

کبیر کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برس رہے تھے اسے محسوس ہوا کہ جیسے شہر کی طرف سے آگ کا گولا اٹھ کر آسمان کی طرف جا رہا ہے۔

’’اوہ…لگتا ہے عذاب نازل ہو چکا ہے۔‘‘کبیر نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں اب دھوئیں اور آگ کے گولے کے سوا کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اسے فیل سواروں کے تیزی کے ساتھ چنگھاڑنے کی آوازیں سنائی پڑیں۔ محل کاتیسرا اور آخری ستون بھی ختم ہو چکا تھا۔

’’راجہ کا قدیمی محل منہدم ہو گیا۔ عذاب بھی نازل ہو چکا …اور …اب وہی ہو گا جس کا خدشہ تھا۔‘‘کبیر بڑ بڑایا۔

اچانک اس نے کمانڈر کو آواز دی۔’’کمانڈر تم کب تک ابابیلوں کے لشکر کا انتظار کرو گے۔دیکھو سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔‘‘کبیر نے قدیمی محل کی جگہ مٹی اور اینٹوں کے ڈھیر کو دیکھا اور گھٹنوں کے درمیان منھ چھپا کر پھپھک پڑا۔

’’ہاں …شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے لشکر کا انتظار کیا کیوں کہ یہ مرے لیے حکم تھا لیکن اب میں فیل سواروں کو روکتا ہوں۔‘‘اور اب کمانڈر اور اس کی فوج اینٹ مٹی کے ڈھیر پر لال تنبو بناتے فیل سواروں کی طرح کوچ کر گئی۔

کبیر نے منھ اوپر اٹھایا۔ فیل سواروں کے سردار رقص کر رہے تھے ان کے پیروں کی دھمک فیل سواروں کو ڈھولک کی تھاپ کا لطف دے رہی تھی۔وہ ناچ کود کے درمیان اپنے بلوان راجہ کا گڑ گان بھی کر رہے تھے۔کبیر بھرے من سے اٹھا اور اپنی بزرگ ٹولی کے ساتھ شہر کی طرف چل دیا۔

بوجھل قدموں سے شہر کی طرف لوٹتے کبیر نے دیکھا کہ سارا شہر جل رہا ہے۔ سڑکوں پر جلی کٹی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ شہری آپس میں دست و گریباں ہیں۔ کشت و خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔

بزرگ ٹولی کے لوگوں نے شہریو ں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ دو راجاؤں کے محل کی رنجش میں وہ کیوں کشت و خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ آپس میں کیوں دست و گریباں ہیں۔بزرگوں کی ٹولی یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر یہ لوگ کیوں ایسا کر رہے ہیں۔

کبیر جانتا تھا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں وہ جانتا تھا کہ یہ دونوں راجاؤں کے ایسے عقیدت مند ہیں جو کہ اپنے اپنے راجہ سے لاشوں کی گنتی بتا کر اس کی قربت اور خوشنودی کا مطالبہ کرنے والے ہیں لیکن کبیر کو یہ بھی پتہ تھا کہ یہ ان کی ناکام کوشش ہے۔ کیونکہ نرم دل راجہ نازک بدن سے بہتا خون نہیں دیکھ سکتے۔

٭٭٭

 

 

 

افسانچہ

 

مجھے معاف کرو گے؟

 

’’میں …میں …جانتا ہوں کہ تمھیں …تمھیں بتا دیا …‘‘

’’کیا…؟‘‘

’’یہی …کہ…میں او ررجنی …‘‘

’’رجنی…؟‘‘

’’ہاں …مطلب …ہمارے درمیان …کچھ ہے …وغیرہ …مگر‘‘

’’مگر…‘‘

’’سچ یہ نہیں ہے …وہ…وہ صرف دوستی تھی ‘‘

’’…‘‘

’’ہاں …اور  غلط فہمی کی وجہ سے …تم مجھ سے ناراض ہو نہ ‘‘

راج نے سدھا کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔

’’پھر بھی …میں تم سے معافی چاہتا ہوں …کیا…کیا تم مجھے معاف کرو گی۔‘‘

راج تقریباً رو پڑا تھا۔سدھا ایک ٹک راج کو دیکھے جا رہی تھی۔

’’بولو …سدھا …کیا تم مجھے …‘‘

’’مجھے کسی نے کچھ نہیں بتایا…‘‘

’’کیا …لیکن…پھر تم اتنی پریشان سی کیوں ہو۔‘‘

وہ اب قدر سنبھل گیا تھا۔

’’میں …میں …میں آپ سے کچھ کہنا …‘‘

’’کیا کہنا چاہتی ہو …بولو…‘‘

وہ کچھ حیران ہوا اس نے آگے بڑھ کر سدھا کے ہاتھ پکڑ لیے اور بیقرار ی کے ساتھ گویا ہوا۔

’’بتاؤ …سدھا…میں سن رہا ہوں ‘‘

’’کیا…کیا تم مجھے معاف کر دو گے‘‘

سدھا کا گلا رندھ گیا تھا۔اس کے ہونٹ ہلنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔

’’کیوں …تم نے کیا گناہ …کیا ہے ؟‘‘

اس کی پکڑ سدھا کے ہاتھوں پر ڈھیلی ہو گئی۔

’’میں …میں …بہت دنوں سے چاہتی تھی کہ آپ کو …بتا دوں۔‘‘

’’ہاں …ہاں …بولو…کیا بات ہے۔‘‘

’’میں …میں …نے کرشن سے پیار …لیکن …لیکن میں نے اس کی ناپاک حرکت کی وجہ سے کبھی کا …اس سے رشتہ توڑ لیا ہے۔‘‘

’’اوہ…‘‘اس کے ہاتھ سے سدھا کے ہاتھ کب پھسل گئے اسے پتہ بھی نہ چلا۔

’’تم …تم …مجھے معاف کر دو گے نا۔‘‘

سدھا کی نظریں راج کے چہرے پر جمی تھیں۔راج کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتا جا رہا تھ۔جیسے وہ اندر ہی اندر کسی لاوے کو نگلنے کی کوشش کر رہا ہو۔

’’تم …مجھے …‘‘اس نے پھر ہمت کی۔

’’جہنم میں جاؤ تم ‘‘۔راج بم کی طرح پھٹ پڑا تھا۔

اس نے ہاتھ میں اٹھایا بیٹ اتنی زور سے ٹی۔وی پر مارا کہ اس کے پرخچے اُڑ گئے اور اس کے دھماکے کی گونج سے سدھا کے کان پھٹ پڑنے کو تھے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل عطا کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید