شہر دو قصہ
(A Tale of Two Cities) کی الٹ۔ یعنی قصہ دو کہانیوں والے شہر کا
آبِ گم ۔۔۔ حصہ چہارم
مشتاق احمد یوسفی
ڈاؤن لوڈ کریں
آبِ گم ۔۔۔ حصہ چہارم
حصہ اول: حویلی (بشمول ’غنودیم غنودیم)
حصہ دوم، سکول ماسٹر کا خواب
حصہ سوم: کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ
حصہ چہارم: شہرِ دو قصہ
حصہ پنجم: دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ
کھنڈر میں چراغاں
کم و بیش پینتالیس برس کا ساتھ تھا۔ نصف صدی ہی کہیے۔ بیوی کے انتقال کے بعد بشارت بہت دن کھوئے کھوئے سے، گُم صُم رہے۔ جیسے انہوں نے کچھ گم نہ کیا ہو، خود گم ہو گئے ہوں۔ جوان بیٹوں نے میت لحد میں اتاری، اس وقت بھی وہ صبر و ضبط کی تصویر بنے، تازہ کھدی ہوئی مٹی کے ڈھیر پر خاموش کھڑے دیکھا کیئے۔ ابھی ان کے بٹوے میں مرحومہ کے ہاتھ کی رکھی ہوئے الائچیاں باقی تھیں۔ اور ڈیپ فریزر میں اس کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کی تہیں لگی تھیں۔ کروشیے کی جو ٹوپی وہ اس وقت پہنے ہوئے تھے وہ اس جنتی بی بی نے چاند رات کو دو بجے مکمل کی تھی تا کہ وہ صبح اسے پہن کر عید کی نماز پڑھ سکیں۔ سب مٹھی بھر بھر کے مٹی ڈال چکے اور قبر گلاب کے پھولوں سے ڈھک گئی تو انہوں نے مرحومہ کے ہاتھ کے لگائے ہوئے موتیا کی چند کلیاں جن کے کھلنے میں ابھی ایک پہر باقی تھا، کُرتے کی جیب سے نکال کر انگارہ پھولوں پر بکھیر دیں۔ پھر خالی خالی نظروں سے اپنا مٹی میں سنا ہوا ہاتھ دیکھنے لگے۔ اچانک ایک ایسا سانحہ ہو جائے تو کچھ عرصے تک تو یقین ہی نہیں آتا کہ زندگی بھر کا ساتھی یوں آناً فاناً بچھڑ سکتا ہے۔ نہیں۔ اگر وہ سب کچھ خواب تھا تو پھر یہ بھی خواب ہی ہو گا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ابھی یہیں کسی دروازے سے مسکراتی ہوئی آ نکلے گی۔ رات کے سناٹے میں کبھی کبھی تو قدموں کی مانوس آہٹ اور چوڑیوں کی کھنک تک صاف سنائی دیتی۔ اور وہ چونک پڑتے کہ کہیں آنکھ تو نہیں جھپک گئی تھی۔ کسی نے ان کی آنکھیں نم نہیں دیکھیں۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے ان کے صبر و استقامت کی داد دی۔ پھر اچانک ایک واشگاف لمحہ آیا کہ یکلخت یقین آ گیا۔ پھر سارے پندار پشتے اور سارے آنسو بند اور تمام صبر فصیلیں ایک ساتھ ڈھے گئیں۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔
لیکن ہر رنج رفتنی ہے اور ہر عیش گزشتنی۔ جیسے اور دن گزر جاتے ہیں یہ دن بھی گزر گئے۔ قدرت نے بقول لاروش فو کو کچھ ایسی حکمت رکھی ہے کہ انسان موت اور سورج کو زیادہ دیر ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ رفتہ رفتہ صدمے کی جگہ رنج اور رنج کی جگہ اداس تنہائی نے لے لی۔ میں جب میامی سے کراچی پہنچا تو وہ اسی دور سے گزر رہے تھے۔ بے حد اداس۔ بے حد تنہا۔ بظاہر وہ اتنے تنہا نہیں تھے جتنا محسوس کرتے تھے۔ مگر آدمی اتنا ہی تنہا ہوتا ہے۔ جتنا محسوس کرتا ہے۔ تنہائی آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے، آئینے کو مقابل پاتا ہے۔ اسی لیے وہ تنہائی یعنی اپنی ہی صحبت سے گریز کرتا اور ڈرتا ہے۔ تنہا آدمی کی سوچ اس کی انگلی پکڑ کے کشاں کشاں ہر چھوڑی ہوئی شاہراہ، ایک ایک پگڈنڈی، گلی کوچے اور چورا ہے پر لے جاتی ہے۔ جہاں جہاں راستے بدلے تھے اب وہاں کھڑے ہو کر انسان پر منکشف ہوتا ہے کہ در حقیقت راستے نہیں بدلے انسان خود بدل جاتا ہے۔ سڑک کہیں نہیں جاتی۔ وہ تو وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ راہ کبھی گم نہیں ہوتی۔ راہ چلنے والے گم ہو جاتے ہیں۔
پیری میں، پرانی ضرب المثل کے مطابق، صد عیب ہوں یا نہ ہوں، ایک عیب ضرور ہے جو سو عیبوں پر بھاری ہے۔ اور وہ ہے ناسٹلجیا۔ بڑھاپے میں آدمی آگے یعنی اپنی منزلِ نا مقصود و نا گزیر کی جانب بڑھنے کے بجائے الٹے پیروں اس طرف جاتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پیری میں ماضی اپنی تمام مہلک رعنائیوں کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے۔ بوڑھا اور تنہا آدمی ایک ایسے کھنڈر میں رہتا ہے جہاں بھری دوپہر میں چراغاں ہوتا ہے اور جب روشنیاں بجھا کے سونے کا وقت آتا ہے تو یادوں کے فانوس جگمگ جگمگ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کی روشنی تیز ہوتی ہے، کھنڈر کی دراڑیں، جالے اور ڈھنڈار پن اتنے ہی زیادہ اجاگر ہوتے جاتے ہیں۔
سو ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
ماضی تمنائی اور برزخِ گم گشتہ
کراچی میں اللہ نے انہیں اتنا دیا کہ خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ اپنے مالوف و متروکہ دیار کانپور جانے کی انھیں کبھی خواہش نہیں ہوئی۔ مگر اس سانحے کے بعد یکبارگی ایک ہوک سی اٹھی اور انہیں کانپور کی یاد بے تحاشا ستانے لگی۔ اس سے پہلے ماضی نے ان کے وجود پر یوں پنجے گاڑ کر قبضہ نہیں جمایا تھا۔ حال سے گریزاں، حاضر و موجود سے منحرف، مستقبل سے مستغنیٰ۔ اب وہ صرف ماضی میں جی رہے تھے۔ حال میں کوئی خاص خرابی نہیں تھی۔ بجز اس کے کہ بوڑھے آدمی کے حال کی سب سے بڑی خرابی اس کا ماضی ہوتا ہے جو بھلائے نہیں بھولتا۔
اک عمر سے ہوں لذتِ نسیاں سے بھی محروم
ہر واقعے، بلکہ ساری زندگی کی فلم الٹی چلنے لگی۔ جٹا دھاری برگد کرودھ میں آ کر، پھننگ کے بل اپنی بھجنگ جٹائیں اور پاتال جڑیں آسمان کی طرف کر کے سیس آسن میں الٹا کھڑا ہو گیا۔ پینتیس برس بعد انہوں نے اپنے برزخِ گم گشتہ کانپور جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ گلیاں، بازار، محلے، آنگن، چارپائی تلے ادھورے چھڑکاؤ سے رات گئے تک جوان پنڈے کی طرح سلگتی چھتیں۔ وہ دوانی خواہشیں جو رات کو خواب بن بن کے آئیں اور وہ خواب جو دن میں سچ مچ خواہش بن جاتے۔ سب ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔ حد یہ کہ وہ اسکول بھی جنت کا ٹکڑا معلوم ہونے لگا، جس سے بھاگنے میں اتنا مزہ آتا تھا۔ سب مزوں، سب یادوں نے یکبارگی یورش کر دی۔ دوستوں سے چرچرائی چارپائیاں اور ہری بھری نبولیوں سے لدے پھندے نیم کی چھاؤں، آموں کے بور اور مہوے کی مہکار سے بوجھل پروا، املی پر گدرائے ہوئے کتارے اور انہیں للچائی نظروں سے دیکھتی لڑکیاں اور انہیں ویسی ہی نظروں سے دیکھتے ہوئے لڑکے، ہرنوں سے بھرے جنگل، چھرے سے زخمی ہو کر دو تین سو فٹ کی بلندی سے گد سے گرتی ہوئی مرغابی، خس کی ٹٹیاں، سنگھاڑوں سے پٹے تالاب، گلے سے پھسلتا مخمل فالودہ، مولسری کے گجرے، گرمیوں کی دوپہر میں جامن کے گھنے پتوں میں چھپے ہوئے گرگٹ کی لپلپاتی مہین زبان، اپنے چوکنے کانوں کو ہوا کے رخ کے ساتھ ٹیون کیے ٹیلے پر تنہا کھڑا ہوا بارہ سنگھا، امڈ گھمڈ جوانی اور پہلے پیار کی گھٹا ٹوپ اداسی، وہ صندل باہیں جو سوتے جاگتے تکیہ تصور تھیں، تازہ کلف لگے دوپٹے کی کراری مہک، دھوم مچاتے دوست۔ ماضی کے کوہِ ندا سے ایسے بلاوے، ایسی صدائیں آنے لگیں کہ
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
وہ اب بچے نہیں رہے تھے، ہمارا مطلب ہے ستر سے متجاوز تھے۔ لیکن انہیں ایک لحظے کے لیے بھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ تمام رنگین اور رومینٹک چیزیں۔ جنہیں مرزا عبدالودود بیگ آلاتِ کشاد رزی کی مناسبت سے "عہد شباب کے آلاتِ خلاف ورزی” کہتے ہیں۔ جنہیں یاد کر کر کے وہ سو سو decibel کی آہیں بھرنے لگے تھے، پاکستان میں نہ صرف بافراط بلکہ کہیں بہتر کوالٹی کی دستیاب تھیں۔ ہاں صرف ایک شے پاکستان میں مفقود تھی۔ اور وہ تھی ان کی جوانی۔ سو وہ بعد تلاشِ بسیار و بے سود کانپور میں بھی نہ ملی۔
یہ بچے کتنے بوڑھے ہیں، یہ بوڑھے کتنے بچے ہیں
انھوں نے اپنے نارتھ ناظم آباد والے گھر کے سامنے مولسری کا درخت لگانے کو تو لگا لیا، لیکن یادوں کی مولسری کی بھینی بھینی مہک، بچپن اور چھب چھاؤں کچھ اور ہی تھی۔ اب وہ انواع و اقسام کے پھول کہاں کہ ہر پھول سے اپنی ہی خوشبو آئے۔ ان پر بھی وہ مقام آیا جو بڑھاپے کے پہلے شب خون کے بعد ہر شخص پر آتا ہے، جب دفعتاً اس کا جی بچپن کی دنیا کی ایک جھلک۔ آخری جھلک۔ دیکھنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے۔ لیکن اسے کہ علم نہیں ہوتا کہ بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کوئی غیبی ہاتھ چپکے سے سو گنی طاقت کا magnifier (محدب عدسہ) رکھ دیتا ہے۔ دانا کبھی اس شیشے کو ہٹا کر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے ہٹتے ہی ہر چیز خود اپنا miniature (تصغیر) معلوم ہونے لگتی ہے۔ کل کے دیو بالکل بالشتیے نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر آدمی اپنے بچپن کے locale (جائے ورود و واردات) سے عرصہ دراز تک دور رہا ہے تو اسے ایک نظر آخری بار دیکھنے کے لیے ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ لیکن وہ جاتا ہے۔ وہ منظر اسے ایک طلسمی مقناطیس کی مانند کھنچتا ہے اور وہ کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ طفلِ طلسمات پر جہاں دیدہ آنکھ پڑ جائے تو سارے طلسم ٹوٹ جاتے ہیں۔ بہروپ نگر کی ساری پریاں اُڑ جاتی ہیں اور شیش محل پر کالک پت جاتی ہے۔ اور اس جگہ تو اب مقدس خوشبوؤں کا دھواں ہی دھواں ہے۔ یہاں جو کام دیو کی دہکتی دھنک کمان ہوا کرتی تھی وہ کیا ہوئی؟
یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے؟
وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی؟
آدمی کو کسی طرح اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ رُوپ سُروپ کیا ہوا؟ وہ چہکار مہکار کہاں گئی؟ نہیں۔ یہ تو وہ اوراق مصور کوچے اور بازار نہیں جہاں ہر چیز اچنبھا لگتی تھی۔ یہ ہر چیز، ہر چہرے کو کیا ہو گیا؟
Was this the face that launch’d a thousand ships?
And burnt the topless towers of llium?
جس گھڑی یہ طلسم ٹوٹتا ہے، ماضی تمنائی کی خواب سرا ڈھے جاتی ہے۔ پھر اس شخص کا شمار نہ بچوں میں ہوتا ہے، نہ بوڑھوں میں۔ جب یہ مقام آتا ہے تو آنکھیں یکایک "کلر بلائینڈ” ہو جاتی ہیں۔ پھر انسان کو سامنے ناچتے مور کے صرف پیر دکھائی دیتے ہیں اور وہ انہیں دیکھ دیکھ کے روتا ہے، ہر سُو بے رنگی اور بے دلی کا راج ہوتا ہے۔
بے حلاوت اس کی دنیا اور مذبذب اس کا دیں
جس شہر میں بھی رہنا، اُکتائے ہوئے رہنا
سو اس طفل بزرگ نے کانپور جا کر بہت گریہ کیا۔ پینتیس برس تک تو اس پر رویا کیے کہ ہائے، ایسی جنت چھوڑ کر کراچی کیوں آ گئے۔ اب اس پر روئے کہ لاحول ولا قوۃ اس سے پہلے ہی چھوڑ کی کیوں نہ آ گئے۔ خواہ مخواہ عمر عزیز کی ایک تہائی صدی غلط بات پر رونے میں گنوا دی۔ رونا ہی ضروری تھا تو اس کے لیے 365 معقول وجوہات موجود تھیں، اس لیے کہ سال میں اتنی ہی مایوسیاں ہوتی ہیں۔ اپنی "ڈریم لینڈ” کا چپہ چپہ چھان مارا، لیکن
وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی، وہ رنگ نہ لوٹ کے پھر آیا
پینتیس برس پرانا ناسٹلجیا یکایک ٹوٹا تو ہر جگہ اجاڑ اور ہر شے کھنڈر نظر آئی۔ حد یہ کہ جس مگر مچھ بھرے دریا میں کہ جس کا اور نہ چھور، وہ فلک بوس برگد کی پھننگ سے بے خطر چھلانگ لگا دیا کرتے تھے، اب اسے جا کر پاس سے دیکھا تو ایک مینڈک بھر برساتی نالا نکلا۔ اور وہ جبر جنگ برگد تو نرا بونسائی پیڑ لگ رہا تھا۔
ماضی کے دشتِ بازگشت میں وہ اپنے ہمزاد کا خیمہ زنگار گوں نہ پہچان پائے۔
کبوتر خانے کا چربہ
یونانی کورس (Greek Chorus) بہت فلسفہ چھانٹ چکا۔ اب اس کہانی کو خود اس کے ہیرو بشارت کی زبانی سنیے کہ اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے:
یہ افسانہ اگرچہ سرسری ہے
ولے اس وقت کی لذت بھری ہے
صاحب، میں تو اپنا مکان دیکھ کے بھونچکا رہ گیا کہ واللہ، ہم اس میں رہتے تھے، اور اس سے زیادہ حیرانی اس پر کہ بہت خوش رہتے تھے، مڈل کلاس غریبی کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو لیکن اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ ماشاء اللہ سے ہم تلے اوپر کے نو بھائی تھے اور چار بہنیں۔ اور تلے اوپر تو میں نے محاورے کی مجبوری کے سبب کہہ دیا، ورنہ کھیل کود، کھانے اور لیٹنے بیٹھنے کے وقت اوپر تلے کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔ سب کے نام ت پر ختم ہوتے تھے۔ عشرت، عترت، راحت، فرحت، عصمت، عفت وغیرہ۔ مکان خود والد نے مجھ سے بڑے بھائی کی سلیٹ پر ڈیزائن کیا تھا۔ سو سوا سو کبوتر بھی پال رکھے تھے۔ ہر ایک کی نسل اور ذات جدا۔ کسی کبوتر کو دوسری ذات کی کبوتری سے مختلط نہیں ہونے دیتے تھے۔ لکڑی کی دکان تھی۔ ہر کبوتر کا خانہ اس کی جسامت، عاداتِ قبیحہ اور دُم کی لمبائی کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود بناتے تھے۔ صاحب، اب جو جا کے دیکھا تو مکان کے آرکی ٹیکچر میں سراسر ان کے اس شوق فضول کا عکس اور عمل دخل نظر آیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سارا مکان در اصل ان کے کبوتر خانے کا بھونڈا سا چربہ تھا۔
والد بہت دور اندیش اور پریکٹیکل تھے۔ اس اندیشے سے کہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی اولاد جائداد کے تقاسمہ پر جھگڑا کرئے گی، وہ ہر بیٹے کے پیدا ہوتے ہی اس کا علیحدہ کمرا بنوا دیتے تھے۔ کمروں کی تعمیر میں خرابی کی ایک سے زیادہ صورتیں مضمر تھیں یعنی یہ حفظِ مراتب بھی تھا کہ ہر چھوٹے بھائی کا کمرہ اپنے بڑے بھائی کے کمرے سے لمبائی چوڑائی میں ایک ایک گز چھوٹا ہو۔ مجھ تک پہنچتے پہنچتے کمرے کے حدود اربعہ تقریباً اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ پورے سات سال لگے مکان مکمل ہونے میں۔ اس عرصے میں تین بھائی اور پیدا ہو گئے۔ آٹھویں بھائی کے کمرے کی دیواریں اٹھائی گئیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ قدمچوں کی نیو رکھی جا رہی ہے یا کمرے کی۔ ہر نومولود کی آمد پر سلیٹ پر سابقہ نقشے میں ضروری ترمیم اور ایک کمرے کا اضافہ کرتے۔ رفتہ رفتہ سارا آنگن ختم ہو گیا۔ وہاں ہمیں ورثے میں ملنے والی کوٹھریاں بن گئیں۔
بورژوایت پر بوذریت کا گمان
صاحب، کہاں کراچی کی کوٹھی اور اس کے ایئر کنڈیشنز اور قالین اور روبلیک پینٹ اور کہاں یہ ڈھنڈار کہ کھانس بھی دو تو واللہ پلستر جھڑنے لگے۔ چالیس برس سے رنگ سفیدی نہیں ہوئی۔ پھوپھی زاد بھائی کے مکان میں ایک جگہ ترپال کی چھت گیری بندھی دیکھی۔ کراچی اور لاہور میں تو کوئی چھت گیری اور نم گیرہ کے معنی بھی نہیں بتا پائے گا۔ چھت گیری پر تین جگہ نیل پالش سے ضرب کا نشان x بنا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کے نیچے نہ بیٹھو۔ یہاں سے چھت ٹپکتی ہے۔ کانپور اور لکھنؤ میں جس دوست اور رشتے دار کے یہاں گیا اسے پریشان حال ہی پایا۔ آگے جو سفید پوش تھے وہ اب بھی ہیں۔ مگر سفیدی میں پیوند لگ گئے ہیں۔ اپنی عسرت اور خود داری پر کچھ زیادہ ہی فخر کرنے لگے ہیں۔ ایک نجی محفل میں، میں نے اس پر اچٹتا سا فقرہ کس دیا تو ایک جونیئر لیکچرار جو کیس مقامی کالج میں اقتصادیات پڑھاتے ہیں، بگڑ گئے۔ کہنے لگے "آپ کی امیری امریکا اور عرب امارات کی دین ہے۔ ہماری غریبی ہماری اپنی غریبی ہے۔ ( اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے قرات سے الحمد للہ کہا) مقروضوں کے اللے تللے آپ ہی کو مبارک ہوں۔ عرب اگر تھرڈ ورلڈ کو عالم الفقیر کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے۔” میں مہمان تھا۔ ان سے کیا الجھتا۔ دیر تک فقر و غنا، نانِ جویں اور خود داری اور مفلسی کے دیگر لوازمات کی مدح میں اشعار سناتے رہے۔ دو شعر حضرت ابو ذر غفاری رح پر بھی سنائے۔ شرما حضوری میں نے بھی داد دی۔ مہمان جو ٹھہرا۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، آج کل ہر انٹلکچویل کو اپنی بے زری اور بورژوایت پر بوذریت کا گمان ہونے لگا ہے۔
کوئی چیز ایسی نہیں جو ہندوستان میں نہ بنتی ہو۔ ایک کانپور ہی کیا، ہر شہر کارخانوں سے پٹا پڑا ہے۔ کپڑے کی ملیں، فولاد کے کارخانے، کار اور ہوائی جہاز کی فیکٹریاں، ٹینک بھی بننے لگے۔ ایٹم بم تو عرصہ ہوا ایکسپلوڈ کر لیا۔ سیٹلائٹ بھی خلا میں چھوڑ دیا۔ عجب نہیں چاند پر بھی پہنچ جائیں۔ ایک طرف تو یہ ہے۔ دوسری طرف یہ نقشہ بھی دیکھا کہ ایک دن مجھے انعام اللہ برملائی (انعام اللہ ایک زمانے میں اس پر بہت فخر کرتے تھے کہ وہ ناگفتنی بات برملا کہہ دیتے ہیں۔ اسی بنا پر ان کا لقب برملائی پڑ گیا۔) کے ہاں جانا تھا۔ ایک پیڈل رکشا پکڑی۔ رکشا والا مدقوق سا تھا۔ بنیان میں سے بھی پسلیاں نظر آ رہی تھیں۔ منھ سے بنارسی قوام والے پان کے بھبکے نکل رہے تھے۔ اس نے انگلی کا آنکڑا (ہُک) سا بنا کر پیشانی پر پھیرا تو پسینے کی تللی بندھ گئی۔ پسینے نے منھ اور ہاتھوں پر لسلسی چمک پیدا کر دی تھی جو دھوپ میں ایسی لگتی تھی جیسے ویسلین لگا رکھا ہو۔ ننگے پیر، سوکھی کلائی پر کلائی سے زیادہ چوڑی گھڑی۔ ہینڈل پر پروین بوبی ایکٹرس کا ایک سیکسی فوٹو۔ پیڈل مارتے میں دہرا ہو ہو جاتا اور پسینے میں تر پیشانی بار بار بوبی پر سجدہ ریز ہو جاتی۔ مجھے ایک میل ڈھو کے لے گیا۔ مگر گیس کیجیئے کتنا کرایہ مانگا ہو گا؟ جناب، کُل پچھتر پیسے، خدا کی قسم، پچھتر پیسے، میں نے ان کے علاوہ چار روپے پچیس پیسے کا ٹپ دیا تو پہلے تو اسے یقین نہیں آیا۔ پھر باچھیں کھل گئیں۔ کدو کے بیجوں جیسے پان آلودہ دانت نکلے رہ گئے۔ میرے بٹوے کو حریص نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا "بابو جی آپ پاکستان سے آئے ہیں؟” میں نے کہا "ہاں۔ مگر پینتیس برس پہلے یہیں ہیرامن کے پردے میں رہتا تھا۔” اس نے پانچ کا نوٹ انٹی سے نکال کر لوٹاتے ہوئے کہا "بابو جی، میں آپ سے پیسے کیسے لے سکتا ہوں۔ آپ سے تو محلے داری نکلی، میری کھولی بھی وہیں ہے۔”
غریب غرانے لگے
اور آبادی؟ الامان، الحفیظ، بارہ ماسی میلے کا سماں ہے۔ زمین سے ابلے پڑتے ہیں۔ بازار میں آپ دو قدم نہیں چل سکتے، جب تک کہ دائیں بائیں ہاتھ اور کہنیاں نہ چلائیں۔ خشکی میں کھڑی تیراکی کہیے جہاں کہنی مارنے کی بھی گنجائش نہ ہو وہاں لوگ ایک جگہ سے دوسرے جگہ محض بھیڑ کے دھکے سے پہنچ جاتے ہیں۔ لکھوکھا آدمی فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں۔ وہیں ہو مرحلے سے گزر جاتے ہیں۔ مگر فٹ پاتھ پہ سونے والا کسی سے دبتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ نہ حکومت کو برا کہنے سے پہلے مڑ کر دائیں بائیں دیکھتا ہے۔ ہمارے زمانے کے غریب واقع میں مسکین ہوتے تھے۔ اب غریب غراتے بہت ہیں۔ سائیکل رکشہ کو تو پھر بھی راستہ دے دیں گے، مگر کار کے سامنے سے ذرا جو ہٹ جائیں۔ عزیز الدین وکیل کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں سیاسی بیداری بہت بڑھ گئی ہے۔ واللہ اعلم، میں نے تو یہ دیکھا کہ جتنی غریبی بڑھتی ہے اتنی ہی ہیکڑی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ بلیک کا پیسا وہاں بھی الغاروں ہے، مگر کسی کی مجال نہیں کہ امارت کی نمائش کرے۔ شادیوں میں کھاتے پیتے گھرانوں تک کی خواتین کو سوتی ساڑھی اور چپل پہنے دیکھا۔ مانگ میں اگر سیندور نہ ہو تو واللہ بیوہ کا گمان ہو۔ چہرے پر قطعاً کوئی میک اپ نہیں۔ جب کہ اپنے ہاں یہ حال کہ ہم مرغی کی ٹانگ کے بھی ہاتھ نہیں لگاتے جب تک اس پر روژ نہ لگا ہو۔ صاحب، آپ نے طارق روڈ کے لال بھبوکا چکن تکے دیکھے ہیں؟ کانپور میں، میں نے اچھے اچھے گھروں میں دریاں اور بید کے صوفہ سیٹ دیکھے۔ اور بعض تو وہی ہیں جن پر ہم پینتیس سال پہلے اینڈا کرتے تھے۔ صاحب، رہن سہن کے معاملے میں ہندوؤں میں اسلامی سادگی پائی جاتی ہے۔
جو ہونی تھی سو بات ہو لی، کہارو،
کہنے کو تو آج بھی اردو بولنے والے اردو ہی بولتے ہیں۔ مگر میں نے ایک عجیب تبدیلی محسوس کی۔ عام آدمی کا ذکر نہیں، اردو کے پروفیسروں اور لکھنے والوں تک کا لہجہ نہیں رہا جو ہم آپ چھوڑ آئے تھے۔ کرارا پن، کھڑا پن، وہ کڑی کمان والا کھٹکا جاتا رہا۔ دیکھتے دیکھتے ڈھلک کر ہندی کے پنڈتائی لیجے کے قریب آ گیا ہے۔ singsong لہجہ You know what I mean یقین نہ آئے تو آل انڈیا ریڈیو کی اردو خبروں کے لہجے کا کراچی ریڈیو یا میرے لہجے سے موازنہ کر لیجیئے۔ میں نے پائنٹ آوٹ کیا تو انعام اللہ برملائی سچ مچ آفنڈ ہو گئے۔ ارے صاحب وہ تو ذاتیات پر اتر آئے۔ کہنے لگے "اور تمھاری زبان اور لب و لہجے پر جو پنجاب دی چھاپ ہے؟ تمہیں نظر نہیں آتی، ہمیں آتی ہے۔ تمہیں یاد ہو گا، 3 اگست 1947ء کو جب میں تمہیں ٹرین پر سی آف کرنے گیا تو تم سیاہ رامپوری ٹوپی، سفید چوڑی دار پاجامہ اور جودھپوری جوتی پہنے ہاتھ کا چلو بنا بنا کر آداب تسلیمات کر رہے تھے۔ کہو، ہاں، کلے میں پان، آنکھوں میں ممیرے کا سرمہ، ململ کے چنے ہوئے کرتے میں عطرِ گِل، (عطرِ گِل بارش کے پہلے چھینٹوں سے بھیگی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کا عطر جو اُترتی گرمیوں میں لگاتے تھے۔ اب جسم قبر میں پہنچ کر ہی زمین کی خوشبو میں نہاتے ہیں۔) کہو ہاں، تم یہاں سے چائے کو چاء، گھاس کو گھانس اور چاول کو چانول کہتے ہوئے گئے۔ کہو ہاں، اور جس وقت گارڈ نے سیٹی بجائی، تم چنبیلی کا گجرا گلے میں ڈالے کوپ میں سے گرم چاء پرچ میں ڈال کے، پھونکیں مار مار کے سٹرسٹر پی رہے تھے۔ اس وقت بھی تم کراچی کو کرانچی کہہ رہے تھے۔ کہہ دو کہ نہیں۔ اور اب تین decades of decadence (عشرہ ہائے انحطاط) کے بعد سر پر سفید بالوں کا ٹوکرا رکھے ٹخنے تک حاجیوں جیسا جھابڑ جھلا کرتا پہنے، ٹانگوں پر گھر دار مشکیزے پھڑکاتے، کراچی کے کنکریٹ جنگل سے یہاں تیرتھ یاترا کو آئے ہو تو ہم تمہیں پنڈت پانڈے دکھلائی دینے لگے۔ بھول گئے تم؟ تم یہاں سے اماں، اور اے حضت کہتے گئے تھے اور اب سائیں سائیں کہتے لوٹے ہو۔” صاحب مہمان تھا بقول آپ کے اپنی بے عزتی خراب کروا کے چپکے سے اٹھ کر رکشا میں گھر آ گیا:
جو ہونی تھی سو بات ہو لی، کہارو
چلو لے چلو میری ڈولی، کہارو
ہم چُپ رہے ہم ہنس دیئے
لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔ خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سند تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے۔ میونسپلٹی کے ممبر ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے "للہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیئے۔ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیئے۔ پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے۔ جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہرِ آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں۔ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔” وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔
لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، با وقار، غیور اور پُر اعتماد ہے۔
نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعیں تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔
کون ٹھہرے سمے کے دھارے پر
نشور واحدی اسی طرح تپاک اور محبت سے ملے۔ تین چار گھنٹے گپ کے بعد جب بھی میں نے یہ کہہ کر اٹھنا چاہا کہ اب چلنا چاہیے تو ہر بار ہاتھ پکڑ کے بٹھا لیا۔ میرا جی بھی یہی چاہتا تھا کہ اسی طرح روکتے رہیں۔ حافظہ خراب ہو گیا ہے ایک ہی نشست میں تین چار دفعہ آپ کے بارے میں پوچھا "کیسے ہیں؟ سنا ہے مزاحیہ مضامین لکھنے لگے ہیں۔ بھئی حد ہو گئی۔” منحنی اور رو گی تو، آپ جانتے ہیں، سدا کے تھے۔ وزن پچھتر پونڈ رہ گیا ہے۔ عمر بھی اتنی ہی ہو گی۔ چہرے پر ناک ہی ناک نظر آتی ہے۔ منحنی پہ یاد آیا، کانپور میں چنیا کیلے، اس سائز کے، اب بھی ملتے ہیں۔ میں نے خاص طور سے فرمائش کر کے منگوائے۔ مایوسی ہوئی۔ اپنے سندھ کے چتی دار کیلوں کے آس پاس بھی نہیں۔ ایک دن میرے منھ سے نکل گیا کہ سرگودھے کا مالٹا، ناگپور کے سنترے سے بہتر ہوتا ہے تو نشور تڑپ کے بولے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ویسے نشور ماشاء اللہ چاق و چوبند ہیں۔ صورت بہت بہتر ہو گئی ہے اس لیے کہ آگے کو نکلے ہوئے لہسن کی پوتھی جیسے اوبڑ کھابڑ دانت سب گر چکے ہیں۔ آپ کو تو یاد ہو گا، ثریا ایکٹرس کیا قیامت گاتی تھی، مگر لمبے دانت سارا مزہ کر کرا کر دیتے تھے۔ سنا ہے ہمارے پاکستان آنے کے بعد سامنے کے نکلوا دیئے تھے۔ ایک فلمی رسالے میں اس کا حالیہ فوٹو دیکھا تو خود پر بہت غصہ آیا کہ کا ہے کو دیکھا۔ پھر اسی ڈر کے مارے اس کے ریکارڈ نہیں سنے۔ اعجاز حسین قادری کے پاس اس زمانے کے سارے ریکارڈ مع بھونپو والے گراموفون کے ابھی تک محفوظ ہیں۔ صاحب یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارے لیے جدید سائنس، موسیقی اور سامانِ عیش کی انتہا تھی۔ انھوں نے اس زمانے کے سر سنگیت سمراٹ سیگل کے دو تین گانے سنائے۔ صاحب، مجھے تو بڑا شاک ہوا کہ آنجہانی کے ناک سے گائے ہوئے گانوں سے مجھ پر ایسا رومانی لرزہ کیسے طاری ہو جاتا تھا۔ موتی بیگم کا منھ جھریا کر بالکل کشمش ہو گیا ہے۔ نشور کہنے لگے، میاں، تم اوروں پہ کیا ترس کھاتے پھرتے ہو۔ ذرا اپنی صورت تو 47 کے پاسپورٹ فوٹو سے ملا کے دیکھو۔
کون ٹھہرے سمے کے دھارے پر
کوہ کیا اور کیا خس و خاشاک
کوئی کل ہند مشاعرہ ایسا نہیں ہوتا جس میں نشور نہ بلائے جائیں۔ غالباً کسی شاعر کو اتنا معاوضہ نہیں ملتا جتنا انہیں ملتا ہے۔ بڑی عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اب تو ماشاء اللہ گھر میں فرنیچر بھی ہے۔ مگر اپنی دیرینہ وضع پر قائم ہیں۔ طبیعت معمول پر تھی۔ یعنی بہت خراب۔ میں ملنے جاتا تو بان کی کھری چارپائی پر لیٹے سے اُٹھ بیٹھتے اور تمام وقت بنیان پہنے تکیے پر اکڑوں بیٹھے رہتے۔ اکثر دیکھا کہ پیٹ پر چارپائی کے بانوں کا نالی دار "پیٹرن” بنا ہوا ہے۔ ایک دن میں نے کہا کہ پلیٹ فارم پر جب اناؤنسمنٹ ہوا کہ ٹرین اپنے نردھارت سمے سے ڈھائی گھنٹہ ولمب سے پرویش کر رہی ہے تو بخدا میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ٹرین کیا کر رہی ہے۔ آ رہی ہے یا جا رہی ہے۔ یا ڈھائی گھنٹے سے محض کلیلیں کر رہی ہے۔ یہ سننا تھا کہ نشور بگڑ گئے۔ جوشِ بیاں میں تکیے پر سے بار بار پھسلے پڑتے تھے۔ ایک مشتعل لمحے میں زیادہ پھسل گئے تو بانوں کی جھری میں پیر کے انگوٹھے کو گھائی تک پھنسا کے فٹ بریک لگایا اور ایک دم تن کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے "ہندوستان میں اردو کو مٹانا آسان نہیں۔ پاکستان میں پانچ برس میں اتنے مشاعرے نہیں ہوتے ہوں گے جتنے ہندوستان میں پانچ مہینے میں ہو جاتے ہیں۔ پندرہ بیس ہزار کا مجمع تو گویا کوئی بات ہی نہیں۔ اچھا شاعر بآسانی پانچ سات ہزار پیٹ لیتا ہے۔ کرایہ ریل، قیام و طعام اور داد اس کے علاوہ۔ جوش نے بڑی جلد بازی کی، ناحق چلے گئے۔ اب پچھتاتے ہیں۔” اب میں انہیں کیا بتاتا کہ جوش کو سات آٹھ ہزار ماہوار۔ اور کار۔ دو بینکوں اور ایک انشورنس کمپنی کی طرف سے مل رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے مشاہرہ اور مکان علیحدہ گو کہ اس کی نوعیت وظیفہ عتاب کی سی ہے۔
ترنم میں اب نشور کی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ ٹھہر ٹھہر کی پڑھتے ہیں مگر آواز میں اب بھی وہی سوز اور گمک ہے۔ بڑی بڑی آنکھوں میں وہی چمک۔ تیور اور لہجے میں کھرج اور نڈر پن جو صرف اس وقت آتا ہے جب آدمی زر ہی نہیں، زندگی اور دنیا کو بھی ہیچ سمجھنے لگے۔ دس بارہ تازہ غزلیں سنائیں۔ کیا کہنے، منھ پر آتے آتے رہ گئی کہ ڈینچرز لگا کر سنائیے۔ آپ نے تو انہیں بارہا سنا ہے۔ ایک زمانے میں "یہ باتیں راز کی ہیں قبلہ عالم بھی پیتے ہیں” والی غزل سے سارے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مگر اب "دولت کبھی ایماں لا نہ سکی، سرمایہ مسلماں ہو نہ سکا” والے اشعار پر داد کے ڈونگے نہیں برستے۔ سننے والوں کا مزاج بدلا ہوا ہے۔ سکوتِ سامعین بھی ایک نوع کی بے صدا ہوٹنگ ہے۔ اگر استاد داغ یا نواب سائل دہلوی بھی آج اپنی وہ توپ غزلیں پڑھیں جن سے ستر اسی برس قبل چھتیں اُڑ جاتی تھیں تو سامعین کی بد ذوقی سے تنگ آ کر اٹھ کھڑے ہوں۔ مگر اب نشور کا رنگ بھی بدل گیا ہے۔ مشاعرے اب بھی لوٹ لیتے ہیں، سدا کے ملنگ ہیں۔ کہہ رہے تھے، اب کوئی تمنا، کوئی حسرت باقی نہیں۔ میں نے تو انہیں ہمیشہ بیمار، نحیف و نزار، مفلوک الحال اور مطمئن و مسرور ہی دیکھا۔ ان کے وقار و تمکنت میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اہلِ ثروت سے کبھی پچک کے نہیں ملے۔ صاحب، یہ نسل ہی کچھ اور تھی۔ وہ سانچے ہی ٹوٹ گئے جن میں یہ آشفتہ مزاج کردار ڈھلتے تھے۔ بھلا بتائیے اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی سے زیادہ مدمغ اور خود دار اور کون ہو گا۔ وسیلہ معاش؟ عینکیں بیچنا، وہ بھی دکان یا اپنے ٹھیلے پر نہیں۔ جہاں بھی پیٹ کا دھندا لے جائے۔ نشور سے میری دوستی تو ابھی حال میں چالیس پچاس برس سے ہوئی ہے، ورنہ اس سے قبل دوسرا ہی رشتہ تھا۔ میں نے قصائیوں کے محلے میں واقع مدرسہ ضیا الاسلام میں فارسی ان ہی سے پڑھی تھی۔ اور ہاں اب اس محلے کے قصائی پوتھ کیا چکن اور سرخ پییٹنٹ لیدر کے پمپ شوز نہیں پہنتے۔ اس زمانے میں کوئی شخص اپنی برادری کا مروجہ لباس ترک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا تھا۔
دوبارہ رشوت دینے کو جی چاہتا ہے
جانے پہچانے بازار اب پہچانے نہیں جاتے۔ پر ایسے خلیق دکاندار نہیں دیکھے۔ بچھے جاتے تھے۔ دکان میں قدم رکھتے ہی ٹھنڈی بوتل ہاتھ میں تھما دیتے۔ مجھے ایسی ظالم سیلزمین شپ سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ بوتل پی کے دکان سے خالی ہاتھ نکلنا بڑی بے غیرتی کی بات معلوم ہوتی تھی۔ چنانچہ سیلزمینوں کی پسند کی چیزیں خریدتا چلا گیا۔ اپنی ضرورت اور فرمائش کی چیزیں خریدنے کے لیے پیسے ہی نہیں رہے۔ یقین نہیں آیا کہ جہاں اس وقت دھکم پیل، چیخم دھاڑ مچ رہی ہے اور بدبوؤں کے بگولے منڈلا رہے ہیں، یہ وہی کشادہ، صاف ستھری مال بلکہ دی مال ہے۔ صاحب انگریز نے ہر شہر میں دی مال ضرور بنائی۔ فیشن ایبل، اونچی دکانوں والی مال، زرداروں کی زر گزر کہیے۔ ابھی کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مال کے کنارے کافی دور تک ببول کی چھال بچھی ہوتی تھی، تا کہ کوتوال کے لونڈے کے گھوڑے کو دُلکی چلنے میں آسانی رہے۔ دائیں بائیں دو سائیس ننگے پیر ساتھ ساتھ دوڑتے جاتے کہ لونڈا گر نہ جائے۔ وہ ہانپنے لگتے تو وہ ہنسی سے دہرا ہو ہو جاتا۔ ہماری اس سے شناسائی ہو گئی تھی۔ ایک دفعہ ہم پندرہ بیس دوستوں کو بہرائچ کے پاس اپنے گاؤں شکار پر لے گیا۔ ہر پانچ افراد کے لیے ایک علیحدہ خیمہ، خیموں کے عقب میں ایک مودب فاصلے پر شاگرد پیشہ کی چھولداری۔ ہم خیمے ہی میں شب باش ہوتے۔ کیا بتاؤں جنگل میں کیسے عیش رہے۔ ایک رات مجرا بھی ہوا۔ صورت اتنی اچھی تھی کہ بخدا غلط تلفظ پر بھی پیار آنے لگا۔ پیشہ ور شکاری روزانہ شکار مار کے لے آتے تھے جسے باورچی لکڑیوں اور چھپٹیوں کی آگ پر بھونتے۔ ہمارے ذمے تو صرف ہضم کرنا اور یہ بتانا تھا کہ کل کون کس جانور کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ سانبھر کا گوشت پہلے پہل وہیں چکھا۔ آخری شام چار بھنے ہوئے سالم کالے ہرن دسترخوان پر سجا دیے گئے۔ ہر ہرن کے اندر ایک قاز اور قاز میں تیتر اور تیتر کے پیٹ میں مرغی کا انڈا۔ ہماری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کھاتے کیا خاک۔ کانپور کا وہ کوتوال حد درجہ لائق، معاملہ فہم، اور انتہائی خلیق اور اسی درجہ بے ایمان تھا۔ صاحب، آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے۔ اس واسطے کہ وہ نخوت، سخت گیری اور بد مزاجی افورڈ کر ہی نہیں سکتا۔ اس لڑکے نے کچھ کر کے نہیں دیا۔ جگر کے سروس میں مرا۔ اس کا چھوٹا بھائی پاکستان آ گیا۔ لوگوں نے کہہ سن کے ماری پور کے اسکول میں ٹیچر لگوا دیا تھا۔ کوئی تین برس پہلے میرے پاس آیا تھا۔ کہنے لگا میں بی ٹی نہیں ہوں۔ قلیل تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ سعود آباد سے ماری پور جاتا ہوں۔ دو جگہ بس بدلنی پڑتی ہے۔ آدھی تنخواہ تو بس کے کرائے میں نکل جاتی ہے۔ اپنے ہاں منشی رکھ لیجیئے۔ اس کی تین جوان بیٹیاں کنواری بیٹھی تھیں۔ ایک کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ وہ جل کر مر گئی۔ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں۔ خود اسے دو ہارٹ اٹیک ہو چکے تھے۔ جنہیں اس نے سکول والوں سے چھپایا، ورنہ وہ گئی گزری ملازمت بھی جاتی رہتی۔
کوتوال سارے شہر کا، غنڈوں سمیت، بادشاہ ہوتا تھا۔ مطلب یہ کہ جسے چاہے ذلیل کر دے۔ صاحب، مرزا ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال کے پوست کندہ حالات پڑھنے کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تین محکمے ایسے ہیں جو روزِ اول سے بے ایمان ہیں۔ اول پولیس، دوم پی ڈبلیو ڈی، سوم انکم ٹیکس۔ اب ان میں میرے طرف سے اینٹی کرپشن کے محکمے کا اضافہ کر لیجیئے۔ یہ صرف رشوت لینے والوں سے رشوت لیتا ہے۔ رشوت ہندوستان میں بھی خوب چلتی ہے۔ مجھے بھی تھوڑا بہت ذاتی تجربہ ہوا۔ مگر صاحب، ہندو رشوت لینے میں بھی ایسی نمرتا (انکسار) ایسا اخلاق اور اعتدال برتتا ہے کہ واللہ دوبارہ دینے کو جی چاہتا ہے۔
اور صاحب، عجز و انکسار کا یہ حال کہ کیا ہندو کیا مسلمان، کیا بوڑھا کیا جوان، سب بڑی نمرتا سے ہاتھ جوڑ کر سلام پرنام کرتے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر تقریر سے پہلے اور تقریر کے بعد اور بڑے سے بڑا سنگیت سمراٹ تھی پکے راگ گانے سے پہلے اور گانے کے بعد انتہائی عاجزی کے ساتھ سامعین کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں نے بگوش و بچشم خود ایک مشاعرے میں حضرت علی سردار جعفری کو دو بارہ طویل نظمیں سنانے کے بعد ہاتھ جوڑتے ہوئے ڈائس سے اُترتے دیکھا۔ (خیر ایسی واردات کے بعد ہاتھ جوڑنے کی وجہ ہماری سمجھ میں بھی آتی ہے)۔
بازارِ حُسن پہ کیا گزری
اور صاحب، مول گنج دیکھ کے تو کلیجا منھ کو آنے لگا۔ یہاں بازارِ حُسن ہوا کرتا تھا۔ آپ بھی دل میں کیا کہتے ہوں گے کہ عجیب آدمی ہے۔ ڈبل حاجی، ماتھے پر گٹا، مگر ہر قصے میں طوائف کو ضرور کانٹوں میں گھسیٹتا ہے۔ کیا کروں۔ ہماری نسل تو ترستی پھڑکتی ہی بوڑھی ہو گئی۔ اس زمانے میں طوائف ادب اور اعصاب پر بری طرح سوار تھی۔ کوئی جوانی اور کہانی اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ رنڈی واحد پرائی عورت تھی جسے نظر بھر کے دیکھ سکتے تھے۔ ورنہ ہر وہ عورت جس سے نکاح جائز ہو، منھ ڈھانکے رہتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب طوائفوں نے گرہستنوں کے سے شریفانہ لباس اور وضع قطع اپنا لی ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نیک بختو، اسی چیز سے تو گھبرا کے دُکھیا تمہارے پاس آتے تھے۔ گرہستی، پاکیزگی اور یک رنگی سے اکتائے ہوئے لوگ اجنبی بدن سرائے میں رات برات بسرام کے لیے آ جاتے تھے۔ سو یہ آسرا بھی نہ رہا۔
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مُول گنج میں بازارِ حسن ہوا کرتا تھا۔ زمانے بھر کی دُر دُر ہش ہش کے بعد طوائفوں نے اب روٹی والی گلی میں پناہ لی ہے۔ بازار کا ہے کو ہے۔ بس ایک گڑ ہے۔ یہاں سے وہاں تک۔ وہ جگہ بھی دیکھی جہاں پچاس برس قبل میں اور میاں تجمل حسین دیوار کر طرف منھ کر کے سیخ سے اترتے کباب کھایا کرتے تھے۔ جیسے چٹخارے دار کباب طوائفوں کے محلے میں ملتے تھے کہیں اور نہیں دیکھے۔ سوائے لکھنؤ کے مولوی محلے کے۔ گجرے بھی غضب کے ہوتے تھے۔ اور ہاں، آپ کے لیے اسلم روڈ کا ایک با کمال کبابیا "ڈسکور” کیا ہے۔ آپ کے لندن جانے سے پہلے بانگی پیش کروں گا۔ اور صاحب۔ کباب میں باہر کا اور پان ہمیشہ گھر کا کھایا۔ آپ نے کبھی طوائف کے ہاتھ کی گلوری کھائی ہے؟ مگر آپ تو کہتے ہیں کہ اپنے ختنوں پر مجرے کے بعد آپ نے رنڈی کا ناچ ہی نہیں دیکھا۔ اور برسوں اسی امپریشن میں رہے کہ مجرا دیکھنے سے پہلے ہر دفعہ اس مرحلے سے گزرنا ضروری ہے، رنڈی کے ہاتھ کا پان کبھی نہیں رچتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بڈھوں، بھڑ بھڑیوں اور شاعروں کو پان نہیں رچتا۔ مگر آپ ناچیز کے ہونٹ دیکھ رہے ہیں۔ آداب، میاں تجمل گھر جانے سے پہلے رگڑ رگڑ کے ہونٹ صاف کرتے اور کباب اور پیاز کے بھبکے کو دبانے کے لیے جنتان کی گولی چوستے۔ حاجی صاحب (ان کے والد) چنیوٹ سے تازہ ولایت تھے اور سیخ کے کباب اور پان کو یوپی کی عیاشیوں میں شمار کرتے تھے۔ کہتے تھے، برخوردار، تمہیں جو کچھ کرنا ہے میرے سامنے کرو۔ لیکن بالفرضِ محال ان کے سامنے یہ شغل کیا جاتا تو کلہاڑی سے سر پھاڑ دیتے جو ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ وہ ایک عرصے سے بطورِ ورزش روزانہ بعد فجر دس سیر لکڑی پھاڑتے تھے۔ آندھی پانی ہو تو مردانہ بیٹھک میں دس دس سیر کے رنگین مگدر گھما لیتے۔ وہ چنیوٹ سے تلاش معاش کے لیے نکلے تو ان کے والد یعنی میاں تجمل کے دادا نے انہیں راہ راست سے بھٹکنے سے باز رکھنے کے لیے ایک ہزار دانہ (تسبیح)، ایک جوڑی مگدر، کلہاڑی اور بیوی زادِ سفر میں ساتھ کر دی۔ اور کچھ غلط نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان آلات سے شغل کرنے کے بعد بدی تو ایک طرف رہی آدمی نیکی کرنے کے لائق بھی نہیں رہتا۔
مگر خدارا، آپ میری باتوں سے کچھ اور نہ سمجھ بیٹھیے گا۔ بار بار طوائف اور کوٹھے کا ذکر آتا ہے۔ مگر "تمام ہو گئیں حل مشکلات کوٹھے پر” والا معاملہ نہیں۔ خدا گواہ ہے، بات کبھی پان اور کباب کھانے اور کوٹھے پر جانے والوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھنے سے آگے نہ بڑھی۔ کبھی کبھی میاں تجمل بڑی حسرت سے کہتے کہ یار، یہ لوگ کتنے لکی ہیں، ان کے بزرگ یا تو فوت ہو چکے ہیں یا نابینا ہیں۔
بات یہ ہے کہ وہ زمانہ اور تھا۔ نئی پود پر جوانی آتی تو بزرگ نسل دوانی ہو جاتی تھی۔ سارے شہر کے لوگ ایک دوسرے کے چال چلن پر پہرہ دینا اپنا فرض سمجھتے تھے:
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
بزرگ قدم قدم پر ہماری ناقابلِ استعمال جوانی کی چوکیداری کرتے تھے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہماری لغزشوں اور غلطیوں کو پکڑنے کے لیے اپنا بڑھاپا چوکنے وکٹ کیپر کر طرح حالتِ رکوع میں گزار دیتے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو ہم جوان کا ہے کو ہوئے تھے۔
صاحب، اپنی تو ساری جوانی دوانی ڈنڈ پیلنے اور بھینس کا دودھ پینے میں ہی گزر گئی۔ اب اسے دوانہ پن نہیں تو اور کیا کہیں؟ ۔
کھلی آنکھوں سے گانا سننے والے
میرے والد، اللہ بخشے، تھیٹر اور گانے کے رسیا تھے۔ ایسے ویسے، جب موج میں ہوتے اور بیٹھک میں ہارمونیم بجاتے تو رستہ چلتے لوگ کھڑے ہو جاتے۔ بجاتے میں آنکھیں بند رکھتے۔ اس زمانے میں با ذوق سننے والے بھی گانا سنتے وقت آنکھیں بند ہی رکھتے تھے تا کہ توجہ صرف سُر پر مرکوز رہے۔ البتہ طوائف کا گانا کھلی آنکھوں سے سننا جائز تھا۔ استاد بندو خان کی طرح والد کے منھ سے کبھی کبھی بے اختیار گانے کا بول نکل جاتا جو کانوں کو بھلا لگتا تھا۔ ویسے باقاعدہ گاتے بھی تھے۔ مگر صرف اس کے سامنے جو خود بھی گاتا ہو۔ یہ اس زمانے کے شرفا کا دستور تھا۔ شاہد احمد دہلوی بھی یہی کرتے تھے۔ آپ نے تو والد کا بالکل آخری زمانہ دیکھا جب وہ صاحب۔ فراش ہو چکے تھے۔ جوانی میں ہیرا بائی کے گانے کے دلدادہ تھے۔ دادر کنٹھیا تھی، یعنی دوسروں میں قیامت ڈھاتی تھی۔ بیشتر مجرئی، میرا مطلب ہے بیٹھ کر گاتی تھی۔ سو میل کے دائرے میں کہیں اس کا گانا ہو، وہ سارا کام دھندا چھوڑ کر پہنچ جاتے۔ اتفاقاً کسی محفل میں نہ پہنچ پائیں تو وہ خود بھی بے کیف سی رہتی۔ راجستھانی مانڈ اور بھیرو ٹھاٹھ صرف ان ہی کے لیے گاتی تھی۔ دھیوت اور رکھب سُروں کو لگاتے وقت ذرا تھم تھم کے انہیں جھلاتی تو ایک سماں باندھ دیتی۔ جیسی چونچال طبیعت پائی تھی ویسی ہی گائیکی تھی۔ درباری گاتے گاتے کبھی چنچل سُر لگا دیتی تو ساری محفل پھڑک اٹھتی۔ آپ کو تو بخوبی علم ہے۔ والد گھر کے رئیس نہیں تھے۔ عمارتی لکڑی کی چھوٹی سی دکان تھی۔ میری موجودہ دکان کی ایک چوتھائی سمجھیے۔ بس کام چلاؤ۔ لکڑ منڈی میں کسی کی دکان تین دن بند رہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ کسی قریبی رشتے دار کا انتقال ہو گیا ہے۔ چوتھے دن بند رہنے کا مطلب تھا کہ خود اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ لیکن والد صاحب کی دکان سات دن بھی بند رہے تو لوگ فکر مند نہیں ہوتے تھے۔ سمجھ جاتے کہ ہیرا بائی سے اپنے حسنِ سماعت کی داد لینے گئے ہیں۔ تاہم ان کے بندھے ہوئے گاہک لکڑی انھی سے خریدتے تھے۔ ہفتے ہفتے بھر واپسی کا انتظار کرتے۔ بلکہ آخر آخر تو یہ ہوا کہ تین چار گاہکوں کو بھی چاٹ لگا دی۔ وہ بھی ان کی اردلی میں ہیرا بائی کا گانا سننے جانے لگے۔ جب انہیں پوری طرح چسکا لگ گیا تو سواری کا انتظام، سہرا گانے پر بیل اور ہر اچھے شعر پر روپیہ دینے کے فرائض بھی انہیں ہی تفویض کر دیے۔ ہیرا بائی روپیہ اُن سے لیتی، سلام والد کو کرتی تھی۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ ان دکھیاروں کو موسیقی کی بھی کچھ سوجھ بوجھ پیدا ہوئی یا نہیں، لیکن آخر میں وہ لکڑی خریدنے کے لائق نہیں رہے تھے۔ ایک نے تو دوالا نکالنے کے بعد ہارمونیم مرمت کرنے کی دکان کھول لی۔ دوسرا اس لائق بھی نہ رہا۔ قرض خواہوں سے آبرو بچا کر بمبئی چلا گیا جہاں بغیر ٹکٹ کے روز تھیٹر دیکھتا اور مختار بیگم اور ماسٹر نثار کا گانا سنتا تھا۔ مطلب یہ کہ تھیٹر میں پردہ کھنچنے کے آنریری فرائض انجام دینے لگا۔ دن میں تُرکی ٹوپی کے پھندنے بیچتا تھا۔ سنا ہے اس زمانے میں داؤد سیٹھ بھی بمبئی میں پھندنے بیچا کرتا تھا۔ حالانکہ اس نے تو ہیرا بائی کا گانا بھی نہیں سنا تھا۔
اور یہ جو آپ ٹھمری، دادرے اور خیال میں ناچیز کا ورک اور شغف دیکھ رہے ہیں، یہ باوا ہی کا فیضان ہے۔ اقبال بانو، ثریا ملتانیکر اور فریدہ خانم اب میری صورت پہچاننے لگی ہیں۔ مگر میاں تجمل کہتے ہیں کہ صورت سے نہیں، تمہارے سفید بالوں سے پہچانتی ہیں۔ ارے صاحب، گزشتہ سال جو ڈانس ٹروپ آیا تھا، اس کے شو میں خدا جھوٹ نہ بلوائے ہزار آدمی تو ہوں گے۔ میاں تجمل کا ٹکٹ بھی مجھی کو خریدنا پڑا۔ تیسرا حج کرنے کے بعد انھوں نے اپنے پیسے سے ناچ گانا اور سینما دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کہنے لگے "اس جِمِ غفیر و پر تقصیر میں ایک آدمی بھی تم جیسا نہیں۔” میں نے شکریہ ادا کیا "آداب”، بولے "میرا مطلب ہے تمھاری طرح جھڑوس نہیں۔ ایک آدمی نہیں جس کے تمام بال اور بھویں تک تمہاری طرح سفید ہوں۔ بھائی میرے، یا تو انہیں کالے کر لو یا ڈانس مجرے سے توبہ کر لو۔” میں نے کہا "بھائی تجمل، رو سیاہی کے لیے تمھارے ساتھ اس کوچہ ملامت کا طواف میرے لیے کافی ہے۔ میں بیک وقت اپنا منھ اور بال کالے نہیں کرنا چاہتا۔”
کوئی نماز اور مجرا قضا نہیں کیا
ویسے آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ والد نیک طینت، پابند صوم و صلٰوۃ اور پاکباز آدمی تھے۔ بحمد للہ، ہم سب بھائی بہن پنج وقتہ نمازی ہیں۔ یہ بھی انہی کا فیضان ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی نماز اور مجرا قضا نہیں کیا۔ 23۔ 1922ء کا ذکر ہے۔ جب ایک پارسی تھیٹریکل کمپنی پہلے پہل کانپور آئی تو ایک مہینے تک ایک ہی کھیل روزانہ۔ بلا ناغہ۔ اس طرح دیکھا گویا پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ چند ہی روز میں تھیٹر والوں سے ایسے گھل مل گئے کہ ڈائیلاگ میں تین چار جگہ حسبِ منشا تبدیلی کرائی۔ ایک موقعے پر داغ کے بجائے استاد ذوق کی غزل راگ ایمن کلیان میں گوائی۔ بِبو کو سمجھایا کہ تم ڈائیلاگ کے دوران بیک وقت آنکھیں بھی مٹکاتی ہو اور کمر اور کولھے بھی۔ موقعے کی مناسبت سے تینوں میں سے صرف ایک مہلک ہتھیار کا انتخاب کر لیا کرو۔ دو مرتبہ ہیرو کو سٹیج پر پہننے کے لیے اپنا صاف پاجامہ دیا۔ مینجر کو آگاہ کیا کہ تم نے جس شخص کو لیلیٰ کا باپ بنایا ہے، او کی عمر مجنوں سے بھی کم ہے۔ مصنوعی داڑھی کی آڑ میں وہ لیلیٰ کو جس نظر سے دیکھتا ہے اسے پدرانہ شفقت ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ ایک دن پیٹی ماسٹر دردِ گردہ سے نڈھال ہو گیا تو ہمارے باوا ہارمونیم بجانے بیٹھ گئے۔ عطرِ حنا میں بسا ریشمی رو مال سر پر ڈال لیا۔ اور فرض کر لیا کہ کوئی نہیں پہچانے گا۔ سرخی مائل سپید رنگ، سپید چمکدار دانت، پتلے ہونٹ، کم ہنستے تھے، مگر جب ہنستے تو رخساروں پر سرخی اور آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگتے۔ ہر لباس ان پر پھبتا تھا۔ چنانچہ شیریں بات تو فرہاد سے کرتی، لیکن نظریں ہمارے باوا پر ہی جمائے رکھتی تھی۔
تھیٹر سے ان کا یہ شغف والدہ کو شاق گزرتا تھا۔ ہم بہن بھائی سیانے ہو گئے تو ایک دن والدہ نے ان سے کہا کہ "اب تو یہ شوق چھوڑ دیجیئے۔ اولاد جوان ہو گئی ہے۔” کہنے لگے "بیگم، تم بھی کمال کرتی ہو، جوان وہ ہوئے ہیں اور نیک چلنی کی تلقین مجھے کر رہی ہو۔”
انہیں یہ شوق جنون کی حد تک تھا۔ آغا حشر کاشمیری کو شیکسپیئر سے بڑا ڈراما نگار سمجھتے تھے۔ اس موازنے میں دانستہ ڈنڈی مارنے یا تعصب کو ذرا دخل نہ تھا۔ انہوں نے سرے سے شیکسپیئر کو پڑھا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح ایک دفعہ اپنے دوست پنڈت سورج نرائن شاستری سے اس بات پر لڑ مرے کہ داغ دہلوی کالی داس سے بڑا شاعر ہے۔ دورانِ موازنہ، دلیل میں زور پیدا کرنے کے لیے انہوں نے کالی داس کو ایک ناقابل بیان گالی بھی دی جس کا پنڈت جی پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ اور انہوں نے (پنڈت جی نے) نواب ساہل دہلوی جانشینِ داغ تک کو کالی داس سے بڑا تسلیم کرنے کے لیے از خود آمادگی ظاہر کی۔ جس دن آغا حشر کاشمیری کے انتقال کی خبر آئی تو والد کی جیبی گھڑی میں صبح کے دس بج رہے تھے۔ دکان پر خریداروں کا ہجوم تھا، مگر اسی وقت دکان میں تالا ڈال کے گھر آ گئے۔ دن بھر منھ اوندھے پڑے رہے۔ پنڈت جی پرسا دینے آئے تو چادر سے منھ نکال کے بار بار پوچھتے پنڈت جی مختار بیگم (جو آغا حشر کی منظور نظر مغنیہ تھیں) کا کیا بنے گا؟ پہاڑ سی جوانی کیسے کٹے گی؟ آخر کے تئیں پنڈت جی نے جواب دیا، خاں صاحب (وہ والد کو نہ جانے کیوں ہمیشہ خاں صاحب ہی کہتے تھے) ہر پہاڑ کو کوئی نہ کوئی تیشہ بردار فرہاد مل جاتا ہے۔ کلا کا سہاگ بھی کبھی اجڑا ہے؟ اس کی مانگ تو سدا سیندور اور ستاروں سے بھری رہے گی۔ والد جیسے ہی صبح گھر میں غم زدہ اور دل گرفتہ داخل ہوئے، برآمدے کی چقیں ڈال دیں اور والدہ سے کہا "بیگم ہم لُٹ گئے۔ آج گھر میں چولہا نہیں جلے گا۔” سرِ شام ہی قلاقند کھا کے سو گئے۔
پنڈت جی موسیقی سے قطعاً نابلد تھے۔ لیکن بلا کے ادا شناس اور اتنے ہی غمگسار۔ دوسرے دن صبح تڑکے والد صاحب سے بھی زیادہ دل گرفتہ اور غم زدہ صورت بنائے، آہیں بھرتے آئے۔ شیو بھی بڑھا ہوا تھا۔ گھر سے حلوہ پوری اور کاشی پھل کی ترکاری بنوا کر لائے تھے۔ والد کو ناشتہ کروایا۔ ہمیں تو اندیشہ ہو چلا تھا کہ والد کے ڈر کے مارے پنڈت جی کہیں بھدرا (ہندو رسم کے مطابق قریبی عزیز کے کریا کرم کے بعد سر کے بال، بھویں، داڑھی اور مونچھ منڈانا) نہ کروا لیں۔
آسمان سے اُترا، کوٹھے پہ اٹکا
معاف کیجیئے، یہ قصہ شاید میں پہلے بھی سنا چکا ہوں۔ آپ بور تو نہیں ہو رہے؟ ہر بار تفصیلات میں کچھ فرق آ جائے تو حافظے کا قصور ہے۔ غلط بیانی مقصود نہیں۔ باوا سے کبھی ہم ناٹک دیکھنے کی فرمائش کرتے تو وہ منیجر کو رقعہ لکھ دیتے کہ بچوں کو بھیج رہا ہوں۔ اگلی سیٹوں پر جگہ دیجیئے۔ بعد کو تو میں خود ہی رقعہ لکھ کے باوا کے دستخط بنا دیتا تھا۔ یہ بات ان کے علم میں تھی۔ اس لیے کہ ایک دن جھنجھلا کر کہنے لگے "جعلی دستخط بناتے ہو تو بناؤ، کم از کم املا کی غلطیوں سے تو مجھے رسوا نہ کرو۔ صحیح لفظ "براہِ کرم” ہے "برائے کرم” نہیں۔” ہمیشہ میٹنی شو میں بھیجتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میٹنی شو میں کھیل کا مخرب اخلاق اثر، ٹکٹ کی قیمت کی طرح آدھا رہ جاتا ہے۔ سب مجھے بچہ سمجھتے تھے، مگر اندر قیامت کی کھد بد مچی تھی۔ منی بائی جب سٹیج پر گاتی تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ یہ وہ داغ والی منی بائی حجاب نہیں۔ جس پر انہوں نے پوری مثنوی لکھ ڈالی۔ غضب کی آواز، بلا کی خوبصورت، پلک جھپکنے، سانس بھی لینے کو جی نہیں چاہتا تھا کہ اس سے بھی خلل واقع ہوتا تھا۔ کیا شعر ہے وہ اچھا سا؟ "وہ مخاطب بھی ہیں، قریب بھی ہیں۔” آپ کو تو یاد ہو گا۔
(لقمہ) ان کو دیکھوں کہ ان سے بات کروں
شکریہ، صاحب، حافظہ بالکل چوپٹ ہو گیا ہے۔ محفل میں اول تو شعر یاد نہیں آتا۔ اور آ بھی جائے تو پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بالکل بے محل تھا۔ جیسا کہ اس وقت ہوا۔ دونی خفت ہوتی ہے۔ اس وقت در اصل "نظارے کو یہ جنبشِ مژگاں بھی بار ہے” والا شعر پڑھنا چاہتا تھا۔ خیر، پھر کبھی۔ اس دن آپ نے برے تجربے کی بات کہی کہ بچپن کے بعد صرف ایک مصرعے پر قناعت کرنی چاہیے۔ تو صاحب جس وقت منی بائی استاد داغ کی غزل گاتی تو نہ اسے ہوش رہتا، نہ سننے والوں کو:
اک جوش تھا کہ محوِ تماشائے جوش تھا
مانا کہ داغ بحیثیت عاشق، نرا رند شاہد باز ہے اور اس کا معشوق زنِ بازاری۔ لیکن پیرایہ اظہار بازاری نہیں۔ زبان جمنا میں دھلی قلعہ معلی کی ہے۔ محاورہ اور روز مرہ داغ کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مگر غضب یہ کیا کہ بچھانے کی چیز کو اوڑھ کر بستر صلائے عام پر دراز ہو گئے۔ حضرتِ داغ جہاں لیٹ گئے لیٹ گئے۔ بقول آپ کے مرزا عبدالودود بیگ کے، کلامِ داغ آسمانِ فصاحت سے اُترا، کوٹھے پہ اٹکا۔ وہاں سے پھسلا تو کولھے پہ آ کے مٹکا۔ لیکن فراق گورکھپوری کی سراسر زیادتی ہے کہ "اس شخص نے حرمزدگی کو genius کا مقام عطا کر دیا۔” آپ نے تو خیر وہ زمانہ نہیں دیکھا، مگر آج بھی۔ کسی بھی محفلِ موسیقی میں۔ داغ کی غزل پِٹ نہیں سکتی۔ دیکھنے والوں نے داغ کی مقبولیت کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب مولانا عبدالسلام نیازی جیسے عالمِ بے بدل کو شاعری کا شوق چرایا تو داغ کے شاگرد ہو گئے۔ عقیدت کا یہ عالم کہ کوئی استاد کو شعر پڑھتا تو سبحان اللہ کہہ کر وہیں سجدے میں چلے جاتے، تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ "زہرِ عشق” میں منی بائی نے داغ کی پانچ غزلیں گائیں۔ پانچوں لاجواب اور پانچوں کی پانچ بے محل۔ صاحب، سن 47ء کے بعد رنڈیاں تو ایسی گئیں جیسے کسی نے لوکا لگا دیا ہو۔ اب ویسی شائستہ طوائفیں کہاں۔ مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اب ویسے قدر داں بھی نہیں رہے۔ نہ وہ غزنوی میں مذاق۔ الخ۔ ارے صاحب، آپ سے اس کم بخت الخ کا مطلب پوچھا تھا۔ آج تک بتا کے نہ دیا۔ اور یہ جو آپ کہتے ہیں کہ آپ کو فارسی بالکل نہیں آتی، تو یہ واقع میں سچ ہے یا محض رسمی کسرِ نفسی؟
چاندی کا کُشتہ اور چنیوٹ کی چلم
خوب یاد آیا۔ ہمارے ایک جاننے والے تھے، میاں نذیر احمد، چنیوٹ برادری سے تعلق تھا۔ چمڑے کے کاروبار کے سلسلے میں اکثر بمبئی جاتے رہتے تھے۔ وہاں ریس کا چسکا لگ گیا۔ گھوڑوں سے جو کمائی بچ رہتی، اس میں غریبامؤ گزر بسر کرتے۔ گلنار طوائف کے ساتھ دو بول پڑھوا لیے تھے۔ حجِ بیت اللہ کے بعد خود تائب ہوئی سو ہوئی، میاں نذیر احمد کو بھی بہت سی علتوں سے توبہ کروا دی۔ اور ان کے دن بھی پھر گئے۔ وہ جو ادھیڑ عمر میں طوائفوں کی صورت پر پھٹکار برسنے لگتی ہے اور آواز پھٹا بانس ہو جاتی ہے وہ کیفیت قطعی نہیں تھی۔ میلاد شریف خوب پڑھتی تھی۔ آواز میں غضب کا سوز تھا۔ جب سفید دوپٹے سے سر ڈھانکے لہک لہک کر جامی کی نعت یا انیس کا مرثیہ پڑھتی تو لحن میں ہزار حلاوتیں، ہزار عقیدتیں گھول دیتی۔ ہم چھپ چھپ کر سنتے۔ محرم میں کالے کپڑے اس پر کھلتے تھے۔ پاکستان آ گئی تھی۔ برنس روڈ پر ادیب سہارنپوری کے فلیٹ سے ذرا دور چھوٹا سا تین کمروں کا فلیٹ تھا۔ میاں صاحب جاڑوں میں بھی ململ کا کرتا پہنتے اور صبح ٹھنڈے یخ پانی سے غسل کر کے لسی پیتے تھے۔ مشہور تھا کہ فوری طاقت کے ہوکے میں ڈھیر سارا رُوپ رس یعنی چاندی کا ادھ کچا کشتہ کھا بیٹھے تھے۔ گلنار کی چھوٹی بہنیں منی اور چنی بھی آفت کی پرکالہ تھیں۔ آپ نے بھی تو ایک دفعہ کسی چھوٹی الائچی اور بڑی الائچی کا ذکر کیا تھا۔ بس کچھ ویسا ہی نقشہ تھا۔ افسوس اب کھانوں میں بڑی الائچی کا استعمال ختم ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس کی مہک، اس کا ذائقہ ہی اور ہے۔ آپ تو خیر بڑی الائچی سے چڑتے ہیں۔ مجھے تو کسی طرف سے بھی کاکروچ جیسی نہیں لگتی۔ تو صاحب منی بیگم کا چہرہ اور بھرے بھرے بازو کچھ ایسے تھے کہ کچھ بھی پہن لے، ننگی ننگی سی لگتی تھی۔ یو نو واٹ آئی مین، چنی بیگم فارسی غزلیں خوب گاتی تھی۔ لوگ بار بار فرمائش کرتے۔ وہ بھی عموماً بیٹھ کر گاتی تھی۔ کبھی داد کم ملتی یا یوں ہی ترنگ آتی تو یکایک اٹھ کھڑی ہوتی۔ دونوں سارنگیئے اور طبلچی (اس زمانے میں سارنگی اور طبلہ بجانے والے کو سارنگیا اور طبلچی کہتے تھے۔ یعنی طبلہ بجانا ہی کہا جاتا تھا۔ طبلہ بجانے والا اپنے ہنر سے شرمندہ نہیں تھا۔ طبلے کو "نوازنے” اور طبلہ نواز کہلانے کی ضرورت ابھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔) بھی اپنے اپنے زرین پٹکے کس لیتے اور استادہ ہو کر سنگت کرتے۔ محفل میں دو تین چکر رقصاں لگاتی۔ پھر قلبِ بساط پر کھڑے ہو کر ایک ہی جگہ پھرکی کی مانند تیزی سے گھومنے لگتی۔ زر دوزی کی لشکارا مارتی پشواز ہر چکر کے بعد اونچی اٹھتے اٹھتے تابہ کمر پہنچ جاتی۔ یوں لگتا جیسے جگنوؤں کا ایک ہالہ رقص میں ہے۔ لے اور گردش تیز، اور تیز ہوتی، کرن سے کرن میں آگ لگتی چلی جاتی۔ پھر ناچنے والی نظر نہ آتی۔ صرف ناچ نظر آتا تھا۔
کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلہ پُر پیچ و تاب
اور جب یکایک رکتی تو پشواز سڈول ٹانگوں پر امر بیل کی طرح ترچھی لپٹتی چلی جاتی۔ سازندے ہانپنے لگتے اور کھرن (وہ سیاہ حلقہ جو طبلے پر ہوتا ہے) پر طبلچی کی تناتی ہوئی انگلیوں سے لگتا خون اب ٹپکا کہ اب ٹپکا۔
دیکھیے میں پھر بھٹک کر اسی لعنت مارے بازار میں جا نکلا۔ آپ نے نوٹس لینے بند کر دیئے۔ بور ہو گئے؟ یا میں واقعات کو دہرا رہا ہوں؟ وعدہ ہے، اب کسی طوائف کو، خواہ وہ کتنی ہی آفتِ جاں کیوں نہ ہو، اپنے اور آپ کے درمیان حائل نہ ہونے دوں گا۔ صاحب، ہماری تو باتیں ہی باتیں ہیں۔
باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پرسوں آپ لندن چلے جائیں گے۔ میر ہی نے بے ثباتی پر اپنے ایک شعر میں مجمعِ یاران کو "مجلسِ رواں” کہا ہے کہ یہاں ہر یار سفری اور ہر صحبت گزراں ہے۔ تو صاحب، ذکر میاں نذیر احمد کا ہو رہا تھا۔ میاں صاحب کانپور کے 104 ڈگری ٹمپریچر سے گھبرا کر مئی کا مہینہ بڑی پابندی سے چنیوٹ کی 104 ڈگری میں گزارتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ چنیوٹ کی لُو کانپور کی لُو سے بہتر ہوتی ہے۔ ہم لوگ آپس میں شیکسپیئر کے گیت کی درگت بناتے تھے:
"Blow, blow thou Chiniot” loo.
Thou art not so unkind
As local specimens of mankind
Who couldn’t care who’s who!
میاں صاحب اکثر فرماتے کہ قدرت کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ چنیوٹ کی گرمی میں سال بھر کے جمع شدہ فاسد خیالات پسینے کی راہ خارج ہو جاتے ہیں۔ روزے کبھی ریس اور بیماری کی حالت میں بھی نہیں چھوڑے۔ مئی جون میں بھی ایک ڈلی لاہوری نمک کی چاٹ کر حقے کے معدے تک اُتر جانے والے کش سے افطار کرتے۔ پہلے تین چار مرتبہ یوں ہی امتحاناً گڑگڑاتے۔ جیسے سنگت کرنے سے پہلے ستار بجانے والے مضراب سے تاروں کی کساوٹ کو اور طبلچی ہتھوڑی سے طبلے کے رگ پٹھوں کو ٹھونک بجا کے ٹیسٹ کرتا ہے۔ پھر ایک ہی سسکی بھرے کش میں سارے تمباکو کا انس (ست۔ جان) نکال لیتے۔ بلکہ اپنی جان سے بھی گزر جاتے۔ س سس سوع سوع، سو سو وووو۔۔۔ ووو، ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ جاتے، ٹھنڈے پسینے آنے لگتے، پُتلیاں اُوپر چڑھ جاتیں۔ پہلے بے ست، پھر بے سدھ ہو کر وہیں کے وہیں پڑے رہ جاتے۔ گلنار انہیں شربت انار پلا کر نماز کے لیے کھڑا کرتی۔ حقے کی نے پر چنبیلی کے ہار اور نیچہ پر خس لپٹی ہوتی۔ تمباکو تیز اور کڑوا، بے پناہ پسند کرتے تھے۔ قوام لکھنؤ سے منگواتے۔ چاندی کے منھال دلی کے ایک سادہ کار سے گھڑوائی تھی۔ مٹی کی چلم اور توا ( مٹی کو گول ٹکیا جو تمباکو اور انگاروں کے درمیان رکھتے ہیں) ہمیشہ چنیوٹ سے آتا تھا۔ فرماتے تھے بادشاہو، اس مٹی کی خوشبو الگ سے آتی ہے۔
لاہور میں آج بسنت ہے
میاں نذیر احمد شنکرات کے دن کڑکڑاتے جاڑے میں ململ کا کُرتا پہنے ننگے سر چھت پر پتنگ ضرور اڑاتے۔ یہ بھی ان کا بھولپن ہی تھا کہ ململ کے کُرتے کو جوانی کا سرٹیفکیٹ اور اشتہار سمجھ کر پہنتے تھے۔ ہم تین چار لڑکے چوری چھپے ان کی خوشبودار مرواریدی معجونیں فقط مٹھاس کے لالچ میں کھاتے، مگر دل ہی دل میں ان کے معجزانہ اثرات کے ہفتوں منتظر رہتے۔ میاں صاحب لحاف صرف اس وقت اوڑھتے جب بلبلا کے جاڑے سے بخار چڑھتا۔ یو پی کے جاڑے کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ حقارت سے کہتے "بادشاہو، یہ بھی کوئی سردی ہے۔” در اصل لاہور کے جاڑے کے بعد وہ صرف ملیریا کے جاڑے کے قائل تھے۔ آپ کے مرزا عبد الودود بیگ بھی تو یہی الزام لگاتے ہیں نا، کہ یو پی کے کلچر میں جاڑے کو رج کے celebrate کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ جب کہ پنجاب میں گرمی کے اس طرح چونچلے اور غمزے نہیں اٹھائے جاتے جس طرح یو پی میں۔ صاحب، یو پی میں جاڑے اور پنجاب میں گرمی کو محض سالانہ سزا کے طور پر برداشت کیا جاتا ہے۔ کم و بیش اسی نوع کا فرق برسات میں نظر آتا ہے۔ پنجاب میں بارش کو فقط اس لیے انگیز کرتے ہیں کہ اس کے بغیر فصلیں نہیں اُگ سکتیں۔ جب کہ یو پی میں ساون کا واحد مقصد و مصرف یہ نظر آتا ہے کہ کڑھائی چڑھے گی۔ درختوں پر آم اور جھولے لٹکیں گے۔ اور جھولوں میں کنواریاں بالیاں۔ پنجاب میں درختوں پر آم یا کچھ اور لٹکنے کی ایسی خوشی صرف طوطوں کو ہوتی ہے۔
اور انگلینڈ میں بارش کا فائدہ جو سال کے 345 دن ہوتی ہے (بقیہ بیس دن برفباری ہوتی ہے) آپ یہ بتاتے ہیں کہ اس سے شائستگی اور خوش اخلاقی فروغ پاتی ہے۔ مطلب یہ کہ جو گالیاں انگریز بصورتِ دیگر ایک دوسرے کو دیتے وہ اب موسم کو دیتے ہیں۔
شنکرات کے دن میاں نذیر احمد پیچ ویچ تو کیا خاک لڑاتے، بس چھ سات پتنگیں کٹوا اور ڈور لٹوا کر اپنا۔ اور اپنے سے زیادہ دوسروں کا۔ جی خوش کر لیتے تھے۔ ہر پتنگ کٹوانے کے بعد لاہور کے مانجھے کو بے تحاشا یاد کرتے۔ ارے صاحب، پتنگ کٹتی نہیں تو اور کیا۔ پیچ کانپور میں لڑاتے اور قصے لاہور کے بسنت کے رنگ رنگیلے آسمان کے سناتے جاتے۔ نظر بھی خاصی کمزور ہو چلی تھی۔ لیکن عینک صرف نوٹ گننے اور مچھلی کھاتے وقت طوعاً و کرہاً لگا لیتے تھے۔ عینک نہ لگانے کا ایک ضمنی نتیجہ یہ نکلتا کہ جس پتنگ کو وہ حریف کی پتنگ سمجھ کر بے تحاشا "کھینچ” کرتے، وہ در اصل ان کی اپنی ہی پتنگ نکلتی جو چند لمحوں بعد پہلے ہی مخالف رگڑے سے کٹ کر ہوا میں لالچی کی نیت کی طرح ڈانواں ڈول ہونے لگتی۔ ڈور یکایک لجلجی پڑ جاتی تو انہیں پتہ چلتا کہ کٹی پتنگ تیری، ڈور اب سمیٹا کر۔ میاں صاحب اکثر فرماتے کہ پتنگ اور کنکوے بنانے میں تو بے شک لکھنؤ والوں کا جواب نہیں، لیکن بادشاہو، ہوا لاہور ہی کی بہتر ہے۔ سچ پوچھو تو پتنگ لاہور ہی کی ہوا میں پیٹا چھوڑے (جھول کھائے) بغیر ڈور پہ ڈور پیتی اور زور دکھاتی ہے۔ پتنگ کے رنگ اور مانجھے کے جوہر تو لاہور ہی کے آسمان میں کھلتے اور نکھرتے ہیں۔ کانپور میں "وہ کاٹا” اس طرح کہتے ہیں جیسے معذرت، بلکہ تعزیت کر رہے ہوں۔ لاہور کے ” بو کاٹا ” میں پچھڑے ہوئے پہلوان کی چھاتی پر چڑھے ہوئے پہلوان کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔ بلکہ پسینے میں شرابور جسم سے چمٹی ہوئی اکھاڑے کی مٹی تک نظر آتی ہے۔
میاں صاحب کی چرخی لاہور ہی کے ایک زندہ دل پکڑتے جو حلیم کالج کانپور میں لیکچرار تھے۔ عبدالقادر نام تھا۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ دونوں مل کر پتنگ کو مبالغے کا مانجھا اور یادوں کی الجھی سلجھی تل چانولی (دو رنگی) ڈور ایسی پلاتے کہ چرخیاں کی چرخیاں خالی ہو جاتیں اور پتنگ آسمان پہ تارا ہو کے لاہور کی چوبرجی پہ جا نکلتی، جس نے ان کے وہ دن دیکھے تھے جب کوئی شے سادہ و بے رنگ نظر نہیں آتی:
غبار گلگوں ہے، آب رنگیں، زمیں ہے سرخ اور ہوا شہابی
(ہوا شفق پوش، باغ و صحرا محیط ہے رنگِ لالہ و گل۔ (سراج اورنگ آبادی) اس پر مرزا کہتے ہیں کہ نوجوانی میں زیبرا بھی ملٹی کلرڈ دکھائی دیتا ہے۔)
خواب نیم روز
اب یہ چڑھی پتنگ جو کچھ راوی پار دیکھتی، اس کا حال کچھ ان دونوں زندہ دلانِ لاہور کی، کچھ بشارت اور رہا سہا اس عاجز داستاں و پاستان طراز کی زبانی سنیے:
لاہور میں آج بسنت ہے۔ آیا بسنت پالا اُڑنت۔ جاتی رُت نے عجب سماں باندھا ہے۔ بسنتی لباس اور رخساروں پر اُترتے جاڑے کی سرخی غضب ڈھا رہی ہے۔ کھیتوں میں چار سُو سرسوں پھولی ہے۔ گلاب اور دیر سے کھلنے والے گل داؤدی کی اپنی الگ بہار ہے۔ سرسوں، پتنگ، تتلی، پیرہن، پھول، رخسار۔۔۔ ایک گلستاں نظر آتا ہے گلستاں کے قریب۔
ہاں، لاہور میں آج بسنت ہے۔ رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں۔ بسنت اور برسات میں لاہور کا آسمان آپ کو کبھی بے رنگ، اکتایا ہوا اور نچلا نظر نہیں آئے گا۔ لاڈلے بچے کی طرح چیخ چیخ کے ہمہ وقت اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اور توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ کہ ادھر دیکھو۔ اس وقت مجھے ایک اور شوخی سوجھی ہے۔ کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ کبھی تاروں بھرا۔ بچوں کی آنکھوں کی مانند جگمگ جگمگ۔ کبھی نوری فاصلوں پر کہکشاں کی افشاں۔ اور کبھی اودی گھٹاؤں سے زرتار باراں۔ کبھی تانبے کی طرح تپتے تپتے ایکا ایکی امرت برسانے لگا اور خشک کھیتوں اور اداس آنکھوں کو جل تھل کر گیا۔ ابھی کچھ تھا، ابھی کچھ ہے۔ گھڑی بھر کو قرار نہیں۔ کبھی مہرباں، کبھی قہرِ بداماں۔ پل میں اگن کنڈ، پل میں نیل جھیل۔ ذرا دیر پہلے تھل، ہیہڑ، صحراؤں کا غبار اٹھائے، لال پیلی آندھیوں سے بھرا بیٹھا تھا۔ پھر آپی آپ دھرتی کے گلے میں بانہیں ڈال کے کھل گیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ سمندر جھاگ بادلوں کے بجرے پگھلے نیلم میں پھر تیرنے لگے۔ کل شام ڈھلے جب شفق پھولی تو یوں لگا جیسے زمین اور آسمان کا وہ ملگجا سا سنگم جو دہکتے سورج کو نگل گیا، اب سدا یوں ہی تمتماتا رہے گا۔ پھر گرم ہوا ایکا ایکی تھم گئی۔ ساری فضا ایسے دم سادھے کھڑی تھی کہ پتا نہیں ہلتا تھا۔ دیکھتے دیکھتے بادل گھِر آئے۔ اور پچھلے پہر تک بجلی کے ترشول آسماں پر لپکتے، لہراتے رہے۔ پر آج سہ پہر نہ جانے کیا دل میں آئی کہ اچانک ایسا مور پنکھی نیلا ہوا کہ دیکھے سے رنگ چھوٹے۔ پہر رات گئے تک اپنی شفاف نیلاہٹیں راوی کی چاندنی میں گھولتا رہا۔
لاہور کے آسمان سے زیادہ خوب صورت اور زیادہ خوش رنگ و شوخ ادا تو صرف ایک چیز ہے۔ وہ ہے لاہور کی گل زمین۔ چار سو برس پہلے بھی یہ زمین فلک رنگ ایسی ہی تھی۔ جبھی تو نور جہاں نے کہا تھا:
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم جنتِ دیگر خریدہ ایم
سو نور جہاں نے تو جان کے عوض جنتِ لاہور میں دو گز زمین خرید لی۔ مگر زندہ دلانِ لاہور نے اس جاندادہ ہوائے لاہور کو یاد رکھنے کی طرح یاد نہ رکھا۔ نور جہاں کے قطعہ جنت میں اب ابابیلوں کا بسیرا ہے۔
لیکن صاحبو، دھنک کے اس پار وہ خوابوں کا شہر تو اب شہر دو قصہ ہو گیا اور اس کی تلاش میں جو شہزادہ چوتھی کھونٹ نکل گیا تھا وہ کبھی کا دو لخت ہوا۔ اب یہ بستی اور، زمین اور ہے۔ یہ ہرکس و ناکس پر گئے دنوں کے رُوپ سروپ کے بھید بھاؤ اور لبھاؤ نہیں کھولتی۔ انہیں دیکھنے کے لیے پیری کی آنکھ اور بچپن کی رنگین دوربین (Kaleidoscope اسے بچپن کی حیرت بین یا دھنک درشن کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اس میں کانچ کے رنگ برنگے ٹکڑے ہوتے ہیں جو ہر جنبش کے ساتھ طرح طرح کے رنگ، شکلیں اور پیٹرن اختیار کرتے چلے جاتے ہیں) چاہیے۔ یہ ہوں تو پھر ہر شہر، شہر دو قصہ دکھلائی دیتا ہے۔
خواب نیم روز ختم ہوا۔ اب بقیہ کہانی بشارت کی زبانی انھی کے داستاں در داستاں انداز میں سنیے۔ طول دینا ہی مزہ ہے قصہ کوتاہ کا۔ جہاں تک قلم اور یاد داشت ساتھ دے گی، ہم ان کا مخصوص محاورہ اور لہجہ۔ اور لہجے کی للک اور لٹک۔ جوں کی توں برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ایک دفعہ کہانی شروع کر دیں تو ان کا جملہ معترضہ اور غیر متعلق جزئیات بھی الگ اپنی کہانی سنانے لگتے ہیں۔ ہنکارا بھرنے کی مہلت بھی نہیں دیتے۔ مرزا ایسے شکنجے میں جکڑے جانے کو کہانی کاٹھ کہتے ہیں۔ کولرج کے Ancient Mariner نے جب اپنی آسیبی کہانی شروع کی تو شادی کے جشن اور دعوت میں جانے والا مہمان ایسا مسحور ہوا کہ شادی وادی سب بھول گیا۔ مبہوت کھڑا سنتا رہا۔ بس کچھ ایسا ہی احوال ہمارا بھی ہوا:
He holds him with his glittering eye
The wedding۔ Guest stood still
And listens like a three year’s child
The Mariner hath his will
میں ابنِ بطوطہ، میرا لکھا مخطوطہ
تو صاحب، میاں نذیر احمد کا مکان بھی دیکھنے گیا۔ کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں، اس مکان سے، مگر اب پہچانا نہیں جاتا۔ خاصی فیس "لفٹنگ” ہوئی ہے۔ تین ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ برآمدے میں ایک سن رسیدہ سردار جی کنگھا ہاتھ میں پکڑے جوڑا باندھ رہے تھے۔ صرف یہی ایسا مکان ہے جو پہلے سے بہتر حالت میں نظر آیا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور غایتِ آمد بیان کی تو خوشی خوشی اندر لے گئے۔ بڑی خاطریں کیں۔ دیر تک اپنی جنم بھوم گوجرانوالہ کا حال احوال پوچھتے رہے۔ میں گھڑ گھڑ کے سناتا رہا۔ اور کیا کرتا؟ ایک سال پہلے منی بس میں گوجرانوالہ سے گزرا تھا۔ اس ایک اسٹیپ شاٹ کو انلارج کر کے اردو کا بیسٹ سیلر سفر نامہ بنا دیا۔ خیر، آپ تو ایسے سفر نامے چٹخارے لے کر پڑھتے ہیں۔ یہ تو مانا کہ بقول آتش:
سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
لیکن اس سفر نویسوں کی رال سے رقم کی ہوئی داستانوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بس آدمی ایک دفعہ اپنی منکوحہس پنڈ چھڑا کے گھر سے نکل پرے، پھر عیش ہی عیش ہیں۔ قدم قدم پہ شجر سایہ دار، ہر شجر میں ہزارہا شاخیں اور ہر شاخ پر چار چار عفیفائیں اس انتظار میں لٹکی پڑ رہی ہیں کہ جیسے ہی ڈان جوآن نیچے سے گزرے اس کی جھولی میں ٹپک پڑیں:
ہزار ہا زنِ امیدوار راہ میں ہے
گویا دیس دیس اور شہر شہر ہی نہیں، بلکہ "خانہ بخانہ، در بدر، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو” اس نا سفر جنسی فتوحات کی Odyssey بن جاتا ہے، جس میں مسافر ہر روز ہر عورت کو جو اس کا راستہ کاٹے اس کے کیفر (بد) کردار تک۔ یعنی اپنی آغوش تک۔ پہنچا کر دم لیتا ہے۔
روز اک تازہ سراپا نئی تفصیل کے ساتھ
پروفیسر قاضی عبدالقدوس، ایم اے، ہر صفحے پر اسٹرپ ٹیز کرتی ہوئی ان مخدراتِ عصمت آیات کے تذکرے کو ہرزہ سرائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہرزن سرائی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ آپ نے بہت اچھا کیا، اپنے پندرہ بیس ملکوں اور ایک ہزار صفحوں پر محیط سفر نامے کے نوٹ اپنے سرد خانے بلکہ مسترد خانے میں ڈال دیے۔ ارے صاحب، عجب ہوا چلی ہے۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدتے ہی، خواہ وہ دبئی اور سری لنکا ہی کا کیوں نہ ہو، ہر ادیب اپنے آپ کو ابنِ بطوطہ، اپنی تحریر کو مخطوطہ اور حسینوں سے اپنے خیالی مکالمے کو "ملفوظہ” سمجھنے لگتا ہے۔ مجھے آپ کی اس تجویز سے اتفاق ہے کہ جہاں حکومتِ پاکستان پاسپورٹ جاری کرنے سے پہلے یہ حلف نامہ لیتی ہے کہ درخواست دہندہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کاذب نبی سمجھتا ہے، وہاں ادیبوں سے ایک اور حلف نامہ بلکہ مچلکہ لینا چاہیے کہ واپس آ کر سفر نامہ نہیں لکھیں گے اور خود پر بد چلنی کے الزام نہیں لگائیں گے۔
گوجرانوالہ، گوجرانوالہ ہے
سردار جی کرید کرید کے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے اور میں بڑے وثوق سے گوجرانوالہ کا جھوٹا سچا حال سناتا رہا۔ انہوں نے آواز دے دے کے اپنے بیٹوں، پوتوں اور بہوؤں کو بلایا کہ "ادھر آؤ۔ بشارت جی کو سلام کرو۔ یہ نومبر میں اپنے گوجرانوالہ ہو کے آئے ہیں۔” ادھر میری یہ مصیبت کہ میں نے لاہور کے علاوہ پنجاب کا صرف ایک قصبہ یعنی ٹوبہ ٹیک سنگھ قریب سے دیکھا ہے۔ وہاں میرا ایک خورد، اکھن خالہ کا پوتا، ایگری کلچرل بینک میں تین مہینے کی ملازمت کے بعد گیارہ مہینے سے معطل پڑا تھا۔ بس اسی قصبے کے جغرافیے پر گوجرانوالہ کو قیاس کر کے ان کی تشنگی رفع کرتا رہا۔ حیرت اس پر ہوئی کہ سردار جی میری فرضی تفصیلات سے نہ صرف مطمئن ہوئے، بلکہ ایک ایک کی تصدیق کی۔ میں نے اس نہر کی موجودہ حالت کا بھی خیالی نقشہ کھینچ دیا جس میں سردار جی پُل پر سے چھلانگ لگا کے کنواری بھینسوں کے ساتھ تیرا کرتے تھے۔ میں نے ان کے ضمنی سوال کے جواب میں یہ بھی اقرار کیا کہ پُل کی دائیں طرف کنال کے ڈھلوان پر جس "ٹاہلی تھلے” وہ اپنی ہرکولیز سائیکل اور کپڑے اتار کر رکھتے تھے وہ جگہ میں نے دیکھی ہے۔ یہاں سے ایک مرتبہ چور ان کے کپڑے اٹھا کے لے گیا مگر سائیکل چھوڑ گیا۔ اس واقعے کے بعد سردار جی نے بہ نظر احتیاط سائیکل لانے چھوڑ دی۔ میں نے جب یہ ٹکڑا لگایا کہ وہ شیشم اب بالکل سوکھ گیا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ بوڑھے تنے پر نیلامی آرا چل جائے تو سردار جی پر رقت طاری ہو گئی۔ حالانکہ ان کا اپنا حال اس شیشم سے کچھ بہتر نہ تھا۔ ان کی منجھلی بہو نے جو بہت شوخ اور خوش شکل تھی مجھ سے کہا کہ "بابو جی کو ابھی پچھلے مہینے ہی ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ آپ انہیں مت رلائیں، انکل۔” اس کا انکل کہنا مجھے ذرا اچھا نہیں لگا۔ اور یہ تو مجھے آپ ہی سے معلوم ہوا کہ نہر میں بھینس نہیں تیر سکتی، خواہ وہ کنواری ہی کیوں نہ ہو۔
سردار جی میری کسی بات یا شوخ فقرے پر خوش ہوتے تو میرے زانو پر زور زور سے ہاتھ مارتے اور اندر سے لسی کا ایک گلاس اور منگوا کر پلاتے۔ تیسرے گلاس کے بعد میں نے ٹائلٹ کا پتا پوچھا۔ اپنے زانو کو ان کے دستِ ستائش کی زد سے بچایا اور گفتگو میں حد درجہ احتیاط برتنی شروع کر دی کہ کہیں بے دھیانی میں کوئی شگفتہ فقرہ منھ سے نہ نکل جائے۔ سردار جی کہنے لگے کہ "ادھر اپنا ٹرانسپورٹ کا بڑا شاندار بزنس ہے۔ سارا ہندوستان گھوما ہوں۔ پر گوجرانوالہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہاں کی مکئی اور سرسوں کے ساگ میں وہ سواد وہ سگندھ نہیں۔ اور گُڑ تو بالکل پھیکا پھوک ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ یہاں کے پانی میں پانی بہت ہے۔ جب کے گوجرانوالہ کے پانی میں شراب کی تاثیر ہے۔ اس سے ان کی مراد تھی، پانی میں طاقت ہے۔ وہ ہر مفیدِ صحت چیز کر شراب سے تشبیہ دیتے تھے۔ رخصت ہوتے ہوئے میں نے کہا، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا تکلف فرمائیے۔ بولے "تو پھر کسی آتے جاتے کے ہاتھ لاہوری نمک کے تین چار بڑے سے ڈلے بھیج دینا۔” ان کی تمنا تھی کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ اپنے بیٹوں، پوتوں کو ساتھ لے کر گوجرانوالہ جائیں اور اپنے مڈل سکول کے سامنے کھڑے ہو کر فوٹو بنوائیں۔ تحفے میں مجھے انڈین raw سلک کا چھوٹا تھان دیا۔ چلنے لگا تو منجھلی بہو نے مجھے آداب کیا۔ اس دفعہ انکل نہیں کہا۔
اب بھی ہمارے آگے، یارو، جوان کیا ہے
میں نے اس کا دل خوش کرنے کے لیے کہا "چاچا تم تو بالکل ویسے ہی ٹانٹھے رکھے ہو۔ کیا کھاتے ہو؟” یہ سنتے ہی لاٹھی پھینک، سچ مچ سینہ تان کے، بلکہ پسلیاں تان کے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا:
"صبح نہار منھ چار گلاس پانی پیتا ہوں۔ ایک فقیر کا ٹوٹکا ہے۔ کچھ دن ہوئے محلے والے میرے کنے (پاس) وفد بنا کے آئے۔ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ میرے سامنے بات کرنے کا ہیاؤ نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے کہا برخوردار، کچھ منھ سے پھوٹو۔ عرض اور غرض میں کا ہے کی شرم۔ کہنے لگے، چاچا تم لا ولد ہو۔ دوسری شادی کر لو۔ ابھی تمہارا تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ جس دوشیجا کر طرف بھی چشمِ آبرو سے اشارہ کر دو گے، کچھ دھاگے میں بندھی چلی آوے گی۔ ہم بقلم خود پیام لے کے جائیں گے۔ میں بولا، پنچایت کا فیصلہ سر آنکھوں پہ، پر یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ سوچ کے جواب دوں گا۔ کس واسطے کہ میری ایک مستوارت مر چکی ہے۔ یہ بھی مر گئی تو تاب نہیں لا سکوں گا۔ ذرا دل لگی دیکھو۔ ان میں کا ایک چرب زبان لونڈا بولا کہ چاچا، ایسا ہی ہے تو کسی پکی عمر کی سخت جان لگائی (عورت) کے ساتھ دو بول پڑھوا لو۔ بلقیس دو دفعہ رانڈ ہو چکی ہے۔ میں نے کہا ہشت،
"کیا خوب گھر کے پیروں کو تیل کا ملیدہ”
صاحب، ملیدے کے استعارے کو اب کون سمجھے گا۔ یوں کہیے کہ شکار مردہ سزاوارِ شہباز نہیں۔ میں نے چھیڑا "چاچا اب بڑھاپے میں نئی روشنی کے بے کہی بیوی سے نباہ کرنا، اسے قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔”
بولا "میاں، آپ نے وہ پرانی مثل نہیں سنی کہ ہزار لاٹھی ٹوٹی ہو، پھر بھی گھر بھر کے برتن باسن توڑنے کو بہت ہے۔”
یہ کہہ کر لاٹھی پہ سر ٹیک کے اتنے زور سے ہنسا کہ دمے کا دورہ پڑ گیا۔ دس منٹ تک کھو کھو گھس گھس کرتا رہا۔ مجھے تو ہول آنے لگا کہ سانس آئے گا بھی کہ نہیں۔
گوتم بدھ بطور پیپر ویٹ
ایک دن ملا عاصی سے طے پایا کہ اتوار کو لکھنؤ چلیں گے۔ اور وہ شہرِ نگاراں دیکھیں گے جس پر شامِ اودھ ختم ہوئی۔ لکھنؤ کے شیدائی اور ترجمانِ شیوا بیان مولانا عبد الحلیم شرر نے اودھ کے تمدن کا یہ باب ایک ڈوبتے سورج کی سرخی شفق سے رقم کیا ہے۔ میرا اصرار تھا کہ تم ساتھ چلو۔ چالیس برس بعد تنہا دیکھنے کا کس میں حوصلہ تھا۔ لوگوں نے ڈرا دیا تھا کہ زندگی اور زندہ دلی کا وہ مرقع جس پر ساری رونقیں، رعنائیاں اور رنگینیاں ختم تھیں۔ حضرت گنج۔ اب حسرت گنج دکھلائی دیتا ہے۔ صاحب لکھنؤ haunted (آسیب زدہ) شہر ہو یا نہ ہو، اپنا تو ہائنٹڈ ذہن ہئی ہے۔ مجھے تو ایک صاحب نے یہ کہہ کر بھی دہلا دیا کہ تمہیں چار باغ ریلوے اسٹیشن کا نام اب صرف ہندی میں لکھا نظر آئے گا۔ سارا لکھنؤ چھان مارو، کہیں اردو میں سائن بورڈ نظر نہیں آئے گا۔ البتہ قبروں کے کتبے اب بھی نہایت خوشخط اردو میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسا پاکیزہ خط اور ایکے موتی پرونے والے خطاط تمہیں ڈھونڈے سے پاکستان میں نہیں ملیں گے۔ میں مہمان تھا۔ چپکا ہو رہا۔ دو دن قبل ایک دلی والے سے سیدھے سبھاؤ کہیں یہ کہہ دیا کہ دلی کی نہاری اور گولے کے کباب دلی کی بسبت کراچی میں بہتر ہوتے ہیں۔ ارے صاحب وہ تو سر ہو گئے۔ میں نے کان پکڑے۔
عاصی وقتِ مقر رہ پر نہیں آئے۔ پہلے تو غصہ آیا۔ پھر تشویش ہونے لگی۔ رکشا پکڑی اور ان کے حجرہ دلکشا گیا۔ دری پر بوسیدہ کاغذات، فائلیں اور تیس برس کے سیکڑوں بل اور رسیدیں پھیلائے، ان کے بیچوں بیچ اکڑوں بیٹھے تھے۔ مینڈک کی طرح پھدک پھدک کر مطلوبہ کاغذ تک پہنچے تھے۔ جس کاغذ کا بعد میں بغور معائنہ کرنا ہو اس پر بدھ کی مورتی رکھ دیتے۔ تین بدھ تھے ان کے پاس، آنکھیں موندے ہولے ہولے مسکراتا ہوا بدھ، بیوی کو سوتا چھوڑ کر گھر سے جاتا ہوا جوان بدھ، مہینوں کے مسلسل فاقے ہڈیوں کا پنجر بدھ۔ ان تینوں بدھوں کو وہ اس وقت پیپر ویٹ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ میں تیز تیز چل کے آیا تھا۔ پسینے میں شرابور، ململ کا کُرتا پیاز کی جھلی کی طرح چپک گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے پنکھا "آن” کیا تو سوئچ کے شاک سے پچھاڑ کھا کے فرش پر گرا۔ خیر، صاحب، اسے آن کرنا تھا کہ کمرے میں آندھی آ گئی اور سیکڑوں پتنگیں اُڑنے لگیں۔ یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے کو نظر آنے بند ہو گئے۔ ان کا تیس سالہ فائلنگ سسٹم محوِ پرواز تھا۔ انہوں نے لپک کر لکڑی کی کھڑاویں پہنیں اور پنکھا بند کیا۔ چالیس پچاس سال پرانا پیتل کا سوئچ شاک مارتا ہے۔ آن اور آف کرنے سے پہلے کھڑاؤں نہ پہنو تو موت واقع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ پھر انہوں نے دوڑ دوڑ کر اپنا دفترِ لخت لخت اس طرح جمع کیا جس طرح لونڈے پتنگ لوٹتے ہیں۔ کہنے لگے، بھائی معاف کرنا۔ آج لکھنؤ ساتھ نہ جا سکوں گا۔ ایک ناگہانی الجھیڑے میں پھنس گیا ہوں۔
مُرغا بننے کی فضیلت
صاحب، وہ الجھیڑا یہ تھا کہ نگر پالیکا (بلدیہ) نے پانی کا جو بِل انہیں کل بھیجا تھا، اس میں ان کے والد کا نام اعجاز حسین کے بجائے اعجاز علی لکھا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے یہ "سہوِ کتابت” نوٹس نہیں کیا تھا۔ اب وہ گزشتہ تیس سال کے تمام بل چیک کر رہے تھے کہ اس غلطی کی شروعات کب ہوئی۔ کسی اور محکمے کے بل یا سرکاری مراسلے میں یہ سہو ولدیت ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو کیوں ہے؟ اور نہیں ہے تو کیوں نہیں؟ ایک تحقیق طلب مسئلہ یہ بھی کھڑا ہوا کہ پانی کے محکمے کو ولدیت سے کیا سروکار۔ اسی کی ایک شق یہ نکلی کہ آیا اوروں کے بلوں میں بھی متعلقہ والد کی نشان دہی کی جاتی ہے یا نہیں۔ میں نے کہا، مولانا، بل "پے” کیجیئے اور خاک ڈالیے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بولے فرق کی بھی ایک ہی کہی۔ اگر باپ کے نام سے بھی فرق نہیں پڑتا تو پھر دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں پڑے گا۔ پانچویں کلاس میں، میں نے ایک دفعہ شاہجہاں کے باپ کا نام ہمایوں بتا دیا تو ماسٹر فاخر حسین نے مُرغا بنا دیا تھا۔ وہ سمجھے میں مذاق کر رہا ہوں۔ یہ غلطی نہ بھی کرتا تو کسی اور بات پر مُرغا بنا دیتے۔ اپنا تو طالبِ علمی کا سارا زمانہ اسی پوز میں گزرا۔ بنچ پر آنا تو اس وقت نصیب ہوتا تھا جب ماسٹر کہتا کہ اب بنچ پر کھڑے ہو جاؤ۔ اب بھی کبھی طالبِ علمی کے زمانے کے خواب آتے ہیں تو یا تو خود کو مُرغا بنا دیکھتا ہوں یا وہ اخبار پڑھتا ہوا دیکھتا ہوں جس میں میرا رول نمبر نہیں ہوتا تھا۔ مسٹر دوارکا داس چتر ویدی، ڈائرکٹر آف ایجوکیشن حال میں یورپ اور امریکا کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ سنا ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک نے مُرغا بنانے کا پوز "ڈسکور” ہی نہیں کیا۔ میں نے تو عاجز آ کر ترکی ٹوپی اوڑھنی چھوڑ دی تھی۔ مُرغا بنتا تو اس کا پھندنا آنکھوں سے ایک انچ کے فاصلے پر تمام وقت پنڈولم کی طرح جھولتا رہتا تھا۔ دائیں بائیں۔ پیریڈ کے آخر میں ٹانگیں بری طرح کانپنے لگتیں تو پھندنا آگے پیچھے جھولنے لگتا۔ اس میں ترکوں کی توہین کا پہلو بھی نکلتا تھا جسے میری غیرت قومی نے گوارا نہ کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے کسی بھی قسم کی ٹوپی نہیں اوڑھی۔
میں نے فقرہ کسا، مہاتما بدھ تھی تو ننگے سر رہتے تھے۔ انہوں نے فقرہ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کبھی غور کیا، جب سے لڑکوں کو مُرغا بنانا بند ہوا ہے، تعلیمی اور اخلاقی معیار گر گیا ہے۔ ویسے تو میں اپنے شاگردوں کی ہر نالائقی برداشت کر لیتا ہوں، لیکن غلط تلفظ پر آج بھی کھٹ سے مُرغا بنا دیتا ہوں۔ جسم سے چپکی ہوئی جینز پہننے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اس سے فارسی الفاظ کے تلفظ، آبدست اور مُرغا بننے میں دقت ہوتی ہے۔ مگر آج کل کے لونڈوں کی ٹانگیں پانچ منٹ میں ہی ناطاقتی سے لڑکھڑانے لگتی ہیں۔ میں اپنے زمانے کے ایسے لڑکوں کو جانتا ہوں جو بیس بیس بید کھانے پر "سی” تک نہیں کہتے تھے۔ ایک تو ایس پی ہو کے ریٹائر ہوا۔ دوسرا دیہات سُدھار کے محکمے میں ڈائریکٹر ہو گیا تھا۔ اب ویسے شرارتی اور جی دار لڑکے کہاں، در اصل اس زمانے میں کیریکٹر بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ بس یوں سمجھو کہ جیسے کیمیا بنانے میں ایک آنچ کی کسر رہ جاتی تھی، اسی طرح آج کل کی تعلیم میں ایک بید کی کسر رہ جاتی ہے۔
ایک کٹورہ چاندی کا
اس دن سخت گرمی تھی۔ کوئی نصف صدی بعد ناریل کے ڈونگے سے پانی نکال کر اسی نقشین کٹورے سے پیا۔ سورۃ یاسین کندہ ہے۔ خالص چاندی کا ہے۔ آپ نے کٹورا سی آنکھ کا محاورہ سنا ہے؟ حضور میں نے دیکھی ہے۔ تو شام کو جب ہم فٹ بال کھیل کر لوٹتے تو اس پتلے کنارے کو ہونٹوں کے بیچ میں لیتے ہی لگتا تھا کہ ٹھنڈک رگ رگ میں اُتر رہی ہے۔ اسی کٹورے میں شہد گھول کے مُلا عاصی کو پیدا ہوتے ہیں ماں کے دودھ سے پہلے چٹایا گیا۔ اسی کٹورے سے نزع کے وقت ان کے دادا اور والد کے منھ میں آبِ زم زم چوایا گیا تھا۔ اب بھی آئے دن لوگ مانگ کے لے جاتے ہیں اور بیمار کو آبِ شفا پلاتے ہیں۔ میں نے پینے کو تو کٹورے سے پانی پی لیا۔ مگر عجیب لگا۔ کھدے ہوئے حروف میں کالا سیاہ میل جما ہوا تھا۔
صاحب، سچی بات یہ کہ پانی تو آج بھی اتنا ہی ٹھنڈا ہے۔ کٹورا بھی وہی ہے۔ پینے والا بھی وہی۔ پر وہ پہلی سی پیاس کہاں سے لائیں۔
یوں تو گھر میں ایک مراد آبادی گلاس بھی ہے۔ انہی کا ہم عمر ہو گا۔ پہلی مرتبہ ان سے ملنے گیا تو ایک شاگرد کو دوڑایا۔ وہ کہیں سے ایک پڑیا میں شکر مانگ کر لایا۔ انہوں نے اسی گلاس میں الٹی پنسل سے گھول کر شربت پلایا۔ میں تو شکر کے شربت کا مزہ بھی بھول چکا تھا۔ ہمارے بچپن میں اکثر اسی سے مہمان کی تواضع ہوتی تھی۔ سوڈے اور جنجر کی بوتل تو صرف بد ہضمی اور ہندو مسلم فساد میں استعمال کی جاتی تھی۔
شیر (شاہ) لوہے کے جال میں ہے
دیکھیئے، میں کہاں آ نکلا۔ بات بلوں سے شروع ہوئی تھی۔ جب انہوں نے اپنا دفتر پریشاں سمیٹ لیا تو میں نے پھر پنکھا آن کرنا چاہا، مگر انہوں نے روک دیا۔ کہنے لگے معاف کرنا۔ شیر شاہ علیل ہے۔ پنکھے سے بخار اور تیز ہو جائے گا۔ میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اس نام کا، بلکہ کسی بھی نام کا، کوئی بیمار نظر نہ آیا۔ اور نظر آتا بھی کیسے۔ شیر شاہ در اصل اس بیمار کبوتر کا نام تھا جو کونے میں ایک جالی دار نعمت خانے میں بند تھا۔ ایسے نعمت خانے، جنہیں لوگ گنجینے بھی کہتے تھے، اس زمانے میں ریفریجریٹر کی جگہ استعمال کیے جاتے تھے۔ حدودِ اربع بھی کم و بیش وہی۔ لکڑی کے دو تین منزلہ فریم پر چاروں طرف لوہے کی مہین جالی منڈھی رہتی تھی۔ جس کا ضمنی مصرف ہوا پہچانا، لیکن اصل مقصد مکھیوں، بلیوں، چوہوں اور بچوں کو کھانے سے محروم رکھنا تھا۔ اس کے پایوں تلے بالعموم پانی سے لبریز چار پیالیاں رکھی ہوتی تھیں۔ جن میں ان چٹوری چیونٹیوں کی لاشیں تیرتی رہتی تھیں جو جان پر کھیل کے، یہ خندق پار کر کے ممنوعہ لذائذ تک پہنچنا چاہتی تھیں۔ یہ نعمت خانے ڈیپ فریزر اور ریفریجیریٹر سے اس لحاظ سے بہتر تھے کہ ان میں رکھا ہوا بد مزہ کھانا نو دس گھنٹے بعد ہی سڑ جاتا تھا۔ اسے روز نکال نکال کے ہفتوں نہیں کھلایا جاتا تھا۔ ایسے نعمت خانے اس زمانے میں ہر متمول گھرانے میں ہوتے تھے۔ نچلے متوسط طبقے میں چھینکا استعمال ہوتا تھا۔ جب کہ غریب غربا کے ہاں روٹی کی اسٹوریج کے لیے آج بھی محفوظ ترین جگہ پیٹ ہی ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا نعمت خانہ 1953ء سے ملا عاصی کے بیمار کبوتروں کا Intensive Care Unit ہے۔ اس دن لکھنؤ نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بیمار کبوتر کو اکیلا چھوڑ کر سیر سپاٹے کے لیے جانا نہیں چاہتے تھے۔ ایک کبوتری نورجہاں اچانک مر گئی تو دس بارہ دن گھر سے نہیں نکلے۔ کیوں کہ اس کے بچے بہت چھوٹے اور بالکل گاؤدی تھے۔ انہیں سیتے رہے۔ دروپدی نام کی ایک انارا (سرخ آنکھوں والی) کبوتری کی چونچ ٹوٹ گئی۔ اسے مہینوں اپنے ہاتھ سے چوگا کھلایا۔ انہوں نے ہر کبوتر کا ایک نام رکھ چھوڑا ہے۔ اس وقت ایک لقہ کبوتر رنجیت سنگھ نامی دروازے کے سامنے سینہ اور دُم پھیلائے دوسرے فرقے کی کبوتریوں کے گرد اس طرح چکر لگا رہا تھا کہ اگر وہ انسان ہوتا تو فرقہ وارانہ فساد میں کبھی کا مارا جا چکا ہوتا۔ نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں "شمار” ہوتا۔
کبوتروں کی چھتری
کبوتر بازی ان کا بہت پرانا شوق ہے۔ ان کے والد کو بھی تھا۔ میرے والد بھی پالتے تھے۔ کبوتر کی فضیلت کے تو آپ کے مرزا عبدالودود بیگ بھی قائل ہیں۔ سچے شوق اور ہابی کی پہچان یہ ہے کہ بالکل فضول اور بے مصرف ہو۔ جانور کو انسان کسی نہ کسی فائدے اور خود غرضی کے تحت پالتا ہے۔ مثلاً کتا وہ دکھیارے پالتے ہیں جو مصاحب اور درباری افورڈ نہیں کر سکتے۔ بعض لوگ کتا اس مغالطے میں پال لیتے ہیں کہ اس اس میں برادرِ خورد کی خوبیاں ہوں گی۔ بکری اس غرض سے پالتے ہیں کہ اس کی مینگنی میں دودھ ملا کر جواباً اردو نقادوں کو پلائیں گے۔ ہاتھی زیادہ تر معتوب اُمرا پالتے تھے جنہیں بادشاہ سزا کے طور پر ہاتھ مع ہودہ نقرئی بخش دیتا تھا کہ جاؤ اب تمام عمر اسے کھلاتے ٹھساتے رہو۔ طوطے کو بڑے ارمانوں سے پالتے ہیں کہ بڑا ہر کے اپنی بولی بھول جائے گا اور ساری عمر ہمارا سکھایا ہوا بول دہراتا رہے گا۔ مولوی صاحبان مُرغے کی اذان فقط مُرغی کے لالچ میں برداشت کر لیتے ہیں۔ اور 1963ء میں آپ نے بندر محض اس لیے پالا تھا کہ اس کا نام "ڈارون” رکھ سکیں۔ لیکن صاحب کبوتر کو صرف اس لیے پالا جاتا ہے کہ کہ کبوتر ہے اور بس۔ لیکن مُلا عاصی کے ایک پڑوسی سعد اللہ خان آشفتہ نے قسم کھا کر کہا کہ ایک دن کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ میں صبح چھ بجے گرم کشمیری چائے کی ایک چینک لے کر ان کے ہاں گیا۔ دیکھا کہ کمرہ یخ ہو رہا ہے اور وہ گرمائی کے لیے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک کبوتر دبائے بودھی ستو کی مورتی کے سامنے دھیان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ غلو و غیبت بر گردنِ راوی۔
ایک صحبت میں کبوتروں کا ذکر چھڑ گیا تو کہنے لگے، میں نے سنا ہے، گو کہ یقین نہیں آتا، کہ کراچی میں کبوتروں کی ایک بھی چھتری نہیں۔ یارو، تم نے کیسا شہر بنایا ہے؟ جس آسمان پر کبوتر، شفق، پتنگ اور ستارے نہ ہوں ایسے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ بھائی ابرار حسین دسمبر 1973ء میں کراچی میں تھے۔ دو مہینے رہے ہوں گے۔ مطلع مستقل ابر آلود رہا۔ صرف ایک دن دوربین کی مدد سے ایک ستارہ نظر آیا۔ وہ دمدار ستارہ تھا۔ کہہ رہے تھے کراچی میں لوگ ہم لکھنؤ والوں کی طرح پتنگ، تیتر، مرغ اور مینڈھے نہیں لڑاتے۔ خود لڑ لیتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس محلے میں بھی اب نہ کوئی پتنگ اُڑاتا ہے، نہ کبوتر۔ لے دے کے یہی ایک چھتری رہ گئی ہے۔ لکھنؤ کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔ اور ایک وہ زمانہ تھا کہ تمہارے جانے کے بعد دسمبر میں علیم الدین نے۔ بھئی وہی اپنا شیخ چلی لڈن۔ پاکستان جانے کے لیے بوریا بستر باندھ لیا تھا، مگر عین وقت پر ارادہ فسخ کر دیا۔ کس واسطے کہ ماسٹر عبد الشکور بی اے، بی ٹی نے اسے ڈرا دیا کہ تم ٹرین میں کبوتروں کی چھتری ہمراہ نہیں لے جا سکتے۔ اور چوری چھپے لے بھی گئے تو واہگہ سرحد پر پاکستان کسٹم والے نہ جانے کیا سمجھیں کے تمہیں دھر لیں۔ بھائی بشارت، تم تو ہجرت کر کے مہاجر بنے۔ ہم اپنے شہر میں بیٹھے بیٹھے ہی غریب الوطن ہو گئے۔ یہ وہ شہر تھوڑا ہی ہے۔ وہ شہر تو قصہ کہانی ہو گیا۔ آکار بدل چکا ہے۔ اب اس محلے میں 95 فیصد گھروں میں ویجی ٹیرین (سبزی خور) رہتے ہیں۔ ان کی بلیاں گوشت کو ترس گئی ہیں۔ چنانچہ سارے دن میری چھتری کے چو گرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ بھئی تمہیں تو یاد ہو گا، کوپر ایلن اینڈ کمپنی کا بڑا صاحب۔ کیا نام تھا اس کا؟ سر آرگھرانس کپ؟ اس کی میم جب ولایت سے سیامی بلی لائی تو سر آرتھر نے کانپور شہر کے سارے بلوں کو neuter (آختہ) کروا دیا تھا تا کہ بلی پاکدامن رہے۔ دو بنگلے چھوڑ کر اجمل بیرسٹر رہتے تھے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے تھے کہ ایک رات ان کے کتے کو بھی پکڑ کر احتیاطاً آختہ کروا دیا۔ سن اکتالیس کا قصہ ہے۔ Quit India تحریک سے ذرا پہلے۔
ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ وہ اب بھی ہنستے ہیں تو بچوں کی طرح ہنستے چلے جاتے ہیں۔ پھر آنکھیں پونچھ کر یکلخت سنجیدہ ہو گئے۔ کہنے لگے کہ اب مجھ میں اتنا دم نہیں رہا کہ چھت پر آواز لگا کے سب کو کابکوں میں بند کروں۔ سدھے سدھائے کبوتر تو چراغ جلے خود آ آ کے کابک میں دبک جاتے ہیں۔ بقیہ کو شاگرد گھیر گھار کے بند کر دیتے ہیں۔ وہی دانہ چوگا ڈالتے ہیں۔ اشرافوں کے جتنے شوق تھے سب پہ زوال آ گیا۔ شہر میں جوار تک نہیں ملتی۔ پچاس میل دور ایک گاؤں سے منگواتا ہوں۔ پٹواری میرا شاگرد رہ چکا ہے۔ آج کل کسی گریجویٹ کو پکڑ کے پوچھ دیکھو۔ جوار، باجرے اور کنگنی کا فرق بتا دے تو اسی کے پیشاب سے اپنی بھویں منڈوا دوں۔ ننانوے فیصد نے زندگی میں جَو بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ اماں، کیا کراچی کا بھی یہی حال ہے؟ مگر تیورس کے سال ایک کرم فرما اس شغل میں میرے توغل کے پیشِ نظر (دیکھیے یہاں بھی ملا کے منھ سے ماسٹر فاخر حسین بول رہے ہیں) کراچی سے سوغات میں ایک ناول لائے، "دلی کی شام”۔ کوئی جید عالم ہیں پروفیسر احمد علی۔ بھئی خوب لکھتے ہیں۔ دلی کے روڑے لگتے ہیں۔ ان کے انگریزی ناول کا با محاورہ ترجمہ ہے۔ واللہ جی خوش ہو گیا۔ ہر صفحے پر دِلی کے تمام بیگماتی محاورے اور کبوتر ایک ساتھ چھوڑ دیے ہیں۔ ان کی کوئی اور کتاب کبوتروں کے متعلق ہو تو کسی آتے جاتے کے ہاتھ بھجنا۔
کالا کبوتر اور دوشیزہ کی بلی
ان کے سڑی پن کا ایک واقعہ ہو تو بیان کروں۔ ایک سالانہ روٹین کا حال سناتا ہوں۔ میٹرک کے زمانے سے ہی (جب وہ اپنی بائیسویں سالگرہ منا چکے تھے) انہوں نے یہ وتیرہ اختیار کر لیا تھا کہ امتحان کا نتیجہ اخبار میں نہیں دیکھتے تھے۔ چنانچہ اخبار لینا اور پڑھنا اور اخبار بینوں سے ملنا ترک کر دیتے تھے۔ ممکن ہے اس کا سبب بے نیازی ہو۔ خوف بھی ہو سکتا ہے۔ مرزا کا خیال ہے کہ اپنی سالانہ نالائقی کو کولڈ پرنٹ میں face نہیں کر سکتے تھے۔ بہر حال، نتیجے سے تقریباً ایک ہفتے قبل، اپنے ایک جگری دوست امداد حسین زیدی کو اپنا ایک کالا گرہ باز اور ایک سفید لوٹن کبوتر دے آتے۔ اور کمرہ مقفل کر کے خود مراقبے میں چلے جاتے۔ امداد حسین کو یہ ہدایت تھی کہ جیسے ہی اخبار میں میرے پاس ہونے کی خبر پڑھو، فوراً سفید کبوتر چھوڑ دینا۔ اور فیل ہو جاؤں تو کالا۔ پھر دن بھر کھڑکی سے آدھا دھڑ نکال نکال کر کبھی سؤئے آسماں اور کبھی چھتری کو دیکھتے کہ کبوتر خبر لایا کہ نہیں۔ ہر سال منحوس کالے کبوتر کو ذبح کر کے مرجینا (دوشیزہ کی بلی کا نام) کو کھلا دیتے۔ یہ شاہانہ وضع داری انہوں نے بی۔ اے تک قائم رکھی کہ قدیم زمانے میں بادشاہ بھی بری خبر لانے والے قاصد کا سر قلم کروا دیتے تھے۔ رزلٹ والے ہفتے میں گھر میں روز کئی دفعہ رونا پیٹنا مچتا تھا۔ اس لیے کہ ان کی والدہ اور ہمشیرگان جیسے ہی کوئی کالا کبوتر دیکھتیں رونا پیٹنا شروع کر دیتیں۔ یوں تو چھتری پر دن میں کئی سفید کبوتر بھی آتے تھے مگر وہ ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ غلطی سے آن بیٹھے ہیں۔ بالآخر تین چار سال بعد رُلا رُلا کر، وہ دن آتا جب:
تڑپتا، لوٹتا، اٹھتا جو بے تابانہ آتا ہے
یعنی سفید لوٹن کبوتر آتا تو اسی خوشی میں اپنے تمام کبوتروں کو جن کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ ہو گی، جوار کی بجائے گیہوں کھلاتے اور سب کو ایک ساتھ اُڑاتے۔ دوسرے دن اس کبوتر کے پاؤں میں چاندی کی مُنی سی پُنیجنی (کبوتر کی جھانجھن) ڈال دیتے، اور اس کے کابک کے پاس کبوتر خانے میں دس تافتہ (سفید چمکیلے رنگ کا کبوتر یا کبوتری) کبوتریوں کا اضافہ کر دیتے۔ کبوتر خانہ تو ہم روانی میں لکھ گئے۔ ورنہ نقشہ یہ تھا کہ جب انہوں نے بی اے پاس کیا تو میٹرک، انٹر میڈیٹ اور بی اے تینوں ملا کر تیس عدد خولہ کبوتریوں کے اضافے کے بعد ان کا سارا گھر اس طائرِ خوش خبر یعنی لوٹن کبوتر کے حرمِ خاص میں تبدیل ہو چکا تھا۔ گھر والوں کی حیثیت ان کبوتریوں کے خدمت گاروں اور بیٹ اٹھانے والوں سے زیادہ نہیں رہی تھی۔
وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے
جس دن وہ شیر شاہ نامی کبوتر کی علالت کے سبب میرے ساتھ لکھنؤ نہ جا سکے، میں نے کسی قدر جھنجلاتے ہوئے ان سے کہا "بندہ خدا دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اب تو اس کبوتر بازی پہ خاک ڈالو۔”
فرمایا "تمہارے والد بھی تو بڑے پائے کے کبوتر باز تھے۔ میں تو ان کے سامنے بالکل اناڑی ہوں۔ اب لوگ اسے گھٹیا شوق سمجھنے لگے ہیں، ورنہ یہ صرف شرفا کا شوق ہوا کرتا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بہادر شاہ کی سواری نکلتی تو دو سو کبوتروں کی ٹکری اوپر ہوا میں سواری کے ساتھ اُڑتی ہوئی جاتی۔ اور جہاں پناہ پر سایہ کیئے رہتی۔ جب واجد علی شاہ مٹیا برج میں محبوس ہوئے تو اس گئی گزری حالت میں بھی اس کے پاس چوبیس ہزار سے زیادہ کبوتر تھے، جن کی دیکھ ریکھ پر سیکڑوں کبوتر باز مامور تھے۔”
عرض کیا، "اس کے باوجود لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ سلطنت پر زوال کیوں آیا۔ تیغوں کے سائے میں پلنے والوں کے سروں پر جب کبوتر منڈلانے لگیں تو پھر سواری بادِ بہاری مٹیا برج اور رنگون جا کر ہی دم لیتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے کبوتر خانے اور واجد علی شاہ نے پری خانے اور کبوتر خانے پر جتنی رقم اور توجہ صرف کی، اس کا دسواں حصہ بھی اپنے توپ خانے پر صرف کرتے تو فوجِ ظفر موج بلکہ کبوتر موج کی یہ دُرگت نہ بنتی کہ ڈٹ کر لڑنا تو درکنار اس کے پاس تو ہتھیار ڈالنے کے لیے بھی ہتھیار نہ نکلے۔ ہائے!
وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے
بگڑ گئے "تو گویا سلطنتِ مغلیہ کا زوال کبوتروں کے سبب ہوا۔ یہ بات تو جادو ناتھ سرکار تک نے نہیں کہی۔ مسٹر چتر ویدی کہہ رہے تھے کہ انگلستان میں پچھتر لاکھ پالتو کُتے ہیں، فرانس میں سوا تین کروڑ Pets (پالتو جانور) ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، انگلستان میں ہر تیسرا بچہ ولد الزنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں گزشتہ دس سال میں پچیس لاکھ اسقاط کرائے گئے۔ جیسے اپنے ہاں آدمی کثیر الاولاد ہوتا ہے، ویسے ہی ان کے ہاں بچہ کثیر الولدیت ہوتا ہے۔ آخر ان پر زوال کیوں نہیں آتا؟”
چریا
مُلا عاصی کے کھٹ مٹھے مزاج کا اندازہ ایک واقعے سے لگائیے جو ایک صاحب نے مجھے سنایا۔ ان کے پڑوسی نے کئی مرتبہ شکایت کی "آپ کے کرایہ دار نے ایک نئی کھڑکی نکال لی ہے جو میرے دالان میں کھلتی ہے۔ مستورات کی بے پردگی ہوتی ہے۔” انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا تو ایک دن دھمکی دی "آپ نے کھڑکی نہ چنوائی تو ٹھیک نہ ہو گا، نالش کر دوں گا۔ اگر گھر کے سامنے قرقی کا ڈھول نہ بجوا دوں تو میرا نام نہیں۔ سارا بدھ ازم دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔” یہ بچارے خود کرائے دار کے ستائے ہوئے تھے۔ کیا کر سکتے تھے۔ البتہ پردے کے نقصانات ضرور بیان کر دیئے۔ جس سے وہ اور مشتعل ہو گیا۔ دو تین دن بعد اس نے یکم نومبر کو ان کو قانونی نوٹس دے دیا کہ اگر ایک مہینے کے اندر اندر آپ نے کھڑکی بند نہ کروائی تو آپ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا جائے گا۔ انہوں نے نوٹس پھاڑ کر پھینک دیا۔ اس کی میعاد تیس نومبر کو ختم ہوتی تھی۔ یکم دسمبر کو صبح پانچ بجے انہوں نے پڑوسی کے دروازے پر دستک دی۔ وہ ہڑبڑا کر آنکھیں ملتا ہوا ننگے پیر باہر آیا تو کہنے لگے "حضور، گستاخی معاف۔ میں نے کچی نیند سے اُٹھا دیا۔ میں صرف یہ یاد دہانی کرانے آیا ہوں کہ آج آپ کو میرے خلاف مقدمہ دائر کرنا ہے۔ آداب۔”
ہم کراچی والوں کی اصطلاح میں "چریا” تو وہ سدا کے تھے، مگر اب اصلاح اور برداشت کی حد سے گزر گئے ہیں۔ آٹھویں جماعت سے لے کر بی اے تک کورس کی تمام کتابیں جو انہوں نے پڑھی تھیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نہیں پڑھی تھیں۔ ایک الماری میں سجا رکھی ہیں۔ امتحان کے پرچوں کی ایک علیحدہ فائل ہے۔ ان کی رسمِ بسم اللہ پر جس چاندی کی پیالی میں زعفران گھولا گیا اور مسلمانیوں کی تقریب میں زردوزی کے کام کی جو ٹوپی انہیں پہنائی گئی، اور اسی قسم کے اور بہت سے تبرکات دوسری الماری میں محفوظ ہیں۔ وہ تو غنیمت ہوا کہ پیدائش کے وقت اپنا کام آپ کرنے سے بوجوہ معذور تھے۔ ورنہ اپنا نال بھی منجملہ دیگر یادگار اشیا کے منگوا کر رکھ لیتے۔ ان کی تفصیل کے یہ صفحات متحمل نہیں ہو سکتے۔ مختصرا یوں سمجھیے کہ عام طور پر مورخ یا ریسرچ کرنے والے کو بڑے آدمیوں کی زندگی کے بارے میں باریک تفصیلات کھود کھود کر نکالنے میں جو مشقت اٹھانی پڑتی ہے وہ انہوں نے اپنا تمام خام مواد اس کی ہتھیلی پر رکھ کے آسان کر دی ہے۔ واللہ، میں نے ایسا آدمی نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز ڈسکارڈ (ترک) نہیں کر سکتے۔ بجز اپنے عقائد کے۔ اپنے کوڑے کو بھی "این ٹیک” بنا دیتے ہیں۔ کمرہ کا ہے کو ہے یادوں کا ملبہ ہے جسے بیلچوں سے کھودیں تو آخری تہ کے نیچے سے خود موصوف برآمد ہوں گے۔
زوجہ کوچک کے نام
اسی طرح گزشتہ تیس چالیس برسوں میں انہیں جتنے خطوط احباب و اعزہ نے لکھے، وہ سب کے سب کھڑے سوؤں میں تاریخ وار پروئے ہوئے محفوظ ہیں۔ بیشتر پوسٹ کارڈ ہیں۔ اس زمانے میں پچانوے فیصد خطوط پوسٹ کارڈ پر ہی لکھے جاتے تھے۔ اس کا ایک کونہ ذرا سا کاٹ دیا جاتا تو یہ الارم ہوتا تھا کہ کسی کے مرنے کی خبر آئی ہے۔ صرف کٹا ہوا کونا دیکھ کر ہی آن پڑھ گھرانوں کی عورتیں نامعلوم مردے کے فرضی اوصاف بیان کر کر کے رونا پیٹنا شروع کر دیتی تھیں۔ اس اثنا میں کوئی پڑوسی خط پڑھ دیتا تو بین میں مرحوم کے نام کا اضافہ اور اوصاف میں کمی کر دی جاتی۔ پوسٹ کارڈ پر ایک طرف تیس تیس سطریں تو میں نے لکھی دیکھی ہیں جنہیں غالباً گھڑی سازوں والی یک چشمی خوردبین لگا کر ہی لکھا اور اسی طرح پڑھا جا سکتا تھا۔ میں ایک چمڑے کے بیوپاری شیخ عطا محمد کو جانتا تھا تھا جو مال بک کرانے کلکتے جاتا تو اپنی نوخیز و خوبرو زوجہ کوچک کو (جسے محلے والے پیار میں صرف کوچک کہتے تھے) بہ نظرِ کفایت پوسٹ کارڈ پر خط لکھتا، لیکن نجی جذبات کے اظہار میں کفایت شعاری سے بالکل کام نہیں لیتا تھا۔ دوسروں کے خط پڑھنے کا لپکا اس زمانے میں بہت عام تھا۔ پوسٹ میں ہمیں یعنی مجھے، میاں تجمل حسین اور ملا عاصی کو وہ پوسٹ کارڈ پڑھوا دیتا تھا۔ ہم اسے ہرن کے کوفتے کھلاتے تھے۔ صاحب، زبان کا چٹخارا بری بلا ہے۔ میں جب اٹاوہ کے اسکول میں تعینات ہو کر گیا تو اس نے میرا خط جو میں نے شادی کے کچھ دن بعد آپ کی بھابھی کو لکھا تھا، مُلا عاصی اور میاں تجمل کو پڑھوا دیا۔ خط کا مضمون سارے شہر میں ہیضے کی طرح پھیل گیا۔ میں نے کئی بیقرار فقرے اور جملے کے جملے چمڑے کے بیوپاری کے پوسٹکارڈوں سے اڑائے تھے۔ ہر چند کہ وہ چمڑا بیچتا تھا اور انشا پردازی اس کے پیشہ ورانہ فرائض اور شوہرانہ وظائف میں داخل نہ تھی، لیکن چودھری محمد علی ردولوی نے بیوی کے نام مثالی خط کی جو تعریف کی ہے اس پر شیخ عطا محمد کے خطوط پورے اُترتے تھے۔ یعنی ایسا ہو کہ مکتوب الیہ کسی کو دکھا نہ سکے۔ کسی متفنی نے شیخ عطا محمد کو میرے خط کا مضمون سنا دیا۔ کہنے لگا کہ اگر کوئی میرے انتہائی نجی جذبات اپنی ذاتی زوجہ تک پہچانا چاہتا ہے تو میری عین خوش نصیبی ہے۔ شدہ شدہ آپ کی بھابھی تک جب اس سرقے کی خبر پہنچی تو انہیں مدتوں میرے انتہائی اوریجنل مکاتیب سے بھی چمڑے کی بُو آتی رہی۔ عجیب گھپلا تھا۔ وہ اور کوچک ایک دوسرے کو اپنی سوکن سمجھنے لگیں جو ہم دونوں مردوں کے لیے باعثِ شرم تھا۔ دسمبر کی تعطیلات میں جب میں کانپور گیا تو اس حرمزدگی پر پوسٹ میں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اور دھمکی دی کہ ابھی پوسٹ ماسٹر کو رپورٹ کر کے تجھے ڈسمس کرا دوں گا۔ غصے سے میں پاگل ہو رہا تھا۔ میں نے چیخ کر کہا "بے ایمان، اب تجھے وہ دونوں ہرن کے کوفتے کھلا رہے ہیں۔” وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا "قسم قرآن کی، جب سے آپ گئے ہیں، ہرن کے کوفتے کھائے ہوں تو سؤر کھایا ہو۔” میں جوتا لے کے پیچھے دوڑا تو بدمعاش قبولا کہ نیل گائے کے کھائے تھے۔
بلیک باکس
ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ سوؤں میں پروئے ہوئے خطوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ہر سُوئے پر پانچ پانچ سال کی مراسلت کو سُولی دی ہے۔ لکڑی کے گول پیندے میں ٹھکے ہوئے یہ سُوئے اس زمانے میں فائلوں اور فائلنگ کیبنٹ کی جگہ استعمال ہوتے تھے۔ سیاہ پیندے کا ایک سُوا مرحومین کے لیے وقف ہے۔ کہنے لگے کہ جب کسی کے انتقال کی خبر آتی ہے تو اس کے تمام خطوط مختلف سُوؤں سے نکال کر اس میں لگا دیتا ہوں۔ اور یہ بلیک بکس[1] بہت ہی اہم اور نجی کاغذات کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ میں نے وصیت کر دی ہے کہ مرنے کے فوراً بعد نذرِ آتش کر دیا جائے۔ میرا مطلب ہے کاغذات کو۔
پلنگ کے نیچے رکھے ہوئے جس سیاہ صندوق کی طرف انہوں نے اشارہ کیا تھا، وہ در اصل ایک کیش بکس تھا۔ اس کے والد کے دوالے اور اس کے نتیجے میں انتقال کے بعد بس یہی اثاثہ ان کو ترکے میں ملا۔ اب بھی اکثر فرماتے ہیں کہ اس میں ایک لاکھ نقدی کی گنجائش ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بکس میں اس کی وصیت رکھی ہے جس میں واضح ہدایات ہیں کہ ان کی میت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی طرح دفن کیا جائے یا پارسیوں کی طرح لاش چیل کوؤں کو کھلا دی جائے۔ یا بدھ رسوم کے مطابق ٹھکانے لگائی جائے۔ جہاں عقائد میں اتنا گھپلا ہو وہاں یہ وضاحت از بس ضروری ہے۔ غالب کو اس کی "گلیوں میں میری لاش کو کھینچے پھرو کہ میں۔۔۔۔” والی خواہش کے برعکس اس کے سُنی عقیدت مند سُنی طریقے سے گاڑ آئے۔ جب کہ اس غریب کا مسلک امامیہ تھا۔ صاحب، اس پر یاد آیا۔ غالب نے کیسی ظالم بات کہی ہے۔ حیف کافر مُردن و آدخ مسلما زیستن۔ یعنی پروردگار مجھے کافروں کی طرح مرنے اور مسلمانوں کی طرح جینے سے بچا۔ سب کچھ سات لفظوں کے ایک مصرعے میں سمو دیا۔
حرفِ حق کہ بعد از مرگ یاد آید۔۔۔
ان کے ایک قریبی دوست سید حمید الدین کا بیان ہے کہ وصیت میں یہ رقم فرمایا ہے کہ میں مسلمان تھا، مسلمان ہی مرا۔ باقی سب ڈھونگ تھا جو مسلمانوں کو چڑانے کے لیے رچانا پڑا۔ گویا ان کا کفر در حقیقت مکاری تھی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ میری وصیت ٹھیک اسی دن کھولی جائے جس دن مولانا ابو الکلام آزاد کی کتاب کے غیر مطبوعہ حصے بینک کے سیف ڈپازٹ لاکر سے نکالے جائیں۔ اس پر ایک دل جلے نے یہ نیم چڑھایا کہ وصیت میں مُلا عاصی نے مولانا آزاد کے بارے میں اپنی بے نقط رائے لکھ دی ہے جس کا اظہار وہ اپنی زندگی میں خوفِ فسادِ خلق سے نہیں کر سکتے تھے۔ مگر سوچیے تو سہی۔ مُلا عاصی نے آخر کون سے توپ چلائی ہو گی۔ بدترین سے بدترین گمان یہی ہو سکتا ہے کہ سچ بولا ہو گا۔ لیکن صاحب، وہ کلمہ حق کس کام کا جس کے اعلا کی جیتے جی جرات نہ ہوئی۔ ہر لمحے کی اپنی سچائی اور اپنی صلیب اور اپنا تاج ہوتا ہے۔ اس سچائی کا اعلان و ابلاغ بھی صرف اسی لمحے واجب ہوتا ہے۔ سو جو چپ رہا اس نے اس لمحے سے اور اپنے آپ سے کیسی دغا کی۔ بقول آپ کے مرزا عبدالودود بیگ کے، تمام عمر دروغ مصلحت آمیز کے ساتھ ہنسی خوشی گزارا کرنے کے بعد قبر میں پہنچ کر اور کفن پھاڑ کر سچ بولنے اور منھ چڑانے کی کوشش کرنا مردوں ہی کو نہیں، مُردوں کو بھی زیب نہیں دیتا۔
پریم پتر اور گوتم بدھ کے دانت
شہر میں یہ بھی مشہور ہے کہ بکس میں اس پنجابی شرنار تھی لڑکی کے خطوط اور فوٹو ہیں جسے وہ ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ واللہ اعلم۔ یہ قبل از بدھ ازم کی بات ہے۔ میں تو اس زمانے میں کراچی آ چکا تھا۔ سب اس کی ٹوہ میں ہیں۔ مگر بکس میں پیتل کا سیر بھر کا تالا پڑا ہے جس کی چابی وہ اپنے کمربند میں باندھے پھرتے ہیں۔ خلقِ خدا کی زبان کس نے پکڑی ہے۔ کسی نے کہا، لڑکی نے بلیڈ سے کلائی کی رگ کاٹ کے آتم ہتیا (خود کشی) کی۔ کسی نے اس کی ایک ناگفتہ بہ وجہ بتائی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ لڑکی کو ایک دوسرا ٹیوٹر بھی پڑھاتا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شمشان تک ار تھی سے جیتا جیتا خون ٹپکتا گیا۔ اسی رات اس کا باپ نیند کی تیس چالیس گولیاں کھا کر ایسا سویا کہ پھر صبح ار تھی ہی اٹھی۔ لیکن دیکھا جائے تو نہ لڑکی مری، نہ اس کا باپ۔ موت تو اس بیوہ اور چھ بچوں کی واقع ہوئی جو اس نے چھوڑے۔ تین چار دن بعد گلی کے موڑ پر کسی نے مُلا عاصی کے پیٹ میں چھُرا گھونپ دیا۔ آنتیں کٹ کر باہر نکل پڑیں۔ چار مہینے گمنامی کی موت اور بدنامی کی زندگی کی کشمکش میں اسپتال میں پڑے رہے۔ سنا ہے جس دن ڈسچارج ہوئے، اسی دن سے جوگ لے لیا مگر صاحب، جو گی تو وہ جنم جنم کے تھے۔ ایک مثل ہے کہ جو گی کا لڑکا کھیلے گا تو سانپ سے۔ سو یہ ناگن نہ بھی ہوتی تو کسی اور گزندے سے خود کو ڈسوا لیتے۔ ارے صاحب، جب کشتی غرقابی ٹھہری تو، اور تو اور، خود خواجہ خضر پیندے میں سوراخ کر دیتے ہیں۔
اللہ جانے مذاق میں کہا یا سچ ہی ہو، انعام اللہ برملائی کہنے لگے کہ بلیک بکس میں مُلا عاصی کے چار ٹوٹے دانت محفوظ ہیں جو وہ اپنے عقیدت مندوں اور آئندہ جسلوں کے لیے بطور relic چھوڑ کر مرنا چاہتے ہیں۔ آخر مہاتما بدھ کے بھی تو کم از کم سو دانت مختلف مقدس مقامات پر زیارت کے لیے بھاری حفاظتی پہرے میں رکھے ہیں۔
کمرے میں صرف ایک چیز واقعی نئی دیکھی۔ رسالہ "عرفان” کا تازہ شمارہ۔ اللہ جانے کسی نے ڈاک سے بھیجا یا کوئی شرارتا چھوڑ گیا۔ جہاں تہاں سے پڑھا۔ صاحب، وضع داری اس رسالے پر ختم ہے۔ نصف صدی پہلے اور آج کے "عرفان” میں ذرا جو فرق آیا ہو۔ وہی ترتیب، وہی چھپائی اور گیٹ اپ جو پچاس برس پہلے تھا، الحمد للہ آج بھی ہے۔ مجھے تو چھاپا خانہ اور کاتب بھی وہی معلوم ہوتا ہے۔ موضوعات اور مسائل بھی بعینہ وہی ہیں جو سرسید اور شبلی کے زمانے میں تھے۔ کاش یہ شمارہ ستر اسی سال قبل چھپا ہوتا تو بالکل "اپ ٹو ڈیٹ” معلوم ہوتا۔ مولانا شبلی نعمانی اور شمس العلما ڈپٹی نذیر احمد ایل ایل ڈی اسے دیکھ کر کیسے خوش ہوتے۔
سانبھر کا سینگ
کمرے میں سانبھر کا سر ابھی تک وہیں ٹنگا ہوا ہے۔ اس بیت الحزن میں صرف یہی Life۔ Like دکھلائی دیتا ہے۔ لگتا ہے ابھی دیوار سے چھلانگ لگا کر جنگل کی راہ لے گا۔ اس کے نیچے ان کے دادا کی سیپیا رنگ کی بیضوی تصویر ہے۔ صاحب، اس زمانے میں سبھی کے داداؤں کا حلیہ ایک جیسا ہوتا تھا۔ بھرواں داڑھی، پگڑ باندھے، پھولدار اچکن پہنے، ایک ہاتھ میں پھول، دوسرے میں تلوار پکڑے کھڑے ہیں۔ 1857ء کے بعد، بلکہ اس سے بہت پہلے، شرفا تلوار کو واکنگ اسٹک کے طور پر اور شعرا بطور استعارہ یعنی نا کردہ وصل کی حسرت کے الزام میں خود کو معشوق کے ہاتھوں قتل کروانے کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ برصغیر میں یہ انحطاط و طوائف الملوکی کو وہ دور تھا جب رجز خوانوں کے دف ڈفلی بن چکے تھے اور طبلِ جنگ کی جگہ طبلے نے لے لی تھی۔ قومی عظمت کے ثبوت میں لوگ صرف عالیشان کھنڈر پیش کرتے تھے۔
سانبھر ستر اسی سال کا تو ہو گا۔ دادا نے نیپال کی ترائی میں گرایا تھا۔ رفاہ عام بلکہ شفائے عام کے لیے ایک سینگ آدھا کاٹ کر رکھ لیا ہے۔ گھس کر لگانے سے دردِ گُردہ میں آرام آ جاتا ہے۔ دور دور سے لوگ مانگ کر لے جاتے ہیں۔ ایک بے ایمان مریض نے ایک انچ کاٹ کر لوٹایا۔ اس کے دونوں گُردوں میں درد رہتا تھا۔ مُلا عاصی اب سینگ کو اپنی ذاتی نگرانی میں کرنڈ کی سِلی پر گھِسواتے ہیں۔ ہندوستان میں ابھی تک یہ جاہلوں کے ٹوٹکے خوب چلتے ہیں۔ وہ اس کے لیپ کی تعریفیں کرنے لگے تو میں چٹکی لی "مگر مُلا گردہ تو بہت اندر ہوتا ہے” بولے "ہاں تمھارے والد نے بھی پاکستان جانے سے پہلے تین چار دفعہ لیپ لگایا تھا۔ ایک سینگ کاٹ کر ہمراہ لے جانا چاہتے تھے۔ میں نے منع کر دیا۔ میں نے کہا، قبلہ، بارہ سنگھوں کے رمنے میں اس گھسے گھسائے سینگ سے کام نہیں چلنے کا۔”
نٹ راج اور مردار تیتر
مُلا عاصی نے ایک اور یادگار فوٹو دکھایا جس میں میاں تجمل حسین نٹ راج کا سا فاتحانہ پوز بنائے، یعنی نیل گائے کے سر پر اپنا پیر اور 12 بور کا کندہ رکھے، کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ اور میں گلے میں جست کی نمدہ چڑھی چھاگل اور دونوں ہاتھوں میں ایک ایک میلرڈ (نیل سر) مرغابی اور اپنا منھ لٹکائے کھڑا ہوں۔ میاں تجمل کا دعوا تھا کہ تھوتھنی سے دُم کی نوک تک نیل گائے کی لمبائی وہی ہے جو بڑے سے بڑے آدم خور بنگال ٹائیگر کی ہوتی ہے۔ نیل گائے کا شکار ایک مدت تک انڈیا میں ممنوع رہا۔ اب کھُل گیا ہے۔ جب سے وہ فصلیں کی فصلیں صاف کرنے لگیں، نیل گایوں کو گھوڑا کہہ کر مارنے کی اجازت مل گئی ہے۔ جیسے انگلینڈ میں اب کالوں اور سانولوں کو بلیک نہیں کہتے ethnic کہہ کر ٹھکانے لگاتے ہیں۔
یہ فوٹو چوہدری گلزار محمد فوٹو گرافر نے منٹ کیمرے سے میاں تجمل حسین کے گھر کے احاطے میں کھینچا تھا۔ فوٹو کھنچوانے کے لیے اتنی دیر سانس روکنا پڑتا تھا کہ صورت کچھ سے کچھ ہو جاتی تھی۔ چنانچہ صرف مُردہ گائے کا فوٹو اصل کے مطابق تھا۔ گلزار محمد اکثر شکار میں ساتھ لگ لیتا تھا۔ شکار سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ میرا مطلب شکار کرنے سے ہے، کھانے سے نہیں۔ بس میاں تجمل حسین ہمہ وقت اپنی اردلی میں رکھتے تھے۔ خدانخواستہ وہ دوزخ میں بھیجے گئے تو مجھے یقین ہے تنہا ہرگز نہیں جائیں گے۔ پیشوائی PR کے لیے پہلے مجھے روانہ کر دیں گے۔ شہر سے سات آٹھ میل پر شکار ہی شکار تھا۔ عموماً تانگے میں جاتے تھے۔ گھوڑا اپنی ہی ہم وزن، ہم شکل اور ہم رنگ نیل گائے ڈھو کر لاتا تھا۔ شکار کے تمام فرائض و انتظامات اس ناچیز کے ذمے تھے۔ سوائے بندوق چلانے کے۔ مثلاً نہ صرف ٹھسا ٹھس پھرا ہوا ٹفن کیریئر اٹھائے اٹھائے پھرنا، بلکہ اپنے گھر سے صبح چار بجے تازہ ترتراتے پراٹھے اور کباب بنوا کر اس میں ٹھسا ٹھس بھر کر لانا اور سب کو ٹھسانا۔ دسمبر کر کڑکڑاتے جاڑے میں تالاب میں اتر کی چھرا کھائی ہوئی مرغابی کا تعاقب کرنا، ہرن پر نشانہ خطا ہو جائے، جو کہ اکثر و بیشتر ہوتا رہتا تھا، تو میاں تجمل حسین کو قسمیں کھا کھا کے یقین دلانا کہ گولی برابر لگی ہے۔ ہرن بری طرح لنگڑاتا ہوا گیا ہے۔ زخم ذرا ٹھنڈا ہو گا تو بے حیا وہیں پچھاڑ کھا کے ڈھیر ہو جائے گا۔ تیتر ذبح ہونے سے پہلے دم توڑ دے تو اس کے گلے پر کسی حلال شدہ تیتر کا خون لگانا بھی میرے گناہ منصبی میں داخل تھا۔ اس لیے کہ شکار اگر چھری پھیرنے سے پہلے مردار ہو جائے تو وہ مجھے ہفتوں برا بھلا کہتے تھے۔ لہٰذا چھرا یا گولی لگنے کے بعد میں زخمی جانور کی درازی عمر کی دعا مانگتا تھا تا کہ اسے زندہ حالت میں حلال کر سکوں۔ مردار تیتر اور مرغابیاں وہ سر آرتھرانس کپ کے بنگلے پر بھجوا دیتے تھے۔ بھجوا کیا دیتے تھے، یوں کہیے مجھی کو سائیکل پر لاد کے لے جانا پڑتا تھا۔ پیچھے کیریئر پر وہ خود شکار کو اپنی گود میں لے کر بیٹھتے تاکہ سائیکل پر بوجھ نہ پڑے۔ ان کا اپنا وزن (نہار منھ) 230 پونڈ تھا۔ اس کے باوجود میں بہت تیز سائیکل چلاتا تھا۔ ورنہ شکار کی بُو پر لپکتے کتے فوراً آ لیتے۔ میاں تجمل کہتے تھے کہ بندوق میری، کارتوس میرے، نشانہ میرا، شکار میرا، چھری میری، سائیکل میری، حد یہ کہ سائیکل میں ہوا بھی میں نے ہی بھری۔ اب اگر اسے چلاؤں بھی میں ہی تو آپ کیا کریں گے؟
وفا بھی حُسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟
ملاحظہ فرمایا آپ نے۔ بس کیا عرض کروں، اس یاری میں کیسی کیسی خواری ہوئی ہے۔ یہ تو کیسے کہوں کہ میاں تجمل حسین نے ساری عمر میرے کندھے پر رکھ کے بندوق چلائی ہے۔ ارے صاحب، کندھا خالی ہی کہاں تھا کہ بندوق رکھتے۔ کندھے پر تو وہ خود مع بندوق کے سوار رہتے تھے۔ بخدا ساری عمر ان کے غمزے ہی نہیں literally (لفظاً) خود انہیں بھی اُٹھایا ہے۔
اونٹ کی مستی کی سزا بھی مجھی کو ملی
یہ تو غالباً پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ بڑے حاجی صاحب یعنی تجمل کے والد، تانگا اور موٹر کار رکھنے کو تکبر اور کاہلی کی علامت سمجھتے تھے۔ سائیکل اور اونٹ کی سواری پر البتہ تعرض نہ کرتے۔ اس لیے کہ ان کا شمار وہ آلات نفس کشی میں کرتے تھے۔ اکثر فرماتے کہ "میں پچیس سال کا ہو گیا، اس وقت تک میں نے ہیجڑوں کے ناچ کے سوا کوئی ناچ نہیں دیکھا تھا۔ وہ بھی تجمل (یعنی اپنے بیٹے) کی پیدائش پر۔ چھبیسویں سال میں لائل پور میں چوری چھپے ایک شادی میں مجرا دیکھ لیا تو والد صاحب نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ عاق کرنے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ورثے میں مجھے سوائے ان کے قرضوں کے اور کچھ ملنے والا نہیں تھا۔ کہنے لگے کہ لونڈا بد چلن ہو گیا۔ چنیوٹ برادری میں، میں پہلا باپ ہوں جس کی ناک فرزند کے ہاتھوں کٹی۔ چنانچہ بطور سزا اور سرزش مجھے ادھار کپاس خریدنے چنیوٹ سے جھنگ ایک مستی پر آئے ہوئے اونٹ پر بھیجا، جس کے ماتھے سے بودار مد رِس رہا تھا۔ چلتا کم، بلبلاتا زیادہ تھا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی میں جھنگ کے درختوں کے جھُنڈ اور جوہ (پنجابی۔ گاؤں کی سرحد) نظر آنے لگی تو وہ یکایک بدک گیا۔ اسے ایک اونٹنی نظر آ گئی۔ اس کے تعاقب میں جھنگ پار کر کے مجھے اپنے کوہان پر ہاتھ ہاتھ بھر اُچھالتا پانچ میل آگے نکل گیا۔ مجھے تو ایک میل بعد ہی اونٹنی نظر آنی بند ہو گئی۔ اس لیے کہ میں اونٹ نہیں تھا۔ لیکن وہ مادہ کی بُو پہ لپکا جا رہا تھا۔ میں ایک مست بھونچال پہ سوار تھا۔ بالآخر اونٹ انتہائی جوش کے علام میں ایک دلدل میں مجھ سمیت گھس گیا۔ اور تیزی سے دھنسنے لگا۔ میں نہ اوپر بیٹھا رہ سکتا تھا، نہ نیچے کود سکتا تھا۔ گاؤں والے رسے، نسینی (سیڑھی) اور قبر کھودنے والے کو ساتھ لے کر آئے تو جان بچی۔ کجاوہ گز بھر چوڑا تھا۔ ایک ہفتے تک میری ٹانگیں ایک دکھتی غلیل کی طرح چری کی چری رہ گئیں۔ اس طرح چلنے لگا جیسے خطرناک قیدی ڈنڈا بیڑی پہن کر چلتے ہیں۔ یا لڑکے ختنوں کے بعد۔ مہتر سے کہہ کر قدمچے ایک ایک گز کے فاصلے پر رکھوائے۔ اونٹ کی مستی کی سزا تھی مجھی کو ملی۔”
قبلہ کا ہی خیال تھا کہ بیٹے کی چال دیکھ کر اونٹ نے بھی عبرت پکڑی ہو گی۔
علی گڑھ کٹ پاجامہ اور ارہر کی دال
حاجی صاحب قبلہ نے کانپور میں ایک ہندو سیٹھ کے ہاں 1907ء میں چار روپے ماہوار کی نوکری سے ابتدا کی۔ انتہائی دیانت دار، دبنگ، قد آور اور ڈیل ڈول کے مضبوط تھے۔ سیٹھ نے سوچا ہو گا اُگاہی میں آسانی رہے گی۔ دوسری جنگ کے بعد حاجی صاحب کروڑ پتی ہو گئے۔ مگر وضع داری میں ذرا جو فرق آیا ہو۔ مطلب یہ کہ ان کی خود آزاری تک پہنچی ہوئی جُزرسی، وضع قطع، انکسار اور اندازِ گفتگو سے یہی لگتا تھا کہ اب بھی چار روپے ہی ملتے ہیں۔ گاڑھی ململ کا کُرتہ اور ٹُخنے سے اونچی چوخانے کی لنگی باندھتے۔ شلوار صرف کسی فوجداری مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت میں جانے اور جنازے میں شرکت کے موقعے پر پہنتے تھے۔ گاگلز لگانے اور پتلون اور چوڑی دار پاجامہ پہننے والے کو کبھی اُدھار مال نہیں دیتے تھے۔ کچھ نہیں تو چالیس پنتالیس برس تو یوپی میں ضرور رہے ہوں گے، مگر لگی ہوئی فیرنی، نہاری اور ارہر کی دال دوبارہ نہیں کھائی۔ نہ کبھی دوپلّی ٹوپی اور پاجامہ پہنا۔ البتہ 1938ء میں آپریشن ہوا تو نرسوں نے حالتِ بے ہوشی میں پاجامہ پہنا دیا تھا جو انہوں نے ہوش میں آتے ہی اتار پھینکا۔ بقول شاعر
بے ہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا
اکثر فرماتے کہ اگر چمٹے کو کسی شرعی تقاضے کے تحت یا پھکنی کے پھُسلاوے سے کچھ پہننا پڑے تو اس کے لیے علی گڑھ کٹ پاجامے سے زیادہ موزوں کوئی پہناوا نہیں۔ پنجابی میں یہ فقرہ بڑا مزہ دیتا تھا۔ ہم سب فرمائش کر کے سنتے۔
نیل گائے اور پری چہرہ نسیم
میں نے مُلا عاصی کو چھیڑا "اب بھی شکار پر جاتے ہو؟” کہنے لگے "اب نہ فرصت، نہ شوق، نہ گوارا۔ ہرن اب صرف چڑیا گھر میں نظر آتے ہیں۔ میں تو اب مرغابی کے پروں کا تکیہ تک استعمال نہیں کرتا۔” پھر انہوں نے الگنی پر سے ایک لیر لیر بنیان اتارا۔ اسے سونگھا اور اس سے لکڑی کے ایک فریم کو کچھ دیر رگڑا تو ثانی الذکر کے نیچے سے ایک شیشہ اور شیشے کے نیچے سے فوٹو برآمد ہوا۔ یہ فوٹو چودھری گلزار محمد نے جنگل میں شکار کے دوران کھینچا تھا۔ اس میں یہ عاجز اور ایک چمار کالے ہرن کو ڈنڈا ڈولی کر کے تانگے تک لے جا رہے ہیں۔ غنیمت ہے اس میں وہ چیل کوے نظر نہیں آ رہے ہیں جو ہم تینوں کے سروں پر منڈلا رہے تھے۔ کیا بتاؤں صاحب، ہمارے یار نے ہم سے کیا کیا بیگار لی ہے۔ مگر سب گوارا تھا۔ فرشتوں کو کنویں جھنکوا دیے اس عشق ظالم نے۔ بڑا خوبصورت اور کڑیل ہرن تھا وہ۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں بہت اداس تھیں۔ مجھے یاد ہے۔ اسے ذبح کرتے وقت میں نے منھ پھیر لیا تھا۔ اچھے شکاری عام طور پر کالا نہیں مارتے۔ ساری ڈار بے آسرا، بے سری ہو جاتی ہے۔ آپ نے وہ کہاوت سُنی ہو گی۔ کالا ہرن مت ماریو ستر ہو جائیں گی رانڈ۔ چودھری گلزار محمد پنڈی بھٹیاں کا رہنے والا، پندرہ بیس سال سے کانپور میں آباد و ناشاد تھا۔ اپنے اسٹوڈیو میں تاج محل اور قطب مینار کے فوٹو بھی (جو اس نے خود کھینچے تھے) بیچتا تھا۔ اپنے مکان کی دیواروں کو پنڈی بھٹیاں کے مناظر سے سجا رکھا تھا۔ اس میں اس کا پھوس کے چھپر والا گھر بھی شامل تھا جس پر ترئی کی بیل چڑھی تھی۔ دروازے کے سامنے ایک جھلنگے پر نورانی صورت ایک بزرگ حقہ پی رہے تھے۔ قریب ہی ایک کھونٹے سے غبارہ تھنوں والی بکری بندھی تھی۔ ہر منظر مثل لیلیٰ کے تھا۔ جسے صرف مجنوں کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔ وہ دیگچی کو دیچگی اور تمغہ کو تغمہ[2] کہتا تو ہم سب اس پر ہنستے تھے۔ لحیم شحیم آدمی تھا۔ بڑی سے بڑی ہڈی توڑنے کے لیے بغدا صرف ایک دفعہ مارتا تھا۔ چار من وزنی نیل گائے کی کھال آدھ گھنٹے میں اتار، تکا بوٹی کر کے رکھ دیتا۔ کباب لاجواب بناتا تھا۔ ہر وقت بمبئی کے خواب دیکھتا رہتا۔ کھال اتارتے وقت اکثر کہتا کہ کانپور میں نیل گائے کے سوا اور کیا دھرا ہے؟ دیکھ لینا ایک نہ ایک دن منروا مووی ٹون میں کیمرا میں بنوں گا۔ اور مادھوری اور مہتاب کے کلوز اب لے کے تمہیں بھیجوں گا۔ پھر خود ہی نرت کر کے سیکسی پوز بناتا اور خود ہی کالے کپڑے کی بجائے اپنے سر پر خون آلود جھاڑن ڈال کر فرضی کیمرے سے خود کو کلوز اپ لیتا ہوا imagine کرتا۔ ایک دفعہ اسی طرح پری چہرہ نسیم کا کلوز اپ لیتے لیتے اس کی چھری بہت کر نیل گائے کی کھال میں گھس گئی۔ میاں تجمل چیخے کہ "پری چہرہ گئی بھاڑ میں۔ یہ تیسرا چرکہ ہے۔ تیرا دھیان کدھر ہے؟ کھال داغدار ہوئی جا رہی ہے۔” کانپور میں ایک لاجواب taxidermist تھا۔ شیر کا سر البتہ بنگلور بھیجنا پڑتا تھا۔ رئیسوں کر فرش پر شیر کی اور مڈل کلاس گھرانوں میں ہرن کی کھال بچھی ہوتی تھی۔ غریبوں کے گھروں میں عورتیں گوبر کی لپائی کے کچے فرش پر پکے رنگوں سے قالین کے سے ڈیزائن بنا لیتی تھیں۔
قصہ ایک مرگ چھالے کا
مُلا عاصی کے کمرے میں دری پر ابھی تک نثار احمد خان کی ماری ہوئی ہرنی کی کھال بچھی ہے۔ خاں صاحب کے چہرے، مزاج اور لہجے میں خشونت تھی۔ وہابی مشہور تھے۔ واللہ اعلم۔ شکار کے دھنی، مجھ پر بہت مہربان تھے۔ میاں تجمل کہتے تھے کہ وجہ پسندیدگی تمہارا منڈا ہوا سر اور ٹخنے سے اونچا پاجامہ ہے۔ گراب جہاں لگا تھا، اس کا سوراخ کھال پر جوں کا توں موجود ہے۔ اس کے پیٹ سے پورے دنوں کا بچہ نکلا۔ کسی نے گوشت نہیں کھایا۔ خود نثار احمد دو راتیں نہیں سوئے۔ اتنا اثر تو ان کے قلب پر اس وقت بھی نہیں ہوا تھا جب تیتر کے شکار میں ان کے فیر کے چھروں سے جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک کسان کی دونوں آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ دو سو روپے میں معاملہ رفع دفع ہوا۔ ہرنی والے واقعے کے تین مہینے کے اندر اندر ان کا اکلوتا جوان بیٹا جو بی اے میں پڑھ رہا تھا، زخمی مرغابی کو پکڑنے کی کوشش میں تالاب میں ڈوب کر مر گیا۔ کہنے والوں نے کہا، گیابھن، گربھ وتی کا سراب لگ گیا۔ جنازہ دالان میں لا کے رکھا تو زنانے میں کہرام مچ گیا۔ پھر ایک بھنچی بھنچی سے چیخ کہ سننے والوں کی چھاتی پھٹ جائے۔ نثار احمد خان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا "بیوی، صبر، صبر، صبر۔ اونچی آواز سے رونے سے اللہ کے رسول نے منع کیا ہے۔” وہ بی بی خاموش ہو گئی۔ پھر کھڑکی کے جنگلے سے سر ٹکرا ٹکرا کے لہو لہان کر لیا۔ مانگ خون سے بھر گئی۔ میت لحد میں اتارنے کے بعد جب لوگ قبر پر مٹی ڈال رہے تھے تو باپ دونوں سے اپنے سفید سر پر مٹھی بھر بھر کے خاک ڈالنے لگا۔ لوگوں نے بڑھ کر ہاتھ پکڑے۔ مشکل سے چھ مہینے گزرے ہوں گے کہ بیوی کو صبر کی تلقین کرنے والا تھی کفن اوڑھ کے خاک میں جا سویا۔ وصیت کے مطابق قبر بیٹے کے پہلو میں بنائی گئی۔ ان کی پائینتی بیوی کی قبر ہے۔ فاتحہ پڑھنے قبرستان گیا۔ بڑی مشکل سے قبر ملی۔ شہر تو پھر بھی پہچانا جاتا ہے۔ قبرستان تو بالکل ہی بدل گیا ہے۔ پہلے ہر قبر کو سارا شہر پہچانتا تھا کہ ہر ایک کا مرنے والے سے جنم جنم کا ناتا تھا۔ صاحب، قبرستان بھی جائے عبرت ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو ہر قبر کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جس اس میں میت اُتری ہو گی، کیسا کہرام مچا ہو گا۔ رونے والے کیسے بلک بلک کے تڑپ کے روئے ہوں گے۔ پھر خود یہی رونے والے دوسروں کو رلا کے یہیں باری باری پیوندِ خاک ہوتے چلے گئے۔ صاحب، جب یہی کچھ ہونا ہے تو پھر کیسا سوگ، کس کا ماتم، کا ہے کا رونا۔
ماسٹر فاخر حسین کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھی۔ کچھ نہ پوچھیے، دل کو کیسی کیسی باتیں یاد آ کے رہ گئیں۔ لوحِ مزار گِر گئی ہے۔ اس پر وہی شعر کندہ ہے جو وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔ حروف کی سیاہی کو تیس پینتیس برس کی بارشیں بہا کے لے گئیں۔
بعد از وفات تُربتِ مادر زمیں مجو
در سینہ ہائے مردم عارف مزار ماست[3]
تحت اللفظ، شرمائے شرمائے ترنم اور کھرج کی آمیزش بلکہ آویزش سے شعر پڑھنے کی ایک مخصوس طرزِ فاخری ایجاد کی تھی جو انہیں پر ختم ہو گئی۔ پڑھنے سے پہلے شیروانی کا تیسرا بٹن کھول دیتے۔ پڑھ چکتے تو بغیر پھُندنے والی تُرکی ٹوپی اتار کر میز پر رکھ دیتے۔ ہر شعر ایک ہی لے اور ایک ہی بحر میں پڑھنے کے سبب درمیان میں جو جھٹکے اور سکتے پڑتے۔ انہیں واہ، ارے ہاں، حضور، یا فقط با وزن کھانسی سے دور کر دیتے۔ مندرجہ بالا شعر میں سینہ ہائے عارف ادا کرتے تو انگشتِ شہادت سے تین چار دفعہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے۔ البتہ مزار ماست پڑھتے وقت ہم نالائق شاگردوں کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنی قبر کی نشان دہی کرتے۔
دیکھیے، یادوں کی بھول بھلیوں میں کہاں آ نکلا۔ جبھی تو بچارے ساحر نے کہا تھا، یا ممکن ہے کسی اور نے کہا ہو:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
بات در اصل مرگ چھالے سے نکلی۔ ایک دفعہ میں نے لاپروائی سے ہولڈر جھٹک دیا تھا۔ روشنائی کے چھینٹے ابھی تک کھال پر موجود ہیں۔ میں نے دیکھا کہ عاصی کھال پر پاؤں نہیں رکھتے۔ سارے کمرے میں یہی سب سے قیمتی چیز ہے۔ قیاس کن زگلستانِ من۔ دیکھیے زبان پر پھر وہی کم بخت "الخ” آتے آتے رہ گیا۔ آپ نے بھی تو کسی بزنس ایگزیکٹیو کا ذکر کیا تھا جن کے اٹالین ماربل فلور پر ہر سائز کے نایاب ایرانی قالین بچھے ہیں۔ کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا ہو تو وہ ان پر قدم نہیں رکھتے۔ ان سے بچ بچ کے ننگی راہداریوں پر اس طرح قدم رکھتے زگ زیگ جاتے ہیں جیسے وہ خود اسنیکس اینڈ لیڈرس کی گوٹ ہوں۔ ارے صاحب، میں بھی ایک بزنس میں کو جانتا ہوں۔ ان کے گھر میں قالینوں کے لیے فرش پر جگہ نہ رہی تو دیواروں پر لٹکا دیے۔ قالین ہٹا ہٹا کر مجھے دکھاتے رہے کہ ان کے نیچے قیمتی رنگین ماربل ہے۔
شہر دو قصہ
وہ منحوس بندوق نثار احمد خان نے مُلا عاصی کو بخش دی کہ وہ ان کے بیٹے کے جگری دوست تھے۔ ہنگاموں میں پولیس نے سارے محلے کے ہتھیار تھانے میں جمع کروائے تو یہ بندوق بھی مال خانے پہنچ گئی۔ پھر اس کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ فقط مہر شدہ رسید ہاتھ میں رہ گئی۔ پیروی تو بہت کی۔ ایک وکیل بھی کیا۔ مگر تھانے دار نے کہلا بھیجا کہ "ڈی آئی جی کو پسند آ گئی ہے۔” زیادہ غوغا کرو گے تو بندوق تو مل جائے گی مگر پولیس تمہارے گھر سے شراب کشید کرنے کی بھٹی برآمد کروائے گی۔ تمہارے ساتھ رہنے والے سارے رشتے دار پاکستان جا چکے ہیں۔ تمہارا مکان بھی Evacuee Property (متروکہ املاک) قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوچ لو۔ "چنانچہ انہوں نے سوچا اور چپ ہو رہے۔ اللہ، اللہ، ایک زمانہ تھا کہ شہرِ کوتوال ان کے باوا سے ملنے تیسرے چوتھے آتا تھا۔ پرڈی کی بڑی نایاب بندوق تھی۔ آج کل چھ لاکھ قیمت بتائی جاتی ہے۔ مگر صاحب، مجھ سے پوچھیے تو چھ لاکھ کی بندوق سے آدم خور شیر یا مردم آزار بادشاہ۔ یا خود۔ سے کچھ کم مارنا اتنی قیمتی بندوق کی توہین ہے۔ مُلا عاصی ابھی تک ہر ایک کو ضبط شدہ بندوق کی مہر شدہ رسید اور لائسنس دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدھ میل دور سے اس کا گراب اچٹتا ہوا بھی لگ جائے تو کالا (ہرن) پانی نہ مانگے۔
خلاف وضع فطری موت
پرانے دوست جب مدتوں بعد ملتے ہیں تو کبھی کبھی باتوں میں اچانک ایک تکلیف دو وقفہ سکوت آ جاتا ہے۔ کہنے کو اتنا کچھ ہوتا ہے کہ کچھ بھی تو نہیں کہا جاتا۔ ہزار باتیں ہجوم کر آتی ہیں۔ اور کہنی مار مار کے کندھے پکڑ پکڑ کے، ایک دوسرے کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ پہلے میں، پہلے میں، تو صاحب، میں ایک ایسے ہی وقفے میں ان کی مفلوک الحالی اور عُسرت پر دل ہی دل میں ترس کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ پاکستان آ گئے ہوتے تو سارے دلدر دور ہو جاتے۔ انہوں نے یکبارگی سکوت توڑا۔ کہنے لگے، تم واپس کیوں نہیں آ جاتے؟ تمھارے ہارٹ اٹیک کی جس دن خبر آئی تو یہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔ تمہیں یہ راج روگ، یہ رئیسوں کی بیماری کیسے لگی۔ سنا ہے میڈیکل سائنس کو ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوئی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن ایسی خوردبین ضرور ایجاد ہو گی جو اس مرض کے جراثیم کرنسی نوٹوں میں ٹریس کر لے گی۔ بندہ خدا، تم پاکستان کا ہے کو چلے گئے؟ یہاں کس چیز کی کمی ہے دیکھو، وہاں تمہیں ہارٹ اٹیک ہوا۔ میاں تجمل حسین کو ہوا۔ منیر احمد کا "بائی پاس” ہوا۔ ظہیر صدیقی کے "پیس میکر” لگا۔ منظور عالم کے دل میں سوراخ نکلا۔ مگر مجھے یقین ہے یہ پاکستان میں ہی ہوا ہو گا۔ یہاں سے تو صحیح سالم گئے تھے۔ خالد علی لندن میں انجیو گرافی کے دوران میز پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میت می ممی ساگوان کے شاندار بکس میں کراچی فلائی کی گئی۔ اور تو اور دبلے سوکھے چھوہارا، بھیا احتشام بھی لاہور میں ہارٹ اٹیک میں گئے۔ سبطین اور انسپکٹر ملک غلام رسول لنگڑیال کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ مولانا ماہر القادری کو ہوا۔ یون کہو، کس کو نہیں ہوا۔ بھائی میرے، یہاں ذہنی سکون ہے۔ قناعت ہے۔ توکل ہے۔ یہاں کسی کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا۔ اہلِ ہنود میں البتہ cases ہوتے رہتے ہیں۔
گویا سارا زور کس پر ہوا؟ اس پر کہ کانپور میں ہر شخص اپنی طبعی موت مرتا ہے۔ ہارٹ اٹیک سے بے موت نہیں مرتا۔ ارے صاحب، میرے ہارٹ اٹیک کو تو انہوں نے گویا کھونٹی بنا لیا جس پر جان پہچان کے گڑے مُردے اُکھاڑ اُکھاڑ کر ٹانگتے چلے گئے۔ مجھے تو سب نام یاد بھی نہیں رہے۔ دوسرے ہارٹ اٹیک کے بعد میں نے دوسروں کی رائے سے اختلاف کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب اپنی رائے کو ہمیشہ غلط سمجھتا ہوں۔ سب خوش رہتے ہیں۔ لہٰذا چپکا بیٹھا سنتا رہا۔ اور وہ ان خوش نصیب مرحومین کے نام گنواتے رہے جو ہارٹ اٹیک میں نہیں مرے، کسی اور مرض میں مرے۔ "اپنے مولوی محتشم ٹی بی میں مرے، حمید اللہ سینئر کلرک نبیرہ خان بہادر عظمت اللہ خان کا گلے کے کینسر میں انتقال ہوا۔ شہناز کے میاں عابد حسین وکیل ہندو مسلم فساد میں شہید ہوئے۔ قائم گنج والے عبدالوہاب خاں پورے پچیس دن ٹائیفائڈ میں مبتلا رہے۔ حکیم کی کوئی دوا کارگر نہ ہوئی۔ بقائمی ہوش و حواس و حافظہ جاں بحق تسلیم ہوئے۔ مرنے سے دو منٹ پہلے حکیم کا پورا نام لے کر گالی دی۔ منشی فیض محمد ہیضے میں ایک دن میں چٹ پٹ ہو گئے۔ حافظ فخرالدین فالج میں گئے۔ مگر الحمد للہ، ہارٹ اٹیک کسی کو نہیں ہوا۔ کوئی بھی خلافِ وضع فطری موت نہیں مرا۔ پاکستان میں میری جان پہچان کا کوئی متمول شخص ایسا نہیں جس کے دل کا بائی پاس نہ ہوا ہو۔ چندے یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب خوش حال گھرانوں میں ختنے اور بائی پاس ایک ساتھ ہوا کریں گے۔
پھر وہ آواگون اور نروان کے فلسفے پر لیکچر دینے لگے۔ بیچ لیکچر کے انہیں اچانک ایک اور مثال یاد آ گئی۔ اپنا ہی قطع کلام کرتے ہوئے اور بھگوان بدھ کو بودھی پیڑ کے نیچے اکیلا اونگھتا چھوڑ کر کہنے لگے "حد یہ کہ خواجہ فہیم الدین کا ہارٹ فیل نہیں ہوا۔ بیوی کے مرنے کے بعد دونوں بیٹیاں ہی سب کچھ تھیں۔ انہی میں مگن تھے۔ ایک دن اچانک پیشاب بند ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا پروسٹیٹ بڑھ گیا ہے۔ فوراً ایمرجنسی میں آپریشن کروانا پڑا جو بگڑ گیا۔ مگر تین چار مہینے میں لوٹ پوٹ کے ٹھیک ہو گئے۔ لیکن بڑی بیٹی نے ناگہاں ایک ہندو وکیل اور چھوٹی نے سکھ ٹھیکے دار سے شادی کر لی تو جانو کمر ٹوٹ گئی۔ پرانی چال، پرانے خیال کے آدمی ہیں۔ اٹواٹی کھٹواٹی لے کے پڑ گئے۔ اور اس وقت تک پڑے رہے جب تک اس کرسچین نرس سے شادی نہ کر لی جس نے پروسٹیٹ کے آپریشن کے دوران ان کا گو مُوت کیا تھا۔ وہ حرافہ تو گویا اشارے کی منتظر بیٹھی تھی۔ بس انہیں کی طرف سے ہچر مچر تھی:
اے مردِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے؟
باپ کے سہرے کے پھول کھلنے کی خبر سنی تو دونوں عاق شدہ بیٹیوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ایسے باپ کا منھ دیکھیں تو بد جانور کا منھ دیکھیں۔ وہ چیختے ہی رہ گئے کہ بد بختو میں نے کم از کم یہ کام تو شرع شریف کے عین مطابق کیا ہے۔ میاں یہ سب کچھ ہوا۔ مگر ہارٹ اٹیک خواجہ فہیم الدین کو بھی نہیں ہوا۔ تمھارے ہارٹ اٹیک کی خبر سنی تو دیر تک افسوس کرتے رہے۔ کہنے لگے، یہاں کیوں نہیں آ جاتے؟
صاحب، مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا پروسٹیٹ بڑھ گیا تو میں بھی آ جاؤں گا۔
پنڈولے کا پیالہ
طالبِ علمی کے زمانے میں کھانے کے معاملے میں بڑے نفاست پسند تھے۔ دو پیازہ گوشت، لہسن کی چٹنی، سری پائے، کلیجی، گُردے، کھیری اور مغز سے انہیں بڑی کراہت آتی تھی۔ دسترخوان پر ایسی کوئی ڈش ہو تو بھوکے اٹھ جاتے۔ اس "وزٹ” میں ایک جگہ میرے اعزاز میں دعوت ہوئی تو بھنا ہوا مغز بھی تھا۔ صاحب لہسن کا چھینٹا دے دے کے بھونا جائے اور پھٹکیوں کو گھوٹ دیا جائے تو ساری بساند نکل جاتی ہے۔ بشرطیکہ گرم مصالحہ ذرا بولتا ہوا اور مرچیں بھی چہکا مارتی ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے بھی کھایا اور منغض نہ ہوئے۔ میں نے پوچھا، حضرت، یہ کیسی بد پرہیزی؟ بولے جو سامنے آ گیا، جو کچھ ہم پر اترا، کھا لیا۔ ہم انکار کرنے، منھ بنانے والے کون۔
پھر کہنے لگے "بھائی تم نے وہ بھکشو والا قصہ نہیں سنا؟ بھکشو سے سات برس بھیک منگوائی جاتی تھی تاکہ انا کا پھن ایڑیوں تلے بالکل کچل جائے۔ اس کے بغیر آدمی کچھ پا نہیں سکتا۔ کاسہ گدائی کو مہاتما بدھ نے تاجِ سلطانی کہا ہے۔ بھکشو کو اگر کوئی ایک وقت سے زیادہ کھانا دینا بھی چاہے تب بھی وہ قبول نہیں کر سکتا۔ اور جو کچھ اس کے پیالے میں ڈال دیا جائے، اسی کو بے چون و چرا کھانا اس پر فرض ہے۔ پالی کی قدیم روایات میں آیا ہے کہ پنڈولے نامی ایک بھکشو کے پیالے میں ایک کوڑھی نے روٹی کا ٹکڑا ڈالا۔ ڈالتے وقت اس کا کوڑھ سے گلا ہوا انگوٹھا بھی جھڑ کر پیالے میں گر پڑا۔ پنڈولے کو دونوں کا سواد ایک سا لگا۔ یعنی کچھ نہیں۔” صاحب وہ تو قصہ سنا کر سر جھکائے کھانا کھاتے رہے۔ مگر میرا یہ حال کہ مغز تو ایک طرف رہا، میز پر رکھا ہوا سارا کھانا زہر ہو گیا۔ صاحب، اب ان کا ذہن پنڈولے کا پیالہ ہو گیا ہے۔
مُلا بھکشو
لڑکی کی خودکشی والا واقعہ 1953ء کا بتایا جاتا ہے۔ سنا ہے اس دن کے بعد سے وہ مستغنی الاحوال ہو گئے اور پڑھانے کا معاوضہ لینا ترک کر دیا۔ تیس سال ہو گئے۔ کسی نے کچھ کھلا دیا تو کھا لیا، ورنہ تکیہ پیٹ پر رکھا اور گھٹنے سکیڑ، دونوں ہاتھ جوڑ کے انہیں دائیں گال کے نیچے رکھ کے سو جاتے ہیں۔ کیا کہتے ہیں اس کو؟ جی، foetal posture اردو میں اسے جنم آسن، کوکھ آسن کہہ لیجیئے۔ مگر مجھے آپ کی اس فرائیڈ والی تاویل سے قطعی اتفاق نہیں۔ آپ خود بھی تو اسی طرح کنڈلی مار کے سوتے ہیں۔ مگر سبب اس کا تپسیا نہیں، السر ہے۔ مُلا عاصی بھکشو کہتے ہیں کہ بھگوان بدھ بھی داہنے پاؤں پر بایاں پاؤں اور سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر داہنی کروٹ سوتے تھے۔ اسے سنگھ شیا کہتے ہیں۔ بھوگ بلاسی یعنی اہلِ ہوس اور عیاش بائیں کروٹ سوتے ہیں۔ اسے کام بھو گی شیا کہتے ہیں۔ یہ مجھے انہیں سے معلوم ہوا کہ بد چلن آدمی فقط سونے کے آسن سے بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ بہرکیف، اب عالم یہ ہے کہ جو کسی نے پہنا دیا پہن لیا۔ جو مل گیا، کھا لیا، جس سے ملا، جیسا ملا۔ جب ملا۔ جہاں تھک گئے وہیں رات ہو گئی۔ جہاں پڑ رہے، وہیں رین بسیرا۔ تن تکیہ من بسرام۔ چار چار دن گھر نہیں آتے۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ جیسے کنتھا گھر رہے ویسے رہے بدیس (نکما خاوند گھر رہے یا پردیس برابر ہے)۔ خدا بھلا کرئے ان کے چیلوں کا۔ وہی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ ایسے محبتی، خدمتی شاگرد نہیں دیکھے۔ مُلا ایک دن ہاتھ کا پیالہ سا بنا کر کہنے لگے، بس مٹھی بھر دانوں کے لیے بنجارا کیسا گھبرایا، کیسا بولایا پھرتا ہے۔ ہرکس و ناکس پہ اگر یہ بات کھل جائے کہ زندگی کرنا کتنا سہل ہے تو یہ سارا کارخانہ ٹھپ ہو جائے۔ یہ سارا پاکھنڈ (بکھیڑا، دکھاوے کی عبادت)، یہ سارا آڈمبر (نمائش، تصنع، دکھاوے کے تکلفات) پل بھر میں کھنڈت ہو جائے۔ ہر آدمی کا شیطان اس کے اپنے اندر ہوتا ہے۔ اور خواہش اس شیطان کا دوسرا نام ہے۔ انسان اپنی خواہشوں کو جتنی بڑھاتا اور ہشکارتا جائے گا۔ اس کا من اتنا ہی کٹھور اور اس کی زندگی اتنی ہی کٹھن ہوتی چلی جائے گی۔ ڈائنا سور (Dinosaur) کا ڈیل جب اتنا بڑا ہو گیا اور کھانے کی خواہش اتنی شدید ہو گئی کہ زندہ رہنے کے لیے اسے چوبیس گھنٹے مسلسل چرنا پڑتا تھا تو اس کی نسل ہی extinct (معدوم) ہو گئی۔ کھانا صرف اتنی مقدار میں جائز ہے کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے۔ جسم فربہ ہو گا تو نفس کا موٹا ہونا لازمی ہے۔ میں نے آج تک کوئی لاغر مولوی نہیں دیکھا۔ بھرے پیٹ عبادت اور شب زندہ داری اور خالی پیٹ عیاشی نہیں ہو سکتی۔
یہ کہتے ہوئے وہ میز پر سے اپنے تالیف کردہ بودھ منتروں کا قلمی نسخہ اُٹھا لائے اور اس کے دیباچے سے اشلوک پڑھنے والے لہجے میں لہک لہک کر اقتباس سنانے لگے:
"بودھی ستوا نے بھگوان سچک سے کہا کہ اے اگی ویسن! جب میں دانتوں پر دانت جما کر اور اور تالو کو زبان لگا کر دل و دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا تھا تو میری بغلوں سے پسینا چھوٹنے لگتا تھا۔ جس طرح کوئی بلوان کسی کمزور آدمی کا سر یا کندھا پکڑ کر دباتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح میں اپنے دل و دماغ کو دباتا تھا۔ اے اگی ویسن، اس کے بعد میں نے سانس روک کر تپسیا کرنا شروع کی۔ اس سمے میرے کانوں سے سانس نکلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوہار کی دھونکنی جیسی۔ یہ آوازیں بہت تیز تھیں۔ پھر اے اگی ویسن، میں سانس روک کر اور کانوں کو ہاتھوں سے دبا کر تپسیا کرنے لگا۔ ایسا کرنے سے مجھے یوں لگا جیسے کوئی تلوار کی تیز نوک سے میرے ماتھے کو چھلنی کر رہا ہے۔ پھر بھی اے اگی ویسن، میں نے اپنی تپسیا جاری رکھی۔
"اے اگی ویسن، تپسیا اور فاقے سے میرا شریر (جسم) بدن بدن کمزور پڑتا گیا۔ آستک ولی کی گانٹھوں کی طرح میرے شریر کا جوڑ جوڑ صاف دکھائی دیتا تھا۔ میرا کولھا سوکھ کر اونٹ کے پاؤں کی مانند ہو گیا۔ میری ریڑھ کی ہڈی سُوت کی تکلیوں کی مال کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ جس طرح گرے ہوئے مکان کی بلیاں اوپر نیچے ہو جاتی ہیں، میری پسلیوں کی بھی وہی دِشا (کیفیت) ہو گئی ہے۔ میری آنکھیں کسی گہرے کنویں میں ستاروں کے عکس کی طرح اندر کو دھنس گئیں، جیسے کچا کڑوا کدو کاٹ کر دھوپ میں ڈال دیتے سے سوکھ جاتا ہے، ویسے ہی میرے سر کی چمڑی سوکھ گئی ہے۔ جب پیٹ پر ہاتھ پھیرتا تھا تو میرے ہاتھ میں ریڑھ کی ہڈی آ جاتی تھی۔ اور جب پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا تو ہاتھ پیٹ کی چمڑی تک پہنچ جاتا تھا۔ اس طرح میری پیٹھ اور پیٹ برابر ہو گئے تھے۔ شریر پر ہاتھ پھیرتا تو بال جھڑنے لگتے تھے۔”
فلیس مِنی! فلیس مِنی!
(وہ میرا ساتھی نہیں، وہ میرا ساتھی نہیں)
یہ پڑھنے کے بعد قدرے توقف کیا۔ آنکھیں موند لیں۔ میں سمجھا دھیان گیان کے غوطہ میں چلے گئے۔ ذرا دیر بعد آنکھیں بس اتنی کھولیں کہ پلک سے پلک جدا ہو جائے۔ اب وہ دھیان کی ساتویں سیڑھی پہ جھوم رہے تھے۔ ہاتھ کا چلو بنا کر کہنے لگے "ایک پیاس تو وہ ہوتی ہے جو گھونٹ دو گھونٹ پانی پینے سے بجھ جاتی ہے۔ اور ایک تونس ہوتی ہے کہ جتنا پانی پیو پیاس اتنی ہی بھڑکتی جاتی ہے۔ ہر گھونٹ کے بعد زبان پر کانٹے پڑتے چلے جاتے ہیں۔ آدمی آدمی پر منحصر ہے۔ کسی کو کایا موہ، کسی کو زر، زمین کی پیاس لگتی ہے۔ کسی کو علم اور شہرت کی۔ کسی کو خدا کے بندوں پر خدائی کی۔ اور کسی کو عورت کی پیاس ہے کہ بے تحاشا لگے چلی جاتی ہے۔ یہ پیاس دریاؤں، بادلوں اور گلیشروں کو نگل جاتی ہے اور سیراب نہیں ہوتی۔ انسان کو دریا دریا، سراب سراب لیے پھرتی ہے۔ بجھائے نہیں بجھتی۔ العطش، العطش، پھر ہوتے ہوتے یہ ان بجھ پیاس خود انسان ہی کو پگھلا کے پی جاتی ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ "جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اس نے کہا، ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے۔ جو اس کا پانی پیے گا۔ وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھا چلو کوئی پی لے تو پی لے۔ مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ پھر جب طالوت اور اس کے اہل ایمان ساتھ دریا پار کر کے آگے بڑھے تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔” (البقرۃ 33)۔ سو اس دریا کنارے ہر ایک کی آزمائش ہوتی ہے۔ جس نے اس کا پانی پی لیا اس میں بدی کے مقابلے کی طاقت نہ رہی۔ فلیس مِنی، فلیس منیِ، پس جیت اس کی اور نجات اس کی جو بیچ دریا سے پیاسا لوٹ آئے۔
ملاحظہ فرمایا اپ نے، بس اسی کارن مُلا بھکشو کہلاتے ہیں۔ زبان و بیان بالوں سے بھی زیادہ کھچڑی اور عقائد ان سے زیادہ رنگ برنگے۔ صوفیوں کی سی باتیں کرتے کرتے یکایک سادھو کا برن لے لیتے ہیں۔ الفاظ کے سر سے دفعتاً عمامہ اُتر جاتا ہے اور ہر شبد، ہر انچھر کے جٹائیں نکل آتی ہیں۔ آبِ زم زم سے وضو کر کے بھبھوت رما لیتے ہیں۔ ابھی کچھ ہیں ابھی کچھ۔ کبھی آپ کو ایسا محسوس ہو گا کہ بھٹک کے کہاں سے کہاں جا نکلے:
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترکِ اسلام کیا
اور کبھی ایسا محسوس کراویں گے گویا گوتم بدھ نے برکش تلے اپنی سمادھی چھوڑ کر احرام باندھ لیا ہے۔ مگر کبھی ایک نقطے اور نکتے پر جمتے نہیں۔ ٹڈے کی طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر پھُدکتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک دن چھیڑا کہ مولانا، بعض فقیہوں کے نزدیک مرتد کی سزا قتل ہے۔ اشارہ سمجھ گئے۔ مسکرا دیئے۔ کہنے لگے، سوچنے کی بات ہے۔ جس نے پہلے ہی خودکشی کر لی ہو اسے سُولی پہ لٹکانے سے فائدہ؟
تمام چہرے ہیں میرے چہرے، تمام آنکھیں ہیں میری آنکھیں
اپنے تمام خلوص اور تپاک کے با وصف وہ مجھے خاصے بے تعلق نظر آئے۔ ایک طرح کو درویشانہ استغناء آ گیا ہے۔ رشتوں میں بھی۔ ایک دن کہنے لگے کہ کوئی شے ہو یا شخص، اس سے ناتا جوڑنا ہی دکھ کا اصل سبب ہے۔ پھر انسان کی سانس چھوٹی اور اُڑان اوچھی ہو جاتی ہے۔ انسان جی کڑا کر کے ہر چیز سے ناتا توڑ لے تو پھر دُکھ سُکھ کے بے انت چکر سے باہر نکل جاتا ہے۔ پھر وہ شاد رہتا ہے، نہ ناشاد۔ مسرور نہ مغموم:
عیش و غم در دل نمی استد، خوشا آزادگی
بادہ و خونابہ یکسانست در غربالِ ما
(غالب کہتا ہے، عیش اور غم دونوں ہمارے دل میں نہیں ٹھہر پاتے۔ ہماری آزاد منشی کے کیا کہنے، ہماری چھلنی کے لیے شراب اور خون دونوں برابر ہیں۔ یعنی دونوں چھن کے نکل جاتے ہیں۔)
مگر یہ بے نیازی "بیدلی ہائے تمنا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق” والی منزل سے ماورا نظر آتی ہے۔ میری واپسی میں دو دن رہ گئے تو میں نے چھیڑا۔ "مولانا، یہاں بہت رہ لیے۔ جورو نہ جاتا، کانپور سے ناتا۔ اب میرے ساتھ پاکستان چلو۔ سب یار دوست، سارے سنگی ساتھی وہیں ہیں۔”
"پرکھوں کے ہاڑ ہڑواڑ (ہڈیاں اور خاندانی قبرستان) تو یہاں ہیں۔”
"تم کون سے ان پر فاتحہ پڑھتے ہو یا جمعرات کی جمعرات پھولوں کی چادر چڑھاتے ہو جو چھوٹنے کا ملال ہو۔”
اتنے میں ایک چتکبری بلی اپنا بچہ منھ میں دبائے ان کے کمرے میں داخل ہوئی۔ نعمت خانے میں بند کبوتر سہم کر کونے میں دبک گیا۔ بلی کے پیچھے ایک پڑوسی کی بچی مینا کا پنجرہ ہاتھ میں لٹکائے اور اپنی گُڑیا دوسری بغل میں دبائے آئی اور کہنے لگی کہ صبح سے ان دونوں نے کچھ نہیں کھایا۔ بولتے بھی نہیں۔ دوا دے دیجیئے۔ انہوں نے بیمار گڑیا کی نبض دیکھی۔ اور مینا سے اسی کے لہجے میں بولنے لگے تو ذرا دیر بعد مینا ان کے لہجے میں بولنے لگی۔ انہوں نے ایک ڈبے میں سے لیمن ڈراپ نکال کر بچی کو دی۔ اس نے اسے چوسا تو گڑیا کو آرام آ گیا۔ وہ مسکرا دیے۔ پھر بحث کا سرا وہیں سے اٹھایا جہاں سے بلی، بچی اور مینا کی اچانک آمد سے ٹوٹ گیا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے "یہاں میں سب کے دکھ درد میں ساجھی ہوں۔ وہاں میری ضرورت کس کو ہو گی؟” وہاں مجھ سا غریب اور کون ہو گا۔ یہاں مجھ سے بھی غریب ہیں:
صد رفیق و صد ہمدم پر شکستہ و دل تنگ
داورا، نمی زیبد بال و پر بمن تنہا
(یعنی میرے سب رفیق اور سب ہمدم پُرشکستہ اور دل تنگ ہیں۔ اے خدائے عادل، مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ تنہا میرے ہی بال و پر ہوں)
"بندہ خدا، ایک دفعہ چل کے تو دیکھو۔ پاکستان کا تمہارے ذہن میں کچھ عجیب سا نقشہ ہے۔ وہاں بھی دُکھی بستے ہیں۔ ہماری خاطر ہی چلو۔ ایک ہفتے کے لیے ہی سہی۔”
"کون پوچھے گا مجھ کو میلے میں؟”
"تو پھر یوں سمجھو کہ جہاں سبھی تاج پہنے بیٹھے ہوں، وہاں ننگے سر، خاک بسر آدمی سب سے نمایاں ہوتا ہے۔”
خدا جانے سچ مچ قائل ہوئے یا محض زچ ہو گئے۔ کہنے لگے "برادر میں تو تمہیں دانہ ڈال رہا تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ ہماری چھتری پہ آن بیٹھو۔ خیر چلا تو چلوں۔ مگر خدا جانے ان کبوتروں کا کیا ہو گا۔”
"اس کا انحصار خدا پر نہیں بلی کی نیت پر ہے مگر سنو، تم خدا کے کب سے قائل ہو گئے؟”
"میں نے تو محاورتاً کہا تھا۔ سامنے جو جامن کا پیڑ دیکھ رہے ہو، یہ میرے دادا نے لگایا تھا۔ جس سمے پو پھٹتی ہے اور اس کھڑکی سے صبح کا ستارہ نظر آنا بند ہو جاتا ہے یا جب دونوں وقت ملتے ہیں اور شام کا جھُٹ پٹا سا ہونے لگتا ہے تو اس پر بے شمار چڑیاں جی جان سے ایسے چہچہاتی ہیں کہ دل کو کچھ ہونے سا لگتا ہے۔ اس جامن کی دیکھ بھال کون کرے گا؟”
"اول تو اس بوڑھے جامن کو تمہاری اور بدھ ازم کی ضرورت نہیں، گوبر کے کھاد کی ضرورت ہے۔ دوم، تمہیں التباس ہوا ہے۔ مہاتما بدھ کو نروان جامن کے نیچے نہیں، پیپل تلے حاصل ہوا تھا۔ بفرض محال تم پشو پکشی اور پیڑ کی سیوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو کراچی کے لاغر گدھوں اور لاہور کی اپر مال کے جامنوں کی رکھوالی کر کے شوق پورا کر لینا۔ جامنوں کے پکنے سے پہلے ہی نسینیاں (سیڑھیاں) لگ جاتی ہیں۔ زندہ دلانِ لاہور پرائے درختوں کے پھل کانپور والوں کی طرح درو سے پتھر مار مار کے نہیں توڑتے۔ رسان سے درخت پر چڑھ کے یا سیڑھی لگا کے توڑ توڑ کے خود کھاتے ہیں اور رکھوالوں کو کھلاتے ہیں۔
"میں آؤں گا۔ لاہور ایک دن ضرور آؤں گا۔ مگر کبھی اور۔”
"ابھی میرے ساتھ چلنے میں کیا قباحت ہے؟”
"ان بچوں کا کیا ہو گا؟”
"ہونا کیا ہے۔ بڑے ہو جائیں گے۔ تمہیں کوئی miss نہیں کرے گا۔ آخر کو تم مر گئے، تب کیا ہو گا؟”
"تو کیا ہوا۔ یہ بچے۔ اور بچوں کے بچے تو زندہ رہیں گے۔ سینوں میں اُجالا بھر رہا ہوں۔ مر گیا تو ان کے منھ سے بولوں گا۔ ان کی اوتار آنکھوں سے دیکھوں گا۔”
(بشارت کی زبانی یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے)
پسِ نوشت۔۔۔ لو وہ بھی ہارٹ اٹیک میں گئے!
3 دسمبر 1985ء کو طلوع آفتاب سے ذرا پہلے جب ان ہی کے الفاظ میں، جامن پر چڑیاں اس طرح چہچہا رہی تھیں، جانو جی جان سے گزر جائیں گی، مُلا عبد المنان عاصی کا حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا۔ محلے کی مسجد کے پیشِ امام نے کہلا بھیجا کہ ملحد کی صلٰوۃ الجنازہ جائز نہیں۔ جس کے وجود ہی کے آنجہانی قائل نہ تھے۔ اس سے رحمت و بخشائش کی دعا کیا معنی؟ بڑی دیر تک جنازہ جامن کے نیچے پڑا رہا۔ بالآخر ان کے ایک عزیز شاگرد نے امامت کے فرائض انجام دیے۔ سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ تجہیز و تکفین سے پہلے ان کے بلیک بکس کا تالا معززینِ محلہ کی موجودگی میں کھولا گیا۔ اس میں اسکول کی کاپی کے ایک صفحے پر پنسل سے لکھی ہوئی تحریر ملی جس پر نہ تاریخ تھی نہ دستخط۔ لکھا تھا کہ پسِ مردن میری جائیداد منقولہ و غیر منقولہ (جس کی مکمل فہرست اور احوال ہم پچھلے صفحات میں دے چکے ہیں) نیلام کر کے کبوتروں کے لیے ٹرسٹ بنا دیا جائے۔ یہ احتیاط رکھا جائے کہ کوئی گوشت خور ٹرسٹی (متولی) مقرر نہ ہو۔ یہ بھی لکھا تھا کہ مجھے کانپور میں دفن نہ کیا جائے۔ لاہور میں ماں کے قدموں میں لٹا دیا جائے۔
٭٭٭
ٹائپنگ: محب علوی، رضوان نور، شمشاد خان، ظفر
ماخذ: اردو ویب ڈاٹ آرگ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
[1] (Black Box) وہ مضبوط فائر، واٹر اور شاک پروف باکس جس کے اندر بند آلات سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ ہوائی جہاز کے گر کر تباہ ہونے اور مسافروں کے ہلاک ہونے کی وجہ کیا تھی۔ یعنی بقول مخدومی ماجد علی صاحب کے مسافر گر کر مرے یا مر کر گرے تھے۔
[2] صوبہ سرحد اور پنجاب میں جب لوگ تمغہ کو تغمہ کہتے ہیں تو عام طور پر اسے تلفظ کی غلطی پر محمول کیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ کہ صحیح لفظ تغمہ ہی ہے جو ترکی الاصل ہے۔ اور صحیح املا تغما ہے۔
[3] میرے مرنے کے بعد میری قبر رُوئے زمین پر تلاش نہ کرو۔ میرا مزار تو عارفوں کے سینے میں ہے۔