FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شاخِ ادراک

                   ارشد خالد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

ہم جہاں اترے۔۔۔

ہم جہاں اترے

وہاں پر دور تک پھیلے اداسی کے مناظر ہی

ہمارے منتظر تھے

درختوں کی مغموم شاخوں سے لپٹی

پرندوں کی ساری تھکن بھی وہاں سو رہی تھی

شام کی منتظر آنکھیں جیسے

کڑی دھوپ سہتے ہوئے

پتھر اسی گئی تھیں

بے بسی اپنی عریانی اوڑھے ہوئے رو رہی تھی

کوئی ملبوس زادہ کسی کوکھ میں

 خواہشیں بو چکا تھا

 اداسی کے ٹھہرے ہوئے یہ مناظر،

یہ شاخوں سے لپٹی  ہوئی سی تھکن،

اور موسم کی شدت سے

بے نور آنکھوں سے نکلے ہوئے

 خشک آنسو۔۔۔ یہ سب

اب تو ہم میں اُٹھانے کی ہمت نہیں تھی

سو ہم کل جہاں اترے تھے

 وہاں سے تو کل ہی

 پلٹ آئے تھے

٭٭٭

قاتل لمحے

 لمحوں کی تم بات نہ کرنا

لمحے قاتل بن جاتے ہیں

دھوپ اور چھاؤں کے سارے منظر

دکھ اور سکھ کی ساری گھڑیاں

 لمحوں کی محتاج رہی ہیں

اونچے نیچے رستوں پر بھی

چلتے چلتے ساتھ ہمارے

پل میں ساتھی کھو جاتے ہیں

جھاگ اُڑاتی لہریں  اور پھر

صحرا، اڑتے ریت بگولے

منظر دھندلا کر جاتے ہیں

لمحوں کی تم بات نہ کرنا

لمحے قاتل بن جاتے ہیں

٭٭٭

ایک نظم

(اسلم کولسری کے نام)

روشنی تصور کی

سردڈھلتی راتوں میں

دل کے شیلف میں رکھی

پیار کی کتابوں پر

کچھ کتابی چہروں پر

اس طرح اترتی ہے

لفظ جاگ اُٹھتے ہیں

پہلے گنگناتے، پھر

 شورسا مچاتے ہیں

خوب ہنستے گاتے ہیں

اور ہنسنے گانے میں اشک بہہ نکلتے ہیں

 شعر ہونے لگتے ہیں

٭٭٭

بوجھل آنکھیں

ٹی وی چینل پر چلتے

یہ دنیا بھر کے نظارے

کسی بھی ہلکی سی آہٹ سے

ان آنکھوں میں کھو جاتے ہیں

اور یہ میری بوجھل آنکھیں

 اور بھی بوجھل ہو جاتی ہیں

 رنگوں کے سارے لہریے

روشنیوں کی ساری لہریں

آنکھوں میں یوں کھو جاتی ہیں

ڈوبتے دل اور خالی ذہن میں

 سوچیں گم سُم ہو جاتی ہیں

 بوجھل آنکھیں سو جاتی ہیں

٭٭٭

دیوانگی کا سفر

دیوانگی کی حد سے جب آگے نکل گئے

جنگل، پہاڑ، دشت و سمندرتھے ہم رکاب

سورج بھی، چاند تارے بھی

سب ساتھ ساتھ تھے

دیکھا پلٹ کے جب تو اندھیرا بھی ساتھ تھا

٭٭٭

 

فحاشی؟

’’خزاں آ رہی ہے‘‘

یہ سنتے ہی بد مست ہو کر

ہوا چل پڑی

اورسرسبز پودے، ہرے پیڑ

سب دیکھتے دیکھتے ننگے ہوتے گئے

٭٭٭

 

افضل چوہان کی نذر

تیرے گھر کے رستے سے

دور کیسے ہو جاؤں

تیرا گھر تو پڑتا ہے

میرے گھر کے رستے میں

٭٭٭

 

تمنا

تمنا خواب کی وادی میں

 جب بیدار ہو کر

نیم وا آنکھوں سے دیکھے گی

جواں انگڑائیوں کے سارے موسم بھی

بدن آنگن میں اتریں گے

٭٭٭

 

خواب اور کتابیں

رکھ دیئے تھے

رات میں نے

 خواب سارے شلف میں

کروٹیں لیتا رہا بسترپہ

میں بھی رات بھر

رات بھر سوئی نہیں

 شلف میں رکھی

کتابیں بھی مری

٭٭٭

 

خواب تھے کچھ۔۔۔

خواب تھے کچھ

جن کو کل تک

 آنکھوں میں اپنی

ہم رکھ نہ پائے تھے

آنکھیں بن کے

اتر آئے ہیں

وہ سارے خواب

 شہر کی گلیوں میں آج!

٭٭٭

 

لمحۂ آزار

جانے کس لمحۂ آزار کی

 آمد ہے یہاں ؟

رات ہی رات میں

کتنے ہی پرندوں نے

مِرے شہر سے

 ہجرت کر لی

پھر بھی گھر بھر میں اک امید کی لو روشن ہے

اور آنگن کی ہر اک شاخ سے

لپٹی ہوئی بے نام اداسی نے

یہ پوچھا ہم سے

 موسمِ گل نے بھلا واقعی اب

 آنے کی حامی بھر لی!

٭٭٭

میری آنکھیں

میری آنکھیں

فقط آنکھیں نہیں ہیں

یہ دروازے ہیں

 تہہ خانۂ دل کے

جہاں پر میں نے اپنی عمر بھر کے

محبت کے فسانے، اور

یادوں کے خزانے

 زندگی بھر کے زمانے، قید رکھے ہیں۔

٭٭٭

 

شہر تمنا

شہرِ تمنا

اب تو ساری

 راہیں بھی مسدود ہوئی ہیں

دکھ کی ساری فصلیں

اب تو

اُگ آئی ہیں چہروں پر

٭٭٭

 

شاخِ ادراک پر

شاخِ ادراک پر پھول کھلنے لگے

آبِ احساس میں لفظ دھُلنے لگے

 سوچ وادی میں الفاظ و جذبات

اک ساتھ کچھ ایسے چلنے لگے

سوچ وادی بھی الفاظ و جذبات کے ساتھ ہی

جیسے چلنے لگی

اک نئی نظم میں

خود بخود جیسے ڈھلنے لگی

٭٭٭

 

تبدیلی

کیوں پریشان ہوتے ہو بابا؟

وقت اب ایسے ہی گزرنا ہے

 اب وفا کے صلے نہیں ملتے!

٭٭٭

 

تمہیں بھلا دوں۔۔۔۔

تمہیں بھلا دوں

یہ میں نے سوچا

تمہاری یادیں ، تمہاری باتیں

 تمہارے ہمراہ گذرے لمحے

ہر ایک کو جب بھلا چکا تو

 یہ میں نے دیکھا

تمہیں بھلانے کے ساتھ ہی جیسے

خود کو بھی میں بھلا چکا تھا

٭٭٭

 

الجھن

مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں

میں حقیقتوں پہ بھی معترض

جو میں دیکھتا ہوں ، وہ ہے نہیں

جو نظر ہی آتا نہیں کہیں

ہوں اسی کی کھوج میں آج تک

٭٭٭

 

واہمہ

اک عکسِ بے مثال سا بن کر ملا تھا وہ

چاہت بھری نگاہ سے تکتے ہوئے مجھے

وہ دیر تک سناتا رہا اپنے دل کا حال

اس حال سے چھلکتے تھے منظر بہار کے

وارفتگی سناتی تھی احوال پیار کے،

میرے گلے میں ڈال کے بانہوں کے ہار کو

کہنے لگا کہ پھول سے خوشبو جدا نہیں !

میں آج تک ہوں اُس کے کہے پر اَڑا ہوا

٭٭٭

 

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

مجھے جینا نہیں آتا

تمہیں مرنے کی جلدی ہے

چلو ہم ساتھ چلتے ہیں

٭٭٭

 

جنت کے گھر

ہم اپنے بچپنے میں ساحل دریا پہ جا کے

پیروں کو بھر کے

ریت کے کچھ خوشنما سے گھر بناتے تھے

پھر اپنے پھول ہاتھوں سے

انہیں مسمار کرتے تھے

یہ لگتا ہے بڑے ہو کر بھی ہم اب تک۔ ۔ ۔

ابھی تک بچپنے میں ہیں

کہ اپنی خواہشوں کی جنتیں پانے کی خاطر

نیکیوں کے نام پر

 جنت کے گھر تعمیر کرتے ہیں

پھر ان جنت گھروں کو خود جہنم زار کرتے ہیں

ہر اپنی خوشنما تعمیر اپنے ہاتھ سے مسمار کرتے ہیں

فقط نادانیوں سے پیار کرتے ہیں

٭٭٭

ابھی کچھ دیر باقی ہے

ابھی تو خواب آنکھوں سے اتر کر

 دل میں ٹھہرے ہی نہیں ہیں

فلک کے ان ستاروں کو

زمیں تک آتے آتے کچھ نہ کچھ تو دیر لگتی ہے

تم ایسا کر لو، اپنی آنکھ میں

 کچھ رت جگے بھر لو

ابھی کچھ دیر باقی ہے

محبت خواب آنے میں

٭٭٭

 

نصیحت

محبتوں کے سفر پہ نکلو

 تو یاد رکھنا

محبتوں کا نشانِ منزل کوئی نہیں ہے

کہ بن سنور کر گھروں سے نکلے تھے

 لوگ جتنے بھی اس سفر پر

وہ راستوں میں بچھڑ گئے تھے، اجڑ گئے تھے،

اور آخرش گردِ راہ بن کر بکھر گئے تھے

محبتوں کے سفر میں

رستوں کی دھول بننا گوارا ہو تو

ضرور ایسے سفر پہ نکلو

٭٭٭

 

ہجرت کرنے سے پہلے

شہر کی فضا میں بھی

تلخیوں کا موسم ہے

چاہتوں کی راہوں میں

سب اگے ہوئے کانٹے

زخم یہ سفر کے ہیں

اب یہاں ٹھہرنا بھی کس قدر ہوا مشکل

سانس بھی اگر لیں تو دقتوں سے چلتی ہے

اب کہ ہجرتوں میں بھی

یہ امانتوں کا بوجھ

اس کو ہم نے کھونا ہے

آج کے شبستاں میں

ہم نے خود ہی سونا ہے

٭٭٭

زادِ سفر

 ذرا ٹھہرو

 اے مرے ہمراہی ٹھہرو

کہ میں اپنا زادِ سفر ساتھ لے لوں

وہ کمرے میں خوشبو کی مانند پھیلا

میری ماں کا بوسہ جو بچپن میں اس نے

سحر کے دلآویز اجلے اجالے کی صورت

مرے ماتھے پہ ثبت اک دن کیا تھا

اسے ساتھ لے لوں

ذرا ٹھہرو

اے میرے ہمراہی ٹھہرو

کہ میں اپنا زادِ سفر ساتھ لے لوں

وہ ماں کی دعاؤں کا پر نور ہالہ

جو چاروں طرف

 اک محافظ کی صورت ہے سایہ فگن

وہ ماں کی دعاؤں کا ہالہ بھی ہمراہ لے لوں !

٭٭٭

 

انتظار

جبر کا موسم

جب گزرے گا

تب سوچیں گے

شاخِ تمنا کے اُگنے میں

کتنی صدیاں لگتی ہیں

٭٭٭

 

ازل سے ابد

ازل سے ابد

دونوں اک ساتھ تھے

دونوں چلتے گئے

حدِ امکان سے بھی پرے۔ ۔ ۔

کہ روش پھر زمانے کی تبدیل ہونے لگی

پھول کھلنے لگے، ساری سمتیں مہکنے لگیں

کھنکھناتی ہوئی۔ ۔ ۔ گیلی مٹِی

عجب ایک پیکرِ میں ڈھلنے لگی

پھر ملائک۔ ۔ ۔ ۔

سبھی سجدہ ریز تھے

لیکن اک کے سوا

تب ازل سے ابد وہیں رخصت ہوا

پھر سے ملنے کی امید رکھے ہوئے

حدِ امکان سے۔ ۔ ۔

اک طرف اک گیا

اک طرف دوسرا!

٭٭٭

 

مجھے تم یاد کر لینا

سنو! جب عہد فردا میں

کوئی مشکل تمہارے در پہ

دستک دے

کوئی ویرانیِ دل سی ابھر آئے نگاہوں میں

صدائے غم بکھر جائے فضاؤں میں

مجھے تم یاد کر لینا

٭٭٭

 

اختتام

شور نے

اپنی حد سے بڑھ کر،

خاموشی کو مار دیا ہے

میں نے جیون

 ہار دیا ہے

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید