

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
سیکرٹ ایجنٹ
بچوں کا ناول
عطا محمد تبسّم
پہلا باب : بہروپیا فنکار
عدیل کی چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں اور کینیا سے اس کی واپسی کا سفر شروع ہو رہا تھا۔ وہ دو ماہ پہلے اپنے چچا کے یہاں چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔ کینیا کے باغات اور جنگلوں میں اس نے اپنی چھٹیوں میں خوب مزے کئے۔ اب اسے نیویارک واپس جانا تھا۔ عدیل کے والدین بہت عرصے سے امریکہ میں مقیم تھے۔ اس کی پیدائش امریکہ میں ہوئی تھی اس لئے وہ یہاں کی بود و باش کا عادی ہو چکا تھا۔ اس کے خاندان کے بہت سے لوگ پاکستان کے شہر کراچی میں رہتے تھے۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنی اگلی چھٹیاں پاکستان میں گزارے۔ فی الحال تو اسے امریکہ واپس جانا تھا۔ اس لئے اس نے ایک سفری ایجنٹ سے رابطہ قائم کیا تاکہ جہاز سے اس کی واپسی کی نشست محفوظ ہو جائے۔ عدیل کے سفری ایجنٹ نے اسے ایک پیشکش کی کہ اگر وہ چاہے تو نیروبی سے کینیڈی ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہو سکتا ہے اور اگر چاہے تو اسی ٹکٹ میں وہ واشنگٹن ڈی سی کے ڈلِس ایئرپورٹ تک بھی جا سکتا ہے۔ دونوں کا کرایہ یکساں ہو گا۔ سفری ایجنٹ کی یہ بات سن کر عدیل سوچ میں پڑ گیا۔ اسے یوں بھی گھومنے کا بہت شوق تھا۔ وہ 16 برس کا ہو چکا تھا۔ اس کا قدم لمبا اور جسم مضبوط تھا۔ وہ کھیلوں میں حصہ لیتا تھا اور باقاعدہ ورزش کرتا تھا۔ اپنے سفری ایجنٹ کی بات سن کر اس نے سوچا کہ مجھے واشنگٹن ڈی سی دیکھنے کا شوق تو ہے ہی کیوں نہ مفت میں یہ شوق پورا کر لیا جائے۔
عدیل کو جہاز میں کھڑکی کے قریب نشست ملی۔ جہاز سے باہر کا خوبصورت نظارہ سامنے تھا۔ حد نظر نیلا آسمان پھیلا ہوا تھا۔ جہاز کے مسافر پورے ہوئے تو جہاز کے کپتان نے مسافروں کو اپنی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لینے کو کہا۔ جہاز میں یہ حفاظتی سیٹ بیلٹ ہر سیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہیں اور ان کے باندھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جہاز کی پرواز غیر ہموار ہونے کے نتیجے میں مسافروں کو جھٹکے نہ لگیں۔ جہاز کے عملے نے تھوڑی ہی دیر میں کھانے کی تیاریاں شروع کر دیں اور تمام مسافروں کی نشستوں پر لنچ دے دیا گیا۔ لنچ سے فارغ ہونے کے بعد عدیل فلم دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ یہ ایک جاسوسی فلم تھی جو جہاز کے اسکرین پر دکھائی جا رہی تھی۔ پھر عدیل کتاب پڑھنے لگا۔ جہاز میں خاموشی تھی۔
تھوڑی دیر بعد فضائی میزبان نے واشنگٹن ڈی سی پہنچنے کا اعلان کیا جس کے بعد جہاز اترنے لگا۔ جہاز کے ساتھ سیڑھی لگا دی گئی اور مسافر قطار میں اترنے لگے۔ عدیل نے اپنا سفری بیگ اٹھایا اور مسافروں کی قطار میں شامل ہو گیا۔ یہاں کسٹم کے حکام مسافروں کے سامان کی چیکنگ کر رہے تھے۔ عدیل کے ہاتھ میں اس کا ٹیپ ریکارڈر تھا۔ اس کے بیگ میں اس کی پسندیدہ کیسٹیں تھیں۔ وہ جہاں بھی جاتا تو عموماً ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹیں اس کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ کسٹم حکام کی جانب سے مسافروں کی چیکنگ بہت جلد ختم ہو جائے گی اور پھر وہ بس میں شہر کی سیر کرے گا۔ اور خوب گھومے گا۔
کسٹم کے شیشے کے کیبن میں اسپیشل ایجنٹ تھامس پینی ایئرپورٹ پر مسافروں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ چوڑے منہ والا ایک لمبا شخص تھا جس کے بال کالے تھے۔ اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کبھی کبھار ہی مسکراتا ہے۔
’’کیا تم نے اپنے تمام ساتھیوں کو ہوشیار کر دیا ہے؟‘‘ تھامس نے بھاری آواز میں پوچھا۔
کسٹم کی سپروائزر الیک بونز تھی۔ وہ موٹی سی چھوٹے قدر کی عورت تھی۔ جس نے پولیس کی وردی پہنے ہوئی تھی لیکن اس کے پاس کوئی پستول موجود نہیں تھی۔ وہ کئی برسوں سے کسٹم میں کام کر رہی تھی۔
’’ہاں ہاں…. میں نے سارے اقدامات کر لئے ہیں۔ تمام عملہ کو ہدایات دے دی گئی ہیں۔ روم سے آنے والی فلائٹ نیروبی سے آنے والے جہاز کے پیچھے ہی ہے۔‘‘
الیک بونز نے جواب دیا۔
لیکن پینی نے اس کی بات سن کر کندھے اچکاتے ہوئے کہا ’’مجھے نیروبی کے جہاز سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں تو روم سے آنے والے جہاز کا منتظر ہوں۔ جس میں ایک جاسوس آنے والا ہے۔‘‘۔
’’اچھا….کیا واقعی….‘‘ الیک نے حیرت سے پوچھا۔
’’اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہاں بھی جاسوس ہیں۔‘‘ تھامس نے فخر سے بتایا۔
’’لیکن تمہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ جاسوس کس نام سے سفر کر رہا ہے اور کیا وہ عورت ہے یا مرد…. ایسی صورت میں تم اسے کیسے پکڑو گے؟‘‘ الیک بونز نے سوال کیا۔
’’یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس جاسوس نے کینیڈا کے اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے اور وہ انگلش بہت اچھی طرح بولتا ہے اور اس کے پاس بہت سے آلات ہیں۔
’’آلات….‘‘ الیک نے ایک بار پھر حیرت سے سوال کیا۔
’’آلات…. جاسوسی کرنے والوں کے پاس ہر طرح کے آلات اور ہتھیار ہوتے ہیں۔‘‘ پینی نے تفصیل سے بتانا شروع کیا۔ ’’جاسوسی کے آلات کے ذریعہ جاسوس…. خفیہ راز حاصل کرتے ہیں …. ایک بار انہیں یہ راز ہاتھ آ جائیں تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد یہ خفیہ معلومات کا خزانہ اپنے ملک منتقل کر دیں …. اور اس کے لئے وہ ہر طرح کے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔‘‘ پینی نے یہ کہہ کر ایک گہرا سانس لیا۔
الیک بونز کو شدید حیرت ہوئی۔ اس نے پوچھا ’’کیا آنے والا جاسوس اپنے تمام آلات اور ہتھیاروں کے ساتھ آئے گا؟‘‘
’’ہاں ہاں …. کیوں نہیں۔‘‘ پینی نے جواب دیا۔
’’لیکن وہ اپنے ہتھیار اور آلات کسٹم والوں سے کیسے چھپائے گا؟‘‘ الیک نے ایک اور سوال داغ دیا۔
’’ہاں …. اس بارے میں، میں بھی سوچ رہا ہوں۔ آنے والے جاسوس کو یہ تو معلوم ہو گا کہ کسٹم والے کس طرح تلاشی لیتے ہیں۔ وہ ہر سوٹ کیس کو کھولتے ہیں اور مکمل چیکنگ کرتے ہیں‘‘ پینی نے جواب دیا۔
’’تمہارا خیال ہے کہ جاسوس نے اپنی قسمت پر بھروسہ کیا ہے کہ شاید اس کا سامان چیک نہ ہو۔‘‘ بونز نے ایک نیا خیال پیش کیا۔
’’ایسا ممکن نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اگر جاسوس نے کوئی ایسا طریقہ نکال لیا کہ وہ کسٹم حکام سے بچ نکلا تو بھی ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے …. ہم اسے کہیں نہ کہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔ تھامس نے جواب دیا۔
نیچے لابی میں مسافروں کا ایک نیا ریلا تیزی سے آیا اور پہلے سے موجود مسافروں میں شامل ہو گیا۔ انہیں دیکھ کر پینی نے سوال کیا ’’کیا یہ روم سے آنے والے جہاز کے مسافر ہیں؟‘‘….
’’ہاں یہ روم کے جہاز سے آنے والے مسافر ہیں لیکن اس قطار میں پہلے سے نیروبی کے مسافر بھی کھڑے ہیں‘‘ الیک بونز نے جواب دیا۔
’’اچھا اچھا…. اب تم جلدی کرو اپنے آدمیوں کو فون کرو…. انہیں ہوشیار رہنا چاہئے …. ایسا نہ ہو کہ جاسوس انہیں جل دے کر نکل جائے۔‘‘
اگر ایسا ہوا تو پھر ہم اس شخص کو کسی اور جگہ پکڑ لیں گے لیکن اس کا بچ کر جانا مشکل ہے۔ الیک بونز نے جواب دیا، لیکن وہ اس بات سے خوش نہیں ہوا۔
جارج کا خیال تھا کہ وہ اس قدر اسمارٹ نہیں ہے جو ایسی سختی کی صورت حال سے نکل جائے لیکن پھر بھی وہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے اپنے حواس بحال رکھتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو عام حلیہ میں رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے سوٹ کیس کا انتخاب بھی عام استعمال کے سوٹ کیس میں سے کیا تھا۔ اب یہی سوٹ کیس تھا جس میں اس کے آلات بھرے ہوئے تھے …. اس کے ہاتھوں میں بھی عام لوگوں کی طرح کیسٹ ریکارڈر تھا۔ اسے پکڑے جانے کا خوف بھی نہیں تھا۔ اس نے نہایت چالاکی سے اپنا سوٹ کیس اپنے پیچھے آنے والی ایک عورت کے سوٹ کیس سے بدل لیا تھا۔ اب وہ اس عورت سے آگے کھڑا تھا۔ بغیر کسی سامان کے۔ کسٹم سے نکل کر اسے بس اتنا کرنا تھا کہ وہ انتظار کرے۔ اگر کسٹم والے اس عورت کا سامان بغیر کسی مشکل کے کلیئر کر دیتے ہیں تو وہ باہر نکل کر عورت سے اپنا سوٹ کیس حاصل کر لے گا لیکن اگر کسٹم والوں نے اسے روک لیا تو وہ خاموشی سے نکلتا چلا جائے گا۔
اسے کسی چیز کی فکر تھی تو بس کیسٹ ریکارڈر کی تھی جو اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسے پکڑا سکتا تھا۔ دیکھنے میں تو یہ عام کیسٹ ریکارڈر تھا لیکن در حقیقت یہ ایک حساس آلہ تھا۔ اس کے چھوٹے سے ٹیپ پر کئی گھنٹوں کی ریکارڈنگ محفوظ کی جا سکتی تھی۔ جب اسے پلے بیک کیا جاتا تھا تو یہ بہت تیزی سے چلتا تھا اور اس کی آواز بھی تیز بھی ہو جاتی تھی اور اس میں لگے ایک ریڈیو سے اس کی آواز نشر بھی کی جا سکتی تھی اور جس ملک کے لئے وہ جاسوسی کر رہا تھا انہیں معلوم تھا کہ کب یہ نشریات انہیں سننی ہیں۔ اس ملک کے کچھ افراد سمندر میں ایک جہاز پر تھے۔ جہاں یہ خفیہ معلومات سنی جاتی تھیں۔ وہ تیز رفتاری سے یہ نشریات ریکارڈ کرتے اور آہستہ آہستہ اسے سن کر محفوظ کرتے تھے۔ یوں انہیں تمام راز با آسانی مل جاتے تھے۔
یہ ریکارڈر جارج کا انتہائی قیمتی آلہ تھا اور اسی کے سبب وہ اس ملک کے افراد سے رابطہ رکھتا تھا جن کے لئے وہ جاسوسی کر رہا تھا۔ وہ صرف ایک دو منٹ کا پیغام دیتا تھا کیونکہ اس سے زیادہ مدت کا پیغام اس کی نشاندہی کر کے اسے گرفتار کرا سکتا تھا۔
جارج پہلا مسافر تھا جو روم کی فلائٹ سے آ کر کسٹم کی لائن میں لگا۔ اس سے آگے عدیل کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر جارج کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ گئی۔
عدیل کے کندھے پر ایسا ہی کیسٹ ریکارڈر تھا اور عدیل کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اسے اپنے کیسٹ ریکارڈر سے چھٹکارا پانے کی ترکیب سوجھ گئی تھی۔ اس نے عدیل کے پیچھے کھڑے ہوتے ہی اپنا ٹیپ ریکارڈر زمین پر رکھ دیا اور جیب سے ایک نقشہ نکال کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے عدیل کی کمر تھپتھپاتے ہوئے اسے متوجہ کیا۔ کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟ مجھے اس نقشہ کو سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ عدیل مڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ جارج نے نقشہ عدیل کے سامنے کر دیا۔ عدیل نے اپنا ٹیپ ریکارڈر فرش پر رکھ دیا تاکہ وہ نقشہ پکڑ سکے۔ عدیل نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے؟ اسی دوران جارج نے چالاکی سے اپنا ریکارڈر پاؤں سے آگے کھسکا دیا اور اسی پاؤں سے عدیل کا ریکارڈر اپنی طرف کھسکا لیا۔ اب کسٹم کا چیک پوائنٹ قریب آ چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد عدیل، جارج کا خصوصی ٹیپ ریکارڈر کندھے پر لٹکائے چلا جا رہا تھا۔
دوسرا باب : سوٹ کیس کی تبدیلی
ایئرپورٹ پر مسافروں کی قطار بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی۔ عدیل جس لائن میں تھا وہ بھی بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی جبکہ دوسری لائن کا بھی یہی حال تھا۔ عدیل نے سوچا یہ کسٹم حکام ملک میں کسی چیز کو داخل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اس قدر سخت حفاظتی اقدام کر رکھے ہیں۔ ٹیپ ریکارڈر اس کے ہاتھوں میں تھا جب اس کا سامنا کسٹم حکام سے ہوا۔
پاسپورٹ پلیز…. کسٹم کی وردی میں ملبوس آفیسر نے عدیل سے پوچھا۔ پاسپورٹ ہاتھ میں لینے کے بعد کسٹم آفیسر نے پاسپورٹ میں اس کی تصویر پر ایک نظر ڈالی اور پھر اس کا جائزہ لیا۔
’’آپ شکاگو جا رہے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں ….‘‘ عدیل نے جواب دیا۔
’’آپ اس راستے سے کیوں آئے؟ شکاگو جانے کے لئے اور بہت سی فلائٹ جاتی ہیں۔‘‘
’’میری چھٹیاں ہیں اور میں نے اس سے پہلے کبھی واشنگٹن نہیں دیکھا۔ میں نے سوچا گھر جانے سے پہلے میں چند دن واشنگٹن کی سیر کر لوں۔‘‘
اچھا…. اچھا…. کسٹم آفیسر نے گردن ہلائی۔ برائے مہربانی آپ اپنا سوٹ کیس کھولیں …. عدیل نے سوٹ کیس میز پر رکھ کر کھول دیا…. اس کے پاس دو سوٹ کیس تھے۔ تھامس پینی اسپیشل ایجنٹ بھی دور سے ایک سوٹ کیس پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کسی سوٹ کیس کی اندرونی تہوں میں خفیہ آلات نہ رکھے ہوں …. لیکن اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ عدیل کے سوٹ کیس میں صرف کپڑے تھے یا چند تحفے جو اس نے اپنے دوستوں اور والدین کے لئے خریدے تھے۔ عدیل نے اپنے ٹیپ ریکارڈر کو بھی چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور کسٹم آفیسر نے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
’’واشنگٹن میں مزے کرو….‘‘ کسٹم آفسر نے اسے سوٹ کیس بند کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کسٹم کی چیکنگ مکمل ہو چکی تھی۔
جاسوس جارج عدیل کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ وہ ساری گفتگو سن رہا تھا۔ اب وہ دیکھ رہا تھا کہ عدیل باہر نکل کر ہجوم میں شامل ہو رہا ہے۔
اب اس کی باری تھی۔ کسٹم آفیسر نے اسے کہا کہ ’’کاغذات دکھاؤ‘‘ جارج نے پاسپورٹ آگے کر دیا۔ کسٹم آفیسر نے پاسپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’’کیا تم اوکلاہاما میں پیدا ہوئے ہو؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ جارج نے جواب دیا ’’لیکن میں گزشتہ دس برس سے واشنگٹن کے آس پاس ہی رہائش پذیر ہوں‘‘
’’اپنا بیگ کھولو‘‘ کسٹم آفیسر نے کہا۔ جارج نے بیگ کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس کے پاس دو سوٹ کیس تھے۔ پہلا سوٹ کیس اس نے چابی سے کھول کر کسٹم کے لئے پیش کر دیا۔ دوسرا سوٹ کیس وہی تھا جو اس نے عورت کے سوٹ کیس سے بدل لیا تھا۔ کسٹم آفیسر نے اب اس سوٹ کیس کو کھولنے کے لئے کہا۔ جارج نے ایک چابی سے اس سوٹ کیس کو کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ کھلا۔ کسٹم آفیسر نے پوچھا۔ ’’کیا یہی چابی ہے اس سوٹ کیس کی؟‘‘
’’جی ہاں، چابی تو یہی ہے‘‘ جارج نے چالاکی سے جواب دیا۔
لیکن اس چابی سے تو یہ سوٹ کیس نہیں کھل رہا۔ کسٹم آفیسر نے چابیوں کا ایک گچھا نکالا۔ اور اس میں سے ایک چابی لگائی لیکن اس چابی سے بھی سوٹ کیس نہ کھلا۔ اب اس نے دوسری چابی سے تالا کھولنے کی کوشش کی۔ اس بار تالا کھل گیا۔ سوٹ کیس کپڑوں سے بھرا ہوا تھا لیکن یہ زنانہ کپڑے تھے۔ کسٹم آفیسر نے سوالیہ نظروں سے جارج کی طرف دیکھا۔ یہ میری بیوی کے کپڑے ہیں۔ جارج نے فوراً ہی جواب دیا۔ تمہاری بیوی کہاں ہے؟ وہ دوسرے جہاز سے آ رہی ہے۔ اس نے حاضر دماغی سے کام لیا۔ اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔
’’دوسرے جہاز سے!‘‘ کسٹم آفیسر نے کہا۔
’’جی ہاں…. ہم دونوں کبھی ساتھ سفر نہیں کرتے۔ میری بیوی جہاز کے کریش ہونے سے خوفزدہ رہتی ہے۔ ہمارے بچے گھر پر ہیں اور میری بیوی کا خیال یہ ہے کہ خدا نخواستہ کبھی حادثہ ہو جائے تو ہم دونوں میں سے ایک نہ ایک زندہ رہے تاکہ بچوں کا خیال رکھ سکے۔‘‘
جارج نے فوراً ایک کہانی گھڑ کر سنائی۔
’’ہاں آج کل بہت سے شادی شدہ جوڑے ایسا ہی سوچتے ہیں۔‘‘ اس نے سوٹ کیس کو آگے بڑھادیا اور پھر اس نے ایک بار پھر انہیں غور سے دیکھنے کے لئے روک لیا۔
تیسرا باب : دی اے بی سی
کسٹم سپروائزر بونر، اس ونڈو سے ہٹ گیا۔ اس نے کسٹم لائنوں پر میں کھڑے مسافروں پر ایک نظر ڈالی۔ اس کے بولنے سے پہلے بھی ایجنٹ پینی کو معلوم تھا کہ کچھ ہوا ہے۔ بونر کے چہرے نے بتا دیا تھا۔ کچھ گڑبڑ ہوئی ہے، انہیں کچھ مل گیا ہے! لائن تھری۔ بونر یہ کہتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف چل دی۔ اس نے کسٹم لائنوں کا راستہ اختیار کیا۔ جب وہ لائن تھری پہنچے تو انہیں کسٹم ایجنٹوں کا ایک گروپ مل گیا۔ وہ ایک ایسی خاتون سے پوچھ گچھ کر رہے تھے جو خوبصورت بھورے اور سفید رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھی۔ اس نے بڑے فریم کے ساتھ دھوپ کی عینک پہنی ہوئی تھی۔ کسٹم ٹیبل پر ایک اٹیچی کیس کھلا پڑا تھا۔ اس میں کیمرے، بندوقیں، تجوریاں اور تالے کھولنے کے لئے اوزار، اور بہت سی دوسری چیزیں تھیں۔
’’آپ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ جاسوس ایک عورت ہے۔‘‘ کسٹم سپروائزر نے پینی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’میں نہیں جانتا تھا۔ یہ بات میرے لیے بھی حیرانی کی ہے۔‘‘ خصوصی ایجنٹ پینی نے کہا۔
’’لیکن وہ اس طرح نہیں لگتی جیسے جاسوس ہوتے ہیں۔‘‘
’’تمہارے خیال میں جاسوس کیسے ہوتے ہیں؟‘‘ پینی نے پوچھا۔
بینر نے کہا، ’’میں نہیں جانتی۔ لیکن وہ اس طرح نہیں لگ رہی ہے، وہ تو کسی کمپنی یا بڑے ادارے کے ہیڈ کی طرح برتاؤ کر رہی ہے۔‘‘
تیسری لائن میں کھڑی عورت نے اپنا سر ہلایا اور کھلے ہوئے بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’وہ میرا نہیں ہے۔ اس لیے میں اس سامان کو اپنا نہیں سکتی۔ ‘‘
پینی اس کی طرف بڑھا اور کہا ’’تمھیں کسٹم آفیسر نے اپنا بیگ ٹیبل پہ رکھنے کو کہا تھا۔ کیا یہ بیگ تم نے یہاں نہیں رکھا؟‘‘
’’بالکل‘‘ یہ میں نے رکھا ہے، لیکن یہ میرا نہیں ہے، یہ بیگ بالکل میرے بیگ جیسا ہے۔ مگر یقین کرو یہ میرا نہیں ہے۔‘‘
ایجنٹ پینی اور سپروئزر بینر نے چند قدم پیچھے ہوئے تاکہ وہ آپس میں جو بات کریں وہ کوئی اور نہ سُن سکے۔ پینی نے بینر سے کہا:
’’مجھے لگتا ہے تم صحیح کہہ رہے اگر یہ جاسوس ہے تو یہ غلط کاروبار میں ہے۔ یہ ایک اچھی اداکارہ ہو سکتی ہے، جو ایک اکیڈمی ایوارڈ جیت سکتی ہے۔‘‘
بینر نے کہا، ’’اگر وہ جاسوس ہے تو اُسے یہ کہنا انتہائی آسان ہونا چاہیئے‘‘
’’نہیں؟‘‘
’’اوہ۔ اوہ۔ مجھے اس سے بات کرنے دو‘‘ بینر نے کہا۔
بینر عورت کے پاس گئی، ’’آپ ایک شریف خاتون لگتی ہیں۔‘‘
’’یہ آپ کی مہربانی ہے جو آپ ایسا کہہ رہی ہیں‘‘۔
’’مجھے لگتا ہے، آپ کو ABC تو آتی ہو گی۔‘‘
’’جی ہاں میں انگریزی سے واقف ہوں، عورت نے قدرے حیرانی سے کسٹم سپروائزر کی طرف دیکھا۔
’’کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ ABC کے حرف کے آخری حرف کیا ہیں۔‘‘
’’XYZee‘‘ عورت نے تیزی سے جواب دیا۔ اب وہ پینی کی طرف متوجہ ہوئی، یہ عورت جاسوس نہیں ہے، اس نے ثابت کر دیا ہے۔ پینی نے اس کی بات پر سر ہلایا۔
’’تم یہ بات اس قدر یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو۔ اس ملک میں ہر سال سینکڑوں لوگ آتے ہیں، اور ان میں سے بیشتر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ یہیں پیدا ہوئے ہیں، جبکہ ان کی پیدائش یہاں کی نہیں ہوتی۔‘‘
’’کسٹم والوں نے اس کا ایک آسان طریقہ نکالا ہے، ABC والا فارمولہ‘‘
’’لیکن۔۔ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ عورت جاسوس نہیں ہے۔‘‘
’’تم نے کہا تھا کہ جاسوس نے اسکول کی تعلیم کینڈا میں حاصل کی ہے، وہاں کینڈا میں XYZee نہیں کہا جاتا۔‘‘
’’تو پھر کینڈا میں کیا کہا جاتا ہے؟‘‘
’’وہ برٹش طریقہ پر XYZed کہتے ہیں۔‘‘
’’مجھے اس کا پتہ نہیں تھا‘‘ پینی نے کہا۔
’’اب تو تمھیں پتہ چل گیا نا۔‘‘ اب کسٹم سپروائزر پینی کو ایک طرف لے گئی،
’’جاسوس بہت چالاک ہے، اس نے اپنا بیگ اس عورت کے بیگ سے بدل لیا ہے، وہ اب یہاں سے نکل چکا ہو گا۔ وہ بیگ بدل کر آگے نکل گیا ہو گا، اور دیکھ رہا ہو گا کہ عورت کا بیگ کھولا جاتا ہے یا نہیں اگر بیگ نہیں کھولا جاتا تو وہ آگے جا کر اس عورت سے معذرت کر کے اپنا بیگ بدل لیتا۔ لیکن جوں ہی اس نے دیکھا کہ اس بیگ کو کھولا جا رہا ہے تو وہ تیزی سے نکل گیا۔‘‘
ابھی وہ یہ بات کر ہی رہے تھے۔ کہ ایک کسٹم آفیسر ان کی طرف آیا، سر میری لائین میں ایک آدمی کے پاس ایسا ہی بیگ تھا۔ لیکن جب اس سے بیگ کھولنے کو کہا تو اس کے پاس چابی نہیں تھی۔ میں نے ماسٹر کی سے اس کا بیگ کھولا تو اس میں عورتوں کے کپڑے بھرے ہوئے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کپڑے اور بیگ اس کی بیوی کا ہے۔
کسٹم آفیسر کے اس بیان کو سن کر سپروائزر نے اپنا سر پکڑ لیا۔ ’’وہ شخص ہمیں جل دے کر نکل گیا۔ وہ بہت دور نہیں گیا ہو گا۔ کیا تمھیں اس کا نام یاد ہے‘‘
’’جی ہاں، میں رجسٹر سے دیکھ کر بتا سکتا ہوں، کیونکہ وہ قطار میں پہلا شخص تھا، یہ رجسٹر میں اس کا نام جارج لکھا ہے، میں نے اس کے کاغذات چیک کیئے تھے۔ وہ بالکل صحیح تھے۔‘‘ پینی سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ جاسوس کے سوٹ کیس سے نکلنے والے ہتھیار دیکھ رہا تھا، لیکن اس میں اسے جاسوسی کے آلات نظر نہیں آئے۔
’’آفیسر، اس کے پاس سوٹ کیس کے علاوہ بھی کچھ سامان تھا۔‘‘ پینی نے کسٹم آفیسر سے سوال کیا۔
’’جی ہاں اس کے ہاتھ میں ایک ٹیپ ریکارڈر تھا‘‘
’’اچھا تو کیا تم نے اسے چیک کیا تھا؟‘‘
’’ہاں میں نے اسے چیک کیا تھا، وہ ایک عام سا ٹیپ ریکارڈر تھا۔ میں نے اسے چلا کر دیکھا تھا۔ میں نے پہلے اسے جانے دیا، پھر روک کر دوبارہ بلایا، اور اس کیسٹ کو جو اس میں لگا تھا، بجایا تھا۔‘‘ کسٹم آفیسر نے تفصیل سے بتایا۔
’’اس کیسٹ پر کیا تھا‘‘
’’میوزک تھا، راک میوزک۔۔۔۔۔۔‘‘
پینی نے کسٹم سپروائزر سے کہا ’’مجھے، روم سے اور نیروبی سے آنے والے مسافروں کے ناموں کی فہرست درکار ہو گی۔ ایک بار یہ فہرست مجھے دے دو، پھر تمھارا کام ختم، میں اس کو ڈھونڈ کر رہوں گا، وہ مجھے فریب دے کر ہرگز اس جگہ نہیں رہ سکتا۔‘‘
چوتھا باب : جاسوس کہاں چلا گیا
جاسوس کا خیال تھا کہ وہ کسٹم کے مراحل سے شاید نہ نکل سکے۔ کسٹم آفیسر نے اس کے بیگ کی دوبارہ تلاشی لی تھی اور جس وقت وہ کسٹم سے فارغ ہو کر باہر نکل رہا تھا تو کسٹم آفیسر نے اسے دوبارہ آواز دی۔ کسٹم آفیسر نے در اصل اس کے کیسٹ ریکارڈر کو چیک کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ تو شکر ہوا کہ جس طرح اس نے اپنے سوٹ کیس سے جان چھڑائی تھی۔ اسی طرح اس نے اپنا کیسٹ ریکارڈر بھی تبدیل کر لیا تھا۔ جارج ایک ماہر جاسوس تھا۔ اسے ایسے حالات سے نمٹنا خوب آتا تھا۔ اگر اس نے موقع کے لحاظ سے ٹیپ ریکارڈر تبدیل نہ کیا ہوتا تو اسے بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ ان سوالات کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔
اس نے اپنا بیگ نیچے رکھوا دیا۔ وہ وہاں سے اس عورت کو دیکھ سکتا تھا جس سے اس نے اپنا بیگ تبدیل کر لیا تھا۔ اب وہ عورت کسٹم کے مراحل سے گزرنے والی تھی۔ جوں جوں وہ کسٹم افسران کے قریب ہو رہی تھی۔ جارج کی پریشانی اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ جلد از جلد باہر نکلنا چاہتا تھا۔ کسٹم آفیسر ہر ایک کا سامان کھلوا کر دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت محتاط تھے۔ ایسا عام طور پر نہیں ہوتا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی چیز کی تلاش میں ہیں یا وہ کسی خاص مسافر کو پکڑنا چاہتے ہیں۔ شاید جس آدمی کی انہیں تلاش ہو وہ میں ہی ہوں …. اس نے دل میں دل میں سوچا۔
ایئرپورٹ پر شدید گرمی تھی لیکن جاسوس جارج کو سردی محسوس ہو رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے اس کی پیٹھ پر برف کی سل رکھ دی ہو۔ شاید اسی خوف کے عالم میں وہ اس عورت کو کسٹم افسر کی طرف بڑھتا دیکھ رہا تھا۔ جوں ہی کسٹم افسر نے عورت کے بیگ میں بھرے ہوئے آلات، دیکھے اور ان کی طرف اشارہ کیا۔ جاسوس جارج آگے کی طرف بڑھا جیسے اسے پتہ ہی نہ ہو کہ اس بیگ میں کیا ہے۔ بہت جلد وہ ان سے دور نکل جائے گا۔ شاید میلوں دور…. جہاں وہ اسے پکڑ بھی نہ سکیں گے۔ ایک بار وہ ایئرپورٹ سے باہر نکل جائے۔ اس نے ایک بار پھر دل میں سوچا۔ اسے اپنا ریکارڈر اور سامان واپس بھی لینا تھا۔ لیکن سب سے پہلے اسے محفوظ جگہ کی تلاش تھی جہاں وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنا حلیہ تبدیل کر لے۔ جلد ہی اسے باتھ روم کا دروازہ نظر آ گیا۔ اندر گھستے ہی اس نے سب سے پہلے اپنی جیبوں سے تمام چیزیں نکالیں۔ ان میں جو بھی سامان اور کاغذات جارج کے نام کے تھے انہیں اس نے پھاڑ کر فلش میں بہا دیا۔
پھر اس نے اپنا تھیلا کھولا جس میں اس کے کپڑے تھے۔ اس نے ایک ہلکے نیلے رنگ کا اسپورٹس کوٹ نکالا۔ اس کوٹ کی ایک اور جیب میں کاغذات کا ایک اور سیٹ موجود تھا۔ ان کاغذات میں اس کا نیا نام ویلیم جونز تھا۔ اس نے اپنا کوٹ اتارا اور نیا اسپورٹس کوٹ پہن لیا۔ وہاں سے نکلتے ہوئے اس نے عورت کے سوٹ کیس کو وہیں پر چھوڑ دیا۔ اب اس کے پاس صرف اس کے اپنے کپڑے تھے یا عدیل کا ٹیپ ریکارڈر…. اب وہ بالکل محفوظ تھا۔ اسے اس بات کا بھی یقین تھا کہ وہ بہت جلد یہ ٹیپ ریکارڈر تبدیل کر لے گا۔ اسے عدیل کا نام معلوم تھا۔ کیوں کہ اس کے سوٹ کیس پر یہ نام لکھا ہوا تھا۔ اس نے یہ بات بھی باتوں ہی باتوں میں عدیل سے پوچھ لی تھی کہ وہ چند دن واشنگٹن میں قیام کرے گا پھر اس نے یہ بھی سن لیا تھا کہ عدیل اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کے یہاں قیام نہیں کرے گا بلکہ وہ کسی ہوٹل میں قیام کرے گا۔ عدیل یہ بات کسٹم آفیسر کو بتا رہا تھا۔ جارج کے کان ایک ایک بات سن چکے تھے۔
جاسوس جارج جو اب ویلیم جونز بن چکا تھا۔ بخیر و خوبی ایئرپورٹ سے باہر نکل آیا۔ باہر واشنگٹن ڈی سی جانے والی ایک بس کھڑی تھی۔ شہر میں آتے ہی اس نے 5 ڈالر کے سکے تبدیل کرائے اور ایک ٹیلیفون بوتھ سے ہوٹل فون کرنے لگا۔ اس کے پاس شہر کے تمام ہوٹلز کے فون نمبرز کی فہرست موجود تھی۔
دوسرے، تیسرے ہوٹل میں فون کرنے کے بعد ہی اسے مطلوبہ معلومات مل گئیں۔ اس نے ٹیلیفون پر پوچھا۔ ’’کیا مسٹر عدیل ہوٹل میں آ چکے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں …. وہ ابھی ابھی کمرے میں گئے ہیں۔‘‘ ہوٹل ہارٹ فورڈ کے کلرک نے فون پر جواب دیا۔ ’’کیا آپ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں اور کیا یہ کال میں ان کے کمرے میں ملا دوں‘‘ کلرک نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا۔
’’نہیں شکریہ۔ بس میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ خیریت سے ہوٹل پہنچ گئے۔‘‘ جاسوس نے فوراً ہی جواب دیا۔
اب جاسوس جارج نے اپنی جیب سے واشنگٹن کا نقشہ نکالا۔
ہوٹل ہارٹ فورڈ اس جگہ سے تین بلاک کے فاصلے پر تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک آسودہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر اس نے اپنا بیگ اور کیسٹ ریکارڈر اٹھایا اور ہوٹل ہارٹ فورڈ کی سمت چلنے لگا۔
اسپیشل ایجنٹ تھامس پینی اس وقت تک بونیر کا انتظار کرتا رہا جب تک کہ اس نے اسے مسافروں کی فہرست تھما دی۔ پھر اس نے ایئرپورٹ پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ وہ واشنگٹن میں اپنے دفتر کی طرف دوڑا۔ وہیں انسپکٹر سویلین موجود تھا۔ اس نے پوری داستان اسے سنا دی۔
’’جناب…. وہ جاسوس ایئرپورٹ پر ہمیں جل دے کر نکل گیا۔ اس عورت کا سوٹ کیس ہمیں ایک واش روم سے ملا۔‘‘
’’اچھا…. اب تمہارا ارادہ کیا ہے …. اور تم کیا کرو گے؟‘‘
انسپکٹر نے پینی سے پوچھا۔
’’ہمیں اب نیا رستہ تلاش کرنا ہو گا۔ یہ سوچنا ہو گا کہ جاسوس اب کیا کرے گا۔ اس کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اب اپنے جاسوسی کے آلات واپس حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘
’’ہاں …. وہ اپنے آلات جو اس نے کسی مسافر کے سامان میں چھپا دیئے ہوں گے۔ واپس حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا…. شاید وہ اس آدمی کو قتل ہی کر دے جس کے پاس اس کے آلات ہیں …. پھر تو ہمیں جاسوس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکے گا۔‘‘
انسپکٹر سویلین نے ایک طویل ہنکارا بھرا….’’ٹھیک ہے تو پھر تم اس جاسوس کے آلات کو حاصل کرنے کی کوشش کرو….اس سے پہلے کہ وہ اس آدمی تک پہنچے تم لوگ اسے ڈھونڈ لو…. اس کے لئے تمہیں جتنے آدمی چاہئیں وہ لے جاؤ۔‘‘ انسپکٹر نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا۔
پانچواں باب : ناکارہ ٹیپ ریکارڈر
عدیل نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا اور کپڑے تبدیل کئے۔ پھر اس نے سوچا کچھ دیر موسیقی سے لطف اندوز ہوا جائے۔ اس نے ٹیپ ریکارڈر کو چلانے کے لئے Play کا بٹن دبایا۔ لیکن یہ کیا…. اس سے تو آواز ہی نہیں آ رہی!!! اف خدایا…. کہیں یہ گر کر ٹوٹ نہ گیا ہو….؟ اس میں کیا ہو گیا….؟ یہ چل کیوں نہیں رہا….؟
عدیل نے ایک بار پھر ٹیپ ریکارڈر کے بٹنوں کو دبایا۔ اس نے ٹیپ ریکارڈر کو اٹھایا اور اس میں لگی ہوئی کیسٹ کا جائزہ لیا۔ اسے باہر نکالا، الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر اسے دوبارہ لگایا۔ لیکن اس سے بھی کوئی آواز نہیں نکلی۔ عدیل کا دل دھک دھک کرنے لگا۔
اسے اس ٹیپ ریکارڈر سے بے حد انسیت تھی۔ ایک ہفتہ پہلے ہی اس نے نیروبی سے یہ ٹیپ ریکارڈر خریدا تھا۔ پہلے وہ اس بات سے خوفزدہ تھا کہ شاید کسٹم والے اس ٹیپ ریکارڈر کو نہ لے جانے دیں۔ اس ڈر کی وجہ سے اس نے اس کی خریداری کی رسید اور دوسرے کاغذات بھی رکھ لئے تھے۔ یہ یاد آتے ہی وہ اپنے بیگ کی طرف لپکا۔ اور وہ کاغذات باہر نکالے۔ یہ ٹیپ ریکارڈر گارنٹی کے ساتھ دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ان جگہوں کی فہرست بھی دی گئی تھی کہ جہاں خراب ہونے پر اس کو ٹھیک کرایا جا سکتا ہے۔ اس نے فہرست میں ان جگہوں کے نام پڑھنے شروع کئے۔ شاید واشنگٹن میں بھی کوئی ایسی جگہ ہو۔ جہاں اسے ٹھیک کرایا جا سکے۔ اس کی قسمت اچھی تھی۔ واشنگٹن میں 16 ویں اسٹریٹ پر اس کمپنی کا ایک دفتر موجود تھا۔ جہاں اس ٹیپ ریکارڈر کو دکھایا جا سکتا تھا۔ وہ فوراً ہوٹل کی لابی میں آیا۔ وہاں سے 16 ویں اسٹریٹ کے بارے میں معلوم کیا۔
’’یہ تو بالکل ہی نزدیک ہے۔ بس ہوٹل کے اس دروازے سے نکلیں، سامنے ہی 16 ویں اسٹریٹ ہے۔‘‘ استقبالیہ کلرک نے اسے تفصیل سے سمجھایا۔
عدیل ہوٹل کے پچھلے دروازے سے 16 ویں اسٹریٹ میں داخل ہو گیا۔ ایک منٹ ہی گزرا ہو گا کہ جارج سامنے والے دروازے سے ہوٹل ہارٹ فورڈ میں داخل ہوا۔
اس نے ہوٹل کی لابی میں ادھر ادھر دیکھا اور سیدھا ڈیسک کلرک کے پاس پہنچا۔ مجھے ایک کمرہ چاہئے۔ جارج نے کلرک سے کہا۔
’’یس سر…. آپ کتنے دن یہاں قیام کریں گے؟‘‘
’’ایک یا دو دن‘‘ جارج نے جواب دیا۔
’’مجھے یقین ہے کہ آپ قیام کے دوران لطف اندوز ہوں گے۔‘‘ کلرک نے جارج کے سامنے ایک کارڈ رکھ دیا۔ ’’آپ اس کارڈ میں اپنے کوائف درج کر دیجئے۔‘‘
جارج نے کارڈ سامنے رکھ لیا۔ اس نے اب نئے سرے سے جھوٹ لکھنا شروع کیا۔ اس نے اپنا نام والٹر رکھا اور اپنے ملک کے خانے میں سوئٹزر لینڈ لکھا۔
’’اس نے چالاکی سے پوچھا۔ میرے ایک دوست مسٹر عدیل بھی یہاں اس ہوٹل میں مقیم ہیں۔ کیا مجھے اسی فلور پر کمرہ مل سکتا ہے؟‘‘
ڈیسک کلرک نے رجسٹر چیک کیا اور کہا ’’جی ہاں …. تیسری منزل پر ایک بہت ہی نفیس کمرہ موجود ہے۔ میں کسی کو آپ کے ساتھ کر دیتا ہوں جو آپ کو کمرہ دکھا دے گا اور آپ کا سامان بھی وہاں پہنچا دے گا۔ آپ کا کمرہ نمبر 314 ہے۔ آپ کے دوست عدیل اس فلور کے کونے والے کمرہ نمبر 320 میں مقیم ہیں۔‘‘ کلرک نے بیل بجائی اور ایک بیرے کو بلا کر کہا ’’یہ چابی لو اور صاحب کا سامان کمرے میں پہنچا دو۔‘‘ دونوں آدمی لفٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔
عدیل کو وہ دکان سامنے ہی نظر آ گئی۔ لیکن اس کے لئے اسے خاصا چلنا پڑا۔ کہنے کو تو یہ دکان ہوٹل کے قریب تھی لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ایک لمبا راستہ کاٹ کر جانا پڑا تھا۔ دکان پر موجود خاتون نے عدیل کے ٹیپ ریکارڈر پر ایک نظر ڈالی اور اس کے سامنے ایک پیلا کارڈ رکھ دیا۔ ’’اس میں اپنا پتہ اور فون نمبر درج کر دیں اور ایک دو دن میں آ کر یہ ریکارڈر لے جائیں۔ اگر اس میں معمولی خرابی ہوئی تو یہ ہم اسی وقت ٹھیک کر دیں گے۔ لیکن اگر زیادہ گڑبڑ ہوئی تو آپ کو بتا دیں گے کہ کیا خرابی ہے۔ میرا خیال ہے یہ بات مناسب ہو گی۔‘‘
خاتون نے عدیل کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ عدیل نے جواب دیا اور اس خاتون کی دی گئی رسید اپنی جیب میں رکھ لی۔
اب عدیل کو ایک انٹرنیٹ کیفے کی تلاش تھی۔ وہ جلد از جلد اپنے والدین سے رابطہ کرنا چاہتا تھا تاکہ انہیں اپنی خیریت کی اطلاع دے سکے۔ پھر وہ اپنے دوستوں کی جانب سے بھیجی گئی ای میل بھی چیک کرنا چاہتا تھا۔ اسے کمپیوٹر کا شوق تھا۔ اس لئے وہ جہاں بھی جاتا اس کی کوشش ہوتی کہ اسے کوئی انٹرنیٹ کیفے مل جائے جہاں سے وہ کمپیوٹر کے ذریعہ با آسانی اپنے دوستوں سے بات چیت بھی کر سکے۔ عدیل کو اپنے وطن پاکستان اور خصوصاً کراچی سے بے حد محبت تھی وہ ایک بار کراچی جا چکا تھا۔ جہاں اس کے کزن شارق نے اسے کراچی کی خوب سیر کرائی تھی…. مزار قائد، کلفٹن، پیراڈائز پوائنٹ، سفاری پارک، صدر، الہ دین پارک…. جیسے سارے مقامات پر دونوں خوب گھومے تھے۔ عدیل کو کراچی خوب پسند آیا تھا۔ اسے وہاں کے کھانے بھی بہت پسند آئے تھے۔
عدیل اور شارق ایک دوسرے سے انٹرنیٹ پر گپ شپ کرتے تھے۔ آج بھی اس نے سب سے پہلے شارق کی ای میل کھولی۔
’’تم کہاں ہو۔ تین دن سے تمہیں ای میل کر رہا ہوں۔ فوری رابطہ کرو ۔۔۔شارق‘‘
عدیل کو پیغام پڑھ کر ایک جھٹکا لگا۔
’’اللہ خیر کرے۔ نہ جانے کیا بات ہے۔‘‘ اس نے فوراً پیغام دیا۔
’’میں خیریت سے ہوں اور آج ہی واشنگٹن پہنچا ہوں۔ کیا بات ہے۔ مجھے کیوں تلاش کر رہے ہو۔ تفصیل سے بتاؤ۔ میں یہاں نزدیک ہوٹل میں ہوں۔ رات کو 9 بجے تم آن لائن رہنا۔ پھر چیٹنگ کریں گے …. خدا حافظ…. عدیل‘‘
عدیل شارق کو پیغام دے کر مطمئن ہوا۔ پھر اس نے امی اور ابو کو اب تک کی ساری داستان لکھی۔ اپنی خیریت کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ جلد ہی یہاں سے روانہ ہو گا۔ اس سے پہلے وہ انہیں اطلاع کر دے گا۔
اب عدیل خوش تھا۔ چلو سب خیریت ہے۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ ذرا گھوم پھر لیا جائے۔ وہ فرصت میں تھا۔ اس لئے اس نے سوچا کہ بازار کا ایک چکر ہی لگا لیا جائے۔
دوسری جانب جاسوس جارج اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے اپنا سامان رکھا اور پھر اس نے کمرے کا دروازہ کھول کر راہداری کا جائزہ لیا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ فوراً باہر نکلا اور اپنے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ وہ دبے دبے قدموں سے دوسری جانب چلنے لگا۔ جہاں کمرہ نمبر 320 تھا۔ وہ تیزی سے اس کمرے کے دروازے پر آ کر رک گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ پھر دروازے پر کان لگائے۔ اندر مکمل خاموشی تھی۔
شاید اندر کوئی نہیں ہے …. یا پھر عدیل گہری نیند سو رہا ہے۔ اس نے سوچا یہ موقع بہت اچھا ہے۔ کیوں نہ اس وقت وہ کیسٹ ریکارڈر حاصل کر لیا جائے۔ وہ کیسٹ ریکارڈر اس کا قیمتی اثاثہ تھا۔ لیکن اندر کس طرح داخل ہوا جائے۔ یہ سوچتے ہوئے جارج نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ لیکن اسے کچھ نہ ملا۔ ’’کیسی فضول بات ہے؟ میں بھی احمق ہوں، میرے پاس کمرہ کھولنے کی اسپیشل چابی تھی۔ وہ کہاں رہ گئی؟‘‘ پھر اسے یاد آیا کہ وہ چابی تو وہ کمرے میں بھول آیا ہے۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوستا ہوا واپس کمرے کی طرف چل دیا۔
تھوڑی دیر بعد ہی وہ بازار میں تھا۔ اسے جس چیز کی تلاش تھی وہ اسے ایک شوکیس میں رکھی ہوئی نظر آئی۔ یہ ایک تیز دھار والا خنجر تھا۔ دکاندار نے اسے یہ خنجر دکھایا جو اسے پسند آ گیا۔ ’’میں اسے خریدنا چاہوں گا۔‘‘ اس نے دکاندار سے کہا۔
جارج ہوٹل کی لابی میں داخل ہوا اور ایک میز منتخب کر کے بیٹھ گیا۔ یہاں سے وہ ہوٹل میں داخل ہونے والوں اور باہر جانے والوں پر نگاہ رکھ سکتا تھا۔ اس نے ایک اخبار اٹھایا۔ جیسے وہ اخبار پڑھ رہا ہو…. لیکن در حقیقت وہ انتظار کر رہا تھا۔
’’اگر مسٹر عدیل ہوٹل سے باہر ہیں تو وہ واپسی پر ڈیسک کلرک سے اپنے کمرے کی چابی لینے کے لئے ضرور آئیں گے لیکن اگر وہ اپنے کمرے میں سو رہے ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ جاسوس جارج کو معلوم تھا کہ اگر عدیل جلد ہی ہوٹل میں نہیں آیا تو یقیناً وہ اپنے کمرے ہی ہو گا۔
وہ چاہتا تو ٹیلیفون کر کے یا ہوٹل کے کلرک سے معلوم کر کے یہ پتہ کر سکتا تھا کہ عدیل کمرے میں ہے یا نہیں لیکن وہ غیر ضروری شکوک و شبہات سے بچنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ انتظار کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیسٹ ریکارڈر دوبارہ واپس لینے کے لئے اسے کیا کرنا پڑے گا۔ اگر وہ عدیل سے اس کے بارے میں سوال کرتا تو شاید عدیل کو یہ یاد آ جاتا کہ وہ کون ہے اور اسے ایئرپورٹ کا واقعہ اور تمام باتیں یاد آ جاتیں۔ جارج یہ سب کچھ نہیں چاہتا تھا۔ وہ پہلے ہی یہ غلطی کر چکا تھا کہ اس نے ڈیسک کلرک کو یہ بتایا تھا کہ عدیل اس کا دوست ہے۔ جارج نے یہ نہیں دیکھا کہ عدیل پچھلے دروازے سے ہوٹل میں داخل ہو چکا ہے لیکن اس نے عدیل کو ڈیسک سے چابی لے کر کمرے کی جانب جاتے ہوئے دیکھ لیا۔
عدیل لفٹ کی جانب جا رہا تھا۔ جارج نے بھی کرسی چھوڑی۔ وہ بھی آہستہ آہستہ لفٹ کی جانب بڑھنے لگا۔ لفٹ دوبارہ نیچے آئی تو وہ بھی تیسرے فلور کے لئے لفٹ میں سوار ہو گیا۔
چھٹا باب : چور کی آمد
اسپیشل ایجنٹ پینی کے پاس پچیس افراد تھے، جن میں خواتین اور مرد دونوں شامل تھے۔ وہ ایک ٹیلیفون بوتھ کے باہر جمع تھے۔ اس کا خیال تھا کہ آنے والے چند گھنٹوں میں ٹیلیفون ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہو گا، جس سے وہ اپنے مطلوبہ شخص تک پہنچ جائیں گے۔ ’’اس لسٹ میں ۳۶۱ افراد کے نام ہیں، ہمیں ان سے سے بات کرنی ہے۔ اور جب ان سے بات ہو تو ان سے چند سوال کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا ایرپورٹ پر فلائیٹ سے اترتے ہوئے ان کے پاس کوئی کیسٹ ریکارڈر موجود تھا؟ اگر جواب ہاں میں ہو تو اس سے پوچھا جائے کہ کیا یہ کیسٹ ریکارڈر اب بھی کام کر رہا ہے؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا ان کا ٹیپ ریکارڈر کسٹم کے دوران کہیں گم تو نہیں ہوا تھا جو انھیں دوبارہ مل گیا ہو؟ ہر آدمی چھ سات آدمیوں سے ان ٹیلیفون نمبر پر رابطہ کریں جو ہمیں پاسپورٹ آفس کی مدد سے حاصل ہوئے ہیں، جو اس فہرست میں موجود ہیں۔ پہلے انھیں ان نمبروں پر تلاش کرو، اگر وہاں نہ ملیں تو پھر ان کے بارے میں مزید معلومات کرو؟‘‘
پینی نے تمام لوگوں کو ان کا کام سمجھا کر انھیں اس کمرے میں بھیج دیا جہاں بہت سے فون رکھے تھے۔
دوسری جانب جاسوس جارج جو اب کئی نام بدل چکا تھا، آہستہ آہستہ عدیل کے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ عدیل کے کمرے کے دروازے کے نیچے سے روشنی کی لکیر اب ہلکی ہو چکی تھی۔ لیکن اس نے احتیاط کے طور پر ایک گھنٹہ اور انتظار کیا۔ اب ہوٹل کی لابی میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے عدیل کے دروازے سے کان لگا دیئے، اسے کوئی آہٹ یا کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ وہ کوئی ایسی غلطی نہیں دہرانا چاہتا تھا۔ جس سے بنا بنایا کھیل بگڑ جائے۔ لائٹ کے نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عدیل سو چکا ہے۔ وہ اس لڑکے سے ہر قیمت پر اپنا ٹیپ ریکارڈر واپس لینا چاہتا تھا۔ اس نے جیب سے خنجر نکالا، اور اسے دروازے کی درز میں گھمایا، دروازہ اب آسانی سے کھل گیا۔ یہ اتنی آسانی سے ہو گیا، جو چابی سے بھی ممکن نہ تھا۔ وہ دروازہ کھول کر خاموشی سے اندر داخل ہوا، اور دم سادھ کر کھڑا ہو گیا، اب اس کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھ سکتی تھیں، پھر وہ بغیر آواز نکالے عدیل کے بیڈ کے جانب بڑھنے لگا۔ کھڑکی کے شیشے سے چاند کی روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ عدیل اپنے بستر پر پیٹھ کے بل لیٹا ہے، اس کا سینہ آہستہ آہستہ سانس کے زیر و بم پر اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ اس نے کمرے میں ایک نظر دوڑائی، ایک کونے میں اسے سوٹ کیس رکھا نظر آیا۔ اس نے آہستہ سے اسے کھولا اس کے اندر ٹٹول کر اس نے کیسٹ ریکارڈر کو ڈھونڈنا شروع کیا، لیکن سوٹ کیس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں تھی، جس پر کیسٹ ریکارڈر کا گمان ہو۔ دیوار کے ساتھ ایک الماری نظر آئی، اس نے خاموشی سے الماری کی دراز اور خانے کی تلاشی بھی لی۔ وہاں بھی اسے اپنی مطلوبہ شے نہ مل سکی۔ اب وہ عدیل کے بستر کے قریب آیا، یہاں بھی ایک چھوٹی میز کی دراز تھیں، اس نے عدیل کی طرف ایک نظر ڈالی، اس نے دیکھا کہ عدیل اس کی جانب دیکھ رہا ہے۔ ایک سرد لہر سی اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔
جاسوس اس وقت سناٹے کی کیفیت میں تھا، وہ دیکھ رہا تھا کہ عدیل کھلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے، پھر اسے خیال آیا بہت سے افراد کھلی آنکھوں سے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ اس نے اپنے آپ کو بہلایا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا اس میں فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ لگ رہا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہا ہے۔
جاسوس اپنے آپ سے یہ باتیں کر ہی رہا تھا۔ کہ عدیل اچانک اٹھ بیٹھا۔ اس نے جاسوس پر چھلانگ لگائی اور اس کو پکڑ لیا۔ جاسوس نے اپنا بازو چھڑانے اور بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن عدیل نے اسے پھر کھینچ لیا اور اسے فرش پر گرا دیا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘ عدیل نے پوچھا۔
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
جاسوس نے عدیل کو اپنے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن عدیل کی گرفت مزید مضبوط ہو گئی۔ جاسوس نے عدیل کے چنگل سے نکلے کی کوشش کی اور اپنا پاؤں بیڈ سے لگا کر اسے پرے دھکیل دیا۔
عدیل نے اچانک اسے جانے دیا، اور جاسوس کمرے میں اڑتا ہوا دروازے کی طرف چلا گیا۔ لیکن عدیل نے اسے دروازے تک پہنچنے نہ دیا، اس نے اپنی ٹانگ اس کے راستے میں اڑا دی، اور وہ ٹکرا کر فرش پر گر گیا۔ اس کی ہوا نکل چکی تھی۔ عدیل اٹھ کر خود کو جاسوس پر گرا دیا۔ دونوں آدمی غصے میں بچوں کی طرح فرش پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا پڑے ہوئے تھے۔ اب انہوں نے ایک دوسرے پر زور دار ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو جاسوس جونز نے اپنا چاقو گرا دیا تھا۔ وہ اب تک حیرانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اب اس نے عدیل کو پیچھے کھینچنے کی کوشش کی اور اپنا چاقو تلاش کرنے لگا۔ اسی وقت آخر کار چاقو اس کے ہاتھ میں آ گیا، لیکن کھلے ہوئے چاقو کی تیز دھار نے اس کی انگلیوں کو بری طرح زخمی کر دیا، درد کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ اس نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے بازو کو گول کر کے چاقو کا بھاری ہینڈل عدیل کے سر کے کنارے پر دے مارا۔ عدیل کی آنکھوں کے آگے ستارے ناچنے لگے۔ اس نے پھر بھی جاسوس کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ اس کی انگلیاں کھل گئیں اور جاسوس آزاد ہو گیا۔
جاسوس جتنی تیزی سے ہو سکتا تھا دروازے کی طرف بڑھا۔ ایک بار پھر وہ کمرے سے باہر تھا، وہ مڑا اور ہال کی طرف بھاگا۔ وہ امید کر رہا تھا کہ عدیل کے مدد کے لیے پکار نے سے پہلے وہ اپنے کمرے میں واپس پہنچ جائے۔
لیکن عدیل نے مدد کے لیے فون نہیں کیا۔ اس کے سر پر لگنے والی ضرب نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ لیکن اچانک ایک خیال تیزی سے اس کے ذہن میں آیا۔ اس نے جو کیا وہ اس کے مدد کے لیے پکارنے سے کہیں بہتر تھا۔ اس نے فائر کا الارم دبا دیا، اور اچانک اس نے چیخنا شروع کر دیا، ’’آگ! آگ آگ‘‘
فائر الارم بجنے اور اس کی چیخ پر فوراً ہی ہوٹل میں ایک ہل چل مچ گئی، لوگ دوڑ رہے تھے۔ جاسوس تقریباً اپنے کمرے کے دروازے پر تھا جب اچانک اس کے سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا۔ ایک عورت کا سر باہر نکلا، وہ چلتا رہا۔ سب لوگ ہال کی طرف بھاگ رہے تھے۔ بھاگتے ہوئے اس نے منہ پھیر لیا۔ وہ اپنے کمرے میں نہیں جا سکتا تھا کیونکہ وہ عورت اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے امید تھی کہ عورت نے اس سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ اور نہ ہی اسے معلوم تھا کہ اس کا کمرہ کہاں ہے۔ اس جگہ سے گذر کر اس نے پلٹ کر دیکھا. وہ عورت اب بھی اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا۔ پھر جونز کو کچھ ہوش آیا، اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا کہ اس نے ابھی تک چاقو اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے۔ اور اس پر خون جما ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
پینی نے ایک بار پھر سب عملے کو جمع کر لیا۔ ابھی بہت سے مسافروں کو فون کرنا باقی تھا۔ ’’یہ کام بہت تیزی سے نمٹانا ہے، اس سے پہلے کہ وہ جاسوس ہمیں جل دے کر نکل جائے، تم ایسا کرو کہ جن لوگوں نے اپنا کام ختم کر لیا ہے وہ دیگر لوگوں کی مدد کریں، تاکہ یہ کام جلد ختم ہو۔ ہماری کامیابی کی امید ان معلومات پر ہے۔ ہری اپ جلدی کرو، جلدی۔۔۔۔۔۔ میں اس شخص کو ایک ہفتے روزانہ لنچ کراؤں گا۔ جو مطلوبہ شخص کے بارے میں معلومات دے گا۔‘‘
’’ہم تو یہ کام کر رہے ہیں اس دوران تم کیا کرو گے‘‘ عملے کے ایک فرد نے پینی سے سوال کیا، ’’میں اس فکر میں گھل رہا ہوں‘‘ پینی نے جواب دیا۔
ساتواں باب : جاسوس کے تعاقب میں
جب عدیل کے حواس بحال ہوئے تو اس اپنے کمرے کا جائزہ لیا، سارا سامان پھیلا ہوا تھا، وہ بستر سے اٹھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ آدمی چلا گیا ہے۔ اس نے اس کا پیچھا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے، اس نے ٹیلی فون اٹھایا اور ہاٹ پر فون کیا۔ ’’ہوٹل ڈیسک! میں کمرہ نمبر 320 سے بول رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں ابھی اٹھا ہوں، میرے کمرے میں کوئی آدمی گھس گیا تھا۔‘‘
’’کیا آپ کو یقین ہے؟‘‘ ڈیسک کلرک نے پوچھا۔
عدیل غصے میں جھنجھلا کر رہ گیا، ’’یہ کوئی اچھا سوال نہیں ہے۔‘‘ اس نے سختی سے جواب دیا۔
’’جی ہاں سر، مجھے یقین ہے‘‘ ہوٹل کلرک نے گھبرا کر جواب دیا۔
’اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں آتا تو اوپر آ کر میرے جسم پر لگے زخموں کے نشانات کو دیکھ لیں۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے آپ کو چوٹ لگی ہے؟‘‘ کلرک کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’اس نے مجھے کسی چیز سے مارا ہے، لیکن میں زندہ ہوں۔‘‘ عدیل نے اپنے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔
عدیل نے بمشکل ٹیلی فون بند کیا تھا اس سے پہلے ہی ڈیسک کلرک اس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔
’’اندر آ جاؤ!‘‘ عدیل نے بستر سے پکارا۔ یس۔ اسے بستر میں پڑے رہنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ کلرک دو پولیس افسروں کے ساتھ کمرے کے اندر آیا۔ عدیل نے انہیں بتایا کہ کیا ہوا تھا، دونوں پولیس افسروں نے کمرے میں ارد گرد دیکھنا شروع کر دیا۔
ان میں سے ایک لیڈی پولیس افسر کے بال سرخ تھے اور بات کرنے کا انداز بہت دھیما تھا۔ اس کا نام روتھ تھا۔ وہ سب کچھ آہستہ آہستہ کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن وہ سست نہیں لگ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ پہلی بار ہی چیزوں کو درست انداز میں رپورٹ کرنے کے لیے محتاط انداز اختیار کیے ہوئے ہو۔ اس کے ساتھ دوسرا جوان پولیس آفیسر تھا اور نوکری میں نیا تھا۔ اس کا نام مائیک تھا۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ جلدی میں ہے۔ کسی بھی چیز کو دیکھ کر بہت جلدی نتیجہ حاصل کرنے کے لیے بہت تیزی دکھا رہا تھا۔
’’ارے یہ دیکھو!‘‘ مائک چلایا۔ ’’وہاں خون ہے۔‘‘
اس نے فرش کے ایک کونے کے قریب ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔
’’اور یہ خون کے قطرے راہداری میں بھی نظر آ رہے ہیں۔‘‘
روتھ آگے بڑھی، اور غور سے دیکھنے کے لیے نیچے جھک گئی اور خون کے ایک دھبے کو چھوا۔ ’’یہ تو تازہ خون ہے۔ یہ تازہ خون کے دھبے ہیں، ہم ان کا پیچھا کرتے ہوئے، اس تک پہنچ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے؟‘‘ روتھ نے ابھی یہ الفاظ منہ سے نکالے ہی تھے کہ، مائک دوڑ پڑا۔
’’ہم اس آدمی تک پہنچ سکتے ہیں‘‘
روتھ نے کہا۔ ’’چلو!‘‘ مائک اپنے ساتھی کا انتظار کیے بغیر کمرے سے بھاگا۔ وہ جاتے جاتے اپنا پستول بھی نکال رہا تھا۔
روتھ نے عدیل کی طرف دیکھا اور سر ہلایا۔ اس نے کہا، ’’اسے ہر کام میں جلدی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ خون کے ان قطروں کا پیچھا کرتا ہوا، کسی مصیبت میں گرفتار ہو، مجھے اس کی مدد کرنی چاہیئے‘‘ وہ کمرے سے چلی گئی اور مائیک کی طرف مڑ گئی۔
عدیل نے اسے جاتے دیکھا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔ اسے تکلیف ہو رہی تھی۔ اس کی ایک آنکھ کے پاس چوٹ آئی تھی۔ اور وہ بری طرح سوجی ہوئی تھی، اور اس کا منہ اور ہونٹ بھی درد کر رہے تھے، جاسوس کا سر اس سے ٹکرا گیا تھا۔ عدیل دروازے کے پاس گیا اور اسے بند کر دیا۔ اس کی چھٹیوں کا مزا کرکرا ہو گیا تھا۔ اس نے سوچا کہ جانے اب حالات کیسے ہوں؟
دوسری جانب جاسوس نے دھکا دے کر ہنگامی آمد و رفت کی سیڑھیوں کا دروازہ کھولا اور اوپر کی طرف چڑھنے لگا۔ جب وہ دسویں منزل پر آیا، تو اس نے لفٹ کو گزرتے ہوئے دیکھا۔ وہ راہداری سے چھت کی سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ اس نے اس وقت تک دوڑنا بند نہیں کیا جب تک کہ وہ ہوٹل کی چھت کے اوپر نہیں پہنچ گیا۔ اس نے وہاں خود کو محفوظ محسوس کیا۔ ایک عورت کے علاوہ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اور شاید وہ بھی اسے نہ پہچان سکے، کیونکہ اس نے اسے بہت اچھی طرح نہیں دیکھا تھا۔
اب اسے اپنے زخمی ہاتھ کی فکر تھی، اس کے بارے میں کچھ کرنا تھا۔ اس نے اپنی دو انگلیاں اپنے ہی چاقو سے کاٹ لی تھی، ہاتھ میں چاقو پکڑے راہداری سے بھاگتے ہوئے وہ دیوانے کی طرح لگ رہا تھا۔ چاقو اور ہاتھ دونوں خون سے بھرے ہوئے تھے۔
اس نے پتلون سے اپنی قمیض نکالی اور قمیض کے نیچے سے ایک کپڑے کا ٹکڑا کاٹ لیا۔ اس نے اسے اپنی انگلیوں کے گرد لپیٹ لیا اور سروں کو باندھ دیا۔ جس سے خون رک گیا۔
وہ اپنے پیچھے خون کے قطروں کے نشانات چھوڑ آیا تھا، خون کے یہ نشانات اس کے لیے خطرے کی گھنٹی تھے، اگر پولیس کو بلایا جاتا تو شاید وہ بھی ان قطروں کا پیچھا کریں۔
اسے خوف محسوس ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں اس کے چھپنے کے لیے کوئی جگہ ہو۔ لیکن وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں چھپا جا سکتا ہو۔ اس نے فوری طور پر یہاں سے کھسک لینے کے بارے میں سوچا۔ اسے چھت سے اترنا پڑا۔ اب جب کہ خون رک چکا تھا، اسے ان نشانات سے اپنے آپ کو دور رکھنا تھا، جو پولیس کو اس کا پتہ دے سکتے تھے۔ اس نے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ اس کی ملاقات مائک سے ہو گئی، جو خون کے قطروں کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے چھت پر پہنچ چکا تھا۔
’’اے مسٹر وہیں رکو!‘‘ مائک نے اسے دیکھ کر للکارا۔ لیکن اس نے اپنے حواس بحال رکھے۔
’’کون، میں؟‘‘ جاسوس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔ مائک پولیس میں نیا نیا بھرتی ہوا تھا، اسے ابھی مجرموں سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے بڑی آنکھوں والے مردوں سے سب سے زیادہ محتاط رہنا ہو گا۔ ’کون، میں؟‘ کہتے ہوئے جاسوس نے اعتماد سے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے، ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ چائے پینے جا رہا ہو۔ مائیک نے گڑبڑا کر پیچھے ہٹنا شروع کیا، لیکن اسے بہت دیر ہو چکی تھی۔ جاسوس نے اس کے ہاتھ سے بندوق چھین لی۔
اگلے ڈیڑھ منٹ میں جاسوس مائیک پر اس طرح چھا گیا جیسے بھیڑیا اپنے شکار پر۔ جب لڑائی ختم ہوئی تو جاسوس کے پاس مائیک کی بندوق تھی۔ اور مائیک ٹھنڈا پڑا تھا۔ جب اسے ہوش آیا تو اسے معلوم ہوا، کہ اس کا تھوبڑا سوجا ہوا ہے اور بازو ٹوٹا ہوا ہے۔ لیکن فی الحال وہ کچھ زیادہ محسوس نہیں کر سکتا تھا۔
جاسوس نے بندوق اپنے کوٹ کے نیچے رکھ لی۔ اور اپنا زخمی ہاتھ جیب میں ڈال لیا۔ جب وہ چھت سے سیڑھیاں اتر رہا تھا تو یوں لگتا تھا، جیسے دنیا میں اس سے زیادہ بے پرواہ آدمی کوئی نہ ہو۔ اسے دسویں منزل پر لفٹ کا انتظار کرنا پڑا۔ وہ اس وقت بھی وہاں کھڑا ہوا تھا، جب لیڈی پولیس آفیسر روتھ، خون کے قطروں کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے قریب سے گزری۔
ہوٹل ہارٹ فورڈ ایک پرانا ہوٹل تھا۔ اس کی لفٹ بہت سست رفتار تھی۔ جو بہت آہستہ آہستہ دسویں فلور کی طرف آ رہی تھی۔
’’یہ لفٹ مجھے پھنسوا دے گی، جانے کب یہ لفٹ دسویں منزل پر آئے گی۔‘‘ ابھی وہ یہ سوچ رہا تھا کہ دونوں پولیس اہلکار ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے چھت سے نیچے آتے نظر آئے۔ لفٹ آ چکی تھی، اس کا دروازہ کھل گیا۔ لفٹ خالی تھی۔ جوں ہی جاسوس نے لفٹ میں قدم رکھا، مائیک نے اسے دیکھا لیا۔ ’’وہ وہاں ہے!‘‘ اس نے چلا کر کہا ’’وہ آدمی ہے!‘‘
دونوں پولیس اہلکار لفٹ کی طرف بھاگے۔ جاسوس نے لفٹ کے دروازے کو غصے سے کک رسید کی، اور وہ بند ہو گیا۔ پھر لفٹ آہستہ آہستہ نیچے لابی کی طرف جانے لگی۔ جاسوس کو اس بات کا یقین تھا کہ دونوں پولیس والے سیڑھیوں سے نیچے بھاگ کر اسے نہیں پکڑ سکتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ اس سے پہلے لابی میں جا سکتے ہیں۔ لفٹ کا ایر کنڈیشنڈ خراب تھا، اور اندر بہت گرمی لگ رہی تھی۔ پھر لفٹ پانچویں منزل پر رک گئی۔ تین اور لوگ لفٹ میں چڑھ گئے۔ جب اس نے دوبارہ حرکت شروع کی تو ایسا لگتا تھا کہ وہ اور بھی آہستہ آہستہ حرکت کر رہی ہے۔ جاسوس کی قمیض اس کی پیٹھ سے چپکی ہوئی تھی۔
آخر کار، لفٹ کا دروازہ لابی میں کھلا۔ دوسرے لوگ جاسوس سے آگے نکل گئے۔ پھر اس نے دیکھا کہ میز پر دو اور پولیس اہلکار موجود ہیں۔ ایک فون پر بات کر رہا تھا۔
جاسوس کو دیکھتے ہی پولیس افسر نے ٹیلی فون نیچے رکھ دیا۔ پھر اس نے تیزی سے لفٹ کی طرف رخ کیا۔ یہ پولیس افسران واضح طور پر اسی کی طرف آ رہے تھے۔
اوپر سے ہوٹل کے ٹیلی فون پر کال کے ذریعے اس کی اطلاع دی گئی تھی۔ ڈیسک سے پولیس اس کی طرف آ رہی تھی۔ ایک بار پھر جاسوس نے لفٹ کا بٹن دبایا۔ پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی لفٹ کا دروازہ بند ہو گیا۔
مائیک نے اپنا ٹوٹا ہوا بازو اپنے پہلو کے قریب رکھا ہوا تھا۔ وہ اور اس کا ساتھی دوسری منزل پر لفٹ کے دروازے کے پاس سے گذر رہے تھے۔
’’لفٹ دوبارہ دسویں منزل سے نیچے آ رہی ہے‘‘ اس نے کہا۔ وہ اس کی موٹر کی آواز سن سکتا تھا۔
’’ٹھیک ہے، بٹن کو دبائیں‘‘ روتھ نے کہا۔ ’’اسے یہیں روک دیں تاکہ ہم نیچے کے باقی راستے پر لفٹ سے جا سکیں۔‘‘
لفٹ دوسری منزل پر پہنچی تو دروازہ کھلا۔ پولیس اہلکار خالی لفٹ میں سوار ہوئے اور نیچے لابی میں چلے گئے۔ وہاں، دروازہ دوبارہ کھلا، اور روتھ اور مائیک کا سامنا دوسری پولیس پارٹی سے ہوا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ نئے افسروں میں سے ایک نے پوچھا۔ ’’جس آدمی کو آپ نے ہمیں روکنے کے لیے کہا تھا وہ لفٹ سے نہیں اترا۔ وہ اس میں واپس چلا گیا۔ یہ صرف ایک بار رکا، پھر آپ دونوں کے ساتھ نیچے آیا۔ وہ آپ سے کیسے نکل گیا؟‘‘
مائیک نے کہا، ’’جب گاڑی دوسری منزل پر پہنچی تو اس میں کوئی نہیں تھا۔ یہ خالی تھا۔‘‘
’’پھر وہ کہاں گیا؟‘‘ انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا۔
’’وہ کہاں جا سکتا ہے؟‘‘ لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
آٹھواں باب : کمرہ نمبر 314
کمرے میں آ کر عدیل اپنے بستر پر بے سدھ ہو کر گر پڑا اور اپنی چوٹیں سہلانے لگا…. اس کے ذہن میں عجیب خیالات گھوم رہے تھے …. اسی ادھیڑ بن میں اپنی چوٹیں سہلانے سے اسے سکون ملنے لگا، تھوڑی دیر بعد ہی وہ نیند کی وادی میں کھو چکا تھا۔
نہ جانے کتنی دیر وہ سوتا رہا۔ اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اسے کمرے کے باہر خواتین کے آپس میں کسی بات پر ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ آہستگی سے اٹھا۔ گزرے ہوئے تمام واقعات پھر سے اسے یاد آ گئے۔ اس نے گھڑی دیکھی…. 3 گھنٹے گزر چکے تھے۔ اسے یاد آیا کہ پولیس والے خون کے قطروں کے پیچھے گئے تھے اور وہ واپس اپنے کمرے میں آ کر سو گیا تھا….
عدیل کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ اس کا خیال درست تھا کہ پولیس ہوٹل سے جا چکی تھی….
عدیل اپنے کمرے سے باہر نکلا اور کوریڈور میں زخمی جاسوس کے نکلنے والے خون کے قطروں کو غور سے دیکھنے کے لئے بیٹھ گیا۔ ابھی اس نے جمے ہوئے خون پر ہاتھ پھیرا ہی تھا کہ اس کی گردن سے پستول کی ٹھنڈی نالی آ کر لگی۔ وہ سنبھلنا چاہتا ہی تھا کہ اسے پستول والے آدمی نے موقع ہی نہیں دیا شرٹ کا کالر پکڑ کر دروازے سے اندر گھسیٹ لیا…. عدیل کو نئی آفت کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا…. اسے اندر گھسیٹ کر بے بس کرنے والا جاسوس جارج تھا۔ جس نے عدیل کو موقع دیئے بغیر فرش پر گرا دیا۔ عدیل کا سر زمین سے ٹکرایا لیکن زور سے نہیں۔ عدیل نے خود کو سنبھال لیا۔ جاسوس جارج نے اسے نشانے پر لے رکھا تھا۔ جاسوس بھی عدیل کی پھرتیوں سے واقف تھا۔ اس نے عدیل کو پر سکون ہو کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اب عدیل جاسوس کے اشاروں پر چلنے پر مجبور تھا۔
عدیل سوچ رہا تھا کہ اس بار ’’بُرے پھنسے‘‘ ساری چھٹیوں کا مزا کرکرا ہو گیا۔ نہ تو کہیں گھوم سکے اور نہ ہی اس سفر سے لطف اندوز ہو سکا۔ ابتدا ہی غلط ہوئی…. ایئرپورٹ سے لے کر اب تک کے واقعات اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے۔
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ جاسوس آخر کس ملک کے لئے کام کر رہا ہے اور اس کے ٹیپ ریکارڈر میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ جس کے لئے وہ اپنی اور میری جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔
اس نے سوچا کہ چلو جتنی دیر اس جاسوس کے ساتھ رہا جائے۔ اس سے بات چیت ہی کی جائے تاکہ اس سے کچھ معلوم ہو سکے لیکن جاسوس بھی اپنی مثال آپ تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ کچھ بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
پھر بھی عدیل نے اس سے سوال پوچھ ہی لیا۔ آخر ٹیپ ریکارڈر میں ایسی کیا خاص بات ہے؟
جاسوس نے اسے قہر بھری نگاہوں سے دیکھا اور بولا۔ ’’اس ٹیپ ریکارڈر میں میری زندگی کی سب سے بڑی دولت ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے پاکستان کے ایٹمی راز معلوم کئے ہیں۔ یہ راز بہت ہی خفیہ ہیں۔ لیکن میرے دوست ملک اسرائیل کے لئے یہ بہت قیمتی ہیں کیونکہ وہ پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اسرائیل کے لئے خطرہ ہیں۔ وہ اس خطرے کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ معلومات بڑی مشکل سے حاصل کی ہیں۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ پاکستان جس سے ساری اسلامی دنیا نے امیدیں لگائی ہوئی ہیں وہ طاقتور بن جائے۔ اس لئے وہ پاکستان میں آئے دن بم دھماکے بھی کراتا رہتا ہے۔‘‘
عدیل یہ سن کر حیران رہ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شارق نے اسے جو ای میل کی تھیں اس میں پاکستان کے کسی دشمن ملک کی کاروائیوں کی طرف اشارہ تھا اور وہ ملک اسرائیل ہی ہے۔ اس کے ذہن میں بجلیاں کوندنے لگیں۔ اب اس کا مشن اپنے پاکستان کے تحفظ اور سلامتی تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچ لیا تھا کہ یہ جاسوس اب ہرگز یہ راز نہیں لے جا سکتا۔ اس کے لئے چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔
دوسری جانب اسپیشل ایجنٹ پینی ساری رات جاگتا رہا تھا۔ اسپیشل ایجنٹ پینی نے اپنے لوگوں کو دوبارہ ہدایات دی۔ وہ جہاز کے 16 مسافروں کو چھوڑ کر باقی سب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
’’آپ نے اب تک بہت اچھا کام کیا ہے‘‘ پینی نے انہیں بتایا۔ ’’لیکن وقت ختم ہو رہا ہے۔ اس شخص کو تلاش کرنے میں ہمیں جتنا زیادہ وقت لگے گا، اتنا ہی زیادہ موقع ہے کہ جاسوس ہم سے پہلے اس تک پہنچ سکے گا۔ یاد رکھیں، جاسوس کو معلوم ہے کہ اس کا ٹارگٹ کہاں ہے۔ وہ جلد سے جلد اس تک پہنچ کر اپنا ریکارڈر یا جاسوسی کا آلہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ٹھیک ہے، اب کال کرنا بند کرو اور ایکسچینج کے ذریعے کالیں سننا شروع کرو‘‘ پینی نے کہا۔
’’آپ میں سے کچھ نے اپنی تمام کالیں ختم کر دی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ان لوگوں کی مدد کریں جن کے پاس ابھی بھی مسافر کی لسٹ موجود ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ دیکھنے کے لیے جانچ کر رہے ہیں کہ آیا وہ واشنگٹن سے ہوائی جہاز سے دوسرے شہروں کے لیے نکلے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ہوٹلوں کی جانچ کر رہے ہیں۔ ملک کے دوسرے حصوں میں۔ اور میں جانتا ہوں کہ کام آسان نہیں ہے۔ لیکن اسے کرنا پڑے گا۔ میں اس شخص کے لیے سارا ہفتہ دوپہر کا کھانا خریدوں گا جس کو وہ مسافر ملے گا جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں۔‘‘
۔۔۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اب منزل بہت قریب ہے لیکن اس کے ہاتھ کوئی سرا نہیں آ رہا تھا۔ اسے کافی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے کافی کا کپ تیار کیا اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا۔ خبروں کا وقت تھا۔ اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی…. اور ٹیلیفون پر اس کے لئے ایک انتہائی اہم اطلاع تھی۔ یہ عدیل سے متعلق تھی۔ فون سنتے ہی اسپیشل ایجنٹ پینی دوسرے کمرے کی طرف دوڑا۔ جہاں اس کی خفیہ فورس کے آدمی بیٹھے فون پر معلومات حاصل کر رہے تھے۔
’’ہمیں اپنے مطلوبہ آدمی کا سراغ مل گیا ہے۔ وہ اس ہوٹل میں مقیم ہے۔ جلدی کرو…. فوراً ہوٹل پہنچو۔‘‘ اس نے اپنے افراد کی طرف اشارہ کیا۔ ’’تم…. اور تم اور تم…. میرے پیچھے آؤ۔‘‘
وہ بھاگتے ہوئے ہوٹل کی لابی میں پہنچے۔ پولیس بہت پہلے ہوٹل سے چلی گئی تھی۔ پھولتے ہوئے سانس کے ساتھ پینی نے ڈیسک کلرک سے پوچھا ’’عدیل صاحب اپنے کمرے میں ہیں۔‘‘ ڈیسک کلرک نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں جناب وہ ابھی ابھی اپنے ایک دوست کے ساتھ باہر گئے ہیں۔‘‘
نواں باب : آمنے سامنے
جاسوس جارج سو نہیں پا رہا تھا۔ وہ سونے کے لیے لیٹا تو بہت گھبرایا ہوا تھا۔ ایک بار جب وہ اپنے کمرے میں واپس آیا تو کوریڈور میں پولیس کی آوازوں نے اسے جگائے رکھا۔ وقت گزارنے کے لیے اس نے اپنی شکل بدلنا شروع کر دی۔ اب وہ ایک نیا رنگ و روپ اختیار کر رہا تھا۔ اس نے اپنے بالوں کو نیا ہیئر کلر کیا اور انھیں مختلف انداز میں بنایا۔ اس سے تھوڑی مدد ہوئی۔ پھر اس نے اپنے چہرے کی شکل بدلنے کے لیے اپنی مونچھوں کو صاف کر دیا۔ اب اسے پہلی نظر میں پہچاننا مشکل تھا۔ اس سے اس کا دل کچھ مطمئن ہوا۔ اس کی انگلیوں کے زخم اتنے زیادہ نہیں تھے، جتنا اس نے سوچا تھا۔ اس نے انہیں دھو کر صاف کیا تھا۔ اب وہ سفید قمیض سے لی گئی ایک پتلی پٹی سے ڈھکے ہوئے تھے۔
لفٹ میں وہ گرفتاری سے کتنا قریب تھا۔ اس قدر قریب سے نکل جانا، اسے حیرت سے سر ہلانا پڑا۔ دوسری منزل پر رکنے کے لیے لفٹ کی رفتار کم ہو گئی تھی۔ اس وقت اسے آوازوں سے معلوم ہو گیا تھا کہ پولیس وہاں موجود ہے۔ اس نے بھاگنے کا راستہ تلاش کرنا شروع کیا۔ اسی وقت اس نے لفٹ کی چھت میں ایک چھوٹا دروازہ اوپر کی طرف دیکھا۔ پھر وہ ایک جھٹکے سے، اس دروازے میں اچھل کر داخل ہو گیا۔ جب پولیس والے لفٹ میں داخل ہوئے تو وہ اوپر کا دروازہ بند کر چکا تھا۔ اس کے بعد، جب پولیس اس لفٹ میں نیچے جا رہی تھی، تو اس نے تیسری منزل پر دروازہ کھولنے کے لیے اپنا چاقو استعمال کیا تھا۔ قسمت اس کے ساتھ تھی۔ کوریڈور میں کوئی نہیں تھا۔ وہ کسی کی نظر میں آئے بغیر اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ اس کے بعد، اس نے بہتر محسوس کیا. اس نے پھر سے چیزوں پر قابو پا لیا۔ پولیس اس کے کمرے میں بھی آئی تھی، پوچھ رہی تھی کہ اس نے کچھ دیکھا یا سنا ہے۔ لیکن اس نے ان کے سوالات کے اچھی طرح جواب دیئے، اور ایسی اداکاری کی کہ وہ جیسے اپنے کمرے سے نکلا ہی نہ تھا۔ وہ تربیت یافتہ جاسوس کی طرح جھوٹ بولنے میں اور حلیہ بدلنے میں ماہر تھا۔ وہ مسکرا کر چلے گئے تھے۔ اچانک دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ اس کا دل بری طرح دھڑک اٹھا، کیا پھر پولیس آ گئی ہے؟ یہ ممکن تھا۔ اس نے دروازہ کھولا۔ لیکن ہنگامی حالات سے نمٹنے اس نے ایک ہاتھ اس بندوق پر رکھا جو اس نے نوجوان پولیس افسر سے چھینی تھی۔ وہاں اس کے سامنے عدیل کھڑا تھا۔
’’تم!‘‘ عدیل نے حیرت سے کہا۔ اس کے چہرے میں تبدیلی کے باوجود اس نے اسے پہچان لیا تھا۔ اسے اس شخص سے ائیرپورٹ پر ہونے والی گفتگو یاد تھی۔ یہاں تک کہ اس کی بدلی ہوئی شکل بھی اسے دھوکہ نہ دے سکی۔
’’کل رات تم میرے کمرے میں آئے تھے۔!‘‘ یہ کوئی سوال نہیں تھا۔ بلکہ اس بات کا اظہار تھا کہ اسے پہچان لیا گیا ہے۔ جاسوس جارج نے پستول نکال لیا اور عدیل کر کمرے میں دھکیل کر کہا۔ ’’اور آج تم میرے کمرے میں ہو‘‘
اس کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ تھی۔ ’’اس طرف دائیں جانب قدم بڑھائیں، ورنہ آپ کو اپنی زندگی کے آخری چند سیکنڈز کے لیے بہت افسوس ہو گا۔‘‘
عدیل کے چہرے پر زردی چھا گئی۔ اس کے باوجود اس نے حواس بحال رکھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’تمہارے پاس پولیس کی پستول ہے‘‘
اس نے کہا، ’’جیسا تمھیں کہا جا رہا ہے، ایسا کرو۔ میں تمہارے سوال کو جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔ لیکن تمہارے لیے بہت برا ہو گا‘‘
جاسوس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔ ’’اب تم بتاؤ تم نے میرے کیسٹ ریکارڈر کے ساتھ کیا کیا؟‘‘
’’آپ کا ریکارڈر؟ میں نہیں جانتا کہ آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘ عدیل نے غصے سے جواب دیا۔
’’پیارے دوست! میں نے ہوائی اڈے پر آپ کے ساتھ ریکارڈر بدل دیے تھے۔ آپ نے میرا ریکارڈر کسٹم کے ذریعے کلئیر کرایا، اور میں نے آپ کا ریکارڈر اپنے سامان میں کلئیر کرایا۔۔۔۔‘‘
جاسوس نے عدیل کو جواب دیا۔
’’اور اب تم اپنا ریکارڈر واپس لینا چاہتے ہو۔ اسی لیے تم کل رات میرے کمرے میں گھسے تھے۔‘‘ عدیل کو اب ساری بات سمجھ میں آ گئی تھی۔
’’آپ تیزی سے بات سمجھ جاتے ہو‘‘ جاسوس نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ عدیل کو اب اندازہ ہو رہا تھا۔ کچھ گڑبڑ ہے، اور ریکارڈر میں کوئی ایسی بات ہے، جس کے لیے یہ شخص اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس نے فوری طور پر ایک سوچا سمجھا جواب دیا۔
’’اچھا میرے پاس تمہارے لیے کچھ بری خبریں ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا ریکارڈر میرے پاس نہیں ہے۔ وہ مجھ سے کھو گیا ہے۔‘‘ یہ سن کر جاسوس کا چہرہ پیلا پڑ گیا، وہ اپنی خفیہ معلومات کو اس طرح ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے غصے سے عدیل کو دیکھ کر کہا۔ ’’اگر تم مجھے میرا ریکارڈر واپس نہیں کر سکتے ہو۔ تو مجھے بھی اب تمہاری ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے پستول سے عدیل کے سر کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میں تمھیں اس وقت تک کی مہلت دیتا ہوں، جب تک میں تین تک گنتی گنوں۔ اگر آپ تم مجھے ریکارڈر کا نہیں بتاتے تو، میں آپ کے سر میں سوراخ کرنے والا ہوں۔ ایک، دو…‘‘
اس نے گنتی شروع کی۔
’’ٹھیک ہے، آپ جیت گئے‘‘ عدیل نے کہا۔ ’’میں نے سوچا تھا کہ میں آپ کو اس بارے میں نہ بتاؤں‘‘ عدیل نے اسے بتایا۔
۔۔۔
اسپیشل ایجنٹ پینی ساری رات جاگتا رہا تھا۔ اب وہ ایک کپ کافی پی رہا تھا تاکہ اسے کچھ توانائی مل جائے۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں موجود تھا۔ اس میں کافی کے برتن، ایک میز اور چند کرسیوں کے علاوہ زیادہ جگہ نہیں تھی۔ ایک فون پر اپنے لوگوں سے رابطے میں تھا۔ پینی اپنے کافی کپ میں دیکھ رہا تھا، وہ اپنے ایجنٹوں کی رپورٹ سنتے سنتے تقریباً تھک چکا تھا۔ پھر اس نے رپورٹ میں عدیل کا نام سنا۔ اس نے فون رکھا اور اپنی کافی کے بارے میں بھول گیا۔ چند منٹوں کے بعد وہ تیزی سے وہاں پہنچا جہاں دوسرے ایجنٹ ٹیلی فون پر مصروف تھے۔ اس نے انھیں کاروائی روکنے کو کہا۔
’’عدیل وہ آدمی ہے جو ہمیں مطلوب ہے۔ اور وہ یہیں شہر میں موجود ہے۔‘‘
پینی نے اپنے چند ایجنٹوں کی طرف انگلی اٹھائی ’’تم، تم، اور تم میرے ساتھ آؤ‘‘ اس نے کہا۔ ’’آپ میں سے باقی لوگ اب گھر جا کر سو جائیں۔‘‘
پینی اور اس کے ایجنٹ 10 ویں اسٹریٹ پر کھڑے تھے۔ پھر وہ ہوٹل کی طرف بھاگے۔ پولیس بہت پہلے ہوٹل سے یہ سوچ کر چلی گئی تھی کہ چور فرار ہو گیا ہے۔ ’’کیا مسٹر عدیل اپنے کمرے میں ہیں؟‘‘ پنیی نے پوچھا۔ ڈیسک کلرک کو یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ عدیل کے کمرے کی چابی اس کے باکس میں ہے یا نہیں۔ وہ بغیر دیکھے ہی بولا۔
’’نہیں جناب۔ وہ چند منٹ پہلے ایک دوست کے ساتھ باہر گئے ہیں۔‘‘
دسواں باب : مجرم کون؟
عدیل جاسوس کے ساتھ اس دکان تک پہنچا جہاں اس نے ریکارڈر چھوڑا تھا۔ یہ دکان اس وقت بند پڑی تھی۔ ’’کیا یہ کوئی چال ہے؟‘‘ جاسوس نے غصے سے عدیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔، اس کی آنکھوں سے غصے سے چمک رہی تھی۔
’’نہیں، نہیں‘‘ عدیل نے جلدی سے کہا۔
’’مجھے بہت جلدی ہے۔‘‘ جاسوس نے کوٹ کی جیب کی طرف اشارہ کیا۔ جس میں پستول تھا۔ اور وہ پستول سے عدیل کو نشانہ بنائے ہوئے تھا، ہوٹل سے بھی وہ عدیل کو پستول کے نشانے پر لے کر آیا تھا۔
’’دیکھو یہ دوکان دو گھنٹے میں کھل جائے گی۔ وہ دیکھو دکان کے بورڈ پر کیا لکھا ہے؟‘‘
جاسوس نے دکان پر لگے بورڈ کو دیکھا۔ ’’اوہ، ہاں ٹھیک ہے . لیکن میں اتنا انتظار نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
’’اس ریکارڈر میں اتنا اہم کیا ہے؟ جبکہ یہ بھی کام نہیں کرتا‘‘ عدیل نے کہا۔
’’تمھیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ میں اسے کیوں چاہتا ہوں۔ بس یہ بات یاد رکھو کہ اگر مجھے یہ نہیں ملا تو تمھارے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘‘ جاسوس نے کہا۔ ’’پیچھے کی طرف چلو۔ ہو سکتا ہے ہم کسی طرح اندر جا سکیں۔‘‘
’’ان کے کمروں کی تلاشی لو‘‘ پینی نے اپنے ایجنٹوں سے کہا۔ ’’جب وہ یہاں سے گئے ہیں تو اپنے ساتھ وہ کچھ بھی نہیں لے گئے ہیں۔ شاید ہمیں ان کے کمرے سے ریکارڈر مل جائے، ریکارڈر کمرہ نمبر 314 میں ہی ہو گا۔‘‘
چند منٹوں میں اس کے ایجنٹ ریکارڈر کے ساتھ واپس آئے۔ ’’کیا یہ کام کرتا ہے؟‘‘ پینی نے پوچھا۔
’’جی سر‘‘
پینی نے کہا، ’’میں اسی بات سے ڈر رہا تھا۔ ان کے ایک ساتھ جانے کی واحد وجہ جاسوسی کی مشین حاصل کرنا ہے۔‘‘
’’وہ اس کا کیا کریں گے؟‘‘ پینی کے ایجنٹوں میں سے ایک نے پوچھا۔
’’تم لوگوں کا کیا خیال ہے؟‘‘ پینی نے پوچھا، جواب میں سب خاموش رہے۔ اس نے پھر پوچھا ’’اگر ریکارڈر کام نہیں کر رہا ہو تو آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟‘‘
’’اسے واپس اس جگہ لے جاؤں گا، جہاں سے میں نے اسے خریدا تھا۔‘‘ ایجنٹوں میں سے ایک نے کہا، ’’اور اگر تم گھر سے دور ہوتے تو کیا کرتے؟‘‘ پینی نے ایک اور سوال کیا؟
’’میں اسے کہیں اور ٹھیک کرواؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ پینی نے کہا۔ ’’اب، ٹیلی فون بک چیک کرو، دیکھو کہ کیا یہاں کوئی ایسی شاپ ہے جو اس قسم کے ریکارڈر کو ٹھیک کرتی ہو۔‘‘
جاسوس کو اس کی ریکارڈر مشین دکان کے پچھلے کمرے میں نظر آ گئی۔ اس نے اسے محتاط انداز میں آہستہ سے چیک کیا۔ وہ اسے دیکھنے کے لیے بہت محتاط تھا جیسا کہ ہونا چاہیے۔ لیکن مشین کو چیک کرنے کے لیے اسے عدیل پر سے نظریں ہٹانی پڑیں۔ ایسا کرنا اسے بھاری پڑ گیا۔ موقع پا کر عدیل نے دکان کے بھاری اوزاروں میں سے ایک اوزار کو اٹھایا اور اسے جاسوس کے بازو پر دے مارا۔ جاسوس کے ہاتھ سے پستول دور جا گری۔ اور اب وہ عدیل کے ہاتھ میں تھی اس نے اس بار کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔
’’اب حکم دینے کی باری میری ہے‘‘ عدیل نے کہا۔
’’میں کسی سے آرڈر نہیں لیتا‘‘ جاسوس نے کہا۔ اس کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے جیب سے چاقو نکالا۔
’’کیا تم نے کبھی کسی کو گولی ماری ہے؟‘‘ اس نے عدیل سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ عدیل نے کہا۔
’’یہ اتنا آسان نہیں جتنا تم سوچ رہے ہو۔‘‘ اس نے عدیل کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’شاید نہیں‘‘
’’لیکن اگر تم میرے قریب آئے تو مجھے گولی چلانا ہی پڑے گی۔ میرے قریب مت آؤ، میں گولی مارنے جا رہا ہوں۔‘‘ عدیل نے چیخ کر کہا۔
دونوں آدمی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں چاقو اور ایک کے ہاتھ میں پستول، دونوں کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ یہ بہت تنگ جگہ تھی۔
’’میرا بہت نقصان ہو گیا ہے، سب کچھ غلط ہو گیا ہے۔‘‘ جاسوس نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ تم بد نصیب ہو۔‘‘
’’ہلنا مت‘‘ عدیل نے اسے ایک بار پھر للکارا۔
’’میں تمہیں مار ڈالوں گا اگر یہ آخری کام ہے جو میں مرنے سے پہلے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جاسوس نے غراتے ہوئے کہا۔
اچانک پینی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے دکان کے اندر کے منظر کو دیکھتا ہے، اور پھر زور سے چلا کر کہتا ہے۔ ’’پولیس نے تم کو گھیر لیا ہے، تم دونوں اب کوئی حرکت نہ کرو۔! اے لڑکے تم پستول نیچے گرا دو۔‘‘ اس نے عدیل سے کہا۔
’’یہ میں نہیں کر سکتا‘‘ عدیل نے جواب دیا۔
’’گرا دو!‘‘ پینی نے دوسری بار آرڈر کیا۔ ’’میں تمہیں پھر نہیں بتاؤں گا‘‘
’’اس کے پاس چاقو ہے، اگر میں بندوق گرا دوں گا تو یہ مجھے مار دے گا۔‘‘ عدیل نے وضاحت کی۔ ’’نہیں، میں اسے نہیں ماروں گا۔‘‘
جاسوس نے مکاری سے جھوٹ بولا۔ ’’اسے گولی مارو۔ وہ وہی آدمی ہے جسے تم پکڑنا چاہتے ہو۔‘‘
جاسوس یہ کہتے ہوئے وہ اس بات کے لیے تیار تھا کہ جیسے ہی عدیل پستول نیچے گرائے گا، وہ اس پر جھپٹ پڑے۔ پینی نے دوبارہ پکارا۔ ’’ABC کے آخری تین حروف کیا ہیں؟‘‘
’’X, Y, Z ‘‘ عدیل نے فوراً جواب دیا۔
یہ ٹھیک ہے، پینی کو اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا، اسے پتہ چل گیا تھا کہ اصل مجرم کون ہے، اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگانے میں دیر نہیں کی، اور اس کے پیچھے پیچھے اس کی فورس بھی داخل ہو گئی۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں