FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

جریدہ کا مطالعہ کریں…..

فہرست مضامین

سہ ماہی

سَمت

شمارہ ۵۹، جولائی تا ستمبر ۲۰۲۳ء

مدیر: اعجاز عبید

اداریہ

مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔۔

تازہ شمارہ حاضر ہے اور یہ اتفاق سے بالکل عام شمارہ ہے۔ عرصے سے اتنے احباب ہم سے بچھڑتے رہے تھے کہ ہر شمارے میں  تین چار رفتگاں کو یاد کیا جاتا تھا۔ اور اس وجہ سے ’سمت‘ کے خصوصی گوشے بھی ختم کر دئے گئے تھے۔ اور ہر شمارہ ضخیم یعنی چار پانچ سو A4  سائز کے صفحات کے ورڈ ڈاکیومینٹ پر مشتمل ہو رہا تھا۔ اس بار پیش ہے تقریباً دو سو صفحات پر مبنی عام شمارہ جس کی خصوصی مبارکباد، وہ اس وجہ سے پچھلے سہ ماہی میں خوش قسمتی سے کوئی  اتنا اہم ادیب و شاعر نے ہمیں خیرباد نہیں کیا ہے جسے یاد کرنا ضروری سمجھا جائے!  البتہ  مستقبل کے لئے خصوصی نمبر کے بارے میں احباب رائے دیں کہ کس نوعیت کا اور کس موضوع پر خصوصی شمارہ رکھا جائے۔

اس شمارے میں قسط وار سلسلہ کا شمول نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ سلسلوں کے لئے گفتگو جاری تھی، لیکن  آج ۲۵ جون تک بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی یعنی جن کتب کو قسط وار شامل  کئے جانے کا ارادہ تھا، ان کی فائلیں موصول نہیں ہو سکیں۔ اور اب مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اس بار  محض علی اکبر ناطق کے ناول ’کوفے کا مسافر‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔

ایک دلچسپ تخلیق طنز و مزاح کی ذیل میں ملاحظہ کریں۔ اتفاق سے  فیس بک پر اسی نوعیت کا ایک حقیقی اشتہار، جو ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا تھا، بھی پوسٹ کیا گیا تھا! 

ایک مزید توشۂ خاص میری ذاتی جانب سے ہے۔ ایک ’ہارر کہانی‘ کا تجربہ۔ ’معمول‘ کے  عنوان سے میری ایک نئی کہانی بھی پیش ہے۔ امید ہے کہ شمارے کے سارے مشمولات پسندِ خاطر ہوں گے۔

ا۔ ع

عقیدت

عباس عدیم قریشی

مجھ کو سیرابِ ثنا کر دے یہ بہتا ہوا، کُن

ایک مدت سے طبیعت کو جو صحرا ہوا، کُن

نعت کا اذن مجھے کیوں نہیں؟ اے مہرِ کرم

کیوں پگھلتا ہی نہیں مجھ میں یہ ٹھٹھرا ہوا،  کُن

دم بدم مجھ میں نمودار فروغِ فَیکوں

” تو مری روح کے اندر کہیں اترا ہوا، کُن "

تیری چاہت کے توسّل سے رواں ہے ورنہ

منجمد رکھتا یہ تکوین کو ٹھہرا  ہوا کُن

حلقۂ میم کی وسعت میں ہے گم گشتہ کہیں

ظرفِ ادراک سے نکلا ہوا  بکھرا ہوا، کُن

ارتقاء نعتِ محمد کا سمجھتا ہوں اسے

مرتعش رہتا ہے ہر سمت جو گونجا ہوا کُن

مہبطِ امر ! قریں کر کہ سنبھل جائے ذرا

یہ سسکتا، مرا مرتا ہوا، بگڑا  ہوا، کُن

سیدی!!! عشق ہی تکوین کئے جاتا ہے

اک ترے اسم سا، اندر مرے رکھا ہوا کُن

حمدِ باری بھی ہے اور نعتِ پیمبر بھی عدیم

دم بدم وسعتِ امکاں میں یہ اُگتا ہوا کُن

٭٭٭

غلام مصطفیٰ دائمؔ

تسطیرِ نعت کے لیے خوشبو شیم کی شاخ

کنجِ لحد میں ہو کوئی باغِ حرم کی شاخ..!

فصلِ رَشاد میں اسے تازہ ہوا ملی…….!!

کمھلا گئی تھی فرطِ تپش سے بھرم کی شاخ

وصفِ محمدی میں پئے مستقل شعار..!

دائم ہو غوطہ باز یہ زاغِ قلم کی شاخ

اُن کے وجودِ فاش کی سایہ گری ہوئی

کچھ اعتبار پا گئی دشتِ عدم کی شاخ

جاری ہوئی جو آبِ طہارت کی نہرِ نور

اُبلی نہ پہلے یوں کبھی دستِ نعَم کی شاخ

شاہِ ولیؒ کا موسمِ نعت ”اطیب النغم“

تازی ثمر سے سج گئی دختِ عجم کی شاخ

تنویعِ جذبِ حمد بھی دائمؔ ہے راہِ نعت

یعنی دراز مند ہے خیرِ امم کی شاخ

٭٭٭

گاہے گاہے باز خواں….

مرزا غالب کا خط پنڈت نہرو کے نام ۔۔۔ فرقت کاکوروی

جان غالب۔ بین الاقوامی صلح کے طالب، میاں جواہر لال خوش فکر و خوش خصال جگ جگ جیو، تا قیامت آب حیات پیو۔ سنو صاحب! امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد آئے ہیں، اور اپنے ہمراہ دو نسخے دیوان غالب کے لائے ہیں، جو مجھے ابھی موصول ہوئے ہیں۔ ایک نسخہ علی سردار جعفری نے ترتیب دیا ہے۔ دوسرا عرشی رام پوری نے مرتب کیا ہے۔ دونوں نے اخلاص و محبت کا حق ادا کیا ہے۔ میر مہدی اور پنڈت کیفی بیٹھے ہیں، حقے کے کش چل رہے ہیں، ہجر و فراق کے لمحات ٹل رہے ہیں۔ فضا میں دھواں چمک رہا ہے اور پیچوان مہک رہا ہے۔ کوئلوں میں آتش فشانی ہے۔ جس سے چلم کا چہرہ ارغوانی ہے۔

ریختہ کا جب ذکر آیا تو مولانا آزاد نے بتایا کہ میں زبان کے مسئلہ میں تقریر کر آیا ہوں اور معاملات نہرو کے سپرد کر آیا ہوں، وہ سیاست کے مرد میدان ہیں، علم و ادب کے پاسبان و نگہباں ہیں، اردو ہندی کے مسئلہ میں ایک قالب دو جان ہیں۔ اب حسب مراتب دونوں کو جگہیں ملیں گی اور دونوں ہی پھولیں پھلیں گی۔ سنتا ہوں کہ جس محکمہ کا نام تم نے آکاش وانی رکھا ہے اس نے آزاد کی تقریر کو دختر افراسیاب بنا رکھا ہے۔ اچھا لاسا لگا رکھا ہے۔ نہ بتاتے ہیں نہ سناتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن بنائے سیج میں رکھے ہیں۔ تم تو وزیر با تدبیر ہو، علم و ادب کی درخشاں تحریر ہو، خود روشن ضمیر ہو۔ پوچھو تو کہ وہ ڈال کی چیز پال میں کیسے ڈالی گئی اور آزاد کی سالگرہ کی تقریب اس سے کیوں خالی گئی۔ مولانا کہتے ہیں کہ ان کی تقریر کی تائید تم نے کی تھی اور اپنی رائے ان کے حق میں دی تھی آخر وہ دونوں تقریریں ہوا میں کہاں گم ہو گئیں۔ میں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہلوایا ہے کہ انہیں تلاش کرائیں اور آکاش میں پتہ لگائیں کہ کہاں ہوا میں معلق ہیں۔ تحقیق جاری ہے مگر عقل عاری ہے کہ وہ گئیں کدھر۔ صدا بصحرا تو نہیں ہو گئیں؟

کل جبرئیل امین آئے تھے اور ایک نئی خبر لائے تھے، کہتے تھے کہ جو لوگ عالم ارواح میں آرہے ہیں وہ سب خطاوار اردو کو عالم برزخ میں لا رہے ہیں۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ زمین والوں پر اب زبان بار ہے۔ اس کے لب و لہجہ سے اکثریت بیزار ہے۔ ہندوستانی عوام اس کے متحمل نہیں کہ عرش کی چیز فرش پر دیکھیں اور اس پر خاموشی اور سکوت کھینچیں۔ جو زبان من و تو کی تخصیص باقی نہ رکھے اسے کیونکر سے کوئی سینے سے لگائے رکھے۔ جب ساری خلقت کی زبان ایک ہو گئی تو محمود ایاز کی تخصیص کہاں رہی؟ ایک نے اگر دوسرے کی بات سمجھ لی تو ترجمہ کرنے والوں کی فیس کدھر گئی؟ جبرئیل امین نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہندوستان میں یہ کام تیزی سے ہو رہا ہے بلکہ کوئی خفیہ معاہدہ ہندو عالم ارواح میں ہوا ہے جس کی حقیقت حامیان اردو پر کھل گئی ہے اور انہیں اس کی سن گن مل گئی ہے اسی سے ہندوستان سے عالم بالا جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ایک کے پیچھے ایک لگا ہوا ہے۔

تقسیم کے بعد سے بڑے بڑوں میں حسرت، سہیل، بیخود، یگانہ، صفی، مجاز، کیفی اور مخمور پہنچ چکے ہیں۔ اور اب جو آنے والے ہیں وہ بھی پا بہ رکاب ہیں اور سفر آخرت کو بیتاب ہیں، پاسپورٹ بنوا رہے ہیں اور اپنا بوریہ بستر بندھوا رہے ہیں۔ ویزا فوراً ہی مل جاتا ہے۔ دفتر میں چوں و چرا کوئی یوں نہیں کر پاتا ہے کہ جو جاتا ہے پلٹ کر نہیں آتا ہے۔ مولانا آزاد کے بعد ایک بزرگ کو اودھ سے بلایا گیا ہے اور منجملہ دیگر کاموں کے انہیں اس کام پر بھی لگا لیا گیا ہے۔ وہ آدمی کیسے ہیں جس صوبہ سے گئے ہیں یہ کام بحسن و خوبی نپٹا چکے ہیں۔ ان کے آنے پر صوبوں کو حکم ہوا ہے کہ کام تیزی سے کیا جائے ورنہ سستی برتنے والوں کو نذر زنداں کیا جائے۔ دفتروں میں عملے والے دل جمعی سے کام کر رہے ہیں اور بڑے اور چھوٹے سب ہی نام کر رہے ہیں۔ نئے الفاظ ڈھل رہے ہیں اور اصطلاحات کے سوتے ابل رہے ہیں۔ جو جا چکے ہیں اپنے پاسپورٹ اور ویزا پا چکے ہیں۔ جن کا ویزا تیار ہے ان کا مرکز کو انتظار ہے۔ نئی آزادی کے ساتھ پرانی زبان نہ ہو، تا کہ کمخواب میں ٹاٹ کا گمان نہ ہو۔

پاکستان میں بنگالی اور پنجابی والے جھگڑا کر رہے ہیں اور سندھ والے سندھی کے لیے اکڑ رہے ہیں۔ وہ بھی نئی آزادی کے ساتھ نئی اصطلاحات کے طالب ہیں۔ مگر وہاں کی اصطلاحات پر وہیں کی زبان کے محاورات غالب ہیں۔ جب کہ عربی ملائکہ کی زبان ہے اور عربی رسم الخط پر فرشتوں کا ایمان ہے تو اسے عالم ارواح میں کیوں نہ پہنچایا جائے اور اسے روحانیت کا جامہ کیوں نہ پہنایا جائے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں میں کام مکمل ہو چکا ہے۔ ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ ادھر انجمن ترقی اردو اور تعمیر اردو روڑے اٹکا رہی ہے۔ اور اس کی بقا کی خاطر دھکے کھا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک کو جس نے ذرا زیادہ ہاتھ پاؤں نکالے تھے اور زمین پکڑنے کے نئے گوشے نکالے تھے اسے وظیفہ دیا گیا تھا اور اس کا منھ بند کیا گیا تھا۔ مگر وہ اب بھی ٹر ٹر کیے جاتی ہے اور اپنی بساط بھر لڑے جاتی ہے۔ اس کی للو کون روکے اور اسے کون ٹوکے کہ اسی میں چھید کرتی ہے جس میں کھاتی ہے اور جس کے پیسے کے بل بوتے سے مشاعرے کراتی ہے۔

میں نے از راہ دل لگی جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ اتر پردیش سے کیوں نکالی گئی۔ کس جرم میں اس پر کملی ڈالی گئی؟ بولے صاحب جس زبان کی لکھائی پورب سے پچھم جائے اور جو عالمِ ارواح کی زبان پر عمل درآمد کروائے وہ اتر پردیش میں جگہ کیسے پائے؟ میں نے ہنس کر پوچھا کہ شاعروں کا کیا خیال ہے اور ان کا کیا احوال ہے؟ بولے۔ مشاعروں میں ہلڑ بازی ہوتی ہے۔ واہ واہ کی آتش بازی چھٹتی ہے۔ مصرعوں کو زور زور سے اٹھایا۔۔۔ سبحان اللہ کا ایک طوفان مچایا جاتا ہے۔ اس دیس کا ایک خاص مزاج ہے۔ یہاں صلح و آتشی کا راج ہے۔ یہاں کے لوگ اہنسا کے قائل ہیں۔ اور حد سکون اور خاموشی کی طرف مائل ہیں۔ سکون کے تیر چلاتے ہیں اور ضبط و تحمل سے دلوں کو گرماتے ہیں۔ اور اسی سے بڑے بڑے معرکوں میں دشمنوں کو نیچا دکھاتے ہیں۔ جو زبان یہاں ڈھالی جا رہی اور کروڑوں روپیہ سے پالی جا رہی ہے اس میں ایک خاص قسم کی انفرادیت ہے۔ خموشی اس کی خاصیت ہے۔ ہر فرد اپنی زبان کا خالق ہے اور بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ خود اپنی اصطلاحات ڈھالتا ہے۔ اور اپنی رفتار و گفتار کو پالتا ہے۔ چونکہ سرپر خود ساختہ تاج ہے اس لیے کسی کا دست نگر ہے نہ محتاج ہے۔

سمیلن میں جب زبان کا شاعر جاتا ہے اپنے کلام سے حظ اٹھاتا ہے۔ جب کلام سناتا ہے تو سامعین پر قبرستان لنڈھاتا ہے۔ نہ آنے کی خوشی نہ جانے کا غم۔ نہ جینے کی خوشی نہ مرنے کا الم۔ ہر شعر سکون افزا اور ہر بند خموشی پر مذا۔ حاضری میں غیر حاضری کا مزا آتا ہے۔ اور ہر حاضر خودبخود اپنے کو خاموش پاتا ہے۔ میں نے جبرئیل امین کو ان کے اس تجزیے پر داد دی۔ مگر اسی کے ساتھ اس خبر پر مبارک باد دی اور کہا کہ پھر عالم ارواح میں ایسی زبان کو بھیجنے میں اتنی دیر کیوں ہے اور یہ آپس میں دشمنی اور بیر کیوں ہے؟ بولے نہ بیر اور غیر کا سوال ہے اور نہ اس کے رہنے اور نہ رہنے میں قیل قال ہے۔ پانچ سال میں یہ مصیبت ٹل جائے گی، اس وقت تک نئی پود تعلیمی اداروں سے پڑھ لکھ کر نکل آئے گی۔ نئی زبان میں ستو سنیں گے اور وہی مقصد زندگی بنیں گے۔ زبان صرف بولی جائے گی۔ اشاروں میں تولی جائے گی۔ میں نے کہا اچھا اچھا سمجھ گیا۔ بات کی تہہ کو پہنچ گیا۔ حمیدہ سلطان اور آل احمد دونوں کو یہ خط دکھا دو اور جن جن کو اس سال بھیج رہے ہو ان کا نام پتہ بتا دو۔ نام نہ یاد ہوں تو نمبر ہی لکھوا دو۔ مگر خط کی رسید بھی بھجوا دو۔

تمہاری عافیت کا طالب

اسد اللہ خاں غالب

مورخہ ۲۷فروری ۶۰ء

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ باقی صدیقی

مرحلہ دل کا نہ تسخیر ہوا

تو کہاں آ کے عناں گیر ہوا

کام دنیا کا ہے تیر اندازی

ہم ہوئے یا کوئی نخچیر ہوا

سنگِ بنیاد ہیں ہم اس گھر کا

جو کسی طرح نہ تعمیر ہوا

سفرِ شوق کا حاصل معلوم

راستہ پاؤں کی زنجیر ہوا

عمر بھر جس کی شکایت کی ہے

دل اسی آگ سے اکسیر ہوا

کس سے پوچھیں کہ وہ اندازِ نظر

کب تبسم ہوا کب تیر ہوا

کون اب دادِ سخن دے باقیؔ

جس نے دو شعر کہے میر ہوا

٭٭٭

کبھی حرم پہ کبھی بتکدے پہ بار ہوا

کہیں کہاں ترا دیوانہ شرمسار ہوا

گزر گیا ہے محبت کا مرحلہ شاید

ترے خیال سے بھی دل نہ بے قرار ہوا

تمہاری بزم میں جب آرزو کی بات چھڑی

ہمارا ذکر بھی یاروں کو ناگوار ہوا

چمن کی خاک سے پیدا ہوا ہے کانٹا بھی

یہ اور بات کہ حالات کا شکار ہوا

نسیمِ صبح کی شوخی میں تو کلام نہیں

مگر وہ پھول جو پامال رہگزار ہوا

روش روش پہ سلگتے ہوئے شگوفوں سے

کبھی کبھی ہمیں اندازہ بہار ہوا

فسانہ خواں کوئی دنیا میں مل گیا جس کو

اسی کی ذکر فسانوں میں بار بار ہوا

کس انجمن میں جلایا ہے تو نے اے باقیؔ

ترا چراغ، چراغ سر مزار ہوا

٭٭٭

کبھی حرم پہ کبھی بتکدے پہ بار ہوا

کہیں کہاں ترا دیوانہ شرمسار ہوا

گزر گیا ہے محبت کا مرحلہ شاید

ترے خیال سے بھی دل نہ بے قرار ہوا

تمہاری بزم میں جب آرزو کی بات چھڑی

ہمارا ذکر بھی یاروں کو ناگوار ہوا

چمن کی خاک سے پیدا ہوا ہے کانٹا بھی

یہ اور بات کہ حالات کا شکار ہوا

نسیمِ صبح کی شوخی میں تو کلام نہیں

مگر وہ پھول جو پامال رہگزار ہوا

روش روش پہ سلگتے ہوئے شگوفوں سے

کبھی کبھی ہمیں اندازہ بہار ہوا

فسانہ خواں کوئی دنیا میں مل گیا جس کو

اسی کی ذکر فسانوں میں بار بار ہوا

کس انجمن میں جلایا ہے تو نے اے باقیؔ

ترا چراغ، چراغ سر مزار ہوا

٭٭٭

نظمیں

جب بارش ہو رہی ہو ۔۔۔ ناصر عباس نیر

بارش ہو رہی ہو

تو بارش کے بارے میں کچھ مت سوچو

بارش کو مت روکو

تم عین برستی بارش میں بارش ہی کو سوچ کر اس کا راستہ روک دیتے ہو

خود اپنی مٹی تک پہنچنے کا راستہ

بارش کو برسنے دو

بارش آسمان سے کوئی نیا پیغام نہیں لاتی

جسے تم سننے کے لیے کبھی کھڑکی، کبھی دروازے تک آتے ہو

اور کبھی سڑک سے ہوتے ہوئے

اس جنگل میں چلے جاتے ہو

جہاں بارش اپنے وجود کی ایک ایک گرہ کھول دیتی ہے

اور کسی قلندر کی طرح رقص کرتی ہے اور اپنے رقص سے

اپنا سنگیت ایجاد کرتی ہے

اور اس سے پہلے کہ جنگل اس سنگیت کو اپنے حافظے میں محفوظ کرے

تیز ہوا کی مدد سے اسے بھیانک شور میں بدل دیتی ہے جسے جنگل یاد نہیں رکھنا چاہتا

بارش ہر بار نئے رقص، نئے سنگیت کے ساتھ آتی ہے

تم اسے دیکھو، اسے سنو

اسے سوچو مت

کچھ اور بھی سوچو مت

گزرے دنوں کی اداس باتوں کو بھی سوچو مت

بارش کے پاس آسمان کا کوئی نیا پیغام نہیں

زمین سے کیا گیا پرانا عہد ہے، بس

جسے وہ نئے نئے انگ سے نبھانے آتی ہے

تمھیں بھی وہ عہد یاد دلانے آتی ہے

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ تنویر قاضی

میلہ گھومنے والے

میلہ گھومتے ہوئے

وہ گُم ہو جاتے ہیں

ابھی تک

گھر تک نہیں پہنچ پائے

پنگھوڑوں کے ساتھ

اُوپر نیچے ہوتے

بے ہنگم گانے سُنتے

کھلونے دیکھتے

چار آنے پاس تھے

جن کا مرُونڈا، جلیبیاں کھاتے

اور بنٹے والی بوتلیں پیتے ہیں

عید گاہ میں لگے

میلے کی چکا چوندھ میں

رنگین گیسی غُبارے

جب چھُوٹے

اُنہیں ساتھ جاتے دیکھا گیا

وہ اب جبری نیلاہٹ کا حصہ بن گئے ہیں

جن کی آنکھوں کے تارے تھے

وہ ان کو

گلیوں، بازاروں، سڑکوں، درگاہوں

دُور اُفتادہ جگہوں پر

تلاش کرتے ہیں

آسمان پر کسی کو شک نہیں ہوتا

٭٭٭

نہیں ممکن کہ مانجھی سے ستارہ دوستی کر لے

ہنسے اتنا

نئی کشتی

پُرانا شوق

دل میں پال رکھا تھا

گلے مل کر خوشی سے

درد کرتے جسم

اک دوجے پہ گرتے تھے

پھر اُس پاداش میں روتے رہے پہروں

خریدی تھی وہ ناؤ

رہن رکھ کر خواب

پائیں باغ بیچا

خاک چھانی اور دریوزہ گری کی

سارباں

ساحل کی ٹھنڈی ریت پر شب کو گواہی دے

ہمارے ہاتھ کانپے دستخط کرتے

وہ دستاویز

اُترتا رنگ و روغن

گوشواروں کے اثاثوں کا

اِدھر چہرے اُترتے تھے

مچھیروں اور ملاحوں کے آبائی گھروں پر مشتمل، اوجھل ہوئی، بستی میں

جانا تھا

بُجھی مشعل

سیہ آندھی، مسافت اور

اندھیرا در اندھیرا

کرتے تھے پیچھا، مگر مچھ

اک صدا دیتے

نہیں ممکن کہ

مانجھی سے

ستارہ دوستی کر لے

٭٭٭

میں تصویریں کھینچتا ہوں

شرجیل انظر کے لئے

چرنوں میں پڑے، آہ و زاری کرتے انسانوں کی

دہشت گردوں کے ہاتھوں مار ے جانے والے

بچے کی ماں کے آنسوؤں کی

مِٹی کو مقتل بننے کی

میں تصویریں کھینچتا ہوں

گھونسلوں سے گرتے پرندوں کی

سراب کے ساتھ سفر کرتے خوابوں کی

پناہ گزینوں کے چہروں پر پھیلتی پیلاہٹ کی

کپاس چُنتی عورتوں کی

بے لباسی میں ڈھلتے پستانوں کو تصویر کرتے

میری پوریں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں

میں تصویریں کھینچتا ہوں

اُس کے اخروٹ لگے ہونٹوں کی سُرخی کی

گالوں کے انار، ناف پر جھُولتے موتی

بالوں کے بال، پنڈلیوں کی چاندی اور سونا پاؤں

آنکھ کی پُتلی میں ہانپتے ہیں

مادھوری ڈکشت کی مشکل مسکراہٹ

اور تجریدی رقص کو

صُوفیوں کے سجائے، تھیا تھیا، پنڈال تک لے جاتا ہوں

فلم ذخیرے کے آخری کلک سے

کائناتی بھید کا منظر بھی

کیمرے میں

محفوظ کر لیتا ہوں

لیکن

اپنی تصویر کھینچنا بھول جاتا ہوں

٭٭٭

ایک شامِ احتجاج ۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

دھوپ بہتی چلی جاتی ہے دریچوں سے پرے

آسماں زرد سے نارنجی ہوا جاتا ہے

سائے گہرے ہوئے جاتے ہیں تری گلیوں میں

اور سب جانتے ہیں آج یہاں

شام چپ چاپ، دبے پاؤں نہیں آئے گی

سرمئی شام کے بڑھتے ہوئے سایوں سے نکل آئے ہیں،

کب ہیں یہ آدمی، یہ ڈھلتے ہوئے سائے ہیں،

ساتھ رہتے چلے آئے ہیں بہت مدت سے،

تیری گلیوں میں، مکانوں میں، جھروکوں میں کسی چاپ کے ابہام کے مانند،

یہ ہمسائے ہیں،

تیری غربت سے بساندی ہوئی گلیوں سے نکل آئے ہیں اس سمت، جہاں

اے مرے شہر، تری سب سے بڑی،

سیکڑوں مہنگی عمارات کے سائے میں پڑی،

ریل کی پٹڑی کے اُس پار سے آئی ہوئی خلقت کو حقارت کی نظر سے تکتی،

دونوں اطراف یہ دو رویہ، سڑک ہے موجود!

جوق در جوق چلے آئے ہیں

آگ پانی میں لگاتے ہوئے ہاتھوں سے مکمل لاعلم

تیرے پانی سے بنے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ آگ ہیں خود

ذہن سیال ہیں اور سوچ کے خالی دھارے ؛ جن میں کچھ بھر دو، بہا دو کچھ بھی

اے مرے شہر، تری گلیوں سے

کیسے تنکوں کی طرح اڑتے چلے آئے ہیں

درد میں ڈوبے مرے شہر، تجھے تھا یہ وہم

یہ ترے واسطے مرہم کوئی لے آئے ہیں

اب اکٹھے جو ہوئے ہیں، تو ذرا غور سے دیکھ

آب سے آگ ہوئے لوگوں کو

زہر رستا ہے یہاں جسموں سے

کوڑھ بہتا ہے یہاں سوچوں میں

جہل بستا ہے دلوں کے اندر

کس کی یرقان زدہ سوچ کی بے رس لے پر،

کھوکھلی باتوں پہ، بھٹکاتے ہوئے نعروں پر،

کسی زر دار کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جلنے کے لیے آئے ہیں

خود سے اکتائے ہوئے، جینے سے گھبرائے ہوئے،

کس کے کہنے پہ چلے آئے ہیں

آدمی کب ہیں بھلا، ڈھلتے ہوئے سائے ہیں!!

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ فرزانہ نیناں

اوس کا لمس

کام کاج نبٹا کر سارے

اپنی ذات میں لوٹ آئی ہوں

سبزے جیسی روشنی والا

اک دروازہ کھلتا ہے

کائی والے رستے پر میں

اس سے گزر کر جاتی ہوں

اپنا شہر، محلے، گلیاں

رستوں کی چمکیلی دھوپ

اوس میں ڈھل کر تکتی ہوں

دل دو رویہ ہو جاتا ہے

سانسیں لمبی لگتی ہیں

ڈھونڈ کے ٹھنڈے نیم کی چھاؤں

میں سستایا کرتی ہوں

کچھ لمحوں کی گہرائی میں

ایک عہد ہے میرے ساتھ

سرخ، گلابی باتوں کے

ذہن میں کتنے پھول پڑے ہیں ۔۔۔!!!

٭٭٭

گہرائیاں

بہت گہری ہے نیند آئی

تری یادوں کے تکیئے پر

کبھی بھی آنکھ نہ کھولوں

کہیں تم لوٹ نہ جاؤ

کوئی مجھ سے نہ یہ پوچھے

کہاں رہتی ہو آخر تم

کسی کو کیوں بتاؤں میں

کہ اک امید کا گھر ہے

جہاں رہتے ہیں ہم دونوں

کبھی ڈوبے

کبھی ابھرے

ستاروں کے نظارے میں

مسلسل ایک سپنے میں۔۔۔!!!

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ سلیم انصاری

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

لہو میں تر بہ تر نظمیں

مری سب بے اثر نظمیں

شکستہ آرزوؤں اور بنجر حسرتوں کی زرد نظمیں

اداسی، کرب اور افسردگی کی سرد نظمیں

بدن بیزار نظمیں

جنوں آثار نظمیں

بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کی عبرتناک نظمیں

برہنہ ساعتوں کے درمیاں بے باک نظمیں

نئی نسلوں کی مبہم، بے یقیں بے کار نظمیں

مری بے سمت سوچوں کی یہ دل آزار نظمیں

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

مری نظموں کے قاری مت بنو تم

وگرنہ اعتبارِ ذات بھی اک دن گنوا دو گے

مجھے رہنے دو اپنی نظم کا قاری

کہ میں تو نظم کی تخلیق کی لذت سے واقف ہوں

مری نظموں کو پڑھ کر کیا کرو گے

کہیں ایسا نہ ہو تم خود

مری نظموں کے اک کردار کی صورت

اداسی کے گھنے جنگل میں کھو جاؤ

تو پھر۔۔

بہتر یہی ہے

مری نظموں کے قاری مت بنو تم

مجھے رہنے دو اپنی نظم کا قاری

٭٭٭

خواہشیں

انوکھی خواہشیں دل میں پنپتی ہیں

ہے پنجرے کے پرندے سے تمنا چہچہانے کی

بجھے دل سے توقع مسکرانے کی

اداسی کے نگر میں مسکراہٹ کے گلابوں کو کھلانے کی

ہواؤں پر لکھے لفظوں کو

پھر سے گنگنانے کی

جو کب کے جا چکے ہیں،

پھر

انہیں واپس بلانے کی

کسی صورت جو ممکن ہی نہیں ہے اب

اسے ممکن بنانے کی

انوکھی خواہشیں دل میں پنپتی ہیں

٭٭٭

نظمیں ۔۔۔ نجمہ ثاقب

تعارف

سر پہ خوف شجر کا سایہ

 اور چنریا کالی تھی ۔

دل کے سندربن میں اس دن

بارش ہونے والی تھی

ایسے میں اک پیڑ کی گیلی

شاخ پہ اتری سرد ہو ا

بولی، اپنا نام بتا

میرے اندر، ناگ سنہرا

تنہائی کا جاگ اٹھا

بل کھا کے

تھوڑا اٹھلا کے

بولا

میں بیساکھ کا بادل

میں سوکھا دریا

میں درویش کی سونی کٹیا

میں خالی درگاہ

٭٭٭

گاؤں کی دو پہر

دن کا راجہ تخت پہ بیٹھا اپنا حکم چلائے

سورج گھر کی دیواروں پہ دھوپ گرانے آئے

شبنم کا من موہنا چہرہ پھول سے نین چرائے

جیسے بلبل کی آنکھوں سے آنسو لڑھکا جائے

بوڑھ تلے سب، پپو گڈو کیڑی کاڑا کھیلیں

بیمانی بیمانی کہتی۔۔۔۔ منیا شور مچائے

 چھاچھ اٹھائے سجنی، سرپہ، جب جب کھیت کو آئے

 ہتھی چھوڑ کے ہل کی، سانبھل،راستہ تکتا جائے

جیواں کے تندور پہ ریشم پیڑا گول گھمائے

ماچھن جھٹ سے سوندھی روٹی اگنی پار لگائے

نیم تلے پوتے کو بوڑھی دادی پنکھا جھولے

بہو پہ نظر جمائے بیٹھی "حق ہو” پڑھتی جائے

بھید بھرے سونے رستوں پر سناٹا کرلائے

کیچڑ میں لیٹی پگڈنڈی ناگن سی بل کھائے

چتکبری گائے کے اوپر چڑیا جا جا پھدکے

لپک لپک کے کوا آئے، سینگوں پہ چڑھ جائے

کوہستان سے کالا بادل اٹھے، مینہ برسائے

پتوں کی پازیب بجے اور ساون نیر بہائے

٭٭٭

ہاتھ کی چکّی

پرانی ڈیوڑھی کی سرخ اینٹوں پہ

دھری وہ ہاتھ کی چکّی

میاں کی بانگ سے کچھ دیر

پہلے جاگ جاتی تھی

پرانی ڈیوڑھی کے داہنی جانب

جھکی چھتنار بیری پہ کئی پنچھی

ہری شاخوں پہ سوکھی گھاس

 کے تکیے لگائے

موج کرتے تھے

کہیں مد ہوش سوتے تھے

کہیں کروٹ بدلتے تھے

کشادہ راہ پہ بیلوں کی جوڑی

اک دھمک کے ساتھ چلتی تھی

تو گلیوں کے کنارے پہ جمی

 دیوار کی بنیاد ہلتی تھی

کبودی شال پہ اٹکے ستارے

آنکھ کے گوشوں سے نیچے تاکتے

سرگوشیوں میں بات کرتے، جھلملاتے تھے

وہ ہنستے مسکراتے رب اکبر کو

 بلاتے تھے

تو اک مانوس حلقے میں جڑے تارے

بڑی بی کی پرانی کھاٹ پہ

 چھاؤں گراتے تھے

خدا کے نام سے کھٹیا میں گویا

جان پڑتی تھی

بڑی بی اٹھ کے جاتی تو

بھڑولی کوری صحنک میں،

چھپا گیہوں اگلتی تھی

گھرر گھر چکّی چلتی تھی

بڑی بی اپنے سارے دکھ

غم و اندوہ کی گتھلی

سنہری رزق کے ہمراہ چکّی میں

گرا دیتی

وہ پتھر کے گڑاؤ میں

جما دستہ پکڑتی اور

چکّی کو چلا دیتی

وہ اس چکی کے پاٹوں میں

سبھی ارمان, اولادوں کی فرقت

 سے جڑے قصے

ادھوری کھوکھ کی باتیں

اکیلے پن کے دھاگے سے بنی راتیں

گیہوں میں دبا کے پیستی اور

کوری صحنک کو

کناروں تک سحر کی روشنی

 سے , نور کی دھارا سے بھر دیتی

سیہ شیشم کی لکڑی سے بنی

 رنگیں مدھانی کو

محبت سے اٹھاتی اور بھری

چاٹی میں دھر دیتی

سپیدہ صبح کا بیدار ہوتا تو

پرندے شاخچوں پہ چہچہاتے

اور جھکی چھتنار بیری پہ کئی پنچھی

خدا کے نام کی تسبیح کرتے

زمانے رفتہ رفتہ بیتتے جاتے

فلک کو چومتے , اونچے مناروں

سے کہیں اوپر

میاں کی بانگ اب بھی سر اٹھاتی ہے

پرندے شاخچوں پہ چہچہاتے

خدا کے نام کی تسبیح کرتے ہیں

مگر رنگیں مدھانی آج تک

رعشہ زدہ ان انگلیوں کی راہ

 تکتی ہے

شکستہ ڈیوڑھی کی چھت سے کچھ نیچے

کسی کی یاد کی برکھا برستی ہے

پرانی ہاتھ کی چکّی

ہتھیلی کو ترستی ہے

٭٭٭

مانگے کا اجالا

رقص کے بعد ۔۔۔ لیو ٹالسٹائی (روس) /صابرہ زیدی

’’تو آپ لوگوں کا کہنا ہے کہ آدمی اپنے طور پر اچھے بُرے میں تمیز نہیں کر سکتا، آپ کہتے ہیں کہ سب کچھ ماحول کا کرشمہ ہے اور ماحول ہی انسان کی تخلیق کرتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب کچھ اتفاق کا کھیل ہے۔ کم سے کم اپنے بارے میں تو میں یہ کہہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔‘‘

ہم لوگ اس موضوع پر بات چیت کر رہے تھے کہ فرد کی شخصیت کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے پہلے اس ماحول کو، ان حالات کو بدلنا ضروری ہے ان میں انسان اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ سو اس بات چیت کے خاتمے پر ایوان واسی لئیوچ نے جن کی سب لوگ بہت عزت کرتے ہیں، یہ بات کہی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ بطور خود اچھے بُرے میں امتیاز کرنا نا ممکن ہے۔ لیکن ایوان واسی لئیوچ کی عادت ہے کہ وہ خود اپنے ان خیالات کا جواب دینے لگتے ہیں جو کسی گفتگو یا بحث و مباحثے کے دوران ان کے ذہن میں اُبھرتے ہیں اور پھر یہ خیالات ان کی زندگی کے جن تجربات کی یاد تازہ کرتے ہیں وہ انہیں بیان کرنے لگتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ اپنی داستان میں اسی بری طرح محو ہو جاتے ہیں کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے وہ داستان کیوں سُنانی شروع کی تھی۔ وہ بڑے جوش و خروش، لگن اور خلوص سے ہر قصہ سناتے ہیں اس لیے وہ اور بھی کھو جاتے ہیں۔

اس دفعہ بھی بالکل یہی ہوا۔

’’کم از کم اپنے متعلق تو میں یہی کہہ سکتا ہوں۔ میری زندگی کی تشکیل تو اسی طرح ہوئی اور کسی طرح نہیں، اس میں جو کچھ تبدیلی پیدا ہوئی وہ ماحول کی دین نہیں ہے بلکہ کسی اور ہی چیز کی دین ہے۔‘‘

’’کس چیز کی؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

’’یہ ایک لمبا قصہ ہے۔ اور جب تک میں الف سے یے تک سب کچھ نہ سناؤں آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آ سکتا۔‘‘

’’تو سُنائیے نا!!!‘‘

ایوان واسی لئیوچ ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گئے، پھر سر ہلا کر بولے:

’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔ بس ایک رات نے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ ایک صبح نے میری زندگی کی کایا پلٹ کر دی۔‘‘

’’بتائیے تو سہی کیا ہوا؟‘‘

’’ہوا یہ کہ میں بُری طرح عشق میں مبتلا ہو گیا۔ میں اس سے پہلے بھی چند بار گرفتارِ عشق رہ چکا تھا لیکن یہ کچھ اور ہی چیز تھی، یہ سب سے زیادہ گہری محبت تھی۔ اب اس واقعے کو مدتیں گزر گئیں۔ اب تو میری محبوبہ کی پٹیاں بھی گھر بار والی ہو چکی ہیں۔ اس کا نام وارنکا، ’ب‘ وہ پچاس سال کی عمر میں بھی غیر معمولی حسین تھی۔ لیکن چڑھتی جوانی میں، سترہ اٹھارہ برس کے سن میں تو قیامت تھی قیامت۔۔ سرو قد، سیم تن اور نازک بدن، چھبیلی اور پُر شکوہ۔۔ ۔ ہاں، ہاں پُر شکوہ۔ اور ‘چال جیسے کڑی کمان کا تیر!’ معلوم ہوتا تھا چھکنا تو اس کے جسم نے سیکھا ہی نہیں۔ اس کا سر ہمیشہ خفیف سا پیچھے جھکا رہتا تھا۔ حالانکہ وہ ہڈیالے پن کی حد تک دبلی تھی مگر اس کی اس ادا، اس کے حسن و رعنائی اور اس کے سرد قامتی نے مل کر اس میں کچھ ایسا شاہانہ وقار پیدا کریا تھا کہ اگر وہ اتنی شوخ و شنگ نہ ہوتی، اگر اس کی مسکراہٹ اس قدر من موہنی اور اس کی آنکھیں اتنی قیامت خیز نہ ہوتیں اور اس قدر تجلیاں نہ بکھیرتیں، اگر اس کا پورا وجود اتنا پیارا، اتنا نوخیز اور اتنا دلفریب نہ ہوتا اس کے رعب حسن وے آدمی نظریں تھوڑا ہی اٹھا سکتا!‘‘

’’ایوان واسی لئیوچ تو شاعری کر رہے ہیں، شاعری!‘‘

’’میں چاہے جتنی شاعری کروں، چاہے جتنا زور بیان صرف کروں، مگر آپ لوگوں کے سامنے اس کی جیتی جاگتی تصویر نہیں پیش کر سکتا۔ لیکن خیر اس بات کا اصل قصے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں جو واقعہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں، اس صدی کے وسط میں پیش آیا تھا۔

’’اس وقت میں ایک علاقائی شہر کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ میں نہیں جانتا یہ بات اچھی تھی یا بری، بہرحال اس زمانے میں ہماری یونیورسٹی میں یہ طرح طرح کے اسٹڈی سرکل اور دنیا بھر کی فلسفہ بازیاں، یہ سب کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ہم جوان تھے اور وہی زندگی بسر کرتے تھے۔ جو جوانی کا تقاضا ہے۔ ہم پڑھتے لکھتے تھے، کھیل اور تفریح میں حصہ لیتے تھے۔ میں بڑا خوش باش، تفریح پسند اور زندہ دل نوجوان تھا اور اس پر طرہ یہ کہ مالدار بھی تھا۔ میرے پاس گھوڑا تھا۔ بڑا برق رفتار اور جاندار۔ سو میں اکثر لڑکیوں کو گاڑی میں گھمانے پھرانے لے جایا کرتا تھا (اس وقت تک اسکیٹنگ کا اتنا فیشن نہیں ہوا تھا)۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مے نوشی کی محفلوں میں شریک ہوتا تھا (اس زمانے میں ہم لوگ شمپیئن کے علاوہ اور کسی شراب کو چھوتے بھی نہ تھے۔ جب ہماری جیبیں خالی ہوتیں تو ہم کچھ بھی نہ پیتے کیونکہ ہم آج کل کے لوگوں کی طرح وودکا نہیں پیتے تھے۔)۔ لیکن سب سے زیادہ لطف تو مجھے دعوتوں، پارٹیوں اور رقص کی محفلوں میں آتا تھا۔ مجھے ناچنا خوب آتا تھا اور میں شکل صورت میں بھی بُرا نہیں تھا۔‘‘

’’ارے خواہ مخواہ خاکساری نہ کیجئے‘‘ سننے والی عورتوں میں سے کسی ایک نے لقمہ دیا۔ ‘‘ہم سب نے آپ کا اس زمانے کا فوٹو دیکھ رکھا ہے۔ آپ تو بہت خوبرو اور رعنا جوان تھے کبھی۔‘‘

’’خیر ہوں گا کبھی مگر اس کا اصل قصے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں تو جس زمانے میں میرا عشق اپنے پورے شباب پر تھا میں ایک دفعہ ماسلینیتسا (جاڑوں کو رخصت کرنے کے لیے ایک سلافی تہوار) کے دنوں میں رقص کی محفلوں میں شریک ہوا۔ یہ محفلِ رقص گورنر کی طرف سے ہوتی تھی، وہ بہت نیک اور خوش مزاج بڑے میاں تھے اور مہمان داری کے بے حد شائق۔ ان کی بیوی جو انہیں کی طرح خوش مزاج اور مشفق تھیں، اپنے شوہر کے پہلو بہ پہلو مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑی تھیں۔ وہ مخملی فراک زیب تن کیے ہوئے تھیں اور ان کے سر پر ایک مرصع کلغی تھی جس میں ہیرا جگمگا رہا تھا، ان کی سفید براق اور گداز گردن اور شانے، جس پر بڑھاپے نے اپنی پرچھائیں ڈال دی تھیں، اس طرح عریاں تھے جیسے ملکہ ایلیزادیتا پیتردونا کی تصویروں میں ہوتے ہیں۔ محفلِ رقص بہت ہی شاندار رہی۔ رقص کا کمرہ بڑا سجا سجایا اور نظر فریب تھا۔ محفل میں بڑے مشہور و معروف مغنی اور موسیقار موجود تھے۔ جو ایک موسیقی کے دلدادہ جاگیردار کے خانہ زاد تھے۔ کھانے پینے کی چیزیں بہ افراط تھیں اور شمپیئن کے تو دریا بہہ رہے تھے۔ میں شمپیئن کا خاصا رسیا تھا مگر میں نے اسے چھوا بھی نہیں کیونکہ مجھ پر تو محبت کا نشہ چڑھا ہوا تھا۔ مگر جہاں تک ناچنے کا سوال ہے میں اتنا ناچا کہ تھک کر چور ہو گیا۔ کون سا ایسا رقص تھا جسے میں نے چھوڑ دیا ہو، والز میں نے کیا، کوادریل ناچ میں ناچا اور پولکا رقص میں بھی شریک رہا۔ ظاہر ہے کہ میں نے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ رقص وارنکا کے ساتھ کیے۔ وہ سر سے پاؤں تک سفید لباس میں ملبوس تھی، صرف اس کی کمر پر گلابی پیٹی بندھی تھی، اس کے سفید چمڑے کے دستانے اس کی نکیلی اور دبلی کہنیوں سے نیچے تک تھے، اور وہ پاؤں میں سفید چمڑے کے دستانے اس کی نکیلی اور دبلی کہنیوں سے نیچے تک تھے، اور وہ پاؤں میں سفید ساٹن کے جوتے پہنے ہوئے تھی۔ ایک نامعقول انجینئر انیسیموف کے ساتھ مازور کا رقص کرنے بیچ میں کودا۔ اس کی اس حرکت کو میں نے آج تک معاف نہیں کیا۔ جوں ہی وارفکا نے رقص گاہ میں قدم رکھا اس انجینئر نے اسے رقص کی دعوت دے ڈالی۔ میں اس وقت اپنے دستانے لینے اور حجام کے پاس گیا ہوا تھا، اسی لیے مجھے کچھ دیر لگ گئی۔ سو اس کے ساتھ مازورکا ناچنے کے بجائے میں ایک جرمن لڑکی کے ساتھ ناچا جس سے ایک زمانے میں مجھے خاصی دلچسپی رہ چکی تھی، مگر میرا خیال ہے کہ اس شام میں اس کے ساتھ خاصی نا شائستگی سے پیش آیا، میں نے اس سے دو بول بھی نہیں کہے اور نہ ہی اس کی طرف نظر بھر کر دیکھا۔ میری نگاہوں کا مرکز تو ایک سفید کپڑوں اور گلابی پیٹی والی سہی قامت، لچکیلی نازنین تھی جس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے، چہرہ تابناک اور گلنار تھا اس جس کی حسین آنکھوں میں دلنوازی تھی۔ اور میں ہی کیا وہ تو ہر شخص کی نگاہوں کا مرکز تھی، ہر ایک ہی اس مر مٹا تھا، یہاں تک کہ عورتیں بھی اسے تعریفی نظروں سے دیکھ رہی تھیں حالانکہ اس کے حسن کے سامنے وہ سب ماند پڑ گئی تھیں۔ اصل میں اس کی بارگاہِ حسن میں خراجِ عقیدت پیش نہ کرنا ممکن ہی نہ تھا۔

’’نام کو تو میں ‘مازورکا’ کا ساتھی نہیں تھا لیکن در اصل تقریباً تمام وقت میں اسی کے ساتھ ناچتا رہا۔ بلکہ کسی قسم کی جھجھک یا شرم کے وہ کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ناچتی ہوئی میرے پاس آتی تھی اور جب میں اس دعوت کا انتظار کیے بغیر ہی اس کی طرف لپکتا تھا تو میرے پاس آتی تھی اور جب میں اس کی دعوت کا انتظار کیے بغیر ہی اس کی طرف لپکتا تھا تو وہ اپنی ان کہی خواہش کو سمجھ لینے پر ایک تبسم ناز سے میرا شکریہ ادا کرتی تھی۔ جب ناچ کے وقت ہم لوگ اس کے پاس لائے جاتے تھے اور اسے میری خصوصیت کا اندازہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اپنے دبلے پتلے کندھے جھٹک کر کسی دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھا دیتی اور اظہارِ افسوس اور ہمدردی ہوا تو میں دیر تک اس کے ساتھ والز کرتا رہا۔ اس کا سانس پھول پھول جاتا لیکن وہ مسکرا مسکرا کر مجھ سے کہتی، مکر ر، اور میں اس کے ساتھ ناچتا ہی چلا گیا۔ اس وقت مجھے اپنے تن بدن کا ہوش نہ تھا گویا میرا جسم ہوا کا بنا ہوا ہو۔‘‘

’’کیا کہا تن بدن کا ہوش نہ تھا؟ مجھے یقین ہے کہ جس وقت آپ کا بازو اس کی کمر کے گرد حائل تھا اس وقت آپ کو نہ صرف اپنے بلکہ اس کے بدن کا بھی خوب اچھی طرح احساس ہو گا‘‘ ایک مہمان بول اُٹھا۔

ایوان واسی لئیوج کا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا اور وہ غصے میں تقریباً چیخ کر کہنے لگے۔

’’یہ بات تو تم نئی پود کے نوجوانوں پر صادق آتی ہے۔ تم لوگوں کو جسم کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہمارے زمانے میں یہ بات نہیں تھی۔ مجھے جس لڑکی سے جتنی زیادہ گہری محبت ہوتی تھی میرے نزدیک وہ اتنی ہی زیادہ آسمانی مخلوق بن جاتی تھی۔ تم لوگوں کو بس ٹانگوں اور پنڈلیوں اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کا احساس ہے، تم تو تخیل میں اپنی محبوباؤں کے جسم سے کپڑے اتار ڈالتے ہو۔ لیکن میرے نزدیک تو عظیم ادیب الفونس کار کے الفاظ میں محبوبہ کا پیکر گویا آہنی جامے میں ملبوس رہتا تھا۔ ہم لوگ تو حضرت نوح کے نیک بیٹے کی طرح عریانی کو نمایاں کرنے کے بجائے اس کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے تھے لیکن تم بھلا یہ بات کیسے سمجھ سکتے ہو۔‘‘

’’اس کی پرواہ نہ کیجیئے، آپ تو اپنا قصہ بیان کیے جائیے‘‘ ایک اور سننے والے نے کہا۔

’’ہاں تو میں زیادہ تر اسی کے ساتھ ناچتا رہا اور مجھے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ سازندے تھک کر چور ہو چکے تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں ہر محفل رقص کے آخر میں کیا حال ہوتا ہے۔۔ وہ مسلسل مازورکا کی دھُن بجاتے رہے۔ اماں اور ابا تاش کی میزیں چھوڑ چھوڑ کر کھانے پینے کی امید میں ملاقاتی کمرے سے نکلنے لگے، وردی پوش ملازم کھانا لے کر ادھر سے ادھر دوڑنے بھاگنے لگے۔ تین بجا چاہتے تھے۔ ہمیں ان چند آخری لمحوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا تھا۔ میں نے ایک بار پھر اسے ناچنے کی دعوت دی اور ہم سویں بار پھر کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ناچتے چلے گئے۔

’’کھانے کے بعد کوادریل ناچ تو میرے ہی ساتھ ہو گا نا؟‘‘ میں نے اپنی محبوبہ کو واپس اس کی جگہ پر پہنچاتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں ضرور، بشرطیکہ میرے والدین مجھے گھر نہ لے گئے، اس وقت تک‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’میں انہیں لے جانے ہی کب دوں گا۔‘‘ میں بولا۔

’’اسے واپس کرتے ہوئے مجھے افسوس ہو رہا ہے‘‘ میں نے اس کی معمولی، سفید پنکھیا ایک پر نوچ کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’میں نے پر لے لیا اور صرف نگاہوں ہی نگاہوں میں اپنے بے پایاں وجد و مسرت اور تشکر کا اظہار کیا۔ میں صرف مسرور اور مگن ہی نہیں تھا مجھ پر تو کمال بے خودی، گہری مسرت، سچی سرخوشی اور انبساط کی کیفیت طاری تھی، میں اس وقت بڑا وسیع القلب ہو رہا تھا، میں، میں نہیں تھا بلکہ کوئی ایسی مخلوق تھا جو اس دھرتی کی نہیں تھی، جو برائی سے کوسوں دور تھی، جو صرف نیکی ہی نیکی کرنا جانتی تھی۔ میں نے پر اپنے دستانے میں ٹھونس لیا اور اسی جگہ کھڑا رہ گیا گویا زمین نے میرے پاؤں پکڑ لیے ہوں۔ مجھ میں اس سے دور جانے کی طاقت نہیں تھی۔

’’دیکھیے لوگ پاپا سے رقص کے لیے اصرار کر رہے ہیں، اس نے ایک دراز قد اور شاندار شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ اس کے باپ تھے۔ وہ فوج میں کرنل تھے اور ان کی وردی میں نقرئی جھبے لگے ہوئے تھے۔ وہ دروازے میں کھڑے ہوئے خاتون خانہ اور چند دوسری عورتوں سے بات چیت کر رہے تھے۔

’’وارنکا، یہاں آنا ذرا، ہیرے کی کلغی والی خاتون خانہ نے اسے آواز دی۔‘‘

وارنکا دروازے کی طرف بڑھی اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا۔

’’پیاری ذرا اپنے پاپا کو اپنے ساتھ رقص کرنے پر راضی تو کرو۔ اور پھر کرنل کی طرف مڑ کر خاتون خانہ نے کہا: ’’پیوتر ولادی سلاوچ کر لیجیئے نا ایک رقص۔‘‘

’’وارنکا کے باپ بڑے وجیہ، بلند قامت، خوبصورت اور شاندار بوڑھے تھے اور ان میں ابھی جوانی کا دم خم باقی تھا۔ ان کے چہرے پر سرخی رہتی تھی اور سفید مونچھیں نکولائی اول کے انداز میں مڑی ہوئی تھیں، ان کے گل مچھے کنپٹیوں کی طرف مڑے ہوئے تھے اور ان کی چمکدار آنکھوں میں اور ہونٹوں پر وہی جاندار مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی جو ان کی بیٹی کی خاص چیز تھی۔ ان کی کاٹھی بڑی اچھی تھی، سینہ خوب فراخ تھا اور فوجی انداز میں تنا رہتا تھا، اس پر چند فوجی تمغے جگمگاتے تھے، ان کے شانے مضبوط تھے ٹانگیں لمبی اور خوبصورت۔ وہ نکولائی اول کے سے فوجی انداز کے پرانی وضع کے افسر تھے۔

’’جب ہم دروازے کے قریب پہنچے تو سنا کہ کرنل یہ کہہ کر ناچنے سے انکار کر رہے ہیں کہ وہ تو سب کچھ بھول بھال گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ مسکرائے، اپنی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے نیام سے نکالا اور قریب کھڑے ہوئے ایک نوجوان کو پکڑا دیا جو اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ پھر انہوں نے سوئیڈ کا ایک دستانہ اپنے دائیں ہاتھ پر چڑھایا۔ ’’ہر چیز قاعدے کے مطابق ہونی چاہیئے۔‘‘ انہوں نے مسکرا کر کہا اور اپنی بیٹی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ناچنے والے کا انداز اختیار کیا اور تال کا انتظار کرنے لگے۔

’’مازورکا ناچ کی تال پڑتے ہی انہوں نے اپنا ایک پاؤں بہت جاندار اور پھرتیلے انداز سے زمین پر مارا اور دوسرے پاؤں پر تیزی سے گھوم گئے اور پھر ان کا لمبا چوڑا جسم پوری رقص گاہ میں تھرکنے لگا۔ وہ بار بار اپنا ایک پاؤں دوسرے سے ٹکراتے، کبھی دھیرے دھیرے اور بڑی خوش ادائی اور لطافت کے ساتھ ناچتے تو کبھی بہت پھرتی، توانائی اور تڑپ کے ساتھ۔ وارنکا کو کومل اور رعنا پیکر اپنے باپ کے ساتھ ساتھ تیر رہا تھا۔ وہ غیر محسوس طریقے سے لیکن بالکل وقت پر اپنے سفید ساٹن میں چھپے ہوئے چھوٹے چھوٹے پیروں کو اپنے باپ کے قدموں کی حرکت سے ہم آہنگ کر رہی تھی۔ سارے مہمان ٹکٹکی باندھے اس جوڑے کی ہر ادا اور ہر جنبش کو دیکھ رہے تھے۔ اور میں ان دونوں کو محض تعریف کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہا تھا، مجھ پر تو اس وقت ایک نشاط و بے خودی کی کیفیت طاری تھی۔ خاص طور پر کرنل کے بوٹوں کو دیکھ دیکھ کر مجھ پر بہت اثر ہو رہا تھا۔ وہ عمدہ چمڑے کے بوٹ تھے لیکن بالکل بے ایڑی کے اور ان کے پنجے اس وقت کے فیشن کے مطابق نکیلے ہونے کے بجائے چوڑے تھے۔ غالباً وہ بٹالین کے موچی کے بنائے ہوئے تھے۔ بچارے بڑے میاں فیشن ایبل بوٹوں کے بجائے یہ چپٹے پنجوں کے جوتے پہنتے ہیں تاکہ اپنی لاڈلی بیٹی کو اچھے اچھے کپڑے زیور سے سجا کر سوسائٹی میں لا سکیں، میں نے دل ہی دل میں سوچا اور اسی لیے مجھے ان کے چپٹے پنجے والے بوٹوں نے اتنا متاثر بھی کیا۔ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ وہ کبھی بہت اچھا ناچتے ہوں گے لیکن اب ان کا جسم خاصا بھاری پڑ گیا تھا ٹانگوں میں اتنی لچک نہیں رہی تھی کہ وہ ان تمام خوبصورت اور پھرتیلی جنبشوں اور چکروں سے عہدہ برا ہو سکیں جن کی وہ کوشش کر رہے تھے۔ پھر بھی دو دفعہ تو انہوں نے بڑی عمدگی سے کمرے کے چکر لگائے۔ اور جس وقت انہوں نے پھرتی سے دونوں ٹانگیں پھیلائیں، پھر انہیں ایک دوسرے سے ٹکرایا اور ذرا بوجھل سے انداز میں ایک گھٹنے کے بل بیٹھ گئے اور اس نے مسکراتے ہوئے اپنا اسکرٹ چھڑایا جو کرنل سے الجھ گیا تھا اور ان کے گرد تیرنے سی لگی تو تالیوں سے ہال گونج اُٹھا۔ وہ کوشش کر کے کھڑے ہوئے اور بیٹی کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں نرمی سے لے کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر وہ اسے میرے پاس لے آئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کا رقص کا ساتھی میں ہی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ بات نہیں ہے تو انہوں نے اپنی تلوار نیام میں رکھتے ہوئے تپاک سے مسکرا کر کہا:

’’خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب آپ اس کے ساتھ رقص کریں۔‘‘

’’جس طرح ساغر و مینا سے ٹپکا ہوا پہلا قطرہ اپنے پیچھے ایک پوری دھار لے کر آتا ہے اسی طرح وارنکا سے مجھے جو محبت تھی اس نے میرے دل میں محبت کی ساری خفتہ صلاحیتوں کو جگا دیا، میری روح میں محبت کے سارے سوتے ابل پڑے، میرے محبت نے ساری دنیا کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ میں ہیرے سے مرصع کلغی والی خاتون خانہ کے لیے، ان کے شوہر کے لیے، ان کے مہمانوں کے لیے، ان کے وردی پوش ملازم کے لیے، یہاں تک کہ اس کم بخت انیسیسموف کے لیے بھی جو مجھ سے یقیناً خفا تھا محبت محسوس کر رہا تھا۔ اور رہے میری محبوبہ کے باپ جن کی مسکراہٹ خود اس کی مسکراہٹ سے اس قدر مشابہ تھی اور جو چوڑے پنجے کے جوتے پہنتے تھے، سو ان کے لیے تو اس وقت میرے دل میں ایک عجیب وجد آفریں محبت کا جذبہ پیدا ہو چکا تھا۔

’’مازورکا ختم ہوا تو ہمارے میزبانوں نے سب کو کھانے کی دعوت دی۔ لیکن کرنل ’ب‘ نے کھانے سے انکار کر دیا، انہوں نے کہا کہ انہیں صبح سویرے اُٹھنا ہے اور میزبان سے اجازت چاہی۔ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں وارنکا کو بھی وہ اپنے ساتھ نہ لے جائیں لیکن وہ اور اس کی ماں رہ گئیں۔

’’کھانے کے بعد میں نے اس کے ساتھ وہ کوادریل رقص کیا جس کا اس سے وعدہ لے چکا تھا اور حالانکہ مجھے خیال تھا کہ میری مسرت نے اب اپنی آخری حدوں کو چھو لیا ہے لیکن یہ تھی کہ ہر لمحہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ہم دونوں نے پریم کے چرچے نہیں کیے، میں نے نہ اس سے پوچھا، نہ خود اپنے دل سے سوال کیا کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے یا نہیں۔ میرے لیے یہ کافی تھا کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے اگر کوئی اندیشہ تھا تو یہ کہ کہیں کوئی چیز میری مسرت کو خاک میں نہ ملا وے۔

’’جب میں گھر پہنچا اور کپڑے وغیرہ اتار کر سونے کا ارادہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ نیند کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرے ہاتھ میں اس کا دیا ہوا پر تھا اور اس کا ایک دستانہ جو اس وقت اس نے مجھے دیا تھا جب میں اسے اور اس کی ماں کو گاڑی میں سوار کرا رہا تھا۔ ان چیزوں کو دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے اس کی وہ تصویر آ گئی جب اس نے ہم دو میں سے ناچ کے ساتھی کا انتخاب کرنے کے کھیل میں میرا فرضی نام بھانپ لیا تھا اور بڑی پیاری اور رسیلی آواز میں پوچھا تھا ‘خودار ٹھیک ہے نا؟’ اور خوش ہو کر میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا، پھر میری چشمِ تصور نے اسے کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے دیکھا جب وہ نزاکت سے شمپیئن کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے رہی تھی اور مجھ پر محبت پالش نگاہیں ڈال رہی تھی۔ لیکن میرے تخیل میں اس کی سب سے زیادہ صاف اور روشن تصویر تو اس وقت کی ابھرتی تھی جب وہ اپنے باپ کے ساتھ اس قدر رعنائی اور نازک ادائی کے ساتھ رقص کر رہی تھی اور فخر و مسرت کے جذبات سے پر، سارے سراہنے والے اور تعریفی نگاہیں ڈالنے والے تماشائیوں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خود اپنی وجہ سے بھی خوش اور نازاں تھی اور اپنے باپ کی وجہ سے بھی۔ اور اس وقت غیر ارادی طور پر میں نے اس کے اور اس کے باپ دونوں کے لیے ایک ہی سا گہرا اور نرم و لطیف جذبہ محسوس کیا تھا۔

’’اس زمانے میں میرے مرحوم بھائی اور میں ایک ساتھ رہتے تھے۔ میرے بھائی کو سوسائٹی سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ کبھی رقص کی محفلوں میں نہیں جاتے تھے۔ اب وہ ایم اے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے اور بڑی مثالی زندگی گزارتے تھے۔ اس وقت وہ سوئے ہوئے تھے۔ ان کا سر تکیے میں دھنسا ہوا تھا اور آدھا سر کمبل سے ڈھکا تھا۔ میں نے جب اس حالت میں انہیں دیکھا تو مجھے ان پر بڑا ترس آیا۔ مجھے اس لیے ترس آیا کہ وہ اس خوشی سے محروم ہیں جو مجھے میسر ہے۔ ہمارا خانہ زاد ملازم پیتروشا شمع لیے آیا اور کپڑے وغیرہ اتارنے میں میری مدد کرنا چاہی۔ مگر میں نے اسے چلتا کر دیا۔ مجھے اس کا نیند سے ماتا چہرہ اور بکھرے بال دیکھ کر بڑا ترس آیا۔ اس خیال سے کہ کہیں کوئی آواز نہ ہو میں پنجوں کے بل چلتا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور پلنگ پر بیٹھ گیا۔ میرا پورا وجود سرشار مسرت تھا، ایسے میں بھلا نیند کہاں اوپر سے کمرے میں گرمی بھی بہت تھی، سو میں اپنی وردی اتارے بغیر ہی خاموشی سے دلان میں آ گیا اور اوور کوٹ پہنا، باہر کا دروازہ کھولا سڑک پر نکل آیا۔

’’میں کوئی پانچ بچے تو رقص ہی سے لوٹا تھا اور اب اسے بھی دو گھنٹے ہو چکے تھے، سو جس وقت میں باہر نکلا تو پو پھٹ رہی تھی۔ یہ ماسلینیتسا کا خاص موسم تھا۔ ہر طرف دھندلکا چھایا ہوا تھا، سڑکوں پر گیلی برف پگھل رہی تھی اور چھتوں سے پانی ٹپ ٹپ گر رہا تھا۔ ان دنوں کرنل ‘ب’ مضافات شہر میں رہتے تھے۔ ان کا مکان ایک کھلے میدان کے اس پار تھا، جس کے ایک طرف لڑکیوں کا اسکول تھا اور دوسری طرف چہل قدمی کے واسطے جگہ تھی۔ میں اپنی چھوٹی سی سنسان گلی سے گزر کر بڑی سڑک پر آیا۔ وہاں اب راہ گیر بھی نظر آ رہے تھے۔ اور وہ گاڑی بان بھی جو برف گاڑیوں میں ایندھن لاد کر لیے جا رہے تھے۔ گاڑیوں کے دھرے برف کو چیر کر سڑک کے پتھروں تک پہنچ رہے تھے اور مجھے ہر چیز۔۔۔ روغن کیے ہوئے جوؤں کے نیچے بڑے آہنگ سے پسینے سے تر سر ہلاتے ہوئے گھوڑے، کندھوں پر بوریاں ڈالے اور لمبے لمبے جوتے پہنے گاڑی بان جو اپنی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ پگھلتے ہوئے برف پر چل رہے تھے، سڑک کے دونوں طرف استادہ مکان جو دھند میں بہت اونچے اونچے معلوم ہو رہے تھے۔۔ غرض ہر چیز مجھے اس وقت خاص طور پر پیاری، دلکش اور خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔

جب میں اس میدان کے قریب پہنچا جہاں ان لوگوں کا مکان تھا تو میں نے دیکھا کہ مکان کے آخر میں ٹہلنے کی جگہ پر کوئی کالی کالی اور بڑی سی چیز متحرک ہے اور ساتھ ہی مجھے طبل کی گمک اور بانسری کی فریاد بھی سُنائی دی۔ میرا دل تو پورے وقت گاہی رہا تھا اور گاہے بگاہے مازور کی موسیقی بھی میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ مگر یہ تو کسی اور ہی قسم کا سنگیت تھا۔۔ بڑا ہی ناخوشگوار اور سمع خراش۔

’’یہ کیا چیز ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ پھر میں اس ڈھلواں سڑک پر ہو لیا، جو گاڑیوں کے گزرنے کے لیے میدان کے آر پار بنائی گئی تھی اور انہیں آوازوں کی سمت چلنے لگا۔ کوئی سو قدم چلنے کے بعد مجھے دھند کے پیچھے لوگوں کا ایک مجمع سا نظر آنے لگا۔ غالباً سپاہی ہوں گے۔ شاید قواعد کر رہے ہیں، میں نے سوچا اور آگے بڑھتا گیا۔ میرے سامنے ایک لوہار بھی چل رہا تھا جس کی جیکٹ اور پیش بند پر چکنائی کے داغ دھبے پڑے ہوئے تھے اور ہاتھ میں ایک بڑا سا بنڈل تھا۔ ہم دونوں سپاہیوں کے قریب پہنچ گئے۔ سیاہ کٹوں میں ملبوس سپاہی دو قطاروں میں آمنے سامنے بے حس و حرکت کھڑے تھے۔ وہ اپنی بندوقیں زمین پر ٹکائے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے ایک بانسری نواز اور نقارچی کھڑے تھے اور وہ مسلسل وہی ناخوشگوار اور تیز دھن بجائے جا رہے تھے۔

’’یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں اپنے پہلو میں کھڑے ہوئے لوہار سے سوال کیا۔

’’کسی تاتاری کو بھاگنے کی سزا دے رہے ہیں، لوہار نے اس دوہری قطار کے سب سے دور والے حصے کی طرف دیکھتے ہوئے خفگی سے جواب دیا۔

’’میں بھی ادھر ہی دیکھنے لگا اور مجھے دونوں صفوں کے درمیان کوئی خوفناک چیز اپنی طرف آتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔ یہ ایک آدمی تھا جو کمر تک ننگا تھا۔ وہ بندوقوں سے بندھا ہوا تھا جن کو دو سپاہی کھینچ رہے تھے۔ اس کے برابر ایک دراز قد افسر فوجی کوٹ اور ٹوپی پہنے چل رہا تھا۔ اس کا قد و قامت اور چال ڈھال مجھے کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہوئی۔ قیدی کا پورا جسم تشنجی انداز سے پھڑک رہا تھا، اس کے پاؤں پگھلتی ہوئی برف پر بڑی بُری طرح گھسٹ رہے تھے۔ اور دو دو طرفہ داروں کے درمیان آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ کبھی تو چھپ کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتا، جس پر وہ دونوں سپاہی جو بندوقوں کے دونوں سرے پکڑے ہوئے تھے اس کو جھٹکے سے آگے کھینچ لیتے تھے اور کبھی تیزی سے آگے جھپٹتا تو وہی سپاہی جھٹکے سے اس کو پیچھے کھینچ لیتے تھے کہ کہیں یکبارگی وہ گر نہ پڑے۔ قیدی کے ساتھ ساتھ وہی دراز قد افسر مضبوط قدموں سے چلتا ہوا ہماری طرف آ رہا تھا۔ وہ کبھی ایک منٹ کے لیے بھی پیچھے نہیں رہا۔ یہ لال گالوں اور سفید مونچھوں اور گل مچھوں والا شخص وارنکا کا باپ تھا۔

’’ہر وار پر قیدی اپنا دکھ اور کرب سے بگڑا ہوا چہرہ اسی طرف اٹھاتا تھا جدھر سے وار ہوتا تھا، گویا زبانِ حال سے اظہار حیرت کر رہا ہو۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا، سفید سفید دانت نظر آ رہے تھے اور وہ مسلسل کسی بات کی تکرار کیے جا رہا تھا۔ لیکن جب تک وہ میرے بالکل قریب نہیں آ گیا میں اس کے الفاظ سمجھ نہیں سکا۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔ کہہ کیا رہا تھا۔۔ سسکیوں کے درمیان اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل رہے تھے، بھائیو، رحم کرو، میرے اوپر رحم کرو، بھائیو۔۔ لیکن بھائیوں کو ذرا بھی رحم نہ آیا۔ جب یہ جلوس بالکل میرے سامنے پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک سپاہی بڑے تیہے کے ساتھ قطار سے نکلا اور آگے بڑھ کر اپنا ڈنڈا اس قدر زور سے تاتاری کی پیٹھ پر جمایا کہ ہوا میں اس کی آواز گونج گئی۔ جب تاتاری آگے کی طرف چھک گیا تو سپاہوں نے پھر اسے جھٹکے سے سیدھا کر دیا اور مخالف سمت سے اس پھر ایک زور دار ہاتھ پڑا، اس کے بعد ادھر سے پڑا، پھر اس طرف سے پڑا۔۔ کرنل اس کے ساتھ چل رہا تھا، وہ کبھی تو اپنے پیروں کو دیکھنے لگتا اور کبھی قیدی پر نظریں گاڑ دیتا، وہ خوب زور زور سانس لے کر بہت سی ہوا اندر کھینچتا، کلے پھلاتا اور پھر دھیرے دھیرے اپنے کھلے ہوئے منہ سے ہوا باہر نکال دیتا۔ جب یہ جلوس ٹھیک اس جگہ سے گزرا جہاں میں کھڑا تھا تو مجھے سپاہیوں کی قطاروں کے بیچ سے قیدی کی پیٹھ کی ایک جھلک دکھائی دی۔ یہ گیلی، سرخ اور موٹے موٹے نشان پڑی ہوئی پیٹھ کچھ ایسی غیر فطری اور ناقابلِ بیان چیز تھی کہ الفاظ اس کی تصویر کھنچنے سے قاصر ہیں۔ مجھے یقین نہیں آ سکا کہ یہ انسانی جسم کا کوئی حصہ ہو سکتا ہے۔

اُف اللہ! میرے نزدیک کھڑے ہوئے لوہار نے زیرِ لب کہا۔

’’جلوس آگے بڑھ گیا۔ اس دبکتے، ڈرتے، گرتے پڑتے بدنصیب شخص پر دونوں طرف سے مار پڑتی رہی، بانسری روتی رہی، طبل گمکتا رہا اور دراز قد، شاندار کرنل قیدی کے ساتھ ساتھ بڑی ثابت قدمی سے چلتا رہا، یکبارگی کرنل رک گیا اور پھر تیزی سے ایک سپاہی کے پاس گیا۔

’’وار خالی گیا؟ اچھا میں تجھے مزا چکھاتا ہوں۔۔۔ ‘‘ میں نے کرنل کی غضبناک آواز سُنی۔ لے اور لے!

’’اور میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے مضبوط ہاتھ سے جس پر سوئیڈ کا دستانہ چڑھا ہوا تھا اس کمزور اور منحنی سے سپاہی کے منہ پر زور کے کئی تھپڑ رسید کیے کیونکہ اس سپاہی کا ڈنڈا تاتاری کی سرخ کمر پر کافی سختی سے نہیں پڑا تھا۔

’’نیا ڈنڈا لاؤ!‘‘ کرنل نے حکم دیا۔ یہ کہہ کر وہ مڑا اور اسی لمحے اس کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی۔ لیکن اس نے یہ ظاہر کیا گویا مجھے پہچانا ہی نہ ہو اور نے انتہا سختی، بد مزاجی اور خفگی سے تیوری پر بل ڈال کر دوسری طرف مڑ گیا۔ میں اس قدر شرمندہ ہوا کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کدھر دیکھوں گویا میں کوئی بہت ہی شرمناک حرکت کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔ میں سر جھکائے تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔ پورے راستے میرے کانوں میں طبل کی گمک اور بانسری کی گریہ زاری، تاتاری کے الفاظ رحم کرو، بھائیو۔۔ رحم اور کرنل کی خود اعتمادی سے لبریز غضبناک آواز، ‘لے اور لے۔۔۔۔‘ یہ سب کچھ گونجتا رہا۔ میرا دل اس بری طرح دکھ رہا تھا جیسے سچ مچ اس میں درد ہو رہا ہو، اس روحانی کرب کی شدت سے مجھے متلی ہونے لگی تھی اور اسی وجہ سے راستے میں کئی بار رکنا پڑا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب الٹی ہوئی کہ تب ہوئی۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کس طرح گھر پہنچا اور کیسے پلنگ پر لیٹا۔ لیکن جوں ہی میری آنکھ ذرا سی لگی پھر وہی سب کچھ سنائی اور دکھائی دینے لگا اور میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

’’یقیناً اسے کوئی ایسی بات معلوم ہے جو مجھے نہیں معلوم، میں نے دل ہی دل میں کرنل کے بارے میں سوچا۔ اگر وہی بات جس سے وہ واقف ہے مجھے بھی معلوم ہو جائے تو میری سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا اور میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس سے مجھے قدر روحانی اذیت اور کرب نہیں ہو گا۔ میں نے اپنے دماغ پر خوب زور دیا لیکن ہزار کوشش پر بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو کرنل کو معلوم ہے۔ مجھے کسی صورت نیند نہیں آئی، میں صرف شام ہوتے ہو سکا اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ایک دوست کے پاس جا کر خوب پی پلا کر نشے میں چور گھر لوٹا تھا۔

آپ سمجھتے ہوں گے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جو چیز میں نے دیکھی تھی وہ بری تھی؟ قطعی نہیں۔ اگر میں نے جو کچھ دیکھا اسے لوگ اس قدر خود اعتمادی کے ساتھ کرتے ہیں اور سب اس چیز کو ضروری سمجھتے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کو کوئی ایسی بات معلوم ہے جو مجھے معلوم یہ تھا وہ نتیجہ جس پر میں پہنچا اور میں نے جاننے کی کوشش کی کہ آخر وہ کیا بات تھی۔ لیکن کبھی نہ جان سکا۔۔ اور چونکہ میں وہ جان نہیں سکا اس لیے میں نے کبھی فوج کی نوکری بھی نہیں کی۔ حالانکہ شروع میں میرا یہی ارادہ تھا۔ اور فوج ہی میں کیا، میں نے کبھی کہیں اور کسی قسم کی ملازمت نہیں کی اور نتیجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے ایک نکما اور بے کار محض آدمی بیٹھا ہے۔‘‘

’’ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کس قسم کے نکمے اور بے کار محض آدمی ہیں۔‘‘ ایک مہمان نے کہا۔ ’’اگر یہ کہا جانتے تو کہیں زیادہ صحیح ہو گا کہ آپ نے نہ جانے کتنوں کو نکما اور بے کار محض ہونے سے بچا لیا۔‘‘

’’یہ کیا حماقت کی بات کرتے ہو۔‘‘ ایوان واسی لئیوچ نے واقعی جھنجھلا کر کہا۔

’’اچھا یہ تو بتائیے کہ آپ کے عشق کا کیا انجام ہوا؟‘‘ ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’میرا عشق؟ اس دن سے میرے عشق پر اداسی سی پڑ گئی۔ جب کبھی ہم دونوں ساتھ ٹہلنے لگتے اور وہ اپنے خاص سوچ میں ڈوبے انداز میں مسکراتی تو فوراً کرنل کی میدان والی تصویر میرے حافظے میں ابھر آتی اور اس کی وجہ سے مجھ پر ایک عجیب سی گھبراہٹ اور بے چینی کی کیفیت طاری ہو جاتی اور طبیعت مکدر ہو جاتی۔ سو رفتہ رفتہ میں نے اس سے ملنا ہی بند کر دیا۔ اور اس طرح ہمارے عشق کے سوتے سوکھ گئے۔ تو جناب ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں دنیا میں اور اسی قسم کے واقعات انسان کی پوری زندگی کو بدل ڈالتے ہیں، اس کا رخ موڑ دیتے ہیں، اور آپ ہیں کہ ماحول ماحول چلاتے ہیں۔۔‘‘ انہوں نے اس طرح اپنی بات ختم کی۔۔ ۔۔ انتخاب و کمپوزنگ: یاسر حبیب

٭٭٭

مضامین

جون ایلیاء اچھا شاعر ہے بڑا شاعر نہیں ہے ۔۔۔ فرحت عباس شاہ

 میرے اس مضمون میں نوجوانوں کو با وقار، با شعور، با ہمت اور بہادر دیکھنے کی تمنا رکھنے والے عظیم المرتبت شاعر علامہ اقبال کی فکر اور نظرئیے کے توڑ کے طور پر بڑا شاعر بنا کر پیش کیے جانے والے، رائیگاں، مایوس، برباد اور ناکام جون ایلیاء کے موضوع پر بات مرکزی ہونے کے باوجود شاید آپ کو ضمنی لگے اور میرا فکری انتباہ مرکزی نقطہ دکھائی دے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہو گا کیونکہ اس سے ایک مدعے سے متعلقہ احوال سامنے لانے کا مقصد معاشرے کی اس زبوں حالی کی طرف توجہ دلانا ہے جو پوری منصوبہ بندی سے پوری دنیا میں مذہبی جنونیت پیدا کرنے کے بعد وہی ترکیب آزماتے ہوئے ادب کے نام پر نوجوانوں اور مفاد پرست ادیبوں پر آزمائی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے بھی وہی فلتھی سرمایہ دار کلاس سرگرم ہے جو دنیا کی سیاسی سماجی، معاشی اور علمی بیخ کنی پر لگی ہوئی ہے۔ جون بیچارے کتنے مظلوم ہیں کہ وفات کے بعد انہی شیطانی قوتوں کا ٹول بن گئے ہیں جو فیض احمد فیض جیسے شاعر کی نظریاتی قوت کو ٹکے ٹوکری کر چکے ہیں۔ جون ایلیاء سے پہلی ملاقات یاد نہیں، لیکن لاہور میں بے شمار ملاقاتوں کی یادیں ابھی بھی ماضی کے دریچوں میں جھلملاتی ہیں۔ جون کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلُو ان کا بچوں کی طرح بے قرار و مضطرب رہنا اور اپنی ذات کی تباہی میں خود اپنا ہاتھ ہونے کا احساس جرم تھا۔ ان کو یہ بھی احساس تھا کہ ان کی مشاعروں میں کامیابی ان کی شاعری کے باعث کم اور پرفارمنس کی وجہ سے زیادہ تھی۔ جون اپنی گفتگو میں تسلسل کے ساتھ اعتراف کرتے تھے کہ وہ اس پائے کے شاعر بھی نہ بن پائے کہ دنیا کو بتا سکتے کہ میں جو سماج سے ٹوٹا ہوا اور شراب میں غرق ہوں آخر کو میر و غالب سے بڑا شاعر بھی تو ہوں۔ فلسفہ خصوصاً مابعدالطبیعات کا مطالعہ انہیں گھر سے ہی ملا تھا۔ اس مطالعہ کے اثرات نہ تو ان کی شاعری میں کہیں نظر آتے ہیں نہ گفتگو پر حاوی ہو سکے۔ یوں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ ایک خالص شاعر تھے بلکہ شاعر کا اس تصور کا ہو بہ ہو پرتو تھے جو ہمیں آج سے پچاس سال پہلے کے عوامی تاثر میں ملتا ہے۔ ایک بے عمل اور تباہ حال انسان نہ جسے اپنی ذات سے کوئی خاص دلچسپی ہے نہ کسی سماجی ذمہ داری کا رونا دھونا۔ ایک ناکام عاشق، ناکام شوہر اور بے حس باپ جس کو روزانہ کے عشق، شراب اور مشاعرے کے علاوہ دنیا کی کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔ برس ہا برس پیچھا کرنے والے اس تاثر سے بمشکل جان چھوٹی تھی کہ نامعلوم لابیوں نے جون ایلیاء کی شکل میں نہ صرف ایک نمونہ مزید پیش کر دیا بلکہ اس کو اتنا پروموٹ کیا جا رہا ہے کہ کچے ذہنوں کے مالک نوجوان اسے ایک مثالی انسان سمجھنے کے دباؤ سے نکل ہی نہ پائیں۔ پروین شاکر نے سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اور میں نے مارشل آرٹس میں مہارت حاصل کر کے بمشکل اس تاثر کو زائل کیا تھا کہ شاعر صرف حالات اور ناکام عشق کا مارا ہوا نہیں ہوتا بلکہ ایک با عمل ذمہ دار اور زندگی سے بھرپور انسان ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ایک بار پھر سستی شاعری کرنے والے، شرابی اور کھوکھلے لوگوں کو عظیم بنا کے پیش کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا میں مقام دلا کر واپس اسی تباہ حال تاثر کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل کے تخلیقی اذہان کو پستی میں دھکیل دیا جائے۔ اس میں تھوڑا بہت حصہ کراچی کے ان دیار غیر میں رہنے والے چند شعراء کا بھی ہے جو کسی بڑے شاعر کا حوالہ دے کر اس کی پناہ میں اپنے ہونے کا جواز فراہم کر سکیں۔

جون ایلیاء کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا ذکر بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ زبان محاورتاً نہیں بلکہ حقیتاً ان کے گھر کی لونڈی تھی لیکن جس طرح جون ایلیاء نے اسے لباس شعر بنایا یہ اردو میں بہت کم کم شعراء کے حصے میں آیا ہے۔ جون کی شاعری کی دوسری بڑی خوبی بے تکلفی ہے۔ ان کے ہاں شعر کسی خواہ مخواہ کے تکلف کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ایسی بے ساختگی کے ساتھ وجود میں آتا ہے کہ قاری اور خصوصاً سامع کو ہمکلام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

 ہمارے ہاں کے بیشتر شعراء اپنی تمام تر مشکلات، دکھوں، پریشانیوں اور اضطراب کا ذمہ دار عام طور پر محبوب، زمانے اور تقدیر کو ٹھہراتے ہیں لیکن جون اپنے تمام اخلاقی جرائم کا الزام کسی دوسرے پر ڈالنے کی بجائے خود اپنے اوپر لیتے ہیں اوراس کی تمام تر ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بلکہ ایسا ایسا الزام اپنے سر لینے کی جرأت رکھتے ہیں جس سے بچنے کے لیے لوگ ساری ساری زندگی دلیلیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں۔ شعر دیکھئیے

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہو کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

 اس شعر میں عجیب ہونا خود کو تباہ کرنے کے المیے کی بجائے اپنی تباہی پر ملال تک نہ ہونے کے سانحے کی نشاندیہی ہے۔ اگرچہ مجھے لگتا ہے کہ ملال ان کو ہے لیکن اس ملال کا کوئی اوپائے نہ کر پانے کا احساس بھی ہے جو دوبارہ انہیں اسی احساس جرم کا شکار کر دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ درج بالا شعر کو جون کی زندگی اور فن کا نمائندہ ترین شعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کی تمام شاعری محبت کے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے حالات کے علاوہ کہیں کہیں خاندانی معاملات کے دائرے میں سفر کرتی ہے۔ ان کے ہاں کسی جگہ بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ ایک گہری تاریکی ہے جو چاروں طرف پھیلی ہے۔ اس تاریکی کو شعر میں بدلنے والی قوت کوئی مربوط فکر، کوئی نظریہ یا آدرش نہیں بلکہ صرف زبان کا حسن ہے جو جون کے عمومی موضوعات کو بھی شعری حسن بخشتا ہے۔

 درج ذیل غزل ان کی شاعری میں میری فیورٹ ترین غزل ہے جس میں جون ہمیں اپنی شاعری کی بلندی پر نظر آتے ہیں۔

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں

یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں

ہم غریبوں کی آن بان میں کیا

خود کو جانا جدا زمانے سے

آ گیا تھا مرے گمان میں کیا

شام ہی سے دکان دید ہے بند

نہیں نقصان تک دکان میں کیا

اے مرے صبح و شام دل کی شفق

تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا

آ رہا ہے مرے گمان میں کیا

دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت

خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے

اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

ہے نسیم بہار گرد آلود

خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

اس غزل میں جون کے تخلیقی وصف کا ایسا عروج ملتا ہے کہ جس کے بعد خود شاعر کے اپنے کلام میں اس پائے کا اظہار ان کی پوری شاعری میں کہیں نظر نہیں آتا۔ جون کی پہلی کتاب آج بھی ان کے باقی کلام پر بھاری ہے جو اپنے وقت سے بہت دیر بعد شائع ہوئی۔ میں نے دیکھا ہے کہ دیر سے شعری مجموعہ شائع کرنے والوں کے ہاں سب سے پہلی چیز جس کو نقصان پہنچتا ہے وہ ہے شعری ارتقاء۔ جون کے شعری مجموعوں کا اگر بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو ارتقاء کی بجائے ترقی معکوس ہی نظر آتی ہے جس کے پیچھے مشاعروں میں ان کی مقبولیت اور داد کے حصول کا عمل دخل کارفرما ہے۔ مشاعرے کے حاضرین کو گرفت میں لینا اور ان کی پوری توجہ و دلچسپی کو آخر تک برقرار رکھنا تو جون کو حاصل ہو گیا لیکن ان کے ہاں موضوعات کی ندرت، رفعت خیال حتیٰ کہ نظریۂ شعر تک موجود نہیں۔ اگرچہ اشارے ملتے ہیں لیکن مجھے کہنے دیجئیے کہ شراب کی لت اور مشاعروں میں پذیرائی نے اردو ادب کو ایک ممکنہ بڑے شاعر سے محروم کر دیا۔ جون کے ہاں ایسے اشعار کی بھرمار ہے جو روایتی اور کمزور شعراء کے وطیرے کا درجہ رکھتے ہیں مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئیے۔۔ ۔

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

جون بنیادی طور پر فراریت یعنی Escapeism کا شاعر ہے۔ اس کی پوری شاعری میں حقیقت کو چکمہ دینے کا رویہ نمایاں اور غالب نظر آتا ہے۔ خود کو مورد الزام ٹھہرانے کے پیچھے یہ نفسیاتی حربہ پوشیدہ ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا مورد الزام ٹھہرائے شاعر خود کو الزام دے کر یا اپنی تخلیقی و سماجی ناکامیوں کا اعتراف کر کے طعن و تشنیع کی بجائے ہمدردی سمیٹنا چاہتا ہے۔ جون کی بیکار زندگی اور شاعری کی فراریت ہی در اصل معاشرے اور ادب کو نقصان پہچانے والی قوتوں کی توجہ جون کی طرف مبذول بنانے کی بنیادی وجہ نظر آتی ہے تاکہ اقبال کے شاہین کے تصور کے سامنے حقیقت سے آنکھیں چُرا کر اور سماجی و انسانی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر کے رائیگانی اور بربادی میں پناہ لینے والی نوجوان نسل پیدا کی جائے۔ اور وہ فیک پرسیپشن بنانے والوں کا نہ تو تجزیہ کرنے کی اہل ہو نہ ان کی بربریت کا اندازہ لگانے کی اہلیت کھتی ہو۔

 ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ بحث بھی کچھ زیادہ مناسب محسوس نہیں ہوتی کہ جون ایلیا بڑا شاعر ہے کہ نہیں لیکن سوشل میڈیا پر جون کو ایک آئیڈیل مرشد شاعر بنا کر پیش کرنے کے خفیہ ایجنڈے نے جہاں۔۔ ۔۔ ہماری نا بلد نوجوان نسل کے اذہان کو گرفت میں لے کر انہیں ایک ایسے شاعر کو عظیم سمجھ بیٹھنے کی واردات کو عقیدے کی شکل دے دی گئی ہے جس نے ساری زندگی ایک طرف ایک بے ترتیب اور ایسے ظالم انسان کے طور پر گزاری جس نے شفقت سے کبھی اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ نہ رکھا اور اپنی شاعری کی ناکامی کا اعتراف خود اپنی پہلی کتاب ” شاید “ کے دیباچے میں کیا۔

 ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاید‘ 1990 میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ جب یہ مجموعہ قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا اس وقت ان کی عمر تقریباً 60 برس تھی۔ اس سلسلے میں ’شاید‘ کے اداریہ بعنوان ’نیازمندانہ‘ میں جون ایلیا نے خود لکھا ہے کہ ’’یہ میرا پہلا مجموعۂ کلام یا شاید پہلا اعتراف شکست ہے جو انتیس تیس برس کی تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائے گاں گیا “

یعنی پہلے سے مایوسی کی دلدل میں پھنسے نوجوانوں کو ایک ایسے شاعر کے پیچھے لگا دیا گیا جو کسی طرح کی سماجی ذمہ داری پوری کرنے سے منکر ہو گیا اور دوسری طرف اپنے خاندان کی کفالت سے بھی عاری رہا۔۔ ۔۔ بالغ نظر لوگوں کے لیے اشارہ کر رہا ہوں کہ جون ایلیاء کو باقاعدہ علامہ اقبال کی فکر کے کاونٹر کے طور پر لانچ کیا گیا ہے کہ اقبال جو نوجوانوں کو خود آگاہ، مضبوط اور انقلابی دیکھنا چاہتا ہے وہاں ایک ایسا شاعر عظیم بنایا جا رہا ہے جو محبوب سے چپیڑیں کھاتا ہے، شراب میں دھت رہتا ہے اور اپنی ناکامی کو فخر سے بیان کرتا ہے مگر شرمندہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ جون ہی کے عہد کے شعراء عدیم ہاشمی، سلیم کوثر، رام ریاض، صابر ظفر اور بیدل حیدری جیسے طاقتور شعراء اپنے پورے شعری و تخلیقی طمطراق کے ساتھ موجود ہیں مگر ان کا حق مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو جون ایلیاء سے کہیں زیادہ قد آور اور ارفع ہیں۔ عدیم ہاشمی جس کی غزل میں جدت اور تجربات کا بلند آہنگ سرمایہ ملتا ہے صرف اگر اس کی غزل کو تازگی بخشنے کی کاوش ہی کو مد نظر رکھ لیا جائے تو جون ایلیاء اس کے آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔ عدیم کے دو اشعار دیکھئیے۔۔ ۔

 جو لکھا ہے میرے نصیب میں کہیں تو نے پڑھ تو نہیں لیا

ترا ہاتھ سرد ہے کس لیے ترا رنگ زرد ہے کس لیے

۔۔ ۔

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو

میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھُو سکتا نہ تھا

۔۔ ۔۔

رام ریاض کا شعر دیکھئیے

 پتھر کی طرح تُو نے مرا سوگ منایا

دامن نہ کبھی چاک کیا بال نہ کھولے

۔۔ ۔۔ ۔

بیدل حیدری کے دو اشعار دیکھئیے

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی

ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

بیدلؔ لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا

اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

۔۔ ۔۔ ۔۔

سلیم کوثر کا شعر دیکھئیے

ہم نے تو خود سے انتقام لیا

تم نے کیا سوچ کر محبت کی

۔۔ ۔۔ ۔

صابر ظفر کا شعر دیکھئیے

شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا

زندگی مَیں تجھے ناکام نہ ہونے دوں گا

۔۔ ۔۔

میں نے جس طرح جون کے حوالہ اشعار ڈھونڈ کر پیش کیے ہیں درج بالا اشعار صرف یاد ہونے کی بنیاد پر لکھے ہیں کیونکہ مجھے یہاں کوئی موازنہ کرنا مقصود نہیں ہے ورنہ ان شعراء کے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک ارفع و اعلی اشعار موجود ہیں۔ نہ صرف اعلی اشعار بلکہ سلیم کوثر کی نظمیں، صابر ظفر کے گیت، عدیم ہاشمی کی مکالماتی غزلیں اور رام و بیدل کی نظریاتی شاعری ان شعراء کو اس رتبے پر فائز کرتی ہے جس سے اوپر جون جیسے شعراء کو بٹھانا نہ صرف ادبی جرم ہے بلکہ ظلم بھی ہے۔ وہ ادب بڑا ادب کیسے ہو سکتا ہے جو روشنی کی سمت نمائی سے محروم ہو۔ بڑے ادب کے تقاضے بہت مختلف ہیں چلیں ضروری نہیں کہ ہر شاعر نظریاتی ہو یا نظریہ ساز ہو لیکن کم از کم انسانی نفسیات اور عہد کی جمالیات ہی بیان کرنے پر قادر ہو تو اسے کسی سنگھاسن پر بٹھایا جا سکے۔ فراریت، مایوسی، عہد شکنی، قنوطیت، بے حسی، لاتعلقی اور محبت کے سستے اظہار سے کیا برآمد کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر جون کو بڑا نہیں تو اہم شاعر ہی قرار دیا جا سکے۔ میرے خیال کے مطابق جون صرف ایک اچھا شاعر ہے جس نے اپنا رونا پیٹنا زبان کی پوری چاشنی اور شعری بے ساختگی کے ساتھ بیان کیا ہے اور ایسے میں اس سے کہیں کہیں اچھے اشعار بھی سرزد ہوئے ہیں۔

اس سارے قضئیے میں میرا مقصد جون کی شاعری کا حقیقی تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ایجنڈے کی نشاندیہی بھی کرنا ہے جس پر عمل درآمد سے ہمارے ادیب اور ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ یہ پرپیگنڈا اتنا طاقتور ہے کہ اچھے خاصے ذہین لوگ اس کا شکار نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کو دور دور تک یہ شائبہ نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کس کس طرح ہماری علمی و ادبی اقدار، فنون اور سماجی جمالیات پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ آئیندہ کچھ ہی مہینوں میں آپ کو پاکستان، اومان، بحرین، قطر اور دبئی میں جون ایلیاء کے جشن ہوتے نظر آئیں گے۔ مختلف پارٹیوں سے پروپوزلز مانگ لی گئی ہیں اور فنڈز ایلوکیٹ کیے جا چکے ہیں۔ کچھ سامنے اور پس پردہ رہ کر کام کرنے والوں میں پیسوں اور مشاعروں کی ذلتوں کے مارے لوگ نظر آئیں گے جو جام پر جام لنڈھانے والے متشاعروں اور تماش بینوں کو دعوتیں دیں گے۔ نہ حقیقی شاعری ہو گی نہ سنجیدہ ادبی مکالمہ بس جشن ہو گا اور مختلف اکاونٹس سے پیسہ نکل کر ادبی خون چوسوں کی جیبوں میں چلا جائے گا۔ کیا احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر یا سلیم کوثر اس قابل نہیں کہ ان کا جشن منایا جائے اور نہیں تو اس امجد اسلام امجد کا ہی جشن منا لیں جو ان کے فیسٹیولز کا لازمی جز بنے رہے۔ آخر جون ایلیاء جیسا شاعر ہی کیوں اتنا مقدس بنایا جا رہا جس کی شاعری اور زندگی میں روشنی کی رمق تک نظر نہیں آتی اور ٹوٹل دس بارہ غزلوں پر اسے اتنا بڑا ٹریبیوٹ دیا جا رہا ہے۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے پیچھے کتنا پیسہ، کتنے وسائل اور لابیاں کام کر رہی ہیں ہمارے معصوم لوگوں کا اس طرف دھیان تک نہیں جاتا۔ صرف اتنا ہی غور کر لیا جائے کہ جون ایلیاء کو کس طرح کامیابی سے شعری عقیدہ بنایا جا رہا ہے کہ ایسے نوجوان جو شعری فہم سے ہی محروم ہیں جون کے بارے کوئی بات سننا گوارہ نہیں کرتے اور گالیاں دینے میں جون اور اپنی عزت محسوس کرتے حالانکہ اس میں خود جون کی روح کے لیے شرمندگی کا مقام ہے اس پر طرہ یہ کہ کتنے ہی نوجوان شاعر ایسے بھی ہیں جو اچھی خاصی شاعری کرتے کرتے پیسے اور شہرت کے لیے جون کو اپنا والد محترم بنا کر سستے شعر کہنے اور پوری اداکاری سے پیش کرنے میں عزت محسوس کرنے لگے ہیں۔ جبکہ لاتعداد نوجوان جو سنجیدہ اور اعلیٰ شعر کہہ رہے ہیں ان کو بے دردی سے پیچھے دھکیل رکھا جا رہا ہے۔ آخر میں نوجوان شاعر راول حسین کے دو اشعار پیش کر کے آج کے موضوع کو کلوز کرتا ہوں۔

 کارخانے سے چھٹیاں لوں گا

گاوں میں فصل کی کٹائی پر

 ایک بوسیدہ شہر ہاتھ لگا

اک نئے شہر کی کھدائی پر

٭٭٭

رضا براہینی:  ایران کے بائیں بازو کے مابعد جدید شاعر، نقاد ناول نگار اور سیاسی مزاحمت کار ۔۔۔  احمد سہیل

رضا براہینی {Reza Baraheni}  1935  میں تبریز میں پیدا ہوئے۔  22 سال کی عمر میں انہوں نے تبریز یونیورسٹی سے انگریزی زبان اور ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔  پھر، وہ ترکی گئے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ایران واپس آئے۔  اپنے شعبے میں ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا۔

رضا براہینی نے تنقید، شاعری اور کہانی گوئی کی کئی ورکشاپس کا انعقاد کیا، جس کی وجہ سے 1970 کی دہائی میں ایک ادبی تحریک وجود میں آئی۔  1972 میں وہ امریکہ گئے اور تدریس کا آغاز کیا۔  وہ 30 سال سے زیادہ کینیڈا میں مقیم رہے۔  ان کا انتقال 25 مارچ 2022 کو ٹورنٹو، کینیڈا میں ہوا اور وہ 9 اپریل 2022 کو ایلگین ملز قبرستان، کینیڈا میں پیوند زمیں ہوئے۔

اگرچہ انھوں نے ایران میں فرانسیسی زبان سیکھی، لیکن فرانس اور بیلجیم کے قیام کے دوران کے دوران انھوں نے اپنی زبان کو بہتر بنایا۔ 

وہ ایک ادبی جریدے ’سوخان‘ کے ایڈیٹر تھے اور 1979 کے ایرانی انقلاب سے پہلے اپنے ترجمے کے کام کے لیے ایوارڈ جیتے تھے۔ انھیں شاہ ایران کی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار بھی کیا تھا اور ان کو تین مہینے زندان میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔

 رضا براہینی نے اپنے دوستوں اور ساتھی مصنفین جلال الاحمد اور غلام حسین سعیدی کے ساتھ مل کر 1966 میں پہلا قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں اگلے سال ایران کی مصنفین کی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔  اس سال شاہ کے وزیر اعظم امیر عباس ہویدا کے ساتھ ان کی ملاقات، شاہ کی حکومت کے ساتھ کھلے عام تصادم کا باعث بنی، جس نے ایرانی عصری تاریخ کے ایجنڈے پر حقیقی جمہوریت کی طرف ابتدائی قدم کے طور پر فکر کی بلا رکاوٹ ترسیل کی جد و جہد کو جگہ دی۔  رائٹرز ایسوسی ایشن آف ایران کو سرکاری طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی تنظیم میں تبدیل کرنے کے لیے ملک کے کچھ مشہور مصنفین کی جد و جہد کے باوجود، شاہ کی حکومت نے انجمن کو دبا دیا، اس کے بہت سے اراکین کو ڈرایا، کچھ کو گرفتار کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔  اس کے اراکین میں رضا براہینی، جو ٹیکساس اور یوٹاہ میں ایک سال کی تدریسی پوزیشن مکمل کرنے کے بعد امریکہ سے واپس آئے تھے، شامل تھے۔  1973 میں انہیں گرفتار کر کے تہران میں قید کر دیا گیا۔  رضا براہینی نے دعویٰ کیا کہ اس پر تشدد کیا گیا اور اسے 104 دنوں تک قید تنہائی میں رکھا گیا (حوالہ:  خدا کا سایہ، جیل کی نظمیں، 1976؛ دی کراؤنڈ کینیبلز، 1977، ای ایل ڈاکٹرو کا تعارف}

انگریزی زبان کے ایک مضمون میں رضا براہینی نے اپنی گرفتاری اور جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں بیان کی ہیں۔  اس نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ ان کی گرفتاری کا بہانہ کتاب ’مرد کی تاریخ‘ اور مضمون ’ظالم کی ثقافت اور مظلوموں کی ثقافت‘ کی اشاعت تھی جس میں انھوں نے ایرانیوں کی ثقافتی خودمختاری کا مطالبہ کیا تھا۔

رہائی کے بعد رضا براہینی تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے۔  اسی دہائی کے دوران، اس نے ایران اور امریکہ کا سفر جاری رکھا، اور سوشلسٹ ورکرز پارٹی میں ان کی رکنیت نے انہیں پہلوی حکومت کے مخالف کے طور پر پیش کیا، جس کی وجہ سے وہ ایران سے ہجرت کر گئے اور اپنی سیاسی اور ادبی سرگرمیاں امریکہ میں جاری رکھی۔ 

بائیں بازو کے مصنف اور دانشور کی حیثیت سے محمد رضا پہلوی سے ان کی مخالفت جاری رکھی۔  اور وہ اسلامی انقلاب کی فتح کے موقع پر ایران واپس آئے۔  انہوں نے 2 بہمن 1357 کو اخبار التعلیمات میں جو مضمون شائع کیا وہ کئی دہائیوں تک پڑھا گیا اور زیر بحث آیا۔  انھوں نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ ’عظیم علمائے اسلام نے دنیا کے لوگوں کو حیران کر دیا تھا‘ اور یہ کہ ’سامراج خود ہی مروڑ رہا تھا۔‘ انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ شاہ کے جانے کے بعد اور امام خمینی کی واپسی کے موقع پر سامراج ایک بغاوت کی سازش کر رہا ہے۔

انقلاب سے پہلے کے مہینوں میں، رضا براہینی، جنہوں نے اپنی جلاوطنی کے آخری مہینوں میں آیت اللہ خمینی کے قریبی شخصیت ابراہیم یزدی سے ملاقات کی تھی، نے انہیں جنوری 1957 میں آیت اللہ خمینی کے نام ایک خط ارسال کیا تھا، جو اس میں شائع ہوا تھا۔  ابراہیم یزدی کی یادداشتیں رہبر معظم انقلاب اسلامی کو لکھے گئے خط میں، اس نے اپنا تعارف مرحوم جلال الاحمد اور ڈاکٹر شریعتی”کے دوست کے طور پر کرایا اور اپنی ’اسلام اور ایرانی انقلاب کے اس عظیم رہنما سے ملنے کی بے تابی‘ کے بارے میں لکھا۔  جناب براہنی نے آیت اللہ خمینی کی ’سادہ، نپے ہوئے، قابل فہم، اظہار خیال، انسانی اور شعوری الفاظ‘ کی تعریف کی اور خط کے ساتھ منسلک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے کہا کہ ’آپ کی رہنمائی اور رہنمائی سے محروم نہ رہیں ‘۔

لیکن اسلامی انقلاب کے لیے عقیدت اور حمایت کے اس اظہار نے بھی انقلاب کے بعد کے سالوں میں مسٹر براہینی کو آسانی سے ایران میں فعال نہیں بنایا۔  بائیں بازو کے بہت سے دوسرے دانشوروں کی طرح، وہ بھی آہستہ آہستہ پسماندہ ہو گئے اور بالآخر ایران چھوڑ کر چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنی باقی زندگی جلاوطنی کی زندگی گزاری۔

رضا براہینی نے اپنے نئے انداز کو ’زبان کی شاعری کا بہاؤ‘ قرار دیا۔  لیکن اس کا ثقافتی اور ادبی اثر انقلاب اسلامی کے کئی سال بعد ظاہر ہوا۔  مسٹر براہینی نے شاعری، تنقیدی اور کہانی سنانے کی ورکشاپس منعقد کیں، اور انقلاب کے بعد کے دور کے اہم شاعر اور ادیب خود کو اپنے ’طلبہ‘ سمجھتے تھے۔  اس نے اور ان نوجوان شاعروں نے 1970 کی دہائی میں ایرانی ادب میں شاعری کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔

رضا براہینی مابعد جدید ایرانی شاعری کے بنیاد گزار  شاعر مانے جاتے ہیں۔ رضا براہینی نے اپنے نئے انداز کو ’زبان کی شاعری کا بہاؤ‘ قرار دیا جس کا آغاز کتاب ’تتلیوں سے خطاب‘ اور ’کیوں میں اب نیمائی کا شاعر نہیں رہا‘ کی اشاعت سے ہوا۔  ادبی نقادوں اور ماہرین لسانیات نے اسے ’مابعد جدید شاعری‘ کا نام دیا ہے۔  تاہم، پچھلی تین دہائیوں کے دوران، شاعری کے اس انداز کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔  اس رسمی شاعرانہ تحریک کے حامیوں، مداحوں اور پیروکاروں کے ساتھ ساتھ علی بابا چاہی جیسی شخصیات، جو ایک معروف شاعر اور نقاد ہیں، رضا براہنی کے اسلوب کی مخالف ہیں اور اس کے بارے میں کئی مضامین شائع کر چکے ہیں۔

رضا براہینی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ نیما کے بعد کی شاعری کو فارسی زبان کے اپنے نحوی قواعد کو ’ظلم‘ سے چھوڑ کر ناظرین کو اپنی ’لسانیات‘ دکھانی چاہیے۔  اس وجہ سے اس زمانے کے بعد سے ان کی بعض نظمیں ناقابل فہم معلوم ہوتی ہیں اور اگرچہ ممتاز ایرانی ماہرین لسانیات نے ان کی تعریف کی ہے لیکن اس طرز کی شاعری کو بعض شاعروں اور نقادوں اور بلاشبہ فارسی شاعری کے زیادہ سنجیدہ سامعین نے رد کیا ہے۔  تاہم انقلاب اسلامی کے بعد کی دہائیوں میں رضا براہینی جیسا کوئی بھی ایرانی شاعری پر اتنا اثر نہیں ڈال سکا۔

رضا براہینی ایک متنازعہ ناول نگار بھی ہیں جو اکثر انٹرویوز اور مباحثوں کے لیے جانے جاتے ہیں جو کبھی کبھار ان کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔  آذری نیوز تجزیاتی سائٹ کے مطابق، رضا براہینی کو ہمیشہ ان کی کتابوں اور کاموں کے ساتھ نہیں بلکہ ایسے مباحث کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو اکثر دوسروں کی توہین اور تذلیل کے ساتھ ہوتے ہیں۔  اپنے ایک آخری انٹرویو میں انھوں نے احمد شاملو کے خلاف بات کی تھی اور اس سے پہلے انھوں نے مہر نامے میگزین میں تیسرے اخوان کی زندہ یاد کے خلاف ایک مختصر نوٹ شائع کیا تھا۔

رضا براہینی نے افسانے بھی لکھے ہیں۔  ان کا سب سے اہم کام ’لٹریری اسکولز‘ تھا، جو مغربی ادب کے بارے میں ان کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب تھی۔  پہلی بار 1955 میں شائع ہوا، یہ متعدد ایڈیشنوں میں کئی بار دوبارہ شائع ہوا ہے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 رضا براہینی کی نظمیں

پرانی یادیں/ ناسٹلجیا / پس کربیہ

اوہ اگر کوئی آدمی یہاں سے رینگ سکتا

سانپ یا چھپکلی کے طور پر، اور نہیں

پنکھوں کو بڑھاؤ

اور پرواز کرو، پرواز کرو

ایک ایسی جگہ پر جہاں دنیا اب کسی گندی افواہ سے مشابہت نہیں رکھتی

ایک جگہ جہاں ریت میں جلی ہوئی دعوت

بغیر اکیلے رہنے کے لیے پھیلا ہوا ہے۔

یہاں تک کہ ہاتھ یا پاؤں، بغیر سر کے، بغیر مرغ کے

بننا…

اور سمندر اسے مسلسل دھوتا ہے۔

ایک پتھر کی چمکیلی موجودگی کی طرح، ہموار

سرکلر

سمندر اسے مسلسل دھوتا ہے۔

رونا

مجھے اچھی طرح یاد ہے، ہاں، ٹھیک ہے۔

جب میں وہاں اکیلا بیٹھا تھا۔

بیت الخلا

اور

میں رو رہا تھا

اور یہ دسمبر کی 11 تاریخ تھی۔

میرے لیے عوام میں رونا مشکل ہے۔

میں نے کہا، محافظ

یہاں بیت الخلا

آؤ اور مجھے لے جاؤ، محافظ

یہ دسمبر کی 11 تاریخ تھی۔

اس بار محافظ کچھ تیز آیا

جیسے وہ کسی طرح جان گیا ہو۔

کہ بہتے آنسوؤں اور سسکیوں کے پھٹے مجھے رسوا کر دیں گے۔

جب اس نے دروازہ کھولا تو میں پہلے ہی بھاگ رہا تھا۔

گارڈ نے میرے پیچھے چلایا

دوڑو، اپنی پتلون کو پیشاب کرنے سے پہلے دوڑو

انشاء اللہ آپ اپنے آپ کو رسوا نہیں کریں گے۔

میں نے کہا

کوئی طاقت نہیں ہے۔

نہ طاقت ہے نہ طاقت مگر خدا میں

کل وہ ہمارے دوست کو لے گئے۔

اور اسے مار ڈالا

میرے لیے عوام میں رونا بہت مشکل ہے۔

تب میں بیت الخلا میں اکیلی بیٹھی تھی۔

اور

میں رو رہا تھا

دسمبر کی گیارہ تاریخ تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے، ہاں، ٹھیک ہے

٭٭٭

آپ کے پاس کیا ہاتھ ہیں، بوسہ کی طرح

آڈیو ورژن سننے کے لیے آپ کو فلٹر بریکر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

آپ کی تالیوں کی آواز زمین پر میرے لیے کائناتی تیتر کو جگاتی ہے۔

ہاتھ نہ ہوں تو تالی کیسے بجاؤں ؟

لیکن میرے ہونٹوں کے پھول جو رات کو تیرے چاند کو چومتے ہیں۔

تیری قربانی میری دو آنکھیں ہیں جن کا خواب تیری آنکھوں نے دیکھا ہے۔

بہن آپ کو دیکھیں کہ آپ کے باغ کے چہرے کہاں ہیں۔

جو ہر صبح روشنی کی ہزار کھڑکیوں سے چمکتا ہے

اور وہاں تیرے کندھے، کیا سفید بادل، کس کی اونچائی پر، کیا چہرے کا تاج، کیا سورج

میرے ہاتھ نہیں ہیں میں تالی کیسے بجاؤں !

بتاؤ کہاں جا رہے ہو خواب بند ہونے کے بعد اور ہم رونے لگتے ہیں۔

اور رونا، کہاں ؟

اور رات کو تیرے سر کے پیچھے سایہ کیا ہے، وہ میری نظم ہے جو تیرے قدموں کے پیچھے سے آتی ہے۔

آپ کے پاس کون سے زمرے ہیں ؟

ایک بوسہ کی طرح

٭٭٭

ایک نظم

ایک نبی جس کو خدا نے بھگا دیا ہے۔

مبارک انماد جو مجھ سے چرایا گیا تھا۔

سحر کے جادوگر کی چالوں سے جو جھوٹا تھا –

میں وہ نبی بنا جس کے خدا نے اسے بھگا دیا تھا۔

اس کی نبوت کی زبان مسدود ہے۔

میں وہ جہنم ہوں جس کی تکلیفیں تم خوابوں میں دہراتے ہو۔

سورج وہ چاند ہے جو میرے اندر ہے۔

ایک بار بار چھپی ہوئی جلن ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے۔

اور میری آنکھیں گہرائی سے سرمئی ہیں۔

خونریزی سے دنیا کو تکلیف ہوتی ہے۔

میں اکیلا ہوں

جب سے میرا مبارک انماد مجھ سے چرایا گیا ہے۔

میں حاضر ہوں

وہ شخص جو دنیا کے ویرانے میں کھو گیا۔

وہ شخص جو عہد اور مفاہمت کی بندرگاہوں پر اجنبی رہا۔

ہزاروں دور خلیجوں کے پانیوں میں ڈوب جانا

وہ نبی جس کو نیند نہیں آتی

٭٭٭

نظم جاری رکھیں

تجھ سے آنے والا غم مجھے جلا دیتا ہے۔

ایک ستارہ آپ جیسا نہیں ہے، آپ ستارے کی طرح نہیں ہیں۔

اور آسمان تمہاری شکل نہیں ہے اور تم آسمان کی شکل نہیں ہو۔

تجھ سے گرنے والا غم مجھے جلا دیتا ہے۔

بہار تم جیسی نہیں، تم بہار جیسی نہیں۔

کیونکہ تم ہوا میں کھڑے ہو کر جلتے ہو۔

میرا خوبصورت ننگے پاؤں چٹائی پر پڑا ہے اور جل رہا ہے۔

وہ دکھ جو آپ سے آتا ہے۔

اور جنگل کی جنگ اور جادو جو آپ کے پاس سے گزرتا ہے۔

اور تمہاری نظر سے میری انگوٹھی میں آگ لگ گئی۔

٭٭٭

مرزا غالب کا سفرِ کلکتہ ۔۔۔ طارق محمود مرزا

بر صغیر کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے زمانے کے مروّجہ علوم پر اُنھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ تاہم ان کی وجہ شہرت شاعری تھی جو دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ شاعری کے لیے اُنھوں نے اُردو اور فارسی دونوں کو ذریعہ اظہار بنایا اور نظم اور نثر دونوں میں ایسے جوہر دکھائے جس کی مثال نہیں ملتی۔ غالب نے شاعری کو ایسا رنگ و آہنگ عطا کیا کہ اسے نقطہ عروج تک پہنچا دیا۔ نثر میں غالب کے خطوط کلاسیکی ادب کا درجہ رکھتے ہیں۔ شعر و ادب کے ساتھ غالب کی شخصیت خصوصاً ان کا شاعرانہ مزاج بھی ہمیشہ لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہا۔ اس شاعرانہ بلکہ شاہانہ مزاج کی بدولت وہ تا حیات زیرِ بار قرض رہے مگر اپنی روش نہیں بدلی۔ ان کا اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا بس انگریز سرکار سے ملنے والی خاندانی پنشن پر گزارا تھا۔ یہ پنشن غالب کے گھریلو اور ’’ذاتی ‘‘ اخراجات کے لیے ناکافی تھی لہذا مرزا تا حیات قرض پہ قرض لیتے رہے۔ قرض کی نا دہندگی کی وجہ سے اکثر مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ حراست اور قید و بند کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ اس دور میں انگریز سرکار کا قانون تھا کہ دیوانی مقدمات میں ملوّث ملزمان کو گھر سے باہر اور دن کے وقت ہی حراست میں لے سکتے تھے۔ لہذا جب گرفتاری کا خدشہ ہوتا تو ان دنوں غالب دن کے اُجالے میں گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ اگر کہیں جانا ہوتا تو رات کے وقت جاتے۔

قرض خواہوں کو تسلی دینے اور اپنی آمدنی میں اضافے کی غالب کے پاس ایک ہی اُمید اور راستہ تھا کہ ان کی پنشن میں اضافہ ہو جائے اور یہ اضافہ بھی ان کی پیدائش کے وقت سے ہو تاکہ انھیں یکمشت ایک خطیر رقم حاصل ہو جائے۔ اس اُمید پر مرز انے عمر گزار دی۔ قریباً تیس برس اسی تگ و دو میں گزرے۔ ان گنت درخواستیں دائر کیں جو مقامی افسران سے لے کر گورنر جنرل اور ملکہ برطانیہ تک کو ارسال کی گئیں۔ انگریز افسروں کے رُوبرو اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے غالب نے متعدد سفر کیے جس میں کان پور، فیروز پور جھرکا اور فرحت پور شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا طویل ترین سفر دہلی سے کلکتے کا تھا اور یہی غالب کی زندگی کا سب سے لمبا سفر تھا۔ تقریباً تین برس پر محیط اس سفر نے غالب کے مشاہدات و تجربات اور علم و فکر میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ ان کے حیات و افکار پر اس کے عمیق اثرات مرتب ہوئے۔ کلکتہ میں انھیں تلخ و شیریں ہر قسم کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ اس کے باوجود اس شہر کی یادیں انھیں عمر بھر تڑپاتی رہیں۔ ان کا شعر ہے۔

کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشین

اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

 بقول ان کے اس تڑپ کی وجہ سبزہ زار مطرا، نازنینِ بتان، میوہ ہاے تازہ شیریں اور بادہ ناب تھی۔ یہ سب اشیا اپنی جگہ پر کشش سہی مگر کسی تنہا مسافر کے اجنبی شہر میں مہینوں قیام کا سبب بننے والی شے ان میں سے صرف ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ ہے نازنین بتاں۔ اغلب خیال یہی ہے غالب کے سینے میں تیر پیوست کرنے والی شے بھی کوئی اور نہیں تھی۔

دہلی سے کلکتے کے راہ میں آنے والے کئی شہروں میں غالب کا طویل قیام رہا۔ بظاہر تو غالب حصولِ پنشن کی غرض سے سفر پر نکلے تھے مگر ان کے طرزِ عمل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ تلخی حالات سے فرار چاہتے تھے۔

اس سے قبل کہ مرزا غالب کے سفر کی رُوداد بیان کی جائے اس سفر کی وجہ یعنی انھیں ملنے والی پنشن اور ان کے خاندانی پسِ منظر کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ غالب 1797 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار برس کے تھے کہ ان کے والد مرزا عبد اللہ انتقال کر گئے۔ لہذا غالب کے خاندان کے سرپرست ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ قرار پائے۔ نصر اللہ بیگ مرہٹوں کی فوج میں شامل تھے اور آگرہ کی حفاظت پر مامور تھے۔ جب انگریزوں نے آگرہ حملہ کیا تو نصر اللہ بیگ نے بغیر مزاحمت کے آگرہ انگریزوں کے کمان دار لارڈ لیک کے حوالے کر دیا۔ اس کے بدلے میں انگریزوں نے نصر اللہ بیگ کو آگرہ کے قلعے کا قلعہ دار بنا دیا۔ علاوہ ازیں انھیں جاگیر اور انعام و کرام سے بھی نوازا۔ لیکن یہ انعام و کرام اور جاگیریں تا دیر نصر اللہ بیگ کے کام نہ آئیں اور 1806ء میں ہاتھی سے گر کر انتقال کر گئے۔ ان کے بیوی بچے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ جیسا کہ انگریزوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے وفاداروں کو نسل در نسل نوازتے تھے، سرکار نے پس ماندگان کے لیے پنشن مقرر کر دی جس کے نگران نصر اللہ بیگ کے سالے نواب احمد بخش قرار پائے۔ ان کے بقول یہ رقم پانچ ہزار روپے سالانہ تھی۔ جس کی تقسیم کچھ یوں ہوئی

(۱) خواجہ حاجی دو ہزار روپے سالانہ

(۲) نصر اللہ بیگ کی والدہ اور تین بہنیں ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ

(۳) مرزا غالب اور ان کے بھائی مرزا یوسف ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ۔ غالب اس میں سے چھ سو سالانہ بھائی مرزا یوسف کو دیتے تھے۔ جبکہ بقیہ نو میں سے چار سو اپنی زوجہ امراؤ جان کو دینے کا حکم تھا کیونکہ امراؤ جان نواب احمد بخش کی بھتیجی تھی۔ مرزا غالب اور امراؤ جان کا عقد 1810ء میں ہوا تھا اس وقت غالب کی عمر تیرہ اور امراؤ جان کی دس برس تھی۔ اُسی برس غالب آگرہ سے دہلی منتقل ہو گئے۔ دہلی میں وہ کرائے کے مختلف مکانات میں فروکش رہے ان میں سے آخری بلی ماراں والا مکان تھا۔

مرزا غالب نے ہوش سنبھالا تو انھیں علم ہوا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان کے اعتراضات یہ تھے۔ (اوّل) پنشن کی اصل رقم پانچ نہیں دس ہزار روپے سالانہ ہے۔ (دوئم) خواجہ حاجی ان کے برائے نام رشتہ دار تھے اس لیے ان کو دی جانے والی رقم غالب اور ان کے بھائی کو ملنی چاہئے۔ مرزا غالب نے جب یہ معاملہ نواب احمد بخش کے سامنے اُٹھایا تو بقول غالب انھوں نے پنشن کی رقم دس ہزار تو تسلیم نہیں کی، لیکن خواجہ حاجی کو حصہ دینے کی غلطی تسلیم کی اور وعدہ کیا کہ خواجہ حاجی کے انتقال کے بعد ان کا حصہ غالب اور ان کے بھائی کو ملے گا۔ لیکن 1823ء میں خواجہ حاجی کے انتقال کے بعد یہ رقم ان کے بیٹوں کو ملنے لگی۔ یہیں سے غالب کی شکایت میں شدت پیدا ہوئی۔ انھوں نے اس نا انصافی پر آواز اٹھائی لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ نواب احمد بخش سے مایوس ہو کر غالب نے دلی میں تعینات انگریز ریذیڈنٹ سے ملاقات کی کوشش شروع کر دی مگر بوجوہ یہ ملاقات نہ ہو سکی یا احمد بخش نے نہ ہونے دی۔ 1825 ء تک غالب کی مالی حالت انتہائی دگرگوں ہو چکی تھی۔ وہ ننھیال اور ددھیال کی تمام موروثی جائداد بیچ کر کھا چکے تھے اس پر مستزاد بیس ہزار روپے کے مقروض ہو چکے تھے۔ اس وقت غالب کی عمر صرف اٹھائیس برس تھی۔ اس سے غالب کی شاہ خرچی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ آمدنی جتنی بھی ہو ان کا طرزِ حیات نہیں بدلا۔ ایک مرتبہ متھرا داس مہاجن نے عدم ادائیگی قرض پر غالب پر مقدمہ کر دیا۔ غالب مفتی صدر الدین آزردہؔ کی عدالت میں پیش ہوئے جو خود اچھے شاعر اور غالب کے مدّاح تھے۔ انھوں نے غالب سے پوچھا ’’مرزا نوشہ یہ آپ اس قدر قرض کیوں لیا کرتے ہیں‘‘ غالب نے جواب میں یہ شعر سنایا:

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

 مفتی صدر الدین ہنس پڑے۔ انھوں نے فیصلہ تو مدعی کے حق میں دیا لیکن غالب کا زرِ ڈگری ایک دوست کی حیثیت سے خود ادا کر دیا۔

مرزا غالب کا بال بال قرضے میں جکڑا تھا مگر اس معاملے میں وہ خوش قسمت بھی تھے کہ کسی نہ کسی سے مزید قرض لے لیتے تھے۔ حالانکہ قرض دینے والوں کو بھی علم تھا کہ اس کی واپسی تقریباً نا ممکن ہے۔ جیسا کہ متھرا داس مہاجن غالب کے گھر قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے گئے، اُلٹا دو ہزار روپے مزید دے کر لوٹے۔ ان معاملات کے باوجود غالب کی شاعری اور ان کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ حتّیٰ کہ ان کے مخالفین بھی ان کی شاعری کے معترف تھے۔ ویسے بھی وہ فن شاعری کی قدرو منزلت کا دور تھا۔ مشاعروں میں ہزاروں کا مجمع ہوتا۔ جہاں چار پڑھے لکھے افراد جمع ہوتے شعر و شاعری کا تذکرہ لازمی ہوتا۔ غالب کی شاعری نوجوانی میں ہی سند قبولیت حاصل کر چکی تھی۔ ابھی ان کا دیوان شائع نہیں ہوا تھا کہ ان کے اشعار زبان زد عام ہو چکے تھے۔ کوٹھے کی مغنیہ ہو یا گلی میں پھرتے بنجارے ہر ایک کی زبان پر غالب کے اشعار ہوتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں زندگی شاعری کے بل بوتے نہیں گزرتی، اس کے تقاضے اور بھی ہیں۔ جب دہلی میں شنوائی نہیں ہوئی تو غالب نے کلکتہ جا کر گورنر جنرل سے ملنے کا ارادہ کر لیا۔ اس دور میں ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے بھی ویسی ہی تیاری کرنی پڑتی تھی جیسے پردیس جا رہے ہوں۔ اکتوبر 1826 ء میں غالب براستہ کانپور لکھنؤ پہنچے۔ دورانِ سفر وہ بیمار پڑ گئے وہ بھی ایسے کہ صحت یاب ہوکے نہیں دیتے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ نوجوان تھے مگر انھیں کئی بیماریاں لاحق تھیں۔ اودھ میں مرزا کے قریبی دوست امام بخش ناسخ رہتے تھے ان کی بدولت غالب کا علاج جاری رہا۔ ان دنوں اودھ پایہ تخت دہلی سے آزاد ایک خود مختار ریاست تھی۔ غازی الدین حیدر اس کے بادشاہ تھے معتمد الدولہ آغا میر وزیر اعظم تھے۔ آغا میر شعر و شاعری کے قدردان تھے اور شعرا کی سرپرستی کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے غالب سے ملنے خواہش ظاہر کی۔ غالب کو خلعت اور انعام کرام ملنے کی اُمید پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنے دوست امام بخش ناسخ کے مشورے پر آغا میر کے لیے ایک سو دس اشعار پر مشتمل قصیدہ لکھا۔ مگر اپنی اُفتاد طبع کے مطابق تین شرائط بھی رکھ دیں۔ پہلی شرط یہ کہ معتمد الدولہ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کریں گے۔ دوسری شرط، ان سے معانقہ کریں گے اور تیسری شرط، غالب کو نذر پیش کرنے سے معافی دی جائے۔ ان کے پاس دینے کے لیے کچھ تھا بھی نہیں۔ وزیر اعظم نے غالب کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا اور غالب نے ملاقات سے معذرت کر لی۔ غریب الوطنی اور مالی مجبوریوں کے باوجود حاکم وقت کے آگے ایسی شرائط رکھنا اور پھر ملنے سے انکار کرنا، بظاہر نادانی لگتی ہے مگر وہ غالب تھے۔ ایسے لوگ دماغ سے نہیں دل سے سوچتے ہیں۔ ان کی طبیعت کا غنا انھیں کسی کے آگے سر جھکانے نہیں دیتا۔ انھی کا مشہور شعر ہے۔

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

شاہ میر غالب کے خلاف ہو گیا اور اس نے انھیں شاہِ اودھ سے بھی ملنے نہیں دیا۔ غالب نو ماہ تک لکھنؤ میں مقیم رہے۔ ان کی بیماری میں افاقہ نہیں ہوا۔ مجبوراً اسی حالت میں اُنھوں نے رختِ سفر باندھا اور اکیس جون 1827ء کو لکھنؤ سے روانہ ہو گئے۔ اس دور کی مشکلاتِ سفر کا اندازہ لگائیے کہ لکھنؤ سے کانپور کے درمیان تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ پانچ دن میں طے ہوا۔ یہ سفر یکّے پر کیا گیا۔ کان پور سے غالب باندہ پہنچے جہاں کے نواب ذو الفقار بہادر علی غالب کے عزیز اور شاگرد تھے۔ انھوں نے غالب کی خوب مدارت کی اور علاج بھی کروایا جس سے انھیں کچھ افاقہ ہوا۔ غالب کلکتہ جانا چاہتے تھے مگر زادِ سفر کے نام پر ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ مناسب موقع پا کر انھوں نے نواب ذو الفقار علی سے دو ہزار روپے قرض مانگ لیا۔ غالب کے بقول انھوں نے براہ راست تو یہ رقم نہیں دی کہ شاید میں واپس نہ کر سکوں لیکن ایک مہاجن سیٹھ امی کرن سے دو ہزار روپے قرض دلوا دیے۔ غالب کا مسئلہ وقتی طور پر حل ہو گیا اور وہ دو ہزار روپے لے کر باندے سے بذریعہ بیل گاڑی روانہ ہو گئے۔ راستے میں انھوں نے ایک گھوڑا خرید لیا۔ جمنا کنارے پہنچے تو کشتی کرائے پر لی اور گھوڑے سمیت اس پر سوار ہو گئے۔ ستائیس نومبر 1827ء وہ الہ آباد پہنچے۔ غالب کا ارادہ یہاں چند ہفتے قیام کرنے کا تھا مگر پہلی ہی شام ایک ادبی تقریب میں ان کی مولوی امام شہید سے تلخ کلامی ہو گئی۔ مولوی شہید، قتیل کے شاگرد تھے جس سے غالب شدید متنفر تھے۔ اس واقعہ سے غالب اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اگلے ہی روز بنارس روانہ ہو گئے۔ اپنے خطوط میں غالب نے الہ آباد کے باسیوں کو آداب محفل سے نا آشنا اور اُجڈ قرار دیا۔ انھیں یہ شہر، شہر نہیں ویرانہ لگا۔ آگے کا سفر بھی غالب نے جمنا کی لہروں پر ڈولتی کشتی میں کیا اور وہ بنارس پہنچ گئے۔

بنارس شہر غالب کو خوب بھایا۔ جمنا کے کنارے بسا یہ شہر، اس کے سر سبز نظارے، صبح دم مندروں کی گھنٹیوں کی صدا، سرِ شام جمنا کے پانیوں کو چھوتی ہوا اور اس کا غارتِ ایماں حُسن غالب کے دل میں گھر کر گیا۔ اُن کا دل چاہا کہ ہمیشہ کے لیے اس شہر میں بس جائیں۔ حالانکہ دیگر شہروں کی نسبت بنارس میں ان کا کوئی قریبی دوست نہیں تھا۔ ان کا مزاج بھی ایسا نہیں تھا کہ احباب کے بغیر تنہا خوش رہیں۔ آثار سے لگتا ہے کہ کسی غارت گر کے عشق نے غالب کے قدم روک دیے تھے۔ دوسرا یہ معجزہ بھی ہوا کہ اس شہر کی آب و ہوا غالب کو راس آئی اور ان کی صحت بحال ہو گئی۔ بہرحال اُنھوں نے چار ہفتے بنارس میں قیام کیا۔ غالب جہاں جہاں قیام کرتے رہے وہاں کے احباب سے سفارشی خطوط بھی لکھوا کر ساتھ رکھتے رہے تاکہ کلکتہ جا کر انھیں استعمال کر سکیں۔ جیسے باندہ کے سِول جج نواب محمد علی خان غالب کے دوست بن گئے تھے انھوں نے کلکتے کے ایک معزز نواب اکبر علی خان کے نام رقعہ لکھ دیا۔

 دہلی سے کلکتہ کا ایک ہزار میل کا یہ سفر غالب نے 17 ماہ میں طے کیا۔ یُوں تو یہ سفر حصولِ پنشن کی غرض سے تھا مگر مرزا غالب نے اسے سیاحتی، تفریحی اور تہذیبی سفر بھی بنا دیا۔ جس شہر میں جاتے وہاں طویل قیام کرتے، ادبی اور سماجی حلقوں سے رابطے ہوتے اور شعر و شاعری کے جھنڈے گاڑ کر داد و تحسین وصول کرتے۔ اگرچہ زادِ سفر قرض لے کر نکلے تھے مگر کہیں تنگ چشمی سے کام نہیں لیا اور دریا دلی سے خرچ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو دو ہزار روپے باندہ سے قرض لے کر نکلے تھے کلکتہ پہنچنے تک اس میں سے چھ صد روپے باقی بچے تھے۔ حالانکہ اس دور میں روپے کی قدر اتنی تھی کہ کلکتہ پہنچ کر انھوں نے جو مکان کرائے پر لیا وہ خاصا بڑا تھا اور اس میں گھوڑا رکھنے کی بھی گنجائش تھی اس کا ماہانہ کرایہ چھ روپے تھا۔

کلکتہ میں ابتدا ہی میں غالب کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ باندے کے نواب محمد علی خان کا تعارفی خط لے کر اور کشتی کرائے پر لے کر نواب اکبر علی خان کے گھر پہنچے جو کلکتہ کے مضافاتی علاقے بگلی میں واقع تھا۔ اُنھیں معلوم ہوا تھا کہ نواب اکبر علی خان کے انگریز کلکٹر سے دوستانہ روابط ہیں۔ مگر جب غالب گئے تو نواب صاحب نے بتایا کہ کلکٹر صاحب سے ان کے تعلقات اب کشیدہ ہو چکے ہیں اور وہ کسی قسم کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ اودھ حکومت کے سفیر منشی عاشق علی سے غالب کو کافی امید تھی اور ان کے نام بھی سفارشی خط لکھو اکر لائے تھے۔ مگر شومیِ قسمت سے غالب کے پہنچنے تک منشی عاشق علی کو لکھنؤ واپس بلا لیا گیا۔ گویا ہر جانب مایوسی اور ناکامی کا سامنا تھا۔ جہاں تک ادبی پذیرائی کا تعلق ہے کلکتہ میں بھی غالب کے پرستار موجود تھے مگر ان کی تعداد مٹھی بھر تھی۔ اس کی ایک وجہ تو دہلی سے دُوری اور رسل و رسائل کی کمی تھی۔ ویسے بھی یہاں بنگالی زبان بولی جاتی تھی اور اُردو کا چلن عام نہیں تھا۔ دوسری وجہ مرزا محمد حسین قتیل

 ؔ ( (1759-1818 کی مقبولیت تھی۔ مرزا قتیل اپنے عہد کے ممتاز فارسی داں تھے اور فارسی میں ہی شاعری کرتے تھے۔ اُنھوں نے فارسی قواعد کی چند کتب لکھی تھیں جن میں چہار شربت اور نہر الفصاحت مشہور ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا مگر وہ کلکتہ میں بھی خاصے مقبول تھے۔ جب غالب کلکتہ گئے تو ان کا انتقال ہوئے دس برس گزر چکے تھے لیکن ان کی مقبولیت برقرار تھی۔ دوسری جانب غالب بزعمِ خود اپنے دور کے سب سے بڑے فارسی دان تھے اور اپنے مقابل کسی کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ جو غالب کے دل میں ہوتا تھا اسے زبان پر لانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ لہذا قتیل سے ان کی نفرت پوشیدہ نہ رہ سکی۔ دوسری جانب قتیل کے شیدائیوں اور چاہنے والوں کی بڑی تعداد کلکتہ میں تھی۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے۔ ایک مشاعرے میں غالب نے فارسی اشعار سنائے تو ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اعتراض اُٹھا دیا کہ اس میں قواعد گرائمر کی غلطی ہے۔ بس پھر کیا تھا غالب کے خلاف شور مچ گیا اور محفل درہم برہم ہو گئی۔ اگلے دن پورے شہر میں اس واقعے کا چرچا تھا۔

غالب کو یہ بھی فکر تھی کہ میں تو واپس دلّی چلا جاؤں گا مگر اس شہر کے لوگ کہیں گے کہ ایک شر پسند اور فسادی شخص آیا تھا فساد برپا کر کے چلا گیا۔ لہذا انھوں نے تحریری معذرت کی اور قتیل کی کچھ توصیف بھی کی۔ بہرحال مرزا غالب کو کلکتے میں وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ اب اسی کلکتے میں اس گلی کا نام غالب سے موسوم ہے جس میں ان کا قیام تھا جس طرح دہلی میں غالب میوزیم اور غالب اکیڈمی موجود ہیں۔ لیکن جانے والے کو اب کیا فائدہ۔ حیاتِ انسانی کے دیگر بے شمار موضوعات کے ساتھ اس موضوع پر بھی غالب کا شعر موجود ہے۔:

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا

 کلکتے میں غالب کے مخالفین میں مرزا افضل بیگ نمایاں تھے۔ وہ حاجی جان کے بیٹوں کے ماموں اور ان کے وکیل تھے۔ خاندانِ مغلیہ کا شاہی وکیل ہونے کے وجہ سے انگریز سرکار سے ان کے قریبی روابط تھے۔ مرزا افضل بیگ نے سرکاری حلقوں اور عوام الناس میں غالب کے خلاف خوب زہر بھرا۔ اُنھوں نے ہی یہ مشہور کیا تھا کہ غالب قتیل کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ غالب کو ملحد اور زندیق مشہور کر دیا گیا اور یہ کہ وہ بار بار نام بدلتے رہتے ہیں۔ مجبوراً نام کے معاملے میں غالب کو تحریری صفائی دینی پڑی۔ یوں غالب کے خلاف ہر جانب محاذ کھڑا کیا گیا۔

مارچ 1828ء میں گورنر جنرل کا دربار لگنا تھا۔ درخواست کی جانچ پڑتال اور اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کی ذمہ داری William Frazer کی تھی۔ غالب نے اپنی درخواست میں تین استدعا کی تھیں

(۱) حکومت نصر اللہ بیگ کے ورثا کا تعیّن خود کرے اور ہر وارث کو الگ پنشن دی جائے

(۲) دوئم یہ کہ جو رقم نواب احمد بخش نے حکومت سے لی اور ورثا میں تقسیم نہیں کی وہ اس کی جائیداد ضبط کر کے وصول کی جائے اور ورثا میں تقسیم کی جائے

(۳) آئندہ پنشن براہ راست سرکار کے خزانے سے ادا کی جائے۔

درخواست داخل کرنے کے لیے غالب ولیم فریزر سے ملاقات کے لیے گئے تو انھیں اپنے مقام و مرتبے کا بھی احساس تھا مگر وہ مطمئن لوٹے کیونکہ ولیم فریزر نے کھڑے ہو کر ان کا سلام قبول کیا اور عطر اور پان سے ان کی تواضع کی۔ ولیم فریزر نے یہ بھی بتایا کہ درخواست دہلی ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے توسط سے پیش کرنی چاہئے تھی۔ تاہم اس نے درخواست گورنر کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی۔ گورنر جنرل نے اس دن دس درخواستیں نمٹانی تھیں۔ غالب کا ان میں آخری اور دسواں نمبر تھا۔

افضل بیگ وکیل نے جوابی دعویٰ پیش کیا اور غالب پر دروغ گوئی اور مکّاری کا الزام عائد کیا کہ موقع کی مناسبت سے یہ شخص اپنا نام بدلتا رہتا ہے کبھی نوشہ، کبھی اسد، کبھی غالب اور کبھی نام کے ساتھ بیگ اور خان بھی لکھتا ہے۔ گویا غالب کی اُفتاد طبع کو ان کی دھوکا دہی اور نوسر بازی کا نام دے دیا گیا۔ گورنر جنرل نے غالب کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ اسے دہلی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے توسط سے آنا چاہئے تھا۔ یہ غالب کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ وہ سالوں سے جو بھاگ دوڑ کر رہے تھے اور تین برسوں سے گھر سے بے گھر مسافر بنے ہوئے تھے، وہ ساری محنت اکارت گئی تھی۔ انھیں بے نیل مرام واپس لوٹنا پڑا۔

پنشن تو بحال نہ ہوئی مگر دلّی واپس جانے کے لیے غالب کو ڈیڑھ ہزار روپوں کی ضرورت تھی۔ گھوڑا وہ پہلے ہی ڈیڑھ سو روپے میں فروخت کر چکے تھے۔ باندے والے دوست محمد علی خان دو مرتبہ دو دو سو روپے بجھوا چکے تھے۔ آگرہ سے والدہ نے 475 روپے بھجوائے۔ غالب نے کلکتہ کے ایک بڑے مہاجن راؤ شیو رام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھیں کتنا قرض ملا۔ کلکتہ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اُلٹا قرض کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ غالب کو یہ بھی فکر تھی اب قرض خواہوں کا سامنا کیسے کریں گے۔

غالب اس لیے بھی دلّی جلد لوٹنا چاہتے تھے کہ گورنر جنرل دلّی کے دورے پر آ رہے تھے۔ غالب ان سے پہلے پہنچ کر اپنی درخواست ریذیڈنٹ کے ایڈیٹر کے توسط سے انھیں پیش کرنا چاہتے تھے۔ وہ 20 اگست 1829 ء کو کلکتہ سے روانہ ہو کر 8 نومبر 1829ء کو دہلی پہنچے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ دہلی پہنچ کر انھیں علم ہوا کہ گورنر جنرل نے بنارس پہنچ کر اپنا ارادہ بدل دیا اور دلّی آنے کے بجائے کلکتہ واپس لوٹ گئے۔

1835ء میں نواب شمس الدین کو ولیم فریزر کے قتل کی سزا میں پھانسی ہو گئی اور ان کی جائداد ضبط ہو گئی۔ موقع غنیمت جان کر غالب نے آگرہ پریزیڈنسی میں ایک اور درخواست بھجوائی کہ مرزا نصر اللہ بیگ کا وارث ہونے کی حیثیت سے اس جائیداد کا ایک حصہ انھیں ملنا چاہئے تاکہ وہ قرض سے نجات پا سکیں۔ گورنر جنرل نے یہ درخواست بھی رد کر دی اور یہ فائل ہمیشہ کے لیے بند کر دی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر غالب نے گورنر جنرل کے توسط سے ہی ایک درخواست لندن میں ملکہ وکٹوریہ کہ بھیجی جس کا جواب کبھی نہیں آیا۔ مرزا غالب نے 1823ء سے 1860ء تک تقریباً 37 برس تک پنشن میں اضافے کے لیے مسلسل جد و جہد کی مگر انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔

٭٭٭

اختر انصاری دہلوی: جینے کی جد و جہد میں جی سے گزر گئے ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

گردِشِ مدام اور پیہم شکستِ دِل کے نتیجے میں حساس تخلیق کار اضطراب اور اضمحلال کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب اُس کی کوئی اُمید بر نہ آئے اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دے تو زندگی ایک کرب، اذیت اور عقوبت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اختر انصاری دہلوی کی شاعری میں پائی جانے والی یہی کیفیت اس کے دِل پر اُترنے والے سب موسموں کا احوال پیش کرتی ہے۔ موزوں ترین الفاظ کے انتخاب اور ان کے بر محل استعمال کا جو قرینہ اختر انصاری دہلوی کے اسلوب میں جلوہ گر ہے وہ ان کی انفرادیت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں جدت اور تنوع کی مظہر خیال آفرینی اور معنی آفرینی کے سوتے لفظیات ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ اختر انصاری دہلوی جیسے با کمال ادیب کے اشہب قلم کی جولانیاں اور اسلوب کی حشر سامانیوں کی تاثیر حد اِدراک سے بھی کہیں آگے ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جہاں تک کلام میں حزن و یاس کا تعلق ہے اختر انصاری دہلوی کے اسلوب پر فانی بدایونی (شوکت علی خان: 1879-1961) کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بات اس لیے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ اختر انصاری دہلوی نے ہوائے جور و ستم میں نرغۂ اعدا میں بھی حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ سمے کے سم کے ثمر نے ایسا گُل کھِلایا کہ اِس حساس تخلیق کار کا غنچۂ دِل اِس انداز سے کھِلا کہ یہ کھِلتے ہی مُرجھا گیا۔ ہوا کی سرسراہٹ، موسموں کے تغیر و تبدل اور گُل ہائے رنگ رنگ سے رازِ مسرت کی جستجو کرنے والے اس فطرت نگار اور متحمل مزاج ادیب نے عیش کی راتوں، برساتوں اور خواب کی باتوں کو برشگال کی سوغاتوں سے تعبیر کیا۔ اسے معلوم ہے کہ قزاقِ یاس و ہراس نہایت سفاکی کے ساتھ اُمیدوں کی متاع بے بہا کو لُوٹ لیتا ہے۔ اگرچہ شدت احساس نے اُسے جیتے جی مار ڈالا اس کے باوجود وہ کاسۂ گدائی تھامے عمر رفتہ سے زندہ اور توانا جذبات کی بھیگ مانگنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ اختر انصاری دہلوی اپنی گم گشتہ تمنا سے بھی والہانہ محبت کرتا ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کی زندگی بہاروں کے سوگ میں بیت گئی مگر کنج تنہائی کو گوشۂ عافیت قرار دینے والے اس مستغنی کو یاسیت پسند کہنا مناسب نہیں۔

محبت کرنے والوں کے بہار افروز سینوں میں

رہا کرتی ہے شادابی خزاں کے بھی مہینوں میں

ہوائے تُند ہے، گِرداب ہے، پُر شور دھَارا ہے

لیے جاتے ہیں ذوقِ عافیت سی شے سفینوں میں

میں بتاؤں کیا ہے یہ شاعری، یہ نوائے دِل، یہ سرودِ جاں

کبھی درد لفظوں میں ڈھل گیا، کبھی ٹِیس لے میں سما گئی

اب تو خاموش ہیں، لیکن انھی آنکھوں نے کبھی

ایسے طوفان اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

ایک تصویر محبت ہے جوانی گویا

جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بھرتے ہیں

عِشرتِ رفتہ نے جا کر نہ ہمیں یاد کیا

عِشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

آسماں سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی

اب یہ حالت ہے کہ ہم ہنستے ہوئے ڈرتے ہیں

جو پُوچھتا ہے کوئی دِل کی حسرتوں کا حال

تو منھ سے ’’ہائے‘‘ نکلتی ہے، بات کے بدلے

کیا یاد کر کے عشرتِ رفتہ کو روئیے

اِک لہر تھی کہ ناچتی گاتی نکل گئی

یادش بخیر! عہدِ محبت کی شاعری

اِک آہ تھی کہ گِیت کے سانچے میں ڈھل گئی

حریت فکر و عمل کے مجاہد کی حیثیت سے اختر انصاری دہلوی نے اپنی شاعری کو ضمیر کی للکار اور حریت فکر کی پیکار کی شکل عطا کرد ی تھی۔ ایک صابر و شاکر ادیب کی حیثیت سے اختر انصاری دہلوی نے ایک شان استغنا کے ساتھ زندگی بسر کی۔ جمالیاتی سوز و سرور کو اپنا مطمح نظر بنانے والے اس ادیب نے اپنی زندگی میں کبھی دو عملی اور منافقت سے کام نہ لیا۔ خوابوں کی صورت گری اور حسن و جمال کی مرقع نگاری میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ محبت اور نفرت کے درمیان وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے۔ سادیت پسندوں سے وہ سدا ناخوش و بیزار رہتے تھے۔ عملی زندگی میں انا کا بوجھ ہی ان کا زادِ سفر رہا۔ آستین کے سانپ، سانپ تلے کے بچھو اور بروٹس قماش کے محسن کش موقع پرستوں سے اُنھیں شدید نفرت تھی۔ پس نوآبادیاتی دور میں عادی دروغ گو مفاد پرست طبقے نے حسد اور ٹھگی کو وتیرہ بنا لیا۔ ان سفہا اور اجلاف و ارذال نے ایذا رسانی کو مشغلہ بنا لیا۔ ان حالات میں الم نصیب جگر فگار مظلوم کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی کی توقع رکھیں۔ عملی زندگی میں وہ کئی کینہ پرورحاسدوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کا نشانہ بنے مگر انھیں ہمیشہ کے لیے نظروں سے گرا دیا اور کبھی ان کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا۔ اہلِ جور کی پیہم سختیوں اور نا انصافیوں نے زندگی بھر انھیں یاس و ہراس میں مبتلا رکھا۔ وہ جبر کے ہر انداز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دِل آزاری کرنے والے سادیت پسندوں سے اُن کی نفرت بڑھتی چلی گئی۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے ان کی شخصیت کے اسی پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اطہر پرویز کے حوالے سے لکھا ہے:

’’کسی ترقی کے سلسلے میں پروفیسر عمر الدین نے ان کی مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے ان کو ترقی نہ مِل سکی۔ جب عمر الدین صاحب کا انتقال ہوا اور دریافت کیا کہ کیا آپ اُن کے جنازے میں شریک ہوں گے؟ کہنے لگے ’’جناب! آپ نے کسی مقتول کو اپنے قاتل کے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔‘‘ (3)

پروفیسر اختر انصاری دہلوی کے بارے میں اپنے اس مضمون کے لیے مآخذ کے حصول کے سلسلے میں مجھے مشاہیر ادب سے بھی رابطہ کرنا پڑا۔ وھیٹی، اونٹاریو، کینیڈا میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ممتاز بھارتی ادیب طارق غازی کی طرف سے منگل دس نومبر 2020 کو صبح چار بج کر چھپن منٹ پر یہ ای۔ میل موصول ہوئی جس سے مندرجہ بالا بات غلط ثابت ہوئی ہے۔ اس ای۔ میل کے ساتھ اُن کی تصنیف ’’تذکار الانصار‘‘ میں شامل اختر انصاری کے بارے اُن کا مضمون بھی منسلک ہے۔ اپنی اس ای۔ میل میں محترم طارق غازی صاحب نے لکھا ہے:

’’پروفیسر اختر انصاری دہلوی پر ایک سوانحیہ میں نے اپنی کتاب (تذکار الانصار) میں لکھا ہے جس کی نقل یہاں پیش ہے۔ جہاں تک ان کے ساتھ پروفیسر محمد عمر الدین مرحوم کے کسی اختلاف کا تعلق ہے تو اِس سے قطع نظر، یہ بیان محلِ نظر ہے کہ اختر انصاری نے پروفیسر عمر الدین کے جنازہ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ عمر الدین صاحب علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر تھے، جس سال (جولائی 1959ء میں) میں وہاں پہنچا وہ ایس ایس ہال کے پروووسٹ بھی تھے۔ میں اِسی ہال کے ہوسٹل ایس ایم ایسٹ میں رہتا تھا۔ مسلم یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے کے بعد پروفیسر عمر الدین پاکستان چلے گئے اور وہیں (غالباً لاہور میں) اُن کا انتقال ہوا تھا۔ پروفیسر اختر انصاری کا انتقال علی گڑھ میں ہوا۔ اس صغری کبری سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پروفیسر عمر الدین کے انتقال کے وقت یہ دونوں ممتاز علمی بزرگ ایک دوسرے سے جسمانی طور پر بہت دُور تھے اور پروفیسر عمر الدین کے جنازہ میں پروفیسر اختر انصاری کی شرکت خارج از امکان تھی۔‘‘ (4)

تصورات کی زلفوں کا پیچ و خم، رعنائیِ خیال اور رباب زیست کے تاروں کا زیر و بم عنقا ہو جانے کے بعد حصول مسرت کو سرابوں میں بھٹکنے پر محمول کرنے والے جادو نگار تخلیق کار اختر انصاری دہلوی نے زمانے کے چلن دیکھ کر اسے خراباتی کہنا شروع کر دیا تھا۔ رفعتِ چرخ کے اسرار سے آگاہ یہ ادیب بھی رام ریاض، ساغر صدیقی اور خادم مگھیانوی کی طرح موہوم شادابیوں کو سینے سے لگائے غموں سے نباہ کرتا رہا اور کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لایا۔ پیہم شکست دِل کے بعد بھی تکلم کے سلسلوں میں وہ رنج و الم سے بھی لطف اُٹھانے کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ گردشِ حالات نے اُسے افسردگی کے ماحول کا اسیر بنا دیا مگر اِس قناعت پسند ادیب نے ایک شان استغنا کے ساتھ بعض اوقات گرداب کی لہروں سے چُہل کرنے جیسے شغل بے معنی کو بھی راحت کے حصول کا ایک وسیلہ سمجھا۔ مراعات یافتہ استحصالی عناصر کی رودادِ عشرت سُن کر رشک کرنا بعض حریص لوگوں کا وتیرہ بن جاتا ہے مگر اختر انصاری دہلوی نے کھُلی آنکھوں سے اس تصورِ پر کیف کا خواب دیکھنے والوں پر گرفت کی اور اُنھیں حقائق سے آنکھیں چار کرنے پر مائل کیا۔ عملی زندگی میں کچھ لوگ بلند مناصب پر پہنچ جاتے ہیں مگر ان کے قناعت پسند دیرینہ ساتھی ان سے مفادات حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ نوآبادیاتی دور میں زمانہ طالب علمی میں پروفیسر عبدالستار چاولہ اور حاجی محمد اکرم کے جالندھر میں جنرل ضیا الحق اور ان کے خاندان سے قریبی تعلقات تھے۔ پس نو آبادیاتی دور میں پرانے ربط و تعلق سے وابستہ سب حقیقتیں خیال و خواب ہو گئیں۔ اختر انصاری کے ہم جماعت ساتھیوں میں فخر الدین علی احمد اور نور الدین احمد جیسی مقتدر ہستیاں شامل تھیں در کسریٰ پر صدا کرنا اُن کے مسلک کے خلاف تھا اس لیے وہ اپنی دنیا میں مگن رہے۔ اپنے دِلِ پُر خوں سے بہنے والے آنسوؤں کا خیال کرتے ہوئے بھی بزمِ طرب کی تلاش رجائیت کا منفرد انداز ہے۔

سر مستیوں میں رُوح جوانی کُچل گئی

یعنی بہار سوزِ بہاراں سے جل گئی

اختر انصاری دہلوی کو یہی شکوہ تھا کہ کاتب تقدیر نے ان کے کاسۂ مقدر میں ڈالے گئے درد و کرب اور مصائب و آلام قارون کے خزانے کے مانند ہیں۔ جان گسل تنہائیوں اور سکوتِ مرگ میں بھی ظلمت شب کے پردے ہٹا کر وہ انجمن خیال سجا کر اپنے دِل کا خلا بھرنے اور سکون قلب تلاش کرنے کا کوئی بہانہ تلاش کر لیتے تھے۔ لطفِ زیست کے محض چند لمحوں کی تلاش میں نکلنے والا یہ درویش فقیری میں بھی امیری کے انداز اپنا تا ہے۔ تنہائی کے عالم میں شبِ مَہ کے منتشر جلووں کو دیکھ کر حسن و جمال کی تلاش کا خیال رُخ، حسینۂ فطرت کے چہرے سے نقاب اُٹھانے کا انوکھا خیال ہے۔ ان کی عادات و اطوار، میل جول اور رہن سہن کے انداز دیکھ کر ان کے معیار اور ذوق سلیم کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ بے ہنگم واقعات اور بد وضع لوگوں کے بارے میں کوئی بات سنناگوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کے معمولات اور حلقۂ یاراں کے مشاغل کے بارے میں بھارت میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ادیب، نقاد، محقق اور ماہر تعلیم پروفیسر شہپر رسول نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اچھا لباس، اچھے لوگ اور اچھی صورتیں اُن کو پسند تھیں۔ ایک مرتبہ علی گڑھ ہی کے ریستراں میں راقم الحروف کے ساتھ ڈنر کا پروگرام طے پایا۔ معینہ وقت پر میں اور مرحوم ریستراں پہنچے۔ اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں اور صرف اِس بنیاد پر کہ وہاں موجود اشخاص یا افراد کے لباس اور شکلیں ان کو پسند نہیں آئی تھیں ڈنر ہی منسوخ کر دیا۔۔ ۔۔ ۔ اور یہ فرماتے ہوئے کہ ’’یہاں کی فضا تکدر سے پُر ہے، ہم تو گلیمر کی تلاش میں یہاں آئے تھے‘‘ واپس گھر روانہ ہو گئے۔‘‘ (5)

دِلِ فسردہ میں کچھ سوز و ساز باقی ہے

وہ آگ بجھ گئی لیکن گداز باقی ہے

تقدیروں کے بننے اور بگڑنے اور خزاں کے سیکڑوں خوں رُلانے والے مناظر دیکھنے کے بعد زخم خوردہ اختر انصاری دہلوی نے ہر قسم کا شکوہ اور شکایت چھوڑ کر اپنے دِلِ شوریدہ کو تھام کر صبر کو شعار بنا لیا جو اُن کی مضبوط اور مستحکم شخصیت کی دلیل ہے۔ اُن کے دِل غم گداز میں کرب پیہم کروٹیں بدلتا رہا مگر محبت کے ستم سہہ کر بغیر آنسوؤں کے رونے والے اس ادیب نے اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ اُن کے اسلوب میں جلوہ گر اُن کی نکتہ سنجیوں کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ وہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ چلنے کی صلاحیت سے متمتع تھے۔ گردش ایام کے باوجود اپنے مرکز قائم رہنے کا یہ منفرد انداز انھیں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسے مرقع ساز تھے جو حسین الفاظ کے رنگوں سے روح، قلب اور ذہن و ذکاوت کی مرقع نگاری پر قادر تھے۔ روح کے زخم سے نا آشنا چارہ گری سے گریز کرنے والے غم گساروں پر وہ یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ گردشِ ماہ و سال کو دیکھ کر وہ اندمال کی مساعی کے نتائج سے نا اُمید نہیں۔ ضعیفی کے عالم میں محبت اور جوانی کے تذکرے اُنھیں اِس لیے پسند نہ تھے کہ جہانِ دِل کی ویرانی اور سوختہ سامانی کی لرزہ خیز کیفیت دیکھنے کے بعد اِس کا نئے سرے سے بسنا بعید از قیاس ہے۔ اپنے سب احباب سے اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا اُن کا شیوہ تھا۔ انھوں نے معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے تضادات، بے ہنگم ارتعاشات اور نا انصافیوں کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر انھوں نے سماجی زندگی میں راہ پا جانے والے مناقشات کے خلاف کھُل کر لکھا۔ اپنے ذاتی مسائل کے باوجود انھوں نے ہوائے جورو ستم میں بھی مشعل وفا کو فروزاں رکھنے پر اصرار کیا۔ معاشرتی زندگی کی اصلاح، رویّوں کو اعتدال میں لانے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کی خاطر اُنھوں نے طنز کو اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ معاشرے اور سماج پر طنز کرتے وقت وہ اپنی ذات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے کا المیہ یہ ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے چور دروازے سے گھُس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر سانحہ کیا ہو گا کہ انگوٹھا چھاپ بھی اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ادبی انجمنوں کے بڑے انعام بھی موقع پرست اپنے مکر کی چالوں سے اُڑا لے جاتے ہیں جب کہ با صلاحیت ادیب اپنی سادگی اور انا کی وجہ سے مات کھا جاتے ہیں۔ اختر انصاری کو اس بات کا قلق تھا کہ موجودہ زمانے میں معاشرتی بے حسی کے باعث اہلِ کمال کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے، چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے اور ایک چہرے پر کئی چہرے سجا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے پینترے بازوں کی قلا بازیوں کو وہ شامِ الم سے تعبیر کرتے تھے جسے صبح کہنا حقائق کی تنسیخ اور صداقتوں کی تکذیب تھا۔ اپنے اس موقف پر وہ زندگی بھر ڈٹے رہے گوشہ نشینی اختیار کر لی مگر پامال راہوں پر چلتے ہوئے کسی کی تقلید نہ کی۔ کرگس زادوں نے اس شاہین صفت ادیب پر کئی وار کیے مگر اس نے زندگی بھر نیام حرف اور شمشیر دِل کو سنبھال کر اپنا دفاع کیا۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کی تقسیم کے سلسلے میں ہونے والی نا انصافی پر اختر انصاری کے ملال کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ اختر انصاری کا خیال تھا کہ یہ ایوارڈ اکثر نا اہل لوگوں کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اہلِ کمال کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ظہیر احمد صدیقی نے لکھا ہے:

’’میں نے اپنے ایک مضمون میں عہدِ حاضر کے چند ممتاز شاعروں کے نام لکھے تھے۔ اختر صاحب نے مضمون کے حاشیہ پر لکھ دیا:

’’یہ سب تیسرے درجے کے شاعر ہوئے ہیں۔ بد بخت اختر انصاری تو اِن مینڈکوں کی صف میں بھی شامل نہیں ہے۔‘‘ (6)

اُن کی خوش لباسی وضع داری اور مہمان نوازی کی ہر طرف دھُوم تھی۔ پروفیسر شہپر رسول نے اختر انصاری کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:

’’مکمل انسان اس طرح کہ تکمیل انسانیت مرحوم پر فخر کر سکتی تھی، نہایت انکسار پسند، خوش مزاج، سادہ طبیعت، نرم گو اور اَدب کے دُوسرے لوگوں سے قطعی جُدا۔ ہر اچھی بُری سے دُور اپنے کام سے کام کرنے والے آدمی۔۔ ۔) (7)

٭٭

مآخذ

(1) خلیق انجم (مرتب) : اختر انصاری: شخص اور شاعر، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 10۔

(2) پروفیسر شہپر رسول: ’’اختر انصاری۔ آئینے سے عکس تک‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 50۔

(3) پروفیسر ظہیر احمد صدیقی: ’’خدا کی دین ہے سرمایہ غم فرہاد‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 28۔

(4) طارق غازی: وھیٹی، اونٹاریو، کینیڈا میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ممتاز بھارتی ادیب طارق غازی کی طرف سے منگل دس نومبر 2020 کو صبح چار بج کر چھپن منٹ پر یہ ای۔ میل موصول ہوئی۔

(5) پروفیسر شہپر رسول: ’’اختر انصاری۔ آئینے سے عکس تک‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 48۔

(6) پروفیسر ظہیر احمد صدیقی: ’’خدا کی دین ہے سرمایہ غم فرہاد‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 28۔

(7) پروفیسر شہپر رسول: ’’اختر انصاری۔ آئینے سے عکس تک‘‘ مضمون مشمولہ ’’اختر انصاری: شخص اور شاعر‘‘ مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو، ہند، نئی دہلی، سال اشاعت، 1990ء صفحہ 53۔

٭٭٭

فیض کی نظم ’’دریچہ‘‘ کا ساختیاتی جائزہ ۔۔۔ ڈاکٹر محمد خرم یاسین

ساختیات (Structuralism)، زبان کی ساخت کا علم ہے۔ اس میں زبان کے ساختیاتی اجزا، ان کے باہمی تعلق اور وجود سے بحث کی جاتی ہے۔ ساختیات کا آغاز ماہر لسانیات ساسئیر کے ان دروس سے ہوتا ہے جنھیں ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے کتابی شکل میں شائع کروایا۔ اس سے زبان کے مروجہ اصول و ضوابط اور تعریفات پر ہی چوٹ نہیں پڑی بلکہ اس کا دائرہ اثر بشریات، نفسیات اور معاشرتی علوم ایسے شعبوں تک بھی وسیع ہوتا گیا۔ گوپی چند نارنگ کے مطابق ساختیات زبان کی معنی خیزی کی حقیقت تک پہنچنے کا علم ہے:

 ’’ساختیات بنیادی طور پر ایک ادراک حقیقت کا اصول ہے۔ یعنی حقیقت کائنات ہمارے شعور و ادراک کا حصہ کس طرح بنتی ہے، ہم اشیا کی حقیقت کو انگیز کس طرح کرتے ہیں یا معنی خیزی کن بنیادوں پر ہے اور معنی خیزی کا عمل کیوں کر ممکن ہوتا ہے اور کیوں کر جاری رہتا ہے۔‘‘(۱)

ساختیات(Structuralism) در حقیقت کسی بھی ادب پارے، نظم و نثر کی ساخت کا مطالعہ کرتے ہوئے اس میں موجود کوڈز(Codes) جن میں مختلف معاشرتی، تہذیبی اورثقافتی، نشانات، اشارات، علامات، استعارات، تشبیہات وغیرہ شامل ہوتے ہیں، کنوینشنز (Conventions)جن میں روایات و رسمیات وغیرہ شامل ہوتی ہیں اور شعریات و معنیات کا مکمل نظام موجود ہے، کی نشاندہی کرتی ہے۔ ذیل میں فیض احمد فیض کی نظم ’’دریچہ ‘‘ کے ساختیاتی جائزے سے قبل نظم ملاحظہ کیجیے:

دریچہ

گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں

ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے

ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے

کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں

کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں

کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم

کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں

ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہرو جمال

لہو میں غرق مرے غم کدے میں آتے ہیں

اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے

شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں (۲)

یہ نظم فیض احمد فیض کے ان انگریزی خطوط کی یاد دلاتی ہے جو انھوں نے قید و بند کی صعوبتوں کے دوران (۱۹۵۵ء۔ ۱۹۵۱ء) اپنی بیگم کلثوم (ایلس) کے نام تحریر کیے تھے اور ان کا ترجمہ بذات خود ’’صلیبیں مرے دریچے میں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ یہ نظم بھی انھوں نے منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کی جیل میں دسمبر ۱۹۵۴ء کو لکھی تھی۔ نظم کا اسلوب بظاہر سادہ ہے اور نظم یہ تاثر دے رہی ہے کہ فیض ایک دریچے سے ان ظالم و جابر حکمرانوں اور ان کے کارندوں کو دیکھ رہے ہیں جو زیر دستوں کی عزت پائمال کرنا، قتل و غارت گری کرنا اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بزور طاقت دبا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ یہ منظر دیکھتے ہوئے رنجیدہ ہیں اور گویا اس خبر کو بیان کر رہے ہیں جس کے تانے بانے سے اس دنیا میں مسلسل ایک کشمکش کا نظام رواں ہے یعنی خیر و شر کا برسرِ پیکار ہونا۔ یہاں جیت ہمیشہ خیر کی ہوئی ہے لیکن اکثر جگہوں پر شر فاتح رہا ہے۔ بظاہر یہ سادہ سی بات ہے اور ہر ایک اسے جانتا بھی ہے اور مانتا بھی ہے لیکن ساختیاتی (Structuralistic) حوالے سے دیکھا جائے تو نظم کے نہ صرف معانی میں تغیر برپا ہوتا ہے بلکہ اس کی تفہیم میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور اس کی ساخت کے مضمرات کی کئی نئی پرتیں بھی کھلتی ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے مطابق شعری اظہار اور اس سے جڑا معنیاتی نظام کسی بھی ادب پارے کو خاص بناتا ہے۔ اس ضمن میں وہ فیض احمد فیض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’اگر شعری اظہارات الگ ہیں تو معنیاتی نظام بھی دوسروں سے الگ ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فیض احمد فیض نے اردو شاعری میں نئے الفاظ کا اضافہ نہیں کیا، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے نئے اظہاری پیرائے وضع کیے، اور سینکڑوں ہزاروں لفظوں، ترکیبوں اور اظہاری سانچوں کو ان کے صدیوں پرانے مفاہیم سے ہٹا کر بالکل نئے معنیاتی نظام کے لیے برتا اور یہ اظہار پیرائے اور ان سے پیدا ہونے والا معنیاتی نظام بڑی حد تک فیض کا اپنا ہے۔ اگر اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں تو فیض نے کلاسیکی شعری روایت کے سرچشمہ فیضان سے پورا پورا استفادہ کیا۔ ان کی لفظیات کلاسیکی روایت کی لفظیات ہے لیکن اپنی تخلیقیت کے جادوئی لمس سے وہ کس طرح نئے معنی کی تخلیق کرتے ہیں یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ‘‘(۳)

نظم کا عنوان دریچہ ہے جس کا ترجمہ وکٹر کیرنان (V. G. KIERNAN)، داؤد کمال اور خالد حسن نے ’’The Window‘‘ کیا ہے۔ نظم لکھتے ہوئے فیض کہاں موجود ہیں؟ اور کیا ان کی نظم میں موجود ظلم و جبر کی خبر اور اشارات اتنے اہم ہیں کہ اس نظم کا کوئی ادبی مقام و مرتبہ متعین کیا جائے؟ کیا نظم کا عنوان نظم سے انصاف کرتا ہے یا کیا یہ واقعی کھڑکی کا درست مفہوم ادا کر سکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات کے لیے نظم کے پس منظری مطالعے اور اس کی معاشرتی مطابقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں ’’دریچہ‘‘ در حقیقت ایک نشان (Sign) ہے جو تصور معنی اور تصور نما (Signifier & Signified) سے مل کر ترتیب پا رہا ہے۔ چوں کہ ساختیات کے مطابق زبان ایسی شفاف شے (Transparent Medium) نہیں ہے جس کے آر پار جھانکا جا سکے اس لیے اس کے معاشرتی معانی سے مدد لی جائے تو بظاہر یہ لفظ چھوٹے دروازے یا کھڑی کے معانی میں مستعمل ہے لیکن در حقیقت یہ کھڑکی کسی دیوار میں نسب نہیں ہے، نہ ہی یہ محض جیل کی سلاخوں کا منظر ہے بلکہ اس کے پس منظر میں وہ تمام انسان موجود ہیں جو حساس ہیں اور اپنی بصارت کو ضائع نہیں کر چکے۔ وہ دوسری جانب ان ظالم اور جابروں کو دیکھ رہے ہیں جو مظلومین پر ہمیشہ سے ظلم ڈھاتے چلے آ رہے ہیں۔ فیض کا یہ ’’دریچہ‘‘ تیسری دنیا کے ہر ملک کا منظر اور حساس آنکھ کی داستان ہے۔ نظم میں آگے بڑھیں تو اس دریچے کے معانی مزید واضح ہوتے جاتے ہیں۔ پہلے دو مصرعوں سے لگتا ہے کہ فیض دریچے کے اندر سے باہر آ چکے ہیں اور اب اس میدان میں بذات خود موجود ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ ’’گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں۔۔ ۔ ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے‘‘

پہلے مصرعے میں ’’صلیبیں‘‘ جو کہ صلیب کی اسم جمع ہے، کی موجودگی سوال پیدا کرتی ہے کہ فیض کے ارد گرد صلیبیں کیوں ہیں؟ کیا وہ عالم خواب میں ہیں؟ یا کسی پھانسی گھاٹ میں؟ دوسرے مصرعے میں ’’مسیحا کے خون‘‘ کا واضح مطلب ہے کہ مسیحا نہیں رہے اور صلیبوں پر ان کے خون کے نشانات ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ دونوں مصرعے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ’’صلیب‘‘ اور ’’مسیحا‘‘ کے معانی واضح نہیں ہیں۔ اس کے لیے زبان کے قدیم و جدید معانی سے گزرنا پڑے گا۔ یہاں ’’صلیب‘‘ اور ’’مسیحا‘‘ بنیادی طور پر دو استعارے (Signs) ہیں اور مشرقی شعریت (Poetics) کے مطابق تلمیحات ہیں۔ اب ان نشانات کا سراغ لگانے کے لیے ذرا حال سے ماضی کی جانب سفر کرنا پڑے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا بظاہر مصلوب ہونا قدیم روایت ہے جسے کسی قدر فرق کے ساتھ اسلام میں بیان کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنی قربانی کے ذریعے اپنے تمام پیروکاروں کے گناہوں کے نشانات دھو گئے ہیں اور انھیں مصلوب کرنا ہی ان کی نجات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ایک صلیب اور ایک مسیحا کا ذکر ہے۔ فیض کے مطابق ان کے گرد ایک نہیں بہت ساری صلیبیں ہیں اور ہر ایک پر خون کا نشان ہے۔ معنیات (Sementics) کے مطابق تلمیح اور فیض کی بیان کردہ موجودہ صورتِ حال کا فرق واضح ہوتا ہے۔ فیض چوں کہ جیل میں موجود ہیں اس لیے وہ یہاں ظلم ہوتا دیکھتے ہیں جہاں جابر ہر چار و ناچار کو ظلم کی چکی میں پیستے جا رہے ہیں گویا یہ ان کی نجات کا واحد راستہ ہے۔ تیسرے مصرعے میں وہ ’’وصلِ خداوند‘‘ سے یہی مراد لیتے ہیں کہ اس طرح سارے گناہ بھی دھل جائیں گے اور خدا کا قرب بھی حاصل ہو گا۔ یہاں غور و فکر اور تشویش ( Gap) کی گنجائش ہے کہ کیوں کر مسیحاؤں کے قتل سے مسیحا کے پیدا کرنے والے کا قرب میسر ہو سکتا ہے۔ ساختیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو ’’خدا‘‘ اور ’’خداوند‘‘ میں فرق ہے جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ظالموں کا اگرچہ مقصد ایک ہی ہے لیکن ان کے ہاں خدا کا ایک ہی تصور نہیں ہے۔ فیض احمد فیض نے زبان کے تجریدی مخزن (Langue) میں سے تکلم (Parole) میں شعوری طور پر ایسا لفظ استعمال کیا ہے جو نہ صرف مصرعے کو بے وزن ہونے سے بچائے (Synchronization) بلکہ ان کے مفہوم کو بھی بہتر انداز میں واضح کر دے۔ اگر اس سے عمومی انسانی رویے کی بابت بات کی جائے تو اس سے اظالمین کی فکری ساخت کا اشارہ بھی ملتا ہے۔

چوتھے مصرعے میں ’’ابرِ بہار‘‘ اور اس کی ’’قربانی‘‘ معنوی حوالے سے افتراقی جوڑے (Binary Oppositions) ہیں۔ یہاں معنیات (Sementics) کو سمجھنے کے لیے گہرے تفکر کی ضرورت ہے۔ کون کس کو قربان کر رہا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ماقبل کے تین مصرعے پتہ دیتے ہیں کہ ظالم مظلوموں کی جان کے درپے ہیں۔ یہ در حقیقت ایک ڈسکورس (Discourse) ہے جس کے رموز (Trace) ظالم کا پتہ دیتے ہیں۔ چوں کہ ابرِ بہار خوشیاں اور محبتیں لاتا ہے اس لیے اسے قربانی سے منسوب کرنا در حقیقت خیال کو اجنبیانے (Defamiliarize) کی غرض سے کیا گیا ہے۔ اس سے اگلے مصرعے میں ’’ مہِ تابناک ‘‘ کا قتل بھی الفاظ کو اجنبیانے (Defamiliarize)کی خاطر استعمال کیا گیا ہے۔ بالعموم نہ تو ابر بہار کو قربان کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی میں سکت ہے کہ وہ مہ تابناک کو قتل کر دے۔ ان دونوں مصرعوں کی ساخت میں جھانکنے سے ہی کسی نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے بصورتِ دیگر سمجھنے اور ترجمے کرنے میں ٹھوکر کھانے کا قوی امکان موجود رہتا ہے جیسا کہ داؤد کمال اور خالد حسن کے اس ترجمے سے عیاں ہے۔

"To some I offer in sacrifice clouds at springtime (4)”

 اسی ضمن میں ڈاکٹر داؤد کشمیری اس نظم پر ہونے والے اعتراضات کا احاطہ کرتے ہوئے ایک اعتراض یوں نقل کیا ہے:

 ’’صلیب پر مہِ تاب ناک کو قتل کرنا، اس پر شاخسارِ دو نیم کا سر مست ہونا۔ بادِ صبا کو ہلاک رنا اور بر بہار کو قربان کرنا، صلیب کا وصلِ خداوند کی امنگ لیے ہوئے ہونا، خداوندگانِ مہر و جمال کے شہید جسم اور پھر ان شہید جسموں کا سلامت اٹھایا جانا، ان سب میں ترجمہ کر دینے والا ایسا انداز پایا جاتا ہے جس کو صحتِ زباں اور فصاحتِ بیاں سے کچھ نسبت نہیں۔ اس اجنبی انداز نے پوری نظم کو کم رتبہ اور بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔‘‘ (۵)

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ساختیات ادب پارے کی معنیات اور بہتر تفہیم تک رسائی دیتی ہے بصورتِ دیگر اعتراضات کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ فیض یہاں ’’ابرِ بہار‘‘، ’’ مہِ تابناک‘‘ اور ’’قربان‘‘ کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں اور اس سے مراد ان مظلومین کی جوانیوں، تمناؤں اور جائز حاجات کا قتل عام ہے جو کہیں ابرِ بہار ہیں اور ہیں مہ تابناک۔ یہ ظالم کی طاقت کی گواہی ہے لیکن مظلومین کی تا حال موجودگی ان کے لیے امید کا اشارہ (Trace) بھی ہے۔

چھٹے اور ساتویں مصرعے میں ’’کسی‘‘ ضمیر کے صیغہ غائب کی نمائندگی ہے لیکن یہ غائب ہونے کے باوجود حاضر ہے۔ یہاں شاعرانہ ابلاغ (Poetics) کا حسن ہے کہ دونوں مصرعوں میں یہ بظاہر غائب مظلومین کے کل طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان دو مصرعوں میں فیض احمد فیض کی الفاظ کے معانی کو پھر سے اجنبیانے کی (Defamiliarize) کی شعوری کوشش نظر آتی ہے۔ وہ ظالم کے ظلم کی داستان کو طول دینے اور شدت بیان کرنے کے لیے زبان کے تجریدی نظام( لینگ langue) میں سے جو الفاظ تکلم (پیرول Parole) استعمال کرتے ہیں ان میں سر مست شاخسار کا دو نیم ہونا اور بادِ صبا کی ہلاکت شامل ہے۔ یہاں ساختیات کا یہ کلیہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر آمد در حقیقت آورد ہی کی شکل ہے اور رولنڈ بارتھیز کے مطابق کوئی بھی خیال ہوا میں تخلیق نہیں ہوتا بلکہ اس میں مطالعہ، مشاہدہ اور تجربات شامل ہو کر بین المتنیت (Intertextuality) کو جنم دیتے ہیں۔ سر مست شاخ یا سبزہ نومیدہ کا بے رحمی سے قتل اور بادِ صبا کی ہلاکت دونوں لرزہ خیز عوامل ہیں۔ ان کی معنویت ان کے حقیقی افتراق (Binary Oppositions) سے جنم لے رہی ہے۔ ورنہ بصورتِ دیگر یہ مصرعے بے معنی ہو جاتے ہیں۔

آٹھواں مصرعہ اس نظم کا سب سے زیادہ مبہم مصرعہ ہے۔ یہاں ان کے مخاطب کون ہیں یا ’’خداوندگانِ مہر و جمال‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں؟ وہ جن کے پاس ان کے سامنے طاقت ہے اور بظاہر عزت ہے اور وہ ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں یا پھر وہ جو مظلوم ہیں؟ اگلا مصرعہ قارئین کی فکر کی لہر کو دوبارہ سے نہ صرف پچھلے مصرعے سے جوڑتا (Synchronization) ہے بلکہ مفہوم تک رسائی بھی دیتا ہے۔ یہ بظاہر و بباطن خوبصورت لوگ وہی مظلومین ہیں جن کی لاشیں روز گرائی جاتی ہیں، جنھیں روز مصلوب کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا۔ ’’غم کدے‘‘ کا مفہوم بنا لہو میں تر جسموں کے اشارے کے سمجھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

آخری مصرعے میں جسم کی شہادت کے باوجود سلامتی کو براہ راست صنعت تضاد (Binary Oppositions) کو استعمال کرتے ہوئے خیر کو شر سے بر سر پیکار دکھایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہی وہ حاصل کلام مصرعہ ہے جو فیض کا یہ موقف واضح کرتا ہے کہ اگر راہ راست پر ہوں تو شہادت کے باوجود سلامتی ہے اور ظالمین کو شکست ہے۔ فیض کی اس نظم کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو اس میں دریچہ اشارہ، علامت اور استعارہ ہے جس سے فیض خود بھی اور اپنے قارئین کو بھی باہر نکال لاتے ہیں اور براہ راست اس قتل گاہ میں موجود ہوتے ہیں جہاں انسانیت، تہذیب اور مذہب کے علم بردار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور شر سے بر سرِ پیکار ہیں۔ اس سارے شاعرانہ عمل میں ( Poetic Process) میں زبان کو اجنبیانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے اور زبان کے تجریدی مخزن (لینگ) سے تکلم (پیرول) کے لیے ایسے الفاظ کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے جو ایک جانب ظالم کا احوال کھول کر بیان کریں اور دوسری جانب مظلومین کے لیے قارئین کے دل میں رحم کے جذبات کو بیدار کر دیں۔ اس سارے عمل کے ساتھ ساتھ مشرقی شعریات کے مطابق تمام مصرعوں کو بحر اور وزن میں رکھنے (Synchronization) کا بھی التزام کیا گیا ہے۔

٭٭

حوالہ جات

۱۔ گوپی چند نارنگ، ’’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء، ص: ۴۰

۲۔ فیض احمد فیض، کلیاتِ فیض، زنداں نامہ، دلی: پرویز بک ڈپو،، ۱۹۵۵ء، ص: ۲۱۷

۳۔ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، فیض کا جمالیاتی احساس اور معنیاتی نظام، فیض احمد فیض، فیض صدی: منتخب مضامین۔ مرتبہ: پروفیسر یوسف حسن و ڈاکٹر روش ندیم، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۱۰ء، ص۴۳۴

4۔ Daud Kamal and Khalid Hasan, Translator, "O City of Lights, Faiz Ahmed Faiz Selected Poetry and Biographical Notes”, First Published, New York: Oxford University Press 2006, P-252

۵۔ داؤد کشمیری، ڈاکٹر، شرح کلامِ فیض، طرزِ فغاں سے طرزِ بیاں تک، ممبئی، پلاسکوٹ انڈسٹریز، ۲۰۰۱ء، ص: ۸۳

٭٭٭

غزلیں

غزلیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

کہاں ہوں، کیوں ہوں، کچھ اپنا پتہ نہیں ملتا

یہ کیسی ڈور ہے جس کا سرا نہیں ملتا

کہاں گئے یہ مرے خال و خد خدا جانے

یہیں تو تھا وہ مرا آئینہ نہیں ملتا

وہ طفل ہم نے سنا کب کے ہو گئے بوڑھے

گلی کے موڑ پہ اک پیڑ تھا نہیں ملتا

دُعا کے آگے وہی ایک اینٹ کی دیوار

اسے بھی اور کوئی راستہ نہیں ملتا

خدا یہیں ہے۔ اگر ہے، بتوں نے سمجھایا

تو دیکھ آئے جرم میں خدا نہیں ملتا

یہ پیاسی دید کی آنکھیں کہو کہاں لے جائیں

پیالہ ملتا ہے لیکن بھرا نہیں ملتا

میں چاہتا ہوں بہت اس کو لیکن آخر کیوں

اسے بھی اور کوئی دوسرا نہیں ملتا

٭٭٭

یہ دل، دلِ بے قرار میرا

نہ یار تیرا نہ یار میرا

چلو کبھی ہم نہیں ملیں گے

مگر رہے گا ادھار میرا

وہاں مجھے ڈھونڈتے پھرو گے

چڑھے گا ایسا بخار میرا

تو جاؤ کیوں میرے پاس بیٹھو

اگر نہیں اعتبار میرا

عجیب بازار ہے یہ دنیا

دُکاں تری کاروبار میرا

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ رؤف خیر

عقیدت ہے زبانی جمع و خرچ ان خام کاروں کی

حقیقت میں حقیقت کھُل گئی بے روح نعروں کی

بنایا کوزہ گر ہی نے مٹایا کوزہ گر ہی نے

چلو مٹی ٹھکانے لگ گئی ہم خاکساروں کی

کہیں فٹ پاتھ پر ردی کے بھاؤ بکتے دیکھے ہیں

یہی تو رہ گئی ہے قدر اپنے شاہ کاروں کی

وفادارانِ اصلی کو نظر انداز کرتے ہیں

بناتے ہیں وہ جب فہرست اپنے جاں نثاروں کی

ہماری بات تیری ذات پر کیوں کھل نہیں پاتی

نہ کثرت ہے علائم کی نہ شدت استعاروں کی

زمین پاک سے ناپاک تک ظالم مسلط ہیں

دعائیں بد دعائیں رد ہوئیں لاکھوں ہزاروں کی

ہمارا کام بنتا اور بگڑتا رہتا ہے اکثر

ہماری زندگانی خیرؔ زد میں ہے اداروں کی

٭٭٭

مجھ کو بتا رہا تھا وہ ابنِ فلاں حسب نسب

میں نے بھی یار پڑھ دیا تبّت یدا ابی لہب

نا پختہ شیخ و برہمن، ظلم عظیم میں مگن

خلّاقِ دو جہان کو دیتے ہیں دعوتِ غضب

لہو و لعب میں مبتلا، لیت و لعل کا سلسلہ

اِس کے سوا ہے اور کیا نسلِ نوی کے روز و شب

گزری ہے ہر گمان سے، حق الیقیں کی آس میں

حرف غلط کی بے کلی، حرفِ صحیح کی طلب

ہم سے ادا نہ ہو سکا فرض کفایہ ایک بھی

ایسے میں کیا بنیں بھلا حصۂ محفلِ طرب

جس کے لیے لکھا گیا، جس کے لیے کہا گیا

اُس نے مجھے پڑھا ہی کب، اُس نے مجھے سنا ہی کب

نظمِ رؤف خیر سے، نثر رؤف خیر تک

تنقید شر و بے ادب، تائید خیر ِبا ادب

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ سلیم انصاری

جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں

وہ بھی دن کیا مزے سے نکلے ہیں

وہ کہاں نذر جاں کریں اپنی

جو پتنگے دئیے سے نکلے ہیں

جو کسی سمت بھی نہیں جاتے

ہم اسی راستے سے نکلے ہیں

زیست کو پڑھ کے یہ کھلا ہم پر

متن سب حاشیے سے نکلے ہیں

سارے ارمان آندھیوں کے سلیم

میرے پر ٹوٹنے سے نکلے ہیں

٭٭٭

جنہیں طلب ہے انہیں مال و زر عطا کر دے

مجھے سلیقۂ عرضِ ہنر عطا کر دے

میں اور کتنا کسی دوسرے بدن میں رہوں

مرے وجود کو اب کوئی گھر عطا کر دے

جو گھر میں ہیں انہیں توفیق دے مسافت کی

جو چل پڑے ہیں انہیں ہمسفر عطا کر دے

کوئی تو ہو مرے لہجے کی سرکشی کا علاج

چراغِ جاں کو ہواؤں کا ڈر عطا کر دے

کیا ہے جس نے مرے خاکدانِ جسم کو سرد

اسی کے لمسِ بدن کا شرر عطا کر دے

اڑان میں ہیں جو طائر انہیں زمین پہ بھیج

جو قید میں ہیں انہیں بال و پر عطا کر دے

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ جوّاد شیخ

ذرا سی بات پہ نم دیدہ ہوا کرتے تھے

ہم بھی کیا سادہ و پیچیدہ ہوا کرتے تھے

اب ہمیں دیکھ کے لگتا تو نہیں ہے لیکن

ہم کبھی اُس کے پسندیدہ ہوا کرتے تھے

تُو نے کس موج میں یہ حال کیا ہے اپنا

لوگ کیا کیا ترے گرویدہ ہوا کرتے تھے

تجھ سے پہلے بھی مرے راز تھے اک شخص کے پاس

فرق اتنا ہے کہ پوشیدہ ہوا کرتے تھے

صاحب الرائے کہاں اتنے بہم تھے پہلے

یہ چنیدہ تو بہت چیدہ ہوا کرتے تھے

عکس بندی کی ہوس ان میں کہاں سے آئی؟

مہرباں ہاتھ تو نادیدہ ہوا کرتے تھے

اُن دنوں اتنے وسائل نہیں ہوتے تھے مگر

پھر بھی کچھ لوگ جہاں دیدہ ہوا کرتے تھے

٭٭٭

مرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات

کہ زندگی سے سوا خاص تھی کوئی کوئی بات

یہ اور بات کہ محسوس تک نہ ہونے دوں

جکڑ سی لیتی ہے دل کو تری کوئی کوئی بات

خوشی ہوئی کہ ملاقات رائگاں نہ گئی

اسے بھی میری طرح یاد تھی کوئی کوئی بات

بدن میں زہر کے مانند پھیل جاتی ہے

دلوں میں خوف سے سہمی ہوئی کوئی کوئی بات

کبھی سمجھ نہیں پائے کہ اُس میں کیا ہے مگر

چلی تو ایسے کہ بس چل پڑی کوئی کوئی بات

وضاحتوں میں الجھ کر یہی کھلا جواد

ضروری ہے کہ رہے ان کہی کوئی کوئی بات

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔۔ عبید حارث

سر پر سدا ہی دھوپ کا سایہ رہے گا اب

یہ دشت یوں ہی خون کا پیاسا رہے گا اب

دریا ملے تو ہونٹ ہی گیلا کریں فقط

سیراب جو بھی ہوگا وہ پیاسا رہے گا اب

جو کچھ ہوا ہے اس میں ہمارا قصور ہے

جو ہو رہا ہے روز ہی ہوتا رہے گا اب

اگلی گلی سے مڑ کے وہ جاتا ہے کس طرف

یہ دل اسی خیال میں الجھا رہے گا اب

موسم گزر گئے کئی بویا نہ ہم نے کچھ

آنگن ہمارے خواب کا سونا رہے گا اب

بکنے لگا ہے مال مرے دل کا آج کل

یہ کاروبار شوق ہے چلتا رہے گا اب  ٭٭٭

کوئلے کی شکل گوری ہو گئی

چور کے گھر میں بھی چوری ہو گئی

سن کے سو جاتے ہیں بچے رات میں

روز کی ان بن بھی لوری ہو گئی

آ لکھوں تجھے پر کوئی تازہ غزل

پھر بیاضِ شعر کوری ہو گئی

بھر گئی ہے غم کی باتوں سے ہنسی

زندگی خوشیوں سے کوری ہو گئی

سوچئے تو سب یہاں آزاد ہیں

اک ضرورت سب کی ڈوری ہو گئی

فطرتِ آدم سے ہیں مجبور سب

اک خطا ہم سے بھی سوری ہو گئی

ذائقہ کچھ چٹپٹا سا چاہیے

شاعری حارث چٹوری ہو گئی

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

میں یہاں سے کٹ گیا ہوں تو وہاں سے کٹ گیا

پھر محبت کا تعلق درمیاں سے کٹ گیا

جب ہوا نے بوجھ ڈالا ہے شجر کی شاخ پر

اک پرندہ گھونسلے سے سائباں سے کٹ گیا

جب قلم نے آخری تھا شعر اگلا تو وہیں

شاعری کا رابطہ اک داستاں سے کٹ گیا

میں کہیں کا بھی نہیں رہتا اگر ایسا ہوا

میں اگر مصروفیت میں پھر جہاں سے کٹ گیا

وہ اچانک چل دیا ہے ہاتھ میرا چھوڑ کر

کچھ اچانک زندگی کے کارواں سے کٹ گیا

اور تو کچھ بھی نہیں رہتا لٹانے کے لئے

زندگی میں تیری ضد میں آسماں سے کٹ گیا

ہچکیوں سے خوف سا آنے لگا ہے اے خدا

اے خدا یہ سانس کا ٹکڑا کہاں سے کٹ گیا

کس ہوائی دور میں داخل ہوئی ہے زندگی

آخری آدم کا رشتہ بھی مکاں سے کٹ گیا

سب کشش سے بچ نکلنے کا زمیں پر کھیل ہے

جو سلیقے سے گرا ہے وہ یہاں سے کٹ گیا

جیت کا اعلان ہونا تھا کسی کی ہار پر

میں تو فوراً اس لئے تھا امتحاں سے کٹ گیا

میں بتاتا ہوں تمہیں اس قافلہ میں کیا ہوا

جو مکمل ہو گیا وہ مہرباں سے کٹ گیا

٭٭٭

یہ آزمایا ہوا ہے خود پر گھٹن سے دو دن نکل کے دیکھے

ہمارا اب بھی یہ مشورہ ہے کہ اپنے گھر کو بدل کے دیکھے

وہاں ٹھکانہ بنا رہا ہوں جہاں پہ چڑیوں کے گھونسلے ہیں

کبوتروں کے پڑوس میں ہے مرا ٹھکانہ وہ چل کے دیکھے

مجھے لگا ہے کہ شاعری بھی تمہاری قلت سی ہو گئی ہے

دراز کھولی تھی ڈائری سے تھے رنگ پہلی غزل کے دیکھے

ہوا سے کیسے بنا کے رکھی ہے کس زمیں پہ ٹکے ہوئے ہیں

کسی نے رہنا ہو پانیوں پہ تو پر اٹھا کے کنول کے دیکھے

خدا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں خدا کی بستی کے سارے پاگل

یہ ایک دوزخ میں مبتلا ہیں وہ ایک جنت اچھل کے دیکھے

مجھے بتایا گیا ہے آگے پروں کی حاجت نہیں رہے گی

لو آ گیا ہے مقام یاروں ہے جس کو جلنا وہ جل کے دیکھے

یہ دل جلایا ہے بادشاہو یہاں پہ اندھی نہیں لگے گی

کسی کو شک ہے تو آگے آئے ہمارے آگے سنبھل کے دیکھے

کئی دنوں تک بدن جلانے سے سبز ہوتی ہیں میری آنکھیں

نئے پجاری سے جا کے کہہ دو کہ چار دن تو پگھل کے دیکھے

٭٭٭

غزل ۔۔۔ سلیمان جاذب

خدا کا شکر ہے کوئی بچھڑ کر لوٹ آیا ہے

زمانے بھر کے افسانے بھی اپنے ساتھ لایا ہے

تعارف ہو تو میں تم کو بتاؤں اس کے بارے میں

کہ جس کی یاد نے مجھ کو ستایا ہے رُلایا ہے

سنا تو ہے کہ میرا نام سن کر وہ بت کافر

ذرا سا گنگنایا ہے بہت سا مسکرایا ہے

محبت مختلف انداز سے کرتا رہا ہے وہ

کبھی اس نے گرایا ہے کبھی اس نے اُٹھایا ہے

کسی کو اپنی ناکامی کا کیسے دوش دوں جاذب

مری آوارگی نے ہی مجھے یہ دن دکھایا ہے

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ شاہد شاہنواز

لگا ہے داغ جو دل پر وہ صاف کرنا ہے

ہوا ہے جرم، ہمیں اعتراف کرنا ہے

یہ کیسا وقت ہے یا رب! کہ اپنے ہاتھ میں ہے

وہ فیصلہ جو ہمارے خلاف کرنا ہے

زمانہ ایک طرف ہے، وہ دوسری جانب

روایتوں سے جسے انحراف کرنا ہے

روش ہے جس کی، وہ ظلم و ستم کرے تو کرے

مرے قبیلے کی عادت معاف کرنا ہے

میں کہہ رہا ہوں کہ اے دل! تُو اتفاق سے چل

وہ کہہ رہا ہے مجھے اختلاف کرنا ہے

وہ چپ ہے جس کو ہے خواہش کہ راز راز رہے

وہ بولتا ہے جسے انکشاف کرنا ہے

عقب میں آگیا فرعون حضرتِ موسیٰ ؑ

عصا سے چیرئیے دریا، شگاف کرنا ہے

خدا کی راہ پہ شاہدؔ جو لوگ چلتے ہیں

جہاں جہاں سے وہ گزریں، طواف کرنا ہے

٭٭٭

میرے ذہن کی ہر اک سوچ پہ اس کی یاد کا پہرہ تھا

اس کا پیار آسیب تھا جس کا میرے دل پر سایہ تھا

میں اپنے گھر میں بے گانہ، میں اپنوں میں غیر ہوا

مجھ سے کوسوں دور کھڑا تھا جو میرا ہمسایہ تھا

میرا دل وہ کانچ تھا جس کو اس نے ہاتھوں سے توڑا

جب وہ زخمی ہو کے رویا، میں بھی ساتھ ہی رویا تھا

جب سے غم کی چادر اوڑھی، ساری دنیا گنگ ہوئی

جو بھی میرے حال پہ ہنستا، دل میں رونے لگتا تھا

چاہت کی سب باتیں دھوکہ، سارے وعدے جھوٹے تھے

اس نے یہ الفاظ کہے تھے، جب آنکھوں میں دیکھا تھا

دیکھو تم انسان نہیں ہو، تم پتھر کی مورت ہو

جب اس نے یہ بات کہی، میں اِک لمحے کو چونکا تھا

میں نے سوچا بات کروں یا آنے والے کو دیکھوں؟

اتنی مدت بعد وہ آخر کن باتوں میں اُلجھا تھا؟

٭٭٭

دو غزلہ ۔۔۔ مقبول حسین

اک سوز ہے جُدائی کا دل کی پکار میں

شاید تڑپ رہا ہے ترے انتظار میں

خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح

ہے کاٹ بھی وُہی ترے کاجل کی دھار میں

جو میرے دل میں پیار سے تم نے لگائے ہیں

کیا کھل اٹھیں گے زخم وُہ اب کے بہار میں؟

لگتا نہیں کہ یار کے دیدار ہوں نصیب

پھر بھی لگا ہوا ہوں میں لمبی قطار میں

ملتا ہے تُو رقیب سے لیکن مرے لیے

اک لمحہ بھی نہیں ترے لیل و نہار میں

تارے میں آسمان سے لاؤں گا توڑ کر

ایسے ہی میں نے کہہ دیا ہو گا خمار میں

مقبول کیسے گذرے گی یہ رات ہجر کی

مقبول کیسے آئیں گے تارے شمار میں

٭٭٭

وُہ بھی عدو نے ڈال دیئے اشتہار میں

الزام جو نہیں تھے مری روبکار میں

اترے ہیں خالی ہاتھ سکندر مزار میں

کس بات کا غرور ہے مشتِ غُبار میں

اے موت، معذرت کہ تُجھے مل سکا نہ میں

مصروف زندگی کے تھا میں کاروبار میں

میں اپنے سب کیے کا سزا وار ہوں مگر

اک سانس بھی نہیں ہے مرے اختیار میں

دل کا یہ ماننا ہے کہ دُنیا میں خوش رہوں

پر دیکھتی ہے عقل بھلائی  فرار میں

لینے دے اب تو کھُل کے مجھے سانس آخری

اے زندگی میں کب سے ہوں تیرے حصار میں

مقبول ہم نہ جیت سکے زندگی کی دوڑ

ہم بیٹھتے تھے درس میں پہلی قطار میں

٭٭٭

افسانے

ڈوبنے والوں کے خواب ۔۔۔ محمد جمیل اختر

اس ملک کے لوگوں کی نیندوں میں دکھ بھرے خوابوں نے بسیرا کر لیا تھا۔۔ ۔۔ لوگ ہر تھوڑی دیر بعد چیخنے چلانے لگ جاتے، گھر میں کوئی نہ کوئی فرد جاگتا رہتا تاکہ ڈر کر جاگ جانے والوں کو بروقت پانی پلا کر حوصلہ دیا جا سکے ورنہ عموماً ڈرے ہوئے لوگ گھر سے نکل کر باہر کی جانب دوڑ لگا دیتے اور ایسے میں کئی ایک حادثات بھی ہو چکے تھے۔۔ ۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود ہر صبح کا اخبار ایسے حادثات کی خبروں سے بھرا ہوتا تھا جو خوابوں کے بھیانک مناظر دیکھنے کا نتیجہ تھے۔۔

مثلاً ایک کسان کو خواب آیا کہ گزشتہ برس کی طرح اس دفعہ بھی اس کی ساری فصل سنڈیاں کھا گئی ہیں، وہ اور اس کے بچے گلی گلی بھیک مانگ رہے ہیں۔۔ ۔ وہ اس خواب سے اس قدر پریشان ہوا کہ اسٹور روم میں جا کر سنڈیاں مارنے کی زہریلی دوا پی لی۔۔ آخری خبریں آنے تک وہ سرکاری ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔۔ ۔

اکثریت کے خوابوں میں بھوک ایک مستقل منظر تھا۔۔ ۔

ایک پرائمری سکول کے استاد نے خواب میں دیکھا کہ اس کے دونوں بچوں کو راکٹ لانچر میں ڈال کر سرحد کی دوسری جانب پھینکا جا رہا ہے۔۔ ۔ اب وہ انہیں گھر سے نہیں نکلنے دیتا۔۔ ۔

لوگوں میں دیکھے گئے خوابوں میں اس قدر یکسانیت تھی کہ انہیں تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جا سکتا تھا۔

1: ماضی کے متعلق خواب:

عوام کی ایک بڑی تعداد ماضی کے بھیانک خوابوں میں گرفتار تھی۔۔ ۔ وہ سوتے تو خوابوں میں ماضی کے کسی دکھ بھرے دن میں جاگ جاتے، انہیں محسوس ہوتا کہ وہ کبھی بھی ان حالات سے باہر نہیں نکل سکیں گے حتیٰ کہ جاگنے کے کئی گھنٹوں بعد بھی خواب کا اثر زائل نہ ہوتا اور وہ خود کو ماضی کے دکھ کا گرفتار سمجھتے۔۔ ۔۔

ایسے ہی ایک مریض اور ماہرِ نفسیات کا مکالمہ:

” ڈاکٹر صاحب، ہمارا گھر ٹوٹ گیا تھا۔۔ ۔ اب ہم دوبارہ کیسے تعمیر کریں گے؟”

” وہ پرانی بات ہے، بھول جائیں۔۔ "

” تو اس باریک مونچھوں والے دیو کا کیا کریں جو اب بھی ہر رات مجھے آ کر ڈراتا ہے، میرے آخری بچے کو بھی وہ لے جائے گا۔۔ "

” ڈریں مت، اب وہ نہیں آ سکتا۔۔ "

” لیکن ڈاکٹر صاحب، وہ دیو گیا کب تھا۔۔ ۔؟ وہ تو اب بھی ہر گلی، کوچے میں موجود ہے۔۔ "

” ہاں ہے تو مگر ڈریں مت۔۔ ۔ "

2: حال کے متعلق خواب:

وہ لوگ جن کا حال انتہائی دگرگوں تھا۔۔ وہ زیادہ تر کسی پرندے کی شکل میں ایک پنجرے میں قید ہوتے اور اس کی سلاخوں سے سر ہی پھوڑتے رہتے۔۔ ۔۔

” ہمیں نکالو، ہمیں نکالو” وہ چیختے چلاتے تاہم شکاری چابیوں کا گھچا سمندر میں پھینک دیتا۔۔ ۔

3: مستقبل کے متعلق خواب:

والدین دیکھتے کہ ایک بہت بڑی بلا ان کے بچوں کو نگل رہی ہے، وہ بھوکے ہیں۔۔ ۔ موسم کبھی انتہائی سرد ہو جاتا، برف گرنے لگتی تو کبھی اچانک ہر طرف آگ بھڑک اٹھتی ہے۔۔ ۔ بچے رونے لگ جاتے۔۔ ۔ لیکن وہ بلا انہیں نگلنے میں ذرا دیر نہ لگاتی۔۔ ۔۔

"مستقبل کے متعلق خواب” , بچوں اور نوجوانوں کو بھی آتے تھے۔۔ ۔ ایسے خو بواں میں وہ خود کو ایک تاریک کمرے میں قید پاتے، وہ ساری ساری رات اس تاریک کمرے میں دروازہ تلاش کرتے رہتے تاہم انہیں دروازہ نہ ملتا۔۔ ۔۔ جاگتے ساتھ ہی بچے اپنے مجبور والدین سے شکایت کرتے کہ ہمیں اس تاریک کمرے میں کیوں جنم دیا تھا۔۔ ۔؟

ایسے خوابوں کے ساتھ آدمی کیوں کر سو سکتا ہے، اس لیے زیادہ تر لوگ راتیں جاگ کر گزارنے لگے۔۔ ۔۔

عوام کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ ہمیں ہمارے خوابوں سے نجات دلائی جائے یا کچھ ایسا کیا جائے کہ خواب کچھ کم خوفناک مناظر لیے ہوں۔۔ ۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ اس ملک کے طاقتور حلقوں کا ان خوابوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔۔ ۔ وہ اتنی پرسکون نیند سوتے کہ بعض اوقات ان کو جگانے کے لیے لوگ خود کو آگ لگا دیتے، ایسا کرنے کے باوجود وہ کروٹ بدل کر سو جاتے۔۔ ۔ اور اپنے ماتھوں پر لکھوا دیتے کہ ہم جاگ رہے ہیں۔۔ ۔۔

جب ان کی آنکھ کھلتی اور کوئی انہیں بتاتا کہ کئی لوگ خودکشی کر چکے ہیں تو آنکھوں میں نقلی آنسو بھر لاتے، پھر انہی مر جانے والوں کی لاشوں کو لے کر اپنی معیشت چلاتے۔۔ ۔۔

سال ہا سال گزرتے گئے اور خواب مزید اذیت ناک ہوتے چلے گئے۔۔ ۔۔

اشرافیہ جو ان خوابوں کی اذیت سے نا آشنا تھی، انہیں صرف اتنا معلوم تھا کہ خوابوں کی اذیت ناکی میں جیسے جیسے اضافہ ہو گا، مقتدرہ حلقوں کی اہمیت اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔۔ ۔ دکھ بھرے خواب ہی ان کی معیشت کا سہارا تھے۔۔ ۔

 وہ ہر تھوڑے عرصے بعد ایک میلے کا انعقاد کرتے جس میں وہ اپنے اپنے جھنڈے لے کر آتے اور لوگوں کو یہ یقین دلاتے کہ ان کے پاس لوہے کا ایک ایسا جادوئی کنٹینر ہے جس کے اندر جاتے ہی لوگوں کو ان کے برے خوابوں سے نجات مل جائے گی۔۔ ۔۔

آج پھر میلہ سجا ہے، مداری اپنی اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔۔ ۔

ایک مداری آواز لگاتا ہے:

” بنا خوابوں کے کمرہ، شاندار اور بہترین نیند والا کمرہ،

 آپ اس کمرے میں داخل ہو جائیں، یہ برے خوابوں سے نجات کا کمرہ ہے، آپ گھنٹوں بنا خواب کے سو سکتے ہیں۔۔ اور اگر کوئی خواب آیا بھی تو وہ ایسا شاندار ہو گا کہ آپ کا جی چاہے گا کہ ہمیشہ سوتے رہیں۔۔

پہلے آئیں، پہلے پائیں۔۔ بس ایک انگوٹھا لگائیں اور کنٹینر میں داخل ہو جائیں۔۔ "

لوگ اکھٹا ہونا شروع ہو گئے۔۔ ۔

” ایسا بھلا کیسے ممکن ہے؟ ” ہجوم میں سے کوئی پکارا

” خوابوں کے بغیر بھلا کون سی نیند ہوتی ہے؟” ایک آواز

” جھوٹ ہے، جھوٹ ہے۔۔ ۔ ” کئی آوازیں۔۔ ۔ لیکن کچھ لوگ خوشی سے ناچتے گاتے کنٹینر میں داخل ہو جاتے ہیں۔۔ ۔

دوسرا مداری اپنے کنٹینر پر چڑھ کر چلانے لگ جاتا ہے۔۔ ۔

” وہ مداری جھوٹا ہے، مکار ہے، اس نے پہلے بھی لوگوں کو برے خوابوں سے نجات کا بتا کر دھوکا دیا تھا۔۔ آپ لوگ ایک بار میرا نیا اور صاف ستھرا کنٹینر استعمال کریں۔۔ ۔ اس میں پرانا کچھ بھی نہیں، بس آپ میرا اعتبار کریں۔۔ ۔ "

” کیا تمہیں کبھی بھوک کے اذیت ناک خوابوں نے پریشان کیا ہے؟” ہجوم سے کوئی پکارا

” نہیں مجھے ایسا خواب تو کبھی نہیں آیا لیکن” مداری

"اور تمہارے بچوں کو؟” ہجوم سے ایک آواز

” نہیں، انہیں بھی نہیں آیا لیکن میں تمہارا دکھ سمجھتا ہوں۔۔ ۔ بس ایک انگوٹھا لگاؤ اور اپنے سارے غم بھول جاؤ۔۔ ۔۔ "

ہر طرف میلے کا سماں ہے، لوگ ناچتے گاتے، ایک دوسرے کا گریبان پھاڑتے مختلف کنٹینرز میں داخل ہوتے جا رہے ہیں۔۔ ۔

جہاں جا کر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ برے خوابوں کا سلسلہ مستقل جاری ہے کہ مداری تو ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ بھی نہیں اور پھر یہ کہ اذیت ناک خواب ہی تو اس ملک کی معیشت کا سہارے ہیں۔۔ ۔۔

٭٭٭

اپنا گھر ۔۔۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی

وہ دمے کی مریضہ تھی اور پچھلے ایک مہینے سے شہر کے ایک سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ تھی۔ مقامی اسپتال میں علاج معالجہ کے بعد اسے جب کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا بلکہ بیماری نے طول پکڑا تو اسے شہر کے چیسٹ کیئر اسپتال میں ریفر کیا گیا۔ در اصل چیسٹ کیئر اسپتال میں منتقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقامی اسپتال میں چیک اپ کرنے کے بعد چند دوائیاں لکھ کر اسے گھر بھیج دیا جاتا تھا اور گھر پر رات دن کھانس کھانس کر وہ خود بھی تکلیف میں مبتلا رہتی اور افراد خانہ کو بھی پریشان کر دیتی۔ اس کا بیٹا خود ایک سرکاری افسر تھا وہ تو دن میں گھر سے باہر ہی رہتا لیکن اس کی بیوی اور دو چھوٹے چھوٹے بچے تو گھر پر ہی رہتے ‘اس لئے بہو کے لئے ماں جی اور بچوں کے لئے دادی کی کھانسی زیادہ ہی وبال جان بن گئی تھی۔ اگرچہ یہ لوگ ٹی وی کی آواز حد سے زیادہ بڑھا کر بھی رکھتے لیکن پھر بھی ماجی کے کمرے سے کھانسنے کی مسلسل آواز انہیں ڈسٹرب کر ہی دیتی۔ بیٹے نے کچھ ماں کی بیماری اور کچھ بیوی کے کہنے پر اسے شہر کے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ کرانے کا من بنا لیا تاکہ وہ اچھی طرح سے ٹھیک ہو جائے۔ ایک دن ڈاکٹروں سے صلح مشورہ کر کے ماں جی کو سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ کروا دیا۔ اس دن اس کے ساتھ بیٹا‘ بہو اور دو بیٹیاں بھی چلی گئیں اور آدھے دن تک میڈیکل چیک اپ اور ضروری ٹیسٹ کرانے کے بعد جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ ماں جی کو اسپتال میں ایڈمٹ رہنا پڑے گا تو اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے سبھی لوگ دلاسہ دینے لگے کہ بس چند دنوں کی بات ہے ‘اس کے بعد آپ صحت مند ہو کر دوبارہ اپنے گھر آئیں گی۔ کبھی کبھی دلاسہ تو بیمار کے لئے دوائی کا کام کرتا ہے۔ وہ ہر کسی کی بات سن کر دل میں خوش ہو جاتی کہ اب وہ ٹھیک ہو جائے گی اور پھر گھر جا کر آرام سے رہے گی۔ اس کی بیٹیاں شہر سے دور بیاہی گئی تھیں اوپر سے دونوں سرکاری ملازمہ تھیں ‘اس لئے اسپتال میں ماں کے ساتھ رہنا زیادہ دنوں تک ممکن نہیں تھا۔ بیٹے کی بھی یہی مجبوری تھی۔

اب رہا سوال بہو کا تو وہ اگرچہ گھر گرہستی کا کام ہی سنبھالتی رہتی لیکن پھر بھی گھر میں دو چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال بھی رکھنا پڑتا تھا اس لئے ماں کی خبر گیری کا بوجھ بیٹے اور بیٹیوں کے کندھوں پر ہی آن پڑا۔ ان لوگوں نے اب یہ سبیل نکالی کہ کام آپس میں بانٹ دیا اور ماں کی خبر گیری کا معاملہ آسان ہو گیا۔ ویسے بھی اسپتال میں سبھی سہولیات میسر تھیں تاہم کبھی کبھی کسی دوائی کو باہر سے لانا پڑتا تھا اور باتھ روم میں آنے جانے کے لئے ماں کو سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس کے باوجود یہ بھی آسانی رہی کہ ان لوگوں کو زیادہ تر رات کے لئے ہی اسپتال میں ٹھہرنے کے لئے ضرورت پڑتی کیونکہ دن کے لئے انہوں نے ایک دو نرسوں کو ماں کا خیال رکھنے کے لئے کہہ رکھا تھا۔ نرسوں نے بھی کچھ اپنی ڈیوٹی اور کچھ چائے پانی کا خیال کر کے حامی بھری تھی۔ اس طرح سے اسپتال میں ماں کا علاج معالجہ اطمینان سے چلتا رہا۔

دس بیس دنوں کے اندر ماں کی طبیعت میں کافی سدھار آیا اور اب کھانسی کے مسلسل دوروں میں بھی کمی واقع ہوئی اور دن بدن ماں بھی چاک و چوبند نظر آنے لگی۔ گھر والے بھی ماں کو رو بہ صحت ہوتے ہوئے خوش ہونے لگے اور انہیں بھی اطمینان ہو رہا تھا کہ ماں کو اب زیادہ تکلیف سے نہیں گزرنا پڑے گا کیونکہ بہت عرصے سے جیسے وہ مرمر کے جی رہی تھی۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا تو ڈاکٹروں نے شہنواز علی کو بتایا کہ آپ کل ماں کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ دوائی وقت پر دیتے رہنا اور ایک آکسیجن سلینڈر بھی خریدنا پڑے گا تا کہ حسب ضرورت آکسیجن دینے کے لئے اسپتال کے چکر نہ کاٹنے پڑیں اور ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ ماں کو اس کمرے میں رکھیں جہاں گرد اور دھوئیں کا اثر نہ ہو کیونکہ یہ چیزیں اس قسم کے مریض کے لئے زہر کے برابر ہوتی ہیں۔ شہنواز علی یہ سن کر خوش ہوا کہ ماں بہت حد تک ٹھیک ہوئی ہے اور اب اسے گھر بھی لے جا سکتے ہیں۔ اس نے ڈاکٹروں کا شکریہ ادا کیا اور ماں کو یہ خوشخبری سنا کر گھر چلا گیا تاکہ کل بیوی کو ساتھ لے کر ماں کو اسپتال سے لے جائیں۔

گھر پہنچ کر ڈریس چینج کر کے اس نے پہلے دونوں بہنوں کو فون پر بتا یا کہ کل ماں کو گھر واپس لانا ہے اس لئے اسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں بہنیں یہ خبر سن کر خوش ہوئیں اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اب ماں ٹھیک ہو کر گھر واپس آ رہی ہیں۔ بیوی چائے بنا کر سامنے رکھتے ہوئی پوچھ بیٹھی کہ اب ماں کی طبیعت کیسی ہے تو شہنواز نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے خوشگوار انداز سے کہا کہ ماں کی حالت اب کافی بہتر ہے اور اب اسے گھر لانا ہے۔ اس لئے کل جلدی گھر کے کام نپٹا دینا تاکہ سویرے اسپتال جا کر ماں کو گھر لے آئیں۔ یہ سنتے ہی بیوی کا موڈ خراب ہو گیا اور اسے ایک پڑوسی کی بات یاد آ گئی کہ استھما کی بیماری دوسرے لوگوں پر جلد ہی اثر کرتی ہے ‘اس لئے یا تو اپنی ساس کو بیٹیوں کے پاس بھیج دو یا اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ دو۔ وہاں پر وہ بڑی آرام سے رہے گی اور آپ لوگ خصوصاً  آپ کے بچے بھی اس بیماری سے بچ سکیں گے۔ بیوی اس وقت خاموش رہی لیکن رات کا کھانا کھانے کے بعد جب شہنواز نے دوبارہ یہ بات دہرائی تو بیوی نے پہلے بڑی نرمی سے کہا:

”اگر میری بات مانو تو ماں کو اولڈ ایج ہوم میں رکھتے ہیں۔ وہاں پر ایسے بیماروں کا اچھا خیال رکھا جاتا ہے۔ “

شہنواز یہ غیر متوقع بات سن کر بیوی کے منہ کو تکتے ہی رہ گیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی دشمن نے اچانک اندھیرے میں اس کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا ہو۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ سنبھل گیا تو اس نے بیوی سے کہا کہ آپ یہ کیسی فضول قسم کی بات کرتی ہو ‘کیا تم ہوش میں ہو۔

” ہاں ‘میں ہوش میں ہوں ‘اسی لئے یہ مشورہ دے رہی ہوں۔ “بیوی آنکھیں دکھا کر  بولی ”مجھے اپنے بچوں کو جیتے جی نہیں مارنا ہے۔ “

”بچوں کو جیتے جی مارنا۔ “شہنواز بھی اب تھوڑا غصے میں بولا ”ماں کو گھر لانے سے بچوں کے مارنے سے کیا واسطہ۔ “

”ماں کو استھما کی بیماری ہے۔ “بیوی سمجھانے لگی ”یہ بیماری بچوں پربھی اثر کر سکتی ہے۔ اس لئے میں ماں کو کسی بھی صورت میں یہاں آنے نہیں دوں گی۔ “

”آپ پڑھی لکھی ہو کر بھی یہ سوچ رہی ہو۔ یہ متعدی مرض نہیں ہے۔ “

”مجھے اور کچھ نہیں سننا ہے۔ “بیوی کا پارا اب اور چڑھنے لگا۔ ”اگر اولڈ ایج ہوم میں نہیں تو اسے اپنی بہنوں کے حوالے کر دو۔ آخر ان کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے۔ “

آدھی رات تک شہنواز بیوی کو سمجھاتا رہا لیکن جب اس نے کل بچوں سمت میکے چلے جانے کی دھمکی دے ڈالی اور بچوں کے کمرے میں چلی گئی تو شہنواز پریشان ہو کر کروٹیں بدل بدل کر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ صبح اٹھنے کے بعد اس نے بڑی مشکل سے چائے کی ایک پیالی پی لی اور ایک بار پھر بیوی سے کہنے لگا کہ چلو ماں کو لے آتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بیوی ناگن کی طرح اس پر برس پڑی کہ اگر ماں کو اس گھر میں لے آئے تو میں گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی اور پھر فیصلہ عدالت میں ہو گا۔ بیوی کے یہ تیور دیکھ کر شہنواز علی بھونچکا رہ گیا۔ اسے پہلے بھی ایک گھریلو مسئلے پر عدالت کا منہ دیکھنا پڑا تھا اور جج صاحب نے اسے سمجھایا تھا کہ ایک ذمہ دار آفیسر ہونے کے باوجود بھی آپ ایسے چھوٹے مسائل کو عدالت تک لے آئے۔ یہ تو آپ گھر میں ہی نپٹا سکتے تھے۔ شہنواز علی ایک طرف اپنے عہدے اور سماجی رتبے کی سوچ میں پڑ گیا اور دوسری طرف بیوی کی دھمکی اور پھر عدالت جانے کی بے عزتی۔ وہ اب اسپتال جانے کی بجائے دفتر جانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ نو بجے اس نے گاڑی نکالی اور سیدھا دفتر پہنچ گیا۔ چپراسی گڈ مارننگ سر کہتے ہوئے پانی کا گلاس ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد جب چپراسی چائے لے کر دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ہچکچاتے ہوئے پوچھ بیٹھا کہ سر ‘آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔ میں نے صبح کو محسوس کیا تھا لیکن سوچا کہ شاید تھکاوٹ مت ہو گی۔ چپراسی کی بات سن کر شہنواز کپ اٹھاتے ہوئے بولا کہ نہیں کچھ خاص نہیں لیکن طبیعت ذرا سی خراب ہے۔ چپراسی یہ سن کر وہاں سے چلا گیا۔ چائے پیتے ہوئے شہنواز کو خیال آیا کہ کیوں نہ کسی ایک بہن سے بات کروں کہ وہ ماں کو تھوڑے عرصے کے لئے اپنے گھر لے جائے۔ اس نے جونہی بڑی بہن کا نمبر ڈائل کرنا چاہا تو اسے ایک اور خیال آیا کہ کہ اگر اس نے سوچا کہ شاید میں ماں کی بیماری سے تنگ آ گیا ہوں اور اسے بہانہ بنا کر اس کے ہاں چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں یا اگر اس کے گھر والے بھی میری بیوی کی طرح سوچ کر انکار کر دیں تو؟ “اب ایک ہی صورت ہے کہ ماں کو اولڈ ایج ہوم میں ہی چھوڑا جائے۔ اس کے بعد ہم وہاں پر بھی جا کر اس کا اچھا خیال رکھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اب بزرگوں کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ ان ہی سوچوں میں گم ہو کر وہ دفتر سے نکل کر سیدھا اولڈ ایج ہوم کی طرف چلا گیا۔ وہاں پر پہنچ کر اس نے ضروری کاغذی لوازمات پورے کر دے اور انہیں کل ماں کو ساتھ لانے کا بتا دیا۔ وہاں پر موجود ایک بزرگ آدمی نے کہا کہ:

”شہنواز صاحب ‘آپ ضرور ماں کو اس اولڈ ایج ہوم میں لے آئیں لیکن ایک بار پھر سوچنا کہ جو اپنائیت کا لمس والدین کو گھر پر اپنوں یا اپنے بچوں سے ملتا ہے وہ یہاں پر نہیں ہوتا ہے۔ یہاں پر موجود لوگ بظاہر خوش نظر آتے ہیں لیکن جب ان کے من میں جھانکنے کی کوشش کی جائے تو وہ ویران کھنڈر معلوم ہوتے جو ہر وقت اپنوں کی محبت سے آباد ہونا چاہتے ہیں۔ “

شہنواز علی بزرگ کی دل فگار باتیں سن کر پھر سے سوچ میں پڑ گیا لیکن جلد ہی اسے بیوی کی گھر چھوڑنے کی دھمکی یاد آئی اور وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ گاڑی ڈرائیو کرتے کرتے وہ پریشان حالت میں اسپتال کے گیٹ پر پہنچ گیا۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ سیدھا اسپتال میں ماں کے پاس چلا گیا۔ ایک نرس ماں کو دوائی پلا رہی تھی۔ شہنواز کو دیکھتے ہیں ماں مسکراتے ہوئے بول پڑی کہ بیٹا صبح سے آپ لوگوں کی راہ تکتے تکتے میری آنکھیں ترس گئیں ‘آپ نے اتنی دیر کیوں لگا دی ‘کیا بہو اور بچے ٹھیک طرح سے ہیں۔ میں تو یہاں پر تنگ آ گئی ہوں ‘جلدی سے مجھے گھر لے چلو تاکہ اپنے بچوں کا منہ دیکھ کر سکون پا سکوں۔ ماں کی باتیں سن کر شہنواز کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں اور وہ کچھ کہے بغیر وہاں سے ڈاکٹر کے چیمبر میں چلا گیا۔ دس بیس منٹ کے بعد ڈاکٹر نے نرس کو بلوایا اور شہنواز کی بات سمجھانے لگا کہ شہنواز صاحب کی ماں کو کسی بھی طرح اولڈ ایج ہوم میں جانے کے لئے مائل کرو کیونکہ ان کے گھر میں کچھ پرابلم ہے۔ نرس ‘اوکے سر کہتے ہوئے وہاں سے نکل کر وارڈ میں چلی گئی۔ وہاں پر اس نے جب ماں کی بے قراری دیکھی کہ کب وہ گھر جائے گی تو وہ دوبارہ ڈاکٹر کے چیمبر میں آئی کہ سر میں رات کو اسے سمجھا دوں گی۔ شہنواز یہ سن کر پھر سے ماں کے پاس چلا گیا اور اسے کل لے جانے کی بات بتاتے ہوئے وہاں سے نکل پڑا۔

مارکیٹ میں اس نے آکسیجن سلینڈر بھی خریدا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ گیٹ کھلنے کی آواز سنتے ہی بیوی گھر سے باہر آئی اور گاڑی کو گھورنے لگی کہ شاید اس میں ماں بھی مت ہو گی لیکن جب اسے یقین ہو گیا کہ ماں ساتھ نہیں ہے تو وہ الٹے پاؤں کچن میں چلی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے پوچھ بیٹھی کہ ماں کو کہاں پر چھوڑا۔ شہنواز پہلے کچھ نہیں بولا پھر کہہ ہی دیا کہ اسے کل اولڈ ایج ہوم میں چھوڑیں گے۔ اس کی بیوی یہ سن کر خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ مجھے ماں کو یہاں لانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بچوں کی صحت کا سوچنا پڑے گا آخر وہ تھوڑے میرے ہی ہیں ‘آپ کے بھی تو ہیں۔ شہنواز پھر بھی بے چین ہی رہا۔ وہ سوچنے لگا کہ ہمسائے کیا کہیں گے اور بہنوں کو کیا بتاؤں گا۔ رات کے وقت جب نرس نے ماں جی کو دوائی پلائی تو تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد آخر اصلی بات پر آ کر کہنی لگی کہ ماں جی ‘آپ تو بہت حد تک ٹھیک ہو گئی ہیں۔ اب یہ دوا وغیرہ وقت پر کھاتے رہنا اور ہاں فی الحال گھر میں رہنا ٹھیک نہیں رہے گا اس لئے آپ کے بیٹے نے اچھا انتظام کر دیا ہے۔ کل آپ کو اولڈ ایج ہوم لیا جائے گا۔ وہاں پر بھی آپ کی عمر کے اچھے اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ نرس کی بات سن کر ماں جی پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ لرز اٹھی۔ نرس کا منہ تکنے لگی۔ پہلے کچھ نہ بول سکی لیکن پھر سب کچھ سمجھ کر بول پڑی:

”بیٹی‘ مجھے جھوٹا دلاسہ مت دو۔ میں سب کچھ سمجھ گئی۔ مجھے گھر سے بے گھر کرنے کا پورا پروگرام بنایا گیا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اولڈ ایج ہوم بے سہارا لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ میں تو بے سہارا نہیں لیکن لا وارث ضرور بن گئی ہوں۔ “

نرس نے ماں جی کی دل توڑنے والی بات سن کر بڑی مشکل سے آنسو روکے رکھے اور کچھ کہے بغیر وہاں سے دوسرے بیڈ کے مریض کی طرف چل دی۔ نصف رات تک ماں جی کے دل کو نرس کی بات سانپ کی طرح ڈستی رہی کہ ”کل آپ کو اولڈ ایج ہوم میں لیا جائے گا۔ “نیند کوسوں دور بھاگ چلی تھی۔ اسے یاد آیا کہ بچپن میں جب شہنواز کو بھی چھاتی کے درد کی وجہ سے اسی اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تھا تو وہ دس دنوں تک یہاں سے ہل بھی نہیں پائی تھی اور بیٹے کو چھاتی سے لگائے رکھا تھا۔ جس دن اسے اسپتال سے چھٹی ملی تھی تو گھر پہنچ گھر اس نے دل کھول کر صدقہ اتارا تھا کہ اس کا بیٹا ٹھیک ہو گیا ہے اور آج اُسی بیٹے نے اپنی ماں کو گھر سے بے گھر کرنے کے بہانے اولڈ ایج ہوم کی سبیل نکالی ہے۔ اسی کرب ریز حالت میں اس کے دل سے سرد آہ نکلی شہنواز بیٹا اور آخری ہچکی لیتے ہوئے منہ سے نکل پڑا ”اپنا گھر“۔

٭٭٭

ڈائری کے تین صفحے اور تین کہانیاں ۔۔۔ محمد علم اللہ

اب کب آؤ گے۔۔۔؟

لمبی چھٹی کے بعد گھر سے مدرسے گیا اور خیریت بتانے کے لیے گھر فون کیا، تو ماں جی نے پوچھا:

’’اب کب آؤ گے؟‘‘ میں نے کہا اب تو نہیں آؤں گا بس۔

فوراً بولیں ’’جب تک میں زندہ ہوں، تب تک آتے رہو اور جب میں چلی جاؤں گی پھر کون بلائے گا۔۔۔!‘‘

کتنی درد ناک کہانی ہے۔

’’کیا یہ صرف تمھاری کہانی ہے؟‘‘ اس نے اپنے دوست سے کہا اور خاموش ہو گیا۔

اس کی آنکھیں خود بھی بھیگ گئی تھیں، کتنی دیر تک وہ یونہی کھلے آسمان کو دیدے پھاڑے دیکھتا رہا تھا۔ عثمان نے اسے ٹہوکا دیا ’’ابے تو کہاں کھو گیا۔۔۔؟‘‘

’’کچھ نہیں یار، بس یونہی امی کی یاد آ رہی تھی۔‘‘

’’تو تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘

دلاسہ دیتے سمے اس کی آواز بھی رندھ گئی۔ میں سوچنے لگا کہ ادیبوں اور شاعروں سے لے کر گیت نگاروں نے لڑکی کے بابل کے آنگن سے جانے پر کتنا کچھ لکھا ہے۔۔۔ لیکن ہاسٹل کے لیے گھر سے بچپن میں ہی دور کر دیے جانے والوں کے دلوں کا حال کیوں نہیں لکھا۔۔۔؟ وہ جن کے بچپن کو لڑکپن اور نوجوانی میں بدلتے ہوئے ان کی مائیں نہیں دیکھ پاتیں۔۔۔ اور وہ بچے جو اپنے گھروں سے اپنی ماؤں سے ملنے کو سال بھر میں فقط چند دن پاتے ہیں۔۔۔ وقت نکلا جاتا ہے، ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن جاتے ہیں، لیکن ماؤں کے ساتھ نہ گزارے جانے والے وقت کا ازالہ کبھی نہیں ہو پاتا۔۔۔

٭٭

یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!

اس دن صبح سے ہی پانی برس رہا تھا۔ ہم سارے بہن بھائی اپنے کچے مکان کے سب سے کم پانی ٹپکنے والے کمرے میں دبکے ہوئے تھے۔ دونوں بہنیں جو اکثر آپس میں جھگڑتی یا ادھم مچاتی رہتی تھیں، وہ آج ایک دوسرے سے لگی خاموش بیٹھی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی بادل کی ذرا تیز گرج ہوتی دونوں کے چہروں پر پھیلی خوف کی لکیریں کچھ اور گہری ہو جاتیں۔ چھوٹے بھائیوں کو بھی خوف اور اندیشے کے ایسے ہی جذبات نے جکڑ رکھا تھا۔

عموماً یوں ہوتا تھا کہ امّاں کو کھانا پکانے میں ذرا دیری ہوتی، تو چھوٹے بہن بھائی آندھی کاٹ دیتے تھے۔ آج دوپہر سے شام ہو گئی تھی، لیکن دو وقت سے بھوکے ہونے کے باوجود انھوں نے کوئی شکوہ بھی نہ کیا تھا۔ شاید دیکھ چکے ہوں گے کہ مٹی کا چولھا پانی میں بھیگ کر تقریباً گارہ بن چکا ہے اور لکڑی اتنی گیلی ہو چکی ہے کہ اسے جلانا ممکن نہیں۔

امّاں اور ابو بارش کے اس جَھڑی میں صحن اور چھپر کے درمیان پاگلوں کی طرح بھاگا دوڑی میں مصروف تھے۔ امّاں کچی دیوار کے جڑوں کے سوراخوں سے پھوٹ کر گھر میں گھسنے والے گلی کے برساتی پانی کو روکنے کی جد و جہد میں لگی ہوئی تھیں۔ وہ کبھی ان میں پرانے کپڑے ٹھونسنے کی کوشش کرتیں، کبھی مٹی ڈالتیں اور کبھی اینٹ کے ٹکڑے ’فِٹ‘ کرنے کی کوشش کرتیں، لیکن پانی تھا کہ بار بار اپنا راستہ بنا لیتا تھا۔ ادھر ابو چھپر پر ’مورچہ‘ سنبھال رہے تھے۔ جہاں جہاں سے پانی کمرے میں ٹپک رہا تھا ان چھیدوں کو بند کرنے کے لیے وہ بھی وہی تدابیر اپنانے کی کوشش کر رہے تھے جو امّاں دیواروں پر آزما رہی تھیں۔

امّاں اور ابو بارش میں تر بتر تھے، لیکن نہ تو چھپر ٹپکنی بند ہوئی اور نہ ہی کچی دیوار کی جڑ سے جاری چشمے تھم سکے۔ امّاں بھیگی ہوئی کمرے میں آئیں اور پانی ٹپکنے والی جگہ رکھے لوہے کے بڑے صندوق کو پیچھے دھکیلنے لگیں۔ ہم بہن بھائی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے ساتھ اماں کی مدد کو آگے بڑھے۔

ابو چھپر سے اتر آئے اور صحن میں آنے والے گلی کے برساتی پانی کو نکالنے کی ترکیب سوچنے لگے۔ بہت دیر تک تو وہ بھی کچی دیوار کی جڑ میں موجود سوراخ بند کرنے کی کوشش کرتے رہے، پھر انہوں نے پرانی بالٹی سنبھال لی اور کچے دالان تک آنے والے پانی کو بھر بھر کر باہر لے جا کر پھینکنا شروع کر دیا۔ اماں صندوق کھسکا کر باہر آئیں، تو ابا کے ساتھ لگ گئیں۔ اب وہ بالٹی بھر بھر کر دروازے تک لے جا کر ابو کو پکڑا دیتیں اور وہ اسے دور پھینک آتے۔ اس دن نہ جانے کتنی دیر تک اماں اور ابو پانی باہر پھینکتے رہے اور ہم بہن بھائی چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہے کہ ’’یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!‘‘

٭٭

ماں سے یوں ملتا، جیسے ’عمر قید‘ کا مجرم!

ہوش سنبھالتے ہی ایک عجیب ’غریب الوطنی‘ میرا مقدر بن گئی۔۔۔ یعنی بچپنا ٹھیک سے شروع بھی نہ ہوا تھا کہ تربیت اور تعلیم کے نام پر اٹھا کر گاؤں سے پرے ایک ’اسکول‘ میں پھینک دیا گیا۔۔۔ یہاں ہفتے کے سات میں سے چھے دن اِس انتظار میں گزرتے کہ جمعے کو ہم اپنے گھر جاؤں گا۔۔۔ بہت دیر تک امّاں سے لپٹا رہوں گا، پاس بیٹھ کر انھیں ہی دیکھتا رہوں گا۔۔۔

بہن بھائیوں سے ہفتے بھر کی جمع کی ہوئی ڈھیر ساری باتیں کروں گا، مگر ساتواں دن بھی اس عالَم میں گزرتا کہ اس کا ایک پہر تو گھر پہنچتے پہنچتے ہی بیت چکا ہوتا اور دوپہر تک یہ سارے ارمان آدھے بھی نہیں نکل پاتے کہ تیسرے پہر واپسی کا وقت ہو جاتا۔۔۔ اور ہمارے ابّا کسی جیلر کی طرح یہ حکم لے کر نازل ہوتے ’’جلدی چلو۔۔۔! تمھیں شام سے پہلے ہاسٹل چھوڑ کر آنا ہے۔۔۔!‘‘

اور میں خود کو ’عمر قید‘ کا ایسا قیدی سمجھتا، جسے اپنے اماں بابا اور بہن بھائیوں سے ملنے کے واسطے فقط کچھ گھڑیاں میسر آ گئی تھیں۔۔۔ یعنی جس ’دن‘ کے انتظار میں پورے چھے دن کاٹے تھے، وہ دن بھی پورا کہاں ملتا تھا، بس یہ چند گھنٹے ہی ہوتے تھے، باقی سارا وقت تو آنے اور جانے کی نذر ہو جاتا۔۔۔ اور سچ پوچھیے تو چُھٹی کی خوشی صرف تبھی تک رہتی، جب تک وہ رات ہوتی، جس کے بعد آنے والی صبح چھٹی ملنی ہوتی تھی یا پھر بس صبح کا وہ کچھ سمے، جب میں اپنے گھر کی چوکھٹ پار کرتا۔۔۔ اس کے بعد تو گھڑی کی ٹِک ٹِک گویا ہماری الٹی گنتی شروع کر دیتی تھی۔

اس لیے میں دوبارہ واپسی کی فکر میں ہلکان ہوا جاتا تھا۔ اس طرح مجھے ہر ہفتے اپنی ماں سے بچھڑنے کے کرب سے گزرنا ہوتا تھا۔ ابا تو ہاسٹل چھوڑ کر واپس چلے جاتے، لیکن میری آنکھیں اُس رات اِس قدر بھیگی رہتی تھیں کہ آٹھ فُٹ کی بلندی پر نصب چھپر کی کڑیاں تک بار بار دھندلائی جاتی تھیں۔ کبھی تو باہر رات بھیگتی اور اندر آنسوؤں سے میرا چہرہ۔۔۔ لیکن اس کے سوا کوئی راستہ بھی تو نہ تھا۔۔۔ پھر نہ جانے کب مولوی ہاسٹل کی راہ داری سے پکارا کرتا: ’’کیا میّتوں کی طرح پڑے ہو! اٹھو! نماز کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔!‘‘

پھر مؤذن مائک پر دو چار پھونکیں مار کر چیک کرتا اور پھر صدائے فجر بلند ہوتی۔۔۔ آس پاس کے بستروں پر بکھرے ہوئے طلبا کچھ تو خوفِ خداوندی اور کچھ مولوی کی وحشیانہ مار کے خوف سے اللہ کے گھر کی طرف دوڑ لگا دیتے۔

میرا چہرہ تو پہلے ہی آنسوؤں سے ’با وضو‘ ہوتا، پھر بھی فریضے کی ادائی کے لیے کنویں سے نکلے یخ بستہ پانی کو چہرے اور ہاتھوں پر ڈالنے لگتا۔۔۔ سردی کے ٹھٹھر سے نکلی ہوئی ایک سسکی، کلیجے سے نکلی ہوئی غم کی سسکی میں مدغم ہو جاتی۔۔۔ اور میں خود کو حوصلہ دیتا کہ چلو، دوبارہ گھر جانے کے بیچ میں حائل سات راتوں میں سے ایک رات تو کم ہوئی!

٭٭٭

معمول۔۔۔ اعجاز عبید

(ہارر سٹوری کا ایک تجربہ)

ساتویں منزل پر پہنچ کر اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے شارق نے گھڑی دیکھی، گیارہ بج کر چالیس منٹ ہو رہے تھے۔ یعنی وہ آج اپنے معمول سے دس منٹ تاخیر سے گھر پہنچا تھا۔ فکٹری سے بھی پانچ منٹ دیر سے نکل سکا تھا۔ ’’خیر، کیا فرق پڑتا ہے‘‘ اس نے سوچا۔

شارق کی اپنی پسند ہی یہ شفٹ تھی، صبح آٹھ بجے وہ ڈیوٹی پر نہیں جا سکتا تھا کہ عام طور پر بھی وہ نو دس بجے تک سو کر اٹھتا تھا۔ اور نہ اسے بارہ بجے رات تا صبح آٹھ بجے کی ڈیوٹی پسند تھی کہ ساری رات اسے جاگنا پسند نہ تھا، اور نہ دن میں سونا!

گھر آ کر کپڑے بدل کر وہ سیدھا کچن میں گیا۔ بغیر کوئی آواز کئے اپنے لئے کافی بنائی، اور کافی کا مگ لے کر معمول کے مطابق بالکنی میں آ کر بیٹھ گیا۔ بڈ روم میں ثمرین، اس کی بیوی بھی سو چکی ہو شاید اور اس کے بچے تو یقیناً سب سو چکے ہوں گے، اس نے سوچا۔

باہر سڑک پر ٹریفک کم ہو گیا تھا اور یوں بھی ساتویں منزل تک سڑک کی آوازیں نہیں پہنچتی تھیں۔ ہوا کی ٹھنڈک اور پرسکون ماحول میں بیٹھ کر سونے سے پہلے اسے کافی پینا اچھا لگتا تھا۔ اور اسے بنانے کے لئے اسے بیوی کو اٹھانا بھی قبول نہیں تھا، حالانکہ وہ اکثر جاگتی ہی ملتی تھی بڈ روم میں۔ باہر سڑک پر معمول کے مطابق ٹریفک جاری تھا جو دن کے مقابلے میں تو بہت کم تھا، لیکن اب سے چھ سات پہلے جب سے وہ اس فلیٹ میں آیا تھا، بہت بڑھ چکا تھا۔ پہلے تو یہاں اس وقت ہو کا عالم ہوتا تھا۔

شارق کی نظریں سڑک پر ایک پیدل چلنے والے آدمی پر پڑیں۔ اس وقت یہ کون ہے جو پیدل جا رہا ہے؟ اس نے سوچا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بیچ سڑک پر آ گیا، اور تبھی ایک سرخ رنگ کی کار تیزی سے آئی اور اس پیدل شخص کو ٹکر مار کر آگے بڑھ گئی۔ وہ آدمی گر پڑا، معلوم نہیں زندہ ہے یا مر گیا، اتنی اوپر سے کچھ خون تو نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس نے فوراً سڑک پر آنے کے لئے دوڑ لگائی، لیکن باہر لفٹ موجود نہیں تھی، اٹھارویں منزل سے نیچے آنے میں اسے وقت تو لگنا تھا۔ لیکن پیدل اترنے میں بھی اتنا وقت تو لگتا! اور جب وہ سڑک پر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں اس پیدل راہگیر کا نام و نشان نہ تھا۔ کیا اسے فوراً ہوش آ گیا تھا جو وہ اٹھ کر نکل بھی گیا! اس نے سوچا۔ اس امکان پر اسے اطمینان سا ہوا ۔ پھر وہ فلیٹ پر واپس ہوا اور کافی ختم کر کے بڈ روم میں داخل ہو گیا۔

’’دن اچھا گزرا آپ کا۔۔۔؟‘‘ ثمرین نے پوچھا۔

’’ہاں، سب ٹھیک رہا‘‘ اس نے کپڑے بدلنے کے لئے اپنے کپڑے اٹھاتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

اگلے دن بھی یہی معمول تھا، سڑک پر ٹریفک یوں ہی جاری تھا۔ اچانک گلی کے موڑ سے اسے پھر ایک پیدل راہگیر نظر آیا۔ شاکر نے حیرت سے دیکھا اور کافی کا مگ رکھ دیا۔ اور پھر اسے فوراً ہی کھڑا ہو جانا پڑا۔ بالکل کل کی طرح کا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ شاید راہگیر بھی وہی لگ رہا تھا اور کار بھی ویسی ہی سرخ تھی جس نے آج بھی اس آدمی کو ٹکر دی تھی۔

شاکر تیزی سے باہر نکلا، آج اتفاق سے لفٹ بھی ساتویں منزل پر وہیں رکی ہوئی تھی جہاں اس نے آتے وقت چھوڑی تھی۔ وہ تیزی سے سڑک پر پہنچا مگر آج بھی پیدل راہرو یا اس کی لاش غائب تھی!

وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب کر نکلا اور تھکے تھکے قدموں سے واپس اپنے فلیٹ میں آیا، ثمرین کو دروازے میں ہی کھڑے ہوئے پایا۔

‘’اتنی تیزی سے کہاں چلے گئے تھے، میں پریشان ہو گئی؟‘‘

’’سوری ثمرین، شاید جلدی میں دروازہ زور سے بند کر دیا جو تم اٹھ گئیں‘‘

’’نہیں میں جاگ تو رہی تھی، لیکن بات کیا تھی؟‘‘

اور پھر شاکر نے اسے ساری داستان سنائی۔

٭٭٭

آج سنیچر تھا۔ فکٹری سے واپس آ کر کافی پیتے وقت وہ اتوار کی چھٹی کا پلان بنا رہا تھا۔ اور پچھلے دو دنوں کی وارداتوں کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا ۔

اچانک وہی نظارہ پھر دکھائی دیا۔ شاید وہی یا اسی طرح کا آدمی پیدل چلتے ہوئے نظر آیا، اور پھر وہی یا ویسی ہی سرخ کار دکھائی دی۔ لیکن آج یہ فرق رہا کہ جیسے ہی کار اس آدمی کو ٹکر مار کر آگے بڑھی، مخالف سمت سے آنے والی سیاہ کار سے اس کی بھی ٹکر ہو گئی۔ زور دار آواز بھی ہوئی اور کئی لوگوں کو گھروں سے نکل کر سڑک پر آٹے ہوئے بھی دیکھا۔

شاکر بھی فوراً لفٹ سے نیچے آیا جو اسے آج بھی وہیں مل گئی تھی۔

سڑک پر پہنچا تو وہاں آج خون میں لت پت ایک آدمی پڑا تھا، اور قریب ہی دو کاریں تو وہی تھیں۔ سیاہ کار والا بھی زخمی حالت میں تھا۔ کچھ لوگ پیدل راہرو کے جسم کو پرکھ رہے تھے کہ جان کی کسی رمق کو محسوس کر سکیں۔ کسی نے ڈاکٹر کو بھی خبر کر دی تھی، اور پولس کو بھی۔ اور اگلے ہی لمحے پولس بھی سائرن بجاتی ہوئی پہنچ گئی۔ سرخ کار والے کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ سیاہ کار والا، جسے معمولی چوٹیں ہی آئی تھیں، بتا رہا تھا ’’سرخ کار جس طرح تباہ ہوئی، اسے دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا ڈرائیور کار چھوڑ کر بھاگ نکلا ہو!! مگر میں نے کسی کو اترتے بھی نہیں دیکھا!‘‘

اس عرصے میں ڈاکٹر نے حادثے کے شکار آدمی کو مردہ قرار دے دیا تھا۔

اسے پہچان بھی لیا گیا تھا کہ اس کا نام راجیش اوستھی تھا۔ وہ کسی بنک کا ملازم تھا، اس کے ایک پڑوسی نے ہی بتایا کہ ’’وہ تو دفتر سے گھر آ کر کہیں آتا جاتا بھی نہیں تھا، گھر میں ہی بیوی بچوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ اس وقت وہ سڑک پر کیسے؟ اور وہ بھی پیدل؟ اس کی تو اپنی موٹر سائکل تھی اور یہ عادت تھی کہ گلی کے موڑ پر پان سگریٹ کی دوکان بھی جاتا تو گاڑی سے جاتا تھا!‘‘

’’اس سلسلے میں میں بھی ایک بیان دینا چاہتا ہوں‘‘ شاکر نے ایک پولس والے سے کہا۔

’’ابھی تو ہماری کارروائی مکمل نہیں ہوئی لیکن آپ کا نام پتہ اور فون نمبر ضرور دیں، آپ کو بعد میں تکلیف دی جائے گی‘‘ اس نے جواب دیا۔

پولس کے بھیڑ ہٹانے کے بعد وہ اپنے فلیٹ پر آ گیا اور بیوی کو یہ باتیں بتا کر سو گیا۔

٭٭٭

اگلے دن ناشتے کے بعد وہ کہہ رہا تھا کہ آج چھٹی کا پروگرام تو شاید برباد ہو جائے گا، کہ اسی وقت اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اسے پولس سٹیشن بیان دینے کے لئے گیارہ بجے بلایا گیا تھا۔

پولس سٹیشن پاس ہی تھا، اس نے پیدل ہی جانے کا سوچا۔ لیکن پولس سٹیشن والی سڑک کے موڑ پر مڑنے کی بجائے اس کے قدم دوسری طرف مڑ گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بے ہوشی یا نیند کی حالت میں چل رہا ہو۔

وہ کافی دیر تک پیدل چلنے کے بعد ایک مکان میں داخل ہوا۔ اور ایک کمرے میں داخل ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ چونکا۔ دیکھا کہ ایک اور شخص اسی کمرے میں آ گیا ہے۔

’’مجھے جانتے ہو، میں سوربھ شرما ہوں۔‘‘

’’کون سوربھ شرما؟ ڈاکٹر سوربھ شرما کا ہی نام سنا ہے لیکن اس نے تو پچھلے ماہ خود کشی کر لی تھی‘‘

’’تب تو یہ بھی سنا ہو گا کہ میں سائنٹسٹ بھی ہوں اور ہپناٹزم کا ماہر بھی؟ یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی‘‘

’’یعنی آپ ان کی روح ہیں یا بھوت؟‘‘

’’جو بھی کہہ لو، مگر میرے تجربات جاری ہیں۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ تم ان حالات کے عجیب و غریب ہونے پر متعجب ہو۔ تو تمہارا تھوڑا تجسس ختم کر دوں۔‘‘

شاکر کی آنکھیں پھٹی تھیں۔ سوربھ شرمانے آگے کہنا شروع کیا۔

’’اوستھی اپنی بنک میں ایمان داری سے کام کرتے ہوئے میرے کئے گئے غبن کے بارے میں ثبوت تلاش کر رہا تھا۔ اور اس لئے مجھے اسے راستے سے ہٹانے کا پلان بنانا پڑا، مگر اس عمل میں کامیابی تب ملی جب میں غبن میں ناکام ہو کر خود کو گولی مار چکا تھا۔ در اصل اپنی فضول خرچی کی عادت کی وجہ سے بہت مقروض ہو چکا تھا۔ ‘‘

اس نے اپنا بیان جاری رکھا۔

’’پچھلی دو بار بھی میں نے کوشش کی تھی۔ لیکن ہپناٹزم کا اثر صرف اس کی روح پر پڑا، جسے تم نے پچھلی دو بار دیکھا تھا، وہ اس کی روح ہی تھی۔ آج میں کامیاب ہو گیا اور اس کو جسم سمیت یہاں لا سکا۔ اور اسی کامیاب تجربے کی بنا پر تم یہاں نظر آ رہے ہو۔ اب تم جاؤ گے، تو تم کو پتہ چلے گا کہ سارا گھر بند ہے۔ اب جاؤ اور جو چاہے، پولس میں بیان دے دو، چاہے میرے خلاف بیان دو، روح کو سزا تو کوئی کورٹ نہیں دے سکتی۔‘‘

سوربھ شرما نے ایک قہقہہ لگایا۔ اور شاکر کے قدم آپ ہی آپ اٹھ گئے اور وہ کمرے سے باہر نکلنے لگا۔

’’جاتے جاتے ایک چیز اور دیکھتے جاؤ‘‘ سوربھ شرما نے کہا۔ جو اس کے ساتھ باہر پورچ تک آ گیا تھا۔ شاکر نے دیکھا کہ ایک طرف بنے گیریج کا دروازہ کھلا اور اندر ایک سرخ گاڑی کھڑی تھی۔

’’کیا یہی گاڑی تھی جو سڑک پر حادثے کا شکار ہوئی، پھر یہ۔ ۔ ۔ ۔‘‘

’’یہ ٹویوٹا کمپنی کی گاڑی تھی، حادثے کا شکار ہوئی گاڑی میری پرنٹ کی ہوئی تھی۔ اور وہ رموٹ سے چلتی تھی، اس میں کوئی ڈرائیور تھا ہی نہیں جو مقام واردات سے بھاگ جاتا!”

شاکر نے منہ اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک مقفل کوٹھی کے باہر کھڑا تھا اور دوسری طرف گیریج بھی مقفل تھا۔

٭٭٭

طنز و مزاح

ڈیزائنر شاعری کا جدید مرکز ۔۔۔ ظہیر احمد

نظمانہ سینٹر

$٭$٭$٭$

غالب مارکہ غزلیں٭٭٭ اقبال ٹائپ نظمیں ٭٭٭ اور بہت کچھ

٭٭٭٭٭٭٭٭

ہر رنگ اور ہر سائز کی جدید غزل اب رعایتی نرخوں پر دستیاب ہے

عمدہ اور معیاری کلام ٭٭٭ قابلِ اعتماد سروس

عاشقانہ غزل:— پانچ سو روپے ۔ ارجنٹ آرڈر ( تین گھنٹے میں فوری ڈیلیوری) :- آٹھ سو پچاس روپے

فاسقانہ غزل: — سات سو پچاس روپے ۔ (اٹھارہ سال سے کم عمر افراد آرڈر دینے کی زحمت نہ فرمائیں)

عارفانہ غزل:— آٹھ سو روپے ۔ قوال حضرات کے لیے رعایتی نرخوں پر تھوک سپلائی کا انتظام ہے

٭٭٭٭

٭٭٭٭ تین غزلوں کی خریداری پر ایک رباعی مفت ٭٭٭٭

٭٭٭٭

تخلص ڈلوائی:— پانچ سو روپے (نوٹ: زنانہ تخلص کے تین سو روپے اضافی ہوں گے)

تخلص نکلوائی:— چار سو روپے

تخلص بدلوائی:— تین سو روپے

(نوٹ: بحرِ مشبوہ مثمن مشکوک میں غزلوں کی وافر سپلائی کے باعث نرخ عارضی طور پر کم کر دیئے گئے ہیں)

٭٭٭٭

آنلائن آرڈر کیجیے

گھر بیٹھے ایزی پیسہ اور حرام روپیہ سے ادائیگی کی سہولت!

##### ## ####

٭٭٭٭ قطعہ، رباعی، ثلاثی، ہائیکو اور دیگر اسمال آئٹمز پر چالیس فیصد ڈسکاؤنٹ ٭٭٭٭

##### ## ####

٭٭٭٭

ہماری خصوصی پیشکش

٭٭٭٭

خالص فارسی لفظیات سے کشید کردہ مضبوط اور پائیدار نقاد شکن

غالب مارکہ غزل

مشکل زبان اور فارسی و عربی سے بھرپور ہماری مشہورِ عالم غالب مارکہ تازہ غزلیں آپ کے حسبِ خواہش آرڈر پر تیار کی جاتی ہیں

نمونۂ کلام:

در نشانِ استوا دلبر کرم انداز ہے

احتیاجِ زر فشانی ہر قدم آغاز ہے

غم تپیدن بر گمانِ حوصلہ مندی نہیں

نے نوازِ ہست افگن بر نوائے ساز ہے

٭٭٭٭

آپ کی پسندیدہ ویب سائٹ پر براہِ راست کلام اپ لوڈ کرنے کی سہولت

عمدہ اور معیاری کلام ٭٭٭ قابلِ اعتماد سروس

ہمارے اسٹاف شعرا میں سلطانؔ سارقین، سالمؔ دزدیدہ پوری، مہمل مجہول آبادی اور قاطعؔ نشتر آبادی جیسے قابلِ فخر اور مستند اساتذہ شامل ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭

جوش اور جذبے سے بھرپور

اقبال ٹائپ نظمیں

ملی اور اسلامی موضوعات پر ہر سائز کی ڈیزائنر نظمیں علامہ اقبال کے انداز میں فی شعر پچاس روپے کے حساب سے سستے داموں تیار کی جاتی ہیں۔(کم از کم آرڈر پانچ اشعار)

نمونۂ کلام

اب امّتِ بیضا کے دامن میں ہے بس فتویٰ گری

میرا عمل ہے مومنی، تیرا عمل ہے کافری

شاہین ہیں سب زیرِ دام، پرواز میں زاغ و زغن

اس گلشنِ سر سبز کی حالت بُری کس نے کری

٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭

جون ایلیا اسپیشل

صارفین کے پر زور اصرار پر جون ایلیا اسٹائل غزلوں کی مکمل ورائٹی اب تازہ اسٹاک میں دستیاب ہے

(1) جون ایلیا اسپیشل آرڈر —– (تین ہزار روپے فی غزل)

نمونۂ کلام:

مجھے ڈر ہے تختہ نہ ہو جائے میرا

مجھے تخت پر اے بٹھا دینے والو

مرے ہاتھ مضبوط کر تو رہے ہو

مرے تخت کے پائے بھی تو سنبھالو

(2) جون ایلیا سپریم —— (دو ہزار روپے فی غزل)

نمونۂ کلام:

میں سوئی دھاگا تلاشتا ہوں

پھٹی ہوئی اک قمیض پہنے

مجھے برہنہ نہ سمجھے دنیا

میں ہوں بدن پر تمیز پہنے

(3) جون ایلیا ایلیٹ —– – (ڈیڑھ ہزار روپے فی غزل)

نمونۂ کلام:

پھٹی ہوئی اک قمیض پہنے

میں سوئی دھاگا تلاشتا ہوں

کوئی جو پوچھے برہنہ کیوں ہو

تو میں بہانے تراشتا ہوں

(4) جون ایلیا ریگولر —– (ایک ہزار روپے فی غزل)

نمونۂ کلام:

میں کب سے پھٹے کرتے میں پھر رہا ہوں

کہیں سوئی دھاگا نظر ہی نہ آیا

رفو کر دیے تم نے جامے سبھی کے

تمہیں میرا کُرتا نظر ہی نہ آیا

٪٪٪٪٪٪

نیز ہمارے یہاں سہرے، رخصتی، عقیقہ، روزہ کشائی اور دیگر یادگاری قطعات بھی ماہر اساتذہ کے ہاتھوں آرڈر پر تیار کیے جاتے ہیں

٭٭٭٭ تقریبِ ختنہ کے موقع پر ہماری مشہورِ زمانہ ایجاد "ختنامہ” آزما کر دیکھیے ٭٭٭٭

ختنامہ ( نمونۂ کلام)

سنّت اگر نہیں ہے تو کیسی کہاں کی شان

سنّت سے ہے زمانے میں ہر مسلماں کی شان

یوں اُسترے سے بڑھ گئی گڈّو میاں کی شان

آئے ہیں لوگ دیکھنے حسنِ نہاں کی شان

٭٭٭٭

تمام ختنامے استاد قاطعؔ نشترآبادی کی زیرِ نگرانی احتیاط سے تیار کیے جاتے ہیں۔ آج ہی آرڈر بک کروائیے

(صارفین سے التماس ہے کہ استاد کو تقریبِ ختنہ میں گھر لے جانے پر اصرار نہ کریں ۔ ہاتھوں میں رعشہ کے باعث استاد اب صرف شاعری کرتے ہیں۔ کام ترک کر دیا ہے۔)

$$$$$ $$$ $$$$$​

اب ہمارے یہاں استاد فاحشپوری کی فاسقانہ غزل مندرجہ ذیل تین ورائٹیوں میں دستیاب ہے۔

فاسقانہ شدید: معاملاتِ عشق اور محاکاتِ وصل کی تفصیلات اور جزئیات نگاری سے بھرپور

فاسقانہ جدید : علامت اور استعارے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاملات کا براہِ راست بیان اور جا بجا اردوئے محلہ کا استعمال

فاسقانہ مزید: قانونی پابندیوں کی بنا پر تفصیلات مہیا کرنا ممکن نہیں ۔ مختصراً یہ کہ استاد اس غزل میں اسمِ با مسمیٰ نظر آتے ہیں

٭٭٭٭٭

اطلاعِ عام:—– استاد عریاںؔ فاحشپوری کی غیر حاضری کے باعث فاسقانہ غزلوں کے آرڈر عارضی طور پر چھ ماہ کے لیے بند کر دیئے گئے ہیں۔

(نوٹ: —- ان کے اندر ہونے کی تمام افواہیں غلط ہیں۔ استاد اعلیٰ تربیت کے لیے ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں۔)

٭٭٭٭٭

نیز ہمارے یہاں پرانے اور غیر معروف شعرا کا کلام مناسب داموں پر خریدنے کا معقول انتظام بھی موجود ہے۔ فروخت کرنے کے لیے بلا جھجک رابطہ کریں

خط و کتابت صیغۂ راز میں رکھی جائے گی

٭٭٭٭٭

نثری نظموں کے خریدار زحمت نہ فرمائیں ۔ اپنے کلیدی بورڈ پر موجود اینٹر کی کلید سے فائدہ اٹھائیں

غزل بڑے شوق سے ۔۔۔۔۔۔ نثر اگلے چوک سے

۔ ۔ ۔ پرانی غزلوں کی ری سائیکلنگ کا بہترین انتظام ۔ ۔ ۔

ایک جائزے کے مطابق اردو دنیا میں روزانہ تقریباً پانچ ہزار غزلیں لکھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ادبی اور لسانی ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ ان نئی غزلوں کی روک تھام کے لیے پرانی پائیدار غزلوں کی ری سائیکلنگ بہت ضروری ہے۔ جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق نظمانہ سینٹر اپنے ری سائیکلنگ مرکز میں یہ ماحولیاتی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔ ہم پرانے غیر معروف شعرا کی غزلوں میں سے تخلص نکال کر انہیں آپ کے لیے دوبارہ قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ ری سائیکلنگ کے ماہر سلطانؔ سارقین جدید تکنیک کے ذریعے تخلص کی جگہ ہم وزن حشو و زائد بے جوڑ طریقے سے فِٹ کر کے غزل کو نئی زندگی بخشتے ہیں۔ روز بروز بڑھتی ہوئی شاعرانہ آلودگی کم کرنے کیلئے نظمانہ سینٹر کی مدد کیجیے۔ پرانی اور غیر معروف غزلیں ری سائیکلنگ کے لیے ہمیں ارسال کیجیے۔

نقالوں سے ہوشیار!!!

ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ٹُن ٹُن قصیدہ برادرز غزلوں کے نام پر جعلی نثری نظمیں سستے داموں فروخت کر رہے ہیں۔ نیز ہماری مشہورِ عالم غالب مارکہ غزلوں کے بھیس میں دو نمبر کی غیر معیاری اور مہمل غزلیں بھی دھوکے سے بیچ رہے ہیں۔ جعل سازوں سے ہوشیار رہیں۔ ہماری کوئی اور برانچ نہیں ہے۔

دوسری جگہ جا کر دھوکہ مت کھائیے، نظمانہ سینٹر کو موقع دیجیے

اعتماد سے ہمارے یہاں تشریف لائیے

٭٭٭٭٭

نظمانہ سینٹر: سرقہ پلازہ، شارع دلاور دزدے ۔ سخن آباد

٭٭٭

یادش بخیر

خواب زرّیں، زر خوابی ۔۔۔ مظفر حسین سیّد

(میرے دوست مظفر حسین سید نے چھہ سال سال پہلے یہ تحریر سَمت کے لئے بھیہجی تھی، لیکن میں نے اس وقت اسے شائع کرنا پسند نہیں کیا کہ یہ سیاسی کالم کی نوعیت کی لگی تھی۔ کچھ دن پہلے یہ پھر میرے سامنے آئی، تو میں ان کی یاد میں، جنہیں میں شارق ادیب کے نام سے جانتا تھا اور کہتا آیا تھا، اب یہ شائع کر رہا ہوں کہ اب اتنا عرصہ گزر جانے پر یہ تخلیق سیاسی نہیں رہی ہے۔ اعجاز عبید)

اپنے خوابوں کا سلسلہ روکو

سب کی نیت خراب ہوتی ہے

خواب دیکھنا ہر اس شخص، مرد، عورت، بچے، جو ان، ادھیڑ اور بوڑھے کا حق ہے،  جسے اگر انسان نہیں تو آدمی یا حیوان ناطق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے، گو حیوانات بے نطق کے بارے میں ہم وثوق کامل سے کچھ عرض نہیں کر سکتے کہ اس سلسلے میں ہماری معلومات خطرناک حد تک محدود، بلکہ نابود ہیں کہ یہ مخلوق خواب دیکھتی ہے یا نہیں، اور اگر بالفرض محال دیکھتی بھی ہو گی تو اس کے خواب بے تعبیر ہی رہتے ہوں گے کیوں کہ خواب کی تعبیر کے لیے خواب کا بیان شرط ہے، اور اس صلاحیت سے وہ بے چاری محروم ہے۔ یوں بھی ہماری قوم، ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں اکثریت اپنے خوابوں کی تعبیر سے بے فیض ہی رہتی ہے، اور اس کے خواب خواہ کتنے ہی رنگ برنگ ہوں، ایک جہان مفر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

بہرحال خواب سب دیکھتے ہیں، اور یہ سلسلہ روکے نہیں رکتا۔ یوں بھی دنیا کی کسی جابر، آمر  و ظالم سے ظالم حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی قدغن عائد نہیں کی ہے، اور نہ ہی کوئی محصول مقرر کیا ہے، اس لیے خواب بینی کی دنیا آزاد اور لامحدود ہے۔ پھر ہم تو خیر سے ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں، جہاں فضول سے فضول تر، لا یعنی اور بے معنی خیالات رکھنے اور ان کے بلا تکلّف، بے جھجک اور برملا، بالجہر اور بالاعلان اظہار پر کوئی پابندی نہیں، خواہ وہ بد قلمی کی شکل میں ہو یا بد زبانی کے لباس میں ملبوس۔ دیکھیے ہمارے خیالات حسب عادت بھٹک گئے اور ہمارا قلم حسب روایت بدک گیا، لہذا مراجعت ذکر خواب کی جانب۔

ہاں تو صاحبو، بات ہو رہی تھی، خواب بلکہ خوابوں کی۔ جیسا کہ ہم نے فرمایا، خواب دیکھنے کا ہی نہیں، خوابوں کی دنیا میں جینے کا حق سب کو ہے، اور ہم مشرقیوں کو مغربیوں سے کہیں زیادہ، اور ہم ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ۔ چوں کہ ہمارے پاس صرف خواب ہیں، جو ہماری ناقابل تقسیم دولت ہیں۔ ہمیں تعبیر کی حاجت کم ہی ہوتی ہے، کیوں کہ ہم فطرتاً، مزاجاً، طبیعتاً، روایتاً اور وراثتاً قناعت پسندی کے وصف سے مالا مال ہیں، صبر و استغنا ہمارا قومی و معاشرتی شیوہ ہے، ہمارا خمیر اس قدر غنی ہے کہ ہم صرف اور صرف خوابوں پر اکتفا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہماری ازلی شان یہ ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو کسی تعبیر سے شرمندہ کر کے، انھیں ذلیل و خوار نہیں کرتے، ہم تعبیر سے زیادہ خواب پر اور تدبیر سے زیادہ تقدیر پر تکیہ کرتے ہیں کہ یہی ہماری شوکت ثقافت ہے۔

ہم نے ایک نازیبا جسارت بے جا کا ارتکاب کرتے ہوئے، اپنی اس قرطاس خراشی کی ابتدا حضرت وسیمؔ بریلوی کے ایک شعر کی تحریف سے کی ہے، ان سے قلبی معذرت کے ساتھ کہ یہ تحریف ہم نے اپنی ضرورت وقتی، نیز اپنی نا شاعرانہ صلاحیت کے اظہار کے طور پر کی ہے۔ ویسے جناب وسیمؔ کو اطمینان خاطر ہو کہ تحریف بھی دراصل توصیف کی ہی ایک شکل ہے، پھر تحریف بااعتراف، سرقہ خفیہ سے کم تر جرم ہے، سو لائق درگزر۔

گزشتہ دنوں، کچھ دن تک حویلیوں، کوٹھیوں، مکانوں، جھگیوں، جھونپڑیوں سے لے کر گلیوں، کوچوں، محلّوں، بستیوں، کالونیوں تک اور گھروں کی بیٹھکوں سے لے کر جدید ڈرائنگ روموں تک اور ہمارے گھر کے آس پاس کی دکنیوں، دکانوں سے لے کر بھرے پرے بازاروں اور عالی شان مالوں تک ایک خواب کا ذکر ہر زبان پر تھا اور ایک سپنے کا چرچا ہر سو۔ یعنی مہان سنت شوبھن سرکار مہاراج کے اس سپنے کا جو انھوں نے اپنی قیمتی نیند قربان کر کے، عالم خیال میں دیکھا تھا بلکہ ان کے ایک پرم ششیہ یعنی شاگرد رشید کے قول کے مطابق، بابا سرکار نے یہ خواب سوتے میں نہیں بلکہ جاگتے میں، یعنی عالم مراقبہ میں دیکھا، جب وہ دھیان میں مگن تھے، اور یہ محض ایک خواب نہیں آتم گیان تھا، کشف تھا۔

اب بھلا بتائیے کہ ایسے بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ خواب اور ایسے آکاشی سپنے کو آپ کس طرح باطل قرار دے سکتے تھے۔ کیوں کہ صرف خواب ہوتا تو آپ اسے فرضی مان لیتے، کیول سپنا ہوتا تو آپ اسے جھوٹا کہہ دیتے، لیکن’آتم گیان دوارا‘ کشف کے توسط سے جو آسمانی اطلاع انھیں موصول ہوئی تھی، اسے آپ کیسے نظر انداز کر سکتے تھے، یا اسے ناتسلیم کر سکتے تھے، اس کی سچائی کے سامنے تو آپ کو سر جھکانا ہی تھا، کیونکہ آپ اور ہم اس دیس کے باسی ہیں، جہاں پیروں، فقیروں، باباؤں، سنتوں، منہتوں اور سادھوؤں کی حکمرانی، حکومت وقت کے اختیار و اقتدار سے بالا تر ہے۔ دیکھیے ناکہ نریندر مودی، جو خود سپنے بیچنے کا منافع بخش کاروبار کرتے ہیں، ان جیسا شطرنجی سیاست کا شاطر کھلاڑی بھی شوبھن سرکار کے سامنے دو زانو ہونے پر مجبور ہوا، انھوں نے بابا سرکار پر ذرا سی نکتہ چینی کی تھی، کہ بابا نے ان سے چند تیکھے سوال کر ڈالے اور ایک عدد گھڑکی بھی رسید کی، بس مودی جی چاروں خانے چت۔ دراصل راز درون خانہ یہ ہے کہ شوبھن سرکار کی روحانی طاقت اور ان کا رہبانی رعب و دبدبہ اپنی جگہ، ان کے اپنے اچھے خاصے وسیع و عریض علاقے میں رائے دہندگان پر ان کا ایسا اثر ہے، جس سے کوئی سیاست داں چشم پوشی نہیں کر سکتا، اور بھاجپائی مودی تو بالکل نہیں، کیوں کہ ان کے لیے اس وقت اتر پردیش کا ایک ایک ووٹ بیش قیمت ہے، اور ہمارے سماج میں سیاسی دوکان کتنی ہی اونچی ہو، اس کا پکوان مذہبی دوکان کے سامنے پھیکا اور بے مزہ بلکہ بدمزہ ہی قرار پاتا ہے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ بابا شوبھن سرکار مہاراج کا یہ سپنا، یہ خواب تھا کیا، اور اس کی (ناممکن) تعبیر کیا ہوسکتی تھی۔ اس قصّے سے آپ واقف ہیں، مگر ہم آپ کی دلچسپی کے لیے دہراتے ہیں کہ گزشتہ دنوں اتر پردیش کا ایک کم نام مقام (گمنام نہیں، کیوں کہ اس مردم خیز بستی نے بڑی نامور ہستیاں پیدا کی ہیں، جنھوں نے اس کے نام کو روشن کر کے، خواص و عوام کے ذہنوں میں نہ سہی، کتابوں میں ضرور محفوظ کر دیا ہے) یعنی اناؤ جو ابھی کل تک صرف لکھنؤ اور کانپور کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ایک چھوٹا سا شہر اور اس کے گرد پھیلا ہوا، اک بظاہر غیر اہم ضلع تھا، مگر گزشتہ دنوں اس کی حدود انتظامی میں واقع صفری حیثیت کا ایک موضع جس کا نام ڈونڈی کھیڑا ہے، وہ نہ صرف پکّی روشنائی سے چھپے اخبارات کی سرخیوں میں آگیا بلکہ فضائی، لہریاتی اور تصویری ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی مسلسل اس کی ڈونڈی پیٹی جاتی رہی، لیکن یہ ڈونڈی بے چارے بیہڑ، بے سڑک گاؤں ڈونڈی کھیڑا کی نہیں بلکہ اس کے ایک خشک و بے فصل قطعۂ زمین میں پوشیدہ اس دولت زر کے سبب تھی، جس کا شقہ بابا سرکار کے سپنے نے چھوڑا تھا، عالم یہ تھا کہ ہم جیسا قلم کا مزدور بھی ہر صبح کو چائے کی پیالی کی پہلی چسکی کے ساتھ جب اخبار کھولتا تو ساری سیاسی خبروں کو پھلانگ کر اس سپنے کے ساکار ہونے کی خبر کی تلاش میں اپنی نظروں کو سر گرداں کرتا، کیوں کہ زیر زمین اس (ناموجود) سونے کی چمک سے، وہ بھی اپنی آنکھوں کو خیرہ کرنا چاہتا تھا، جس کی تاب ناک پیشین گوئی اور بھوشیہ وانی شوبھن سرکار نے کی تھی۔

جیسا کہ آپ سب روشن ضمیروں اور حتیٰ کہ ہم جیسے کوتاہ ذہنوں پر بھی منکشف و عیاں ہے کہ اس داستانوی قصّے کا آغاز مہاراج شوبھن سرکار کے ایک نادر الوجود خواب سے ہوا۔ انھوں نے اپنی چشم قلب یعنی من کی آنکھ سے ایک رنگ برنگ سپنا دیکھا کہ ڈونڈی کھیڑا کے کبھی کے راجہ راؤ رام بخش کی کھنڈر ہو چکی حویلی کے باہر کھلے میدان میں، مندر کے قریب دنیا کا سب سے بڑا خزانہ دفن ہے، اور اس میں تولے دو تولے نہیں، سیر دو سیر نہیں، من دو من بھی نہیں، بلکہ ایک ہزار ٹن خالص سونا محفوظ ہے۔ اس خوابی انکشاف کی اطلاع انھوں نے ہر قسم کے دنیاوی مطالبات اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر، اپنے ایک عقیدت مند کو فراہم کی، جو خیر سے وزیر با تدبیر بھی ہیں، ان وزیر کبیر کے توسط سے یہ خبر پایہ تخت دہلی میں وزارت عظمیٰ کے دفتر تک پہنچی اور وہاں سے خزانے کی تلاش کا فرمان جاری ہو گیا، کہ بابا سرکار کے خواب نے ارباب اختیار کو بے طرح بیدار کر دیا اور سارا نظام حرکت میں آ گیا۔

ایک دلچسپ حیرتی حقیقت ملاحظہ ہو کہ جس ملک میں کسی عمومی فیصلے تک پہنچنے اور اسے آخری شکل دینے میں مہینوں لگتے ہوں، کوئی قانون وضع ہونے اور نافذ ہونے میں کئی کئی برس لگ جاتے ہوں، اور اہم و فوری نوعیت کے امور کی تفتیش و تحقیق کے لیے قائم کردہ عدالتی کمیشن اپنی حاصل کردہ معلومات و سفارشات بہم پہنچانے میں اتنا وقت لگاتے ہوں کہ تمام تر صورت حال ہی تبدیل ہو جائے اور حادثے کے متاثرین یا تو ایں جہانی سے آنجہانی ہو چکے ہو ں یا کم از کم حصول انصاف کی ہر امید ترک کر کے اس معاملے کو ہی فراموش کرنے پر مجبور ہو چکے ہوں، لیکن اسی سست رفتار ملک میں ایک مذہبی پیشوا کے اشارے پر تمام تکنیکی و قانونی کاروائیوں کی رسم پوری کیے بغیر کمال عجلت کے ساتھ خزانے کی تلاش کا پیچیدہ عمل چند دنوں میں شروع ہو جائے۔ دراصل وہی ہوا، جو اس توہم پرست معاشرے میں ہونا چاہیے تھا، جہاں زمینی حقائق سے زیادہ آسمانی خبروں کو اہمیت دی جاتی ہے، اس لیے بابا سرکار کے اشارے پر سرکار کیا سرکاریں حرکت میں آ گئیں، اور خزانے کی تلاش شد و مد کے ساتھ جاری ہو گئی۔

اگرچہ ماہرین ارضیات و افسران محکمۂ آثار قدیمہ اس بات پر متفق تھے کہ مذکورہ خوابی سرزمین یعنی سپنوں کی دھرتی کی کوکھ میں کوئی نہ کوئی معدنی مادہ ضرور موجود ہے، لیکن قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ فلز زرد ہی ہو گی، بلکہ قطعی طور پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہاں اتنی کثیر مقدار میں دولت زر پوشیدہ ہو ہی نہیں ہو سکتی تھی، جتنی کہ بابا سرکار نے اپنے خواب، اپنے سپنے یا گیان دھیان کی چمک جھمک میں دیکھی تھی۔ چوں کہ یقین کسی کو نہیں تھا اس لیے ماہرین آثار قدیمہ نے احتیاطاً یہ کہنا شرع کر دیا تھا کہ وہ ثقافتی دولت کی تلاش میں یہ جد و جہد کر رہے ہیں، تاکہ وہ کل کو مذاق کا ہدف نہ بنیں، ادھر علاقائی تاریخ کے ماہرین نے بھی متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ وہاں کسی ایسے خوابی خزینے کے حقیقتاً برآمد ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا، حتیٰ کہ راجہ صاحب کی ایک کئی پشتوں بعد کی وارث پڑھی لکھی خاتون نے بھی اس پورے قصّے کو داستان طرازی ہی قرار دیا تھا، تاہم بابا سرکار اپنی بات پر اٹل تھے، اور سرکاری سطح پر سرکاری خرچ پر، خزانے کی تلاش جاری بھی رہی، ساری بھی، ادھر بابا سرکار کے بھکت ہون اور پوجا پاٹھ میں مصروف تھے کہ کسی طرح ان کے گرو کا سپنا سچ ہو کر سامنے آئے، یعنی یقین انہیں بھی نہیں تھا ورنہ اگر خزانہ موجود تھا تو پھر اس کی برآمد گی کے لیے دعا اور عبادت کی کیا ضرورت تھی۔

بابا سرکار کے عقیدت مندوں کو کتنا یقین تھا اور کتنا نہیں، یہ بات تو تیقّن سے نہیں کہی جا سکتی، مگر تلاش خزانہ کی مہم کے روز اوّل ہی بابا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چار گھنٹے کے اندر اپنی روحانی طاقت سے خزانہ عامرہ زمین کے اوپر لا کر جگ ظاہر کر دیں گے، انھوں نے پوجا بھی کی، اور مقررہ ساعت گزر گئی، مگر خزانہ تو خزانہ اس کی جھلک بھی نظر نہ آئی، اور بابا جی بڑی متانت مگر خاموشی کے ساتھ راہیِ آشرم ہو گئے۔ اس پر کسی منچلے نے یہ دل جلا تبصرہ بھی کیا کہ اگر بابا روحانی طور پر اتنے طاقت ور اور با اختیار ہیں کہ انھیں پوشیدہ خزائن نظر آ جاتے ہیں تو پھر سرکاری عملے کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی، بابا اپنے چمتکار سے ہی خزانہ باہر لا سکتے تھے اور ملک و قوم کو مالا مال کر سکتے تھے، کیوں کہ اس تو ہم پرست ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، نہ بھی ہو تو اس کے سادہ لوح عوام یقین کرنے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں۔

بارے، یہ خبر آئی کہ محکمۂ آثار قدیمہ نے ہفتوں کی بے نتیجہ قواعد اور زر کثیر کے ضیاع کے بعد بالآخر سونے کی تلاش کا عمل یکسر روک دیا، یعنی زر تو نہیں ملا، البتہ سرکاری زر بہ شکل رقم خرچ ہو کر، خزانے سے منہا ہو گیا، اس ناکامی کی خبر سن کر بابا جی کا رنگ زرد ہوا یا نہیں، اس کی صحیح اطلاع باوجود تلاش بسیار نہ مل سکی۔

ہمیں پھر ایک شعر یاد آ گیا ہے:

ایک مدّت کے لئے پھر نیند اپنی اُڑ گئی

خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

دراصل ہم کم و بیش کئی ہفتے تک اس خوش خیالی میں مبتلا رہے کہ شاید محکمۂ آثار قدیمہ کے ماہرین اپنی عجلت روی پر پشیمان ہو کر تلاشِ خزانہ کی اپنی نامکمل مہم کی از سرِ نو تجدید کر کے سنگلاخ زمین کے نازک سینے میں مزید شگاف زنی فرمائیں، اپنے زنگ آلود اوزاروں کو نئے سرے سے صیقل کر کے ایک مرتبہ اور ہمت باندھیں کہ کوشش بڑی چیز ہے۔ تاہم ہماری خوش فہمی، کج فہمی ثابت ہوئی، اور ماہرین مذکور نے تمام تر شقی القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلاش زر کی سمت میں کوئی سعی مکرر نہیں فرمائی۔ بڑے ستم کی بات یہ ہے کہ انھوں نے بابا شوبھن سرکار کی دل شکنی کا بھی لحاظ نہیں کیا، نہ ہی خیال خاطر سرکار کا جذبہ پیش نظر رکھا۔ شاید یہ حکومتی عملدار، ابھی اپنی گزشتہ شرمندگی کے خول سے ہی باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ اور بابا سرکار کی موشگافیاں بھی ہوائی قلعہ بن کر رہ گئیں۔ راجہ راؤ رام بخش کا خستہ حال، بلکہ تباہ حال قلعہ اس تماشے کا خاموش ناظر بنا مثال عبرت پیش کر رہا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہے:

ع:   دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

امر واقعہ یہ کہ اس امیدِ زر، تلاشِ زر، نیز ناکامیِ کاوش جہدی کے بعد کئی سوالات ذہنِ ناقص میں آئے، جو اس سے قبل خوش خوابی کی برکات کے باعث بعید الخیال تھے۔ خیر، لیجیے ہم آپ کو اپنے ذہنی شکوک اور وسوسہ ہائے شدید میں شریک کر کے اپنی دانست بھر ایک زور دار کوشش کرتے ہیں، باقی معاملات آپ کی صوابدید پر منحصر ہیں، وجہ یہ کہ راجہ راؤ رام بخش تاریخ میں گمنام نہ سہی، مگر کچھ ایسے نامور بھی نہیں، ان جیسے راجہ اس عہد کے ہندوستان میں ہزارہا ہوں گے، چپّے چپّے پر ہوں گے۔ وہ ایک ننھی سی ریاست بلکہ جاگیر کے مالک تھے۔ تاہم ان کی جب الوطنی اور جرأت و شجاعت کو سلام کہ انھوں نے ابن الوقتی اور موقع پرستی کو درکنار کر ۱۸۵۷ء کے پُرآشوب دور میں انگریز جیسی عالمی طاقت سے پنجہ آزمائی کا فیصلہ کیا، حتی المقدور مقابلہ بھی کیا اور انگریزوں نے انتقاماً ان کی گڑھی کو تہس نہس کر کے، زمیں بوس کر دیا، لیکن ان کا محفوظ کردہ خزانہ فاتحین کی نظروں سے پوشیدہ ہی رہا، ورنہ پورے ملک کی قزاقی کرنے والوں کو اس چھوٹے سے قلعہ، محل یا حویلی کو لوٹنے میں کتنی دیر لگتی۔ چلیے یہاں تک تو ٹھیک ہے، مگر سوال مشکل یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بلکہ ننّھی منّی سی ریاست کے حکمراں کے پاس سونے کے اتنے بڑے انبار کہاں سے آ گئے، جس کی نوید اس نے شوبھن سرکار کو خواب میں دی۔ دوسرا سوال یہ بھی کہ اگر اتنا نہ سہی کتنا ہی سونا چاندی راجہ کے پاس تھا بھی تو شکست کھانے کے بعد انھیں اتنی فراغت، فرصت اور وافر مہلت کیسے مل گئی کہ انھوں نے اپنا خزانہ باقاعدہ اتنا گہرا دفن کیا کہ وہ ڈیڑھ سو برس گزرنے کے بعد بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا، اور جب ظاہر ہونے کو ہوا تو ایک خواب کے توسط سے اور یہ کہ جب وہ اپنا خزانہ دفن کر رہے تھے تب انھیں شکستِ فاش دینے والی فاتح فوج کہاں غافل تھی، نیز محدود تاریخی معلومات کے مطابق تو وہ شکست کھا کر فرار ہو گئے تھے، کئی دن کسی کمیں گاہ میں چھپے رہے اور پھر فرنگی سپاہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ان کی کمیں گاہ ان کی گڑھی تو نہیں ہوسکتی تھی، جہاں تک فاتح فوج کی رسائی تھی، اور اگر یہ باور کیا جائے کہ انھوں نے جنگِ آزادی برپا ہونے سے پہلے ہی خزانہ دفن کر دیا تھا، تو اس کا کوئی جواز نہیں نظر آتا، کیوں کہ ان جیسا حب الوطنی سے سرشار جیالا اپنی دولت کو ایک بڑی فوج بنانے اور جنگی ساز و سامان جٹانے پر صرف کرتا، یا اودھ کی ملکہ حضرت محل کی نذر کر دیتا، جو انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار تھیں، یا پھر مرہٹہ سردار نانا صاحب کو سونپ دیتا جو ہمسایہ شہر کانپور میں کمپنی بہادر کے خلاف مصروفِ جنگ تھے۔ ہماری ناقص فہم میں تو ان میں سے کوئی بھی مفروضہ، دلائل کی کسوٹی پر کھرا نہیں اُترتا، اور ہزار ٹن سونے سے بھی زیادہ قیمتی سوال تو یہ ہے کہ ایک انتہائی معمولی اور صفری حیثیت کی حامل جاگیر کے حاکم کے پاس اتنی بے پناہ دولت کہاں سے آ گئی، جو شاید ریاست اودھ کے حکمراں واجد علی شاہ کی تحویل میں بھی نہ رہی ہو گی، جن کی ریاست شاہی کے نقشے پر ایک معمولی سا نقطہ رہی ہو گی، راجہ رام بخش کی زمینداری۔

بلا شک و شبہ عہدِ وسطیٰ کا ہندوستان سونے کی چڑیا تھا اور مغل قلمرو عصری دنیا کی سب سے متمول اور ذی شان سلطنت تھی، اس لیے سونے کی اتنی بڑی مقدار اور وہ بھی یک مشت اگر ہو سکتی تھی تو شاہجہاں اور اورنگ زیب کے قبضۂ قدرت میں، نہ کہ ایک حقیر سے دیہی زمیندار کے پاس۔ عظیم مغلو ں کی دولت اور وراثت، کسی نہ کسی مقدار میں ان کے کمزور جانشینوں تک بھی پہنچی ہو گی، مگر ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے دہلی پر نادر شاہی قیامت گزر چکی تھی اور تمام تر سونا بمعہ تختِ طاؤس و کوہِ نور، ہندوستان سے ایران منتقل ہو چکا تھا۔

یہ تمام گفتگو بھی محض گفتگو برائے گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں، کیوں کہ راجہ رام بخش کے چھوٹے سے خزانے میں سونے کی اتنی کثیر مقدار ہو ہی نہیں سکتی تھی، ورنہ وہ ہندوستان کے سب سے دولت مند حکمراں ہوتے اور مغل شہنشاہی سے چشمک کرتے، اودھ کی تو بساط کیا تھی، اور وہ بھی تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ اس لیے خزانہ تو خزانہ، خزانے کا سایہ بھی مذکورہ موضع ڈونڈی کھیڑا میں ہونا محال ہی نہیں ناممکن نظر آتا تھا۔ البتہ راجہ رام بخش چوں کہ رام بخش تھے، اس لیے وہ بھگوان رام کی بخشش سے بہرہ مند ہو سکتے تھے، اور غالباً بابا سرکار کی خوش خوابی بھی اسی اساطیری خیال پر مبنی رہی، ورنہ کوئی منطق، کوئی دلیل اور کوئی ثبوت ان کے حق میں نہیں جاتا، اگر ہو گا تو وہ بابا جیسے مہان سنت کی نظر میں ہو گا، ورنہ:

 ع:  دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

اگرچہ بابا سرکار نے اپنی وسیع القلبی اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے، حکومت کو یہ ’اجازت‘ دے دی تھی کہ وہ اس (حاصل نہ ہونے والے) سرمایۂ ذخار کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی، انھیں یا ان کے چیلوں کو کچھ درکار نہیں تھا، نہ ان کی آنکھ ادھر تھی، نہ ذہن و خیال۔ یہ بھی بڑی بات ہے، ورنہ جنوبی ہند کے ایک مندر میں سوا سو برس پرانا خزانۂ عظیم دریافت ہوا تھا تو وہاں کے منہتوں اور پُجاریوں نے حکومت کو ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ یہ بھگوان کا دھن ہے، کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا، نتیجتاً وہ سونا آج بھی بے مصرف پڑا ہے۔ سونے کو زنگ تو نہیں لگتا مگر وہ اپنے استعمال مفید سے محروم ہے۔

محاورہ ہے کہ گاؤں بسا نہیں اور لٹیرے پہلے آ دھمکے۔ سونا برآمد بھی نہیں ہوا اور اس کے اَن گنت دعویدار کھڑے ہو گئے، جن میں گاؤں والے اور راجہ صاحب کے دور دراز کے وراثتی حقدار بھی شامل تھے۔ باقی رہ گئیں سرکاریں تو ان کا تو قانونی اور جائز حق تھا ہی، مگر حق تو تب قائم ہوتا، جب شیِ ’غیر حقیقی‘ کا وجود ہوتا، اصلاً تو وہ دولت زر ہی نا موجود تھی، جس کا یہ قصّہ تھا۔

سونا برآمد ہوتا یا نہ ہوتا، اس کا کوئی قوی امکان بھی ہوتا یا نہ ہوتا مگر حسابی کتابی ٹولا کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ خود ساختہ منصوبہ بندوں اور تخمینہ سازوں نے تمام گوشوارے تیار کر لیے تھے۔ ان ماہرین نے اعداد و شمار، علم ریاضی اور علم الاحصا کی بنیاد پر یہ بھی طے کر دیا تھا کہ اس تصوراتی رقمِ خطیر سے اتنی تعلیم گاہیں قائم ہوسکتی تھیں، اتنے شفا خانے وجود میں لائے جا سکتے تھے اور فلاں فلاں قبیل کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے تھے، نیز اس زر کثیر کو فروخت کر کے مرکزی و ریاستی حکومتیں کس طرح اپنی جملہ ذمہ داریوں سے راتوں رات عہدہ برآ ہو کر، اس دولت کے فیوض اور اس کی برکات کے سبب بڑے سے بڑے اخراجاتی بار سے لمحوں میں بری الذمہ ہوسکتی تھیں۔ ایک صاحب تو بڑی دور کی کوڑی لائے، اور انھوں نے حساب کتاب کر کے جوڑ گھٹا کر یہ بھی طے کر دیا کہ اگر یہ رقم بے حد و حساب وجود ظاہری میں آ گئی تو ہر ہندوستانی ایں قدر پونجی کا مالک ہو جائے گا۔ آپ بھی امید کا چراغ روشن کر لیتے کہ رقم آنے والی تھی، ہم نے تو ایک مضبوط سی پرانے طرز کی تھیلی سلوالی تھی کہ عہد وسطیٰ کی ریزگاری بھی اشرفیوں کی شکل میں ہو گی، جسے ہم اپنی دادی، نانی کے سکھائے طریقے سے چھپا کر، جِگو کر رکھیں گے، کسی آزمودہ کار کی طرح۔

سچ پوچھیے تو ہم تو خوشی سے اتنے پھول گئے کہ اپنے لباسی جامے میں نہیں سما رہے تھے، کیوں کہ اتنی بڑی (بلکہ بہت بہت بڑی) رقم یعنی تین لاکھ کروڑ  (جو اس مفروضہ دولتِ زر کی آنکی ہوئی قیمت تھی)، ہمارے تصور اور تخیل کی پرواز اور رسائی سے بھی پرے تھی، ہم ’پدرم سلطان بود‘ کا کیسا ہی بلند و بانگ نعرہ لگا لیں، اپنے آباء و اجداد کی (غیر حقیقی) ثروت و دولت کے کتنے ہی نو ایجاد قصے گڑھ لیں اور سفید جھوٹ کے پلندوں کے انبار لگا دیں، تب بھی اتنی بسیط، اتنی وسیع، اتنی عریض دولت کی زیارتِ رسمی کا بھی دعویٰ نہیں کر سکتے، یہ رقم خطیر و کبیر ہمارے کسی خود ساختہ خواب کا منظر بھی نہیں بن سکتی، کیوں کہ ہم شوبھن سرکار نہیں ہیں۔

اگرچہ کچھ عادتاً و فطرتاً قنوطی حضرات یہ معترضانہ نکتے اٹھاتے رہے کہ آج سونے کی وہ قدر، قیمت و اہمیت نہیں جو عہدوسطیٰ میں تھی، اور فی زمانہ سونے سے ملکوں اور قوموں کی تقدیر نہیں بدلی جا سکتی، مگر آپ ان سب مایوسی پسند لوگوں کو بکواس کرنے دیجیے، ہم مانتے ہیں کہ سونا بہرحال سونا ہے، حقیقت میں نہ سہی، خواب میں سہی۔ ورنہ ہماری حکومتیں یوں پاگل نہ ہو جاتیں۔

ویسے خزانے کی موجودگی، برآمدگی اور اس کا حصول کوئی ایسی انوکھی بات نہیں، اکثر لوگوں کو خزانے ملے ہیں۔ کبھی ردّی میں آئے کاغذ پر کشیدہ نقشہ کی مدد سے، کبھی بزرگوں کے اچانک نظر میں آئے وصیت نامے کے طفیل، البتہ اس نئے قصّہ میں دو باتیں غیر معمولی تھیں، کہ اوّل تو آج تک شاید کسی کو محض خواب کی رہنمائی سے خزانہ نہیں ملا، دوئم اتنی خطیر رقم کا حامل خزانہ بیک وقت کسی کو بیک مقام حقیقتاً حاصل ہوا ہو، اس کی بھی مثال ملنا محال ہے۔ البتہ خواب کی بات دیگر ہے، عالمِ خواب میں ہم نے بھی، ایک بار نہیں کئی بار تاج محل، لال قلعہ اور قطب مینار جیسی حسین، پر شکوہ و بیش قیمت عمارتوں کو خریدا بھی ہے، فروخت بھی کیا ہے۔ یہ خوابی تجربہ ہمیں ہی نہیں بہتوں کو ہوا ہو گا، شاید آپ کو بھی، مگر ہوا یہی ہو گا کہ جب آنکھ کھلی تو بستر پر تھے۔

ہم نے اپنے بچپن میں اپنے خاندان کی ’بزرگاؤں‘ کو اکثر یہ کہتے سنا کہ سونا مالدار کا سنگھار اور غریب کا آدھار ہے، کہ بوقتِ ضرورت کام آتا ہے۔ اس لیے ہم کم از چند دن ضرور خوش خیال رہے کہ شاید زرِ خطیر کا یہ خزانہ ہماری حکومت کو مل ہی جائے، تو پھر ہندوستان جیسے غریب مگر ترقی پذیر ملک کے محدود خزانے کو ایک بڑا سہارا مل جائے گا، اور اگر حکومت اس مفت کی دولت کو وراثتی احترام کے پیش نظر نیلام نہ بھی کرتی تو بشرطِ حاجت رہن رکھ سکتی تھی، کہ گاہک اور موت کی طرح برے وقت کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں کہ بلا تنبیہ اور بغیر پیشگی اطلاع، کب بصورت بلا نازل ہو جائے۔

ہم نے اپنے خاندان کی ’بزرگاؤں‘ کو یہ کہتے بھی سنا کہ مایا (دولت) اگر گڑی ہو تو اس کی حفاظت جن اور سانپ کرتے ہیں، اور وہ وقت مقررہ پر اسی کو ملتی ہے، جس کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ جب وقت آتا ہے تو یہ مایا کھسک کر اوپر آ جاتی ہے اور کسی طرح چمک چمکا کر ظاہر بھی ہو جاتی ہے۔ مگر ہماری حکومتوں کو شاید بڑے بوڑھوں کی ان باتوں کا یقین نہیں ہے، ورنہ وہ اتنی زحمتیں نہ اٹھاتیں اور توہّم پرستی میں مبتلا اس معاشرے میں اس ’مہان مایا‘ کے از خود برآمد ہونے کا انتظار کرتیں۔ لیکن اتنا صبر و ضبط کہاں سے آتا کہ:

ع:  عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب

ہم بیسویں صدی میں پیدا ہوئے اور اکیسویں صدی میں برسرعمل ہیں۔ پھر بھی ہمارے خمیر کی ہندوستانیت اور ہماری بشری کمزوری ہمیں گھیر گھار کر، ٹھیل ٹھال کر اس مقام پر لاتی تھی کہ ہم بابا سرکار کے خواب کے تئیں ایک مرتبہ پھر خوش خیال اور خوش امید ہو جاتے، مگر ہمارے اندر پوشیدہ باغی قلم کار، جو غور و فکر کا دعویدار ہے اور منطق و سائنس میں بھی یقین رکھنے کی غلط فہمی پالتا ہے، وہ اپنا سر ابھارتا اور کہتا کہ کس دنیا میں جی رہے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا، اور نہ ہونے والا ہے۔ پھر ہمارا جی ہوتا کہ ہم اپنے کسی ہم مشرب سے شرط لگا لیں کہ نہ خزانے کا وجود ہے اور نہ سونا نکلے گا۔ ہم شرط لگا تو لیتے، مگر ہم دل سے یہی چاہتے تھے کہ ہم شرط ہار جائیں، ہمارا دوست شرط جیت جائے، بابا سرکار کا سپناسچ ہو جائے، کہ شاید اسی بہانے ملک کا اُدّھار ہو جائے، ممکن ہے کہ ہماری تمنا پوری ہو جائے، حقیقت میں نہ سہی خواب میں سہی، ہمیں خواب دیکھنے اور خوابوں میں جینے کی عادت جو ہے، آخر ہیں تو ہم مشرق کی پیداوار۔

تو صاحب! قصہ مختصر، بلکہ تمام کہ نہ بابا کا آکاشی سپنا ساکار ہوا، نہ ہمارے زمینی خواب کسی تعبیر سے شرمندہ ہوئے، یعنی معاملہ ٹائیں ٹائیں فش۔

ع:  خواب مدّت میں بھی دیکھا تو وہی دیکھا ہوا

آخر میں ہم اپنے کلمات تشکر یعنی دھنیہ وادی شبد مہاراج شوبھن سرکار کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے ہم ہندوستانیوں کو خوش خیالی کا ایک اور تحفہ فراہم کیا، حقائق کی سنگلاخ زمین پر نہ سہی، رنگ برنگ خوابوں کی وادی میں سہی، کم و بیش ایک ماہ تک ہماری آرزوئیں ایک سپنیلے رتھ پر سوار ہو کر خوش رنگ تصوّراتی محلوں کی طرف رواں رہیں، لیکن یہ خیال مسرور بھی ہمارے ہر تجربۂ نشاط کی طرح چند دنوں کا مہمان ثابت ہوا، تاہم خوشی تو خوشی ہے، کیسی ہی عارضی کیوں نہ ہو، اور کتنی ہی مصنوعی کیوں نہ ہو۔ بھلا ہو شوبھن سرکار کا کہ انھوں نے خود خواب دیکھا اور ہمیں بھی خوابوں کے جہان کی سیر کا ایک اور موقع دیا، گو اس کی عمر بڑی مختصر تھی، کیوں، یہ ہمیں پتہ نہیں، سرکار مہاراج کو شاید پتہ ہو۔ رہا ہمارا سوال تو، ہمارے نزدیک تو رات گئی، بات گئی۔

٭٭٭

کتابوں کی باتیں

گُلدان میں آنکھیں ۔۔ رفیق سندیلوی / تبصرہ : شناور اسحاق

1995 کا سال تھا۔ ملتان میں برادرم مختار علی کی زبانی پہلی بار رفیق سندیلوی کا نہ صرف ذکر سُنا بلکہ ان کی غزلوں کی کتاب "سبز آنکھوں میں تیر” پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہُوا۔ ان کی شاعری پوری طرح سمجھ میں نہ آنے کے باوجود انوکھی اور پُر اسرار محسوس ہوئی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ انسان بطور "قاری” بھی ارتقا پذیر رہتا ہے۔ لہذا پڑھی ہوئی خاص خاص کتابیں وقفے وقفے سے بار بار پڑھتے رہنا چاہیے۔ آپ یقیناً خوشگوار تجربے سے ہمکنار ہوں گے۔

اُن کی غزلوں کا ایک اور مجموعہ "گرز” لاہور پرانی انارکلی سے مل گیا۔ وہ بھی پڑھا۔ پھر اوراق میں ان کی غزل پر ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک مضمون نظر سے گزرا جو غالباً ان کے تیسرے مجموعے "ذکر ایک رات کا” کا دیباچہ تھا۔ یہ مضمون پڑھنے کے بعد ان کی تمام غزلیں دیکھنے کی شدید خواہش مجھ میں ہمیشہ زندہ رہی۔ 2011 میں اسلام آباد میں ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں تو میں نے اپنی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے نوید سنائی کہ جلد ہی کلیات غزل آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ لیکن رفیق سندیلوی اور عُجلت؟ صاحب! دونوں کو متضاد سمجھیے۔ آپ اسے خرابی سمجھ رہے ہوں گے؟ خدا کرے یہ خرابی ہر شاعر کو نصیب ہو۔

 کوئی پچیس سال سے انہوں نے نظم کو حرز جاں بنا رکھا ہے۔ "غار میں بیٹھا شخص” جیسی شاندار و یادگار کتاب اس ریاضت کا ثمر ہے۔

وہ نظم کے چند اہم ترین شعرا میں بھی اپنا انفراد رکھتے ہیں کہ ان جیسی compact نظم کہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ان کی نظم میں تمثال نگاری اور جمالیات کی بوچھاڑ قاری کو شرابور کر دیتی ہے۔

ان کی غزل کا ذائقہ اور فضا ان کی نظموں سے یکسر مختلف ہے۔ ہم اساطیری دبستان شاعری میں اظہارالحق، خالد اقبال یاسر، ثروت حسین، محمد خالد، افضال احمد سید اور غلام حسین ساجد کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن رفیق سندیلوی کا نام نہیں لیتے۔ اس میں کچھ دوش ہمارا ہے اور کچھ اس جمالِ کم نما کا جسے رفیق سندیلوی کہتے ہیں۔

بھلا ہو دلاور علی آزر کا جنہوں نے "گلدان میں آنکھیں” کے نام سے ان کی غزلوں کا انتخاب شائع کردیا۔ میری دیرینہ خواہش تو پوری ہوئی۔

ان غزلوں میں آپ کی ملاقات ایک سُورمے سے ہو گی، وجودی کرب میں مبتلا انسان سے بھی ہوگی اور ایسے فنکار سے بھی ہوگی جو غزل کے تمام ذائقوں کا عارف ہے اور قابل رشک جمالیاتی شعور سے متصف ہے۔

میری نئے پرانے شاعروں سے دست بستہ التجا ہے کہ خدارا ایسی شاعری کو پڑھیں، ہضم کریں۔ پھر فیصلہ کریں کہ کس منطقے میں گرد اڑانی ہے۔

واللہ میرا جی چاہتا ہے کہ کم از کم آدھی کتاب یہاں نقل کر دوں لیکن میری ٹائپنگ کی رفتار اجازت نہیں دیتی۔

چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کہاں کی طاقتیں کیا غیب اور کیا موجود

بچھڑ کے تجھ سے بدن ہی نہیں رہا موجود

اُڑے ہیں سمتِ فنا باغِ خواب کے پتے

کچھ ایسی تیز چلی ہے ہوائے نا موجود

میں قوس توڑ کے نکلا تو یہ خبر ہی نہ تھی

کہ دائرے کے اُدھر بھی ہے دائرہ موجود

کسی بھی پردۂ تمثیل پر ہوں ہم دونوں

عقب میں ریتا ہے ہر وقت تیسرا موجود

اک ایک کر کے بنے لقمۂ عدم اعضا

بس ایک دل مرے سینے میں رہ گیا موجود

میں ضربِ تیغ کے ڈر سے چھپا ہوا تھا وہاں

خبر نہیں تھی کنویں میں بھی ہے قضا موجود

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خلا، چپّو، ستارہ رات کا مانجھی بنے گا

زمیں پانی بنے گی، آسماں کشتی بنے گا

سجے گی بارگاہ نور میں تیری کلائی

کبھی یہ دُبِّ اکبر کانچ کی چوڑی بنے گا

پھریں گے معرفت کی تنگنائے میں ستارے

ولی سورج بنے گا مُشتری صوفی بنے گا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو

مرے وجود کی تقریبِ رونمائی ہو

رکھا گیا ہو ہر اک خواب کو قرینے سے

زمینِ حجلۂ ادراک کی صفائی ہو

اُس اعتکافِ تمنا کی سرد رات کے بعد

میں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے، ساعتِ موجود

مجھے قدیم زمانے میں کھینچ لائی ہو

نکل پڑوں میں کوئی مشعلِ فسوں لے کر

قیام گاہِ ابد تک مری رسائی ہو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایسا نظّارہ کہ یک طرفہ ہو جس کا عالم

کوئی حیران نہ ہو اور مجھے حیرانی ہو

ایک انبوہ ازل سے مرے اطراف میں ہے

اتنی خلوت ہو کہ رونے میں تو آسانی ہو

پار کر لیں گے ہم اک رو میں یہ دریائے وجود

تو بھی سرمست ہو اور مجھ میں بھی طغیانی ہو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں اپنی سانسوں کی نجم گاہوں میں دیکھتا تھا

کوئی اساطیری کہکشاں اور قطبی تارا

کبھی تو میدانِ خواب میں بھی پڑاؤ کرتا

سنہری اونٹوں کا کارواں اور قطبی تارا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیے جائیں گے میرے جسم میں نوری اضافے

کسی روشن ستارے پر مری تکمیل ہو گی

دیا جائے گا غسلِ عنبریں میرے بدن کو

طلسمی باغ ہو گا؛ باغ میں اک جھیل ہو گی

میں دریا ہوں تو ہو گا کچھ نہ کچھ احوال میرا

میں آتش ہوں تو میری کچھ نہ کچھ تفصیل ہو گی

٭٭٭

دو کتابیں ۔۔۔ فیصل عظیم

جاوید دانش کی جگر پاشیاں (مہجری ڈرامے ’’ہجرت کے تماشے‘‘)

زلفِ ’’نیم دراز‘‘ اور بالوں میں کبھی کبھی چھوٹی سی چوٹی کے باوجود جاوید دانش صاحب کے بارے میں بعض اوقات خواتین بدگمانی کے سے انداز میں پوچھتی ہیں کہ ’’جاوید دانش مجھے ’جگر‘ کیوں لکھتے ہیں‘‘ تو قہقہہ لگانے کے بعد میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ ’’فکر نہ کریں ہم سبھی ان کے جگر ہیں یعنی وہ سب کو اپنا جگری دوست سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی محبّت (افلاطونی Platonic) کا انداز ہے کہ وہ فیس بک پر بلا امتیازِ رنگ و نسل اور جنس، سب کو جگر کہ کر مخاطب کرتے ہیں اور یقین کریں یہ کام وہ بہت نیک نیتی سے کرتے ہیں‘‘۔ بس میں یہ کہتے کہتے رک جاتا ہوں کہ ان کی ڈاڑھی کا ہی خیال کر لیں۔ جی ہاں، گھنی ڈاڑھی، گرجتی آواز اور (تقریباً) ٹکسالی لہجے میں گفتگو کرنے والے یہ لمبے چوڑے برادرِ بزرگ جاوید دانش ہیں جن کی شرارت بھری مسکراتی آنکھوں سے دنیا دیکھیں تو گدگداتی بھی ہے اور رُلاتی بھی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جو ان کی تحریروں میں منقّش ہے اور اس کا ایک ثبوت ان کا زیرِ نظر مجموعہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ ہے۔ ویسے اوپر درج باتوں کو میرا بیانِ عاشقانہ قرار دے کر بزرگ خواتین کرم فرما ہمیشہ کی طرح میرے کان بھی کھینچ سکتی ہیں بلکہ زلفوں کے ذکر پہ تو وہ اس بار مجھے زلف کی اسیری کا طعنہ بھی دے سکتی ہیں مگر کان کھنچنے اور سننے کے لیے ہی تو ہیں۔

اب آئیے جاوید دانش صاحب کی جگر پاشیوں کی طرف۔

 ’’ہجرت کے تماشے‘‘ ڈراموں کا مجموعہ ہے جس میں بعض مختصر اور بعض قدرے طویل ڈرامے ہیں۔ اس کے سرورق کی پیشانی پر ’’مہجری ڈرامے‘‘ نہ بھی لکھا ہو تو کتاب کا عنوان خود ہجرت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسی پس منظر کے ساتھ جن کہانیوں کو موضوع بنایا گیا ہے، وہ ایسے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو ہندوستان اور پاکستان سے کسی نہ کسی سبب نقل مکانی کر کے دیارِ مغرب، بالخصوص کینیڈا آ کر آباد ہوئے اور نت نئے مسائل اور امتحانوں سے گزر رہے ہیں مگر اس کے لیے خود کو ذہنی طور پہ تیار نہیں کر سکے ہیں۔ جسمانی طور پہ تو آ گئے ہیں مگر ذہنی طور پہ نہیں آئے۔ ہجر تو ہو گیا، ہجرت مکمّل نہیں ہوئی۔ پیر آگے کی طرف ہیں، نظریں پیچھے کی طرف۔ اس کتاب کا عنوان بہت بامعنی ہے کیونکہ ہم سب تماشے ہی تو ہیں۔ سچ پوچھیں تو خود کو، اپنے معاملات اور اپنے ماحول کو دور کھڑے ہو کر دیکھیں تو رونا آئے یا نہ آئے ہنسی ضرور آئے گی۔ نئے نئے مسائل، نئی نئی حماقتیں، لہجے، زبان، حلیے، باتیں، غرض عجیب عجیب تماشے ہیں جو ہم دیکھتے اور کرتے رہتے ہیں۔

جاوید دانش مصنّف تو اچھے ہیں ہی، مقرّر بھی اچھے ہو سکتے ہیں (یا شاید ہوں) کیونکہ انھیں گفتگو کرنا خوب آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مکالمے بھی دلچسپ، بھرپور اور پڑھنے، سننے دونوں سے تعلّق رکھتے ہیں۔ وہ ’’آوارگی‘‘ کے نام سے مصاحبے (انٹرویو) کا ایک سلسلہ بھی مستقل مزاجی سے جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں کی جانے والی گفتگو میری درجِ بالا باتوں کا ثبوت ہے۔ گفتگو ایک فن ہے اور اس میں فنّی خرابی ہو تو سننے والے کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔ مگر جاوید دانش کو گفتگو کا فن بھی آتا ہے اور شاید مزہ بھی۔ ان سے بات کر کے ان کی الفاظ یا زبان سیکھنے اور برتنے پہ دسترس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انھیں مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے اور لہجوں پر بھی۔ اس کا ایک اور ثبوت ان کی داستان گوئی بھی ہے۔ وہ داستان گوئی کی محفل میں جب کسی کردار میں ڈھل کر داستان کا حصّہ بنتے ہیں تو آپ ان کے لہجوں پر عبور کے معترف ہو جاتے ہیں اور یہ فن اچھے مشاہدے کے بغیر نہیں آتا۔

ڈرامے کے کردار اگر اپنی یا اپنے ماحول کی زبان نہ بولیں تو فوراً پکڑے جائیں۔ آج کل ٹی وی کے لیے لکھنے والے کچھ ڈرامہ نویس ایسے بھی ہیں کہ ان کے کسی ڈرامے کے کسی کردار کو دیکھ لیں، مصنّف کا نام دیکھے بغیر کردار چغلی کھاتا ہے کہ یہ ڈرامہ کسی نہ کسی خلیل الرّحمان قمر نے لکھا ہے۔ نہ کرداروں کے سوچنے کے انداز میں تنوّع، نہ مکالمے میں۔ ہر ڈرامے کا ہر کردار ملے جلے انداز سے سوچتا اور بولتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والا کردار کے قریب نہیں گیا۔ اس پہ مکالموں میں ایک خبطِ عظمت کے احساس کے ساتھ صوفیانہ اور فلسفیانہ خول سونے پہ سہاگا۔ مگر مقبولیت کی دورِ حاضر کی یہ کسوٹی بھی محلِّ نظر ہے کہ عوام النّاس اسے بھی خوبی کہ کر تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔ خیر یہ بیماری ڈرامے تک محدود نہیں، فن کے ہر شعبے کے ساتھ ہمارا یہی رویّہ ہے۔ البتہ جاوید دانش کے ہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کردار واضح اور اپنی اپنی جگہ پر ہوتے ہیں، جو اپنی بات کرتے ہیں اور اپنی زبان بولتے ہیں لہٰذا ان کے کرداروں کی زبان عموماً کردار سے انصاف کرتی نظر آتی ہے۔ وہ نہ صرف زبان کا بلکہ کردار کے لہجے کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کردار نگاری زندہ اور بولتے ہوئے کردار بہت کامیابی سے پیش کرتی ہے۔

جاوید دانش کے ہاں (مرد) کرداروں کا اکثر کوئی نہ کوئی تکیہ کلام ہوتا ہے لیکن اس سے یکسانیت پیدا نہیں ہوتی۔ یہ بات مجھے اس کتاب کے مطالعے دوران بار بار یاد آئی کہ ایک زمانے میں پی ٹی وی لاہور کے ڈراموں میں یہ بہت ہوتا تھا۔ میرا خیال ہے جاوید دانش اپنے مکالموں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے تکیہ کلام کا اچھا استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس سے شگفتگی بھی پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کے ڈراموں میں ہلکے پھلکے مزاح کا عنصر جا بجا ملتا ہے جو خود ان کا مزاج بھی ہے۔ وہ خوش مزاج ہیں اور سنجیدہ ڈراموں میں بھی کہیں نہ کہیں شگفتگی کا احساس پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس مجموعے میں شامل ڈراموں کا موضوع ہجرت یا نقل مکانی کے بعد پیدا ہونے والے مسائل اور المیے ہیں اور کہانیوں میں انھِیں معاملات کی زیریں لہریں متحرّک رہتی ہیں۔ ان کے اکثر کرداروں کا المیہ یہ ہے کہ ’’نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ‘‘ جو مغرب میں بسنے والے اکثر مشرقی مہاجرین کا مشترکہ المیہ ہے۔ ایک نئی زمین پہ ایک نئی دنیا سے روشناس ہوتے لوگوں کو ملنے والے تہذیبی صدمے، ہجرت کے بعد نئی دنیا میں نئی قدروں اور نئے طور طریقوں کا سامنا اور ذہن و دل کا انھیں قبول کرنے میں تامّل برتنا، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتائج اور ان کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار، عام آدمی کی نمائندگی اور بعض اوقات ان سے جڑے مختلف فلسفے زیرِ بحث لے آنا، یہ سب ان کے ڈراموں کا نچوڑ ہے۔ ان کی کہانیوں میں تہذیبی تصادم بھی نظر آتا ہے اور نسلی تصادم بھی۔ نسل پرستی کا احساس بھی اور ایک ہی خاندان کی مختلف نسلوں کے درمیان ہونے والی کشمکش بھی۔ خاندانوں کی، اقدار کی اور تصوّرات کی شکست و ریخت اور کشمکش سے جو الجھنیں اور المیے جنم لیتے ہیں اور پختہ نظریات اور عقائد جس طرح منہدم ہو کر لوگوں کو کسی بے گھر کی طرح بے سایہ آسمان کے نیچے لا کھڑا کرتے ہیں، ان ڈراموں میں نہ صرف ان کی ترجمانی ہے بلکہ مسائل کے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔

ڈرامہ دیکھنے کی چیز ہے سو اس کی منظر نگاری کی اہمیت سے سبھی واقف ہیں۔ جاوید دانش کے ہاں منظر نگاری بقدرِ ضرورت ہوتی ہے۔ اطراف میں کیا ہے، ماحول کیسا ہے، کرداروں کے حلیے وغیرہ۔ جب وہ منظر کھینچتے ہیں تو اس کی ظاہری جزئیات کے ساتھ، بلکہ اس سے بھی زیادہ احساس، جذبے، کہانی اور مکالمے پر زور دیتے ہیں اور اسی سے ماحول پیدا کر لیتے ہیں اور آپ مکالمہ پڑھ کر، کردار کا حلیہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اس کتاب میں شامل بعض چھوٹے چھوٹے خاکہ نما ڈرامے ہیں، جیسے ’’ہجرت کے تماشے ‘‘ اور ’’کنوارے بھلے ‘‘ جو اسٹیج کے خاکے کی شکل میں لکھے گئے ہیں اور اپنے مخصوص کرداروں کے ظاہری اور فکری نقوش دکھاتے ہیں۔ جبکہ بعض دیگر ڈرامے مکمّل کہانیاں اور زندگی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان تمام کہانیوں میں دو کا ذکر میں خاص طور سے کرنا چاہوں گا۔ ایک ہے ’’ایک تھی روحی‘‘ اور دوسرا ’’بڑا شاعر چھوٹا آدمی‘‘۔ ’’ایک تھی روحی‘‘ زوردار اور بھرپور خود کلامی (مونولاگ) پر مشتمل آرٹ کا نمونہ ہے۔ اسٹیج پر پوری توانائی اور جذبے کے ساتھ دیکھنے اور سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لینے کی صلاحیت رکھنے والا یہ ڈرامہ علامات اور دکھ کے جذبوں سے معمور ہے۔ اسی طرح ’’بڑا شاعر چھوٹا آدمی‘‘ ایک بہت اچھا اور بھرپور ڈرامہ ہے۔ اس میں اونچے سنگھاسن پر بٹھائے گئے لوگوں کی سماجی زندگی کے تکلیف دہ کاروباری پہلوؤں اور خود غرضی کی عکاسی کی گئی ہے اور ڈرامہ اپنے دیکھنے (یا پڑھنے) والے پر ایک تکلیف دہ تاثر چھوڑ جاتا ہے۔

اس کتاب میں شامل کئی اچھے ڈرامے ہیں جن کا مختصر تذکرہ کرنا چاہوں گا جیسے ’’مکتی‘‘۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو مشرق اور مغرب دونوں کے لیے متنازع موضوع یعنی ایڈز اور ہم جنسوں سے متعلّق ہے۔ ’’عید کا کرب‘‘ نسلوں کے درمیان فکری اور تہذیبی فاصلے دکھاتا ہے۔ ’’کوئل جان‘‘ ایک نئی دنیا کا خواب ہے جہاں تیسری جنس کو بھی انسان سمجھا جائے گا۔ ’’نئی شاخ زیتون کی‘‘ امن کا خواب لیے ایک اچھا پیغام دیتا ڈرامہ ہے۔ ’’جیون ساتھی کلینک‘‘ بہت سنجیدہ موضوع پر ایک ہلکا پھلکا سا خاکہ ہے۔ ’’کینسر‘‘ ایک بہت جاندار ڈرامہ ہے جو مرسی کلنگ کے موضوع پر معاشرے پہ سوالات اٹھاتا ہے۔ ’’چالیس بابا ایک چور‘‘ میں اسی مجموعے میں شامل مختلف ڈراموں کے کردار جمع ہو گئے ہیں۔ اس میں کہانی تو آخر میں ہے، باقی دیسیوں کی بازاری زندگی کی جھلکیاں ہیں، کسی ڈاکومنٹری یا دستاویزی فکشن کی طرح۔ اس کے علاوہ ’’نو دو گیارہ‘‘ – 11/9 میں عربی اور انگریزی میں جو خطبہ ہے وہ قابلِ غور ہے۔

سب سے پہلا ڈرامہ ’’ہجرت کے تماشے‘‘ ہے جس میں ایک کمیونٹی سینٹر میں لوگوں کے مسائل سننے کا گویا تھیراپی سیشن ہوتا ہے۔ اس میں بعض کرداروں کا یکجا ہونا سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔ مثلاً فلسفی جو اکثر بے خود رہتا ہے، وہ تو بے خودی کے عالم میں وہاں چلا گیا ہو گا مگر ساتھ ہی ایک ترقی پسند شاعر اور ایک جدے دیت کا شاعر بھی جو اپنے نظریے اور فکر میں بہت واضح اور پختہ ہیں، ایسے سر پھروں کا اس طرح کی تھیراپی میں ہونا، کچھ اجنبی سا لگتا ہے کیونکہ یہ علامتی ڈرامہ نہیں ہے۔ یہ اگرچہ کسی ماہر نفسیات کا سیشن نہیں تھا پھر بھی اس کا انداز اس سے ملتا جلتا ہی ہے اور ایسے تخلیق کاروں کو وہاں دیکھنا آسان نہیں، ساقی فاروقی صاحب کی مثال انتہائی صحیح مگر وہ سائیکو تھیراپسٹ کو Psycho the rapist اور سائیکو تھیراپی کو سائیکولوجی کا ریپ کہتے تھے۔ پھر وہاں سنجیدہ بحث ایسے لوگوں سے مخاطب ہو کر بھی کی جا رہی ہے جو بالکل مختلف فکری دنیا کے باسی ہیں جیسے ایک بچہ اور ایک چائے کے ہوٹل پہ کام کرنے والے۔ ڈرامے میں ان لوگوں کی جدّ و جہد دکھائی گئی ہے جو زندگی بنانے کی تگ و دو میں راستہ تلاش کرتے کرتے تھکنے لگتے ہیں جیسے نووارد ڈاکٹر اور اس کی بیگم، جنھیں ابھی آئے صرف دو سال ہوئے ہیں اور وہ توقّعات کے برعکس ملنے والے ماحول سے گھبرا گئے ہیں گویا وہاں بہت وقت گزار چکے ہوں۔ جاوید دانش نے چونکہ مہاجروں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، یہ کردار ان کے دیکھے بھالے معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ سب کردار انھوں نے خود ایک چھت کے نیچے دیکھے ہوں۔

 ’’کنوارے بھلے ‘‘ ایک اچھا دلچسپ ڈرامہ ہے۔ البتّہ اس میں جاوید دانش کی کردار نگاری اور مکالمے اپنے دوسرے ڈراموں کی نسبت کچھ لگے بندھے سے معلوم ہوئے۔ مجبوری اپنی جگہ کہ یہ اردو ڈرامہ ہے ورنہ اس کے کچھ کرداروں کو انھیں اتنی اچھی اردو بولنا آنا نہیں چاہیے جیسی وہ بول رہے ہیں۔ دیگر کردار لیکن اپنی زبان اور انداز کو پوری طرح نبھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہانی بڑے دلچسپ موڑ پہ ختم ہوتی ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی گھر میں رشتے کی غرض سے ملی بھگت کر کے جانے والے تینوں لڑکے در اصل آپس میں دوست ہیں۔

تتّمہ یہ کہ آپ کو اگر مشرق سے یہاں آ کر بسنے والے لوگوں کی زندگی کے حالات جاننا اور ان کی جدّ و جہد اور اچھی زندگی کے حصول کی راہ میں کھونے اور پانے کا تماشہ دیکھنا ہے تو جاوید دانش کے یہ ڈرامے پڑھیے۔ اس میں بہت سے کردار اور بہت سی زندگیاں آپ کو چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔ وہی زندگیاں اور وہی کردار جو کینیڈا اور امریکہ کی سڑکوں اور گھروں کے ڈرائنگ روم میں جا بجا باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کامیابی سے اپنے اطراف کی تصویریں کھینچ کر ان کی چلتی پھرتی ترجمانی کرنا جاوید دانش صاحب ہی کا کام ہے۔ اس کوشش میں اکثر لوگ ہیجان کا شکار ہو کر واہی تباہی بکنے لگتے ہیں مگر جاوید دانش ان لوگوں کی طرح فکری اور تحریری تشنّج کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان الجھے اور طنز کے زہر آلود تیر برساتے لوگوں سے دور کھڑے، ہنستے مسکراتے زندگی کو دیکھتے جاتے ہیں اور اس کی نقش گری اپنے قلم سے کرتے چلے جاتے ہیں۔

٭٭٭

’’نقوشِ پائے رفتگاں ‘‘ ایک جائزہ

ستیہ پال آنند صاحب کی خود نوشت ’’نقوشِ پائے رفتگاں ‘‘ پہلی بار پڑھی تو یہ قندِ مکرّر تھا کہ اس سے پہلے ان کی سوانح عمری ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ پڑھ چکا ہوں اور اس کے حوالے سے کچھ گزارشات بھی کر چکا ہوں۔ اس میں ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے خاصے اقتباسات ہیں اور کچھ اضافے بھی ہیں۔ ہمارے ایک بہت اچھے نثر اور مزاح نگار احمد رضوان جنھوں نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے، اس میں ان کا دیباچہ بھی شامل ہے۔

کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جو گزرے زمانوں کی تصویریں دکھاتا ہے، جس سے بڑی شخصیتوں، ان کی باتوں، ان کے خیالات اور ستیہ پال صاحب سے ان کے مراسم کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کے نظریات کے بارے میں ستیہ پال صاحب کے خیالات کا بھی۔ یقیناً ان تاریخ ساز شخصیتوں کے ساتھ گزرا وقت قابلِ رشک ہے۔ ان لوگوں کی گفتگو میں البتہ ایک بات جو شدّت سے محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ اردو ادب اور شعری اصناف کے بارے میں ستیہ پال صاحب کے جن خیالات سے ہم واقف ہیں، کم و بیش وہی باتیں ان کی یادداشتوں میں جگہ جگہ گفتگو میں آ رہی ہیں۔ ان کی زیادہ تر گفتگو کا محور وہی موضوعات ہیں جو ستیہ پال صاحب کی پہچان ہیں مثلاً اردو زبان و ادب اور ادیبوں سے شکایت، روایتی شاعری اور اس سے بیزاری اور غزل پر اعتراضات۔

تلوک چند محروم صاحب سے بات شروع ہوتی ہے۔ ستیہ پال صاحب کی خوش قسمتی کہ بچپن ہی میں ان کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے اور اس کی تائید خود آنند صاحب نے بھی کی ہے، کہ ان کے ادبی نظریات پر تلوک چند محروم صاحب کا بہت بنیادی اثر ہے۔ ستیہ پال صاحب کی بچپن کی تصویر تو شاید نہیں دیکھی مگر جوانی کی دیکھی ہے، وہ جوانی کی وجاہت کی طرح بچپن میں بھی یقیناً خوبرو ہوں گے اور انھیں خود بھی اس کا احساس تھا جس کا اندازہ ’’میرے لڑکپن کے بے داغ چہرے ‘‘ جیسے جملے سے ہو سکتا ہے۔ یہ جملہ میں نے اس لیے لکھا کہ مجھے بھی پڑھ کر مزہ آیا۔ ایک اور دلچسپ جملہ ’’کچھ ایسے ڈیسک تھے جن پر چاقوؤں سے الّم غلّم کھدا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے ہر سال لڑکے بودھ غاروں میں اور بھکشوؤں کی طرح اپنی یادیں کندہ کر کے یہ یقینی بناتے تھے کہ آنے والے برسوں میں نئے لڑکے ان سے مستفید ہوں ‘‘ پڑھ کر لطف آیا۔ اسی حصّے میں تلوک چند محروم نے اردو اور اردو والوں یا یوپی والوں سے شکایت کا اظہار کیا ہے، میرے خیال میں وہ شکایتیں کچھ زیادہ کر گئے مگر شاید میں اس کا ذکر ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ والے مضمون میں کر چکا ہوں۔ ایک شکایت تو یقیناً بجا ہے جس پر آزاد، حالی جیسے بزرگوں نے بھی اپنے اپنے انداز سے تنقید کی ہے، وہ ہے فارسی کے مضامین اور موضوعات کو ٹکسال بنا کر تقلیدی راہ پہ چلتے رہنا۔ ہاں، لیکن ریگستان، جنگل وغیرہ کو باندھنے پر یہ اعتراض کہ شاعروں نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہو گا، تو یہ ضروری نہیں۔ ہم جیسے لوگ یہ جھلکیاں پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں تو پورے ہندوستان میں کیا واقعی ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی! البتہ مجموعی طور پہ ان کا اعتراض بجا ہے کہ ایسی بہت سی چیزیں باندھ دی جاتی ہیں جنھیں صرف سنا ہو۔ شاعری میں مذکر کے صیغے کے حوالے سے جو لکھا ہے، اس کی بھی ایک سے زیادہ پرتیں ہیں۔ اسے امرد پرستی سے جوڑنا بھی ایک پہلو ہے مگر لازمی نہیں۔ جہاں اس کا اطلاق ہوتا ہے وہاں تو ٹھیک ہے لیکن اس کی جو مثال دی گئی ہے ’’کہا جو اس نے مرے پاؤں ذرا داب تو دے ‘‘ تو اس مثال سے میں اختلاف کروں گا۔ اس شعر میں تو آپ زن مرید، ناز پروری اور دوسری کئی چیزیں بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک اور بات، جہاں فارغ البالی کا ذکر ہے تو یہ اصطلاح اصل میں گنجے پن کے بجائے فکری آزادی کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔

اختر الایمان صاحب سے ان کی ملاقات بھی اختر الایمان کے بارے میں بہت کچھ جاننے میں مدد دیتی ہے۔ اس یادداشت کے ساتھ اگر یہ بھی لکھا ہوتا کہ کب کی ہے تو اور اچھا ہوتا۔ ان کی بات چیت کا موضوع زیادہ تر نظم میں اظہار کے اسالیب، غزل کی رومانی فضا اور بلند آہنگی ہے۔ فارسی آمیز اصطلاحات سے گریز اور کھل کر اظہار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ فیض کے حوالے سے تنقیدی گفتگو اور ان کے ادبی اسلوب پہ کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے۔ زیادہ تر ان کی باتوں کا نچوڑ بھی وہی تھا یعنی کلیشے سے بیزاری۔ ستیہ پال صاحب اس ملاقات میں ان کی باتوں کے نوٹس بھی لیتے رہے اور ان سے دل کی باتیں بھی کرواتے رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ باتیں ایسی ہیں جو وہ عموماً کرتے نہیں تھے۔

جوش ملسیانی کے بارے میں جو کچھ ان کی تحریر سے معلوم ہوا وہ جوش ملسیانی کی شخصیت اور ادبی رویے کا پتہ دیتا ہے۔ جہاں سیکھنے کا عمل ہے وہیں بالآخر ان سے گریز کا ذکر بھی ہے۔ ڈاکٹر تھامس گرے والا حصّہ بھی خاصہ معلوماتی ہے۔ دیگر شخصیات کے حوالے سے بھی کچھ یادیں، کچھ باتیں، کچھ شخصی پہلو، بڑوں کی بڑائیاں، زندگی کے فلسفے، سادگی اور کافی کچھ جو ہمیں فکر کی دعوت دیتا ہے، اس کتاب میں ہے۔ ادبی معاملات پر اظہارِ خیال اور بعض تنقیدی تحریریں بھی اس میں ہیں۔ لیکن تلوک چند محروم کی یادوں کے بعد جن مضامین کو میں خاصے کا کہوں گا وہ ہیں سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر وزیر آغا اور راجندر سنگھ بیدی سے متعلّق۔

بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو پر یہ مضمون یقیناً پڑھنے سے تعلّق رکھتا ہے جس میں سروجنی نائیڈو کی نظموں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لایا گیا ہے۔ تراجم تو ہیں ہی مگر ان کے شعری محاسن پر گفتگو ادب کے طالب علموں کے لیے بہت اہم ہے جس میں منظر نگاری، تشبیہات، نظموں کی مجموعی فضا اور احساسات کی ترسیل جیسی نمایاں خصوصیات شامل ہیں۔ اس کا خلاصہ آخر میں یوں ہے کہ ’’مصوری یا لفظوں کی صنّاعی تک ہی یہ قدرت محدود نہیں، بلکہ مضمون، پیکر تراشی، انگریزی کے رومان پرور اسلوب میں بیانیہ اور پھر اس میں اشاراتی اور علامتی رموز کے تانے بانے۔۔ ۔۔ ‘‘۔

راجندر سنگھ بیدی سے ملاقات اور ان کا اپنی ذات اور زندگی کے بارے میں کھل کر باتیں کرنا بھی دلچسپ ہے۔ اردو والے بے چارے یہاں بھی طعنے تشنے کا شکار رہے جن کی وجوہ بھی اگرچہ بتائی گئی ہیں مگر پوری کتاب کی فضا سے لگتا ہے کہ یا تو ہندوستان کے پنجابی حضرات کی گفتگو میں یہی باتیں حاوی رہتی تھیں یا انھیں ستیہ پال صاحب سے ایسی باتیں کرنے میں سہولت ہوتی تھی یا پھر ستیہ پال صاحب خود ان کے ایسے خیالات جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ بہرحال، میرے نزدیک دونوں طرف کے لکھنے والوں کو خلیجیں پاٹنے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی۔ اس مضمون میں بیدی کے افسانوں پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے جو غالباً کسی مضمون کا اقتباس ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا اس کتاب کی وہ دوسری اہم شخصیت ہیں جنھوں نے ستیہ پال صاحب کے ادبی اور فکری سرمائے اور خدوخال پر گہرا اثر ڈالا ہے جس کا کھلے دل سے ستیہ پال صاحب اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ اس اعتراف میں ہچکچاتے نہیں بلکہ مجھ سے کئی بار براہِ راست گفتگو میں بھی انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کا ذکر بہت عقیدت سے کیا ہے کہ وہ انھیں بہت مانتے تھے اور مانتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کی خط و کتابت اور ٹیلی فون رابطوں میں ایک تسلسل رہا جن میں بہت سے معاملات زیر بحث آتے رہے اور ان کا ذکر اس مضمون یا یادداشتوں میں موجود ہے۔ ان میں نظم، اس کے محاسن، اس کا فلسفہ اور دیگر پہلوؤں پر خیالات کا تبادلہ اور تنقیدی مسائل پر گفتگو شامل ہے۔ گھسی پٹی شاعری، جو نہیں ہونا چاہیے اور وہ جو ہونا چاہیے، نیز با اثر حلقوں کی طرف سے عدم توجہی وغیرہ کا ذکر بھی رہا۔ عالمی ادب پر تبادلۂ خیال بھی اس میں شامل ہے۔ ایک جگہ جہاں میں ٹھٹھکا وہ یہ تھی کہ اختر الایمان سے گفتگو میں جہاں کھل کر، نام لے کر، بلند آہنگ اظہار کرنے کو دونوں فریقوں نے بہت زیادہ ضروری کہا اور مانا تھا، وہیں ڈاکٹر وزیر آغا سے گفتگو میں ایسے ادب کو دونوں طرف سے ناپسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھا گیا ہے اور اسے وقتی ادب کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزیر آغا کے کلام میں اس جہت کے نہ ہونے کو ہی خصوصیت بھی مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں میں غالباً خاصہ زمانی فاصلہ موجود ہو گا اور وقت کے ساتھ خیالات بدلتے بھی ہیں اور بدلنا بھی چاہیے۔ یا ممکن ہے دونوں باتیں محض ایک خاص تناظر میں، نہ کہ قطعیت کے ساتھ کی گئی ہوں۔ اسی مضمون میں ایک مقام پر ستیہ پال صاحب نے ان بزرگوں کا ذکر کیا ہے جن کا ان کی ادبی اور فکری تربیت میں کردار رہا یا جن سے انھوں نے بہت کچھ پایا اور ساتھ میں انھوں نے ہم سے، خود کلامی کے انداز میں، یہ سوال بھی کیا ہے کہ ’’کیا کسی نوجوان نے مجھ سے کچھ سیکھا بھی ہے کہ نہیں ‘‘۔ یہ اقتباس من و عن ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے ہے اور میں نے تب بھی اس بات کا جواب اپنی ایک تحریر میں دیا تھا مگر اب ذرا تفصیل سے دیتا ہوں۔ نوجوانوں نے ان سے سیکھا، اس میں کوئی شک نہیں، آپ کو ان کے گرد طالب علم اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ میں یہ آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ جیسے طفلِ مکتب نے ان سے ضرور سیکھا ہے جس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ میں نے مضمون کی صورت میں ستیہ پال صاحب کے کلام پر اظہارِ خیال سے پہلے محض گنے چنے مضامین لکھے ہوں گے، وہ بھی مجلسی ضرورت کے تحت، نہ کہ باقاعدہ کسی کتاب یا ادب پارے پر طبع زاد تحریر کے طور پر۔ ستیہ پال صاحب کی نظموں پہ میں نے ایک سے زیادہ دفعہ مضامین لکھے مگر میرے اندر ایک شرم اور لحاظ بچپن سے ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ بزرگوں کے آگے آواز نیچی رکھو اور خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ تو میں اختلافی یا تنقیدی بات کرتے وقت واپسی اور معذرت کے راستے کھلے رکھتا تھا تاکہ بے ادبی نہ ہو۔ یہ کسرِ نفسی یا اظہارِ عجز نہیں تھا بس بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی عادت تھی۔ ایک بار ایسی ہی کسی بات پہ ستیہ پال صاحب نے مجھے ٹوکا، کہنے لگے کہ جب اپنی بات کہ دی ہے تو اس کے ساتھ یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو صحیح سمجھ رہے ہو لکھ دو اور بس۔ ستیہ پال صاحب کی یہی نصیحت تھی جس نے میری الجھن دور کر دی کہ ادب کرنے اور ادب لکھنے میں سے کیا زیادہ ضروری ہے۔ لہٰذا اب اگر میں کہیں اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت تخلیق کار کی عمر اور مقام کو، بزعمِ خود، ایک طرف رکھ دیتا ہوں تو یہ میں نے ستیہ پال صاحب سے ہی سیکھا ہے۔

آخر میں ساقی فاروقی صاحب کے حوالے سے ایک اعترافی مضمون ہے۔ یہ بات ایسی ہے کہ بہت دور سے اس پر کچھ کہنا، سننا یا ماننا محض پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے۔ میں دست بستہ یہی کہوں گا کہ جو ان کی زندگی میں نہیں کہا، اب بھی نہ کہتے تو شاید بہتر ہوتا۔ اب یہ ’’اعتراف‘‘ شاید اپنی نوعیت میں اتنا اہم نہیں رہا۔ اس سے ساقی فاروقی کی طرح ستیہ پال آنند صاحب پر بھی سوال اٹھ جائے گا اور سوال بھی ایسا جس کا جواب ملنا اب نا ممکن ہے۔ لہٰذا میری ناچیز رائے میں یہ وہ یادداشت نہیں جو دوسری کتاب میں شامل ہونا چاہیے تھی۔

خلاصہ یہ کہ یہ کتاب ایک نہایت اہم دستاویز ہے اور جن شخصیات کے بارے میں اس میں تحریریں شامل ہیں، ان پر کام ہو گا تو اس کتاب سے یقیناً رجوع کیا جائے گا یا کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ستیہ پال صاحب کو بھی مبارکباد اور اشاعت کے سلسلے میں احمد رضوان کی محبت اور کوششوں پر انھیں بھی مبارکباد۔

٭٭٭

واہمہ وجود کا ( سالم سلیم) ۔۔۔ عبید حارث

عجیب بات ہے رمضان کے اس مصروف مہینے میں آج اچانک مجھے تھوڑی فرصت مل گئی، اور میز پر رکھی ایک کتاب جو کئی ہفتوں سے شاید اسی فرصت کی متقاضی تھی۔ اور میں بھی اپنی مشغولی میں سے اپنے لئے فرصت کے یہی وقت تلاش کر ریا تھا کہ اسے اطمینان سے بیٹھ کر پڑھوں ۔ ہاں ’’ واہمہ وجود کا ‘‘ سالم سلیم کا شعری مجموعہ آج اطمینان اور اہتمام سے پڑھنے کو ملا۔ بہت دنوں کے بعد شاعری کا نیا ذائقہ چکھا۔ اور ذائقہ اچھا ہو تو بھوک اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ میں اس کے مزے میں اتنا کھو گیا کے دو تین گھنٹوں کی ایک ہی نشست میں پیٹ بھر کر شاعری نوش فرمائی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی خیال نہ رہا کہ میرا روزہ ہے ۔ رمضان میں ادبی کتابیں پڑھنا یا کچھ لکھنا موقوف کر دیتا ہوں کہ عبادت کی کسرت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر اس پر لطف اور سنجیدہ شاعر کی شاعری نے میری ادبی بھوک کو اتنا بڑھا دیا کہ کتاب پوری پڑھے بغیر رہا نہ گیا۔

سالم سلیم مجھ سے ذرا سے بعد کے ہیں ۔ مجھے انہیں کبھی ریختہ فاؤنڈیشن کے ابتداء سے پہلے کسی ادبی رسالے یا اخبار میں پڑھنے کا موقع نہیں پڑھا۔ میرا ان سے تعارف ریختہ فاونڈیشن کے بالکل ابتدائی زمانے میں ہی ہوا۔ ہندوستان کے نئے ادبی منظر نامے اور میرے ہم عصروں میں جو نئے نام اس ایک دہائی میں ابھر کر آئے ہیں ان میں ایک نام بے شک سالم سلیم کا بھی ہے ۔ یہ ریختہ فاونڈیشن ہی ہے جس نے نئے ناموں کو اپنی خوبیوں کے وصف اور وابستگی کے سبب آگے بڑھنے کا موقع دیا اور پوری ادبی دنیا سے متعارف کر وایا۔ سالم سلیم کی شاعری ان کی عمر سے کچھ بڑی ہے اور یہ ایک اچھے شاعر کی نشانی ہے ۔ گو ہمارا زمانہ اپنے آپ کو مابعد اور جانے کیا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتا پھرتا ہے پر میں سمجھتا ہوں کہ جدیدیت کے بعد کوئی ایسا رجحان نہیں آیا جو جدیدیت سے اپنے آپ کو بالکل ہی مختلف گردانے ۔ جیسا کہ روایت سے ترقی پسند اور ترقی پسند سے جدیدیت نے اپنے آپ کو بالکل مختلف کر دکھایا تھا۔ سالم سلیم کی شاعری میں عصر حاضر کا عکس صاف نظر آتا ہے پر اس کی ساخت بالکل جدی دیت جیسی ہے ۔ یعنی سالم سلیم کے یہاں اپنے زمانے کے مسائل تو ہیں پر اسلوب وہی جدیدیت والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے میں اچھا سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے ان کی شاعری مجھے متاثر بھی کرتی ہے ۔

سالم سلیم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر مجھے یہ یقین ہو گیا کہ سالم سلیم اپنی خوبیوں کے سبب اردو شعر و ادب کی کہکشاں میں اپنے وجود کو آگے بھی بنائے رکھیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں کتاب میں ادھر ادھر سے بیساختہ چنے گئے چند اشعار  اچھی شاعری پسند کرنے والے دوستوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ امید ہے آپ لوگ بھی ان اشعار سے محظوظ ہوں گے ۔ سالم سلیم کو بے شمار مبارک باد اور دعائیں ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

بہت جینے کی خواہش ہو رہی تھی

سو مرنے کا ارادہ کر لیا ہے

*

مری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے

جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے پانی سے

*

تھا مجھے زعم کہ مشکل سے بندھی ہے مری ذات

میں تو کھلتا گیا اس پر بڑی آسانی سے

*

خواہش کار مسیحائی بہت ہے لیکن

زخم دل ہم تجھے اچھا نہیں ہونے دیں گے

*

ہم کو درپیش ہے دنیا کا سفر آخر کار

اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجانے لگے ہیں

*

یہ تم نہیں ہو کوئی دھند ہے سرابوں کی

یہ میں نہیں ہوں کوئی واہمہ وجود کا ہے

*

خامشی توڑ رہی تھی ہمیں اندر سے بہت

وہ تو کہئے کہ سر شام پکارے گئے ہم

***

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل