FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سود، سود کی حرمت اورسود کا خاتمہ

 

 

محمد برہان الحق جلالیؔ

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

سود کیا ہے ؟

 

وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest یا Usuryکہتے ہیں۔ جس وقت قرآنِ کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو، یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple Interestہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے 100 روپے بطور قرض اس شرط پر دیے کہ وہ 110 روپے واپس کرے، تو یہ سودہے۔  البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں۔  بلکہ ایسا کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے ثابت ہے۔  لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ بھی سود ہے۔

 

اللہ رب العزت نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہم وہ مقصد بھول چکے ہیں اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون(سورۃ الذاریات آیت نمبر۵۶پارہ ۲۷رکوع نمبر۳)ہم نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر عبادت کے لئے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں عقل و شعور دیا اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے نیکی اور برائی دونوں راستوں کو رکھ دیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے ان بڑے بڑے جرائم اور مظالم کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا اور ان سے سلطنت چھین لی گئی۔ اللہ پاک نے حلال رزق ان کے لیے ختم کر دیا۔ ان کے اقتصادی نظام تباہ کر دیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے ہولناک مظالم میں سے ان کے سودی نظام کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے ” تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں ان پر حرام کر دیں۔ اور اس لیے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا” یہودی سود کھاتے تھے سود پر اپنا کاروبار چلا تے تھے حالانکہ انھیں سود کا نظام چھوڑنے کا حکم تھا اس لیے یہودیوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔

ربا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی زیادہ ہونا، بڑھنا یا اصل سے زیادہ کے ہیں۔ اردو میں ربا سے مراد سود کے ہیں یعنی وہ فکسڈ اضافہ جو قرض دینے والا اپنے مقرض سے لیتا ہے۔ فی الشرع فضل مال بلا عوض فی معاوضۃ مال بمال۔ (دستور العلماء، جز نمبر ۲ ص۱۲۸) اسلام امیر و غریب سب کے لئے یکساں سلامتی اور خیر کا دین ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں رکھنے کا قائل نہیں اس لئے ہمارے دین میں ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں سود کی حرمت کے بارے میں سات آیات اور چالیس احادیث ہیں۔ سودی نظام انسانی ہمدردی اور مدد کے اصولوں کے خلاف ہے جس میں ایک فرد یا گروہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے معاشرے کے بے بس افراد کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اس سے معاشرے میں غریب افراد کی غربت میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ بغیر کسی محنت کے سود کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی دولت معاشرے میں حرام مال کے اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سود کسی بھی معاشرے میں ظلم کو جنم دیتا ہے۔ جب مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جانے لگے تو لوگ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غلط راہ اختیار کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس لئے اسلام ایسے نظام کو حرام قرار دیتا ہے جو لوگوں کے استحصال کا باعث بنتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ربا کے بارے میں فرمایا کہ آخری چیز جو آپﷺپر نازل ہوئی وہ ربا کی آیت ہے لہٰذا تم سود کو چھوڑ دو اور اس چیز کو بھی چھوڑ دو جس میں سود کا شبہ بھی ہو۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سود کو نہ چھوڑنے والا اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کر رہا ہے۔ سودکا کاروبار کرنے والے سے اس سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی کا اظہار اور کیا ہو گا کہ اس کیلئے جنگ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ ہمارا ایمان ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دینے والے بنیں۔ کسی کو دیتے وقت اس کی مجبوری سے منافع حاصل کرنے کی بجائے اس سے احسان کا رویہ اختیار کریں۔ جبکہ سود کا نظام معاشرے میں خود غرضی پیدا کرتا ہے۔ اس میں بظاہر دنیا کا فائدہ تو ہے لیکن آخرت میں سود لینے والا ایسے اٹھے گا جیسے دیوانگی کی حالت میں ہو۔ حلال طریقے سے محنت کے ذریعے حاصل کیے جانے والے مال میں اللہ کی طرف سے برکت پیدا ہوتی ہے جبکہ بغیر کسی محنت و مشقت سے منافع کے طور پر حاصل کردہ مال کبھی نہ کبھی قلت کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ آپﷺ نے بھی اس بارے میں فرمایا جس کسی کا مال سود سے زیادہ ہو گا آخرکار وہ قلت کی طرف جائے گا۔

 

سورہ بقرہ کی آیات کا ترجمہ

 

جو لوگ دن رات، کھلے اور چھپے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اپنے پروردگار سے اس کا اَجر ضرور مل جائے گا۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (ان لوگوں کے برعکس)جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اُسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ)ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔  اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکر بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے، نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اُسے چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اگر (سود سے ) توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اُسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی)چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو اور اس دن سے ڈر جاؤ جب تم اللہ کے حضور لوٹائے جاؤ گے۔ پھر وہاں ہر شخص کو اس کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا اے ایمان والو! جب تم کسی مقر رہ مدت کے لیے اُدھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ اور لکھنے والا فریقین کے درمیان عدل و انصاف سے تحریر کرے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی قابلیت بخشی ہو اُسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔ اور تحریر وہ شخص کروائے جس کے ذمہ قرض ہے۔ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور لکھوانے میں کسی چیز کی کمی نہ کرے (کوئی شق چھوڑ نہ جائے ) ہاں اگر قرض لینے والا نادان ہو یا ضعیف ہو یا لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو پھر اس کا وَلی انصاف کے ساتھ اِملا کروا دے۔ اور اس معاملہ پر اپنے (مسلمان) مردوں میں سے دو گواہ بنا لو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ آئیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بناؤ کہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ اور گواہ ایسے ہونے چاہئیں جن کی گواہی تمہارے ہاں مقبول ہو۔ اور گواہوں کو جب (گواہ بننے یا)گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے اور معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا مدت کی تعیین کے ساتھ اسے لکھوا لینے میں کاہلی نہ کرو تمہارا یہی طریق کار اللہ کے ہاں بہت منصفانہ ہے جس سے شہادت ٹھیک طرح قائم ہو سکتی ہے اور تمہارے شک و شبہ میں پڑنے کا اِمکان بھی کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین تم آپس میں دست بدست کر لیتے ہو، اسے نہ بھی لکھو تو کوئی حرج نہیں۔ اور جب تم سودا بازی کرو تو گواہ بنا لیا کرو نیز کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے اور اگر ایسا کرو گے تو گناہ کا کام کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ ہی تمہیں یہ احکام و ہدایات سکھلاتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے کو کوئی کاتب نہ مل سکے تو رہن با قبضہ(پر معاملہ کر لو) اور اگر کوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرے (اور رہن کا مطالبہ نہ کرے )تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے قرض خواہ کی امانت ادا کرنا چاہئے۔ اور اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے۔ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے بلاشبہ اس کا دل گنہ گار ہے اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

یہ آیت در اصل صدقات و خیرات کے احکام کا تتمہ ہے۔ یعنی آخر میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اب اس کی عین ضد سود کا بیان شروع ہو رہا ہے … صدقات و خیرات سے جہاں آپس میں ہمدردی، مروّت، اُخوت، فیاضی پیدا ہوتی ہے وہاں طبقاتی تقسیم بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سود سے شقاوتِ قلبی، خود غرضی، منافرت، بے مروّتی اور بخل جیسے اخلاقِ رذیلہ پرورش پاتے ہیں اور طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی عظیم فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اشتراکیت در اصل ایسے ہی فتنہ کی پیداوار ہے۔

اے ایمان والو سود دونے پر دونا نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو

قرآن: سورۃ آل عمران: 130

اور ان کو سود لینے کے سبب سے حالانکہ اس سے منع کیے گئے تھے اور اس سبب سے کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے

قرآن: سورۃ النساء: 161

یہ در اصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے در اصل دو طرح کے ہوتے ہیں:

(1) ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے۔

(2) اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرحِ سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔

حضورﷺ تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور آپﷺ کی امت ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام انسانیت میں خیر اور بھلائی پھیلانے کا ذریعہ بنیں نہ کہ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔ امت مسلمہ ایک جسم کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل اقتدار کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز کا نظام قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔

سود اور سود کے استحصالی نظام کے خلاف کلمہ جہاد بلند کرنا کیوں ضروری ہے ؟ آئیے قرآن و سنت نبویؐ کی روشنی میں اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔

الذین یاکلون الربوٰالایقوموں الاکما یتخبط الشیطان من المس(سورہ بقرہ آیت نمبر۲۷۵پارہ نمبر۳رکوع نمبر۶)

جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے چھو کر اسے مخبوط (حواس باختہ) بنا دیا ہو”

یعنی قیامت کے روز سود خور اس فالج زدہ شخص کی طرح کھڑے کیے جائیں گے جیسے کسی کو کوئی شیطان یا جن چھو جائے اور اس کے ہوش و حواس جاتے رہیں قیامت کے دن جس کو فالج زدہ کھڑا دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ سود خور ہے۔ اور اس حرام خوری کے باعث آج قیامت کے دن اس کے اوسان خطا کر دیے گئے ہیں۔ پھر فرمایا ” یہ حالت ان کی اس لیے ہو گی کہ انھوں نے (حلال اور حرام کو یکساں کر دیا ہے ) کہ جیسے سودا ہے ویسے ہی سود ہے ”

سود خوروں کو اس لیے شیطان کے مس شدہ کی طرح ہوش و حواس سے عاری کھڑا کیا جائے گا کہ جب ان کو کہا جاتا تھا کہ سود چھوڑ دو تو وہ کہتے تھے بھئی سود لینا ایک نفع ہی تو ہے جیسے تم کاروبار میں نفع حاصل کرتے ہو۔ ہم قرض کے ذریعے مال کما تے ہیں۔ چونکہ انھوں نے سود اور تجارت کو سود کے بربر اور سود کو تجارت کے بربر قرار دے دیا تھا اور ایہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے باعث قیامت کے دن انھیں شیطان زدوں کی طرح کھڑا کیا جائے گا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ ” اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا” (سورۃ البقرہ )

اور جو سود کو ترک نہ کرے وہ پھر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔ اللہ نے مسلمانوں کو سود ترک کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ” اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر تم سچے مسلمان ہو۔ ” اللہ تعالیٰ کا یہ واضح حکم بھی تمام لوگوں کے لیے موجود ہے کہ تم نے سود کا لین دین اور سود کا نظام نہ چھوڑا تو پھر تیار ہو جاؤ کہ تمھارے خلاف اور تمھارے استحصالی نظام کے خلاف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہو چکا ہے۔

حضرت عبداللہ بن حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا سے زیادہ شدید (جرم) ہے بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم ہو کہ یہ درہم سود کا ہے

(جامع الصغری جلد ایک ص ۲۵۶، کنزالعمال جلد ۴، مشکوۃالمصابیح حدیث ۲۸۲۵)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے اژدہوں سے بھرے ہوئے گھر اور اژدھے پیٹوں سے باہر بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ سود خور ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر اردو جلد ایک پارہ سوم)

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں ) برابر ہیں۔(مسلم: جلد دوم ص ۲۷کتاب البیوع، باب لعن آکل الربوا و مُوکِلہ قدیمی کتب خانہ، الترغیب والترھیب جلد اول ص ۵۳۹، الدر المنشور، )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔

آپﷺ نے فرمایا: ”(سود کے گناہ کے ) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے ” ‘ (ابن ماجہ بحو آلہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث)

 

 سود خور کو قیامت کے دن خون کی نہر میں کھڑا کیا جائے گا

 

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’رات میں نے خواب دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس سر زمین کی طرف لے گئے، پھر دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ خون کی ایک نہر پر پہنچے، اس نہر میں بیچ میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور بعض روایتوں میں ہے کہ وہ بیچ میں تیر رہا تھا، اور نہر کے کنارے ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر تھے، نہر میں کھڑا یا تیرتا ہوا شخص جب باہر نکلنے کے لئے کنارے کی طرف بڑھتا تو کنارے پر کھڑا ہوا شخص پتھر پھینک کر اس کے منہ پر مارتا اور اسے اسی پرانی جگہ پر واپس کر دیتا جہاں پر وہ پہلے کھڑا تھا، جب جب وہ کنارے آنے کوشش کرتا کنارے پر کھڑا شخص اس کے ساتھ یہی سلوک کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کہ میں نے اپنے ساتھی(حضرت جبرئیل علیہ السلام) سے پوچھا: یہ شخص کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا: یہ شخص جسے آپ نے خون میں کھڑا دیکھا ہے وہ سود خور ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا، آج اس کو اس کے اسی جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ (رواہ البخاری فی البیوع مختصرا، وفی الصلاۃ مطولا، انظرالترغیب والترھیب: 2:743)

 

سود انسان کو برباد کرنے والی چیز ہے

 

سود خور کے لئے آخرت میں چند سزاؤوں اور عذاب کے تذکرہ کے بعد آئیے چند دنیوی مضرتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ’’سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو، لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کونسی چیزیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، نا حق کسی شخص کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہونا، غافل عفیفہ مومنہ عورتوں پر الزام لگانا۔‘‘  (صحیح البخاری حسب ترقم فتح الباری: 4/ 12, صحیح مسلم: 1/ 64)

اس طرح کی تباہی اور بربادی کے بے شمار واقعات معمولی تلاش و جستجو پر آپ کو سننے کو مل جائیں گے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ایک حدیث میں فرمایا: ’’جب کسی بستی میں زنا اور سود عام ہو جائے تو اس بستی والوں نے اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔‘‘ (رواہ الحاکم عن ابن عباس و قال: ھذا حدیث صحیح الاسنادووافقہ الذہبی، انظرالمستدرک: ۳۷ ج۲

اس معنی کی حدیث مسند ابو یعلیٰ میں بھی بسند جید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ (دیکھئے الترغیب والترہیب۷۴۶،ج ۲)

آپﷺ نے فرمایا: ”سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے ”

(مسند احمد، دارمی، بحو آلہ مشکوٰۃ: ح ۲۸۲۵کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث، کنزالعمال جلد ۴، جامع الصغریٰ جلد ایک ص ۲۵۶)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔ مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہﷺ نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہِ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروّت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپﷺ نے ساری زندگی صحابہ کرامؓ کو اُخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسانِ عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے: (سورۂ آل عمران کی آیت 103 میں اور سورۂ انفال کی آیت 63 میں ) اور یہ چیز رسول اللہﷺ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زرپرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔

دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانونِ میراث اور حقوقِ باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے ۔

آپﷺ نے فرمایا کہ ”: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہو گا۔ اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا”  (نسائی: کتاب البیوع، باب اجتناب الشبہات فی الکسب)

اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر اُلجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جا سکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوؤں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کر سکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی ((Letter of Credit یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ(Commercial Interest)   کو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے، بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اُصول ہے کہ” مواخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں ”

اسلام سلامتی اور نفع بخش دین ہے۔ اور استحصالی کی بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر شکل کے خلاف ہے چونکہ ربو (سود) معاشی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ اس لیے اسلام نے اسے کلیتہً حرام قرار دیا ہے۔ سود صرف دنیائے اسلام کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں معاشی ناہمواریوں کی بنیاد ہے چنانچہ سود سے پاک بینکاری کا تصور ہمیشہ اقتصادی ماہرین کی سوچوں کا مرکز رہا ہے اور اس ضمن میں خود مغربی دنیا میں بھی تجربات ہو رہے ہیں۔ علم معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ کہ سرمایہ ہمیشہ بچتوں سے آتا ہے۔ اور بچتیں ترقی یافتہ ممالک میں بالعموم اور ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص اسی متوسط طبقے سے آتی ہے۔ سودی بینکاری نظام کا ایک استحصالی پہلو یہ ہے کہ ایک جائزہ کے مطابق بینک کے ڈپازٹ بیس ہزار روپے یا اس سے کم رقم جمع کروانے والے چھوٹ کھاتہ داروں کے ہوتے ہیں مگر جب انہی ڈیپازٹ سے قرضہ جات کا اجرا ہوتا ہے تو صرف چھ سے سات فیصد قرضہ جات غریب اور متوسط طبقے کے حصے میں آتے ہیں جبکہ قرضے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور سماجی و سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر حاصل کر لیتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ (جو ایسے عذاب میں مبتلا ہیں ) انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں:۔ (مسند احمد ابن ماجہ)

فائدہ:۔ اسلام میں سود کی حرمت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، جو شخص مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ اسلام میں سود حرام ہے۔ بلکہ اس اجمالی حقیقت سے تو غیر مسلم بھی ناواقف نہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ سود خوری کا طریقہ کوئی آج دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ اسلام سے پہلے جاہلیت میں بھی اس کا سلسلہ جاری تھا۔ قریش مکہ، یہود مدینہ میں اس کا عام رواج تھا اور ان میں صرف شخصی اور خاندانی ضرورتوں کے لیے نہیں بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے بھی سود کا لین دین جاری تھا۔ ہاں نئی بات جو آخری دو صدی کے اندر پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب سے یورپ کے بنئیے دنیا میں برسراقتدار میں آئے ہیں تو انہوں نے مہاجنوں اور یہودیوں کے سودی کاروبار کو نئی نئی شکلیں اور نئے نام دیئے اور اس کو ایسا عام کر دیا کہ آج اس کو معاشیات و اقتصادیات اور تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا اور سطحی نظر والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ آج کوئی تجارت یا صنعت یا کوئی معاشی نظام بغیر سود کے چل ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ فن کے جاننے والے اور ماحول کی تقلید سے ذرا بلند ہو کر وسیع نظر سے معاملات کا جائزہ لینے والے اہل یورپ کا بھی یہ فیصلہ ہے کہ سود معاشیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ایک کیڑا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں لگ گیا ہے جب تک اس کو نکالا جائے گا دنیا کی معاشیات اعتدال پر نہ آ سکے گی۔

ہر مسلمان کو علم ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں سود کے حوالے سے انتہائی سخت وعیدیں ہیں جو کہ کسی دوسرے گناہ کے متعلق نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں سب سے پہلی آیت جس میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے وہ سورہ روم کی یہ آیت ہے۔ ’’جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اس کے دینے والے در حقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں ’’۔ (الروم۔ 39)۔ اسلام میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اسلامی سلطنت میں کافر امن و امان سے رہ کر اپنے تمام مذہبی معاملات کی پابندی کر سکتا ہے۔ لیکن سود کا کاروبار کرنے کی اس کو بھی اجازت نہیں ہے۔ شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عالم غیب کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا، اسی ضمن میں جنت اور دوزخ کے بعض مناظر بھی دکھائے گئے تاکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حق الیقین کے بعد عین الیقین کا مقام بھی حاصل ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذاتی مشاہدہ کی بنا پر لوگوں کو عذاب و ثواب سے آگاہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک منظر بھی دیکھا جس کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں جیسے کہ اچھا خاصا گھر اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو دیکھنے والوں کو باہر سے نظر آتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ سود لینے والے اور کھانے والے لوگ ہیں جو اس لرزہ غیز عذاب میں مبتلا کیے گئے ہیں

 

تجارت اور سود میں فرق

 

قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ ہے کہاحل اللہ البیع وحرم الربو۔ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

 

سود کی تعریف

 

قرض پر لیا گیا منافع(سود) کہلاتا ہے۔

 

تجارت اور سود میں فرق

 

نمبر1: سود میں طے شدہ شرح کے مطابق منافع یقینی ہوتا ہے جبکہ تجارت میں نفع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی ہوتا ہے۔

نمبر 2: مضاربت یا مشارکت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے کیونکہ ان کا مفاد مشترکہ ہوتا ہے جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سودخور کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔

نمبر3: اسلامی نظام صدقات میں مال کا رخ غریب کی طرف ہوتا ہے جبکہ سودی معاشرے میں غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے گویا طبقات کی خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے اسلام جس معاشرے کو اخوت کے رشتے میں باندھا چاہتا ہیسود اسے متحارب گروہوں میں تقسیم کرتا ہے اور اس سے قومی پیدا وار تباہ ہوتی ہے اس کے علاوہسود کی وجہ سے کرنسی کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہتی ہیجس معاشرے میں جتنی شرح سود زیادہ ہوتی ہے وہاں اتنی ہی قیمت گرتی رہتی ہے۔ غریب طبقے پہ سود کے ذریعے دوسرا حملہ ہے۔

 

سودی قرضے۔۔۔۔۔۔۔ ذاتی اور تجارتی

 

سودی قرضے دو طرح کے ہوتے ہیں ذاتی قرضے ذاتی ضروریات کے لیے اور تجارتی یا صنعتی قرضے جو کہ بینکوں سے لیے جاتے ہیں۔

آج کل کچھ مسلمان جہالت سے سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام قرار د یا ہے وہ ذاتی قرضے ہیں۔ جن کی شرح سود انتہائی ظالمانہ ہوتی ہے جبکہ تجارتی سود حرام نہیں ہے۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہیں تھا۔ نیز ایسے قرضے جو کہ باہمی رضامندی سے لیے اور دیے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی مناسب ہوتی ہے اور اس طرح کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ لہذا یہ تجارتی سود اس سے مستثنی ہیں جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے ۔

مذکورہ استدلال مندرجہ ذیل دلائل کی بنا پر غلط ہے۔

دلیل نمبر ایک: دور نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بھی تجارتی سود موجود تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سود کی حرمت سے قبل یہی کاروبار کرتے تھے۔

دلیل نمبر دو: قرآن میں ربو کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جو کہ ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔

دلیل نمبر تین : قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے واحل اللہ البیع وحرم الربو اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام سورۃ البقرہ پارہ دو آیت 275 اور ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا یمحق اللہ الربو ویربی الصدقات اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے (سورۃ البقرہ پ 2 آیت 276۔ ّ

 

سودی نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے

 

کائنات پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہے جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کراہ خاکی پر اپنا نائب مقرر کیا ہے، نائب کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی حاکم کے احکامات کی پیروی کرے تاکہ مشکلات ختم اورآسانیاں پیدا ہوں، انسان دیگر مخلوقات کی طرح اس دنیا میں مسافر کی حیثیت سے آیا ہے جسے اپناسفرمکمل کر کے اپنے خالق سے جا ملنا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کی اپنی منفرد  حیثیت ہے جس کو دنیا کی کوئی بھی طاقت جھٹلا نہیں سکتی بلکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر مسلم اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کو بہت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ اسلامی تہذیب تمدن عقائد، اصول و نظریات اور روایات ہی مسلم غیر مسلم معاشرے کے فرق کو واضح کرتی ہیں۔ اسلام کا ایک منفرد اور جداگانہ ضابطہ حیات ہے چنانچہ اسلامی تہذیب اسی ضابطہ حیات کی عکاسی کرتی ہے۔ اسلامی تہذیب کا سنگ بنیاد حیات دنیا کا یہ تصور ہے کہ انسان کی حیثیت اس کرۂ خاکی میں عام موجودات کی سی نہیں ہے بلکہ وہ خالق کائنات کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس لیے انسان کا اصل نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک اور آقا (اللہ تعالیٰ)کی خوشنودی حاصل کرے۔ اسلام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ اور ہر طرح کے امتیاز کی نفی کرتے ہوئے ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح بلا امتیاز جوڑتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسلامی تمدن کی ایک بڑی خصوصیت اسلامی اخوت یعنی بھائی چارے کا نظریہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رشاد فرمایا ہے۔ ’’بلا شبہ اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ سوتم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرا دیا کرو‘‘ اسلام سے پہلے انسان جو اشرف المخلوقات ٹھہرا، جانوروں کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح جانور اپنے علاقے میں داخل ہونے والے اجنبی جانوروں سے جنگ کرتے ہیں اور جس طرح طاقتور جانور قبیلے کا سردار ہوتا ہے جو اپنے قبیلے میں صرف ماداؤں کو رکھتا ہے کمزور نر یا تو بھاگ جاتے ہیں یا پھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ اکثر جانور اپنے نر بچوں کو بھی مار دیتے ہیں۔ اسلام نے طاقتور کے ساتھ ساتھ کمزوروں کو بھی جینے کا حق دیا، مرد و عورت کو نکاح جیسے خوبصورت رشتہ میں باند کر عورت کو معاشرے میں با عزت مقام دیا۔ جب لوگوں (مسلمانوں )نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کی تو چاروں طرف مسلمانوں کے عدل و انصاف کا چرچا ہو گیا، امن و بھائی چارے کے اعتماد کے ساتھ اسلام کا نور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا جو آج بھی ہے اور روز آخر تک رہے گا، کامیابیاں اُن کے قدم چومنے لگی۔ بدقسمتی سے مسلم حاکموں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور جانور کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کے اصول اپنا لئے، کبھی مسلم حاکم فجر کی نماز کے بعد کسی بیوہ غریب کے گھر کی صفائی کیا کرتے، اُس کے بچوں کو کھانا پکا کر کھلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ کسی بوڑھے کے منہ میں دانت نہ ہوتے تو اپنے منہ میں نوالا چبا کر کھلایا کرتے، حاکم ہونے کے باوجود نہایت سادگی میں زندگی بسر کرنے میں فخر محسوس کرتے اور اُن کے عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ خود مظلوم کے گھر جاتے اور اُس کی داد رسی کرتے۔ میں یوں کہوں کہ ایک مسلم حاکم اپنی بادشاہت میں سب سے زیادہ عام آدمی کی حیثیت رکھتا تھا تو غلط نہ ہو گا۔ آج ہمارے حاکم بات بات پر عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کر کے سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ خوبصورت با توں کے دھاگے سے عوام کے گرد سیاسی جال بننا اور بات ہے اور عملی اقدامات اور بات ہے۔ ملک خُداداد کی ترقی کا راز اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول میں پوشیدہ ہے، علم انسان کو با شعور کرتا ہے اور با شعور انسان علم کو عمل کے راستہ پر ڈال کر دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹتا ہے۔ علم و شعور انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہو  کر حاصل ہونے والے فوائد سے آگاہ کرتے ہیں۔ وقت کڑا  اور چلینجز زیادہ ہیں۔ مسلم ممالک خاص طور پراسلامی جمہوریہ پاکستان کو جن مشکلات کاسامنا ہے اُن سے نجات پانے کیلئے سب سے پہلے سودی نظام کو ختم کر کے زکواۃ کا نظام رائج کرنا ہو گا، سودکالین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ، رسول اللہﷺ کا اعلان جنگ ہے، سودی نظام کی موجودگی میں نہ تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی کرپشن، عدل و انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ ہی مہنگائی کنٹرول کی جا سکتی ہے، مختصر یہ کہ کوئی چھوٹاسے چھوٹامسئلہ بھی حل نہیں ہو گا جب تک سودی نظام کوجڑسے اکھاڑ نہ پھینکا جائے، آج حاکم کی جان کوایسے خطرات لاحق ہیں کہ وہ سکیورٹی کیلئے ایک بڑی فوج ساتھ لے کر چلتا ہے اُس کے پاس دولت اتنی زیادہ ہے کہ وہ سنبھال نہیں پا رہا جبکہ دوسری جانب عوام  بد  سے بد حال ہوتے جا رہے ہیں، صحت، تعلیم اور غذائی ضروریات پورا کرنا نا ممکن ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے ملک سے سودی لین دین کے خاتمہ کے اقدامات کئے بغیر نہ تو حاکم پرسکون زندگی گزارسکتے ہیں اور نہ ہی عوام خوشحال ہو سکتے ہیں۔ بلکہ ہم تویوں کہتے ہیں کہ سودایسی لعنت ہے جس سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر ایک سانس بھی نہ لیا جائے، سودی نظام ختم ہو گا تو اللہ رب العزت ہم سے خوش ہو جائے گا اور پھر ہماری دُعاؤں کو بھی قبول فرمائے گا، دُعائیں قبول ہوں گی تو غیب سے مدد بھی آئے گی، غیب سے (اللہ تعالیٰ کی)مدد آئے گی تو ہر مشکل خودبخودآسان ہو جائے گی۔

 

بینک سے قرض (Loan) بھی عین سود ہے

 

تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم حاصل کرنا یہ سب وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورۂ بقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی و ذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ عصرِ حاضر کی پوری دنیا کے علماء پر مشتمل اہم تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی کی اس موضوع پر متعدد میٹنگیں ہو چکی ہیں۔  مگر ہر میٹنگ میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء بھی اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ فقہ اکیڈمی، نیو دہلی کی متعدد کانفرنسوں میں اس کے حرام ہونے کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔ مصری علماء جو عموماً آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بینک سے موجودہ رائج نظام کے تحت قرض لینے اور جمع شدہ رقم پر Interestکی رقم کے عدمِ جواز پر متفق ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بھی مکتبِ فکر کے دارالافتاء نے بینک سے قرض لینے کے رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کو ذاتی استعمال میں لینے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔

 

عصرِ حاضر میں ہم کیا کریں ؟

 

(۱) اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ رقم پر سود کے جائز ہونے کو کہے تو پوری دنیا کے علماء کے موقف کو سامنے رکھ کراس سے بچیں۔

(۲) اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ علمائے کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بینک سے قرض لینے اور بینک میں جمع شدہ رقم پر Interest کی رقم کے حرام ہونے کا فیصلہ آپ سے دشمنی نکالنے کے لیے نہیں۔  بلکہ آپ کے حق میں کیا ہے۔  کیوں کہ قرآن و حدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآنِ کریم میں وہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے استعمال کیے ہیں۔

(۳) جس نبی کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں، اس نے سود لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز شک و شبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی ہے۔

(۴) بینک سے قرضہ لینے سے بالکل بچیں، دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لیے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔

(۵) اگر آپ کی رقم بینک میں جمع ہے تو اس پر جو سود مل رہا ہے، اس کو خود استعمال کیے بغیر عام رفاہی کاموں میں لگا دیں یا ایسے غرباء ومساکین یا یتیم بچوں میں بانٹ دیں جو کمانے سے عاجز ہیں۔

(۶) اگر کوئی شخص ایسے ملک میں ہے، جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل نہیں ہے، تو اپنی وسعت کے مطابق سودی نظام سے بچیں، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی فکر رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔

(۷) سود کے مال سے نہ بچنے والوں سے درخواست ہے کہ سود کھانا بہت بڑا گناہ ہے، اس لیے کم از کم سود کی رقم کو اپنے ذاتی مصارف میں استعمال نہ کریں۔ بلکہ اس سے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انکم ٹیکس ادا کر دیں۔  کیوں کہ بعض مفتیانِ کرام نے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

(۸) جو حضرات سود کی رقم استعمال کر چکے ہیں وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزمِ مصمم کریں اور سود کی ما بقیہ رقم کو فلاحی کاموں میں لگا دیں۔

(۹) اگر کسی کمپنی میں صرف اور صرف سود پر قرضہ دینے کا کاروبار ہے، کوئی دوسرا کام نہیں ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی بینک میں سود پر قرضہ کے علاوہ جائز کام بھی ہوتے ہیں، مثلاً بینک میں رقم جمع کرنا وغیرہ تو ایسے بینک میں ملازمت کرنا حرام نہیں ہے، البتہ بچنا چاہیے۔

(۱۰) اگر کوئی شخص سونے کے پرانے زیورات بیچ کر سونے کے نئے زیورات خریدنا چاہتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ دونوں کی الگ الگ قیمت لگوا کر اس پر قبضہ کرے اور قبضہ کرائے، نئے سونے کے بدلے پرانے سونے اور فرق کو دینا جائز نہیں ہے۔  کیوں کہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔

ایک اہم نکتہ: دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق موجودہ سودی نظام سے صرف اور صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہونچتا ہے، نیز اس میں بے شمار خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا ا ب اسلامی نظام کی طرف مائل ہو رہی ہے۔

نوٹ: بعض مادہ پرست لوگ سود کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں وارد سود کی حرمت کا تعلق ذاتی ضرورت کے لیے قرض لینے سے ہے۔  لیکن تجارت کی غرض سے سود پر قرض لیا جا سکتا ہے، اسی طرح بعض مادہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں جو سود کی حرمت ہے اس سے مراد سود پر سود ہے۔  لیکن Single سود قرآن کے اس حکم میں داخل نہیں ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں کسی شرط کو ذکر کیے بغیر سود کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے تو قرآن کے اس عموم کو مختص کرنے کے لیے قرآن و حدیث کی واضح دلیل درکار ہے، جو قیامت تک پیش نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے خیر القرون سے آج تک کسی بھی مشہور مفسر نے سود کی حرمت والی آیت کی تفسیر اس طرح نہیں کی، نیز قرآن میں سود کی حرمت کے اعلان کے وقت ذاتی اور تجارتی دونوں غرض سے سود لیا جاتا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کا سود یا سود پر سود دونوں رائج تھے، ۱۴۰۰سال سے مفسرین و محدثین و علماء کرام نے دلائل کے ساتھ اسی بات کو تحریر فرمایا ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ قرآنِ کریم میں شراب پینے کی حرمت اس لیے ہے کہ اُس زمانہ میں شراب گندی جگہوں میں بنائی جاتی تھی، آج صفائی ستھرائی کے ساتھ شراب بنائی جاتی ہے، حسین بوتلوں میں اور خوبصورت ہوٹلوں میں ملتی ہے، لہذا یہ حرام نہیں ہے۔ ایسے دنیا پرست لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے !

 

فتویٰ

 

سیدضیائالدین عفی عنہ، شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ، بانی و صدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر۔ حیدرآباد دکن۔

 

سود حرام قطعی ہے ، سود کو قرآن کریم نے اتناسنگین گناہ قرار دیا ہے کہ کسی اور گناہ کو اتنا سنگین گناہ قرار نہیں دیا، شراب نوشی، خنزیر کھانا، زناکاری، بدکاری وغیرہ کے لیے قرآن کریم میں ایسی سخت وعید نہیں آئی جو سود کے لیے آئی ہے چنانچہ فرمایا کہ: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ- ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو حصہ بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو، اگر تمہارے اندر ایمان ہے۔ اگر تم سود کو نہیں چھوڑو گے، تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یعنی ان کے لیے اللہ کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے – (سورۃ البقرۃ، 278/279) و نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاللہ حَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا -ترجمہ: اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ، 275) دوسرے مقام پر ارشاد ہے: الَّذِیْنَ یَاللہ کُلُوْنَ الرِّبَا لَا یَقُومُوْنَ إِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ- ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت کے روز اُس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے چھو کر مجنون بنا دیا ہو۔ سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ- اے ایمان والو!سود در سود کر کے نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (سور رۃ اٰل عمران130) کئی ایک احادیث شریفہ میں سود کی حرمت پر سخت وعیدیں آئی ہیں بطور نمونہ چند احادیث شریفہ ذکر کی جا رہی ہیں۔  صحیح مسلم شریف اور سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے: عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَیْہِ وَقَالَ ہُمْ سَوَاء ٌ- ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، سود دینے والے، سودی دستاویز لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔ (صحیح مسلم شریف، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، حدیث نمبر: 2955، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2268) مسند امام احمد بن حنبل، سنن دارقطنی، مشکوۃ المصابیح اور زجاجۃ المصابیح میں حدیث پاک ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ غَسِیلِ الْمَلَائِکَۃِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِرْہَمٌ رِبًا یَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ – ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنھما (جن کے والد حضرت حنظلہ غسیل ملائکہ ہیں ) سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جانتے بوجھتے سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر20951) اور امام بیہقی کی شعب الایمان میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: من نبت لحمہ من السحت فالنار اولی بہ- ترجمہ: جس کا گوشت حرام غذا سے پرورش پایا ہو وہ جہنم ہی کے زیادہ لائق ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر5277) ونیز مشکوۃ المصابیح میں حدیث شریف ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: الربا سبعون۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ سود کے ستر درجے ہیں، اور ان میں سب سے ہلکا درجہ اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنے کے برابر ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، باب الربو، ص246) ہر شخص کو چاہئے کہ مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ کو پیش نظر رکھے، سود کی لعنت سے محفوظ رہے اور اس سنگین جرم میں کسی اعتبار سے ہرگز شریک و مدد گار نہ بنے۔ واللہ اعلم بالصواب سیدضیائالدین عفی عنہ، شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ، بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر۔ حیدرآباد دکن۔

 

سود کے اخلاقی نقصانات

 

اخلاقی اعتبار سے اگر ہم سود کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مضرتوں سے سود لینے والے، سود دینے والے، اور جس معاشرہ میں اس کا چلن ہوتا ہے سبھی متاثر ہوتے ہیں اور کوئی بھی اس کے اخلاقی نقصانات سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس کی وجہ سے سود لینے والوں کے اندر سے اپنے بھائیوں کے ساتھ ہمدردی، محبت، اور للہ فی اللہ تعاون کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے، چنانچہ ہر شخص جانتا ہے کہ بینکوں اور سودی اداروں کی عالیشان بلڈنگوں، بیش قیمت اور اعلیٰ قسم کے کرسیوں پر اور انتہائی قیمتی و خوبصورت فرنیچر سے مزین کمروں اور اے سی کی پر کیف اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھنے والے سود خوروں کو اس سے سودی قرض لینے والے غریبوں کے دکھ درد، اور مجبوریوں و پریشانیوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ اگر کوئی غریب وقت مقر رہ پر قرض مع سود کی رقم کے ادا نہیں کر سکتا تو فوراً اس کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہیں۔ اور عدالت کے ججوں سے لے کر تھانے کی پولیس تک سب ان کی مدد کرتے ہیں اور بیچارے غریب قرضدار کی مجبوریوں، پریشانیوں، فقر و فاقہ، کاروبار میں نقصان اور اس کے اور اس کے بال بچوں کے آنسوؤں کو کوئی نہیں دیکھتا، ان کی آہ و بکا کی آواز سے کسی کے دل میں جذبۂ ترحم پیدا نہیں ہوتا، بلکہ الٹے سبھی اس پر ناراض ہوتے، ڈانٹتے اور لعنت ملامت کرتے ہیں پھر اجنبی زبان میں لکھے ہوئے شروط کے مطابق جن کو شاید اس غریب نے سمجھا بھی نہیں تھا اور ایجنٹوں نے بھی جان بوجھ کر اس کو سمجھایا اور بتایا نہیں تھا، اس کی زمین، جائداد نیلام کر دی جاتی ہے، اور بینک کا قرض مع سود وصول کر لیا جاتا ہے۔

اسی طرح سودی قرض لینے والوں کے دل بھی اس کی نحوست سے ایمانداری، سچائی، وفا داری اور احسان شناسی کے اوصاف حمیدہ سے خالی ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے اندر بے ایمانی، کذب بیانی، بے وفائی اور احسان فراموشی جیسے اوصاف خبیثہ پیدا ہو جاتے ہیں، چنانچہ اگر ان پر ترس کھا کر کوئی شریف آدمی قرضہ حسنہ دیدے اور ان پر اعتماد کر کے تحریری، قانونی کاروائی نہ کرے، اور وہ جسمانی طاقت اور افرادی قوت میں ان سے کمزور ہو تو نہ صرف وہ قرض کی واپسی میں ٹال مٹول کرتے ہیں اور طرح طرح سے پریشان کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اسے گالیاں دیتے، الزام تراشی کرتے، خود مارنے یا غنڈوں سے پٹوانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، اور بسا اوقات مار پیٹ بھی کر لیتے ہیں، اور قرض دی گئی پوری رقم ہڑپ کر لیتے ہیں۔ اور ایسا صرف اس بنا پر ہوتا ہے کہ سود خوری نے ان کے دلوں میں قساوت اور بے ایمانی بھر دی ہے، جس سے وہ اس شریف آدمی کی شرافت اور کمزوری سے نا جائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور احسان فراموشی کر کے اس پر ظلم کر رہے ہیں۔

پھر ان لوگوں کی حرکتوں سے دوسرے لوگوں کے اندر سے بھی غریبوں، مجبوروں کے ساتھ تعاون وہمدردی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں، چنانچہ کچھ لوگ تو سودی اداروں کی طرح چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان غریبوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں اور قرض دے کر سود حاصل کریں۔ اور کچھ شرفاء اور نیکوکار لوگ قرض لینے والوں کے نازیبا سلوک کرنے اور ان کا مال ہڑپ کر جانے سے بد دل ہو جاتے ہیں، اور اس خوف سے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ اور سلوک نہ ہو، چاہتے ہوئے بھی قرض نہیں دیتے، اس طرح سودی نظام اور کاروبار کی وجہ سے پورا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتا ہے، لوگوں کے اندر خود غرضی، بے ایمانی، شقاوت قلبی، بے وفائی، جھوٹ و دغا بازی وغیرہ اخلاقی برائیاں اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

سودی کاروبار کے اخلاقی نقصانات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نظام نے لوگوں کے درمیان کافی اونچ نیچ پیدا کر دی ہے، اور ان کو دو طبقات میں تقسیم کر دیا ہے، اور اس کی وجہ سے ان کے درمیان عداوت و دشمنی، کینہ و کپٹ اور بغض وحسد عام ہو گیا ہے۔

لوگ پہلے بڑی محبت و سکون سے رہتے تھے، پریشانیوں اور مصیبتوں کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ قرضہ حسنہ اور صدقہ و خیرات وغیرہ کے ذریعہ تعاون کرتے تھے، قرض کی وصولی میں سختی کرنے کی بجائے سہولت ہونے تک مہلت دیتے تھے اور غرباء ومساکین اور پریشانیوں میں مبتلا حضرات بھی ان کے اس احسان و تعاون کا اپنے دل میں احساس رکھتے اور زبان سے تسلیم کرتے اور اس پر ان کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ اس طرح سے مسلم معاشرہ میں بڑا سکون، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی تھی، اونچ نیچ کا احساس نہیں تھا، کیونکہ مالدار اپنے غریب بھائیوں کے ساتھ جو بھی احسان و تعاون کرتے تھے وہ اپنا دینی فریضہ اور عبادت سمجھ کر کرتے تھے، احسان جتلانے، ان کا استغلال کرنے، ان کی دولت لوٹنے اور خون چوسنے کے لئے نہیں کرتے تھے، وہ یہ کام صرف رضا الٰہی اور آخرت میں اجر و ثواب کے لئے کیا کرتے تھے۔ اور جانتے تھے کہ احسان جتلانے اوراس سے کوئی مادی فائدہ اٹھانے کی صورت میں ان کی نیکیاں ضائع ہو جائیں گی، لیکن سودی نظام نے ان کے دلوں سے ان نیک جذبات کو ختم کر دیا ہے، اور لوگ دو مختلف گروپ اور متحارب طبقوں میں تقسیم ہو گئے، اس نظام کو چلانے کے لئے ظالموں نے غریبوں، محتاجوں اور مظلوموں کی ہمدردی ودستگیری کے نام پر اشتراکیت اور کمیونزم جیسے مذہب دشمن نظریات والی پارٹیوں کو جنم دیا جنھوں نے سماجی و اقتصادی مساوات، عدل و انصاف، زر، زن اور زمین میں سب کا حصہ، عوام کی حکومت عوام کے ذریعے وغیرہ خوش کن نعرے لگائے اور اس کے ذریعہ طبقاتی نا برابری، غربت ومسکنت، اور ظلم و ستم کے خاتمے کا پر زور بلکہ پر شور دعویٰ کیا۔ لیکن عملی دنیا میں اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا، بلکہ ظلم و جور، فقر و فاقہ اور محرومی وبیکسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ اور روس جیسا عظیم ملک جو ان نظریات کا سب سے بڑا علمبردار تھا، خود ان مسائل و مصائب میں مبتلا ہو کر لوگوں کے لئے عبرت کا سامان بن گیا۔

دوسری طرف انہیں یہودیوں نے جن کے اوپر ان کے شریعت میں سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اور اس کی مخالفت کی پاداش میں انہیں بہت سی پاکیزہ اور عمدہ چیزوں اور نعمتوں سے محروم کر دیا گیا، جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا:

’’ پس یہودیوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں، اور ان کے بکثرت اللہ کے راستے سے روکنے کی بنا پر اور ان کے سود لینے کی بنا پر جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔‘‘ انہیں یہودیوں نے دنیا کے اقتصاد اور حکمرانوں کو اپنے کنٹرول میں کرنے، پوری دنیا پر اپنا دبدبہ و غلبہ قائم کرنے اور جب چاہیں دوسرے ممالک اور خاص طور سے جن سے ان کی عداوت اور دشمنی ہو کے اقتصاد کو تہ و بالا کرنے کے لئے یہ سودی نظام رائج کیا اور دنیا پر اس کو اس طرح مسلط کیا کہ لوگوں کے لئے اس سے نجات اور بلا سودلئے کوئی بڑا کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے، یہودی پروٹوکولز میں ہے:

’’ہماری انتظامیہ کو ماہرین معیشت کی بہت بڑی تعداد کی خدمات میسر ہوں گی، یا یہ کہہ لیجئے کہ وہ ماہرین اقتصادیات سے گھری ہوئی ہو گی، یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کو دی جانے والی تعلیم میں اقتصادی سائنس کو ایک اہم مضمون کی حیثیت حاصل ہے، ہمارے چاروں طرف بنکاروں، صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور کروڑ پتیوں کا ایک مجمع ہو گا، ہمیں ان کی خدمات بہت سی کاموں کے لئے درکار ہوں گی، کیونکہ ہم ہر مسئلہ کا فیصلہ اعداد و شمار کی روشنی میں کرتے ہیں۔

وہ وقت بہت قریب ہے جب ہماری مملکتوں کے کلیدی عہدوں پر ہمارے یہودی بھائی تعینات ہوں گے، ان کی تقرریوں میں نہ کوئی رکاوٹ ہو گی اور نہ کوئی خطرہ ہو گا لیکن وہ وقت آنے تک ہم معاملات کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کو دیں گے جن کا ماضی اور حال یہ ثابت کر سکے کہ ان کے اور عوام کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ ہماری ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں سخت الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا، یا پھر شرم و ندامت کی وجہ سے خود کشی کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا۔ اس طریقہ کار سے دوسرے لوگوں کو نا فرمانی کرنے والوں کے انجام سے سبق ملا کرے گا اور وہ آخری وقت تک ہمارے مفاد کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ (یہودی پروٹوکولز: ص۳۳۱)

اور یہی وجہ ہے کہ علم الاقتصاد یہودی طبقہ کا بنیادی موضوع ہے، اور امریکہ، برطانیہ وغیرہ ممالک، بڑے بڑے یہودی سرمایہ داروں، بینک کاروں اور کروڑ پتیوں کے گھیرے اور نرغے میں ہیں، اور تمام دنیا کی دولت کے حقیقی مالک چند ہزار یہودی اور سود خور ہیں، ان کے علاوہ تمام اصحاب ثروت، تجار اور کار خانوں اور فیکٹریوں کے مالک جو بینکوں اور سودی اداروں سے قرض لے کر کام کرتے ہیں در حقیقت یہ بندھوا مزدور کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ اخیر میں ان تمام کاروباروں کے اصل منافع انہیں یہودی سود خوروں کے جھولیوں میں چلے جاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو ان کی محنت، کار کردگی اور فرائض ومسؤلیات کے اعتبار سے صرف مزدوری مل پاتی ہے۔

یہودی پروٹوکولز کے اس اقتباس کو دوبارہ پڑھئے اور دیکھئے سودی نظام اور قرضوں وغیرہ کے ذریعہ کس طرح یہودیوں اور صلیبیوں نے مسلم ممالک پر خصوصاً اور تیسری دنیا کے ممالک پر عموماًایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا ہے جن کو اپنے عوام سے نہ کوئی ہمدردی ہے اور نہ ان سے کوئی تعلق اور ربط ہے، جو واضح طور پر ان کے پروردہ ایجنٹ ہیں، اور انہیں کے ہدایات و احکامات پر عمل کرتے اور اپنے اپنے ملک اور عوام کو معاشی، اخلاقی، دینی، اور عسکری ہر اعتبار سے تباہ کر رہے ہیں، اور جس روز ان کے ذریعہ وہ مطلوبہ کام کر لیتے ہیں اور ان کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے، یا جس دن انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حکم سے سرتابی کر رہے ہیں ان کے خلاف سنگین قسم کے الزامات لگا دیتے ہیں اور میڈیا جو ان کا غلام اور کارندہ ہے ان حکمرانوں کے خلاف شب و روز الزامات کی بوچھار کرتا اور ان کے مظالم اور کالے کرتوں کی داستانیں سناتا ہے اور پھر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر کے یا تو انہیں پھانسی دلا دی جاتی ہے یا کسی ذریعہ سے قتل کرا دیا جاتا ہے، یا خود کشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے، بہر حال انہیں ذلیل و خوار کر کے اس طرح منظر سے غائب کر دیا جاتا ہے کہ کہیں ان کا پتہ بھی نہیں لگتا اور ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔

سود کے اخلاقی نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو لوگ سودی قرض لیتے ہیں انہیں مقر رہ مدت پر اسے سود کی ایک بڑی رقم کے ساتھ واپس کرنا رہتا ہے، اس واسطے وہ ایسے پروجیکٹوں میں جو انسانی ضروریات و مصالح کے مطابق اور ملک و ملت کے حق میں مفید ہوں پیسے لگانے کے بجائے ایسے کاروبار میں لگاتے ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ نفع کما سکیں، بھلے ہی وہ مخرب اخلاق اور تہذیب و شرافت، حیا و غیرت اور ایمانداری و ہمدردی اور حق و صداقت کا جنازہ نکالنے والے ہوں۔ چنانچہ آج ہر شخص اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ لوگ کس طرح گندی فلموں، فحش رسالوں، رقص گاہوں، شراب خانوں، تھیٹروں، بیوٹی پارلروں اور گندے گانوں اور فلموں کے آڈیو، ویڈیو کیسٹوں اور سیڈیز بنانے کے کارخانوں میں سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے لگے ہیں تاکہ یقینی طور سے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمائیں اور سودی قرض ادا کرنے کے بعد ایک اچھی بڑی رقم پس انداز کر لیں۔ بلا سے اس کی وجہ سے معاشرے میں فحاشی و عیاشی کا سیلاب آ جائے، نوجوانوں کے اخلاق بگڑ جائیں، قتل و خونریزی کے بازار گرم ہوں اور شراب نوشی اورسٹہ بازی کی وجہ سے گھر، خاندان اور پورا معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے۔

یہ سودی قرضوں کی ہی دین ہے کہ مسلم حکمراں اپنے آقاؤں کے حکم پر دینی تحریکوں کو کچلتے، علما ء و دعاۃ کو قتل کرتے، دینی و اخلاقی لٹریچر پر پابندی لگاتے اور فحش لٹریچر کی اشاعت کرتے اور اجازت دیتے ہیں۔

یہ اسی سود کی برکت ہے کہ دینی اداروں اور مساجد ومدارس کے نشاطات پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں اعدائے اسلام کے حوالے کیا جا رہا ہے، وہ فوج جسے قوم و ملت کی حفاظت اور ملک کے دفاع کے لئے تیار کیا گیا تھا اس کے ذریعہ بے گناہ مسلم مجاہدین اور علماء وطلبہ کو قتل کرایا جا رہا ہے، دینی مدارس پر بم باری کی جا رہی ہے، انہیں دہشت گردی کا اڈہ کہا جا رہا ہے، ان کے نصاب میں یہود و نصاریٰ کی خواہشوں اور سازشوں کے مطابق تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، ان میں مخلوط تعلیم اور سا تویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ و طالبات کے لئے جنسی تعلیم کو لازم قرار دیا جا رہا ہے، جس سے اخلاق و حیا اور عفت و پاکدامنی کا جنازہ نکل رہا ہے اور پوری قوم ناکارہ، بے غیرت اور بے دین ہو رہی ہے۔ غرض یہ کہ امت مسلمہ کے لئے خصوصاً اور پوری انسانیت کے لئے عموماًسود کے بے شمار دینی و اخلاقی نقصانات ہیں ۔

بہرحال اللہ ہم سب کو سود جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔

آمین ثم آمین

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل