FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سوال ابھی باقی ہے

 

 

 کہانی مجموعہ

 

راکیش بھرامر

مترجم: عامر صدیقی

 

 

 

 

یہاں چار کہانیاں کم کر دی گئی ہیں، مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

کنیا دان

 

شام کو گھر پہنچا تو اہلیہ نے بتایا کہ گاؤں سے کوئی دوست مجھ سے ملنے آئے ہیں۔ مجھے حیرانگی ہوئی، گاؤں سے بھلا کون آ سکتا تھا۔ فی الحال گاؤں میں میرا کوئی قریبی نہیں رہتا تھا۔ گاؤں سے تعلق بہت پہلے چھوٹ چکا تھا۔ گھر والے میرے ساتھ رہتے تھے۔ خاندان کے لوگ بھی کئی شہروں میں جا کر بس گئے تھے۔ ان سے فقط کسی شادی بیاہ یا دیگر ایسے ہی مواقع پر ملاقات ہو پاتی تھی۔ بہت دنوں سے میرا گاؤں بھی جانا نہیں ہوا تھا کہ میرا شہر کا پتہ کسی کے پاس ہو اور وہ مجھ سے ملنے کے لئے آیا ہو۔

’’کون ہے وہ؟‘‘ میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’میں بھی نہیں پہچانتی۔ بس اتنا بتایا کہ آپ دونوں لوگ ساتھ ساتھ پڑھتے تھے۔ آپ ہی کی عمر کے ہیں، تاہم محنت کا کام کرنے کے سبب زیادہ بوڑھے لگتے ہیں۔ دبلے پتلے ہیں۔ دھوپ میں کام کرنے کے سبب رنگ کافی دب سا گیا ہے۔ جوانی میں کبھی گورے رہے ہوں گے۔‘‘ میرے دماغ میں گھنٹی سی بجی۔ زور سے پوچھا، ’’کہیں گوپال تو نہیں؟ کہاں ہے وہ؟‘‘

بیوی میری ہڑبڑاہٹ اور بے چینی دیکھ کر مسکرائی اور کچن کی طرف بڑھتی ہوئی بولی، ’’میں تو پہلے ہی سمجھ گئی تھی کہ یہ وہی گوپال ہیں، جو کبھی آپ کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ وہ آپ کے گاؤں سے آئے ہیں، میں سمجھ گئی وہ آپ کے گاؤں والے خاص دوست ہی ہیں۔‘‘

’’تمہیں میرے دوست کا نام یاد تھا؟‘‘

’’کیسے نہ یاد رہتا۔ آپ جو کرشن بھگوان کی طرح اکثر و بیشتر ان کا نام رٹتے رہتے تھے۔ اچھا اب آپ فریش ہو جائیں، میں چائے بناتی ہوں۔‘‘

’’لیکن گوپال کہاں ہے؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔

’’نیچے سڑک تک گئے ہیں۔ ابھی آ جائیں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ سات بجے تک آئیں گے، تو بولے کہ تب تک وہ نیچے ٹہل کر آتے ہیں۔‘‘

’’کچھ ناشتہ وغیرہ کرایا تھا یا نہیں؟ کتنے بجے آئے تھے؟‘‘ میں نے شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں، بابا۔ آپ اتنی فکر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کے گاؤں سے آئیں ہیں، چاہے میرے لئے ناواقف ہی تھے۔ لیکن کیا اپنی سسرال سے آئے شخص کی آؤ بھگت نہ کرتی۔ اتنے سنسکار تو ماں باپ نے مجھے دیئے ہی ہیں۔ آپ کیا مجھے بیوقوف سمجھتے ہیں؟‘‘ بیوی کے چہرے پر دل آویز مسکراہٹ تیر رہی تھی ’’کبھی کبھی۔۔ ۔‘‘ میں نے جھٹکے میں کہہ دیا۔

’’کیا مطلب۔۔ ۔ کیا میں بیوقوف ہوں؟‘‘ اس کے چہرے پر ناراضگی کے جذبات آ گئے۔ وہ مڑ کر کھڑی ہو گئی، جیسے مجھ سے مقابلہ کرنے کے لئے کمر کس رہی ہو۔

’’ارے نہیں، مجھے کیا رات میں بھوک ہڑتال کرنی ہے، وہ بھی اپنے دوست کے سامنے۔۔ ۔ تو تمہاری تعریف کر رہا تھا۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے آپ کس طرح میری تعریف کرتے ہیں۔ اچھا، اب بنا کسی چوں چرا کے تیار ہو جائیے۔ آپ کے پیارے دوست آتے ہی ہوں گے۔‘‘ میں تیار ہو گیا، تاہم بیوی سے کہا کہ گوپال کے آنے کے بعد ہی چائے لے کر آئے۔ اسی کے ساتھ چائے پیتے ہوئے باتیں کریں گے۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا، کتنے سال بعد گوپال سے ملاقات ہو رہی تھی۔ مجھے تعجب تھا کہ اسے میرا پتہ کیسے چلا تھا، جبکہ میری اس کے ساتھ کوئی خط کتابت نہیں تھی۔ ویسے تو یہ موبائل فون کا زمانہ تھا، دنیا سمٹ کر سب کی مٹھی میں آ گئی تھی۔ پلک جھپکتے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں بیٹھے شخص سے بات ہو جاتی تھی، تاہم سو کلومیٹر کی دوری پر رہتے ہوئے بھی گوپال سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پورے گاؤں کے کسی شخص سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ماں باپو کے گزرنے کے بعد تو گاؤں سے ناطہ بالکل ہی ٹوٹ گیا تھا۔ بھائی کوئی تھا نہیں۔ بہنیں بھی شہر میں بیاہی تھیں، اس لئے گاؤں آنا جانا بالکل نہیں ہو پاتا تھا۔ تیار ہو کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ٹی وی کا بٹن آن ہی کیا تھا کہ دروازے پر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ میں خود اٹھ کر دروازے تک گیا اور دروازہ کھولا۔ میرے سامنے ایک ادھیڑ عمر کا شخص کھڑا تھا، جسے دیکھ کر میں فوری طور پر پہچان نہیں پایا۔ کرتا پاجامہ اور گلے میں ایک مفلر ڈالے سفید بالوں اور پچکے گالوں والا شخص پہلی نظر میں مجھے انجان لگا، تاہم اس کے چہرے پر شناسائی والی مسکراہٹ تھی۔ وہی مسکراہٹ اس کی پہچان تھی، جس نے مجھے بتا دیا کہ وہ گوپال ہی تھا۔ میرے ہونٹوں پر بھی ایک شناسائی بھری مسکراہٹ ابھری اور اپنی بانہوں کو پھیلاتے ہوئے میں نے کہا، ’’اوہ، گوپال تم!  آؤ بھائی آؤ، اتنے سالوں بعد میری یاد کیسے آ گئی؟‘‘ وہ جھجکتا ہوا میری بانہوں میں سما گیا۔ میرے کلیجے کو جیسے ٹھنڈک مل گئی۔ بہت دنوں کا بچھڑا کوئی اچانک جب ملتا ہے تو دل کو ایسی ہی ٹھنڈک پہنچتی ہی، وہ میرا کھلا پن دیکھ کر مسرور ہو گیا۔ شاید اسے یقین نہیں تھا کہ میں اس طرح کھل کر اس سے ملوں گا۔ بہت سے لوگ حالات کے مطابق خود کو بدل لیتے ہیں۔ ہم دونوں نے ساتھ ساتھ پڑھائی ضرور کی تھی، تاہم جوانی سے پہلے ہی اس سے میرا ناطہ ٹوٹ گیا تھا۔ بچپن میں اس نے کبھی کبھار میری مدد بھی کی تھی، تاہم میرے افسر بننے اور گاؤں سے دور ہو جانے کے سبب ہم دونوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئی تھیں۔ وقت کا فرق بہت ساری چیزوں کو بھلا بھی دیتا ہے، تاہم اس کے میرے اوپر جو احسان تھے، وہ کبھی بھلائے نہیں جا سکتے تھے۔ ساتھ ساتھ بیٹھے تو چائے پینے کے بعد کھانا کھانے تک ہم دونوں نہ جانے یادوں کی کتنی گلیوں سے گزر گئے۔ بچپن سے لے کر جوانی اور شادی بیاہ سے لے کر بال بچوں تک کی باتیں کی، بچپن کے دوستوں کو یاد کیا، گاؤں کے لوگوں کے بارے میں خیر خبر لی۔ کتنے لوگ جو ہمارے بچپن میں جوان تھے، بوڑھے ہو کر سورگ سدھار چکے تھے۔ کتنے لوگ بوڑھے ہو کر قبر کی طرف اپنے پیر بڑھا رہے تھے اور نہ جانے کتنے بچے پیدا ہو کر بڑے ہو گئے تھے۔ گاؤں بہت بدل چکا تھا۔ باتوں کے دوران میں نے پوچھا، ’’اچانک کیسے یاد آ گئی؟‘‘ بڑا بے معنی سا سوال تھا، تاہم گفتگو کے دوران ایسے بے مقصد سوال منہ سے نکل ہی جاتے ہیں۔ دل میں تجسس لازمی تھا کہ پوچھوں کہ وہ کسی کام سے آیا تھا یا یوں ہی اتنی دور سے ایک کسان شخص اپنے گھر کا کام کاج چھوڑ کر فقط شہر دیکھنے یا مجھ سے ملنے تو نہیں آ سکتا تھا۔ دل میں سوال کلبلا رہے تھے، تاہم سیدھے سیدھے پوچھنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ پتہ نہیں وہ کس کام سے یہاں آیا ہو۔ پوچھتا تو اس کے دل کو ٹھیس پہنچتی۔ کوئی کام ہو گا تو لازمی بتائے گا۔ یہی سوچ کر دل کے تجسس کو دبائے ہوئے تھا، تاہم پھر بھی دل کی خواہش باہر آنے کے لئے بے تاب ہو رہی تھی۔

کھانا کھا کر ہم دونوں باہر ٹہلنے کے لئے نکلے تھے۔ پان کھانے کے بعد دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے ہوئے واپس آ رہے تھے، تبھی میں نے اپنے دل میں دبا سوال پوچھ لیا تھا۔ وہ نیچے سر کئے ہوئے بولا، ’’پچھلے دنوں تمہارے بہنوئی سے ایک گاؤں میں ملاقات ہو گئی تھی۔ باتوں باتوں میں ان سے تمہارا پتہ لیا۔ فون نمبر بھی دیا تھا انہوں نے، تاہم سوچا چل کر ایک بار مل لیتا ہوں۔ تم تو گاؤں آنے سے رہے۔‘‘ کوئی نہ کوئی خاص سبب لازمی تھا، تبھی گوپال میرے بہنوئی سے میرا پتہ لے کر شہر آیا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’شہر میں کوئی کام ہے؟ بتاؤ، اگر میرے بس میں ہے تو پوری کوشش کروں گا کہ کام ہو جائے۔‘‘ وہ تھوڑا گمبھیر ہو گیا۔ دو قدم چلنے کے بعد بولا، ’’کام تو تھا، تاہم شہر میں نہیں۔۔ ۔‘‘

’’تو پھر۔۔ ۔؟‘‘ میراتجسس بڑھ گیا۔

’’کام تو تم سے ہی ہے۔ تاہم کہنے میں ندامت ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے دبی آواز میں کہا۔

کیا کام ہو سکتا ہے؟ میرا دماغ تیزی سے چلنے لگا۔ بہت سارے خیال دماغ میں بجلی کی طرح چمک گئے۔ گوپال نے بتایا تھا کہ کھیتی باڑی سے اسے ٹھیک ٹھاک آمدنی ہو جاتی تھی۔ زرخیز زمین تھی۔ گنے اور آلو کی اچھی پیداوار ہوتی تھی۔ پیسے کی کوئی پریشانی اسے نہیں تھی، ہم دونوں میں دوستی کب ہوئی تھی، یہ تو اب یاد نہیں، تاہم ہم دونوں جب جونیئر ہائی اسکول میں تھے، تو ساتھ ساتھ اسکول جاتے تھے۔ اسکول سے واپس آنے کے بعد بھی ہم لوگ ساتھ ساتھ کھیلتے تھے اور گاؤں میں گھومتے پھرتے تھے۔ گوپال ایک سمپن کسان کا بیٹا تھا اور اس کے گھر میں قلت نام کی چیز نہیں تھی۔ میرے باپو ایک کھیت مزدور تھے اور گھر میں کبھی کبھی فاقوں کی نوبت آ جاتی تھی۔ میری پڑھائی میں بہت ساری رکاوٹیں آتی تھیں۔ کبھی کاپی نہیں، تو کبھی کوئی کتاب نہیں۔ کبھی پینسل کے لئے پیسے نہیں، تو کبھی پین کے لئے۔۔ ۔ مشکل سے پڑھائی چل رہی تھی۔ تاہم گوپال سے دوستی ہونے کے بعد مجھے ان مشکلوں سے چھٹکارا ملنے لگا تھا۔ وہ جب بھی دیکھتا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، تو جھٹ سے دس بیس روپے مجھے تھما دیتا یا میرے ساتھ چل کر میری ضرورت کی چیز خریدوا دیتا۔ میں نے کئی بار منا کیا تو وہ ہنس کر کہتا، ’’کوئی بات نہیں یار، تم پڑھنے میں تیز ہو تمہاری وجہ سے مجھے بھی تھوڑی بہت مدد مل جاتی ہے۔‘‘

’’لیکن تم جو پیسے خرچ کرتے ہو، وہ میں کہاں سے چکا پاؤں گا۔ تم تو میری حیثیت جانتے ہو۔‘‘

’’ابھی نہ سہی، جب تم افسر بن جاؤ گے، تب چکا دینا۔‘‘ وہ ٹالنے والے انداز سے کہتا اور میں چپ رہ جاتا۔ اس طرح اس نے سینکڑوں روپوں سے میری مدد کی ہو گی۔ اس کا کوئی حساب نہ تو میرے پاس تھا، نہ گوپال کے پاس۔۔ ۔ اس کی مدد کے سبب ہی ممکن ہوا تھا کہ ہائی اسکول تک میری پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی تھی۔ بعد میں اس نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی اور پشتینی کھیتی سنبھال لی تھی۔ میں اپنی پڑھائی کے لئے قریب کے قصبے چلا گیا تھا۔ آج کی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے بھلے ہی ان دنوں کی گوپال کی جانب سے، میرے لئے کی گئی مدد انمول تھی، تاہم ان دنوں اس پیسے کی قیمت تھی اور اس کی جانب سے کی گئی مدد میرے لئے بیش قیمت تھی۔ بعد میں جب بی اے کرنے کے بعد مجھے نوکری مل گئی، تو سب سے پہلے وہی آیا تھا مجھے مبارکباد دینے، پھر میں شہر چلا آیا۔ گاؤں اکثر و بیشتر جاتا تھا۔ اچھی نوکری ملی تو میرے لئے رشتے بھی آنے لگے۔ پتاجی نے سب کچھ میرے اوپر چھوڑ دیا تھا۔ چونکہ پڑھ لکھ کر میں ماڈرن ہو گیا تھا۔ نوکری بھی حیثیت والی تھی، اس لئے میں نے اپنے لئے شہر کی لڑکی پسند کی۔ پھر میں پوری طرح سے شہر کا ہو کر رہ گیا۔ ابتدا میں کچھ دنوں تک گاؤں گھر جانا ہوتا رہا۔ پتاجی، ماتا جی جب تک زندہ رہے، سال چھ مہینے میں ایک بار لازمی جاتا۔ میرے سبب ان کو کوئی تکلیف نہ ہو، اس بات کا میں نے ہمیشہ خیال رکھا۔ بیوی بھی اچھی سمجھ اور خیالات رکھتی تھی۔ میرے ساتھ مہینوں تک گاؤں میں رہی، تاہم کبھی بھی بجلی پانی کی شکایت نہیں کی۔ جن حالات میں بھی رہنا پڑا ہو، خوشی خوشی میرے ساتھ گاؤں میں رہی، جب پتاجی نہیں رہے، تو گاؤں سے ناطہ پوری طرح سے ٹوٹ گیا۔ کھیتی کی زمین تھی نہیں کہ اس کی دیکھ بھال کے لئے جانا پڑتا۔ ایک بار گاؤں سے ناطہ ٹوٹا تو سبھی پرائے ہو کر رہ گئے۔ گوپال کے احسانوں کا مجھے احساس تھا۔ بیوی سے اس بات کا کبھی کبھار ذکر بھی کرتا تھا۔ دل میں ایک ندامت تھا کہ میں نے اس کے احسانوں کے بدلے اسے کچھ نہیں دیا۔ کبھی کوئی کپڑا لتا ہی خرید کر دے دیتا۔ یا اس کے بچوں کے لئے کوئی چیز لے کر دے آتا۔ تاہم یہ سب میرے دل میں ہی رہ جاتا تھا۔ دل میں ندامت بھی ہوتی کہ میں کچھ اسے دوں گا تو پتہ نہیں وہ کیا سمجھے کہ میں اسے چھوٹا سمجھ کر اس کے احسانوں کا بدلہ چکا رہا تھا۔ میں اسے حقیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔

آج اس کی بات سن کر دل میں خیال ہوا کہ شاید اس کے احسانوں کا قرض چکانے کا موقع مل رہا تھا۔ اسے مجھ سے کام تھا، جیسا بھی ہو گا، میں اسے مایوس نہیں کروں گا۔ معاشرہ میں رہتے ہوئے انسان کبھی نہ کبھی ایک دوسرے کے کام آتا ہے۔ کبھی وہ بے غرضی سے دوسرے کے کام آتا ہے، تو کبھی خودغرض بن کر دوسرے کا کام کرتا ہے۔ جب ہم بے غرض انداز سے کسی کے کام آتے ہیں تو کبھی بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں رہتا ہے کہ ہمیں اس خدمت کا صلہ چاہئے، لیکن جس انسان کا کام ہو جاتا ہے، اس کے دل میں یہ فقط یہ موجود رہتا ہے کہ دوسرے کی بھلائی کا قرض اپنے سر سے اتار دے۔ گوپال نے بچپن میں جو کچھ میرے لئے کیا تھا، وہ انمول تھا۔ اس نے بھی بے غرض انداز سے غریبی میں میری مدد کی تھی۔ آج اگر وہ میرے پاس کسی کام سے آیا تھا تو اس کے دل میں یہ نہیں ہو گا کہ وہ بچپن میں کی گئی اپنی مدد کا صلہ چاہتا تھا۔ وہ ایک دوست سے مدد مانگنے آیا تھا یہ سوچ کر کہ اس کا دوست کامیاب تھا اور اس کی مدد کر سکتا تھا۔

’’کام کیا ہے؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔

’’میں بہت شرمندگی کے ساتھ تمہارے پاس آیا ہوں۔ اگر میرا کام گاؤں میں ہو جاتا تو میں کبھی تمہارے پاس نہیں آتا۔‘‘ گوپال ابھی بھی کھل کر نہیں بتا رہا تھا کہ اسے کیا کام تھا۔

’’ایسی کیا بات ہے جو تم میرے پاس آنے میں شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔ کیا تمہارے دل میں گمان ہے کہ میں تمہارا کام کروں گا۔‘‘

’’نہیں، میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں تم یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ میں تمہارا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’بڑی عجیب سی بات ہے۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’جب ہم دونوں چھوٹے تھے تو تم میری زبردستی مدد کرتے تھے اور آج جب ہم بڑے ہو گئے ہیں، سمجھدار ہیں، تب تمہیں میری مدد لینے میں شرم محسوس ہو رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتے؟‘‘

’’سمجھتا ہوں، تبھی تو آیا ہوں۔ بس دل میں ڈر ہے کہ تم منع نہ کر دو۔ یا کہیں تم سے مدد نہ ہو سکی، تو میری کشتی کیسے پار لگے گی؟‘‘ پتہ نہیں کیا بات تھی جو گوپال اس طرح کی مایوسی بھری باتیں کر رہا تھا۔ میں نے تھوڑا جھنجھلاتے ہوئے کہا، ’’گوپال، تم اب پہیلیاں بجھانا بند کرو اور سیدھے سیدھے بتاؤ کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ تم اپنا کام بتاؤ، میں پوری کوشش کروں گا کہ اسے پورا کروں۔ اگر میرے بس میں نہیں بھی ہوا، تب بھی میں اسے کسی نہ کسی طور پورا کروں گا۔‘‘

میری بات سے گوپال کی ہمت بندھی اور اس نے دھیرے دھیرے بتانا شروع کیا، ’’تم سے نہ کہوں گا تو اور کس سے کہوں گا۔ اب تمہیں میری امید ہو۔ اور کہیں مجھے امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ پتہ نہیں تم میرے پریوار کے بارے میں کتنا جانتے ہو۔ میری ایک بڑی بیٹی ہے۔ اس کی شادی میں نے طے کر دی ہے۔۔ ۔ اسی سال۔ اچھا لڑکا مل گیا ہے۔ آرمی میں سپاہی ہے۔ اب تم تو جانتے ہو کہ آج کل بیٹی کی شادی میں کتنا خرچ کرنا پڑتا ہ۔ جو لڑکے بیروزگار گھوم رہے ہیں، ان کے ماں باپ بھی آٹھ دس لاکھ سے نیچے بات نہیں کرتے۔‘‘

’’ہاں، یہ بات تو ہے۔‘‘ میں نے اس سے ہم آہنگی ظاہر کی۔

’’اب تک جو جوڑ کر رکھا تھا، وہ سب شادی میں لگا رہا ہوں۔ پھر بھی حساب کرنے پر ایک لاکھ کے قریب کم پڑ رہے ہیں۔ چاروں طرف نظر دوڑائی، کئی جگہ بات کی، تاہم اتنا پیسہ دینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ کھیتی رہن رکھوں، تب بھی اتنا نہیں مل سکتا تھا۔ ایک آدھ بیگھا بیچ دیتا تو بات بن سکتی تھی، تاہم دو چھوٹے بیٹے ہیں۔ ان کی پڑھائی لکھائی اور مستقبل کا سوال تھا۔ کھیتی بیچنا میں نے مناسب نہیں سمجھا۔ اسی بیچ قسمت سے تمہارا پتہ مل گیا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔۔ ۔ ایک امید کی کرن دکھ گئی۔‘‘

’’بس اتنی سی بات اور تم شرمندگی میں مرے جا رہے ہو۔ بہت بڑے احمق ہو تم۔۔ ۔ خیر، اب اپنے دل سے سارے گمان، ڈر مٹا دو اور سمجھو کہ تمہارا کام ہو گیا۔‘‘ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ اس نے میری آنکھوں میں اس طرح جھانک کر دیکھا جیسے اسے میری بات پر یقین نہ ہو رہا ہو۔

’’ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ کیا تمہیں یقین نہیں ہو رہا ہے کہ میں تمہیں اتنے پیسے دے سکتا ہوں؟‘‘

’’ہاں، کیونکہ یہ بہت بڑی رقم ہے اور پھر تم نے بھابھی سے تو پوچھا ہی نہیں۔‘‘ میں زور سے ہنسا۔ اسے حیرانی ہوئی۔ میں نے کہا، ’’پہلی بات تو یہ کہ دوستی کے سامنے یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے اوپر تمہارے کچھ احسان ہیں۔ کچھ سوچ کر میں نے کبھی ان احسانوں کا بدلہ چکانے کے بارے میں نہیں سوچا۔ آج موقع ملا ہے، تو میں پیچھے کیوں رہوں۔ رہی بات تمہاری بھابھی سے پوچھنے کی تو میرے کسی کام میں وہ ٹانگ نہیں اڑاتی، بس شرط یہ ہے کام نیک ہو اور کسی کی بھلائی کے لئے ہو۔ تمہاری بیٹی کی شادی ہے، تو کیا تمہاری بیٹی میری کچھ نہیں لگتی؟ میری بیوی تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے کچھ مدد کرنے کے لئے کبھی منع نہیں کرے گی۔ ویسے بھی اسے پتہ ہے کہ تم نے بچپن میں میرے اوپر کتنے احسان کئے ہیں، کتنی بار مجھے مصیبت سے نجات دی ہے۔ تم نے ایسا کیسے سوچ لیا کہ میرے ہوتے تم مجبور اور بے بس ہو۔‘‘ اس کی آنکھیں احسان مندی سے ڈبڈبا گئیں۔ ہونٹ لرزنے لگے اور وہ کچھ بول نہ سکا۔

رات میں بیوی کے ساتھ لیٹا تو میں نے پوری بات بتانے کے بعد پوچھا، ’’میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا؟‘‘

’’غلط۔۔ ۔!  ’’بیوی نے حیرانی سے کہا، ’’آپ تو ثواب کما رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا، وہ کیسے؟‘‘ مجھے اس کی بات پر حیرانی ہوئی کہ دوست کی مدد کر کے میں کون سا ثواب کما رہا تھا۔

’’دیکھئے، ’’اس نے پرسکون انداز میں کہا، ’’اپنے بچپن کے دوست کے احسانوں کا بدلہ چکانے کے ساتھ ساتھ آپ ایک کنیا کی شادی بھی تو کر رہے ہیں، سمجھے؟ ہماری کوئی بیٹی نہیں ہے۔ کیا اس طرح ایک کنیا کی شادی میں مالی مدد کر کے ہم کنیا دان کا ثواب نہیں کما رہے ہیں؟‘‘

’’ہاں، تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔‘‘ میں بیوی کی سمجھداری کا قائل ہو گیا۔

’’لیکن ہمارا کام یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ گوپال جی سے پوچھ لیجیے کہ شادی میں بیٹی کا نیا گھر بسانے کے لئے کیا کیا سامان دے رہے ہیں۔ جو کمی ہو گی، وہ ہم پوری کر دیں گے۔ تاہم ابھی ان سے کچھ مت کہئے گا کہ پیسے کے علاوہ ہم اور کیا کرنے والے ہیں۔‘‘ میں نے بیوی کی بات پر عمل کیا۔ دوسرے دن صبح ناشتے کے دوران میں نے گوپال سے شادی کی تیاریوں کے بارے میں مکمل معلومات لیں۔ پھر اسے پیسے دے کر اور احتیاط سے گاؤں جانے کی ہدایت کے ساتھ خود بس اڈے لے جا کر بس میں بٹھایا اور گاؤں کے لئے رخصت کیا۔ گوپال کو رخصت کرنے کے بعد میں اپنے دفتر آ گیا۔ گاؤں پہنچ کر گوپال نے احسان جتانے کے لئے فون کیا۔ میری بیوی نے اس کی بیوی سے بات کی اور شادی کی تیاریوں کے بارے میں بہت سی معلومات لیں۔

دھیرے دھیرے شادی کی تاریخ بھی آن پہنچی۔ ہم لوگوں نے بہت ساری خریداری کر رکھی تھی۔

شادی کے ایک دن پہلے ہی میں اپنی بیوی اور دونوں بیٹوں کے ساتھ دو کاروں میں سامان سے لدا پھندا گاؤں پہنچ گیا۔ گوپال اور اس کی بیوی ہمیں دیکھ کر ہی مشکور ہو گئے۔ سارے رشتے داروں کے بیچ بھی خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اتنا بڑا افسر گوپال کی بیٹی کی شادی میں حصہ لینے کے لئے گھر والوں کے ساتھ گاؤں پہنچا تھا۔ تاہم میں اپنے گاؤں میں ایک افسر کی حیثیت سے نہیں گیا تھا۔ وہاں میں گوپال کا دوست تھا اور اس کی بیٹی کا چاچا تھا۔ اس ناطے وہ میری بھی بیٹی تھی۔ میں نے اور میری بیوی نے اندر باہر کا سارا کام سنبھال لیا اور شادی کا سارا انتظام بھی۔ منڈپ سے لے کر جنواسا اور حلوائی سے لے کر دیگر چھوٹی موٹی تیاریوں کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔ میرے دونوں بیٹے بھی بھاگ دوڑ کر سارا کام دیکھ رہے تھے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ شادی بہترین طریقے سے انجام پا گئی۔ کہیں کسی چیز کی کمی نہ رہی۔ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملا۔ دوسرے دن رخصتی کے وقت جب سامان لادا جانے لگا تو اس میں ہماری جانب سے دیا گیا سامان بھی شامل تھا۔ اتنا سامان گاؤں کی کسی بیٹی کی شادی میں نہیں دیا گیا تھا۔ دولہا والوں کے ساتھ ساتھ دلہن والے بھی حیران اور شاداں تھے۔ میری کوئی بیٹی نہیں تھی، تاہم گوپال کی بیٹی کی شادی میں اپنی طرف سے کچھ تحائف دے کر جتنا خوش میں نہیں تھا، اس سے زیادہ میری بیوی مسرور اور مطمئن تھی۔ بیٹیاں جب رخصت ہوتی ہیں تو مویشیوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں۔ جب گوپال کی بیٹی رخصت ہو رہی تھی تو بڑا ہی غمگین ماحول تھا۔ عورتوں کے رونے کی آواز کے بیچ، دلہن کی معصوم رونا بالکل ایسی لگ رہا تھا، جیسے کسی معصوم بچے کو اس کے ماں باپ سے الگ کیا جا رہا تھا۔

سبھی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ گوپال کو چپ کراتے کراتے میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ ایک ہوک سی میرے دل میں اٹھ رہی تھی۔ لگا جیسے میری ہی بیٹی رخصت ہو رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

کولہو کا بیل

 

رات کے سناٹے میں گھر کے اندر سے جب بھی ہنسنے، کھلکھلانے کی آوازیں آتی، جگدیش کا تن من، جل بھن کر راکھ ہو جاتا۔ دل ہی دل میں ایک بھدی گالی دیتا اور سوچتا یہ اس کے بڑے بھیا اور بھابھی ہیں، جو زندگی کا بھرپور لطف اٹھا رہے ہیں، کس کی بدولت۔۔ ۔؟ صبح سے لے کر شام تک کھیت کھلیان میں ہی تو گھستا ہے، جانوروں کو چارہ سانی کرتا ہے، خون پسینہ بہا کر کھیتوں میں فصل اگاتا ہوں، جسے بیچ کر بھیا اپنی جیبیں گرم کر کے مونچھوں میں تاؤ دیتے ہوئے گاؤں، گلی اور بازار میں گھومتے پھرتے ہیں۔ بھابھی تو کبھی بھول کر بھی کھیتوں کی طرف نظر نہیں کرتیں کہ اسے ناشتہ ہی دے آئیں۔ کسی کو اس کی خواہشات کی فکر نہیں ہے، نہ کوئی اس کی خوشیوں کی پرواہ کرتا ہے۔ اس کا دل کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں بھاگ جائے۔ اتنی محنت کرنے کا کیا فائدہ، جب اس کے زندگی میں خوشی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔ کس کے لئے مرے کھپے۔۔ ۔؟ اس کا اس دنیا میں ہے ہی کون؟ بھیا بھابھی فقط نام کے بھیا بھابھی ہیں، ورنہ تو اس گھر میں اس کی حیثیت ایک نوکر سے بڑھ کر نہیں ہے۔ وہ لگ بھگ چھبیس ستائیس سال کا ہو چکا ہے اور ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی ہے۔ ماں باپو زندہ ہوتے، تو کیا اب تک اس کی شادی نہیں ہو جاتی۔ ماں مری، تب وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اسے آج ماں کی صورت بھی یاد نہیں ہے۔ باپو کی شکل یاد ہے، تب وہ لگ بھگ چودہ سال کی عمر کا، نوجوانی کی طرف قدم بڑھاتا ہوا ایک سمجھدار لڑکا تھا۔ مڈل اسکول میں پڑھنے بھی جانے لگا تھا اور اتنا بڑا تو تھا ہی کہ زندگی موت کے فرق کو بخوبی سمجھ سکتا۔ اسے اچھی طرح یاد ہے، باپو اکثر بیمار رہتے تھے اور گھر کی ذمے داری بھیا کے اوپر تھی، جن کی تب تک شادی ہو چکی تھی۔ بھیا باہر کا کام دیکھتے تھے اور بھابھی گھر میں چوکا سنبھالتی تھی۔ باپو بھلے ہی بیمار رہتے ہوں، تاہم گھر کے ہر کام کی طرف ان کی نظر رہتی تھی اور ہر کسی کے آرام و سکون کا وہ خیال رکھتے تھے۔ اسے بھی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ صبح اسکول چلا جاتا تھا اور شام کو آتا تھا۔ کچھ دیر اپنے باپو کے پاس بیٹھ کر ان کا دل بہلاتا تھا اور پھر کھیلنے کودنے میں لگ جاتا تھا۔ تب اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں آیا تھا کہ ایک دن جب باپو نہیں رہیں گے اور وہ بڑا ہو جائے گا، تب اسے پریشانی اور دکھوں کے گہرے دریا میں تیرنا پڑے گا۔ کاش، باپو زندہ ہوتے تو آج اسے نہ تو یہ دکھ سہنے پڑتے، نہ اسے اس طرح سنسان اندھیرے میں کروٹیں بدل کر اکیلے رات گزارنی پڑتی۔ اس کی شادی ہو جاتی، تو کیا کوئی اسے ایک گلاس پانی دینے والا نہ ہوتا؟ کیا کوئی اس کے قریب بیٹھ کر اس کے ساتھ پیار کے دو بول نہیں بولتا؟ تب اسے بھی لگتا کہ زندگی میں اس کا کوئی اپنا ہے، جو اس کے لئے سوچتا ہے اور اس کے لئے کچھ کرتا ہے۔ یہاں تو اس کے بارے میں کسی کے پاس سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے، کچھ کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

ایک دن باپو یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ اکیلا رہ گیا۔ بھیا بھابھی کے ہوتے ہوئے وہ اپنے کو یتیم نہیں سمجھتا تھا، تاہم دھیرے دھیرے اس نے محسوس کیا کہ بھیا بھابھی کا اس کے ساتھ رویہ کچھ کچھ بدلنے لگا تھا۔ اب وہ اسے پہلے کی طرح پیار نہیں کرتے تھے۔ بات بات پر ڈانٹنے لگے تھے اور گھر کے کاموں کے لئے اس سے کہنے لگے تھے۔ کچھ دن تک وہ اسکول بھی گیا، تاہم ایک دن اس کی بھابھی نے اس کا بستہ اٹھا کر گھر کے بھوسے کنڈے والی کوٹھری میں پھینک دیا اور ڈانٹ کر بولی، ’’اب اسکول جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے ہو گئے ہو، کچھ کام دھام کرو، ورنہ تمہیں کون کما کر کھلائے گا؟ پڑھ لکھ کر کھیتی کا ہی کام کرنا ہے، تو ابھی سے کیوں نہیں؟‘‘

وہ سہما، روہانسا کھڑا رہا۔ بھیا بھی آنگن میں کھڑے تھے۔ اس نے اپنے بھیا کی طرف مظلومیت اور درد بھری نظروں سے دیکھا کہ شاید وہ کچھ کہیں گے، تاہم جگدیش کی طرف ایک بار دیکھ کر انہوں نے اپنی نظریں نیچی کر لیں اور گھوم کر گھر سے باہر چلے گئے۔ جگدیش سمجھ گیا کہ بھابھی کے ساتھ ساتھ بھیا کا دل بھی بدل گیا ہے اور اس میں بھیا اور بھابھی کی پوری ہم آہنگی ہے۔ اب اسے اسکول کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہو گا۔ اس نے اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کر دیا۔

چھوٹی سی عمر سے ہی بھیا بھابھی نے اسے کھیتی باڑی کے کولہو میں جوت دیا اور وہ ایک بے زبان بیل کی طرح جٹا رہا۔ دیکھتے دیکھتے وہ جوان ہو گیا، پھر اس نے کھیتی کا سارا کام اکیلے ہی سنبھال لیا۔ اس کے بڑے ہوتے ہی بھیا نے گھر باہر کے کاموں سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے، جیسے وہ زمیندار ہو گئے ہوں اور جگدیش کے روپ میں انہیں ایک محنتی مزدور مل گیا تھا۔ اب سفید کپڑے پہن کر گھومنے کے سوائے ان کے پاس اور کوئی کام نہ رہ گیا تھا۔ جگدیش صبح سے لے کر رات تک کھیتی کا سارا کام کرتا، پھر بھی اسے وقت پر ڈھنگ کا کھانا بھی نصیب نہ ہوتا۔ یہاں تک پھر بھی ٹھیک تھا، لیکن جب اس کی شادی کی عمر ہوئی تو بھی بھیا بھابھی نے اس کی شادی کے بارے میں نہ کچھ سوچا اور نہ کیا۔ وہ تو اسے ایک بے زبان بیل سمجھتے تھے، جس کو جوانی کے پہلے ہی خصی کر دیا گیا تھا۔ بھیا بھابھی سمجھتے تھے کہ جوانی میں بھی اس کی کوئی تمنائیں نہیں ہے، نہ اس کے دل میں بلندیوں کے بادل امڈتے ہیں۔ لیکن وہ بے زبان بیل نہیں تھا۔ اس کے دل میں بھی کومل احساسات کا ظہور ہوتا تھا اور زندگی کے ساتھ اس کے دل میں بھی تمنائیں اور آرزوئیں نمودار ہوتی تھیں۔ وہ سوچتا تھا کہ وقت آنے پر بھیا بھابھی کہیں نہ کہیں اس کا رشتہ طے ضرور کریں گے اور وہ سہرا باندھ کر بینڈ بارات کے ساتھ دلہن بیاہ کر گھر لائے گا، لیکن اس کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور وہ پچیس برس کی عمر پار کر گیا جو کہ ایک گاؤں میں جوان شخص کی شادی کرنے کی بڑی عمر ہوتی ہے۔

ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کے لئے کسی نے شادی کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے لئے رشتے بھی آئے تھے۔ رشتے داروں اور گاؤں کے لوگوں نے اس کے لئے کئی رشتے بتائے تھے۔ کئی لڑکی والے بھی اسے دیکھنے آئے تھے۔ اسے دیکھتے اور پسند کرتے، تاہم پتہ نہیں آخر میں کیا ہوتا کہ اس کے بھیا اور بھابھی لڑکی والوں کو ایک کنارے بلا کر کچھ کہتے اور وہ اسے منع کر کے چلے جاتے۔ جگدیش کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس میں ایسی کیا کمی تھی، جو کوئی لڑکی والا اسے پسند نہیں کرتا تھاساڑھے پانچ فٹ سے اوپر اٹھتا ہوا اس کا جسم تھا، ہٹا کٹا اور کسرتی بدن تھا۔ کھیتوں میں محنت کا کام کرنے سے اس کے بدن میں ایک دلکشی سی آ گئی تھی اور وہ ایک منجھا ہوا کسرتی پہلوان لگتا تھا۔ اس کے باوجود بھی اس کی شادی نہ ہونی تھی، نہ ہوئی۔ اس میں اس کا کم اس کے بھیا بھابھی کی غلطی زیادہ تھی۔ اس بات کو اب وہ محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کے دل کو بڑا دکھ پہنچتا، جب راہ چلتے کوئی اسے روک کر کہا، ’’ارے، جگدیش، کب کرے گا تو شادی؟ سر کے بال چاندی ہوئے جا رہے ہیں اور دھیرے دھیرے بدن بھی ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے۔ پھر کیا قبر پر بیٹھ کر شادی کرے گا؟‘‘ وہ اداس لہجے میں کہتا، ’’میں کیا کروں بھائی؟ نہ تو کوئی اپنے سر کے بال بنا سکتا ہے نہ خود شادی کر سکتا ہے۔ میں کیسے اپنی شادی کر لوں؟‘‘

’’بات تو تمہاری جگ کی ریت کے مطابق ہے، تاہم تم یتیم بھی تو نہیں ہو۔ گھر میں بڑے بھیا بھابھی ہیں، کیا وہ تمہاری شادی کے لئے کوشش نہیں کرتے؟‘‘ جگدیش کی آواز بھیگ جاتی، ’’کرتے تو کیا آج میری ایسی حالت ہوتی اور تم اس طرح بیچ راستے میں روک کر مجھ سے اس طرح سوال کرتے۔‘‘

’’کیسے بھیا بھابھی ہیں تمہارے؟ کیا ان کو تمہاری جوانی پر ترس نہیں آتا ہے؟‘‘

جگدیش کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔

جیون اور جوانی کی خوشیوں سے محروم جگدیش ذہنی طور سے کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ بات بات پر جھلا اٹھتا۔ سب کو تیکھے لہجے میں جواب دیتا اور اکثر و بیشتر مرکھنے بیل کی طرح جھنجھنانے لگتا۔ وہ لوگوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے کترانے لگا تھا۔ گاؤں میں کچھ بیہودہ اور خرافاتی سرشت کے اشخاص بھی تھے، جو جگدیش کو گاہے بگاہے اس کے اکیلے پن اور اس کی شادی نہ ہونے کے سبب پریشان کرتے رہتے تھے۔ اسے چڑاتے تھے اور سرعام اس کا استہزاء اڑاتے تھے۔ اسے کولہو کا بیل کہتے اور کوئی کوئی بدمعاش لڑکا تو اسے ہجڑا تک کہہ دیتا تھا۔ ان سب باتوں سے اس کے دل میں احساسِ کمتری اپنے پیر پسارتی جا رہی تھی اور تنہائی میں وہ دکھ کے اتھاہ ساگر میں ڈوبنے اترانے لگتا تھا۔ وہ اپنی زندگی کی معنویت کے بارے میں تدبر کرتا اور سوچتا کہ اس کے زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا رات دن محنت اور مزدوری ہی کرتا رہے گا، پھر بے اولاد ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ بھیا کا کنبہ تو کتنا سکھی ہے۔ ان کی بیوی ہے اور تین بچے ہیں۔ وہ لوگ گھر میں کتنے مزے اور سکھ سے رہتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو بھیا، بھابھی اور ان کے بچوں کے ساتھ جڑا ہوا نہیں پاتا تھا، کیونکہ ان سب کا رویہ جگدیش کے ساتھ ایک نوکر اور مزدور سے زیادہ نہیں تھا۔ سال میں شاید ایک جوڑی کپڑے اس کے لئے خریدے جاتے ہوں، کھانے کے لئے بھی اسے چوکے پر نہیں بلایا جاتا تھا، بلکہ بھابھی کھانے کی تھالی باہر ہی چوپال میں رکھ جاتی تھی۔ وہ اپنے ہی سگوں کے درمیان پرایا تھا اور ان کے اس طرح کے رویے سے وہ اکثر مضطرب ہو جاتا، لیکن دل ہی دل میں کڑھنے کے سوا اس نے کبھی اپنے غصے کو کسی کے اوپر ظاہر نہیں کیا تھا۔ اور بھیا بھابھی اس کے سیدھے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھر کے سارے کام اس سے کرواتے رہے۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سمجھا کہ ان کی پشتینی زمین جائداد میں جگدیش آدھے کا حقدار ہے اور جب وہ چاہے گا قانوناً آدھی جائیداد بانٹ کر الگ ہو جائے گا۔ گاؤں میں بھلے آدمیوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ ایک دن شام کے وقت جب وہ کھیت سے اداس اور تھکا ہارا اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا تو راستے میں اس کا ہم عمر مہیش مل گیا۔ مہیش بچپن میں اس کے ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھا کرتا تھا۔ جگدیش کی پڑھائی تو ادھوری رہ گئی، تاہم مہیش پڑھ لکھ کر شیئر دفتر میں کلرک ہو گیا تھا۔ لکھنؤ میں اس کی تعیناتی تھی اور لگ بھگ ہر اتوار کو لکھنؤ سے اپنے گھر آ جاتا تھا۔ آج قسمت سے دونوں کی راستے میں ملاقات ہو گئی تھی۔ مہیش بڑی گرم جوشی سے اس سے ملا اور پوچھا، ’’کیوں یار جگدیش، کیسے ہو، کیسی کٹ رہی ہے؟ مزے میں تو ہو؟‘‘

’’کہاں یار۔۔ ۔ تو جیسے سوکھے ساون ویسے بھرے بھادوں۔ تم تو مزے سے لکھنؤ میں نوکری کر رہے ہو۔ میں تو یہیں کینچوے کی طرح مٹی کھودنے میں لگا ہوا ہوں۔‘‘ مہیش اس کی حالت سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ شادی نہ ہو پانے کے سبب وہ اداس اور پریشان رہتا تھا۔ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔

’’یار اب تو شادی کر لو اور اپنا الگ گھر بساؤ۔ بھیا بھابھی کے ساتھ کب تک رہو گے؟ ان کا اپنا کنبہ ہے۔ شادی کر لو گے تو مزے سے اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہو گے۔ کوئی کھٹ پٹ نہیں رہے گی۔‘‘ جگدیش کے دل میں ایک کسک اٹھی اور اس نے پر کٹے پرندے کی جی بے بس نظروں سے مہیش کے چہرے کی طرف دیکھا۔ مہیش کو اس کے چہرے پر چھائی ہوئی مایوسی کی پرچھائیں نے ہلا دیا۔ وہ جگدیش کے دل کا دکھ سمجھ گیا۔ بولا، ’’کیا بھیا بھابھی تمہاری شادی کے لئے کوشش نہیں کرتے؟‘‘

’’پتہ نہیں، لڑکی والے تو دیکھنے آتے ہیں تاہم پتہ نہیں بھیا بھابھی بعد میں چپکے سے ان سے کیا کہتے ہیں کہ وہ صاف انکار کر کے چلے جاتے ہیں۔ آج تک پتہ نہیں کتنے لڑکی والے دیکھنے آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔ کہیں بات پکی نہیں ہوئی۔‘‘

مہیش کچھ سوچتے ہوئے بولا، ’’مجھے تو لگتا ہے تمہاری شادی نہ کرنے کے پیچھے تمہارے بھیا بھابھی کا کوئی بہت بڑا مقصد ہے۔ کسی سبب سے ہی وہ تمہاری شادی نہیں ہونے دے رہے ہیں۔‘‘

جگدیش چونکا اور حیرانی سے بولا، ’’بھلا بھیا بھابھی میری شادی کیوں نہیں ہونے دینا چاہتے؟ میں تو ان کا سگا چھوٹا بھائی ہوں۔ مجھ سے ان کی کیا دشمنی؟‘‘

’’یہی تو سب سے بڑا سبب ہے۔ دیکھو!  میں پکا تو نہیں کہہ سکتا، مگر یہ میرا اندازہ ہے اور یہ لگ بھگ حقیقت ہے۔ تم دونوں سگے بھائی ہو اور لگ بھگ پچیس تیس بیگھا زمین کے کاشتکار۔۔ ۔ زمین کم نہیں ہوتی ہے۔ بیچنے پر کم سے کم تیس پینتیس لاکھ کی جائیداد ہے۔ تم سوچو اگر تمہاری شادی ہو جائے گی تو یقینی طور پر تم اپنے بھیا سے الگ ہو جاؤ گے۔ تب تمہارے آباء و اجداد کی یہی زمین تم دونوں بھائیوں کے بیچ میں آدھی آدھی تقسیم ہو جائے گی۔‘‘

’’لیکن اس سے کیا؟‘‘

’’تم ایک دم بدھو ہو۔ تمہاری اسی بیوقوفی کا فائدہ تمہارے بھیا بھابھی اٹھا رہے ہیں۔ سوچو اگر تمہاری شادی نہیں ہو گی تو تمہارے بچے بھی نہیں ہوں گے۔ تم زندگی بھر اکیلے رہو گے۔ جب تم اکیلے رہو گے تو کس کے ساتھ رہو گے۔۔ ۔؟ اپنے بھیا بھابھی کے ساتھ ہی نہ۔ اکیلے رہنے پر تم کبھی بھی اپنے بھیا سے الگ ہونے کے بارے میں نہیں سوچو گے۔ جب تم اپنے بھیا سے الگ نہیں ہو گے تو تمہاری اور تمہارے بھیا کی زمین کا کبھی بٹوارہ بھی نہیں ہو گا۔ اس طرح اس پوری زمین اور جائیداد کا فائدہ کسے ملے گا؟ تمہارے بھیا اور ان کے کنبے کو۔ تمہارے اکیلے کا کتنا خرچ ہو گا، بس تن کے دو کپڑے اور صبح شام دو روٹی۔ باقی آمدنی تو انہیں کے پاس جاتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے تمہارے بھیا تمہاری جائیداد کے لالچ میں ہی تمہاری شادی نہیں ہونے دے رہے ہیں۔‘‘ مہیش نے صاف صاف کہہ دیا۔ جگدیش کے دل کو ایک گہرا دھچکا سا لگا۔ کیا یہ سچ ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی زمین جائیداد کے لالچ میں اس کے بھیا اور بھابھی اتنے خود غرض ہو گئے ہیں کہ اس کی زندگی برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پھر دھیرے سے بولا، ’’کیا یہ سچ ہو سکتا ہے۔‘‘

’’شاید یہی سچ ہے، جسے کوئی بھی آسانی سے ماننے کو تیار نہیں ہو گا، تاہم غرض اور لالچ میں اندھے ہو کر انسان اپنی زندگی میں ایسے ایسے کام کرتا ہے کہ دوسرے بھونچکے اور حیران رہ جاتے ہیں۔‘‘ جگدیش کو یہ سوچ کر بہت دکھ ہوا کہ وہ زندگی بھر کنوارا رہے گا۔ اس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہو گا، نہ اس کی نسل چلانے والا کوئی بیٹا، وہ بے اولاد کہلائے گا۔ ایک مکمل مرد کے لئے اس سے بڑے دکھ کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جسمانی طور پر توانا اور مالی طور سے مضبوط ہوتے ہوئے بھی اس کی شادی نہ ہو اور وہ زندگی بھر کنوارا رہ کر بھیا بھابھی اور ان کے بچوں کے سہارے زندگی گزار کرے۔ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں رہے گا تو اس کی زندگی کا مفہوم ہی کیا رہ جائے گا؟ اس نے مہیش کو ایک مدعی کی طرح دیکھا اور کہا، ’’مہیش کیا تم اس معاملے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہو؟‘‘

مہیش نے پوچھا، ’’کیسی مدد؟‘‘

جگدیش نے دھیرے دھیرے بتایا، ’’بھائی میں کمزور نہیں ہوں۔ ابھی تک رشتوں نے مجھے کمزور بنا رکھا تھا، لیکن جب اپنے سگے ہی سانپ بن کر مجھے ڈسنے لگیں اور بچھو بن کر میری چارپائی سے چپک کر زندگی بھر مجھے ڈنک مارتے رہیں تو ایسے رشتوں کو توڑ کر الگ رہنے میں ہی بھلائی ہے۔ میں اب اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ سگا بھائی ہو کر میں اب سگے بھائی کی غلامی نہیں کروں گا۔ اب میں اپنی زندگی اپنے طور پر جینا چاہتا ہوں۔ محنت مزدوری سے میں نہیں ڈرتا۔ بچپن سے لے کر ابھی تک میں نے یہی کیا ہے۔ تم میری تھوڑی سی مدد کرو، میرے لئے کوئی لڑکی تلاش کرو۔ میں خود تو یہ کام نہیں کر سکتا۔ کیسی بھی لڑکی ہو، کنواری ہو یا بیوہ، میں کسی بھی لڑکی سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ایک بار رشتہ طے ہو جائے، پھر میں بھیا سے بات کرتا ہوں، اگر وہ آسانی سے مان گئے تو ٹھیک ہے، ورنہ پھر بٹوارہ ہونے کے علاوہ اور کوئی راستہ میرے پاس نہیں رہے گا۔‘‘

’’بہت اچھے میرے بھائی جگدیش، اب مجھے پتہ چلا کہ تم تن سے ہی نہیں من سے بھی ایک سچے مرد ہو۔ آدمی کو کبھی بھی دوسروں کے سائے میں نہیں جینا چاہئے، وہ پست قامت ہو جاتا ہے۔ میں جلد ہی تمہارے لئے کوئی لڑکی تلاش کرتا ہوں، تب تک تم اپنے دل کی بات دل میں ہی رہنے دینا۔‘‘

اس دن پہلی بار جگدیش کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑی۔ کھیتوں میں لہلہاتے پودے اسے خوشی سے جھومتے ہوئے لگے۔ آسمان میں اڑتے ہوئے پنچھی اسے مدھر گیت گاتے ہوئے لگے۔ اس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔۔ ۔، صاف اور شفاف نیلا رنگ اس نے اپنی آنکھوں میں بھر لیا۔ بڑا اچھا لگا۔ ایسا لگا جیسے پیار کے بہت سارے رنگ اس کے دل میں سما گئے ہوں۔ گھر کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے قدموں میں تیزی آ گئی۔

گھر پہنچ کر اس نے پہلی بار خوشی خوشی اپنے سارے کام نپٹائے اور اسے تھکان کا ذرہ برابر بھی اثر محسوس نہیں ہوا۔ پہلی بار اس کی سمجھ میں آیا کہ جب انسان کے دل میں پیار کے رنگ بھرتے ہیں تو ایک خوشنما احساس اس کے دل میں تیرنے لگتا ہے۔ تب دنیا کے سارے دکھ پھولوں کی طرح ہلکے ہو جاتے ہیں۔ اس رات اس کو سکھ کی نیند آئی۔

مہیش نے جگدیش کی بات رکھ لی اور اس کے لئے جلد ہی ایک لڑکی ڈھونڈ نکالی۔ لڑکی اس کے سسرال کی تھی اور بیوہ تھی۔ عمر زیادہ نہیں تھی، بس بائیس تیئس سال سے زیادہ کی نہیں تھی۔ خوش نصیب تھی۔ دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی، باجے گاجے کے ساتھ رخصت ہو کر سسرال بھی گئی تھی۔ سسرال میں خوش تھی، تاہم شادی کے ایک سال بعد ہی اس کے شوہر کی سانپ کاٹنے سے موت ہو گئی تھی۔ جوان بیوہ کا سسرال میں تبھی گزارا ہوتا ہے، اگر اس کی شادی اس کے کسی دیور سے کر دی جائے، لیکن اس کا کوئی دیور نہیں تھا۔ سسرال والے اسے طعنے دینے لگے۔ آخر اس کے باپو اسے رخصت کرا کے واپس گھر لے آئے۔ ایسے جیسے وہ کبھی شادی کر کے رخصت ہی نہیں ہوئی تھی۔ تب سے وہ میکے میں ہی تھی۔ مہیش یوں تو سرکاری ملازم تھا۔ اس کے پاس اتوار چھوڑ کر کوئی چھٹی نہیں تھی، تاہم جگدیش کی دلی کیفیت اور تنہائی دیکھ کر وہ رنجیدہ ہو گیا تھا۔ اس سے ملنے کے بعد جب لکھنؤ آیا تو اپنی بیوی سے بات کی۔ اس کی بیوی نے اپنے میکے کی کئی لڑکیوں کے بارے میں سوچا، پھر اس نے ریوا کے بارے میں بتایا۔ مہیش اگلے اتوار کے دن سسرال جا پہنچا، ساس سسر سے بات کی اور پھر ریوا کے ماں باپ سمیت اس کے دیگر گھر والوں سے مل کر گفتگو کی۔ سبھی رضامند ہو گئے۔ حقیقتاً ریوا جیسی بیوہ کے لئے جگدیش سب سے موزوں دولہا تھا۔ پشتینی زمین جائیداد تھی، کھانے پینے کا آرام تھا۔ ایک لڑکی کے گھر والوں کو اور کیا چاہئے تھا۔ مہیش نے جب گاؤں جا کر جگدیش کو ریوا کے بارے میں بتایا اور اس کا میلے میں کھینچا گیا ایک فوٹو بھی دکھایا تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ شرم اور جھجک سے اس کا سر جھک گیا۔

’’واہ!  کیا بات ہے؟ ایسے شرما رہے ہو، جیسے تمہاری دلہن تمہارے سامنے کھڑی ہو۔ جب شادی کے بعد سہاگ رات میں ملاقات ہو گی، تب کیسے سامنا کرو گے؟‘‘

’’تم بھی نہ یار!  کیسی بات کرتے ہو؟‘‘

’’کیوں، اسی بات کے لئے تو تم نے مجھ سے کہا تھا۔ اب لڑکی ڈھونڈ دی ہے، جا کر اپنے بھیا بھابھی سے بات کرو۔ میں کل شام تک رکوں گا۔ جیسا ہو مجھے بتانا، پھر آگے ریوا کے گھر والوں کو بھی تو خبر کرنی ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، میں آج ہی رات میں بات کروں گا۔‘‘

جگدیش کے بھیا بھابھی سے اپنی شادی کی بات کرنا آسان نہ تھا۔ وہ شریر سے جتنا مضبوط اور طاقتور تھا، دل سے اتنا ہی کمزور۔ عمر میں بھی اس سے کافی بڑے تھے۔ ان کے سامنے کبھی زبان نہیں کھولتا تھا۔ اگر کبھی بولنے کا موقع ملا بھی تو بھابھی اس کی زبان دبا دیتی تھی، تاہم آج تو اسے بات کرنی ہی ہو گی۔ نہیں کرے گا، تو زندگی بھر کنوارہ بیٹھا رہے گا۔ شام سے ہی وہ ہمت باندھ رہا تھا۔ جانوروں کو چارہ سانی کرنے کے بعد وہ دروازے پر بیٹھ گیا۔ بھیا جب باہر سے آئے تو اس نے دبی زبان میں کہا، ’’بھیا مجھے ایک بات کہنی ہے۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ رجنیش ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ ایک پل جگدیش کے بھولے اور گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘ جگدیش کا دل بے تحاشہ دھڑک رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کے دل میں یہ بھیانک سائیں سائیں کیوں ہو رہی تھی۔ پھر بھی اس نے اپنی سانسوں کو قابو میں کرتے ہوئے کہا، ’’بھیا، اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا بھی گھربار ہو۔ آپ۔۔ ۔‘‘

رجنیش نے اس کی بات کاٹ دی، ’’اچھا، تم شادی کرو گے۔ کس لئے۔۔ ۔؟ بچے پیدا کرنے کے لئے۔۔ ۔ سنتی ہو، یہ دیکھو جگدیش کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ رجنیش نے زور سے بیوی کو آواز دی۔ وہ الٹے پیر بھاگتی ہوئی دروازے کے پاس آ کر دیہری سے لگ کر کھڑی ہو گئی اورتجسس سے دونوں بھائیوں کو دیکھنے لگی۔ رجنیش کے چہرے پر ایک طنزیہ اور تضحیک آمیز ہنسی بکھری تھی، وہیں دوسری طرف جگدیش کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں جیسے اس نے کسی کا قتل کر دیا ہو۔

بھابھی کے آنے سے وہ اور زیادہ گھبرا گیا تھا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ رجنیش کی بیوی نے پوچھا۔

’’یہ مٹی کا مادھو شادی کرے گا۔‘‘ رجنیش نے جیسے اپنے چھوٹے بھائی کی ہنسی اڑاتے ہوئے کہا۔

’’آئے ہائے، یہ منہ اورمسور کی دال۔ مینڈکی کو بھی زکام ہونے لگا، شکل صورت دیکھ لے پہلے اپنی آئینے میں، پھر شادی کے بارے میں سوچ۔ کوئی لڑکی والا تیار بھی ہے کہ کسی مٹی کی مورت سے شادی کرے گا۔‘‘

رجنیش زور سے ہنس پڑا۔ ساتھ میں اس کی بیوی بھی مہیش کے سینے میں ایک آگ جل اٹھی۔ ابھی تک تو وہ گھبرایا ہوا تھا، تاہم اپنے ہی سگے بھائی بھابھی کے اس طرح کے متوقع اور کٹھور رویے سے اس کا دل جل اٹھا۔ آدمی کتنا بھی مجبور کیوں نہ ہو، کبھی نہ کبھی حالات اسے لڑنے پر لازمی مجبور کر دیتے ہیں۔ اتنے دنوں کا دبا غصہ دھیرے دھیرے اپنا فن اٹھانے لگا تھا۔ اس کے چہرے کے تیور بدلنے لگے۔ اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور آنکھوں میں آگ بھر کر بولا، ’’بھیا، آپ مجھ سے بڑے ہیں۔ میں آپ کی عزت کرتا ہوں، تاہم میں دیکھ رہا ہوں کہ جب سے میں بڑا ہوا ہوں، آپ لوگوں نے کبھی بھی مجھے چھوٹے بھائی کا پیار نہیں دیا۔ ہمیشہ مجھ سے نوکروں جیسا رویہ اپنایا۔ اپنے ہی گھر میں میں اتنی بے عزتی برداشت کرتا رہا، فقط یہ سوچ کر کہ آپ میرے سگے بڑے بھائی ہیں۔ ایک دن آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گا، تاہم نہیں۔ آپ تو میری شادی تک نہیں ہونے دے رہے، تاکہ میں اپنا حصہ لے کر الگ نہ ہو جاؤں۔ لیکن اب میں کچھ بھی برداشت کرنے والا نہیں ہوں۔ آپ میرا حساب کر دیجیے۔ میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتا، اپنا الگ گھر بساؤں گا۔‘‘

جگدیش پہلی بار اپنے بھائی بھابھی کے سامنے اتنا زیادہ بولا تھا۔ دونوں بھونچکا رہ گئے۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اشاروں کی زبان میں کوئی بات کی۔ پھر اس کی بھابھی اینٹھتی ہوئی بولی، ’’تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ہے۔ جاؤ، شادی کرنا ہو تو کر لو، لیکن تمہارا اس گھر میں کیا ہے؟ سب کچھ ہمارا ہے، اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تم اس گھر میں ایک نوکر کی حیثیت سے کام کرتے ہو اور تمہیں اس کے عوض کھانا خوراک، رات میں سونے کے لئے چھت اور تیج تیوہار میں دو کپڑے مل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمہیں اور کیا چاہئے؟ اب اتنے میں تمہیں خوشی نہیں ہے، تو جاؤ جہاں دل کرے، رہو۔‘‘

اور وہ اینٹھتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی۔ رجنیش نے آگے مزید واضح کرتے ہوئے کہا، ’’عقل کے کولہو، تیری سمجھ میں کچھ آیا یا نہیں۔ اس گھر میں تیرا کوئی حصہ نہیں ہے۔ آج سے تیرا کھانا بھی بند۔۔ ۔ ہو تو اندر باہر کے کام کرو، ورنہ باہر کا راستہ تم جانتے ہی ہو۔‘‘

’’تو تم میرا حصہ ہڑپ کر جانا چاہتے ہو؟‘‘ جگدیش نے دبی ہوئی چیختی سی آواز میں فقط اتنا ہی کہا۔ اتنی بڑی بات سن کر تو اس کے ہوش ہی ٹھکانے نہ رہے تھے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت غائب ہو گئی تھی۔

’’جو چاہے سمجھ لو، تاہم اس گھر میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘

زور سے کہتا ہوا وہ گھر کے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ بند لیا۔ جگدیش کے لئے جیسے ساری دنیا کے دروازے بند ہو گئے تھے۔ راستوں کے آگے دیواریں کھڑی ہو گئی تھیں۔ سورج دن میں ہی غروب ہو گیا تھا اور رات کے چاند کو راہو نے نگل لیا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور بڑی مشکل سے وہ اپنے آپ کو بیہوش ہونے سے بچا پایا۔ آنکھوں میں اندھیرا بھرا تھا اور پاؤں میں سیکڑوں دل کے بھاری پتھر بندھے تھے، زمین میں چاروں طرف کانٹے بکھرے ہوئے تھے اور آسمان اندھیرے میں بھی آگ اگل رہا تھا۔ ایسی حالت میں ایک بیچارہ، بے سہارا اور مجبور جگدیش کرے تو کیا کرے، کہاں جائے؟ کس سے فریاد کرے؟ کوئی بھی تو اسے اپنا نظر نہیں آ رہا تھا۔ جو اس کے اپنے سگے تھے، انہوں نے ہی اس کی پیٹھ پر گھر کے دروازے بند کر دیئے تھے۔ کسی طرح اس نے اپنے آپ کو مجتمع کیا، کچھ سوچا سمجھا اور پھر بھاری قدموں سے مہیش کے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ مہیش اس وقت کھا پی کر آرام کر رہا تھا، تاہم جگا ہوا تھا۔ پاس میں ہی اس کے پتا دوسری چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جگدیش، مہیش کی چارپائی کے پاس جا کر کھڑا ہوا تو مہیش کو احساس ہوا کہ وہاں پر کوئی کھڑا ہوا تھا۔ وہ گھبرا کر چارپائی پر بیٹھ گیا اور پوچھا، ’’کون۔۔ ۔؟‘‘

جگدیش بغیر کچھ کہے چارپائی پر دھم سے بیٹھ گیا۔ مہیش نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھا، ’’کیا ہوا جگدیش؟‘‘ اسے کچھ ان ہونی کی امید ہو رہی تھی۔ اس کے دل میں بھی گھبراہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ جگدیش کافی دیر تک کچھ نہیں بولا۔ بس دھیرے دھیرے سسکنے لگا۔ مہیش نے اسے پانی پلایا اور ڈھارس دی۔ اسے کچھ دیر تک ویسے ہی رہنے دیا۔ جب وہ کچھ معمول پر آیا تو پھر اس نے پوچھا، ’’اب بتاؤ، کیا ہوا ہے؟ یوں تو میں کچھ کچھ سمجھ سکتا ہوں، تاہم تم اپنے منہ سے بتاؤ گے تو ساری باتیں صاف ہو جائیں گی۔‘‘ جگدیش نے آپ بیتی کہہ سنائی۔ سن کر مہیش نے ایک سرد آہ بھری، ’’مجھے اس کی امید تھی۔ تمہارے بھیا بہت عیار اور چالاک ہیں۔ اس پر تمہاری بھابھی تو اور بھی زہریلی بیل ہے۔ مجھے لگتا ہے، کسی طرح انہوں نے ساری زمین جائیداد اپنے نام کر لی ہے۔ اسی لئے کھل کر تم سے کہہ دیا ہے کہ اس گھر میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وقت کم ہے۔ مجھے بھی کل شام لکھنؤ جانا ہے۔ تم ایک کام کرو۔ اچھا، میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ چلو اٹھو، اب دیر کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘

جگدیش کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، تاہم وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ مہیش نے فوراً پاجامے کے اوپر کرتا پہن لیا اور دونوں اندھیرے میں ہی گاؤں کے اندر کی طرف چل پڑے۔ خوش قسمتی سے سبھی لوگ جاگتے ہوئے مل گئے۔ سب سے پہلے گرام پردھان کو بتایا گیا اور پھر گاؤں کے سبھی اہم شخصیات اور بزرگوں کو اس بات سے آشنا کرایا گیا کہ کل صبح جگدیش کے گھر کے سامنے پنچایت ہے۔ دونوں بھائیوں کے درمیان جائیداد کو لے کر کچھ اختلاف ہے، اسی کے بارے میں پنچایت کرنی ہے۔

دوسرے دن پنچایت بیٹھی۔ سارے پنچ بیٹھ گئے تھے۔ گاؤں کے لوگ بھی پنچایت کا فیصلہ سننے کے لئے وہاں اکٹھا ہو گئے تھے۔ جگدیش، مہیش کے پاس بیٹھا تھا۔ رجنیش بلانے پر بھی کافی دیر سے آیا تھا۔ اس بات پر پنچ کافی خفا تھے، تاہم انہوں نے کہا کچھ نہیں۔ سبھی جانتے تھے کہ مفت کا مال ملنے پر آدمی گھمنڈی ہو جاتا ہے۔ پنچایت کی کار روائی شروع ہوئی۔ گاؤں اور پنچ کے پردھان رام دھاری سنگھ نے کہا، ’’یہ پنچایت رجنیش کے چھوٹے بھائی جگدیش نے بلائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے اور اس کے بڑے بھائی کے درمیان زمین جائیداد کو لے کر کچھ اختلاف ہے۔ اب وہ اپنے منہ سے کہے گا کہ اصل بات کیا ہے؟‘‘

مہیش نے جگدیش کو حوصلہ دلایا اور وہ اٹھ کر سارے پنچوں کی طرف ہاتھ جوڑ کر بولا، ’’پنچوں، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میں اب ستائیس اٹھائیس برس کا ہو گیا ہوں، دن رات کھیتوں میں کام کرتا ہوں۔ بھیا کبھی بھول کر بھی کھیتوں کی طرف نہیں جاتے، تاہم ساری پیداوار خود بیچ ڈالتے ہیں۔ اس کا پیسہ وہ کیا کرتے ہیں، مجھے نہیں معلوم۔ ابھی تک میری شادی نہیں کی۔ میں دنوں دن بوڑھا ہو رہا ہوں۔ آپ ہی بتائیے، کیا میرا گھربار نہیں ہونا چاہئے؟ کل شام میں نے بھیا سے شادی کی بات کی، تو انہوں نے بھابھی کے ساتھ مل کر میری کھلی اڑائی اور جب میں نے کہا کہ میرا حصہ دے کر مجھے الگ کر دیں، جس سے میں اپنا گھر بسا سکوں تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ پشتینی گھر اور جائیداد میں میرا کوئی حصہ ہے۔‘‘

پنچوں کے لئے ہی نہیں، گاؤں والوں کے لئے بھی یہ نئی بات تھی۔ سب حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ پنچوں نے کچھ پل سوچا، پھر ایک دوسرے سے صلاح کرتے ہوئے رام دھاری سنگھ نے رجنیش نے کہا، ’’تم بتاؤ، رجو، ایسا تم نے کیوں کہا؟ باپ کی جائیداد میں تو بیٹوں کو برابر کا حق ہوتا ہے۔‘‘

رجنیش جیسے پوری تیاری کر کے آیا تھا۔ اس کے دل میں کوئی ہچکچاہٹ اور دو رائے نہیں تھی۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور چاروں طرف غرور بھری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا، ’’پنچوں، آپ کا کہنا سچ ہے کہ باپ کی جائیداد میں بیٹوں کا برابر کا حق ہوتا ہے، تاہم ہمارے باپو کے نام پر کوئی زمین نہیں ہے۔ جو بھی زمین جائیداد ہے، وہ میرے نام ہے۔ جب ہمارے پتا کے نام کوئی جائیداد ہی نہیں تو اس میں جگدیش کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’کیا کہتے ہو تم؟‘‘ سبھی لوگ حیران تھے۔

’’ہاں، مرنے سے پہلے ہی باپو نے ساری زمین جائیداد اور گھر میرے نام کر دیا تھا۔ اس میں جگدیش کا ایک پیسے کا بھی حصہ نہیں ہے۔ وہ تو بھائی کے ناطے میں اپنے پاس رکھے ہوئے تھے، ورنہ کبھی کا اسے گھر سے نکال دیتا۔‘‘ اس کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ اس نے غرور اور کسی فاتح کے انداز سے سارے گاؤں والوں کی طرف پھر ایک نگاہ پھیری جیسے للکار رہا ہو کہ ہے کوئی مائی کا لال جو میری بات کا جواب دے۔ سبھی حیران تھے۔ رجنیش کا باپ اتنا جابر نہیں ہو سکتا تھا کہ چھوٹے بیٹے کا حصہ بھی بڑے بھائی کے نام کر جائے۔ چھوٹا لڑکا تو بہت پیارا تھا اسے۔ پھر اس نے اپنے جیتے جی ایسا کیوں کیا؟ چھوٹے بھائی کے پیٹ میں لات مار کر بڑے بھائی کے نام سب کچھ کر دیا۔ اسے زندگی بھر کے لئے بھکاری بنا دیا۔ کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی۔

پھر پنچوں نے پوچھا۔ ’’گووردھن تو اپنے دونوں بیٹوں کو بہت چاہتا تھا، پھر ایسا کیسے کر گیا وہ؟ کیا تمہارے پاس کوئی کاغذات ہیں، جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ اپنی ساری جائیداد تمہارے نام کر گیا تھا؟‘‘ پنچوں نے رجنیش سے پوچھا۔ جگدیش سے اب کچھ پوچھنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ وہ تو لٹا ہوا مسافر تھا۔

’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں؟‘‘ اس نے مستعدی سے جیب میں رکھے کچھ کاغذ نکالے اور پنچوں کے سامنے پھیلا کر رکھ دیئے، ’’دیکھئے، زمین میرے نام ہے کہ نہیں۔‘‘ پنچوں نے غور سے سارے کاغذات کا معائنہ کیا۔ پھر پردھان جی بولے، ’’لیکن یہ تو خسرا کھتونی ہیں۔ اس کے مطابق تو زمین تمہارے نام ہے، تاہم اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ تمہارے پتاجی یہ ساری زمین تمہارے نام لکھا گئے تھے۔‘‘

’’انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی تھی، تاہم مرتے وقت مجھ سے کہہ گئے تھے کہ میں ساری زمین اپنے نام کروا لوں، کیونکہ جگدیش تب نابالغ تھا۔ وہ میرے ساتھ رہ کر اپنی زندگی گزار لے گا۔‘‘ رجنیش بنا کسی ہچکچاہٹ اور شرم کے اتنا بڑا جھوٹ بول رہا تھا۔ سبھی کی آنکھیں اس کی بے غیرتی اور جھوٹ پر پھٹی جا رہی تھیں۔ پنچ بھی اس کی چالاکی سمجھ رہے تھے، تاہم کیا کر سکتے تھے۔ بولے، ’’ہمیں تو نہیں لگتا کہ تم نے اپنے باپو کے کہنے پر ساری پشتینی زمین اپنے نام کروا لی ہے۔ تم نے جگدیش کے بھولے پن کا فائدہ اٹھایا اور پٹواری سے مل کر ساری زمین اپنے نام کروا لی۔ اس طرح چھوٹے بھائی کا حق مار کر تم نے اچھا نہیں کیا، رجنیش!  ’’

’’میں نے کسی کا حق نہیں مارا۔‘‘ رجنیش اسی بے شرمی سے بولا، ’’آج کے بعد جگدیش کا میرے گھر سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بھری پنچایت میں اس نے میری پگڑی اچھالی ہے۔ میں اب اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا۔ وہ چاہے جہاں چلا جائے، میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔‘‘ اس نے کاغذات اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لئے۔ اتنا سب سننے کے بعد جگدیش کے تمام حوصلے پست ہو گئے تھے۔ تن بدن کی جان نکل گئی تھی اور اس کی زبان پر تالے پڑ گئے تھے۔

پنچوں نے کہا، ’’رجنیش ہم سب سمجھ رہے ہیں۔ تم نے اپنے بھائی سے بے ایمانی کی ہے اور مکاری کر کے اس کے حصے کو مارا ہے۔ کاغذ دیکھنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اپنے باپ کے مرنے کے فوراً بعد تم نے زمین اپنے نام نہیں کروائی ہے۔ تمہارے باپ کو مرے لگ بھگ چودہ پندرہ سال ہو چکے ہیں، جبکہ زمین تم نے اپنے نام فقط پانچ سال پہلے کروائی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باپ منہ زبانی بھی تمہارے نام کوئی وصیت نہیں کر گیا تھا۔ تمہارے دل میں بے ایمانی اور مکاری تب آئی ہو گی، جب جگدیش جوان ہو گیا اور اس کے لئے شادی کے رشتے آنے لگے۔ تب تمہیں لگا ہو گا کہ اس کی شادی ہو جائے گی تو یہ زمین میں اپنا حصہ لے کر الگ ہو جائے گا۔ تبھی تم اس کی شادی میں اڑنگے لگاتے رہے اور اس کی شادی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ اسی دوران تم نے پٹواری سے ساز باز کر کے ساری زمین اپنے نام کروا لی۔‘‘

لوگ جانتے تھے، یہی سچ تھا۔ تاہم رجنیش اسے ماننے کو تیار نہیں تھا۔ پنچوں نے سمجھایا کہ اگر وہ ابھی بھی جگدیش کا حصہ اسے دے دے تو کچھ نہیں بگڑا، ورنہ کچہری کے دروازے اس کے لئے کھلے ہیں۔ انہوں نے جگدیش کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ جگدیش نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’پنچوں، میں کچھ نہیں چاہتا۔ بھیا کی نیت جیسی ہے، ویسی انہیں برکت ملے گی۔ اب جب سب کچھ صاف ہو چکا ہے۔ بھیا نے پتا کی ساری جائیداد اپنے نام کروا لی ہے۔ کسی بھی طرح سے مجھے اس میں کوئی حصہ نہیں دینا چاہتے ہیں، تو میں بھی کسی کورٹ کچہری کے چکر میں نہیں پڑوں گا، میرے پاس میری اپنی تقدیر ہے، محنت اور مزدوری ہے۔ کام کروں گا تو بھوکا نہیں مروں گا۔ بھیا اور ان کا کنبہ سکھی رہے، یہی میری تمنا ہے۔‘‘

’’کیا کہہ رہے ہو جگدیش، تم اس طرح خود کو اکیلا مت سمجھو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اتنی بڑی بے ایمانی کو ہم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ اتنی آسانی سے تمہارے بھیا تمہارا حق نہیں مار سکتے۔‘‘ مہیش نے زور دے کر کہا۔

’’نہیں مہیش، میں جانتا ہوں، تم میرے لئے کچھ بھی کر سکتے ہو، تاہم میرا دل ہی نہیں مانتا کہ میں اپنے بھائی کے خلاف مقدمہ لڑوں۔ وہ اگر بے ایمانی کر کے خوش ہیں، تو میں مقدمہ لڑ کر کبھی سکھی نہیں رہ سکتا۔‘‘

’’دیکھ لیا رجنیش تم نے اپنے بھائی کو، ایک تم ہو کہ بڑے ہو کر چھوٹے کا حق مارتے ہوئے بھی، تمہیں ایک پل کے لئے بھی ہچکچاہٹ اور شرم نہیں آئی۔ اور ایک وہ ہے، جو اب بھی تمہارا برا نہیں چاہتا۔ سوچ لو، برائی کا انجام بھلائی میں کبھی نہیں ہوتا۔ آج نہیں تو کل تمہیں اس بے ایمانی کا بھگتان بھگتنا پڑے گا۔‘‘ پنچ پرمیشور نے آخر میں کہا۔ تاہم رجنیش کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ حقارت سے سب کو دیکھتا ہوا اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ پنچایت کے پاس بھی اب کرنے کے لئے کچھ نہیں بچا تھا۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے اپنے گھر جانے کے لئے تیار ہوئے۔ کچھ نے رجنیش کو بھلا برا کہا، کچھ نے جگدیش کو بد دعا دی۔ پنچایت ختم ہو گئی۔

دن چڑھ آیا تھا۔ سورج کی تیز روشنی سے سب کچھ جگمگا رہا تھا۔ قدرت کی ہر شے پر زندگی کے رنگ اپنی چھینٹے بکھیر رہے تھے، تاہم جگدیش کی زندگی کے سارے رنگ دھندلے ہو چکے تھے۔ سارے رشتے بے معنی ہو گئے تھے۔ اس کے دل پر برف جمع ہو گئی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ پنچایت کے مقام پر فقط وہ بچا تھا اور اس کی بغل میں مہیش کھڑا تھا، جو خود کچھ کہہ پانے کی حالت میں نہیں تھا۔ وہ جگدیش کے دل کے اندر مچلتے ہوئے طوفان کو محسوس کر سکتا تھا، تاہم اس سے اس کو بچا نہیں سکتا تھا۔ جگدیش اٹھا اور دھیرے دھیرے قدموں سے گاؤں کے باہر کی طرف چلا تو مہیش بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ ایسی حالت میں وہ جگدیش کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد جگدیش نے کہا، ’’مہیش بھائی، مجھے بہت دکھ ہے کہ میں اپنی بات نہیں رکھ سکا۔ میرے کہنے پر تم نے میرے لئے ایک لڑکی ڈھونڈی اور میں اپنا کہا پورا نہ کر سکا۔‘‘

’’ایسا کیوں کہتے ہو، جگدیش!  زندگی میں دھن دولت چلے جانے سے انسان ختم نہیں ہو جاتا۔ تم گاؤں سے باہر جا کر دیکھو، دنیا میں ایک سے ایک غریب آدمی ہیں۔ ان کی زندگی میں دکھ ہی دکھ ہیں، لیکن ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

’’ہو، سکتا ہے، ایسا ہو، تاہم اب میں شادی نہیں کر سکتا۔ جب میرا ہی کوئی سہارا نہ ہو تو ایک لڑکی کو زندگی میں کیا خوشی دوں گا۔ تم لڑکی والوں کو انکار کر دو۔ اب میں اکیلے اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’اتنی جلدی ہمت مت ہارو، جگدیش۔ تم ابھی ریوا سے ملے نہیں ہو۔ وہ بہت ہی اچھی اور نیک لڑکی ہے۔ وہ شوہر کے دکھ اور سکھ کے ساتھ جینا جانتی ہے۔ اکیلے تم زندگی سے ہار جاؤ گے۔ ریوا کا ساتھ رہے گا تو تمہاری زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھر جائیں گے۔ تم تندرست ہو، محنتی ہو۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ریوا کا ساتھ پا کر اس کی امنگوں سے تم اپنی زندگی کو حسین بنا سکتے ہو۔ محنتی آدمی نہ تو کبھی بھوکا سوتا ہے، نہ بھوکا مرتا ہے۔‘‘

’’میں محنت تو کر سکتا ہوں، دو وقت کی روٹی بھی جٹا سکتا ہوں، تاہم ایک بیوی کی کھانے کے علاوہ اپنی کچھ تمنائیں اور آرزوئیں ہوتی ہوں گی۔ میرے ساتھ روکھے سوکھے زندگی سے اسے کیا حاصل ہو گا۔ میں بہت ساری خوشیاں اسے کہاں سے لا کر دوں گا۔‘‘

’’بیوقوف، زندگی میں بہت ساری چیزوں سے ہی خوشیاں نہیں آتی ہیں۔ پیار اور محبت سے بھی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں۔ بس زندگی میں کھانے کی قلت نہ رہے۔‘‘

’’کیا اتنے میں ریوا میرے ساتھ خوش رہ سکتی ہے؟‘‘ جگدیش کے دل میں امید اور جذبے کی آمد ہوئی۔

’’ہاں، میں نے اس سے مل کر اس سے ساری باتیں جان لی ہیں۔ اب تم میرا کہا مان جاؤ اور چلو، آج میرے گھر پر رکو۔ کل میں تمہیں ساتھ لے کر اپنی سسرال چلوں گا۔ وہاں ساری باتیں تے کرنے کے بعد تمہارے لئے ایک چھوٹے سے مکان کا بھی انتظام کرنا ہے۔ چلو اب ہنس دو۔‘‘ مہیش نے مسکراتے ہوئے اسے میٹھی نظروں سے دیکھا۔ جگدیش کا دل بھر آیا۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے مہیش کو دیکھا اور اس کے سینے سے لگ کر رو پڑا، ’’میں نے اپنا ایک بھائی کھویا ہے، تاہم تمہارے روپ میں ایک دوسرا بھائی پا لیا ہے۔ تمھیں میرے اصلی بھائی ہو، سگے بھائی سے بھی بڑھ کر۔‘‘ وہ جذباتی ہو گیا تھا۔ مہیش نے کچھ نہیں کہا، بس اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر حوصلہ دیا کہ زندگی میں وہ اکیلا نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

چوڑیاں

 

 

وہ کئی دنوں سے میکے جانے کی ضد کر رہی تھی اور وہ انکار کرتا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کی ضد زور پکڑتی جا رہی تھی، تو دوسری طرف اس کا انکار کمزور پڑتا جا رہا تھا۔

’’بس کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے۔‘‘ رادھے نے کمو کو منانے کی ایک حتمی کوشش کی تھی۔ اس کا نرم گدگدا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے کہا تھا، ’’کارتک کا میلہ آنے والا ہے۔ ہم دونوں میلہ دیکھنے چلیں گے، تب میں خود تمہیں تمہاری ماں کے گھر چھوڑ کر آؤں گا۔‘‘

’’نہیں، ’’کمو نے جھٹکے سے اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا تھا، ’’تم ہمیشہ یہی کہتے ہو، جب بھی میں ماں کے گھر جانے کی بات کرتی ہوں۔‘‘

رادھے نے اپنی خوبصورت بیوی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی بات کا کوئی جواب ہو بھی نہیں سکتا تھا، کیونکہ وہ ہر دوسرے تیسرے دن میکے جانے کی ضد لے کر بیٹھ جاتی تھی۔ جب سے وہ بیاہ کر رادھے کے گھر آئی تھی، اسی ایک بات کو لے کر اس نے سب کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ وہ ضد ٹھان کر بیٹھ جاتی تھی اور رادھے زیادہ منع نہیں کر پاتا تھا۔ شروع شروع میں اسے لگتا تھا کہ نئی نئی بیاہ کر پرائے گھر میں آئی لڑکی کا دل سسرال میں نہیں لگتا ہے۔ انجانے گھر میں اسے بوریت ہوتی ہے، اس لئے وہ ہر گھڑی میکے کی یاد میں کھوئی رہتی ہے۔ ماں باپ اور بھائی بہن کی یاد میں دکھی رہتی ہے، گاؤں، گلی اور سہیلیوں کے ساتھ گزارے گئے میٹھے لمحات کی یاد میں وہ جنگل میں اکیلی ہرنی کی طرح بے قرار ہو اٹھتی ہے، اس لئے ہر دم میکے جانے کی ضد کرتی ہے۔ رادھے نے سوچا تھا کہ اپنی محبت کے پھولوں سے وہ کمو کو اس قدر شرابور کر دے گا کہ اس کی مہک سے وہ کھلکھلا اٹھے گی۔ کانوں میں اس کے پیار کے میٹھے بول گونجیں گے، نتھنوں میں جنگلی پھولوں کی نشیلی مہک بھر جائے گی اور آنکھوں میں جوانی کے ست رنگی سپنے تیرنے لگیں گے تو کمو دھیرے دھیرے میکے کے بارے میں بھول جائے گی اور اس کی وہاں جانے کی ضد میں کمی آتی جائے گی۔ اور پھر ایک دن وہ بھول کر بھی کبھی میکے جانے کی بات نہیں کرے گی۔ تاہم ایسا نہیں ہوا تھا۔

اس کی شادی کو لگ بھگ ایک سال ہونے کو آیا تھا، تاہم ابھی تک میاں بیوی کے دل نہیں مل پائے تھے۔ رادھے نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی، تاہم کمو، منہ زور ہوا کے جھونکے کی طرح جنگلی پھولوں کی خوشبو اپنے بدن میں لپیٹے ادھر ادھر منڈلا رہی تھی۔ اس کی جوانی سمندر کی لہروں کی طرح تھی۔ بدن میں ایسا کساؤ تھا کہ کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا۔ خوشبو کو آج تک کوئی قابو میں کر پایا ہے؟ رادھے کو اپنی کمزوری پتہ تھی۔ وہ ناٹے قد کا، گہرے سانولے رنگ کا لڑکا تھا، جبکہ کمو بالکل اس کے متضاد تھی۔ دمکتا روپ، حسن کی ملکہ، صبح کی سفید برف کی طرح چمکتی ہوئی، لوگوں کی آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والی۔۔ ۔ گاؤں میں اس کی جیسی حسین لڑکی کوئی اور نہیں تھی۔ رادھے ایماندار، محنتی اور بیوی کو بھرپور پیار دینے والا شوہر تھا، تو کمو چنچل، لا پرواہ اور رادھے کے پیار کو چٹکیوں میں اڑا دینے والی لڑکی تھی۔ رادھے کے پیار کا جیسے اس کے لئے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ اس کی طرف سے لاتعلق رہتی تھی اور اس کے دل میں اپنے شوہر کے لئے ہمیشہ برابری کا خیال رہتا تھا۔ اس کا دل نہ تو سسرال میں لگتا تھا، نہ رادھے کی پیار بھری باتوں میں۔ سسرال کی کوئی بات اسے نہیں بھاتی تھی۔ رادھے اس کے ارد گرد منڈلاتا رہتا تھا اور دنیا کی ہر خوشی اس کے لئے بٹور لانے کے لئے تیار دکھتا تھا، اس سے کمو اور زیادہ چڑتی تھی اور اسے بات بات پر جھڑکتی رہتی تھی۔ رادھے بیچارہ دل مسوس کر رہ جاتا تھا۔ وہ اب کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا کہ کمو ایک ایسی ہوا ہے، جس میں خوشبو تو ہے، تاہم وہ کہیں ٹھہرتی نہیں ہے۔ وہ جنگلی پھولوں کی خوشبو تھی، جو ہر طرف پھیل جاتی تھی اور کسی ایک بھنورے کی نہیں ہوتی تھی۔ کمو کا تن تو اس نے جیت لیا۔ شوہر ہونے کے ناطے اس نے یہ حق حاصل کر لیا تھا، تاہم دل جیتنے کی اس کی ساری تدبیریں ضائع ہوتی جا رہی تھیں۔ اسے لگ رہا تھا کہ کمو کا دل کسی اور کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ وہ ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا تھا، تاہم اس کا شک اس شخص کے اوپر جاتا تھا، جو شادی کے بعد سے ہی اس کے گھر آنے جانے لگا تھا۔ کمو اسے اپنا بھائی کہتی تھی، تاہم ان دونوں کے انداز سے کہیں نہیں لگتا تھا کہ ان کے بیچ بھائی بہن کا پاک رشتہ ہو سکتا تھا۔ رادھے اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ ’’وہ‘‘ اس کا بھائی نہیں تھا۔ نہ تو وہ اس کے میکے کے گھر کا تھا، نہ میکے کا پڑوسی ہی۔ وہ کمو کے گاؤں کا رہنے والا ضرور تھا اور شاید جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے گاؤں کی کھلی فضاؤں میں دونوں کی آنکھیں اور دل ایک دوسرے سے ٹکرائیں ہوں اور وہ جنگلی خوشبو کو اپنے دل میں سمیٹ کر باندھنے میں کامیاب ہو گیا ہو۔ وہ جب بھی آتا تھا، کمو ایسے کھل اٹھتی تھی، جیسے صبح صبح کنول کے پھول کھل کر سورج کو دیکھتے ہوئے مسکرانے لگتے ہے، کلیاں کھل کر بھنوروں کو دعوت دینے لگتی ہیں۔ کمو کا جہاں تب ’’اسی‘‘ کے آس پاس سمٹ جاتا تھا۔ شوہر اور ساس کی دنیا اس کے لئے پوشیدہ ہو جاتی تھی۔ رادھے اور اس کی ماں اپنے ہی گھر میں پرائے جیسے ہو جاتے تھے۔ اور اکثر وہ ‘اس کے ’ ساتھ اپنے میکے چلی جاتی تھی، بغیر شوہر اور ساس کی اجازت کے۔ وہ تو ان سے پوچھتی بھی نہیں تھی۔ کپڑے لتے سمیٹے اور چل دی۔ تب رادھے اور اس کی ماں کو پتہ چلتا تھا کہ کمو اپنے میکے جا رہی تھی۔ رادھے نامرد نہیں تھا۔ اس کے دل میں غصہ اٹھتا تھا، تاہم وہ اسے دبا لے جاتا تھا۔ کمو اس کی بیوی تھی اور وہ اسے شوہر کے حق سے نہیں، شوہر کے پیار سے جیتنا چاہتا تھا۔ وہ پرکھنا چاہتا تھا کہ پیار مہان ہوتا ہے۔

جسمانی بد صورتی کے سبب رادھے سست اور نڈھال رہتا تھا اور اپنی بیوی پر کبھی اپنے حقوق کا پوری طرح استعمال نہیں کر پایا۔ وہ جب چاہتی، میکے چلی جاتی تھی اور اپنی مرضی سے ہی، جب تک رادھے کئی بار جا جا کر اسے مناتا نہیں تھا، وہ لوٹ کر سسرال نہیں آتی تھی۔ اس کے باوجود رادھے مارنا پیٹنا، ڈانٹنا ڈپٹنا تو دور اس سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کر پاتا تھا۔ اور شوہر کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کمو اپنی من مانی کرتی رہتی تھی۔ اس نے آج تک بیوی کے کے بتائے اس کے نام نہاد بھائی، جس کا نام اس نے خود تو نہیں پوچھا تھا، تاہم بیوی نے ایک بار باتوں باتوں میں بتا دیا تھا کہ وہ جیون لال تھا، کو ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ جیون لال صحیح معنوں میں کمو کا جیون تھا اور وہ اپنی جان سے پیاری بیوی کے جیون کو غلط الفاظ کیسے کہہ سکتا تھا، کیسے اسے اپنے گھر میں آنے سے منع کر سکتا تھا۔ اس سال رادھے نے کھیتوں میں کڑی محنت سے کام کر کے لگ بھگ ایک ہزار روپے بچائے تھے۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ اس بار میلے میں بیوی کو گھمانے لے جائے گا، تو اس کے لئے ایک نئی ہرے رنگ کی ساڑی خریدے گا، اسی رنگ کی چوڑیاں اور پیروں کیلئے گلٹ کے پازیب بھی۔ خواہش تو تھی کہ چاندی کے پازیب خریدتا، تاہم ایسی اس کی مالی حالت نہیں تھی کہ چاندی کے گہنے خرید سکتا۔ دہاڑی مزدوری سے تین لوگوں کا پیٹ بھرنا پڑتا تھا۔ کتنا بھی ہاتھ کھینچ کر خرچ کرو، کچھ بچتا ہی نہیں تھا۔ رادھے کے ارمانوں کو چکنا چور کر کے کمو اپنے میکے چلی گئی تھی۔

کارتک کا میلہ شروع ہو گیا تھا۔ آج میلے کا پہلا دن تھا اور کمو اپنے میکے میں تھی۔ رادھے کے ارمان اس کے سینے میں آگ کے شعلوں کی طرح دہک رہے تھے۔ جب سے کمو میکے گئی تھی تب سے نہ تو اس کی کوئی خبر آئی تھی، نہ رادھے نے ہی اس کی کوئی خیر خبر لی تھی۔ اس بار وہ کچھ زیادہ ہی ناراض تھا کمو پر۔۔ ۔ جب بھی کمو کی دل مانی کے بارے میں سوچتا، اس کا دل جلنے لگتا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا کہ اب کمو کو لانے کبھی نہیں جائے گا۔ اپنی مرضی سے آئے گی تو رکھ لے گا، کچھ نہیں کہے گا۔ پچھلی ساری باتیں بھول جائے گا، تاہم اپنی طرف سے اسے منا کر رخصت کرانے کبھی نہیں جائے گا۔ آخر وہ مرد تھا، اس کا بیاہتا شوہر کوئی چوری سے اسے بھگا کر نہیں لایا تھا۔ پھر کیوں بار بار اپنے خود داری کو کھو کر اس کے پیر پڑتا ہے، سسرال جا کر بیوی ہی نہیں اس کے ماں باپ کے سامنے بھی ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتا ہے، جیسے وہ بیوی کو رخصت کرانے نہیں، ناجائز بھیک مانگنے آیا ہے۔ کمو نے اپنے گھر میں کبھی اس کی عزت کی حفاطت نہیں کی، ہمیشہ اس کی بے عزتی کروا کر اسے سر جھکا کر چلنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ وہ اس کی بیوی ہے، تو کیا اس کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اپنا بیوی کا دھرم نبھائے اور اکیلے میں نہ سہی، مگر سب کے سامنے تو اس کا مان رکھ لے۔ لوگ میلے میں جانے لگے تھے۔ لگ بھگ آدھا گاؤں سونا ہو گیا تھا۔ عورت مرد، بوڑھے بچے سبھی نہا دھو کر، نئے نئے رنگ برنگے کپڑے پہن کر چہکتے ہوئے میلہ دیکھنے جا رہے تھے۔ ایک اکیلا رادھے تھا، جس کے دل میں کوئی چاہت اور جذبہ نہیں تھا۔ وہ بجھا بجھا سا بیٹھا تھا، جیسے برسات کے دنوں میں بیڑی بار بار جلانے کے بعد بھی ڈھنگ سے نہیں جلتی ہے، اسی طرح اس کے دل میں امید اور جوش جیسا کوئی جذبہ نہیں تھا۔ گھر کے ایک کونے میں بیٹھا وہ گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہا تھا اور کڑوے دھوئیں کی طرح اس کے خیال بھی اس کے دل کو کسیلا بنائے جا رہے تھے۔

ماں پڑوس کا ایک چکر لگا کر آئی اور رادھے کو بجھے چولہے کی طرح بیٹھا دیکھ کر گرجی، ’’ارے، تو بیٹھا کون سی رامائن پڑھ رہا ہے۔ سارا گاؤں چلا گیا، تو کیا رات میں میلہ دیکھنے جائے گا؟‘‘

’’دل نہیں کر رہا!  ’’اس نے دھیمی آواز میں اپنے دل کی بات بتائی۔ ماں سمجھتی تھی کہ وہ بیوی کے اپنی مرضی سے میکے چلے جانے پر دکھی تھا، تاہم وہ بھی کیا کر سکتی تھی؟

’’دل کیوں نہیں کر رہا؟‘‘ اس نے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’ادھر سے بہو کو بھی لے لاتا۔ کیا پتہ میلے میں ہی مل جائے۔ چل اٹھ اور تیار ہو جا۔ میں کھچڑی بنا دیتی ہوں، جلدی پک جائے گی۔‘‘ دل تو نہیں کر رہا تھا، لیکن نہیں جاتا تو بہانہ کیا بناتا؟ دل مار کر اٹھنا ہی پڑا۔ جب تک وہ نہا دھو کر تیار ہوتا، ماں نے کھچڑی بنا دی تھی۔ گرم گرم کھائی اور ’’جاتا ہوں‘‘ کہہ کر نکل گیا۔ راستے میں اکا دکا لوگ اسے ملے جو سائیکلوں میں سوار ہو کر جا رہے تھے۔ سائیکل والے تاخیر سے جانے کا جوکھم اٹھا سکتے تھے، تاہم پیدل چلنے والے تو کبھی کے نکل گئے تھے اور اب تو میلے میں پہنچ بھی گئے ہوں گے۔ جب تک وہ میلے پہنچے گا، میلہ پوری رونق پر ہو گا۔ کچھ لوگ تو میلے سے واپس اپنے گھر لوٹنے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔ وہ میلے میں جا کر کیا کرے گا، کیا خریدے گا؟ انہی خیالوں میں وہ الجھا خراماں خراماں آگے بڑھ رہا تھا۔ میلے میں جانے کی کوئی مسرت اس کے دل میں نہیں تھی۔ جس کے لئے خون پسینہ بہا کر اس نے کچھ پیسے جوڑے تھے، جس کو ساتھ لے کر میلہ گھومنے کی اس کے دل میں خواہش تھی، وہی اس کے ساتھ نہیں تھی۔ پتہ نہیں میلے میں اس سے ملے گی بھی کہ نہیں۔ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہو گی، تو کیا ان کا ساتھ چھوڑ کر اس کے ساتھ اکیلے میں گھومے گی؟ پتہ نہیں؟ وہ کمو کے مزاج کو آج تک نہیں سمجھ پایا تھا۔ میلے میں پہنچ کر پہلے تو وہ ایک کنارے کھڑا ہو کر حالات کا جائزہ لیتا رہا۔ چاروں طرف لوگوں کی بھیڑ، دھول اور شور۔۔ ۔ شور میں اپنی ہی آواز گم ہوتی جا رہی تھی۔ لوگ آ رہے تھے، لوگ جا رہے تھے، بچے کلکاریاں بھرتے ہوئے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ کچھ غبارے اڑا رہے تھے، تو کچھ کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔ کچھ منہ سے بجانے والے باجوں سے عجیب عجیب طرح کی آوازیں نکال رہے تھے تو کچھ بانسری بجا کر بے سرے سر نکال رہے تھے۔ سب خود میں مگن تھے۔ کہیں بھی کوئی شخص دکھی یا اداس نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ لوگوں کے چمکتے دمکتے رنگین کپڑوں کی طرح ان کے دل میں خوشیوں کی لہر دوڑ رہی تھی اور ان کے چہرے تازہ پھولوں کی طرح کھلے ہوئے تھے۔ ایسے میں کوئی رادھے کے منہ کو دیکھتا تو یہی سمجھتا جیسے کسی ویران مرگھٹ کا سایہ وہاں پسر گیا ہو۔ اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ وہ کسی کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ کوئی اس کے دل کے درد کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ات کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد وہ میلے کے اندر داخل ہو گیا۔ وہ بے کار سا ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ اس کی کمو کہاں ملے گی؟ دل میں ایک امید تھی کہ اگر وہ مل جاتی تو ایک بار اس سے پوچھتا کہ اس کے ساتھ چل کر اپنی پسند کی ساڑی اور کچھ نقلی گہنے خرید لے، بھلے ہی اس کے ساتھ سسرال نہ جائے، تاہم اتنا تو اس کا مان رکھ ہی لے کہ اسے لگے کہ وہ اس کی بیوی تھی اور اس پر رادھے کا کچھ حق تھا۔ اتنے بڑے میلے میں ایک اکیلی عورت کو ڈھونڈ پانا آسان نہ تھا۔ کچھ سوچ کر وہ بساط خانے والوں کی طرف گیا۔ اس طرف عورتوں کا سامان بکتا تھا، وہیں پر آس پاس رنگ ساز بھی تھا، جہاں رنگ برنگی ساڑیاں دوکانوں کے باہر لہراتی ہوئی اپنے رنگ بکھیر رہی تھیں۔ ایک طرف چڑہارنیں بیٹھی ہوئیں، جوان، چنچل، منچلی اور کھلکھلاتی ہوئی لڑکیوں کو چوڑیاں پہنا رہی تھیں۔ میلے کے اس کنارے فقط عورتوں اور لڑکیوں کا ریلا تھا۔ اکا دکا مرد بھی نظر آ رہے تھے، جو اپنی نئی نویلی دلہنوں کو سنگار کا سامان دلوانے کے لئے آئے تھے۔ ایسے جوڑوں کو دیکھ کر رادھے کا دل ڈوب جاتا، پھر وہ بے چینی سے اس بھیڑ کے ریلے میں اپنی کمو کو ڈھونڈنے کی جد و جہد کرنے لگتا۔ اس کی آنکھیں چوڑی ہو کر ہر دوکان پر کھڑی عورتوں کو باریکی سے دیکھنے لگتیں، شاید ان میں سے کوئی کمو ہو۔ تبھی اس کی نظر گھومتے گھومتے ایک چوڑی کی دوکان پر پڑی۔ اس کا جی دھک سے رہ گیا۔ دوکان کے سامنے کمو کھڑی تھی اور چڑہارن سے مول بھاؤ کر رہی تھی۔ بغل میں جیون لال کھڑا تھا، جو کمو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود سے چپکائے ہوئے تھا، جیسے دونوں میاں بیوی ہوں۔ کمو کو کوئی شرم نہیں تھی کہ وہ پرائے مرد کے ساتھ چپک کر کھڑی تھی۔ رادھے کا ڈر سچائی میں بدل گیا تھا۔

’’یہ والی کتنے کی ہیں؟‘‘ کمو جوش سے پوچھ رہی تھی۔ رادھے قریب آ کر ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا تھا۔

’’یہ تھوڑی مہنگی ہیں، تاہم تمہاری غوری کلائیوں میں بہت سندر لگیں گی؟ نئی نئی شادی ہوئی ہے؟‘‘ چڑہارن پوچھ رہی تھی۔ کمو نے کوئی جواب نہیں دیا، بس مسکرا کر رہ گئی۔ تاہم جیون لال پنکھ لگا کر آسمان میں اڑ رہا تھا، ’’ہاں، ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ تم تو سب سے مہنگی والی چوڑی پہناؤ اس کو۔ سہاگن بنا دو آج۔۔ ۔‘‘

اس کی بات پر کمو کھلکھلا کر ہنس پڑی اور جیون لال کی بانہوں میں دوہری ہو گئی۔ جیون لال نے اسے اور زیادہ خود سے چپکا لیا۔ رادھے کا خون کھول رہا تھا، تاہم وہ خود پر قابو کئے کھڑا رہا۔ چڑہارن، کمو کی پسند کی چوڑیاں اس کے گورے گورے ہاتھوں میں پہنانے لگی۔ وہ زمین پر بیٹھ گئی تھی۔ جیون لال بھی اس کا ہاتھ تھام کر چوڑیاں پہنانے میں مدد کر رہا تھا۔ رادھے کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا تھا۔ اب باقی کیا بچا تھا، اس کی بیاہتا کو ایک پرایا مرد چوڑیاں پہنا رہا تھا۔ اس کی بیوی دوسرے مرد کے نام کی چوڑیاں پہن رہی تھی۔ اب وہ اس کی نہیں رہی تھی، پرائی ہو گئی تھی۔ پرائے مرد کی بانہوں میں تو کب کی سما چکی تھی اور آج اس کے نام کی چوڑیاں پہن کر پوری طرح سے اس کی ہو گئی تھی۔ اور اس کے پیروں کے تلے سے اس کی زمین کھسک گئی تھی۔ رادھے وہاں زیادہ نہیں رک سکا۔ میلے کی ساری رونق اس کے لئے مر چکی تھی۔ وہ اچانک بھیڑ کو دھکیلتا ہوا باہر نکلنے لگا۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، تاہم اسے اپنا ہوش نہیں تھا۔ باہر نکل کر اس نے ایک لمبی گہری سانس لی۔ پیچھے میلے کا شور کان پھاڑے دے رہا تھا، تاہم اس شور سے اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اس کے کانوں میں تو جیون لال کی یہ بات گونج رہی تھی، ’’ہاں، ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ تم تو سب سے مہنگی والی چوڑی پہناؤ اس کو۔ سہاگن بنا دو آج۔۔‘‘

اس دن پہلی بار رادھے نے کچی شراب کے کئی گلاس چڑھائے اور جب وہ نشے میں دھت ہو گیا تو رات کے اندھیرے میں گرتا پڑتا اپنے گھر پہنچا۔ ماں فکر میں بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی۔ گاؤں میں سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ لوگ میلے سے تھکے ماندے آئے تھے اور کھا پی کر نیند کی آغوش میں سما چکے تھے۔

’’کہاں تھا اب تک؟ ارے، تو دارو پی کر آیا ہے۔ ہے رام، یہ کیا ہو گیا ہے تجھ کو؟‘‘ ماں اس کی حالت دیکھ کر حیران تھی۔

’’سب کچھ ختم ہو گیا!  ’’نشے میں جھومتے ہوئے رادھے نے کہا۔

’’کیا ختم ہو گیا؟‘‘ ماں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔

’’سارے ناطے رشتے۔۔ ۔‘‘ اس کی زبان بری طرح لڑکھڑا رہی تھی۔ اپنا جسم بھی اس سے سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ وہ دھپ سے ایک کنارے گر پڑا۔

’’ہے رام، یہ کیا ہو گیا ہے تجھے؟ اور بہو کو نہیں لایا؟‘‘ ماں ڈری ڈری آواز میں بولی۔

وہ زور سے چیخ کر بولا، ’’کہاں سے لاتا، وہ تو مر گئی۔‘‘

’’مر گئی۔۔ ۔!‘‘ بڑھیا کی آواز جیسے بند سی ہو گئی ہو۔ وہ پوچھنا چاہتی تھی، کب، کہاں اور کیسے، تاہم رادھے کو اس کے بعد ہوش ہی نہیں رہا۔ وہ بھرے بورے کی طرح ایک طرف لڑھک گیا تھا۔ ماں نے لاکھ کوشش کی اسے ہوش میں لانے کی، تاہم رادھے کو اس رات پھر ہوش نہیں آیا۔ شراب کے نشے میں وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ ہوش تو صبح تک واپس جا جائیں گے، تاہم اس کی رنگین دنیا اسے پھر کہاں ملنے والی تھی، جس کے بھروسے آدمی اپنی زندگی خوشی اور پیار سے گزار دیتا ہے، ایک گھر کے لئے اپنے زندگی کو ختم کر دیتا ہے۔ اب کہاں تھی اس کی وہ دنیا اس کے پاس۔۔ ۔ فقط ایک بیوی ہی نہیں کھوئی تھی، بلکہ اس کی پوری دنیا ہی اس کے ہاتھوں سے پھسل گئی تھی۔ پیار بھرے گھر کی رنگین دنیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

جڑی بوٹی

 

 

 

شام کو گھر پہنچا تو بیوی نے بتایا کہ گاؤں سے اپنی بیوہ سلہج کو اپنے نام کی چوڑیاں پہنا کر جس دن سنت لال گھر لایا تھا، وہ دن اس کی بیوی اور دو بالغ ہوتے بیٹوں کے لئے بڑا بھاری تھا۔ گھر میں سناٹا پھیلا تھا، جیسے سب نے کسی بھوت کا سایہ دیکھ لیا ہو۔ سنتو کی نئی دلہن سستی، مگر نئی چمکدار ساڑی میں آنگن کے ایک کونے میں گم صم سی بیٹھی تھی۔ اس کی بیاہتا عورت دل ہی دل میں کڑھتی ہوئی، غصہ کو دل کی پرتوں کے نیچے دبائے ہوئے کوٹھری کے اندر گھسی ہوئی تھی کہ کوئی بات چلے تو اپنے دل میں بہتے گرم لاوے کو سامنے والے کے اوپر انڈیل دے۔ دونوں لڑکے گھر کے باہر ادھر ادھر پینترے بازی کر رہے تھے۔ دنیاداری کی ان میں سمجھ تو آ گئی تھی، تاہم اتنے بڑے نہیں ہوئے تھے کہ باپ کی طرف سے کی گئی دوسری شادی کی مخالفت کر سکتے اور سنتو اپنے آپ میں مگن بیلوں کو چارہ سانی کر رہا تھا۔ ان کی پیٹھ سہلا رہا تھا، جیسے بہت بڑا میدان مار کر لائے ہوں۔ میدان تو مارا ہی تھا۔ سنتو نے بھی اور بیلوں نے بھی۔ سنتو اپنی جوان اور سندر سلہج کو اپنی دوسری بیوی بنا کر لے آیا تھا، تو بیل اسے چھکڑا گاڑی میں ڈھو کر لائے تھے۔

شام دھیرے دھیرے گاؤں میں اپنے پیر پھیلاتی جا رہی تھی۔ اب تک سنتو کے دوسری بیوی لانے کی خبر پورے گاؤں میں پھیل چکی تھی۔ لوگ آتے، تعجب کرتے اور اس سے پوچھتے، کہ اس عمر میں اسے یہ کیا سوجھی کہ ایک جوان بیوہ عورت کو گھر لا کر بٹھا دیا، تو وہ کھرا جواب دے کر سب کو ٹھنڈا کر دیتا، ’’ہاں، لایا ہوں۔ تو۔۔ ۔؟ میری سلہج ہے۔ اس کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ جوان عورت کا کوئی کھونٹا نہ ہو، تو سبھی اسے بھیڑیے کی طرح نوچنے کے لئے در پر رہتے ہیں۔ بوڑھے جوان سبھی اسے اپنی بانہوں میں سمیٹنے کے لئے تیار دکھتے ہیں۔ بہلا پھسلا کر اس کی جوانی کا مزہ لوٹنا چاہتے ہیں اور بعد میں اس کے اوپر تھوک کر چل دیتے ہیں۔ میں نے اسے سہارا دیا، ایک ٹھور سے لگا دیا، عزت دی تو کیا برا کیا۔ پرائے مردوں کی بانہوں میں ڈولتی پھرتی تو کیا ذات برادری میں بدنامی نہیں ہوتی؟‘‘

سنتو کی منطق میں دم تھا۔ اس کی کھری بات سن کر سب چپ لگا جاتے، کیا کہتے؟ یوں تو کہنے کے لئے بہت ساری باتیں تھیں، تاہم یہ سنتو کا نجی معاملہ تھا۔ وہ جانے، اس کی گھر والی جانے اور جانے اس کے لڑکے۔ اگر سب راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ جانور مرے گا، تبھی تو گدھ گوشت کھائیں گے۔ اس کی سلہج بیوہ نہ ہوتی، تو کیوں سنتو اسے اپنے چنگل میں پھنساتا یا وہی اس کی بانہوں کا سہارا ڈھونڈتی۔ سنتو کا دل اپنی بیوہ سلہج سے جڑ گیا تھا اور اس کی سلہج بھی اس کے ساتھ رہنے کو تیار تھی، تو اس میں گاؤں والوں کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟ لیکن سماجی رسم و رواج بھی تو کوئی چیز ہوتے ہیں۔ شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی مرد، دوسری عورت کو اپنے گھر میں بٹھا لے تو کیا گاؤں معاشرہ اور جاتی برادری کے لوگ چپ بیٹھے رہیں گے؟ گاؤں معاشرے کے لوگ کچھ کہیں، یا چپ بیٹھے رہیں، تب بھی کچھ نہیں بگڑتا ہے، تاہم جاتی برادری کے لوگ کہاں ماننے والے تھے؟ دوسری بیوی لانا اور عزت کے ساتھ اسے گھر میں رکھ لینا کیا اتنا آسان تھا؟ جاتی برادری کے سخت قانون کیا کوئی اتنی آسانی سے توڑ سکتا ہے؟ سنتو کا حقہ پانی بند ہو جائے گا؟ ریتی رواج کے سامنے کوئی اپنی دل مانی نہیں کر سکتا ہے۔ لوگ اس طرح من مانی کرنے لگیں، تو معاشرہ آلودہ نہیں ہو جائے گا؟ گھریلو احترام ٹوٹ نہیں جائے گا؟ سب کے گھر میں بہو بیٹیاں ہیں۔ سنتو کی طرح سب کرنے لگیں گے تو۔۔ ۔؟

’’کہتے تو تم ٹھیک ہے، تاہم کام کھوٹا کیا ہے۔ جرمانہ تو بھرنا ہی پڑے گا۔۔ ۔‘‘ کسی بزرگ نے اس کی بات پر کہا۔

’’تو بھر دیں گے۔۔‘‘ سنتو نے اکڑ کر کہا، ’’کوئی پھانسی تو نہیں لگا دے گا۔‘‘ سنتو جانتا تھا کہ جاتی برادری کے لوگ پنچایت کریں گے۔ ہزار دو ہزار کا جرمانہ لگائیں گے۔ ساتھ ہی ساری برادری کے لوگوں کو کھانا دینا پڑے گا۔ جرمانہ بھر دے گا اور کھانا بھی دے دے گا، اس کی اسے فکر نہیں تھی۔ تھوڑی بہت فکر تھی تو اپنی بیوی کی۔ ابھی تک تو چپ بیٹھی تھی، تاہم رات میں نہ جانے کیا ہنگامہ کرے؟ ویسے تو اس کی بیوی ٹھنڈے مزاج کی تھی اور اس سے دبتی تھی، تاہم گھر میں سوت لانے پر بھی چپ بیٹھی رہے گی اور اس کی زیادتی برداشت کر لے گی، یہ کہنا ذرا مشکل تھا۔ عورت اگر ستی ساوتری ہے، تو درگا اور چنڈی بھی۔ کیا پتہ کب اس کا دماغ الٹ جائے اور وہ جوالا مکھی بن کر لاوا اگلنے لگے۔ ابھی تک تو سب کچھ صحیح چل رہا تھا۔ لیکن گہرے پانی کے اوپر سب کچھ پرسکون رہنے سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اندر گہرائی میں بھی سب کچھ پرسکون ہے۔ پانی کی گہرائی اور دل کی گہرائی کے اندر بہت بھیانک ہلچل ہو سکتی ہے، جو اوپر سے کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔

جو بھی آتا، سنتو سے ایک جیسا سوال کرتا اور وہ بھی ان کو ایک جیسا جواب دیتا۔ سب سن کر چلے جاتے، تاہم اڑوس پڑوس کی عورتوں کو کون سمجھاتا؟ وہ تو اندھی بھیڑوں کی طرح گھر کے اندر گھس گئی تھیں اور نئی دلہن کو گھیرے کھڑی تھیں۔ کچھ عمر دراز عورتیں تو جیسے وہی پر دھرنا دے کر بیٹھ گئی تھیں۔ طرح طرح کی باتیں، طرح طرح کے سوال۔۔ ۔ سوالوں کا جواب کون دیتا؟ نئی دلہن شرم اور ہچکچاہٹ کے مارے چپ تھی، تو سنتو کی بیوی دھرنا مار کے کوٹھری کے دروازے پر بیٹھی تھی، جیسے نئی دلہن کہیں کوٹھری کے اندر نہ گھس جائے۔

’’ارے پنتیا، تو اس طرح منہ پھلائے بیٹھی ہے۔ آخر تری بھوجائی ہے۔ مانا کہ سنتو نے برا کیا، تیری بھوجی کو سوت بنا کر لے آیا، تاہم ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ آخر مرد کا دل ہے، اس پر آ گیا۔ گھر ہی لے کر آیا ہے، کہیں اور بھگا لے جاتا تو تم لوگ کہاں کے رہتے؟ بتاؤ۔۔ ۔؟‘‘ ایک بزرگ خاتون نے سمجھداری کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ پنیتا آندھی کی طرح اٹھ کر آنگن میں آ کھڑی ہوئی، ’’بھوجائی ہے، تو کیا میرا ہی گھر لوٹنے کے لئے بچا تھا۔ میرا خصم کون سا ایسا جوان ہے، جس پر اس کی آنکھیں پھوٹ گئیں۔ اتنی جوان ہے، حسین ہے تو کوئی اپنی عمر کے مرد کا ہاتھ تھامتی۔ میرے مرد کے ڈھیلے مانجھے میں اس نے کیا دیکھا؟ کیا سارے کنوارے مرد مر گئے تھے؟ کتنے سارے رنڈوے ٹھرکی مارتے گھومتے رہتے ہیں، کیا ان کو نہیں پھنسا سکتی تھی؟‘‘ وہ آنگن کے چبوترے پر بیٹھ کر سیاپا کرنے لگی۔

’’اب ان دونوں کے بیچ کیا بات تھی، یہ تو یہیں دونوں جانیں۔ تم تو بہنا سمجھداری سے کام لو، ورنہ اس کے چکر میں تمہیں ہی سنتو گھر سے نکال باہر نہ کر دے۔ نہ گھر کی رہو گی نہ گھاٹ کی۔ مرد ذات کا کوئی بھروسہ نہیں۔ غنیمت ہے کہ ابھی تک سب کچھ گھر کے اندر ہے۔ زیادہ ہنگامہ نہ کرنا۔ جاتی والے تو سنتو سے نپٹ ہی لیں گے۔‘‘

’’ایسے کیسے نکال دے گا گھر سے۔۔ ۔ آئی ہوں اس گھر میں۔ جاتی برادری کے لوگ گواہ ہیں کہ میں سنتو کی بیاہتا ہوں۔ دو بچے جنے ہیں اس کوکھ سے۔ ان کا کوئی حق نہیں بنتا ہے کیا اس گھر میں؟ یہ رانڈ آئی ہے تو کیا یہاں رانی بن کر رہے گی اور ہم چوکا برتن کریں گے۔ اس کے پیر دھو کر مالش کریں گے۔ اری، کیسی بھوجائی ہے تو جو میرا ہی گھر اجاڑنے کے لئے چلی آئی ’’اس کا رونا اور تیز ہو گیا تھا۔

’’تمہارا کہنا اپنی جگہ صحیح ہے، مگر تم جانو، سوت کے سامنے بیاہتا کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟‘‘ ایک اور عورت نے سچائی کی آگ اگلی۔

اس کی بات سن کر پنیتا اور زیادہ بھڑک اٹھی، ’’میری حیثیت کروائے گی یہ؟ اس کے پہلے ہی اس گھر کو آگ نہ لگا دوں گی اور اس رانڈ کو اس آگ میں جھونک دوں گی۔ جل کر خاک ہو جائے گی، تب میرے کلیجے کو ٹھنڈک پڑے گی۔‘‘

’’وہ تو تم بعد میں کرنا۔ ابھی سے اس کا دل کیوں جلا رہی ہو۔ بیچاری نہ جانے کتنے ارمان لے کر آئی ہے۔ جب سے آئی ہے، بھوکی پیاسی بیٹھی ہے۔ باتیں نہ کرو، تاہم ایک گلاس پانی تو دے دو۔ بیل گاڑی میں بیٹھ کر آئی ہے، بدن دکھ رہا ہو گا۔ کچھ تو خیال کرو۔ دشمن بھی بھولے سے گھر میں آ جاتا ہے، تو اس کو پیار سے بٹھا کر پانی کھانے کے لئے پوچھتے ہیں۔‘‘

’’کیوں نہیں، بڑی سمجھدا رہو، کاکی تمہارے اوپر پڑتی تو پتہ چلتا۔ اس طرح سمجھداری کی باتیں منہ سے نہ نکلتی۔ یہ میری پٹ رانی بن کے آئی ہے نہ!  جو میں اس کی سیوا کروں۔‘‘

’’یہ تو کچھ سمجھ ہی نہیں رہی ہے۔ اے پھلو، تو جا نلکے سے تازہ پانی بھر کر لے آ اور ایک گلاس پلا اس کو۔ یہ بیچاری اپنے آپ کیا بولے گی؟ ڈری سہمی تو بیٹھی ہے۔‘‘

پھلو ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی تھی، دوڑ کر گئی اور آناً فاناً ایک بالٹی پانی بھر لائی۔ پھر اس بزرگ خاتون نے نئی دلہن کو پانی سے بھرا گلاس پکڑایا، لیکن وہ لے نہیں رہی تھی، نہ اس کے منہ سے بول نکل رہے تھے۔ تب اس خاتون نے دائیں ہاتھ سے اس کا گھونگھٹ اٹھا کر بائیں ہاتھ سے گلاس اس کے منہ کی طرف بڑھایا۔ اب تک کسی نے اس کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ جیسے ہی اس کے منہ سے گھونگھٹ ہٹا، لگا جیسے بجلی چمک گئی تھی۔ عورتوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا، ’’آئی دییا، یہ تو بڑی سندر ہے، جیسے پونم کا چاند۔‘‘ حقیقت میں سبھاگی بہت حسین تھی۔ عورتوں کی بات سن کر پنیتا کے کلیجے پر سانپ لوٹ گیا۔ ناگن کی طرح پھنکارتی ہوئی بولی، ’’ہاں، ہاں، سورگ کی اپسرا ہے، تبھی تو بوڑھے کی آنکھوں میں بجلی گر پڑی۔ اٹھا کر گھر لے آیا۔ اب میرے گھر پر گاج گرائے گی، میری چھاتی میں مونگ دلے گی۔ میرے بچوں کا حق مارے گی اور کیا؟‘‘

جب تک عورتیں رہیں، ان کے بیچ نونک جھونک چلتی رہی۔ رات گہری ہونے لگی تو ایک ایک کر کے عورتیں اپنے گھر چلی گئیں۔ پنیتا اپنی سوت کے ساتھ گھر میں رہ گئی۔ اس کا بڑبڑا جاری تھا، تاہم اس کی باتوں میں کوئی معنویت نہیں تھی، نہ کوئی مفہوم۔۔ ۔ وہ ایک ہاری عورت کا بیکار آلاپ تھا، جو دھیرے دھیرے ٹھنڈا ہو جانا تھا۔ دونوں لڑکے پتہ نہیں کہاں بھٹک رہے تھے۔ ابھی تک گھر نہیں لوٹے تھے۔

سنتو بھی باہر چھپر کے نیچے چارپائی پر لیٹا ادھیڑ بن میں لگا ہوا تھا۔ اندر جب عورتوں کے درمیان پنیتا اپنا غبار نکال رہی تھی، تب پچھلے دنوں کے سارے حادثات ایک ایک کر اس کے دماغ سے گزر رہے تھے اور وہ ان میں ڈوب کر مگن ہو رہا تھا۔

پچھلے سال کی ہی تو بات ہے۔ برسات کا موسم تھا اور گھٹاؤں نے دھرتی کو ڈبونے کا اچھا خاصا منصوبہ چلا رکھا تھا۔ دن رات چھما چھم بارش ہو رہی تھی۔ ندی نالے ابل کر اپنی طاقت دکھا رہے تھے، تو کھیت اور تالاب لبالب بھر کر ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے۔ خریف کی فصل سیلاب میں چوپٹ ہو چکی تھی۔ دھان کی بیڑ پانی میں ڈوب چکی تھی اور کپاس پوری طرح سے ٹھپ پڑی تھی۔ بارش کا اگر یہی حال رہا تو دھان کی فصل بھی چوپٹ ہونے والی تھی۔ اِندر دیوتا پتہ نہیں کیوں اس قدر ناراض تھے کہ بادلوں کو نچوڑے دے رہے تھے۔ مزدوروں کے گھروں میں روٹی کے لالے پڑے تھے تو کسانوں کے گھر میں پڑا اناج سیلن سے خراب ہو رہا تھا۔ پوجا پاٹھ اور ہون کیرتن بھی اندر دیوتا کو منانے میں ناکام تھے۔ جن ندی نالوں میں پورے سال ایک بوند پانی نظر نہیں آتا تھا، وہ ایک دوسرے سے مل کر سمندر ہو رہے تھے۔ ان کا کنارہ نظر نہیں آتا تھا۔ سنتو کی سسرال کے گاؤں کے کنارے سے ایسی ہی ایک برساتی ندی بہتی تھی۔ سنتو کے اکلوتے سالے رتن لال کی کھیتی کی زمین ندی کے کنارے تھی۔ پتہ نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی کہ بھری بارش کے بیچ وہ کھیتوں کا جائزہ لینے پہنچ گیا۔ ندی کا پانی جوش کھا کر کھیتوں سے ہو کر بہہ رہا تھا۔ رتن لال ہوشیاری سے میڑ پر دھیرے دھیرے قدم بڑھا کر چل رہا تھا، تاہم ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ پانی کا ریلا زور پر تھا ہی، ندی کے ساتھ چکنی مٹی بھی نیچے اپنی چادر بچھا چکی تھی۔ اچانک رتن کا پیر پھسلا اور وہ ندی کی طرف جا گرا۔ اس نے ہاتھ پاؤں مارے، تاہم پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ جب موت آتی ہے، تو انسان کی ساری کوششیں اور داؤ پیچ بیکار ہو جاتے ہیں۔ رتن لال پانی کے ساتھ بہہ گیا اور پھر اس کی لاش بھی نہیں ملی۔ دو سال کی بیاہتا سبھاگی بیوہ ہو گئی۔ گھر میں ساس سسر نہ تھے، کوئی دیور بھی نہیں تھا۔ ایک بڑی نند تھی، جو سنتو کو بیاہی تھی۔ کنبے کے نام پر فقط پٹے دار تھے، جن کی نظریں رتن لال کی زرخیز زمین پر گڑی ہوئی تھیں۔ رتن لال کی موت کے بعد ان کی آنکھوں میں انوکھی چمک آ گئی تھی، تاہم اس کی زمین ہڑپ کر پانا اتنا آسان نہ تھا۔ ابھی سبھاگی زندہ تھی اور مدد کرنے کے لئے اس کے میکے کے لوگ موجود تھے۔ سنتو بھی اس کا سگا تھا۔

تیرہویں کے بعد جب گھر میں صرف سبھاگی کے میکے والے اور سنتو اپنی بیوی کے ساتھ رہ گیا، تو سب لوگوں نے مل بیٹھ کر سبھاگی کے مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ سب نے سبھاگی سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟

’’میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ آپ لوگ ہی سوچ وچار کر بتائیں۔‘‘ اس نے اپنے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ ابھی ابھی اس کے جوان شوہر کی موت ہوئی تھی۔ خود اس کی عمر ہی کتنی تھی۔ ابھی بیاہ نہ ہوا ہوتا تو الہڑ لڑکی کی طرح اندر باہر چوکڑی بھر رہی ہوتی۔

’’شوہر کے بعد بیوی کا ہی سسرال میں پہلا حق ہوتا ہے۔ سبھاگی اکیلی ہے اور اپنے شوہر کی زمین جائیداد کی اکلوتی وارث۔۔ ۔ وہ اکیلی اتنی بڑی جائیداد کیسے سنبھال سکتی ہے؟‘‘ سبھاگی کے باپو نے کہا۔

’’باپو، میں تو کہتا ہوں کہ دیدی کو یہاں رہنے کی ضرورت کیا ہے؟ جب یہاں کی کھیتی اور گھربار کو نہ کوئی سنبھالنے والا ہے، نہ کوئی بٹانے والا، تو سب کچھ بیچ باچ کر دیدی کو اپنے گھر لے چلتے ہیں۔ وہاں اس کے لئے الگ سے ایک گھر بنوا دیں گے اور کچھ کھیتی کی زمین خرید دیں گے۔ مزے سے گزارا ہوتا رہے گا۔ پھر اگر دیدی کا دل ہوا تو کہیں اچھا لڑکا دیکھ کر دوسری شادی بھی کر دیں گے۔‘‘ سبھاگی کے بھائی سوہن نے سمجھایا۔

’’یہ اچھا نہیں ہو گا۔ اتنی جلدی اگر ہم زمین جائیداد بیچ کر سبھاگی کو اپنے گھر لے گئے تو اس کے پٹے دار مخالفت کریں گے۔ پہلے تو زمین بیچنے میں اڑنگا لگائیں گے اور اسے آسانی سے بکنے نہیں دیں گے۔ پھر خود ہی اسے اونے پونے دام میں خریدنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

’’تو پھر۔۔ ۔؟‘‘ سوہن نے پوچھا۔

سنتو ابھی تک چپ بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اب بولا، ’’بابو جی، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ زمین بیچنا آسان نہیں ہو گا۔‘‘

’’لیکن یہاں رہ کر کھیتی کون کرے گا؟ اکیلے سبھاگی کے بس کا تو ہے نہیں۔‘‘ سوہن بولا۔

’’اگر میری مانو، تو ایک بات کہوں؟‘‘ سنتو نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ہاں، بچہ، بولو نہ!  ’’سوہن کے باپو نے کہا۔

’’دیکھو، میرے پاس ایک جوڑی بیل ہیں، پر کھیتی کی زمین بہت کم ہے۔ اپنے کھیت جوت بو کر میں دوسرے کے کھیتوں میں ہل چلاتا ہوں۔ اگر آپ لوگ رضامند ہوں، تو میں آ کر یہاں کے کھیتوں کی جتائی بوائی کروا دیا کروں گا۔ وقت پر کھیتوں کی سنچائی اور کٹائی مڑائی کرنے کے لئے بھی آ جایا کروں گا۔‘‘

’’یہ تو بہت اچھا رہے گا!  ’’سوہن کے باپو بولے، ’’بیٹا تم نے میری ساری فکر دور کر دی۔ کچھ دن آ کر تم اس کا گھر سنبھال دو، تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر آگے جیسا سبھاگی چاہے گی۔۔ ۔ کہے گی تو دوسرا بیاہ کر دیں گے۔ اکیلے اتنا بڑا زندگی گزارنا مشکل ہے۔‘‘

’’وہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ ابھی اس کی عمر ہی کتنی ہے۔ اکیلی عورت اتنا لمبا زندگی بنا مرد کے کیسے گزار سکتی ہے؟‘‘ سنتو بولا۔ گھونگھٹ کے اندر سبھاگی کا دل دھڑک اٹھا۔ سبھی اس کی بات سے متفق تھے۔

سنتو گھر جا کر اپنے بیل لے آیا اور کچھ ہی دنوں میں سبھاگی کے کھیتوں کو جوت بو کر تیار کر دیا۔ اس سال برسات کے سبب کافی فصلیں برباد ہو گئی تھیں، تاہم جتنا کچھ ہو سکتا تھا، سنتو نے کیا اور کھیتوں میں ان اگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سارا دن دھوپ میں پسینہ بہاتا، پل بھر بھی آرام نہ کرتا۔ سبھاگی اس کے لئے کھیتوں میں کلیوا لے کر جاتی تھی۔ دوپہر اور شام کو وہ خود گھر آ جاتا تھا۔ سنتو کا سسرال میں رہ کر سبھاگی کی مدد کرنا، سبھاگی کے پٹے داروں کو پھوٹی آنکھ نہ بھاتا تھا، تاہم وہ کھل کر مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔ سنتو اس گاؤں کا داماد تھا، اس لئے وہ تھوڑا دبتے تھے، ورنہ اب تک سبھاگی کو مار پیٹ کر بھگا دیتے اور اس کی زمین پر قبضہ کر کے بیٹھ جاتے۔ سنتو چالیس سال کی عمر کا سمجھدار شخص تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ عورت مرد کے رشتے کو بدنام ہوتے دیر نہیں لگتی ہے۔ سسرال میں اس کی سلہج اکیلی تھی، جوان اور حسین تھی۔ اسی گھر میں وہ رہتا تھا۔ رشتہ نازک اور ہنسی مذاق والا تھا۔ لوگوں کو سنتو اور سبھاگی کی عمر سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ تو بنا سوچے سمجھے آگ لگانے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ سنتو نے اپنی طرف سے تمام تر ہوشیاریاں برتی تھیں کہ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ سارا دن وہ کھیتوں میں کام کرتا رہتا تھا۔ دوپہر کو آتا تو بھی باہر ہی کھانا منگا کر کھا لیتا تھا۔ شام کو بھی چوپال میں بیٹھ کر کھانا کھاتا اور بغل کے کمرے میں سو جاتا۔ گھر کے اندر وہ تبھی جاتا، جب کوئی بھاری سامان رکھنا ہوتا یا اٹھا کر باہر لانا ہوتا۔ سبھاگی نے شروع شروع میں ٹوکا تھا، ’’جیجا آپ باہر بیٹھ کر کھاتے ہو، یہ اچھا نہیں لگتا۔ آپ ہمارے مہمان ہو۔ آپ کی یہاں بڑی عزت ہے۔ پرایوں کی طرح گھر کے باہر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہو، گاؤں کے لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ایک تو آپ ہمارے لئے اتنا کچھ کر رہے ہو، کڑی دھوپ میں پسینہ بہاتے ہو، پھر ہم آپ کو عزت سے دو روٹی نہ دے سکیں، تو کتنا افسوس ہوتا ہے۔‘‘

سبھاگی اس کے سامنے گھونگھٹ کرتی تھی، تاہم گھونگھٹ کے اندر سے اس کی بڑی بڑی آنکھیں چمکتی رہتی تھیں۔ چاند سا گورا چہرہ پردے کے اندر سے ہی جیسے آگ لگانے کے لئے مچلتا رہتا تھا۔ سنتو نے اچانک ہی کئی بار سلہج کا کھلا چہرہ بھی دیکھا تھا، تاہم ہر ایسے موقعے پر وہ سر جھکا لیتا تھا اور سبھاگی مسکرا کر رہ جاتی تھی۔ سنتو نیچے کی طرف دیکھتا ہوا بولا، ’’بھوجی، میرے گھر کے باہر بیٹھ کر کھانا کھانے سے لوگ جو باتیں بنائیں گے، وہ ہم صحن بھی کر لیں گے، تاہم گھر کے اندر میں آنے جانے لگا تو لوگ ایسی آگ لگائیں گے، جس کی آنچ نہ تم برداشت کر پاؤ گی، نہ میں۔ بتاؤ، بھری جوانی میں بیوہ ہو کر کیا بنا کسی غلطی کے تم اپنے اوپر تہمت لگوانا پسند کرو گی؟‘‘

سبھاگی سمجھ گئی کہ سنتو کا اشارہ کس طرف تھا۔ وہ بھی اسی بات سے ڈرتی تھی، تاہم کیا لوگوں کے ڈر سے وہ اپنے بڑوں کو عزت نہ دے؟ فی الحال سنتو کی بات سے وہ کچھ سوچ کر چپ رہ گئی تھی، لیکن دل ہی دل میں سوچا۔۔ کا کیا، وہ تو بنا بات کے بھی باتیں بنا سکتے ہیں۔ ابھی بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ سنتو دن میں دکھانے کے لئے باہر کھانا کھاتا ہے۔ رات میں کون اس کے اوپر گاؤں والوں کا پہرہ رہتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں ہر طرح کے پاپ کئے جاتے ہیں اور لوگوں کی نظروں سے چھپے بھی رہتے ہیں۔ گناہ کا گھڑا جب تک نہیں بھرتا، تب تک کسی کو کہاں پتہ چلتا ہے؟ ہو سکتا ہے، رات کے اندھیرے میں سنتو اور سبھاگی بھی یہیں گناہ کرتے ہوں۔ گھر میں وہیں دونوں تو رہتے ہیں۔ ان کو کون دیکھنے والا ہے؟ سبھاگی اکثر سوچتی رہتی تھی کہ پتہ نہیں گاؤں والے کب اس کے اوپر یہی الزام لگا دیں۔

رات کے گہرے اندھیرے میں جب چاروں طرف سناٹے کی حکومت ہو، ماحول میں فقط جھینگروں کا مدھر سنگیت ہو اور ایک بڑے گھر میں فقط دو لوگ، جن کے بیچ میں فقط ایک دیوار کا فاصلہ ہو تو انہیں جلدی نیند نہیں آتی۔ نیند ان سے بھاگا کرتی ہے اور دل ایک دوسرے کی طرف دوڑتے ہیں۔ کتنا بھی کوشش کرو، انہیں روکنے کی، مگر وہ اسی کے پاس جا کر اٹک جاتے ہیں، جن کے پاس جانے کے لئے معاشرتی رکاوٹیں ہوتی ہیں، احترام کا بندھن ہوتا ہے، تاہم دل کسی رکاوٹ یا بندھن کا غلام نہیں ہوتا۔ اس پر لگام نہ لگائی جائے تو سیلاب کی طرح وہ سارے بندھن توڑ دیتا ہے۔ سنتو اور سبھاگی کے ساتھ یہی ہو رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں ایک دوسرے کے بارے میں رات گئے تک سوچتے رہتے تھے، تاہم کوئی اٹھ کر ایک دوسرے کے پاس نہ جاتا تھا۔ ایک کے دل میں شرم تھی تو دوسرے کے دل میں ہچکچاہٹ۔

دیوار بڑی اونچی تھی اور اسے گرانے کا حوصلہ کسی کے پاس نہیں تھا۔ سبھاگی کی بند آنکھوں کے سامنے سنتو کا کسرتی، محنتی اور پسینے سے شرابور گٹھا ہوا بدن مچلتا رہتا، تو سنتو کے دماغ میں پری ساخوبصورت، گورا چٹا، بڑی بڑی آنکھوں والا گول مٹول سبھاگی کا چہرہ ہر دم براجمان رہتا۔ اس چہرے کو تھوڑے عرصے کے لئے گرہن لگ گیا تھا، تاہم اب وہ پھر سے مسکرانے لگا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک پیارا سا پیغام چھپا ہوتا تھا، تو بدن کی ہلچل ایک ان کہی داستاں بیان کر رہی ہوتی تھی۔ سبھاگی کے بدن کی کہانی کا مفہوم سمجھنے کی کوشش سنتو کرتا اور اس کی آنکھوں کے خفیہ اشاروں کا تجزیہ بھی۔ اس کے دل میں ہلچل ہوتی، میٹھی ٹیس اٹھتی، مگر پھر اپنے قدم پیچھے کھینچ لیتا۔ کیا پتہ سبھاگی کی آنکھوں کا چنچل پن اور بدن کی حرکات معمول کی ہوں۔ ان کا دوسرا مطلب نکال کر وہ انجانے میں ہی اس کے ساتھ کوئی غلط حرکت کر بیٹھے اور وہ برا مان جائے تو۔۔ ۔ عزت آبرو سبھی مٹی میں مل جائے گا۔ پھر کیا وہ سسرال میں کسی کو منہ دکھا پائے گا؟ چوروں کی طرف منہ چھپا کر بھاگنا پڑے گا۔ وہ اپنی طرف سے کوئی پہل نہیں کرے گا، اس نے فیصلہ کیا۔ لیکن اب سبھاگی کے سامنے ہوتے ہوئے سنتو کی نظریں زمین میں نہیں گھونگھٹ کے اندر اس کے چہرے میں کچھ کھوجنے کوشش کرتی رہتی تھیں۔

جوار باجرہ اور ارہر کی بوائی سمیت دھان کی روپائی کے بعد کھیتی کا کوئی کام نہیں بچا تھا۔ نرائی گوڑائی یا اگلا پانی دینے میں کم سے کم پندرہ دن لگنے والے تھے۔ اس دوران سنتو نے اپنے گاؤں جانے کا سوچا۔ سبھاگی سے بولا تو اس کو دھکا سا لگا، جیسے دل نکل کر باہر گر گیا ہو۔ پھر بھی اس نے پوچھا، ’’جانا ضروری ہے کیا؟ کب لوٹو گے؟‘‘

’’جلد ہی آ جاؤں گا۔ ادھر بھی دیکھ لوں، کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’ہاں، جیجا، اب تو دونوں گھر آپ کو ہی سنبھالنے ہیں، تاہم جلدی آنا۔‘‘ وہ اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے بولی۔

’’تمہیں ڈر تو نہیں لگے گا؟‘‘ سنتو نے پوچھا۔

’’اس گھر میں اکیلے کبھی نہیں رہی۔ پہلی بار ایسا موقع آیا ہے۔ پتہ نہیں۔۔ بھی ڈر تو لگے گا۔ سونا گھر بھائیں بھائیں کرے گا۔ کہیں ڈر سے میری جان نہ نکل جائے۔ پٹے داروں کا بھی خوف ہے۔ ابھی تک تو آپ کی وجہ سے کوئی دروازے پر نہیں پھٹکتا تھا۔ آپ کے جانے کے بعد پتہ نہیں کیا کریں۔ الٹی سیدھی باتیں تو کریں گے ہی؟‘‘ اس نے فکر کا اظہار کیا۔

’’ہاں، اس کا ڈر تو ہے، تاہم زندگی میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہئے۔‘‘ سنتو نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔

’’اب آپ کا ہی سہارا ہے۔‘‘ سبھاگی نے مایوسی سے کہا۔

پندرہ دن بعد جب سنتو واپس اپنی سسرال آیا، تو سبھاگی کافی بدلی سی لگ رہی تھی۔ وہ دکھی اور ڈری سہمی تھی۔ سنتو کو دیکھتے ہی لگ بھگ روہانسی سی ہو گئی اور اس کے بالکل سامنے کھڑی ہو کر بے ساختہ بولی، ’’جیجا، آپ آ گئے۔ اب مجھے یہاں اکیلی چھوڑ کر نہ جانا۔‘‘ سبھاگی بالکل سیدھے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ اس کا گھونگھٹ آنکھوں تک اٹھا ہوا تھا۔ سنتو نے غور سے دیکھا، وہ ریگستان میں بھٹک رہی اکیلی ہرنی کی طرح ڈری سہمی تھی۔

سنتو بے قراری سے بولا، ’’کیا ہوا؟ کچھ غلط ہو گیا ہے کیا؟‘‘

’’کیا بتاؤں جیجا، جب تک آپ یہاں تھے، سب چوہے کی طرح دب کے ہوئے تھے، آپ کے جاتے ہی شیر بن گئے۔‘‘

’’کون۔۔ ۔؟‘‘

’’اور کون۔۔ ۔ گاؤں کے سبھی لوگ۔۔ ۔ نام گناؤں؟ آپ کو اور مجھے لے کر گندے گندے رشتے جوڑ رہے تھے۔ عورتیں بھی پیچھے نہیں تھی۔ جیجا، میں اب اکیلے یہاں نہیں رہوں گی۔ لوگ میرا جینا حرام کر دیں گے۔‘‘ وہ لگ بھگ سسکنے لگی تھی۔ سنتو نے اس کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا، ’’اچھا، ٹھیک ہے، اب بتاؤ کہ کس نے کیا کہا؟‘‘

’’کہنے کو تو بہت ساری باتیں کہیں۔ سب کچھ بتانے سے کوئی فائدہ نہیں، تاہم سب کی باتوں کا ایک ہی مطلب تھا کہ میرا آپ کے ساتھ ناجائز رشتہ ہے، اسی لئے میں نے آپ کو گھر میں بٹھا رکھا ہے۔‘‘

’’ہوں، ’’سنتو نے کچھ سوچ کر ہنکاری بھری، ’’میں ان سب کی چال سمجھتا ہوں۔ ہمیں بدنام کر کے وہ پنچایت کہ ذریعے سے گاؤں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں، تاکہ تمہاری زمین وہ اونے پونے داموں میں ہتھیا لیں۔ دیکھتا ہوں، کتنی چالیں وہ چلتے ہیں۔ میں بھی انہیں ایسا سبق سکھاؤں گا کہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔‘‘

سبھاگی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ سنتو ایسا کیا کرے گا، جو گاؤں والے ان دونوں کے بارے میں غلط سلط باتیں کرنا بند کر دیں گے۔ گاؤں کے لوگ سانپ کی طرح چلتے ہیں اور اچانک ہی کاٹ کر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سنتو ہاتھ منہ دھو کر دروازے پر چارپائی ڈال کر بیٹھا تھا۔ آتے جاتے لوگ رام رام کرتے، حال چال پوچھتے اور چلتے بنتے۔ کچھ لوگ بیڑی پینے کے لئے بیٹھ بھی جاتے، تاہم کسی کے منہ سے ایسی کوئی بات نہ نکلی، جس سے یہ پتہ چلتا کہ گاؤں والے سنتو اور سبھاگی کو لے کر غلط سوچتے ہیں۔ کئی ساری عورتیں بھی آئیں۔ جن کے ساتھ سالی یا سلہج کا رشتہ تھا، انہوں نے کھلے دل سے سنتو کے ساتھ ہنسی مذاق اور ٹھٹھولی بھی کی اور پھر اندھیرا ہونے سے پہلے اپنے اپنے گھر چلی گئیں اندھیرا گھر نے لگا تھا۔ اوس بھی پڑنے لگی تھی۔ سنتو نے چارپائی اٹھا کر چوپال میں ڈال لی۔ تبھی چراغ لے کر سبھاگی باہر آئی اور طاق پر رکھ کر بولی، ’’جیجا، میں کھانا بنا لیتی ہوں۔ یہاں جی اوب رہا ہو، تو اندر آ کر بیٹھو میں کھانا بناؤں گی اور آپ باتیں کرنا۔‘‘

سنتو نے چونک کر سبھاگی کو دیکھا۔ چراغ کی روشنی میں اس کا گورا رنگ سنہرا ہو گیا تھا۔ آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ سنتو کو تعجب ہوا۔ آج سے پہلے سبھاگی نے رات میں گھر کے اندر آنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ سنتو کا دل ہل کر رہ گیا۔ سمجھ گیا کہ ادھر آگ لگی ہوئی ہے، چاہے کسی بھی وجہ سے لگی ہو۔ پہلے سے وہ سنتو کو اپنے دل میں بٹھا چکی تھی، یا گاؤں والوں کی باتیں سن کر اس کے دل میں سنتو کو اپنا بنا لینے کا خیال آیا تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اور بدن کی ہلچل، کیا حقیقتاً وہی بات کہہ رہی تھیں، جو وہ سمجھ رہا تھا۔ اس کے چھوٹے ہوتے گھونگھٹ، مسکراتی آنکھوں اور دمکتے چہرے اور مچھلی کی طرح تڑپتے بدن سے تو یہی ظاہر ہو رہا تھا۔ کچھ بھی ہو، وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ سبھاگی اسے چاہنے لگی ہے۔ یہ اس کے لئے بڑی خوش خبری کی بات تھی۔ دل تو کر رہا تھا، تاہم اس نے کمزوری نہیں دکھائی۔ کوئی پندرہ سولہ سال کا بچہ تو تھا نہیں کہ پانی دیکھتے ہی بغیر ہی کپڑے اتار کر نہانے کے لئے کود پڑے۔ شادی شدہ، دو بچوں کا چالیس برس کا تجربے کار آدمی تھا۔ عورت کی فطرت اچھی طرح جانتا تھا۔ جتنا ان کو تڑپاؤ، اتنا ہی وہ مرد کی جانب مائل ہوتی ہیں۔ پھر وہ زندگی بھر مرد کی غلام بن کر رہتی ہیں۔ جی ہوتے ہوئے بھی اس نے کہا، ’’نہیں تم کھانا بنا لو۔ میں یہیں بیٹھتا ہوں۔‘‘

’’اچھا، لیکن آج کھانا باہر نہیں کھاؤ گے۔ اندر کھاؤ گے۔ میں۔۔ ۔‘‘ سبھاگی کے لفظوں میں ڈھکی چھپی دعوت تھی۔ اتنا کہہ کر سنتو کی رضامندی جانے بغیر وہ اندر چلی گئی۔ سنتو دل ہی دل میں مسکرا اٹھا۔ پانی کا بہاؤ بہت تیز ہو گیا تھا۔ بند ٹوٹنے ہی والا تھا۔ جب کھانا بن گیا تو سبھاگی اسے بلانے آئی۔ اس بار اس نے کوئی انکار نہیں کیا اور بغیر کچھ بولے، بکری کی طرح اس کے پیچھے پیچھے گھر کے اندر آ گیا۔ پیچھے سے اس نے باہر کا دروازہ بھیڑ دیا۔ وہ چوکے پر جا بیٹھا، تو سبھاگی چمچماتی نئی تھالی میں کھانا پروس کر لائی اور نئی نویلی دلہن کی طرح شرماتی لجاتی، کانپتے ہاتھوں سے تھالی نیچے رکھی، جیسے پہلی بار اپنے شوہر کے سامنے آ رہی ہو۔ سنتو اس کی حالت پر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔ اس نے تھالی میں ہاتھ لگایا، تو سبھاگی سامنے ہی دو قدم پر بیٹھ گئی۔ داہنی طرف چراغ جل رہا تھا۔ سبھاگی کا گھونگھٹ اب ماتھے پر آ گیا تھا۔ بندیا سے محروم پیشانی۔۔ ۔ سنتو ساکت ہو کر رہ گیا۔ آج کچھ ہونے والا تھا، کچھ نیا۔۔ ۔ دونوں ہی جذباتی ہو رہے تھے۔ سنتو نے دوچار لقمے کھائے ہو نگے کہ سبھاگی نے کہا، ’’جیجا، آپ بہت چالاک ہو۔‘‘

’’او۔۔ ۔؟ کیا مطلب؟‘‘ سنتو اس کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پایا۔

’’ہائے!  کتنے بھولے بن رہے ہو۔ میں سب جانتی ہوں آپ کوئی جادو جانتے ہو۔‘‘

’’جادو۔۔ ۔ تو؟‘‘ وہ اور زیادہ حیران ہو گیا۔

’’کیسے نہیں، ایسے تھوڑے نہ کسی عورت کا دل مرد کی طرف بھاگتا ہے۔ مرد جادو سے عورت کو بس میں کر لیتا ہے یا پھر کوئی جڑی بوٹی سونگھا کر۔۔ ۔ آپ کو ضرور کوئی کارگر منتر آتا ہے یا پھر آپ نے انجانے میں کوئی جڑی بوٹی سونگھادی ہے۔‘‘ سبھاگی کے ناخن کچی زمین کو کرید رہے تھے۔ سنتو سب سمجھ گیا۔

’’ہاں، شاید ایسا ہوا ہو، لیکن میں نے کس کو جادو سے اپنا اسیر میں کر لیا۔‘‘ دل ہی دل میں وہ مسکرا رہا تھا۔

’’آپ جانتے ہو، پھر مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟‘‘ سبھاگی نے شرما کر اپنا چہرہ آنچل میں چھپا لیا۔

’’تو میں بتاؤں، میں نے کیا کیا تھا؟‘‘ اس نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا، پھر تھالی میں ہی ہاتھ دھو کر اٹھ کھڑا ہوا۔

سبھاگی چونک گئی، ’’ارے اتنی جلدی۔ تم نے تو کچھ کھایا ہی نہیں؟‘‘ پہلی بار سنتو کے لئے اس کے منہ سے تم نکلا تھا۔

’’کچھ اور کھانے کا دل کر رہا ہے۔‘‘

وہ دو قدم آگے بڑا اور بنا کسی ہچکچاہٹ کے سبھاگی کا کومل پھول سا نازک بدن اپنی سخت بانہوں میں سمیٹ لیا۔ وہ کٹی پتنگ کی طرح سنتو کی بانہوں میں جھول گئی، جیسے جنم جنم سے اسے اسی لمحے کا انتظار تھا۔ دونوں کچھ پلوں تک ایک دوسرے کے بدن کی گرمائش محسوس کرتے رہے، پھر جیسے سبھاگی کو ہوش آیا ہو، وہ ہلکی سی مزاحمت کرتے ہوئے اس سے جدا ہو گئی، تاہم اتنی دور نہیں کہ وہ اسے دوبارہ نہ پکڑ سکے۔ گھبراتی ہوئی بولی ’’ہائے رام!  یہ کیا ہوا؟ میں اپنی عقل و فہم کیسے کھو بیٹھی؟ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

’’لوگ وہیں کہیں گے، جو کہہ چکے ہیں۔ اب ان کے پاس کہنے کے لئے نیا کیا ہو گا۔ تم خود سوچو، جب کچھ نہیں کیا تھا، تب بھی بدنام ہو رہے تھے۔ اب کچھ کر بھی لیں گے، تو کیا ہمارے دامن سے بدنامی کا داغ مٹ جائے گا۔‘‘

سبھاگی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کا دل اس کے اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ وہ تو کبھی کا سنتو کا ہو چکا تھا۔ پھر بھی ایک ڈر اس کے دل میں تھا۔ بولی، ’’جیجا، تم نے تو مجھے پھنسا لیا، تاہم چوری چھپے میں کب تک تمہاری بن کر رہ سکوں گی۔ جب کبھی تم اپنے گاؤں جاؤ گے، تو میں اکیلی سب گاؤں والوں کے طعنے اور گالیاں کیسے جھیل پاؤں گی؟ لوگ مجھے جینے نہیں دیں گے۔‘‘

’’تم فکر مت کرو۔ میں معاشرے کے سامنے تمہیں اپنا بنا لوں گا۔ کچھ دن ایسے ہی چلنے دو۔ تمہارے شوہر کی موت ہوئے دو مہینے ہی ہوئے ہیں۔ اتنی جلدی تم میرے نام کی چوڑیاں پہن لو گی، تو لوگ کہیں گے کہ ہم دونوں کا پہلے سے ہی کوئی چکر تھا اور ہم نے جان بوجھ کر رتن لال کو اپنے راستے سے ہٹا دیا ہے۔‘‘ اس نے سبھاگی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’کب تک انتظار کرنا پڑے گا؟‘‘

’’بس۔۔ ۔ ایک سال۔۔ ۔ ہم دونوں دنیا کے سامنے ایک دوسرے کے ہو جائیں گے۔ میں تمہاری مانگ میں اپنے نام کا سندور بھر دوں گا اور تم میرے نام کی چوڑیاں پہن لینا۔‘‘

’’اور دیدی۔۔ ۔؟‘‘

’’اس کے بارے میں بعد میں سوچیں گے۔ ابھی تو تمہارے بدن سے جڑی بوٹی کا اثر دور کرنا ہے، جس سے میں نے تمہیں مسحور کر دیا ہے۔ تم تیار ہو نہ!‘‘

’’کیسے دور کرو گے؟‘‘ وہ اس سے چپک کر بولی۔

سنتو نے ایک بار پھر سے اسے اپنے آغوش میں بھر لیا اور اس کے منہ کو چومتا ہوا بولا، ’’میرے پاس ایک دوسری جڑی ہے، جس سے پہلے والی بوٹی کا اثر دور ہو جاتا ہے۔‘‘

وہ رات سنتو کے زندگی کی سب سے میٹھی رات تھی۔ سبھاگی اس کی بیوی نہیں تھی، مگر اس رات ایک بیاہتا بیوی کی طرح اس نے خود کو سنتو کے قدموں میں نثار کر دیا تھا۔ سنتو ادھیڑ عمری کو پار کر رہا تھا، سبھاگی جوانی کے پہلے پائیدان پر تھی۔ اس کے حسن کا جادو اور بدن کی سوغات سنتو کے لئے آب حیات کی طرح تھا۔ وہ بے قرار ہو اٹھا تھا اور اس نے سبھاگی سے اس رات وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کا ہاتھ کبھی نہیں چھوڑے گا۔ زندگی کے ہر قدم پر وہ اس کا ساتھ دے گا اور اسے مصیبتوں سے بچائے گا۔ اور آج لگ بھگ ایک سال بعد سنتو، سبھاگی کو اپنے نام کی چوڑیاں پہنا کر، اس کی مانگ میں سندور بھر کر، اسے ایک شادی شدہ سہاگن کی طرح اپنے گھر لے آیا تھا۔ اس نے اپنی بیوی اور بچوں کو بھنک تک نہیں لگنے دی تھی، تاہم وہ اپنے گھر کو توڑنا بھی نہیں چاہتا تھا، ورنہ سبھاگی کی جائیداد کو بیچ کر وہ دونوں کہیں بھی جا کر آرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔ سبھاگی کو اپنے گھر لاتے وقت اسے یقین تھا کہ وہ پنیتا کو منا لے گا اور وہ حالات سے سمجھوتہ کر کے اپنے چھوٹے بھائی کی بیوہ کو سوتن کے روپ میں قبول کر لے گی۔ مدھر یادوں میں کھوئے رہنا انسان کو اچھا لگتا ہے، تاہم مدھر یادوں کے پل بہت قلیل ہوتے ہیں۔

ان مدھر پلوں میں کوئی نہ کوئی بات عجب ہو جاتی ہے۔ سنتو جب سبھاگی کی مدھر یادوں میں کھویا ہوا تھا، تبھی گلی کے کتوں کو اس کا جاگتے ہوئے میٹھے سپنے دیکھنا اچھا نہ لگا۔ پتہ نہیں کس بات پر وہ سب آپس میں لڑ پڑے اور سنتو کی مدھر یادوں کی کڑی ٹوٹ گئی۔ وہ چونکتے ہوئے چارپائی پر اٹھ بیٹھا اور ’’در در‘‘ کی تیز آواز سے انہیں بھگانے لگا۔ لیکن کتے بھی اسے اچھی طرح پہچانتے تھے۔ بگڑے بیٹوں کی طرح انہوں نے سنتو کی آواز کو اَن دیکھا کر دیا اور اپنے بھونکنے کے اپنے خاص کام پر زور شور سے لگے رہے۔ سنتو بھی کتوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر چارپائی سے اٹھ کر گھر کے اندر کی طرف بڑھا۔ گھر کے اندر مرگھٹ سا سناٹا تھا۔ وہ سہمے قدموں سے دہلیز پھلانگ کر آنگن میں آیا۔ آنگن کے درمیان میں کھڑے ہو کر چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ مغربی سمت والی کوٹھری کے باہر طاق پر رکھے دیے سے گھر میں دھندلی سی روشنی ہو رہی تھی۔ اس نے دیکھا، سبھاگی شمالی سمت والی دیوار پر رکھے چھپر کے نیچے سمٹ کر بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر تھوڑا کسمسائی، پھر پرسکون ہو گئی۔ پنیتا اور بیٹے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ شش و پنج میں کھڑا سوچتا رہا کہ پہلے پنیتا کے پاس جائے یا سبھاگی کے پاس۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے پنیتا کے پاس جا کر اس کے تیور کا پتہ لگانا چاہئے۔ سبھاگی سے بعد میں بات کرے گا۔ ابھی تو حالات کو سمجھنا زیادہ ضروری تھا۔ وہ جانتا تھا، پنیتا کہاں ہو گی؟ وہ دبے قدموں سے کوٹھری کی طرف بڑھا۔ دل میں ہچکچاہٹ تھا، ڈر بھی۔۔ ۔ پتہ نہیں پنیتا کیسا سلوک کرے اس کے ساتھ؟ اس کا پلڑا کمزور تھا۔ اسے بہت سنبھل کر پنیتا کو قابو میں لانا ہو گا۔ آج حالات دوسرے تھے اور وہ زور زبردستی، مار پیٹ یا حق سے پنیتا کو چپ نہیں کرا سکتا تھا۔ دیپک کی ملگجی روشنی سے کوٹھری میں نیم اجالا پھیلا ہوا تھا۔ پنیتا پرسکون، لیکن دل کے اندر بھیانک طوفان لئے لیٹی تھی۔ غنیمت تھی کہ اس نے گھر کے باہر کوئی ہنگامہ نہیں کیا تھا، شاید اس کا ایک سبب یہ رہا ہو کہ وہ جسے گھر میں لایا تھا، وہ اس کے سگے چھوٹے بھائی کی بیوی تھی۔

پنیتا کے سامنے ہی اس کے بھائی کا بیاہ ہوا تھا اور اس کے سامنے ہی سبھاگی اس کی چھوٹی بھاوج بن کر اس کے بھائی کے گھر آئی تھی۔ ابھی کل تین چار سال ہی ہوئے ہوں گے۔ بڑی گرم جوشی کے ساتھ پنیتا نے اپنی چھوٹی بھاوج کا اپنے میکے میں استقبال کیا تھا۔ اپنے بھائی کو اس نے اپنی گود میں کھلایا تھا اور اپنی آنکھوں سے اسے بڑا ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں تھا، لیکن اس کی پیاری بھابھی تو تھی۔ وہیں آج اس کی سوت بن کر اس کے گھر میں آ گئی تھی۔ پنیتا کو کیا کم دکھ ہو گا؟ اس کے دکھ کو کم کرنے کی تدبیر تو سنتو کو ہی ڈھونڈنی ہو گی۔ چارپائی کے قریب جا کر سنتو نے بغیرکسی ارادے کے کہا، ’’کھانا نہیں بنے گا کیا؟‘‘

کوئی اور موقع ہوتا تو شاید اس کی آواز میں حق کے ساتھ ساتھ دھمکانے والا انداز بھی ہوتا، تاہم آج گڑگڑانے والا لہجہ تھا۔ پنیتا بھری ہوئی بیٹھی تھی۔ اچھل کر اٹھ بیٹھی اور گرجتی ہوئی بولی، ’’ابھی بھوک باقی ہے کیا؟ جاؤ، اسی رس گلے کو کھاؤ۔ میرے پاس کیا ہے، دو بچوں کی ماں۔ دھوپ میں تپی ہوئی کالی کھوسٹ عورت۔ اب سونا پری لائے ہو، تو میرے پاس کیا کرنے آئے ہو؟ جاؤ اسی سے کھانا بنوا لو اور ٹھونس ٹھونس کر کھاؤ۔ مجھے تو مار کر تم گنگا میں ڈال آتے، دونوں لڑکوں کو بیچ دیتے، پھر مونچھوں میں تاؤ دے کر اسے بیاہ کر گھر لاتے۔ نہ میں دیکھتی، نہ بھونکتی۔ تم دونوں تو سکھی رہتے۔۔ ۔ کیوں کانٹا بنا کر سیج پر بچھا لیا، چبھیں گے نہیں۔۔۔؟‘‘ پنیتا کی کٹیلی باتوں سے بھی سنتو کو تکلیف نہیں ہوئی۔ ہوتی بھی تو ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ ابھی تو پنیتا کی جلی کٹی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینا تھا۔ ایک چپ، ہزار سکھ۔ خاموشی میں ہی بھلائی تھی۔

’’اب جو ہوا، اچھا یا برا۔۔ ۔ ہمیں ہی بھگتنا ہے۔ کھانا بناؤ، سبھی بھوکے ہیں اور دھرم اور ہیرا کہاں گئے؟‘‘

’’وہ بھی تمہاری طرح کسی کو پھنسانے میں لگے ہوں گے۔ آخر جوان ہو رہے ہیں، تمہارے لچھن تو سیکھیں گے ہی۔‘‘ پھر چارپائی پر لیٹتی ہوئی بولی، ’’جس کو بھوک لگی ہو، بنا لے۔ میں کسی کی نوکرانی نہیں ہوں۔ جاؤ، اب میرا جی نہ جلاؤ۔ کل پنچایت کے سامنے جب تمہاری کرتوت کھلیں گے، تو بتاؤں گی کہ کیسے اس کو گھر میں رکھتے ہو۔ اندھیر ہے کیا؟‘‘

سنتو کو اندازہ ہو گیا، زیادہ بات بڑھانے سے کہیں معاملہ بگڑ نہ جائے۔ رات بھی کافی ہو گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ گھر میں کوئی ہنگامہ ہو اور گاؤں والے تماشا دیکھیں۔ کل دن میں کچھ نہ کچھ ہو گا ہی۔۔ ۔ پنیتا چپ بیٹھے گی، نہ جاتی برادری والے۔ پنچایت تو بیٹھے گی ہی۔ وہ باہر آ کر ایک پل کے لئے سبھاگی کے پاس رکا اور کھڑے کھڑے ہی بولا ’’آج تو اپواس کرنا پڑے گا۔ تمہیں کچھ پتہ بھی نہیں کہ گھر میں کہاں کیا رکھا ہے؟ اندھیرے میں کہاں کہاں ڈھونڈو گی، اس لئے پانی پی کر سو جاؤ۔ کل صبح کھانے کا بندوبست کروں گا۔‘‘ پھر اس نے ایک چارپائی لا کر وہیں چھپر کے نیچے ڈال دی، ’’اس پر سو جاؤ۔‘‘

’’دیدی کیا بول رہی ہیں؟‘‘ سبھاگی نے مایوس ہو کر دھیمی آواز میں پوچھا۔

’’ابھی تو کچھ نہیں، پر غصہ بہت ہے۔ غنیمت مانو کہ بس غصہ ہی ہے۔ کہیں گھر کو سر پر اٹھا لیتی، تو غضب ہو جاتا۔‘‘

’’مان تو جائیں گی؟‘‘

’’مانے گی کیوں نہیں؟ آج نہیں کل مانے گی، آخر یہ گھر چھوڑ کر جائے گی کہاں؟ اس کو اور کہاں سہارا ملے گا؟ بوڑھے جسم کو تو کوئی بوڑھا مرد بھی نہیں پوچھے گا۔‘‘ سنتو نے زندگی کی سچائی سے سبھاگی کو روشناس کرایا۔ غریب شادی شدہ اور زندگی کے ناقابل برداشت غموں کی ماری ہوئی عورت کا شوہر کے سوا اور کون ہوتا ہے؟ دکھ میں ہی اسے سکھ کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ زندگی بھر وہ ایک خود فراموشی میں جیتی رہتی ہے کہ شوہر کے گھر میں وہ سکھ کی زندگی جی رہی ہے۔ اسی بھلاوے میں وہ شوہر کی ساری کوتاہیوں کو نظر انداز کرتی رہتی ہے۔ سنتو کے گھر میں اس دن پانچ کونے بن گئے تھے۔ سنتو، پنیتا اور سبھاگی کا ایک انوکھا تکون تھا۔ اس کے بیٹوں کے دو کونے الگ تھے، جو دکھائی تو نہیں دے رہے تھے، تاہم حادثات سے وہ بھی لا علم نہیں تھے۔

گھر کے پانچوں اشخاص اپنے اپنے کونوں میں کچھ لا ینحل سوالوں سے گھرے بیٹھے تھے۔ دل میں ان گنت گتھیاں تھی، جو گانٹھوں کی طرح ان کے دلوں میں گڑ رہی تھیں، مگر نہ تو وہ گتھیوں کو سلجھا پانے میں کامیاب ہو رہے تھے، نہ ان گانٹھوں کو کھول پانے میں۔ نیند کسی کی آنکھوں میں نہیں تھی۔ طرح طرح کے خیالوں سے ان کی آنکھوں کی نیند اڑی ہوئی تھی۔ کافی رات گئے، جب سناٹا اتنا گہرا ہو گیا تھا کہ سانسوں کی آواز بھی دور تک سنائی پڑنے لگی تھی، سبھاگی اپنی کھٹیا سے اٹھی اور ایک پل اپنے آس پاس کا جائزہ لے کر بنا آواز کئے ہولے ہولے پنیتا کی کوٹھری کی طرف بڑھی۔ باہر رکھا چراغ اب تک بجھ چکا تھا، شاید اس کا تیل ختم ہو گیا تھا، کیونکہ اسے کسی نے بجھایا نہیں تھا۔ کالی اندھیری رات تھی۔ آسمان میں پھولوں کی طرح کھلکھلاتے تارے بھی اس اندھیرے کو رتی برابر بھی کم کرنے میں کامیاب نہیں تھے۔ پنیتا کے دل میں بھی ایسا ہی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سبھاگی کے دل سے امید کا دیپک، گھر کے دیے کی طرح بجھ چکا تھا۔ سبھاگی اپنی بڑی نند کے دلی کیفیت کو محسوس نہیں کر سکتی تھی، تاہم سمجھ سکتی تھی۔ شام سے اب تک آنے والے مستقبل کے بارے میں وہ بہت کچھ سوچ بچار کر چکی تھی۔ کل ہونے والا بگولہ طوفان نہ بن جائے، اس کے لئے اسے ٹھنڈے دل سے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ یہی سوچ کر وہ پنیتا کے پاس جا رہی تھی۔

جھجک، خوف اور غیر یقینی کی اندرونی کیفیات میں سبھاگی کئی لمحات تک پنیتا کے سرہانے کھڑی رہی۔ اس کی تیز سانسوں کی آواز سانپ کی بھیانک پھنکار کی طرح سبھاگی کے کانوں میں دہشت کو پھیلا رہی تھی۔ پنیتا سوئی نہیں تھی اور شاید اسے سبھاگی کے سرہانے کھڑے ہونے کا احساس بھی ہو گیا تھا، اسی لئے اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی اور وہ ناگن کی طرف پھنکار رہی تھی۔ حوصلہ بٹور کر سبھاگی نے کہا، ’’دیدی۔۔ ۔‘‘

پنیتا شاید اسی پل کا انتظار کر رہی تھی، سانپ کی طرح اچھل کر چارپائی پر بیٹھ گئی اور کرخت آواز میں چلائی، ’’میرے پاس کیا لینے آئی ہے رانڈ۔ سب کچھ تو لے لیا، میرے گھر میں آگ لگا دی۔ اب اور کیا چاہئے؟‘‘ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی۔

’’دیدی، مجھے معاف کر دو۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ کر بولی۔

’’معاف کر دوں، کس لئے۔۔ ۔؟ میرا دل جل رہا ہے۔ دل کرتا ہے، آگ لگا کر تجھے پھونک دوں۔ تو میری بھاوج ہے کہ دشمن جو سوت بن کر میرے سینے پر سانپ کی طرح لوٹنے آئی ہے۔۔ ۔!  کیا اسی دن کے لئے اپنے بھائی کی بیوی بنا کر تجھے لائی تھی کہ میرے بھائی کو مار کر تو مجھے ہی ڈس لے۔ تیری جوانی کو آگ لگے۔ گاؤں جوار کے سارے مرد مر گئے تھے کیا، جو میرے مرد کے پیچھے پڑ گئی۔ دل کرتا ہے تجھے کچا چبا جاؤں۔‘‘ اور اس نے سچ مچ سبھاگی کا سر پکڑ کر اپنی طرف جھٹکے سے کھینچ لیا۔

سبھاگی تیار نہیں تھی، لہٰذا وہ آگے کی طرف لگ بھگ گر ہی پڑی۔ پنیتا نے اس کی چوٹی پکڑ کر کئی جھٹکے دیئے۔ سبھاگی پست ہو کر چارپائی کی پاٹی پر گر پڑی۔ مایوسی بھرے انداز میں پنیتا نے اس کی پیٹھ پر کئی تھپڑ جڑ دیئے، ’’مر جا بد ذات، میرے بھائی کا نام ڈبو دیا، اب میرے گھر کو مٹی میں ملانے آئی ہے۔‘‘

مار کھاتی ہوئی سبھاگی نے اپنا کوئی بچاؤ نہیں کیا، بس گڑگڑاتی ہوئی یہی کہتی رہی، ’’دیدی، تم چاہے مجھے مار ڈالو، تاہم پہلے میری بات سن لو۔ اگر تمہیں لگے کہ میں نے غلط کیا ہے، تو کل پنچایت کے سامنے میرا گلا کاٹ دینا، میں اف نہ کروں گی۔‘‘

پنیتا کے ہاتھ رک گئے۔ کیا کہنا چاہتی ہے سبھاگی؟ کیا بتانا باقی رہ گیا؟ اس نے سبھاگی کے بال پکڑ کر اس کا سر اوپر اٹھایا۔ پاٹی پر گرنے سے شاید اس کے ماتھے پر چوٹ لگ گئی تھی۔ دمکتے حسین ماتھے پر کالا سا نشان پڑ گیا تھا اور ہلکا گومڑ ابھر آیا تھا، تاہم سبھاگی کو اپنی مار اور چوٹ کی کوئی فکر نہیں تھی۔ اس کے دل میں تو کوئی اور بات چل رہی تھی اور وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کی بات سن کر پنیتا اس کے مجبوری بھرے حالات کو اچھی طرح سمجھ سکے گی اور اسے معاف کر دے گی۔

پنیتا نے کچھ نہیں پوچھا، لیکن سبھاگی نے خود ہی اسے بتانا شروع کیا کہ گاؤں والے کس طرح اسے لبھانے اور اپنے جال میں پھنسانے کے لئے چکر چلا رہے تھے۔ پٹے دار کس طرح اس کی جائیداد کو ہڑپ کرنے کے لئے اس کے ساتھ نا انصافی اور خراب رویہ رکھ رہے تھے۔ گاؤں والے چاہتے تھے کہ تنگ آ کر وہ گاؤں چھوڑ کر چلی جائے۔ اگر سنتو نہیں ہوتا تو اس کی لاش کا بھی پتہ نہ چلتا۔ آخر میں اس نے کہا، ’’دیدی، اب تمہیں بتاؤ، اس حالت میں میں کیا کرتی؟ کیا گاؤں کے لوگوں کی ہوس کا شکار بنتی اور پٹے داروں کے ہاتھوں اپنی جان گنواتی۔‘‘

سبھاگی کی باتوں کا تھوڑا بہت اثر پنیتا پر ہوا تھا۔ اس کے لئے ترحم کا جذبہ بھی ابھرا، آخر اس کی سگی بھوجی تھی، پھر بھی دل کا گمان دور کرنے کے لئے پوچھا، ’’تو کسی جوان کنوارے مرد سے شادی کر کے گھر بسا لیتی۔ میرے مرد پر ہی کیوں نظر ڈالی؟‘‘

’’دیدی، کسی انجان مرد سے شادی کرتی تو اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ وہ زندگی بھر میرا ساتھ نبھاتا۔ میری زمین جائیداد کے لالچ میں تو کوئی بھی مجھ سے شادی کر لیتا، مگر وہ بعد میں میری زمین بیچ کر اور مجھے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر کہیں چلا جاتا تو میں کیا کرتی؟ پھر غریب اور لٹی پٹی عورت کو کون سہارا دیتا؟ جیجا پر مجھے بھروسہ تھا۔ جس محنت اور لگن سے بغیر کسی لالچ کے گھر کا کام کرتے تھے، اس سے انہوں نے میرے دل میں اپنے لئے جگہ بنا لی۔ میں اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ جیجا کی بانہوں میں میں پوری طرح محفوظ رہوں گی اور میری جائیداد بھی۔ ہمارے پاس اتنی زمین ہے کہ اب ہمارے دونوں بیٹوں کو محنت مزدوری کے لئے کہیں بھٹکنا نہیں پڑے گا۔ پورے سال کا راشن بچانے کے بعد بھی اتنا اناج بچا لیں گے کہ ان کے پاس پیسوں کی کمی کبھی نہیں رہے گی۔‘‘

سبھاگی نے ’’ہمارے بیٹوں‘‘ پر زور دے کر کہا۔ سبھاگی کی بات سن کر پنیتا کا دل بلیوں اچھل پڑا۔ اس پہلو پر تو اس نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اب کھلے دماغ سے سوچا تو سمجھ میں آ گیا کہ سبھاگی فقط اس کی سوت ہی بن کر نہیں آئی تھی، بلکہ لاکھوں روپے کی زرخیز زمین بھی لائی تھی۔ اس کے لڑکوں کے زندگی میں اب کبھی کوئی کمی نہیں رہے گی۔ کھیتوں میں محنت کریں گے، تو زندگی بھر سکھ کی روٹی کھائیں گے۔ اس نے سبھاگی کو میٹھی نظروں سے دیکھا۔ اپنی بھاوج کیلئے اس کے دل میں ڈھیر سارا پیار امنڈ آیا، تاہم اس کو ظاہر نہیں کیا، بس نرم لہجے میں بات بدلتے ہوئے پوچھا۔

’’سچ بتا، کس کی غلطی سے یہ سب ہوا تھا؟‘‘ اس کے لہجے میں پیار اور مذاق دونوں تھے۔

’’دیدی، اب میں کیا بتاؤں۔ وہ مرد ہی تو ہے۔ ان کو میں کیا دوش دوں، میرا دل ہی ان کے اوپر آ گیا تھا۔ وہ تو میری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ پھر بھی مجھے لگتا ہے، انہوں نے میرے اوپر کوئی کارگر منتر کر دیا تھا یا پھر چپکے سے، انجانے میں کوئی جڑی بوٹی سونگھائی تھی، تبھی تو بغیر کچھ سوچے سمجھے میں ان کے بس میں ہو گئی۔‘‘

’’ہٹ پگلی!  ’’پنیتا نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر کہا، ’’مردوں کے پاس نہ تو کوئی منتر ہوتا نہ جڑی بوٹی۔ محنت کے پسینے سے نہایا ہو،ا ان کا دمکتا چمکتا بدن ہی عورت کے لئے سب سے آزمودہ منتر ہوتا ہے اور ان کے پسینے کی مہک ہی جڑی بوٹی ہوتی ہے۔ مرد اسی سے عورت کو اپنے مطیع کرتے ہیں۔‘‘

’’سچی دیدی!‘‘

’’ہاں اور کیا؟‘‘ ان میں اب بہناپا سا ہو گیا تھا۔ پنیتا کے دل کا سارا میل دھل چکا تھا۔ سبھاگی اب اسے نہ تو اپنی سوت لگ رہی تھی، نہ پرائی عورت۔۔ اس کی اپنی تھی، سگی بھاوج سے بھی بڑھ کر۔ اس نے سچے دل سے سبھاگی کو قبول کر لیا تھا۔ اس کو اپنے سینے سے چپکا کر آگے کہا، ’’تو اب دل سے سارا ڈر نکال دے۔ میرا بھائی چلا گیا تو کیا ہوا، میری اچھی بھاوج تو میرے ساتھ ہے۔ ہم دونوں مل کر اس گھر کو جنت بنا دیں گے۔‘‘

’’ہاں، دیدی!  ’’سبھاگی بس اتنا ہی کہہ سکی۔

دوسری صبح سنتو اٹھا تو نیند نہ آنے کی وجہ سے اس کا سر بھاری بھاری ہو رہا تھا۔ دل میں خوف کے بادل چھائے ہوئے تھے کہ رات میں گھر کے اندر نہ جانے کیا ہوا ہو۔ کوئی اَن ہونی نہ ہو گئی ہو۔ یہی جاننے کے لئے وہ بھاری دل اور تھکے بوجھل قدموں سے گھر کے اندر گھسا اور آنگن میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹ سی ہو گئیں، خوف سے نہیں، تعجب سے۔ ایسے منظر کی تو اس نے امید بھی نہیں کی تھی۔ سامنے چوکے میں پنیتا اور سبھاگی ایسے ہنس ہنس کر اپنائیت سے باتیں کر رہی تھیں، جیسے سالوں پہلے بچھڑی دو سگی بہنیں اچانک مل گئی ہوں۔ ان دونوں کے چہروں پر لا محدود خوشی جھلک رہی تھی۔ چولہا جل رہا تھا اور باتوں کے ساتھ ساتھ وہ دونوں مل کر کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ بھوک سے سبھی کے پیٹ جل رہے تھے۔

چولہے کے ساتھ ساتھ اب ان دو عورتوں کے دلوں میں پیار کی آگ بھی جل اٹھی تھی۔ ان کا آپس میں پیار دیکھ کر سنتو کی بھی بھوک جاگ اٹھی۔ دوسری آگ کے نیچے ابھی تک اس کی بھوک کی آگ دبی ہوئی تھی، لیکن اب جب دونوں عورتوں کے دلوں میں پیار کی آگ تیز ہوئی، تو اس کے دل سے ڈر کے ساتھ ساتھ دیگر سارے شکوک بھی دور ہو گئے۔ اس کے دل میں ولولہ بھر اٹھا۔ وہ آگے بڑھ کر بولا، ’’ارے بھئی، یہ تو کمال ہو گیا۔ ایک ساتھ اس طرح بیٹھ کر ہنسی خوشی سے کام کرتے ہوئے تم دونوں سگی بہنیں لگ رہی ہو۔ تمہارا آپس میں پیار دیکھ کر تو مجھے جلن ہو رہی ہے۔ اچھا، اب جلدی کھانا بناؤ، میری بھوک تیز ہو گئی ہے۔‘‘

’’ہاں، ہاں، بھوک کیوں نہ تیز ہو گی۔ سامنے رس گلا جو رکھا ہے۔ اسے کھا لو نہ!‘‘ پنیتا نے سبھاگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ مذاق کیا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت جھلک رہی تھی۔ سبھاگی نے جھٹ سے شرما کر منہ دوسری طرف گھما لیا۔

’’رس گلے کے ساتھ ساتھ مال پورا بھی کھانے کا دل کر رہا ہے، کھلاؤ گی نہ!‘‘ سنتو بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔

’’نہیں، مال پوا اب باسی ہو گیا ہے۔ رس گلا تازہ ہے، اسے ہی کھا لو، لیکن ایک بات کا خیال رکھنا، اس کے بعد کسی اور کو جڑی بوٹی سنگھایی تو خیر نہیں۔ اب ہم دو ہیں، گھر سے نکال باہر کر دیں گی۔ نہ گھر کے رہو گے نہ گھاٹ کے۔۔ رس گلا تو کیا باسی مال پوا بھی کھانے کو نہیں ملے گا، سمجھے؟‘‘ پنیتا نے مذاق میں چیتاؤنی دیتے ہوئے کہا۔ سنتو بس مسکرا کر رہ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹھونٹھ میں کونپل

 

 

رینا ملک کو پچیس سال کی عمر تک کسی سے پیار نہیں ہوا تھا اور اس بات کا اسے بہت غرور تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ شادی کے پہلے کا پیار، پیار نہیں ہوتا، بلکہ ہوس ہوتی ہے، محض جسمانی کشش ہوتا ہے۔ نوجوان لڑکا لڑکی ایک غیر اخلاقی اور ہیجانی تعلق کو پیار کا نام دے کر، فقط اپنی جسمانی بھوک کو رفع کر تے ہیں۔۔ ۔!

بڑی عجیب بات تھی کہ ایک خوبصورت اور جوان لڑکی کا چڑھتی عمر تک کسی لڑکے کو دیکھ کر دل نہیں دھڑکا تھا، کسی کی طرف اس نے اشتیاق بھری نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ کیا اس میں کوئی جسمانی یا دماغی کمی تھی، یا اس کے اصول اور گھریلو تعلیم اتنی قوی تھی کہ اس نے جان بوجھ کر اپنی آنکھوں میں گاڑھا موٹا پردہ ڈال لیا تھا، تاکہ اسے کچھ دکھائی نہ دے اور اپنے دل کو اس نے بھاری بھرکم بوجھ کے نیچے دبا رکھا تھا۔ اپنے نازک دل کو اس نے اصولوں کے مضبوط تاروں سے جکڑ رکھا تھا کہ وہ کسی لڑکے کیلئے دھڑک نہ اٹھے، کسی کو پیار کرنا یا نہ کرنا، یہ رینا کا شخص ذاتی معاملہ تھا اور اس میں کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا تھا، تاہم اس کی اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ بہت غلط انداز سے اس کے ہی اوپر پڑ رہا تھا۔ وہ سب سے الگ تھلگ ہوتی جا رہی تھی۔ سہیلیاں اپنے اپنے عاشقوں کے ساتھ زندگی کے مزے لوٹ رہی تھیں یا جب آپس میں ملتیں تو ایک دوسرے کے پیار محبت کے قصے، چٹخارے لے کر سنتیں، سناتیں۔ کالج کے لڑکے لڑکیاں اپنی مستیوں میں ڈوبے ہوئے رہتے تھے۔ ایسے میں خوبصورت باغیچے میں رینا ایک ٹھونٹھ کی مانند کھڑی ہوئی لگتی تھی۔ وہ کسی کی باتوں میں شامل نہیں ہوتی تھی اور نہ اس طرح کی باتوں میں کوئی اسے شامل کرتا تھا۔

وہ جب کالج کی لڑکیوں کے آس پاس ہوتی تو وہ ایسے ظاہر کرتیں، جیسے وہ کوئی انجان اور باہری لڑکی ہو، جو بھولے سے ان کے درمیان آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ وہ حسین تھی، بہت خوبصورت۔ لیکن اس کی خوبصورتی میں اداسی کا گرہن لگا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ سوکھی ہوئی لوکی کی مانند ہر وقت لٹکا ہی رہتا تھا۔ انجانے بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی پرچھائیں نظر نہیں آتی تھی۔ اپنی سہیلیوں کے درمیان وہ مردانہ عورت کے نام سے جانی جاتی تھی۔ سب اس کا مذاق اڑاتے، لیکن رینا دیکھا ان دیکھا کر دیتی اور سنی ان سنی۔ کچھ نزدیکی سہیلیاں جب اپنے پیار کے قصے چٹخارے لے کر سناتیں تو وہ کان پر ہاتھ دھر کر بند کر دیتی، منہ دوسری طرف گھما لیتی یا اٹھ کر چل دیتی۔ سہیلیاں اس کی ان حرکتوں پر کھلکھلا کر ہنس پڑتیں اور کہتی، ’’ٹھونٹھ کہیں کی، پتہ نہیں بھگوان نے اسے لڑکی کیسے بنا دیا۔ لگتا ہے، لڑکی کے وجود میں لڑکے کی جان ڈال دی ہے، مگر یہ تو کسی لڑکی کی طرف بھی مائل نہیں ہوتی۔ اس کے لئے لڑکے لڑکیاں سب ایک جیسے ہیں۔ پتہ نہیں کس کو پیار کرے گی، کرے گی بھی یا نہیں۔ لگتا ہے، تا عمر کنواری ہی رہ جائے گی۔ کون اس فٹے منہ کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے گا؟‘‘

رینا نے اپنے ارد گرد جو نہ ٹوٹنے والا حصار قائم کر رکھا تھا، اسے پار کرنے کی جرأت کوئی لڑکا بھی نہیں کرتا تھا۔ جب اس پر نئی نئی جوانی چڑھ رہی تھی، کئی بھنوروں نے اس کے اوپر منڈلا کر گنگنانے کی کوشش کی تھی، لیکن رینا ایک ایسا پھول تھی، جس میں خوشبو نام کا عنصر ڈالا ہی نہیں گیا تھا۔۔ وہ آگ نہیں تھی۔ وہ ایسی گیلی لکڑی کی طرح تھی، جس پر نہ تو آگ لگ سکتی تھی اور نہ اس پر پانی کچھ اثر کرتا تھا۔ وہ نہ بھیگتی تھی، نہ جلتی، اور تو اور وہ سلگتی بھی نہیں تھی۔ اس کی سب سے اچھی سہیلی نیہا نے ایک دن کہا، ’’کیوں اپنے زندگی کو بنجر بنا رہی ہو۔ زندگی میں پیار کے پھول نہ کھلیں اور خوشیوں کے رنگ نہ بکھریں، تو ایسے ٹھونٹھ زندگی کو جینے کا کیا فائدہ؟‘‘ نیہا ایک اچھے مزاج کی لڑکی تھی۔ وہ ہمیشہ رینا کے بھلے کے بارے میں سوچتی تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ رینا اپنی اداسی کو دور کرنے کے لئے یا تو شادی کر لے یا کسی سے پیار۔

’’پیار کروں گی، لیکن اپنے شوہر سے۔۔ ۔ اور سے نہیں۔ ” رینا نے اپنی لٹوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔

’’پیار کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ تم اپنا جسم ہی اس لڑکے کو سونپ دو۔ ” نیہا جیسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔

’’اس کے علاوہ لڑکے اور کچھ نہیں چاہتے ایک لڑکی سے۔‘‘ رینا نے کڑواہٹ سے کہا۔

’’چاہتے ہوں گے، تاہم یہ تو ہمارے اوپر انحصار کرتا ہے کہ کس حد تک ہم ان کو اپنے نزدیک آنے دیتے ہیں۔ ”

’’میں نہیں سمجھتی کہ سیما لکیر کھینچ کر کوئی کسی سے پیار کرتا ہے۔ جب لڑکا لڑکی تنہائی میں ملتے ہیں تو ساری حدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔‘‘ رینا اتنی خود اعتمادی سے یہ بات کہہ رہی تھی، جیسے اس نے اپنے زندگی میں اسے اچھی طرح سے تجربہ کر لیا تھا۔

’’لیکن میں سمجھتی ہوں کہ تم قانون بنا کر پیار کر سکتی ہو، کیونکہ تمہارا مزاج الگ ہے۔ تم اپنے چاروں طرف ایک لکیر کھینچ سکتی ہو۔ کوئی بھی لڑکا اسے پار کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ لڑکی کے خیالات پاکیزہ اور اونچے ہوں، دل میں لا محدود خود اعتمادی ہو تو کوئی بھی لڑکا تم سے کسی طرح کی زیادتی نہیں کر سکتا۔‘‘

’’مجھے ضرورت ہی کیا ہے کہ میں کسی سے پیار کروں؟ ” وہ تھوڑا جھنجھلا کر بولی۔

’’ضرورت تو نہیں ہے، تاہم تم کسی کو اپنے دل میں بسا کر دیکھو، تب پتہ چلے گا کہ پیار سے محروم زندگی سے، پیار سے لبریز زندگی کتنی الگ ہوتی ہے۔ ٹھونٹھ پر تو بھٹکا ہوا پرندہ بھی نہیں بیٹھتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اجاڑ ریگستان کا ایک سوکھا ہوا ٹھونٹھ بن کر رہ جاؤ اور اس پر کبھی کوئی کونپل تک نہ اگے۔ اپنے زندگی کو ویران مت بناؤ۔ اپنے اصولوں سے تم ہم سب سے بھی دور ہوتی جا رہی ہو۔ کوئی بھی لڑکی تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی۔ تم بالکل الگ تھلگ پڑتی جا رہی ہو۔ ایک دن میں بھی تمہیں اکیلا چھوڑ دوں گی، تو بتاؤ تم کالج میں کس کے ساتھ ہنسو گی، بولو گی اور کس کے ساتھ اٹھو گی، بیٹھو گی۔ لڑکے تو پہلے سے ہی تم سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ اب کوئی تمہاری طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسی خوب صورتی کس کام کی، جس کا کوئی سوالی نہ ہو، کوئی گاہک نہ ہو۔‘‘ نیہا نے جیسے اسے پھٹکارتے ہوئے کہا۔

رینا کے دماغ کو ایک گہرا جھٹکا لگا۔ کیا پیار زندگی کے لئے اتنا ضروری ہے؟ کیا یہی ایک ایسا دھاگہ ہے، جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، انہیں خوش رکھتا ہے۔ اس کے خیالات میں ایک بگولا سا اٹھا اور وہ اس کی شدت سے ایک جانب کٹی پتنگ کی طرح اڑ چلی۔

ایسی بات نہیں تھی کہ نیہا نے اسے پہلے کبھی نہیں سمجھایا تھا۔ ان دونوں کے درمیان اس طرح کی باتیں ہمیشہ ہوتی رہتی تھیں، تاہم رینا ایک کان سے سنتی اور دوسرے سے نکال دیتی۔ پیار کی باتوں کو اس نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لیکن دھیرے دھیرے وہ خود محسوس کرنے لگی تھی کہ جیسے وہ ہجوم کے درمیان بھی اکیلی تھی۔ سبھی اس کے شناسا تھے، مگر نہ تو کوئی اس کی طرف دیکھ رہا تھا، نہ کوئی اس کی بات سن رہا تھا۔ وہ منتظر سی ایک کنارے کھڑی تھی اور لوگ ہنستے کھلکھلاتے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے چلے جا رہے تھی۔ وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ کیا اس دنیا میں اس کا کوئی وجود بھی ہے؟ اگر ہے، تو پھر لوگ اس کی طرف مائل کیوں نہیں ہوتے؟ کیوں اسے الگ تھلگ کرنے پر آمادہ تھے؟ اس بات کا جواب تو اسی کے پاس تھا اور وہ اس سے بخوبی واقف تھی۔ اس رات رینا بہت بے چین رہی۔ اس کی آنکھوں کی نیند اڑ چکی تھی، بدن کسمسا رہا تھا۔ وچار اس کے مستشک کو شانت نہیں رہنے دے رہے تھے اور بدن کا تناؤ اس کے سارے اعضاء کو توڑ مروڑ رہا تھا۔ اس کے دماغ میں سوچیں گڈ مڈ ہو رہی تھیں اور وہ یک سو ہو کر کسی بھی ایک بات پر سوچ نہیں پا رہی تھی۔ اگلی صبح رینا نے جب آئینے میں اپنی صورت دیکھی، تو اسے لگا کہ اداسی کی ایک اور پرت اس کے چہرے پر چڑھ گئی تھی۔ پرت در پرت اس کا چہرہ اداسی کے جنگل میں گم ہوتا جا رہا تھا اور جنگل دھیرے دھیرے گھنا ہوتا جا رہا تھا۔ یہ سچ مچ فکر کی بات تھی۔ پچیس کی عمر میں لڑکیوں کے چہرے پربسنت کے پھول کھلتے ہیں، نہ کہ پت جھڑ کے سوکھے پتے وہاں اڑتے ہیں۔ یہ کیا ہوتا جا رہا ہے اسے؟ نیہا نے اسے ایک دن پھر ٹوکا تھا، ’’کیا تمہیں نہیں لگتا کہ تم چڑ چڑی ہوتی جا رہی ہو۔ بات بے بات تمہیں غصہ آنے لگا ہے؟ ”

’’تو۔۔ ۔ کیا کر سکتی ہوں؟ ” وہ منہ لٹکا کر بولی۔

’’بہت کچھ۔۔ ۔ اتنا تعلیم یافتہ ہونے کے بعد بھی کیا تم نہیں سمجھتی کہ ایسا تمہارے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟ اگر تم نے خود کو نہیں سدھارا تو سمجھ لو، تم پاگل پن کی سمت اپنے قدم بڑھا رہی ہو۔ جلد ہی تمہیں ہسٹریا کے دورے پڑنے لگیں گے۔‘‘

’’کیا ایسا ہوتا ہے؟ میں تو پوری طرح صحت مند ہوں!‘‘

’’جسمانی طور پر صحت مند ہو، لیکن دماغی طور سے نہیں۔ جن جوان عورتوں کی جسمانی بھوک ٹھنڈی نہیں ہوتی، وہ ہسٹریا کے دوروں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ دیہاتی عورتیں بھوت پریت کے چکر چلاتی ہیں اور اس طرح باباؤں کے پاس جا کر علاج کے بہانے اپنی بھوک مٹاتی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہیں بھی اسی دور سے نہ گزرنا پڑے کہیں تم سوچ سوچ کر پاگل نہ ہو جاؤ۔‘‘

’’کیا تم مجھے ڈرا رہی ہو؟‘‘ رینا حقیقتاً ڈر گئی تھی۔

نیہا نے اسے اداس نظروں سے دیکھا، ’’نہیں میں حقیقت بیان کر رہی ہوں۔ تم جلدی سے شادی کر لو۔ یہی تمہارے لئے مناسب رہے گا، پیار تم کسی سے کر نہیں سکتی۔‘‘

نیہا کا زور صرف کہنے بھر تک کو تھا۔ ماننا نہ ماننا رینا کے اوپر تھا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک رینا ایک وہم میں جیتی رہی تھی۔ اس کی گھریلو تربیت نے بہت گہرائی تک اس کے دل میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ پیار محبت، لڑکے لڑکیوں کا آپس میں میل جول اور ان سے تنہائی میں ملنا، نہ صرف بری بات ہوتی ہے، بلکہ اس سے معاشرتی اور گھریلو عزت احترام میں بھی آنچ آتی ہے۔ اسی خیال کو اپنے دل میں پالتے ہوئے رینا، بدن میں آئیں تبدیلیوں، اپنے احساسات اور جسمانی تقاضوں سے لڑتی ہوئی جی رہی تھی۔۔ ۔ جی بھی نہیں رہی تھی، تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے چہرے پر ایک جھوٹا نقاب ڈال رکھا تھا اور سچائی کا سامنا کرتے ہوئے ڈرتی تھی۔ سچائی تو کچھ اور ہی تھی۔

اوپر سے وہ کچھ بھی دکھاوا کرتی رہی ہو، مگر اندر سے وہ ایک بھرپور جوان لڑکی تھی۔ عام سی لڑکیوں کی طرح اس کے دل میں بھی تمنائیں اور خواہشات جنم لیتی تھیں۔ اس کے دل میں بھی مدھر خیال آتے تھے، کسی سے پیار کرنے کا جی ہوتا تھا۔ لڑکوں کو دیکھ کر اس کا دل بھی دھڑکتا تھا، تاہم جھوٹا نقاب توڑنے کی اس کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ دل ہی دل میں وہ گھٹ رہی تھی۔ بی اے اور ایم اے کرنے کے بعد اس نے اسی کالج سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ اب اسی کالج میں پڑھا بھی رہی تھی۔ اسی کالج میں کتنے لڑکے اس کے دیوانے تھے، کتنے استاد اسے اپنے آغوش میں سمیٹنے کے لئے بیتاب تھے، لیکن وہ سب سے بچتی بچاتی رہی تھی۔ اتنے دنوں تک اس نے اپنے آپ کو کس طرح دھوکے میں رکھا تھا، وہی جانتی تھی۔ اپنے دل کے سارے ارمانوں کو اس نے چکنا چور کر دیا تھا۔

جسمانی تبدیلیوں، ذہنی فکرات اور سہیلیوں کے طعنوں یا دشنام سے وہ اب کچھ زیادہ ہی منتشر رہنے لگی تھی۔ دل بغاوت کرنے کیلئے کہتا، تاہم ناگزیر ذمے داری اور نیک چلنی اسے ہمیشہ روک لیتی۔ گھٹن بڑھتی جا رہی تھی اور وہ کچھ فیصلہ نہیں لے پا رہی تھی۔ آخرکار اس نے اپنی سہیلی نیہا کو اپنی ذہنی کیفیت سے روشناس کرایا۔ سن کر نیہا اسرار بھرے ڈھنگ سے مسکرائی اور اسے اپنے جملے میں بھر کر بولی، ’’تو

شیشہ پگھل رہا ہے۔ ٹھونٹھ میں بھی شگوفہ پنپنے لگا ہے، مبارک ہو!‘‘

’’تم مجھے کوئی راستہ بتاؤ۔‘‘ اس نے بیچارگی کے انداز سے کہا۔

’’پیار تم کرو گی نہیں، شادی کر لو۔‘‘ نیہا نے سادے سے لہجے میں جواب دیا۔

’’مذاق مت کرو، تمہیں پتہ ہے، میں ابھی شادی نہیں کر سکتی۔ گھر میں کوئی اس بارے میں بات تک نہیں کرتا۔‘‘ اس کے لہجے میں مایوسی بھری تھی۔

’’ہاں، دودھ دینے والی گائے کو کون دوسرے کے کھونٹے سے باندھنا چاہے گا۔‘‘ نیہا نے دکھ بھرے انداز میں کہا۔ نیہا کی بات سے رینا کا دل دکھی ہو اٹھا۔ گھر میں اس کا بڑا بھائی تھا۔ اس کی شادی ہو چکی تھی، تاہم ایک نمبر کا نکما اور آوارہ تھا۔ باپ اور بہن کی کمائی پر اپنا کا اور بیوی کا پیٹ پال رہا تھا۔ اس کی وجہ سے گھر میں لگ بھگ روز لڑائیاں ہوتی تھیں، لیکن اس کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑتا تھا۔ سب اسے گھر سے الگ کرنا چاہتے تھے، تاہم وہ گھر سے الگ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ مفت کی روٹیاں جو توڑنے کو مل رہی تھیں۔ اس کے نکمّے پن کی وجہ سے ماں باپ رینا کی شادی میں بھی تاخیر کر رہے تھے، تاکہ جب تک اس کی شادی نہ ہو، کم سے کم اس کی تنخواہ تو گھر میں آتی رہے۔

’’میں بہت پریشان ہوں۔‘‘ رینا نے جیسے سب کچھ نیہا کے بھروسے چھوڑ دیا تھا،

’’اب میں اکیلا پن برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘

’’تو کسی سے دوستی کر لو۔‘‘ نیہا نے راستہ بتایا۔

’’لیکن کس سے؟‘‘ اس نے جیسے اپنی ذمے داریوں کو ٹھکرا کر ہار مان لی ہو۔

’’جس پر تمہارا دل آ جائے۔‘‘

’’اگر وہ بھی میرے بدن کا بھوکا ہوا تو۔۔ ۔؟‘‘ اس نے خدشہ ظاہر کیا۔

’’تو تم کسی سے پیار نہیں کر سکتی۔‘‘ نیہا نے زور سے کہا، ’’بیوقوف، پہلے دوستی تو کر کسی سے۔۔ ۔ بعد میں اگر لگے کہ اس کے ساتھ پیار کیا جا سکتا ہے تو آگے بڑھو، ورنہ چھوڑ دو۔ پھر شادی ہونے تک انتظار کرو۔‘‘

رینا کو نیہا کی بات مناسب لگی۔ کسی سے دوستی کرنے میں کیا ہرج ہے؟ اپنی حدود میں رہے گی، تو کیا مجال کہ اس کے پاکیزہ بدن کو کوئی اپنے ناپاک ہاتھوں سے میلا کر سکے۔ اس کے دل کا سونا پن دور ہو جائے گا۔ اس کا دل مچل اٹھا۔ دل کی آنکھوں سے اس نے سارے لڑکوں کو جمع کر ڈالا۔ بہت سارے نوجوان تھے، مگر اس سے بہت دور، اب اسے ہی اپنی کوششوں سے ان میں سے کسی ایک کو اپنے قریب لانا ہو گا، یا اس کے قریب جانا ہو گا۔ یہ کام بہت مشکل تھا، کیونکہ اس کے مزاج سے سبھی واقف تھے۔ تاہم اس نے نا ممکن کو ممکن کرنے کی ٹھان لی تھی۔ نیہا کی صلاح اور ترغیب اسے پیار کی ڈگر پر آگے بڑھنے کی تحریک دے رہے تھے۔ پرشانت کالج میں اس سے دو سال سینئر تھا۔ سائنس پڑھاتا تھا۔ رینا پہلے بھی اس کے بارے میں سوچا کرتی تھی، اب تو پورا دل ہی اس کے اوپر فدا ہو گیا تھا۔ ان کے درمیان اکثر باتیں نہیں ہو پاتی تھیں۔ پرشانت، تحمل مزاج کا تھا، تو رینا نک چڑھی اور اپنے غرور میں ڈوبی رہنے والی۔ دونوں کی سرشت میں چپ رہنے کے علاوہ اور کوئی مشترکہ بات نہیں تھی۔ دونوں اپنی اپنی دنیا میں کھوئی رہنے والی مخلوق تھے اور ان کے بیچ میں دوستی یا بول چال جیسی کوئی بات نہیں تھی، جبکہ وہ دونوں ایک ہی کالج میں پڑھاتے تھے اور اسٹاف روم میں اکثر ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا۔ نیہا ان کے بیچ ذریعے بنی۔

اسٹاف روم میں جب نیہا، پرشانت کے سامنے بیٹھی، اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس کو الجھائے ہوئی تھی، تو رینا اس کی بغل میں بیٹھ کر نئی نویلی دلہن کی طرح شرماتی لجاتی، اپنی آنکھوں میں دنیا کے سب سے خوبصورت خواب سجائے، کبھی ترچھی نظر سے، کبھی سیدھے دیکھتی ہوئی مسکرائے جا رہی تھی۔ پرشانت کو رینا کی ان بے تکی حرکتوں پر بڑا تعجب ہو رہا تھا۔ وہ باتیں تو نیہا سے کر رہا تھا، لیکن نظریں رینا کے رنگ بدلتے چہرے پر جا کر بار بار اٹک جاتی تھی۔ اس نے رینا کو پہلے بھی دیکھا تھا، تاہم اتنا چنچل کبھی نہیں۔۔ ۔ وہ کسی نرم احساس سے نہیں، بلکہ تعجب بھرے انداز سے رینا کو گھورے جا رہا تھا۔ نیہا نے بھانپ لیا اور بولی، ’’کیوں سر!  رینا پر دل آ رہا ہے کیا؟ باتیں آپ مجھ سے کر رہے ہیں اور دیکھ اس کو رہے ہیں۔‘‘

وہ جھینپ گیا، ’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے سر نیچا کر لیا اور بلا وجہ میز پر رکھی کتاب کو الٹنے پلٹنے لگا۔ نیہا نے معنی خیز نگاہوں سے رینا کی آنکھوں میں جھانکا۔ رینا بھی مسکرائی، جیسے اس کو پیار کا خزانہ دستیاب ہو گیا ہو۔

’’لنچ کا وقت ہو رہا ہے، کینٹین میں چل کر کچھ کھا پی لیتے ہیں۔‘‘ نیہا نے تر غیب دی۔

’’ہاں، بالکل ٹھیک۔۔ ۔ بہت زوروں کی بھوک لگی ہے۔‘‘ رینا نے چہک کر کہا۔ اس تجویز پر بھی پرشانت کو تعجب ہوا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ نیہا بھی آج اس سے گھل مل کر باتیں کر رہی تھی۔ رینا بھی اس کو دیکھ کر بندروں کی طرح کھسیائے جا رہی تھی۔ آخر چکر کیا تھا؟ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ نیہا نے کینٹین چلنے کی تجویز پیش کی تو اسے اور زیادہ تعجب ہوا۔ یہ آج دن میں چاند ستارے کہاں سے چمکنے لگے۔ دونوں کو اس کے اوپر کیوں اتنا پیار آ رہا ہے کہ اسے ساتھ چل کر لنچ کرنے کے لئے کہہ رہی ہیں۔ کوئی نہ کوئی بات تو لازمی ہے، ورنہ نیہا جیسی سمجھدار اور سلجھی ہوئی لڑکی اس کے ساتھ اس طرح گھل کر باتیں نہیں کرتی۔ دل میں اندیشوں کے بادل امڈ رہے تھے، تاہم یہ بادل تبھی چھٹ سکتے تھے، جب وہ زیادہ سے زیادہ ان کے ساتھ رہے، ان کی باتیں سنے اور ان کے اندر کے راز کو سمجھے۔ اس نے کہا، ’’اگر آپ لوگوں کی خواہش ہے، تو۔۔ ۔۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

’’لیکن کالج کی کینٹین میں نہیں۔ وہاں بہت سارے کالج کے طلباء طالبات آتے ہیں۔ کچھ جاننے والے بھی ہوں گے۔ بلا وجہ مشہوری ہو گی اور لوگ باتیں بنائیں گے۔ چلئے، باہر کہیں چلتے ہیں۔‘‘ نیہا نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’لیکن دو بجے میری کلاس ہے!‘‘ پرشانت نے اٹکتے ہوئے کہا۔

’’ہم جلدی ہی لوٹ آئیں گے۔ کالج کے سامنے ہی کسی ریستوراں میں بیٹھ کر کچھ ہلکا پھلکا کھا لیں گے۔‘‘

یہ رینا کی پرشانت کے ساتھ پہلی ملاقات تھی، تاہم دونوں کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی۔ نیہا ہی اس کے ساتھ باتوں میں مصروف رہی۔ ریستوراں میں کھانے کے دوران وہ بنا کسی جھجھک کے پرشانت کو ہی کھل کر دیکھتی رہی تھی۔ پرشانت اس کی نگاہوں کی تاب نہیں لا پا رہا تھا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے، تاہم وہ ان کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ وہ زیادہ تر وقت گم صم رہا اور نیہا کی بک بک سمیت رینا کی نگاہوں کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ رینا جتنا آنکھیں چرانے والی لڑکی تھی، اتنا ہی آج کھل کر وہ پرشانت کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس دن اس کی کچھ خاص سمجھ میں نہیں آیا۔ پرشانت کی دو بجے کی کلاس تھی، اس لئے وہ تینوں جلدی ہی ہلکا پھلکا کھا کر کالج کے اندر آ گئے۔ اگلی دو تین ملاقاتیں بھی نیہا کے ذریعے سے ہوئیں۔ پرشانت کو دھیرے دھیرے بات سمجھ میں آ رہی تھی، اس کے دل میں اندیشے تھے، تو رینا کے دل میں اصولوں کی بیڑیاں۔ وہ دونوں کھل کر آپس میں بات کرنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ نیہا ہی باتوں باتوں میں رینا کے دل کی جھوٹی سچی باتیں پرشانت کو بتا کر اس کے دل کو رینا کی طرف مائل کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ پرشانت اور رینا خود ایک دوسرے کی طرف نہیں بڑھیں گے، چنانچہ اسے ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑا۔ ایک دن اسٹاف روم میں جب رینا اس کے ساتھ نہیں تھی تو نیہا نے پرشانت سے پوچھا، ’’رینا کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟‘‘

وہ من موہنی مسکراہٹ کی جلیبی اپنے چہرے پر لپیٹتا ہوا بولا، ’’میں تو آپ کے بارے میں سوچتا ہوں۔‘‘

نیہا چوکی نہیں، اسے کوئی تعجب بھی نہیں ہوا۔ بوجھل انداز سے بولی ’’میرے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔ میں آپ کے ہاتھ آنے والی نہیں، آپ رینا کے بارے میں سوچو، وہ آپ کی طرف مائل ہے، آپ کے بارے میں باتیں کرتی رہتی ہے۔ مجھے لگتا ہے، وہ اپنے دل میں آپ کو بسا چکی ہے۔‘‘

’’ہو سکتا ہے، تاہم وہ مجھے عورت نہیں لگتی۔ اس میں کوئی نسوانی خصوصیات نہیں ہیں۔ وہ ٹھونٹھ ہے ٹھونٹھ۔۔ ۔‘‘

’’بیکار کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔ وہ ایک بہت خوبصورت لڑکی ہے، باہر سے بھی اور اندر سے بھی۔۔ ۔ ایک بار کوشش کر کے تو دیکھو۔ اوپر سے ٹھونٹھ کو دیکھ کر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی جڑیں ہری نہیں ہیں۔ ٹھونٹھ میں بھی کونپلیں نکلتی ہیں، اگر ڈھنگ سے اسے سینچا جائے۔‘‘ نیہا گمبھیر تھی اور پرشانت کے دل میں تذبذب کے بادل امڈ رہے تھے۔

’’مجھے اس کی آنکھوں میں اپنے لئے پیار جیسا کوئی احساس نہیں دکھائی دیتا۔‘‘

’’پیار کے معاملے میں وہ ابھی بچی ہے۔ اسے پیار کرنا نہیں آتا، تاہم اس کے دل میں پیار کا سمندر ابل رہا ہے۔ بس بند کو توڑنا پڑے گا، پیار کا سمندر بہہ نکلے گا۔ دیکھنا، ایک دن جب اس کے پیار کا باندھ ٹوٹے گا تو تم ڈوب جاؤ گے، نکل نہیں پاؤ گے اس سے۔‘‘

’’لیکن جب وہ ہنستی ہے، تو جوکر لگتی ہے۔‘‘

’’آپ اسے پیار سے ہنسنا سکھا دو۔‘‘ نیہا نے اسے اکسایا۔

ہر روز اسی طرح کی باتیں ہوتیں۔ روز روز نیہا سے رینا کی باتیں سن سن کر پرشانت اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ وہ اس کے دل و دماغ میں قبضہ جماتی جا رہی تھی اور وہ اس کے بارے میں سوچنے کے لئے مجبور گیا تھا، اب تو حالت یہ ہو گئی کہ رینا ایک پل کے لئے بھی اس کے دماغ سے نہیں نکلتی تھی۔

’’رات دن گھٹتے رہنے سے کیا فائدہ۔۔ ۔؟ بات کو آگے بڑھانا چاہئے؟‘‘ نیہا نے اسے سمجھایا اور پھر اس نے ہمت کر کے ایک دن رینا کو تنہائی میں پروپوز کر ہی دیا، ’’رینا، برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔‘‘

’’کہو!‘‘ اس نے تجاہل سے کہا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ پرشانت کیا کہنے والا تھا۔ نیہا نے اسے بتا دیا تھا۔

’’میرے ساتھ گھومنے چلو گی؟‘‘ وہ جھجکتے ہوئے بولا۔

’’کہاں؟‘‘

’’جہاں تم کہو۔‘‘

’’میں کسی جگہ کے بارے میں نہیں جانتی۔ آپ اپنی مرضی سے چاہے جہاں لے چلنے، تاہم میں ایک شرط پر چلوں گی۔ میں آپ کے ساتھ کسی سناٹے والی جگہ پر نہیں چلوں گی اور وعدہ کریں کہ آپ میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کریں گے۔‘‘

رینا کے اصولوں نے سانپ کی طرح بل سے منہ نکالنا شروع کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب دونوں کے درمیان پیار کی شروعات جیسی کوئی سنجیدہ گفتگو ہو رہی تھی اور رینا اپنی ناسمجھی سے بات کو بگاڑنے میں لگی ہوئی تھی۔ پرشانت کو اس کی باتیں سن کر جھٹکا سا لگا۔ کیا اس لڑکی سے پیار کیا جا سکتا ہے؟ بڑی دشوار لڑکی ہے۔ اسے رینا کی بات پر غصہ تو بہت آیا، تاہم اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ اس کی سمجھداری سے ہی شاید بات بن جائے اور اس نک چڑھی اور گھمنڈی لڑکی کے زندگی میں پیار کی دوچار پھوہاریں پڑ جائے، جس سے یہ ہری بھری دکھنے لگے، ورنہ تو یہ ٹھونٹھ ہی ہے اور ٹھونٹھ ہی بنی رہنا چاہتی ہی وہ تو اس لڑکی سے کبھی پیار نہ کرتا۔ کبھی اس کا خیال تک اس کے دماغ میں نہیں آتا تھا۔ نیہا کی باتوں سے اس کا دل اس کے لئے مچلنے لگا تھا، ورنہ خوب صورتی کے علاوہ اس لڑکی میں کیا ہے؟ نہ کوئی تمیز ہے، نہ کوئی سمجھ۔۔ الو کہیں کی۔ اس نے اپنے غصے کو فی الحال قابو میں کیا، تاہم اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا، اسے سبق سکھا کر رہے گا۔ اپنے آپ کو بہت پاک صاف سمجھتی ہے اور ستی ساوتری کی طرح رہنا چاہتی ہے۔ ٹھیک ہے، تم بھی کیا یاد کرو گی کہ پرشانت سے پالا پڑا ہے۔ وہ کوئی مٹی کا مادھو نہیں ہے کہ تم اسے بیوقوف بنا کر نچاتی پھرو گی۔ انجانے میں ہی سہی، تاہم دونوں کے بیچ گھومنے کا سلسلہ چل پڑا۔ دونوں اکثر شام کو کالج کے بعد ساتھ ساتھ گھومنے جاتے۔ پرشانت جان بوجھ کر ایسی جگہ بیٹھتا، جہاں خوب بھیڑ بھاڑ ہو۔ بس، میٹرو یا آٹو میں بھی وہ رینا سے اتنی دوری بنا کر رکھتا، کہ رینا کو واضح احساس ہوتا رہے کہ وہ اس کے لمس کے لئے بے قرار یامتجسس نہیں ہے۔ ایسی لڑکیوں کو انتظار سے ہی صحیح راستے پر لایا جا سکتا تھا۔ پارک میں یا راستے میں کبھی بھی آتے جاتے پرشانت پیار بھرا کوئی لفظ نہیں بولتا۔ رینا کے حسن یا پہناوے پر بھی اس نے کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے رینا کو یہ احساس ہو کہ وہ اسے پیار کرنے لگا ہے یا اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے بے قرار تھا۔ وہ اس کی خوب صورتی سے بھی متاثر ہوتا نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں بیگانوں کی طرح ملتے، ادھر ادھر کی فالتو باتیں کرتے اور شام کا اندھیرا ہونے سے پہلے جدا ہو کر اپنے اپنے گھر چلے جاتے۔ کئی مہینے بیت جانے پر بھی پرشانت نے ابھی تک اس کے کسی عضو کو بھولے سے بھی نہیں چھوا تھا۔ رینا سمجھ گئی تھی کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا تھا۔ پرشانت کے انداز سے وہ جل بھن کر رہ جاتی۔ اسے اپنے حسن کی توہین سمجھتی، تاہم اپنے منہ سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی، کیونکہ ابتدا میں اس نے ہی یہ شرط رکھی تھی کہ وہ اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ غلطی اسی تھی، اب اسے کیسے سدھار سکتی تھی۔ اس طرح کے ملن سے دونوں برسات کی رم جھم پھوہاروں میں بھیگنے کے بجائے ریگستان کی تپتی دھوپ میں جھلس رہے تھے۔ رینا کوئی پتھر نہیں تھی۔ پرشانت کے ساتھ گھومنے پھرنے اور بیٹھنے سے اس کی امیدوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ پوری طرح سے پرشانت پر مائل ہو چکی تھی اور دل ہی دل میں اسے پیار کرنے لگی تھی۔ ہر کوشش کرتی کہ پرشانت اس کی تحسین کرے، اس کے لئے پیار کے دو لفظ بولے۔ اس کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ سج سنور کر آتی اور دل ہی دل میں سوچتی کہ پرشانت اس کی خوبصورتی اور کپڑوں کی تعریف کرے گا، لیکن وہ شریف شخص کی طرح خاموش رہتا۔ گھور گھور کر دوسرے لوگوں کی طرف دیکھتا رہتا، لیکن رینا سے آنکھ نہ ملاتا۔ رینا نے ایک دن کہا، ’’چلو کہیں تنہائی میں بیٹھتے ہیں۔‘‘

پرشانت چونک کر بولا، ’’یہاں تنہائی کہاں ملے گی؟‘‘

’’لودھی گارڈین چلتے ہیں، وہاں سناٹا ملے گا۔‘‘ رینا نے چہکتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں کیسے پتہ؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’نیہا نے بتایا ہے۔‘‘ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔

پرشانت مان گیا۔ وہ دونوں لودھی گارڈین گئے، سناٹے میں بھی بیٹھے، لیکن ڈھاک کے وہی تین پات!  پرشانت اس سے دور ہی بیٹھا رہا۔ رینا مخملی گھاس پر بیٹھی تھی۔ اس نے جان بوجھ کر اپنی جگہ پر کچھ گڑنے کا بہانہ بنا کر اس کی طرف کھسکنے کی کوشش کی تو وہ اور پرے کھسک گیا۔ رینا نے کڑھتے ہوئے اس کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا، تاہم وہ انجان اور بے پرواہ سا بیٹھا رہا۔ رینا پھر اس کی طرف پھر کھسکی، ’’کچھ باتیں کرو نہ۔‘‘

’’تم کچھ بولو،‘‘ وہ گھاس کے تنکے توڑتا ہوا بولا۔

’’دیکھو، وہ پھول کتنے خوبصورت ہیں۔‘‘

’’سارے پھول خوبصورت ہوتے ہیں۔‘‘ وہ جیسے کسی طالب علم کو سمجھا رہا تھا۔ رینا کے دل میں ہزاروں من برف جم گئی۔ کیسے بے وقوف شخص کو اپنے دل میں بسانے کی بھول کر بیٹھی وہ؟ کیا اسی کو پیار کہتے ہیں۔ وہ جیسا سوچتی تھی، ویسا تو کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ لڑکے کس طرح لڑکیوں سے چپکتے ہیں، کیسے ان کے جسم سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے پیار کرتے ہیں، ویسا تو پرشانت اس کے ساتھ کچھ نہیں کر رہا ہے۔ اس کا مطلب وہ غلط سوچتی تھی کہ سارے لڑکے لڑکیوں کے بدن کے بھوکے ہوتے ہیں۔ پرشانت تو اس کی طرف دیکھتا تک نہیں، اس کی خوبصورتی کی تعریف تک نہیں کرتا۔ آج تک پیار کا ایک لفظ چھوڑو، ایسا بھی کوئی لفظ نہیں بولا، جس سے یہ لگے کہ وہ رینا کو پسند کرتا تھا۔ لیکن اس نے خود بھی تو پرشانت کے لئے ایسا کچھ نہیں کہا۔ غلطی تو اس کی بھی ہے۔۔ ۔؟ کیا وہ خود پیار کا اظہار نہیں کر سکتی؟ کر سکتی ہے، مگر ہچکچاہٹ اور شرم کی بیڑیوں سے اس کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ ایک لڑکی ہے۔ ایسی لڑکیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا جو پیار میں بے شرمی سے کام لیتی ہیں۔ رینا کو اب اس طرح کے میل ملا پوں سے گھٹن ہونے لگی تھی۔ اس کا دل مخالفت پر آمادہ تھا۔ پرشانت سے اسے کچھ امید نہیں تھی کہ وہ اس کے ساتھ کچھ کرے گا یا پیار کے دو لفظ بول کر اس کے دل میں رنگ برنگے پھولوں کی مہک بکھرا دے گا۔ وہ تو خود ٹھونٹھ بنتا جا رہا تھا۔ رینا نے ہی کچھ کرنے کی ٹھانی۔ وہ اس سے چپک کر بیٹھنے لگی، جان بوجھ کر پرشانت کے ہاتھوں کو یا کسی دوسرے عضو کو چھو لیتی اور اس کی چھوٹی سی بات پر بھی کھل کھلا کر ہنس پڑتی۔ پرشانت اس کے چھونے سے ’’سوری‘‘ بول دیتا اور جب وہ ہنستی تو اس کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا۔

شام کو رینا دیر تک بیٹھنے کی ضد کرتی۔ اندھیرا ہو جاتا تب بھی وہ دونوں بیٹھے رہتے۔ اندھیرے میں رینا اس کو جی بھر کے دیکھتی، جیسے کوئی معتقد اپنے دیوتا کو تکتا ہوا مؤدب اور پرسکون بیٹھا رہتا ہے کہ کبھی تو بھگوان ظاہر ہو کر اس کو آ شیر باد دیں گے۔ لیکن ایسے موقعوں پر پرشانت گھر جانے کے لئے بیتاب رہتا تھا۔ اٹھ کر کھڑا ہو جاتا اور کہتا، ’’گھر چلو، اندھیرا ہو گیا ہے۔‘‘ وہ دل مار کر کڑھتے ہوئے چپ چاپ اس کے پیچھے چل دیتی۔ دونوں کے درمیان ایسا کچھ نہیں ہو رہا تھا، جسے پیار کے نام سے جانا جا سکے۔ رینا مایوس اور بد دل ہوتی جا رہی تھی۔ جب اس نے اپنی بیڑیاں توڑ کر کھلی فضا میں سانس لینے کوشش کیا تو سارے پیڑ مرجھا گئے، پھولوں کی خوشبو غائب ہو گئی، جنگل میں آگ لگ گئی۔ اس کے لئے نہ تو بھنوروں نے گیت گائے، نہ تتلیوں نے رنگ بکھرائے۔ سارا جہاں اس کے لئے ویران ہو گیا۔ اس نے اپنے دل کے احوال نیہا سے بیان کئے۔ پرشانت کی درشتی پر نیہا کو بھی حیرانی ہوئی، تاہم وہ سمجھ گئی کہ پرشانت ایسا کیوں کر رہا تھا۔ دونوں کے بیچ کی دیوار آسانی سے ٹوٹنے والی نہیں تھی۔ رینا کو ہی کچھ کرنا ہو گا، نیہا نے اسے مشورہ دیا۔ اگلے دن رینا نے اپنے زندگی کا سب سے خوبصورت میک اپ کیا۔ سب سے اچھی گلابی رنگ کی ساڑی پہنی۔ بلاؤز تو فقط نام کے لئے تھا۔ بلاؤز اتنا چھوٹا تھا کہ اس کی گوری چکنی بانہیں، پیٹھ، پیٹ اور اوپری حصہ کافی حد تک نمایاں تھا۔ پرشانت کے ساتھ آج پیار کی بساط پر سب سے بڑا مہرہ کھیلنے جا رہی تھی وہ۔ اگر یہ مہرہ پٹ گیا، تو وہ پیار کی بازی ہار جائے گی۔ یہ اس کے لئے زندگی موت کا سوال تھا۔ آج نہیں تو کبھی نہیں۔۔ ۔

شام کا جھٹپٹا ہونے لگا تھا۔ بوٹ کلب کے کنارے گڑہل کے پودوں کے بیچ وہ بیٹھے تھے۔ یہ رینا کی ہی ضد تھی کہ وہ دونوں سب کی نظروں سے چھپ کر بیٹھیں۔ آج وہ آس پاس نہیں بیٹھے تھے بلکہ روبرو بیٹھے تھے۔ یہ بھی رینا نے کہا تھا۔ رینا کے دمکتے حسن، گٹھیلی اٹھانوں اور اچھلنے کیلئے بیتاب انگوں پر پرشانت کی نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ آج سے زیادہ خوبصورت وہ پہلے کبھی نہیں لگی تھی۔ پرشانت کی ساری حسیں بے قابو ہو رہی تھیں۔ وہ بے چین ہو گیا تھا اور اپنے دل کو قابو میں کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، لیکن رینا جیسے اس سے زیادہ بیتاب تھی۔ رینا نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پرشانت کی قمیض کے کالر کے نیچے دونوں طرف پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔ وہ لگ بھگ اس کے اوپر جھک آیا۔ وہ تقریباً اسے گرا کر بولی، ’’میں بہت خراب لڑکی ہوں؟‘‘

’’آں۔‘‘ پرشانت سمجھ نہیں پایا، کیا کہے؟

’’آپ سمجھتے ہیں، میرے اندر دھڑکتا ہوا دل نہیں ہے، میری کوئی جذبات نہیں ہیں؟‘‘ اس کی آواز میں رقت بھرتی جا رہی تھی۔ پرشانت ہکا بکا ہو گیا تھا اور وہ کچھ بولنے کی حالت میں نہیں تھا۔ اس کا منہ رینا کے کھلے سینے کے اوپر جھکا ہوا تھا، تاہم اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ رینا کے بدن کی ایک نشیلی خوشبو، پرشانت کے نتھنوں میں بھرتی جا رہی تھی۔ کتنی مد ہوش کر دینے والی خوشبو تھی۔ رینا واقعی بہت خوبصورت اور پرکشش لڑکی تھی۔ کوئی بھی اس پر مر سکتا تھا۔

’’آپ مجھ سے بدلہ لے رہے ہیں؟‘‘ وہ دھمکانے کے انداز میں بولی۔

’’نہیں تو۔۔ ۔۔‘‘ کچھ نہ سمجھ کر بھی پرشانت بولا، ’’کیسا بدلہ۔۔ ۔؟‘‘

’’معصوم اور بھولے بننے کی کوشش مت کرو۔ یہ میری ہی غلطی تھی، جو پہلی ملاقات میں، میں نے آپ کو مجھے چھونے سے منع کیا تھا۔ وہی غصہ ابھی تک آپ کے دل میں بھرا ہوا ہے، ہے نہ!‘‘ پرشانت کچھ نہیں بولا، لیکن وہ جانتا تھا کہ سچ یہی تھا۔ رینا نے اس کی قمیض کو اپنے دائیں بائیں کھینچا کہ اس کے بٹن تڑتڑا کر ٹوٹ گئے۔ رینا لگ بھگ روہانسی ہو کر بولی۔

’’آپ اپنا غصہ اس طرح بھی ظاہر کر سکتے تھے، جیسے میں نے ابھی کیا ہے۔ مجھے تڑپانے میں آپ کو مزہ آ رہا تھا۔ آپ جان بوجھ کر مجھے نظر انداز کرتے رہے اور میں بغیر آگ کے سلگتی رہی۔ کیا آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ جب لڑکی کے منہ سے لڑکے کے لئے نہ نکلتا ہے تو وہ اندر سے ہاں کہتی ہے۔ پیار کرنے والے اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ آپ نے سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟‘‘

اب تک اندھیرا پوری طرح چھا گیا تھا۔ انڈیا گیٹ اور راج پتھ پوری طرح سے بجلی کی روشنی سے جگمگ ہو اٹھا تھا، لیکن ان کے ارد گرد اندھیرا تھا۔ رینا نے لپک کر پرشانت کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ دیئے اور گڑگڑاتی ہوئی بولی، ’’آج آپ نے میرا گھمنڈ توڑ دیا ہے۔ میں ہار گئی، اب میں آپ کی ہوں۔ آپ میرے ساتھ زور زبردستی کرتے، میرے بدن کے ساتھ کھلواڑ کرتے تو مجھے اچھا لگتا۔‘‘ پھر وہ ہانپنے لگی، جیسے بہت لمبی دوڑ لگا کر آئی ہو۔ لیکن یہ جسمانی تھکن کی وجہ سے نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے اندر ایک آتش فشاں دہک رہا تھا، جس کی آنچ میں وہ تپ رہی تھی۔ اس نے پرشانت کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا، ’’لیجئے میں آپ کے سامنے حسین روپ سے موجود ہوں، جیسے چاہے مجھے پیار کریں۔ اب میں کسی وہم میں نہیں جینا چاہتی۔ اب تک میں ایک ویران ریگستان میں بھٹک رہی تھی، اب اور زیادہ بھٹکنا نہیں چاہتی۔ میری خواہشات کو سمجھو اور مجھے پیار کرو۔ بہت تڑپ چکی ہوں میں۔۔ ۔ غرور کو لے کر میں اب تک جی رہی تھی۔ یہ بھی کوئی جینا ہے۔ میں ٹھونٹھ نہیں ہوں، پرشانت، میں ٹھونٹھ نہیں ہوں۔ دیکھو میرے اوپر بھی پیار کی کونپلیں نمودار ہو رہی ہیں۔‘‘ اس نے رونا شروع کر دیا تھا۔ اس نے زور سے پرشانت کے ہاتھوں کو اپنے سینے پر دبا دیا۔ پرشانت کے بدن کو ایک زور کا جھٹکا لگا، جیسے اس نے آگ کے دو بڑے انگاروں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے ہوں۔ اس کی آواز گم ہو چکی تھی، مگر بدن کانپ رہا تھا۔

رینا لگ بھگ اس کے اوپر گر پڑی۔ اس کے بھرے بھرے ہونٹ پرشانت کے ہونٹوں پر ٹک گئے۔ پرشانت جب تک پیچھے ہٹتا، رینا نے اس کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں بھر کر دبا لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے گرم گرم آنسو ان دونوں کے ہونٹوں کے اوپر گر کر مٹھاس میں کھارے پن کا احساس دلا رہے تھے، جیسے انہیں آگاہ کر رہے ہوں کہ پیار میں اگر زیادہ مٹھاس ہوتی ہے، تو اس میں نظر اندازی کا کھارا پن بھی ہوتا ہے۔ اب پرشانت کے ہاتھ رینا کی ننگی پیٹھ پر پھسل رہے تھے۔ ٹھونٹھ میں سچ مچ کونپلیں نکل آئی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

پردہ گرتا ہے

 

 

 

منوہر نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ اس نے کسی کو تکلیف بھی نہیں پہنچائی تھی، پھر بھی داروغہ نے اسے سارے گاؤں کے لوگوں کے سامنے طمانچہ مارا تھا۔ وہ بھونچکا رہ گیا تھا۔ طمانچے کے زور سے اس کا گال ہی نہیں، سر بھی جھنا گیا تھا۔ بدن لہرا کر ایک طرف جھک گیا تھا۔ ایک پل کے لئے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گم ہو گئی تھی۔ جب دماغ کچھ ٹھکانے ہوا اور اس کے سوچنے سمجھنے کی حسیات نے کام کرنا شروع کیا، اس نے حیرت اور رنج بھری نگاہوں سے داروغہ کو گھور کر دیکھا تھا داروغہ غصے میں کانپ رہا تھا، ’’سالے، حرام زادے، تم لوگوں نے پولیس کو کیا سمجھ رکھا ہے،؟ چمگادڑ جو الٹے لٹکے رہتے ہیں یا کنویں کا مینڈک۔ جو تھانے میں آ کر ٹھاٹھ سے غلط سلط رپورٹ لکھاتے ہو اور سمجھتے ہو پولیس تمہاری نوکر ہے۔ دوڑی دوڑی آئے گی اور تمہارے کہے مطابق ایک نامعلوم چور کو تلاشنے کے لئے خاک چھانتی پھرے گی۔ تمہیں تنخواہ دیتے ہو نہ ہمیں؟ مار مار کر بھرتا بنا دوں گا۔‘‘

گاؤں کے لوگ بھی حیران تھے۔ اس بات پر کہ منوہر تو فریادی تھا، اسے داروغہ نے کیوں مارا؟ اس کا کیا قصور؟ یہ تو نا انصافی تھی۔ چور کو تو پولیس نے گالی تک نہ دی اور جس کے گھر میں چوری ہوئی تھی، اسے سرِعام تھپڑ رسید کر دیا۔ سب کے دل میں ایک غصہ ابل رہا تھا، تاہم داروغہ سے پنگا کون لے؟ کہیں ان کی ہی ماں بہن کرنے لگے، سب کے سامنے دو ڈنڈے چوتڑوں پر رسید کر دے، تو ان کی کیا عزت رہ جائے گی۔ منوہر نے اپنے چاروں طرف نظر ڈالی۔ لوگ ڈرے سہمے کھڑے تھے۔ پھر بائیں جانب دیکھا، سورج بھان چارپائی پر بیٹھے سنگ دلی سے اسے دیکھ کر مسکرائے جا رہے تھے۔ داروغہ اس کو تھپڑ مارنے کے بعد سورج بھان کے نزدیک جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔

سورج بھان چارپائی پر اس طرح اکڑ کر بیٹھے تھے، جیسے پورے گاؤں کے وہیں کرتا دھرتا تھے۔ سچ بھی تھا۔ وہ گاؤں کے پردھان تھے۔ وہ جو کہیں گے، وہی ہو گا۔ پولیس کا داروغہ بھی ان کے حکم کا غلام تھا، منوہر سمجھ گیا، سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا تھا۔ جان بوجھ کر اسے بے عزت کرنے کیلئے چور کو سچا اور اسے جھوٹا ثابت کر کے، سارے گاؤں کے سامنے بے عزت کرنے کا ڈرامہ رچا گیا تھا۔ تاہم یہ کہاں کا انصاف تھا کہ پولیس کا داروغہ ایک چور کی بات کو سچ مان رہا تھا، لیکن اس کی بات کو دروغ گوئی، جس کے گھر میں چوری ہوئی تھی۔ منوہر کی توہین کی آج عروج پر تھی۔ مصیبت تو اسی دن شروع ہو گئی تھی جب اس نے پردھانی کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فیصلہ اس اکیلے کا نہیں تھا۔ وہ انتخاب لڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ وہ اپنی کھیتی باڑی اور خاندان میں مگن تھا۔ پشتینی کاشتکاری تھی۔ دو بھائیوں میں بٹوارہ ہو جانے کے بعد بھی دونوں بھائیوں کے حصے میں مناسب زمین آئی تھی۔ ضرورت سے زیادہ اناج پیدا کر لیتے تھے، اسی لئے فصل کی کٹائی کے بعد ان کے ہاتھ میں کچھ روپے آ جاتے تھے۔ دونوں بھائی امیر تو نہیں، تاہم گاؤں کے کھیت مزدوروں کے مقابلے میں خوشحال تھے۔ خوشحال ہونے کے باوجود گاؤں کے بڑوں کے درمیان ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی، کیونکہ منوہر دلت تھا اور گاؤں کے پسماندہ ماحول میں ذات پات کی جڑیں بہت گہرے تک سمائی ہوتی ہیں، جنہیں کاٹ کر پھینک پانا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا۔ غریب دلتوں میں فقط منوہر اور اس کے بڑے بھائی جواہر کے مکان ہی پکے تھے۔ بڑا بھائی ان پڑھ تھا، تاہم منوہر نے گاؤں کے اسکول میں پانچ جماعت تک پڑھائی کی تھی۔ گاؤں میں اعلی ذات والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان میں بھی ٹھاکروں کی کثرت تھی، انہی کے پاس زیادہ تر زمینیں تھی، روپیہ پیسہ تھا۔ گاؤں کے زیادہ تر نیچ ذات اور دلت جاتی کے لوگ ٹھاکروں کے کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنی روزی روٹی چلاتے تھے، اس بار جب پردھان کے انتخاب کا اعلان ہوا تو کئی لوگوں نے منوہر کو اکسایا کہ وہ انتخاب میں کھڑا ہو جائے۔ اس کے دو اسباب تھے، ایک تو اپنی جاتی برادری کے مقابلے میں وہ تھوڑا خوشحال کسان تھا اور انتخاب کا خرچہ برداشت کر سکتا تھا، دوسرے وہ مزاجاً یار باش اور وقت پر لوگوں کی مدد کرنے والا شخص تھا۔ لوگوں کو یقین تھا کہ اس کے پردھان بننے سے گاؤں میں تھوڑی بہت ترقی ہو گی، ورنہ تو ابھی ترقی کے نام پر ٹھاکروں کے گھروں کے سامنے تارکول بچھا تھا، نالیاں بنی تھیں اور غریب دلت بستی کے نام پر آئے سرکاری نل، انہیں کے گھروں کے سامنے گڑے تھے۔ گاؤں میں اعلی ذات والوں کی تعداد لگ بھگ آدھی تھی، تاہم چونکہ وہی لوگ خوشحال تھے، اس لئے گاؤں کی آدھی غریب آبادی انہیں کے گھروں اور کھیتوں میں کام کر کے اپنا پیٹ پالتی تھی اور وقت ضرورت پر روپے ادھار لیتی تھی۔ بدلے میں یہ لوگ غلامی جیسی زندگی جیتے ہوئے عمر بھر ٹھاکر مہاجن کا قرضہ ادا کرتے رہتے تھے۔ مطلب کہ وہ سارے لوگ بڑے لوگوں کے احسانوں تلے دبے تھے۔

یہیں سبب تھا کہ آج تک ٹھاکر ہی گاؤں کے پردھان ہوتے رہے تھے۔ پہلے ٹھاکر سورج بھان سنگھ کے پتا مکھیا تھے، بعد میں پردھان بنے۔ ان کی موت کے بعد سورج بھان نے ان کی وراثت سنبھال لی۔ جس طرح ان کے پتا لگاتار مکھیا اور پردھان بنتے رہے، اسی طرح سورج بھان بھی روایتی طریقے سے پردھان چنے جاتے رہے تھے۔ مگر اب گاؤں میں آگہی کی ایک لہر دوڑ چلی تھی۔ جب سے گاؤں پنچایت کے ذریعے سے دیہی تعمیر و ترقی کے لئے حکومت لاکھوں روپے دینے لگی تھی، تب سے پنچایت سے جڑے لوگوں کی چاندی ہونے لگی تھی۔ منصوبے تو کاغذوں میں پورے ہو جاتے، تھوڑی بہت ادھر ادھر کھدائی ہوتی، سڑک کے نام پر کچھ اینٹیں بچھ جاتیں، کچھ نالیاں بن جاتیں، تاہم یہ کام کل منصوبوں کا بیس فیصد بھی نہیں ہوتا تھا۔ سارا پیسہ ضلعی سطح سے لے کر پنچایت تک تمام منسلک لوگوں کے درمیان بنٹ جاتا تھا۔ سرکاری عمال اور ملازمین مالا مال ہو رہے تھے اور حکومت کا پیسہ کھا کھا کر ان کے منہ سرخ ہو رہے تھے، لیکن مزدور سوکھے پیڑ کے پتوں کی طرح جھڑ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں فقط جاب کارڈ تھے، گھروں میں اناج نہیں تھا اور جیب میں پیسے بھی نہیں تھے کہ اناج خرید سکیں۔ آگہی کی لہر کا اثر یہ ہوا کہ گاؤں کے کچھ ترقی پسند خیالوں والے، لیکن جیب سے تنگ نوجوانوں نے منوہر کو اکسا کر انتخاب میں کھڑا کر دیا۔ اس نے پرچہ بھر دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی اعلی ذات اور دلتوں کے بیچ کی کھائی مزید گہری گئی۔ انتخابی سیاست بڑی پر اسرار ہوتی ہے۔ یہاں جو لوگ منہ پر ووٹ دینے کی بات کرتے ہیں، وہ ہی پولنگ بوتھ کے اندر جا کر کسی اور کو ووٹ دے آتے ہیں۔ سورج بھان اور منوہر کے بیچ کانٹے کی ٹکر تھی، لیکن سورج بھان کا سب سے زوردار پہلو یہ تھا کہ اعلی ذات کے سبھی ووٹ انہیں ہی ملنے تھے۔ اس کے علاوہ دلتوں کے بھی بیشتر ووٹ انہیں ہی ملنے تھے، کیونکہ جو لوگ ٹھاکروں کی رحم دلی پر زندہ تھے، وہ منوہر کو ووٹ دینے کا حوصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ کیا کھا کر وہ ٹھاکروں کی مخالفت کرتے؟ منوہر کے جیتنے کا مطلب تھا، ان سبھی کے زندگی میں مصائب کا آنا۔ گاؤں میں ان کا جینا مشکل ہو جا تا۔ انتخابی مہم کے دوران سورج بھان نے منوہر کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا، ’’حکومت تم لوگوں کو سہولیات دے رہی ہے، تو کیا تم اپنے آپ کو پردھان منتری سمجھنے لگے؟ اپنی اوقات میں رہو، پردھانی کا انتخاب لڑ کر لکھنؤ نہیں چلے جاؤ گے۔ یہیں رہو گے نہ!  ایک ٹھاکر کی مخالفت کرنے کا نتیجہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ پردھان تو میں ہی بنوں گا۔ ایک بار انتخاب ہو جانے دو، پھر تم کو تمہاری اوقات دکھاتا ہوں۔ لومڑ ہو کر شیر کے سامنے غرانے کی جرات کی ہے۔ نوچ کر رکھ دوں گا۔‘‘

اس وقت سورج بھان دھمکانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے تھے؟ انتخاب تک وہ کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے تھے، جس سے کہ انتخاب ملتوی ہو جائے، اسی لئے فقط دھمکا کر رہ گئے تھے، تاہم ان کی باتوں سے ان کے خطرناک عزائم کی بو آ رہی تھی۔ منوہر کو اس خطرے کا اندازہ ہو چکا تھا، لیکن اب اس کے ہاتھ میں کیا تھا؟ نام واپس لینے کی تاریخ بھی ختم ہو چکی تھی۔ وہ سیدھا سادہ آدمی تھا، کسی کے مسئلے مسائل میں نہیں پڑتا تھا، لیکن اس بار پتہ نہیں کیسے وہ کچھ نوجوانوں کے بہکاوے میں آ گیا تھا۔ یہ کس خطرناک اور غلط راستے پر اس نے قدم بڑھا دیئے تھے؟ اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔

انتخاب والے دن تک وہ طرح طرح کی سوچوں سے گھرا رہا۔ فکر میں سوچ سوچ کر وہ ادھ مرا ہو چکا تھا۔ سورج بھان کے علاوہ اور بھی کئی لوگوں نے اسے خطرناک نتائج کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دی تھی۔ پتہ نہیں کیا کریں گے وہ لوگ؟ کون سا بھگتان اسے بھگتنا پڑے گا؟ وہ رات دن اندیشوں میں گھلنے لگا۔ اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ آزادی کے بعد بھی اعلی ذات والوں کی جانب سے غریبوں پر ظلم و جبر کم نہیں ہوئے تھے۔ وہ خود مختار تھا، اعلی ذات کے رحم و کرم پر زندہ نہیں تھا، تاہم یہ بات اسے اچھی طرح معلوم تھی کہ ٹھاکر سے دشمنی کر کے دلت کبھی جیت نہیں پایا ہے۔ ان کے پاس ہر طرح کے داؤ پیچ، چالاکی اور دشمن کو ہرانے کے ہتھیار موجود تھے۔ دھن بل اور سام دام دنڈ بھید کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں تھی۔ ان کی اونچی سوچ تک پہنچنے کی صلاحیت غریب دلتوں میں نہیں تھی۔ ہوتی تو کیا ہزاروں برسوں سے وہ غریب اور دلت رہتے۔

انتخاب بخیر و خوبی ہو گئے۔ جیسا کہ اندازہ تھا، منوہر شکست کھا گیا۔ اس کو نچلے طبقے اور دلتوں کے آدھے سے بھی کم ووٹ ملے تھے۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ گاؤں کی آدھی سے زیادہ آبادی ابھی بھی غلامی کے سائے میں جینے پر مجبور تھی۔ ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں تھی۔ اپنی مرضی سے نہ وہ کچھ سوچ سکتے تھے، نہ کر سکتے تھے۔ ان کے زندگی کی ڈور اعلی ذات کے ہاتھ میں تھی اور وہ جس طرح چاہتے تھے، انہیں نچاتے تھے۔

سورج بھان کی جیت کی خوشی میں بہت بڑا جلوس نکلا۔ جان بوجھ کر جلوس کو منوہر کے گھر کے سامنے روکا گیا۔ گھنٹوں وہیں پر ناچ گانا ہوتا رہا، ڈھول منجیرے اور بینڈ بجتے رہے۔ ناچ گانے کے بیچ میں منوہر کو بھدی بھدی گالیوں سے نوازا گیا، مگر انہیں سننے کے لئے وہ وہاں موجود نہیں تھا۔ دروازہ بند کر کے وہ گھر کے اندر چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے بڑے ہجوم سے پنگا لینے کا مطلب تھا، اپنی موت کو دعوت دینا۔ چپ رہنے میں ہی اس کی بھلائی تھی، سورج مغرب کی سمت جھکنے لگا تھا۔ شام ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں تھی۔ پیڑوں اور مکانوں کی پرچھائیاں لمبی ہو کر زمین پر پھیلنے لگی تھیں۔ لوگ باگ کھیتوں سے اپنا کام سمیٹ کر گھروں کی طرف لوٹنے لگے تھے۔ ایسے میں گرام پردھان سورج بھان تیز قدموں سے فقیر مسلمانوں کی گندی ملن بستی کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔

فقیروں کی یہ بستی ہندو دلتوں سے بھی گئی گزری تھی۔ کسی کے پاس کھیتی کے نام پر زمین کا ایک انچ ٹکڑا نہ تھا۔ گاؤں گاؤں جا کر دعا دے کر بھیک مانگنا ان کا پشتینی پیشہ تھا۔ اس دھندے میں کوئی برکت نہیں تھی۔ لوگوں کے دل سے رحم ختم ہوتا جا رہا تھا۔ مانگے بھیک نہیں ملتی تھی۔ اوپر سے دس گالیاں سننی پڑتی تھیں، لہٰذا کئی لوگوں نے ٹھاکروں کے کھیتوں میں مزدوری کرنی شروع کر دی تھی۔ قمردین عرف قمرو اپنے دروازے پر بیٹھا بیڑی سوت رہا تھا۔ گھر کے نام پر جھوپڑی نما ایک کوٹھری تھی۔ عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ غریب ہونے کے باوجود جسم مضبوط تھا۔ شادی ہو چکی تھی اور پانچ بچوں کا باپ بن چکا تھا، تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔ سبھی کی عمر دس اور دو سال کے درمیان تھی۔ لوگ طعنہ کستے تھے کہ اس کی بیوی اور بکری میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ بکری سال میں ایک بار دو تین بچے جنتی تھی، تو اس کی بیوی بھی ہر سال یا ڈیڑھ سال میں ایک آدھ بچہ ضرور جنتی تھی۔ قمرو، دکھاوے کے لئے ہاٹ بازاروں اور گاؤں میں لگنے والے میلے ٹھیلوں میں کپڑے بیچنے کا کام کرتا تھا، جیسے بنیان، دھوتیاں، تہمد اور گمچھے۔ پیٹ بھرنے لائق کما لیتا تھا، لیکن گاؤں کے سبھی لوگ جانتے تھے کہ گاہے بگاہے وہ گھروں میں نقب لگا کر چوریاں بھی کرتا تھا۔ بدن کا مضبوط تھا اور بیحد پھرتیلا بھی، اونچی سے اونچی دیوار بھی پھاند کر گھروں میں کود جاتا تھا۔ قمرو نے پردھان کو اپنے گھر کے سامنے دیکھا تو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا، ’’سلام مالک!‘‘

’’کیا حال ہیں قمرو؟‘‘ ٹھاکر صاحب نے زمانے بھر کی مٹھاس اپنی آواز میں گھولتے ہوئے کہا، جیسے ان سے بڑا، بھلا انسان اور قمرو کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہے۔

’’آپ کی مہربانی ہے مالک۔‘‘ قمرو نے چارپائی ڈالتے ہوئے کہا، ’’بیٹھئے مالک۔‘‘

ٹھاکر صاحب اطمینان سے چارپائی پر بیٹھ گئے۔ چاروں طرف نظر ڈالی۔ اس کی عورت سر پر دوپٹہ ڈالے کوٹھری کے دروازے پر بیٹھی تھی۔ لڑکے، لڑکیاں پھٹے پرانے کپڑوں میں نیم برہنہ سے ادھر ادھر کھیل رہے تھے۔ ٹھاکر کو دیکھ کر ارد گرد کھڑے ہو گئے تھے۔ بچوں کے دل میں فطری تجسس تھا۔ کوئی بڑا آدمی ان کے دروازے پر بھولے بھٹکے ہی آتا تھا۔ آتا بھی تھا تو اس طرح بیٹھ کر ان کے گھر کو پاکیزہ نہیں کرتا تھا۔ کمرو کی بیوی گلابو کے دل میں بھی یہی کرید تھی کہ گاؤں کے پردھان ان کے یہاں کیوں آئے تھے؟ بنا کام کے تو نہیں آ سکتے تھے آتے بھی تو اس طرح اطمینان سے چارپائی پر بیٹھ کر خیر صلاح نہیں پوچھتے۔ اس کے کان بھی کھڑے ہو گئے تھے اور سانس روک کر شوہر اور ٹھاکر صاحب کے درمیان ہونے والی باتیں سن رہی تھی۔

ٹھاکر صاحب نے جیسے احسان جتاتے ہوئے کہا، ’’اس بار سوچا ہے، تمہاری بستی کے لئے کچھ ترقی کا کام کیا جائے۔ جیسے ہی بجٹ آیا، سب سے پہلے تمہارے محلے میں ایک نل لگواؤں گا۔ پانی بھرنے کے لئے تمہاری گھر والی اور بچوں کو دوسرے محلے میں جانا پڑتا ہے۔ تمہارے گھر کے سامنے تو کافی خالی جگہ پڑی ہے۔ کہو تو تمہارے گھر کے سامنے ہی لگوا دوں۔ تم کو آرام ہو جائے گا۔‘‘

قمرو کی تو جیسے بولتی بند ہو گئی۔ گاؤں میں عوامی بہبود کے طرح طرح کے کام ہو رہے تھے، سب کی زندگی میں تبدیلی آ رہی تھی، تاہم آج تک کسی پردھان یا سرکاری عمال نے اس کی بستی کی طرف منہ نہیں کیا تھا۔ کتنی گندگی اور غریبی یہاں تھی، یہ کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ آج ٹھاکر صاحب کے منہ سے ایسی بات سن کر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ ٹھاکر صاحب اسے ایک فرشتے سے کم نہیں لگ رہے تھے۔

’’مالک، آپ تو خدا کے فرشتے ہیں۔‘‘ قمرو نے کمر کے بل جھک کر کہا۔

’’فنڈ زیادہ آ گیا تو تمہارے گھر کے سامنے پختہ گلی ور نالی بھی بنوا دوں گا۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے مزید دریا دلی دکھائی۔ قمرو تو جیسے بے حس و حرکت ہو گیا۔ وہ کچھ بھی نہیں کہہ پا رہا تھا۔ تبھی پیچھے سے اس کی بیوی کی آواز آئی، ’’ہم نے تو آپ کو ہی ووٹ دیا تھا۔ غریب ہیں، آپ کا کرم ہو جائے تو گھر کی حالت سدھر جائے۔ یہ ایک کچی کوٹھری ہے، اگر آپ پکی کروا دیں تو۔۔ ۔۔‘‘ پھر وہ چپ ہو گئی۔

ٹھاکر صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ پھر بولے، ’’ویسے اندرا کالونی کی اسکیم فقط دلتوں کے لئے ہے۔ آپ لوگ اس کیٹیگری میں تو نہیں آتے، تاہم میں کچھ ایسا کروں گا کہ تمہارا گھر پکا بن جائے، چاہے ایک چھوٹا کمرہ ہی سہی۔۔ ۔‘‘ اتنا سنتے ہی اس کے بچے اچھلنے کودنے لگے۔ چیخ چیخ کر سب کو بتانے لگے کہ ان کا گھر پکا ہو جائے گا۔ قمرو کے دروازے پر شور سن کر اڑوس پڑوس کی عورتیں، مرد اور بچے بھی اکٹھا ہو گئے تھے۔ سبھی دھیان سے ٹھاکر صاحب کی باتیں سننے لگے۔ موقع دیکھ کر پردھان جی سب کو بھروسہ دلانے لگے کہ ان کی ترقی اور بہبود کیلئے بھرپور کوشش کریں گے۔ مجمع زیادہ بڑھنے لگا تو وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور قمرو سے بولے، ’’کمرو ذرا میرے ساتھ آؤ!‘‘

وہ اپنے گھر کے راستے پر بڑھ چلے۔ پیچھے پیچھے قمرو تھا۔ کچھ دور تک جا کر سناٹے میں وہ رکے۔ اب اندھیرا پھیلنے لگا تھا، دور کا آدمی دکھائی نہیں پڑتا تھا۔ پردھان نے قمرو کے کان میں سرگوشی کے انداز میں کہا، ’’قمرو، تم سے ایک بات کہتا ہوں۔ اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہئے۔ بولو، کسی کو بتاؤ گے تو نہیں!‘‘

’’مالک، کیا بات کرتے ہیں۔ آپ کا دانہ پانی کھا کر بڑے ہوئے ہیں۔ نمک حرامی نہیں کروں گا۔ آپ ہمارے لئے فرشتے ہیں۔ اتنا کر رہے ہیں تو آپ کے لئے جان بھی حاضر ہے، بتایئے کیا کرنا ہو گا؟‘‘ قمرو نے یقین بھرے انداز میں کہا۔

سورج بھان سنگھ مطمئن ہو گئے۔ لمبی گہری سانس بھر کر بولے، ’’اتنا بڑا تیاگ نہیں کرنا پڑے گا تمہیں۔ یوں سمجھ لو کہ یہ تمہارے ہی لائق کام ہے، اسی لئے کہہ رہا ہوں۔‘‘ وہ اسرار کو گہرا کرتے جا رہے تھے۔ قمرو بات جاننے کے لئے بے چین تھا۔

’’آپ کام تو بتایئے!‘‘ وہ ہاتھ مل کر بولا۔

ٹھاکر صاحب نے چاروں طرف نظر گھمائی۔ دور دور تک کوئی دکھائی نہیں پڑ رہا تھا، نہ کوئی آہٹ سنائی پڑ رہی تھی۔ وہ مطمئن ہو گئے کہ آس پاس کوئی نہیں تھا۔ پھر بھی آواز کو اور دھیما کرتے ہوئے بولے، ’’تمہیں چوری کرنی ہو گی!‘‘

’’چوری!‘‘قمرو کو جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

’’ہاں، چوری!  مگر بہت سنبھل کر۔ کام ہونے سے پہلے کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہئے۔ کام ہونے کے بعد تمہیں تگڑا انعام دوں گا۔‘‘ کمرو کے گھربار کیلئے سورج بھان نے آج تک کچھ نہیں کیا تھا، نہ سرکاری طور پر نہ انفرادی طور پر، جبکہ کافی وقت سے وہ گاؤں کے پردھان تھے۔ لیکن آج کے سنہرے سپنوں سے وہ جیسے ان کے احسان تلے دب گیا تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ ان جیسے لوگوں کو ٹھاکروں کے ہی کھیتوں سے گزرنا ہوتا تھا۔ ان سے پنگا لے کر وہ کہاں رہ سکتا تھا۔ انکار کرنے کا مطلب تھا، ٹھاکروں سے دشمنی مول لینا۔ وہ سوچ میں ڈوب گیا۔

’’کوئی پریشانی ہے کیا؟‘‘ سورج بھان کو شک ہوا کہ وہ منع کر دے گا۔

’’نہیں،‘‘ وہ الجھن بھرے لہجے میں بولا، ’’پریشانی تو کوئی نہیں، پر یہ دھندہ چھوڑنے کی سوچ رہا تھا۔ کافی دنوں سے اس میں ہاتھ نہیں ڈالا ہے، تاہم آپ فکر نہ کریں۔ آپ کے لئے اسے کروں گا۔ کب کرنا ہو گا اور کہاں؟‘‘ کہتے کہتے اس کے لہجے میں قطعیت اور خود اعتمادی آ گئی تھی۔

’’ایک ہفتے کے اندر۔۔ ۔!‘‘

’’کس کے گھر میں کرنی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

ٹھاکر صاحب نے بتانے سے پہلے پھر سے چاروں طرف دیکھا اور جب مطمئن ہو گئے تو اس کے کان کے پاس منہ لے جا کر بولے، ‘منوہر!‘‘ قمرو چونکا، پھر سب سمجھ گیا۔

’’اور ہاں، منوہر کے گھر سے روپیہ پیسہ اور زیور ہی چرانے ہیں، باقی کچھ نہیں۔ چوری کا مال لے کر سیدھے میرے پاس آنا۔‘‘ ٹھاکر نے آگے بتایا۔

’’ٹھیک ہے، مالک!‘‘ قمرو نے کڑک دار آواز میں کہا، ’’ابھی میں یقینی دن نہیں بتاؤں گا، لیکن جس دن کام ہو گیا، سیدھا آپ کے پاس آؤں گا۔ رات میں ہی آؤں یا صبح؟‘‘

’’رات میں ہی آنا، صبح کوئی آتے جاتے دیکھ لے گا۔ پورے ہفتے میں باہر چوپال میں اکیلا ہی سوؤں گا۔ سمجھ گئے نہ!‘‘

’’بالکل، آپ اطمینان رہیں۔ کام ہو جائے گا۔‘‘

پھر دونوں الگ ہو کر اپنے اپنے راستے چلے گئے۔ تین دن کے اندر ہی قمرو نے اس کام کو انجام دے دیا۔ رات کے گھپ اندھیرے اور بھیانک سناٹے میں قمرو، ٹھاکر سورج بھان کی چوپال میں پہنچا تھا۔ وہ جیسے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ ہلکی آواز میں ہی اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئے۔

’’کون؟‘‘ انہوں نے دھیمی آواز میں پوچھا۔

’’میں قمرو، مالک!‘‘ وہ بھی سرگوشی میں بولا، ’’کام ہو گیا؟‘‘

’’کیوں نہ ہوتا مالک؟ آپ کا بھروسہ اور اوپر والے کی دعا میرے ساتھ تھی۔‘‘

’’لا دیکھوں، کیا کیا ہے؟‘‘ وہ جیسے جذباتی ہوئے جا رہے تھے۔ چوپال کے کونے میں ٹارچ کی روشنی میں انہوں نے چوری کا مال دیکھا۔ دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ سونے چاندی کے زیور کے ساتھ ساتھ لگ بھگ پچاس ہزار کی نقدی تھی۔ یہ نقدی سالوں سال میں اکٹھی کی گئی ہو گی، کیونکہ اس میں پرانے چلن کے نوٹ بھی تھے۔

ٹھاکر صاحب نے چاندی کے زیور اور دس ہزار کی ایک گڈی اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’یہ سامان تم اپنے پاس رکھو۔ ایک ہزار روپیہ زیوروں کے ساتھ باندھ کر رکھ دینا۔ باقی نو ہزار کہیں سرکشت جگہ میں چھپا کر رکھ دینا۔ پولیس جب آئے گی تو میں پہلے سے ہی ان کے ساتھ ہو لوں گا۔ ان کو اچھی طرح سمجھا دوں گا۔ تمہارا بال بھی بانکا نہیں ہو گا۔ تمہارے گھر سے بس یہ چاندی کے زیور اور ایک ہزار روپیہ ہی برآمد ہونا چاہئے، سمجھے۔‘‘

’’سمجھ گیا، مالک، لیکن پولیس کو پتہ کیسے چلے گا؟ کیا آپ انہیں بتائیں گے؟‘‘

ٹھاکر صاحب اندھیرے میں مسکرائے، ’’تم اس بات کو نہیں سمجھو گے۔ مجھے منوہر سے ایک حساب چکتا کرنا ہے، اس لئے چوری کا مال برآمد ہونا ضروری ہے۔‘‘

کمرو سچ مچ نہیں سمجھا، ’’لیکن مال۔۔۔؟‘‘

’’تمہیں زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس جب تمہیں پکڑے گی تو فقط یہی بیان دینا ہے کہ منوہر کے گھر میں تم نے چوری کی ہے، لیکن فقط چاندی کے زیور اور ایک ہزار روپیہ ہی چرایا ہے۔ اتنا ہی سامان تمہارے گھر سے برآمد ہو گا۔ یہ ہی تمہیں قبول کرنا ہے۔ باقی ایک لفظ نہیں بولنا ہے۔ میں ساتھ میں رہوں گا۔ سب سنبھال لوں گا۔ فکر نہ کرو۔ ایک بار یہ کام ہو جائے، پھر تمہیں مزید انعام دوں گا۔ ابھی تمہارے لئے نو ہزار روپے بہت زیادہ ہیں۔ جاؤ، اب تم گھر جا کر آرام کرو اور مطمئن ہو کر سو جاؤ۔ اس کے بعد سب کچھ دیکھنا اور سنبھالنا میرا کام ہے۔‘‘

کمرو کچھ سمجھا، کچھ نہیں۔ اس نے زیادہ دماغ نہیں کھپایا۔ ٹھاکر کا کام کرنے اور نو ہزار روپے پانے کی جو خوشی اسے حاصل ہو رہی تھی، اس کے آگے باقی ڈر اور خوف پھیکے پڑ گئے تھے۔ دوسرے دن گاؤں میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ منوہر کے گھر میں چوری کی خبر چاروں طرف پھیل گئی۔ لوگ اس کے دروازے پر اکٹھا ہو گئے تھے۔ سبھی لوگ اپنے اپنے قیاس لگا رہے تھے کہ کون چوری کر سکتا تھا۔ کچھ لوگوں کا اندازہ قمرو کی طرف جا رہا تھا، مگر کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ چھوٹا موٹا چور تھا۔ اتنے بڑے اور پکے گھر میں چوری کرنے کی اس کی ہمت نہیں پڑ سکتی تھی۔ منوہر کے گھر میں چوری کرنے والا کوئی تگڑا چور ہو گا۔ وہ باہر سے آیا ہو گا، لیکن جس نے بھی مخبری کی تھی، بہت صحیح مخبری کی تھی۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ منوہر کے گھر سے لگ بھگ تین لاکھ کے سونے چاندی کے زیورات اور پچاس ہزار روپے نقد چوری ہوئے تھے۔ یہ سن کر گاؤں کے بیشتر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اتنی بڑی چوری کی واردات کو قمرو جیسا چھوٹا چور انجام نہیں دے سکتا تھا۔ غلطی سے اگر انجام دے بھی دے تو اتنا قیمتی سامان وہ چھپا کر کہاں رکھے گا۔ یہ ضرور کسی بیرونی اور شاطر چور کا کام ہو سکتا تھا۔

ہمدردی دکھانے کے لئے سورج بھان بھی منوہر کے دروازے پر آئے تھے۔ تھوڑی دیر بات کر کے اور اسے تھا نے جا کر رپورٹ لکھوانے کا مشورہ دے کر چلے آئے تھے۔ منوہر اپنے ایک پڑوسی کے ساتھ جا کر چوری کی رپورٹ نامعلوم چوروں کے خلاف لکھا آیا تھا۔ چوری ہو گئے ایک ایک سامان کی لسٹ اس نے تھا نے میں جمع کر دی تھی۔ یقین تو نہیں تھا کہ چوری گیا مال کبھی اسے واپس ملے گا، تاہم قانونی فرض کی ادائیگی تو کرنی ہی تھی۔ وہ اس نے پوری کر دی تھی۔ اس دن تو نہیں، لیکن دوسرے دن داروغہ صاحب ایک حوالدار اور ایک سپاہی کے ساتھ تفتیش کیلئے گاؤں میں تشریف لائے تھے۔ جیسا کہ رواج تھا، گاؤں میں کوئی واردات ہو جائے یا تھا نے سے پولیس کسی کام سے گاؤں میں آتی تھی تو وہ پردھان کے دروازے پر ہی ڈیرا ڈالتی تھی۔ وہاں ان کی اچھی طرح سے آؤ بھگت ہوتی تھی اور گاؤں کے لوگ بھی بلاوے پر آسانی سے وہاں آ جاتے تھے۔ اس سے تفتیش میں سہولت ہوتی تھی اور پولیس کا کام آسان ہو جاتا تھا۔

مٹھائی کھانے اور چائے ناشتہ کرنے کے بعد داروغہ، پردھان سورج بھان سنگھ کی جانب مخاطب ہوئے، ’’بھائی پردھان جی، یہ آپ کے گاؤں میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے تھا نے کا یہی ایک ایسا گاؤں ہے، جہاں کے جرائم کی تعداد صفر میں درج ہو رہی ہے۔ اب اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ۔۔ ۔؟‘‘

ٹھاکر سورج بھان سنگھ تھوڑا ہچکچاہٹ سے بھر اٹھے۔ معافی مانگتے بولے، ’’اب کیا بتائیں داروغہ جی۔۔ ۔ انسان فطرتاً ہی لالچی ہوتا ہے۔ جو آدمی لالچی اور نکما ہو گا، وہ چوری ڈکیتی جیسا جرم ہی کرتا ہے۔‘‘

’’آپ گاؤں کے ہر آدمی کو اچھی طرح جانتے سمجھتے ہیں۔ کوئی سراغ دے سکتے ہیں؟‘‘

’’ہوں۔۔ ۔‘‘ پردھان جی نے سوچنے کا ناٹک کیا، ’’کیا منوہر نے کسی پر شک ظاہر کیا ہے؟‘‘

’’نہیں، نامعلوم لوگوں کے خلاف رپورٹ لکھائی ہے۔‘‘

’’اور کیا کیا چوری گیا ہے؟‘‘ سورج بھان رپورٹ میں لکھائی گئی چیزوں کے بارے میں جاننے کے لئے بیتاب تھے۔

’’کل تین لاکھ کے زیور اور پچاس ہزار نقد چوری ہوئے ہیں۔‘‘

’’آں۔۔ ۔‘‘ سورج بھان نے منہ پھاڑ کر تعجب کا ظاہر کیا، ’’اتنا سونا اور روپیہ اس کے پاس تھا؟‘‘

’’کیوں، نہیں ہو سکتا تھا کیا؟‘‘ داروغہ نے استفہامیہ انداز سے پردھان جی کی طرف دیکھا۔

’’نہیں، میرا مطلب۔۔ ۔‘‘ سورج بھان نے اپنی بے مثال اداکاری میں لڑکھڑانے کا انداز بھرتے ہوئے کہا، ’’اتنی بڑی حیثیت کا آدمی تو نہیں ہے۔ بس کھاتا پیتا کسان ہے۔ فصل پکنے پر آلو اور گنا بیچ کر تھوڑا بہت نقد پیسہ کما لیتا ہے، لیکن اتنا۔۔ ۔؟‘‘

’’پشتینی مال ہو گا؟‘‘ داروغہ نے بات ختم کرنی چاہی۔

’’ہو سکتا ہے، تاہم اتنا نہیں۔۔ ۔ بھائیوں کے بیچ میں بٹوارہ بھی تو ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے رپورٹ میں بڑھا چڑھا کر چوری کا مال لکھایا ہو۔‘‘ پردھان نے داروغہ کے دل میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی۔

’’اگر ایسا ہوا تو اس کی کھال کھینچ لوں گا۔ پولیس کو مذاق بنا رکھا ہے۔ آپ تو اتنا بتائیے، کیا اس گاؤں کا کوئی آدمی ایسا کام کر سکتا ہے۔ ایسا آدمی جو کبھی کبھار چوری چکاری کے کام میں ملوث ہوتا رہا ہو۔ اس کو پکڑنے سے سراغ لگ سکتا ہے۔‘‘

’’ہوں۔۔ ۔‘‘ پردھان جی نے پھر سوچنے کا ڈرامہ کیا، ’’اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ غریب ہیں۔ غریبی کئی طرح کے جرائم کو جنم دیتی ہے۔ قمردین کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ چھوٹی موٹی چوریوں کو انجام دیتا تھا۔ حال فی الحال کا پتہ نہیں۔ ویسے تو کپڑوں کی پھیری لگاتا ہے۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔۔ ۔ سرا پکڑ میں آ جائے، پھر آگے کے سارے دروازے کھل جائیں گے۔‘‘ داروغہ نے یقین بھرے لہجے میں کہا۔

’’دیکھ لیجیے، اس کے گھر میں اگر مال مل گیا تو ٹھیک، ورنہ پھر باہر کے ہی کسی چور نے ہاتھ مارا ہو گا۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے ہوشیاری سے چال چلتے ہوئے کہا۔

’’آئیے، اس کے گھر تک چلتے ہیں۔‘‘ داروغہ نے اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ پردھان جی پیچھے بیٹھ گئے۔ دونوں حوالدار اور سپاہی الگ موٹر سائیکل سے آئے تھے۔ قافلہ قمرو کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ ڈرامہ تحریر کیا  جا چکا تھا۔ فنکار تیار تھے۔ ریہرسل ہو چکی تھی۔ اسٹیج سج چکا تھا۔ بس پردہ اٹھنا باقی تھا۔ قمرو گھر پر ہی تھا۔ سب کچھ پردھان جی کی منصوبہ بندی کے مطابق ہو رہا تھا۔ چور بھی پکڑ میں آ گیا اور چوری کا مال بھی۔ قمرو کو مسروقہ مال کے ساتھ منوہر کے دروازے پر لایا گیا۔ اس کے گھر کے سامنے صحن میں مجمع لگ گیا تھا۔ بھیڑ کے باوجود سبھی پرسکون تھے اور یہ جاننے کو بے قرار تھے کہ آگے کیا ہوتا ہے؟

داروغہ صاحب چارپائی پر بیٹھے، ساتھ میں پردھان سورج بھان بھی۔ منوہر چارپائی کے سرہانے تھوڑی دور پر کھڑا تھا۔ سامنے قمرو مظلوم چہرہ لئے بیٹھا تھا۔ وہ چکرائی آنکھوں سے کبھی داروغہ کو دیکھتا تو کبھی پردھان جی کو۔ منوہر کی طرف اس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا، جبکہ منوہر کی غصے بھری آنکھیں اسی کے اوپر لگی تھیں۔ اس کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ قمرو نے اس کے گھر میں چوری کی تھی۔ داروغہ نے قمرو سے تفتیش شروع کی، ’’کیا تم قبول کرتے ہو کہ تم نے منوہر کے گھر میں چوری کی ہے؟‘‘

’’جی حضور!‘‘ اس نے اپنے سور میں دنیا بھر کی معصومیت اور مظلومیت بھرتے ہوئے کہا۔

’’کیسے؟‘‘ داروغہ کی آواز کٹھور تھی۔

’’دیوار پھاند کر گھر میں گھسا تھا۔ آدھی رات سے زیادہ کا وقت تھا، اماوس کی رات تھی، اس لئے پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ گھر کے سبھی لوگ خراٹے بھر رہے تھے۔ ایک کمرے کے بکسے میں مجھے زیور اور روپے مل گئے تھے۔‘‘

’’کیا کیا چرایا تھا؟‘‘

’’چار پانچ چاندی کے گہنے تھے اور ایک ہزار روپے۔۔ ۔‘‘

’’فقط اتنا ہی، کچھ اور نہیں۔ مدعی نے تو لکھایا ہے کہ سونے اور چاندی کے زیور کے ساتھ ساتھ پچاس ہزار روپے چوری ہوئے تھے۔‘‘ داروغہ نے تعجب سے پوچھا۔

’’اور کچھ نہیں تھا صاحب!  بس اتنا ہی مال ہاتھ لگا تھا۔ میں چھوٹا چور ہوں صاحب۔ زیادہ کے لالچ میں نہیں پڑتا۔ ایک جگہ جتنا مال ملا، لے کر فوراً بھاگ آیا۔ زیادہ کے چکر میں پڑتا تو دیر ہو جاتی اور میں پکڑا جاتا۔‘‘ قمرو نے اتنی شرافت سے کہا، جیسے اس کے منہ سے فقط سچائی کے موتی نکل رہے تھے۔ منوہر پاس کھڑا سب سن رہا تھا۔ اس کو سخت حیرانی ہوئی۔ وہ کہنے لگا، ’’ارے یہ کیا بول رہا ہے؟ صرف اتنا سامان۔ میرا تو پورا گھر لٹ گیا۔ ایک بھی زیور اور روپیہ نہیں بچا اور تو کہتا ہے کہ بس یہ چاندی کے گہنے اور ایک ہزار روپے چرائے ہیں۔‘‘

پھر اس نے داروغہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’صاحب یہ جھوٹ بول رہا ہے، اس نے باقی کا مال کہیں اور چھپا کر رکھا ہے۔ اس کا کوئی ساتھی ہو گا، جو سارا مال لے کر گاؤں سے باہر چلا گیا ہو گا۔‘‘ بولتے بولتے منوہر کی آواز لڑکھڑانے لگی تھی۔

داروغہ نے اسے آنکھیں پھیلا کر دیکھا اور غرا کر بولا، ’’تم چپ رہو جی۔ تفتیش ہم کر رہے ہیں۔ ابھی سچائی کا پتہ چل جائے گا۔‘‘ پھر اس نے قمرو کی طرف دیکھ کر نرمی سے پوچھا، ’’دیکھو تم غریب آدمی ہو۔ سچ بولو گے تو ہم نرم رویہ اختیار کریں گے اور کوشش کریں گے کہ تمہیں کم سے کم سزاملے۔‘‘قمرو کے کچھ بولنے سے پہلے ہی پردھان جی نے مداخلت کی، ’’آپ نے اس کا گھر دیکھا ہی ہے، صاحب!  اس کوٹھری کے علاوہ اس گاؤں میں اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں ہے۔ اگر اس نے اتنا بڑا ہاتھ مارا ہوتا تو اسے کہاں چھپاتا۔ چوری ہوئے وقت ہی کتنا ہوا ہے۔ اتنے کم وقت میں یہ باہر جا کر مال کو بیچ بھی تو نہیں سکتا تھا۔ یہ اتنے بڑے گردے کا آدمی نہیں ہے کہ اتنا قیمتی مال اتنی جلدی ہضم کر جائے۔‘‘

’’تو پھر۔۔ ۔‘‘

گرم لوہے پر چوٹ کرتے ہوئے پردھان جی نے سرگوشی میں کہا، ’’مجھے تو لگتا ہے، منوہر نے جان بوجھ کر چوری کا مال بڑھا چڑھا کر بتایا ہے۔ اس کا مقصد کیا رہا ہو گا، یہ میں نہیں جانتا۔ آپ معلوم کر لیجیے۔‘‘ داروغہ کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ کوئی اسے بیوقوف بنائے، تھانے میں آ کر جھوٹی رپورٹ لکھائے، یہ وہ کس طرح برداشت کر سکتا تھا۔ قمرو کے گھر والوں کی مظلوم حالت دیکھ کر داروغہ کو بھی یقین ہونے لگا تھا کہ وہ ٹٹ پونجیا چور تھا، ورنہ اب تک اس کے ٹھاٹھ بن گئے ہوتے۔ ایک بار پھر اس سے سختی سے پوچھا، ’’کیا تیرا کوئی ساتھی ہے؟‘‘

’’نہیں صاحب!‘‘

’’باقی مال کہیں اور چھپا کر تو نہیں رکھا؟‘‘

’’نہیں صاحب!  میرا تو کوئی کھیت کھلیان بھی نہیں ہے۔‘‘

’’تو بس اتنا ہی مال تو نے چرایا ہے؟‘‘

’’پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں، اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں چرایا۔‘‘ خدا کی قسم کھا کر کوئی بیان دے رہا ہو اور اس پر یقین نہ کیا جائے، ایسا کہیں ممکن تھا۔ قمرو کی اعتماد سے بھری آواز، پردھان کی طرف سے پیدا کیا گیا شک اور برآمد کئے گئے مال نے داروغہ کی فرزانگی کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے شکوک کی سوئی الٹی سمت میں گھوم گئی۔ دماغ کھولنے لگا۔ عام لوگوں نے پولیس کو مخول بنا رکھا تھا۔ ان کا اتنا بڑا حوصلہ کہ جھوٹی رپورٹ لکھوانے لگے۔ ایک سامان چوری میں جاتا ہے، تو دس سامان لکھواتے ہیں، جیسے پولیس ان کے چوری گئے پورے سامان کی بھرپائی کر دے گی، یا بیمہ کی رقم دلوا دے گی۔ سالے، حرام زادے۔ جب داروغہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وہ تمتماتے ہوئے اٹھا اور اپنے دائیں کھڑے منوہر کو ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ ڈرامے کا اختتام ہو چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی پردھان جی کا حساب بھی چکتا ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

سوال ابھی باقی ہے

 

 

رات گہری ہو چکی تھی، تاہم دھنیسری کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ بڑھاپا اور نیند کا ویسے بھی آپس میں بیر ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں دل ادھر ادھر بھاگتا ہے، زندگی کے طرف موہ جگاتا ہے، ماضی کو یاد کر کے افسوس کرتا ہے اور بِیت چکے پلوں کو پھر سے پانے کے لئے بیتاب رہتا ہے۔ پتہ نہیں رات کتنی بیت چکی تھی۔ کوار کا مہینہ تھا اور جاڑا بدن کو جمانے لگا تھا۔ اس نے جسم پر چارپائی ڈال رکھی تھی۔ کھلے دروازے سے آنگن کے اوپر بکھرے آسمان کا ایک کونا ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔ رضائی کو سر کی طرف کھینچتے ہوئے اس نے کروٹ بدلی، تو چارپائی چرمرا کر رہ گئی۔ تبھی ایک دھپ کی آواز ہوئی، جیسے کوئی دیوار کے اوپر سے آنگن میں کودا ہو۔ آنگن کچا تھا، اسی لئے آواز ہلکی تھی، لیکن دھنیسری کے کان آشنا تھے۔ رات میں ویسے بھی سناٹے کی دیوار بہت پتلی ہوتی ہے اور ہلکی آواز بھی بہت دور تک ہواؤں میں تیر کر پہنچ جاتی ہے۔ آواز سن کر دھنیسری ایک پل کے لئے سہم سی گئی۔ بغیر کسی حرکت کے کانوں کو آنگن کی طرف لگا دیا، پھر اسے لگا جیسے کوئی سرک کر چل رہا ہو۔ اس کے پاؤں کی آواز تو نہیں آ رہی تھی، تاہم سانپ جیسی پھنکارنے کی آواز ضرور آ رہی تھی۔ کیا یہ کوئی جانور تھا؟ رینگنے والا جانور یا کوئی آدمی، جس کی سانسوں کی آواز پھنکار کی طرح ہوا میں تیرتی ہوئی اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ اگر یہ کوئی آدمی تھا، تو ضرور گھبرایا ہوا ہو گا، تبھی گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ کیا وہ کوئی چور ہو گا۔ چور اس کے گھر میں کیا لینے آیا ہو گا؟ گھر میں اس کی بہو اور اس کے علاوہ اور تھا ہی کون۔ چھوٹا بیٹا کھیتوں کی رکھوالی کے لئے کھیتوں کے درمیان بنی کٹیا میں سونے کے لئے گیا ہوا تھا۔ بڑا لڑکا پنجاب میں تھا اور وہاں کسی اینٹ بھٹے میں کام کرتا تھا۔

گھر میں دوچار برتن اور پہننے اوڑھنے کے کپڑوں کے سوا اور تھا ہی کیا؟ کھیتوں میں مشکل سے اتنا پیدا ہوتا تھا کہ دو وقت کی روٹی دال کا بندوبست ہو سکے۔ اوپر سے نیل گاؤں کا حملہ فصلوں پر اس قدر برپا ہوتا تھا کہ ایک ہی رات میں ہری بھری لہلہاتی فصلیں چوپٹ ہو جاتی تھیں۔ انہی نیل گاؤں سے فصل کو بچانے کے لئے چھوٹا بیٹا مول چند رات کو کھیتوں میں سوتا تھا۔ بڑا بیٹا پنجاب چلا گیا تھا کہ دو پیسے زیادہ آئیں گے تو گھر کی حالت میں کچھ سدھار ہو گا، ورنہ جوان بیوی کو چھوڑ کر جانے کا اس کا دل نہیں کرتا تھا۔ چھوٹا بھائی مول چند تھوڑا آلسی تھا۔ ہر دم کام سے جی چراتا تھا۔ رات میں کھیتوں کی رکھوالی ضرور کرتا تھا، تاہم کھیتوں کے موٹے کام سے جی چراتا تھا۔ دھنیسری ہی اپنی بہو کسم کے ساتھ کھیتی باڑی کا کام سنبھالتی تھی۔

کیا دیکھ کر چور اس کے گھر میں گھسا ہو گا؟ دھنیسری سوچنے لگی، آنکھیں چوڑی کر کے آنگن میں دیکھنے لگی۔ کہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اماوس کا اندھیر گہرا تھا اور آسمان کے تاروں کی روشنی، زمین کو روشن کرنے میں ناکام تھی۔ چور بھی گھستا تو کوئی اچھا گھر دیکھ کر گھستا۔ یہاں تو چوری کرنے پر ایک بورا اناج بھی اسے نہیں ملے گا۔ بہو کے دوچار گہنے ہو نگے، چاندی کے، ان کی کیا قیمت ہو گی؟ پرانے ہیں، بیچنے پر ایک چوتھائی بھی نہیں ملے گا۔۔ ۔؟ پھر۔ کہیں اس کی بہو؟ اچانک دھنیسری کا ما تھا ٹھنکا۔ کہیں بہو سے ملنے تو نہیں گھسا ہے کوئی گھر میں؟ کیا پتہ۔۔ ۔ بہو تو نایاب ہیرا ہے۔ جوان، خوبصورت اور تراشا ہوا بدن۔ اس کا کوئی یار آیا ہے اس سے ملنے؟ دھنیسری کو امید تو نہیں تھی۔ بہو اسے مہذب اور تمیز دار لگتی تھی، اپنے کام سے کام رکھنے والی۔ گھر میں یا راہ چلتے کسی سے زیادہ بات یا ہنسی مذاق نہیں کرتی تھی۔ گاؤں کے آوارہ لڑکے یا حسن کے شوقین مرد بھی اس کے گھر کے چکر نہیں لگاتے تھے۔ بہو بھی کھیت کھلیان اسی کے ساتھ آتی جاتی تھی۔ پھر کیا یہ ممکن تھا کہ اس کا کسی مرد کے ساتھ ٹانکا بھڑ گیا ہو اور وہیں رات کے اندھیرے میں دیوار پھاند کر اس سے ملنے آیا ہو۔ مغربی سمت کی دیوار کچی تھی اور برسوں سے برسات کی مار جھیلتے جھیلتے آدھی رہ گئی تھی۔ نہ جانے کب سے اس کی مرمت نہیں ہوئی تھی اور اس کے اوپر کوئی چھپر بھی نہیں تھا کہ برسات کی بوندوں سے اس کا بچاؤ ہو سکتا۔ اس دیوار کو پھاند کر بڑی آسانی سے کوئی بھی شخص اس کے گھر کے آنگن میں گھس سکتا تھا یا آناً فاناً پھلانگ کر باہر جا سکتا تھا۔

بہو کی طرف سے دھنیسری کا دل صاف تھا، تاہم انسان کے دل میں کیا ہے، کسی کو کیا پتہ چل سکتا ہے۔ قسم اوپر سے بھولی بننے اور دنیا سے دور رہنے کا دکھاوا کر سکتی تھی، مگر اندر ہی اندر وہ کوئی گل کھلا دے تو کسی کو کیسے پتہ چل سکتا ہے؟ انسان کی طبیعت کا کوئی بھروسہ نہیں، کب بدل جائے۔

تبھی زور کا کھٹکا ہوا۔ دھنیسری چمک کر کھٹیا میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اب کوئی شک نہیں رہ گیا تھا۔ وہ ڈری نہیں، بس ہولے سے چارپائی سے اتری اور کھمسار کے دروازے پر اپنی لاٹھی ٹیک کر بولی، ’’کون ہے، کون ہے وہاں۔۔ ۔؟ اری بہو۔۔ ۔، زہر پی کر سو رہی ہے کیا؟ دیکھ تو کون گھر میں گھس آیا ہے؟‘‘ کچھ پل سناٹا رہا۔ بہو شاید گہری نیند میں تھی۔ دھنیسری بھی آہٹ لیتی رہی، جب کوئی آواز نہیں آئی تو وہ آنگن میں آ کر ذرا زور سے بولی، ’’بہو!  مری، اٹھتی کیوں نہیں؟ ایسی بھی کیا نیند جو نقارے کی آواز سے بھی نہ ٹوٹے۔ بدبخت، مری، کوئی خصم کے ساتھ نہیں سو رہی ہے جو اٹھ نہیں سکتی۔‘‘ کہتے کہتے وہ آنگن کے چاروں طرف دھندلی آنکھوں سے دیکھنے لگی، تبھی اچانک داہنی طرف کی دیوار کی آڑ سے کوئی شخص تیزی سے جھپٹا اور دیوار پھاند کر نو دو گیارہ ہو گیا۔ دھنیسری ہکا بکا رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کون تھا اور بھاگ کیوں گیا؟ اگر چور تھا، تو اس کے اوپر حملہ کر کے گرا سکتا تھا، زخمی کر سکتا تھا اور گھر کو لوٹ کر آسانی سے بھاگ سکتا تھا۔ پھر وہ بنا کچھ کئے کیوں بھاگ گیا تھا؟ کیا وہ بہو کے ہی چکر میں آیا تھا اور اس کے جاگ جانے کے سبب منہ چھپا کر بھاگ گیا تھا؟ کیا وہ گاؤں کا کوئی آدمی تھا، جسے اپنے پہچان لئے جانے کا ڈر تھا؟ بہو کیا اسی لئے سانس روک کر لیٹی ہوئی تھی اور اس کے آواز دینے کے بعد بھی نہیں اٹھی تھی کہ اس کی پول کھل جائے گی۔ پل بھر میں ہی تمام طرح کے خیال دھنیسری کے دل میں ہلچل مچا گئے۔ کسم مغرب والی اکلوتی کوٹھری میں سوتی تھی، اندر سے دروازہ بند کر کے۔ مگر بھی اس کا دروازہ بند تھا۔ ساس کے چیخنے چلّانے پر بھی وہ نہیں اٹھی تھی۔ اتنی آواز پر تو پورا گاؤں جاگ گیا ہو گا۔ دھنیسری غصہ ہو گئی، پہلے تو ہاتھ کی لاٹھی سے دروازہ بجایا، پھر اپنے بوڑھے ہاتھوں سے پوری طاقت کے ساتھ انہیں بھڑبھڑانے لگی۔ غصے میں وہ بھدی بھدی گالیاں بھی دیتی جا رہی تھی۔ کئی منٹ بعد اندر سے آواز آئی، ’’کیا ہوا اماں؟ چلا کیوں رہی ہو؟‘‘ پھر کواڑ زورسے کھل گئے۔

دھنیسری بھی اسی لہجے میں چلائی، ’’مری یہاں آگ لگی ہوئی ہے اور تو گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔ آگ لگے ایسی نیند کو اور ایسی جوانی کو۔ تمہیں تو نہ کچھ سنائی پڑتا ہے، نہ دکھائی۔ نہ جانے کون سا دن دکھائے گی یہ جوانی۔ سوچتی ہو گی، میں مر کھپ جاؤں تو کھلم کھلا کھیل کھیلے۔ ابھی میں ہوں نہ!  اس کی آنکھوں کی کر کری۔ اسی لئے کھل کر نہیں کھیل پاتی۔‘‘

کسم اپنے کپڑے سنبھالتے ہوئے باہر نکلی اور زور سے پوچھا، ’’کیا ہوا اماں؟ اتنی رات گئے کیوں چیخ چیخ کر گاؤں کو سر پر اٹھائے ہوئے ہو۔ صاف صاف بتاؤ، کیا ہوا؟ خالی بک بک ہی کرتی رہو گی یا۔۔ ۔؟‘‘

’’ہاں، ہاں، بتاؤں گی کیوں نہیں؟ دنیا بھر کی خبریں بتانے کے لئے میں ہی ایک بچی ہوں۔ تیرے کو تو جیسے کچھ پتہ نہیں۔۔ ۔!‘‘ وہ ہاتھ نچا کر بولی۔

’’مجھے کیا پتہ ہے؟‘‘ کسم نے تعجب سے پوچھا۔

’’یہ لو!  ساری رامائن ختم ہو گئی اور پوچھ رہی ہے کہ سیتا کس کا باپ تھا۔ تیرا خصم آیا تھا، خصم کیوں یار۔ وہ تو میں جاگ نہ رہی ہوتی، تو اب تک وہ تیرے اوپر ہوتا۔ ہائے رام!  بیٹا بیچارہ دھول مٹی میں سنا، تپتی دھوپ میں خود کو گلا رہا ہے اور ایک یہ ہے کرم جلی، جو اپنی جوانی کی آگ بجھانے کے لئے پرائے مردوں کو گھر میں بلا رہی ہے، کوئی ڈر نہیں۔ اتنی ہی جوانی پھٹی پڑ رہی تھی تو مرد کے ساتھ چلی جاتی یا گھر میں جوان دیور بھی تو بیٹھا تھا یہی دن دیکھنا باقی تھا۔ تیرے سبب اور نہ جانے کیا کیا دیکھنا پڑے؟ میں اب کسی کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ جوان بہو گھر میں کون سا کھیل کھیل رہی ہے۔ ایک تو غریبی کا کلنک، اوپر سے بدنامی۔۔ ۔ کیا ہو گا، تو مجھے اٹھا کیوں نہیں لیتا۔ یہی دن دیکھنے کے لئے مجھے زندہ رکھا۔ ہائے رام!  پھول چند کے باپو، تم تو صحیح وقت پر اوپر چلے گئے، مجھے یہاں چھوڑ گئے، دکھ تکلیف اور بے عزتی جھیلنے کے لئے۔ یہ مرا، مول چند بھی کھیتوں میں سوتا رہا۔ نہیں تو کتے کی طرح دوڑ کر پکڑتا اور گردن دبوچ لیتا، اس کمینے کی۔ پتہ چل جاتا اس کے یار کو کہ پرائے گھر کی عورتوں کی عزت لوٹنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔‘‘ دھنیسری اناپ شناپ بکتی جا رہی تھی۔ اس کی خود کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی۔ اور کسم کی تو بولتی ہی بند ہو گئی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بڑھیا کو اتنی رات گئے کون سا دورہ پڑ گیا تھا، جو الٹی سیدھی باتیں کر رہی تھی، چیخے چلائے جا رہی تھی اب تک تو پورا گاؤں جاگ گیا ہو گا، کیا پتہ اس کے گھر کے آگے سارے لوگ اکٹھا نہ ہو گئے ہوں۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولی، ’’اماں تھوڑا چپ بھی کرو۔ ذرا آرام سے ایک ایک بات بتاؤ کہ کیا ہوا۔ جب تک میری سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا، میں آپ کو کیا جواب دوں گی؟ سارا گاؤں دروازے پر اکٹھا ہو گیا ہو گا، ذرا دھیرے بولو۔‘‘

بڑھیا اور زیادہ اکھڑ گئی۔ بوڑھے اور بچے اگر کسی بات پر ناراض ہو جائیں تو جلدی مانتے نہیں۔ یہی حال دھنیسری کا تھا۔ کسی مرد کے گھر میں پھاند کر آنے کا وہ ایک ہی مطلب نکال رہی تھی۔ اس کے آگے اس کی سوچ ٹھپ ہو گئی تھی۔ نہ کچھ اور وہ سوچ پا رہی تھی، نہ کہہ پا رہی تھی۔ پتھر کی لکیر کی طرح اس کے دل میں یہ گھس چکا تھا کہ جو بھی مرد اس کے گھر میں آیا تھا، اس کا ایک ہی مقصد تھا، یعنی کسم سے ملنا اور اس کے ساتھ حرام خوری کرنا۔

’’اب کس کس سے چھپائے گی رانڈ!  آج نہیں تو کل، سب کو پتہ چلنا ہی تھا۔ ایسے کھیل زیادہ دن تک کسی کی نظروں سے چھپے نہیں رہتے!‘‘

’’کون سے کھیل!  میں نے کون سا کھیل کیا ہے؟ تمہاری مت ماری گئی ہے۔‘‘ وہ چڑ کر بولی۔

’’ہائے دیّا!  دیکھ تو کیسے بات کر رہی ہے، چوری اور سینہ زوری ہے، میری متی ماری گئی ہے۔‘‘ دھنیسری زمین پر بیٹھ گئی۔ اپنے دونوں پیر ادھر ادھر پٹکنے لگی۔ کسم بھی بے بس اور پریشان ہو کر وہی زمین پر بیٹھ گئی۔ اوپر آسمان کے تارے ان کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ دونوں ہی کم کپڑوں میں تھیں، تاہم کسی کو بھی سردی کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ باتوں کی گرمی نے ان کے تن بدن کو جھلسا رکھا تھا۔ موسم کی سردی کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔

’’اب کیا بچا، ناک تو کٹوا دی۔‘‘ دھنیسری بولی۔ کسم نے خاموشی سادھ لی۔ بڑھیا جب سیدھے ڈھنگ سے کوئی بات نہیں بتاتی، تو وہ کیوں پوچھے؟ وہ اٹھ کر باہر کی طرف گئی اور دہلیز میں کھڑی ہو کر باہر کا اندازہ لگانے لگی۔ باہر تھوڑی ہلچل تھی، جیسے کچھ لوگ اکٹھا ہو کر آپس میں باتیں کر رہے ہوں۔ لوگ تجسس میں ایک دوسرے سے پوچھ تاچھ کر رہے ہوں گے کہ پھول چند کے گھر سے چیخنے چلّانے کی آوازیں کیوں آ رہی تھیں؟ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہو گا، تو قیاس لگا رہے ہوں گے۔ اچھا ہنگامہ کھڑا کر دیا بڑھیا نے۔ نہ صاف صاف کچھ بتاتی ہے، نہ چپ رہتی ہے۔

’’ہاں، ہاں، جا، دروازہ کھول کر بلا لے اسے، ابھی تیری پیاس کہاں بجھی ہے؟‘‘ دھنیسری پیچھے سے چلائی۔ کسم کے بدن میں آگ لگ گئی۔ جھٹکے سے پیچھے مڑی اور بڑھیا کے سر کے اوپر کھڑی ہو کر بولی، ’’شرم نہیں آتی تم کو، پتہ نہیں کیا بک رہی ہو؟ کس کو میں نے گھر کے اندر بلا لیا؟‘‘

’’یہی پتہ ہوتا تو اب تک مُنڈی پکڑ کر پٹخ نہ دیتی، بھاگ گیا۔۔ ۔ حرامی کہیں کا۔ ایک بار پتہ چل جائے۔!  تو بتائے گی، کون تھا وہ؟‘‘

’’کون تھا وہ؟‘‘ کسم نے بغیر کچھ سمجھے دوہرایا۔

’’یہی تو پوچھ رہی ہوں؟‘‘ بڑھیا کلبلائی۔

’’کہاں، کون تھا؟‘‘

’’اب اتنی بھولی نہ بن، تجھ سے ملنے روز آتا ہے، آج پکڑ میں آنے سے پہلے بھاگ گیا۔ مکر مت کر!‘‘

کسم کی عقل چکرا گئی، بڑھیا گول گول باتیں کر رہی تھی۔ اس نے صاف پوچھا، ’’کیا گھر کے اندر کوئی گھسا تھا؟‘‘

’’ابھی تک اور کون سی رامائن پڑھ رہی تھی میں؟ غلطی ہو گئی جو پہلے ہی شور مچا دیا۔ تیرے کمرے میں گھس جاتا اور میں باہر سے کنڈی لگا دیتی، تب مزہ آتا۔ سارے گاؤں کو اکٹھا کر کے رنگے ہاتھ رنگ ریلیاں کرتے پکڑواتی، تب دیکھتی کیسے مجھ سے ایسی چونچلے بازی کرتی؟ آگ لگا دیتی، تم دونوں کو۔؟‘‘

اب کسم کی سمجھ میں بات کچھ کچھ آنے لگی تھی۔ وہ غصے سے بھر اٹھی۔ سٹھیا گئی ہے، بڑھاپے میں۔ عقل کام نہیں کرتی۔ گھر کی کوئی بات تھی، تو پہلے اسے بتاتی۔ پہلے ہی ڈھنڈورا پیٹنے لگی۔ پتہ نہیں کون تھا، کوئی آدمی تھا یا جانور!  وہ آدمی چور بھی تو ہو سکتا تھا، کیا پتہ بڑھیا نے ٹھیک سے دیکھا بھی تھا یا نہیں۔ بڑھاپے میں آنکھوں سے صاف کہاں دکھائی پڑتا ہے؟ ویسے بھی گھنی اندھیری رات ہے۔ روشنی کا ذرہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا بڑھیا نے کیا دیکھا، کیا سمجھا؟ لیکن اس کی باتوں سے تو یہی لگ رہا تھا کہ اسے اس کے اوپر شک تھا کہ اس کا کوئی یار اس سے ملنے آیا تھا۔ کسم کا دماغ چکرا گیا۔ ایک دھماکہ سا ہوا اس کے دل و دماغ میں۔ اندر ہی اندر اس کی روح کانپ کر رہ گئی۔ وہ سمجھ گئی، آج اس کے ساتھ کچھ برا ہو سکتا تھا۔ تو اس نے سچ کہا تھا کہ جلد ہی بد لا لے گا۔ کس طرح بدلہ لیتا اس سے، اگر اس کی کوٹھری میں داخل ہو جاتا۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ کانپ کر رہ گئی۔ جاڑے میں بھی اسے پسینے چھوٹنے لگے۔ اگر بڑھیا کے جاگنے کے سبب وہ بھاگ نہ جاتا، تو کیا اس کی عزت صحیح سلامت رہ سکتی تھی؟ یا وہ زندہ بچی رہ سکتی تھی۔ طرح طرح کے خیال اس کے دل میں آ رہے تھے وہ بے چین ہوتی جا رہی تھی، گھبرا بھی رہی تھی۔

کسم اپنے خیالوں میں گم تھی اور دھنیسری اپنا راگ الاپے جا رہی تھی۔

’’اب تو بھگوان کا ہی بھروسہ ہے، کل بھگوان شنکر کے چبوترے پر گنگا جل لے کر پوچھا جائے گا، تب بتانا کہ کون تھا تیرا یار اور کب سے تو اس کے ساتھ گل چھرّے اڑا رہی ہے۔‘‘ دھنیسری مایوس لہجے میں بولی، اب اس کا شور کچھ دھیما پڑنے لگا تھا۔ چیخ چیخ کر گلا بیٹھ گیا تھا۔

’’گنگا جل لے کر تم قسم کھانا کہ تم نے کس کے ساتھ مجھے حرام کاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ بات تو تم نے اڑائی ہے، میں کیا جانوں کون تھا، کہاں تھا اور کب یہاں آیا تھا؟ میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا۔ تم نے دیکھا ہے، تو پکڑ کر لاؤ اور قبول کرواؤ کہ وہ ہمارے گھر میں کیوں گھسا تھا؟‘‘ وہ چڑ کر بولی۔ بڑھیا کی اناپ شناپ باتوں سے وہ خفا ہو رہی تھی، ورنہ وہ جانتی تھی کہ اسی بڑھیا کی وجہ سے آج وہ صحیح سلامت ہے۔

’’سب دودھ کا دودھ ہو جائے گا۔ وہ سب کے کام دیکھتا ہے، تو جتنا چاہے چھپا لے، پاپ ایک دن باہر آ ہی جائے گا۔‘‘ وہ زمین پر لگ بھگ لیٹتی ہوئی بولی۔

’’تو کر لے نہ پنچایت بڑھیا۔۔ ۔ ٹھنڈ میں مر نہیں جاتی۔ بنا سوچے سمجھے الزام لگا رہی ہے۔ خود جوانی میں جو کیا، وہی تجھے ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ پنچایت میں کیا تیری پول نہیں کھلے گی۔ میں بھی سب سچ بیان کر دوں گی۔‘‘ کسم اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر دھڑام سے پیچھے سے کواڑ بند کر لئے۔ بڑھیا آنگن میں بیٹھی، چیختی چلاتی رہی۔ باہر کے لوگوں نے اسے ساس بہو کا جھگڑا سمجھا اور آخرکار اپنے اپنے گھر جا کر سوگئے۔

دھنیسری ان پڑھ اور گنوار تھی۔ بوڑھی بھی ہو چکی تھی۔ ایسی عورتیں بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی قدم اٹھا لیتی ہیں، اپنا نقصان کرتی ہیں اور مزے کی بات یہ کہ بعد میں پچھتانے جیسا احساس بھی ان کے دل میں نہیں آتا۔

دھنیسری نے اپنے گھر میں گھسنے والے شخص کو نہ تو ٹھیک سے دیکھا تھا، نہ یہی پتہ تھا کہ وہ کون تھا اور کس مقصد سے اس کے گھر میں گھسا تھا۔ اس نے اس فعل کا فوری طور پر یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ اس کے گھر میں جوان خوبصورت بہو تھی، بیٹا باہر رہتا تھا۔ ضرور بہو کے کسی گاؤں کے آدمی سے نا جائز تعلقات استوار ہو گئے ہو نگے، اس لئے وہ رات کے اندھیرے میں دیوار پھاند کر اس سے ملنے آیا ہو گا۔ بڑھیا کے دل میں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ اگر یہی سچ ہوتا تو بہو اسے گھر میں بلانے کا جوکھم کیوں اٹھاتی۔ گاؤں میں کئی ایسی ویران جگہیں ہیں، جہاں وہ دونوں بے خوف ہو کر مل سکتے تھے۔ یا اس کی بہو خود دروازہ کھول کر اسے رات میں چپ چاپ اندر کر لیتی، بڑھیا کو کیا پتہ چلتا؟

دھنیسری کو اپنے گھر کی عزت، بہو کی عزت احترام سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے دل میں کھلبلی مچی تھی اور وہ صبح ہوتے ہوتے پورے گاؤں میں یہ خبر پھیلا چکی تھی کہ اس کی بہو بد چلن تھی، گاؤں کے کسی آدمی سے اس کا ٹانکا بھڑا تھا اور وہ آدمی روز رات کو اس کی بہو سے ملنے آتا ہے۔ آج وہ جاگ رہی تھی اور اس نے دیوار سے کودتے ہوئے اس شخص کو دیکھ لیا تھا۔ اس کے شور کرنے پر وہ شخص بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ بچ گیا، ورنہ دھنیسری اس کی کھوپڑی توڑ دیتی۔

اچھی بات پر لوگوں کو آرام سے یقین نہیں ہوتا، تاہم کسی کے بارے میں غلط بات پر لوگ فوراً یقین کر لیتے ہیں۔ کسم کے بارے میں بھی یہی ہوا۔ جن عورتوں کے ساتھ اس کا رات دن کا اٹھنا بیٹھنا تھا، جو اس کے کردار کے ایک ایک پہلو سے واقف تھیں، ان کے دل میں بھی شکوک کے بادل منڈلانے لگے کہ کیا پتہ کوئی یار ہی ہو۔ اکیلی عورت ہے، شوہر سے بھی دور رہتی ہے۔ دل چنچل ہوتا ہے، کسی کے ساتھ لگ گیا ہو گا۔ لیکن وہ ہے کون؟ ہر عورت کو اپنے اپنے مردوں پر شک ہونے لگا۔ ادھر گاؤں کے من چلے لڑکوں اور لفنگے آدمیوں کا بھی برا حال تھا۔ وہ سبھی ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے، پتہ نہیں ان میں سے کون ایسا خوش نصیب مرد ہو گا، جس نے اپنی لچھے دار باتوں اور دل نشین انداز سے کسم کو پٹا لیا تھا۔ کسم کو پٹانے کی جستجو تو اس گاؤں کے لگ بھگ سبھی مردوں نے کی تھی، مگر وہ نہ جانے کس مٹی کی بنی تھی کہ نہ تو کسی کی بات یا فحش مذاق کا جواب دیتی، نہ کوئی رد عمل ظاہر کرتی۔ وہ بنا کچھ بولے اپنی راہ جاتی یا گھر میں بیٹھی رہتی۔ اڑوس پڑوس کی عورتوں کے ساتھ اڈہ جمانے کی بھی اسے عادت نہیں تھی۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی عورت تھی۔ گھر سے باہر بہت کم نکلنے والی، کسی سے زیادہ بات نہ کرنے والی۔

اپنے مرد سے بھی ہنسی مذاق نہ کرنے والی جوان عورت کو کس مرد نے پھنسا لیا تھا، یہ پورے گاؤں کی عورتوں اور مردوں کے لئے بہت بڑا تعجب انگیز سوال تھا۔ آج اس استعجاب کا پردہ اٹھنے والا تھا۔ سبھی لوگ سوچ رہے تھے اور ایک دوسرے کو شک بھری نگاہوں سے دیکھ بھی رہے تھے کہ ان میں سے کون ایسا خوبصورت، جوان اور کام دیو کا اوتار اس گاؤں میں پیدا ہو گیا تھا، جس کے پھندے میں خاموش رہنے والی سنجیدہ مزاج کی عورت پھنس گئی تھی۔ گمبھیر اور خاموش رہنے والے لوگ ہی، کبھی کبھی ایسا کھیل دکھا جاتے ہیں کہ کسی کو یقین نہیں ہوتا۔ کسم کو ہی لو، کیسے آج تک سب کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی اور پرائے مرد کی بانہوں میں لپٹ کر جوانی کی خوشی لوٹ رہی تھی۔

اور شوہر بیچارہ۔ کیا زمانہ آ گیا ہے، لوگوں نے آہ بھر کر سوچا سوال ابھی تک باقی تھا۔ وہ کون خوش قسمت مرد تھا، جس کو کسم جیسی نو بیاہی، حسین عورت کا ساتھ مہیا ہوا تھا۔ عورتوں کو اپنے مردوں پر شک تھا، تو لوگ ایک دوسرے کو شک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لڑکوں کو اس بات کا رنج تھا کہ ان کو یہ موقع کیوں نہیں ملا؟ سبھی اپنی اپنی جگہ پر غمزدہ تھے۔

دھنیسری کے دروازے پر مجمع لگا ہوا تھا۔ ڈھیر ساری کانا بھوسیوں اور سرگوشیوں کے بعد گاؤں کے مہربان’ مالک‘، غریبوں کے ’داتا‘، ہزار دے کر دس ہزار وصول کرنے والے گیانی اور کرم کانڈی، پنڈت شری کشپا شنکر شکلا نے پوچھا، ’’اتنی تلوار بازی ہو گئی، لیکن یہ نہیں پتہ چلا کہ رات کا وہ سپاہی کون تھا، جس کے کلیجے میں اتنے بڑے بال ہیں، جو بے دھڑک دھنیسری کے گھر میں کود کر اس کی بہو کے ساتھ حرام خوری کرنے کی ہمت کر بیٹھا۔ بتاؤ، دھنیسری؟‘‘

’’میں کیا بتاؤں، مالک؟ سارا معاملہ آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ میں نے دیکھا ہوتا تو بتا دیتی۔ بس اتنا دیکھا تھا کہ وہ کوئی آدمی تھا، جوان اور اکہرے بدن کا۔ کھٹکے سے بھاگ نکلا تھا۔‘‘ دھنیسری نے دکھ بھرے لہجے میں بیان دیا۔

’’وہ کوئی چور بھی تو ہو سکتا تھا!‘‘ انہوں نے دل کو بہلانے کے لئے کہا۔

’’چور کسی کھنڈر میں کیا چوری کرنے کے لئے گھسے گا؟‘‘

’’کوئی انجان چور ہو گا!  اسے پتہ نہیں ہو گا کہ تمہارے گھر میں کتنا دھن گڑا ہے۔‘‘ کسی نے اندھیرے میں تیر مارا۔

’’اب یہ تو کسم ہی بتائے گی کہ وہ کون تھا۔ کس کے ساتھ اس کا ٹانکا بھڑا ہے اور کتنے دنوں سے اس کے ساتھ منہ کالا کرتی پھر رہی ہے۔ بڑی بے عزتی کی بات ہے۔ ایک شادی شدہ عورت کی ایسی بیوفائی۔ شوہر باہر شہر میں خون پسینہ ایک کر رہا ہے اور یہاں عورت گل چھرے اڑا رہی ہے۔‘‘ ٹھاکر گجیندر سنگھ نے اپنا اشتیاق جتایا۔ وہ بڑے رسیا قسم کے انسان تھے۔ ان کی نگاہ بھی کسم پر تھی، تاہم وہ ہاتھ ہی دھرنے نہیں دیتی تھی۔ اب اپنے دل کی خندق نکال رہے تھے۔

بولنے کے معاملے میں کوؤں اور مردوں میں بہت سمانتا ہوتی ہے۔ جہاں چار کوئے اکٹھا ہوئے نہیں کہ کائیں کائیں کر کے کان پھوڑ دیتے ہیں۔ یہی حال مردوں کا ہے۔ جہاں کہیں ان کی تعداد ایک سے دو یا زیادہ ہوئی نہیں کہ چر چر لکڑی چیرنے لگتے ہیں۔ چاروں طرف سے آوازیں آ رہی تھی، ’’ہاں، ہاں، بتاؤ۔۔ ۔ تھا وہ؟‘‘

’’چپ کیوں ہو؟‘‘

’’گل چھرے اڑاتے وقت تو خوب چہک رہی ہو گی، اب بولتی کیوں بند ہے؟‘‘

’’ساس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی۔‘‘

’’کتنی سیدھی بنتی ہے، لیکن کارنامے تو دیکھو۔‘‘

’’دیکھو، ادھر شوہر آنکھوں کے سامنے سے غائب نہیں ہوا کہ اڑنے لگی۔‘‘

جتنے منہ اتنی باتیں۔ پنڈت کشپا شنکر شکلا، گجیندر سنگھ، بھوانی پرساد گپتا، لال چند یادو اور ہیرا لال کی سربراہی میں ہی تو پنچایت بیٹھی۔ یہی پانچوں پنچ پرمیشور بنے اور پنچایت کی کار روائی شروع ہوئی۔

’’سب سے پہلے دھنیسری تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟‘‘ پنچوں نے پوچھا۔

دھنیسری نے جو دیکھا تھا، اسے نمک مرچ لگا کر بتا دیا، ’’مجھے تو پہلے ہی شک تھا، اسی لئے رات میں جاگ جاگ کرتا کا کرتی تھی۔ آج رات میں پکڑ میں آ گیا۔ وہ تو اندھیرا تھا اور میں بوڑھی عورت۔ ورنہ دھر کر دبوچ لیا تھا۔‘‘ پھر بڑھیا نے جو کچھ نہیں دیکھا تھا، اسے بھی بیان کر دیا، ’’مردوا، بہو کا دروازہ کھول کر اندر گھس رہا تھا۔ یہ بھی اس کا انتظار کر رہی تھی، لیکن دکھاوے کے لئے جیسے بالکل سُن ہوکے پڑی تھی۔ میں چلائی، تو باہر تک نہیں نکلی۔ میں اکیلی، بوڑھی جان، کہاں وہ جوان مرد، کیسے پکڑ پاتی؟‘‘

’’کیوں سراسر جھوٹ بول رہی ہے، بڑھیا۔ قبر میں پیر لٹکا کر بیٹھی ہے، کچھ تو اوپر والے کا خیال کر۔ کس جنم کا بدلہ لے رہی ہے مجھ سے؟‘‘ کسم اچانک بولی۔

’’تم ابھی چپ رہو، اپنا بیان بعد میں دینا۔‘‘ پنچوں نے کہا، پھر بڑھیا سے پوچھا ’’کیا تم اسے پہچان پائی تھی؟‘‘

’’کہاں مالک، بڑا اندھیرا تھا۔‘‘ وہ مایوس لہجے میں بولی، ایسے جیسے اگر پہچان جاتی تو پتہ نہیں کیا کر ڈالتی۔

’’انداز سے کچھ لگا ہو کہ وہ کون تھا۔ گاؤں کا کوئی آدمی یا انجان؟‘‘

بڑھیا سوچنے کا ناٹک کرنے لگی، جیسے یاد کر کے پہچان جائے گی۔ پھر بولی، ’’مجھے تو گاؤں کا ہی کوئی آدمی لگتا تھا، تاہم بتا نہیں سکتی کون تھا وہ؟‘‘

پنچ سمجھ گئے تھے کہ اس سے زیادہ بتانے کے لئے دھنیسری کے پاس کچھ نہیں تھا۔ جتنا زیادہ پوچھا جائے گا، وہ کوئی نہ کوئی الٹی بات بتانے لگے گی۔

’’اچھا، تم بتاؤ، پھول چند کی بہریا، تمہارا کیا کہنا ہے اس بارے میں؟‘‘ پنچوں نے کسم سے پوچھا۔

کسم نے بھیگے لہجے میں کہا، ’’چاہے مجھے گنگا ندی کے بیچ کھڑا کر دو، چاہے آگ میں جھونک دو، ہر حال میں میں یہی کہوں گی کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، میرے کسی کے ساتھ غلط روابط نہیں ہیں، آپ مانے یا نہ مانے، اس کے سوا میں کچھ نہیں کہہ سکتی، نہ کچھ جانتی ہوں۔‘‘

’’تو کیا جو کچھ تمہاری ساس کہہ رہی ہے، وہ جھوٹ ہے؟‘‘

’’اس نے کیا دیکھا، کیا کہہ رہی ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی، مگر میرا بھگوان ہی جانتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ اس کے لہجے میں سچائی تھی اور تھی خود اعتمادی۔ پنچ سن کر بیٹھے رہے۔ سبھا میں بھی سناٹا چھا گیا تھا۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا؟ کسم کی باتوں میں سچائی تھی، خود اعتمادی تھی، ایسی خود اعتمادی کسی سچے آدمی کی باتوں میں ہی ہو سکتی تھی۔ پنچوں نے اس بات کو محسوس کیا۔ یوں بھی آج تک کسی کو کسم کے بارے میں کوئی غلط بات پتہ نہیں چلی تھی، ورنہ چھوٹے سے گاؤں میں لوگوں کے چھینکنے کی آواز بھی بہت دور تک سنائی پڑتی ہے۔ سبھی ساکت تھے، ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ لگا کہ اب پتہ نہیں چل پائے گا کہ وہ کون آدمی تھا جو کسم کے ساتھ حرام خوری کرنے کے لئے رات میں اس کے گھر گھسا تھا۔ اندازے سے بھی پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ گاؤں کے سارے لوگ وہاں موجود تھے۔ اسرار بھری خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ لوگوں کے دل پس و پیش اور پشیمانی سے سنسنا رہے تھے پھر جیسے اچانک کسم نے راز کا پردہ چاک کیا، ’’پنچوں سے ایک گذارش ہے، اگر آپ زیادہ سوال نہ کریں اور میری بات پر یقین کریں تو میں یہ بتا سکتی ہوں کہ وہ کون تھا، جو ہمارے گھر میں رات کو دیوار پھاند کر گھسا تھا، میں نے اسے دیکھا نہیں تھا، لیکن میں سمجھ سکتی ہوں کہ وہ کون ہو سکتا ہے۔ پھر یہ بڑھیا، جو ابھی تک ٹائیں ٹائیں کر رہی تھی، بالکل چپ ہو جائے گی۔‘‘

ایک پل کے لئے پھر سے سبھا میں سناٹا چھا گیا۔ پنچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر پنچ پردھان پنڈت کشپا شنکر نے کہا، ’’ہم بھروسہ دلاتے ہیں کہ اور کوئی سوال نہیں کریں گے، تم بتاؤ، وہ کون تھا؟ تاہم کیا اس کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق تھا؟‘‘ سوئی پٹخ سناٹا چھا گیا تھا۔ سب کے دل دھڑک رہے تھے کہ انہیں میں سے کوئی ایک ہو گا۔ چور نظروں سے سبھی ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ کون ہو گا، جس نے اتنے بڑے واقعے کو انجام دیا ہو گا۔

’’اس سے میرا تعلق ہے، لیکن اس طرح کا نہیں جیسا آپ سمجھ رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا بتاؤ تو کون تھا وہ؟‘‘ سارے لوگ متجسس تھے اور اب مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ سبھی کے دل باہر آنے کو بیتاب ہو رہے تھے۔ اب راز پر سے پردہ اٹھ جانا چاہئے۔

’’وہ مول چند تھا۔‘‘ کسم نے جیسے بم داغ دیا تھا۔ سب نے ادھر ادھر دیکھا۔ وہ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ گاؤں میں اس قدر سنسنی پھیلی ہوئی تھی کہ صبح سے ابھی تک کسی نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ مول چند وہاں نہیں تھا۔ اب پتہ چلا تھا کہ وہ وہاں نہیں تھا۔ فوراً دو چار لڑکوں کو کھیتوں کی طرف دوڑایا گیا، وہ وہاں بھی نہیں تھا۔ گاؤں میں بھی ڈھونڈا گیا، تاہم وہ کہیں نہیں ملا۔ جس کے گھر میں اتنی بڑی بات ہو جائے، وہ بغیر بتائے کہیں چلا جائے، اس کا راز سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ مول چند کے غائب ہونے سے بات کچھ کچھ صاف ہو چکی تھی، مگر سوال ابھی باقی تھا؟ ۔۔ ۔۔ کیوں؟

اگر مول چند کے ناجائز تعلقات کسم کے ساتھ تھے، تو رات میں اسے اپنے ہی گھر میں اپنی ہی بھابھی کے پاس جانے کے لئے دیوار پھاند کر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن کسم تو بتا چکی تھی کہ اس کے ساتھ اس کے اس طرح کے تعلقات نہیں تھے۔ پھر اپنے ہی گھر میں وہ چوروں کی طرح دیوار پھاند کر کیوں گھسا تھا؟ اس کا جواب کسم کے پاس تھا، تاہم اس نے نہ بتانے کی پنچوں سے اجازت لے رکھی تھی۔ پنچ حیران تھے، اب آگے وہ کچھ پوچھ نہیں سکتے تھے۔ دھنیسری بھی بوکھلا گئی تھی۔ اسے تو یقین ہیں نہیں ہو رہا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جس آدمی کو اس نے اپنے گھر میں گھستے ہوئے دیکھا تھا، وہ اس کا اپنا سگا چھوٹا بیٹا تھا۔ رات سے صبح ہوئی اور صبح سے شام۔ تب اسے اپنے بیٹے کا خیال نہیں آیا تھا اب پتہ چلا تھا۔ یہ کیا سے کیا ہو گیا؟ کیا سچ مچ وہ مول چند ہی تھا؟ لیکن وہ چوری سے اپنے ہی گھر میں گھس کر کیوں آیا تھا؟ وہ سوچ رہی تھی کیا وہ اپنی بھابھی کی عزت لوٹنے کے ارادے سے گھر میں گھسا تھا؟ اتنا تو وہ سمجھ سکتی تھی کہ کسم کا اپنے دیور کے ساتھ کوئی ایسا ویسا چکر نہیں تھا بڑھیا کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ دماغ نے سوچنا چھوڑ دیا۔

لیکن کسم کے دل میں سوچوں کا طویل کارواں چل رہا تھا، جیسے ہوا کے تھپیڑے ہر چیز کو ہلائے دے رہے ہوں۔ اس کی آنکھوں میں وہ منظر ابھی تک بسا ہوا تھا، جب ایک دن پہلے مول چند نے اسے گھر کے اندر چھٹپٹے اندھیرے میں اپنی بانہوں میں بھر کر چوم لیا تھا۔ کسم کی امید کے برخلاف یہ ہوا تھا۔ وہ بے حال رہ گئی تھی۔ اپنے دیور سے اس نے کبھی ایسی امید نہیں کی تھی۔ وہ غصے سے بھر گئی۔ غصے کے زیر اثر اس نے مول چند کو ایک تھپڑ رسید کرتے ہوئے خود کو اس کی بانہوں سے آزاد کیا اور نفرت سے کہا تھا، ’’للا، تم میرے دیور ہو، اس لئے معاف کرتی ہوں۔ بھابھی کے ناطے ہنسی مذاق کرنے کا حق ہے تمہیں، تاہم اس بدن پر فقط تمہارے بھویا کا حق ہے۔ اپنے ہوش ٹھکانے رکھنا، ورنہ اگر تم نے اپنی حد پار کی تو اس سے زیادہ بھی کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘

مول چند گاؤں کا نوجوان تھا۔ ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ بدن میں جوانی کی آگ سلگنے لگی تھی، اسے بجھانے کا موقع نہیں مل پا رہا تھا۔ باہر کے بجائے اس نے اپنے گھر میں ہی سیندھ لگانے کی سوچی۔ جب گھر میں جوان اور خوبصورت بھابھی موجود تھی، تو اسے باہر منہ مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ بھابھی اور دیور کا رشتہ ہنسی مذاق کا ہوتا ہے۔ اس کے دل میں بچکانے خیال آنے لگے کہ اسی رشتے کی آڑ میں وہ بھابھی سے جسمانی تعلقات بنا لے گا۔ بھابھی بھی منع نہیں کرے گی۔ بھویا سے دور ہے، تو تن کی آگ میں سلگ رہی ہو گی۔ ایسے میں کیا اسے مرد کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ہو گی۔ گاؤں کے کئی لڑکے اس طرح کی باتیں کرتے رہتے تھے کہ بھابھی پر دیور کا آدھا حق ہوتا ہے۔ کئی بھابھیاں منچلی ہوتی ہیں اور شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے دیوروں پر ڈورے ڈال کر پھنسا لیتی ہیں۔ اپنی اسی اوچھی سوچ کے چلتے ایک دن موقع دیکھ کر اس نے دہلیز کے اندھیرے میں بھابھی کو دبوچ ہی تو لیا تھا، تاہم جو اس نے سوچا تھا، ویسا نہیں ہوا تھا۔ الٹے بھابھی ناراض ہو گئی تھی۔ ایک تھپڑ بھی اس کے گال پر رسید کر دیا تھا۔ اس تھپڑ کو ایک نصیحت کی طرح لینے کے بجائے اس نے اپنی توہین سمجھا اور اندر ہی اندر توہین کی آگ سے سلگ اٹھا۔

’’ہوں، اتنا گھمنڈ!‘‘ مول چند نے غصے میں کہا تھا، ’’حسین ہو نہ۔ اس لئے اس قدر گھمنڈ کر رہی ہو۔ میں نے چھو لیا تو میلی ہو گئیں۔ میکے میں نہ جانے کتنے گل کھلائے ہو نگے، اب ستی ساوتری بنی پھرتی ہو، لیکن یاد رکھنا، اس تھپڑ کا جواب تمہیں دینا پڑے گا، بہت جلد!‘‘ کسم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی تھی۔

اور مول چند نے ایک دن بعد ہی اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا تھا۔ وہ کسم کو مارنے آیا تھا یا اس کے ساتھ زیادتی کرنے۔ یہ تو کسم بھی نہیں جانتی تھی۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ مول چند ہی تھا۔ وہ کسی برے ارادے سے ہی اپنے گھر میں چوری چوری گھسا تھا، ورنہ پتہ چلنے پر گاؤں سے بھاگ کیوں جاتا؟ کسم بہت دکھی تھی۔ اپنی ساس کی بے جا حرکتوں سے۔ پورے گاؤں میں اس بڑھیا نے اس کی بدنامی کروا دی تھی۔ اس کی عزت کا فیصلہ کرنے کے لئے پنچایت تک بیٹھ گئی تھی۔ اس سے بڑی بدنامی کی بات اور کون ہو سکتی تھی ایک بار کسی شادی شدہ عورت کی عزت کو کوئی سرعام اچھال دے، تو لوگ جلدی اس کی پاکیزگی پر یقین نہیں کرتے۔ اور شوہر شک کے اندھیرے اس کے چاروں جانب منڈلاتے ہی رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی بوڑھی ساس کی تہہ دل سے شکرگزار بھی تھی کہ اس کی وجہ سے ہی آج وہ زندہ تھی اور اس کی عزت صحیح سلامت تھی۔ آج جو بدنامی اسے ملی تھی، اس بدنامی سے بھی برا اس کے ساتھ کچھ ہو سکتا تھا۔ باتوں کے ذریعے سے کی گئی بدنامی کو لوگ جلدی ہی بھول جاتے ہیں۔ مگر سوال ابھی باقی تھا کہ مول چند کہاں چلا گیا تھا؟ کیا وہ لوٹ کر گاؤں آئے گا؟ اگر ہاں تو کیا وہ اپنی بھابھی سے بدلہ لے گا؟

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل