FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

تقسیم کہانی

 

حصہ پنجم

 

 

تحقیق اور انتخاب : عامر صدیقی

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

شکرگزار آنکھیں

 

حیات اللہ انصاری

 

(۱)

 

اکتوبر 47 سے پہلے میرے سینے میں ٹپکتے ہوئے سات سات چھالے تھے۔ اور ساتوں نے مل کر دل کو پھوڑا بنا دیا تھا۔ ماں باپ کے قتل کا چھالا۔ جوان بیٹے کے قتل کا چھالا۔ دودھ پیتی بیٹی کے قتل کا چھالا۔ اور جیون سنگھی گھر کی لکشمی کے قتل کا چھالا۔ اللہ اکبر کے نعروں۔ پاک داڑھیوں اور نمازی پیشانیوں نے ان کے مظلوم جسموں کے اندر سے کس کس بے دردی سے روح نکالی ہے اور میری بیوی کے ساتھ کیسی کیسی شرمناک حرکتیں۔ اور معصوم بچوں کا ماں کی آنکھوں کے سامنے قیمہ بنایا جانا۔ اف فوہ۔۔ میں خود کیسے بچا اور بچ کر کیسے شرنارتھی کیمپ تک آیا یہ بھی ایک المیہ داستان ہے۔ اور پچھلی داستانوں کی طرح زخموں اور آنسوؤں کی لمبی لڑی۔۔ پہلے تو ان داستانوں کے بیان کرنے کی مجھ میں ہمت ہی نہ تھی۔ اب ہمت تو ہے۔ پر قدرت نہیں۔ کیوں کہ جتنے الفاظ اظہار درد کے میرے پاس ہیں دل ان سب کو نکما قرار دیتا ہے۔

گزشتہ منگل یعنی میرے پتر جنم سے پہلے یہ تمام ہولناک منظر دن میں سینکڑوں بار میرے دل میں آ آ کر گھوم جاتے تھے۔ جاتے وقت مجھے کھولتے کڑھاؤ میں جھونک جاتے تھے۔ جس میں جلتے جلتے، جھلستے جھلستے، میں مجسم شعلہ بن جاتا تھا۔ اور پھر ایٹم بم بن کر ساری اسلامی دنیا پر گرتا تھا۔ اسے بھسم کر ڈالتا تھا۔ اور خود بھی بھسم ہو جاتا تھا۔ گزشتہ منگل کو میں آدھی رات تک کروٹیں بدلتا رہا۔ پر پلک سے پلک نہ لگی۔ گھنگھور گھٹا برس کر نکل چکی تھی۔ شرنارتھی کیمپ کے گرد جگنو جگمگا رہے تھے۔ اور زخموں کو مہکانے والی ہوا چل رہی تھی اتنے میں باؤلے پپیہے نے صدا دی۔ پی کہاں! پی کہاں! یہ صدا دل میں بندوق کی گولی کی طرح اتر گئی اور مجھے میری جنم بھومی میں اڑا لے گئی۔

ہائے وہ بھرا پرا گھر! وہ چہل پہل، ہائے وہ ہنسی اور چہلیں! ہائے وہ نت نئے ارمان! ان یادوں سے کیمپ جیل خانہ بن گیا۔ زندگی اندھیری ہو گئی۔ اور میں بے اختیار کیمپ سے نکل کر دیوانہ وار ویرانے کی طرف چل کھڑا ہوا۔

میں بہت تیزی سے ایک سمت چلا جا رہا تھا۔ بھاگا جا رہا تھا۔ بھاگا جا رہا تھا۔ گویا لپک کر میں گزرے ہوئے دنوں کو پکڑ رہا ہوں۔ نہ جانے کتنی دیر تک میں چلا۔ اور کتنی دور نکل آیا۔ ایک بار ہوش جو آیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک کھنڈر نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ بہت سی پامال قبریں بھی لایا ہے۔ بیچ میں ایک ٹوٹا پھوٹا گنبد ہے۔ جو آخری تاریخوں کے چاند کی روشنی میں اپنی اکلوتی انگلی سے پھٹے ہوئے بادلوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ مردہ مسلمانوں کا استھان! میرے دل میں ایک ساتھ سکون و جلن کے جذبات پیدا ہوئے۔ دفعتاً میری نگاہ ایک جگہ رک گئی۔ قبروں کے بیچ میں ایک قبر انگڑائی لے کر اٹھی اور اٹھ کر میری طرف بڑھی۔ مسلمان! میں ٹھٹھا اور خوف اور انتقام کے مختلف جذبات کی وجہ سے اپنی جگہ مذبذب ہو کر کھڑا رہ گیا۔ جب دیکھا کہ مرنے والا بڑھتا ہی چلا آ رہا ہے تو کڑک کر پوچھا۔ ’’ہندو ہو کہ مسلمان؟‘‘ وہ شخص بالکل میرے پاس آ گیا۔ اور سکون سے بولا ’’وہ تو ہندو ہے۔‘‘

’’وہ کون؟‘‘

’’یہی۔‘‘

’’کیا یہاں کوئی شخص اور بھی ہے؟‘‘

اس نے ادھر ادھر گھوم کر دیکھا اور پھر کہنے لگا۔

’’نہیں تو۔‘‘

’’میں تم سے پوچھتا ہوں تم کون ہو۔ ہندو ہو کہ مسلمان؟‘‘

’’میں؟ میں؟ میں نے اس پر ابھی تک غور نہیں کیا۔‘‘

’’تم جھوٹے ہو۔ یقیناًمسلمان ہو۔ لیکن ڈر کے مارے چھپا رہے ہو۔‘‘

ڈر کس کا؟ کیا کوئی مجھے ڈرا رہا ہے؟‘‘

یہ کہہ کر وہ شخص بہت اطمینان سے پاس کی قبر پر میری طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ الجھے بالوں، خاک اور تنکوں کا ایک جھنڈ تھا۔ جس نے مہینوں سے پانی۔ کنگھی یا قینچی سے ملاقات نہیں کی تھی۔ خود رو جھاڑیوں کی طرح اس کی مونچھیں اور ڈاڑھی تھیں جنہوں نے ہونٹوں اور ناک کے نتھنوں کو ڈھک لیا تھا۔ سر کے بالوں کی لٹیں اس طرح گالوں اور پیشانی پر جھول رہی تھیں جیسے گڈریے فقیر کی الگنی پر چیتھڑے۔ مہینوں کے مریض کی طرح اس کے چہرے پر خون کی چھینٹ تک نہ تھی۔ لیکن اس تمام آخور کے اندر اس کی آنکھیں اس طرح چمک رہی تھیں جیسے گہرے کنوئیں کے نیچے موتی سا آب شیریں۔ جس میں سمندروں کو الٹ پلٹ کر دینے والی آندھیاں تک ہلکی سی جنبش بھی نہیں پیدا کر سکتی ہیں۔ اپنی آنکھوں کے سکون اور اعتماد کی وجہ سے وہ شخص اس فساد و خون والی دنیا کی مخلوق ہی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ میں اس سکون کو دیکھ کر گھبرا سا گیا۔ لیکن پھر میرا مضطرب دل مچلنے لگا۔ کہ میں تو اس کی نظروں کے کافوری پھائے اپنے زخموں پر لگاؤں گا۔ میں بیٹھ گیا۔ اور اس کی نظروں میں ڈوبنے سا لگا۔ دفعتاً اس کی آنکھوں نے پلکوں کے اندر غوطہ مارا۔ اور کچھ اس کل سے تڑپ کر نکلیں کہ مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔ ان آنکھوں میں سکون اور اعتماد کے علاوہ کچھ اور بھی تھا کوئی ڈراؤنی اور گھنونی سی شے۔ اسے محسوس کر کے میں نے اپنے کو ان آنکھوں کے ہپناٹزمی اثر سے آزاد کیا۔ اور چلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے اٹھتے ہوئے دیکھ کر وہ شخص بولا۔

’’تم مجھ سے کیوں نفرت کرتے ہو؟ میں وہ تو ہوں نہیں۔‘‘

’’وہ کون۔ مسلمان؟‘‘

’’نہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ بلکہ اس نے تو کئی مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور مسلمان عورتوں سے مزے لوٹے ہیں۔‘‘

’’آخر وہ ہے کون؟‘‘

وہی وہی۔ تم اسے نہیں جانتے۔ اچھا تو بیٹھو میں بتاتا ہوں کہ وہ کون ہے۔

 

(۲)

 

ایک ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں چالیس پچاس مسلمان مرد عورتیں اور بچے بھرے ہوئے تھے۔ یہ سب کے سب پناہ گزیں تھے۔ کوئی زخمی تھا۔ کوئی بیمار تھا۔ کوئی فاقوں سے مر رہا تھا۔ کوئی گھر بار کی بربادی پر واویلا مچا رہا تھا۔ کوئی اپنوں کے قتل پر آنسو بہا رہا تھا سب ہولناک حقیقت سے امید موہوم کی طرف جا رہے تھے۔

کیوں کہ ٹھہرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ قافلے کے سازو سامان کی یہ حالت تھی کہ اگر کسی کے ایک پاؤں میں جوتا ہے تو دوسرے میں ندارد۔ ایک جوان عورت کے کپڑے اس طرح تار تار تھے کہ ستر پوشی نا ممکن تھی۔ ایک مرد کو کہیں سے ایک شکستہ لہنگا مل گیا تھا جسے اس نے کمر سے لپیٹ کر تہمد بنا لیا تھا۔ لیکن کسی کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہ تھی۔ اور سکت بھی نہ تھی۔ سب اپنی اپنی آگ میں غوطہ مارے غائب تھے۔ بڑے سے بڑے دکھی کی پکار۔ بڑے سے بڑے بز رگ کی صدا ان کے کانوں کے اندر نہیں جا سکتی تھی۔ لیکن ایک کونے میں انسانیت کی کچھ مہک بھی تھی۔ ایک نئی نویلی دلہن اپنے زخمی دولھا کو بڑی بہادری اور چالاکی سے خونخوار قاتلوں کے نرغے میں سے نکال لائی تھی۔ دولھا کے بازو پر تلوار کا گہرا زخم تھا۔ اور وہ بے ہوش پڑا تھا۔ مسافروں میں ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ جس نے زخم دیکھ کر کہا تھا کہ اگر کہیں سے گرم پانی اور صاف کپڑا مل جاتا تو میں زخم دھو کر باندھ دیتا۔ پھر کوئی خطرہ نہ رہتا لیکن اس دنیا میں گرم پانی کیسا، پینے کے لئے پانی ملنا محال تھا۔ دلہن کے افشاں بھرے آنچل کے ٹکڑے سے زخم باندھ دیا گیا تھا۔ اور دلہن زخمی بازو کو گود میں لئے بیٹھی تھی۔ اور مہندی لگے ہاتھ دولھا کے سر پر اس طرح پھیر رہی تھی جیسے اس سے زخموں کو بھرنے میں مدد ملے گی۔ نئی نویلی دلہن نہ رو رہی تھی اور نہ اپنا دکھڑا سنانے کے لئے بے چین تھی۔ ہاں جب اس سے کوئی خاص طور سے پوچھتا تھا تو وہ مختصر الفاظ میں بتا دیتی تھی کہ کس طرح اس کے گھر پر حملہ ہوا کس طرح اس کا سر تاج زخمی ہوا۔ اور کس طرح وہ موقع پا کر اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کو خدا کو سونپ کر دولھا کو بچا کر لے بھا گی۔ اور پیٹھ پر لاد کر ایک میل چل کر ریل تک آئی۔

ریل چلی جا رہی تھی۔ اور سب اپنی اپنی حالت میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہ ایک زبردست دھماکا ہوا۔ اور پھر ریل رک گئی۔ اس کے رکتے ہی دس پندرہ مسافر جو کمپارٹمنٹ میں ادھر ادھر منہ ڈالے پڑے ہوئے تھے بپھرے شیروں کی طرح کھڑے ہو گئے کسی نے تھیلے کے اندر سے اور کسی نے بستر کے اندر سے کرپانیں، تلواریں اور خنجر نکال لئے۔ اور بجلی کی طرح چمک کر مسافروں پر ٹوٹ پڑے۔ بات کی بات میں دس بارہ مسافروں کو خون آلود جانکنی سے ہم آغوش کر دیا۔ مرنے والے چیخنے لگے۔ اور جو بچ رہے تھے ان کی گھگھی بندھ گئی۔ اور وہ سیٹوں کے نیچے چھپنے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔ بھاگنے کی کوئی راہ نہ تھی۔ کیوں کہ ریل کے نیچے بھی دونوں طرف مسلح جان لیوا سورما کھڑے ہوئے کہہ رہے تھے۔

ہندو مت اونچا ہو!

مہاتما گاندھی کی جے!

مسلمانوں کا ناش ہو!

ایک عورت بھاگنے کے لئے کھڑکی سے کودی۔ نیچے جو سورما کھڑے تھے انہوں نے فوراً اسے پکر لیا۔ اور جس طرح کوئی کیلا چھیلنا ہے اس طرح آناً فاناً میں سورماؤں کے تجربہ کار ہاتھوں نے اسے مادر زاد ننگا کر دیا۔ پھر وہ مشتاق ٹائپسٹ کی طرح اپنی ہوس کی جلن ٹھنڈی کرنے لگے۔ ایک طرف لوٹ مار ہو رہی تھی تو ایک طرف برہنہ عورتیں اکٹھا کی جا رہی تھیں۔ تاکہ ان کا جلوس نکالا جائے۔ اور پھر ان کو شرمناک سے شرمناک موت سے ہم آغوش کیا جائے۔ یہ سب کچھ اس تیزی سے ہو رہا تھا جیسے کوئی ذہین بچہ رٹے ہوئے پہاڑے فرفر سنا دے۔ نئی نویلی دلہن جو ایسے حادثوں کو اپنی آنکھوں سے ایک بار پہلے خود دیکھ چکی تھی اور درجنوں بار ایسی عورتوں سے سن چکی تھی جو ان کا شکار ہوئی تھیں۔ دلہن جانتی تھی کہ ان باتوں کی ابتدا کیا ہوتی ہے اور انتہا کیا۔ وہ ایک نظر میں بھانپ گئی۔ کہ صورت حال کیا ہے اور فیصلہ کر لیا کہ کیا کرنا چاہیے۔ اس نے اپنا دوپٹہ لپیٹ کر تکیہ بنا کر دولھا کے زخمی بازو کے نیچے رکھ دیا اور اٹھ کر اندر اور باہر کے سورماؤں پر ایک نظر ڈالی پھر بے دھڑک ایک سورما کے پاس جا کر کہنے لگی: ۔

مہاشے جی میری ایک بنتی ہے۔‘‘

’’بنتی؟ ہوں۔ ہم تو تم کو چورا ہے کی کتیا بنا کر چھوڑیں گے آخر ہم اپنی ماں بہنوں کا انتقام کیسے لیں؟ ہائے ری مسلمنٹی۔ یہ ابھار۔۔ جانی! ۔۔‘‘

سورما نے اپنے خنجر کی نوک دولھن کی ایک چھاتی میں ذرا سی چبھو دی جس سے کرتے پر خون جھلک آیا۔ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ پر وہ بھاگی نہیں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ کھڑا ہوا تھا۔ دلھن اس کی طرف مڑی اور بولی۔

’’مہاشے آپ ہی ایک عورت کی پرارتھنا سن لیجئے۔‘‘

وہ کڑے تیوروں سے بولا۔

’’تمہارے مسلمان بھائیوں نے بھی کسی دکھی ہندو عورت کی پرارتھنا سنی ہے۔‘‘

دلہن نے ہاتھ جوڑ کر لجاجت سے کہا۔

’’میری پرارتھنا صرف اتنی ہے کہ آپ مجھے ان (دولھا کی طرف اشارہ کر کے) کے سامنے ابھی مار ڈالئے۔ بس میں بہت احسان مانوں گی۔ خدا کے لئے۔ ایشور کے لئے۔‘‘

دلہن کی باشدری کا قصہ وہ سن ہی چکا تھا۔ شاید اس وجہ سے یا شاید اس کے گڑگڑانے کی وجہ سے بہر حال کسی وجہ سے وہ پسیج گیا۔ اسے دلہن پر رحم آ گیا۔ اس نے دلہن کی کلائی پکڑ کر ایک جھٹکے میں اسے دولھا کے پاس لا کر کہا۔

’’لے تیری خوشی سہی۔‘‘

اس نے دلہن کے خنجر کا بھر پور ہاتھ مار دیا۔ دلہن ایک چیخ مار کر دولھا کے پاس گر پڑی۔ اس کی بجھتی ہوئی زندگی کی آخری بھڑک اس کی آنکھوں میں سیتا کا پریم بن کر آ گئی۔ اور اس نے ان آنکھوں سے شوہر کو نظر بھر کر دیکھا۔ پھر گھوم کر اس نے قاتل کی طرف دیکھا۔ جب اس نے قاتل کی طرف دیکھا ہے تو اس کی پریم کی لیک سچی شکر گزاری کی مہک میں تبدیل ہو چکی تھی۔ کتنی شکر گزار تھیں وہ آنکھیں۔۔ ۔

اف۔ فو۔ مانو وہ کہہ رہی تھیں۔ تم نے مجھ بے یار و مددگار عورت پر جو احسان کیا ہے اس کے لئے میرا رواں رواں تمہارا شکر گزار ہے۔ پر افسوس میں زبان سے شکریہ تک نہیں کہہ سکتی۔ مگر یقین کرو کہ اس کی پیاری یاد لے کر مر رہی ہوں۔ رخصت۔‘‘

دلہن نے اپنا دم توڑتا ہوا ہاتھ دولھا کے زخمی بازو پر رکھا۔ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اور ایک ہچکی لے کر ختم ہو گئی۔

بیان کرنے والے نے اپنا قصہ جاری رکھا۔ کہنے لگا۔ ایک پرانی بات ہے۔ فساد اور خوں ریزی سے پہلے جب کبھی وہ اپنا خنجر صاف کیا کرتا تھا تو اس کو اس کی آبدار سطح کے نیچے ایک عکس نظر آتا تھا۔ اور جب کبھی اس سے آنکھیں چار ہوتی تھیں تو وہ کہتا تھا۔ دیکھ اس آبدار خنجر کو کسی کمزور پرمت چلانا۔ جواب میں وہ کہتا تھا۔ میرے من! ایسی بزدلی میں کبھی نہ کروں گا۔‘‘

نہ جانے کتنی بار اس عہد کی تصدیق ہوتی۔

جب خنجر دلہن کے سینے سے باہر آیا ہے تو دلہن کی شکرگزار آنکھوں سے اس کی آنکھیں بھی چار ہوئی تھیں اور اس کے دل میں سما گئی تھیں۔ دن پر دن گزرتے گئے۔ پر وہ آنکھیں اس کے من میں اسی طرح بسی رہیں۔ وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کو دیکھتا تو وہی شکر گزار آنکھیں نظر آتیں۔ چاند تاروں کو دیکھتا تو وہی شکر گزار آنکھیں نظر آتیں۔ جس طرح گھنگھور گھٹا برس کر نکل جانے کے بعد دھنک نکل آئے، ایسادھنک جس کا ہر رنگ نگاہوں میں چبھا جا رہا ہو جیسے جار جٹ ساڑی میں سڈول جسم اسی دھنک کی طرح، وہ آنکھیں اس کے دل میں کھلی ہوئی رستی تھیں۔ وہ احسان مند آنکھیں، وہ شکر گزار آنکھیں۔

وہ کیا کہتی تھیں؟ کیا پیام دیتی تھیں؟ یہ اس کو معلوم نہ تھا مگر وہ دیتی تھیں کوئی پیام۔ وہ آنکھیں چکھنے میں مٹھائی کی ڈلیاں تھیں مگر خاصیت میں رائفل کی گولیاں۔ چھونے میں برف کی کنکریاں تھیں پر حلق سے اتارنے پر زہر میں بجھی ہوئی انیاں۔

بیان کرنے والے کی نظروں سے سارا سکون رخصت ہو چکا تھا۔ اور اب ان میں ایسی وحشت اور مظلومیت تھی کہ جی چاہتا تھا اس کی ہمدردی میں سر پھوڑ لوں۔ بیان کرنے والا ذرا دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر بولا۔

’’وہ شکر گزار آنکھیں۔‘‘ میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو وہ بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک تارے کا بھی پتہ نہ تھا۔ بیان کرنے والا ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔ پھر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ ایک رات میں نے اس پر اچانک حملہ کر دیا۔ جب وہ اپنا بچاؤ کرنے لگا تو ہم دونوں میں سخت کشتی ہوئی۔ آخر صبح ہوتے ہوتے میں نے ایک داؤ سے اسے پچھاڑا۔ اور اپنے قبضے میں کر لیا۔ اب وہ چیختا ہے۔ چلاتا، خوشامدیں کرتا ہے۔ گڑگڑاتا ہے پر میں اسے نہیں چھوڑتا ہوں۔ جانتے ہو میں اس کے ساتھ کیا کرتا ہوں؟

یہ کہہ کر بیان کرنے والے نے اپنے کپڑوں کے اندر سے ایک خنجر نکالا اور مجھے دکھا کر کہنے لگا۔ میں اس پر بڑا احسان کرتا ہوں وہ یہ کہ اسی خنجر سے اس کے جسم کو چھید چھید کر ان پیاری پیار شکرگزار آنکھوں کو نگینوں کی طرح ان میں جڑتا رہتا ہوں۔ بیان کرنے والا یہ کہہ کر ہلکی سی مردہ ہنسی ہنسا۔ جو زہر خند سے مشابہ تھی۔ اور بولا۔ بس اتنا ہی قصہ ہے۔

قصے کا سر پیر میری سمجھ میں نہ آیا۔ پھر کچھ خیال کر کے میں نے ڈپٹ کر کہا۔

’’بتا کہ تو نے اس سورما کو کہاں چھپا رکھا ہے؟ تو ضرور مسلمان ہے اور ایک بہادر ہندو کو سسکا سسکا کر مار رہا ہے۔‘‘

اس نے سادگی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا۔ تم اسے دیکھو گے؟ اچھا یہ ٹارچ لو۔ جب میں کہوں جلا دینا۔ اس شخص نے تلے اوپر، تلے اوپر، نہ جانے کتنے کرتے پہن رکھے تھے۔ ان کو آہستہ آہستہ اتار کر بولا۔

’’ٹارچ روشن کرو۔‘‘

میں نے ٹارچ روشن کی تو دیکھا، ہوں کہ اس شخص کا سینہ اور بازو زخموں سے گندھے ہوئے ہیں۔ بعض گھاؤ تازے ہیں۔ بعض پرانے۔ اور بعض بعض تو اتنے پرانے کہ پک پک کر سڑ گئے ہیں اور ان میں کیڑے بج بجا رہے ہیں۔ وہ شخص بولا۔

’’یہ ہے وہ سورما اور یہ دیکھو وہ پیاری شکر گزار آنکھیں۔‘‘

اب جو میں نے غور سے دیکھا تو واقعی اس شخص نے خنجر کی نوک سے گوشت میں سینکڑوں آنکھیں کھو دلی تھیں۔ وہ شخص ایک رستے ہوئے زخم کو چٹکی سے مل مل کر کہنے لگا۔ یہی ہیں وہ پیاری شکر گزار آنکھیں۔

ملنے سے زخم اس طرح بہنے لگا جیسے کسی سل کے مریض کا اگالدان الٹ گیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں پھر وہی قابل رشک سکون آ گیا۔ سارا قصہ میرے لئے ایک ایسا معما تھا جس کا بوجھ لینا دل کو گوارا نہ تھا۔ میں نے پوچھا۔

’’تم خود کون ہو؟‘‘

’’میں۔۔ ۔ میں وہی خنجر کے اندر نظر آنے والا عکس ہوں۔‘‘

اس رات میں نے جانا کہ بہادر مظلوم لاکھ درجے خوش نصیب ہوتا ہے بزدل ظالم سے۔

***

 

 

 

 

 

پشاور ایکسپریس

 

کرشن چندر

 

جب میں پشاور سے چلی تو میں نے چھکا چھک اطمینان کا سانس لیا۔ میرے ڈبوں میں زیادہ تر ہندو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ پشاور سے ہوئی مردان سے، کوہاٹ سے، چارسدہ سے، خیبر سے، لنڈی کوتل سے، بنوں نوشہرہ سے، مانسہرہ سے آئے تھے اور پاکستان میں جانو مال کو محفوظ نہ پا کر ہندوستان کا رخ کر رہے تھے، اسٹیشن پر زبردست پہرہ تھا اور فوج والے بڑی چوکسی سے کام کر رہے تھے۔ ان لوگوں کو جو پاکستان میں پناہ گزین اور ہندوستان میں شرنارتھی کہلاتے تھے اس وقت تک چین کا سانس نہ آیا جب تک میں نے پنجاب کی رومان خیز سرزمین کی طرف قدم نہ بڑھائے، یہ لوگ شکل و صورت سے بالکل پٹھان معلوم ہوتے تھے، گورے چٹے مضبوط ہاتھ پاؤں، سرپر کلاہ اور لنگی، اور جسم پر قمیض اور شلوار، یہ لوگ پشتو میں بات کرتے تھے اور کبھی کبھی نہایت کرخت قسم کی پنجابی میں بات کرتے تھے۔ ان کی حفاظت کے لئے ہر ڈبے میں دو سپاہی بندوقیں لے کر کھڑے تھے۔ وجیہہ بلوچی سپاہی اپنی پگڑیوں کے عقب مور کے چھتر کی طرح خوبصورت طرے لگائے ہوئے ہاتھ میں جدید رائفلیں لئے ہوئے ان پٹھانوں اور ان کے بیوی بچوں کی طرف مسکرا مسکرا کر دیکھ رہے تھے جو ایک تاریخی خوف اور شر کے زیر اثر اس سر زمین سے بھاگے جا رہے تھے جہاں وہ ہزاروں سال سے رہتے چلے آئے تھے جس کی سنگلاخ سر زمین سے انہوں نے توانائی حاصل کی تھی۔ جس کے برفاب چشموں سے انہوں نے پانی پیا تھا۔ آج یہ وطن یک لخت بیگانہ ہو گیا تھا اور اس نے اپنے مہربان سینے کے کواڑ ان پربند کر دئے تھے اور وہ ایک نئے دیس کے تپتے ہوئے میدانوں کا تصور دل میں لئے بادل ناخواستہ وہاں سے رخصت ہو رہے تھے۔ اس امر کی مسرت ضرور تھی کہ ان کی جانیں بچ گئی تھیں۔ ان کا بہت سا مال و متاع اور ان کی بہوؤں، بیٹیوں، ماؤں اور بیویوں کی آبرو محفوظ تھی لیکن ان کا دل رو رہا تھا اور آنکھیں سرحد کے پتھریلے سینے پریوں گڑی ہوئی تھیں گویا اسے چیر کر اندر گھس جانا چاہتی ہیں اور اس کے شفقت بھرے مامتا کے فوارے سے پوچھنا چاہتی ہیں، بول ماں آج کس جرم کی پاداش میں تو نے اپنے بیٹوں کو گھر سے نکال دیا ہے۔ اپنی بہوؤں کو اس خوبصورت آنگن سے محروم کر دیا ہے۔ جہاں وہ کل تک سہاگ کی رانیاں بنی بیٹھی تھیں۔ اپنی البیلی کنواریوں کو جو انگور کی بیل کی طرح تیری چھاتی سے لپٹ رہی تھیں جھنجھوڑ کر الگ کر دیا ہے۔ کس لئے آج یہ دیس بدیس ہو گیا ہے۔ میں چلتی جا رہی تھی اور ڈبوں میں بیٹھی ہوئی مخلوق اپنے وطن کی سطح مرتفع اس کے بلند و بالا چٹانوں، اس کے مرغزاروں، اس کی شاداب وادیوں، کنجوں اور باغوں کی طرف یوں دیکھ رہی تھی، جیسے ہر جانے پہچانے منظر کو اپنے سینے میں چھپا کر لے جانا چاہتی ہو جیسے نگاہ ہر لحظہ رک جائے، اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس عظیم رنج و الم کے بارے میرے قدم بھاری ہوئے جا رہے ہیں۔ اور ریل کی پٹری مجھے جواب دئے جا رہی ہے۔ حسن ابدال تک لوگ یوں ہی محزوں افسردہ یاسو نکبت کی تصویر بنے رہے۔ حسن ابدال کے اسٹیشن پر بہت سے سکھ آئے ہوئے تھے۔ پنجہ صاحب سے لمبی لمبی کرپانیں لئے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئی بال بچے سہمے سہمے سے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنی ہی تلوار کے گھاؤ سے یہ لوگ خود مر جائیں گے۔ ڈبوں میں بیٹھ کر ان لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر دوسرے سرحد کے ہندو اور سکھ پٹھانوں سے گفتگو شروع ہو گئی کسی کا گھر بار جل گیا تھا کوئی صرف ایک قمیض اور شلوار میں بھاگا تھا کسی کے پاؤں میں جوتی نہ تھی اور کوئی اتنا ہوشیار تھا کہ اپنے گھر کی ٹوٹی چارپائی تک اٹھا لایا تھا جن لوگوں کا واقعی بہت نقصان ہوا تھا وہ لوگ گم سم بیٹھے ہوئے تھے۔ خاموش، چپ چاپ اور جس کے پاس کبھی کچھ نہ ہوا تھا وہ اپنی لاکھوں کی جائیداد کھونے کا غم کر رہا تھا اور دوسروں کو اپنی فرضی امارت کے قصے سنا سنا کر مرعوب کر رہا تھا اور مسلمانوں کو گالیاں دے رہا تھا۔

بلوچی سپاہی ایک پر وقار انداز میں دروازوں پر رائفلیں تھامیں کھڑے تھے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف کنکھیوں سے دیکھ کر مسکرا اٹھتے۔ تکشیلا کے اسٹیشن پر مجھے بہت عرصے تک کھڑا رہنا پڑا، نہ جانے کس کا انتظار تھا، شاید آس پاس کے گاؤں سے ہندو پناہ گزیں آ رہے تھے، جب گارڈ نے اسٹیشن ماسٹر سے بار بار پوچھا تو اس نے کہا یہ گاڑی آگے نہ جا سکے گی۔ ایک گھنٹہ اور گزر گیا۔ اب لوگوں نے اپنا سامان خورد و نوش کھولا اور کھانے لگے سہمے سہمے بچے قہقہے لگانے لگے اور معصوم کنواریاں دریچوں سے باہر جھانکنے لگیں اور بڑے بوڑھے حقے گڑگڑانے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد دور سے شور سنائی دیا اور ڈھولوں کے پیٹنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ہندو پناہ گزینوں کا جتھا آ رہا تھا شاید لوگوں نے سر نکال کر ادھر ادھر دیکھا۔ جتھا دور سے آ رہا تھا اور نعرے لگا رہا تھا۔ وقت گزرتا تھا جتھا قریب آتا گیا، ڈھولوں کی آواز تیز ہوتی گئی۔ جتھے کے قریب آتے ہی گولیوں کی آواز کانوں میں آئی اور لوگوں نے اپنے سر کھڑکیوں سے پیچھے ہٹا لئے۔ یہ ہندوؤں کا جتھا تھا جو آس پاس کے گاؤں سے آ رہا تھا، گاؤں کے مسلمان لوگ اسے اپنی حفاظت میں لا رہے تھے۔ چنانچہ ہر ایک مسلمان نے ایک کافر کی لاش اپنے کندھے پر اٹھا رکھی تھی جس نے جان بچا کر گاؤں سے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ دو سو لاشیں تھیں۔ مجمع نے یہ لاشیں نہایت اطمینان سے اسٹیشن پہنچ کر بلوچی دستے کے سپرد کیں اور کہا کہ وہ ان مہاجرین کو نہایت حفاظت سے ہندوستان کی سرحد پر لے جائے، چنانچہ بلوچی سپاہیوں نے نہایت خندہ پیشانی سے اس بات کا ذمہ لیا اور ہر ڈبے میں پندرہ بیس لاشیں رکھ دی گئیں۔ اس کے بعد مجمع نے ہوا میں فائر کیا اور گاڑی چلانے کے لئے اسٹیشن ماسٹر کو حکم دیا میں چلنے لگی تھی کہ پھر مجھے روک دیا گیا اور مجمع نے سرغنے میں ہندو پناہ گزینوں سے کہا کہ دو سو آدمیوں کے چلے جانے سے ان کے گاؤں ویران ہو جائیں گے اور ان کی تجارت تباہ ہو جائے گی اس لئے وہ گاڑی میں سے دو سو آدمی اتار کر اپنے گاؤں لے جائیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو۔ وہ اپنے ملک کو یوں برباد ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ اس پر بلوچی سپاہیوں نے ان کے فہم و ذکا اور ان کی فراست طبع کی داد دی۔ اور ان کی وطن دوستی کو سراہا۔ چنانچہ اس پر بلوچی سپاہیوں نے ہر ڈبے سے کچھ آدمی نکال کر مجمع کے حوالے کئے۔ پورے دو سو آدمی نکالے گئے۔ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ لائن لگاؤ کا فرو! سرغنے نے کہا۔ سرغنہ اپنے علاقہ کا سب سے بڑا جاگیردار تھا۔ اور اپنے لہو کی روانی میں مقدس جہاد کی گونج سن رہا تھا۔ کافر پتھر کے بُت بنے کھڑے تھے۔ مجمع کے لوگوں نے انہیں اٹھا اٹھا کر لائن میں کھڑا کیا۔ دو سو آدمی، دو سو زندہ لاشیں، چہرے ستے ہوئے۔ آنکھیں فضا میں تیروں کی بارش سی محسوس کرتی ہوئی۔ پہل بلوچی سپاہیوں نے کی۔ پندرہ آدمی فائر سے گر گئے۔

یہ تکشیلا کا اسٹیشن تھا۔ بیس اور آدمی گر گئے۔ یہاں ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی اور لاکھوں طالب علم اس تہذیب و تمدن کے گہوارے سے کسب فیض کرتے تھے۔ پچاس اور مارے گئے۔ تکشیلا کے عجائب گھر میں اتنے خوبصورت بُت تھے اتنے حسن سنگ تراشی کے نادر نمونے، قدیم تہذیب کے جھلملاتے ہوئے چراغ۔ پچاس اور مارے گئے۔ پس منظر میں سرکوپ کا محل تھا اور کھیلوں کا امفی تھیٹر اور میلوں تک پھیلے ہوئے ایک وسیع شہر کے کھنڈر، تکشیلا کی گزشتہ عظمت کے پر شکوہ مظہر۔ تیس اور مارے گئے۔ یہاں کنشک نے حکومت کی تھی اور لوگوں کو امن و آشتی اور حسن و دولت سے مالا مال کیا تھا۔ پچیس اور مارے گئے۔ یہاں بدھ کا نغمہ عرفاں گونجا تھا یہاں بھکشوؤں نے امن و صلح و آشتی کا درس حیات دیا تھا۔ اب آخری گروہ کی اجل آ گئی تھی۔ یہاں پہلی بار ہندوستان کی سرحد پر اسلام کا پرچم لہرایا تھا۔ مساوات اور اخوت اور انسانیت کا پرچم۔ سب مر گئے۔ اللہ اکبر۔ فرش خون سے لال تھا۔ جب میں پلیٹ فارم سے گزری تو میرے پاؤں ریل کی پٹری سے پھسلے جاتے تھے جیسے میں ابھی گر جاؤں گی اور گر کر باقی ماندہ مسافروں کو بھی ختم کر ڈالوں گی۔ ہر ڈبے میں موت آ گئی تھی اور لاشیں درمیان میں رکھ دی گئی تھیں اور زندہ لاشوں کا ہجوم چاروں طرف تھا اور بلوچی سپاہی مسکرا رہے تھے کہیں کوئی بچہ رونے لگا کسی بوڑھی ماں نے سسکی لی۔ کسی کے لٹے ہوئے سہاگ نے آہ کی۔ اور چیختی چلاتی راولپنڈی کے پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئی۔

یہاں سے کوئی پناہ گزیں گاڑی میں سوار نہ ہوا۔ ایک ڈبے میں چند مسلمان نوجوان پندرہ بیس برقعہ پوش عورتوں کو لے کر سوار ہوئے۔ ہر نوجوان رائفل سے مسلح تھا۔ ایک ڈبے میں بہت سا سامان جنگ لادا گیا مشین گنیں، اور کارتوس، پستول اور رائفلیں۔ جہلم اور گوجر خاں کے درمیانی علاقے میں مجھے سنگل کھینچ کر کھڑا کر دیا گیا۔ میں رک گئی۔ مسلح نوجوان گاڑی سے اترنے لگے۔ برقعہ پوش خواتین نے شور مچانا شروع کیا۔ ہم ہندو ہیں۔ ہم سکھ ہیں۔ ہمیں زبردستی لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے برقعے پھاڑ ڈالے اور چلانا شروع کیا۔ نوجوان مسلمان ہنستے ہوئے انہیں گھسیٹ کر گاڑی سے نکال لائے۔ ہاں یہ ہندو عورتیں ہیں، ہم انہیں راولپنڈی سے ان کے آرام دہ گھروں، ان کے خوش حال گھرانوں، ان کے عزت دار ماں باپ سے چھین کر لائے ہیں۔ اب یہ ہماری ہیں ہم ان کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں گے۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو انہیں ہم سے چھین کر لے جائے۔ سرحد کے دو نوجوان ہندو پٹھان چھلانگ مار کر گاڑی سے اُتر گئے، بلوچی سپاہیوں نے نہایت اطمینان سے فائر کر کے انہیں ختم کر دیا۔ پندرہ بیس نوجوان اور نکلے، انہیں مسلح مسلمانوں کے گروہ نے منٹوں میں ختم کر دیا۔ در اصل گوشت کی دیوار لوہے کی گولی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

نوجوان ہندو عورتوں کو گھسیٹ کر جنگل میں لے گئے میں اور منہ چھپا کر وہاں سے بھاگی۔ کالا، خوفناک سیاہ دھواں میرے منہ سے نکل رہا تھا۔ جیسے کائنات پر خباثت کی سیاہی چھا گئی تھی اور سانس میرے سینے میں یوں الجھنے لگی جیسے یہ آہنی چھاتی ابھی پھٹ جائے گی اور اندر بھڑکتے ہوئے لال لال شعلے اس جنگل کو خاک سیاہ کر ڈالیں گے جو اس وقت میرے آگے پیچھے پھیلا ہوا تھا اور جس نے ان پندرہ عورتوں کو چشم زدن میں نگل لیا تھا۔

لالہ موسیٰ کے قریب لاشوں سے اتنی مکروہ سڑاند نکلنے لگی کہ بلوچی سپاہی انہیں باہر پھینکنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے ایک آدمی کو بلاتے اور اس سے کہتے، اس کی لاش کو اٹھا کر یہاں لاؤ، دروازے پر۔ اور جب وہ آدمی ایک لاش اٹھا کر دروازے پر لاتا تو وہ اسے گاڑی سے باہر دھکا دے دیتے۔ تھوڑی دیر میں سب لاشیں ایک ایک ہمراہی کے ساتھ باہر پھینک دی گئیں اور ڈبوں میں آدمی کم ہو جانے سے ٹانگیں پھیلانے کی جگہ بھی ہو گئی۔ پھر لالہ موسیٰ گزر گیا۔ اور وزیر آباد آ گیا۔

وزیرآباد کا مشہور جنکشن، وزیر آباد کا مشہور شہر، جہاں ہندوستان بھر کے لئے چھریاں اور چاقو تیار ہوتے ہیں۔ وزیرآباد جہاں ہندو اور مسلمان صدیوں سے بیساکھی کا میلہ بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور اس کی خوشیوں میں اکٹھے حصہ لیتے ہیں وزیر آباد کا اسٹیشن لاشوں سے پٹا ہوا تھا۔ شاید یہ لوگ بیساکھی کا میلہ دیکھنے آئے تھے۔ لاشوں کا میلہ شہر میں دھواں اُٹھ رہا تھا اور اسٹیشن کے قریب انگریزی بینڈ کی صدا سنائی دے رہی تھی اور ہجوم کی پر شور تالیوں اور قہقہوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھی۔ چند منٹوں میں ہجوم اسٹیشن پر آ گیا۔ آگے آگے دیہاتی ناچتے گاتے آ رہے تھے اور ان کے پیچھے ننگی عورتوں کا ہجوم، مادر زاد ننگی عورتیں، بوڑھی، نوجوان، بچیاں، دادیاں اور پوتیاں، مائیں اور بہوئیں اور بیٹیاں، کنواریاں اور حاملہ عورتیں، ناچتے گاتے ہوئے مردوں کے نرغے میں تھیں۔ عورتیں ہندو اور سکھ تھیں اور مرد مسلمان تھے اور دونوں نے مل کر یہ عجیب بیساکھی منائی تھی، عورتوں کے بال کھلے ہوئے تھے۔ ان کے جسموں پر زخموں کے نشان تھے اور وہ اس طرح سیدھی تن کر چل رہی تھیں جیسے ہزاروں کپڑوں میں ان کے جسم چھپے ہوں، جیسے ان کی روحوں پر سکون آمیز موت کے دبیز سائے چھا گئے ہوں۔ ان کی نگاہوں کا جلال دروپدی کو بھی شرماتا تھا اور ہونٹ دانتوں کے اندر یوں بھنچے ہوئے تھے۔ گویا کسی مہیب لاوے کا منہ بند کئے ہوئے ہیں۔ شاید ابھی یہ لاوا پھٹ پڑے گا اور اپنی آتش فشانی سے دنیا کو جہنم راز بنا دے گا۔ مجمع سے آوازیں آئیں۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘

’’اسلام زندہ باد‘‘

’’قائد اعظم محمد علی جناح زندہ باد‘‘

ناچتے تھرکتے ہوئے قدم پرے ہٹ گئے اور اب یہ عجیب و غریب ہجوم ڈبوں کے عین سامنے تھا۔ ڈبوں میں بیٹھی ہوئی عورتوں نے گھونگھٹ کاڑھ لئے اور ڈبے کی کھڑکیاں یکے بعد دیگرے بند ہونے لگیں۔ بلوچی سپاہیوں نے کہا۔ کھڑکیاں مت بند کرو، ہوا رکتی ہے، کھڑکیاں بند ہوتی گئیں۔ بلوچی سپاہیوں نے بندوقیں تان لیں۔ ٹھائیں، ٹھائیں پھر بھی کھڑکیاں بند ہوتی گئیں اور پھر ڈبے میں ایک کھڑکی بھی نہ کھلی رہی۔ ہاں کچھ پناہ گزیں ضرور مر گئے۔ ننگی عورتیں پناہ گزینوں کے ساتھ بٹھا دی گئیں۔ اور میں اسلام زندہ باد اور قائد اعظم محمد علی جناح زندہ باد کے نعروں کے درمیان رخصت ہوئی۔

گاڑی میں بیٹھا ہوا ایک بچہ لڑھکتا لڑھکتا ایک بوڑھی دادی کے پاس چلا گیا اور اس سے پوچھنے لگا ’’ماں تم نہا کے آئی ہو؟‘‘ دادی نے اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں ننھے، آج مجھے میرے وطن کے بیٹوں نے بھائیوں نے نہلایا ہے۔‘‘

’’تمہارے کپڑے کہاں ہے اماں؟‘‘

’’ان پر میرے سہاگ کے خون کے چھینٹے تھے بیٹا۔ وہ لوگ انہیں دھونے کے لئے لے گئے ہیں۔‘‘

دو ننگی لڑکیوں نے گاڑی سے چھلانگ لگا دی اور میں چیختی چلاتی آگے بھاگی۔ اور لاہور پہنچ کر دم لیا۔ مجھے ایک نمبر پلیٹ فارم پر کھڑا کیا گیا۔ نمبر 2پلیٹ فارم پر دوسری گاڑی کھڑی تھی۔ یہ امرتسر سے آئی تھی اور اس میں مسلمان پناہ گزیں بند تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد مسلم خدمت گار میرے ڈبوں کی تلاشی لینے لگے۔ اور زیور اور نقدی اور دوسرا قیمتی سامان مہاجرین سے لے لیا گیا۔ اس کے بعد چار سو آدمی ڈبوں سے نکال کر اسٹیشن پر کھڑے کئے تھے۔ یہ مذبح کے بکرے تھے کیونکہ ابھی ابھی نمبر 2پلیٹ فارم پر جو مسلم مہاجرین کی گاڑی آ کر رُکی تھی اس میں چار سو مسلمان مسافر کم تھے اور پچاس مسلم عورتیں اغواء کر لی گئی تھیں اس لئے یہاں پر بھی پچاس عورتیں چن چن کر نکال لی گئیں اور چار سو ہندوستانی مسافروں کو تہ تیغ کیا گیا تاکہ ہندوستان اور پاکستان میں آبادی کا توازن برقرار رہے۔ مسلم خدمت گاروں نے ایک دائرہ بنا رکھا تھا اور چھرے ہاتھ میں تھے اور دائرے میں باری باری ایک مہاجر ان کے چھرے کی زد میں آتا تھا اور بڑی چابک دستی اور مشاقی سے ہلاک کرد یا جاتا تھا۔ چند منٹوں میں چارسو آدمی ختم کر دئے گئے اور پھر میں آگے چلی۔ اب مجھے اپنے جسم کے ذرّے ذرّے سے گھن آنے لگی۔ اس قدر پلید اور متعفن محسوس کر رہی تھی۔ جیسے مجھے شیطان نے سیدھا جہنم سے دھکا دے کر پنجاب میں بھیج دیا ہو۔ اٹاری پہنچ کر فضا بدل سی گئی۔ مغلپورہ ہی سے بلوچی سپاہی بدلے گئے تھے اور ان کی جگہ ڈوگروں اور سکھ سپاہیوں نے لے لی تھی۔ لیکن اٹاری پہنچ کر تو مسلمانوں کی اتنی لاشیں ہندو مہاجر نے دیکھیں کہ ان کے دل فرط مسرت سے باغ باغ ہو گئے۔

آزاد ہندوستان کی سرحد آ گئی تھی ورنہ اتنا حسین منظر کس طرح دیکھنے کو ملتا اور جب میں امرتسر اسٹیشن پر پہنچی تو سکھوں کے نعروں نے زمین آسمان کو گونجا دیا۔ یہاں بھی مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر کے ڈھیر تھے اور ہندو جاٹ اور سکھ اور ڈوگرے ہر ڈبے میں جھانک کر پوچھتے تھے، کوئی شکار ہے، مطلب یہ کہ کوئی مسلمان ہے۔ ایک ڈبے میں چار ہندو براہمن سوار ہوئے۔ سر گھٹا ہوا، لمبی چوٹی، رام نام کی دھوتی باندھے، ہر دوار کا سفر کر رہے تھے۔ یہاں ہر ڈبے میں آٹھ دس سکھ اور جاٹ بھی بیٹھ گئے، یہ لوگ رائفلوں اور بلموں سے مسلح تھے اور مشرقی پنجاب میں شکار کی تلاش میں جا رہے تھے۔ ان میں سے ایک کے دل میں کچھ شبہ سا ہوا۔ اس نے ایک براہمن سے پوچھا۔ ’’براہمن دیوتا کدھر جا رہے ہو؟

’’ہر دوار۔ تیرتھ کرنے۔‘‘

’’ہر دوار جا رہے ہو کہ پاکستان جا رہے ہو۔‘‘

’’میاں اللہ اللہ کرو۔‘‘ دوسرے براہمن کے منہ سے نکلا۔ جاٹ ہنسا، تو آؤ اللہ اللہ کریں۔ اونتھا سہاں، شکار مل گیا بھئی آؤرھیدا اللہ بیلی کرئئے۔ اتنا کہہ کر جاٹ نے بلم نقلی براہمن کے سینے میں مارا۔ دوسرے براہمن بھاگنے لگے۔ جاٹوں نے انہیں پکڑ لیا۔ ایسے نہیں براہمن دیوتا، ذرا ڈاکٹری معائنہ کراتے جاؤ۔ ہر دوار جانے سے پہلے ڈاکٹری معائنہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹری معائنے سے مراد یہ تھی کہ وہ لوگ ختنہ دیکھتے تھے اور جس کے ختنہ ہوا ہوتا اسے وہیں مار ڈالتے۔ چاروں مسلمان جو براہمن کا روپ بدل کر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ وہیں مار ڈالے گئے اور میں آگے چلی۔

راستے میں ایک جگہ جنگل میں مجھے کھڑا کر دیا گیا اور مہاجرین اور سپاہی اور جاٹ اور سکھ سب نکل کر جنگل کی طرف بھاگنے لگے۔ میں نے سوچا شاید مسلمانوں کی بہت بڑی فوج ان پر حملہ کرنے کے لئے آ رہی ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتی ہوں کہ جنگل میں بہت سارے مسلمان مزارع اپنے بیوی بچوں کو لئے چھپے بیٹھے ہیں۔ سری است اکال اور ہندو دھرم کی جے کے نعروں کی گونج سے جنگل کانپ اٹھا، اور وہ لوگ نرغے میں لے لئے گئے۔ آدھے گھنٹے میں سب صفایا ہو گیا۔ بڈھے، جوان، عورتیں اور بچے سب مار ڈالے گئے۔ ایک جاٹ کے نیزے پر ایک ننھے بچے کی لاش تھی اور وہ اس سے ہوا میں گھما گھما کر کہہ رہا تھا۔ آئی بیساکھی۔ آئی بیساکھی جٹا لائے ہے ہے۔ جالندھر سے ادھر پٹھانوں کا ایک گاؤں تھا۔ یہاں پر گاڑی روک کر لوگ گاؤں میں گھس گئے۔ سپاہی اور مہاجرین اور جاٹ پٹھانوں نے مقابل کیا۔ لیکن آخر میں مارے گئے، بچے اور مرد ہلاک ہو گئے تو عورتوں کی باری آئی اور وہیں اسی کھلے میدان میں جہاں گیہوں کے کھلیان لگائے جاتے تھے اور سرسوں پھول مسکراتے تھے اور عفت مآب بیبیاں اپنے خاوندوں کی نگاہ شوق کی تاب نہ لا کر کمزور شاخوں کی طرح جھکی جھکی جاتی تھیں۔ اسی وسیع میدان میں جہاں پنجاب کے دل نے ہیر رانجھے اور سوہنی مہینوال کی لافانی الفت کے ترانے گائے تھے۔ انہیں شیشم، سرس اور پیپل کے درختوں تلے وقتی چکلے آباد ہوئے۔ پچاس عورتیں اور پانچ سو خاوند، پچاس بھیڑیں اور پانچ سو قصاب، پچاس سوہنیاں اور پانچ مہینوال، شاید اب چناب میں کبھی طغیانی نہ آئے گی۔ شاید اب کوئی وارث شاہ کی ہیرو نہ گائے گا۔ شاید اب مرزا صاحبان کی داستان الفتو عفت ان میدانوں میں کبھی نہ گونجے گی۔ لاکھوں بار لعنت ہو ان راہنماؤں پر اور ان کی سات پشتوں پر، جنہوں نے اس خوبصورت پنجاب، اس البیلے پیارے، سنہرے پنجاب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے تھے اور اس کی پاکیزہ روح کو گہنا دیا تھا اور اس کے مضبوط جسم میں نفرت کی پیپ بھر دی تھی، آج پنجاب مر گیا تھا، اس کے نغمے گنگ ہو گئے تھے، اس کے گیت مردہ، اس کی زبان مردہ، اس کا بے باک نڈر بھولا بھالا دل مردہ، اور نہ محسوس کرتے ہوئے اور آنکھ اور کان نہ رکھتے ہوئے بھی میں نے پنجاب کی موت دیکھی اور خوف سے اور حیرت سے میرے قدم اس پٹری پر رک گئے۔ پٹھان مردوں اور عورتوں کی لاشیں اٹھائے جاٹ اور سکھ اور ڈوگرے اور سرحدی ہندو واپس آئے اور میں آگے چلی۔ آگے ایک نہر آتی تھی ذرا ذرا وقفے کے بعد میں روک دی جاتی، جونہی کوئی ڈبہ نہر کے پل پر سے گزرتا، لاشوں کو عین نیچے نہر کے پانی میں گرا دیا جاتا۔ اس طرح جب ہر ڈبے کے رکے کے بعد سب لاشیں پانی میں گرا دی گئیں تو لوگوں نے دیسی شراب کی بوتلیں کھولیں اور میں خون اور شراب اور نفرت کی بھاپ اگلتی ہوئی آگے بڑھی۔ لدھیانہ پہنچ کر لٹیرے گاڑی سے اُتر گئے اور شہر میں جا کر انہوں نے مسلمانوں کے محلوں کا پتہ ڈھونڈ نکالا۔ اور وہاں حملہ کیا اور لوٹ مار کی اور مال غنیمت اپنے کاندھوں پر لادے ہوئے تین چار گھنٹوں کے بعد اسٹیشن پر واپس آئے جب تک لوٹ مار نہ ہو چکی۔ جب تک دس بیس مسلمانوں کا خون نہ ہو چکتا۔ جب تک سب مہاجرین اپنی نفرت کو آلودہ نہ کر لیتے میرا آگے بڑھنا دشوار کیا نا ممکن تھا، میری روح میں اتنے گھاؤ تھے اور میرے جسم کا ذرہ ذرہ گندے ناپاک خونیوں کے قہقہوں سے اس طرح رچ گیا تھا کہ مجھے غسل کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ اس سفر میں کوئی مجھے نہانے نہ دے گا۔

انبالہ اسٹیشن پر رات کے وقت میرے ایک فرسٹ کلاس کے ڈبے میں ایک مسلمان ڈپٹی کمشنر اور اس کے بیوی بچے سوار ہوئے۔ اس ڈبے میں ایک سردار صاحب اور ان کی بیوی بھی تھے، فوجیوں کے پہرے میں مسلمان ڈپٹی کمشنر کو سوار کر دیا گیا اور فوجیوں کو ان کی جانو مال کی سخت تاکید کر دی گئی۔ رات کے دو بچے میں انبالے سے چلی اور دس میل آگے جا کر روک دی گئی۔ فرسٹ کلاس کا ڈبہ اندر سے بند تھا۔ اس لئے کھڑکی کے شیشے توڑ کر لوگ اندر گھس گئے اور ڈپٹی کمشنر اور اس کی بیوی اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو قتل کیا گیا، ڈپٹی کمشنر کی ایک نوجوان لڑکی تھی اور بڑی خوبصورت، وہ کسی کالج میں پڑھتی تھی۔ دو ایک نوجوانوں نے سوچا اسے بچا لیا جائے۔ یہ حسن، یہ رعنائی، یہ تازگی یہ جوانی کسی کے کام آ سکتی ہے۔ اتنا سوچ کر انہوں نے جلدی سے لڑکی اور زیورات کے بکس کو سنبھالا اور گاڑی سے اتر کر جنگل میں چلے گئے۔ لڑکی کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ یہاں یہ کانفرنس شروع ہوئی کہ لڑکی کو چھوڑ دیا جائے یا مار دیا جائے۔ لڑکی نے کہا۔ مجھے مارتے کیوں ہو؟ مجھے ہندو کر لو۔ میں تمہارے مذہب میں داخل ہو جاتی ہوں۔ تم میں سے کوئی ایک مجھ سے بیاہ کر لے۔ میری جان لینے سے کیا فائدہ! ٹھیک تو کہتی ہے، ایک بولا۔ میرے خیال میں۔ دوسرے نے قطع کلام کرتے ہوئے اور لڑکی کے پیٹ میں چھرا گھونپتے ہوئے کہا۔ میرے خیال میں اسے ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔ چلو گاڑی میں واپس چلو۔ کیا کانفرنس لگا رکھی ہے تم نے۔ لڑکی جنگل میں گھاس کے فرش پر تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ اس کی کتاب اس کے خون سے تر بتر ہو گئی۔ کتاب کا عنوان تھا ’’ عمل اور فلسفہ از جان سٹریٹجی‘‘۔ وہ ذہین لڑکی ہو گی۔ اس کے دل میں اپنے ملک و قوم کی خدمت کے ارادے ہوں گے۔ اس کی روح میں کسی سے محبت کرنے، کسی کو چاہنے، کسی کو گلے لگ جانے، کسی بچے کو دودھ پلانے کا جذبہ ہو گا۔ وہ لڑکی تھی، وہ ماں تھی، وہ بیوی تھی، وہ محبوبہ تھی۔ وہ کائنات کی تخلیق کا مقدس راز تھی اور اب اس کی لاش جنگل میں پڑی تھی اور گیدڑ، گدھ اور کوے اس کی لاش کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ اشتراکیت، فلسفہ اور عمل وحشی درندے انہیں نوچ نوچ کر کھا رہے تھے اور کوئی نہیں بولتا اور کوئی آگے نہیں بڑھتا اور کوئی عوام میں سے انقلاب کا دروازہ نہیں کھولتا اور میں رات کی تاریکی آگ اور شراروں کو چھپا کے آگے بڑھ رہی ہوں اور میرے ڈبوں میں لوگ شراب پی رہے ہیں اور مہاتما گاندھی کے جے کارے بلا رہے ہیں۔

ایک عرصے کے بعد میں بمبئی واپس آئی ہوں، یہاں مجھے نہلا دھلا کر شیڈ میں رکھ دیا گیا ہے۔ میرے ڈبوں میں اب شراب کے بھپارے نہیں ہیں، خون کے چھینٹے نہیں ہیں، وحشی خونی قہقہے نہیں ہیں مگر رات کی تنہائی میں جیسے بھوت جاگ اٹھتے ہیں مردہ روحیں بیدار ہو جاتی ہیں اور زخمیوں کی چیخیں اور عورتوں کے بین اور بچوں کی پکار، ہر طرف فضا میں گونجنے لگتی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اب مجھے کبھی کوئی اس سفر پر نہ لے جائے۔ میں اس شیڈ سے باہر نہیں نکلنا چاہتی ہوں کہ اب مجھے کبھی کوئی اس سفر پر نہ لے جائے۔ میں اس شیڈ سے باہر نہیں نکلنا چاہتی، میں اس خوفناک سفر پر دوبارہ نہیں جانا چاہتی، اب میں اس وقت جاؤں گی۔ جب میرے سفر پر دو طرفہ سنہرے گیہوں کے کھلیان لہرائیں گے اور سرسوں کے پھول جھوم جھوم کر پنجاب کے رسیلے الفت بھرے گیت گائیں گے اور کسان ہندو اور مسلمان دونوں مل کر کھیت کاٹیں گے۔ بیچ بوئیں گے۔ ہرے ہرے کھیتوں میں نلائی کریں گے اور ان کے دلوں میں مہر و وفا اور آنکھوں میں شرم اور روحوں میں عورت کے لئے پیار اور محبت اور عزت کا جذبہ ہو گا۔ میں لکڑی کی ایک بے جان گاڑی ہوں لیکن پھر بھی میں چاہتی ہوں کہ اس خون اور گوشت اور نفرت کے بوجھ سے مجھے نہ لادا جائے۔ میں قحط زدہ علاقوں میں اناج ڈھوؤں گی۔ میں کوئلہ اور تیل اور لوہا لے کر کارخانوں میں جاؤں گی میں کسانوں کے لئے نئے ہل اور نئی کھاد مہیا کروں گی۔ میں اپنے ڈبوں میں کسانوں اور مزدوروں کو خوش حال ٹولیاں لے کر جاؤں گی، اور با عصمت عورتوں کی میٹھی نگاہیں اپنے مردوں کا دل ٹٹول رہی ہوں گی۔ اور ان کے آنچلوں میں ننھے منے خوبصورت بچوں کے چہرے کنول کے پھولوں کی طرح نظر آئیں گے اور وہ اس موت کو نہیں بلکہ آنے والی زندگی کو جھک کر سلام کریں گے۔ جب نہ کوئی ہندو ہو گا نہ مسلمان بلکہ سب مزدور ہوں گے اور انسان ہوں گے۔

***

 

 

 

 

 

امرتسر آزادی سے پہلے

 

کرشن چندر

 

۱

 

جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اس مجمع میں ہندو تھے، سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ ہندو مسلمانوں سے اور مسلمان سکھوں سے الگ صاف پہچانے جاتے تھے۔ صورتیں الگ تھیں، مزاج الگ تھے، تہذیبیں الگ تھیں۔ مذہب الگ تھے لیکن آج یہ سب لوگ جلیان والا باغ میں ایک ہی دل لے کے آئے تھے۔ اس دل میں ایک ہی جذبہ تھا اور اس جذبے کی تیز اور تند آنچ نے مختلف تمدن اور سماج ایک کر دئیے تھے۔ دلوں میں انقلاب کی ایک ایسی پیہم رو تھی کہ جس نے آس پاس کے ماحول کو بھی برقا دیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس شہر کے بازاروں کا ہر پتھر اور اس کے مکانوں کی لہر ایک اینٹ اس خاموش جذبے کی گونج سے آشنا ہے اور اس لرزتی ہوئی دھڑکن سے نغمہ ریز ہے۔ جو ہر لمحے کے ساتھ گویا کہتی جاتی ہو۔ آزادی، آزادی، آزادی…….. جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور سبھی نہتے تھے اور سبھی آزادی کے پرستار تھے۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں نہ ریوالور نہ برین گن نہ اسٹین گن۔ ہنڈ گری نیڈ نہ تھے۔ دیسی یا ولایتی ساخت کے بمب بھی نہ تھے مگر پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی نگاہوں کی گرمی کسی بھونچال کے قیامت خیز لا وے کی حدّت کا پتہ دیتی تھی۔ سامراجی فوجوں کے پاس لوہے کے ہتھیار تھے۔ یہاں دل فولاد کے بن کے رہ گئے تھے اور روحوں میں ایسی پاکیزگی سی آ گئی تھی جو صرف اعلیٰ و ارفع قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی اور ان کے رومان اور ان کا سچا عشق اور ان کی تاریخی بہادری آج ہر فرد بشر بچے بوڑھے کے ٹمٹماتے ہوئے رخساروں میں تھی، ایک ایسا اجلا اجلا غرور جو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب قوم جوان ہو جاتی ہے اور سویا ہوا ٹک بیدار ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے امرتسر کے یہ تیور دیکھے ہیں۔ وہ ان گروؤں کے اس مقدس شر کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔ جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور گولی بھی ہزاروں پر چلی۔ تینوں طرف راستہ بند تھا اور چوتھی طرف ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ جو زندگی سے موت کو جاتا تھا۔ ہزاروں نے خوشی خوشی جام شہادت پیا، آزادی کی خاطر، ہندو مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر اپنے سینوں کے خزانے لٹا دئیے اور پانچوں دریاؤں کی سرزمین میں ایک چھٹے دریا کا اضافہ کیا تھا۔ یہ ان کے ملے جلے خون کا دریا تھا یہ ان کے لہو کی طوفانی ندی تھی جو اپنی امنڈتی ہوئی لہروں کو لئے ہوئے اٹھی اور سماجی قوتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئی، پنجاب نے سارے ملک کے لئے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور اس وسیع آسمان تلے کسی نے آج تک مختلف تہذیبوں، مختلف مذہبوں اور مختلف مزاجوں کو ایک ہی جذبے کی خاطر یوں مدغم ہوتے نہ دیکھا تھا۔ جذبہ شہیدوں کے خون سے استوار ہو گیا تھا۔ اس میں رنگ آ گیا تھا۔ حسن، رعنائی اور تخلیق کی چمک سے جگمگا اٹھا…. آزادی…. آزادی….آزادی۔

 

۲

 

صدیق کٹرہ فتح خاں میں رہتا تھا۔ کٹرہ فتح خاں میں اوم پرکاش بھی رہتا تھا جو امرتسر کے ایک مشہور بیوپاری کا بیٹا تھا۔ صدیق اسے اور اوم پرکاش صدیق کو بچپن سے جانتا تھا۔ وہ دونوں دوست نہ تھے کیونکہ صدیق کا باپ کچا چمڑہ بیچتا تھا اور غریب تھا اور اوم پرکاش کا باپ بینکر تھا اور امیر تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ دونوں ہمسائے تھے اور آج جلیان والا باغ میں دونوں اکٹھے ہو کر ایک ہی جگہ پر اپنے رہنماؤں کے خیالات اور ان کے تاثرات کو اپنے دل میں جگہ دے رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ یوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ لیتے اور یوں مسکرا اٹھتے جیسے وہ سدا سے بچپن کے ساتھی ہیں اور ایک دوسرے کا بھید جانتے ہیں۔ دل کی بات نگاہوں میں نتھر آئی تھی…. آزادی…. آزادی….آزادی۔

اور جب گولی چلی تو پہلے اوم پرکاش کو لگی کندھے کے پاس اور وہ زمین پر گر گیا۔ صدیق اسے دیکھنے کے لئے جھکا تو گولی اس کی ٹانگ کو چھیدتی ہوئی پار ہو گئی۔ پھر دوسری گولی آئی۔ پھر تیسری۔ پھر جیسے بارش ہوتی ہے۔ بس اسی طرح گولیاں برسنے لگیں اور خون بہنے لگا اور سکھوں کا خون مسلمانوں میں اور مسلمانوں کا خون ہندوؤں میں مدغم ہوتا گیا۔ ایک ہی گولی تھی، ایک ہی قوت تھی، ایک ہی نگاہ تھی جو سب دلوں کو چھیدتی چلی جا رہی تھی۔

صدیق اوم پرکاش پر اور بھی جھک گیا۔ اس نے اپنے جسم کو اوم پرکاش کے لئے ڈھال بنا لیا اور پھر وہ اوم پرکاش دونوں گولیوں کی بارش میں گھٹنوں کے بل گھسٹتے گھسٹتے اس دیوار کے پاس پہنچا تو اتنی اونچی نہ تھی کہ اسے کوئی پھلانگ نہ سکتا لیکن اتنی اونچی ضرور تھی کہ اسے پھلانگتے ہوئے کسی سپاہی کی گولی کا خطرناک نشانہ بننا زیادہ مشکل نہ تھا۔ صدیق نے اپنے آپ کو دیوار کے ساتھ لگا دیا اور جانور کی طرح چاروں پنجے زمین پر ٹیک کر کہا۔

’’لو پرکاش جی خدا کام نام لے کے دیوار پھلانگ جاؤ۔‘‘ گولیاں برس رہی تھیں۔ پرکاش نے بڑی مشکل سے صدیق کی پیٹھ کا سہارا لیا اور پھر اونچا ہو کر اس نے دیوار کو پھلانگنے کی کوشش کی۔ ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی۔

’’جلدی کرو‘‘ صدیق نے نیچے سے کہا۔

لیکن اس سے پہلے پرکاش نیچے  جا چکا تھا۔ صدیق نے اسی طرح اکڑوں رہ کر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر یک لخت سیدھے ہو کر جو ایک جست لگائی تو دیوار کے دوسری طرف لیکن دوسری جاتے جاتے سنسناتی ہوئی گولی اس کی دوسری ٹانگ کے پار ہو گئی۔

صدیق پرکاش کے اوپر جا گرا پھر جلدی سے الگ ہو کر اسے اٹھانے لگا۔

’’تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی پرکاش۔‘‘

لیکن پرکاش مرا پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ہیرے کی انگوٹھی بھی زندہ تھی۔ اس کی جیب میں دو ہزار کے نوٹ کلبلا رہے تھے۔ اس کا گرم خون ابھی تک زمین کو سیراب کئے جا رہا تھا۔ حرکت تھی، زندگی تھی، اضطراب تھا، لیکن وہ خود مر چکا تھا۔

صدیق نے اسے اٹھایا اور اسے گھر لے چلا، اس کی دونوں ٹانگوں میں درد شدت کا تھا۔ لہو بہ رہا تھا۔ ہیرے کی انگوٹھی نے بہت کچھ کہا سنا، لوگوں نے بہت کچھ سمجھایا۔ وہ تہذیب جو مختلف تھی۔ وہ مذہب جو الگ تھا، وہ سوچ جو بیگانہ تھا۔ اس نے طنز و تشنیع سے بھی کام لیا لیکن صدیق نے کسی نہ سنی اور اپنے بہتے ہوئے لہو اور اپنی نکلتی ہوئی زندگی کی فریاد بھی نہ سنی اور اپنے راستے پر چلتا گیا۔ یہ راستہ بالکل نیا تھا گو کٹرہ فتح خاں ہی کو جاتا تھا۔ آج فرشتے اس کے ہمراہ تھے گو وہ ایک کافر کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھا۔

آج اس کی روح اس قدر امیر تھی کہ کٹرہ فتح خاں پہنچ کراس نے سب سے کہا ’’یہ لو ہیرے کی انگوٹھی اور یہ لو دو ہزار روپے کے نوٹ اور یہ ہے شہید کی لا‘‘ش۔ اتنا کہہ کر صدیق بھی وہیں گر گیا اور شہر والوں نے دونوں کا جنازہ اس دھوم سے اٹھایا گویا وہ سگے بھائی تھے۔

 

۳

 

ابھی کرفیو نہ ہوا تھا۔ کوچہ رام داس کی دو مسلمان عورتیں، ایک سکھ عورت اور ایک ہندو عورت سبزی خریدنے آئیں۔ وہ مقدس گوردوارے کے سامنے سے گزریں ہر ایک نے تعظیم دی اور پھر منہ پھیر کر سبزی خریدنے میں مصروف ہو گئیں۔ انہیں بہت جلد لوٹنا تھا۔ کرفیو ہونے والا تھا اور فضا میں شہیدوں کے خون کی گونج رہی تھی پھر بھی باتیں کرتے اور سودا خریدتے انہیں دیر ہو گئی اور جب واپس چلنے لگیں تو کرفیو میں چند منٹ ہی باقی تھے۔

بیگم نے کہا ’’آؤ اس گلی سے نکل چلیں۔ وقت سے پہنچ جائیں گے۔‘‘

پارو نے کہا ’’پر وہاں تو پہرہ ہے گوروں کا۔ شام کور بولی اور گوروں کا کوئی بھروسہ نہیں۔‘‘

زینب نے کہا ’’وہ عورتوں کو کچھ نہ کہیں گے ہم گھونگھٹ کاڑھے نکل جائیں گی جلدی سے چلو۔‘‘

وہ پانچوں دوسری گلی سے ہولیں فوجیوں نے کہا اس جھنڈے کو سلام کرو یہ یونین جیک ہے۔ عورتوں نے گھبرا کر اور بوکھلا کر سلام کیا۔ اب یہاں سے وہاں تک۔ فوجی نے گلی کی لمبائی بتاتے ہوئے کہا، ’’گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی یہاں سے فی الفور نکل جاؤ۔‘‘

’’گھٹنوں کے بل۔۔ ۔ یہ تو ہم سے نہ ہو گا‘‘ زینب نے چمک کر کہا۔ ’’اور جھک کر چلو…. سرکار کا حکم ہے گھٹنوں کے بل گھسٹ کر چلو۔‘‘

’’ہم تو یوں جائیں گے‘‘۔ شام کور نے تن کر کہا، ’’دیکھیں کون روکتا ہے۔ ہمیں‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی۔

’’ٹھہرو، ٹھہرو‘‘ پارو نے ڈر کر کہا۔ ’’ٹھہرو، ٹھہرو‘‘

گورے نے کہا ’’ہم گولی مارے گا۔‘‘

شام کور سیدھی جا رہی تھی۔ ٹھائیں، شام کور گر گئی۔ زینب اور بیگم نے ایک دوسری کی طرف دیکھا اور پھر وہ دونوں گھٹنوں کے بل گر گئیں۔ گورا خوش ہو گیا اس نے سمجھا کہ سرکار کا حکم بجا لا رہی ہیں۔ زینب اور بیگم نے گھٹنوں کے بل گر کر اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور چند لمحوں کے سکوت کے بعد وہ دونوں سیدھی کھڑی ہو گئیں اور گلی کو پار کرنے لگیں۔ گورا بھونچکا رہ گیا۔ پھر غصے سے اس کے گال تمتما اٹھے اور اس نے رائفل سیدھی کی۔ ٹھائیں، ٹھائیں۔

پارو رونے لگی۔ ’’اب مجھے بھی مرنا ہو گا۔ یہ کیا مصیبت ہے۔ میرے پتی دیو۔ میرے بچو، میری ماں جی، میرے پتا، میرے ویرو، مجھے شما کرنا، آج مجھے بھی مرنا ہو گا، میں مرنا نہیں چاہتی، پھر مجھے بھی مرنا ہو گا، میں اپنی بہنوں کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ پارو روتے روتے آگے بڑھی۔

گورے نے نرمی سے اسے سمجھایا ’’رونے کی ضرورت نہیں، سرکار کا حکم مانو اور اس گلی میں یوں گھٹنوں کے بل گر کر چلتی جاؤ، پھر تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا‘‘۔ گورے نے خود گھٹنے پر گر کر اسے چلنے کا انداز سمجھایا۔

پارو روتے روتے گورے کے قریب آئی۔ گورا اب سیدھا تن کر کھڑا تھا۔ پارو نے زور سے اس کے منہ پر تھوک دیا اور پھر پلٹ کر گلی کو پار کرنے لگی۔ وہ گلی کے بیچوں بیچ سیدھی تن کر چلی جا رہی تھی اور گورا اس کی طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنی بندوق سیدھی کی اور پارو جو اپنی سہیلیوں میں سب سے زیادہ کمزور اور بزدل تھی۔ سب سے آگے جا کر مر گئی۔

پارو، زینب، بیگم اور شام کور۔ گھر کی عورتیں، پردے دار خواتین، عفت مآب بی بیاں، اپنے سینوں میں اپنے خاوند کا پیار اور اپنے بچوں کی ممتا کا دودھ لئے ظلم کی اندھیری گلی سے گزر گئیں۔ اس کے جسم گولیوں سے چھلنی ہو گئے، لیکن ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اس وقت کسی کی محبت نے پکارا ہو گا۔ کسی کے ننھے بازوؤں کا بلاوا آیا ہو گا کسی کی سہانی مسکراہٹ دکھائی دی ہو گی لیکن ان کی روحوں نے کہا نہیں، آج تمہیں جھکنا نہیں ہے۔ آج صدیوں کے بعد وہ لمحہ آیا ہے جب سارا ہندوستان جاگ اٹھا ہے اور سیدھا تن کر اس گلی سے گزر رہتا ہے، سر اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے، سر اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے۔ زینب…. بیگم…. پارو…. شام کور….

کس نے کہا اس ملک سے سیتا مر گئی؟ کس نے کہا اب اس دیس میں ستی ساوتری پیدا نہیں ہوتی؟ …. آج اس گلی کا ہر ذرہ کسی کے قدوسی لہو سے روشن ہے۔ شام کور، زینب، پارو، بیگم، آج تم خود اس گلی سے سر اونچا کر کے نہیں گزری ہو، آج تمہارا دیس فخر سے سر اٹھائے اس گلی سے گزر رہتا ہے۔ آج آزادی کا اونچا جھنڈا اس گلی سے گزر رہتا ہے، آج تمہارے دیس تمہاری تہذیب، تمہارے مذہب کی قابل احترام روایتیں زندہ ہو گئیں، آج انسانیت کا سر غرور سے بلند ہے۔ تمہاری روحوں پر ہزاروں، لاکھوں سلام….

امرتسر آزادی کے بعد پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ پاکستان آزاد ہوا۔ پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان بھرمیں جشن آزادی منایا جا رہا تھا اور کراچی میں آزاد پاکستان کے فرحت ناک نعرے بلند ہو رہے تھے۔ پندرہ اگست 1947ء کو لاہور جل رہا تھا اور امرت سر میں ہندو مسلم سکھ عوام فرقہ وارانہ فساد کی ہولناک لپیٹ میں آ چکے تھے کیونکہ کسی نے پنجاب کے عوام سے نہیں پوچھا تھا کہ تم الگ رہنا چاہتے ہو یا مل جل کے جیسا تم صدیوں سے رہتے چلے آئے ہو۔ صدیوں پہلے مطلق العنانی کا دور دورہ تھا اور کسی نے عوام سے کبھی نہ پوچھا تھا پھر انگریزوں نے اپنے سامراج کی بنیاد ڈالی اور انہوں نے پنجاب سے سپاہی اور گھوڑے اپنی فوج میں بھرتی کئے اور اس کے عوض پنجاب کو نہریں، پنشنیں عطا فرمائیں لیکن انہوں نے بھی پنجابی عوام سے یہ سب کچھ پوچھ کے تھوڑی کیا تھا۔

اس کے بعد سیاسی شعور آیا اور سیاسی شعور کے ساتھ جمہوریت آئی اور جمہوریت کے ساتھ جمہوری سیاست دان آئے اور سیاسی جماعتیں آئیں لیکن فیصلہ کرتے وقت انہوں نے پنجابی عوام سے کچھ نہ پوچھا ایک نقشہ سامنے رکھ کر پنجاب کی سرزمین کے نوک قلم سے دو ٹکڑے کر دئیے۔ فیصلہ کرنے والے سیاست دان گجراتی تھے، کشمیری تھے، اس لئے پنجاب کے نقشے کو سامنے رکھ کر اس پر قلم سے ایک لکیر، ایک حد فاضل قائم کر دینا ان کے لئے زیادہ مشکل نہ تھا۔ نقشہ ایک نہایت ہی معمولی سی چیز ہے۔ آٹھ آنے روپے میں پنجاب کا نقشہ ملتا ہے۔ اس پر لکیر کھینچ دینا بھی آسان ہے۔ ایک کاغذ کا ٹکڑا، ایک روشنائی کی لکیر، وہ کیسے پنجاب کے دکھ کو سمجھ سکتے تھے۔ اس لکیر کی ماہیت کو جو اس نقشے کو نہیں پنجاب کی دل کو چیرتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔

پنجاب کے تین مذہب تھے، لیکن اس کا دل ایک تھا۔ لباس ایک تھا، اس کی زبان ایک تھی، اس کے گیت ایک تھے۔ اس کی کھیت ایک تھے، اس کے کھیتوں کی رومانی فضا اور اس کے کسانوں کے پنچائتی ولولے ایک تھے۔ پنجاب میں وہ سب باتیں موجود تھیں جو ایک تہذیب، ایک دیس، ایک قومیت کے وجود کا احاطہ کرتی ہیں، پھر کس لئے اس کے گلے پر چھری چلائی گئی؟ ۔

’’نہیں معلوم نہ تھا‘‘

’’ہمیں بڑا افسوس ہے‘‘

’’ہم اس ظلم کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔

ظلم اور نفرت اور مذہبی جنون کا بھڑکانے والے، پنجاب کی وحدت کو مٹا دینے والے آج مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اور آج پنجاب کے بیٹے دلی کی گلیوں میں اور کراچی کے بازاروں میں بھیک مانگ رہے ہیں اور ان کی عورتوں کی عصمت لٹ چکی ہو اور ان کے کھیت ویران پڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے آج تک پنجابی پناہ گزینوں کے لئے بیس کروڑ روپے صرف کئے ہیں یعنی فی کس بیس روپے بڑا احسان کیا ہے۔ ہماری سات پشتوں پر۔ ارے ہم تو مہینے میں بیس روپے کی لسی پی جاتے ہیں اور آج تم ان لوگوں کو خیرات دینے چلے ہو جو کل تک ہندوستان کے کسانوں میں سب سے زیادہ خوش حال تھے۔ جمہوریت کے پرستارو ذرا پنجاب کے کسانوں سے، اس کے طالب علموں سے، اس کے کھیت مزدوروں سے، اس کے دکان داروں سے، اس کی ماؤں، بیٹوں اور بہوؤں ہی سے پوچھ تو لیا ہوتا کہ اس نقشے پر جو کالی لکیر لگ رہی ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ مگر وہاں فکر کس کو ہوتی کسی کا اپنا دیس ہوتا، کسی کا اپنا وطن ہوتا، کسی کی اپنی زبان ہوتی، کسی کے اپنے گیت ہوتے تو وہ سمجھ سکتا کہ یہ غلطی کیا ہے اور اس کا خمیازہ کسے بھگتنا پڑے گا۔

یہ دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جو ہیر کو رانجھے سے جدا ہوتے ہوئے دیکھے۔ جو سوہنی کو مہینوال کے فراق میں تڑپتا دیکھے جس نے پنجاب کے کھیتوں میں اپنے ہاتھوں سے گیہوں کی سبز بالیاں اُگائی ہوں اور اس کے کپاس کے پھولوں کے ننھے چاندوں کو چمکتا ہوا دیکھا ہو، یہ سیاست داں کیا سمجھ سکتے اس دکھ کو جمہوریت کے سیاست داں تھے نا۔ خیر یہ رونا مرنا رہتا ہے انسان کو انسان ہونے میں بہت دیر ہے اور پھر ایک ہیچمداں افسانہ نگار کو ان باتوں سے کیا اسے زندگی سے۔ سیاست سے۔ علم و فن سے۔ سائنس سے تاریخو فلسفے سے کیا لگاؤ۔ اسے کیا غرض کہ پنجاب مرتا ہے یا جیتا ہو۔ عورتوں کی عصمتیں برباد ہوتی ہیں یا محفوظ رہتی ہیں۔ بچوں کے گلے پر چھری پھیری جاتی ہے یا ان پر مہربان ہونٹوں کے بوسے ثبت ہوتے ہیں۔ اسے ان باتوں سے الگ ہو کر کہانی سنانا چاہیے۔ اپنی چھوٹی موٹی کہانی جو لوگوں کے دلوں کو خوش کر سکے یہ بڑے بول اسے زیب نہیں دیتے۔

ٹھیک تو کہتے ہیں آپ، اس لئے اب امرتسر کی آزادی کی کہانی سنئے۔ اس شہر کی کہانی جہاں جلیان والا باغ ہے۔ جہاں شمالی ہند کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ جہاں سکھوں کا سب سے بڑا مقدس گردوارہ ہے۔ جہاں کی قومی تحریکوں میں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور اگر فرقے واری کا قلعہ ہے تو امرتسر قومیت کا مرکز ہے۔ اسی قومیت کے سب سے بڑے مرکز کی داستان سنئے۔ 15اگست 1947ء کو امرتسر آزاد ہوا۔ پڑوس میں لاہور جل رہا تھا مگر امرتسر آزاد تھا اور اس کے مکانوں، دکانوں بازاروں پر ترنگے جھنڈے لہرا رہے تھے، امرتسر کے قوم پرست مسلمان اس جشن آزادی میں سب سے آگے تھے، کیونکہ وہ آزادی کی تحریک میں سب سے آگے رہے تھے۔ یہ امرتسر اکالی تحریک ہی کا امرت سر نہ تھا یہ احراری تحریک کا بھی امرتسر تھا۔ یہ ڈاکٹر ستیہ پال کا امرتسر نہ تھا یہ کچلو اور حسام الدین کا امرتسر تھا، اور آج امرتسر آزاد تھا اور اس کی قوم پرور فضا میں آزاد ہندوستان کے نعرے گونج رہے تھے اور امرتسر کے مسلمان اور ہندو اور سکھ یکجا خوش تھے۔ جلیان والا باغ کے شہید زندہ ہو گئے۔ شام کو جب اسٹیشن پر چراغاں ہوا تو آزاد ہندوستان اور آزاد پاکستان سے دو اسپیشل گاڑیاں آئیں۔ پاکستان سے آنے والی گاڑی میں ہندو اور سکھ تھے۔ ہندوستان سے آنے والی گاڑی میں مسلمان تھے۔ تین چار ہزار افراد اس گاڑی میں اور اتنے ہی دوسری گاڑی میں کل چھ سات ہزار افراد۔ بہ مشکل دو ہزار زندہ ہوں گے باقی لوگ مرے پڑے تھے اور ان کی لاشیں سر بریدہ تھیں اور ان کے سر نیزوں پر لگا کے گاڑیوں کی کھڑکیوں میں سجائے گئے تھے، پاکستان اسپیشل پر اردو کے موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا ‘‘قتل کرنا پاکستان سے سیکھو‘‘ ہندوستان اسپیشل میں لکھا تھا ہندی میں ‘‘بدلہ لینا ہندوستان سے سیکھو‘‘۔

اس پر ہندوؤں اور سکھوں کو بڑا طیش آیا۔ ظالموں نے ہمارے بھائیوں کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا ہے۔ ہائے یہ ہمارے ہندو اور سکھ پناہ گزیں اور واقعی ان کی حالت بھی قابل رحم تھی۔ انہیں فوراً گاڑی سے نکال کر پناہ گزینوں کے کیمپ میں پہنچایا گیا اور سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کی گاڑی پر دھاوا بول دیا یعنی اگر نہتے نیم مردہ مہاجرین پر حملہ کو ‘‘دھاوا‘‘ کہہ سکتے ہیں تو واقعی یہ دھاوا تھا۔ آدھے سے زیادہ آدمی مار ڈالے گئے۔ تب کہیں جا کر ملٹری نے حالات پر قابو پایا۔

گاڑی میں ایک بڑھیا عورت بیٹھی تھی اور اس کی گود میں اس کا ننھا پوتا تھا۔ راستے میں اس کا بیٹا مارا گیا اس کی بہو کو جاٹ اٹھا کر لے گئے تھے اس کے خاوند کو لوگوں نے بھالوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ اب وہ چپ چاپ بیٹھی تھی۔ اس کے لبوں پر آہیں نہ تھیں اس کی آنکھوں میں آنسو نہ تھے۔ اس کے دل میں دعا نہ تھی۔ اس کے ایمان میں قوت نہ تھی۔ وہ پتھر کا بت بنی چپ چاپ بیٹھی تھی جیسے وہ کچھ سن نہ سکتی تھی کچھ دیکھ نہ سکتی تھی کچھ محسوس نہ کر سکتی تھی۔

بچے نے کہا ’’دادی اماں پانی‘‘

دادی چپ رہی۔ بچہ چیخا ’’دادی اماں پانی‘‘

دادی نے کہا ’’بیٹا پاکستان آئے گا تو پانی ملے گا؟‘‘

بچے نے کہا ’’دادی اماں کیا ہندوستان میں پانی نہیں ہے؟‘‘

دادی نے کہا ’’بیٹا اب ہمارے دیس میں پانی نہیں ہے‘‘۔

بچے نے کہا ’’کیوں نہیں ہے؟ مجھے پیاس لگی ہے۔ میں تو پانی پیوں گا، پانی، پانی، پانی دادی اماں پانی پیوں گا میں پانی پیوں گا‘‘۔

’’پانی پیو گے؟‘‘ایک اکالی رضاکار وہاں سے گزر رہا تھا اس نے خشمگیں نگاہوں سے بچے کی طرف دیکھ کے کہا۔ ’’پانی پیو گے نا؟‘‘۔۔ ۔۔ ۔

’’ہاں‘‘ بچے نے سر ہلایا۔

’’نہیں نہیں‘‘ دادی نے خوفزدہ ہو کر کہا ’’یہ کچھ نہیں کہتا آپ کو، یہ کچھ نہیں مانگتا آپ سے۔ خدا کے لئے سردار صاحب اسے چھوڑ دیجئے۔ میرے پاس اب کچھ نہیں ہے۔‘‘

اکالی رضا کار ہنسا۔ اس نے پائیدان سے رستے ہوئے خون کو اپنی اوک میں جمع کیا اور اسے بچے کے قریب لے جا کے کہنے لگا: ’’لو پیاس لگی ہے۔ تو یہ پی لو بڑا اچھا خون ہے مسلمان کا خون ہے‘‘۔

دادی پیچھے ہٹ گئی بچہ رونے لگا دادی نے بچے کو اپنے پیلے دوپٹے سے ڈھک لیا اور اکالی رضاکار ہنستا ہوا آگے چلا گیا۔

دادی سوچنے لگی کب یہ گاڑی چلے گی میرے اللہ پاکستان کب آئے گا؟

ایک ہندو پانی کا گلاس لے کر آیا ’’لو پانی پلا دو اسے‘‘۔

لڑکے نے اپنی بانہیں آگے بڑھائیں اس کے ہونٹ کانپ رہ تھے اس کی آنکھیں باہر نکلی پڑی تھیں۔ اس کے جسم کارواں رواں پانی مانگ رہا تھا۔

ہندو نے گلاس ذرا پیچھے سرکا لیا۔ بولا ’’اس پانی کی قیمت ہے مسلمان بچے کو پانی مفت نہیں ملتا۔ اس گلاس کی قیمت پچاس روپے ہے‘‘۔

’’پچاس روپے‘‘ دادی نے عاجزی سے کہا ’’بیٹا میرے پاس تو چاندی کا ایک چھلا بھی نہیں ہے میں پچاس روپے کہاں سے دوں گی‘‘۔

’’پانی، پانی، پانی تو پانی مجھے دو، پانی کا گلاس مجھے دے دو، دادی اماں دیکھو یہ ہمیں پانی پینے نہیں دیتا‘‘۔

’’مجھے دو، مجھے دو‘‘ ایک دوسرے مسافر نے کہا ’’لو میرے پاس پچاس روپے ہیں‘‘۔

ہندو ہنسنے لگا ’’یہ پچاس روپے تو بچے کے لئے تھے، تمہارے لئے اس گلاس کی قیمت سو روپے ہے سو روپے دو اور یہ پانی کا گلاس پی لو‘‘۔

’’اچھا یہ سو روپیہ ہی لے لو یہ لو‘‘۔ دوسرے مسلمان مسافر نے سو روپیہ ادا کر کے گلاس لے لیا۔ اور اسے غٹا غٹ پینے لگا۔

بچہ اسے دیکھ کر اور بھی چلانے لگا ’’پانی، پانی، پانی دادی اماں پانی۔‘‘

ایک گھونٹ اسے بھی دے دو، خدا اور رسول کے لئے‘‘۔ مسلمان کافر نے گلاس خالی کر کے اپنی آنکھیں بند کر لیں، گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر جا گرا اور پانی کی چند بوندیں فرش پر بکھر گئیں۔ بچہ گود سے اتر کر فرش پر چلا گیا۔ پہلے اس نے خالی گلاس کو چاٹنے کی کوشش کی، پھر فرش پر گری چند بوندوں کو، پھر زور زور سے چلانے لگا۔ ’’دادی اماں پانی، پانی‘‘۔ پانی موجود تھا اور پانی نہیں تھا۔ ہندو پناہ گزیں پانی پی رہے تھے اور مسلمان پناہ گزیں پیاسے تھے۔ پانی موجود تھا اور مٹکوں کی قطاریں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر سجی ہوئی تھیں اور پانی کے نل کھلے تھے اور بھنگی آب دست کے لئے پانی ہندو مسافروں کو دے رہے تھے۔ لیکن پانی نہیں تھا تو مسلمان مہاجرین کے لئے کیونکہ پنجاب کے نقشے پر ایک کالی موت کی لکیر کھینچ گئی تھی اور کل کا بھائی آج دشمن ہو گیا تھا اور کل جس کو ہم نے بہن کہا تھا آج وہ ہمارے لئے طوائف سے بھی بدتر تھی اور کل جو ماں تھی آج بیٹے نے اس کو ڈائن سمجھ کر اس کے گلے پر چھری پھیر دی تھی۔

پانی ہندوستان میں تھا اور پانی پاکستان میں بھی تھا۔ لیکن پانی کہیں نہیں تھا کیونکہ آنکھوں کا پانی مر گیا تھا اور یہ دونوں ملک نفرت کے صحرا بن گئے تھے اور ان کی تپتی ہوئی ریت پر چلتے ہوئے کارواں بادِ سموم کی بربادیوں کے شکار ہو گئے تھے۔ پانی تھا مگر سراب تھا۔ جس دیس میں لسی اور دودھ پانی کی طرح بہتے تھے، وہاں آج پانی نہیں تھا اور اس کے بیٹے پیاس سے بلک بلک کر مر رہے تھے لیکن دل کے دریا سوکھ گئے تھے اس لئے پانی تھا اور نہیں بھی تھا۔

پھر آزادی کی رات آئی دیوالی پر بھی ایسا چراغاں نہیں ہوتا کیونکہ دیوالی پر تو صرف دئیے جلتے ہیں۔ یہاں گھروں کے گھر جل رہے تھے۔ دیوالی پر آتش بازی ہوتی ہے، پٹاخے پھوٹتے ہیں۔ یہاں بمب پھٹ رہے تھے اور مشین گنیں چل رہی تھیں۔ انگریزوں کے راج میں ایک پستول بھی بھولے سے کہیں نہیں ملتا تھا اور آزادی کی رات نہ جانے کہاں سے اتنے سارے بمب، ہینڈ گری نیڈ مشین گن اسٹین گن برین گن ٹپک پڑے۔ یہ اسلحہ جات برطانوی اور امریکی کمپنیوں کے بنائے ہوئے تھے اور آج آزادی کی رات ہندوستان اور پاکستانیوں کے دل چھید رہے تھے۔ لڑے جاؤ بہادرو، مرے جاؤ بہادرو، ہم اسلحہ جات تیار کریں گے تم لوگ لڑو گے شاباش بہادرو، دیکھنا کہیں ہمارے گولہ بارود کے کارخانوں کا منافع کم نہ ہو جائے۔ گھمسان کارن رہے تو مزا ہے۔ چین والے لڑتے ہیں تو ہندوستان اور پاکستان والے کیوں نہ لڑیں۔ وہ بھی ایشیائی ہیں، تم بھی ایشیائی ہو۔ ایشیا کی عزت برقرار رکھو۔ لڑے جاؤ بہادرو، تم نے لڑنا بند کیا تو ایشیا کا رخ دوسری طرف پلٹ جائے گا اور پھر ہمارے کارخانوں کے منافع اور حصے اور ہماری سامراجی خوش حالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ لڑے جاؤ بہادرو پہلے تم ہمارے ملکوں سے کپڑا اور شیشے کا سامان اور عطریات منگاتے تھے، اب ہم تمہیں اسلحہ جات بھیجیں گے اور بمب اور ہوائی جہاز اور کارتوس کیونکہ اب تم آزاد ہو گئے ہو۔ مسلح ہندو اور سکھ رضا کار مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا رہے تھے اور جئے ہند کے نعرے گونج رہے تھے۔ مسلمان اپنے گھروں کی کمیں گاہوں میں چھپ کر حملہ آوروں پر مشین گنوں سے حملہ کر رہے تھے اور ہنڈ گری نیڈ پھینکتے تھے۔

آزادی کی رات اور اس کے تین چار روز بعد تک اس طرح مقابلہ رہا۔ پھر سکھوں اور ہندوؤں کی مدد کے لئے آس پاس کی ریاستوں سے رضا کار پہنچ گئے اور مسلمانوں نے اپنے گھر خالی کرنے شروع کئے، گھر، محلے، بازار جل رہے تھے۔ ہندوؤں کے گھر اور مسلمانوں کے گھر اور سکھوں کے گھر، لیکن آخر میں مسلمانوں کے گھر سب سے زیادہ جلے اور آخر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان اکٹھے ہو کر شہر سے بھاگنے لگے۔ اس موقع پر جو کچھ ہوا اسے تاریخ میں ’’امرتسر کا قتل عام‘‘ کہا جائے گا۔ لیکن ملٹری نے حالات پر جلد قابو پا لیا۔ قتل عام بند ہوا اور ہندو اور مسلمان دو مختلف کیمپوں میں بند ہو کر پناہ گزین کہلانے لگے۔ ہندو شرنارتھی کہلاتے تھے اور مسلمان پناہ گزین مہاجرین گو مصیبت دونوں پر ایک ہی تھی، لیکن ان کے نام الگ الگ کر دیئے تھے تاکہ مصیبت میں بھی یہ لوگ اکٹھے نہ ملیں۔ دونوں کیمپوں پر نہ چھت تھی نہ روشنی کا انتظام تھا نہ سونے کے لیے بستر تھے نہ پائخانے، لیکن ایک کیمپ ہندو اور سکھ شرنارتھیوں کا کیمپ کہلاتا تھا دوسرا مسلمان مہاجرین کا۔

ہندو شرنارتھیوں کے کیمپ میں آزادی کی رات کو شدید بخار میں لرزتی ہوئی ایک ماں اپنے بیمار بیٹے کے سامنے دم توڑ رہی تھی، یہ لوگ مغربی پنجاب سے آئے پندرہ آدمیوں کا خاندان تھا۔ پاکستان سے ہندوستان آتے صرف دو افراد رہ گئے تھے اور اب ان میں بھی ایک بیمار تھا۔ دوسرا دم توڑ رہا تھا۔ جب یہ پندرہ افراد کا قافلہ گھر سے چلا تھا تو ان کے پاس بستر تھے۔ سامان خورد و نوش تھا، کپڑوں سے بھرے ہوئے ٹرنک تھے، روپیوں کی پوٹلیاں تھیں اور عورتوں کے جسموں پر زیور تھے۔ لڑکے کے پاس ایک بائیسکل تھی اور یہ سب پندرہ آدمی تھے۔ گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے دس آدمی رہ گئے۔ پہلے روپیہ گیا، پھر زیور، پھر عورتوں کے جسم۔ لاہور آتے آتے چھ آدمی رہ گئے، کپڑوں کے ٹرنک گئے اور بستر بھی اور لڑکے کو اپنی بائیسکل کے چھن جانے کا بڑا افسوس تھا۔ اور جب مغلپورہ سے آگے بڑھے تو صرف دو رہ گئے، ماں اور ایک بیٹا اور ایک لحاف جو دم توڑتی ہوئی عورت لرزے کے بخار میں اس وقت اوڑھے ہوئے تھی۔ اس وقت آدھی رات کے وقت، آزادی کی پہلی رات کو وہ عورت مر رہی تھی اور اس کا بیٹا چپ چاپ، اس کے سرہانے بیٹھا ہوا بخار سے کانپ رہا تھا اور اس کی کٹ کٹی بندھی ہوئی تھی اور آنسو ایک مدت ہوئی ختم ہو چکے تھے۔ اور جب اس کی ماں مر گئی تو اس نے آہستہ سے لحاف کو اس کے جسم سے الگ کیا اور اسے اوڑھ کر کیمپ کے دوسرے کونے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک رضاکار اس کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا۔ ’’وہ….ادھر….تمہاری ماں تھی، جو مر گئی ہے؟‘‘

’’نہیں نہیں مجھے کچھ معلوم نہیں۔ وہ کون تھی۔‘‘

لڑکے نے خوفزدہ ہو کر کہا۔ اور زور سے لحاف کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے بولا۔ ’’وہ میری ماں نہیں تھی۔ یہ لحاف میرا ہے۔ یہ لحاف میرا ہے۔ میں یہ لحاف نہیں دوں گا۔ یہ لحاف میرا ہے۔ ’’وہ زور زور سے چیخنے لگا۔ ’’وہ میری ماں نہیں تھی۔ یہ لحاف میرا ہے۔ میں اسے کسی کو نہ دوں گا۔ یہ لحاف میں ساتھ لایا ہوں، نہیں دوں گا، نہیں!‘‘

ایک لحاف، ایک ماں، ایک مردہ انسانیت کے معلوم تھا کہ ایک دن اس نئی تثلیث کی کہانی بھی مجھے آپ کو سنانی پڑے گی۔ ’’جب مسلمان بھاگے تو ان کے گھر لٹنے شروع ہو گئے۔ شاید ہی کوئی شریف آدمی رہا ہو جس نے اس لوٹ میں حصہ نہ لیا ہو۔ آزادی کے تیسرے دن کی بات ہے میں اپنی گائے کو گلی کے باہر نل پر پانی پلانے لے جا رہا تھا۔ بالٹی میرے ہاتھ میں تھی۔ دوسرے ہاتھ میں گائے کے گلے سے بندھی ہوئی رسی تھی۔ گلی کے موڑ پر پہنچ کر میں نے میونسپلٹی کے لپ دانے کھمبے سے گائے کو باندھ دیا اور نل کی جانب بالٹی لیے مڑ گیا کہ بالٹی میں پانی بھر لاؤں، تھوڑی دیر کے بعد جب بالٹی بھر کے لایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گائے غائب ہے! ادھر ادھر بہتیرا دیکھا لیکن گائے کہیں نظر نہ آئی۔ یکایک میری نگاہ ساتھ والے مکان کے آنگن میں گئی، دیکھتا ہوں، تو گائے آنگن میں بندھی کھڑی ہے۔ میں گھر میں گھسا۔

’’کیا ہے بھئی، کون ہو تم؟‘‘ ایک سردار صاحب نے نہایت خشونت سے کہا۔

میں نے کہا۔ ’’میں ابھی اپنی گائے کو اس سے باندھ کر نل پر پانی لانے گیا تھا۔ یہ گائے تو میری ہے سردار جی‘‘

سردار جی مسکرائے۔ ’’ہلا! ہلابا کوئی گل نہیں۔ میں نے سمجھا کسی مسلمان کی گائے ہو۔ یہ آپ کی گائے ہے تو پھر لے جائیے۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے گائے کی رسی کھول کر میرے ہاتھ میں تھما دی۔

’’معاف کرنا‘‘ میرے چلتے چلتے انہوں نے پھر کہا۔ ’’آپاں سمجھیا کسی مسلمان دی گائے ہے۔‘‘

میں نے یہ واقعہ اپنے دوست سردار سندر سنگھ سے بیان کیا تو وہ بہت ہنسا۔ ’’بھلا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہو۔ ’’میں نے اس سے پوچھا تو وہ اور بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔ سندر سنگھ میں آپ کو بتاؤں، اشتراکی ہے، اس لیے فرقہ وارانہ عناد سے بہت دور رہتا ہے۔ وہ میرے ان چند احباب میں سے ہے جنہوں نے اس لوٹ مار میں بالکل کوئی حصہ نہیں لیا۔ میں نے کہا۔ ’’تم اسے اچھا سمجھتے ہو۔؟‘‘ وہ بولا ’’نہیں یہ بات نہیں ہے۔ میں ہنس رہا تھا کیونکہ آج صبح ایک ایسا ہی واقعہ مجھے پیش آیا۔ میں ہال بازار میں سے گزر رہا تھا کہ میں نے سوچا سامنے کٹرے میں سے سردار سویرا سنگھ جی کو دیکھتا چلوں۔ پرانے غدر پارٹی کے لیڈر ہیں نا وہ۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں تین چار سو مسلمانوں کو پناہ دے رکھی ہو، سوچا پوچھتا چلوں، ان کا کیا ہوا۔ انہیں وہاں سے نکال کر مہاجرین کے کیمپ میں لے جانے کی کیا سبیل کی جائے۔ یہ سوچ کر میں نے اپنی گاڑی محمد رزاق جوتے والے کی دوکان (جواب لٹ چکی ہے) کے آگے گھڑی کی اور کٹرے میں گھس گیا۔ چند منٹ کے بعد ہی لوٹ کر آ گیا۔ کیونکہ بابا جی گھر پر ملے نہیں۔ آ کے دیکھتا ہوں تو گاڑی غائب ہے۔ ابھی تو یہیں چھوڑی تھی۔ پوچھنے پر بھی کسی نے نہیں بتایا۔ اتنے میں میری نظر حال بازار کے آخری کونے پر پڑی۔ وہاں میری گاڑی کھڑی تھی لیکن ایک جیپ کے پیچھے بندھی ہوئی۔ میں بھاگا بھاگا وہاں گیا۔ جیپ میں سردار سنگھ مشہور قومی کارکن بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

’’اپنے گاؤں جا رہا ہوں۔‘‘

’’اور یہ میری موٹر بھی کیا تمہارے گاؤں جائے گی؟‘‘

’’کون سی موٹر؟‘‘

’’وہ جو پیچھے بندھی ہوئی ہے؟‘‘

’’یہ تمہاری موٹر ہے؟ معاف کرنا پیارے، میں نے پہچانی نہیں۔ وہ محمد رزاق کی دوکان کے سامنے کھڑی تھی نا۔ میں نے سوچا کسی مسلمان کی ہو گی۔ میں نے جیپ کے پیچھے باندھ لیا۔ ہا ہا ہا۔ میں تو اسے اپنے گھر لے جا رہا تھا۔ اچھا ہوا کہ تم وقت پر آ گئے۔‘‘

’’اور اب کہاں جاؤ گے؟‘‘ میں نے اپنی موٹر کھول کر اس میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’اب؟ اب کہیں اور جاؤں گا۔ کہیں نہ کہیں سے کوئی مال مل ہی جائے گا۔‘‘ سردار سنگھ قومی کارکن ہیں۔ جیل  جا چکے ہیں۔ جرمانے ادا کر چکے ہیں۔ سیاسی آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں دے چکے ہیں۔ یہ واقعہ سنا کر سندر سنگھ نے کہا۔ بروبا۔۔ ۔۔ ۔ اس حد تک پھیل گئی ہے کہ ہمارے اچھے اچھے قومی کارکن بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں کام کرنے والے طبقے کا ایک جزو خود اس لوٹ مار قتل و غارت گری میں شریک ہو۔ اس کو روکو اگر اسی وقت روکا نہ گیا تو دونوں جماعتیں فسطائی ہو جائیں گی۔ یہی کوئی دو چار سال ہی ہیں۔ سندر سنگھ کا چہرہ متفکر دکھائی دے رہا تھا۔ میں وہاں سے اُٹھ کر چلا آیا۔ راستے میں خالصہ کالج روڈ پر ایک مسلمان امیر کی کوٹھی لوٹی جا رہی تھی۔ اسباب کے لدے ہوئے چھکڑے مختلف گروہ لے جا رہے تھے۔ میرے دیکھتے دیکھتے چند منٹوں میں سب معاملہ ختم ہو گیا۔ سڑک پر چلنے والے ہندو اور سکھ راہ گیر بھی کوٹھی کی طرف بھاگے لیکن پولیس کے سپاہیوں کو وہاں سے نکلتے دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔ پولیس کے سپاہیوں کے ہاتھوں میں چند جرابیں تھیں اور ریشمی ٹائیاں۔ ایک کوٹ ہینگر پر مفلر پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر لوگوں سے کہا۔ ’’اب کہاں جاتے ہو۔ وہاں تو سب کچھ پہلے ہی ختم ہو چکا۔‘‘

ایک مہاشے جو شکل و صورت سے آریہ سماجی معلوم ہوتے تھے اور میرے سامنے ہی کوٹھی کی طرف بھاگے تھے، اب مڑ کر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔ ’’دیکھئے صاحب۔ دنیا کیسی پاگل ہو گئی ہے۔‘‘

میرے قریب سے ایک دودھ بیچنے والا بھیا گزرا، بیچارے کے حصے میں چند کتابیں آئی تھیں وہ انہیں لیے جا رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ ’’ان کتابوں کا کیا کرو گے۔ پڑھ سکتے ہو۔؟‘‘

’’نا بابو جی‘‘۔۔ ۔۔

’’پھر؟‘‘

اس نے کتابوں کی طرف غصے سے دیکھا۔ بولا۔ ’’ہم کیا کریں بابو۔ جدھر جاتے ہیں لوگ پہلے ہی اچھا اچھا سامان اٹھا لے جاتے ہیں۔ ہماری تو قسمت خراب ہے بابو‘‘

اس نے پھر کتابوں کو غصے سے دیکھا، اس کا ارادہ تھا۔ انہیں یہیں سڑک پر پھینک دے۔ پھر اس کا ارادہ بدل گیا۔ وہ مسکرا کر کہنے لگا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ یہ موٹی موٹی کتابیں چولہے میں خوب جلیں گی۔ رات کے بھوجن کے لیے لکڑیوں کی ضرورت نہیں!‘‘ بڑی اچھی کتابیں تھیں۔ سب چولہے میں گئیں۔ ارسطو، سقراط، افلاطون، روسو، شیکسپیئر، سب چولہے میں گئے۔

سہ پہر کے قریب بازار سنسان پڑنے لگے، کرفیو ہونے والا تھا۔ میں جلدی جلدی کوچہ رام داس سے نکلا اور مقدس گوردوارے کو تعلیم دیتا ہوا اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ راستے میں اندھیری گلی پڑتی ہے۔ جہاں جلیاں والے باغ کے روز لوگوں کو گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ میں نے سوچا میں اس گلی سے کیوں نہ نکل جاؤں۔ یہ راستہ ٹھیک رہے گا۔ میں اسی گلی کی طرف گھوم گیا۔ یہ گلی تنگ ہے اور یہاں دن کو بھی اندھیرا سا رہتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کے آٹھ دس گھر تھے وہ سب جلائے گئے تھے یا لوٹے گئے تھے، دروازے کھلے تھے، کھڑکیاں ٹوٹی ہوئیں، کہیں کہیں چھتیں جلی ہوئی، گلی میں سناٹا تھا، گلی کے فرش پر عورتوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ میں پلٹنے لگا، اتنے میں کسی کے کراہنے کی آواز آئی، گلی کے بیچ میں لاشوں کے درمیان ایک بڑھیا رینگنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اسے سہارا دیا۔

’’پانی۔ بیٹا‘‘ میں اوک میں پانی لایا۔ مقدس گوردوارے کے سامنے پانی کا نل تھا۔ میں نے اپنی اوک اس کے ہونٹوں سے لگا دی۔

’’تم پر خدا کی رحمت ہو بیٹا! تم کون ہو؟ خیر تم جو کوئی بھی ہو تم پر خدا کی رحمت ہو بیٹا۔ یہ ایک مرنے والی کے الفاظ ہیں۔ انہیں یاد رکھنا۔‘‘

میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں کہا چوٹ آئی ہے ماں؟‘‘

بڑھیا نے کہا۔ ’’مجھے مت اٹھاؤ۔ میں یہیں مروں گی۔ اپنی بہو بیٹیوں کے درمیان۔ کیا کہا تم نے، چوٹ۔ ارے بیٹا یہ چوٹ بہت گہری ہے۔ یہ گھاؤ دل کے اندر ہی بہت گہر اگھاؤ ہے۔ تم لوگ اس سے کیسے پنپ سکو گے؟ تمہیں خدا کیسے معاف کرے گا؟‘‘

’’ہمیں معاف کر دو ماں‘‘

مگر بڑھیا نے کچھ نہیں سنا۔ وہ آپ ہی آپ کہتی جا رہی تھی۔‘‘پہلے انہوں نے ہمارے مردوں کو مارا۔ پھرے ہمارے گھر لوٹے۔ پھر ہمیں گھسیٹ کر گلی میں لے آئے، اور اس گلی میں اس فرش پر۔ اس مقدس گوردوارے کے سامنے جس میں ہر روز تعلیم دی جاتی تھی انہوں نے ہماری عصمت دری کی اور پھر ہمیں گولی سے مار دیا۔ میں تو ان کی دادیوں کے ہم عمر تھی، انہوں نے مجھے بھی معاف نہیں کیا۔‘‘

یکایک اس نے مجھے آستین سے پکڑ لیا۔ ’’تو جانتا ہے یہ امرتسر کا شہر ہے۔ یہ میرا شہر ہے۔ اس مقدس گوردوارے کو میں روز سلام کرتی تھی۔ جیسے اپنی مسجد کو روز سلام کرتی ہوں، میری گلی میں ہندو مسلمان سکھ بھی بستے ہیں اور کئی پشتوں سے ہم لوگ یہاں بستے چلے آئے ہیں اور ہم ہمیشہ ہمیشہ محبت سے اور پیار سے اور صلح سے رہے اور کبھی کچھ نہیں ہوا۔‘‘

’’میرے ہم مذہبوں کو معاف کرو اماں‘‘

’’تو جانتا ہے میں کون ہوں؟ میں زینب کی ماں ہوں، تو جانتا ہے زینب کون تھی؟ زینت وہ لڑکی تھی جس نے جلیانوالے روز اس گلی میں گورے کے آگے سر نہیں جھکایا۔ جو اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے سر اونچا کیے اس گلی میں سے گزر گئی۔ یہی وہ گلی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں زینب شہید ہوئی تھی۔ میں اسی زینب کی ماں ہوں۔ میں ایسی آسانی سے تمہارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہوں۔ مجھے سہارا دو۔ مجھے کھڑا کر دو، میں اپنی لٹی ہوئی آبرو اور اپنی بہو بیٹیوں کی برباد عصمتیں لے کر سیاست دانوں کے پاس جاؤں گی۔ مجھے سہارا دو۔ میں ان سے کہوں گی میں زینب کی ماں ہوں۔ میں امرتسر کی ماں ہوں، میں پنجاب کی ماں ہوں، تم نے میری گود اُجاڑی ہے۔ تم نے بڑھاپے میں میرا منہ کالا کیا ہے۔ میری جوان جہاں بہوؤں اور بیٹیوں کی پاک و صاف روحوں کو جہنم کی آگے میں جھونکا ہے۔ میں ان سے پوچھوں گی کہ کیا زینب اسی آزادی کے لیے قربان ہوئی تھی؟ میں ….زینب کی ماں ہوں!‘‘

یکایک وہ میری گود میں جھک گئی۔ اس کے منہ سے خون اُبل پڑا۔ دوسرے ہی لمحے میں اس نے جان دے دی۔

زینب کی ماں میری گود میں مری پڑی تھی اور اس کا لہو میری قمیض پر ہے اور میں زندگی سے موت کے دروازے پر جھانک رہا ہوں اور تخیل میں صدیق اور اوم پرکاش اُبھرے چلے آتے ہیں اور زینب کا غرور کا سر فضا میں ابھرتا چلا آتا ہے اور شہید مجھ سے کہتے ہیں کہ ہم پھر آئیں گے، صدیق، اوم پرکاش ہم پھر آئیں گے۔ شام کور، زینب، پارو بیگم ہم پھر آئیں گے اپنی عصمتوں کا تقدس لیے ہوئے اپنی بے داغ روحوں کا عزم لیے ہوئے کیونکہ ہم انسان ہیں۔ ہم اس ساری کائنات میں تخلیق کے علم بردار ہیں اور کوئی تخلیق کو مار نہیں سکتا۔ کوئی اس کی عصمت دری نہیں کر سکتا۔ کوئی اسے لوٹ نہیں سکتا کیونکہ ہم تخلیق ہیں اور تم تخریب ہو۔ تم وحشی ہو، تم درندے ہو، تم مر جاؤ گے لیکن ہم نہیں مریں گے کیونکہ انسان کبھی نہیں مرتا، وہ درندہ نہیں ہے وہ نیکی کی روح ہے، خدائی کا حاصل ہے۔ کائنات کا غرور ہے۔

***

 

 

 

 

 

جڑیں

 

عصمت چغتائی

 

سب کے چہرے فق تھے گھر میں کھانا بھی نہ پکا تھا۔ آج چھٹا روز تھا۔ بچے اسکول چھوڑے گھروں میں بیٹھے اپنی اور سارے گھر والوں کی زندگی وبال کیے دے رہے تھے۔ وہی مار کٹائی، دھول دھپا، وہی اودھم اور قلابازیاں جیسے ۱۵اگست آیا ہی نہ ہو۔ کمبختوں کو یہ بھی خیال نہیں کہ انگریز چلے گیے اور چلتے چلتے ایسا گہرا گھاؤ مار گیے جو برسوں رسے گا۔ ہندوستان پر عمل جراحی کچھ ایسے لنجے ہاتھوں اور کھُٹّل نشتروں سے ہوا ہے کہ ہزاروں شریانیں کٹ گئی ہیں۔ خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ کسی میں اتنی سکت نہیں کہ ٹانکہ لگا سکے۔

کوئی اور معمولی دن ہوتا تو کمبختوں سے کہا جاتا باہر کا لا منہ کر کے غدر مچاؤ لیکن چند روز سے شہر کی فضا ایسی غلیظ ہو رہی تھی کہ شہر کے سارے مسلمان ایک طرح سے نظر بند بیٹھے تھے۔ گھروں میں تالے پڑے تھے اور باہر پولیس کا پہرا تھا۔ لہٰذا کلیجے کے ٹکڑوں کو سینے پر کودوں دلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ویسے سول لائنس میں امن ہی تھا جیسا کہ عام طور پر رہتا ہے یہ تو گندگی وہیں زیادہ اچھلتی ہے جہاں چھ بچے ہوتے ہیں۔ جہاں غربت ہوتی ہے۔ وہیں جہالت کے گھورے پر نام نہاد مذہب کے ڈھیر بجبجاتے ہیں اور یہ ڈھیر کریدے  جا چکے تھے۔ اوپر سے پنجاب سے آنے والوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد اقلیت کے دل میں دہشت بٹھا رہی تھی۔ غلاظت کے ڈھیر تیزی سے کریدے جا رہے تھے۔ عفونت رینگتی رینگتی صاف ستھری سڑکوں پر پہنچ چکی تھی۔ دوچار جگہ تو کھلم کھلا مظاہرے بھی ہوئے لیکن مارواڑ کی ریاستوں کے ہندو مسلمان کی اس قدر ملتی جلتی معاشرت ہے کہ انھیں نام، صورت یا لباس سے بھی باہر والے مشکل سے پہچان سکتے ہیں۔ باہر والے اقلیت کے لوگ جو آسانی سے پہچانے جا سکتے تھے وہ تو پندرہ اگست کی بو پا کر ہی پاکستان کی حدود میں کھسک گیے تھے۔ رہے ریاست کے قدیم باشندے تو نہ ہی ان میں اتنی سمجھ اور نہ ہی ان کی اتنی حیثیت کہ پاکستان اور ہندوستان کا دقیق مسئلہ انھیں کوئی بیٹھ کر سمجھاتا۔ جنھیں سمجھنا تھا وہ سمجھ چکے تھے اور وہ محفوظ ہو چکے تھے، باقی جو یہ سن کر گیے تھے کہ چار سیر کا گیہوں اور چار آنے کی ہاتھ بھر لمبی نان پاؤ ملتی ہے وہ لوٹ رہے تھے۔ کیوں کہ وہاں جا کر انھیں یہ بھی پتہ چلا کہ چار سیر کا گیہوں خرید نے کے لیے ایک روپیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ہاتھ بھر لمبی نان پاؤ کے لیے پوری چونی دینا پڑتی ہے اور یہ روپیہ اٹھنیاں نہ ہی کسی دوکان پر ملیں اور نہ کھیتوں میں اگیں۔ انھیں حاصل کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا زندہ رہنے کی تگ و دو۔

لہٰذا جب کھلم کھلا علاقوں سے اقلیت کو نکالنے کی رائے ہوئی تو بڑی مشکل آن پڑی۔ ٹھاکروں نے صاف کہہ دیا کہ صاحب رعایا ایسی گتھی ملی رہتی ہے۔ مسلمانوں کو بین کر نکالنے کے لیے باقاعدہ اسٹاف کی ضرورت ہے جو کہ بیکار زائد خرچ ہے ویسے آپ اگر کوئی ٹکڑے زمین کے شرنارتھیوں کے لیے خریدنا چاہیں تو وہ خالی کر ائے جا سکتے ہیں۔ جانور تو رہتے ہی ہیں۔ جب کہیے جنگل خالی کر دیا جائے۔

اب باقی رہ گیے چند گنے چنے خاندان۔ جو یا تو مہاراجہ کے چیلے چانٹوں میں سے تھے اور جن کے جانے کا سوال نہ تھا یا وہ جو جانے کو تلے بیٹھے تھے۔ بس بستر بندھ رہے تھے۔ ہمارا خاندان بھی اسی فہرست میں آتا تھا۔ جب تک بڑے بھائی اجمیر سے نہ آئے تھے کچھ ایسی جلدی نہ تھی مگر انھوں نے تو آ کر بوکھلا ہی دیا۔ پھر بھی کسی نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ وہ تو شاید کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی اور برسوں اسباب نہ بندھ چکتا جو اللہ بھلا کرے چبھا میاں کا وہ پینترا نہ چلتے۔ بڑے بھائی تو جانے ہی والے تھے کہہ کہہ کر ہار گیے تھے۔ تو میاں چبھا نے کیا کیا کہ ایک دم اسکول کی دیوار پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ روپ چند جی کے بچوں نے اس کی مخالفت کی اور فوراً بگاڑ کر ’’اکھنڈ ہندوستان‘‘ لکھ دیا۔ نتیجہ یہ کہ چل گیا جوتا اور ایک دوسرے ہی کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سعی فرمائی گئی، بات بڑھ گئی۔ حتی کہ پولیس بلائی گئی اور جو چند گنتی کے مسلمان بچے تھے۔ انھیں لاری میں بھر کر گھروں کو بھجوا دیا گیا۔

اب سنیے کہ جوں ہی بچے گھر میں آئے ہمیشہ ہیضہ طاعون کے سپرد کرنے والی مائیں مامتا سے بے قرار ہو کر دوڑیں، اور انھیں کلیجے سے لگا لیا گیا۔ اور کوئی دن ہوتا اور روپ چند جی کے بچوں سے چبھا لڑ کر آتا تو دلھن بھابی اس کی وہ جوتیوں سے مرہم پٹی کرتیں کہ توبہ بھلی، اور اٹھا کر انھیں روپ چند جی کے پاس بھیج دیا جاتا کہ پلائے اسے انڈی کا تیل اور کونین کا مکچر۔ کیوں کہ روپ چند جی ہمارے خاندانی ڈاکٹر ہی نہیں ابا کے پرانے دوست تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی دوستی ابا سے، ان کے بیٹیوں کی بھائیوں سے، بہوؤں کی ہماری بھاوجوں سے اور نئی پود کی نئی پود سے آپس میں دانت کاٹی روٹی کی تھی۔ دونوں خاندانوں کی موجودہ تین پیڑھیاں ایک دوسرے سے ایسی گھلی ملی تھیں کہ شبہ بھی نہ تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد اس محبت میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ حالانکہ دونوں خاندانوں میں مسلم لیگی کانگریسی اور مہا سبھائی موجود تھے اور مذہبی اور سیاسی بحثیں بھی جم جم کر ہوتیں مگر ایسے ہی جیسے فٹ بال یا کرکٹ میچ ہوتے ہیں۔ ادھر ابا کانگریسی تھے تو ادھر ڈاکٹر صاحب اور بڑے بھائی لیگی تھے، تو ادھر گیان چند مہا سبھائی، ادھر منجھلے بھائی کمیونسٹ تھے تو ادھر گلاب چند سوشلسٹ۔ اور پھر اسی حساب سے مردوں کی بیویاں اور بچے بھی اسی پارٹی کے تھے۔ عام طور پر جب مچیٹا ہوتا تو کانگریس کا پلہ بھاری پڑتا۔ کمیونسٹ سوشلسٹ بھی گالیاں کھاتے، مگر کانگریس میں ہی گھس پڑتے۔ رہ جاتے مہاسبھائی اور لیگی یہ دونوں ہمیشہ ساتھ دیتے۔ گو وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوتے۔ پھر بھی دونوں مل کر کانگریس پر حملہ کرتے۔

لیکن ادھر کچھ سال سے مسلم لیگ کا زور بڑھتا گیا اور ادھر مہاسبھا کا۔ کانگریس کا تو بالکل پڑا ہو گیا۔ بڑے بھائی کی سپاہ سالاری میں گھر کی ساری نئی پود سوائے دو ایک غیر جانب دار قسم کے کانگریسیوں کو چھوڑ کر نیشنل گارڈ کی طرح ڈٹ گئی۔ ادھر گیان چند کی سرداری میں سیوک سنگھ کا چھوٹا سا دل ڈٹ گیا۔ مگر دوستی اور محبت میں فتور نہ آیا۔

’’اپنے للو کی شادی تو منی ہی سے کروں گا‘‘ مہاسبھائی گیان چند منی کے لیگی باپ سے کہتے ’’سونے کی پازیب لاؤں گا۔‘‘

’’یار ملمع کی نہ ٹھوک دینا۔‘‘ یعنی بڑے بھائی گیان چند کی ساہو کاری پر حملہ کرتے ہیں۔

اور ادھر نیشنل گارڈ دیواروں پر پاکستان زندہ باد لکھ دیتے اور سیوا سنگھ کا دل اسے بگاڑ کر ’’اکھنڈ ہندستان‘‘ لکھ دیتا۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پاکستان کا لین دین ایک ہنسنے ہنسانے کا مشغلہ تھا۔

ابا اور روپ چند جی یہ سب کچھ سنتے اور مسکراتے اور سارے ایشیا کو ایک بنانے کے منصوبے باندھنے لگتے۔

اماں اور چاچی سیاست سے دور دھنیے ہلدی اور بیٹیوں کے جہیزوں کی باتیں کیا کرتیں اور بہوئیں ایک دوسرے کے فیشن چرانے کی تاک میں لگی رہتیں۔ نمک مرچ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کے یہاں سے دوائیں بھی منگوائی جاتیں روز۔ کسی کو چھینک آئی اور دوڑا ڈاکٹر صاحب کے پاس یا جہاں کوئی بیمار ہوا اور اماں نے دال بھری روٹی یا دہی بڑے بنوانے شروع کیے اور ڈاکٹر صاحب سے کہلوا دیا کہ کھانا ہو تو آ جائیے۔ اب ڈاکٹر صاحب اپنے پوتوں کا ہاتھ پکڑے آن پہونچے۔

چلتے وقت بیوی کہتیں ’’کھانا نہ کھانا سنا!‘‘

’’ہوں تو پھر فیس کیسے وصول کروں۔ دیکھو جی لالہ اور چنی کو بھیج دینا‘‘

’’ہائے رام تمھیں تو لاج بھی نہیں آتی۔‘‘ چاچی بڑبڑاتیں۔ مزہ تو جب آتا جب کبھی اماں کی طبیعت خراب ہو جاتی۔ اماں کانپ جاتیں۔

’’نا بھئی میں اس مسخرے سے علاج نہیں کراؤں گی۔‘‘ مگر پھر گھر کے ڈاکٹر کو چھوڑ کر کون شہر سے بلانے جاتا۔ لہذا سنتے ہی ڈاکٹر صاحب دوڑے آتے۔

’’اکیلی اکیلی پلاؤ زردے اڑا ؤ گی تو آپ بیمار پڑو گی۔‘‘ وہ جلاتے

’’جیسے تم کھاؤ ہو ویسے ہی اوروں کو سمجھتے ہو۔‘‘ اماں پردے کے پیچھے سے بھناتیں۔

’’ارے یہ بیماری کا تو بہانہ ہے۔ بھابی تم ویسے ہی کہلوا دیا کرو۔ میں آ جایا کروں گا۔ یہ ڈھونگ کا ہے کو رچاتی ہو۔‘‘ وہ آنکھوں میں شرارت جمع کر کے مسکراتے اور اماں جل کر ہاتھ کھینچ لیتیں اور صلواتیں سناتیں۔ ابا مسکرا کر رہ جاتے۔

ایک مریض کو دیکھنے آتے تو سارے گھر کے مرض اٹھ کھڑے ہوتے، کوئی اپنا پیٹ لیے چلا آ رہا ہے تو کسی کی پھنسی چھل گئی۔ کسی کا کان پک رہا ہے تو کسی کی ناک سوجی ہوئی ہے۔

’’کیا مصیبت ہے ڈپٹی صاحب! ایک آدھ کو زہر دے دوں گا۔ کیا مجھے سلوتری سمجھا ہے کہ دنیا بھر کے جانور ٹوٹ پڑے۔‘‘ وہ مریضوں کو دیکھتے جاتے اور بڑبڑاتے جاتے۔

اور جہاں کوئی نئے بچے کی آمد کی اطلاع ہوئی۔ وہ جملہ سامان تخلیق کو گالیاں دینے لگتے۔

’’ہنہ مفت کا ڈاکٹر ہے۔ پیدا کیے جاؤ کمبخت کے سینے پر کو دوں دلنے کے لیے۔‘‘

مگر جوں ہی درد شروع ہوتا وہ اپنے برآمدے سے ہمارے برآمدے کے چکر کاٹنے لگتے۔ چیخ چنگھاڑ سے سب کو بوکھلا دیتے۔ محلے ٹولے والیوں کا آنا دشوار، بننے والے باپ کے آتے جاتے تڑاتڑ چپتیں اور جرأت احمقانہ پر پھٹکاریں۔

پر جوں ہی بچے کی پہلی آواز ان کے کان میں پہونچتی وہ برآمدے سے دروازے پر اور دروازے سے کمرے کے اندر آ جاتے اور ان کے ساتھ ساتھ ابا بھی باولے ہو کر آ جاتے۔ عورتیں کو ستی پیٹتی پردے میں ہو جاتیں، زچہ کی نبض دیکھ کر وہ اس کی پیٹھ ٹھونکتے ’’واہ میری شیرنی!‘‘ اور بچے کا نال کاٹ کر نہلانا شروع کر دیتے۔ والد صاحب گھبرا گھبرا کر پھوہڑ نرس کا کام انجام دیتے پھر اماں چلانا شروع کر دیتیں۔

’’لو غضب خدا کا۔ یہ مردوئے ہیں کہ زچا خانے میں پلے پڑتے ہیں۔‘‘

اور معاملہ کی نزاکت کو محسوس کر کے دونوں ڈانٹ کھائے ہوئے بچوں کی طرح بھاگتے باہر۔

اور پھر جب ابا کے اوپر فالج کا حملہ ہوا تو روپ چند جی ہاسپٹل سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے اور ان کی ساری پریکٹس، ان کے اور ہمارے گھر تک محدود رہ گئی تھی۔ علاج تو اور بھی کئی ڈاکٹر کر رہے تھے مگر نرس کے اور اماں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب ہی جاگتے اور جس وقت سے وہ ابا کو دفنا کر آئے خاندانی محبت کے علاوہ انھیں ذمہ داری کا بھی احساس ہو گیا۔ بچوں کی فیس معاف کرانے اسکول دوڑے جاتے۔ لڑکیوں بالیوں کے جہیز کے لیے گیان چند کا ناطقہ بند رکھتے۔ گھر کا کوئی خاص کام بغیر ڈاکٹر صاحب کی رائے کے نہ ہوتا۔ پچھمی بازو کو تڑ وا کر جب دو کمرے بڑھانے کا سوال اٹھا تو ڈاکٹر صاحب ہی کی رائے سے دبا دیا گیا۔

’’اس سے تو اوپر دو کمرے بڑھوا لو‘‘ انھوں نے رائے دی۔ اور اس پر عمل ہوا۔ مجن ایف۔ اے میں سائنس لینے کو تیار نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب جوتا لے کر پل پڑے، معاملہ طے ہو گیا۔ فریدہ میاں سے لڑ کر گھر آن بیٹھی۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس اس کا میاں پہنچا اور دوسرے دن اس کی منجھلی بہو شیلا جب بیاہ کر آئی تو دائی کا جھگڑا بھی ختم ہو گیا۔ بیچاری ہسپتال سے بھاگی آتی۔ فیس تو دور کی چیز ہے اوپر سے چھٹے دن کرتا ٹوپی لے کر آتی۔

پر آج جب چبھا لڑ کر آئے تو ان کی ایسی آؤ بھگت ہوئی جیسے مرد غازی میدان مار کر آیا ہے۔ سب نے ہی اس کی بہادری کی تفصیل پوچھی اور بہت سی زبانوں کے آگے صرف اماں کی زبان گنگ رہی۔ آج سے نہیں وہ پندرہ اگست سے جب ڈاکٹر صاحب کے گھر پر ترنگا جھنڈا اور اپنے گھر پر لیگ کا جھنڈا لگا تھا۔ اسی دن سے ان کی زبان کو چپ لگ گئی تھی۔ ان دو جھنڈوں کے درمیان میلوں لمبی چوڑی خلیج حائل ہو گئی۔ جس کی بھیانک گہرائی کو وہ اپنی غمگین آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر لرزا کرتیں۔ پھر شرنارتھیوں کا غلبہ ہوا۔ بڑی بہو کے میکے والے بھاول پور سے مال لٹا کر اور بہ مشکل جان بچا کر جب آئے تو خلیج کا دہانہ چوڑا ہو گیا۔ پھر راول پنڈی سے جب نرملا کے سسرال والے نیم مردہ حالت میں آئے تو اس خلیج میں اژدھے پھنکاریں مارنے لگے۔ جب چھوٹی بھابی نے اپنے بچے کا پیٹ دکھانے کو بھیجا تو شیلا بھابی نے جلدی سے نوکر کو بھگا دیا۔

اور کسی نے بھی اس معاملے پر بحث مباحثہ نہیں کیا۔ سارے گھر کے مرض ایک دم رک گیے۔ بڑی بھابی تو اپنے ہسٹریا کے دورے بھول کر لپا جھپ اسباب باندھنے لگیں۔

’’میرے ٹرنک کو ہاتھ نہ لگانا‘‘ اماں کی زبان آخر کو کھلی اور سب ہکا بکا رہ گیے۔

’’کیا آپ نہیں جائیں گی۔‘‘ بڑے بھیا ترشی سے بولے۔

’’نوج موئی میں سندھنوں میں مرنے جاؤں۔ اللہ ماریاں۔ بر کے پاجامے پھڑ کاتی پھریں ہیں۔‘‘

’’تو سنجلے کے پاس ڈھاکہ چلی جائیے۔‘‘

’’اے وہ ڈھاکہ کا ہے کو جائیں گی۔ کہیں کی مونڈی کاٹے بنگالی تو چاول ہاتھوں سے لسیٹر لسیٹر کے کھاویں ہیں۔‘‘ سنجھلے کی ساس ممانی بی نے طعنہ دیا۔

’’تو راولپنڈی چلو فریدہ کے یہاں‘‘ خالہ بولیں۔

’’تو بہ میری، اللہ پاک پنجابیوں کے ہاتھوں کسی کی مٹی پلید نہ کرائے۔ مٹ گئی دوزخیوں کی تو زبان بولے ہیں‘‘ آج تو میری کم سخن اماں پٹا پٹ بولیں چلیں۔

’’اے بوا تمہاری تو وہی مثل ہو گئی کہ اونچے کہ نیچے بھیرئیے کے پیڑ تلے، بیٹی تیرا گھر نہ جانو۔ اے بی یہ کٹو گلہری کی طرح غمزہ مستیاں کہ بادشاہ نے بلایا۔ لو بھئی جھم جھم کرتا۔۔ ۔ ہاتھی بھیجا کہ چک چک یہ تو کالا کالا کہ گھوڑا بھی  جا چک چک یہ تو لاتیں جھاڑے کہ۔۔ ۔۔

باوجود کہ فضا مکدرسی تھی پھر بھی قہقہہ پڑ گیا۔ میری اماں کا منہ اور پھول گیا۔

‘‘کیا بچوں کی سی باتیں ہو رہی ہیں‘‘ نیشنل گارڈ کے سردار اعلی بولے ’’جن کا سر نہ پیر۔ کیا ارادہ ہے۔ یہاں رہ کر کٹ مریں؟‘‘

’’تم لوگ جاؤ، اب میں کہاں جاؤں گی۔ میرا آخری وقت۔‘‘

’’تو آخری وقت میں کافروں سے گت بنواؤ گی؟‘‘ خالہ بی پوٹلیاں گنتی جاتی ہیں اور پوٹلیوں میں سے سونے چاندی کے زیور سے لے کر ہڈیوں کا منجن، سوکھی میتھی اور ملتانی مٹی تک تھی۔ ان چیزوں کو وہ ایسے کلیجے سے لگا کر لے جا رہی تھیں گویا پاکستان کا اسٹر لنگ بیلینس کم ہو جائے گا۔ تین دفعہ بڑے بھائی نے جل کر ان کی پرانے روہڑ کی پوٹلیاں پھینکیں پر وہ ایسی چنگھاڑیں گویا یہ دولت نہ گئی تو پاکستان غریب رہ جائے گا۔ اور مجبوراً بچوں کے موت میں ڈوبی ہوئی گدیلوں کی روئی کے پلندے باندھنے پڑے۔ برتن بوروں میں بھرے گیے۔ پلنگوں کی پائے پٹیا کھول کر جھلنگوں میں باندھی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جما جمایا گھر ٹیڑھی میڑھی گٹھریوں اور بغچوں میں تبدیل ہو گیا۔

تو سامان کے پیر لگ گیے ہیں اور قلانچیں بھرتا پھرتا ہے۔ ذرا سستا نے کو بیٹھا ہے اور پھر اٹھ کر ناچنے لگے گا۔

پر اماں کا ٹرنک جوں کا توں رکھا رہا۔

’’آپ کا ارادہ یہاں مرنے کا ہے تو کون روک سکتا ہے۔‘‘ بھائی صاحب نے آخر میں کہا۔

اور میری معصوم صورت کی بھولی سی اماں بھٹکتی آنکھوں سے گدلے آسمان کو تکتی رہیں، جیسے وہ خود اپنے آپ سے پوچھتی ہوں کون مار ڈالے گا؟ اور کب؟

’’اماں تو سٹھیا گئی ہیں۔ اس عمر میں عقل ٹھکانے نہیں‘‘ منجھلے بھائی کان میں کھسپسائے۔

’’کیا معلوم انھیں کہ کافروں نے معصوموں پر تو اور ظلم ڈھائے ہیں۔ اپنا وطن ہو گا تو جان و مال کا تو اطمینان رہے گا۔‘‘

اگر میری کم سخن اماں کی زبان تیز ہوتی تو وہ ضرور کہتیں ’’اپنا وطن ہے کس چڑیا کا نام؟ لوگو! بتاؤ تو وہ ہے کہاں اپنا وطن، جس مٹی میں جنم لیا جس میں لوٹ پوٹ کر بڑھے پلے، وہی اپنا وطن نہ ہوا تو پھر جہاں چار دن کو جا کر بس جاؤ وہ کیسے اپنا وطن ہو جایے گا۔ اور پھر کون جانے وہاں سے بھی کوئی نکال دے، کہے جاؤ نیا وطن بساؤ۔ اب یہاں چراغ سحری بنی بیٹھی ہوں، ایک ننھا سا جھونکا آیا اور وطن کا جھگڑا ختم۔ اور یہ وطن اجاڑ نے اور بسانے کا کھیل کچھ دلچسپ بھی تو نہیں۔ ایک دن تھا مغل اپنا وطن چھوڑ کر نیا وطن بسانے آئے تھے۔ آج پھر چلو وطن بسانے، وطن نہ ہوا پیر کی جوتی ہو گئی، ذرا تنگ پڑی اتار پھینکی، دوسری پہن لی۔ مگر وہ خاموش رہیں اور ان کا چہرہ پہلے سے زیادہ تھکا ہوا معلوم ہونے لگا۔ جیسے وہ صدیوں سے وطن کی کھوج میں خاک چھاننے کے بعد تھک کر آن بیٹھی ہوں اور اس تلاش میں خود کو بھی کھو چکی ہوں۔

سر آئے پیر گئے۔ مگر اماں اپنی جگہ پر ایسے جمی رہیں جیسے بڑ کے پیڑ کی جڑ آندھی طوفان میں کھڑی رہتی ہے۔

پر جب بیٹے بیٹیاں بہوئیں، داماد، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں پورا کا پورا قافلہ بڑے پھاٹک سے نکل کر پولیس کی نگرانی میں لاریوں میں سوار ہونے لگا تو ان کے کلیجے کے ٹکڑے اڑنے لگے۔ بے چین نظروں سے انھوں نے خلیج کے اس پار بیکسی سے دیکھا۔ سڑک بیچ کا گھر اتنا دور لگا جیسے دور افق پر کوئی سرگرداں بادل کا لکہ۔ روپ چند جی کا بر آمدہ سنسان پڑا تھا۔ دو ایک بار بچے باہر نکلے مگر ہاتھ پکڑ کر واپس گھسیٹ لیے گئے۔ پر اماں کی آنسو بھری آنکھوں نے ان آنکھوں کو دیکھ لیا جو دروازوں کی جھریوں اور چقوں کے پیچھے نمناک ہو رہی تھیں۔ جب لاریاں دھول اڑا کر قافلے کو لے سدھاریں تو ایک بائیں طرف کی مردہ حس نے سانس لی، دروازہ کھلا اور بوجھل قدموں سے روپ چند جی چوروں کی طرح سامنے کے خالی ڈھنڈھار گھر کو تاکتے نکلے اور تھوڑی دیر تک غبار کے بگولے میں بچھڑی ہوئی صورتوں کو ڈھونڈھتے رہے اور پھر ان کی ناکام نگاہیں مجرمانہ انداز میں، اجڑے دیار میں بھٹکتی ہوئی واپس زمین میں دھنس گئیں۔

جب ساری عمر کی پونجی کو خدا کے رحم و کرم کے حوالے کر کے اماں ڈھنڈھار صحن میں آ کر کھڑی ہوئیں تو ان کا بوڑھا دل ننھے بچے کی طرح سہم کر کمھلا گیا جیسے چاروں طرف سے بھوت آن کر انھیں دبوچ لیں گے۔ چکرا کر انھوں نے کھمبے کا سہارا لیا۔ سامنے نظر اٹھی تو کلیجہ اچھل کر منہ کو آیا۔ یہی تو وہ کمرہ تھا جسے دولھا کی پیار بھری گود میں لانگ کر آئی تھیں۔ یہیں تو کمسن خوفزدہ آنکھوں والی بھولی سی دلھن کے چاند سے چہرے پر سے گھونگھٹ اٹھا۔ زندگی بھر کی غلامی لکھ دی تھی۔ وہ سامنے بازو کے کمرے میں پہلوٹھی کی بیٹی پیدا ہوئی تھی اور بڑی بیٹی کی یاد ایک دم سے ہوک بن کر کلیجے میں کوند گئی، وہ کونے میں اس کا نال گڑا تھا۔ ایک نہیں دس نال گڑے تھے اور دس روحوں نے یہیں پہلی سانس لی تھی۔ دس گوشت و پوست کی مورتیوں نے، دس انسانوں نے اسی مقدس کمرے میں جنم لیا تھا۔ اس مقدس کوکھ سے جسے آج وہ چھوڑ کر چلے گیے تھے۔ جیسے وہ پرانی کیچلی تھی جسے کانٹوں میں الجھا کر وہ سب سٹاسٹ نکلے چلے گیے۔ امن اور سکون کی تلاش میں۔ روپیہ کے ۴ سیر گیہوں کے پیچھے اور وہ ننھی ننھی ہستیوں کی پیاری آغوں آغوں سے کمرہ اب تک گونج رہا تھا۔ لپک کر وہ کمرے میں گود پھیلا کر دوڑ گئیں، پھر ان کی گود خالی تھی وہ گود جسے سہاگنیں تقدس سے چھو کر ہاتھ کوکھ کو لگاتی تھیں، آج خالی تھی۔ کمرہ بڑا بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ دہشت زدہ ہو کر وہ لوٹ پڑیں مگر چھوٹے ہوئے تخیل کے قدم نہ لوٹا سکیں۔ وہ دوسرے کمرے میں لڑکھڑا گیے۔ یہیں تو زندگی کے ساتھی نے پچاس برس کے نباہ کے بعد منہ موڑا تھا۔ یہیں دروازے کے سامنے کفنائی ہوئی لاش رکھی تھی۔ سارا کنبہ گھیرے کھڑا تھا۔ خوش نصیب تھے وہ جو اپنے پیاروں کی گود میں سدھارے پر زندگی کی ساتھی کو چھوڑ گیے جو آج بے کفنائی ہوئی لاش کی طرح لا وارث پڑی رہ گئی۔ پیروں نے جواب دے دیا اور وہیں بیٹھ گئیں جہاں میت کے سرھانے دس برس ان کپکپاتے ہاتھوں نے چراغ جلایا تھا۔ پر آج چراغ میں تیل نہ تھا اور بتی بھی ختم ہو چکی تھی۔

اور سامنے روپ چند اپنے برآمدے میں زور زور سے ٹہل رہے تھے گالیاں دے رہے تھے۔ اپنے بیوی بچوں کو، نوکروں کو۔ سرکار کو اور سامنے پھیلی ہوئی بے زبان سڑک کو، اینٹ پتھر کو اور چاقو چھری کو۔ حتی کہ پوری کائنات ان کی گالیوں کی بمباری کے آگے سہمی دبکی بیٹھی تھی۔ اور خاص طور پر اس خالی گھر کو جو سڑک کے اس پار کھڑا ان کا منھ چڑا رہا تھا۔ جیسے خود انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی اینٹ سے اینٹ ٹکرا دی ہو، وہ کوئی چیز اپنے دماغ میں سے جھٹک دینا چاہتے تھے۔ ساری قوتوں کی مدد سے نوچ کر پھینک دینا چاہتے تھے مگر ناکامی سے جھنجلا اٹھتے تھے۔ کینہ کی جڑوں کی طرح جو چیز ان کے وجود میں جم چکی تھی وہ اسے پوری طاقت سے کھینچ رہے تھے۔ مگر ساتھ ساتھ جیسے ان کا گوشت کھینچتا چلا آتا ہو، وہ کراہ کر چھوڑ دیتے تھے۔ پھر ایک دم ان کی گالیاں بند ہو گئیں، ٹہل تھم گئی اور وہ موٹر میں بیٹھ کر چل دیے۔

رات کو جب گلی کے نکڑ پر سناٹا چھا گیا تو پچھلے دروازے سے روپ چند کی بیوی دو تھالیاں اوپر نیچے دھرے چوروں کی طرح داخل ہوئیں۔ دونوں بوڑھی عورتیں خاموش ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔ زبانیں بند رہیں پر آنکھیں اب کچھ کہہ سن رہی تھیں۔ دونوں تھالیوں کا کھانا جوں کا توں رکھا تھا۔ عورتیں جب کسی کی غیبت کرتی ہیں تو ان کی زبانیں کترنی کی طرح چل نکلتی ہیں۔ پر جہاں جذبات نے حملہ کیا اور منھ میں تالے پڑ گیے۔

رات بھر نہ جانے کتنی دیر پریشانیاں اکیلا پا کر شب خون مارتی ہیں۔ نہ جانے راستے ہی میں تو سب نہ ختم ہو جائیں گے۔ آج کل تو اکا دکا نہیں پوری پوری ریلیں کٹ رہی ہیں۔ پچاس برس خون سے سینچ کر کھیتی تیار کی اور آج وہ دیس نکالا لے کر نئی زمین کی تلاش میں افتاں و خیزاں چل پڑی تھی۔ کون جانے نئی زمین ان پودوں کو راس آئے نہ آئے۔ کملا تو نہ جائیں گے۔ یہ غریب الوطن پودے! چھوٹی بہو تو اللہ رکھے ان گنا مہینہ ہے۔ نہ جانے کس جنگل میں زچہ خانہ بنے۔ گھر بار، نوکری، بیوپار سب کچھ چھوڑ کر چل پڑے ہیں۔ نئے وطن میں چیل کوؤں نے کچھ چھوڑا بھی ہو گا۔ یا یہ منہ تکتے ہی لوٹ آئیں گے اور جو لوٹ کر آئیں گے اور جو لوٹ کر آئے تو پھر سے جڑیں پکڑنے کا بھی موقع ملے گا یا نہیں۔ کون جانے یہ بوڑھا ٹھونٹ بہار کے لوٹ آنے تک زندہ بھی رہے گا کہ نہیں۔

گھنٹوں سڑن باولیوں کی طرح دیوار پاکھوں سے لپٹ لپٹ کر نہ جانے کیا بکتی رہیں پھر شل ہو کر پڑ گئیں۔ نیند کہاں؟ ساری رات بوڑھا جسم جوان بیٹیوں کی کٹی پھٹی لاشیں، نو عمر بہوؤں کے برہنہ جلوس اور پوتوں نواسوں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ دیکھ کر تھراتا رہا۔ نہ جانے کب غفلت نے حملہ کر دیا۔

کہ ایک دم ایسا معلوم ہوا کہ دروازے پر دنیا بھر کا غدر ڈھے پڑا ہے۔ جان پیاری نہ سہی پر بنا تیل کا دیا بھی بجھتے وقت کانپ تو اٹھتا ہی ہے اور پھر سیدھی سادی موت ہی کیا بے رحم ہوتی ہے جو اوپر سے وہ انسان کا بھوت بن کر آئے۔ سنا ہے بڑھیوں تک کو بال پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھال چھل کر ہڈیاں جھلک آتی ہیں اور پھر وہیں دنیا کے وہ عذاب نازل ہوتے ہیں جن کے خیال سے دوزخ کے فرشتے بھی زرد پڑ جائیں۔

دستک کی گھن گرج بڑھتی جا رہی تھی۔ ملک الموت کو جلدی پڑی تھی نا! اور پھر آپ سے آپ ساری چٹخنیاں کھل گئیں۔ بتیاں جل اٹھیں جیسے دور کنوئیں کی تہ سے کسی کی آواز آئی۔ شاید بڑا لڑکا پکار رہا تھا۔۔ ۔ نہیں یہ تو چھوٹے اور سنجھلے کی آواز تھی۔ دوسری دنیا کے معدوم سے کونے سے۔

تو مل گیا سب کو وطن؟ اتنی جلدی؟ سنجھلا، اس کے پیچھے چھوٹا۔ صاف تو کھڑے تھے، گودوں میں بچوں کو اٹھائے بہوئیں۔ پھر ایک دم سے سارا گھر جی اٹھا۔۔ ۔ ساری روحیں جاگ اٹھیں اور دکھیاری ماں کے گرد جمع ہو گئیں چھوٹے بڑے ہاتھ پیار سے چھونے لگے۔ ایک دم سے خشک ہونٹھ میں ننھی ننھی کونپلیں پھوٹ نکلیں، وفور مسرت سے سارے حواس تتر بتر ہو کر تاریکی میں بھنور ڈالتے ڈوب گئے۔

جب آنکھ کھلی تو نبض پر جانی پہچانی انگلیاں رینگ رہی تھیں۔

’’ارے بھابھی مجھے ویسے ہی بلا لیا کرو چلا آؤں گا۔ یہ ڈھونگ کا ہے کو رچاتی ہو۔                                                                                                                  روپ چند جی پردے کے پیچھے سے کہہ رہے تھے۔

’’اور بھابی آج تو فیس دلوا دو، دیکھو تمہارے نالائق لڑکوں کو لونی جنکشن سے پکڑ کر لایا ہوں۔ بھاگے جاتے تھے بدمعاش کہیں کے۔ پولس سپرنٹنڈنٹ کا بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔‘‘

پھر بوڑھے، ہونٹ میں کونپلیں پھوٹ نکلیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر دو گرم گرم موتی لڑھک کر روپ چند جی کے جھریوں دار ہاتھ پر گر پڑے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

جلاوطن

 

قرۃ العین حیدر

 

 

سندر لالہ۔ سجے دلالہ۔ ناچے سری ہری کیرتن میں۔

ناچے سری ہری کیرتن میں۔

ناچے

چوکھٹ پر اکڑوں بیٹھی رام رکھی نہایت انہماک سے چاول صاف کر رہی تھی۔ اس کے گانے کی آواز دیر تک نیچے گموں والی سنسان گلی میں گونجا کی۔ پھر ڈاکٹر آفتاب رائے صدر اعلیٰ کے چبوترے کی اور سے بڑے پھاٹک کی سمت آتے دکھلائی پڑے۔

’’بندگی بھین صاحب‘‘ رام رکھی نے گھونگھٹ اور زیادہ طویل کر کے آواز لگائی۔

’’بندگی بندگی‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے زینے پر پہنچتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔

’’راجی کھسی ہو بھین صاحب‘‘ رام رکھی نے اخلاقاً دریافت کیا۔

’’اور کیا مجھے کیا ہوا ہے جو راضی خوشی نہ ہوں گا۔ یہ سوپ ہٹا بیچ میں سے۔‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔

’’بھین صاحب ناج پھٹک رہی تھی۔‘‘

’’تو ناج پھٹکنے کے لیے تجھے گاڑی بھر راستہ چاہئے۔ چل ہٹا سب چیز‘‘

ڈاکٹر آفتاب رائے نے دنیا بھر کی ڈگریاں تولے ڈالی تھیں۔ لیکن حالت یہ تھی کہ ذری ذری سی بات پر بچوں کی طرح خفا ہو جایا کرتے تھے۔ رام رکھی پر برستے ہوئے وہ اوپر آئے اور مونڈھے پر پیر ٹکا کر انہوں نے اپنی بہن کو آواز دی جیجی جی ای ای جی ای ای ای (چھورا ہے اب تلک مورا بھین ہیم کرن پیار سے کہا کرتیں) دالان کے آگے کھلی چھت پر نیم کی ڈالیاں منڈیر پر جھکی پچھوا ہوا میں سرسرا رہی تھیں۔ شام کی گہری کیفیت موسم کی اداسی کے ساتھ ساتھ سارے میں بکھری تھی۔ دن بھر نیچے مہوا کے باغ میں شہد کی مکھیاں بھنبھنایا کرتیں۔ اور ہر چیز پر غنودگی ایسی چھائی رہتی۔ آم اب پیلے ہو چلے تھے۔’’ٹھکرائن کی بگیا‘‘ میں صبح سے لے کر رات گئے تک روں روں کرتا رہٹ چلا کرتا۔

’’آوت ہن بھین صاحب‘‘ ہیم کرن نے دالان کا پیتل کے نقش و نگار والا کواڑ کھولتے ہوئے غلے کے گودام میں سے باہر آ کر جواب دیا۔ اور  کنجیوں کا گچھا ساری کے پلو میں باندھ کر چھن سے پشت پر پھینکتی ہوئی صخنچی میں آ گئیں۔

’’جے رام جی کی بھین صاحب‘‘ رسویے نے چوکے میں سے آواز لگائی ’’کٹہل کی ترکاری کھیِبو بھین صاحب؟‘‘

’’ہاں۔ ہاں ضرور کھیبا بھائی‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے مونڈھے پر سے ہٹ کر ٹہلتے ہوئے تلسی کے چبوترے کے پاس آ گئے۔ صحنچی میں رنگ برنگی مورتیاں سا لگ رام سے لے کر بجرنگ بلی مہراج تک سیند درسے لپی پتی اور گنگا جل سے نہائی دھوئی قرینے سے سجی تھیں۔ ہیم کرن تھیں تو بڑی سخت رام بھگت لیکن باقی کے سبھی دیوی دیوتاؤں سے سمجھوتہ رکھتی تھیں کہ نہ جانے کون کس سمے آڑے آ جائے۔ سب سے بنائے رکھنی چاہئے۔ ابھی سرین اور رما کانت کھیل کے میدان سے لوٹیں گے۔ آٹھ بجے کھیما کتھک کے توڑے سیکھ کر جمنا مہراج کے ہاں سے واپس آئے گی۔ پھر چوکے میں کھانا پروسا جائے گا (پیتل کے برتن ٹھنڈی چاندنی میں جھلملائیں گے۔ نیچے آنگن میں رام رکھی کوئی کجری شروع کر دے گی) یہاں پر بالآخر امن تھا۔ اور سکون۔

اب کھیم نیچے پکی گلیارے میں سے چلتی ہوئی اوپر آ رہی تھی (ٹھکرائن کی بگیا میں سے ابھی اس نے کروندے اور کمرکھیں اور مکوہ توڑ کر جلدی جلدی منہ میں ٹھونسے تھے۔ دھاکر دادھی ناکت تا دھاکردا (اس نے کھتک کے بول دہرائے) ارے باپ رے اس نے منڈیر پر سے اوپر جھانک کر دمینتی سے کہا ماما آئے ہیں۔ بھاگ جا ورنہ ما ما مجھے ماریں گے کہ ہر سمے کھیلتی ہے دمینتی بھاگ گئی۔

کھیم چھت پر آئی۔ لمبے سے ڈھیلے ڈھالے فراک میں ملبوس، جس پر موتیوں سے خوب تتلیاں اور پھول پتے بنے تھے، خوب کھینچ کر بالوں کی مینڈھیاں گوندھے، ہاتھوں میں چھنا چھن چوڑیاں بجاتی کھیم وتی رائے زادہ اپنے اتنے پیارے اور اتنے سندر ماما کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔

نمستے ماما ابھی کتابیں لاتی ہوں بس ذرا منہ ہاتھ دھو آؤں‘‘

‘‘ چل چڑیل بہانے باز سبق سنا پہلے ڈاکٹر آفتاب رائے نے پیار سے کہا (لیکن یہ کچھ تجربہ انہیں تھا کہ اپنے سے کم عمر لوگوں سے اور کنبے برادری والوں سے یہ گھر گرہستی اور لاڈ پیار کے مکالمے وہ زیادہ کامیابی سے ادا نہ کر پاتے تھے)

’’تجھے تو میں انٹرمیڈیٹ میں بھی حساب دلاؤں گا۔ دیکھتی جا‘‘ (انہوں نے پھر ماما بننے کی سعی کی۔

’’ارے باپ رے!! کھیم نے مصنوعی خوف کا اظہار کیا۔

’’اور تو نے چوڑیاں تو بڑی خوب صورت خریدی ہیں ری‘‘

’’ہی ہی ہی ما ما‘‘۔ کھیم نے دلی مسرت سے اپنی چوڑیوں کو دیکھا۔

’’اور تو ساری بھی تو پہنا کر کہ فراک ہی پہنے پھرے گی باؤلی سی (انہوں نے اپنی بزرگی کا احساس خود اپنے اوپر طاری کرنا چاہا۔)

جی ماما کھیم کے ذہن میں وہ ساریاں جھما جھم کرتی کوند گئیں جو ماں کے صندوقوں میں ٹھنسی تھیں۔ وہ تو خدا سے چاہتی تھی کہ کل کی پہنتی آج ہی وہ ساریاں پہن ڈالے۔ مگر ہیم کرن ہی پر انگریزیت سوار تھی۔ ایک تو وہ یہ نہیں بھولی تھیں کہ تھیں تو وہ جونپور کے اس ٹھیٹھ، دقیانوسی سریواستوا گھرانے کی بیٹا پر ان کا بیاہ ہوا تھا۔ الٰہ آباد کے اتنے فیشن ایبل کنبے میں جس کے سارے افراد سول لائنز میں رہتے تھے۔ اور جوتے پہنے پہنے کھانا کھاتے تھے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پانی پیتے تھے۔ اور گو ودھوا ہوئے ان کو اب سات برس ہونے کو آئے تھے اور تب سے وہ میکے ہی میں رہتی تھیں۔ لیکن محلے پر ان کا رعب تھا۔ کیوں کہ وہ الٰہ آباد کے رائے زادوں کی بہو تھیں … دوسرے یہ کہ یہ فراک کا فیشن ڈاکٹر سین گپتا کے ہاں سے چلا تھا۔ ڈاکٹر سین گپتا ضلع کے سول ہسپتال کے اسسٹنٹ سرجن تھے۔ اور ہسپتال سے ملحق ان کے پیلے رنگ کے اجاڑ سے مکان کے سامنے ان کی پانچوں بیٹیاں رنگ برنگے فراک پہنے دن بھر اودھم مچایا کرتیں۔ شام ہوتی تو آگے آگے ڈاکٹر سین گپتا دھوتی کا پلا نہایت نفاست سے ایک انگلی میں سنبھالے،  ذرا پیچھے ان کی بی بی سرخ کنارے والی سفید ساڑی پہنے،  پھر پانچوں کی پانچوں لڑکیاں سیدھے سیدھے بال کندھوں پر بکھرائے چلی جا رہی ہیں،  ہوا خوری کرنے۔ افوہ کیا ٹھکانہ تھا بھلا۔ بس ہر بنگالی گھرانے میں یہ لڑکیوں کی فوج دیکھ لو۔ ہیم کرن کو ڈاکٹر سین گپتا سے بڑی ہمدردی تھی۔ کھیم کی ان سب سے بہت گھٹتی تھی۔ خصوصاً موندیرا سے،  اور اسکول کے ڈرامے کے دنوں میں تو بس کھیم اور موندیرا ہی سب پر چھائی رہتیں۔ کیا کیا ڈرامے مہا دیوی کنیا پاٹھ شالہ نے نہ کر ڈالے ’’نل دمینتی‘‘ اور شکنتلا ہریش چندر‘‘ اور ’’راج رانی میرا‘‘ اور اوپر سے ڈانس الگ گربا بھی ہو رہا ہے کہ آر تیرے گنگا پار ٹیرے جمنا بیچ میں ٹھاڑے ہیں نند لال اور آپ کا خدا بھلا کرے رادھا کرشنا ڈانس بھی لیجئے کہ میں تو گردھر آگے ناچوں گی۔ جی ہاں اور وہ گکری والا ناچ بھی موجود ہے کہ چلو چلو سکھی سکھیاری ری چلو پنگھٹ بھروا پانی اور ساتھ ساتھ موندیرا سین گپتا ہے کہ فراٹے سے ہارمونیم بجا رہی ہے۔

ایسے ہونے کو تو مسلمانوں کا بھی ایک اسکول تھا۔ انجمن اسلام گرلز اسکول۔ وہاں یہ سب ٹھاٹھ کہاں۔ بس بارہ وفات کی بارہ وفات میلاد شریف ہو جایا کرتا۔ اس میں کھڑے ہو کر لڑکیوں نے خاصی بے سری آوازوں میں پڑھ دیا:

تم ہی فخر انبیاء ہو۔ یا نبی سلام علیکا، چلیے قصہ ختم۔ ایک مرتبہ ایک سر پھری ہیڈ مسٹرس نے جو نئی نئی لکھنؤ سے آئی تھی۔ ’’روپ متی باز بہادر‘‘ خواتین کے سالانہ جلسے میں اسٹیچ کروا دیا تو جناب عالی لوگوں نے اسکول کے پھاٹک پر پکٹنگ کر ڈالی اور روز نامہ صدائے حق نے پہلے صفحے پر جلی حروف میں شائع کیا: ۔

’’ملت اسلامیہ کی غیرت کا جنازہ

گرلز اسکول کے اسٹیج پر نکل گیا۔

مسلمانو! تم کو خدا کے آگے بھی جواب دینا ہو گا بنات اسلام کو رقص و سرور کی تعلیم اسکول کو بند کرو ( یہ سب قصے کھیم کی مسلمان سہیلی کشوری اسے سنایا کرتی تھی جو پڑوس میں رہتی تھی)۔ صدر اعلیٰ کے چبوترے کے آگے والے مکان میں وہ اسلامیہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ اس کا بڑا بھائی اصغر عباس،  سرین اور رما کانت کے ساتھ ہاکی کھیلنے آیا کرتا تھا۔ ویسے پڑھتے وہ لوگ بھی الگ الگ تھے۔ سرین اور رما کانت ڈی اے وی کالج میں تھے۔ اصغر عباس فیض اسلام کنگ جارج انٹر کالج میں۔

’’ کیوں ری۔ ایف اے کرنے کہاں جائے گی۔ جولائی آ رہی ہے۔ بنارس جائے گی یا لکھنؤ؟‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے چوکے میں بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔

اب یہ ایک ایسا ٹیڑھا اور اچانک سوال تھا۔ جس کا جواب دینے کے لیے کھیم وتی ہرگز تیار نہ تھی۔ دونوں جگہوں سے متعلق اسے کافی انفرمیشن حاصل تھی۔ لیکن دو ٹوک فیصلہ وہ فی الحال کسی ایک کے حق میں نہ کر سکتی تھی۔ بنارس میں ایک تو یہ کہ چوڑیاں بہت عمدہ ملتی تھیں۔ لیکن لکھنؤ کو بھی بہت سی باتوں میں فوقیت حاصل تھی۔ مثلاً سنیما تھے۔ اور دس سنیماؤں کا ایک سنیما تو خود مہیلا ودیالہ تھا۔ جہاں اسے بھیجنے کا تذکرہ ماما نے کیا تھا۔ پردہ غالباً اسے بہر صورت ہر جگہ کرنا تھا۔ تانگے پر پردہ یہاں بھی ہیم کرن اپنے اور اس کے لیے بندھواتی تھیں۔ اور ماما جو اتنا بڑا ڈنڈا لیے سر پر موجود تھے۔

یہ ماما اس کے آج تک پلّے نہ پڑے۔ ولایت سے ان گنت ڈگریاں لے آئے تھے۔ یونی ورسٹی میں پروفیسری کرتے تھے۔ تاریخ پر کتابیں لکھتے تھے۔ فارسی میں شعر کہتے تھے۔ چوں چوں کا مربہ تھے کھیم کے ماما۔

رہے رماؔ کانت اور سرینؔ۔ رماؔ کانت تو شاعر آدمی تھا۔ سارے مقامی شاعروں میں جا کر وہ غزلے سہ غزلے پڑھ ڈالتا۔ اور حضرت ناشاؔد جون پوری کے نام نامی سے یاد کیا جاتا۔ سرین اس کے برعکس بالکل انجینئر تھا۔ اس سال وہ بھی انٹر کر کے بنارس انجینئرنگ کالج چلا جائے گا۔ باقی کے سارے کنبے برادری کے بہن بھائی یوں ہی بکواس تھے۔ اس سلسلے میں اس کی گوئیاں کشوری یعنی کشور آرا بیگم کے بڑے ٹھاٹھ تھے۔ اس کے بے شمار رشتے کے بھائی تھے اور سب ایک سے ایک سورما۔ یہاں کسی کے سورما پنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ کسی نے آج تک اس سے یہ نہ کہا کہ چل کھیم تجھے سرکس یانو ٹنکی ہی دکھلا دیں ( نوٹنکی کے دنوں میں رسویا تک لہک لہک کر گاتا اب یہی ہے میں نے ٹھانی لاؤں گا نوٹن کی رانی) کہاں کشوری کے ماجد بھائی ہیں تو اس کے لیے لکھنؤ سے چوڑیاں لیے چلے آتے ہیں۔ اکرام بھائی ہیں تو کشوری ان کے لیے جھپا جھپ پل اوور بن رہی ہے۔ اشفاق بھائی ہیں تو کشوری کو بیٹھے انگریزی شاعری پڑھا رہے ہیں۔ ان بھائیوں اور کھیم کے بھائیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کہاں کی چوڑیاں اور پل اوور۔ یہاں تو جوتیوں میں دال بٹتی تھی۔

ہیم کرن کو گھر کے کام دھندوں ہی سے فرصت نہ ملتی۔ آفتاب رائے ان کے لیے بڑا سہارا تھے۔ وہ ہر تیسرے چوتھے مہینے لکھنؤ سے آ کر مل جاتے۔ رہنے والے ان کے بھین صاحب جون پور ہی کے تھے۔ پر یہاں ان کی کسی سے ملاقات نہ تھی۔ ضلع کے رؤساء اور مقامی عمائدین شہر میں ان کا شمار تھا۔ پر آپ کا خیال اگر یہ ہے کہ ڈاکٹر آفتاب رائے جون پور کے ان معززین کے ساتھ اپنا وقت خراب کریں گے تو آپ غلطی پر ہیں۔ حکام سے ان کی کبھی نہ بنی۔ انٹلکچوئیل آدمی تھے۔ ان سول سروس اور پولس والوں سے کیا دماغ سوزی کرتے۔ جگن ناتھ جین آئی سی ایس جب نیا نیا حاکم ضلع ہو کر آیا تو اس نے کئی بار ان کو کلب میں بلا بھیجا۔ پر یہ ہرگز نہ گئے۔ رئیس الدین کاظمی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے دعوت کی۔ اس میں بھی نہ پہنچے۔ اور تو اور ولایت واپس جاتے وقت مسٹر چارلس مارٹن نے کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کی پرنسپل شپ پیش کی۔ لیکن کھیم کے ماما نے اسے بھی رد کر دیا۔ یوں تو خیر کانگریسی ہونا کوئی خاص بات نہیں۔ شہر اور قصبہ جات کا ہر ہندو جو سرکاری ملازم نہ تھا گھر پر ترنگا لگاتا تھا اور ہر مسلمان کے اپنے دسیوں مشغلے تھے۔ احرار پارٹی تھی،  شیعہ کانفرنس تھی،  ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی میں مسلمان بھرے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کا تو خیر اس وقت کسی نے نام بھی نہ سنا تھا،  پر بہت سے مسلمان اگر انصاف کی پوچھئے تو کچھ بھی نہ تھے،  یا شاعری کرتے تھے۔ یا مجلسیں پڑھتے تھے۔

تو کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی ایسی تشویش ناک بات نہ تھی۔ پر ڈاکٹر آفتاب رائے کی زیادہ تر لوگوں سے کبھی نہ پٹی۔ ارے صاحب یہاں تک سنا گیا ہے کہ تری پورہ کانگریس کے موقع پر انہوں نے سب کو کھری کھری سنا دی۔ گو یہ راوی کو یاد نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔

ضلع کی سوسائٹی جن عناصر پر مشتمل تھی۔ انہیں سے ڈاکٹر آفتاب رائے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وسط شہر میں مہاجنوں،  ساہو کاروں اور زمین داروں کی اونچی حویلیاں تھیں۔ یہ لوگ سرکاری فنڈوں میں ہزاروں روپیہ چندہ دیتے۔ اسکول کھلواتے،  مجرے اور مشاعرے اور دنگل کرواتے۔ جلسے جلوس اور سر پھٹول بھی ان ہی کی زیر سرپرستی منعقد ہوتے۔ ہندو مسلمانوں کا معاشرہ بالکل ایک سا تھا۔ وہی تیج تہوار۔ میلے ٹھیلے۔ محرم بالے میاں کی برات۔ پھر وہی مقدمے بازیاں۔ موکل،  گواہ،  پیشکار سمن۔ عدالتیں صاحب لوگوں کے لیے ڈالیاں۔

شہر کے باہر ضلع کا ہسپتال تھا۔ لق و دق ہری گھاس کے میدانوں میں بکھری ہوئی اداس پیلے رنگ کی عمارتیں۔ کچے احاطے۔ نیم کے درختوں کی چھاؤں میں آؤٹ ڈور،  مریضوں کے ہجوم۔ گرد آلود یکوں کے اڈے۔ سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے دو دو آنے میں خط لکھ کر دینے والے بہت بوڑھے اور شکستہ حال منشی جو دھاگوں والی عینکیں لگائے دھندلی آنکھوں سے راہ گیروں کو دیکھتے۔ پھر گلیاں تھیں جن کے گموں کے فرش پر پانی بہتا تھا۔ سیاہی مائل دیواروں پر کوئلے سے اشتہار لکھے تھے حکیم مارکہ دھاگہ خریدیئے۔ پری برانڈ بیٹری پیو ایک پیسہ باپ سے لو چائے جا کر ماں کو دو آ گیا۔ آ گیا۔ آ گیا سال رواں کا سنسنی خیز فلم ’ٓ’لہری راجہ‘‘ آ گیا جس میں مش مادھوری کام کرتی ہے

پھر سایہ دار سڑکوں کے پرے آم اور مولسری میں چھپی ہوئی حکام ضلع کی بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں۔ انگریزی کلب تھا۔ جس میں بے اندازہ خنکی ہوتی۔ چپ چاپ اور سائے کی طرح چلتے ہوئے مودب اور شائستہ ’’بیرے‘‘ انگریز اور کالے صاحب لوگوں کے لیے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور برف کی بالٹیاں لا کر گھاس پر رکھتے،  نیلے پردوں کی قناتوں کے پیچھے ٹینس کی گیندیں سبزے پر لڑھکتی رہتیں۔

 

(۲)

 

اور سول لائنز کی اس دنیا میں اوپر سے آئی کنول کماری جین جگن ناتھ جین،  آئی سی ایس کی بالوں کٹی بیوی جس نے لکھنؤ کے مشہور انگریزی کالج ازابلا تھوبرن میں پڑھا تھا اور جو گیند بلا کھیلتی تھی۔ کلب میں بڑی چہل پہل ہو گئی گنتی کی کل تین تو میمیں ہی تھیں کلب میں۔ کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کے انگریز پرنسپل کی میم ایک۔ زنانہ ہسپتال کی بڑی ڈاکٹرنی میم مس مک کنزی دو۔ اور اے پی مشن گرلز ہائی اسکول کی بڑی استانی مس سالفرڈ جو چن چنیا میم کہلاتی تھی کہ نوکروں پر چلاتی بہت تھی۔ ان تین کے علاوہ ڈاکٹرنی میم کی چھوٹی بہن مس اولیو مک کنزی تھی۔ جو اپنی بہن سے ملنے نینی تال سے آئی ہوئی تھی اور ضلع کے غیر شادی شدہ حکام کے ساتھ ٹنس کھیلنا اس کا خاص مشغلہ تھا اوراس میں ایسا کچھ اس کا جی لگا تھا کہ اب واپس جانے کا نام نہ لیتی تھی۔ شام ہوتے ہی وہ کلب میں آن موجود ہوتی اور وے مسٹر سکسینہ اور وے مسٹر فرحت علی۔ اور وے مسٹر پانڈے۔ سبھی تو اس کے چاروں طرف کھڑے دانت نکھوسے ہنس رہے ہیں اس ایک سیانے بھائی لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔ باقی ماندہ حضرات بھی کہتے تھے کہ میاں کیا مضائقہ ہے۔ جون پور ایسی ڈل جگہ پر مس مک کنزی کا دم وہی غنیمت جانو۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ مس شبیرہ حمایت علی جو دوسری لیڈی ڈاکٹر تھیں ان کا تو نام سن کر ہی جی بیٹھ جاتا تھا۔ مگر وہ خود بے چاری بڑی اسپورٹنگ آدمی تھیں۔ برابر جی داری سے ٹینس کھیلنے آیا کرتیں۔ لکھنؤ کے کنگ جارجز کی پڑھی ہوئی تھیں۔ لندن جا کر ایک ٹھو ڈپلوما بھی مار لائی تھیں لیکن کیا مجال جو کبھی بد دماغی دکھلا جاویں۔ لوگ کہتے تھے۔ صاحب بڑی شریف ڈاکٹرنی ہے۔ بالکل گائے سمجھئے گائے۔ جی ہاں اب یہ دوسری بات ہے کہ آپ یہ توقع کریں کہ ہر لیڈی ڈاکٹر افسانوں اور ناولوں کی روایت کے مطابق بالکل حور شمائل مہ وش پری پیکر ہو۔ اچھی آدمی کا بچہ تھیں۔ بلکہ ایک مرتبہ تو ڈسٹرکٹ جج مسٹر کاظمی کی بیگم صاحب نے مسٹر فرحت علی سے تجویز بھی کی تھی کہ بھیا آزادی کا زمانہ ہے مس شبیرہ ہی سے بیاہ کر لو۔ یہ جو سال کے سال چھٹیوں میں تمہاری اماں تمہیں لڑکیاں دیکھنے کے لیے نینی تال مسوری بھیجا کرتی ہیں۔ اس درد سرسے بھی نجات ملے گی اور کیا۔

راوی کہتا ہے کہ فرحت علی نے جو ان دنوں بڑے معرکے کا سپرنٹنڈنٹ پولس لگا ہوا تھا۔ بیگم کاظمی کے سامنے کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کی تھی۔ اور تھر تھر کانپا تھا۔ اور دست بستہ یوں گویا ہوا تھا کہ آئندہ وہ مس شبیرہ حمایت سے جو گفتگو کرے گا۔ وہ صرف چار جملوں پر مشتمل ہو گی آداب عرض۔ آپ اچھی طرح سے ہیں؟ جی ہاں میں بالکل اچھی طرح ہوں۔ شکریہ آداب عرض۔

مصیبت یہ تھی کہ جہاں کسی شامت کے مارے نے کسی’’غیر منسلک‘‘ خاتون محترم سے سوشل گفتگو کے دوران میں ان چار جملوں سے تجاوز کیا تو بس سمجھ لیجئے ایکٹوٹی ہو گئی۔

تو غرض یہ کہ راوی دریا کو یوں کوزے میں بند کرتا ہے کہ کنول کماری کے میاں کا تقرر اس جگہ پر ہوا (انگریز حاکموں کی اصطلاح میں صوبے کا ضلع اسٹیشن کہلاتا تھا)

اور نئے حاکم ضلع کے اعزاز میں کنور نرنجن داس رئیس اعظم جون پور نے (کہ یہ سارا کا سارا ایک نام تھا) اپنے باغ میں بڑی دھوم کی دعوت کی چبوترے پر زر تار شامیانہ تانا گیا۔ رات گئے تک جلسہ رہا۔ بیبیوں کے لیے اندر علاحدہ دعوت تھی۔ مصرانیوں نے کیا کیا کھانے نہ بنائے۔ مسلمان مہمانوں کے لیے باؤلے ڈپٹیوں کے وہاں سے باورچی بلوائے گئے تھے ( باؤلے ڈپٹیوں کا ایک خاندان تھا۔ جس میں عرصہ ہوا ایک ڈپٹی صاحب کا دماغ چل گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ پورا خاندان باؤلے ڈپٹیوں کا گھرانا کہلاتا تھا۔ کہار آواز لگاتے۔ اجی باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں سے سواریاں آئی ہیں اتر والو مہریوں سے کہا جاتا ارے باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں نیوتہ دیتی آنا ری رام رکھی۔ جھاڑ ڈپیٹی۔

ہیم کرن ایسے تو کہیں آتی جاتی نہ تھیں۔ پر رانی نرنجن داس کی زبردستی پر وہ بھی دعوت میں آ گئی تھیں۔ کلکٹر کی بیوی،  سے ملنے کے لیے عمائدین شہر کی بیویوں نے کیا کیا جوڑے نہ پہنے تھے۔ لیکن جب خود کنول کماری کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ تو پوری میم ہے۔ غضب خدا کا ہاتھوں میں چوڑیاں تک نہ تھیں۔ ناک کی کیل تو گئی چولہے بھاڑ میں ہلکے نیلے رنگ کی ساڑی سی پہنے گاؤ تکیے سے ذرا ہٹ کر بیٹھی وہ سب سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتی رہی۔

’’اے لو بیٹا تم نے تو سہاگ کی نشانی ہی کو جھاڑو پیٹے فیشن کی بھینٹ کر دیا‘‘۔ صدر اعلیٰ کی بیگم نے ناک پہ انگلی رکھ کر اس سے کہا۔

’’اے ہاں سچ تو ہے۔ کیا ڈنڈا ایسے ہاتھ لیے بیٹھی ہو۔ دور پار چھائیں پھوئیں دیکھے ہی سے ہول آتا ہے؟‘‘ بیگم کاظمی نے بھی صاد کیا۔

کھیم کی تو بہرحال آج عید تھی۔ اس نے تیز جامنی رنگ کی بنارسی ساری باندھی تھی۔ پاؤں میں رام جھول پہنے تھے۔ سونے کی کرودھنی اور دوسرے سارے گہنے پاتے علاحدہ کندن کا چھپکا اور مگر۔ کشوری بھی پہن آئی تھی۔ لیکن کشوری کی اماں ( جو محلے میں بڑی بھاوج کے نام سے یاد کی جاتی تھیں) بن بیاہی لڑکیوں کے زیادہ سنگار پٹار کی قطعی قائل نہ تھیں۔ ان کے یہاں تو لڑکیاں بالیاں مانگ تک بالوں میں نہ کاڑھ سکتی تھیں۔ پر اب زمانے کی ہوا کے زیر اثر نئی پود کی لڑکیوں نے سیدھی اور آڑی مانگیں کاڑھنی شروع کر دی تھیں۔ کھیم دور سے بیٹھی کنول کماری کو دیکھتی رہیں۔ کتنی سندر ہے اور پھر ایم اے پاس۔ ایم اے پاس لڑکی کھیم اور کشوری کی نظروں میں بالکل دیوی دیوتا کا درجہ رکھتی تھی۔

کنول کماری جین ساری مہمان بیبیوں سے ہنس ہنس کر سخت خوش اخلاقی سے گفتگو کرنے میں مصروف تھی ( اور ساری حاضرات محفل نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ لڑکی سابق کلکٹر کی بیوی اس چڑیل مسز بھارگوا سے کہیں زیادہ اچھی اور ملنسار ہے،  رانی بیٹا ہے بالکل)

دالان کے گملوں کی اوٹ میں کھیم اور کشوری بیٹھی تھیں۔ اور منٹ منٹ پر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئی جاتی تھیں۔ اب ایک بات ہو تو بتلائی جائے۔ دسیوں تھیں۔ مثلاً موٹی مصرانی کی چال ہی دیکھ لو۔ اور اوپر سے کنور نرنجن داس صاحب خانہ کی اسٹیٹ کے منیجر صاحب لالہ گنیش مہاشے بار بار ڈیوڑھی میں آن کر للکارتے ’’جی پردہ کر لو کہار اندر آ رہے ہیں‘‘۔ تو ان کے حلق میں سے ایسی آواز نکلتی جیسے ہار مونیم کے پردوں کو برساتی ہوا مار گئی ہو۔

اب کے سے جب ماما لکھنؤ سے گھر آئے تو کھیم نے دعوت کی ساری داستان ان کے گوش گزار کر دی۔ کنول کماری ایسی۔ اور کنول کماری ویسی۔ ماما چپکے بیٹھے سنتے رہے۔

 

(۳)

 

 

کھیم جب رات کا کھانا کھا کر سونے چلی گئی۔ اور سارے گھر میں خاموشی چھا گئی تو ڈاکٹر آفتاب رائے چھت کی منڈیر پر آ کھڑے ہو گئے۔ باغ اب سنسان پڑے تھے۔ گرمیوں کا موسم نکلتا جا رہا تھا۔ اور گلابی جاڑے شروع ہونے والے تھے۔ پروائی ہوا آہستہ آہستہ بہ رہی تھی۔ نیچے ٹھکرائن کی بگیا والی گلی کے برابر سے مسلمانوں کا محلہ شروع ہوتا تھا،  اس کے بعد بازار تھا۔ جس میں مدھم گیس اور لالٹین کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پھر پولس لائنز کے میدان تھے۔ اس کے بعد کچہری اور سول لائنز۔

سول لائنز میں حاکم ضلع کی بڑی کوٹھی تھی۔ جس پر یونین جیک جھٹ پٹے کی نیم تاریکی میں بڑے سکون سے لہرا رہا تھا۔ سارے میں یہ تھکی ہوئی خاموشی چھائی تھی۔ سامنے عہد سلطان حسین شرقی کے اونچے پھاٹک اور مسجدوں کے بلند مینار رات کے آسمان کے نیچے صدیوں سے اسی طرح ساکت اور صامت کھڑے تھے۔ زندگی میں بے کیفی تھی اور اداسی، اور ذلت تھی اور شدید غلامی کا احساس تھا۔

عمر بھر آفتاب رائے نے یوں ہی سوچا تھا کہ اب وہ اور کچھ نہ کریں گے۔ لیکن دنیا موجود تھی۔ وہ کام بھی کرتے کھانا بھی کھاتے۔ سال میں چار دفعہ جون پور آ کر جی جی سے دماغ سوزی بھی کرتے۔ زندگی کے بھاری پن کے باوجود گاڑی تھی کہ چلے جا رہی تھی۔ کنول کماری اس منظر کے پرے مولسری کے جھنڈ کے دوسری طرف یونین جیک کے سائے میں براجتی تھی۔ بہت سے لوگ ہیں کہ جو راستہ سوچا اختیار کر لیا۔ آرام سے اس پر چلتے چلے گئے۔ یہاں کسی راستے کا تعین ہی نہ ہو پاتا تھا۔ ایک کے بعد ایک سب ادھر اُدھر نکل گئے تھے۔ آفتاب رائے ہیں کے وہیں تھے۔

کنول کماری؟ لاحول ولا قوۃ۔

جب وہ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے لیے ولایت جا رہے تھے تو کنول نے ان سے کہا تھا ’’آفتاب بہادر تم کو اپنے اوپر بڑا مان ہے۔ پر وہ مان ایک روز ٹوٹ جائے گا۔ جب میں بھی کہیں چلی جاؤں گی۔

’’تم کہاں چلی جاؤ گی؟‘‘

’’افوہ لڑکیاں کہاں چلی جاتی ہیں؟‘‘

’’گویا تمہارا مطلب ہے کہ تم بیاہ کر لو گی؟‘‘

’’میں خود تھوڑا ہی بیاہ کرتی پھروں گی۔ ارے عقل مند داس میرا بیاہ کر دیا جائے گا‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا تھا۔

’’ارے جاؤ‘‘ آفتاب رائے خوب ہنستے تھے‘‘ میں اس جھانسے میں آنے والا نہیں ہوں۔ تم لڑکیوں کی پسند بھی کیا شے ہے۔ تم جیسی موڈرن لڑکیاں آخر میں پسند اسی کو کرتی ہیں جو ان کے سماجی اور معاشی معیار پر پورا اترتا ہے۔ باقی سب بکواس ہے۔ پسند اضافی چیز ہے تمہارے لیے‘‘

’’ہاں بالکل اضافی چیز ہے۔ آفتاب بہادر‘‘ وہ غصے کے مارے بالکل خاموش ہو گئی تھی۔

وہ چاند باغ میں تھی۔ آپ بادشاہ باغ میں بڑی دھوم دھام سے براجتے تھے یونین کی پریزیڈنٹی کرتے تھے۔ تقریریں بگھارتے تھے۔ ایک منٹ نچلے نہ بیٹھتے تھے تاکہ کنول نوٹس نہ سمجھی لیتی ہو تولے۔ وہ اے پی سین روڈ پر رہتی تھی اور سائیکل پر روز چاند باغ آیا کرتی تھی۔ لکھنؤ کی بڑی نمائش ہوئی تو وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ میوزک کانفرنس میں گئی۔ وہاں یونی ورسٹی والوں نے سہگل کو اپنے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ جس گانے کی یونی ورسٹی اور چاند باغ کا مجمع فرمائش کرتا۔ وہی سہگل کو بار بار گانا پڑتا۔ بھائی آفتاب بھی شور مچانے میں پیش پیش۔ لیکن اگلی صف میں کنول کو بیٹھا دیکھ کر فوراً سٹ پٹا کر چپ ہو گئے اور سنجیدگی سے دوستوں سے بولے کہ یار چھوڑو کیا ہلڑ مچا رکھا ہے۔ اس پر عزت نے عسکری بلگرامی سے کہا۔ (آج ان دونوں پیارے دوستوں کو مرے بھی اتنا عرصہ ہو گیا تھا،  منڈیر پر کھڑے ہوئے آفتاب رائے کو خیال آیا) عزت نے عسکری سے کہا تھا۔’’استاد یہ اپنا آفتاب جو ہے یہ اس لونڈیا پر اچھا امپریشن ڈالنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہے۔ اب خداوند تعالیٰ ہی اس پر رحم کرے

’’بی اے کے بعد تم کیا کرو گی؟‘‘ ایک روز آفتاب رائے نے کنول سے سوال کیا۔

’’مجھے کچھ پتہ نہیں‘‘ کنول نے کہا تھا۔ اس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں تم ہی کوئی پروگرام بناؤ۔

لیکن کچھ عرصہ بعد وہ سیدھے سیدھے ولایت نکل لیے۔ کیوں کہ غالباً ان کی زندگی ان کے لیے، ان کے گھر والوں کے لیے کنول کے وجود سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ پھر ان کی آئیڈیا لوجی تھی ( یار کیا بکواس لگا رکھی ہے عزت نے ڈپٹ کر کہا تھا)

پر ایک روز،  لندن میں،  جب وہ سینٹ ہاؤس کی لائبریری سے گھر کی اور جا رہے تھے تو راہ میں انہیں مہی پال نظر آیا جس نے دور سے آواز لگائی ’’چائے پینے چلو تو ایک واقعہ فاجعہ گوش گزار کروں۔ کنول کمار کا جگن ناتھ جین سے بیاہ ہو گیا۔ وہی جو سن پینتس 35 کے بیچ کا ہے -‘‘

لڑکیوں کی عجب بے ہودہ قوم ہے۔ اس روز آفتاب رائے اس نتیجے پر پہنچے۔ ان کو سمجھنا ہمارے تمہارے بس کا روگ نہیں۔ میاں وہ جو بڑی انٹلکچوئیل کی ساس بنی پھرتی تھی،  ہو گئی ہو گی۔ اب گلیڈ جگن ناتھ جین مائی فٹ کون تھا یہ الو میں نے کبھی دیکھا ہے اسے؟‘‘ مہی پال کے کمرے میں پہنچ کر آتش دان سلگاتے ہوئے انہوں نے سوال کیا۔

مہی پال رائے زادہ کھڑکی میں جھکا باہر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں ٹھیلے والے کو کنی لکھنؤ یونی ورسٹی کے نامور طلباء دن بھر گلا پھاڑ کر چلاتے رہنے کے بعد اب اپنے اپنے ترکاریوں کے ٹھیلے ڈھکیلتے ہوئے سر جھکائے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ شام کا دھند لکا سارے میں بکھر گیا تھا۔ زندگی بڑی اداس ہے۔ اس نے خیال کیا تھا۔ ہاں۔ اس نے آفتاب رائے سے کہا تھا میں نے اسے پٹنے میں دیکھا تھا۔ کالا سا آدمی ہے۔ عینک لگاتا ہے۔ کچھ کچھ لومڑی سے ملتی جلتی اس کی شکل ہے۔

’’بے وقوف بھی ہے؟‘‘ آفتاب رائے نے پوچھا تھا۔

’’خاصا بے وقوف ہے‘‘ مہی پال رائے زادہ نے جواب دیا تھا۔

’’پھر کنول اس کے ساتھ خوش کیسے رہ سکے گی؟‘‘ آفتاب رائے نے مہی پال سے مطالبہ کیا۔

’’میاں آفتاب بہادر‘‘ مہی پال نے مڑ کر ان کو مخاطب کیا  ’’یہ جتنی لڑکیاں ہیں نا جو افلاطون زماں بنی پھرتی ہیں۔ یہ بے وقوفوں کے ساتھ ہی خوش رہتی ہیں۔ آیا عقل میں تمہاری؟‘‘

’’یا بکواس ہے‘‘ آفتاب رائے نے آزردگی سے کہا۔

اب مہی پال رائے زادہ کو صریحاً غصہ آ گیا ہے۔ اس نے جھنجھلا کر کہا تھا ’’تو میاں تم کو روکا کس نے تھا اس سے بیاہ کرنے کو،  جواب مجھے بور کر رہے ہو۔ کیا وہ تم سے خود آ کر کہتی کہ میاں آفتاب بہادر میں تم سے بیاہ کرنا چاہتی ہوں۔ ایں؟ اور فرض کرو اگر وہ خود سے ہی انکار کر دیتی تو کیا قیامت آ جاتی۔ میاں لڑکی تھی یا ہوا۔ کیا مارتی وہ تم کو بھاڑ دے کر کیا کرتی؟ تم نے لیکن کہہ کے ہی نہیں دیا۔ خیر چلو خیریت گذر گئی۔ اچھا ہی ہوا۔ کہاں کا جھگڑا مول لیتے بے کار میں۔ کیوں کہ میرا مقولہ ہے۔ ( اس نے انگلی اٹھا کر عالمانہ انداز میں کہا) کہ شادی کے ایک سال بعد سب شادیاں ایک سی ہو جاتی ہیں تم کو تو جگن ناتھ جین کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے تم کو ایک بار عظیم سے سبکدوش کیا۔ بلکہ وہ تمہارے حق میں بالکل دافع بلیات ثابت ہوا‘‘

’’بے ہودہ ہیں آپ انتہا سے زیادہ‘‘ آفتاب رائے نے جھنجھلا کر کہا تھا۔

لکھنؤ لوٹ کر ایک روز آفتاب رائے اتفاقاً اے پی سین روڈ پر سے گزرے۔ سامنے کنول کے باپ کی سرخ رنگ کی بڑی سی کوٹھی تھی۔ جس کی برساتی پر کاسنی پھولوں کی بیل پھیلی تھی۔ یہاں ایک زمانے میں کتنا اودھم مچتا۔ کنول کے سارے بہن بھائیوں نے مل کر اپنا آر کیسٹرا بنا رکھا تھا۔ کوئی بانسری بجاتا۔ کوئی جل ترنگ۔ کنول طبلہ بجاتی،  ایک بھائی وائلن کا استاد تھا۔ سب مل کر جے جے ونتی شروع کر دیتے۔ مورے مندر اب لوں نہیں آئے۔ کیسی چوک بھئی مو سے آلی۔ پھر ارچنا بنرجی آ جاتی اور کوئل ایسی آواز میں گاتی آمی پو ہوڑی جھورنا فکر مکر بوجوئے بو جوئے ہو اتوار کو دن بھر بیڈ منٹن کھیلا جاتا ہر سمے تو آفتاب رائے ان لوگوں کے یہاں موجود رہتے تھے۔ اور جب ایک روز خود ہی چپکے سے ولایت کھسک لیے تو ان لوگوں کا کیا قصور۔ وہ لڑکی کو بنک کے سیف ڈپازٹ میں تو ان کے خیال سے رکھنے سے رہے اور جگن ناتھ جین ایسا رشتہ تو بھائی قسمت والوں ہی کو ملتا ہے۔

پھر ایک روز امین آباد میں انہوں نے کنول کو دیکھا۔ وہ کار سے اتر کر اپنی سسرال والوں کے ساتھ پارک کے مندر کی اور جا رہی تھی اور سرخ ساڑی میں ملبوس تھی اور آلتا اس کے پیروں میں تھا ( آلی ری سائیں کے مندر دیا بار آؤں۔ کر آؤں سولہ شرنگار وہ گرمیوں کی شام تھی۔ امین آباد جگمگا رہا تھا۔ ہوا میں موتیا اور خس کی مہک تھی۔ اور مندر کا گھنٹہ یکسانیت سے بجے جا رہا تھا)

اب آفتاب رائے یونی ورسٹی میں تاریخ پڑھاتے تھے۔ ساتھیوں کی محفل میں خوب اودھم مچاتے،  ٹینس کھیلتے اور صوفی ازم کی تاریخ پر ایک مقالہ لکھ رہے تھے۔ میں وہ نہیں ہوں جو میں ہوں۔ میں وہ ہوں جو میں نہیں ہوں۔ ہر چیز باقی ساری چیزیں ہیں۔ بھگوان کرشن جب ارجن سے کہتے ہیں اوپرنس ارجنا (ارے جا، عسکری ڈانٹ بتاتا۔ اگر تم اس چکر میں ہو کہ تم بھی پروفیسر ڈی پی مکرجی کی طرح مہا گرو بن کے بیٹھ جاؤ گے تو تم غلطی پر ہو۔ ڈاکٹر آفتاب رائے،  تمہارا تو ہم مارتے مارتے حلیہ ٹھیک کر دیں گے‘‘ مہی پال اضافہ کرتا)

جون پور آ کر وہ کھیم کو دیکھتے کہ تندہی سے کچالو کھا رہی ہے۔ کتھک سیکھ رہی ہے۔ جل بھرنے چلی ری گوئیاں آں آں گاتی پھر رہی ہے۔ یہ بھی کنول کماری کی قوم سے ہے۔

’’اری او باؤلی بتا تو کیا کرنے والی ہے‘‘ وہ سوال کرتے۔

’’پتہ نہیں ماما‘‘ وہ معصومیت سے جواب دیتی۔

’’پتہ نہیں کی بچی وہ دل میں کہتے تھے۔

چھت کی منڈیر پر ٹہلتے ٹہلتے آفتاب رائے نیم کی ڈالیوں کے نیچے آ گئے۔ سامنے بہت دور سول لائنز کے درختوں میں چھپی ہوئی حاکم ضلع کی کوٹھی میں گیس کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پروائی ہوا بہے جا رہی تھی۔ یہ چاند رات تھی اور مسلمانوں کے محلوں کی طرف سے محرم کے نقاروں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔

محرم آ گیا آفتاب رائے کو خیال آیا شاید اب کے سے پھر سر پھٹول ہو۔ بہت دنوں سے نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے سوچا۔

ویسے انگریز کی پالیسی یہ تھی کہ جن ضلعوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہاں ہندو افسروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ اور جہاں ہندو زیادہ ہوتے تھے۔ وہاں مسلمان حاکموں کو بھیجا جاتا تھا تاکہ توازن قائم رہے۔ یہ دوسری بات تھی کہ صوبے کی چھ کروڑ آبادی کا صرف ۱۳ فی صدی حصہ مسلمان تھے۔ لیکن اتنی شدید اقلیت میں ہونے کے باوجود تہذیبی اور سماجی طور پر مسلمان ہی سارے صوبے پر چھائے ہوئے تھے۔ جون پور،  لکھنؤ،  آگرہ،  علی گڑھ،  بریلی،  مراد آباد،  شاہجہاں پور،  وغیرہ جیسے ضلعوں میں تو مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہی ہوئی تھی۔ لیکن باقی کے سارے خطوں میں بھی ان کا بول بالا تھا۔ صوبے کی تہذیب،  سے مراد وہ کلچر تھا جس پر مسلمانوں کا رنگ غالب تھا۔ گلی گلی محلے محلے گاؤں گاؤں لاکھوں مسجدیں اور امام باڑے موجود تھے۔ مکتب مدرسے،  درگاہیں،  قلعے حویلیاں، چپے چپے سے مسلمانوں کی آٹھ سو سال پرانی روایات وابستہ تھیں۔

ہندو مسلمانوں میں سماجی سطح پر کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ خصوصاً دیہاتوں اور قصبہ جات میں عورتیں زیادہ تر ساڑیاں اور ڈھیلے پائجامے پہنتیں۔ اودھ کے بہت سے پرانے خاندانوں میں بیگمات اب تک لہنگے بھی پہنتیں تھیں۔ لیکن بیاہی لڑکیاں ہندو اور مسلمان دونوں ساڑی کے بجائے کھڑے پائنچوں کا پائجامہ زیب تن کرتیں۔ ہندوؤں کے یہاں اسے ’’اجار‘‘ کہا جاتا۔ مشغلوں کی تقسیم بڑی دل چسپ تھی۔ پولس کا عملہ اسی فیصد مسلمان تھا۔ محکمہ تعلیم میں ان کی اتنی ہی کمی تھی۔ تجارت تو خیر کبھی مسلمان بھائی نے ڈھنگ سے کر کے نہ دی۔ چند پیشے مگر خاص مسلمانوں کے تھے۔ جن کے دم سے صوبے کی مشہور صنعتیں قائم تھیں۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے کچھ ایسا مضبوط نظام تھا کہ سارا منافع تو بازار تک پہنچاتے پہنچاتے مڈل میں ہی مار لے جاتا تھا اور جو بھائی کے پاس بچتا تھا اس میں قرضے چکانے تھے،  بٹیا کا جہیز بنانا تھا۔ اور ہزاروں قصے تھے آپ جانیے۔

زبان اور محاورے ایک ہی تھے۔ مسلمان بچے برسات کی دعا مانگنے کے لیے منہ نیلا پیلا کیے گلی گلی ٹین بجاتے پھرتے اور چلاتے برسو رام دھڑا کے سے بڑھیا مر گئی فاقے سے۔ گڑیوں کی بارات نکلتی تو وظیفہ کیا جاتا ہاتھی گھوڑا پالکی جے کنہیا لال کی۔ مسلمان پردہ دار عورتیں جنہوں نے ساری عمر کسی ہندو سے بات نہ کی تھی۔ رات کو جب ڈھولک لے کر بیٹھتیں تو لہک لہک کر الاپتیں -بھری گگری موری ڈھرکائی شام -کرشن کنہیا کے اس تصور سے ان لوگوں کے اسلام پر کوئی حرف نہ آتا ہے۔ یہ گیت اور کجریاں اور خیال، یہ محاورے، یہ زبان، ان سب کی بڑی پیاری اور دلآویز مشترکہ میراث تھی۔ یہ معاشرہ جس کا دائرہ مرزا پور اور جون پور سے لے کر لکھنؤ اور دلی تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک مکمل اور واضح تصویر تھا۔ جس میں آٹھ سو سال کے تہذیبی ارتقا نے بڑے گمبھیر اور بڑے خوبصورت رنگ بھرے تھے۔

ڈاکٹر آفتاب رائے نے ( کہ ان کا نام ہی اس مشترکہ تمدن کی لطافت کا ایک مظہر تھا) ایک بار سوچا تھا کہ وہ کبھی ایک کتاب لکھیں گے کہ کس طرح پندرہویں صدی میں بھگتی تحریک کے ذریعے – لیکن ذہن ہی کو مکمل سکون کہاں میسر تھا۔ پہلے یہ کنول کماری کود پڑی۔ پھر ان کی معاشی مجبوریاں آڑے آئیں اور ان کو ولایت سے لوٹ کر بنارس میں لیکچرر شپ سنبھالنی پڑی۔ جہاں دن رات ہندی اتھوا ہندوستانی کے گن گائے جاتے -یہ میں تم سے کہتا ہوں -کہ شدہ ہندی اور گؤ رکھشا، اور رام راجیہ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے سے بچو۔ انہوں نے ایک دفعہ ایک کانفرنس کے پنڈال میں چلا کر کہا تھا۔

آفتاب رائے کے ساتھی مذاق میں انہیں جون پور کا قاضی کہا کرتے۔ ’’یہ جو کتاب تم لکھنے والے ہو اس کا نام رکھنا ’’جون پور کا قاضی‘‘ عرف میں شہر کے اندیشے میں دبلا کیوں ہوا؟‘‘

رات کی ہوا میں خنکی بڑھ چکی تھی۔ نیم کے پتے بڑے پر اسرار طریقے سے سائیں سائیں کر رہے تھے۔ ہاں زندگی میں بے پایاں اداسی تھی اور ویرانہ اور تاریکی۔

محلے کے مکانوں میں مدھم روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ نیچے بڑی بھاوج کے مکان کے آنگن میں مجلس کے لیے جو گیس کا ہنڈہ نصب کیا گیا تھا۔ اس کی روشنی رات کے اس ویرانے میں لرزہ خیز معلوم ہوتی تھی۔ جیسے مہوے کے جنگل میں اگیا بیتال اور مسان چپکے چپکے روتے ہوں۔

مجلسوں کے گریہ و بکا کی مدھم آوازیں پروائی کے جھونکوں میں رل مل کر وقفے وقفے کے بعد یک لخت بلند ہو جاتی تھیں۔ نکڑ پر کنور نرنجن داس کے ہاں کی محرم کی سبیل کے پاس رکھی ہوئی نوبت یکسانیت سے بجے جا رہی تھی۔

 

(۴)

 

’’عاشور کی شب لیلیٰ ارے سرہانے شمع رکھ کر‘‘ بوا مدن نے تکیہ پر کرم خوردہ کتاب رکھ کر پڑھنا شروع کیا

’’اے تکتی رہیں چہرہ علی اکبر کا‘‘ بگن نے باریک تیز آواز میں ساتھ دینا شروع کیا۔

’’اے لو دونوں کی دونوں سٹھیا گئی ہیں اے بیوی چاند رات کو نویں تاریخ کے مرثیے نکال کر بیٹھ گئیں؟‘‘ بڑی بھاوج نے باورچی خانے میں سے پکارا۔

’’توبہ توبہ کمبخت ایسی ساڑستی پڑی ہے کہ اب تو کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ اے لو میں تو عینک لانا ہی بھول گئی۔ مجھے کچھ سجھائی تھوڑی دے رہا تھا میں نے تو اٹکل سے پڑھنا شروع کر دیا اے بہن اے نیازی بیگم ذری اپنی عینک تو دینا‘‘ بوا مدن نے طویل سانس بھر کے کہا۔

نیازی بیگم نے اپنی عینک اتار کے دی جو بوا مدن نے ناک کی پھننگ پر رکھ کر پھر سے بیاض کی ورق گردانی شروع کی۔

’’اے بوا مدن نجم الملت کی بیاض بھی لائی ہو کہ نہیں؟‘‘ بڑی بھاوج نے تخت کے پائے کے قریب آ کر اطمینان سے بیٹھتے ہوئے دریافت کیا۔

’’لڑکیوں سے پوچھیے بڑی بھاوج نجم الملت کے نوحے تو یہی لوگ پڑھت ہیں‘‘ بگن نے جواب دیا۔

’’ہاں بیٹا ہم تو پرانے فشن کے آدمی ہیں۔ اب تو نوحوں میں بھی نئے راگ رنگ نکلے ہیں‘‘ بوا مدن نے قدرے بے نیازی سے اضافہ کیا۔

یہ لڑکیوں پر صفا چوٹ تھی۔ بوا مدن نے لڑکیوں کی نوحہ خوانی کو کبھی بھی بہ نظر استحسان نہ دیکھا۔

کنبے اور محلے کی ساری لڑکیاں دیوار کے سہارے بڑے اسٹائل سے سیاہ جارجٹ کے دوپٹوں سے سرڈھانپے خاموش بیٹھی تھیں۔ بوا مدن کے اس طعنے کا انہوں نے ہرگز نوٹس نہیں لیا۔

’’سواری اتر والو‘‘ باہر سے رام بھروسے کی آواز آئی۔

’’پردہ کر لو لوگو کہار اندر آتے ہیں‘‘

فیرینی کی سینی دھم سے گھڑونچی پر ٹکا کر ممولہ تیز آواز میں چلائی ’’چھمو بیگم آ گئیں‘‘۔

چھمو بیگم ڈولی میں سے اتریں۔ اور پائنچے سمیٹ کے پانی سے لبریز نالی کو الانگنے کے ارادے سے آگے بڑھیں  ’’ اللہ رکھے بڑی بھاوج کے ہاں تو ہر وقت بس بہیاسی آئی رہتی ہے‘‘۔ انہوں نے ذرا بے زاری سے کہا۔

کہیں ممولہ نے یہ سن لیا ’’اے چھمو بیگم ذری زبان سنبھال کے بات کیا کیجیے۔ بڑی بھاوج کے دشمنوں کے گھر بہیا آوے۔ شیطان کے کان بہرے ایسا تو میں نے آنگن کا سارا پانی سونتا ہے۔ اپنے ہاں نہیں دیکھتیں۔ ساری گلی کو لے کے نوبت رائے کا تلاؤ بنا رکھا ہے۔ اتا اتا پانی آپ کے گھر میں کھڑا رہتا ہے۔ ہاں‘‘ اس نے منہ در منہ جواب دیا۔

’’اے بی ممولہ ذری آپے میں رہنا میں خود سے نہیں آ گئی۔ بڑی بھاوج نے سو دفعہ بلایا کہ آ کر مجلس پڑھ جاؤ مجلس پڑھ جاؤ میں اپنے گھر سے فالتو نہیں ہوں کہ ماری ماری پھروں۔ اور ٹکے کی ڈومنیوں کی باتیں سنوں۔ ہاں لو بھائی ڈولی واپس کرو‘‘ چھمو بیگم نے بیج آنگن میں کھڑے ہو کر رجز پڑھا۔

بڑی بھاوج جلدی سے اٹھ کر باہر آئیں۔ اے ہے یہ کیا کوا نوچن مچی ہے۔ اماموں پر مصیبت کی گھڑی آن پہنچی اور تم لوگ ہو کہ کھڑی جھگڑ رہی ہو چل نکل ممولہ یہاں سے ڈوبی جب دیکھو تب یہی فضیحتہ شروع کرتی ہے۔ آؤ چھمو بیگم جم جم آؤ‘‘

ڈیوڑھی میں کہاروں نے زور سے ڈنڈا بجایا۔ اجی پیسے تو بھجوائیے بیگم صاحب

(ارے دیارے ساڑی دیہہ دکھن لاگت ہے رام بھروسے نے دیوار سے لگ کر ماتا دین کی بیڑی سلگاتے ہوئے اظہار خیال کیا۔ ویسے محرم کی وجہ سے اب پیسے خوب ملیں گے۔ چہلم تک دس دس پھیرے ایک گلی کے ہوتے تھے اور ہر پھیرا تین تین پیسے۔ دور کے محلوں تک آنے جانے کے تو دو دو آنے تک ہو جاتے تھے۔ بس چاندی تھی آج کل بھائی رام بھروسے اور ان کی برادری کی۔ اور ریڑوے جو چل رہے تھے وہ الگ۔ ریڑوہ ایک طرح کا لکڑی کا کرسی نما ٹھیلہ ہوتا تھا جس میں چاروں طرف پردہ باندھ دیا جاتا تھا۔ اندر دو دو تین تین سواریاں گھس پٹ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ اور بچوں کی انگریزی پر ام کی طرح پیچھے سے دھکیلا جاتا تھا۔ اور چرخ چوں کرتا ریڑوہ گلیوں کے پتھریلے فرش پر برے ٹھاٹھ سے چلتا۔ پالکی کا کرایہ بہت زیادہ تھا۔ یعنی چھ آنے فی پھیرا۔ پرائیوٹ پالکی چو پہلہ صرف صدر اعلیٰ کے یہاں تھا۔

چھمو بیگم اس معرکے کے بعد ٹھمک ٹھمک چلتی آن کر چاندنی پر بیٹھ گئیں اور عینک لگا کر بڑے ٹھسے سے چاروں طرف نظر ڈالی۔ بوا مدن خود بڑی ہائی برو سوز خوان تھیں۔ انہوں نے کبھی چھمو بیگم کی پروانہ کی۔

سوز ختم ہو چکا تھا۔ گوٹے کے پھنکے لگاتی بوا مدن طمانیت سے جا کر ایک کونے میں بیٹھ گئیں۔ چٹا پٹی کی گوٹ کا اودا پائجامہ اور طوطے کے پروں ایسے ہرے رنگ کا دوپٹہ اوڑھے اور اس شان سے دیوار سے لگ کر بیٹھتی تھیں کہ دور سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ہاں یہ رام پور کی میریاسن ہیں۔ مذاق نہیں ہے۔

چھمو بیگم ایک تو یہ کہ سیدانی تھیں۔ دوسرے یہ کہ بگن سلمہا کے بیاہ کے سلسلے میں ان سے جنگ ہو چکی تھی۔ لہٰذا وہ بوا مدن کو ہر گز خاطر میں نہ لاتیں۔ بوا مدن کو اگر یہ زعم تھا کہ مالکوس اور سوہنی اور بہاگ میں وہ سوز ایسے پڑھتی ہیں کہ مجلس میں پٹس پڑ جاتی ہے تو چھمو بیگم کو بھی اپنے اوپر ناز بے جا نہ تھا کہ آٹھویں تاریخ والا میر انیس کا مرثیہ پوری راگ داری کے ساتھ ان جیسا کوئی اور نہ پڑھ سکتا تھا۔

چھمو بیگم نے تہ در تہ ریشمی غلافوں میں سے چاند رات کا بیان نکالا اور مجمع کو نہایت گھور کے دیکھا۔

لڑکیوں کا گروہ اپنی جگہ پر ذرا چوکنا ہو گیا۔ ان لڑکیوں پر فرض تھا کہ جب چھمو بیگم حدیث پڑھیں یا وعظ کریں تو یہ لوگ دوپٹے منہ میں ٹھونس کر کھل کھل کر ہنسیں۔ پر بظاہر یہی معلوم ہوتا کہ زار و قطار رو رہی ہیں۔ اور چھمو بیگم کس قیامت کی حدیث پڑھتی تھیں کہ کہرام بپا ہو جاتا تھا۔

چھمو بیگم کے وعظ بہت موڈرن ہوتے تھے۔ کیا جناب کبن صاحب بلکہ خود قبلہ جار چوی صاحب ایسے ایسے رموز و نکات،  انگریزی فلسفے کے واقعہ شہادت میں سے نہ نکال سکتے۔ جو چھمو بیگم پل کی پل میں دریا کوزے میں بند کر کے رکھ دیتی تھیں۔

’’اے صاحبان مجلس جب باری تعالیٰ نے اپنے نور کے دو حصے کیے‘‘ والی تمہید سے لے کر جب وہ اس کلائمیکس تک پہنچتی تھیں کہ’’اے بیبیو جناب عباس نے رو کر کہا بالی سکینہ اٹھو‘‘ تو اس وقت مجلس میں نالہ و شیون سے قیامت بپا ہو چکی ہوتی تھیں۔ اندر باہر سب کہتے تھے کہ ماشاء اللہ سے چھمو بیگم نے سماں باندھ دیا۔ ان کی زور خطابت کا یہ عالم تھا کہ منٹوں میں بات کہیں سے کہیں پہنچتی تھی۔ ابھی حضرت جبریل علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے۔ ابھی یزید ملعون کے خاندان کا ذکر آ گیا۔ جنگ جمل کا واقعہ سنا رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ اس کا موازنہ جرمن اور انگریز کی لڑائی سے بھی ہوتا جاتا ہے۔ رسالت مآبؐ کے بیان پر جب آتیں تو کہتیں بیبیو میں کوئی مورخ،  کوئی تاریخ دان کوئی فلاسفہ نہیں ہوں۔ مگر اتنا جانتی ہوں اور کہے دیتی ہوں کہ ایک طرف عیسائیوں اور رومیوں کی دس لاکھ فوج تھی۔ ایک طرف جناب رسالت مآبؐ کے ساتھ صرف پندرہ آدمی تھے۔ مگر وہ گھمسان کا رن پڑا تھا کہ سارے فرشتے چرخ اول پر اتر آئے تھے اور نور کی جھاڑو سے رسالت مابﷺ کے لیے راستہ صاف کرتے جاتے تھے۔ خداوند تعالیٰ کے مسئلہ پر فرماتیں اے بیبیو جو انگریزی داں دہریے خدا کے منکر ہیں۔ ان کا احوال مجھ سے سنو۔ اور کان کھول کے سنو کہ خداوند کریم ان سب شیطانی وسوسوں اور چالوں سے واقف ہے۔ جو فرنگیوں کے علم کے ذریعہ ابلیس ملعون نے تم مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دی ہیں۔ بلکہ میں تم کو آج یہ بتانا چاہتی ہوں اے مومنہ بیبیو کہ قرآن حکیم کے اندر اللہ تعالیٰ نے خود انگریزی میں اپنی توحید کا ثبوت دیا ہے۔ فرماتا ہے وہ رب ذو الجلال کہ: قل ہو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔ یہ ون کیا ہے؟ ون انگریزی میں ایک کو کہتے ہیں۔ مسئلہ توحید سے سلسلہ کھینچ کر پھر واقعہ کربلا اور شہادت علی اکبر سے ملا دیا جاتا تھا۔ یہ چھمو بیگم کے آرٹ کا کمال تھا۔

بڑی بھاوج کیا سارے محلے کو معلوم تھا کہ چھمو بیگم خاصی فراڈ ہیں۔ لیکن ان کی شمولیت کے بغیر مجلس میں جان ہی نہ پڑ سکتی تھی۔ لہٰذا ان کی بد مزاجی کو بھی برداشت کیا جاتا۔

برسوں سے جب سے بڑی بھاوج پیدا ہوئیں،  تو وہ ہوئیں،  رخصت ہو کر بارہ بنکی سے جون پور آئیں۔ زندگی کا ایک چلن قائم تھا۔ جس میں شادی بیاہ تیج تہوار،  لڑائی جھگڑے محرم،  کونڈے۔ جو گی رمپورے کی سالانہ زیارت،  غرض یہ کہ ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ مسلم تھی۔ ڈپٹی جعفر عباس سے بڑی دھوم دھام سے ان کا بیاہ رچایا گیا تھا۔ جب وہ پندرہ سال کی تھیں۔ کیا زمانے تھے۔ دو میل لمبا تو ماہی مراتب ہی تھا۔ براتیوں کو چاندی کی طشتریوں میں سندیلے کے لڈو بانٹے گئے تھے۔ اور جناتیوں یعنی لڑکی کے گاؤں والوں کے یہاں ہفتوں مہینوں پہلے سے ڈھولک رکھ دی گئی تھی۔ ان کا میکہ و سسرال دونوں طرف سے ماشاء اللہ سے بھرا پرا کنبہ تھا۔ بس ایک چھوٹی اماں ہی سے ان کی نہ بنی۔ دیورانی جٹھانی کا دیوار بیچ گھر تھا۔ لیکن مدتوں کھڑکی میں تالا پڑا رہا۔ مقدمہ کا قصہ در اصل امام بارے والے آم کے باغ سے چلا تھا،  بعد میں رفتہ رفتہ دونوں بھائیوں کے گھرانوں میں بول چال تک بند ہو گئی۔ سچ کہا ہے بوا کہ زر،  زمین،  زن،  تین چیزیں گھر کا گھروا کر دیتی ہیں۔ سگے بھائی غیر ہو جاتے ہیں۔ پر جب چھوٹی اماں بیمار پڑیں تو بڑی بھاوج نے وضع داری پر حرف نہ آنے دیا اور مرنے سے پہلے دیورانی نے ساری اگلی پچھلی شکایتوں کو بھول کر کہاسنا معاف کروا لیا۔ اس پر بھی کہنے والوں کا بہن منہ کس نے بند کیا ہے،  محلہ میں اڑ گئی کہ یہ جو چھوٹی اماں اپنے غلے کی کوٹھڑی میں سونے کی مہریں دفن کیے بیٹھی تھیں۔ یہ ان کو حاصل کرنے کی ترکیبیں تھیں۔ پوچھو بڑی بھاوج کے پاس خدا کا دیا خود کیا کچھ نہیں۔ جو وہ ایسے کمینے خیالات دل میں لاتیں۔ اور اصلیت یہ ہے کہ چھوٹی اماں کی وہ سونے کی مہروں والی جھجری جس پر وہ عمر بھر مایا کا سانپ بنی بیٹھی رہیں اوت کے مال سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔ لڑکوں نے لے کر سارا پیسہ دو سال کے اندر اڑا دیا۔ بلکہ بوا مدن تو یقین محکم کے ساتھ کہتی تھیں کہ چھوٹی اماں اور بڑی بھاوج کی لڑائی کروانے میں زیادہ ہاتھ چھمو بیگم کا ہے۔ حرافہ ایسی ادھر اُدھر لگاتی تھی اور پھر سال کے سال منبر پر مولون بن کر چڑھ بیٹھتی ہے۔ چڑیل۔

رونا بہر حال فرض تھا۔ خواہ چھمو بیگم جیسی کٹنی ہی بیان کیوں نہ پڑھے۔ لہٰذا بوا مدن دیوار کے سہارے بیٹھی بڑے مشہدی رو مال سے منہ ڈھانپے شائستگی سے سسکیاں بھرتی رہیں۔ لڑکیاں دہلیز پر بیٹھی بیٹھی اونگھ رہی تھیں اور منتظر تھیں کہ کب حدیث ختم ہو اور نوحہ خوانی کی باری آئے۔

نوحے پڑھنے میں بڑی بھاوج کی لڑکی کشوری کو ملکہ حاصل تھا۔ ہاتھ آئے تھے کیا کیا گل زہرا کو فدائی نوماؤں نے دیکھی در خیمہ سے لڑائی ارے لڑتے ہوئے گرتے ہوئے مرتے ہوئے دیکھا اور جانے کون کون سے سارے جدید نوحے۔ جی ہاں ایسی پاٹ دار آواز میں آخری بند اٹھاتی کہ کھیم کے گھر تک آواز پہنچ جاتی تھی۔

نوحوں کی دھنیں نکالنا لڑکیوں کا خاص مشغلہ۔ جہاں کوئی چلتا چلتا لیکن غمگین سی دھن کا گیت ریڈیو پر سنا جھٹ ذرا سی تبدیلی کر کے نجم الملت کے کسی نوحے پر اس دھن کو چپکا دیا۔ طلعت آرا اس معاملے میں بڑی رجعت پسند واقع ہوئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ بھئی یہ غلط بات ہے۔ یہ کیا ساتویں کی رات کو معلوم ہو کہ کانن بالا کا ریکارڈ بج رہا ہے۔ توبہ توبہ۔ مگر کشوری کس کی سنتی تھی،  ویسے بھی وہ بڑی آزاد خیال روشن دماغ انسان تھی۔ ہائی اسکول تو اس نے پاس کر لیا تھا۔ وہ تو لکھنؤ جا کر لگے ہاتھوں انٹر اور بی اے بھی کر لے۔ لیکن چھوٹی اماں جب مرتے وقت بڑی بھاوج سے صلح صفائی کرنے پر تلیں تو یہاں تک طے کرتی گئیں کہ ان کے بڑے لڑکے میاں اعزاز سے اس کا بیاہ بھی کر دیا جائے۔

اب یہاں سے مسلم سوشل پکچر بننا شروع ہوئی۔ کشوری کہاں ایک تیز لڑکی۔ سارے نٹنگ کے نمونے اس کو آویں۔ جہاں پردہ باغ میں کوئی نیا نمونہ سوئٹر کا کسی کو پہنے دیکھ پاوے گھر آ کر فوراً تیار۔ افسانے پڑھنے کی وہ شوقین۔ منشی فیاض علی کی ’’انور‘‘ اور ’’شمیم‘‘ سے لے کر کرشن چندر کی ’’نظارے‘‘ اور حجاب امتیاز علی کی’’ظالم محبت‘‘ تک اس کی الماری میں موجود۔ سنیما بھی جب موقع ملتا ضرور دیکھ لیتی۔ میاں اعزاز ایک تو یہ کہ خاصے مولوی آدمی تھے۔ پی سی ایس میں آ گئے تھے۔ گیستگ کالج سے ایم اے ایل بی کر رکھا تھا۔ لیکن اس کے روادار نہیں تھے کہ گھر کی لڑکیاں ذرا کی ذرا نمائش ہی میں ہو آئیں۔ خود بڑی دون کی لیتے تھے کہ مس سکسینہ سے یونین میں یوں بحث چلی اور مس صدیقی کے یہاں یوں چائے پر گیا۔ لیکن اپنے کنبے کی لڑکیوں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ لڑکیاں جہاں گھر سے باہر نکلیں میاں زمانہ خراب ہے۔ کسی کو بدنام ہوتے کیا دیر لگتی ہے۔

بڑھی بھاوج نے،  لطیفہ یہ تھا،  کہ کشوری کے لیے بڑی منتیں مرادیں مان رکھی تھیں۔ عاشورہ کے روز جب ذو الجناح اندر لایا جاتا تو جلیبی کھلانے کے بعد اس کے کان سے منہ لگا کر ساری بیبیاں اور ساری لونڈی باندیاں دعا مانگیں کہ یامولا کشوری بیٹا کا نصیبہ اب کے سال ہی کھلے۔

اب یہ پوچھو کہ یہ میاں اعزاز کے پلّے باندھنا نصیبے کا کھلنا سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن کشوری نے بھی طے کر لیا تھا کہ عین بیاہ کے موقع پر وہ انکار کر دے گی۔ برات میں ایک ہڑیونگ مچ جائے گی۔ وہ جیسا کہ سوشل فلموں میں ہوتا ہے کہ عین وقت پر جب پھیرے پڑنے والے ہوں تو اصل ہیرو ہسپتال یا جیل سے چھٹ کر پہنچ جاتا ہے اور گرج کر کہتا ہے کہ ٹھہر جاؤ یہ شادی نہیں ہو سکتی۔

 

(۵)

 

کشوری کے بابا سید جعفر عباس ڈپٹی کلکٹر تھے۔ لیکن دل کے بڑے پکے قوم پرست مسلمان تھے۔ جب کانگریسی وزارت قائم ہوئی تو آپ نے بھی خوب خوب خوشیاں منائیں۔ حافظ ابراہیم ضلع میں آئے تو آپ مارے محبت کے جا کے ان سے لپٹ گئے۔ جب جنگ چھڑی اور کانگریسی وزارت نے استعفیٰ دیا اور مسلم لیگ نے یوم نجات منایا تو کشوری کے بابا کو بڑا دکھ ہوا۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے تھے۔ اور چبوترے پر بیٹھے پیچوان لگائے سوچا کرتے کہ دنیا ہی بدلتی جا رہی ہے۔ لڑکے جن کو نوکری نہ ملتی تھی۔ اب فوج میں چلے جا رہے تھے۔ اپنا اصغر عباس ہی اب لفٹیننٹ تھا مہنگائی شدید تھی۔ لیڈر جیل میں تھے۔ لیکن زندگی میں یک بیک ایک نیا رنگ آ گیا تھا۔ حافظ ابراہیم کے استعفیٰ کے موقع پر ضلع کے اردو اخباروں نے لکھا تھا کہاں گئی موٹر سرکاری بیچا کر سبزی ترکاری وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ کشوری کے بابا کو یہ سب پڑھ اور سن کر صدمہ ہوتا۔ وہ بڑے پکے مسلمان تھے۔ در اصل مسلمان کے معاشرے کا استحکام ان ہی پرانے مدرسہ فکر کے ڈپٹی کلکٹروں کے دم قدم سے قائم تھا۔ پردے کے بڑے پابند۔ کیا مجال جو لڑکیاں بغیر قناتوں چادروں کے گھر سے قدم نکالیں۔ (صوبے کے مشرقی اضلاع میں برقعے کا رواج نہ تھا۔ با عزت متوسط طبقے کی مسلمان اور ہندو عورتیں چادریں اور دلائیاں اوڑھ کر باہر نکلتی تھیں۔ ہندو عورتیں تو خیر گھونگٹ کاڑھ کر سڑک پر سے گزر جاتی تھیں۔ لیکن مسلمان بیبیوں کا دن دہاڑے باہر نکلنا سخت معیوب خیال کیا جاتا تھا۔

اصغر عباس فوج میں رہ کر بالکل انگریز بنتا جا رہا تھا۔ اب کے سے جب وہ چھٹی پر گھر آیا تو چند شرائط بابا کے سامنے رکھیں: ۔

(الف) وہ خود کنبے میں بیاہ نہ کرے گا

(ب) کشوری جب اس کے ساتھ رہنے کے لیے جبل پور جائے گی تو پردہ نہ کرے گی (ج) اعزاز میاں سے بیاہ کا پروگرام منسوخ

(د) کشوری کو ایف اے کے لیے مسلم گرلز کالج لکھنؤ بھیجا جائے گا۔

بڑے بحث مباحثے کے بعد بابا اور بڑی بھاوج دونوں نے ان شرائط کے بیش تر کے نکات منظور کر لیے۔

ہندوستان کے مسلمان متوسط اور اوپری متوسط طبقے کا کوئی ہی خاندان ایسا ہو گا جس کی لڑکیوں نے کبھی نہ کبھی علیگڑھ گرلز کالج یا لکھنؤ مسلم اسکول،  میں نہ پڑھا ہو۔ بیش تر لڑکیوں کو اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ انہوں نے چاہے چند روز ہی کے لیے کیوں نہیں،  لیکن پڑھا مسلم اسکول میں ہے۔

بعینہٖ یہی احوال مہیلا ودیالہ لکھنؤ کا تھا۔ صوبے کے سارے ٹھوس ہندو متوسط طبقے کی سپتریاں اس وِش ودیالے کی ودیارتھی رہ چکی تھیں۔ سرکاری اور عیسائی اداروں کا ماحول مختلف تھا۔ وہاں انگریز کے اقبال کی وجہ سے شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔

اب کی جولائی میں کھیم اور کشوری اکٹھی ہی جون پور سے ٹرین میں سوار ہوئیں۔ اور لکھنؤ آن پہنچیں۔ چار باغ پر ماما کھیم کو اتروانے کے لیے آ گئے تھے۔ اور کشوری کو پہچانے کے لیے تو ماجد بھائی بے چارے مردانہ ڈبے میں موجود ہی تھے۔ اسٹیشن کی برساتی میں پہنچ کر کھیم اور کشوری نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور روئیں اور کبھی کبھی ملنے کی کوشش کرنے کا وعدہ کیا اور تانگوں میں بیٹھ کر اپنی اپنی راہ چلی گئیں۔

 

(۶)

 

’’کھیم وتی رائے زادہ سے میری ملاقات اتنے برسوں بعد منسیٹ ہال کی سیڑھیوں پر ہوئی وہ چودھری سلطان کے لیکچر کے لیے اوپر جا رہی تھی۔ میں احتشام صاحب کی کلاس کے بعد پرشین تھیٹر سے اتر رہی تھی‘‘ کشوری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا اور پھر وہ خاموش ہو گئی اور کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔ جہاں برف کے گالے چپکے چپکے نیچے گر رہے تھے

’’یا تم نے کبھی سوچا ہے‘‘ اس نے ساتھیوں کو مخاطب کیا کہ ہم جو چھ سو سال تک ایک دیوار کے سائے میں رہے۔ ایک مٹی سے ہماری اور اس کی تخلیق ہوئی تھی۔ اس کے اور ہمارے گھر والوں کو اپنی مشترکہ کلچر پر ناز تھا۔ اور ایک قسم کا احساس بر تری چار سال بعد جب اس وقت کھیم نے مجھے دیکھا تو ایک لحظے کے لیے ذرا جھجکی پھر ’’ہلو کشوری‘‘ کہتی ہوئی آگے چلی گئی۔

’’اور میں نے سوچا ٹھیک ہے۔ میں نے اور اس نے اسی دن کے لیے ساری تیاریاں کی تھیں۔ وہ مہیلا دویالہ کی لڑکی ہے۔ کانگریس میں یقین رکھتی ہے۔ میرے بابا بڑے نیشنلسٹ بنتے تھے۔ لیکن میں کٹر مسلم لیگی ہوں۔ یوم پاکستان کے جلسے کے موقع پر کھیم کے ساتھیوں نے ہمارے اوپر کنکریاں پھینکی تھیں۔ اکھنڈ ہندوستان ویک کے دنوں میں ہمارے رفقاء نے ان کے پنڈال پر پکٹنگ کی تھی۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ یہی ٹھیک ہے اور بھائی زندگی نہ ہوئی شانتا رام کا فلم ہو گئی۔ بنو اچھے پڑوسی کرو بھائی چارہ نہیں کرتے بھائی چارہ میاں زبردستی ہے تمہاری۔ یہی ایک مثال میری اور کھیم کی دیکھ لو جنم جنم کے پڑوسی تھے اور کیا دوستی اور یگانگت کا عالم تھا۔ پر تھے ہم ان کے لیے ملچھ۔ ان کے چوکے کے قریب نہ پھٹک سکتے تھے۔ اور ہماری اماں کا یہ سلسلہ تھا کہ اگر ہندو کی دوکان سے کوئی چیز آئی تو اسے فوراً حوض میں غوطہ دے کر پاک کیا جاتا تھا۔ ایک قوم اس طرح بنتی ہے؟ تقسیم کا مطالبہ ہند کی ساری تاریخ کا نہایت فطری اور نہایت منطقی نتیجہ ہے‘‘ کشوری چپ ہو گئی۔

آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ کسی نے آہستہ سے ایک انگارہ الاؤ میں سے نکال کر باہر گرا دیا۔ جہاں وہ چند لمحوں تک سلگتا رہا۔ اور پھر بجھ گیا۔ نیچے سڑک پر کوئی بھکاری اکارڈین پر ’’موجوں کے اوپر‘‘ بکا والز بجاتا ہوا گزر رہا تھا۔

’’ج میں کنول کماری کے ہاں چائے پر گئی تھی۔‘‘ ارملا نے کہا ’’وہاں بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ان سب سے میں نے کہا کہ ہمارے ’’مجلس میلے‘‘ کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں‘‘

’’کنول کماری؟‘‘- کشوری نے کچھ یاد کرتے ہوئے سوال کیا۔

’’ہاں۔ ہمارے نئے فرسٹ سیکرٹری کی بیوی اور میں نے سوچا کہ قابل عورت ہے۔ اس سے میلے کے موقع پر ہندوستانی آرٹ پر لگے ہاتھوں ایک تقریر بھی کروا لیں۔ پام دت وغیرہ سبھی ہوں گے۔ بے چاری نے وعدہ کر لیا‘‘

سوریہ است ہو گیا۔ سوریہ است ہو گیا۔ دوسرے کمرے میں میلے کے پروگرام کی ریہرسل کرتے ہوئے چند لڑکیوں نے ہرپندر ناتھ چٹوپادھیا کا کورس یک لخت زور زور سے الاپنا شروع کر دیا۔

’’یں نے بہت کوشش کر کے سوچا کہ میں جب یونی ورسٹی میں اور لوگوں سے ملتی ہوں اٹلی کے لوگ ہیں،  برازیل کے عراق اور مصر کے ہیں،  ان سے اس طرح کیوں نہیں باتیں کرنا چاہتی۔ پھر ہمارے پروفیسر ہیں۔ ہم عصر فنون کی انجمن کے اراکین ہیں۔ انہوں نے ہمارے مسائل پر بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ ہمارا بڑا دقیق مطالعہ کیا ہے،  اخباروں میں وہ ہمارے متعلق اڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ دار العوام میں اور ریڈیو پر بحثیں کرتے ہیں‘‘ کشوری نے کہا۔ ’’اروں اور آگ لگی دل میں بھوک پیاس جگی پگ پگ ہم گاتے -ہم گاتے ہم گاتے -‘‘ لڑکیاں چلا رہی تھیں

’’میرا جی چاہتا ہے۔ میں تم سے یہ سب باتیں کہوں۔ تم کو یہ سارا قصہ یہ سارا گورکھ دھندا سمجھاؤں -‘‘ اس نے ساتھیوں کو اداس آواز میں مخاطب کیا- تاکہ تم لوگ مجھے بھی ایک مضحکہ خیز کردار نہ سمجھو اور اس سارے پس منظر اس سارے پس منظر اس ساری کہانی کو اس فاصلے سے دیکھ کر اپنی نئی راہ کا تعین کرو۔

سڑک پر کیرل گانے والوں کی ٹولیاں گزرنی شروع ہو گئی تھیں۔

’’کرسمس کا زمانہ بھی اختتام پر ہے۔‘‘ روز ماری نے اظہار خیال کیا۔

ہاں۔ جون پور میں،  میرے محلے میں،  شاید تین چار بچے کھچے سوگوار چہلم کے تعزیوں کے سائے میں بیٹھے اپنی قسمت کو روتے ہوں گے۔ نہیں شاید محرم کا زمانہ گذر گیا ہو گا۔ پرانے کیلنڈر بے کار ہو چکے ہیں۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کشوری نے دل میں کہا۔

’’برف باری شدید ہو گئی ہے۔ پھر بہار آئے گی۔ کیا سارے زمانے سارے موسم اتنے بے مصرف ہیں؟‘‘ روز ماری نے اپنے آپ سے بات کی

’’نہیں‘‘ کشوری نے کہا۔

پگ پگ ہم گاتے چلیں لڑکیوں کی آواز نے تکرار کی

 

(۷)

 

چار باغ اسٹیشن پر کھیم کو آخری بار خدا حافظ کہنے کے بعد اب کشوری کو دم لینے کی فرصت بھی کہاں تھی۔ پہلے مسلم اسکول۔ پھر چاند باغ پھر کیننگ کالج۔ زمانہ کہاں سے نکل گیا تھا۔ ہر ہنگامے میں کشوری موجود۔ مباحثے ہو رہے ہیں بیڈمنٹن ٹورنامنٹ ہیں۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی مصروفیات ہیں۔ ادھر ہندو اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھا۔ مہا سبھائی طالبات کے جلسے جلوس تھے۔ جن میں کبھی کبھی کھیم رائے زادہ دور سے نظر آ جاتی۔ طالب علموں کی دنیا اچھی خاصی سیاسی اکھاڑہ بن گئی تھی۔ گھر پر واپس جاؤ تو وہی سیاست۔ کل کی تشویش،  مستقبل کی فکر۔ ملک کی تقسیم ہو گی۔ نہیں ہو گی۔ ہو گی۔

نہیں ہو گی۔ یونی ورسٹی میں لیکچرز کے دوران میں پروفیسروں سے جھڑپ ہو جاتی۔ سطحی طور پر ابھی دوستی اور بھائی چارہ قائم تھا۔ لیکن آخری ’’شو ڈاؤن‘‘ کے لیے اسٹیج بالکل تیار تھا۔

ڈاکٹر آفتاب رائے ابھی تک ہسٹری ڈپارٹمنٹ میں موجود تھے۔ ایک روز ایک لیکچر کے دوران میں ان سے بھی کچھ تکرار ہو گئی۔ ایک ہندو طالب علم نے کہا۔ ’’آزادی کا مطلب ڈاکٹر صاحب مکمل سوراج ہے۔ ہند کی دھرتی کو پھر سے شدھ کرنا ہے۔ ساری ان قوموں کے اثر سے آزاد ہونا ہے جنہوں نے باہر سے آ کر حملہ کیا۔ یہی تلک جی نے کہا تھا جی ہاں‘‘۔

اس پیریڈ میں شیوا جی کے اوپر گفتگو ہو رہی تھی۔ لہٰذا خانہ جنگی ناگزیر تھی۔ شام تک ساری یونی ورسٹی میں خبر پھیل گئی کہ ڈاکٹر آفتاب رائے کی کلاس میں ہندو مسلم فساد ہو گیا۔

اگلی صبح کشوری پورا جلوس بنا کر ڈاکٹر آفتاب رائے کے دفتر میں پہنچی۔

’’ڈاکٹر صاحب‘‘ اس نے نہایت رعب داب سے کہنا شروع کیا

‘‘کل جس طرح آپ نے حضرت اورنگ زیب علیہ الرحمۃ کے متعلق اظہار خیال کی۔ اس کے لئے معافی مانگیے۔ ورنہ ہم اسٹرائیک کر دیں گے۔ بلکہ کر دیا ہے اسٹرائیک ہم نے -آپ نے ہماری سخت دل آزاری کی ہے۔‘‘

آفتاب رائے اچنبھے سے کشوری کو دیکھتے رہے اری تو تو ڈپٹی جعفر عباس کی بیٹا ہے نا۔ اری باؤلی سی وہ بے ساختہ کہنا چاہتے تھے۔ لیکن کشوری کے تیور دیکھ کر رک گئے۔ اور پہلو بدل کر سنجیدگی سے کھنکارے ’’بات یہ ہے مس عباس‘‘ انہوں نے کہنا شروع کیا۔ سیاست اور حصول تعلیم کے درمیان جو۔۔۔۔‘‘

’’اجی ڈاکٹر صاحب بس اب رہنے دیجئے‘‘ کسی نے آگے بڑھ کر کہا ’’ہم خوب اس ڈھونگ کو جانتے ہیں۔ معافی مانگئے قبلہ‘‘

’’ڈاکٹر صاحب میں نے کہا بنارس کیوں نہیں واپس چلے جاتے؟‘‘ دوسری آواز آئی۔

’’دیکھو میاں صاحبزادے‘‘ آفتاب رائے نے رسان سے کہا ’’معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاریخ کے متعلق میرے چند نظریئے اور اصول ہیں۔ میں اور تمہاری دل آزاری کروں گا؟ کیا باتیں کرتے ہو؟‘‘

’’ہم کچھ نہیں جانتے‘‘ انہوں نے شور مچایا/ معافی مانگئے۔ ورنہ ہم کل اورنگ زیب ڈے منائیں گے۔‘‘

’’ضرور مناؤ‘‘ آفتاب رائے نے یک لخت بے حد اکتا کر کہا۔

’’اور مکمل اسٹرائک کریں گے‘‘‘‘

’’ضرور کرو خدا مبارک کرے‘‘ انہوں نے آہستہ سے کہا۔ اور چق اٹھا کر اندر چلے گئے۔

’’ٹر مہا سبھائی نکلا یہ بھی‘‘ لڑکوں اور لڑکیوں نے آپس میں کہا اور برساتی سے باہر نکل آئے۔

وہ رات آفتاب رائے نے شدید بے چینی سے کاٹی۔ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ مسلمان طالب علموں کو اچھے نمبر نہ ملتے۔ ہندوؤں کو یوں ہی پاس کر دیا جاتا۔ ہوسٹلوں میں ہندو مسلمان اکٹھے رہتے تھے۔ لیکن جس ہوسٹل میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اس پر سبز پرچم لہرانے لگا تھا۔ اس کے جواب میں عین مغرب کی نماز کے وقت ہندو اکثریت والے ہوسٹلوں میں لاؤڈ اسپیکر نصب کر کے گراموفون بجایا جاتا۔

چند روز بعد آفتاب رائے کے سر میں جانے کیا سمائی کہ استعفیٰ دے دیا اور غائب ہو گئے۔ سارے میں ڈھنڈ یا مچ گئی۔ مگر ڈاکٹر آفتاب رائے نہ اب ملتے ہیں نہ تب۔ لوگوں نے کہا ایک چول ہمیشہ سے ڈھیلی تھی۔ سنیاس لے لیا ہو گا۔ پھر تقسیم کا زمانہ آیا۔ اب کسے ہوش تھا کہ آفتاب رائے کی فکر کرتا۔ اپنی جانوں کے لالے پڑے تھے۔

’’ملک آزاد ہو گیا۔ کھیم وتی کی شادی ہو گئی۔ کشوری کے گھر والے آدھے پاکستان چلے گئے۔ اس کے بابا اب بہت بوڑھے ہو گئے تھے۔ آنکھوں سے کم سجھائی دیتا تھا۔ ایک ٹانگ پر فالج کا اثر تھا۔ دن بھر وہ جون پور میں اپنے گھر کی بیٹھک میں پانگڑی پر لیٹے ناد علی کا ورد کیا کرتے۔ اور پولس ہر سمے ان کو تنگ کرتی۔ آپ کے بیٹے کا پاکستان سے آپ کے پاس کب خط آیا تھا۔ آپ نے کراچی میں کتنی جائداد خرید لی ہے۔ آپ خود کب جا رہے ہیں۔ اصغر عباس ان کا اکلوتا لڑکا تھا اور اب پاکستانی فوج میں میجر تھا۔ نہ وہ ان کو خط لکھ سکتا تھا اور اگر مر جائیں تو مرتے وقت وہ اس کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ وہ تو کشوری کے لیے مصر تھا کہ وہ اس کے پاس راول پنڈی چلی آئے۔ لیکن ڈپٹی صاحب ہی نہ راضی ہوئے کہ انت سمے بیٹا کو بھی نظروں سے اوجھل کر دیں۔ وہی کشوری تھی۔ جس کی ایسے بسم اللہ کے گنبد میں پرورش ہوئی تھی اور اب وقت نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ وہ جون پور کے گھرکی چار دیواری سے باہر مدتوں سے لکھنؤ کے کیلاش ہوسٹل میں رہ رہی تھی۔ ایم۔ اے میں پڑھتی تھی اوراس فکر میں تھی کہ بس ایم۔ اے کرتے ہی پاکستان پہنچ جائے گی۔ اور ملازمت کرے گی اور ارے صاحب آزاد قوم کی لڑکیوں کے لیے ہزاروں با عزت راہیں کھلی ہیں۔ کالج میں پڑھائیے،  نیشنل گارڈ میں بھرتی ہے،  جی ہاں۔ وہ دن گن رہی تھی کہ کب دو سال ختم ہوں اور کب وہ پاکستان اڑنچھو ہو لیکن پھر بابا کی محبت آڑے آ جاتی۔ دکھیا اتنے بوڑھے ہو گئے ہیں۔ آنکھوں سے سجھائی بھی نہیں دیتا۔ کہتے ہیں بیٹا کچھ دن اور باپ کا ساتھ دے دو۔ جب میں مر جاؤں تو جہاں چاہنا جانا،  چاہے پاکستان چاہے انگلینڈ اور امریکہ۔ میں اب تمہیں کسی بات سے روکتا تھوڑا ہی ہوں۔ بیٹا تم بھی چلی گئیں تو میں کیا کروں گا۔ محرم میں میرے لیے۔ سوز خوانی کون کرے گا۔ میرے لیے لو کی کا حلوہ کون بنائے گا۔ پوت پہلے ہی مجھے چھوڑ کر چل دیا۔ پھر ان کی آنکھیں بھر آتیں اور وہ اپنی سفید ڈاڑھی کو جلدی جلدی پونچھتے ہوئے یا علی کہہ کر دیوار کی طرف کروٹ کر لیتے۔

بڑی بھاوج ان سے کہتیں دیوانے ہوئے ہو۔ بیٹا کو کب تلک اپنے پاس بٹھلاؤ گے۔ آج نہ گئی کل گئی۔ جانا تو اسے ہے ہی ایک دن۔ یہاں اس کے لیے اب کون سے رشتے رکھے ہیں۔ سارے اچھے اچھے لڑکے ایکو ایک پاکستان چلے گئے اور وہاں ان کی شادیاں بھی دھبا دھب ہو رہی ہیں۔ یہ اصغرعباس کے پاس پہنچ جاتی تو وہ اسے بھی کوئی ڈھنگ کا لڑکا دیکھ کر ٹھکانے لگا دیتا بڑی بھاوج کی اس شدید حقیقت پسندی سے کشوری کو اور زیادہ کوفت ہوتی۔ اور یہ ایک واقعہ تھا کہ اس نے پاکستان کے مسئلے پر اس زاویے سے کبھی غور ہی نہ کیا تھا۔ ویسے وہ سوچتی کہ بابا ہندوستان میں ایسا کیا کھونٹا گاڑ کر بیٹھے ہیں۔ اچھے خاصے ہوائی جہاز سے چلے چلتے مگر نہیں۔ اور یہ جو بابا کی ساری قوم پرستی تھی۔ سارا جون پور عمر بھر سے واقف ہے کہ بابا کتنے بڑے نیشنلسٹ تھے۔ تب بھی پولس پیچھا نہیں چھوڑتی۔ سارے حکام اور پولس والے جن کے سنگ جنم بھر کا ساتھ کا اٹھنا بیٹھنا تھا،  وہی اب جان کے لاگو ہیں۔ کل ہی عجائب سنگھ چوہان نے جو عمر بھر سے روزانہ بابا کے پاس بیٹھ کر شعر و شاعری کرتا تھا دوبارہ دوڑ بھجوا کر خانہ تلاشی لی۔ گویا ہم نے بندوقوں اور ہتھیاروں کا پورا میگزین دفن کر رکھا ہے۔ پھر اسے بابا پر ترس آ جاتا،  بے چارے بابا۔

اب ڈپٹی صاحب کی مالی حالت بھی ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ اصغر عباس پاکستان سے روپہ نہ بھیج سکتا تھا۔ جو تھوڑی بہت زمینیں تھیں ان پر ہندو کاشت کار قابض ہو گئے تھے اور دیوانی کی عدالت میں ڈپٹی صاحب کی فریاد کی شنوائی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چھوٹی اماں مرحومہ کی مقدمہ بازیوں کے بعد جو کچھ زیور بچ رہا تھا وہ بڑی بھاوج نے سمیٹ کر بہو کے حوالے کر دیا تھا جو وہ پاکستان لے گئی تھی۔ باقی روپیہ ڈپٹی صاحب کی پنشن کا کشوری کی تعلیم پر خرچ ہو رہا تھا۔ ان کے علاج کے لیے کہاں سے آتا۔ اور فالج تو بوا ایسا روگ ہے کہ جان لے کر پیچھا چھوڑتا ہے۔ چنانچہ نوبت یہ پہنچی کہ چپکے چپکے بڑی بھاوج نے چھمو بیگم کے ذریعے چند ایک گہنے جو بچ رہے تھے فروخت کروا دیئے۔ ویسے اس میں ایسی شرم کی تو کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ جو مثل ہے کہ ’مرگ انبوہ جشنے دارد،  ان گنت مسلمان گھرانے ایسے تھے جو اپنے اپنے گہنے اور چاندی کے برتن بیچ بیچ کر گزارہ کر رہے تھے،  لیکن بڑی بھاوج ناک والی آدمی تھیں۔ اور ابھی ان کے بھلے وقتوں کو گزرے عرصہ ہی کتنا ہوا تھا۔ کشوری کو جب یہ معلوم ہوا تو اس کی تو سٹی گم ہو گئی۔ اس نے پاکستان جانے کا خیال بالکل ترک کر دیا۔ اور سر گرمی سے ملازمت کی تلاش میں جٹ گئی۔

لیکن ایک جگہ تو اس سے صاف صاف کہہ دیا گیا صاحب بات یہ ہے کہ جگہ تو خالی ہے لیکن ہم شرنارتھی لڑکیوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کسی خانگی مجبوری کی وجہ سے ہندوستان میں رکی ہوئی ہیں۔ پہلا موقع ملتے ہی آپ بھی پاکستان چلی جائیے گا۔

اور وہ گھوم پھر کر جون پور لوٹ آتی۔ بڑی بھاوج نے اس سے کہا-وہ تمہاری گوئیاں کھیم کے ماموں آفتاب بہادر تھے۔ ان کو ہی جا کر پکڑو۔ وہ تو بڑے با اثر آدمی ہیں۔ اور بڑے شریف،  ضرور مدد کریں گے۔ اور کشوری کو خیال آیا۔ کس طرح وہ جلوس بنا کر ان کے پاس پہنچی تھی۔ اور ان کو سخت سست سنائی تھیں۔ اس کے اگلے ہفتے ہی وہ غائب ہو گئے تھے۔

آفتاب رائے اب پتہ نہیں وہ کہاں ہوں گے۔ اڑتی اڑتی سنی تھی کہ بمبئی میں حکومت کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں ان کو احمد آباد جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ جیل سے چھوٹے تو کچھ اور گڑبڑ ہوئی اور اب شاید وہ روس میں ہیں اور سمرقند ریڈیو سے اردو میں خبریں سناتے ہیں۔ دوسری روایت تھی کہ نہیں صاحب ڈاکٹر آفتاب رائے تو آج کل پنڈت نہرو کی بالکل مونچھ کا بال بنے ہوئے ہیں۔ اور ان کوری پبلک لمپی ڈورا میں ہند کا سفیر بنا کر بھیجا جا رہا ہے۔ بہر حال۔ ڈاکٹر صاحب تو عرصے سے گویا مستقل ’’زیر زمین‘‘ تھے۔

بے چارے آفتاب رائے۔

آج چاند رات تھی۔ محلے میں نقارہ رکھا  جا چکا تھا۔ مجلسیں اب بھی ہوتیں۔ لیکن وہ چہل پہل،  رونق،  اور بے فکری تو کب کی خواب و خیال ہو چکی تھی۔ ڈیوڑھی میں ڈولیاں اترنی شروع ہوئیں اور بیبیاں آ آ کر امام باڑے کے دالان میں بیٹھنے لگیں۔ کشوری بے دلی سے دہلیز پر اپنی پرانی جگہ پر بیٹھی رہی۔ دالان کی چاندنی جس پر تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی اب چھدری چھدری نظر آتی تھی۔ سارے خاندانوں میں دو دو تین تین افراد تو ضرور ہی ہجرت کر گئے تھے۔ بڑی بھاوج بہت مشکل سے پاؤں گھسیٹتی ادھر اُدھر چل پھر رہی تھیں۔ اب وہ اللے تللے کہاں۔ ساری مہریاں اور کہارنیں اور پاسنیں ایک ایک کر کے چھوڑ کر چل دیں۔ بس نگوڑی ممولہ رہ گئی تھی۔ سواس کی آواز کو بھی پالہ مار گیا تھا لیکن چھمو بیگم کو آتا دیکھ کر وہ پھر للکاری۔ آ گئیں چھمو بیگم آؤ جم جم آؤ۔

چھمو بیگم چپ چاپ آ کر منبر کے پاس کھڑی ہو گئیں زیارت پڑھ کے تعزیوں کو جھک کر سلام کرنے اور کنپٹیوں پر انگلیاں چٹخا کر جناب علی اصغر کے سبز جارجٹ کے گہوارے کی بلائیں لینے کے بعد انہوں نے علموں کو مخاطب کر کے آہستہ سے کہا۔ ’’مولا یہ میرا آخری محرم ہے۔ ارے اب تمہاری مجلسیں یہاں کیسے کروں گی‘‘- اور یہ کہہ کر انہوں نے زور شور سے رونا شروع کر دیا۔

بوا مدن اپنی پرانی ’’دشمناگی‘‘ فراموش کر کے سرک ان کے قریب آ بیٹھیں اور بولیں ’’لو بوا غم حسینؓ کو یاد کرو۔ اپنا غم ہلکا ہو جائے گا مولا تو ہر جگہ ہیں کیا پاکستان میں نہیں ہیں‘‘

’’ہاں ہاں‘‘ باقی بیبیوں نے آنسو خشک کرتے ہوئے تائید کی ’’مولا کیا پاکستان میں نہیں تم وہاں مولا کی مجلسیں قائم کرنا۔‘‘

’’لو بوا ہم بھی چل دیئے پاکستان‘‘ جب محفل کی رقت ذرا کم ہوئی اور چھمو بیگم چاند رات کا بیان ختم کر چکیں تو بوا مدن نے اپنا اناؤنسمنٹ بھی کر ڈالا۔

’’سچ کہو بوا مدن‘‘ بڑی بھاوج نے گوٹا پھانکتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں بیوی۔ چل دیئے ہم بھی‘‘۔ بوا مدن نے اعتراف کیا۔

’’کیسے چل دیں؟‘‘ بڑی بھاوج کو ایک طرح سے تو رشک ہی آیا۔ اچھے خاصے لوگ نکلتے چلے جا رہے ہیں۔ سب فضیحتوں سے الگ۔ سارے دلدر دور کٹ جاویں گے وہاں پہنچ کر

’’بس بڑی بھاوج لڑکا نہیں مانتا۔ وہاں سے ہر بار خط میں لکھتا ہے کہ بس اماں آ جاؤ۔ کوئی نگوڑی جگہ سکھر ہے۔ وہاں اس نے راشن کی ڈپو کھول لی ہے۔

’’اچھا؟ شکر ہے۔ مولا سب کی بگڑی بنائیں‘‘ بڑی بھاوج نے کہا۔

’’عاشور کی شب لیلیٰ بوا مدن نے جو حسب معمول عینک گھر بھول آئی تھیں دوبارہ غلط مرثیہ شروع کیا۔ لیکن سب پر ایسی اداسی اور اکتاہٹ طاری تھی کہ کسی نے ان کی تصحیح کرنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ بگن نے آواز ملائی چراغوں کی روشنی دالان میں مدھم ساز روا جالا بکھیرتی رہی۔ آنگن کا گیس کا ہنڈہ پیلا پڑتا جا رہا تھا۔

اس تاریکی میں کشوری سیاہ دوپٹے سے سر ڈھانپے اپنی جگہ پر اکڑوں بیٹھی سامنے رات کے آسمان کو دیکھتی رہی۔

 

(۸)

 

کنول کماری جین نے مہمانوں کے جانے کے بعد نشست کے کمرے میں واپس آ کر دریچوں کے پردے گرائے اور چائے کا سامان میزوں پر سے سمیٹنے لگی۔ مدراسی آیا ایک ہی تھی جسے وہ ہم راہ لیتی آئی تھی اور پردیس میں ملازموں کے فقدان پر اس نے ملٹری اڈوئزر بریگیڈیر کھنہ کی بیوی سے بڑا رقت انگیز تبادلہ خیالات کیا تھا۔ گھر کی صفائی اور بچے کی دیکھ بھال کے بعد جو اسے وقت ملتا اس میں وہ رائل اکیڈمی آف ڈریمیسٹک آرٹ جا کر یو گرافی سیکھتی تھی۔ سرلارنس اور لیڈی اولیویز،  اینتھنی اپسکویتھ کرسٹفر فرائی،  ان سب سے اس کی بڑی گہری دوستی تھی۔ یہ سب مل کر گھنٹوں فن اداکاری،  جدید آرٹ اور ہندوستانی بیلے پر گفتگو کرتے۔ جین کے پاس ان سب بکھیڑوں کا وقت نہ تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے رات کے تو وہ دفتر سے نپٹ کر انڈیا ہاؤس سے لوٹتا اور وہ تو صاف بات کہتا تھا کہ بھائی میں انٹلکچوئیل ونٹلکچوئیل نہیں ہوں۔ سیدھا سیدھا آدمی ہوں اور جس ڈھرے پرسن پنتیس سے چل رہا ہوں وہی میرے لیے ٹھیک ہے۔ انگریز کے زمانے میں وہ ملک کے طبقاتی قطب مینار کی سب سے اونچی سیڑھی پر پہنچ چکا تھا۔ اور اب تو وہ اتنا اونچا تھا کہ بالکل بادلوں پر براجمان تھا۔ انگریز کے زمانے میں ڈریس سوٹ پہنتا۔ اب سفید چوڑی دار پائجامے اور سیاہ شیروانی میں ملبوس سفارتی ضیافتوں میں کیا ہلکی پھلکی نپی تلی باتیں کرتا۔ خود کمل کیا کم معرکے کی ’’ڈپلومیٹک وائف‘‘ تھی۔ جہاں جاتی محفل جگ مگا اٹھتی۔ واہ۔ واہ مثلاً آج ہی کی پارٹی میں اس نے کوریا کی کرشنا مینن والی تجویز کے سلسلے میں ’’نیو اسٹیٹس میں‘‘ اینڈ نیشن کے ایڈیٹر کنگز لے مارٹن اور جدید شاعر لوئی مک نیس دونوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ سب کو قائل ہونا پڑا۔ چاند باغ کے اچھے پرانے سنہرے دنوں میں تو خیر وہ یوں ہی جھپسٹ میں انٹلکچوئیل بن گئی تھی کہ یہ یونی ورسٹی کی زندگی کا ایک لازمی جزو تھا۔ پر یہ تو ان دنوں اس کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روزہ وہ ان ساری جید بین الاقوامی گلیمرس ہستیوں سے یوں بھائی چارے کے ساتھ ملا کرے گی جیسے وہ سب گاجر مولی ہیں۔

’’سوریہ است ہو گیا سوریہ است ہو گیا‘‘ ارملا گنگناتی ہوئی اندر آئی۔

’’کنول دیدی جاتے جاتے مجھے خیال آیا کہ ایک بار آپ کو پھر یاد دلا دوں کہ آپ کو مجلس میلے میں آنا ہے۔

’’ہاں ہاں بھئی‘‘ کنول نے جواب دیا ’’اور وہ میری کتاب تو دیتی جاؤ‘‘

’’ارے ہائے‘‘ ارملا نے رک کر کہا ’’وہ تو ڈاکٹر آفتاب رائے نے مجھ سے لے لی۔ وہ مجھے انڈیا آفس لائبریری سے نکلتے ہوئے مل گئے۔ چھین کر لے گئے، کہنے لگے کل دے دیں گے‘‘

ڈاکٹر آفتاب رائے؟ کنول نے دہرایا۔

’’ہاں کنول دیدی‘‘ ارملا نے اسی طرح لاپروائی سے بات جاری رکھی۔ ’’وہ تو دن بھر یوں ہی لائبریریوں میں گھسے رہتے ہیں۔ آج کل ایک نئی کتاب لکھ رہے ہیں۔ آج مہینوں کے بعد اتفاقاً نظر آ گئے۔ ان کا کوئی بھروسہ تھوڑا ہی ہے۔ لیکن کل وہ براڈ کاسٹنگ ہاؤس آ رہے ہیں۔ وہاں کتاب مجھے لوٹا دیں گے۔ اچھا گڈ نائٹ کنول دیدی‘‘

’’گڈ نائٹ ارملا‘‘

’’ارے ہاں‘‘۔ اس نے جاتے جاتے رک کر پھر کہا ’’کل آپ رائل کمانڈ پر فورمنس میں جا رہی ہیں؟ آپ کو تو سرر الف رچرڈسن نے خود ہی بلایا ہو گا۔‘‘

’’ارے نہیں بھئی‘‘ کنول نے پیشانی پر سے بال ہٹا کر تھکی تھکی ہوئی آواز میں کہا (’’یہ بھی اس کا ایک پوز ہے‘‘ ایک دل جلی مسز اچاریہ نے جو سکنڈ سکریٹری کی بیوی تھی،  مارے حسد کے اپنی ایک سہیلی سے کہا تھا ’’جانتی ہے کہ بکھرے ہوئے بال اس کے اوپر زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ چڑیل کہیں کی‘‘)

’’نہیں بھئی ارملا۔ مجھے یہ پارٹیوں اور سفارتی مصروفیتوں کا سلسلہ بعض دفعہ بالکل بور کر دیتا ہے۔ اس سے کہیں پناہ نہیں‘‘۔

’’اچھا گڈ نائٹ‘‘

’’اچھی طرح سوؤ‘‘ کنول نے کہا۔ ارملا،  ہریندر ناتھ چٹوپادھیا کا کورس گنگناتی ہوئی نچلی منزل میں اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

انڈیا آفس لائبریری سے نکلتے ہوئے مل گئے۔ ڈاکٹر آفتاب رائے مل گئے

اجی ان کا کوئی بھروسہ تھوڑا ہی ہے۔ چھین کر لے گئے کہنے لگے کل دے دیں گے وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ وسنتی اس نے چلا کر آواز دی۔ ’’کھانا گرم پر لگا دو‘‘ اس نے ٹیلی ویژن کھولا۔ بکواس ہے۔ بند کر دیا۔ پھر اس نے ریڈیو لگایا۔ بکواس تھا۔ اسے بھی بند کر دیا۔ کیا پتہ اس سمے لکھنؤ ریڈیو پر ارچنا بنرجی گاتی ہو۔ پو ہوڑی جھور نا۔ نکر مکر بو جوئے ہو اور چاند باغ کی خاموش سڑکوں پر سے لڑکیاں لینٹرن سروس کے بعد لوٹتی ہوں گی۔

میں نے کیا کیا تھا؟ اس نے سوال کیا۔ کچھ نہیں۔ میں اب دس سال سے کمل کماری جین ہوں۔ یہ تو کچھ بات نہ بنی۔ بات کس طرح بنتی ہے۔ کیوں نہیں بنتی سال گزرتے جا رہے ہیں۔ میں کمل کماری جس نے یہ سب دیکھا۔ ایک روز یوں ہی ختم ہو جاؤں گی اور تب بہت اچھا ہو گا۔

ایسا نہ ہونا چاہئے تھا۔ پر ہو گیا۔

کنول ڈارلنگ ثروت نے انگلی اٹھا کر سخت صوفیانہ انداز میں اسے کہا تھا۔ جن ڈھونڈھا تن پائیاں گہرے پانی پیٹھ

میں برہن ڈوبت ڈری رہی کنارے بیٹھ؟ کنول نے سوچا تھا کنارا بھی تو نہیں ہے –

پانے کے کیا معنیٰ ہیں؟ کیا ملتا ہے؟

باہر اندھیرا تھا۔ اور سردی۔ اور بے کراں خاموشی۔ میں زندہ ہوں۔

ارے بھئی آفتاب بہادر اس نے غصے سے سر ہلا کر دل میں سوال کیا تم کیوں چلے گئے تھے۔ میں نے تمہارا کچھ بگاڑا تھوڑا ہی تھا۔ تم اپنے آپ میں مگن رہتے میں وہیں کہیں تمہاری زندگی کے تانے بانے میں کسی کونے میں آ کر چپکی بیٹھ جاتی اور بس تمہارے لیے پوریاں بنایا کرتی۔ تم اسی طرح رہتے۔ اس میں تمہاری شکست نہ تھی۔ تمہاری تکمیل تھی میاں آفتاب بہادر؟

نیچے کیرل گانے والے ہیتھ کی اور نکل گئے تھے۔

آفتاب بہادر اب جو میں ہوں۔ اور جو تم ہو کیا یہی بہت ٹھیک ہے؟

بہت زمانہ ہوا اس نے چاند باغ میں ایک لڑکی کو دیکھ کر جو آفتاب رائے کو بہت پہلے سے جانتی تھی،  سوچا تھا کہ جنے آفتاب کی بیوی کیسی ہو گی (ایک بار خود اس کے لیے اس کی دوست ثروت نے ایک بور سے آدمی کی تصویر سامنے لا کر کہا تھا۔ آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ!! اور کمال یہ کہ عین میں اسی طرف کا آدمی جین نکلا) آفتاب کی بیوی۔ یہ فقرہ کتنا عجیب لگتا تھا۔ کوئی ہو گی چڑیل۔ آخر میں یہ سب کر کری کھاتے ہیں۔ ثروت نے اضافہ کیا تھا۔ خوب صورت تو ضرور ہو گی اور ٹینس کھیلتی ہو گی۔ جس کا آفتاب کو اتنا شوق ہے۔ لیکن فراٹے بھرنے اور ہوا میں اڑنے والی لڑکیاں تو وہ سخت ناپسند کرتا تھا۔ جس کو وہ پسند کرے گا۔ وہ تو بہت عمدہ ہو گی،  بس بالکل مجموعہ خوبی۔ چندے آفتاب چندے مہتاب۔ جی ہاں۔ اور مجھ میں کیا برائی تھی؟ اس نے طے کرنا چاہتا کہ آفتاب کا رویہ یہ تھا کہ اس پر کنول کماری پریہ وحی اترنی چاہئے تھی کہ یہ مہا پرش، آسمان پر سے خاص اس کے لئے بھیجا گیا ہے،  آسمان پر سے خاص اس کے لیے بھیجا گیا ہے۔ لیکن یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس کنول کماری سے یا روزانہ آ کر ملے یا کبھی نہ ملے۔ اس سے طبلہ اور جے جے ونتی سنے۔ پوریاں بنوا کر کھائے۔ پھر ایک روز اطمینان سے آگے چلا جائے۔ اور یہ کنول کماری بعد میں بیٹھ کرتا کتی رہے۔ اور کیا وہ اس کے پیچھے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑتی کہ اے میاں آفتاب بہادر ایک بات سنتے جاؤ ان دنوں ثروت نے ایک اور لطیفہ ایجاد کیا۔ چیپل کے بعد ایک روز اس نے ’’گینگ‘‘ کی باقی افراد سے کہا: بھئی نمبر ۲۹۔ اے پی سین روڈ پر آج کل یہ سلسلہ ہے کہ اگر بھائی آفتاب چائے پیتے پیتے رک کے دفعتاً کنولا رانی سے کہتے ہیں بھئی کنول مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے،  تو ہماری کنولا رانی کو فوراً یہ دھیان ہوتا ہے کہ اب شاید یہ پروپوز کرنے والا ہے۔ پر وہ بات محض اتنی ہوتی ہے کہ بھئی ذرا مہی پال کو فون کر دو کہ آم خریدتا لائے یا اسی قسم کی کوئی اور شدید اینٹی کلائمکس۔ ثروت اس قدر کمینی تھی۔ وہ سارے مسخرے پن کے قصے یاد کر کے اب اس نے دل میں ہنسنا چاہا۔ لیکن سردی بڑھتی گئی۔ اور بے کراں تنہائی اور زندگی کے ازلی اور ابدی پچھتاووں کا ویرانہ۔ آفتاب بہادر تم کو پتہ ہے کہ میری کیسی جلا وطنی کی زندگی ہے۔ ذہنی طمانیت اور مکمل مسرت کی دنیا جو ہو سکتی تھی۔ اس سے دیس نکالا جو مجھے ملا ہے اسے بھی اتنا عرصہ ہو گیا کہ اب میں اپنے متعلق کچھ سوچ بھی نہیں سکتی۔ اب میرے سامنے صرف رائل کمانڈ پر فورمنس ہیں اور جین کے صبح کے ناشتے کی دیکھ بھال اور یہ ہر دلعزیزی جو مجھ پر ٹھونس دی گئی ہے لیکن تم بھلا کیا سوچو گے (اس نے کہا تھا ارے تم لوگ اسی کو پسند کرتی ہو جو ایک مخصوص معیار پر پورا اترتا ہے۔ کیا الٹی منطق تھی۔ یعنی چت بھی تمہاری پٹ بھی۔ آخر اس ساری لفاظی،  اس ذہنی اور تصوراتی گورکھ دھندے سے تمہارا مطلب کیا نکلا۔ واہ وا چغد آدمی کہیں کے۔

ثروت نے اس کی شادی کے بعد ایک اور سہیلی کے سامنے نہایت جامع و مانع اختصار کے ساتھ اس طرح تشریح کر دی تھی کہ قصہ کو یوں مختصر کرتی ہوں اے عزیزہ! کنول کی ٹریجڈی یہ ہوئی کہ ساری عمر تو کوئی ان کی سمجھ میں نہ آیا۔ سب میں میں میخ نکالتی رہیں اور مارے بد دماغی کے کسی کو خاطر ہی میں نہ لاویں اور جن بزرگوار کو آپ نے نہایت صدق دل سے پسند فرمایا۔ وہ خود ہی ہری جھنڈی دکھا گئے بس اب کیا ہے پیاری بہن۔ جب آنکھ کھلی تو گاڑی نکل چکی تھی۔ پٹری چمک رہی تھی جی ہاں۔

اری ثروت کروک کہیں کی۔

مگر سوال یہ تھا کہ ہر چیز کے متعلق اس مذاق اور خوش دلی کا رویہ کہاں تک گھسیٹا جا سکتا تھا (لیکن اس کے علاوہ تم اور کر بھی کیا سکتی ہو۔ ثروت نے کہا تھا) زندگی نہ ہوئی اسٹیفن لیکاک کا مسخرہ پن ہو گئی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ تمہارا مذاق کہاں ختم ہوتا ہے اور سنجیدگی کہاں سے شروع ہوئی ہے یا Vice Versa۔

ڈاکٹر صاحب تو دن بھر لائبریریوں میں گھسے رہتے ہیں اور آج کل ایک اور کتاب لکھ رہے ہیں۔ اسے ارملا نے مطلع کیا ہے۔ اب وہ کیا کر رہا ہے۔ ڈاکٹر ڈی پی مکرجی کی طرح مہا گرو بن چکا ہے۔ غالباً اس نے شادی کر لی ہو گی۔ یہاں پہنچ کر اسے عجیب و غریب اور انتہائی شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ (وہ کون ہو گی کیسی ہو گی آفتاب کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی کیسی نظر آتی ہو گی۔ آفتاب اس سے کہاں ملا ہو گا) یا اب تک وہ کنفرمڈ بیچلر بن چکا ہو گا( بہت سے لوگوں کے لیے اس میں بھی سخت گلیمر تھا کیا بات ہے صاحب ان ساری حماقتوں سے علاحدہ اور برگزیدہ اپنی نہایت شخصی دنیا،  اپنے مشغلے،  کتابیں،  موسیقی،  بیتھوون کے کونسرٹ،  چند دل چسپ سے گنے چنے دوست،  اتوار کے روز دن بھر کسی کنٹری کلب کی لاؤنج میں بیٹھے ٹائمز پڑھ رہے ہیں۔ تیسرے پہر کو رائیڈنگ کو چلے گئے۔ اور ٹینس کھیلا۔ ادھر اُدھر خواتین سے بھی مل لیے۔ لیکن لڑکیوں کو ہمیشہ بڑے ترحم کی نگاہوں سے دیکھا گویا۔ بے چاریاں!! اور اپنا بے نیازی اور سرپرستی کا رویہ قائم رکھا (یہ سب ثروت نے ایک دفعہ ارشاد کیا تھا) اچھا بھئی آفتاب بہادر تم کتابیں لکھتے رہو،  میں ان پر تھرڈ پروگرام میں ریویو کروں گی۔ راستہ اسی طرح طے ہوتا رہے گا۔

صبح ہوئی شام ہوئی زندگی تمام ہوئی۔ زندگی تمام ہوئی۔ نچلی منزل میں ارملا ہریندر ناتھ چٹوپادھیا کا وہ کمبخت کورس آہستہ آہستہ الاپے جا رہی تھی۔

وہ دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔ کہرا اب کم ہو گیا تھا۔ اور آسمان کا رنگ قرمزی تھا جس کے مقابل میں کیتھولک چرچ کے منارے کا سلہٹ اپنی جگہ پر قائم تھا۔

اونی لبادوں میں ملفوف مشرقی یوروپ سے بھاگے ہوئے لوگ،  بھاری بھاری قدم اٹھاتے ہاتھوں میں شمعیں لیے مڈ نائٹ ماس کے لیے گرجا کی سمت بڑھ رہے تھے۔

صبح ہوئی،  شام ہوئی

زندگی تمام ہوئی

زندگی تمام ہوئی

زندگی تمام ہوئی

 

(۹)

 

’’جب مجھے ملازمت نہ ملی تو میں نے سمندر پار کے وظیفوں کے لیے ہاتھ پاؤں مارے۔ برٹش کونسل نے مجھے یہاں آنے کا وظیفہ دے دیا اور جب میں نے روانہ ہونے کی خبر بابا کو سنائی تو وہ بالکل چپ ہو گئے اور اس کے بعد ایک لفظ منہ سے نہ بولے اور ابھی میں راستے ہی میں تھی جب مجھے اطلاع ملی کہ بابا مر گئے‘‘ کشوری نے مدھم آواز میں بات ختم کی اور چمٹے سے آتش دان میں لکڑی کے کندوں کو ٹھیک کرنے میں منہمک ہو گئی۔

’’آج مڈ نائٹ ماس منانے جائیں گے۔‘‘ روز ماری نے اپنے برش اور کینوس سمیٹتے ہوئے کہا۔ چلو ہم برومپٹن اوریٹری چلیں جہاں ایک شام میں نے پیلے بالوں اور اداس چہروں والی ایک ہینگرین پناہ گزیں لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہ سر پر سیاہ اسکارف باندھے تسبیح ہاتھ میں لیے بہت دیر سے ساکت اور منجمد بیٹھی تھی۔ اس کا یہ انداز کتنا قابل رحم تھا۔ میں نے قربان گاہ کے ستونوں کے پیچھے چھپ کر اس کی تصویر بنائی۔ میں نے اس تصویر کا نام ’’آزادی سے فرار‘‘ رکھا تھا۔ لیکن جب اسے نمائش میں رکھا جانے لگا تو ہم عصر فنون کی انجمن نے اس کا نام بدل کے ’’آزادی کا شکرانہ‘‘ کر دیا آج کی رات میں وہاں امید اور نا امیدی کی ان کرب ناک کیفیتوں کے چند اور اسکیچ تیار کروں گی۔

کتنی کیفیتیں ہیں جنہیں الفاظ اور رنگوں کے روپ میں ڈھالا ہی نہیں جا سکتا۔ جن کے اظہار سے ان کی بے وقعتی اور توہین ہوتی ہے۔ کشوری نے سوچا (یہی بات اپنے لیے کتنی بار کمل نے محسوس کی تھی۔ لیکن کوئی کچھ نہ جانتا تھا)

کیسی بے بسی ہے کہ سب اپنے اپنے دماغوں میں محصور رہے جانے پر مجبور ہیں۔

’’تم کو معلوم ہے کہ میں یکلخت اس طرح تم سب سے یہ باتیں کیوں کر رہی ہوں‘‘ کشوری نے کہا۔

’’سنتے ہیں کہ جب مدتوں کے بچھڑے ہوئے دو جنے دوبارہ ملتے ہیں تو ساری پرانی یگانگت یاد آ جاتی ہے۔ پرانے دوستوں سے مل کر سبھی کو خوشی ہوتی ہے‘‘ اس نے بات آہستہ آہستہ جاری رکھی۔ ’’لیکن پرانے ’’دشمن‘‘ سے مل کر مجھے کیسی مسرت ہوئی آج صبح مجھے بالکل اتفاقیہ کھیم وتی پھر سے نظر آ گئی ہے۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ وہ یہاں پر ہے۔ وہ ایک دوکان سے نکل رہی تھی۔ ’’ارے کھیم کھیما‘‘ میں چلا کر اس کی اور دوڑی۔ اس نے مجھے واقعی نہ پہچانا۔ وہ بہت موٹی ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ غالباً اس کا شوہر تھا۔ ’’کھیما رانی تم ہم کانا ہیں چینہیں؟‘‘ میں نے بالکل بے ساختگی سے اپنی زبان میں اس سے کہا جو اس کی اور میری مشترکہ زبان تھی ہلو کشوری اس نے مطلق کسی گرم جوشی کا اظہار نہ کیا۔ نمستے۔ اس کے شوہر نے مسکرا کر سلام کیا۔ ’’یہ میرے پتی ہیں‘‘ کھیم نے اسی سرد مہری کے انداز میں بات کی۔’’نمستے بھائی صاحب‘‘ میں نے بے حد خوش دلی سے کہا۔

’’تم تو پاکستانی ہو۔ تمہیں نمستے نہ کہنا چاہئے‘‘ کھیم نے بڑی طنز کے ساتھ کہا میرے اوپر جانو کسی نے برف ڈال دی۔ میں نے کھسیانی ہنسی ہنس کر دوسری اور دیکھا۔ اس کے شوہر نے جو بہت سمجھ دار معلوم ہوتا تھا۔ فوراً بات سنبھالی اور کہنے لگا ’’اچھا بہن جی اس سمے تو ہم بہت جلدی میں ہیں۔ آپ کسی روز ہمارے یہاں آئیے،  ہم یہیں ساؤتھ کینزنگٹن میں رہتے ہیں اچھا ضرور آؤں گی۔ بائی بائی کھیم‘‘ میں نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا اور آگے چلی گئی۔ میں نے اسے یہ بھی نہ بتانا چاہا کہ میں پاکستانی نہیں ہوں۔ اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔

’’میں اس وقت کوئی رقت انگیز تقریر نہ کروں گی۔ میں یہ نہ کہوں گی کہ رفیقو انسان نے خود کشی کر لی۔ پرانی اقدار تباہ ہو گئیں۔ اپنے پرائے ہو گئے۔ یہ سب پچھلے پانچ سال سے دہراتے دہراتے تم لوگ اکتا نہیں گئے۔ یہ جو کچھ ہوا یہی ہونا تھا اور آپ تھیں کہ ایک نہایت رومینٹک تصور لیے بیٹھی تھیں۔ گویا زندگی نہ ہوئی شانتا رام کا فلم ہو گئی۔ میں نے اور کھیم نے جو کچھ کیا وہ ان سب باتوں کا نہایت منطقی نتیجہ تھا اور باقی تم جو کہنا چاہتی ہو وہ جھک مارتی ہوسمجھیں۔

’’اس انداز سے میں نے اپنے آپ کو سمجھانا چاہا۔ لیکن چلو روز ماری۔ اب ہم نئی تصویریں بنائیں گے‘‘۔ اس نے روز ماری کو مخاطب کیا ’’تم اگر ہمارے اسکیچ تیار کرو تو تمہاری آرٹ کو نسل اور ہم عصر فنون کی انجمن ان کے لیے کون سے عنوان منتخب کرے گی۔‘‘

’’ہم اپنے بدقسمت ملک کی وہ نوجوان نسل ہیں جو یورپ کی جنگ اور اپنے سیاسی انتشار کے زمانے میں پروان چڑھی۔ اپنی خانہ جنگی کے دور نے اس کی ذہنی تربیت کی،  اور اب اس ہول ناک ’’سرد لڑائی‘‘ کے محاذ پراسے اپنے اور دنیا کے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔‘‘

’’ہم لوگ یونی ورسٹی کی اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں۔ تہذیبی میلے اور تہوار منعقد کرنے میں مصروف ہیں۔ ہے مارکیٹؔ کے مخصوص تھیٹروں میں اپنے ملنے کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔ امن کانفرنسوں اور یوتھ فیسٹولز میں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں سے واپس لوٹ کر کیا ہو گا

’’تم نے کبھی خیال کیا ہے کہ میں کہاں جاؤں گی؟ میرا گھر اب کہاں ہے؟ کیا میں اور میری طرح دوسرے ہندوستانی مسلمان ایسے مضحکہ خیز اور قابل رحم کردار بننے کے مستحق تھے؟؟‘‘

وہ خاموش ہو گئی۔ سب لوگ چپ چاپ بیٹھے آگ کے شعلوں کو دیکھتے رہے۔ سڑک کے دوسری طرف ایک مکان میں ’’وائٹ کرسمس‘‘ گائی جا رہی تھی۔

’’شاید میں نے تمہیں بتایا تھا‘‘ ارملا نے نیچی آواز میں کہا کہ آج دفتر سے واپسی میں ڈاکٹر آفتاب رائے مل گئے۔ میں نے ان سے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب میں نے تو سنا تھا کہ آپ ری پبلک آف لمپی ڈورا میں انڈیا کے سفیر ہیں۔ تم نے غلط سنا تھا!! انہوں نے رسان سے مسکرا کر کہا۔ میں نے گھبرا کر ان کو دیکھا۔ تو کیا آپ بھی میں نے سوال کرنا چاہا۔ ہاں میں بھی اتنا کہہ کر وہ جلدی سے خدا حافظ کہتے ہوئے مجمع میں غائب ہو گئے اور دوسرے لمحے اسٹیشن کی مہیب انڈر گراؤنڈ نے ان کو نگل لیا۔ ان کے ہاتھوں میں چند کتابیں تھیں اور وہ کسی سے بات کرنا نہ چاہتے تھے نہ جانے وہ کہاں رہتے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ اتنا عرصہ انہوں نے کیسے گزارا۔ وطن واپس جانے کی اجازت انہیں کب ملے گی کیا ہو گا‘‘

دور گرجاؤں کے گھنٹے بجنے شروع ہو گئے تھے۔ وہ سب باہر سڑک پر آ گئے۔

ہماری غلطیوں کا سایہ ہمارے آگے آگے چلتا ہے۔ اور رات ہمارے تعاقب میں ہے۔ انہوں نے سوچا لیکن ہم رات کی وادی کو تیزی سے عبور کر رہے ہیں۔

ہمارے چاروں طرف یہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کا ہجوم یہ لوگ اپنی قسمتوں کو روتے ہیں۔ لیکن دیکھو۔ یہ راستے۔ یہ جھیلیں۔ یہ باغات۔ ہمارے منتظر ہیں۔ سناٹے میں صرف موت کے قدموں کی چاپ تھی۔ اجنبی موت جو یک لخت ہمارے سامنے آ گئی۔ لیکن ہم اسے چھوڑ کر ہنستے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔ سنو۔ ہمارے پاس یقین ہے اور کامل اعتماد، جسے اس محبت نے تخلیق کیا ہے جو غداری کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ یہ غداری محض یاسمین کے پھولوں کی آرزو ہے۔ وہ گرجا کی سمت بڑھتے رہے۔

سامنے راستے کی نیم تاریکی میں ایک الزبتھن وضع کے دو منزلہ مکان میں دھندلی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ یہ ہندوستانی ہائی کمیشن کے فرسٹ سکریٹری کا مکان تھا۔ اس کے آگے پھر اندھیرا تھا۔ وہ کون دیوانی روح اپنی تنہائی سے گھبرا کر باہر نکل آئی ہے۔ انہوں نے سوال کیا۔ اس سے کہو یہ یہاں کیوں کھڑی ہے۔ ان لیمپوں کے نیچے گھاس کے ان راستوں پر زمین کے ان پھولوں کے درمیان اسے کچھ نہ ملے گا۔ سنسان سیڑھیوں پر یہ کون لوگ نظر آ رہے ہیں۔ ان سے کہو کہ واپس جائیں اور صبح کا انتظار کریں۔

ہمارے اور ان کے خیالوں کے بھتنے؟

لیکن پھر گھنٹوں نے پکارا آؤ آج کی رات تمہارے وجود کے گناہ کا کفارہ ادا کیا جائے گا۔ میں تمہارے خدا کی آواز ہوں۔ اور تمہاری ہر تباہی میں شریک ہوں۔ اور ہر موت کا محافظ ہوں۔ اور اب پادریوں اور راہبوں کا جلوس آگے بڑھا۔ جو اپنے اپنے ملکوں سے جلا وطن ہو کر اس سمے خداوند خدا کی تقدیس کرتے تھے۔ اور گرجا کی مرمریں سیڑھیوں پر سیاہ اسکارف سے سر ڈھانپے عورتیں بوڑھے اور جوان بڑے صبر سے بیٹھے تسبیحیں پھیر رہے تھے۔ اور ہولی کمیونین کے منتظر تھے۔

ایک راستہ یہیں پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ پھر ایک دیوار ہے۔ لیکن ریشمی پردوں میں سے چھن چھن کر روشنی ادھر بھی پہنچ رہی ہے۔ گو بہت سے سیاہ پوش مریض دیوانے فلسفی اور بیمار سیاست دان راستہ روکے کھڑے ہیں۔

ہمیں تمہاری موت عزیز ہے۔ کیوں کہ تمہاری موت میں نجات ہے۔ ماس کے گھنٹوں نے کہا۔

ہماری ماں۔ مریم۔ چٹانوں کی مقدس خاتون۔ سمندر کے روشن ستارے ہمیں چپکا بیٹھنا سکھا۔ یہ ہمارا عہد نامہ ہے۔

ہمارا پرانا عہد نامہ تھا۔ ان کے خیالات تباہ ہو چکے۔ اب ان کے پاس کیا باقی رہا ہے آرگن کے مدھم اور لرزہ خیز سروں کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے وہ سب آہستہ سے اپنے راستے پر واپس آئے۔

کنولا رانی کسی نے اندھیرے میں یک لخت پہچان کر چپکے سے پکارا۔ یہاں آ جاؤ۔

اور ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر اس خوب صورت روشنی کو دیکھو جو آسمان پر پھیل رہی ہے اب کسی پچھتاوے،  کسی افسوس کا وقت نہیں ہے۔

’’پرانے عہد نامے منسوخ ہوئے‘‘ کشوری نے آہستہ سے دہرایا۔ ’’ہم اس طرح زندہ نہ رہیں گے۔ ہم یوں اپنے آپ کو نہ مرنے دیں گے۔ ہماری جلاوطنی ختم ہو گی۔ ہمارے سامنے آج کی صبح ہے۔ مستقبل ہے۔ ساری دنیا کی نئی تخلیق ہے۔‘‘

لیکن کنول کماری تم اب بھی رو رہی ہو؟

***

 

 

 

 

 

تانتیا

 

شوکت صدیقی

 

 

کرفیو کی رات تھی۔ پت جھڑ کی تیز ہوائیں سسکیاں بھر رہی تھیں۔ ویران گلیوں میں کتے رو رہے تھے۔ کیسانوا ہوٹل خاموشی میں اونگھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ رقص گاہ کے ہنگامے سرد تھے۔ جام منہ اوندھائے پڑے تھے۔ باورچی خانے کی چمنی سے نہ دھواں نکل رہا تھا، نہ چنگاریاں اڑ رہی تھی۔ باہر گلی میں کھلنے والی باورچی خانے کی کھڑکی بھی بند تھی۔ تانتیا دیوار کی اوٹ میں خاموش بیٹھا تھا۔

جب بازاروں کی چہل پہل اجڑ جاتی اور رات گہری ہو جاتی تو تانتیا اس تنگ و تاریک گلی میں داخل ہوتا۔ دھوئیں میں الجھی ہوئی باورچی خانے کی پھیکی پھیکی روشنی دیکھتا۔ اور کھڑکی پر ابھرنے والے انسانی سائے کا انتظار کرتا لیکن جب دیر تک کوئی نظر نہ آتا تو وہ جھنجھلا کر چلانے لگتا۔

’’ابے کیا اپنے باپ کو بھول گئے۔ سالو! یہ انتظاری کب تک ہو گی؟‘‘ باورچی خانے میں بیرے ٹھٹھا مار کر ہنستے، خانساماں کھڑکی سے گردن نکال کر کہتا ’’ارے مرا کیوں جاتا ہے، کوئی میز تو خالی ہونے دے‘‘۔ تانتیا مطمئن ہو جاتا۔ جھوم کر نعرہ لگاتا۔

’’واہ کیا بات ہے تیری۔ جیو میرے راجہ‘‘۔

بوڑھے خانساماں کو راجہ کہلوانے کا ارمان تھا یا کوئی جذبہ ہمدردی، یا محض احساس برتری کہ خانساماں کو برابر یہ خیال ستاتا رہتا کہ باہر اندھیرے میں تانتیا بیٹھا ہے، سردی بڑھتی جا رہی ہے، اس کے الجھے ہوئے مٹیالے بال اوس میں بھیگتے جا رہے ہیں، اس کی بھوکی آنکھیں کھڑکی کی طرف لگی ہیں۔ وہ ولایتی شراب کی تیز مہک پر جان دیتا ہے۔ اس کی تلخی اسے مرغوب ہے۔ خانساماں اپنے کام میں الجھا رہتا، بیرے مستعدی سے آ کر آرڈر پر آرڈر سناتے اور خانساماں کو تانتیا کا خیال ستاتا رہتا۔ رقص گاہ میں قہقہے کھنکتے رہتے، جام ٹکراتے رہتے، آرکسٹرا کے نغمے تھر تھراتے رہتے پھر کوئی میز خالی ہوتی، پھر کوئی بیرا جھوٹی پلیٹوں میں بچا کچھا کھانا لے کر آتا، کسی گلاس میں بچی ہوئی شراب لے کر آتا۔ خانساماں بچے کھچے کھانے کو ایک پلیٹ میں انڈیل کر ذرا قرینے سے لگاتا اور اس پر گلاس کی جھوٹی شراب چھڑک دیتا، آگے بڑھتا اور کھڑکی پر جا کر کھڑا ہو جاتا، تانتیا اسے دیکھتے ہی بے تابی سے جھپٹتا، لیکن خان ساماں پیچھے ہٹ کر تانتیا کی بے صبری سے لطف اٹھاتا ’’سالے اتنی جلدی، بیٹا اصلی شراب پڑی ہے، یوں تھوڑی ملے گی‘‘۔ تانتیا کی گرسنہ آنکھیں چمکنے لگتیں، ہونٹ پھڑپھڑانے لگتے اور بکھری ہوئی مونچھیں دانتوں سے الجھنے لگتیں۔ وہ خوشامد کرنے لگتا۔

’’ارے کیوں جلا رہے ہو، پیٹ میں آگ لگ رہی ہے‘‘۔

خان ساماں کو معاً بیروں کے سنائے ہوئے آرڈر یاد آ جاتے، منیجر کی ڈانٹ ڈپٹ یاد آ جاتی، وہ جلدی سے ہاتھ باہر نکالتا اور پلیٹ تانتیا کے ہاتھ میں تھما دیتا، تانتیا پلیٹ لے کر فوراً دونوں ایڑیاں جوڑتا اور ایک ہاتھ اٹھا کر خالص فوجی انداز سے سلیوٹ کرتا، مزے لے لے کر ہر چیز چکھتا، پاس کھڑے ہوئے آوارہ کتوں کو دھتکارتا۔ خانساماں کو زور زور سے گالیاں دیتا اور خانساماں بے وقوفوں کی طرح ہنستا رہتا۔ شاید اسے گالیاں کھانے کا بھی ارمان تھا۔

لیکن آج کھڑکی بند تھی۔ تانتیا چلایا بھی، خوشامد بھی کی اور گالیاں بھی دیں۔ بوڑھے خانساماں کو نہ راجہ کہلوانے کا ارمان پیدا ہوا، نہ رگ ہمدردی پھڑکی، نہ احساس برتری نے ستایا اور نہ گالیوں پر اسے ہنسی آئی۔ چند گھبرائے ہوئے بیروں کے ساتھ وہ بھی باورچی خانے میں سہما ہوا بیٹھا رہا۔

کھڑکی کھل نہ سکی۔ تانتیا نے مایوس ہو کر اندھیرے میں گلی کے فرش کو دونوں ہاتھوں سے ٹٹولنا شروع کر دیا۔ سوکھے ہوئے ٹوسٹوں کے کچھ ٹکڑے اسے مل گئے۔ اس نے ٹکڑوں کو منہ میں بھر کر چبانا شروع کر دیا۔ باسی مکھن کے کھٹے پن پر اسے شراب کی تلخی یاد آ رہی تھی، نزدیک ہی ایک مریل کتا مزے سے ہڈی چچوڑ رہا تھا۔ تانتیا کو اس کے اس طرح ہڈی چچوڑنے پر الجھن ہونے لگی۔ اس نے جل کر اس کے ایک لات جمادی۔ ’’یہاں تو بیٹھے ترس رہے ہیں اور یہ سالے موج اڑا رہے ہیں‘‘۔ کتا چیختا ہوا بھاگا۔ اور اس کی چیخیں فلک بوس عمارتوں سے ٹکرا کر گلی کی گہرائیوں میں گونجنے لگیں۔

گلی کے نکڑ پر لیمپ پوسٹ کی بتی جل رہی تھی۔ اس کی دھندلی روشنی میں پولس والوں کے سائے نظر آئے۔ وہ گشت پر نکلے تھے۔ اچانک کسی نے چیخ کر پوچھا ’’کون ہے گلی میں؟‘‘ ساتھ ہی ٹارچ کی تیز روشنی تانتیا کے جسم پر پڑی۔ وہ بدحواس ہو کر دوسری سمت بھاگا۔ بندوق چلنے کی تیز آواز خاموشی میں ابھری۔ گولی تانتیا کے پیر کے پاس سے چھلتی ہوئی گزر گئی۔ وہ دیواروں کے اندھیرے میں دہکتا ہوا اس سڑک پر آ گیا جو کشادہ بھی تھی اور روشن بھی۔

تانتیا گھبرا کر ایک کوٹھی کے کھلے ہوئے پھاٹک میں داخل ہو گیا۔ اس نے لان عبور کیا اور بیرونی برآمدے میں پہنچ گیا، سب دروازے بند تھے، مگر کونے والے کمرے کی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی، وہ اس پر چڑھ کر اندر کود گیا اور جھٹ کھڑکی بند کر دی۔

جب پولیس والوں کے بھاری، بھاری بوٹوں کی آوازیں دور ہو گئیں اور سڑک پر سناٹا چھا گیا تووہ سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔ کمرے میں اندھیرا چھایا تھا۔ روشن دان سے روشنی کی ہلکی ہلکی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ اس نے دیکھا دیوار کے پاس ایک لمبی میز تھی۔ اس پر کچھ کتابیں بکھری ہوئی تھیں، کچھ کا غذات پھیلے ہوئے تھے۔ سگریٹ کا ایک ڈبا بھی موجود تھا، کمرہ خالی تھا، وہاں کوئی نہ تھا۔ کوٹھی کے دوسرے حصے میں بھی نہ کوئی آہٹ تھی اور نہ آواز۔ خاموشی بہت گہری تھی، وہ میز کے پاس چلا گیا۔ سگریٹ کا ڈبا اٹھا کر کھولا، صرف ایک سگریٹ نکالی اور پھر اسی طرح میز پر رکھ دیا۔ مگر اس نے سگریٹ سلگائی نہیں، بلکہ برابر والے کمرے کا دروازہ کھول کر جھانکنے لگا۔ وہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔ وہ کمرے میں چلا گیا۔ اس کمرے میں بھی دھندلی روشنی تھی۔ فرش پر پرانے اخبارات بکھرے ہوئے تھے۔ دیوار کے پاس دو خالی پلنگ پڑے تھے۔ سامنے کھونٹی پر ایک پرانا گاؤن لٹک رہا تھا۔ تانتیا نے اس کو چھو کر دیکھا۔ گاؤن اونی کپڑے کا بنا ہوا تھا۔ تانتیا کو سردی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ اس نے گاؤن اتارا اور اسے پہن لیا۔ ٹہلتا ہوا دوسرے کمرے میں اس طرح چلا گیا جیسے خواب میں چل رہا ہو۔ اس کمرے میں روشنی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ پکارنے لگا۔

’’ارے کوئی ہے یہاں؟‘‘

’’کوئی ہے یہاں؟‘‘

’’کوئی ہے؟‘‘

تینوں مرتبہ اس کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر خاموشی میں ڈوب گئی۔ وہ کھویا، کھویا سا آگے بڑھا اور ایک صوفے پر جا کر نیم دراز ہو گیا۔ اس تمام عرصے میں پہلی بار اسے تھکان محسوس ہوئی۔ اس کا جسم سردی سے تھرتھرا رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ بھوک سے زیادہ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ وہ خوابیدہ نظروں سے آتشدان پر رکھے ہوئے دھات کے مجسمے کو دیکھنے لگا۔ مجسمہ اسے اپنی طرح تنہا اور اونگھتا ہوا معلوم ہوا۔

وہ اٹھ کر آتشدان کے پاس گیا، مجسمے کو اٹھایا اور پھر اس طرح گھبرا گیا جیسے وہ کوئی پراسرار طاقت تھی جو دھات میں سمٹ کر منجمد ہو گئی تھی۔ جیسے وہ صدیوں سے بھٹکا ہوا کوئی راہی تھا جو نڈھال ہو کر ٹھہر گیا تھا۔ تانتیا نے چوکنا نظروں سے ہر طرف دیکھا، کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ دیواروں کا سبز رنگ بڑا خوابناک معلوم ہو رہا تھا۔ خاموشی بہت گہری تھی اور تانتیا کا جسم سردی سے تھرتھرا رہا تھا۔ اسے آرام کی ضرورت تھی۔ مگر اس نے آرام نہ کیا۔ دروازہ کھول کر دوسرے کمرے میں گھس گیا۔ یہ کمرہ بھی خالی تھا۔ اس میں بھی اندھیرا تھا۔ باہر سے آنی والی روشنی کو کھڑکی پر پڑے ہوئے پردے نے روک رکھا تھا۔ تانتیا نے اندھیرے سے وحشت زدہ ہو کر پردے پر ہاتھ مارا اور اسے نوچ کر پھینک دیا۔ روشنی اچانک کمرے میں پھیل گئی۔ تانتیا مسکرانے لگا۔ اس کمرے میں کوئی پلنگ نہ تھا۔ اور فرش بہت ٹھنڈا تھا۔ تانتیا کے برہنہ پیروں کے تلوے سنسنانے لگے۔

سامنے دیوار سے لگی ہوئی دو الماریاں تھیں۔ اس نے ایک کو کھولا۔ الماری میں میلے کپڑے بھرے تھے۔ اس نے جھنجھلا کر کپڑوں کو اٹھایا اور باہر پھینک دیا۔ پھر الماری کو اطمینان بخش نظروں سے دیکھنے لگا۔ الماری اتنی کشادہ تھی کہ وہ اس میں دبک کر سوسکتا تھا۔ مگر اس نے ایسا کیا نہیں۔ اس کا جی چاہا کہ ایک بار پھر سب کمروں میں جائے۔ اس نے الماری بند کر دی۔ دروازے کے ایک پٹ میں آئینہ آویزاں تھا۔ الماری کا دروازہ بند کرتے ہی آئینہ سامنے آ گیا۔ اس نے اپنا عکس دیکھا، الجھے ہوئے مٹیالے بال، بکھری ہوئی گھنی مونچھیں، گندی بے ترتیب ڈاڑھی اور اس دھندلے، دھندلے چہرے پر چھائی ہوئی ویرانی۔ اس نے خود کو پہچان کر بھی پہچاننے سے انکار کر دیا۔ ناگواری سے دھات کا مجسمہ اٹھایا اور آئینے پر دے مارا۔ آئینہ ایک چھناکے سے ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اور الماری کے پیچھے سے چودہ پندرہ برس کی ایک کم سن سی لڑکی چیخ کر باہر آ گئی۔

تانتیا نے خوف زدہ ہو کر کہا ’’کون ہے ری تو؟‘‘

لڑکی گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’میں نمو ہوں‘‘۔

تانتیا کی سراسیمگی جاتی رہی۔ اسے خود پر غصہ آیا کہ وہ اس کمزور لڑکی سے ڈر کیوں گیا۔ جھنجھلا کر چیخا۔

’’حرامزادی! تو یہاں کیا کر رہی تھی؟‘‘

لڑکی سہمی ہوئی تھی۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا ’’میں تو ڈر کر یہاں چھپ گئی تھی‘‘۔

تانتیا پوچھنے لگا ’’تو یہاں اکیلی ہی ہے اور کوئی نہیں؟‘‘

لڑکی نے بتایا ’’ڈاکٹر ساب شام ہی کو چلے گئے۔ میں نے کہا مجھے بھی اپنے ساتھ موٹر میں لیتے چلو۔ لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے بھی کیسے جاتے۔ ہوائی جہاز میں دوہی آدمیوں کی تو جگہ تھی‘‘۔ یہ بتاتے بتاتے لڑکی کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت چھا گئی۔ ’’وہ بھی چلے گئے، بی بی جی کو بھی لیتے گئے اور بابا کو بھی لے گئے‘‘۔

لڑکی اداس ہو گئی۔

تانتیا نے پوچھا ’’یہ بابا کون تھا؟‘‘

لڑکی کا چہرہ نکھر گیا۔ اداسی کا غبار چھٹ گیا، چہک کر بولی ’’ان کا ننھا، بہت بھولا بھالا تھا۔ بڑا پیارا سا، بالکل ربڑ کا سا لگتا تھا، آؤ تم کو بھی دکھا دوں‘‘۔ وہ برابر والے کمرے کی طرف مڑ گئی۔ تانتیا خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ لڑکی نے کمرے میں داخل ہو کر دیوار پر لگی ہوئی ایک خوبصورت بچے کی تصویر دکھائی، جو ایک لڑھکتی ہوئی گیند کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ہنسی کی دھوپ تھی اور ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔

لڑکی کہنے لگی ’’دیکھو! کتنا پیارا ہے!‘‘

تانتیا سوچنے لگا کہ بچہ جس گیند پر لپک رہا ہے وہ گیند نہیں نمو ہے۔ نمو جواب اسے نہیں مل سکتی۔ نمو جو اس کے لیے اداس ہے۔ لیکن بچہ ہنس رہا تھا۔ وہ کیوں اداس ہو۔ اس کو کوئی اور نمو مل جائے گی۔ تانتیا نے سوچتے سوچتے غضب ناک ہو کر ہاتھ بڑھایا، تصویر ایک جھٹکے سے کھینچی اور فرش پر پٹک دی۔

لڑکی خوفزدہ ہو کر بولی ’’یہ کیا کیا تم نے؟‘‘

تانتیا کہنے لگا ’’تو بالکل الو کی پٹھی ہے۔ یہ بھی تو اسی ڈاکٹر کا بیٹا ہے جو تجھے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا‘‘۔ لڑکی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اس نے ٹوٹی ہوئی تصویر اٹھائی اور اسے گہر نظروں سے دیکھنے لگی۔ تانتیا سوچنے لگا کہ یہ لڑکی واقعی الو کی پٹھی ہے اور اس کا اپنا جسم سردی سے تھرتھرا رہا ہے، اس کے پیر کے ناسور میں ٹیس اٹھ رہی ہے۔ اس نے نمو سے کہا ’’اے لڑکی! ذرا کڑوا تیل لے آ، میں اپنے پیر کے زخم پر ملوں گا‘‘۔

نمو اس کے قریب آ گئی۔

’’کیا ہوا تمہارے پیر میں؟‘‘

تانتیا نے بتایا ’’ناسور ہو گیا ہے‘‘۔

لڑکی اس کے زخم میں دلچسپی لینے لگی ’’تو اس کا علاج کیوں نہیں کرواتے‘‘۔

تانتیا نے بتایا ’’بہت علاج کروایا، ہسپتال میں بھرتی ہو گیا۔ پر یہ ڈاکٹر ہوتے ہی بدمعاش ہیں۔ سالوں نے علاج تو کچھ کیا نہیں، کہنے لگے کہ تم اپنا پیر گھٹنے پر سے کٹوا دو۔ نہیں تو ساری ٹانگ سڑ جائے گی۔ میں بھی ایک ہی سیانا نکلا۔ جس روز انہوں نے آپریشن کا انتظام کیا، میں رات ہی کو وارڈ کی کھڑکی پھاند کر بھاگ آیا۔ پھر کسی ڈاکٹر واکٹر کے پاس نہیں گیا۔ اپنا تو کڑوے تیل سے ہی کام چل جاتا ہے‘‘۔

نمو نے جھٹ شلوار چڑھا کر اپنی پنڈلی دکھا دی ’’دیکھو یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ میرا تو اتنا بڑا گھاؤ ڈاکٹر ساب نے اچھا کر دیا‘‘۔

تانتیا سوچنے لگا کہ اس کا اپنا پیر بڑا گھناؤنا ہے۔ اس پر چیتھڑے لپٹے ہیں۔ ناسور سے پانی بہہ رہا ہے اور نمو کی پنڈلی بہت خوبصورت ہے۔ اس کے چہرے پر کنواریوں کا اچھوتا پن ہے، نرمی ہے، جوانی کی شگفتگی ہے۔ پھر نمو، نمو نہ رہی صرف ایک لڑکی، ایک عورت رہ گئی۔ تانتیا سوچتارہا کہ اس گھر میں سب کچھ اس کا ہے۔ یہ خوبصورت کمرہ، یہ نرم نرم صوفہ، یہ لہراتے ہوئے پردے، یہ نکھری نکھری صاف شفاف دیواریں، اور یہ نمو صرف ایک لڑکی، ایک عورت، اور عورت کو کبھی اس نے اتنے قریب نہیں پایا تھا۔

نمو نے تانتیا کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے کی وحشت کو دیکھا اور گندی گندی آنکھوں کا وہ انداز جسے دیکھ کر وہ شرما بھی گئی، گھبرا بھی گئی۔ اس نے جھٹ اپنی پنڈلی چھپا لی۔ تانتیا جھنجھلا کر نمو کی طرف بڑھا وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگی۔ تانتیا کی جھنجھلاہٹ بڑھتی گئی۔ اس نے جھپٹ کر نمو کو بے ڈھنگے پن سے دبوچ لیا۔ اس کے لباس کو تار تار کر دیا۔ اس کے رخساروں کو چبا ڈالا۔ اس کی نرم نرم چھاتیوں کو، اس کی گداز بانہوں کو اور اس کے تمام جسم کو دانتوں سے نوچنا شروع کر دیا۔ نمو دہشت زدہ ہو کر اسے دیکھتی رہی پھر چیخنے لگی پھر وہ بے ہوش ہو گئی۔

نمو کا برہنہ جسم فرش پر پڑا تھا۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ دانتوں کے نشان تھے۔ رخسار نیلے پڑ گئے تھے اور ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا۔ کمرے میں گہری خاموشی چھائی تھی، باہر زمستانی ہوائیں سسکیاں بھر رہی تھیں۔

تانتیا نے نمو کے برہنہ جسم پر پرانا گاؤن ڈال دیا اور اس کے قریب بیٹھ کر سگریٹ پینے لگا۔

تانتیا بیٹھا ہوا چپ چاپ سگریٹ پیتا رہا۔ دھوئیں کے پیچ و خم لہراتے رہے۔ کمرے میں خاموشی چھائی تھی۔ یکایک رات کے گہرے سناٹے میں ملی جلی انسانی آوازوں کا ہلکا ہلکا شور ابھرنے لگا۔ تانتیا بیٹھا ہوا چپ چاپ سگریٹ پیتا رہا۔ شور بڑھتے بڑھتے قریب آ گیا۔ پھر کوٹھی کے احاطے کی چاردیواری پھاندنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کوٹھی کے بیرونی برآمدے میں قدموں کی آہٹیں رک رک کر ابھرنے لگیں۔ پھر کچھ لوگ دروازہ کھول کر کمرے کے اندر آ گئے۔ وہ سب بلوائی تھے ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے۔ بلم تھے اور لاٹھیاں تھیں۔ چہروں پر ڈھاٹے بندھے تھے۔ تانتیا نے ان کو دیکھا اور اس طرح اطمینان سے بیٹھا ہوا سگریٹ پیتا رہا جیسے وہ ان کو پہلے بھی دیکھ چکا تھا جیسے وہ ان کو ہمیشہ سے جانتا تھا۔

پھر ان میں سے کسی نے پوچھا ’’ابے تو کون ہے؟‘‘

’’تانتیا‘‘۔

’’ہندو ہے یا مسلمان؟‘‘

’’یہ تو میں نے بہت مدت سے سوچنا چھوڑ دیا کہ میں کون ہوں؟ تانتیا نے بے نیازی سے جواب دیا۔

’’کیا بکتا ہے؟‘‘ ایک بلوائی نے بڑھ کر اس کے منہ پر زور کا تھپڑ مارا ’’ٹھیک ٹھیک بتا‘‘۔

’’میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں‘‘۔ تانتیا نے ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ مطمئن نہ ہوئے۔ تانتیا کے گال پر ایک اور کرارا تھپڑ پڑا۔ کسی نے ڈپٹ کر پوچھا ’’سیدھی طرح بتاتا ہے کہ نہیں‘‘۔ اس نے جھلکتا ہوا خنجر اس کے سامنے کر دیا ’’اسے دیکھا ہے‘‘۔

تانتیا خاموشی سے اٹھ کھڑا ہو گیا اور اپنی میلی چیکٹ پتلون کے بٹن کھولنے لگا۔ انہوں نے اسے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا ’’یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘

’’پتلون اتار رہا ہوں‘‘۔

’’پتلون کیوں اتار رہا ہے؟‘‘

’’تا کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تصدیق کر لو کہ میں کون ہوں‘‘۔ تانتیا نے مسکین سی شکل بنا کر کہا اور ایسی نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو تم نے مجھے اب تک نہیں پہچانا، پھر انہوں نے جیسے اسے پہچان لیا۔ ’’اچھا تو یہ تو ہے! ہم سے پہلے ہی یہاں پہنچ گیا‘‘۔ وہ ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگے۔ پھر انہوں نے نمو کی جانب ہاتھ اٹھا کر پوچھا۔

’’یہ کون ہے؟‘‘

تانتیا نے کہا ’’لڑکی!! !‘‘ اور وہ مسکرادیا۔ اس کی مسکراہٹ میں طنز بھی تھا اور بے باکی بھی۔

وہ نمو کے جسم کو گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ کسی نے گاؤن ہٹا دیا اور حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا ’’ارے یہ تو بالکل ننگی ہے‘‘۔ سب جھک کر دیکھنے لگے۔

وہ جھکے ہوئے بھوکی نظروں سے اسے دیکھتے رہے!

پھر کسی نے ان میں سے کہا ’’ارے یہ تو مر گئی ہے۔ کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

سب علیحدہ ہو کر بکھر گئے۔ نمو کے جسم پر گاؤن ڈال دیا گیا۔ اور وہ تجسس انگیز نظروں سے ہر طرف دیکھنے لگے پھر کوئی بول اٹھا۔

’’ڈاکٹر سالاسب کچھ لے گیا۔ اب یہاں کیا دھرا ہے‘‘۔ وہ تانتیا کی طرف دیکھنے لگے۔

’’ابے تو یہاں کیا کر رہا ہے۔ سالے کیا تو بھی جل کر مر جانا چاہتا ہے‘‘۔

ایک بلوائی نے تانتیا کو دروازے کی طرف ڈھکیل دیا۔ ’’چل بھاگ یہاں سے‘‘۔

تانتیا نے گھور کر اس کی طرف دیکھا ’’تو مار کیوں رہے ہو۔ سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے، میں کوئی یہاں بیٹھا رہوں گا‘‘۔

تانتیا مڑا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کوٹھی سے نکل کر باہر آ گیا۔

باہر آ کر تانتیا نے محسوس کیا کہ سڑک وہی ہے۔ جھلملاتی ہوئی روشنیاں وہی ہیں، سامنے ڈاکٹر کی کوٹھی بھی وہی ہے اور یہ کوٹھی اس کی نہیں ہو سکتی کمرہ اس کا نہیں ہو سکتا، نرم نرم صوفہ اس کا نہیں ہو سکتا، لہراتے ہوئے پردے اس کے نہیں ہو سکتے۔ وہ صرف تانتیا ہے، گاؤن اس نے نمو کو اوڑھا دیا تھا، دھات کا مجسمہ پھینک دیا تھا اور سگریٹ ختم ہو چکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈاکٹر کی کوٹھی سے دھواں اٹھنے لگا شعلے لال لال زبانیں نکال کر ابھرنے لگے۔ دروازے چٹخ کر شور مچانے لگے پھر کوٹھی کے اندر نمو کی گھٹی ہوئی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ تانتیا کوٹھی کی طرف پلٹ پڑا، نمو ابھی زندہ تھی اور نمو اسے ابھی چاہیے بھی تھی۔

تانتیا شعلوں سے الجھتا ہوا کوٹھی میں گھس گیا۔ نمو کے پاس پہنچا۔ نمو دیکھتے ہی اس سے چمٹ گئی۔ تانتیا نے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ وہ اسے لے کر باہر نکلنے لگا۔ اس کے چاروں طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ شعلے بھڑک رہے تھے۔ لکڑیاں چٹخ، چٹخ کر گرتیں تو چنگاریاں دور تک بکھر جاتیں، وہ شعلوں کے درمیان سے گزرتا، دھوئیں میں ٹھوکریں کھاتا ہوا باہر آ گیا۔ اس کا چہرہ جھلس گیا تھا۔ ڈاڑھی جل کر اور خوفناک ہو گئی تھی۔ نمو نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ وہ قصے کہانیوں کے بھوتوں کی طرح بھیانک معلوم ہوا۔ اس نے ڈر کر آنکھیں بند کر لیں۔ تانتیا اسے اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے ایک بار پھر سڑک پر آ گیا اور فٹ پاتھ پر دیواروں کے کنار کنارے چلنے لگا۔

تانتیا دیواروں کی اوٹ میں چلتا رہا۔ اس کے چہرے پر جلن ہوتی رہی۔ اور نمو بازوؤں سے چمٹی رہی۔ پھر ایک پولیس لاری اس کے پاس آ کر رک گئی۔ دو کانسٹیبل اتر کر نیچے آئے اور اس کو ٹھہرا لیا۔

’’کہاں سے آ رہا ہے؟‘‘

تانتیا نے نمو کو سامنے کر دیا ’’میں تو اس لڑکی کو آگ سے نکال کر لا رہا ہوں‘‘۔

انہوں نے گاؤن اٹھا کر دیکھا۔ نمو خوفزدہ نظروں سے ان کو دیکھنے لگی۔ تانتیا نے جھٹ ہاتھ ہٹا دیا۔ ’’اے اس کو نہ کھولو، یہ بالکل ننگی ہے‘‘۔

وہ ہنسنے لگے۔ ’’تو سالے اس کو لیے کہاں جا رہا ہے؟‘‘

تانتیا نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘

وہ بے باکی سے ہنسنے لگے ’’ابے اسے کھڑا تو کر‘‘۔

تانتیا نے نمو کو فٹ پاتھ پر کھڑا کر دیا، نمو بالکل چپ تھی، تانتیا بھی چپ تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے نمو کا بازو پکڑ کر ایک طرف کر لیا۔

’’یہ ہمارے ساتھ لاری میں جائے گی۔ رات بھر تھانے میں رہے گی اور صبح رفیوجی کیمپ میں پہنچا دی جائے گی‘‘۔

وہ نمو کو لے کر لاری کی طرف چلنے لگے۔ نمو اب بھی خاموش تھی۔

تانتیا کہتا رہا ’’یہ میرے پاس رہے گی۔ میں نے اس کو آگ سے بچایا ہے۔ اسے میرے پاس رہنا چاہیے‘‘۔

مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ نمو کو لاری میں بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے لاری کا انجن اسٹارٹ کیا اور وہ آگے بڑھ گئی۔ تانتیا لاری کو خوابناک نظروں سے دیکھتا رہا۔ لاری دور ہوتی گئی نمو دور ہوتی گی۔ نمو جس کا جسم لہراتے ہوئے پردوں کی طرح نرم تھا، جس کے چہرے پر کنواریوں کا اچھوتا پن تھا۔ نرمی تھی اور جوانی کی پھوٹتی ہوئی شگفتگی تھی۔ نمو صرف ایک لڑکی، ایک عورت، جسے اس نے اپنے قریب محسوس کیا تھا۔ جسے اس نے چھوکر دیکھا تھا۔

لاری اندھیرے میں اوجھل ہو گئی۔ تانتیا نے غصے سے فرش پر تھوک دیا اور پولیس والوں کو گالیاں دیتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔

تانتیا سڑک پر تھکا ہوا سا چلتا رہا مگر وہ جاتا بھی کہاں، سامنے مکان جل رہے تھے، شعلے لہرا رہے تھے۔ دھوئیں کے بادل بلندیوں پر پھیلتے جا رہے تھے، جلتے ہوئے مکانوں سے انسانی چیخیں ابھر رہی تھیں۔ وہ آگے نہ گیا ایک نیم کشادہ سڑک پر مڑ کر نشیب میں اتر گیا۔ قریب ہی گندا نالا تھا جو سڑک کے نیچے سے گزرتا تھا۔ تانتیا نالے کی پلیا کے نیچے گھس گیا۔

پلیا کے نیچے اندھیرا تھا۔ کیچڑ تھی اور بڑی تیز بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ماچس جلا کر دیکھا قریب ہی ایک برہنہ لاش پڑی تھی۔ لاش پھول کر اکڑی تھی۔ زبان باہر نکلی ہوئی تھی۔ آنکھیں کچھ اس طرح پھٹی ہوئی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں دیکھو مجھے کتنی بے دردی سے قتل کر دیا گیا، میں نے انتقام نہیں لیا۔ مجھے انتقام لینا چاہیے تھا۔

وہ وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف چلا گیا۔ جہاں زمین خشک تھی وہ زمین پر بیٹھ گیا۔

تانتیا اندھیرے میں بیٹھا ہوا سوچتا رہا کہ اس کے چاروں طرف تاریکی ہے۔ کیچڑ ہے اور قریب ہی ایک لاش پڑی سڑ رہی ہے۔ جس کی زبان باہر نکل آئی ہے اور آنکھیں پھٹ گئی ہیں، باہر تیز ہوائیں سسکیاں بھر رہی ہیں۔

ایک آدمی گھبرایا ہوا پلیا کے سامنے آ کر ٹھہر گیا۔ تانتیا اسے دیکھتا رہا۔ مگر جب وہ اندر آ کر لمبی لمبی سانسیں بھرنے لگا تو تانتیا نے کہا ’’وہاں کیچڑ میں کیوں کھڑے ہو، ادھر آ جاؤ۔ یہاں زمین صاف ہے‘‘۔

وہ خوف سے چیخ کر بولا ’’تم کون ہو؟‘‘

تانتیا نے جل کر کہا ’’میں کوئی بھی ہوں، کیچڑ میں کھڑے ہونے کا شوق ہے تو وہیں کھڑے رہو، نہیں تو ادھر چلے آؤ ’’۔

وہ تانتیا کے قریب آیا اور زمین پر بیٹھ گیا۔

ذرا ہی دیر بعد اس نے تانتیا سے پوچھا ’’تم ہندو ہو یا مسلمان؟‘‘

تانتیا جھنجھلا کر بولا ’’میں کوئی بھی ہوں۔ ابے ہندو مسلمان کے بچے پہلے یہ بتا کہ کوئی سگرٹ وگرٹ بھی ہے؟‘‘

’’میرے پاس سگریٹ نہیں ہے، نہ جانے کس طرح جان بچا کر بھاگا ہوں، تمہیں سگریٹ کی پڑی ہے‘‘۔

تانتیا ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگا۔ ’’ابے جا بے تو بھی یونہی رہا‘‘۔

اجنبی ذرا دیر خاموش رہ کر بولا ’’یہاں تو بڑی بدبو ہے‘‘۔

تانتیا نے ماچس جلائی اور سڑتی ہوئی لاش دکھلانے لگا ’’دیکھو یہ کوئی مرا ہوا آدمی پڑا سڑ رہا ہے‘‘۔

وہ خوفزدہ ہو کرتا نتیا کے نزدیک سرک گیا پھر آہ بھر کر رقت انگیز لہجے میں بولا ’’ہائے بے چارہ!‘‘

’’یار دکھ تو مجھے بھی ہو رہا ہے پر یہ سرکار بھی الو کی پٹھی ہے۔ اتنا گوشت بے کار سڑ کر جا رہا ہے‘‘۔ تانتیا آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔ ’’یہی پچھلی جنگ کی بات ہے ہم لوگ برما کے جنگلوں میں جاپانیوں کے خلاف لڑ رہے تھے ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جاپانیوں نے ہیڈ کوارٹر والی سڑک بمباری کر کے تباہ کر دی۔ سڑک بند ہوئی تو ہمیں راشن ملنا بند ہو گیا۔ بس پوچھو نہ کہ کیا بیتی۔ ہم نے سامان لے جانے والی گاڑیوں کے خچروں کو مار مار کر کھانا شروع کر دیا۔ مگر خچر کا گوشت بہت خراب ہوتا ہے۔ سالا ہضم ہی نہ ہوتا تھا۔ پھر ہوائی جہازوں سے راشن پھینکا جانے لگا۔ اس میں ہمیں ایسا گوشت ملتا جسے سکھا کر ڈبوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ سچ کہتا ہوں کیا مزے کا گوشت ہوتا تھا۔ اب تمہیں بتاؤ کہ روز جو اتنے بہت سے آدمی بلوے اور فساد میں مر رہے ہیں، کتنا گوشت بیکار جا رہا ہے، سرکار اس کو سکھا کر کیوں نہیں رکھ لیتی۔ کال کے دنوں میں کام دے گا پھر کال تو یوں بھی پڑ رہ ہے، کتنے ہی بھوکوں کا بھلا ہو جائے گا۔ کہو استاد کیسی کہی؟‘‘تانتیا نے اس کی پیٹھ پر زور سے دھپ مارا ’’ابے تو تو بہت تگڑا ہے! مرے گا تو بہت سا گوشت نکلے گا اور ڈھیر چربی بھی نکلے گی‘‘۔

اجنبی خوف سے اچھل پڑا۔ اس کی جیبیں روپوں کی جھنکار سے کھنک اٹھیں۔

تانتیا نے جھٹ اس کی گردن دبوچ لی ’’ابے تیرے پاس تو بڑی رقم ہے، لا نکال‘‘۔

وہ گھٹی ہوئی آواز میں بولا ’’میری گردن تو چھوڑ دو‘‘۔ تانتیا نے اس کی گردن چھوڑ دی۔

وہ گڑگڑانے لگا ’’مجھ ستائے ہوئے کو ستا کر تمہیں کیا ملے گا؟‘‘

تانتیا ہنسنے لگا ’’سیدھی سی بات ہے رقم ہاتھ لگے گی اور کیا‘‘۔ وہ دھکا دے کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔ دونوں ہاتھوں سے گردن دبا کر کہنے لگا ’’ابے سیدھی طرح نکالتا ہے یا گھونٹ دوں گلا‘‘۔

وہ بدحواس ہو کر بولا ’’سب کچھ اندر کی جیب میں ہے نکال لو‘‘۔

تانتیا نے اس کی جیبیں ٹٹولیں۔ نوٹ نکالے، روپے نکالے اور ریز گاری تک نکال لی۔

وہ خوشامد کرنے لگا ’’میرے پاس کچھ تو چھوڑ دو‘‘۔

تانتیا پھر ہنسنے لگا ’’ابے بہت دن تم نے ٹھاٹھ کئے ہیں، کچھ دن یونہی سہی‘‘۔

’’تمہارے دل میں ذرا رحم نہیں، میرا گھر جل رہا ہے، سب کچھ لٹ گیا، بیوی کو بھی مار ڈالا، بچوں کو بھی قتل کر دیا، میری جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے گئے، اب میرے پاس رہ ہی کیا گیا ہے، عزت تو تھی وہ بھی برباد ہو گئی‘‘۔ وہ آدمی بڑا اداس معلوم ہو رہا تھا۔ مگر تانتیا ہنستا رہا ’’ابے تو اس میں گھبرانے کی کون سی بات ہے، تیری لڑکیوں کو کوئی نہ کوئی تو لے ہی جاتا، کوئی اور نہ لے گیا وہ لے گئے۔ کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘

اجنبی خاموش بیٹھارہا۔ اسے تانتیا سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا مگر اسے اپنی جان بھی پیاری تھی وہ وہیں بیٹھا رہا۔ تانتیا نے اسے پھر چھیڑا۔

’’ابے خاموش کیوں بیٹھا ہے، کچھ باتیں ہی کر‘‘۔

وہ جھنجھلا کر بولا ’’تم نے آج تک لوگوں کو دکھ ہی پہنچایا ہے یا اور بھی کچھ کیا ہے‘‘۔

تانتیا نے تلملا کرکہا ’’ابے! میں نے کیا کیا ہے، میں نے چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں پر محنت کی ہے، کڑکڑاتی سردیوں میں پہرے داری کی ہے۔ فوج میں بھرتی ہو کرگولیاں کھائی ہیں۔ چوریاں کی ہیں۔ جیل کاٹی ہے، مارکھائی ہے، گالیاں سنی ہیں‘‘۔ تانتیا تیزی سے بولتے بولتے اچانک بے نیازی سے ہنسنے لگا۔ ’’اور اب میں بھوکوں مرتا ہوں، شرابیوں کا بچا کچھا کھانا کھاتا ہوں، گوشت کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے کتوں سے لڑتا ہوں، سردی میں سنسان سڑکوں پر ٹھٹھراتا پھرتا ہوں۔ بتاؤ استاد تم نے یہ سب کچھ کیا ہے اور نہیں کیا تو تمہاری ایسی کی تیسی‘‘۔ تانتیا نے اس کے منہ پرکس کے تھپڑ مارا۔ ’’سالا! الوکا پٹھا! خواہ مخواہ رعب جھاڑتا ہے‘‘۔

وہ آدمی سہما ہوا خاموش بیٹھا رہا۔ مگر تانتیا سے اب اکتا چکا تھا۔ اس آدمی سے اکتا چکا تھا۔ اندھیرے اور گھٹن سے اکتا چکا تھا۔ وہ اٹھا اور پلیا کے نیچے سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ خزاں کی تیز ہوائیں سسکیاں بھر رہی تھیں۔ رات اور گہری ہو گئی تھی۔ ویران عمارتوں کی پشت پر چاند کی زرد، زرد روشنی ابھر رہی تھی۔ پت جھڑ کے مارے ہوئے سوکھے درخت تار عنکبوت کی طرح الجھے ہوئے نظر آ رہے تھے، تانتیا درختوں کے نیچے چلنے لگا خشک پتے اس کے قدموں کے نیچے ہلکی ہلکی آہٹ پیدا کر رہے تھے۔

سنسان سڑک پر اس کا سایہ بھوتوں کی طرح ڈراؤنا معلوم ہوتا، وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ پھر ایک موڑ پر کسی نے ٹوکا۔

’’کون آ رہا ہے؟‘‘

تانتیا نے گھبرا کر دیکھا ایک فوجی سپاہی رائفل سنبھالے ہوئے اس کی طرف آ رہا تھا۔ تانتیا پلٹ کر دیواروں

کے سایوں میں دبکنے لگا۔

مسلح فوجی نے للکارا ’’ہے!! ٹھہر جاؤ‘‘۔

مگر تانتیا نہ رکا۔ اس نے اپنی چال اور تیز کر دی۔

ناگاہ، رات کے پرہول سناٹے میں رائفل چلنے کی آواز گونجی۔ گولی تانتیا کی پسلیوں کو توڑتی ہوئی گزر گئی۔ وہ فرش پر گر پڑا۔ سپاہی اس کے قریب آ کر ٹھہر گیا۔

تانتیا نے اس کی طرف دیکھا، ہانپتے ہوئے لہجے میں بولا ’’جوان! تمہارا نشانہ بہت اچھا ہے کبھی میں بھی اتنا ہی سچا نشانہ لگاتا تھا، پر ان خوبیوں کی کون قدر کرتا ہے، جنگ ختم ہو گئی اور میرا حال تم نے دیکھ ہی لیا‘‘۔ تانتیا نے ہاتھوں میں دبے ہوئے نوٹ، روپے اور ریز گاری سب کچھ سڑک پر پھینک دیا۔ فوجی اپنی رائفل سنبھالے ہوئے حیرت سے دیکھتا رہا۔

تانتیا اس کی بے نیازی پر بھنا گیا۔ جل کر بولا ’’ابے دیکھ کیا رہا ہے، اس کو اٹھا لے، سالے اکڑتا کیوں ہے، کہیں ایک دن تیرا بھی یہی حال نہ ہو، ابے اس وقت یہ رقم کام آئے گی‘‘۔

فوجی نے جھنجھلا کر تانتیا کی کمر پر زور سے لات ماری اور روپیہ اٹھا کر چل دیا۔

تانتیا کے زخم سے خون بہتا رہا، اس کا جسم سنسان سڑک پر پھڑکتا رہا، ہوائیں سسکیاں بھرتی رہیں اور ویران گلیوں میں کتے روتے رہے۔

یہ کرفیو کی رات تھی، فسادات کی رات تھی، تانتیا کی زندگی کی آخری رات تھی۔ تانتیا مر گیا لیکن اس کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک بھوک زندہ تھی۔

***

 

 

 

 

 

 

اور عائشہ آ گئی

 

قدرت اللہ شہاب

 

کھوکھرا پار کے مقام پر سرحد عبور کرتے ہوئے ہندوستانی کسٹم چوکی والوں نے عبد الکریم اور اس کی بیوی کو تو جانے دیا۔ لیکن ان کی تین چیزوں کو مزید تحقیق کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ تین چیزیں سنگر سوئنگ مشین، ہر کولیس کا بائیسکل اور عبد الکریم کی جواں سال بیٹی عائشہ پر مشتمل تھیں۔ دو دن اور ایک رات کی منت سماجت کے بعد بہ ہزار دقت جب یہ چیزیں واپس ملیں تو سلائی کی مشین کے کئی کل پرزے غائب تھے۔ بائیسکل کی گدی، ٹائر اور ٹیوبیں ندارد تھیں اور عائشہ۔۔ ۔ خیر، یہ بھی غنیمت تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو سلائی کی مشین کے کل پرزے بھی نئے ڈلوا لیے جائیں گے۔ بائیسکل کی گدی، ٹائر اور ٹیوبیں بھی اور آ جائیں گی اور عائشہ۔۔ ۔؟ عائشہ کا بھی اللہ مالک ہے۔ عبد الکریم کو جو ایمان غیب کی پراسرار طاقتوں پر تھا۔ اس میں آج معمول سے بہت زیادہ کشف کی کیفیت جھلک رہی تھی۔

جب وہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے، تو مقامی والنٹیروں نے انہیں گوشت کے سالن کا ایک پیالہ اور چار تازہ تازہ نان کھانے کو دئیے۔ سفید سفید، نرم نرم، سوندھے سوندھے نان دیکھ کر عبد الکریم نے اپنی بیوی کی ران پر چوری سے چٹکی بھری اور سرگوشی میں کہا ’’میں نے کہا عائشہ کی ماں دیکھتی ہو، کیا خالص اور کرارے نان ہیں۔ اس سال بمبئی میں کیا پڑا تھا؟ چار برس سے ستھرے آٹے کی صورت کو ترس گئے تھے۔ واہ، کیا مکھن کے پیڑے پیدا کئے ہیں میرے مولا نے‘‘۔

جب وہ گاڑی کے ڈبے میں سوار ہوئے تو کچھ مسافر اپنے جان پہچان لوگوں کے ساتھ علیک سلیک میں مشغول تھے۔ ’’اسلام علیکم‘‘ ’’وعلیکم سلام‘‘۔ اسلام و علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘۔۔ ۔ عبد الکریم نے پھر اپنی بیوی کو جھنجھوڑا۔ ’’عائشہ کی ماں سنتی ہو؟ کیا دھوم دھڑکے کے ساتھ دعا سلام ہو رہی ہے۔ واہ، اسلام کی تو شان ہی اور ہے۔ سالی بمبئی میں تو بندے ماترم بندے ماترم سنتے کان پک گئے تھے۔ خدا کی قسم آج تو میرا سینہ بھی جاری ہو رہا ہے۔ واہ، کیا بات ہے میرے مولا کی‘‘۔ عبد الکریم نے اپنے اغل بغل بیٹھے ہوئے مسافروں کے ساتھ بڑے جوش و خروش سے ہاتھ ملانا اور گونج گونج کر اسلام علیکم کہنا شروع کر دیا۔ اگر اس کی بیوی اسے پکڑ کر واپس نہ بٹھا لیتی تو نہ جانے وہ کب تک اس کاروائی میں لگا رہتا۔

جب گاڑی چلی تو عبد الکریم نے بڑے انہماک کے ساتھ اس کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ کو سنا۔ باہر تار کے کھمبوں سے حساب لگا کر ٹرین کی رفتار کا جائزہ لیا۔ ’’واہ‘‘ اس نے اپنی بیوی کو پھر جھنجھوڑا۔ ’’طوفان میل کیا چیز ہے اس کے سامنے۔ مزا آ گیا گاڑی میں بیٹھ کر۔ عائشہ کی ماں، تم بھی اپنی تسبیح نکال لو اور کھلم کھلا اطمینان سے بیٹھ کر اللہ کا نام لو۔ کیا مجال ہے کہ کوئی پیچھے سے آ کر تمہاری گردن کاٹ لے‘‘۔

ایک اسٹیشن کے بعد دوسرا اسٹیشن آتا گیا۔ گاڑی رکتی اور چلتی رہی، مسافر اترتے اور سوار ہوتے گئے۔ عبد الکریم کھڑکی سے منہ باہر لٹکائے اپنے ماحول کو اپنے دل، سینے اور آنکھوں میں جذب کر رہا تھا۔ صاف ستھری وردی والا گارڈ، جس کے سر پر جناح کیپ، ہاتھ میں سبز اور سرخ جھنڈیاں اور منہ میں سیٹی تھی پلیٹ فارموں پر چیلوں کی طرح جھپٹتے ہوئے قلی۔ بھنبھناتی ہوئی مکھیوں سے لدے ہوئے مٹھائیوں اور کھانے کے خوانچے، باہر حد نگاہ تک پھیلے ہوئے میدان، اکا دکا گاؤں کے کچے پکے مکانوں سے نکلتا ہوا دھواں، جوہڑوں پر پانی بھرتی ہوئی، کپڑے دھوتی ہوئی عورتیں، گرد و غبار میں اٹے ہوئے ننگ دھڑنگ بچے آسمان کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر روتے ہوئے کتے، بلیاں، گدھ، کہیں کہیں کسی گائے یا بیل یا بھینس کی سڑی ہوئی متعفن لاش۔۔ ۔

جب حیدر آباد کا اسٹیشن آیا، تو سب سے پہلے عبد الکریم کی نگاہ ایک رنگین بورڈ پر پڑی، جس پر ایک دل ہلا دینے والی مار کٹائی سے بھرپور فلم کا اشتہار تھا۔ یہ دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اسی پلیٹ فارم پر کچھ سپاہی دس بارہ ملزموں کو گھیرے میں لیے کھڑے تھے اور ایک مجسٹریٹ صاحب کرسی پر ڈٹے برسرعام عدالت لگائے بیٹھے تھے اور بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو دھڑا دھڑ جرمانے کی سزا سنارہے تھے۔ سرکار کا یہ رعب داب دیکھ کر عبد الکریم بڑا متاثر ہوا اور اس نے حسب معمول اپنی بیوی کی توجہ اس طرف منعطف کرنے کے لیے اس کی ران پر چٹکی لی۔ ’’عائشہ کی ماں انتظام ہو تو ایسا ہو۔ سالی بمبئی میں کسی ٹکٹ بابو کی مجال ہے کہ بغیر ٹکٹ والوں کی روک ٹوک کرے۔ واہ، حکومت کا سلیقہ بھی مسلمان کے خون میں ہی ہے۔ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ لالہ لوگوں کے بس کا نہیں ہے۔۔ ۔‘‘

عائشہ کی ماں بڑی دلجمعی سے سیٹ پر اکڑوں بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی گٹھڑی سے ایک ہزار ایک منکوں والی تسبیح نکال لی تھی اور اب بڑے انہماک سے اس پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کا ورد کرنے میں مشغول تھی۔

’’عائشہ بیٹی‘‘۔ عبد الکریم نے اپنی بیٹی کو پکارا۔ ’’دیکھتی ہو اپنی اماں کے ٹھاٹھ۔ واہ کیا بات ہے اپنے وطن کی بیٹی، اس کالے صندوق سے میری ٹوپی بھی تو نکال دو ذرا۔ اب یہاں کس سالے کا ڈر ہے‘‘۔

عائشہ نے میکانکی طور پر صندوق کھولا۔ اور ٹوپی نکال کر اپنے باپ کے حوالے کی۔ یہ ایک پرانی سرمئی رنگ کی جناح کیپ تھی، جسے پہن کر عبد الکریم کسی وقت بھنڈی بازار کے پر جوش جلسوں میں شامل ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب چار سال سے یہ ٹوپی صندوق میں بند تھی۔ اور اس پر لگا ہوا نکل کا چاند تارا زنگ آلود ہو کر ٹوپی کی رنگت کے ساتھ مل جل گیا تھا۔

ٹوپی اوڑھ کر عبد الکریم سینہ تان کر بیٹھ گیا۔ اور کھڑکی سے باہر اڑتی ہوئی گرد کو دیکھنے لگا۔ عائشہ بھی باہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ایک اکتائی ہوئی بیزار نگاہ، جس کے سامنے کسی منزل کا نشان نہ ہو۔ وہ بار بار کوشش کرتی تھی کہ دل ہی دل میں دعائے گنج العرش کا ورد کرے۔ اس دعا نے اس کی بہت سی مشکلیں حل کر دی تھیں۔ لیکن آج اس دعا کے الفاظ اس کے ہونٹوں پر لرز کر رہ جاتے تھے اور زبان تک نہ پہنچتے تھے۔ اس کا دل بھی اندر ہی اندر پکار رہا تھا کہ اب یہ عظیم الاثر دعا بھی اس کی مشکل آسان نہ کر سکے گی۔ اب وہ ایک ایسی منزل پر پہنچ چکی تھی جہاں خدا کی خدائی بھی چارہ ساز نہیں ہوتی۔ توبہ، یہ تو بڑا کفر ہے۔ خدا کی ذات تو قادر مطلق ہے۔ اگر وہ چاہے تو گردش ایام کا رخ پیچھے کی طرف موڑ دے اور زمانے کو از سرنو اس لمحے شروع کر دے۔ جب عائشہ ابھی کھوکھرا پار کے قریب ہندوستانی کسٹم چوکی پر نہ پہنچی تھی۔۔ ۔

کراچی پہنچ کر سب سے پہلا مسئلہ سر چھپانے کی جگہ تلاش کرنے کا تھا۔ کچھ دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی عبد الکریم نے اپنا سامان اسٹیشن کے باہر ایک فٹ پاتھ پر جما دیا اور عائشہ اور اس کی ماں کو وہاں بٹھا کر مکان کی تلاش میں نکل گیا۔ کچھ رات گئے جب وہ لوٹا، تو دن بھر کی دوڑ دھوپ سے بہت تھکا ہوا تھا۔ لیکن اس کے چہرے پر بشاشت اور اطمینان کے آثار جھلکتے تھے۔

’’عائشہ کی ماں‘‘۔ عبد الکریم نے فٹ پاتھ پر پاؤں پسار کے کہا ’’ہماری کراچی کے سامنے سالی بمبئی کی کچھ حقیقت ہی نہیں۔ تمہارے سر کی قسم! ایسے ایسے عالیشان محل کھڑے ہیں کہ نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔ ایک سے ایک بڑھ کے سیٹھ بھی موجود پڑا ہے۔ تمہاری قسم ایک ایک سیٹھ بمبئی کے چار چار مارواڑیوں کو اپنی جیب میں ڈال سکتا ہے اور پھر موٹریں؟ کا ہے کو سالی بمبئی نے ایسی لچھے دار موٹریں دیکھی ہوں گی۔ پاس سے گزر جائیں، تو سمجھو جیسے کسی نے ریشم کا تھان کھول کر سڑک پر بچھا دیا ہے۔ اب ذرا ٹھکانے سے بیٹھ جائیں تو تمہیں بھی گھما پھرا لاؤں گا۔ طبیعت خوش ہو جائے کی کراچی کی بہار دیکھ کر‘‘۔

’’مکان کا کچھ ہوا؟‘‘ عائشہ کی ماں حقیقت کی طرف آئی۔

’’اجی ابھی کیا جلدی پڑی ہے۔ اللہ نے چاہا تو سب انتظام ہو جائے گا۔ آج میں نے گھوم پھر کر پگڑی کے ریٹ دریافت کر لیے ہیں۔ خدا کی قسم، عائشہ کی ماں، سالی بمبئی کراچی کے سامنے کوئی چیز ہی نہیں۔ پگڑی کے جو گنڈے دار ریٹ یہاں اٹھتے ہیں بے چارے بمبئی والوں نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے‘‘۔

عبد الکریم کا اب یہ معمول ہو گیا تھا کہ وہ علی الصبح منہ اندھیرے چل کھڑا ہوتا۔ کبھی بس میں بیٹھتا، کبھی ٹرام میں، کبھی رکشہ پر، کبھی قیدل، کیماڑی، کلفٹن، بندر روڈ، صدر، فرئیر پارک، اسمبلی ہال، چیف کورٹ، جیل، پیر الٰہی بخش کالونی، خداداد کالونی، ناظم آباد، منگھو پیر، قائد اعظم کا مزار۔۔ ۔ کوئی مقام ایسا نہ تھا جس کا اس نے بنظر غائر جائزہ نہ لیا ہو۔ اور کوئی جائزہ ایسا نہ تھا جس نے اس کے خون کی گردش تیز اور اس کے دل کو شاد نہ کیا ہو۔ اور عبد الکریم کو کراچی کے فقیر بھی بڑے نجیب الطرفین نظر آئے تھے جو ماچس کی ڈبیاں اور اخبار بیچ بیچ کر بڑی خوش اسلوبی سے بھیک مانگتے تھے۔ بمبئی کی طرح نہیں کہ ایک سے ایک بڑا مشٹنڈا لٹھ لیے پھرتا ہے اور بھیک یوں مانگتا ہے جیسے دھمکی دے کر قرض وصول کر رہا ہو!

ایک روز وہ جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد گیا۔ نمازیوں کا بہت ہجوم تھا۔ مصر، شام، عراق، حجاز اور ایران سے بڑے بڑے لوگ ایک کانفرنس کے سلسلے میں کراچی آئے ہوئے تھے۔ نماز کے بعد انہوں نے پاکستان کے متعلق بڑی شاندار تقریریں کیں۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے۔ لوگ اٹھ اٹھ کر ان کے ہاتھ چومنے لگے۔ گلے ملنے لگے اور چاروں طرف جوش و خروش کا ایک عجیب عالم چھا گیا۔ یہ سماں دیکھ کر عبد الکریم کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے اور جب سب لوگ چلے گئے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں شکرانہ کے دو رکعت نفل ادا کئے۔

بمبئی میں عبد الکریم کے پاس بھنڈی بازار کے عقب میں ایک چھوٹی سی کھولی تھی۔ ایک تاریک سا، گھناؤنا سا کمرہ، نہ کوئی برآمدہ، نہ صحن، نہ تازہ ہوا، نہ دھوپ اور پھر ہر مہینے پورے ساڑھے دس روپے کرایہ کے ٹھیک یکم کو ادا نہ ہوں تو سیٹھ کے گماشتے کی گھرکیاں اور دھمکیاں الگ۔ لیکن اس کے مقابلے میں اب کراچی میں زندگی بڑے مزے سے بسر ہوتی تھی۔ جس فٹ پاتھ پر اس نے پہلے روز اڈا جمایا تھا اب وہاں کوئی بارہ فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی جگہ گھیر کر اس نے دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی لکڑی کے تختے جوڑ کر اور پرانی بوریوں کے پردے تان کر ایک چھوٹی سی کٹیا بنا لی تھی۔ کھلی ہوا تھی۔ دھوپ اور روشنی بے روک ٹوک آتی جاتی تھی۔ پاس ہی بجلی کا کھمبا تھا۔ جس کے بلب کی روشنی عین اس کے کمرے پر پڑتی تھی۔ پانی کا نل دور نہ تھا اور پھر نہ کرائے کا جھگڑا، نہ ہر مہینے سیٹھ کے گما شتے کی چیخ، اتفاق سے آس پاس کے ہمسائے بھی شریف لوگ تھے اور ان سب کی آپس میں بڑے اطمینان سے بسر ہوتی تھی۔

بمبئی میں عبد الکریم نے بہت سے کاروبار بدلے تھے۔ اخیر میں جب کانگرسی حکومت نے امتناع شراب کا حکم لگایا، تو عبد الکریم کے لیے ایک مستقل ذریعہ معاش کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔ ایکسائز کے عملے، دیسی شراب کشید کرنے والوں اور بغیر پرمٹ کے شراب پینے والوں سے اس کے بہت اچھے تعلقات تھے اور وہ ان تینوں کی مناسب خدمات کے عوض اپنے لیے دو ڈھائی سو روپے ماہوار پیدا کر لیتا تھا۔ کراچی پہنچنے کے بعد اس نے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ مملکت خداداد کے دار الخلافہ میں فی الحال حرمت شراب کا حکم نازل نہیں ہوا۔

یہ دیکھ کر اس کے دل میں بہت سی بد گمانیوں نے سر اٹھایا۔ اگرچہ وہ چور بازار میں شراب کا کاروبار کر لیا کرتا تھا لیکن وہ اسے ایک حرام چیز ضرور سمجھتا تھا۔ اور اس نے خود کبھی اس کو منہ نہیں لگایا تھا۔ جب کانگرس والوں نے شراب پر پابندی کا قانون لگایا تو وہ اپنے دوستوں کے سامنے بڑی بڑی ڈینگیں مارا کرتا تھا کہ ہندوؤں نے یہ کام کی بات مسلمانوں کے مذہب سے سیکھی ہے۔ لیکن اب کراچی میں یہ دگر گوں حالت دیکھ کر اسے بڑا ذہنی صدمہ پہنچا۔ اس نے بہت سے لوگوں سے اس کے متعلق کرید کرید کر پوچھا، لیکن کوئی اس کی خاطر خواہ تشفی نہ کر سکا۔ آخر ایک روز جب وہ حکیم نجیب اللہ خاں کے مطب میں بیٹھا گپیں ہانک رہا تھا تو باتوں باتوں میں شراب کا مسئلہ بھی چھڑ گیا۔ حکیم صاحب اپنے محلے میں بڑے جید عالم تصور کیے جاتے تھے اور وہ دوا دارو کے علاوہ مسئلہ مسائل سے بھی خلق خدا کی خدمت کیا کرتے تھے۔ عورتوں میں ہسٹریا کے مرض کو دوا کے بغیر محض روحانی وسائل سے رفع کر دینا ان کا خیال کمال تھا۔ عبد الکریم کے شکوک سن کر حکیم صاحب مسکرائے اور عقلی، برہانی اور قرآنی زاویوں سے شراب پر بڑی فصاحت و بلاغت سے روشنی ڈالنے لگے۔ ہر امر میں نیکی اور بدی دونوں کے راستے وا ہوتے ہیں۔ انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ بدی سے منہ جوڑے اور نیکی کو اختیار کرے۔ اسی طرح شراب کے فائدے اور گناہ بھی اس کے سامنے ہیں۔ یہاں بھی انسان کی قوت اختیار کا امتحان ہے۔ شراب پر قانونی بندش لگا کر انسان کو اس امتحان سے محروم کرنا سراسر معیشت ایزدی کے خلاف ہے۔

عبد الکریم پر ان تفسیرات کا بہت اثر ہوا اور اسلام، ایمان اور قرآن کے نئے نئے اسرار اس پر منکشف ہونے لگے۔ ’’عائشہ کی ماں‘‘۔ اس نے کہا ’’غلامی کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے بھلا؟ پچاس برس ہو گئے سالی بمبئی میں رہتے۔ نمازیں پڑھیں، قرآن شریف بھی سیکھا۔ لیکن کیا مجال جو کبھی سینے میں ایمان کی روشنی پیدا ہوئی۔ اب یہاں آ کر نئے نئے راز کھلنے لگے ہیں۔ سچ کہتے ہیں کہ ایمان کا مزا بھی آزادی کے ساتھ ہے‘‘۔

’’اسی لیے تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ غلام ملک میں جمعہ کی نماز تک جائز نہیں‘‘۔

شراب کی طرف سے مطمئن ہو کر عبد الکریم نے کئی دوسرے کاروباروں کی طرف رجوع کیا۔ لیکن اسے اپنے چور بازار کے تجربات کام میں لانے کی کہیں کوئی صورت نظر نہ آئی۔ شراب ہے تو کھلم کھلا بک رہی ہے۔ آٹا ہے تو برسرعام چار آنے سیر کے حساب ڈھیروں ڈھیر مل رہا ہے۔ کپڑے کی بھی قلت نہیں۔ چینی عام ہے۔ اب چور بازار چلے تو کس چیز کے سہارے چلے؟ پہلے ان نے پان بیڑی بیچنے کی کوشش کی۔ پھر آئس کریم اور پھلوں کے ٹھیلوں پر قسمت کو آزمایا۔ ا سکے بعد کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ گزارے کے لیے پیسے تو ہر جگہ سے نکل آتے تھے۔ لیکن زندگی عزیز کی چاشنی ختم ہو گئی تھی اور سیدھی طرح دکان پر بیٹھے بیٹھے عبد الکریم کا جی بیزار ہو جاتا تھا۔ وہ کسی پر خطر، زیر زمین قسم کے بیوپار کا متلاشی تھا جس کا تجربہ اس نے زندگی کے بہترین سال صرف کر کے حاصل کیا تھا۔ لیکن فی الحال اس کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اس لیے اسے دل اور دماغ پر ہمیشہ ایک مستقل اکتاہٹ چھائی رہتی۔

بمبئی میں اگر کسی وجہ سے اس پر بیزاری یا اکتاہٹ کا حملہ ہوتا تھا تو وہ جی بہلانے کے لیے۔۔ ۔ کے کسی چوبارے پر گانا سننے چلا جایا کرتا تھا۔

کراچی میں آئے ہوئے اسے کئی مہینے ہو گئے تھے اور اس نے یہاں کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا تھا۔ لیکن اب تک اسے کہیں ایسے بازار کا نشان نظر نہ آیا تھا جہاں وہ گھڑی دو گھڑی کو کلفت مٹانے کے لیے ہو آیا کرے۔ اس نے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ چکلوں پر قانونی بندش لگی ہوئی ہے اور جس طرح بمبئی میں شراب بند ہے۔ اسی طرح کراچی میں رنڈیوں کا پیشہ منع ہے۔ عبد الکریم نے یہ خبر بڑی صفائی قلب کے ساتھ یہ خبر عائشہ کی ماں کو سنائی اور وہ دونوں دیر تک فٹ پاتھ پر اپنی جھونپڑی کے سامنے چارپائی پر بیٹھے قرآن اور ایمان کی روح پرور باتیں کرتے رہے۔

چکلوں کے سلسلے میں جو تحقیقات عبد الکریم نے کی تھی اس کے دوران اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ اس میدان میں بلیک مارکیٹ کے وسیع امکانات ہیں۔ اس کی کچھ ایسے لوگوں سے شناسائی بھی ہو گئی تھی جو اس بیوپار میں بڑی دسترس رکھتے تھے اور عبد الکریم کے پرانے تجربات کی بنا پر اسے معقول کمیشن پر اپنا شریک کار بنانے کے لیے آمادہ تھے۔ ایک کانے دلال نے شاید عائشہ کو بھی کہیں دیکھ لیا تھا چنانچہ اس نے رائے دی کہ اگر عبد الکریم اس کی رفاقت کرے تو وہ بہت جلد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کے مالک بن جائیں گے۔ جب عبد الکریم کو اس کی نیت کا علم ہوا تو اس نے اپنا جوتا کھول کر اس کانے کی برسرعام خوب مرمت کی اور مسجد میں جا کر ساری رات سجدے میں پڑا روتا رہا کہ اس کے دل میں ایسے ذلیل کام کا خیال بھی آیا۔ یا غفور الرحیم یہ اسی سیاہ کارانہ خیال کی سزا ہے، کہ اب لوگ اس کی عائشہ کی طرف بھی نظریں اٹھانے لگے ہیں۔ یا اللہ توبہ، یا اللہ توبہ۔۔ ۔

رات بھر خشوع و خضوع کے ساتھ استغفار کر کے عبد الکریم کا دل پھول کی طرح ہلکا ہو گیا۔ علی الصبح منہ اندھیرے جب وہ گھر واپس لوٹا، تو اس کی بیوی انتظار کرتے کرتے چٹائی پر سو گئی تھی۔ عائشہ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر تلاوت قرآن میں مصروف تھی۔ اس کی آواز میں بڑا سوز حزیں تھا۔ اور جب وہ آہستہ آہستہ قرات کے ساتھ خدا کا کلام پڑھتی تھی تو فضا میں ایک عجیب عرفان چھا جاتا تھا۔ عبد الکریم خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھاسنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا یہی وہ معصومیت کا فرشتہ ہے جس کے متعلق ایک بدمعاش دلال نے سیاہ کاری کی ہوس کی تھی۔

عبد الکریم کی توبہ اور استغفار نے بڑا اثر دکھایا۔ کپڑے کی دکان خوب چل نکلی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے عبد الکریم نے پیر الٰہی بخش کالونی میں ساڑھے چار ہزار روپے میں دو کمرے کا پختہ مکان خرید لیا۔ زندگی میں پہلی بار عائشہ کی ماں کو اپنی ملکیت کا مکان نصیب ہوا تھا۔ وہ اسے شیشے کی طرح صاف رکھنے لگی۔ دن میں کئی کئی بار سیمنٹ کا فرش دھویا جاتا۔ دیواریں جھاڑی جاتیں اور صبح شام اندر باہر فینائل کا چھڑکاؤ ہوتا، تاکہ مکھیاں اندر نہ آنے پائیں۔ علی الصبح منہ اندھیرے عبد الکریم کی بیوی تو مکان کی صفائی میں مصروف ہو تی اور عائشہ دالان میں بیٹھ کر قرآن پڑھتی۔ عبد الکریم دیر تک بستر پر اپنے ماحول کے عرفان میں سرشار پڑا رہتا۔ انڈوں، پراٹھوں اور چائے کا ناشتہ کر کے جب وہ دکان کھولتا تو اس کا ظاہر اور باطن بڑے مطمئن اور آسودہ ہوتے تھے۔

رفتہ رفتہ عائشہ کے لیے پیام بھی آنے لگے۔ جس روزاس کی منگنی ہوئی وہ بے اختیار ساری رات مصلے پر پڑی روتی رہی۔ رخصتی کے روز وہ کئی بار روتے روتے بے ہوش ہوئی۔ عبد الکریم اور عائشہ کی ماں کا بھی برا حال تھا۔ عائشہ کا خاوند بجنور کا مہاجر تھا اور ٹنڈو آدم خاں میں آڑھتی کی دکان کرتا تھا۔ جس روز وہ سسرال سدھاری تو گویا عبد الکریم کا گھر سنسان ہو گیا۔ دوسرے روز حسب معمول اس کی آنکھ منہ اندھیرے کھلی۔ لیکن دالان میں عائشہ کی آواز نہ پا کر وہ کروٹ بدل کر پھر سو گیا۔ جب وہ دن چڑھے اٹھا تو اس کے بدن میں بڑی آلکس تھی۔ جیسے افیونی کو افیون یا شرابی کو شراب سے ناغہ ہو گیا ہو۔ اس نے طوعاً و کرہاً منہ ہاتھ دھویا۔ ناشتہ کیا اور کپڑے بدل کر دکان پر چلا گیا۔ دکان میں بھی اس کی طبیعت کچھ اچاٹ اچاٹ سی رہی۔ اس لیے دکان کو معمول سے پہلے بند کر کے وہ جی بہلانے کے لیے گھومنے نکل گیا۔ رات کو بہت دیر سے لوٹا اور بغیر کھانا کھائے سو گیا۔

اب اس کا معمول ہو گیا تھا کہ صبح دیر سے اٹھتا۔ بہت دیر سے ناشتہ کرتا۔ کوئی دن ڈھلے دکان پر جاتا اور آدھی آدھی رات گئے گھر لوٹتا۔ رفتہ رفتہ اس نے دکان کے لیے ایک ملازم رکھ لیا اور سارا دن سونے اور رات رات بھر باہر رہنے لگا۔ سرشام اس کے برآمدے میں کئی قسم کے دلالوں کا جمگھٹا لگ جاتا تھا۔ ان میں وہ کانا دلال بھی ہوتا تھا جسے عبد الکریم نے ایک روز سرعام جوتوں سے پیٹا تھا۔

ایک دو بار عبد الکریم کی بیوی نے ان لوگوں کے متعلق پوچھ گچھ کی تو اس نے بڑی صفائی سے ٹال دیا۔

’’عائشہ کی ماں! اب میں نے ایک دو اور بیوپار بھی کھول لیے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو بڑی کامیابی ہو گی۔ تم ذرا جلدی سے ان بھلے آدمیوں کے لیے چائے پانی بھجوا دو‘‘۔

عبد الکریم کے نئے بیوپار بھی چمک اٹھے۔ چھ سات مہینوں میں اس نے پیر الٰہی بخش کالونی والا مکان چھوڑ کر بندر روڈ پر ایک دو منزلہ کوٹھی خرید لی۔ صدر دروازے پر ’’سیٹھ عبد الکریم بمبئی والا‘‘ کا بورڈ لگ گیا۔ سواری کے لیے موٹر آ گئی اور گھر میں کام کاج کے لیے نوکر چاکر مقرر ہو گئے۔ اب عائشہ کی ماں کو بھی فرصت نصیب ہوئی۔ اور وہ آدھی آدھی رات اٹھ کر تہجد گزارتی تھی۔۔ ۔ اور اپنی ایک ہزار ایک، دانوں والی تسبیح پر اللہ کے ایک سو ننانوے ناموں کا ورد کر کے اپنے شوہر کی کمائی میں برکت اور کشائش کی دعائیں کیا کرتی تھی۔

ایک رات جب عبد الکریم گھر آیا، تو عائشہ کی ماں نے اس کے پاؤں دباتے ہوئے کہا ’’اے جی۔۔ ۔ میں نے کہا، کچھ سنتے ہو؟‘‘

’’کیا بات ہے عائشہ کی ماں؟‘‘ عبد الکریم نے بے توجہی سے پوچھا۔ دن بھر کی ریاضت سے وہ بہت تھکا ہوا اور کسل مند تھا۔

’’خیر سے ٹنڈو آدم خاں سے آدمی آیا تھا۔ اللہ رکھے، تمہاری بیٹی پر خدا نے اپنی رحمت کی ہے۔ اگلے مہینے تم بھی نانا ابا کہلانے لگو گے!‘‘

’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ عائشہ کی ماں، اگلی جمعرات کو یتیم خانہ کے بچوں کو بلا کر کھانا کھلا دینا۔ مجھے کام میں یاد رہے نہ رہے، تم ضرور یاد رکھنا اور ہاں۔۔ ۔ عائشہ کی ماں، کچھ زیورات اور کپڑے بھی بنوا رکھو۔ جب تم گھی کھچڑی لے کر جاؤ گی، تو خالی ہاتھ تو نہ جاؤ گی۔ اللہ رکھے اب دو پیسے آئے ہیں تو اپنی بیٹی پر بھی ارمان نکال لو‘‘۔

’’اے ہے‘‘ عائشہ کی ماں نے تنک کر کہا ’’یہ تم کیسی باتیں کرتے ہو، میں بھلا گھی کھچڑی لے کر کہاں جاؤں گی، میری بچی اللہ رکھے بڑی الہڑ اور انجان ہے۔۔ ۔ میں نے اسے دن پورے کرنے یہاں بلا لیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو پرسوں دوپہر کی گاڑی سے آ جائے گی۔ تم بھی موٹر لے کر چلنا۔ ہم عائشہ کو اسٹیشن پر لینے جائیں گے۔

یہ خبر سن کر عبد الکریم اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں پر مکڑی کے جالے سے تن گئے اور اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے گھر کے در و دیوار اس کا منہ چڑا چڑا کر پکار رہے ہوں، کہ اب عائشہ آ رہی ہے۔ عائشہ آ رہی ہے، عائشہ آ رہی ہے۔۔ ۔

وہ ساری رات بستر پر پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح معمول سے پہلے اٹھ بیٹھا۔ نہا دھو کر کپڑے بدلے، ناشتہ کیا اور سیدھا اپنے کپڑے کی دکان پر جا بیٹھا۔ اس کا ملازم جو پچھلے آٹھ ماہ سے تن تنہا اس دکان کو اپنے من مانے طریقے پر چلّا رہا تھا، مالک کو آتے دیکھ کر گھبرا گیا۔ لیکن عبد الکریم نے حساب کتاب کے متعلق کوئی باز پرس نہ کی۔ وہ سارا دن دکان پر کھویا کھویا سا بیٹھا رہا۔ اس کے بہت سے یار دوست اس کی تلاش میں وہاں بھی آ پہنچے۔ لیکن وہ کام کا بہانہ کر کے سب کو دکھائی سے ٹالتا رہا۔ تیسرے پہر وہ کانا دلال بھی حسب معمول اس کی تلاش میں وہاں آیا۔ اس کی صورت دیکھتے ہی عبد الکریم آپے سے باہر ہو گیا۔ اور لوہے کا گز اٹھا کر دیوانہ وار اس کی طرف لپکا۔

’’خبردار! اگر تم میری دکان پر چڑھے تو تمہاری ٹانگیں توڑ ڈالوں گا۔ سالے حرامی نے ساری کراچی میں گندگی پھیلا رکھی ہے۔۔ ۔ جاؤ بھاگو یہاں سے، ورنہ ابھی پولیس کو خبر کرتا ہوں، سالا دَلّا۔۔ ۔‘‘

سرشام دکان بند کر کے عبد الکریم سیدھا مسجد میں چلا گیا، اور دیر تک سجدے میں پڑا بلک بلک کر روتا رہا۔ دعا کے کلمات رہ رہ کر اس کی زبان پر آتے تھے لیکن ہونٹوں پر لرز کے رہ جاتے تھے۔ جیسے کوئی کبوتر اپنے آشیانے پر بار بار آئے اور اسے ویران پا کر پھڑپھڑاتا ہوا واپس چلا جائے۔

شاید عبد الکریم سجدے میں پڑے پڑے ہی سو گیا۔ کیونکہ جب کسی نے اس کو بلا کر جگایا تو فجر کا وقت تھا۔ مؤذن صبح کی اذان دے رہا تھا۔ نیند کے خمار میں عبد الکریم کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ اذان کی آواز نہیں، بلکہ دور کہیں بہت دور کوئی چیخ چیخ کر پکار رہا ہے، کہ اب عائشہ آ رہی ہے، عائشہ آ رہی ہے، عائشہ آ رہی ہے۔۔ ۔‘‘

***

 

 

 

 

 

نصیب جلی

 

رام لعل

 

دروازے کے باہر سائیکل کی گھنٹی سنتے ہی موتا سنگھ کے بچے۔ دروازہ کھولنے کے لیے دوڑ پڑے۔ تینوں بچوں نے ایک ساتھ کنڈی پر ہاتھ رکھا۔ دروازہ کھول کر تینو ایک ساتھ چلائے:

’’دار جی آ گئے، دار جی آ گئے!‘‘

اور پھر تینوں ایک ساتھ ہی اچانک موتا سنگھ کی سائیکل پر سوار ہو گئے۔ ایک آگے بار پر۔ دوسرا گدی پر اور تیسرا پیچھے کیرئیر پر، موتا سنگھ ہنستا ہوا داخل ہوا، بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ دھوپ میں سکھانے کے لیے رکھی ہوئی دال سمیٹ رہی تھی۔ دھوپ صحن میں سے ہوتی ہوئی اوپر دیوار کی طرف جا پہنچی تھی۔

دھوپ روز اسی وقت برجی پر چلی جاتی تھی۔ موتاسنگھ بھی روز اسی وقت ورکشاپ سے گھر لوٹتا تھا۔ تیل کے بڑے بڑے دھبوں والی خاکی قمیص، نیکر اور میل سے سیاہ چیکٹ بوٹ پہنے ہوئے، اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی ہوئی، سیاہ وسفید بالوں سے بھری بھری داڑھی مونچھ کے اندر سے اس کی مسکراہٹ جیسے چھن چھن کر باہر آتی اور دیکھنے اور ملنے والوں کو نہال کر دیتی۔

جس قدر وہ تندرست، توانا اور شوخ مزاج تھا، اس کی بیوی اتنی ہی کمزور اور کم گو تھی۔ پانچ بچوں کو جنم دینے کے بعد اس کے جسم میں تن کر کھڑا ہونے اور چلنے کی طاقت نہیں رہی تھی۔ اس کے خوبصورت قد اور اعضاء کی دلکش مناسبت سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کی جوانی قیامت رہی ہو گی۔ ان تینوں بچوں کے علاوہ جو باپ کی سائیکل پر سوار تھے۔ دو لڑکیاں بڑی تھیں۔ سب سے بڑی کا دو سال پہلے بیاہ ہو چکا تھا۔ اس سے چھوٹی دسویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ وہ رسوئی میں بیٹھی انگیٹھی پھونک رہی تھی۔ باپ کی آواز سنتے ہی باہر نکل آئی اور بولی:

’’دار جی، آج ایک خط آیا ہے پاکستان سے‘‘۔

’’پاکستان سے؟‘‘ موتا سنگھ نے حیرانی ظاہر کی۔ ’’کس کا خط ہے من جیت؟‘‘ من جیت کمرے کے اندر دیوار پر سجا کر رکھے ہوئے گوروگرنتھ صاحب کے پیچھے سے ایک لفافہ نکال کر باہر لے آئی جس پر پاکستان گورنمنٹ کے ٹکٹ لگے ہوئے تھے۔ باپ کے ہاتھ میں دیتی ہوئی بولی۔

’’پتہ نہیں کس کا ہے؟ اردو میں ہے، میں تو اردو جانتی نہیں‘‘۔ بچوں نے بے قابو ہو کر سائیکل کو گرا دینا چاہا۔ موتا سنگھ کے ہاتھ سے خط گر گیا۔ اس نے جلدی سے سائیکل من جیب کے حوالے کی اور خط اٹھا کر صحن میں پڑی ہوئی ایک کھاٹ کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ سے پگڑی اتار کر گھٹنوں پر رکھ لی، دوسرے ہاتھ سے لفافہ کے اندر جھانکا اور تہہ کیا ہوا کاغذ کھینچا۔ ایک فل اسکیپ کاغذ تھا۔ دونوں طرف لکھا ہوا۔

’’اترو اترو، نہیں توگرا دوں گی‘‘۔ من جیت نے بھائیوں کو سائیکل پر سے اتار کر سائیکل برآمدے میں کھڑی کر دی۔ بچے پھر باپ کے گرد جمع ہو گئے۔ ایک پیچھے سے گردن میں بانہیں ڈال کر جھولنے لگا اور دوسرا سٹ کر بیٹھ گیا۔ تیسرے نے ہاتھ سے لفافہ لے کر حیرانی سے پوچھا۔

’’یہ ٹکٹ کس قسم کا ہے دار جی؟‘‘

’’یہ پاکستان کا ہے بیٹے!‘‘

’’پاکستان کہاں ہے دار جی؟‘‘

’’ادھر ہے پاکستان جدھر تیرے نانا رہتے ہیں، ڈیرہ بابا نانک وہاں سے بس تھوڑی دور رہ جاتا ہے۔ لا اب مجھے دے دے لفافہ۔ ان سب کو باہر لے جا من جیت۔ میں خط پڑھ لوں‘‘۔

’’پہلے یہ بتائیے یہ کس کا خط ہے؟‘‘

’’یہ۔ دیکھتا ہوں۔ یہ‘‘ خط کے آخر میں وہ غلام سرور کا نام پڑھ کر چونک گیا۔ ’’غلام سرور‘‘ اس کے منہ سے نکلا اور اس کی نگاہ اپنی بیوی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ بھی غلام سرور کا نام سن کر چونک پڑی تھی اور دال سمیٹتے سمیٹتے سر گھما کر دیکھنے لگی تھی۔

’’کون غلام سرور؟ من جیت بھائیوں کو باپ کے پاس سے ہٹا کر وہاں خود بیٹھ گئی اور پوچھا۔ ان کا پہلے کبھی آپ کو خط نہیں آیا؟‘‘

’’ہاں پہلے کبھی نہیں آیا‘‘۔ موتا سنگھ جلدی جلدی خط پڑھنے لگا۔ وہ دو دو سطریں ایک ساتھ پڑھتا جا رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلام سرور نے اسے ایک عرصے کے بعد کیوں یاد کیا ہے۔ بارہ سال کے بعد پہلی بار اس نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ پہلی بار اس کی خیریت دریافت کر رہا تھا، وہ تو سمجھے تھے کہ سرور زندہ نہیں بچا ہو گا۔

اگر بچ بھی گیا تو آخر مسلمان تھا۔ اس کی خیریت کیوں دریافت کرتا۔ وہ اس کا کون تھا؟ بس دو سال ہی کی تو دوستی تھی ان کے درمیان! جب وہ ایک ساتھ ورکشاپ میں فٹر بھرتی ہوئے تھے، ایک ہی ورکشاپ میں انہیں جگہ ملی تھی۔ ایک ہی بیرک میں ایک دوسرے کے پڑوسی بنے تھے۔ صرف دو سال کے لیے۔ اور اب اس قلیل مدت پر بارہ برس کا بہت گہرا بہت اونچا ملبہ پڑ چکا تھا۔ اس ملبے کے نیچے ان کے کتنے مشترکہ قہقہے سانجھے مذاق اور بہت ساری یادیں دفن ہو کر ختم ہو چکی تھیں۔ وقت ایک گہرا تیز و تند اور بار بار راستہ بدل لینے والا دریا بھی ہے جو اپنے طوفانی بہاؤ کے ساتھ صدیوں کی جمی ہوئی دھرتی کے بڑے بڑے چٹان سے ٹکڑے الگ کر کے کاٹ کاٹ کر بہا لے جاتا ہے اور پھر ذرہ ذرہ کر کے یہاں وہاں پھینک کر اس دھرتی کی ہستی ختم کر دیتا ہے۔ نام و نشان تک مٹا ڈالتا ہے۔ اس مٹی کی اپنی خوشبو نہیں رہتی۔ اپنا سنگیت مر جاتا ہے۔ کسی کو یاد نہیں رہتا یہاں ایک بڑی عمارت تھی، وہاں ایک بہت بڑا میدان تھا۔ ادھر ایک پہنچے ہوئے فقیر کی قبر تھی۔ اس طرف ایک بہت بڑا مرگھٹ تھا، ایک عالیشان مویشی گاہ تھی جہاں میلوں دور دور سے دیہاتی آ کر یہاں ڈھور ڈنگروں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ میلے میں جمع ہو کر ناچتے اور گاتے تھے۔ زیر آب پڑی ہوئی دھرتی کے سینے پر منوں مٹی آآ کر پڑتی جاتی ہے۔

خط پڑھتے پڑھتے موتا سنگھ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ غلام سرور نے اسے کبھی بھلایا نہیں تھا۔ اس کا پتہ کئی ذرائع سے دریافت کرتا رہا تھا۔ بیسوں دوستوں سے پوچھا تھا۔ کسی نے جواب دیا تھا تو پتہ نہیں بتا سکا تھا۔ کسی نے جواب نہیں دیا تھا۔ موتا سنگھ کئی سال ہوئے امرتسر کی ورکشاپ سے تبدیل ہو کر دہلی میں آ گیا تھا۔ کسی کو اس کا پتہ آسانی سے تھوڑی مل سکتا تھا۔ غلام سرور نے اس کے پتے کی کھوج اپنے ملک میں مقیم ہندوستانی ہائی کمشنر کی مدد سے لگائی تھی، اور اسے وہ دن یاد دلایا تھا جب فسادات کی مار کاٹ میں غلام سرور اپنی بیرک میں تنہا رہ گیا تھا۔ اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہی تھی۔ رات کو وہ دیواریں اور چھتیں پھلانگتا ہوا موتا سنگھ کے گھر میں آ کودا تھا۔ اس کے چہرے پر موت کی زردی چھائی ہوئی تھی کوئی دم میں اس کا خاتمہ ہو جانے والا تھا۔ اسے مارنے کے لیے اس کے کئی پڑوسی اس کی تلاش میں گھوم رہے تھے۔ موتا سنگھ کے پاس وہ کسی امید پر نہیں آیا تھا۔ امیدیں تو ختم ہو چکی تھیں۔ آنکھوں میں مروت رہی تھی نہ دلوں کی محبت۔ سرحد کے دونوں طرف ایک عجیب سی دیوانگی اور وحشت کا دور دورہ تھا۔ برہنہ تلواریں، نیزے، گنڈاسے چاروں طرف مصروف رقص تھے۔ بجلی کی سی چمک کے ساتھ کوندتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر سرتن سے جدا کر دیتے تھے۔ وہ موتا سنگھ سے کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا تھا۔ موتا سنگھ بھی اسے قتل کر سکتا تھا۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے قتل اور اغوا کا انتقام اس کی بوٹی بوٹی الگ کر کے لے سکتا تھا۔

جس وقت وہ دیوار پر سے لٹک کر دھم سے زمین پر گرا تو اس وقت موتا سنگھ اپنی روتی ہوئی چھوٹی بچی کوسینے سے لگائے اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہی من جیت تھی وہ بچی۔ اس کی بیوی برآمدے میں چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ صحن میں دھپ کی آواز سن کر دونوں چونک پڑے تھے۔ وہ سمجھتے تھے شاید مسلسل بارشوں کی وجہ سے دیوار کا ایک حصہ گر گیا ہے۔ موتا سنگھ نے قریب جا کر دیکھا تووہ غلام سرور تھا۔ زمین پر گھٹنوں کے بل گرا، اسے گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے جو موت کی طرح خوفناک تھیں نا امید تھیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔ خاموش دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ ایک دوسرے کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کر رہے تھے، ایسی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ بس صرف زبان بند تھی۔ دل و دماغ پر بہت سے بوجھ پڑے ہوئے تھے۔ کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں سمجھتے تھے، دونوں جانتے تھے۔ کچھ دیر تک موتا سنگھ خاموش کھڑا رہا جب غلام سرور کی تلاش میں نکلا ہوا ہجوم دروازے پر پہنچ کردستک دینے لگا تو غلام سرور نے ایک سسکی لے کر سرنہوڑا لیا۔ موتا سنگھ اسے بچانا بھی چاہتا تو اب یہ اس کے بس میں نہیں تھا۔ فسادی اس کا دروازہ توڑ کر اندر آ جانا چاہتے تھے۔ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ غلام سرور اسی کوارٹر میں کودا تھا۔

اچانک موتاسنگھ نے اس کے سر کو چھوا۔ اس کا کندھا ہلایا۔ پھر ہاتھ سے پکڑ کر ایک طرف لے جانے لگا۔ اس میں اندر چلنے کی اب سکت کہاں تھی؟ گھٹنا زخمی ہو چکا تھا۔ اسے لڑکھڑاتا دیکھ کر موتا سنگھ کو غصہ آ گیا۔ ماں کی ایک گالی دے کر اسے گھسیٹتا ہوا چارپائی کے پاس لے گیا اور اس پر غلام سرور کو پٹخ کر بولا:

’’مر یہاں‘‘۔

جلدی سے ایک رضائی کمرے میں سے لا کر اس کے اوپر ڈال دی، اسی چارپائی پر اس کی بیوی لیٹی ہوئی تھی، وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی اور چلائی۔

’’کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’توبکواس بند کر، نہیں تو کرپان سینے میں گھونپ دوں گا‘‘۔

موتا سنگھ سچ مچ کرپان لے کر اس کے سر پر کھڑا ہو گیا تھا۔ بچی کو فرش پر گرا دیا تھا جو زار و قطار رو رہی تھی۔

’’دونوں لیٹے رہو سیدھے ایک دوسرے کے ساتھ بالکل لگ کر، کسی کوشک نہ ہو کہ دو سوئے ہوئے ہیں‘‘۔

یہ سن کر غلام سرور اور موتا سنگھ کی بیوی کی رگوں کا خون منجمد ہو کر رہ گیا۔ دونوں کے جسم بالکل سن ہو کر رہ گئے۔ بے حس و حرکت رضائی کے باہر صرف موتا سنگھ کی بیوی کا چہرہ تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی، سمجھ گئی تھی پاگل ہو گیا ہے۔

اسی وقت بہت سے لوگ دیوار پھاند کر اندر آ گئے تھے، دروازہ کھول کر انہوں نے اور بھی بہت سے لوگوں کو اندر بلایا تھا۔ صحن میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی تھی۔ ہر ایک کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ہتھیار تھا۔ ہر شخص غلام سرور کی جان لینا چاہتا تھا۔ لیکن غلام سرور وہاں کہاں تھا انہوں نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا تھا، پھر حیران و مایوس ہو کر وہاں سے چلے گئے تھے۔ غلام سرور نے لکھا تھا:

’’مجھے آج بھی ان لمحوں کی یاد آتی ہے تو میرا خون اسی طرح رگوں کے اندر جمنے لگتا ہے۔ خدا کی قسم تم نے وہ کام کیا تھا جو ایسے حالات میں میں کبھی نہ کر سکتا، کبھی نہ کر سکتا۔ میرا سرتم دونوں کے آگے تا زندگی جھکا رہے گا۔ میں اجمیر شریف میں چشتی والے خواجہ کے عرس میں شریک ہونے کے لیے آ رہا ہوں، اس مہینہ کی پندرہ تاریخ کو فرنٹیر میل سے دہلی پہنچوں گا۔ ایک دن قیام تمہارے گھر پر کروں گا۔ تم مجھے اسٹیشن پر ضرور ملنا۔ خدا جانتا ہے تم سے کہنے کے لیے میرے دل میں ان گنت باتیں ہیں۔ ملو گے تو سب کہہ سناؤں گا۔ اب تو تمہاری دونوں لڑکیاں سیانی ہو گئی ہوں گی، شاید شادی بھی کر چکے ہو گے ان کی، اور بھی بال بچے ہوں گے تمہارے۔ ان سب سے میرا الگ الگ پیار کہنا۔ بھابی صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض ہے۔ میرے بھی چار بچے ہیں۔ خیر سے بڑے بڑے ہیں۔ ملنے پر سب کی کیفیت سناؤں گا۔ ملنا ضرور۔ ورنہ تمہارا گھر ڈھونڈنے میں مجھے بہت دقت ہو گی‘‘۔

تمہارا غلام سرور

مستری (فٹر) گریڈ اول، مشین شاپ، لوکو مغلپورہ

این۔ ڈبیلو۔ آر۔ مغربی پاکستان۔

 

خط ختم ہو چکا تھا۔ خط کو تہہ کر کے وہ لفافے میں رکھ رہا تھا اس کے چہرے پر گہری فکر پیدا ہو چلی تھی اور ایک قسم کی سختی بھی، جیسے اس کے چہرے کی ڈھیلی ڈھالی جلد اچانک تن گئی ہو۔

اس کی بیوی دونوں ہاتھوں میں ایک چھاج میں دال بٹور کر لاتی ہوئی اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔ شلوار قمیض اور دوپٹہ میں دبلا پتلاجسم، ہلکے ہلکے سیاہ بال جو اپنی چمک کھو کر اب مرجھائے ہوئے نظر آ رہے تھے، چہرے پر زردی سی کھنڈی ہوئی تھی، اس سے بولی:

’’یہ وہی غلام سرور ہے جو امرتسر میں ہماری بارک میں رہتا تھا؟‘‘موتاسنگھ نے بیوی کو گھورا اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خوف ابھر آیا۔ پھر اس خوف پر درشتی اور نفرت چھا گئی۔ اس نے جواب دیا۔

’’ہاں‘‘۔

’’کیا لکھا ہے اس نے؟‘‘ اس کی بیوی نے پھر پوچھا۔

’’وہ اجمیر کے عرس میں آ رہا ہے۔ کہتا ہے تمہارے گھر بھی آؤں گا ملنے کے لیے۔ لیکن میں اسے یہاں نہیں لاؤں گا‘‘۔

’’کیوں؟‘‘ یکایک اس کی بیوی نے چھاج پھینک دی۔ دوپٹے کو مروڑ کر دونوں ہاتھوں کے گرد اس طرح سختی سے لپیٹنے لگی جیسے کسی کی گردن مروڑ رہی ہو۔ کڑک کر پوچھا۔

’’بولو، اسے یہاں کیوں نہیں لاؤ گے؟‘‘

’’ماماں تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘ من جیت گھبرا کر پرے ہٹ گئی۔ موتا سنگھ بھی گھبرا کر چارپائی سے کھڑا ہو گیا، جیسے وہ کہیں پاگل تو نہیں ہو گئی تھی۔ بولا:

’’من جیت کی ماں! میں اس سے ملوں گا بھی نہیں۔ اس کے سامنے جاتے ہوئے شرم سی محسوس ہوتی ہے‘‘۔

بپھر کر اس نے خاوند کا گریبان بھی پکڑ لیا۔

’’تمہیں شرم محسوس ہوتی ہے؟ آج شرم محسوس ہوتی ہے جب میں بوڑھی ہو گئی ہوں! بارہ برس پہلے شرم نہیں محسوس ہوئی تھی جب میں جوان تھی۔ تب تو تم نے میری چھاتی پر کرپان رکھ کر مجھے خاموش کرا دیا تھا۔ میں اپنی چھاتی کے اندر پڑے ہوئے اتنے بڑے پھٹ کو آج تک نہیں بھول سکی۔ تمہیں بھی وہ پھٹ نظرنہیں آیا کبھی، کیسے نظر آ سکتا تھا۔ یہ نصیب جلی میں ہی ہوں جو آج تک چپکے چپکے رورو کر سسک سسک کراس گھاؤ کی پرورش کرتی رہی ہوں۔ میں اسی دن مر جاتی، اسی وقت جان دے دیتی۔ لیکن تم نے مرنے نہیں دیا۔ تم نے مجھے دلاسا دیا تھا، تم نے مجھے یقین دلایا تھا، اس بات کو کبھی یاد نہیں کرو گے۔ کبھی نفرت نہیں کرو گے۔ کبھی طعنہ نہیں دو گے۔ آج تمہیں اس سے ملتے ہوئے شرم کیوں آ رہی ہے؟ تمہیں یہ سوچ اس وقت کیوں نہیں آئی؟ میری بھی کوئی شرم ہے! میری بھی کوئی عزت ہے!! میرا زخم آج پھر پھٹ گیا ہے۔ میری عزت مٹی میں آج پھر ملی ہے‘‘۔ یہ کہتے کہتے وہ زار زار روتی ہوئی سینہ کوبی کرنے لگی اور دھم سے بیٹھ کر اپنا سر فرش کے ساتھ ٹکرانے لگی۔

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل