فہرست مضامین
- سنن ابن ماجہ
- قربانی کا بیان
- رسول اللہ کی قربانیوں کا ذکر
- قربانی کرنا واجب ہے یا نہیں؟
- قربانی کا ثواب
- کیسے جانور کی قربانی مستحب ہے؟
- باب اونٹ اور گائے کتنے آدمیوں کی طرف سے کافی ہے؟
- کتنی بکریاں ایک اونٹ کے برابر ہوتی ہیں؟
- کون سا جانور قربانی کے لیے کافی ہے؟
- کس جانور کی قربانی مکروہ ہے؟
- صحیح سالم جانور قربانی کے لیے خریدا پھر خریدار کے پاس آنے کے بعد جانور میں کوئی عیب پیدا ہو گیا
- ایک گھرانے کی طرف سے ایک بکری کی قربانی
- جس کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن بال اور ناخن نہ کتروائے
- نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
- نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
- اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا
- قربانی کی کھالوں کا بیان
- قربانیوں کا گوشت کھانا
- قربانیوں کا گوشت جمع کرنا
- عیدگاہ میں ذبح کرنا
- عقیقہ کا بیان
- فرعہ اور عتیرہ کا بیان
- ذبح اچھی طرح اور عمدگی سے کرنا
- ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا
- کس چیز سے ذبح کیا جائے؟
- کھال اتارنا
- دودھ والے جانور کو ذبح کرنے کی ممانعت
- عورت کا ذبیحہ
- بدکے ہوئے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ
- چوپایوں کو باندھ کر نشانہ لگانا اور مثلہ کرنا منع ہے
- نجاست کھانے والے جانور کے گوشت سے ممانعت
- گھوڑوں کے گوشت کا بیان
- پالتو گدھوں کا گوشت
- خچر کے گوشت کا بیان
- پیٹ کے بچہ کو ذبح، اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے
- شکار کا بیان
- شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
- شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
- کتا پالنے سے ممانعت، الا یہ کہ شکار، کھیت یا ریوڑ کی حفاظت کے لیے ہو
- کتے کے شکار کے بیان میں
- مجوسی کے کتے کا شکار
- تیر کمان سے شکار
- شکار رات بھر غائب رہے
- معراض (بے پر اور بے پیکان کے تیر) کے
- جانور کی زندگی میں ہی اس کا جو حصہ کاٹ لیا جائے
- مچھلی اور ٹڈی کا شکار
- جن جانوروں کو مارنا منع ہے
- چھوٹی کنکری مارنے کی ممانعت
- گرگٹ (اور چھپکلی) کو مار ڈالنا
- ہر دانت والا درندہ حرام ہے
- بھیڑیئے اور لومڑی کا بیان
- بجو کا حکم
- گوہ کا بیان
- خرگوش کا بیان
- جو مچھلی مر کر سطح آب پر آ جائے؟
- کوے کا بیان
- بلی کا بیان
- کھانا کھلانے کی فضیلت
- ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہو جاتا ہے
- مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں
- کھانے میں عیب نکالنا منع ہے
- کھانے سے قبل ہاتھ دھونا (اور کلی کرنا)
- تکیہ لگا کر کھانا
- کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا
- دائیں ہاتھ سے کھانا
- کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا
- پیالہ صاف کرنا
- اپنے سامنے سے کھانا
- ثرید کے درمیان سے کھانا منع ہے
- مسجد میں کھانا
- کھڑے کھڑے کھانا
- کدو کا بیان
- گوشت (کھانے ) کا بیان
- جانور کے کون سے حصے کا گوشت عمدہ ہے
- بھنا ہوا گوشت
- دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت
- کلیجی اور تلی کا بیان
- نمک کا بیان
- سرکہ بطور سالن
- روغن زیتون کا بیان
- دودھ کا بیان
- میٹھی چیزوں کا بیان
- ککڑی اور تر کھجور ملا کر کھانا
- کھجور کا بیان
- جب موسم کا پہلا پھل آئے
- دو دو، تین تین کھجوریں ملا کر کھانا منع ہے
- اچھی کھجور ڈھونڈ کر کھانا
- کھجور مکھن کے ساتھ کھانا
- میدہ کا بیان
- باریک چپاتیوں کا بیان
- فالودہ کا بیان
- گھی میں چپڑی ہوئی روٹی
- گندم کی روٹی
- جو کی روٹی
- میانہ روی سے کھانا اور سیر ہو کر کھانے کی کراہت
- ہر وہ چیز جس کو جی چاہے کھا لینا اسراف میں داخل ہے
- کھانا پھینکنے سے ممانعت
- بھوک سے پناہ مانگنا
- رات کا کھانا چھوڑ دینا
- دعوت و ضیافت
- اگر مہمان کوئی خلاف شرع بات دیکھے تو واپس لوٹ جائے
- گھی اور گوشت ملا کر کھانا
- جب گوشت پکائیں تو شوربہ زیادہ رکھیں
- لہسن، پیاز اور گندنا کھانا
- دہی اور گھی کا استعمال
- پھل کھانے کا بیان
- خضاب ترک کرنا
- جوڑے اور چوٹیاں بنانا
- زیادہ (لمبے ) بال رکھنا مکروہ ہے
- کہیں سے بال کترنا اور کہیں سے چھوڑنا
- انگشتری کا نقش
- (مردوں کیلئے ) سونے کی انگشتری
- انگشتری پہننے میں نگینہ ہتھیلی کی طرف کی رکھنا
- دائیں ہاتھ میں انگشتری پہننا
- انگوٹھے میں انگشتری پہننا
- گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
- تنہائی کی کراہت
- سوتے وقت آگ بجھا دینا
- راستہ میں پڑاؤ ڈالنے کی ممانعت
- ایک جانور پر تین کی سواری
- لکھ کر مٹی سے خشک کرنا
- تین آدمی ہوں تو وہ (آپس میں ) سرگوشی نہ کریں
- جس کے پاس تیر ہو تو اسے پیکان سے پکڑے
- قرآن کا ثواب
- زہد کا بیان
- مشروبات کا بیان
- خمر ہر بائی کی کنجی ہے
- وہ جو دنیا میں شراب پئے گا وہ آخرت میں شراب سے محروم رہے گا
- شراب کا رسیا
- شراب نوشی کرنے والے کی کوئی نماز قبول نہیں
- شراب میں دس جہت سے لعنت ہے
- شراب کی تجارت
- لوگ شراب کے نام بدلیں گے (اور پھر اس کو حلال سمجھ کر استعمال کریں گے )
- ہر نشہ آور چیز حرام ہے
- جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے
- دو چیزیں (کھجور اور انگور) اکٹھے بھگو کر شربت بنانے کی ممانعت
- نبیذ بنانا اور پینا
- شراب کے برتنوں میں نبیذ بنانے کی ممانعت
- ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت کا بیان
- مٹکے میں نبیذ بنانا
- برتن کو ڈھانپ دینا چاہیے
- چاندی کے برتن میں پینا
- تین سانس میں پینا
- مشکیزوں کا منہ الٹ کر پینا
- مشکیزہ کو منہ لگا کر پینا
- کھڑے ہو کر پینا
- جب مجلس میں کوئی چیز پئے تو اپنے بعد دائیں طرف والے کو دے اور وہ بھی بعد میں دائیں والے کو دے
- برتن میں سانس لینا
- مشروب میں پھونکنا
- چلو سے منہ لگا کر پینا
- میزبان (ساقی) آخر میں پئے
- شیشہ کے برتن میں پینا
- طب کا بیان
- اللہ نے جو بیماری بھی اتاری اس کا علاج بھی نازل فرمایا
- بیمار کی طبیعت کسی چیز کو چاہے تو (حتی المقدور) مہیا کر دینی چاہیے
- پرہیز کا بیان
- مریض کو کھانے پر مجبور نہ کرو
- ہریرہ کا بیان
- کلونجی کا بیان
- شہد کا بیان
- کھنبی اور عجوہ کھجور کا بیان
- سنا اور سنوت کا بیان
- نماز شفاء ہے
- ناپاک اور خبیث دوا سے ممانعت
- مسہل دوا
- گلے پڑنے یا گھنڈی پڑنے کا علاج اور دبانے کی ممانعت
- عرق النساء کا علاج
- زخم کا علاج
- جو طب سے نا واقف ہو اور علاج کرے
- ذات الجنب کی دوا
- بخار کا بیان
- بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو
- پچھنے لگانے کا بیان
- پچھنے لگانے کی جگہ
- پچھنے کن دنوں میں لگائے؟
- داغ دے کر علاج کرنا
- داغ لینے کا جواز
- اثمد کا سرمہ لگانا
- طاق مرتبہ سرمہ لگانا
- شراب سے علاج کرنا منع ہے
- قرآن سے علاج ( کر کے شفاء حاصل) کرنا
- مہندی کا استعمال
- اونٹوں کے پیشاب کا بیان
- برتن میں مکھی گر جائے تو کیا کریں؟
- نظر کا بیان
- نظر کا دم کرنا
- وہ دم جن کی اجازت ہے
- سانپ اور بچھو کا دم
- جو دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کئے گئے
- بخار کا تعویذ
- دم کر کے پھونکنا
- تعویذ لٹکانا
- آسیب کا بیان
- قرآن کریم سے (علاج کر کے ) شفاء حاصل کرنا
- دو دھاری والا سانپ مار ڈالنا
- نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بد فال لینا نا پسندیدہ ہے
- جذام
- جادو
- گھبراہٹ اور نیند اچاٹ ہونے کے وقت کی دعا
- آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے
- نیا کپڑا پہننے کی دعا
- ممنوع لباس
- بالوں کا کپڑا پہننا
- سفید کپڑے
- تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکانا
- پائجامہ کہاں تک رکھنا چاہئے؟
- قمیص پہننا
- قمیص کی لمبائی کی حد
- قمیص کی آستین کی حد
- گھنڈیاں کھلی رکھنا
- پائجامہ پہننا
- عورت آنچل کتنا لمبا رکھے؟
- سیاہ عمامہ
- عمامہ (شملہ ) دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹکانا
- ریشم پہننے کی ممانعت
- جس کو ریشم پہننے کی اجازت ہے
- ریشم کی گوٹ لگانا جائز ہے
- عورتوں کے لئے ریشم اور سونا پہننا
- مردوں کا سرخ لباس پہننا
- کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مردوں کے لئے صحیح نہیں
- مردوں کے لئے زرد لباس
- جو چاہو پہنو بشرطیکہ اسراف یا تکبر نہ ہو
- گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
- تصاویر پامال جگہ میں ہوں
- سرخ زین پوش (کی ممانعت )
- چیتوں کی کھال پر سواری
- والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک
- ان لوگوں سے تعلقات اور حسن سلوک جاری رکھو جن سے تمہارے والد صاحب کے تعلقات تھے
- والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا
- پڑوس کا حق
- مہمان کا حق
- یتیم کا حق
- رستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا
- پانی کے صدقہ کی فضیلت
سنن ابن ماجہ
حصہ پنجم
امام ابن ماجہ
قربانی کا بیان
رسول اللہ کی قربانیوں کا ذکر
نصر بن علی جہضمی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو سیاہ، سفید رنگ ملے ہوئے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اور ذبح کے وقت بِسمِ اللہِ اَللہُ اَکبَرُ کہتے اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پہلو پر پاؤں رکھ کر اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے تھے۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، محمد بن اسحاق، یزید بن ابی حبیب، ابی عیاش زرقی، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کے روز دو مینڈھوں کی قربانی دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو قبلہ رو کیا تو یہ کلمات ارشاد فرمائے إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ اللَّہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِہِ میں نے یکسو ہو کر اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، قربانی، زندگی اور موت تمام جہانوں کے پروردگار اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں ، اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔ اے اللہ! یہ قربانی آپ کی عطا سے ہے اور آپ ہی کی رضا کے لیے ہے محمد اور ان کی امت کی طرف سے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، سفیان ثوری، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، ابی سلمہ، عائشہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے موٹے سینگ دار، سفید وسیاہ رنگ کے خصی مینڈھے خریدتے۔ ان میں سے ایک اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے ذبح کرتے جو اللہ کے ایک ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پہنچانے کی شہادت دیں اور دوسری اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے ذبح کرتے۔
قربانی کرنا واجب ہے یا نہیں؟
ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، عبد اللہ بن عیاش، عبد الرحمن اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کو وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ابن عون، حضرت محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے قربانی کے متعلق دریافت کیا کہ کیا یہ واجب ہے؟ فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اہل اسلام قربانی کرتے رہے اور یہی طریقہ جاری ہوا۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، معاذ بن معاذ، ابن عون، ابو رملہ، حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب ہی وقوف کیے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ واجب ہے۔ تمہیں معلوم ہے عتیرہ کیا ہے؟ وہی جسے لوگ رحبیہ کہتے ہیں۔
قربانی کا ثواب
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، عبد اللہ بن نافع، ابو مثنی، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دس ذی الحجہ کو ابن آدم کوئی ایسا عمل نہیں کرتا جو اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ ہو اور روز قیامت قربانی کا جانور سینگوں ، کھروں اور بالوں سمیت پیش ہو گا اور خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ کے ہاں مقام قبولیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
٭٭ محمد بن خلف عسقلانی، آدم بن ابی ایاس، سلام بن مسکین، عائذ اللہ ، ابی داؤد، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے والد ابراہیم کی سنت ہیں۔ انہوں نے عرض کیا ان میں ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلہ نیکی۔ عرض کیا اور اون میں؟ فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ (بھی) نیکی۔
کیسے جانور کی قربانی مستحب ہے؟
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، حفص بن غیاث، جعفر بن محمد، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سینگوں والے نر مینڈھے کی قربانی دی جس کا منہ، پاؤں اور آنکھیں سیاہ تھیں۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، محمد بن شعیب، سعید بن عبد العزیز، حضرت یونس بن میسرہ فرماتے ہیں کہ میں صحابی رسول حضرت ابو سعید زرقی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی خریدنے گیا تو ابو سعید نے ایک چتکبرے مینڈھے کی طرف اشارہ کیا جو جسم میں نہ بہت اونچا تھا نہ پست اور فرمایا کہ میرے لیے یہ خرید لو۔ شاید انہوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مینڈھے کے مشابہ سمجھا۔
٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، ابو عائذ سلیم بن عامر، حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہترین کفن یہ ہے کہ جوڑا (ازار اور چادر) ہو اور بہترین قربانی سینگوں والا مینڈھا ہے۔
باب اونٹ اور گائے کتنے آدمیوں کی طرف سے کافی ہے؟
ہدیہ بن عبد الوہاب، فضل بن موسیٰ ، حسین بن واقد، علباء بن احمر، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے کہ عید قربان (عیدالاضحی) آ گئی تو ہم اونٹ میں دس اور گائے میں سات افراد شریک ہوئے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، عبد الرزاق، مالک بن انس، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اونٹ سات افراد کی طرف سے اور گائے بھی سات افراد کی طرف سے قربان کی۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابو کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ جن ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) نے حجۃ الوداع میں عمرہ کیا (پھر حج کیا یعنی حج تمتع کیا) ان کی طرف سے ایک گائے ذبح کی۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو بکر بن عیاش، عمرو بن عیاش، عمرو بن میمون، ابو حاضر ازدی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اونٹ کم ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح مصری، ابو طاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عمرہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں آل محمد کی طرف سے ایک گائے ذبح کی۔
کتنی بکریاں ایک اونٹ کے برابر ہوتی ہیں؟
محمد بن معمر، محمد بن بکر برسانی، ابن جریج، عطاء، خراسانی، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک مرد حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ذمہ ایک اونٹ ہے اور میں مالی اعتبار سے خرید پر وسعت رکھتا ہوں لیکن اونٹ ملتا ہی نہیں کہ خریدوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا سات بکریاں خرید کر ذبح کر دو۔
٭٭ ابو کریب، محاربی، عبد الرحیم، سفیان ثوری، سعید بن مسروق، حسین بن علی، زائدہ، سعید بن مسروق، عبایہ حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم تہامہ کے ذوالحلیفہ میں پہنچے تو ہمیں (غنیمت میں ) بہت سے اونٹ اور بکریاں ملیں تو لوگوں نے جلدی سے کام لیا اور تقسیم سے قبل ہی ہانڈیاں چڑھا دیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم پر ہانڈیاں الٹ دی گئیں (کیونکہ تقسیم سے قبل غنیمت کا مال استعمال کرنا درست نہیں ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مال غنیمت کی تقسیم میں ) اونٹ کو دس بکریوں کے برابر رکھا۔
کون سا جانور قربانی کے لیے کافی ہے؟
محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، ابی خیر، حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بکریاں دیں۔ انہوں نے قربانی کے لیے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیں۔ ایک ایک سالہ بچہ باقی رہا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی قربانی تم کر لو۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، انس بن عیاض، محمد بن ابی یحییٰ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چھ ماہ کے بھیڑ کی قربانی جائز ہے۔ (بشرطیکہ اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو)۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، ثوری، عاصم بن حضرت کلیب فرماتے ہیں کہ ہم بنو سلیم کے ایک صحابی رسول جن کا نام مجاشع تھا، کے ساتھ تھے کہ بکریاں کم ہو گئیں تو ان کے حکم سے ایک صاحب نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ کچھ ماہ کا بھیڑ ایک سال کے بکرے کی جگہ کافی ہو جاتا ہے۔
٭٭ ہارون بن حیان، عبد الرحمن بن عبد اللہ زہیر، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دو برس کا جانور ذبح کیا کرو، الا یہ کہ تمہیں تنگی ہو تو چھ ماہ کا بھیڑ ذبح کر سکتے ہو۔
کس جانور کی قربانی مکروہ ہے؟
محمد بن صباح، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق ، شریح بن نعمان، سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو یا اس کے کان میں سوراخ ہو یا اس کا کوئی ایک عضو یا سب اعضاء کٹے ہوئے ہوں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان بن عیینہ ، سلمہ بن کہیل، حجیہ بن عدی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں (قربانی کے جانور کی) آنکھ اور کان غور سے دیکھنے کا حکم دیا۔ (تاکہ اطمینان ہو کہ یہ سب اعضاء سلامت ہیں )
٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، محمد بن جعفر، عبد الرحمن، ابو داؤد، ابن ابی عدی، ابو ولید، شعبہ، سلیمان بن عبد الرحمن، حضرت عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب سے عرض کیا کہ جو قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکروہ یا ممنوع قرار دی، مجھے اس کے متعلق بتایئے۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا اور میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک سے چھوٹا ہے ، کہ چار جانوروں کی قربانی درست نہیں ایک کانا، جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ دوسرا بیمار، جس کی بیمار واضح ہو۔ تیسرا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ چوتھا، اتنا دبلا کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔ عبید نے کہا کہ میں کان میں عیب کو بھی پسند نہیں کرتا۔ فرمایا جو تمہیں پسند نہ ہو چھوڑ دو لیکن دوسروں پر حرام مت کرو۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، جری بن کلیب، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سینگ ٹوٹے اور کان کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔ (یعنی قربانی مکمل اعضاء والے جانور کی کی جائے )۔
صحیح سالم جانور قربانی کے لیے خریدا پھر خریدار کے پاس آنے کے بعد جانور میں کوئی عیب پیدا ہو گیا
محمد بن یحییٰ ، محمد بن عبد الملک ابو بکر، عبد الرزاق، ثوری، جابر بن یزید، محمد بن قرظہ انصاری، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم نے قربانی کے لیے ایک مینڈھا خریدا۔ پھر بھیڑیا اس کے کان اور سرین میں سے کھا گیا تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں اسی کی قربانی کا حکم دیا۔
ایک گھرانے کی طرف سے ایک بکری کی قربانی
عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، ضحاک بن عثمان، عبارہ بن عبد اللہ بن صیاد، حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ایوب انصاری سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں قربانی کیسے ہوتی تھی؟ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں مرد ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتا تھا۔ پھر وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے پھر لوگ فخر کرنے لگے اور اب کی حالت تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔
٭٭ اسحاق بن منصور، عبد الرحمن بن مہدی، محمد بن یوسف، محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، سفیان ثوری، بیان، شعبی، حضرت ابو سریحہ کہتے ہیں کہ میرے اہل خانہ نے مجھے شفقت پر ابھارا جبکہ میں سنت پر عامل تھا۔ پہلے گھر والے ایک دو بکریوں کی قربانی کرتے تھے اور اب ہمیں ہمارے پڑوسی بخیل کہتے ہیں (اس بات پر کہ ہم صرف ایک دو بکریاں قربان کریں )
جس کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن بال اور ناخن نہ کتروائے
ہارون بن عبد اللہ، سفیان بن عیینہ، عبد الرحمن بن حمید بن عبد الرحمن بن عوف، سعید بن مسیب، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہوں اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال اور بدن میں سے کچھ بھی نہ لے۔
٭٭ حاتم بن بکر ضبی، ابو عمرو، محمد بن بکر برسانی، محمد بن سعید بن یزید بن ابراہیم، ابو قتیبہ، یحییٰ بن کثیر، شعبہ، مالک بن انس، عمرو بن مسلم، سعید بن مسیب، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو بھی ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور اس کا قربانی کرنے ارادہ ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ اتارے۔ (یعنی یکم ذی الحجہ سے بوقت قربانی تک ان چیزوں سے اجتناب کرے۔ قربانی کے بعد بال کٹوا لے اور ناخن کتروا لے )۔
نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
عثمان بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نے نحر کے دن نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کا امر فرمایا۔
٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، اسود بن قیس، جندب حضرت جندب بجلی فرماتے ہیں کہ میں نے عید قربان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ادا کی اور کچھ لوگوں نے نماز عید سے قبل ہی جانور ذبح کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جس نے بھی نماز سے قبل جانور ذبح کیا ہے وہ دوبارہ قربانی کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، یحییٰ بن سعید، عباد بن تمیم، حضرت عویمر بن اشقر سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز عید سے قبل جانور ذبح کر دیا پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوبارہ قربانی کرو۔
نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرنا ممنوع ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، خالدحذاء، ابی قلابہ، ابی زید، ابو بکر، عبد الاعلی، عمرو بن بجدان، ابی زید، محمد بن مثنی، ابو موسیٰ عبد الصمد بن عبد الوارث ، خالدحذاء، ابی قلابہ، عمرو بن بجدان، حضرت ابو زید انصاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انصار کے ایک گھر کے قریب سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گوشت بھننے کی خوشبو محسوس ہوئی۔ فرمایا کس نے قربانی ذبح کر لی؟ تو ایک انصاری باہر آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے ، اور نماز سے قبل اس لیے ذبح کیا کہ گھر والوں اور پڑوسیوں کو کھلاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دوبارہ قربانی کرنے کا امر فرمایا تو اس نے عرض کیا اسی اللہ کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ میرے پاس صرف بھیڑ کا بچہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اسے ہی ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہو گا۔
اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھوں سے ذبح کر رہے ہیں۔ اس (جانور) کے پہلو پر پاؤں رکھ کر۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن موذن رسول حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی زریق کے راستہ میں گلی کے کنارے اپنی قربانی، اپنے ہاتھوں سے چھری سے ذبح کی۔
قربانی کی کھالوں کا بیان
محمد بن معمر، محمد بن بکر برسانی، ابن جریج، حسن بن مسلم، مجاہد، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اپنی قربانی کا گوشت، کھالیں اور جھولیں (وغیرہ) سب کے سب مساکین میں تقسیم کرنے کا امر فرمایا۔
قربانیوں کا گوشت کھانا
ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، جعفر بن محمد، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا تو قربانی کے ہر اونٹ سے گوشت کا ایک پارچہ لے کر ہنڈیا میں ڈال دیا گیا۔ سب گوشت کھایا اور شوربہ پیا۔
قربانیوں کا گوشت جمع کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، عبد الرحمن بن یا بس، سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کا گوشت جمع کر لینے سے اس لیے منع فرمایا تھا کہ لوگ محتاج تھے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی اجازت فرما دی تھی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، خالدحذاء، ابی ملیح، حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تمہیں تین یوم سے زیادہ قربانیوں کے گوشت رکھنے سے منع کیا تھا۔ سو اب کھا لیا کرو اور جمع بھی کر سکتے ہو۔
عیدگاہ میں ذبح کرنا
محمد بن بشار، ابو بکر بن حنفی، اسامہ بن زید، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قربانی عیدگاہ میں ذبح کرتے تھے۔ (عیدگاہ شہر سے باہر تھی)
عقیقہ کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن ابی یزید، سباع بن ثابت، حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں کافی ہیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کافی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، یوسف بن ماہک، حفصہ بنت عبد الرحمن، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں لڑکے کی طرف سے (بالترتیب) دو بکریوں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرے کے عقیقہ کا امر فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام بن حسان، حفصہ بنت سیرین، حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے نجاست کو دور کرو۔ (یعنی ساتویں روز اس کو پاک کرنا چاہیے اور اس کے بال منڈوا دینے چاہئیں )
٭٭ ہشام بن عمار، شعیب بن اسحاق ، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر لڑکا اپنے عقیقہ (کے عوض) میں گروی رکھا ہوا ہے اور ساتویں روز اس کی طرف سے عقیقہ ذبح کیا جائے اور سر مونڈا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ایوب بن موسی، حضرت یزید بن عبد المزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لڑکے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے اور (عقیقہ کا خون) لڑکے کے سر کو نہ لگایا جائے۔
فرعہ اور عتیرہ کا بیان
ابو بشر، بکر بن خلف، یزید بن زریع، خالد حذاء، ابی ملیح، حضرت نبیشہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پکارا اور کہا اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت میں رجب میں بکری ذبح کیا کرتے تھے تو آپ ہمیں اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ فرمایا اللہ کے لیے جس ماہ چاہو ذبح کرو۔ (رجب کی خصوصیت نہیں ) اور نیکی اللہ کے لیے کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت میں فرع (پہلونٹا بچہ) ذبح کیا کرتے تھے۔ آپ اس کی بابت ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ فرمایا ہر چرنے والے جانور میں ذبح ہے جسے تمہارا جانور جنے پھر جب وہ بار برداری کے لائق (جوان) ہو جائے تو تم اسے ذبح کر کے مسافروں پر اس کا گوشت صدقہ کر دو۔ ایسا کرنا بہتر ہے (بہ نسبت اس کے کہ بچہ کو ہی ذبح کرے )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرمایا نہ فرعہ ہے نہ عتیرہ۔ ہشام کہتے ہیں کہ فرعہ پہلونٹا بچہ ہے اور عتیرہ بکری ہے جسے گھر والے (ماہ) رجب میں ذبح کریں۔
٭٭ محمد بن ابی عمردعنی، سفیان بن عیینہ، زید بن اسلم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ تو فرعہ کچھ ہے اور نہ ہی عتیرہ۔ ابن ماجہ نے کہا یہ حدیث محمد بن ابی عمر عدنی کی نادر حدیثوں میں سے ہے۔
ذبح اچھی طرح اور عمدگی سے کرنا
محمد بن مثنی، عبد الوہاب، خالدحذاء، ابی قلابہ، ابی الاشعث، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (رحم و انصاف اور عمدگی کو) فرض فرمایا۔ لہٰذا جب تم قتل کرو تو عمدگی سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو عمدگی سے ذبح کرو اور تم میں سے ایک اپنی چھری کو خوب تیز کرے اور (اس طرح) اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عقبہ بن خالد، موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرد کے قریب سے گزرے وہ ایک بکری کا کان پکڑ کر اسے گھسیٹ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اس کا کان چھوڑ دو اور گردن پکڑ لو۔
٭٭ محمد بن عبد الرحمن بن اخی حسین جعفی، مروان بن محمد، ابن لہیعہ، قرہ بن حیوئیل، زہری، سالم بن عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمر، دوسری سند سے جعفر بن مسافر، ابو الاسود، ابن لہیعہ، یزید بن ابی حبیب، سالم حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چھریاں تیز کرنے اور دوسرے جانوروں سے چھپا کرذبح کرنے کا حکم دیا اور فرمایا جب تم میں سے کوئی ذبح کرے تو جلدی سے ذبح کر ڈالے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا
عمرو بن عبد اللہ ، وکیع، اسرائیل، سماک، عکرمہ، حضرت ابن عباس آیت شیاطین اپنے دوستوں کو وحی کرتے ہیں کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ شیاطین کہا کرتے تھے کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اسے مت کھاؤ اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے کھا لیا کرو۔ اس پر اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے مت کھاؤ
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان ، ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کچھ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں (فروخت کرنے کے لیے ) ہمیں معلوم نہیں کہ اس پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا گیا یا نہیں؟ فرمایا تم اللہ کا نام لے کر کھا لیا کرو اور یہ لوگ قریب ہی میں اسلام لائے تھے۔
کس چیز سے ذبح کیا جائے؟
ابو بکر بن ابی شیبہ ابو الاحوص، عاصم، شعبی، حضرت محمد بن صیفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تیز دھار سفید پتھر سے دو خرگوش ذبح کیے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ان کو کھانے کا حکم دیا۔
٭٭ ابو بشربکر بن حلف، غندر، شعبہ، حاضر بن مہاجر، سلیمابن یسار، حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ایک بھیڑیئے نے بکری کو دانت لگائے تو لوگوں نے اسے سفید تیز دھار پتھر سے ذبح کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو وہ بکری کھانے کی اجازت دی۔
٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، سماک بن حرب، مری بن قطری، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم شکار کرتے ہیں ، کبھی چھری نہیں ملتی البتہ تیز دھار پتھر یا لاٹھی کی ایک جانب (تیز دھار) میسر ہوتی ہے۔ فرمایا خون بہاؤ جس سے چاہو اور اس پر اللہ کا نام لو۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عمر بن عبیدطنافسی، سعید بن مسروق، عبایہ بن رفاعہ، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم جنگوں میں ہوتے ہیں اس وقت کبھی ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی۔ فرمایا دانت اور ناخن کے علاوہ جو چیز بھی خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لے لیا جائے اسے کھا سکتے ہو کیونکہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔
کھال اتارنا
ابو کریب، مروان بن معاویہ، ہلال بن میمون جہنی، عطاء بن یزیدلیثی، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک لڑکے کے قریب سے گزرے۔ وہ بکری کی کھال اتار رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا تم ذرا الگ ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں دکھاؤں (کہ کھال کیسے اتارتے ہیں ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا دست مبارک کھال اور گوشت کے درمیان ڈالا۔ یہاں تک کہ بغل تک چھپ گیا اور فرمایا ارے لڑکے ! اس طرح کھال اتارا کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چلے گئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی اور وضو نہ فرمایا۔
دودھ والے جانور کو ذبح کرنے کی ممانعت
ابو بکر بن ابی شیبہ، خلف بن خلیفہ، عبد الرحمن بن ابراہیم، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص (رضی اللہ عنہ) آئے اور چھری لی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (کی خدمت میں پیش کرنے ) کے لیے جانور ذبح کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا دودھ والا جانور ذبح نہ کرنا۔
٭٭ علی بن محمد، عبد الرحمن محاربی، یحییٰ بن عبد اللہ ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے اور حضرت عمر سے کہا کہ ہمارے ساتھ واقفی کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا مرحبا! خوش آمدید! پھر چھری لی اور بکریوں میں گھومے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دودھ والی بکری سے بچنا۔ (اسے ذبح نہ کرنا)
عورت کا ذبیحہ
ہناد بن سری، عبدہ بن سلیمان، عبید اللہ نافع، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے تیز دھار پتھر سے بکری ذبح کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں کچھ حرج نہ سمجھا۔
بدکے ہوئے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عمر بن عبید، سعید بن مسروق، عبایہ بن رفاعہ، حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے۔ ایک اونٹ بدک گیا تو کسی شخص نے اسے تیر مارا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (کبھی) اونٹ بھی بدک جاتے ہیں ، وحشی جانوروں کی طرح۔ سو جو تمہارے ہاتھ نہ آئے اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، حماد بن سلمہ، حضرت ابو العشراء کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ذبح صرف حلق اور سینہ کے درمیان ہوتا ہے؟ فرمایا اگر تم اس کی ران میں بھی نیزہ ماردو تو کافی ہے۔
چوپایوں کو باندھ کر نشانہ لگانا اور مثلہ کرنا منع ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن سعید، عقبہ بن خالد، موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی، حضرت ابو سعید خدری بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے جانوروں کے اعضاء (یعنی) ناک، کان وغیرہ کاٹنے سے منع فرمایا۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، شعبہ، ہشام بن زید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جانوروں کو باندھ کر نشانہ لگانے منع فرمایا۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو بکر بن خلادباہلی، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، سماک ، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی ذی روح چیز کو (باندھ کر) نشانہ مت بناؤ۔ (یعنی تختہ مشق مت بناؤ )
٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے کسی بھی جانور کو باندھ کر مار ڈالنے سے منع فرمایا۔
نجاست کھانے والے جانور کے گوشت سے ممانعت
سوید بن سعید، ابن ابی زائدہ، محمد بن اسحاق ، ابن ابی نجیح، مجاہد، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجاست کھانے والے جانور کے گوشت اور دودھ (دونوں چیزوں ) سے منع فرمایا۔
گھوڑوں کے گوشت کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام بن عروہ، فاطمہ بنت منذر، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ مبارک میں ایک گھوڑا ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا۔
٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، ابو عاصم، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دنوں میں ہم نے گھوڑوں اور گورخروں کا گوشت کھایا۔
پالتو گدھوں کا گوشت
سوید بن سعید، علی بن مسہر، حضرت ابو اسحاق شیبانی فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی سے پالتو گدھوں کے گوشت کے متعلق پوچھا تو فرمایا ہمیں جنگ خیبر کے روز بھوک لگی۔ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ لوگوں کو غنیمت میں گدھے ملے جو شہر سے باہر تھے۔ ہم نے ان کو نحر کیا اور ہماری ہنڈیا جوش مار ہی تھیں کہ نبی کے منادی نے پکار کر کہا ہانڈیاں الٹ دو اور پالتون گدھوں کا تھوڑا سا گوشت بھی مت کھاؤ۔ تو ہم نے ہانڈیاں الٹ دیں۔ ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گدھا بالکل حرام فرمایا؟ کہنے لگے رسول اللہ نے اس لیے حرام فرمایا کہ یہ نجاست کھاتا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب ، معاویہ بن صالح، حسن بن جابر، حضرت مقدام بن معدی کرب کندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کئی اشیاء کا حرام ہونا بتایا، ان میں پالتو گدھوں کا بھی ذکر کیا۔
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، عاصم، شعبی، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں پالتو گدھوں کا گوشت پھینک دینے کا حکم فرمایا، کچا ہو یا پکا۔ پھر اس کے بعد اس کی اجازت نہیں دی۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرہ بن عبد الرحمن ، یزید بن ابی عبید، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنگ خیبر میں شریک ہوئے۔ شام ہوئی تو لوگوں نے آگ روشن کی (چولہے جلائے ) نبی نے پوچھا کیا پکا رہے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا پالتو گدھوں کا گوشت۔ فرمایا ان (ہانڈیوں ) میں جو کچھ ہے انڈیل دو اور ان کو توڑ ڈالو۔ ایک شخص نے عرض کیا کیا جو کچھ ان میں ہے اسے انڈیل کر (ہانڈیاں ) دھو نہ لیں؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چلو ایسا کر لو۔
٭٭ محمد بن یحییٰ بن یحییٰ ، عبد الرزاق، معمر، ایوب، ابن سیرین، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منادی نے پکار کر کہا بلاشبہ اللہ اور اس کے رسول دونوں تمہیں پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرماتے ہیں کیونکہ یہ ناپاک ہے۔
خچر کے گوشت کا بیان
عمرو بن عبد اللہ وکیع، سفیان محمد بن یحییٰ ، عبد الرزاق، ثوری، معمر، عبد الکریم جزری، حضرت عطا رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت جابر نے بیان فرمایا ہم (زمانہ نبوی) گھوڑے کا گوشت کھا لیا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا اور خچروں کا؟ فرمایا نہیں۔
٭٭ محمد بن مصفی، بقیہ، ثور بن یزید، صالح بن یحییٰ بن مقدام بن معدیکرب، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھوڑے ، خچر اور گدھے کا گوشت (کھانے ) سے منع فرمایا۔
پیٹ کے بچہ کو ذبح، اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے
ابو کریب ، عبد اللہ بن مبارک، ابو خالد الاحمر، عبدہ بن سلیمان ، مجالد، ابی وداک، حضرت ابو سعید خدری بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پیٹ کے بچہ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا اگر چاہو تو اسے کھا سکتے ہو کیونکہ اس کا ذبح کرنا، اس کی ماں کا ذبح کرنا ہی ہے۔
شکار کا بیان
شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، شعبہ، ابی ثیاح، مطرف، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا لوگوں کو کتوں سے کیا غرض! پھر ان کو شکاری کتا رکھنے کی اجازت دی۔
شکاری اور کھیت کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کو مارنے کا حکم
محمد بن بشار، عثمان بن عمر، محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی تیاح، مطرف، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا لوگوں کو کتوں سے کیا غرض! پھر ان کو کھیت اور باغ کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت فرما دی۔
٭٭ سوید بن سعید، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ ابو طاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو بلند آواز سے کتوں کو مارنے کا حکم فرماتے سنا اور کتوں کو قتل کر دیا جاتا تھا سوائے شکار یا ریوڑ کے کتے کے۔
کتا پالنے سے ممانعت، الا یہ کہ شکار، کھیت یا ریوڑ کی حفاظت کے لیے ہو
ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس نے کتا پالا تو ہر روز اس کے عمل سے ایک قیراط اجر کی کمی کی جاتی ہے۔ الا یہ کہ کھیت یا ریوڑ کی حفاظت کے لیے پالے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبد اللہ ، ابی شہاب، یونس بن عبید، حسن، حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر کتا مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتی تو میں سب کے قتل کا حکم دے دیتا۔ تاہم بالکل سیاہ کتے کو مار دیا کرو اور جو لوگ بھی کتا پالیں ، ان کے اجروں میں ہر روز دو قیراط کم کر دیئے جاتے ہیں۔ الا یہ کہ شکار یا کھیت کی حفاظ کے لیے ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، مالک بن انس یزید بن خصیفہ، سائب بن یزید، حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے سنا جو (کتا) کھیت یا ریوڑ کی حفاظت کے کام بھی نہ آتا ہو اس کے (مالک کے ) عمل سے ہر روز ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ کسی نے ان سے عرض کیا کہ آپ نے خود نبی سے سنا؟ فرمایا جی ہاں ! اس مسجد (نبوی) کے رب کی قسم۔
کتے کے شکار کے بیان میں
محمد بن مثنی، ضحاک بن مخلد، حیوہ بن شریح، ربیعہ بن یزید، ابو ادریس خولانی، حضرت ابو ثعلبہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب کے علاقہ میں رہتے ہیں۔ ان کے برتنوں میں کھانا بھی کھالیتے ہیں اور شکاروں کے علاقہ میں رہتے ہیں۔ میں اپنے کمان اور اپنے سدھائے ہوئے کتے کے ذریعہ بھی شکار کر لیتا ہوں جو سدھایا ہوا نہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا تم نے جو کہا کہ تم اہل کتاب کے علاقہ میں رہتے ہو تو تم ان کے برتنوں میں نہ کھایا کرو، الا یہ کہ سخت مجبوری ہو تو ان کے برتنوں کو دھو لو۔ پھر ان میں کھانا کھاؤ اور جو تم نے شکار کا ذکر کیا تو جو تم تیر کمان سے شکار کرو، اللہ کا نام لے کر کھالو اور جو سدھائے ہوئے کتے سے شکار کرو تو اسے بھی اللہ کا نام لے کر کھالو اور جو بے سدھائے کتے سے شکار کرو اور تمہیں ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو ذبح (کر کے ) کھالو۔
٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل، بیان بن بشر، شعبی، حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے دریافت کیا ہم لوگ کتوں کے ذریعہ شکار کرتے ہیں۔ فرمایا جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتے چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لو۔ تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ لائیں ، اسے کھالو اگرچہ وہ اس کو جان سے مار ڈالیں۔ الا یہ کہ کتا خود بھی اس شکار میں کچھ کھالے۔ لہٰذا اگر کتا اس شکار میں سے کھالے تو تم اس شکار کو مت کھاؤ کیونکہ اس صورت میں مجھے خدشہ ہے اس شکار کو کتے نے اپنے لیے پکڑ رکھا ہو اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی شامل ہو جائیں تو پھر بھی تم نہ کھاؤ۔ امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ علی بن منذر (راوی حدیث) کو فرماتے سنا کہ میں نے پچاسی حج کیے جن میں اکثر پیدل تھے۔
مجوسی کے کتے کا شکار
عمرو بن عبد اللہ ، وکیع، شریک، حجاج بن ارطاہ، قاسم بن ابی برہ، سلیمان ، حضرت جابر بن عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے (شکار پر چھوڑے ہوئے ) کتوں اور پرندوں کے شکار سے منع کیا گیا ہے۔
٭٭ عمرو بن عبد اللہ، وکیع، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال، عبد اللہ بن صامت حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خالص سیاہ کتے کی بابت دریافت کیا تو فرمایا وہ شیطان ہے۔
تیر کمان سے شکار
ابو عمیرعیسیٰ بن محمدنحاش، عیسیٰ بن یونس رملی، ضمرہ بن ربیعہ، اوزاعی، یحییٰ بن سعید، سعید بن مسیب، حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شکار تو اپنی کمان (اور تیر) سے کرے وہ کھا سکتا ہے۔
٭٭ علی بن منذر محمد بن فضیل مجاہد بن سعید، عامر، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم تیر انداز لوگ ہیں۔ فرمایا جب تم تیر پھینکو اور جانور کو زخمی کر دو تو جو جانور زخمی کر دیا وہ کھا سکتے ہو۔
شکار رات بھر غائب رہے
محمد بن یحییٰ ، عبد الرزاق، معمر، عاصم شعبی، حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں شکار کو تیر مارتا ہوں۔ پھر وہ رات بھر میری نگاہ سے اوجھل رہتا ہے۔ فرمایا جب تمہیں اس میں اپنا تیر ملے اور اس کی روح نکلنے کا اور کوئی سبب معلوم نہ ہو تو اسے کھالو۔
معراض (بے پر اور بے پیکان کے تیر) کے
عمرو بن عبد اللہ وکیع، علی بن منذر، محمد بن فضیل، زکریا بن ابی زائدہ، عامر، حضرت عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے معراض سے شکار کی بابت دریافت کیا تو فرمایا جو اس کی دھار اور نوک سے مرے وہ کھالو اور جو اس کا عرض لینے سے مرے تو وہ مردار ہے۔ (یعنی وہ چوٹ اور صدمہ سے مرا ہے ، اس لیے مت کھاؤ)۔
٭٭ عمروبن عبد اللہ ، وکیع، منصور، ابراہیم، ہمام بن حارث نخعی، حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے معراض کے (کے شکار) کی بابت دریافت کیا تو فرمایا مت کھاؤ الا یہ کہ وہ زخم کر دے (دھارسے ) تو کھا سکتے ہو۔
جانور کی زندگی میں ہی اس کا جو حصہ کاٹ لیا جائے
یعقوب حمید بن کاسب، معن بن عیسیٰ ، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جانور ابھی زندہ ہو اور اسی حالت میں اس کا کوئی حصہ (مثلاً پاؤں یا کسی حصہ کا گوشت) کاٹ لیا جائے تو وہ ٹکڑا مردار ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ابو بکرہذلی، شہر بن حوشب، حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آخر زمانہ میں کچھ لوگ اونٹوں کی کوہانیں اور بکریوں کی دمیں کاٹ لیا کریں گے۔ غور سے سنو! زندہ جانور کا جو حصہ بھی کاٹ لیا جائے وہ مردار ہے۔
مچھلی اور ٹڈی کا شکار
ابو مصعب، عبد الرحمن بن زید بن اسلم ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دو مردار ہمارے لیے حلال کئے گئے ، مچھلی اور ٹڈی۔
٭٭ ابو بشربکر بن خلف، نصر بن علی، زکریا بن یحییٰ بن عمار، ابو عوام، ابی عثمان نہدی، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ٹڈی کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا اللہ کے لشکروں میں سب سے زیادہ یہی ہے نہ میں اسے کھاتا ہوں ، نہ حرام کہتا ہوں۔
٭٭ احمد بن منیع، سفیان بن عیینہ، ابی سعید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات تھالوں میں رکھ کر ٹڈیاں ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرتی تھیں۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ حمال، ہاشم بن قاسم زیاد بن عبید اللہ بن علاثہ، موسیٰ بن محمد بن ابراہیم، حضرت جابر وانس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب ٹڈیوں کے لیے بد دعا کرتے تو فرماتے اللَّہُمَّ أَہْلِکْ کِبَارَہُ وَاقْتُلْ صِغَارَہُ وَأَفْسِدْ بَیْضَہُ وَاقْطَعْ دَابِرَہُ وَخُذْ بِأَفْوَاہِہَا عَنْ مَعَایِشِنَا وَأَرْزَاقِنَا إِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاءِ اے اللہ! بڑی ٹڈیوں کو ہلاک کر دیجئے اور ان کے انڈے خراب کر دیجئے (کہ مزید پیدا نہ ہوں ) اور ان کو جڑ سے ختم کر دیجئے (کہ نسل ہی نہ رہے ) اور ان کے منہ ہماری روزیوں سے روک دیجئے (کہ غلہ واناج نہ کھا سکیں ) بلاشبہ آپ ہی دعا سننے والے ہیں۔ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کی مخلوق کو کیسے بد دعا دے رہے ہیں کہ اللہ اس کی نسل ہی ختم کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹڈی سمندر میں مچھلی کی چھینک سے پیدا ہوتی ہے۔ ہاشم کہتے ہیں کہ زیاد نے فرمایا کہ مجھے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے دیکھا مچھلی پھینک رہی تھی ٹڈی کو۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، ابی مہزم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں حج یا عمرہ کے لیے نکلے۔ ہمارے سامنے ٹڈیوں کا ایک گروہ آیا۔ ہم انہیں جوتوں اور کوڑوں سے مارنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انہیں کھالو کیونکہ یہ سمندر کا شکار ہیں۔
جن جانوروں کو مارنا منع ہے
محمد بن بشار، عبد الرحمن بن عبد الوہاب، ابو عامرعقدی، ابراہیم بن فضل، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ چڑیا، مینڈک، چیونٹی اور ہدہد کو مارنے سے (اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ) منع فرمایا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار جانوروں کو مار ڈالنے سے منع فرمایا (1) چیونٹی، (2) شہد کی مکھی، (3) ہدہد، (4) چڑیا۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، احمد بن عیسیٰ مصریان ، عبد اللہ بن وہب، یونس ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابی سلمہ بن عبد اللہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے حکم دیا کہ چیونٹیوں کا سارا بل جلا دیا جائے۔ چنانچہ وہ جلا دیا گیا۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ایک چیونٹی کے کاٹنے پر آپ نے ایک پوری امت کو تباہ کر دیا جو اللہ کی پاکی بیان کرتی تھی۔ ایک دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
چھوٹی کنکری مارنے کی ممانعت
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ایوب، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مغفل کے ایک عزیز نے چھوٹی کنکری انگلی پر رکھ کر ماری تو انہوں نے اسے روکا اور فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس سے نہ تو شکار ہوتا ہے نہ دشمن کو نقصان پہنچتا ہے البتہ کسی کا دانت ٹوٹ سکتا ہے ، آنکھ پھوٹ سکتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس عزیز نے دوبارہ ایسا ہی کیا تو عبد اللہ بن مغفل نے فرمایا میں نے تمہیں یہ بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا پھر تم نے دوبارہ وہی حرکت کی۔ اب میں تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید بن سعید، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، عقبہ بن صہبان، حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کنکری انگلی پر رکھ کر مارنے سے منع کیا اور فرمایا اس سے نہ تو شکار ہوتا ہے نہ دشمن کو نقصان پہنچتا ہے البتہ آنکھ پھوٹ سکتی ہے اور دانت ٹوٹ سکتا ہے۔
گرگٹ (اور چھپکلی) کو مار ڈالنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبد الحمید بن جبیر، سعید بن مسیب، حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو گرگٹ مارنے کا حکم دیا
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے گرگٹ کو پہلی ضرب میں مار ڈالا اسے اتنی نیکیاں ملیں گی اور جس نے دوسری ضرب میں مار ڈالا اسے اتنی (پہلی مرتبہ سے کم) نیکیاں ملیں گی اور جس نے تیسری ضرب میں مار ڈالا اسے اتنی (دوسری مرتبہ سے کم) نیکیاں ملیں گی۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گرگٹ کو بدمعاش و بدکار فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، جریر بن حازم، نافع، فاکہ بن مغیرہ کی آزاد کردہ باندی حضرت سائبہ فرماتی ہیں کہ میں سیدہ عائشہ کے گھر گئی۔ دیکھا کہ گھر میں ایک برچھا رکھا ہوا ہے۔ تو عرض کیا اے ام المومنین! آپ اس سے کیا کرتی ہیں؟ فرمانے لگیں ہم اس سے گرگٹ (اور چھپکلیاں ) مارتی ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں بتایا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو زمین کے ہر جانور نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔ سوائے گرگٹ کے کہ یہ اس میں پھونک مار رہا تھا (تاکہ اور بھڑکے ) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے مار ڈالنے کا حکم فرمایا۔
ہر دانت والا درندہ حرام ہے
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، ابو ادریس، حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر دانت والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا۔ امام زہری فرماتے ہیں جب تک میں شام نہیں گیا تب تک میں نے یہ حدیث نہیں سنی تھی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، معاویہ، ہشام، احمد بن سنان، اسحاق بن منصور، عبد الرحمن بن مہدی، مالک بن انس، اسماعیل بن ابی حکیم، عبیدہ بن سفیان، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر دانت والے درندے کا کھانا حرام ہے۔
٭٭ بکر بن خلف، ابن ابی عدی، سعید، علی بن حکم، میمون بن مہران، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر دانت والے درندہ اور پنجے والے پرندہ کو کھانے سے منع فرمایا۔
بھیڑیئے اور لومڑی کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن واضح ، محمد بن اسحاق ، عبد الکریم بن مخارق، حبان بن جزع، حضرت خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں اس لیے حاضر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زمین کے کچھ جانوروں کی بابت دریافت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لومڑی کی بابت کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا لومڑی کون کھاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ بھیڑیئے کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا جس میں بھلائی اور خیر ہو وہ بھلا لومڑی کھائے گا۔
بجو کا حکم
ہشام بن عمار، محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء مکی، اسماعیل بن امیہ، عبد اللہ بن عبید بن عمیر، ابن ابی عمار، جابر بن عبد اللہ حضرت عبد الرحمن بن ابی عمار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے بجو کے متعلق دریافت کیا کہ یہ شکار ہے؟ فرمایا جی ہاں۔ میں نے عرض کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے؟ فرمایا جی ہاں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن وضح، ابن اسحاق ، عبد الکریم بن ابی مخارق، حبان بن جزء، حضرت خزیمہ بن جزر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بجو کی بابت کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا کون ہے جو بجو کھائے۔
گوہ کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، حسین، زید بن وہب، حضرت ثابت بن یزید انصاری فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ لوگوں نے بہت سی گوہ پکڑ کر بھونیں اور کھانے لگے۔ میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور بھون کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شاخ لی اور اس سے اپنی انگلیوں پر شمار کرنے لگے۔ پھر فرمایا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی صورتیں مسخ کی گئیں اور زمین کے جانوروں کی صورتیں ان کو دی گئیں۔ مجھے معلوم نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ یہی ہو۔ میں نے عرض کیا لوگوں نے تو بھون بھون کر خوب کھائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ خود کھائی نہ منع فرمایا۔
٭٭ ابو اسحاق ہروی ابراہیم بن عبد اللہ بن حاتم، اسماعیل بن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، سلیمان یشکری، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گوہ کی حرمت بیان نہیں فرمائی، البتہ اسے ناپسند فرمایا اور یہ عام چرواہوں کی خوراک ہے اور اللہ نے اس سے بہت لوگوں کو نفع بخشا اور اگر میرے پاس گوہ ہوتی تو میں ضرور کھاتا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ ابو کریب، عبد الرحیم بن سلیمان داؤد بن ابی ہند، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے پکار کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہمارے علاقہ میں گوہ بہت ہوتی ہے۔ گوہ کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک گروہ کی شکلیں مسخ کر دی گئی تھیں ، گوہ کی صورت میں۔ نیز آپ نے کھانے کا حکم بھی نہ دیا اور منع بھی نہ فرمایا۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، محمد بن حرب، محمد بن ولیدزبیدی، زہری، ابی امامہ، سہل بن حنیف، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ خالد بن ولید نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھنی ہوئی گوہ پیش کی گئی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! یہ گوہ کا گوشت ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے ہاتھ اٹھا لیا تو حضرت خالد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا گوہ حرام ہے؟ فرمایا نہیں ! حرام تو نہیں لیکن ہمارے علاقہ میں ہوتی نہیں اس لیے مجھے پسند نہیں تو حضرت خالد نے ہاتھ گوہ کی طرف بڑھایا اور گوہ کھائی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
٭٭ محمد بن مصفی، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں گوہ کو حرام نہیں کہتا۔
خرگوش کا بیان
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، عبد الرحمن بن مہدی، شعبہ، ہشام بن زید، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ہم مرالظہران نامی جگہ سے گزرے۔ ہم نے ایک خرگوش کو چھیڑا اور اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن بالآخر تھک گئے۔ پھر میں دوڑا اور میں نے اسے پکڑ لیا اور حضرت ابو طلحہ کے پاس لایا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی ران اور سرین کا حصہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول فرما لیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، داؤد بن ابی ہند، شعبی، حضرت محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے ، دو خرگوش لٹکائے ہوئے تو عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے یہ دو خرگوش پکڑے۔ مجھے لوہے کی کوئی چیز نہ ملی کہ ذبح کروں۔ تو میں نے سفید تیز دھار پتھر سے ان کو ذبح کیا۔ کیا میں کھالوں؟ فرمایا کھالو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن واضح ، محمد بن اسحاق ، الکریم بن ابی مخارق، حبان بن جزئ، حضرت خزیمہ بن جزء فرماتے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں زمین کے کیڑوں کے متعلق پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گوہ کی بابت کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ فرمایا خود کھاتا نہیں ، دوسروں کے لیے حرام نہیں بتاتا۔ میں نے عرض کیا جس کی حرمت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ بیان فرمائیں میں اسے کھاؤں گا اور اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود کیوں نہیں کھاتے؟ فرمایا ایک گروہ گم (مسخ) ہو گیا تھا۔ میں نے اس کی خلقت ایسی دیکھی کہ مجھے شک ہوا (کہ شاید گوہ اس قوم کی مسخ شدہ صورت ہے ) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خرگوش کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ فرمایا خود کھاتا نہیں اور دوسروں کے لیے حرام نہیں بتاتا۔ میں نے عرض کیا جس چیز کی حرمت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیان نہ فرمائیں میں اسے کھاؤں گا کھاؤں گا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود کیوں نہیں کھاتے؟ فرمایا مجھے بتایا گیا ہے کہ اسے حیض آتا ہے۔
جو مچھلی مر کر سطح آب پر آ جائے؟
ہشام بن عمار، مالک بن انس ، صفوان بن سلیم، سعید بن سلمہ، ال بن ازرق، مغیرہ بن ابی بردہ، بنی عبد دار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور پانی کا مردار حلال ہے۔ امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ جواد نے فرمایا یہ حدیث نصف علم ہے کیونکہ دنیا بحر و بر ہے تو بحر کا حکم اس میں بیان ہو گیا اور بر کا باقی رہ گیا۔
٭٭ احمد بن عبدہ، یحییٰ بن سلیم طائفی، اسماعیل بن امیہ ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو دریا کنارہ پر ڈال دے یا پانی کم ہونے سے مر جائے وہ تم کھا سکتے ہو اور جو دریا میں مر کر اوپر تیرنے لگے (اور اس کا پیٹ اوپر کی طرف ہو یعنی طافی ہو) تو اسے مت کھاؤ۔
کوے کا بیان
احمد بن زہرنیساپوری ہیثم بن جمیل ، شریک ، شام بن عروہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کون ہے جو کوا کھائے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو فاسق بتایا۔ بخدا! یہ پاکیزہ جانوروں میں سے نہیں۔
٭٭ محمد بن بشار، انصاری، مسعودی، عبد الرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سانپ فاسق ہے اور بچھو فاسق ہے۔ چوہا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت قاسم سے پوچھا گیا کہ کیا کوا کھایا جا سکتا ہے؟ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس کو فاسق فرمانے کے بعد کون ہے جو اسے کھائے۔
بلی کا بیان
حسین بن مہدی، عبد الرزاق، عمر بن زید ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا۔
کھانا کھلانے کی فضیلت
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عوف، زرارہ، ابن اوفیٰ، حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف چلے اور تین بار اعلان ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لاچکے۔ لوگوں میں میں بھی حاضر ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھوں۔ جب میں نے غور سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ انور دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے شخص کا نہیں (کیونکہ سابقہ کتب میں جو نشانیاں پڑھ رکھیں تھیں سب بعینہ آپ میں موجود تھیں ) جنانچہ سب سے پہلے میں آپ کو جو بات فرماتے سنا وہ یہ تھی اے لوگو سلام کو عام رواج دو، کھانا کھلاؤ رشتوں کو جوڑو اور رات کو جب لوگ محوخواب ہوں نماز پڑھو تو تم سلامتی سے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ازدی، حجاج بن محمد، ابن جریج، سلیمان بن موسی، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سلام کو رواج دو اور کھانا کھلاؤ اور بھائی بھائی بن جاؤ جیسے تمہیں اللہ عزوجل نے حکم دیا ہے۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، ابی خیر، حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! اسلام (میں ) کون سا (عمل) سب سے بہتر (پسندیدہ) ہے؟ فرمایا تو کھانا کھلائے اور سلام کہے جان پہچان والے کو اور انجان کو۔
ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہو جاتا ہے
محمد بن عبد اللہ رقی، یحییٰ بن زیاداسدی، ابن جریج ، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک شخص کا کھانا دو کے لیے اور دو کا چار کے لیے اور چار کا آٹھ کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ (یعنی نہ صرف برکت ہو جاتی ہے بلکہ بوجہ ایثار کفایت بھی کرتا ہے )۔
٭٭ حسن بن علی خلال، حسن بن موسیٰ سعید بن زید، عمرو بن دینار، آل زبیر، سالم بن عبد اللہ بن عمر، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کفایت کرتا ہے اور دو کا کھانا تین چار (اشخاص) کے لیے کفایت کرتا ہے اور چار کا کھانا پانچ، چھ کے لیے کفایت کرتا ہے۔
مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، محمد بن بشارعدی بن ثابت، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔
٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کافر ساتھ آنتوں میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔
٭٭ ابو کریب، ابو اسامہ، برید بن عبد اللہ، ابی بردہ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔
کھانے میں عیب نکالنا منع ہے
محمد بن بشار، عبد اللہ ، سفیان، اعمش، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی بھی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانا پسند ہوتا تو تناول فرماتے ورنہ (خاموشی سے ) چھوڑ دیتے۔ دوسری روایت بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی ہے۔
کھانے سے قبل ہاتھ دھونا (اور کلی کرنا)
جبارہ بن مغلس، کثیر بن سلیم، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو چاہے کہ اس کے گھر میں خیر و برکت (اور دولت) زیادہ ہو تو اسے چاہیے کہ جب صبح (یاشام) کا کھانا آئے تو ہاتھ دھوئے (اور کلی کرے ) اور جب دسترخوان اٹھایا جائے اس وقت بھی۔
٭٭ جعفر بن مسافر، صاعد بن عبید جزری، زہیر بن معاویہ، محمد بن جحادہ، عمرو بن دینار مکی، عطاء بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کے بعد تشریف لائے تو کھانا پیش کیا گیا (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حسب عادت فراغت کے بعد ہاتھ دھو چکے تھے ) ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! وضو کا پانی لاؤں؟ فرمایا کیا میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔
تکیہ لگا کر کھانا
محمد بن صباح ، سفیان بن عیینہ، مسعر، علی بن اقمر، حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تکیہ لگا کر نہیں کھاتا۔
٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، محمد بن عبد الرحمن بن عرق، حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک بکری ہدیہ کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکڑوں بیٹھ کر (دونوں زانوں کھڑے کر کے ) کھانے لگے۔ ایک دیہاتی نے کہا یہ بیٹھنے کا کیسا انداز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے مجھے مہربان بندہ بنایا ہے اور مجھے تکبر وعناد کرنے والا، مغرور نہیں بنایا۔
کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہشام دستوائی، بدیل بن میسرہ، عبد اللہ بن عبید بن عمیر، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چھ صحابہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ ایک دیہاتی آیا اور دو ہی نوالوں میں سب کھانا کھا گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غور سے سنو! اگر یہ بِسْمِ اللَّہِ کہتا تو کھانا تم سب کو کافی ہو جاتا۔ جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے اور بِسْمِ اللَّہِ کہنا بھول جائے تو کہے بِسْمِ اللَّہِ فِی أَوَّلِہِ وَآخِرِہِ۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان ، ہشام بن عروہ، حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کھانا کھا رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرمایا اللہ کا نام لے (یعنی بِسْمِ اللَّہِ کہہ)
دائیں ہاتھ سے کھانا
ہشام بن عمار، ہقل بن زیاد، ہشام بن حسان، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک دائیں ہاتھ سے کھائے ، دائیں ہاتھ سے پئے ، دائیں ہاتھ سے چیز لے اور دائیں ہاتھ سے ہی دے۔ اس لیے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے ، بائیں ہاتھ سے پیتا ہے ، بائیں ہاتھ سے چیز دیتا ہے اور بائیں ہاتھ سے ہی لیتا ہے۔
٭٭ ابو بکر، ابی شیبہ، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ولید بن کثیر، وہب بن کیسان، حضرت عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تربیت میں تھا تو میرا ہاتھ (کھاتے وقت) پیالہ میں چاروں طرف گھومتا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے ! اللہ کا نام لیا کر اور دائیں ہاتھ سے کھایا کر اور اپنے سامنے سے کھایا کر۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بائیں ہاتھ سے نہ کھایا کرو کیونکہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا ہے۔
کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا
محمد بن ابی عمرعدنی، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عطاء، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کھانا کھا چکے تو اپنے ہاتھ نہ پونچھے ، یہاں تک کہ خود چاٹ لے یا دوسرے کو چٹا دے۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن قیس کو دیکھا کہ عمرو بن دینار سے کہہ رہے ہیں ، بتائیے عطاء کی یہ حدیث کہ تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ صاف نہ کرے جب تک کہ خود نہ چاٹ لے یا دوسرے کو نہ چٹا دے ، کس سے مروی ہے؟ فرمانے لگے ابن عباس سے۔ عمر بن قیس نے کہا کہ عطاء نے ہمیں یہ حدیث جابر سے روایت کر کے سنائی۔ عمر بن دینار نے کہا مجھے تو عطاء سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی، ایسے ہی یاد ہے۔ اس وقت جابر ہمارے پاس تشریف نہ لائے تھے اور عطاء تو جابر سے اس سال ملے جس سال وہ مکہ میں رہے تھے۔
٭٭ موسی بن عبد الرحمن ، ابو داؤد حفری، سفیان ، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ چاٹ لے۔ اس لیے کہ اسے معلوم نہیں کہ کون سے کھانے میں برکت ہے۔
پیالہ صاف کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ابو یمان براء، حضرت ام عاصم فرماتی ہیں کہ ہم پیالہ میں کھانا کھا رہے تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام نبیشہ آئے اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو پیالہ میں کھانا کھائے پھر اسے چاٹ کر صاف کر لے تو پیالہ اس کے حق میں بخشش اور مغفرت کی دعا کرتا ہے۔
٭٭ ابو بشربکر بن خلف، نصر بن علی ، معلی بن راشد، ابو یمان حضرت ام عاصم رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم ایک پیالہ میں کھانا کھا رہے تھے کہ ہمارے پاس نبیشہ آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو پیالہ میں کھائے پھر اسے چاٹ کر صاف کرے ، پیالہ اس کے لیے استغفار کرتا ہے۔
اپنے سامنے سے کھانا
محمد بن خلف عسقلانی، عبد اللہ عبد الاعلی یحییٰ بن ابی کثیر، عروہ بن زبیر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہابیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب دسترخوان اترے تو اپنے سامنے سے کھانا چاہیے اور اپنے ساتھی کے سامنے سے نہ کھانا چاہیے۔
٭٭ محمد بن بشار، علاء بن فضل بن عبد الملک بن ابی سویہ، عبید اللہ بن عکراش، حضرت عکراش بن ذویب فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا جس میں بہت سا ثرید اور خوب روغن تھا۔ ہم سب اسے کھانے لگے۔ میں نے اپنا ہاتھ پیالے کی سب اطراف میں گھمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عکراش! ایک ہی جگہ سے کھاؤ کیونکہ یہ سب ایک ہی کھانا ہے پھر ایک طبق آیا جس میں کئی قسم کی کھجوریں تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہاتھ طبق میں گھومنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عکراش جہاں سے چاہو کھاؤ کیونکہ یہ مختلف قسم کی کھجوریں ہیں۔
ثرید کے درمیان سے کھانا منع ہے
عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، محمد بن عبد الرحمن بن عرق حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے کناروں سے کھاؤ اور درمیان کی چوٹی چھوڑ دو۔ ایسا کرنے سے اس میں برکت ہو گی۔
مسجد میں کھانا
یعقوب بن حمید بن کاسب، حرملہ بن یحییٰ ، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث سلیمان بن زیادحضرمی، عبد اللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ہم مسجد میں گوشت اور روٹی کھا لیا کرتے تھے۔
کھڑے کھڑے کھانا
ابو سائب سلم بن جنادہ، حفص بن غیاث، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ایسا بھی ہوا کہ ہم نے چلتے ہوئے کھا لیا (کوئی ایک آدھ دانہ منہ میں ڈال لیا، مثلاً کھجور، خوبانی وغیرہ) اور کھڑے ہو کر ہی پیا۔
کدو کا بیان
احمد بن منیع، عبیدہ بن حمید، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کدو پسند فرماتے تھے۔
٭٭ محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، حمید، حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری والدہ ام سلیم نے تر کھجوروں کا ایک ٹوکرا میرے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے نہ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قریب ہی اپنے ایک آزاد کردہ غلام کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کھانا تیار کیا تھا۔ جب میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانا تناول فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بھی اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ میزبان نے گوشت اور کدو میں ثرید تیار کیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کدو اچھے لگ رہے ہیں تو میں کدو جمع کر کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب کرنے لگا۔ جب ہم کھانا کھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے گھر تشریف لائے میں نے ٹوکرا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانے لگے اور تقسیم (بھی) فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ ختم ہو گیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسماعیل بن ابی خالد، حکیم بن حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ان کے گھر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کدو تھے۔ میں نے کہا یہ کیا چیز ہے؟ فرمایا یہ کدو ہے۔ ہم اس سے اپنا کھانا زیادہ کرتے ہیں (یا ہم اسے بکثرت کھاتے ہیں )
گوشت (کھانے ) کا بیان
عباس بن ولیدخلال دمشقی، یحییٰ بن صالح، سلیمان بن عطاء جزری، مسلمہ بن عبد اللہ جہنی، ابی مشجعہ، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اہل دنیا اور اہل جنت دونوں کے کھانوں کا سردار گوشت ہے۔
٭٭ عباس بن ولید دمشقی، یحییٰ بن صالح، سلیمان بن عطاء عطاء جزری مسلمہ بن عبد اللہ جہنی ابی مشجعہ، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب بھی گوشت کی دعوت دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول فرمائی اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گوشت ہدیہ کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول فرمایا۔
جانور کے کون سے حصے کا گوشت عمدہ ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، عبدی، علی بن محمد، محمد بن فضیل ابو حیان تیمی، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دستی کا گوشت اٹھا کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ پسند بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا۔
٭٭ بکر بن خلف، ابو بشر، یحییٰ بن سعید، مسعر، شیخ من ، عبد اللہ بن جعفر، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے لیے اونٹ ذبح کیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ عمدہ گوشت (کا حصہ) پشت کا گوشت ہے۔ اس وقت لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے گوشت ڈال رہے تھے۔
بھنا ہوا گوشت
محمد بن مثنی، عبد الرحمن بن مہدی، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سالم بھنی ہوئی بکری (جو کھال اتارے بغیر بھونی جاتی ہے ) دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ عزوجل سے جا ملے۔
٭٭ جبارہ بن مغلس، کثیر بن سلیم، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے بھنا ہوا گوشت جو کھانے سے بچ رہا ہو کبھی نہ تھا یا گیا (کیونکہ ایسا گوشت مقدار میں کم ہی ہوتا تھا اور کھانے والے زیادہ ہوتے تھے اس لئے بچتا نہ تھا) اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ، ساتھ پچھونا اٹھایا گیا (کہ جہاں بیٹھنا ہو پہلے بچھونا بچھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے تکلف نہ فرماتے تھے )
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، یحییٰ بن بکیر، ابن لہیعہ، سلیمان بن زیادحضرمی، حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مسجد میں کھانا کھایا، بھنا ہوا گوشت تھا۔ پھر ہم نے اپنے ہاتھ کنکریوں سے صاف کیے اور کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت
اسماعیل بن اسد، جعفر بن عون، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گفتگو کرنے لگے (خوف سے ) ان کا گوشت پھڑکنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا ڈرو مت کیونکہ میں بادشاہ نہیں۔ میں تو ایک (غریب) خاتون کا بیٹا ہوں جو دھوپ میں خشک کیا ہو گوشت کھاتی تھی۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، محمد بن یوسف، سفیان ، عبد الرحمن بن عابس، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم پائے اٹھا کر رکھ لیتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قربانی کے پندرہ یوم بعد انہیں تناول فرماتے تھے۔
کلیجی اور تلی کا بیان
ابو مصعب، عبد الرحیم بن زید بن اسلم، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیے گئے۔ دو مردار تو مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں (یہ دونوں جمے ہوئے خون ہیں )
نمک کا بیان
ہشام بن عمار، مروان بن معاویہ، عیسیٰ بن ابی عیسیٰ ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے سالنوں کا سردار نمک ہے۔
سرکہ بطور سالن
احمد بن ابی حواری، مروان بن محمد، سلیمان بن بلال ، ہشام عروبہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین سالن سرکہ ہے۔
٭٭ جبارہ بن مغلس ، قیس بن ربیع، محارب بن دثار، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین سالن سرکہ ہے۔
٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، عنبسہ بن عبد الرحمن ، محمد بن زاذان، حضرت ام سعد فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدہ عائشہ کے پاس آئے میں بھی وہیں تھی۔ فرمایا کچھ کھانا ہے؟ فرمانے لگیں ہمارے پاس روٹی، کھجور اور سرکہ ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہترین سالن سرکہ ہے۔ اے اللہ! سرکہ میں برکت فرما کہ یہ مجھ سے پہلے انبیاء کا سالن ہے اور جس گھر میں سرکہ وہ وہ محتاج نہیں۔
روغن زیتون کا بیان
حسین بن مہدی، عبد الرزاق، معمر، زید بن اسلم ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روغن زیتون سے روٹی کھاو اور اس سے مالش کرو کیونکہ یہ بابرکت درخت سے نکلتا ہے۔
٭٭ عقبہ بن مکرم، صفوان بن عیسیٰ ، عبد اللہ بن سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روغن زیتون کھاؤ اور اس سے مالش کرو کیونکہ یہ برکت والا ہے۔
دودھ کا بیان
ابو کریب، زید بن حباب، جعفر بن بردراسبی، ام سالم راسبیہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جب دودھ پیش کیا جاتا تو ارشاد فرماتے برکت ہے یا فرماتے دو برکتیں ہیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ابن جریج ، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جسے اللہ تعالیٰ کوئی بھی کھانا کھلائیں وہ یوں کہے اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیہِ وَارْزُقْنَا خَیْرًا مِنْہُ اے اللہ! ہمیں اس میں برکت عطا فرما اور اس سے بہتر ہمیں عطا فرما اور جسے اللہ تعالیٰ دودھ پینے کو عطا فرمائیں تو وہ یوں کہے اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیہِ وَزِدْنَا مِنْہُ اے اللہ! ہمیں اس میں برکت عطا فرما اور ہمیں مزید یہی (دودھ) عطا فرما کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ دودھ کے علاوہ کوئی اور چیز کھانے اور پینے دونوں کے لیے کفایت کرتی ہو۔
میٹھی چیزوں کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، عبد الرحمن بن ابراہیم، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میٹھی چیزیں اور شہد پسند تھا۔
ککڑی اور تر کھجور ملا کر کھانا
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یونس بن بکیر، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری والدہ مجھے موٹا کرنے کے لیے تدبیریں کیا کرتی تھیں تاکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیج دیں۔ کوئی تدبیر بھی مفید نہ ہوئی یہاں تک کہ میں نے تر کھجور اور ککڑی کھائی تو میں مناسب فربہ ہو گئی۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، اسماعیل بن موسیٰ ، ابراہیم بن سعد، حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ککڑی، تر کھجور کے ساتھ کھا رہے ہیں۔
٭٭ محمد بن صباح، عمرو بن رافع، یعقوب بن ولید بن ابی ہلال ، مدنی، حازم ، سہل بن حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خربوزے کے ساتھ ککڑی کھاتے دیکھا۔
کھجور کا بیان
احمد بن ابی حواری دمشقی، مروان بن محمد، سلیمان بن بلال ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس گھر میں بالکل کھجور نہیں ، اس کے گھر والے بھوکے ہیں۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابن ابی فدیک، ہشام بن سعد، عبید اللہ بن ابی رافع حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس گھر میں کھجور نہیں وہ اس گھر کی مانند ہے جس میں کوئی کھانا نہیں۔
جب موسم کا پہلا پھل آئے
محمد بن صباح یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیزبن محمد، سہل بن صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جب موسم کا پہلا پھل آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی مَدِینَتِنَا وَفِی ثِمَارِنَا وَفِی مُدِّنَا وَفِی صَاعِنَا بَرَکَۃً مَعَ بَرَکَۃٍ اے اللہ! برکت عطا فرما ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مد اور صاع (پیمانوں ) میں برکت در برکت پھر جو بچے حاضر ہوتے ان میں سب سے کم سن کو وہ پھل عطا فرماتے۔
٭٭ ابو بشر بکر بن خلف، یحییٰ بن محمد بن قیس مدنی، ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تر کھجور، خشک کھجور کے ساتھ ملا کر کھاؤ اور پرانی، نئی کے ساتھ ملا کر کھاؤ کیونکہ شیطان غصہ ہوتا ہے اور کہتا ہے آدم کا بیٹا زندہ رہا۔ یہاں تک کہ پرانا میوہ نئے میوہ کے ساتھ ملا کر کھا رہا ہے۔
دو دو، تین تین کھجوریں ملا کر کھانا منع ہے
محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان ، جبلہ بن سحیم، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو دو کھجوریں ایک ساتھ کھانے سے منع فرمایا۔ الا یہ کہ اپنے ساتھیوں سے (جو کھانے میں شریک ہیں ) اجازت لے لے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو داؤد، ابو عامرخزاز، حسن، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت کرتے تھے اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرامین بہت پسند تھے۔ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو دو کھجوریں ملا کر کھانے سے منع فرمایا۔
اچھی کھجور ڈھونڈ کر کھانا
ابو بشربکر بن خلف، ابو قتیبہ، ہمام، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پرانی کھجوریں پیش کی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تلاش کر کے اچھی اچھی کھجور لینے لگے۔
کھجور مکھن کے ساتھ کھانا
ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، ابن جابر، سلیم بن عامر، بسر کے دونوں بیٹے جو قبیلہ بنو سلیم میں سے ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نے آپ کی خاطرا پنی ایک چادر پر پانی چھڑک کر اسے ٹھنڈا کیا اور بچھا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر تشریف فرما ہوئے۔ ہمارے گھر میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل فرمائی۔ ہم نے آپ کی خدمت میں مکھن اور کھجور پیش کی۔ آپ کو مکھن پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اپنی رحمتیں اور سلام بھیجے۔
میدہ کا بیان
محمد بن صباح، سوید بن سعید، عبد العزیزبن حضرت ابو حازم فرماتے ہی کہ میں نے سہل بن سعد سے دریافت کیا کہ آپ نے میدہ کی روٹی دیکھی؟ فرمانے لگے میں نے میدہ کی روٹی نہیں دیکھی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہو گیا۔ میں نے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں لوگوں کے پاس چھلنیاں ہوتی تھیں؟ فرمانے لگے میں نے چھلنی نہیں دیکھی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہو گیا۔ میں نے کہا پھر آپ بے چھنا جو کیسے کھاتے تھے؟ فرمایا (پیسنے کے بعد) ہم اس پر پھونک مارتے کچھ تنکے وغیرہ اڑ جاتے اور باقی کو ہم بھگو دیتے (اور گوندھ کر روٹی پکا لیتے )۔
٭٭ یعقوب بن حمید، کاسب، ابن وہب، عمرو بن حارث ، بکر بن سوادہ، حنش بن عبد اللہ ، حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آٹا چھانا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے روٹی تیار کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا ہمارے علاقہ میں یہ کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے میں نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے بھی ویسی ہی روٹی بناؤں۔ فرمایا بھوسا آٹے میں ڈال کر دوبارہ گوندھو۔
٭٭ عباس بن ولید، دمشقی، محمد بن عثمان، ابو جماہر، سعید بن بشیر، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میدہ کی روٹی ایک آنکھ بھی نہ دیکھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ عزوجل سے جا ملے۔
باریک چپاتیوں کا بیان
ابو عمیر، عیسیٰ بن محمدنحاس، رملی، ضمرہ بن ربیعہ، ابن عطاء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم سے ملنے اپنی بستی ابینا گئے تو انہوں نے پہلی اتری ہوئی باریک چپاتیاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے رکھیں۔ دیکھ کر رونے لگے اور فرمانے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی آنکھوں سے کبھی ایسی چپاتیاں نہیں دیکھیں۔
٭٭ اسحاق بن منصور، احمد بن سعید دارمی، عبد الصمد بن عبد الوارث، ہمام حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے ( اسحاق کی روایت میں ہے کہ) آپ رضی اللہ عنہ کا نانبائی کھڑا ہوتا (اور دارمی کی روایت میں ہے کہ) آپ کا دسترخوان بچھا ہوتا۔ ایک روز فرمانے لگے کھاؤ! مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی باریک چپاتی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو یا سالم (کھال سمیت) بھنی ہوئی بکری دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ اللہ عز و جل سے جا ملے۔
فالودہ کا بیان
عبد الوہاب بن ضحاک سلمی، ابو حارث، اسماعیل بن عیاش، محمد بن طلحہ، عثمان بن یحییٰ ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم نے فالودہ کا نام اس طرح سنا کہ جبرائیل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو زمین میں فتح حاصل ہو گی اور خوب دنیا ملے گی۔ یہاں تک کہ وہ فالودہ کھائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا فالودہ کیا ہے؟ فرمایا گھی اور شہد ملا کر بنتا ہے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز گلو گیر (رونے جیسی) ہو گئی۔
گھی میں چپڑی ہوئی روٹی
ہدبہ بن عبد الوہاب، فضل بن موسیٰ سنانی، حسین بن واقد، ایوب نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز فرمایا جی چاہ رہا ہے کہ ہمارے پاس عمدہ گندم کی گھی لگی ہوئی سفید روٹی ہوتی۔ ہم اسے کھاتے۔ ایک انصاری مرد نے یہ بات سن لی تو ایسی روٹی تیار کروائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا یہ گھی کس چیز میں تھا؟ فرمانے لگے گوہ کی کھال کی بنی ہوئی کپی میں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھانے سے انکار فرما دیا۔
٭٭ احمد بن عبدہ، عثمان بن عبد الرحمن، حمید طویل، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میری والدہ ام سلیم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے روٹی تیار کی اور اس میں کچھ گھی بھی لگایا پھر فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جاؤ اور انہیں دعوت دو۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے اور حاضرین سے فرمایا چلو۔ انس فرماتے ہی کہ میں جلدی سے پہلے والدہ کے پاس پہنچا اور بتا دیا۔ اتنے میں نبی تشریف لے آئے۔ فرمانے لگے جو تیار کیا ہے لے آؤ۔ میری والدہ نے عرض کیا میں نے تنہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کھانا تیار کیا ہے۔ فرمایا لاؤ تو سہی اور انس سے فرمایا اے انس! دس دس آدمیوں کو میرے پاس بھیجتے رہو۔ حضرت انس فرماتے ہیں فرماتے ہیں کہ میں دس دس افراد کو مسلسل بھیجتا رہا۔ سب نے خوب سیر ہو کر کھایا اور وہ اسی افراد تھے۔
گندم کی روٹی
یعقوب بن حمید بن کاسب، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، ابی حازم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (تا زندگی) مسلسل تین دن بھی پیٹ بھر کر گندم کی روٹی نہ کھائی۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، معاویہ بن عمرو، زائدہ، منصور، ابراہیم، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر والے مدینہ آنے کے بعد بھی مسلسل تین شب سیر ہو کر گندم کی روٹی نہ کھا سکے۔ یہاں تک کہ آپ کا وصال ہو گیا۔
جو کی روٹی
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہو گیا تو میرے گھر میں جاندار کے کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ البتہ ایک الماری میں تھوڑے سے جو تھے اس سے میں کھاتی رہی، بہت دنوں تک وہ چلتے رہے تو میں نے ان کو ماپ لیا۔ پھر وہ ختم ہو گئے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو اسحاق ، عبد الرحمن بن یزید، اسود، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل خانہ اور آل اولاد نے جو کی روٹی سے کبھی پیٹ نہ بھرا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہو گیا۔
٭٭ عبد اللہ بن معاویہ جمعی، ثابت بن یزید، ہلال بن خباب عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلسل کئی شب فاقہ سے رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل خانہ کو رات کا کھانا نہ ملتا اور ان کی روٹی اکثر جو کی ہوتی تھی۔
٭٭ یحییٰ بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، بقیہ، یوسف بن ابی کثیر، نوح بن ذکوان، حسن حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صوف (اونی کپڑا) زیب تن فرماتے ، عام سا جوتا استعمال کرتے ، بدمزہ کھانا کھاتے اور کھردرا سا کپڑا پہنتے۔ کسی نے حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بدمزہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا کہ موٹی جو کی روٹی جو پانی کے گھونٹ کے بغیر گلے سے نہ اترے۔
میانہ روی سے کھانا اور سیر ہو کر کھانے کی کراہت
ہشام بن عبد الملک حمصی، محمد بن حرب، حضرت مقدام بن معدیکرب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا آدمی کے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا۔ آدمی کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر آدمی کا نفس اس پر غالب ہی آ جائے (اور چند نوالوں پر اکتفانہ کر سکے ) تو تہائی پیٹ کھانے کے لیے ، تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے (مختص کر دے )
٭٭ عمرو بن رافع، عبد العزیز بن عبد اللہ ، ابو یحییٰ ، یحییٰ بکاء، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ڈکار لی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی ڈکار کو روکو اور ہم سے دور رکھو۔ اس لیے کہ روز قیامت تم میں سے زیادہ طویل بھوک ان لوگوں کو لگے گی جو دار دنیا میں زیادہ سیر ہو کر کھاتے ہیں۔
٭٭ داؤد بن سلیمان عسکری، محمد بن صباح، سعید بن محمد ثقفی، موسیٰ جہنی، زید بن وہب، حضرت عطیہ بن عامر جہنی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان کو زبردستی کھانا کھلایا جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے اتنی بات کافی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو لوگ دنیا میں زیادہ سیر ہوتے ہیں وہی روز قیامت سب سے زیادہ بھوکے ہوں گے۔
ہر وہ چیز جس کو جی چاہے کھا لینا اسراف میں داخل ہے
ہشام بن عمار، سوید بن سعید، یحییٰ بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، بقیہ بن ولید، یوسف بن ابی کثیر، نوح بن ذکوان، حسن، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بھی اسراف ہے کہ تم ہر وہ چیز کھاؤ جس کو (تمہارا) جی چاہے۔
کھانا پھینکنے سے ممانعت
ابراہیم بن محمد بن یوسف فریابی، ساج بن عقبہ بن وساج، ولید بن محمد موقری، زہری، عروہ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر تشریف لائے تو روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے اٹھا لیا اور صاف کر کے کھا لیا اور فرمایا اے عائشہ! عزت والے (اللہ تعالیٰ کے رزق) کی عزت کرو کیونکہ اللہ کا رزق جب کسی قوم سے پھر جائے تو واپس نہیں آتا۔
بھوک سے پناہ مانگنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن منصور، ہریم، لیث، کعب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ، بھوک سے کیونکہ بھوک بری ساتھی ہے اور میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ، خیانت سے کیونکہ وہ بری اندرونی خصلت ہے۔
رات کا کھانا چھوڑ دینا
محمد بن عبد اللہ رقی، ابراہیم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن باباہ مخزومی، عبد اللہ بن میمون ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رات کا کھانا مت چھوڑو کیونکہ رات کا کھانا چھوڑنے سے آدمی (جلد) بوڑھا ہو جاتا ہے۔
دعوت و ضیافت
جبارہ بن مغلس، کثیر بن سلیم، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس گھر میں مہمان ہوں ، اس میں خیر اس سے بھی تیزی سے آتی ہے۔
٭٭ جبارہ بن مغلس، محاربی، عبد الرحمن بن نہشل، ضحاک بن مزاحم، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس گھر میں کھانے کھائے جائیں (مہمان بکثرت آئیں ) اس کی طرف بھلائی، چھری کے اونٹ کی کوہان کی طرف جانے سے بھی جلد پہنچتی ہے۔
٭٭ علی بن میمون، عثمان بن عبد الرحمن، علی بن عروہ، عبد الملک، عطاء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بھی سنت ہے کہ مرد اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازہ تک آئے (رخصت کرتے وقت)۔
اگر مہمان کوئی خلاف شرع بات دیکھے تو واپس لوٹ جائے
ابو کریب، وکیع، ہشام دستوائی، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو گھر میں تصاویر دیکھیں ، اس لیے واپس ہو گئے۔
٭٭ عبد الرحمن بن عبد اللہ جزری، عفان بن مسلم، حماد بن سلمہ، سعید بن سلمہ، سعید بن حمحان، حضرت سفینہ ابو عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے علی بن ابی طالب کی ضیافت کی اور ان کے لیے کھانا تیار کیا۔ فاطمہ فرمانے لگیں کاش! ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی کھانے میں ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور دروازہ کی دونوں چوکھٹوں پر ہاتھ رکھا تو گھر کے کونے میں ایک منقش پردہ دیکھا، اس لیے واپس ہو گئے۔ سیدہ فاطمہ نے علی سے کہا جائیے اور دریافت کیجئے کہ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیوں واپس ہو رہے ہیں؟ فرمایا میرے شایان نہیں کہ آراستہ و منقش گھر میں جاؤں۔
گھی اور گوشت ملا کر کھانا
ابو کریب، یحیی بن عبد الرحمن ارجبی، یونس بن ابی یعقوب ، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے۔ یہ دسترخوان پر تھے انہوں نے اپنے والد کو صدر مجلس میں جگہ دی۔ حضرت عمر نے بِسْمِ اللَّہِ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور ایک نوالہ لیا پھر دوسرا نوالہ لیا تو فرمانے لگے مجھے چکنائی کا ذائقہ معلوم ہو رہا ہے۔ یہ چکنائی گوشت کی نہیں ہے؟ عبد اللہ بن عمر نے عرض کیا اے امیرالمومنین! میں بازار موٹے جانور کا گوشت لینے گیا تو معلوم ہوا کہ گراں ہے اس لیے میں نے ایک درہم میں کمزور جانور کا گوشت خریدا اور ایک درہم کا گھی اس میں ڈال دیا۔ میرا خیال یہ تھا کہ گھروالوں کو ایک ایک ہڈی تو آ جائے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا گھی اور گوشت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جمع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ایک چیز کھالی اور دوسری صدقہ کر دی۔ عبد اللہ بن عمر نے عرض کیا اے امیرالمومنین! اب تو لے لیجئے۔ آئندہ جب بھی میرے پاس یہ دو چیزیں جمع ہوئی تو میں ایسا ہی کروں گا۔ عمرنے فرمایا میں یہ کھانے کا نہیں۔
جب گوشت پکائیں تو شوربہ زیادہ رکھیں
محمد بن بشار، عثمان بن عمر، ابو عامرخزاز، ابی عمران جونی، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم کھانا تیار کرو تو شوربا زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو۔
لہسن، پیاز اور گندنا کھانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، سالم بن ابی جعدغطفانی، معدان بن ابی طلحہ یعمری، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے روز خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو اللہ (عزوجل) کی حمد و ثناء کے بعد ارشاد فرمایا لوگو! تم دو درختوں کو کھاتے ہو اور میں تو ان کو برا ہی سمجھتا ہوں۔ ایک لہسن اور دوسرا پیاز اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں اگر کسی شخص کے منہ سے ان کی بو آتی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ لہٰذا جو انہیں کھانا چاہے تو وہ پکا کر ان کی بو ختم کرے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن ابی یزہد، حضرت ام ایوب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس میں کچھ سبزیاں (لہسن، پیاز وغیرہ) ڈالی تھیں ، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ کھانا تناول نہ کیا اور فرمایا مجھے اپنے ساتھی (فرشتے ) کو ایذاء پہنچانا پسند نہیں۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، عبد اللہ بن وہب، ابو شریح، عبد الرحمن بن نمران جحری، ابی زبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان سے گندنے کی بو محسوس ہوئی تو فرمایا میں نے تمہیں یہ درخت کھانے سے منع نہ کیا تھا؟ فرشتوں کو بھی اس چیز سے ایذاء پہنچتی ہے جس سے انسان کو ایذاء پہنچتی ہے۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ ، عثمان بن نعیم، مغیرہ بن نہیک، دخین حجری، حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سے ارشاد فرمایا پیاز مت کھاؤ پھر آہستہ سے فرمایا کچی (یعنی پکا کر کھا سکتے ہو)۔
دہی اور گھی کا استعمال
اسماعیل بن موسیٰ سدی، سیف بن ہارون ، سلیمان تیمی، ابی عثمان نہدی، حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گھی، دہی اور گورخر کے متعلق دریافت کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرما دیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام فرما دیا اور جس چیز کے بارے میں سکوت فرمایا وہ معاف ہے۔ (اس کے استعمال پر کوئی مواخذہ نہیں )۔
پھل کھانے کا بیان
عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، محمد بن عبد الرحمن بن عوق، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو طائف کے انگور تحفۃً بھیجے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلا کر فرمایا یہ خوشہ لے لو اور اپنی والدہ کو پہنچا دو۔ میں نے والدہ کو پہنچانے سے قبل خود ہی کھا لیا۔ کچھ راتوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا خوشہ کا کیا ہوا؟ تم نے اپنی والدہ کو پہنچا دیا؟ میں نے عرض کیا نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (زیر لب مسکراتے ہوئے ) دغا باز کا نام دیا۔
٭٭ اسماعیل بن محمد طلحی، نقیب بن حاجب، ابی سعید، عبد الملک زبیری، حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں بہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا طلحہ! یہ لے لو کیونکہ یہ دل کو راحت بخشتی ہے۔
خضاب ترک کرنا
محمد بن مثنی، خالد بن حارث، ابن ابی عدی، حمید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خضاب کیا؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑھاپا (سفید بال) دیکھا ہی نہیں البتہ ڈاڑھی کے سامنے کے حصہ میں سترہ یا بیس بال سفید تھے۔
٭٭ محمد بن عمر بن ولیدکندی، یحییٰ بن آدم، شریک، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تقریباً بیس بال سفید ہوئے تھے۔
جوڑے اور چوٹیاں بنانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابن ابی نجیح، مجاہد، حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر کے بال چارحصوں میں تھے چوٹیوں کی طرح۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم ابراہیم بن سعد، زہری، عبید اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بال (بغیر مانگ کے ) چھوڑ دیتے تھے اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (اختیاری امور میں ) اہل کتاب کی موافقت پسند تھی (کہ وہ بہرحال مشرکین سے بہتر ہیں ) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی (مانگ کے بغیر ہی) بال چھوڑ دئیے پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی مانگ نکالنے لگے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن منصور، ابراہیم بن سعد، ابن اسحاق ، یحییٰ بن عبادہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چندیا کے پیچھے مانگ نکالتی اور سامنے کے بال (بغیر مانگ کے ) چھوڑ دیتی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، جریر بن حازم، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال سیدھے تھے (بہت گھنگریالے نہ تھے ) کانوں اور مونڈھوں کے درمیان درمیان تھے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، عبد الرحمن بن ابی زناد، ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال کانوں سے نیچے اور مونڈھوں سے اونچے تھے۔
زیادہ (لمبے ) بال رکھنا مکروہ ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام، سفیان بن عقبہ، سفیان، عاصم بن کلیب، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دیکھا میرے بال لمبے تھے۔ فرمایا ناپسندیدہ ہے۔ میں چلا گیا اور اپنے بال چھوٹے کئے پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا میری مراد تم نہیں تھے (یعنی تمہیں نہیں کہا تھا) اور یہ اچھا ہے (کہ بال کم کر لئے )۔
کہیں سے بال کترنا اور کہیں سے چھوڑنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر بن نافع، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قزع سے منع فرمایا۔ حضرت نافع نے پوچھا کہ قزع کیا ہے؟ فرمایا قزع یہ ہے کہ بچہ کا سر ایک جگہ سے مونڈ دیا جائے اور دوسری جگہ سے چھوڑ دیا جائے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ شبابہ، شعبہ، عبید اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قزع سے منع فرمایا۔
انگشتری کا نقش
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسیٰ نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی انگشتری تیار کروائی پھر اس میں مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کندہ کرایا اور فرمایا کوئی بھی میری اس انگشتری کا نقش کندہ نہ کروائے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، عبد العزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے انگشتری تیار کروائی تو فرمایا ہم نے انگشتری تیار کروائی ہے اور اس میں یہ نقش کروایا ہے لہذا کوئی بھی اس کے مطابق نقش نہ کرائے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، عثمان بن عمر، یونس، زہری، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کو انگشتری تیار کروائی اس کا نگینہ حبشی تھا اور اس پر یہ عبارت کندہ تھی مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ۔
(مردوں کیلئے ) سونے کی انگشتری
ابو بکر، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ ، نافع بن جبیر، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگشتری پہننے سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو بکر، علی بن مسہر، یزید بن ابی زیاد، حسن بن سہیل، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگشتری سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، یحییٰ بن عبادہ عبد اللہ بن زبیر، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک چھلا ہدیہ کیا اس میں سونے کی انگشتری تھی اور حبشی نگ تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو لکڑی سے پکڑا۔ آپ اسے اعراض (نفرت) فرما رہے تھے۔ یا کسی انگلی سے اٹھایا پھر اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص (حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی) کو بلایا اور فرمایا پیاری بیٹی یہ پہن لو۔
انگشتری پہننے میں نگینہ ہتھیلی کی طرف کی رکھنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسی، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی انگشتری کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، اسماعیل بن ابی اویس، سلیمان بن بلال یونس بن یزیدایلی، ابن شہاب، یونس بن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاندی کی انگشتری پہنی اس میں حبشی نگینہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس (انگوٹھی) کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے۔
دائیں ہاتھ میں انگشتری پہننا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابراہیم بن فضل، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں ہاتھ میں انگشتری پہنتے تھے۔
انگوٹھے میں انگشتری پہننا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، عاصم، ابو بردہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے چھنگلیا اور انگوٹھے میں انگشتری پہننے سے منع فرمایا۔
گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ ، ابن عباس، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں (بلا ضرورت) کتا ہو یا کسی قسم کی تصویر ہو۔
٭٭ ابو بکر، غندر، شعبہ، علی بن مدرک، ابی زرعہ، عبد اللہ بن یحییٰ ، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ملائکہ رحمت اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔
تنہائی کی کراہت
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، عاصم بن محمد، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمہیں تنہائی کے نقصانات معلوم ہو جائیں تو کوئی رات میں تنہا نہ چلے۔
سوتے وقت آگ بجھا دینا
ابو بکر، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سوتے وقت اپنے گھروں میں آگ (جلتی ہوئی) مت چھوڑا کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو سلمہ، ابو اسامہ، برید بن عبد اللہ ، ابو بردہ، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک گھر والوں کا گھر جل گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ آگ تمہاری دشمن ہے۔ اس لئے سوتے وقت اسے بجھا دیا کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، عبد الملک، ایوزبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں بہت سے امور کا حکم فرمایا اور بہت سے امور سے منع فرمایا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں (سوتے وقت) چراغ گل کر دینے کا حکم فرمایا۔
راستہ میں پڑاؤ ڈالنے کی ممانعت
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہشام ، حسن، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راستہ کے درمیان پڑاؤ مت ڈالا کر (بلکہ راستہ سے ہٹ کر پڑاؤ ڈالنا چاہئے۔) اور نہ ہی راستہ میں قضاء حاجت (بول و براز) کیا کرو۔
ایک جانور پر تین کی سواری
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، عاصم ، مورق عجلی، حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم استقبال کرتے۔ ایک بار میں نے اور حضرت حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم) نے استقبال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم میں سے ایک کو اپنے سامنے اور دوسرے کو اپنے پیچھے سوار کر لیا یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچے۔
لکھ کر مٹی سے خشک کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، بقیہ، ابو احمد دمشقی، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے خطوط مٹی سے خشک کر لیا کرو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے کیونکہ مٹی بابرکت ہے۔
تین آدمی ہوں تو وہ (آپس میں ) سرگوشی نہ کریں
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، وکیع، اعمش ، شقیق، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم تین ہو تو دو تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں۔ اس لئے کہ اس سے تیسرے کو رنج پہنچ سکتا ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تیسرے آدمی کو چھوڑ کر دو کو سرگوشی سے منع فرمایا۔
جس کے پاس تیر ہو تو اسے پیکان سے پکڑے
ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں تیر لئے گزرا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کی نوک تھام لے (کہ کسی کو لگ نہ جائے )۔ اس نے عرض کیا جی ! اچھا۔
٭٭ محمود بن غیلان، ابو اسامہ، برید، ابو بردہ، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی تیر لے کر ہماری مسجد یا بازار سے گزرے تو اس کا پیکان تھام لے۔ مبادا کسی مسلمان کو لگ جائے یا فرمایا کہ اس کی نوک پکڑ لے۔
قرآن کا ثواب
ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، زرارہ بن اوفیٰ، سعید بن ہشام، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کا ماہر معزز اور نیک ایلچی فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھے اور اسے پڑھنے میں دشواری ہو تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔
٭٭ ابو بکر، عبید اللہ بن موسیٰ ، شیبان، فراس، عطیہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (روز قیامت) صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھ اور چڑھ چنانچہ وہ پڑھتا جائے گا اور چڑھتا جائے گا۔ ہر آیت کے بدلہ ایک درجہ یہاں تک کہ آخری آیت جو اسے یاد ہے پڑھے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، بشیر بن مہاجر، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روز قیامت قرآن کریم تھکے ماندے شخص کی طرح آئے گا اور کہے گا میں ہوں جس نے تجھے رات جگایا (قرآن پڑھنے یا سننے میں مصروف رہا) اور دن بھر پیاسا رہا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کسی کو یہ پسند ہے کہ گھر جائے تو اسے اپنے گھر میں تین گابھن موٹی عمدہ اونٹنیاں ملیں؟ ہم نے عرض کیا جی پسند ہے۔ فرمایا تین آیات جو تم میں سے کوئی نماز میں پڑھے اس کے حق میں تین گابھن موٹی عمدہ اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔
٭٭ احمد بن ازہر، عبد الرزاق، معمر، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جس کا گھٹنا بندھا ہوا ہو کہ اگر اس کا مالک اسے باندھے رکھے تو رکا رہتا ہے اور اگر کھول دے تو چلا جاتا ہے۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، عبد العزیزبن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی۔ لہذا آدھی میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کیلئے ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پڑھو ! بندہ کہتا ہے (الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں حَمِدَنِی عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری حمد بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا (دنیا میں ورنہ آخرت میں ) پھر بندہ کہتا (الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں أَثْنَی عَلَیَّ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری ثناء بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ بندہ کہتا ہے (مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں مَجَّدَنِی عَبْدِی فَہَذَا لِی وَہَذِہِ الْآیَۃُ بَیْنِی وَبَیْنَ عَبْدِی نِصْفَیْنِ میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی۔ یہاں تک کا حصہ میرا تھا اور آئندہ آیت میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے۔ بندہ کہتا ہے ( إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ) یہ آیت ہے جو میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا اور سورہ کا آخری حصہ میرے بندے کیلئے ہے۔ بندہ کہتا ہے (اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ فَہَذَا لِعَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ) یہ میرے بندے کیلئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا اسے ملے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، حبیب بن عبد الرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرمایا میں مسجد سے باہر نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟ فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے یاد دہانی کرا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو عطا ہوا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو سلمہ، شعبہ، قتادہ، عباس جشمی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قرآن کریم میں ایک سورت تیس آیتوں کی ہے۔ اس نے اپنے پڑھنے والے (اور سمجھ کر عمل کرنے والے ) کی سفارش کی حتی کہ اس کی بخشش کر دی گئی۔ تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ۔۔۔
٭٭ ابو بکر، خالد بن مخلد، سلمیان بن بلال، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ( قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) تہائی قرآن کے برابر ہے۔
٭٭ حسن بن علی، خلال، یزید بن ہارون، جریر بن حازم، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ( قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) تہائی قرآن کے برابر ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابی قیس اودی، عمرو بن میمون، حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللَّہُ أَحَدٌ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ تہائی قرآن کے برابر ہے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرہ بن عبد الرحمن، عبد اللہ بن سعید بن ابی ہند، زیاد بن ابی زیاد، ابن عیاس، ابی بحریہ، حضرت ابو الدرداء سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں تمہارا سب سے بہتر عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے زیادہ تمہارے مالک کی رضا کا باعث ہو اور سب سے زیادہ تمہارے درجات بلند کرنے والا ہے اور تمہارے لئے سونا چاندی خرچ (صدقہ) کرنے سے بھی بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن کا سامنا کرو تو اس کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں (اور تمہیں شہید کریں )۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ایسا عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی یاد اور معاذ بن جبل نے فرمایا کہ انسان کوئی ایسا عمل نہیں کرتا جو یاد الہی سے بھی زیادہ عذاب الہی سے نجات کا باعث ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم، عمار بن زریق، ابی اسحاق ، اغرابی مسلم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں گواہی دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو قوم بھی کسی مجلس میں یاد الہی میں مشغول ہو۔ فرشتے اسے گھیر لیتے ہیں رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ (تسلی اور طمانیت قلب) اترتی ہے اور اللہ پنے پاس والے (مقرب) فرشتوں میں ان کا تذکرہ فرماتے ہیں۔
زہد کا بیان
حشر کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، داؤد، شعبی، مسروق، ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا یہ آیت جو ہے جس دن زمین اور آسمان بدلے جائیں گے تو لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا پل صراط پر ہوں گے اور زمین کا دلنا یہ ہو گا کہ ٹیلے پہاڑ گڑھے صاف ہو کر سب برابر ہو جائے گا اور آسمان کا دلنا یہ ہو گا کہ سورج قریب آ جائے گا گرمی کی شدت ہو گی اللہ رحم کرے۔
٭٭ ابو بکر، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، عبید اللہ بن مغیرہ، سلیمان بن عمرو بن عبد بن عتواری احد من بنی لیث، حجر، ابی سعید، ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پل صراط جہنم کے دونوں کناروں پر رکھا جائے گا اس پر کانٹے ہوں گے سعدان کے کانٹوں کی طرح پھر لوگ اس پر سے گزرنا شروع کریں گے تو آفت سے سلامت رہ کر گزر جائیں گے ان میں بعض بجلی کی طرح گزر جائیں گے بعض ہوا کی طرح بعض پیدل کی طرح اور بعضے ان کے کچھ اعضاء کٹ کر جہنم میں گریں گے پھر نجات پاجائیں گے بعضے اسی پر اٹکے رہیں گے بعضے اوندھے منہ جہنم میں گریں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابی سفیان، جابر، ام مبشر، ام المومنین جناب حفصہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ جو لوگ بدر کی لڑائی اور حدیبیہ کی صلح میں حاضر تھے ان میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا اگر اللہ چاہے۔ میں نے عرض کیا اللہ تعالی تو فرماتا ہے تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنم پر وارد نہ ہو آپ نے فرمایا اس کے بعد تو نے نہیں پڑھا پھر ہم نجات دیں گے پرہیز گاروں کو اور تمام ظالموں کو وہیں چھوڑ دیں گے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کا حال
ابو بکر، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، ابی مالک اشجعی، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم قیامت کے دن میرے پاس آؤ گے سفید پیشانی سفید ہاتھ پاؤں والے وضو کے سبب سے یہ میری امت کا نشان ہو گا اور کسی امت میں یہ نشان نہ ہو گا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی اسحاق ، عمرو بن میمون، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک ڈیرے میں تھے آپ نے فرمایا تم اس سے خوش نہیں ہوتے کہ جنت والوں کی چوتھائی تم لوگ ہو گے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ جنت والوں کی تہائی تم لوگ ہو؟ ہم نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ جنت والوں کا نصف تم لوگ ہو گے اور نصف میں باقی اور سب امتیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں وہی روحیں جائیں گی جو مسلمان ہیں اور تمہارا شمار مشرکوں میں ایسا ہے جیسے ایک سفید کالے بیل کی کھال میں ہو یا ایک کالا بال لال بیل کی کھال میں ہو۔
٭٭ ابو کریب، احمد بن سنان، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک نبی قیامت کے دن آئے گا اس کے ساتھ دو ہی آدمی ہوں گے اور ایک نبی آئے گا اس کے ساتھ تین آدمی ہوں گے اور کسی کے ساتھ اس سے زیادہ اور اس سے کم ہوں گے اس سے کہا جائے گا تو نے اللہ کا حکم اپنی قوم کو پہنچایا تھا؟ وہ کہے گا ہاں پھر اس کی قوم بلائی جائے گی ان سے پوچھا جائے گا تم کو فلاں نبی نے اللہ کا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے ہرگز نہیں۔ آخر اس نبی سے کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہے گا جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی امت میرے گواہ ہیں۔ جناب محمد کی امت بلائی جائے گی ان سے پوچھا جائے گا کیوں اس نبی نے اپنی امت کو اللہ کا پیغام پہنچایا تھا یا نہیں وہ کہیں گے بے شک پہنچایا تھا ان سے پوچھا جائے گا تم کو کیونکر معلوم ہوا وہ کہیں گے ہمارے نبی نے ہم کو اس کی خبر دی تھی کہ اللہ کے تمام رسولوں نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور ہم نے ان کی بات تصدیق کی اور یہی مراد ہے اس آیت سے اس طرح ہم نے تمکو متوسط امت کیا تاکہ تم گواہ ہو لوگوں پر اور رسول تمہارے اوپر گواہ ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مصعب، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، حضرت رفاعہ جہنی سے روایت ہے کہ ہم نبی کے ساتھ لوٹے آپ نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو ایمان لائے پھر اس پر مضبوط رہے مگر یہ کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم اور تمہاری اولاد میں سے جو نیک ہیں وہ جنت میں اپنے اپنے ٹھکانے نہ بنائیں اور بے شک میرے مالک نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمیوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے گا۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، محمد بن زیاد، حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ فرماتے تھے میرے مالک نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت سے ستر ہزار آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا جن کا نہ حساب ہو گا نہ ان پر عذاب ہو گا اور ہزار کے ساٹھ ستر ہزار ہوں گے اور ان کے سوا تین مٹھیاں ہوں گی میرے مالک کی مٹھیوں میں سے۔
٭٭ عیسیٰ بن محمد بن نحاس رملی، ایوب بن محمد رقی، ضمرہ بن ربیعہ، ابن شورب، بہز بن حکیم نے اپنے باپ سے انہوں نے دادا سے روایت کی میں نے نبی سے سنا آپ فرماتے تھے قیامت میں ستر امتیں پوری ہوں گی اور سب میں ہم اخیر امت ہوں گی اور سب میں بہتر ہوں گے اللہ تعالی کی عنایت سے جو اس کو ہمارے پیغمبر جناب محمد پر ہے۔
٭٭ محمد بن خالد بن خداش، اسماعیل بن علیہ، بہز بن حکیم اس اسناد سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے ستر امتوں کو پورا کیا۔ یعنی سترویں امت تم ہو اور تم ان سب میں بہتر ہو اور اللہ تعالی کے نزدیک عزت رکھتے ہو۔
٭٭ عبد اللہ بن اسحاق جوہری، حسین بن حفص اصبہانی، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت والوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی ان میں سے اسی صفیں اس امت کے لوگوں کی ہوں گی اور چالیس صفیں اور امتوں میں سے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ بن ابو سلمہ حماد بن سلمہ، سعید بن ایاس جریری، ابی نضرہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (اگرچہ) ہم آخری امت ہیں لیکن سب سے پہلے ہماراحساب ہو گا۔ ندا آئے گی امی امت کہاں ہے اور اس امت کے نبی کہاں ہیں؟ تو ہم سب سے آخر ہیں (دنیا میں ) اور سب میں اول ہوں گے (جنت میں )۔
٭٭ جبارہ بن مغلس، عبد الاعلی بن ابی مساور، ابی بردہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روز قیامت جب تمام مخلوق کو جمع کیا جائے گا تو اللہ تعالی نبی کریم کی امت کو سجدے کا حکم دے گا اور وہ امت بڑی دیر تک سجدے میں رہے گی پھر (رب ذوالجلال والا کرام) سر اٹھانے کا حکم دے گا اور ارشاد ہو گا کہ ہم نے تمہارے شمار کے مطابق تمہارے فدئیے جہنم سے (رہا) کر دئیے۔
٭٭ جبارہ بن مغلس کثیر بن سلیم، حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا یہ امت امت مرحومہ ہے اور ان پر عذاب ان کے اپنے ہاتھوں سے ہو گا۔ ایک دوسرے کی گردن مارے گی روز قیامت ہر ایک مسلمان کے حوالے اس مشرک کیا جائے گا اور فرمایا جائے گا کہ یہ جہنم سے تیرا فدیہ ہے۔
روز قیامت رحمت الہی کی امید
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون عبد الملک، عطاء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ بلاشبہ اللہ تعالی کی سو رحمتیں ہیں ان میں سے صرف ایک رحمت اپنی تمام مخلوق میں جمع کر دی ہے اس کی وجہ سے تمام ایک دوسرے سے پیار محبت کرتے ہیں اور ماں اپنے بچہ سے کرتی ہے اور باقی تمام رحمتیں اللہ نے اپنے پاس قیامت کے دن کیلئے رکھ چھوڑی ہے۔
٭٭ ابو کریب، احمد بن سنان، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس دن اللہ تعالی نے آسمان زمین کو پیدا کیا اسی دن سو رحمتیں پیدا کیں اور زمین میں ان سو رحمتوں میں سے ایک رحمت بھیجی اسی کی وجہ سے ماں اپنے بچہ پر رحمت کرتی ہے اور چرند جانور ایک دوسرے پر، اور ننانوے رحمتوں کو اس نے اٹھا رکھا قیامت کے دن تک جب قیامت کا دن ہو گا تو اس دن ان رحمتوں کو پورا کرے گا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، ابن عجلان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ اللہ ذوالجلال والا کرام نے جب تمام مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر یہ لکھ لیا کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، ابو عوانہ، عبد الملک بن عمیر، ابن ابی لیلیٰ ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک گدھے پر سوار کہیں جا رہا تھا کہ آپ میرے قریب سے گزرے۔ ارشاد فرمایا معاذ (اللہ پر تو کوئی چیز واجب نہیں ) لیکن پھر بھی تم جانتے ہو کہ بندوں کا اللہ پر اور اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جاننے والے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی خوب عبادت کریں (پانچ وقت کی نماز کے علاوہ نفلی عبادت) اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں۔
٭٭ ہشام بن عمار، ابراہیم بن اعین، اسماعیل بن یحییٰ شیبانی، عبد اللہ بن عمر بن حفص، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے کہ آپ کا گزر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا ہم مسلمان ہیں۔ ان میں سے ایک عورت آگ سے اپنا تنور روشن کر رہی تھی جب تنور سے دھواں نکلا تو اس نے اپنے بیٹے کو پیچھے (دھکیل) دیا اور پھر نبی کریم کے پاس آ کر پوچھنے لگی آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ نے کہا ہاں اس نے کہا میرے والدین آپ پر قربان مجھے یہ بتائیے کہ اللہ کا رحم سب رحم کرنے والوں سے زیادہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا بے شک۔ وہ بولی کیا اللہ کا رحم اپنے بندوں پر ایک ماں سے بھی زیادہ ہے جو وہ اپنے بچہ پر کرتی ہے؟ آپ نے فرمایا بے شک پھر اس نے کہا بچہ جتنا مرضی شرارتی اور نافرمان ہو ماں اسے آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آپ سر جھکا کر روتے رہے پھر سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگے۔ اللہ اپنے بندوں کو کبھی عذاب نہ دے مگر کہ جو سرکش ہوں اور اللہ کو ایک ماننے سے منکر ہوں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ انہیں بخش دے۔
٭٭ عباس بن ولید دمشقی، عمرو بن ہاشم، ابن لہیعہ، عبد ربہ بن سعید، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سوائے شقی کے جہنم میں کوئی نہیں جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا اے رسول اللہ! شقی کون؟ فرمایا ایسا بندہ جس نے کبھی اللہ کی بندگی نہ کی ہو اور کبھی کوئی نیکی کا کام نہ کیا ہو اور گناہ کبھی کوئی چھوڑا نہ ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، سہیل بن عبد اللہ ثابت بنانی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سورۃ پڑھی (ہُوَ أَہْلُ التَّقْوَی وَأَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ) پھر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ اس بات سے بچو کہ میرے ساتھ کسی کو شریک کرو اور پھر جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے تو میں اس لائق ہوں کہ اس کو نجات دے دوں۔ (جہنم سے )۔ ترجمہ بعینہ گزر چکا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، ابن ابی مریم، لیث، عامر بن یحییٰ ابی عبد الرحمن جبلی، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روز قیامت میری امت میں سے ایک شخص کو پکارا جائے گا اور اس کے ساتھ ننانوے دفتر (اعمال ناموں کے ) رکھ دئیے جائیں گے اور ہر دفتر اتنا بڑا ہو گا کہ جہاں تک نگاہ جا سکے۔ اللہ پوچھے گا تو ان میں سے کسی (عمل) کا انکاری ہے؟ وہ عرض کرے گا نہیں اے آقا پھر اللہ فرمائے گا میرے کا تبوں (فرشتوں ) نے تجھ پر کوئی ظلم کیا؟ پھر اللہ فرمائے گا اچھاتجھے کوئی اعتراض ہے یا تیرے پاس کوئی نیکی ہے؟ وہ سہم کر کہے گا نہیں میرے آقا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ اللہ ذوالجلال والا کرام فرمائے گا آج کے دن تجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہو گی تیری بہت سی نیکیاں ہمارے پاس موجود ہیں۔ پھر ایک کاغذ نکالا جائے گا اس میں أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ لکھا ہو گا وہ بندہ عرض کرے گا میرے اتنے سارے اعمال ناموں کے آگے یہ ایک کاغذ میرے کیا کام آئے گا؟ پروردگار فرمائے گا آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ پھر ایک پلڑے میں سب دفاتر (اس کے اعمال نامے ) اور ایک پلڑے میں اس کا وہ کاغذ رکھا جاۓ گا وہ سب دفاتر اٹھ جائیں گے وہ ایک کاغذ والا پلڑا جھک جائے گا۔ محمد بن یحیی نے کہا کہ حدیث میں لفظ الْبِطَاقَۃُ آیا ہے اصل میں مصروالے بِطَاقَۃً کو رقعہ (خط) کہتے ہیں۔
حوض کا ذکر
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر زکریا، عطیہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرا ایک حوض (حوض کوثر) اس کا فاصلہ بیت المقدس سے لیکر کعبہ تک ہے۔ پانی اس کا سفید ہے دودھ کی طرح کے اس کے برتن میں اور ان کی تعداد ایسے ہے جیسے آسمانوں پر ستارے ہوں اور اس پر میری امت کے لوگ جو میرے تابعدار ہیں۔ دوسرے پیغمبروں کی قوم سے زیادہ ہوں گے۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابی مالک سعد بن طارق، ربعی، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میرا حوض ایسا بڑا ہے جیسے ایلہ سے (وہ ایک مقام ہے ینبوع اور مصر کے درمیان ایک پہاڑ ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان) اور قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کے برتن شمار میں تاروں سے زیادہ ہیں اور اس کا پانی دودھ سے سفید ہے اور شہد سے میٹھا ہے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اور لوگوں کو اس پر سے ہانک دوں گا جیسے کوئی غیر اونٹوں کو اپنے حوض سے ہانک دیتا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ ہم لوگوں کو (یعنی امت والوں کو) پہچان لیں گے آپ نے فرمایا تمہارے منہ اور ہاتھ سفید ہوں گے وضو کے نشان سے اور یہ نشان اور کسی امت کیلئے نہ ہو گا۔
اوندھے ہو کر کھانا منع ہے
محمد بن بشار، کثیر بن ہشام، جعفر بن برقان، زہری، سالم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اوندھے منہ ہو کر کھانے سے منع فرمایا۔
مشروبات کا بیان
خمر ہر بائی کی کنجی ہے
حسین بن حسن مروزی، ابن عدی، ابن ابراہیم بن سعیدجوہری، عبد الوہاب، راشد، ابی محمدحمانی، شہر بن حوشب، ام درداء، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ شراب نوشی مت کرنا کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔
٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، منیر بن زبیر، عبادہ بن نسی، حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خمر سے بچو اس لیے کہ اس کا گناہ باقی گناہوں کو گھیر لیتا ہے جیسے اس کا درخت دوسرے درختوں پر پھیل جاتا ہے۔
وہ جو دنیا میں شراب پئے گا وہ آخرت میں شراب سے محروم رہے گا
علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو دنیا میں شراب پئے وہ آخرت میں شراب نہ پی سکے گا، الا یہ کہ توبہ کر لے۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، زید بن واقد، خالد بن عبد اللہ بن حسین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو دنیا میں شراب پئے وہ آخرت میں نہ پی سکے گا۔
شراب کا رسیا
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن صباح، محمد بن سلیمان بن اصبہانی، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شراب کا رسیا (عادی) بت پرست کی مانند ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، سلیمان بن عتبہ، یونس بن میسرہ بن حلبس، ابو ادریس، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شراب کا رسیا جنت میں نہ جا سکے گا۔
شراب نوشی کرنے والے کی کوئی نماز قبول نہیں
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، ربیعہ بن زید، ابن دیلمی حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شراب پئے اور نشہ میں مست ہو جائے اس کی نماز چالیس روز تک قبول نہ ہو گی اور اگر وہ اس دوران مر گیا تو دوزخ میں جائے گا اور اگر اس نے توبہ کی تو قبول فرمالے گا اور اگر اس نے دوبارہ شراب پی اور نشہ میں مست ہو گیا تو چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی اور اگر اسی دوران مر گیا تو دوزخ میں جائے گا اور اگر توبہ کر لی تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے پھر اگر سہ بارہ اس نے شراب پی لی تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے رَدَغَۃِ الْخَبَالِ ضرور پلائیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! رَدَغَۃِ الْخَبَالِ کیا چیز ہے؟ فرمایا دوزخیوں کا خون اور پیپ۔
٭٭ یزید بن عبد اللہ یمامی، عکرمہ بن عمار، ابو بکر شحیمی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خمر (شراب) ان دو درختوں سے بنتی ہے (1) کھجور اور (2) انگور
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، خالد بن کثیرہمدانی، سری بن اسماعیل حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گندم سے بھی شراب بنتی ہے اور جو سے بھی (شراب بنتی ہے ) اور کشمش، چھوارہ اور شہد سے بھی شراب بنتی ہے۔
شراب میں دس جہت سے لعنت ہے
علی بن محمد، محمد بن اسماعیل، وکیع، عبد العزیز بن عمر بن عبد العزیز، عبد الرحمن بن عبد اللہ عافقی، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شراب میں دس جہت سے لعنت ہے۔ ایک تو خود شراب پر لعنت ہے اور شراب نچوڑنے والے اور نچڑوانے والے ، فروخت کرنے والے ، خریدنے والے ، اٹھانے والے اور جس کی خاطر اٹھائی جائے اور اس کا چمن کھانے والے اور پینے والے پلانے والے سب پر لعنت ہے۔
٭٭ محمد بن سعید، یزید بن ابراہیم، ابو عاصم ، شبیب، حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شراب کی وجہ سے دس آدمیوں پر لعنت فرمائی شراب نچوڑنے والا، نچڑوانے والا اور جس کے لیے نچوڑی جائے اور اٹھا کر لے جانے والا اور جس کے لیے اٹھائی جائے اور فروخت کرنے والا اور جس کے لیے فروخت کیا جائے اور پلانے والے اور جس کے لیے پلائی جائے۔ اسی قسم کے دس افراد شمار کیے۔
شراب کی تجارت
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ جب سورہ بقرہ کی آخری آیات ربو (سود) کے متعلق نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شراب کی خرید و فروخت کی حرمت بیان فرمائی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ سمرہ نے شراب فروخت کی ہے تو فرمایا اللہ تعالیٰ سمرہ کو تباہ و برباد کرے۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت فرمائے کیونکہ ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں پگھلا کر فروخت کرنا شروع کر دی۔
لوگ شراب کے نام بدلیں گے (اور پھر اس کو حلال سمجھ کر استعمال کریں گے )
عباس بن ولید، دمشقی، عبد السلام بن عبد القدوس، ثور بن یزید، خالد بن معدان، ابی امامہ باہلی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رات اور دن ختم نہ ہوں گے (قیامت نہ آئے گی) یہاں تک کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے لیکن وہ اس کا نام بدل دیں گے۔
٭٭ حسین بن ابی سری، عبد اللہ ، سعد بن اوس عبسی، بلال بن یحییٰ عبسی، ابی بکر بن حفص ، ابن محیریز، ثابت بن سمط، عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر اسے پیا کریں گے۔
ہر نشہ آور چیز حرام ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، ابی سلمہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر نشہ آور مشروب حرام ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، یحییٰ بن حارث دماری، سالم بن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
٭٭ یونس بن عبد الاعلی، ابن وہب، ابن جریج، ایوب بن ہانی، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مصر والوں کی ہے۔
٭٭ علی بن میمون رقی، خالد بن حیان ، سلیمان بن عبد اللہ بن زبیر، یعلی بن شداد بن اوس، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہر نشہ آور چیز ہر مومن پر حرام ہے اور یہ حدیث رقہ (بغداد کے قریب ایک شہر) والوں کی ہے۔
٭٭ سہل بن یزید بن ہارون ، محمد بن عمرو بن علقمہ، ابی سلمہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو داؤد، شعبہ، سعید بن ابی بردہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے
ابراہیم بن منذرخزامی، ابو یحییٰ ، زکریابن منظور، ابی حازم، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، انس بن عیاض، داؤد بن بکر، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، انس بن عیاض، عبید اللہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔
دو چیزیں (کھجور اور انگور) اکٹھے بھگو کر شربت بنانے کی ممانعت
محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابی زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چھوارے اور کشمش ملا کر بھگونے سے منع فرمایا اور تر کھجور اور چھوارہ ملا کر بھگونے سے بھی منع فرمایا۔
٭٭ یزید بن عبد اللہ یمامی، عکرمہ بن عمار، ابی کثیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چھوارہ اور تر کھجور ملا کر مت بھگوؤ البتہ ہر ایک کو الگ الگ بھگو سکتے ہو۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم ، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، عبد اللہ بن حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کچی اور پکی کھجور مت ملاؤ اور کشمش اور چھوارہ مت ملاؤ۔ ہر ایک کو الگ الگ بھگو سکتے ہو۔
نبیذ بنانا اور پینا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، قاصم احول، بنانہ بنت یزیدعبشمیہ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ایک مشکیزہ میں نبیذ تیار کرتیں۔ چنانچہ ہم مٹھی بھر چھوارے یا کشمش لے کر اس میں ڈال دیتیں پھر اس میں پانی ڈال دیتیں۔ صبح کو بھگوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شام کو نوش فرماتے اور شام کو بھگوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کو نوش فرماتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ رات کو بھگوتیں تو دن کو نوش فرماتے اور دن کو بھگوتیں تو رات کو نوش فرماتے۔
٭٭ ابو کریب، اسماعیل بن صبیح، ابی اسرائیل ابی عمربہرانی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے نبیذ تیار کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس روز نوش فرماتے۔ اگلے روز اور تیسرے روز اس کے بعد اگر کچھ بچ رہتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود بہا دیتے یا بہانے کا حکم فرماتے اور وہ بہا دی جاتی۔
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، ابو عوانہ، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے پتھر کے پیالہ میں نبیذ تیار کی جاتی۔
شراب کے برتنوں میں نبیذ بنانے کی ممانعت
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لکڑی کے برتن اور لک شدہ برتن اور کدو کے برتن اور سبز روغنی برتن میں نبیذ تیار کرنے سے منع کیا اور اشاد فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
٭٭ محمد بن رمح، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لک شدہ اور کدوہ کے برتن میں نبیذ تیار کرنے سے منع فرمایا۔
٭٭ نصر بن علی ، مثنی بن سعید، ابی متوکل، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سبز روغنی برتن اور کدو کے برتن اور لکڑی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو بکر، عباس بن عبد العظیم عنبری، شبابہ، شعبہ، بکیر بن عطاء، حضرت عبد الرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کدو کے برتن اور سبز روغنی برتن سے منع فرمایا
ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت کا بیان
عبد الحمید بن بیان واسطی، اسحاق بن یوسف، شریک، سماک، قاسم بن مخیمرہ، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تمہیں ان برتنوں (میں نبیذ بنانے ) سے منع کیا تھا۔ اب تم ان میں نبیذ بنا سکتے ہو لیکن ہر نشہ آور چیز سے بچتے رہنا۔
٭٭ یونس بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن وہب، ابن جریج، ایوب بن ہانی، مسروق بن اجداع، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تمہیں ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔ یاد رکھو! کوئی برتن کسی چیز کو حرام نہیں کر سکتا۔ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
مٹکے میں نبیذ بنانا
سوید بن سعید، معتمر بن سلیمان، رمیتہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی عورت اس بات سے عاجز ہے کہ ہر سال اپنی قربانی کی کھال سے مشکیزہ بنا لیا کرے؟ پھر فرمانے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مٹی کے برتن میں اور ایسے ایسے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا البتہ سرکہ بنانے کی اجازت دی۔
٭٭ اسحاق بن موسیٰ خطمی، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مٹی کے مٹکوں میں نبیذ تیار کرنے سے (سختی سے ) منع فرمایا۔
٭٭ مجاہد بن موسی، ولید، صدقہ ابی معاویہ، زید بن واقد، خالد بن عبد اللہ ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گھڑے کی نبیذ آئی جو جوش مار رہی تھی (جھاگ نکل رہی تھی)۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے دیوار پر ماردو کیونکہ یہ اس شخص کا مشروب ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔
برتن کو ڈھانپ دینا چاہیے
محمد بن رمح، لیث بن سعد، حضرت ابو ہریرہ ، ابو سعید، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (سوتے وقت) برتن ڈھانپ دیا کرو اور مشک کا منہ بند کر دیا کرو، چراغ گل کر دیا کرو اور دروازہ بند کر دیا کرو اس لیے کہ شیطان مشک نہیں کھولتا، نہ دروازہ کھولتا ہے ، نہ برتن کھولتا ہے اور تمہیں کوئی چیزش ڈھانپنے کے لیے نہ ملے تو اتنا ہی کر لے کہ اللہ کا نام لے کر ایک لکڑی کو برتن کے اوپر عرضا رکھ دے (اور چراغ اس لیے بھی گل کر دینا چاہیے کہ) چوہیا لوگوں کے گھر جلا ڈالتی ہے۔
٭٭ عبد الحمید بن بیان واسطی، خالد بن عبد اللہ، سہیل ، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں (بھرا ہوا) برتن ڈھانپنے ، مشکیزہ (کا منہ) باندھنے اور (خالی برتن) الٹا رکھنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ عصمہ بن فضل، حرامی بن عمارہ بن ابی حفصہ، حریش بن خریت، ابن ابی ملیکہ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے برتن ڈھانپ کر رکھتی تھی ایک طہارت ( استنجاء) کے لیے دوسرا مسواک (وضو) کے لیے اور تیسرا (پانی) پینے کے لیے۔
چاندی کے برتن میں پینا
محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، زید بن عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر، ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چاندی کے برتن میں پئے وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ غٹا غٹ بھر رہا ہے۔
٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، ابو عوانہ، ابی بشر، مجاہد، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا۔ یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہوں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، نافع، امراۃبن عمر، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو چاندی کے برتن میں پئے وہ گویا اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ انڈیل رہا ہے۔
تین سانس میں پینا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن مہدی، عروہ بن ثابت انصاری، ثمامہ بن حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک (درمیانہ) برتن تین سانس میں پیتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک برتن (میں پینے ) میں تین بار سانس لیتے تھے۔
٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن صباح، مروان بن معاویہ، رشدین بن کریب، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی چیز نوش فرمائی تو درمیان میں دو بار سانس لیا۔
مشکیزوں کا منہ الٹ کر پینا
احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشکیزوں کو الٹ کر اس کے منہ سے (منہ لگا کر) پینے سے منع فرمایا۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، رمعہ بن صالح سلمہ بن وہرام، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشکیزہ الٹ کر اس کے منہ سے پینے سے منع فرمایا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا کرنے سے منع فرما دیا اس کے بعد (ایک مرتبہ) رات میں ایک مرد مشکیزہ کے پاس کھڑا ہوا اور اسے الٹ کر پانی پینے لگا تو مشکیزہ میں سے ایک سانپ نکلا۔
مشکیزہ کو منہ لگا کر پینا
بشر بن ہلال صواف، عبد الوارث بن سعید، ایوب، عکرمہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشکیزہ کو منہ لگا کر پینے سے منع فرمایا۔
٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، یزید بن زریع، خالدحذاء، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشک کو منہ لگا کر پینے سے منع فرمایا۔
کھڑے ہو کر پینا
سوید بن سعید، علی بن مسہر، عاصم، شعبہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زمزم پلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے کھڑے ہی پی لیا۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ سے یہ حدیث ذکر کی تو انہوں نے حلفاً کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا نہیں کیا۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، یزید بن یزید بن جابر، عبد الرحمن بن ابی عمرہ، حضرت کبشہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ہاں تشریف لائے۔ ان کے پاس مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے کھڑے اسے منہ لگا کر پی لیا تو انہوں نے مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ جس جگہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا منہ مبارک لگاتھا۔ اس سے برکت حاصل کرنے کے لیے۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، بشر بن مفضل، سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے کھڑے پینے سے منع فرمایا۔
جب مجلس میں کوئی چیز پئے تو اپنے بعد دائیں طرف والے کو دے اور وہ بھی بعد میں دائیں والے کو دے
ہشام بن عمار، مالک بن انس، زہری، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پانی ملا ہوا دودھ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دائیں جانب ایک دیہاتی بیٹھا تھا اور بائیں جانب ابو بکر۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (دودھ) پینے کے بعد دیہاتی کو دے دیا اور فرمایا پہلے دائیں طرف والے کو دینا چاہیے اور فرمایا پہلے دائیں طرف والے کو دینا چاہیے اور اسے بھی اپنے دائیں طرف والے کو ہی دینا چاہیے۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ابن جریج، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دائیں جانب میں تھا اور بائیں جانب خالد بن ولید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (خود نوش فرمانے کے بعد) مجھ سے فرمایا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں (پہلے ) خالد کو پلاؤں؟ میں نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جوٹھے میں میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح دینا اور ایثار کرنا پسند نہی کرتا۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے لے کر پہلے پیا۔ اس کے بعد خالد رضی اللہ عنہ نے پیا (حالانکہ اس وقت ابن عباس کم سن تھے )
برتن میں سانس لینا
ابو بکر بن ابی شیبہ، داؤد بن عبد اللہ عبد العزیز بن محمد، حارث بن ابی ذباب، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی پئے تو برتن میں سانس نہ لیے (سانس لینے کے بعد) دوبارہ پینا چاہتا ہو تو برتن کو (منہ سے ) الگ کر کے (سانس لے ) پھر چاہے تو دوبارہ پی لے۔
٭٭ بکر بن خلف، ابو بشر، یزید بن زریع، خالدحذاء، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا۔
مشروب میں پھونکنا
ابو بکر بن خلاد باہلی، سفیان ، عبد الکریم، عکرمہ، حضرت ابن عباسفرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برتن میں پھونکنے سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو کریب، عبد الرحیم بن عبد الرحمن محاربی، شریک، عبد الکریم، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پینے کی چیز میں نہ پھونکتے تھے۔
چلو سے منہ لگا کر پینا
محمد بن مصفی، حمصی، بقیہ، مسلم بن عبد اللہ ، زیاد بن عبد اللہ ، عاصم بن محمد بن حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں پیٹ کے بل ہو کر پینے سے منع کیا یعنی (جانوروں کی طرح) منہ لگا کر پینے سے اور ایک ہاتھ سے چلو بھرنے سے بھی منع کیا اور فرمایا تم میں سے کوئی بھی ایسے منہ نہ دالا کرے جیسے کتا ڈالتا ہے اور نہ ہی ایک ہاتھ سے پئے جس طرح وہ قوم (یہود) پیتی ہے جس پر اللہ ناراض ہوئے اور رات کو برتن میں ہلائے بغیر نہ پئے۔ الا یہ کہ برتن ڈھکا ہوا ہو اور جو ہاتھ سے پئے حالانکہ وہ برتن سے پی سکتا ہے۔ صرف تو اضع اور عاجزی کی خاطر اللہ تعالیٰ اس کی انگلیوں کے برابر اس کے لیے نیکیاں لکھے گا اور ہاتھ عیسیٰ کا برتن بنا۔ جب انہوں نے پیالہ پھینک دیا اور فرمایا افسوس یہ بھی دنیا کا سامان ہے۔
٭٭ احمد بن منصور ابو بکر، یونس بن محمد، فلیح بن سلیمان، سعید، بن حارث ، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک انصاری شخص کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ اپنے باغ میں پانی لگا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا اگر تمہارے پاس مشکیزہ میں رات کا باسی پانی ہو تو ہمیں پلاؤ، ورنہ ہم منہ لگا کر پی لیں گے۔ کہنے لگے میرے پاس مشکیزہ میں رات کا باسی پانی ہے اور چل دیئے۔ ہم بھی ان کے ساتھ چل کر چھپر کی طرف گئے انہوں نے مشکیزہ میں سے رات کا باسی پانی لے کر اس میں دودھ دوہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوش فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔
٭٭ واصل بن عبدا الاعلی ، ابن فضیل لیث، سعید بن عامر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم ایک حوض کے قریب سے گزرے تو ہم اس میں منہ لگا کر پینے لگے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا منہ لگا کر مت پیو۔ البتہ ہاتھ دھو کر ہاتھوں سے پیو کیونکہ ہاتھ سے زیادہ پاکیزہ برتن کوئی نہیں۔
میزبان (ساقی) آخر میں پئے
احمد بن عبدہ، سوید، سعید، حماد بن زید، ثابت بنانی، عبد اللہ بن رباح، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قوم کو پلانے والا خود سب سے آخر میں پئے (یہ ادب ہے واجب نہیں )
شیشہ کے برتن میں پینا
احمد بن سنان ، زید بن حباب ، مندل بن علی، محمد بن اسحاق ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس شیشہ کا پیالہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں پیتے تھے۔
طب کا بیان
اللہ نے جو بیماری بھی اتاری اس کا علاج بھی نازل فرمایا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زیاد بن علاقہ، حضرت اسامہ بن شریک فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا دیہات والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھ رہے ہیں کہ اس بات میں بھی ہمیں گناہ ہو گا؟ اس بات میں بھی ہمیں گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے کسی بات میں گناہ نہیں رکھ البتہ اپنے بھائی کی آبروریزی گناہ ہے۔ پھر کہنے لگے اگر ہم علاج نہ کریں تو ہمیں گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کے بندو! علاج کیا کرو کیونکہ اللہ پاک نے بڑھاپے کے علاوہ جو بھی بیماری پیدا کی اس کا علاج بھی پیدا فرمایا۔ کہنے لگے اے اللہ کے رسول! بندے کو سب سے اچھی چیز کیا عطا کی گئی؟ فرمایا خوش خلقی۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، ابی خزامہ، حضرت ابو خزامہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ جن دواؤں سے ہم علاج کرتے ہیں اور جو منتر ہم پڑھتے ہیں اور جو پرہیز (اور بچاؤ کی تدبیریں ، حفاظت ودفاع کا سامان) ہم اختیار کرتے ہیں ، بتائیے یہ اللہ کی تقدیر کو ٹال سکتے ہیں؟ فرمایا یہ خود اللہ کی تقدیر کا حصہ ہیں۔
٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، عطاء بن سائب، ابی عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری اتاری اس کی دوا بھی (ضرور) اتاری۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابراہیم بن سعید، جوہری، ابو احمد، عمر بن سعید بن ابی حسین، عطاء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری اتاری اس کی شفاء (دوا بھی ضرور نازل فرمائی۔
بیمار کی طبیعت کسی چیز کو چاہے تو (حتی المقدور) مہیا کر دینی چاہیے
حسن بن علی خلال، صفوان بن ہییرہ، ابو مکین، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کس چیز کو طبیعت چاہتی ہے؟ کہنے لگا گندم کی روٹی کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے پاس گندم کی روٹی ہو وہ اپنے (اس) بھائی کے پاس بھیج دے۔ پھر فرمایا مریض کو جس چیز کی خواہش ہو، کھلا دیا کرو (الا یہ کہ وہ چیز اس کے لیے مضر ہو)
٭٭ سفیان بن وکیع، ابو یحییٰ حمانی، اعمش، یزیدرقاشی، حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بیمار کے پاس عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کس چیز کو دل چاہ رہا ہے؟ کہنے لگا کعک (ایک قسم کی روٹی نما چیز جسے فارسی میں کاک اور اردو میں کیک کہتے ہیں ) کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھیک ہے پھر اس کے لیے کیک منگوایا۔
پرہیز کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، فلیح بن سلیمان، ایوب بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ابی صعصعہ، محمد بن بشار، ابو عامر، ابو داؤد، فلیح بن سلیمان، ایوب بن عبد اللہ بن عبد الرحمن ، یعقوب بن ابی یعقوب، حضرت ام منذر بنت قیس انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب تھے جو ابھی بیماری سے صحت یاب ہوئے ہی تھے اور ہمارے ہاں کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان (خوشوں ) سے تناول فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ نے بھی کھانے کے لیے لیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا علی رک جاؤ۔ تم ابھی تو تندرست ہوئے (ضعف ہے ، اس لیے معدہ ہضم نہ کر سکے گا) فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے چقندر اور جو تیار کیے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی! یہ لو، اس سے تمہیں زیادہ فائدہ ہو گا۔
٭٭ عبد الرحمن بن عبد الوہاب، موسیٰ بن اسماعیل، ابن مبارک، عبد الحمید بن صیفی حضرت صہیب فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے روٹی اور چھوارے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قریب ہو جاؤ اور کھاؤ۔ میں چھوارے کھانے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چھوارے کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے۔ میں نے عرض کیا میں دوسری طرف سے چبا رہا ہوں (جو آنکھ دکھ رہی ہے اس طرف سے نہیں چبا رہا) اس (لطیف جواب) پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرا دیئے۔
مریض کو کھانے پر مجبور نہ کرو
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، بکر بن یونس بن بکیر، موسیٰ بن علی بن رباح، حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے مریضوں کو کھانے پینے پر (زبردستی) مجبور نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو کھلاتے پلاتے ہیں۔
ہریرہ کا بیان
ابراہیم بن سعید جوہری، اسماعیل بن علیہ، محمد بن سائب، برکہ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل خانہ کو جب بخار ہوتا تو ہریرہ تیار کرنے کا حکم فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ ہریرہ غمگین کے دل کو تقویت دیتا ہے اور بیمار کے دل سے پریشانی کو زائل کر دیتا ہے جیسے تم میں سے کوئی پانی مل کے اپنے چہرہ سے میل دور کرتا ہے۔
٭٭ علی بن ابی خصیب، وکیع، ایمن بن نابل، قریش، سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ہریرہ استعمال کیا کرو جو طبیعت کو پسند نہیں لیکن مفید ہے۔ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار پڑتا تو ہنڈیا آگ سے الگ نہ ہوتی۔ (ہر وقت ہریرہ تیار رہتا) یہاں تک کہ وہ بیمار تندرست ہو جائے۔
کلونجی کا بیان
محمد بن رمح، محمد بن حارث، لیث بن سعد، عقیل، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ کلونجی میں موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے۔
٭٭ ابو سلمہ یحییٰ بن خلف، ابو عاصم، عثمان بن عبد الملک، سالم بن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم کلونجی اہتمام سے استعمال کیا کرو کیونکہ اس میں موت کے علاوہ ہر بیماری سے شفاء ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ ، اسرائیل منصور، حضرت خالد بن سعد فرماتے ہیں کہ ہم سفر میں نکلے۔ ہمارے ساتھ غالب بن جبر تھے۔ راستہ میں یہ بیمار ہو گئے۔ پھر ہم مدینہ آئے۔ اس وقت یہ بیمار ہی تھے۔ ابن ابی عتیق نے ان کی عیادت کی اور ہمیں کہنے لگے کہ کلونجی کے پانچ سات دانے لے کر پیسو پھر زیتون کے تیل میں ملا کر ان کے دونوں نتھنوں میں چند قطرے ٹپکا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں بتا دیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ کلونجی میں موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔
شہد کا بیان
محمود بن خداش، سعید زکریا قرشی، زبیر بن سعید ہاشمی، عبد الحمید بن سالم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو ہر ماہ تین روز صبح کو شہد چاٹ لے اسے کوئی بڑی آفت نہ آئے گی۔
٭٭ ابو بشربکر بن خلف، عمر بن سہل، ابو حمزہ عطار، حسن، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شہد ہدیہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاٹنے کے لئے تھوڑا تھوڑا سا ہم میں تقسیم فرمایا۔ میں نے اپنا حصہ لیا پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں مزید لے لوں؟ فرمایا ٹھیک ہے لے لو۔
٭٭ علی بن سلمہ، زید بن حیاب، سفیان، ابی اسحاق ، ابی الاحوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے اوپر دو شفاؤں کو لازم کر لو۔ شہد اور قرآن۔
کھنبی اور عجوہ کھجور کا بیان
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اسباط بن محمد، اعمش، جعفر بن ایاس، شہر بن حوشب، حضرت ابو سعید اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کھنبی من ہے اور اس کا پانی آنکھ کیلئے شفا ہے اور عجوہ جنت کا پھل ہے اور اس میں جنون سے بھی شفاء ہے۔ دوسری سند سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبد الملک بن عمیر، عمرو بن حریث، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ کھنبی اس من کی طرح ہے جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کیلئے نازل فرمایا اور اس کاپانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو عبد الصمد، مطرالوراق، شہر بن حوشب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس باتیں کر رہے تھے کہ کھنبی کا ذکر آیا تو لوگوں نے کہا یہ زمین کی چیچک ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک بات گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھنبی من ہے اور عجوہ جنت سے آئی ہے اور زہر سے بھی شفا دیتی ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، مشمعل بن ایاس مزنی، عمرو بن سلیم، حضرت رافع بن عمرو مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا عجوہ اور (بیت المقدس کا) صخرہ جنت سے ہیں۔
سنا اور سنوت کا بیان
ابراہیم بن محمد بن یوسف بن سرح فریابی، عمرو بن بکر سکسکی، ابراہیم بن ابی عبلہ، حضرت ابو ابی بن ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ تم سنا اور سنوت کا اہتمام کرو اس لئے کہ ان میں سام کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! سام کون سی بیماری ہے؟ فرمایا موت۔ راوی حدیث عمرو فرماتے ہیں کہ ابن ابی عبلہ نے فرمایا سنوت سویا کے ساگ کو کہتے ہیں (یہ خوشبو دار ہوتا ہے ) اور دوسرے حضرات نے کہا کہ سنوت وہ شہد ہے جو گھی کی مشکوں میں ہو اور اسی سے ہے شاعر کا قولہُمْ السَّمْنُ بِالسَّنُّوتِ لَا أَلْسَ فِیہِمْ وَہُمْ یَمْنَعُونَ جَارَہُمْ أَنْ یُقَرَّدَا
وہ گھی میں شہد میں ملے ہوئے ان میں کوئی نیزہ نہیں (لڑائی نہیں کرتے اتحاد سے رہتے ہیں ) اور وہ اپنے پڑوسی کو دھوکہ کھانے سے روکتے ہیں (خود بھی دھوکہ نہیں دیتے اور پڑوسی کو بھی دھوکہ میں آنے نہیں دیتے )۔
نماز شفاء ہے
جعفر بن مسافر، سری بن مسکین، داؤد بن علبہ، لیث، مجاہد، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوپہر میں نکلے۔ میں بھی نکلا اور نماز پڑھ کر بیٹھ گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اشِکَمَتْ دَرْدْ (تمہارے پیٹ میں درد ہے؟) میں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسو ل! فرمایا اٹھو! نماز پڑھو اس لیے کہ نماز میں شفاء ہے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے اس کے آخر میں ہے کہ امام ابن ماجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کسی مرد نے اپنے اہل خانہ کو یہ حدیث سنائی تو وہ اس پر ٹوٹ پڑے۔
ناپاک اور خبیث دوا سے ممانعت
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، یونس بن ابی اسحاق ، مجاہد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خبیث دوا یعنی زہر سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن شیبہ، وکیع، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو زہر پی کر خود کشی کرے وہ ہمیشہ دوزخ میں بھی زہر پیتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں ہی رہے گا۔
مسہل دوا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ ,عبد الحمید بن جعفر، زرعہ بن عبد الرحمن، معمر تیمی، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا تم کیا مسہل استعمال کرتی ہو؟ میں نے عرض کیا شبرم۔ فرمایا وہ تو سخت گرم ہوتا ہے۔ پھر میں سنا سے اسہال لینے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی چیز موت کا علاج ہوتی تو سنا ہوتی اور سنا تو موت کا ھی علاج ہے۔
گلے پڑنے یا گھنڈی پڑنے کا علاج اور دبانے کی ممانعت
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں اپنے ایک بیٹے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کے گلے میں ورم تھا۔ اس لئے میں نے اس کا گلا دبا کر علاج کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی اولاد کا گلا کیوں دباتی ہو؟ عود ہندی استعمال کیا کرو۔ اس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے۔ گلے پڑے ہوں تو اس کی نسوار دی جائے اور ذات الجنب میں منہ میں لگائی جائے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
عرق النساء کا علاج
ہشام بن عمار، راشد بن سعید بن رملی، ولید بن مسلم، ہشام بن حسان، انس بن سیرین، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سناعرق النساء کا علاج جنگلی بکری کی چربی (چکی) ہے۔ اسے پگھلا کر تین حصہ کرلئے جائیں اور روزانہ ایک حصہ نہار منہ پیا جائے۔
زخم کا علاج
ہشام بن عمار، محمد بن صباح عبد العزیزبن ابی حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زخمی ہوئے اور آپ کا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا اور آپ کے سر مبارک میں خود گھس گیا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے بدن سے خون دھو رہی تھیں اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون زیادہ نکل رہا ہے توبورئیے کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا۔ جب وہ راکھ ہو گیا تو اس کی راکھ زخم میں بھر دی۔ اس سے خون رک گیا۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک عبد المہیمن بن عباس حضرت سہل بن ساعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں اس کم نصیب کو جانتا ہوں جس نے جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاچہرہ انور زخمی کیا اور مجھے معلوم ہے کہ کس نے آپ کا زخم دھونے اور علاج کرنے کی سعادت حاصل کی اور کون ڈھال میں پانی اٹھا کرلا رہا تھا اور آپ کا کیا علاج کیا گیا کہ خون رک گیا۔ ڈھال میں پانی اٹھا کر لانے والے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور زخم کا علاج سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا۔ جب خون بند نہ ہوا تو انہوں نے بورئیے کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم میں رکھ دی۔ اس سے خون بند ہو گیا۔
جو طب سے نا واقف ہو اور علاج کرے
ہشام بن عمار، راشد بن سعید رملی، ولید بن مسلم، ابن جریج، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو طب میں معروف نہ ہو (باقاعدہ طبیب نہ ہو) وہ علاج کرے (اور کوئی نقصان ہو جائے ) تو وہ (نقصان) کا تاوان ادا کرے۔
ذات الجنب کی دوا
عبد الرحمن بن عبد الوہاب، یعقوب بن اسحاق ، عبد الرحمن بن میمون ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذات الجنب کیلئے ان اشیاء کی تعریف فرمائی۔ ورس (زرد خوشبودار گھاس ہے ) اور قسط (عود ہندی) اور زیتون کا تیل انکو (حل کر کے ) اود کیا جائے (منہ میں لگایا جائے )۔
٭٭ ابو طاہر احمد بن عمرو بن سرح مصری، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن سمعان، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عود ہندی یعنی قسط کو اہتمام سے استعمال میں لاؤ کیونکہ اس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے جن میں سے ایک ذات الجنب ہے۔
بخار کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، موسیٰ بن عبیدہ، علقمہ بن مرثد، حفص بن عبید اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس بخار کا تذکرہ ہوا تو ایک شخص نے بخار کو برا بھلاکہا۔ اس پر رسول اللہ نے فرمایا بخار کو برا بھلا مت کہو اس لئے کہ یہ گناہ کو ایسے ختم کر دیتا ہے جیسے آگ لوہے کے میل کو ختم کر دیتی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عبد الرحمن بن یزید، اسماعیل بن عبید اللہ، ابو صالح اشعری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بیماری کی عیادت کی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ اس مریض کو بخار تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خوشخبری سنو۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں بخار میری آگ ہے میں اسے اپنے مومن بندہ پر دنیا میں اس لئے مسلط کرتا ہوں کہ یہ آخرت کی آگ کی متبادل ہو جائے (اور مومن بندہ آخرت کی آگ سے محفوظ و مامون رہے گا۔
بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بخار دوزخ کی بھاپ سے ہوتا ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔
٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بخار کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے لہذا اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، مصعب بن مقدام، اسرائیل، سعید بن مسروق، عبایہ بن رفاعہ، حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا بخار دوزخ کی بھاپ سے ہوتا ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔ پھر آپ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک بیٹے کے پاس تشریف لے گئے۔ (وہ بیمار تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اکْشِفْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ إِلَہَ النَّاسْ بیماری دور فرما دیجئے۔ اے تمام لوگوں کے رب! اے سب انسانوں کے معبود۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، فاطمہ بنت منذر، حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بخار زدہ عورت کو لایا جاتا تو وہ پانی منگوا کر اس کے گریبان میں ڈالتیں اور فرماتیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بخار کو پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔ نیز فرمایا بخار دوزخ کی بھاپ سے ہوتا ہے۔
٭٭ ابو سلمہ یحییٰ بن خلف، عبد الاعلی، سعید، قتادہ، حسن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بخار دوزخ کی ایک بھٹی ہے۔ اسے ٹھنڈے پانی کے ساتھ اپنے آپ سے دور کرو۔
پچھنے لگانے کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسود بن عامر، حماد بن سلمہ، محمد بن عمر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو علاج تم کرتے ہو ان میں سے اگر کسی میں بہتری ہو تو وہ پچھنے لگانے میں ہے۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، زیاد بن ربیع، عباد بن منصور، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شب معراج میں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے بھی میرا گزر ہوا۔ ہر ایک نے مجھے یہی کہا۔ اے محمد! پچھنے لگانے کا اہتمام کیجئے۔
٭٭ ابو بشربکر بن خلف، عبد الاعلی، عباد بن منصور، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا ہے وہ بندہ جو پچھنے لگاتا ہے۔ خون نکال دیتا ہے۔ کمر ہلکی کر دیتا ہے اور بینائی کو جلاء بخشتا ہے۔
٭٭ حبارہ بن مغلس، کثیر بن سلیم، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شب معراج میں جس جماعت کے پاس سے بھی میں گزرا اس نے یہی کہا اے محمد! اپنی امت کو پچھنے لگانے کا حکم فرمائیے۔
٭٭ محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، ابو ہریرہ، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پچھنے لگوانے کی اجازت چاہی تو نبی کریم نے ابو طیبہ کو حکم فرمایا کہ انہیں پچھنے لگاؤ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابو طیبہ سیدہ ام سلمہ کے رضاعی بھائی ہوں گے یا کم سن لڑکے ہوں گے۔
پچھنے لگانے کی جگہ
ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال علقمہ بن ابی علقمہ، عبد الرحمن اعرج، حضرت عبد اللہ بن نجینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لَحْیِ جَمَلٍ (نامی مقام) میں بحالت احرام سر کے بالکل وسط میں پچھنے لگوانے۔
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مہر، سعداسکاف، اصبغ بن نباتہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گردن کی رگوں اور مونڈھوں کے درمیان پچھنے لگانے کا کہا۔
٭٭ علی بن ابی خصیب، وکیع، جریر بن حازم، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گردن کی رگوں اور دونوں مونڈھوں کے درمیان پچھنے لگوائے۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، ولید بن مسلم، ابن ثوبان، حضرت ابو کبشہ نماری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سر پر پچھنے لگواتے تھے اور دونوں مونڈھوں کے درمیان بھی اور فرماتے تھے کہ جو ان مقاموں سے خون بہادے تو اسے کسی بیماری کا کچھ علاج نہ کرنا بھی نقصان نہ دے گا۔
٭٭ محمد بن طریف، وکیع، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے گھوڑے سے کھجور کے ایک ٹنڈ پر گرے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں مبارک میں موچ آ گئی۔ وکیع فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پچھنے لگوائے صرف درد کی وجہ سے۔
پچھنے کن دنوں میں لگائے؟
سوید بن سعید، عثمان بن مطر، زکریا، میسرہ، نہاس بن قہم، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو پچھنے لگانا چاہے تو وہ سترہ انیس یا اکیس تاریخ کو لگائے اور ایسے دن نہ لگائے کہ خون کا جوش اسے ہلاک کر دے۔
٭٭ سوید بن سعید، عثمان بن مطر، حسن بن ابی جعفر، محمد بن حجادہ، حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے نافع ! میرے خون میں جوش ہو گیا ہے اس لئے کوئی پچھنے لگانے والا تلاش کرو۔ اگر ہو سکے تو نرم خوآدمی لانا۔ عمر رسیدہ بوڑھایا کم سن بچہ نہ لانا اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا نہار منہ پچھنے لگوانا بہتر ہے اور اس میں شفاء ہے برکت ہے۔ یہ عقل بڑھاتا ہے حافظہ تیز کرتا ہے۔ اللہ برکت دے جمعرات کو پچھنے لگوایا کرو اور بدھ، جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے روز قصدا پچھنے مت لگوایا کرو (اتفاقاً ایسا ہو جائے تو حرج نہیں ) اور پیر اور منگل کو پچھنے لگوایا کرو۔ اس لئے کہ اسی دن اللہ تعالی نے حضرت ایوب کو بیماری سے شفاء عطافرمائی اور بدھ کے روز وہ بیمار ہوئے تھے اور جذام اور برص ظاہر ہو توبدھ کے دن یا بدھ کی رات کوظاہر ہوتا ہے۔
٭٭ محمد بن مصفی حمصی، عثمان بن عبد الرحمن، عبد اللہ بن عصمہ، سعید بن میمون، حضرت نافع فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے نافع ! میرے خون میں جوش ہو رہا ہے اس لئے پچھنے لگانے والے کو بلاؤ جوان کو بلانا بوڑھے یا کم عمر بچہ کو نہ بلانا۔ حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا کہ نہار منہ پچھنے لگوانا زیادہ بہتر ہے اور اس سے عقل بڑھتی ہے اور حافظے والے کا حافظہ مزید تیز ہو جاتا ہے۔ سو جو پچھنے لگانا چاہے تو جمعرات کے روز اللہ کا نام لے کر لگائے اور جمعہ ہفتہ اور اتوار کے دنوں میں پچھنے لگانے سے اجتناب کرو۔ پیر منگل کو پچھنے لگوایا کرو اور بدھ کے روز بھی پچھنے لگوانے سے اجتناب کرو کیونکہ اسی دن حضرت ایوب آزمائش میں مبتلا ہوئے اور جذام اور بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔
داغ دے کر علاج کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، لیث، مجاہد، عفار بن حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو داغ لگائے یا منتر پڑھے وہ توکل سے بری ہے۔
٭٭ عمروبن رافع، ہشیم، منصور، یونس، حسن، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے داغ دینے سے منع فرمایا اس کے بعد میں نے داغ دیا تو نہ مجھے صحت ہو نہ افاقہ۔
٭٭ احمد بن منیع، مروان بن شجاع، سالم افطش، سعید، بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین چیزوں میں شفاء ہے شہد کا گھونٹ پچھنے لگوانا آگ سے داغ دینا اور میں اپنی امت کو آگ سے داغ دینے سے منع کرتا ہوں۔
داغ لینے کا جواز
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشار، محمد بن جعفرغندر، شعبہ، احمد بن سعید دارمی، نضر بن شمیل، شعبہ، حضرت محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے چچاجیساصالح اور متقی شخص نہیں دیکھا۔ میں نے انہیں سے سنا وہ لوگوں کو بتا رہے تھے کہ اسعد بن زرارہ جو محمد کے (میرے ) ناناہیں کے حلق میں درد اٹھا۔ جسے ذبحہ کہتے ہیں (خناق کی ایک نوع ہے ) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں ابو امامہ (اسعد بن زرارہ) کے علاج میں پوری کوشش کروں گا تاآنکہ لوگ مجھے معذور سمجھیں (یہ نہ کہیں کہ اچھی طرح علاج نہ کیا اس لئے موت آئی) چنانچہ آپ نے اپنے دست مبارک سے انہیں داغ دیا۔ بالآخران کا انتقال ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ موت بری ہے یہود کیلئے کہ وہ کہیں گے اپنے ساتھی کو موت سے نہ بچا سکاحالانکہ میں نہ اس کی جان کا مالک ہوں نہ اپنی جان کا مالک ہوں۔
٭٭ عمروبن رافع، عبید طنافسی، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب بیمار ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے پاس ایک طبیب کو بھیجا۔ اس نے ان کے بازو کی ایک رگ کو داغ دیا۔
٭٭ علی بن ابی خصیب، وکیع، سفیان ، زبیر، جابر بن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارحضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بازو کی ایک رگ کو داغا۔
اثمد کا سرمہ لگانا
ابو سلمہ، یحییٰ بن خلف، ابو عاصم، عثمان بن عبد الملک، سالم بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اثمد کا استعمال اہتمام سے کیا کرو اس لئے کہ یہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو بڑھاتا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان ، اسماعیل بن مسلم، محمد بن منکدر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا سوتے وقت اثمد سرمہ اہتمام سے استعمال کیا کرو اس لئے کہ یہ بینائی کو جلا بخشتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم، سفیان ، ابی خثیم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے سرموں میں سب سے بہتر (سرمہ) اثمد ہے۔ یہ بینائی تیز کرتا ہے اور بال اگاتا ہے۔
طاق مرتبہ سرمہ لگانا
عبد الرحمن بن عمر، عبد الملک بن صباح، ثور بن یزید، حصین حمیری، ابو سعد خیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو سرمہ لگائے توطاق مرتبہ لگائے۔ جو طاق عد د کا خیال رکھے اس نے اچھا کیا اور جو ایسا نہ کرے تو کچھ حرج نہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، عباد بن منصور، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے ہر آنکھ میں تین بار سرمہ لگاتے تھے۔
شراب سے علاج کرنا منع ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، حماد بن سلمہ، سماک بن حرب، علقمہ بن وائل حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہمارے علاقہ میں انگور ہوتے ہیں ہم انکو نچوڑ کر پی سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ! فرماتے ہیں میں نے دوبارہ پوچھا اور عرض کیا ہم اس سے بیمار کا علاج کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس میں شفاء نہیں ہے بلکہ بیماری (گناہ) ہے۔
قرآن سے علاج ( کر کے شفاء حاصل) کرنا
محمد بن عبید بن عتبہ بن عبد الرحمن کندی، علی بن ثابت، سعاد بن سلیمان، ابو اسحاق ، حارث، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین دوا قرآن ہے۔
مہندی کا استعمال
ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن خباب ، فائدجو کہ مولیٰ ہیں عبید اللہ بن علی بن ابی رافع، عبید اللہ، حضرت سلمی ام رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آزاد کردہ باندی ہیں۔ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زخم ہوتا یا کانٹا چبھتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس (زخم والی جگہ پر) پر مہندی لگاتے۔
اونٹوں کے پیشاب کا بیان
نصر بن علی جہضمی، عبد الوہاب، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مدینہ کی آب وہوا انہیں موافق نہ آئی تو رسول اللہ نے فرمایا اگر تم ہمارے اونٹوں میں جاؤ اور ان کے دودھ پیو اور پیشاب بھی (تو شاید تم تندرست ہو جاؤ) انہوں نے ایسا ہی کیا۔
برتن میں مکھی گر جائے تو کیا کریں؟
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ابن ابی ذئب، سعید بن خالد، ابی سلمہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکھی کے ایک پر میں زہر ہے اور دوسرے میں شفاء ہے۔ اس لئے جب یہ کھانے کی چیز میں گرجائے تو اسے (مکمل) ڈبو دو کیونکہ زہر والا پر آگے رکھتی ہے اور شفاء والا پیچھے۔
٭٭ سوید بن سعید، مسلم بن خالد، عتبہ بن مسلم عبید بن حنین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے مشروب میں مکھی گر جائے تو اسے چاہیے کہ مکھی کو ڈبودے پھر نکال کے باہر پھینک دے اس لئے کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء۔
نظر کا بیان
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ بن ہشام، عمار بن زریق، عبد اللہ بن عیسیٰ، امیہ بن ہند حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نظر حق ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، جریری، مضارب بن حزن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نظر حق ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو ہشام مخزومی، وہیب، ابی واقد، ابی سلمہ بن عبد الرحمن، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ سے پناہ مانگو نظر حق ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، سفیان ، زہری، حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف فرماتے ہیں کہ میرے والد سہل بن حنیف نہا رہے تھے۔ عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے قریب سے گزرے تو فرمایا میں نے آج تک ایسا آدمی نہ دیکھا۔ پردہ دار لڑکی کا بدن بھی تو ایسا نہیں ہوتا۔ تھوڑی ہی دیر میں سہل گر پڑے۔ انہیں نبی کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا ذرا سہل کو دیکھئے تو گر پڑا ہے۔ فرمایا تمہیں کس کے متعلق خیال ہے کہ (اس کی نظر لگی ہے؟) لوگوں نے عرض کیا عامر بن ربیعہ کی۔ فرمایا آخر تم میں سے ایک اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے؟ جو تم میں سے کوئی اپنے بھائی میں ایسی بات دیکھے جو اسے اچھی لگے تو اس کو چاہئے کہ بھائی کو برکت کی دعا دے۔ پھر آپ نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا وضو کریں۔ انہوں نے چہرہ دھویا اور کہنیوں تک ہاتھ دھوئے اور دونوں گھٹنے دھوئے اور ازار کے اندر (ستر) کا حصہ دھویا۔ آپ نے یہ دھون سہل پر ڈالنے کا حکم فرمایا۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ معمر نے کہا کہ امام زہری نے فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے ان پر پانی انڈیلنے کا حکم فرمایا۔
نظر کا دم کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عروہ، عامر، عبید بن رفاعہ زرقی، حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے کیا میں انہیں دم کر دیا کروں؟ فرمایا ٹھیک ہے کیونکہ تقدیر سے اگر کوئی چیز بڑھ سکتی ہے تو نظر ہی بڑھ سکتی ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سعید بن سلیمان عباد، جریری، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنات کی نظر سے پھر انسانوں کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ جب معوذتین نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انکو اختیار کر لیا اور باقی سب کچھ ترک کر دیا۔
٭٭ علی بن ابی خصیب، وکیع، سفیان، مسعر، معبد بن خالد، عبد اللہ بن نمیر، اسحاق بن سلیمان، عبد اللہ بن شداد، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں نظر کا دم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
وہ دم جن کی اجازت ہے
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اسحاق بن سلیمان، ابی جعفر رازی، حصین، شعبی، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نظر ڈنکے کے علاوہ کسی اور چیز میں دم یا تعویز (اتنا) مفید نہیں (جتنا ان میں مفید ہے )
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، محمد بن عمارہ، ابو بکر بن محمد، حضرت خالد بنت انس ام بنی حزم ساعد یہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور دم و تعویذ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پیش کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اجازت فرما دی۔
٭٭ علی بن ابی خصیب، یحییٰ بن عیسیٰ ، اعمش، ابی سفیان ، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انصار میں ایک خاندان تھاجنہیں آل عمرو بن حزم کہا جاتا تھا۔ یہ ڈنگ کا دم کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دم کرنے سے منع فرمایا تو یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ نے دموں سے منع فرما دیا جبکہ ہم ڈنگ کا دم کرتے ہیں۔ آپ نے ان سے فرمایا تم مجھے دم سناؤ۔ انہوں نے سنایا تو آپ نے فرمایا ان میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ یہ تو وعدے ہیں۔
٭٭ عبدہ بن عبد اللہ معاویہ بن ہشام ، سفیان ، عاصم ، یوسف بن عبد اللہ بن حارث ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ڈنگ نظر اور غل کے دم کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سانپ اور بچھو کا دم
عثمان بن ابی شیبہ، ہناد بن سری، ابو الاحوص، مغیرہ، ابراہیم، اسود، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سانپ اور بچھو کے دم کی اجازت فرمائی۔
٭٭ اسماعیل بن بہرام، عبید اللہ اشجعی، سفیان، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا۔ وہ رات بھر سو نہ سکا۔ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ فلاں کو بچھو نے کاٹا اس لئے وہ رات بھر سو نہ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غور سے سنو! اگر وہ شام کے وقت یہ پڑھ لیتا أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ مَا ضَرَّہُ لَدْغُ عَقْرَبٍ تو صبح تک بچھو کے کاٹنے سے اسے ضرر نہ ہوتا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، عبد الواحد بن زیاد، عثمان بن حکیم، ابو بکر بن حزم، حضرت عمر بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سانپ کا دم سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی اجازت مرحمت فرما دی۔
جو دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسروں کو کئے اور جو دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کئے گئے
ابو بکر بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابی ضحی، مسروق، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیمار کے پاس آتے تو اس کے لئے دعا کرتے تو فرماتے أَذْہِبْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا اے انسانوں کے پروردگار ! بیماری کو دور کر دیجئے اور شفاء عطاء فرما دیجئے۔ آپ ہی شفاء دینے والے ہیں۔ شفاء وہی ہے جو آپ عطافرمائیں۔ ایسی شفاء عطا فرمائے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان ، عبدربہ، عمرہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اپنی انگلی کو لعاب مبارک لگا کر (مٹی لگاتے اور بیماری کی مقام پر ملتے اور) یہ پڑھتے بِسْمِ اللَّہِ تُرْبَۃُ أَرْضِنَا بِرِیقَۃِ بَعْضِنَا لِیُشْفَی سَقِیمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا اللہ کے نام سے ہماری زمین کی مٹی سے ہم میں سے کسی کے تھوک سے ہمارے بیمار کو شفاء ملے گی۔ ہمارے رب کے حکم سے۔
٭٭ ابو بکر، یحییٰ بن ابی بکیر، زہیر بن محمد، زید بن خصیفہ، عمرو بن عبد اللہ بن کعب، نافع بن جبیر، حضرت عثمان بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مجھے اتناشدید درد تھا کہ میں ہلاکت کے قریب ہو چکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا درد کہ جگہ دایاں ہاتھ رکھو اور سات مرتبہ کہوبِسْمِ اللَّہِ أَعُوذُ بِعِزَّۃِ اللَّہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ۔ میں نے یہ پڑھا تو اللہ تعالی نے مجھے شفاء عطا فرمائی۔
٭٭ بشر بن ہلال صواف، عبد الوارث، عبد العزیز بن صہیب، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہابِسْمِ اللَّہِ أَرْقِیکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنٍ أَوْ حَاسِدٍ اللَّہُ یَشْفِیکَ بِسْمِ اللَّہِ أَرْقِیکَ میں تم پر اللہ کے نام سے دم کرتا ہوں ہر تکلیف دہ چیز سے۔ ہر نفس نظر اور حاسد کے شر سے اللہ تمہیں شفاء عطاء فرمائے۔ میں تمہیں اللہ کے نام سے دم کرتا ہوں۔
٭٭ محمد بن بشار، حفص بن عمر، عبد الرحمن، سفیان، عاصم بن عبید اللہ ، زیاد بن ثویب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری عیادت کیلئے تشریف لائے تو مجھے فرمانے لگے میں تمہیں وہ دم نہ کروں جو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس لائے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان !ضرور کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار یہ کلمات پڑھے۔ بِسْمِ اللَّہِ أَرْقِیکَ وَاللَّہُ یَشْفِیکَ مِنْ کُلِّ دَائٍ فِیکَ مِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
٭٭ محمد بن سلیمان بن ہشام بغدادی، وکیع، ابو بکر بن خلاد باہلی، ابو عامر، سفیان ، منہال ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دم کرتے تو یہ پڑھتے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ میں اللہ کے بابرکت اور پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہر شیطان اور زہریلے کیڑے سے اور ہر نظر بد سے جو مجنون بھی کر دیتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہمارے جد محترم سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادوں حضرت اسماعیل، اسحاق یا اسماعیل و یعقوب کو یہی دم کیا کرتے تھے۔
بخار کا تعویذ
محمد بن بشار، ابو عامر، ابراہیم اشہلی، داؤد بن حصین عکرمہ، ابن عباس، دوسری سند عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابن ابی فدیک، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بخار اور تمام دردوں میں یہ پڑھنے کی تعلیم فرماتے تھے بسْمِ اللَّہِ الْکَبِیرِ أَعُوذُ بِاللَّہِ الْعَظِیمِ مِنْ شَرِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ اللہ بڑے کے نام سے۔ میں عظمت والے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور جوش مارنے والے (خون سے بھری ہوئی) رگ کے شر سے اور آگ کی گرمی کے شر سے۔ ابو عامر کہتے ہیں میں لوگوں سے مختلف پڑھتا ہوں سعار۔ (سخت سرکش)۔
دوسری سند سے بھی یہی مروی ہے۔ اس میں یعار (یائے حطی کے ساتھ) ہے۔
٭٭ عمروبن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، ابن ثوبان، عمیر، جنادہ بن ابی امہ، عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بخار ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور یہ دم کیا بِسْمِ اللَّہِ أَرْقِیکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیکَ مِنْ حَسَدِ حَاسِدٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ اللَّہُ یَشْفِیکَ۔
دم کر کے پھونکنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن میمون رقی، سہل بن ابی سہل، وکیع، مالک بن انس، زہری، عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دم کر کے پھونکا کرتے تھے۔
٭٭ سہل بن ابی سہل ، معن بن عیسیٰ ، محمد بن یحییٰ ، بشر بن عمر، مالک ، ابن شہاب، عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیمار ہوتے تو خود ہی معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیتے ، پھونکتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری شدید ہو گئی تو میں دم پڑھتی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کا دست مبارک پھیرتی برکت کی امید سے۔
تعویذ لٹکانا
ایوب بن محمد، معمر بن سلیمان، عبد اللہ بن بشر، اعمش، عمرو بن مرہ، یحییٰ بن جزار ابن اخت زینب، عبد اللہ بن زینب حضرت زینب اہلیہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک بڑھیا ہمارے پاس آیا کرتی تھی سرخ بادہ کا دم کرتی تھی ہمارے پاس ایک تخت تھا جس کے پائے تھے جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر تشریف لاتے تو کھنکھارتے اور آواز دیتے ایک روز وہ اندر تشریف لائے میں نے ان کی آواز سنی تو ان سے پردہ میں ہو گئی وہ آئے اور میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے انہوں نے مجھے ہاتھ لگایا تو ایک تعویذ ان کو محسوس ہوا فرمانے لگے یہ کیا ہے؟ میں نے کہا میرا تعویذ ہے اس پر سرخ بادے سے بچاؤ کا دم کیا ہوا ہے۔ انہوں نے اسے کھینچ کر توڑا اور پھینک دیا اور فرمایا کہ عبد اللہ کے گھر والے شرک سے بیزار ہو چکے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا دم تعویذ اور ٹونا (حب کا گنڈا) سب شرک ہے۔ میں نے کہا کہ ایک روز میں باہر نکلی تو فلاں کی مجھ پر نظر پڑی اس کے بعد سے میری جو آنکھ اس کی طرف تھی بہنے لگی میں اس پر دم کروں تو ٹھیک ہو جاتی ہوں اور دم ترک کر دوں تو پھر بہنے لگتی ہے فرمانے لگے یہ شیطان کی کارستانی ہے جب تم اس کی نافرمانی کرتی ہو تو وہ تمہاری آنکھ میں اپنی انگلی چبھوتا ہے البتہ اگر تم وہی عمل کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تو یہ تمہارے حق میں بہتر بھی ہو گا اور تمہاری شفا یابی کیلئے بہت موزوں بھی ہے تم اپنی آنکھ میں پانی کاچھینٹا ڈالو اور یہ کہو أَذْہِبْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا۔
٭٭ علی بن ابی خصیب، وکیع، مبارک، حسن ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرد کے ہاتھ میں پیتل کا چھلا دیکھا تو فرمایا یہ چھلا کیسا ہے؟ کہنے لگا یہ واھنہ (بیماری) کیلئے ہے فرمایا اسے اتار دو کیونکہ اس سے تمہارے اندر وہن اور کمزوری ہی بڑھے گی۔
آسیب کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، یزید بن ابی زیاد، سلیان بن عمرو بن احوص، حضرت ام جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ نے نحر کے دن وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں پھر آپ واپس ہوئے آپ کے پیچھے قبیلہ خثعم کی ایک خاتون آ رہی تھیں ان کے ساتھ ان کا بچہ تھا اس پر کوئی اثر تھا اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول یہ میرا بیٹا اس پر کچھ اثر ہے کہ یہ بولتا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کچھ پانی لاؤ پانی لایا گیا آپ نے دونوں ہاتھ دھوئے اور کلی کی پھر وہ پانی اس عورت کو دے کر فرمایا اس بچہ کو یہ پانی پلاؤ اور اس کے بدن پر لگاؤ اور اس کے لئے اللہ تعالی سے شفاء مانگو۔ حضرت ام جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں اس عورت سے ملی اور درخواست کی کہ تھوڑا سا پانی مجھے دے دو کہنے لگی کہ یہ تو اس بیماری کیلئے ہے فرماتی ہیں کہ آئندہ سال پھر اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے لڑکے کے متعلق پوچھا کہنے لگی تندرست ہو گیا ہے اور لوگوں سے بڑھ کر سمجھدار ہو گیا ہے۔
قرآن کریم سے (علاج کر کے ) شفاء حاصل کرنا
محمد بن عبید بن عتبہ بن عبد الرحمن کندی، علی بن ثابت، معاذ بن سلیمان، ابی اسحاق ، حارث، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہترین دوا قرآن کریم ہے۔
دو دھاری والا سانپ مار ڈالنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو دھاری والا سانپ مار ڈالنے کا امر فرمایا کیونکہ یہ خبیث سانپ اندھا کر دیتا ہے اور حمل گرا دیتا ہے۔
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس، شہاب، سالم ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سانپوں کو مار دیا کرو خصوصاً دو دھاری سانپ اور دم کٹے سانپ کو کیونکہ یہ دونوں بینائی زائل کر دیتے ہیں اور حمل ساقط کر دیتے ہیں۔
نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بد فال لینا نا پسندیدہ ہے
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبدہ بن سلمان، محمد بن عمر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اچھی فال پسند تھی اور بدفالی ناپسند۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، شعبہ، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیمار از خود متعدی نہیں ہوتی (بلکہ اسباب مثلاً جراثیم وغیرہ سے پھیلتی ہے جاہلیت کے لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ بعض بیماریاں از خود متعدی ہوتی ہیں ) اور بدفالی درست نہیں اور نیک فال پسندیدہ ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان ، سلمہ، عیسیٰ بن عاصم، زر، حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بدفالی شرک ہے (حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ) ہم میں سے جس کو بد شگونی کا وہم ہو تو اللہ تعالی توکل کی وجہ سے اسے دور فرما دیں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، سماک، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیماری از خود متعدی نہیں ہو سکتی اور بدفالی درست نہیں الو کوئی (منحوس) چیز نہیں اور صفر (کے مہینے میں نحوست) کچھ نہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابن ابی جناب، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیماری کا متعدی ہونا کچھ نہیں بدفالی کچھ نہیں الو کچھ نہیں ایک مرد کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اونٹ کو خارش ہوتی ہے پھر اس سے باقی اونٹوں کو بھی خارش ہو جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ تقدیر ورنہ پہلے اونٹ کو کس سے خارش لگی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیمار کو تندرست کے پاس نہ لایا جائے۔
جذام
ابو بکر، مجاہد بن موسی، محمد بن خلف عسقلانی، یونس بن محمد، مفضل بن فضالہ، حبیب بن شہید، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جذامی مرد کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ پیالہ میں داخل کر کے ارشاد فرمایا کھاؤ اللہ پر بھروسہ ہے اور اسی پر اعتماد ہے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، عبد اللہ بن ابی ہند، محمد بن عبد اللہ عمرو بن عثمان، فاطمہ نبت حسین، سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جذامیوں کی طرف ٹکٹکی باندھ کر مت دیکھا کرو۔
٭٭ عمرو بن رافع، ہشیم، لیلیٰ بن عطاء، آل شرید کے ایک مرد عمرو کہتے ہیں کہ ان کے والد نے بتایا کہ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک جذامی مرد تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے پیغام بھیجا کو واپس ہو جاؤ ہم نے تمہیں بیعت کر لیا۔
جادو
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بنوزریق کے ایک یہودی نے سحر کیا اس کا نام لبید بن اعصم تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حالت ہو گئی کہ آپ کو خیال ہوتاطکہ آپ فلاں کام کرتے ہیں حالانکہ آپ وہ کام نہ کرتے تھے ایک دن یا رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کی پھر دعا کی پھر دعا کی پھر فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمہیں معلوم کرنا چاہتا ہے؟ میرے پاس دو مرد آئے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسری قدموں میں جو سر کے پاس بیٹھا تھا اس نے پاؤں کی طرف بیٹھے ہوئے مرد سے کہا یا پاؤں کی طرف والے نے سر کی طرف والے سے کہا۔ اس مرد کو کیا بیماری ہے؟ جواب دیا اس پر جادو ہے پوچھا کس نے جادو کیا؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے پوچھا کس چیز میں جادو کیا؟ جواب دیا کہ کنگھی میں اور ان بالوں میں جو کنگھی کرتے میں گرتے ہیں اور نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں پوچھا یہ چیزیں کہاں ہیں؟ جواب دیا کہ ذی اروان کے کنویں میں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کنویں پر تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کنویں کا پانی مہندی کے پانی کی طرح (رنگین) تھا اور وہاں کے درخت شیطانوں کے سر معلوم ہوتے تھے۔ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے اسے جلا کیوں نہ ڈالا فرمایا اللہ تعالی نے مجھے عافیت دی اور میں نے پسند نہ کیا کہ لوگوں میں شر پھیلاؤں پھر آپ نے امر فرمایا چنانچہ وہ سب اشیاء دفن کر دی گئیں۔
٭٭ یحییٰ بن عثمان بن کثیر بن دینارحمصی، بقیہ، ابو بکر عنسی، یزید بن ابی حبیب، محمد بن یزید مصریین، نافع، ابن عمر ، ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو ہر سال بیماری ہو جاتی ہے اس زہریلی بکری کی وجہ سے جو آپ نے (خیبر میں ایک یہود کی دعوت میں ) کھائی آپ نے فرمایا مجھے جو بیماری بھی ہوئی وہ اس وقت بھی میرے مقدر میں لکھی ہوئی تھی جب سیدنا آدم علیہ السلام مٹی کے پتلے تھے۔
گھبراہٹ اور نیند اچاٹ ہونے کے وقت کی دعا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، وہب، محمد بن عجلان، یعقوب بن عبد بن اشج، سعید بن مسیب، سعد بن مالک، حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی منزل میں پڑاؤ ڈالے (اور اس وقت) یہ دعا پڑھے َأَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ تو اس مقام کی کوئی چیز اسے ضرر نہ پہنچائیں گی یہاں تک کہ وہاں سے کوچ کر جائے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن عبد اللہ انصاری، عیینہ بن عبد الرحمن، حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے طائف کا عامل (گورنر) مقرر فرمایا تو مجھے جو نماز پڑھ رہا ہوں اس سے ذہول ہو جاتا میں نے یہ حالت دیکھی تو سفر کر کے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا ابن ابی العاص؟ میں نے عرض کیا جی۔ اے اللہ کے رسول فرمایا کیسے آنا ہوا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے نماز میں کچھ خیال آنے لگا یہاں تک کہ یہ بھی دھیان نہیں رہتا کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہوں۔ فرمایا یہ شیطان (کا اثر) ہے قریب ہو جاؤ میں آپ کے قریب ہوا اور پنجوں کے بل (مودب) بیٹھ گیا آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں تھتکارا اور فرمایا اے دشمن خدا نکل جا تین بار ایسا ہی کیا پھر فرمایا (جاؤ) اپنے فرائض سر انجام دو۔ حضرت عثمان فرماتے ہیں قسم ہے کہ اس کے بعد شیطان نے مجھے وسوسہ نہ ڈالا۔
٭٭ ہارون بن حیان، ابراہیم بن موسیٰ ، عبدہ بن سلیمان، ابو جناب، عبد الرحمن بن ابو لیلیٰ ، حضرت ابو لیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دیہاتی حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا بھائی بیمار ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا بیماری ہے؟ بولا اسے آسیب ہے۔ فرمایا جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ وہ گیا اور اسے لے آیا اور آپ کے سامنے اسے بٹھا دیا میں نے سنا آپ نے اس پر یہ دم کیا سورۃ فاتحہ سورۃ بقرہ کی ابتدائی چار آیات اور درمیان سے دو آیتیں (وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ) 2۔ البقرۃ:163) اور آیۃ الکرسی اور بقرہ کی آخری تین آیات اور آل عمران کی ایک آیت میرا گمان ہے کہ (شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ) 3۔ آل عمران:18) تھی اور اعراف کی آیت مبارکہ ( اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ) 7۔ الاعراف:54) اور مومنون کی (آخری) آیت (وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْہَانَ لَہ بِہٖ ) 23۔ المؤمنون:117) اور سورہ جن کی آیت (وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا) 72۔ الجن:3 اور سورہ صافات کی ابتدائی دس آیات اور حشر کی تین آیات اور (قلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) اور معوذتین پھر وہ دیہاتی تندرست ہو کر ایسے کھڑا ہوا کہ تکلیف کا کچھ اثر بھی باقی نہ تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی ایک اونی چادر میں جس میں نقش تھے پھر نماز پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس چادر کے بیل بوٹوں نے مجھ کو غافل کر دیا (نماز میں ) یہ چادر ابو جہم کے پاس لے جا (انہوں نے یہ چادر آپ کو بھیجی تھی) اور ان سے ایک سادی چادر مجھے لادو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے مجھے ایک موٹا سا تہبند نکال کر دیا جو یمن میں بنایا اور یہ عام سی چادر جس کو ملبدہ کہتے ہیں پھر قسم کھا کر مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ان دو کپڑوں میں ہوا۔
٭٭ احمد بن ثابت جحدری، سفیان بن عیینہ، احوص، حکیم، خالد بن معدان، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چادر میں نماز ادا فرمائی آپ نے اس پر گرہ باندھ لی تھی۔ (تاکہ کھل نہ جائے )۔
٭٭ یونس بن عبد الاعلیٰ، ابن وہب، مالک، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا آپ نجران کی بنی ہوئی ایک چادر موٹے حاشیہ (کنارہ) والی پہنے ہوئے تھے۔
٭٭ عبد القدوس بن محمد، بشر بن عمر، ابن لہیعہ، ابو الاسود، عاصم بن عمر بن قتادہ، علی بن حسین ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دوسرے کو برا بھلا کہتے نہ دیکھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے تہہ کر کے رکھے جاتے (اس لئے کہ اتنے کپڑے تھے ہی نہ کہ تہہ کر کے رکھیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد العزیز بن ابی حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون آپ کی خدمت میں چادر لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ چادر اپنے ہاتھوں سے میں نے اس لئے بنی کہ آپ پہنیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول فرمائی آپکو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ وہ چادر زیب تن کر کے باہر تشریف لائے وہ چادر آپ کا تہبند تھی تو فلاں فلاں آئے ان کا نام ذکر کیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ چادر کیا خوب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے پہنا دیجئے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اور اندر جا کر اسے تہ کر کے ان کے پاس بھیج دی تو لوگوں نے اس سے کہا بخدا تم نے اچھا نہیں کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں یہ چادر کسی نے پیش کی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی حاجت تھی پھر تم نے مانگ لی حالانکہ تمہیں یہ معلوم بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے وہ کہنے لگا بخدا میں نے یہ پہننے کے لئے نہیں لی میں نے تو اس لئے مانگی کہ یہ میرا کفن ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جس روز ان صاحب کا انتقال ہوا ان کا کفن وہی چادر تھی۔
٭٭ یحییٰ بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار حمصی، بقیہ بن ولید، یوسف بن ابی کثیر، نوح بن ذکوان، حسن، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اون زیب تن فرماتے اور ٹوٹا ہو جوتا خودہی سی لیتے اور موٹے سے موٹا کپڑا پہن لیتے۔
نیا کپڑا پہننے کی دعا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، اصبغ بن زید، ابو العلاء، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیا کپڑا پہنا اور کہا (ترجمہ) تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے مجھے ستر چھپانے اور زندگی میں زینت کے لئے یہ کپڑا پہنایا یا پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو نیا کپڑا پہن کر یہ دعا پڑھے۔ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَسَانِی مَا أُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِی حَیَاتِی پھر پرانے کپڑے کو صدقہ کر دے تو وہ زندگی اور موت ہر حال میں اللہ کی نگہبانی اور حفاظت میں رہے۔ تین بار یہی ارشاد فرمایا۔
٭٭ حسین بن مہدی، عبد الرزاق، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفید کرتہ پہنے دیکھا تو فرمایا تمہارا یہ کپڑا دھلا ہوا ہے یا نہیں عرض کیا نیا نہیں ہے دھلا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نئے کپڑے پہنو قابل تعریف زندگی گزارو اور شہادت کی موت مرو۔
ممنوع لباس
ابو بکر، سفیان بن سفیان بن عیینہ، زہری، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو لباسوں سے منع فرمایا ایک اشتمال صماء سے (ایک ہی کپڑا پورے بدن پر اس طرح لپٹ لینا کہ ہاتھ پاؤں بھی نہ ہلاس کے بسا اوقات کپڑا ذرا چھوٹا ہو تو اس میں ستر کھلنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے ) اور ایک ہی کپڑا ہو تو ایسے گوٹ مار کر بیٹھنا کہ ستر کھلا رہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، خبیب بن عبد الرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو قسم کے لباسوں سے منع فرمایا اشْتِمَالِ الصَّمَّاء سے اور ایک ہی کپڑا ہو تو ایسے انداز سے لپیٹنا کہ شرمگاہ آسمان کی کھلی رہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ، سعد بن سعید، عمرہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو قسم کے لباسوں سے منع فرمایا اشتمال صماء سے اور ایک ہی کپڑا ہو تو ایسے انداز سے لپیٹنا کہ شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔
بالوں کا کپڑا پہننا
ابو بکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسیٰ شیبان، قتادہ، ابی بردہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادہ سے فرمایا بیٹا اگر تو ہمیں اس حالت میں دیکھتا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اور بارش برسی تو تمہیں لگتا کہ ہماری بو بھیڑ کی بو ہے۔ (یعنی بالوں کا لباس پہننے سے ایسی بو آنے لگتی ہے )۔
٭٭ محمد بن عثمان بن کرامہ، ابو اسامہ، احوص بن حکیہ، خالد بن معدان، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس باہر تشریف لائے آپ رومی جبہ پہنے ہوئے تھے جو بالوں کا بنا ہوا تھا اس کی آستینیں تنگ تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی ایک کپڑے میں ہمیں نماز پڑھائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم اطہر پر اس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
٭٭ عباس بن ولید دمشقی، احمد بن ازہر، مروان بن محمد، یزید بن سمط، وضین بن عطاء، محفوط بن علقمہ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور بالوں کا جبہ پہن رکھا تھا اسی کو پلٹ کر چہرہ صاف کر لیا۔
٭٭ سوید بن سعید، موسیٰ بن فضل، شعبہ، ہشام، ہشام بن زید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بکریوں کے کان میں داغ دے رہے ہیں اور میں نے آپ کو (بالوں کی) کملی کا تہبند باندھے دیکھا۔
سفید کپڑے
محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء مکی، ابن خثیم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے کپڑوں میں سب سے بہتر سفید کپڑے ہیں اس لئے انہی کو پہنا کر اور انہی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، میمون بن ابی شبیب، حضرت سمرہ بن جبدب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ یہ زیادہ پاکیزہ اور عمدہ ہوتے ہیں۔
٭٭ محمد بن حسان ازرق، عبد المجید بن ابی داؤد، مروان بن سالم، صفوان بن عمرو، شریح بن عبیدالحضرمی، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین لباس جس میں تم اللہ کی بارگاہ میں حاضری دو اپنی قبروں میں اور مسجدوں میں سفید لباس ہے۔ (معلوم ہوا کہ سفید بہتر ہے نماز بھی سفید کپڑے میں بہتر ہے )۔
تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو تکبر اور فخر کی وجہ سے اپنے کپڑے لٹکائے اللہ تعالی روز قیامت اس کی طرف نظر التفات نہ فرمائیں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، حضرت عطیہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو تکبر اور غرور کی وجہ سے اپنا پائجامہ لٹکائے اللہ تعالی روز قیامت اس کی طرف نظر التفات نہ فرمائیں حضرت عطیہ فرماتے ہیں کہ میں بلاط میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور ان کے سامنے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ذکر کی تو اپنے کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے کہ میرے کانوں نے یہ حدیث سنی اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے ایک قریشی نوجوان گزرا جو اپنی چادر گھسیٹ رہا تھا فرمایا بھتیجے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو تکبر وغرور میں اپنے کپڑے گھسیٹے روز قیامت اللہ تعالی اس کی طرف نظر التفات نہ فرمائیں گے۔
پائجامہ کہاں تک رکھنا چاہئے؟
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، ابی اسحاق ، مسلم بن نذیر، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری یا اپنی پنڈلی کا نیچے کا پٹھہ پکڑ کر فرمایا یہ ہے ازار کی جگہ اگر یہ پسند نہ ہو تو اس سے کچھ نیچے یہ بھی پسند نہ ہو تو اس سے کچھ نیچے یہ بھی پسند نہ ہو تو ٹخنوں پر ازار رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ علی بن محمد سفیان بن عیینہ، ملاء حضرت عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ازار کے متعلق کچھ سنا؟ فرمانے لگے جی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا مومن کی ازار اس کی نصف ساق تک ہونی چاہئے اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان ہو تو اس میں کچھ حرج (گناہ) نہیں ہے اور لیکن ٹخنوں سے نیچے ہو تو (ٹخنوں کا) وہ حصہ آگ میں جلے گا تین بار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس شخص کی طرف التفات بھی نہ فرمائیں گے جو تکبر و غرور میں اپنی ازار گھسیٹے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، شریک، عبد الملک بن عمیر، حصین بن قبیصہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے سفیان بن سہل اپنے کپڑے مت لٹکاؤ اس لئے کہ اللہ تعالی کپڑا لٹکانے والے کو پسند نہیں فرماتے۔
قمیص پہننا
یعقوب بن ابراہیم دورقی، ابو تمیلہ، عبد المومن بن خالد، ابن بریدہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قمیص سے زیادہ کوئی کپڑا پسند نہ تھا۔
قمیص کی لمبائی کی حد
ابو بکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، ابن ابی رواد، سالم حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسبال ازار قمیص اور عمامہ سب میں ہوتا ہے جو تکبر کی وجہ سے کوئی چیز بھی لٹکائے اللہ تعالی روز قیامت اس کی طرف التفات نہ فرمائیں گے۔
قمیص کی آستین کی حد
احمد بن عثمان بن حکیم اودی، ابو غسان، ابو کریب، عبید بن محمد، حسن بن صالح، سفیان بن وکیع، حسن بن صالح مسلم، مجاہد، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کم لمبائی والی چھوٹی آستینوں والی قمیص (کرتہ) زیب تن فرماتے تھے۔ (یعنی کرتہ کی لمبائی گھٹنوں تک اور آستین کی پہنچوں تک مناسب ہے )۔
گھنڈیاں کھلی رکھنا
ابو بکر، ابن دکین، زہیر، عروہ بن عبد اللہ بن قشیر، معاویہ حضرت قرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کرتے کی گھنڈی کھلی ہوئی تھی۔ (راوی حدیث) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ معاویہ اور ان کے بیٹے کو گرمی سردی جب بھی دیکھا ان کی گھنڈیاں کھلی ہوئی تھیں۔
پائجامہ پہننا
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد بن بشار، یحییٰ ، عبد الرحمن، سفیان، سماک بن حرب، حضرت سوید بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے پائجامہ کی قیمت طے کی۔
عورت آنچل کتنا لمبا رکھے؟
ابو بکر، معتمر بن سلیمان، عبید اللہ عمر، نافع، سلیمان بن یسار، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ عورت اپنا آنچل کتنا لٹکائے (لمبا رکھے )؟ فرمایا ایک بالشت میں نے عرض کیا کہ اس صورت میں (اس کے پاؤں ) کھلے رہیں گے۔ فرمایا ایک ہاتھ لمبا رکھے اس سے زیادہ نہیں۔
٭٭ ابو بکر، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان ، زید عمی، ابی صدیق ناجی، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات کو ایک ہاتھ آنچل لمبا رکھنے اجازت تھی وہ ہمارے پاس آتیں تو ہم انکو ایک ہاتھ ناپ کر دے دیتے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، ابی مہزم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا تمہارا دامن ایک ہاتھ لمبا ہونا چاہئے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، عبد الوارث، حبیب معلم، ابی مہزم، ابو ہریرہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو ایک بالشت لمبا آنچل رکھنے کی اجازت دی تو انہوں نے عرض کیا کہ اس صورت میں عورتوں کی پنڈلیاں کھلی رہیں گی فرمایا پھر ایک ہاتھ لمبا رکھ لیں۔
سیاہ عمامہ
ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، مساور، جعفر بن عمرو حضرت عمرو حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیاہ عمامہ باندھے ہوئے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، حماد بن سلمہ، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (فتح مکہ کے موقع پر) مکہ میں داخل ہوئے اس وقت آپ سیاہ عمامہ باندھے ہوئے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ، موسیٰ بن عبیدہ، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے روز (مکہ میں ) داخل ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔
عمامہ (شملہ ) دونوں مونڈھوں کے درمیان لٹکانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، مساور، جعفر بن عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر پر سیاہ عمامہ ہے اس کے دونوں کنارے آپ نے مونڈھوں کے درمیان لٹکا رکھے ہیں۔
ریشم پہننے کی ممانعت
ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، عبد العزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو دنیا میں ریشم پہنے وہ آخرت میں ریشم نہ پہن سکے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، اشعث بن ابی شعثاء، معاویہ بن سوید، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ریشم کی اقسام) دیباج حریر اور استبرق (وغیرہ پہننے ) سے منع فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، شعبہ، حکم، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ریشم اور سونا پہننے سے منع فرمایا اور فرمایا یہ دنیا میں ان کافروں کے لئے ہیں اور آخرت میں ہمارے لئے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، عبید اللہ بن عمر، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیراء کا ایک ریشمی جوڑا دیکھا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر آپ یہ خرید لیں اور وفود سے ملاقات کے وقت اور جمعہ کے روز زیب تن فرمائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے وہ پہنے جس کا آخرت میں کچھ بھی حصہ نہ ہو۔
جس کو ریشم پہننے کی اجازت ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو ریشمی قمیص پہننے کی اجازت دی کھجلی (خارش) کی بیماری کی وجہ سے۔
ریشم کی گوٹ لگانا جائز ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص غیاث عاصم ، ابی عثمان ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ریشمی کپڑے سے منع فرمایا کرتے تھے مگر جو اس قدر ہو اور ایک انگلی سے اشارہ کیا پھر دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی سے (کہ چار انگل تک ریشم کی گوٹ درست ہے۔) اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں ریشم سے منع فرمایا کرتے تھے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، مغیرہ بن زیاد، حضرت اسماء کے غلام ابو عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے عمامہ خریدا جس کا حاشیہ (ریشمی) تھا آپ نے قینچی منگوا کر حاشیہ کاٹ ڈالا۔ میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا تو ان سے اس کا تذکرہ کیا کہنے لگیں افسوس ہے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر۔ اری لڑکی !ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جبہ تو لاؤ۔ وہ ایک جبہ لائی جس کی آستینیں اور گریبان اور کلیوں پر ریشم کی گوٹ لگی ہوئی تھی۔
عورتوں کے لئے ریشم اور سونا پہننا
ابو بکر، عبد الرحیم بن سلیمان، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، عبد العزیزبن ابی صعبہ، ابی الافلح ہمدانی، عبد اللہ بن زریر عافقی حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ریشم بائیں ہاتھ میں اور سونا دائیں ہاتھ میں پکڑا اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں عورتوں کے لئے حلال ہیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، یزید بن ابی زیاد، ابی فاختہ، ہبیرہ بن یریم، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک جوڑہ کپڑے کا تحفہ آیا اور اس میں ریشم شامل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ مجھے بھیج دیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ میں اس کا کیا کروں؟ فرمایا (تیرے لئے ) نہیں بلکہ اس کو کاٹ کر (اپنی بیوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فاطمہ کی اوڑھنیاں بنا لو۔
٭٭ ابو بکر، عبد الرحیم بن سلیمان ، افریقی، عبد الرحمن بن رافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس باہر تشریف لائے آپ کے ایک ہاتھ میں ریشمی کپڑا اور دوسرے ہاتھ میں سونا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لئے حلال ہیں۔
٭٭ ابو بکر ، عیسیٰ بن یونس، معمر، زہری، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیراء کی ریشمی قمیص پہنے دیکھا۔
مردوں کا سرخ لباس پہننا
ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک بن عبد اللہ قاضی، ابی اسحاق ، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہ دیکھا بالوں میں کنگھی کئے ہوئے سرخ جوڑا پہنے ہوئے۔ (یہ سرخ دھاری دار یمنی حلہ تھا)۔
٭٭ ابو عامر عبد اللہ بن عامر بن براد بن یوسف بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ اشعری، زید بن حببا، حسین بن واقد، عبد اللہ بن حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اتنے میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے یہ دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے تھے گرتے اور اٹھتے (کم سنی کی وجہ سے ) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اترے اور انکو اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا پھر فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا کہ بلاشبہ تمہارے مال اور اولادیں آزمائش ہیں میں نے ان دونوں کو دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ شروع کر دیا۔
کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مردوں کے لئے صحیح نہیں
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، یزید بن ابی زیاد، حسن بن سہیل، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مفدم سے منع فرمایا (راوی حدیث) مزید کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے استاذ) حسن سے دریافت کیا کہ مفدم کیا ہوتا ہے؟ فرمایا خوب سرخ (کسم میں ) رنگا ہوا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسامہ بن زید، عبد اللہ بن حنین، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا مجھ کو میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو منع فرمایا کسم کا رنگ پہننے سے۔
٭٭ ابو بکر، عیسیٰ بن یونس، ہشام بن غار، عمرو بن شعیب، عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آئے اَذاخر (ایک مقام ہے مکہ کے قریب) کی گھاٹی سے آپ نے میری طرف دیکھا میں ایک باریک چادر باندھے تھا جو کسم میں رنگی ہوئی تھی آپ نے فرمایا یہ کیا ہے میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے برا جانا پھر میں اپنے گھر والوں میں آیا وہ چولہا جلا رہے تھے میں نے اس چادر کو اس میں ڈال دیا (وہ جل کر خاک ہو گئی) دوسرے دن میں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عبد اللہ وہ تیری چادر کہاں گئی؟ میں نے یہ حال بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے اپنے گھر والیوں میں سے کسی کو کیوں نہ دے دی کیونکہ عورتوں کو اس کے پہننے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
مردوں کے لئے زرد لباس
علی بن محمد، وکیع، ابن ابی لیلیٰ بن شرحبیل، حضرت قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے پانی رکھا کہ آپ ٹھنڈک حاصل کریں اور نہائیں۔
جو چاہو پہنو بشرطیکہ اسراف یا تکبر نہ ہو
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہمام، قتادہ، حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھاؤ پیو صدقہ کرو اور پہنو بشرطیکہ اس میں اسراف یا تکبر کی آمیزش نہ ہو۔
گھر میں تصاویر (رکھنے سے ممانعت)
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک مقررہ وقت میں آنے کا وعدہ کیا پھر تاخیر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر نکلے دیکھا کہ جبرائیل دروازہ پر کھڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اندر آنے میں آپکو کیا مانع تھا؟ فرمایا گھر میں کتا ہے اور ہم اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر ہو۔
٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید، عقیر بن معدان، سلیم بن عامر، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا خاوند کسی جنگ میں شریک ہے پھر اس نے اپنے گھر میں ہی کھجور کے درخت کی تصویر بنانے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرما دیا۔
تصاویر پامال جگہ میں ہوں
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسامہ بن زید، عبد الرحمن بن قاسم، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں روشندان پر اندر کی طرف پردہ لٹکایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (جہاد سے ) تشریف لائے تو اسے پھاڑ دیا میں نے اس کے دو تکیے (غلاف) بنا لئے پھر میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان میں ایک پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں۔
سرخ زین پوش (کی ممانعت )
ابو بکر، ابو الاحوص، ابی اسحاق ، ہبیرہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگشتری اور سرخ زین پوش سے (مردوں کو) منع فرمایا۔
چیتوں کی کھال پر سواری
ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حیاب، یحییٰ بن ایوب، عیاش بن عباس حمیری، ابی حصین حجری ہیثم عامرحجری، صحابی رسول حضرت ابو ریحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چیتوں کی کھال (کو دباغت دے کر بھی اس کی زین بنا کر اس) پر سواری سے منع فرماتے تھے (اس لئے کہ یہ متکبرین کا شیوہ ہے )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابی معتمر، ابن سیرین، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چیتوں کی کھال پر سواری سے منع فرماتے تھے۔
والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک
ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک بن عبد اللہ منصور، عبید اللہ بن علی، حضرت ابن سلامہ سلامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں آدمی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ میں آدمی کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ تین بار یہی فرمایا میں آدمی کو اپنے والد کے ساتھ نیز مولی (غلام آقا دوست رشتہ دار) کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ ان کی طرف سے اسے ایذاء پہنچے۔
٭٭ ابو بکرمحمد بن میمون مکی، سفیان بن عیینہ، عمارہ بن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم کس کے ساتھ حسن سلوک کریں؟ فرمایا والدہ کے ساتھ پھر پوچھا کس کے ساتھ فرمایا اپنے والد کے ساتھ پوچھا جو جتنا زیادہ قریب ہو اس کے ساتھ۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، جریر، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی اولاد اپنے والد کا حق ادا نہیں کر سکتی الا یہ کہ والد کو ملوک غلام پائے تو خرید کر آزاد کر دے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن عبد الصمد بن عبد الوارث، حماد بن سلمہ، عاصم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے اور ایک اوقیہ زمین و آسمان کی درمیانی کائنات اور ہر چیز سے بہتر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت میں مرد کا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ (میرے عمل تو اتنے نہ تھے ) ارشاد ہوتا ہے کہ تمہاری اولاد کے تمہارے حق میں استغفار کے سبب۔
٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، بجیر بن سعید، خالد بن معدان، حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہیں اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کا امر فرماتے ہیں تین بار یہی فرمایا اللہ تعالی تمہیں اپنے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی تمہیں نزدیک تر رشتہ دار سے حسن سلوک کی تاکید فرماتے ہیں پھر اس کے بعد جو نزدیک تر ہو (درجہ بدرجہ ان سے حسن سلوک کی تاکید فرماتے ہیں )
٭٭ ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، عثمان بن ابی عاتکہ، علی بن یزید، قاسم، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا وہ تمہاری جنت ہیں (یا) دوزخ ہیں۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عطاء، ابی عبد الرحمن ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا والد (ماں باپ) جنت کا درمیانی دروازہ ہیں اب تم اس دروازہ کو ضائع کر دو یا اس کی حفاظت کرو۔
ان لوگوں سے تعلقات اور حسن سلوک جاری رکھو جن سے تمہارے والد صاحب کے تعلقات تھے
علی بن عبید، ابن ادریس، عبد اللہ بن ادریس، عبد الرحمن بن سلیمان، اسید بن علی بن عبید، حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنو سلمہ کے ایک مرد حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والدین کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت میرے لئے ہے؟ فرمایا جی ! تم ان کیلئے دعا و استغفار کرو اور ان کی وفات کے بعد ان کے وعدوں کو نبھانا (پورا کرنا) ان کے ملنے والوں کا اعزاز و اکرام کرنا اور ان کے خاص رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا۔
والد کو اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا خصوصاً بیٹیوں سے اچھا برتاؤ کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، اسامہ ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ دیہات کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کرنے لگے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے بچوں کو چومتے بھی ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا جی ہاں کہنے لگے بخدا ہم تو نہیں چومتے اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے تمہارے دلوں سے رحمت (اور شفقت) نکال دی ہو تو مجھے کیا اختیار ہے۔ (کہ تمہارے دلوں میں شفقت بھر دوں)۔
٭٭ ابو بکربن ابی شیبہ، عفان، وہب، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، سعید بن ابی راشد، حضرت یعلی عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرات حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور فرمایا اولاد بخل اور بزدلی کا ذریعہ ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، موسیٰ بن علی، ابی یذکر، حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تمہیں افضل صدقہ نہ بتاؤں؟ تمہاری بیٹی جو (خاوند کی وفات یا طلاق کی وجہ سے ) لوٹ کر تمہارے پاس آ گئی تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، مسعر، سعد بن ابراہیم، حسن ، صعصعہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے تین کھجوریں دیں اس نے دونوں کو ایک ایک دیکر تیسری بھی آدھی آدھی ان میں تقسیم کر دی۔ ام المومنین فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو میں نے ساری بات عرض کر دی۔ فرمایا کیا عجب ہے کہ وہ عورت اسی عمل کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی۔
٭٭ حسین بن حسن مروزی، ابن مبارک، حرملہ بن عمران، ابو عشانہ معافری، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے (جزع فزع نہ کرے کہ بیٹیاں ہیں ) اور انہیں کھلائے پلائے۔ پہنائے اپنی طاقت اور کمائی کے مطابق تو یہ تین بیٹیاں (بھی) روز قیامت اس کے لئے دوزخ سے آڑ اور رکاوٹ کا سبب بن جائیں گی۔
٭٭ حسین بن حسن، ابن مبارک، فطر، ابی سعید، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس مرد کی بھی دو بیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے (کھلائے پلائے اور دینی آداب سکھائے ) جب تک وہ بیٹیاں اس کے ساتھ رہیں یا وہ مرد ان بیٹیوں کے ساتھ رہے (حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے ) تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گیں۔
٭٭ عباس بن ولید دمشقی، علی بن عیاش، سعید بن عمارہ، حارث بن نعمان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنی اولاد کا خیال رکھو اور انکو اچھے آداب سکھاؤ۔
پڑوس کا حق
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، نافع بن جبیر، حضرت ابو شریح خزاعی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شبیہ، یزید بن ہارون، عبدہ بن ہارون، عبدہ بن سلیمان، محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، بی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عمرہ ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے (ساتھ حسن سلوک کے ) بارے میں تاکید کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اس کو وارث بھی بنا دیں گے (کہ اس کا وراثت میں بھی حق ہے )۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، یونس بن ابی اسحاق ، مجاہد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔
مہمان کا حق
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو شریح خزاعی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اعزاز کرے اور مہمان داری کاضابطہ ایک دن اور ایک رات ہے اور کسی کے لئے اپنے ساتھی (میزبان) کے پاس اتنا عرصہ قیام جائز نہیں کہ وہ (میزبان) تنگ ہونے لگے مہمانی تین دن ہے اور تین دن کے بعد جو مہمان پر خرچ کرے وہ صدقہ ہے۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، ابی خیر، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمیں (جہاد کے لئے ) بھیجتے ہیں اور ہم کسی قبیلہ کے پاس پڑاؤ ڈالتے ہیں (کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ) وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے بتائیے ایسے موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں فرمایا اگر تم کسی قبیلہ کے پاس پڑاؤ ڈالو پھر وہ تمہارے لئے ان چیزوں کا حکم کریں جو مہمان کیلئے مناسب ہیں (مثلاً کھانا آرام وغیرہ) تو اسے قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا حق وصول کرو جو انکو کرنا چاہئے تھا۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان ، منصور، شعبی، حضرت مقدام ابو کریمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس رات مہمان آئے اس رات کی مہمانی لازم ہے اگر مہمان میزبان کے پاس صبح تک رہے تو اس کی مہمانی میزبان کے ذمہ قرض ہے چاہے وصول کر لے اور چاہے چھوڑ دے۔
یتیم کا حق
ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سعید قطان، ابن عجلان، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اللہ میں دو ناتوانوں کا حق (مال) حرام کرتا ہوں ایک یتیم اور دوسرے عورت۔
٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن سلیمان، زید بن ابی عتاب، ابن مبارک، سعید بن ابی ایوب، زید بن عتاب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بھلاگھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔
٭٭ ہشام بن عمار، حماد بن عبد الرحمن کلبی، اسماعیل بن ابراہیم انصاری، عطاء بن ابی رباح، عبید اللہ بن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص تین یتیموں کی کفالت اور پرورش کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جو رات بھر قیام کرے دن بھر روزہ رکھے اور صبح و شام تلوار سونت کر اللہ کے راستہ میں جائے اور میں اور وہ جنت میں بھائی ہوں گے ان دو بہنوں کی اور (یہ کہہ کر) آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ملا دی۔
رستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ابان بن صمعہ، ابی وازع راسی، حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں (اس پر عمل کر کے ) فرمایا مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دیا کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راستہ میں ایک درخت کی شاخ تھی جس سے لوگوں کو ایذاء پہنچتی تھی ایک مرد نے اسے ہٹا دیا اسی پر اسے جنت میں داخل کر دیا گیا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہشام بن حسان، واصل ، یحییٰ بن عقیل، یحییٰ بن یعمر، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے اچھے برے اعمال میرے سامنے پیش کئے گئے۔ میں نے امت کے اچھے اعمال میں ایک عمل یہ دیکھا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا اور امت کے برے اعمال میں دیکھا کہ مسجد میں بلغم (تھوک وغیرہ) کو دبایا نہیں جاتا۔
پانی کے صدقہ کی فضیلت
علی بن محمد، وکیع، ہشام صالب دستوائی، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صدقہ کی کون سی صورت زیادہ فضیلت کا باعث ہے؟ فرمایا پانی پلانا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، وکیع، اعمش، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے روز لوگ (دوسری روایت میں اہل جنت) صفوں میں قائم ہوں گے کہ ایک دوزخی ایک مرد کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا ارے فلاں آپ کو یاد نہیں وہ دن جب آپ نے پانی مانگا تھا تو میں نے آپ کو ایک گھونٹ پلایا تھا۔ آپ نے فرمایا چنانچہ یہ جنتی اس دوزخی کی سفارش کرے گا اور ایک مرد گزرے گا تو کہے گا آپ کو وہ دن یاد نہیں جب میں آپ کو طہارت کے لئے پانی دیا تھا چنانچہ یہ بھی اس کی سفارش کرے گا۔ دوسری روایت میں ہے کہ دوزخی کہے گا ارے فلاں آپ کو وہ دن یاد نہیں جب آپ نے مجھے فلاں کام کیلئے بھیجا تھا تو میں آپ کے کہنے پر (اس کام کیلئے ) چلا گیا تھا چنانچہ یہ بھی اس کی سفارش کرے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، زہری عبد الرحمن بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ گمشدہ اونٹ میرے حوضوں پر آ جاتے ہیں جنہیں میں نے اپنے اونٹوں کیلئے تیار کیا تو اگر میں ان گمشدہ اونٹوں کو پانی پلاؤں تو مجھے اجر ملے گا؟ فرمایا جی ہاں ہر کلیجہ والی (زندہ) چیز جس کو پیاس لگتی ہو (کو پانی پلانے اور کھلانے ) میں اجر ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید