فہرست مضامین
سناٹوں کا شہر
منیر احمد فردوس
ڈاؤن لوڈ کریں
میری تخلیقی کائنات
میرے چمکتے ستاروں
کنزیٰ ایمان، اشہد ایمان، علیزہ ایمان
اور
اپنے بابا جی
کے نام
ہم مرتے ہیں نہ مٹتے ہیں
بس کہانی کہانی سفر کرتے ہیں
اور منظر منظر قیام کرتے ہیں
(منیر احمد فردوس)
کہانی احتجاج کرتی ہے
کائنات کی تخلیق قدرت کے کرشموں کا ایک ایسا حیرت کدہ ہے کہ جس کی بھید بھری دنیا تک رسائی کے لئے قدرت نے ہر طرف جلووں کے انوکھے سلسلے رکھ دیئے مگر ساتھ ہی کہیں ویرانیوں نے بھی چپکے سے جنم لے لیا اور کائنات کے جلوے ماند پڑنے لگے۔ قدرت سے کائنات کا یہ دکھ دیکھا نہ گیا، اس دکھ کے مداوے کے لئے یہاں پنپتی ویرانیوں کو مٹانے اور اپنے جلووں کو جلا بخشنے کی خاطر قدرت نے انسان کا وجود لازمی قرار دے دیا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ انسان خلد میں تھا، اسے کائنات کے اسرار بھرے جہانوں میں کیسے اتارا جاتا۔۔۔؟ انسانی وجود کو زمین پر لانے کے جواز میں قدرت نے کہانی کا سہارا لیا اور تین کرداروں پر مشتمل کائنات کی سب سے پہلی بڑی اور سچی کہانی لکھی، جس کے تجسس بھرے انجام کی بدولت انسان اس کہانی کا ایک متحرک کردار بن کر جنت سے زمین پر اتر آیا۔ فرشِ خاک پر قدم رکھتے ہی ایک اور زمینی کہانی نے انسان کو اپنے حصار میں لے کر ایک لازوال کردار بنا لیا۔ اس نئی کہانی نے نئے راستے تراشے اور انسانی کرداروں کا تجسس دیکھ کر کہانی نے انجام کا طوق پہننے سے انکار کر دیا۔ حیرتوں نے انسان کے اندر سرسراہٹیں کیں اور وہ ان سرسراہٹوں کا پیچھا کرتا ہوا کہانی میں پوشیدہ نئے زمانوں کی طرف جا نکلا جہاں سرخ آنکھوں والے کچھ نئے کردار داخل ہو گئے۔ جن کے باطن میں چھپے نامانوس جذبوں نے سر ابھارا، عداوتوں کے اجنبی موسم اترے اور کہانی میں حادثوں کی بارش ہونے لگی۔ سرخ نینوں والے کرداروں نے کہانی میں گھات لگائے اندھیروں کی طرفداری کر کے ان اجلے کرداروں پر وار کر دیا جن کے باطن میں روشنیوں کے شہر در شہر آباد تھے۔ خیر اور شر کی عالمی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں زمین نے پہلی بارانسانی لہو چاٹ کر اس کا ذائقہ اپنے اندر اتارا تو اسے یہ نیا ذائقہ بھا گیا۔ کہانی میں پھوٹ پڑ گئی اور کردار دو حصوں میں بٹ گئے۔ کہانی آگے بڑھی اور زمانی حدود سے نکل کر کائنات میں پھیلتی چلی گئی۔ پرانے کردار مرتے گئے، نئے داخل ہوتے گئے اور کہانی موڑ در موڑ لیتے لیتے بالآخر زندگی ٹھہری۔ تب سے زندگی بھی جاری ہے، یہ کہانی بھی اور حادثوں کی بارش بھی۔ دلوں کے شہر کو تاراج کرتا ہوا جب کوئی حادثہ اترتا ہے تو اس کے احتجاج میں ہزاروں کہانیاں جنم لے کر کائنات میں پھیل جاتی ہیں۔
منیر احمد فردوس
0333-997-3550
ادھورے پن کی دیمک
ادھیڑ عمر اجو کے لئے ستار ہوٹل اندھیرے میں جلتا ایک ایسا دیا تھا جس کی پھوٹتی روشنی میں وہ اپنے جینے کے راستے تلاش کیا کرتا۔ دن بھر رکشہ ریڑھی کھینچنے کے بعد شام کو اپنی سانسوں کی اجرت گننے وہ بلا ناغہ ہوٹل پر پہنچ جاتا۔ سانولی رنگت اور درمیانے قد کا دبلا اجو اپنی بذلہ سنجی اور دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے ہوٹل کے مردہ ماحول میں سانسیں بانٹ کر اسے متحرک کر دیتا۔ وہ اپنے سر کے گرد ہمیشہ نیلا چیک دار مفلر لپیٹے رکھتا جس میں کبھی کبھارسرخ گلاب بھی اڑسا نظر آ جاتا۔ اپنی سانسوں میں چرس کی ملاوٹ کرنے والے اجو کے منہ سے ایسی پھلجھڑیاں پھوٹتیں کہ بندہ بشر ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ لوگ اس کے مخصوص مزاحیہ انداز میں اس سے فلموں کے بول سنتے، اس کی عجیب گھٹی گھٹی آواز میں گانے سنتے، حکومت اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے کبھی خلاف اور کبھی حق میں نعرے لگواتے۔ وہ ایکٹنگ میں خاصا ماہر واقع ہوا تھا۔ جب کبھی وہ مختلف فلمی اداکاروں کی نقل اتارتا تو ہر طرف قہقہوں کی آندھی چل پڑتی اور اکثر اپنے منہ سے ساز بجا کر اپنے بے سر و پا ناچ سے لوگوں کو دلچسپ تفریح مہیا کرتا۔ معاوضہ کے طور پر چائے کے ساتھ ساتھ اسے تھوڑی بہت نقدی بھی مل جایا کرتی، جس سے اس کے نشے پانی کاسامان ہو جاتا۔ اجّو صحیح معنوں میں ستار ہوٹل کی دھڑکن تھا۔
شام کا اندھیرا پھیلتے ہی ستار ہوٹل جاگ اٹھتا اور لوگ دنیا کے بکھیڑوں سے فرار ہو کر وہاں پناہ لینے آ جاتے۔ جہاں وہ گھنٹوں باتوں کی بارش میں بھیگتے اور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے رہتے۔ فضا میں گرم چائے سے اڑتی بھاپ اور سگریٹ کے تیرتے مرغولوں کے ساتھ ساتھ ہر طرف تمباکو کی سڑاند بھی رچی بسی ہوتی۔ ہوٹل کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اب وہ ایک دکان سے پھیل کر دونوں اطراف کی چار پانچ دکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ غرض ستار ہوٹل ماں کی طرح تھا، جو دن بھر کے تھکے ماندے لوگوں کو اپنے پہلو میں بٹھا کر ان کی تھکن اپنے اندر اتار لیتا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ اس جاگتے ماحول کو دھڑکنیں اجّو ہی عطا کرتا۔ وہ اپنی انوکھی گپ شپ اور منفرد حرکتوں کی بدولت ہر خاص و عام میں اتنا مقبول ہو چکا تھا کہ لوگ اسے شغل مستی کے لئے شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی بڑے اہتمام سے بلایا کرتے، جہاں اجو کے دلچسپ چٹکلوں اور حرکتوں سے محفلیں دھنک رنگ اختیار کر جایا کرتیں۔
اجو کی سب کے ساتھ اچھی خاصی واقفیت ہو گئی تھی اور وہ ہر کسی کے بارے میں تھوڑا بہت ضرور جانتا تھا مگر خود اس کے بارے میں کسی کو بھی صحیح طور سے معلوم نہیں تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اس کی ذات، اس کا مذہب اور اس کی پہچان کیا ہے؟ جب کبھی اجّو سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر آنکھیں اوپر کو چڑھا لیتا، ماتھے پر بل لے آتا اور گردن ٹیڑھی کر کے اپنے مخصوص انداز میں کہتا:
’’اوئے بیوقوفا! تجھے اتنا بھی نہیں پتہ کہ اجّو کہاں سے آیا ہے؟ اللہ سے پوچھ، وہ تجھے بتائے گا کہ اجّو جنت سے آیا ہے۔‘‘
یہ بات کر کے اجّو خود ہی ایک بلند قہقہہ لگاتا اور لوگوں کے ہونٹوں پر ہنسی کی بے شمار پتلیاں ناچنے لگتیں۔ اس کی ایسی ہی بے سر و پا باتوں کی وجہ سے کچھ لوگ اسے نیم پاگل تصور کرتے تھے۔ مگر اکثر وہ بڑی منطقی باتیں کر کے سب کو حیران کر دیا کرتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار کسی نے مذاق میں اسے پاگل کہہ دیا تھا۔ اجّو کے دل میں یہ بات کسی تیر کی طرح ایسی جا گڑھی کہ وہ اس آدمی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور ایک جھٹکے سے اس کی جیب سے پین نکال کر اپنی ہتھیلی پر ایک ٹیڑھی میڑی سی شکل بنائی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اجّو نے ہتھیلی اس آدمی کے سامنے کرتے ہوئے بہت جذباتی انداز میں پوچھا۔ غصے کی شدت سے اس کے ہونٹوں سے جھاگ نکل آیا تھا۔
’’آدمی ہے۔‘‘ اس شخص نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’مانتے ہو نا کہ یہ آدمی ہے؟‘‘ اجّو نے اس پر نظریں گاڑتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔
’’ہاں مانتا ہوں۔‘‘ وہ آدمی بدستور مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اوئے بیوقوفا! جو انسان آدمی کی شکل بنا لے، وہ پاگل کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
اجّو نے طنزیہ کہا اور ایک بلند سا قہقہہ لگا دیا۔ وہ آدمی بھی کھسیانا ہو کر ہنسنے لگا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ آس پاس کے لوگ بھی اس کی بے ساختگی اور سادگی پر کھلکھلا اٹھے۔ کبھی کبھی وہ ہوٹل پر کام کرنے والے لڑکوں کا ہاتھ بھی بٹا دیتا اور اکثر لوگوں کی میزوں پر چائے اور پانی کا جگ بھی پہنچا دیا کرتا۔ اپنی ان ہی با توں کی وجہ سے اجّو لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا۔ مجھے اْس سے اتنا انس ہو گیا تھا کہ اسے دیکھنے میں ہوٹل پر ضرور حاضری دیتا۔
ان ہی دنوں میرے ایک دوست کے بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ سب دوستوں کی شدید خواہش تھی کہ شادی میں اجو کو ضرور بلایا جائے۔ اور جب میں نے اسے دعوت دی تو وہ ہنستے ہوئے بولا:
’’بابو صیب۔۔۔ یہ تو اچھا ہوا کہ آپ نے مجھے بلا لیا اگر آپ نہ بلاتے تو میں یہ شادی ہی رکوا دیتا۔‘‘
میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔ وہ مجھے ہمیشہ بابو صیب ہی کہا کرتا۔ شادی شروع ہوتے ہی اجو ہوٹل سے سیدھا میرے دوست کے ہاں آ جاتا، جہاں سب لوگ اس کے شدت سے منتظر ہوتے۔ وہ ہمیشہ قہقہوں کا طوفان اپنے ساتھ لے کر آتا۔ پوری پوری رات شغل مستی میں گزر جاتی۔ مختلف گانوں اور ڈھول کی تھاپ پر اجو مزے مزے کے ڈانس کرتا، مزاحیہ گانے سناتا، چائے کے دور چلتے، لطیفہ گوئی ہوتی، پھبتیاں کسی جاتیں۔ غرض وہ خوب ہلڑ مچائے رکھتا۔ بچے، بوڑھے، جوان سب کے اندر اجو زندگی بھر دیتا۔
مہندی کی رسم جاری تھی اور اجو ڈھول کی تھاپ پر تھرک رہا تھا، دوسرلے لڑکے بالک بھی اس کا پورا پورا ساتھ نبھا رہے تھے بلکہ ایک مقابلے کا سماں بندھ گیا تھا۔ جوں جوں ڈھولوں میں شدت آتی جا رہی تھی، اجو کے ڈانس میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔ تمام لوگ گھیرا ڈالے مسکراتے ہوئے اس کے ڈانس کو دیکھ رہے تھے، جو پسینے میں ڈوبا نئے نئے انداز میں ٹھمکے لگا رہا تھا کہ اس دوران کسی نے پٹاخے پھوڑ دیے۔ پتہ نہیں کیسے داخلی دروازے پر لٹکتے سجاوٹ کے رنگ برنگے بھڑکیلے پردوں پر اچانک چنگاریاں جا پڑیں۔ پلک جھپکتے میں آگ بھڑک اٹھی اور پردے دھڑ دھڑ جلنے لگے۔
’آگ لگ گئی۔۔۔۔ آگ لگ گئی۔۔۔۔‘‘ کا واویلا مچ گیا اور چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ ڈھول بجنا بند ہو گئے اور تھرکتے جسم یک لخت ساکت ہو گئے۔
آگ۔۔۔ آگ۔۔۔ کی آوازوں نے ماحول میں سراسیمگی بھر دی اور چہروں پر پریشانی کی آگ جل اٹھی۔ جلتے پردوں اور آگ کی بڑی بڑی لپٹیں دیکھ کر اچانک اجو کی حالت غیر ہو گئی اور وہ تھر تھر کانپنے لگا۔
’’آگ بجھاؤ۔۔۔۔ جلدی کرو یار۔۔۔۔ خدا کے لئے جلدی سے اس آگ کو بجھاؤ۔۔۔‘‘
وہ زور زور سے چلانے لگا۔ میں اجو کی بوکھلائی ہوئی حالت پر ششدر رہ گیا۔ شکر ہے کہ کسی نقصان کے بغیر جلد ہی آگ پر قابو پا لیا گیا مگر اجو ایک دم سے بجھ گیا اور ساری مستیاں اس کے اندر یوں سو گئیں جیسے آگ پردوں کو نہیں، اس کے اندر کہیں لگی ہو۔ ہنگاموں سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ رات گئے سونے کے لئے لیٹا تو اس کا چہرہ بجھا ہوا تھا۔ میری نظریں اسی پر ہی لگی تھیں۔ وہ کافی دیر تک جاگتا اور بار بار کروٹیں بدلتا رہا۔ اسے جب نیند نہ آئی تو وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اس کی بے چینی نے مجھے بھی بے چین کر دیا اور تھوڑی دیر بعد میں بھی اٹھ کر اس کے پیچھے چلا گیا۔ وہ ایک بند دکان کے تھڑے پر سر جھکائے چپ چاپ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور چرس کی بو دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔
’’کیا بات ہے اجو! کوئی مسئلہ ہے کیا؟‘‘ میں نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا
’’بابو صیب۔۔۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ آگ انسان سے کتنی نفرت کرتی ہے۔‘‘
وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بولا مگر میرے جواب دینے سے پہلے وہ دوبارہ گویا ہوا
’’بابو صیب۔۔۔ جلتی ہوئی چیزوں میں در اصل انسان کی خوشیاں جل رہی ہوتی ہیں اور بکھری ہوئی راکھ، راکھ نہیں انسان کی خوشیاں ہوتی ہیں۔‘‘
میں اس کے منہ سے اتنی گہری اور سنجیدہ باتیں سن کر حیران رہ گیا۔
’’یہ کیسی باتیں کر رہے ہو اجو؟‘‘ میں نے اس کے اداس چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بابو صیب۔۔۔ آپ نے آگ میں صرف چیزیں جلتی دیکھی ہوں گی مگر میں نے خواہشوں کے زندہ وجود جلتے دیکھے ہیں۔ لوگوں نے آج تک روح نہیں دیکھی ہو گی مگر میں نے روح کو جھلستے دیکھا ہے۔‘‘ اس نے دکھی لہجے میں کہا اور سگریٹ کا ایک لمبا کش لینے کے بعد اسے تھڑے پر مسل کر دور پھینک دیا۔ اس کی باتیں مجھے پریشانیوں کے دشت میں دھکیل رہی تھیں۔ میں اجو کا سناٹوں میں گھرا یہ روپ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
’’اجو میرے دوست۔۔۔ بات کیا ہے؟ کیوں اتنے دکھی ہو گئے ہو؟ کوئی بوجھ ہے تو مجھے بتاؤ۔‘‘
میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ملائمت سے کہا
’’بابو صیب۔۔۔ لوگوں نے ہمیشہ ہنستا مسکراتا ہوا اجو دیکھا ہے مگر آج میں آپ کو آگ میں جلتا ہوا اجو دکھاؤں گا۔‘‘
اس نے میرے چہرے پر آنکھیں گاڑتے ہوئے جواب دیا اور میں اس کی بات سن کر چونک اٹھا۔
’’بابو صیب۔۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ میں ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا باپ محلے کی مسجد کا پیش امام تھا۔ مجھ سے تین بڑے بھائی دینی تعلیم سے وابستہ تھے مگر ان کے برعکس میں کھلنڈری طبیعت رکھتا تھا۔ میں کرکٹ کا ایک اچھا کھلاڑی تصور کیا جاتا اور میرا دل دماغ ہر وقت کرکٹ میں ہی اٹکا رہتا۔ جس کی وجہ سے میرا باپ آئے روز مجھے کوستا رہتا۔ وہ مجھے نکما اور ناکارہ سمجھتا اور گھر پر ایک بوجھ تصور کرتا تھا۔ میرا باپ اکثر کہا کرتا کہ یہ اجمل کسی روز میری ناک کٹوا کے رہے گا۔
ایک روز میچ کی وجہ سے رات گئے گھر آنے پر میری شامت آئی ہوئی تھی اور میرا باپ مجھے شدید ڈانٹ ڈپٹ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ کچھ لوگ میرے باپ کے پاس آئے اور وہ بوکھلائی ہوئی حالت میں فوراً ان کے ساتھ چلا گیا۔ میں نے باپ کے چہرے پر شدید غصہ اور نفرت دیکھی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسجد کے سپیکروں سے میرے باپ کی آواز گونج رہی تھی۔
’’تمام غیرت مند مسلمان ایک ضروری اعلان سنیں۔۔۔ ابھی ابھی معلوم ہوا ہے کہ سبزی منڈی کے ساتھ والی کالونی جہاں کافر اور مشرک بستے ہیں۔ وہاں کسی نے ہمارے مذہب کی کھلم کھلا توہین کی ہے اوراس پر ہم کسی صورت چپ نہیں بیٹھ سکتے۔ جس کسی غیرت مند مسلمان کے دل میں اسلام کی تھوڑی سی محبت بھی زندہ ہے تو وہ فوری طور پر کافروں کی کالونی پہنچے اور توہین کا بدلہ لے۔‘‘
میرے باپ کا چہرہ غیض و غضب سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ میرے تینوں بھائیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہونے لگا تو میں نے اس کے پاؤں پکڑ لئے۔
’’بابا! خدا کے لئے رک جائیں۔ یہ ظلم مت کریں، لوگوں کو روک لیں۔‘‘
مگر اس نے میری ایک نہ سنی۔ مجھے پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوئے دور ہٹایا اور غصے کی حالت میں باہر نکل گیا۔
میں فوری طور پر اپنے دوستوں کی طرف بھاگا اور انہیں ساتھ لے کر جوزف کالونی پہنچ گیا، کیونکہ وہاں کے کچھ لڑکے میرے دوست تھے اور میری ٹیم میں کھیلتے تھے۔ وہاں آدھا شہر پلٹا ہوا تھا اور کچھ گھر دھوئیں کے بادلوں میں گھرے آگ میں جل رہے تھے۔ اور پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کچھ مشتعل لوگ ایک نوجوان کو بالوں سے پکڑ کر ایک گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔ خوف اس کے چہرے کو نوچ رہا تھا۔ وہ نوجوان تڑپتا ہوا بار بار ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا تھا۔ معافیاں مانگ رہا تھا۔ ان کے پاؤں پکڑ کر ان کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔ اور بار بار کہہ رہا تھا
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں کسی کے مذہب کی توہین کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ خدا کے لئے میری پوری بات سن لیں۔‘‘
مگر بھرے مجمعے میں اس کی ایک نہ سنی گئی۔ لوگ مشتعل ہو کر اس پر پل پڑے اور اس پر ڈنڈوں، ٹھڈوں، تھپڑوں اور مکوں کی بارش کر دی۔ وہ مسلسل تڑپتا چیختا رہا، معافیاں مانگتا رہا مگر بے سود۔ اس دوران کسی نے اس پر پٹرول چھڑک دیا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کو بچانے کے لئے آگے بڑھا اور مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو ہم پر بھی ڈنڈے برسا دیئے گئے اور لوگ ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی جلانے کے درپے ہو گئے۔ بڑی مشکل سے میرے باپ نے مشتعل لوگوں کے چنگل سے مجھے نکالا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس تڑپتے ہوئے نوجوان کو آگ لگا دی گئی۔ اس کا جلتا ہوا وجود چیختا چلاتا سڑک پر دوڑتا رہا۔ وہ لوگوں کی طرف رحم کی بھیک کے لئے بڑھتا تو غصے میں بپھرے ہوئے لوگ اس پر پٹرول چھڑک دیتے، جس سے آگ کے شعلے اور اس کی چیخیں اور بھی بلند ہو جاتیں۔
بابو صیب۔۔۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ جلتا ہوا لمحہ آج بھی میرے اندر جل رہا ہے۔ لوگ اس وقت تک وہاں کھڑے رہے جب تک وہ زندہ وجود کوئلے میں تبدیل نہیں ہو گیا۔ اس دن میں بھی اندر سے جل کر کوئلہ بن گیا۔ اس کے بعد میرے باپ نے مجھے راکھ سمجھ کر گھر سے باہر پھینک دیا۔ بس اب میں ہوں، یہ ظالم دنیا ہے اور میری آوارہ گردی ہے۔‘‘
اجو کے لہجے میں دکھوں کی آگ جل رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمی اتری ہوئی تھی۔ میں حیران و پریشان اسے دیکھے جا رہا تھا۔ واقعی میرے سامنے ایک ایسا اجو بیٹھا ہوا تھا جو آگ میں جل رہا تھا۔
’’بابو صیب۔۔۔ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک وجود کو زندہ جلا کر کوئی عقیدہ جلایا جا سکتا ہے؟‘‘
اجو نے بڑے معصوم لہجے میں سوال کیا۔ مگر میرے پاس سوائے خاموشی کے اور کوئی جواب نہیں تھا اور میں نے وہی خاموشی اس کے ہونٹوں پر باندھ دی۔
شادی کے ہنگامے ختم ہوتے ہی شہر پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ شہر کی ایک مشہور عبادت گاہ میں دھماکہ ہو گیا، جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف خوف کی زہریلی ہوائیں چل پڑیں اور دہشت گردی کی چنگاری سلگ کر شعلوں میں تبدیل ہو گئی۔ دن دہاڑے شہر کے مختلف علاقوں میں چار پانچ قتل اور پھر دستی بموں کے حملوں نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور چاروں طرف نفرت کے الاؤ جل اٹھے۔ ہر چہرے پر سیاہ رات چھا گئی اور دلوں میں خوف بھر گیا۔ جب یہ بے رحم آگ کئی گھروں کو جلا کر اپنا دائرہ وسیع کرنے لگی تو شہر بھر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ دہشت گردی کے راج کے بعد چند دنوں تک کرفیو کا راج رہا۔ کشیدگی کم ہوئی تو کرفیو ختم کر دیا گیا اور لوگ سہمے سہمے گھروں سے باہر نکلے۔ خوف و ہراس ابھی تک چاروں طرف سانس لے رہا تھا اور لوگ آنے جانے میں بہت محتاط تھے۔
ایک ہفتے کی غیر حاضری کے بعد آج شام کو میں ستار ہوٹل جا پہنچا مگر وہ اب بھی اجڑا اجڑا سا لگا۔ دہشت کے اژدہے نے ہوٹل کی رونقوں کو بھی نگل ڈالا تھا اور وہ پوری طرح سے آباد نہیں ہو پایا تھا۔ زیادہ تر وہی لوگ تھے جن کا ہوٹل کے ساتھ گھر جیسا تعلق تھا۔ مگر ہوٹل زیادہ دیر تک ویرانی کا عذاب نہ سہہ سکا۔ لوگوں کی چہل پہل پھر سے شروع ہو گئی اور وہ آباد ہونے لگا۔ مگر اجّو کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ سارا منظر وہی تھا اور اجّو اس منظر سے یوں غائب تھا، جیسے بغیر چاند کے تاروں بھرا آسمان۔ اس کے بغیر ہوٹل اجڑا اجڑا اور ماحول پھیکا پھیکا لگ رہا تھا۔ وہ ہر آنکھ کی ضرورت تھا اوراسے نہ پا کر سب کو ادھورے پن کی دیمک چاٹنے لگی۔ میں بے چینی سے روزاس کی راہ تکتا کہ اجّو ابھی سامنے سے قہقہے لگاتا آتا ہی ہو گا۔ انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھک جاتیں مگر اجو کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ شاید ہوٹل کو کسی کی نظر لگ گئی تھی اور کوئی وہاں سے اجو کے گونجتے قہقہے لپیٹ کر لے گیا تھا۔ مگر آج ہوٹل پر اجو کی موت کی بھیانک خبر گردش کرتی ہوئی ہر چہرے کو نچوڑ رہی تھی۔ شہر کے ایک سنسان علاقے سے اجو کی جگہ جگہ سے کٹی پھٹی برہنہ لاش ملی تھی، جسے بے پناہ تشدد کے بعد گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ اخبار میں اس کی تصویر بھی چھپی تھی۔ اس کے ماتھے پر گولی کا سوراخ تھا اور بھنچے ہوئے منہ کے ساتھ اس کی کھلی آنکھیں میرے چہرے پر گڑی تھیں۔ جیسے وہ مجھ سے آج بھی پوچھ رہا ہو:
’’بابو صیب۔۔۔ کیا کسی وجود کو زندہ جلا کر کسی کا عقیدہ جلایا جا سکتا ہے؟‘‘
آج بھی میرے پاس اس کے جلتے ہوئے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں نے آج بھی اس کے ہونٹوں پر خاموشی باندھ دی۔
٭٭٭
خوبصورت آنکھیں
’’سر جی۔۔۔!‘‘ اچانک میرے کانوں سے مانوس سی آواز ٹکرائی۔
میں جو کافی دیر سے اپنے سامنے رکھی فائل میں سر دیئے کمپیوٹر پر ماہانہ اعداد و شمار بنانے میں بری طرح سے الجھا ہوا تھا، چونک پڑا۔ سراٹھا کے دیکھا تو سامنے دفتر کا نوجوان چپڑاسی شاکر تھا، جس کے ساتھ نقاب اوڑھے ایک خاتون کھڑی تھی اور اس کی نگاہوں نے میرے چہرے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ایک دم میرے ذہن سے تمام اعداد و شمار جھڑ سے گئے۔ میں نے کی بورڈ پر جلدی جلدی انگلیاں چلائیں اور بجلی جانے کے ڈر سے اب تک کا کیا ہوا کام محفوظ کیا۔ پھر اس خاتون پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہوئے سوالیہ نظروں سے میں شاکر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے بھی شاید حیرت سے پھیلتی میری آنکھوں میں تیرتا سوال پڑھ لیا تھا۔
’’سر جی! ہیڈ کلرک صاحب نے میڈم کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ان کو کوئی سٹیٹمنٹ چاہئے۔‘‘
شاکر نے میڈم کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے، میں دیکھتا ہوں۔‘‘ میں نے آنکھوں سے حیرت جھاڑتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔ میری بات سن کر شاکر چلا گیا۔
میں نے طائرانہ نظروں سے میڈم کا لمحے بھر کے لئے جائزہ لیا، جس نے سفید چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ڈھیلے ڈھالے نقاب کو اپنے گالوں سے چپکا رکھا تھا۔ کالے رنگ کا ایک بڑا سا پرس بھی اس کے دائیں کاندھے سے لٹک رہا تھا۔
’’میڈم! آپ بیٹھئے نا۔۔۔ کھڑی کیوں ہیں؟‘‘
میں نے اپنے دائیں جانب کونے میں رکھی اکلوتی کرسی کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے پر تکلف انداز میں کہا
’’جی بہت شکریہ۔‘‘ اس نے ملائمت سے کہا اور کسی تابعدار شاگرد کی طرح کرسی پر بیٹھ گئی۔
وہ درمیانے قد کی ایک نفیس خاتون تھی، جسے جوانی خیر باد کہنے کو پر تول رہی تھی۔ اس کا سڈول اور بھرا بھرا جسم چادر سے باہر بھی اپنے خطوط واضح کر رہا تھا۔ ہلکے پیلے سوٹ میں وہ بہت نکھری ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کے گھٹنوں سے لٹکتی قمیض کے گھیرے پر کسی ماہر کشیدہ کار کا فن بول رہا تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی میرے نتھنوں میں بھینی بھینی خوشبو کے قافلے سے اترنے لگے۔ اس نے بہت ہی عمدہ خوشبو لگا رکھی تھی۔ میں دل ہی دل میں اس کے اعلیٰ ذوق اور خوش لباسی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
’’جی میڈم۔۔۔! فرمائیے کون سی سٹیٹمنٹ چاہئے آپ کو؟‘‘
میں نے اپنے سامنے رکھی فائل میں فلیگ لگا کر اسے بند کیا اور وھیل چیئر پر گھوم کر اس کی طرف دلجمعی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’جی اصل میں، میں ایک NGO سے Related ہوں اور مجھے ایک Weekly Statement اپنے دفتر میں جمع کروانی ہے اور یہ سٹیٹمنٹ اس پروفارمے پر بنا کر دینی ہے۔‘‘ اس نے ایک تہہ کیا ہوا پروفارما اپنی گود میں رکھے پرس میں سے نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہا۔
اچانک دائیں طرف سے اس کا نقاب ڈھلک کر اس کے سرخ گالوں کی کہانی سنا گیا، جسے اس نے فوراً ہی ٹھیک کیا اور اس پر دوبارہ انگلیاں جما کر جھینپتی ہوئی مجھے یوں دیکھنے لگی جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔
میں نے پروفارما لیتے ہوئے نقاب سے باہر جھانکتی اس کی آنکھوں کو نظر بھر کے دیکھا۔ سرمے سے دھلی ہوئی اس کی روشن آنکھیں میری آنکھوں میں جیسے ٹھہر سی گئیں۔ مجھے ان میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی اور اس کی آنکھیں مجھے خوبصورت لگنے لگیں۔ اس کے دیئے ہوئے پروفارمے پر نظریں گاڑے میں کالموں کو غور سے دیکھنے لگا مگر پتہ نہیں کہاں سے میرے دل میں اس کی آنکھوں کو پھر سے دیکھنے کی خواہش مچل اٹھی، جو پل بھر میں شدت اختیار کر گئی۔ میں انہیں دوبارہ دیکھنے کے لئے دل ہی دل میں بات کرنے کا کوئی بہانہ تراشنے لگا۔ شاید میں اپنی آنکھوں کی تصدیق چاہتا تھا کہ واقعی وہ آنکھیں خوبصورت ہیں یا مجھے دھوکہ ہوا ہے۔
’’میڈم! آپ یہ بتائیں کہ یہ ڈیٹا آپ کو کب تک چاہئے؟‘‘
میں نے پروفارمے کو میز پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا اور اس کی آنکھوں کو بڑے اہتمام سے دیکھنے لگا۔
بظاہر وہ آنکھیں بہت زیادہ خوبصورت نہیں کہی جا سکتی تھیں مگر انہیں عام سی آنکھیں کہنا بھی نا انصافی تھی۔ ان میں کوئی بات ایسی ضرور تھی کہ کھلم کھلا باتیں کرتی اس کی چمکدار آنکھیں مجھے بار بار اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ کوئی کچھ بھی کہتا مگر میری نظر میں وہ آنکھیں خوبصورت قرار پا چکی تھیں۔ عجیب اتفاق تھا کہ کچھ دن پہلے پڑھا ہوا سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’آنکھیں‘‘ میرے دماغ میں گھوم گیا۔ جس میں منٹو نے ایک معمولی لڑکی کی عام سی آنکھوں کا ذکر کچھ ایسے خاص انداز میں کیا تھا کہ مجھے بھی اس لڑکی کی آنکھیں خوبصورت لگنے لگی تھیں۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ وہی آنکھیں تھیں جو منٹو کے افسانے سے نکل کر میرے کمرے میں روبرو تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اِن آنکھوں میں روشنیوں کے میلے تھے اور منٹو کے افسانے میں لڑکی نابینا تھی۔
اس سے پہلے کہ میڈم میری بات کا جواب دیتی، اچانک ہمارا اکاؤنٹنٹ ارشد دندناتا ہوا میرے کمرے میں گھس آیا، جس کے ساتھ میری کافی بے تکلفی تھی۔ اس نے آتے ہی بھر پور انداز میں میڈم کا جائزہ لیا جو میری بات کا جواب دیتے دیتے رک گئی تھی اور متجسس نظروں سے ارشد کو دیکھنے لگی۔ مگر مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ وہ کمرے میں کیوں آیا ہے۔ وہ داخل ہوتے ہی مجھ سے گویا ہوا:
’’سوری شاہد صاحب! آپ کو ڈسٹرب کیا۔ میں صرف یہ بتانے کے لئے حاضر ہوا تھا کہ آپ نے کرسیوں کے لئے جو ڈیمانڈ بھیجی تھی۔ آپ کے حکم کی تعمیل میں نئی کرسیاں آ گئی ہیں۔ اگر کہیں تو آپ کے کمرے میں بھجوا دوں۔۔۔؟‘‘
ارشد نے مجھے دیکھتے ہوئے بڑے ہی سنجیدہ انداز میں کہا۔ مگر اس کی سنجیدگی کے پیچھے چھپی شرارت کو میں اس کی آنکھوں میں چمکتا ہوا واضح طور پر دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ نہ تو میں نے کرسیوں کی کوئی ڈیمانڈ کی تھی اور نہ ہی نئی کرسیاں آئی تھیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ گذشتہ ہفتے میں نے اپنے کمرے میں اکلوتے بلب کی جگہ ایک ٹیوب لائٹ لگانے کو اس سے کہا تو اس پر بھی اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا ’’یار! بجٹ نہیں ہے، کہاں سے لگوا کر دوں؟‘‘
خیر ابھی مجھے اس سے جان چھڑا نا تھی۔ میں نے ایک نظر میڈم کو دیکھا جو اس ساری صورتِ حال میں خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا یوں معصومیت سے دیکھنا مجھے بہت اچھا لگا اور میرے اندر انجانی مسرت کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ میں ارشد کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا:
’’بہت شکریہ جناب! آپ کی مستعدی کی داد دیتا ہوں۔ بس گذارش ہے کہ آپ فی الحال کرسیوں کو اپنے پاس رکھیں، میں فارغ ہو کر ابھی آپ سے رابطہ کرتا ہوں۔‘‘
میری بات سن کر ایک شریر سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر یوں ناچنے لگی جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ کیوں بچہ جمبورا! پکڑ لیا نا؟ اکیلے اکیلے گپیں لگاتے ہو؟
’’ٹھیک ہے سر! ہم تو حکم کے غلام ہیں۔ آپ نے حکم کیا اور فوراً اس کی تعمیل ہوئی۔ بس آپ بھی ہمارا خیال رکھا کریں۔‘‘
ارشد نے دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر تابعدار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا اور کنکھیوں سے میڈم کی طرف دیکھا، جو اصل حقیقت سے انجان خاموشی سے ہماری فرضی گفتگو سن رہی تھی۔ جبکہ میں دل ہی دل میں ارشد کی حرکتوں پر ہنس رہا تھا۔
’’جی جی جناب! آپ کا احسان ہے، بس میں ابھی آپ سے رابطہ کرتا ہوں‘‘
میں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا اور آنکھوں کے مخصوص اشارے سے اسے وہاں سے چلے جانے کو کہہ دیا۔
اس کے جانے کے بعد میں میڈم کی طرف متوجہ ہوا تو اس کی آنکھوں نے جیسے پھرسے مجھے اپنے اندر اتار لیا۔ وہ جب تک میرے کمرے میں رہی، میں مختلف حیلوں بہانوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ہی گھومتا رہا۔ ایک بار تو دل میں اس حسرت نے بھی انگڑائی لی کہ کاش یہی آنکھیں میری بیوی کے چہرے پر لگی ہوتیں تومیں ہمیشہ اس کی آنکھوں میں ہی بسارہتا۔
میڈم کو ہفتہ وار سٹیٹمنٹ ہر سنیچر کو اپنے دفتر میں جمع کروانا تھی۔ مگر میں نے اسے کہا
’’یہ ایک پیچیدہ سٹیٹمنٹ ہے، جس کے لئے کچھ وقت درکار ہو گا۔ اس لئے وہ ایک دن پہلے یعنی ہر جمعہ کو آ کر پروفارما دے دیا کرے تواسے سہولت کے ساتھ دوسرے دن تیار سٹیٹمنٹ مل جایا کرے گی۔‘‘
میڈم نے ہامی بھر لی تھی، مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ کام اتنا زیادہ نہیں تھا، وہ تومیں نے اس کی خوبصورت آنکھوں کے چکر میں مختصر کام کو چالاکی سے دو دنوں پر محیط کر لیا تھا۔ مجھے تو بس اس کی قربت میں ہی رہنا تھا۔
اب مجھے ہر جمعہ اورسنیچر کا شدت سے انتظار رہنے لگا، وہ جب آتی تو بس میں ہوتا اور اس کی کلام کرتی آنکھیں ہوتیں۔ مگر میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھ سے زیادہ انتظار میرے دفتر والوں کو رہتا۔ میڈم کے آنے سے جیسے دفتر کی دنیا ہی بدل جاتی۔ ہر بندہ کسی نہ کسی بہانے سے رال ٹپکاتا میرے کمرے میں آ نکلتا اور اس سے بات کرنے کا خواہاں ہوتا۔ میڈم کو متاثر کرنے کے چکروں میں تقریباً سبھی بن ٹھن کر آتے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ اپنی ان حرکتوں سے وہ سب دفتر بھر میں مذاق کا خوب نشانہ بھی بنے رہتے۔
مگر خوبصورت آنکھوں والی میڈم ان سب باتوں سے انجان بس اپنے کام کے لئے آتی اور چپ چاپ چلی جاتی۔ البتہ میرے ساتھ اس کی کافی گپ شپ رہتی۔ اس کی باتیں بھی اس کی آنکھوں کی طرح ہی خوبصورت تھیں۔ وہ بہت نکتہ دان واقع ہوئی تھی اور ہر موضوع پر منطقی گفتگو کر کے لاجواب کرنے کا ہنر خوب جانتی تھی۔ میں تو اس کی آنکھوں کا شیدائی تھا مگر مجھے احساس ہوا کہ اس کے دل کی دنیا بھی بہت روشن تھی۔
ایک دن میں نے اس کے سامنے اس کی آنکھوں کی تعریف کر دی۔ میری بات سن کر وہ ہنسنے لگی اور بولی:
’’عجیب بات کرتے ہیں آپ بھی۔ سادہ سی آنکھیں ہیں میری، بھلا کیسے خوبصورتی ڈھونڈ لی آپ نے؟‘‘
’’آپ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوبصورتیاں ڈھونڈ لیتی ہیں کہ جس کا ایک عام آدمی کو شعور تک نہیں ہوتا اورایسا کمال خوبصورت آنکھیں ہی کر سکتی ہیں۔‘‘ میں اس کی آنکھوں میں گھومتے ہوئے بولا
’’یہ تو احساس کی باتیں ہیں جناب! جس کے اندر احساس زندہ ہو اسے بدصورت انسان بھی خوبصورت لگتا ہے۔ اس میں آنکھوں کا کیا کمال؟‘‘
گویا اس نے مجھے لاجواب کرتے ہوئے کہا۔
’’بہر حال آپ جو کچھ بھی کہیں، مجھے تو آپ کی آنکھیں بہت اچھی لگتی ہیں، جہاں ہر وقت خوبصورتی ہی پلتی رہتی ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
’’چلیں جی ٹھیک ہے۔ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں، ورنہ یہ میری آنکھوں کے ساتھ زیادتی ہے۔‘‘
اس نے کھلکھلا تے ہوئے کہا اور میں بھی اس کی بات پر ہنس پڑا۔
سچ تو یہ ہے کہ میری زندگی شروع ہی سے عجیب الجھنوں کا شکار رہی تھی۔ گھر والوں سے میری کبھی نہیں بن پائی تھی۔ جب کبھی تو تکار کی نوبت آ تی تو کڑواہٹ لیے دفتر کا رخ کرتا۔ تلخیوں سے فرار چاہا تو شادی رچا لی، مگر بعد میں پچھتایا کہ یہ کیا روگ پال لیا؟ شادی کے بغیر بھی گزر ہی جاتی۔ میرے مزاج میں جھنجھلاہٹ بہت بڑھ چکی تھی کہ اچانک یہ آنکھیں سکھ کا موسم بن کر میرے دل کے آنگن میں اتر آئیں۔ اندر سے آواز آئی کہ ان ہی کا ہو کے رہ جاؤ۔ ویسے تو مجھے این جی اوز کی دنیا بالکل فضول لگتی لیکن ان آنکھوں میں رہنے کا خواب جاگا تو میں بات بے بات میڈم اور اس کے کام کی دل کھول کر تعریف کرنے لگا۔ جس پر اس کی خوشی دیدنی ہوتی۔
اگلی بار جب وہ دفتر آئی تو معمول سے زیادہ خوش تھی اور اس کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک نے اس میں نئے رنگ بھر دیئے تھے۔ میں اس تبدیلی پر خوشگوار حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ پھر باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اگلے دن اس کے گھر میں مدر ڈے کے حوالے سے ایک تقریب تھی، جس کے لئے وہ مجھے بطورِ خاص مدعو کرنے آئی تھی۔ میں اس کا یہ خوبصورت پہلو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ واقعی وہ دنیا کی خوبصورت ترین آنکھیں تھیں۔
میں اُس دن مقررہ وقت پرہی اس کے گھر پہنچ گیا۔ جہاں ایک الگ دنیا آباد تھی۔ بھر پور گہما گہمی میں اس کا سجا ہوا گھر مہمانوں اور بچوں سے بھرا پڑا تھا۔ میڈم نے اپنے خاوند کے ساتھ مل کر خوش دلی سے میرا استقبال کیا۔ میں پہلی بار میڈم کو بغیر نقاب کے دیکھ رہا تھا۔ وہ سفید ساڑھی میں اتنی حسین لگ رہی تھی کہ میں پہلی نظر میں اسے پہچان ہی نہیں پایا۔ اس کے دمکتے چہرے پر خوشیاں جیسے چہل قدمی کر رہی تھیں۔ سرمے سے بھری ہوئی اس کی چمکتی آنکھیں معمول سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میڈم مجھے دیگر مہمانوں کے ساتھ لان میں رکھی کرسیوں پر بٹھا کر خود آنے والوں کے استقبال میں مصروف ہو گئی۔ لان میں ایک بڑا سا سٹیج بنایا گیا تھا، جہاں پندرہ بیس بڑی بڑی آرام دہ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ جن کے پیچھے ہیپی مدر ڈے کا ایک بڑا سا بینر لگا کر اس کے ساتھ ہی جھریوں بھرے چہرے والی مدر ٹریسا کی ایک بڑی سی تصویر بھی لگائی گئی تھی۔ ہوا کے دوش پر اڑتی رنگی برنگی جھنڈیاں ایک عجیب سی آواز پیدا کر رہی تھیں، جیسے وہ آج کے دن پر تالیاں بجا رہی ہوں۔ سفید اور سرخ رنگ کے اڑتے غباروں نے منظر میں اور بھی خوبصورتی بھر دی تھی۔ عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ عورتوں کی قطار میں ہر طرف میک اپ زدہ خوش شکل اور مسرور چہرے موجود تھے، جو خوش لباسی میں ایک دوسرے کو مات دے رہے تھے۔ مردوں میں اکثر تھری پیس سوٹ پہن کر آئے تھے جو ادھر ادھر تانک جھانک کرتے ہوئے آپس میں باتوں میں مصروف تھے اور بچے رنگ برنگے کپڑے پہنے ایک دوسرے میں گھسے خوب ہلہ گلا کر رہے تھے۔ لان کے ایک طرف سجی ہوئی میز کے درمیان میں گلاب کی پتیوں سے بھری ایک بڑی سی ٹوکری پڑی تھی، جس کے ارد گرد دائرے کی صورت میں کافی ساری تھالیاں سلیقے سے رکھی تھیں، جو گلاب کی سرخ پتیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ خوشبوؤں سے پورا لان معطر تھا۔ مدر ڈے کے حوالے سے ایسا اہتمام میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کبھی کبھی میں رشک بھری نظروں سے میڈم کی طرف بھی دیکھ لیتا جو بڑی گرم جوشی کے ساتھ مہمانوں کے استقبال میں مصروف تھی۔
مجھے بیٹھے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک میں گیٹ سے ’’وہ آ گئے۔۔۔ وہ آ گئے۔۔۔‘‘ کا ہلکا سا شور بلند ہوا اور اس کے ساتھ ہی گیٹ پر دوڑتے بھاگتے قدموں کی کئی آوازیں ابھریں۔
’’چلو بچو! جلدی سے یہاں آ جاؤ میرے پاس۔۔۔‘‘
میڈم نے بلند آواز میں پکار کر بچوں کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ وہ لان کے داخلی راستے پر کھڑی تھی۔
سب بچے شور مچاتے ہوئے فوراً میڈم کی طرف لپکے۔ جہاں اس نے بچوں کو جھٹ پٹ دونوں طرف قطار میں کھڑا کر دیا اور ہدایات دیتی ہوئی گلاب کی پتیوں سے بھری تھالیاں ان کے ہاتھوں میں تھما دیں۔ اس دوران میں میں گیٹ کھول دیا گیا اور سب کی نظریں اسی طرف ہی جم گئیں۔ ایک سفید رنگ کی بڑی سی وین اندر آ کر رکی، جس پرسرخ رنگ سے بڑا بڑا ’’امید ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ سب لوگ اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی کھڑا ہو کر حیرت میں ڈوبا
سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ گاڑی کا دروازہ کھلا تو اندر سے مڑی ہوئی کمر والی ایک بوڑھی عورت نکلی، جسے میڈم نے دونوں ہاتھوں کا سہارا دے کر بڑی آہستگی سے نیچے اتارا۔ اس کے بعد دوسری بڑھیا نکلی۔۔۔ پھر تیسری۔۔۔ پھر چوتھی۔۔۔۔ پھر پانچویں۔۔۔
یہ عجیب سلسلہ میں حیرت سے دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک اگلا لمحہ مجھ پر قیامت بن کر جھپٹا، جس نے میری آنکھوں سے روشنی نچوڑ کر انگارے بھر دیئے اور میں تکلیف کی شدت سے بلبلا اٹھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہاں موجود سب لوگوں نے میرے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر کے مجھے بھری محفل میں ننگا کر دیا ہو۔ میری آنکھوں کے سامنے کانپتی ہوئی میری ضعیف ماں گاڑی سے اتر رہی تھی۔
٭٭٭
سناٹوں کا شہر
ادھیڑ عمر شاکر کو اس خیال نے بری طرح سے جکڑ لیا تھا کہ اس کے جینے کے سبھی راستے اٹھا لئے گئے ہیں اور وہ عنقریب مرنے والا ہے۔ موت کے اس خیال نے اس کے دل و دماغ میں ایسی جڑیں پکڑ لیں کہ اسے یقین ہو چلا تھا کہ زندگی کی ڈگر پر موت کسی وقت بھی اس کا راستہ روک کر اسے اپنے ساتھ لے جا سکتی ہے۔ اس بھیانک وار سے زندگی اسے سناٹوں کے حوالے کر کے اس کے اندر سے فرار ہو گئی اور وہ بجھ سا گیا۔ اس کی بد حواسی دیکھنے والوں کے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتی کہ اس کے ارد گرد کسی اور دنیا کے سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔
حقیقت میں اس کے لئے یہ صورتِ حال ایک ایسا اجنبی لمحہ لے کر آیا تھا جو اس کی انگلی پکڑ کر اسے گندگی کے ڈھیر پر لے گیا جہاں اس کے آٹھ سالہ اکلوتے بیٹے کی لاش پڑی تھی جس کی شلوار پر جمے خون کے دھبے اور گردن پر پڑے رسی کے نشان اس کے ساتھ ہوئی بد فعلی کی ساری کہانی سنا رہے تھے۔ وہ پریشانیوں کے دشت میں بھٹکتے ہوئے مسلسل تین دنوں سے پاگلوں کی طرح سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جب سے وہ اس کی لاش اپنی باہوں میں لے کر گھر میں داخل ہوا تھا تب سے وہ اپنے اندر سے کہیں رخصت ہو گیا تھا۔ اس کے گھر میں تو جیسے قیامت خیمہ زن ہو گئی جس نے سب کو آہ و بکا کے حوالے کر دیا۔ اس کی بیوی جیسے تیسے ہمت کی انگلی تھامے اس قیامت خیز منظر سے باہر نکل آئی تھی مگر شاکر اس وحشی لمحے کا شکار ہو گیا اور وہ واپس نہ آ سکا۔ وہ اپنے اردگرد کے سبھی منظروں سے خود کو سمیٹ کر کمرے میں لگی اپنے بیٹے کی تصویر میں ہی کہیں اتر گیا۔ پہلے پہل تو اس کے گھر والوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی مگر جب وہ گم صم ہو گیا اور اس کا چڑچڑا پن گھر میں فساد کے نئے نئے بیج بونے لگا تو اس کے گھر والوں کا ما تھا ٹھنکا۔ خاص طور سے اس کی بیوی کو اس وقت خوف کے بچھو ڈنک مارنے لگے، جب شاکر نے اس پر آنکھیں گاڑتے ہوئے عجیب انداز میں کہا
’’مجھ سے جینے کے رستے گم ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ میں جلد مرنے والا ہوں، میرے بعد تم جی کر کیا کرو گی؟‘‘
وہ شاکر کا غیر متوقع سوال سن کر دہل گئی۔
شاکر پر خوف کا اس وقت کاری حملہ ہوا جب اس کے ہمسایے حاجی شہر یار کی موت کا اعلان محلے بھر میں گونجنے لگا۔ حاجی صاحب کی موت نے شاکرسے نیندیں چھین کر اسے رت جگوں کے حوالے کر دیا۔ اس کے ذہن پر ایک ہی بات سوار ہو گئی کہ رات کو میری دیوار کے دوسری طرف موت کا فرشتہ اترا تھا۔ اب وہ کسی وقت میرے سر پر بھی نازل ہو سکتا ہے۔ وہ سہما سہما سا رہنے لگا اور اس کے ہونٹوں پر خاموشیوں کے ایسے کڑے پہرے لگ گئے کہ وہاں لفظ اور قہقہے اگنا بند ہو گئے۔ وہ جہاں بھی ہوتا، تنہائی اسے ڈھونڈ کر کمرے میں بند کر دیتی۔ وہ ایک عجیب سی بیزاری کے شکنجے میں پھنس گیا۔ اس کی بیوی کومحسوس ہونے لگا کہ شاکر کے اندر کی دنیا دھیرے دھیرے بدل رہی ہے۔
اس میں پیدا ہونے والی ایک اور خوفناک تبدیلی نے اس کی بیوی کے ہوش اڑا دیئے۔ شاکر اب رات گئے تک ٹی وی سے چمٹا خبروں کے ساتھ ساتھ ایسے پروگرام دیکھنے لگا جس میں دل دہلا دینے والے واقعات کی بھرمار ہوتی، جو آہستہ آہستہ اس کی نفسیاتی کیفیات کو بدل رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر اسے ایک عجیب سا سکون ملنے لگتا۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ کوئی اور چینل لگا لے۔ اس کی دونوں بیٹیوں تک کو اپنے پسندیدہ کارٹون دیکھنے کی اجازت نہ تھی بلکہ اسے دھیرے دھیرے بیٹیوں سے کوفت ہونے لگی اور وہ انہیں بات بے بات ڈانٹنے لگا۔ اس کی سخت گیر طبیعت سے وہ بھی سہمی ہوئی رہنے لگیں۔ شاکر کے چہرے کا تناؤ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا تھا، جسے دیکھ کر اس کی بیوی فکر میں پڑ گئی۔ مگر وہ صحیح معنوں میں اس وقت خوف کی دلدل میں دھنس گئی جب اس نے شاکر کو اپنے بیٹے کی تصویر کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا وہ اس کی یہ حالت دیکھ کر دھک سے رہ گئی۔ اس نے جب شاکر کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ اس پر بڑی بڑی آنکھیں نکال کر برس پڑا۔ ناکامی نے اس کے چہرے پر ایک ساتھ کئی تھپڑ جڑ دیئے اور وہ شدید خوفزدہ ہو گئی۔
شاکر کی زندگی سکڑ کر صرف ایک لمحے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی جس میں اسے ہر وقت موت کی چاپ سنائی دینے لگی تھی۔ پہلے وہ اکثر دوستوں کے ساتھ گھومنے جایا کرتا تھا مگر اس کی ابتر حالت نے اس سے ساری دوستیاں چھین لیں اور اس نے بھی ہر جگہ سے اپنی جڑیں کاٹ کر خود کو لپیٹ لیا تھا۔ موت کا خیال عفریت بن کر اس پر ایسا جھپٹا کہ وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں ناکام رہا۔ آہستہ آہستہ اس کی ظاہری ہیئت بدلتی چلی گئی۔ اسے ہر وقت جاگتا دیکھ کر راتوں نے اس کی سرخ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے کھینچ دیئے۔ عجیب سی بیگانگی نے اس کی رنگت خراب کر دی۔ داڑھی بے ترتیب انداز میں بڑھ گئی اورآپس میں جکڑے بالوں نے اس کا حلیہ اور بھی بگاڑ دیا، جہاں سے جھانکتی ملگجی سفیدی نے اسے ایک الجھا ہوا انسان بنا دیا۔ اس کی بیوی اور بیٹیاں شاکر کا یہ وحشت خیز روپ دیکھ کر کانپ اٹھیں، مگر اسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
موت کے وسوسے میں قید شاکر آج کچھ زیادہ ہی بے چینی محسوس کرنے لگا۔ اس کے اندر بچھے سناٹوں نے اس میں ایک حبس بھر دیا اور وہ گھٹن زدہ سانسوں کا شکار ہو گیا۔ وہ دفتر سے آتے ہی سیدھا کمرے میں جا گھسا مگر پتہ نہیں کیوں آج اسے کمرہ بھی پناہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ لائٹ صبح سے غائب تھی اور بند ٹی وی اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ وہ بستر پر پڑا بار بار پہلو بدلتا رہا۔ جب اسے کسی طور قرار نہ آیا تو وہ گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ بے ارادہ چہل قدمی کرتا ہوا کافی دور تک چلا گیا۔ اسے سڑک پر دوڑتی تیز رفتار زندگی کا کوئی احساس نہیں تھا بلکہ وہ جس نامانوس لمحے میں جی رہا تھا اس نے اسے آس پاس سے بے خبر کر دیا۔ وہ بکھرے بالوں کے ساتھ کھویا کھویا اپنی ہی دھن میں مگن چلا جا رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سڑک کے بائیں طرف بیٹھے ایک عجیب الخلقت بوڑھے شخص پر جا پڑی۔ میل کچیل میں لتھڑا ہوا وہ درخت سے ٹیک لگائے اسی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ شاکر حیرت میں ڈوبا اسے دیکھتا ہوا قدم بڑھائے چلا جا رہا تھا۔ پاس سے گزرتے ہوئے جب اس کی نظریں اس شخص کے چہرے پر پڑیں تو اسے ایک زور کا جھٹکا لگا اور اگلے ہی لمحے خوف نے اسے بری طرح سے پچھاڑ ڈالا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ شخص کوئی اور نہیں شاکر خود تھا۔ پل بھر میں خوف نے اس کا سارا خون نچوڑ کر اسے ہلدی کر دیا۔ وہ دہشت زدہ ہو کر اسے دیکھے جا رہا تھا جبکہ اس شخص نے اپنی نظریں اس کے چہرے پر گاڑ رکھی تھیں۔
’’کب تک یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہو گے؟‘‘ اس بوڑھے شخص نے اس سے پوچھا
شاکر کے اندر کھلبلی مچی ہوئی تھی اور اسے بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
’’خود کو دیکھ کر کیوں اتنا حیران ہو رہے ہو؟‘‘ وہ اس کی حالت کو نظرانداز کرتے ہوئے دوبارہ گویا ہوا۔
’’کون ہو تم۔۔۔۔۔؟‘‘ شاکر نے ہمت کر تے ہوئے خوف سے کانپتی آواز میں پوچھا
’’کمال ہے۔۔۔۔ تم مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
’’تمہاری شکل تو مجھ سے ملتی جلتی ہے، مگر میں تمہیں نہیں پہچانتا۔۔۔۔ تم ہو کون؟‘‘ شاکر حیرت سے بولا۔
’’عجیب انسان ہو۔۔۔۔۔۔۔ تم خود کو نہیں جانتے؟‘‘ اس بوڑھے نے شاکر کو گھورتے ہوئے جواب دیا
’’ہاں میں تمہیں نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اب تم بتاؤ کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘ شاکر نے پریشانی سے پوچھا۔
’’تو سنو اندھے انسان۔۔۔۔ تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ہم دونوں ایک ہی ہیں۔‘‘ وہ شخص شاکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا۔
’’مذاق مت کرو۔۔۔۔ مجھے سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو؟‘‘ شاکر کا لہجہ حیرت میں بدستور ڈوبا ہوا تھا۔
’’تو تم سچ سننا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ اگر تمہارے اندر اتنی ہی تاب ہے تو پھر سنو، میں تمہارا بڑھاپا ہوں‘‘ اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا۔
شاکر اس کا جواب سن کر کانپ اٹھا۔ اس نے اس بوڑھے شخص کا جائزہ لیا۔ داڑھی اور سر کے لمبے لمبے الجھے ہوئے کھچڑی بال۔ چہرے اور گردن پر جمی میل کی موٹی موٹی تہیں۔ سیاہ رنگت، سرخ آنکھیں اور پلکیں آپس میں چمٹی ہوئیں۔ کانوں پر بالوں کے اگے ہوئے گچھے۔ کالر میل کچیل سے بری طرح سے لتھڑے ہوئے۔ پپڑی زدہ ہونٹ اور ہونٹوں سے جھانکتے ہوئے زردی مائل دانت۔ دھول مٹی سے اٹے ہوئے کالے کالے پاؤں۔ جسم پر بھنبھناتی مکھیاں اوراس سے اٹھتا ہوا تعفن۔ اس کی حالت دیکھ کر شاکر کو جھرجھری سی آ گئی۔
’’مگر میں تو ایک پڑھا لکھا انسان ہوں۔۔۔۔ میرا بڑھاپا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ شاکر نے پریشان ہو کر پوچھا
’’یہ بڑھاپا تمہارا اپنا چنا ہوا ہے۔‘‘ اس بوڑھے نے جواب دیا۔
’’مگر میں نے کبھیایسے بڑھاپے کا تصور بھی نہیں کیا۔‘‘ شاکر نے لرزتے لہجے میں کہا۔
’’تم نے اپنی حالت نہیں دیکھی کیا؟۔۔۔۔ تمہاری اسی حالت نے ہی تمھیں مجھ سے ملایا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’مگر۔۔۔۔۔‘‘
’’اگر مگر چھوڑو۔۔۔۔۔‘‘ اس بوڑھے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’تم اپنے اس بڑھاپے سے انکار نہیں کر سکتے۔۔۔ جس کے بیج خود تم نے ہی اپنے اندر بوئے ہیں۔‘‘ بوڑھا بولا۔
’’میں نے کب بیج بوئے۔۔۔؟ تم جانتے ہو کہ میری یہ حالت میرے معصوم بیٹے کی وجہ سے ہے جسے اس ظالم سماج کے درندوں نے مار ڈالا۔۔۔ اور تم کہتے ہو کہ یہ بڑھاپا میں نے خود چنا ہے۔‘‘ شاکر غصے سے چیخا۔
’’کیا تم اس ظالم سماج کا حصہ نہیں ہو؟ تمہارے ساتھ بھی تو وہی ہوا جو تم نے کیا۔‘‘ وہ بوڑھا اس پر آنکھیں نکالتے ہوئے بولا۔
’’کیا بکواس کرتے ہو تم؟ میں نے کیا کیا ہے؟ میں تو مظلوم ہوں اور تم مجھے ظالم بنانے پر تل گئے ہو۔‘‘ اس نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔
’’لگتا ہے تم یوں نہیں مانو گے۔‘‘ بوڑھے نے غصے سے کہا اور اچانک اس کا گریبان پکڑ کر ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ شاکر اس اچانک افتاد کے لئے تیار نہیں تھا اور تنکے کی طرح اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ اس بوڑھے نے اسے اپنے اتنے قریب کر لیا کہ ان دونوں کی ناک آپس میں ٹکرانے لگی۔
’’اب جھانکو میری آنکھوں میں اور دیکھو اس کے اندر۔‘‘ بوڑھے نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا۔
شاکر نے خوفزدہ ہو کر جب اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہاں ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی اور اسے کچھ دھندلے سے ہیولے حرکت کر تے نظر آ رہے تھے۔ شاکر حیرت سے دیکھنے لگا۔ اچانک وہاں ایک منظر جاگ اٹھا۔ وہ ایک بہت بڑا پل تھا، جہاں سے شہر بھر کا ٹریفک گزر رہا تھا۔ اس پل کے نیچے بڑے بڑے ستونوں کے بیچ پتھریلی زمین پر کمبل میں لپٹا ایک لاغر بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا، جس کے پاؤں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ ایک نوجوان کھڑا ہوا تھا، جو اسے وہاں لٹانے کے بعد چور آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتا ہوا اچانک تیز تیز قدم اٹھاتا ایک طرف کو چل پڑا۔ جب شاکر کی نظر اس پر پڑی تو وہ آندھیوں کی زد میں آ گیا اور سر سے پاؤں تک لرز اٹھا۔ وہ نوجوان کوئی اور نہیں شاکر خود تھا۔
’’یاد آیا کچھ۔۔۔۔۔؟‘‘ اس بوڑھے شخص نے شاکر کو ایک طرف پٹختے ہوئے پوچھا۔
مگر شاکر تھر تھر کانپتے ہوئے خوفزدہ نظروں سے اس بوڑھے کو دیکھنے لگا۔
’’تم کیا سمجھتے تھے کہ اپنے معذور نابینا باپ کو لا وارثوں کی طرح یوں سڑک پر پھینک کر چلے جاؤ گے اور سکون سے زندگی کے مزے لوٹو گے۔‘‘
بوڑھے نے اس پر اپنی لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
مگر شاکر کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس پر لرزہ طاری تھا اور پل بھر میں اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے موسم اتر آئے۔ اچانک اس نے بوڑھے کے پاؤں پکڑ لئے اور اس سے معافیاں مانگنے لگا۔
’’خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ میں نے اپنے باپ کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا۔‘‘
شاکر نے روتے ہوئے کہا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’مجھ سے کیا معافی مانگتے ہو۔۔۔؟ میں کون ہوتا ہوں تمہیں معاف کرنے والا۔۔۔؟‘‘ بوڑھا تلخ لہجے میں بولا
’’اس لئے کہ تم میرا بڑھاپا ہو اور میں یہ خوفناک بڑھاپا ہر گز نہیں چاہتا۔۔۔۔ خدا کے لئے تم واپس چلے جاؤ۔‘‘
شاکر نے اس کے سامنے گھگھیاتے ہوئے کہا۔
’’میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ تم چلے جاؤ یہاں سے‘‘ بوڑھے نے نفرت سے جواب دیا
اس بوڑھے شخص نے اسے دھتکار دیا تھا۔ اس دن سے شاکر پر نیندیں مکمل طور پر حرام ہو گئیں۔ مگر وہ آرام سے بیٹھا نہیں بلکہ روز وہاں آ کر اپنے بڑھاپے سے رو رو کر معافیاں مانگتا رہا۔ اسے روتے دھوتے کافی مدت گزر گئی اور اس کی آنکھوں کی جھیلیں خشک ہو گئیں مگر اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اور پھر ایک دن اس بوڑھے نے اس سے اچانک کہہ دیا۔
’’ٹھیک ہے کل آنا۔۔۔۔ تمہیں اس بڑھاپے سے نجات کا راستہ بتاؤں گا۔‘‘یہ سن کر شاکر کی باچھیں کھل اٹھیں۔
جب دوسرے دن شاکر وہاں گیا تو بوڑھا غائب تھا۔ وہ شدید پریشان ہو گیا اور وہاں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ مگر اس کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ وہ رات گئے تک وہاں بیٹھا رہا مگر بوڑھے کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ شاکر بلا ناغہ وہاں آ کر اس کا انتظار کرنے لگا اور یہ انتظار لمبا ہوتے ہوتے دنوں سے ہفتوں، ہفتوں سے مہینوں اور مہینوں سے سالوں میں تبدیل ہوتا گیا۔ شاکر کی حالت بالکل ویسی ہو گئی تھی جیسی اس بوڑھے کی تھی۔ اب اس نے پکا پکا اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور آہستہ آہستہ اس بوڑھے کی جگہ لے لی تھی۔
٭٭٭
ممتا کی ماری
ٹرین کو سٹیشن پر رکے ہوئے کافی دیر ہو گئی اور وہ چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حالانکہ وہ ایک چھوٹا سا سٹیشن تھا جہاں ٹرین عام طور پر دس منٹ سے زیادہ نہیں رکتی تھی۔ شدید گرمی نے لوگوں کو بدحال کر دیا تھا، بو گیوں میں پھیلی پسینے کی بدبو نے اتنی گھٹن اور تعفن پیدا کر دیا کہ لوگ اپنے پھیپھڑوں میں تازہ ہوا بھرنے کے لئے جھلستی دھوپ میں بھی بو گیوں سے باہر نکل آئے۔ پٹڑیوں کے آس پاس بچھے چھوٹے چھوٹے پتھر گرمی کی شدت سے انگارہ بنے ہوئے تھے اور ان کی تپش نے فضا کو اور بھی گرما رکھا تھا۔ سٹیشن پر پانی کا ایک ہی نلکا لگا ہوا تھا۔ جس پر نظر پڑتے ہی پیاس کے مارے لوگ جوش کے ساتھ نلکے کی طرف لپک پڑتے مگر وہاں پہنچ کر ان کے منہ لٹک جاتے کیونکہ زنگ آلود نلکے کی ہتھی ٹوٹی ہوئی تھی اور پیچ بھی غائب تھاجس سے پانی کا ایک بھی قطرہ نکالنا محال تھا۔ گرمی سے ستائے ہوئے لوگ مایوسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے۔ ایک تو گرم لو ان کی کھال جلا رہی تھی اور اوپر سے چاروں طرف ایک عجیب سی بساند رچی ہوئی تھی، جس نے ماحول کو آلودہ کر دیا تھا۔
سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے گھورتے ہوئے حیران ہو رہے تھے کہ آخر بات کیا ہے۔۔۔ ٹرین کیوں رکی ہوئی ہے۔۔۔؟ لوگوں کی مختلف قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ اچانک کہیں دور سے کسی عورت کی دھاڑیں فضا میں تیرتی ہوئی آئیں اور کانوں میں گھس گئیں۔ سب ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے چونک اٹھے۔ ان کے لئے یہ سب بہت غیر متوقع تھا اور وہ حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔
’’وہ دیکھو ادھر۔۔۔۔۔۔ بہت سے لوگ جمع ہیں۔‘‘
کسی نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے زور سے چلا کر کہا اور لوگ تجسس کے مارے فرسٹ کلاس بو گیوں کی طرف دوڑتے چلے گئے جہاں لوگوں کا ایک جمِ غفیر لگا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ مجمعے کو چیر کر آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجمع کے بیچوں بیچ تیکھے نقوش کی ایک سانولی عورت حلق کے زور پر دھاڑتی ہوئی روئے جا رہی تھی۔
’’مجھے میری بیٹی لا دو۔۔۔۔ میں اس کے بغیر مر جاؤں گی۔۔۔۔ خدا کے لئے کوئی تو میری بیٹی لا دے‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ پیٹتے ہوئے کہا۔
وہ پسینے میں شرابور تھی اور اسے اپنا کوئی ہوش نہیں تھا۔ اس کا دوپٹہ نیچے گر چکا تھا اور سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔
’’صبر کرو سلمہ۔۔۔ ہماری بیٹی ضرور کہیں آس پاس ہو گی۔۔۔۔ میں اسے ڈھونڈ کے لے آؤں گا۔۔۔۔ تم فکر مت کرو۔۔۔۔‘‘
ایک شخص نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا، جس نے اسے سنبھال رکھا تھا۔ شاید وہ اس کا شوہر تھا۔
’’جلدی لے آؤ میری رانی کو۔۔۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہو گی، کس حال میں ہو گی۔۔۔۔؟
یہ سب تمہارا قصور ہے۔۔۔ تم نے اس کا خیال نہیں رکھا۔۔۔ ہائے میری معصوم نیلم۔۔۔۔ کہاں ہو تم۔۔۔؟‘‘
اس کی بیوی نے بین کرتے ہوئے کہا۔ رال اس کے منہ سے گر گر کر اس کا دامن بھگو رہی تھی۔
’’سلمہ۔۔۔ اپنے آپ کو سنبھالو۔۔۔ تم اکیلی نہیں ہو، میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔ تم فکر مت کرو، میں اپنی نیلم کو ابھی لے آؤں گا۔۔۔ تم صبر کرو۔۔۔‘‘
اس کے شوہر نے افسردہ لہجے میں اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور رو مال سے اس کا چہرہ صاف کرنے لگا جو پسینے اور آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
ان کے آس پاس بہت سارے لوگ اکٹھا ہو چکے تھے اور سب حیران و پریشان انہیں دیکھ رہے تھے، جن میں عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے سبھی شامل تھے۔
’’بیٹا! کیا بات ہے۔۔۔؟ کیا ہوا ہے تمہاری بیٹی کو۔۔۔؟‘‘
ادھیڑ عمر سٹیشن ماسٹر نے اس کے خاوند کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا
اس سے پہلے کہ وہ سٹیشن ماسٹر سے کچھ کہتا اچانک دھاڑیں مارتی ہوئی اس کی بیوی اس کی بانہوں میں جھول گئی اور ایک دم خاموش ہو گئی۔
’’کیا ہوا سلمہ۔۔۔؟ سلمہ اٹھو۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔ اٹھو سلمہ۔۔۔‘‘
وہ روہانسی آواز میں چلاتے ہوئے اسے زور زور سے ہلانے لگا۔ سارے مجمعے پر سناٹا طاری ہو گیا تھا۔
’’میں ڈاکٹر ہوں۔۔۔ ذرا ہٹو، مجھے دیکھنے دو۔۔۔‘‘
مجمع میں کھڑے ایک کلین شیو نوجوان نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اس کی نبض چیک کرنے لگا۔ اس کے بعد اس کے پپوٹوں کو اوپر کر کے اس کی آنکھیں دیکھیں اور پھر سے نبض چیک کرنے لگا۔
’’گھبرانے کی بات نہیں ہے۔۔۔ بے ہوش ہو گئی ہے۔۔۔ اسے یہاں سے اٹھا کر اُدھر بینچ پر لٹا دو۔‘‘
ڈاکٹر نے برآمدے میں رکھے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ فوراً اسے اٹھا کر بینچ پر لٹا دیا گیا۔ برآمدے کی چھت پر ایک مریل سا پنکھا ’’غاں۔۔۔ غاں۔۔۔‘‘ کی آوازیں نکالتا ہوا مردہ چال سے گھوم رہا تھا۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر پانی منگوا کر اس کے منہ پر چھینٹے مارے جانے لگے۔
’’ابھی اسے ہوش آ جائے گا۔۔۔ تم گھبراؤ مت‘‘ ڈاکٹر نے اس کے شوہر کو تسلی دیتے ہوئے کہا
بینچ کے ارد گرد بھی لوگ جمع ہو کر کھسر پھسر کرنے لگے۔ سٹیشن پر مشروبات کی واحد ریڑھی کے پیچھے کھڑا منحنی سا شخص مجمعے کو عجیب سی نظروں سے گھور رہا تھا، جس کے پاس ایک بھی گاہک نہیں تھا۔
’’ہاں بیٹا۔۔۔ تم بتاؤ مجھے کہ کیا ہوا ہے تمہاری بیٹی کو اور وہ کہاں چلی گئی۔۔۔؟‘‘
سٹیشن ماسٹر نے دوبارہ اس کے شوہر سے پوچھا جو بینچ پر بیٹھا پریشانی میں ڈوبا اپنی بیوی کے چہرے کو تکے جا رہا تھا۔
اس نے لمحہ بھر کے لئے اپنی بیوی کو دیکھا اور پھر ڈبڈبائی آنکھوں سے سٹیشن ماسٹر کو دیکھتے ہوئے مخاطب ہوا:
’’ماسٹر صاحب۔۔۔ ہماری ایک ہی دس سالہ بیٹی ہے نیلم۔ اسے پیٹ میں ہر وقت تکلیف رہتی ہے اور ہم علاج کے لئے اسے بڑے شہر لے جا رہے تھے۔ وہ پچھلے سٹیشن تک تو ہمارے ساتھ تھی۔ ٹرین چلنے سے پانچ منٹ پہلے میں نے اسے بو گی کی لیٹرین میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس لئے میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ جب ٹرین چلی تو ہم میاں بیوی باتوں میں مصروف تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد میری بیوی کو بیٹی کا خیال آیا تو میں چونک اٹھا۔ وہ ہمیں آس پاس کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں فوراً اٹھ کر لیٹرین کی طرف بھاگا۔۔۔ مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ میں پریشان ہو گیا۔ پوری بو گی میں دوڑ تے ہوئے ہم دونوں اسے تلاش کرتے رہے۔۔۔ بار بار آوازیں لگائیں، ساری ٹرین چھان ماری مگر اس کا کچھ پتہ نہیں لگا اور میری بیوی کی صدمے سے یہ حالت ہو گئی۔‘‘ اس نے لرزتی آواز میں سب کچھ کہہ سنایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
’’تت۔۔۔ تت۔۔۔ تت۔۔۔ تت۔۔۔‘‘ اس کی بات سن کر کئی افسوس بھری آوازیں مجمع سے ابھریں۔
’’دکھیاری‘‘ ایک نسوانی آواز گونجی۔
’’بیچاری۔۔۔ ممتا کی ماری‘‘ کسی عورت نے کہا۔
’’ہو سکتا ہے کہ وہ پچھلے سٹیشن پر کہیں رہ گئی ہو اور آپ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلا ہو۔۔۔؟‘‘ سٹیشن ماسٹر نے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ ایسا ہی ہوا ہو گا۔۔۔‘‘مجمع سے کئی آوازیں اٹھیں۔
اس سے پہلے کہ اس کا شوہر کچھ کہتا اچانک اس کی بیوی کے جسم میں حرکت ہوئی۔ سب لوگ ایک دوسرے میں گھسے اسے دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ اس کی بیوی نے آنکھیں کھول دی تھیں اور وہ اپنے آس پاس کھڑے لوگوں کو خالی خالی نظروں سے یوں دیکھنے لگی جیسے اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ یہ لوگ کیوں جمع ہیں؟ مگر اگلے ہی لمحے وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی اوراس کے چہرے پر ایک کرب سا چھا گیا، جیسے اسے سب کچھ یاد آ گیا ہو۔
’’کیا ہوا میری نیلم کا۔۔۔؟ وہ ملی کہ نہیں۔۔۔؟ تم بولتے کیوں نہیں۔۔۔؟ بولو نا۔۔۔ کہاں ہے میری بیٹی؟‘‘ اس نے اپنے شوہر کے کاندھے کو پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا اور رونے لگی۔ اس کا بین پھر سے شروع ہو گیا۔ شوہر بیچارہ اسے مسلسل دلاسے اور تسلیاں دے رہا تھا مگر وہ ممتا کی ماری سنبھلنے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔
اس کی درد بھری چیخیں فضا میں ارتعاش پیدا کر تی ہوئیں سیدھا دلوں میں اتر رہی تھیں اور لوگ اسے رحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس پر ترس کھا رہے تھے۔ اب کئی عورتیں بھی اسے تسلیاں دے رہی تھیں مگر وہ واویلا کرتی ہوئی ادھ موئی ہوئی جا رہی تھی۔
’’بیٹا! میرا دل کہتا ہے کہ تمہاری بیٹی پچھلے سٹیشن پر ہی کہیں رہ گئی ہے۔ اگر وہ ٹرین پر چڑھی ہوتی تو اب تک اپنی ماں کو روتا دیکھ کر تمہارے پاس آ چکی ہوتی۔ تم اپنی بیوی کو ساتھ لے کربس کے ذریعے دوبارہ پچھلے سٹیشن چلے جاؤ۔ تمہاری بیٹی تمہیں ضرور مل جائے گی۔ ٹرین کو رکے ہوئے کافی دیر ہو چکی ہے۔ سواریوں کا کافی ہرج ہو رہا ہے اور اب ٹرین کو مزید روکنا ممکن نہیں۔ اس لئے تم میری بات مانو اور بیوی کو ساتھ لے کر پچھلے سٹیشن جاؤ۔۔۔ دو گھنٹوں میں تم وہاں پہنچ جاؤ گے۔‘‘ سٹیشن ماسٹر نے اس کے شوہر کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ بہت سارے لوگوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اس نے غم سے نڈھال روتی دھوتی اپنی بیوی کو پچھلے سٹیشن پر جانے کا کہا تو وہ بین کرتے ہوئے ناں ناں کرنے لگی۔ مگر جب دوسری عورتیں بھی مل کر اسے سمجھانے لگیں تو وہ بڑی مشکل سے راضی ہوئی۔
شوہر نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کیا۔ وہ دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھتی اور سسکتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ گرمی سے اس کا برا حال ہو چکا تھا۔ لوگوں نے اس کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اسے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ وہاں سے رخصت کیا۔ اس کا شوہر اسے سہارا دے کر سٹیشن سے باہر لے آیا اور دونوں ایک آٹو رکشہ میں بیٹھ کر سیدھا لاری اڈے کی طرف روانہ ہو گئے اور جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔ وہاں اتر کر انہوں نے ایک سایہ دار جگہ تلاش کی اور آرام سے بیٹھ گئے۔ وہ خاموش تھے اور تھکاوٹ ان کے بجھے ہوئے چہروں پر واضح طور پر عیاں تھی۔ انہیں ابھی بیٹھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک سامنے سے تین لڑکے نمودار ہوئے اور چپ چاپ ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ وہ تینوں پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔
’’اف۔۔۔ آج تو بہت ظالم گرمی ہے۔۔۔‘‘
ایک لڑکے نے اپنی قمیض کے گھیرے سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا، جہاں پسینہ پانی کی طرح سے رِس رہا تھا۔
’’ہاں بِلو۔۔۔۔ بولو کیا پراگریس ہے؟‘‘ اس کے شوہر نے اسی لڑکے سے بے صبری کے ساتھ پوچھا
’’آج بہت مال ہاتھ لگا ہے انکل۔۔۔‘‘
بلو نے اپنی ابھری ہوئی جیب پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا کر کہا جو اسی کے علاقے کا رہنے والا تھا اور غضب کا جیب کترا تھا۔ باقی دونوں لڑکے بلو کے جیب کترے دوست تھے۔
’’کسی کو کوئی شک تو نہیں ہوا۔۔۔؟‘‘ اس نے فکر مندی سے پوچھا
’’کیا بات کرتے ہیں انکل۔۔۔؟ آج تو باجی نے ایسی زبردست ایکٹنگ کی ہے کہ کمال کر دیا۔
سب لوگ باجی میں کھوئے رہے اور ہم آرام سے اپنا کام کرتے رہے۔۔۔ کسی کو کیا شک ہونا تھا۔۔۔؟‘‘
بلو نے توصیفانہ انداز میں اس کی بیوی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا مگر وہ اس کی بات سن کر ایک دم بھڑک اٹھی۔
’’یہ ایکٹنگ نہیں تھی۔۔۔۔۔ قسم خدا کی بالکل بھی ایکٹنگ نہیں تھی۔ جس ماں کی بیٹی ہسپتال میں پڑی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہو، وہ ماں ایکٹنگ کیسے کر سکتی ہے۔۔۔؟‘‘
اس نے جذباتی انداز میں کہا اور بلو سہم کر رہ گیا۔ اس کا شوہر اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا، جس کا چہرہ سرخی مائل ہو چکا تھا۔
٭٭٭
انقلاب
طاہر کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اُس کا محلے دار، ہمجولی اور اُس کا دوست سلیم ایک روز موت کو اپنے گھر بُلا کر چپ چاپ اُس کی انگلی تھامے یوں چلا جائے گا۔ وہ کتنی ہی دیر تک ملول چہرہ لئے اس کے زرد چہرے پر نظریں گاڑے بیٹھا رہا۔ سامنے پڑی سلیم کی لاش دیکھ کر بھی اسے یقین نہیں آیا کہ وہ ایک ایسے جہاں میں قدم رکھ چکا تھا جہاں صرف موت کی حکمرانی تھی۔ سلیم کی خودکشی نے اسے اندر سے چیر کے رکھ دیا۔ وہ اشکبار آنکھوں کے ساتھ اس کے گھر کے باہر سر جھکائے کھڑا تھا جہاں محلے کے اور افراد بھی جمع تھے۔ سلیم کے گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی جہاں آہوں، سسکیوں اور چیخ و پکار کی شدید بمباری ہو رہی تھی۔ ہر آنکھ اشکبار اور ہر چہرہ اترا ہوا تھا۔ سلیم کی ماں پر غم کا اتنا بڑا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ اس کے حواس کچلے گئے۔ وہ سلیم کی لاش کے ساتھ لپٹ لپٹ جاتی اور بار بار طاہر کا گریبان پکڑ کراسے جھنجھوڑتے ہوئے چیخنے لگتی کہ
’’تم کیسے دوست ہو۔۔۔؟
میرا سلیم۔۔۔ میرا لعل چلا گیا اور تم نے اسے جانے دیا۔۔۔؟
تم نے اسے روکا کیوں نہیں۔۔۔؟
اس سے پوچھا کیوں نہیں؟
تم نے اسے کیوں جانے دیا۔۔۔۔؟
بولو نا۔۔۔۔ تم بولتے کیوں نہیں۔۔۔؟
تم کیسے دوست ہو۔۔۔۔؟
تم۔۔۔۔۔‘‘
طاہر کے لئے وہاں مزید رکنا مشکل ہو گیا اور وہ اس کی ماں اور بہنوں کو تڑپتا ہوا چھوڑ کر آنکھوں میں برسات لئے گھائل روح کے ساتھ باہر نکل آیا۔ سلیم کا ہلدی چہرہ اس کی آنکھوں میں گڑ گیا۔ اس کی اچانک خودکشی نے اس کے منہ پر کئی تھپڑ رسید کر دیئے اور وہ جیسے گہری نیند سے تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ طاہر آج تک یہی سمجھتا رہا کہ ایک بڑی سیاسی پارٹی سے وابستگی اور اپنے کالج کا سرگرم عہدیدار ہوتے ہوئے وہ لوگوں کے لئے دن رات کام میں لگا ہوا ہے اور سماج میں تبدیلی لانے کے لئے انتھک محنت کر رہا ہے مگر پڑوس میں رہنے والے اپنے دوست سلیم کی خودکشی نے اس کی آنکھیں کھول کر اسے شرمندگی کی دلدل میں دھنسا کے رکھ دیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ وہ تو ابھی تک اپنے محلے میں ہی تبدیلی نہیں لا سکا معاشرے کی تبدیلی تو کوسوں دور کی بات تھی۔
اسے سلیم کے ساتھ گزرے دن یاد آنے لگے۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی جس نے غربت کے ڈھیر پر جنم لیا۔ اس کا شرابی باپ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر دلالی کیا کرتا۔ اسی وجہ سے گھر میں ہر وقت جنگ جاری رہتی۔ سلیم کی ماں اس کی آنکھوں میں ٹپکتی شیطانیت دیکھ کر شدید ڈر گئی تھی اور بیٹیوں کی فکر نے اس کی نیندیں چھین لی تھیں۔ گھر میں دن رات کی لڑائی اور سخت مزاحمت کی وجہ سے اس کا باپ کہیں اور رہنے لگا تھا مگر جب بھی وہ گھر آتا تو لڑائی کا بازار گرم ہو جاتا۔ باپ کے غلیظ کام نے سلیم کو اس کے ساتھ نفرت کے رشتے میں باندھ دیا اور باپ ہونے کے باوجود وہ گھر میں اس کا وجود برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اسی کی وجہ سے ہی ان سب کو معاشرے میں چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا رہتا۔ وہ اپنے حالات سے تنگ اور زندگی سے بہت دلبرداشتہ تھا۔ یہ طاہر ہی تھا جس نے اسے ہمیشہ زندگی کے چمکتے پہلو دکھا کر تاریک حالات سے لڑنے کی راہ دکھائی تھی۔ مگر اچانک ہی موت نے سلیم کے گھر پر چھاپہ مار کر سب کچھ ختم کر دیا۔ اس حادثے نے اسے توڑ کے رکھ دیا اور وہ اپنے دوست کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکا۔ مگر سلیم اجل کے سفر پر روانہ ہو کر اسے بہت بڑا سبق دے گیا کہ محض جھوٹی تسلیوں، دلاسوں اور کھوکھلے خوابوں سے نہ کسی کی زندگی کٹ سکتی ہے اور نہ ہی حالات بدل سکتے ہیں۔
اب اس نے کاندھوں پر دوہری ذمہ داری لے کر سلیم کے خواب بھی اپنی آنکھوں میں سجا لئے۔ طاہر جانتا تھا کہ وہ معاشرے کی آنکھوں میں اپنے اور گھر والوں کے لئے عزت کا شہر بسا دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے بھی طے کر لیا کہ وہ سلیم کا یہ ادھورا شہر ہر آنکھ میں تعمیر کرے گا۔ سلیم کے پڑھائے ہوئے سبق نے اس کے اندر ایک انقلاب جگا دیا اور اب وہ عملی طور پر اپنے کاموں میں مگن ہو گیا۔ مگر وہ سلیم کے گھر والوں سے غافل نہیں ہوا تھا۔ باپ کے ساتھ دکان پر ہاتھ بٹانا، کالج کی پڑھائی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود وہ ان کی برابر خبر گیری کرتا اور ان کے معاملات میں ان کا ساتھ دیتا۔ وہ جانتا تھا کہ سلیم کا باپ کسی بھی وقت ان پر آفت بن کر نازل ہو سکتا ہے۔ خود سلیم کی ماں نے بھی اس سے روتے ہوئے کہا تھا
’’بیٹا۔۔۔ مجھے دن رات اپنی بیٹیوں کی فکر چاٹے جا رہی ہے۔ میں ڈرتی ہوں کہ ان کا باپ کسی بھی وقت ہمارے سروں پر آ دھمکے گا۔ سلیم نے میری ساری فکریں سنبھال رکھی تھیں۔ اب تو تم ہی ہمارے سلیم ہو اور تم سے ہی ساری امیدیں ہیں۔‘‘
وہ جاڑے کی ایک سرد ترین رات تھی جب آدھی رات کو طاہر کا دروازہ دھڑا دھڑا پیٹا جانے لگا۔ سب گھر والے اس اچانک افتاد پر اٹھ بیٹھے۔ جب طاہر اپنے باپ کے ساتھ دروازے پر پہنچا تو وہ سامنے سلیم کی ماں کو دیکھ کر حیران رہ گئے جس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔
’’وہ سلیم کا باپ اور اس کے آدمی میری بیٹیوں کے ساتھ۔۔۔۔‘‘ اس نے کانپتی آواز میں کہا اور غم کی شدت سے بات اس کے حلق میں ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔
طاہر اور اس کا باپ اس کے گھر کی طرف بھاگے۔ وہاں جا کے دیکھا تو سلیم کے باپ کے ساتھ دو اور آدمی نشے میں دھت اس کمرے میں گھسے ہوئے تھے جہاں وہ سب سوتے تھے۔ چاروں بہنیں سہمی ہوئی ایک دوسرے میں گھسی اپنے ہی آنسوؤں میں بہی جا رہی تھیں۔ طاہر کو دیکھتے ہی وہ سب ’’بھیا۔۔۔ بھیا‘‘ کہتی ہوئیں اس سے آ کر لپٹ گئیں۔ خوب لے دے کے بعد طاہر اور اس کے باپ نے ان تینوں کو گھر سے نکال دیا۔ اندھیروں کے دامن سے پھوٹنے والے اس حادثے نے سب کو ہلا کے رکھ دیا۔ سلیم کی ماں تو جیسے دہل کر رہ گئی مگر طاہر سلیم کا روپ دھار کر ان سب کو حوصلوں کی پناہ میں لے آیا۔ اس واقعہ نے طاہر کی آنکھوں میں ایسے منظر کھینچ دیئے کہ جس میں اسے معاشرے کا ننگا پن صاف نظر آنے لگا۔ تہذیب کے پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے ناسور اسے اچھی طرح سے دکھائی دینے لگے، جنہوں نے سماج پر اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ طاہر کی آنکھوں میں وہ سب مناظر ایک ایک کر کے زندہ ہوتے چلے گئے جو کئی بار وہ ٹی وی پر دیکھ چکا تھا کہ کس طرح مجبور اور لاچار عورتوں سے دھندہ کروایا جاتا ہے۔ عصمت فروشی سے متعلق اخبار کی ایسی بے شمار خبریں اس کی آنکھوں میں اگ آئیں، جس کے پیچھے اسے پورا معاشرہ بے ردا نظر آنے لگا۔ سماج میں اسے کتنے ہی ننگے سر، ننگے بدن اور عزت کے لئے تڑپتے وجود نظر آنے لگے جنہیں ردا کی ضرورت تھی، جنہیں تن چھپانے کے لئے عزت کے شہر کی ضرورت تھی۔ اسی غلیظ دھندے کے بیچ اسے گندگی کے ڈھیر پر پھینکے گئے معصوم روتے بلکتے بچے بھی دکھائی دینے لگے اور خاموش گلی کوچوں میں گونجتی ننگی چیخیں بھی اسے صاف سنائی دینے لگیں۔ اسے یوں لگا جیسے یہ چیخیں نہیں بلکہ درد بھری فریادیں ہیں جو اپنا سننے والا تلاش کرتی پھرتی ہیں۔ ان چیخوں نے طاہر کے اندر اودھم مچا دیا اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس سے سیاست کے معنی کھو گئے اور وہ پریشان ہو کر رہ گیا۔ اس پریشانی کے عالم میں اچانک سلیم نے اس کے کان میں سرگوشی کی کہ اس ننگے معاشرے کو سیاست کی نہیں، تمہاری ضرورت ہے۔ نکمی بھاگ دوڑ سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ اب ہو گا۔ اس بات نے طاہر کو سیاست کا نیا اور سچا مفہوم دے دیا، جس کے پیچھے سلیم جڑا ہوا تھا، جس نے پورا سماج اس کے سامنے بچھا کر اسے ایک ایسی آنکھ عطا کر دی تھی جس سے اب طاہر کو جگہ جگہ غربت کے ڈھیر پر پلتا ہوا جرم اور سسکتی بلکتی زندگی صاف نظر آنے لگی۔ معاشرے میں جگہ جگہ بھوک کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جن کے عقب میں اسے اپنے پارٹی لیڈر کے انقلاب کی آوازیں بھی ابھرتی سنائی دینے لگیں اور انقلاب کی حقیقت اس پر آشکارا ہونے لگی۔ اس کے دل نے بھی گواہی دے دی کہ اس ننگے سماج کو واقعی انقلاب کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ دن تھے کہ اس کے لیڈر کے انقلابی نعرے کی گونج ملک بھر میں سنائی دینے لگی تھی اور انقلاب کا بیج بونے کے لئے اس کا لیڈر ملک کے کونے کونے میں بڑے بڑے جلسے کرتا پھر رہا تھا۔ اب وہ اس کے شہر میں بھی اسی مقصد کے لئے آ رہا تھا۔ اس لئے شہر کے گلی کوچوں میں اس کے لیڈر کا ڈنکا بج رہا تھا اور طاہر کی خوشی بھی دیدنی تھی کہ اپنے لیڈر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا جس کے اس نے ہمیشہ گن گائے تھے۔ وہ اپنے لیڈر کی دلآویز شخصیت سے اتنا متاثر تھا کہ اس کے لئے وہ کئی بار کالج میں اپنے مخالفوں کے ساتھ لڑ بھی پڑا اور ایک بار تو ہا تھا پائی میں وہ زخمی بھی ہو گیا تھا۔ جب سے اس کے لیڈر نے ملک میں انقلاب کا نعرہ لگایا تب سے وہ اس کے نام کے کلمے پڑھنے لگا تھا۔ طاہر کے دل و دماغ میں اپنے دوست سلیم کا گھرانہ چھایا ہوا تھا۔ اس نے اپنے سینئرز کو ان کے حالات سے آگاہ کیا جنہوں نے سلیم کی ماں سے مل کر انہیں خوب تسلی دی اور وعدہ کیا کہ وہ ان کو اپنے لیڈر سے ضرور ملوائیں گے اور ان کے تحفظ کے انتظامات کروا کر انہیں معاشرے کے ناسوروں سے ہمیشہ کے لئے نجات دلوائیں گے تاکہ وہ معاشرے میں وہی عزت کما سکیں جیسا ان کا حق ہے۔
اس کامیابی نے طاہر کے اندر ایک جوش بھر دیا اور اس نے جلسے کی کامیابی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پوری پوری رات بازاروں، گلیوں، چوکوں میں اشتہار، بینر، جھنڈیاں لگاتا رہا۔ وہ تیاریوں میں اتنا دیوانہ ہو گیا کہ اپنے دوستوں کو ساتھ لے کراس نے شہر کے اس معروف علاقے میں بھی جانے سے دریغ نہ کیا جو مخالفوں کا گڑھ تھا۔ جب وہ وہاں پر اشتہار لگا رہا تھا تو اس کے مخالفوں نے ان پر ہلہ بول دیا اور سب آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ اس دنگے میں طاہر کو شدید چوٹیں آئیں مگر اس پر تو جیسے بھوت سوار تھا۔ پٹیوں میں لپٹا وہ اپنے کاموں میں ہی لگا رہا۔ اس پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ اپنے آپ کو مٹا کر معاشرے میں انقلاب لانا ہے اور پھر سلیم کی ماں کو اس کے باپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزادی دلوانی ہے۔
شہر کا نقشہ بالکل ہی بدلا ہوا تھا اور راستے خوب چمک رہے تھے۔ چوراہوں، چوکوں اور معروف عوامی مراکز میں ملک کے مشہور انقلابی لیڈر کی تصویریں اور بڑے بڑے بینر لگ گئے، جو آج شہر میں جلسہ کرنے آ رہا تھا۔ لوگ پارٹی کے جھنڈے، بینر اور تصویریں اٹھائے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے ہوئے خوب نعرے لگا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ پورا شہر اس انقلابی لیڈر کا دیوانہ ہو گیا ہے۔ طاہر بھی میلہ اسٹیڈیم میں موجود تھا، جہاں ایک بہت بڑا سٹیج بنایا گیا تھا۔ آج وہ منت سماجت کر کے اپنے باپ کو بھی جلسے میں لے آیا تھا جو ان سیاسی جھمیلوں سے ہمیشہ ہی دور رہتا تھا۔ کیونکہ یہ طے کیا گیا تھا کہ سٹیج پر جہاں خاص شخصیات بیٹھیں گی وہاں عام لوگوں کو بھی بٹھایا جائے گا تاکہ ان کی عوامی پارٹی ہونے کا عملی مظاہرہ پوری دنیا دیکھ سکے۔ اس لئے وہاں پہنچتے ہی طاہر اپنے باپ کو سٹیج پر بٹھا کر خود دیگر معاملات میں الجھ گیا۔ اسٹیڈیم کے داخلی دروازے سے لے کر دور دور تک سڑک کی دونوں جانب لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ لوگ اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے امڈے پڑے تھے۔ پولیس کے دستوں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومت کے نمائندے بھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں مصروف تھے جبکہ سیاسی کارکن الگ سے حفاظتی انتظامات کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ہاتھوں میں ڈنڈے لئے گھوم پھر رہے تھے۔
طاہر ایک مخصوص جگہ پر دیکھ بھال میں مصروف تھا کہ اچانک فضا زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس نے مچلتے تڑپتے لوگوں کی طرف نگاہ دوڑائی جو اچھل اچھل کر نعرے لگا رہے تھے۔ ملک کا انقلاب پسند لیڈر پہنچ گیا تھا۔ طاہر نے دیکھا کہ دورسے آتی گاڑی پر کھڑا اس کا لیڈر پھولوں کے ہاروں سے لدا مسکراتے ہوئے عوام کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا ہلا کر دے رہا تھا، جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ دیوانے ہوئے جا رہے تھے۔ سٹیڈیم کے گیٹ پر گاڑی رکی اور اس کا لیڈر نیچے اتر کر عوام کے سیلاب کو چیرتا ہوا سٹیج کی طرف بڑھ گیا۔ طاہر کے قریب سے گزر کر وہ سٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اس نے پہلی بار اپنے آئیڈیل لیڈر کو اتنے قریب سے دیکھا اور اس کی مسحور کن شخصیت میں ڈوب گیا مگر وہ زیادہ دیر تک اس کے سحر میں گرفتار نہ رہ سکا۔ اچانک عوام کا ایک ریلا سٹیج کی طرف پلٹ پڑا جسے روکنے کے لئے طاہر نے اپنا سارا زور لگا دیا اور دیگر کارکن بھی حرکت میں آ گئے جو لوگوں کو پیچھے کی طرف دھکیلنے لگے۔ اسی کشمکش میں بھگدڑ مچ گئی اور لوگ ایک دوسرے پر گر پڑے۔ کئی چیخیں بلند ہوئیں اور اس افراتفری میں کافی سارے لوگ لتھڑے گئے۔ لوگ مشتعل ہو کر ہا تھا پائی پر اتر آئے۔ اس کھینچا تانی میں طاہر کو بھی ایک چانٹا پڑ گیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر کارکنوں نے عوام پر اندھا دھند لاٹھیاں برسا دیں۔ بوکھلائے ہوئے طاہر کی نظر اچانک اپنے باپ پر جا پڑی جو اسی ریلے میں دھکے کھا رہا تھا، اس دوران کسی نے اس کی کمر پر تین چار زوردار ڈنڈے رسید کر دیئے اور وہ درد سے بلبلا اٹھا۔ طاہر اپنے باپ پر ڈنڈے برستے دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ وہ بھونچکا رہ گیا کہ اس کا باپ نیچے کیسے پہنچ گیا جبکہ اس نے تو اسے سٹیج پر بٹھایا تھا۔ اپنے باپ کا تکلیف سے مسخ شدہ چہرہ دیکھ کر اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی، اسے یوں لگا جیسے یہ ڈنڈے اس کے باپ کو نہیں، اس کی روح پر برسائے گئے ہوں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے جلسے میں اس کے باپ کا ایسا حشر ہو گا۔ غصے سے اس کا چہرہ لال انگارہ ہو گیا۔ عوام پرتو قابو پا لیا گیا تھا مگر طاہر کے اندر آندھیاں چلنے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا ذلت آمیز منظر اسے ڈسنے لگا۔ اس نے دور کھڑے اپنے نڈھال باپ پر ایک اداس نظر ڈالی اور دفعتاً سٹیج کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اوپر پہنچ کر جیسے ہی اس کی نظر سامنے پڑی تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ بت بنا رہ گیا۔ سٹیج پر سلیم کا باپ اس کے باپ والی کرسی پر بیٹھامسکرا مسکرا کر اس کے لیڈر کے کانوں میں کھسر پھسر کر رہا تھا اور لیڈر اس کی باتوں پر مسکراتے ہوئے بار بار یوں گردن ہلا رہا تھا جیسے ان کی برسوں کی جان پہچان ہو۔ طاہر کو پوری دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تکلیف کی کتنی ہی لہریں اس کی روح میں اترتی چلی گئیں۔ یہ منظر اس کے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ غصے سے بھنا ہوا جذباتی انداز میں تیز تیز سیڑھیاں اترنے لگا۔ نیچے اترتے ہی اس نے اچانک زمین پر اتنے زور سے تھوکا کہ جیسے اس نے زمین پر نہیں لیڈر کے چہرے پر تھوک دیا ہو۔ جھٹکے سے اپنے سینے پر لگا پارٹی بیج نوچ کر پھینکا اور غصے کے عالم میں اپنے باپ کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭
بولتی خاموشی
شریف کے ماں باپ کے لڑنے جھگڑنے کی تیز و تند آوازیں عقاب بن کر شریف پر جھپٹیں، جو نیند کا لحاف اوڑھے سو رہا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور فوراً اٹھ بیٹھا۔ شاید وہ دیر تک سویا رہتا اگر دیگچی کے گرنے اور اس کے لڑھکنے کے بے ہنگم شور کا خنجر اس کی نیند کی چادر کو تار تار نہ کر ڈالتا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور جلدی جلدی آنکھیں ملتا ہوا ننگے پاؤں ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسے حویلی کے وسط میں چائے کی دیگچی اوندھی پڑی نظر آئی اور ساتھ ہی دمدار ستارے کی طرح ایک لمباسا گیلا دھبہ دکھائی دیا، جو یقیناً چائے کا تھا، جسے حویلی کے کچے فرش نے اپنے سینے میں اتار لیا تھا اور اس میں سے ہلکی ہلکی بھاپ ابھی تک اٹھ رہی تھی۔ اس کی چھوٹی بہن برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی تلاوت کر رہی تھی اور اس کے ماں باپ چولہے کے قریب بیٹھے حسبِ عادت لڑ رہے تھے۔
’’میں نے تم سے زیادہ نکھٹو اور نکمی عورت نہیں دیکھی۔ تم سے ٹھیک طرح سے چائے بھی نہیں بنائی جا سکتی۔ اسے تم چائے کہتی ہو؟ نِرا پانی گرم کر کے منہ پر دے مارا ہے۔ نہ رنگ، نہ روپ، نہ ذائقہ۔ صبح ہی صبح دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ تمہاری کام چوری کی وجہ سے آج پھر مجھے خالی پیٹ ہی کام پر جانا پڑے گا۔ تم نے ہمیشہ میرے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ کام سے لوٹوں یا جاؤں، کبھی تم نے ڈھنگ کا کھانا نہیں دیا۔ جانوروں کی طرح کماتا ہوں، مگر تمہیں ذرا بھی احساس نہیں۔ تم عورت نہیں، جلاد ہو جلاد۔ مجال ہے جو رتی بھر خاوند کی فکر ہو۔‘‘ اس کے باپ نے کاٹ دار لفظوں کے زہریلے تیر اس کی ماں کی روح میں اتار دیئے۔
’’اگر جانوروں کی طرح کما کر لاتے ہو تو میری تلی پر تو نہیں رکھتے نا۔۔۔؟ سب کچھ جوئے میں ہی اڑا دیتے ہو۔ کبھی روپے آدھ کی کوئی چیز لائے ہو تو بتاؤ۔ ایک تو خرچے کے پیسے نہیں دیتے ہو اور اوپر سے پکی پکائی میں سے کیڑے نکالتے ہو۔ اگر گھر کا کھانا پینا اتنا ہی زہر لگتا ہے تو ہوٹل کے کھانے چاٹ کر آیا کرو، یہاں میرا دماغ مت چاٹا کرو۔ اگر میں کشیدہ کاری سے ہاتھ کھینچ کر آرام سے بیٹھ جاؤں تو دیکھتی ہوں کہ تمہیں کیسے پکی پکائی ملتی ہے؟ ایک تو محنت مزدوری کر کے گھر کو سنبھال رکھا ہے اور اوپر سے تمہاری کڑوی کسیلی باتیں سن سن کر دماغ پکنے لگتا ہے۔ نہ بیوی کی کوئی قدر، نہ حق حقوق کی باتیں، نہ اولاد کی کوئی پرواہ، نہ گھر کی کوئی خیر خبر کہ کیسے دن گزر رہے ہیں؟ خرچہ کس طرح پورا ہوتا ہے؟ کس نے کیا کھایا ہے؟ بس آ جاتے ہو پکی پکائی پر مشٹنڈوں کی طرح، جواری کہیں کا۔‘‘
اس کی ماں نے حلق کے زور پر چنگھاڑتے ہوئے کئی پٹاخے ایک ساتھ چھوڑ دئیے۔ وہ ماتھے پر کپڑا باندھے چولہے پر بیٹھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام رکھا تھا۔ اس کے سامنے رکھے کشکول میں آٹے کے تین چار پیڑے گندھے پڑے تھے۔ چولہے پر خالی توا چڑھا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف سے آگ کی لپٹیں لمحہ بھر کے لئے باہر جھانک کر دوبارہ اندر منہ چھپا لیتی تھیں۔
’’خبر دار، جو تم نے پھر مجھے جواری کہا۔۔۔۔ ورنہ چٹیا سے پکڑ کر گھر بھر میں گھسیٹوں گا۔ اپنی زبان مٹھی میں دبا کے رکھ بد معاش خاندان کی بدمعاش رن۔‘‘
اس کے باپ نے بھی غصے سے پھنکار کر دائیں ہاتھ کی انگلی اس کی ناک کے قریب لے جاتے ہوئے کہا۔ اس کا غصہ اور اس کی منتشر حالت دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ ابھی اپنی بیوی کو چیر پھاڑ کے رکھ دے گا۔
’’خبردار، جو میرے خاندان پر کوئی بات کی۔ تم اپنے خاندان کی خبر لو۔ ہفتہ بھر سے تمہارا بڑا بھائی جیل میں بند پڑا اپنے خاندان کی جو ناک ناموس اونچی کر رہا ہے، وہ سب جانتے ہیں۔ خاندان کا ہر فرد ایک سے بڑھ کر ایک لوفر لفنگا اور ہر وقت مرنے مارنے پر تیار۔ پتہ نہیں میرے باپ نے کیا چیز دیکھ کر مجھے تمہارے پلے باندھ دیا تھا۔ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ نہ شکل و صورت، نہ سیرت، نہ اخلاق، نہ تعلیم، نہ خاندان۔ میری جگہ کوئی اور ہوتی تو ایک دن سے زیادہ نہ ٹک پاتی۔۔۔۔۔ کب کی یہاں سے دفع ہو چکی ہوتی۔‘‘ اس کی ماں نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔ اس کی آواز اب رندھ گئی تھی اور آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں، اب بھی وقت ہے دفع ہو جاؤ۔ روکا کس نے ہے تمہیں۔ جب سے اس گھر میں تمہارے منحوس قدم پڑے ہیں، گھر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایسے گھر سے تو کسی فٹ پاتھ کا کونا پکڑ لوں، تو کم از کم چین کی نیند تو نصیب ہو گی۔‘‘
اس کے باپ نے چیختے ہوئے کہا۔ تھوک اس کے ہونٹوں کے کناروں پر جھاگ بن کر نکل آیا تھا اور غصے کا پرندہ اس کے سر پر پھڑ پھڑا رہا تھا۔
وہ دونوں شریف سے بالکل بے خبر لفظوں کے تھپڑ پوری قوت سے ایک دوسرے کی روح پر جڑ رہے تھے۔ شریف جانتا تھا کہ ان کی یہ بیگانگی حسبِ معمول تھی۔ جب وہ لڑنے پر آتے تو انہیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ جھگڑ وہ رہے تھے مگر اذیت کا بچھو شریف کو ڈس رہا تھا۔ وہ کربناک حالت میں غصے کے پسینے میں شرابور انہیں گھورے جا رہا تھا جو اس سے بے نیاز لڑائی کی دلدل میں گردن تک ڈوبے ہوئے تھے۔
’’کسی دن یہاں سے دفع ہو کر تمہارا یہ ارمان بھی پورا کر دوں گی۔ تم جیسے بے قدرے سے اس کے علاوہ اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے؟ ایک تو ساری عمر تمہارے ساتھ غربت کی جھلسا دینے والی دھوپ تاپی۔ جس حال میں بھی تم نے رکھا، اف تک نہ کیا۔ نہ کبھی کوئی فرمائش کی، نہ تنگدستی کی شکایت۔ تمہارا ہاتھ بٹانے کے لئے راتیں آنکھوں میں کاٹیں اور کشیدہ کاری کر کے گھر کی ڈانواں ڈول گاڑی کو کھینچا۔ اور نتیجہ یہ کہ اوپر سے کوئی نام نیکی نہیں۔ ساری عمر سوائے مار پیٹ، گالم گلوچ اور ذلالت کے تم نے مجھے دیا کیا ہے؟‘‘
اس کی ماں نے روہانسی اور لرزتی آواز میں کہا اور ساتھ ہی اس کی سسکیاں گھر بھر میں گونجنے لگیں۔ وہ آنسو بھی بہا رہی تھی اور بار بار چنی کے پلو سے اپنی آنکھیں بھی پونچھ رہی تھی۔ شریف جانتا تھا کہ ان کی لڑائی کا اختتام ہمیشہ اس کی ماں کے رونے پر ہوتا تھا۔ حقیقت میں اس کی ماں کا رونا اس کے باپ کی شکست کا ڈنکا ہوتا اور ایسے موقع پر وہ چپ چاپ گھر سے نکل جاتا۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا باپ ایک جھٹکے سے اٹھا اور صحن میں اوندھے منہ گری دیگچی کو ایک زوردار ٹھوکر مارتے ہوئے گھر سے چلا گیا۔ شریف نے اپنی بہن کی طرف دیکھا جو قرآن بند کئے، اپنے چہرے کو ہتھیلیوں پر رکھے کسی سوچ میں گم بیٹھی تھی۔ یقیناً اسے بھی صبح صبح کی لڑائی نے رنجیدگی کے دشت میں لا کھڑا کیا تھا۔ شریف چند لمحے آنسو بہاتی اپنی ماں کو بے بسی سے دیکھتا رہا اور پھر ہاتھ منہ دھو کر بِنا ناشتہ کئے چپ چاپ اپنے کام پر چلا گیا۔
شریف نے بچپن سے ہی اسی ابتر اور ناگوار ماحول کی آلودہ آب و ہوا اپنی سانسوں میں اتاری تھی۔ اسے جب سے شعور نے گود لیا، اس نے اپنے والدین کو لڑائی جھگڑے کے کیچڑ میں لت پت دیکھا۔ ان کی آپس میں کبھی نہیں بن سکی تھی۔ اس کا باپ بلا کا جواری تھا۔ جو کچھ کماتا، جوئے میں ضائع کر دیتا۔ کبھی کبھار گھر سے بھی پیسے چوری کر لیتا جو اس کی ماں کی کشیدہ کاری کی اجرت ہوتی۔
شریف کو اس بات کا ادراک تھا کہ ساری عمر غربت کا کڑوا اور بدبو دار پانی پیتے پیتے ان کے والدین کے حوصلوں کی آ ہنی دیوار زنگ آلود ہو گئی اور غربت چڑ چڑے پن کا روپ دھار کر ان دونوں کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اب وہ اس حال کو آ پہنچے تھے کہ لمحہ بھر کے لئے بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ بلکہ اب تو لڑائی کا سانپ کنڈلی مارے ہر لمحہ اس کے گھر کی دہلیز پر بیٹھا رہتا۔ وہ خود والدین کی محبت و شفقت کی بارش تلے نہیں نہا سکا تھا۔ شاید اس لئے اس کی روح ہمیشہ سے بنجر اور پیاسی رہی تھی۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا مگر وہ آٹھویں سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ گھر کے بے رحم حالات نے اس کے ہاتھ سے کتابیں چھین کر اسے ایک پرنٹنگ پریس پر لا کھڑا کیا، جہاں وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ کام کرتے کرتے اب بائیس سال کی عمر کو آ پہنچا تھا۔ باپ کی سخت اور جھگڑالو طبیعت کی وجہ سے اسے کبھی بھی اپنے باپ سے محبت نہیں ہو سکی تھی۔ البتہ کبھی کبھار اپنی ماں کو وہ گھر کے ابتر حالات اورسوگوار ماحول کا آئینہ ضرور دکھاتا رہتا۔ مگر جب اس کی ماں اس کے باپ کے ہتک آمیز رویے اور اس کے ساتھ گزری زندگی کی تصویریں اس کے سامنے رکھتی تو وہ اپنی تمام تر ہمدردیاں اپنی ماں کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا۔ لیکن دونوں کی لڑائی میں اس نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ایک بار اس نے اپنی ماں کی ہمدردی میں اپنے باپ سے آنکھیں نکال کر بات کی تو ماں نے الٹا اسے ہی ایک زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا تھا، جس کی گونج آج بھی اس کے کانوں میں قید تھی۔ تب سے آج تک پھر اس نے کبھی ان کی لڑائی اپنے اوپر طاری نہیں کی تھی اور ہر وقت اپنے اوپر چپ کی چھتری تانے رکھتا۔ وہ صبح سویرے کام پر روانہ ہوتا اور رات گئے واپس آتا۔
شاید رات گیارہ بجے کا عمل تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ شریف اپنے کمرے میں رضائی اوڑھے سو رہا تھا۔ اس کی ماں اور بہن دوسرے کمرے میں ایک ہی چارپائی پر سو ئی ہوئی تھیں۔ اس کی ماں تھوڑی دیر پہلے ہی کشیدہ کاری سے فارغ ہو کر لیٹی تھی، مگر ابھی تک پوری طرح سوئی نہیں تھی۔ دو تین بار کی دستک کے بعد وہ ناگواری سے اٹھی اور بغیر کسی پوچھ پریت کے جا کر دروازہ کھول دیا۔ وہ جانتی تھی کہ دروازے پر اس کا نکما خاوند ہی ہو گا۔ جس نے اندر داخل ہوتے ہی اس سے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا
’’مجھے دو سو روپے کی سخت ضرورت ہے۔ تم مجھے پیسے دے دو، ایک دو دنوں میں تمہیں لوٹا دوں گا۔‘‘ سردی بھاپ بن کر اس کے منہ سے نکل رہی تھی۔
’’میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں کہہ رہا ہوں نا کہ ایک دو دنوں میں واپس کر دوں گا۔‘‘ اس کے خاوند نے غصے میں کہا، جس کے لفظ لفظ میں تلخی گردش کر رہی تھی۔
’’میں نے کہہ جو دیا ہے کہ ایک روپیہ بھی نہیں ہے میرے پاس، تو پھر کہاں سے لاؤں۔۔۔؟‘‘ اس نے اسی طرح بے رخی سے کہا اور دوبارہ لحاف میں دبک گئی۔
’’دن رات کماتی ہو۔۔۔ آخر جا تا کہاں ہے تمہارا پیسہ۔۔۔؟‘‘ اس کے خاوند نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔
’’دن رات اگر محنت کرتی ہوں تو تم لوگوں کے پیٹ کا ہی جہنم بھرتی ہوں۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ کما کما کر تمہارے ہاتھ پر رکھتی رہوں اور تم جوئے میں اڑاتے رہو۔‘‘ اس نے خاوند کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
’’میں تمہارا مجازی خدا ہوں مگر ٹکے کی بھی حیثیت نہیں ہے میری اس گھر میں۔ تمہیں میری کوئی پرواہ نہیں۔ آخر میرے بھی کچھ حقوق ہیں تم پر۔۔۔۔ کبھی خیال آیا ہے تمہیں۔۔۔۔؟‘‘ اس کے خاوند نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
اس شور و غل میں ان کی بیٹی کی آنکھ کھل گئی۔ معاملہ بھانپتے ہی وہ سہمی سہمی اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔
’’میں نے ہمیشہ تمہارا خیال رکھا ہے اور شروع دن سے ہی تمہاری ضرورتیں پوری کر رہی ہوں، مگر جواب میں تم نے مجھے کیا دیا؟ مار پیٹ، بے عزتی، گالیاں، ذلالت۔ کیا ایک بیوی کے یہی حق حقوق ہوتے ہیں۔۔۔؟‘‘ اس نے چنگھاڑتے ہوئے اپنے خاوند کو جواب دیا جو غیض و غضب کی تصویر بنا اس کے سر پر کھڑا تھا۔
’’میں یہاں تمہاری بکواس سننے نہیں آیا۔ سیدھی طرح سے پیسے نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دو۔‘‘ اس نے بدستور غصیلے لہجے میں پھنکارتے ہوئے کہا۔
غصے کی شدت سے وہ لال انگارہ بنا ہوا تھا۔ اس کے بگڑے تیور دیکھتے ہوئے اس کی بیٹی سہم کر اپنی ماں کے پہلو میں دبک گئی۔
’’میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہہ رہی ہوں کہ تمہیں دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔
’’تم اس طرح سے نہیں مانو گی۔ اٹھو اور شرافت سے مجھے پیسے دو۔‘‘
اس نے چلا کر کہا اور اپنی بیوی کا دایاں ہاتھ پکڑتے ہوئے ایک جھٹکے سے اسے رضائی سے باہر گھسیٹ ڈالا۔
’’چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔ کوئی حرام کی کمائی نہیں ہے میری جو تمہیں اٹھا کر دے دوں، جاؤ دفع ہو جاؤ۔‘‘
اس نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور اپنے آپ کو سنبھا لا، جو چارپائی سے نیچے لڑھک گئی تھی۔
’’میں آخری بار تم سے کہہ رہا ہوں، مجھے پیسے دے دو، ورنہ بہت برا ہو گا تمہارے لئے۔‘‘ اس نے حلق کے زور پر دھاڑتے ہوئے کہا۔ وہ اس کے سر پر جلاد بن کر کھڑا تھا۔
’’تم چاہے جو بھی کر لو۔ میں تمہیں پھوٹی کوڑی بھی نہیں دوں گی۔‘‘ اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔
اس کا یہ جواب سن کر وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے کمرے میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اس نے غصے میں پاگل ہو کر اپنی بیوی کو چٹیا سے پکڑ کر چارپائی سے گھسیٹتے ہوئے نیچے زمین پر پٹخ دیا اور اس پر تھپڑوں لاتوں کی بارش کر دی۔ اس کی بیٹی اپنی ماں کواس طرح بے دردی سے پٹتے دیکھ کر تڑپ کر اٹھی اور ایک زوردار چیخ مار کر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔ کمرے میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اس کی اپنی چیخ و پکار۔۔۔۔ اس کے خاوند کا غیض و غضب اور اس کی بیٹی کی درد بھری آہ و بکا نے کمرے کو ماتم کدہ بنا ڈالا۔ شاید وہ دیر تک مار کھاتی رہتی، اگر شریف دوڑتا ہوا آ کر اپنے باپ کو دھکا نہ دیتا۔ اس کا باپ گرتے گرتے بچا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے غصے کی شدت سے ہانپتا ہوا شریف کھڑا تھا۔
’’الو کا پٹھا۔۔۔۔ باپ پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔‘‘ اس نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا اور شریف کو زور دار دو تھپڑ جڑ دئیے اور سرکے بالوں سے پکڑ کر چارپائی پر پٹخ دیا۔ پھر غصے سے پھنکتا اور گالیاں نکالتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ ماں نے خوف سے کانپتی اپنی بیٹی کو سینے سے لگا تے ہوئے شریف کو دیکھا جو چارپائی پر اوندھے منہ گرا پڑا تھا اور اس کا وجود کانپ رہا تھا شاید وہ رو رہا تھا۔ اس کی ماں اپنے اور اپنی بیٹی کے آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھی اور شریف کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے اٹھایا اور پیار کرتے ہوئے اسے اپنے کمرے میں بھیج دیا۔ وہ بے بسی سے آنسو بہاتی اپنی ماں کو رحم بھری نظروں سے دیکھتا ہوا چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پھر وہ اپنی کانپتی ہوئی بیٹی کو سینے سے لگا کر لحاف میں دبک گئی۔ اس کی بیٹی کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ لگتا تھا اچھل کر باہر آ گرے گا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی سسکیاں کمرے میں ابھی تک گونج رہی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی کو نہایت ملائمت اور شفقت سے سہلانے لگی۔ مگر خود اس کے اپنے دل و دماغ میں کہرام مچا ہوا تھا۔ اسے اپنے خاوند پر بے پناہ غصہ آ رہا تھا، جس نے اسے کپاس کی طرح دھن ڈالا تھا۔ کتنی ہی دیر تک وہ اپنے خاوند کے ایسے سنگدلانہ رویے پر کڑھتی رہی اور دل ہی دل میں اسے ڈھیروں کوسنے دیتی رہی۔ آنسوؤں نے اس کی آنکھوں کو مسکن بنایا ہوا تھا، اور سوچوں نے اس کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ سوچتے سوچتے اچانک وہ ماضی کے حصار میں داخل ہو گئی۔ ماضی کے سالہا سال پھلانگتے پھلانگتے اس کی نظروں میں اس کے ماں باپ کے چہرے ابھر آئے۔ وہ بھی تو ہر وقت لڑتے رہتے تھے۔ اس کا باپ نشہ کرتا تھا، اس کی یہی عادت اس کی ماں کو پسند نہیں تھی اور دونوں کے درمیان ہر وقت ایک جنگ چھڑی رہتی۔ جب وہ بیاہ کے آئی تو یہاں کے حالات بھی اس کے اپنے گھر جیسے ہی تھے۔ صرف منظر اور کردار تبدیل ہوئے تھی، باقی کہانی وہی تھی۔ اپنے خاوند کے ساتھ گزرے دنوں کی تمام تلخیاں اس کی آنکھوں میں اتر آئیں اور زندگی کی محرومیاں تپتی سلاخیں بن کر اس کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ اپنے ماں باپ کی لڑائی، پیار محبت کی محرومی، احساسِ کمتری، خاوند کا جابرانہ رویہ، اس کی گالم گلوچ اور مار پیٹ اس کے ذہن پر سوار ہو گئی۔ وہ سالہا سال سے ایسی زندگی جیتے جیتے اکتا گئی تھی۔ ایسی ذلت بھری زندگی آخر کب تک؟ اس کے ذہن میں سوال ابھرا، مگر جواب اسے ذہن کے کسی بھی گوشے سے نہ مل سکا۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ مستقبل کی دہلیز تک آ پہنچی مگر وہاں بھی اسے دور دور تک گھنگور اندھیرے نظر آنے لگے اور کہیں کوئی کرن نہیں تھی۔ وحشت خیز اندھیرے دیکھ کر وہ ڈر گئی اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ سینے میں حبس بھر گیا اور دھڑکن رکنے لگی۔ اسے ایسے پرہول مستقبل سے خوف آنے لگا۔ وہ بے حال ہو گئی، اس کے اندر سے بے چینی کی بے شمار چیونٹیاں نکل کر اس کے جسم پر پھیل گئیں اور جگہ جگہ اسے کاٹنے لگیں، اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے جسم میں ڈھیروں سوئیاں چبھو دی ہوں۔ وہ اذیت سے تڑپ اٹھی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا، دور دور تک اسے نہ کوئی ہمدرد نظر آیا اور نہ ہی بچاؤ کا کوئی راستہ دکھائی دیا۔ بے چینی کے اس عذاب کو جھیلتے جھیلتے وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر گئی۔ نجات کے تمام راستے اوجھل تھے۔
اچانک اس کے دل میں ایک خیال نے ننھی سی چٹکی لی اور لمحہ بھر میں اس خیال نے دھوئیں کی طرح پھیل کر اس کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ ایک عجیب سی راحت محسوس کرنے لگی۔ خود کشی کے خیال نے اس کے انگ انگ میں سکون کی انگنت لہریں دوڑا دیں۔ اس نے دیکھا کہ ایک طرف زندگی کی پریشانیوں کی لامحدود ٹیڑھی میڑھی تاریک پگڈنڈیاں بچھ رہی تھیں اور دوسری طرف ان پگڈنڈیوں سے چھٹکارے کی چھوٹی سے امید۔۔۔ خود کشی کا راستہ اپنی بانہیں کھولے اسے بلا رہا تھا۔ اس نے پریشانیوں کی پگڈنڈیوں کو دیکھا، جو ہر لمحہ الجھتی جا رہی تھیں اور ہر پگڈنڈی پر ببول کے بڑے بڑے نوکیلے کانٹے سر نکالے کھڑے تھے۔ وہ کانپ گئی۔ اس نے خودکشی کا راستہ دیکھا۔ انتہائی مختصر اور بالکل صاف۔ اسے اس راستے پر چلنا بہت آسان لگا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اسی راستے پر چلے گی۔ وہ فوراً تیار ہو گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ رات کا کون سا پہر ہے۔ اس کے خاوند کی چارپائی ابھی تک خالی پڑی تھی۔ اس کی بیٹی بھی پتہ نہیں سسکیاں بھرتے بھرتے کب کی سو چکی تھی۔ وہ جانے سے پہلے کتنی ہی دیر تک اپنی بیٹی کوافسردہ نظروں سے دیکھتی رہی، جس کے اداس چہرے پر معصومیت پر پھیلائے سو رہی تھی۔ ان آخری لمحات میں اس نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنی بیٹی کو خوب پیار کیا۔ اس نے اسے درجنوں بوسے دے ڈالے۔ آخری نشانی کے طور پر اس نے اپنی بیٹی کے گالوں پر اپنے گرم گرم آنسوچھوڑے۔ اس نے ایک تاسف بھری نظر اپنی بیٹی پر ڈالی اور اپنی آنکھیں پونچھتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب اس کے اور خودکشی کے راستے کے درمیان کوئی حائل نہیں تھا۔ جو اس کی تمام پریشانیوں کی بدلے اسے ابدی سکون دینے والا تھا۔ آگے بڑھتے بڑھتے پتہ نہیں کہاں سے شریف کو آخری بار دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں بیدار ہوئی، وہ چلتے چلتے رک گئی۔ واپس مڑی اور دھیرے دھیرے شریف کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ بند کواڑوں کے سامنے جا کر ایک پل کے لئے رکی۔ اسے ڈر تھا کہ ذرا سا کھٹکا اس کے اور خود کشی کے راستے میں آ ہنی دیوار کھڑی نہ کر دے۔ اس نے نہایت آہستگی سے دروازہ کھولا۔ جونہی وہ اندر داخل ہوئی، اچانک دہشت کا ایک بہت بڑا عفریت پوری قوت سے اس کے اوپر جھپٹا اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑی۔ شریف پنکھے کے ساتھ بندھی رسی سے کمرے کے بیچوں بیچ لٹکا ہوا تھا۔
٭٭٭
خساروں کی بیل
جب سے بخشو کے ایمان کی اجلی چادر کو تنگدستی کی سیاہی نے داغدار کیا تھا، تب سے وہ دودھ میں پانی ملانے لگا تھا۔ پہلے دن پانی ملاتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپے تھے لیکن اس کے بعد تو جیسے اس کے ہاتھ شل ہی ہو گئے۔ وہ روزانہ دودھ دوگنا کر کے شہر لے جاتا اور شام کو لوٹتا تو نوٹ اس کی جیب سے باہر جھانکتے ہوئے آسودگی کی کتنی ہی کہانیاں سنا رہے ہوتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آمدنی بڑھنے لگی۔ حالات نے ابتری کا لباس اتار کر خوشحالی کی نئی پوشاک پہن لی۔ اس کے بچوں کے چہروں سے ویرانیوں کے کھنڈرات معدوم ہوتے چلے گئے اور خوشی و طمانیت کی روشنی ان کے چہروں سے پھوٹنے لگی۔ اپنے بچوں کے زندگی سے بھرپور اور آسودہ چہرے دیکھ کر وہ سکون کی بارش میں بھیگنے لگا۔ خوشحالی کے اس راج میں اس کے چھوٹے سے مکان نے حویلی کا روپ دھار لیا اور اس کے ڈھور ڈنگروں کی تعداد بھی کہیں سے کہیں جا پہنچی اورآسودگی کے کارواں اس کی حویلی میں پڑاؤ ڈالنے لگے۔ اب یہ اس کا روز کا معمول بن چکا تھا کہ وہ صبح سویرے دودھ دوہ کر اس میں خاطر خواہ پانی ملاتا اور شہر روانہ ہو جاتا۔
حسبِ معمول آج شام کو جب وہ لوٹا تو حیرت نے اسے سکتے میں ڈال دیا۔ برآمدے کی چار دیواری کے مغربی کونے سے کانٹوں کی ایک بیل نکلی ہوئی تھی، جس پر انتہائی نوکیلے بڑے بڑے کانٹے سر نکالے کھڑے تھے۔ وہ حیرت کا چشمہ آنکھوں پر لگائے کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کانٹوں بھری ایسی عجیب بیل آج تک نہیں دیکھی تھی۔ اس نے بظاہر تو اسے قدرت کا نرالا پن سمجھ کر نظر انداز کر دیا لیکن حقیقت میں یہ وحشت خیز بیل اس کے دل میں جڑ پکڑ گئی۔ آتے جاتے غیر ارادی طور پر اس کی نظر اس پر ضرور پڑتی۔ اس کی چمکتی آنکھوں میں آہستہ آہستہ پریشانی کا اندھیرا پھیلنے لگا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ بیل ناقابلِ یقین حد تک تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس کے نوکیلے کانٹے اور بھی موٹے اور بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔ اِدھر بیل بڑھ رہی تھی اور اُدھر وحشت کے کانٹے اس کی روح میں اترتے چلے جا رہے تھے۔
ایک شام جب وہ کام سے واپس آیا تو دم بخود رہ گیا، بیل دیوار کو عبور کر کے برآمدے کی چھت سے ہوتی ہوئی اُس کمرے کے روشن دان کی طرف مڑ گئی تھی، جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سوتا تھا۔ دیوار پر پھیلی بیل کے خوفناک نوکیلے کانٹے دیکھ کر اسے یوں لگا، جیسے وہاں کسی نے بڑی بڑی کیلیں ٹھونک دی ہوں۔ یہ گمبھیر صورتِ حال دیکھ کر پریشانی کسی خودرو جھاڑی کی طرح سے اس کے چہرے پر اگ آئی۔ وہ کافی دیر تک پریشانی کے عالم میں اس بیل کو دیکھتا رہا اور بالآخر اس نے چپ چاپ درانتی اٹھائی، انتہائی احتیاط سے بیل کو کاٹا اور گھسیٹ کر باہر پھینک آیا۔ کانٹوں سے چھٹکارہ پا کر دیوار بھی اسے مسکراتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے بہت راحت ملی اور اس نے اپنے اندر اطمینان کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، جس کی سنہری دھوپ میں وہ سکون محسوس کرنے لگا۔ عرصے بعد وہ پہلی بار رات کو بے فکری کی نیند سو یا۔ مگر صبح جب وہ اٹھا تو اس کی طمانیت کے دریا میں بھنور پڑ گئے اور وہ بھونچکا رہ گیا۔ کانٹوں کی بیل دیوار سے ہوتی ہوئی روشن دان تک پہنچی ہوئی تھی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے تو بیل کو کاٹ ڈالا تھا، پھر یہ کیسے اگ آئی؟ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ سکا اور وہ حیران و پریشان کافی دیر تک بیل کو دیکھتا رہا۔ کام پر دیر ہو جانے کے خدشے کے باعث وہ اس پریشان کن صورتِ حال سے نمٹے بغیر چلا گیا۔ جب شام کو واپس آیا تو یہ دیکھ کر پریشانی کے ان گنت کانٹے اس کے چہرے پر چبھتے چلے گئے کہ بیل پہلے سے بھی زیادہ پھیل چکی تھی اور اب وہ روشن دان کے راستے کمرے کے اندر بھی جھانک رہی تھی۔ خوف کا خونخوار درندہ اس کی طرف غضبناک نظروں سے دیکھنے لگا۔ اسے جھرجھری سی آ گئی۔ ایک لمحے کی بھی دیر کئے بغیر اس نے دوبارہ بیل کو کاٹا اور باہر پھینک آیا، مگر فکر اور وسوسوں کی کنکریاں اس کے دل و دماغ پر پڑتی رہیں، جنہوں نے اسے رات کو سونے نہیں دیا۔ اس نے رات کو کئی کئی بار اٹھ کر دیوار کو دیکھا، بار بار ہاتھ پھیر کر تسلی کی کہ کہیں بیل پھر سے تو نہیں اگی ہوئی؟ مدھم خوشی کی ایک ہلکی سی لہر اس کے اندر تک دوڑتی چلی گئی، بیل کا کہیں بھی نام و نشان تک نہیں تھا۔ یہ خوش کن صورتِ حال اسے سکون کی وادیوں میں لے گئی جہاں وہ چین کی نیند سو گیا۔ مگر صبح اٹھتے ہی وحشت نے اس کے چہرے پر خوف کی کئی لکیریں کھینچ کر اسے محصور کر ڈالا۔ بیل ایک بار پھر دیوار کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ اس کی سمجھ کا بے بال و پر پرندہ ایک انچ بھی پرواز نہ کر سکاکہ یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پریشانی کا تار تار لبادہ اوڑھے وہ دودھ لے کر شہر روانہ ہو گیا۔ جب شام کو لوٹا تو وحشت کی بے شمار جونکیں اس کے جسم سے چمٹ کر اس کا خون نچوڑنے لگیں، بیل روشن دان سے گزر کر کمرے کی دیوار پر پاؤں پسار چکی تھی۔ اس نے ایک بار پھر ہمت سے کام لیتے ہوئے بیل کو کاٹا اور گھر سے بہت دور واقع ایک بے آب کنویں میں پھینک آیا۔ بیل کاٹنے کے باوجود پوری رات اندیشوں کے گدھ اس کا گوشت نوچنے کے لئے اسے گھیر چکے تھے، وہ خوف کے مارے سو نہ پایا، بلکہ اس نے اپنی چارپائی صحن میں ہی لگا دی اور پوری رات اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے برابر دیوار کو گھورتا رہا کہ آخر ایک ہی رات میں بیل کیسے اگ آتی ہے؟ جب تک وہ جاگتا رہا، ایک بھی کانٹا اسے دیوار پر نظر نہ آیا مگر کب تک وہ جاگ پاتا؟ رات کے آخری پہر میں نیند نے اسے پچھاڑ ڈالا اور وہ سو گیا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر سویا تھا کہ اچانک اسے اپنے بچوں کے چیخنے اور کراہنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا اور سیدھا ان کے کمرے کی طرف بھاگا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو ششدر رہ گیا اور دہشت کے ان گنت ہتھوڑے اس کے دماغ پر برسنے لگے۔ اس کے لہولہان بیوی بچے درد کی شدت سے بلبلا رہے تھے۔ بیل دیوار سے اتر کر ان کی چارپائیوں اور جسموں سے لپٹی ہوئی تھی اور اس کے بڑے بڑے نوکیلے کانٹے ان کے جسموں میں اتر چکے تھے، جن سے خون کی بے شمار دھاریں پھوٹ رہی تھیں۔ وہ کانپ اٹھا۔ اس نے فوراً بیل کو کاٹا اور بہت دور جا کے زمین میں دفنا دیا۔ اس کے چہرے پر سیاہ رات چھا چکی تھی۔ اس کے بیوی بچے اس کے سامنے تکلیف میں تڑپ رہے تھے اور وہ بے بسی کی رسیوں سے بندھا سوائے انہیں دیکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکا۔ وہ بجھا بجھا سا اپنے کام پر چلا گیا۔ مگر شام کو جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کا ما تھا ٹھنکا۔ منحوس بیل ویسے کی ویسی کمرے کے اندر تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اس معمے کو سلجھا نہ پایا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بیل کو کاٹا اور اب کی بار اسے جلا دیا۔ وہ اس وقت تک وہاں کھڑا رہا، جب تک کہ ایک ایک کانٹے نے راکھ کا لباس نہیں پہن لیا۔ مگر جونہی وہ صبح اٹھا تو تکلیف کی شدت سے چیخ اٹھا، خوف کے بے شمار بچھو اس کے جسم سے چمٹے اسے ڈنک مار رہے تھے۔ بیل اسی طرح کمرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بیوی بچے خون میں لت پت تھے اور کمرہ ان کی لرزتی آہوں سے گونج رہا تھا۔ بیل کے نوکیلے خوفناک کانٹے ان کے جسموں کے آر پار اترے ہوئے تھے۔ دہشت اور پریشانی کے شعلوں میں وہ بری طرح سے جلنے لگا۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ اس نے بہت سوچا، مگر اس کی سوچ کا کاغذ کورا ہی رہا، وہ اس پر کچھ بھی تحریر نہ کر سکا۔ اس نے کئی بار بیل کو کاٹا، اسے جلایا، زمین میں دفنایا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کئے، غرضیکہ بیل سے پیچھا چھڑانے کے کئی طریقے آزما ڈالے لیکن وہ بار بار اگ آتی اور ہر صبح اس کے بیوی بچے اس میں جکڑے اور خون میں لتھڑے ہوئے ہوتے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو اس عذاب میں تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں پریشانی کا ملگجا دھواں بھر گیا، جس نے اس کی ساری ہمت کو آلودہ کر ڈالا۔ اس مشکل وقت میں نیند کی مہربان پری بھی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ رات بھر جاگ جاگ کر اس کی صحت گرنے لگی۔ چہرہ ہلدی ہو گیا، گال اندر کو دھنس گئے، آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے اور کمزوری اس کے جسم سے چمٹ گئی۔ وہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے کسی ڈھانچے پر کھال منڈھ دی گئی ہو۔ اس کی پریشان بیوی سے اپنے شوہر کی یہ ابتر حالت دیکھی نہ گئی اور وہ اپنا دل مسوس کر رہ گئی۔ خاوند کے کام پر جانے سے پہلے وہ اس کے پاس آئی اور کہا۔
’’مجھے تو لگتا ہے کہ یہ مصیبت اس دن سے ہمارے گھر میں آئی ہے جب سے تم نے دودھ میں پانی ڈالنا شروع کیا ہے۔ ہم حق حلال کی روکھی سوکھی کھالیں گے، مگر حرام کی کمائی پر پل کر مفت کا عذاب اپنے گلے نہیں لے سکتے۔ میں کہتی ہوں ملاوٹ سے باز آ جاؤ اور اس گناہ سے توبہ کر لو۔ تم دیکھنا یہ عذاب ہمارے سروں سے خود بخود ٹل جائے گا۔ اللہ کے واسطے تم میری بات مان کر تو دیکھو۔‘‘ بیوی نے اس کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی بیوی کی بیچارگی پر تڑپ اٹھا۔ اس نے اس کی بات پر بہت سوچا اور یہ بات اس کے دل کو لگی۔ اس نے اس گناہ سے توبہ کرنے کی ٹھان لی۔ پہلی دفعہ اس کے تاریک ذہن میں روشنی کا جھماکا سا ہوا اور ہر طرف اجالا پھیل گیا۔ اس اجالے میں وہ یہ دیکھ کر دہشت زدہ رہ گیا کہ وہ خود ہی اپنے گھر میں بیل لگا رہا تھا۔ اسے جھرجھری سی آ گئی اور اس نے ملاوٹ سے ہمیشہ کے لئے سچے دل سے توبہ کر لی۔ عرصہ بعد خالص دودھ لے کروہ شہر روانہ ہو گیا۔ پہلی بار وہ اپنے آپ کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے مدتوں سے اس کے سینے پر رکھا بہت بڑا پتھر ہٹ گیا ہو۔ اپنے پہلے دکاندار کے پاس پہنچ کر اس نے کہا
’’بھئی شیدو! آج میں بالکل خالص دودھ لایا ہوں۔ حرام ہے جو پانی کا ایک قطرہ بھی ملایا ہو، اور اب اسی طرح ہی خالص دودھ لایا کروں گا، ملاوٹ سے میں نے توبہ کر لی ہے۔‘‘ شیدو اس کی بات سن کر حیران رہ گیا
’’واہ بخشو بھئی واہ! کیا تبدیلی آئی ہے تمہارے ایمان میں، کمال ہے۔ مگر بخشو بھئی! میں تو اس دن سے ہی پانی ملا دودھ بیچتا آ رہا ہوں، جب تم مجھے شروع دنوں میں خالص دودھ دیا کرتے تھے۔ اب تو میرے گاہکوں میں میرا ایک نام بن چکا ہے۔ انہیں خالص دودھ بیچ کر میں اپنے کاروبار کا بیڑا غرق نہیں کر سکتا، اور ویسے بھی میں نے اپنا بھرا پرا گھر چلانا ہے، اگر اسی طرح خالص دودھ بیچتا رہا تو کمائی ہو چکی۔ کیا سمجھے بخشو بھئی؟‘‘
دکاندار نے بخشو سے دودھ سے بھرا برتن لیتے ہوئے کہا۔ بخشو اسے سمجھانا چاہتا تھا کہ یہ ایک غلط کام ہے، جس کی بہت بھیانک سزا ملتی ہے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ سمجھانے سے کہیں وہ بگڑ ہی نہ جائے اور اس سے دودھ لینا بند نہ کر دے۔ وہ وہاں سے چپ چاپ رخصت ہو گیا۔ اس نے سبھی دکانداروں کے پاس جا کر یہی بات کی۔ بخشو کی بات پر سب کے سب دکاندار حیران تھے۔ ان میں سے بیشتر نے تواس پر قہقہے بھی لگائے۔ یہ وہ دکاندار تھے جن کو بخشو نے ہی پانی ملا دودھ بیچنے کی ترغیب دی تھی۔ مگر اب کوئی بھی دکاندار خالص دودھ بیچنے کو تیار نہیں تھا اور انہوں نے بخشو کو بھی صاف صاف کہہ دیا تھا۔ جس پر بخشو صرف خاموش ہی رہا اور ان سے کوئی بات نہ کی۔ شام کو وہ اطمینان کے ساتھ جونہی گھر میں داخل ہوا تو ٹھٹھک کر ڈیوڑھی میں ہی رک گیا۔ بیل اسی طرح سے چھت کے راستے روشن دان کے اندر داخل ہو رہی تھی۔
٭٭٭
شغل مستی
رشید کو صرف اسی بات کا دھڑکا لگا رہتا کہ اگر اس کے کرتوتوں کا علم بیگم صاحبہ یا اس کے شوہر کو ہو گیا تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا اور اس نے ان کے دلوں میں اعتبار کی جو فصل کاشت کر رکھی تھی وہ پل بھر میں خسارے میں بدل جائے گی۔ اسی ڈر کے سبب اس نے کئی بار عزم کیا کہ وہ سارے دھندے چھوڑ دے گا مگر ہر بار اس کے ارادوں کی کچی دیوار میں دراڑیں پڑ جاتیں جہاں سے اس کی نیت کا گدلا پانی رسنے لگتا، جس میں وہ ڈوب کر گمراہیوں کے تاریک جنگلوں میں جا نکلتا۔
رشید نے تقریباً تین چار سالوں سے شمسہ بیگم کا گھر سنبھال رکھا تھا، جسے وہ بیگم صاحبہ کہہ کر پکارتا۔ اولاد سے محروم گھر میں صرف میاں بیوی ہی رہتے تھے۔ دونوں نوکری پیشہ ہونے کی وجہ سے صبح کے نکلتے تو شام گئے واپس لوٹتے۔ رشید ان کے گھر میں بڑے ٹھاٹھ سے رہتا، جیسے گھر کا اصلی مالک وہی ہو۔ وہ گھٹا ہوا مضبوط جسم اور نکلتا ہوا قد کاٹھ رکھتا تھا۔ اس کی رنگت سانولی مگر چہرے کے نقوش کافی تیکھے تھے۔ سیدھی مانگ کے ساتھ کھڑے ہوئے چمکتے سیاہ بال اوراس کی گھنی مونچھوں نے اس کی شخصیت میں جاذبیت پیدا کر رکھی تھی۔ اس کی چال ڈھال میں کافی ٹھہراؤ اور باتوں میں شگفتہ مزاجی تھی، اس لئے وہ آسانی سے ہر کسی کے دل میں گھر کر لیا کرتا۔ وہ قسمت کا جادوگر واقع ہوا تھا۔ اس سے قبل وہ کپڑے کی ایک مل میں کام کرتا تھا مگر کم اجرت پر مالک سے لڑائی کی پاداش میں اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تو مقدر نے شمسہ بیگم کے گھر تک اس کے لئے راہیں تراشیں اور وہ سیدھا یہاں پہنچ گیا۔ جہاں اس نے خوب محنت کر کے اپنا سکہ جمایا اور ہمیشہ ایمانداری کی اجلی چادر اوڑھ کر اپنے کام میں جتا رہا۔ میاں بیوی پراس کا اچھا خاصا اعتبار جم گیا اور وہ دونوں رشید سے بہت خوش تھے۔ شمسہ بیگم کو بھی ایسے ہی ملازم کی تلاش تھی، جس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکتا ہو، اس خوبی پر اس نے مطمئن ہو کر پورا گھر رشید کے حوالے کر دیا تھا۔ اس نے بھی ایک ایک چپے کی دیکھ بھال اپنا گھر سمجھ کر کی۔ مگر پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ ایک تاریک لمحے کا ایسا شکار ہوا کہ جس نے اس کے اندر کے تمام اجالوں کو شکار کر کے اسے اندھیری راہوں میں بھٹکا دیا، جن پر چلتے ہوئے وہ ایسے ایسے کام کرنے لگا کہ اگر کوئی سنتا تو کانوں کو ہاتھ لگا لیتا۔ اسے ڈر تھا تو صرف بیگم صاحبہ اور اس کے شوہر کا۔
رشید کو اکثر یہ خیال بھی گھیر لیتا کہ بیگم صاحبہ نے کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ اتنی محنت کے ساتھ بنایا ہوا اس کا گھر عیاشیوں کے اڈے میں بدل جائے گا۔ مگر ایسا ہو چکا تھا، جس سے دونوں میاں بیوی بالکل بے خبر تھے۔ نئے بنے ہوئے مکان کے آس پاس آبادی ابھی اتنی نہیں بڑھی تھی کہ علاقے والوں کی طرف سے کوئی مسئلہ بنتا۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رشید چپ چاپ اپنے شغل میں مصروف رہتا۔ رشید شروع ہی سے رنگین مزاج تھا مگر صرف فون کی حد تک اس نے کئی دوستیاں پال رکھی تھیں۔ ح د سے باہر جانے کا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اور شاید وہ ایسا کبھی نہ کرتا اگراس کے ایک پرانے دوست نے اسے مجبور نہ کیا ہوتا۔ جس کے بارے میں رشید اچھی طرح سے جانتا تھا کہ وہ بہت شوقین مزاج ہے اور ہر وقت ان ہی چکروں میں پڑا رہتا ہے۔ اسی نے ہی ایک بار رشید کو فون کر کے کہا تھا
’’یار! میرے پاس ایک بہت ہی اعلیٰ قسم کا پیس ہے، دیکھو گے تو حیران رہ جاؤ گے، مگر جگہ کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگر تم مہربانی کرو تو میں اُسے لے کر تمہارے پاس آتا ہوں۔ میرے ساتھ تم بھی شغل مستی کر لینا۔‘‘
رشید اس کی بات سن کر سخت گھبرا گیا۔ مگر دوست کے بار بار کے اصرار پر ڈرتے ڈرتے اس نے حامی بھر لی تھی۔ ’’اعلیٰ پیس‘‘ دیکھنے کے شوق میں وہ ایسا ڈگمگایا کہ آج تک نہیں سنبھل پایا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اِس پیس کے پیچھے ایسا لامتناہی سلسلہ چھپا ہو گا، جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے گا۔ وہ غیر محسوس طریقے سے اس اندھی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بیگم صاحبہ کے گھر رنگین محفلیں سجنا شروع ہو گئی تھیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اس کی شہرت اس کے دوستوں کے دوستوں میں بھی گردش کرنے لگی۔ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی دوست اپنے ساتھ ایک پیس لے کر وہاں آ دھمکتا اوراس کے ساتھ رشید بھی خوب مزے لوٹتا تھا۔ پہلے پہل تو وہ صرف شغل سے ہی دل بہلا لیا کرتا مگر بعد میں اس نے اپنے انداز بدل دیئے۔ وہ بہت چالو دماغ رکھتا تھا اور شغل کے ساتھ ساتھ اب وہ باقاعدہ پیسے بھی بٹورنے لگا تھا۔ بس ایک فون آتا، معاملہ طے ہوتا اورمستی کے ساتھ رشید کی جیب بھی گرم ہو چکی ہوتی۔ دونوں سلسلے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھے۔ اسے بس صرف اسی بات کا دھڑکا لگا رہتا کہ اگر اس کے کرتوتوں کا علم بیگم صاحبہ یا اس کے شوہر کوہو گیا تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا۔
رشید کو نئے نئے ذائقوں کا ا تنی بری طرح سے چسکا پڑ چکا تھا کہ اب ہر آتی جاتی عورت کے خد و خال کی وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں تلاشی لے کر اسے خوب تول لیا کرتا۔ ان ہی چکروں میں پڑ کر وہ اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کو یکسر بھلا چکا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ اسے اب اپنی بیوی بہت پھیکی لگنے لگی تھی، اس لئے وہ اس کی طرف آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھتا تھا اور یہی بات اس کی بیوی کوسانپ کی طرح ڈسنے لگی تھی۔ جب رات کو وہ اپنا کام ختم کر کے گھر لوٹتا تو اس کی بیوی گلے شکووں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتی اور نتیجتاً تو تو میں میں شروع ہو جاتی۔ یہاں تک کہ نوبت لڑائی تک جا پہنچتی اوراس تو تکار میں کبھی کبھار رشید کا ہاتھ بھی اٹھ جاتا، جس پر اس کی بیوی کی سسکیوں کے ساتھ اس کے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے۔ اپنی ماں کو روتا دھوتا دیکھ کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی اس کی بیٹیاں بھی اس کے ساتھ لپٹ کر رونے لگ پڑتیں مگر رشید نے خود کو لاپرواہی کے خول میں قید کر رکھا تھا۔ وہ سب کو روتا دھوتا چھوڑ کر کروٹ بدل کر ایسا سوتا کہ پھر صبح کو ہی اٹھتا اور گھر والوں کی کوئی پرواہ کئے بغیر کام کے لئے نکلتا تو پھر سے مستی کی رنگین دنیا میں کھو جاتا۔
ان آوارہ راہوں پر چلتے ہوئے اس کے اندر کافی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ وہ پہلے والا سیدھا سادہ رشید نہیں رہا تھا۔ جب سے اُس کی آنکھوں کے تیور بدلے تھے وہ بیگم صاحبہ کے سامنے بھی خوب بن ٹھن کر جانے لگا۔ اب وہ اتنی حد کو آ گیا تھا کہ جب تنومند جسم والی بیگم صاحبہ اس کے سامنے آتی تو اسے دیکھ کر رشید کی رال ٹپکنے لگتی۔ وہ اس کے بدن کے زاویوں کو بڑے غور سے دیکھتا رہتا، خاص طور سے اس وقت جب وہ نہا دھو کر نئے کپڑوں میں اس کے سامنے آتی تو وہ اس کے لمبے گیلے سیاہ بالوں اور تر و تازہ چہرے کو دیکھ کر دل تھام کے رہ جاتا۔ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس کے آگے پیچھے پھرنے لگتا۔ بیگم صاحبہ کے ابھاروں نے اسے بے چین کر رکھا تھا، جو چھپائے نہیں چھپتے تھے۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ کب کا اسے اپنی باہوں میں لے کراس کا مزہ چکھ چکا ہوتا مگر وہ ایسا صرف اپنے خیالوں کی دنیا میں ہی کر سکتا تھا، جہاں اس پر کوئی پابندی لگانے والا نہیں تھا۔ مگر کمال کی بات یہ تھی کہ بیگم صاحبہ نے کبھی بھی اس پر شک نہیں کیا، وہ بے فکری کے ہالے میں رہ کر اپنے معمول کے کاموں میں مصروف رہتی۔ اس بات سے یکسر بے خبر کہ اس کے ارد گرد گھومتا ہوا رشید اس پر اپنی غلیظ سوچوں کے کیسے کیسے جال پھینکتا رہتا ہے۔
رشید ایک مدت سے ان کے گھر میں نوکر تھا اور دونوں میاں بیوی کے مزاج کو وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی خاموشی کو بھی وہ سمجھنے لگا تھا۔ اس لئے وہ کچھ دنوں سے محسوس کر رہا تھا کہ بیگم صاحبہ اپنے شوہر سے کھچی کھچی سی رہنے لگی ہے۔ ان کی آپس کی بات چیت بھی کم ہو گئی تھی۔ بظاہر وہ دونوں اس کے سامنے نارمل رہنے کی کوشش کرتے مگر رشید نے صاف محسوس کر لیا تھا کہ کوئی بات ایسی ضرور ہے، جس نے ان کے درمیان میں دوریاں کھینچ دی ہیں۔ وہ اسی ٹوہ میں لگا ہوا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ اور پھر ایک دن اسے اس بات کا جواب بھی مل گیا۔ جب وہ دونوں بند کمرے میں الجھ رہے تھے تو رشید نے ان کی باتیں سن لی تھیں۔ بیگم صاحبہ بضد تھی اور ہر صورت میں اولاد چاہتی تھی مگر اس کا شوہر مسلسل اپنی بے بسی کے قصے سنا کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا، جس پر بیگم صاحبہ اور بھی بگڑتی رہی۔ اِس وقت رشید کو بیگم صاحبہ کی حالت پر بہت ترس آ رہا تھا جو ایک ایسے شخص کے آگے کشکول لئے کھڑی تھی، جس کی اپنی جیب میں کچھ نہیں تھا۔ رشید کے دل میں خیال لہرایا کہ کاش بیگم صاحبہ کو میری کرامات کا پتہ چل جائے تو وہ اپنی خواہش لئے سیدھی میرے پاس دوڑی چلی آئے اور مالا مال ہو جائے۔ مگر یہ اُس کی ایک ناکام حسرت تھی، جس کی تکمیل کے دروازے چاروں طرف سے بند تھے۔
آج صبح بیگم صاحبہ نے جاتے وقت اسے سودوں کی ایک لمبی فہرست تھما دی تھی۔ دو دن بعد اس کے ہاں کچھ مہمان آ رہے تھے، جس کے لئے اسے کئی قسم کے کھانے تیار کرنے تھے اوراس وقت رشید بازار آیا ہوا تھا۔ ابھی اس نے آدھا سودا ہی لیا تھا کہ اس کا موبائل فون بج اٹھا۔ وہ ایک ٹھیلے والے کے پاس کھڑا تھا، جہاں کچھ خواتین بھی سبزیاں اور ترکاریاں لینے میں مصروف تھیں۔ وہ جلدی سے ایک طرف ہو گیا اور جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو کوئی انجان سا نمبر حرکت کر رہا تھا۔ اس نے فوراً یس کا بٹن دبا کر فون کان سے لگا لیا۔
دوسری طرف سے اس کے ایک قریبی دوست کا کوئی دوست بول رہا تھا اوراسے جگہ درکار تھی۔ رشید کی تو جیسے باچھیں کھل اٹھیں، چند دنوں سے اسے کچھ میسر نہیں ہوا تھا اور وہ اپنے آپ کو ادھورا محسوس کر رہا تھا۔ اس نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے اسے ایک گھنٹے کے اندر پہنچنے کا کہہ دیا۔ اس کا اندازہ تھا کہ وہ اتنی ہی دیر میں تمام سامان وغیرہ لے کر گھر پہنچ جائے گا۔ اس نے جھٹ سے بقایا سودا لیا اور گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔ وہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گیا۔ اس نے جلدی سے ادھورے پڑے ہوئے کچھ کام نمٹائے اور کیف و سرور کی حالت میں لاؤنج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہوئے بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔ ابھی اسے بیٹھے پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ وہ تو جیسے تیار بیٹھا تھا، فوراً دروازے کی طرف لپکا۔ اس نے دروازہ کھولا تو اگلے ہی لمحے اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ سامنے بیگم صاحبہ کا شوہر افضال کھڑا تھا۔ رشید کے تو جیسے پسینے چھوٹ گئے اور وہ سٹپٹا گیا کہ اس وقت یہ کہاں سے آ ٹپکا؟ افضال نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے قدرے روکھے لہجے میں کہا۔
’’رشید! میرے کچھ مہمان آنے والے ہیں، انہیں میں خودسنبھال لوں گا۔ بس تم آج چھٹی کرو۔‘‘
رشید نے یہ سنا تواس کی جان میں جان آئی۔ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر پڑھا، جس نے آج اسے بچا لیا۔ وہ جلدی سے گھر سے باہر نکلا اور فوراً وہی نمبر ملایا، جہاں سے اسے فون آیا تھا، پتہ چلا کہ اسے کچھ دیر ہو گئی تھی اور وہ ابھی تک روانہ نہیں ہوا تھا۔ رشید نے سکھ کی سانس لی، اسے مزید تسلی ہو گئی۔ اُس نے اسے یہاں آنے سے سختی کے ساتھ منع کیا اور اپنے گھر کا پتہ اسے اچھی طرح سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب وہ سیدھا میرے گھر پہنچے۔ رشید کی بیوی پچھلے تین چار دنوں سے اس کے ساتھ لڑ جھگڑ کر اپنی بیٹیوں کے ساتھ میکے چلی گئی تھی۔ اس نے یہ موقع غنیمت جان کر اسے اپنے گھر کا پتہ دے دیا کہ تسلی کے ساتھ شغل مستی ہو جائے گی۔ اس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا، ٹیکسی پر وہ بیس منٹ میں ہی پہنچ گیا۔ اس نے آتے ہی پھرتی سے ہاتھ چلاتے ہوئے کمرے کا حلیہ درست کیا، جو صبح کو وہ بے ترتیب چھوڑ کر گیا تھا۔ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی، اس نے کمرے کی فضاؤں میں خوشبو دار سپرے چھڑک کر ماحول کو اچھا خاصا معطر بنا دیا۔ وہ ان کاموں سے فارغ ہو کر بس بیٹھا ہی تھا کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی اور انگ انگ میں مستی کی کئی لہریں دوڑ گئیں، وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ڈیوڑھی میں پہنچا اور جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر اس نے جونہی پردہ اٹھا کے دیکھا تو ششدر رہ گیا، اس کے سامنے ایک وجیہہ نوجوان کے ساتھ چشمہ لگائے بیگم صاحبہ کھڑی تھی۔
٭٭٭
داخلہ
وہ جناح ہسپتال میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا۔ اتنا بڑا ہسپتال اور ایسا ہجوم اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بہن کے ہمراہ اپنے بہنوئی کے علاج کے سلسلے میں آج صبح ہی لاہور پہنچا تھا۔ پتہ نہیں اسے کیا مرض لاحق تھا کہ وہ چند ماہ میں ہی سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ پیٹ میں بار بار ٹیسیں اٹھتیں اور وہ درد سے بلبلا اٹھتا۔ مقامی ڈاکٹروں نے اپنی اپنی ہانکنے کے بعد اسے لاہور جانے کا مشورہ دیا تھا۔
ہسپتال میں ہر طرف مرد، عورتیں، بوڑھے، بچے یوں امڈے پڑے تھے جیسے پورا لاہور بیمار پڑ گیا ہو۔ وہ سب شعبہ فارمیسی کے سامنے مخروطی چھت والے کیفے ٹیریا میں آ کر بیٹھ گئے جو لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ عقبی دیوار سے ملحق قطار میں بنے ہوئے شیشے کے کیبن اشیائے خورد و نوش سے بھرے ہوئے تھے اور آٹھ دس لڑکے نہایت چابکدستی سے گاہکوں کو نمٹانے میں مصروف تھے۔ اس نے دو کپ چائے کے ساتھ بہنوئی کے لئے جوس منگوایا، جسے وہ گھونٹ گھونٹ حلق میں اتارنے لگا۔ چائے پینے کے بعد وہ کافی دیر تک کیفے ٹیریا میں بیٹھا سوچتا رہا کہ کہاں سے ابتدا کی جائے۔۔۔؟ نہ اسے یہاں کا کچھ پتہ تھا اور نہ ہی اس کی کسی سے جان پہچان تھی۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے بیگ سے اپنے بہنوئی کی ہسٹری فائل نکالی اور بہن کو تسلی دیتا ہوا کیفے ٹیریا سے باہر آ گیا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے سامنے بنے شعبہ فارمیسی کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہو گیا۔ اسے ایک دم سے ٹھنڈک کا احساس ہوا جبکہ باہر کافی گرمی پڑ رہی تھی۔ راہداری میں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ایک بڑے کاؤنٹر کے ساتھ ہی اس کی نظر OPD کی لٹکتی تختی پر جا پڑی، وہ سیدھا اسی طرف لپکا۔ عورتوں اور مردوں کی الگ الگ قطاریں تھیں۔ وہ قطار میں کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ ایک نوجوان لڑکا کھڑکی کے اس پار بڑا سا رجسٹر کھولے اندراج میں مصروف تھا۔ آدھے گھنٹے بعد اس کا نمبر آ گیا اوراس نے OPD سے چٹ حاصل کر لی۔ اس لڑکے نے اسے مریض کو کمرہ نمبر 27 میں دکھانے کو کہا تھا۔
وہ واپس آیا اور بہنوئی کو ساتھ لے کر کمرہ نمبر 27 کی طرف روانہ ہو گیا۔ OPD کمرے پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کے بعد ہی شروع ہوتے تھے۔ وہ بہنوئی کی کمر میں ہاتھ ڈالے چیونٹی کی چال چل رہا تھا۔ کمزوری کے باعث اس کے بہنوئی کے لئے ایک قدم بھی اٹھانا محال تھا۔ وہ کافی لمبی راہداری تھی، جہاں مردوں اور عورتوں کا ایک سیلاب آیا ہوا تھا۔ جدید طرز کے ہسپتال کی چھت میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد درجنوں برقی قمقمے روشن تھے، جس سے چاروں طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہسپتال کے فرش پر مختلف رنگوں کے تیروں کے نشان بنے ہوئے تھے جو لوگوں کی رہنمائی کے لئے بنائے گئے تھے۔ نوجوان ڈاکٹروں کی ٹولیاں سفید کوٹ پہنے اور گلے میں سٹیتھوسکوپ لٹکائے آپس میں باتیں کرتے ہوئے آ جا رہے تھے۔ نرسیں بھی بھاگتی پھر رہی تھیں۔ ہسپتال کا عملہ سٹریچر پر مریضوں کو لٹائے ادھر سے ادھر آ جا رہا تھا اور کئی مریض وہیل چیئر پر بھی نظر آ رہے تھے۔ اپنے بہنوئی کی ابتر حالت اور لڑکھڑاتی چال کو دیکھتے ہوئے اس کے جی میں بھی آئی کہ کاش اسے بھی کہیں سے وہیل چیئر مل جاتی مگر اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہیل چیئر کہاں سے ملتی ہے۔ وہ ایسی ہی باتیں سوچتا ہوا دائیں طرف کو مڑ گیا کیونکہ راہداری دائیں طرف کو مڑ رہی تھی۔ موڑ مڑتے ہی سامنے ایک بہت بڑا ہال آ گیا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہال کے بائیں جانب قطار میں بنے ہوئے کمرے دور تک چلے گئے تھے اور ہر کمرے کے آگے لوگوں کی اچھی خاصی بھیڑ موجود تھی۔ وہ سیدھا 27 نمبر کمرے کے آگے جا رکا جہاں کافی لوگ جمع تھے۔ کمرے کے ساتھ ہی کرسیوں کی ایک قطار دیوار میں پیوست تھی۔ اس نے بہنوئی کو ایک خالی کرسی پر بٹھا کر اٹینڈنٹ کے پاس چٹ جمع کروا ئی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ ایک گھنٹے کے تھکا دینے والے انتظار کے بعد اس کے بہنوئی کا نام پکارا گیا۔ وہ بہنوئی کا بازو تھامے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اندر ایک نوجوان ڈاکٹر موجود تھا۔ اس نے اس کے بہنوئی کا معائنہ کرتے ہوئے ہسٹری فائل دیکھی اوراس سے مخاطب ہوا۔
’’آپ کے مریض کی حالت کافی خراب لگ رہی ہے اور میرے خیال سے یہ سینئرز کا کیس ہے۔ آپ ایسا کریں کہ اپنے مریض کو کمرہ نمبر 30 میں لے جائیں۔ وہاں سینئر ڈاکٹر موجود ہیں وہی ان کو دیکھیں گے۔‘‘
ڈاکٹر کی بات سن کر وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا اور اثبات میں سر ہلاتا ہوا چپ چاپ بہنوئی کو ساتھ لے کر کمرے سے باہر آ گیا اور سیدھا 30 نمبر کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں رش قدرے کم تھا۔ اٹینڈنٹ نے چٹ دیکھ کر انہیں اندر بھیج دیا۔ وہ ایک ہال کمرہ تھا، جہاں ایک طرف بینچ پر مریض بیٹھے تھے۔ سینئر ڈاکٹر کی بڑی سی کرسی خالی پڑی تھی جس کے اطراف میں جونیئر ڈاکٹر آپس میں گپ شپ میں مصروف تھے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر آ گیا اور مریضوں کو دیکھنے کا عمل شروع ہو گیا۔ جلد ہی اس کی باری آ گئی۔ ہسٹری فائل دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے اس کے بہنوئی کو بیڈ پر لٹایا اور کافی دیر تک اس کا معائنہ کرنے کے بعد اس سے گویا ہوا:
’’colonoscopy کا ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہوں، جب تک یہ ٹیسٹ نہیں ہو جاتا تب تک بیماری کا پتہ نہیں چل سکتا۔ آپ میڈیکل وارڈ کے یونٹ نمبر 3میں جا کر ٹیسٹ کے لئے وقت لے لو۔‘‘
چٹ اس کے ہاتھ میں تھما کر ڈاکٹر دوسرے مریضوں کی طرف بڑھ گیا۔ وہ الجھن میں ڈوبا بہنوئی کو لے کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس نے اسے ایک خالی کرسی پر بٹھا کر تھوڑی دیر میں واپس آنے کا کہا۔ وہاں ایک بڑا سا کاؤنٹر بھی تھا جہاں ہسپتال کا عملہ موجود تھا۔ اس نے ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ میڈیکل یونٹ نمبر 3 ہسپتال کے تیسرے فلور پر ہے۔ وہ راستوں سے انجان تھا، اس لئے پوچھتا پوچھتا وہ بڑی مشکلوں سے میڈیکل وارڈ کے یونٹ نمبر3 تک پہنچ گیا۔ ہسپتال کی عجیب بھول بھلیوں میں اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کس طرف کو جا رہا ہے۔ سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر اس کا برا حال ہو گیا تھا۔ یونٹ 3 ہسپتال کے تیسرے فلور پر تھا، جہاں زنانہ اور مردانہ وارڈ میں ہاؤس جاب ڈاکٹرز مریضوں کے چیک اپ میں مصروف تھے۔ کاؤنٹر پر دو نرسیں ڈیوٹی پر موجود تھیں۔ اس نے ایک نرس کو چٹ دکھا کر ٹیسٹ کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا
’’ڈاکٹر صاحب نیچے گئے ہوئے ہیں، آپ انتظار کریں، وہی آپ کو ٹیسٹ کے بارے میں بتائیں گے۔‘‘
نرس کی بات سن کر وہ جھنجھلا اٹھا۔ عجیب ہسپتال ہے جہاں بھی جاؤ، آدمی کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر آ گیا۔
’’colonoscopy کے لئے آپ اپنے مریض کو جمعے والے دن لے آئیں۔‘‘
ڈاکٹر نے اپنی فہرست میں اس کے بہنوئی کا نام لکھتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب۔۔۔ جمعہ تو ابھی بہت دور ہے، کیا یہ ٹیسٹ پہلے نہیں ہو سکتا۔۔۔؟‘‘
اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت عاجزی سے کہا
’’نہیں بھئی۔۔۔ جمعے سے پہلے ہم یہ ٹیسٹ نہیں کر سکتے۔ اس ٹیسٹ کے لئے مریض کو تین دن پہلے تیاری کروائی جاتی ہے، تب جا کر یہ ٹیسٹ ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے اسے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کیا۔
’’تو براہِ مہربانی آپ مریض کو ایڈمٹ کر لیں۔‘‘ اس نے OPD چٹ جیب میں رکھتے ہوئے کہا
’’میں مریضوں کو ایڈمٹ نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ میرے اختیار میں ہے۔ آپ نیچے یونٹ نمبر 2 میں جا کر ڈاکٹر تیمور سے ملیں، وہی مریضوں کو داخل کرتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نے بے نیازی سے کہا اور وہاں سے چل دیا۔ اسے ڈاکٹر کی بات زہر لگی۔ مسلسل چلنے اور سیڑھیاں چڑھنے سے اس کی ایڑیاں درد کر رہی تھی اور اس میں چلنے کی مزید سکت نہیں تھی مگر یہاں عجیب گورکھ دھندہ تھا کہ ہر ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتا تھا۔ چار و ناچار وہ سیڑھیاں اتر نے لگا اور سیدھا یونٹ نمبر 2 میں جا پہنچا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر تیمور آپریشن تھیٹر میں ہے۔ دو تین لوگ اور بھی اس کے منتظر بیٹھے تھے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد بالآخر آپریشن تھیٹر سے ایک نوجوان ڈاکٹر باہر نکلا، جس نے سبز رنگ کا مخصوس لباس پہن رکھا تھا، پاؤں میں چپل تھی اور سر پر سبز رنگ کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ دو نرسیں بھی تھیں جنہیں وہ کچھ ہدایات دیتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگ سیدھا اس کی طرف لپک پڑے۔ اس نے ایک نرس سے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہی ڈاکٹر تیمور ہے۔ وہ بھی اس کے کمرے میں داخل ہو گیا اور باری کا انتظار کرنے لگا۔ جب اس کی باری آئی تو اس نے ڈاکٹر سے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے بہنوئی کو ایڈمٹ کرنے کی گذارش کی۔
’’نہیں بھئی۔۔۔۔ ہم اس طرح مریضوں کو داخل نہیں کر سکتے۔ ہسپتال کی پالیسی کے مطابق جب تک مریض کا ٹیسٹ نہیں ہو جاتا، اس کی رپورٹ نہیں آ جاتی، بیماری کا پتہ نہیں چل جاتا تب تک مریض یہاں ایڈمٹ نہیں ہو سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے تیز تیز لہجے میں بولتے ہوئے اسے صاف جواب دے دیا۔
’’مگر ڈاکٹر صاحب۔۔۔ آج تو سوموار ہے اور ٹیسٹ جمعے کو ہونا ہے۔ تب تک مریض کو لے کر ہم کہاں جائیں گے۔۔۔؟ ہم تو بہت دور سے سفر کر کے آئے ہیں۔‘‘
اس نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’بھئی یہ آپ کا مسئلہ ہے کہ آپ مریض کو لے کر کہاں جاتے ہیں۔ ٹیسٹ رپورٹ آنے تک ہم آپ کے مریض کو داخل نہیں کر سکتے۔‘‘
ڈاکٹر نے اسے دو ٹوک جواب دیا اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ عجیب سی نظروں سے اسے گھورتا رہ گیا۔ ڈاکٹر کے کھردرے رویئے پراسے شدید غصہ آ رہا تھا۔ وہ کچھ لمحوں کے لئے مایوسی سے سر جھکائے وہاں کھڑا رہا اور پھر نڈھال قدموں کے ساتھ چلتا ہوا وہاں سے نکل آیا۔ اس کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اسے آس پاس کا کوئی ہوش نہیں تھا وہ سست روی سے سیڑھیاں اترا اور مردہ چال چلتے ہوئے ہال میں پہنچ گیا۔ اس نے دور سے ہی دیکھ لیا تھا کہ اس کا بہنوئی شکستہ حالت میں بنچ پر آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا۔ سہ پہر کے دو بج رہے تھے۔ ہسپتال کا وقت ختم ہو گیا تھا اور OPD کمروں کو تالے پڑ چکے تھے، گنتی کے چند ایک لوگ ہی وہاں موجود تھے۔ جب وہ بہنوئی کے پاس پہنچا تو وہ غصہ سے بولا۔
’’سارا دن لاوارثوں کی طرح پڑا درد سے کراہتا رہا ہوں اور تم اب آ رہے ہو۔‘‘
جواب میں وہ ہسپتال کے ناکارہ نظام کو کوستا ہوا اسے لے کر چیونٹی کی چال چلتا ہوا کیفے ٹیریا میں آ گیا جہاں اس کی بہن آنکھوں میں فکر کی جوت جگائے ان کی منتظر بیٹھی تھی۔ وہ بہن کے پوچھنے سے پہلے ہی گویا ہوا۔
’’دو تین ڈاکٹروں نے بڑی تسلی کے ساتھ چیک اپ کیا ہے اور بھائی جان کو کل ہسپتال میں داخل کرنے کا کہا ہے۔‘‘
اس نے بہن سے اصل بات چھپا دی تھی۔ کیفے ٹیریا ابھی تک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ کافی دیر تک وہاں چپ چاپ بیٹھا رہا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ مایوسی اور بیزاری اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ بالآخر وہ بہن اور بہنوئی کو ساتھ لے کر باہر آیا اور ایک آٹو رکشہ میں انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر انار کلی کی طرف روانہ ہو گیا جہاں اس نے ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ شام ہونے کو تھی، بستر پر گرتے ہی اسے شدید تھکاوٹ کا احساس ہوا، اس کی کمر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور پاؤں بھی درد کر رہے تھے، اس لئے جلد ہی اسے نیند نے گھیر لیا۔
مگر بہنوئی کی تکلیف نے اسے چین سے سونے نہ دیا جو پوری رات تکلیف کی شدت سے تڑپتا رہا۔ پیٹ کے درد نے اسے ادھ موا کر دیا تھا۔ اس کی بہن بھی ساری رات جاگتی رہی۔ اسے ڈاکٹروں کی بے حسی پر شدید غصہ آ رہا تھا جنہوں نے تکلیف سے تڑپتے ہوئے ایک انسان کو ہوٹل میں لا پھینکا تھا۔ صبح وہ بہن کے جگانے پر جاگا جو بجھا چہرہ لئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی سوجی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی۔ جلدی سے ناشتہ کرنے کے بعد وہ ان کو ساتھ لے کر ہسپتال روانہ ہو گیا۔
ہسپتال میں کل سے بھی زیادہ رش تھا اور آج اس کے بہنوئی کی حالت بھی کافی خراب تھی، اس لئے وہ انہیں کیفے ٹیریا کے پیچھے بنے ایک چمن میں لے گیا، جہاں اس نے ایک سایہ دار جگہ پر کمبل بچھایا اور اپنے بہنوئی کو لٹا دیا۔ وہاں اور لوگ بھی چادریں چٹائیاں بچھائے سوئے ہوئے تھے۔ بہن کوتسلی دیتا ہوا وہ ہسپتال کے اندر چلا گیا۔ OPD والا ہال لوگوں سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا مگر ابھی تک ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں آئے تھے۔ اس نے 30 نمبر والے کمرے کے اٹینڈنٹ سے بات کر کے اسے اپنا مسئلہ بتایا اور ڈاکٹر سے ملنے کی درخواست کی، اس نے ہامی بھر لی۔ کافی دیر انتظار کے بعد بالآخر ڈاکٹر آ گیا۔ عوام کا ایک ریلا اٹینڈنٹ پر ٹوٹ پڑا۔ ایک دو بار کی منت سماجت کے بعد اٹینڈنٹ نے اسے اندر بھیج دیا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب سے اپنے بہنوئی کو ایڈمٹ کرنے کی درخواست کی مگر ڈاکٹر صاحب نے بات کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا:
’’میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میری ذمہ داری مریض کو چیک کرنا ہے اور چیک اپ کے بعد میں نے ٹیسٹ تجویز کر دیا ہے۔ مزید میں کچھ نہیں کر سکتا۔ پھر بھی آپ اوپر میڈیکل یونٹ3 میں جا کر ڈاکٹر لیاقت سے میرے ریفرنس سے مل لیں۔‘‘
ایک امید لے کر وہ وہاں سے اٹھا اور سیدھا یونٹ 3 میں پہنچا۔ مگر ڈاکٹر لیاقت کلاس لینے میڈیکل کالج گئے ہوئے تھے۔ کافی دیر انتظار کے بعد وہ آئے تو اس نے اسے اپنی پریشانی بتائی مگر وہ ایک دم آگ بگولہ ہو گیا۔
’’میں یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اتنے بڑے لاہور میں تمہارا کوئی جاننے والا نہ ہو۔ یہاں سب کا کوئی نہ کوئی واقف کار ضرور ہوتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ تم جیسے جھوٹے لوگ پتہ نہیں کیوں اپنے مریضوں کو ہسپتالوں میں ذلیل کرنے آ جاتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
اس نے آنکھیں نکالتے ہوئے غضبناک انداز میں کہا۔ وہ ڈاکٹر کے غیر انسانی رویئے پر ششدر رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک ڈاکٹر بھی کلرکوں والے انداز میں بات کر سکتا ہے۔
وہ ذلیل ہو کر اس کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس کے پاؤں من من کے ہو رہے تھے۔ ڈاکٹر کے الفاظ ہتھوڑا بن کر اس کے حواس پر برس رہے تھے۔ ہسپتال میں ہر طرف مایوسی ہی مایوسی اگی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بہنوئی کا مرجھایا چہرہ اور بہن کی امید بھری نگاہیں گھوم گئیں۔ اس نے سوچا کہ یونٹ 2 کے ڈاکٹر تیمور سے دوبارہ مل کر اس کے پاؤں پکڑ لے گا اور بہنوئی کو داخل کروا کر ہی دم لے گا مگر جب وہ وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر آج چھٹی پر ہے۔ اس کی آنکھوں میں جلتے دیئے ایک دم سے بجھ گئے، اسے یوں لگا جیسے وہ ہسپتال میں نہیں کسی تہہ خانے میں موجود ہے اور دیواروں سے سر پھوڑتا پھر رہا ہے۔ دوپہر کے 12 بج رہے تھے، دو گھنٹے بعد ڈاکٹروں نے چلے جانا تھا۔ اسے کافی دیر ہو چکی تھی اور اُدھر بہن کی فکر بھی اسے کھائے جا رہی تھی۔ ایک دو باراس نے اپنی بہن کا نمبر ملانے کی کوشش کی مگر اوپر سگنل کا مسئلہ تھا۔ جب اس سے صبر نہ ہوا تو وہ خیریت دریافت کرنے کے لئے سیدھا اپنی بہن کے پاس جا پہنچا جو خاوند کی ٹانگیں دبا رہی تھی۔ بہن نے نڈھال چہرہ لئے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’بڑے ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر نکلے ہوئے ہیں۔ ان کے واپس آتے ہی بھائی جان کا داخلہ ہو جائے گا، فکر مت کرو۔‘‘ اس نے بہن سے جھوٹ بول دیا۔
’’جیسے بھی کرو، آج داخلہ ضرور کروا دو۔ صبح سے ان کی طبیعت سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔‘‘ اس کی بہن نے روہانسی آواز میں کہا اور اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ بہن کی حالت دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا اور اس کے لئے وہاں مزید بیٹھنا مشکل ہو گیا۔
وہ مردہ چہرہ لئے کیفے ٹیریا میں آ کر بیٹھ گیا۔ ہسپتال کی بلند و بالا عمارت کو انتہائی مایوسی سے دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ اتنا بڑا ہسپتال، اتنے سارے ڈاکٹر، بے شمار کمرے مگر ایک تڑپتے ہوئے مریض کے لئے وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ جناح کے نام کو کھلے عام بدنام کیا جا رہا تھا اور کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں تھا۔ وہ ان ہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اچانک اس کی نظر سامنے ایک شناسا چہرے پر پڑ گئی جو گاڑی سے اتر رہا تھا۔ اس کا مرجھایا چہرہ ایک دم سے کھل اٹھا۔ وہ جوش کے ساتھ اٹھا اور تیز تیز چلتا ہوا سیدھا ان کے پاس جا رکا۔
’’ڈاکٹر خلیل صاحب۔۔۔؟‘‘ اس نے نہایت ادب سے کہا۔
’’ارے نوجوان تم۔۔۔؟ یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ ڈاکٹر خلیل نے اسے دیکھتے ہوئے چونک کر پوچھا اور پر تپاک انداز میں اسے گلے لگا لیا۔
’’چلو آؤ میرے ساتھ۔۔۔ فکر مت کرو، ابھی داخلہ ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے اس کی پوری بات سنتے ہوئے کہا اور اسے ساتھ لے کر چل پڑے۔
ڈاکٹر خلیل اس کے فیس بک کے دوست اور ایک بہت اچھے کالم نگار تھے۔ وہ ان کے کالم بہت شوق سے پڑھتا تھا اور کالموں کی وجہ سے ہی ڈاکٹر صاحب سے اس کی دوستی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر خلیل سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے میڈیکل وارڈ کے یونٹ 3 کے ہیڈ کے پاس جا پہنچے مگر وہ کمرے میں نہیں تھے۔ پتہ چلا کہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں وہ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ وہ وہاں بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ آ گئے اور ڈاکٹر خلیل کو بیٹھا دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’’خلیل آپ اور یہاں۔۔۔؟ ایسا بھی کیا کام تھا کہ آپ کو چل کے آنا پڑا؟ ایک فون کر لیا ہوتا۔۔۔‘‘
انہوں نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے انداز میں کہا اور نہایت گرمجوشی کے ساتھ انہیں ملے۔
’’یار! میری چھوڑو۔ پہلے میرے اس دوست کا کام کر دو۔ بیچارہ بہت دور سے اپنے بہنوئی کے علاج کے لئے آیا ہے۔ دو دنوں سے ہسپتال میں دھکے کھا رہا ہے مگر اس کے بہنوئی کا ایڈمشن نہیں ہو رہا۔ یار۔۔۔! خدا کے لئے اس کی حالت پر رحم کرو۔‘‘
ڈاکٹر خلیل نے دردمندانہ لہجے میں استدعا کرتے ہوئے کہا۔
’’مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا اور اس نے ہسٹری فائل سامنے رکھ دی۔
’’فکر مت کریں۔۔۔ ابھی داخلہ ہو جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے ہسٹری فائل دیکھتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا اور فون کر کے کسی کو اپنے کمرے میں آنے کو کہا۔
اگلے ہی لمحے ایک نوجوان ڈاکٹر ان کے کمرے میں داخل ہوا۔
’’ان صاحب کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔ اور ان کے مریض کو میڈیکل یونٹ 2 میں داخل کرو ابھی۔ مجھے 20 منٹ میں رپورٹ چاہئے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے با رعب لہجے میں کہا۔ اس نے مؤدبانہ انداز میں یس سر کہا اور اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
’’آپ جلدی سے اپنے مریض کو نیچے ایمرجنسی میں لے آئیں، میں اتنی دیر میں وہاں ضروری انتظامات کرتا ہوں۔‘‘
جونیئر ڈاکٹر نے کمرے سے باہر نکلتے ہی اس سے کہا اور وہ سر ہلاتا ہوا اس سے رخصت ہو گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کام کے لئے وہ دو دنوں سے ایک ایک کی منتیں کرتا پھر رہا تھا وہ اتنی آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔ ڈاکٹر خلیل تو حبس میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر آئے تھے۔ یہی سوچتا ہوا وہ ہسپتال سے باہر آیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گیا۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنی مرجھائی بہن کو خوشخبری سنانا چاہتا تھا کہ بھائی جان کا داخلہ ہو گیا ہے۔ وہ کھلتے چہرے اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ جیسے ہی وہاں پہنچا تو اچانک زمین نے اس کے پاؤں جکڑ لیے، وہ جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا اور OPD چٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گری۔ اس کے بہنوئی کا منہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا اور اس کی بہن کی فلک شگاف چیخ و پکار سے فضا کانپ رہی تھی، جسے دو تین عورتوں نے سنبھال رکھا تھا۔ وہ بجھی آنکھوں اور شل قدموں کے ساتھ آگے بڑھا۔ آہستہ سے بہنوئی کے ڈھکے چہرے سے چادر ہٹائی تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اس کے سامنے اس کی اپنی لاش رکھی تھی۔
٭٭٭
چمتکار
’’تومیو ماتا چہ، پتا تو امیوا، تو امیو بندھوس چہ سکھا تو امیوا، توامیوودیادراوی نانگ امیوا، توامیو سرومام دیو دیو‘‘ گھر بھر میں اشلوک گونج رہے تھے اور حسبِ معمول آنند کی آنکھ اپنی ماتا کے اشلوک پر ہی کھلی۔ اس نے ناگواری سے کروٹ بدلی اور منہ پر لحاف کھینچ کر پھر سے سو گیا۔ اس نے بستر اس سمے چھوڑا جب اس کی بہنا سرسوتی اسے سورج چڑھے اٹھانے آئی۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا کمرے سے باہر نکلا۔ ایک نظر اپنی ماتا پر ڈالی جو برآمدے میں فرش پر بچھی دری پر بیٹھی، موٹے شیشوں کی عینک لگائے، کمر کو کمان کئے کشیدہ کڑھائی میں منہمک تھی۔ آنند کو یوں لگا جیسے وہ کپڑے پر بیل بوٹے نہیں بلکہ اپنے سامنے غربت کی چادر پھیلائے اس میں سے خوشیاں کشید کر رہی ہے۔ آنند نے پیار بھری نظروں سے اپنی ماتا کو دیکھا اور صحن میں الگنی پر لٹکتا تولیہ ہاتھ میں لے کر اشنان کرنے چلا گیا۔ وہ جب باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ماتا کام چھوڑ کر دیوار سے ٹیک لگائے کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی ہے۔ وہ کئی دنوں سے اسے اسی طرح سے کھویا کھویا دیکھ رہا تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ اس کی ماتا کیوں پریشان ہے۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جس ماں کی جوان بیٹی گھر میں کنواری بیٹھی ہو اور اس کا کوئی رشتہ بھی نہ آ رہا ہو تو وہ ماں کیسے چین کی نیند سو سکتی ہے؟ بڑا بھائی ہونے کے ناطے اسے خود بھی یہ چنتا کھائے جا رہی تھی کہ سرسوتی کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ کی محلے کی دوسری لڑکیاں اور خود اس کی کئی سکھیاں کب کی سہاگنیں ہو چکی تھیں۔ وہ خوبصورت بھی تھی، تعلیم بھی اچھی خاصی تھی مگر غربت کا سانپ ان کی دہلیز پر بیٹھا ہوا تھا جو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی رشتہ گھر میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس نے یاس بھری نظروں سے اپنی ماتا کو دیکھا اور زور سے گلا کھنکارا، اس کی ماں چونک پڑی اور ترنت اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ آنند نے جلدی جلدی بھوجن کیا، ماتا کے چرن چھوئے اور کام پر روانہ ہو گیا۔
آنند نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ سانسوں کا سلسلہ بحال رکھنے کے لئے اسے کسی گارمنٹس کی دکان پر سیلز میں جیسی معمولی نوکری کرنی پڑے گی۔ وہ اس وقت یونیورسٹی کا طالب علم تھا جب اسے تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہنا پڑا۔ اس کے ماتا پتا کی آشا تھی کہ وہ ایک مہان پُرُش بنے۔ اس کے پتا نے کبھی بھی غربت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیشہ اس کا مقابلہ کیا اور آنند کی ہر ضرورت کو پورا کیا تھا۔ اپنے ماتا پتا کی آشاؤں کو دیکھتے ہوئے آنند بھی اپنی جگہ پر بہت بے کل تھا کہ کب اس کی شکھشا پوری ہو اور وہ اپنے ماتا پتا کے سپنوں کو تعبیر کے آسمانوں پر سجائے۔ مگر بھگوان نے اس کے لئے کچھ اور ہی راستے چن رکھے تھے۔ ایک روزاس کا پتا کام کے لئے گھر سے نکلا تو دوپہر کو لہو میں لت پت اس کی لاش گھر آئی تھی۔ وہ شہر کی بلند ترین عمارت پر کام کرتے ہوئے زمین پر آ گرا تھا۔ اس کا پتا مفلسی و غربت کو گھر کا سربراہ بنا کر بِنا کسی سے کچھ کہے موت کے ہاتھ میں ہاتھ میں ڈال کر چلا گیا۔ مفلسی جیسے سنگدل سربراہ نے آنند کے ساتھ ایسا بہیمانہ رویہ اپنایا کہ اس سے کتابیں چھین کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا۔ آنند نے جی توڑ کوشش کی کہ اسے کسی جگہ پر کوئی اچھی سی نوکری مل جائے مگر ناکامی نے شکست دے کر اس پر خوب قہقہے لگائے۔ مجبوری کے طور پر وہ گارمنٹس کی دکان پر کام کرنے لگا۔ اس کی ماتا کشیدہ کاری کر کے گھر کی گاڑی کھینچنے میں اس کی مدد کر رہی تھی۔ مگر اتنے کٹھن حالات کے دشت میں بھٹکنے کے باوجود آنند نے اپنی سوچوں کے نئے اور اجلے منظر تراش کر بھگوان کے سامنے رکھے ہوئے تھے اور ان میں داخل ہونے کے راستے معلوم کرنے میں لگا ہوا تھا۔
ایک روز اخبار دیکھتے ہوئے اس کی نظر ایک خبر پر ٹک سی گئی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ٹھیک بیس دن بعد سورج گرہن ہو گا اور یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ اس وقت لوگ گھروں میں رہیں تاکہ گرہن کے مضر تابکاری اثرات سے بچا جا سکے۔ ساتھ ہی سورج گرہن پر ایک چھوٹا سا دلچسپ فیچر بھی چھپا ہوا تھا جسے وہ دلچسپی کے ساتھ پڑھنے لگا۔
(۲)
’’ماں جی۔۔۔! مجھے پچاس ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ آنند نے ماتا کے قدموں میں آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا۔ آنند کی بات سن کر وہ چونک گئی جو ایک ٹانگ لمبی کئے اور دوسری پر فریم رکھے کشیدہ کاڑھنے میں مصروف تھی۔ آنند کا مطالبہ تھا کہ تیر۔۔۔ اس کے تیزی سے کشیدہ کاڑھتے ہاتھ رک گئے۔ اس کی بات پر اس کی بہن سرسوتی بھی اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی جو صحن میں الگنی پر کپڑے ڈال رہی تھی۔
’’اتنے سارے پیسے۔۔۔؟ خیر تو ہے بیٹا۔۔۔؟‘‘ ماتا نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
’’ہاں ماں۔۔۔ چنتا کی کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے یوں سکون سے کہا جیسے اس کے لئے معمولی بات ہو۔
’’مگر اتنے سارے پیسوں کی تمہیں کیوں ضرورت پڑ گئی۔۔۔؟ کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔۔۔؟‘‘ ماتا نے فریم کو ایک طرف رکھا اور اپنی عینک اتارتے ہوئے پریشانی سے پوچھا
’’ماں جی۔۔۔ میں گھر میں گؤ ماتا لانا چاہتا ہوں۔‘‘ آنند نے جواب دیا۔
’’گؤ ماتا لانا چاہتے ہو۔۔۔؟ مگر کیوں بیٹا؟ ہمیں فی الحال گاؤ ماتا کی ضرورت نہیں ہے۔ گھر میں پوجا پاٹ کے لئے بھگوان کی مورتی ہے نا۔۔۔؟‘‘ ماتا نے حیرت سے کہا۔ ادھر سرسوتی بھی آنند کی عجیب سی بات سن کر قمیض نچوڑتے نچوڑتے رک گئی تھی۔
’’نہیں ماں۔۔۔ اس وقت ہم سب کو گؤ ماتا ہی کی ضرورت ہے اور مجھے ہر حال میں پچاس ہزار روپے چاہئیں۔‘‘ آنند نے انتہائی پکے لہجے میں کہا۔
’’بیٹا آنند۔۔۔ مجھے تمہاری بات کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ آخر گؤ ماتا گھر میں لا کر ہم کریں گے کیا؟‘‘ ماتا نے تذبذب بھرے انداز میں پوچھا۔
’’دیکھو ماں جی۔۔۔ آپ کی آشا ہے نا کہ ہمارے حالات اچھے ہو جائیں اور کٹھن سمے ختم ہو جائے۔۔۔؟‘‘ آنند نے اپنی ماتا کے سوکھے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر پیار سے سہلاتے ہوئے پوچھا
’’ہاں میرے لعل۔۔۔ میری تو سب سے بڑی آشا ہی یہی ہے مگر۔۔۔‘‘ ماتا کو خاموشی لگ گئی۔ آنند کی باتوں نے اسے الجھا کے رکھ دیا اور وہ عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
’’تو بس ماں جی۔۔۔ اس کے لئے ہمارے گھر میں گؤ ماتا کا ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ آنند نے اپنی ماتا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ سرسوتی بھی اب تجسس کے مارے اپنا کام چھوڑ کر ماتا کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی اور اپنے بھیا کو عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔
’’مگر بیٹا۔۔۔ میرے پاس اتنے سارے پیسے کہاں سے آ گئے؟‘‘ ماتا نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔ آنند نے لمحہ بھر کے لئے اپنی ماتا جی کا بجھا ہوا چہرہ دیکھا اور پھر بولا
’’ماں جی۔۔۔ اگر سرسوتی کے زیورات بیچ دیں تو گھر میں گؤ ماتا آ سکتی ہے۔‘‘ اس کی بات سن کر ماتا جی ایک دم سے چونک اٹھی۔
’’آنند بیٹا۔۔۔ کیوں مزید پریشان کرنا چاہتے ہو۔۔۔؟ تمہیں پتہ بھی ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ ماتا جی نے پریشانی کے عالم میں بجھے ہوئے لہجے میں کہا
’’ماں جی۔۔۔ آپ مجھ پر وشواس کریں۔۔۔ میں آپ کو وچن دیتا ہوں کہ ہمارے حالات ترنت ٹھیک ہو جائیں گے۔ بس اس کے لئے گھر میں گؤ ماتا کا ہونا بہت ضروری ہے اور آپ وہی کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ آنند نے ماتا جی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں تک ماتا اسے تجسس بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔
دوسرے ہی دن اس کی ماتا نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر زیورات اس کے حوالے کر دیئے۔ دو تین دن بعد اس کی ماتا اور بہنا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آنند ایک ایسی گؤ ماتا گھر لایا جو حاملہ تھی۔ انہیں آنند کی اس بات کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ مگر آنند ان سے بے نیاز صرف سورج گرہن کے دن کا انتظار کرنے لگا۔ اس دوران وہ گؤ ماتا کا بہت خیال رکھتا۔ سورج گرہن والے دن اس نے کام سے چھٹی کی۔ وہ ایک مکمل سورج گرہن تھا جو کافی دیر تک رہا اور مختلف ٹی وی چینلز نے اس کی مکمل کوریج کی تھی۔ سورج گرہن کے ختم ہونے کے بعد ماتا نے محسوس کیا کہ آنند کچھ بے چین ساہو گیا ہے اور ہر وقت گؤ ماتا کے ارد گرد گھومنے لگا ہے۔ وہ اس سے بات کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اس دوران گؤ ماتا نے بچھڑے کو جنم دے دیا اور بچھڑے کو دیکھتے ہی اس کی ماتا اور بہنا کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بچھڑے کے قدموں میں گرے پڑے تھے۔ چمتکار ہو گیا تھا، بچھڑے کے پیٹ کے دونوں طرف بڑا بڑا اوم لکھا ہوا تھا۔ حیرت اور خوشی سے ماتا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مگر آنند ان کی حالت سے خوب محظوظ ہو کر مسکراتا ہوا انہیں دیکھ رہا تھا۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور شردھالُوؤں کا ایک سمندران کے گھر پر امنڈ پڑا۔ جن میں میڈیا کے لوگ پیش پیش تھے۔ پہلے ہی دن ان کے گھر اتنی لکشمی اتری کہ وہ اسے سنبھال بھی نہ پائے۔ آنند کی ماتا اور بہنا خوشی سے دیوانی ہوئی جا رہی تھیں کہ ان کے گھر میں بھگوان نے چمتکار کر دکھایا ہے مگر یہ تو صرف آنند ہی جانتا تھا کہ سورج یا چاند گرہن کے وقت حاملہ جانوروں یا پرندوں کے پیٹ پر جو کچھ بھی لکھا جائے وہ ان کے پیدا ہونے والے بچوں کی کھال پر قدرتی طور پر لکھا ہوتا ہے اور اس نے قدرت کے اس نرالے اصول سے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔
٭٭٭
خوفِ خدا
شرافت نے اجرت کے تین سو روپے جیب میں ڈالے اور کام سے چھٹی کر کے تھکا ماندہ گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ راستے میں پڑنے والے ایک بڑے سے میڈیکل سٹور میں داخل ہو گیا جہاں گاہکوں کا کافی رش تھا۔ دکان پر کام کرنے والے تین چار لڑکے ہاتھوں میں ڈاکٹری نسخے تھامے مستعدی سے مختلف خانوں سے دوائیاں نکالنے اور گاہکوں کو سمجھانے میں مصروف تھے کہ کون سی دوا کتنی مقدار میں اور کب کھانی ہے۔ شرافت نے ان پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور اپنی جیب سے تہہ کیا ہوا ایک ڈاکٹری نسخہ نکال کر کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے دکان کے مالک سے بولا:
’’بھائی صاحب۔۔۔ ذرا ان دوائیوں کی قیمت تو بتا دیں کہ ان پر کتنے پیسے لگ جائیں گے۔۔۔۔؟‘‘
پکی عمر کا گھنی مونچھوں والا شخص اس سے نسخہ لے کر دیکھنے لگا اور پھر کیلکولیٹر پر تیزی کے ساتھ انگلیاں چلانا شروع کر دیں۔
’’تین ہزار چار سو روپے‘‘ اس نے شرافت کی طرف دیکھتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔
پیسے سن کر شرافت کے تو پسینے چھوٹ گئے، مزید بات کرنے کی اس میں ہمت نہ ہوئی۔ اس نے دکان دار سے نسخہ لیا اور شکستہ قدموں کے ساتھ چپ چاپ دکان سے اتر آیا۔ اس کے دماغ میں ’’تین ہزار چار سو روپے‘‘ گونجنے لگے۔ کہاں سے لاؤں گا اتنے سارے پیسے؟ وہ اسی پریشانی میں ڈوبا آس پاس سے بے خبر ہو کر گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی ماں دوائیوں کی منتظر ہو گی جو سرطان جیسے موذی مرض کے ساتھ زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ کل ہی اس نے کہیں سے ادھار لے کر اپنی ماں کا چیک اپ کروایا تھا اور ڈاکٹر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے دوائیاں لکھ کر دی تھیں، جنہیں فوری طور پر شروع کرنے کی سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی۔ مگر دوائیوں کی قیمت سنتے ہی اس پر مردنی چھا گئی تھی۔
کب وہ اپنے علاقے میں پہنچا؟ اسے پتہ ہی نہ چل سکا۔ اسے ہوش اس وقت آیا جب وہ محلے کی زیرِ تعمیر مسجد کے قریب سے گزرا، جہاں سپیکروں پر چندے کے لئے بار بار اعلان کیا جا رہا تھا اور چندہ دینے والوں کے نام محلے بھر میں گونج رہے تھے۔
’’کیا خدا کو بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔؟‘‘ اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا مگر پھر اسے اپنی ہی سوچ پر جھرجھری سی آ گئی اور اس نے دل ہی دل میں فوراً خدا سے معافی مانگ لی۔
شرافت رات بھر پریشانی سے کروٹیں بدلتا رہا، ماں کی فکر نے اسے سونے نہیں دیاجس کی حالت خطر ناک حد تک بگڑ چکی تھی اور وہ بے بسی کی زنجیروں میں جکڑا کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ وہ کسی سے ادھار لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا تھا اور ویسے بھی اسے مزید ادھار کون دیتا؟ جو پہلے بھی کافی لوگوں کا مقروض ہو چکا تھا۔ ایسی جانگسل صورتِ حال نے اسے غمزدہ کر دیا۔ اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا مگر اپنی جنت کو اس طرح سے بے بسی سے مرتا ہوا دیکھنے کی ہمت اس کے اندر نہیں تھی۔ وہ ہر صورت میں اسے بچانا چاہتا تھا مگر کیسے۔۔۔؟ یہی کچھ سوچتے سوچتے اچانک اس کے ذہن میں ایک راستے نے راستہ بنا لیا۔
اگلے روز اس نے کام سے چھٹی کی۔ پچھلی عید کا سلا ہوا جوڑا پہنا۔ گھر سے ایک چنگیر لے کر اس پر کپڑا ڈالا اور سر پر ٹوپی کر کے وہ شہر کے ایک معروف بازار کی طرف چل پڑا۔
’’جزاک اللہ جی۔۔۔ مسجد کا چندہ۔۔۔ جزاک اللہ۔۔۔‘‘ ہر دکان پر جا کر وہ دکاندار سے چندہ طلب کرنے لگا۔
سخت گرمیوں کے دن تھے، وہ تھوڑی ہی دیر میں پسینے میں شرابور ہو گیا۔ مگر وہ ایسی جھلستی دھوپ میں کام کرنے کا عادی تھا، اس لئے آگ برساتا سورج اس کے ارادوں کے سامنے ٹھنڈا پڑ گیا۔ وہ چندے کی آواز لگاتا رہا اور اس کی چنگیر میں ہر قسم کے سکے اور نوٹ جمع ہوتے رہے۔ زندگی میں پہلی بار کئی قسم کے لوگوں کے ساتھ اس کا واسطہ پڑا تھا۔ کسی نے کچھ نہ دے کر نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کرنے کو کہا، کسی نے اس پر آنکھیں نکال کر غصہ کیا، کسی نے کاروبار کا رونا رویا اور کسی نے روکھے انداز میں یہ کہہ کر اسے چلتا کیا کہ جاؤ بھئی جاؤ تنگ مت کرو، مگر کئی لوگوں نے بڑی شفقت اور فیاضی کا معاملہ کرتے ہوئے بڑے بڑے نوٹ بھی ڈال دئیے تھے۔ وہ سارا دن مارا مارا پھرتا رہا اور اس کی زبان پر جزاک اللہ کا ورد جاری رہا مگر وہ دل ہی دل میں اللہ سے توبہ بھی کرتا رہا۔ اِس غلط کام کا اسے پوری طرح سے احساس تھا۔ نماز کے اوقات میں راستے میں آنے والی مسجد میں وہ نماز پڑھتا تو کافی کافی دیر تک اللہ سے معافی مانگتا رہتا۔
شام کی نمازاس نے شہر کے ایک مشہور چوک میں پڑھی اور پھر وہیں سے واپسی کا ارادہ باندھا۔ تھکاوٹ سے اس کا برا حال تھا اور اس کی ٹانگیں جواب دے گئی تھیں، ویسے بھی اس نے اچھی خاصی رقم جمع کر لی تھی۔ وہ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد تھکا ہارا اپنے گھر پہنچ گیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں جا گھسا، جہاں اس نے تسلی سے بیٹھ کر پیسے گنے۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، پیسے اس کی ضرورت سے کافی زیادہ تھے۔ اس نے پیسوں کو ایک لفافے میں لپیٹ کر الماری میں رکھا اور تالا لگا کر چابی جیب میں ڈالی ہی تھی کہ اس کے گھر کے دروازے پر دھڑا دھڑ دستک ہوئی۔ وہ فوراً کمرے سے باہر نکلا اور سیدھا دروازے کی طرف لپکا۔ باہر نکلا تو سامنے مسجد کے متولی کریمو اور امام مسجد کو ایک ساتھ دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’کیوں شرفو۔۔۔! یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟ تم سے کس نے کہا کہ مسجد کے لئے بازاروں میں چندہ مانگتے پھرو۔۔۔۔؟‘‘
کریمو نے خشمگیں نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے کرختگی سے کہا، جیسے وہ لڑنے آیا ہو۔
شرافت یہ سن کر سٹپٹا سا گیا۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا اور وہ اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔ امام مسجد بھی اسے چبھتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’بولو شرفو۔۔۔ چندہ مانگنے کی اجازت تمہیں کس نے دی؟ تم کب سے متولی بن کر مسجد کے معاملات میں ٹانگ اڑانے لگے؟ اور غضب خدا کا تم نے چندہ بھی امام صاحب کے حوالے نہیں کیا۔‘‘ کریمو نے غصے سے پھنکارے ہوئے کہا۔
شرافت ڈر کے مارے سہم گیا اور ڈرتے ڈرتے بولا:
’’کریمو بھائی۔۔۔ اللہ مجھے معاف کرے، اصل میں بہت مجبور ہو کر وہ پیسے میں نے اپنی ماں کے علاج کے لئے مانگے ہیں، مسجد کے لئے نہیں۔‘‘
’’توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ کیا بے ایمان زمانہ آ گیا ہے۔ توبہ نعوذ باللہ تم نے خدا کو بے وقوف بنایا ہے۔۔۔ کچھ شرم کرو شرفو اور خدا کے قہرسے ڈرو۔‘‘
کریمو نے چنگھاڑتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
شرافت اس کی دھاڑ سے کانپ اٹھا۔ اس کی آنکھوں سے جیسے چنگاریاں سی نکل رہی تھیں۔ اس کی چنگھاڑتی آواز سن کر گلی کے چند اور لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے۔
’’شرفو۔۔۔ تم نے یہ بہت گھٹیا حرکت کی ہے۔ تمہیں ذرا بھی خوفِ خدا نہیں رہا کہ تم نے اللہ کے نام اور اس کے گھر کو بدنام کیا ہے۔ یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم ایمان سے خالی ہو چکے ہو اور اللہ کے عذاب کو آواز دی ہے تم نے۔‘‘ امام مسجد نے بھی اس پر اپنا غصہ اتار دیا۔
’’اب شرافت کے ساتھ چندے کے سارے پیسے میرے ہاتھ پر رکھو اور اللہ سے اپنے کئے کی معافی مانگو۔‘‘
کریمو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے غصے سے کہا
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ پیسے میں نہیں دے سکتا، میں نے بہت مشکل سے یہ پیسے اپنی ماں کے لئے اکٹھے کئے ہیں۔ مجھ پر نہیں تو میری ماں پر رحم کرو۔‘‘ شرافت نے ایک دم جوشیلے انداز میں کہا۔
’’کیا کہا تم نے۔۔۔؟ تم نہیں دو گے۔۔۔؟ تمہاری یہ جرأت کہ تم انکار کرو اور اللہ کے پیسے اپنے پاس رکھو؟ میں کہتا ہوں کہ عزت سے سارے پیسے مجھے دے دو ورنہ مسجد میں تمہارا داخلہ بند کروا دوں گا۔‘‘ کریمو نے چیختے ہوئے کہا۔ غصے کی شدت سے اس کا منہ سرخ ہو گیا اور ہونٹوں سے جھاگ نکلنے لگا۔
’’کریمو بھائی۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں اس وقت میں بہت مشکل میں ہوں۔ میری ماں کینسر کی وجہ سے مر رہی ہے، اور یہ پیسے میں نے اس کے علاج کے لئے جمع کئے ہیں۔ میرے ساتھ یہ ظلم مت کرو، میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں۔‘‘ شرافت نے منت کرتے ہوئے لجاجت سے کہا
’’شرفو۔۔۔! تم بات کو خواہ مخواہ الجھا رہے ہو۔ یہ شریعت کا معاملہ ہے اوراس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم یہ غیر شرعی کام کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ تمہارے اندر اگر ذرہ برابر بھی ایمان اور خوفِ خدا ہے تو چپ چاپ سارے پیسے ہمارے حوالے کر دو اور اللہ سے فوری طور پر اپنے اس گناہِ کبیرہ کی معافی مانگو۔۔۔ تم نے اللہ کے گھر کے ساتھ ساتھ پورے محلے کو بدنام کیا ہے۔‘‘ امام مسجد نے اسے سرزنش کرتے ہوئے غصے سے کہا۔
مگر شرافت ٹس سے مس نہ ہوا اور اس نے پیسے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ شور شرابہ سن کر محلے کے کافی لوگ اکٹھے ہو گئے اور چپ چاپ یہ سارا معاملہ دیکھنے لگے۔
’’امام صاحب۔۔۔! لگتا ہے یہ ایسے نہیں مانے گا، ہمیں کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
کریمو نے غصے سے کہا اور شرافت کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’چلیں امام صاحب۔۔۔ اس سے مزید بات کرنا فضول ہے، اس کا کوئی دوسرا بندوبست کرتے ہیں۔‘‘
کریمو نے امام صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور دونوں وہاں سے پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔
شرافت نے وہاں پر کھڑے تماش بینوں پر ایک اداس سی نظر ڈالی اور خاموشی کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔ برآمدے میں اس کی ماں چارپائی پر اٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی جسے اس کی بیوی نے دونوں کاندھوں سے پکڑ کر سہارا دے رکھا تھا۔
’’کیا ہوا … شریفے۔۔۔! یہ باہر … دروازے پر کیسا … شور تھا، خیر تو … ہے نا۔۔۔؟‘‘ اس کی ماں نے نحیف سی آواز میں پوچھا۔ فکر مندی اس کے چہرے پر چھاپے مار رہی تھی
’’کچھ نہیں اماں۔۔۔! بس یوں سمجھو جنت کے ٹھیکیدار تھے اور ہمیں بے دخل کرنے آئے تھے۔‘‘
شرافت نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
’’تم فکر مت کرو اماں۔۔۔ میں کھانا کھا کرا بھی تمہارے لئے دوائیاں لے آتا ہوں، انشا اللہ تم جلد ہی ٹھیک ہو جاؤ گی۔‘‘
شرافت نے ماں کو دونوں شانوں سے پکڑ کر آہستگی سے لٹاتے ہوئے کہا
’’اللہ تمہیں سکھی رکھے پتر۔۔۔ جگ جگ جیو۔۔۔‘‘
اس کی ماں نے کپکپاتی آواز میں اسے دعائیں دیتے ہوئے کہا اور اس کا چہرہ یوں کھل اٹھا جیسے اسے دونوں جہانوں کے خزانے مل گئے ہوں۔
شرافت اپنی ماں کے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھا کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ اچانک باہر دروازے پر زور زورسے دستک ہوئی۔ اس نے ہاتھ میں لیا ہوا نوالہ جلدی سے منہ میں ڈالا اور اسے چباتے ہوئے اٹھ کر سیدھا دروازے کی طرف بڑھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور نوالہ حلق میں ہی اٹک گیا۔ دو پولیس والے اس کے دروازے پر موجود تھے، جن کے ساتھ کریمو بھی کھڑا تھا۔
’’حوالدار صاحب۔۔۔ یہی ہے وہ شرافت۔۔۔ جس نے مسجد سے چندے کے پیسے چوری کئے ہیں۔‘‘
کریمو نے اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شرافت نے یہ سنا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
’’گرفتار کر لو اسے‘‘ حوالدار نے انتہائی کرخت آواز میں کہا اور اگلے ہی لمحے شرافت پولیس کے شکنجے میں تھا۔
ساری رات وہ حوالات میں بند رہا اور پولیس نے تھپڑوں، گھونسوں، لاتوں اور ڈنڈوں سے اس کی خوب پٹائی کی، پورا تھانہ اس کی چیخوں سے گونجتا رہا اور وہ بار بار خدا رسول کی قسمیں کھاتے ہوئے کہتا رہا کہ میں پانچ وقت کا پکا نمازی ہوں اور میں نے اللہ کے گھر سے کوئی پیسے چوری نہیں کئے مگر تھانے میں اس کی سننے والا کون تھا؟ وہ جتنا اپنے آپ کو بے گناہ کہتا اسے اتنی ہی مار پڑتی، جیسے پولیس والے اسے مجرم مان کر اس سے منوانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ مگر اس نے بھی شاید نہ ماننے کی قسم کھا رکھی تھی اور سارے ہتھکنڈوں کے باوجود پولیس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
رات بھر تشدد کے باوجود جب اس نے کچھ نہ مانا تو صبح ہوتے ہی پولیس تلاشی لینے اس کے گھر پہنچ گئی۔ تین چار پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے تو اندر کا منظر ان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ برآمدے میں چارپائی پر سفید چادر میں ڈھکی شرافت کی ماں کی لاش رکھی ہوئی تھی، جس کے ارد گرد خواتین افسردہ چہرے لئے بیٹھی تھیں اور شرافت کی بیوی اپنے بچوں میں گھری چارپائی کے سرہانے بیٹھی دہاڑیں مار مار کر روئے جا رہی تھی۔ مگر یہ دلدوز منظر پولیس کے ارادوں کی دیوار میں دراڑیں نہ ڈال سکا۔ انہوں نے سرسری سی نگاہ ڈالی اور دندناتے ہوئے کمروں میں گھس کر تلاشی لینے میں مصروف ہو گئے۔ چند ہی لمحوں میں انہوں نے کمرے کی چیزوں کو تہہ و بالا کر کے اس کی حالت ابتر کر دی۔ ادھر پولیس تلاشی میں مصروف رہی اور ادھر شرافت کی بیوی کی دل دہلا دینے والی آواز گھر بھر میں گونجتی رہی۔
’’اِن ظالموں نے میرے شوہر کو قیدی بنا کر اماں کو مار ڈالا۔ وہ پوری رات شریفے۔۔۔ شریفے پکارتی مر گئی۔۔۔ ہائے ظالمو۔۔۔ اب تو چھوڑ دو میرے بے گناہ شرافت کو۔۔۔ اس کی دنیا تو اجاڑ دی تم لوگوں نے۔۔۔ اب اور کیا چاہئے۔۔۔؟‘‘
مگر لگتا تھا کہ پولیس نے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی تھی، ان پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ مسلسل اپنے کام میں لگے رہے۔ کچھ ہی دیر میں الماری کا تالا توڑ کر لفافے میں لپٹے پیسے برآمد کر لئے گئے اور پولیس شرافت کی بیوی کو روتا دھوتا چھوڑ کر وہاں سے فاتحانہ انداز میں رخصت ہو گئی۔
’’یہ سنبھالیں اپنی امانت جناب۔۔۔! بڑی محنت کے ساتھ یہ پیسے برآمد کئے ہیں میرے جوانوں نے۔‘‘
حوالدار نے مسکراتے ہوئے کہا اور پیسوں کی موٹی سی گڈی اپنے سامنے بیٹھے کریمو کے ہاتھ پر رکھ دی، جسے اس نے جھٹ سے لے لیا۔ اتنے سارے پیسے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل اٹھی تھیں۔
’’بہت سخت جان نکلا یہ مردار۔۔۔ ہمارے تو پسینے چھڑوا دیئے اس نے مگر مجال ہے جو کچھ مانا ہو۔۔۔‘‘
حوالدار نے شرافت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، جو اس کے کمرے کے سامنے ہی بنے حوالات کے اندر نیم بے ہوشی کی حالت میں دیوار سے ٹیک لگائے اور سر ایک طرف ڈھلکائے بیٹھا ہوا تھا۔
’’جی بہت مہربانی حوالدار صاحب۔۔۔! واقعی آپ نے اس کام کے لئے جان ماری ہے اور ایک غیر شرعی کام کو روکا ہے۔ اللہ پاک آپ کو اس کا اجر ضرور دے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اب اس اللہ نبی کے گناہگار کو چھوڑ دیں۔۔۔ سنا ہے کل رات اس کی ماں بھی فوت ہو گئی ہے۔‘‘
کریمو نے پیسوں کی گڈی اپنی جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا
’’ظاہر ہے جب اولاد کے کرتوت ایسے ہوں گے تو کون سی ماں سکھی رہے گی۔۔۔؟ اوئے اسلم۔۔۔! چھوڑ دو اس مجرم کو۔۔۔ ورنہ لوگوں کو تو پولیس کو بدنام کرنے کا بہانہ چاہئے کہ اُدھر ایک ماں مری پڑی ہے اور اِدھر ظالم پولیس نے اس کے بیٹے کو بند کیا ہوا ہے۔‘‘
حوالدار نے دروازے پر کھڑے سپاہی کو گرجدار آواز میں حکم دیتے ہوئے کہا اور وہ ’’یس سر‘‘ کہتا ہوا حوالات کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭
تماشا
دینو موچی کو یہ اندیشہ ہر وقت دامن گیر رہنے لگا تھا کہ خستہ حالی کے باعث اس کا مکان کسی وقت بھی گر سکتا ہے۔ یہ حوصلہ شکن خیال اس کے دل و دماغ میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر چکا تھا کہ دن رات گھر کی سوچ دیمک بن کر اس کے حوصلے کی دیوار کو کھوکھلا کرتی جا رہی تھی۔ ویسے تو اس کی ساری عمر پریشانیوں کے کانٹوں پر ننگے پاؤں چلتے ہی گزری تھی، مگر گھر کی پریشانی کا کانٹا کچھ اس طرح سے اس کے تلووں میں اتر چکا تھا کہ اسے نکالنا اس کے بس میں نہیں تھا اور تکلیف کا احساس اسے ہر وقت تڑپاتا رہتا۔ مگراس تکلیف کو جھیلنے میں وہ اکیلا نہیں تھا، اس کی بیوی بھی اس کی برابر کی شریک تھی۔
گھر کیا تھا؟ بس ایک چھوٹا سا کمرہ اور اس سے بھی چھوٹا صحن۔ باپ دادا کی یہی نشانی ہی اس کی کل کائنات تھی۔ سالہا سال سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا گھر اب اس حال کو آ پہنچا تھا کہ ہلکی سی بارش یا آندھی بھی اسے ملیا میٹ کر کے اپنا آپ منوا سکتی تھی۔ بارش کے ننھے قطروں نے بار بار کی بمباری سے چھت کو جگہ جگہ سے چھید ڈالا تھا، جن سے بارش کا پانی ٹپک ٹپک کر اپنی من مانی کرتا رہتا۔ چھت سے ٹپکتا ہر ایک قطرہ دینو کے دل و دماغ پر ہتھوڑے سے بھی شدید ضرب لگاتا۔ محلے کے کافی سارے لوگ بھی جانتے تھے کہ دینو کا گھر اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور کسی وقت بھی زمین کی برابری کر سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ چند ایک افراد نے ہمدردی کی بھیک دیتے ہوئے ایک دو بار دینو سے کہا بھی کہ وہ اپنے گھر کی طرف توجہ دے، مگر جواب میں دینو نے اپنی آنکھیں ان کے چہروں پر یوں گاڑ دیں جیسے ان کے دمکتے چہروں کی رونق اپنی ویران آنکھوں میں بھرنا چاہتا ہو۔ وہ بھی دینو کی سنسان آنکھوں میں سلگتی ویرانی دیکھ کر دہل سے گئے تھے۔ اس کے بعد پھر کبھی کسی نے دینو سے اس کے گھر کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔
اِدھر گھر کی فکر دونوں میاں بیوی کو گھن کی طرح چاٹے جا رہی تھی اور اُدھر تنگدستی کا سانپ انہیں مسلسل یوں ڈس رہا تھا کہ اس کا تریاق کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا۔ بالآخر اس کی بیوی نے اسے محلے والوں سے ادھار مانگنے کو کہا۔ پہلے تو دینو نے صاف انکار کر دیا، مگر جب اس کی بیوی نے اس پر دباؤ ڈالا تو وہ چارو نا چار تیار ہو گیا۔ اس نے ہمت کر کے محلے کے ایک معززسے اتنی عاجزی سے ادھار مانگا، جیسے وہ ادھار نہیں بھیک مانگ رہا ہے۔ مگر ناکامی کے عفریت نے اس کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ حوصلہ ہار کر چپ بیٹھ جاتا اپنی بیوی کے کہنے پر وہ اور لوگوں کے پاس بھی گیا مگر کہیں بھی کام نہ بن سکا۔ جس کسی کے پاس بھی جا کر اس نے ہاتھ پھیلایا، ہر کسی نے اسے سر سے پاؤں تک یوں گھورا، جیسے وہ ان کے سامنے ننگا کھڑا ہو۔ جب ناکامی نے ہر جگہ اس کا منہ چڑایا تو اس نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ لوگوں کی ہمارے لئے اتنی ہمدردی ہی کافی ہے کہ وہ ہمیں کئی بار ہمارے گھر کی خستہ حالی کا احساس دلا چکے ہیں۔ مجبوراً دونوں میاں بیوی نے چپ سادھ لی اور پھر سے گھر کی پریشانی کی پھٹی چادر اوڑھنے پر مجبور ہو گئے۔
اس روز موسم ابر آلود تھا اور صبح تڑکے ہی سے بوندا باندی شروع ہو گئی تھی۔ دینو نے صبح سویرے کچھ کام دینا تھا اس لئے وہ معمول سے پہلے ہی دکان پر پہنچ گیا اور آتے ہی کام میں جت گیا۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز میں بڑی تیزی سے چل رہے تھے اور شاید اسی وجہ سے اس نے کام وقت سے پہلے ہی نمٹا لیا۔ وہ فارغ ہوا ہی تھا کہ گرج چمک کے ساتھ آسمان اچانک چنگھاڑ اٹھا۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ گہرے سیاہ اور سرمئی بادلوں نے ہلہ بول کر آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اوراس کے خطرناک تیور بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہے تھے۔ دینو پریشان ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بوندا باندی تیز بارش میں بدل گئی اور تھوڑی ہی دیر میں آسمان کھل کر برس پڑا۔ چنگھاڑتے آسمان پر چمکتی بجلی کی تلواروں کے وار سے لگتا تھا کہ وہ آسمان کاٹ ڈالیں گی اور ساتھ ہی چھاجوں برستی بارش کے آثار بتا رہے تھے کہ آسمان سارا پانی زمین پر انڈیل کر ہی دم لے گا۔ دینو کے چہرے پر فکر مندی کی گہری بارش ہونے لگی اوراسے گھر کی فکر نے بری طرح سے جکڑ لیا۔ اس نے اسی وقت گھر جانے کی ٹھان لی اور جلدی جلدی سے اپنے بکھرے اوزار رکھنے لگا۔ وہ ابھی آدھاسامان ہی رکھ پایا تھا کہ اچانک کوئی دوڑتا ہوا اس کی دکان پر آ کر رکا اور ہانپتے ہوئے بولا
’’دینو! تمہارا گھر گر گیا ہے۔‘‘ دینو کے ہاتھ سے ہتھوڑی گر پڑی اور اسے اتنے زور کا جھٹکا لگا جیسے اس کا جسم بجلی کی تاروں کی لپیٹ میں آ گیا ہو۔
اگلے ہی لمحے وہ موسلا دھار بارش میں سڑک پر ننگے پاؤں یوں سر پٹ دوڑ رہا تھا، جیسے موت اس کے تعاقب میں لگی ہو۔ اس کا رخ اپنے گھر کی طرف تھا۔ ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود وہ اتنا تیز دوڑا کہ چند لمحوں میں ہی اپنے گھر پہنچ گیا۔ دور سے ہی اس نے دیکھ لیا کہ اس کے گھرکا واحد کمرہ زمین بوس ہوا پڑا ہے اور چند افراد ملبے کے سامنے جمع ہیں۔ وہ ہانپتا ہوا آ کر ایک لمحے کے لئے رکا، اس کی سانسیں بری طرح سے اکھڑی ہوئی اور آنکھوں میں پانی اترا ہوا تھا جبکہ پاؤں کیچڑ سے لتھڑے ہوئے تھے۔ وہ لوگوں کو چیر کر تیزی سے آگے بڑھا اور عالمِ دیوانگی میں رندھی ہوئی آواز میں اپنی بیوی کو آوازیں دینے لگا ’’پروین۔۔۔ پروین۔۔۔‘‘ مگر سوائے بارش کی ٹپ ٹپ کے اس کی بیوی کی آواز کسی بھی کونے سے نہ ابھر سکی۔ اس نے لمحہ بھر کے لئے ادھر ادھر دیکھا اور پھر وہ دیوانہ وار یوں ملبہ ہٹانے لگا، جیسے اسے یقین تھا کہ اس کی بیوی اسی ملبے تلے کہیں دبی پڑی ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی وہاں پر کھڑے دوسرے لوگ بھی ملبہ ہٹانے لگے۔ بارش کی ٹپ ٹپ میں روح کو تڑپا دینے والی دینو کی لرزتی سسکیاں بھی ابھر رہی تھیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دینو کے تیزی سے چلتے ہاتھ رک گئے اور اس کے منہ سے آواز نکلنا یوں بند ہو گئی، جیسے اس کے ہونٹوں کو کسی نے سی ڈالا ہو۔ وہ جہاں تھا وہیں پربت بنا رہ گیا۔ دوسرے لوگ ملبہ ہٹاتے ہٹاتے رک گئے اور حیرت سے جب دینو کی طرف دیکھا تو اگلے ہی لمحے ہر چہرے پر سیاہ رات چھا گئی۔ اس کی بیوی کی لاش نہایت بری طرح سے کچلی پڑی تھی اور اس پرسکتہ طاری ہو چکا تھا۔ اس کے ساکت وجود کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے اپنی بیوی کے ساتھ اس کی روح بھی پرواز کر چکی ہے۔ اس مشکل وقت میں وہاں پر موجود لوگوں نے اسے سنبھالا۔ سب نے مل کر اس کی بیوی کی لاش ملبے سے نکالی اور اس کے کفن دفن میں مصروف ہو گئے۔ بارش رکنے پر اس کی بیوی کی نمازِ جنازہ ادا کر لی گئی، جس میں گنتی کے لوگ کے ہی شامل ہوئے تھے۔ مگر دینو کو کوئی ہوش نہیں تھا کہ کون اس کی بیوی کی آخری رسومات میں شامل ہے اور کون نہیں۔ وہ سب سے یوں لا تعلق ہو کر رہ گیا جیسے اس بھرے علاقے میں وہ بالکل اکیلا رہتا ہو۔ چند ایک محلے دار اس کے پاس تعزیت کے لئے بھی آئے مگر وہ ان کے سامنے بھی یوں گم صم بیٹھا رہا جیسے وہ انہیں جانتا ہی نہیں۔ اس کی بیگانگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے خود ہی اپنے گھر کا ملبہ صاف کیا اور کہیں سے ایک چھوٹا سا ٹینٹ لے آیا، جسے اس نے گرے ہوئے کمرے کے بیچوں بیچ نصب کر کے اپنے لئے مسکن تیار کر لیا۔
چند روز بعد اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ گروہ کی صورت میں محلے بھر میں گھروں کے چکر لگاتے پھر رہے ہیں۔ مگر دینو نے ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، بس اس نے ایک نظر ان پر ڈالی اور پھر انہیں یکسر نظر انداز کر دیا۔ اگلے ہی روز دینو دکان پر بیٹھا اپنے کام میں مصروف تھا کہ وہی گروہ اس کی دکان پر آ پہنچا۔ جس میں موجود ایک سرخ و سفید رنگت اور بھاری بھرکم وجود کے مالک شخص نے اپنی بھاری آواز میں دینو سے مخاطب ہو کر کہا
’’دینو بھائی! جیسا کہ تم جانتے ہو کہ پیر اکبر سائیں کا عرس قریب ہے۔ چونکہ ان کا مزار شریف ہمارے علاقے میں ہے، اس لئے اس کی دیکھ بھال بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے اور یہ ہم سب کے لئے بڑی سعادت کی بات ہے۔ کافی عرصہ سے پیر صاحب کا مزار توجہ نہ دینے سے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اس لئے علاقے کے لوگوں نے سوچا ہے کہ چندہ اکٹھا کر کے ان کے مزار کی تعمیر و مرمت عرس آنے سے پہلے ہی کر دی جائے۔ اس کے لئے علاقے کا ہر فرد اس کارِ خیر میں اپنا حصہ شامل کر رہا ہے۔ ہم سب تمہارے پاس بھی اسی غرض سے حاضر ہوئے ہیں کہ اگر تم بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ شامل کر لو تو پیر صاحب کے صدقے تمہارا گھر بھی آباد ہو گا۔‘‘
وہ شخص اپنی بات مکمل کر کے دینو کو امید بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ باقی سب لوگ بھی اس پر نظریں گاڑے اس کے جواب کا انتظار کرنے لگے۔ مگر دینو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ بس وہ خالی خالی نظروں سے انہیں یوں گھورتا رہا جیسے وہ ان کی چمکتی آنکھوں سے روشنی سلب کر کے ان میں ویرانیاں بھرنا چاہتا ہو۔ اس کی بنجر آنکھوں میں حزن و ملال اور تاسف کے گہرے سائے لہرانے لگے۔ چند لمحے اسی طرح خاموشی سے گزر گئے۔ جب دینو نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا تو وہ شخص پھر سے گویا ہوا
’’اچھا خیر ہے دینو! کوئی بات نہیں، تم اپنا کام کرو۔ ہمیں تمہاری پریشانی کا پورا اندازہ ہے۔ پھر بھی اگر ہو سکے تو مزار کی تعمیر میں اپنا حصہ ضرور ڈال دینا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ سب آگے بڑھ گئے۔ دینو گنگ سا ہو کر انہیں دور تک جاتا ہوا یوں دیکھتا رہا، جیسے وہ اسے گالی دے کر گئے ہوں۔ اچانک اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکلے اور اس کی گالوں پر سے راستہ بناتے ہوئے اس کی گھنی داڑھی میں گم ہو گئے۔
٭٭٭
خوابوں سے ڈرا ہوا آدمی
وہ زندگی میں کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا، جتنا ان دنوں میں تھا اور اس پریشانی کے باعث وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اپنے آپ میں ہی کہیں گم ہو کر رہ گیا۔ اسے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کیا جائے اور کس سے بات کی جائے؟
ایک بار تو اس کے جی میں آئی کہ اپنی بیوی کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کرے، جو پہلے بھی ایک دو بار اس کی حالت کو بھانپتے ہوئے اس سے پوچھ چکی تھی، مگر پھر اس نے سوچا کہ بیوی کو خواہ مخواہ پریشان کرنا مناسب نہیں، جو پہلے ہی گھر کے بکھیڑوں میں الجھی رہتی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخر کار اس نے اپنے ایک دوست سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ ضرور کوئی اچھا مشورہ دے گا۔ جب اس نے دوست سے بات کی تو وہ بھی فکر میں پڑ گیا۔
’’یار! میں تو کہتا ہوں، تمہارا معاملہ ایسا ہے کہ تم کسی مولانا سے بات کرو۔‘‘ دوست نے اسے تجویز دیتے ہوئے کہا۔
اور یہ بات اس کے دل کو لگی۔ ساتھ والے محلے میں نماز ادا کرنا اس کا معمول تھا۔ اس نے سوچا کہ وہاں کے مولانا صاحب سے ہی بات کرنی چاہئے، جو اکثر شرعی مسئلے بھی بتاتا رہتا تھا۔ ایک روز وہ نماز کے بعد اس سے ملا۔
’’مولانا صاحب! میں کافی عرصے سے بہت پریشان ہوں، دو خوابوں میں بری طرح سے پھنسا ہوا ہوں اور میری ذہنی حالت بہت خراب ہو گئی ہے‘‘ اس نے شکستہ لہجے میں کہا
’’اللہ جلا شانہ خیر کرے گا برخوردار۔ تم مجھے خواب سناؤ۔‘‘ مولانا نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے جی! میں آپ کو اپنا پہلا خواب سناتا ہوں جو میں کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔ ایک مذہبی جلوس ہے جو شہر کے مختلف حصوں سے گزر رہا ہے۔ جلوس میں نعرے ہیں، جوش ہے، غم ہے، واویلا ہے۔ چاروں طرف خون ہی خون ہے، جو لوگوں کے جسموں سے بہہ رہا ہے۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ جلوس میں موجود ہوتا ہوں، جو خود بھی گلے پھاڑ پھاڑ نعرے لگا رہے ہیں۔ ہر طرف غمزدہ چہرے ہیں اور ماحول سوگوار ہے۔ یہاں تک کہ دکانوں کی چھتوں پر بیٹھی عورتیں بھی بین کر رہی ہیں۔ بازار کے دونوں طرف کافی لوگ جلوس دیکھنے میں محو ہیں، میں بھی ان ہی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں۔ جلوس دیکھتے دیکھتے اچانک منظر بدل جاتا ہے اور میں خود کو چاروں طرف سے گھِرا ہوا پاتا ہوں۔ کچھ لوگ ہیں جو بپھرے ہوئے مجھے مارنے کی غرض سے ہاتھوں میں خون آلود تلواریں اور برچھیاں اٹھائے میری طرف بڑھ رہے ہیں، مجھے شدید خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ میں وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہوں مگر ہر طرف سے راستے بند ہوتے ہیں اور میں بری طرح پھنس جاتا ہوں۔ اپنی جان بچانے کے لئے میں اپنے دوستوں کو تلاش کرتا ہوں، مگراس وقت وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ میں پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہوں لیکن بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اتنی دیر میں وہ لوگ غضبناک ہو کر میرے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ بس وہ مجھے پکڑنے ہی لگتے ہیں کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میرا جسم کانپ رہا ہوتا ہے۔ خوف کے مارے مجھے پھر نیند نہیں آتی۔‘‘
اس نے خواب کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا اور مولانا صاحب کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا، جہاں گہری سنجیدگی چھا چکی تھی۔ لگتا تھا کہ خواب سن کر وہ بھی فکر میں پڑ گئے تھے۔ وہ انتظار میں تھا کہ دیکھو مولانا صاحب کیا تعبیر بتاتے ہیں۔ اس کی حالت کو بھانپتے ہوئے مولانا نے کہا۔
’’برخوردار! اللہ جلا شانہ رحم فرمائے، تمہارا یہ خواب مبارک نہیں لگ رہا۔‘‘
وہ مولانا صاحب کی بات سن کر سراسیمہ ہو گیا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد مولانا اس پر نظریں گاڑتے ہوئے پھر گویا ہوئے۔
’’میں اس کی تعبیر بتاتا ہوں مگر بہتر ہو گا کہ تم دوسرا خواب بھی سنا دو۔‘‘
’’جی مولانا صاحب‘‘ وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا:
’’یہ دوسرا خواب میں تقریباً ایک سال سے مسلسل دیکھ رہا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ میرے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے، جس میں پوری دنیا ڈوب رہی ہے۔ دور سے آسمان جتنی بڑی بڑی لہریں میری طرف بڑھ رہی ہیں۔ ہر طرف لوگوں کی چیخ و پکار ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ’’قیامت آ گئی۔۔۔ قیامت آ گئی‘‘ کی آوازیں بھی آ رہی ہوتی ہیں۔ میرے آس پاس کے سبھی لوگ چیختے چلاتے پانی میں ڈوب رہے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں بھی پانی میں ڈوبتی جا رہی ہیں۔ میں شدید خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔ چاروں طرف کہیں بھی خشکی نہیں ہوتی سوائے اس جگہ کے، جہاں میں کھڑا ہوتا ہوں، مگر میرے ذہن میں یہ خوف ہوتا ہے کہ تیزی کے ساتھ میری طرف بڑھتی بڑی بڑی لہریں مجھے بس ابھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائیں گی۔ ڈر کے مارے میں چھپنے کے لئے ادھر ادھر دیکھتا ہوں مگر ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے۔ ڈوبنے کے خوف سے میں تھر تھر کانپنے لگتا ہوں۔ جب پانی کی لہریں بالکل میرے سر پر پہنچ جاتی ہیں تو اچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ دہشت کے مارے میں پسینے میں نہایا ہوتا ہوں۔‘‘
اس نے دوسرا خواب تفصیل سے سناتے ہوئے کہا اور فکر مندی سے مولانا کی طرف دیکھنے لگا۔ مولانا صاحب پہلے تو ہونٹوں کو ہلاتے ہوئے کچھ ورد کرتے رہے اور پھر ہاتھوں پر دم کر کے اپنے پورے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
’’دیکھو برخوردار! اللہ جل شانہ معاف کرے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ تمہارے دونوں خواب اچھے نہیں ہیں۔ مگر ایک لحاظ سے تم بہت خوش نصیب بھی ہو کہ اللہ پاک کی طرف سے خوابوں کے ذریعے تمہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ سنبھل جاؤ۔‘‘
مولانا نے اپنی گھنی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تنبیہہ کی جا رہی ہے؟ میں سمجھا نہیں مولانا صاحب۔‘‘ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’برخوردار! گھبراؤ مت، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ پہلے مجھے یہ بتا ؤ کہ تم ساتھ والی کالونی میں رہتے ہو نا؟‘‘ مولانا نے پوچھا۔
’’جی جی، میں ساتھ والی کالونی میں ہی رہتا ہوں۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’بس پھر تو بات واضح ہو گئی اور تم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہو کہ اس کالونی میں کون لوگ رہتے ہیں؟ مگر کسی بات کا جاننا اور سمجھنا الگ الگ امر ہوتا ہے۔ اور بدقسمتی سے تم صرف جانتے ہو، سمجھتے نہیں کہ ان لوگوں کی حقیقت کیا ہے؟ اب ظاہر سی بات ہے کہ وہاں کے لوگوں کے ساتھ یقیناً تمہارا اٹھنا بیٹھنا ہو گا اور شاید تم ان کی محفلوں میں بھی آتے جاتے ہو گے، کیا ایسا ہے؟‘‘
مولانا نے اس سے پوچھا۔
’’جی ہاں مولانا صاحب، ایک ہی محلہ ہے، میں پیدا بھی وہیں ہوا اور پلا بڑا بھی وہیں ہوں، تو ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تو لگا ہی رہتا ہے۔ بلکہ میری تو ان کے ساتھ گہری دوستیاں بھی ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تو برخوردار! کیا پھر بھی تمہیں یہ خوفناک خواب سمجھ میں نہیں آ رہے کہ یہ بار بار تمہیں کیوں آ رہے ہیں؟ اللہ جلا شانہ کی اپنے ساتھ محبت کا عالم تو دیکھوسبحان اللہ، کہ وہ خوابوں کے ذریعے سے اتنے واضح طور پر تمہیں خبردار کر رہے ہیں کہ اے غافل انسان سنبھل جا۔۔۔ مگر۔۔۔ یہ نادان انسان اللہ کی محبت کو سمجھتا ہی نہیں، جس طرح سب کچھ جانتے ہوئے بھی تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ برخوردار! تمہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔ تم بہت خوش نصیب ہو اور مجھے تم پر رشک آ رہا ہے کہ خوابوں کے ذریعے سے تمہیں بار بار یہی تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تمہارا ایمان چاروں طرف سے شدید خطروں میں گھرا ہوا ہے۔ اللہ جلا شانہ کی اس لازوال محبت کو سمجھو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ مجھے ڈر ہے کہ غیر لوگوں کے ساتھ رہ رہ کر کہیں تم اپنے ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔‘‘
مولانا نے بڑے اعتماد کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کے اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا مگر اس ٹھہرے ہوئے لہجے نے اس کے اندر بھونچال پیدا کر دیا اور وہ بھونچکا رہ گیا۔ اس نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے خوابوں کی تعبیر ایسی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ تو اپنی پریشانی مٹانے آیا تھا مگر وہ ایک اور پریشانی لے کر لوٹا تھا۔
مولانا کی باتیں اس کے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح برسنے لگیں۔ کئی دنوں تک وہ ان باتوں میں بری طرح الجھا رہا۔ اسے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ اس دوران اسے پھر سے خواب آیا تو وہ اور بھی ڈر گیا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا کہ اگر مولانا صاحب کی باتیں سچ ہو گئیں تو۔۔۔۔؟ اس کے آگے وہ نہ سوچ سکا اور لرز اٹھا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جو اسے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا اوراس نے مسجد میں مولانا صاحب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا۔
جوں جوں وہ اس کی محفل میں آنے جانے لگا، اسے مولانا کی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اسی لئے اس کا زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزرنے لگا۔ اسے اندازہ ہوا کہ مولانا صاحب ایک اہلِ علم آدمی ہیں اور ان کی محفل میں وہ ایسی ایسی باتیں جاننے لگا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔ اسے شدت سے احساس ہونے لگا کہ اس کے پاس مذہبی علم بہت کم ہے۔ اب وہ مختلف قسم کی مذہبی کتابیں بھی پڑھنے لگا وہ جوں جوں کتابیں پڑھ رہا تھا، اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔ حقیقت میں وہ دھیرے دھیرے بدل رہا تھا اور خود کو آس پاس سے آہستہ آہستہ سمیٹ کر محدود کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اس کے علاقے کے لوگوں اور خاص طور سے اس کے دوستوں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ وہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ وہ محلے داروں کے ساتھ اب بہت کم بولتا تھا، بلکہ اس کی کوشش ہوتی کہ ان سے بات کرنا ہی نہ پڑے۔
اس کا زیادہ تر وقت مسجد میں گزرنے لگا، اس کے اندر ایسی انقلابی تبدیلی آ چکی تھی کہ اس نے اپنا حلیہ اور خدوخال یکسر بدل لئے تھے۔ اس نے خود کو اپنے اندر قید کر کے بچپن کی پالی ہوئی محلے کی ساری دوستیاں ختم کر کے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی ترک کر دیا۔ شروع شروع میں تو دوست اس کے دروازے پر آ کر اسے بلا لیا کرتے مگر آہستہ آہستہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس نے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اور یہ بات اس کے دوستوں نے بھی جانچ لی تھی، اس لئے انہوں نے بھی آنا جانا ختم کر دیا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو اڑوس پڑوس میں جانے سے بھی روک دیا۔ یہاں تک کہ قریبی پڑوسیوں کے گھرسے اپنے بچوں کی ٹیوشن بھی ختم کرا دی۔ اس کا ذہن مکمل طور پر بدل چکا تھا اور حیرت انگیز طور پر ان خوابوں سے اس کی جان چھوٹ گئی، جنہوں نے اس کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ اس کا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا کہ اس نے صحیح راستہ پا لیا ہے۔ وہ اکثر اوقات مولانا صاحب کا شکریہ ادا کیا کرتا کہ اس کی دوستی اور صحبت نے اسے گمراہ ہونے سے بچا لیا۔
اب وہ رات بھر مزے کی نیند سوتا اور ہر طرح کی فکر سے آزاد ہو گیا تھا۔ مگر ایک رات وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ خوف کے مارے اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اور وہ بری طرح سے سہما ہوا تھا۔ اس نے خواب میں پھرسے دیکھا کہ پوری دنیا پانی میں ڈوب رہی ہے اور وہ خود بھی ان طوفانی لہروں کی نذر ہونے والا ہے۔ مگراس نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ کچھ دنوں بعد پھر اسی خواب نے اس کی نیندیں اڑا کے رکھ دیں اور وہ ایک بار پھر پریشان ہو گیا کہ اب کی بار کیا ماجرا ہے؟ اس نے تو اپنے راستے بھی بدل لئے تھے مگر جب خواب مسلسل اسے تنگ کرنے لگے تو اس نے پھر سے مولانا صاحب سے بات کی۔
’’رفیق میاں! گھبراؤ نہیں۔۔۔ اللہ جلا شانہ کو تم سے بہت محبت ہے اوراس کی طرف سے اس محبت بھرے اشارے کو سمجھو گے تو دل کا سارا بوجھ اتر جائے گا اور تمہاری یہ پریشانی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ تم نے اللہ کے حکم سے تمام غلط دوستیاں ختم کر دی ہیں، جن سے تمہارے ایمان کو شدید خطرہ تھا، مگر پھر بھی تم رہتے تو ان ہی کے درمیان میں ہونا؟ اور یہ تو ایک کھلی سچائی ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے وہاں کے اثرات سے کسی طور نہیں بچ سکتا۔
رفیق میاں! بات یہ ہے کہ ہجرت کرنا ہمارے مذہب میں بہت بابرکت عمل ہے اور یہ ہمارے پیارے نبی پاکﷺکی سنت بھی ہے۔ اور اللہ جلا شانہ ایمان والوں سے ہمیشہ یہی چاہتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ تم بھی اللہ پاک کے اس حکم کو پورا کرو اور اپنا مکان بیچ کر وہاں سے ہجرت کر کے ہمیشہ کے لئے ان غیر لوگوں سے دور ہو جاؤ۔‘‘
مولانا نے اسے مدلل انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔ لوہا پہلے ہی گرم تھا، اس لئے بات سیدھی اس کے دل میں جا اتری۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اپنے آباء و اجداد کا برسوں پرانا مکان اونے پونے داموں بیچ ڈالا، جسے اس کے پرکھوں نے بڑی محبتوں اور چاہتوں کے ساتھ تعمیر کیا تھا اور جس کے کونے کونے میں بکھری محبت بھری چھاؤں میں وہ پل کر بڑا ہوا تھا۔ حالانکہ اس کے گھر والے اس بات سے بالکل بھی خوش نہیں تھے اور وہ اسے روکتے رہ گئے کہ مکان مت بیچو مگراس نے کسی کی بھی نہیں سنی۔ اس کے لئے اپنا ایمان بچانا سب سے زیادہ اہم تھا اور وہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھا۔ اس نے نیا مکان ساتھ والے اسی محلے میں ہی لیا، جہاں وہ نماز پڑھنے جایا کرتا۔ مکان کی چابی ملنے کے بعد اس نے ایک ہفتے میں ہی اپنی شفٹنگ مکمل کر لی اور آج اس نئے گھر میں اس کی پہلی رات تھی۔ دن بھرکی تھکن اس کے جسم میں رچی ہوئی تھی، جلد ہی نیند نے اسے آ لیا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر سویا تھا کہ اچانک گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا اور اس کا پورا بدن خوف سے کانپ رہا تھا۔ خواب میں اس نے پھر سے اپنے آپ کو جلوس میں گھرا ہوا پایا تھا۔
٭٭٭
آخری گاڑی
ڈھولک کی تھاپ گھر بھر میں گونج رہی تھی۔ کمرے میں رانو گوٹے والا سرخ دوپٹہ سر پر ڈالے منہ ڈھانپے دلہن بنی بیٹھی تھی اور آٹھ دس لڑکیاں اسے گھیرے ’’ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے، بابل اسی اڈ جانڑاں‘‘ گا رہی تھیں۔ گاتے ہوئے وہ اتنا زور لگا رہی تھیں کہ ان کے چہرے سرخی مائل ہو کر خوب دمک رہے تھے اور ہر چہرہ تازگی میں پھولوں کو کملا رہا تھا۔ مگر باہر وسیع صحن میں فیضو اپنے سر کو دونوں ہتھیلیوں پر رکھے اور داہنی ٹانگ کو بائیں ٹانگ پر دھرے کھاٹ پر پڑا ہر چیز سے بے نیاز یوں لیٹا تھا جیسے ڈھولک اس کے گھر میں نہیں کہیں اور بج رہی ہو۔ اس کا وجود کھاٹ پر پڑا تھا مگر اس کے چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ سوچوں کے اڑتے پنچھیوں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ کسی اور جہانوں میں اترا ہوا تھا۔ وہ شدید تذبذب کا شکار لگ رہا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس کا چہرہ میدانِ جنگ بنا ہوا ہے جہاں دو لمحوں کے بیچ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ کافی دیر تک وہ اسی حالت کا قیدی رہا اور پھر اچانک اس کے چہرے پر طمانیت یوں پھیلتی چلی گئی جیسے ٹوٹی پھوٹی دیوار پر سفیدی کی دبیز چادر چڑھا دی گئی ہو۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی ایک لمحے کی جیت ہو گئی ہے۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور اپنی ماں کو تلاشتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا جو اسے بھینسوں کے آگے چارا ڈالتی ہوئی نظر آئی۔ فیضو ننگے پاؤں ہی اپنی ماں کی طرف بڑھ گیا۔
’’اماں! میں بابے کو ڈھونڈنے شہر جاؤں گا۔‘‘ ماں کے قریب پہنچتے ہوئے اس نے کہا اور اس کی ماں چارہ ڈالتے ڈالتے یک لخت رک گئی۔
ڈھولک کی تھاپ اور لڑکیوں کے گانے کی آوازیں مسلسل گونج رہی تھیں۔ فیضو کی ماں چند لمحے تو ساکت کھڑی اسے دیکھتی رہی اور پھر بھینس کو چارہ ڈالتے ہوئے بولی
’’یہ تو کیا کہہ رہا ہے پتر؟‘‘ اس کے چہرے پر فکر اپنا نقشہ بنا نے لگی تھی۔
’’ہاں اماں! میں نے سوچا ہے کہ میں بابے کے واسطے شہر جاؤں گا۔‘‘ فیضو نے بھینس کی دائیں آنکھ کے قریب چمٹا ہوا بڑا سا تنکا ہٹاتے ہوئے کہا
’’ناں فیضو ناں! میں تجھے شہر نہیں جانے دوں گی۔ میں ڈرتی ہوں کہ شہر میں جا کر کہیں تو گم نہ ہو جائے۔‘‘ اس کی ماں تشویشناک لہجے میں بولی۔
’’نہیں اماں! مجھے کچھ نہیں ہو گا، تْو تو بس ایویں ہی پریشان ہو جاتی ہے، میں اتنا چھوٹا تو نہیں کہ بابے کو ڈھونڈنے شہر بھی نہ جا سکوں؟‘‘ فیضو نے بھینس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اچانک بکری کی ’میں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔‘ گونج اٹھی۔ فیضو نے صحن کے آخری کونے میں بندھی بکری کو دیکھا، جو اسی کی طرف دیکھے ’میں۔۔۔ میں۔۔۔۔‘ کیے جا رہی تھی، جیسے وہ اسے اپنی بھوک کا احساس دلا رہی ہو۔
’’مگر پتر! تمہارا اکیلے شہر جانا ٹھیک نہیں۔ سنا ہے کہ شہر کے حالات بہت خراب ہیں‘‘ اس کی ماں نے دو زانو بیٹھ کر بھینس کو چارہ ڈالتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی ماں کو کوئی جواب دئیے بغیر برآمدے کی جانب چل دیا، وہاں سے ہری ہری گھاس اٹھائی اور جا کر بکری کے آگے ڈال دی۔ بکری بے چین ہو کر ممیانے لگ پڑی اور زور زور سے دم ہلاتے ہوئے ہری ہری گھاس کھانے لگی، جیسے وہ اس مہربانی پر فیضو کا شکریہ ادا کر رہی ہو۔
’’اماں! تو یہ بھی تو سوچ ناں کہ بابے کو شہر گئے ہوئے دو دن ہو گئے ہیں اور وہ ابھی تک نہیں آیا، ہم سب کتنے پریشان ہیں، بس اماں! میں بابے کو ڈھونڈنے شہر ضرور جاؤں گا۔‘‘ فیضو دوبارہ ماں کے پاس آ کر ٹھوس لہجے میں بولا
’’سوہنڑاں رب خیر کرے فیضو پتر! مگر تو اپنے باپ کو کہاں ڈھونڈے گا؟ شہر تو بہت بڑا ہے اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کس سنارے سے زیور لینے گیا ہے؟‘‘
اس کی ماں نے بھینس کا تازہ تازہ گوبر اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر ساتھ رکھے بڑے سے تھال میں ڈالتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے سے پریشانی پانی کے بوندوں کی طرح رس رہی تھی۔
’’اماں! تو وہم نہ کر، میں اب شہر جا سکتا ہوں۔ میں بابے کو تلاش کر لوں گا۔ کل رانو کی بارات آنے والی ہے اور بابے کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے‘‘ فیضو نے بے چینی سے مچلتے ہوئے کہا۔ اس کی ماں نے گوبر سے بھرا ہوا تھال اسے دیا اور وہ اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھائے وہاں رکھ آیا، جہاں اس کی ماں دیوار پر اپلے لگاتی تھی۔
بالآخر فیضو کی ضد اس کی ماں پر حاوی ہو گئی اور اسے فیضو کو شہر جانے کی اجازت دینا ہی پڑی۔ وہ اس کے شہر جانے پر رضا مند تو ہو گئی مگر اس کے چہرے پر فکر و تردد کی کتنی ہی تہیں چڑھتی چلی گئیں۔ وہ پہلے ہی اپنے خاوند کے شہر سے واپس نہ آنے پر پریشان تھی اور اب فیضو کا یوں اکیلے شہر جانا اسے مزید پریشان کر گیا۔
(۲)
اْس وقت سائے قدموں کو چومنے لگے تھے جب اٹھارہ سالہ فیضو اپنی ماں کے چہرے کی تیزی سے ماند پڑتی چمک کو ویرانی میں تبدیل کر کے شہر روانہ ہوا تھا۔ وہ خود بھی کافی الجھا ہوا تھا اور شہر پہنچنے تک وسوسوں کے گدھ اس پر جھپٹتے رہے، جن سے وہ خود کو ایک پل کے لئے بھی نہیں چھڑا پایا تھا۔ اسی ذہنی کشمکش میں وہ کب شہر پہنچ گیا، اسے پتہ ہی نہ چلا۔ اپنے سامنے شہر کی بلند و بالا خوبصورت عمارتیں، وہاں کی ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا۔ ہر طرف دھوئیں کے بڑے بڑے بادل چھوڑتی گاڑیاں، فضا میں چنگھاڑتے ہارن، مشینی انداز میں چلتا ہوا انسانوں کا جلوس، فضا میں گونجتی ٹریفک پولیس کی سیٹیاں، ٹھیلے والوں کی بلند ہوتی آوازیں اور عجیب طرح کا کان پھاڑتا ہوا شور کا ایک ریلا اچانک اس کے کانوں میں گھس گیا۔ اسے یہ سب بہت نا مانوس سالگا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کی بارش ہونے لگی۔ اپنے سامنے سڑکوں کا الجھا ہوا جال دیکھ کر اس کا دماغ چکرا رہ گیا۔ کہاں سانپ کی طرح بل کھاتی اونچی نیچی گاؤں کی پگڈنڈیاں اور کہاں شہر کی بڑی بڑی پختہ سڑکیں۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ جائے تو جائے کس طرف؟ کافی دیر گزر جانے کے باوجود بھی وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ کیا کرے؟ شور کا اژدھا اسے نگل رہا تھا اور وہ بے بس اور پریشان کھڑا تھا۔ جب اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے اپنے قریب سے گزرتے ایک سفید ریش بزرگ کو روک لیا اور اپنی الجھن بتائی۔ بزرگ نے اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے اسے صرافہ بازار جانے والی گاڑی پر بٹھا دیا۔ گھنٹے بھر کے سفر کے بعد وہ صرافہ بازار میں کھڑا تھا۔ بازار کی گہما گہمی، لوگوں کا ہجوم اور یہاں کی الگ تھلگ دنیا دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل کر کانوں کو جا لگیں۔ سڑک کے دونوں جانب سناروں کی بڑی بڑی خوبصورت دکانیں موجود تھیں۔ ہر دکان چھت تک صاف شفاف شیشوں سے مزین تھی، جہاں بے حساب برقی قمقمے جلتے نظر آ رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ دکانیں نہیں نور کی آبشاریں ہیں۔ فیضو جسم و جاں پر حیرت کی چادر اوڑھے ایک سنار کی دکان کی طرف بڑھ گیا۔ دکان سے امڈتا روشنی کا سیلاب اور ستاروں کی طرح چم چم کرتے دیدہ زیب زیورات دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے حرکت کرنا بھول گئیں۔ ایک ایک زیور کو دیدے پھاڑے وہ دیکھنے لگا۔ ابھی وہ جی بھر کر ان زیورات کو دیکھ بھی نہ پایا تھا کہ دکاندار نے اسے بری طرح سے جھڑک دیا۔ دکاندار کے اس نفرت انگیز رویے سے اس کا چہرہ اک دم سے بجھ گیا۔ اس نے دکاندار کو عجیب سی نظروں سے دیکھا اور پھر اپنے باپ کو تلاش کرتے ہوئے دکان پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی مگر چند دوسرے لوگوں کے علاوہ اسے وہاں اپنا باپ نظر نہ آیا۔ وہ مایوس ہو کر آگے بڑھ گیا۔ اب وہ ایک دوسری دکان کے سامنے موجود تھا، یہاں پر بھی ہیرے، سونے، چاندی اور دوسری مختلف دھاتوں سے بنے ہوئے خوبصورت زیورات روشنیوں میں یوں چمک رہے تھے جیسے زیورات کے اندر بھی روشنی دوڑ رہی ہو۔ پہلے دکاندار کے سخت رویے نے اسے محتاط کر دیا تھا، اس لئے اس نے دوسری دکان پر زیادہ دیر رکنا مناسب نہ سمجھا۔ روشنی کا لبادہ اوڑھے اس کشادہ دکان کے اندر اس نے ایک بھر پور نظر ڈالی، جب اس دکان پر بھی اسے اپنا باپ دکھائی نہیں دیا تو اس کے قدم آگے کی طرف اٹھ گئے۔ ہر دکان خوبصورتی اور سجاوٹ میں دوسری دکانوں کو مات دے رہی تھی۔ وہ ہر ایک دکان کے اندر بغور جھانکتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا گیا، جیسے اسے یقین تھا کہ اس کا باپ ضرور کسی نہ کسی دکان پر بیٹھا ہو گا۔ کئی ایک دکانداروں سے اس نے اپنے باپ کے بارے میں پوچھ گچھ بھی کی، مگر ہر دکاندار نے عجیب سی نظروں سے گھور کر اسے چلتا کیا۔ پورا بازار گھوم پھر کر اس نے دیکھ لیا مگر اسے اپنا باپ کہیں بھی نظر نہ آیا۔ آخر اس نے بازار پر ایک طویل مایوس کن نظر ڈالی اور بازار سے باہر نکل آیا۔
اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ روشنیوں کے سیلاب میں دن کا سا سماں تھا مگر بازار سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ اندھیرا شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ اس نے آسمان پر نگاہ دوڑائی تو وہ اچھا خاصا سیاہ ہو چکا تھا اور ستارے بھی نمودار ہونے لگے تھے۔ رات کو وہ شہر کا منظر پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا، چپے چپے پر دودھیا روشنی پھینکتے برقی چراغ اور گاڑیاں تھیں۔ ہر طرف روشنی ہی روشنی سانس لے رہی تھی۔ اپنے باپ کو مسلسل تلاش کرتے کرتے تھکاوٹ نے اسے ایسا پچھاڑ ڈالا کہ اب وہ اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے تھکن سے بے حال کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر پڑی اور پہلی باراس کے اندر اس احساس نے جنم لیا کہ وہ کافی دیر سے شدید بھوکا ہے۔ وہ بے تاب ہو کر ہوٹل کی طرف بڑھ گیا۔ وہ ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا، جہاں چند لوگ بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ بھوک اسے اتنا ستا رہی تھی کہ وہ اپنے باپ کی پریشانی بھول کر کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے خوب سیر ہو کر کھایا اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد جب اس نے پیسے دینے کے لئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اگلے ہی لمحے اسے پیروں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ اس کا ہاتھ جیب کے اندر سے نکل کر باہر کی طرف جھانک رہا تھا۔ اسے پتہ ہی نہیں چل سکا تھا کہ کب اس کی جیب کٹ گئی تھی۔ کٹی جیب دیکھ کر اس کی چہرے پر سیاہ رات چھا گئی اور وہ گنگ سا ہو کر ہوٹل کے مالک کو ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا۔ اس کی حالت دیکھ کر ہوٹل کے پٹھان مالک کو اصل بات سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔ وہ سارا معاملہ سمجھ گیا اور بڑے کرخت لہجے میں چیخ کر بولا۔
’’اے لکا، اب تم بولے گا کہ امارا جیب کٹ گیا ہے مگر خدا قسم گل خان تم جیسا بدمعاش چھوکرا کو اچی طرح جانتا ہے، گل خان کو پاگل بناتا ہے؟ تم نے کانے کا پیسہ نئیں دیا تو خدا قسم ساری رات تم کو کام کرنا پڑے گا ادھر ہوٹل پر، کیا سمجھا تم؟‘‘ گل خان کی چنگھاڑ اور اس کی آنکھوں سے نکلتی چنگاریوں سے فیضو لرز کر رہ گیا۔ یہ سب دیکھ کر ہوٹل پر کام کرنے والا چھوٹی عمر کا واحد لڑکا فیضو کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا تھا اور کھانا کھاتے لوگ بھی اس کی طرف دیکھنے لگے مگر فیضو کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ شدید سہم گیا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ ایک تو اس کی جیب کٹ چکی تھی اور اوپر سے اس نئی مصیبت نے اسے اور بھی پریشان کر دیا۔ اس کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے گل خان پھر چیخا۔
’’اوئے چوٹے! اس چھوکرا کو کام پر لگا اور نظر رکھ اس پر، آ جاتا ہے لوفر گل خان کے ہوٹل پر۔‘‘ اس نے فیضو کی طرف دیکھ کر دہاڑتے ہوئے کہا۔
’’اچھا استاد‘‘ فیضو کے ساتھ کھڑے چھوٹے نے کہا اور وہ اسے بازو سے پکڑ کر اس طرف لے گیا، جہاں سالن سے بھری ہوئی چکنائی والی پلیٹیں پڑی تھیں اور اسے دھونے پر لگا دیا۔ وہ چار و نا چار کام کرنے لگا، اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس پر ایسی آفت بھی آ سکتی ہے۔ اسے اپنی ماں کی فکر ستانے لگی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے گھر نہ پہنچنے سے اس کی ماں فکر سے تڑپ رہی ہو گی مگر اس کی اپنی حالت بھی کسی تڑپتی مچھلی سے کم نہ تھی۔ ابھی اسے کام کرتے ہوئے آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک ہوٹل پر پولیس کی ایک وین آ کر رکی اور اندر سے پولیس کا ایک دستہ نکلا اور آناً فاناً پورے ہوٹل کو گھیرے میں لے کر اس کی تلاشی شروع کر دی۔ ہو ٹل کا مالک گل خان چیختا چلاتا رہ گیا کہ یہ تلاشی کیوں لیا جا رہا ہے؟ مگر پولیس نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنے کام میں لگی رہی۔ پولیس نے ایسی بھر پور تلاشی لی کہ تھوڑی ہی دیر میں ہوٹل کے اوپر بنے بالا خانے سے دو نوجوانوں کو پکڑ لیا گیا، جن کے قبضے سے خود کش جیکٹیں اور اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ گل خان ہتھکڑیوں میں جکڑا جا چکا تھا اور ساتھ ہی ہوٹل پر کام کرنے والے دونوں لڑکوں کو بھی پولیس نے پکڑ لیا تھا، جن میں سے ایک غم کی شدت سے نڈھال فیضو بھی تھا۔
(۳)
’’کرماں جلی! تو نے اسے شہر بھیجا ہی کیوں تھا؟ اسے کیا پتہ شہر کے رستوں کا؟ کبھی تو عقل سے بھی کام لیا کر۔‘‘
فیضو کے باپ نیاز نے مرغی اوراس کے چوزوں کی طرف روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال کر اپنی بیوی جنتو پر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
دونوں میاں بیوی اس وقت صحن میں رکھی کھاٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چوزوں کی چوں چوں حویلی کا طواف کر رہی تھی، جو دانہ چگنے میں مصروف تھے۔ اندر کمرے میں رانو دلہن کے لباس میں ملبوس اور زیوروں سے لدی بیٹھی تھی، جہاں اس کی سکھیاں اور چند دوسری عورتیں اس کے بناؤ سنگھار میں مصروف تھیں۔ نیاز کے چہرے پر زخموں کے نشان تھے اور دائیں پنڈلی پر میلی سی پٹی بندھی تھی، جہاں خون کے موٹے موٹے دھبے نظر آ رہے تھے۔
’’میں کیا کرتی؟ وہ شہر جانے کی ضد کر بیٹھا تھا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا مگراس نے میری بات نہیں مانی۔ پتہ نہیں اس وقت کہاں ہو گا میرا لال؟‘‘ فیضو کی ماں جنتو نے نیاز کی ٹانگ سے مکھیاں اڑاتے ہوئے کہا، جو بار بار اس کے زخم پر بیٹھ رہی تھیں۔
اس کے چہرے کا رنگ پریشانی اور ملول سے اتر چکا تھا اور آنکھوں میں وحشت چھاپے مارتی پھر رہی تھی۔ گھر میں کافی گہما گہمی بھی تھی، مہمان آئے ہوئے تھے مگر فیضو کے شہر سے واپس نہ آنے پر گھر بھر میں کافی پریشانی تھی اور شادی کا ماحول بھی قدرے اداسی میں بدل گیا تھا۔ فیضو کے پیچھے ایک دو آدمی بھی شہر روانہ کئے گئے تھے مگر وہ بھی ناکام و نامراد واپس لوٹ آئے تھے۔
’’شہر سے آنے والی کتنی ہی گاڑیاں دیکھ لی ہیں مگر کسی میں بھی فیضو نہیں تھا۔ شہر سے آنے والوں سے بھی اس کے بارے میں پوچھا مگر کسی کو بھی اس کا نہیں پتہ‘‘
نیاز نے اپنی داڑھی کھجلاتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں کہا۔
جنتو اچانک داہنا ہاتھ فضا میں لہرا کر ’’ہش۔۔۔۔ ہش۔۔۔۔۔‘‘ کی آوازیں نکالنے لگی۔
نیاز نے چونک کر اس طرف دیکھا تو ایک موٹی سرمئی رنگ کی بلی دبے پاؤں چوزوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس نے جلدی سے فیضو کا جوتا اٹھایا اور پوری قوت سے بلی کی طرف دے مارا، جو اس کے سر کے اوپر سے گزر گیا اور بلی دم دبا کر بھاگ گئی۔ مرغی اور اس کے چوزے بلی کی آمد اور اس کے بھاگ جانے سے بے نیاز چوں چوں کرتے دانہ چگنے میں لگے ہوئے تھے۔
’’اب تو بارات بھی پہنچنے والی ہے اور فیضو کی ابھی تک کوئی خیر خبر نہیں ہے۔ کیسے رخصت کروں گا رانو کو اس کے بغیر؟ یہ سب کیا دھرا تمہارا ہے عقل کی دشمن۔‘‘ نیاز نے کھاٹ پر لیٹتے ہوئے کہا۔
’’وہ تو تیری خاطر بہت بے صبرا ہو رہا تھا، تم جو زیور لینے گئے تو دو دن بعد لوٹے ہو۔ اس سے صبر نہیں ہو سکا اور وہ تجھے ڈھونڈنے شہر چلا گیا۔‘‘ جنتو نے سر پر دوپٹہ اوڑھتے ہوئے مردہ لہجے میں کہا۔
’’اری نیک بخت! میں کہاں جا سکتا تھا؟ کہا تو ہے کہ میرے ساتھ حادثہ پیش آ گیا تھا۔ ایک موٹر نے مجھے ٹکر مار کر بہت زخمی کر دیا تھا، اور مجھے ایک دو دن ہسپتال میں داخل ہو نا پڑا۔ شہر بڑی خطرناک جگہ ہوتی ہے، اس طرح کے حادثے تو وہاں روز ہوتے ہیں۔ اب پتہ نہیں فیضو پتر کہاں ہو گا؟‘‘ نیاز نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’میرا سوہنڑاں ربا! میرا فیضو جہاں بھی ہو، اسے اپنی امان میں رکھنا اور صحیح سلامت اسے گھر پہنچا دے۔‘‘ جنتو نے دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے روہانسے لہجے میں کہا۔ دونوں میاں بیوی کے چہرے فکر سے ماند پڑ چکے تھے۔
(۴)
دوپہر سے بارات نیاز کے آنگن میں اتری ہوئی تھی اور اب شام ہونے کو تھی مگر ابھی تک رانو کو رخصت نہیں کیا گیا تھا۔ مرد اس کی چوپال کے کھلے صحن میں موجود تھے اور عورتیں اس کے گھر کے آنگن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ مردوں کی آپس کی کھسر پسر سے فضا میں معمولی سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔ نیاز نہایت فکر مندی سے باراتیوں کو بار بار دیکھ رہا تھا جن کے چہروں پر اب تازگی کی بجائے بیزاری چھلکنے لگی تھی۔ وہ سب کے سب بیچارے دوپہر سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ نیاز خود ان کی حالت دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھ رہا تھا۔ اس سے ذرا بھی آرام سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا، وہ بار بار آ جا رہا تھا اور اب تو تمام باراتی اسے گھورنے لگے تھے، جیسے وہ ان سب کا مقروض ہو۔ جب وہ چبھتی ہوئی بے شمار نظروں کا سامنا نہ کر سکا تو وہ ایک بار پھر اٹھا اور لنگڑاتا ہوا زنان خانے کی طرف آیا۔ اپنی بیوی جنتو کو بلوا کر کہا
’’مجھے اب باراتیوں کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بیچارے دوپہر سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہر کوئی میری طرف عجیب نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اب اپنی دھی رانو کو رخصت کر ہی دو، پتہ نہیں فیضو پتر اب آتا بھی ہے یا نہیں؟‘‘ نیاز نے الجھے ہوئے اداس لہجے میں کہا۔
’’نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ تھوڑا اور صبر کر لو، کیا پتہ فیضو پتر آ جائے۔‘‘ جنتو نے تڑپتے ہوئے کہا
’’اب اگر وہ نہ آئے تو اس کی سزا باراتیوں کو تو نہیں دی جا سکتی ناں؟‘‘ نیاز دائیں طرف تھوکتے ہوئے قدرے بیزاری سے بولا
’’بخشو کی منت سماجت کر کے اسے تھوڑی دیر اور روک لو، میرا دل کہتا ہے کہ فیضو پتر ابھی آ جائے گا۔‘‘ جنتو نے اس کے بازو کو پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا
’’اففو۔۔۔۔ آہستہ جنتو۔۔۔۔۔‘‘ نیاز نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے کہا اور اس کا چہرہ مسخ ہو گیا۔ اس کے بازو میں درد انگڑائی لینے لگا اور جنتو نے جلدی سے اس کا بازو چھوڑ دیا۔ ابھی فیضو اسے کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ نیاز نے مڑ کر دیکھا تو وہ دولہا کا باپ اور اس کا بڑا بھائی بخشو تھا۔
’’نازو بھرا! اب صبر نہیں ہوتا۔ بارات دوپہر سے آئی ہوئی ہے، اب دھی رانو کو رخصت کر دو۔ تمام لوگ انتظار کر کر کے تھک گئے ہیں۔‘‘ نیاز کے بھائی بخشو نے کہا۔ اس کے لہجے سے ناگواری عیاں تھی۔
’’بس بخشو بھائی! تھوڑی دیر اور صبر کر لو، شاید فیضو پتر آ جائے، رانو بھی بغیر بھائی کے رخصت ہو گی تو اداس جائے گی اور فیضو بھی خفا ہو گا کہ میرے بغیر رانو کو ڈولی میں کیوں بٹھایا؟ بس تھوڑی سی مہلت اور دے دو۔ شہر سے گاؤں کی آخری گاڑی بس آنے ہی والی ہے۔‘‘ فیضو نے اپنے بھائی بخشو کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے نہایت ہی ٹوٹے لہجے میں کہا۔
’’اچھا نازو بھرا! میں تھوڑا سا اور انتظار کر لیتا ہوں، بس اس کے بعد میں رانو دھی کو لے جاؤں گا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ بھائی بخشو! بے شک اس کے بعد ہم اپنی رانو کو ڈولی میں بٹھا دیں گے، بس دعا کرو کہ میرا فیضو پتر آ جائے۔‘‘
جنتو نے نیاز کے بولنے سے پہلے ہی تڑپ کر کہا۔
نیاز اور بخشو دوبارہ چوپال کی طرف چلے گئے مگر جنتو کی بے چین نظریں اس راستے پر گڑ گئیں، جہاں سے شہر کی آخری گاڑی چند لمحوں میں آنے والی تھی اور اس کے دل میں ایک ہی امید ہچکولے کھا رہی تھی کہ ’’میرا فیضو پتر آتا ہو گا۔۔۔۔۔ بس ابھی آتا ہی ہو گا۔‘‘
٭٭٭
افسانچے
چوک
وہ نوجوان انتہائی زہریلی نظروں سے لوگوں کے مجمع کو گھور رہا تھا جو شہر کی معروف چوک میں ہونے والے جلسے میں شریک تھے۔ شہر کا ایم این اے جوشیلے انداز میں تقریر کر رہا تھا
’لوگو۔۔۔ یاد رکھو! آپ کے بغیر ہم کچھ نہیں۔۔۔ یہ ملک کچھ نہیں۔۔۔ یہ نظام کچھ نہیں۔۔۔ آپ ہی اس ملک کی اصل طاقت ہیں۔ آپ لوگوں کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ پچھلے الیکشن میں بھی اپنے اس خادم کو جتوا کر آپ سب نے اپنی قسمت بدلنے کا مجھے موقع عطا کیا اور ہماری عوامی حکومت نے آپ لوگوں کے لئے دن رات ایک کر دیئے۔ عوام کو روزگار دیا۔ غربت مکاؤ پروگرام شروع کیا۔ اسی شہر میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور لوگوں کے سرد چولہے جل اٹھے۔ عام آدمی کی سوئی قسمت کو ہم نے جگایا۔
آج پھر آپ لوگوں کا خادم آپ سب کے پاس آیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی آپ سب اس یادگار چوک پر فتح کے جھنڈے گاڑیں گے اور یہاں سے اپنی خوشحالی کا ایک نیا سفر شروع کریں گے۔‘‘
فضا نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھی مگر وہ نوجوان لیڈر کی کھوکھلی اور بے تکی باتیں سن کر غصے کی آگ میں بری طرح سے جل رہا تھا۔ وہ عوام کی بے حسی پر پیچ و تاب کھاتا ہوا اندر ہی اندر روتا ہوا اپنے آنسوؤں میں ڈوبتا جا رہا تھا جنہوں نے اس کے باپ کی قربانی کویکسر بھلا ڈالا تھا، جس نے پچھلے سال اس ظالم نظام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے غربت سے تنگ آ کر اسی چوک پر خود کو آگ لگا دی تھی مگر لوگ اس نظام سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئے تھے جو اس کے باپ کی لاش پر کھڑے ہو کر اس ناکارہ نظام کے حق میں تالیاں پیٹ رہے تھے۔ سینہ تانے سٹیج پر کھڑا لیڈر فاتح بن کر ہوا میں ہاتھ لہرا رہا تھا اور دوسری طرف اس کے باپ کی لاش آج بھی دھڑا دھڑ جل رہی تھی۔
٭٭
جنت
وہ خود کش جیکٹ پہنے گاڑی میں بیٹھا اپنے ٹارگٹ کی طرف روانہ تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا کہ اب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بٹن حائل تھا، جسے دباتے ہی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا، جہاں حوریں اس کا استقبال کرنے کو مچل رہی ہوں گی۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ وہ باہر نکلا، سامنے ہی اس کا ٹارگٹ تھا جہاں ہزاروں کا ہجوم تھا۔ وہ شہر کا ایک بہت بڑا دربار تھا جہاں ہر وقت بے شمار لوگ موجود رہتے تھے۔ اس کے قدم دربار کی طرف اٹھ گئے اور وہ محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگا۔ یہ دربار اس کا جانا پہچانا تھا، جہاں پر وہ اپنی ماں کے ساتھ کئی بار آ چکا تھا۔ اس کے قدم دربار کی طرف مسلسل بڑھ رہے تھے۔
’’کیا تم نہیں جانتے کہ یہی وہ دربار ہے جہاں تمہاری ماں نے سالوں تک منتیں مرادیں مانگیں اور تب جا کر تم پیدا ہوئے۔۔ کیا تم بھول گئے سب کچھ؟‘‘ اچانک اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی اور وہ چونک اٹھا۔ اس نے اپنے آس پاس دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
وہ آگے بڑھنے لگا۔ مگر جوں جوں وہ آگے بڑھ رہا تھا دربار کے ساتھ جڑی بہت ساری یادیں اس پر حملہ آور ہوتی جا رہی تھیں جو اس کے اندر ایک عجیب سا ہیجان پیدا کر رہی تھیں۔ وہ لوگوں میں پہنچ چکا تھا جن کے دکھی چہرے اس کے سامنے تھے اور سب نے اپنے اپنے دکھوں کی گٹھڑیاں اٹھا رکھی تھیں۔ وہ جس چہرے پر بھی نظر ڈالتا وہ اس کے اندر اتر جاتا۔ پل بھر میں اس کے اندر اتنے چہرے اتر گئے کہ اس کے اندر دو لمحے آپس میں لڑ پڑے۔ ایک طرف جنت جو ایک بٹن میں چھپی ہوئی تھی اور دوسری طرف پریشان لوگوں کے مرجھائے ہوئے چہرے جو اپنی امیدوں کے گمشدہ راستے تلاش کرنے آئے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے ان ہی لوگوں میں کہیں آس پاس اس کی ماں بھی موجود ہے جو آج بھی اسے مانگ رہی ہے۔ ماں کا خیال آتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس کے اندر اترے ہوئے دو لمحے اور بھی شدت کے ساتھ لڑ پڑے۔ آتے جاتے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان یہاں تک کہ معصوم بچے جنہوں نے اپنے ماں باپ کی انگلی تھام رکھی تھی، سب کے سب اس کی آنکھوں میں اتر گئے۔
اچانک اس کے ذہن میں اندھیرا بھر گیا اور اس کا جسم کانپنے لگا۔ ایک طرف اس کی جنت اور دوسری طرف معصوم بچوں کی بھٹکتی ہوئی جنتیں۔۔۔۔۔ وہ تذبذب کا شکار ہو گیا اور خود سے الجھ پڑا۔ کتنی ہی دیر تک وہ اپنے اندر جنگ لڑتا رہا۔ آخر کار اس نے اپنی جنت کا فیصلہ کیا اور اچانک دوڑ پڑا۔ دربار میں موجود ہزاروں لوگ حیرت زدہ ہو کر اسے بھاگتا ہوا دیکھنے لگے۔ اس کے پیروں میں بجلیاں سی بھر گئیں اور وہ اڑنے لگا۔ وہ کئی لوگوں سے ٹکرایا مگر وہ ایک پل کے لئے بھی نہیں رکا اور ہانپتا ہوا بھاگتا چلا گیا۔ اچانک فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی اور کئی گرم سلاخیں ایک ساتھ اس کے جسم کے آر پار ہو گئیں، جیسے ہی وہ نیچے گرا، ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور اگلے ہی لمحے اس کے وجود کا نام و نشان نہیں تھا مگر اس وقت تک وہ دربار سے بہت دور جا چکا تھا۔ ٭٭
خوشخبری
بیوی خوش خوش گھر میں داخل ہوئی۔ شوہر ناراض ہوتے ہوئے بولا۔
’’کب سے بھوکا بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ کہاں اتنی دیر لگا دی؟‘‘
’’ارے بابا! خوشخبری لائی ہوں تمہارے لئے۔ تم باپ بننے والے ہو۔‘‘
بیوی نے رپورٹس دکھا کر خوشی سے چہکتے ہوئے کہا مگر شوہر کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
کھانا کھا تے ہوئے وہ بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
٭٭
بیٹی
’’کیا ہوا رضیہ۔۔۔؟ کیوں اتنی اداس ہو؟ لگتا ہے آج بھی بیٹی سے ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘ ثمینہ نے اس سے پوچھا
’’ہاں ثمینہ! سارا دن پاگلوں کی طرح عدالت میں انتظار کاٹتی رہی مگر آج بھی وہ نہیں آیا۔
ایک ماہ سے میں نے اپنی بیٹی کی شکل نہیں دیکھی، میری تو اب جان نکلی جا رہی ہے۔
پتہ نہیں وہ کس حال میں ہو گی؟‘‘ رضیہ نے شکستہ لہجے میں کہا
’’خدا خیر کرے گا۔۔۔ تم زیادہ سوچا مت کرو۔۔۔ خوش رہنے کی کوشش کیا کرو۔‘‘ ثمینہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا
’’کیسے خوش رہوں ثمینہ۔۔۔؟ میں ایک ماں ہوں اور وہ میری بیٹی ہے۔ طلاق کا منحوس طوق گلے میں ڈال لینے سے ایک ماں کی ممتا کو تو طلاق نہیں ہو جاتی نا۔۔۔؟‘‘
رضیہ نے کانپتی آواز میں کہا اور اس کی آنکھوں میں پانی اتر آیا۔
’’رضیہ میری پیاری دوست۔۔۔ تمہاری اپنی بھی ایک زندگی ہے۔ بھول جاؤ سب کچھ۔۔۔۔ اپنی زندگی جینے کی کوشش کرو۔ آخر کب تک بیٹی بیٹی کرتی ماں باپ کے سر پر بیٹھی رہو گی۔۔۔؟‘‘ ثمینہ بے نیازی سے بولی۔ رضیہ چند لمحے اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر گویا ہوئی۔
’’ثمینہ۔۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔۔؟ تم نے بھی تو اپنی تین ماہ کی بیٹی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لی تھی۔
آج تمہاری بیٹی کافی بڑی ہو گئی ہو گی۔ کیا تمہیں اس کی کبھی یاد نہیں آئی۔۔۔؟‘‘ رضیہ نے اس پر آنکھیں جماتے ہوئے پوچھا۔
’’تم بھی کمال کرتی ہو رضیہ۔۔۔ اپنا پاخانہ بھی کوئی یاد کرتا ہے کیا۔۔۔؟‘‘ ثمینہ نے اچانک نفرت بھرے لہجے میں جواب دیا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ رضیہ اس کا غیر متوقع زہریلا جواب سن کر ششدر رہ گئی اور حیرت سے اس کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھنے لگی۔
٭٭
کرتوت
رشید نے پورا محلہ سر پر اٹھا رکھا تھا۔ شور شرابہ سن کر بہت سارے محلے دار وہاں جمع ہو گئے تھے جو اپنے پڑوسی شوکت کی بیٹھک کو دھڑا دھڑ پیٹے جا رہا تھا۔
’’باہر نکلو لوفر انسان! میں کافی دنوں سے موقع کی تلاش میں تھا۔ آج تیرا بچ نہیں ہے۔ نکل باہر لچا کہیں کا۔۔۔‘‘
شدید گرمی کے باعث وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا اور چیخ و پکار نے اس کے چہرے کو اور بھی بگاڑ دیا تھا۔ سب لوگ حیران تھے کہ ماجرا کیا ہے؟
’’حاجی صاحب! آپ ہی کچھ بتائیں کہ ہم شریف لوگ اب کہاں جائیں؟ شوکت کے چھوکرے سلیم کے لچھن سے پورا محلہ واقف ہے پھر بھی سارے خاموش ہیں مگر میں اب چپ نہیں رہوں گا، آج میں اس کا پول کھول کے رہوں گا۔‘‘ رشید نے دھاڑتے ہوئے سفید ریش حاجی اکرم سے کہا جو ابھی ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر آ رہے تھے۔
’’میں کہتا ہوں کہ شرافت سے باہر نکل آ مردود انسان۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ اندر تم کیا گل کھلا رہے ہو۔ میں نے خود تمہاری بیٹھک میں ایک عورت کو داخل ہوتے دیکھا ہے۔
خدا کی قسم! آج میں تمہیں سب کے سامنے ننگا کر کے رہوں گا۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے، یہاں یہ لچر بازیاں نہیں چلیں گی۔ جلدی سے دروازہ کھول دو۔‘‘
وہ بیٹھک کا دروازہ پیٹتے ہوئے دھاڑا۔ غصے کی شدت سے اس کے ہونٹوں سے جھاگ نکل آیا تھا اور آنکھیں لال ہو گئی تھیں۔
حاجی صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ مزید بگڑ گیا۔ دو تین اور لوگوں نے جب اس کا ساتھ دیا تو وہ اور بھی شیر ہو گیا۔
سارا محلہ جانتا تھا کہ رشید بہت تند مزاج تھا اور لڑائی جھگڑا اس کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔
’’حاجی صاحب۔۔۔۔۔۔ محلے کے سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ ذلیل انسان اب سارے محلے کے لئے ایک وبا ہے۔ کیا ہوا جو میری کوئی اولاد نہیں مگر محلے کی دوسری بچیاں بھی تو میری دھی بیٹیاں ہیں ان پر بھی برا اثر ہو گا اور آج میں یہ فحاشی کا اڈہ ختم کر کے رہوں گا۔‘‘ رشید کی زبان مسلسل چل رہی تھی اور لوگوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا دی تھی۔
’’مجھے پتہ ہے کہ تم اندر ہو، اگر تم شرافت سے باہر نہ آئے تو میں پولیس کو لے آؤں گا۔ پھر اپنی عزت بچاتے رہنا۔ بھلائی اسی میں ہے کہ دروازہ کھول دو۔‘‘
رشید نے ایک بار پھر دروازہ پیٹتے ہوئے حلق پھاڑ کر کہا۔ دو تین اور لوگوں نے بھی اس کی پیروی میں دروازے پر دھڑا دھڑ ہاتھ مار دیئے۔
اچانک دروازہ کھلا اور ایک عورت نمودار ہوئی۔
’’رشید تم۔۔۔۔؟‘‘ سامنے شہر کی مشہور رنڈی کو دیکھ کر رشید کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا بھر گیا۔
’’تم بھی اسی محلے میں رہتے ہو۔۔۔؟ عرصہ ہوا تم نے پھر خدمت کا موقع ہی نہیں دیا۔۔۔۔۔۔ چلو تمھارے ہاں بھی اب آنا جانا لگا رہے گا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے شرارت بھرے انداز میں کہا
مگر رشید تو وہاں تھا ہی نہیں، وہ تو کب کا شرمندگی کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ حاجی صاحب زور زور سے ’’استغفراللہ‘‘ پڑھتے ہوئے وہاں سے کھسک گئے اور مجمعے پر سناٹا طاری ہو چکا تھا۔
٭٭
پھینکا ہوا لمحہ
جاڑے کی سرد رات تھی اور وہ ڈیوٹی ختم کر کے ہسپتال سے لوٹ رہی تھی۔ راستہ خاصا سنسان تھا مگر اس کے لئے کوئی پریشانی نہیں تھی، کیونکہ اس کی ڈیوٹی ہی ایسی تھی اور وہ اکثر رات گئے گھر واپس آتی تھی۔ ہسپتال اس کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اس لئے اسے پیدل آنے جانے میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔
وہ ریلوے پھاٹک کے قریب پہنچی تو اچانک اسے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ قمقموں کی دم توڑتی زرد روشنی میں اچانک اس کی نظر سامنے کوڑے کے ڈھیر پر جا پڑی، جہاں کوئی چیز حرکت کرتی نظر آ رہی تھی۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ تیز تیز قدم اٹھاتی جب وہ قریب پہنچی تو سامنے کا دلدوز منظر دیکھ کر وہ دہل اٹھی۔ کوڑے کے ڈھیر پر کپڑوں میں لپٹی ایک معصوم بچی سردی سے ٹھٹھری رو رہی تھی اور اس کے ہونٹ بری طرح سے کانپ رہے تھے۔ وہ حیرت سے اس تڑپتی اور چیختی بچی کو دیکھنے لگی۔
’’کس حرامزادی نے اپنے جسم کا ٹکڑا گندگی پر پھینک دیا ہے۔‘‘ وہ غصے کی شدت سے بڑبڑائی اور نیچے جھک کر ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیئے۔
اچانک اس نے ہاتھ اس کی گردن پر رکھ دیئے اور دھیرے دھیرے اس کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اس نے اس وقت تک ہاتھ نہ اٹھائے جب تک وہ تڑپتا ہوا ننھا وجود ساکت نہ ہو گیا۔ وہ اس سفاکانہ حرکت کے بعد اٹھ کھڑی ہوئی اور نمناک آنکھوں سے اس بے جان کلی کو دیکھنے لگی۔ جو پھینکے ہوئے لمحے کی اس اذیت سے بے خبر پڑی تھی جس سے وہ خود آج تک بندھی ہوئی تھی۔
٭٭
ٹی وی اشتہار 4015ء
اس نے اپنے خون سے بھرے ہاتھ دھوئے اور ڈرائنگ روم میں آ کر صوفے پر گر سا گیا۔ آج وہ تین قتل کر کے آیا تھا۔ تینوں ٹارگٹ بہت دور دور رہتے تھے، جس پر اس کا سارا دن لگ گیا اور اب وہ کافی تھکن محسوس کر رہا تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد اس نے آنکھ کی ایک جنبش سے ٹی وی آن کیا، جس پر ایک اشتہار آ رہا تھا، جسے وہ بڑی دلچسپی اور توجہ سے دیکھنے لگا:
’’اب آپ کے لئے قتل کرنا انتہائی آسان
قتل کریں صرف انگلی کے ایک ٹچ سے
کرائم کارنر کی طرف سے ایک ناقابلِ یقین ہتھیار کی پیشکش
نہ پستول لوڈ کرنے کی جھنجھٹ نہ فائر کرنے کی ضرورت
اب کسی کا بھی قتل آپ کی مٹھی میں
دیکھئے کرائم کارنر کی یہ حیران کن ڈیوائس
جو دیکھنے میں بھی خوبصورت اور کام میں بھی نہایت اعلیٰ
قتل کرنے کا طریقہ انتہائی آسان
پہلے اپنے ٹارگٹ کی تصویر ڈیوائس میں کھینچیں
اور پھر تصویر کی جو بھی جگہ انگلی سے دبائیں
مطلوبہ ٹارگٹ کے ٹھیک اسی جگہ پر لیزر فائر
اور آپ کا ٹارگٹ کامیابی سے قتل
تو دیر مت کیجئے ابھی فون اٹھائیں
اور۔ صرف ایک کال سے اس حیران کن آفر سے ابھی فائدہ اٹھائیں
کرائم کارنر۔۔۔ ہمیشہ آپ کی خدمت میں پیش پیش‘‘
اتنا حیرت انگیز اشتہار دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں مخصوص چمک ابھر آئی۔ اس نے آنکھ کے ایک اشارے سے اشتہار کو ریوائنڈ کیا اور اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں نصب موبائل کو آن کر کے آنکھوں سے مطلوبہ نمبر ملانے لگا۔
٭٭
چکا چوند
ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جس کا گوشہ گوشہ برقی قمقموں کی دودھیا روشنی میں جگمگ کر رہا تھا اورسجے ہوئے سٹیج پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شہر کی بڑی بڑی شخصیات فخر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے شہر کے ضلع کونسل ہال میں ایک بہت بڑی تقریب جاری تھی۔ میڈیا کے لوگ کیمرے اٹھائے مختلف زاویوں سے تقریب کے رنگا رنگ لمحوں کو محفوظ کرنے میں مصروف تھے جبکہ اخباری نمائندے بھی ہاتھوں میں کیمرے لئے روشنی کے جھماکے کرتے ہوئے تقریب کے چمکتے دمکتے منظر اپنے اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھے۔ کافی سارے لوگوں نے سٹیج پر آ کر بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے بڑی خوبصورت باتیں کیں اور ملک میں غربت کا شکار اور تعلیم سے محروم بچوں کی ہمدردی میں بہت کچھ کرنے کے بڑے بڑے دعوے کئے۔ جن کی باتیں سن کر ہال بار بار تالیوں سے گونجتا رہا۔ جن میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کے بچے دوسرے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو رہے تھے۔
تقریب کے خاتمے پر کئی تصویری سیشن چلے۔ میڈیا کے لوگ بھی اس یادگار پروگرام کے حوالے سے بڑی ہستیوں سے انٹرویو لیتے ادھر سے ادھر بھاگتے رہے۔ آخر میں پر تکلف کھانے کا دور چلا۔ کھانے کے دوران لوگ اتنے خوبصورت اور کامیاب پروگرام کی خوب تعریفیں کرتے رہے اور کئی لوگ تو ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ تقریب کے اختتام پر لوگ خوش گپیاں کرتے ہوئے جب باہر نکلے تو اچانک سامنے کا منظر ان کے چمکتے چہروں سے روشنیاں نچوڑنے لگا اورسبھی چہرے مرجھاتے چلے گئے۔ گیٹ پر ایک عورت بینر اٹھائے اپنے دو بچوں کے ساتھ ننگے پاؤں چپ چاپ کھڑی تھی، جس پر لکھا ہوا تھا ’’بچے برائے فروخت‘‘
٭٭
مکالمہ
’’کون ہو تم لوگ۔۔۔؟‘‘ داروغہ کی گرجدار آواز گونجی۔
’’ہم جنت کے وارث ہیں اور بڑی مشکل سے جنت کا راستہ تلاش کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک بولا، وہ تعداد میں سات تھے۔
’’کس راستے سے آئے ہو تم لوگ۔۔۔؟ اور تمہارے چہرے اتنے سرخ کیوں ہیں؟‘‘
’’اس لئے کہ ہم سرخ راستے سے یہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘
’’مگر جنت کا تو سفید راستہ ہے۔۔۔ یہ سرخ راستہ کون سا ہے۔؟‘‘
’’کمال ہے۔۔۔۔ آپ جنت کے داروغہ ہیں اور آپ شہیدوں کے سرخ راستے سے ناواقف ہیں؟‘‘ وہ چیخے
’’شہیدوں کے راستے سے آنے والوں کے چہرے سرخ نہیں ہوتے، وہ تو چمکتے چہرے ہوتے ہیں۔ میں دکھاتا ہوں تمھیں کہ شہید کیسے ہوتے ہیں۔‘‘ داروغہ نے کہا اور پھر ایک اشارہ کیا۔
کرنوں کی ایک روشن رتھ وہاں آ کر اتری۔ جس پر دمکتے چہروں والے بہت سارے بچے بیٹھے ہوئے تھے، جن کے سروں پر رکھے تاج جگمگا رہے تھے۔
’’انکل۔۔۔ یہی ہیں۔۔۔۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے سکول میں داخل ہو کر ہمیں گولیاں ماریں۔‘‘ بچے چلائے۔
’’انکل۔۔۔ یہ دیکھیں، میں تو اپنا ہوم ورک کر کے گیا تھا اور ٹیچر نے ایکسیلنٹ بھی لکھا تھا، پھر ان لوگوں نے مجھے گولی کیوں ماری؟‘‘ ایک بچے نے خون میں لتھڑی ہوئی اپنی کاپی دکھاتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔
’’انکل۔۔۔۔۔ میں تو پیپر کی فل تیاری کر کے گیا تھا اور خود سے پیپر کر رہا تھا، ایک لفظ کی بھی نقل نہیں ماری تھی۔ یہ دیکھیں میرا سارا پیپر لال ہو گیا ہے۔ ان لوگوں نے میرا پیپر کیوں خراب کر دیا۔۔؟ ایک بچے نے اپنا سرخ پیپر دکھاتے ہوئے دکھی لہجے میں پوچھا۔
’’انکل۔۔۔۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ میرے یونیفارم پر جب کبھی سیاہی گرتی تو ماما مجھے بہت ڈانٹتی تھیں، مگر ان لوگوں نے میرا پورا یونیفارم سرخ کر دیا ہے۔۔۔۔۔ انکل اب میں گھر نہیں جاؤں گا، میرا سرخ یونیفارم دیکھ کر ماما مجھے ماریں گی۔‘‘ ایک اور بچے کی اداس آواز گونجی
’’انکل۔۔۔۔ یہ دیکھیں۔۔۔۔۔ میرا ڈرائنگ کا پیپر۔۔۔۔۔ میں تتلی میں اتنے پیارے پیارے رنگ بھر رہی تھی اور میری ٹیچر مجھے بار بار شاباش دے رہی تھی، مگر انہوں نے میری تتلی پر سرخ رنگ ڈال کر میری تتلی کو خراب کر دیا، اب میری ٹیچر مجھ سے ناراض ہو جائیں گی اور مجھے ڈرائنگ کے پیپر میں فیل کر دیں گی۔‘‘ ایک معصوم بچی نے اپنی ڈرائنگ دکھاتے ہوئے کہا اور افسردہ ہو گئی۔
داروغہ کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا۔ اس نے قہر آلود نظروں سے ان ساتوں کو گھورا اور گرجتے ہوئے بولا:
’’دفع ہو جاؤ تم ملعون لوگ۔۔۔۔ تم ان معصوموں کو روند کرسیاہ راستے سے یہاں تک پہنچے ہو اور سیاہ راستے سے آنے والوں کی منزل جنت نہیں جہنم ہے۔‘‘
اس کے بعد داروغہ نے ایک اشارہ کیا ور اچانک خوفناک چہروں والی سات لمبی لمبی گردنیں نمودار ہوئیں اور ان ساتوں کو گردنوں سے اچک کر لے گئیں۔ وہ تڑپنے لگے اور ان کی خوفناک چیخیں گونجتی رہ گئیں۔
’’تھینک یو انکل‘‘
بچوںے نے داروغہ سے کہا اور دمکتے چہرے والے سارے بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔
(سانحہ پشاور کے شہدا کے نام)
٭٭
فیصلہ
’’کیا بچوں کو چھوڑنے کا تمہارا یہ آخری فیصلہ ہے۔۔۔؟‘‘ جج نے سامنے کھڑی عورت سے پوچھا جس کے دائیں طرف دو معصوم بچے سہمے ہوئے کھڑے تھے اور دونوں نے ایک دوسرے کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔
’’جی ہاں جج صاحب۔۔۔ میری طلاق کو دو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور تب سے میں نے بچوں کو سنبھالا ہوا ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ بچوں کا باپ ان کا خرچہ ہر مہینے باقاعدگی سے دیا کرے گا مگر آج تک مجھے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی۔ اب میں دونوں بچوں کو ان کے باپ کے حوالے کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ عورت نے ڈھٹائی سے کہا
’’ہاں۔۔۔ تم کیا کہتے ہو۔۔۔؟‘‘ جج نے بچوں کے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’جج صیب۔۔۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ کبھی دیہاڑی لگتی ہے اور کبھی نہیں۔ جو بھی کماتا ہوں وہ میری بیماری پر خرچ ہو جاتا ہے اور پھر اس عورت کے حق حقوق جو عدالت نے طے کئے تھے، وہ میں جیسے تیسے پانچ ہزار روپے ہر مہینے اسے دے رہا ہوں۔ مزید مجھ سے گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ بچوں کو اس کی ماں کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ ویسے بھی بچے ماں کے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں۔‘‘ بچوں کے باپ نے جج سے نہایت عاجزی سے کہا
’’نہیں جج صاحب۔۔۔ میں اس کے بچوں کو اب مزید نہیں پال سکتی اور میں آج بچوں کو اس کے حوالے کر کے ہی جاؤں گی۔‘‘ عورت نے انتہائی ٹھوس لہجے میں کہا
’’جج صیب۔۔۔ میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ میری حالت کافی خراب ہے، اس لئے بچوں کو اس کی ماں کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ انہیں ماں سے الگ کر کے ان پر ظلم نہ کیا جائے۔‘‘ اس نے جج کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے روہانسے لہجے میں کہا اور اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ دونوں کی بات چیت سننے اور کافی دیر کے بحث و مباحثہ کے بعد جج صاحب نے حکم سناتے ہوئے کہا
’’دونوں بچوں کو باپ کے حوالے کیا جائے۔‘‘
اور جب بیلف بچوں کو ماں سے الگ کرنے لگا تو دونوں بچے دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ وہ امی امی پکارتے ہوئے اپنی ماں سے بار بار چمٹ جاتے۔ بیلف ایک بچے کو پکڑ کر باپ کے حوالے کرتا تو دوسرا ماں کے دامن سے لپٹ جاتا، وہ اسے الگ کرتا تو پہلے والا مچلتا تڑپتا باپ کا ہاتھ چھڑا کر روتا ہوا ماں کا بازو پکڑ لیتا۔ بچوں کی روح کو تڑپا دینے والی چیخ و پکار کمرۂ عدالت میں ہر طرف گونجنے لگی۔ مگر بچوں کی تڑپ اور ان کا بین ماں پر ذرا بھی اثر انداز نہ ہوا اور وہ انہیں جھٹک کر پاؤں پٹختی ہوئی عدالت سے باہر چلی گئی۔ ماں کو جاتا دیکھ کر دونوں بچے مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے باپ کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتے۔ بڑی مشکل سے اس کے باپ اور بیلف نے بچوں کو پکڑ کے قابو کئے رکھا۔ جنہوں نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا اور امی امی کہتے ہوئے ادھ موئے ہو گئے تھے۔ کافی دیر تک وہ چپ نہیں ہوئے تو بالآخر جج نے جھنجھلا کر غصے میں بیلف سے کہا
’’انہیں باہر نکالو یار۔۔۔ مغز خراب کر دیا ہے۔‘‘
٭٭
دھماکہ
شہر کے معروف چوک سے گزرتے ہوئے جلوس میں اچانک خوفناک دھماکا ہوا اور چاروں طرف دلدوز چیخ و پکار کا بازار گرم ہو گیا۔ پلک جھپکتے میں جگہ جگہ خون میں لتھڑے ہوئے انسانی جسموں کے ٹکڑے بکھر گئے۔ آس پاس کی دکانوں کو شدید نقصان پہنچا اور کچھ میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ بلند ہوتے دھوئیں کے سیاہ بادلوں کے سائے میں ہر طرف ادھڑے ہوئے وجود پڑے تھے اور زمین اپنوں کا خون اپنے اندر محفوظ کر رہی تھی۔ دھماکے سے تتر بتر ہو جانے والے لوگ واویلا کرتے ہوئے ادھر ادھر سے نمودار ہو کر سرخ جسموں کو دیوانہ وار ٹٹولتے ہوئے اپنے پیاروں کی تلاش میں چیختے پھر رہے تھے۔ قیامت وہاں خیمہ زن ہو گئی تھی۔
اس وحشی لمحے کے بیچ وہ ادھیڑ عمر کا دبلا سا شخص بھی بوکھلایا ہوا ادھر ادھر بھاگتا پھر رہا تھا اور بڑی پھرتی سے لاشوں کی تلاشیاں لینے میں مصروف تھا۔ جو چیز بھی اس کے ہاتھ لگتی وہ جھٹ سے اپنی جیب میں ڈال لیتا۔ اس کے کپڑے اور ہاتھ خون میں ڈوب چکے تھے مگر اس پر کوئی اور ہی دھن سوار تھی اور وہ ہر طرف سے گونجتی چیخوں، آہوں اور سسکیوں کو روندتا ہوا اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ وہ اوندھے پڑے ایک وجود کی طرف لپکا جو خون میں نہلایا ہوا بے یارو مددگار پڑا تھا۔ وہ جھٹ سے اس کی تلاشی لینے لگا۔ اس کی سائیڈ جیب سے کالے رنگ کا بٹوہ برآمد ہوا جسے اس نے فوراً اپنی جیب میں ڈال لیا۔ پھر اسے کاندھے سے پکڑ کر تیزی کے ساتھ سیدھا کیا اور اس کے سامنے والی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کے ہاتھ موبائل فون لگ گیا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو تم۔۔۔؟‘‘ اچانک اس وجود سے ٹوٹتی ہوئی آواز ابھری اور وہ موبائل اپنی جیب میں ڈالتے ڈالتے یک لخت رک گیا۔ اسے آواز کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہوئی۔ اس نے وہ خون آلود چہرہ غور سے دیکھا تو سکتے میں آ گیا۔ وہ اس کا پڑوسی تھا، جس کے پاس اس کے بچے ٹیوشن پڑھنے جایا کرتے تھے۔
’’مم۔۔۔ مم۔۔۔ میں تمہارے گھر والوں کو اطلاع کرنے کے لئے تمہارا موبائل ڈھونڈ رہا تھا۔‘‘
اس نے بڑی تسلی کے ساتھ جواب دیا اور موبائل پر تیزی کے ساتھ انگلیاں چلانے لگا۔
٭٭
سرخ وائرس
ایک بہت بڑا ہجوم کے سامنے وہ سٹیج پر کھڑا چیخ رہا تھا۔ اس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور تناؤ کی وجہ سے چہرے پر خون جمع ہو چکا تھا۔
’’تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں کہ سرخ آنکھوں کا وائرس پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ ان کے خلاف اگر ہم سب اکٹھے ہو کر ایک صف میں کھڑے نہ ہوئے تو یہ سرخ وائرس ہماری نسلوں تک کو چاٹ جائے گا اور سرخیاں ہمارا مقدر بن جائیں گے۔ لاشیں ڈھونے کے لئے ہمارے بازو نہیں رہیں گے اور رونے کے لئے ہماری آنکھیں نہیں رہیں گی۔
ایک ہونے کے لئے ہمیں کوئی اتنے بڑے بڑے کام نہیں کرنے۔۔۔ صرف ایک سوچ کے گرد اکٹھا ہونا ہے اور وہ ہے قومی سوچ۔۔۔ صرف اور صرف اپنے ملک کی سوچ۔۔۔ باقی تمام انفرادی اور ذاتی سوچیں اپنے اندر سے نکال پھینکو۔۔۔ یہ انفرادی سوچیں بیماریاں ہیں اور ان بیماریوں کی وجہ سے ہی یہ سرخ وائرس ہمارے درمیان گھس آیا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ سرخ آنکھوں کے پھیلتے وائرس کو ختم کرنے کے لئے ایک ہو جاؤ۔ اور دنیا کو بتا دو کہ یہ وائرس ہمارا نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے اسے پیدا کیا ہے۔ میں تم لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ ایک ہو جاؤ، صرف قومی سوچ ہی ہمیں اس سرخ وائرس سے نجات دلا سکتی ہے۔‘‘
اس نے مائیک سے منہ ہٹاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا اور بھرے مجمع کو رحم بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ جوش کی وجہ سے اس کی آنکھیں لال ہو گئی تھیں اور ان میں پانی اتر چکا تھا۔
ہجوم میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ لوگوں کے چہروں پر مختلف عبارتیں تحریر ہونا شروع ہو گئیں اور آنکھوں میں شک کی بارشیں ہونے لگیں۔
’’بکواس کرتا ہے سالا۔۔۔‘‘ ایک غصے بھری آواز ابھری۔
’’یہ آگ ان ہی لوگوں کی لگائی ہوئی ہے اور اب کتے کی طرح بھونک رہا ہے۔‘‘ ایک اور آواز آئی
’’یہ سب پیٹ کے چکر ہیں بھیا۔۔۔ بھاشن دو اور راشن لو۔۔۔‘‘ ایک ہنستی ہوئی پتلی آواز کانوں میں گونجی۔
’’یار۔۔۔ باتیں تو ٹھیک کر رہا ہے۔ قوم کو ایک ہونا ہی پڑے گا ورنہ یہ سرخ وائرس ہمارے آنگنوں تک پہنچ جائے گا۔‘‘ ایک بھاری آواز اٹھی اور لوگ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’قوم کو تقسیم کر کے اب متحد ہونے کا راگ الاپنے آ گئے ہیں۔ جب گلی کوچوں میں یہ سرخ وائرس پھینکا جا رہا تھا اس وقت یہ الو کے پٹھے سوئے ہوئے تھے کیا۔۔؟‘‘ ایک نفرت بھری تیکھی آواز ابھری
چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ اچانک بہت ساری سرخ آنکھیں نمودار ہوئیں اور مجمع کو گھیر لیا۔ فضا تڑ تڑ سے لرز اٹھی اور ہر طرف چیخیں پرواز کرنے لگیں۔ مجمع میں بھگدڑ مچ گئی اور وجود گرتے چلے گئے۔ پل بھر میں سرخ آنکھیں وار کر کے چلی گئیں اور سکوت چہ میگوئیوں کو نگل چکا تھا۔ جو لوگ سانسوں کا بوجھ اٹھائے متحد ہونے سے انکار کر رہے تھے اب سانسوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر سرخ لباس پہنے ایک دوسرے پر گرے متحد ہو چکے تھے۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں