FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سریندر پرکاش کی تین کہانیاں

 

ترتیب: تصنیف حیدر

 

                سریندر پرکاش

 

 

 

 

 

رونے کی آواز

 

 

فلاور انڈر ٹری اِز فری

سامنے والی کرسی پر بیٹھا ابھی ابھی وہ گا رہا تھا۔ مگر اب کرسی کی سیٹ پر اس کے جسم کے دباؤ کا نشان ہی باقی ہے۔ کتنا اچھا گاتا ہے وہ۔ ۔ ۔ مجھے مغربی موسیقی اور شاعری سے کچھ ایسی دلچسپی تو نہیں ہے۔ مگر وہ کم بخت گاتا ہی کچھ اس طرح ہے کہ میں کھو سا جاتا ہوں۔ وہ گاتا رہا اور میں سوچتا رہا۔ ’’کیا پھول درخت کے سائے تلے واقعی آزاد ہے؟‘‘

وہ اب جا چکا ہے۔ جن سُروں میں وہ گا رہا تھا وہ اپنی گونج بھی کھو چکے ہیں۔ مگر الفاظ سے میں ابھی تک اُلجھا ہوا ہوں۔

’’فلاور انڈر ٹری اِز فری‘‘ ’’Flower Under Tree Is Free‘‘

اس سے ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ الفاظ کی عمرسر سے لمبی ہوتی ہے۔ شام، جب وہ مجھ سے ملا خاصا نشے میں تھا۔ طالب علموں کے ایک گروہ نے دن میں اُسے گھیر لیا تھا، وہ اس کے ملک کے گیت اس سے سنتے رہے اور شراب پیتے پلاتے رہے۔ میرے کندھے پر اپنا دایاں ہاتھ رکھتے ہُوئے اس نے مُجھے سارے دن کا قصہ سنایا۔ اور پھر کہنے لگا۔ ’’ گھر سے جب نکلا تھا تو میرے ذہن میں یہ فتور تھا کہ ساری دنیا پیدل گھوم کر اپنا ہم شکل تلاش کروں گا۔ آٹھ برس ہونے کو آئے مجھے دوسروں کے ہم شکل تو ملتے رہے مگر اپنا ہم شکل اب تک نہیں ملا‘‘۔

’’کیا کہیں تمہیں کوئی میرا ہم شکل ملا؟‘‘ میں نے مُسکرا کر پُوچھا

’’ ہاں ! سیکنڈی نیویا میں !‘‘اس نے میری طرف دیکھے بغیر اور اپنے ذہن پر زور دیئے بغیر جواب دیا۔

رات گئے تک ہم سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے۔ جب تھک گئے تو گھر کا رُخ کیا۔ وہ کمرے میں داخل ہُوا، کرسی پر بیٹھا، دو ایک منٹ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہاپھر اس نے ایک دم اپنا مخصوص گیت گانا شروع کردیا۔

میں نے پوُچھا۔ ’’ اس گیت میں جو الفاظ ہیں ان کے معنی کیا ہیں ؟‘‘

’’معنی کوئی ساتھ نہیں دیتا، صرف الفاظ دیتا ہے۔ دیتا بھی کیا ہے بس ان پر اپنے معنی کی مہر ثبت کر دیتا ہے۔ اور ہم ان میں سے اپنے معنی تلاش کرتے ہیں ! ‘‘ اس نے جواب دیا۔ کرسی پر سے اُٹھتے ہُوئے اس نے کمرے کی بے ترتیبی کا جائزہ لیا اور پھر اچانک بول اُٹھا۔ ’’تم شادی کیوں نہیں کر لیتے اچھے خاصے معمولی آدمی ہو۔ ‘‘ میں بوکھلا سا گیا۔

’’بات دراصل یہ ہے۔ ‘‘ میں نے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ہماری بلڈنگ کے اوپر والی منزل میں ایک دشنو بابو رہتے ہیں۔ وہ اس بلڈنگ کے مالک بھی ہیں۔ ہم سب ان کے کرایہ دار ہیں۔ بہت سال پہلے جب وہ بالکل معمولی آدمی تھے تو انہوں نے ایک لڑکی سے شادی کی تھی۔ جس کا نام ’’سرسوتی‘‘ ہے۔ پھر اچانک دشنو بابو ایک مالدار عورت لکشمی سے ٹکرا گئے۔ تب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ’’لکشمی ‘‘ سے اپنا دوسرا بیاہ رچا لیا۔ اب لکشمی اور دشنو دونوں آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور بے چاری ’’سرسوتی‘‘ رات رات بھر سیڑھیوں میں بیٹھی روتی رہتی ہے۔ اسی ہنگامے کی وجہ سے میں ابھی تک طے نہیں کرپایا کہ مجھے کسی سرسوتی سے شادی کرنی چاہیئے تھی یا کسی لکشمی سے!‘‘

اس نے میرے چہرے کی طرف غور سے دیکھا، اس کی آنکھوں کے سُرخ ڈورے اس کے چہرے کو خوف ناک بنا رہے تھے۔ پھر اس نے ایک دم سے گُڈ نائٹ! کہا اور تیزی سیڑھیاں اتر گیا۔ اپنی اسی طرح کی حرکتوں اور باتوں کی وجہ سے وہ کبھی کبھی مجھے گوشت پوست کے آدمی کی بجائے کوئی خیال لگتا ہے جو سمندر پار سے یہاں آ گیا ہو۔

جس عمارت کے ایک کمرے میں میں رہتا ہُوں۔ اس کے سب کمروں کی دیواریں کہیں نہ کہیں، جیسے تیسے ایک دوسرے سے مشترک ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک کمرے کے اندر کی آواز یا خاموشی دوسرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں، میری آواز یا خاموشی یا پھر چند لمحے پہلے میرے کمرے میں گونجنے والی اس کے گانے کی آواز بھی ضرور کہیں نہ کہیں پہنچی ہو گی۔

باہر شاید رات نے صبح کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ اِردگرد کے سب گھروں کی بتیاں بُجھ گئی ہیں۔ ہر طرف اندھیرا ہے۔ اور خاموشی دیمک کی طرح ہر طرف آہستہ آہستہ رینگے جار ہی ہے۔ میں دروازے کی چٹخی چڑھا کر اور مدھم بتی جلاکر اپنے بستر پر لیٹ گیا ہُوں۔

مدھم روشنی میں سفید چادر میں لپٹا ہوا اپنا جسم مجھے کفن میں لپٹی ہوئی لاش کی طرح لگتا ہے۔ تنہائی، تاریکی اور خاموشی میں ایسا خیال خوف زدہ کر ہی دیتا ہے۔ جیسے خواب میں بلندی سے گرتے ہوئے آدمی کا جسم اور ذہن سُن ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی میری کیفیت ہے۔ دھیرے دھیرے میں نیچے گِر رہا ہوں اور پھر اچانک مجھے لگتا ہے میں اپنے جسم میں واپس آ گیاہوں۔

باہر سے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے شاید سرسوتی اور لکشمی میں پھر جھگڑا ہوا ہے اورسرسوتی کے رونے کی آواز سیڑھی، سیڑھی اُتر کر نیچے میرے کمرے کے دروازے تک آ گئی ہے، مگر یہ تو کسی بچے کے رونے کی آواز ہے!میں محسوس کرتا ہوں۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے پڑوس والوں کا بچہ اچانک بھُوک کی وجہ سے رونے لگ گیا ہو گا۔ اور اس کی ماں بدستور نیند میں بے خبر سو رہی ہو گی یا پھر شاید ایسا بھی تو ہوسکتاہے کہ وہ مر گئی ہو اور بچہ بلک بلک کے رو رہا ہو۔ آواز آہستہ آہستہ قریب ہو کر واضح ہوتی جا رہی ہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ ایک بچہ میرے ہی پہلو میں پڑا رو رہا ہے۔ اور کفن میں لپٹی میری لاش میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی۔

’’اگر درخت تہذیب کی علامت ہے تو ہم اس کے سائے میں روتے ہُوئے آزاد پھول ہیں۔ میرے ذہن میں اچانک اس کے الفاظ کے معنی کِھل اُٹھے ہیں جن کے سر وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

بچہ بدستور رو رہا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کی آواز میں درد اور دُکھ کی لہریں شامل ہوتی جا رہی ہیں۔ جیسے اسے پتہ چل گیا ہو کہ اس کی ماں مر گئی ہے۔ مگر اسے یہ کس نے بتایا ہو گا؟ اس کے باپ نے؟ مگر وہ تو بدستور سو رہا ہے۔ کیونکہ اس کی آواز میں اس کے باپ کی آواز ابھی شامل نہیں ہوئی۔ یہ تو ہر کسی کو آپ ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی ماں مر گئی ہے۔ مجھے نہیں پتہ چل گیا تھا!۔ ۔ ۔ بچے کے رونے کی آواز میری آواز سے کتنی ملتی جُلتی ہے۔ ۔ ۔ !

پھر اس کے الفاظ میرے کان میں گونجنے لگے۔ ’’اچھے خاصے معمولی آدمی ہو‘‘۔ میں واقعی معمولی آدمی ہوں۔ ہر صبح اپنے گھر سے تیار ہو کر نکلتا ہُوں۔ دروازہ بند کرتے ہُوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہتا ہُوں۔ سورج کی طرف مُنہ کر کے دن بھر بھاگتا رہتا ہُوں اور رات ہونے پر اپنے آپ کو گھر کے دروازے پہ کھڑا پاتا ہُوں۔

صبح سب سے پہلے سارس کی طرح اُڑتا ہوا میں اس عمارت تک جاتا ہُوں۔ جہاں ایک عورت خوبصورت کیبن میں گلاس ٹاپ کے میز پر اپنی سفید مرمریں باہیں پھیلائے گھومنے والی کرسی پر بیٹھی رہتی ہے۔ وہ اپنے سفید بالوں کو ہر روز خضاب سے رنگ کر آتی ہے۔ میز پر پھیلی ہوئی اس کی باہیں۔ اس طرح لگتی ہیں کہ جیسے کسی عورت کی برہنہ ٹانگیں ہوں۔

کیبن کے اردگرد سے کئی سیڑھیاں اُوپر چڑھتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں اس کیبن کے شیشوں میں سے اکثر جھانکتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر وہ واقعی اپنی ننگی ٹانگیں میز پر پھیلائے ہوئے ہے تو۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ! سیڑھیاں جہاں سے شروع ہوتی ہیں۔ وہاں داہنے طرف ایک بڑی سی الماری لگی ہوئی ہے۔ جس میں چھوٹے چھوٹے بنک کے لاکروں جیسے کئی خانے بنے ہوئے ہیں جن میں ہر آدمی اپنی ذاتی چیزیں رکھ سکتا ہے۔ مگر میں ہر روز اپنی ذات ہی کو اس میں بند کر کے سیڑھیاں چڑھ جاتا ہوں۔ اور پھر شام کو جاتے ہوئے دوبارہ اسے نکال لیتا ہوں۔ باہر تھیٹر والوں کی گاڑی کھڑی رہتی ہے۔ اس کا ڈرائیور مجھے آنکھوں کے اشارے سے بیٹھنے کے لئے کہتا ہے اور میں شہر کے جدید ترین تھیٹر میں پہنچا دیا جاتا ہوں۔ جس کا پنڈال بالکل سرکس کے پنڈال کے جیسا ہے۔ میں اس تھیٹر میں پچھلے اٹھارہ برس سے ایک ہی رول ادا کر رہا ہوں۔ سٹیج بالکل وسط میں ہے۔ اور میرا پہلا میک اپ اتار کر اگلی در، کا میک اپ اور لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ مکالمے سب بیک گراؤنڈ سے ہوتے ہیں۔ مجھے صرف للی پت والوں کی مار کھانے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ان کے ننھے ننھے سوئیوں جیسے بھالے میرے جسم میں چبھتے ہیں۔ ان کے کمانوں سے نکلے ہوئے چھوٹے چھوٹے تیر میرے جسم میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ میرے مساموں سے خون کی بوندیں پسینے کی طرح نکلتی ہیں۔ مجھ میں خوبی بس یہی ہے کہ میں تکلیف کا اظہار نہیں کرتا اس لئے اتنے برسوں سے یہ سب چل رہا ہے۔ یہاں سے مجھے ملتا کچھ بھی نہیں یہ تو محض ہابی کے طور پر ہے۔ پھر جب شو ختم ہو جاتا ہے تو مجھے ایک اسٹریچر پر لٹا کر ایک باتھ روم میں لے جاتے ہیں۔ جہاں الکوحل سے بھرے ہوئے ٹب میں مجھے ڈال دیا جاتا ہے۔ الکوحل میرے زخموں میں ٹیسیں پیدا کرتی ہے۔ پھر ایک دم ایک خنکی کی لہر میرے جسم میں دوڑ جاتی ہے اور میں تازہ دم ہو کر گھر کی طرف بڑھتا ہوں۔

ایک دن عجیب تماشا ہوا۔ جب اس عمارت کے دروازے بند ہونے کا وقت آیا تب میں پیشاب خانے میں تھا۔ میرے پیچھے دھپ سے دروازہ بند ہوا۔ میں گھبرا کر زور زور سے دروازہ پیٹنے لگا تب ایک آدمی نے  آ کر دروازہ کھولا۔ میں اس تصور سے ہی اس قدر گھبرا گیا تھا کہ اگر مجھے ساری رات اس پیشاب خانے میں بند رہنا پڑتا تو میری کیا حالت ہوتی۔ گھبراہٹ میں چلتے وقت میں نے اس کیبن کی طرف بھی دھیان نہ دیا کہ آیا وہ عورت چلی گئی ہے یا نہیں۔ اور نہ ہی اس لاکر میں رکھی ہوئی اپنی ذات ہی نکالنے کا خیال آیا۔ باہر تھیٹر کی گاڑی کا ڈرائیور ہارن پر ہارن بجائے جا رہا تھا۔ میں بھاگتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی چل دی۔

میں بہت پریشان تھا کہ آج میں اپنی ذات کے بغیر اپنا رول کیسے ادا کر پاؤں گا۔ مگر میری حیرانی کی انتہاء نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ اس دن شو ختم ہونے پر بھیڑ اپنی کرسیوں سے اُٹھ کر میری طرف لپکی اور میری اداکاری کو اتنا قدرتی بتایا کہ میں خود بھی حیران رہ گیا۔

تب سے میں نے اپنی ذات کو اس لاکر ہی میں پڑا رہنے دیا ہے۔

ہوا کے ایک جھونکے نے کھڑکی کے پٹ کو زور سے پٹخ دیا ہے۔ میں پھر اپنے کمرے کے ماحول کی خوشبو محسوس کرنے لگا ہُوں۔ ۔ ۔ سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی سرسوتی کی سسکیوں کی آواز روتے ہوئے بچے کی کرب ناک آواز میں اب ایک اور آدمی کی آواز بھی شامل ہو گئی ہے۔ شاید بچے کا باپ بھی جاگ گیا ہے۔ وہ اپنی بیوی کی لاش اور بلکتے ہوئے بچے کو سیکھ کر ضبط نہ کر سکا۔

ایک اچھے پڑوسی کے ناطے میرا فرض ہے کہ ان کے سُکھ، دُکھ میں حصہ بٹاؤں، کیوں کہ ہم سب ایک ہی درخت کے سائے تلے کِھلے ہوئے آزاد پھُول ہیں۔

میرا جی چاہتا ہے کہ، میں اپنے کمرے کی چاروں دیواروں میں سے ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر ارد گرد کے کمروں میں جھانک کر انہیں سوتے ہوئے یا روتے ہوئے دیکھوں۔ کیوں کہ دونوں ہی حالتوں میں آدمی بے بسی کی حالت میں ہوتا ہے۔ مگر میں بھی کتنا کمینہ آدمی ہوں لوگوں کو بے بسی کی حالت میں دیکھنے کے شوق میں سارے کمرے کی دیواریں اکھاڑ دینا چاہتا ہوں۔

میں نے پھر اپنے آپ کو اٹھ کر ان کے کمروں میں جا کر ان کے رونے کی وجہ دریافت کرنے پر آمادہ کیا۔ رونے کی آوازیں اب کافی بلند ہو چکی تھیں۔ اور ان کی وجہ سے کمرے میں بند رہنا ممکن نہ تھا۔ میں نے وہی کفن جیسی سفید چادر اپنے گرد لپیٹی اور سیاہ سلیپر پہن کر دروازے کی طرف بڑھا۔ جُوں ہی میں نے دروازے کی چٹخنی کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ باہر سے کسی نے دروازے پر دستک دی، میں نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔

سیڑھیوں میں بیٹھ کر رونے والی سرسوتی، بلک بلک کر رونے والا بچہ، مری ہوئی عورت اور اس کا مجبور خاوند چاروں باہر کھڑے تھے۔ چاروں نے یک زبان مجھ سے پوچھا۔

’’ کیا بات ہے آپ اتنی دیر سے رو رہے ہیں ؟ ایک اچھے پڑوسی کے ناطے ہم نے اپنا فرض سمجھا کہ۔ ۔ ۔ !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

دوسرے آدمی کا ڈرائینگ روم

 

سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کئے تو دیکھا کہ پگڈنڈیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں۔ میں اک ذرا رُکا اور ان پر نظر ڈالی جو باجھل سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ میں بے پناہ اپنائیت کے احساس سے لبریز ہو گیا۔ ۔ ۔ تب علیحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک کسک کی صورت اختیا کی اور میں انتہائی غم زدہ ‘ سر جھکائے وادی میں اُتر گیا۔

جب پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ سب تھوتھنیاں اُٹھائے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ بار بار سر ہلا کر وہ اپنی رفاقت کا اظہار کرتے، ان کی گردنوں میں بندھی ہوئی دھات کی گھنٹیاں ’’الوداع، الوداع‘‘ پکار رہی تھیں۔ اور ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کے کونوں پر آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔

میرے ہونٹ شدت سے کانپے، آنکھیں مند گئیں، پاؤں رُک گئے مگر پھر بھی میں بھاری قدموں سے آگے بڑھا، حتیٰ کہ میں ان کے لئے اور وہ میرے لئے دُور اُفق پر لرزاں نکتے کی صورت اختیار کرگئے۔

وادی میں اُونچے اُونچے بے ترتیب درخت جابجا پھیلے ہوئے تھے جن کے جسموں کی خوشبو فضاء میں گھُل گئی تھی۔ نئے راستوں پر چلنے سے دل میں رہ رہ کے امنگ سی پیدا ہوتی۔ سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی سیڑھی چڑھ رہا تھا کہ میں گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھو ڑ کر صاف شفاف، چکنی سڑکوں پر آ گیا۔ پختہ سڑکوں پر صرف میرے پاؤں سے جھڑتی ہوئی گرد تھی جو میں پگڈنڈیوں سے لے کر آیا تھا۔ ۔ ۔ یا پھر میرے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔

چکنی سڑکوں کی سیاہی دھیرے دھیرے اُبھر کر فضا میں تحلیل ہونے لگی اور اُفق پر سورج کمزوری سے لڑھکنے لگا۔

ابھی جھٹپٹا ہی تھا کہ میں ایک گول کشادہ مکان کے بڑے سے پھاٹک پر آرُکا۔ نئے خوبصورت پھولوں سے لدی جھاڑیوں اور کنجوں میں سے ہوتی ہوئی ایک روش اُونچے اُونچے ستونوں والے برآمدے تک چلی گئی جس پر بکھرے ہوئے پتھر دن کی آخری زرد دھوپ میں چمچمارہے تھے۔ میں نپے تُلے قدم رکھتا ہوا یوں آگے بڑھا جیسے پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکا ہوں۔

خاموش، ویران برآمدے میں میری آواز گونجی۔ مجھے تعجب سا ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی مجھے پکار رہا ہے۔ میں آپ ہی آپ مسکرادیا۔ کوئی جواب نہ پا کر آگے بڑھا اور بڑے سے ولندیزی دروازے نے مجھے باہیں پھیلا کر خوش آمدید کہا۔

ولندیزی دروازوں کے ساتھ ہی قدیم آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیاں تھیں اور ان سب پر گہرے کتھئی رنگ کے بھاری پردے لٹک رہے تھے جن کی سجاوٹ سے سارے کمرے میں گہرے دھندلکے کا احساس ہورہا تھا۔ ماحول کی اس ایکا ایکی تبدیلی نے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دی اور میں سہما سہما کھڑا ہو گیا۔

’’۔ ۔ ۔ نیند کی جھپکی تھی شاید؟‘‘

نیم تاریک کمرے میں سہماسہما سا صوفے کے گُد گُدے پن میں دھنستا ہوا پاتال میں اُترا جا رہا ہُوں۔ آتش دان میں آگ بُجھ گئی ہے پھر بھی راکھ میں چھُپی بیٹھی چنگاریوں کی چمک گہرے سبز ریشمی قالین پر ابھی موجود ہے۔ کارنر ٹیبل پر رکھے دھات کے گل دان کو میرے بڑے سے ہاتھ نے چھُو کر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے جسم کی خُنکی ابھی تک انگلیوں پر محسوس ہو رہی ہے۔ گل دان کا اپنا ایک الگ وجود میں نے قبول کر لیا ہے۔ ہاتھ میرا ہے اسی لئے احساس بھی میرا ہے۔ لیکن گل دان نے میرے احساس کو قبول نہیں کیا ہے۔

مجھے ’’اس کا‘‘ انتظار ہے۔ ’’وہ‘‘ اندر کا ریڈار میں کھُلنے والے دروازے سے پردہ سرکا کر مسکراتا ہوا نکلے گا۔ اور میں بوکھلاہٹ میں اٹھ کر اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور پھر ہم دونوں بڑی گرم جوشی سے ملیں گے۔ وہ بڑا خوش سلیقہ آدمی ہے۔ ڈرائینگ روم کی سجاوٹ، رنگوں کا انتخاب، آرائشی چیزوں کی سج دھج۔ ۔ ۔ سب میں ایک’’ گریس ‘‘ ہے۔ نہ جانے وہ کب سے ان کے بارے میں سوچ رہا تھا، ان کے لئے بھٹک رہا تھا۔ ۔ ۔ اور تب کہیں جاکر وہ سب کرپایاہے۔

آتش دان بلیک ماربل کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جس پر جا بجا غیر مسلسل سفید دھاریاں ہیں۔ میں کچھ دیر تک ان دھاریوں کو غور سے دیکھتا رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ دھاریاں طویل و عریض صحرا کے ’’لینڈ اسکیپ‘‘ سے مشابہ ہیں۔ بالکل خالی صحرا، اداس، خاموش۔ اور میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس صحرا میں کھو گیا اور ریت کے جھکڑ نے مجھے اپنے اندر گم کر لیا۔ اور میں ویسے ہی سہما سہما خوف زدہ سا اپنے آپ کو ڈھونڈنے کے لئے اس صحرا کی طرف بڑھا۔

میں آتش دان پر بنی کارنس پر ہاتھ جما کر، جھک کر اپنے آپ کو تلاش کرنے لگا۔ کارنس پر ایک تصویر رکھی تھی جو بے دھیانی میں میرا ہاتھ لگنے سے گِر گئی۔ میں نے اس تصویر کو اُٹھا کر دیکھا: ایک خوش پوش آدمی گود میں ایک ننھی سی بچی کو اُٹھائے بیٹھا ہے اور اس کے بائیں کندھے سے بھڑائے ایک عورت بیٹھی ہے۔ دونوں مسکرا رہے ہیں اور بچی ان کی طرف مُڑ کر دیکھ رہی ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ کبھی ایسی ہی تصویر کھنچوانے کے لئے میں بھی بیٹھا تھا اور فوٹو گرافر نے کہا تھا:

’’ذرا مسکرائیے!‘‘

ہم تینوں مسکرائے اور فوٹوگرافر نے کہا: ’’تھینک یو‘‘ اور ہم اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ ہم ابھی تک بکھرے ہوئے ہیں۔ اگر اکٹھے بھی ہو جائیں تو مسکرا نہیں سکتے۔ باقی تصویر ویسی کی ویسی کھِنچ جائے گی۔

لیکن’’وہ‘‘ تصویر میں مسکرا رہا ہے، اس کی بیوی بھی مسکرا رہی ہے اور بچی بھی شاید، کیوں کہ اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے ہی مسکراتا ہوا وہ پچھلے دروازے سے وارد ہو گا۔ اور اس کی بیوی پچھلے کمروں میں کسی بیڈروم میں بیٹھی مسکرا رہی ہو گی۔ اور بچی شاید مکان کے پچھواڑے خوب صورت، پُر سکون کنجوں میں تتلیاں پکڑ رہی ہو گی۔

صوفے کے سائیڈ ٹیبل پر پینے کے لئے کچھ رکھ دیا گیا ہے۔ جب میں اس تصویر کے بارے میں سوچتا رہا تھا اور اپنے آپ کو صحرا میں کھوج رہا تھا تو کوئی چپکے سے نارنگی کے رنگ کی کسیچیز کا گلاس رکھ گیا تھا۔

’’ٹھک۔ ۔ ۔ ٹھک۔ ۔ ۔ ٹھک‘‘۔ برآمدے سے کسی کے زمین پر لاٹھی ٹیک کر چلنے کی آواز آرہی ہے:بڑی مسلسل، بڑی متوازن، بڑی باقاعدہ۔ میں دروازے کا پردہ سرکاکر سر باہر نکال کر دیکھتا ہوں۔ کوئی آہستہ آہستہ چلتا ہوا برآمدے کے خم سے مڑ گیا اور اب اس کی پُشت بھی غائب ہو گئی ہے اور لاٹھی ٹیکنے کی آواز ہر لحظہ دُور ہوتی جارہی ہے۔

’’سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے؟ میں سمندر کے بارے میں اتنا فکر مند کیوں ہُوں ؟‘‘ میرے ذہن میں سمندر اپنی بے کرانی، اپنی گہرائی اور اپنے مد و جزر کے ساتھ پھیلتا چلا گیا اور میں محسوس کرنے لگا کہ یہ واقعی سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے اور میں ایک کمزور سی، نحیف سی چھوٹی سی کشتی کی طرح ہچکولے کھاتا ہوا، ڈولتا ہوا کھڑکی تک پہنچا اور چھٹ سے پردہ ہٹا دیا۔

’’باہر شاید برف گِر رہی ہے‘‘۔ ’’ایک ایک گالا، ایک ایک گالا‘‘۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میرا ہاتھ کھڑکی سے باہر فضاء میں دھیرے دھیرے کبھی سیدھا کبھی اُلٹا حرکت کرنے لگا مگر ایک گالا بھی اس پر نہ گرا، ایک ذرا سی خُنکی بھی اس پر محسوس نہ ہوئی۔

’’قدیم آریائی جھرکوں ایسی کھڑکی!‘‘ میں بٹر بٹر اس کی طرف دیکھنے لگا۔

’’برف کہاں ہے؟‘‘ ’’نہیں، کہیں نہیں !‘‘ میں خود ہی سوال کرتا ہوں اور پھر خود ہی جواب دیتا ہوں، مگر اس سوال اور جواب کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی، صرف محسوس ہوتی ہے: ایک اداس، پُراسرار سرگوشی۔ ۔ ۔ اور میں اس احساس سے خوف زدہ ہو کر پھر اس گل دان کی طرف پلٹتا ہوں جس نے سب سے پہلے اس کمرے میں میرے احساس کو بیدار کیا تھا۔

بڑا سا گول گل دان جس پر بڑی ترتیب سے نقش و نگار بنائے گئے تھے بالکل بے حرکت پڑا ہے اور اس میں شروع جاڑوں کے پھول سجے ہوئے ہیں۔ یہ پھول کس ہاتھ نے سجائے ہیں ؟ گل دان سے ہٹ کر میرا ذہن کچھ ہاتھوں کے بارے میں سوچتا ہے جن میں پھول ہیں۔ پھر ہوا کھڑکی کے پردوں کو چھیڑتی ہے، دروازے کا پردہ بھی سرسراتاہے اور میں بالکل تنہا ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں اور پھر غم زدہ ہو جاتا ہوں۔ بے وجہ کا غم، بے بنیاد اکیلا پن۔

ایک سانپ میرے ذہن میں پھن پھیلا کر اپنی تیز تڑپتی ہوئی سرخ زبان نکال کر اِدھر اُدھر دیکھتا ہے، پھر آہستہ سے نیچے قالین پر اُتر جاتا ہے اور تیزی سے چلتا ہوا پیچھے والے دروازے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ میں خوف زدگی کی انتہائی کیفیت میں چیخ اُٹھتا ہوں اور میری نظروں کے سامنے بیڈروم میں بیٹھی ہوئی، مسکراتی ہوئی ایک عورت انگڑائی لیتی ہے اور تتلیاں پکڑتی ہوئی ایک بچی زقند بھرتی ہے اور میں صوفے کی پُشت کو مضبوطی سے تھام لیتا ہوں اور آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ سارا منظر کہیں دُور اندھیرے میں آہستہ آہستہ گم ہو جاتا ہے۔

’’وہ ابھی نہیں آیا۔ رات باہر لان میں اُتر آئی ہو گی‘‘۔ لاٹھی ٹیکنے کی آواز پھر قریب آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میں تیزی سے بڑھ کر دروازے کا پردہ ہٹا دیتا ہوں۔ ایک اندھا، ادھیڑ عمر آدمی لاٹھی کے سہارے بڑھ رہا ہے۔ ۔ ۔ نپے تُلے قدموں کے ساتھ لاٹھی کی باقاعدگی سے ابھرتی ہوئی آواز کے ساتھ۔ اس سے پیشتر کہ میں اسے بڑھ کر روکوں ‘ وہ آگے بڑھ جاتا ہے اور خاموشی سے برآمدے کے خم سے مُڑ جاتا ہے۔ ایکا ایکی پلٹ کر میں کمرے کے خالی پن کو گھُورتا ہوں۔ بڑا خوبصورت کمرہ ہے۔ دیوار پر بارہ سنگے کا ایک سر ٹنگا ہوا ہے اور اس کے نیچے ایک بڑا ہی مرصع تیر کمان آرائش کے لئے لٹکا ہوا ہے۔ کھڑکی اور دروازے کے درمیان والی دیوار کے خالی پن کو بھرنے کے لئے چوڑے سنہری چوکھٹ والی ایک بڑی سی تصویر ٹنگی ہے جس میں ہزار رنگوں والی ان گنت جنگلی چڑیاں پھُدکتی ہوئی محسوس ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

’’سب خوب ہے ! ہر چیز جاذب ہے ! تمام کچھ اپنانے کو جی چاہتا ہے۔ کاش! اے کاش! یہ سب کچھ میرا ہوتا۔ یہ صوفہ، کارنر ٹیبل پر پڑا ہوا گل دان، بک کیس میں پڑی ہوئی کتابیں، کارنس پر رکھی ہوئی تصویر، گہرے سبز قالین کا گُدگُداپن، آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیاں، ولندیزی دروازے پر سرسراتے ہوئے پردے، بیڈروم میں مسکراتی عورت، تتلیاں پکڑتی ہوئی بچی اور ان تمام چیزوں کے اپنا ہونے کا ہمہ گیر، بھرپور احساس‘‘۔

’’مگر نہیں۔ ۔ ۔ یں۔ یں۔ ں !‘‘۔ اُف! میری آواز اس قدر بلند کیوں ہے؟‘‘ مجھے اپنے چِلانے پر ندامت محسوس ہوتی ہے۔ ندامت، خوف اور اجنبیت کے احساس سے میں گزر جاتا ہوں اور پھر مجھے اپنا وجود گہرے سبز قالین پر اوندھا پڑا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی آدمی قالین کو اپنی انگلیوں میں بھر لینے کی کوشش میں تڑپ رہا ہے، رو رہا ہے اور پھر اس کی ہچکی بندھ جاتی ہے۔

’’خاموش ہو جاؤ۔ ۔ ۔ خاموش!‘‘ میں گہرے غم میں ڈوب کر اسے کہتا ہوں اور میرے اپنے آنسو ڈھلک کر میرے رخساروں تک آ جاتے ہیں اور میں اسے ویسے ہی خاموشی سے تڑپتا ہوا دیکھتا ہوں۔

’’ ٹھک۔ ۔ ۔ ٹھک۔ ۔ ۔ ٹھک‘‘۔ میں تیزی سے دروازے کی طرف بڑھتا ہوں۔ ’’رُک جاؤ۔ ۔ ۔ و۔ ۔ ۔ و۔ ۔ ۔ و !‘‘ میں دھاڑتا ہوں۔ اندھا بالکل میرے قریب سے گزر گیا ہے۔ اس پر میری آواز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میں لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ناکام رہتا ہوں۔ (یہ میری زندگی کی بہت سی ناکامیوں میں سے ایک ناکامی ہے۔ میں اسے پہلے دن سے ہی پکڑنے میں ناکام رہا ہوں )۔ وہ برآمدے کے موڑسے اوجھل ہو گیا ہے۔

اندر وہ قالین پر اوندھا پڑا ابھی تک بسور رہا ہے۔ پیچھے کھُلنے والے دروازوں پر ذرا بھی جنبش نہیں ہوتی۔ سانپ کے مکان میں گھس جانے سے ذرا بھی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔ (’’اُف کتنے بے حس لوگ ہیں ! ‘‘)

اسی دروازے کے قریب تپائی پر کانسے میں ڈھلا ایک بوڑھا بیٹھا بڑی بے فکری سے ناریل پی رہا ہے۔

’’اچھا تو میں چلتا ہوں ‘‘۔

’’چلتا ہوں ؟ مگر کہاں ؟‘‘۔ سوال اور جواب دونوں ہاتھ پھیلائے نظریں ایک دوسرے پر گاڑے کھڑے ہیں اور میں آہستہ سے سِرک کر اس مجمعے کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔

’’پانی تو پی لیجئے‘‘۔ ایک بڑی ہی میٹھی آواز کمرے میں گونجی۔

’’نہیں، بس اب میں چلتا ہوں، بہت دیر ہو گئی ‘‘۔ میں پلٹے بغیر، اس عورت کو دیکھے بغیر ہی جواب دیتا ہوں۔

’’لیکن کہاں ؟‘‘ آواز پھر اُبھری اور پھیل گئی۔ (سوال اور جواب نے مل کر شرارت کی ہے شاید! اور اب میں ان کے درمیان کھڑا ہوں اور میرے لئے ان کی فتح مند نظروں کی تاب لانا مشکل ہو رہا ہے اور میں سر جھکا کر خاموش ہو جاتا ہوں )۔

’’یہ سب اگر نہ ہو سکے تو بھی کوئی بات نہیں۔ مگر اتنا تو ہو ہی سکتاہے کہ میں اس بوڑھے کی طرح بے فکری سے بیٹھا تمباکو پیتا رہوں ؟‘‘

’’پہلے کانسے میں ڈھلنا پڑے گا!‘‘ قالین پر اوندھے پڑے آدمی نے کہا اور اُٹھ کر آتش دان پر بنے صحرا میں گم ہو گیا۔

’’کیا کوئی مجھے کانسے میں ڈھالے گا؟‘‘ میں نے مجسمے کو مخاطب کر کے کہا۔ بوڑھے نے تمباکو کا ایک لمبا کَش لگایا اور مسکراتے ہوئے دھواں میرے چہرے پر چھوڑ دیا۔ قدیم آریائی جھروکوں ایسی کھڑکیوں کے پردے سرسرائے اور بڑی سی تصویر میں ہزار رنگوں والی جنگلی چڑیوں نے پھُدک کر اپنی اپنی جگہیں بدل لیں۔ میں خوف زدگی کے انتہائی احساس سے لڑکھڑاتا ہوا سائیڈ ٹیبل تک پہنچا اور غٹا غٹ سارا گلاس چڑھا گیا۔

’’ابھی اسے صحرا میں کھوجنا ہے۔ شاید اس شدید برف باری میں بھاگ کر جانا پڑے۔ یا پھر سمندر کنارے کے شہر میں ‘‘۔ (کشتی بہرحال ساحل تک پہنچنی چاہیئے)

(ایک بپھرا ہوا سمندر، ایک ریت اُڑاتا صحرا اور ایک برف کا طوفان اور میں اکیلا آدمی! میں کیا کچھ کر لوں گا؟)میں دل ہی دل میں اس چیز کو گالی دیتا ہوں۔ جو یہ سب کچھ سوچتی ہے مگر نظر نہیں آتی اور مجھ نحیف، کمزور، بے سہارا۔ ۔ ۔ کو بھٹکاتی پھرتی ہے۔

’’ٹھک۔ ۔ ۔ ٹھک۔ ۔ ۔ ٹھک‘‘۔ وہ پھر گزر گیا ہے۔ میں اسے پکڑ نہیں سکتا، اس بات نہیں کر سکتا۔ وہ گونگا، بہرہ، اندھا۔ ذہن میں سوراخ کرتی ہوئی اس کی لاٹھی کی آواز۔

’’چلو بھائی چلو‘‘۔ دروازے پر کسی نے دستک دی ہے۔

’’مگر وہ تو ابھی آیا نہیں ‘‘۔ میں نے جواب دیا۔

’’اب نہیں پھر سہی، دیکھو دیر ہو رہی ہے‘‘۔ آواز باہر لان میں سے گونج کر آ رہی ہے۔

’’ذرا سنو!پھر کب آنا ہو گا؟‘‘ میں نے پلٹ کر ڈرائینگ روم میں چاروں طرف نظریں گھمائیں جو مجھے انتہائی پسند تھا۔ ۔ ۔ پُرسکون، آرام دہ، ’’کوزی‘‘۔

جواب میں وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔ شاید وہ میری حریص نگاہوں کا مطلب سمجھ گیا تھا۔

لاٹھی ٹیکنے کی آواز بڑی جلدی جلدی دروازے پر سنائی دی۔ شاید اسے بھی جلدی ہے۔ باہر صرف آواز تھی۔ ایک اس کے قہقہے کی آواز، دوسری اندھے کی لاٹھی کی آواز۔ اور رات باہر لان میں اُتر کر سارے میں پھیل گئی تھی۔ ۔ ۔ شروع جاڑوں کی اندھیری رات۔

’’یہ سب تمہارا ہی تو تھا۔ مگر اب اس سے زیادہ نہیں۔ بہت دیر ہو رہی ہے‘‘۔ اس کی آواز پھر گونجی، پھیلی اور سمٹ کر پھر باہر واپس چلی گئی۔

میں کسی انجانی چیز کے کھو جانے کے غم سے پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگا۔ ’’مجھے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا‘‘۔ میں چیخا۔ ’’کم از کم میں پچھلے دروازے سے اندر جا کر ان میں ایک لمحے کے لئے بیٹھ تو جاتا۔ ان کی چاہت، ان کی اپنائیت کی گرمی سے اپنی آغوش کے خالی پن کو آسودہ کر لیتا۔ یہ ظلم ہے۔ ۔ ۔ سراسر ظلم!‘‘

’’ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ہا‘‘۔

میں نے قالین کو ایک نظر دیکھا اور پھر بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں بھر لینے کے لئے اس پر اوندھا لیٹ گیا۔ اور میری پشیمانی کے آنسوؤں سے اس کا دامن بھیگنے لگا۔ اور پھر صحرا میں بھٹکا ہوا آدمی آہستہ سے چل کر میرے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ کانسے میں ڈھلے ہوئے بوڑھے نے ایک اور گہرا کَش لیا اور تمباکو کا دھواں میری طرف اُگل دیا۔

میں نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا اور پُوچھنا چاہا:’’دیکھ رہے ہو؟ یہ سب دیکھ رہے ہو نا؟‘‘ ایکا ایکی میں نے اپنی بے چارگی پر قابو پایا اور بازو لہرا کر کہنا چاہا:’’ سنو! تم سب سُن لو۔ سمندر کنارے کے شہر کا پتہ ہے نا؟اگر کبھی کوئی کمزور، نحیف، بے سہاراکشتی ساحل سے آ کر لگے تو سمجھ جانا کہ وہ میں ہوں !‘‘۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بجوکا

 

پریم چند کی کہانی کا’ہوری‘ اتنا بوڑھا ہو چکا تھا کہ اس کی پلکوں اور بھوؤں تک کے بال سفید ہو گئے تھے کمر میں خم پڑگیا تھا اور ہاتھوں کی نسیں سانولے کھُردرے گوشت سے اُبھر آئی تھیں۔

اس اثناء میں اس کے ہاں دو بیٹے ہوئے تھے‘ جو اب نہیں رہے۔ ایک گنگا میں نہا رہا تھا کہ ڈوب گیا اور دوسرا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ پولیس کے ساتھ اس کا مقابلہ کیوں ہوا اس میں کچھ ایسی بتانے کی بات نہیں۔ جب بھی کوئی آدمی اپنے وجود سے واقف ہوتا ہے اور اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے تو اس کا پولیس کے ساتھ مقابلہ ہو جانا قدرتی ہو جاتا۔ بس ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا۔ ۔ ۔ اور بُوڑھے ہوری کے ہاتھ ہل کے ہتھے کو تھامے ہوئے ایک بار ڈھیلے پڑے ذرا کانپے اور پھر ان کی گرفت اپنے آپ مضبوط ہو گئی۔ اس نے بیلوں کو ہانک لگائی اور ہل کا پھل زمین کا سینہ چیرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

اس دن آسمان سورج نکلنے سے پہلے کچھ زیادہ ہی سرخ تھااور  ہوری کے آنگن کے کنویں کے گرد پانچوں بچے ننگ دھڑنگ بیٹھے نہا رہے تھے۔ اس کی بڑی بہو کنویں سے پانی نکال نکال کر ان پر باری باری اُنڈیلتی جا رہی تھی اور وہ اُچھلتے ہوئے اپنا پنڈا ملتے پانی اُچھال رہے تھے۔ چھوٹی بہو بڑی بڑی روٹیاں بنا کر چنگیری میں ڈال رہی تھی اور ہوری اندر کپڑے بدل کر پگڑی باندھ رہا تھا۔ پگڑی باندھ کر اس نے طاقچے میں رکھے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ ۔ ۔ سارے چہرے پر لکیریں پھیل گئیں۔ اس نے قریب ہی لٹکی ہوئی ہنومان جی کی چھوٹی سی تصویر کے سامنے آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ جوڑ کر سر جھکایا اور پھر دروازے میں سے گزر کر باہر آنگن میں آ گیا۔

’’ سب تیار ہیں ؟‘‘اس نے قدرے اونچی آواز میں پُوچھا۔

’’ ہاں باپُو۔ ۔ ۔ ‘‘سب بچے ایک ساتھ بول اُٹھے۔ بہوؤں نے اپنے سروں پر پہلودرست کئے اور ان کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے۔ ہوری نے دیکھا کہ کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ سب جھوٹ بول رہے تھے۔ اس نے سوچا یہ جھوٹ ہماری زندگی کے لئے کتنا ضروری ہے۔ اگر بھگوان نے ہمیں جھوٹ جیسی نعمت نہ دی ہوتی تو لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگ جاتے۔ اس کے پاس جینے کا کوئی بہانہ نہ رہ جاتا۔ ہم پہلے جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اسے سچ کرنے کی کوشش میں دیر تک زندہ رہتے ہیں۔

ہوری کے پوتے پوتیاں اور بہوئیں۔ ۔ ۔ ابھی ابھی بولے ہوئے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں پوری تندہی سے جُت گئیں۔ جب تک ہوری نے ایک کونے میں پڑے کٹائی کے اوزار نکالے۔ ۔ ۔ اور اب وہ سچ مُچ تیار ہو چکے تھے۔

ان کا کھیت لہلہا اُٹھا تھا۔ فصل پک گئی تھی اور آج کٹائی کا دن تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی تہوار ہو۔ سب بڑے چاؤ سے جلد از جلد کھیت پر پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ انہوں نے دیکھا سورج کی سنہری کرنوں نے سارے گھر کو اپنے جادو میں جکڑ لیا ہے۔

ہوری نے انگوچھا کندھے پر رکھتے ہوئے سوچا۔ کتنا اچھا سمے آ پہنچا ہے نہ اہلمد کی دھونس نہ بنئے کا کھٹکا نہ انگریز کی زور زبردستی اور نہ زمیندار کا حصہ۔ ۔ ۔ اس کی نظروں کے سامنے ہرے ہرے خوشے جھوم اٹھے۔

’’چلو بابو‘‘۔ اس کے بڑے پوتے نے اس کی انگلی پکڑ لی‘ باقی بچے اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئے۔ بڑی بہو نے کوٹھری کا دروازہ بند نہ کیا اور چھوٹی بہو نے روٹیوں کی پوٹلی سر پر رکھی۔

بیر بجرنگی کا نام لے کر سب باہر کی چاردیواری والے دروازے میں سے نکل کر گلی میں آ گئے اور پھر دائیں طرف مُڑ کر اپنے کھیت کی طرف بڑھنے لگے۔

گاؤں کی گلیوں ‘ گلیاروں میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ لوگ کھیتوں کو آ جا رہے تھے۔ سب کے دلوں میں مُسرّت کے انار چھوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔ سب کی آنکھیں پکی فصلیں دیکھ کر چمک رہی تھیں۔ ہوری کو لگا کہ جیسے زندگی کل سے آج ذرا مختلف ہے۔ اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آتے ہوئے بچوں کی طرف دیکھا۔ وہ بالک ویسے ہی لگ رہے تھے جیسے کسان کے بچے ہوتے ہیں۔ سانولے مریل سے۔ ۔ ۔ جو جیپ گاڑی کے پہیوں کی آواز اور موسم کی آہٹ سے ڈر جاتے ہیں۔ بہوئیں ویسی ہی تھیں جیسے غریب کسان کی بیوہ عورتیں ہوتی ہیں۔ چہرے گھونگھٹوں میں چھُپے ہوئے اور لباس کی ایک ایک سلوٹ میں غریبی جوؤں کی طرح چھُپی بیٹھی۔

وہ سر جھکا کر آگے بڑھنے لگا۔ گاؤں کے آخری مکان سے گزر کر آگے کھلے کھیت تھے۔ قریب ہی رہٹ خاموش کھڑا تھا۔ نیم کے درخت کے نیچے ایک کتا بے فکری سے سویا ہوا تھا۔ دُور طویلے میں کچھ گائیں ‘ بھینسیں اور بیل چارہ کھا کر پھنکار رہے تھے۔ سامنے دُور دُور تک لہلہاتے ہوئے سنہری کھیت تھے۔ ۔ ۔ ان سب کھیتوں کے بعد ذرا دُور جب یہ سب کھیت ختم ہو جائیں گے اور پھر چھوٹا سا نالہ پار کر کے الگ تھلگ ہوری کا کھیت تھا جس میں جھونا پک کر انگڑائیاں لے رہا تھا۔

وہ سب پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے دُور سے ایسے لگ رہے تھے جیسے رنگ برنگے کپڑے سوکھی گھاس پر رینگ رہے ہوں۔ ۔ ۔ وہ سب اپنے کھیت کی طرف جا رہے تھے۔ جس کے آگے تھل تھا۔ دُور دُور تک پھیلا ہوا جس میں کہیں ہریالی نظر نہ آتی تھی بس تھوڑی بے جان مٹی تھی۔ جس میں پاؤں رکھتے ہی دھنس جاتا تھا۔ اور مٹی یُوں بھُربھری ہو گئی تھی کہ جیسے اس کے دونوں بیٹوں کی ہڈیاں چتا میں جل کر پھول بن گئی تھیں اور پھر ہاتھ لگاتے ہی ریت کی طرح بکھر جاتی تھیں۔ وہ تھل دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ ہوری کو یاد آیا پچھلے پچاس برسوں میں وہ دو ہاتھ آگے بڑھ آیا تھا۔ ہوری چاہتا تھا کہ جب تک بچے جوان ہوں وہ تھل اس کے کھیت تک نہ پہنچے اور تب تک وہ خود کسی تھل کا حصہ بن چکا ہو گا۔

پگڈنڈیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور اس پر ہوری اور اس کے خاندان کے لوگوں کے حرکت کرتے ہوئے ننگے پاؤں۔ ۔ ۔

سورج آسمان کی مشرقی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھ رہا تھا۔

چلتے چلتے ان کے پاؤں مٹی سے اٹ گئے تھے۔ کئی اِرد گرد کے کھیتوں میں لوگ کٹائی کرنے میں مصروف تھے وہ آتے جاتے کو رام رام کہتے اور پھر کسی انجانے جوش اور ولولے کے ساتھ ٹہنیوں کو درانتی سے کاٹ کر ایک طرف رکھ دیتے۔

انہوں نے باری باری نالہ پار کیا۔ نالے میں پانی نام کو بھی نہ تھا۔ ۔ ۔ اندر کی ریت ملی مٹی بالکل خشک ہو چکی تھی اور اس پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے تھے۔ وہ پانی کے پاؤں کے نشان تھے۔ ۔ ۔ اور سامنے لہلہاتا ہوا کھیت نظر آ رہا تھا۔ سب کا دل بلیوں اُچھلنے لگا۔ ۔ ۔ فصل کٹے گی تو ان کا آنگن پھُوس سے بھر جائے گا اور کوٹھری اناج سے پھر کھٹیا پر بیٹھ کر بھات کھانے کا مزہ آئے گا۔ کیا ڈکاریں آئیں گی پیٹ بھر جانے کے بعد ان سب نے ایک ہی بار سوچا۔

اچانک ہوری کے قدم رُک گئے۔ وہ سب بھی رُک گئے۔ ہوری کھیت کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ سب کبھی ہوری کو اور کبھی کھیت کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہوری کے جسم میں جیسے بجلی کی سی پھُرتی پیدا ہو ئی۔ اس نے چند قدم آگے بڑھ کر بڑے جوش سے آواز لگائی۔

’’ ابے کون ہے۔ ۔ ۔ ے۔ ۔ ۔ ے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

اور پھر سب نے دیکھا ان کے کھیت میں سے کوئی جواب نہ ملا۔ اب وہ قریب آ چکے تھے اور کھیت کے دوسرے کونے پر درانتی چلنے کی سراپ سراپ چلنے کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔ سب قدرے سہم گئے۔ پھر ہوری نے ہمت سے للکارا۔

’’کون ہے حرام کا جنا۔ ۔ ۔ بولتا کیوں نہیں ؟‘‘اور اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی سونت لی۔

اچانک کھیت کے پرلے حصے میں سے ایک ڈھانچہ سا اُبھرا اور جیسے مسکرا کر انہیں دیکھنے لگا ہو۔ ۔ ۔ پھر اس کی آواز سنائی دی۔

’’میں ہوں ہوری کاکا۔ ۔ ۔ بجوکا!‘‘اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی فضا میں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔

سب کی مارے خوف کے گھُٹی گھُٹی سی چیخ نکل گئی۔ ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور ہوری کے ہونٹوں پر گویا سفید پپڑی سی جم گئی۔ ۔ ۔ کچھ دیر کے لئے سب سکتے میں آ گئے اور بالکل خاموش کھڑے رہے۔ ۔ ۔ وہ کچھ دیر کتنی تھی؟ایک پل ایک صدی یا پھر ایک یُگ۔ ۔ ۔ اس کا ان میں سے کسی کو اندازہ نہ ہوا۔ جب تک انہوں نے ہوری کی غصہ سے کانپتی ہوئی آواز نہ سنی انہیں اپنی زندگی کا احساس نہ ہوا۔

’’ تم۔ ۔ ۔ بجوکا۔ ۔ ۔ تم۔ ارے تم کو تو میں نے کھیت کی نگرانی کے لئے بنایا تھا۔ ۔ ۔ بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہو کر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔ تیرا چہرہ میرے گھر کی بے کار ہانڈی سے بنا تھا اور اس پر اسی انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیا تھا ارے تو بے جان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے؟‘‘

ہوری کہتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور بجوکا بدستور ان کی طرف دیکھتا ہوا مسکراتا رہا تھا۔ جیسے اس پر ہوری کی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ہو۔ جیسے ہی وہ قریب پہنچے انہوں نے دیکھا۔ ۔ ۔ فصل ایک چوتھائی کے قریب کٹ چکی ہے اور بجوکا اس کے قریب درانتی ہاتھ میں لئے مسکرارہاہے۔ وہ سب حیران ہوئے کہ اس کے پاس درانتی کہاں سے آ گئی۔ ۔ ۔ وہ کئی مہینوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ بے جان بجو کا دونوں ہاتھوں سے خالی کھڑا رہتا تھا۔ ۔ ۔ مگر آج۔ ۔ ۔ وہ آدمی لگ رہا تھا۔ گوشت پوست کا ان جیسا آدمی۔ ۔ ۔ یہ منظر دیکھ کر ہوری تو جیسے پاگل ہو اُٹھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے ایک زوردار دھکا دیا۔ ۔ ۔ مگر بجوکا تو اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ البتہ ہوری اپنے ہی زور کی مار کھا کر دور جا گرا۔ ۔ ۔ سب لوگ چیختے ہوئے ہوری کی طرف بڑھے۔ وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔ ۔ سب نے اسے سہارا دیا اور اس نے خوف زدہ ہو کر بجوکا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ تَو۔ ۔ ۔ تُو مجھ سے بھی طاقتور ہو چکا ہے بجوکا! مجھ سے۔ ۔ ۔ ؟جس نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ اپنی فصل کی حفاظت کے واسطے‘‘۔

بجوکا حسبِ معمول مسکرارہا تھا‘ پھر بولا۔ ’’ تم خواہ مخواہ خفا ہو رہے ہو ہوری کاکا میں نے تو صرف اپنے حصے کی فصل کاٹی ہے۔ ایک چوتھائی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ لیکن تم کو کیا حق ہے میرے بچوں کا حصہ لینے کا۔ تم کون ہوتے ہو؟‘‘

’’ میرا حق ہے ہوری کاکا۔ ۔ ۔ کیوں کہ میں ہوں۔ ۔ ۔ اور میں نے اس کھیت کی حفاظت کی ہے‘‘۔

’’ لیکن میں نے تو تمہیں بے جان سمجھ کر یہاں کھڑا کیا تھا اور بے جان چیز کا کوئی حق نہیں۔ یہ تمہارے ہاتھ میں درانتی کہاں سے آ گئی؟‘‘

بجوکا نے ایک زور دار قہقہہ لگایا’’ تم بڑے بھولے ہو۔ ۔ ۔ ہوری کاکا!۔ خود ہی مجھ سے باتیں کر رہے ہو!۔ ۔ ۔ اور پھر مجھ کو بے جان سمجھتے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ لیکن تم کو یہ درانتی اور زندگی کس نے دی۔ ۔ ۔ ؟ میں نے تو نہیں دی تھی!‘‘

’’ یہ مجھے آپ سے آپ مل گئی۔ ۔ ۔ جس دن تم نے مجھے بنانے کے لئے بانس کی پھانکیں چیری تھیں۔ انگریز شکاری کے پھٹے پرانے کپڑے لائے تھے‘ گھر کی بے کار ہانڈی پر میری آنکھیں ‘ ناک اور کان بنایا تھا۔ اسی دن ان سب چیزوں میں زندگی کلبلا رہی تھی اور یہ سب مل کر میں بنا اور میں فصل پکنے تک یہاں کھڑا رہا اور ایک درانتی میرے سارے وجود میں سے آہستہ آہستہ نکلتی رہی۔ ۔ ۔ اور جب فصل پک گئی وہ درانتی میرے ہاتھ میں تھی۔ لیکن میں نے تمہاری امانت میں خیانت نہیں کی۔ ۔ ۔ میں آج کے دن کا انتظار کرتا رہا اور آج تم اپنی فصل کاٹنے آئے ہو۔ ۔ ۔ میں نے اپنا حصہ کاٹ لیا‘اس میں بگڑنے کی کیا بات ‘‘۔ ۔ ۔ بجوکا نے آہستہ آہستہ سب کہا۔ ۔ ۔ تاکہ ان سب کو اس کی بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔

’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ سب سازش ہے۔ میں تمہیں زندہ نہیں مانتا۔ یہ سب چھلاوہ ہے۔ میں پنچائت سے اس کا فیصلہ کراؤں گا۔ تم درانتی پھینک دو۔ میں تمہیں ایک تنکا بھی لے جانے نہیں دوں گا۔ ۔ ۔ ‘‘ ہوری چیخا اور بجوکا نے مسکراتے ہوئے درانتی پھینک دی۔

گاؤں کی چوپال پر پنچائت لگی۔ ۔ ۔ پنچ اور سر پنچ سب موجود تھے۔ ہوری۔ ۔ ۔ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ پنچ میں بیٹھا تھا۔ اس کا چہرہ مارے غم کے مُرجھایا ہوا تھا۔ اس کی دونوں بہوئیں دوسری عورتوں کے ساتھ کھڑی تھیں اور بجوکا کا انتظار تھا۔ آج پنچائت نے اپنا فیصلہ سنانا تھا۔ مقدمہ کے دونوں فریق اپنا اپنا بیان دے چکے تھے۔

آخر دُور سے بجوکا خراماں خراماں آتا دکھائی دیا۔ ۔ ۔ سب کی نظریں اس طرف اُٹھ گئیں وہ ویسے ہی مسکراتا ہوا آرہا تھا۔ جیسے ہی وہ چوپال میں داخل ہوا۔ سب غیر ارادی طور پر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سر تعظیماً جھک گئے۔ ہوری یہ تماشا دیکھ کر تڑپ اُٹھا اسے لگا کہ جیسے بجوکا نے سارے گاؤں کے لوگوں کا ضمیر خرید لیا ہے۔ پنچائت کا انصاف خرید لیا ہے۔ وہ تیز پانی میں بے بس آدمی کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہوا محسوس کرنے لگا۔

’’ سنو۔ ۔ ۔ یہ شاید ہماری زندگی کی آخری فصل ہے۔ ابھی تھل کھیت سے کچھ دُوری پر ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں ‘ کہ اپنی فصل کی حفاظت کے لئے پھر کبھی بجوکا نہ بنانا۔ اگلے برس جب ہل چلیں گے۔ ۔ ۔ بیج بویا جائے گا اور بارش کا امرت کھیت میں سے کونپلوں کو جنم دے گا۔ تو مجھے ایک بانس پر باندھ کر ایک کھیت میں کھڑا کر دینا۔ ۔ ۔ بجوکا کی جگہ پر۔ میں تب تک تمہاری فصلوں کی حفاظت کروں گا‘ جب تک تھل آگے بڑھ کر کھیت کی مٹی کو نگل نہیں لے گا اور تمہارے کھیتوں کی مٹی بھُربھری نہیں ہو جائے گی۔ مجھے وہاں سے ہٹانا نہیں۔ ۔ ۔ کہ بجوکا بے جان نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ آپ سے آپ اسے زندگی مل جاتی ہے اور اس کا وجود اسے درانتی تھما دیتا ہے اور اس کا فصل کی ایک چوتھائی پر حق ہو جاتا ہے‘‘۔ ہوری نے کہا اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کھیت کی طرف بڑھا۔ اس کے پوتے اور پوتیاں اس کے پیچھے تھے اور پھر اس کی بہوئیں اور ان کے پیچھے گاؤں کے دوسرے لوگ سر جھکائے ہوئے چل رہے تھے۔

کھیت کے قریب پہنچ کر ہوری گرا اور ختم ہو گیا‘ اس کے پوتے پوتیوں نے اسے ایک بانس سے باندھنا شروع کیا اور باقی کے لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے۔ بجوکا نے اپنے سر پر رکھا شکاری ٹوپا اُتار کر سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنا سر جھکا دیا۔

٭٭٭

ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید