فہرست مضامین
سب رنگ
حصہ اول
مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں
انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول
تیسری منزل کا کمرہ
رما ناتھ رائے
بنگلہ کہانی
تین منزلہ مکان۔ پہلی منزل پر تین کمرے۔ ایک باورچی خانہ، ایک بیٹھک اور سونے والا کمرہ۔ سونے کے کمرے میں میری بڑھیا رہتی ہے۔ پوتے پوتیاں رہتے ہیں۔ دوسری منزل پر تین کمرے ہیں۔ ایک کمرے میں بڑا بیٹا اور بڑی بہو رہتی ہے اور دوسرے میں چھوٹا بیٹا اور چھوٹی بہو رہتی ہے۔ اس کے بعد والے کمرے میں میری بیٹی رہتی ہے۔ مگر تیسری منزل پر صرف ایک کمرہ ہے۔ اس کمرے میں، میں اکیلا رہتا ہوں۔
ہر وقت اکیلا رہنا اچھا نہیں لگتا۔ اپنی بڑھیا سے کبھی کبھار باتیں کرنے کا بہت دل کرتا ہے۔
صبح میری پوتی میرے لئے چائے لے آتی ہے۔ اس کے ہاتھ سے چائے کا پیالہ لے کر میں نے ایک چسکی لیتا ہوں۔ پھر اس سے پوچھتا ہوں، ’’تیری دادی کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’چائے پی رہی ہیں۔‘‘
’’چائے پی لے تو ذرا بھیج دینا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
اس کے بعد میری پوتی باہر جانے کے لئے پیر آگے بڑھاتی ہے۔ میں ٹھیک اسی وقت ایک بار پھر اس سے پوچھتا ہوں، ’’تو دادی سے کیا کہے گی۔۔۔ بتا تو؟‘‘
’’ہاں، کہنا بہت ضروری کام ہے۔‘‘
پوتی چلی گئی۔ میں خاموشی سے چائے پینے لگا۔ چائے پینے کے بعد پیالہ میز پر رکھ دیتا ہوں۔
تھوڑی دیر بات پیالہ لینے پوتی پھر کمرے میں آئی۔ مجھ سے بولی، ’’دادی اس وقت نہیں آ سکتیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’سبزی کاٹ رہی ہیں۔‘‘
’’وہ کیوں کاٹ رہی ہے؟ تیری ماں کہاں ہے؟‘‘
’’باورچی خانے میں۔‘‘
’’چاچی؟‘‘
’’آٹا گوندھ رہی ہیں۔‘‘
’’پھوپھی؟‘‘
’’پڑھ رہی ہیں۔‘‘
’’اور تو؟‘‘
’’اب میں بھی پڑھنے بیٹھوں گی۔‘‘
میں نے اور کچھ نہیں پوچھا۔ اب کچھ جاننے کی خواہش نہیں رہی۔ بس اتنا کہا، ’’دادی سے کہنا، سبزی کاٹنے کے بعد ذرا ایک بار یہاں آ جائے۔‘‘
پوتی چائے کی پیالی لے کر چلی گئی۔ میں خاموشی سے آرام کرسی پر بیٹھا رہا۔ میرے کمرے کے سامنے چھت تھی۔ دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ میں باہر نہیں نکلا۔ میرے کمرے میں طرح طرح کی کتابیں تھیں۔ بیچ بیچ میں ان میں سے کوئی کتاب لے کر پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر دیر تک پڑھ نہیں سکتا۔ پڑھنے کی خواہش نہیں ہوتی۔
دن چڑھنے لگا۔ میں اکیلا بیٹھا رہا۔ بڑھیا ابھی تک نہیں آئی۔ اس پر مجھے غصہ آیا۔ وہ ان دنوں نہ جانے کیسی ہوتی جا رہی تھی۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔ میری ہر بات وہ سنتی تھی۔ اب اپنے بیٹے بہوؤں، پوتے پوتیوں کے درمیان مصروف رہتی تھی۔ میری بات اب اسے یاد نہیں رہتی تھی۔ وہ مجھے بھول ہی گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد میرا پوتا ایک گلاس دودھ اور آدھی پلیٹ حلوہ لے آیا۔ انہیں اس نے میز پر رکھ دیا۔
میں نے پوچھا ’’تو نہیں پڑھ رہا ہے؟‘‘
’’ابھی تک ہی پڑھ رہا تھا۔‘‘
’’تو پھر پڑھائی چھوڑ کر اٹھا کیوں؟‘‘
’’دادی نے یہاں بھیج دیا۔‘‘
’’دادی خود نہیں آ پائی؟‘‘
میرا پوتا اس بات کا جواب نہ دے کر کمرے سے باہر جانے کو مڑا۔ تبھی میں نے اس سے کہا ’’اپنی دادی کو ایک بار یہاں آنے کے لئے کہنا۔ ضروری بات ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
پوتا چلا گیا۔ میں خاموشی سے حلوہ کھانے لگا۔ اس کے بعد دودھ پیا۔ ناشتا کرنے کے بعد دوبارہ خاموشی سے بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد پوتا خالی گلاس اور پلیٹیں لینے کے لئے آیا۔ اس نے خبر دی ’’دادی اس وقت نہیں آ سکتیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’روٹی سینک رہی ہیں۔‘‘
’’کب تک روٹیاں سینکیں گی؟‘‘
’’میں کیسے بتا سکتا ہوں!‘‘
میں نے پھر کچھ اور نہیں پوچھا۔ کچھ جاننے کی خواہش بھی نہیں رہی۔ صرف اتنا کہا، ’’روٹیاں سنک جانے کے بعد ایک بار یہاں آنے کے لئے کہہ دینا۔‘‘
پوتا چلا گیا۔ میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔
دن چڑھنے لگا۔ ٹھیک بارہ بجے مجھے بھوک لگ گئی۔ میں نے اشنان کر لیا۔ چھوٹی بہو چاول کی تھالی اور پانی کا گلاس لے کر آ گئی۔ انہیں میز پر رکھ دیا۔ میں نے پوچھا، ’’تمہاری ساس کی روٹیاں سنک گئیں؟‘‘
چھوٹی بہو ہنستے ہوئے بولی، ’’ہاں۔‘‘
’’اس وقت کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’نہا رہی ہیں۔‘‘
اس کے بعد چھوٹی بہو وہاں سے باہر جانے کو مڑی۔ اس سے میں نے کہا، ’’نہا لینے پر اپنی ساس کو ایک بار میرے پاس بھیج دینا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
چھوٹی بہو چلی گئی۔ میں کھانا کھا کر ہاتھ منہ دھوکر لیٹ گیا۔
دن گزرتا رہا۔ اس دوران میری آنکھ لگ گئی۔ چھوٹی بہو تھالی اور گلاس لینے کمرے میں آئی تھی۔ مجھ سے بولی، ’’ماں کا اس وقت آنا مشکل ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’وہ آرام کر رہی ہیں۔‘‘
یہ سن کر مجھے اچھا نہیں لگا۔ میری بڑھیا اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ اب وہ کافی بدل گئی تھی۔ اب مجھے دو وقت کا کھانا دے کر مطمئن ہو جاتی تھی۔ میرے پاس ایک بار بھی آنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی۔
چھوٹی بہو ٹیبل پونچھ کر برتن لے کر چلی گئی۔ میری آنکھ دوبارہ لگ گئی۔
جب آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی۔ ہاتھ منہ دھوکر آرام کرسی پر بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد میری بیٹی میرے لئے چائے لے آئی۔ میں نے اس کے ہاتھ سے پیالہ لے کر ایک چسکی لی۔
بیٹی نے کمرے کو صاف کر دیا۔ بستر جھاڑ کر ٹھیک کر دیا۔
میں نے چائے پیتے پیتے پوچھا، ’’آج کالج گئی تھی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کب لوٹی؟‘‘
’’کچھ دیر پہلے۔‘‘
’’امتحان کب ہوں گے؟‘‘
’’ابھی دیر ہے۔‘‘
اس کے بعد میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس سے کیا پوچھوں۔ اسی لیے کچھ لمحے رک کر اچانک پوچھ بیٹھا ’’تیری ماں کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’ماں گھر میں نہیں ہیں۔‘‘
’’کہاں گئی ہے۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’کب لوٹے گی؟‘‘
’’کچھ بتا کر نہیں گئی ہیں؟‘‘
میں خاموش ہو گیا۔ بیٹی نے کمرے کو صاف ستھرا کر دیا۔ میں نے بھی چائے پی لی تھی۔ اس کے بعد وہ خالی چائے کا پیالہ لے کر باہر جانے لگی۔ تبھی میں نے اس سے کہا، ’’تیری ماں جب واپس آئے تو ایک بار میرے پاس آنے کے لئے کہنا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
بیٹی چلی گئی۔ میں اکیلا بیٹھا رہا۔ شام ڈھلنے لگی۔ تاریکی ہونے لگی تھی۔ آہستہ آہستہ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔
میرا بڑا بیٹا شاید اب تک گھر آ گیا ہو گا۔ چھوٹے بیٹے کے بھی گھر لوٹنے کا وقت ہو گیا تھا۔ شادی سے پہلے چھوٹا بیٹا رات گئے گھر لوٹتا تھا۔ کبھی کبھی بارہ بجے بھی بج جاتے تھے۔ اس کی وجہ سے اسے کافی کچھ کہا بھی گیا تھا، مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اب شام ہوتے ہی گھر آ جاتا تھا۔ مگر دونوں میں سے کوئی بھی میرے کمرے میں جھانکنے بھی نہیں آتا۔ نہ بڑا بیٹا نہ چھوٹا بیٹا۔ وہ دونوں دفتر جاتے تھے اور وہاں سے سیدھے گھر لوٹتے تھے۔ کبھی کبھی اپنی بیویوں کے ساتھ سنیما چلے جاتے تھے۔ کسی خاص دن کبھی کبھی میرا بھی دل کرتا کہ میں نیچے جا کر ان کی باتوں میں شامل ہو جاؤں۔ مگر میری کون سنے گا؟ میرے پاس کہنے کو تھا بھی کیا؟
دیکھتے دیکھتے رات گہری ہونے لگی۔ میں نے کمرے کی روشنی جلا کر بیٹھا رہا۔ کبھی کوئی کتاب لے کر پڑھنے کی کوشش کرتا، مگر پڑھا نہیں جاتا تھا۔ اب چھپائی کے حروف مجھے اچھے نہیں لگتے تھے۔ مجھے کافی پینے کی خواہش ہو رہی تھی۔ میں نے آواز لگائی، ’’بڑی بہو ماں۔‘‘
اسے میری آواز سنائی نہیں پڑی۔ میں نے اس بار زور سے کہا، ’’چھوٹی بہو ماں۔‘‘
اُسے بھی میری آواز سنائی نہیں پڑی۔
اس کے بعد میں نے اپنی بیٹی کو آواز لگائی۔ بیٹوں کو بلایا۔ پوتے پوتیوں کو آواز لگائی۔ مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ کسی کو میری آواز سنائی ہی نہیں دی۔ آخر کار اپنی بڑھیا کو آواز لگائی۔ مگر اس کی جانب سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ بڑھیا کے کانوں میں بھی میری آواز نہیں پہنچی۔
رات اور گہری ہوتی گئی۔ مجھے اب چپ چاپ بیٹھے رہنا اچھا نہیں لگا۔ میں لیٹ گیا۔ کمرے کی بتی جلائے رکھی۔ پھر بڑی بہو روٹی کی تھالی اور گلاس لے کر کمرے میں آئی اور انہیں میز پر رکھ دیا۔
میں نے اٹھتے ہوئے پوچھا، ’’تم لوگ کیا کر رہی تھیں؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں نے کتنی بار تم سب کو پکارا۔‘‘
’’ہمیں تو سنائی ہی نہیں پڑا۔‘‘
اس بات کا میں کیا جواب دیتا؟ جواب دے بھی کیا سکتا تھا۔ چند سال پہلے کی بات ہوتی تو ضرور سب کو سنائی پڑتی۔ ابھی ان سنی کرنے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ اسی لیے میں کچھ نہ کہہ کر خاموش رہا۔
بڑی بہو نے پوچھا، ’’کچھ کہہ رہے تھے؟‘‘
’’کافی پینے کا من کر رہا تھا۔‘‘
’’اس وقت بنا لاؤں؟‘‘
’’نہیں اب ضرورت نہیں۔‘‘
بڑی بہو کچھ دیر خاموش کھڑی رہی۔ پھر جانے کے لئے دروازے کی طرف مڑی۔ تبھی میں نے اس سے پوچھا، ’’تمہاری ساس کیا دن بھر بہت مصروف تھیں؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’دن بھر میں اسے ایک بار بھی یہاں آنے کا وقت نہیں ملا۔‘‘
’’ابھی بھیج دیتی ہوں۔‘‘
بڑی بہو چلی گئی۔ میں بیٹھ کر آہستہ آہستہ روٹی چباتا رہا۔ کھاتے کھاتے کتنی ہی باتیں یاد آئیں۔ کافی سال پہلے کی باتیں۔ ان دنوں میں اور بڑھیا رات میں ایک ساتھ کھانے بیٹھتے تھے۔ کوئی بھی کسی سے پہلے اکیلے کھانا نہیں کھاتا تھا۔ ہم کھاتے ہوئے آپس میں باتیں کرتے۔ کتنی ہی باتیں۔ ان دنوں یہ مکان ایک منزلہ تھا۔ ان دنوں ہم ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ اس کے بعد ہمارے بچے ہوئے۔ وہ بڑے ہونے لگے۔ ان کے لئے کمروں کی ضرورت پڑنے لگی۔ ا یک منزلہ مکان دو منزلہ ہوا۔ میں دوسری منزل پر رہنے لگا۔ بڑھیا پہلی منزل میں ہی رہ گئی۔ اوپر نہیں آئی۔ تب بھی ہم دونوں رات میں ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ اس کے بعد دونوں لڑکوں کی شادیاں ہوئیں۔ پھر کمرے کی ضرورت پڑی۔ اس بار بچوں کے لئے نہیں، میرے لئے۔ مجھے تیسری منزل کے کمرے میں جانا پڑا۔ بڑھیا پہلی منزل میں ہی رہ گئی۔ ہم لوگ اس کے بعد سے رات میں ایک ساتھ کھانا کھانے نہیں بیٹھتے تھے۔ اب سیڑھیاں اترنے میں تکلیف بھی ہوتی تھی۔ اتر جانے پر چڑھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ مجھے اس میں کافی تکلیف ہوتی تھی۔ میں ہانپنے لگتا تھا۔
کھا پی کر منہ ہاتھ دھو کر بڑھیا کا انتظار کرنے لگا۔ رات بڑھتی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بہو میرے کمرے میں آئی۔ اس نے خبر دی، ’’ماں اس وقت آ نہیں پائیں گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کھانا کھا رہی ہیں۔‘‘
میں نے پھر کچھ نہیں پوچھا۔ مجھے کچھ جاننے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ بڑی بہو میز پونچھ کر تھالی گلاس لے کر چلی گئی۔
میں کچھ دیر خاموشی سے اکیلا بیٹھا رہا۔ اس کے بعد کمرے کے دروازے کی چٹخنی لگا دی۔ بتی بھی بجھا دی۔ سرہانے والی کھڑکی کھول کر لیٹ گیا۔ میری آنکھ لگ گئی۔ میری پلکیں مند گئیں۔
اچانک میری نیند ٹوٹ گئی۔ کوئی دروازے کی کنڈی زور سے بجا رہا تھا۔ میں نے ہڑبڑاتے ہوئے جا کر دروازہ کھولا۔ دیکھا اندھیرے میں بڑھیا اکیلی کھڑی تھی۔
اس وقت میں اسے کیا کہتا؟
***
فٹ بال
پدما سچدیو
ڈوگری کہانی
کوئی دس برس ہوئے ہوں گے۔ جب میرا تبادلہ سرینگر ہوا تھا۔ جموں کے اسکولوں میں موسمِ گرما کی تعطیلات چل رہی تھیں۔ میری بیوی اور میرے دونوں بیٹے بھی، میرے ساتھ ہی سرینگر آئے ہوئے تھے۔ انہی دنوں میرے بیٹے کی، جو کہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، سالگرہ آ گئی۔ ایک دن پہلے میں نے اس سے پوچھا۔
’’تمہیں اس سالگرہ پر کیا چاہئے؟‘‘
اس نے پٹ سے کہا، ’’پاپا بیٹ اور بال۔‘‘
یہ سنتے ہی چوتھی جماعت کے طالب علم، میرے چھوٹے بیٹے نے کہا، ’’مجھے بھی بیٹ اور بال چاہئے۔‘‘
’’اچھا اچھا، کل شام تم دونوں کو بازار لے چلوں گا۔‘‘ میں نے وعدہ کیا۔
سرینگر میں یہ میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ میں دکانوں اور بازاروں کے بارے میں زیادہ نہ جانتا تھا۔ دوسرے دن میں نے، اپنے بچپن کے دوست مدن سے، کھیل کے سامان والی دکانوں کے بارے میں معلومات لیں۔
اس نے کہا، ’’اس کی تو بالکل پاس میں ہی دکان ہے۔ بڈشاہ چوک سے مایسوما بازار میں گھستے ہی دائیں ہاتھ کی دوسری گلی میں، امین کی کھیلوں کے سامان کی دکان ہے۔ تم نے کون سا ٹیسٹ میچ کے لئے سامان لینا ہے۔ بچوں کیلئے وہاں سب کچھ مل جاتا ہے۔‘‘
پھر وہ تھوڑا سا رکا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا، ’’تمہیں یاد ہے وہ محمد امین، جب ہم نویں یا دسویں جماعت کے طالب علم تھے، تو پریڈ گراؤنڈ میں اس کا کوئی بھی میچ نہیں چھوڑتے تھے۔‘‘
میں یاد کرنے لگا، وہ پھر بولا، ’’یار تم تو فٹ بال کھیلتے تھے۔ تم کہتے نہیں تھے کہ ایک دن میں بھی امین کی طرح صرف جموں و کشمیر کا ہی نہیں، بلکہ سارے ہندوستان کا ٹاپ کا کھلاڑی بن کر دکھاؤں گا، کچھ یاد آیا؟‘‘
مجھے اب سب کچھ یاد آ گیا۔ میں آج بھی فٹ بال کو اور امین کو، اپنے خیالوں سے الگ نہیں کر پایا تھا۔
اوسط قد کا چوڑا چکلا، بھاری سا امین، لیفٹ آؤٹ پوزیشن پر کھیلتے ہوئے، جب گیند کے پیچھے بھاگتا تھا تو، تمام حاضرین میں شور کی ایک لہر اٹھ جاتی تھی۔ سب میں ایک جوش کی، ایک امید کی لہر ابھرتی تھی کہ اب ضرور کچھ نہ کچھ ہو گا۔ وہ جب فٹ بال کو لے کر دوسری جانب کے کھلاڑیوں کو چکما دے کر، ان کے درمیان سے تیر کی طرح نکلتا تھا تو، میرے اپنے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگتا، سینے میں چھلانگیں لگانے لگتا تھا اور سانس رکتی ہوئی سی معلوم ہوتی تھی۔ اور کبھی جو وہ گول کر دیتا، تو صرف میں ہی نہیں، بلکہ تمام لوگ ہی زور زور سے چلانے لگتے تھے اور پھر مسلسل شور اور تالیاں۔۔۔ ہماری ٹیم کے باقی کھلاڑی کبھی اسے گلے لگاتے، تو کبھی کندھوں پر اٹھا لیتے۔ اسکول میں، میں لیفٹ آؤٹ کی پوزیشن پر کھیلا کرتا تھا اور صرف سوتے میں ہی نہیں، بلکہ جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھتا رہتا تھا کہ میں بڑا ہو کر امین کی طرح فٹ بال کو پاؤں سے دھکیلتے دھکیلتے، اس کوساتھ لئے دوڑتے دوڑتے، لوگوں کے شور اور تحسین بھری آوازوں کے بیچ، دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کے چنگل سے فٹ بال کو نکال کر، ایک آخری زور دار کک مار کر، فٹ بال کو گول کے اندر اندر ڈال دیتا ہوں۔
پھر گیارہویں کلاس میں آتے آتے پڑھائی کی وجہ سے فٹ بال کھیلنا چھوٹ گیا۔ انجینئرنگ کی سیٹ پر نظر تھی، وہ مل بھی گئی۔ انجینئرنگ کالج میں بھی فٹ بال کھیلا، مگر پھر دوبارہ کبھی، وہ نویں دسویں کلاس میں آنے والا فٹ بال کا نشہ میرے دماغ میں نہیں آیا۔ اب تو فٹ بال کو کک لگائے بھی پتہ نہیں کتنے برس گزر گئے ہیں۔
’’ارے کچھ یاد آیا کہ نہیں؟‘‘ مدن امین کے بارے میں پوچھ رہا تھا، ’’کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ اس نے مجھے دیکھ کر کہا۔
میں نے کہا، ’’کیا امین بھی کوئی بھولنے کی چیز ہے۔‘‘ یہ جواب دے کر میرے ذہن میں ایک لہر سی اٹھی اور میرے دل و دماغ پر ایک بڑی مسحور کن کک سی لگا گئی۔
دوسرے دن میں اپنے دونوں بچوں کو لئے، مایسوما بازار کی گلی میں گھسا، امین کی دکان تلاش کر رہا تھا۔ گلی تو یہی بتائی تھی مدن نے، کہیں میں غلط گلی میں تو نہیں آ گیا، سوچتا ہوا میں گلی کے سرے سے واپس ہو لیا۔ جب میں گلی کے وسط میں پہنچا، تو میری نظر ایک دکان کے باہر لٹکے ہوئے دو پھسپھسے اور پچکے ہوئے فٹ بالوں اور ایک بیٹ پر پڑی۔ وہ میلے سے فٹ بال اور چھوٹا سا بیٹ وہاں یوں لٹک رہے تھے، جیسے ان کا اس کی دکان کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یا جیسے کسی نے کئی سال پہلے، انہیں لوگوں کی پہنچ سے دور ٹانگ دیا ہو اور پھر بھول گیا ہو یا پھر کہیں مر کھپ گیا ہو۔۔۔
یہ امین کی دکان تو نہیں ہو سکتی، یہی سوچ کر میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ دکان کے پاس پہنچ کر میں نے ایک بار پھر سرسری اندازسے اس کا جائزہ لیا۔ باہر کئی موسموں اور برسوں کی مار کھائے، پرانے مٹ میلے بورڈ پر پھیکے سے لال رنگ کے لفظوں میں لکھا ہوا تھا۔
’’امین اسپورٹس اسٹور‘‘
میرا دل عجیب سا بوجھ لئے، بھر آیا۔
’’پاپا چلئے نہ، دیر ہو رہی ہے۔ یہاں کتنا گندا ہے؟‘‘ میرا چھوٹا بیٹا میرا بازو پکڑ کر، ہلاتا ہوا کہہ رہا تھا۔ میں بھی دیکھا، کالے سیاہ کیچڑ سے بھری، گلی کی نالیوں میں سے گندا پانی نکل کر، عجیب سی بدبو پھیلا رہا تھا۔
میں نے ایک بار پھر دکان کی طرف دیکھا۔ سامنے ایک طرف میلے چپچپے پلائی کے کاؤنٹر پر پلاسٹک کے مرتبانوں میں ٹوپیاں، سستے چاکلیٹ، چیونگم وغیرہ رکھے تھے۔ اندر نظر گئی، تو مجھے شیلفوں پر سجے کچھ کھلونے بھی نظر آئے۔ کاؤنٹر کے پیچھے کوئی شخص اخبار پڑھ رہا تھا۔
’’آؤ بچو، یہاں دیکھ لیتے ہیں، نہیں تو پھر کسی اور دکان پر چلیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے دکان کی سیڑھیوں پر قدم بڑھائے۔ میرے پیچھے پیچھے میرے بچے بھی بے دلی سے اندر آ گئے۔ دکاندار اخبار پیچھے پھینک کر کھڑا ہو گیا۔ مجھ سے نظر ملا کر کہنے لگا۔ ’’آئیے جی، بتائیے کیا خدمت کروں؟‘‘
’’بیٹ بال۔‘‘ میرا چھوٹا بیٹا تپاک سے بولا۔
’’ابھی دکھاتا ہوں۔۔۔ آج کل تو سبھی کو کرکٹ کا شوق ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دکان کے پچھلے حصے میں چلا گیا، جہاں ایک کونے میں بہت سارے بیٹ دیوار کے سہارے ٹکے ہوئے تھے۔ دکاندار نے خاکی رنگ کا پرانا سا، پر صاف خان سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس کے پاؤں میں نائلون کی چپلیں تھیں۔ یوں لگتا تھا، جیسے اس نے چار پانچ دن سے شیو نہیں بنایا تھا۔ داڑھی کے کافی بال سفید تھے۔ اس کا آدھا سر گنجا تھا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہی امین ہے۔ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ وقت بھی آدمی کو اتنا نہیں بدل سکتا۔
وہ جس زمانے میں میچ کھیلا کرتا تھا، تو میں میچ کے بعد اس کے آگے پیچھے گھومتا رہتا تھا اور اسے کتنی ہی بار دیکھا تھا، بالکل قریب سے۔ پر اب تو اسے دیکھے بھی چوبیس پچیس سال ہو گئے ہیں۔ قد کاٹھی تو وہی ہے، ہو سکتا ہے اس کا بھائی ہو۔ میں سوچتا چلا جا رہا تھا۔
’’یہ لیجئے، سائز دیکھ لیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تین چار بیٹ کاؤنٹر پر رکھ دئے۔ دونوں بچے بیٹ پر جھپٹ پڑے اور ایک ایک بیٹ کو پکڑ پکڑ کر آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔
میں نے پوچھ ہی لیا، ’’معاف کیجیے، کیا آپ پرانے فٹبالر امین صاحب تو نہیں ہیں؟‘‘
’’میں ہی امین ہوں، فرمائیے؟‘‘
مجھے کوئی دھچکا نہیں لگا۔ اب میں ہر صدمے کے لئے تیار تھا۔ میں نے کہا۔‘‘ در اصل آپ مجھے نہیں جانتے، پر اسکول کے دنوں میں، میں آپ کا ہر میچ دیکھتا تھا۔ ۱۹۷۵ء میں ریلویز کے ساتھ جموں و کشمیر کا جو میچ ہوا تھا، وہ تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا۔‘‘
امین کا چہرہ دمکنے لگا، ’’میں نے اس میچ میں تین گول کئے تھے، تینوں فیلڈ سے، پہلے ہاف میں، ہم دو گول پیچھے تھے۔ واللہ کیا میچ تھا۔۔‘‘ کہتے کہتے وہ رک گیا۔
’’آپ بیٹھیے نہ، وہ آپ کے پیچھے اسٹول پڑا ہے۔‘‘ اس نے اسٹول کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا، میرے بیٹے اب خود ہی پچھلے کونے میں جا کر، بیٹ والے حصے میں، بیٹ منتخب کر رہے تھے۔
’’امین انکل، ایک ڈیڑھ روپے والی کاپی اور دو پنسلیں دیجئے۔‘‘ ایک کشمیری بچہ دکان پر چڑھ کر چیزیں مانگ رہا تھا۔
میں نے دیکھا، کاؤنٹر کے پیچھے شیلف پر، کاپیاں، پنسلیں اور ایک مرتبان میں سستے سے بال پین رکھے ہوئے تھے۔ بچے نے چار روپے دیے۔ امین نے چیزیں اس کو دے کر پوچھا، ’’کچھ اور چاہئے؟‘‘
’’بچے ہوئے پیسوں سے چاکلیٹ اور ٹافیاں دے دیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ کہتے ہوئے امین نے ایک مرتبان میں سے ٹافیاں نکال کر کاؤنٹر پر رکھیں، پھر انہیں گننے لگا۔
’’یہ لو، تین اور دو، پانچ۔‘‘
بچہ چیزیں لے کر چلا گیا۔ گلی میں جاتے ہوئے، میں اسے دیکھتا رہا۔
پھر امین نے مجھ سے نظریں ملائیں۔ وہ تھوڑا سا شش و پنج میں تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا، ’’صرف کھیل کا سامان، اس گلی میں بیچ کر، گھر نہیں چل سکتا، کیا کریں، گھرکا خرچہ چلانے کے لئے یہ سب کچھ رکھنا پڑتا ہے۔‘‘
مجھے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ امین جس کے ساتھ کتنے ہی لوگ اور لڑکے ہاتھ ملانے کے لئے آپس میں مقابلہ لگاتے تھے، آج وہ انہی ہاتھوں سے کچھ پیسوں کی ٹافیاں گن رہا تھا۔
میں اب دکان کے پچھلے حصے میں، جہاں میرے دونوں بیٹے بیٹ دیکھ کر منتخب کر رہے تھے، پہنچ گیا اور ان کی مدد کرنے لگا۔ پھر دو بیٹ پسند کر کے میں کاؤنٹر پر گیا اور پوچھا، ’’یہ دونوں ٹھیک ہیں نا؟‘‘
اس نے بچوں سے پوچھا، ’’بچو! بال کرمچ کا چاہیے یا کارک کا؟‘‘
جواب میں نے دیا، ’’کرمچ کے بال ہی ٹھیک رہیں گے۔ یہ وکٹیں بھی لیں گے۔ لہذا ایک سیٹ وکٹوں کا بھی دے دیں۔‘‘
میرے چھوٹے بیٹے نے کہا، ’’میں وکٹ کیپر والے دستانے بھی لوں گا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے، آپ اس کے علاوہ دو جوڑی بیٹنگ والے دستانے اور دو جوڑی لیگ پیڈ بھی دے دیں۔ دونوں کے پاس پورا پورا سیٹ ہو جائے گا۔‘‘ میں نے امین سے کہا۔
دونوں بچے خوشی سے جھوم اٹھے، ’’یہ بالکل ٹھیک ہے پاپا۔‘‘
’’ہمارے بچوں میں کرکٹ کا کتنا شوق ہے، فٹ بال میں تو بچوں کی دلچسپی ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ یہ کہتا ہوا امین پیچھے سامان لینے چلا گیا۔
اب تک امین کا وہ بلند مقام، جو میری سوچ میں تھا، کافی نیچے آ چکا تھا۔ میں اب اُسے گزرے وقت کا ایک کھلاڑی، جو اب ایک چھوٹا سا دکاندار تھا، اسی طرح دیکھ رہا تھا۔ پرانے کپڑوں میں ملبوس، پاؤں میں نائلون کی چپلیں پہنے، بیٹ، کاپیاں، ٹافیاں بیچتا ہوا امین۔۔۔ شکر ہے میں امین ہونے سے بچ گیا۔ اب امین ہمارا سارا سامان پیک کر رہا تھا۔ میں نے وقت گزارنے کے لئے اس سے پوچھا، ’’میں نے تو سنا تھا کہ آپ بنگال کی کسی ٹیم میں چلے گئے ہیں؟‘‘
’’ہاں، دو تین سال میں کلب میں بھی کھیلا۔ ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت بھی مل گئی تھی۔ میں صرف فرم کی ٹیم میں کھیلتا تھا اور کچھ نہ کرتا تھا۔ پھر ہمیشہ کی طرح نئے لڑکے، نئے زور شور کے ساتھ پرانے کھلاڑیوں کو، پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے آ جاتے ہیں۔ اب ہم پرانے ہو گئے تھے۔ پھر ہم بھی اپنے آپ باہر ہو گئے۔ نوکری کے ساتھ اور جو بہت پیارا تھا، وہ بھی جاتا رہا۔ کھیل گیا، نوکری گئی، پیسے گئے، شہرت بھی چلی گئی۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے اداس سا ہو گیا۔ پھر کہنے لگا، ’’شکر ہے یہ بزرگوں کی پرانی دکان تھی، تو گزارا بھر ہو جاتا ہے۔ دو بیٹیاں ہیں، ایک بیٹا ہے۔ چلو، جیسی اللہ کی مرضی۔‘‘
اس نے میرا سامان پیک کیا، پھر بو لا، ’’آپ ذرا رکنا، میں ابھی آیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر ہی اندر کہیں چلا گیا۔ جب وہ باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک فٹ بال تھا۔ اس نے اس میں ہوا بھری اور پھر ہاتھ سے اسے فرش پر اچھال کر، اسے جانچنے لگا۔ ایک دو تین۔ مجھے لگا وہ ہمیں بھول کر اکیلے میں فٹ بال کھیلنے لگا ہے۔ پھر اس نے فٹ بال کو اوپر اچھال کر کیچ کیا اور ہاتھ میں پکڑ لیا، پھر ہنس کر بولا۔ ’’یہ اب بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اب وہ فٹ بال کو ہاتھ میں لے کر صاف کر رہا تھا۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو وہ اپنی قمیض کے دامن کے ساتھ بڑے پیار سے فٹ بال کو رگڑنے لگا، جیسے پالش کر رہا ہو۔
جب وہ صاف کر چکا، تب اس کے ہاتھ میں سیاہ سفید رنگ کا فٹ بال واقعی بڑا چمک رہا تھا۔
’’یہ فٹ بال بچوں کے لئے میری طرف سے۔۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے فٹ بال میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
وہ کہہ رہا تھا، ’’آپ کے گھر میں پڑا رہے گا، تو بچے کبھی کبھار اس کے ساتھ بھی ضرور کھیلیں گے۔‘‘
میں نے کہا، ’’آپ مہربانی کر کے اس کے بھی پیسے لگائیے۔‘‘
’’میں نے کہا نا، یہ میری طرف سے ہے۔ باقی سامان کے پورے پیسے لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سامان کا بل بنانے لگا۔ پر بیچ بیچ میں بولتا جا رہا تھا۔
’’آج کل فٹ بال کوئی چھوٹا کھیل نہیں ہے صاحب۔ کھلاڑی اچھا ہو تو سب کچھ ہے، پیسہ ہے، عزت ہے، شہرت ہے، نام ہے۔‘‘ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پھر کہنے لگا۔ ’’آپ میری طرف نہ دیکھیں۔ ہماری بات الگ تھی۔ ہمارا وقت دوسرا تھا۔ اس وقت اس کھیل میں پیسے نہ تھے۔ ہم وہ ہیں، جنہیں وقت اور حالات نے ایک ہی کک کے ساتھ یہاں پہنچا دیا۔ یہ لیجئے آپ کا بل۔۔‘‘ اس نے بل میرے آگے کر دیا۔ میں نے پیسے دیتے ہوئے یوں ہی اس سے پوچھا، ’’آپ اکیلے ہی اسٹور پر بیٹھتے ہیں، مشکل تو نہیں پیش آتی، آپ کا بیٹا کیا کر رہا ہے؟‘‘
اس کے منہ پر ایک رونق سی آ گئی، کہنے لگا، ’’آپ نے فٹ بال میں شوکت کا نام تو سنا ہی ہو گا، کلکتہ کے اسپورٹس کلب کی جانب سے کھیلتا ہے۔ وہ میرا بیٹا ہے۔ سارے ہی کلب اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے پیسے کا لالچ بھی دیتے ہیں، پر وہ اپنے ہی کلب میں ٹکا ہوا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ہندوستان کی اگلی لائن میں اسٹرائیکر ہو گا۔ جرمنی کے کوچ اسے چھ ماہ کے لئے اپنے ساتھ جرمنی لے گیا ہے۔ وہ گزشتہ ہی مہینے گیا ہے۔ وہ بھی میری طرح فارورڈ لائن میں لیفٹ آؤٹ کی پوزیشن پر کھیلا کرتا ہے۔‘‘
میرے بچوں نے جیسے تیسے اپنا سامان اٹھا لیا تھا۔ پیسے دے کر بچا ہوا ایک لفافے میں نے بھی اٹھا لیا اور اسے الوداع کہا۔
ہم دونوں کی آنکھیں آپس میں مل کر، ایک دوسرے کے اندر جھانک رہی تھیں۔ شاید اسی وقت ہم دونوں مسکرا بھی رہے تھے۔ میں نے اپنے آپ اپنا دایاں ہاتھ سامان سے خالی کر کے، اس کی طرف بڑھا۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے اپنا مضبوط مگر نرم ہاتھ آگے کر کے ملاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا خدا حافظ۔‘‘
***
ست رنگی چڑیا
بی مرلی
ملیالم کہانی
پوِترن نے سر اٹھا کر دیکھا تو کھڑکی کی جالی پر ایک چڑیا آ بیٹھی ہے۔ اس کے پر ست رنگی ہیں اور پلکیں بھی، ایک ردھم سے بہتی ہوا چڑیا کے پروں کو جس وقت کھولتی اور سمیٹتی ہے۔ اس وقت کھڑکی کی جالی پر ایک ننھا سا قوس و قزح بنتا ہے۔ ہوا بالکل خشک ہے۔ چڑیا بیچ بیچ میں ہوا کے جھونکے سے الٹ کر پوِترن کے بستر پر گرنا چاہتی ہے۔ ایک خوبصورت چڑیا کیلئے اڑنا مشکل ہو گا۔ ننھے پر اپنی تمام تر خوبصورتی لئے ہوئے کیسے اڑ سکیں گے، ہائے۔۔ کھڑکی کا پلہ اور ایک بار ہوا میں جھوم کر آئے اور اسے اچھال دے تو؟ پوِترن نے بجلی کی تیزی سے کھڑکی کا پلہ چٹخنی لگا کر بند کر دیا۔ چادر ہٹائی تو پورے بدن پر مانو ایک سرد کمبل آن پڑا ہو۔ باہر گھنی دھندلی سفید چادر جو کل تک نہیں تھی۔
پوِترن کی کسی بھی حرکت نے چڑیا میں کوئی ہل جل پیدا نہیں کی۔ وہ آنکھ موندے بیٹھی رہی۔ دھند سے گھر کے اندر آئے پوِترن نے اس چڑیا سے آج کا حال احوال پوچھا۔ مگر چڑیا تو آنکھیں بند کئے بیٹھی رہی۔
پوِترن اب چولہے میں چائے تیار کر رہا ہے۔ موسم سرما کا اثر چولہے کی آواز میں بھی ملتا ہے۔ گاڑھے نیلے رنگ کے شعلے سرد ہیں۔ کل صبح کھڑکی کے باہر کا سویرا زرد تھا۔ ہوا کی ہلکی سی لہر کھڑکی کے پردے کو ہٹاتی ہوئی پوِترن کو چومتی ہے۔ جب پردہ ہٹا، تب کچن کی کھڑکی کی جالی پر بھی ایک چڑیا تھی۔ اتنی ہی خوبصورت۔ وہی سات رنگ۔ چولہے کا شعلہ جب تیز ہوتا ہے تب چڑیا آنکھ کھولتی ہے۔ وہ ایک دم مست ہے۔ پوِترن نے بستر کے قریب کی کھڑکی کی طرف نظر دوڑائی۔ آنکھیں موندے بیٹھی چڑیا ادھر نہیں۔ وہ میرے قریب آ کر بیٹھ گئی ہے۔ ’’وہی چڑیا! دھند سے آئی مہمان۔‘‘ پوِترن نے سوچا۔
سست شعلے کے چولہے پر چائے چھوڑ کر پوِترن دانت برش کرنے لگتا ہے۔ چڑیا نے سرمزید کچھ اندر داخل کر ایسی آواز نکالی، جو آسمان سے آتی ہوئی سی محسوس ہوئی۔ پوِترن ہنس پڑا۔ جھاگ بھرے منہ سے بولا، ’’ایرے میزبان یہاں نہیں ہیں۔ تو چاہے اس ملک کی نہ ہو؟ تو بھی اُس کے لیے تو ایک ہیروئن سے کم نہیں۔‘‘
چڑیا نے چوں تک نہیں کی۔ پھر پوِترن آملیٹ تیار کرنے لگا تو چڑیا باہر اڑ گئی۔ کس لمحے چڑیا اڑی، یہ پوِترن نے نہیں دیکھا۔ انڈے توڑنے پر شاید چڑیا نے اپنا اعتراض ظاہر کیا ہو، مگر پوِترن کو لگا کہ وہ چڑیا دوسرے دن صبح بھی آئے گی۔
’’دھت!‘‘ آملیٹ کی تیاری شروع کر چکے پوِترن نے سوچا۔ اب اس میں کوئی مزہ نہیں۔ انڈے کا پیلا حصہ دوسری چیزوں پر جمنے لگا۔
پرندوں کا یہ مادہ تولید گھر میں سب کو برا لگتا تھا۔ پوِترن کو یاد آیا۔ سنندا شور مچاتی۔ ’’کاہلی چھوڑ کر مکسی چلانی چاہیے۔ اچھی ورزش بھی ہو جائے گی۔ انڈے توڑ کر کھانا بھوک نہیں مٹاتا۔‘‘ سنندا کہتی۔
’’تمہیں رخصت کرنے کے بعد ہی کچھ انڈے خریدنے کا انتظام کرنا ہے۔‘‘ پوِترن اسے کو چڑاتا۔
گذشتہ ہفتے سویرے آٹھ بجے کی دھوپ کی طرف دیکھتے ہوئے سنندا بولی، ’’بتائیں پوِترن، اگلے ہفتے چلوں؟ مقالہ پورا کرنا ہے۔ اس دسمبر میں بھی نہ دوں تو بعد میں بڑی دیر ہو جائے گی۔‘‘ اس نے باتیں جاری رکھیں، ’’باز آئی تمہارے شہر سے۔ اپنے ہل اسٹیشن کی گاڑی پکڑوں گی۔ ایک کام کرو، ایک مہینے کے لئے فرار ہو جاؤ۔ وہاں سردیاں شروع ہو رہی ہیں۔‘‘
پوِترن نے کہا، ’’تم اکیلے جا سکتی ہو۔ ایک کام کریں گے۔ آج جا کر ٹکٹ کی بکنگ کروا لیتے ہیں۔ نہیں تو تمہیں سفر میں تکلیف ہو گی۔ تمہارے بعد مجھے کچھ پروجیکٹ پورے کرنے ہیں۔ تمہارے بنجر ٹیلے پر میری اسکیمیں نہیں چلیں گی۔‘‘
ریلوے اسٹیشن جاتے وقت موٹر سائیکل کے آگے میونسپل لاری سرک رہی تھی۔ کسی طرح اس سے کترا کر آگے پہنچا تو ایک آٹو رکشہ راستہ روک رہا تھا۔ دھول، کوئلے کے ٹکڑوں اور سیاہ دھوئیں سے بھرا آسمان۔ آسمان۔۔ پوِترن کے دماغ میں دخول کر گیا۔ پوِترن مڑ کر سنندا کو دیکھنے سے ڈرتا تھا۔ جب پسینے کے قطرے پلکوں کو بھگونے لگے، تب اس نے آئس کریم کی دکان کے سامنے موٹر سائیکل روکی۔ ایک کوے کو جوٹھن کتر کر کھاتے دیکھ کر سنندا رو پڑی۔ کہیں چشمہ نہ لگانے سے تو ایسا نہیں لگا؟ باہر پان والے سے پوِترن نے سگریٹ خریدی۔ سنندانے پوچھا، ’’کیا کاربن مونو آکسائیڈ سے جی نہیں بھرا؟‘‘
آئس کریم پارلر میں ایک پنجرہ، توتا اور ایکوریم۔ مگر پوِترن کو فوری باہر نکلنا تھا۔ سنندا کو ایک تامل فلم۔ پھر پوری شام آفس کا معاملہ۔ رات تک ڈسکشن چلے گا۔ اسٹیبلشمنٹ میں کچھ باگڑ بلے ہیں۔ ان کا گھمنڈ چور کرنا ہو گا۔ اس کے بعد پارٹی۔
سنندا کا ریلوے ٹکٹ، تامل فلم، بحث، بدلہ، پارٹی۔
تب تک پوِترن نادانستہ ہی آملیٹ ہضم کر چکا تھا۔ چائے ہاتھ میں اٹھانے لگا تو دیوار کی گھڑی کی گھنٹی بجی۔ صبح سویرے سے بجنے کا پروگرام کر کے رکھا تھا۔ وہ چھ دفعہ بجی، چھ بجے۔
پوِترن دنگ رہ گیا۔ صبح سویرے کا مطلب اس کے لغت میں آٹھ بجے ہے۔ یہ چھ بجے کا راز کیا ہے ،۔ اچانک پوِترن کو یاد آیا۔ ایک دھندلے خواب میں ایک سرد چادر آ پڑی اور ٹھنڈک لائی۔ باہر کی طرف دیکھا۔ دیکھا کہ وہاں کہیں قوس و قزح کا عکس تو نہیں۔ پھر آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ کا دھواں باہر اڑاتے ہوئے، ایک سرد ہل اسٹیشن کے بارے میں سوچنے لگا۔
اس دن آنے والے سارے اخبارات، بائیں ہاتھ سے ایک طرف ہٹا دیے۔ پھر ایک اسپائرل پیڈ لے کر پہلا صفحہ پھاڑ کر پھینک دیا اور ایک اچھا صاف صفحہ نکالا۔ پھر اٹیچی سے ڈائری نکالی۔ کافی دیر تک جمع تفریق کرنے کے بعد اس نے اپنے دفتر کے منصوبہ ساز کو فون پر بلایا۔ ٹھیک ایک ماہ کی چھٹی کا انتظام کیا۔ سب کچھ ٹھیک آدھے گھنٹے میں ختم۔
پھر سگریٹ کا ٹوٹا ایش ٹرے میں بجھانے کے بعد پوِترن نے دھندلے رنگ کے ڈونالڈ ڈک کی تصاویر والے پیڈ میں، ایک نیا شیڈول لکھنا شروع کیا۔ ہل اسٹیشن کا ٹکٹ آج ہی خریدنا۔ سفر ڈیڑھ دن کا۔ وہاں سے سنندا کے برڈ ریسرچ کیمپ کو۔ اسی دسمبر میں اس مقالہ کو مکمل کرنا کوئی ضروری بات نہیں ہے۔ دو تین دن اس کی چڑیوں کے ساتھ، اس کے بعد اس کے آگے صرف برف والے اُس صحت کے مرکز میں۔ پورا دن ہم برف پر چلنے کا مزہ لیں گے، کیمپ فائر سے دمکتی رات۔ پہاڑی پر چڑھیں گے۔ ایکو فیمنسٹ کی غیر ملکی نمائندہ سنندا۔ اعتراض نہ کرنا تمہاری جیسی کیلئے یہ دو نام خوبصورت لگتے ہیں۔ چڑیوں کے ساتھ جتنا وقت چاہو، اڑیں گے۔
آدھا گھنٹہ اور گزرا۔ پوِترن رسالے پڑھنے لگا۔ پہلے دونوں اخبار سرسری نگاہ سے دیکھے۔ ماڈل پر ایک پٹاخے دار پیج بعد میں پڑھنے کے لیے الماری کے اندر گھسیڑ دیا۔ کانگریس میں مسئلہ بڑا ٹیڑھا ہے۔ انگلینڈ کے ٹور سے سچن اور۔۔۔ سب سے نیچے آج کی ڈاک ہے۔ پوِترن کو یاد آیا، آج ڈاک کھولنے کی فرصت نہیں ملی تھی۔ ایل آئی سی، پالیسی کی وصولی، مدراس کے کلائنٹ کا بھدی البموں والا ایک خط، کوریئرز سے تین خط موٹے لفافے میں، بزنس ایڈمنسٹریشن کی نئی ڈلیوری ہوں گی۔
پوِترن کی توجہ کھینچتے ہوئے درمیان میں سنندا کا خط گرا، ’’اے بھگوان کل میں نے یہ خط نہیں دیکھا۔‘‘
پوِترن نے پڑھنا شروع کیا، ’’آپ کے یہاں برف گرنا شروع نہیں ہوئی ہو گی نا؟ یہاں برف خوب گرنے لگی ہے۔ کل ہوا کے جھونکے نے ہماری کھڑکی کا پردہ پھاڑ ڈالا۔ یہاں دسمبر میں اولے برستے رہیں گے۔ سب پتوں پر دوپہر تک سفید جھاگ رہے گا۔‘‘
’’سوری، یہاں دوپہر ہی نہیں ہوتی، بات کچھ اور ہے۔ میں مقالہ بڑھا رہی ہوں، پوِترن ہم ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہاں سے قریب پچاس کلومیٹر دور ہمارا ایڈوینچر اسپاٹ ہے۔ پچاس موسمی پرندے ہماری تلاش میں وہاں کی سینچری میں آئے ہیں، بہت سے نایاب پرندوں اور بھی ہیں۔ ہمارے اپنے سلیم علی بڑے ہی پر جوش ہیں۔ میرا مقالے کا لے آؤٹ ہی شاید بدل جائے۔ پوِترن، آپ جانتے ہیں کہ ہمارے دیہات میں فون نہیں ملے گا۔ لکھنے پر بھی پیغام ملنے میں تاخیر ہو گی۔ تو ایک ماہ کے بعد اس پہاڑی سے اتر کر آؤں گی، تب ملیں گے۔‘‘
’’پراجیکٹ کا کیا حال ہے، گڈ لک‘‘
پوِترن ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ چادر کے اندر گھس گیا۔ باہر آسمان میں جمی ہوئی برف کے پگھلنے میں دوپہر تک کا وقت ہے۔
***
دلہن
اروند گوکھلے
مراٹھی کہانی
’’امریکہ میں دس سال تک اوورسیز، لیکن اب ہندوستان میں مستقل طور پر رہنے اور اپنی چھوٹی سی فیکٹری چلانے کے خواہاں، پینتیس سال کے امیر کبیر، صحت مند، خوبصورت اور بہادر نوجوان کیلئے سلیقہ مند دلہن درکار ہے۔ روپے پیسے اور ذات پات کی کوئی قید نہیں، لیکن خط کتابت لڑکی خود کرے۔ پی او باکس ۳۵۸۔‘‘
مادھو دلچسپی سے خود کا لکھا ہوا اشتہار پڑھ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس جیسے امریکہ سے آئے لوگوں کی جانب سے دیے گئے اس اشتہار کا اچھا جواب ملے گا۔ ذات پات کی قید نہ ہونے کی وجہ سے کافی خطوط آنے کی اسے امید تھی۔ اس میں سے دو تین کو منتخب کرنے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ لینے کی بات اس کے دل میں بار بار آ رہی تھی۔
کون ہو گی وہ ایک؟
مادھو نے ان دو سالوں میں کافی لڑکیوں دیکھی تھیں۔ کچھ تو رشتے داروں نے دکھائیں تو کچھ منڈلوں میں دیکھیں۔ کوئی بھی اچھی نہیں لگی۔ کوئی دیکھنے میں خاص نہیں، کوئی عام سے ذہن کی، کوئی پیسوں پر نظر رکھنے والی، تو کوئی روپ رنگ میں دبتی ہوئی۔ ہر کسی میں کوئی ایک نہ ایک خامی۔ اسے لگنے لگا تھا کہ شادی ہی نہ کروں۔ امریکہ جانے سے پہلے اگر شادی کر لیتا یا ادھر ہی کہیں رشتہ ہو جاتا تو اچھا ہوتا۔
لیکن پہلے پیسہ نہ تھا اور پردیس جانے کی آرزو میں وہ کچھ نہ کر سکا۔ امریکہ میں اسے دوستیں تو ملیں پر بیوی نہ مل سکی۔ سوزن کے ساتھ تھوڑا سا دل تو لگ گیا تھا، لیکن دوستی ٹک نہ سکی۔ اسے پارٹنر کی ضرورت تو محسوس ہوتی ہے۔ لیکن عمر بڑھنے سے اور سوچوں پر تھوڑا سا پردیسی اثر ہونے سے کوئی دل کو بھاتی ہی نہ تھی۔ اسی لئے اب یہ آخری بار کی کوشش کرنے جا رہا تھا۔ اگر اب بھی کامیابی نہیں ملی تو وہ خالی ہاتھ اکیلا ہی امریکہ چلا جائے گا۔
لیکن ویسے اس کا دل اکیلے واپس جانے کو تیار نہیں تھا۔ ہندوستان میں رہ کر اسے امریکہ کی عورتوں جیسی نڈر اور صحت مند بیوی چاہیے تھی۔ بہت لڑکیوں نے تو اس وجہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ امریکہ واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ بلکہ یہیں مستقل طور پر رہنا چاہتا تھا پھر ’’خود لڑکی خط لکھے۔‘‘ ایسا کہنے والے سے کون شادی کرے گا؟
ایک ہفتے میں صرف پانچ خط آئے۔ اس میں سے دو کو وہ پہلے بھی انکار کر چکا تھا۔ باقی تین اسے تھوڑی کام کی لگ رہی تھیں۔ تینوں کی عمریں تیس سال کے قریب تھیں۔ تینوں خطوط مادھو بار بار پڑھتا رہا۔ وہ شریف اور نڈر لگ رہی تھیں۔ خوبصورت، مضبوط اور آزاد ہونے کے اشارے ان کے خط عیاں کر رہے تھے۔ لیکن ویسے تھوڑی تھوڑی خامیاں تینوں میں تھیں۔ ملنے سے پہلے ہی سوچ سمجھ سکتے ہیں اور دل کو تیار بھی کرنا پڑے گا ایسی خامیوں کے لئے۔ اگر ایسے تینوں کو ابھی سے بغیر دیکھے انکار کر دے تو پھر تو سب طرف ہی اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اکیلے ہی زندگی کی نیا پار لگانی پڑے گی۔ کسی کو بھی ہاں کرنا جرات کا کام تھا۔ مادھو نے دل میں یہ جرات کر ہی لی۔
’’سوپنا‘‘ ریستوران شہر کے باہر اور بہت شاندار تھا۔ کالج کے لڑکے لڑکیوں کا یہ پسندیدہ مقام تھا۔ بڑا سا ہال، خوب گپیں ہانکنے کیلئے، کسی کو اپنے دل کا حال سنانے کیلئے، پہلا تعارف کرانے کے لئے یہ ’’محل وقوع‘‘ بالکل صحیح سمجھا جاتا تھا۔
اوپری منزل پر ایک کونے میں لسی کے گلاس سامنے رکھ کر مادھو اور انجلی، چپ شاہ کا روزہ رکھے بیٹھے تھے۔ انجلی نے جذباتی ہو کر ایک لمبا چوڑا ساخط مادھو کو لکھا تھا۔ اس لئے اس نے انجلی سے سب سے پہلے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے دیکھا جائے تو انجلی میں عیب بھی کچھ نہیں تھا۔ تینوں میں وہی سب سے اچھی تھی۔ ابھی ابھی اس نے پی ایچ ڈی کی تھی۔ اچھے گھرانے کی تھی اور اس پر کنواری بھی تھی۔
اس کو جب دیکھا، تب تیس سال کی انجلی مرجھائی ہوئی سی اور اداس لگ رہی تھی۔ اس کی طرف دیکھ کر مادھو سوچنے لگا کہ اتنے خوبصورت چہرے پر یہ اداسی کیوں؟ کیا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی؟ اور یہ کہ اس کی محبت کسی سے ختم ہو چکی ہے؟ کتنے ہی سوال مادھو کے دل میں اٹھے۔
’’میں نے اپنے بارے میں سب کچھ بتایا ہے، آپ کے بارے میں اور کچھ؟‘‘ مادھو نے سوال کیا۔
اس پر انجلی نے جواب دیا، ’’اپنا بھی سب کچھ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ میری اب تک کی زندگی بالکل سادہ ہے۔‘‘
مادھو نے کہا، ’’جیسا میں نے کہا کہ میری زندگی میں ایک امریکی لڑکی آئی تھی، ویسے آپ کا کوئی ماضی؟‘‘
’’میری زندگی میں ایسے کسی کے آنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ میں آج تک کسی مختلف چیز کی تلاش میں تھی۔ محبت، شادی اس سے کچھ مختلف اور مجھے وہ راستہ مل گیا۔ سچ سائیں بابا نے وہ روشنی مجھے دکھائی۔ تب سے جیسے مجھے نجات مل گئی، محبت مل گئی ایسا لگنے لگا ہے۔‘‘ انجلی کے منہ پر خوشی چھلک رہی تھی۔
مادھو ایکدم سٹپٹا گیا۔ انجلی کے بارے میں مادھو کے دل میں کیا تھا اور اسے کیا سننا پڑا۔
’’تو کیا آپ سائیں بابا کی بھگت ہیں؟‘‘
’’ہاں سال میں کم از کم ایک مہینہ میں بابا کے ساتھ رہتی ہوں۔ وہ جب یہاں آتے ہیں، تب میں ان کا پروچن ضرور سننے جاتی ہوں۔ ان کے مجھ پر کافی اثرات ہے۔ یہ دیکھئے ان کا دیا ہوا لاکٹ۔‘‘ انجلی نے کہا۔
اس لاکٹ میں سائیں بابا کی تصویر دیکھ کر تو مادھو مزید جھنجھنا اٹھا۔ ایک سادھو نے اس عورت کی زندگی کو جکڑ رکھا ہے۔ ا س کی یاد سے اسے شانتی نصیب ہوتی ہے۔ یہ تو کوئی ذہنی مریضہ لگتی ہے۔
سائیں بابا کی تعریف کرتے انجلی رکے نہیں رک رہی تھی۔ ان کی دیویا شکتی کے بارے میں بتا رہی تھی اور آخر میں اس نے کہا کہ سائیں بابا کی بدولت مجھے مادھو جیسا شوہر مل رہا ہے۔
انجلی اس کی بیوی بن سکتی ہے یا نہیں، وہ اسی کشمکش میں تھا۔ انجلی میں شاید شادی کے بعد تبدیلی آ جائے، وہ سائیں بابا کو من سے نکال کر میرے بارے میں سوچنے لگے۔ لیکن یہ تو ساری ’’شاید‘‘ والی باتیں تھیں۔ جب وہ اپنی سوچ سے باہر آئے، تب مادھو نے محسوس کیا کہ انجلی اکیلی ہی وہاں سے جا چکی تھی۔ مادھو وہیں پر سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہا۔
’’سوپنا‘‘ میں بیٹھ کر مادھو گوری کو اپنے بارے میں بتا رہا تھا۔ خاندان رشتے دار، تعلیم، پسند ناپسند، اپنا کاروبار، اور امریکہ میں سوزن کے ساتھ تعلقات۔ سوچ سوچ کر اس نے سب کچھ بتا دیا اور اس کے بعد گوری کے دل کو ٹٹولنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اب اس کی رائے اپنے بارے میں کیا ہو سکتی ہے۔ مادھو کو گوری کے خط کا ایک جملہ بار بار یاد آ رہا تھا کہ وہ بیوہ ہے۔
مادھو کی سب باتیں سن لینے کے بعد اس نے ایک ہی سوال کیا جو کہ مادھو سے اور بہت ساری لڑکیوں نے کیا تھا، ’’آپ نے سوزن سے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘
’’وہ میری دوست تھی، اس کے ساتھ شادی کا میں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ ہم کچھ الگ ہی حالات میں ایک دوسرے کے قریب آئے اور اتنی ہی جلدی دور بھی ہو گئے۔‘‘
اس نے یہ سن فقط اپنی گردن ہلائی، ایسا ظاہر ہوا کہ اسے اتنا جواب کافی تھا۔
گوری، خوبصورت، اسمارٹ تو تھی لیکن بیوہ ہونے کے سبب ذرا بڑی سی لگتی تھی۔ لیکن پھر بھی اس میں کچھ کشش تو ضرور تھی۔ اس میں ایک خاندانی مٹھاس تھی۔ انجلی جتنی، گوری پڑھی لکھی تو نہیں تھی، لیکن بہرحال ذہین لگتی تھی۔ چھ سال اپنے شوہر کے ساتھ اس نے گزارے تھے۔ بعد میں بیوہ ہوئی تھی۔
گوری نے آگے کہنا شروع کیا، ’’میں نے خط میں سب کچھ لکھ ہی دیا ہے۔ میرے شوہر نے میرے لئے گھر اور کافی سارا پیسہ چھوڑا ہے، لیکن مجھے گھر گرہستی کا اور بال بچوں کا شوق ہیں اور مجھے کسی کا سہارا بھی چاہئے۔ جو مجھے سنبھالے، سایہ دے۔‘‘
ایسا کہتے کہتے درمیان میں ہی گوری نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ جیسے اس کو سہارا دینے والا، سنبھالنے والا سامنے ہی بیٹھا ہو۔
گوری مجھ سے سہارا مانگ رہی ہے۔ اس لئے مادھو کی گردن ذرا اونچی ہو گئی۔ اس تصور سے کہ یہ خوبصورت اور بیوہ عورت مجھے اپنا سہارا مان رہی ہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس کے دل میں آیا کہ آج کل تو پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے، پھر اس کے شوہر نے اس کیلئے پیسہ چھوڑا ہی ہے، اپنے بعد بیوی کو کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، ذہن میں شک نے گھر کر ہی لیا۔
’’کیا آپ کی اپنے شوہر کے ساتھ محبت کی شادی ہوئی تھی؟‘‘
’’نہیں شادی کے بعد محبت۔‘‘ کتنا اطمینان بھرا جواب دیا تھا گوری نے، ’’صرف چھ سال ہی ساتھ رہے تھے، ایک رات نیند میں ہی ان کی موت ہو گئی۔‘‘
گوری اپنے شوہر کے بارے میں اس طرح سے بات کر رہی تھی کہ لگتا تھا بیتی باتیں بھول پانا اس کے بس کا نہیں۔ تھوڑی دیر پہلے اپنے شوہر کی یاد میں کھوئی گوری اب مادھو سے جس عمدگی سے بات کر رہی تھی کہ مادھو اس موہ میں آئے بغیر نہیں رہ پایا۔
شام ہونے کو تھی، دونوں وہاں سے اٹھے، گوری رکشے سے اپنے گھر کے لئے روانہ ہو گئی۔ لیکن مادھو اب بھی وہیں کھڑا گوری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
’’سوپنا‘‘ میں شام کے وقت کافی کے کپ ہاتھ میں پکڑے بیٹھے تھے۔۔۔ مادھو اور وسمتی۔
’’اپنی طلاق کا ذکر میں پہلے ہی کر چکی ہوں، اس سے آگے اگر آپ کچھ پوچھنا چاہیں تو۔۔۔‘‘
وسمتی شاید کوئی واضح جواب مادھو سے چاہتی تھی۔ اس نے خط میں بھی لکھا تھا، ’’میں نے تین سال اپنے شوہر کے ساتھ گزارا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن بات بگڑتی ہی گئی۔ جب ساری باتیں برداشت سے باہر ہونے لگیں۔ تب طلاق کی نوبت آ گئی۔ اس بات کو بھی اب پانچ سال گزر چکے ہیں۔ آج تک کسی سہارے کی ضرورت میں نے محسوس نہیں کی۔‘‘ لیکن آج وسمتی نے ساری کہانی مادھو کے سامنے رکھی اور اب وہ کس لئے شادی کرنا چاہتی ہے یہ بھی واضح طور پر بتا دیا۔ عمر بڑھتی جا رہی تھی، وہ تھوڑی سمجھدار بھی ہو گئی تھی۔ اکیلے جینا ذرا مشکل اور کٹھن لگنے لگا تھا۔ کسی کو ساتھ لے کر وہ سماجی کام کرنا چاہتی تھی۔
وسمتی دیکھنے میں بری نہیں تھی۔ زندگی کے بارے میں اس کی یقیناً کچھ امنگیں اور خواہشیں تھیں۔ اس کی محبت کی شادی ہوئی تھی۔ اس سے زیادہ اور کچھ اس کی بیتی زندگی کے بارے میں پوچھتا ہوں تو شاید اسے اچھا نہ لگے۔ لیکن اسی نے پہل کرتے ہوئے کہا، ’’اگر ہم ایک دوسرے کے قریب آنے یا شادی کے بندھن میں بندھنے کی جانب قدم بڑھانا چاہتے ہیں تو سب باتیں کھل کر سامنے رکھنی ضروری ہیں۔ وہ میرے ایک دور کے رشتہ دار کا دوست تھا۔ ایک پکنک میں ملاقات ہو گئی۔ یونیورسٹی میں میں کام کرتی تھی۔ وہاں کے الیکشن کے وقت ہم زیادہ قریب آئے۔ اس کی میٹھی باتیں میرا دل موہ لیتی تھیں۔ سوتیلی ماں سے پریشان، میرے دل میں اس وقت شادی کی بات آتی ہی تھی، اس لئے ہم نے شادی کا سوچا اور جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ لیکن جلد بازی میں کی ہوئی شادی راس نہیں آئی۔ لیکچرار ہونے کے باوجود وہ ذہنی طور پر ناخواندہ تھا، جنگلیوں جیسا برتاؤ کرتا تھا۔ میرے شوہر نے میری ہر بات میں میری نفی کی تھی۔ میں نے بہت دکھ جھیلے ہیں۔ ان یادوں کو میں کبھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی لیکن آپ کو۔۔۔‘‘
’’نہیں نہیں میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘ مادھو نے درمیان میں اسے ٹوک کر کہا۔
جسم اور دل سے وہ جب مکمل طور تھک گئی، تبھی اس نے آزادی لینے کی سوچی تھی۔ اب وہ دوبارہ اپنی گرہستی شروع کرنا چاہتی تھی۔ کسی مرد کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتی تھی۔ لیکن کیا وہ دوبارہ مادھو کے ساتھ مخلص ہو پائے گی؟ اسے اس پروفیسر کی یاد ستانے لگی تو؟
دونوں ہی اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے۔
جب کہنے سننے کیلئے کچھ نہیں بچا، تب دونوں اپنے اپنے راستے چلے گئے۔
مادھو نے کچھ دن اور دیکھا لیکن چھٹا خط نہیں آیا۔ اور کہیں اور سے کوئی رشتہ آنے کی امید بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ یہی تین لڑکیاں مادھو کے سامنے تھیں۔ تینوں اس سے شادی کرنے کے لئے تیار تھیں۔ مادھو کو لگا، جب اس نے شادی کرنے کا سوچا تھا۔ اس وقت کا خالی پن آج اس گھڑی میں بھی برقرار ہے۔ لگتا ہے، کہیں سے بھی رشتہ آیا ہو، ان لڑکیوں کو دیکھنے میں ہی اور ان کے بارے میں سوچنے میں ہی عمر گزر جائے گی، ایسے ہی جیون ساتھی کے بغیر۔
اسے لگنے لگا، جو بھی کمی ہے وہ اسی میں ہی ہے۔ آج تک کے سارے رشتوں میں وہ عیب ہی نکالتا رہا۔ ان تین رشتوں میں تو اپنے آپ میں ایک مسئلہ مول لینے والی بات لگتی ہے۔ انجلی، گوری یا وسمتی کے ساتھ شادی کرنے کے فیصلے کو قبول کرنے کے لئے اس کا دل تیار نہیں تھا۔
سائیں بابا سے مکمل طور گھری ہوئی انجلی، شوہر کی یادوں کو اب بھی زندہ رکھنے والی گوری یا شادی کر کے بعد میں طلاق لینے والی وسمتی، ان میں سے کون ہو گی، یہ فیصلہ مادھو کیلئے ایک پہیلی سا بن گیا تھا۔
انجلی، گوری اور وسمتی اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔ انجلی اسے اچھی لگی تھی اس کا سیدھاپن، کسی پر بھی دل لگانے کی عادت والی گوری، اسے ٹھیک لگ رہی تھی کیوں کہ وہ اچھی گرہستی سنبھالنے والی تھی، اور وسمتی کا ضدی مزاج مادھو کو اس کی طرف کھینچ رہا تھا۔
انجلی جیسی لڑکی جو سائیں بابا کے چنگل میں پھنس کر ذہنی مریض بنتی جا رہی ہے، اسے میری مدد کی ضرورت ہے۔ وہ کسی کے ساتھ بھی دل لگا سکتی ہے تو میری طرف بھی اس کی محبت کا جھکاؤ ہونا، کوئی نا ممکن بات نہیں ہے۔
گوری کو بھی تو بنیاد چاہئے۔ اسے ضرورت ہے ایسے آئیڈیل مرد کی، جس کے سہارے وہ زندگی میں پھل پھول سکے۔ وہی ایک مثالی بیوی اور ماں بن سکتی ہے۔ لیکن میں تو وسمتی جیسی آزاد خیالوں والی اور پر کشش بیوی چاہتا ہوں۔
وسمتی طلاق یافتہ ہے، لیکن اس کا شوہر ابھی زندہ ہے۔ اس سے تو اچھی گوری ہے، جس کا شوہر اب اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔ پھر تو گوری ہی ٹھیک رہے گی۔ لیکن وسمتی کو اپنے شوہر سے بڑی نفرت ہے، سو وہ تو اس کیلئے مر ہی چکا ہے۔ گوری کو اپنے شوہر سے زیادہ محبت تھی، اس لئے وہ اس کی یاد میں کھوئی رہتی ہے۔ پھر تو ان سب میں انجلی بہترین ہوئی، کیوں کہ اس کی پہلے شادی ہی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ایسے سادھو کے چمتکاروں سے متاثر لڑکی کو اپنی بیوی بنانے کے قابل نہیں سمجھتا۔ یہ کیسی الجھنیں ہیں۔
انہیں الجھنوں میں پھنسا ہوا مادھو دن رات سوچ سوچ کر اور الجھتا چلا گیا۔ انہیں الجھنوں میں ڈوب کر وہ سوچتے سوچتے کنارے پر آ گیا تھا۔ پھر اس نے فیصلہ کیا۔ انہی تینوں میں سے ایک۔ ایسی جس میں کچھ عیب ہو، لیکن میری جیسی کچھ الگ بھی ہو۔ ایسی الگ کون ہے؟ اس نے دل و دماغ داؤ پر لگا کر فیصلہ لے ہی ڈالا۔
بس اب اس کا فیصلہ ہو گیا۔ جو کچھ عیب تھا وہ اب عیب نہیں رہا اور راستہ صاف نظر آنے لگا۔ ’’محل وقوع‘‘ کی طرف جانے والا راستہ۔ ’’سوپنا‘‘ میں کھانے کیلئے اور مستقبل کی زندگی کے خواب سجانے کیلئے دعوت دینے والا خط وہ اپنی مستقبل کی دلہن کو لکھنے لگا۔
***
مارو تی موٹر گاڑی
ڈاکٹر کنہیا لال بھٹ
گجراتی کہانی
ماروتی موٹر گاڑی دروازے پر آ کر کھڑی ہوئی، جنک رائے حیرت میں ڈوب گئے۔
جس گھر کے دروازے پر کبھی سائیکل کی گھنٹی تک بج نہیں سکی، اس گھر کے دروازے پر ماروتی موٹر گاڑی؟
انہوں نے چارپائی پر بیٹھے بیٹھے جھٹ سے دھوتی ٹھیک کی۔
کندھے سے رو مال اتار کر برابر میں رکھا۔
اور بیڑی بجھا دی۔
جھٹ سے ایک نظر سامنے والے آئینے پر ڈالی، چہرہ بوڑھا لگا۔
لیکن بھرا بھرا ہونے پر دل ہی دل میں خوش بھی ہوئے، پاس میں رکھا چشمہ اٹھا کر آنکھوں پر لگایا۔
آنکھیں جگمگا اٹھیں۔
نظریں گھر کے دروازے سے باہر جا ٹکیں، ماروتی موٹر کے دروازے پر پہنچی۔
جشودا نے اپنی باون سالہ زندگی میں کبھی بھی، حقیقت میں ماروتی نہیں دیکھی تھی۔
ایک بار انہیں خواب میں نظر آیا تھا کہ وہ اور اس کے شوہر جنک رائے دونوں ماروتی میں کہیں دور جا رہے ہیں۔
صبح ہوتے ہی وہ خواب جشودا نے اپنے شوہر کو بتایا۔
اس صبح میاں بیوی دونوں نے ہی گویا تصور میں ہی، خوشیوں کے گھوڑوں کی ریس لگا دی تھی۔
اس کے دو دن بعد ہی جنک رائے کے سینے میں درد اٹھا تھا، جشودا کو ان کے سینے کا درد یاد آ گیا۔
توے پر بھاکھری(ایک قسم کی روٹی) جلی۔
دھواں نکلا، بو آئی، بھاکھری پر سیاہ داغ پڑ گئے۔
جشودا نے فوراً دونوں ہاتھوں سے بھاکھری گھمائی۔
جشودا کو خود اپنی زندگی بھی جلی ہوئی بھاکھری جیسی لگی۔
ایک گہری سانس منہ سے خارج ہو گئی۔
آ ٹے والے ہاتھ جھٹکے۔
موٹر گاڑی کی آواز سن کر، تھوڑا اونچا ہو کر کھڑکی کے باہر نظر ڈالی، تو اسے ایک جھٹکا سا محسوس ہوا۔
اس کے گھر کے دروازے پر موٹر گاڑی آئی ہے؟
لمحے بھر کے لئے تو جشودا کو اپنا وہ خواب سچا لگا۔
اسے لگا شاید یہ موٹر گاڑی اس کی اپنی ہی ہو تو؟
نہیں نہیں، وہ جانتی تھی کہ اس کے شوہر ایک فیکٹری میں کلرک کی عام سی نوکری کرتے تھے، اسی وجہ سے ابھی تک سائیکل بھی نہ لے سکے تھے۔
تین تین بیٹیوں کی شادیوں کا خرچ اور سود پر اٹھائے پیسوں پر، ہر ماہ لگنے والے سود کی وجہ سے، بڑی مشکل سے گزارا چلتا تھا۔
جشودا نے کھڑکی کے باہر دیکھا اور پٹرے پر بیٹھ گئی۔
باجرے کے آٹے میں پانی ڈالا۔
دونوں ہاتھوں سے آٹا گوندھا، گوندھے ہوئے آٹے کی لوئیاں بنا کر انہیں ایک ایک کر کے بیلنا شروع کیا۔
آٹے کی گول لوئی پھیلتی چلی گئی، بیلنے کی وہ آوازیں ایک لے میں تبدیل ہوتی گئیں۔۔۔ ٹپ۔۔۔ ٹپ۔۔۔ ٹپ۔۔۔
جنک رائے کو جشودا کے ہاتھوں کی بنی بھاکھری کو بیلنے کی ٹپ ٹپ بہت اچھی لگتی تھی۔
پینتیس سال کی خوشگوار ازدواجی زندگی کی رسیلی موسیقی، ان بھاکھریوں اور ہاتھوں کی ٹپ ٹپ کی آوازوں کے احساس سے بھری تھی۔
انہوں نے ایک نظر باورچی خانے کی طرف دوڑائی۔
نظریں باورچی خانے کے دروازے سے باہر نکلتے دھوئیں کو چھو کر واپس آئیں۔
دھواں۔۔۔ دھواں
یہ کالا دھواں جشودا کو روز تکلیف دیتا ہے۔
اسکی خوبصورت آنکھوں کے چاروں طرف، اس دھواں نے گہرے رنگ کے گھیرے ڈال دیئے ہیں، لیکن وہ کیا کرے؟
حالات کے مضبوط گھیرے سے وہ چاہ کر بھی باہر نہیں نکل پا رہا تھا۔
گھر میں بارہ بتی کا چولہا تھا، پر گھانس لیٹ ملتانہیں تھا، ملتا تو بلیک مارکیٹ سے تین چار گنا زیادہ پر لینا، بڑا مہنگا پڑتا۔
کئی برس گزر گئے انہیں گھانس لیٹ دیکھے ہوئے۔
گھر میں لکڑی کا چولہا اور انگیٹھی موجود تھے۔
وہ کوئلے اور اپلے بھی بناتی اور کچھ پانچ دس روپے بچا لیا کرتی۔
جشودا نے سینکی ہوئی بھاکھری کو اتار کر، بیلی ہوئی بھاکھری کو توے پر ڈالا۔
پاس پڑی پانی کی پیالی میں ہاتھ صاف کرے۔
کنارے پر پڑے لکڑی کے دو چار ٹکڑے اٹھا کر چولہے میں ڈالے۔
لگاتار آٹھ دس پھونکیں ماریں۔
اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
ازدواجی زندگی کے پینتیس سال اسی دھواں کو نکالنے میں ضائع ہو گئے، ایسا لگا اسے۔
لیکن اس میں اس کے بیچارے شوہر جنک رائے کا بھی بھلا کیا دوش؟ ، جو بھی دوش ہے وہ تو قسمت کا ہے۔
نصیب کا ہے۔
پچھلے جنموں کا چکر ہے۔
جشودا کو گیتا کا ایک اشلوک یاد آیا۔
’’کرمنیوادھ گاڑیستے ما پھلیش کداچن
ما کرمپھلہیتُر بھوما تے سنگ استُ اکرمن‘‘
یہ اشلوک اس کے شوہر کو بے انتہا پسند تھا۔
ہر روز صبح اشنان کرتے وقت، جنک رائے کے منہ سے یہ سننے کو ملتا۔
اپنی شادی کے دوسرے ہی دن صبح سویرے جب جنک رائے نے اشنان کرتے وقت یہ اشلوک پڑھا۔ تب اس نے اس کا مطلب پوچھا تو جواب میں جنک رائے نے سرسوت چندر جیسا لمبا لیکچر دے دیا تھا۔
توے پر جشودا نے بھاکھری گھمائی۔
جشودا کو اپنے شادی کی یاد آئی۔
پہلا ملن یاد آیا۔
باون سالہ چہرے پر شرم کی چند بوندیں پھوٹ پڑیں۔
آنکھوں سے ٹپکتی بوندوں کو ساڑی کے آنچل سے آہستہ سے جشودا نے پونچھ لیا۔
نمکین پانی کی دو چار بوندیں نیچے بھی ٹپکیں۔
تبھی چولہے کی راکھ سے دھواں نکل پڑا۔
پینتیس سال پہلے کے جوان جنک رائے، جشودا کی یادوں میں نمودار ہوئے۔
زعفرانی رنگ کی دھوتی، اس پر سفید سلک کا کرتا، تیل ڈال کر بنائے ہوئے بال، پیشانی پر سرخ رنگ کا تلک، اس پر زعفرانی رنگ کی پگڑی، پاؤں میں راجستھانی موجڑی، اس وقت بھی جشودا کو جنک رائے پرانی فلموں کے ہیرو کی طرح اسمارٹ لگتے تھے۔
جشودا نے بھاکھری توے سے نیچے اتاری۔
جنک رائے کو لگا یہ ماروتی ان کی اپنی ہی ہو تو؟ جشودا کو اس میں بٹھا کر لمبے سفر پرلے جائے گا۔
لیکن۔۔۔۔ نہیں، نہیں اس طرح کی خوا ہش کرنا اچھا نہیں؟ خواہشیں ہی انسان کودکھی کرتی ہیں۔
صابردل میں تکلیف کا احساس بھر دیتی ہیں
گیتا کے ستراویں باب کا ایک اشلوک جنک رائے کو یاد آ گیا۔
من پرساد سومیتوں مونمات مونگرہ
بھاو سنشُدھرتیت تپو مانس مچیتے۔
اتنا ہونے پر بھی جنک رائے اپنے دل کو قابو میں نہ کر سکے۔
ہمارا بیٹا ضرور ایک دن ماروتی گاڑی لے کر آئے گا اور میری خواہش پوری کرے گا۔
لمحے بھر تو جنک رائے کو لگا کہ آنگن میں کھڑی ماروتی گاڑی سے اس کا ہی بیٹا تو نہیں اترا؟
اُتسو۔
تین بیٹیوں کے بعد کی اولاد، وہ اُتسو تھا، اُتسو کی پرورش غربت میں ہوئی۔
اس کے کوئی شوق پورے نہ ہو سکے اس بات کا رنج آج بھی کسی دوسرے باپ کی طرح جنک رائے کو دکھی کر دیتا، کالج کی پڑھائی بھی اُتسو خود بڑی ہی مشکل سے پوری کر پایا تھا، یہ جنک رائے جانتے تھے۔
انگریزی میڈیم سے گریجویٹ اُتسو اعلی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکا کہ وہ پروفیسر ہی بن سکے۔
پروفیسر بن کر ماروتی گاڑی لانے کا خواب بھی اب اُتسوپورا نہیں کر پائے گا۔
جنک رائے کے اندر بڑی گہری اداسی چھا گئی۔
سارے اندیشوں کو جھٹک کر جنک رائے نے اپنی نظریں دروازے پر دوڑائیں۔
شاید موٹر گاڑی میں اُتسو ہی ہو۔
تبھی دروازے سے اُتسو اندر آیا۔
’’ارے بیٹا اُتسو اس موٹر گاڑی میں تو آیا ہے؟‘‘
’’کون سی موٹر بابو جی؟‘‘
’’یہی ماروتی، جو دروازے پر کھڑی ہے، وہی؟‘‘
اُتسونے دروازے پر نظر ڈالی، وہاں کوئی ماروتی نہیں تھی۔
وہ سمجھ گیا۔
’’ارے بابو جی، آپ کو کتنی بار کہا ہے کہ آپ، موٹر، موٹر مت کیا کرو۔‘‘
’’بند کرو اب ماروتی کا خواب دیکھنا۔‘‘
’’بھگوان نے ہمارے نصیب میں ماروتی گاڑی کا سکھ نہیں لکھا ہے۔‘‘
’’پر بیٹا، تو آیا ہے اس گاڑی میں۔‘‘
’’میں پیدل چل کر ہی آیا ہوں اور باہر کوئی گاڑی نہیں کھڑی ہے۔‘‘
جیسے ہی جشودا باورچی خانے سے باہر نکلی، جنک رائے بول اٹھے،
’’تو نے باہر ماروتی گاڑی دیکھی تھی کہ نہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹا اُتسو، گاڑی تو میں نے بھی دیکھی تھی۔ کس کی تھی وہ؟ تو نے لی بیٹا؟ اچھا کیا۔ تیرے پتا کا خواب کتنے برسوں بعد پورا ہوا۔‘‘ اُتسو ہکا بکا رہ گیا۔ ا سے ڈاکٹر کی باتیں یاد آ گئیں۔
‘اگر تیرے بابو جی کا ذہنی دباؤ اور خیا لی دنیا میں رہنا دور نہیں ہوا۔ تو اس کا اثر تیری ماں پر بھی پڑے گا اور شاید انہیں بھی یہی ذہنی بیماری۔۔۔‘‘
’’بیٹا ہم سب گاڑی میں بیٹھ کر۔۔۔‘‘
’’نہیں ماں، وہاں کوئی گاڑی نہیں ہے۔۔۔ بابوجی کی طرح اب آپ بھی۔۔۔۔‘‘
اُتسو آگے کچھ نہ کہہ سکا۔
اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
اُتسو۔
گزشتہ کتنے عرصے سے پریشان تھا۔
اس کے بابوجی جنک رائے جو اپنی پوری زندگی میں ایک سائیکل بھی نہ لے پائے تھے، وہ گزشتہ کئی برسوں سے مار وتی گاڑی کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے جی رہے ہیں۔
اُتسوکو اچھی طرح سے یاد تھا کہ جب وہ ایم ایس سی میں تھا تو اس نے بابوجی سے موٹر گاڑی لینے کی بات چھیڑی تھی اور اسی وقت ماں نے بابوجی کے سینے میں درد ہونے کی بات بتائی تھی، تب سے لے کر آج تک اس نے کبھی بھی موٹر گاڑی لینے کی بات منہ سے نہیں نکالی تھی۔ لیکن دماغ کے کسی کونے میں اُتسو نے بھی ایک دن ماروتی گاڑی لینے کی خواہش جگائے رکھی تھی اور نہ جانے کیوں جب سے جنک رائے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ تبھی سے ماروتی گاڑی خریدنے کا سوچ رہے ہیں۔ آج انہیں ریٹائرڈ ہوئے بھی برسوں گزر گئے ہیں۔
فیکٹری سے ریٹائرمنٹ پائی تب پی ایف، انشورنس اور تھوڑی بہت سیونگ کے جو کچھ بھی پیسے آئے، وہ سارے بہنوں کے جہیز میں چلے گئے، اُتسو یہ اچھی طرح جانتا تھا۔
گزشتہ پانچ چھ سالوں سے روز ایک آدھ بار جنک رائے کو اپنے گھر کے دروازے پر ماروتی گاڑی آ کر کھڑی ہوتی دکھائی دے ہی جاتی تھی اور اس ماروتی کو دیکھ کر روز جنک رائے ٹھیک ہو جاتے۔
خیالوں کے چکر میں پڑ جاتے۔ آخر میں جشودا کو بلا کر، پاس بٹھا کر دروازے پر کھڑی ماروتی گاڑی کے متعلق بتایا کرتے۔
جشودا بھی بیچاری کیا کرے؟
زندگی کے اتنے سال غربت میں نکالے، پھر بھی اگر غربت گھر کی چوکھٹ نہ چھوڑتی ہو تو ایک آدھ ماروتی لینے کا خوشگوار خواب دیکھ لینے کی خواہش کو جشودا کس طرح روک پاتی؟ پھر تو جنک رائے روز جشودا کو دروازے پر کھڑی ماروتی گاڑی دکھایا کرتے۔
جشودا روز یوں ہی روٹی چھوڑ کر آ جایا کرتی۔
موٹر دیکھتی اورہنستی۔
دونوں میاں بیوی چارپائی پر بیٹھ کر گاڑی لے کر کہاں کہاں سیر کرنے جائیں گے، اس پر بحث کرتے۔
تینوں بیٹیوں کے گھر جا کر انہیں بھی گاڑی میں بٹھا گھومنے لے جانے کی باتیں کرتے اور دل ہی دل میں اس کا لطف اٹھاتے اور باورچی خانے میں روٹی جل جاتی۔
ماں بابوجی کے اس نفسیاتی پنے سے اُتسو بخوبی واقف تھا۔
رات ہوئی۔
چولہا چوکا نپٹا کر جشودا اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔
دن بھر کی تھکاوٹ سے بھری ہونے پر چارپائی پر لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔
نیند کی دیوی نے جشودا کو اپنے جال میں لپیٹ لیا۔ لیکن جنک رائے دوسری چارپائی پر لیٹے لیٹے آنکھیں بند کئے ابھی تک اپنے خیالوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
اُتسو۔
وہ بھی اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔
اسے لگا اگر ایک آدھ بار گاڑی کرائے پر لے کر اپنے ماں باپ کو ایک لمبا سفر کرا دے تو، شاید یہ خوشگوار تجربہ انہیں ان کے ذہنی دباؤ اور خیالی دنیا سے نجات دلا سکے۔
لیکن ماروتی کے کرائے کی اتنی بڑی رقم وہ اکیلا کیسے جمع کر پائے گا؟ اپنے مالی حالات کا جائزہ لینا اُتسو نے چھوڑ دیا تھا۔
بابوجی کی طرح وہ خود بھی ایک بہت ہی چھوٹی سی فیکٹری میں کام کر کے مشکل سے گھر چلاتا تھا۔
اُتسو آج مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔
اس نے اپنی ماں بابوجی کی چارپائیوں پر نظر یں دوڑائیں۔
دونوں شاید سو گئے تھے اسے ایسا لگا۔
’’کیا کرنا چاہئے؟‘‘ اپنی فیکٹری میں روز نوٹوں کے ڈھیر سارے بنڈل گنتے سیٹھ کے آفس میں ڈاکہ ڈالوں؟ نہیں نہیں اس بار تنخواہ سے چند لاٹری کی ٹکٹ ہی لے لیتا ہوں۔
شاید نصیب میں ماروتی گاڑی۱۰۰۰ سی سی ہو اور لاٹری لگ گئی تو؟ نہیں نہیں بڑا مشکل ہے، اب نصیب پر تو۔۔۔۔
’’بینک میں چوری کروں؟‘‘
’’کسی کا خون، اغوا برائے تاوان، فراڈ۔۔۔‘‘
سوچوں کا ڈھیر لگ گیا اُتسو کے دماغ میں۔
گاڑی کیسے خریدوں؟ اُتسو کو اپنے والدین کی خواہش کی اہمیت کا آج اندازہ ہوا۔
خود بھی روز چار کلومیٹر چل کر فیکٹری جاتا۔
گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ، سردیوں کی کڑکڑاتی سردی یا ساون کی موسلا دھار بارش۔
جو بھی ہو جلنا، ٹھٹھرنا اور بھیگنا اس کے فرائض میں شامل ہو چکا تھا۔
ایک آدھ ماروتی گاڑی ہو۔ ڈرائیور ہو۔۔۔۔
فیکٹری میں گاڑی سے نیچے اترتا اس کا سیٹھ، اُتسو کو یاد آیا۔
بغیر ماروتی کے زندگی، اُتسو کو بیکارسی لگی۔
ڈنلوپ کی نرم نرم سیٹیں ہوں۔
اندر کے شیشے سے باہر مناظر کا احساس ہوتا ہو اور ہوا میں سرسراتے ہوئے کلومیٹر کٹتے چلے جائیں، دور دور تک درختوں کے ساتھ دوڑتے چلے جائیں، دن میں سورج اور رات میں چاند بھی اپنی موٹر کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوں۔
کتنا آرام اور اطمینان ملے؟
نہیں، نہیں، موٹر تو لینی ہی ہو گی۔
اسے لگا اسی لمحے ماں بابوجی کو، جگا کر کہہ رہی ہیں کہ اب میں، جو بھی ہو، جیسے بھی ہو، ماروتی موٹر گاڑی لوں گا اور سب مل کر سفر پر جائیں گے۔
تمام رات اُتسو کے خیالوں میں موٹر گاڑی کی گھرگھراہٹ گونجتی رہی۔
آنکھیں سے نیند غائب تھی۔
آس پاس ہزاروں موٹروں کے درمیان اس نے خود کو موجود پایا۔ صبح صبح پہلے پہرمیں آنکھیں لگیں۔
صبح ہوئی۔
اُتسو ابھی تک اٹھا نہیں تھا۔
جنک رائے نے جشودا سے پوچھا، ’’اُتسو ابھی تک اٹھا کیوں نہیں؟ اس طبیعت تو۔۔۔۔؟‘‘
تبھی اُتسونے کروٹ بدلی اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔
اس نے چاروں طرف دیکھا۔
ماں بابوجی کو دیکھ مسکرایا۔
گھر کے چاروں طرف دیکھا۔
اسے تھوڑا شک ہوا۔
سامنے ٹنگی گھڑی کی جانب دیکھا، ارے دس بج گئے ہیں؟
اوہ۔
تبھی ماروتی آ کر گھرکے دروازے پر کھڑی ہوئی۔
جنک رائے، جشودا اوراُتسو کی نظریں دروازے پر آئی ماروتی موٹر گاڑی کے دروازے پر ٹک گئیں۔
دروازہ کھلا۔
سفید کلر کے سوٹ اور گوگلز پہن کراُتسو، ماروتی سے نیچے اترا۔
***
آج پیر ہے
پرشوُ پردھان
نیپالی کہانی
اِڈا یاد کرنے لگی کہ آج کون سا دن ہے، ٹی وی کے دلچسپ مناظر سے لگ رہا تھا کہ آج اتوار ہے، اچھا سا اتوار ہے، پھر اسے لگا آج پیر ہے اور ہیریش سے ملنا ہے۔ ہیریش کی یاد آتے ہی اِڈا کو پیر ہی سے بوریت سی ہونے لگی۔ کتنا شرابی ہے ہیریش۔ رات بھر وہسکی کی کتنی ہی بوتلیں خالی کر جاتا ہے اور پھر باتیں کرتا ہے زمین آسمان کی۔ جیسے ساری رات اسی کی ہے اور کسی کی تو ہے ہی نہیں۔ جیسے پھر وہ کوئی طالب علم نہ ہو، بلکہ کسی رئیس کا اکلوتا وارث ہو۔ جیسے اس کے پاس ڈالروں کی بوریاں ہوں یا اس کا بہت بھاری بھرکم بینک بیلنس ہو۔
وہ بوریت سے کھسر پھسر کرتا ہے، ’’اِڈا، میں اس سمسٹر کے بعد یہاں نہیں رہنے والا۔ کتنا چھوٹا اور تنگ ہے یہ شہر۔ اگر نیویارک نہیں تو واشنگٹن ڈی سی جاؤں گا۔ وہاں سے ڈاکٹریٹ بھی آسانی سے کیا جا سکتی ہے۔‘‘
پر اپنی سوجھ بوجھ اور علم سے بہت دور تھا وہ۔
اِڈا کمرے کو دیکھتی ہے۔ دیواروں میں کیا ہوا پیلا رنگ کتنا زیادہ پیلا ہے۔ اِڈا کو تیز پیلے رنگ سے چڑ ہے۔ زیادہ نمک، زیادہ چینی۔۔۔ اف کتنا بور۔۔۔ کمرے کا پردہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ پردے کی آڑی دھاریاں اِڈا کو کیسے ڈراتی ہیں، گویا یہ دھاریاں سانپ کا پھن بن کر اٹھتی ہوں۔ کبھی کبھی راتوں میں وہ ڈر جاتی ہے اور چیختی بھی ہے۔ اِڈا کو اب پوری طرح سمجھ میں آ گیا کہ آج پیر ہے۔ پکا پیر کا ہی دن ہے۔
ہاں آج پیر ہی ہے اور آج کی رات، بل شٹ ہیریش کے نام ہے۔ مہینے میں پیر کی چار راتوں میں ہیریش کا ساتھ دینے پر، اِڈا فیصلہ کرتی ہے کہ ہیریش کے ساتھ ہوئے سمجھوتے کو منسوخ کر دے گی اور ہیریش سے صاف کہہ دے گی۔
’’مجھے بھی تو ایک دن کی فرصت چاہئے ہیریش، تم اور کوئی گرل فرینڈ ڈھونڈو اور مجھے چھٹی دو۔‘‘
’’تمہیں چھٹی دوں اِڈا، نا ممکن بالکل نا ممکن۔ بلکہ تمہیں اگر ڈالر بڑھوانے ہیں تو صاف کہو۔ میں تو تیار ہی ہوں۔‘‘
’’ایسا نہیں ہے ہیریش۔ بہت سالوں سے صحت ٹھیک نہیں ہے۔ لگتا ہے یہ کام اب چھوڑ دوں۔ لیکن حالات اور ضرورتیں بھی کچھ ہوتی ہیں۔ ہیریش میں کر نہیں پا رہی ہوں۔ لیکن چھوڑنے کوشش کر ضرور کروں گی۔‘‘ اِڈا اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ کبھی کبھی دیر ہونے پر ہیریش خود ہی گاڑی لے کر اسے لینے آ پہنچتا تھا۔ پھر مسلسل بیل بجاتا تھا۔ کیا کرتی وہ۔ دروازہ کھولنے پر مجبور ہو جاتی اور اسی ایک قسم کی خوشبو کے ساتھ رات گزارنے پر مجبور ہو جاتی۔
ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگی۔ رسیور اٹھانے کو دل نہیں کرتا۔ ممکن ہے ہیریش کہتا ہو، آج دس بجتے ہی میرے یہاں آ جاؤ۔ اِڈا میں نے دو چار کین بیئر ٹھیک کر رکھے ہیں۔ کیوں نہ دن بھر اپنے آپ کو بیئر سے بدل دیں پھر۔ ٹیلیفون کی گھنٹی بند ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اِڈا رسیور اٹھاتی ہے۔ خوش قسمتی سے رانگ نمبر ہے۔ وہ گھڑی کی طرف نظر ڈالتی ہے۔ دس بجنے کو ہے۔ شام کا اپائنٹمنٹ سارا دن خراب کر دیتا ہے۔ دیگر دنوں میں اسے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ اتوار جونز کے یہاں، منگل رابرٹ کے یہاں، پھر جمعہ جیکسن کے یہاں۔
سب سے اچھا تو جمعہ ہی ہے ایک تو ویک اینڈ، اوپر سے خوش مزاج جیکسن۔ جیکسن کی شخصیت کتنی پیاری اور متاثر کن ہے۔ اس کا ہیریش سے کسی بھی طرح موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ جیکسن کا نام یاد آتے ہی اِڈا کی خوابیدہ خواہشیں جاگ اٹھیں۔ پوکھر میں کہیں نئی مچھلیاں کلبلانے سی لگتی ہیں۔ اب اِڈا کو بہت دور اپنے گھر کی یاد ستا رہی ہے۔ جہاں والد کے خطوط کے حرفوں کو یاد کرتے ہی اِڈا کو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، ’’تجھے گھر کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اپنی صحت کا خیال کر۔ تیری جاب کیسی ہے اور کالج میں پڑھائی کیسی چل رہی ہے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں، جس سے ہم پریشان ہیں۔‘‘
اِڈا کو لگتا ہے کہ یہ حروف بڑھ رہے ہیں یا بڑے ہو رہے ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ انہیں حرفوں تلے دب کر کہیں وہ مر ہی نہ جائے۔ اِڈا کیا جاب کرتی ہے اس چھوٹے سے شہر میں، اس جاب کو کس طرح سے بیان کیا جائے، اِڈا کو معلوم نہیں۔ وہ کہہ بھی نہیں سکتی کہ اِڈا اس شہر میں کیا کرتی ہے اور کس طرح جی رہی ہے۔ اسے لگتا ہے وہ جی رہی ہے۔ دھندلی، بے معنی اور غیر محفوظ زندگی۔
آج دن بھر کا کام یاد کرنے لگی اِڈا۔ سارے اپائنٹمنٹ اور کام بھول کر دن یوں پھسل جاتا ہے۔ پھر آتی ہے سیاہ رات، وہی ہیریش کی رات۔ وہ گھبرا جاتی ہے، ہیریش کی رات سے۔ اس نے ہیریش کو مشورہ نہ دیا ہو، تو ایسا نہیں ہے۔
’’ہیریش تم کسی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ پینتیس برس کی عمر کیا چھوٹی ہوتی ہے۔ اب صرف پانچ سال ہیں ہیریش، تم اپنی بیوی ڈھونڈو۔ تم تو سترہ اٹھارہ سال کے نوعمر لڑکے لگتے ہو، کچھ تو کہو تو ناراض ہوتے ہو؟‘‘
’’تم غلط ہو اِڈا۔ ابھی سے شادی کر کے میں کیا بوڑھا ہو جاؤں۔ کیا تم مجھے بوڑھا دیکھنا چاہو گی؟ ۔ کیا رکھا ہے شادی میں؟ ایک سادہ سی سچائی جسے قبول بھی کیا جا سکتا ہے، رد بھی۔‘‘ ہیریش ہر بات کو ہنسی میں ٹال دیتا۔
ادھر اِڈا کو ہر پیر کو جسم بھاری محسوس ہے، متلی سی ہوتی ہے، کمرہ گھومتا ہوا سا نظر آتا ہے۔ بہت مہینوں سے سنبھالے ہوئے فیصلے کو اُگلنے کا دل کرتا ہے۔
’’میں آج نہیں آؤں گی، ہیریش مجھے معاف کرنا۔‘‘
وہ پوچھتا ہے، ’’صرف میرے یہاں نہیں آؤ گی یا جاب ہی چھوڑ دو گی؟‘‘
’’پہلی بات تو تمہارے یہاں نہیں آؤں گی، جاب چھوڑنے کے بارے میں ابھی نہیں سوچا ہے۔‘‘
’’یہ صرف تمہارا خیال ہے اِڈا، فیصلہ نہیں، اب کیا وجہ ہے مایوس ہونے کی۔‘‘ ہیریش پھر ہنسی میں ہی ٹال دیتا ہے۔ اِڈا کے دل کے شعلوں کو اس نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، نہ ہی تیار ہے۔
ہر قسم کے لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنا واقعی مشکل کام ہے، یہ صرف نادانی ہے، اپنے آپ کو ختم کرنا۔ ہر مرد کی محبت کرنے اور چاہت رکھنے کا ایک وقت ہوتا ہے، جب وہ وقت گزر جاتا ہے یا یوں کہیں جب کنارہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر کچھ نہیں ہونے والا۔ آسمان میں ہوائی جہاز مسلسل اڑ رہے ہیں، کسی بھی ہوائی جہاز نے اب تک اِڈا کو کہیں اڑا کر دور نہیں پھینکا۔ کسی جہاز نے اسے گھومنے پھرنے کیلئے کہیں نہیں اڑایا۔ کتنا چھوٹا ہے اس کا بینک بیلنس۔ ہر ماہ اسے بڑھانے کا ارادہ بھی جاب چھوڑنے جیسا مضحکہ خیز ہو گیا ہے۔ کبھی کاسمیٹکس کا مسئلہ تو کبھی کپڑوں کی ضد، تو کبھی دوائیں سارے بجٹ کو توڑ مروڑ دیتی ہیں۔ پھر کمرے کے ایک کونے میں بیئر کی ایک بوتل کو کھول کر ساری سچائی کو بھول جانا اچھا لگتا ہے اِڈا کو۔ لوگوں کے چہروں کو کہیں دور پھینک دینے کا دل کرتا ہے۔
اپنا گھر ہے کہیں دور سہی، محبت کرنے والے ماں باپ ہیں، اس بات کو بھول کر کچھ اور سوچنے کو جی کرتا ہے اس کا۔ مگر ہفتے کے سارے دنوں سے بندھی ہوئی ہے وہ۔ وہ دن اس کی زندگی کو روٹین بنائے ہوئے ہیں۔ یہ روٹین کی زندگی، دیوار پر ٹنگی ہے۔ زندگی کی یہ روٹین امتحان کے روٹین کی طرح ہے:
اتوار۔ جونز
پیر۔ ہیریش
منگل۔ رابرٹ
بدھ۔ گرین
جمعرات۔ جیمز
جمعہ۔ جیکسن
ہفتہ۔ سل
کیوں باہر نہیں نکل سکتی اس دیوار سے اِڈا؟ ناشتے کا وقت ختم ہو چکا ہے اور لنچ کیلئے نزدیکی ڈرگ ہاؤس تک جانا ضروری ہے۔ پھر ماتھے میں پیر گھس کر اس کو بھاری بنا ڈالتا ہے۔ پھر ہیریش کا روکھا رویہ آ کر اس کو ٹھنڈا کر ڈالتا ہے۔ کاش ابھی فون کر کے میں بیمار ہوں، نہیں آ سکتی، کہہ سکتی۔ پر بہت ضدی ہے وہ۔ ہفتے میں ایک بار ہی تو ہے، میں تو نہیں مانتا، بول کر گاڑی لے کر آ دھمکا تو۔ پھر فون کرنے کا کوئی مطلب نہیں، دس سینٹ خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اِڈا خود سے لڑ سی جاتی ہے کیسے کاٹے گی یہ لمبا دن؟ ۔ پارک تک جائے، پر ادھر بھی خرچہ ہی ہے۔ کمرے کے باہر قدم رکھتے ہی ڈالروں سے راستہ بناتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ دن بدن مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ کمرے میں ہی جھول کر کتنا وقت کاٹا جا سکتا ہے؟ ۔ یہ شہر بھی سٹھیا گیا ہے۔ اِڈا جائے تو کہاں جائے، کون سی جگہ باقی ہے، سینٹرل پارک میں بھی کتنا جھولا، جھولا جائے، درجنوں آدمیوں کے درجنوں سوال، جواب دیتے دیتے پریشان۔ جدھر دیکھو آدمیوں کی بھیڑ۔ ایسی پریشانی اور کسی دن نہیں ہوتی، سوائے پیر کے، بیکار پیر۔
لنچ کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے۔ اِڈا کو بھوک نہیں ہے۔ گاڑی لے کر فالتو چلوں تو کتنی دیر چلوں؟ کتنی دور چلوں؟ کس موٹر وے تک پہنچ کر لوٹوں؟ جدھر دیکھو سڑکوں کے جال بچھے ہوئے لگتے ہیں۔ کون سا راستہ اسے کتنی دیر تک کہاں تک لے جا سکتا ہے؟ کہیں کوئی حادثہ ہو گیا تو؟ کہیں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ سوائے رات کا انتظار کرنے کے، دل کو موم سا پگھلا کر باہر جاؤں؟ پھر دل کو سپنوں کے ننگے تار چھو رہے ہیں۔ اِڈا فون لگاتی ہے۔ ادھر ہیریش ہی ہے۔ وہ بول بھی نہ پائی تھی کہ ادھر سے ہیریش کی آواز اس کو ہلا کر رکھ لیتی ہے۔
’’فرصت ہو تو ابھی آ جاؤ اِڈا، کیوں شام کا انتظار کرتی ہو؟ ۔ میں تمہاری ہی وجہ سے، کالج نہیں گیا ہوں تم ابھی آ جاؤ۔‘‘
’’میری طبیعت آج۔۔۔۔‘‘
فون میں بات کو درمیان میں ہی ٹوک کر، بولنے کی آواز آتی ہے، ’’اکیلے رہنے سے کیسے طبیعت اچھی رہے گی؟ ادھر آ جاؤ، سب ٹھیک ہو جائے گا، نائٹ کلب بھی جانا ہے نہ، تھوڑی دیر کے لئے۔۔۔‘‘
’’کہہ تو رہی ہوں۔۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔۔‘‘
’’نو نو۔ فوری طور پر آ جاؤ۔‘‘ ہیریش فون کاٹ دیتا ہے۔
اب اِڈا سوچ رہی ہے، اس شہر سے اس کی نجات ممکن نہیں ہے۔ اس پیر سے بھی اس کی نجات ممکن نہیں ہے۔ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہے۔ اس کے نہ چاہنے پر بھی پیر آ ہی جاتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ہیریش کے ساتھ رات گزارنی ہے۔
ہیریش، ہیریش، ہیریش؟
اِڈا باتھ روم میں گھس جاتی ہے۔
***
عکاسی
سروجنی ساہو
اڑیا کہانی
جب وہ پہنچے، تب نیپا اپنے معمولات میں انتہائی مصروف تھی۔ ایک ہاتھ میں اس کے ٹوسٹ تھا، تو دوسرے ہاتھ میں پانی کا گلاس۔ ڈائننگ ٹیبل کے پاس کھڑی ہو کر، وہ کسی بھی طرح ٹوسٹ کو ڈکار لینا چاہتی تھی۔ اس طرح اس نے صبح کا ناشتا ختم کر لیا۔ پھر شیلف سے نکال کر چپلیں پہن لیں، ہاتھ پر گھڑی باندھ لی، نوکرانی کو دو چار کاموں کے بارے میں حکم بھی دے دیئے اور سونے کے کمرے کا تالا بھی لگا دیا۔
اب وہ سوچ رہی تھی کہ گھر سے نکل کر ڈیوٹی پر چلے جانا چاہیے۔ ایسی جلد بازی کے وقت میں، جسم کے مقابلے میں دل کچھ زیادہ ہی چلتا ہے۔ دل کے ساتھ مناسبت ملا کر کام کرتے وقت، اگر کوئی اس کو روک دے، یہاں تک کہ اگر ٹیلیفون کی گھنٹی بھی بج اٹھے، تو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے، وہ فوری طور پر ہی پریشانی سے دوچار ہو جاتی ہے اور دل ہی دل میں ناراض ہو اٹھتی ہے اور اندر کا یہ احساس اس کے بیرونی رویے میں بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ کبھی کبھی تو وہ اتنی جھنجھلا اٹھتی ہے کہ نوکرانی کو ہی رسیور اٹھانے کیلئے بول دیتی ہے اور خود کام پر نکل جاتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے، جب اچانک رسیور اٹھا لینے پر ادھر ادھر کی بے کار باتیں کر کے، جلدی جلدی کام کیلئے نکلنا پڑا ہے۔
لیکن وہ دن کچھ اور تھا۔ دہلیز پر انہیں کھڑا دیکھ کر نیپا باہر نکل نہیں پائی۔ نمسکار کے ساتھ ان کا سلام کیا، اپنے کندھے پر لٹکے پرس کو اتار کر سینٹرل ٹیبل پر رکھ دیا اور بولی۔
’’آئیے، پدھاریئے۔‘‘
’’کیا آپ آفس جا رہی تھیں؟‘‘
’’جی، جی ہاں۔‘‘
’’دِواکر گھر میں نہیں ہے کیا؟‘‘
’’بس پندرہ منٹ ہوئے، آفس چلے گئے ہیں۔‘‘
’’آپ کے آفس کا بھی وقت ہو گیا ہو گا، کہیں اس وقت آ کر آپ کو پریشان تو نہیں کر رہا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ نیپا ہنس کر بولی۔
اس ’’نہیں‘‘ کے کئی مطالب ہو سکتے تھے، جیسے انہوں اس وقت آ کر کوئی غلطی نہیں کی تھی یا نیپا کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی، یا تہذیب کا لحاظ کر کے ’’نہیں‘‘ بولنا ہی پڑتا ہے تو اسی انداز سے اس نے بھی بول دیا۔ وہ ان کے کوئی سگے سمبندھی نہیں تھے اور اس کے یا دِواکر کے باس بھی نہیں تھے۔ یہاں تک کہ، دونوں کے خاندان والوں میں بھی کوئی خاص اپنائیت کا رشتہ بھی نہیں تھا۔ ان سب کے باوجود بھی، وہ کبھی کبھی ان کے گھر ملنے آتے تھے، بیٹھ کر بات چیت کرتے تھے، چائے پیتے تھے اور پھر لوٹ جاتے تھے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے نیپا انہیں جانتی تھی۔ نیپا نے پھر پوچھا۔
’’چائے پئیں گے؟‘‘
’’چائے بنائیں گی؟ آپ تو آفس جا رہی تھیں نا؟‘‘
’’ہاں جانا تو تھا، پر چائے بنا دیتی ہوں۔‘‘
نیپا باورچی خانے میں جا کر چائے کے لئے پانی گرم کرنے لگی۔ جتنی جلدی وہ کر سکتی تھی اس نے کیا اور چائے، چینی اور دودھ ایک ساتھ ملا کر ایک کپ چائے بنا دی۔ چائے کے ساتھ کچھ بسکٹ اور نمکین بھی ٹیبل پر رکھ دیئے۔ گرم چائے انہوں نے فوری طور پر نہیں پی۔ ٹیبل پر ٹھنڈی ہونے کیلئے رکھ دی تھی۔ دل مسوس کر نیپا سامنے والے سوفے پر بیٹھ کر ان کی چائے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
’’بچے دکھائی نہیں دے رہے ہیں؟‘‘
’’اسکول گئے ہیں۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ اس نے پوچھ تو لیا، مگر بعد میں اس کو افسوس ہونے لگا کہ کہیں اس نے غلطی تو نہیں کی۔ اس وقت اس کو بات آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پہلے ہی اسے دیر ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ جیسے ہی ان کی چائے پوری ہو جائے گی، ویسے ہی وہ چلی جائے گی۔
’’طبیعت تو ٹھیک ہی ہے، پر بائیں پاؤں اور کمر میں جھنجھناہٹ رہتی ہے۔‘‘ بولتے وقت ان کی زبان تالو سے لگ رہی تھی، اس لئے ان کا تلفظ واضح نہیں تھا۔ وہ بول رہے تھے۔
’’میں گاؤں چھوڑ کر چلا آیا۔‘‘
’’ہاں آپ کے بھائی صاحب نے فون پر بتایا تھا۔‘‘
’’فون کیا تھا؟ کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگے تھے۔
’’آپ کے بچوں کو سمجھانے کے لیے کہہ رہے تھے۔‘‘
’’کون؟ آپ سمجھائیں گی؟‘‘
’’ہاں، ایسا ہی تو کہہ رہے تھے دِواکر۔‘‘
وہ ہنسنے لگے تھے۔ چائے کے ساتھ بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھا رہے تھے اور آہستہ آہستہ چسکی لیتے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ نیپا دیوار کی گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ گھڑی کا کانٹا دیکھتے ہی اس کا دل پریشان ہو اٹھا۔ آج ضرور آفس پہنچنے میں دیر ہو جائے گی۔ پھر سوانئی بابو، ضرور دو چار باتیں سنائیں گے۔
’’صرف پروموشن مانگنے سے نہیں ہو گا، مسز موہنتی۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو آپ کو، وقت کا پکا ہونا پڑے گا، صحیح وقت پر آنا ہو گا، کام میں باقاعدہ ہونا ہو گا۔ اور مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ آپ مجھے بتائے بغیر ہی، براہ راست منیجنگ ڈائریکٹرسے اپنے پروموشن کے لئے کہہ رہی تھیں۔‘‘
وہ ہاتھ میں کپ لے کر چائے پینے لگے۔ ان کا ہاتھ کمزوری سے کانپ رہا تھا، اس لئے کپ بھی ہل رہا تھا۔ نیپا کو دل ہی دل میں بڑا خراب لگنے لگا۔ چہرے پر پسینے کے قطرے بھی نمودار ہو گئے۔ اس نے اپنے پرس کی زپ کھول کر رو مال نکالا اور منہ پوچھنے لگی۔ کام کا بہانہ کر کے باورچی خانے کے اندر چلی گئی۔ پھر کچھ دیر بعد باہر لوٹ آئی۔ اس وقت تک انہوں نے چائے پی لی تھی، مگر وہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر نیپا سے رہا نہیں گیا اور بولی۔
’’لگتا ہے آپ تھکے ہوئے ہیں، تھوڑا سا آرام کر لیجئے۔ آفس میں مجھے ضروری کام ہے، اب جانا ہو گا۔ میری میز پر ایک اہم فائل آئی ہوئی ہے۔ اس کو آج ہی منیجنگ ڈائریکٹر کے پاس بھیجنا ہے تو، مجھے جانے کی اجازت دیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں بھی جا رہا ہوں۔‘‘
’’کہاں جائیں گے آپ؟‘‘
’’کہاں جاؤں گا؟‘‘ وہ ہنس دیئے تھے۔
’’آپ کہیں مت جائیے۔ آپ یہیں رک جائیے۔ دِواکر دوپہر میں کھانے کے وقت گھر آتے ہیں۔ آپ سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ، آپ دونوں لنچ بھی لے لیجئے گا۔ ٹھیک ہے تو اب میں چلوں؟‘‘
وہ سینٹرل ٹیبل پر رکھے اخبار کو اٹھا کر پڑھ رہے تھے۔ نیپا پورچ سے اپنی اسکوٹی نکال کر آفس جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ تب بھی وہ وہیں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ نیپا کو انہیں ایسے اکیلے چھوڑ کر جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا، مگر اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ بھی تو سنہیں تھا۔ اسے یاد آیا کہ کچھ دیر بعد گھر کے کام نپٹا کر ماسی بھی چلی جائے گی، پھر وہ گھر میں بالکل اکیلے بیٹھے رہیں گے۔ اس لئے اسے گھر پر تالا نہیں لگانا چاہئے۔ ویران گھر میں اکیلے بیٹھ کر وہ کیا کریں گے؟ نیپا تصور کرنے لگی کہ گھر میں وہ اکیلے خاموشی سے بیٹھے ہیں۔ ایک ہی اخبار کو شروع سے لے کر آخر تک، اوپر سے نیچے تک، دو تین بار پڑھ چکے ہیں۔ اگرچہ ڈرائنگ روم میں ٹیلی ویژن ہے، مگر انہوں نے ٹیلی ویژن اسٹارٹ تک نہیں کیا ہے۔
بڑھاپا آنے پر انسان کا یہ حال ہو جاتا ہے۔ ان کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ آخری وقت، کیا صرف موت کی فکر میں گزر جائے گا؟ یا ایک گائے کی مانند اپنی پرانی یادوں کی جگالی کرتے کرتے باقی بچا وقت پار ہو جائے گا؟ دوپہر کو دِواکر ہر دن کی طرح ضرور گھر آئیں گے۔ مائکرو ویو میں کھانا ضرور گرم کریں گے۔ وہ دِواکر سے اپنے سکھ دکھ کی باتیں کریں گے۔ دِواکر کے پاس تو کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہو گا، وہ تو صرف ایک اچھے سامع بن کر بس سنتے رہیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ آج کل وہ نیپا کے گھر پہلے جتنا نہیں آتے تھے۔ بس سال میں ایک آدھ بار آ کر خیر خیریت پوچھ کر چلے جاتے تھے۔ مگر نیپا کو یہ اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ شادی کر کے نئی نئی آئی تھی، وہ ہفتے میں اکثر ایک دو بار آ ہی جاتے تھے۔ ایک کپ چائے لے کر پیتے پیتے ایک گھنٹہ تو کبھی دو گھنٹے تک بھی بیٹھ جاتے تھے، گپ شپ کرنے کیلئے۔
ان کی گپ شپ میں گھر، خاندان یا بال بچوں کے بارے میں ذرا سی بھی بات نہیں ہوتی تھی، صرف سیاست سے متعلق ہی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس وقت جتنے بھی نامی گرامی لیڈر تھے، ان کی اچھائیاں برائیاں، ان کے اندھیرے اجالے، ہر سمت پر تفصیل سے باتیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی نیپا بھی اپنا کام کاج چھوڑ کر ان کی باتیں سننے کے لیے بیٹھ جاتی تھی۔ سیاست میں اونچی جان پہچان رکھنے کے باوجود بھی، وہ الیکشن میں کبھی کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ وہ دوسرے لیڈروں کی طرح بھی نہیں تھے، جو موقعے کا فائدہ اٹھا کر اپنے کام بنا لیتے تھے۔ ایک بار نیپا کو ان کے گھر جانے کا موقع ملا تھا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ بیٹھنے لیٹنے کیلئے بچھی ہوئی تھی بان والی ایک چارپائی وہ بھی بنا کسی بستر کے۔ اس چارپائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ پاس میں تھی پتھر کی مورت بنی بیٹھی ایک ادھیڑ عمر کی عورت۔ خوشی غمی کے ہر احساس سے محروم، خالی ذہن لئے خلاؤں میں گھورتی۔ وہ ان کی دھرم پتنی تھیں۔ دس، بارہ، چودہ اور سولہ سال کی عمروں کے بچے آنگن میں ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے۔ کوئی کوئلے کی انگیٹھی جلا رہا تھا تو کوئی برتن مانجھ رہا تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بچہ مہمانوں کے سامنے دو کپ چائے رکھ کر چلا گیا تھا۔
بعد میں نیپا کو پتہ چلا تھا کہ اس کی بیوی کا دماغ خراب ہو گیا تھا، اس لئے ان کو بھاری بھاری دوائیاں کھانی پڑتی تھی۔ انہی دواؤں کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ اتنی غیر فعال ہو گئی تھیں، گویا وہ زندہ لاش ہوں۔ بچے ہوٹلوں سے آلو چوپ یا وڑا منگا کر کھاتے تھے، کیونکہ اکثر ان کے والد صاحب وہاں نہیں رہتے تھے۔ اور ماں کا تو کہنا ہی کیا؟ وہ تو زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ حالت میں تھی۔ اس دن کے بعد نیپا کبھی بھی ان کے گھر نہیں گئی تھی۔ بچے خود ہی اپنا جد و جہد کرتے کرتے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے۔ اخبار میں اشتہارات کے ذریعے انہوں نے اپنے جیون ساتھی بھی منتخب کر لئے تھے۔ بس ایک آدھ بار دعوت پر گئی تھی، نیپا ان کے گھر۔
چار پانچ سال ہوئے ہوں گے، ان کے ایک تاجر لڑکے نے پرانے گھر کو تڑوا کر نیا آشیانہ بنوایا تھا۔ اُس وقت تک بھی وہ بھونیشور میں ’’ایم ایل اے کوارٹر‘‘ میں رہتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے ساتھ کبھی بھی ملاقات نہیں ہو پاتی تھی۔ دوبارہ جب الیکشن کا وقت آیا، تو وہ واپس آئے تھے۔ کبھی کبھار راستے میں ان سے ملاقات ہو جاتی تھی، لیکن وہ اتنے مصروف نظر آتے تھے کہ بات کرنے کا وقت بھی نہیں مل پاتا تھا۔ اکثر اس وقت وہ کسی نہ کسی سیاسی شخصیت سے گھرے رہتے تھے۔
دِواکر ان کا کوئی لنگوٹیادوست نہیں تھا، اس لئے بھونیشور سے آنے کے بعد، وہ ان کے گھر ملنے بھی نہیں آئے۔ لیکن اس بار ان کی پارٹی کی نمائندگی کرنے والے امیدوار ہار گئے تھے اور ان کو بھونیشور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب وہ کہاں جاتے۔ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ اس چھوٹے سے شہر سے اپنے گھر تک وہ محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ اسی دوران ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی جوان ہو گیا تھا۔ بہت ہی بدمعاش نکلا تھا۔ کالج کی پڑھائی درمیان میں چھوڑ کر، دن بھر پان کی دکان پر بیٹھا رہتا۔ وہ اس کو بہت سمجھاتے تھے۔ پرنسپل سے درخواست کرتے ہوئے ایک بار پھر کالج میں داخلہ دلوا دیا تھا۔ وہ کالج تو جانے لگا تھا، مگر بری صحبت میں پھنس کر گانجے اور دارو کا عادی ہو گیا تھا۔ راستے میں جب بھی دِواکر سے ملاقات ہوتی، تو اپنے چھوٹے بیٹے کی حرکتوں کے بارے میں ضرور بتاتے۔ دِواکر انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا تھا۔
’’آپ نے کبھی زندگی بھر تو بچوں کے مستقبل کے بارے میں تو سوچا نہیں، اب کیوں اتنا پریشان ہوئے جا رہے ہیں؟‘‘
وہ ہنستے ہنستے کہتے تھے، ’’ٹھیک ہے۔ سب بچے اپنے بل بوتے پر آہستہ آہستہ کھڑے ہو گئے ہیں۔ میرا چھوٹا بیٹا نہیں ہو پایا۔ اسی بات کا مجھے افسوس رہا ہے۔‘‘
گھریلو زندگی میں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر ہو سکتی ہے؟ ان کے چھوٹے والے بیٹے نے جیسے ضد پکڑ لی تھی کہ وہ دبئی جائے گا، اور جائے گاہی۔ اس کیلئے روپے پیسوں کا بندوبست وہ کہاں سے کریں۔ ویزا پاسپورٹ کے بارے میں کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان سب کی آسانی سے جگاڑ کی جا سکتی تھی، وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ ویسے بھی وہ لڑکا روز پچیس تیس روپے مانگ کر لے رہا تھا اور روپے دیتے دیتے وہ تھک گئے تھے۔ ہر قسم کے نشے کا وہ عادی ہو گیا تھا۔ ان کے دماغ میں یہ بھی آ رہا تھا کہ یہ لڑکا باہر جانا چاہتا ہے، تو بھلے ہی جائے۔ دنیا بھر کے لوگ وہاں جا کر کچھ نہ کچھ کام کرتے ہی ہیں، یہ بھی جائے گا تو اپنا پیٹ پال ہی لے گا، لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جانے کے لیے اتنا سارا روپیہ کہاں سے لایا جائے گا۔
وہ سوچ رہے تھے کہ باقی تین بیٹوں سے تھوڑے تھوڑے روپے مانگ کر چھوٹے بیٹے کو دے دیں۔ انہیں لگا تھا کہ آسانی سے روپے مل جائیں گے۔ مگرایسا نہیں تھا۔ اتنی آسانی سے روپیوں کا بندوبست نہیں ہو پایا۔ دو بڑے بیٹوں کو اس بارے میں خط لکھا تھا، مگر اس کا جواب نہیں آیا۔ فون بھی کیا تھا ان کو، مگر ان کا جواب سن کر وہ مایوس ہو گئے تھے۔ بڑے بیٹے کے مطابق اس کو چوک میں چائے کی دکان کھولنی چاہئے۔ منجھلے بیٹے کا کہنا تھا کہ وہ دبئی جا کر وہ کیا کرے گا؟ ۔ اس کو کہئے کہ وہ کھیتی باڑی کرے۔ تیسرے بیٹے کی بد مزاجی کو وہ اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے اس سے تو بالکل بھی نہیں مانگا۔ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اپنی ایک زمین بیچ دی تھی پچاس ہزار میں اور اس رقم کو چھوٹے بیٹے کو اس کی خواہش کیلئے دے دیا۔
روپے لے کر چھوٹا بیٹا کچھ دنوں کے لیے غائب ہو گیا۔ دو ماہ کے بعد وہ واپس آیا تھا، میلے کچیلے کپڑے پہنے، بنا تیل کے الجھے بال، اس پر پچکا ہوا چہرہ۔ جب کوئی دبئی کی بات پوچھتا تھا، تو ہر کسی کو نئی نئی کہانی سناتا تھا۔ ’’روپیوں کا کیا ہوا؟‘‘ پوچھنے پر ناراض ہو کر جھگڑنے لگتا تھا۔ چھوٹے بیٹے کی اس حرکت سے وہ مکمل طور پر ٹوٹ گئے تھے۔ مگر ان کے اس دکھ سے چھوٹے بیٹے کو دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ ہر روز زبردستی دھمکی وغیرہ دے کر کچھ نہ کچھ روپے مانگ لیتا اور روپے نہ ملنے پر گھر کا سامان جیسے گھڑی، سائیکل، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ بیچ دیتا۔ اس کے اس رویے سے تنگ آ کر، سب سے بڑے تاجر بھائی نے آبائی گھر کو چھوڑ دیا اور دوسری جگہ کرائے پرکھر لے کر رہنے لگا تھا۔ آبائی گھر میں رہ گئے تھے صرف ایک ہونق سی عورت، ایک بوڑھا انسان اور ان کا ایک نالائق بیٹا۔ ان کا چھوٹا بیٹا دن بھر باہر گھومتا رہتا اور رات کو خاموشی سے گھر آ کر سو جاتا۔ دن بھر کہاں تھا؟ کھانا کھایا یا نہیں؟ یہ پوچھنے کی ان کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اسی لئے ایک دن انہوں نے طے کر لیا کہ ایک مٹکا پانی اور پلیٹ میں روٹی سبزی ڈال کر اس کے کمرے میں اٹھنے سے پہلے ہی رکھ دیئے جائیں۔ اتنی شدید گرمی کے دنوں میں کس طرح سوتا ہو گا؟ یہی سوچ کر انہیں نیند نہیں آتی تھی، کیونکہ اس لڑکے نے اپنے کمرے کا ٹیبل فین بہت پہلے ہی فروخت کر دیا تھا۔ ان کا دل بہت دکھی ہونے لگا تھا۔ اس وجہ سے ایک چھت کا پنکھا خرید اس کے کمرے میں فٹ کروا دیا تھا۔ مگر ایک دن انہوں نے دیکھا کہ وہ پنکھا بھی وہاں سے غائب ہو گیا ہے۔ اس بار وہ خود کو روک نہیں پائے۔ بیٹے سے پوچھنے لگے، ’’چھت کا پنکھا کسے دے دیا؟ ۔ کتنے روپیوں میں دیا؟ ۔ میں نے تو یہی سوچ کر خریدا تھا کہ تجھے گرمی لگتی ہو گی اور تم نے تو ایک ہی مہینے میں اسے پار لگا دیا۔‘‘
بیٹا بہت ہی غصے بھرے لہجے میں بولا تھا، ’’آپ مجھے جیب خرچ تو دیتے نہیں ہیں۔ اگر پنکھا نہیں بیچوں گا تو خرچ کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟‘‘
وہ غصے سے آگ بگولا ہو گئے تھے، مگر انہوں نے نیل کنٹھ شیو کی مانند غصے کا سارا زہر اپنے اندر ہی پی لیا۔ ایک دو روز تک بیٹے کی طرف دیکھا بھی نہیں، مگر پھر تیسرے دن سے، ان کا دل اس کو دیکھنے کے لئے تڑپنے لگا تھا۔ کچھ نہیں تو، ایک ہاتھ کا پنکھا لا کر اس کے کمرے میں رکھ دیا تھا۔ اس کے کمرے میں کچھ بھی نہیں تھا، بان کی چارپائی اور ہاتھ کے پنکھے کو چھوڑ کر۔ کچھ دن گزرنے کے بعد، پھر ایک دن انہوں نے دیکھا، ان کا چھوٹا بیٹا ہتھوڑی لے کر کھڑکی توڑ رہا تھا۔ ان سے یہ دیکھ کر رہا نہیں گیا اور پوچھنے لگے۔
’’کھڑکی کیوں نکال رہا ہے؟‘‘
’’اس کو بیچوں گا۔‘‘
’’تم کیا کنگال ہو گئے ہو جو گھر کی کھڑکی توڑ کر بیچو گے۔ کتنے روپے چاہئے تمہیں؟‘‘
لڑکے نے ان کی بات کو ان سنا کر دیا اور اپنے کام میں لگا رہا۔ کوئی حل نہ پا کر وہ سیدھے تھانے چلے گئے۔ یہ سوچ کر کہ پولیس آ کر دھمکائے گی تو شاید ڈر کر کھڑکی توڑنے کا کام بند کر دے گا۔ مگر پولیس نے انہیں ’’یہ گھر کا معاملہ ہے‘‘ کہہ کر سمجھا بجھا کر گھر لوٹا دیا۔ گھر لوٹ کر انہوں نے دیکھا کہ کھڑکی کی جگہ ایک ٹوٹی ہوئی دیوار، ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے وہ اُس کے کمرے کو باہر سے تالا لگاتے تھے، کہیں ایسا نہیں ہو کہ دوسرا کمرہ بھی محفوظ نہ رہے۔ اس کے بعد سے چھوٹا بیٹا اسی ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے راستے سے آتا جاتا تھا۔ رات کے اندھیرے میں گھر گھستا تھا اور صبح ہوتے ہی نکل جاتا تھا۔ ایک دن کسی بات کو لے کر ان کا چھوٹے بیٹے کے ساتھ زوردار جھگڑا ہو گیا تھا۔ اسی دوران وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے تھے۔ یہ دیکھ کر چھوٹا بیٹا کھڑکی سے بھاگ گیا یہ کہتے ہوئے ’’بڑھاپے میں بھی بہانے بنانے سے باز نہیں آتے ہیں‘‘ آس پڑوس کے لوگ ان کو اٹھا کر ہسپتال لے گئے تھے۔ اپنی حالت زار کے بارے میں سب کو اطلاع بھی دے دی تھی، لیکن کوئی بھی ان کو دیکھنے نہیں آیا تھا۔
شہر میں کرائے پر رہنے والے تیسرے بیٹے نے خاندان میں شرمندگی سے بچنے کیلئے، اپنے والد صاحب کی خدمت کچھ دن تک ضرور کی تھی۔ اس کی وجہ سے وہ موت کے دروازے تک جا کر بھی، دوبارہ اس دنیا میں لوٹ آئے تھے۔ ان کا اس طرح لوٹ آنا اپنے برے دنوں کو بلانا تھا۔ اگر مر جاتے تو شاید اچھا ہوتا۔ جس طرح سے دو ملکوں کی سرحد پر کھڑے رہنے سے جو حالت ہوتی ہے، ایسا ہی حال ان تھا۔ نہ اِدھر کے تھے نہ اُدھر کے، نہ تو دنیا کو چھوڑ پائے تھے، نہ ہی ان کو یہاں شانتی مل پائی تھی۔ ذرا بیماری کا کمبل اوڑھ کر وہ بیٹھے تو بس بیٹھے ہی رہے۔ ایسی ہی بیماری کی حالت میں، ایک دن کانپتے ہوئے وہ نیپا کے گھر آئے تھے۔ ان کا چہرہ سُتا ہوا لگ رہا تھا، بالکل گھسے ہوئے پرانے سکوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ بات بھی واضح طور پر نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ دِواکر کے سامنے اپنا دکھڑا سنا رہے تھے۔ نیپا باورچی خانے میں مصروف تھی۔ وہ سوچ رہی تھی، کیا کوئی اور سننے والا نہیں ملتا ہے انہیں؟ جو اتنی دور سے پیدل چل کر آتے ہیں، اپنا دکھ درد سنانے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دِواکر تو ان کی، کبھی بھی، کسی بھی طرح سے، مدد نہیں کرتے۔ پھر بھی کیوں آتے ہیں؟
وہ کہہ رہے تھے، ’’دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ بڑے بیٹے کے قریب رہنے کی سوچ رہا تھا، تو وہ کہہ رہا تھا کہ آپ ممبئی جیسے شہر میں نہیں رہ پائیں گے۔ یہاں آ کر کافی پریشان ہو جائیں گے۔ منجھلے بیٹے کے گھر میں پانچ دن تک رکا تھا، مگر کسی نے مجھ سے بات تک نہیں کی، نہ بیٹے نے، نہ بہو نے۔ بڑا ہی برا لگ رہا تھا، لہذا واپس چلا آیا۔ رہی چھوٹے بیٹے کی بات، وہ کیا بولتا ہے جانتے ہو، آپ مر کیوں نہیں جاتے ہیں۔ آپ کے مر جانے سے زمین پر سے بوجھ کم ہو جائے گا۔ میں تو آپ کو مار بھی دیتا، مگر پولیس مجھے اندر کر دے گی۔ ایک آدمی کو سپاری دے دیتا تو کسی گاڑی کے نیچے دبا کر آپ کا کام تمام کر دیتا۔ مگر سپاری دینے کے لیے، میرے پاس دس پندرہ ہزار روپے نہیں ہیں۔ اچھا صحیح صحیح بتا دِواکر، کیا میں واقعی اس دنیا کے لئے بوجھ بن گیا ہوں؟ میں مرنا چاہتا ہوں، پر چاہنے سے تو موت بھی نہیں آتی۔ خود کشی کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔‘‘
اس دن ان کی باتیں سن نیپا کا دل دہائیوں دینے لگا تھا۔ اس کا دل بہت اداس ہو گیا تھا۔ ان سے ہوئی اس ملاقات کے تین چار دن بعد، نیپا اور دِواکر کی، مارکیٹ میں ان کے تاجر لڑکے سے ملاقات ہو گئی۔ دِواکر اس سے کہنے لگا، ’’تم اپنے پاپا کو اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھتے ہو؟ وہ ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔ رہنے کے لئے ایک کوٹھری بھی نہیں ہے۔ تمہارا چھوٹا بھائی ان کو بہت ستا رہا ہے اور اتنی عمر میں وہ جائیں گے بھی کہاں جائیں گے؟‘‘
’’میرے پاس وہ نہیں رہ پائیں گے۔ میری بیوی کے ساتھ ان کی نہیں بنتی ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ان کو معلوم ہے۔‘‘
’’ارے تم تو ہونا، اگر تمہاری بیوی کے ساتھ نہیں بنتی، پھر بھی کیا ہے۔ انہیں سمجھا بجھا کر گھر لے آؤ اور ادھر اپنی بیوی کو بھی تھوڑا بہت سمجھا دو۔‘‘
’’آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں؟ دوسرے بھائیوں کا کیا کچھ فرض نہیں بنتا ہے؟ بڑا بھائی تو کنی کاٹ رہا ہے، منجھلا بھائی ہمارے ہی شہر میں مکان کرائے پر لے کر رہ رہا ہے۔ وہ دونوں کیوں نہیں رکھتے ہیں پاپا کو؟ جب دل کا دورہ پڑا تھا، اس وقت بھی انہیں فرصت نہیں تھی دیکھنے آنے کی۔ پاپا کو صرف فون پر سمجھا رہے تھے کہ کھانے پینے میں کیا کیا احتیاط برتنی ہیں۔ پاپا کیا صرف میرے ہی ہیں؟ ان کے کچھ بھی نہیں ہیں اور ویسے انہوں نے مجھے دیا بھی کیا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا، تب میرا بچپن گزرا نیم پاگل ماں کے ساتھ۔ ہوٹلوں سے آلو چوپ، وڈا کھا کر میں اسکول جاتا تھا۔ ایک دن ہیڈ ماسٹر نے میرے پاپا کو اسکول بلایا تھا۔ مگر وہ ایک ماہ تک اسکول نہیں گئے۔ ہیڈ ماسٹر نے مجھے بلا کر کیا کہا تھا کہ جانتے ہو۔ چھوڑیں جی بیتی ہوئی ان باتوں کو۔ یہ ہی نہیں، ایک بار ایک انجان آدمی ہمارے گھر آیا تھا۔ مجھے دیکھ کر پوچھنے لگا تھا کیا یہ آپ کا بیٹا ہے؟ کیا نام ہے اس کا؟ پاپا فوری طور پر اس آدمی کے سامنے ہی مجھ سے پوچھنے لگے تھے کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس دن مجھے ایسا لگا تھا کہ مانو کسی نے میرے گال پر زور دار طمانچہ مار دیا ہو۔ ان کی پارٹی آفس میں چائے بیچنے والے لڑکے سے معمولی سود پر دس ہزار روپے، میں نے قرضے کے طور پر لیے تھے۔ انہی قرضے کے پیسوں سے میں نے یہ دکان کھولی تھی۔ پائی پائی جوڑ کر، بڑے ہی تکلیف کے ساتھ وہ قرض ادا کیا تھا اور جی توڑ محنت کر کے اس دکان کو اتنا آگے بڑھایا ہے۔‘‘
ان کے بیٹے کی یہ سب باتیں سن کر، اس کا اندازِ بیاں دیکھ کر نیپا اور دِواکر ذرا بھی غصہ نہیں کر پا رہے تھے۔ پھر وہ لوگ خاموشی وہاں سے چلے آئے تھے۔
بہت دنوں کے بعد وہ پھر آئے تھے ہمارے گھر۔ اسی آفس جانے وقت پر۔ کیا مدد کر پاتی نیپا؟ کیوں آئے تھے وہ؟ اپنے طرح طرح کے دکھوں کی کہانی سنانے کیلئے۔ ان کو ڈرائنگ روم میں ایسے ہی بٹھا کر چلے جانا مناسب نہیں تھا۔ ان کو بھی نیپا کے ساتھ ساتھ چلے جانا چاہیے تھا۔ ادھر ادھر کی ساری باتیں سوچتے ہوئے نیپا کو لگ رہا تھا کہ ان کے پاس کچھ بھی کام نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بیٹھیں گے، اخبار کے صفحات کو پلٹیں گے، زیادہ ہو گا تو کچھ جھپکی بھی لگا لیں گے، نہیں تو پھر اپنے ماضی کے بارے میں سوچیں گے۔ تب تک تو دِواکر بھی آ جائیں گے۔ اس کے بعد دونوں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے، گپ شپ کریں گے اور پھر جب دِواکر کے آفس کا وقت ہو گا، تو شاید وہ انہیں راستے میں کہیں چھوڑ تے ہوئے نکل جائے گا۔
آج نیپا واقعی آفس میں لیٹ پہنچی تھی۔ آفس پہنچتے ہی، چپراسی شیو پہلے ہی سے، اس کا راستہ روک کر کھڑا تھا۔
’’میڈم، پانی بابو بہت وقت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں؟‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’میڈم، اپنا روپیہ نہیں لیں گی۔ نہیں تو، میری جیب سے دوبارہ خرچ ہو جائے گا۔‘‘
’’کون سا روپیہ؟‘‘ حیرت سے نیپا نے پوچھا۔
’’بھول گئیں؟‘‘
’’ارے! جلدی بتاؤ نہ، کون سا روپیہ؟‘‘
’’اکتوبر کے مہینے میں آپ نے جو مجھے قرضہ دیا تھا۔‘‘
’’ارے سچ میں، میں تو بھول ہی گئی تھی۔‘‘
’’اچھا رکھیئے، رکھیئے۔ آپ تو بھول گئی تھیں، آپ کے پاس تو بہت پیسہ ہے۔ ہم غریب لوگ، کہاں بھول پاتے ہیں؟‘‘
چپراسی کی یہ بات نیپا کو اچھی نہیں لگی۔ غریب لفظ بولتے وقت ایسا لگ رہا تھا، گویا اس کا کچھ الگ ہی مطلب نکل رہا ہو۔ جو بھی ہو، جب وہ اپنے کیبن کے پاس گئی، تو وہاں پانی بابو کو کھڑا دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ شیو کے جیب میں روپیہ کہاں سے آیا؟ پانی بابو نے نیپا کو سر جھکا کر نمسکار کیا۔ اور کسی ماتحت کی مانند ہنسنے لگے تھے۔ پھر آہستہ سے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
’’دیکھئے، پانی بابو آپ تو مجھے پہلے سے ہی جانتے ہیں۔ یہ سب چیزیں مجھے قطعی پسند نہیں ہے۔ آپ پہلے اپنا لفافہ یہاں سے اٹھائیے۔ جہاں اس کی ضرورت ہے، وہاں اسے دے دیجیے۔‘‘ پانی بابو لفافہ نہیں لے رہے تھے۔ نیپا سیدھی جا کر اپنے کمپیوٹر کے پاس بیٹھ گئی۔
’’تھوڑا دیکھئے گا، میڈم۔‘‘
لفافہ اٹھاتے ہوئے پیچھے سے بولے تھے پانی بابو۔ پانی بابو کے چلے جانے کے بعد، نیپا ٹیبل پر رکھی فائلوں کو پڑھنے لگی۔ وہ بیچ بیچ میں اپنے ماتحت ملازموں کو شیشے کی دیوار میں سے دیکھ رہی تھی۔ ایک بار شیو کو بلا کر ڈانٹا بھی۔ پھر ڈر کے مارے دبے پاؤں منیجنگ ڈائریکٹر کے چیمبر میں گئی اور جب وہاں سے لوٹی، تو اس کو تین اور کام بھی دیے گئے تھے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ اگلے ہفتے جو وہ چھٹی پر جانا چاہتی تھی، اب اس کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ اس کا دل دکھی ہو گیا تھا۔ وہ اپنی قسمت اور کام کو کوسنے لگی اور کمپیوٹر میں کام کرنے میں اتنی محو ہو گئی کہ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ لنچ کا وقت گزر چکا ہے۔ آفس کے دوسرے لوگ لنچ کرنے کے بعد، اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے تھے۔ اس نے بغیر دل کی مرضی کئے، ایسے ہی اپنے بیگ میں ہاتھ گھسایا، تو پتہ چلا کہ اس میں ٹفن نہیں تھا۔ وہ آج ٹفن لانا ہی بھول گئی تھی۔ چپراسی کو بھیج کر سامنے والے ٹھیلے سے کچھ فاسٹ فوڈ منگوا لیا، مگر اسے بھی کھانے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔
سوانئی بابو نے اسے دو بارہ اپنے چیمبر میں بلایا تھا۔ سوانئی بابو اسے ٹور پر بھیجنا چاہتے تھے۔ ٹور پر جانے سے نیپا کو گھر چلانے میں دقتیں آتی تھیں، لہذا ٹور کا نام سننے سے اسے ڈر سا لگتا تھا۔ سوانئی بابو کو نیپا کی یہ کمزوری معلوم تھی، اس لئے کوئی بھی مسئلہ ہو جانے پر، وہ ہر بار ٹور کی بات اٹھا دیتے تھے۔ سوانئی بابو، نیپا کی کار کردگی کے بارے میں اتنا بڑھا چڑھا کر بولتے تھے کہ منیجنگ ڈائریکٹر بھی ٹور کے لئے اس کے نام کی تجویز منظور کر دیتے تھے۔ چنانچہ ٹور پر جانے کے لیے وہ پابند ہو جاتی تھی۔
سوانئی بابو کے چیمبر سے واپس آنے کے بعد نیپا دکھ اور غصے سے ابلنے لگی تھی۔ ادھر کونے میں بیٹھی ہوئی نندتا یہ سب منظر دیکھ رہی تھی۔ وہ ہنستی ہوئی اس کے پاس آ گئی اور ٹیبل کے اوپر چاؤمین کا پیکٹ دیکھ کر پوچھنے لگی، ’’کیا تم آج ٹفن لانا بھول گئی ہو؟ کیا چاؤمین باہر کے ٹھیلے سے منگوایا ہے؟ لنچ کے وقت ہمارے پاس کیوں نہیں آئی؟ کیا آج میاں بیوی کے درمیان کچھ ان بن ہو گئی ہے؟ میں نے دیکھا تم سوانئی بابو کے چیمبر سے آ رہی تھی تو تمہارا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔ میں نے سوچا، چلو دیکھ آؤں۔ ضرور کچھ نہ کچھ سنایا ہو گا، سوانئی بابو نے۔‘‘
کتنی جلدی نندتا نے، نیپا کی حالتِ زار کو اپنی مختصر سی گفتگو میں کہہ ڈالا۔ اس کو دیکھ کر نیپا کو لگ رہا تھا، کاش وہ بھی نندتا کی طرح ہوشیار ہوتی۔ نیپا، نندتا کو دو وجوہات کی بنا پر پسند نہیں کر پاتی تھی، پہلی وجہ وہ اس کے ہیڈ سوانئی بابو کی ایک نمبر کی چمچی تھی، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ اس سے عمر میں چھوٹی اور اس کی ماتحت میں ہونے کے باوجود بھی اوچھے منہ سے ’’تو، تڑاق’‘‘ سے ایسے باتیں کرتی تھی کہ گویا اس کی بہت گہری دوست ہو۔ نیپا نے چاؤمین کا پیکٹ موڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا اور کہنے لگی، ’’آج بہت مصروف تھی، اس لئے کھانا نہیں لا پائی تھی۔‘‘
’’میں یہاں آ گئی تو تم نے چاؤمین پھینک دیا۔ انڈے والا تھا یا چکن والا؟‘‘ نندتا پیپر ویٹ کو ٹیبل پر گھماتے گھماتے پوچھنے لگی تھی۔
’’یہ سوانئی بابو کوئی اچھا آدمی نہیں ہے۔ بڑا ہی مغرور قسم کا، رعب دکھانے والا آدمی ہے، سیڈکِٹو نیچر کا ہے، دوسروں کو پریشان کرنے میں اسے خوب مزہ آتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو دوسروں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے رہتے ہیں۔‘‘
نیپا برانچ آفس کے لئے ایک بجٹ بنا رہی تھی، اس لئے وہ احتیاط سے، مگن ہو کر فائل پڑھ رہی تھی، بولی، ’’چھوڑ نہ، ان باتوں کو۔‘‘
نندتا، نیپا کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر پھر سے بولنے لگی تھی، ’’تم جانتی ہو؟ آفس کے سامنے ایک نمائش لگی ہوئی ہے۔ اس میں ہر قسم کی الیکٹرانک چیزیں سستی داموں میں مل رہی ہے۔ آفس بند ہونے کے بعد تم چلو گی ساتھ میں؟‘‘
’’ہاں، ہاں، میں جانتی ہوں، باہر سے دیکھا ہے، اندر نہیں گئی ہوں۔ دیکھتی ہوں، سہولت ہوئی تو چلوں گی۔‘‘
’’اور کتنا کام کرو گی؟ ۔ گھڑی میں ساڑھے تین بج گئے ہیں۔ اب دیکھنا، سب لوگ ایک ایک کر کے باہر نکلنا شروع کر دیں گے۔‘‘
’’مجھے مزید پندرہ منٹ لگیں گے۔ تھوڑا کام باقی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، سب سے پہلے تم اپنا کام ختم کر لو، پھر میرے کیبن میں آ جانا۔‘‘
نندتا چلی گئی تھی اپنے کیبن میں۔ نیپا دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی۔ وہ اس چیز کو بخوبی جانتی ہے، وہ اچھا کام کرتی ہے تبھی تو منیجنگ ڈائریکٹر اس کو پسند بھی کرتے ہیں۔ نہیں تو، اب تک تو تنکے کی طرح کہاں پھینک دی جاتی، پتہ بھی نہیں چلتا۔ سوانئی بابو کی وجہ سے یا تو وہ کسی قصبے میں بھیج دی جاتی یا پھر نوکری سے ہی نکال دی گئی ہوتی۔ نیپا کو اپنا کام ختم کرنے میں بیس سے پچیس منٹ کا وقت لگا تھا۔ نندتا کب سے اس کا انتظار کر رہی تھی، نیپا کے کیبن میں بیٹھ کر۔ باقی بچے کاموں کو نمٹا کر، وہ دونوں باہر نکل گئیں۔ نیپا نے اپنی کلائی کی گھڑی دیکھی تو اس میں چار بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ وہ دونوں آفس سے باہر آ گئی تھیں۔
نیپا کو پتہ نہیں کیوں آج اچھا نہیں محسوس ہو رہا تھا۔ کہیں جانے کا موڈ نہیں تھا، سیدھا گھر لوٹ جانے کی خواہش ہو رہی تھی۔ پھر بھی وہ نمائش دیکھنے گئی تھی۔ نمائش میں الیکٹرانک چیزوں کو دیکھتے دیکھتے، ایک خوبصورت سی الیکٹرانک گھڑی کی طرف اس کی توجہ گئی تھی۔ اس الیکٹرانک رسٹ واچ کی نیپا نے لائٹ جلا کر دیکھی، الارم چیک کیا، اس میں اس نے اپنا ٹیلیفون نمبر محفوظ کر کے بھی دیکھا۔ اس طرح وہ گھڑی کے ساتھ کچھ دیر تک کھیلتی رہی۔ یہ دیکھ کر نندتا بولی تھی، ’’لے لو، بہت خوبصورت ہے یہ گھڑی۔‘‘ نیپا کے پاس پیسے تو تھے، جو شیو نے اسے لوٹائے تھے۔ وہ گھڑی خریدنا چاہتی تھی، مگر اس نے وہ گھڑی نہیں خریدی۔ اس لمحے اسے لگ رہا تھا، اگر وہ گھڑی کے بدلے ایک سائینٹیفک کیلکولیٹر خریدتی ہے، تو وہ اس کے بیٹے کے کام آئے گا۔ جس کیلئے اسکابیٹا کئی دنوں سے کہہ رہا تھا۔ خرید کر لے جانے سے وہ خوش ہو جائے گا۔ اس کا تو اپنی پرانی گھڑی سے ہی کام چل جاتا ہے۔ زیادہ شوقین ہونے سے کیا فائدہ؟ اسی غور و فکر کے بعد نیپا نے اس رسٹ واچ کو رکھ کر دوسرے کاؤنٹر سے بیٹے کے لئے سائینٹیفک کیلکولیٹر اور بیٹی کیلئے بیٹری سے چلنے اور ناچنے والی ایک گڑیا خرید لی تھی۔ نمائش سے باہر نکل کر وہ دونوں کچھ فاصلے تک ایک ساتھ گئے، پھر آگے جا کر اپنا اپنا راستہ پکڑ لیا۔ گھر پہنچ کر انہیں ڈرائینگ روم میں بیٹھا دیکھ کر حیران رہ گئی تھی، ’’ارے! آپ ابھی تک یہیں ہیں۔‘‘ نیپا کی بات سن کر وہ بری طرح سکڑ گئے اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ کیا نیپا نے کچھ غلط کہہ دیا؟
’’گھر خالی تھا، اس لئے چھوڑ کر نہیں جا پایا۔ یہاں تالا تھا مگر چابی کس کو دوں گا؟ ۔ یہ سمجھ نہیں پایا۔‘‘
’’مطلب! دِواکر کے ساتھ آپ کی ملاقات نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں، وہ تو گھر نہیں آئے۔‘‘
’’اے بھگوان۔ آپ تب سے۔۔۔ سوری، ویری ویری سوری۔ بہت تکلیف ہوئی ہو گی آپ کو؟ بہت بور ہو گئے ہوں گے؟ کیا کریں، ہمارے معمولات ہی کچھ ایسے ہیں۔ بیٹھیے، کھانا کھا کر جایئے گا، صبح سے کچھ نہیں کھایا ہو گا۔ میں جلدی سے کچھ ناشتا بنا دیتی ہوں۔ ناشتا ضرور کر کے جائیے گا۔‘‘
’’نہیں، نہیں، میں جا رہا ہوں۔‘‘
’’صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے، بھوک لگ رہی ہو گی؟‘‘
’’آج کل بھوک کہاں لگتی ہے؟‘‘ وہ ہنس دیئے تھے۔
’’دِواکر شاید کسی کام میں پھنس گئے ہوں گے یا کہیں کام سے باہر چلے گئے ہوں گے، ورنہ روز دوپہر میں گھر آ کر ہی لنچ کرتے ہیں۔ دِواکر نے فون کیا تھا کیا؟‘‘
’’نہیں، کوئی فون نہیں آیا۔ اچھا تو، اب میں چلتا ہوں۔‘‘
یہ بولتے ہوئے وہ گیٹ کھول کر چلے گئے۔ نیپا چاہتے ہوئے بھی ان کو روک نہیں پائی۔ ندامت کے بوجھ سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا۔ اس سے قبل، ایسی صورت حال کبھی بھی اس کی زندگی میں نہیں آئی تھی۔ وہ پچھتاوے کی آگ میں اندر ہی اندر جل رہی تھی۔ بچے اسکول سے واپس آئے تھے، انہوں نے گھر کے کپڑے بھی پہن لئے تھے۔ پھر بھی نیپا ایسی ہی گم صم بیٹھی رہی۔ بیٹی نے پوچھا تھا، ’’ماں آج کھانے کو کچھ نہیں ملے گا؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ نیچے بیٹھو۔‘‘ فوری طور پر اس کو یاد آ گئی تھیں، نمائش سے خریدی گئیں بچوں کے لئے چیزیں۔ انہیں دکھانے سے پہلے وہ بولی تھی، ’’تم دونوں پہلے اپنی آنکھیں بند کرو، پھر دیکھو، تمہارے لئے میں نے کیا نئے تحفہ خریدے ہیں۔‘‘
’’دکھائیں۔ دکھائیں۔‘‘ کہہ کر وہ دونوں اس کے پاس آ گئے تھے۔ بیٹری سے چلنے والی گڑیا دے دی تھی بیٹی کے ہاتھ میں اور سائینٹیفک کیلکولیٹر پکڑا دیا بیٹے کو۔ دونوں بچے کھانا بھول کر کھیلنے لگ گئے تھے۔ نیپا نے ٹیبل پر ناشتا رکھ دیا۔
’’بہت ہو گیا بچوں، آؤ اب کھانا کھا لو۔‘‘
نیپا نے خود بھی گھر کے کپڑے پہن لئے تھے۔ بچے اب بھی کھیل میں مگن تھے۔ پانچ بار بلانے کے بعد، بچے ٹیبل کے پاس آئے تھے اور کھانا کھانے لگے تھے۔ بیٹا تھوڑا بہت کھا کر اٹھ گیا تھا۔ کھانے میں تھا کیا۔ وہی صبح کے دال چاول اور وہی صبح کی باسی سبزیاں۔
’’میں اور کھا نہیں پاؤں گی۔‘‘
بھائی کی دیکھا دیکھی بیٹی بھی کھانے کی میز سے اٹھ گئی تھی۔
نیپا نے ان دونوں کو اپنے پاس بلایا، کچھ غصہ بھی دکھایا، کچھ ناراض بھی ہوئی۔ آخر میں تنگ آ کر بولی، ’’کھانا ہے، تو کھاؤ، ورنہ نہیں کھاؤ۔ میں کیا کرتی۔ بولو، میں کیسے کھانا بنا کر رکھتی۔‘‘
بیٹی نے کہا، ’’ماں، میں نے آج اپنا ٹفن نہیں کھایا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’روز روز ایک ہی قسم کا ٹفن اچھا نہیں لگتا ہے نہ۔ وہی بسکٹ، وہی مکسچر کتنے دن تک کھائیں گے؟ آپ دوسرا کچھ بنا کر کیوں نہیں دیتی ہیں؟ ہمارے دوست کبھی پراٹھے، تو کبھی اڈلی تو کبھی اُپما کھاتے ہیں۔ ہر دن کچھ نہ کچھ نئی نئی چیزیں لاتے ہیں کھانے کے لئے۔‘‘
’’میرے پاس اتنا سب کچھ بنانے کیلئے وقت کہاں ہے؟ ۔ تجھے کیا معلوم نہیں کہ تیری ماں نوکری کرتی ہے۔‘‘
’’کون بول رہا تھا آپ کو نوکری کرنے کے لئے؟ ہم نے تو کہا نہیں تھا؟‘‘ بیٹا ناراض ہو کر بولا۔
نیپا بیٹے کی بات سن کر خاموش ہو گئی تھی، کیونکہ بچوں کے منہ سے اس طرح کی باتیں سننے کی وہ عادی تھی۔ کبھی اچھا موڈ ہونے پر وہ ان کو سمجھاتی تھی۔ وہ کہتی، ’’میرے کام سے گھر میں زیادہ آمدنی ہو گی اور ہم سب آرام سے رہیں گے۔‘‘
لیکن اس وقت وہ کچھ بھی سمجھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس کو لگ رہا تھا بچوں کے لیے اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے، جس سے بچوں کے تئیں اس کی کوتاہی جھلکتی ہے۔ یہی نہیں، مانو ان بچوں نے اپنے بچپن کی پتلی کاپی میں ٹیڑھے میڑھے حروف سے ماں کی کوتاہی کو درج کر لیا ہو۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی جائے گی، یہ بچے بڑے ہو جاتے جائیں گے۔ جب اس کے بال پک کر سفید ہو جائیں گے، تب وہ مفلوج ہو کر، لاچار بنی، بیٹھی رہے گی۔ ہو سکتا ہے، یہ بچے بہت بڑے انسان بن جائیں، لیکن ان کے سینے میں بچپن میں لکھی گئی اس پتلی کاپی کا صفحہ پھڑپھڑاتے ہوئے پلٹے گا۔
تب شاید اس وقت وہ کہیں گے۔
’’آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے؟ ہمیں بچپنے میں، ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں ماں کی گرم آغوش تک نصیب نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے ہم آج تک نہیں جان پائے ہیں کہ گود کا سکھ کیا ہوتا ہے؟ چھٹیوں کے دنوں میں بھی ہم گھر کو اندر سے بند کر کے رکھتے تھے، تاکہ چور ڈاکو، لچے لفنگے، سانپ بچھوؤں سے خود کو بچا سکیں۔ مگر بھوت، بھوت سے کون بچاتا؟ بھوت تو دیوار پھاڑ کر آ سکتا تھا، زمین توڑ کر آ سکتا تھا۔ اس وقت کٹنے والے لمحات کو کس طرح بھول پائیں گے ہم، اے ماں، جنہیں ہم نے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں اکیلے میں بِتایا تھا؟ بڑے ہی اذیت ناک دن تھے وہ سب کے سب۔ زیادہ تر دن تو بس انتظار کرتے کرتے، یوں ہی گزر جاتے تھے۔ ہمیشہ ذہن میں یہی خیال رہتا تھا کہ آپ کب آئیں گی۔ کب گھر صحیح سلامت پہنچیں گی؟ راستے میں اگر آپ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا، تو ہم لوگ کیا کریں گے؟ کس کے پاس جائیں گے؟ کس کو مدد کے لئے پکاریں گے؟ ہم تو یتیم ہو جائیں گے۔ ایسے گھٹن بھرے بچپن میں ہمیں اکیلے چھوڑ کر، اتنا وقت باہر خرچ کرنا، کیا آپ کے لئے مناسب تھا، ماں جواب دیجئے۔‘‘
***
ایک جیوی ایک رتنی، ایک خواب
امرتا پریتم
پنجابی کہانی
’’پالک ایک آنے گٹھی، ٹماٹر چھ آنے رتّل اور ہری مرچیں ایک آنے کی ڈھیری۔‘‘ پتہ نہیں سبزی بیچنے والی عورت کا چہرہ کیسا تھا کہ مجھے لگا پالک کے پتوں کی ساری نرمی، ٹماٹروں کی ساری سرخی اور ہری مرچوں کی ساری خوشبو اس کے چہرے پر موجود تھی۔
ایک بچہ اس کی جھولی میں دودھ پی رہا تھا۔ ایک مٹھی میں اس نے ماں کی چولی پکڑ رکھی تھی اور دوسرا ہاتھ وہ بار بار پالک کے پتے پر پٹکتا تھا۔ ماں کبھی اس کا ہاتھ پیچھے ہٹاتی تھی اور کبھی پالک کی ڈھیری کو آگے سرکاتی تھی، پر جب اسے دوسری طرف بڑھ کوئی چیز ٹھیک کرنی پڑتی تھی، تو بچے کا ہاتھ پھر پالک کے پتوں پر پڑ جاتا تھا۔ اس عورت نے اپنے بچے کی مٹھی کھول کر پالک کے پتوں کو چھڑاتے ہوئے گھور کر دیکھا، پر اس کے ہونٹوں کی ہنسی اس کے چہرے کی سلوٹوں میں سے اچھل کر بہنے لگی۔ سامنے پڑی ہوئی ساری سبزیوں پر، جیسے اس نے اپنی ہنسی چھڑک دی ہو اور مجھے لگا کہ ایسی تازی سبزیاں کبھی کہیں اگی نہیں ہوں گی۔
بہت سارے سبزی بیچنے والے میرے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرتے تھے۔ کبھی دیر بھی ہو جاتی، پر کسی سے سبزی نہ خرید پاتی تھی۔ روز اس عورت کا چہرہ مجھے بلاتا رہتا تھا۔
اس سے خریدی ہوئی سبزی جب میں کاٹتی، دھوتی اور برتن میں ڈال کر پکانے کے لئے رکھتی توسوچتی رہتی کہ اس کا شوہر کیسا ہو گا۔ وہ جب اپنی بیوی کو دیکھتا ہو گا، چھوتا ہو گا، تو کیا اس کے ہونٹوں میں پالک کا، ٹماٹروں کا اور ہری مرچوں کا سارا ذائقہ گھل نہ جاتا ہو گا؟
کبھی کبھی مجھے خود پر شرمندگی ہوتی کہ اس عورت کا خیال کس طرح سے میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ ان دنوں میں ایک گجراتی ناول پڑھ رہی تھی۔ اس ناول میں روشنی کی لکیر جیسی ایک لڑکی تھی، جیوی۔ ایک مرد اس کو دیکھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کی زندگی کی رات میں ستاروں کے بیج اگ آئے ہیں۔ وہ ہاتھ لمبے کرتا ہے، پر ستارے ہاتھ نہیں آتے اور وہ مایوس ہو کر جیوی سے کہتا ہے۔
’’تم میرے گاؤں میں اپنی ذات کے کسی آدمی سے شادی کر لو۔ مجھے دور سے تمہاری صورت ہی نظر آتی رہے گی۔‘‘
اس دن کا سورج جب جیوی کو دیکھتا ہے، تو وہ اسی طرح سرخ ہو جاتا ہے، جیسے کسی نے کنواری لڑکی کو چھو لیا ہو۔ کہانی کی ڈوریں لمبی ہو جاتی ہیں اور جیوی کے چہرے پر دکھوں کی لکیریں پڑ جاتی ہیں۔ اس جیوی کا خیال بھی آج کل میرے پیچھے پڑا ہوا تھا، پر مجھے شرمندگی نہیں ہوتی تھی، وہ تو دکھوں کی لکیریں تھیں، وہی لکیریں جو میرے گیتوں میں تھیں اور لکیریں، لکیروں میں مل جاتی ہیں۔ لیکن یہ دوسری جس کے ہونٹوں پر ہنسی کی بوندیں تھیں، اصل میں زعفران کے ریشے تھیں۔
دوسرے دن میں نے اپنے پیروں کو روکا کہ میں اس سے سبزی خریدنے نہیں جاؤں گی۔ چوکیدار سے کہا کہ یہاں جب سبزی بیچنے والا آئے تو میرا دروازہ کھٹکھٹانا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک ایک چیز کو میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا۔ آلو نرم اور داغدار۔ پھر پھلیاں جیسے ان کے دل خشک ہو گئے ہوں۔ پالک جیسے وہ دن بھر کی دھول پھانک کر بہت تھک گئی ہو۔ ٹماٹر جیسے وہ بھوک کی وجہ سے بلکتے ہوئے سو گئے ہوں۔ ہری مرچیں جیسے کسی نے ان کی سانسوں میں سے خوشبو نکال لی ہو، میں نے دروازہ بند کر لیا۔ اور پاؤں میرے روکنے پر بھی اس سبزی والی کی طرف چل پڑے۔
آج اس کے پاس اس کا شوہر بھی موجود تھا۔ وہ منڈی سے سبزی لے کر آیا تھا اور اس کے ساتھ مل کر سبزیوں کو پانی سے دھو کر الگ رکھ رہا تھا اور ان کے بھاؤ لگا رہا تھا۔ اس کی صورت جانی پہچانی سی تھی۔ اسے میں نے کب دیکھا تھا، کہاں دیکھا تھا۔ ایک نئی بات میرے پیچھے پڑ گئی۔
’’بی بی جی آپ!‘‘
’’ہاں میں، پر میں نے تمہیں پہچانا نہیں۔‘‘
’’اسے بھی پہچانا نہیں کیا؟ یہ رتنی۔‘‘
’’مانکو، رتنی۔‘‘ میں نے اپنی یادوں میں ڈھ نڈا، لیکن مانکو اور رتنی کہیں نہیں موجود تھے۔
’’تین سال ہو گئے ہیں، بلکہ مہینہ اوپر ہو گیا ہے۔ ایک گاؤں کے پاس کیا نام تھا اس کا بھلا، آپ کی موٹر خراب ہو گئی تھی۔‘‘
’’ہاں ہوئی تو تھی۔‘‘
’’اور آپ وہاں سے گزرتے ہوئے ایک ٹرک میں بیٹھ کر دھولیا آئے تھے، نیا ٹائر خریدنے کے لئے۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘ اور پھر میری یادداشت کے نہاں خانوں میں مجھے مانکو اور رتنی مل گئے۔
رتنی تب ادھ کھلی کلی جیسی تھی اور مانکو اسے پرائے پودے پر سے توڑ لایا تھا۔ ٹرک کا ڈرائیور مانکو کا پرانا دوست تھا۔ اس نے رتنی کو لے کر فرار ہونے میں مانکو کی مدد کی تھی۔ اس لئے راستے میں وہ مانکو کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہا تھا۔
راستے کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں کہیں خربوزے بک رہے ہوتے، کہیں ککڑیاں، کہیں تربوز اور مانکو کا دوست، مانکو سے اونچی آواز میں کہتا، ’’بڑی نرم ہیں، ککڑیاں خرید لے۔ تربوز تو ایک دم لال ہیں اور خربوزہ بالکل میٹھا ہے۔ خریدنا نہیں ہے تو چھین لے واہ رے رانجھے۔‘‘
’’ارے چھوڑ مجھے رانجھا کیوں کہتا ہے؟ رانجھا سالاعاشق تھا کہ حجام تھا؟ ہیر کی ڈولی کے ساتھ بھینسیں ہانک کر چل پڑا۔ میں ہوں ایسابولو۔‘‘
’’واہ رے مانکو۔ توُ تو مرزا ہے مرزا۔‘‘
’’مرزا تو ہوں ہی، اگر کہیں صاحباں نے مروا نہ دیا تو۔‘‘ اور پھر مانکو اپنی رتنی کو چھیڑتا، ’’دیکھ رتنی، صاحباں نہ بننا، ہیر بننا۔‘‘
’’واہ رے مانکو، تو مرزا اور یہ ہیر۔ یہ بھی جوڑی اچھی بنی۔‘‘ آگے بیٹھا ڈرائیور ہنسا۔
اتنی دیر میں مدھیہ پردیش کا ناکہ گزر گیا اور مہاراشٹر کی سرحد آ گئی۔ یہاں پر ہر ایک موٹر، لاری اور ٹرک کو روکا جاتا تھا۔ مکمل تلاشی لی جاتی تھی کہ کہیں کوئی مارفین، شراب یا کسی طرح کی کوئی اور چیز تو نہیں لے جا رہا۔ ٹرک کی بھی تلاشی لی گئی۔ کچھ نہ ملا اور ٹرک کو آگے جانے کیلئے راستہ دے دیا گیا۔ جوں ہی ٹرک آگے بڑھا، مانکو بے تحاشا ہنس دیا۔
’’سالے مارفین تلاش کرتے ہیں، شراب تلاش کرتے ہیں۔ میں جو نشے کی بوتل لے جا رہا ہوں، سالوں کو نظر آئی ہی نہیں۔‘‘
اور رتنی پہلے اپنے آپ میں سکڑ گئی اور پھر دل کی ساری پتیوں کو کھول کر کہنے لگی، ’’دیکھ کہیں نشے کی بوتل توڑ نہ دینا۔ سارے ٹکڑے تمہارے تلووں میں اتر جائیں گے۔‘‘
’’کہیں ڈوب مر۔‘‘
’’میں تو ڈوب جاؤں گی، تم گر سمندر بن جاؤ۔‘‘
میں سن رہی تھی، ہنس رہی تھی اور پھر ایک دکھ سا میرے دل میں ابھر آیا، ’’ہائے ری عورت، ڈوبنے کیلئے بھی تیار ہے، اگر تیرا چاہنے والا ایک سمندر ہو۔‘‘
پھر دھولیا آ گیا۔ ہم ٹرک میں سے اتر گئے اور چند منٹ تک ایک خیال میرے دل کو کریدتا رہا۔ یہ ’’رتنی‘‘ ایک ادھ کھلی کلی جیسی لڑکی۔ مانکو اسے پتہ نہیں کہاں سے توڑ لایا تھا۔ کیا اس کلی کو وہ اپنی زندگی میں مہکنے دے گا؟ یہ کلی کہیں قدموں میں ہی تو نہیں مسلی جائے گی؟
گزشتہ دنوں دہلی میں ایک واقعہ ہوا تھا۔ ایک لڑکی کو ایک ماسٹر وائلن سکھایا کرتا تھا اور پھر دونوں نے سوچا کہ وہ بمبئی بھاگ جائیں۔ وہاں وہ گایا کرے گی، وہ وائلن بجایا کرے گا۔ روز جب ماسٹر آتا، وہ لڑکی اپنا ایک آدھ کپڑا اس کو پکڑا دیتی اور اسے وہ وائلن کے ٹوکری میں رکھ کر لے جاتا۔ اس طرح تقریباً مہینے بھر میں، اس لڑکی نے کئی کپڑے ماسٹر کے گھر بھیج دیے اور پھر جب وہ اپنے تین کپڑوں میں گھر سے نکلی، کسی کے ذہن میں شک کے سائے تک نہ تھے۔ اور پھر اس لڑکی کا بھی وہی انجام ہوا، جو اس سے پہلے کئی اور لڑکیوں کا ہو چکا تھا اور اس کے بعد کئی اور لڑکیوں کا ہونا باقی تھا۔ وہ لڑکی بمبئی پہنچ کر فن کی مورتی نہیں، آرٹ کی قبر بن گئی اور میں سوچ رہی تھی، یہ رتنی، یہ رتنی کیا بنے گی؟
آج تین سال بعد میں نے رتنی کو دیکھا۔ ہنسی کے پانی سے وہ سبزیوں کو تازہ کر رہی تھی۔ ’’پالک ایک آنے گٹھی، ٹماٹر چھ آنے رتل اور ہری مرچیں ایک آنے ڈھیری۔‘‘ اس کے چہرے پر پالک کے پتوں کی ساری نرمی، ٹماٹروں کی ساری سرخی اور ہری مرچوں کی ساری خوشبو موجود تھی۔
جیوی کے چہرے پر دکھوں کی لکیریں تھیں، و ہی لکیریں، جو میرے گیتوں میں تھیں اور لکیریں لکیروں میں مل گئی تھیں۔
رتنی کے چہرے پر ہنسی کی بوندیں تھیں، وہ ہنسی، جب خواب میں اگ آئیں، توا وس کی بوندوں کی طرح ان پتیوں پر پڑ جاتے ہیں اور وہ خواب میرے گیتوں کے بند بنتے تھے۔
جو خواب جیوی کے دل میں تھا، وہی خواب رتنی کے دل میں تھا۔ جیوی کا خواب ایک ناول کے آنسو بن گیا اور رتنی کا خواب گیتوں کے بند توڑ کر آج اس کی جھولی میں دودھ پی رہا تھا۔
***
کھلے آسمان میں
جسونت سنگھ وِردی
پنجابی کہانی
گرمیوں کے دنوں میں میرے گھر کے پیچھے اکثر ہلچل مچی رہتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میری بیوی پرندوں کیلئے ڈھیر سارے دانے اور روٹی کے ٹکڑے گھر کے پیچھے پھینک دیتی ہے۔ پر یہ ہلچل کی وجہ سے نہیں ہے۔
بہت سے پرندے خود دانہ چگتے ہیں اور دوسرے پرندوں کو بھی آوازیں لگاتے ہیں۔ لیکن بہت سارے صرف خود دانہ چگتے ہیں اور دوسروں کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ پر ہلچل کا سبب یہ بھی نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب معصوم چڑیاں دیوار یا باتھ روم کے کونوں میں اپنے گھونسلے بنا لیتی ہیں، تب مینائیں فوراً حاضر ہو جاتی ہیں۔ چڑیاں جو بھی تنکے اکٹھا کرتی ہیں۔ مینائیں ان کو ایک ایک کر بکھیر دیتی ہیں۔ پر چڑیاں اپنے محاذ پر ڈٹی رہتی ہیں۔
ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے جب میری بیوی دوپہر کے بعد گھر کے پیچھے گئی تو اس نے دیکھا کہ گھونسلے کے نیچے زمین پر ایک انڈا ٹوٹا پڑا تھا۔
’’یہ میناؤں کی شرارت ہے۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔ ’’میں میناؤں کو اس گھر میں نہیں آنے دوں گی۔‘‘
’’تو کیسے روکو گی؟‘‘
’’میں روک لوں گی۔‘‘
’’پرندوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔‘‘
’’پھر انہوں نے چڑیا کا انڈا کیوں توڑا؟‘‘
’’چلو ہمیں کیا۔‘‘
’’کیوں؟ کیوں نہیں؟‘‘ اس نے غصے سے کہا۔ ’’چڑیا نے ہمارے گھر میں گھونسلہ بنا کر انڈے دیئے ہیں۔ ہمارا فرض ہے اس کی حفاظت کرنا۔‘‘
اس دن بات وہیں ختم ہو گئی۔ کیونکہ وہ بہت جذباتی نظر آ رہی تھی اور عورت جب جذباتی ہو تو اس کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
کالج میں چھٹیاں تھیں اور میں سپت سندھو کے لوگوں کے بارے میں اپنا مقالہ پورا کر رہا تھا۔ ویدک دور کے آریہ لوگوں سے لے کر آج تک سپت سندھو یا پنجاب کے لوگوں کو غیر ملکی حملہ آوروں اور فطرت کی بے رحم طاقتوں سے جنگ کرنی پڑی ہے۔ تب کہیں جا کر وہ اپنے آپ کو اس دھرتی پر آباد کر سکے ہیں۔ اب تو اس دھرتی پر چاروں طرف ایسے جذباتی لوگ بکثرت ہیں جو ہر کسی کو ظلم کے خلاف اٹھنے کے لئے بڑھاوا دیتے ہیں۔ میں دوپہر تک لکھتا ہوں اور پھر کھانا کھا کر سو جاتا ہوں۔ سوتے ہوئے بھی میں پرانے بہادر پنجابی لوگوں کے کارناموں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔
ایک دن دوپہر کے وقت میری آنکھ ابھی لگی ہی تھی کہ میں نے گھر کے پچھواڑے سے پرندوں کی چیخ و پکار اور بہت زور کا شور سنا۔ میں فوری طور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میری بیوی کہہ رہی تھی۔ ’’ان میناؤں نے چڑیا کے بچے کو نہیں چھوڑنا۔‘‘
’’کیا کر لیں گی؟‘‘
’’مار دیں گی۔‘‘
’’کیوں؟ کیا پرندوں میں بھی جلن ہوتی ہے؟‘‘
’’آپ کا کیا خیال ہے؟ آدمیوں میں ہی ہوتی ہے؟‘‘
پل بھر رک کر اس نے پھر کہا۔ ’’پرسوں چڑیا کا بچہ نیچے گر گیا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’میں نے اس کو اٹھا کر گھونسلے میں رکھ دیا۔‘‘
’’وہ تم سے ڈرا نہیں؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ پرندوں کو بھی اپنے چاہنے والوں کا پتہ ہوتا ہے۔‘‘
ابھی ہم بات کر ہی رہے تھے کہ چڑیوں کی چیں چیں کا بہت بڑا طوفان اٹھا اور میری بیوی فوری طور پر اٹھ کر آگے آئی۔ پر میں نے اس کے بازو کو پکڑ کر اسے روک لیا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’چڑیوں کو اپنی مدد خود کرنے دو۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ جلدی سے بولی۔ ’’وہ کمزور ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ تم ہی ان کو کمزور سمجھتی ہو۔‘‘
’’تو کیا۔۔۔؟‘‘
’’تم انہیں میناؤں کے خلاف لڑنے دو۔ ہمیں ہر وقت تو ان کے ساتھ نہیں رہنا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’زیادہ سے زیادہ وہ بچہ ختم ہی تو ہو جائے گا۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘
’’پر چڑیاں ڈٹ کر لڑنا سیکھ جائیں گی۔‘‘
اس نے تجسس سے کہا۔ ’’میں دیکھ تو لوں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
’’ضرور دیکھو۔۔۔ پر ان کی جنگ میں دخل مت دو۔‘‘
’’اس طرح برائی کو سہارا ملتا ہے۔‘‘ اس نے نئی بحث چھیڑی۔
میں نے کہا۔ ’’جس کے ساتھ برائی ہوتی ہے وہ بھی تو برائی کے خلاف ڈٹے۔‘‘
’’اچھا پھر۔۔۔ لڑنے دو۔‘‘ میری بیوی نے بات ختم کر دی۔
گھر کے پیچھے دو پہر کا سورج گرما رہا تھا۔ ہمارے گھر کا منہ مشرق کی طرف ہے، جس کی وجہ سے ہم گرمیوں میں صبح گھر کے پیچھے مغرب کی طرف بیٹھتے ہیں اور بعد از دوپہر جب سورج مغرب کی جانب جھک جاتا ہے، تب گھر کے سامنے مشرق میں بیٹھ جاتے ہیں۔
ہم نے پیچھے برآمدے میں جا کر جالی کے دروازے سے دیکھا تو پانچ میناؤں نے چڑیوں کے گھونسلے کو گھیرا ہوا تھا۔ چڑیا اور چڑا دونوں ہی گھونسلے کے آگے بیٹھے شکاریوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ کسی وقت دو مینائیں گھونسلے پر حملہ کرتیں اور تو کبھی تین۔ بچہ گھونسلے کے پیچھے بیٹھا زور زور سے چیں چیں کر رہا تھا۔ پتہ نہیں کیا کہہ رہا تھا۔
’’کل ایک گھونسلے پر منہ بھی مار رہا تھا۔‘‘ میری بیوی نے گھبراہٹ میں کہا۔ ’’پر میں نے اس کو بھگا دیا۔ یہ مینائیں تو پیچھے ہی پڑ گئی ہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ تم ان کا مقابلہ دیکھو۔‘‘
چڑیا کے گھونسلے پر حملہ کرنے والی مینائیں بہت لڑاکا اور پھرتیلی تھیں۔ ان کے سانولے رنگ اور پیلی چونچیں نکیلی تھیں۔ وہ جب بولتیں تو بڑی سریلی آواز نکلتی۔ پر وہ کام کیا کر رہی تھیں؟ ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’ان کا سانولا رنگ ان کی جلن کی وجہ سے ہی ہوا ہو گا۔‘‘
’’کیا کہا جا سکتا ہے؟‘‘
’’یہی بات معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’آپ نے کہیں پڑھا ہے کیا؟‘‘
’’نہیں۔ یہ تجربے کی بات ہے اور تجربے کی گواہی کبھی غلط نہیں ہوتی۔‘‘
پل بھر وہ رک کر بولی۔ ’’میں انہیں اڑانے لگی ہوں۔‘‘
’’روزانہ اڑاؤ گی؟‘‘
’’پھر کیا کروں؟ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔۔‘‘
’’پھر تم چڑیاؤں کو گھر میں گھونسلے مت بنانے دو۔‘‘
’’مجھ سے یہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘
’’پھر اسے برداشت کرو۔‘‘
’’کسے؟‘‘
’’جو کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
’’پر یہ تو زیادتی ہے۔‘‘
میں نے جواب نہیں دیا۔
ویسے میں سوچ رہا تھا۔ ’’مینائیں کیاسوچ رہی ہوں گی؟ اگر زمین اور آسمان میں چڑیاں ہی چڑیاں ہو گئیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ اس لئے ٹھیک یہی ہے کہ چڑیوں کی نسل کو بڑھنے ہی نہ دیا جائے۔‘‘
اس وقت جتنے غصے سے میناؤں نے چڑیوں پر حملہ کیا اور چڑیوں نے جس طرح حملے کو روکا۔ اس طرح اکثر آدمی بھی نہیں کر سکتے۔
دوپہر کا وقت تھا اور پرندے ایک دوسرے کا مقابلہ کر کر کے تھک گئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مینائیں مایوس ہو گئی تھیں۔ ان کی اڑان میں پہلے جیسا جوش نہیں تھا۔ چڑیا اور چڑا بھی بھی ڈٹے ہوئے تھے۔ بھلے وہ تھکے ہوئے تھے اور ان کی سانسیں تیزی سے چل رہی تھیں۔ پر انہیں لگ رہا تھا کہ اگر آج وہ اپنے بچے کو نہ بچا سکیں تو شرم سے مر جائیں گی۔
’’بات کیا ہے؟ ایک بلی بھی گھونسلے کی طرف جھانک رہی تھی۔‘‘ میری بیوی بولی۔ ’’پر وہ اوپر نہیں پہنچ سکتی تھی۔‘‘
’’چڑیوں کے دشمن بہت ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’لیکن پھر بھی یہ ہر جگہ ہوتی ہیں۔ کھلے آسمان میں اڑتی ہیں اور کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آتیں۔‘‘
میری یہ بات سن کر میری بیوی کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ’’آپ کی یہ بات تو ٹھیک ہے۔‘‘
اس وقت ہم نے دیکھا چڑیاں چیں چیں کر کے میناؤں کو للکار رہی تھیں کہ ہمت ہے تو آؤ کرو مقابلہ۔
میں نے کہا۔ ’’حملہ آور میں اس وقت تک ہمت ہوتی ہے جب تک کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرتا۔ کیونکہ ظلم کرنے والے کے پاس اخلاقی قوت نہیں ہوتی۔‘‘
سورج مغرب کی جانب غروب ہو رہا تھا۔ ہم لوگ برآمدے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اب تک بچے بھی اٹھ گئے تھے، لیکن ان کو بالکل معلوم نہ تھا کہ چڑیوں نے میناؤں کا کس طرح مقابلہ کیا۔ میری بیوی مطمئن تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر ظلم کرنے والے کا مقابلہ کیا جائے تو ظلم رک سکتا ہے۔
ابھی ہم نے چائے ختم بھی نہیں کی تھی کہ پیچھے سے پھر پرندوں کا شور اٹھا اور میری بیوی نے گھبرا کر کہا۔ ’’اس بار مینائیں چڑیوں کے بچے کو نہیں چھوڑیں گی۔‘‘
’’پھر گھبرا گئیں۔‘‘
’’بات ہی گھبراہٹ والی ہے۔‘‘
’’پر تم فکر نہ کرو۔‘‘
یہ بات سن کر ہمارا بیٹا ’’کاکا‘‘ تیزی سے آنگن کی طرف بڑھا اور پھر فوراً واپس آ گیا اور بولا۔ ’’ممی جی بھاگ کر آؤ۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
’’بہت دلچسپ نظارہ ہے۔‘‘
ہم سب جلدی سے پچھواڑے کی طرف گئے۔ منظر واقعی بہت دلچسپ تھا۔
چڑیا کا بچہ گھونسلے میں سے نکل کر صحن میں آ گیا تھا اور ساری چڑیاں اس کو اپنے ساتھ اڑنا سکھا رہی تھیں۔ اس کے پر پوری طرح اڑنے کے لئے تیار تھے اور اس کا جسم بھی طاقتور تھا۔
وہاں ایک بھی مینا نہیں تھی۔
’’یہ تو کچھ ہی دنوں میں اتنا بڑا ہو گیا۔‘‘ میری بیوی نے خوش ہو کر کہا۔ ’’واہ واہ۔‘‘
’’تمہیں معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’مقابلہ انسان کو طاقتور بنا دیتا ہے۔‘‘
اگلے لمحے ہی ایک زوردار چیں چیں کی آواز گونجی اور وہ بچہ پوری طاقت سے دیوار کے اوپر سے، بجلی کی تاروں کو پار کرتا ہو کھلے نیلے آسمان میں اڑ گیا۔
***
سنساری
گرمیت کڑیاوالی
پنجابی کہانی
سنساری کی موت کی خبر آگ کی طرح پھیلی تھی۔ دسمبر کی کڑاکے دار سردی میں صبح لوگوں نے اس کے جسم کو سڑک کے کنارے پڑا دیکھا تھا۔ پل بھر میں ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح قصبے میں اور اس سے ملحقہ دیہاتوں میں پھیل گئی تھی۔
ابھی کل ہی تو وہ بڑے آرام سے پیٹ بادشاہ کو رشوت دینے کیلئے سڑک کے کنارے بیٹھا مانگ رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ کوئی پیشہ ور بھکاری تھا۔ پیشہ ور بھکاری تو آج کل سرکاری دفتروں، اسمبلیوں، اور پارلیمنٹ میں براجمان ہو گئے ہیں۔ وہ تو ضرورت کے مطابق کبھی کبھی مانگتا تھا۔ وہ بھی دوسرے تمام تاجروں، دکانداروں اور جواریوں کی طرح شہر کا ہی ایک حصہ تھا۔ رات میں کہاں جاتا ہے، کسی نے خیال نہیں کیا تھا۔ کئی کئی بار تو کئی کئی دن غائب رہتا تھا۔
ان دنوں میں سب سے زیادہ تکلیف سٹے والوں کو ہوتی تھی۔ ان کی نظریں سنساری کو تلاش کرتی رہتی تھیں، ان کے چہرے پر پریشانی کی جھلک دکھائی دینے لگتی، کیونکہ سٹے کا نمبر وہ سنساری سے پوچھ کر ہی لگاتے تھے۔ جو نمبر سنساری بتاتا تھا، وہ لگا دیتے تھے۔ بتانے کا مطلب یہ نہیں کہ سنساری ان کو نمبر بول کر الاٹ کرتا تھا۔ اس کو بولتے ہوئے آج تک قصبے کے کسی آدمی نے نہیں سنا، وہ صرف اُو۔۔۔ اُو۔۔۔ با۔۔۔ با۔۔۔ کرتا تھا۔ جب وہ بولتا نہیں تھا تو پھر سننے والوں کو تکلیف ہونے لگتی تھی۔ سٹے والے سنساری کو کیا کہتے ہیں، سنساری کو بھی پتہ نہیں چلتا، وہ تو صرف ان کے جذبات کو سمجھ لیتا تھا اور جواب میں اُو۔۔۔ آ۔۔۔ کرتے ہوئے اپنی انگلی کو اوپر نیچے کرتا۔ ان انگلیوں کی ہی کرامت تھی کہ نمبر لگانے والے ان انگلیوں کے اشارے کو ہی سمجھ لیتے تھے کہ کون سا نمبر بنتا ہے۔ اتفاق سے نمبر آ جاتا تو وہ خوش ہو کر سنساری کو بھی اس کا حصہ دے جاتے۔ جن کا نمبر نہیں آتا وہ اپنی قسمت کو کوستے اور یہ کہتے کہ انہیں نمبر سمجھنے میں غلطی ہو گئی۔ وہ اپنی اس غلطی پر پچھتاتے ہوئے صبر کرتے۔
سنساری سے آشیرباد حاصل کرنے والوں میں قصبے اور گاؤں کے کچھ لڑکے بھی شامل تھے۔ ان کو جب بھی کسی ’’مہم‘‘ پر جانا ہوتا تو وہ اس دن کے بارے میں سنساری سے پیشگوئی کروانے آتے۔ سنساری ان سے ملی رقم سے کئی دنوں تک اپنا گزارا چلا لیتا تھا اور پھر کتنے ہی دن سڑک کنارے دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بھکاریوں کی مانند پیسہ جمع کرنا، یا دیس بدیس کے بینکوں میں انہیں جمع کروانا، اس کی عادت نہیں تھی۔ سنساری کو اگر ان لڑکوں کے مقصد کا پتہ ہوتا تو وہ کبھی بھی ہاتھ کے اشاروں سے پیشگوئی نہیں کرتا۔ ہاتھ کے اشاروں کو وہ لڑکے، فقیر بابا سے ملی آشیرباد سمجھتے۔ اگر سنساری کو اس کا علم ہوتا کہ جس دن لڑکوں کی ٹولی اس کے پاس آتی ہے، اس دن کوئی کنواری بچی یا لڑکی کی قسمت ’’سیٹھ غریب داس‘‘ کے شہر کے باہر لگے اڈے میں لکھی جاتی ہے تو وہ کبھی بھی ان کی رقم قبول نہیں کرتا۔ سنساری تو ان کو اپنا ہمدرد، عقیدت مند اور پیسے دینے والا سمجھتا تھا بس۔
سنساری کے بارے میں ان سٹے والوں اور لڑکوں کے بجائے ایک پھٹیچر ڈھابے والے کو ہی پتہ تھا کہ سنساری شام کو کہاں جاتا ہے، کیونکہ پیٹ بھرنے کیلئے وہ شام کو اس کے پاس کھانا کھانے آتا تھا۔ ویسے تو سنساری کیلئے لنگر شہر کے گرو دواروں اور مندروں میں بھی کافی دستیاب تھا۔ کسی نہ کسی مذہبی مقام پر کوئی نہ کوئی اجتماع چلتا ہی رہتا تھا، لیکن کبھی کبھی سنساری کا من ’’دس انگلیوں‘‘ کی کمائی سے حسبِ منشا روٹی کھانے کو کرتا تھا۔ کبھی کسی نے اس کی خواہش نہیں سمجھی۔ کتنے بے غرض، سیدھے اور بھولے ہیں یہ لوگ۔ سوائے ان ’’چند لوگوں کے‘‘ ۔ سنساری سوچتا تھا۔ یہ لوگ تو جیسے اس کیلئے قدرت نے فرشتے ہی بنا کر بھیج دیئے ہیں۔ سب لوگ ان کے جیسے ہی کیوں نہیں ہو جاتے؟ عظیم ہے ایشور، جس نے ایسے نیک انسان بنائے، ورنہ پتہ نہیں اس کے جیسے غریب آدمیوں کا کیا بنتا۔
واقعی سنساری کتنی دور کی سوچتا تھا۔ اگر ایسے نیک انسان نہ پیدا ہوتے تو غریب لڑکیوں کی جوانی بیکار ہی چلی جاتی۔ غریب داس کے اڈے میں لائی گئی ہر نئی ’’چیز‘‘ کو ایسے ہی کہا جاتا تھا، یہ مت سمجھنا کہ ہم تمہارے ساتھ زبردستی کرتے ہیں۔ ہمیں تو تمہاری جوانی پر ترس آتا ہے۔ اس جوانی کو جوانی کی ضرورت ہے اور ہم سا جوان اس شہر میں کوئی نظر نہیں دیتا، بہن۔
کتنی سچائی تھی سنساری کی سوچ میں۔ اگر امیر لوگ نہ ہوتے تو غریبوں کو کام کون دیتا، اگر غریبوں کو کام نہ ملے تو وہ کدھر جائیں؟ اگر یہ لوگ حکومت نہ چلائیں تو پھر کیا ہو؟ لوگ تو ایسے ہی پاگل ہیں، ایسے ہی تیسرے چوتھے دن شور مچانے لگ جاتے ہیں، پر یہ لوگ کریں بھی تو کیا؟ خالی بیٹھے ہیں، کام تو ہے نہیں ان کے پاس۔ اگر حکومت چلانی پڑے یا لیڈری کرنی پڑے یا پھر لڑکوں کی طرح غریب لڑکیوں کی شادیاں کرنی پڑیں تو پھر پتہ چلے۔ ایسے ہی ٹیں ٹیں کرتے ہیں یہ لوگ۔ سنساری ہمیشہ یہی سوچتا رہتا۔
سنساری ان ٹولی والوں کو ہی سب سے بڑا نیکوکار سمجھتا تھا اور اگر وہ ایسا سمجھتا تھا تو اس میں غلط کیا تھا۔ دیکھو اس وقت شہر میں سات مذہبی مقامات ہیں، دو عورتوں کے مندر بنائے گئے، جہاں دکھی لوگوں کی مشکلات کو دور کیا جاتا ہے، لوگوں پر سے جن وغیرہ بھگائے جاتے ہیں، اگر ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو پورے نو مذہبی مقامات بن جائیں گے۔ یہ نوجوان اور شہر کے نیلی پیلی، سفید سبز، لال گلابی پارٹیوں کے لیڈر ہی تو ہیں جو مذہبی مقامات کو چلا رہے ہیں۔ کوئی کسی مذہبی مقام کا منیجر ہے تو کوئی صدر۔ ایسا کوئی بھی مذہبی مقام نہیں ہے جس کا ہیڈ یا کمیٹی منیجر ان میں سے نہ ہو۔ شہر میں جو رام مندر ہیں، ان میں اکثر رام لیلا چلتی رہتی ہے، لنگر چلتا ہے، ٹن ٹن کی آواز آتی رہتی ہے، چوبیس گھنٹے منتر تنتر اور پوجا پاٹھ جاری رہتی ہے۔ میلے یا کسی خاص تہوار میں تو اتنے یاتری آتے ہیں کے اس کا کوئی حساب ہی نہیں رہتا۔ اس مندر کا کام کاج ایک دن بھی نہ چلے اگر سیٹھ مراری لال نہ ہو۔ کتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے بیچارا مندر کی خاطر۔ جنتا جو ہے نا، کسی کا قرض نہیں رکھتی۔ ہر بار ووٹ مراری لال کو ڈال دیتی ہے۔ ایسے ہی تو نہیں وہ ہر بار میونسپل کمشنر بن جاتا۔ سب ایشور اور جنتا کی خدمت کا پھل ہے۔ قسمت والا ہے، نہیں تو اتنی خدمت کوئی اور کر لے گا۔ مراری لال ایسے ہی سنساری کا عقیدت مند نہیں ہے۔ کیا بولا؟ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، لوگوں کی تو عادت ہے جھوٹ بولنے کی۔ ہر اچھے آدمی میں کوئی نہ کوئی کمی ڈھونڈتے رہنا۔ لال گردھاری مل کی لڑکی کو مندرسے اٹھوانے میں مراری لال کا ہاتھ تھا۔ یہاں دوپہر کو پوجا کرنے آئی تھی اور زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے جانے والوں میں مراری بھی تھا۔ لو بتاؤ؟ لوگوں کا کیا ہے، لوگ تو ایشور پر بھی کیچڑ پھینک دیں۔ یہ تو پھر مراری ہے۔ دوسری طرف دیکھو، لوگ کیا کیا بولتے رہے مراری کے بارے میں۔ یہ مراری ہی تھا جو گردھاری مل کی لڑکی کو پندرہ دن بعد واپس لے آیا۔ مراری تو مراری ہی ہے، اس کا ان اوٹ پٹانگ باتوں سے کیا واسطہ ہے۔
جُوالی والا گرودوارہ، کچھ سال پہلے جس میں دو کمرے ہوتے تھے۔ اب دیکھو وہاں پر جا کر چاروں طرف بہاریں ہی بہاریں نظر آتی ہیں۔ جب سے سدھو صاحب کمیٹی کے سربراہ بنے ہیں، آئے سال کچھ نہ کچھ بنتا رہتا ہے۔ لوگوں کے بیٹھنے کیلئے بڑا ہال، لنگر کھانے کیلئے بڑا لنگر ہال، لوگوں کے رہنے کیلئے ہوٹل، فرشوں پر سنگِ مرمر لگا ہوا، سب سدھو صاحب کی مہربانی ہے۔ اونچی پہنچ والا آدمی ہے۔ کئی بار باہر جا چکا ہے۔ بڑے بڑے وزراء کے ساتھ سیدھی بات ہے۔ کیا کہا، سدھو صاحب کی لاکھوں کی کوٹھی ہے؟ وہ تو میں پہلے کہہ چکا ہوں، لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں سدھو صاحب کی دو ایکڑ میں بنی لاکھوں روپے کی لاگت سے یہ کوٹھی، ایشور کی دِین ہے۔ ایشور کا نام لے کر لاکھوں روپے ’’چندہ‘‘ جمع کر کے ملک میں لایا اور ایشور کے نام سے اپنی کوٹھی پر لگا دیا۔ لوگوں کی لوگ ہی جانیں۔ سنساری کوبس اتنا معلوم تھا کہ سدھو صاحب جیسا مذہبی انسان شہر میں ہے ہی نہیں۔
شہر میں بالمیکی جی کا گھر بھی لیڈروں کی جماعت کی مہربانی ہے۔ اس کمیٹی کے صدر ناجر کو بھی آج کل شہر کے نامی گرامی انسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نامی گرامی لوگوں میں نام کیوں نہ ہو، پورا محلہ اس کی جیب میں ہے۔ ناجر کہے تو اس محلے کے لوگ، سارے شہر کی ناک میں دم کر دیں۔ کسی بات پر شہر کے کرتا دھرتاؤں کے سا تھ ناراضگی ہوئی نہیں کہ شہر میں جہنم کا نظارہ پیش ہو جاتا ہے۔ یہ ناجر ہی تھا جو شہر میں کسی بھی پارٹی کے لیڈر کی طرف سے کی جانے والی ریلی، جلوس، اور دھرنے کیلئے بندوں کا انتظام کرتا تھا۔ لہذا ناجر کو نیوٹرل پالیسی پر چلنے والا سمجھا جاتا تھا۔ پارٹی کوئی بھی ہو، ناجر اس میں آدمی بھیج کر اس پارٹی کی واہ واہ کروانے کیلئے، بڑی محنت سے کام کرتا تھا۔ سنساری کی آنکھوں دیکھی بات ہے کہ کچھ سال پہلے یہ ناجر میونسپل میں جھاڑو لگاتا تھا۔ میونسپل میں آتے جاتے لیڈروں سے اس کو لیڈری کا ایسا شوق جاگا کہ اب تو مانے ہوئے لیڈروں میں اس کا شمار ہونے لگا ہے۔ اب تو لیڈری کے میدان میں ناجر مہاراج کی طوطی بو لتی تھی۔ اچھے اچھے آفیسرز اور عہدے دار، ناجر سے ڈرتے تھے۔ ابھی گزشتہ سال ہی ناجر کے محلے میں مندر کیلئے میونسپل کے سربراہ نے پچیس ہزار اینٹیں، پچاس بوری سیمنٹ اور محلے میں اسٹریٹ لائٹیں نہیں لگوائی تھیں، نالی پکی کرنے کے کام میں سے ناجر کا جو حصہ بنتا تھا، وہ بھی اُس نے اپنی جیب میں نہیں ڈالا۔
ناجر کی میونسپل کے سربراہ کے ساتھ تو تو میں میں ہو گئی۔ ناجر نے اس بہانے کی آڑ میں کہ میونسپل کے سربراہ نے اس کی ذات کے بارے میں غلط الفاظ کہے ہیں، شہر کے تمام صفائی ملازمین کی ہڑتال کروا دی تھی۔ ملازمین نے نالوں کی ساری گندگی شہر کے بازاروں میں اور سربراہ کے گھر کے آگے ڈھیر کر دی۔ ان ملازمین نے شہر میں وبا پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ شہر کی ممبر اسمبلی بی بی سرلا کہیں باہر گئی ہوئی تھی۔ جب وہ واپس آئی، تب اس کو ہڑتال کے بارے میں پتہ چلا۔ اس نے فون کر کے فوری طور کمیٹی کے سربراہ کو اپنے ’’غریب خانے‘‘ میں بلا لیا تھا۔
’’تم سربراہ کی کرسی پر بیٹھنے کے قابل نہیں ہو۔‘‘
ممبر اسمبلی بی بی سرلا کے تیور چڑھے دیکھ کر، سربراہ نے خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا تھا۔
’’الیکشن سر پر ہے اور ہم ان لوگوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان کو پٹانے کیلئے اپوزیشن پارٹی والے ان کو ہاتھوں پر اٹھائے گھومتے ہیں۔‘‘ بی بی کی آواز میں آہستہ آہستہ نرمی آنے لگی تھی۔
’’آج رات تک یہ معاملہ نمٹ جانا چاہیے۔‘‘ بی بی جی کا فرمان لے کر سربراہ وہاں سے چلے گئے تھے۔
اس رات پچیس ہزار روپے ناجر کے پہنچ گئے تھے۔
’’سربراہ صاحب آپ کی ساری ڈیمانڈیں ماننے کیلئے تیار ہو گئے ہیں۔ جلد ہی ساری ڈیمانڈیں پوری کر دی جائیں گی۔‘‘ ناجر کے اس حکم کے مطابق ہڑتال ختم کر دی گئی تھی۔
محلے کے اندر اسٹریٹ لائٹیں بھلے نہیں لگیں، لیکن ناجر کے کمرے میں سنگ مرمر ضرور لگ گیا تھا۔ اگر ناجر آگے لگ کر جد و جہد نہ کرے، تو کیا یہ شہر والے اس کو کچھ کہہ رہے ہیں؟
سنساری ناجر کو ایک مثالی شخصیت سمجھتا تھا۔ محلے کے غریب لوگوں کیلئے لڑنے مرنے والا۔ سنساری کچھ غلط تو نہیں سمجھتا تھا۔
دیوی ماتا کے مندر کی کمیٹی کے جوان سیٹھ برہم آنند جی کے شہزادے ’’ستی سوروپ‘‘ کا بھی شہر کے لیڈروں میں اپنا مقام تھا۔ ہر منگل مندر میں جگراتا ہوتا، یہ ’’ستی سوروپ‘‘ کی ہمت کے کارن ہی ہوتا تھا نہیں تو پہلے کیوں نہیں ہوا۔ وہ تو ستی سوروپ جی تھے جو ہر سال مفت میں دو گاڑیاں، دیوی ماتا کے غریب بھگتوں کو لے کر درشن کروانے پہاڑوں پر بھیجتے تھے۔ ستی سوروپ ہی تھے جو لوگوں کی بہن بیٹیوں کو رات کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔
اتنے پُن اور ثواب کا کام کرنے والا بھلا شخص شہر کے نامور لیڈروں میں کیسے داخل نہ کیا جاتا؟ اگر سنساری ’’ستی سوروپ‘‘ کو دھرماتما اور بھلا شخص سمجھتا تھا، تو کچھ غلط تو نہیں سمجھتا تھا؟
بابا دھرم داس کی شہر اور آس پاس کے دیہاتوں میں اچھی خاصی عزت تھی۔ کبھی کوئی انہونی بات نہیں ہوئی۔ یہ بابا جی کی لگن اور نیکی سے ہی تھی۔ بابا جی جیسے نیک، عظیم انسان، مردِ صالح کوئی اور بن سکتا ہے؟ اتنا ٹیڑھا، چکر دار راستہ، اس کا پالن بابا جی ہی کر سکتے تھے۔ وہ سوا سوا مہینے اناج کو منہ نہیں لگاتے تھے، صرف دودھ پی کر گزارا کرتے تھے۔ توبہ توبہ، اتنی بڑی قربانی۔ ایسے ہی تو بابا جی نے بڑی بڑی چیزیں بس میں نہیں کی ہوئی تھیں۔ نوجوان لڑکے بھی بابا جی کے چرنوں میں لگے ہوئے تھے، زندگی بہتر بنانے کیلئے۔ بابا جی کے ڈیرے میں ہی رہتے تھے۔ دل لگنے کی بات ہے، ورنہ کیا گھر کی محبت کم ہوتی ہے؟ بابا جی جو بھی منہ سے بولتے وہ پورا ہو جاتا۔ بابا جی کے ڈیرے سے پتہ نہیں کتنی ہی عورتوں نے دودھ اور بیٹے کی بخشش حاصل کی تھی۔ کئی بار تو کنواری لڑکیوں کو بھی یہ بخشش دی تھی۔ بات تو بابا جی کے خوش ہونے کی ہے، اتنے عظیم اور طاقتور انسان، جس کی دنیا جے جے کار کرتی تھی۔ سنساری اگرایسے عظیم انسان کو ’’بھگوان‘‘ سمجھتا تھا تو کیا غلط سمجھتا تھا؟
اب جب کے سنساری مر گیا تھا توسبھی مذاہب سے جڑے لوگوں، شہر کی نامور ہستیوں اور رنگ برنگی پارٹیوں کے لیڈروں کا یہ فرض بن گیا تھا کہ سنساری کے جسدِ خاکی کو سنبھالیں۔ پولیس سنساری کو لا وارث سمجھ کر اس کے جسم کو قبضے میں لئے بیٹھی تھی۔ حکومت کے بھاڑے کے ٹٹوؤں کو کیا پتہ تھا کہ سنساری لا وارث نہیں ہے، تمام شہر ہی اس کے وارثوں کا تھا۔
سنساری ہی شہر میں ایک شخص تھا، جو سب کیلئے ایک تھا۔ اکائی کی ایک سچی مثال سنساری ہی تھا۔ سنساری ہی تھا جو روپے پیسوں کی محبت سے پرے سب کا بھلا مانگنے والا تھا۔ ہر وقت شہر اور شہر کے لوگوں کی بھلائی کیلئے ایشور سے دعا مانگتا تھا۔ سنساری جیسے فقیروں کی دعا ہی ہوتی ہے، جس کے سہارے دنیا چل رہی ہے۔ پھر ایسے فقیر کی دنیا سے رخصت ہو جانے پر ان کیلئے اجتماع منعقد کرنا اور اس کو یاد کرنا، کس کا فرض نہیں بنتا؟
سنساری نے اس دنیا سے رخصت کیا لی، شہر کیلئے وہ ایک مقدس ہستی بن گیا۔ اس کا آخری دیدار کرنے کیلئے شہر کے لوگوں میں ایک دوڑ سی مچ گئی تھی۔ سبھی محلوں کے چودھریوں کی اپنے اپنے محلوں میں خفیہ میٹنگیں شروع ہو گئی تھیں۔ محلے اور شہر کے ان چودھریوں کے سر پر سنساری کے کریا کرم کی بھاری ذمہ داری آ گئی تھی۔ شہر کے تمام دھرموں اور مذہبوں کے لیڈر سنساری کے ’’مقدس جسم‘‘ کو حاصل کرنے کیلئے اپنے اپنے داؤ پیچ کرنے میں لگے تھے۔ سنساری کے مردہ جسم کے پاس میلے کچیلے، پھٹے پرانے کپڑوں کو ٹھوس ٹھوس کر بھری ہوئی گٹھری میں سے بھگوان رام کی فوٹو نکلی تھی۔ گٹھری میں بھگوان رام کی نئی فوٹو کس طرح اور کہاں سے آ گئی تھی؟ ۔ اس کے بارے میں لوگ چاہے کچھ بھی کہیں پر مراری اور اس کے ساتھیوں کا سنساری کے مردہ جسم پر حق ظاہر ہو گیا تھا۔ مراری اور اس کے ساتھی، سنساری کو ’’دھرم کا فقیر‘‘ ہونے کی اس سے بڑی مثال اور کیا دے سکتے تھے۔ مراری نے اپنے مذہب اور محلے کے لوگوں کے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سنساری کے مردہ جسم کو حاصل کرنے کیلئے چاروں جانب سے گھیرا بندی کر لی۔ یہی تو ایک موقع تھا، جس سے مراری محلے کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا تھا۔ سنساری کے مردہ جسم کو حاصل کرنے کیلئے محلے کے لوگوں کا متحد ہونا بہت ضروری تھا، کیونکہ یہ سبھی مذاہب کی حفاظت کی بات تھی۔ ایک رام بھگت، ہندو مرد کو اگر اور کسی مذہب کے رسم و رواج کے مطابق دفنا دیا جائے تو مہا پاپ ہو جائے گا۔ مراری اور اس کے ساتھیوں کے ہوتے ہوئے اس محلے میں ایسا مہا پاپ ہو جائے یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ ساتھ میں مراری کے پاس یہی تو ایک موقع تھا جو وارڈ کے مخالف کو رواج مخالف اور دھرم مخالف ہونے کا فتوی لگوا سکتا تھا۔ لہذا مراری اور اس کے ساتھیوں نے جد و جہد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
بھائی سنساری سنگھ کے مردہ جسم کو سکھ مذہب کی ریتی رواج کے مطابق ہی انتم کریا کرم کیا جانا چاہیے۔ یہ مقدس کام سدھو صاحب کی قیادت کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ سنساری کے گلے میں ایک لاکٹ اور گٹھری میں سے مذہب سے متعلق ایک کتاب ملی تھی جو سنساری کے سکھ ہونے کا ثبوت پیش کرتی تھی۔ سکھ مذہب سے تعلق رکھے بغیر سنساری اپنے گلے میں گرو مہاراج کی تصویر والا لاکٹ کس طرح ڈال سکتا تھا؟ چنانچہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ایک سکھ مذہبی شخص کے جسم کو دوسرے مذہب والے لوگ ادھر ادھر لے جائیں، اس کی ذلت کرانے۔ گرو کا سکھ اپنے جیتے جی ایسا ہوتے کس طرح دیکھ سکتا تھا۔ یہ ہندوؤں کی حکومت اور دوسرے مذاہب کے لوگ تو یہی چاہتے ہیں کہ سکھ مذہب کے عظیم انسان کا جسم ایسے ہی سڑکوں پر لا وارثوں کی طرح پڑا رہے اور ذلیل ہوتا رہے، لیکن سدھو صاحب اپنے جیتے جی یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ وہ تو اپنا انگ انگ کٹوا سکتا تھا۔ اس نے فوری طور پر محلے کے سرداروں کو جمع کر لیا اور اس کام کو تمام کرنے کے لئے ’’جکرا‘‘ بھی لگا دیا تھا۔ طرح طرح کی میٹنگیں ہونے لگیں۔ میٹنگوں کے اندر بھائی سنسار کے ایک سچے صاف ستھرے انسان ہونے کے بارے میں روشنی ڈالی گئی۔ سکھ مذہب میں اس کے مقام کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ سدھو صاحب نے یہ اعلان کر دیا کہ گرودوارے کے ساتھ لگتی ہوئی جگہ پر لائبریری کھولی جائے گی۔ یہ جگہ میونسپل سے حاصل کرنے کیلئے اعلی عہدیداروں سے بات کرنے اور منتریوں سے ملنے کا بوجھ سدھو صاحب نے اپنے نازک کندھوں پر لے لیا۔ اپنے مذہب کے لوگوں کو اس مشکل گھڑی میں اکٹھے ہونے اور جد و جہد کرنے کا اعلان بھی سدھو صاحب نے کر دیا تھا۔ مذہب پر آئے ہوئے اتنے بڑے بحران کے خلاف محاذ لگانے کی نوبت بھی آ سکتی تھی۔
شہر کے اونچی ذات والے لوگ ایسے ہی شور مچا رہے تھے۔ سنساری ہر دوسرے چوتھے دن والمیکی کے مندر میں سیوا کرنے آتا تھا، کس کو پتہ نہیں تھا؟ اگر وہ والمیکی کا بھگت نہیں تھا تو والمیکی کے گھر میں آ کر سیوا کرنے کا کیا مطلب تھا۔ اگر سنساری اس سماج سے جڑا نہیں تھا تو دوسرے مذہب کے لوگوں نے اسے در در بھٹکنے کیوں دیا؟ اب ان کو اچانک سنساری کی یاد کیوں اور کیسے آ گئی؟ اپنے رشیوں، عظیم لوگوں اور فقیروں کو ناجر اور اس کے ساتھی دوسرے مذاہب والوں کو کیسے سونپ سکتے تھے۔
اب تو قوم جاگ چکی ہے۔ جب سوئی ہوئی تھی، تب سو رہی تھی۔ اب بیداری آ گئی ہے پھر بھلا فقیر درویش کس طرح دوسرے کے ہاتھوں سے بے ادب ہوں گے۔ ناجر یہ کیسے ہونے دیتا؟ وہ سنساری کی میت کو کسی دوسرے کے ہاتھ نہیں لگنے دے گا۔ ناجر کا کہنا تھا کہ ان کے بزرگوں کو اب تک ان اعلی ذات کے لوگوں نے اپنے رسم و رواج میں کبھی شامل نہیں کیا، اب درویش کا اپنے رسم و رواج کے مطابق کریا کرم چاہتے ہیں۔ کم سے کم ناجر کے ہوتے تو یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ناجر کی قیادت میں شہر کی گندگی بازار میں آنے لگی۔ ناجر جی مہاراج نے سنساری کا آخری کریا کرم کرنے کیلئے اپنے گھر کے ساتھ والامیونسپل کا ڈھائی کنال کا پلاٹ کو بھی مقرر کر لیا تھا۔ کریا کرم کے بعد سنساری کی یادگار بنانے کے بہانے خالی پڑے پلاٹ پر قبضے کا اس سے اچھا موقع ناجر کیلئے اور کیا ہو سکتا تھا؟ ناجر نے شہر کی ممبر اسمبلی میڈم کو بھی یہ واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ خود مداخلت کر کے سنساری کی میت انہیں دلوانے میں مدد فرمائیں، نہیں تو وہ اس کے جسم کو حاصل کرنے کیلئے کسی بھی طرح کے مناسب یا غیر مناسب اقدام کر گزرے گا۔ اس کی ذات کے نوجوان لڑکوں نے کوئی ایسا ویسا کام کر دیا تو اس کیلئے ناجر ذمہ دار نہیں ہو گا۔ ناجر نے میونسپل کے پلاٹ کو سنساری کی یادگار بنانے کیلئے ان کو واضح طریقے سے بتاتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ تک بھی اطلاع دی تھی۔
دیوی ماتا کے بھگت سیٹھ برہم آنند کے شہزادے ’’ستی سوروپ‘‘ اور اس کے شاگردوں کی منڈلی کے پاس سنساری کے دیوی ماتا کے بھگت ہونے کے ثبوت کم نہیں تھے۔ پھر بھلا یہ منڈلی سنساری کے مردہ جسم پر اپنا حق کیوں نہیں جتاتی؟ سنساری جیسے دیوی ماتا کے سچے بھگت کو سڑک کے کنارے اس طرح پڑے رہنا، سچ مچ میں آنند جی کے شہزادے ’’ستی سوروپ‘‘ کیلئے ہی نہیں بلکہ دیوی ماتا کے سبھی بھگتوں کیلئے بڑی شرم کی بات تھی۔ ستی سوروپ اور اس کی منڈلی کے پاس یہی ایک موقع تھا، جس میں وہ سنساری کے آخری کریا کرم کیلئے چندہ جمع کر سکتے تھے۔ مندر کے پیچھے عورتوں کے پوجا پاٹ کیلئے ایک مخصوص کمرہ بنانے کا کام کتنے عرصے سے ادھورا پڑا تھا، جو اب مکمل ہو سکتا تھا۔ کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑ تی تھی ان عورتوں کو پوجا پاٹ کیلئے، یہ سب سنساری کی وجہ سے ہی مکمل ہو سکتا تھا۔
بابا دھرم داس کے ڈیرے میں بھی سنساری کے آخری کریا کرم کی خبر پہنچ چکی تھی۔ بابا دھرم داس نے اپنے آس پاس کے گاؤں میں اپنے مبلغین کے ذریعے یہ خبریں پھیلا دیں کہ ڈیرے سے متعلق ایک عظیم انسان اپنے فانی جسم کو ترک کر کے سورگ جا چکے ہیں۔ گاؤں کے اندر جتنے بھی ڈیرے کے شردھالو تھے یا جتنی بھی عورتوں نے بابا سے دودھ اور بیٹے کی بخشش حاصل کی تھی، ان کی طرف سے سنساری کی یاد میں لنگر بانٹنے کیلئے کافی مقدار میں رسد آنے لگی تھی۔ ڈیرے کے رہنے والے اور چھوٹی سی عمر میں ایشور کے ساتھ منسلک ہونے پر وہ دنیا ترک کر چکے تھے۔ بابا دھرم داس کے شاگردوں کیلئے سنساری کے جنازے کے یہی دس دن اچھے گزرنے والے تھے۔ ڈیرے کے ساتھ جڑے ہوئے دیہاتوں اور قصبے کی عورتوں کیلئے مسلسل دس بارہ دن بابا دھرم داس کے فضل سے ڈیرے میں خدمت کرنے کیلئے آنے کا موقع اور سبب بنا تھا۔ بابا دھرم داس کے شاگرد یہ موقع ہاتھ سے کس طرح جانے دیتے؟ انہیں سنساری کے مردہ جسم پر جھوٹا دعوی تو کرنا نہیں تھا، سنساری کے گردن میں ڈلی ہوئی مالا سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا تھا کہ وہ پکے بھگت نہیں ہیں۔
سنساری کی موت کے چوبیس گھنٹے بعد بھی شہر کے اندر غیر یقینی کا ماحول بنا ہوا تھا۔ مذہب سے متعلق ایسا مسئلہ اب سے پہلے کبھی نہیں اٹھا تھا۔ اس طرح کے مذہبی بحران کا سامنا پہلے کبھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ ہر مذہب کے اور مذہبی مقاموں سے وابستہ لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ سنساری کامقدس جسم ان کو حاصل ہو جائے گا۔ اب محلوں اور مذہبی مقامات پر سنساری کے مردہ جسم کو حاصل کرنے کیلئے خفیہ اجلاس ہونے لگے تھے۔ اب عام شہریوں کے چہرے پر کیا ہو گا، کا سوال نظر آ رہا تھا۔ دکان، مکان، گلی، محلے، جہاں کہیں بھی چار آدمی اکٹھے ہوتے یہی بات چلتی سنساری کا مردہ جسم کسے حاصل ہو گا؟ ہر چودھری کی جانب سے یہی یقین دلایا جا رہا تھا کہ میت انہیں ہی ملے گی، چاہے اس کیلئے انہیں کتنی ہی بڑی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ شہر کے اندر کشیدگی کا ماحول بن گیا تھا۔ شہر کے اندر پیدا ہوئی اس کشیدگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پولیس نے بھی اپنی گشت بڑھا دی تھی۔ شہر کے کشیدگی والے نازک علاقوں میں سخت ڈیوٹی دی جانے لگی۔ ہر موڑ اور چوک پر ناکے لگا دیئے گئے، بیرونی افواج کو اس موقع پر فائدہ اٹھانے کی خبریں بھی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا شہر چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا تھا۔
شہر کی اس سنگین صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے کچھ امن پسند لوگ بھی آگے آ گئے تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے شہر میں شانتی کس طرح تحلیل ہو سکتی تھی؟ لوگوں کے اندر کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ان کا آنا ضروری تھا۔ صورتِ حال کو بہتر بنانے کیلئے الگ الگ محلے سے تمام مذاہب کے ذہین لوگ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے آگے آئے تھے۔ سیٹھ امن چند باغی اس شانتی یونین گروپ کا لیڈر تھا۔
امن چند باغی شہر میں اپنا راستہ بنائے رکھنے کیلئے کافی دیر سے کوشش کر رہا تھا۔ شہر میں اپنا اثر ڈال کر چندہ جمع کرنا اور خیر سگالی کے اجتماع کرانے کا بیڑا اس نے اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس کام سے متعلق اس نے کمیٹی بھی بنائی ہوئی تھی، جس کے سربراہ، خزانچی، سیکرٹری کے تمام مشکل عہدوں پر وہ خود اکیلا ہی کام کر رہا تھا۔ انسانی حقوق محافظ کمیٹی کا سربراہ گردیو سنگھ بھی شانتی یونین گروپ کا اہم متحرک شخص تھا۔ اپنی بہو کو مرضی کے مطابق خود کشی کرنے کا موقع دینا، تھانے میں رشوت دے کر مجرموں کو چھڑوانا، جیسے انسانی حقوق سے متعلق معاملات میں ہیر پھیر کرنے میں اس کی پورے علاقے میں واہ واہی تھی۔
شانتی پسند شہریوں کی تنظیم میں لالہ کوڑ چند، سردار مخبر سنگھ، سیٹھ غریب داس سمیت کئی اور لوگ بھی تھے، جو اپنے علاقے کی مانی ہوئی شخصیات تھیں۔ شہر کے با اثر آدمیوں کے اس گروپ نے پولیس کے اعلی حکام اور تمام مذاہب کے رہنماؤں اور ممبر بی بی کے ساتھ بھی مختلف میٹنگز کر کے مناسب حل تلاش کرنے کی اپنی پوری طاقت لگا دی تھی۔
آخر ان شانتی اور انصاف پسند شہریوں کے تعاون اور کوششوں سے تمام مذاہب کے محافظ، چودھریوں اور رہنماؤں کی ایک میٹنگ ممبر اسمبلی بی بی جی کے ’’غریب خانے‘‘ پر بلا لی گئی۔ غیر ملکی کپ میں چائے پیتے اور قیمتی غیر ملکی پلیٹوں میں طرح طرح کی مٹھائیاں کھاتے اور قہقہے مارتے ہوئے تمام مذاہب کے نسل پرست لیڈروں نے متفقہ طور پر اس بحران کا حل ڈھونڈ نکالا تھا۔
میٹنگ میں اتفاقِ رائے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا کہ سنساری کا انتم سنسکار مسٹر ناجر جی کے گھر کے قریب خالی پڑے پلاٹ میں سکھ مذہب کے دستور رواج کے مطابق ہی کیا جائے گا۔ چونکہ سنساری تمام مذاہب کا مشترک شخص تھا، اس لئے اس طرح فقیر پرسب کا برابر کا حق بنتا ہے۔ سنساری کی استھیاں (ہڈیاں) آدھی رام جی کے مندر کی کمیٹی کو اور آدھی گرودوارہ منیجر کمیٹی کو دیئے جانے کا فیصلہ ہوا۔ دیوی ماتا کے گھر میں سنساری کی یاد میں جگراتا رکھا جائے گا اور بابا دھرم داس کے ڈیرے میں تمام مذاہب کی جانب سے اجتماعی لنگر لگائے جانے کا اعلان کیا گیا۔ ایک مذہبی ہم آہنگی ریلی نکالنے کا فیصلہ بھی کیا گیا، ان تمام مذہب کے ٹھیکیداروں کی طرف سے۔
تمام مذاہب کے محافظ اس فیصلے پر بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ سب کے چہروں پر چمک دکھائی دے رہی تھی اور ممبر اسمبلی بی بی تو خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی، کیونکہ پہلی بار اس نے سارے شہر پر اپنا غلبہ قائم کیا تھا۔ اس کی تندہی اور کوششوں سے ہی شہر پر آیا اتنا بڑا مذہبی بحران ٹل گیا تھا۔ تمام مذاہب کے رہنما اپنے لوگوں کے درمیان جیت کی ڈینگ ہانکنے پر لگے ہوئے تھے۔ اپنی اپنی جیت کی دلیلیں دینے میں جٹھے ہوئے تھے۔
اور ہاں! پولیس کے اہم افسر کو بحران کے دوران شانتی برقرار رکھنے کے بدلے میں اعزاز دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی رقم جمع کرنے کی ذمہ داری مذہبی ہم آہنگی کمیٹی کے سربراہ سیٹھ امن چند باغی نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ مراری اپنی جیت پر خوشی منا رہا تھا۔ پورا محلہ اس بحران کی گھڑی میں اس کی پیٹھ پر آ کر کھڑا ہو گیا۔
لیکن بے چارہ سنساری؟ جس کو اپنے جیتے جی پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ شہر کا اتنا اہم اور عظیم انسان ہے۔
***
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول