FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

رنگِ حنا

 

 

 

                پروین سلطانہ حناؔ

 

 جمع  و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

حمد

 

مرے خیال کا محور ہے میرا سب تو ہے

میں خوش گمان ہوں تجھ سے کہ میرا رب تو ہے

مرا وجود گواہی ہے تیری رحمت کی

جو نعمتیں ہیں میسر مجھے سبب تو ہے

فنا بقا کا تسلسل تجھی سے ملتا ہے

مرا حسب، مرا شجرہ، مرا نسب تو ہے

ہر ایک فکر پہ حاوی رہا ہے دھیان ترا

بنی ہے ڈور یہ سانسوں سے دور کب تو ہے

ہیں حروف بانجھ کروں کس طرح ثنا تیری

کہ سارے لفظ ہیں ساکت نظر میں رب تو ہے

ترے ہی نام سے ہے معتبر قلم میرا

مرا خیال، مری فکر اور ادب تو ہے

سزا کے واسطے، روزِ جزا مقرر ہے

یہ آگ بھی ترا جلوہ ہے اور غضب تو ہے

خطائیں میری، کرم تیرا، درگزر تیری

خطائیں بخش دے میری کہ میرا رب تو ہے

جو مانگنا ہو وہ کہنا، ذرا سنبھل کے حنا

وہ سامنے ہے ترے اور بے ادب تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

مری صبح زندگی بھی ترے نام ہو گئی ہے

ترے ذکر سے منور مری شام ہو گئی ہے

 

کبھی کہکشاں کا منظر، کبھی چاندنی سے باتیں

تجھے دیکھنے کی عادت سر بام ہو گئی ہے

 

یہ فلک، یہ چاند تارے، ہیں فدا کہ جس پہ سارے

مری ذات بس اسی کی تو غلام ہو گئی ہے

 

تو ہی فکر کا ہے محور، مجھے وقت کی خبر کیا

کہاں صبح ہو گئی ہے، کہاں شام ہو گئی ہے

 

مرا حرف حرف چمکے، مرا لفظ لفظ مہکے

مری خوشبوئے تکلّم ترے نام ہو گئی ہے

 

ابھی آنکھ ہی کھلی تھی، ابھی ہوش ہی تھا آیا

میری عمر کی یہ پونجی تو تمام ہو گئی ہے

 

بڑی دیر تک سفر میں، مری خواہشیں رہی ہیں

یہ بساط اب سمیٹو، چلو شام ہو گئی ہے

 

ہیں جو چار سو ہمارے یہ جو حشر کے مناظر

دیکھو بیسویں صدی بھی تو تمام ہو گئی ہے

 

کہیں مجلسوں کی رونق، کہیں واعظوں کا مجمع

یہ روایتوں کی محفل بڑی عام ہو گئی ہے

 

مجھے لگ رہا ہے ایسے، کہ ہے چل چلاؤ جیسے

کہ ستاروں کی یہ محفل بھی تمام ہو گئی ہے

 

مرا انتخاب بھی تو، مرا انتساب بھی تو

یہ کتاب زندگی بھی ترے نام ہو گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سبحان ربی الاعلیٰ

 

میں تیرا ذکر کرتی ہوتی ہوں

تجھی سے بات کرتی ہوں

تری سوچوں میں رہتی ہوں

تجھی کو یاد کرتی ہوں

کوئی جب بات کرتا ہے

کوئی جب پاس آتا ہے

تسلسل ٹوٹ جاتا ہے

ترا میرا جو رشتہ ہے

کوئی کچا نہیں دھاگا

کہ اک جھٹکے سے جا ٹوٹے

اسے جس ڈور سے باندھا

وہ ہے مشروط سانسوں سے

کہ جب تک سانس باقی ہے

یہی اک آس باقی ہے

کہ میں نے عمر کی ناؤ

جو تجھ کو سونپ دی مولیٰ

وہ نیّا پار ہو جائے

کچھ ایسی بات بن جائے

کچھ ایسی بات ہو جائے

کہ جب پرواز ہو میری

میں اڑ کے عرش تک پہنچوں

ترے قدموں میں گر جاؤں

تو میرے پاس آ جائے

بہت نزدیک آ جائے

اٹھاؤں سر جو سجدے سے

ترا دیدار ہو جائے

٭٭٭

 

 

سپردگی

 

جیون کے بہتے ساگر میں

میں تو اپنی عمر کی ناؤ

مالک تجھ کو سونپ رہی ہوں

تیز ہوائیں تیرے تابع

موجیں تیری، رستے تیرے

جس سو  چاہے نیّا لے چل

تیری جانب دیکھ رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

بھروسہ

 

خوشی ملی ہے جو یہاں

ترے کرم کی دین ہے

جو دکھ ملے مجھے یہاں

وہ آنسوؤں میں ڈھل گئے

نظر اٹھی تری طرف

دعا کے پھول کھِل گئے

مرے تمام راستے

تری طرف نکل گئے

٭٭٭

 

 

 

 

جو لگے گی واں عدالت

 

نہ یہ ظلمتیں رہیں گی، نہ سیاہ رات ہو گی

یہ جہاں نہیں رہے گا تو خدا کی ذات ہو گی

 

جو گھڑی ہے فیصلے کی وہاں حق کی بات ہو گی

نہ تو جھوٹ کی چلے گی نہ ہی سچ کو مات ہو گی

 

وہ حقیقی محتسب ہے وہی فیصلہ کرے گا

جو لگے گی واں عدالت تو وہیں پہ بات ہو گی

 

میں یقین کی حدوں سے تری راہ پر چلی ہوں

تیری بے شمار رحمت میرے ساتھ ساتھ ہو گی

 

یہاں غم بھی عارضی ہیں تو خوشی بھی عارضی ہے

یہاں جیت جیت ہو گی نہ ہی مات، مات ہو گی

 

وہ نبیِ ختم مرسل، میرا میرِ کارواں ہے

اسی راہ پر چلوں گی تو میری نجات ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

عقیدت

 

تھام کر دامنِ مصطفی اے خدا، میں نے تیری ڈگر پر قدم رکھ دیا

آسماں کی طرف میری نظریں اٹھیں، سامنے اس نے لوح و قلم رکھ دیا

 

لوگ سارے یہاں پر ہی مصروف ہیں، اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں

بالمقابل زمانہ ہے اور سامنے آپ کا میں نے نقش قدم رکھ دیا

 

اتنی لمبی مسافت سے تھک ہار کے، لوٹ آئے تو ہو، ساتھ کیا لائے ہو

میں نے کچھ نہ کہا، ان کی سرکار میں، اپنا سرمایۂ چشمِ نم رکھ دیا

 

لوگ پتھر اٹھا کر بھی سرشار ہیں، سنگ بردار ہیں اور تیار ہیں

روح گھائل ہوئی، پاؤں زخمی ہوئے، ہر قدم پر زمانے نے غم رکھ دیا

 

مشکلیں راہ میں یوں تو آتی رہیں، زخم کھا کر بھی میں مسکراتی رہی

اپنے امکاں تلک حق نبھاتی رہی، راہ میں، میں نے حق کا عَلَم رکھ دیا

 

آدمی کے تعاقب میں شیطان ہے، وہ تو آزاد رو ہے کہ انسان ہے

کہ برا اور بھلا دیکھ کر وہ چلے راستے میں اگر پیچ و خم رکھ دیا

 

زندگی سوز ہے، ساز ہے، راگ ہے، یہ ازل سے ابد تک کا اک راز ہے

ہر نفس سن رہا ہے بڑے غور سے، وقت نے نغمۂ زیر و بم رکھ دیا

 

حق نے اعزاز بخشا ہے مجھ کو حناؔ، زیر سایہ رہوں، اس گھنی چھاؤں میں

اس کی خدمت کروں، مجھ کو جنت ملے، یہ صلہ ماں کے زیر قدم رکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

غم ہو کہ خوشی شاملِ جذبات رہے ہیں

وہ دور سہی پھر بھی مرے ساتھ رہے ہیں

 

ہو قرب مُیَسّر تو بہاروں کی طرح ہیں

اور ہجر کے موسم میں بھی برسات رہے ہیں

 

اِک دھوپ سی رہتی ہے مرے ساتھ ہمیشہ

اِک درد سے روشن مرے دن رات رہے ہیں

 

احساس کی دنیا میں نئے نقش بنا کر

کچھ لوگ بڑی دیر مرے ساتھ رہے ہیں

 

پایا ہے کسی کو بھی، جو کھویا ہے کسی کو

ہاں ! باعثِ وہ ترکِ ملاقات رہے ہیں

 

لہریں ہوں کہ خو شبو ہو، ہوائیں ہوں کہ بادل

ایسے ہی پریشاں مرے حالات رہے ہیں

 

محبوبِ نظر ہے وہی جو جاں سے ہے پیارا

جاں دے کے ہی ملنے کے اشارات رہے ہیں

 

مہکار عجب ہے تِری خوشبوئے بدن کی

مسرور سے، مہکے ہوئے باغات رہے ہیں

 

جنت تمہیں مل جائے اگر صبر کے بدلے

اس صبر کے بدلے میں انعامات رہے ہیں

 

پوچھا جو کسی نے کہ حناؔ کیسی ہے لڑکی؟

سب حق میں تمہارے ہی جوابات رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے شہر میں خوف و ہراس رہتا ہے

جسے بھی دیکھتی ہوں میں، اداس رہتا ہے

 

بچھڑ گیا ہے وہ مجھ سے، زمانہ لاکھ کہے

یہیں کہیں وہ میرے آس پاس رہتا ہے

 

یہ وضعداری کہاں ہے یہاں کے لوگوں میں

مگر ہمیں تو محبت کا پاس رہتا ہے

 

میں اپنے رَب سے بھلا دور کیسے ہو جاؤں

اندھیری رات میں وہ بن کے آس رہتا ہے

 

بھُلا کے اس کو یہاں لوگ کیسے جیتے ہیں ؟

مرے لئے تو ہمیشہ وہ خاص رہتا ہے

 

اُسی کے زیرِ نگیں ہیں زمین کے موسم

ہیں بُرج اس کے ہی تابع، وہ راس رہتا ہے

 

وہ سامنے ہو تو ہر شے مجھے حسین لگے

وہ دور ہو تو یہ دل ناسپاس رہتا ہے

 

اسے بھی رنگِ حناؔ سے ہے ایک نسبت سی

وہ شخص خود بھی بہت خوش لباس رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہستی فانی، مستی فانی

مت کر ناداں، تو من مانی

 

حسن، محبت، اور جوانی

چڑھتے دریاؤں کا پانی

 

لوحِ زمیں پر وقت نے لکھ دی

اونچے محلوں کی ویرانی

 

دولت پر تم، ناز نہ کرنا

دولت تو ہے آنی جانی

 

دل ہے مرکز، حرص و ہوا کا

ہم نے دل کی ایک نہ مانی

 

حال مرا تم سے کہہ دے گی

میری آنکھوں کی طغیانی

 

تتلی کے پرَ چھو کر دیکھو

رنگوں سے لکھتی ہے کہانی

 

مجھ سے ملنے آ جاتی ہے

شام ڈھلے تو رات کی رانی

 

رنگِ حناؔ بھی اڑ جائے گا

یہ ہے وقت کی ریت پرانی

٭٭٭

 

 

 

زندگی چاہت کے لیے تھوڑی ہے

 

منافرت کی کمین گاہوں میں رہنے والو!

یہ وقت اپنی اڑان میں ہے

کہ تیر جیسے کمان میں ہے

تم اپنی عمروں کی برف دیکھو

جو لمحہ لمحہ پگھل رہی ہے

جو سرد پانی میں ڈھل رہی ہے

محبتوں کے لئے نہیں ہے

مجھے میّسر ذرا سی فرصت

عداوتوں کے لئے کہاں سے

خرید لائے ہو اتنی مہلت

مرے خیالوں کی رہگزر پر

اک ایسا چشمہ ابل رہا ہے

کہ جس کی شیریں حلاوتوں سے

پیاسے من کو قرار آئے

غرور و نفرت کے خارزاروں پہ

دھیرے دھیرے بہار آئے

خدا کرے اس حسین چشمے کی رو میں آ کر

تمام بہہ جائیں ظلم و نفرت کی قتل گاہیں

نکھرتے جائیں زمیں کے موسم

ابھرتی جائیں نئی فضائیں

٭٭٭

 

 

 

 

آخری سانس تک

 

کس قدر چاہ سے

یاد کے ہاتھ نے

دل کی دیوار پر

اِک گھڑی نصب کی ہے ترے پیار کی

دھڑکنوں کی طرح جو رکی ہی نہیں

زندگی میں مری آخری سانس تک

ذکر تیرا کروں، اور کرتی رہوں

صبح سے دوپہر

اور پھر شام تک

شب کا پہلا پہر

ہو کہ نصف رات تک

آخری بات تک

قلب مسکن ہے میرا تری یاد کا

تیرے رنگ، تیری خوشبو، تری ذات کا

آنکھ بھی ہم سفر ہر قدم پر رہی

یاد بھی پھوار بن کر برستی رہی

ذکر کی کہکشاں جگمگا تی رہی

دھڑکنیں ساز پر گیت گاتی رہیں

اور یہ سوچیں تجھے گنگناتی رہیں

زندگی میں مری آخری سانس تک

٭٭٭

 

 

 

 

سنو! کہ آج زندہ ہے

 

سنو! کہ آج زندہ ہے

جو کل گزرا تھا وہ لمحہ تو ماضی کا فسانہ ہے

جو آنے وا لا موسم ہے اسے بھی بیت جانا ہے

مگر جو آج کا رشتہ ہے کل سے وہ پرانا ہے

کہ ہم تو آج میں جیتے ہیں، مرتے ہیں

اسی میں سانس لیتے ہیں

یہی تو آج اپنا ہے

وہی حسنِ عمل اچھا ہے جو ہم آج کرتے ہیں

جو اچھا آج ہوتا ہے اسے کل یاد کرتے ہیں

وگرنہ بے ثمر لمحے فقط برباد کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

جب میرے دل میں اس کی محبت سما گئی

خود آگہی کا مجھ کو قرینہ سکھا گئی

 

عکسِ رخِ جمال کا مظہر ہے کائنات

اک نور کی کرن ہے کہ دنیا پہ چھا گئی

 

دن بھر کی دوڑ دھوپ سے تھکنے لگا بدن

لیکن سکوتِ شب میں مجھے نیند آ گئی

 

کچھ لوگ دوسروں کو جلاتے رہے مگر

دیکھا تو آگ ان کے ہی دامن پہ آ گئی

 

اپنوں سے کوئی کرتا ہے ایسا سلوک بھی

تیری یہ بے رخی تو میرا دل دکھا گئی

 

شکوہ کبھی کسی سے تو میں نے کیا نہیں

یہ آج کیسی بات میرے لب پہ آ گئی

 

لوح و قلم کا ورثہ مجھے دین سے ملا

پیغامِ حق کی بات صحیفوں میں آ گئی

 

رنگِ حناؔ بھی اس کے ہی رنگوں کا عکس ہے

حسنِ ازل کی خوشبو گلابوں میں آ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

ہم سادہ لوح حق کے طلبگار ہو گئے

جو وقت کے غلام تھے سردار ہو گئے

 

عزت کا تاج ان کے ہی سر پر رکھا گیا

جو لوگ اُن کے حاشیہ بردار ہو گئے

 

جو اہل زر ہیں اُن کا زمانہ ہے معترف

جس نے بھی دیکھا اُن کے طرفدار ہو گئے

 

قدریں بدلتا وقت، زمانے کی گردشیں

جینے کے راستے بھی تو دشوار ہو گئے

 

ہم نے بھی مصلحت کا لبادہ پہن لیا

پھر یوں ہوا کہ ہم بھی اداکار ہو گئے

 

غم سے نبرد آزما اکثر رہا یہ دل

نا مہربان لوگ، دل آزار ہو گئے

 

ہے منحصر تمہاری رضا پر میری خوشی

تم کو سکھی جو دیکھا، تو سرشار ہو گئے

 

وعدہ ہے اہلِ صبر کا حامی ہے خود خدا

چلتے رہو کہ راستے، گلزار ہو گئے

 

اُس نے سخن میں دردؔ کی تاثیر ڈال دی

ہم اِس لیے حِناؔ کے پرستار ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

اے خدا بخش دے ضرور مجھے

تیری رحمت پہ ہے غرور مجھے

 

راحتِ جسم و جاں ہے ذکر تِرا

اِس میں ملتا ہے اِک سرور مجھے

 

اُس نے دیکھی ہے تیری ایک جھلک

اچھّا لگتا ہے کوہِ طور مجھے

 

ایسی پوشاک زیبِ جسم کروں

لوگ جنت کی سمجھیں حور مجھے

 

آپ کی یاد میں ہی جیتی ہوں

خود سے مت کیجئے گا دور مجھے

 

اتنی کثرت سے اُن کا ذِکر کروں

خود بلائیں وہاں حضور مجھے

 

تسبیحِ فاطمہ کا وِرد کروں

کام کرتا ہے جب بھی چُور مجھے

 

اُن کی چاہت ملی ہے وَرثے میں

اور کیا چاہئے حضور مجھے

 

اُن کو جب سے بسا لیا دِل میں

حِناؔ لگتی ہے پُر غرور مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

شکستہ ساز ہو آواز رکھنا

تم اپنا بھی کوئی انداز رکھنا

 

مسافت کٹ ہی جائے گی کسی دن

پروں میں طاقتِ پرواز رکھنا

 

اڑانوں کے سفر پر جب چلو تو

توانا پر، نظر کو باز رکھنا

 

بڑا مشکل سفر ہے زندگی کا

کوئی ساتھی، کوئی دم ساز رکھنا

 

اکیلے فرد کی سنتا ہے کوئی؟

زمانے بھر کو ہم آواز رکھنا

 

مسلسل رابطے میں رب سے رہنا

اسی کو محرم و ہم راز رکھنا

 

دُکھانا دِل ہے اس بستی کا شیوہ

حنا اس کو نظر انداز رکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

ہم بھی فارغ تم بھی فارغ آؤ کریں کچھ باتیں بھی

دل میں آگ لگا دیتی ہیں ساون کی برساتیں بھی

 

لوگ ہمارے، بچھڑے سارے یاد ہمیں جب آتے ہیں

رمِ جھِم رم جھِم برساتی ہیں بھیگی بھیگی راتیں بھی

 

پار افق کے جس بستی میں لوگ ہمارے رہتے ہیں

کیا ان کو بھی یاد آتی ہیں اکثر وہ ملاقاتیں بھی

 

جگنو، چاندنی اور ستارے، بچپن کے وہ خواب ہمارے

خوشبو بن کر چھا جاتی ہیں بھولی بسری باتیں بھی

 

ایک دور تھا جب یہ باتیں غیر مہذب لگتی تھیں

رائج ہیں اب کلچر بن کر وہ ساری خرافاتیں بھی

 

تم آپس میں جھگڑا کر کے اپنا آپ گنوا مت دینا

دیکھو تاک میں بیٹھی ہیں نا دشمن کی وہ گھاتیں بھی

 

دائیں ہاتھ سے ایسے دینا، بائیں ہاتھ کو خبر نہ پہنچے

ورنہ دل کا خون کریں گی اپنوں کی خیراتیں بھی

 

دین کی جو خدمت کرتے ہیں، ان کی خدمت عین عبادت

خود داری میں کہہ نہیں پاتے کرتے ہیں ملاقاتیں بھی

 

نیکی اور شرافت ہی تو سب سے اچھی قدریں ہیں

کون انھیں یہ سمجھائے جو پوچھ رہے ہیں ذاتیں بھی

 

تم سے مل کر میرے دل کو ایک سکون سا ملتا ہے

رنگِ حناؔ میں دل کش باتیں اچھی ہیں سوغاتیں بھی

٭٭٭

 

 

ہیں منتظر یہاں در و دیوار آپ کے

شاید کہ ہوں نصیب میں دیدار آپ کے

 

آ کر ہما ری بزم کی رونق بڑھائیے

ہیں کتنے سارے لوگ پرستار آپ کے

 

گرچہ ہمارا آپ سے تعارف نہ ہو سکا

رشتے میں کچھ تو ہم بھی ہیں سرکار آپ کے

 

جب سے سنا ہے آپ ہیں لاکھوں میں بے مثال

ہم تب سے ہو گئے ہیں طلبگار آپ کے

 

جب آپ نے بلایا تو فوراً ہی آ گئے

ہیں کتنے پُر خلوص مددگار آپ کے

 

اخلاص دوستوں کی ہے اعلیٰ تریں صفت

گرویدہ ہم ہیں اس لئے سرکار آپ کے

 

ماں آپ کی دُعا سے ہی میری نجات ہے

قدموں میں آ کے بیٹھوں گی سو بار آپ کے

 

ہاتھوں کو اپنے کر لیا میں نے لہو لہان

پاؤں میں چُبھ نہ جائیں کہیں خار آپ کے

 

رنگِ حناؔ کو خاص ہے نسبت گلاب سے

صحنِ سُخن میں مہکیں گے گلزار آپ کے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کاروبارِ ہست و بود ہے کیا

کبھی سوچا بھی ہے معبود ہے کیا

 

بظاہر تو نظر آتا نہیں ہے

ہمارے درمیاں موجود ہے کیا

 

جو خود ہے اپنے ہونے کی گواہی

وہی شاہد، وہی مشہود ہے کیا

 

سما جاتا ہے جو آنکھوں کے تلِ میں

وہ اپنے عکس میں محدود ہے کیا

 

ثنا گر جس کا ہے ہر ایک ذرہ

پسِ آئینہ وہ محمود ہے کیا

 

جسے سورج بھی سجدہ کر رہا ہے

میرا مالک وہی مسجود ہے کیا

 

لہو کی طرح مجھ میں دوڑتا ہے

مجھے حاصل میرا مقصود ہے کیا

 

بڑی نا معتبر ہے یہ کہانی

زیاں کیا ہے یہاں پہ سود ہے کیا

 

بہت سے بے گناہ مارے گئے ہیں

ابھی زندہ کوئی نمرود ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

چاہت کا تسلسل

 

 

اپنے امکان کی حد سے بڑھ کر

اپنے محبوب کی چاہت کرنا

اتنا آسان نہیں ہوتا ہے

خانۂ جاں میں دیا جلتا ہے دھیرے دھیرے

یہ وہ گوشہ ہے جو ویران نہیں ہوتا ہے

اس کی خو شبو میری سانسوں میں بسی رہتی ہے

دور رہ کر بھی کبھی دور نہیں رہتا ہے

پاس آتا ہے کبھی رقصِ صبا کی صورت

موجۂ گل کی طرح سے کبھی لہراتا ہے

کبھی ہونٹوں پہ غزل بن کے مہک جاتا ہے

کبھی ہاتھوں پہ حِنا بن کے لپٹ جاتا ہے

اُس کی چاہت نے سکھائے مجھے جینے کے چلن

میں نے انساں سے محبت کے قرینے سیکھے

میں نے مجبوروں کی، بیواؤں کی غم خواری کی

میں نے کمزوروں کے ‘ محروموں کے آنسوں پونچھے

جب بھی دُکھ با نٹنے لگتی ہوں میں ناداروں کے

ان کی آنکھوں میں دئیے پیار کے جل جاتے ہیں

رنگ چہروں پہ خوشی بن کے سمٹ آتے ہیں

غم کے سائے میرے اطراف سے ہٹ جاتے ہیں

اُس کے بندوں سے کوئی پیار اگر کرتا ہے

اُس کو اللہ بھی محبوب بنا لیتا ہے

یوں گزرتا ہے وہ کانٹوں کی گزر گاہوں سے

اُس کے دامن کو گناہوں سے بچا لیتا ہے

تیرے بندوں سے بہت پیار کیا ہے میں نے

ہوں گنہ گار یہ اقرار کیا ہے میں نے

لِمن الملک٭ کی آئے گی صدا محشر میں

میں یہ کہہ دوں گی کہ بے شک ہے حکومت تیری

میرے ہر جرم پہ حاوی ہے سخاوت تیری

مالِکُ الملک تھا دنُیا میں تو ہی

آج بھی ہے

بخش دے اے میرے مولیٰ !

کہ تیرا راج بھی ہے

۔۔۔

٭یہاں آج بادشاہی کس کی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

زمیں کے مہکے نظّارے مری آنکھوں میں رہتے ہیں

فلک کے چاند اور تارے مری آنکھوں میں رہتے ہیں

 

مہکتے رنگ، سبزے کی ردا، خوشبو کے پیراہن

ہوا کے دوش پر سارے مری آنکھوں میں رہتے ہیں

 

ہوا میں رقص جگنو کا، فلک پر چاند کی دستک

تری قدرت کے فن پارے مری آنکھوں میں رہتے ہیں

 

نظر کو تازگی ملتی ہے جھرنوں کے ترنّم سے

کہ سب بہتے ہوئے دھارے مری آنکھوں میں رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

پسِ منظرِ خزاں میں بھی بہار دیکھتی ہوں

جو سکونِ جسم و جاں ہے وہ قرار دیکھتی ہوں

 

تری چشمِ وا کو دیکھوں کسی نرگسی بدن میں

کبھی پھول پنکھڑی میں رخِ یار دیکھتی ہوں

 

کبھی رنگِ مہر و مہ میں، کبھی وسعتِ سماں میں

کبھی منظرِ شفق میں گلِ زار دیکھتی ہوں

 

کبھی سرمئی گھٹا سے ہے ترا جلال ظاہر

کبھی نرم گنگناتی سی پھوار دیکھتی ہوں

 

کبھی دن کے منظروں میں ہوئیں تجھ سے ڈھیر باتیں

تجھے رات میں بھی اٹھ کے کئی بار دیکھتی ہوں

 

تجھے دیکھنے کی چاہت میں جو دل میں آ بسا ہے

اسی طالبِ حقیقت کو بیمار دیکھتی ہوں

 

تری بخشش و عطا کے جو برس رہے ہیں موتی

انہی موتیوں کے پہنے ہوئے ہار دیکھتی ہوں

 

مرے شوق و جستجو کا ہے سفر ابھی ادھورا

یہ جو چڑھ رہا ہے دریا بے کنار دیکھتی ہوں

 

کبھی دل مرا بھر آیا، کبھی چشمِ نم کو پایا

جو خطاؤں پر ہے نادم دلِ زار دیکھتی ہوں

 

کہ رضائے حق سے بڑھ کر ہے حنا کوئی عبادت؟

تری بندگی کے رستے بھی ہزار دیکھتی ہوں

٭٭٭

 

 

قطعات

 

کتنا سچآ ہے تو، کتنا پیارا ہے تو

سارے ٹوٹے دلوں کا سہارا ہے تو

اس جہاں میں اگر غم کے مارے جیئے

تو اسی آس پر کہ ہمارا ہے تو

٭٭

 

ہر ایک شخص میں ہوتی کہاں مروّت ہے

ہر ایک شخص کہاں دل نواز ہوتا ہے

یہ درد مندی و نرمی خدا کی رحمت ہے

جسے عطا ہو وہی سرفراز ہوتا ہے

٭٭

 

نفرتوں کے شجر کاٹ دو، کاٹ دو

جتنا سکھُ بانٹ سکتے ہو تم بانٹ دو

لوگ سائے میں کھنچ کر چلے آئیں گے

جلتے صحراؤں کی دھوپ کو پاٹ دو

٭٭

 

محبت میں انَا کا مسئلہ ہوتا نہیں ہے

یونہی بیٹھے رہو تو فیصلہ ہوتا نہیں ہے

جو جھُک جاتا ہے وہ پاتا ہے عزّت

کوئی چھوٹا بڑا یہ سلسلہ ہوتا نہیں ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://www.inzaar.org/?s=%D9%BE%D8%B1%D9%88%DB%8C%D9%86+%D8%B3%D9%84%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%81+%D8%AD%D9%86%D8%A7

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید