رابعہ
فرحت عباس شاہ
ڈاؤن لوڈ کریں
مکمل نظم پڑھیں۔۔۔۔۔
رابعہ
طویل نظم
فرحت عباس شاہ
دو حرف
میں نے اس وقت طویل نظمیں لکھنا شروع کیں جب اردو شاعری میں بہت کم شعراء اس مشکل اور کٹھن میدان میں نظر آئے۔ ن م راشد کی نظم حسن کوزہ گر پڑھی تو میرے اندر سے آواز آئی کہ اسے کسی اور طرح سے ہونا چاہیے تھا۔ پھر میں بھول گیا۔ سالوں بعد یہ نظم تخلیق ہوئی جس کی بحر تو وہی تھی لیکن سیاق و سباق الگ ہو گیا تھا۔ اس نظم نے ایک سچے واقعے اور منہ زور کیفیت سے جنم لیا جس کے گواہ پروفیسر ڈاکٹر علی اکبر منصور اور شفیق احمد خان ہیں۔ نظم لکھ پانے کے غیر حقیقی زعم جیسی موذی امراض کے شکار شعراء اور بد دیانت ناقدین یہ نظم بالکل نہ پڑھیں ورنہ مارے جائیں گے۔ اور جو سچے اور حقیقی ہیں میں ان کا سب سے بڑا علمبردار ہوں۔۔ ہاں شاعری سے محبت کرنے والے اور شاعری کی عزت کرنے والے یہ نظم مِس نہ کریں۔
فرحت عباس شاہ
رابعہ
رابعہ!
او مری اجنبی رابعہ
اتنی صدیوں پرانی شناسائی یوں ایک پل میں نکل آئے گی
اجنبیت کی دہلیز سے
اور پھر اپنی معصوم دلدار آنکھوں سے جھانکے گی
عمروں کے ویران دل میں
زمانوں کے زندان میں
٭٭
رابعہ!
رات میلے کے شور و شغب میں ترے حسن کی خامشی
یوں اچانک مرے دل کے مندر کے محراب میں گنگنائی
کہ جیسے عبادت کے لمحوں میں روٹھی ہوئی کوئی دیرینہ خواہش
دعاؤں کے گیتوں بھرے تار چھوتی ہوئی جل اٹھے
رابعہ!
میں تو مبہوت تھا
اور گھبرا کے میں نے کوئی بے تکی بات کرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر
میری اپنی اداسی نے مجھ کو سہارا دیا
رابعہ!
میرے ساتھی مری بے قراری پہ حیران تھے
اور منصور تو مستقل ہی بضد تھا
کہ فرحت چلو اس سے ملتے ہیں
اور پوچھتے ہیں کہ کس آسماں سے اتاری گئی ہو
تمہیں علم ہے؟
کہ یہ لڑکا، تجھے دیکھتے ہی جو ٹھٹکا ہے ٹھنڈی ہوا کی طرح
کون ہے؟ یہ کوئی عام لڑکا نہیں ہے
محبت کا بھگوان ہے
اور اداسی کا سلطان ہے
اور غموں کے جہانوں کا ایمان ہے
رابعہ!
واقعہ چند گھڑیوں کا ہو گا مگر
آنسوؤں کے مہ و سال ایسی ہی گھڑیوں سے
ایسے ہی لمحوں سے پیدا ہوئے ہیں محبت کی تاریخ میں
آج کی رات
میلے کے شور و شغب سے نکل کر محبت کی تاریخ پر پھیلتی جا رہی ہے
یہ بے کار محدود صدیاں مجھے یوں تکے جا رہی ہیں
کہ جیسے مرے آنسوؤں کے ازل اور ابد سے پریشان ہوں
میری افسردگی اور جدائی کے پھیلاؤ میں
چند لمحوں کی مہمان ہوں
رابعہ!
او مری اجنبی رابعہ
کیا تمہیں رات میلے میں اترا ہوا ایک گم سم ستارہ
کبھی یاد آئے گا دل کے کسی موڑ پر
یا سمندر کے سینے پہ برسی ہوئی بارشوں کی طرح
کوئی نام و نشاں ہی نہ باقی رہے گا
ہوا کے سوا
٭٭
رابعہ !
خواب پھیلیں
تو جیون غنودی امامت کی تکریم میں
اپنی آنکھوں کے سوئے جہانوں سے باہر نکلتا نہیں
اپنی نیندوں کے آڑے مکافات کا بوجھ ڈھونے کے لاکھوں بہانوں سے
باہر نکلتا نہیں
رابعہ
آرزوؤں کی اپنی ہوا کرتی ہیں بستیاں
بستیوں سے الگ
روح کے کونوں کھدروں میں
دل کے مضافات میں
حسرتیں تو ہمیشہ مقامی رہی ہیں
مری سر زمینوں کی
اور غم بھی آباؤ اجداد سے بس رہا ہے یہاں
رات خوابوں نے
تیری نگاہوں سے لپٹے ہوئے سبز اور سرخ اور زرد خوابوں نے
آ کر مری نیند کے ایک اجڑے شجر پر بسیرے کیے
کیا عجب رونقیں تھیں اداسی کی
خوشیوں کا کہرام تھا
آنکھ کھلنے پہ بھی روح کا ذائقہ تلخ ہے
یہ جدائی
مری آستینوں میں میری ہی پالی ہوئی
پھر مرا خون پی کر ہمیشہ کی طرح مجھے کاٹتی جا رہی ہے
سنو رابعہ!
یہ جو اندر ہی اندر سلگنے، تڑپنے کا آغاز ہے
یہ جدائی کے اوتار کا عام سا ایک انداز ہے
رابعہ
یہ جو خوابوں کے کچھ قافلے
میری آنکھوں میں اجڑے محلات میں بس گئے ہیں
مجھے ڈس گئے ہیں۔۔ مجھے ڈس گئے ہیں
٭٭
مری اجنبی رابعہ
رات میں تیرے ملنے کی جگہوں پہ پھرتا رہا
اور بھٹکتا رہا
تیری آنکھوں سے خالی فضاؤں میں
ہر روشنی کتنی بے نور تھی
تیری خوشبو سے خالی ہواؤں میں ہر باس تھی اجنبی
تیرے کاجل سے خالی گھٹاؤں میں
پانی تھا، بارش کے موتی نہ تھے
٭٭
رابعہ!
رات میں تیرے ملنے کی جگہوں پہ سالوں بھٹکتا رہا
وقت کا دیو
معصوم بچے کی مانند انگلی پکڑ کر مری
میرے ہمراہ چلتا رہا
اور مرے دل کی دھڑکن کے سینے سے لگ کر مچلتا رہا
رابعہ تیرے ملنے کی امید کا اک دیا
اتنی تاریکیوں میں بھی جلتا رہا
ہاتھ ملتا رہا
زندگی بولنے لگ گئی ہے مری
اتنی صدیوں کی گونگی مسافر
صداؤں میں احساس، الفاظ میں کرب ہے
تیرے ملنے کی جگہیں
محبت کے دربار بنتی بگڑتی مجھے کھینچتی جا رہی تھیں
جدائی کا غمناک عرصہ
مرا دل مسلتا رہا
اور مسلتا رہے گا مقدر کی پتھریلی پوروں میں آیا ہوا
نیند اور خواب کی جنگ جاری رہے گی
جو بیداریاں جیت جائیں گی ہر تیسرے کی طرح
رابعہ
روشنی اتنی ہوتی نہیں، جتنی لگتی ہے ہم سے تو چھینی گئی
٭٭
رابعہ!
آج منصور پھر کہہ رہا تھا
چلو اس سے ملنے چلیں
اے محبت کے اوتار
احساس کے دیوتا
اور غموں کے شہنشہ
چلو اس سے ملنے چلیں
وہ کسی نہ کسی پھول کی پنکھڑی میں نظر آئے گی
تو کہیں گے کہ تو اتنی مدت کہاں کھو گئی تھی بتائے بنا
تیرے بن
بے کلی کا ولی
راستوں کے نصیبوں پہ روتا رہا
راستے اتنے تنہا نہیں تھے، نہیں ہوں گے، جتنے کہ ہیں
فاصلے اتنے گم سم نہیں تھے، نہیں ہوں گے، جتنے کہ ہیں
قافلے جتنے برباد اب ہیں بھلا پہلے کب تھے کبھی
رابعہ
آج منصور پھر کہہ رہا تھا
کہ فرحت چلو اس سے ملنے چلیں
اس کو ڈھونڈیں وفاؤں کے بازار میں
خوبصورت مناظر کے آثار میں
اور ہواؤں سے اس کا پتہ پوچھتے پوچھتے
ہم پہنچ جائیں خود اس کے دربار میں
اور کہیں، اے پری زاد!
اے ملکہ عالیہ!
اے محبت کی رانی!
یہ دیکھو یہ کون آیا ہے؟
تیرے در پر محبت کسے لائی ہے؟
یہ محبت کا راجہ
اداسی کا دولہا
یہ تیری نگاہوں کا روگی
یہ جوگی
سنو رابعہ!
آج منصور پھر مجھ سے یہ کہہ رہا تھا
کہ جوگی چلو اس سے ملنے چلیں
رابعہ
شہر بدلا ہوا ہے کئی روز سے
شہر کے راستے تھوڑا خوش بھی ہیں اور تھوڑا غمگین بھی
شہر کے چوک کچھ لا تعلق سے لگنے لگے ہیں مجھے
بھیڑ ہے
اجنبی بھیڑ اور خامشی
رات ڈھلتی ہے
موسم کا انکار ڈھلتا نہیں
دن نکلتا ہے
صبح نکلتی نہیں
دوپہر سخت ہے
ہجر کے دشت میں
شام کا تخت ہے
اور اس پہ کوئی یاد بیٹھی ہے اک شاہزادی بنی
رابعہ!
شہر کی ساری سڑکوں پہ تنہائی کی فوج ہے
آسماں سر پہ ہے
پھر بھی بے سائباں ہے دلِ مضطرب
اور پیروں کے نیچے زمیں ہے مگر
سرد ہے
شہر میں اک عجب سی شکایت اڑی پھر رہی ہے
خیالات کی آڑ میں
عشق کی معنویت بدلنے کی خواہش لئے پھر رہا ہے سفر
شام شاموں کی باتوں کو سنتی ہے
باتوں میں آتی نہیں
دل دکانوں کی دیدہ دلیری کے عادی ہوئے جا رہے ہیں
ذرا کسمساتے نہیں
جن کو آنا تھا راتوں کو آتے نہیں
شہر اپنے علاوہ کوئی بات سننے پہ راضی نہیں
ایک فٹ پاتھ کل میرے پیروں کے چھونے سے گھبرا رہا تھا
ہوا میرے پیلے بدن کی نقاہت سے خائف تھی
دیوار و در میرے ہاتھوں کی پوروں سے ڈرتے تھے
اور پیڑ مجھ سے نگاہیں ملانے سے کترا رہے تھے
مگر میں نے سب کو بتایا ہے میں رابعہ سے ملا ہوں
اسے میں نے میلے میں دیکھا ہے
اور اب میں صدیوں تلک اس کی آنکھوں کا قیدی رہوں گا
نہ جانے وہ کس دیس سے آئی تھی
اور نہ جانے کہاں جا رہی تھی
مجھے قید میں ڈال کر
رابعہ!
کوئی زنجیر ہے نا کوئی جیل ہے
ہاتھ میں ہتھ کڑی بھی نہیں
پاؤں میں بیڑیاں بھی نہیں
پھر بھی میں ایک قیدی ہوں اور تو مرا گمشدہ ایک صیاد ہے
میں مقید پرندہ
خود اپنی فضاؤں کے زندان میں تیرے، ایمان میں
پھڑپھڑاتا ہوا
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کو
چھونے کے جادو کی خواہش میں محصور
اور بے بسی کا کوئی گیت گاتا ہوا
گنگناتا ہوا نغمۂ قید جذبوں کی گہرائی سے
میں عجب ہوں
کہ ڈرتا نہیں تیری رسوائی سے
تو ملے تو میں سارے زمانے کو بتلاؤں
لوگو! او لوگو سنو!
اور دیکھو یہ کون آگیا ہے پرستان سے
رابعہ ہے
یہ دیکھو یہی رابعہ ہے
کہ جس کی نگاہوں کی آفاقیت میں
زمانوں کی بینائی محدود ہے
جس کی رنگت پہ شرمندہ شرمندہ ہیں
سب افق اور شفق اور گلاب اور سنہری سحاب
اور اجالے
ستاروں کے پالے
یا پھر جاذبیت کے سارے حوالے
یہ دیکھو یہی رابعہ ہے
جسے چاند چھپ چھپ کے
اور تارے اپنی کنکھیوں سے جھانکیں
تو نیلا گگن ان کی چوری پکڑ لے
کسی خاص لمحے میں جس نے بنایا اسے
اس مہربان کی سینہ زوری پکڑ لے
مری اجنبی، اے مری اجنبی رابعہ!
میرا دل بھی عجب ہے
کہ یہ چاند بھی تو نہیں
اور کہتا ہے اپنی چکوری پکڑ لے
٭٭
رابعہ
زندگی اور محبت
شب و روز اور بے کلی کی کہانی
ہزاروں برس لمبے ویران رستوں سے آگے
کہیں جا رہی ہے
جہاں ہجر کا آخری رنگ ہے
اور جہاں آخری سنگ ہے
اور جہاں موت ہے
اور جہاں مختلف پہلوؤں سے نکلتی ہوئی رائیگانی
بہت مطمئن ہے
مجھے ایسے موقعوں پہ اکثر
محبت کا مارا ہوا اور پشیمان منصور کہتا ہے
اے سوگواری کے آقا
اور اے غمگساری کے حاتم
سکھوں کے سخی
یہ ہزاروں برس۔۔۔
کیا ہمیں رائیگانی کی خاطر بلایا گیا
کیا محبت فقط ایک لمبی سڑک ہے کہ جس پر
برس ہا برس چلتے چلتے ستارے بھی بوڑھے ہوئے
اور محبت ہمیشہ
ہمیں رابعہ ہی کی لا حاصلی کی تسلی میں رکھی ہوئی ہی ملے گی یہاں
رابعہ!
یہ جو منصور ہے
اپنی دانش، تفکر، تدبر میں ارفع و اعلیٰ سہی
دل کے ہاتھوں بہت تنگ ہے
اس کے اندر محبت کو پانے نہ پانے کی
کوئی عجب جنگ ہے
جس میں ہر روز خود ہار جاتا ہے یہ اپنے ہی آپ سے
کل مجھے کہہ رہا تھا کہ اے زندگی اور زمانوں کی بے چینیوں کے مصور
خیالوں کے معمار
گیتوں کے خالق
محبت کی بنیاد میں
زندگی اور اجل کی ملاوٹ سے کیا شے نئی بن رہی ہے
کہ جس پر عمارت کھڑی ہونے والی بنے گی
اگر عشق اور موت
بیچارگی میں برابر کے بیمار ہیں
تو خدا پر بھروسے کی صورت کو کتنے مقامات باقی بچیں گے
سنا تم نے کچھ رابعہ!
یہ جو منصور ہے
یہ عقیدوں کو اپنی محبت کی نظروں سے تکنے کا قائل نہیں
صرف محصور ہے
اور مجبور ہے
تیرے بارے میں کس کس طرح
میری ہمت بندھاتا ہے
اور خود کسی گمشدہ شخص کے سوگ میں لہلہاتے ہوئے
اپنی آنکھوں میں شاموں کے سائے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہے
میری آنکھیں جلیں
میں محبت سوا
جو کسی روشنی کی تلاوت کروں
میرے اعصاب ٹوٹیں
جو میں بے کلی کے علاوہ
کسی اور کو دل میں جاری رکھوں
میرے سپنے پگھل جائیں
جو میں کسی رات رونے سے پہلے ہی سونے لگوں
میری سوچیں بدل جائیں
گر میں دکھوں کے علاوہ بھی دنیا کی اشیاء سے کوئی تعلق رکھوں
میرے جذبے مریں
گر میں روتی ہوئی آنکھ کے دکھ میں جی بھر کے رو نہ سکوں
مجھ سے بارش بچھڑ جائے
میں جو کبھی اپنی آنکھوں کو اشکوں سے خالی رکھوں
میری راتیں اجڑ جائیں
میں جو مصیبت سے گھبرا اٹھوں
میری شامیں بگڑ جائیں
گر میں نگاہوں کو رستوں کی چوکھٹ پہ ٹکنے نہ دوں
رابعہ
او مری اجنبی رابعہ!
میں اگر چاند کے گورے ہاتھوں کو
اپنے گلے سے ہٹاؤں تو جھوٹا پڑوں
میں اگر
آسمانوں کے سینے میں سر کو چھپاؤں تو
چھوٹا پڑوں
رابعہ!
میں ترے عشق اور یاد سے خوف کھا کے
اگر دل کو اپنے کسی اور جانب لگاؤں
تو کھوٹا پڑوں۔۔
٭٭
رابعہ
ایک منصور حلاج تھا
جو محبت کی خاطر
ولایت کی دیوانگی کا نمونہ بنا
اور کیڑوں مکوڑوں کے ہاتھوں
اذیت سے مارا گیا
ایک منصور یہ ہے
جو مجھ کو مسلسل بچانے کی کوشش میں ہے
مجھ سے کہتا ہے
اے بے قراری کے دریا
وفاؤں کے جنگل
امیدوں کے صحرا
انا کے نگر
ہجر دیوانگی ہے سہارا نہیں
رابعہ اس زمیں پر نہیں تو۔۔چلو
ہم کہیں اور چلتے ہیں
اور ڈھونڈ لاتے ہیں اس کو کسی نہ کسی طور
دیوانے پن کے کرشمے سے
اور پیار کے زور سے
عالمِ عشق میں کائناتیں بہت ہی سمٹ جایا کرتی ہیں جتنی بھی ہوں
اور پھر یہ جو بیچاری دنیا ہے
یہ تو بہت کم ہے محدود ہے
ایسی تنگی میں شہزادیوں کا ذرا دیر روپوش رہنا ذرا سا بھی ممکن نہیں
اور پھر تم ذرا اس کو آواز دے کر تو دیکھو
کہ کیسے
ہوائیں، رتیں، رات، دن اور شامیں
تجھے اس کے بارے بتائیں
یا اس کو محبت گرفتار کر کے ترے سامنے لا کے پھینکے
مگر تو بلا تو سہی
اس کو آواز تو دے کے دیکھو کبھی
اے مرے ساحرِ حسن
اے میرے معصوم بے چین دل اور ریاضت کے پیکر
مرے ناخدا
٭٭
رابعہ
پیار کی پچھلی صدیوں میں
میں ایک پتہ تھا
ٹوٹا ہوا پیڑ کی شاخ سے
زندگی نے مجھے درد کی زرد ویرانیوں سے اٹھایا تھا
اور بے قراری کی کالی سیہ رات میں لا کے پھینکا
میں خوشیوں کی خوشیوں سے لاعلم تھا
ایک لمبی جدائی مری منتظر تھی
جو مجھ سے ملی
میرے اندر اتر کر سلگنے لگی
اور میں چاند تاروں کی ٹھنڈک کے دھوکے میں
سورج کا ایندھن بنا
اور پھولو ں کی
اور خوشبوؤں کی محبت میں رزقِ خزاں ہو گیا
رابعہ
پیار کی پچھلی صدیوں میں میں اک سمندر تھا
نمکین پانی کے قطروں سے جیون کے رخسار دھوتا
کئی ایک طوفان خواہش کے مدوجزر میں چھپائے
بہت ہی اکیلا تھا اور اپنی وسعت میں محدود تھا
میں کبھی ایک بادل تھا
آوارہ غمناک بادل
ہوا تھا
ملول اور بے چین ٹھنڈی ہوا
راستہ تھا
بہت ہی بیابان، اجڑا ہوا
عشق تھا
اپنے ہاتھوں ہی چاکِ گریباں، پریشان، الجھا ہوا، منتشر، مضطرب
میں دعا تھا
کہیں درمیاں میں ہی اٹکی ہوئی اک دریدہ دعا
رابعہ
تم سے ملنے سے پہلے میں کچھ اور طرح سے برباد تھا
اور اب
اور طرح سے برباد ہوں۔ اے مری اجنبی رابعہ
٭٭
رابعہ
شام نے ساری دنیا سے بڑھ کر
مرے دل پہ قبضہ کیا
عشق سے بھی زیادہ
اداسی کی ساری رتوں کی معیت
میں میرے خیالوں پہ روتی، برستی رہی
میری آنکھوں کی نہروں کے اندر اتر کر
خطرناک برسات میں بھی ترستی رہی
زندگی ایسے لمحوں میں میرے لیے
موت سے بھی تو سستی رہی
رابعہ
رات
اف میرے مولا
قیامت بھری رات
ہر رات دوزخ کی چھوٹی بہن
جس کا اک ایک پل
ایسے گرتا ہے جیسے کوئی ماتمِ وقت ہو
اور جیسے کسی کائناتی مصیبت کے بیمار کا رخت ہو
اور سحر
جیسے ویرانیوں سے اندھیرا چھٹے
جیسے مدت کے زخموں سے پردہ ہٹے
جیسے پھر اک نئے دکھ کا آغاز ہو
جیسے مایوسیوں کو بشارت ملے
دوپہر
رابعہ
خود ہی سوچو کہ انسان تپتے، سلگتے، دہکتے ہوئے دشت میں ہو کہیں
اور سر پر چمکتی ہوئی دوپہر آ رُکے
اور رکی ہی رہے
میں ہمیشہ کا بے سائباں
یا برہنہ نحیف اور پیاسا
مری رابعہ
گرم صحراؤں کی دوپہر کے شکنجے میں آیا ہوا
اور پھر شام
روتی برستی ہوئی شام جس نے مرے دل پہ قبضہ کیا
٭٭
رابعہ
ایک دریا تھا
اور اس تھکے ہارے دریا کے اندر بھنور تھا
بھنور میں مرا دل
مرے دل میں اک خوبصورت اداسی کی تصور تھی
میں نے سمجھا کہ تصویر لڑکی کی ہے
ایک جنگل تھا
جنگل میں اک جھیل تھی
جھیل میں کائی اور کائی میں اک کنول تھا
کنول ایک دکھ کی علامت تھا
جو میری اک ایک شریان میں بھر گیا
ایک صحرا تھا
صحرا میں سوکھا ہوا اک شجر
وہ شجر میرے اندر بھی اُگ آیا تھا
اور زمانے کی چھاؤں پہ ہنستا تھا
ہنستا رہا دیر تک
اک جزیرہ تھا
نمکین پانی میں محصور
تنہا
اکیلا
اداس اور چپ
اور پریشان
اور اپنے ہونے پہ حیران
اور گمشدہ
رابعہ
ایک دل تھا
عجیب اور قیامت کا مارا ہوا
رابعہ ایک میں تھا
کہ جو کائناتِ محبت میں
پہلے پہل بے سہارا ہوا
٭٭
رابعہ
میں ستاروں سے لے کر سمندر کے اگلے کناروں تلک
بے سہارا ہوا
راستے پوچھتے ہیں کہ آخر بھلا کس طرح
تیرا بربادیوں میں گزارا ہوا
کیا کبھی غیب سے بھی اشارہ ہوا
تو ابھی تک اداسی کی ویرانیوں میں ہی پھرتا ہے
کیوں مارا مارا ہوا
آج تک ایک غم کا نہ چارہ ہوا
رابعہ
اتنے مفلوج اور اتنے معذور موسم میں بھی
میں نے جیون کو خود اپنے ہی بازوؤں سے اٹھایا
اور اپنے ہی کندھوں پہ خوش ہو کے لادا
اور اپنے ہی زخموں کی طاقت سے آساں کیا
رابعہ
آنسوؤں میں کوئی ساتھ دیتا نہیں
روشنی بانٹنے کو تو اک بھیڑ تیار ہے
تیرگی ہو تو ہاتھوں میں پھر کوئی بھی ہاتھ دیتا نہیں
رابعہ
میں محبت کو تنہا اٹھائے پھرا ہوں قیامت کی تنہائی میں
لوگ حیرت زدہ تھے
کہ یہ کون خود غرضیوں میں ہوا کے مخالف چلے جا رہا ہے
ہوا اور زمانے کے دریا کی لہریں کہیں جا رہی ہیں
محبت کا وارث کہیں جا رہا ہے
ہوا میرے سینے سے ٹکرا رہی تھی
مرے زخم کھِل کھِل رہے تھے
مری روح اپنے تڑپنے پہ اِترا رہی تھی
مری ذات میری طرف آ رہی تھی
مری رابعہ
لوگ حیرت میں تھے
رابعہ
میں نے تیرے لئے
اپنے باطن سے یہ سارے تنکے اکٹھے کیے
پیار کے آشیانے کی تعمیر کو
میں نے یہ سارے موتی
تری تسبیحوں ہی کی خاطر بنائے ہیں
اور یہ ستارے
تری مانگ کے آسماں کے لئے ہیں
مگر
ایک شاعر
جدائی کا مارا ہوا
اور خدائی کا ہارا ہوا
اور اس کے علاوہ کرے گا بھی کیا
رابعہ
میری اس وارفتگی اور محبت کو منظور کر
٭٭
رابعہ
آج منصور اپنی محبت کی یادوں پہ روتا رہا
اپنی بیتی ہوئی چاہتوں کے عوض
آنسوؤں کی کمائی کماتا رہا
وہ مرے دکھ میں شامل تھا
اور اپنی زخمی تمناؤں کی دھار پر
اپنی پلکیں بھگوتا رہا
اس کی آنکھوں میں دو دکھ گلے مل رہے تھے
محبت کی بنیاد پر
رابعہ
ہم اگر دکھ کی آفاقیت جانتے ہوں
تو دنیا کا ہر دکھ ہمیں دوسرے دکھ کی دہلیز پر
کھینچ لائے گا
اور رابعہ
یہ جو رونا رلانا ہے
یہ تو عبادت ہے
چاہت کے مذہب میں اور درد کے دین میں
اور جن کے نصیبوں میں رونا رلانا نہیں ہے
وہاں صرف پتھر ہیں
پتھر بھی ایسے کہ جن میں
کوئی اور شے ہی نہیں
کھردرے اور مردہ
مری اجنبی رابعہ
آج منصور جی بھر کے روتا رہا
اور مجھے اس کا رونا بھی اچھا لگا
اور رلانا بھی اچھا لگا
بے خودی بین کرتی تھی
تنہائی کرلانے لگتی تھی اندر کہیں
خواب اور خاک اور خامشی
ایک دوجے میں گھل مل گئے تھے وہاں
٭٭
میں نے تم سے علیحدہ عجب راز میں دن بتائے ہیں اوقات کی کوٹھڑی میں
کبھی نیم مردہ خیالوں کا جھرمٹ لیے
تو کبھی بے سروپا پریشانیوں کے جلو میں
کبھی کشمکش کی سفارش میں
اور بے مکانی کے جھنجھٹ میں
بے وجہ، ہنستے، سسکتے، بلکتے
یا بچوں کی طرح ہمکتے
یا شرمیلے لڑکوں کی طرح جھجکتے
یا زخموں کی طرح مہکتے۔۔۔
کبھی تو نے صحرا کی خوشیوں کو روتے سنا ہے؟
مری رابعہ
تم نے کیا کوئی زیرِ زمیں ہجر دیکھا ہے؟
کیا زندگی میں کبھی اپنی میت کے کندھے سے لگ کر کبھی رو سکی ہو
کبھی آئینوں میں پڑی
ٹیڑھی میڑھی دراڑوں کو سیدھا کیا ہے؟
درختوں کے میکے سے آئی ہوئی رت بتائی ہے؟
یا کیا کبھی تم نے پیلے ستاروں کا سسرال دیکھا ہے؟
جہاں ہاتھ کم اور بدن کی وریدیں
بہت شوق سے پیلی کرتا ہے موسم
مری اجنبی
موت نیلا کیے دے رہی تھی مری عمر کو
موت کی سانس میں زہر ہے
کیا تمہیں علم ہے کہ اجل سانس لیتی ہے
باہر نہیں چھوڑتی
اور پھر رابعہ۔۔
موت کا میرے اوقات کی کوٹھڑی پر ہمیشہ سے
قبضہ رہا ہے
مری بے خبر رابعہ
٭٭
دل نے مالائیں پہنی ہوئی ہیں ترے نام کی رابعہ
اور کلائی نے تیرا کڑا
تیرے بارے میں سوچوں کی گدڑی لیے
ایک اک کر کے سکے تری یاد کے
بے خیالی کے کشکول میں ڈالتا جا رہا ہوں
مری رابعہ
اب سخی بھی میں خود ہوں
گداگر بھی خود
اب میں مفلس بھی خود ہوں
تونگر بھی خود
عشق کیسی عجب صورتِ حال ہے
جال ہے
روح کو چاروں جانب سے
گھیرے میں لیتا ہوا
اور لوگوں کو
دیوانگی اور حکمت اکٹھے نظر آنے والے نہیں
سالہا سال
دکھ کی فقیری میں گزرے مرے
سالہا سال
لوگوں کو دھوکہ رہا
رابعہ
مجھ کو دانائیوں کی قسم
لوگ دھوکے میں ہیں
عشق کو اپنے ناقص تدبر سے
بے کار دل سے پرکھنے کی کوشش میں ہیں
رابعہ
میری کٹیا میں
ہر جستجو کی علامت پڑی ہے
یہاں زندگی کی مشقت تو ہے ہی
اجل کی ریاضت بھی ہے
اور یہاں میری کٹیا میں
غم کی عبادت تو ہے ہی
خوشی کی حقیقت بھی ہے
٭٭
آج کی رات پھر سخت مشکل ہے آنکھوں کے معصوم
بھولے پرندوں پہ
اور رابعہ!
آج کی رات پھر دل پہ بھاری ہے
گہرے دھوئیں کی طرح
آج کی رات پھر غم کی زہریلی گیسوں میں
سانسیں الجھتی، تڑپتی، سلگتی رہیں گی
سویرے کی دیوار تک
رابعہ!
او مری اجنبی رابعہ
مجھ کو یہ تو بتا
میرے دل کو جو روزانہ
بجلی کے جھٹکے لگیں تو میں کب تک سہوں
بے بسی میرے ناخن اکھیڑے مری رابعہ
اور بے چارگی کیل ٹھونکے
تو میں اس اذیت میں کب تک رہوں
تو بھی ایسے میں کھو جائے مجھ سے
تو کس سے کہوں
مجھ کو یہ تو بتا
تو بھی ایسے میں مجھ سے ہزاروں برس دور ہو
تو میں کس سے کہوں
رابعہ
رات مجھ کو اکیلا کیے دے رہی ہے مصیبت میں
اور میری ہمت پہ ہٹ ہٹ کے
حملے کیے جا رہی ہے مسلسل
بتا۔۔۔!
بادلوں کی جگہ بارشوں کی رتوں میں
فضاؤں میں آگ اور دھوئیں کے پہاڑ آ رکیں
اور برسنے لگیں
تو کوئی کیا کرے
کس طرح سے جیئے
اور کیسے مرے
٭٭
رابعہ
آنکھو سوئی نہیں
جب سے دیکھا تمہیں
آنکھ سوئی نہیں
نیند جاگی نہیں
شور برپا تھا اندر ہی اندر کہیں
شور سے نیند سوتی رہی
ڈر کے بھاگی نہیں
یاد بھی۔۔۔
ہاں تری یاد بھی
شوخ بچی کی مانند ہنستی رہی
آنسوؤں کے مسلسل دباؤ میں تھی
پھر بھی ہنستی رہی
شام سے جتنے وعدے کیے تھے کبھی
خوشگواری نے،
پورے نہیں ہو سکے
ہنستے ہنستے مقدر کی کھانسی میں تبدیل ہونے لگی ہے
تری یاد کی خود فریبی
ادھورے مقدر کی پاداش بھی منتظر ہے ابھی
یہ جدائی کا ماحول
بربادیوں کی پسندیدگی کی ادا ہے
جو آئندہ ہونے کو ہیں
رابعہ
رات کے دو بجے ہیں
ستارے بھی سونے کو ہیں
کون کہتا ہے آنکھوں میں ملنے کی خوشیاں
کوئی خواب بونے کو ہیں
ایسی چیزیں مری جاں جہاں میں فقط رونے دھونے کو ہیں
٭٭
چاند
تارے
ہوا
روشنی
پھول
شبنم
شفق
آبشاریں
ندی
پیڑ
چشمے
صبا
بارشیں
باغ
سورج
دھنک
شہر
جنگل
سفر
دشت
دریا
پہاڑ
آئینے
ابر
موسم
گگن۔۔۔
رابعہ
او مری اجنبی رابعہ
صرف اور صرف تیری وجہ سے
سبھی مجھ سے ناراض ہیں
٭٭
مری رابعہ
رشتوں ناتوں سے دنیا بھری ہے
مگر رابعہ
ہم سبھی ایک خالص تعلق کی خواہش میں
عمروں کے ترسے ہوئے
ہر تعلق پہ ایمان لاتے ہیں
اور بھول جاتے ہیں
انسان انسان میں فرق ہے
ایک ملتا ہے
اور دوسرا اپنے آثار بھی چھوڑ جاتا نہیں
اک میسر ہے
اور دوسرا دور تک بھی نہیں
تم سے ملنے سے
تم سے بچھڑ جانے تک
اک عجب سا خلا اور خلا کا خلا سے تعلق
کسی خاص شے کی کمی
اور محبت کی بنیاد
دیوانگی کا بہاؤ
مگر گمشدہ کشتیوں کا سفر
ساحلوں کے تمسخر کی مایوس سی اک ادا
گمشدہ کشتیاں
اور سمندر
تعلق کے کس ڈھب پہ قسمت ہنسے
کس پہ تقدیر خوش ہو
ہواؤں کو دکھ راس آئے مری رابعہ
رشتے ناطے عجب گتھیاں ہیں زمانے کی
جو کہ الجھنے سلجھنے کے مابین
خاموش ہیں
٭٭
بے خیالی عجب چیز ہے
وقت کی بے خیالی
یا
تاریخ کی بے خیالی
خدا کی۔۔۔
یا انسان کی بے خیالی
مری رابعہ
بے خیالی میں چلتے ہوئے
سوچتے اور مچلتے ہوئے
عشق اور موت
انسان کو گھیر لیتے ہیں بالکل خدا کی طرح
بے خیالی میں جس نے بنایا ہمیں
یہ جہاں بے خیالی میں تخلیق کردہ نظامِ تحرک ہے
اور ساتھ حرکت بھی ہے
وقت اس کے عوامل کا دورانیہ ہے
جو بالکل ہی اک بے خیالی میں
لپٹا ہوا ہے ہوا اور سفر کی طرح۔۔
اب میں اپنے بہت سارے کاموں کو کرتا نہیں
پھر بھی ہو جاتے ہیں
اور بہت کچھ ہے ایسا مری رابعہ
میں جسے سوچتا ہی نہیں
اور وہ اندر ہی اندر مہکتا بھی ہے
اور سلگتا بھی ہے
تم مری بے خیالی ہو
اور میرے اندر مہکتی بھی ہو
اور سلگتی بھی ہو
اور ٹھٹھکتی بھی ہو
اب مرا اور تمہارا تعلق
نظامِ تحرک کی حرکت میں ہے
یہ تعلق تعلق کی برکت میں ہے
رابعہ میں تمہارے توسط سے
اپنے خدا کی محبت بھری بے خیالی کا قائل ہوا
٭٭
دشمنوں کے قلعے میں
مجھے روز ہی لے کے جاتا ہے دل
روز تیروں کی برسات مجھ پر برستی ہے اچھی طرح
روز زخموں کی پوشاک اور درد جامے پہن کر نکلتا ہوں میں
دشمنوں کا قلعہ
اتنا مضبوط ہے
جتنا میں اس زمانے میں کمزور ہوں
اور اکیلا ہوں
منصور اپنے محاذوں پہ ہے
اس کا اپنے محاذوں سے واپس پلٹنا
ابھی اس کے بس میں نہیں
اور ویسے بھی جنگ و جدل کا ستایا ہوا ہے
مگر رابعہ
میں تو مجبور ہوں
میں اگر جنگ جاری نہ رکھوں
تو ہارے ہوئے لشکری حوصلے چھوڑ بیٹھیں گے
اور جھوٹ کرتوت کی فوج
اک ایک شریان میں آن اترے گی اور
خون کو صاف رہنے نہ دے گی
تو منصور
جیون کے جن بے سروپا محاذوں پہ جکڑا ہوا ہے
اسے نوچ کھائیں گے
اور توڑ دیں گے اسے کچے دیوار و در کی طرح
رابعہ
بات اب
ہار اور جیت کے فیصلوں کی نہیں
لڑنے مرنے کی ہے
اور منصور کے پاس مرنے کی مہلت نہیں
اگرچہ مری رابعہ
زندگی کی ضرورت اسے بھی نہیں
مگر وہ ابھی زندگی کے شکنجے میں ہے
رابعہ
مجھ کو جس رات تو ایک میلے کے شور و شغب میں ملی تھی
میں اس رات
جیون میں پھر
اپنے دل سے ہی پسپا ہواتھا
مری دوسری مرتبہ کی یہ محصوری
مجھ کو نئی قوتیں دے گئی ہے
میں اب پھر ہزاروں برس تک
اندھیروں کی افواج سے لڑ سکوں گا
٭٭
رابعہ
اتنا بے دید کوئی نہیں
جو مجھے تیری قربت کی خواہش سے روکے
مری حسرتوں پہ مجھے بین کرنے نہ دے
مجھ کو ماتم سے منع کرے
اتنا بے دید کوئی نہیں
میں تمہارے لیے ہی بلایا گیا تھا
وہاں رات میلے کے شور و شغب میں
وگرنہ وہاں پر مرا کون تھا
اور وہاں پر تو تُو بھی نہیں تھی مری
پھر بھی بے دید کوئی نہیں
میں نے تاروں سے کوئی گواہی نہیں مانگنی
میں نے یا تو کسی کو بتانا نہیں
یا تری ذات سے دور رہنے کا شک ڈال دوں گا
میں مخلوق کو
رابعہ
شہر چالاک ہے
جبکہ دل تیری چاہت میں محتاط رہنے کے سارے
طریقے بھلا بیٹھتا ہے نصیحت کا مارا ہوا
درد محتاط ہے
اک پلک بھی جھپکنے پہ مائل نہیں
رابعہ
تری قربت کی خواہش
مری سوچ اور دل کے بس میں نہیں
پر مری بے بسی تو مرے بس میں ہے
وقت گھبرانے لگتا ہے جذبوں کی شدت سے
اور درد کے ایک ہلکے اشارے سے بھی
وقت کو مستقل دل کے دھوکے میں رکھنا بھی ممکن نہیں
ہجر اپنی محبت کا مارا ہوا دشت ہے
بے قراری زمانے کے سارے جہانوں پہ حاوی ہے
اور خوف
اندیشہ ہائے دگر میں گھرا چیختا جا رہا ہے
٭٭
آج منصور چپ تھا
بہت ہی اداس اور ویران
جیسے کسی تازہ تازہ کھدی قبر کی خاک ہو
اور جیسے اسے
آنے والے زمانوں کا ادراک ہو
آنے والے زمانوں کا ادراک اتنا بھی آساں نہیں رابعہ سخت مشکل ہے
سینے پہ غم کی چٹانیں گراتا ہے
سوچوں پہ کرتا ہے وزنی ہتھوڑوں کی بارش۔۔۔مری رابعہ
آج منصور کو
پچھلی صدیوں کے عشاق یاد آرہے ہیں
جنہیں دنیا داروں نے داروں پہ کھینچا
اجل کی سیہ وادیوں میں اتارا
وہ میری طرف دیر سے تک رہا تھا مسلسل
اور ایسے کہ جیسے مجھے آخری بار ہی تک رہا ہو
اذیت کے ہاتھوں کسی فرد کا قتل
اندوہ کی انتہا ہے
اذیت بھی دنیا کی بخشی ہوئی
اور لوگوں کی بانٹی ہوئی
رابعہ
آج منصور بولا تو لہجے میں اس کے ہزاروں برس کی اداسی چھپی تھی
وہ کہنے لگا اے صلیبوں کی عزت کے وارث
چلو یہ جگہ چھوڑ دیں
یہ نگر
صبر کے اہتمامی مراحل کے انجام کا منتظر ہے
یہاں عزتِ نفس پر اچھی خاصی سزا ہے
انا کے جرائم کی پاداش میں کچھ بھی ممکن ہے
اور درد کے اختیارات سے سخت نفرت تو اس شہر کا دین ہے
اے دکھوں کی روایت کے ضامن
اور اے رنج و غم کے امیں
یہ تمہارے لیے شہر ہے ہی نہیں
یہ تو جنگل ہے
خونخوار لوگوں کا جنگل
جہاں موت جتنے دھماکے سے مظلوم پر آ گرے
باعثِ فخر ہے
رابعہ
آج منصور مجھ سے یہ کہتے ہوئے رو رہا تھا
اسے علم تھا
کہ میں جس راہ پر چل پڑا ہوں
وہ انجام کے کون سے زخم پر جا رکے گی
اسے علم تھا
کہ میں جس راہ پر چل پڑا ہوں
یا پھر جس طرف چل پڑا ہوں
پلٹنا یا رک جانا ممکن نہیں ہے
٭٭
رابعہ
اس قدر شور ہے
آنگنوں میں مقدر کے مارے ہوئے
بے قراروں کی فریاد کا
اس قدر شور ہے
اور کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ہے
بدن کی وریدیں
سلگتے لہو سے کچھ اس اس طرح کھولتی ہیں
کہ شعلے پناہ مانگتے ہیں
اگر میں سبھی کی وریدیں محبت سے بھر دوں
تو کیا جانیے کون کتنی تگ و دو پہ ایمان لائے
اذیت کے ماحول میں
اور پھر سوگواری ہمیشہ کہاں ساتھ دیتی ہے
لاچاریوں میں
اگر یہ بغاوت اور انکار کے درمیاں کی کوئی بات ہے
تو خموشی ہی بہتر ہے دیوار و در کی
اگرچہ مکانات کے فرش بھی شور و غل سے اٹے ہیں
دریچے بھی، برآمدے بھی
مگر رابعہ
شور کی کوئی justification نہیں ہے
فقط شور ہی شور ہے
باغ میں ہی خموشی نہیں ہے تو
کلیوں کا کیسا گلہ
اور آنگن تو پہلے ہی مایوسیوں سے بھرے ہیں
مجھے آنگنوں اور کلیوں کی مایوسیاں
اور باغوں کی چپ
تجھ کو آواز دینے پہ مجبور کرتی ہے
اور میری آواز سہمی ہوئی ہے
تجھے یاد ہے ایک میلے کے شور و شغب میں
کسی رات
گم سم ستارا کوئی آن اترا تھا
اور بولتا تک نہیں تھا
٭٭
رابعہ
کچھ دنوں سے
طبیعت میں گھبراہٹیں بڑھ گئیں ہیں بہت
آسماں سر پہ گرتا نظر آتا رہتا ہے
اکثر مری بند آنکھوں کو بھی
پیڑ کانٹوں بھری ٹہنیوں کے مچلتے ہوئے
بازوؤں کو لیے چھوٹتے ہی بغلگیر ہونے کی کوشش میں ہیں
اور زمیں کا تو بس ہی نہیں چل رہا ہے
کہ ہم جس جگہ پر قدم رکھ رہے ہوں
وہیں اپنا منہ کھول دے اور مری رابعہ
کچھ دنوں سے
طبیعت میں آزردگی بڑھ گئی ہے
اگر پھر سے غاروں میں واپس چلے جائیں انساں
تو اچھا ہے
اپنے ہی ہاتھوں تباہی ذرا کم پڑے گی
سنا ہے وہ غاریں بھی باقی نہیں ہیں
وہاں ریت ہے
یا عجائب گھروں کے ملازم
ہر اک شے کو اپنی ہی مرضی کے معنی دیے جا رہے ہیں
مری رابعہ
مجھ کو اپنی ہواؤں، گھٹاؤں، فضاؤں، صداؤں، وفاؤں کا
غم تو نہیں
اور نہ مر جانے کا کوئی ڈر ہے مجھے
پر نجانے یہ سب اپنی اپنی تفاسیر کے ماہرینِ عجب
کیسے کیسے مطالب نکالیں
مرے آنسوؤں کو مسرت لکھیں
یا مرے قہقہوں کو قیامت کی آہیں تصور کریں
رابعہ
یہ بھی ممکن ہے تم سے مری چاہتوں کو مسافر کہیں
اور تمہارے یہاں سے چلے جانے کو کوئی مسکن سمجھ لیں
مری رابعہ او مری رابعہ
کچھ دنوں سے طبیعت میں گھبراہٹیں بڑھ گئی ہیں
٭٭
او مری رابعہ
تیرا ملنے سے پہلے ہی
کھو جانا ایسا کوئی حادثہ تو نہیں
اپنی چیزوں کو کھو بیٹھنے کی کوئی بددعا ہے مجھے
میں عموماً ہی کھو بیٹھتا ہوں
جسے سوچتا ہوں کہ محفوظ زیادہ رکھوں
میں تو روزانہ کے راستے بھی گنوا بیٹھتا ہوں
اور آوارگی کی وجوہات بھی
میں تو خاموشیاں بھی گنوا بیٹھتا ہوں
اداسی کے اسباب بھی
اپنی افسردگی بھی گنوا بیٹھتا ہوں
خیالات اور خواہش و خواب بھی
رابعہ
تیری گمشدگی کوئی معمہ نہیں
خود مری اپنی گمشدگی بھی کوئی ایسا معمہ نہیں
پر یہ روزانہ دو چار لمحوں میں
جیون کا کھو بیٹھنا اتنا تکلیف دہ ہے
کہ صدیوں لہو کا بدن
آبلوں کے لبادوں سے باہر نکلتا نہیں
بعض اوقات
جب میں کوئی رات
یادوں بھری رات کھو بیٹھتا ہوں
کوئی شام
اشکوں بھری شام کھو بیٹھتا ہوں
کوئی گیت
سپنوں بھرا گیت کھو بیٹھتا ہوں
کوئی شعر
جذبوں بھرا شعر کھو بیٹھتا ہوں
تو ہر سُو غموں کی گھٹاؤں
سیہ اور گہری گھٹاؤں سوا کچھ بھی رہتا نہیں
ان گھٹاؤں کی ہیبت سے
اشکوں کا دریا بھی جو میری آنکھوں کے اندر ہے
بہتا نہیں
اور نہ جانے تجھ علم ہو یا نہ ہو رابعہ
آنسوؤں کا اچانک ہی کھو بیٹھنا
میرا مطلب ہے
تم کو ضرورت ہو رونے کی اور اشک کھو جائیں اندر ہی اندر
کسی دشت میں
اک عجب سانحہ ہے
یہ وہ المیہ ہے
جو اموات کے المیوں سے بھی گہرا ہے
کیونکہ مری رابعہ
اس کی وابستگی میتوں کے تفاخر سے اور بادشاہی سے ہے
او مری اجنبی رابعہ
٭٭
رابعہ
زندگی موت، چاہت میں
اتنے ہی پیوست ہیں جیسے کوئی شجر
اپنی مٹی کے آئین سے
زندگی بھی محبت بنا کچھ نہیں
موت بھی
ہم محبت میں ہنستے بھی ہیں
اور روتے بھی ہیں
ہم محبت میں ملتے بھی ہیں
اور بچھڑتے بھی ہیں
ہم محبت میں جیتے بھی ہیں
اور مرتے بھی ہیں
ہم محبت میں آسودگی کو بہت ڈھونڈتے ہیں
جو ملتی نہیں
موت اور زندگی کی طرح
موت میں جن کو آسودگی کی توقع ہے
دھوکے میں ہیں
موت آسودگی کا سرابِ مسلسل ہے
اور
صبح جتنے اندھیرے میں ہوتی ہے
کوئی چھپا تو نہیں
سانس کی ایک مخصوص گنتی بھی کتا بڑا زخم ہے
زندگی موت
موت اور محبت
نہ جانے بدن کون ہے
کون گھاؤ ہے
اور یہ بھی ممکن ہے یہ سارا کچھ
گھاؤ پر گھاؤ کی کوئی تنظیم ہو
تاکہ جو بھی
جیسا بھی ہے
اور جتنا بھی ہے
اس کی تعظیم ہو
٭٭
کون کتنی پذیرائی میں ہے زمانے کی
آسودگی کا خلا چیخ کر ہنس رہا ہے
جہاں موت دہلیز مَل کے کھڑی ہو
جہاں خوف کمرے کو اندر سے دھڑکا رہا ہو
مجھے زندگی نے بھی اتنا ہی ویراں کیا ہے
کہ کتنا کسی شخص کو موت نے
موت اور زندگی متفق ہیں مرے مسئلے میں
میں حساس انسان ہونے کی پاداش میں
موت اور زندگی کے مقابل ہمیشہ رہا ہوں
مرے ساتھ بس اک محبت تھی
جو آتی جاتی رہی
مستقل تو کوئی زخم ہے
جو مسلسل ہی پوشیدگی کے عمل میں ہے
اور اپنے اثرات کو منکشف کر رہا ہے
مری رابعہ
میں تمہارے بنا
اتنا بے مایہ
اتنا ہی معمولی انسان ہوں
جتنا وہ ہے کہ جس نے تجھے پا لیا
میں خدا کی۔۔۔ ہمارا تمسخر اڑاتی ہوئی۔۔۔قدرتوں پر جو حیرت سے
ہنس دوں تو کیا ہے
یا رو دوں تو کیا ہے
خدا کون سا کوئی شخصی خدا ہے
جو بے انت کرسی پہ بیٹھا ہوا بس مجھے غور سے تک رہا ہے
یا اپنے فرشتوں کو میری نگہبانیاں سونپ کر
آپ اوروں میں مصروف ہے
اور اسے موت کے اجتماعات سے ہی فراغت نہیں ہے
یا وہ آدمیت کے سجدوں کی گنتی میں ہے
اور دوزخ کا ایندھن بڑھانے کے چکر میں ہے
رابعہ
کیا تجھے علم ہے کہ خدا کُن سے پہلے کہاں تھا۔۔۔؟
ہمیں کائناتوں کے مرکز کی جانب بلاتا ہوا اک سفر
اور سفر کا خطر
اور خطر کی نظر
اور نظامِ اثر ہی خدا ہے
بیک وقت "ہے” اور "نہیں” کے مدارج میں موجود
جو پل بہ پل ہم کو دکھ کی شرائط پہ
قسطوں میں جیون دیے جا رہا ہے
جو لوٹائے جانے کی امید کی گردشوں میں نہاں
ایک ذرے سے لاکھوں طرف کا نظامِ زمان و مکان و بیاں ہے
مری رابعہ
یہ جہاں جانے کس کس پہ موقوف ہو
اور ہم ایک ہی رابعہ کے جنوں میں گرفتار ہیں
آج اس جل پہ میلہ نہیں ہے جہاں ایک شب تو نظر آئی تھی
آج میلے کے دھندلے سے دو چار آثار ہیں
اور کل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
٭٭٭
(کتاب ’محبت کی آخری ادھوری نظم‘ سے)
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں