فہرست مضامین
- دیوانِ بیان میرٹھی
- غزلیات
- قصیدہ در مدح حضرت علیؓ
- قصیدہ در مدح جنرل محمد اعظم الدین خاں
- قصیدہ در مدح نواب علی مراد خاں بہادروالیِ سندھ
- قصیدہ در مدح مہاراجہ راج کنوار بہادر فرماں روائے ریاست بشن گڑھ، ضلع فرخ آباد
- در مدح حفظ الکریم
- مثنوی در صفتِ انبہ
- جرمانۂ آفتاب
- تضمین بر غزل عظیمائے نیشا پوری
- تصمین بر غزل ناسخ لکھنوی
- تضمین بر غزلِ خود
- تضمین بر غزل مرزا غالب
دیوانِ بیان میرٹھی
تدوین
شرف الدین ساحلؔ
انتساب
ماہرِ غالبیات
جناب کالی داس گپتا رضا
اور
مخلص ادیب
جناب شانتی رنجن بھٹاچاریہ
کی نذر
جنہوں نے میری ہمیشہ ہمت افزائی کی۔
دیوانِ بیان
بیاں ہے وہ بادشاہِ اسریٰ کہ جس کی درگاہِ خسروی میں
دیا زمینِ ادب کو بوسہ فلک نے گردن جھکا جھکا کر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
غزلیات
(۱)
بہارِ حمد سے دیواں ہے گلزارِ ارم میرا
خطِ گلزار میں بادِ بہاری ہے قلم میرا
سنا ہے مژدۂ جاں بخش جب سے نحنُ اقرب کا
رگِ گردن کے پاس آتے ہی رک جاتا ہے دم میرا
ہوا ہوں آپ سے خالی تو کیا معمور ہوں تجھ سے
کہ دم بھرتا ہے تیرا قالبِ خاکی میں دم میرا
ملا اعزاز کیا کیا دولتِ حمدِ الٰہی سے
چلے گا بادشاہوں سے نہ اب جھک کر قلم میرا
(۲)
کوڑا ہے، عکس گیسوئے مشکینِ یار کا
گھوڑا بھی شوخ ہے، مرے گل گوں عذار کا
احساں قفس میں ہے، یہ دلِ داغدار کا
بلبل کے ساتھ قید ہے، موسم بہار کا
حشراُن کی زلف و رخ نے کیا ہو چکا جہاں
ٹوٹا طلسم، گردشِ لیل و نہار کا
کس رشکِ مہر و ماہ کا آوارہ گرد ہوں
ہے آسماں لقب، مرے مشتِ غبار کا
وحشت نے کھینچ لی ہیں طنابیں زمین کی
خیمہ فلک سے دور ہے اپنے عبار کا
ٹوٹا وہ اور میں دشتِ قیامت میں گر پڑا
گردوں غبار تھا، مرے مشتِ غبار کا
خشکی میں ڈوبتا ہوں ٹھہر، سوزِ دل ٹھہر
پانی ہوا جگر، مرے سنگِ مزار کا
بے درد آسماں نے رکھا اس کا نام برق
پارا اڑا جو میرے دلِ بے قرار کا
اس نوجواں کے رخ سے کہاں تابِ ہمسری
خورشید حشر پر ہے گماں نے سوار کا
رکھا ہے پاؤں واں، ترے مشتاقِ دید نے
ہے شمعِ طور نام جہاں خار خار کا
آئے وہ شامِ وعدہ تو آتے ہی چل دئے
پرسہ نہ دے گئے، دلِ امیدوار کا
اُٹّھے زمیں سے لالۂ خونیں کفن کی طرح
محشر ہے ایک کھیت شہیدانِ یار کا
رکھتا ہے چرخ صاحبِ جوہر سے کاوشیں
کٹ کٹ کے بک رہا ہے جگر کوہسار کا
ارشاد بزمِ شعر میں ہو، اے بیاں کچھ اور
مشتاق ہے جہاں ، سخنِ آب دار کا
(۳)
شعلہ ہے، مہر جس کے دمِ سبحہ یار کا
محشر وہ اژدھا ہے، مرے شامِ تار کا
اے اہلِ سبحہ، چھیڑ نہ زنّار بند کو
دانا کو پاس چاہیے ہر رشتہ دار کا
کی کوہ کن نے کوہ کنی، یاں ہے جاں کی
اس خوں کدے میں کام نہیں شیر خوار کا
مستوں کو اس کے دور نے ہشیار کر دیا
ساغر ہے چرخ شربتِ دیدار یار کا
باریک موسے کوچۂ گیسو کی راہ ہے
اے شانہ، ہاتھ تھام دلِ بیقرار کا
حسرت یہ ہے کہ ہم تو اسیرِ قفس ہوئے
آزاد بوستاں میں ہے، موسم بہار کا
زیرِ قدم ہے، حشر میں آنکھ اس شہید کی
مارا ہوا ہے، کس نگہِ شرم سار کا
قمری ادھر کو آئے تو پھانسی گلے میں ہو
شمشاد نام ہے مرے گلشن میں دار کا
خونِ شہیدِ ناز سے، ٹپکیں وہ لذتیں
کوثر ہے تشنہ لب ترے خنجر کی دھار کا
خوں، سختیِ سخن نے کیا ہے، اٹھائے کون؟
لاشہ، ہماری آرزوئے سنگ سار کا
کیوں ہے صِراط ادھر سے اُدھر تک کھنچی ہوئی
محشر یہ تار ہے نگہِ انتظار کا
لپٹی گلے سے تیغ تو سودا فرو ہوا
یہ جونک خون چوس گئی جسمِ زار کا
گرمی سے ابرِ دودِ جگر کی بچا لیا
تھا شامیانہ عرصۂ روزِ شمار کا
عاشق مزاج ہیں، کہیں حوروں پہ مر نہ جائیں
جنت میں بھی رہے کوئی گوشہ مزار کا
کیوں صبح و شام وصلِ شفق گوں ہے آفتاب
اس طشت میں لہو ہے تمنائے یار کا
لائی گھسیٹ کر ترے در سے شہید کو
دامن لہو لہان ہے روزِ شمار کا
تھا صرف روئے شاہدِ رحمت پہ ایک خال
دیکھا تو وہ گناہ ہے ہژدہ ہزار کا
محشر میں کیا بیاں کو خطر یا ابو تراب
ذرّہ ہے آفتاب تری رہ گزار کا
(لسان الملک ،میرٹھ:ستمبر، اکتوبر ۱۸۹۸ء)
(۴)
کھٹکا نہیں دل کی بستگی کا
انجام ہے پھول، ہر کلی کا
ایک آنکھ سے سامنا کسی کا
اللہ رے دیدہ آرسی کا
جلتا ہے شباب مفلسی کا
یوں جیسے چراغ چاندنی کا
تیروں کو مزا ہے دل لگی کا
اک شور ہے دل میں گدگدی کا
کیوں دور کھنچے ہے چرخ انجم
سارا ہے طفیل آدمی کا
زخمی ترے لوٹتے ہیں کیا خوب
محفل میں ہے فرش چاندنی کا
اس کوچہ سے لے چلے ملک کیوں
یاں دخل نہیں ہے اوپری کا
جیتے ہیں بتوں کے مرنے والے
حسن اک چشمہ ہے زندگی کا
یاروں نے کرید کر مری خاک
پتلا دیا داب بیکسی کا
مانگا جو نمک کہا کہ بھولا
او کور نمک مزا چھری کا
یوں دوڑتی ہے بدن میں بجلی
رگ رگ میں اثر ہے اس ہنسی کا
تاریک ہے آبِ خضر یعنی
کالا منھ ایسی زندگی کا
محشر میں بجائے کشتۂ ناز
اک شور اٹھا چھری چھری کا
جب تک نہ ہو چار سو کی تنخواہ
کیا لطف بیاں ہے شاعری کا
(۵)
فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
مجھے مجھی پہ ستمگر نے اشکبار کیا
ہر ایک ذرہ نے ایجاد صد بہار کیا
یہ میری خاک کو کس گُل نے رہگزار کیا
بلا ہے شوقِ شہادت، نہ اُس نے وار کیا
جگر کو آپ ہی بڑھ کر سناں کے پار کیا
میں خوش ہوں وعدۂ فردا پہ، کون شخص ہوں میں
وہ شوخ اور یہ عمر اس پہ اعتبار کیا
کچھ ایسی چیز نہ تھے، دو جہان کیا ہوتے
دکھا کے آئینہ تم پر، تمہیں نثار کیا
زمیں میں زلزلہ ہے، آسماں میں تہلکہ ہے
کسی نے آج کسی دل کو بے قرار کیا
یہ آبلے نہیں، نکلی ہے آنکھ ہر مُو پر
ترا تو میرے سراپا نے انتظار کیا
مذاقِ عشق تو دیکھو کہ دل ہی دل نکلے
جو چاک سینہ مرا صورتِ انار کیا
دیا نہ تجھ کو دہن، بات ایک رکھّی تھی
میں بد گماں کہ تجھے کس کا راز دار کیا
ہنوز سنگ میں آئینہ ہے، خوشا فرہاد
کہ بعدِ مرگ بھی شیریں کا انتظار کیا
طریقِ عشق میں کی بے خودی سے طے منزل
یہ تھی وہ رہ کہ نہ اپنا بھی اعتبار کیا
کہ کیوں ہو عاشق و معشوق کا جہاں دشمن
کہ حسن و عشق نے اچھوں کو بے قرار کیا
اُدھر وہ جلوہ کہ موسیٰ کو بے حواس رکھا
اِدھر یہ جذبہ کہ یوسف کو بے دیار کیا
سروں پہ داور محشر نے فرش کیں آنکھیں
تمھارے آنے کا کیا کیا نہ انتظار کیا
بیاں مرا دلِ خونیں وہ قطرہ ہے جس کو
محیطِ اعظمِ غمہائے روزگار کیا
(۶)
نعش پہ شادی کے سبب رو گیا
داغ دل کے خون کا بھی دھو گیا
حشر میں کہتے ہیں کہ جھوٹا تھا عشق
مرقدِ تاریک میں کیوں سو گیا
خارِ مژہ پاؤں میں چبھنے لگے
کانٹے مرے حق میں وہ کیوں بو گیا
عشق نے کیا پھونک دیا اے بیاں
عقلِ مہذّب کو جنوں ہو گیا
(۷)
کس کو شوقِ جلوہ آرائی ہوا
مردمِ ہر دیدہ، موسائی ہوا
طاق سے آئینہ غش کھا کر گرا
کون محوِ جلوہ آرائی ہوا
بن گیا آئینہ پس کر سنگِ طور
کون محوِ جلوہ آرائی ہوا
حضرتِ آدم گرے، موسیٰ گرے
کس کو شوقِ جلوہ آرائی ہوا
منھ کی کھائی آفتاب صبح نے
کون گرم جلوہ آرائی ہوا
دیکھ کر اس رشکِ گل کا حسنِ سبز
لالہ کوئی سبزہ صحرائی ہوا
حسرتِ شداد ہے اک اک امنگ
کس کے در کا میں تمنائی ہوا
مجھ کو شیشہ نے کیا ہے سنگ سا
جور زیرِ چرخ مینائی ہوا
تو نے شیشہ میں اتارا اک جہاں
کون اسیرِ چرخ مینائی ہوا
اس دوتا سے کس طرح بنتی کہ میں
بندۂ اندازِ یکتائی ہوا
حسن سے ثابت ہے نسبت عشق کی
وہ تمنا، میں تمنائی ہوا
دم لبِ جاں بخش کا بھرتا ہے دل
اک مسلماں آج عیسائی ہوا
دور پھینک آئینہ، او خانہ خراب
باعثِ صد گونہ رسوائی ہوا
چشم تھی مدت سے بیمارِ جمال
اک سرِ گیسو بھی سودائی ہوا
ہو کے زندہ اے بیاں تجھ سے سخن
قابلِ اعجاز گویائی ہوا
(۸)
خدنگ اور پھر اُس شوخ کی نظر کا سا
جگر کسی کا نہ ہو گا، مرے جگر کا سا
اُڑا ہے رنگ کسی نا امید کا شبِ ہجر
کہ سوئے چرخ اُجالا ہے کچھ سحر کا سا
ستم کہ رشک، ترے گھر کو، لے چلا سر سے
گماں جو نقشِ قدم پر ہے، راہبر کا سا
ہوا میں آگ ترے سنگ در سے اٹھتی ہے
مرا وجود تپِ غم سے تھا شرر کا سا
شبِ وصال میسر ہوئی، مگر نہ ہوئی
کہ تابِ حسن سے تھا وقت دو پہر کا سا
گلا فراق میں سو بار کاٹتے، لیکن
مزا چھری میں کہاں تھا، تری نظر کا سا
بیاں کو نیند، تری یاد میں نہیں آتی
علاج کرتے ہیں کیوں چارہ گر سحر کا سا
(۹)
دل کے سوا کہاں ہے مقر، تیرے تیر کا
اس صید سے نہیں ہے مفر، تیرے تیر کا
طعمہ تو ہو چکا ہے جگر تیرے تیر کا
اب کس معاش پر ہے گزر تیرے تیر کا
اترا جگر میں، زخم جگر سے نکل گیا
گھر تیرے تیر کا یہ، وہ در تیرے تیر کا
سینہ میں سوزِ عشق نے چھوڑا نہیں لہو
منھ، پیاس سے گیا ہے اتر تیرے تیر کا
اس صرصرِ فغاں سے لرزتا ہے دل مرا
برباد کر نہ دے کہیں گھر تیرے تیر کا
پیکاں جگر میں ٹوٹ گیا پھر چھری چلی
کاٹا ہے پہلے صید نے سر تیرے تیر کا
دیکھ اس کو ہو نہ اہلِ ہوس کی نظر گزر
ہے ناوکِ نظر سے گزر تیرے تیر کا
امید کی طرح یہیں رہ جائے ٹوٹ کر
دل سے نہ ہو کہیں کو سفر تیرے تیر کا
پروانہ دامنِ تپشِ دل نہ چھو سکے
پہنچے نہ میرے فن کو ہنر تیرے تیر کا
گزرا وہ دل سے آہ گئی نُہ فلک کے پار
کم میرے تیر سے ہے اثر تیرے تیر کا
رہتا ہے مرغِ قبلہ نما رُو بقبلہ کیوں
گر دم بدم نہیں اسے ڈر تیرے تیر کا
مرہم دہانِ زخم پہ رکھتا ہے چارہ گر
کرتا ہے بند راہ گزر تیرے تیر کا
اللہ اکبر اس سے جہاں بچ سکے کہاں
پر اک قضا ہے، ایک قدر تیرے تیر کا
اے آسماں قلم سے عطارد ہے سرنگوں
جھکتا ہے میرے تیر سے سر تیرے تیر کا
اٹھنے دیا نہ ضعف نے اس کو بھی بے عصا
تکتا ہے رستہ، دردِ جگر، تیرے تیر کا
پیکاں کو مرغِ جاں نے نشیمن بنا لیا
لایا اڑا کے صید کو، پر تیرے تیر کا
دم تھا گلو سے آب و نمک تیری تیغ کا
پیکاں تھا دل سے شیر و شکر تیرے تیر کا
لپٹا رہے گلو سے گلو تیری تیغ کا
چمٹا رہے جگر سے جگر تیرے تیر کا
میں شہسوارِ ملکِ بیاں ہوں مرے حضور
جوہر کھلا برنگِ دِگر تیرے تیر کا
(۱۰)
سر شوریدہ، پائے دشت پیما شامِ ہجراں تھا
کبھی گھر تھا بیاباں میں، کبھی گھر میں بیاباں تھا
ترے کشتے کو محشر، خواب آسائش کا ساماں تھا
کہ صور افسانہ گو تھا زلزلہ گہوارہ جنباں تھا
جسے سب نوح کے فرزند کہتے ہیں کہ طوفاں تھا
کسی جاندادۂ خاموش کا، اندوہِ پنہاں تھا
بلا سے چوٗر کر دو، چوٗر کر دو، شیشۂ دل کو
اسی میں قید حسرت تھی، اسی میں بند ارماں تھا
نہ کھولی آنکھ وقتِ نزع، بیمارِ محبت نے
کسی کا پردہ رکھنا تھا، کوئی آنکھوں میں پنہاں تھا
اکیلے اے بتو! ہم بھی نہ سوئے کنجِ مرقد میں
جو اِس پہلو میں حسرت تھی تو اُس پہلو میں ارماں تھا
گئے تھے روندنے دل کو لیے بیٹھے ہیں تلوؤں کو
فرو رگ رگ میں نشتر تھے، نہاں نس نس میں پیکاں تھا
مری ہستی کی محشر میں کوئی تعبیر کیا کرتا
کسی زلفِ پریشاں کا، میں اک خوابِ پریشاں تھا
قیامت تک پس از مردن رہی اک ٹیس سی دل میں
وہ کہتے ہیں کہ پیکاں تھا، میں کہتا ہوں کہ ارماں تھا
حضورِ بلبلِ کلکِ بیاں کس طرح کھلتے منہ
کہ بوئے غنچہ ساں محجوب نطقِ ہر سخن واں تھا
(۱۱)
اک صفرِ انتخاب رہا مہر کیا رہا
دیوانِ حشر میں مرا مطلع بڑھا رہا
محشر میں ناتوان جنوں سے خفا رہا
اٹھ کر جہانِ تنگ سے کب تک پڑا رہا
زخمِ نہاں کو زخمِ نہاں کا مزا رہا
چوری سے اس نگہ کی طرف دیکھتا رہا
اے چرخ خونِ فخر سلیماں روا رہا
شامی قصاصِ مور و ملخ پوچھتا رہا
میں دکھ کا دکھ ہنسی کی ہنسی ہوں ستم گرو
زخموں میں شور خندۂ دنداں نما رہا
تاخیرِ آمد آمدِ قاتل سے ہوں خجل
غافل کہاں رہا کہ خدا دل میں آ رہا
کھینچا لہو سے ہاتھ کہ کیا احتیاج رنگ
دل خون پیش دستیِ برگِ حنا رہا
گھبرا کے کہتے ہو میں بگولے میں آگیا
میرا غبار آپ پہ ناحق فدا رہا
تم ایسے گھر کو چھوڑ کے جاتے ہو کس کے گھر
یہ دل وہ ہے کہ جس میں خود آ کر خدا رہا
مجھ کو بھی جمع کر مری خاطر بھی جمع کر
پاشیدۂ کشاکشِ بیم و رجا رہا
زاہد کو اس نگہ نے حرم میں دیا نہ چین
بیچارہ تنگ آ کے کلیسا میں جا رہا
اس کوچہ میں سیاستِ درباں کا کیا گلہ
آدم ستم رسید ۂ زخمِ عصا رہا
طرزِ طرازِ کاخِ مصور کو دیکھ کر
یوسف کو سادہ لوحیِ دل کا گلا رہا
دل ہو گیا شکار کہ غمزہ مکیں میں تھا
میں غافلِ تغافلِ چشمِ حیا رہا
سچ ہے کچھ اعتبار نہیں خوئے تند کا
خنجر وصال میں بھی کمر سے لگا رہا
اس کوچہ سے ہم ایسے نکالے گئے کہ بس
رو پیٹ کر بہشت میں آدم پھر آ رہا
فرعوں غریقِ آب، سکندر طرید آب
بس کوئی بدرقہ نہ کوئی رہنما رہا
کس کبر پا سے یار نے رکھا زمیں پہ پاؤں
محشر گلو بریدۂ اندازِ پا رہا
خوں سے معانقہ تو حنا سے مصافحہ
قاتل کی انجمن میں سماں عید کا رہا
خشت بنائے خانۂ دل عشق تھا بیاں
روز اک نہ ایک، فتنۂ محشر بپا رہا
(۱۲)
طوق لپٹا ہوا گردن سے رہا
غم گلو گیر لڑکپن سے رہا
ہاتھ جب آگیا پیروں چلنا
نہ خدا ہاتھ یہ دامن سے رہا
دیکھتا خضر رہِ عشق کی راہ
منتشر شیخ و برہمن سے رہا
نہ کیا زمرۂ احباب نے شاد
پر میں ناشاد نشیمن سے رہا
خاموشی میری زباں اور رہی
رنگِ دلکش گلِ سوسن سے رہا
تھے خط و خالِحسیناں مرغوب
دانہ کش ماہ کے خرمن سے رہا
کسی کمزور سے تن کر نہ چلا
اور نہ دب کر کسی ہم فن سے رہا
(۱۳)
وہ ہوا بیمار واں، اور یاں میں اچھا ہو گیا
لو عدو کے درد سے میرا مداوا ہو گیا
گریہ سے تنگیِ دل کا راز افشا ہو گیا
اشک آتے ہی مری آنکھوں میں دریا ہو گیا
جاں فزا اس چشمِ شہلا کا اشارا ہو گیا
آپ کا بیمار بھی، رشکِ مسیحا ہو گیا
قتل ہم سے سخت جانوں کو کیا اک ہاتھ میں
اب تو تیری تیغ کا یہ کچھ بھروسا ہو گیا
صدمۂ آزار گویا، مژدۂ آرام تھا
دل دو پارہ کیا ہوا ہے، تیغ زن وا ہو گیا
مجھ میں اور تم میں اگر دیکھو تو اتنا فرق ہے
تم عدو کے ہو گئے اور میں تمھارا ہو گیا
تم عدو کے گھر گئے اور ہم خدا کے گھر گئے
وعدہ واں پورا ہوا یاں وعدہ پورا ہو گیا
سوزش دل نے بیاں کو مار ہی ڈالا غرض
آج اپنی آگ میں، جل بھن کے، ٹھنڈا ہو گیا
(۱۴)
اشکِ خونیں کبھی تھمنے نہ دیا
کبھی رنگ اور کا جمنے نہ دیا
آسماں مرکبِ دوری کی طرح
دودِ فریاد نے تھمنے نہ دیا
نہ کیا ثبت، غمِ دل جب تک
خوں، رگِ جانِ قلم نے نہ دیا
کس سے اس غبن کی لوں موجودات
کہ حساب اہلِ عدم نے نہ دیا
رہ گئے منزلِ مقصود سے ہم
راستہ دیر و حرم نے نہ دیا
نگہِ یاس سے پوچھ، اے قاتل!
کام کیوں تیغِ ستم نے نہ دیا
زیست ہے موت کی تمہید، مسیح
دم کسی آپ کے دم نے نہ دیا
شیخ نے سوئے حرم سُدھ باندھی
بوسہ جب سنگِ صنم نے نہ دیا
لوگ شادی سے ڈراتے تھے مجھے
چھوڑ طفلی میں بھی غم نے نہ دیا
خشک ہونے ، یہ مرا دامنِ تر
نمیِ ابرِ کرم نے نہ دیا
کیا زبردست پہ احسان بیاں
دل کبھی آپ سے ہم نے نہ دیا
(۱۵)
خود ہے نیاز و ناز کو لپکا نمود کا
پیشانیوں پہ داغ ہے، تیرے سجود کا
تھی خلق کیا کہ واہمہ خلّاق تھا مرا
دیکھا تو رنگ ایک ہے بود و نبود کا
بیتابیِ گناہ میں، طاعت سے ہوں معاف
مضطر کو کیا خیال، قیام و قعود کا
تیرے مخالفوں کو تو صحت بھی ہے مرض
یعنی کہ رنگ زرد نشاں ہے یہود کا
دوزخ نہیں کچھ اور سہی، ہم کو کیا ہر اس
جب تفرقہ رہا نہ زیاں کا نہ سود کا
مہرِ علی سفینۂ طوفانِ نوح ہے
ہر ذرہ اس طریق میں جو دی ہے جود کا
مت پوچھ مستیِ دلِ کافر کا ماجرا
میخواریوں میں، رنگ ہے شربُ الیہود کا
گو نالہ کے شریک رہے لاکھ جزو تن
خاکا اڑا کیا مری خاکِ وجود کا
اے مرغ، پاؤں دیکھ کے رکھنا زمین پر
پھیلا ہوا ہے دام، رسوم و قیود کا
جوشِ کرم سے چشمِ عنایت نے رو دیا
اللہ رے گداز مرے دل کے دود کا
کس طرح اس کی دھوم سے احیائے دیں نہ ہو
مژدہ دیا مسیح نے جس کے ورود کا
آتش چھپی ہوئی ہے نیستاں میں، اے بیاں!
سرمایۂ حسد ہی، عدو ہے حسود کا
(۱۶)
کھلا ہے جلوۂ پنہاں سے از بس چاک وحشت کا
میں ڈرتا ہوں کہیں پردہ نہ پھٹ جائے حقیقت کا
کہاں لے جائے گا یا رب سمندِ تند وحشت کا
کہ پیچھے رہ گیا کوسوں دو راہہ نار و جنت کا
غبارِ رنگ پرّاں ہے پھریرا تیری رایت کا
شکستِ قلبِ عاشق غلغلہ ہے تیری نصرت کا
کیا ہے قصد کس کے کنگرِ ایوانِ رفعت کا
کہ تھاما ہے ترے نالے نے پایہ عرشِ ہمت کا
جھکا دی قدسیوں نے بے تکلف گردنِ طاعت
زہے رتبہ کفِ خاکِ درِ والائے دولت کا
کھلے کس طرح پروہ، پردۂ گوشِ تحیّر پر
کہ بے صوت و صدا ہے پردہ سازِ بزم وحدت کا
صنم طاقِ حرم سے دفعتاً نیچے اتر آئے
ادب تھا بس کہ واجب دوست کے قاصد کے طلعت کا
حجابِ تن کسادِ رونقِ کالائے یوسف ہے
تردد کیا ہے زنداں خانۂ ہجراں سے ہجرت کا
سلاطیں کو نہیں پاتا مزاج ان کے فقیروں کا
کہ عنقائے فلک پرواز ہے قافِ قناعت کا
لبِ اصنام ہیں قندِ سخن سے سر بمہر اب تک
خموشی سے مزہ پوچھے کوئی تیری فصاحت کا
مزے ملتے ہیں کیا کیا عشق کے لذت شناسوں کو
ہمیں دامانِ زخمِ دل، عوض ہے خوانِ نعمت کا
ترے حیرت کدہ میں فرش ہے آئینہ کیا اوبت
کہ خاصانِ درِ دولت کو ہی کھٹکا ہے ذلت کا
نگہہ بے حس، خطِ ساغر کی صورت ہے کہ ساقی نے
دیا ہے مردمِ چشمِ جہاں کو جام حیرت کا
تلاش جلوۂ معنی میں ٹکرایا کئے سجدے
نہ ٹوٹا دستِ خشک زہد سے بت خانہ صورت کا
قیامت برہمی ڈالی تو ہجراں کی گھڑی گزری
زمیں ہے گرد شیشہ، آسماں شیشہ ہے ساعت کا
بتوں پر لات ماری مہر و مہ سے پھیر لیں آنکھیں
بیاں اللہ رے غمزہ مرے حسنِ عقیدت کا
(۱۷)
یار پہلو میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
تارِ گیسو، رگِ جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دل میں وہ غنچہ دہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
گلِ شگوفہ میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
وہ ہی نورِ دوجہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
وہی یاں تھا، وہی واں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دل مرا کعبۂ جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
نالہ گلبانگِ اذاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
آنکھ پر ڈال دیا دیر و حرم کا پردہ
وہی دونوں میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
صفتِ نورِ بصارت وہ مرا پردہ نشیں
میرے پردہ سے عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
حسنِ صورت نے دیا، جلوۂ معنی کا پتہ
بت نہ تھا سنگِ نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
جانبِ کعبۂ مقصود تنِ زار مرا
روشِ ریگِ رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
بے خبر پڑھنے لگا مومن و غالب کا کلام
کنجِ خلوت میں بیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
(۱۸)
آلودۂ طلب، ارنی گوئے طور تھا
برق، ایک تازیانۂ حسنِ غیور تھا
تکیہ عصا پہ دستِ توکل سے دور تھا
موسیٰ کو اوجِ طور سے گرنا ضرور تھا
آنکھوں میں جلوہ ریز یہ کس بت کا نور تھا
ڈھیلا ہماری آنکھ کا ہر سنگ طور تھا
اک ایک گام ضعف سے تھا منزلوں کی راہ
اے شوخ ناتواں بھی ترا کتنی دور تھا
فطرت کے سادہ دل کو نہ آتی تھیں فطرتیں
اے عقلِ فیلسوف یہ تیرا قصور تھا
سنتا تھا متصل رگِ گردن سے مثلِ تیغ
غیرت کو سر سے قطعِ تعلق ضرور تھا
اس میکدہ کا عیش بقدرِ شکست ہے
اتنا گھلا ہوا تھا میں جتنا کہ چور تھا
خجلت سے بے گناہ کی تھی مے عرق عرق
ذکرِ لبِ پیالۂ مَے یا غفور تھا
تھا حرفِ آرزو غلط العام کا فریب
ناداں طلسم خوردۂلوحِ شعور تھا
چسکا غضب تھا شوق کا بجھتی تھی جتنی پیاس
اتنا ہی تشنہ کام، دلِ ناصبور تھا
نالے لگے ہوئے تری ٹھوکر سے کیوں نہ ہوں
تیرے قدم میں حشر مرے لب میں صور تھا
آتے ہی حسرتوں میں قیامت بپا ہوئی
سینہمیںشورِبُعِثرَ مَافیِالْقُبُور تھا
ہلتے ہی ابرو اُن کے گیا ٹوٹ پھوٹ دل
شیشہ کی طرح طاق سے گرتے ہی چور تھا
میں جس کو دیکھتا تھا دکھاتا نہ تھا بیاں
آنکھوں میں غیب تھا مرے لب پر حضور تھا
(۱۹)
کلیم، اوجِ محمد کا ہم عناں کیسا
یہاں ہے خرقِ فلک، بحر بیکراں کیسا
جہاں ہیں ہم، کوئی واں اس کی سرکشی دیکھے
جھکا ہوا ہے ترے در پہ آسماں کیسا
اُچھل کے میرے لہو نے پکڑ لیا دامن
نکل چلا تھا دمِ تیغ، خوں چکاں کیسا
پیاس بجھتی ہے خنجر سے، معجزہ تو نہیں
تمھارے ہاتھ میں ہے، چشمۂ رواں کیسا
بلند پائنچہ، پا شوخ، نازنیں گردن
گیا ہے خون شہیدوں کا رائیگاں کیسا
دھوئیں جہاں کے اڑائے ہیں تیرے غمزہ نے
یہ تیرگی کچھ اسی کی ہے آسماں کیسا
ہنسی سے بھی وہ لبِ نازنیں ہوئے مجروح
ہوا ہے خون نزاکت کا رنگِ پاں کیسا
دلوں میں جانتے ہیں، گو زباں سے کہتے نہیں
کہ اس زمانے میں استاد ہے بیاں کیسا
(۲۰)
ان کا منجملۂ اربابِ وفا ہو جانا
میرے نزدیک ہے بندہ کا خدا ہو جانا
رہ گیا تشنۂ دیدار کی تمثال حباب
تھا مجھے آنکھ کے کھُلتے ہی فنا ہو جانا
قلب ماہیتِ اشیاء ہے بتاثیرِ فشار
درد کو چاہیے، پہلو میں دوا ہو جانا
ہمتِ قطرۂ شبنم ہے، عرق ریز جبیں
کہ بیک پرتوۂ مہر فنا ہو جانا
جادۂ راہ ہے شبنم کے لیے تارِ شعاع
چاہیے حسن طلب، راہ گرا ہو جانا
آب زن، قطرۂ شبنم ہے، بدا غفلتِ ہوش
پھر تقاضا کہ ذرا جلوہ نما ہو جانا
برقِ شوخی سے، نہفتہ وہ پری زاد ہوا
باور آیا مجھے شعلے کا ہوا ہو جانا
نقشِ بے ربط سمجھ، صورتِ خطِ توام
صفحۂ ہستیِ عالم کا جدا ہو جانا
سطرِ تعلیمِ تمنا ہے، ترا بندِ قبا
چاہیے شوق میں ہر عقدہ کاوا ہو جانا
تھا جو در پردہ بیاں زخمہ زنِ تارِ نفس
مجھ کو ہر پردہ میں تھا پردہ سرا ہو جانا
(۲۱)
کب ہوا وصل اس ستمگر کا
کب مرے سر سے آسماں سر کا
جس جگہ پر جلیں فرشتوں کے
کیا گزر ہو مرے کبوتر کا
دیر کیوں کی ہے، شور محشر کیا
منتظر ہے کسی کی ٹھوکر کا
وحشتِ شوقِ کوئے یار تو دیکھ
میں ہی رہبر ہوں، اپنے رہبر کا
تیرے جلوے سے گل زمیں میں سمائے
چمن اک فرش ہے مشجّر کا
تاکہ اڑ جائے نامہ کی تحریر
خامہ کافر کے پاس ہے پر کا
آرزو جو ہوئی شہید ہوئی
میرے سینہ میں دم ہے خنجر کا
اے بیاں چل بہ کوریِ مہہ و مہر
عرش ہے آستاں پیمبر کا
(۲۲)
اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
میں گریبان سے پہلے ہی نکل جاؤں گا
وہ ہٹے آنکھ کے آگے سے تو بس صورتِ عکس
میں بھی اس آئینہ خانہ سے نکل جاؤں گا
مہر تم، سوختہ میں، شیشۂ آتش ہے رقیب
اس پہ ڈالو گے تجلی تو میں جل جاؤں گا
مجھ سے کہتا ہے مرا دودِ جگر، صورتِ شمع
دل میں روکو گے تو میں سر سے نکل جاؤں گا
شمع ساں برسرِ محفل، نہ جلا دیکھ مجھے
پھیل جاؤں گا ستمگر جو پگھل جاؤں گا
ٹھہرائے مہر ذرا صبحِ شبِ وصل ہے آج
بام پر دھوپ چڑھے کی تو میں ڈھل جاؤں گا
روکتا ہوں کبھی شوخی سے تو ہر طفلِ سر شک
روکے کہتا ہے ابھی گھر سے نکل جاؤں گا
کارِ امروز بفردا مگذار اے واعظ
آج اس کوچہ میں ہوں خلد میں کل جاؤں گا
کون اٹھائے گا الٰہی شبِ غم کی افتاد
منھ کو آتا ہے کلیجہ کہ نکل جاؤں گا
لے کے آنکھوں میں ترا جلوہ کہاں جائے گا
غیر کو دیکھ کے میں آنکھ بدل جاؤں گا
ہر طرح ہاتھ میں ہوں گوشۂ دامن کی طرح
وہ سنبھالیں گے جو مجھ کو تو سنبھل جاؤں گا
اٹھ کے دامن وہ اٹھائیں گے، تو جائیں گے کہاں
خون کہتا ہے کہ میں اور اچھل جاؤں گا
اے بیاں سنئے ذرا ناصحِ ناداں کی زٹل
میں بھلا آپ کی باتوں سے بہل جاؤں گا
(جلوۂ یار، میرٹھ: فروری ۱۹۱۴ء)
(۲۳)
اِدھر دیکھ لینا اُدھر دیکھ لینا
پھر اس شوخ کو اک نظر دیکھ لینا
سرِ زلف پھر کھول کر دیکھ لینا
ذرا پہلے سوئے کمر دیکھ لینا
مرے رشکِ خورشید کے ہو مقابل
ذرا دن کو حسنِ قمر دیکھ لینا
یہ ہے شامِ فرقت، یہ ہے شامِ فرقت
نہ ہو گی، نہ ہو گی سحر دیکھ لینا
لگایا تھا ہم نے شجر آرزو کا
نہ قسمت میں تھا یہ ثمر دیکھ لینا
وہ پوشیدہ رکھتے ہیں اپنا تعلق
اِدھر دیکھ کر، پھر اُدھر دیکھ لینا
کہیں تیرے کشتے نہیں دبنے والے
زمیں کے تلے داب کر دیکھ لینا
دلِ تنگ میں حسرتوں کا لہو ہے
ذرا اپنے تیروں کے پر دیکھ لینا
کرو ذبح میں صیدِبے بال و پر ہوں
اڑے گی نہ اصلاً خبر دیکھ لینا
جو سو ٹھیکیاں لے کے آئی ہے لب تک
اسی آہ کا تم اثر دیکھ لینا
گیا ہاتھ سے، دل کو کیا پوچھتے ہو
کسی دن ہتھیلی پہ سر دیکھ لینا
رہا حسنِ رخ دیکھ کر دنگ صانع
کہ ہے اسمیہ آئینہ گر دیکھ لینا
رسائی ہے جنت، جدائی ہے دوزخ
کسی خوبصورت پہ مر دیکھ لینا
جو ہو جیتے جی خواہشِ سیرِ جنت
بیاں کوئے خیر البشرؐدیکھ لینا
(۲۴)
تھک کے لیٹا تھا لحد میں شورِ محشر لے چلا
بارِ ہستی رکھ دیا تھا پھر اٹھا کر لے چلا
تھا منا اے ضبط، شوقِ کوئے دلبر لے چلا
پھر کوئی مجھ کو مرے قابو سے باہر لے چلا
شیخ کے ماتھے پہ مٹی برہمن کے بر میں بت
آدمی دیر و حرم سے خاک پتھر لے چلا
خوں تری گردن پہ ہے، آنسو مری آنکھوں میں ہے
تو صراحی لے چلا بھر کر، میں ساغر لے چلا
اے بیاں از بس کہ تھی شورِ محبت سے بھری
اس غزل کو میں سوئے دیوانِ محشر لے چلا
(۲۵)
چراغِ حسن ہے روشن کسی کا
ہمارا خون ہے روغن کسی کا
ابھی نادان ہیں محشر کے فتنے
رہیں تھامے ہوئے دامن کسی کا
دل آیا ہے، قیامت ہے، مرا دل
اٹھے تعظیم دے جوبن کسی کا
یہ محشر اور یہ محشر کے فتنے
کسی کی شوخیاں بچپن کسی کا
ادائیں تا ابد بکھری پڑی ہیں
ازل میں پھٹ پڑا جوبن کسی کا
کیا تلوار نے گھونگٹ مرے بعد
نہ منہ دیکھے گی یہ دلہن کسی کا
ہماری خاک محشر تک اُڑی ہے
نہ ہاتھ آیا مگر دامن کسی کا
بجائے گل مری تربت پہ ہوں خار
کہ الجھے گوشۂ دامن کسی کا
بیاں برقِ بلا، چتون کسی کی
دلِ پُر آرزو، خرمن کسی کا
(جلوۂ یار،میرٹھ: مارچ، اپریل، ۱۹۱۴ء)
(۲۶)
صرفِ فشار کینہ کنارِ بتاں ہے اب
میرے لیے تمام زمیں آسماں ہے اب
ذکرِ خدا بجائے خیالِ بتاں ہے اب
ہوتی ہمارے کعبۂ دل میں اذاں ہے اب
ظالم کو میری آہ نے دنیا سے کھو دیا
کہتے ہیں منتہائے نظر آسماں ہے اب
آج ان کو دیکھنا ہے تماشائے جاں دہی
بادِ صبا بتا مری مٹی کہاں ہے اب
قائل یہاں نہیں کوئی ان کے وجود کا
میں ہوں جہاں عدم میں وہی آسماں ہے اب
اس بت کے دل میں گردِ کدورت تھی اے بیاں
برباد کر گئی مجھے، ظالم کہاں ہے اب
(۲۷)
دلِ آرزو مندیِ جاں عبث
سرِ مایۂ دست گرداں عبث
غبار اس کے دامن کا ہم سے نہ رکھ
جنوں دست رس تاگریباں عبث
صدا شور وحشت میں آتی نہیں
نصیحت کی باتیں ہیں ناداں عبث
ہوا کوئی اے گل نہ پُرسانِ حال
کیا چاک تو نے گریباں عبث
نہیں سامنے مصحفِ روئے یار
کیا حفظ زاہد نے قرآں عبث
دمِ واپسیں ہے دمِ انبساط
نہ ہو صورتِ صبح، خنداں عبث
مری پتلیاں پھر گئیں وقتِ نزع
عبث چشمِ امید انساں عبث
حسیں ہیں اگر فعل خلق حکیم
نہیں کوئی بھی پیرِ ناداں عبث
یہ سالوس کھل جائے گا عندلیب
نشاطِ فریبِ گلستاں عبث
تری طرز تحریر سے کھل گیا
بیاں شیوۂ مصطفیٰ خاں عبث
(۲۸)
اے چرخ سر پٹک کہ میں ناگہ مرا ہوں آج
اے خاک، خاک اڑا کہ میں تجھ میں ملا ہوں آج
آاے وفا، لباس مرے غم میں کر سیاہ
اک در پہ بے گناہ، میں مارا گیا ہوں آج
اے شورِ نالہ اٹھ کے اجل کو صدا تو دے
میں دم سے اپنے دم سے زیادہ خفا ہوں آج
دامن چھڑا کے کون مرے ہاتھ سے گیا
اے یاس کیوں میں چار طرف دیکھتا ہوں آج
کھایا ہے تیشہ میں نے بھی مانندِ کوہکن
ناصح میں اپنے خون میں ڈوبا ہوا ہوں آج
سینہ میں مر نہ جائے کہیں سہم سہم کر
اے آرزو سدھار کہ دم توڑتا ہوں آج
قاروں صفت زمیں پہ سنبھلتا نہیں کہیں
اللہ اس نظر سے میں کتنا گرا ہوں آج
روتا ہوں لمحہ لمحہ تڑپتا ہوں دم بدم
کچھ اے بیاں نہ پوچھ میں کیا جانے کیا ہوں آج
(۲۹)
جہاں میں لوں نہ مزے کس طرح جناں کی طرح
کہ تیرا نام لبوں پہ ہے نوشِ جاں کی طرح
رہوں نہ گوشۂ عزلت میں کیوں زباں کی طرح
کہ مجھ پہ تنگ ہے عالم ترے دہاں کی طرح
گئیں جگر سے نگاہیں گزر، سناں کی طرح
تڑپ تڑپ گئے ارمان، نیم جاں کی طرح
خدنگ بن کے چبھی کھُب گئی سناں کی طرح
یہ تیکھی وضع، یہ ترچھی نظر، یہ بانکی طرح
اُڑا جو شورِ قیامت مری فغاں کی طرح
تو پہلے کانوں میں دیں انگلیاں اذاں کی طرح
نظر سے گو ہوئے رو پوش تم دہاں کی طرح
چھپے گاخوں نہ شہیدوں کا رنگِ پاں کی طرح
روانہ اشک رواں ہوں جو کارواں کی طرح
فغاں کے شعلے اڑے پرچمِ نشاں کی طرح
وہی اٹھائے مجھے جو بنے مرا مزدور
تمھارے کوچہ میں بیٹھا ہوں میں مکاں کی طرح
پڑے وہ راہِ محبت میں روز کے خطرے
کہ طے ہوا ہے ہر اک ہفتہ ہفت خواں کی طرح
حیات پر مہِ نو تیغ تیز رکھتا ہے
فلک کو حرکتِ دوری ہے یاں فساں کی طرح
مکیں نہیں ترے بن کوئی کعبۂ دل میں
گواہی دیتے ہیں نالے مرے اذاں کی طرح
نہ کیوں فغاں ترادم شکلِ نے بھرے جاؤں
کہ یاد ہے مجھے طفلی سے تو اذاں کی طرح
عروج دیکھیے شوریدگانِ الفت کا
مکاں میں رہتے ہیں وحشی یہ لامکاں کی طرح
پس از فنا غمِ عشق اے خدا کہاں رکھوں
زمیں کہیں نہ ابھر جائے آسماں کی طرح
وہ میرے غیرتِ خورشید کی تجلی ہے
کہ پارہ پارہ ہوا ہے قمر کتاں کی طرح
ہے کس کا نقشِ قدمِ آفتاب ذرہ نواز
کہ راستے ہوئے پُر نور، کہکشاں کی طرح
حکایتِ غمِ دلِ، داستانِ داغِ جگر
چلو سنائیں گلستاں و بوستاں کی طرح
گرا تھا حضرتِ یوسف کی طرح چاہ میں دل
نکال خط نے لیا آکے کارواں کی طرح
ہوائے وحشتِ دل لے اڑی کہاں سے کہاں
پڑی ہے دور زمیں گردِ کارواں کی طرح
چبھے گا دل میں ہر اک تار، تیر بن بن کر
کہ زلف دوش پہ ہے چلّۂ کماں کی طرح
دبا دیا ہے یہ کس بے قرارِ الفت کو
زمیں بھی اب متحرک ہے آسماں کی طرح
گئی تھی روح یہ کس غنچہ لب کی حسرت میں
کلی کلی میں چھپی بوئے بوستاں کی طرح
اسی کو حق نے دیا ہے طرح طرح کا کمال
وہ طرح دے گئے شاعر یہ تھی بیاں کی طرح
(۳۰)
ہو جس طرح شراب سے، جامِ شراب سرخ
پر تو سے اس کے رخ کے، ہوئی ہے نقاب سرخ
مضموں رقم ہیں عارضِ رنگینِ یار کے
کیوں کر نہ مثلِ دفترِ گل ہو کتاب سرخ
آتے ہیں اشکِ خوں، جگرِ داغدار سے
اس پھول سے کشیدہ ہوا ہے گلاب سرخ
نیرنگیاں فلک کی جبھی ہیں کہ ہوں بہم
کالی گھٹا، سفید پیالے، شراب سرخ
اٹھی نہ جھونک سرمۂ دنبالہ دار کی
آنکھ اس کی ناز کی سے ہوئیبے شراب سرخ
رحمت سے اس کی صورتِ شام و شفق بیاں
ہو نامۂ سیاہ بروزِ حساب سرخ
(۳۱)
نہ کمر ملتی ہے قاتل کی، دہن کا نہ پتہ
لیے پھرتے ہیں گواہوں کے سمن کا کاغذ
کشتۂ عشق ہے، کیا جانے کہے کیا منھ سے
دیکھ کر کہہ دو فرشتوں سے کفن کا کاغذ
شوخیِ چشم کی تحریر ہے منظور نظر
پوست کھنچوا کے بناتے ہیں ہرن کا کاغذ
بن گیا گیسوئے مشکیں کی ثنا لکھنے سے
میرے دیواں کا ورق مشکِ ختن کا کاغذ
گر پڑے ٹوٹ کے انجم کی طرح طفلِ سرشک
دیکھ کر وادیِ غربت میں وطن کا کاغذ
اس کی فریاد قیامت میں لیے جاتا ہوں
دوست بنوائیں کفن میرے بدن کا کاغذ
دم تحریر رہے پاسِ نزاکت اُن کا
رگِ گل کا ہو قلم، برگِ سمن کا کاغذ
خطِ رخسار سے میں رہنِ غمِ عشق ہوا
ہو گیا اب مرے کاشانۂ تن کا کاغذ
چھن گیا ذکرِ مژہ سے تو کہا محشر میں
خوردۂ کِرم ہے رودادِ کہن کا کاغذ
لکھ دیا تھا جو کہیں صرصرِ فریاد کا حال
کاغذِ باد ہوا رنج و محن کا کاغذ
نیزۂ کلک سے خورشیدِ قیامت کا ورق
بن گیا صاف ترے سوختہ تن کا کاغذ
اے بیاں سینہ کے زخموں کا بنالوں پھاہا
ملے غربت میں جو یارانِ وطن کا کاغذ
(۳۲)
یہ میں کہوں گا فلک پہ جاکر زمیں سے آیا ہوں تنگ آکر
جو اے مسیحا تو ہے مسیحا تو کچھ مرے درد کی دوا کر
تمھارے جلوے غضب کے دیکھے تمھارے چھینٹے بلا کے پائے
لگا لگا دی بجھا بجھا کر بجھا بجھادی لگا لگا کر
ضدیں محبت سے ایسی آئیں خیال رکھا نہ اپنے گھر کا
بتوں نے کعبہ کو مفت ڈھایا کسی کے دل کو دکھا دکھا کر
وہ شوخ بے اعتبار کافر رہا نہ تنہا گیا نہ تنہا
جو درد اٹھا اٹھا اٹھاکر تو دل کو بیٹھا بٹھا بٹھا کر
یہ زور حرمان و یاس کا ہے اثر کہاں کا مری فغاں کو
پٹک پٹک خاک پر دیا ہے فلک سے اونچا اٹھا اٹھا کر
گداز کرتے ہیں میرے دل کو وہ یوں بٹھاتے ہیں اپنا سکہ
جلی کٹی ہورہی ہے کیا کیا عدو سے مجھ کو سنا سنا کر
سنی کسی نے صدائے طوطی نہ حالتِ عندلیب دیکھی
جو کور تھی اس چمن میں نرگس تو گل بھی اے ہمصفیر تھا کر
کہیں نہ زلفوں سے کھل پڑا ہو مجھے ہے اندیشہ اپنے دل کا
کہ پرزے پرزے اڑا رہا تھا عدو کوئی شئے دکھا دکھا کر
وہ بت کہ دیں اس کو تونہ گردے تو لاکھ طوفاں اٹھا کے دھردے
زبان پھر صاف قطع کردے جو منھ سے نکلے خدا خدا کر
الٰہی ہنگامِ آمد آمد یہ کس قیامت خرام کا ہے
کھسک چلے صحنِ بوستاں سے تدرو و طاؤس دم دبا کر
فلک ہوا مہرباں پھرے دن شبِ وصال آگئی تو اس نے
بہارِ لطف و کرم دکھا کر نقابِ شرم و حیا اٹھا کر
کبھی ہنسایا کبھی رُلایا کبھی رُلایا کبھی ہنسایا
جھجک جھجک کر سمٹ سمٹ کر لپٹ لپٹ کر دبا دبا کر
بیاں ہے وہ بادشاہِاسریٰ کہ جس کی درگاہِ خسروی میں
دیا زمینِ ادب کو بوسہ فلک نے گردن جھکا جھکا کر
(۳۳)
نظر جو آیا نظیر اپنا تو آنکھیں آئینہ کو دکھا کر
کہا جھلک تجھ میں ہے دوئی کی ابھی ذرا اور دل صفا کر
دیت بھی بخشی، لہو بھی بخشا جھکا کے سر، آنکھ ڈبڈبا کر
کہا جب اس بت نے وقتِ رخصت معاف میرا کہا سنا کر
ادا کرے کون روزِ محشر مری شہادت پھر ا سکے منھ پر
گواہیاں دے رہی ہیں جھوٹی وہ زلفیں قرآں اٹھا اٹھا کر
سنبھل سنبھل کر ٹھہر ٹھہر کر ہماری فریادِ فتنہ زا نے
تمھارے کوچہ میں لابٹھایا ہزار محشر اٹھا اٹھا کر
میں کوستا تھا فلک کو یار و ستم ظریفی فغاں کی دیکھو
بنادیے آسماں ہزاروں دل و جگر کا دھواں اڑا کر
یہ فیضِ پیرِ مغاں ہے زاہد کہ لٹ رہی ہے کھلے خزانے
تو اپنے کوثر کو رکھ اچھوتی تو اپنی جنت کو رکھ اٹھا کر
قتیل کس کا شہید کس کا یہ کون تھے قُم کے کہنے والے
اٹھا دیا یار کی گلی سے مجھے مسیحا نے کیوں جِلا کر
وہ شوخ مستِ خرام آیا کہ حشرِ دل تھام تھام آیا
بزور دو چار گام آیا گراہی آخر کو لڑکھڑا کر
تری شرارت کا رنگ ظالم اڑا کے لایا خدنگ شاید
کچھ ایسی کی گدگدی جگر میں کہ ہنس پڑے زخم کھل کھلاکر
وہ شعلہ انگیز اگر رواں ہوتو شعلہ کب اس کا ہم عناں ہو
جو صاعقہ کو دمِ خرامش گرا گرا دے تھکا تھکا کر
غضب کے جلوے ستم کے عشوے بلا کی ابر و قضاکی چتون
اسے جلا دے اسے لٹا دے اسے فداکر اسے فنا کر
کہا جو اندوہِ جانفشانی تو ہنس کے بولا وہ یار جانی
ترا فسانہ تری کہانی سنے ہماری بلا بکا کر
نہ ہونگے قاتل نہ ہونگے ٹھنڈے یہ تیرے گھائل نہ ہونگے ٹھنڈے
کبھی یہ بسمل نہ ہونگے ٹھنڈے کہ تو نے مارا جلا جلاکر
جو جلد جانا ہو اس صنم تک تو راستہ لو حریمِ دل کا
پھر آؤ کعبہ کے جانے والو یہ راہ جاتی ہے پھیر کھاکر
بسیطِ لوحِ زمیں سراسر، ہے تختۂ مشقِ ناز دلبر
بنائے لاکھوں مٹا مٹا کر، مٹائے لاکھوں بنا بنا کر
یہ قہرِ صیاد کیا ٹھکانا اجل گرفتوں کو کیوں ستانا
تو دے اسیروں کو آب و دانہ نہیں تو کر ذبح یار ہا کر
لہو کیا لاکھ خواہشوں کا ہلاک کیں سیکڑوں امیدیں
سناؤں کیا سر گذشت دل کی وہ مٹ گیا اک جہاں مٹاکر
چمک نظر آرہی ہے مجھ کو جھلک نظر آ رہی ہے مجھ کو
کہ رات دن میرے روبرو ہیں وہ چاندسورج سے منھ چھپا کر
شہید دستِ ادار ہے گی پسے گی پامال پارہے گی
ہری بھری کب حنا رہیگی بھلاحسینوں سے رنگ لاکر
جواب کیا ہے بروزِ محشر ’’بای ذنبِ قَتَلْتَنِیْ‘‘کا
کہ قتل کیں میں نے آرزوئیں ہزاروں زندہ دبا دباکر
بیاں ہزاروں عذاب جھیلے بہتحسینوں میں کھیل کھیلے
بتوں سے برسوں رہے جھمیلے بس اب کوئی دن خدا خدا کر
(۳۴)
خاک کرتی ہے، برنگِ چرخِ نیلی فام رقص
ہر دو عالم کو، ترا رکھتا ہے بے آرام رقص
دیکھیے پیری کا حال اور دیکھیے ریشِ سفید
شیخ صاحب نامناسب ہے یہ بے ہنگام رقص
ابلقِ چشم بتاں کی شوخیاں چکرا گئیں
آسماں پر مہر و مہہ کرتے ہیں صبح و شام رقص
ہو حقیقی یا مجازی عشق کی حالت نہ پوچھ
خانقہ میں مَے ہے اور میخانہ میں بدنام رقص
صومعہ میں وجہِ صد تحسیں ہوا صوفی کا حال
میکدہ میں آن کر کیوں ہو گیا بدنام رقص
نرگسِ مخمور جاناں ڈال دیتی گر نگاہ
مردمِ چشم بتاں کی طرح کرتا جام رقص
عاشقانِ ابروئے بت کی ہے طاعت اضطراب
تھی نماز اہلِ حرم جب تک نہ تھا اسلام رقص
گرد پھرتا ہوں جو اس بر کے تو واعظ کیا ہوا
طوف میں کرتا ہے تو بھی باندھ کر احرام رقص
بحر میں گرداب ہے اور دشت میں ہے گرد باد
خشک و تر میں ہے تری شوخی سے اے گلفام رقص
شوخ نے برہم نظامِ محفلِ امکاں کیا
خاک نے چھیڑا ہے گردوں نے لیا ہے تھام رقص
پائمالِ غم پسے جاتے ہیں سرمہ کی طرح
لے اڑی کس کے قدم سے گردشِ ایام رقص
تیری شوخی سے تری رفتار سے اے رشک باغ
چوکڑی بھولا ہرن، طاؤسِ گُل اندام رقص
عیش جاویداُن کو حاصل ہے جو ہیں تیری طرف
طائرِ قبلہ نما کرتا ہے صبح و شام رقص
(۳۵)
نگارِ دیوانِ حشر کیوں ہو نہ مطلعِ آفتاب عارض
کہ قرصِ خورشید روزِ محشر ہے نقطۂ انتخاب عارض
جہاں ہے مفتونِ تابِ عارض حیا ہے ممنونِ تاب عارض
کہ صورتِ آفتابِ محشر ہے تابِ عارض نقاب عارض
الٰہی اغیار دیو صورت نہ لائیں تابِ عتاب عارض
کتاں سے نکلے شعاعِ عارض کماں سے تیرِ شہاب عارض
نہ فیض صحبت ہو نور فطرت کہ چشم و گیسو نہ لائے ایماں
اسی قبیلہ میں گوکہ اتری کتاب فصل الخ طاب عارض
رلائیے گا مجھ کو اے منجم تصور اس کے رُخِ میں کا
کہ گرم سیرِ بروج آبی ہوا ہے اب آفتاب عارض
ہوئی قیامت کھلی حقیقت کہاں فریبِ نظر کا عالم
اٹھے ہیں آنکھوں کے اب تو پردے اٹھا دو تم بھی حجاب عارض
وہ داور عرصہ گاہ خوبی ہر ایک آنکھوں میں تول لے گا
ہوا خدنگ نظر ترازو صبحِ روزِ حساب عارض
چھڑایا اندوہ عاشقی سے وہ آیۂ حق ہے نسخۂ خط
کیا ہے منسوخ جس نے آ کر صحیفۂ رخ کتاب عارض
سوادِ شامِ وصالِ جاناں صبحِ روزِ جزا ہے مجھ کو
کہ شعلۂ آفتابِ محشر ہے جلوۂ آفتاب عارض
وہ اس کے اوپر ہے قطرہ افشاں یہ اس کے اوپر ہے سایہ افگن
بخارِ ارض ابرِ بوستاں ہے یہ دودِ دل ہے سحاب عارض
وہی لگائے وہی بجھائے وہی ہے آتش وہی ہے پانی
جو تابِ عارض ہے آبِ عارض تو آبِ عارض ہے تابِ عارض
بیاں ہوا ہے خطاب اپنا بیاں ہوا لاجواب اپنا
جواب دے جائے گی طبیعت کہاں جواب الجواب عارض
(۳۶)
کی عرض میں نے دفترِ الفت مگر غلط
کہنے لگے کہ محض غلط سر بسر غلط
کوزہ میں بند ہو کہیں دریا سنا نہیں
طوفان باندھتے ہیں سرِ چشمِ تر غلط
کتنا کٹھن ہے مرحلۂ انتقالِ روح
جاتے ہو ایک جنبشِ ابرو سے بر غلط
لو اپنی نیستی میں ہمیں بھی ملا لیا
کہتے ہو ان کے ہے نہ دہن نے کمر غلط
دل ہی نہیں بغل میں اگر ہے تو تنگ ہے
اتنے سے گھر میں سر و سہی قد کا گھر غلط
جوشِ دروں سے بارشِ بارانِ ابر جھوٹ
نوکِ مژہ سے فصدِ رگِ ابرِ تر غلط
یوں سیرِ آفتاب میں آئے خلل چہ خوش
کہتے ہو شامِ ہجر وجودِ سحر غلط
چہرہ کہیں سے لال، نہ دامن کہیں سے تر
جاری رہا ہے آنکھ سے خوں رات بھر غلط
پھنکتے ہیں لب کہیں، نہ زباں پھانکتی ہے آگ
اڑتے ہیں آہِ نیم شبی سے شرر غلط
اول تو فرطِ ضعف سے ہلتا پہاڑ جھوٹ
اور پھر تپش سے ہلتے ہیں کوہ و کمر غلط
ابروئے خم کو جانتے ہو تیغِ تیز جھوٹ
نوکِ مژہ کو باندھتے ہو نیشتر غلط
کس کی طلب کہاں کا کبوتر کہاں کی یاد
تحریر شوق و شکوہ غلط، نامہ بر غلط
بازی گری جنوں کی محبت کے شعبدے
سر دوش سے اچھل کے گرے پاؤں پر غلط
لایا ہے رنگِ نشۂ مَے ہم کو دیکھ کر
کہتے ہیں اُف رے جوششِ خونِ جگر غلط
ناحق کسی کا خون کریں ہم کو کیا غرض
آلاتِ قتل ابرو و چشم و نظر غلط
کمسن سمجھ کے دیتے ہو کیا ہم کو دھمکیاں
تاثیرِ ضبط جھوٹ، دعائے سحر غلط
خون چکیدہ آپ کا رنگِ شفق، دروغ
رنگِ پریدہ آپ کا نورِ سحر غلط
ہم کس طرح صحیح و سلامت رہیں بیاں
اس شوخِ سرمگیں کی نہ ہو گی نظر غلط
(۳۷)
کہتی ہے کس کا زبانِ حال سے افسانہ شمع
بن رہی ہے بزم میں کس طور کی پروانہ شمع
گرنہ ہوتا داغِ الفت تیرہ بختوں کا چراغ
لے کے مشعل ڈھونڈتی پھرتی مرا غم خانہ شمع
قبر عاشق کی چراغ و شمع سے روشن ہو کیا
ہو سرِ تربت مگر حسنِ رُخِ جانانہ شمع
بند کر لیتی ہے زیر برقعِ فانوس آنکھ
تا نہ وقتِ صبح دیکھے صورتِ بیگانہ شمع
وہ حسیں تو ہے کہ معشوقوں کو تیرا عشق ہے
گل ہے تیرا بلبلِ شیدا، تری پروانہ شمع
سر جدا ہو گا کہ لازم ہے شہیدوں کا ادب
پاؤں رکھتی ہے سر تربت جو گستاخانہ شمع
تاجِ پُرزر صبح کو ہو گا، نہ چاندی کا علم
کوئی دم کی ہے یہ تیری شوکتِ شاہانہ شمع
زندگی بھر شعلہ رخساروں کا پروانہ رہا
کوئی تربت پر بیاں بعد از فنالانانہ شمع
(۳۸)
غمزۂ معشوق، مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
صورتِ ابرو ہمارے سر چڑھی جاتی ہے تیغ
ہوتے ہیں قرباں شہادت میں گلے مل کر شہید
دوشِ قاتل پر ہلالِ عید بن جاتی ہے تیغ
پست خم کھائے ہوئے لب خشک دم ڈوبا ہوا
چلتے چلتے اب تو او ظالم تھکی جاتی ہے تیغ
بے گناہی کا برا ہو زخم بے لذت ہوئے
دستِ قاتل میں برنگِ بید تھراتی ہے تیغ
اس کی گردن پر مراخوں اس کا احساں میرے سر
اس سے جھک جاتا ہوں میں اور مجھ سے جھک جاتی ہے تیغ
پار دریائے شہادت سے اتر جاتے ہیں سر
کشتیِ عشاق کی ملاح بن جاتی ہے تیغ
خونِ گرم آتا ہے جب پانی میں لہراتا ہوا
مثلِ ماہی خوف کے مارے اچھل جاتی ہے تیغ
ابروئے خوں خوار قاتل کا کوئی پرساں نہیں
اب نکلتی ہے کہیں تو قرق ہو جاتی ہے تیغ
کب بجھے اس طرح ہے شوقِ شہادت کی پیاس
زخم کے منھ میں زباں بن کر نکل آتی ہے تیغ
مرحبا جذبِ شہادت اس کا مغرب ہے گلو
آپ منزل پر ہلال آسا پہنچ جاتی ہے تیغ
تشنہ کامو گھاٹ سے اترے تو بیڑا پار ہے
چشمۂ کوثر چھلکتا ہے کہ لہراتی ہے تیغ
لڑتی ہے چھینٹے لبِ جو رنگ کیسا لال ہے
مار کر پانی میں غوطہ خوں میں نہلاتی ہے تیغ
زخم کاری نے کہیں منھ کھول کر کچھ کہہ دیا
کیا ہوا قبضہ سے باہر کیوں ہوئی جاتی ہے تیغ
جان سے عشاق جاتے ہیں گزر، کٹتے ہیں غیر
پل صراطِ امتحانِ عشق کہلاتی ہے تیغ
آفتابِ داغِ سودا کی حرارت دیکھ کر
چھاؤں میں دل تفتگانِ غم کو بٹھلاتی ہے تیغ
مدعی در پردہ کٹ کٹ جاتے ہیں شکلِ نیام
اے بیاں میری زبانِ تیز کہلاتی ہے تیغ
(۳۹)
گلگشت تنگ عشق ہیں گلزار کی طرف
پرزے اڑائے تو نہ اڑے یار کی طرف
آنکھیں لگی ہیں کوچۂ دلدار کی طرف
دو کھڑکیاں کھلی ہیں، درِ یار کی طرف
پایا نہ بار محفلِ جاناں میں، رہ گئے
حسرت سے دیکھتے در و دیوار کی طرف
طاری ہوئی یہ شمع پہ حیرت کہ رہ گئی
انگلی اٹھی ہوئی ترے رخسار کی طرف
مستوں نے ٹھوکریں بھی نہ کھائیں سوئے حرم
سجدے کیے تو خانۂ خمّار کی طرف
حسن و جمال شانِ خدا ہے، پھرا ہے تو
اے شیخ پست مصحفِ رخسار کی طرف
دے داد کون گرم روِ راہِ عشق کی
سایہ بھی ہو گیا تری دیوار کی طرف
میت ہے قبلہ رو ترے صحرا نورد کی
لیکن قدم ہیں وادیِ پُر خار کی طرف
تو شعلہ رُو ہے سینۂ سوزاں سے آلپٹ
شعلہ کو میل ہے کرۂ نار کی طرف
دل شیشۂ شراب کا ٹوٹا جو محتسب
ساغر کی آنکھ رہ گئی میخوار کی طرف
دریائے موج زن ہے تری تیغِ آبدار
وہ غرق ہو گئی جو گئی دھار کی طرف
الٹی سمجھ تو دیکھیے مشتاقِ دید کی
کہتا ہے دیکھ طالبِ دیدار کی طرف
دیوانہ چل نہ دے کہ پری زاد چل دیا
رکھوں بغل میں ہاتھ دلِ زار کی طرف
الحقپکارناتھاانا الحقسراہوا
لایا زیادہ گو کو ادب دار کی طرف
وہ رشکِ حور مجھ کو قیامت کے دن ملا
حق پھر گیا اخیر کو حقدار کی طرف
پھولا ہوا شفاعت و رحمت پہ ہوں بیاں
ہیں کیسے دو وکیل گنہگار کی طرف
(۴۰)
خوں بہانے کے ہیں ہزار طریق
رنگ لانے کے ہیں ہزار طریق
کعبہ و دیر پر نہیں موقوف
اس یگانے کے ہیں ہزار طریق
کوئی مذہب نہیں زمانے کا
اس پرانے کے ہیں ہزار طریق
عذرِ مستی و مے پرستی کیا
بھول جانے کے ہیں ہزار طریق
دلستانی کے سیکڑوں انداز
دل ستانے کے ہیں ہزار طریق
یاد میں، خواب میں، تصور میں
آ! کہ آنے کے ہیں ہزار طریق
دل لگی، دل دہی، دل آرامی
دل لبھانے کے ہیں ہزار طریق
دلِ مشبک ہوا تو فرمایا
آنے جانے کے ہیں ہزار طریق
کس طریقے سے ہو نباہ بیاں
کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق
مئی ۱۸۹۳ء)
(۴۱)
ہوا کو بار کب ہوتا ہے اس کافر کے مسکن تک
الٰہی کیوں کہ پہنچے گی ہماری خاک دامن تک
نہ ہونا قتل ہونا ہے حریصِ آبِ خنجر کا
مرا خوں تیری گردن پر رہے گا میری گردن تک
رہی دونوں کی جی کی جی ہی میں ضعف و نزاکت سے
نہ پہنچا ہاتھ دامن تک نہ آئی تیغ گردن تک
ہوائے شوق کس انداز سے چلتا ہوا دیکھا
کہ لاکھوں ناز سے آتی ہے بجلی میرے خرمن تک
نبھائے گا الٰہی کون ہم سے سخت جانوں کو
کہ بارِ خاطر دامن ہوئی عیسیٰ کو سوزن تک
تر و خشک جہاں سے آشنائے سیلیِ غم ہیں
کبودی نیلوفر سی چھارہی ہے روئے سوزن تک
مگر احباب کو رحم آئے خس کی نا تمامی پر
نہ پہنچائیں جو گلشن تک تو لیتے آئے گلخن تک
زمیں اس شہسوار ناز سے لبریز شوخی ہے
رواں ہیں مثلِ ماہِ نو نشانِ سمِ توسن تک
بیاں ہم شکر کرتے ہیں شکایت کا محل کیا ہے
کہ پہنچایا ہمارے راہبر نے ہم کو رہزن تک
(۴۲)
ہاں لکدکوب زمیں ہے، تو عناں ریز فلک
تو سنِ ابلقِ ایام کی شوخی کب تک
پستیِ طالعِ قسمت نے دکھایا وہ حضیض
کہ مجھے گاؤ زمیں ہے صفتِ گاؤ فلک
جنبش افزائے قفس ہے، تپشِ مرغِ قفس
مجھ سے کس زلزلہ میں ہے زسما تا بسمک
ساغرِ چرخ لبالب ہے مرے اشکوں سے
دہر میں آتی ہے برسات جو جاتا ہے چھلک
سوزش آمادہ ہے دل، شیشۂ آتش کیطرح
ماسوا کو میں جلادوں جو پڑے تیری جھلک
سرہ و نا سرہ کا تجربہ منظور ہے ہاں
پردۂ شب سے نہ غافل ہو کہ ہے سنگ محک
خاک میں اس نے ملایا مجھے، اس نے جاں لی
وائے مجھ پر کہ عدو تھے مرے انسان و ملک
مژدۂ سیرِ ارم دشنۂ جانِ شداد
بوئے خوں آتی ہے اس باغ سے اے گل نہ مہک
ہم نفس پوچھ نہ اس بزم کی برہم زد گی
ریگ ہے جرم زمیں شیشۂ ساعت ہے فلک
(لسان الملک ، میرٹھ: جنوری ۱۸۸۹ء)
(۴۳)
مثلِ حبابِ بحر نہ اتنا اچھل کے چل
ہیں ساتھ ساتھ موجِ حوادث سنبھل کے چل
برگِ خزاں رسید ہ سے آتی تھی یہ صدا
اس باغِ سبز پر کفِ افسوس مل کے چل
درپے نہنگِ مرگ ہے، در پیش چاہ گور
مستی نہ کر، حواس میں آمت مچل کے چل
سوتے ہیں لوگ، تار ہیں کوچے، گزر ہے تنگ
تاریک شب ہے ساتھ چراغِ عمل کے چل
اے تن پرست، جامۂ صورت کثیف ہے
بزمِ حضورِ دوست میں کپڑے بدل کے چل
آتی ہے زیرِ خاک سے آواز ہر قدم
افتادگانِ راہ کے سر مت کچل کے چل
کب تک کثافتوں میں رہے گا برنگ سرد
آب رواں کی طرح نکل اور نکل کے چل
جوں شمع تجھ کو آتشِ غم سے گریز کیوں
سر پر دھری ہے آگ قدم تک پگھل کے چل
جوں نخلِ شمع، برقِ تجلی گرے کہیں
داغوں سے، آبلوں سے، بیاں پھول پھل کے چل
(۴۴)
بے شرم و حیا، صورتِ دشمن تو نہیں ہم
گرہیں یہ نگاہیں، یہی چتون تو نہیں ہم
اٹھ جائے گا پردہ کی طرح چشم جہاں سے
وہ شوخ ہوا صاعقہ افگن تو نہیں ہم
ڈھل کر صدفِ چشم سے کیوں آتے ہیں آنسو
دامن نے کہا بحر کے دامن تو نہیں ہم
دلہائے بتاں کہتے ہیں تاثیرِ فغاں پر
آتش سے پگھل جائیں کچھ آہن تو نہیں ہم
تن پھینک نہ دیںصورتِ پاپوش دمِ شوق
کچھ لطف سے بھی دوست کے، دل خوش نہیں ہوتا
گستاخ روِ وادیِ ایمن تو نہیں ہم
رہتا ہے یہی وہم کہ دشمن تو نہیں ہم
کہتے ہیں مرے دیدۂ بیدار، یہ حسرت
یارب کسی دیوار کے روزن تو نہیں ہم
کیوں آگ لگی جلوہ سے، ہر گوشۂ تن میں
اے وادیِ ایمن ترے دامن تو نہیں ہم
سر قطع بھی ہو گر، تو نہ روئیں صفتِ شمع
مردانِ رہِ عشق سے ہیں، زن تو نہیں ہم
کچھ بھی نہ ہوا دانۂ امید سے حاصل
بجلی سے خطر کیا ہمیں، خرمن تو نہیں ہم
کہتے ہیں غزالانِ حرم، چشمِ بتاں سے
آہو ہیں ترے، دیدۂ پُر فن تو نہیں ہم
در پردہ جلے جاتے ہیں کس پردہ نشیں پر
انساں ہیں، چراغِ تہِ دامن تو نہیں ہم
کیوں ضعف سے پامال بتاں ہیں، دمِ جولاں
خم گشتہ ہیں، نعلِ سمِ توسن تو نہیں ہم
پردہ کی ہے کچھ بات کہ یوںپنبہ دہاں ہیں
شیشہ کی طرح بزم میں الکن تو نہیں ہم
کہتے ہیں مرے دیدۂ غمناک برس کر
بھادوں تو نہیں ہم، کہیں ساون تو نہیں ہم
وحشت نے بیاں بعدِ خزاں سیر دکھائی
آئے جو فرشتے، تہِ مدفن تو نہیں ہم
(۴۵)
صبح قیامت آئے گی، کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں
آئے وہ در سے ناگہاں، کھولے ہوئے قباکہ یوں
گوہر نا بسودہ کو، زلف میں مت دکھا کہ یوں
میری کمندِ شوق میں رات کے وقت آکہ یوں
کیوں کہ جھکے نسیم سے، سوچے تھی نرگسِ چمن
دیکھ کے چشمِ ناز کو آنے لگی حیا کہ یوں
چاہتے تھے شہود میں، غیب کا رنگ دیکھنا
میری زخویشِ رفتگی، بن گئی رہنما کہ یوں
سہو تھی وضعِ خاستن، بستر عیشِ وصل سے
دیکھ کے ان کی شوخیاں، فتنہ ہوا بپا کہ یوں
دیدۂ اہلِ عشق ہے، نورِ نگاہ سے تہی
آئے وہ فرشِ ناز پر، چھوڑ کے کفش پا کہ یوں
میں نے کہا کنارِ ناز، چاہئے اس غمیں سے پُر
سن کے رقیبِ زشت کو، پاس بٹھالیا کہ یوں
شعلۂ رشکِ غیر سے، جل کے اٹھانہ جائے تھا
دودِچراغِ بزم نے، اٹھ کے بتا دیا کہ یوں
خونِ شہیدِ عشق وہ، کہتے تھے فاش کیسے ہو
رنگِ گل عذار سے، سرخ ہوئی ہوا کہ یوں
اس کفِ پاکے بوسہ کی، کب مجھے راہ یاد تھی
بدرقۂ طلب ہوئی، جرأت سنگ پا کہ یوں
رزق نہیں ہے بن تلاش، کہتی تھی تنگیِ معاش
گردشِ سنگ آسیا، دینے لگی صدا کہ یوں
اس کے خرامِ شوق سے، پس گئی خلق کس روش
مٹ گئی بادِتند سے، صورت نقشِ پا کہ یوں
سعیِ طریقِ شوق سے، فتنہ کو آگہی نہیں
اس کی جلومیں دوڑے سے، سایہ برہنہ پا کہ یوں
شب کو نموئے رنگ سے، خندۂ گل کا ذکر تھا
نشو و نمائے حسن سے ٹکڑے ہوئی قبا کہ یوں
نرگسِ مہوشاں سے پوچھ، گردشِ آسماں سے پوچھ
سرمہ ہوئے وفا سرشت، کیا کہیں اے خدا کہ یوں
صانعِ گلشنِ ارم میں نے کہا کہ ہائے ہائے
درپہ اس انجمن سے دور، قتل مجھے کیا کہ یوں
میں نے کہا نسیم سے، چٹکے ہے غنچہ کس طرح
کنجِ دہانِ تنگ سے، بوسہ نے دی صدا کہ یوں
ریختہ رشکِ فارسی، اس سے نہ ہو سکا بیاں
محفلِ عرسِ میر میں، شعر مرے سنا کہ یوں
(۴۶)
چھپا لو نوکِ مژگاں گوشۂ زلفِ معنبر میں
بتو رخنہ نہ پڑجائے کہیں، دینِ پیمبرمیں
فسوں چشمِ سیہ میں، معجزہ لعلِ لب تر میں
جَلا دیتے ہیں پل بھر میں، جِلا دیتے ہیں دمبھر میں
سبک ٹھہرے گی بیباکانہ شوخی ٹھہرئیے بر میں
رہا سیماب برسوں دیکھئے آئینہ کے گھر میں
نہ بھولے گا ہمیں ہنگامۂ شمشیر و خنجر میں
گرہ غمزہ نے دی ہے گوشۂ ابروئے دل بر میں
چلی بادِ نسیمِ صبح دم یا ہاتھ قاتل کا
شہیدِ ناز کو نیند آ گئی آغوشِ خنجر میں
کیا پاسِ ادب اعجاز نے حفظِ مرا تب کا
لبِ پاکیزۂ عیسیٰ سے اترا تیری ٹھوکر میں
فرشتے رشک سے لائے کہاں سر مستِ الفت کو
گرا تھا کوئے دلبر میں اور اٹّھا صحنِ محشر میں
غضب وارفتۂ شوقِ شہادت تھے ترے کشتے
کہ ڈوبے آبِ خنجر میں اور ابھرے حوضِ کوثر میں
نمازِ اضطرابِ عشق کے سجدے ہیں یہ زاہد
کہ سر کٹ کٹ کے گرتے ہیں خمِ محرابِ خنجر میں
اِدھر شوقِ شہادت ہے اُدھر جوشِ نزاکت ہے
ٹھہرائے ذوقِ کشتن جزر و مد ہے آبِ خنجر میں
گرادے پائے وحشت پر نہ دستِ ناتوانی سے
غمِ گستاخ سے کہہ دو کہ دردِ یار ہے سر میں
شہیدانِ وفا میں بعد مر دن جان پڑتی ہے
کہ کٹ کر حرف روشن ہوتے ہیں الفت کے دفتر میں
خدا جانے نگاہِ یاس سے کیا چوٹ کھائی ہے
پڑی دم توڑتی ہے، تیغ بسمل کے برابر میں
ترا کوچہ نہ تھا مہماں سرائے شہرِ الفت تھا
دل آتے، جی ٹھہرتے، سر اترتے تھے ترے گھر میں
بیاں دل کی صفا رو پوش ہے گردِ کدورت سے
اس آئینہ کو بھی مدفوں سمجھ گورِ سکندر میں
(۴۷)
بیٹھے رہیں پردہ میں تعلق نہ اٹھائیں
گھر میں اگر آئیں نہ تو دل میں بھی نہ آئیں
کچھ خیر ہے، وحشت تو نہیں عشقِ عدو میں
پھر مجھ سے نہ کہنا کہ تری خاک اڑائیں
سیدھے گئے اس کوچہ میں ہم، تیر سے، لیکن
ڈرتے ہیں، کھڑے در پہ کہ سیدھی نہ سنائیں
خلوت کدۂ دوست ہے دیوانہ سراپا
پیدا ہو پری گر مری زنجیر ہلائیں
مرتے ہیں، ترے ناز و نزاکت سے، مصور
گر کھینچ بھی لیں تجھ کو، تو اپنے کو مٹائیں
کیاکیجے کہ واں عجز کئے بھی نہیں بنتی
ہو جائیں اگر خاک تو باتوں میں اڑائیں
گو ضعف سے بیخود ہوں پہ خود دار ہوں کتنا
ڈرتا ہوں کہ ہمراہ مجھے چھوڑ نہ جائیں
آتے ہیں مرے قتل کو کس بکھری ادا سے
ڈر ہے کہ اسی طرح قیامت میں نہ آئیں
بے ساختہ جھک جھک کے چلی آتی ہیں زلفیں
کس پیار سے لیتی ہیں ترے منھ کی بلائیں
ہم کیا ہیں، ہمیں کھینچ، مگر آپ کو مت کھینچ
پیماں ترے نازک ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائیں
(۴۸)
نفسِ شریر شہ پہ ہے، کیفِ شباب میں
ساقی شراب تھی کہ ملی تھی شراب میں
غیر از حجاب کچھ نہیں رکھا حجاب میں
کچھ حسنِ شوخ، بند نہیں ہے نقاب میں
عقدے اُسی قدر دلِ خانہ خراب میں
ہیں جس قدر گرہ ترے بندِ نقاب میں
ہاں ہاں شکستِ توبہ کی آواز میکشو
سنتا ہے کون غلغلِ رعد و سحاب میں
وہ ہم سے بارِ عام میں دیکھا نہ جائیگا
تکرار کیوں ہے رویتِ محشر کے باب میں
ریشِ سفید شیخ سے بچنا کہ عنکبوت
رکھتی ہے دامِ مکر، دہن کے لعاب میں
اے شوخ آج کون ترا پردہ پوش ہے
لاؤں شبِ فراق کو روزِ حساب میں
دل میں کبھی، بغل میں کبھی، چشم میں کبھی
آوارہ شوخیوں نے کیا ہے حجاب میں
آخر سمندِ عمر نے کھائی سکندری
بے چوبۂ سپہرِ کہن کی طناب میں
زاہد کی ریش پنجۂ شاہد میں کیوں نہ ہو
رنگِ حنائے گمشدہ پکڑا خضاب میں
تیر افگنِ مژہ کی صفائی تو دیکھنا
دل چھد گیا ہوا نہیں روزن نقاب میں
سمجھا سوادِ سنبل و سرخیِ گل ہمیں
آئی بہار گر ترے خط کے جواب میں
رکھی ہے توبہ حملۂ قاضی کے واسطے
تا کوئی بال آئے نہ جامِ شراب میں
جو جلوہ فیضِ عشق سے مفتِ نظر ہوا
گزرا نہ تھا خیال زلیخا کے خواب میں
بازی گرِ فلک کا تماشا فریب تھا
ٹھہرے ہیں طفلِ طبع جہانِ خراب میں
اپنا غبار کون قیامت میں لے گیا
گر شورِ حشر تھا نہ تمہاری رکاب میں
ہے مصحفِ مجید میں بھی احسن القصص
تحسینِ خوب رو ہے نصوصِ کتاب میں
اے شور زنگ ناقۂ لیلیٰ صدا تو دے
آوارہ قیس کی ہیں امیدیں سراب میں
گو اس غزل کی داد اسداللہ خاں نے دی
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
آج اے بیاں وہ پھول کھلا دے کہ دیدہ ور
لے جائیں دامنِ نظرِ انتخاب میں
(۴۹)
ہیں چرخ کس کے اشک کے قطرے سحابِ میں
ہیں خاک کس کی، خاک کے ذرے سحاب میں
کیا شعبدہ تھا پردۂ شیب و شباب میں
ابرِ بہارِ زیست چھپا آفتاب میں
سچ مچ وہ شعلہ بن گئے کیفِ شراب میں
کافر نے اور آگ لگا دی شباب میں
رہتا نہیں ہے آتشِ خاموش کا فروغ
کچھ منھ سے بولئے بھی تو جوشِ عتاب میں
محشر مرا غبار اٹھائے گر اے خدا
رکھ دامنِ جنابِ رسالت مآب میں
کہتی ہے صبح مہرِ قیامت کو دیکھ کر
ذرے تھے ایسے رہ گزرِ بوتراب میں
آئینہ لوٹتا ہے خطِ سبز کی بہار
کیا خضر کو فریب دیا ہے سراب میں
شوقِ سجود، داغِ جبینِ نیاز تھا
گستاخیاں ہوئیں ترے در کی جناب میں
پاداشِ ظلم دیکھئے دل زلف میں رہا
دل میں رہی تمھاری تمنا عذاب میں
سرمستِ عشق ہوں مری آغوش میں در آ
رکھتے ہیں ہوشیار خزینہ خراب میں
اعجازِ خاص ہے گہرِ نظم کا رواج
اے دل روانیاں نہیں موتی کی آب میں
بندِ قبا کھلا تو وہ غصہ سے چپ ہوئے
لو اور سدِّ باب ہوا فتحِ باب میں
واعظ نہ توڑ ساغر و مینا خدا سے ڈر
کس کی شبیہ ہے فلک و آفتاب میں
رد کردۂ زمین و فلک بجلیاں کہاں
آہیں کسی غریب کی ہیں اضطراب میں
اے شیخ دورِ جام سے ریش اپنی دور رکھ
گلگونِ باد شعلہ رکھے ہے رکاب میں
شاگرد مرغ کلک ہے اس باز تیغ کا
تھا جس کا آشیانہ کفِ بوتراب میں
گر ہے غرورِ گرم روی آفتاب کو
اترے ہمارے وادیِ گم گشتہ آب میں
بھر بھر کے دولتِ کے و جمشید پھینک دی
ساقی گدائے خم نے کدوئے شراب میں
کیوں کر عدم میں فتنۂ محشر مچائے شور
ہے عاشقانِ یار کی تقدیر خواب میں
پہلو میں آگ، دل میں سناں، زخم میں نمک
کیا فرق تفتگانِ جنون و کباب میں
ہے ہے وہ دل کہ فرشِ تگاپوئے ناز میں
آتی ہے پا برہنہ قیامت رکاب میں
غیر از عطائے دوست نہیں مایۂ عباد
حیراں ہوں پھر محاسبہ ہے کس حساب میں
پشت و شکم، زمین و لحد، وادیِ جزا
مٹی رہی خراب جہانِ خراب میں
بے قسمتوں میں لوح میں کیا اور جزا میں کیا
مدِّ فضول تھا میں حساب و کتاب میں
شوقِ شمارِ بوسۂ رخ داد خواہ ہے
یا رب شبِ وصال ہے روزِ حساب میں
سوزِ جمالِ یار نے ایجادِ نو کیا
صبحِ ازل سے داغ نہ تھا آفتاب میں
کیوں کعبہ و کنشت میں سر پھوڑتے ہیں لوگ
سجدوں کی منتہیٰ ہے اسی کی جناب میں
ہمسر ہوئی تھی کس کے رخِ تابناک سے
آتش پڑی ہوئی ہے سقر کے عذاب میں
سر اس قدم پہ چرخ ستمگر نے رکھ دیا
یوسف نے یہ کرشمہ نہ دیکھا تھا خواب میں
گر ہم فنا ہوئے تو فنا ہے سپہر بھی
شکل ہوا مکیں ہیں، مکانِ حباب میں
دریائے ہفت گانۂ گردوں نہ دھو سکے
کیا داغ حسنِ رشک سے تھا ماہتاب میں
یک مشتِ خاکِ خم نے فلاطوں بنا دیا
ساقی ڈبو مجھے بھی سبوئے شراب میں
جورِ نگاہِ یار کی میزاں نہ دی گئی
اک مد ہوئی تمام نہ روز حساب میں
نالہ نے اُس جہان میں کیا جانے کیا کیا
آیا دھواں کہاں سے جہانِ خراب میں
مدہوش کر دیا ترے غمزہ نے کس قدر
اتنا لکھا ہے میں نے کہ بندہ ہوں آپ کا
آدم گرے کہاں سے جہانِ خراب میں
تم دیکھنا وہ لکھتے ہیں کیا کیا جواب میں
نطقِ بیاں سے آج تفاوت عیاں ہوا
گلبانگِ عندلیب و نوائے غراب میں
(۵۰)
کیا تشہیر تعذیر تصور شامِ فرقت میں
کہ سر خورشید کا نیزے پہ لائیں ہیں قیامت میں
کوئی بسمل تڑپتا رہ گیا شوق شہادت میں
کہ ہر جا خون کے دھبّے ہیں دامانِ قیامت میں
ستم ڈھائے تھے کوتاہی نے اس کی شامِ فرقت میں
بجا ہے دیں اگر خورشید کو سولی قیامت میں
مجھے بھی نقد آمرزش کی محشر میں ضرورت ہے
شہنشاہا کمی کیا ہے تری سرکارِ رحمت میں
شرار آسا جہاں سے اٹھ کے دے تعظیم او کامل
خدا کی شان وہ خورشید رواس کنجِ ظلمت میں
تعصب سینہ سوزِ شیخ ہے پانی چھڑک ساقی
پھنکا جاتا ہے زہدِ خشک مذہب کی حرارت میں
اچھل کر بھی نہ پائی تیرے قامت کی سر افرازی
تماشا ہے کہ ہر فتنہ معلّق ہے قیامت میں
بیاں ایسی غزل لکھی ہے انعامِ الٰہی سے
ہے جس کی دھوم اک دل میں تو کیا ساتوں ولایت میں
بیاں ہر شعرِ تر، بحر سخن کا دّرِ یکتا ہے
نزاکت میں، لطافت میں، فصاحت میں، بلاغت میں
(۵۱)
روتی ہے شبنم کہ نیرنگ جہاں کچھ بھی نہیں
خندہ زن ہے گل کہ رنگ گلستاں کچھ بھی نہیں
جن کی نوبت کی صدا سے گونجتے تھے آسماں
دم بخود ہیں مقبروں میں ہوں نہ ہاں کچھ بھی نہیں
کل شئی ہالک الاًوجہ کا شور ہے
کائناتِ ہستیِ کون و مکاں کچھ بھی نہیں
ہاتھ ملتی ہے حنا روتی ہے شبنم سرنگوں
خام ہے رنگِ گل روئے بتاں کچھ بھی نہیں
پھر اِدھر سے پھر اُدھر کو منھ بشکل آفتاب
ہے وہاں سب کچھ ارے غافل یہاں کچھ بھی نہیں
خاک پر ٹوٹا پڑا ہے کاسۂ سر ہائے ہائے
دور میں اے جم ترا جام جہاں کچھ بھی نہیں
کیسا افسونِ تکلم کس کا اعجاز کلام
گر نہ ہو الطافِ یزدانی بیاں کچھ بھی نہیں
(۵۲)
گوہرِ مقصد ملے، گر چرخِ مینائی نہ ہو
غوطہ زن بحرِ حقیقت میں ہوں، گر کائی نہ ہو
خون مہندی، خاک سرمہ، دل مرا آئینہ ہو
اے خود آرا دربدر تیری خود آرائی نہ ہو
چھین کر زندوں سے اس نے بخش دی مردوں کو جان
اے مسیحا یہ قیامت ہے مسیحائی نہ ہو
تو رہے افسوس دشمن کے دلِ تاریک میں
ایسی کالی کوٹھری میں قید تنہائی نہ ہو
زلف، رخ کے گرد ہے، لو کفر مومن ہو گیا
لب، تہہِ رخ ہیں، کہیں اسلام عیسائی نہ ہو
اس نے کیا پھونکا کہ اسرافیلِ محشر جل گیا
نالۂ پُر سوز ہے یہ، تیری شہنائی نہ ہو
ساقیا سیری کہاں، رندِ دو عالم نوش کی
ظرفِ مینا گر بقدرِ چرخِ مینائی نہ ہو
چشمِ ظاہر بیں نے کی معشوق کی بے پردگی
پردہ پوشی کو کہیں موسیٰ غشی آئی نہ ہو
بزمِ دیدارِ قیامت گرم ہے بے آسماں
شمع اس فانوس سے باہر نکل آئی نہ ہو
عرصۂ محشر میں آتا ہوں مگر ہے ایک شرط
یا نہ ہو دیدار یا کوئی تماشائی نہ ہو
معصیت پردے میں کرتا تھا کہوں گا اے بیاں
ہوں ترا عاصی، مری محشر میں رسوائی نہ ہو
(لسان الملک ،میرٹھ: جولائی ۱۸۹۸ء)
(۵۳)
نہ ڈھیلے کی طرح ٹھکرائیے اس نورِ گیہاں کو
کہ رکھا ہے خدا نے اے بتو آنکھوں میں انساں کو
چڑھی آنکھیں، چڑھے ابرو کہاں لے جاؤں ایماں کو
وہ دل کس کا حرم میں لوٹ لیں دینِ مسلمان کو
چھری حلقوم پر رکھیے، نکلنے دیجے ارماں کو
کہ قیدی چھوڑ دیتے ہیں مسلماں عیدِ قرباں کو
دلِ صد پارہ کیا اے شیخ سی اپنے گریباں کو
کہ اس غمزے کی شوخی نے کیا سیپارہ قرآں کو
نہ ہو چبھتا ہوا بلبل تو کیا لطف اس کی الفت کا
بدل لے غنچۂ گل سے مرے قاتل کے پیکاں کو
نہ دیکھوں مہر کا منہ شامِ و صل اے مردمِ دیدہ
گریباں صبح کا، تارِ نگاہِ یاس سے ٹانکو
یہاں بھی سایہ رکھتے ہیں، وہاں بھی مہر رکھیے گا
گلوئے یاس پر چلتی ہوئی کچھ دم چراتی تھی
ذرا پھیلائیے گا اور بھی رحمت کے داماں کو
مگر شوخی سے غمزہ کھینچ لایا تیغِ برّاں کو
کیا ہے زور سے ٹکڑے، کیا ہے رقص سے بسمل
مرے نالے نے گردوں کو، تری ٹھوکر نے دوراں کو
کسی کا تم کو کیا کوئی نہیں، ہاں کوئی مر جائے
دیا کاندھا نہ اٹھ کر درد نے تابوتِ ارماں کو
انار دانۂ تر کی طرح، ذوقِ دل پُر خوں
خدنگِ یار کس پر چھوڑ کر جاتا ہے پیکاں کو
کیا پنہاں، کیا پیدا، کیا پیدا، کیا پنہاں
ترے پردے نے پیدا کو ترے پر تو نے پنہاں کو
بیاں فیضِ قلم سے تو نے جاں ڈالی فصاحت میں
سکھائے معجزے کس نے ترے کلکِ زباں داں کو
(۵۴)
اگر نالے اٹھا لیتے نہ سر پر چرخِ گرداں کو
تو گنجائش کہاں ملتی مرے غم ہائے پنہاں کو
غم دل دیکھ کر جوش آگیا پھر چشمِ گریاں کو
جگہ اے نوح دینا اب کہیں کشتی میں طوفاں کو
رہائی کیوں نہ دی اٹھ کر اسیرِ شامِ ہجراں کو
اٹھا اے حشر نیزے پر سرِ خورشیدِ تاباں کو
صف روزِ جزا میں بھی کوئی پرساں نہیں یا رب
رکھا ہے آج بھی فردا پہ کیا رودادِ ہجراں کو
چھپے گا خوں اسی پردے میں کیا اے داور محشر
لباسِ چشم پوشی چاہیے شمشیر عریاں کو
مٹایا آسماں کو میرے نالوں نے قیامت کی
نکلنے اب تو پاسِ یار دے اندوہِ پنہاں کو
رلایا اپنے ہنسنے پر، ہنسایا اپنے رونے پر
مرے ہنسنے نے بجلی کو ترے رونے نے باراں کو
شبِ فرقت گلے مل مل کے دونوں خون روتے تھے
ترا ارماں تھا حسرت کو تری حسرت تھی ارماں کو
وہ زلفیں کھول دیں، شاید مرے عقدے بھی کھل جائیں
انھیں پھندوں میں باندھا ہے مرے دل کو مری جاں کو
یہ کیا گردِ خرام یار سے آفت برستی تھی
کہ ہر فتنے نے سر پر رکھ لیا محشر کے ارماں کو
غضب کو دم، ادا کو دیں،نگہ کو دل، مژہ کو جاں
غنیمت بانٹتا ہے حسن، افواجِ ستمراں کو
کہاں کا عدل، کس کی داد، کیسا حشر او غمزے
الٹ دے دامنِ محشر پٹک دے مہر تاباں کو
وہ اٹھے، حشر اٹھا، فتنے اٹھے، رست خیز اٹھی
مگر اٹھنے نہیں دیتے مری خاکِ پُر ارماں کو
انارِ دانۂ ترکی طرح ذوقِ دلِ پُر خوں
پھڑکتا ہے کہ ہر قطرے میں رکھ لوں نوکِ پیکاں کو
جوابِ خونِ ناحق کیا دیے محشر میں بڑھ بڑھ کے
کیا جادو بیاں لو اور بھی سرمے نے مژگاں کو
برا ہو رشکِ قاتل کا چلیں باہم دگر چھریاں
کہ اٹھ کر ذبح کر ڈالا اس ارماں نے اس ارماں کو
ہوا محشر زمینِ اشک ہم سے چھٹ گئے مردم
کہ پائیں نقب دیکر دولتِ دیدار جاناں کو
قیامت بھی ہے فریادی کہیں آشوب قامت کی
کہ لائی مہر کے پردے میں نیزہ پر گریباں کو
کلیدِ بابِ دولت ہیں مرے گردوں شکن نالے
طلسمِ آسماں ٹوٹے تو دیکھوں گنجِ پنہاں کو
اترتے ہیں بیاں عرشِ عروجِ فکر سے مضموں
کتابِ آسمانی جانتے ہیں میرے دیواں کو
(۵۵)
دیا دل کو، سویدائے نہاں کو
خیالِ خال کو، یادِ دہاں کو
تذروِ قلب کو کنجشک جاں کو
عقابِ تیر کو زاغِ کماں کو
سر والا کو حلقِ خوں چکاں کو
خم شمشیر کو اوجِ سناں کو
چراغ دیں کو قندیل رواں کو
شبِ گیسو کو برقِ ابرواں کو
ہزاروں دل کو قمری کی زباں کو
گلِ گویا کو شمشادِ رواں کو
زرِ ایماں کو دینارِ اماں کو
کفِ رہزن کو طرّارِ بتاں کو
غبارِ تن کو نعشِ رائیگاں کو
سوارِ ناز کو رخشِ جہاں کو
شکارِ روح کو صیدِ تواں کو
کمندِ زلف کو موئے میاں کو
عبادت کو عروجِ عزّ و شاں کو
غبارِ رہ کو رنگِ آستاں کو
نشانِ نام کو، نامِ نشاں کو
بتانِ ناز کو، نازِ بتاں کو
گلِ معنی کو، اکلیل بیاں کو
سرِ عرفی کو دستارِ بیاں کو
(۵۶)
بدلنے، رنگ، سکھلائے، جہاں کو
کہوں کیا سرمہ کو، وسمہ کو، پاں کو
دیا ہے دین و دل تاب و تواں کو
نگہ کو، زلف کو، تل کو، دہاں کو
کیا پھیکا مرے رشکِ چمن نے
سمن کو، یاسمن کو، ارغواں کو
مرے خوں کے نشاں ہیں، دھو چک اے شرم
جبیں کو، آستیں کو، آسماں کو
خرام مہوشاں چکر میں لائے
زمانہ کو، زمیں کو، آسماں کو
طلسمِ صنعتِ بیچوں ہے، دیکھو
کفل کو، ساق کو، موئے میاں کو
لبِ نوشیں نے سکھلائی حلاوت
شکر کو، شہد کو، قندِ کلاں کو
کیا روپوش، شرمِ روئے بت نے
جناں کو چشمۂ حیواں کو جاں کو
کہاں ہیں اہلِ فن لاؤں کہاں سے
نظیری کو ظہوری کو بیاں کو
(۵۷)
گماں کیا کیا نہ آئے بدگماں کو
کہ بستر پر نہ پایا ناتواں کو
نہ چھوڑا اس صنم کے آستاں کو
بلندی بھی نہ سوجھی آسماں کو
میں لوں کیا دے کے اس جنسِ گراں کو
دیا بیعانہ میں دونوں جہاں کو
بیٹھایا ضعف نے شور و فغاں کو
پکارے کون مرگِ ناگہاں کو
کہاں آرام سے ملتی ہے روزی
قفس سے میں نہ بدلوں آشیاں کو
نکل جائیں نہ پیکاں ہائے قاتل
جراحاتِ دلِ بیتاب ٹانکو
رکیں سودے میں کیوں کر ہاتھ ناصح
نہ رو کے ہوش میں جب تو زباں کو
وہ آئے باغ میں سکھلائے بلبل
کوئی فصد رگِ گل باغباں کو
ہے اس پردہ میں نورِ چشم یعقوب
نہ لینا ساتھ گردِ کارواں کو
کہوں کیا صدمۂ فرقت کا عالم
ق
ہلایا عالم کون و مکاں کو
یہی ضد تھی دل و جاں کی، کہیں سے
دکھا دو جلوۂ حسنِ نہاں کو
وہیں دردِ طلب اٹھا اور اٹھ کر
اٹھایا خفتہ ہائے ناتواں کو
حرم میں آن پہنچے اور نہ پہنچے
غبار آہوئے صحرائے جاں کو
میانِ سنگِ اسود دیکھتے کیا
فروغِ جلوۂ لعلِ گراں کو
کنشتِ برہمن میں آن ڈھونڈا
چراغِ خانماں سوزِ بتاں کو
کہا ناقوس، نے دیتے ہیں آواز
ازل سے اس بتِ نا مہرباں کو
بتوں کی پتلیاں پتھرا گئی تھیں
زبس تکتی تھیں راہِ دلستاں کو
پڑا تھا دیر میں ہر سو اندھیرا
تجلیٰ نے تسلی دی نہ جاں کو
کیا دیوانگی نے قصد گلگشت
کہ دیکھیں گل میں اس بوئے نہاں کو
نسیم آئی درِ گلشن سے دوڑی
کہ اے غافل نہ کھو عمرِ رواں کو
عبث مانگے ہے یک مشتِ گیا ہے
گل باغِ بہارِ صد جناں کو
کفِ خاشاک پکڑے کیوں کہ پکڑے
کنارِ دامنِ برقِ تپاں کو
کیا کوکو سے قمری نے کنایہ
چمن ڈھونڈے ہے اس سر وِ جناں کو
دکھائی غنچہ نے چٹکی کہ چٹکو
ترا کیا منھ کہ دیکھے بے دہاں کو
سراغِ نرگس میگوں کی دھن تھی
ہم آئے جھومتے کوئے مغاں کو
دکھائی آنکھ ساغر نے کہ ہیں ہیں!!
کہاں دیکھے ہے عکس دلستاں کو
اگر میخانہ ہوتا اس کا مسکن
نہ رہتیں گردشیں رطلِ گراں کو
نہ دیکھ ان آتشیں شیشوں میں ناداں
فروغ آفتابِ بے قراں کو
تڑپ آتش کدہ میں لے کے آئی
لگی آگ، آتشِ شوقِ نہاں کو
کہا شعلہ نے، مل کر ہاتھ مت پوچھ
جہنم سے، بہارِ صد جناں کو
پکاری یاس خاکستر میں خورشید
چلو اے دہریو مت خاک پھانکو
بھنک آئی جو اس کے نام کی سی
گئے مسجد میں سن، شور اذاں کو
تہی اس نیر اعظم سے پایا
خم محراب کے برجِ کماں کو
نظر وہ مصحفِ خوبی نہ آیا
ٹٹولا شیخ جی کے جزو داں کو
نہ کی تشریح اس موئے میاں کی
سنا درسِ طبیبِ نکتہ داں کو
گئے دیوانگی میں سوئے مکتب
کہ پوچھے فتنہ آموزِ جہاں کو
دبستاں میں دھرے تھے منحنی چند
کئے وابستۂ بحث و بیاں کو
پھنسا تھا نقطہ و خط میں مہندس
نہیں پہچانتا زلف و دہاں کو
طلسم وہم میں تھا فلسفی غرق
کسی کم راہ گنج شائگاں کو
حکیم آوارہ کو سوں تھا کہ اس نے
دلیل راہ سمجھا تھا گماں کو
نہ کی تکرار میں اوقات ضائع
چلے گردان کر تاب و تواں کو
تمنا خانقہ کو لے کے دوڑی
کہ پوچھے پیر سے اس نوجواں کو
نہ تھا اس گیسوؤں والی سے عارف
ملاتے بال کے تھے ہاں میں ہاں کو
تہی تھا خیمۂ دستار زاہد
عبث روکا قناعت طیلساں کو
نہ ہاتھ آیا پتہ اس لالہ رو کا
سوئے دشت و جبل پھیرا عناں کو
ندا دی روحِ قیس و کوہکن نے
کہاں کو اے طلسماتی کہاں کو
بھٹکتے پھرتے ہیں تجھ سے ہزاروں
وصال لیلیِ شیریں زباں کو
نہ پہنچے تا سواد شہر محبوب
سفر ہے آج تک ریگِ رواں کو
دیا دریا نے بھی سوکھا جواب آہ
کہاں لے جاؤں شوقِ بیکراں کو
کہیں اس شعلہ کا مسکن نہ سوجھا
منگایا طور سے سنگِ نشاں کو
نہ دیکھا، مصر کی گزری بھی دیکھی
کسی دکاّں میں اس جنس گراں کو
کہیں اس کا سرا پردہ نہ دیکھا
کیا نالے نے طے اس ہفت خواں کو
اڑے سوئے فضائے آسماں ہوش
لگا کر بال پروازِ فغاں کو
کئی جنگل دکھائے بیخودی نے
گزر جس میں نہ تھا وہم و گماں کو
پرے ادراک کی سرحد سے گزرا
جہاں سے راستہ تھا لامکاں کو
ہوا سے دور بے تابی نے پھینکا
دکھایا ہو بہو ہو کے مکاں کو
تحیر نے لپک کر باگ روکی
کہ بس بس فرسِ تند آگے نہ ہانکو
نہ اس عالم میں ہے سمع و بصر سے
سنا دیکھا نشانِ بے نشاں کو
جنونِ دل غرض کون و مکاں میں
لیے پھرتا تھا معنی رائیگاں کو
تلاشِ یار سے باقی نہ چھوڑا
زمیں کو آسماں کو کوہ و کاں کو
تر و خشک و درو دشت و پس و پیش
زمانِ کن مکانِ این و آں کو
نہیں ملتا نہیں ملتا کہیں وہ
کہاں سے لاؤں اس آرام جاں کو
بیاں کچھنالہسنجیاور کیجے
ابھی غرّہ ہے اربابِ فغاں کو
(۵۸)
زمیں سے کیا تعلق ہے زماں کو
ترے غمزے نے دے پٹکا جہاں کو
نہیں ہاتھ آ گئی اس بدگماں کو
ازل میں کیوں ملایا ہاں میں ہاں کو
گنوانا دن کو ہے کھونا ہے جاں کو
سمجھتے ہم نہیں سود و زیاں کو
چھڑکتا ہوں میں کوئی دلستاں کو
بکھرنے دو نگاہِ خوں چکاں کو
جوابِ خوں دئے بڑھ بڑھ کے کیا کیا
غضب ہے سرمہ، مژگاں کی زباں کو
تغافل اس قدر اے شحنۂ ناز
چرا لے جاتے ہیں اغیار جاں کو
لرزتی ہے زمیں، ہلتے ہیں گردوں
کوئی نکلا کسی کے امتحاں کو
نگاہِ گرم، شوخِ دلنشیں تھی
وگرنہ آہ پھونکے اور جہاں کو
سنایا ایک دن کچھ حال اپنا
کسی گوشہ میں اس ابرو کماں کو
کہ لے پہنچے فلک پر طبقۂ خاک
نہ روکوں میں اگر اشکِ رواں کو
گرا دے خاک پر چرخِ مقرنس
نہ رکھوں بند اگر دل میں دخاں کو
یہ سن کر رحم ظالم کو نہ آیا
کہا تو یہ کہا آزار جاں کو
خدا ان عاشقوں سے بھی بچائے
ملاتے ہیں زمین و آسماں کو
فلک نے کچھ نہ چھوڑا کیوں نچوڑا
فشارِ گور نے اس ناتواں کو
نہیں گیسو، لیا ہے گھیر شاید
مرے و سواس نے اس دلستاں کو
کرشمہ بن گئی آنکھوں میں آ کر
نہ پایا گفتگو نے جب دہاں کو
کیا کیوں وارثوں نے دعویِٰ خوں
وہ چھپنے جاتے ہیں دشمن کے ہاں کو
خدا کو مجھ سے پوچھیں گے نکیرین
نہ لانا قبر پر اس بدگماں کو
بیاں کے غلغلے کیا کیا نہ تھے آج
سنا اس طوطیِ ہندوستاں کو
(۵۹)
میدانِ جلوہ ہے ترے حسن و ضیا کے ہاتھ
موسیٰ سے چھین لے ید بیضا بڑھا کے ہاتھ
دیکھو چرا لیا دلِ بسمل چرا کے ہاتھ
باندھوحسین بند سے دزدِ حنا کے ہاتھ
رخ سے نقاب کس نے اٹھایا کہ قطع ہیں
یوسف کی انگلیاں، تو کلیمِ خدا کے ہاتھ
داروئے اہلِ دل لبِ جاں بخشِ یار ہے
عیسیٰ سے ہیں بلند مری التجا کے ہاتھ
جل جائے میری نبض کی تعریف سے کلیم
دیکھیں ذرا جناب مسیحا لگا کے ہاتھ
انگشتِ شمع تھام کے آیا ہے بزم میں
پروانہ کس نے کور کیا ہے دکھا کے ہاتھ
بجلی گری کلیم پہ اور طور پر کلیم
کیا کیا تماشے اس نے دکھائے دکھا کے ہاتھ
مٹھی میں بس کہ ہے دلِ آتش بجاں مرا
دستِ کلیم ہیں مرے یوسف لقا کے ہاتھ
کافور صبح گر نہ لگائے یہ لمعہ چیں
جل جائیں تابِ حسن سے مہرِ سما کے ہاتھ
دامن کشی ضرور ہے گردن کشی فضول
اوچھے ہیں خونِ ناخنِ اہلِ وفا کے ہاتھ
فتنے سنبھال لیتے ہیں دامانِ آستیں
چلتے ہیں قتل گہہ میں جو اس فتنہ زا کے ہاتھ
کف الخضیبِ یار سے ممکن قراں نہیں
کیا کیجے اے ستارہ شناسو د کھا کے ہاتھ
میری زباں کے آگے کلام کلیم کیا
کب چل سکیں بیان کے آگے عصا کے ہاتھ
(۶۰)
ادادانِ فسوں کاری، خماریں چشم، قاتل ہے
زنخداں مکتبِ تعلیم، سحر چاہِ بابل ہے
شہات منزلِ مقصود ہے، ملّاح قاتل ہے
یمِ موّاجِ بیتابی، دمِ شمشیر ساحل ہے
تگِ و تازِ سمندِ جسم تا ایوانِ قاتل ہے
اُتر کر لے اے سر شوریدہ اب نزدیک منزل ہے
جگر عارض کا شیدا ہے تو دل زلفوں پہ ماتل ہے
شہیدِ بدروہ، یہ کشتۂ جنگِ سلاسل ہے
چلی آتی ہیں نذریں دھوم سے دیدارِ قاتل ہے
کسی کا سر ہتھیلی پہ کسی کے ہاتھ میں دل ہے
کہاں لے جاؤں دل دونوں جہاں میں اس کی مشکل ہے
یہاں پر یوں کا جمگھٹ ہے وہاں حوروں کی محفل ہے
مرا دل لے کے شیشے کی طرح پتھر پہ دے پٹکا
میں کہتا رہ گیا ظالم مرا دل ہے مرا دل ہے
ہزاروں دل مسل کر پیر سے جھنجھلا کے یوں بولے
لو پہچانو تمہارا ان دلوں میں کونسا دل ہے
فساد انگیزِ جسم و جاں، ہوا ہے دشت الفت کی
جنوں قیسِ بیاباں گرد کو فرہاد کی سل ہے
اگر پہنچے تو پہنچے گیسوؤں کا سلسلہ ہم تک
ازل سے پیش پا افتادہ مضمونِ سلاسل ہے
نگاہِ یاس نے کیا تاک کر چھریاں لگائی ہیں
لہو میں لوٹتی ہے تیغ، خنجر نیم بسمل ہے
چلی ارض و سماپہ آتشِ تیغِ د ودم کس کی
کہ سینہ ماہ کا زخمی، گلو ماہی کا گھائل ہے
غمِ الفت گلو گیر نفس ہے پھیر دو خنجر
تمہیں آسان ہے مشکل، ہمیں آسان مشکل ہے
ازل سے اکتساب اندوزِ استادِ ازل ہوں میں
بیاں تائید سبحاں ہو تو کیا سحبانِ وائل ہے
(۶۱)
سیہ روزی سے میری چرخ اسیر بند مشکل ہے
کہ طشتِ خور میں کافورِ سحر کے پاس فلفل ہے
حجابِ قالبِ خاکی ہے جب تک دید مشکل ہے
مکانِ عاشق و معشوق میں دیوار حائل ہے
مزہ پھرتا ہے ہونٹوں سے تلاشِ خونِ بسمل ہے
زباں بگڑی ہوئی ہے کیا چٹوری تیغِ قاتل ہے
تڑپ جاتے ہیں اس کے خال و رخ کو دیکھنے والے
نہ کر دے نیم بسمل، کیوں کہ تل بھی نیم بسمل ہے
مری صورت ہے خود صورت سوالِ دید جاناں کی
ہیں کشکولِ گدا آنکھیں، تو مژگاں دستِ سائل ہے
نگاہِ یاس کی چھریوں نے لے چھوڑا قصاص اپنا
جو قاتل تھا وہ بسمل ہے، جو بسمل تھا وہ قاتل ہے
ستارے صورتِ پروانہ کس کے گرد پھرتے ہیں
الٰہی کون فانوسِ فلک میں شمعِ محفل ہے
مرا دل اے بیاں مجنوں ہے اس لیلیٰ شمائل کا
غبارِ عالمِ ایجاد جس کی گردِ محمل ہے
(۶۲)
کئے آنے میں اس نے بھی بہانے
کہ دیکھی تھی ادا تیری قضا نے
نہیں یہ آدمی کا کام واعظ
ہمارے بت تراشے ہیں خدا نے
نزاکت کو پسینہ آ نہ جائے
کسے باندھا ترے بندِ قبا نے
مرے مجموعۂ خاطر سے تو نے
کیا جو تیرے گیسو سے صبا نے
تم آئے دل میں یا جھونکا صبا کا
لگیں حسرت کی کلیاں مسکرانے
ہمیں نے پنجۂ دستِ جنوں سے
کئے ہیں کوہ کی چوٹی میں شانے
ہوا ہے خون کس کا شوقِ پابوس
چھپایا ہے جسے برگِ حنا نے
خموش اب تک نہ رہتا شورِ محشر
لگا دی مہر تیرے نقشِ پانے
چمن میں کون آتا ہے بیاں آج
کیا رقص و سرود آب و ہوا نے
(۶۳)
ترا کشتہ اٹھایا اقربا نے
چلے محشر کو مٹی میں دبا نے
دبا یا اس نے تن اور اس نے جاں لی
کیا قسمت مجھے ارض و سما نے
بھلا اے داور محشر کہاں خواب
کٹھن تھے میرے الفت کے فسانے
خدا ٹھنڈا رکھے اے شمع تجھ کو
کھڑی روتی ہے بیکس کے سرہانے
نگاہیں قہر میں ڈوبی ہوئی ہیں
لگے تم زہر میں چھریاں بجھانے
تری بالیدگی سے گنج ٹوٹا
طلسمِ ناز باندھا تھا قبا نے
نفس گم اور سخن باقی رہے گا
نہ ہو گا تار نے ہوں گے ترانے
زمیں ہے محضرِ خون شہیداں
کہ مہریں کی ہیں تیرے نقش پانے
رگِ گل سے کمر باریک تر ہے
لگے تم غنچے کی مٹھی میں آنے
گرا پردہ، گرے موسیٰ، گری برق
یہ ہل چل ڈال دی تیری ادا نے
ترے چلنے سے سینہ میں زمیں کے
اٹھا اک درد محشر کے بہانے
مسلّم ہے کہ دی ہر فن میں قدرت
بیاں کو قادرِ مطلق خدا نے
(لسان الملک،میرٹھ: ستمبر ۱۸۸۷ء)
(۶۴)
گرد پھرتے ہیں اس یگانے کے
دور خود رفتہ ہیں زمانے کے
جن سے آسیبِ حشر ڈرتا ہے
ہیں وہ مردے ترے زمانے کے
بے ٹھکانوں کو ڈھونڈتا ہوں میں
کہ پتے ہیں ترے ٹھکانے کے
ہم نے اس طرح جان دی ہے کہ وہ
اب کسی کو نہیں ستانے کے
دورِ سلطانی بادہ ہے بادل
ہیں پھریرے شراب خانے کے
خون ناحق حنا نہیں ہے تو
وہ نہیں تیرے ہاتھ آنے کے
دل کو کیا چیز چھین لیتی ہے
چیستاں ہے نہیں بتانے کے
واعظ و شیخ کو پکڑ لاؤ
چور ہیں یہ شراب خانے کے
توڑ دے نالہ آسماں دن کو
ہیں طلسمِ کہن خزانے کے
زلفِ شبگوں کے مبتلا اے حشر
دن کو قصہ نہیں سنانے کے
ہو چکے ہیں غنی امیروں سے
رہنے والے فقیر خانے کے
کر دیا بے خودی نے گھر خالی
سن کے مژدے تمھارے آنے کے
اب سراپا دہن ہیں صورتِ رم
شوق تھے تن پہ تیر کھانے کے
لے اڑی صید دل کو بے تابی
تھک گئے تیر اس نشانے کے
لو وہ اٹھے قدم، نقاب کے ساتھ
آ گئے دن، قیامت آنے کے
وہ مہِ نو کجا، کجا خورشید
ہم نہیں آشنا پُرانے کے
کہکشاں کون تھا یہ شاہسوار
ہیں نشاں کس کے تازیانے کے
میرے نالوں سے کانپتی ہے برق
منھ میں تنکے ہیں آشیانے کے
چھوڑ کونین صورتِ نعلین
اور حضوری طلب لگانے کے
اس کی ٹھوکر نے کر دیا پامال
آسماں سر نہیں اٹھانے کے
چھا گیا دودِ آہ محشر پر
رشک تھے دیکھنے دکھانے کے
اے بیاں بامِ عرش پر قدسی
منتظر ہیں ترے ترانے کے
(۶۵)
ڈھنگ، بے ڈھنگ ہیں زمانے کے
رنگ، بیرنگ ہیں زمانے کے
موئے مشکیں نے باندھ لیں مشکیں
یہی سرہنگ ہیں زمانے کے
اک نیا رنگ روز لاتے ہیں
آپ، ہمرنگ ہیں زمانے کے
منحصر کچھ نہیں ہے غنچوں پر
گل بھی دل تنگ ہیں زمانے کے
اے پری زاد تیرے دیوانے
اہلِ فرہنگ ہیں زمانے کے
اک سلیماں کا تخت کیا پرِ باد
جملہ اور نگ ہیں زمانے کے
واہ رے نقش، واہ رے نقاش
آئینے، دنگ ہیں زمانے کے
گردشِ آسماں فلاخن ہے
آدمی سنگ ہیں زمانے کے
صلح اب کس سے کیجیے، صلحا
بر سرِ جنگ ہیں زمانے کے
شوق دکھلائے وہ جہاں کہ جہاں
محو نیرنگ ہیں زمانے کے
ہے بیاں مانعِ ترقی کون
عذر سب لنگ ہیں زمانے کے
(۶۶)
فتنے اس فتنہ گر کے قامت کے
چلتے پرزے یہ ہیں قیامت کے
اوج اللہ رے تیرتے قامت کے
فتنے دب دب گئے قیامت کے
شعبدے کھل گئے قیامت کے
تھے یہ بہروپ تیرے قامت کے
نقشِ پا شوخ سرو قامت کے
یہی آثار ہیں قیامت کے
دیکھ کر ٹھاٹھ اس کے قامت کے
فتنے منکر ہوئے قیامت کے
جھونکے آتے ہیں بوئے الفت کے
پھول یارب ہیں کس کی تربت کے
لب نہ گویا ہوئے جراحت کے
کچھ مزے پوچھیے شہادت کے
بڑھ گئے ہاتھ اپنی وحشت کے
آج پردے پھٹے حقیقت کے
دی ہے مٹی کسی کے عاشق کو
روکے اٹھے ہیں ابر رحمت کے
اس کے کوچے سے آتی ہے آواز
رن پڑیں گے یہاں شہادت کے
ہم نے دیکھے ہیں اس کے دو رخسار
اے خدا کَے ہیں دن قیامت کے
جن کو کہتے ہو سات دوزخ تم
ہیں حرارے مری حرارت کے
بٹ گئے گور میں تردد سب
ہیں تو کوچے یہ ہیں ملامت کے
شور ہے دل میں غم کے نالوں کا
علم اٹھتے ہیں آج حسرت کے
لختِ دل طفل اشک اٹھائے ہیں
تعزیے ہیں شہید حسرت کے
تا عدم کوئی سلسلہ نہ گیا
رشتے اوچھے ہیں کیا محبت کے
وہ جو ویراں پڑے ہوئے ہیں دل
ہیں یہ اجڑے دیارِ الفت کے
تیری باتوں میں کیا حلاوت تھی
کہ نہ لب کھل سکے شکایت کے
مئے و شاہد کو جانتے ہیں، جنوں
بھولے بھالے یہ لوگ جنت کے
دل ہمارا محیطِ اعظم ہے
کاش ٹاپو نہ ہوں کدورت کے
ہم پہ اور تیغِ ناز کھینچ نہ سکے
چونچلے ہیں تری نزاکت کے
گل و شمع و چراغ و شمس و قمر
ہیں یہ دھوکے تمہاری صورت کے
بیکسوں پر کوئی نہ لایا پھول
ہو گئے گل، چراغ تربت کے
قید جب عام و خاص کی نہ رہی
نہیں قائل ہم ایسی رویت کے
اے ریاکار سر پہ رکھ کر بھاگ
پاؤں ٹوٹے ہوئے قناعت کے
کیوں نہ مچلیں گناہ گاری پر
ننھے بچے ہیں تیری رحمت کے
اے بیاں قیس و وامق و فرہاد
تھے یہ سارے مرید حضرت کے
(۶۷)
گیا زیرِ فلک باغِ جناں سے
قفس میں مجھ کو لائے بوستاں سے
صبا اتنا تو کہنا باغباں سے
کہ کیا ضد تھی ہمارے آشیاں سے
کہے آوارگی ریگِ رواں سے
کہ جاتی ہے کہاں آئی کہاں سے
کجی اچھی، اگر ہو راستی خیز
یہ نکتہ تیر نے سیکھا کماں سے
مری آبادیاں، بربادیاں ہیں
کہ سیکھا تنکے چننا آشیاں سے
رہا دل کے ہر اک رخنہ میں پیکاں
یہ کمبخت آرزو نکلے کہاں سے
فروغ فکر دکھلا دے بیاں اور
کہ مہر اترا زمیں پر آسماں سے
(۶۸)
چلی ہیں آرزوئیں ساتھ یاں سے
جہاں لے کر چلا ہوں میں جہاں سے
چھڑائے ہم نے قیدی آسماں سے
کہ توڑا گنبدِ گردوں فغاں سے
شہید اور ہم سرِ خورشیدِ محشر
ہمارا سر ہو بالا ترسناں سے
فراتِ عشق تھا خنجر تمھارا
نہ پایا بوند بھر پانی بھی یاں سے
سناؤں سوزِ دل کیا، صورتِ شمع
دھواں اٹھنے لگا نوکِ زباں سے
چلو تارِ نفس پر صورتِ برق
نہ بحث اے عنکبوت اس ناتواں سے
نہیں اب مقبرے شہرِ خموشاں
کہ مردے چیخ چیخ اٹھے فغاں سے
ترقی سے تنزل اے قیامت
سر آبِ تن نہ اترے گا سناں سے
ملی ہے خاکساروں کو بلندی
غبارے لے گئے فوق آسماں سے
شہید مصحفِ خوبی تمہارا
صدا قرآں کی دیتا ہے سناں سے
کدورت ہے تعلق اس چمن کا
بناؤں گا میں جاروب آشیاں سے
لرزتی ہے سرِ بالیں تمنا
کہ وصلِ نازنیں ہے ناتواں سے
گرایا خاک پر سر سے اٹھا کر
لڑی نالے نے کشتی آسماں سے
اگر کوندی مرے نالے کی بجلی
گرے گی برق چشمِ آسماں سے
وہ پھر محشر میں ہیں آمادۂ قتل
اب اے دنیا تجھے لاؤں کہاں سے
ہر اک تنکا تھا سیخ آتشِ عشق
گری بجلی پہ بجلی آشیاں سے
جہاں رہ جائے گا شہرِ خموشاں
اگر خالی ہوئی دنیا بیاں سے
(لسان الملک، میرٹھ: مارچ، اپریل ۱۸۹۹ء)
(۶۹)
آئینہ ہم دکھا نہیں سکتے
اس کو سکتے میں لا نہیں سکتے
دل کسی کو دِکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دُکھا نہیں سکتے
کھل کے وہ زلف اور پھیل گئی
اب دل و دیں بچا نہیں سکتے
پاؤں رکھتے بھی وہ زمیں پہ نہیں
کیا ہم آنکھیں بچھا نہیں سکتے
آنکھ کے سامنے سے دور اے طور
ٹھوکریں تیری کھا نہیں سکتے
تکیہ رکھتے ہیں دوست پر عشاق
اے جنوں سر اٹھا نہیں سکتے
شیشۂ دل کو چور کر تو دیا
خاک میں اب ملا نہیں سکتے
چشم ترسے بلند تر ہے مقام
میرے چھینٹوں میں آ نہیں سکتے
پس کے سرمہ ہوئے تو خوب ہوا
اب وہ آنکھیں چرا نہیں سکتے
کوئے دشمن میں ہے غبار مرا
مجھ سے آنکھیں ملا نہیں سکتے
سب ستاتے ہیں ہم کو یا اللہ
ہم کسی کو ستا نہیں سکتے
صبح سے ڈٹتے ہیں رقیب کے گھر
رخ سے زلفیں ہٹا نہیں سکتے
بے گناہی نے اور ظلم کیا
کہ وہ اب منھ دکھا نہیں سکتے
خوں کیا دل کا اور چلے کیا خوب
گھر میں قاتل چھپا نہیں سکتے
پاس خشکی کے ہو تری کیوں کر
لب سے ہم لب ملا نہیں سکتے
لاغری سے ہوا ہوں تارِ نقاب
مجھ سے اب منھ چھپا نہیں سکتے
دودِ دل سے بنا لیا ہے فلک
ہم سے جائیں تو جا نہیں سکتے
اے اثر ان کے اس تڑپنے کا
کیا تماشا دکھا نہیں سکتے
ناتواں ہیں تمھارے تیرِ نگاہ
چٹکیوں میں اڑا نہیں سکتے
ناز سے خوں ہوا دیت نہ ہوئی
کہ وہ خنجر اٹھا نہیں سکتے
ناتواں ہیں خموش رہ ناصح
تیری باتیں اٹھا نہیں سکتے
دل مرا تنگ ہے بغل تو نہیں
کیا وہ پہلو میں آ نہیں سکتے
ان کی تصویر نقش ہے دل پر
اب وہ مہندی لگا نہیں سکتے
نہیں بھاتا پسا ہوا کوئی
کیا وہ مہندی لگا نہیں سکتے
گنگ تھے کر بھی ہو گئے ہوتے
سنتے ہیں اور سنا نہیں سکتے
ان کے محشر کوکر دیا پامال
اب کسی سے ڈرا نہیں سکتے
تم کو کیا مرغ نامہ بر کی تلاش
سرِ عشّاق اڑا نہیں سکتے
کیا ڈریں وہ کہ خوں ہوا پانی
اب کوئی رنگ لا نہیں سکتے
اے بیاں ہوتے اس کی رحمت کے
ہم جہنم میں جا نہیں سکتے
(لسان الملک،میرٹھ: اپریل،۱۸۹۰ء)
(۷۰)
بروز حشر، ارمانِ دلِ بسمل نکلتا ہے
کہ گردوں اڑ گیا اور وہ مہِ کامل نکلتا ہے
قیامت آ گئی کشتہ ترا قاتل نکلتا ہے
غریق آبِ خنجر بر سرِ ساحل نکلتا ہے
ہوئے ہیں خاک صدہا طالبِ دید ا سکے کوچہ میں
کہیں سے آنکھ کے ڈھیلے، کہیں سے دل نکلتا ہے
خدا ملتا نہیں ہرگز، خودی ملتی نہیں جب تک
یہ پردہ عاشق و معشوق میں حائل نکلتا ہے
فروغِ مہدیِ موعود تا صبح قیامت ہے
کہ جیسے چودہویں شب کو مہِ کامل نکلتا ہے
قیامت ہوتی ہے روپوش، جا خالی نہیں رہتی
لحد سے جب تری رفتار کا بسمل نکلتا ہے
ازل سے جوہر آسا، دل غریقِ آبِ خنجر ہے
ہر ارماں صورتِ ماہی مرا گھائل نکلتا ہے
ترے کنجِ دہن میں معجزے عیسیٰ سے چھپتے ہیں
ترے چاہِ ذقن سے جادوئے بابل نکلتا ہے
غشی آتی ہے ہر اک گام پر گر گر کے اٹھتا ہوں
مرا در لاغری سے سیکڑوں منزل نکلتا ہے
محبت ضبطِ دل سے موکشاں لاتی ہے نالوں کو
برنگِ شمع، دودِ دل، سرِ محفل نکلتا ہے
تڑپ جاتے ہیں فوراً حسنِ رخ کے دیکھنے والے
کہ دانہ ماش جادو کا ترا ہر تل نکلتا ہے
قضا کس کس کی آئی ہے عدم کو کون جاتا ہے
برہنہ تیغ لیکر آج وہ قاتل نکلتا ہے
بیاں کہہ دو قیامت سے اٹھا لے جائے حشر اپنا
ہزاروں حسرتیں لے کر ہمارا دل نکلتا ہے
(لسان الملک،میرٹھ: اکتوبر ۱۸۹۹ء)
(۷۱)
آئیں گے گر انھیں غیرت ہو گی
وہ نہ آئے تو قیامت ہو گی
حشر میں کون سنے گا فریاد
سد رہِ حدِّ سماعت ہو گی
ننگِ نظارہ ہے ہم چشمۂ عام
ہم نہ دیکھیں گے جو رویت ہو گی
یک طرف ہو کے رہیں گے یک رنگ
ہم کو اعراف سے نفرت ہو گی
شکوہ ہے دینِ وفا میں احداث
مجھ سے کا ہے کو یہ بدعت ہو گی
ہیں قیامت میں تامّل کیا کیا
وصل کی کون سی ساعت ہو گی
ریگ ہوں، چاہیے دریائے شراب
میکدے پر نہ قناعت ہو گی
ہے شبِ وصل دو عالم گیسو
وہ جبیں صبح شہادت ہو گی
بحر رحمت ہے دو عالم کو محیط
میرے مشرب کی سی وسعت ہو گی
مے سے آلودہ ہوا دامنِ حسن
متہّم خون کی تہمت ہو گی
کھینچتا تھا کوئی ان کا دامن
خاک میں وصل کی حسرت ہو گی
راس ہے چارۂ بالمثل مجھے
قید سے اور بھی وحشت ہو گی
شعلہ رو پڑھتے ہیں کلمہ تیرا
شمع انگشت شہادت ہو گی
غیر کی آگ میں جلنے نہ دیا
حسن کی سی کسے غیرت ہو گی
وا شدہ غنچۂ خاطر مت مانگ
منتشر بوئے محبت ہو گی
زہر لگتی ہے انھیں میری حیات
کیوں کہ منظور شہادت ہو گی
کھا گئے نرگسِ شہلا کا فریب
کہ ان آنکھوں میں مروّت ہو گی
تیری زلفوں نے چڑھائے چلّے
دل کی اس کوچہ میں تربت ہو گی
بن گئے سات جہنم تہِ خاک
کس کے پہلو میں یہ حدّت ہو گی
کہیں سر پھوڑ کے مر رہیے بیاں
اک جہاں سے تو فراغت ہو گی
(۷۲)
کسی خورشید قیامت نے نظر کی ہوتی
یوں گر اٹھ اٹھ کے قیامت نے سحر کی ہوتی
اس نے نیچے سے جو اوپر کو نظر کی ہوتی
تو صفِ حشر ابھی زیر و زبر کی ہوتی
جیت کیا جانے دمِ ذبح کدھر کی ہوتی
نگہِ یاس سے گر تیغِ نظر کی ہوتی
گر لگاتے نہ گلے سے تری تلوار کو ہم
تو کسی گھاٹ کی ہوتی نہ یہ گھر کی ہوتی
حسرتِ وصل ہوئی خاک تو کیا خاک ہوئے
خاک ہوتی تو تری راہ گزر کی ہوتی
اے فلک گردشِ ایام کا رونا کیا تھا
وصل کی رات بھی گر چار پہر کی ہوتی
لو کسی شوخ سے در پردہ لگا رکھی ہے
ورنہ کیوں شمع نے رو رو کے سحر کی ہوتی
اڑ کے جاتا ترے ہاتھوں سے کہاں رنگِ حنا
اس میں اک بوند اگر خونِ جگر کی ہوتی
ہے نہاں پردۂ ہستی میں کوئی مایۂ حسن
ورنہ پھیری، نہ ادھر شمس و قمر کی ہوتی
جائے زر گر، درۂ یار کے ذرے ملتے
گر کہیں جامہ تلاشی، گلِ تر کی ہوتی
یہ تن و توش، یہ دن سن، یہ نزاکت، یہ جھجھک
سر مہم آپ سے کیوں کر مرے سر کی ہوتی
جانے دیتے نہیں جنت میں گنہگاروں کو
اے بیاں شافعِ محشر کو خبر کی ہوتی
(لسان الملک،میرٹھ: اگست ۱۸۹۸ ء)
(۷۳)
نشانِ جادۂ الفت، نہ تھا کم، نقشِ مسطر سے
قلم کی طرح سر دے کر بھی، ہم چلتے رہے سر سے
قیامت آ کے ٹکراتی ہے سر قبروں کے پتھر سے
الٰہی کس بتِ کافر نے چکرایا ہے ٹھوکر سے
ندامت واعظا کیا کیا نہ ہو گی آبِ خنجر سے
ہماری تشنگی گر بجھ گئی جنت میں کوثر سے
کہاں نقصانِ قسمت کم ہوا احسانِ خنجر سے
کہ سرا ترا مرے تن سے نہ بوجھ اترا مرے سر سے
شہیدوں کے سروں کا کیا کہوں زیر و زبر ہونا
کہ چڑھتے ہیں تو نیزہ سے اترتے ہیں تو محشر سے
یہی طولانیاں ہوں گی تو پھر انصاف کیا ہو گا
شبِ ہجراں نکل جائے نہ آگے روزِ محشر سے
پئے قطعِ شبِ ہجراں ہوا دم بند تیشہ کا
یہ ہے کوہِ مصیبت کوہکن کٹتا ہے خنجر سے
انھیں کی شوخیوں سے ہم نے اندازِ جنوں سیکھے
چلے ہم سوئے بر اٹھ کر وہ جب اٹھنے لگے برسے
گنہگارِ کریمی ہوں جہنم کے بجھانے کو
نمی لے جائے زہدِ خشک میرے دامنِ تر سے
کیا ہے قتل عام اس شوخ کی چشمِ شرابی نے
تماشا ہے کہ خوں ٹپکا کیا گلگوں کے ساغر سے
مزا ہو گر پس از کشتن برنگِ شمع جی جائیں
کہ صرفِ ناز ہوں روزِ جزا پھر ہم نئے سر سے
نہ پھوٹے تا کسی رشکِ چمن کے عشق کی خوشبو
صدا دی قبر نے ڈھک دو مجھے پھولوں کی چادر سے
بیاں کیا خوفِ مہرِ حشر، میری سائبانی کو
نکل آیا ہے سایہ زیرِ دامانِ پیمبر سے
(۷۴)
کہا چشمِ تر کو نئی سوجھتی ہے
کہا دے کے طعنے کئی سوجھتی ہے
ہوا ہے ان آنکھوں سے یرقانِ اسود
کہ ایک ایک شے سر مئی سوجھتی ہے
قیامت میں واعظ کو دیدار ہو گا
بہت دور کی لو بھئی سوجھتی ہے
طبیعت گری پڑتی ہے ناتوانی
کسی در پہ دے گی ڈھئی سوجھتی ہے
مئے تند کی گرمیاں چڑھ رہی ہیں
نومبر میں ساقی مئی سوجھتی ہے
سمائی ہے آنکھوں میں یکتائی اس کی
وہ احول ہیں جن کو دوئی سوجھتی ہے
کمر میں گرہ دی ہے تارِ نظر کی
یہ باریک بیں ہے نئی سوجھتی ہے
سفینے میں جاتا ہوں عمر رواں کے
ہر اک چیز چلتی ہوئی سوجھتی ہے
بیاں بس کہ رہتا ہے حج کا تصور
تو میرٹھ میں بھی بمبئی سوجھتی ہے
(۷۵)
لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
ہماری آرزو ٹپکی لہو سے
یہ ہے کس کا سویم پوچھا عدو سے
کہ دم ہے ناک میں پھولوں کی بوسے
وہ بچہ پرورش کرتی ہے الفت
جو پیکاں پوروے کی طرح چو سے
یہ ٹوٹے گی ہوائے گل سے واعظ
مری تو بہ کو کیا نسبت وضو سے
اسے کہتے ہیں قمری طوقِ الفت
چھری لپٹی ہوئی ہے یاں گلو سے
یہ تاثیرِ محبت ہے کہ ٹپکا
ہمارا خوں تمھاری گفتگو سے
وہ ہیں کیوں حسن کے پردہ پہ نازاں
یہ سیکھا ہے ہماری گفتگو سے
کیا ہے دامنِ محشر کو افشاں
اڑے چھینٹے یہ کس کس کے لہو سے
سنا ہے جام تھا جمشید کے پاس
ارے ساقی فقیروں کے کدو سے
وہ شرمیلی نگاہیں کہہ رہی ہیں
ہٹا دو عکس کو بھی روبرو سے
لبِ گلرنگ پر ہے خالِ مشکیں
مگس اور پھول کی پتی کو چو سے
بیاں خوفِ گنہ سے مر چکے تھے
مگرجاںآ گئیلاتقِنطُواسے
(لسان الملک،میرٹھ: فروری ۱۸۹۷ء)
(۷۶)
سیاہی غیر کے منھ سے جھڑی ہے
مسی کیا خوب کیا اچھی دھڑی ہے
کیا قسمت کی کوتاہی نے بسمل
تمہاری تیغ کب اوچھی پڑی ہے
بڑی مقتل میں ہے اس صف کی شامت
جو ان کے تیر کے پلے پڑی ہے
ہوں زاہد حافظِ ناموسِ رندی
کہ دختِ رز مرے گھر میں پڑی ہے
دکھا دی بتکدے میں کس نے صورت
کہ ہر تصویر سکتے میں کھڑی ہے
مری آہِ حزیں سے اڑ گئے کان
عدو نے آن کر کیا کیا جڑی ہے
جنوں پا بستۂ زنجیر کیا خوب
کسی بیدرد نے اچھی گھڑی ہے
جب اٹھا ہے وہ آشوبِ قیامت
قیامت تھر تھرا کر گر پڑی ہے
سکندر اس سمندر میں نہ آیا
بھنور ہے چشم کا پتلی کھڑی ہے
نثارِ بادشاہِ حیدر آباد
ہماری نظم موتی کی لڑی ہے
درِ محبوب پر بستر جمائے
حضورِ عرش اپنی جھونپڑی ہے
بیاں ان کی گلی میں اک کنارے
پڑے ہیں ہم کسی کو کیا پڑی ہے
(۷۷)
وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
کہ حوتِ آسماں تہہ میں پڑی ہے
مرے ارماں بتوں کی سرد مہری
زراعت برف کے پالے پڑی ہے
چمن میں سرو کا بہروپ بھر کر
قیامت منتظر کس کی کھڑی ہے
دہانِ تنگ غنچہ، پتیاں لب
ہنسی ہے پھول، فقرہ پنکھڑی ہے
لگا دی آگ کس شعلہ نے بلبل
ہر اک پھولوں کی ٹہنی پھلجھڑی ہے
نگاہِ یاس کس کی کر گئی چوٹ
کہ گردن تیغ کی ڈھلکی پڑی ہے
عناصر جلد پہنچا دیں گے تا گور
نہایت تیز رو یہ چوکڑی ہے
کفن سے منھ لپیٹے میری حسرت
دلِ ویراں کے کونے میں پڑی ہے
سرہانے مدعی آیا تو جانا
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
کسی کو پار اتارے گا فلک کیا
اسی کی ناؤ چکّر میں پڑی ہے
بنا لے عقل کا پتلا فلاطوں
کہ تلچھٹ کچھ مرے خم میں پڑی ہے
نشہ ہے اور ہرن ہیں اس کی آنکھیں
نظر بازی ہرن کی چوکڑی ہے
نگاہِ شوق سے سینہ چرایا
ہماری چوٹ تم سے بھی کڑی ہے
بلائے زلف مہماں سے کہوں کیا
نہیں ٹلتی مرے سر آپڑی ہے
سیاہی دور ہو گی رفتہ رفتہ
ابھی زاہد کی ڈاڑھی کڑبڑی ہے
سرِ محشر بڑھی ہے کس قدر زلف
قیامت کس قدر اوچھی پڑی ہے
گہر بیں ہے نظام الملک اپنا
طبیعت کیا بیاں قسمت لڑی ہے
(۷۸)
یہ تعمیر کہن ہم سے کھڑی ہے
کہ نالہ سقفِ نیلی کی کڑی ہے
غضب کی سورما ہے آنکھ تیری
تنِ تنہا ہزاروں سے لڑی ہے
قیامت کب ہو قامت کے برابر
یہ اس سے اک قدِ آدم بڑی ہے
طلب سے یار کی نعمت فزوں ہے
غضب سے یار کی رحمت بڑی ہے
جما ہے ضعف کا نقشہ یہاں تک
انگوٹھی ان کی میری ہتھکڑی ہے
سرہانے اس کا جلوہ ہو دمِ نزع
یہی ہٹ ہے اسی پر سانس اڑی ہے
دلا دے خوں بہا قاتل سے یا رب
سرِ محشر مری حسرت کھڑی ہے
رہے جاتے ہیں پیچھے حضرتِ خضر
ابھی کوسوں مری منزل پڑی ہے
بکھر جائے نہ دل عشقِ بتاں میں
یہ خوں کی بوند پتھر پر پڑی ہے
اٹھایا ہے سرِ شوریدہ جس دم
مرے پاؤں پہ دیوار آ پڑی ہے
دلِ پُر داغ دے کر لیں گے بو سے
گلِ رخسار میں پتی لڑی ہے
پسینے سے ہوئے عارض گلِ تر
یہ اچھی اوس پھولوں پر پڑی ہے
تمہاری بزم میں کھل کر پئیں گے
ہمیں جنت میں کیا چوری پڑی ہے
عدم اور موت سے ہستی کو کیا بحث
یہ ناداں بیچ میں کیوں آ پڑی ہے
جگر ہے یا کوئی گنجِ شہیداں
سناں تیری مری حسرت گڑی ہے
بیاں ہمراہ لینا خضرِ توفیق
کٹھن ہے راستہ منزل کڑی ہے
(۷۹)
دل اچکے گی کہ بکھری ہے اڑی ہے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
چھپے گا کب ہمارا خونِ ناحق
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کہیں بادِ صبا آگے نہ دھر لے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
عدو اس ریسماں سے سر نہ چڑھ جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کمند اس گھات سے پھینکی ہے کس پر
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کسی کا خونِ ناحق سر نہ ہو جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
جفائیں مو بمو آتی ہیں آگے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کہیں موئے میاں بل کھا نہ جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
اڑایا دل گرہ کترے گی کیا اور
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
غضب تھا سامنا تُرکِ نظر کا
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
کسی کا خون گردن پر نہ چڑھ جائے
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
بیاں کم تھی ہماری تیرہ بختی
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے
(لسان الملک،میرٹھ: اپریل ۱۸۹۸ء)
(۸۰)
جان دی بخش دئے گنجِ فراواں تو نے
اس کفِ خاک پہ کیا کیا کیے احساں تو نے
کیا ہوا ان کو، اتارے تھے جو مہماں تو نے
کچھ بتایا نہ لبِ گورِ غریباں تو نے
شور کس کا صفِ محشر سے دھواں اٹھتا ہے
صور کیا پھونک دیا نالۂ سوزاں تو نے
عمر بھر قید رہا ہائے جواں مرگ موا
کچھ بھی دنیا میں نہ دیکھا مرے ارماں تو نے
آئینہ میں رخِ معشوق سے گیسو نے کہا
کر دیا مجھ کو مری جان پریشاں تو نے
اے جنوں تختۂ تابوت اڑا جاتا ہے
مورِ بے پر کو دیا تختِ سلیماں تو نے
اے تڑپتے ہوئے نخچیر بتا کون ہے تو
کس غضب کے کیے نالے نمک افشاں تو نے
تھا رگ و پے میں تری کس نمکِ حسن کا شور
کر دیا عرصۂ محشر کو نمکداں تو نے
دامنِ شوخ تو کیا چھو نہ سکے گردِ سمند
ہاردی بازیِ جاں عمرِ گریزاں تو نے
تھا تری زلف سے کیا تار نفس کا رستہ
کر دیا ہر متنفس کو پریشاں تو نے
او نکیلے تری رفتار سے کٹتے ہیں گلے
کس سے سیکھی یہ روش خنجرِ برّاں تو نے
ناز ہے بلبلِ گویا کو سنا دیجے بیاں
ابھی دیکھے نہیں واللہ غزل خواں تو نے
(۸۱)
جب کہا المدد اے شافعِ عصیاں، تو نے
اے بیاں مار لیا حشر کا میداں تو نے
کھو دیا دل کو کہاں یار کے پیکاں تو نے
میزباں نوش کیا کیا مرے مہماں تو نے
کیا چنی دامنِ معشوق پہ افشاں تو نے
رنگ دیا حشر کو اے خونِ شہیداں تو نے
کون آتا ہے قیامت کسے شرم آتی ہے
کہ مرا خون چھپایا تہِ داماں تو نے
نہ کوئی شکلِ رہائی ہے نہ پھندا ہے کوئی
قید کیا خوب کیا گیسوئے دوراں تو نے
یہ ہماری رگِ گردن ہے کہ خوں دیتی ہے
بوند پانی نہ دیا خنجرِ برّاں تو نے
دامنِ دشتِ قیامت ہے اک اوچھی سی گلی
گل کھلائے عجب اے چاک گریباں تو نے
واہ رے سوزِ محبت کہ بن آئے نہ بنی
دل کو پھونکا صفتِ نقش پری خواں تو نے
کہہ نہ دینا صفِ محشر کوئی منہ دیکھی بات
گیسوئے یار اٹھایا تو ہے قرآں تو نے
صفِ عشاق تو کیا دی صفِ محشر کو شکست
کیے فتنے کئی بھرتی صفِ مژگاں تو نے
کوستے ہیں کہ نہ ہو گورو کفن تجھ کو نصیب
کی سرِ عام دلہن تیغ سے عریاں تو نے
مسکرا کر تنِ بے سر سے کہا ظالم نے
کہیں رکھّا بھی مری تیغ کا احساں تو نے
تھے ترے مصرعِ قامت میں قیامت مضمون
جس سے ترتیب دیا حشر کا دیواں تو نے
خونچکاں حشر میں ہمرنگ شہید آیا ہے
یاں نیا روپ بھرا ہے مرے ارماں تو نے
قد کے فتنے ترے محشر پہ سوار آتے ہیں
کر دیا گرد قیامت کو مری جاں تو نے
حلق پر تیغ تو ہونٹوں پہ ہنسی پھرتی ہے
کس بشاشت سے بیاں یار کودی جاں تو نے
(لسان الملک،میرٹھ: اپریل ۱۸۹۸ء)
(۸۲)
گھبرا کے جہاں سے یہ ستم کش ترے گھر جائے
اور در ہو ترا بند تو بتلا کہ کدھر جائے
رشک آئے ہے، غمخوار مرا حال نہ کہنا
میں جا نہ سکوں واں تلک اور میری خبر جائے
ہر گام پہ حشران کا اٹھائے ہوئے چلنا
اس کی نہیں پروا کہ جئے یا کوئی مر جائے
دل دیں گے ہم اس کافر بد عہد کو، سو بار
دے کر کوئی لیتے ہیں، مکر جائے ، مکر جائے
ہے جادہ بھی واں، موجۂ آبِ دمِ شمشیر
گزرے وہ ترے کوچہ میں اور سر سے گذر جائے
دونوں کی نکل جائے تمنائے شہادت
سر سے تری شمشیر اگر دل میں اتر جائے
ہٹ ہٹ کے اندھیرا نہ کرو آنکھوں کے آگے
واں تک تو نظر آؤ جہاں تک کہ نظر جائے
اے بادِ صبا درہم و برہم نہ کر ان کو
ڈرتا ہوں کہ وہ زلف مجھی پر نہ بکھر جائے
کیا پوچھتے ہو وضعِ جنوں خیز بیاں کو
اس طرح نہ یارب کوئی ہستی سے گذر جائے
(۸۳)
تہمت قتل مٹانے سے نہیں جانے کی
خون ناحق مرا سرخی ہے ہر افسانے کی
اب مجھے کھو کے نہ روؤ کہ اگر روئے گی شمع
جان پڑ جائیگی کیا خاک میں پروانے کی
ہڈیاں راکھ میں ڈھونڈے نہ ملی تجھ کو ہما
شکوہ متکیجو کہ خو تھی مجھے غم کھانے کی
آندھیاں آتی ہیں ہر سال کوئی شوریدہ
خاک اڑاتا ہے ابھی تک کوئی ویرانے کی
سنگ اسود ہے حرم میں مجھے ڈر ہے واعظ
کہیں پڑ جائے نہ بنیاد صنم خانے کی
اثر سوزش تاثیر محبت مت پوچھ
ہو گئی شمع ستی آگ میں پروانے کی
اٹھ گئے خلق سے سب اہلِ کرم یا کہ بیاں
مجھ ہی کمبخت سے کرتا نہیں کوئی نیکی
متفرقات
سارے جہاں کے دل میں تیرا مقام نکلا
تو ہم سے بھی زیادہ رسوائے عام نکلا
ہر ایک شے میں پنہاں تیرا مقام نکلا
توڑا جو بتکدے کو بیت الحرام نکلا
حوروں سے جا لڑی، کبھی پریوں پہ آ پڑی
کس کس سے رشتہ ہے نگہ پاکباز کا
ہماری نعش کا احساں رہے گا محشر پر
کہ منحصر ہے زمانہ کسی کی ٹھوکر پر
کبھی رُکا ہے اگر دستِ نازنیں اس کا
تڑپ کے ہم نے گلا رکھ دیا ہے خنجر پر
اسے قرار نہیں اور مجھے قرار نہیں
مرے قدم کے تلے آگ شمع کے سر پر
حسرتیں دل میں دبا دیں شب فرقت لے کر
حشر میں جاؤں کہاں اپنی مودّت لے کر
تو ہی اے تیشۂ فرہاد بتا دے کوئی چال
ان بتوں کے دلِ سنگیں میں ہوں راہیں کیوں کر
شمع کہتی ہے مرے سر سے دھواں اٹھتا ہے
تو نے روکیں دلِ پُر سو زمیں آہیں کیوں کر
پھرتے ہیں کوچۂ گیسو میں‘ بھٹکتے ہی بیاں
قطع کیں خضر نے ظلمات کی راہیں کیوں کر
ہزاروں انگلیاں اٹھتی ہیں ان پر رہ گزاروں میں
کہ وہ ہیں ایک ماہِ عید، لاکھوں میں، ہزاروں میں
وہ گل ہیں سیکڑوں میں ایک، ہم کہہ دیں ہزاروں میں
طر ح داروں میں، مہ پاروں میں، طراروں میں، پیاروں میں
نہاں ہے دانۂ تسبیح میں زناّر کا ڈورا
مبارک اے برہمن شیخ بھی ہے رشتہ داروں میں
نشاط انگیز تھا جھونکا نسیمِ نو بہاری کا
اچھل کر جا رہی واعظ کی پگڑی بادہ خواروں میں
فلک کو دونوں آنکھیں ایک سی ہوتیں تو کیوں کٹتی
کسی کی شب نظاروں میں، کسی کی انتظاروں میں
آپ لوگوں کی جان لیتے ہیں
تہمتیں آسمان لیتے ہیں
اے فغاں پھر زمیں دکھا دینا
دون کی آسمان لیتے ہیں
اشک کی فوج ہے، نالوں کے الم چلتے ہیں
وادیِ عشق میں کس دھوم سے ہم چلتے ہیں
ہمسفر کوئی نہیں، عالمِ تنہائی ہے
نکل اے آہ، اٹھ اے درد کہ ہم چلتے ہیں
وادیِ عشق کی منزل نہیں ہوتی سونی
پاؤں رہ جاتے ہیں چلنے میں تو دم چلتے ہیں
دل ہوا اشکِ مسلسل سے خراب
رکھیے برسات میں اسباب کہاں
ناخدا کوئی نہیں اپنے سفینے کا بیاں
آج طوفاں کی خبر دیدۂ تر دیتے ہیں
نہیں میں آپ میں، اور وہ ہیں مجھ میں
عجب ویرانۂ آباد ہوں میں
کیا بیاں کیجیے فریاد کہ وہ
زلف سے دستِ دعا باندھتے ہیں
بت ترے گھر میں چھپا کر رکھے
عفو کر عفو خدایا مجھ کو
آنکھ ہر ایک سے لڑتی ہی رہی
کہ وہ ہر سو نظر آیا مجھ کو
چمن ہے، انجمن ہے، ابرِ تر ہے، آب احمر ہے
فلک وہ شوخ بھی ایسے میں آ جائے تو پھر کیا ہو
حیا ٹوٹی، حجاب اٹھا، نقاب الٹا، قبا اتری
مچل کر کوئی ارماں اب نکل آئے تو پھر کیا ہو
بیاں عاصی ہے پر کس بخشنے والے کا عاصی ہے
مرے لینے کو جنت واعظا آئے تو پھر کیا ہو
ہر کام میرا کشمکش خیر و شر میں ہے
چشمک تری نگہ سے قضا و قدر میں سے
اختر نہیں، درم ہیں یہ کس کا حریف تھا
خوں کا صلہ سپہر کہن کی سپر میں ہے
تم سے چھٹا تو اہلِ وفا کو غرض نہیں
جب تک کہ چٹکیوں میں ہے ناوک جگر میں ہے
کرتے ہیں خاک شیشۂ ساعت کو منقلب
برہم زنِ سپہر ہمارا غبار ہے
لو شمع اس کے حلق بریدوں میں مل گئی
انگلی کٹا کے یہ بھی شہیدوں میں مل گئی
کوئی آئینہ دکھا کر مرے واعظ سے کہے
کس کے ماتھے گئی تحریر سیہ کاروں کی
قبلۂ صدق و صفا کعبے سے کوسوں دور ہے
شیخ صاحب کو ابھی سعی فراواں چاہیے
نہ پھوٹے تاکسی رشکِ چمن کے عشق کی خوشبو
صدا دی قبر نے ڈھک دو مجھے پھولوں کی چادر سے
دلہن بھی یوں کوئی دولہا کے گھر نہیں جاتی
گلوئے شوق پہ کیا تیغ بانکپن سے چلی
ادا نکلی، حیا نکلی، یہی کافر نہیں نکلی
ہماری آرزو تم سے سوا پردہ نشیں نکلی
نزاکت سے ہوا اقرار بھی انکار سے بدتر
کہ ہاں نکلی دہن سے اس طرح گویا نہیں نکلی
’’’’
قصائد
(۱)
قصیدہ در مدح حضرت علیؓ
عیدِ غدیر کا ہے دن، عام ہے عیش پروری
خم میں جھلک رہی ہے مے جھوم رہے ہیں حیدری
جوش مئے طہور ہے، دورِ سرورِ سور ہے
رنگ سے چشمِ حور ہے، رشک دہ گل تری
دور ہوئیں خرابیاں، مے سے بھری گلابیاں
نشہ میں کر شتابیاں، مست ہیں، جرم سے بری
خلد سے ہے چمن قریب، پھول کھلے کھلا نصیب
بول رہی ہے عندلیب، پھول رہی ہے جعفری
زیرِ فلک ہے چار سو، شورِکلوا والشربو
بادہ بنوش تا گلو، تا ز نشاط برخوری
شاد ہیں رندو متقی، غنچہ و گل ہیں فندقی
صحنِ زمیں ہے فستقی، بادِ نسیم عنبری
جلوۂ گل ہے سو بسو، روئے مراد روبرو
شاخِ نہال آرزو، آج ہے کیا ہری بھری
حمد علی الصباح کہہ، حی علی الفلاح کہہ
دورِ قدح مباح کہہ، یعنی ہے بادہ کوثری
خلد ہے بزمِ بوتراب، حور ہے ساقیِ شراب
شیشہ کنار میں دبا، ہاتھ پہ ہے گزک دھری
ہر گلِ تر ہے سرسبد، حق کے کرم ہیں بے عدد
کہتے ہیں یا علی مدد، طیر دمِ نواگری
شاہ سریر ’’انما‘‘ ماہِ سپہر ’’ہل اتیٰ‘‘
نیرّ اوج لافتیٰ، مرجعِ مہر خاور ی
تھا شہہِ ذوالجلال تیغ، جلوہ دہِ کمال تیغ
بدر شکن ہلال تیغ، مثلِ کتاں، ہے صفدری
اس نے دئے دمِ جہاد تیغ کے گھاٹ سے اتار
بحرِ فنا میں خندقی، نارِ سقر میں خیبری
اس کی جسامِ خضر مے غازہ کشِ عرب ہوئے
خونِ حسود سے ہوا، روئے یقیں محضّری
آپ چڑھے جہاد پر چرخ سے اُتری ذوالفقار
زیر و زبر ہوا جہاں، دہر میں آئی ابتری
پنجۂ قلعہ گیر میں، تیغ زنیِ تہمتنی
ناخنِ تیغِ تیز میں سب شکنی غضنفری
قلعہ شکن، عدو فگن، دیو شکار، تیغ زن
جوشن بازوئے رسول، خاتمِ دستِ داور ی
زوجِ مطہر بتول، بابِ مدینۃ الرسول
شاہ نجف، فقیر دوست، عقدہ کشا، سخی، جری
سنگ ہے تیرے فرش پر دنگ سے تیرے روبرو
جامِ جہاں نمائے جنگ آئینۂ سکندری
خاکِ قدم سے کر لیا آئینۂ ضمیر صاف
رکھتے ہیں تیرے خاکسار دبدبۂ سکندری
تیرے عصائے تیغ سے، پست ہوئے فراعنہ
معجزۂ کلیم سے مات ہے سحرِ سامری
چشم میں روئے مصطفی برقعِ نور میں ہے شمع
دل میں ولائے مرتضیٰ، بند ہے شیشہ میں پری
زندہ کیا کلام کو پست حسودِ خام کو
سحر بیاں، بیاں ترا، معجزہ ہے سخنوری
(لسان الملک ، میرٹھ: جولائی ، اگست ۱۸۹۲ء)
(۲)
قصیدہ در مدح جنرل محمد اعظم الدین خاں
مدار المہام ریاست رام پور
برسوں کٹورے نیل میں دوڑ اے آفتاب
ذرّہ اس آفتاب کا کب پائے آفتاب
دیکھے جمال یوسفِ مصری جلال کا
منہ پہلے رودِ نیل میں دھو آئے آفتاب
دیدار شام کو ہے میسر نہ صبح کو
جوشِ شفق ہے خون تمنائے آفتاب
پھرتا ہے ڈھونڈتا ہوا اس جلوہ گاہ کو
دن رات شوقِ ناصیہ فرسائے آفتاب
رکھّا سپہر پر نہ کبھی کہربا سے پانو
ہے ہے وہ نقشِ پانہ ہوا جائے آفتاب
اس شمع کا فروغ گر آئے نظر کہیں
شانِ عسل کی طرح پگھل جائے آفتاب
کیا رعبِ حسن ہے کہ زمیں زلزلہ میں ہے
تپ لرزۂ کہن میں سراپائے آفتاب
پھرتا ہے جھانکتا ہوا کیا شرق و غرب میں
رخنہ حریمِ دوست میں کب پائے آفتاب
چوگانِ زلف دوست کے نزدیک کھیل ہے
گوسر کے بل اِدھر سے اُدھر جائے آفتاب
روزِ نخست سے یرقانی ہے عشق کو
عیسیٰ سے ہو سکے نہ مداوائے آفتاب
ہے سر تو اے جنوں تنِ بے سر کہا گیا
کیا طعمۂ اسد ہوئے اعضائے آفتاب
اسرارِ فیضِ ساقیِ انوار فاش ہیں
اوچھا ہے ظرف ساغرِ صہبائے آفتاب
چمکے وہ برقِ حسن تو خطفِ بصریہ ہو
چوٹی سے کہسار کی ٹکرائے آفتاب
اس لمعۂ جمال سے ہو جائے گم ابھی
شپّر کے آشیانہ میں عنقائے آفتاب
خاکِ در اس کی مہر نمازِ نیاز ہے
اور خانقاہِ چرخ مصلائے آفتاب
ہر ذرہ آفتاب بنے اس کی مہر سے
کہہ دو سپہر سے کہ نہ اترائے آفتاب
جنرل محمد اعظمِ دیں خاں کو اس نے دی
وہ تاب جس کو دیکھ کے جل جائے آفتاب
دارالسرور کا وہ مدار المہام ہے
اور اس کا درمدار مدارائے آفتاب
سایہ رئیس کا ہے وہ، قوت رئیس کی
ہے پرچم لوائے مطّرائے آفتاب
گرم عناں ہو شوقِ زمیں بوس میں نہ کیوں
دن رات یوں سکندریاں کھائے آفتاب
اس کی طرف اضافتِ معراجِ نور ہے
ترسا سے سن نہ گبر سے معنائے آفتاب
عید الضحیٰ کو مصحفِ روئے نکو سے ہے
والشمس جلوہ گرو ضحٰہائے آفتاب
مشرق سے آجصبحک اللّٰہ کا شور ہے
وا ہے زبان تہنیت آرائے آفتاب
وہ آفتاب ہند ہے اور اس کے سامنے
ہے اک چراغ روز تجلائے آفتاب
خاکِ در اس کی کیوں نہ ملی تو نے اے فلک!
کھوتی قمر کا برص تو صفر ائے آفتاب
از بسکہ اس کا تابعِ فرماں رہا سدا
حق نے دیا سپہر کو تمغائے آفتاب
دیدار کی طلب ہے تو مل جائیگا کبھی
بے جا ہے روز کا یہ تقاضائے آفتاب
وہ داور سپہر حشم، میرمہ علم
روشن ہے جس کے نام سے طغر ائے آفتاب
وہ نامور کہ لکھ کے خطوطِ شعاع سے
اور اقِ زرپہ جس کی ثنالائے آفتاب
رہتی ہے روز عشرتِ جمشید ورنہ صبح
آتی ہے لے کے جار مطلائے آفتاب
حربا ہو اہلِ قبلۂ رخ دیکھ لے اگر
اس مہہ کے جلوہ گہہ میں تماشائے آفتاب
پڑھ دوں پھر ایک مطلعِ روشن حضور میں
جس کے طلوعِ نور سے شرمائے آفتاب
فرماں اگر نہ تیرا بجا لائے آفتاب
بامِ مسیح سے ابھی گر جائے آفتاب
خورشید ہے ترا ورقِ عارضِ مبیں
اور آفتابِ چرخ مثناّئے آفتاب
تو محتسب ہے اور وہ ہے متہّم بہ مَے
آئے خمِ فلک میں تو ڈھل جائے آفتاب
تو پاسبانِ شرح ہے شرم مجوس سے
آگے ترے رسن بہ گلو آئے آفتاب
ترا علم ہے نیر اعظم جہان میں
تو نے کیا ہے حلِّ معمائے آفتاب
گر معرکے میں زور ترا، نیزہ باز ہو
غربال سب کو آئے نظر جائے آفتاب
تیرا مرید، عابدِ شب زندہ دار ماہ
تیرا مطیع قاضیِ بیضائے آفتاب
دفتر ترا سپہر، ترے کارکن نجوم
منشی ترا دبیرِ فلک رائے آفتاب
جس سر زمیں پہ جلوہ فشاں ہو ترا جمال
تا سمت راس ہووے نہ اعلائے آفتاب
دورہ تو مملکت میں ترا سیرِ شمس ہے
خیمے ترے دوائرِ عظمائے آفتاب
سونا بنائے گا تری اکسیرِ راہ سے
پھرتا ہے کیمیا گرِیکتائے آفتاب
جیبِ سحر سے کھینچ لیا تیرے شوق نے
لی تو نے بیعتِ یدبیضائے آفتاب
پڑتا ہے تیرے قلب کا اشراق مہر پر
جس طرح ماہتاب پہ القائے آفتاب
پہنچے نہ تیرے پایہ کو بامِ فلک تو کیا
روزِ نشور بانس پہ چڑھ جائے آفتاب
تیرے لیے ہے گلشنِ خضرائے آسماں
تیرے لیے ہے لالۂ حمرائے آفتاب
تیرے لیے ہے مسندِ دیبائے آسماں
تیرے لیے ہے تکیۂ زیبائے آفتاب
احجار تیرے واسطے رنگوائے، آسماں
اثمار تیرے واسطے پکوائے آفتاب
تیرے لیے ہے نقرۂ گیتی نورد ماہ
تیرے لیے ہے تو سنِ شہبائے آفتاب
چلتا ہے تیرا پیل تو دبتا ہے آسماں
چمکے ترا سمند تو چھپ جائے آفتاب
دن بھر کی دوڑ دھوپ ترے رخش سے نہ ہو
پہلا قدم ہے وسعتِ صحرائے آفتاب
گر تیرے خوانِ جود سے روزینہ بند ہو
مطبخ سے کس کے نانِ تنک پائے آفتاب
سرمہ اگر نہ تیرے قدم کا غبار دے
ہو جائے کور دیدۂ بینائے آفتاب
معدن ہے سینہ، تو ہے گہر بیں، بیاں ہے لعل
کیا تیرے مدح سبخ کو پروائے آفتاب
تو بارگاہِ جاہ و حشم کا مقیم ہو
جب تک سفر میں ہو تنِ تنہائے آفتاب
(لسان الملک، میرٹھ : جولائی ۱۸۸۹ء)
(۳)
قصیدہ در مدح نواب علی مراد خاں بہادروالیِ سندھ
سپہر جھک کے سلامی، ہوئے کہاں کے لیے
علی مراد بہادر سے جم نشاں کے لیے
وہ ہند کا مہہِ انور، وہ سندھ کا والی
زحل ہے ہند، ودر اس کے آستاں کے لیے
وہ ہے رواقِ عماری میں بسکہ جلوہ فشاں
ترس رہے ہیں فلک، اوجِ پیلیاں کے لیے
ہے پُر گہر در بخشش سے کشتیِ فقرا
ہیں جائے قطرہ، دُر اس بحرِ بیکراں کے لیے
زہے ہوائے ترحم، غبارِ راہ ترا
عصا ہوا فلکِ پیر ناتواں کے لیے
وہی گروہِ کواکب میں ہے سعادت مند
کہ جس نے بوسے ترے سنگِ آستاں کے لیے
ترے حسود کا ڈھونڈے اگر سراغ کوئی
سنانِ نیزہ اک انگشت ہے نشاں کے لیے
مہبِ فیضِ سحر سے اگر نسیم سحر
گئی شگفتنِ گلہائے بوستاں کے لیے
محلِ لطفِ اتم سے ترے نسیم نفس
چلی ہے خندۂ دلہائے دوستاں کے لیے
خمِ تواضعِ گردن، فرارِ خلق ترا
ہے خاتمِ کفِ جمِ، صید انسِ و جاں کے لیے
ترے نظیر کی ہیبت سے یاں بھی امن نہیں
گیا تھا سوئے عدم فتنہ کیوں اماں کے لیے
ترے ضمیر کی فہرست، تیری لوحِ جبیں
کہ گنج نامہ ضروری ہے گنج داں کے لیے
صفِ نعال میں کی پارہ چادرِ مہتاب
ترے حشم نے قمر سے عوض کتاں کے لیے
بتاؤں کیا ترا کوچہ میں آفتاب کی طرح
کہ میں نے دور سے بوسے کہاں کہاں کے لیے
گلو پیاس سے تھا خشک اہلِ معنی کا
کفِ سخا سے ترے گھونٹ ایاغِ جاں کے لیے
ہنر ہے سایۂ گردوں میں سایہ ساں بے قدر
پھرا کیا کیے محفوظ سائباں کے لیے
سخن نے عرض کیا عجزِ دستگاہِ سخن
خسِ دہن ہے قلم بلبلِ بیاں کے لیے
فضائے تنگِ جہاں نے زراہِ تنگدلی
جگہ نہ دی مرے طائر کو آشیاں کے لیے
مری بغل میں تڑپتے تھے میرے لختِ جگر
رواں فزائیِ امیدِ نیم جاں کے لیے
ہوائے شوق ترے در پہ لے گئی ناگاہ
خضر کے ساتھ ہوا عمر جاوداں کے لیے
نہیں اگر شرفِ بو البشر نہ ہو میں نے
تری گلی میں مزے دعوتِ جناں کے لیے
طرارے بھرنے لگا تیرے فیض سے ورنہ
علف نہ تھا فرسِ رائضِ بناں کے لیے
مرے کلام کو بخشی حیاتِ جاویداں
ہوا یہ معجزہ اس عیسیِ زماں کے لیے
سخن کو جود سے رونق، تو جود کو تجھ سے
شرف ہے دولتِ معنی سے، ہر بیاں کے لیے
عطا ہے تیرے لیے اور ثنا ہے میرے لیے
بیاں ہے تیرے لیے اور تو بیاں کے لیے
بیاں بقولِ اسد کس کی مدح میں نے لکھی
’’کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے‘‘
(جرمانہ آفتاب: ۲،۳)
(۴)
قصیدہ در مدح مہاراجہ راج کنوار بہادر فرماں روائے ریاست بشن گڑھ، ضلع فرخ آباد
نہ کیوں، جواہرِ کانِ جگر، کروں میں نثار
کہ آج فخرِ مہاراجگاں ہے، راج کنوار
ہوا ہے اس کی جوانی سے اس کا بخت جواں
ہوا ہے اس کے تلطف سے اس کا ملک بہار
ہے اس پہ سایہ فگن، آفتابِ قیصرِ ہند
کہ اس کے نام کا تمغہ ہوا ہے، مہر نگار
زمانہ اس کے تجمل سے، محفلِ جمشید
بشن گڑھ، اس کی تجلی سے مطلعِ انوار
ہے سبز و خرم و سیراب مزرعِ امید
کہ اس کا دستِ سخاوت، اک ابر ہے مدرار
ہنر پسند، ہنرمند، علم دوست، عقیل
ذکی، شجاع و بہادر، قوی، جری، جرار
وہ اس کا جاہ و حشم اور وہ اس کا حسن و جمال
وہ اس کا علم و عمل اور وہ اس کا عزّ وقار
زمیں ہے خاکِ قدم اور زمانہ بندۂ در
قمر ہے حلقہ بگوش اور فلک ہے غاشیہ دار
محلِّ نیرِّ اعظم ہوا سپہرِ عظیم
کبھی جو فیلِ فلک سیر پر ہوا وہ سوار
درست اس سے ہوا مملکت کا نظم و نسق
کہ جیسے زلفِ پریشاں بنائے شانۂ یار
وہ دلفریب نگاہیں، وہ منکسر ابرو
کہ بے کمند و کماں کر لیا دلوں کو شکار
ہوا ہے شحنۂ انصاف اس کا صید فگن
کہ بھاگتے ہیں چکارے کی طرح چور چکار
نقابِ خاک میں رستم نے منہ چھپایا کیوں؟
گیا اُدھر کوئی، کیا اس کی فوج کا سردار؟
حریف کون کہ میداں میں زلزلہ آ جائے
گر اس کا قصدِ شجاعت ہو جانبِ پیکار
قدم اٹھائے تو خورشید پھینک دے خنجر
نظر اٹھائے تو مرّیخ کھول دے ہتھیار
سبک ہو آنکھ میں سہراب و سام کا پلّہ
جو معرکہ میں وہ آ جائے تول کر تلوار
دماغ اس کا وہ نازک کہ ہو وہ چیں بہ جبیں
گر اس کے ملک میں آ جائے بوئے مشکِ تتار
یہ اس کے نقشِ قدم کو ہے اس کے رخ سے فروغ
کہ آفتابِ فلک کا ہے مطمح الانظار
یہاں سکندر و دارا کا ذکر لائے کون
ملے گا کیا گئے گزروں کو اس کی بزم میں بار
دعایہ ہے کہ رہیں جب تلک زمین و زماں
فلک ہو نوکر و چاکر، خدا ہو یاور و یار
(۵)
در مدح حفظ الکریم
درّۃ التّاجِ وفا، سرچشمۂ لطفِ عمیم
حافظِ ناموسِ الفت، ذی کرم، حفظ الکریم
میری قوت، میرے بازو، میرے بھائی، میرے دوست
مصدرِ مہر و مروّت، مظہر اسمِ کریم
مٹ گیا تھا صفحۂ ایجاد سے نامِ وفا
تو نے روشن کر دیا پھر اے کریم ابن الرّحیم
ہے فتوت کو تری قطرے سے کم، یم ہو کہ بحر
ہے تری رحمت کے آگے کنکری، زر ہو کہ سیم
منزلِ حسنِ سعادت میں ترا رخ مشتری
کعبۂ اخلاص میں جلوہ ترا شمعِ حریم
جوشِ ہمدردی سے ہمت ہے تری فیّاض خلق
پاس یک رنگی سے سیرت ہے تری بادِ نسیم
نکہتِ ریحانِ جنت ہے تری خوئے لطیف
جنبشِ بادِ بہاری ہے، ترا خلقِ عمیم
صورتِ یوسف دمِ عرضِ جرایم ہے رؤف
صورتِ یعقوب ہنگامِ غضب ہے تو کظیم
اس کو ہے کافور کا پھاہا، ترا مکتوبِ شوق
جس کا دل ہو ضربتِ تیغِ جدائی سے دو نیم
دل چرانے کا ہے کھٹکا طرۂ طرّار کو
کہ طراروں کو بھی تیرے کوتوالی کا ہے بیم
دوست داری ہے ولایت، اس ولایت میں ہے تو
بے نظیر و بے عدیل و بے بدیل و بے سہیم
نیک نیت، نیک دل، نیکو خصائل، نیک بخت
مہر صورت، مہر سیرت، مہرباں، عاقل، فہیم
تیرا لطفِ خاص ہے بے وارثوں کا خیر خواہ
دامنِ دریا کا سایہ ہے سرِ درِّ یتیم
تیرے سارے دودماں میں شانِ رحمت کا ظہور
تو کریم اور تیرے بھائی ہیں رحیم ابن الرحیم
تجھ کو دیتا ہے بیاں تیرا، دعا اخلاص سے
تا قیامت تجھ پہ ہو، لطفِ خداوندِ عظیم
(لسان الملک، میرٹھ: ستمبر۱۸۹۸ء)
***
مثنویات
(۱)
مثنوی در صفتِ انبہ
فیضِ حق سے شکر فشاں ہیں آم
تحفۂ نادرِ جہاں ہیں آم
چمنِ نادری کا تحفہ ہے
منشی نادر علی کا تحفہ ہے
آم دنیا میں نام اسی کا ہے
چشمۂ فیضِ عام اسی کا ہے
انبۂ نغز کہتے ہیں اس کو
ہے بہارِ ریاضِ انبہ گو
ہر زباں اک شکر تری کر دی
اس نے شکر کی کرکری کر دی
بس کہ ہے برتری محال اس پر
شہدِ شیریں کی ٹپکی رال اس پر
داغی ہے ماہتاب کا سردہ
ریشہ دار آفتاب کا زردہ
یاں جمے خاک، رنگِ گل ناری
قند ہاری تو کیا ہے قند ہاری
ذکرِ خرمائے تر نہ آئے راست
کہے اس کا سرنگ او خرماست
ہاتھ آسیبِ رشک سے مل جائے
سیبِ کشمیر پر چھری چل جائے
کیوں نہ اس کی طرف بشر لپکے
جن کا در ہے نہیں یہ وہ ٹپکے
نخل ایسا کوئی نہال کہاں
نیشکر کی گرہ میں مال کہاں
کیوں نہ ہو سبز نیشکر کی بہار
اس کے لشکر کا ہے علمبردار
اس سے باغی اگر ذرا پائیں
لوگ پوندے کا پوست کھنچوائیں
اس کے دربار میں ہے پیوستہ
حاضر اک پانو سے کمر بستہ
اس نے شاید عتاب فرمایا
یوں جو کولھو میں اس کو پلوایا
ہے یہ شیریں کہیں نمک سے زیاد
شور ہے اس کا تا ملیح آباد
ممتبع شہد اس کا جام ہوا
بمبئی کا اسی سے نام ہوا
دی ہے مولا نے اس کو گلشن میں
پرورش انبیا کے دامن میں
ہے یہ شیریں درختِ باغِ ارم
برگ پوشی ہے جامۂ آدم
اس صفا پروری کی پہنچی خاک
قندِ مصری ہے پُر خس و خاشاک
اس کا رس بات بات میں کہیے
شاخ کیا ہے نبات میں کہیے
لعلِ معشوق کے پڑے لالے
اس پہ ٹوٹے جو چوسنے والے
کوہکن قاش اس کی جب چوسے
تانہ شیریں کی پھر زباں چوسے
آم اگر کام میں ہو شکر ریز
نام شکر کا پھر نہ لے پرویز
خواہشیں اس کی راہ تکتی ہیں
شہد پر مکھیاں بھنکتی ہیں
سرخ ہے شوخ ارغوانی پوش
زرد معشوق، زعفرانی پوش
رنگ دلکش ہے اس کی زردی کا
زعفراں پر ہنسی نہیں بے جا
کیوں نہ ہو اس کا شور تاعیوق
ہے یہ ہمرنگِ عاشق و معشوق
کان میں جھک کے کہہ رہی ہے ڈال
جتنے اس رنگ کے ملیں انھیں پال
پھونس میں اس کا رنگ شعلہ فروش
اس کو کہتے ہیں آتشِ جس نوش
کیوں نہ رنگولہ زیں ہو اس کی ڈال
ہے یہ ہر میوے کا گرو گھنٹال
ہے چمن میں یہی بلند نشاں
نہ کہو شہد کو رفیع الشاں
اس کی سیوہ بہار کا شیوہ
اس سے بہتر نہیں کوئی میوہ
لقمہ ایسا کوئی بنا دیجے
کہ اگل دیجے اور نگل لیجے
اس سے شیریں جہاں میں کون مگر
ہے بیاں کا کلام شیریں تر
نظم میں رس ہے انبۂ تر کا
شکریہ ہے جوابِ شکر کا
اے بیاں! طولِ داستاں ہے فضول
ہو یہ سرکارِ نادری میں قبول
(۲)
جرمانۂ آفتاب
بندگی اس جلوۂ جاوید کو
جس نے بنایا مہہ و خورشید کو
اس کی تجلی کے عجب بھید ہیں
شمس و قمر سقف میں دو چھید ہیں
کیا تری قدرت کا طلسمات ہے
رات کبھی دن، کبھی دن رات ہے
نور ہے، آفاقِ زمن میں ترا
شور ہے، مرغانِ چمن میں ترا
زمزمے ہیں سب تری تکبیر کے
قمقمے ہیں سب تری تنویر کے
تیری جھلک ناصیۂ گل میں ہے
تیری پھڑک سینۂ بلبل میں ہے
نور و نظر بخشنے والا ہے تو
سارے اندھیروں کا اجالا ہے تو
چرخ کے تاروں میں چمکتا ہے تو
دشت کے ذروں میں دمکتا ہے تو
نور ترا، پاس نہیں دور ہے
دور نہیں، پاس ترا نور ہے
واہمہ دوڑائے گا توسن کہاں
عرش کہاں اور رگِ گردن کہاں
کوئی نہیں تیرا نظیر و شبیہ
ایک تری ذات ہے لاریب فیہ
(نعت افتخارِ دنیا ودیں چراغِ آسمان و زمیں حضرت خاتم المرسلیںؐ)
اس مدنی نور کی کیا بات ہے
آئینۂ نورِ سمٰوات ہے
خاک صفی کا نہ اٹھا تھا خمیر
کاخِ نبوت میں وہ تھا جائے گیر
اس کی تجلی سے یہ چمکا عرب
آج اسی سمت کو جھکتے ہیں سب
اس کی خدا گر نہ الٹتا نقاب
ہوتے اندھیرے میں مہہ و آفتاب
اس کی بشارت کے ہیں عیسیٰ خطیب
اس کی سواری کے ہیں موسیٰ نقیب
اوج پہ وہ بدرِ کمال آگیا
سارے ستاروں پہ زوال آگیا
مسندِ ارشاد پہ رکھا قدم
پچھلے قوانین پہ پھیرا قلم
رعب سے تھرانے لگے روم و رے
ہلنے لگی کرسیِ کِسرا و کے
ہنسنے لگے طاقِ حرم کے چراغ
رہ گئے خاموش، عجم کے چراغ
ماہ کی جانب جو اشارہ کیا
ایک اشارہ سے دوپارہ کیا
بعد نبی جلوہ فشاں ہیں امام
مہرِ پیمبر، تو وہ ماہِ تمام
فرض خرد دونوں کی تعظیم ہے
ان کو سلام اور انھیں تسلیم ہے
(نفی غیر کا تقاضا، جلوۂ ذات کی تمنا، پردۂ ماسوا کا لقب، لمعۂ توحید کی طلب)
نور ہے تو نور ہے تو، اے خدا
نور سے رکھ پردۂ ظلمت جدا
شش حدِ امکاں میں اک اندھیر ہے
صبح دمِ حشر میں کیا دیر ہے
کرتی ہے اب کام، جہاں تک نگاہ
ظلمتِ عصیاں سے ہے عالم سیاہ
باصرہ اندھیر سے گھبرا گیا
نیّرَ اسلام پہ ابر آگیا
سکہ بٹھا احمدِؐ محمود کا
پردہ اٹھا، مہدیِ موعود کا
کرتے ہیں پتھر کے صنم سامنا
کعبۂ اسلام کے تھم، تھامنا
خاک اڑا گنبدِ افلاک تک
گنبدِ افلاک زمیں پر پٹک
شمس و قمر کا کرہ چکرا کے توڑ
ایک کو بس ایک سے ٹکرا کے توڑ
تیرگیِ شام کی چوٹی کتر
شورِ سحرگاہ کا دم بند کر
شائبۂ غیر کو کھو دے کہیں
جھوٹے ستاروں کو ڈبو دے کہیں
ساغرِ خورشید کو واژوں گرا
خمکدۂ گنبدِ گردوں گرا
کہہ کہ کرے زلزلۂ باد و آب
بدعت و احداث کی مٹی خراب
ایک دو اشجار ہیں بیخِ فساد
ان پہ گرا حادثۂ برق و باد
جلنے لگے بحر کا دامانِ تر
ہلنے لگے کوہِ گراں کی کمر
پردۂ غفلت ہے جہاں کا طلسم
ٹوٹے کہیں گنجِ نہاں کا طلسم
بس کوئی شامی نہ عراقی رہے
تیرے سوا ایک نہ باقی رہے
(آفتاب کی طرف خطاب اور آفتاب پرستی کا عتاب)
اے حیرانِ ازل اے آفتاب!
کیوں ہے تو آوارۂ دیرِ خراب
دائرۂ دہر میں چلتا ہے تو
نائرۂ قہر میں چلتا ہے تو
سر ہے ترا گردشِ تقدیر میں
حلق ترا طوقِ گلو گیر میں
قلب ترا کیوں خفقانی کیا؟
چہرہ ترا کیوں یرقانی کیا؟
دکھ ترے پیکر کو برا لگ گیا
روز کی گردش کا کرا لگ گیا
صبح ازل کیوں تجھے بھولی ہے کیوں؟
آنکھ میں سرسوں تری پھولی ہے کیوں؟
وادیِ امکاں میں بھٹکتا ہے تو
گنبدِ گرداں میں لٹکتا ہے تو
تیری گلو گیر گلو ہے رسن
جانتی ہے چشم غلط بیں کرن
سر میں ترے درد ہے کیوں، کہہ تو دے
رنگ ترا زرد ہے کیوں کہہ تو دے
رات کو کیوں رہتے ہیں تیور بجھے
دن کو چڑھی رہتی ہے کیوں تپ تجھے
کس نے ترے مغز کو چکرا دیا
قلعۂ کہسار سے ٹکرا دیا
نیلے سمندر میں گراتے ہیں کیوں
بھول بھلیّاں میں پھراتے ہیں کیوں
صورت زدرق تہہ و بالا کیا
کون ڈبویا اور اچھالا کیا
دیتے ہیں تشہیر کہاں سے کہاں
روز لئے پھرتے ہیں کیوں موکشاں
سر کو ترے قطع کیا بے دریغ
لائے تھے کیوں تیرے لیے طشت و تیغ
بات نہ پوچھی تری کیا بات کیوں
جلنے لگا آگ میں دن رات کیوں
دشت میں تیرا کوئی ساتھی نہیں
چھاؤں میسر تجھے آتی نہیں
دھوپ میں دو پہر کو چلتا ہے کیوں
سایہ ترے سایہ سے جلتا ہے کیوں
گرم روِ عالم ایجاد ہے
بے وطن و بیکس و بے زاد ہے
کوچ کیا گردِ زمان و زمیں
اور نہ ملی منزلِ راحت کہیں
آنکھ اٹھاتا نہیں لیل و نہار
کہہ تو سہی کا ہے سے ہے شرمسار
گو بہت اونچی تری خرگاہ ہے
بندہ درِ ذرۂ درگاہ ہے
تاج دہِ تارکِ افلاک ہے
کس لیے جاروب کشِ خاک ہے
کہہ لبِ اظہار سے، اے آفتاب!
ہے ترے طالع میں کہاں کا عتاب؟
(آفتاب کا جواب اور گردشِ تقدیر کے اسباب)
میں نے کیا مہر سے جب یہ خطاب
مجھ کو دیا مہر نے تب یہ جواب
ہوں میں بلا دیدۂ جرمِ عوام
رکھتے ہیں اک جرم پہ سو اتہام
کوئی حقیقت سے نہیں بہرہ یاب
ذرہ ہوں میں جانتے ہیں آفتاب
کہنہ گرفتار، خیالاتِ خام
دہر میں کیا کیا مجھے رکھتے ہیں نام
کہتے ہیں کیخسروِ انجم مجھے
بادشہِ چرخِ چہارم مجھے
چشمۂ تہ جوش ہوں انوار کا
آئینہ ہوں جوہرِ آثار کا
ترک سوارِ فلکِ پیر ہوں
کارکنِ کشورِ تدبیر ہوں
دیدہ کشائے عسسِ شام ہوں
دودہِ زداے رخِ ایام ہوں
میں نے چمن کو صنمِ چیں کیا
سندسِ اشجار کو رنگیں کیا
ہاتھ میں ہے بوتۂ اکسیر گر
کان کے کونے میں بناتا ہوں زر
کی ہے رگِ سنگ میں تولیدِ خوں
لعل کو دی صورتِ یاقوت گوں
مجھ سے مطّرا رخِ افلاک ہے
مجھ سے مطلّا کرۂ خاک ہے
جملہ گہر ہیں، مرے لختِ جگر
جملہ ثمر ہیں، مرے نورِ نظر
میری تفِ قہر سے ڈرتے ہیں سب
شبنم و سیماب ٹھہرتے ہیں کب
مجھ سے چمکتی ہے مغاں کی شراب
مجھ سے جھلکتا ہے جہاں کا سراب
شرق سے تا غرب ہے میرا گزر
عرش سے تا فرش ہوں میں جلوہ گر
صیرفیِ دولتِ اقلیم ہوں
صیقلیِ چہرۂ تقویم ہوں
ناؤ نباتات کی کھیتا ہوں میں
رنگ، جمادات کو دیتا ہوں میں
آگ نہ رخسار گر اپنا جلائے
کون ثمر کس کو پکا کر کھلائے
گلشنِ ایجاد ہے زیرِ عمل
پھولتے پھلتے ہیں سبھی پھول پھل
پارسیوں کا ہوں مقدس خدا
برہمنوں کا ہوں مہا دیوتا
منھ پہ کہوں پھر مجھے کس کا حجاب
ذرہ ہوں میں جانتے ہیں آفتاب
(آفتاب کا اظہار اپنی فروتنی کا اقرار)
اتنی کہاں مجھ کو خبر ہوتی ہے
رات کدھر صبح کدھر ہوتی ہے
رنگ ہوں میں رنگ چھڑاتا ہے اور
آگ ہوں میں آگ جلاتا ہے اور
مجھ سے فروزاں ہے کہاں باغ و راغ
ہے مری قندیل میں قدرت چراغ
دور سے جل مجھ کو چڑھاتے ہیں لوگ
چشمہ ہوں میں تشنہ بناتے ہیں لوگ
زرد کبھی ہوں میں، کبھی سرخ فام
رنگ بدلتا ہے مرا صبح و شام
داغِ جبیں سے ہوئی حاصل نمود
مجھ سے کبھی ترک نہ ہو گا سجود
گھیرتے ہیں مجھ کو تو گھرتا ہوں میں
پھیرتے ہیں مجھ کو تو پھرتا ہوں میں
جلتی ہے خاطر جہلا کے لیے
کوئی کہے ان سے خدا کے لیے
ذرہ کجا، نیرِ اعظم کجا
بھول گئے قولِ براہیم کیا
فخر سے گردن کو کیا تھا بلند
پڑگئیلِما اَقُلَتْکیکمند
شیشۂ ادراک جو ہے چور چور
چشمۂ انصاف سے ہیں دور دور
تنگ نظر شکل صفت مور ہو
کور ہو تم، کور ہو تم، کور ہو
(ایک ہندو کی کہانی اور آفتاب پر تیر زبانی)
تھا کوئی ہندو چمنِ ناز میں
اس کو صبا لے گئی شیراز میں
تاکہ اتر جائے سفر کا تکان
شہر میں اترا کہیں لے کر مکان
نورِ حقیقی کا نہ لیتا تھا نام
تھا اسے خورشید پرستی سے کام
پردۂ چشمِ دل و دیں پارہ تھا
وادیِ تاریک میں آوارہ تھا
عقل تھی سورج کی طرح پھیر میں
دیر سے تھا جہل کے اندھیر میں
اتنے میں دکھ درد کی مورت ہوا
نرگسِ بیمار کی صورت ہوا
شہر وہ اسلام کا محکوم تھا
اور وہ اسلام سے محروم تھا
گر یہ و زاری میں گزرتی تھی رات
پوچھنے آتا نہ کوئی اس کی بات
دکھ میں کیا کرتا تھا فریاد بس
کوئی نہ تھا شہر میں فریاد رس
کہتا تھا پردیس کے پالے پڑے
تن کے سبب جان کے لالے پڑے
تار بچھونے کا بدن بن گیا
بلکہ بچھونے کی شکن بن گیا
بیکسیوں کا نہ گیا دکھ سہا
ایک مسلماں کو بلا کر کہا
عرض کیا بندۂ کافر ہوں میں
دیس سے بچھڑا ہوں مسافر ہوں میں
بے وطن و بے دل و بیمار ہوں
بیکس و بے یاور و بے یار ہوں
لعل و جواہر نہ طلا چاہیے
دردِ غریبی کی دوا چاہیے
تم کو خبر تک نہیں ہوتی ہے بس
شمعِ سحر تک مجھے روتی ہے بس
رسمِ وفا دہر سے کیا اٹھ گئی
ساحتِ شیراز سے کیا اٹھ گئی
نیک نہاد آپ میں کوئی نہیں
یا کوئی پابند نکوئی نہیں
دیتے نہیں راحتِ آوارگاں
کرتے نہیں چارۂ بے چارگاں
شرط نکوئی میں گر اسلام ہے
مذہبِ اسلام کا بس نام ہے
حصر گر ایماں پہ ہے تائید کا
رنگِ تعب میں کیا تقلید کا
رسم بزرگانِ طریقت ہے کیا
مہرِ مروت کی حقیقت ہے کیا
موجِ کرم غرب سے تا شرق ہو
کافر و مومن میں نہ کچھ فرق ہو
کلکِ زباں واں کی زبانی کہوں
سنئے میں قاضی کی کہانی کہوں
(قاضیِ اسلام کی حکایت اور اہلِ اسلام کی شکایت)
نصب تھا قاضی کوئی بغداد میں
نام تھا اس کا دہشِ داد میں
تھا چمنِ جود و کرم کا سحاب
آن کے اک گبر نے مانگی شراب
سنتے ہی قاضی اسے جھنجھلا گیا
شکلِ خمِ مئے اُسے جوش آگیا
اس سے لگا کہنے کہ اے بے شعور
گبر ہے تو مئے تجھے دوں گا ضرور
گبر نے کی عرض کہ اے دیں پناہ
آپ کہاتے ہیں سخی واہ واہ
میں نے اگر آپ سے مانگی شراب
مجھ پہ نہ فرمائیے حضرت عتاب
جس نے سخی نام رکھا آپ کا
سچ تو یہ ہے کام کیا پاپ کا
شیوۂ ایثار میں، اے حیلہ ساز!
کافر و دیندار میں کیا امتیاز
مومن و کافر پہ ہے لطفِ عمیم
ذات ہے اللہ کی سچ مچ کریم
طالبِ مَے ہوں کہ طلبگار آب
دے نہ سخی چاہیے سوکھا جواب
(مطلب کی طرف باز گشت اور ہندو کی سر گذشت)
ہندوِ مسکیں نے کہی جب یہ بات
مومنِ غمگیں نے کیا التفات
رو کے کہا زر کہ دوا چاہیے
بھائی بتا دے تجھے کیا چاہیے
کہنے لگا بے وطن و بے دیار
چاہیے بیمار کو بیمار دار
تو نے اگر میرا مداوا کیا
اور مجھے اللہ نے اچھا کیا
نام نہ لوں گا کبھی اصنام کا
کلمہ پڑھوں گا ترے اسلام کا
چھوٹ گیا تن اگر آزار سے
رشتہ نہ رکھوں گا میں زنار سے
خرمنِ خورشید جلا دوں گا سن
بلکہ کروں وید کو گنگا کا پن
فدیۂ ایمان کروں گا ضرور
گائے کو قربان کروں گا ضرور
پختگیاں ہو گئیں اس بات کی
خوب مسلماں نے مدارات کی
ہندوئے بیمار شفا پا گیا
بندۂ دیندار جزا پا گیا
ابر عنایت نے لیا گھیر اسے
غسلِ شفا میں نہ لگی دیر اسے
شافیِ علام نے اچھا کیا
وعدۂ اسلام کو پورا کیا
شرک سے نیت کو معرّا کیا
بتکدہ و بت پہ تبّرا کیا
شرم سے خور منھ کو چھپانے لگا
منھ پہ وہ خورشید کے آنے لگا
(آفتاب کی فضیحت اور آفتاب پرستوں کو نصیحت)
نام ترا مہر ہے، اے آفتاب!
جھوٹ کہ بے مہر ہے، اے آفتاب!
میں نے کہاں تیری عبادت نہ کی
تو نےکبھی میری عیادت نہ کی
میں نے کہاں تیری پرستش نہ کی
تو نے پرستار کی پرسش نہ کی
چشمہ ترا گر نہیں موجِ سراب
تشنہ لبوں کو کبھی دیتا ہے آب
میں نے کس ارمان سے پوجا تجھے
تو نے کبھی آن کے پوچھا مجھے
قمقمۂ عرشِ بریں تو نہیں
نور سموٰات و زمیں تو نہیں
ایک شرارہ ہے سو پا در ہوا
نیر اعظم کہیں اندھے تو کیا
بخت لڑے کیا ترے انوار کا
گھر ہے تجلی تری تکرار کا
دور ہے کوسوں ترے طالع سے نور
ناز ہے کیا کس لیے کھینچا ہے دور
پھیل گیا نیل غروب و کسوف
منھ نہ دکھا منھ نہ دکھا بے وقوف
فاش نہ ہو شعبدۂ دیو تا
غاشیہ کش تیرے کہیں دیوتا
دو حیواں تھے ترے پالے پڑے
دونوں کی بینائی کے لالے پڑے
دن کو خراب ایک تو شب بھر ہے ایک
شپرہ چشم ایک تو شپّر ہے ایک
دو ترے دشمن ہیں گہن اور گھٹا
شان تری دیتے ہیں دونوں گھٹا
ابخرۂ خاک سے تو مات ہے
خاک بڑی تیری کرامات ہے
آپ کو ہم پایۂ عیسیٰ کیا
ہم سے مریضوں کو نہ اچھا کیا
تیری اطاعت مجھے منظور ہو
دور ہو آگے سے مرے دور ہو
کہہ کے یہ بیچارہ فنا ہو گیا
نورِ حقیقی پہ فدا ہو گیا
تھا صفتِ ماہ منور تمام
خاتمہ با الخیرہواو السلام
(کتاب کا خاتمہ)
روک بیاں خامۂ جادو بیاں
آج ہے تو طوطیِ ہندوستاں
قدر گھٹی قحطِ خریدار سے
اٹھ گئے گاہک صفِ بازار سے
نوبتِ فریاد و فغاں آ گئی
باغِ فصاحت میں خزاں آ گئی
کترے ہوئے گل کوئی چنتا نہیں
نالۂ بلبل کوئی سنتا نہیں
صورتِ کلکِ دو زباں سر جھکا
شکر کہ اس نظم کا قصہ چکا
ہے یہ سب الطافِ سخن آفریں
تجھ کو لگا کہنے سخن آفریں
لاکھ نئے کلک نے نالے کئے
تو نے ورق سیکڑوں کالے کئے
دے گی ضرور اس کی عنایت پناہ
ورنہ کہاں جائیں گے لے کر گناہ
زور گیا گر یہ و زاری ہے اب
رحمتِ باری تری باری ہے اب
چلتی رہے بادِ بہارِ قبول
کیجو نہ باسی مرے گلشن کے پھول
ہوں نہ تہی گنبدِ گردونِ دوں
نالہ رہے میں نہ رہوں یا رہوں
***
تضمینات
(۱)
تضمین بر غزل عظیمائے نیشا پوری
کس چہ داند حسن باعشقِ بلا پر ورچہ گفت
با نیازِ عاشقاں نازِ بتِ خود سرچہ گفت
قصۂ من گوش کن کاں شوخ غار تگرچہ گفت
قاصد آمد گفتمش آں ماہِ سیمیں برچہ گفت
گفت با ہجرم بسازد گفتمش دیگرچہ گفت
بولا قاصد غم سے گر ہونے لگے حالت زبوں
صبر ہاتھوں سے نہ دے میں نے کہا پھر کیا کروں
ضبطِ غم سے پاؤں پھیلائے اگر جوشِ جنوں
گفت دیگر با زجدِّ خویش نگذارد بروں
گفتمش جمع است ازپا خاطرم از سرچہ گفت
سر کو وہ کہنے لگا کردے مرے در کے سپرد
خواہ سر ہو ریز ریز اور خواہ تن ہو خوردو مرد
میں نے پوچھا کیا سبب کیوں سرپر اتنی دست برد
گفت سررا بایدش از خاکِ رہ کمتر شمرد
گفتمش کمتر شمردم زیں تنِ لاغرچہ گفت
بولا قاصد سرفروشی کی تو تن بھی کر فروخت
گو وہ کردے چاک چاک اس جامۂ خاکی کی دوخت
من کہ بردم نام جسمت در دہن تیری بسوخت
گفت جسم لاغرش را ا زغضب خواہیم سوخت
گفتمش من سوختم در بابِ خاکسترچہ گفت
کاوش اتنی کیوں ہے قاصد نے کہا اے نامراد
راکھ جل بھن کر ہوا پھر تجھ کو کیا امید داد
سن کے خاکستر کو آندھی ہو گیا وہ شعلہ زاد
گفت خاکستر چو گردد خواہشِ برباد داد
گفتمش برباد رفتم در حقِ محشرچہ گفت
ہاں وہ کہتا ہے کہا میں نے کہ اے بے مہر و درد
کی اڑا کر تو نے خاکستر بھی اس کی گردبرد
اور جو پہنچی عرصۂ محشر تک اڑ کر اس کی گرد
گفت در محشر بیکدم زندہ اش خواہیم کرد
گفتمش من زندہ کردی یم زخیر و شرچہ گفت
کھلکھلا کر پھر تو قاصد نے کیا مجھ سے خطاب
باوجودِ عشقِ صادق غافل اتنا اضطراب
خیر کس کی شر کہاں کی کیا حساب اور کیا کتاب
گفت خیر و شر نہ باشد عاشقاں رادر حساب
گفتمش ایں ہم حسابے از لب کوثرچہ گفت
بولا قاصد پڑ گئی ہے پوچھنے کی تجھ کو لت
آبِ کوثر بھی نہیں کیا خونِ عاشق کی دیت
میں نے خود چھیڑا تھا ذکر کوثرِ صافی صفت
گفت با ما بر لبِ کوثر نشیند عاقبت
گفتمش گر عاقبت ایں است زیں خوشترچہ گفت
سن کے تکرار بیاں جھنجھلا اٹھا قاصد ندیم
تھی مگر مستسقیِ دلدار کیا جانِ دو نیم
پھر کہا کچھ اور کہہ اے چشمۂ لطفِ عمیم
گفت دیگر بر نتابد بردلش بارِ عظیم
گفتمش دیگر بگو گفتا مگو دیگرچہ گفت
(۲)
تصمین بر غزل ناسخ لکھنوی
مرا دیدہ ہے منبع آدمِ ثانی کے طوفاں کا
مرا پہلو ہے مشہد کشتۂ امید و ارماں کا
مرا حلقوم ہے مغرب ہلالِ تیغِ برّاں کا
مرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغِ ہجراں کا
طلوعِ صبحِ محشر چاک ہے میرے گریباں کا
بہم تا جنس جو ہیں کب وہ پیار آپس میں رکھتے ہیں
برنگِ آدم و شیطاں غبار آپس میں رکھتے ہیں
جناں کی کاوشیں ہیں خار خار آپس میں رکھتے ہیں
ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں
دلِ پُر داغ کو کیوں کر ہے عشق اس زلفِ پیچاں کا
لگی ہے آگ سی چاروں طرف جنگل بھبوکا ہے
شعاعِ مہر سبزہ کی طرح گوشوں سے پیدا ہے
افق کا دائرہ اے قیس اپنا دورِ صحرا ہے
کسی خورشید رو کو جذبِ دل نے آج کھینچا ہے
کہ نورِ صبحِ صادق ہے غبار اپنے بیاباں کا
لہو کھاتے ہیں شعلے پھانکتے ہیں جان کھوتے ہیں
مرے گل کھانے پر شبنم سے باغ و راغ روتے ہیں
شرر والے زمینِ دل میں کیا کیا بیج بوتے ہیں
شگفتہ مثلِ گل ہر فصلِ گل میں داغ ہوتے ہیں
بنا ہے کیا ہمارا کالبد خاکِ گلستاں کا
حریرِ آسماں قامت پہ میرے تنگ آیا ہے
سما میں کیا سماؤں لعل تاجِ عرش پایا ہے
قیامت اس کا قامت مہرِ محشر اس کا سایا ہے
وہ شوخِ فتنہ انگیز اپنی خاطر میں سمایا ہے
کہ اک گوشہ ہے صحرائے قیامت جس کے داماں کا
الٰہی کس نے بے دردی خمِ افلاک میں بھر دی
شبِ غم گر کسی عاشق کے منہ پر چھا گئی زردی
سحر کہتا ہے اس کو اک زمانہ ہائے نامردی
شفق سمجھا ہے اس کو ایک عالم وائے بیدردی
فلک کو گر بگولہ جا لگا خاکِ شہیداں کا
سنا کر گل کو بلبل نے کہا ایامِ باراں میں
کسی گل پیرہن کا وصل ہو فصلِ بہاراں میں
پکاری شمع رو رو کر یہ بزم غم گساراں میں
چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابرِ باراں میں
تصور چاہیے رونے میں اس کے روئے خنداں کا
میں اس عالم میں کیا تھا کیا برا ہوں کنجِ مرقد میں
کیا نقلِ مکاں تو کیا بھلا ہوں کنجِ مرقد میں
وہی دکھ وہ ہی حیرت لے گیا ہوں کنجِ مرقد میں
کفن کی جب سپیدی دیکھتا ہوں کنجِ مرقد میں
تو عالم یاد آتا ہے شبِ مہتابِ ہجراں کا
کمیں سے ناوک افگن تھا سرِ میدانِ نیکوئی
چھپاتے بیمِ رسوائی سے کل دکھ دردِ جاں کھوئی
بھرے کس طرح ٹانکا کیا کرے جراح دلجوئی
نظر آتا نہیں مرہم لگائے کس طرح کوئی
دہانِ یار گویا منہ ہے میرے زخمِ پنہاں کا
بٹھایا طاقِ افریدوں نے یادِ طاق ابرو نے
چکھایا ساغرِ جمشید اس کے لعلِ خوشبو نے
موئی پر پائے کیا معراج اس مورِ سر کونے
دیا میرے جنازے کو جو کاندھا اس پری رونے
گماں تھا تختۂ تابوت پر تختِ سلیماں کا
کسی دامن سے گو کوتاہ ہے دست طلب اپنا
دکھائے پاٹ دامن کا عبث ماتم کی شب اپنا
فرشتے کل تماشہ دیکھتے تھے سب کے سب اپنا
جنوں نے ہجر کی شب ہاتھ دوڑایا ہے جب اپنا
کیا ہے چاک تا جیب سحر اپنے بیاباں کا
کبھی ہم بھی تھے گلزارِ جہاں میں اے گلِ احمر
کہیں کیا ماجرائے چشم و رودادِ رخِ اصغر
فروغِ عارضی سے بھی بدل جاتا ہے کیں پرور
جو سرخی آتی ہے عکسِ شفق سے بھی مرے منہ پر
حسد سے رنگ ہوتا ہے مبدّل چرخِ گرداں کا
پناہِ تاج و گاہِ کشورِ معنیٰ سمجھتے ہیں
دوات اک کوسِ شاہی ہے قلم ڈنکا سمجھتے ہیں
درِ درگاہِ دل پر شیر کا پھیرا سمجھتے ہیں
صریر کلک کو اب شیر کا نعرا سمجھتے ہیں
یقیں اعدا کو ہے میرے قلمداں پر نیستاں کا
مسافر تھا میں وحدت کا سدا کثرت سے گھبرایا
نہ عیسیٰ کا ہوا ہمدم نہ میں سورج کا ہم سایا
کفِ گلچیں مرے گل کے گریباں تک نہیں آیا
کسی سے دل نہ اس وحشت سرا میں میں نے اٹکایا
نہ الجھا خار سے دامن کبھی میرے گریباں کا
بیاں سر حلقۂ عشاق تھا قلاش تھا ناسخ
سزائے آفریں شائستۂ شاباش تھا ناسخ
خیال ابروئے بت میں زبس ہشاش تھا ناسخ
تہہِ شمشیرِ قاتل کس قدر بشاش تھا ناسخ
کہ عالم ہر دہانِ زخم پر ہے روئے خنداں کا
(۳)
تضمین بر غزلِ خود
بات پھوٹی ہے چمن میں مرے مرجھانے کی
اڑی پرنوں کی طرح پرزوں کے اڑوانے کی
عرقِ شرم سے لکھی نہیں دھو جانے کی
تہمتِ قتل مٹانے سے نہیں جانے کی
خونِ ناحق مرا سرخی ہے ہر افسانے کی
نہ ہوئیں شربتِ دیدار سے آنکھیں سیراب
سامنے آن کے بیٹھے بھی تو اٹّھا نہ حجاب
زلفیں دلّالِ صبا نے جو اٹھا دیں تو شتاب
جلوہ سے ڈال دیا چشمِ تماشا پہ نقاب
یہ نئی وضع ہے ظالم ترے شرما نے کی
تم تو وہ شعلۂ سوزاں ہو کہ کیا ہوئے گی شمع
ہاتھ پروانے سے کیا گریہ سے منہ دھوئے گی شمع
سوگ بے سود ہے کیا پائیگی، جاں کھوئی گی شمع
اب مجھے کھو کے نہ روؤ کہ اگر روئے گی شمع
جان پڑ جائیگی کیا راکھ میں پروانے کی
یم میں طوفان چلے آتے ہیں کیا جوشیدہ
ابھی جاری ہے کوئی دیدۂ محنت دیدہ
کیوں کہیں کوہکن و قیس گئے رنجیدہ
آندھیاں آتی ہیں ہر سال کوئی شوریدہ
خاک اڑاتا ہے ابھی تک کسی ویرانے کی
نعمتیں کھائیں مگر غم کے سوا کچھ نہ بچا
تن بدن آتشِ سوزاں نے جلا خاک کیا
ہائے کس سوختہ ساماں کا میں مہمان ہوا
ہڈیاں راکھ میں ڈھونڈے نہ ملیں تجھ کو ہما
شکوہ مت کیجو کہ خو تھی مجھے غم کھانے کی
نعشِ عشاق پہ گزری ہے قیامت مت پوچھ
تجھ کو نے سوگ، نہ سوزش، نہ ندامت مت پوچھ
سارے معشوقوں سے الٹی ہے تری مت مت پوچھ
اثرِ سوزشِ تاثیرِ محبت مت پوچھ
ہو گئی شمع ستی آگ میں پروانے کی
گوش زد شورشِ مستانِ محبت ہے کہاں
دیکھ تو تلخیِ صہبا کی سی لذّت ہے کہاں
وقت ہاتھوں سے نہ کھو عیش کو مہلت ہے کہاں
واعظا نوش بھی کر شورِ قیامت ہے کہاں
ہے یہ آواز کسی مست کے برّانے کی
کیا برا کرتے ہیں کیوں آٹھ پہر ہے واعظ
بُت پرستی پہ ہماری تو نظر ہے واعظ
اپنے اللہ کے گھر کی بھی خبر ہے واعظ
سنگِ اسود ہے حرم میں، مجھے ڈر ہے واعظ
کہیں پڑ جائے نہ بنیاد صنم خانے کی
تر زباں فیضِ الٰہی کی بدولت تھا میں
نقشِ رنگینیِ صنعِ یدِ قدرت تھا میں
قدس میں مرغِ شب آہنگِ حقیقت تھا میں
چمنِ دہر میں اک باغِ فصاحت تھا میں
لیکن اے چرخ نہ تھی فصل ابھی مرجھانے کی
آگیا وقت بلا لے گئی اچھوں کو فنا
نیکیاں پردہ نشیں عیب ہوئے جلوہ نما
تو نے دیکھا ہے زمانہ مجھے تحقیق بتا
اے بیاں صفحۂ ہستی سے اٹھے نیک و یا
مجھ ہی بدبخت سے کوئی نہیں کرتا نیکی
(ماہنامہ مخزن ، لاہور، اپریل ۱۹۰۸ء)
(۴)
تضمین بر غزل مرزا غالب
پھرکی ہے کہ ہے گنبدِ مینا مرے آگے
نیرنگِ مہہ و مہر ہے کیا کیا مرے آگے
وہ مہرۂ بازیچہ ہیں گویا مرے آگے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اِک بلبلہ ہے گنبدِ گرداں مرے نزدیک
اک لہر ہے انگیزشِ امکاں مرے نزدیک
اک سحر ہے نیرنگِ بہاراں مرے نزدیک
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
جز باد نہیں کوکبۂ جم مجھے منظور
جز سایہ نہیں نیرِّ اعظم مجھے منظور
جز گرد نہیں گردۂ آدم مجھے منظور
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیِ اشیا مرے آگے
کھولے ہے کمر کوہِ قوی پا مرے ہوتے
سر نخل سے ٹکرائے ہے نکبا مرے ہوتے
کچھ قیس ہی پنہاں نہیں ہوتا مرے ہوتے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
آوارہ ہوں گردِ قدم آسا ترے پیچھے
ہم رنگِ سرِ زلف ہے سودا ترے پیچھے
کیا کہیے گزر جاتی ہے کیا کیا ترے پیچھے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
طوطی کی روش زمزمہ پیرا ہوں نہ کیوں ہوں
مشہود بھی، شاہد بھی ہوں اچھا ہوں نہ کیوں ہوں
سرتا بقدم دیدۂ بینا ہوں نہ کیوں ہوں
سچ کہتے ہو خودبین و خودآرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بتِ آئینہ سیما مرے آگے
کیا سر و جبیں، سرمہ، گلو دیکھتے ہیں یار
شیشے میں پری ہو تو پری خواں ہو نمودار
آگے ہو گلِ سرخ تو بلبل ہو گہر بار
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
مسجد سے سوئے دیر لو کھینچے ہے مجھے کفر
کھنچتا تھا بہت دور سو کھینچے ہے مجھے کفر
زاہد مجھے ٹوکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عالم میں سلیمان پری کش ہے مرا نام
میرے لیے آوارہ ہوئے کعبہ سے اصنام
بلبل مرے گل دام میں، ہیں لاکھ گل اندام
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
کھا بازیِ ایامِ مقرر نہیں جاتے
عیشِ غلط انداز کے اوپر نہیں جاتے
اربابِ سکوں آپ سے باہر نہیں جاتے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شبِ ہجراں کی تمنا مرے آگے
جاں دینی بدیدارِ قدح سنتِ جم ہے
کچھ ہو نفسِ باز پسیں وقتِ کرم ہے
٭٭٭
مصنف کی اجازت سے
ان پیج سے تبدیلی، تدوین، اور برقی کتاب کی تشکیل: اعجاز عبید