FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دھُوپ کے پگھلنے تک

 

حصہ دوم

 

               امجد جاوید

 

 

 

 

 

 

 

 

رات کا اندھیرا کافی گہرا ہو گیا تھا۔ سراج کے ڈیرے پر کچے کمرے میں دیّا روشن تھا۔ سراج کمرے کے باہر بڑے اضطراب سے ٹہل رہا تھا۔ وہ بار بار اپنی ریسٹ واچ پر دیکھتا اور پھر گہرے اندھیرے میں دیکھنے لگتا تھا۔ اچانک ایک طرف اس نے اپنی نگاہیں جما دیں۔ بڑے سے آنچل سے منہ چھپائے ایک لڑکی فصلوں کے درمیان بنے راستے پر محتاط انداز میں چلی آ رہی تھی۔ سراج ایک دم سے محتاط ہو گیا۔ لمحہ بہ لمحہ وہ لڑکی قریب ہوتے ہوئے ڈیرے پر آ گئی۔ اس نے آنچل ہٹایا۔ وہ حویلی کی ملازمہ رانی تھی۔ وہ سراج کے ساتھ فوراً ہی کچے کمرے میں چلی گئی۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوف زدہ تھی۔

’’بہت دیر کر دی رانی تم نے، اتنے دن ہو گئے مجھے آئے ہوئے۔ آج وقت ملا ہے تمہیں ؟ ‘‘ سراج نے شکوہ بھرے لہجے میں کہا تو رانی نے خوف زدہ لہجے میں گلہ کرتے ہوئے کہا

’’میں نے دیر کر دی؟اپنا پتہ ہی نہیں۔ اتنی دیر بعد آئے ہو شہر سے۔ مجھے تو لگتا ہے تم ہی دیر کر دو گے اور مجھے کوئی اور لے جائے گا۔ ‘‘

’’کیسی باتیں کر رہی ہو تم؟‘‘ سراج نے چونکتے ہوئے کہا تو رانی غصے میں بولی

’’ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ دو دن پہلے پار گاؤں سے آئے تھے مجھے دیکھنے کے لئے۔ اماں بتا رہی تھی کہ انہیں رشتہ پسند آ گیا ہے۔ اب انہوں نے منگنی کر دی تو۔۔۔پھر کوئی اور ہی لے جائے گا نا مجھے۔ ‘‘

’’میرے سوا تجھے کوئی نہیں لے جا سکتا۔ یہ امین والا معاملہ نہ آ جاتا نا۔ تو اگلے مہینے میں نے خود آ جانا تھا تاکہ تیرے والدین سے تیرا رشتہ مانگ سکوں۔ ‘‘ سراج نے تلخی سے کہا

’’یہی تو وجہ ہے کہ میں تجھے اتنے دن ہو گئے ملنے نہیں آ سکی۔ اب جو حالات بن گئے ہیں ، ان میں اگر حویلی والوں کو شک بھی ہو گیا تو پھر میری خیر نہیں ہے۔ ‘‘ رانی نے خوف زدہ لہجے میں کہا

’’تُو کیا اُن کی کوئی زر خرید ہے۔ چھوڑ دے نوکری ان کی اور اپنے گھر بیٹھ۔ میں بھیجتا ہوں اپنے والدین کو تمہارے گھر۔ ‘‘ سراج نے کہا

’’میں نے بات کی تھی اپنی ماں سے، وہ تو راضی ہے۔ انہیں تیرا جیسا داماد کہاں سے ملے گا، پر ابا شاید راضی نہ ہو۔ وہ غیر برادری میں رشتہ نہیں کرے گا۔ ‘‘ رانی نے بتایا توسراج نے سکون سے پوچھا

’’یہ تیرا بھی دل چاہتا ہے یا۔۔۔؟‘‘

’’مجھ پر شک نہ کرو سراج۔ میں نے تجھے اپنا دل دیا ہے۔ میں تجھے نہیں بھول سکتی۔ مگر یہ ذات پات کی رکاوٹیں ، امیری، غریبی، اب تو یہ حویلی والے مخالفت کریں گے۔ ‘‘ رانی نے بھی غصے میں کہا تو سراج بولا

’’تو ساری دنیا کو چھوڑ، اپنی بتا تُو کیا چاہتی ہے ؟یہ بات یاد رکھنا، میں نے چوہدریوں سے بدلہ ضرور لینا ہے۔ ‘‘

’’میں آج بھی تیری ہوں اور کل بھی تیری تھی۔ اب سارا معاملہ تجھ پر ہے۔ ‘‘ وہ حتمی لہجے میں بولی

’’تو بس پھر میرا یقین کر، میں تجھے کسی اور کی نہیں ہونے دوں گا۔ چاہے جو بھی مخالفت کرے۔ آ بیٹھ، دیکھ میں تیرے لئے کیا کچھ لایا ہوں اور تو سنا میرے بغیر تیرے دن کیسے گذرے۔ ‘‘ سراج نے خمار آلود لہجے میں کہا تورانی اس کی طرف دیکھ کر شرماتے ہوئے خود میں سمٹ گئی۔ تبھی وہ مسکرا دیا۔ وہ دونوں باتوں میں کھو گئے۔

٭٭

 

دن کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ سورج خاصا چڑھ آیا تھا۔ سلمٰی گھر کے سارے کام سمیٹ کر دالان میں آ کر بیٹھی ہی تھی کہ گیٹ پردستک ہوئی۔ وہ مخصوص دستک تھی، جس کے ساتھ ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ اٹھ کر تیزی سے گیٹ کی طرف گئی اور اسے کھول دیا۔ سامنے فہد کھڑا تھا۔ وہ ایک طرف ہو گئی تاکہ وہ گھر کے اندر آسکے، تبھی فہد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا

’’استاد جی نہیں آئے ابھی تک؟‘‘

’’نہیں ، نماز پڑھنے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ ابھی تک واپس نہیں آئے۔ آج تو ضرورت سے زیادہ ہی انہیں دیر ہو گئی ہے۔ ‘‘ اس نے بتایا تو فہد نے پلٹتے ہوئے کہا

’’اچھا ٹھیک ہے، میں پھر آتا ہوں۔ تب تک استاد جی بھی آ جائیں گے۔ ‘‘

تبھی سلمٰی نے جلدی سے کہا

’’آپ نے ناشتہ نہیں کرنا۔۔۔آپ بیٹھیں ، ابا جی ابھی آتے ہی ہوں گے۔ اور میں آپ سے ایک بات بھی کہنا چاہ رہی ہوں۔ آپ بیٹھیں نا۔ ‘‘

فہد نے اس کی جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے آگے بڑھا اور گیٹ پار کر کے صحن میں پڑی کرسی پر جا بیٹھا۔ اتنے میں سلمی بھی گیٹ بند کر کے آ گئی۔ وہ پاس بیٹھی تو فہد نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا

’’بولو۔ !کیا بات کہنا چاہتی ہو۔ ‘‘

’’فہد۔ !کیا آپ نہیں جانتے۔ یہاں رہتے ہوئے آپ کسی بھی خطرناک صورت حال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی دشمن، کسی بھی وقت آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ‘‘ سلمی نے سمجھانے والے انداز میں کہا تو فہد مسکرا دیا اور پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا

’’سلمٰی۔ !میں نے اس آگ میں کودنے سے پہلے بہت کچھ سوچا ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک یہی کچھ تو سوچ رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے۔ ‘‘

’’مگر۔ !سوچ اور حقیقت میں بڑا فرق ہے۔ ہم سوچتے اپنی مرضی سے ہیں۔ فتح اور شکست کا تعین بھی خود کرتے ہیں لیکن، حقیقت اٹل ہوتی ہے۔ وہ ہماری دسترس میں نہیں ہے۔ محض سوچ لینے سے حالات کو نہیں بدلا جا سکتا۔ یہ نہیں سوچا آپ نے؟‘‘ اس نے پوچھا

’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ حالات کو بدلنے کے لئے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ارادہ کر لیا جائے، تب حالات بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ فہد نے مسکراتے ہوئے کہا

’’آپ اکیلے، میرا مطلب ہے، یہ کس طرح ممکن ہو گا۔ ایک طرف آپ اکیلے اور دوسری جانب ان حویلی والوں کے اتنے لوگ؟‘‘ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا

’’میں خود کو تنہا سمجھ کر ہی یہاں آیا ہوں۔ میں نے تو کسی کا سہارا لینے کے بارے میں بھی نہیں سوچا۔ ہاں۔ ! اگر تم گھبرانے کی بجائے مجھے یقین دو کہ مجھے حوصلہ دینے والے میرے اپنے اسی گاؤں میں ہیں تو۔۔۔‘‘ اس نے پرسکون لہجے میں کہا توسلمٰی نے چونک کر حیرت سے اسے دیکھا پھر دھیمے سے لہجے میں بولی

’’کون اپنے؟‘‘

’’تم ۔۔۔اور کون؟‘‘ فہد نے اعتماد سے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو جیسے سلمی کی سماعتوں کو یقین نہیں آیا۔

’’کیا کہا آپ نے، میں سمجھی نہیں۔ ‘‘اس نے دوبارہ پوچھا

’’ہاں سلمٰی، تم میری اپنی ہو۔ کیا بچپن کی یادیں فقط تمہیں ہی یاد ہیں ، مجھے نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں بھول سکا ہوں آج تک۔۔۔جہاں خود پر ٹوٹنے والی قیامتیں یاد ہیں۔ وہاں میں ان لمحوں کو بھی سینے سے لگائے پھرتا ہوں۔ جو اسی آنگن میں کھیلتے ہوئے گذرے ہیں۔ ‘‘ اس نے بڑے ہی اعتماد سے کہاسلمٰی کتنے ہی لمحے ان لفظوں کو سمجھنے کی کوشش میں ساکت رہی، پھر ایک دم سے بولی

’’میں ۔۔۔میں ۔۔۔ وہ، آپ کے لئے چائے لے آؤں ۔۔۔میں ۔۔۔وہ چائے۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ گھبراہٹ اور شرماتے ہوئے تیزی سے اندر کی جانب چلی گئی۔ فہد اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ فہد ناشتہ کر کے آیا تھا۔ اسے چائے کی اتنی طلب بھی نہیں تھی۔ اسے احساس تھا کہ جب تک استاد جی نہیں آئے وہ کچن سے باہر نہیں نکلے گی۔ سو وہ اٹھ کر باہر نکلتا چلا گیا۔ اس کا رخ چھاکے کے گھر کی طرف تھا۔

چاچا سوہنا صحن میں بچھی چارپائی پر پڑا جذب کے ساتھ کافی کے بول گا رہا تھا۔

جس پلّے پُل بدّے ہوون آوے باس رومالوں

درد منداں دے سخن محمدؔدِین گواہی حالوں۔

(جس رومال میں پھول باندھے ہوئے ہوں ، اس رومال سے بھی خوشبو آتی ہے۔ اور جو درد مند دل ہوتے ہیں ان کی گواہی ان کی باتوں سے عیاں ہو جاتی ہے۔ )

چاچا سوہنا گا رہا تھا کہ اتنے میں چھاکے کا مرغا اس کے قریب آ کر اونچی آواز میں بول پڑا۔ اس نے خاموش ہو کر مرغے کو دیکھا اور پھر جیسے ہی گانے لگا، مرغا یوں بول دیا جیسے چاچے کا گانا اسے اچھا نہ لگ رہا ہو۔ اس نے چونک کر مرغے کی طرف دیکھا، صورت حال یہ بن گئی کہ چاچا سوہنا جیسے ہی گا تا ہے مرغا بول پڑتا، جیسے مرغا اسے گانے نہ دے رہا ہو۔ چاچے کو غصہ چڑھ گیا۔ وہ مرغے کو مخاطب کر کے کہنے لگا

’’مجھے اب پتہ چلا ہے کہ تو ہی میرا اصل میں دشمن ہے۔ آج میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ نہیں چھوڑوں گا تجھے۔ آج تیری میرے ہاتھ سے لکھی گئی ہے تو نے ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور مرغے کے پیچھے لگ گیا۔ جواسے دیکھتے ہی بھاگ گیا۔ اسے قابو کرنے کی کوشش میں چاچے کا سانس چڑھ گیا۔ وہ حالوں بے حال ہو گیا۔ اس دوران چھاکا گھر کے اندر سے باہر آیا تو یہ صور ت حال دیکھ کر چونک گیا۔ چاچا مرغے کے پیچھے بھاگتے ہوئے زور زور سے کہہ رہا تھا

’’نہیں چھوڑوں گا تجھے، آج تیری میرے ہاتھ سے لکھی گئی ہے۔ ‘‘

آخر چاچے نے مرغے کو پکڑ لیا تو چھاکے کے منہ سے بے ساختہ نکلا

’’ او مر گیا شہزادہ۔۔۔اوئے ابا، یہ ظلم نہ کر، نہ مار میرے شہزادے کو۔ تجھے تیرے کسی پرانے عشق کا واسطہ۔ ‘‘

’’میں اس کا رُولا آج ختم ہی کر دوں گا۔ تُو چھری لا۔ ‘‘ چاچے نے انتہائی غصے میں کہا ہی تھا کہ اتنے میں باہر کا ر کا ہارن بجا۔ تبھی چھاکے نے زور سے کہا

’’باہر فہد ہو گا۔ مجھے لینے آیا ہے، دیکھ ابا تُو چھوڑ دے میرے شہزادے کو۔ ‘‘

چاچے نے ایک لمحے کو سوچا اور مرغے کو وہیں چھوڑ کر باہر کی طرف لپک گیا۔ تبھی چھاکا نے مرغے کو مخاطب کر کے کہا

’’ اوئے بندہ بن، ابے کو تنگ نہ کیا کر۔ ‘‘

مرغا یوں بولا جیسے سمجھ گیا ہو تو چھاکا اسے چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ باہر فہد کار میں تھا۔ چاچا اس کے پاس کھڑا حال احوال پوچھ رہا تھا۔ چھاکا کار میں بیٹھا تو کار چل دی۔

فہد نے اپنے گھرکے سامنے کار روکی اور چھاکے کے ساتھ اندر چلا گیا۔ صحن میں چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں ، جن پر سراج یوں بیٹھا ہوا تھا، جیسے ان کے انتظار میں ہو۔ علیک سلیک کے بعد یونہی گپ شپ کرنے لگے۔ تب اچانک سراج نے فہد سے پوچھا

’’یار۔ !ایک بات بتا۔ اس دن بھی تو ٹال گیا تھا۔ ‘‘

’’پوچھ، کیا پوچھنا چاہتا ہے۔ ‘‘ فہد نے مسکراتے ہوئے کیا تو اس نے پوچھا

’’ لاہور میں اتنا اچھا مستقبل چھوڑ کر تم اتنی دور یہاں آ گئے ہو۔ صرف چوہدری سے اپنا انتقا م لینے کے لئے؟‘‘

’’انتقام۔ !نہیں ، میں نے چوہدری سے انتقام ہی لینا ہوتا نا تو میں وہیں رہ کر اپنی مرضی سے اسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔ میں یہاں تبدیلی چاہتا ہوں۔ اس کا یقین تمہیں آئندہ آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا۔ ‘‘

’’کیوں ، تم کیوں چاہتے ہو تبدیلی؟‘‘ چھاکے نے پوچھا

’’میں نے اپنے ساتھ ایک وعدہ کیا ہے۔ یہاں آ کر میں نے اپنی ذات کا ہی نہیں ، اس مٹی کا قرض بھی ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے فہد کے لہجے میں ایک ایسا عزم چھلک رہا تھا، جس میں طوفان پوشیدہ تھا، سراج نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، پھر بولا

’’مٹی کا قرض چکانے کے لئے تو مٹی ہونا پڑتا ہے۔ پر یہ ہو گا کیسے؟‘‘ سراج نے کہا

’’ میں فرعونیت کا راج توڑنا چاہتا ہوں۔ چوہدری نے جو یہاں خوف طاری کر رکھا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تم نہیں چاہتے ہو؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’کیوں نہیں فہد۔ !میرا بھائی امین۔ ان کے ظلم کا شکار ہوا۔ حوالات، رسوائی، مار پیٹ، بے عزتی۔ میرے بھائی نے چوہدری کے لئے جھوٹی گواہی نہیں دی تھی۔ یہ جرم اسے لے ڈوبا۔ وہ ذہنی مریض بن چکا ہے۔ میں چوہدری کو کیسے معاف کر سکتا ہوں۔ ‘‘

’’سراج۔ !خوف کی اس فضا میں ، لوگ چاہیں زبان سے کچھ نہ کہیں۔ مگر ان کے دلوں میں وہی سب کچھ ہے جو تم چاہتے ہو۔ وہ سوچتے بھی ہیں۔ لیکن انہیں راستہ نہیں ملتا۔ انہیں شعور نہیں کہ وہ اپنے جذبات کی اظہار کیسے کریں۔ اس کے لئے مجھے تم جیسے دلیر لوگوں کی ضرورت ہے۔ کاندھے سے کاندھا ملانا ہو گا۔ ‘‘ فہد نے پر جوش انداز میں کہا تو چھاکے نے تیزی سے پوچھا

’’پر تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’یہی کہ ہمارے ذمے جو کام ہے۔ ہمیں وہ کرنا ہے، جنہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے نہیں کیا اسی لئے تو چوہدری جیسے لوگ وسائل پر قابض ہو گئے ہیں۔ ‘‘فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

‘‘ہاں یہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ چوہدری جیسے لوگ ہم غریبوں کے ذریعے ہی غریبوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ‘‘چھاکا اپنا سر ہلاتے ہوئے بولا

’’دیکھو۔ !یہ لوگ اپنی حکمرانی اور دولت میں اضافے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام پِس رہی ہے۔ وہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ محض اپنی لا علمی میں ان لٹیروں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ کیا غریب کی اپنی بقا کے لئے کچھ نہیں کرنا چاہئے؟‘‘ فہد نے دکھ سے کہا

’’تمہاری بات دل کو لگتی ہے فہد۔ مگر الجھن وہی ہے، یہ ہو گا کیسے؟‘‘سراج نے الجھتے ہوئے کہا

’’یہی تو لوگوں کو سمجھانا ہے کہ وہ اپنی ذات کا احساس کریں۔ لوہے کو کاٹنا ہے۔ تو لوہا بننا ہو گا۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’یہ بھی تو ذہن میں رکھو نا۔ تم یہاں کی عوام کا مزاج اتنی جلدی نہیں بدل سکو گے۔ وہ تمہاری بات کیوں سنیں گے۔ ‘‘ سراج نے تیزی سے کہا تو فہد نے سمجھایا

’’میں دیکھ چکا ہوں۔ یہاں کی عوام میں چوہدری کے خلاف نفرت ہے۔ اس کی دہشت سے لوگ ڈر جاتے ہیں۔ اب دیکھو۔ ! اس گھر سے میرا جذباتی تعلق ہے تو میں نے یہ گھر لے لیا۔ میں نہیں ڈرا۔ اب زمین چوہدری خود دے گا۔ عوام پر یہی ثابت کرنا ہے کہ طاقتور چوہدری نہیں بلکہ خود عوام ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو فہد۔ !میں تو چوہدری سے نفرت کرتا ہوں۔ اس لئے میں تو تمہارا ساتھ دوں گا۔ ‘‘سراج نے حتمی لہجے میں کہا تو فہد پر جوش لہجے میں بولا

’’بس مجھے یہی حوصلہ چاہئے۔ دیکھنا۔ !عوام کا مزاج ہی نہیں۔ یہاں سب کچھ بدل جائے گا۔ آؤ چلتے ہیں۔ گاؤں میں بہت سارے لوگوں سے ملنا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا تو وہ دونوں بھی اٹھتے چلے گئے۔

٭٭

 

حویلی کے سرسبز لان میں خوشگواریت پھیلی ہوئی تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ ایسے میں چوہدری جلال اندر سے باہر لان میں آ گیا، جہاں منشی فضل دین پہلے ہی موجود تھا۔ چوہدری پر سکون ساآ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد اس نے منشی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’اوئے منشی۔ ! گاؤں میں ایک لڑکے نے اتنا ہنگامہ کر دیا۔ اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکے۔ ‘‘

جس پر منشی نے خوشامدانہ لہجے میں کہا

’’جناب چوہدری صاحب۔ !صرف مجھے ہی نہیں۔ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کیا کرے گا۔ مجھے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا نا، تو میں ایسا کچھ بھی نہیں ہونے دیتا۔ ‘‘

’’وہ لڑکا، ماسٹر دین محمد کے گھر آیا ہے۔ جس میں خود سانس باقی نہیں ہے۔ گاؤں میں اور کون ہے اس کے ساتھ، جو اس لڑکے میں اتنی ہمت آ گئی کہ ایک ہی دن میں اس نے اتنا ہنگامہ کر دیا۔ ہمارے نوکر کو مارا اور ڈنگر کھول دیئے۔ ‘‘ چوہدری نے الجھتے ہوئے کہا

’’وہ جی، گاؤں کے چند کمی کمینوں کے لڑکوں سے ملا تھا۔ جو کبھی اس کے ساتھ پڑھتے رہے تھے۔ ان میں سوائے سراج کے کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ ‘‘ منشی نے وضاحت سے بتایا تو چوہدری نے اس کی طرف دیکھا اور کہا

’’ہوں۔ !تو اس نے آتے ہی اپنے مطلب کے بندے تلاش کر لئے۔ تیرا کیا خیال ہے، اب اس لڑکے فہد کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟‘‘

’’کرنا کیا ہے جی۔ ! وہی جو پہلے کرتے ہیں۔ حکم کریں ، گاؤں کے چوک میں کھڑا کر کے چار چھتر لگوا کر یہاں سے بھگا دیتا ہوں۔ ‘‘منشی نے تیزی سے کہا

’’اگر چار چھتر لگانے بات بن سکتی نا، تو یہ موقعہ ہی نہیں آنا تھا۔ نا مجھے یہ بتا۔ !تجھے ذرا بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ ‘‘چوہدری کے لہجے میں غصہ عود آیا تھا، جیسے وہ منشی کواس کا قصور وار سمجھتا ہو۔

’’عرض کیا ہے نہ چوہدری جی۔ !گمان میں بھی نہیں تھا۔ پر اب بھی کچھ نہیں ہوا۔ چار بندے بھیج کرا سے وہاں سے نکال باہر کرتے ہیں۔ قبضہ ہی لینا ہے نا مکان کاتو وہ لے لیتے ہیں۔ ‘‘ منشی نے یوں کہا جیسے یہ کوئی اتنا اہم کام نہ ہو۔

’’منشی۔ !تو اب بھی میری بات نہیں سمجھ رہا ہے۔ اسے وہاں سے نکالنے میں ، بلکہ دنیا ہی سے نکال دینے میں مجھے تیری مدد کی ضرورت نہیں اور نہ ہی تو کر سکتا ہے۔ ‘‘ چوہدری نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا

’’تو آپ کیا چاہتے ہیں چوہدری صاحب۔ ‘‘ اس بار منشی نے الجھتے ہوئے پوچھا تو چوہدری بولا

’’ذرا سوچو۔ !اس کے اتنے برس بعد گاؤں میں واپس آ جانا۔ اپنا گھر واپس لینا اور سب سے خطر ناک بات، گاؤں والوں کا تماشائی بنے رہنا۔ اس میں کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ جاؤ جا کر معلوم کرو۔ ایسا کیوں ہوا۔ گاؤں والوں کا دماغ کیسے خراب ہو گیا۔ اس کے ساتھ جو سلوک ہو گا وہ تو ہم کریں گے ہی۔ تا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے۔ ‘‘

’’میں سمجھ گیا چوہدری جی۔ !جیسا آپ چاہیں۔ میں پتہ کرتا ہوں۔ چاہے مجھے ماسٹر دین محمد ہی سے کیوں نہ ملنا پڑے‘‘ منشی نے تیزی سے کہا تو چوہدری سوچ میں پڑ گیا۔ منشی چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر پلٹ کر وہاں سے چلا گیا۔ چوہدری نے ٹھیک کہا تھا کہ منشی کو اس کے ارادوں کے بارے میں پتہ کیوں نہیں چلا اور گاؤں کے لوگ ان سے اس حد تک متنفر ہو گئے ہیں کہ ان کے نوکر کو بچایا تک نہیں ، یہ نہ صرف خطرناک بات تھی، بلکہ منشی کی نا اہلیت تھی۔ اسی لئے منشی کوکسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔

شام ہونے کو آ گئی تھی۔ اسے کچھ اور نہیں سوجھا تو وہ سیدھا ماسٹر دین محمد کے گھر چلا گیا۔ اسے یہی ٹھیک لگا کہ ماسٹر کو ڈرا دھمکا دے تاکہ فہد مزید کچھ نہ کر سکے۔ اسے خود ماسٹر ہی روک لے۔

اس وقت ماسٹر اور فہد کھانا کھا چکے تھے۔ سلمٰی برتن سمیٹ کر لے جا رہی تھی کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی، جس کے ساتھ ہی منشی فضل دین نے آواز لگاتے ہوئے کہا

’’ماسٹر دین محمد۔ !گھر پر ہی ہو نا۔۔۔‘‘

اس کی آواز سنتے ہی ماسٹر دین محمد نے تشویش سے کہا

’’ یہ تو منشی کی آواز لگتی ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے فہد کی طرف دیکھا۔ تبھی فہد نے اشارے سے سمجھایا کہ اسے اندر ہی بلا لے۔ جس پر ماسٹر نے اونچی آواز میں کہا ’’ہاں ۔۔۔ہاں ۔۔۔گھر پر ہی ہوں۔ آ جاؤ۔ ‘‘

اس دوران سلمی وہاں سے ہٹ کر اندر چلی گئی۔ اگلے چند لمحوں میں منشی اندر آیا تو فہد کو دیکھ کر الجھ گیا کہ بے وقت آ گیا ہے، پھر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی ماسٹر دین محمد نے پوچھا

’’ہاں منشی۔ !کیسے آنا ہوا؟‘‘

تبھی اس نے فہد کی پروا نہ کرتے ہوئے کہا

’’دیکھ ماسٹر۔ !آپ کے اس مہمان نے جو حرکت کی ہے۔ وہ سراسر غلط ہے۔ کیا اس کا احساس ہے آپ کو ماسٹر جی۔ ہم گاؤں والے جو آپ کی اتنی عزت کرتے ہیں۔ اس کا یہ صلہ دیا آپ نے۔ جانتے ہو، اس سے وڈھے چوہدری صاحب کس قدر ناراض ہوئے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر مجھے بلا کر آپ کے پاس بھیجا ہے تا کہ میں آپ کو سمجھاؤں۔ ‘‘

منشی کے منافقانہ لہجے میں چھپی دھمکی کو سن کر فہد نے گھمبیر لہجے میں کہا

’’اُوئے منشی سن۔ !میں اس گاؤں میں مہمان نہیں ہوں۔ یہ میرا گاؤں ہے۔ یہاں میرا اپنا گھر ہے، جسے میں نے خالی کروایا۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ تم اور تمہارے چوہدری نے آج تک جو غلط کیا۔ اس کا جواب دہ کون ہے، تُو یا تیرا چوہدری؟‘‘

’’میں ماسٹر کو سمجھانے آیا ہوں کہ چوہدری نے۔۔۔‘‘ منشی نے کہنا چاہا تو فہد بات کاٹ کر بولا

’’صرف میری سنو منشی۔ !تم لوگوں نے اگر استاد جی کی عزت کی ہوتی۔ تو آج یہ اس حال کو نہ پہنچتے۔ تُو انہیں کیا سمجھانے آیا ہے؟‘‘

’’یہی کہ تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ ‘‘ منشی نے آرام سے کہہ دیا

’’تو پھر یہ بات مجھ سے کہو۔ انہیں کیا کہہ رہے ہو۔ اور مجھے چوہدری کی ناراضگی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ آج کے بعد میرے کسی بھی معاملے میں استاد جی کے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھے تم۔ ‘‘ فہد نے غصے میں کہا

’’لڑکے تم چوہدری کی طاقت بارے نہیں جانتے ہو۔ وہ تمہیں چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دے گا۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ تم لوگوں کو سمجھانے کے لئے مجھے یہاں بھیج دیا۔ ‘‘ منشی نے طنزیہ لہجے میں کہا تو فہد نے اس کی طرف دیکھ کر سرد لہجے میں پوچھا۔

’’تم مجھے دھمکانے آئے ہو؟‘‘

’’دھمکانے نہیں ، حقیقت بتانے آیا ہوں۔ تم غنڈہ گردی کی بجائے ان کے پاس جا کر منت سماجت کرتے۔ وہ تمہیں تمہارا گھر دے دیتے۔ انہوں نے اتنے برس تمہارے گھر اور زمین کی حفاظت کی۔ اس احسان کے بدلہ یوں دے رہے ہو۔ شکر کرو، انہوں نے تمہاری نادانی کو نظر انداز کرتے ہوئے مجھے بھیجا۔ ‘‘ منشی نے احسان جتاتے ہوئے کہا

’’تم آنکھوں والے اندھے ہو منشی۔ !تم سے بات کرنا فضول ہے۔ میں نے اپنا گھر واپس لے لیا۔ یہ بات اپنے چوہدری کو بتا دینا کہ میں اسی طرح اپنی زمین بھی لے سکتا ہوں مگر لوں گا نہیں۔ کیونکہ وہ یہ زمین مجھے خود دے گا۔ ‘‘ فہد نے طنزیہ لہجے میں کہا تو منشی چونک کر بولا

’’لڑکے لگتا ہے تمہارے سر پر خون سوار ہے، اس بوڑھے کا۔۔۔‘‘

’’خبر دار۔ !آگے ایک لفظ بھی کہا تو۔ یہ میرے استاد جی ہیں۔ تمیز سے بات کرو۔ ‘‘ فہد نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا، پھر بولا۔ ’’اور سنو۔ !میں خون خرابہ نہیں چاہتا۔ اپنا حق لینا چاہتا ہوں۔ اگر تمہارے چوہدری نے طاقت دکھانے کی کوشش کی تو میں اس کاویسا ہی بھرپور جواب دوں گا، جیسا وہ چاہے گا۔ بتا دینا اسے۔ ‘‘

’’تم ہوش میں تو ہو۔ یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ‘‘ منشی نے کہا

’’اصل میں تمہارے جیسے خوشامدی، اپنے مفاد کی خاطر، چوہدری جیسے لوگوں کو ظلم کرنے پر اُکساتے ہیں۔ جب میرے باپ کو یہاں سے تنگ کیا گیا۔ اس وقت تم لوگ کہاں تھے۔ جاؤ، جا کر اسے کہہ دو۔ استاد جی کی جتنی ہتک انہوں نے کرنی تھی، کر لی۔ اب اگر ان کے بارے میں سوچے بھی تو دھیان سے سوچے۔ اور اب جاؤ تم یہاں سے۔ ‘‘

’’ماسٹر۔ !یہ لڑکا بڑا جذباتی ہو رہا ہے۔ اپنے ساتھ تمہاری عزت بھی مٹی میں رول دے گا۔ ‘‘ منشی نے ماسٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بولا

’’یہ لڑکا جو کچھ بھی کہہ رہا ہے۔ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اب تم جاؤ۔ اور اب تم بھی دھیان سے بات کرنا۔ ‘‘

پہلی بار ماسٹر کے منہ سے ایسی حوصلے والی بات سن کر حیران رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ماسٹر بھی ایسی بات کر سکتا ہے۔ اسی لئے جھجکتے ہوئے بولا

’’ماسٹر۔ !میں تو جاتا ہوں لیکن، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘

’’تجھے کہا ہے نا جاؤ۔ ‘‘ فہد نے کہا تو منشی اٹھ کر وہاں سے چل دیا۔

منشی پلٹ تو آیا تھا مگر حیران تھا کہ وہ ماسٹر جو کبھی ان کے سامنے بولنے کی جرات نہیں کرتا تھا، اس نے اسے بے عزت کر کے گھر سے باہر نکال دیا۔ اس کے اندر آگ لگ چکی تھی۔ وہ اسی آگ میں سلگتا ہوا سیدھا حویلی چلا گیا۔ چوہدری جلال اور چوہدری کبیر ڈرائنگ روم میں ہی تھے۔ وہ دونوں باتیں کر رہے تھے کہ منشی ان کے پاس جا پہنچا۔ اس کے چہرے پر غصہ اور شرمندگی تھی، جسے دیکھ کے چوہدری جلال نے پوچھا

’’او کیا ہوا منشی تجھے ؟‘‘

’’میں ماسٹر دین محمد کے گھر گیا تھا اسے سمجھانے کے لئے، وہیں سے آ رہا ہوں۔ ‘‘ منشی نے بے چارگی سے کہا

’’تو پھر سمجھایا اسے، کیا کہتا ہے؟‘‘چوہدری جلال نے تجسس سے پوچھا تو منشی نے کہا

’’وہاں فہد بھی تھا۔ انہوں نے میری بات ہی نہیں سنی بلکہ مجھے بہت بے عزت کیا جی انہوں نے۔ ‘‘

’’کیا، اس نے تمہاری بے عزتی کی؟‘‘چوہدری جلال ایک دم غصے میں آتے ہوئے بولا

’’ جی چوہدری صاحب۔ وہ تو کہہ رہا تھا کہ میں کیا جانتا ہوں چوہدریوں کو، اب زمین میں نے نہیں چوہدری خود مجھے دیں گے۔ ‘‘ منشی نے طنزیہ لہجے میں بتایا

’’اس کی یہ جرات۔ ‘‘ چوہدری کبیر یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگا تو چوہدری جلال نے اسے اشارے سے روکتے ہوئے کہا

’’ پوری بات بتا۔ ‘‘

منشی نے ساری بات کچھ ایسے انداز میں سنائی کہ دونوں باپ بیٹے غضب نا ک ہو گئے۔ تبھی چوہدری جلال نے انتہائی غصے میں کہا

’’اس کا مطلب ہے، وہ فہد نہیں بول رہا۔ اس کے پیچھے ضرور کوئی اور طاقت بول رہی ہے۔ ٹھیک ہے منشی میں اسے دیکھتا ہوں۔ اب تم جاؤ۔ ‘‘

’’جو حکم چوہدری صاحب۔ ‘‘منشی نے کہا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی چوہدری کبیر نے کہا

’’بابا، یہی وقت ہے، اس کو ختم کر دیں ، ورنہ وہ بہت تنگ کرے گا۔ پودے کو نکلتے ہی اس کو ختم کر۔۔۔‘‘

’’ غلط سوچ رہے ہو تم، وہ پودا نہیں رہا۔ وہ جو سوچ بھی لے کر آیا ہے، فہد نے اسی سوچ ہی سے مرنا ہے۔ وہ پاگل نہیں ہے کہ یونہی خود کشی کرنے یہاں آ گیا۔ بہت سوچ سمجھ کر اس پر ہاتھ ڈالنا ہو گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے پرسوچ انداز میں کہا تو کبیر اپنے باپ کی بات سن کر بے بسی سے خود پر قابو پانے لگا۔ اس کا خون کھول اُٹھا تھا۔ اس سے وہاں بیٹھا نہیں گیا۔ اسے اپنے باپ کی بات بری لگی تھی۔ کبیر کے حساب سے اس کا باپ خواہ مخواہ محتاط تھا۔ اسی لئے وہ اندر کی طرف چلا گیا جبکہ چوہدری جلال پہلی بار سنجیدگی سے اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ کبیر کی سوچ سے بے خبر تھا۔

رات گہری ہو گئی تھی۔ چوہدری کبیر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے سلمٰی کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ وہ مسلسل سوچتا چلا جا رہا تھا کہ فہد اپنا بدلہ ضرور لے گا۔ وہ ہمیں نیچا دکھانے آیا ہے۔ وہ مجھ سے سلمٰی کو بھی چھین سکتا ہے۔ وہی فہد میرے راستے کی دیوار بن گیا ہے۔ وہ مجھے پھر سے ہرانے آ گیا ہے۔ اب میں ہار جانا برداشت نہیں کر سکتا۔ یہی وقت ہے۔ اسے ختم کر دینا ہی ہو گا۔ میں اس دیور کو گرا سکتا ہوں تو پھر دیر کس بات کی۔۔۔ ابھی اور اسی وقت۔ یہ سوچتے ہی وہ بھنا کر اٹھا۔ اس نے بیڈ کی دراز کھول کر اس میں سے ریوالور نکالا اور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ وہ سیڑھیاں اتر کر ڈرائینگ روم میں آیا، جہاں دھیمی روشنی تھی۔ وہ محتاط انداز میں جا رہا ہوتا کہ سامنے دیکھ کر وہ ٹھٹکتے ہوئے رک گیا۔ سامنے اس کی ماں بشریٰ بیگم کھڑی اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سختی تھی۔ وہ چند لمحوں تک اسے یوں دیکھتی رہی جیسے اس کی چوری پکڑ لی ہو۔ پھر سرزنش کرنے والے لہجے میں بولی

’’ کبیر۔ !اس وقت اتنی رات گئے، کہاں جا رہے ہو؟‘‘

’’کہیں نہیں ماں ، کہیں نہیں جا رہا ہوں۔ ‘‘ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا تو گہرے لہجے میں بولی

’’تو پھر اتنی رات گئے یوں ۔۔۔ باہر؟‘‘

’’بس ماں یونہی نیند نہیں آ رہی تھی، سوچا باہر کھلی فضا میں جاؤں ، شاید نیند آ جائے۔ پر آپ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہیں ؟‘‘اس نے یوں کہا جیسے وہ بھی سمجھ رہا ہو کہ ماں یہاں کیوں ہے۔

’’میں تو کب کی یہاں بیٹھی سوچ رہی ہوں۔ میری چھوڑ، تو بتا، کیوں پریشان ہے؟‘‘ بشریٰ بیگم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

’’نہیں ماں میں پریشان تو نہیں ہوں ؟‘‘ اس نے تیزی سے یقین دلانے والے انداز میں کہا

’’میں ماں ہوں تمہاری، جانتی ہوں تیرے بارے میں۔ اگر تیرے دل میں کوئی بات ہے تو مجھے بتا۔ میں تیری ہر پریشانی ۔۔۔‘‘ بشریٰ بیگم نے کہنا چاہا تو اس نے ٹوکتے ہوئے کہا

’’نہیں ماں میں بتا رہا ہوں نا، مجھے کچھ نہیں ہے۔ ‘‘

’’دیکھ تیرا بابا۔ تجھے بڑا آدمی دیکھنا چاہتا ہے۔ تو اتنا پڑھ لکھ نہیں سکالیکن اتنی بڑی جاگیر کی دیکھ بھال بہت بڑی ذمے داری ہے۔ ‘‘ وہ بولی تو کبیر نے لاپرواہی سے کہا

’’تو پھر کیا ہوا۔ جاگیریں بندے ہی سنبھالتے ہیں۔ ‘‘

’’میں مانتی ہوں۔ تُو ہمارے لئے اب بھی وہی چھوٹا سا کبیر ہے۔ لیکن دنیا داری کے معاملات بہت بڑے ہیں۔ ‘‘ وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی

’’اتنی فکر مند کیوں ہو ماں۔ آپ خواہ مخواہ جذباتی ہو رہی ہو۔۔۔ میں جانتا ہوں اس دنیا کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جاتا ہے۔ طاقت ہے تو سب جھکتے ہیں۔ ورنہ وہ ہمیں جھکا دیں گے۔ آپ غم نہ کرو۔ سب ٹھیک ہے۔ جائیں سو جائیں۔ ‘‘ اس نے پھر اسی لاپرواہی سے کہا تو بشریٰ بیگم بولی

’’تمہیں یوں دیکھ کر کیا میں سو سکتی ہوں ؟‘‘

’’جائیں ، اپنے کمرے میں جا کر سو جائیں۔ میں بھی سو جاتا ہوں۔ ‘‘ اس نے یہ کہہ کر وہ اپنی ماں کو کاندھوں سے پکڑا اور اندر کی طرف لے کر چل دیا۔ ایسے لمحات میں بشریٰ بیگم نے سکون کا سانس لیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اب جا کر سو جائے گا۔ اتنا تو اسے اپنی اولاد کے بارے میں پتہ تھا۔

چوہدری کبیر رات گئے تک نہ سو سکا۔ اس کے ذہن میں اپنی بے عزتی ہونے اور سلمی کے کھو جانے کا ڈر کسی ناگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ جب وہ اپنے آپ سے بھی خوف کھانے لگا تو الماری میں پڑی شراب کی بوتل اٹھا کر کھولی اور پیتا چلا گیا۔

اس کی آنکھ صبح سویرے ہی کھل گئی۔ وہ بستر سے اٹھ کر ناشتہ کئے بغیر اپنی جیپ لے کر ڈیرے کی طرف نکل گیا۔ وہ اپنے ڈیرے میں صوفے پر بیٹھا گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ اس کا خاص ملازم ماکھا آ گیا۔ اس نے چوہدری کبیر کی طرف دیکھا اور قریب آ کر بولا

’’چوہدری جی، اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات پوچھوں ؟‘‘

چوہدری کبیر نے اس کی طرف دیکھا اور اور ڈھیلے سے لہجے میں کہا

’’ہاں پوچھو۔ !‘‘

’’جب سے آپ آئے ہیں ، میں تب سے دیکھ رہا ہوں جی۔ آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔ کیا بات ہے جی۔ ‘‘ اس نے تشویش سے پوچھا تو چوہدری نے ایک طویل سانس لے کر کہا

’’میں پریشان نہیں ہوں ماکھے۔ !بس وہ سلمٰی ہے نا، اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ وہی ایک لڑکی مجھے پسند آئی ہے۔ لگتا ہے کہ اب وہ میری ضد بن جائے گی۔ اسے حاصل تو کرنا ہے۔ سوچ رہا ہوں کیسے؟‘‘

’’چوہدری جی۔ !مجھے اتنی عقل سمجھ تو نہیں ہے۔ پر اتنا ضرور سمجھتا ہوں۔ دلوں کے معاملے میں زور زبردستی نہیں چلتی۔ آپ نے اس کا دل جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس طرح وہ کیسے۔۔۔‘‘اس نے کہنا چاہا لیکن کبیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا

’’اوئے ماکھے۔ !یہ جو دلوں والے معاملے ہوتے ہیں نا۔ میری سمجھ میں نہیں آتے۔ میں نے تو ہمیشہ چھین کر حاصل کرنا سیکھا ہے۔ اور سلمٰی کو چھین لینا ہی ہو گا۔ ایسے وہ ہاتھ نہیں آئے گی۔ اتنا تو میں بھی جانتا ہوں۔ ‘‘

’’مگر اب فہد آپ کے اور سلمٰی کے درمیان دیوار بن سکتا ہے۔ ‘‘ ماکھے نے گہرے لہجے میں کہا

’’یہی تو، اسی دیوار کی وجہ سے ان کے بارے سوچنا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ دیوار کتنے دنوں میں گرتی ہے۔ پھر سلمٰی خود میرے سامنے آ کر انہی دیواروں کے تحفظ کیلئے بھیک مانگے گی۔ وہ فہد والا سہارا بھی دیکھ لے۔ اب تو مزہ آئے گا۔ ان دونوں کے ساتھ کھیلنے کا۔ ‘‘ کبیر نے یوں کہا جیسے اسے من پسند کھیل مل گیا ہو۔ اس پر ماکھے نے مسکراتے ہوئے کہا

’’چوہدری جی۔ پہلے اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھ لیں۔ جہاں معاملہ دل کا ہونا، وہاں کھیل نہیں کھیلا جاتا۔ اسے اپنا بنا لیا جاتا ہے۔ یا پھر اس کے بن جاتے ہیں۔ ‘‘

’’اوئے ماکھے۔ !یہ کمزور لوگوں کی باتیں ہیں۔ یہ تم بھی جانتے ہو۔ میں چاہوں توا سے ابھی اور اسی وقت حاصل کر لوں ۔۔۔مگر آسانی سے ہاتھ آنے والی شے میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ‘‘ کبیر نے نخوت سے کہا

’’پر یہ جو محبت ہوتی ہے نا۔ اس میں زور زبردستی نہیں چلتی۔ ‘‘ ماکھے نے اسے احساس دلایا

’’اوئے تو مجھے پیار محبت کے سبق نہ پڑھا۔ اور نہ ہی میں یہ سبق پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں تو سیدھی بات جانتا ہوں۔ ‘‘ اس نے غرور سے کہا

’’ٹھیک ہے چوہدری جی۔ !ہو گا تو وہی جیسا آپ چاہیں گے۔ ‘‘ ماکھا ایک دم سے خوشامد پر اتر آیا۔

’’ہاں۔ !اب سلمٰی کو اہمیت دینا پڑے گی اور جو اہمیت میں اسے دینا چاہتا ہوں۔ اسے اب دنیا دیکھے گی۔ سلمٰی اتنی آسانی سے کسی کی نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ وہ کسی حد تک غصے میں بولا تو ماکھے نے کہا

’’ٹھیک ہے چوہدری صاحب۔ ! آپ ٹھیک کہتے ہوں گے جی‘‘

’’اُوئے جاؤ۔ دفعہ ہو جاؤ۔۔۔اب‘‘ کبیر نے اس کی طرف دیکھ کر غصے میں کہا تو ماکھا چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ چوہدری کبیر پھر سے سوچوں میں ڈوب گیا۔

٭٭

 

چینل کی عمارت دن کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ عمارت کے اندر خاصی گہما گہمی تھی۔ مائرہ راہداری میں تیزی سے اپنے کمری کی جانب آ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذ پکڑے ہوئے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو جعفر کو وہاں دیکھ کر ایک دم سے خوش ہو گئی۔ وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولی

’’ او جعفر، تم آ گئے۔ بہت اچھا کیا۔ ‘‘

’’خیریت تو ہے نا مائرہ، اس طرح جلدی میں بلایا مجھے، کیا مسئلہ ہے؟‘‘ جعفر نے سنجیدگی سے پوچھا تو مائرہ میز کے عقب میں کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی

’’صبر تو کرو، بتاتی ہوں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے کاغذوں کی طرف دیکھا اور ایک طرف رکھ دئیے۔ پھر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی ’’میں کئی دنوں سے ایک رپورٹ پر کام کر رہی تھی۔ ایک بہت بڑے گروہ کا انکشاف ہوا ہے جو جعلی دوائیاں بنا کر بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں فروخت کر رہا ہے۔ دراصل اس گروہ میں بہت بڑے بڑے نام بھی ہیں۔ ‘‘

’’کون سے نام ہیں ان میں ؟‘‘ اس نے تیزی سے پوچھا تو پر سکون لہجے میں بولی

’’بتاتی ہوں ، بلکہ تمہیں ہی بتاؤں گی۔ میں اکیلی اس پر کام نہیں کر رہی ہوں ، بلکہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعلی آفیسر بھی شامل ہیں۔ وہ جگہ، جہاں یہ دوائیاں بنتی ہیں ، اور اب بھی جہاں سٹاک موجود ہے۔ وہاں سے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑنا ہے۔ ‘‘

’’مطلب، چھاپہ۔۔۔پہلے تم نے نہیں بتایا، آج کیوں ؟ اور ابھی۔۔۔‘‘ اس نے اسی تیزی سے پوچھا تو مائرہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی

’’اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ میں چاہتی ہوں کہ اس کا ڈراپ سین تمہارے ہاتھوں ہو، بلاشبہ اس کا کریڈٹ تمہیں جائے گا۔۔۔ اور جانا بھی چاہئے۔ ‘‘

’’اور دوسری وجہ؟‘‘ جعفر نے پوچھا تو مائرہ عجیب حسرت بھرے لہجے میں یاسیت سے کہا

’’اگرچہ میرے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں میں خالی پن محسوس کر رہی ہوں۔ مجھے لگا کہ میرا اپنا کوئی میرے ساتھ ہو۔ جس کے سہارے میں خود کو بہت مضبوط سمجھوں۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر جعفر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر جذباتی انداز میں خوش ہوتے ہوئے بولا۔

’’مجھے خوشی ہوئی مائرہ کہ تم نے مجھے اپنا کہا اور میں ۔۔۔‘‘ تبھی مائرہ اس کی بات کاٹتے ہوئے مصنوعی اکتاہٹ سے بولی

’’ اچھا اب جذباتی ڈائیلاگ مت مارنا۔ ایک عاشق مزاج نوجوان کی بجائے پولیس آفیسر بن کو سوچو۔ ‘‘

’’میں تبھی پولیس والا بن کر سوچوں گا نا کہ جب مجھے اس کیس کے بارے میں معلوم ہو گا۔ میرے سامنے تو ایک حسین لڑکی ہے جسے دیکھ کر سوائے جذباتی مکالموں کے اور کچھ سوچا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ ‘‘جعفر ایک دم سے پر سکون ہو کر رومانوی لہجے میں بولا

’’کہا نا بند کرو یہ جذبات نگاری۔ ہم نے آج ہی چھاپہ مارنا ہے۔ اپنے آفس پہنچو۔ تمہیں آرڈر مل جائیں گے۔ اورسنو میں تمہیں اس کیس کے بارے میں پوری تفصیل وہیں آ کر بتاتی ہوں۔ تم اب فوراً نکلو اور چھاپے کی تیاری کرو۔ ‘‘

’’ اوکے۔ ‘‘ جعفر نے ایک دم سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو مائرہ نے اسے بھرپور نگاہوں سے یوں دیکھا جیسے ابھی صدقے واری ہو جائے گی۔

اگلے دو اور تین گھنٹوں کے دوران ایک ویران سے مقام پر کوٹھی نما گھر کے سامنے مائرہ کی کار آ رکی۔ اس کے ساتھ ہی چینل کی ویگن آن رُکی۔ اس کے پیچھے ہی پولیس کی گاڑی آ کر رک گئی۔ گاڑیاں رکتے ہی اس میں سے کئی سارے بندے نکل آئے۔ پولیس کے جوانوں نے تیزی سے گھر کو گھیر ے میں لے لیا۔ تبھی مائرہ اور جعفر دروازے کی جانب بڑھے۔ کوٹھی کے اندر سے مختلف طرف سے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ دونوں دبے قدموں اندر داخل ہو کر آگے بڑھتے گئے۔ ان کے پیچھے دروازہ کھلا ہوا تھا جس میں سے سب لوگ دھڑ دھڑ اندر داخل ہوتے گئے۔ اچانک ان کے سامنے ہال نما کمرہ آ گیا۔ وہ سب دوائیاں پیک کرنے میں مصروف تھے۔ یوں اچانک پولیس کو سامنے دیکھ کر وہاں پر موجود لوگ خوف زدہ ہو کر بھاگنے لگے۔ پولیس والے انہیں پکڑنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد ساری کوٹھی چھان ماری اور وہاں پر موجود ہر بندے کو گرفتار کر کے انہیں گاڑی میں بیٹھا دیا گیا۔ اس سارے دورانئے میں وہاں ہونے والی ساری کار وائی کو چینل والے کور کرتے رہے۔ آدھے گھنٹے سے بھی کم دورانئے میں وہ انہیں لے کر واپس پلٹ گئے۔

مائرہ چینل آتے ہی بے حد مصروف ہو گئی۔ اس نے اپنی رپورٹ فائل کی اور گھر کے لئے نکل پڑی۔ جس وقت وہ گھر کے قریب تھی، اس کی رپورٹ آن ائیر ہو گئی۔ چینل میں باس اپنے کمرے میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اس پر مائرہ کی کوریج چل رہی تھی۔ باس کے ساتھ ایک سینئر صحافی پورے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ باس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، وہ مائرہ کے کام کو تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ تبھی باس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا

’’مائرہ بہت محنت کر رہی ہے۔ اس کی رپورٹ میں جان ہوتی ہے۔ عوام کو اپنی طرف کھنچ لیتی ہے۔۔۔ شاندار رپورٹ بناتی ہے۔ ‘‘

’’جی، یہ جتنی محنت کر رہی ہے، اتنی عوام میں مقبول بھی ہو رہی ہے۔ اصل میں مائرہ کا سٹائل یہ ہے کہ وہ سمجھوتہ نہیں کرتی۔ بلکہ کسی بھی ایشو کو اس طرح لیتی ہے جیسے یہ اس کے اپنے اوپر بیت رہا ہو۔ ظاہر ہے اس میں اس کے اپنے جذبات بھی آ جاتے ہیں اور وہ پوری طرح وقف ہو جاتی ہے۔ ‘‘

’’ہوںںں۔ ! نائس۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کی محنت اپنے منہ سے خود بولتی ہے۔ سب سے بڑی خوبی جو تم اس رپورٹ میں دیکھ رہے ہو۔ اس کا بولڈ ہو نا ہے۔ کس طرح فورسز کے ساتھ ہے۔ ‘‘ باس نے تعریف کی تو صحافی بولا

’’ جی یہ تو ماننا پڑے گا کہ یہ ایک بہادر لڑکی ہے اور یہ بھی کہ یہ آپ کے چینل کا سب سے فیورٹ پروگرام ہے۔ ‘‘

’’مجھے پتہ ہے ۔۔۔‘‘ باس نے زیادہ بات نہیں کی۔ یہ کہہ کر وہ پھر ٹی وی کی طرف دیکھنے لگا۔ ایسا ہوتا ہے، باس لوگ اپنے ورکر کی چاہتے ہوئے بھی زیادہ تعریف نہیں کرتے، یہ ان کا معاشی مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ لوگ کس قدر اس پروگرام کو دیکھ رہے تھے۔ الیکٹرونکس کی مارکیٹ میں ایک دوکان کے باہر لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔ ٹی وی اسکرین پر مائرہ بول رہی تھی۔

’’یہ دوائیاں بنانے والا گروہ، انسانیت کے لیے وہ زہر ہے جو انسانی صحت کے لیے قاتل ہے۔ اس گروہ کی پشت پناہی کرنے والے وہ طاقت ور لوگ ہیں ، جن کے نام اگر آپ کے سامنے آئیں تو آپ یقین نہیں کریں گے۔ بڑے بڑے جلسوں میں تقریریں کرنے والے، میڈیا پر انسانیت کی خاطر قربان ہونے والے، انسانیت کے یہ دشمن اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ ادویات بچوں کے لیے بھی ہیں۔ وہ معصوم بچے جو ان جیسے بے رحم قاتلوں کے دور میں پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ صرف جعلی ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ اعضاء کی چوری میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ کچھ نام آپ سن چکے ہیں اور یقیناً آپ اُن ناموں کو سننے کے لئے بھی بیتاب ہوں گے، جو اس میں ملوث ہیں۔ وہ نام میں آپ کے سامنے ضرور لاؤں گی اور یہی میرا مقصد ہے کہ معاشرے کے ان بھیانک چہروں کو سامنے لایا جائے تاکہ آپ انہیں پہچان سکیں۔ ناظرین یہاں لیتے ہیں ایک چھوٹا سا بریک، ہمارے ساتھ رہئے گا۔ ‘‘

اس کے ساتھ ہی مائرہ کی آواز معدوم ہو گئی اور اسکرین پر اشتہار چلنے لگا۔ تبھی وہاں عوام میں ایک بند ہ حیرت سے بولا

’’بھئی واہ، یہ مائرہ بھی نا جب بھی کسی گروہ پر ہاتھ ڈالتی ہے تو پکا ہی ڈالتی ہے۔ اب دیکھنا، بڑے بڑے چہرے بے نقاب ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’ابھی شروع میں جن لوگوں کے نام لے رہی ہے۔ سیاسی حلقوں میں ان کا کتنا بڑا نام ہے۔ پر یہ صاف بچ جائیں گے۔ ‘‘ قریب کھڑے دوسرے شخص نے مایوسانہ لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا

’’چل یار، مائرہ تو اپنا کام کر رہی ہے نا۔ ‘‘ وہ آدمی یہ کہہ کر ٹی وی اسکرین کی طرف متوجہ ہو گیا۔

پروگرام ابھی ختم نہیں ہوا تھا، مائرہ نے اپنے گھر کے پورچ میں کار روکی اور تھکی ہوئی اندر چلی گئی۔ اس کے پاپا حبیب الرحمن ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ جس پر مائرہ کی رپورٹ چل رہی تھی۔ اسکرین پر پولیس کا ایک اعلی آفیسر بات کر رہا تھا۔

’’مس مائرہ نے بہت حوصلے، محنت اور صبر سے تحقیق کی۔ ہم نے ان کی تحقیق اور معلومات سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اس گروہ کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ مس مائرہ جیسے لوگ اگر معاشرے میں اپنی ذمہ داری نبھائیں تو کوئی مشکل نہیں کہ جرائم کا قلع قمع نہ ہو سکے۔ ‘‘

اس کے ساتھ ہی آواز معدوم ہو گئی۔

مائرہ اپنے پاپا کو پروگرام دیکھتے ہوئے خوش ہو گئی تھی، اسی لئے خوشگوار انداز میں بولی

’’ہائے پاپا۔ کیسے ہیں آپ؟‘‘

’’ٹھیک ہوں بیٹی۔ !تم کیسی ہو؟‘‘ اس نے یوں کہا جیسے وہ ابھی رپورٹ کے سحر سے باہر نہ آیا ہو۔ تبھی وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی

’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ‘‘

’’بھئی آج تمہارے چینل سے تمہارا کام دیکھا پتہ چلتا ہے کہ تم بہت محنت کر رہی ہو۔ تمہاری بہت تعریف ہو رہی ہے۔ ‘‘ پاپا کے لہجے میں فخر چھلک رہا تھا۔

’’یہ تو کچھ بھی نہیں پاپا۔ میں تواس سے بھی آگے کا سوچ رہی ہوں۔ بہت سارے پلان ہیں میرے ذہن میں۔ ‘‘

’’گڈ۔ ! ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہی ہو گا، جو عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ میڈیا پر آ کر بڑے بڑے دعوے کرنے والے، عوام کو سبز باغ دکھانے والے، اور پارسا بننے کی کوشش میں ہلکان ہونے والوں کے بارے میں بتانا چاہئے کہ اصل میں وہ کس قدر مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔ اور پھر معاشرے کے ان ناسوروں کو سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں ، جو صر ف اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کی پردہ پوشی کے لیے حکومت میں آتے ہیں۔ تاکہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر سکیں۔ ‘‘ حبیب الرحمن نے گہرے دکھ بھرے جذبات سے کہا

’’اسی بات کا تو دکھ ہے، یہاں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال ہی نہیں ہوتا بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس میں سراسر نقصان تو عوام ہی کا ہے نا۔ ‘‘ وہ بولی

’’میڈیا نے سب کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان کے چہرے عوام کے سامنے ہیں ، فیصلہ اب عوام کے ہاتھوں میں ہے اگر اب بھی وہ ان جیسے سیاست دانوں کو دوبارہ منتخب کر لیں گے تو پھر عوام کی اپنی قسمت خراب ہے۔ ‘‘حبیب الرحمن نے کہا

’’نہیں پاپا، آپ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب وہ پہلے والا وقت نہیں رہا، عوام تنگ آ چکے ہیں ان بہروپیوں سے۔ وہ اپنا فیصلہ کرنا جانتے ہیں۔ ‘‘وہ خوشگوار انداز میں بولی

’’میں مانتا ہوں ، ایسا ہی ہے لیکن اس کا دائرہ کار ان لوگوں تک بھی پھیلانا ہے جو دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں اور جاگیرداروں ، وڈیروں نے عوام پر تسلط کیا ہوا ہے۔ ‘‘حبیب الرحمن نے سکون سے کہا

’’میں اس آپشن پر بھی سوچ رہی ہوں پاپا۔ کوئی صورت سامنے آئی تو پلان کر لوں گی، ابھی تو یہاں کا گند ہی نہیں سمیٹا جا رہا۔ آپ یہ رپورٹ پوری دیکھیں ، پھر ہم اس پر بات کرتے ہیں۔ میں چینج کر کے آتی ہوں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور جلدی سے آگے بڑھ گئی۔ پاپا پھر ٹی وی میں کھو گئے۔

انہی لمحات میں جعفر اپنے تھانے میں کام میں مصروف تھا۔ اس کے سامنے ایک فائل پڑی تھی اور وہ اس میں کھویا ہوا تھا۔ تبھی اس کے میز پر پڑا فون بجا۔ اس نے بے دھیانی کے سے انداز میں فون اٹھا کر کہا

’’ہیلو!‘‘

’’میں خان ظفر اللہ خان بات کر رہا ہوں ، جانتے ہو نا۔ ‘‘

دوسری طرف سے بات سن کر وہ بڑے سکون سے بولا

ہاں جانتا ہوں اور بہت ہی اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ حکومتی پارٹی کے ایم این اے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بھی جانتا ہوں ، جو لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘

’’میں نے بھی تمہارے بارے پتہ کیا ہے۔ سنا ہے تم بڑے ایمان دار، قانون کے پابند اور اصول پرست قسم کے نئے نئے پولیس آفیسر ہو۔ نئی نئی نوکری میں ہوتا ہے ایسا۔ ایمان داری کا بڑا بخار چڑھا ہوتا ہے۔ ‘‘

’’جی آپ نے صحیح سنا ہے۔ بتائیں ، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ ‘‘جعفر نے سکون سے کہا

’’وہ جو تو نے اور اس صحافی لڑکی نے اپنا کارنامہ دکھایا ہے نا۔ اس پر بہت واہ واہ ہو گئی۔ بڑی داد مل گئی تم لوگوں کو، اب کوئی میڈل شیدل بھی مل جائے گا لیکن اب بہت ہو گیا۔ وہ جتنے بندے بھی پکڑے گئے ہیں انہیں تم ہی نے چھوڑنا ہے۔ کیسے، یہ مجھے نہیں پتہ۔ ‘‘ ایم این اے کی بات سن کر وہ زیر لب مسکرایا اورپھرسنجیدہ لہجے میں بولا

’’پہلی بات یہ ہے ظفر صاحب کہ آپ نے جو کچھ کہا انجانے میں کہہ دیا۔ اس لیے پہلی غلطی معاف کرتا ہوں۔ اب میرا جواب سن لیں کہ وہ بندے رہا نہیں ہوں گے۔ ان کے ساتھ وہی ہو گا جو قانون کہتا ہے۔ ‘‘

’’لگتا ہے تیرا دماغ درست نہیں جو میرے ساتھ اس لہجے میں بات کر رہے ہو یا پھر مجھے جانتے نہیں ہو۔ ‘‘ دوسری طرف سے انتہائی طنزیہ لہجے میں کہا گیا

’’میرا دماغ درست ہے اور پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو عوام نہیں جانتے۔ دوبارہ پھر بتا دوں کہ میں نے وہی کہا ہے، جو میں نے کرنا ہے جو میرا ضمیر مجھے کہے گا۔ میری تحقیقات جاری ہیں۔ میں پوری کوشش کر رہا ہوں۔ یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ پھر آپ کو دوبارہ اس طرح کا فون کرنے کی زحمت نہ ہو۔ بہتر یہی ہے کہ مجھے میرا کام کرنے دیں۔ ‘‘ جعفر نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا تو غصے میں کہا گیا

’’ نہیں ، نہیں اے ایس پی نہیں ، میں جان گیا ہوں تُو سیدھی طرح ماننے والا نہیں۔ میں کرتا ہوں تیرا کچھ۔ ‘‘

’’تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تیری اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ یہی بات کہنے کے لیے تو یہاں میرے آفس آ جائے۔ اب مجھے ہی آنا ہو گا تیرے پاس۔ انتظار کر میرا۔ ‘‘وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا

’’واہ۔ !حوصلہ، تیرے حوصلے کی داد دیتا ہوں۔ پر اب تو بچ جا۔۔۔‘‘ایم این اے نے کہا تو جعفر غصے میں بولا

’’دھمکی مت دو، بلکہ جو کچھ کرنا ہے اب کر ڈالو۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو کتنا بھاگ سکتا ہے۔ ‘‘

’’بہت جلد۔ ! تجھے پتہ چل جائے گا۔ لہذا اب بھی وقت ہے سوچ لے۔ ‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا

’’باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے ایم این اے صاحب اگر کچھ کر سکتے ہو تو کرو، کیونکہ میں نے تجھے اور تیرے گینگ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنا ہے۔ ‘‘ جعفر نے سکون سے خود پر قابو پا کر کہا تو ایم این اے نے ہلکا سا قہقہہ لگاتا ہوا بولا

’’ تُو بچہ ہے ابھی۔ تجھے نہیں معلوم، تیرے جیسے کئی پولیس آفیسروں کو میں نے ٹریننگ دی ہے۔ آج وہ بڑے مزے سے نوکری کر رہے ہیں اور زندہ ہیں۔ ‘‘ ایم این اے نے نیا پینترا بدلا

’’مگر مجھے تمہاری ان باتوں سے خوف نہیں ہنسی آ رہی ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں تو اپنی طاقت دکھا اور پھر میرا حوصلہ دیکھ۔ ‘‘ وہ غصے میں بولا

’’تو نہیں مانتا تو نہ مان۔ بندے تو میں نے چھڑوا ہی لینے ہیں۔ ہاں تیرے جسم پر بھی میڈل سجوا دوں گا۔ پر افسوس وہ جسم زندہ نہیں ہو گا۔ ‘‘ ایم این اے نے غصے میں کہا

’’میں اس دن کا انتظار کروں گا اور تو بھی انتظار کر کہ کب تجھ تک پہنچ جاتا ہوں۔ ‘‘جعفر نے کہا تو ایم این اے دھاڑتے ہوئے بولا

’’چلو، خواب دیکھتے رہو۔ ‘‘ یہ کہہ کراس نے فون بند کر دیا۔ جعفر ریسور کی دیکھ کر مسکرا اور اسے کریڈل پر رکھ دیا۔

٭٭

 

سلمی کچن میں چائے بنا رہی تھی۔ صحن میں دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ دالان میں کرسی پر فہد بیٹھا ہوا کسی گہری سوچ میں تھا۔ کچھ ہی دیر بعد سلمٰی دو مگ چائے لا کر قریب پڑے میز پر رکھے اور سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ دونوں دالان ہی میں آمنے سامنے بیٹھے خاموشی سے چائے پینے لگے۔ تبھی اچانک سلمی نے پوچھا

’’ایک بات پوچھوں فہد۔ آپ برا تو نہیں مانیں گے؟‘‘

’’ میں کیوں برا منانے لگا؟ تم نے جو کہنا ہے، پوچھو۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا

’’اگر آپ مجھ پر اعتماد کریں تو کیا آپ بتائیں گے کہ یہاں کیا مقصد لے کر آئے ہو؟‘‘اس نے اعتماد سے پوچھا تو فہد نے سپ لے کر سنجیدگی سے کہا

’’سلمٰی۔ !میرا یہاں آنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں زمین کے ذرا سے ٹکڑے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ میں اس لئے آیا ہوں کہ تم یہاں ہو، استاد جی ہیں۔ یہ مجھے عزیز ہیں۔ انہی پر مجھے اعتماد ہے اور ایسا ہی اعتماد میں چاہتا ہوں۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر سلمی چونک گئی۔ پھر تیزی سے بولی

’’مطلب، میں آپ پر اعتماد کروں اور آپ جو بھی کرتے چلے جائیں۔ میں اس پر کچھ نہ بولوں ، کوئی سوال نہ کروں آپ سے؟‘‘

’’ہاں۔ !مجھے وہ اعتماد بخش دو سلمٰی۔ میں تمہیں احترام کی اس سطح پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ جہاں تمہیں دیکھنے کے لئے مجھے بھی اپنا سر اٹھانا پڑے۔ تم فقط ماسٹر دین محمد جیسے مجبور باپ کی بیٹی نہ رہو۔ بلکہ امیدوں کا تناور پیڑ بن جاؤ۔ یہ میری جذباتی باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے پورا ہونے میں بس تھوڑا وقت حائل ہے اور بس۔ ‘‘ فہد کے لہجے میں سے اعتماد چھلک رہا تھا۔

’’اور اگر ایسا نہ ہوا تو؟‘‘ وہ گھبراتے ہوئے بولی

’’بس۔ !یہی میں سننا نہیں چاہتا۔ اتنے برس میں نے زندگی کی بساط پر مہروں کو آگے پیچھے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ کون، کہاں پر کیسے کس کو مات دیتا ہے۔ یہی سمجھا ہے میں نے۔ اگر تم مجھ پر یقین رکھو اور میرا حوصلہ بن جاؤ۔ تو کچھ بھی نا ممکن نہیں رہے گا۔ ایک خاص منزل تک تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ ‘‘ فہد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا

’’میں تو چل پڑوں گی فہد۔ !لیکن، مجھے یقین تو ہو کہ ہماری منزل ایک ہے۔ ‘‘ وہ بڑے اعتماد سے بولی

تبھی فہد نے چونکتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نے تیزی سے فہد کی طرف دیکھا اور پھر شرم سے کچھ چند لمحوں بعد اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی

’’میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ‘‘

’’بس یہی حوصلہ مجھے چاہئے تھا۔ ‘‘ فہد نے پر جوش عزم سے کہا توسلمٰی اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔ وہ شرم سے اٹھ کر وہاں سے جانے لگی تو فہد نے کہا، ’’ یوں نہیں ابھی اور اسی وقت اپنی بات کا ثبوت دو، ابھی میرے ساتھ باہر چلو۔ ‘‘

’’کہاں ؟‘‘ وہ ایک دم ٹھٹک کر بولی

’’ یہاں باہر، کھلی فضا میں۔ سنا ہے تم کئی دنوں سے باہر نہیں نکلی ہو۔ چلو۔ ‘‘ فہد نے کہا تو وہ چند لمحے سوچتی رہی پھر سر ہلاتے ہوئے اثبات میں عندیہ دے دیا۔

روشن دن میں سرسبز کھیت کی پگڈنڈی پر فہد اور سلمٰی باتیں کرتے ہوئے آ رہے تھے۔ ایسی ہی ایک جگہ رک کرسلمٰی نے کہا

’’آج میں بہت خوش ہوں فہد۔ !پتہ ہے اتنے دنوں بعد میں گھر سے نکلی ہوں۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ آپ کو یہ قسمت پور کیسا لگ رہا ہے؟‘‘

’’سچ پوچھوں تو خوابوں جیسا، یوں جیسے اپنی ماں کی گود سے آ ملا ہوں۔ خیر۔ مجھے یہ بتاؤ۔ تم نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے۔ ‘‘ فہد نے ایک دم سے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا

’’ فہد۔ !جس کے پاس کوئی امید یا کوئی آس ہوتی ہے۔ خواب بھی تبھی دیکھے جا سکتے ہیں نا۔ بس یہاں رہتے ہوئے زندگی گذار رہی ہوں۔ چند محدود سے دائروں میں تعلیم حاصل کر رہی تھی اور بس۔ ‘‘ وہ سوچتے ہوئے عام سے لہجے میں مایوسی سے بولی

’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ خواب ہوں نا، تبھی ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ ‘‘ وہ بولا

’’ہاں۔ ! میں یہ جانتی ہوں فہد۔ !پرندے میں اڑنے کی صلاحیت فطری ہوتی ہے۔ اسے اڑان بھرنا سکھایا نہیں جاتا۔ مگر جب اس کے پر ہی کٹے ہوئے ہوں۔ تب وہ کیسے اُڑ سکتا ہے۔ ‘‘ سلمٰی حسرت سے بولی

’’مطلب۔ کیا کہنا چاہ رہی ہو تم؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’میں یہاں سکول میں پڑھا سکتی تھی۔ میری جاب بھی ہو گئی تھی۔ لیکن چوہدری کبیر کی وجہ سے میں یہ نوکری بھی نہیں کر پائی۔ اس کی نگاہ بہت گندی ہے۔ میں اسی کی وجہ سے اپنے گھر تک محدود ہو گئی ہوں۔ ‘‘

فہد چونک گیا پھر جذباتی انداز میں بولا

’’سلمٰی۔ !اڑنے کا شوق اور ہمت پیدا کرو دل میں۔ پرواز کرنے کا حوصلہ اور طاقت میں دوں گا۔ جس قدر چاہو پرواز کرو۔ کوئی نہیں روک سکے گا۔ ‘‘

فہد کے یوں کہنے پرسلمٰی نے حیرت سے کہا

’’آپ ۔۔۔آپ دیں گے مجھے طاقت۔۔۔‘‘

’’ہاں میں۔ !کیا بچپن کی یادوں کی اوٹ سے کسی خواب نے نہیں جھانکا۔۔۔بولو سلمٰی، کیا تمہاری زندگی میں میری ذات کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ ابھی تم نے سوال کیا تھا کہ میں یہاں کیوں آ گیا ہوں۔ کیا تمہارے دل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ‘‘فہد نے اسے یاد دلایا

’’آپ کی آمد سے سارے جواب مل گئے تھے فہد۔ !اب میں خواب دیکھا کروں گی۔ مجھے حوصلہ مل گیا ہے۔ محبت انسان کو قوت دے دیتی ہے اور میں یہ قوت محسوس کر رہی ہوں فہد۔ ‘‘ وہ شرمگیں لہجے میں بولی

’’سچ۔۔۔! سلمی۔ ‘‘فہد نے خوشی سے پوچھا تواس نے آنکھوں سے اثبات کا اشارہ دے دیا۔ تبھی فہد خوشی سے بھر گیا، جس کا اظہار اس کی آواز میں تھا۔ اس نے کہا

’’میں یہی چاہتا تھا۔ اب دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اور بولو کیا کرنا چاہتی ہو۔ ‘‘

’’بہت کچھ، ستاروں کو چھونا چاہتی ہوں۔ ‘‘ اس نے عزم سے کہا تو فہد نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس طرف چل پڑا، جدھر گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔

وہ کار میں آہستہ آہستہ کھیتوں کے درمیان کچی سڑک پر سے چلتے چلے جا رہے تھے۔ قریب ہی سراج کا ڈیرہ تھا۔ اچانک سامنے چوراہے پر منظر دیکھ کر سلمی کے حواس گم ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ چیخ مارتی، فہد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

٭٭

 

دن کی تیز روشنی میں سراج اپنے ٹریکٹر پر آ رہا تھا۔ اس نے دور ہی سے دیکھ لیا تھا کہ راستے میں چوراہے پر کوئی جیپ لے کر اس کے راستے میں یوں کھڑا تھا کہ سراج کو اپنا ٹریکٹر لازماً روکنا پڑتا۔ وہ جیسے ہی قریب پہنچا تو سامنے ماکھا اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔ اس نے ٹریکٹر روکا اور ماکھے کو مخاطب کر کے پوچھا

’’کیا بات ہے ماکھے، یوں راستہ کیوں روکا ہوا ہے۔ خیر تو ہے نا تجھے؟‘‘

’’تم خود سمجھ دار ہو۔ میرا نہیں خیال کہ تجھے چھوٹی موٹی بات سمجھا نا پڑے گی۔ ‘‘ماکھے نے اکھڑ لہجے میں کہا

’’کھل کر بات کرو کیا کہنا چاہتے ہو۔ یا پھر میرا راستہ چھوڑ دو۔ ‘‘ سراج نے تحمل سے کہا

’’رستہ تو ہم دیں گے آج۔ لیکن تم جانتے ہو کہ ہم جب چاہیں تمہارا راستہ روک لیں اور تمہارا ہر رستہ بھی بند کر دیں۔ اس لئے ذرا دھیان سے رہو۔ ‘‘ ماکھے نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا

’’دیکھ او ماکھے۔ !تم میں اتنی جرات نہیں ہے کہ تو کسی کا راستہ روک لے یا بند کر دے۔ نوکر بندے کا کیا ہوتا ہے۔ ہاں۔ !اگر تو اپنے چوہدریوں کا کوئی پیغام لے کر آیا تو صاف صاف کہہ، پہیلیاں کیوں ڈال رہا ہے۔ ‘‘سراج نے اپنا غصہ دباتے ہوئے کہا لیکن طنز پھر بھی اس کے لہجے میں گُل گیا تھا۔ تبھی ماکھے نے غصے میں کہا

’’تو پھر سن۔ !یہ جو فہد شہر سے آیا ہے نا۔ اس کی وجہ سے اپنی قسمت خراب مت کر لینا۔ تم جانتے ہو کہ نکے چوہدری نے تیرے بھائی امین کے ساتھ کیا کیا تھا۔ وہ حال تمہارا بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر سراج تڑپ اٹھا۔ اس نے انتہائی غصے میں اونچی آواز میں کہا

’’چوہدریوں کو یہ بات جا کر کہہ دے ماکھے۔ فہد یہاں آتا یا نہ آتا۔ میں نے اپنے بھائی کا انتقا م ضرور لینا ہے اور آئندہ مجھے کوئی دھمکی نہیں دینا۔ میں نے فہد کا ساتھ ہر صورت میں دینا ہے۔ اب راستہ چھوڑ دو۔ ‘‘

ماکھے نے سراج کی بات سنی اور اپنی کسی دھمکی کا اثر نہ ہوتے دیکھ کر اپنی گن سیدھی کر کے بولٹ چڑھایا اور اس کی طرف سیدھی کر کے بولا

’’سراج، میں ابھی تمہیں گولی مار سکتا ہوں۔ لیکن نکے چوہدری کا حکم ہے کہ تمہیں صرف سمجھانا ہے۔ ورنہ تو موت مانگے گا اور وہ نہیں ملے گی۔ کیا تجھے اپنے بھائی کو دیکھ کر عبرت نہیں ملی۔ ‘‘

بکواس بند کرو اُوئے ۔۔۔اسی کو دیکھ کر چوہدریوں سے انتقام لینے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔۔۔تم اس کے نوکر ہو۔۔۔اتنی بڑی بات مت کرو۔۔۔تیری اوقات ہی نہیں ہے۔۔۔ جا ؤ، نکے چوہدری کو بھیجو وہ مجھ سے بات کرے۔۔۔چلو راستہ چھوڑو ورنہ۔۔۔‘‘

یہ کہتے ہوئے سراج نے بھی گن نکال لی۔ ماکھا اسے دیکھ کر ایک لمحے کے لئے چونک گیا۔ اور اس وقت وہ حواس باختہ ہو گیا جب فہد کی گاڑی وہاں آن رکی۔ اس میں سلمٰی گھبرا ئی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس کے لئے یہ منظر بہت دہشت ناک تھا۔ فہد نے ایک نظر سلمی کو دیکھا اور نگاہوں ہی نگاہوں میں اسے حوصلہ دے کر کار سے باہر آ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، ماکھے نے حیرت سے سلمی کی طرف دیکھا جو کار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جیپ میں جا بیٹھا۔ تبھی سراج نے اونچی آواز میں کہا

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے فہد۔ تم چلو، میں آتا ہوں۔ ‘‘

فہد گاڑی میں بیٹھ گیا۔ سلمٰی بہت خوف زدہ تھی۔ اس نے ایک نگاہ سلمی کی طرف دیکھا اور کار گاؤں کی طرف بڑھا دی۔ فہد سمجھ رہا تھا کہ یہ منظر کیا کہہ رہا ہے۔

فہد دالان میں آ کر بیٹھ گیا تھا۔ کچھ دیر بعد سلمٰی پانی لے کر آ گئی۔ اس نے جگ قریب پڑے چھوٹے میز پر رکھا اور اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی

’’فہد، یہ میری کیسی قسمت ہے ۔۔۔ذرا سی خوشی ملتی ہے تو، ساتھ خوف کے مہیب سائے کیوں منڈلانے لگتے ہیں۔ ادھوری خوشی کیوں ہے میرے نصیب میں۔ ‘‘

’’تم ایسے کیوں سوچ رہی ہو؟‘‘ فہد نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا تو تیز انداز میں بولی

’’ٹھیک ہے آپ کے آنے سے مجھے تحفظ کا احساس ہوا ہے۔ لیکن آپ سے جو چوہدریوں کی دشمنی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں اور کیا سوچا جا سکتا ہے۔ ‘‘

’’یہ تو ہونا ہی ہے۔ کون چاہتا ہے کہ اس کی حکمرانی ختم ہو۔ ہر وہ بندہ جو اُن کی حکمرانی ختم کر سکتا ہے۔ وہ اس کے دشمن بن جائیں گے۔ ‘‘ وہ دھیمی سے مسکراہٹ کے ساتھ بولا تو وہ تشویش زدہ لہجے میں بولی

’’وہ آپ کو ۔۔۔نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ دیکھا نہیں کس طرح وہ۔۔۔‘‘

’’سلمٰی۔ !کسی بھی غلط فہمی میں نہیں رہنا۔ دشمنی میں جان بھی جا سکتی ہے اور ہر اس بندے کو خطرہ ہے، جس کا تعلق میرے ساتھ ہے۔ اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ ‘‘ فہد نے ایک دم سے حتمی لہجے میں کہا

’’اس کا مجھے پوری طرح احساس ہے۔ ہم تو پہلے ہی گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں۔ ہماری زندگی بھی کیا زندگی ہے، مگر آپ یہ سب کچھ چھوڑ کر اچھا مستقبل اپنا سکتے ہیں۔ کیوں اپنی جان برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ‘‘ سلمی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’یہ سب بھول جاؤ سلمٰی۔ !اور یہ یاد رکھو کہ میں نے اپنا سب کچھ وہیں شہر چھوڑ دیا ہے۔ اب میرا جینا مرنا یہیں ہے۔ یہاں سے چلے جانا بہت آسان ہے۔ مگر کیا چوہدریوں کو یونہی ظلم کرنے کے لئے چھوڑ دوں۔ نہیں سلمٰی۔ !جتنا میرے بس میں ہے۔ میں و ہ کروں گا۔ اس راہ میں کوئی میرا ساتھ دے یا خوف زدہ ہو کر میرا ساتھ چھوڑ دے۔ ‘‘ اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا

’’میں اپنے لئے خوف زدہ نہیں ہوں۔ مجھے آپ کی فکر ہے۔ میرا کیا ہے، میرا وجود تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ مٹی تھی، مٹی ہوں اور مٹی رہوں گی۔ ‘‘ سلمی نے انتہائی مایوسانہ انداز میں کہا

’’نہیں سلمٰی۔ !تم مٹی نہیں ہو۔ تم تو سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہو۔ اپنے دماغ سے یہ خیال نکال دو کہ تم کچھ بھی نہیں ہو۔ تم پڑھی لکھی ایک با شعور لڑکی ہو۔ جس میں یہ صلاحیت ہے کہ جو دوسروں کو بھی شعور بانٹ سکے۔ ‘‘ فہد نے اسے احساس دلاتے ہوئے زور دار انداز میں کہا توسلمی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر ایک عزم سے کہا

’’کیا میں ایسا کر سکتی ہوں۔ کیا میرا وجود، آپ کے کسی مقصد میں کام آ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں پوری جان سے حاضر ہوں۔ مجھے بتائیں کیا کرنا ہو گا؟‘‘

’’اب تک یہی بات تو میں تمہیں سمجھا رہا ہوں۔ یہاں کا ہر فرد میرا مدد گار ہو سکتا ہے اور سلمٰی تم، ایک تمہی تو میرا حوصلہ ہو۔ تم وہ کچھ کر سکتی ہو جو کوئی دوسرا نہیں کر سکتاکیونکہ ایک تمہی ہو جسے میں پہلے سب سے زیادہ قریب سمجھتا ہوں۔ اس سفر میں میری ہم سفر ہو۔ ‘‘وہ بے حد جذباتی لہجے میں بولا

’’مجھے بتائیں فہد۔ !میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں ؟‘‘سلمی حتمی انداز میں پوچھا

’’خود میں اُتنی ہمت پیدا کر لو کہ خوف کے جتنے بھی سائے پھیل جائیں۔ تم ہر حال میں حوصلہ مند رہو۔ جتنا بڑا طوفان آ جائے۔ تم ثابت قدم رہو۔۔۔اور تم جانتی ہو ایسا کیسے ممکن ہے۔ ‘‘فہد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سکون سے کہا تو وہ فہد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی

’’محبت، یہ محبت ہی ہے جو طوفان سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کر تی ہے۔ کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے؟‘‘

’’محبت لفظوں کا کھیل نہیں ، ثابت کر دینے کا نام ہے سلمی۔ ‘‘فہد نے شہد آگیں لہجے میں کہا

’’میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ہر دم، ہر گھڑی، ہر جگہ۔ ثابت کر دوں گی۔ ‘‘سلمی عزم سے بولی

’’ تو میرا یقین رکھو۔ !ان چوہدریوں کا خوف ذہن سے اتار کر جیو۔ اپنی سہیلیوں سے ملو۔ ہر کسی کے دکھ درد میں کام آؤ۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر حوصلہ دیتے ہوئے بولا تبھی اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور کہا

’’میں آپ کے لئے کھانا لگاتی ہوں۔ ‘‘

سلمٰی یہ کہتے ہوئے اٹھ گئی۔ اس کا شرم سے سرخ چہرہ دیکھ کر فہد مسکرا دیا۔ وہ تیزی سے کچن میں چلی گئی۔

کھانے کے دوران ہی سلمی کی کچھ سہلیاں آ گئیں۔ فہد کھانے کے بعد وہ اٹھ گیا۔

وہ سیدھا اپنے گھر آیا جہاں سراج اور امین آمنے سامنے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ وہ بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں چھاکا چائے لا کر ان کے سامنے رکھتے ہوئے بولا

’’لو بھئی۔ !میں نے تو اپنی طرف سے کڑک چائے بنائی ہے اب جیسی بھی ہے پی لینا۔ ‘‘

’’اوئے تو لا توسہی، باتیں ہی کرتا رہے گا۔ ‘‘ سراج نے ہنستے ہوئے کہا۔ اس پر چھاکا شوخی سے بولا

’’او سراج اک ہی تو چھاکا ہے پنڈ میں ، جس کی پورے علاقے میں دس پچھ ہے۔ اسے چائے بھی بنانی نہیں آئے گی۔ ‘‘

’’تیری دس پچھ تو ہے لیکن چھاکے یار۔ ! تو کوئی کام کیوں نہیں کرتا ؟‘‘ فہد نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ اس کے یوں کہنے پر وہ ایک دم سے جذباتی ہوتے ہوئے بولا

’’کیا کام کروں بتا۔ چند جماعتیں پڑھی ہیں ، کون سا افسر لگ جانا ہے۔ کرنی تو یہی محنت مزدوری ہے نا۔ باپ بھی یہی کرتا آیا ہے اور اب میں بھی یہی کروں گا ۔۔۔ روٹی پوری کر لیں یہی بڑی بات ہے۔ ‘‘

’’کیوں۔ !کیا تیرے سر میں بھیجا نہیں ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے خود ہی سوچتے ہوئے بولا، ’’انہیں یہ شعور ہی نہیں کہ ملک کے وسائل پر ان کا بھی حق ہے۔ ان کے وسائل توکسی اور کے قبضے میں ہیں۔ یہی بات تو ان گاؤں والوں کو سمجھانی ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے سراج کی طرف دیکھ کر کہا، ’’سراج۔ !تم میری ایک مدد کرو۔ یہاں گاؤں میں کوئی خالی زمین اگر کوئی فروخت کر رہا ہے تو میں وہ خریدنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’زمین ۔۔۔چاچا عمر حیات بیچنا چاہتا ہے۔ اس کے خاندان والے خود خریدنا چاہتے ہیں۔ چوہدریوں کے پاس پنچائت بھی چل رہی ہے ان کی۔ مگر تم اس کا کرو گے کیا؟‘‘ سراج نے سوچتے ہوئے کہا

’’میں اسے کسی مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مقصد کیا ہے۔ یہ میں بعد میں بتاؤں گا۔ فی الحال جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ کام کرو۔ ‘‘ فہد نے حتمی لہجے میں کہا توسراج بولا

’’سمجھو۔ تمہارا یہ کام کل ہی ہو جائے گا۔ ‘‘

’’اور پرسوں کاغذی کاروائی کے بعد رقم بھی ادا کر دوں گا۔ اور چھاکے تم یہ آوارہ مت پھرا کرو بلکہ میرے ساتھ رہا کرو۔ بہت سارے کام ہوتے ہیں کرنے کے لئے۔ ‘‘ پھر دھیمے لہجے میں امین ارائیں سے کہا، ’’تم اورسراج پورے دھیان سے رہا کرو، ادھر ادھر کا خیال کر کا پورا خیال رکھو، دشمن کا کوئی پتہ نہیں۔ ‘‘ فہد نے تیزی سے کہا

’’نہیں فہد۔ !مجھے اس وقت تک سکون نہیں ہو گا جب تک میں اپنے دوست کے قتل کا بدلہ نہ لے لوں۔ تم دونوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا، کیا ہوا وہ ؟کیسا اندھیر ہے یار، میں قتل کا چشم دید گواہ ہوں ، اور میری کہیں شنوائی نہیں۔ ‘‘

’’تو فکر نہ امین، کل ہی تیری ایف آئی درج ہو گی، تم کل تیار رہنا، تھانے چلیں گے۔ ‘‘ فہد نے اسے یقین دلایا

’’میں ہر وقت تیار ہوں فہد۔ ‘‘ امین نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ تبھی سراج تشویش سے بولا

’’یار۔ !ایک بات میرے دماغ میں کھٹک رہی ہے۔ ماکھا اگر میرا راستہ روک سکتا ہے تو ہمارے ہی کسی اپنے کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ میری مانو تو اب رات یہاں نہ رہا کرو۔ استاد جی کے گھر رہ یا میرے پاس۔ ‘‘

’’کہتے تو تم ٹھیک ہو۔ چلو ایسا ہی کرتے ہیں۔ ابھی یہ چائے تو پئیں۔ ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ ‘‘ فہد نے کہا اور چائے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

چائے پینے کے بعد سراج اٹھ گیا۔

’’ فہد میں تمہاری کار لے کر جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے جاؤ۔ ‘‘ فہد نے کہا اور امین سے باتیں کرنے لگا۔ چھاکا اور سراج باہر نکل گئے۔ گاؤں کے چوک میں جا کر چھاکا اتر گیا۔ اس نے حنیف دوکان دار سے اپنے مرغے کے لئے میوے لئے اور اپنے گھر کی جانب چل دیا۔ چھاکے کے گھر میں وہی ویرانی تھی۔ چاچا سوہنا گھر پر نہیں تھا۔ اس نے ایک طویل سانس لی اور اپنے مرغے کو پکڑ لیا۔

چھاکا اپنے مرغے کو لیے چار پائی پر بیٹھا ہوا، اسے بادام کھلا رہا تھا اور ساتھ میں اس سے باتیں کر رہا تھا۔

’’دیکھ شہزادے، میں نے تیری ٹہل سیوا میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس لیے اب تو نے مقابلہ جیت کر دکھانا ہے۔ میری کنڈھ نہیں لگنے دینی۔ ‘‘ اس پر مرغا یوں بول اٹھا، جیسے وہ اس کی بات سمجھ رہا ہو۔ تبھی چھاکا اپنی دھن میں کہتا چلا گیا۔ ’’ہاں۔ ! شاباش، تو میری گل سمجھتا ہے۔ تجھے تو پتہ ہے اک ہی تے میں ہوں اس پنڈ میں جس کی دس پچھ ہے ۔۔۔اگر تو ہار گیا نا تو پھر میری کیا عزت رہ جائے گی بھلا۔ ‘‘

اس کی باتوں کے دوران چاچا سوہنا گھر آ گیا۔ وہ صحن میں آیا اور قریب پڑی چارپائی پر خاموشی سے آ کر لیٹ گیا۔ چھاکے نے اپنے باپ کو حیرت سے دیکھا۔ ہر وقت اپنے آپ کو خوش رکھنے والا چاچا سوہنا آج اتنا خاموش کیوں ہے۔ چھاکے نے دھیرے سے پوچھا

’’ابا، خیر تو ہے نا، بڑا چپ ہے۔ نہ مجھے کچھ کہا نہ میرے شہزادے کو۔ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا، کہیں کسی نئے عشق میں ناکام تو نہیں ہو گیا۔ ‘‘

’’اوئے پتر، ٹھیک ہے میری طبیعت۔ اب میں نے کیا عشق کرنا ہے یار۔ اب تو بس آگے کی فکر ہے۔ وہ جس طرح میاں محمد بخش سرکار نہیں کہتے۔ سدا نہ باغیں بلبل بولے۔ سدا نہ باغ بہاراں ۔۔۔ سدا نہ ماپے حسن جوانی سدا نہ صحبت یاراں۔ ‘‘ چاچے سوہنے کی آواز میں نجانے کیوں سوز در آیا تھا۔ چھاکا ایک دم سے جذباتی ہو گیا۔ اس نے اپنے مرغے کو ایک طرف اچھالا اور اپنے باپ کے پاس جا کر بیٹھ گیا، پھر بڑے پیار سے پوچھا

’’ابا۔ ! خیر تو ہے نا، ایسی باتیں کیوں کر رہا ہے؟‘‘

’’اُو پتر اس قسمت نگر کی قسمت پتہ نہیں کیا ہے ۔۔۔پہلے تو صرف چوہدریوں کا خوف تھا۔ اب فہد کے آنے سے خوف بڑھ گیا ہے، پتہ نہیں کیا ہو گا۔ ‘‘ چاچا سوہنا تشویش سے بولا تو چھاکے نے کہا

’’فہد ان کی طرح ظالم تو نہیں ہے ابا۔ وہ تو خود چوہدریوں کے ظلم کا شکار ہوا تھا۔ ‘‘

’’اوئے چھاکے، اگر فہد کوئی تیرے اور میرے جیسا عام سا بندہ ہوتا نا تو کوئی ڈر نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ مضبوط ہیں تو وہ ان چوہدریوں سے ٹکر لینے آ گیا ہے۔ مجھے ڈر یہ ہے پتر کہ جب دو ہاتھی آپس میں لڑ پڑیں نا تو نقصان اس بستی کا ہوتا ہے جہاں ان کی لڑائی ہو، پتہ نہیں اب اس قسمت نگر کا کیا ہو گا۔ ‘‘ اس کے لہجے میں سے خوف چھلک رہا تھا۔

’’اُو ابا، رب سائیں چنگا کرے گا تو ایویں خوف نہ کھا۔ بلکہ حوصلے کا انجکشن لگوا، قسمت میں جو ہونا ہو وہ ہو کر رہتا ہے۔ وہ پار گاؤں کی بیوہ بارے پتہ کیا تھا میں نے۔۔۔‘‘ چھاکے نے مذاق میں کہنا چاہا تو وہ اس کی بات کاٹ کر اکتاہٹ سے بولا

’’ اُو جا، جا کر اپنے ککڑ کو بادام کھلا۔ میرا سر نہ کھا۔ مجھے کچھ دیر آرام کرنے دے۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے جیسے ہی کہا تو مرغا بول اٹھا۔ چھاکا پہلے تو اپنے باپ کو بڑی گہری نگاہوں سے دیکھتا رہا پھر کاندھے اچکا کر ایک طرف جا بیٹھا۔ چاچا سوہنا ہلکے ہلکے گنگنانے لگا۔

’’لُوئے لوئے۔۔۔بھر لے کڑئے۔۔۔ جے کر بھانڈا بھرنا۔۔۔‘‘

اس کی آواز میں سوز نجانے کہاں سے آ گیا تھا۔

سراج کچھ دیر بعد ہی چاچے عمر حیات کو اس کے کھیتوں میں جا ملا۔ اس نے سڑک کنارے کار روکی تو وہیں دونوں ایک کھیت کی منڈھیر پر بیٹھ کر باتیں کر نے لگے۔

’’چاچا، سنا ہے کہ تو اپنی زمین بیچ رہا ہے؟ کیا یہ سچی بات ہے؟‘‘ سراج نے صاف لفظوں میں پوچھا

’’ہاں پتر۔ ! مگر میرے بھائی بیچنے ہی نہیں دے رہے۔ وہ خواہ مخواہ مجھے اذیت دے رہے ہیں۔ زمین بیچنا میری مجبوری بن گئی ہے پتر۔ ‘‘ عمر حیات نے بتایا

’’ایسی بھی کیا مجبوری چاچا، تمہاری زمین ہے، تم خود کاشت کرو۔ بیچنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا مجبوری بن گئی ہے۔ ‘‘ سراج نے پوچھا تو عمر حیات نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا

’’کاش پتر، کوئی تیرے جیسا میرا پتر ہوتا تو میں بھی سر اٹھا کر اپنے بھائیوں کا مقابلہ کر لیتا۔ تو جانتا ہے کہ میری ایک ہی بیٹی ہے، میرے بھائی صرف جائیداد کی خاطر اسے مجھ سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں اپنی بیٹی کو ساری عمر کے لیے اذیت میں نہیں ڈال سکتا۔ ‘‘

’’ایسے کیسے چھین لیں گے وہ تجھ سے، اتنی بھی اندھیر نگری نہیں ہے۔ ‘‘ سراج نے کہا

’’ہے، اندھیر نگری ہے پتر، تو یہاں نہیں رہا، تجھے نہیں پتہ۔ پر تیرے بھائی کے ساتھ جو ہوا، وہ تو نہیں جانتا؟ چوہدری میرے بھائیوں کے ساتھ ہے۔ کسی دن چپکے سے مجھے قتل بھی کر سکتے ہیں۔ میری دھی اس دنیا میں تنہا رہ جائے۔ نہیں پتر، میں اس کی جلد از جلد شادی کر کے، اسے اپنے گھر کی کرنا چاہتا ہوں۔ یہی زمین میری دشمن بنی ہوئی ہے۔ میں اب اسے نہیں رکھنا چاہتا۔ ‘‘ چاچے عمر حیات نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا تو اس نے پوچھا

’’ کیا اس لیے نہیں بک سکی زمین؟‘‘

’’ہاں ، خریدار کسی بھی پھڈے سے ڈرتے ہیں ، میرے بھائی اور چوہدری ان کا جینا حرام کر دیں گے۔ ‘‘ چاچے نے کہا توسراج نے اچانک سر اٹھا کر کہا

’’چاچا تم اس کی جو رقم مانگتے ہو، میں دیتا ہوں۔ کر لو سودا، اگر تمہارا دل مانے تو، پھڈے میں دیکھ لوں گا۔ ‘‘

’’تم یا فہد؟‘‘ عمر حیات نے حیرت سے پوچھا

’’فہد ہی سمجھ لو۔ ‘‘ سراج نے صاف گوئی سے کہا

’’یہ میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ کل چوہدریوں نے اس زمین کے معاملے میں پھڈا ڈالنا اور میں تمہیں جانتا ہوں ، تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ بہت ظالم ہیں۔ ‘‘چاچے عمر حیات نے کہا تو سراج غصے میں بولا

’’یہ ہم دیکھ لیں گے۔ بس تُو ثابت قدم رہنا۔ ‘‘

’’جہاں چاہے بیان لے لینا۔ ‘‘چاچے عمر حیات نے فیصلہ کن لہجے میں کہا

’’ٹھیک ہے۔ آج شام اپنی رقم لے کر لکھ پڑھ کر لینا۔ میں اور فہد آ جائیں گے۔ ‘‘ سراج نے حتمی انداز میں کہا تو چاچے عمر حیات نے کہا

’’میں انتظار کروں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ دونوں اس بارے باتیں کرنے لگے۔ قسمت نگر میں اک نیا باب لکھا جانے والا تھا۔

٭٭

 

چوہدری کبیر صوفے پر بیٹھا ہوا اور ماکھا اس کے قریب کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر غصہ تھا۔ اس نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا

’’ہوں ، تو اس کا مطلب ہے سراج سیدھے طریقے سے نہیں سمجھا۔ اب اسے اچھی طرح سمجھانا پڑے گا۔ ‘‘

’’اس کا تو رنگ ڈھنگ ہی بدلا ہوا ہے چوہدری صاحب۔ !اب تو وہ اپنے ساتھ اسلحہ بھی رکھتا ہے۔ پہلے ان میں اتنا حوصلہ نہیں تھا۔ ‘‘ ماکھے نے بتایا

’’کیا اسلحہ بھی؟ ۔۔۔اسے یہ حوصلہ ملا کیسے؟

’’فہد نے، یہ حوصلہ انہیں فہد ہی نے تو دیا ہے اور وہ بھی وہیں آ گیا تھا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے جیسے اسے یاد آ گیا، تبھی اس نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’اور ایک بات اور بتاؤں نکے چوہدری جی۔۔۔‘‘

’’ایسی کیا بات ہے ماکھے؟‘‘کبیر نے حیرت سے پوچھا

’’ فہد کے ساتھ کھیتوں میں سلمٰی بھی تھی چوہدری جی۔ لگتا ہے وہ بھی فہد کا حوصلہ پا کر گھر سے باہر نکلی ہے۔ اکیلی اس کے ساتھ تھی۔ ‘‘

یہ سنتے ہی کبیر حیران رہ گیا۔ وہ حیرت اور غصے میں بولا

’’سلمٰی۔۔۔ فہد کے ساتھ؟اس کا مطلب ہے سلمٰی بھی۔۔۔وہ بھی اپنے پر نکالنے لگی ہے۔ نہیں چھوڑوں گا، اب فہد کے دن قریب آ گئے ہیں ، اب اسے نہیں چھوڑوں گا۔ ‘‘

’’تو پھر اس سارے فساد کی جڑ، فہد ہی کا کا م کر دیں ؟‘‘ ماکھے نے پوچھا

’’ہاں۔ !وہ اب جہاں بھی ملے۔ اس کا کام ۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے رک گیا پھرسوچتے ہوئے مسکرا کر سفاکانہ لہجے میں بولا، ’’لیکن نہیں۔ پہلے سلمٰی کو اُٹھا کر پار ڈیرے میں پہنچا دو۔ میں کچھ دن فہد کا تڑپنا دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’جیسے حکم چوہدری صاحب۔ !میں آج رات ہی اسے اٹھا لیتا ہوں۔ یہ کا م ہو گیا سمجھے۔ ‘‘ ماکھے نے یوں کہا جیسے اس کی اپنی مرضی بھی اسی میں ہو۔ وہ اپنا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ تبھی کبیر نے کہا

’’اور دیکھو۔ !گاؤں میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہئے کہ سلمٰی ہے کدھر۔ !میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ فہد اسے کیسے تلاش کرتا ہے۔ یہ کھیل بھی کھیل کر دیکھتے ہیں یار۔ مار تو اسے دینا ہی ہے۔ ‘‘

’’ایسا ہی ہو گا۔ چوہدری جی۔ ‘‘ ماکھا خوشی سے بولا

’’چل اب جا، تم صبح وہیں پار والے ڈیرے پر میرا انتظار کرنا وہیں آؤں گا۔ ‘‘کبیر نے کہا تو ماکھا تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا۔ چوہدری کبیر سوچ میں گم تھا اور اس کے چہرے پر غصے کے آثار تھے۔

٭٭

 

اس وقت رات کا پہلا پہر ختم ہو چکا تھا۔ ماسٹر دین محمد کے گھر صحن میں فہد بستر پر پڑا ہوا تھا کہ اچانک اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اسے آہٹ کا احساس ہوا تھا۔ اسے خطرہ محسوس ہوا تو اس نے سرہانے کے نیچے سے پسٹل نکالا اور آہستگی سے باہر کی جانب لپکا۔ اسے ایک سایہ صحن عبور کرتا ہوا دکھائی دیا۔ جیسے ہی وہ سایہ اس کے پسٹل کی رینج میں آیا تو اس نے کڑک کر کہا

’’رُک جاؤ۔ !ورنہ گولی ماردوں گا۔ ‘‘

وہ سایہ ایک دم سے ٹھٹک گیا پھر پلٹ کر گن سیدھی کی ہی تھی کہ فہد نے فائر کر دیا۔ وہ سایہ پلٹ کر گرا۔ فہد تیزی سے اس کے سر پر جا پہنچا۔ وہ ماکھا تھا اور اوندھے منہ زمین پر گرا ہوا تھا۔ وہ اپنی ٹانگ پر ہاتھ رکھے ہوئے تکلیف کی شدت سے کراہ رہا تھا۔ فہد کو آگے بڑھتے دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا۔ اس کے چہرے پر ایسا پھر تاثر پھیل گیا جیسے موت کو اپنے سامنے دیکھ کر سر جھکا چکا ہو۔ فہد نے اس کے سر پر پسٹل کی نال رکھ دی۔ پھر اس کی گن پکڑ کر سرد لہجے میں بولا

’’کیوں آئے ہو؟سچ بتانا، ورنہ۔۔۔‘‘

یہ کہتے ہوئے فہد نے اس کی گردن پر پاؤں ر کھ دیاتو ماکھا کراہتے ہوئے بولا

’’س۔۔۔سس۔۔۔سلمی کو اٹھانے، نکے چوہدری نے حکم۔۔۔‘‘

وہ بتا رہا تھا کہ ایسے میں سلمی نے کمرے سے نکلتی ہوئی یہ بات سن لی۔ وہ ایکدم سے خوف زدہ ہو گئی۔ تبھی شد ید غصے میں فہد نے اس سے کہا

’’کیا سمجھا ہوا ہے تم لوگوں نے اس گھر کو۔ تم اور تیرے چوہدری کو معلوم نہیں کہ اس گھر کی حفاظت کرنے والا آ گیا ہے، پھر بھی پاگل پن کیا ہے تم لوگوں نے؟‘‘

لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ ماسٹردین محمد اندر سے باہر نکل آیا۔ وہ باہر کی صورتحال دیکھ کر گھبرا گیا۔ ایسے میں ماکھا دہشت زدہ لہجے میں بولا

’’میں چلا جاتا ہوں۔ پھر آئندہ کبھی اس گھر کی طرف منہ نہیں کروں گا۔ ‘‘

’’ماکھے۔ !تیری زندگی اور موت کے درمیان بس ایک لمحہ ہے۔ میں چاہوں تو اس چار دیواری کا تقدس پامال کرنے پر تمہیں ابھی سزادے دوں۔ لیکن تو کسی کا نوکر ہے۔ تیرے مر جانے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔ تیری جگہ کوئی اور آ جائے گا۔ ‘‘ فہد نے کہا تو ماکھا چونک گیا۔ چند لمحے سر جھکائے رہا پھر عجیب سے لہجے میں بولا

’’مجھے معاف کر دے یا پھر مجھے گولی مار دے۔ میرا مر جانا ہی اچھا ہے۔ ‘‘

’’میں نہیں ۔۔۔تجھے وہ ماریں گے، جن کے لئے اب تو بے کار گھوڑا ہے۔ میں تم پر گولی بھی ضائع نہیں کروں گا۔ جاؤ دفعہ ہو جاؤ۔ ‘‘فہد نے اپنا پاؤں اس پر سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ ماکھے نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا توماسٹر دین محمد کی آواز آئی

’’اس سے پوچھا نہیں کہ یہ کس لئے رات کے اندھیرے میں یہاں آیا ہے؟‘‘

’’یہ مجھے مارنے آیا تھا استاد جی، پوچھ لیں اس سے۔ ‘‘ فہد نے اونچی آواز میں بتایا تو ماکھا پھر سے چونک گیا۔ پھر ہکلاتے ہوئے بولا

’’نہیں ۔۔۔ہاں ۔۔۔‘‘

’’جاؤ یہاں سے، پھر پلٹ کر بھی نہ دیکھنا۔ بتا دینا انہیں میں ابھی جاگ رہا ہوں۔ ‘‘فہد نے کہا تو ماکھا اٹھا اور لنگڑا تا ہوا دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔ فہد نے پلٹ کر ماسٹر دین محمد سے کہا

’’آپ آرام کریں استاد جی، صبح بات کریں گے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ ان کی طرف دیکھتا رہا۔ سلمٰی اور ماسٹر دین محمد حیرت زدہ سے واپس پلٹ گئے۔ فہد پھر سے اپنے بستر پر آ گیا۔ نیند اس کی آنکھوں سے اُڑ چکی تھی۔

فہد منہ ہاتھ دھو کر صحن میں دھری کرسی پر آن بیٹھا۔ جس کے پاس ہی چارپائی اور ایک کرسی خالی پڑی تھی۔ درمیان میں میز تھی۔ سلمٰی چائے کا کپ میز پر رکھا اور اس کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ فہد نے کپ اٹھا یا تو سلمٰی نے کہا

’’رات آپ نے ماکھے کو یہ کیوں نہیں کہنے دیا کہ وہ مجھے اغواء کرنے آیا تھا؟‘‘

’’اس لئے سلمٰی کہ استاد جی پہلے ہی بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ سچ انہیں مزید خوف زدہ کر دے۔ ‘‘ فہد نے آہستگی سے کہا

’’کیا وہ اس پر خوف زدہ نہیں ہو سکتے کہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو کسی کو جان سے ختم کر دینا، کیا زیادہ بھیانک نہیں ہے؟‘‘ سلمی نے خوف زدہ لہجے میں پوچھا

’’سلمٰی تم کیوں نہیں سمجھتی ہو۔ عزت کا معاملہ مر جانے سے بھی زیادہ مار دیتا ہے۔ تم نہیں جانتی ہو کہ وہ اپنی ذات پر ہر طرح کا ظلم سہہ کر صبر کرتے رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ صرف اسی لئے۔۔۔‘‘ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا

’’میں جانتی ہوں فہد۔ !لیکن اگر آپ کو ہماری وجہ سے کچھ ہو گیا۔ تو پھر ہم کیا کریں گے۔ یہ خود غرضی نہیں ہے بلکہ احسان کا ایسا بوجھ ہو گا۔ جو نہ ہمیں جینے دے گا اور نہ ہی ہمیں مرنے دے گا۔ ‘‘ سلمی نے ایک دم جذباتی ہوتے ہوئے کہا تو فہد نے گہری سنجیدگی سے کہا

’’تم ایسا کچھ بھی نہ سوچو، میں اگر یہاں پر ہوں تو یہ میرا اپنا مقدر ہے۔ جس کے لئے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ چکا ہوں تم پر یا استاد جی پر احسا ن نہیں بلکہ میں تو اس احسان کا بدلہ چکانے کی کوشش کر رہا ہوں جو استاد جی نے مجھ پر کیا۔ ‘‘

’’اس بار تو ان کا وار خالی چلا گیا۔ تم کیا سمجھتے ہو کیا آئندہ وہ ایسی اوچھی حرکت نہیں کریں گے۔ وہ ہمیں یونہی معاف کر دیں گے؟‘‘ سلمی کے لہجے سے خوف نہیں جا رہا تھا۔ اس پر فہد نے یقین بھرے لہجے میں کہا

’’وہ آئندہ بھی ایسی ہی اوچھی حرکت کریں گے۔ انہوں نے ہمیں معاف کیا کرنا ہے۔ ان کا بس چلے تو ہمیں اس دنیا سے ہی نکال دیں۔ لیکن تم بتاؤ، کیا ہم مر جائیں ؟‘‘

’’میں آپ سے وعدہ کر چکی ہوں فہد۔ میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں۔ چاہے میری جان چلی جائے۔ ‘‘ وہ عزم سے بولی تو فہد نے مضبوط لہجے میں سمجھایا

’’تو پھر یہ بات جان لو سلمٰی، ہم ایک جنگل میں رہ رہے ہیں۔ اور جنگل کا قانون صرف اور صرف طاقت ہوتا ہے۔ بچتا وہی ہے جیسے اپنی حفاظت کرنا آتا ہو۔ جو اپنی حفاظت نہیں کر سکتے وہی پستے ہیں۔ انہی پر ظلم ہوتا ہے۔ انہی کا خون بہایا جاتا ہے۔ خود کو مضبوط کروسلمی۔ ‘‘

’’میں واقعی خود کو کمزور سمجھتی رہی ہوں۔ لیکن جب سے آپ آئے ہیں۔ میں نے خود کو بہت مضبوط کر لیا ہے۔ آپ آزما کر تو دیکھیں۔ ‘‘ اس نے فہد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سچائی بیان کر دی۔

’’اپنوں کو آزمایا نہیں کرتے۔ میں تو گہری اندھیری رات سے سورج نکالنے آیا ہوں۔ جس نے میر اساتھ دینا ہے، وہ آ جائے ۔۔۔اور بس۔ ‘‘ فہد نے مسکراتے کہا اور سلمی کی آنکھوں میں دیکھا۔ سلمٰی نے چونکتے ہوئے اس کی طرف دیکھا، جذباتی انداز میں کچھ کہنے کے لئے لب وا کئے، مگر کچھ نہ بولی، لبوں پہ آئے لفظوں کو اپنے اندر ہی محفوظ کر لیا۔ شاید اس نے لفظوں میں اظہار کرنا مناسب خیال نہ کیا ہو۔ پھر بولی

’’آپ کے لئے ناشتہ لاؤں۔ ابا جی تو نجانے کہاں بیٹھ گئے ہوں گے ؟‘‘

’’نہیں ، وہ آئیں گے تو کر لوں گا۔ تم چائے ایک کپ چائے اور لے آؤ۔ ‘‘ فہد نے سوچتے ہوئے کہا توسلمٰی مسکراتے ہوئے اٹھ گئی۔

ناشتہ کرنے کے بعد فہد اپنے گھر جانے کی بجائے سراج کے گھر چلا گیا۔ وہاں سے اس نے امین کو اپنے ساتھ لیا اور نور پور کی جانب چل پڑا۔ اس نے امین سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ تھانے میں ایف آئی آر ضرور درج ہو گی۔

وہ نور پور تھانے جا پہنچے۔ انسپکٹر فون پر بات کر رہا تھا۔ فہد اور امین اس کے پاس جا کر کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ انسپکٹر نے ایک بار ان کی طرف دیکھا پھر جان بوجھ کر ان کی طرف توجہ نہیں دی اور بات کرتا رہا۔

’’سنا پھر، تیرے لالے کا کیا حال ہے، سنا ہے کافی مال بنا رہا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ دوسری طرف سے چند لمحے سنتا رہا، پھر فہد کی طرف دیکھ کر بولا، ’’ ہاں کچھ لوگ بڑے ٹیڑھے ہوتے ہیں۔ انہیں الف کی طرح سیدھا کرنا ہی تو ہمارا کام ہے۔ ‘‘

فہد نے اس کی طرف غصے سے دیکھا اور ریسور چھین کر کریڈل پر رکھ دیا۔ اس حرکت پر انسپکٹر نے بھنّا کر دیکھا۔ فہد نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’کچھ لوگ باتوں سے نہیں مانتے، انہیں منانا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’لگتا ہے تیرا دماغ ٹھیک کرنا ہی پڑے گا۔ ‘‘ انسپکٹر نے سرد سے لہجے میں کہا

’’پہلی بات تو یہ ہے انسپکٹر کہ میرا دماغ ٹھیک ہے اور دوسری بات یہ کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ میرے دماغ کے بارے سوچ سکو۔ خیر۔ !امین کی ایف آئی آر درج کرو۔ ‘‘ فہد نے سکون سے کہا

’’کیسی ایف آئی آر؟‘‘ وہ انجان بنتے ہوئے بولا

’’وہی حبسِ بے جا کی، جو یہ لکھوانے آیا تھا۔ پھر سن لو، چوہدری کبیر نے اسے اپنے ڈیرے پر رکھا، تشدد کیا اور پھر تم نے اسے حوالات میں رکھا۔ ‘‘ فہد نے اسے جتایا تو انسپکٹرقہقہہ لگا کر بولا

’’بہت معصوم ہو تم یار۔ میں اپنے خلاف ہی ایف آئی آر لکھوں گا۔ ‘‘

’’اب نہیں لکھو گے تو چند دن بعد لکھو گے۔ وہ بھی اپنے ہاتھوں سے۔ وہ قتل جو کبیر نے کیا اور جسے تم چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔ وہ اندھا قتل بن کر داخل دفتر نہیں ہو گا۔ یہ سن لو انسپکٹر۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’اتنا قانون نہ جھاڑ، وہ کیس عدالت نے ختم کر دیا ہے۔ ‘‘ انسپکٹر نے حقارت سے کہا

’’وہ کیس ری اوپن بھی تو ہو سکتا ہے۔ ‘‘ فہد نے اطمینان سے کہا تو انسپکٹر چونک گیا۔ جبکہ وہ کہتا چلا گیا، ’’خیر۔ ! وہ تو ری اوپن ہو گا۔ تم حبس بے جا کی ایف آئی آر ابھی درج کرو، چوہدری کبیر کے خلاف۔۔۔‘‘

انسپکٹر نے بھی سکون سے سنا اور پھر لاپرواہی سے بولا ’’ٹھیک ہے اپنی درخواست دے دو، میں اس پر کاروائی کرتا ہوں اور اگر اس میں تشدد بھی لکھوانا ہے تو اس کا میڈیکل ہو گا، یہ تو پتہ ہو گا تمہیں۔ ‘‘

’’ میں تمہارے حیلے اور بہانے جانتا ہوں کہ یہ تم کیوں کر رہے ہو۔ میرے کہنے پر ایف آئی آر لکھو گے تو اچھا ہے ورنہ یہ تو لکھنا تو پڑے گی۔ یہ تو پتہ ہو گا تمہیں۔ ‘‘فہد نے طنزیہ لہجے میں کہا

’’ٹھیک ہے، لکھتا ہوں ، خیر پہلے میں تفتیش کروں گا کہ یہ تم سے رقم لے کر چوہدری پر الزام تو نہیں لگا رہا۔ ‘ ‘ انسپکٹر ہنستے ہوئے بولا

’’ٹھیک ہے تم اپنا کام کرو، ہاں یہ بتا دو عدالت کا حکم ماننا ہے، یا اپنے کسی آفیسر کا۔ ‘‘ یہ کہہ کر فہد اٹھنے لگا تو انسپکٹرایک دم سے ہنس دیا پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا

’’چل لکھوا، میں بھی دیکھتا ہوں کہ تو کیا تیر مار لے گا۔ ‘‘

جس پر فہد نے امین کو اشارہ کیا تو اپنا بیان لکھوانے لگا۔

٭٭

 

چوہدری کبیر کی گاڑی ڈیرے پر آ کر رک گئی۔ وہ تیزی سے گاڑی میں سے نکل کر دالان کی جانب بڑھا۔ ملازمین آگے بڑھ کر اسے سلام کرتے چلے گئے۔ ایک ملازم نے آگے بڑھ کر سلام کرتے ہوئے کہا

’’سلام چوہدری صاحب۔ ‘‘

اس پر چوہدری کبیر نے دھاڑتے ہوئے پوچھا

’’اوئے، یہ ماکھا کدھر ہے؟‘‘

’’ادھر ہی ہے چوہدری صاحب۔ آپ تشریف رکھیں میں ابھی لاتا ہوں اسے۔۔۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا

’’جا جلدی کر ۔۔۔اس لے کر آ میرے سامنے۔ ‘‘ کبیر نے غصے میں کہا تو ملازم پلٹتے ہوئے بولا

’’جی ۔۔۔میں ابھی لایا۔ ‘‘

ملازم چلا گیا اور چوہدری کبیر دالان میں مضطرب سا ٹہلنے لگا۔ پھراس وقت رک کر دیکھا جب ماکھا اسی ملازم کے سہارے اس کے سامنے آ گیا تو اس نے پوچھا

’’اوئے ماکھے، ساری رات گذر گئی تمہارا انتظار کرتے ہوئے۔ تجھ سے کا م تو کیا ہونا تھا۔ خود گولی کھا کر ادھر بیٹھے ہو۔ ‘‘

’’میں گیا تو تھا۔ لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ فہد پہلے ہی میرے انتظار میں ہے۔ عین وقت پر اس نے۔۔۔‘‘ اس نے کہنا چاہا تو چوہدری کبیر نے غصے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا

’’تو پھر تم نے اسے گولی کیوں نہیں ماردی۔ خود گولی کھا کر یہاں کیوں آئے ہو۔ دل کرتا ہے اب تجھے گولی مار دوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے پاس کھڑے ملازم سے گن پکڑ لی۔ انہی لمحوں میں ماکھے کو فہد کی بات یاد آ گئی۔ ماکھے نے خوف زدہ اور حیرت زدہ سے انداز میں کہا

’’آپ بے شک گولی مار دیں ، مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ وہاں پر ہے۔ ورنہ میں اسی حسا ب سے جاتا۔ ‘‘

تبھی چوہدری کبیر غصے میں پاگل ہو کر اور گن کا بولٹ چڑھاتے ہوئے دھاڑا

’’ ماکھے۔ !تو مان لے ۔۔۔تو بے کا ر ہو گیا ہے۔۔۔تو اب کچھ نہیں کر سکتا۔ ‘‘

’’ایک موقع اور دے دو چوہدری جی۔ پھر چاہے گولی مار دینا۔ ‘‘ ماکھے نے عجیب سے لہجے میں کہا

’’ماکھے۔ !تو ہمارا پرانا وفادار ملازم ہے۔ اسی لیے تجھے معاف کیا، جا، تجھے ایک موقعہ دیتا ہوں۔ اب فہد کو ختم کرنا ہے۔ دفعہ ہو جا، ورنہ میں پہلے تیرا ہی کام نہ کر دوں گا۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے کبیر نے گن ملازم کی طرف اچھال دی۔ جسے ملازم نے دبوچ لیا۔ پھر آگے بڑھ کر کار کی جانب چلا گیا۔ ماکھے نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ چوہدری کبیر کار میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔

٭٭

 

حبیب الرحمن ڈرائنگ روم بیٹھا فون سن رہا تھا کہ مائرہ چائے کا ٹرے اپنے ہاتھوں میں لے کر آ گئی۔ اس نے ٹرے میز پر رکھا اور ایک کپ اپنے پاپا کو دے کر اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی۔ حبیب الرحمن فون بند کر کے اس کی جانب متوجہ ہوا، تو لاڈ سے بولی

’’ پاپا۔ !آج صبح بڑی خوشگوار ہے۔ بڑے دنوں بعد آپ کے ساتھ یوں چائے پینے کا موقعہ ملا ہے۔ ‘‘

حبیب الرحمن اس کی طرف دیکھ کرمسکراتے ہوئے کہا

’’آج میری آف ہے نا، ویسے وہ تمہاری رپورٹ کی بہت تعریف کی جا رہی ہے۔ مجھے بہت فون ملے ہیں۔ اب بھی یہی بات ہو رہی تھی۔ ‘‘

’’بالکل پاپا، مجھے بھی بہت فون آئے ہیں۔ اصل میں پاپا لوگ تنگ آ چکے ہیں ایسے سیاست دانوں سے، وہ اس ماحول سے نکلنا چاہتے ہیں ، تبدیلی چاہتے ہیں۔ ‘‘ مائرہ نے کہا تو اس کے پاپا بولے

’’مائرہ۔ !سیاست پر روایتی جاگیرداروں اور صنعت کاروں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ حکمرانی سے لے کر معیشت تک یہی لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ اور وہ جو حقیقی عوام ہیں۔ وہ جذباتی نعروں ، تصوراتی سبز باغوں اور فلاحی مملکت کے خواب دیکھتے دیکھتے اپنی دوسری نسل بوڑھی کر چکی ہے۔ ‘‘

’’پاپا۔ !آپ کا تعلق تو بزنس کمیونٹی سے ہے۔ آپ لائن کے کس طرف ہیں عوام میں سے ہیں یا تاجروں کے ساتھ؟‘‘مائرہ فوراً سوال کر دیا

’’بات یہ نہیں کہ میں کس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ بات یہ کہ میرے دل میں اپنی وطن کے لیے کتنا مثبت جذبہ ہے۔ میں اپنی ملک کو کیا دے سکتا ہوں۔ میں اگر بزنس کر رہا ہوں تو اس ملک کی عوام ہی میں سے ہوں ، جبکہ ہوا یہ ہے کہ روایتی سیاست نے ہمارے وطن کو کس جگہ لا کھڑا کیا ہے۔ کیا ترقی کی ہے ہم نے ؟ بلکہ خود کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ ‘‘ پاپا نے دکھ سے کہا

’’ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں پاپا کہ مادیت پرستی میں دولت کمانے کی دھن نے کرپشن کی راہ دکھائی اور ہم فقط اپنے لئے سوچتے ہیں۔ ملک کا نہیں سوچا۔ ‘‘ وہ بولی

’’بالکل۔ !۔ اب دیکھو۔ ملک کی مجموعی ترقی کس طبقے کے کھاتے میں جاتی ہے وہی نا، جو حکمران رہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت ہمارا وطن ترقی یافتہ ہوتا یا کم از کم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں۔ فلاحی مملکت کے خواب کو ہم نے چھوا بھی نہیں۔ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے۔ ‘‘ پاپا نے دکھ میں لپٹے ہوئے لہجے میں کہا

’’میں یہ بات سمجھ سکتی ہوں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ عوام آج بھی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔ ‘‘مائرہ نے اپنے باپ کی تائید کی۔

’’عوام پس رہے ہیں۔ جب تک ایوانوں میں اس کی رسائی نہیں ہو گی۔ ان کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ کون کرے گا حل؟‘‘اس نے کہا مائرہ تیزی سے بولی ’’سوری پاپا۔ آپ بھی تو محض طاقت کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں ، سیاست کا کھیل۔۔۔‘‘

’’میں مانتا ہوں روایتی سیاست محض طاقت کا کھیل ہے۔ لیکن جب ایک طبقہ ہی تمام تر وسائل پر قابض ہو جاتا ہے تو پھر ایسی جنگ کا اخلاقی جواز پیدا ہو جاتا ہے۔ کیا تم نہیں جانتی اس ملک کا اصل مسئلہ کیا ہے؟‘‘ حبیب الرحمن نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا

’’غربت، جہالت، بے روزگاری۔۔۔‘‘ اس نے کہا

’’نہیں۔ !حق دار کو اس کا حق نہ ملنا ہے۔ کیا عوام کا حق نہیں کہ انہیں ، تعلیم، روزگار، صحت، ان سب کی سہولیات ملیں ، انصاف ملے۔ خیر۔ !یہ ایک لمبی بحث ہے ایسے میں ہم جیسے لوگوں کو اب میدان میں آنا چاہئے۔ ورنہ وہ کیا کہتے ہیں کہ ہماری داستاں نہ ہو گی داستانوں میں۔ ‘‘ حبیب الرحمن نے اپنا موقف بتایا

’’حق تو عوام کو بھی حاصل ہے۔ ایک جمہوری حکومت عوام ہی سے تو بنتی ہے۔ ‘‘ مائرہ نے کہا

’’یہ فقط نظریہ ہے، حقیقت میں اس ملک کی اکثریت غریب عوام ہے اور ایوانوں میں کتنے فیصد ان کے نمائندے ہوتے ہیں ؟‘‘ پاپا نے کہا تو مائرہ بولی

’’جی پاپا۔ !جس طبقے کو شعور آ جاتا ہے۔ وہی اپنی بقاء کی جدوجہد کرتا ہے۔ اگر عوام کو شعور آ جائے اور وہ اپنے جیسا نمائندہ چن لیں تبھی یہ ممکن ہے۔ ‘‘

’’تو بس۔ !بات تمہاری سمجھ میں آ گئی۔ اور جو میں نے کہا تھا کہ تجھے دیکھ کر مجھے سیاست کا خیال آیا تو یہ غلط نہیں۔ آپ میڈیا کے لوگ بہت بڑا کام کر رہے ہو، شعور دے رہے ہو، لیکن نرا شعور کیا کرے گا، جب اس شعور کو درست سمت ملے۔ ‘‘ پاپا نے اسے سمجھایا

’’تھینک یو پاپا۔ مجھے اب بہت زیادہ حوصلہ مل گیا۔ ‘‘ وہ خوش ہوتے ہوئے بولی

’’اب میں تم سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ میڈیا دانشور لوگوں کی نمائندگی کر تا ہے۔ یہ ان پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو درست شعور دیں ، ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے ؟وہ بتائیں۔ ایک قوم بن جانے کی جدوجہد کریں۔ ایک جمہوری ملک میں اصل طاقت عوام ہی ہیں۔ یہ شعور اجاگر کریں کہ وہ اپنی طاقت کو کیسے استعمال کریں کہ یہ ملک ایک فلاحی مملکت بن جائے۔ فلاحی مملکت ہی ہمارا خواب ہے۔ ‘‘ پاپا نے یوں کہا جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔

’’میں سمجھ گئی پاپا کہ آپ مجھ سے کیا چاہ رہے ہیں۔ میں پوری کوشش کروں گی۔ ‘‘ مائرہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا

’’گڈ۔ ! آپ جہاں پر بھی ہو۔ اپنے دائرہ کار میں کوشش کرو۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے پاپا نے کپ میں سے سپ لیا۔ اس کے بعد وہ دیر تک باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ بہت سارا وقت گزر گیا۔ تبھی مائرہ آفس جانے کے لئے اٹھ گئی۔

چینل جاتے ہی باس کا بلاوا آ گیا۔ اس لئے کچھ کئے بغیر وہ باس کے آفس چلی گئی۔ وہ جب سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی تو باس نے کہا

’’کل آپ کی رپورٹ آن ائیر ہو جانے کے بعد مجھے بہت فون ملے۔ بہت سراہا گیا ہے آپ کی رپورٹ کو۔ لوگوں نے بہت تعریف کی ہے آپ کی مائرہ۔ !بہت خوشی ہوئی۔ آپ اسی محنت اور لگن سے کام کریں۔ ‘‘

’’تھینکس سر، یہ میرے لیے اعزاز ہے سر۔ !میں سمجھتی ہوں کہ یہ آپ کی وجہ سے ہوا۔ میں نے آپ سے بہت سیکھا ہے۔ ‘‘ مائرہ دھیمے سے کہا

’’وہ ٹھیک ہے، لیکن یہ تمہاری محنت اور لگن کا نتیجہ ہے۔ اور بہت سارے لوگ بھی تو ہیں۔ وہ تمہاری طرح کیوں نہیں سیکھتے۔ !اصل میں تم اپنے کا م کو پوری دیانت داری سے کرتی ہو۔ اسی لیے تمہارے کام میں جان ہوتی ہے۔ اور تم نے ان لوگوں کو بے نقاب کیا ہے، جنہیں ہم بہت طاقتور خیال کرتے ہیں۔ ‘‘ باس نے اعتراف کیا

’’سر۔ !میں سمجھتی ہوں کہ آپ جو کر رہے ہیں یا اسے پوری توجہ سے کریں یا پھر نہ کریں۔ ‘‘ اس نے کہا

’’ایسا ہی ہو نا چاہیے اور ہاں۔ !اب اسی کامیابی کو اپنی منزل نہ سمجھ لینا۔ ابھی تم نے اس سے بہت آگے جانا ہے۔ ‘‘ باس نے سمجھاتے ہوئے کہا، پھر ایک لمحہ کے لئے رُک کر بولا، ’’ آپ کو بتا دوں کہ اب رضوی صاحب آپ کے ہیڈ نہیں ہوں گے، انہیں نیوز شعبے کا ہیڈ بنا دیا گیا ہے، آج سے آپ اپنے شعبے کی ہیڈ ہیں۔ ابھی آپ کو لیٹر مل جاتا ہے۔ مبارک ہو آپ کو۔ ‘‘

اس اچانک خوشی پر مائرہ ایک دم سے چونک گئی، تاہم خود پر قابو پاتے ہوئے بولی

’’ تھینک یو سر۔ !میری محنت اور وقت دونوں ، میری کامیابی، میرے پاس لے آئیں گے۔ ابھی مجھے بہت کچھ کرنا ہے۔ میں آپ کی توقعات پر پورا اتروں گی۔ ‘‘

’’بس یہی جذبہ رہنا چاہیے۔ کامیابی نہیں ، کامیابیاں تمہیں ملتی رہیں گی۔ بہرحال جو ذمہ داری بھی لو اس بھرپور انداز میں نبھاؤ۔ اوکے۔ وش یو گڈ لک‘‘باس نے کہا تو وہ اٹھتے ہوئے بولی

’’تھینک یو سر۔۔۔ آپ مجھے بہت حوصلہ دیتے ہیں۔ ‘‘

اس پرباس مسکرا دیا تو وہ باہر نکلتی چلی گئی۔

مائرہ اپنے آفس میں آ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ پھر اپنا سیل فون نکال کر جعفر کے نمبر پش کر دئیے۔ اس کے چہرے پر خوشی پھیلی ہوئی تھی۔ دوسری طرف جعفر اپنے آفس میں ایک فائل دیکھ رہا تھا۔ اس کا سیل فون بجا تو اس نے اسکرین پر دیکھا۔ تب اس کے چہرے پر تھکن بھری مسکراہٹ آ گئی۔ جعفر نے فون پک کر لیا۔

’’ہیلو، جعفر۔۔۔ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

جعفر نے کام چھوڑ کرکرسی سے ٹیک لگائی اور خوشگوار انداز میں بولا

’’کہنے کو تو کہہ سکتا ہوں کہ میں فٹ بال کھیل رہا ہوں۔ ‘‘

اس پر مائرہ قہقہہ لگا تے ہوئے بولی

’’تم بھی نا۔۔۔‘‘

’’مائرہ، لگتا ہے آج تم بہت خوش ہو۔ ‘‘ اس نے خوشی سے کہا تو مائرہ نے پوچھا

’’تمہیں کیسے پتہ کہ میں بہت خوش ہوں آج؟‘‘

’’بہت عرصے بعد تمہارے لہجے میں کھنکھناہٹ سنی ہے۔ بہت اچھا لگا مجھے۔ ‘‘ جعفر نے مخمور لہجے میں کہا

’’ہاں ، خوش تو ہوں۔ ایک بہت ہی اچھی خبر ہے اور سب سے پہلے تمہیں سنانا چاہتی ہوں۔ ‘‘ اس نے جعفر کے لہجے پر غور کئے بنا کہا

’’بولو۔ ‘‘ وہ آہستگی سے بولا

’’میرے کام کو بہت سراہا گیا ہے اور میری ترقی ہو گئی ہے۔ ‘‘ وہ پر جوش انداز میں تیزی سے بولے

’’بہت مبارک ہو، بہت ہی اچھی بات ہے۔ تم اس کی حقدار ہو اور مجھے یقین ہے۔ بہت ساری کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی۔ ‘‘ جعفر نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو وہ بولی

’’ مجھے یہ بتاؤ کہاں ہو تم ؟‘‘

’’ میں گھر پر ہوں۔ ‘‘ اس نے بتایا

’’اچھا پھر میں آ رہی ہوں۔ ہم اس اچھی خبر کو مل کر سیلی بریٹ کریں گے۔ اس میں تم بھی پوری طرح شریک ہو۔ ‘‘مائرہ نے پر جوش لہجے میں کہا

’’میں منتظر ہوں۔ یہ میری خوش قسمتی ہو گی کہ میں آپ جیسی عظیم صحافی ۔۔۔‘‘ اس نے مصنوعی عاجزی سے کہا تو مائرہ اس کی بات ٹوکتے ہوئے بولی

’’اوکے۔۔۔اوکے، پٹڑی سے مت اترو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا اور پھر اس کی بات کو سوچتے ہوئے ایک دم سے خوش ہو گئی۔ پھر اس سے زیادہ دیر بیٹھ کر کام نہیں ہوا۔ وہ اٹھی اور جعفر کے پاس جانے کے لئے نکل گئی۔

کچھ ہی دیر بعد وہ جعفر کے گھر پہنچ گئی۔ وہ اکیلا ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ مائرہ کے ہاتھوں میں دو بڑے بڑے بیگ تھے، جن میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔ جتنی دیر میں اس نے وہ سارا سامان پھیلایا، جعفر چائے بنا کر لے آیا۔ اس وقت جعفر اور مائرہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر کھاتے ہوئے، باتیں کر رہے تھے۔ تبھی مائرہ نے کہا

’’کتنی سادہ سی سیلی بریشن ہے میری کامیابی کی، لیکن مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ ‘‘

’’ہوں۔ ! اصل میں انسان انہی میں خوش رہتا ہے، جہاں اسے سراہا جائے، جن کے ساتھ وہ اپنائیت محسوس کرے۔ یہ حالات ہی ہیں جن سے انسان خود اپنے لیے خوشی کشید کرتا ہے۔ ‘‘ جعفر اس کی طرف دیکھ کر بولا

’’جعفر۔ !یہ کیسے حالات ہیں۔ میں فہد کے لئے اپنے دل میں اتنی محبت رکھتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ تو پھر میری محبت اپنا آپ کیوں نہیں منوا پا رہی ہے۔ کیا میری محبت میں کوئی قوت، کوئی کشش نہیں ہے؟‘‘ اس نے انتہائی دکھ سے پوچھا

’’اسی بات کو دوسرے پہلو سے سوچو۔ اگر کسی دوسرے کے دل میں بھی اتنی ہی بے لوث اور خالص محبت ہو تمہارے لئے تو؟‘‘جواب دینے کی بجائے اس نے سوال کر دیا۔ مائرہ نے چونک کر اسے دیکھا پھر بولی

’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘

’’میں نے ایک بات کہی ہے تم سے۔ ممکن ہے فہد کے دل میں ایسی ہی محبت کسی دوسرے کے لئے ہویا میرے دل میں تمہارے لئے ہو۔ ایسے میں ہم کس کو کیا الزام دے سکیں گے۔ ‘‘ جعفر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو مائرہ فرار کے طور پر جھنجھلاتے ہوئے بولی

’’مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ مجھے ۔۔۔مجھے ۔۔۔نہیں معلوم تم کیا کہنا چاہ رہے ہو۔ ‘‘

’’میں تم سے فقط اتنا کہنا چاہتا ہوں۔ کسی پر بھی شک مت کرو۔ نہ اپنی محبت پر اور نہ کسی کے خلوص پر۔ یہ دل کے معاملات ہیں۔ جن پر اختیار نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اپنا اختیار بھی نہیں رہتا۔ ‘‘جعفر نے وضاحت کی

’’یہی دل ہی تو ہے جو اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ ایسے میں زندگی ایک بوجھ لگنے لگتی ہے نا۔ ‘‘ اس نے تائید چاہی

’’مائرہ۔ !زندگی کو بوجھ بھی ہم خود بنا لیتے ہیں۔ جب ہم اپنی ذات پر شک کرتے ہیں۔ تم بس خوش رہنے کی کوشش کیا کرو۔ زندگی کب اور کہاں سے محبت دیتی ہے۔ اسے مت سوچو۔ !نچھاور ہونے والی محبت کا احساس کرو۔ ‘‘ جعفر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سوچتے ہوئے بولی

’’ہاں۔ !زندگی سے محبت تو خود حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر محبت پاش نگاہوں سے اس کے طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’اچھا چلو، کھاؤ پیو۔ اور کچھ نہ سوچو۔ ‘‘

’’جیسے تمہاری مرضی۔ ‘‘ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا تواس نے قہقہہ لگا دیاتو وہ سر ہلا تے ہوئے بولا

’’مجبوری ہے۔۔۔‘‘

پھر ایک دم سے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور قہقہہ لگا کر ہنس دئیے۔

٭٭

 

چوہدری جلال حویلی کے ڈرائینگ روم میں تنہا بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا۔

’’ہاں ہاں ، ٹھیک ہے جناب۔ اس اجلاس پر آپ کا کا م یقیناً ہو جائے گا۔ یہ میرا وعدہ رہا۔ لیکن آپ بھی تو خیال رکھیں نا؟‘‘انہی باتوں کے دوران منشی اور انسپکٹر آ گئے۔ چوہدری کو فون پر بات کرتے دیکھ کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ وہ بات کرتا چلا جا رہا تھا، ’’ہاں۔ !بالکل ٹھیک ہے۔ میں کر دوں گاسفارش، ‘‘چوہدری نے ان کی طرف دیکھ کر انسپکٹر کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گیا، ’’ہاں بس۔ !اجلاس سے دو دن پہلے مجھے مل لیں۔ اچھا خدا حافظ۔ ‘‘ یہ کہہ کر چوہدری نے ریسور رکھ دیا پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد منشی فضل دین سے پوچھا

’’ہاں بھئی انسپکٹر۔۔۔ کیا حال ہے تمہارا، کیسے آنا ہوا؟‘‘

’’میرا حال تو ٹھیک ہے چوہدری صاحب، مگر لگتا نہیں ہیں کہ اب حالات ٹھیک رہیں گے، بہت مشکل سا معاملہ بن گیا ہے چوہدری جی۔ ‘‘ انسپکٹر نے مایوسانہ لہجے میں کہا تو چوہدری نے پوچھا

’’ایسی کیا بات ہو گئی ہے جو تو اتنا مایوس لگ رہا ہے۔ ‘‘

’’جس جن کو بڑی مشکل سے بوتل بند کیا تھا نا، وہ جن دوبارہ بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ ‘‘ وہ اسی لہجے میں بولا

’’اُوئے پہلیاں نہ ڈال انسپکٹر، سیدھی بات کر۔ ‘‘ چوہدری نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا

’’فہد آیا تھا آج تھانے، امین ارائیں کو لے کر، حبسِ بے جا کی ایف آئی آر لکھوانے۔ چوہدری کبیر کے خلاف۔ ‘‘ انسپکٹر نے طنزیہ لہجے میں کہا تو چوہدری جلال نے حیرت اور استعجاب بھرے انداز میں کہا

’’تو؟‘‘

’’اوپر سے ڈی ایس پی صاحب کا فون بھی کروا دیا اس نے، درخواست دی تھی اس نے اوپر۔ مجھے وہ ایف آئی آر درج کرنا پڑی۔ ‘‘ انسپکٹر نے یوں کہا جیسے اسے بہتے ندامت ہو رہی ہو۔ چوہدری جلال نے چونکتے ہوئے انتہائی غصے میں کہا

’’ اور تو نے ایف آئی لکھ دی ؟ مجھ سے پوچھے بغیر۔ کیا میں تیرے دماغ میں گولی اتار کر ابھی تیری اوپر جانے کی ایف آئی آر نہ لکھ دوں ؟‘‘ چوہدری جلال نے غصے اور حیرت سے کہا تو انسپکٹر خاموش رہا تو اس نے پھر پوچھا اوئے بول اوئے بک، بکتا کیوں نہیں ہے؟‘‘

تبھی انسپکٹرنے ڈرتے ہوئے کہا

’’جی، میں اور کیا کرتا۔ بتایا نا جی کہ اس نے ڈی ایس پی کو فون کر دیا۔ اب مجھے ان کا حکم تو ماننا تھا نا چوہدری صاحب۔ اب اللہ جانے آپ کے ڈی ایس پی صاحب سے کیسے تعلقات ہیں ؟‘‘

’’اوئے انسپکٹر، اوئے بے وقوف تجھے میرے تعلقات کی کوئی عقل سمجھ نہیں ہے۔ تیری یہ جرات، میرے اس سے تعلقات جیسے بھی ہوں ، پر تو اپنے اوپر غور کر۔ تو اپنا بھی بوجھ برداشت نہیں کر سکا اور فوراً ایف آئی آر درج کر دی۔ لگتا ہے اب تیرا دانہ پانی یہاں سے ختم ہو گیا ہے۔ تو اس قابل ہی نہیں رہا۔ ‘‘

’’او نہ چوہدری صاحب۔ میں تو آپ کا خادم ہوں نوکر ہوں آپ کا۔ کیا کچھ نہیں کیا میں نے آپ کے لیے۔ اب یہ فہد آپ کے بھی قابو نہیں آ رہا تو میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ ‘‘انسپکٹر نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔ اس پر چوہدری جلال کا غصہ اور زیادہ غضب ناک ہو گیا۔

’’تُو اکیلا، پہلے کیا کرتا تھا اس علاقے میں۔ کس کے بل بوتے پر دندناتا پھرتا تھا۔ کوٹھیاں ، بنک بیلنس کیسے بنا لیا تو نے ۔۔۔یہ سب کچھ اب تیرے کسی کام کا نہیں۔ تیرے لیے بس ایک اشتہاری بندہ ہی کافی ہے۔ ‘‘

’’خدا کے لیے ایک موقعہ دیں چوہدری صاحب، ابھی تو ایف آئی آر ہی کٹی ہے نا۔ ‘‘انسپکٹرنے منت بھرے لہجے میں کہا تو چوہدری جلال نے ایک لمحہ کو سوچتے ہوئے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا،

’’ ٹھیک ہے، جا، میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘

’’بہت شکریہ چوہدری صاحب۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھا اور اسی تیزی سے باہر کی طرف چلا گیا۔ تبھی چوہدری جلال نے منشی کی طرف دیکھ کر کہا

’’منشی، یہ فہد کچھ زیادہ ہی پَر نکالنے لگا ہے۔ ‘‘

’’تو پھر پَر کاٹ دیں نا جی اس کے۔ ‘‘ منشی نے یوں ن کہا جیسے اس نے اس کے دل کی بات کہہ دی ہو

’’تُو ایسا کر، اسے کسی طرح اپنی زمین لینے پر اُکسا۔ بندہ لگا اس کے پیچھے ۔۔۔جواُسے غیرت دلائے کہ وہ ہم سے اپنی زمین لے لے۔ ‘‘ چوہدری نے سوچتے ہوئے کہا تو منشی سمجھتے ہوئے بولا

’’سمجھ گیا چوہدری صاحب، سمجھ گیا۔ میں ابھی کسی کے ذمے لگا دیتا ہوں۔ ‘‘منشی فضل دین نے کہا اور خاموش ہو گیا۔ چند لمحے ایسے ہی کھڑا رہا تو چوہدری جلال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

’’ کیوں کھڑے ہو؟‘‘

’’ایک اطلاع ہے چوہدری صاحب۔ !‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا تو چوہدری جلال لاپرواہی سے بولا

’’کیسی اطلاع۔ !کوئی خیر کی ہے یا۔۔۔‘‘

’’خیر کی نہیں لگتی چوہدری صاحب۔ !وہ، عمر حیات ہے نا۔ جس کا اپنے بھائیوں کے ساتھ جھگڑا تھا زمین کے معاملے میں ۔۔۔‘‘منشی نے بتایا

’’ہاں ۔۔۔کیا ہوا اُسے؟‘‘چوہدری جلال نے پوچھا

’’عمر حیات نے اپنا گھر اور زمین بیچ دی ہے۔ ‘‘ منشی نے بتایا تو چوہدری جلال نے پوچھا

’’کسے بیچ دی۔ !وہ تو ہم خریدنا چاہ رہے تھے۔ کس نے خرید لی۔ ‘‘

’’فہد نے۔۔۔سودا طے ہو گیا ہے۔ کچھ رقم دے دی ہے اور باقی کاغذات مکمل کر ہونے پر ادا ہو جائے گی۔ ‘‘منشی نے بڑے عجیب سے لہجے میں کہاجیسے اسے خود یہ اچھا نہ لگا ہو۔

’’یار یہ فہد کر کیا رہا ہے۔ جہاں ہمارا مفاد ہوتا ہے۔ یہ وہیں پر آ کر وار کرتا ہے۔ خیر۔ !میں دیکھتا ہوں وہ کس طرح زمین لیتا ہے۔ عمر حیات کے بھائیوں کو پیغام دے دو کہ وہ مجھے آ کر ملیں۔ ‘‘چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے کہا

’’جی، میں ابھی بندہ بھجوا دیتا ہوں۔ ‘‘وہ تیزی سے بولا

’’اور سنو۔ !اس معاملے پر گہری نگاہ رکھنی ہے۔ فہد کہیں زمین کا قبضہ نہ لے لے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا

’’جی میں آپ کو پوری طرح با خبر رکھوں گا۔ ‘‘منشی نے ادب سے کہا تو چوہدری جلال سوچتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بولا

’’اب اس فہد کے بارے میں پتہ کرنا پڑے گا۔ آخر اتنے دھڑلے سے ایسا سب کچھ کیسے کر رہا ہے۔ جا منشی تو جا۔ ‘‘

’’ جی چوہدری، جاتا ہوں۔ ‘‘

جیسے ہی اس نے کہا تو چوہدری جلال نے اُسے جانے کا اشارہ کیا اور فون کی طرف متوجہ ہو گیا۔ منشی باہر کی جانب چلا گیا۔ اس کے چہرے پر خوشی کا اظہار تھا۔ چوہدری جلال نے فون اٹھایا، نمبر ڈائل کرنے لگا۔ اس کے چہرے پر پریشانی تھی۔ رابطہ ہوتے ہی اس نے پوچھا

’’ہاں جنید۔۔۔ کیسے ہو؟۔۔۔ اچھا تمہارے ذمے ایک کام لگا رہا ہوں۔ وہ فورا کر کے مجھے اطلاع دو ۔۔۔ ہاں ہاں بتا رہا ہوں نا، فہد نامی لڑکا ہے ادھر۔ ناک میں دم کر رکھا ہے اس نے ۔۔۔زمین خریدی ہے اس نے یہاں ۔۔۔ وہ تمہارے آفس تو آئے گا نا ۔۔۔ بس اس سے اگلی پچھلی معلومات لینی ہے، کوئی سرا پتہ مل گیا تو اس کے بارے سب معلوم ہو جائے گا۔۔۔ ہاں ہاں فوراً، میں تمہارے فون کا انتظار کروں گا۔ ‘‘یہ کہہ کر چوہدری نے فون کریڈل پر رکھ دیا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے زیادہ موقع نہیں دینا ہو گا۔

٭٭

 

دن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ چوراہے میں فہد، امین، چھاکا اور چند دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان بڑی گرما گرمی میں باتیں چل رہی تھیں۔ تبھی ایک بندے نے تیز لہجے میں کہا

’’ماکھے نے جو سراج کو دھمکی دی ہے نا۔ یہ چوہدری جلال کی طرف سے نہیں چوہدری کبیر کی طرف سے ہے۔ یہ ماکھا، نکے چوہدری کا کارندہ ہے۔ یہ سب جانتے ہیں۔ ‘‘

’’کارندہ کسی کا بھی ہو۔ دھمکی تو ان لوگوں کی طرف سے ملی ہے نا۔ کیا یہ گاؤں کے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتے۔ جس طرح ان چوہدریوں کا جی کرتا ہے۔ کیا یہ سارے لوگ اسی طرح چلیں۔ انسان نہ ہوئے مشینیں ہو گئیں۔ ‘‘فہد نے کہا تو امین بولا

’’میں ان دھمکیوں میں آنے والا نہیں۔ سارا گاؤں جانتا ہے کہ میں خود ان سے بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ اور یہاں میرے جیسے کئی ہوں گے علاقے میں جو اپنے دلوں میں یہی خواہش چھپائے بیٹھے ہیں۔ ‘‘

’’وہ وقت بڑی جلدی آنے والا ہے امین۔ جب یہ ظالم خود منہ چھپاتے پھریں گے۔ انہوں نے صر ف کمزوروں پر ظلم کرنا سیکھاہے۔ ‘‘ فہد نے وہاں موجود لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو ایک بندہ بولا

’’یہ تمہاری بھول ہے فہد۔ !اگر کوئی سیدھی طرح ان کی بات نہ مانے تو وہ دوسری طرح اس سے بات منوا لیتے ہیں۔ انہوں نے تمہیں خود ڈھیل دے رکھی ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب۔ !‘‘ فہد نے اس کی طرف مسکرا دیکھ کر دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ بندہ طنزیہ انداز میں بولا ’’مطلب یہ ہے، تم نے اپنا گھر تو اچانک لے لیا۔ اب وہ انتظار کر رہے ہیں کہ اپنی زمین واپس لو۔ اگر تم میں ہمت تو اب زمین لے کر دیکھو۔ تمہیں نہ صرف چوہدریوں کی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا۔ بلکہ یہ بھی جان لو گے کہ تم کتنے پانی میں ہو۔۔۔ہے تم میں ہمت؟‘‘

فہد نے چونک کر دیکھا اور پھر تحمل سے مسکراتے ہوئیے بولا

’’میں جانتا ہوں کہ چوہدری کیا چاہتے ہیں۔ مجھے اتنی جلدی نہیں ہے۔ زمین بھی یہیں ہے، چوہدری بھی اور میں بھی۔ یہ وقت بتائے گا۔ زمین کیسے لی جاتی ہے۔ ‘‘

’’اوئے میرے بھائی۔ !چوہدری انتہائی بزدل بندہ ہے۔ اگر فہد اس کے راستے کی دیوار بن گیا ہے تو وہ اس دیوار کو گرا کیوں نہیں دیتا۔ زمین تو بعد کا معاملہ ہے۔ اب اگر اس میں ہمت ہے تو دوبارہ اپنے ڈنگر باندھ کر دکھائے۔ ‘‘ امین نے غصے میں کہا تو بندہ بولا

’’میں نے کہا نا، وہ تم لوگوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ اب اگر اپنی زمین لے گا نا فہد تو اسے لگ پتہ جائے گا۔ ‘‘

’’اصل میں قصور چوہدری کا نہیں کہ وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔ قصور لوگوں کا ہے جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس کا ظلم سہے جا رہے ہیں۔ اُس تک بات پہنچا دو اب ظلم کے دن تھوڑے ہیں۔ ‘‘فہد نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بندہ بولا ’’میں اب بھی سمجھتا ہوں فہد۔ !ان کے سامنے تم کچھ بھی نہیں ہو۔ اپنا آپ بچا کر یہاں سے چلے جاؤ۔ یہی تیرے لیے بہتر ہو گا۔ ‘‘

’’اور تم یہ جان لو۔ اب ان کی یہاں حیثیت کچھ نہیں رہے گی۔ یہ دھمکی نہیں حقیقت ہے۔ ‘‘امین نے جذباتی لہجے میں کہا تو فہد بولا

’’تلوار کے وار کو لاٹھی پر نہیں روکا جاتا اور نہ ہی گولی کو ہاتھ روک سکتے ہیں۔ جنگ جیتنے کے لئے دشمن کے ہتھیار سے بڑا ہتھیار رکھنا پڑتا ہے۔ اور وہ ہتھیار ہے میرے پاس۔ چوہدری یا اس کے حواری کسی بھول میں نہ رہیں آؤ چلیں۔ ‘‘

فہد نے کہا اور اٹھ کر گاڑی کی جانب چل دیا۔ امین اس کے ساتھ جا بیٹھا تو گاڑی چل دی۔ چوپال میں خاموشی چھا گئی تھی۔ فہد نے امین کو گھر چھوڑا اور خود سراج کے ڈیرے کی طرف چل دیا۔

دوپہر ڈھل کر شام کی جانب بڑھ رہی تھی۔ فہد اور سراج آمنے سامنے چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ چوراہے میں ہونے والی بات سن کر سراج نے بتایا

’’ میں آج ملا تھا چاچے عمر حیات سے۔ منشی پہنچ گیا تھا اس کے پاس، اور اپنی آفر کروا دی۔ ‘‘

’’ کیا کہا چاچے عمر حیات کو منشی نے۔ پوری بات معلوم کی؟‘‘ فہد نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو سراج بولا

’’ ہاں کی۔ وہ منشی آیا تھا اسے اکسانے کے لیے۔ بلکہ اسے بے ایمانی پر مجبور کرنے آیا تھا۔ جب منشی اس سے مل کر گیا تو چاچا عمر حیات میرے پاس گھر آ گیا۔ اس نے مجھے ساری بات بتا دی۔ اس نے منشی کو انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب میں زبان دے چکا ہوں۔ رقم وصول کر لی ہے۔۔۔وہ زمین فہد کو ہی دے گا۔ ‘‘

’’انکار سننے کے بعد، ظاہر ہے چوہدری اطمینان سے تو نہیں بیٹھے گا۔ اب وہ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرے گا۔ ‘‘ فہد نے سوچتے ہوئے کہا

’’اصل میں ان دونوں خاندانوں کے درمیان جھگڑا بھی تو چوہدریوں نے کروایا ہے۔ تا کہ یہ زمین وہ لے سکیں اور ہاں ، ایک بات اور، چاچے عمر حیات کا یہ کہنا ہے کہ وہ تمہاری رقم بھی دبا جانے کا لالچ دے رہا تھا۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے فہد زمین اپنے نا م کروا لے۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ ختم ہو جائے تو وہ اطمینان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دے۔ ‘‘ سراج نے اسے بتایا تو فہدسوچتے ہوئے ہوئے بولا

’’وہ ٹھیک کہتا ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’تو پھر لکھت پڑھت کر کے زمین اپنے نام کراؤ۔ کل ہی عدالت چلتے ہیں۔ ‘‘ سراج نے صلاح دی

’’کل ضرور عدالت میں چلیں گے، مگر اس قتل کیس کے لیے جس کی گواہی امین دینا چاہتا تھا، اسے ری اوپن کروانا ہے۔ چاچے عمر حیات والی زمین کدھر جا رہی ہے، لے لیں گے۔ پہلے امین سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کرنا ہے۔ ‘‘ فہد نے سوچتے ہوئے کہا تو سراج چونکتے ہوئے بولا

’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘

’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں سراج۔ خیر تم شام کو گھر آؤ گے تو اس پر تفصیل سے بات ہو گی۔ ابھی میں چلتا ہوں۔ ‘‘ فہد نے کہا اور اٹھتا چلا گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اب قسمت نگر کی فضائیں بدلنے والی ہیں۔

٭٭

 

مائرہ اپنے گھر سے آفس کے لیے نکل کر پورچ میں اپنی گاڑی کے پاس آئی تو اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے اپنا بیگ گاڑی میں رکھا اور اور فون کال رسیو کر تے ہوئے کہا، ’’ہیلو۔۔۔‘‘

دوسری طرف سے کھردری آواز میں کہا گیا

’’سنو، یہ جو تم اپنی ٹی وی رپورٹ کے لیے آگ سے کھیل رہی ہو نا۔ اس کا انجام بہت برا ہے۔ کم از کم تمہارے لیے ۔۔۔تم نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ ‘‘

’’کون ہو تم اور یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔ ‘‘ مائرہ نے تیزی سے غصے میں کہا

’’میں نے کہا نا، صرف میری سنو ۔۔۔فضول بک بک نہ کرو۔ ورنہ تیری سزا میں زیادہ اضافہ ہو جائے گا، صرف سنو۔ آگ سے کھیلنا بند کرو ورنہ تم اس طرح جل جاؤ گی کہ خود تمہیں پتہ نہیں چلے گا۔ تمہارے ساتھ ہوا کیا ہے۔ ‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا تو مائرہ بولی

’’ تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟‘‘

’’تمہیں سمجھا رہا ہوں۔ لیکن اگر تم چاہو تو اسے دھمکی سمجھ سکتی ہو۔ ناسمجھی میں اگر تم نے اپنی ٹی وی رپورٹ بنا لی ہے تو اب اس کو بھول جاؤ۔ اس کی پیروی مت کرو، اسی میں تمہاری زندگی ہے۔ ‘‘

’’میں نہیں ڈرتی۔ میں ایسا ہی کرتی رہوں گی۔ تم جیسے بزدل میرا راستہ روک سکتے ہیں تو روک لیں۔ ‘‘ اس نے بے خوفی سے کہا

’’میں تمہیں صرف سمجھا رہا ہوں۔ ورنہ تم اب تک ہمیشہ کے لیے گہری اور میٹھی نیند سو چکی ہوتی۔ آزمانا چاہتی ہو تو آزما لو۔ تم ہر وقت ہماری نگاہ میں ہو۔ ‘‘ کسی نے غراتے ہوئے کہا تو مائرہ طنزیہ لہجے میں بولی ’’اور میں تمہیں خود ڈھونڈھ نکالوں گی۔ تم تو سامنے نہیں آؤ گے تو۔۔۔‘‘ مائرہ نے مزید کہنا چاہامگراس کے لفظوں کے دوران ہی آنے والا فون بند ہو گیا۔ اس نے غصے میں فون کی طرف دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی چلاتے ہوئے وہ تیزی سے سوچ رہی تھی۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو مائرہ نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سیل سے نمبر پش کر دئیے۔

اس وقت جعفر اپنے آفس میں کھڑا فائل دیکھ رہا تھا۔ اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے کال رسیو کی تو مائرہ بولی ’’سوری جعفر۔ ! میں تمہیں آج پھر ڈسٹرب کر رہی ہوں۔ کیا تم میرے آفس آسکو گے؟‘‘

’’آپ بلائیں ، ہم نہ آئیں ، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں حاضر ہو جاتا ہوں۔ ویسے خیریت ہی ہے نا۔ ‘‘ اس نے بڑے نرم لہجے میں کہا

’’آج ایک نیا پراجیکٹ ہے جو میں تمہارے ساتھ مل کر کرنا چاہتی ہوں ، اس کے متعلق ڈسکس کرنا تھا۔ ویسے مجھے آج فون ملا ہے۔ کسی نے مجھے دھمکی دی ہے۔ ‘‘ مائرہ نے بتایا تو جعفر نے سکون سے پوچھا

’’کیسا فون ؟ کیسی دھمکی؟ اور کب‘‘

’’ابھی کچھ منٹ پہلے۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے تفصیل بتا دی۔

’’پریشان نہیں ہو نا۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ، ڈھونڈھ نکالیں گے اسے۔ ‘‘ جعفر نے اسے تسلی دی

’’یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ یہ دھمکیاں تو ملتی رہتی ہیں ، ان کا کیا ہے۔ بس تم جلدی سے آ جاؤ۔ ‘‘ مائرہ نے کہا

’’مجھے بہت خوشی ہوئی مائرہ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ کالج لائف والے دن لوٹ آئے ہیں۔ ‘‘ وہ خوشی سے بولا

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ یہ بالکل ناکام عاشقوں جیسے لہجے میں مجھ سے بات نہ کیا کرو۔ ‘‘ وہ ایک دم شوخی سے بولی تو جعفر نے شرارت سے

’’کیا ہو گیا ہے میرے لہجے کو، ویسے مجھے تمہاری ایک بات سے اختلاف ہے۔ ‘‘

’’وہ کیا؟‘‘مائرہ نے حیرت سے پوچھا

’’کیا بندہ محبت میں ناکام بھی ہو سکتا ہے؟ایسا ہو نہیں سکتا کہ بندے کو محبت بھی ہو اور وہ اس میں ناکام ہو جائے۔ ‘‘ جعفر نے گہرے انداز میں کہا تو مائرہ بھی سنجیدگی سے بولی

’’تم لاکھ اختلاف کرو۔ مگر حقیقت کو جھٹلایا تو نہیں جا سکتا نا۔ دل میں سچی محبت بھی ہو اور وہ رنگ نہ لا سکے۔ یہ نا کامی ہی توہے۔ ‘‘

’’یہاں قصور محبت کا نہیں۔ اس وجود کا ہے جس میں یہ محبت موجود ہے۔ تم کیا سمجھتی ہو۔ محبت کی را ہ پر چلنا آسان ہوتا ہے۔ بڑے امتحان ہوتے ہیں اس راہ میں۔ ‘‘ اس نے پر یقین لہجے میں کہا تو مائرہ بولی

’’چل چھوڑ یہ محبت وغیرہ کا فلسفہ۔ زندگی کی حقیقت، محبت سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ بس جلدی سے آ جاؤ۔ ‘‘

’’جیسے آپ کا حکم، بندہ تو ہمہ وقت حاضر ہے، آ رہا ہوں۔ ‘ ‘ جعفر نے خمار آلود لہجے میں کہا تو مائرہ ہنستے ہوئے بولی

’’ باز نہیں آؤ گے، ٹھیک ہے۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا اور پوری توجہ سڑک پر لگا دی۔

٭٭

 

چوہدری جلال حویلی کے لان میں موجود تھا۔ چوہدری کبیر کی گاڑی آ کر پورچ میں رکی۔ وہ اس میں سے وہ نکل کر سیدھا چوہدری جلال کے پاس آ گیا۔ پاس آ کر اس نے اپنے باپ کو سلام کیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا

’’ بابا، میں فہد کی بات کر نے آیا ہوں۔ پتہ نہیں کیوں آپ اسے ڈھیل دیئے چلے جا رہے ہیں۔ چند منٹوں میں اسے ختم کر کے ساری ٹینشن ختم کی جا سکتی اور آپ ۔۔۔ ‘‘ وہ کہتے ہوئے رک گیا۔ چوہدری جلال نے اس کی طرف دیکھا اور سکون سے بولا

’’مانا۔ !کہ ریوالور کی گولی سے وہ چند منٹوں میں ختم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے بعد جو طوفانِ بد تمیزی اٹھے گا۔ اس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب بابا۔ !کون ہے اس کے پیچھے رونے والا، ماسٹر دین محمد؟‘‘ کبیر نے تیزی سے پوچھا

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ وہ سانپ ہے۔ جیسے زور زبردستی سے نہیں ، بلکہ منتروں سے پٹاری میں بند کیا جائے گا۔ کیا آج تک تمہیں ایسا ذہین دشمن ملا ہے؟‘‘چوہدری جلال نے اپنے بیٹے کی جانب دیکھ کر کہا

’’مان لیا بابا کہ وہ بہت طاقتور ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارے علاقے میں آ کر ہمیں ہی للکار ے، یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ‘‘ اس نے بے خوفی سے کہا

’’ابھی اس نے کیا ہی کیا ہے، صرف اپنا گھر ہی واپس لیا ہے نا۔ اس کے علاوہ اس نے کیا تیر مار لیا؟‘‘ چوہدری جلال نے لا پرواہی سے کہا

’’یہی بات تو مجھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آپ اسے نظر انداز کیوں کر رہے ہیں۔ علاقے میں جگہ جگہ بیٹھ کر وہ ہمارے خلاف باتیں کرتا ہے۔ اور پہلی بار میرے خلاف تھانے میں ایف آئی آر کٹوا دی۔ ‘‘ کبیر نے گویا اس کے گناہ گنوا دئیے۔

’’یہی تومیں نے کہا ہے نا۔ تم جذباتی نہ ہوا کرو۔ دشمن کو کبھی معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ بات سمجھ لو کہ وہ ایک ذہین دشمن ہے۔ اتنے طویل عرصے بعد اس کا دوبارہ گاؤں میں لوٹ آنا کوئی معمولی بات نہیں ، وہ بہت سوچ سمجھ کر یہاں آیا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’تو پھر کیا ہوا بابا۔ !اس کی ساری ذہانت، اس کا سوچنا سمجھنا، چند منٹوں کا کھیل ہے۔ مجھے اجازت دیں ، میں ابھی اسے ختم کر دیتا ہوں۔ ‘‘ کبیر نے تیزی سے کہا

’’نہیں۔ !میں تمہیں ابھی اجازت نہیں دوں گا۔ اسے سیاسی میدان ہی میں مار کر یہاں سے ذلیل و رسوا کر کے بھیجنا ہے۔ وہ ساری زندگی ہمارے لگائے ہوئے زخم کو یاد رکھے۔ وہ سیاست ہی کیا، جس میں اپنے دشمن پر قابو نہ پایا جا سکے۔ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے۔ فہد صرف ایک مہرہ ہے۔ اس کے پیچھے کوئی گہری چال ہو گی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے یقین بھرے لہجے میں کہا

’’کون چل سکتا ہے یہ چال؟‘‘ کبیر نے تشویش سے پوچھا

’’یہی تو پتہ کرنا ہے۔ دیکھ کوئی بندہ اس طرح خود کشی کرنے یہاں نہیں آ سکتا۔ میں مانتا ہوں اس کے دل میں ہمارے خلاف انتقام بھرا ہوا ہے۔ وہ مر گیا تو سب ختم ہو گیا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے پھر سوچتے ہوئے لہجے میں کہا

’’او نہیں بابا ۔۔۔ وہ کوئی مہرہ شہرہ نہیں ہے۔ اس نے آتے ہی اپنا ایک تاثر بنا لیا ہے، اور آپ کچھ اور ہی سوچنے لگے۔ ‘‘ کبیر نے ایک دم سے باور کرایا

’’اتنی دیدہ دلیری پھر بھی نہیں ہوتی۔ سیاست بھی شطرنج کی طرح ہوتی ہے، ایک بھی غلط چال چلی اور کھیل ختم، شہہ مات ہوتے دیر نہیں لگتی پتر۔ ‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا

’’کچھ بھی نہیں ہو گا بابا۔ بس ایک بار آپ مجھے اجازت دیں۔ ‘‘ کبیر حسرت ناک لہجے میں بولا تو چوہدری جلال نے سخت لہجے میں کہا

’’اپنے غصے پر قابو رکھو کبیر۔ !مجھے پہلے ہی ایک قتل کو دبانے میں مشکل ہو رہی ہے۔ میں یہ معاملہ دیکھ لوں گا۔ ‘‘

اپنے باپ کے لہجے پر کبیر ایک دم سے چونک گیا اور حیرت اور غصے کے ملے جلے لہجے میں بولا

’’بابا۔ !میں پھر کہوں گا، آپ اسے ڈھیل دے کر اچھا نہیں کر رہے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ غصے میں اٹھا اور وہاں سے چلا گیا تو چوہدری جلال گہری سوچ میں ڈوبتا چلا گیا۔

شام کے سائے پھیل گئے تو چوہدری جلال حویلی کے کاریڈور میں آرام کرسی پر آ بیٹھا۔ فہد نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کہاں سے قابو کرے۔ منشی فضل دین نے اس کے قریب آ کر سلام کیا۔ چوہدری نے اس سے پوچھا۔

’’بتا منشی۔ !کیا کہتا ہے وہ عمر حیات۔ بات اس کی سمجھ میں آئی کہ نہیں ؟‘‘

’’نہیں چوہدری جی۔ !وہ کسی طرح بھی نہیں مانتا۔ میں نے اسے یقین دلانے کے لئے یہ بھی کہا کہ آؤ چوہدری صاحب سے بات کر لو مگر وہ حویلی آنے پر راضی ہی نہیں ہوا۔ ‘‘ منشی نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ چوہدری نے بُری طرح چونک کر منشی کی طرف دیکھا، جیسے اس نے بڑی ہتک محسوس کی ہو۔ چند لمحے خاموش رہ کر چوہدری جلال نے تحمل سے کہا

’’تو اس کا مطلب ہے۔ وہ بھی فہد کی زبان بولنے لگا ہے۔ تم نے سمجھایا نہیں کہ ہم پنچائیت کے ذریعے بھی زمین اس سے لے سکتے ہیں۔ ‘‘

’’بہت سمجھایا میں نے اسے۔ میں نے پنچائیت کی بات بھی کی مگر اس کی یہی رٹ ہے کہ میں نے زبان دے کر رقم لے لی ہے۔ اشٹام بھی لکھ کر دے دیا ہے۔ ‘‘ منشی نے دھیمے لہجے میں بتایا

’’منشی۔ !تم جانتے ہو کہ ہم پنچائیت کیوں بلاتے ہیں تاکہ فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق کروا سکیں۔ اب یہ پنچائیت ریونیوآفیسر کے پاس ہو گی۔ ابھی زمین فہد کے نا م تو نہیں ہوئی ہے نا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے مسکراتے ہوئے کہا

’’میں سمجھ گیا چوہدری صاحب۔ !عم حیات وہاں تو جائے گا۔ ‘‘منشی خباثت سے مسکراتے ہوئے بولا

’’اب اگر اسے یہاں کچھ کہتے ہیں تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ فہد کی نگاہیں ہماری کمزوریوں پر ہوں گی۔ وہ خواہ مخواہ شور مچائے گا۔ جب ہمارا کام آفیسر خود کر دے گا تو کیا ضرورت ہے یہاں سر دردی لینے کی۔ ‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا تو منشی بولا

’’میں سمجھ گیا چوہدری صاحب۔ میں آج ہی چلا جاتا ہوں اور انہیں ساری بات سمجھا آتا ہوں۔ ‘‘

’’تم نور نگر جا کر آفیسر کو سمجھا آؤ کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ اب پنچائیت ہو گی اور ہماری مرضی کا فیصلہ ہو گا۔ ‘‘ چوہدری نے سکون سے کہا

’’ظاہر ہے، پانی تو انہی آفیسروں کے پلوں کے نیچے سے گذرتا ہے۔ زمین نام ہونا تو ایک طرف، وہ لوگ فائل ہی گم کر دیں۔ تو انہیں کون پوچھنے والا ہے۔ ‘‘ منشی نے کہا

’’اور ہاں ، جانے ہوئے باغ سے کچھ پھلوں کی ٹوکریاں لے جانا۔ اوراسے بتا دینا کہ ایک دو دن میں ہی پنچائیت بلائے۔ ضرورت پڑی تو میں بھی آ جاؤں گا۔ ‘‘ چوہدری نے اکتاہٹ سے کہا

’’جیسے آپ کا حکم۔ میں چلتا ہوں۔ ‘‘ منشی بولا اور منشی واپس پلٹ گیا۔ چوہدری مسکرا اٹھا۔

٭٭

 

سورج اچھا خاصا چڑھ آیا تھا۔ چاچا سوہنا حسب معمول صحن میں تنہا بیٹھا سوچوں میں گم تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے سراٹھایا اور اندر کی طرف منہ کر کے آواز دی۔

’’چھاکے ۔۔۔اُو پتر چھاکے‘‘

چند لمحوں بعد چھاکا اندر سے باہر کر بولا

’’ہاں ، ابا۔ ! بول، کیا بات ہے؟‘‘

یہ کہہ کر وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔

’’وہ پتر ۔۔۔آج تُو ابھی تک گھر میں ہے، باہر نہیں گیا ؟اپنے ککڑ سے بھی کوئی بات نہیں کر رہا۔ ‘‘ چاچا سوہنا اداسی میں یوں بولا جیسے اسے کوئی الجھن ہو۔

’’ہاں ابا۔ ! آج کچھ بھی کرنے کو دل نہیں کر رہا۔ وہ فہد کے ساتھ سراج گیا ہے نا پنچائت میں نور پور۔ رقم تو انہوں نے ادا کر دی ہے اب زمین نام ہی ہو گی۔ بس یہی سوچ آ جاتی ہے کہ کوئی خطرے والی بات نہ ہو۔۔۔‘‘ چھاکے نے تشویش سے کہا تو چاچا سوہنا ایک لمبی سانس کے کر بولا

’’زمین نام ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ الگ بات ہے۔ مگر خطرے والی بات یہ ہے کہ پنچائیت میں چوہدری جلال خود جائے گا۔ اس لئے کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔‘‘

’’پھر تو ممکن ہے وہاں خطرہ ہو۔ ‘‘ وہ تیزی سے بولا

’’یہی تو ڈر ہے پتر۔ !چوہدری جلال کی بات نہ مانی گئی تو وہ کوئی بھی طوفان کھڑا کر سکتا ہے۔ اس کے پاس تو غنڈوں کی فوج ہے۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے کہا

’’اب کیا ہو سکتا ہے ابا۔ ‘‘ وہ پھر تشویش سے بولا

’’اللہ خیر کرے گا۔ ہم تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں نا۔ ‘‘ اس نے یوں کہا جیسے خود کو تسلی دے رہا ہو۔

’’ہاں ابا۔ !اللہ خیر کرے گا۔ تو آرام کر۔ میں تیرے لیے دوکان سے بوتل لے کر آتا ہوں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے چھاکا اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا۔ چاچا سوہنا کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا پھر خاموشی سے لیٹ گیا۔

٭٭

 

دن کا پہلا گذر چکا تھا۔ نور پور پر سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ سرکاری عمارتوں میں ریونیو آفس کی گیروے رنگ کی عمارت کے سامنے چوہدری جلال کی گاڑی آ کر رک گئی۔ منشی نے جلدی سے باہر نکل کر چوہدری کے لیے دروازہ کھولا۔ چوہدری جلال بڑے کروفر سے باہر نکلا ہی تھا کہ وہیں پر فہد کی گاڑی آ رک گئی۔ اگلے ہی لمحے کار میں سے فہد باہر آ گیا تو منشی نے تیز مگر آہستگی سے کہا

’’ یہ ہے وہ فہد۔ ‘‘

فہد کی نگاہ چوہدری جلال پر پڑی تو اس کے کانوں میں برسوں پہلے کی آواز گونجتی گئی کہ ’’میں کمی کمینوں لوگوں سے کلام نہیں کرتا۔ ‘‘

ایسا ہی حال کچھ چوہدری کا بھی تھا۔ برسوں پہلے کا کمزور سا لڑکا اب بھرپور جوان ہو کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے تب جس نفرت سے کہا تھا کہ ’’میرے استاد کی شان میں گستاخی مت کرو۔ ‘‘ وہ آج بھی ویسی ہی نفرت اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو چند لمحے دیکھتے رہے۔ تبھی منشی نے کہا

’’چلیں چوہدری صاحب اندر۔ ‘‘

چوہدری نے کچھ نہیں کہا بلکہ خاموشی سے بڑے کروفر کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ سراج اس دوران فہد کے پیچھے آن کھڑا ہوا تھا۔ اس نے فہد کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا تو وہ بھی اندر کی جانب چل دیا۔

ریونیو آفس کے اندر فہد، چوہدری جلال، سراج، ریونیو آفیسر چاچا عمر حیات اور دوسرے چند معززین بیٹھے ہوئے تھے۔ ریونیوآفیسر نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا

’’یہ سب معززین نور پو ر کے ہیں۔ انہیں میں نے دعوت دی ہے کہ آپ یہاں آئیں تا کہ ہم کسی فیصلے پر پہنچیں۔ جی پہلے چوہدری صاحب۔ ! آپ فرمائیں۔ ‘‘

چوہدری جلال نے سب کی طرف دیکھا اور پھر سنجیدگی سے اپنا موقف کہنے لگا

’’عمر حیات اور اس کے بھائیوں میں کافی عرصے سے تنازعہ چل رہا ہے۔ ان کا فیصلہ میرے پاس ہی تھا۔ عمر حیات کے بھائیوں کا یہ کہنا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی نقد رقم دکھا کر بہت تھوڑی قیمت پر زمین ہتھیا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ بے چارے میرے پاس آئے کہ وہ تو زیادہ قیمت دینے کو تیار ہیں ، کیونکہ حق تو عمر حیات کے بھائیوں کا بنتا ہے۔ عمر حیات کو اگر اپنے بھائیوں سے اچھی رقم مل رہی ہے تو زمین انہیں دے دینا چاہئیے۔ ‘‘

’’آپ کیا کہتے ہیں فہد صاحب۔ !‘‘ ریونیوآفیسر نے فہد کی طرف دیکھ کر کہا

’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ چوہدری صاحب جو ہیں۔ یہ فریق بن کر آئے ہیں یا منصف؟‘‘

’’ظاہر ہے وہ پنچائتی ہیں ، عمر حیات کے بھائیوں نے ان سے فیصلہ کروانا چاہا، اسی لئے انہیں یہاں بلایا ہے۔ ‘ ‘

’’معاملہ۔ میرے اور چاچے عمر حیات کا ہے۔ درمیان میں یہ چوہدری کیا کر رہا ہے۔ ‘‘ فہد نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا تو چوہدری نے غصے میں اس کی طرف دیکھا۔ فہد نے ایک جھٹکے میں اس کی ذات کی نفی کر کے رکھ دی تھی۔ اس پر چوہدری جلال خود پر قابو پاتے ہوئے کہا

’’یہ میرے علاقے کے لوگ ہیں۔ میرے پاس اپنی استدعا لے کر آئے ہیں۔ اب میں ان کے حق نہیں بچاؤں گا تو اور کون بچائے گا۔ ‘‘

’’جس بندے نے برس ہا برس سے ایک غریب کسان کی زمین دبا رکھی ہواوراس کے گھر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہو۔ کیا ایسا آدمی پنچائیتی کہلانے کا حق دار ہے۔ اس بات کا فیصلہ چوہدری سے کروا لیں کیونکہ یہ منصف تو کیا پنچائتی کہلانے کا حقدار بھی نہیں ہے۔ ‘‘ فہد نے طنزیہ لہجے میں کہا تو چوہدری ایک دم سے چونک گیا۔ فہد نے اصل بات سے پہلے ہی اس کو ذہنی طور پر کچل کے رکھ دیا تھا۔ اس پر شہر کے ایک معزز نے پوچھا

’’چوہدری صاحب۔ !یہ کیا بات ہے۔ آپ اس کا جواب دیں گے؟‘‘

’’یہ فقط اصل بات سے گمراہ کر رہا ہے۔ جس مسئلے کے لیے ہم یہاں بیٹھے ہیں ، وہ حل کریں۔ ‘‘ چوہدری نے ہوش مندی سے کہا تو فہد تیزی سے بولا

’’چلیں ، فیصلہ یہیں کرتے ہیں۔ اگر میرا کہا جھوٹ ثابت ہو جائے تو میں یہ زمین نہیں لوں گا، اور نہ رقم واپس لوں گا۔ اور اگر یہ چوہدری جھوٹا ثابت ہوا تو اس کی سزا کیا ہو گی؟‘‘

’’جواب دیں چوہدری صاحب، خاموش کیوں ہیں۔ ‘‘ اس معزز نے پھر اسے پوچھا

’’اصل میں اس کے باپ نے چوری کی تھی اور ۔۔۔‘‘چوہدری جلال نے غصے میں کہا تو فہد ایک دم سے بھڑک اٹھا۔ اس نے انتہائی غصے میں کہا

’’بکواس بند کرو چوہدری۔ !میرے باپ پر الزام لگاتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے ۔۔۔سچ تو ہے کہ تم نے اپنے بندوں کے ذریعے ۔۔۔ میرے باپ پر ظلم کر کے علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔۔۔آج انصاف کا پیکر بنے ۔۔۔علاقے والوں کے حقوق کی حفاظت بارے بات کر رہے ہو۔۔۔خبردار۔ ! میرے باپ کی شان میں گستاخی کی تو۔۔۔ایسی ہی غلطی تم ایک بار پہلے بھی کر چکے ہو۔ ‘‘

’’فہد صاحب۔ !یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو۔ آپ خود پر قابو رکھیں۔ پر سکون ہو جائیں پلیز۔ ‘‘ ریونیو آفیسر نے جلدی سے اسے روکتے ہوئے کہا

’’اصل میں اس بندے نے میری زمین دبائی ہوئی ہے۔ اگر واپس کر دیتا تو مجھے نئی زمین خریدنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اور جب زمین کا مالک اپنی زمین بیچنے کے لیئے راضی ہے تو یہ پنچائتی کون ہے جو دوسروں کا وقت برباد کر رہا ہے۔ ‘‘ فہد نے صاف لفظوں میں کہا تودوسرا معزز بولا

’’جس نے زمین بیچنی ہے وہ کیا کہتا ہے؟‘‘

اس پر ریونیو آفیسر نے عمر حیات سے پوچھا

’’عمر حیات۔ !کیا آپ نے اپنی زمین بہ رضامندی و رغبت اور پوری قیمت پر فروخت کی ہے؟‘‘

’’جی بالکل۔ !مجھے پوری ادائیگی ہو گئی ہے۔ یہ اس چیک کی نقل ہے جو فہد نے مجھے دیا ہے۔ رقم میرے اکاؤنٹ میں ہے۔ رقم مجھے مل گئی۔ ‘‘ اس نے صاف انداز میں اپنا بیان دے دیا

’’اگر آپ کے بھائی لینا چاہیں تو؟اتنی رقم تو وہ بھی دے رہے ہیں۔ ‘‘ ریونیو آفیسر نے پوچھا

’’میں ان کے ہاتھوں زمین بیچنا ہی نہیں چاہتا۔ وہ کم تو کیا۔ ایک ٹکا بھی نہیں دینا چاہتے۔ یہ میں جانتا ہوں ، اس کی وجہ میرے اپنے خاندانی معاملات ہیں۔ میں نے زمین فہد کو بیچ دی ہے۔ فقط عدالت ہی میں نہیں ہر جگہ میرا یہی بیان ہے۔ ‘‘ عمر حیات نے کہا

’’اب کیا کر سکتے ہیں چوہدری صاحب۔ ! مالک رقم لے چکا ہے۔ اس نے راضی خوشی اپنی زمین بیچ دی۔ ‘‘ ریونیو آفیسر نے چوہدری کی طرف دیکھ کر کہا

’’اس کا فیصلہ تو اب عدالت میں ہو گا۔ جو اس کے بھائیوں کا قانونی حق ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے چوہدری اٹھنے لگا تو فہد نے طنزیہ انداز میں کہا

’’میدان چھوڑ کر مت بھاگو چوہدری۔ اس طرح تم ان معزز لوگوں کے فیصلے کی توہین کر رہے ہو۔ ‘‘

’’اگر تم میں ہمت ہے تو اپنی زمین واپس لے لو۔۔۔‘‘ چوہدری جلال نے اپنی طاقت کے خمار میں وہ کہہ دیا جو نہیں کہنا چاہئیے تھا۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے چلا گیا۔ وہاں پر موجودسب لوگ اس کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ بلا شبہ یہ ان سب لوگوں کی ہتک تھی۔ کافی دیر تک ان کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔ تب ریونیو آفیسر نے سب کی طرف دیکھ کر پوچھا

’’تو پھر کیا فیصلہ ہے آپ لوگوں کا؟‘‘

’’حق تو فہد ہی کا بنتا ہے۔ ‘‘ ایک معزز نے کہا تو اس کی تائید وہاں موجود سب نے کر دی۔ اس پر ریونیو آفیسر نے فیصلہ کن انداز میں کہا

’’فہد۔ !آپ اطمینان رکھیں۔ زمین آج ہی آپ کے نام کر دیتے ہیں۔ ‘‘

’’تھینک یو۔ آفیسر۔ !‘‘ فہد سکون سے بولا

’’لیکن اب آپ کو بہت محتاط رہنا ہو گا۔ آخر وہ علاقے کا ایم این اے ہے۔ میرا تو زیادہ سے زیادہ تبادلہ کروا دے گا۔ اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔ ‘‘ ریونیو آفیسر نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا تو فہد سر ہلاتے ہوئے بولا

’’میں جانتا ہوں سر۔ ‘‘

ریونیو آفیسر نے وہاں آئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور ان کے ساتھ اٹھ گیا۔ سراج اور فہد بھی باہر نکلتے چلے گئے۔

’’کیا چوہدری اتنی آسانی کے ساتھ زمین سے دستبردار ہو جائے گا؟‘‘سراج نے پوچھا تو فہد نے دھیمے سے کہا

’’نہیں سراج ابھی کہاں۔ !اب جا کر تومیں نے سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالا ہے۔ ‘‘

’’وہ کیسے ؟میں سمجھا نہیں ، سانپ کے بل میں ہاتھ؟‘‘ سراج نے حیرت سے پوچھا

’’ہاں۔ ! وہ چاچے عمر حیات کی اسی زمین کو حاصل کے لیے بڑے لمبے عرصے سے محنت کر رہا تھا۔ اسی نے ان بھائیوں میں پھوٹ ڈلوائی ہوئی تھی۔ عین اس وقت پر جب چاچا عمر حیات بے بس ہو گیا تھا، یہ زمین میں نے لے لی۔ تم کہہ سکتے ہو سراج یہ زمین میں نے چوہدری سے چھینی ہے۔ ‘‘ فہد نے سنجیدگی سے کہا

’’واقعی فہد، وہ اس چوٹ کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ ضرور کرے گا۔ اب ہمیں بہت محتاط رہنا ہو گا۔ ‘‘ سراج نے سوچتے ہوئے کہا

’’میں تو کہتا ہوں وہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ کرے میرے ساتھ۔ کوئی وار کرے مجھ پر، جس کا میں خود دفاع کروں اور اسے اس کی اوقات بتاؤں کہ تھانے کچہری کی سیاست کرنے والے، صرف لوگوں کو خوف زدہ کر کے ہی اپنی حکمرانی قائم رکھ سکتے ہیں۔ عوام کو فائدہ نہیں دے سکتے۔ ‘‘ فہد نے غصے میں کہا جیسے اس کا خود پر بس نہ چل رہا ہو، برسوں بعد اپنے اس دشمن کو سامنے دیکھا تھا، جس کے لئے اس نے اپنی زندگی تیاگ دی تھی۔ اس کی حالت سے بے نیاز سراج نے عمارت سے باہر نکلتے ہوئے پوچھا

’’یار ایسے لوگ ایوانوں میں جا کر کیا کرتے ہیں۔ ‘‘

’’صرف اپنے مفادات کا تحفظ، یہ قومی مفاد کیا سوچ سکتے ہیں۔ سچ پوچھو تو ایسے لوگ چپڑاسی بننے کے قابل نہیں ہوتے۔ جن کے ہاتھوں میں بے روزگاروں کے لیے نوکریاں دے دی جاتی ہیں اور وہ ان کی بولی لگاتے ہیں ۔۔۔ تف ہے ایسی سوچ پر۔ ‘‘ فہد نے غصے میں حقارت سے کہا توسراج بولا

’’خیر اب ہمیں سوچنا ہے کہ چوہدری کیا کر سکتا ہے ؟‘‘

’’جو بھی کرے، میں تو ہر وقت تیار ہوں۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ایک دوسرے دفتر کی جانب چل پڑا، جہاں زمین اس کے نام ہونی تھی۔

قسمت نگر آ جانے تک ان میں خاموشی رہی۔ یہاں تک کہ گاؤں کا چوراہا آ گیا۔ سراج وہیں اتر کر رک گیا جبکہ فہد چلا گیا۔ وہاں کافی سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ سراج ایک جگہ چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا تو ایک بزرگ نے پوچھا

’’اوئے سراج، کیا بنا پر زمین کے فیصلے کا۔ سنا ہے تم بھی نور پور گئے تھے۔ ‘‘

’’ہونا کیا تھا، چاچے عمر حیات نے زمین بیچی، فہد نے خریدی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ زمین فہد کے نام ہو گئی۔ ‘‘

ہائیں۔ !سچی ایسا ہو گیا، چوہدری نے کچھ نہیں کہا۔ اس کے ہوتے ہوئے زمین کیسے فہد کے نام ہو گئی؟‘‘ وہاں موجود ایک بندے نے حیرت سے تبصرہ کیا

’’جیسے ہوتی ہے۔ اوئے چوہدری کا صرف خوف طاری ہے تم لوگوں پر۔ ڈرتے ہو تم لوگ۔ اس لیے وہ ظلم کرتا ہے۔ ورنہ وہ کوئی اتنا دلیر نہیں ہے۔ ‘‘ سراج نے کہا

’’بات دلیر یا بزدل کی نہیں ، وہ طاقت ور ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ تم لوگوں کو پتہ اس وقت لگے گا جب زمین کا قبضہ لو گے۔ قبضہ لینا ہی تو سب سے بڑا کام ہے۔ ‘‘ اس بزرگ نے خوف زدہ انداز میں کہا

’’چاچا عمر حیات تو ابھی قبضہ دے رہا ہے۔ وہ تو۔۔۔‘‘ سراج نے کہنا چاہا تو دوسرا بندہ بات کاٹ کر بولا

’’وہ نہیں۔ !اس کے بھائی۔ زمین پر قدم نہیں رکھنے دیں گے۔ چوہدری بھی ان کے ساتھ ہے۔ تیری رجسٹریاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ ایویں ہی خوش نہ ہوتے پھرو۔ ‘‘

’’تم لوگ یونہی ڈرتے رہو اور دوسرں کو ڈراتے رہو اس سے لیکن اب ہم نہیں ڈرنے والے۔ قبضہ بھی لے لیں گے۔ ‘‘ سراج نے دلیری سے کہا

’’جب لو گے تبھی نا۔ ‘‘ پہلے نے طنزیہ انداز میں کہا

’’تم لوگ بھی یہیں ہو، ہم بھی یہیں ہیں۔ ‘‘ سراج بولا

’’ویسے وہاں پر ہوا کیا۔ یہ تو بتاؤ۔ ‘‘ بزرگ نے پوچھا توسراج روداد بتانے لگا۔

٭٭

 

جعفر اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں باہر جانے لے لئے تیار بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی کا تاثر تھا۔ وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر اپنا سیل فون نکال کر نمبر پش کر دئیے۔

دوسری طرف مائرہ لیپ ٹاپ پر مصروف تھی۔ سیل فون بجنے پر چونک اٹھی۔ اس نے اسکرین پر نمبر دیکھے تو مسکراتے ہوئے فون رسیو کر تے ہوئے بولی

’’ہیلو جعفر، کہو کیا بات ہے۔ ‘‘

’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ جعفر نے خمار بھرے لہجے میں کہا تو مائرہ نے شوخ انداز میں جوب دیا

’’کام کر رہی ہوں۔ تمہاری طرح مزدوری نہیں۔ ‘‘

’’اب اگر میں کہوں کہ آؤ، کہیں بیٹھ کر کچھ کھاتے پیتے ہیں اور کچھ باتیں کرتے ہیں ، تو کیا کہو گی؟‘‘ اس نے شرارت سے کہا تو مائرہ مسکراتے ہوئے بولی

’’میں یہ کہوں گی کہ میرے پاس فضول کاموں کے لیے وقت نہیں ہے، تو پھر؟‘‘

’’تو پھر تم ایک بہت ہی اہم نیوز سے محروم رہ جاؤ گی۔ ‘‘ اس نے سکون سے کہا۔ اس پر مائرہ چونکتے ہوئے بولی ’’نیوز ۔۔۔ کیسی نیوز؟‘‘

’’وہ جس نے تمہیں دھمکی دی تھی نا۔ میں نے اسے تلاش کر لیا ہے۔ ‘‘ جعفر نے عام سے لہجے میں کہا تو مائرہ خوش ہوتے ہوئے بولی

’’واؤ۔۔۔ کیسے؟ کیسے تلاش کیا؟‘‘

’’میں نے ان کی ساری انفارمیشن لے لی ہے۔ اور خود ایکشن کروں گا اور بہت جلد وہ گرفتار ہو جائیں گے۔ ‘ ‘ اس نے بتایا تو مائرہ پر جوش ہوتے ہوئے بولی

’’اوکے۔ ! مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس دھمکی دینے والے کو مجھے ایک بار دکھانا ضرور، لیکن یہ سب کیسے ہوا، اتنی جلدی تم نے انہیں کیسے تلاش کر لیا، وہ کس گینگ۔۔۔‘‘

’’صبر صبر، اتنی جلدی کیا ہے۔ اندر کا صحافی جاگ اٹھا ہے۔ میں بتا دوں گا لیکن ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ‘‘ جعفر نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا تو مائرہ خجل سی ہوتے ہوئے، مگر پیار کے ساتھ بولی

’’بدلہ لے رہے ہو نا۔ ‘‘

’’بالکل بھی نہیں ، بس تم سے ملنے کا بہانہ بنا رہا ہوں۔ ‘‘ اس نے صاف کہہ دیا۔

’’ یہ بات ہے، تو چلو ٹھیک ہے۔ میں کچھ دیر بعد یہاں سے نکلتے ہوئے تمہیں کال کروں گی۔ وہیں پارک میں ملتے ہیں۔ میں نے تم سے ایک بات بھی کرنی ہے۔ اب کہیں ڈیوٹی کا بہانہ کر کے نہ نکل جانا۔ ‘‘ مائرہ نے پیار سے کہا

’’ٹھیک ہے جناب، میں انتظار کروں گا۔ آنکھیں فرش راہ کر کے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا۔ تبھی مائرہ بھی فون بند کرتے ہوئے خیالوں میں کھو گئی۔ پھر بہت ہی پیارے انداز میں مسکراتے ہوئے ایک دم شرما گئی۔

شام کے سائے تیزی سے پھیلتے جا رہے تھے۔ جعفر اور مائرہ دونوں پارک میں ٹہلتے ہوئے جا رہے تھے۔ وہ باتیں کرتے ایک بنچ پر جا کر بیٹھ گئے تو مائرہ نے پوچھا

’’ہاں اب بتاؤ جعفر ۔۔۔ کیسے معلوم ہوا تمہیں اس کے بارے میں ؟‘‘

’’یہ بہت آسان تھا۔ میں اس گینگ کے پیچھے کافی دنوں سے ہوں۔ اور دوسرے طریقوں کے علاوہ میں ان کے نمبرز بھی چیک کر رہا ہوں۔ بس وہ نمبر میرے سامنے آ گیا تو میں جان گیا کہ وہ کون ہے۔ ‘‘ اس نے عام سے انداز میں کہا تو مائرہ نے تجسس سے پوچھا

’’کون ہیں وہ ؟‘‘

’’وہی جن کے بندے ہم نے اندر کئے ہوئے ہیں۔ بہت پریشر ہے ان کے بارے میں کہ میں ان کو چھوڑ دوں۔ نوٹوں کی گڈیاں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ ‘‘ وہ بولا

’’اور تم مان نہیں رہے نا۔ اگر انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کی بات نہیں بنے گی تو وہ تمہیں جانی نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ؟‘‘ مائرہ نے تیزی سے کہا

’’ہاں تو اور کیا پیار کریں گے۔ اس کے لیے میں ہر وقت تیار ہوں ، موت تو آنی ہے۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو مائرہ تڑپ کر بے ساختہ بولی

’’ اللہ نہ کرے۔ ‘‘ پھر جعفر کے احساس کرنے پر خود ہی شرما کر کہا، ’’ مجرم کا کیا ہوتا ہے وہ ۔۔۔خیر کیا تم نے ان کو پکڑنے کا پلان کر لیا ہے ؟‘‘

’’ہاں کر لیا ہے۔ ‘‘

’’دیکھا جعفر۔ ! اگر دوست ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو بڑے سے بڑے مسئلے حل ہو جائیں۔ جیسے تم نے کوشش کر کے ان دھمکی دینے والوں کا تلاش کر لیا۔ ویسے تمہارا میرے لیے پریشان ہونا مجھے بہت اچھا لگا۔ ‘‘ وہ شرماتے ہوئے بولی تو جعفر کو بہت اچھا لگا۔ تبھی وہ پیار سے بولا

’’ایک تم ہی تو میری دوست ہو۔ بلکہ دوست سے بھی بڑھ کر جس کا خیال رکھنا ہی، میری زندگی ہے۔ اس تعلق میں اک اعتبار ہی تو ہے۔ مان ہوتا ہے نا، اور مائرہ یہ تعلق ہر کسی سے ہو بھی نہیں سکتا۔ ‘‘

’’بالکل جیسے میں اور تم۔ !کتنے برس سے ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ دوست ہیں ، ساتھ پڑھے۔ پھر ملتے بھی رہے۔ فہد کے چلے جانے کے بعد ہم اچانک ایک دوسرے کے اتنے قریب آ گئے۔ ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ہماری قربت اعتبار اور مان کا اظہار ہی تو ہے۔ ‘‘ مائرہ اپنی سوچ واضح انداز میں کہہ دی

’’مجھ پر اعتبار کرنے کا اور مان دینے کا بہت شکریہ مائرہ۔ !‘‘ وہ اس کے لفظوں سے سرشار ہوتا ہوا بولا

’’شکریہ کہہ کر مجھے چھوٹا مت کرو جعفر۔ !حقیقت یہ ہے کہ فہد کے جانے کے بعد، جس طرح میں ٹوٹ گئی تھی اور جیسا مجھے سہارا تم نے دیا، اس پر تو میں تمہاری احسان مند ہوں۔ وہ نجانے کب لوٹ آئے گا۔ میرے انتظار کی اذیت تم نے کم کی ہے جعفر۔ !‘‘ وہ اداس ہوتے ہوئے بولی تو جعفر نے کہا

’’میں تمہارادوست ہوں نا۔ میں نے ہی خیال نہیں رکھنا تو پھر کسی اور نے خیال کرنا تھا۔ ‘‘

’’تم فقط میرے دوست ہی نہیں ، اس سے بھی بہت کچھ بڑھ کر ہو۔ ہم ایسا کیوں نہیں ، کرتے، ہم دونوں مل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ تمہارا ساتھ نہ صرف حوصلہ دیتا ہے بلکہ نیوز کی دنیا میں تہلکہ مچا سکتے ہیں۔ ‘‘ مائرہ نے اچانک کہا اور کہہ کر مسکرا دی اس پر جعفر بھی مسکراتے ہوئے بولا

’’ضرور۔ !یہ اچھا ہے، سارا دن تمہیں یاد کر کے بور ہونے سے تو بہتر ہے۔ ‘‘

اس پر مائرہ نے ہلکا سا قہقہہ لگایا تو اک جلترنگ کا سا احساس چاروں طرف بکھر گیا۔ وہ کچھ دیر تک خاموش رہے۔ پھر جعفر نے کہا

’’ آؤ، کہیں سے کھانا کھاتے ہیں۔ ‘‘

اس پر مائرہ نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ چلو، کھانا بھی تمہاری پسند کا میری طرف سے۔ ‘‘

دونوں ایک ساتھ اٹھے اور پارک سے باہر کی جانب چل دئیے۔ سورج مغرب میں اتر چکا تھا۔

٭٭

 

رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ چوہدری جلال حویلی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ ریونیو آفس سے واپسی پر چوہدری جلال بہت غصے میں تھا، کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ اس سے بات کر سکے۔ ان اس کا غصہ کم ہوا تھا تو منشی بھی اس کے پاس آ کر تبصرہ کرتے ہوئے بولا

’’لگتا ہے ریونیو آفیسر اس کے ساتھ مل گیا ہے۔ حالانکہ میں رات اس سے مل کر اور اسے بتا کر آیا تھا۔ اور فہد، اس نے بھی ذہانت دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ویسے اگر وہ عمر حیات والی زمین لے گیا۔ تو ہماری شکست ہو گی۔ کم از کم ہم اسے ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ ‘‘

’’او نہیں کوئی شکست نہیں ہے۔ میں خود اس کا زور دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ کہاں تک کیا کرتا ہے۔ میں اس کا بندوبست کر دوں گا۔ چاہے وہ اس کی اپنی زمین کا ٹکڑا ہے یا عمر حیات سے خریدی ہوئی زمین۔ ‘‘ چوہدری جلال نے بڑے سکون سے کہا

’’چوہدری صاحب !ایک طرف اسے آپ ذہین کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب اس کا زور دیکھنا چاہتے ہیں۔ سمجھ نہیں آئی بات۔ ‘‘ منشی نے الجھتے ہوئے کہا

’’میں نے اس کے بارے میں فیصلہ کر لیا ہوا ہے۔ اسے کس حد تک جانے کی اجازت دینی ہے۔ یہ میں جانتا ہوں۔ میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں منشی، کہ اس علاقے کے لوگ ہمارے ساتھ کس حد تک وفادار ہیں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو اس کے لہجے میں شکوے اور غصے کی ملی جلی کیفیت تھی۔ اس پر منشی نے الجھتے ہوئے رائے دی۔

’’آپ کی باتیں آپ ہی جانیں۔ لیکن میرا یہ خیال کہتا ہے کہ اب اسے ڈھیل نہیں دی جا سکتی۔ وہ ہمارے لئے خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’ہاں ، اب اس کا راستہ روکنا ہی ہو گا۔ لیکن کیسے، یہ میں بعد میں بتاؤں گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر چوہدری جلال خاموش سے سوچنے لگا۔ تبھی پورچ میں گاڑی رکتی ہے۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ تبھی چوہدری کبیر غصے میں دندناتا ہوا اندر آ گیا، اس نے ایک نگاہ اپنے باپ پر ڈالی اور دانت پیستے ہوئے پوچھا

’’باباجی۔ !یہ میں کیا سن رہا ہوں۔ اس فہد کے بچے نے آپ کے ساتھ بد تمیزی کی ہے۔ ‘‘

اس پر چوہدری جلال نے اس کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا کہ کبیر کے اندر آگ دھڑ دھڑ جلنے لگی۔

چوہدری جلال اپنے بیٹے کے اندر کو سمجھ چکا تھا۔ وہاں بھی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اس کا اندر عیاں کر رہی تھی۔ وہ ایک دم سے خوف کھا گیا کہ یہ آگ کہیں اس کے اپنے خرمن ہی کو نہ لگ جائے۔ اس لئے بڑے تحمل سے بولا

’’بد تمیزی نہیں ، یہ اس کے اندر کی آگ بھڑک رہی تھی۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ اس کے اندر اتنی آگ بھری ہوئی ہے۔ لگتا ہے وہ بچپن سے اسی آگ میں جل رہا ہے۔ ‘‘

’’بابا۔ !اس سے پہلے کہ اس کے اندر کی آگ ہم تک پہنچے، اسے اس کی اپنی آگ ہی میں جلا دینا چاہیے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے انتہائی غصے میں کہا تو چوہدری جلال بولا

’’کیسے؟کیا اسے تم گولی مار دو گے؟یہ گولی مارنا جتنا آسان ہے۔ ہمارے لیے یہ اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ ہمارا سیاسی کیرئیر داؤ پر لگ جائے گا۔ یہ تم کیوں نہیں سمجھتے ہو۔ وہ اگر یہاں واپس آیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی آیا ہے۔ ‘‘

’’اس کی ساری سوچیں ، اسی کے ساتھ ختم ہو جائیں گی بابا۔ ریونیو آفس میں اس کی بد تمیزی کا یہی مطلب ہے کہ اس نے ہمیں للکارا ہے۔ اس کا جواب تو ہمیں دینا ہی ہو گا۔ ‘‘ وہ تیزی سے بولا

’’کبیر۔ !اگر ہم فقط جاگیر دار ہوتے تو اب تک اس کی زبان گدی سے نکال کر زبان پر رکھ دیتے۔ اور نہ ہی اس کی اتنی اوقات ہے کہ ہمارے سامنے آ کر کھڑا ہو جائے۔ وہ ساری عمر بھی لگا رہے تو ہمارے قد کو نہیں چھو سکتا۔ معاملہ کچھ اور ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا تو چوہدری کبیر نے الجھتے ہوئے پوچھا

’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ، کیا معاملہ ہو سکتا ہے؟‘‘

’’میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ حالات پر غور کرو۔ اور پھر فہد کا گاؤں میں آ جانا۔ یہاں کے ڈی ایس پی نے یونہی فون نہیں کر دیا تھا۔ تمہارے خلاف پہلی بارحبس بے جا کی ایف آئی آر درج ہونا، یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ میں نے پتا کیا ہے۔ ڈی آئی جی سے کہلوایا گیا تھا۔ کوئی طاقت ہے جو ہمارے خلاف ہو چکی ہے۔ فہد ایک نقاب ہے۔ اصل طاقت کا چہرہ اس کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے یوں کہا جیسے وہ معاملے کہ تہہ تک پہنچ گیا ہو۔ اس پر چوہدری کبیر نے انتہائی حقارت سے کہا

’’تو پھاڑ دیتے ہیں یہ نقاب۔ دیکھتے ہیں پھر کون سامنے آتا ہے۔ آپ اس کھیل کو جتنی دیر تک سمجھیں گے، اس وقت تک سارا کھیل بگڑ چکا ہو گا بابا۔ مجھ سے جو ہو سکا، میں وہ کروں گا، لیکن فہد کا پتہ صاف کرنا بہت ضروری ہے۔ میں اسے معاف نہیں کر سکتا۔ ‘‘

وہ دونوں باپ بیٹا باتیں کر رہے تھے کہ اس دوران منشی فون سیٹ لے کر قریب آ گیا۔ چوہدری جلال نے اس کی طرف دیکھا تو منشی نے مودبانہ انداز میں کہا

’’یہ جی منسٹر صاحب کا فون ہے۔ ‘‘

چوہدری نے بڑے سکون سے فون پکڑا، اور کان سے لگاتا ہوا بولا

’’جی منسٹر صاحب۔ ! کیسے یاد کر لیا ہمیں۔ ‘‘

’’پارٹی کا ایک ہنگامی اجلاس ہے، آپ فورا آ جائیں۔ یہ اجلاس، اسمبلی سیشن سے پہلے بہت ضروری ہے۔ ایم این اے حضرات کو گرانٹیں دی جا رہی ہیں۔ پھر مت کہے گا کہ ہم نے آپ کو خبر نہیں دی۔ ‘‘

چوہدری کبیر چند لمحے رک کر اپنے باپ کی طرف دیکھتا رہا پھر غصے میں اٹھ کر چل دیا۔ چوہدری فون کرتے ہوئے اسے دیکھتا رہا مگر روکا نہیں۔ وہ اس کی آنکھ میں اترا ہوا خون دیکھ چکا تھا، لیکن پھر بھی وہ مسلسل بات کرتا رہا۔

’’ یہ اجلاس کب ہے منسٹر صاحب؟‘‘

’’کل صبح، آپ بس آ جائیں۔ ‘‘

’’میں آج ہی نکل رہا ہوں۔ اور کوئی بات؟‘‘

’’نہیں بس آپ آ جائیں ، باقی باتیں ادھر ہو جائیں گی۔ اللہ حافظ۔ ‘‘

دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔ چوہدری نے بھی فون واپس منشی دے دیا اس کے چہرے پر خوشی پھیل گئی تھی۔ یہ خوشی عارضی تھی۔ جیسے ہی اسے کبیر کا خیال آیا۔ وہ اپنی سوچوں میں کھو گیا۔ وہ اٹھا اور اندر چلا گیا۔ وہ کاریڈور میں آیا تو اس کا سامنا بشریٰ بیگم سے ہوا۔ چوہدری خاموشی سے آ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اُسے سوچ میں گم دیکھ کر بشریٰ بیگم نے فکر مندانہ لہجے میں پوچھا

’’کیا بات ہے۔ آپ بہت پریشان لگ رہے ہیں۔ ‘‘

’’بیگم۔ !آج تک میں نے دنیاداری کے بے شمار بکھیڑوں کو کسی پریشانی کے بغیر ختم کیا ہے لیکن ایک جگہ آ کر میں تھوڑا پریشان ضرور ہو جاتا ہوں اور وہ ہے تیرا بیٹا کبیر۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے کہا

’’کیا ہوا اسے، آپ اس کی کس بات سے پریشان ہیں ؟‘‘ بشریٰ بیگم نے خود پریشان ہوتے ہوئے پوچھا

’’اس کا غصہ، سوچے سمجھے بغیر کسی پر چڑھ دوڑنا۔ میں مانتا ہوں کہ طاقت ہو گی ہمارے پاس تو یہ لوگ ہمارے سامنے سر نہیں اٹھا سکیں گے۔ لیکن وہ نہیں جانتا کہ ہر جگہ طاقت کا استعمال غلط بھی ہوتا ہے۔ اسے سمجھاؤ، جہاں طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں طاقت استعمال کرتے ہیں۔ اور جہاں عقل مندی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں عقل سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو بشریٰ بیگم بولی

’’آج آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ پہلے آپ نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا۔ کبیر جو مرضی کرتا پھرے آپ نے کبھی اسے نہیں روکا ٹوکا تھا۔ اب کیا ہو گیا ہے ؟‘‘

’’اس کے منہ کو خون لگ گیا ہے بیگم۔ میں مانتا ہوں کہ میں اسے کبھی نہیں روکا ٹوکا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ وحشی ہو جائے۔ ‘‘ وہ تلخی سے بولا

’’آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ وہ پہلے ایسانہیں تھا، میں اسے سمجھتی ہوں۔ کچھ عرصہ ہوا ہے، وہ بہت چڑچڑا ہو گیا ہے۔ یوں جیسے وہ کسی معاملے میں بہت بے بس ہو۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے کہا تو وہ چوہدری نے چونک کر دیکھا اور پھر پوچھا

’’ایسی کیا بات ہے۔ کس معاملے میں وہ بے بسی محسوس کر رہا ہے؟‘‘

’’میں نے اس پر بہت سوچا ہے چوہدری صاحب، میں نے کوشش بھی کی ہے اس سے اگلوانے کی مگر وہ کچھ بولتا ہی نہیں ہے۔ میں خوداس کے رویے سے پریشان ہوں۔ ‘‘بشریٰ بیگم نے بے بسی سے کہا

’’اس معاملے کا تو فوراً پتہ چلنا چاہئے۔ کیا بات ہے وہ؟یہ بہت ضروری ہے ‘‘ چوہدری جلال نے تیزی سے کہا

’’وہ میرے پاس رہے تو مجھے کچھ معلوم ہو۔ یہاں ہوتا ہے تو زیادہ وقت ڈیرے پر گذارتا ہے۔ ‘‘ تو بشریٰ بیگم نے تنک کر کہا تو چوہدری جلال سوچنے والے انداز میں بولا

’’تمہارا یہ مشورہ بالکل ٹھیک تھا کہ ہمیں اس کی شادی کر دینی چاہیے۔ تم نے اس سلسلے میں اس سے بات کی؟‘‘

’’آپ کچھ فائنل کریں گے تو میں اس سے بات کروں گی۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے کہا

’’تم اس سلسلے میں اس سے بات کرو۔ ہم چند دن میں فیصلہ کر ہی دیتے ہیں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔ تو بشریٰ بیگم اس کے ساتھ ہی چل دی۔ وہ دونوں اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے۔

چوہدری کبیر غصے میں حویلی سے نکلا اور واپس ڈیرے پر چلا گیا۔ جہاں تھانیدار آ گیا ہوا تھا۔ اس کے سامنے کھانا دھرا ہوا تھا اور وہ بڑی بے دردی سے کھا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بڑی خبیثانہ مسکراہٹ تھی۔ اس نے ہڈی ایک طرف پھینک کر پھر دوسری اٹھائی۔ کبیر اس کی طرف دیکھتا رہا۔ تبھی تھانیدار نے کہا

’’نکے چوہدری جی، جب بھی آپ کی دعوت کھائی ہے۔۔۔ سچ پوچھو نا۔۔۔تو اس کا سواد ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ چَسّ آ جاتی ہے۔ ‘‘

’’اور تمہیں یہ بھی پتہ ہو گا کہ میں ایسی دعوت کیوں کرتا ہوں۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے اس کی طرف دیکھ کرسرد سے لہجے میں کہا

’’وہ تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا، جب آپ نے دعوت کے لیے مجھے پیغام بھیجا تھا۔ سمجھ گیا تھا اسی وقت۔ باقی آپ بتائیں آپ کیا چاہتے ہیں ؟‘‘ اس نے کھانے کی طرف توجہ رکھتے ہوئے پوچھا

’’یہ حالات تمہارے سامنے ہیں۔ ایک بندہ ہی قابو میں نہیں آ رہا۔ سنا ہے وہ تمہیں بھی تھانے میں دھمکیاں دے کر آیا تھا۔ ‘‘ کبیر نے تشویش زدہ لہجے میں کہا

’’حالانکہ اسے یہ نہیں معلوم کہ پانی ہمیشہ ہمارے پلوں کے نیچے سے ہو کر گذرتا ہے۔ سچ پوچھو نا وڈھے چوہدری صاحب بہت ناراض ہوئے تھے مجھ پر۔ میں اس دن سے فہد کی تاک میں ہوں کہ میرے ہتھے چڑھے اور میں اپنا کام دکھا دوں۔ پورا پلان میرے ذہن میں تیار ہے کہ مجھے کرنا کیا ہے۔ ‘‘ تھانیدار نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’کیا کہتے ہو پھر تم اس کے بارے میں۔ حالات ساز گار کرو۔ نہال کر دوں گا۔ ‘‘کبیر نے پوچھا

’’ کیوں گنہ گار کرتے ہو نکے چوہدری جی، پہلے بھی ہم آپ ہی کا کھاتے ہیں ، ان نوکریوں میں بھلا کیا رکھا ہوا ہے۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہیں کہ وڈھے چوہدری صاحب خوش ہو جائیں اور مجھے یقین ہے نکے چوہدری جی ۔۔۔ ایک تیر سے تین شکار کروں گا۔ ‘‘ تھانیدار نے کھانا چھوڑ کر اسے یقین دلایا

’’واہ۔ ! میں بھی تو سنوں ، ایسا کون سا تیر ہے تمہارے پاس؟‘‘ کبیر نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا

’’ میں یہ کھانا کھا لوں پھر آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں کہ کرنا کیا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کروہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

’’او یار ابھی تو بہت کچھ پڑا ہے تیرے سامنے۔ کھا پی موج کر۔ تو بیٹھ اور کھانا کھا، میں ابھی آتا ہوں۔ پھر بات کرتے ہیں۔ ‘‘ کبیر نے اٹھتے ہوئے کہا

’’ٹھیک ہے، میں انتظار کرتا ہوں ‘‘

یہ کہہ کر وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ چوہدری کبیر باہر نکل گیا۔ اس کے چہرے پر فکر اور سوچ کے ملے جلے تاثرات تھے۔ وہ اپنے لوگوں کو روکنے جا رہا تھا، جو اس نے فہد کے لئے تیار کئے تھے۔ اب وہ چاہتا تھا کہ پہلے تھانیدار والا معاملہ دیکھ لے، پھر اگلی کوئی بات کرے گا۔

٭٭

 

فہد اور ماسٹر دین محمد، دالان میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں سلمی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ فہد اس کی آمد پر اس کی جانب متوجہ ہوا تو سلمٰی نے پوچھا

’’چلیں وہ زمین تو ہوئی۔ یہ گاؤں میں گھر خریدنے کی ضرورت کیا تھی۔ آپ کے پاس اپنا گھر تو ہے۔ ‘‘

’’اگر سچ پوچھو تو میں نے یہ گھر تمہارے لیئے خریدا ہے سلمٰی۔ ‘‘ فہد نے سکون بھرے لہجے میں کہا توسلمٰی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

’’میرے لیے، وہ کیوں ؟‘‘

’’وہ اس لیے سلمٰی کہ تم نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم وہاں پر گاؤں کی بچیوں کے لیئے سکول بناؤ۔ انہیں تعلیم بھی دو اور ہنر مند بھی بناؤ۔ یا پھر جو تم چاہو۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’میں تو کر لوں گی مگر۔۔۔؟‘‘ وہ کہتے کہتے رُک گئی

’’مگر کیا، میں اور استاد جی ہیں نا تمہاری مدد کے لیے۔ کیوں استاد جی؟‘‘ اس نے کہتے ہوئے پوچھا توماسٹر دین محمد نے سر ہلاتے ہوئے کہا

’’اچھی بات ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ میں سمجھ رہا ہوں کہ تم کیا کرنا چاہ رہے ہو۔ دراصل تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے بندے کو شعور ملتا ہے۔ علم ہی حیوانیت سے انسانیت کی طرف لاتا ہے۔ مگر جس کام کا بیڑا تو نے اٹھایا ہے۔ یہ تکمیل تک پہنچے گا تو فائدہ مند ہو گا۔ ورنہ مایوسی کے بادل مزید گہرے ہو جائیں گے۔ ادھورا مشن لوگوں کا حوصلہ توڑ کر رکھ دے گا۔ لیکن۔۔۔‘‘

لیکن کیا استاد جی، آپ خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘ فہد نے تیزی سے پوچھا تو ماسٹر دین محمد نے کہا

’’ پتر۔ ! اس گاؤں کے سکول پر عرصہ ہوا تالا پڑا ہوا ہے۔ اصل مشن تو وہ ہے کہ اس سکول کا تالا کھولا جائے، بچے اس میں جا کر پڑھیں۔ بات صرف تالا کھولنے کی نہیں ہے۔ یہ چوہدری کی طاقت کو چیلنج کرنے والی بات ہو گی۔ ‘‘

’’میں جانتا ہوں استاد جی، آپ دعا کریں۔ اللہ رب العزت ہمیں استقامت اور قوت دے۔ یہ بھی ہو جائے گا۔ ‘‘ فہد نے اسے حوصلہ دیا

’’میری دعائیں تو ہر وقت تمہارے ساتھ ہیں بیٹا۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے جذب سے کہا تو سلمی بولی

’’بعض اوقات ہم اپنے بارے میں غلط اندازے لگا کر خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیا چوہدری۔۔۔‘‘

’’میں کسی بھی طرح کی خوش فہمی نہیں ہوں۔ میں چوہدری جلال کی فرعونیت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں یہ اندازہ کر سکتا ہوں کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ کیا کر سکتا ہے۔ میں ہر طرح کے حالات کے لئے پوری طرح تیار ہوں۔ کیا تم تیار ہو؟‘‘ فہد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا توسلمٰی نے اپنے باپ کا خیال کرتے ہوے دھیرے سے کہا

’’میں پوری کوشش کروں گی کہ آپ کو مایوسی نہ ہو۔ میں آپ کے مشن میں پورا ساتھ دوں گی۔ کھانا لاؤں ؟‘‘

’’لے آؤ۔ ‘‘ وہ اس کی بات سمجھتے ہوئے بولا

’’میں ابھی لائی۔ ‘‘ سلمی یہ کہہ کر اٹھی اور تیزی سے اندر کی جانب چلی گئی۔ اور وہ دونوں باتیں کرنے لگے۔

فہد کے ذہن میں تھا کہ اس وقت سراج اپنے ڈیرے پر سے آنے والا ۔ہے۔ فہد نے اسے گھر بلایا تھا۔ اسے یہاں باتیں کرتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے دیر ہو گئی تھی۔ اس لئے وہ تیزی سے باہر نکلا اور اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔

اس وقت سراج اپنے ڈیرے پر رانی کے ساتھ تھا۔ وہ دونوں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ رانی کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ لیکن اندھیرے میں اس کا گورا بدن چاندنی کی طرح چمک رہا تھا۔ اگرچہ وہ غریب گھر کی تھی۔ لیکن حسن اس پر ٹوٹ کر آیا تھا۔ یہی دیکھتے ہوئے سراج نے کہا

’’رانی، آج میں نور پور گیا تھا، پر تیرے لئے کچھ لانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ ‘‘

’’مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ میں یہاں تم سے فرمائشیں کرنے نہیں آئی۔ تم سے بات کرنے آئی ہوں۔ پتہ ہے کتنی مشکل سے آتی ہوں یہاں میں۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو حویلی والوں نے مجھے نہیں چھوڑنا۔ ‘‘ رانی تنک کر بولی

’’کیا ہو گا ؟ بد نام کر دیں گے نا، تو کر دیں۔ اچھا ہے، جو رکاوٹ ہماری شادی میں ہے وہ خود بخود دور ہو جائے گی۔ ‘‘ سراج نے تیزی سے کہا

’’تم نے سوچ لیا اور ہو گیا۔ کیسی باتیں کرتے ہو۔ پتہ ہے پار گاؤں والوں نے تو یہ بھی طے کر لیا ہے کہ جلد از جلد میری منگنی کے لئے آ جائیں۔ اور تم ہو کہ بات نہیں کر سکے اپنی اماں سے۔ ‘‘ رانی نے دکھی ہوتے ہوئے کہا

’’اوئے تجھے کس طرح سمجھاؤں کہ میں نے کر لی ہے اماں سے بات۔ غیر برادری میں رشتہ مانگنا کوئی معمولی بات تو ہے نہیں۔ وہ کوئی موقعہ دیکھ کر بات کریں گے۔ اور تو کیوں گھبراتی ہے، رشتہ آرام سے نہ دیا تو میں عدالت میں نکاح کر لوں گا۔ ‘‘ سراج نے اسے آسان سے حل بتایا تو رانی تڑپ کر بولی

’’نہ بابا نہ، ایسے سوچنا بھی مت۔ اور ہاں۔ ! میں نے سنا ہے تو امین والے معاملے میں عدالت جائے گا، چوہدریوں کے خلاف؟‘‘

’’ہاں تو اور کیا، انہوں نے ظلم تھوڑا کیا ہے۔ ‘‘ سراج نے دکھ سے کہا تو رانی بولی

’’اور یہ تو نے فہد کے ساتھ کیا یاری لگا لی ہے۔ پتہ ہے حویلی والے اس کے کتنے خلاف ہو گئے ہیں۔ ‘‘

’’کتنے، یہی نا کہ اسے جان سے مار دیں گے۔ ‘‘ اس نے تیزی سے کہا تو رانی ڈرتے ہوئے بولی

’’معاملہ ایسے ہی ہے سراج۔ نکا چوہدری تو اتنے غصے میں ہے کہ میں کیا بتاؤں وہ سمجھتا ہے کی فہد نے وڈھے چوہدری سے بدتمیزی کی ہے۔ ‘‘

’’کوئی بد تمیزی نہیں کی۔ میں ساتھ تھا۔ اس نے اپنا حق لینے کے لئے جائز بات کی ہے۔ ‘‘ سراج نے بتایا

’’بات تو تم ٹھیک کہتے ہو سراج۔ یہ امیر لوگ بھلا ہم جیسے غریبوں کو کہاں انسان سمجھتے ہیں۔ وہ سخت غصے میں ہے۔ میرا تو دل ڈرتا ہے۔ کہیں وہ ۔۔۔‘‘رانی کہتے ہوئے خاموش ہو گئی۔

’’ہم انہیں انسان نہیں سمجھتے۔ تو غم نہ کر، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ سراج نے اسے حوصلہ دیا

’’دیکھ سراج تو اپنا خیال رکھ۔ ‘‘رانی حسرت سے بولی سراج اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا

’’ تو میری فکر چھوڑ اپنا خیال رکھا کر۔ آ تجھے چھوڑ دوں ، پھر مجھے فہد کے پاس جانا ہے۔ کچھ باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘ سراج نے کہا تو رانی اٹھ گئی۔ دونوں کھیتوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے چلتے چلے گئے۔

وہ رات گذر گئی۔ قسمت نگر پر صبح کے سورج نکلنے کو تھا۔ ایسے ملگجے اندھیرے میں ایک شخص کھیتوں کے راستے پر آ رہا تھا کہ اس کی نگاہ ایک ایسے بندے پر پڑی جو اوندھے منہ زمین پر پڑا تھا۔ وہ متجسس ہو کر تیزی سے اس کے قریب گیا۔ اسے پلٹ کر دیکھا تو وہ امین آرائیں تھا، جس کی سانسیں ختم ہو چکی تھیں اور مردہ پڑا تھا۔ وہ شخص خوف زدہ ہو کر چونک گیا۔ اس نے ڈرے ہوئے انداز میں گاؤں کی طرف دیکھا اور تیزی سے پلٹ کر چل دیا۔

اس وقت فہد اور سراج دونوں مسجد سے پلٹ کر گھر میں داخل ہوئے تھے۔ فہد کے سر پر رومال اور سراج کے سر پہ پرنا تھا۔ وہ آ کر صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئے تو سراج نے اونچی آواز میں کہا

’’چھاکے اوئے چھاکے ۔۔۔یار چائے لے آ۔ ‘‘

’’یار اس چھاکے کا یہ تو سکون ہو گیا ہے، چائے تو بنا لیتا ہے۔ ‘‘ فہد نے خوش دلی سے کہا تو اندر سے کوئی جواب نہ پا کر سراج نے پھر اونچی آواز میں پکارا

’’اوئے کدھر گیا ہے تو؟‘‘

اتنے میں چھاکا باہر سے خوف زدہ اور دہشت زدہ سا اندر آ گیا۔ فہد نے اسے دیکھا تو تشویش سے پوچھا

’’اوئے کیا ہوا تجھے؟‘‘

’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ امین۔۔۔‘‘ چھاکے کے منہ سے لفظ ادا نہیں ہو رہے تھے۔ اس پر سراج نے تیزی سے پوچھا

’’کیا ہوا امین کو؟‘‘

’’اس کی لاش۔۔۔ وہ کھیتوں میں ۔۔۔ اسے کسی نے مار دیا ہے۔ ‘‘ وہ روہانسا ہو تے ہوئے بولا

’’کیا بکواس کر رہا ہے، تو جھوٹ بول رہا ہے۔ ‘‘ سراج نے ایک دم سے کہا تو چھاکا خود پر قابو پاتے ہوئے بولا

’’میرا یقین کرو۔ میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں۔ میں اپنے گھر سے سیدھا ادھر آ رہا تھا۔ راستے میں مجھے پتہ چلا، میں نے وہاں جا کر دیکھا۔ ‘‘

یہ سنتے ہی سراج ایک دم سناٹے میں آ گیا۔ فہد نے اس کا بازو پکڑ کر باہر کی جانب جاتے ہوئے کہا

’’چل جلدی چل، دیکھتے ہیں۔ ‘‘

وہ تینوں تیزی سے باہر کی جانب بڑھتے چلے گئے۔

فہد نے گاڑی و ہاں جا کر روکی، جہاں کھیتوں میں لوگ کھڑے تھے۔ وہ تیزی سے باہر نکلے اور اس طرف بڑھے جہاں امین پڑا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر سراج بلک بلک کر رونے لگا۔

’’فہد، یہ کیا ہو گیا یار۔۔۔ میں تو اسے جیتا جاگتا گھر چھوڑ کے آیا تھا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اکڑوں ہو کر زمین پر بیٹھا اور پاگلوں کی طرح اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے بولا، ’’اٹھ امین اٹھ، تو ایسے نہیں کر سکتا، تو مجھ سے روٹھ کر نہیں جا سکتا، ابھی تو ہم نے چوہدریوں سے بدلہ لینا ہے۔ ابھی تو تیرے سر پر سہرا سجنا ہے یار، اٹھ ایسے نہ کر، چل گھر چلیں ، ماں انتظار کر رہی ہو گی۔ ‘‘

تبھی فہد نے اسے قابو میں کرتے ہوئے کہا

’’ ہوش کر سراج ہوش۔ ‘‘

’’کیا ہوش کروں ، یہ دیکھ امین قتل ہو گیا ہے، یہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ‘‘ سراج دھاڑیں مار کر روتے ہوئے بولا۔ چھاکے نے آگے بڑھ کراسے سنبھالا تو سراج کے گلے میں پڑا پرنا فہد نے اتار کر امین پر ڈال دیا۔ جس پر سراج مزید رونے لگا۔ فہد بھی اپنے آنسو صاف کرنے لگا۔ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا

’’اٹھاؤ امین کو، گھر چلیں۔ ‘‘

وہاں پر موجود لوگوں نے امین کے بے جان وجود کو اٹھایا۔ سراج بہت نڈھال ہو رہا تھا۔ وہاں موجود لوگوں نے امین کی لاش کو اٹھا کر گاڑی میں رکھا اور پھر سب وہاں سے چل دیئے۔

امین کے قتل نے پورے قسمت نگر ہی میں نہیں بلکہ پورے علاقے میں خوف، غم اور دکھ محسوس کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی چوہدریوں کی دہشت بھی اپنے اثرات میں اضافہ کر چکی تھی۔ ہر جگہ اسی بات کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس دن چوراہے پر کوئی کھیل نہیں کھیلا گیا۔ چوراہے پر چاچا سوہنا، حنیف دوکاندار اور دوسرے کئی لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔

’’بہت ہی بر ہوا یار امین کے ساتھ۔ بے چارہ اپنے دوست کے قتل کی گواہی دیتے دیتے خود اس کے پاس جا پہنچا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے دکھ سے کہا

’’سنا تھا وہ چوہدریوں کے خلاف عدالت میں جانا چاہتا تھا۔ ایف آئی آر تو اس نے کٹوا دی تھی۔ شاید اس کا یہی جرم تھا۔ ‘‘ایک بندہ بولا

’’ کیا تُو یہ کہنا چاہتا ہے کہ اسے چوہدریوں نے قتل کیا ہے۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے پوچھا تو وہ بندہ بولا

’’نہ ۔۔۔ نہ ۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا۔ میں نے تو جو سنا تھا وہ کہہ رہا ہوں۔ ‘‘

’’کیوں ڈرتے ہو یار، پہلی بار تھانے میں چوہدری کبیر کے خلاف رپٹ درج ہوئی ہے اور پہلی بارکسی نے چوہدری کے خلاف سر اٹھایا۔ اس کی سزاتو امین کو ملنی ہی تھی۔ تم لوگ یونہی خوف زدہ ہو رہے ہو اور گونگے بن کر مُردوں کی طرح جیتے رہے ہو۔ آج امین کی باری تھی، کل تم میں سے کسی ایک کی باری ہو گی۔ ‘‘ چاچا سوہنا انتہائی دکھ سے بولا

’’اُو نہ چاچا نہ، کیوں اپنے گلے میں عذاب ڈالتے ہو۔ یہاں ہوتا کیا ہے سب جانتے ہیں۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے تیزی سے کہا

’’کیا یہی انسانیت ہے یار، جو آواز بھی ظلم کے خلاف اٹھی، وہی دبا دی گئی ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم ڈرتے ہیں ۔۔۔کیا اس قسمت نگر کی قسمت یہی ہے۔ اس کے باسی مردہ ہیں ؟۔۔۔ ظلم ہے یار ظلم‘‘ یہ کہتے ہوئے چاچا سوہنارو دیا۔ اس کی آواز رندہ گئی تھی

’’نہ رُو چاچا، رونے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ بس یہ امید رکھنی چاہئے کہ اس قسمت نگر کی قسمت بدلے گی۔ ‘‘ پاس بیٹھے ہوئے ایک بندے نے کہا تو چاچا سوہنا بولا

’’قسمت اس دن بدلنی ہے، جب تم اپنی قسمت بدلنے کا سوچو گے۔ ایسے تو قسمت نہیں بدلتی یار۔ ‘‘

’’کون نہیں چاہتا کہ اس ظلم سے نجات نہ ملے کوئی تو ایسا ہو جو، اِن چوہدریوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرے۔ ‘‘ اس بندے نے یاسیست سے کہا

’’ہم باتیں ہی کرتے رہ جائیں گے۔ ہونا، ہوانا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے کہا

’’تیرے جیسے مایوس بندے لوگوں کا حوصلہ پست کرتے ہیں ۔۔۔وہ امین چند دن رہا، لیکن ان چوہدریوں کو وَخت ڈالے رکھا۔ مرد تھا نہ وہ۔ ‘‘ چاچا سوہنا تیزی سے بولا

’’پر چاچا۔ ! اپنی جان سے بھی تو گیا ہے نا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے کہا تو ان کے درمیان خاموشی چھا گئی۔

سارا دن انہیں نور پور کے ہسپتال میں گزر گیا۔ پولیس کو رپورٹ کی گئی، پھر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ لیتے ہوئے انہیں سہ پہر ہو گئی۔ ڈاکٹر نے یہی رپورٹ دی تھی کہ تشدد کے بعد اس کے سر میں بہت قریب سے گولی ماری گئی تھی، جس سے موت واقع ہو گئی تھی۔ تھانیدار نے بڑی خاموشی کے ساتھ ایف آئی آر درج کر لی تھی مگر نامعلوم افراد کے خلاف۔

شام ہونے تک قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہو گیا تھا۔ تازہ قبر پر سب لوگ افسردہ کھڑے ہیں۔ قبر پر پھول چڑھائے ہوئے تھے۔ اگر بتیاں سلگ رہی تھیں۔ فہد، سراج، چاچا سوہنا، چھاکا، مولوی اور قسمت نگر کے دوسرے کئی لوگوں کے چہروں پر دکھ پھیلا ہوا تھا۔ سراج بہت غم سے نڈھال ہو رہا تھا۔ وہ رُو تو رہا تھا لیکن آہ و بکا نہیں کر رہا تھا۔ سب کے درمیان میں کھڑے ہوئے مولوی صاحب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ تو وہاں سب لوگوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرتے ہی سراج بلک پڑا۔ تبھی فہد اسے اپنے ساتھ لگا کر تھپکنے لگا۔ سراج اس کے کاندھے سے لگ کر رونے لگا۔ فہد نے اسے خود سے الگ کر کے تنبیہ کے انداز میں کہا

’’سراج، جتنا رونا ہے ایک بار ہی رو لو، پھر نہیں رونا۔ ‘‘

’’بہت۔۔۔ بہت ۔۔۔ ظلم کیا۔۔۔ ان چوہدریوں نے میرا بھائی امین پر ۔۔۔‘‘

’’ میں نے کہا نا۔۔۔اب تو رو لے جتنا رونا ہے۔۔۔ اب رونے کی باری ان کی ہے۔ ابھی صبر کر لے۔ ‘‘ فہد نے دانت پیستے ہوئے کہا توسراج بولا

’’وہ بے چارہ۔۔۔‘‘

اس نے کہنا چاہا لیکن ہچکی میں کچھ نہیں کہہ پایا۔ فہد نے اسے پھر اپنے ساتھ لگا یا تو سراج آہستہ آہستہ سر ہلا کر خود پر قابو پانے لگا۔ سب قبر سے ہٹتے چلے گئے تو وہ دونوں بھی چل پڑے۔ قسمت نگر کی تاریخ میں ایک مزید ظلم رقم ہو گیا تھا۔

٭٭

 

سہ پہر ہو چکی تھی۔ فہد اپنے گھر نہیں گیا بلکہ سیدھا نور پور تھانے چلا گیا۔ اس وقت فہد تھانے میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ سراج تھا۔ قریب ہی ایک سپاہی افسردہ کھڑا تھا۔ ایسے میں تھانیدار آ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے بڑے طنزیہ انداز میں فہد کی طرف دیکھا۔ چند لمحے دیکھتے رہنے کے بعد پوچھا

’’ہاں بولو، کیسے آئے ہو؟۔۔۔کوئی نئی ایف آئی آر لکھوانے ۔۔۔یا پھر کسی افسر کا فون کروانے ۔۔۔یا پھر قانون جھاڑنے آئے ہو۔ ‘‘

’’تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔ اور تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ امین کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ‘‘ فہد نے خود پر قابو رکھتے ہوئے کہا

’’تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ ’’قتل‘‘ ہوا ہے۔ وہ خود بھی اپنی زندگی سے تنگ آ کر مر سکتا ہے۔ ابھی تو میڈیکل رپورٹ صرف یہ تصدیق کرتی ہے کہ فائر اس کے سر میں لگا۔ یہ تفتیش تو ابھی باقی ہے کہ وہ کیوں مرا؟ کیسے مرا؟ یا خودکشی کر لی اس نے؟‘‘تھانیدار نے حقارت سے کہاتوسراج نے اسے غصے میں دیکھا

’’ تیرے لہجے سے لگتا ہے کہ تو اس قتل کو بھی فائلوں میں بند کرنے کی سوچ رہا ہے لیکن یاد رکھنا، میں تجھے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ ‘‘ فہد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو تھانیدار بولا

’’تم امین کی موت کو، قتل ہی کیوں کہہ رہے ہو۔ کیا یہ قتل تم نے کیا ہے۔ تم بھی اس کو قتل کر سکتے ہو؟‘‘

تھانیدار نے کچھ اس طرح عجیب لہجے میں بات کی تھی کہ فہد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ جس پر سراج نے انتہائی غصے میں کہا

’’تیری ذہنیت سامنے آ ہی گئی ہے تو سن لے۔ خود کو ٹھیک کر لے اور چوہدریوں کے خلاف ۔۔۔‘‘

’’ہونہہ۔ !ممکن ہے تو نے اپنے بھائی کو جائیداد کے لیے قتل کیا ہو۔ اور نام چوہدریوں کا لگا رہے ہو۔ ‘‘ تھانیدار نے اس کی بات کاٹ کر کہا، پھر حقارت بھرے لہجے میں بولا، ’’ اور تم دونوں غور سے سن لو میری بات۔ اب میرے ساتھ اونچے لہجے میں بات نہیں کرنی۔ ورنہ بہت پچھتاؤ گے۔ ‘‘

’’کون کتنا پچھتاتا ہے، یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن میری بات یاد رکھنا، خود کو ٹھیک کر لے۔ ‘‘ فہد نے سرد لہجے کہا تو تھانیدار اس کی طرف دیکھ کر بولا

’’اور تو بھی سن لے فہد۔ تم بھی اس قتل میں شامل تفتیش ہو۔ جب بھی قسمت نگر سے باہر جانا ہو، تو تھانے میں حاضری لگوا کر جانا۔ ‘‘

’’تو اپنے آپ کو اس علاقے کا دادا نہ سمجھ، تجھ سے جو ہو سکتا ہے تو کر اور اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں یہ تجھے بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔ چل آ سراج پہلے اسے سمجھا لیں۔ ‘‘ فہد نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ مسکرا کر بولا

’’تو نے کیا سمجھانا ہے، پہلے خود سمجھ لے، اب تیرے ساتھ کیا ہو گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگا دیا۔ جس پر سراج غصے میں آگ بگولا ہو گیا۔ اس کی حالت بہت خراب ہونے لگی۔ وہ تھانیدار اس کے بھائی کی لاش پر قہقہے لگا رہا تھا۔ اسے بے قابو ہوتا دیکھ کر فہد نے اسے پکڑا اور اسے لے کر وہاں سے چل دیا۔ تھانیدار اُن کو جاتا ہوا مزے سے دیکھتا رہا۔ اس کے چہرے وہی خبیثانہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔

واپسی پر دونوں خاموش تھے۔ راستے میں ان کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ فہد مسلسل سوچ رہا تھا کہ اب تھانیدار کے ساتھ کیا کیا جائے۔ اسے یہ پوری طرح احساس ہو گیا تھا کہ یہ تھانیدار ان چوہدریوں سے مل چکا ہے اور امین کا قتل انہی لوگوں نے کیا ہے۔ اس نے سراج کو اس کے گھر اتارا اور اپنے گھر کی جانب چلا گیا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ وہ واپس پلٹ گیا تاکہ ماسٹر دین محمد کے گھر جائے اور اپنے دماغ کو ذرا سکون دے۔ وہ تحمل سے ان کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی کار میں آ بیٹھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کا ر بڑھاتا اسے چھاکا دکھائی دیا جو دوڑتا ہوا اس کی طرف آ رہا تھا۔ وہ کار سے باہر نکل آیا۔ چھاکا خوف زدہ تھا۔ اس نے چھاکے سے پوچھا

’’اوئے چھاکے کیا ہوا ہے تجھے، خیر تو ہے؟‘‘

اس پر چھاکے نے اپنی پھولی سانسوں میں فہد کو بتایا

’’وہ۔۔۔ سراج جا رہا ہے۔۔۔نکے چوہدری کو مارنے۔۔۔ ابھی گن لے کر نکلا ہے۔ ‘‘

’’چوہدری کبیر کو مارنے، تو نے روکا نہیں اسے؟‘‘

’’بہت روکا میں نے، مگر میری اس نے ایک نہیں سنی۔ ‘‘ چھاکے نے کہا تو فہد بولا

’’چل، جلدی کر بیٹھ۔ ‘‘

وہ دونوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور اس طرف چل دیئے، جدھر چھاکے نے بتایا تھا۔

جلد ہی وہ سراج تک جا پہنچے جو اپنی بائیک پر حویلی کی طرف جا رہا تھا۔ فہد نے اس کی بائیک کو کراس کیا اور اس کے آگے جا کر کار روک لی۔ سراج نے بھی اپنی بائیک روکی تو فہد اور چھاکا کار سے باہر نکل آئے۔ انہیں دیکھ کر سراج نے دور ہی سے کہا

’’میرا راستہ نہ روک فہد، میں نے آج کبیر کو مار دینا ہے۔ ‘‘

فہد نے اس کے پاس پہنچ کر تحمل سے کہا

’’پھر کیا ہو گا؟صرف ایک چوہدری مرے گابس۔ کیا میں نہیں جانتا کہ اس نے تیرے بھائی کو مارا ہے۔ جانتا ہوں بہت ظلم کیا ہے تم لوگوں پرکیا اسے مار دینے سے ان کی سزا ختم ہو جائے گی؟‘‘

’’دل تو کرتا ہے کہ ان کا سارا خاندان مار دوں۔ بیج ختم کر دوں ان کا۔ پر اب تو۔۔۔‘‘ سراج نے کہا تو فہد نے اس کی بات کاٹ کر کہا

’’پر اب تو صرف کبیر کو مار سکتا ہے بس۔ ان کا ایسابیج مارنا ہے کہ وہ زندہ بھی رہیں اور مرنے کی خواہش کریں۔ ایسی سزا دینی ہی انہیں۔ ‘‘

’’پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا فہد، آئے گا بھی یا نہیں آئے گا۔ جانے دے مجھے میں ان کی نسل تو ختم کر دوں گا نا۔ ‘‘سراج نے غضب ناک ہوتے ہوئے کہا

’’دیکھ میری بات سن، وقت ہمارے ہاتھ میں سمجھ آ گیا ہے۔ اب دیر نہیں ہے۔ تو اسے مار کر سلاخوں کے پیچھے چلا جائے گا تو تیرے گھر والوں کا کیا ہو گا۔ ان چوہدریوں کے ظلم سہنے کے لئے چھوڑ دے گا انہیں ؟ تیری بوڑھی ماں عدالتوں کے دھکے کھائے گی۔ سوچ۔۔۔‘‘ فہد نے کہا تو سراج بے بسی میں اپناسر پٹختے ہوئے بولا

’’ کیا کروں ۔۔۔ بزدلوں کی طرح جیوں۔ ‘‘

’’میں تمہیں بزدلی کا سبق نہیں دے رہا ہوں اور نہ ہی انہیں معاف کرنے کا کہہ رہا ہوں۔ سمجھنے کی کوشش کر۔ واپس پلٹ جا، میں تجھے بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے فہد نے اس کی گن پکڑ لی۔ سراج چند لمحے سوچتا رہا اور پھر بے بسی سے اپنا سر جھکا دیا۔ ’’ آ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ، چھاکا لے آتا ہے تیری بائیک۔ ‘‘

فہد کے کہنے پر سراج بائیک سے اترا اور اس کے ساتھ گاڑی میں آ گیا۔

٭٭

 

ٹی وی چینل کے آفس میں میں جعفر اور مائرہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے ہیں۔ جعفر بہت ویل ڈریسڈ دکھائی دے رہا تھا۔ مائرہ کے چہرے پر ہلکی ہلکی خوشگواریت تھی۔ اس نے فائل ایک طرف رکھ کر پوچھا

’’سب سے پہلے تو یہ بتاؤ کہ اتنی دیر سے کیوں آئے ہو۔ لگتا ہے خود کو ہی تیار کرتے رہے ہو آج۔ ‘‘

’’ مجھے آج کہیں جانا ہے۔ ایک اہم میٹنگ ہے۔ خیر۔ !وہ دھمکی دینے والے کو میں نے پکڑ لیا تھا۔ بے چارے اپنے باس کی محبت میں مارے گئے۔ اگر تم اسے دیکھنا چاہو تو دیکھ سکتی ہو۔ ‘‘ جعفر نے گہری سنجیدگی سے کہا تو مائرہ اس کی بات کو نظر انداز کر کے گہرے لہجے میں بولی

’’تمہارے خیال میں محبت کیا ہے جعفر۔ ! بتا سکو گے کچھ؟‘‘

اس کے یوں کہنے پر جعفر نے چونکتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور دھیمے سے لہجے میں بولا

’’مطلب۔ !تم کچھ سمجھنا چاہ رہی ہو ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے بات کا مزہ لینے والے انداز میں کہا، ’’ خیر۔۔۔، محبت۔ !ایک ایسا سنہری جذبہ ہے۔۔۔ جو پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے ۔۔۔یہ جب اپنا آپ منوا تا ہے تو پھر۔۔۔ کسی دوسرے احساس نہیں رہتا۔ ‘‘

’’یوں ، تمہارے خیال میں محبت ایک جذبہ ہے۔ ‘‘ یہ کر اس نے سوچنے والے انداز میں اسے سے پوچھتے ہوئے کہا، ’’تم نے کبھی سوچا جعفر؟یہ جذبات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔۔۔کبھی کم کبھی بہت زیادہ۔ کسی بھی جذبے کو سوچ کر دیکھ لو۔ ‘‘ مائرہ نے بھی مزہ لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا

’’تم کیا کہنا چاہتی ہو۔ تمہارا مطلب ہے محبت ایک جذبہ نہیں ہے؟‘‘جعفر نے پوچھا

’’محبت جب دل میں اتر آتی ہے نا تو پھر یہ ڈانواں ڈول نہیں ہوتی۔ سمندر کی لہروں جیسی نہیں کہ چاند نکلا تو ان میں مد و جذر آ گئی، ورنہ ساحل سے سر ٹکراتی رہے۔ محبت تو ایک رویے کا نا م ہے۔ وجود میں ضم ہو کر اس کا حصہ بن جاتی ہے۔ ‘‘ مائرہ نے جذب سے کہا، اس پر جعفر بولا

’’بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ محبت جب تک وجود کا حصہ نہیں بنتی، اس میں کشش جیسی قوت بھی نہیں آ سکتی۔ رویہ تو خوشبو کی مانند ہوتا ہے، جو اپنے اظہار کے لیے کسی کا محتاج نہیں۔ محبت کھیل نہیں ہے مائرہ۔ !اور اس وقت تو قطعی نہیں ، جب انسان ہونے اور نہ ہونے کی صلیب پر مصلوب، انتظار کر رہا ہو کہ زندگی ملنے والی ہے یا پھر موت جیسی مایوسی میرا مقدر ہے۔ ‘‘

’’اُو جعفر۔ !یہ تم کیسی مایوسی والی باتیں کر رہے۔ زندگی بھر پور رنگوں سے ہماری منتظر ہے۔ ہم چاہیں اور جیسا چاہیں اس سے رنگ سمیٹ سکتے ہیں۔ جب اعتبار اور مان ہوں زندگی کے سارے رنگ ہمارے وجود میں آ ڈھلتے ہیں۔ ‘‘ مائرہ نے خوش دلی سے کہا

’’ہاں۔ !بہت سارے لوگ اس تعلق کی آگہی کے لیے مدتوں منتظر رہتے ہیں۔ ‘‘ جعفر نے کہا

’’کیا انہیں انتظار نہیں کرنا چاہئے؟‘‘ مائرہ اٹھلاتے ہوئے بولی

جعفر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں بند کر کے اسے اپنی بات کا یقین دلاتی ہے۔ اس پر جعفر خوش ہو تے ہوئے بولا

’’اس پر امید باندھی جا سکتی ہے۔ میں اب چلتا ہوں۔ تم اگر آنا چاہو تو۔۔۔‘‘

’’جعفر پلیز۔ ! مجھے ابھی بہت کام ہے۔ جیسے ہی فرصت ملی۔ میں تمہیں کال کر دوں گی۔ ، پھر جو بھی تم پلان کرو، میں حاضر ہوں گی۔ ‘‘ مائرہ نے پیار سے کہا تو جعفر بولا

’’ اوکے۔ ایز یو وش۔ اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا اور باہر کی طرف چلا گیا۔ مائرہ اسے بھر پور آنکھوں سے یوں دیکھتی رہی کہ جیسے وہ اسے بہت اچھا لگ رہا ہو۔ انہی لمحات میں اسے اپنی ماما سے ہونے والی باتیں یاد آ گئیں۔ وہ ان لمحات کو سوچنے لگی۔

اس وقت وہ اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر نیم دراز تھی۔ لیپ ٹاپ اس کی گود میں تھا اور وہ اس میں الجھی ہوئی تھی۔ اتنے میں بانو بیگم کمرے میں آ گئی۔ جس کا احساس مائرہ کو نہیں ہوا۔ وہ اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی تو وہ چونک گی۔ تبھی بانو بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

’’مائرہ۔ !بیٹی یہ کیا ہے۔ تم اپنے آفس کا کام بھی یہاں اٹھا لاتی ہو۔ جب سے میں نے تم سے تمہاری شادی کا ذکر کیا ہے، تم کچھ زیادہ ہی مصروف نہیں ہو گئی ہو؟‘‘

’’ماما۔ !میں ایک نیوز چینل کے لئے کام کرتی ہوں۔ اور نیوز ہر وقت آتی رہی ہیں۔ مجھے ان کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اب زیادہ ذمہ داری ہے مجھ پر۔ ‘‘ مائرہ نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا

’’اب ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف مائرہ ہی پورا نیوز چینل چلا رہی ہے۔ وہ نہیں ہو گی تو چینل بند ہو جائے گا۔ بیٹی۔ !کام کے وقت کام اور آرام کے وقت آرام کرتے ہیں ۔۔۔خیر۔ !تم نے مجھے کچھ بتا نا تھا۔۔۔پہلے یہ لیپ ٹاپ تو رکھو نا ایک طرف۔ ‘‘

مائرہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور پھر لیپ ٹاپ ایک طرف رکھتے ہوئے بولی

’’لیں ماما۔ !رکھ دیا۔ اور میں نے کیا بتانا تھا آپ کو۔ مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘

’’مائرہ۔ !تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں تم سے کیا پوچھنا چاہ رہی تھی اور تم نے سوچنے کے لیے مجھ سے چند دن مانگے تھے۔ میں اب تک تمہارے جواب کا انتظار کر رہی ہوں۔ ‘‘ بانو بیگم نے اسے یاد دلانا چاہا تو وہ بولی

’’اُو اچھا۔ !سوری ماما۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ ‘‘

’’تو پھر کیا کہتی ہو تم؟‘‘ بانو بیگم نے پوچھا تو مائرہ نے سنجیدگی سے کہا

’’ماما۔ میں نے اچھی طرح سوچا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ابھی میں نے شادی نہیں کرنی۔ کم از کم دو سال تک نہیں۔ پھر اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ ‘‘

’’سنومائرہ۔ !تم اکلوتی ہو اور میں تمہارے لئے اچھا ہی سوچوں گی۔ ایسے رشتے نصیب والوں کو ملتے ہیں۔ جنہیں تم ذرا بھی اہمیت نہیں دے رہی ہو۔ ‘‘ بانو بیگم نے اسے احساس دلایا

’’نہیں ماما۔ !میں ان لوگوں میں کوئی خامی تو نہیں نکال رہی ہوں۔ پسند اور نا پسند کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے انہیں اہمیت دی ہے تو ان کے بارے میں سوچا۔ سچ پوچھیں نا ماما۔ !میں ابھی شادی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوں۔ ‘‘ مائرہ نے الجھتے ہوئے کہا

’’شادی کے لئے بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ یہ وقت نکل جائے تو پھر بہت مشکل ہوتی ہے۔ ‘‘ بانو بیگم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’ماما۔ !آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں ابھی شادی نہیں کر سکتی۔ ‘‘ اس نے بے بسی سے کہا

’’ٹھیک ہے۔ میں تمہاری بات مان لیتی ہوں۔ مگر اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ وہی میں جاننا چاہتی ہوں کہ آخر تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ ‘‘ بانو بیگم نے پوچھا

’’میں نے کہا ہے نا ماما۔ !ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔ ہو گا وہی، جو آپ چاہیں گی۔ آپ اطمینان رکھیں پلیز۔ میں آپ کی بیٹی ہوں۔ میرے دل میں جو کچھ ہوا ۔۔۔وہ میں آپ کو ضرور بتاؤں گی۔ کیونکہ آپ دنیا کی سب سے سویٹ ماما ہیں۔ ‘‘ مائرہ نے اس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا

’’بیٹی۔ !میں چاہوں تو تمہیں کہیں نہ جانے دوں۔ لیکن بیٹی کو بیاہنا ہی پڑتا ہے۔ ہمیں کسی امتحان میں مت ڈالنا۔ میں تمہارے فیصلے کا انتظار کروں گی۔ ‘‘بانو بیگم نے کہا تو وہ بولی

’’آپ اتنی جذباتی کیوں ہو رہی ہیں۔ میں نے جب کہہ دیا ہے تو ابھی کچھ عرصہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں پلیز۔ پھر جو آپ کہیں گی۔ میں وہی کروں گی۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ جیسے تم چاہو۔ ‘‘ بانو بیگم نے ہار مانتے ہوئے کہا اور یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی۔ مائرہ کے چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ آزردگی اتر آئی تھی۔ وہ اپنی ماں کو کیسے سمجھاتی کہ وہ کس کرب سے گذر رہی تھی۔ اس سے کوئی کام نہیں ہو پایا۔ وہ بہت دیر تک یونہی بیٹھی رہی۔ پھر جعفر کے نمبر ڈائل کر دئے۔

زیادہ دیر نہیں گذری تھی۔ مائرہ اور جعفر دونوں کار میں بیٹھے ایک سڑک پر جا رہے تھے۔ مائرہ ڈرائیونگ کر رہی تھی۔ جعفر اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ایک جگہ گاڑی کھڑی کی تو دونوں باہر نکل آئے۔ تبھی جعفر نے ایک لمبی سانس لے کر کہا

’’دیکھو۔ !یہ کھلی ہوا کتنی اچھی لگ رہی ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ !شہر سے دور، یہ پر سکون جگہ۔۔۔ ویسے کبھی کبھی اس طرح کی خاموش جگہوں پر ضرور آنا چاہئے۔ کتنا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘ مائرہ نے کہا

’’اصل میں شہروں کی گہما گہمی اور مصروفیات میں ہماری ساری توجہ رہتی ہے۔ اپنے آپ سے ملنے کا، اپنے دل کی بات سننے کا، اپنے آپ سے رابطہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ‘‘ جعفر نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا تو مائرہ بولی

’’تم ٹھیک کہتے ہو جعفر۔ !کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اتنی مصروفیات کس لیے۔ کہیں ہم خود کو دھوکہ تو نہیں دے رہے، المیہ یہی ہے کہ ہمیں وہ کچھ کرنا پڑتا ہے جو ہم دل سے نہیں چاہتے۔ کتنا اچھا ہو، جب ہماری مصروفیات میں ہمارا دل بھی شامل ہو۔ ‘‘

’’ہم دل کی سنتے کب ہیں۔ سارے دنیا کو وقت دیتے ہیں لیکن دل کی بات سننے کے لیے اس سے تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ مائرہ۔ !میں نے اب تک یہی پایا ہے کہ جو بندہ خود سے محبت نہیں کر سکتا، وہ کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ ‘‘ جعفر نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا تو مائرہ نے ایک لمحے کو اس کی طرف دیکھا اور پرسکون لہجے میں بولی

’’ہاں بندہ اپنی ہی محبت کو محسوس کرتا ہے۔ ‘‘

’’مائرہ۔ !محبت کوئی معمولی یا کمزور رویہ نہیں ہے جو دوسروں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ اگر وہ دوسرے پر اثر انداز نہیں ہو پا رہا ہے تو ہمیں اپنی محبت کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ کہیں ہماری محبت میں تو کوئی خامی نہیں ہے۔ کیا واقعتاً ہماری محبت سچی ہے۔ ‘‘ اس نے کہا

’’وہ کیسے۔ !میں تو جانتی ہوں اپنے بارے میں۔ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔۔۔کیا میں اپنی ذات کوئی فیصلہ لے سکتی ہوں۔ ‘‘ مائرہ نے پوچھا

’’زندگی میں وہی کامیاب ہوتے ہیں مائرہ۔ !جو اپنی ذات کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم اپنے بارے میں سوچیں گے تو کسی دوسرے کا خیال کر پائیں گے۔ ‘‘ جعفر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو مائرہ ایک طویل سانس لے کر بولی

’’تم کچھ تھوڑا عقل مند نہیں ہوتا جا رہے ہو۔ اتنی موٹی موٹی باتیں کر رہے ہو جو کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئیں۔ خیر۔ !تم میرے ساتھ رہو گے نا تو عقل مند ہو جاؤ گا۔ ‘‘ مائرہ ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولی

’’میں تمہیں یونہی خوش دیکھنا چاہتا ہوں مائرہ، تم یونہی ہنستی مسکراتی رہو۔ ‘‘جعفر نے اس کی طرف دیکھ کر پیار سے کہا تو مائرہ شرارت بھرے انداز میں بولی

’’اب چلیں ، واپس جاتے ہوئے تمہارے اس محبت والے ٹاپک پر باتیں کرتے ہوئے جائیں گے۔ ‘‘ مائرہ نے کہا تو دونوں ایک دم سے قہقہہ لگا کر ہنس دیئے۔ پھر گاڑی میں بیٹھ کر چل دیئے۔

٭٭

 

روشن دن کی صبح تھی۔ سلمٰی ابھی تک اپنے کچن میں کام کر رہی تھی کہ دروازہ بجا۔ سلمٰی دروازہ کھولنے کے لیے گئی توسامنے فہد تھا۔ وہ اندر آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔ وہ دروازہ لگا کر دالان میں آئی جہاں وہ بیٹھ چکا تھا۔ سلمٰی نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا

’’کیا آج آپ پھر نور پور جا رہے ہیں ؟‘‘

’’یہ تو اب روز کا آنا جانا ہے۔ چاچے عمر حیات والی زمین والے معاملے میں کئی لوگوں سے ملنا پڑا اور کاغذی کاروائی میں بڑا وقت لگ رہا ہے۔ ‘‘

’’تو کیا سارا کام ختم نہیں ہو گیا۔ اب مزید کیامسئلہ ہے ؟‘‘ اس نے پوچھا

’’نہیں۔ !ابھی اتنی جلدی کہاں۔ زمین تو میرے نام ہو گئی ہے اور جو گھر ہے نا، وہ میں نے تمہارے نام کیا ہے۔ وہ کاغذات اس فائل میں ہے۔ کچھ دستخط کرنے ہیں۔ وہ کر دو۔ ‘‘فہد نے فائل اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا تو سلمٰی نے حیرت سے پوچھا

’’گھر ۔۔۔میرے نام ۔۔۔وہ کیوں ؟‘‘

’’وہاں تم نے ایک ادارہ بنانا ہے۔ ایک انسٹیٹوٹ ۔۔۔جہاں تم اپنی ان خواہشوں کی تکمیل کر سکو، ۔۔۔جو تمہارے دل میں ہیں۔ یاد ہے۔۔۔ میں نے تمہیں کہا تھا۔۔۔تم اڑان بھرنے کا حوصلہ کرو ۔۔۔ طاقت میں دوں گا۔ ‘‘ فہد نے سکون سے کہا تو سلمٰی بولی

’’مجھے یاد ہے فہد۔ !اور میں نے حوصلہ کر لیا ہے۔ اب کیا ہوتا ہے۔ مجھے یہ سوچنے کی بھی پروا نہیں ہے۔ ‘‘

’’زندگی ہمیں بہت کچھ دے گی سلمٰی۔ اب ہمیں اپنے حصے کی خوشیاں اکھٹی کرنی ہیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم زندگی کے اس سفر میں ایک ساتھ چلتے رہیں گے۔ ‘‘ فہد نے کہا تو سلمی نے بات کو سمجھتے ہوئے سر ہلا دیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب وہ شرما ئی نہیں تھی۔ اس کے چہرے پر زندگی سے بھرپور ایک عزم چھلک رہا تھا۔ سلمی نے فائل سیدھی کرتے ہوئے کہا

’’لائیں دستخط کر دیتی ہوں۔ ‘‘

فہد نے اسے قلم تھمایا۔ اس نے قلم پکڑ کر جہاں فہد نے کہا وہاں دستخط کر دئیے۔ فہد فائل سمیٹ کر اٹھنے لگا۔

’’ آپ بیٹھیں ، میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔ ‘‘سلمی نے کہا

’’ نہیں ابھی مجھے جانا ہے، باہر گاڑی میں سراج بیٹھا میرا انتظار کر رہا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا اور باہر نکلتا چلا گیا۔ سلمی دروازے تک گئی۔ سراج گاڑی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ فہد گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ سلمی اسی کے خیالوں سے لپٹی واپس کچن میں آ کر کام کرنے لگی۔

قسمت نگر کی گلیوں سے نکل کر فہد اور سراج گاڑی میں سڑک پر آ گئے۔ ابھی انہوں نے تھوڑا سا ہی سفر کیا تھا کہ انہیں سڑک کے درمیان ایک گاڑی کھڑی دکھائی دی۔ وہ لمحہ لمحہ قریب آتے گئے، لیکن کسی نے گاڑی نہ ہٹائی۔ انہیں بہر حال اپنی گاڑی روکنا پڑی۔ تبھی سامنے کھڑی کار میں سے ماکھا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں پسٹل تھا۔ وہ لنگڑاتا ہوا آ رہا تھا۔ اس نے آ کر پسٹل کی نال فہد کے ماتھے پر لگاتے ہوئے کہا

’’فہد۔ !تیری زندگی اور موت کے درمیان ایک لمحہ ہے۔ میں چاہوں تو ابھی تجھے موت کی نیند سلا سکتا ہوں۔ یہی کہا تھا نا تم نے؟‘‘ ماکھے نے اسے یاد دلایا تو فہد بولا

’’ماکھے۔ ! ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ اس لیے مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ تم نے وہی کرنا ہے جو تیرے مالک تجھے حکم دیتے ہیں۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے تو میرے راستے میں نا آیا کر۔ ‘‘

’’تو موت کو اپنے سامنے دیکھ کر پاگل ہو گیا ہے۔ یا حواس کھو بیٹھا ہے۔ میں تیری موت ہوں موت۔ ‘‘ ماکھے نے کہا تو فہد نے کہا

’’تو پھر دیر کس بات کی ہے۔ چلا گولی۔ ‘‘

اس کے ساتھ ہی وہ ایک دم سے کا ر کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ ماکھا لڑھک گیا۔ فہد نے اپنا پسٹل اس پر تان لیا۔ سراج نے دوسر ی طرف سے نکل کر اس کے ساتھیوں پر گن تان لی۔

’’ بول، اب کس کی موت ہے، بول؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’یار آج اس کا کام تو کر ہی دیتے ہیں۔ ‘‘ سراج نے کہا

’’اپنا پسٹل یہاں پھینک۔ او بھاگ جا یہاں سے۔ اور ہاں اپنے مالکوں سے کہنا۔ ہمت ہے تو خود میرا سامنا کریں ، کبیر سے کہنا مرد بن مرد۔ ‘‘

ماکھا پسٹل پھینک کر اٹھا اور چل دیا۔ اس کے ساتھی گاڑی میں بیٹھے تو وہ بھی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ فہد اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اپنی کار میں بیٹھ کر چل دیا۔

٭٭

 

چھاکا اپنے گھر کے صحن میں چار پائی پر بیٹھا، اپنے مرغے کو بادام کھلاتے ہوئے اس کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔

’’دیکھ شہزادے، تیرا مقابلہ جب ہونا ہے تب ہونا ہے۔ تو نے اس وقت جیتنا ہے یا ہار جانا ہے۔ مجھے عزت دینی ہے یا بے عزتی کروا دینی ہے۔ وہ تو جب ہو گا تب دیکھا جائے گا۔ پر تو اب میری بے عزتی کیوں کروا رہا ہے۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر مرغا بول اٹھا جیسے اسے چھاکے کی بات کی سمجھ آ رہی تھی۔ اسی لئے چھاکا بولا،

’’نہیں میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سب دیکھا ہے۔ اب تیری شکایتیں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ تیرا لوگوں کے گھر میں بھلا کیا کام۔ تجھے اِدھر کھانے کو نہیں ملتا کیا۔ تجھے بادام کھلاتا ہوں ، میوے کھلاتا ہوں۔ ‘‘

اس کی ان باتوں کے دوران چاچاسوہنا گھر کے اندر داخل ہوا۔ وہ بہت مرجھایا ہوا تھا۔ پریشان حال، بال بکھرے ہوئے۔ وہ آ کر اس کے پاس صحن میں کھڑا ہو گیا۔ چند لمحے ان کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا

’’یار یہ تیرے ککڑ کا مقابلہ کب ہونا ہے۔ ‘‘

وہ بولا تو اس کے لہجے میں یاسیست بھری ہوئی تھی اس پر چھاکا جذباتی ہو کر بولا

’’ جب دارا ماچھی، مجھے مقابلے کے لیے للکارے گا۔ ہر سال اس کا ککڑ جیت جاتا ہے۔ اس سال نہیں جیتنے دوں گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے تو اسے تیار کر۔ اس کے کھانے پینے کے پیسے مجھ سے لے لیا کر۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے کہا تو چھاکے نے چونک کر اپنے باپ کو دیکھا پھر حیرت سے بولا

’’ابا، تیری طبعیت تو ٹھیک ہے نا۔ بجائے طعنے میہنے دینے کے، ڈانٹنے کے، الٹا تو رقم خرچ کر رہا ہے۔ خیر توہے نا، تُو میرا ابا ہی ہے نا۔ ‘‘

’’پتر چھاکے، یہ زندگی بڑی عارضی شے ہے۔ ایک طرف تو یہ کھیل تماشہ ہے نا۔ تو دوسری طرف دکھوں کا گھر ہے یار۔۔۔تو میری ایک بات مان لے پتر۔ ‘‘ چاچا سوہنا بڑے دکھ سے بولا

’’ابا، تو کہنا کیا چاہتا ہے۔ بول، بات کہا ہے۔ ‘‘ چھاکے نے تیزی سے پوچھا

’’دیکھ پتر۔ تیرے سوا میرا ہے کون اس دنیا میں۔ تو ایسے کر۔ فہد کا ساتھ چھوڑ دے۔ میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا، آج پھر سمجھا رہا ہوں اس بے چارے امین کا حال دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے یار۔ ‘‘ چاچے سوہنے کی زبان پر آ کر وہ خوف آ ہی گیا۔

’’ابا، تیرے پتر چھاکے کی اگراس علاقے میں دس پچھ ہے نا تو وہ ایویں ہی نہیں ہے۔ میرے دل میں نہ جانے کب سے چوہدریوں کے خلاف نفرت ہے۔ میں غریب نمانا، ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ اب فہد یہ کر سکتا تو میں اس کا ساتھ کیوں نہ دوں۔ ‘‘ چھاکا بولا

’’پر تمہیں ان کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے پوچھا

’’ابا، ابھی تو نے کہا ہے نا امین کے انجام پر تیرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ تو کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ ہم انسان ہیں ابا۔ میرا دل بھی ایسی ہی روتا ہے۔ کس نے ان چوہدریوں کو ظلم کرنے کا حق دیا ہے۔ بتا مجھے کس نے حق دیا ہے، میرے اللہ نے تو حق نہیں دیا انہیں۔ ‘‘ چھاکا انتہائی غصے میں بولا

’’فہد نے تو اپنے بچپن کا انتقام لینا ہے، مگر تو؟‘‘ چاچے سوہنے نے حیرت سے پوچھا تو چھاکا نفرت سے بولا

’’ رب نے اسے جرات دی کہ وہ ان ظالموں کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے ابا۔ آج تُو اور میں کیا ہیں ، وہی کمّی کے کمّی ۔۔۔کسی کا شادی ویاہ آ گیا یا کوئی خوشی غمی ہو گئی تو کچھ مل گیا۔ ۔۔۔کیا اچھی زندگی گذارنے کا حق کسی کمّی کو نہیں ۔۔۔ گاؤں کے سکول پر تالا لگوا کر یہاں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دئے ۔۔۔ بتا۔ ! میں یہ گلہ کس سے کروں تجھ غریب نمانے سے ۔۔۔یا ان ظالم چوہدریوں سے۔۔۔ میری طرح نجانے کتنے کمیوں کے بچوں پر تعلیم اور اچھی زندگی کے دروازے بند کئے ہیں ، ۔۔۔ کس نے ؟۔۔۔ بس۔ !یہی میرا انتقام ہے۔ ‘‘

’’تو ٹھیک کہتا ہے پتر، پروہ بڑے طاقت ور لوگ ہیں۔ ‘‘ چاچے نے کہا تو چھاکا بولا

’’جتنے مرضی طاقت ور ہوں۔ فہد اگر ان کے مقابلے پر آن کھڑا ہوا ہے تو میرا بھی حق بنتا ہے کہ اس کا ساتھ دوں۔ یہ زندگی تو آنی جانی ہے۔ اور پھر ہماری زندگی ہے بھی کیا۔ چوہدری ہم پر اپنے کتے چھوڑ دیں تو کیا کر لیں گے ہم۔ میں فہد کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا، اب ہی تو پتہ چلنا ہے میری دس پچھ کا۔ ‘‘

چاچاسوہنا اس کی بات سن کر چند لمحے کھڑا سوچتا رہا بھر بڑے ہی دکھی لہجے میں بولا

’’جیسے تیری مرضی پتر، زندگی تیری ہے، تو جیسے گذار۔ ہم نے تو گذار لی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چلا گیا۔ تبھی مرغا اونچی آواز میں بولا تو چھاکے نے جھڑک کر کہا

’’اوئے چل چپ کر، یہ مت سمجھ کہ میں جذباتی ہو کر تیرے اُلامہے بھول جاؤں گا۔ اب اگر۔۔۔‘‘

وہ بات پوری نہیں کر پایا کہ مرغا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر بھاگ گیا۔ وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔

٭٭

 

شام ڈھل رہی تھی جب سلمی اپنے صحن میں اکیلی بیٹھی ہوئی سوچوں میں گم تھی۔ اس کی ساری سوچوں کا محور فہد ہی تھا۔ وہ سارا دن اسی کے بارے سوچتی رہی تھی۔ وہ جب اس کی زندگی میں نہیں تھا تو کیسا تھا، ایک اُجاڑ، ویران اور خوف بھری زندگی، اب جب کہ وہ ان کی زندگی میں تھا تو سب کچھ بدل گیا تھا۔ امیدیں ، خواہشیں اور خواب پھر سے جاگ اٹھے تھے۔ ایسے میں دروازے کے باہر کار رکنے کی آواز آئی۔ وہ جلدی سے اٹھی اور اس نے دروازہ کھول دیا۔ فہد اندر آ گیا۔ وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ فہد نے اس کی طرف فائل بڑھاتے ہوئے کہا

’’یہ لو، چاچے عمر حیات والا گھر تیرے نام ہو گیا ہے۔ اور میری یہ خواہش ہے سلمٰی، اگر میں نہ بھی رہوں تو پھر بھی تیرے حصے کی خوشیاں تجھے دے جاؤں۔ ‘‘

’’مجھے ایسی خوشیوں کی کوئی خواہش نہیں ہے اور پھر میں پوچھتی ہوں۔ وہ کیسی خوشی ہو گی۔ جو آپ کے بغیر ہو۔ ‘‘ اس نے فائل کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا تو فہد بولا

’’وقت اور حالات کا بھروسہ کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں۔ محبت میں گذرے ہوئے لمحے خوشیوں کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سلمٰی۔ !ابھی تو اس کی شروعات ہوئیں ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے اس سفر میں نجانے کیا کچھ ہمارا منتظر ہے۔ ‘‘

’’میں جانتی ہوں۔ !محض یادوں کے سہارے حاصل کی گئی خوشیاں ادھوری ہوتی ہیں۔ مجھے ایسی خوشیاں نہیں چاہیں۔ ‘‘ سلمی نے بے باکی سے کہا

’’تم دعا کرنا۔ !ہمارا ساتھ ہمیشہ رہے۔ میں تو محض آئندہ آنے والے دنوں کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ ، کب، کہاں نجانے کیا ہو؟ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ یہ لو۔ ‘‘ فہد نے اس کی طرف فائل بڑھاتے ہوئے کہا

’’ہاں یہ تو ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر رکی پھر اچانک خیال آتے ہی بولی، ’’زمین نام تو ہو گئی، کیا آپ ذہنی طور پر تیار ہیں کہ زمین کا قبضہ لیتے وقت کہیں چوہدری لوگ کچھ گڑبڑ نہ کریں۔ ‘‘

’’دیکھو۔ !ابھی چاچے عمر حیات کی بیٹی کی شادی ہے۔ یہ بخیر عافیت گذر جائے اور چاچا خود قبضے کے لیے کہے گا تو ہم قبضہ لیں گے۔ تب جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ قبل از وقت پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘ فہد نے کہا تو سلمی بولی

’’ہاں۔ !یہ ٹھیک ہے۔ انہیں بھی پریشانی نہیں ہو گی۔ آپ آؤ نا۔ بیٹھو۔ کھانا کھا کر جائیے گا۔ ‘‘

’’نہیں۔ !بس میں نے فائل دینا تھی۔ اور یہ کاغذ اسے سنبھال کر رکھنا۔ بلکہ اسے ایک نظر دیکھ بھی لینا۔ مجھے ابھی گھر جانا ہے کچھ کام ہے ابھی۔ ‘‘ فہد نے بتایا

’’کچھ دیر رک جاتے۔ ابھی ابو آ جاتے۔ ‘‘سلمی نے اصرار کرتے ہوئے کہا

’’میں جلدی آ گیا تو ادھر ہی آؤں گا۔ تم دروازہ لگا لو۔ میں چلتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ واپس پلٹ گیا۔ سلمٰی اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔

قسمت نگر پر رات اتر آئی تھی۔ فہد صحن میں چار پائی پر یوں بیٹھا ہوا تھا، جیسے پرانی یادوں میں کھویا ہوا ہو۔ اتنے میں سراج کے ساتھ بابا نعمت علی آ گئے تو وہ انہیں دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ ان کے ساتھ بڑے تپاک سے ملا اور انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے۔ تبھی سراج نے کہا

’’فہد۔ !یہ بابا نعمت علی ہے۔ چوہدری کے مزارع۔ تمہاری جو زمین چوہدری کے قبضے میں لی ہوئی ہے، یہ اسی پر کام کرتے ہیں۔ یہ تم سے ملنا چاہتے تھے۔ ‘‘

’’جی بابا جی۔ !بتائیں ، کیوں ملنا چاہتے تھے؟‘‘ فہد نے پوچھا تو بابا نعمت علی نے کہا

’’بات یہ ہے پتر۔ !جب تک تم نے عمر حیات کی زمین نہیں خریدی تھی، اس وقت تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ تم واپس چلے جاؤ گے۔۔۔یہاں نہیں رہو گے۔ لیکن اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ تم یہاں ہی رہو گے۔ ‘‘

’’میں اب یہیں رہوں گا۔ میرا مرنا جینا اب یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ فہد نے مضبوط لہجے میں کہا تو بابا نعمت علی نے بڑے ٹھہرے لہجے میں کہا

’’میں اس لیے تمہارے پاس آیا ہوں کہ چوہدری اب تمہیں زندہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس نے میرے بیٹے نذیر سے کہہ دیا ہے کہ تم جب بھی زمین کا قبضہ لینے کی کوشش کرو تو تمہیں ۔۔۔‘‘وہ کہتے ہوئے رک گیا تو دونوں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ چند لمحے بعد فہد نے کہا

’’زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے باباجی۔ کیا آپ مجھے دھمکی دینے آئے ہو؟‘‘

’’ارے نہیں۔ !پہلے پوری بات تو سن لو۔ کوئی دھمکی نہیں ہے۔ ‘‘ سراج نے جلدی سے کہا تو بابا نعمت علی بولا

’’میں اس قتل و غارت سے بچنا چاہتا ہوں۔ نہیں چاہتا کہ یہ خونی کھیل کھیلا جائے اور وہ بھی ہمارے ہاتھوں۔ نقصان ہمارا ہو گا یا تیرا، چوہدریوں کا کیا جائے گا۔ ‘‘

’’آپ چاہتے کیا ہیں ، کھل کر بات کریں۔ ‘‘ فہد نے پوچھا توسراج نے کہا

’’میں تمہیں سمجھا تا ہوں۔ چوہدری نے اس کے بیٹے نذیر کو آگے کر دیا ہے اور اس کے ساتھ چند غنڈے بدمعاش لگا دیئے ہیں۔ تاکہ تم کسی بھی طرح زمین کا قبضہ نہ لے سکو۔ نہ اپنی زمین کا اور عمر حیات والی زمین کا یہ بابا نعمت علی نہیں چاہتا کہ کوئی خون خرابہ ہو۔ یہ صلاح لے کر آئے ہیں۔ ‘‘

’’کیسی صلاح؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’ہم تمہاری زمین چھوڑ دیتے ہیں۔ تم اپنی زمین کا قبضہ لے لو۔ اس طرح ہم درمیان سے ہٹ جائیں گے۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے جلدی سے کہا

’’کیا پھر چوہدری جلال تمہیں اپنا مزارع رکھے گا؟ تمہارے پاس زمین نہیں ہو گی تو پھر کیا کرو گے۔ میرے پاس مزارعے رہو گے؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’وہ اللہ مالک ہے۔ ہم نے یہاں کسی کا مزارع نہیں رہنا۔ کسان کو زمین بہت۔ ہم نے یہاں سے چلے جانا ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں کھڑی فصل کی رقم دے دو۔ تا کہ لوگوں کو اور چوہدری کو پتہ چل جائے کہ ہم نے تمہاری زمین چھوڑ دی ہے۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے کہا

’’کھڑی فصل کی رقم تو میں دے دوں گا۔ لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ ایسا ہی ہو گا جیسا آپ کہہ رہے ہو؟‘‘ فہد نے شک آلود لہجے میں پوچھا

’’بات پورے گاؤں کے سامنے چوپال ہو گی۔ ہم لکھ کر رقم لیں گے۔ پٹوار ی ہو گا۔ یہ معاملہ چھپ کر نہیں کریں گے۔ میرے پتر کو کوئی طعنہ نہیں دے گا کہ ہم نے ڈر کے مارے ایسا کیا ہے۔ رقم بھی گاؤں والے طے کر دیں گے۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے اصول کی بات کی تو فہد نے کہا

’’اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ خون خرابہ نہ ہو۔ یہاں گاؤں میں امن رہے۔ اگر تم لوگوں کو چوہدری اپنی زمین سے بے دخل کر دیتا ہے تو میں دے دوں گا زمین، کیوں سراج؟‘‘

’’ ہم نے یہاں رہنا ہی نہیں ہے پتر، چوہدری ہمیں مزارع نہیں بدمعاش بنانا چاہتا ہے۔ ‘‘بابا نعمت علی نے کہا تو سراج اپنا سر ہلاتے ہوئے بولا

’’ٹھیک ہے وہ جیسے آپ کی مرضی، کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر یہ معاملہ حل ہو جاتا ہے تو اور کیا چاہئے۔ ‘‘

’’تو بس پھر۔ یہ سب تم دیکھ لو کیسے کرنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ ‘‘ فہد نے یہ سراج کی ذمہ داری لگا دی۔

’’میں دیکھ لوں گا۔ ‘‘ سراج فوراً مان گیا پھر بابا نعمت علی کی طرف دیکھ کر بولا، ’’ ٹھیک ہے بابا۔ بات طے ہو گئی۔ امن امان سے سارا معاملہ طے کر لیتے ہیں۔ ہم کل ہی بات کر لیتے ہیں۔ زیادہ وقت لیا تو شاید بات بگڑ جائے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، اللہ تم لوگوں کو زندگی دے۔ نذیر کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ان کے سر پر باپ کا سایہ سلامت رہے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے بابا نعمت علی اٹھ گیا۔ دونوں نے اس سے ہاتھ ملائے تو بابا چلا گیا۔ وہ دونوں بیٹھ کر اسی موضوع پر بات کرنے لگے۔

اگلے ہی دن کی شام، قسمت نگر کے چوراہے میں پنچائت کی صورت وہاں پر کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں ایک بزرگ سا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس بزرگ نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا

’’صلح صفائی اور امن کے ساتھ اگر کوئی معاملہ حل ہو جاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور بات کیا ہے۔ فہد پتر نے اب گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس نے اپنی زمین تو واپس لینی ہے۔ نعمت علی نے یہ اچھا سوچا ہے کہ خون خرابے سے بچا جائے۔ ہاں تو فہد پتر کیا کہتے ہو تم؟‘‘

’’بابا نعمت علی سمجھتا ہے کہ میری زمین کے لیے ان چوہدریوں نے آ کر نہیں لڑنا۔ انہی مزارعوں کو اس نے لڑوانا ہے۔ خون انہی مزاروں کا بہنا ہے۔ یہی ہوتا آ رہا ہے نا اب تک؟ سب جانتے ہیں کہ چوہدریوں نے میری زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ اب اگر لڑنا پڑا تو بابے نعمت علی یا پھر اس کے پتر کو لڑنا پڑے گا۔ نقصان کس کا ہو گا اور فائدے میں کون رہے گا۔ سب جانتے ہیں۔ ‘‘ فہد نے کھل کر بات کی تو بزرگ نے کہا

’’نعمت علی۔ ! کیا یہ بات تم نہیں سمجھتے ہو کہ چوہدریوں کی اجازت کے بغیر تم زمین فہد کے حوالے کر رہے ہو۔ وہ تمہارے ساتھ ناراض نہیں ہوں گے؟‘‘

’’میں نے یہاں سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا ہوا ہے۔ بس اپنی فصل کا انتظار کر رہا تھا۔ نہ پھر مجھے زمین کا لالچ رہے گا اور نہ چوہدریوں کی ضرورت۔ میں نے زمین فہد کے حوالے نہیں کرنی۔ چھوڑ دینی ہے۔ اور اصل بات یہ کہ میں مزارع تو ہوں غنڈہ بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ میں نے نہیں لڑنا۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے کہا

’’اگر تجھے فصل کی رقم مل جاتی ہے تو کیا تم زمین کا قبضہ چھوڑ دو گے۔ ‘‘بزرگ نے پوچھا

’’ جی چھوڑ دوں گا۔ یہاں رہتا ہوں تو چوہدریوں کے لیے لڑنا پڑتا ہے فصل کی رقم مل گئی تو کہیں اور جا کر کام کر لوں گا۔ زمین میں چھوڑ دوں گا۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے کہا

’’کیا خیال ہے فہد پتر؟‘‘ بزرگ نے پوچھا تو فہد بولا

’’ہم آپ کے پاس اسی لئے تو بیٹھیں ہیں کہ آپ رقم کے معاملے میں جو فیصلہ کر دیں ہمیں قبول ہو گا۔ باقی رہا زمین کا قبضہ وہ میں لے لو گا۔ ‘‘

’’چلو یہ اچھا ہوا، ہم ابھی مشورہ کر کے رقم طے کر لیتے ہیں۔ ‘‘ بزرگ نے کہا اور چند دوسرے لوگوں کے ساتھ مشورہ کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک معقول رقم بتاتے ہوئے پوچھا

’’فہد کیا یہ رقم تجھے قبول ہے جو ہم نے بتائی ہے؟‘‘

’’جی، آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔ میں تین دن بعد اسی وقت عصر کی اذان سے پہلے رقم ادا کر دوں گا۔ ‘‘

اتنے میں سراج نے کچھ رقم نکال کر بزرگ کو دیتے ہوئے کہا

’’یہ لیں کچھ رقم ابھی لے لیں۔ ‘‘

’’بزرگ نے وہ رقم پکڑی اور نعمت علی کو دیتے ہوئے کہا

’’گن لو، اب فیصلہ ہو گیا ہے۔ ‘‘

نعمت علی نے رقم گن کر جیب میں ڈالی تو وہاں موجود لوگ اٹھ گئے۔ فہد کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ قسمت نگر کے لوگ اب اس کا وجودتسلیم کرنے لگے تھے۔ انہیں یہ احساس ہو گیا تھا، کوئی تو ہے جو چوہدریوں کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔

اسی شام فہد اپنے گھر میں بیڈ پر لیٹا ہوا یہ سوچوں میں گم تھا۔ ایسے میں سراج نے آ کر دیکھا تو ٹھٹک گیا۔ سراج نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا

’’فہد۔ !بہت پریشان لگ رہے ہو۔ کیا بات ہے۔ خیر تو ہے۔ کہیں فیصلہ۔۔۔‘‘

’’ او نہیں ، بات فیصلے کی نہیں ، اور یہ سچ ہے کہ میں پریشان ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مجھے اتنی رقم ادا کرنا پڑے گی۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’کیا تمہارے پاس اتنی رقم نہیں ہے؟‘‘سراج نے پوچھا تو فہد سوچتے ہوئے بولا

’’ہے، اتنی رقم ہے میرے پاس۔ وہ میں نے اس لیے رکھی تھی کہ میں نے سلمٰی کو ایک ادارہ بنا کر دینا تھا۔ وہ رقم میں نے اس پر خرچ کرنا تھی۔ اب ایک طرف سلمٰی سے کیا ہوا وعدہ ہے اور دوسری طرف میری آبائی زمین۔ مجھے ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ‘‘

’’تو پھر کیا سوچا ہے تم نے؟‘‘ اس نے پوچھا

’’یہی تو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ ایک طرف میری انا ہے اوردوسری جانب وعدہ۔ مجھے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب تو کرنا پڑے گا۔ اور پھر سراج۔ !تم یہ محسوس نہیں کرتے ہو کہ اتنی زیادہ رقم کیوں ؟‘‘ فہد نے کہا

’’یہ تو پنچائیت کا فیصلہ تھا نا۔۔۔جیسے تم نے قبول کیا۔ تم وہاں کچھ کہتے تو ممکن ہے یہ رقم کم بھی ہو سکتی تھی۔ ‘‘سراج بولا تو فہد نے سنجیدگی سے کہا

’’نہیں۔ میں فیصلے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ بلکہ یہ سوچ رہا ہوں کہ اتنی آسانی سے زمین کی واپسی۔ کہیں ہمارے خلاف کوئی سازش تو نہیں ہے؟‘‘

’’ہاں۔ ! میں نے بھی اس پر سوچا تھا۔ لیکن مجھے نہیں لگتا۔ کیونکہ یہ فیصلہ گاؤں کے بزرگوں میں ہوا ہے۔ اور وہ اس کے ضامن ہیں۔ اب اگر سارا گاؤں ہی ہمارا مخالف ہے۔ یا ہمارے خلاف سازش کرے پھر ہمارے لیے یہاں رہنے کا کوئی جوا ز نہیں۔ ‘‘ سراج نے سمجھایا

لیکن اتنی آسانی سے ؟بابا نعمت علی اور اس کے بیٹے نذیر کا مان جانا۔ وہ چوہدری کی حکم عدولی کیسے کر سکتے ہیں۔ میرا دل مانتا ہے۔ یہ ہمارے خلاف سازش نہیں۔ ‘‘ فہد نے الجھتے ہوئے کہا

’’بابا نعمت علی کا یہ فیصلہ اچانک نہیں۔ وہ بہت پہلے سے میرے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کرتا تھا۔ خیر۔ !تم کہو، اپنی انا کا انتخاب کرتے ہو یا اپنے وعدے کا۔ ‘‘ سراج نے پوچھا

’’تم کیا کہتے ہو؟‘‘ فہد نے رائے چاہی

’’دونوں۔ !زمین بھی واپس لیں گے اور وعدہ بھی پورا کریں گے۔ ساری رقم کی ادائیگی میں کروں گا۔۔۔تم اپنی رقم اپنے وعدے کے لیے بچا کر رکھو۔ ‘‘ سراج نے حتمی لہجے میں کہا

’’سراج۔ !یہ تم ؟‘‘ وہ حیرت سے بولا

’’کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ زبان دی ہے تو اب اس سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ وہ چاہے کسی کو بھی دی ہے۔ تو پریشان نہ ہو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ سراج نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’مجھے تمہاری دوستی پر مان ہے سراج۔ اب مجھے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب تو یہ دیکھنا ہے۔ چوہدری کب وار کرتے ہیں۔ ‘‘ فہد نے سوچتے ہوئے کہا تو سراج نے پوچھا

’’کیا تمہیں اس کی امید ہے؟‘‘

’’ہر وقت، یہ ان کے لیے بہت بڑا زخم ہو گا۔ ‘‘ فہد نے حتمی انداز میں کہا تو پھر دونوں ہی قہقہہ لگا کر ہنس دئیے۔

٭٭

 

شہر پر شام اتر آئی تھی۔ مائرہ اپنے آفس میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ابھی گھر جائے یا نہیں۔ اسے اپنی ماما کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ کل بھی وہ اپنی ماما سے سامنانہ کرنے کے باعث اپنے گھر دیر سے گئی تھی لیکن اس کی ماما بانو بیگم ٹی وی لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی ٹی وی کی جانب متوجہ تھی۔ وہ اسی کی منتظر تھی۔ کیونکہ جیسے ہی مائرہ نے آ کر اپنا لیپ ٹاپ اور دوسری چیزیں ایک جانب رکھیں تو بانو بیگم نے اس دوران ٹی وی کی آواز کم کر کے پوچھا

’’تمہیں چند دنوں سے کیا ہو گیا ہے، اتنی مصروف ہو کہ اپنی ماما کے لئے بھی تھوڑا وقت نہیں نکال پا رہی ہو۔ ‘‘

تبھی مائرہ نے سنجیدگی سے کہا

’’ہاں ماما، میں نے خود اپنے آپ کو مصروف کر لیا ہے۔ ‘‘

’’وہ کیوں۔ !بات کیا ہے؟‘‘ بانو بیگم نے حیرت سے پوچھا تو مائرہ بولی

’’بس ماما۔ !اور کچھ کرنے کے لئے نہیں ہے نا تو میں نے خود کو اپنے کام میں زیادہ مصروف کر لیا ہے۔ اس میں کوئی پریشان ہونے والی بات تو نہیں ہے۔ ‘‘

’’مائرہ۔ !میرے بچے۔ تم لاکھ کوشش کرو۔ مگر مجھ سے اپنا جھوٹ نہیں چھپا پاؤ گی۔ مجھے بتاؤ۔ بات کیا ہے۔ تم کیوں افسردہ سی رہنے لگی ہو۔ ‘‘ بانو بیگم نے پیار سے چمکارتے ہوئے پوچھا تو مائرہ بولی

’’کچھ نہیں ماما۔ !ظاہر ہے ابھی میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اس لئے میں چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ کام کروں۔ اور بس۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں بیٹی۔ !شادی کے لئے ہاں کر دو۔ ایک نئی زندگی کی شروعات کرو گی تو بہت زیادہ Changeبھی آ جائے گا۔ ‘‘ بانو بیگم نے سمجھایا

’’آپ یہ بات کیوں نہیں سمجھتی ہیں کہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔ اور میں اس میں فی الحال کوئی Change نہیں چاہ رہی ہوں۔ ابھی میری ساری توجہ اپنے کام کی طرف ہے۔ ‘‘ مائرہ نے کہا تو وہ بولیں

’’کام تمہارا صرف ایک بہانہ ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میں جب کہہ رہی کہ وہ سب کچھ میرے ساتھ شیئر کرو جو تمہارے دماغ میں چل رہا ہے تو اس سے تمہارے لئے بہت ساری آسانیاں ہوں گی۔ ‘‘

’’ماما۔ !زندگی میں آنے والے حالات کبھی کبھی ایسے دوراہے پر لے آتے ہیں کہ کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ کیا ہی نہیں جا سکتاصرف وقت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ چاہے تو یہ وقت ہمارے دامن میں خوشیاں بھر دے یا پھر غم ہمارا مقدر بن جائے۔ ‘‘ مائرہ نے ایک طویل سانس لے کر کہا تو بانو بیگم تڑپ کر بولیں

’’اللہ نہ کرے بیٹی۔ !غم تمہارا مقدر بنے۔ کیا میں جان سکتی ہوں کہ تم ایسے کسی وقت کی منتظر کیوں ہو؟‘‘

’’بتاؤں گی، ضرور بتاؤں گی آپ کو، میں فریش ہو کر آتی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے آپ میں کھوئی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ بانو بیگم اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ وہ ماں تھی، سمجھ رہی تھی کہ کوئی نہ کوئی دکھ تو اس کی بیٹی کو اندر ہی اندر سے کھا رہا ہے۔ وہ اپنی ماما کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لئے سر شام گھر جانے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ اپنے آفس سے نکلتے ہوئے جعفر کا خیال آیا تواس نے کال کر کے پوچھا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ اپنے گھر پر تھا۔ مائرہ نے اسے وہیں رکنے کا کہا اور اس کے پاس پہنچ گئی۔

جعفر نے پلیٹوں میں کھانے پینے کی چیزیں لے کر میز پر رکھیں اور پھر خود بیٹھ گیا۔ اتنے میں مائرہ دو کپ چائے ٹرے میں رکھے نمودار ہوئی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے وہ ٹرے لا کر میز پر رکھی اور ساتھ پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا

’’دیکھو جعفر۔ !چائے جیسی بھی ہو، پی لینا۔ نخرے مت کرنا۔ میں نے اپنی طرف سے بہت اچھی چائے بنائی ہے۔ ‘‘

’’یہ جو تم اسنیکس لائی ہو۔ ان کے صدقے میں یہ بد ذائقہ چائے بھی پی لوں گا۔ ‘‘ جعفر نے ہنستے ہوئے کہا تو مائرہ نے مصنوعی غصے میں کہا

’’ایویں بد ذائقہ۔ !ابھی چائے پی نہیں۔ ذائقے بارے پہلے ہی پتہ چل گیا۔ بد گمانی نہیں کرتے۔ بہت بری بات ہے یہ۔ ‘‘

’’میں۔ !اور تمہارے بارے میں بد گمانی۔۔۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتامیڈم۔ تمہیں بھی پتہ ہے، میں نے زندگی میں چند خاص لوگوں ہی سے تعلق بنائے ہیں۔ تم ان میں سے خاص الخاص ہو۔ تمہارے بارے میں بد گمانی۔ ناممکن۔ ‘‘ جعفر نے کپ اپنے سامنے رکھتے ہوئے کہا تو مائرہ بولی

’’ہاں جعفر۔ !اپنوں کے بارے میں بد گمانی کرنا بھی بے ایمانی ہوتی ہے۔ جسے ہم اپنا کہہ دیں تو پھر کیا بچتا ہے بدگمانی کے لیے۔ اب اگر کوئی ساتھ نہ چلے۔ ہم سفر بن کر بھی راستہ میں چھوڑ جائے تو بندہ کیا کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’مائرہ۔ !آج میرے ساتھ ایک وعدہ کرو۔ ‘‘ جعفر نے اچانک اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

’’کیسا وعدہ؟‘‘ اس نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’دیکھو۔ !تم فہد کو نہیں بھلا سکتی، میں یہ مانتا ہوں۔ لیکن ہر وقت یہی سوچتے رہنا، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تم یہ کیوں نہیں مان لیتی کہ وہ تمہارا ہم سفر کبھی بنا ہی نہیں تھا۔ تو پھر اس سے گلہ کیسا؟‘‘ جعفر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’ہاں۔ !تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن۔۔۔‘‘ مائرہ نے کہنا چاہا تو جعفر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا

’’لیکن ویکن کچھ نہیں۔ !تم خود اس دائرے میں سے نکلتا نہیں چاہتی۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ تمہیں اس سے محبت ہے، لیکن کیا مائرہ۔ !محبت حاصل کر لینے ہی کا نام ہے ؟حاصل کر لینا ہی محبت ہے تو سوری میڈم۔ یہ خود غرضی ہے۔ سودے بازی ہے۔ بیوپار ہے۔ ‘‘

’’تم آئیڈئل باتیں کرتے ہو۔ میرے اندر پڑی محبت، جو مجھے فہد کو بھولنے ہی نہیں دیتی، یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کا انکار کیسے کرو گے؟‘‘ مائرہ نے بے بسی سے کہا

’’میں انکار کرنے کے لیے نہیں کہتا اور نہ ہی اس محبت کی حقیقت کو جھٹلاتا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ اسی محبت کو اپنی قوت بناؤ۔ اسے اپنی کمزوری مت بناؤ۔ تمہاری محبت میں قوت ہوئی تو لوٹ آئے گا۔ ورنہ اسے بھلا دینا ہی بہتر ہے۔ ‘‘ جعفر نے اسے سمجھایا

’’شاید تم میری بات اب بھی نہیں سمجھے ہو۔ ‘‘ مائرہ نے کہا

’’میں سمجھتا ہوں۔ ایک ایک بات سمجھتا ہوں مائرہ۔ !یہاں بیٹھ کر کڑھتے رہنے سے، اسے یاد کر کے آہیں بھرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ تمہاری محبت تمہاری کمزوری بن جائے، کیا یہ تمہاری ذات کی توہین نہیں ہے مائرہ ؟اظہار محبت کے اور بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ خود کو مضبوط بناؤ۔ ‘‘جعفر نے کہا تو مائرہ سوچتے ہوئے انداز میں بولی

’’مجھے ایسے ہی کرنا چاہیے۔ میں اسے کبھی گلہ نہیں دوں گی کہ وہ میرا ہمسفر نہیں بنا۔ لیکن میری محبت ۔۔۔اس کے لیے ہمیشہ رہے گی۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے چونک کر جعفر کو دیکھا اور پھر بولی، ’’تم کیا وعدہ چاہتے ہو؟‘‘

’’یہی جو تم کہ رہی ہو۔ اپنے دل میں محبت رکھو، لیکن بات بے با ت اس کا اظہار نہ کرو۔ خود کو مظلوم نہ بناؤ۔ مضبوط بنو۔ فہد کو دُور رہ کر بھی احساس دلاؤ کہ تمہارے دل میں اس کے لیے کتنی محبت ہے۔ وہ تمہارے ہمسفر نہ بنا۔ اس پر وہ افسوس کرے۔ تم نہیں۔ ‘‘

’’ہاں ، ایسا ہی ہو گا۔ میں وعدہ کرتی ہوں جعفر۔ !آج سے نہیں بلکہ ابھی سے۔۔۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ یہی بہتر ہو گا۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو ان کے درمیان ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ تبھی اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ تمہارے اس وعدے کے چکر میں یہ چائے بھی ٹھنڈی ہو گئی۔ ‘‘

’’تم بیٹھو۔ !میں دوبارہ بنا کر لاتی ہوں۔ ‘‘ مائرہ نے کہا اور کپ اٹھا کر کچن کی طرف چلی گئی۔ تو جعفر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس نے سکون سے صوفے کے ساتھ ٹیک لگا لی۔

ایسے ہی وقت حبیب الرحمن پر سکون سے انداز میں بیڈ پر نیم دراز اپنی سوچوں میں گم تھا کہ بانو بیگم آ کر بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ حبیب الرحمن نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’ہاں بیگم صاحبہ۔ !فرمائیں آپ مجھ سے کیا بات کرنا چاہ رہی تھیں۔ اب سکون سے کہو۔ ‘‘

’’ وہی بات، جو میں آپ سے کہتی آ رہی ہوں ، مائرہ کی شادی۔ ایک دو دن میں وہ لوگ کینیڈا سے آ جائیں گے۔ ظاہر ہے بات تو چلے گی۔ انہیں کیا کہیں گے کہ باپ کے پاس فرصت نہیں اور بیٹی پروا نہیں کرتی۔ ‘‘ بانو بیگم نے تلخی سے کہا تو حبیب الرحمن سکون بولا

’’بیگم۔ !تم اتنی پریشان کیوں رہتی ہو۔ جب اس کی شادی کا وقت آیا تو میں ایک لمحہ بھی تا خیر نہیں کروں گا۔ مجھے احساس ہے۔ میری بیٹی ہے وہ۔ اکلوتی بیٹی۔ مجھے پتہ ہے کہ میں نے اس کی شادی کب اور کہاں کرنی ہے۔ ‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ !اب شادی کا اور کیا وقت ہو گا۔ پھر ایک سے بڑھ کر ایک رشتہ ہماری دہلیز پر کھڑا ہے۔ ایسے چانس زندگی میں روز روز نہیں آتے۔ ‘‘بانو بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا

’’تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتی ہو کہ مائرہ شہر کے ایک بڑے بزنس مین کی اکلوتی بیٹی ہے۔ مائرہ کی اپنی ایک شخصیت ہے جو میری ذات سے ہٹ کر اس نے خود بنائی ہے۔ میں کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کروں گا۔ جو مائرہ کی اوٹ میں پڑے بنک بیلس اور جائیداد پر نگاہ رکھے۔ اور مائرہ کی ذات سے آگاہ نہ ہو۔ سمجھی تم بیگم۔ ‘‘حبیب الرحمن نے صاف انداز میں کہا تو بانو بیگم بولی

’’ہمارے رشتے دار تو ایسے نہیں ہیں کہ ان میں ۔۔۔‘‘

’’بیگم۔ !جب میں نے ایک بار کہہ دیا ہے کہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں مائرہ کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے۔ اور میں خود بھی نہیں چاہتا کہ وہ مجھ سے الگ ہو۔ وہ ہر پل میری نگاہ میں ہے۔ میں نے اگر اسے اجازت دی ہے تو میں ہی اس کا نگہبان بھی ہوں۔ ‘‘ حبیب الرحمن نے سمجھایا تو بانو بیگم نے دھیمے لہجے کہا

’’آپ نے یہ سب باتیں مجھ سے پہلے کیوں نہیں کہیں ؟‘‘

’’اس لیے کہ تم پہلے اتنی پریشان نہیں تھی۔ اور پھر بیگم میں اس کی شادی کر کے اس کی شخصیت، اس کی ذات کو نہیں کچلنا چاہتا۔ میں چاہتا تو اسے بزنس میں لے آتا، لیکن مجھے اس کی پرواہ ہے۔ اس کی خوشیاں مجھے زیادہ عزیز ہیں۔ ‘‘ حبیب الرحمن نے کہا

’’اب مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ آپ جہاں بہتر سمجھیں ۔۔۔وہیں اس کی شادی کر دیں۔ ‘‘ بانو بیگم نے مان لیا

’’ہم دونوں کی مرضی سے زیادہ مائرہ کی خوشیاں ہمیں دیکھنی ہیں۔ ہماری ایک ہی اولاد ہے کیا ہم اسے بھی خوشیاں نہیں دے سکیں گے۔ اپنی مرضی مسلط کریں گے۔ نہیں ، ہم اسے زندگی کی ساری خوشیاں دینے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘ حبیب الرحمن کے لہجے میں بیٹی کا پیار گھلا ہوا تھا۔

’’کیوں نہیں۔ !ہم تو اپنی گذار چکے۔ اب اس کی زندگی ہے۔ ‘‘بانو بیگم نے کہا تو حبیب الرحمن بولا

’’اور ہر والدین کی طرح میں بھی اس کی بہترین زندگی کا خواہاں ہوں۔ تم پریشان ہونا چھوڑ دو۔ وقت آنے پر سب کچھ ہو جائے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بیڈ پر دراز ہو گیا۔ اس نے سائیڈ لیمپ بجھا دیا۔ جس کا مطلب تھا کہ اب وہ سونا چاہتا ہے۔ بانو بیگم بھی سو جانے کے لیے لیٹ گئی۔ اس کے ذہن سے بوجھ اتر گیا تھا۔

٭٭

 

صبح کی روشنی میں چوہدری جلال کاریڈور میں بیٹھا اخبار پڑھنے میں مگن تھا۔ رانی اس کے لئے چائے لے کر آئی تو اس نے دیکھ کر چائے رکھ دینے کا اشارہ کیا۔ پھر اخبار پر نگاہیں جماتے ہوئے بولا

’’بیگم سے کہو۔ مجھے آج شہر جانا ہے۔ ‘‘

’’جی، ابھی کہہ دیتی ہوں۔ ‘‘ رانی نے مودب انداز میں کہا اور فوراً پلٹ گئی۔ اس کے جاتے ہی منشی فضل دین آ کر کھڑا ہو گیا۔ تبھی چوہدری جلال نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا

’’اوئے آ بھئی منشی کیسے آنا ہوا اس وقت۔ خیر تو ہے نا۔ ‘‘

’’ابھی تو خیر ہی ہے۔ ‘‘منشی فضل دین نے کہا تو چوہدری جلال نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’کیا مطلب ہے تمہارا۔ صاف کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘

تب منشی فضل دین نے چوراہے میں ہونے والی ساری بات بتا دی۔ چوہدری جلال کا چہرہ غصے میں بھر گیا۔ وہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے بولا

’’میں نے نذیر سے جو کہا تھا وہ اسی کا اُلٹ کرنے جا رہا ہے۔ وہ لوگ ڈر گئے ہیں یا انہیں ہم پر یقین نہیں رہا۔ ‘‘

’’اب ان کے دل کی بات کا تو نہیں پتہ، وہ کیا چاہتے ہیں۔ لیکن اس طرح فہد تو آرام سے اپنی زمین لے جائے گا۔ پھر اس کے لیے کچھ اور سوچنا پڑے گا۔ ‘‘ منشی فضل دین نے کہا

’’ہاں۔ !بات اب گاؤں کے لوگوں میں آ گئی ہے۔ نعمت علی کو روکا تو پورا گاؤں ۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ رک گیا، پھر سوچتا ہوا بولا، ’’ نہیں اب فہد کے بارے ہی کچھ سوچنا پڑے گا۔ یہیں اسے روکنا ہو گا۔ ‘‘

’’جی چوہدری صاحب۔ !میں نے نمبر دار کو پیغام بھجوایا ہے کسی قیمت میں بھی زمین فہد کو نہ ملے۔ ‘‘ منشی نے کہا تو چوہدری جلال نے تیزی سے کہا

’’نمبردار کے بس کی یہ بات نہیں ہے۔ پھر بھی اگر وہ کوئی کوشش کرے تو کرنے دے۔ اب میں دیکھتا ہوں۔ تو جا اور اس معاملے میں کوئی بھی بات ہو، وہ مجھے بتانا۔ ‘‘

’’جی چوہدری صاحب۔ !جیسے آپ کا حکم۔ ‘‘منشی فضل دین نے کہا اور پلٹ گیا۔ چوہدری نے قریب پڑا فون کا رسیور اٹھا لیا پھر نمبر پش کرنے کے بعد چند لمحے انتظار کرتا ہے اور رابطہ ہو جانے پر بولا

’’ہاں۔ !میں چوہدری جلال بات کر رہا ہوں۔ تھانیدار۔ غور سے سن، جو میں نے تمہیں کہا تھا۔ وہ کر دے۔ اب فہد کو زیادہ وقت نہیں دینا۔ ‘‘

فون پر تھانیدار کو ہدایت دے کر اس نے رسیور رکھ دیا۔ اس کے چہرے پر غصہ اب بھی موجود تھا۔

منشی فضل دین وہاں سے نکلا تو سیدھا نعمت علی کے گھرکی طرف چلا گیا۔ نعمت علی اپنے گھر سے نکل کر گلی میں سے آ رہا تھا کہ سامنے سے منشی اسے مل گیا۔ دونوں آمنے سامنے ہوئے تو منشی نے کہا

’’اچھا ہوا نعمت علی تم مجھے مل گئے ہو۔ میں تمہاری طرف ہی جا رہا تھا۔ ‘‘

’’خیر تو ہے نا؟کس لیے جا رہے تھے۔ مجھے بلوا لیا ہوتا۔ ‘‘ نعمت علی نے کہا

’’اوئے نعمت علی۔ !یہ تو نے کیا بے وقوفی کی ہے۔ فہد کواس کی زمین دے دی اور وہ بھی چوہدری صاحب سے پوچھے بناء۔ تمہیں پتہ نہیں ہے چوہدری صاحب اس پر کتنا ناراض ہو سکتے ہیں۔ تم نے نہ پوچھا۔ نہ کسی سے بات کی۔ مجھ سے ہی کوئی صلاح مشورہ کر لیتے۔ ‘‘ منشی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا

’’دیکھ منشی۔ !اگر ایسی بے وقوفی کر کے میں خون خرابے سے بچ سکتا ہوں تو یہ بے وقوفی ہی سہی۔ میں نے اور میرے بچوں نے اس زمین پر جو محنت کی ہے، میں نے تو وہ معاوضہ مانگا ہے۔ اب اس معاملے میں مجھے کسی سے صلاح مشورے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ نعمت علی سکون سے بولا تو منشی نے غصے میں کہا

’’عجیب بات کرتا ہے تو۔ یہ زمین تجھے چوہدری نے دی ہے۔ تو ان کا مزارع ہے، نہ کہ فہد کا؟‘‘

’’میں مانتا ہوں کہ زمین چوہدریوں نے دی لیکن کاغذوں میں نام تو میرا ہی چلتا ہے۔ تھانے کچہری میں تو نام میرا ہی بولے گانا اور پھر چوہدریوں نے ہمیں کیا دینا ہے۔ تسلی، دلاسے، وہ پہلے کون سا ہماری پوری محنت ہمارے پلے ڈالتے آئے ہیں۔ جو چوہدری کہتا ہے، اگر ایسا ویسا کچھ ہو گیا تو بوجھ ہم پر ہی آنا ہے۔ ‘‘

’’یہ تو کس طرح کی باتیں کرنے لگ گیا ہے۔ چوہدری صاحب نے تم پر کتنا احسان کیا تمہیں رہنے کے لیے گھر اور کھیتی کے لیے زمین دی۔ اب اس کے احسانوں کا بدلہ تو ایسے دے رہا ہے۔ ‘‘ منشی طنزیہ لہجے میں بولا تو نعمت علی نے انتہائی تلخی سے کہا

’’احسانوں کے بدلے میں وہ میرے ہی بچوں کا خون مانگ رہا ہے۔ وہ میرے بچوں کو فہد سے لڑوانا چاہتے ہیں۔ نقصان تو ہمارا ہی ہو گا نا۔ چوہدری تو اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ تھانہ کچہری بھگتنا پڑا تو ہمیں ہی بھگتنا ہو گا۔ ‘‘

’’تو کسی اور کی زبان بول رہا ہے نعمت علی۔ !چل ایسے کر۔ !جتنی رقم تو فہد سے لے رہا ہے۔ اتنی میں دیتا ہوں۔ زمین میرے حوالے کر دے۔ پھر میں جانوں اور فہد۔ چوہدری صاحب بھی تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ ‘‘ منشی نے کہا تو نعمت علی حتمی لہجے میں بولا

’’میں اب پنچائیت میں زبان دے چکا ہوں۔ اب مجھے کوئی دوگنا معاوضہ بھی دے تو میں زمین فہد ہی کو دوں گا۔ ہاں اگر وہ رقم کی ادائیگی نہ کر سکا تو پھر تمہیں دے دوں گا۔ یہ میرا وعدہ رہا۔ ‘‘

’’میں ایسی کسی پنچائیت کو نہیں مانتا، جس میں میرا اپنا کوئی فیصلہ نہ ہو۔ اب فہد زمین لے یا نہ لے۔ رقم کی ادائیگی کرے یا نہ کرے۔ لیکن تو اپنی سزا سوچ لے۔ یہ چوہدریوں سے غداری ہے غداری۔ یہ جس کی تو زبان بول رہا ہے نا، وہ بھی تجھے نہیں بچا پائے گا۔ ‘‘ منشی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا

’’دھمکیاں نہ دے منشی۔ !میں نے جو فیصلہ کرنا تھا وہ کر لیا۔ اب جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا۔ ‘‘ نعمت علی نے لاپرواہی سے کہا تو منشی بولا :

’’تمہارا یہ چاؤ بھی پورا ہو جائے گا نعمت علی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ پلٹا اور واپس مڑ گیا۔ نعمت علی پریشان سا وہیں کھڑا ر ہ کرسوچنے لگا۔ پھر سر جھٹکتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ اسی دن دوپہر کے بعدسراج چوراہے میں گیا۔ اس نے حنیف دوکاندار کے پاس جا کر پوچھا

’’یار یہ چھاکا نہیں آیا ادھر؟‘‘

’’ابھی تک تو نہیں آیا۔ اور نہ ہی چاچا سوہنا آیا ہے۔ اللہ خیر کرے، پتہ نہیں کدھر ہیں۔ ‘‘حنیف دوکاندار نے بتایا۔ تو سراج نے کہا

’’ یار وہ صبح سے نہیں آیا۔ وہ ادھر آئے نا تو اسے کہنا کہ فوراً ڈیرے پر آ جائے۔ ویسے میں اس کا گھر سے پتہ کرتے ہوئے ڈیرے پر جاؤں گا۔ ‘‘

لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ چوراہے میں پولیس وین آ کر رکی۔ وہ دونوں ہی اس کی طرف دیکھنے لگے۔ وین میں سے تھانیدار باہر نکلا۔ اس نے دوکان پر کھڑے سراج کی طرف دیکھا اور اس طرف بڑھتا چلا گیا۔ اس نے سراج کے قریب جا کر طنزیہ لہجے میں کہا

’’ہاں بھئی سراج، کدھر گیا وہ تیرا یار فہد۔ دوبارہ اس نے تھانے کا چکر نہیں لگایا۔ کوئی نیا قانون ہی سکھا جاتا۔ ‘‘

’’مجھے نہیں پتہ اور نہ مجھے تمہاری بات کی سمجھ آ رہی ہے۔ ‘‘ سراج نے تلخی سے کہا اور یہ کہتے ہوئے وہ جانے لگا تو تھانیدار نے اس کا راستہ روکتے ہوئے کہا۔

’’بات سن اُوئے سراج، جسے تو دوست بنائے پھرتا ہے نا، وہ تیرا دوست نہیں اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حقی اور سچی بات کہہ رہا ہوں۔ ‘‘

’’تو اور تیری حقی سچی بات۔ راستہ چھوڑ میرا۔ ‘‘ سراج نے تلخی سے کہا تو تھانیدار ہنس کر بولا

’’دیکھ، تیرے بھائی امین کو اسی فہد نے قتل کروایا ہے۔ اب تک میں نے اس پر ہاتھ اس لئے نہیں ڈالا کہ مجھے کوئی پکا ثبوت نہیں ملا۔ تفتیش کر رہا ہوں۔ جس دن بھی مجھے پکا ثبوت مل گیا۔ گرفتار کر لوں گا۔ پھر تجھے عقل سمجھ آئے گی۔ ‘ ‘ اس نے کہا توسراج نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر بڑے طنزیہ لہجے میں بولا

’’دیکھ انسپکٹر۔ تو جو مرضی کہہ اور تو جس کے اشارے پر یہ سب کہہ رہا ہے نا، میں وہ بھی جانتا ہوں۔ میں انصاف کے لیے عدالت جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے بھائی کا خون کس نے کیا ہے۔ ‘‘

’’اوئے جھلاً ہو گیا ہے تو، یہ وقت ثابت کرے گا سراج۔ میرے پاس ایسے ایسے ثبوت ہیں کہ فہد کو پھانسی سے نہیں بچا سکے گا۔ اب کسی ڈی ایس پی، ایس پی کا فون بھی اس کے کام نہیں آئے گا۔ بتا دینا اسے کہ کوئی وڈھی سفارش تلاش کر لے ابھی سے، مگر وہ بھی اس کے کام نہیں آئے گی۔ ‘‘ تھانیدار نے حقارت سے کہا

’’اوئے انسپکٹر، تو مجھے بتا۔ فہد کیوں میرے بھائی کا قتل کروائے گا۔ وہ تو اس کی مدد کر رہا تھا۔ ‘‘ سراج نے تلخی سے کہا تو تھانیدار نے کہا

’’اس لیے میری جان کہ اس کے پاس چوہدریوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ امین کا مدعا، چوہدری کبیر پر ڈال دے گا۔ مجھے پتہ ہے وہ بڑی کوشش کر رہا ہے۔ مگر اس کی کوئی کوشش اس کے کام نہیں آنے والی۔ تو میرے ساتھ تعاون کر یا نہ کر، میں نے اسے گرفتار کرنا ہے۔ بس شام تک ٹھہر جا۔ ‘‘

’’تو نے جو کرنا ہے کر، میں چلتا ہوں۔ ‘‘

سراج نے کہا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ تھانیدار نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور اپنی وین میں بیٹھ کر چلا گیا۔

٭٭

 

ٹھہری ہوئی شام میں سکون گھلا ہوا تھا۔ ایسے میں سلمٰی اور فہد دونوں صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ انہی باتوں کے دوران سلمی نے پوچھا

’’آپ مجھے ایک بات بتائیں۔ ‘‘

’’پوچھو۔ !‘‘ فہد نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بولی

’’میں اکثر سوچتی ہوں کہ آپ نے زمین بھی خرید لی، اور یہاں پر رہنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ لیکن چوہدریوں کے ساتھ جو آپ کی مخالفت ہے۔ اس سے ہم چین سکون سے تو نہیں رہ سکیں گے۔ کوئی نہ کوئی معاملہ تو چلتا رہے گا۔ اب وہ تو اپنی زمینیں چھوڑ کر جانے سے تو رہے۔ ‘‘

’’تم نے ایسے کیوں سوچا کہ ہمیشہ ہی چوہدریوں کے ساتھ مخالفت رہے گی۔ ہو سکتا ہے کبھی ہماری ان کی صلح ہو جائے۔ وہ ہماری مخالفت نہ کریں۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’یہ جو دن بدن بات بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے تو نہیں لگتا کہ کبھی صلح ہو گی اور وہ ہماری مخالفت نہیں کریں گے۔ صلح تو تب ہو گی نا۔ جب کوئی ایک ہار مانے گا۔ ‘‘ سلمی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’ہار مان جانے سے صلح نہیں ہوتی۔ چوہدری سیاست دان بھی تو ہے۔ وہ جب بھی اپنے آپ کو کمزور پائے گا۔ صلح کرے گا۔ مگر تم ایسے کیوں سوچتی ہو؟تم وہ سوچا کرو، جو تمہیں کہا گیا ہے۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’ویسا تو تب سوچا جا سکتا ہے نا، جب سکون ہو اور آپ جس طرح کے انسٹیٹو ٹ کی بات کر رہے ہیں۔ اس کے لیے سرمایہ بھی چاہیے۔ اور۔۔۔‘‘ سلمی نے تشویش سے کہا

’’یہ سب میرے سوچنے کی باتیں ہیں سلمٰی۔ میں یہ سب کروں گا۔ تم پریشان مت رہا کرو۔ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ ایک تمہی میرا حوصلہ ہو۔ ‘‘ فہد نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا

’’مجھے حوصلہ کون دے گا۔ آپ نا، جب آپ کو پریشان دیکھتی ہوں تو دل بے قابو ہو جاتا ہے۔ آپ کو بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اب میری ساری امیدیں آپ سے ہیں۔ ‘‘ سلمی نے گلال چہرے کے ساتھ کہا

’’کون کس کی اُمید ہے اور وہ اس پر کتنا پورا اترتا ہے۔ یہ تو وقت بتائے گانا۔ اب ہم دونوں ایک راستے پر نکل پڑے ہیں تو رستے میں کئی طرح کی الجھنیں ، خطرات اور مصیبتیں آئیں گی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا حوصلہ ہوں گے نا تو یہ راستہ آسانی سے کٹ جائے گا۔ تم اوٹ پٹانگ مت سوچا کرو۔ ‘‘ فہد نے مسکراتے ہوئے کہا

’’میرے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ سوائے گھر کا کام کرنے کے۔ اب میں سوچوں بھی نہیں ؟‘‘ وہ اٹھلاتے ہوئے بولی

’’سوچو۔ !لیکن مثبت سوچو، بہت اچھا سوچو۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔ پھر تم بہت مصروف ہو جاؤ گی۔ تمہیں یہ گھر کے کاموں کی فرصت بھی نہیں ملے گی۔ اور یہاں تک کہ میرے بارے میں بھی نہیں سوچ سکو گی۔ ‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا توسلمٰی بولی

’’اب ایسا کوئی وقت نہیں آئے گا کہ میں آپ کو بھول سکوں۔ یہ آپ جانتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا۔ !‘‘ فہد نے کچھ ایسے انداز سے کہا کہ سلمٰی شرما گئی، پھر اٹھتے ہوئے بولی

’’اچھا میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اندر کی جانب چلی گئی اور فہد مسکرا تے ہوئے دیکھتا رہا۔

چائے پی کر فہد اپنے گھر آ گیا۔ چھاکا صحن میں بیٹھا ہوا تھا۔ فہد نے اس کے پاس جا کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

’’یار یہ سراج نہیں آیا ابھی تک، شام ہونے کو آ رہی ہے۔ آج وہ ملا ہی نہیں۔ ‘‘

’’ وہ نور پور گیا ہے یار۔ ! رقم لینے۔ مجھے بتا کر گیا تھا۔ اللہ خیر رکھے گا۔ !وہ آ جائے گا۔ رقم کوئی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ تو پریشان نہ ہو۔ ‘‘ چھاکے نے کہا

لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ پھاٹک دھڑ دھڑ بجنے لگا، اس کے ساتھ کسی نے زور سے پکارا۔

’’فہد باہر آؤ۔ !‘‘

’’یہ کون ہو سکتا ہے ؟چھاکے۔ ! جلدی سے گن لے کر آؤ۔ ‘‘ فہد نے باہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو چھاکا تیزی سے بولا

’’دیکھ تو لیں۔ لیکن نہیں پہلے میں گن لاتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے چھاکا اٹھا۔ اتنے میں فہد دروازے تک چلا گیا۔ اس نے پھاٹک کھولا توسامنے پولیس وین کھڑی تھی۔ دروازے کے سامنے پولیس والے تھے۔ سب سے آگے تھانیدار کھڑا تھا۔

’’کیا بات ہے، یوں کس طرح۔۔۔‘‘ فہد نے پوچھنا چاہا تو تھانیدار نے حقارت سے کہا

’’ بکواس نہ کر اوئے، چپ، میں تمہیں گرفتار کرنے آیا ہوں ، چلو آگے لگ۔ ‘‘ تھانیدار نے اپنے ریوالور سے اسے وین میں بیٹھ جانے کا اشارہ کیا

’’لیکن کس جرم میں ؟‘‘ فہد نے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا تو تھانیدار اسی لہجے میں بولا

’’یہ تھانے چل کر بتاتے ہیں۔ کون ساجرم ہے، گرفتاری کے آرڈر بھی وہیں ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے عملے کو بدلے ہوئے سخت لہجے میں کہا

’’ چلوگھسیٹ کر ڈالو اسے وین میں۔ ‘‘

’’ٹھہرو۔ ! میں چلتا ہوں۔ ‘‘ فہد نے سکون سے کہا تو بڑھتے ہوئے پولیس والے رک گئے۔ فہد نے پلٹ کر دیکھا تو اسے چھاکے کا چہرہ دکھائی دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے دیکھ لیا ہے۔ فہد وین میں خود جا کر بیٹھ گیاتوپولیس وین چل پڑی۔

پولیس وین تھانے کے باہر آ کر رکی تواس میں سے فہد اور پولیس والے باہر آئے۔ پولیس والے یوں فہد کو اپنے جلو میں لے کر اندر آئے جیسے وہ کوئی بہت بڑا مجرم ہو۔

تھانیدار حوالات سے سامنے آ کر رکا اور فہد کی طرف طنزیہ انداز میں دیکھ کر اونچی آواز میں بولا

’’اوئے رفیق۔ !چل جلد ی ذرا حوالات کھول اور ملزم کو ڈھک دے اندر۔ ‘‘

’’انسپکٹر۔ !میرا جرم کیا ہے مجھے کیوں گرفتار کر کے لائے ہو۔ ‘‘ فہد نے سکون سے کہا۔ اس کے لہجے میں خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اس پر تھانیدار نے اسے حقارت سے دیکھا اور طنزیہ لہجے میں بولا

’’ تُو بہت بھولا بن رہا ہے یار، تجھے اب بھی پتہ نہیں چلا تو نے کیا کیا ہے۔ ‘‘

’’میں نے کچھ کیا ہے یا نہیں کیا، میں تم لوگوں پوچھتا ہوں ، مجھے کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاکہ پھر بعد میں تم لوگوں کو یاد رہے کہ مجھے کیوں گرفتار کیا گیا تھا۔ ‘‘ فہد نے مسکراتے ہوئے کہا تو تھانیدار اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے بولا

’’اُو یار بتا دیتے ہیں۔ اتنی جلدی بھی کس بات کی ہے۔ ۔۔۔اوئے رفیق اُوئے، کدھر مر گیا ہے تُو۔ ‘‘

’’یہ غلط بات ہے انسپکٹر۔ !تم مجھے وجہ بتائے بغیر حوالات میں نہیں ڈال سکتے۔ ‘‘ فہد نے یوں کہا جیسے اسے چڑا رہا ہو۔ تبھی تھانیدار نے بھنّا ر کہا

’’تو پھر کیا کرے گا۔ ہائیں روئے گا، چلائے گایا ہمیں مار ڈالے گا۔ سن۔ !ابھی ہم چوہدری جلال ایم این اے صاحب کو تمہاری گرفتاری کا بتاتے ہیں نا تو وہ ہمیں بتائیں گے کہ تمہیں کس جرم میں پکڑا ہے۔ تم نے امین ارائیں کا قتل کیا ہے یا کروایا پھر تمہیں بتا دیں گے۔ ‘‘ اس پر فہد چونک گیا۔ اس پر قتل کا مقدمہ بنایا جا رہا تھا اس نے ایک لمحے کو سوچا پھر بولا

’’انسپکٹر۔ !ٹھیک ہے تو مجھے گرفتار کر کے لے آیا ہے لیکن اگر میرا جرم چوہدری نے ہی بتانا ہے تو پھر میری گرفتاری تمہیں مہنگی پڑے گی۔ اس وقت کو یاد کر کے پچھتاؤ گے کہ تم ہی مجھے گرفتار کر کے کیوں لائے۔ ‘‘

اتنے میں ایک سپاہی نے آ کر حوالات کا دروازہ کھول دیا۔ تو تھانیدار نے طنزیہ لہجے میں کہا

’’یار، یہ سودے بازی ہم پھر کریں گے۔ تو ابھی یہاں آرام کر، سکون کر یہاں۔ ‘‘

’’تم بھی سن لو اور اپنے چوہدری کو بھی بتا دینا۔ میرے لیے یہ چیزیں کوئی وقعت نہیں رکھتی ہیں۔ ‘‘ فہد نے کہا اور یہ کہتے ہوئے وہ خود حوالات میں داخل ہو گیا۔ سپاہی نے کنڈا مار کے تالا لگا دیا۔ فہد نے گھوم کر تھانیدار کو دیکھا تو وہ خباثت سے مسکرادیا۔ چند لمحے اس کی طرف دیکھتے رہنے کے بعد حقارت سے سر جھٹک کر باہر کی طرف چلا گیا۔ فہد ایک دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ فہد کو پتہ تو تھا کہ اس کے کیا ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اتنی جلدی ہو جائے گا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔

٭٭

 

قسمت نگر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ پولیس فہد کو پکڑ کر لے گئی ہے۔ جو بھی یہ خبر سنتا اس کا یہ سوال ضرور ہو تو کہ کیوں پکڑ کر لے گئی؟ اس کے جواب میں جو بات بتائی جاتی وہ سبھی کو حیران کر دیتی۔ کوئی یقین ہی نہیں کرتا تھا کہ فہد بھی امین ارائیں کو قتل کروا سکتا ہے۔ چوراہے میں ہر کوئی اسی بات کو لئے بیٹھا ہوا تھا۔

حنیف کی دوکان کے سامنے لوگ جمع تھے اور یہی باتیں کر رہے تھے۔ ایک آدمی انہیں بتا رہا تھا

’’یار سنا ہے فہد کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ سچ میں ایسا ہو گیا ہے۔ مجھے تو اب تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘

’’تو اور کیا۔ !ابھی یہاں میرے سامنے سے پولیس لے کر گئی ہے اسے۔ اس میں جھوٹ والی کیا بات ہے۔ ‘‘

’’لیکن اس نے کیا کیا تھا؟کیوں پکڑ کر لے گئی اسے پولیس۔ ‘‘ دوسرے آدمی نے پوچھا

’’یار تو عجیب بندہ ہے کیا تجھے نہیں پتہ جو بندہ بھی چوہدریوں سے مخالفت مول لیتا ہے اس بندے کی زندگی میں پر سکون رہ سکتی ہے بھلا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے اس کی عقل پر ماتم کرنے والے انداز میں کہا توتیسرا آدمی یقین سے بولا

’’ہاں یار۔ !اس فہد نے تو گاؤں میں آتے ہی پہلے دن موبے کو مار کر چوہدریوں کو للکار دیا تھا۔ پھر ایسا تو ہونا ہو تھا اب پتہ نہیں چوہدری اسے اتنے دن ڈھیل کیوں دیتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’یار۔ !اس کی لش پش بھی تو تھی نا، چوہدریوں نے دیکھا ہو گا وہ کتنے پانی میں ہے۔ اب اس پر ہاتھ ڈال دیا۔ چلا تھا اپنی زمین لینے اب بے چارہ جیل میں پڑا ہو گا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے کہا

’’عمر حیات کی زمین بھی اب اسے نہیں ملنے والی۔ وہ رقم بھی ڈوب گئی سمجھو چوہدری اس کا قبضہ ہی نہیں لینے دیں گے۔ ‘‘ ایک بندے نے اپنی رائے دی۔

’’وہ اب جیل سے باہر آئے گا تو قبضہ لے گا نا، نہ اپنی زمین ملی نہ عمر حیات سے خریدی زمین ملی۔ دونوں طرف سے ۔۔۔خیر ہمیں کیا۔ ‘‘ ایک آدمی نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا تو وہاں پر مختلف تبصرے ہوتے رہے۔ تبھی حنیف دوکاندار نے راز دارانہ انداز میں کہا

’’ تم سب کو پتہ ہی نہیں ہے کہ فہد پکڑا کیوں گیا ہے۔ آج ہی تھانیدار نے سراج سے کہا تھا کہ امین ارائیں کا قتل اس نے کروایا ہے۔ اسی جرم میں وہ پکڑا گیا ہے۔ ‘‘

وہاں پر موجود جس بندے نے بھی یہ بات سنی، اس نے دل سے یقین تو نہیں کیا لیکن منہ سے بھی کوئی لفظ نہیں کہا۔ اس انکشاف پر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور تتر بتر ہوتے چلے گئے۔

چوہدری جلال اپنی حویلی کے کاریڈور میں ٹہل رہا تھا۔ اس کے انداز سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بڑا پر سکون ہے۔ اتنے میں منشی آ گیا تو چوہدری نے اسے دیکھتے ہوئے بولا

’’ہاں بول منشی۔ !کیا کہتے ہو؟‘‘

’’پولیس نے فہد کو پکڑ لیا ہے اور حوالات میں بند بھی کر دیا ہے۔ تھانیدار پوچھ رہا تھا کہ ایف آئی آر میں کیا لکھنا ہے اور مدعی کسے بنانا ہے آخر قتل کا کیس اُس پر ڈالنا ہے۔ ‘‘

اس کے بتانے پر چوہدری جلال نے مسکراتے ہوئے فاتحانہ انداز میں کہا

’’ہونہہ۔ ! اس فہد نے تو ایک جھٹکا بھی نہیں سہا اور اب پڑا ہے حوالات میں۔ اب اسے وہاں سے نہیں نکلنے دوں گا۔ ‘‘

’’اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے ایویں دیر کرتے رہے، اسے علاقے کی فضا خراب کرنے کا موقعہ ہی نہیں دینا چاہئے تھا۔ ‘‘منشی فضل دین نے سر جھٹکتے ہوئے کہا

’’اوئے منشی، اندھیرے میں تیر چلانا فضول ہوتا ہے۔ ہدف کو اپنے نشانے پر لا کر جب تیر چلایا جاتا ہے نا تو وہ عین نشانے پر لگتا ہے۔ یہ تو ابھی اس کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں نے اس کے بارے میں بہت کچھ سوچ رکھا ہے۔ ‘‘چوہدری جلال نے حقارت سے کہا

’’جی چوہدری صاحب واقعی اب اسے پھڑکنے کا موقعہ نہیں ملنا چاہئے وہ تھانیدار کو پھر کیا بتاؤں جی میں ؟‘‘منشی نے پوچھا تو چوہدری جلال نے اکتائے ہوئے انداز میں کروفر کے ساتھ کہا

’’منشی۔ !تم یہ باتیں اچھی طرح جانتے ہو کہ کرنا کیا ہے بس اسے اب گاؤں میں واپس نہیں آنا چاہئے۔ ‘‘

’’ہاں یہ تو اسے کہہ دیا ہے۔ لیکن پھر بھی اسے اُلجھن ہے کوئی نہ کوئی مدعی تو اسے چاہیے ہو گا نا جی؟‘‘ منشی نے الجھتے ہوئے کہا

’’اُو یار۔ ! کبیر کو معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے، اس سے پوچھ۔ یہ کہہ کروہ خود کلامی کے سے انداز میں بولا، ’’ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے پیچھے آتا کون ہے۔ دیکھوں تو سہی اس کی پہنچ کہاں تک ہے اور وہ کتنے پانی میں ہے۔ ‘‘

’’جی میں نکے چوہدری صاحب سے ملتا ہوں۔ اب میں دیکھ لوں گا سب کچھ، اس کے بارے میں جو بات بھی ہوئی میں آپ کو بتا دوں گا۔ ٹھیک ہے چوہدری صاحب۔ !میں پھر تھانیدار کو فون کر دیتا ہوں۔ ‘‘

’’اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے مجھ سے مت پوچھا کر منشی۔ اب جا۔ مجھے کچھ سوچنے دے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو منشی جلدی سے پلٹ گیا اور چوہدری جلال پھر یونہی ٹہلنے لگا۔

٭٭

 

ماسٹر دین محمد اپنے گھر کے صحن میں پریشان بیٹھا ہوا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ سلمٰی اس کے پاس بیٹھی بے چین ہو رہی تھی۔ تبھی اس نے کہا

’’اب کیا ہو گا اباجی۔ !فہد کو پولیس والے۔۔۔‘‘

’’کچھ نہیں ہوتا پتر۔ !مجھے یہ ڈر تھا کہ ایک دن ایسا ہی ہونا ہے۔ چوہدری اسے یونہی ڈھیل نہیں دے رہے ہیں۔ آخر انہوں نے اپنا آپ دکھا دیا۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے افسردگی سے کہا توسلمٰی جلدی سے بولی

’’انہوں نے تو جو کرنا تھا کر لیا۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے اسے کس طرح پولیس کے چنگل سے نکالنا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر لمحہ بھر خاموشی کے بعد وہ ڈرتے ہوئے پوچھا، ’’آپ جائیں گے اباجی۔ ‘‘

’’ظاہر ہے پتر۔ !میں نے ہی جانا ہے۔ تم مجھے کچھ رقم دو میں جاتا ہوں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے سوچتے ہوئے کہا

’’اور اگر آپ کی بھی نہ سنی گئی؟‘‘ سلمی نے تشویش سے پوچھا توماسٹر دین محمد نے کہا

’’پتر۔ !میں اپنی طرف سے تو پوری کوشش کروں گا کہ فہد کو لے آؤں آگے اللہ مالک ہے۔ ہم تو اپنی سی کوشش ہی کر سکتے ہیں نا۔ ‘‘

’’میں لاتی ہوں۔ ‘‘ سلمی اٹھنے لگی تو اتنے میں دروازے پردستک ہوئی اور پھر ساتھ ہی سراج کی آوا ز آئی

’’استاد جی، میں ہوں سراج۔ ‘‘

’’آ جاؤ سراج۔ !‘‘ ماسٹر دین محمد نے جواباً کہا توسراج اندر آ کر ماسٹر دین محمد کے پاس بیٹھ گیا۔

’’وہ فہد کو۔۔۔‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہنا چاہا توسراج بولا

’’جی استاد جی۔ !۔ میں آپ کو یہی بتانے آیا ہوں کہ میں آ گیا ہوں اور اب تھانے جا رہا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں کچھ کرتا ہوں آپ گھر ہی میں رہیں۔ اور بس دعا کریں۔ ‘‘

یہ کہہ وہ اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔ ماسٹر دین محمد نے اسے نہیں روکا۔ وہ چلا گیا تو سلمٰی نے غصے میں کہا

’’چوہدری اب اپنا زور دکھائیں گے نا، انہوں نے کہا تھا کہ فہد کی زمین ہی اس کے گلے پڑ جائے گی۔ ‘‘

’’دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ تم نماز پڑھ کر اس کے لیے دعا کرو۔ میں بھی دعا کرتا ہوں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے سکون سے کہا توسلمیٰ چند لمحے یونہی کھڑی رہی، پھر پلٹ کر اندر کی طرف چلی گئی۔

سراج نے تھانے کے اندر آ کر دیکھا۔ حوالات میں فہد دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نگاہ سراج پر پڑی تو اٹھ کرسلاخوں کے پاس آ گیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے سراج سے پوچھا۔

’’کیا بنا۔ کوئی ملا یہاں پر۔۔۔یا سارے غائب ہو گئے ہیں ؟‘‘

وہاں صرف تھانے کا منشی بیٹھا ہوا ہے۔ میری تو وہ بات ہی نہیں سنتا۔ یہی کہہ رہا ہے کہ تھانے دار آئے گا تو جو بات کرنی ہے اسی سے کر لیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میرا خیال ہے کہ تھانیدار جان بوجھ کر یہاں سے چلا گیا ہے۔ ‘‘ سراج نے اس نے طرف دکھ کر سنجیدگی سے کہا

’’یہ محض تمہارا خیال نہیں ، حقیقت یہی ہے کہ اب وہ یہاں تھانے نہیں آئے گا۔ اب جو کرنا ہے ہمیں خود ہی کرنا ہو گا۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’تو پھر بتاؤ نا مجھے کیا کرنا ہے، کیا کروں ، کس کے پاس جاؤں۔ ‘‘ سراج نے تیزی سے پوچھا تو فہد بولا

’’ایک وکیل کا بندوبست کر کے فورا اسے یہاں لے آ۔ باقی میں ساری بات اسے سمجھادوں گا کہ کرنا کیا ہے۔ ‘‘

’’اس کے لیے تو نور پور جانا پڑے گا یہاں تو کوئی وکیل نہیں ہے، تم بھی جانتے ہو۔ ‘‘

’’تو جاؤ نا جتنی جلدی ہو سکے اسے یہاں لے آؤ۔ انہیں کچھ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ، تم جاؤ۔ ‘‘ فہد نے کہا

میں ابھی جاتا ہوں نور پور اورکسی وکیل کا بندوبست کر کے آتا ہوں۔ کیسی اندھیر نگری ہے یار۔ بنا جرم بتائے۔ گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا۔ ‘‘ سراج نے تاسف سے کہا فہد بولا

’’یار ان پولیس والوں کا کیا قصور ہے۔ یہ تو اپنی نوکر ی کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ انہیں کیا کہنا۔ ہمیں وکیل کی ضرورت ہے اس وقت۔ اور ہاں سن۔ !وہ گاؤں میں استاد جی کو پتہ چلا وہ پریشان تو ہوں گے۔ ‘‘

’’ہاں وہ بے چارے بہت پریشان ہیں۔ بہرحال میں انہیں آتے ہوئے تسلی دے آیا تھا۔ میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ پریشان نہ ہوں۔ لیکن پھر بھی وہ۔۔۔‘‘ سراج نے بتایا تو فہد بولا

’’ہاں وہ بے چارے کیا کر سکتے ہیں گھر میں بیٹھے پریشان ہونے کے سوا۔ خیر ذرا جلدی واپس آ جانا۔ ہو سکتا ہے۔ تھانیدار آ ہی جائے۔ ویسے مجھے امید نہیں ہے مجھے اس کا ارادہ یہ لگتا ہے کہ وہ کم از کم یہ رات مجھے یہاں رکھنا چاہتا ہے۔ ‘‘

’’میں جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔ ‘‘ اس نے تیزی سے کہا اور وہاں سے نکلتا گیا۔ فہد وہیں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔

ابھی شام ڈھلی تھی۔ فہد حوالات کی دیوار کے ساتھ لگا بیٹھا تھا۔ وہ ذہنی طور پر مطمئن تھا۔ فہد نے باہر دیکھا اور دھیرے سے مسکرادیا۔ حوالات کے باہر سپاہی اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ فہد نے اسے بلایا۔ وہ چلتا ہوا اس کے قریب آ گیا۔ سپاہی نے بڑے اچھے انداز میں پوچھا،

’’بڑے خوشگوار موڈ میں ہے تو باؤ؟‘‘

’’بس یا ر ایویں ہی سوچیں آ رہی تھیں۔ تو بتا وہ تیرا تھانیدار آئے گا یا نہیں ؟‘‘ فہد نے کہا

’’سچی پوچھو نا باؤ، وہ اب نہیں آنے والا۔ رات تجھے اب یہیں گذارنی پڑے گی۔ بتا کیا بات میں تجھے کوئی چیز تو نہیں چاہئے؟‘‘

اس کے پوچھنے پر فہد نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بڑا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا

’’ چیز تو کوئی نہیں چاہئے لیکن کیا تو کچھ کر سکتا ہے میرے لئے؟‘‘

’’تم کہو تو۔ ‘‘سپاہی نے نوٹ کی طرف دیکھ کر کہا تو فہد نے محتاط انداز میں کہا

’’ بس ایک کام کر دے میرا۔۔۔ وہ فون یہاں لے آ اور بس ایک فون کروا دے اور یہ تیرے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نوٹ اس کے سامنے گھمایا۔ سپاہی نے ایک نگاہ میز پر پڑے فون کی طرف دیکھا، چند لمحے سوچتا رہا، پھر نوٹ لے کر مسکرا دیا۔ سپاہی میز تک گیا اور وہاں پر پڑا فون اٹھا کر اس کے قریب لے آیا اور آہستگی سے بولا

’’دیکھ باؤ، جیسے ہی کوئی باہر سے آیا، اسی وقت فون ختم کر دینا۔ ‘‘

’’بس۔ ! دو منٹ اس سے زیادہ نہیں۔ ‘‘ فہد نے یہ کہتے ہوئے فون کار سیور اٹھا لیا اور نمبر ڈائل کرنے لگا، سپاہی باہر کی جانب چلا گیا۔

اس وقت محمود سلیم اپنے کمر ے میں بٹھا کتاب میں کھویا ہوا تھا۔ اس کے پاس پڑا سیل فون بج اٹھا۔ محمود سلیم نے اسکرین پر نمبر دیکھے اور فون اٹھا لیا اور کہا

’’ہیلو۔ !‘‘

’’پاپا، میں بات کر رہا ہوں فہد۔ ‘‘ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا تو محمود سلیم نے حیرت اور جذباتی انداز میں پوچھا

’’ تم فہد تم خیریت سے تو ہو نا؟‘‘

’’ہاں پاپا میں ٹھیک ہو، بس ذرا سی مشکل آن پڑی ہے۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ذرا سی مشکل ؟ تم تو ذرا سی مشکل سے گھبرانے والے نہیں ہے۔ بولو، کیا بات ہے؟فوراً بولو۔ ‘‘

’’پاپا، میرے پاس تھوڑا سا وقت ہے پولیس نے اچانک اسلحے کے زور پر مجھے گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا ہے وہ مجھ پر قتل ڈالنا چاہتے ہیں۔ تھانیدار سمجھیں چوہدری جلال کا زر خرید ہے۔ اس وقت میں حوالات سے بات کر رہا ہوں۔ ‘‘ اس نے تفصیل بتا دی

’’کون سے تھانے کی حوالات؟‘‘ محمود سلیم نے پوچھا

’’یہیں قسمت نگر کے۔ ‘‘ اس نے بتایا

’’یہ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہو کہ وہ تم پر قتل ڈالیں گے ؟‘‘محمود سلیم نے پوچھا

’’اسی انسپکٹر نے دبے لفظوں میں دھمکی لگائی ہے اور اپنے راستے سے ہٹانے کو یہ چوہدری جلال کا منصوبہ ہے۔ ‘‘ فہد نے بتاتا

’’کسی وکیل سے رابطہ کیا ؟‘‘ محمود سلیم نے پوچھا

’’ابھی تک تو نہیں ہوا۔ ‘‘ فہد نے بتایا

’’وہ قتل کیس ڈال رہے ہیں تم پر، خیر کوئی بات نہیں ، میں اسے دیکھتا ہوں۔ تم نے بالکل پریشان نہیں ہونا۔ میں سب ٹھیک کر لیتا ہوں۔ تم بس محتاط رہنا۔ ‘‘ محمود سلیم نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’پاپا میں بہت محتاط تھا۔ اچانک ہی انہوں نے۔۔۔‘‘ فہد نے بتانا چاہا لیکن اتنے میں سپاہی اس کے پاس آ گیا۔ فہد اسے دیکھا، سپاہی نے اشارہ کیا۔ تو فہد نے کہا، ’’اوکے پاپا، فون بند کرنا مجبوری ہے۔ ‘‘

’’اوکے اپنا خیال رکھنا۔ گھبرانا نہیں۔ میں سب سنبھال لوں گا۔ ‘‘ محمود سلیم نے کہا تو اس کے ساتھ ہی فہد نے فون بند کر دیا۔ سپاہی فون اٹھا کر چلا گیا۔ فہد حوالات کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔

فہد کی وہ رات حوالات میں گذر گئی۔ قسمت نگر پر اچھی خاصی دھوپ چمک رہی تھی۔ فہد حوالات میں تھا اور اس کی پاس سراج کھڑا باتیں کر رہا تھا۔

’’میں نے رات ہی وکیل کا بندوبست کر لیا تھا۔ مگر اس نے رات کے وقت یہاں آنے سے انکار کر دیا۔ اس نے آنے کا وعدہ کیا ہے، وہ ابھی کچھ دیر میں آتا ہو گا۔ کہہ رہا تھا کہ وقت پر پہنچ جائے گا‘‘

اس سے پہلے کہ فہد جواب دیتا، تھانیدار اندر آ گیا۔ اس نے رُک کر انہیں طنزیہ انداز میں دیکھا اور پھر ان کے قریب آ کر بولا

’’اوئے سراج کتنا پاگل ہے تو کیسے راز و نیاز کر رہا ہے تو اس کے ساتھ، جب تجھے پتہ چلے گا نا کہ یہ تیرا کتنا بڑا دشمن ہے، تب تیرا کیا حال ہو گا۔ مجھے تو یہی سوچ کر دکھ ہو رہا ہے۔ ‘‘

’’تیرے پاس کوئی ثبوت ہے۔ یا پھر تجھے چوہدریوں کی زبان بولنے کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ تیری اپنی سوچ ختم ہو گئی ہے۔ ‘‘ سراج نے تلخی سے کہا تو تھانیدار نے فہد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’میرے پاس ایسا پکا ثبوت ہے کہ جسے تم تو کیا کوئی بھی نہیں جھٹلا سکے گا۔ ابھی کچھ لمحوں ہی میں تجھے پتہ چل جائے گا۔ ‘‘

سراج نے پریشانی میں فہد کی طرف دیکھا۔ جسے وہ خود الجھن میں پڑ گیا۔

’’ایسا کیا ثبوت ہے تیرے پاس؟‘‘

سراج نے پوچھا تو تھانیدار نے جواب نہیں دیا بلکہ باہر کی طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں چاچا سوھنا نڈھال سا تھانے میں داخل ہوا ہے۔ تب تھانیدار نے فہد کی جانب اشارہ کر کے پوچھا

’’او چاچا دیکھ یہ ہی ہے نا وہ شخص، پہچان اسے اور بتا کون ہے یہ؟‘‘ چاچے سوہنے نے جھجکتے ہوئے کہا

’’ یہ فہد ہے، میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ ‘‘

’’او چاچا، وہ تو ٹھیک ہے، لیکن یہ بتا کہ امین کے قتل کا اس سے کیا تعلق ہے۔ ‘‘ تھانیدار نے کہا

’’اس نے امین کا قتل کیا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس نے امین کو فائر مارا ہے یہاں۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا توسراج نے بری طرح چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ فہد کی آنکھوں میں بھی حیرت اتر آئی تھی۔

چاچے سوہنے نے تھانیدار کی طرف دیکھ کر مرے ہوئے لہجے میں کہا

’’یہ فہد۔ !امین ارئیں سے کہہ رہا تھا کہ چوہدری کبیر کے خلاف بیان دے ورنہ تجھے مار دوں گا۔ ایسی ہی کوئی بات چل رہی تھی ان کے درمیان۔ ‘‘

تھانیدار نے طنزیہ انداز میں ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’کتنا بھولا ہے سراج ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے چاچے سوہنے سے کہا، ’’تو آ چاچا بیان لکھوا پنا، کیسے دیکھا تھا اسے تو نے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔ سراج کی حالت پاگلوں جیسی ہو گئی۔ اس نے انتہائی غصے میں فہد کی طرف دیکھا پھر غصے اور بے بسی کے ملے جلے جذبات میں کہا

’’یہ کیا کیا تو نے فہد میرے۔۔۔ ہی بھائی کو مار دیا تو نے۔۔۔ ایسا کیوں کیا؟ کیوں کیا تو نے ایسا؟‘‘

’’یہ بہت بڑی سازش کر رہے ہیں سراج۔ اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں ایسا کیوں کروں گا یار۔ پاگل مت بنو اس سازش کو سمجھو۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو سراج نے انتہائی تلخی سے کہا

’’مجھے اپنا یار مت کہہ فہد۔ ! تو آستین کا وہ سانپ ہے جو اپنے پالنے والے کوڈس لیتا ہے میں پوچھتا ہوں کہ تیرا اس نے بگاڑا ہی کیا تھا، کیوں کیا تو اسے قتل؟وہ چشم دید گواہ تیرے ہی یار کا باپ ہے۔ وہ کیوں جھوٹ بولے گا تیرے خلاف۔۔۔ وہ تیرے سامنے کہہ گیا ہے کہ تو امین کا قاتل ہے، قاتل۔ ‘‘ سراج نے اونچی آواز میں کہا۔ غصے کی شدت میں سراج کی آواز پھٹ گئی۔ اس نے فہد کو سلاخوں میں سے پکڑنے کی کوشش کی کہ سپاہی نے اسے آ کر پکڑ لیا۔

’’اُوئے چل ہٹ ادھر۔ ‘‘

اس نے سراج کو دھکیل کر ایک طرف کیا تو اس نے فہد کی دیکھ کر کہا

’’ان لوگوں سے تو اگر بچ بھی گیا نا تو میں تجھے مار دوں گا۔ نہیں چھوڑوں گا۔ یاد رکھ نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔ ‘ ‘ سپاہی اسے دھکیل کر باہر کی جانب لے گیا۔

تھانیدار دور بیٹھا فہد کی طرف دیکھ کر ہنستا رہا۔ پھر چاچے سوہنے سے کہا

’’اُو چاچا لگا یہاں اپنا انگوٹھا اور کر دے پکی اپنی بات۔ ‘‘

تھانیدار نے سفید کاغذ اس کے سامنے رکھا اور اس پر انگوٹھا لگوا لیا۔ اس نے کاغذ کی طرف دیکھا پھر فہد کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگا دیا۔ فہد نے غصے میں اس کی طرف دیکھا۔ اس کا خون کھول اٹھا تھا۔

٭٭

 

حویلی کے ڈرائینگ روم میں چوہدری جلال اور وکیل دونوں ڈرائنگ روم میں صوفوں پر بیٹھے خوشگوار ماحول میں باتیں کر رہے تھے۔ چوہدری جلال نے سنجیدہ لہجے کہا

’’یہ اچھا کیا آپ نے وکیل صاحب کہ آپ فوراً ہی یہاں آ گئے، ورنہ ایسی باتیں فون پر تو نہیں کی جا سکتی نا۔ ‘‘

’’آپ کا پیغام ملا تو میں فوراً آ گیا۔ باقی مجھے منشی نے ساری بات بتا دی ہے۔ آپ فرمائیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟‘‘ وکیل نے پوچھا

’’بس یہی کہ اس لڑکے نے یہاں خاصا اودھم مچایا ہوا تھا۔ خوامخواہ ڈسٹرب کر رہا تھا۔ اسے آج عدالت لے جائیں گے۔ ایک تو میں چاہتا ہوں کہ اس کا جسمانی ریمانڈ زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ اسے کچھ تھوڑی بہت نصیحت تو دی جا سکے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا تو وکیل بولا

’’جی بالکل ایسے ہی ہو گا۔ ‘‘

’’اور دوسرا اس کی اب قطعاً ضمانت نہیں ہونی چاہئے۔ چشم دید گواہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو جو چاہئے وہ بتا دیں۔ وہ ہو جائے گا۔ کسی طرح بھی کوئی قانونی کمزوری نہیں ہونی چاہئے۔ وہ اب مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چاہیے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے حتمی انداز میں کہا

’’میں ابھی تھانیدار سے بات کر لیتا ہوں۔ اور جو بھی ضروری لوازمات ہوئے وہ میں خود پورے کر لوں گا۔ اب آپ بے فکر ہو جائیں۔ ‘‘ وکیل نے یقین دلایا

’’مجھے آپ پر اعتماد ہے۔ خیر۔ ! وہ میں چند دن سے سوچ رہا تھا کہ آپ سے مشورہ کروں اپنے کبیر پتر کے بارے میں سیاست میں لے ہی آؤں۔ اور کچھ نہیں تو اس دفعہ الیکشن میں ایم پی اے تو بن ہی جائے گا۔ سیاست میں آئے گا تو کچھ دنیا داری کی سوجھ بوجھ بھی آئے گی نا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’نکے چوہدری کو ایم پی اے بنوانا تو آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ جس پر ہاتھ رکھتے ہیں وہ اسمبلی ممبر بن جاتا ہے۔ میرے لائق جو حکم ہے وہ بتائیں ، میں کیا کر سکتا ہوں۔ ‘‘ وکیل نے انکساری سے کہا

’’میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کے معاملات دیکھ لیا کریں۔ وہاں نور پور کے لوگوں میں اسے سیاسی طور پر متعارف کروائیں۔ کبیر کو کوئی سیاسی سوجھ بوجھ دیں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ اس نے یہاں سارا وقت کھیل کود میں گزارا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا

’’میں سمجھ گیا چوہدری صاحب یہ کوئی اتنا مشکل معاملہ نہیں ہے۔ بس نکے چوہدری صاحب نور پور میں تھوڑا وقت دیا کرے۔ میرے پاس آ جایا کرے۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ’’آپ کے سامنے کوئی سیاسی مخالف تو ہے نہیں وہ ایک بے چارہ ملک نعیم ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی آپ سے دو بار الیکشن ہار کے تھک چکا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں۔ ! میری اجازت کے بغیر تو اب وہ بے چارہ لوکل کونسلر بھی نہیں بن سکتا، ویسے کیا کرتا ہے وہ آج کل۔ اس نے سیاسی منظر پر تو کیا ہونا ہے، اس بے چارے کے بارے میں کبھی کچھ سنا بھی نہیں۔ ‘‘چوہدری جلال ہلکا سا ہنس کر بولا تو وکیل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا

وہ ہو گا اور مسجد ہو گی اور اس نے کیا کرنا۔ ‘‘

وکیل اور چوہدری دونوں ہنسنے لگے۔ چند لمحے بعد وکیل نے اٹھتے ہوئے کہا

’’لیں چوہدری صاحب اب اجازت دیں مجھے تھانیدار سے بھی ملنا ہے۔ پھر نور پور بھی پہنچنا ہے اور وقت پر عدالت بھی جانا ہے۔ ‘‘

’’چلیں ٹھیک ہیں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا اور اس سے ہاتھ ملایا وکیل باہر کی جانب گیا۔ چوہدری اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

چوہدری جلال ڈرائنگ روم میں ہی تھا کہ رانی نے اس کے سامنے چائے لا کر رکھ دی۔

’’چائے بنا دوں ؟‘‘ ٹرے رکھ کر رانی نے پوچھا

چوہدری جلال ابھی جواب نہیں دے تھا کہ اندر سے چوہدری کبیر وہاں آ گیا۔ چوہدری جلال نے اسے دیکھ کر کہا

’’اوئے کبیر۔ ! ادھر آ بیٹھ میرے پاس، کہاں جا رہا ہے؟‘‘

وہ آ کر بیٹھ گیا تو رانی خود بخود چائے بنانے لگی۔

’’بابا میں ضرور آپ کے پاس بیٹھتا مگر وہ فہد نا اسے۔۔۔‘‘ چوہدری کبیر نے کہنا چاہا تو چوہدری جلال حقارت بھرے انداز میں بولا

’’ اُو۔ ! تو پریشان نہ ہو۔ وہ آیا تھا وکیل، میں نے اسے سمجھا دیا ہے۔ وہ عدالت میں سب دیکھ لے گا۔ تو سکون سے بیٹھ۔ ‘‘

اس دوران رانی نے چائے بنا کر پیالی چوہدری جلال کے سامنے رکھ دی۔

’’اسے ریمانڈ پر یہاں تھانے میں لانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ۔۔۔‘‘چوہدری کبیر نے کہنا تو چوہدری جلال اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا

’’ کہا نا میں نے فہد جیسے سانپ کو مارنے کے سارے منتر اسے سمجھا دئیے ہیں۔ اسے کہتے ہیں سیاست، قتل ہم نے کیا اور ڈال فہد پر دیا۔ یہ ٹھنڈے دماغ کا کام ہے بیٹا۔ ‘‘

رانی چونک گئی۔ چائے کی پیالی چوہدری کبیر کو دیتے ہوئے اس کا ہاتھ ذرا سا لرز گیا۔ مگر باتوں میں باپ بیٹے نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ چوہدری کبیر اپنی دھن میں کہہ رہا تھا

’’پر بابا سیاست بھی تو طاقت کے بغیر نہیں ہو سکتی نا۔ یہ کہتے ہوئے کبیر نے چائے کی پیالی پکڑ لی تو رانی وہاں سے چلی گئی۔ چوہدری جلال اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا۔

’’ ساری زندگی یہی کھیل کھیلے ہیں بیٹا۔ سیاست کے لیے بڑا ٹھنڈا ہونا پڑتا ہے۔ دشمن کو گھیر کر وہاں لے آؤ، جہاں اسے قابو کر سکتے ہو۔ یہی سیاست ہے۔ اندھا دھند طاقت کا استعمال تو قوت کو ضائع کرنے والی بات ہے نا بیٹا۔ ‘‘

’’بابا۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ لیکن آپ یہ مانیں کہ آپ نے فہد کو کچھ زیادہ ہی وقت دے دیا تھا۔ اب تو وہ بچ نہیں سکتا۔ ‘‘ چوہدری کبیر کی سوئی فہد پر اٹکی ہوئی تھی۔

’’ہاں ، کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔ وہ بدکا ہوا بہت تھا، اس لیے اسے گھیرنے میں وقت لگ گیا۔ لیکن اب جو اس کا بندوبست کیا ہے، وہ پکا ہے۔ اور ہاں وہ تھانیدار بہت منافق بندہ ہے اس پر ضرور نگاہ رکھنا وہ کسی بھی وقت ہمیں دھوکہ دے سکتا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اسے پھر سمجھایا

’’جی بابا۔ میری پہلے ہی اس پر نظر ہے۔ میں نے اسے قابو ہی اس طرح کیا ہوا ہے۔ وہ ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اگر دے گا تو جان سے جائے گا۔ ‘‘

’’خیر۔ ! وہ وکیل آیا تو میں نے اس سے تمہارے بارے میں مشورہ کیا۔ تاکہ تمہیں سیاست میں لایا جائے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے بتایا اور دونوں چائے پیتے ہوئے اسی موضوع پر گفتگو کرنے لگے۔ رانی افسردہ سی دیوار کے ساتھ لگی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ اسے یہ جان کر بہت دکھ ہوا تھا کہ امین ارائیں کا قتل تو انہوں نے کروایا اور پھنسا فہد کو دیا۔ وہ وہاں سے ہٹ کر اندر چلی گئی۔

٭٭

 

ایک فہد کے حوالات میں جانے سے کیا کچھ ہو گیا تھا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ قسمت نگر میں فہد کا ایک تاثر بن چکا تھا۔ لوگ اس پر اعتماد کرنے لگے تھے۔ لیکن یہ اعتماد بکھر رہا تھا۔ جس نے بھی فہد کے ساتھ امید باندھی تھی، وہ ایک بار تو خوف زدہ ہو گیا تھا۔ لوگوں کی سوچ بدلنے لگی تھی۔

چوراہے میں حنیف دوکان دار کی دوکان پر لوگ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا

’’یار، ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ امین کو فہد نے قتل کیا ہے۔ امین کی تو فہد کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔ وہ تو پہلے ہی چوہدریوں کے خلاف عدالت میں جانے کے لیے ان کی مدد کر رہا تھا۔ ‘‘

’’یار۔ یہ بات تو تیری سمجھ میں آتی ہے نا تھانے اور کچہریاں ان چوہدریوں کی ہیں۔ چوہدریوں کے خلاف فہد کے پاس کوئی پکا ثبوت نہیں تھا۔ اس نے خود امین کا قتل کر کے نکے چوہدری پر ڈال دیا۔ یہ چاچے سوہنے نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ جس نے خود اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا تھا۔ ‘‘حنیف دوکاندار نے انہیں سمجھایا

’’ہاں یار۔ اگر چاچا سوہنا نہ دیکھتا تو نکا چوہدری اب تک پھنس چکا ہوتا۔ فہد نے تو سراج کو ان چوہدریوں کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ ‘‘

’’تو دیکھ اس فہد کی چالیں ، کس طرح منہا میسنا بن کر لوگوں کی ہمدردیاں لے کر عمر حیات والی زمین لی اور اب اپنی زمین واپس لے رہا تھا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے یقین بھرے لہجے میں کہا

’’اب ہو گا کیا؟‘‘ وہیں بیٹھے ایک آدمی نے پوچھا تو حنیف دوکاندار بولا

’’اب ہونا کیا ہے۔ ‘‘ فہد کو عدالت میں پیش کر یں گے۔ پھر اسے جیل بھیج دیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا پھر مقدمہ چلے گا۔ اور پتہ نہیں اس کا فیصلہ کب ہو گا۔ ‘‘

’’ویسے یار چوہدری تو چوہدری ہیں ، ان کا بھلا کیا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ ایک آدمی نے کہا

’’ہاں یہ تو ہے، وہ جدی پشتی طاقت ور لوگ ہیں۔ یہ کل کے لڑکے ان کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے حقارت سے کہا

’’چل چھڈ یار تو مجھے سودا دے۔ میں وہ لے کر گھر جاؤں۔ ‘‘ وہیں کھڑے ایک گاہک نے کہا تو حنیف دوکاندار اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔

’’بتا کیا لینا ہے۔ ‘‘

وہاں پھر موجود لوگ اپنی عقل اورسمجھ کے مطابق باتیں کرنے لگے۔ فہد کے لئے سب میں مایوسی تھی۔

سراج کا ڈیرہ ویران تھا۔ سراج تنہا ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا بے حد جذباتی ہو رہا تھا۔ اسے تھانیدار کی کہی ہوئی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ اس نے کہا تھا

’’اوئے سراج کتنا پاگل ہے تو۔۔۔ کیسے راز و نیاز کر رہا ہے اس کے ساتھ ۔۔۔جب تجھے پتہ چلے گا نا کہ یہ تیرا کتنا بڑا دشمن ہے۔۔۔ تب تجھے پتہ چلے گا۔ ‘‘

دوسری طرف اسے فہد سچا لگ رہا تھا۔ اس کی بات بھی دماغ میں گھوم رہی تھی

’’کل ضرور عدالت میں چلیں گے مگر اس قتل کیس کے لیے جس کی گواہی امین دینا چاہتا تھا اسے ری اوپن کروانا ہے۔ چاچے عمر حیات والی زمین کدھر جا رہی ہے وہ لے لیں گے۔ پہلے امین سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کرنا ہے۔ ‘‘

تبھی اسے چاچا سوہنا اور اس کی بات یاد آ گئی۔

’’اس نے امین کا قتل کیا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس نے امین کو فائر مارا ہے۔ ‘‘

سراج ایک دم ہی سے بے چین ہو گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ چاچے سوہنے کے علاوہ کوئی اور بات کرتا تو شاید وہ بھروسہ نہ کرتا۔ اس نے تھانیدار کی بات پر بھی یقین نہیں کیا تھا۔ چاچے سوہنے نے اس کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں تھیں۔ اس نے اپنا سر پکڑ لیا اور نہایت دکھ سے بڑبڑایا

’’یہ تو نے اچھا نہیں کیا فہد، میں اب تجھے نہیں چھوڑوں گا تو نے میرے اعتماد کو دھوکہ دیا ہے۔ نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اضراری انداز میں دونوں ہاتھوں کو مسلنے لگا۔

بابا نعمت علی اپنے گھر کے صحن میں پریشان بیٹھا ہوا تھا۔ ایسے میں اس کا بیٹا نذیر اس کے پاس آ کر دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا جہاں نذیر کی بیوی صفیہ بھی بیٹھی تھی۔ اپنے باپ کو پریشانی کی حالت میں بیٹھا دیکھ کو پوچھا

’’ابا کیا بات ہے اتنا پریشان کیوں ہے؟‘‘

’’پریشانی والی بات تو ہے نا پتر، وہ فہد اندر ہو گیا ہے پولیس اسے پکڑ کر لے گئی ہے۔ اس پر اب قتل کیس پڑ گیا ہے۔ پتہ نہیں اب باہر کب آتا ہے۔ ہم نے اس سے فصل کی رقم بھی لے لی ہے کیا کریں۔ ‘‘ نعمت علی نے کہا

’’ابا کہتا تو ٹھیک ہے۔ اب یہ چوہدری ضرور ہمیں بھی تنگ کریں گے۔ ‘‘ نذیر نے تشویش سے کہا

’’اُوئے تنگ نہیں ، وہ تو ہمیں ذلیل کر کے رکھ دیں گے میں نے کیا سوچا تھا۔ اب ہو کیا گیا ہے۔ ‘‘ نعمت علی نے تاسف سے کہا تو صفیہ بولی

’’ہاں بابا تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ چوہدری تو بہت غصے ہوں گے۔ ‘‘

’’کیوں نہ ابا، ہم چوہدری سے معافی مانگ لیں۔ اتنا ڈرنے کی ضرورت کیا ہے۔ اگر اس نے ناراض ہونا ہوتا تو اب تک ہم سے بات کر چکا ہوتا۔ ‘‘نذیر نے کہا

’’او نہیں پتر۔ ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ابھی تو ان کی ساری توجہ فہد کی طرف ہے۔ ‘‘ نعمت علی بولا

’’بابا تو آرام سے سوچ۔ نذیر ابھی سوچتا ہے۔ میں بھی سوچتی ہوں۔ کوئی نہ کوئی حل تو نکل آئے گانا؟‘‘ صفیہ نے تسلی دینے والے انداز میں کہا

’’اب جو ہو گا، وہ تو بھگتنا پڑے گا۔ ممکن ہے اللہ سائیں کوئی راستہ نکال دے۔ ‘‘ نعمت علی نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا تو نذیر بولا

’’تو فکر نہ کر اباسب ٹھیک ہو جائے گا۔ کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے۔ تو آرام کر۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا تو صفیہ بھی اٹھ گئی۔ نعمت علی سوچ میں پڑ گیا۔ اب ان حالات میں وہ کیا کرے۔

ماسٹر دین محمد اپنے گھر کے دالان میں اُجلے کپڑے پہنے بیٹھا ہوا تھا۔ تاہم وہ بے حد پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں سلمی چائے کا پیالہ لے کر اس کے پاس آئی۔ ماسٹر دین محمد نے بے دلی سے پیالہ پکڑا تو سلمی اس کے قریب بیٹھ گئی۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی

’’ابا جی، آپ مایوس کیوں ہو رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے گا آپ کسی سے ملیں۔ کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آئے گی۔ ‘‘

’’کس کے پاس جاؤں پتر، دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم یہاں ہوتے ہوئے بھی اس کی کوئی مدد نہیں کر پا رہے ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ سراج سمجھ دار ہے لیکن۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر وہ دونوں ہاتھوں سے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کچھ کہہ نہیں پایا۔ اس کے چہرے پر دکھ کے گہرے تاثرات پھیل گئے تھے۔

’’یہی تو چوہدریوں نے سازش کی ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ فہد کسی کا قتل کرے اور وہ بھی امین کا۔ انہوں نے انتہائی چالاکی سے سراج کو فہد سے الگ کر دیا ہے۔ الگ کیا، دشمن بنا دیا ہے۔ بڑی گہری سازش کی ہے انہوں نے۔ سلمی نے بے حد جذباتی ہو کر کہا

’’ہاں ، وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اصل میں وسائل سارے انہی کے قبضے میں ہیں نا، ان کا استعمال وہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ خیر میں جاتا ہوں نور پور اور وہاں جا کر کسی کی مدد لیتا ہوں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا

’’اللہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکالے گا۔ اس کا مجھے بھروسہ ہے، آپ مایوس نہ ہوں۔ ‘‘ یہ کہ کر وہ خاموش ہو گئی پھر بڑے ہی جذباتی لہجے میں بولی، ’’ کاش میں لڑکا ہوتی اور اب بھی ابا جی اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں جاتی ہوں تھانے اور۔۔۔‘‘

ماسٹر دین محمد نے سلمی کی بات سنی تو حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ کس قدر کہتے کہتے خاموش ہو گئی تھی۔ تبھی وہ بولا

’’تو کیا کرے گی وہاں جا کر؟

’’اور کچھ نہ کر سکی تو کم از کم فہد سے یہ تو پوچھ سکتی ہوں کہ اب کیا کرنا ہے۔ میں ایک لڑکی ہوں تو کیا ہوا، کیا میں اس مصیبت کی گھڑی میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی؟ آپ میرے ساتھ چلیں تھانے یا پھر مجھے جانے کی اجازت دیں۔ ‘‘ سلمی بے حد جذباتی ہو گئی تھی

’’دیکھ میرا پتر وہاں کا تھانیدار کوئی اچھا بندہ نہیں ہے۔ تیرا وہاں جانا ٹھیک نہیں۔ تیرے جانے سے کیا ہو جائے گا۔ میں کرتا ہوں نا کوشش، جاتا ہوں نا میں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے منہ کے قریب پیالی لے جاتے ہوئے رکھ دی۔

’’ابا جی آپ میری بات کا برا محسوس نہیں کریں گے۔ یہاں فہد کا ہمارے سوا ہے کون؟ ہمی نے اس کے لیے کچھ کرنا ہے جیسے بھی ممکن ہو۔ ورنہ وہ تو چاہتے ہیں کہ فہد کو جیل بھجوا دیں تاکہ وہ جو اُن کی راہ میں دیوار بن گیا ہے اسے گرا دیں۔ ‘‘ سلمی نے لجاجت سے کہا

’’نہیں پتر۔ ! تو نے پریشان نہیں ہونا میں دیکھتا ہوں نا میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا۔ تو نے بس اپنا خیال رکھنا ہے۔ میں چلتا ہوں ، دروازہ بند کر لو۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے ماسٹر دین محمد کافی افسردہ انداز میں اٹھ گیا۔ سلمی نے بے بسی کے انداز میں اپنے باپ کو دیکھا اور اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ گیٹ پار نہیں کر گیا۔ اس نے دروازہ لگایا اور اندر آ گئی۔ اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اچانک اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ وہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دل سے دعا مانگ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ بند تھے لیکن اس کے اندر شور تھا۔ وہ کہہ رہی تھی۔

’’اے میرے پروردگار۔ !اے اپنی حفاظت میں رکھنے والے مالک کل کائنات، تو فہد کو اپنی حفاظت میں رکھنا۔ مجھے یقین ہے تو ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ تو نے ہی فہد کو ہمارے لیے وسیلہ بنا کر بھیجا ہے پروردگار۔ !ہم اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے لیکن تجھ سے مدد تو مانگ سکتے ہیں نا۔ اسے قدرت والے قادر۔ !تو فہد کی حفاظت فرمانا۔ اسے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھنا۔ تو جانتا ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔ اے اللہ اسے ان ظالموں سے بچانا جو نہیں چاہتے کہ لوگ امن و سکون سے رہیں۔ اے اللہ۔ ! تو فہد کی حفاظت فرمانا (آمین)۔ یہ دعا مانگ کر وہ پر سکون ہو گئی، جیسے دل پر سے بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ وہ چند لمحے بیٹھی رہی۔ پھر اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔

٭٭

 

فہد حوالات کے اندر بیٹھا ہوا باہر دیکھ رہا تھا کہ تھانیدار بے چینی سے ٹہل رہا ہے۔ اتنے میں اس کی نگاہ سامنے پڑی۔ ماکھا تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کی طرف آ رہا تھا۔ وہ قریب آیا تو تھانیدار نے اکتائے ہوئے لہجے میں ڈانٹتے ہوئے کہا

’’اُوئے جلدی آ اوئے، اتنی دیر لگا دی تو نے۔ ’’مجرم‘‘ کو عدالت بھی تو لے کے جانا ہے۔ ‘‘

’’اُو سرکار۔ ہم تو حکم کے غلام ہیں جیسے ہی نکے چوہدری نے یہ امانت دی، لے کر آ گیا ہوں ، یہ لیں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ماکھے نے اپنی جیب میں سے رومال میں لپٹی ہوئی چیز اس کے سامنے کر دی۔ تھانیدار نے اسے کھولا تواس میں ریوالور تھا۔ جسے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے اس نے کہا

’’اچھا تو یہ ہے آلہ قتل۔ ‘‘ پھر فہد کی طرف منہ کر کے بولا، ’’اس ریوالور سے فہد نے امین کو قتل کیا۔ ‘‘

اس پر فہد نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر ہلکے سے مسکرا دیا۔ اس نے فہد کو پھنسانے کا پورا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔ تبھی فہد نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’بہت مہنگا پڑے گا تمہیں انسپکٹر، اتنی ہی اُڑان اُڑ، جتنی تو اُڑ سکتا ہے۔ ‘‘

’’چشم دید گواہ بھی موجود ہے اور آلہ قتل بھی مل گیا ہے۔ اب تجھے لے کر چلتے ہیں عدالت، وہاں سے لیں گے تیرا ریمانڈ اور پھر لے آئیں گے تجھے یہاں اور پھر جو تیرے ساتھ ہو گا۔ تو یاد رکھے گا۔ سب کچھ قانونی ہو گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر تھانیدار نے قہقہہ لگا دیا۔ جس میں ماکھے کا ہلکا سا قہقہہ بھی شامل تھا

’’جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے، میں مانتا ہوں کہ اس قسمت نگر میں اندھیر نگری ہے۔ لیکن قسمت کے فیصلے کیا ہیں ؟یہ کوئی نہیں جانتا۔ ‘‘ فہد نے خود اعتمادی سے کہا

’’لیکن اس وقت تیری قسمت کا فیصلہ تو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے قریب کھڑے سپاہی کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ چل اوئے نکال اسے، لگا اس کو ہتھکڑی اور لے چلیں اس عدالت، پھر واپس بھی آنا ہے۔ ‘‘

تھانیدار حکم دے کر اپنی میز کی جانب بڑھ گیا۔ سپاہی حوالات کا دروازہ کھولنے لگا۔ ماکھا کینہ توز نگاہوں سے فہد کو دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ فہد نے انتہائی سنجیدگی سے انہیں دیکھا، جیسے وہ بے چینی محسوس کر رہا ہو۔

کاغذی کاروائی کے بعد انہوں نے فہد کو ہتھکڑی لگائی۔ تھانیدار اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ انداز میں ہنسا اور اپنی ٹوپی اٹھا کر اٹھ گیا۔ اس وقت تھانیدار کے ساتھ سپاہی، فہد کو لگی ہتھکڑی پکڑے تھانے کے اندرونی دروازے سے باہر آئے۔ انہی لمحات میں وہ تینوں ہی سامنے دیکھ کر چونکتے ہوئے رک گئے۔

تھانے میں ایک پولیس جیپ آ کر رکی تھی۔ اس میں بیٹھا ہوا جعفر غضب ناک نگاہوں سے سامنے دیکھ رہا تھا۔ وہ اے ایس پی کی وردی میں تھا۔ وہ جیپ سے اترتا ہوا ان کی جانب بڑھا۔ اس کے ساتھ ہی پولیس فورس تھی۔ فورس میں بہت سارے چہرے وہی تھے جنہیں تھانے دار بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ ان سب کو دیکھ کر تھانیدار ایک لمحے کو گھبرا گیا۔ اس نے فوراً ہی سیلوٹ کیا تو سپاہی نے بھی سیلوٹ مار دیا۔ جعفر نے انہیں غضب ناک نگاہوں سے دیکھا۔ وہ فہد سے قطعاً اجنبیت برت رہا تھا جیسے اسے جانتا ہی نہ ہو۔ فہد کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اتنے میں ایک اے ایس آئی تیزی سے آگے بڑھا اور تھانیدار کے پاس آ کر بولا

’’ ہمارے نئے اے ایس ہی صاحب۔ ‘‘

جعفر نے قریب آ کر انتہائی رعب دار انداز میں پوچھا

’’کون ہے یہ ملزم؟ اور اسے کہاں لے کر جا رہے ہو؟‘‘

’’سر۔ ! قتل کیا ہے اس نے، آلہ قتل بھی برآمد ہو گیا ہے، ریمانڈ کے۔۔۔‘‘ تھانیدار نے تیزی سے کہا

’’اسے بٹھاؤ ادھر، پہلے میں تفتیش کروں گا، پھر اسے لے کر جانا اس کی ہتھکڑی کھولو اور اسے کرسی پر بٹھاؤ۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو تھانیدار بولا

’’سر جی بڑا خطرناک مجرم ہے، ہتھکڑی کیسے۔۔۔‘‘

’’انسان بن، اور وہ کام کر جو میں کہہ رہا ہوں۔ یہ میرا طریقہ ہے۔ چل۔ ‘‘ جعفر نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا تو سپاہی نے جلدی سے فہد کی ہتھکڑی کھول دی۔ وہ انہیں اس جگہ لے گیا جہاں تھانیدار کی میز تھی۔ جعفر اس کی کرسی پر بیٹھ کر تھانیدار سے بولا۔ ’’ چل اب کتابیں لا جن میں اس مقدمے کا اندراج کیا ہے۔ چل شاباش۔ ‘‘

تھانیدار نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ تھانیدار جلدی سے کتابیں لے آیا۔ جعفر میز کے عقب میں پڑی کرسی پر بیٹھا ہوا کتابیں دیکھنے لگا۔ تھانیدار کو اس نے سامنے کھڑا کیا تھا اور فہد کو اس نے کرسی پر بٹھا دیا تھا۔ اس نے کتابیں دیکھ کر تھانیدار سے پوچھا

’’یہاں روز نامچے میں کچھ درج نہیں۔ تجھے اتنی جلدی ہے اسے عدالت لے جانے کی۔ پرچہ نامعلوم کے خلاف ہے تو اسے عدالت لے کر جا رہا ہے؟‘‘

اس دوران فہد کے سامنے وہی سفید کاغذ آ گیا، جس پر چاچے سوہنے کا انگوٹھا لگا ہوا تھا۔ اس نے جعفر کی توجہ اس کی طرف دلائی۔ جعفر نے اس سفید کاغذ کو دیکھا تو فہد نے کہا

’’یہ چشم دید گواہ کا بیان ہے۔ ‘‘

اس پر جعفر نے انتہائی غصے اورسخت لہجے میں پوچھا

’’ اوئے یہ کیا ہے اوئے، اس کا مطلب ہے تو جھوٹا قتل ڈال رہا ہے اس پر، تجھے شرم نہیں آتی۔ اس لیے تجھے جلدی تھی عدالت جانے کی۔ سن اب یہی کاغذ تیرے گلے کا پھندا بنا دوں گا۔ ورنہ تو جانتا ہے کہ تو نے کیا کرنا ہے۔ ‘‘

’’صاحب جی یہ کاغذی کاروائی ہے باقی آپ جیسے کہو گے، ہو گا تو وہی نا جی۔ ‘‘ تھانیدار نے لجاجت سے کہا۔ وہ اسی لمحے بدل گیا تھا۔

’’تُو چل ذرا ادھر ہو کر بیٹھ، میں ابھی تجھ سے بات کرتا ہوں۔ ‘‘ جعفر نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ تھانیدار وہاں سے ہٹ کر کچھ دور بیٹھ گیا تو جعفر نے اسی سپاہی کو بلا لیا۔ وہ ڈرتے ڈرتے قریب آ کر کھڑا ہوا۔

’’ جی سر۔ !‘‘

’’ اوئے جی سر کے بچے، نوکری کرنی ہے یا اس کے ساتھ جیل جانا ہے، فوراً بتا؟‘‘ جعفر کے پوچھنے پر وہ سپاہی ایک دم سے گھبرا گیا، اس نے جلدی سے کہا

’’ جی کرنی ہے مائی باپ، نوکری کرنی ہے۔ ‘‘

’’تو چل پھر شروع ہو جا۔ بتا یہ سارا معاملہ کیا ہے؟‘‘ جعفر کے پوچھنے پر اس نے ایک نگاہ تھانیدار پر ڈالی اور اسے جو معلوم تھا وہ اس نے بتا دیا۔ تھانیدار کا پول کھل گیا تھا۔ سپاہی نے سارا سچ اس کے سامنے بیان کر دیا تو جعفر نے غضب ناک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’ابھی اور اسی وقت اس چشم دید گواہ کو لے کر آ، جلدی۔ ‘‘

جعفر نے تھانیدار کو حکم دیا تو وہ سپاہی سمیت تیزی سے باہر چلا گیا۔

باہر پولیس فورس کھڑی تھی۔ تھانیدار ان میں سے بیشتر لوگوں کو جانتا تھا۔ ان سے جب تھانیدار نے معلومات لیں تو اسے پتہ چلا کہ یہ نیا اے ایس پی رات ہی ٹرانسفر ہو کر آیا ہے۔ راتوں رات اس نئے اے ایس پی کا تبادلہ یونہی نہیں ہو گیا تھا۔ اس کے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اسے افسوس ہونے لگا کہ فہد پر ہاتھ ڈالنے میں اس نے جلد ی کی ہے۔

تھانے میں موجود منشی نے فوراً ہی چائے کا بندو بست کر دیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد فہد اور جعفر دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ جعفر نے سپ لیتے ہوئے ہنس کر کہا

’’دیکھ تیرے گاؤں میں آ کر میں ہی تجھے چائے پلا رہا ہوں۔ اسے کہتے ہیں وقت اور حالات جس کی دسترس میں ہوں۔ ‘‘

’’ہاں۔ یہ تو ہے۔ لیکن یہ جنگ ہے ۔۔۔اس میں ہار اور جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے۔۔۔تم سناؤ کیسے آ گئے ۔۔۔اچانک یہاں پر؟‘‘

اس کے یوں کہنے پر جعفر نے سکون سے کہا

’’میں کل شام کے بعد اپنے گھر پر تھا۔ جب تمہارے پاپا کی فون کال مجھے ملی۔ میں فوراً ان کے پاس پہنچا۔ انہوں نے مجھے ساری صورت حال بتا کر کہا

’’ فہد بارے ساری صورت حال میں نے تمہیں بتا دی ہے۔ اور اب وہ وقت آ گیا ہے بیٹا، جب ہم اس کی مدد کو پہنچیں۔ ‘‘

تب میں نے ان سے کہا کہ میں ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکلتا ہوں۔ لیکن پاپا نے کہا

’’ایسے نہیں ، پورے اختیارات کے ساتھ۔ ‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے میز پر پڑا ہوا ایک لفافہ اٹھا کر مجھے دیا۔ جسے پکڑتے ہوئے میں نے ان سے پوچھتا کہ یہ کیا ہے۔ تب انہوں نے بتایا۔ وہ میرے ٹرانسفر کے آڈرز تھے۔ قسمت نگر کے قریب ہی نور پور قصبہ، جس میں یہ علاقہ قسمت نگر آتا ہے۔ میں فوراً جا کر وہاں کا چارج لے لوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ آئی جی صاحب ان کے بہت اچھے دوستوں میں سے ہیں۔ ایک تو وہاں نور پور کا ڈی ایس پی نیازی، پہلے بہت زیادہ ہی سیاسی دباؤ میں تھا۔ دوسرا خان ظفر اللہ میرا ویسے ہی تبادلہ کرانا چاہ رہا تھا۔ دس منٹ میں ہو گئے آرڈر۔ بس میں نے آرڈرز لئے اور رات ہی آ کر یہاں کا چارج لے لیا۔ نیازی تو پہلے ہی تیار بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بھی رات ہی چلا گیا۔ باقی معاملات بعد میں ہوتے رہیں گے۔ ‘‘

’’مطلب تجھے پاپا نے یہاں بھیجا ہے؟‘‘ فہد نے کہا تو جعفر نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا

’’ہوں۔ ‘‘ تبھی اس نے چونک کر فہد کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’ ابھی میں تمہارے لیے اجنبی رہوں گا۔ کیونکہ میں ان کا اور چوہدری جلال کا یہ ڈرامہ پوری طرح سمجھنا چاہتا ہوں۔ بس خاموش رہنا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، سناؤ مائرہ کیسی ہے؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’مائرہ ٹھیک ہو گی۔ پر تمہیں اس سے کیا، چھوڑو اس کا ذکر۔ ‘‘ جعفر نے لاپرواہی سے کہا تو فہد بولا

’’نہیں یار، وہ ہماری بہت اچھی دوست ہے۔ ‘‘

’’میں تمہاری ابھی بات کروا دیتا مگر یہاں سگنل کا مسئلہ ہے۔ ’’ پھر سامنے پڑے لینڈ لائین فون کو دیکھ کر کہا، ’’ چاہو تو ابھی اس سے رابطہ کر لو۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو فہد بولا

’’کرتے ہیں پہلے ان کا معاملہ ختم کر لو۔ ‘‘

’’ہوں ، یہ ضروری ہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے تھانے کے منشی کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔

٭٭

 

چاچا سوہنا اپنے گھر کے صحن میں چارپائی پر انتہائی افسردہ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بہت رقت آمیز انداز میں گا رہا تھا۔

’’کیا حال سناواں دل دا۔۔۔کوئی محرم راز نہ ملدا۔۔۔ منہ دھوڑ مٹی سر پائم۔۔۔سارا ننگ نموز ونجائم۔ ۔۔۔کوئی پچھن نہ ویہڑے آئم۔۔۔ ہتھوں اُلٹا عالم کھلدا۔ ‘‘

وہ گاتے ہوئے ایک دم سے خاموش ہو گیا۔ چند لمحے اسی خاموشی میں گذر گئے پھر پاگلوں کی مانند ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور اچانک رو پڑا۔ وہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔ تبھی چاچاسوہنا انتہائی جذباتی انداز میں کہنے لگا، ’’ چشم دید گواہ، تو نے دیکھا قتل ہوتے ہوئے ۔۔۔امین کا قتل۔ خون ۔۔۔ یہ کیسی دنیا ہے۔ حق کیا ہے اور ناحق کیا ہے ۔۔۔ کون جانے کس کے پلّے کیا پڑ جائے ۔۔۔کوئی نہیں جانتا، بس یہ سارے ساہ کے رولّے ہیں۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔ ‘‘

اتنے میں اس کا دروازہ بجا اور ایک سپاہی اندر آ گیا۔ وہ چاچے سوہنے کے پاس آ کر بولا

’’اُو چاچا چل تجھے تھانے بلا رہے ہیں۔ وہاں وڈا افسر آیا ہے۔ ‘‘

’’وڈا افسر، وہ کیا کہتا ہے؟‘‘ چاچا سوہنا خود کلامی کے سے انداز میں بولا جیسے وہ پاگل ہو رہا ہو۔ تبھی سپاہی نے ڈرتے ہوئے کہا

’’وہ تجھے بلا رہا ہے۔ تو اٹھ چل جلدی کر۔ میں تجھے رستے میں بتاتا ہوں ، تو فٹا فٹ چل۔ ‘‘

چاچے سوہنے نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر اس کے پیچھے چل دیا۔

چاچا سوہنا اور سپاہی آگے پیچھے تھانے میں داخل ہوئے۔ چاچے سوہنے نے دیکھا، وڈا افسر، تھانیدار کی کرسی پر بیٹھ اہوا ہے۔ اور تھانیدار اس کے سامنے کھڑا ہے تو سپاہی کی سمجھائی ہوئی بات اسے سچ معلوم ہونے لگی۔ جعفر نے چاچے سوہنے کی طرف دیکھ کر پوچھا

’’یہ ہے چشم دید گواہ؟‘‘

’’جی جی یہی ہے۔ ‘‘ تھانیدار نے ہکلاتے ہوئے کہا تو جعفر نے چاچے سوہنے سے مخاطب ہو کر کہا

’’ بیٹھو بزرگو۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے سپاہی سے کہا، ’’ اسے پانی پلاؤ‘‘

’’نہیں صاحب جی، اس کی ضرورت نہیں ، آپ حکم کریں ، مجھے کیوں بلایا ہے؟‘‘ چاچا سوہنا اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا

’’یہ بتاؤ، تم نے امین کے بارے میں کیا دیکھا؟‘‘

چاچے سوہنے نے سب کی طرف دیکھا اور انتہائی جذباتی انداز میں بولا

’’آپ وڈھے لوگ ہیں ، جیسے پہلے لکھا، ویسے ہی اب لکھ لیں۔ ‘‘

اس پر جعفر نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’کیا مطلب؟کیا کہنا چاہتے ہو تم، کیا تم پر کوئی زبردستی ہوئی ہے؟‘‘

’’بولو چاچا بولو، سچ بول دو، اصل بات کیا ہے؟‘‘

فہد نے کہا تو جعفر نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’بولوکسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ بولو چاچا تمہیں ہر طرح کا تحفظ ہے، بولو مت ڈرو۔ ‘‘

وہاں تھانے میں سب اس کے بولنے کے منتظر تھے۔ تبھی چاچا سوہناڈرتے ڈرتے بولا

’’ پرسوں رات میں اور میرا پتر اشفاق گھر پر تھے۔ ‘‘

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید