دکن میں اردو ادب کا ارتقا
غلام شبیر رانا
712ء میں جب محمد بن قاسم نے سندھ کے علاقے میں پیش قدمی کی تو بر عظیم میں ایک نئی تہذیب و ثقافت کی آمد کی نوید ملی۔ عربوں کی آمد کے سا تھ ہی ملتان، اچھ، شورکوٹ اور منصورہ کو اہم علمی مراکز کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں سے جنوبی ہند میں تاریکیوں کو کافور کرنے کے جس سلسلے کا آغاز ہوا، اس سے گجرات میں بھی روشنی کے عظیم الشان سفر کا آغاز ہوا۔ جنوبی ہند کی طرح گجرات کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات زمانہ قدیم سے چلے آ رہے ہیں۔ گجرات کی اپنی ایک انفرادیت رہی ہے۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں گجرات کے کچھ علاقے ایرانی حکومت میں شامل تھے۔ (1)گجرات کو ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل تھا۔ 78687مربع کلو میٹر پر مشتمل یہ ریاست اپنے سولہ سو کلو میٹر کے ساحلی علاقے کی وجہ سے زمانہ قدیم سے تجارتی مرکز رہی ہے۔ بحرین، مصر اور خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ گجرات کے تجارتی تعلقات کا عرصہ 1000سے 750قبل مسیح پر محیط ہے۔ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت، فنون لطیفہ اور ادبیات پر بیرونی اقوام کے اثرات نمایاں ہیں۔ گجرات کی حدیں سندھ سے ملتی ہیں۔ سندھ پر بنو امیہ نے 39سال حکومت کی اس کے بعد ایک صدی تک اس علاقے میں بنو عباس کی حکومت رہی اس کے بعد بھی یہ علاقہ عربوں کے زیر نگیں رہا۔ مجموعی طور پر سندھ میں عربوں کی حکومت کا عرصہ 282سال ہے۔ (2)تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ 121ہجری میں عباسی خلیفہ متوکل نے عمر بن عبدالعزیز ہباری قریشی کا تقرر بہ حیثیت حاکم سندھ کیا۔ مقامی حالات اور سیاسی نشیب و فراز کے تحت ا س عرب خاندان نے خود مختاری حاصل کر لی اور اس کا تعلق بغداد کی حکومت سے برائے نام تھا۔ اس خاندان کی حکومت نے پڑوسی ریاستوں کے ساتھ نصف صدی تک قریبی تعلقات استوار قائم رکھے۔ سندھ ملتان اور گجرات کے علاقوں میں تہذیبی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں علم و ادب پر اس کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہوئے۔ شمالی ہند کے مقابلے میں گجرات اور دکن کے علاقوں میں ان تبدیلیوں کے اثرات زیادہ نمایاں تھے۔ گجرات میں سلطان محمود غزنوی، سلطان معز الدین محمد بن سام غوری، قطب الدین ایبک اور علاؤالدین خلجی کی مہمات کی وجہ سے حالات کی کایا پلٹ گئی۔ سماجی، ثقافتی، تہذیبی اور معاشرتی سطح پر ایک نئے نصب العین اور ایک نئی سوچ کی راہ ہموار ہو گئی۔ تخلیقی سوچ پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ایک منفرد احساساتی کیفیت کو نمو ملی۔ نئے لسانی عمل کا آغاز ہوا جس کے اعجاز سے تخلیق فن کے لیے نئے تجربات، نئے اسالیب اور نئے موضوعات کے بارے میں سوچ پروان چڑھنے لگی۔
بر صغیر کی جغرافیائی تقسیم کچھ اس طرح کی ہے کہ دریائے نر مدا(Narmada)اسے دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ میکالہ رینج (Maikala Range)سے نکلنے والا یہ دریا جو مشرق سے مغرب کی جانب رواں دواں ہے، ہندوستان کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس دریا کی لمبائی1289کلو میٹر ہے اور یہ مدھیہ پردیش، گجرات اور مہاراشٹر سے گزرتا ہے۔ اس دریا کے اس پار کے جنوبی علاقوں کو دکن کہا جاتا ہے۔ بر صغیر کو شمال اور جنوب کے دو حصوں میں تقسیم کرنے میں دریائے نرمدا کے علاوہ وندھیا رینج (Vindhya Range)کا سلسلہ ء کوہ بھی جغرافیائی تبدیلیوں کا امین ہے۔ یہ سلسلہ ء کوہ جو مغرب میں گجرا ت تک ہے مشرق میں راجھستان اور مدھیہ پردیش تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی لمبائی 1086کلو میٹر ہے۔ یہ ایک واضح جغرافیائی تقسیم ہے جس نے ہر شعبہ ء زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ اگر اردو زبان و ادب کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تاریخی اعتبار سے جنوبی ہند میں اردو زبان نے پہلے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ جنوبی ہند کے علاقوں گجرات اور دکن میں جس وقت اردو شاعری کا آغاز ہوا، اس وقت شمالی ہند میں اس کے کوئی آثار موجود نہ تھے۔ دکن میں اردو شاعری کا آغاز بہمنی عہد (1347-1527)میں ہو چکا تھا۔ اس عہد کی ادبی تاریخ، تخلیق کاروں کے سوانح اور بیش تر ادب پارے ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے ہیں۔ بہمنی عہد میں تخلیق ہونے والے اردو زبان کی شاعری کے اولین نمونے جن کی مدد سے اردو شاعری کے ارتقا کی حقیقی صورت حال کے بارے میں آگاہی ملتی ہے، ان کی تعداد بہت کم ہے۔ دکن میں اس زبان میں تخلیق ہونے والی شاعری کے ابتدائی نمونے اس حقیقت کے غماز ہیں کہ اردو شاعری کا ہیولیٰ یہیں سے اٹھا تھا۔ خواہ اسے کسی نام سے پکارا جائے یہ اردو شاعری کا نقش اول ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر گجرات میں اردو شاعری کے اولین نمونوں کو گجری یا گجراتی زبان کی شاعری کے نمونے قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن اپنی اصلیت کے اعتبار سے یہی اردو شاعری کی ابتدائی شکل ہیں۔ بہنی دور میں دکن کو اہم تجارتی اور علمی مرکز کی حیثیت حاصل رہی تاہم اس عہد کی کوئی قابل ذکر تصنیف اب دستیاب نہیں۔ اس عہد کے ایک ممتاز ادیب عین الدین گنج العلم کا نام مختلف تذکروں میں ملتا ہے لیکن اس کی کسی ایسی تصنیف کا سراغ نہیں مل سکا جو زبان دکنی میں ہو۔ اس دور کی اولین اور اہم ترین تصنیف جس تک ادب کے طلبا کی رسائی ہے وہ فخر الدین نظامی کی تصنیف ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ہے۔ مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ ‘‘بہمنی خاندان کے نویں بادشاہ سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عرصہ ء اقتدار (1421-1434)میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کا اہم ترین موضوع سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عہد حکومت کے اہم واقعات اور معا ملات سلطنت ہیں۔ اس مثنوی میں سیاسی نشیب و فراز، معاشرتی زندگی کے ارتعاشات اور سماجی مسائل کے بارے میں تاریخ کے مسلسل عمل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑی مہارت سے لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔ اس میں صد آفرینی کی جو کیفیت ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اس عہد کے حالات نے تہذیبی اور ثقافتی زندگی اور فنون لطیفہ پر جو اثرات مرتب کیے ان کے بارے میں یہ مثنوی ایک اہم ماخذ ہے۔
شہنشہ بڑا شاہ احمد کنوار
پرت پال، سنسار، کرتا ادھار
دھنیں تا اج کا کون راجا ابھنگ
کنور شاہ کا شاہ احمد بھجنگ
لقب شہ علی آل بہمن ولی
ولی تھی بہت بدھ تد آ گلی
اس مثنوی میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ چھے سو سال قدیم ہے۔ اتنی قدیم زبان کے ذخیرہ ء الفاظ کو آج کے دور میں سمجھنا بلا شبہ ایک کٹھن مر حلہ ہے۔ اس مثنوی میں اسلوب کے دو پہلو قابل توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ تخلیق کار نے ’’ہندوی اثرات ‘‘کو اپنے اسلوب میں پوری آ ب و تاب سے جگہ دی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے اس مثنوی میں فارسی زبان اور اس کا لہجہ واضح طور پر موثر دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح اسلوب میں ایک دھنک رنگ کیفیت سامنے آ تی ہے۔ لسانی ارتقا ایک مسلسل عمل ہے۔ گردش ماہ و سال کے نتیجے میں زبانیں بھی اپنے ذخیرہ ء الفاظ میں ردو بدل اور ترک و انتخاب کے مرحلے سے گزرتی رہتی ہیں۔ نئے نئے خیالات، متنوع اسالیب اور نئی زبانوں کے الفاظ کے اشتراک عمل سے ایک قوس قزح کا منظر نامہ مرتب ہوتا ہے۔ لسانی ارتقا کی یہ کیفیت جہاں تخلیق کار کی ذاتی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے وہاں اس کے مطالعہ سے اقتضائے وقت کے مطابق عصری آگہی کے پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ مثنوی کے تخلیق کار نے اپنا پورا نام اور تخلص اپنی تخلیق میں متعدد مقامات پر لکھا ہے :
مجھے ناؤں ہے قطب دیں قادری
تخلص سو فیروز ہے بے دری
بہمنی دور میں جو ادب تخلیق ہوا اس میں پائے جانے والے درج ذیل تین رجحانات قابل توجہ ہیں جن کی عکاسی اس عہد کے اہم تخلیق کاروں کے اسلوب میں ہوتی ہے :
1۔ زیادہ تر تخلیق کاروں نے شعوری غور و خوض سے یہ کوشش کی کہ عجائبات فطرت، عبرت آموز واقعات، لوک داستانوں، قصوں، کہانیوں، انوکھی باتوں یا دلچسپ موضوعات کو پر لطف انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھال کر قارئین ادب کے لیے سکون قلب اور مسرت کے فراواں کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
2۔ بہمنی عہد کے اکثر تخلیق کاروں کی توجہ مذہبی اقدار و روایات، تاریخی واقعات، اور سبق آموز حکایات کو شاعری میں سمونے پر مرکوز رہی۔
3۔ بہمنی عہد کے تخلیق کاروں کے اسلوب میں مذہب سے وابستگی کا عنصر غالب رہا۔ انھوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ تصوف اور مذہبی رشد و ہدایت کے اہم موضوعات کو شاعری کے وسیلے سے قارئین تک پہنچایا جائے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاعری ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو قارئین ادب تک ان کے خیالات کی ترسیل پر قادر ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں بہمنی دور کے تخلیق کاروں نے ادب کے وسیلے سے مسرت و شادمانی کے حصول کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ان کے ادب پاروں میں ان کی شخصیت کے اہم پہلو پوری طرح سما گئے ہیں۔ ان کے شخصی وقار نے تخلیقی عمل کو بھی اسی حسین رنگ میں رنگ لیا ہے۔ اس عہد کی مشہور اور مقبول مثنوی ’ ’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ میں تخلیق کار کے اسلوب میں پائے جانے والے رجحانات کی چند مثالیں پیش ہیں، ان کے مطالعہ سے لسانی ارتقا کے مختلف مدارج کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔
سنیا تھا کہ ناری دھرے بہت چھند
سو میں آج دیٹھا تری چھند پند
بڑے ساچ کہہ کر گئے بول اچوک
دودھا دود کا چھاچھہا پیوے پھوک
مجھے مارناں مار کے گھال دے
ولے آج اکھر مار نیکال دے
جو کج کل کرنا سو توں آج کر
نہ گھال آج کا کام توں کال پر
بھلائے کوں بھلائی کرے کچ نہ ہوئے
برے کوں بھلائی کرے ہوئے تو ہوئے
نظامی کی ایک اور مثنوی ’’خوف نامہ ‘‘ ہے۔ اس مثنوی میں تخلیق کار کے اسلوب میں ارتقا دکھائی دیتا ہے۔ پہلی مثنوی کی نسبت اس دوسری مثنوی میں نظامی نے سادہ، سلیس اور صاف لہجہ اپنایا ہے۔ اس مثنوی میں شاعر نے حیات بعد الموت کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے قاری کو روز محشر کے بارے میں مذہبی روایات سے مطلع کیا ہے۔ قیامت کے دن اعمال کی بنا پر جزا اور سزا کا نہایت موثر اور دل نشیں انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ شاعر نے اپنے ناصحانہ اسلوب کے ذریعے قاری کو اخلاقیات کا درس دیا ہے۔ اس مثنوی میں تعلیم کو اولین ترجیح سمجھتے ہوئے شاعر نے افراد کے اعمال کی اصلاح کو اپنا مطمح نظر ٹھہرایا ہے۔ اس مثنوی میں تفریح کے بجائے تعلیم پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ رفعت تخیل اور جذبات کی صداقت اس شاعری کے اہم وصف ہیں :
نہ بھائی کوں بھائی مددگار ہوئے
نہ کوئی یار کوں غم خوار ہوئے
میاں کوں نہ کوئی بھی آوے غلام
گواہ دیون اس وقت اعضا تمام
یہی وقت اچھے گا بر یک تن اپر
کہ بھویں پھاٹے نین جو سینے بھتر
شاعری میں علاقائی بولیوں اور مروج زبانوں کے الفاظ کا استعمال اس زمانے میں عام تھا۔ تخلیق کار اس بات کے آرزومند تھے۔ وہ تخلیق فن کے لمحوں میں زندگی کے بارے میں بدلتے ہوئے تقاضوں، متغیر اقدار و روایات اور نئے حقائق کو پیرایہ ء اظہار عطا کر سکیں۔ حسن شوقی کی مثنوی ’’فتح نامہ نظام شاہ ‘ ‘ (1564)اور اشرف بیابانی (1459-1528)کی مثنوی ’’نوسر ہار ‘‘اس عہد میں زبان و بیان کی ارتقائی کیفیت کی مظہر تصانیف ہیں۔ اشرف بیابانی اپنی تصانیف ’’ واحد باری ‘‘ اور قصۂ آخر الزماں ‘‘ کی شاعری میں استعمال ہو نے والی زبان کو ہندی یا ہندوی کا نام دیتا ہے۔
ایک ایک بول یہ موزوں آن
تقریر ہندی سب بکھاں
تخلیقی اعتبار سے دیکھیں تو تخلیق ادب کے یہ معائر جہاں نئے حقائق کے مظہر ہیں وہاں ان کی وجہ سے جمود کا خاتمہ ہوا اور نیا لسانی نظام وجود میں آنے کے امکانات روشن ہوتے چلے گئے۔ اسی عہد کے ایک شاعر میراں جی شمس العشاق (م:1494)نے اپنی شاعری میں تصوف کے موضوع پر نہایت دلنشیں انداز میں اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ بہمنی عہد میں ان شعرا کی کاوشوں سے اردو کو پورے دکن میں زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ بہمنی عہد میں تخلیق ادب کے سلسلے میں پورے دکن میں صرف اردو ہی واحد مشترک زبان تھی جس میں تخلیق کار پرورش لوح و قلم میں مصروف تھے۔ دکن کے اہل قلم نے اردو نثر میں بھی سب سے پہلے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ اخلاق و تصوف کے موضوعات پر اس عہد میں چند رسائل منصہ ء شہود پر آئے۔ ان رسائل کے مصنف شیخ گنج العلم ہیں۔ یہ رسائل بہمنی خاندان کے عہد میں دکن کی سر زمیں سے تصنیف ہوئے۔ میراں جی شمس العشاق کی موضوعاتی نظمیں خوش نامہ، خوش نغز، شہادت التحقیق اور مغز مرغوب اس زمانے میں زبان زد عام تھیں۔ ذیل میں بہمنی عہد کے شاعر میراں جی شمس العشاق کی تصنیف ’’شہادت التحقیق ‘‘سے ایک اقتباس پیش ہے۔ اس اقتباس کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ نئی زبان نے پرانی مروج زبان سے اس لیے برتری حاصل کی کہ اس نئی زبان میں قاری کے لیے افادی پہلو نمایاں تھا۔ اس کے بر عکس شمالی ہند میں ابھی اردو نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی جس قدر وہ دکن میں کر چکی تھی۔ دکن میں رونما ہونے والی لسانی تبدیلیاں یہ ظا ہر کرتی ہیں کہ زبان کی سطح پر ذخیرہ ء الفاظ اور علاقے کی دوسری بولیوں اور زبانوں کے امتزاج و انجذاب کا جو تجربہ اس خطے میں کیا جا رہا تھا اس کے معجز نما اثر سے لسانی شعبے میں ایک دور رس تبدیلی کے رونما ہونے کے امکانات روشن تر ہوتے چلے گئے۔ اس زبان میں جو پیرایہ ء اظہار اپنایا گیا ہے وہ اپنی لطافت اور احسا س ترفع میں اپنی مثال آپ ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر یہ ایک مثبت تبدیلی کی نوید ہے :
اللہ، محمد ﷺ، علیؓ ، امام، دائم ان سوں حال
سب خاصوں سوں اللہ اللہ توں رکھوں کیا کمال
مغز مرغوب دھریا جانو اس نسخے کا نام
مرشد موکھوں سمجھے تو ہوئے کشف تمام
خفی غیر پر لا کرے، الا اللہ اثبات
پرتی بدھ اٹوپی نا باج کرو کی بات
میراں جی شمس العشاق کی زندگی ہی میں بہمنی سلطنت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا۔ حکم رانوں کی بے بصری کے باعث انتشار، خانہ جنگی اور باہمی افتراق نے سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا۔ معاشرتی زندگی میں ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی طبقے کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ مجبوروں اور مظلوموں کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ اس طوائف الملوکی، انتشار اور لا قانونیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی یک جہتی عنقا ہو گئی اور پوری سلطنت پانچ ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ یہ انتشار بیدر، احمد نگر، بیجا پور، گولکنڈہ اور برار کی خود مختار ریاستوں کے قیام پر منتج ہوا۔ ہر ریاست میں الگ الگ نظام سلطنت قائم ہو گیا۔ ان میں سے دکن کے مغرب میں واقع بیجاپور میں عادل شاہی حکومت (عرصہ ء اقتدار :1490-1686) کے عہد میں ارو زبان کو بہت فروغ ملا۔ اسی عہد میں مشاعروں کے رجحان نے تقویت پکڑی جس نے بعد میں ایک مضبوط و مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی اور ان عصری رویوں اور رجحانات نے شمالی ہند میں بھی اس نے مقبولیت حاصل کر لی۔ اس عہد کی دکھنی زبان میں تخلیقی عمل جاری رہا اور اس میں تیزی آنے لگی۔ بہنی عہد میں دکھنی زبان کے فروغ کے لیے جو مساعی کی گئیں عادل شاہی دور میں وہ ثمر بار ہوئیں۔ دکھنی اردو میں تخلیق ادب پر توجہ مرکوز رہی۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی (عرصہ ء اقتدار :1580-1627)اپنی غریب پروری، علم دوستی، ادب پروری اور فنون لطیفہ کی سر پرستی کی وجہ سے ’’جگت گرو ‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے اردو کی سرکاری سطح پر سر پرستی کی اور حکومتی کاموں، دفتری امور، اور ریاستی اداروں میں اردو زبان ہی مستعمل تھی۔ اس زمانے میں ریاست گولکنڈہ میں قطب شاہی حکومت (عرصہ ء اقتدار : 1518-1687) قائم تھی۔ گولکنڈہ اور بیجا پور میں اردو زبان و ادب کی نمو، نشو و ارتقا پر بھرپور توجہ دی گئی۔ گولکنڈہ کے حاکم اور اس عہد کے ممتاز ادیب اور اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر اور عظیم تخلیق کار سلطان محمد قلی قطب شاہ (پیدائش :1565وفات :1611)نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں جو اہم کردار ادا کیا وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اس کی دریا دلی، فیاضی اور علم دوستی کی وجہ سے اسے بہت مقبولیت نصیب ہوئی۔ اردو، فارسی اور تلنگی کے علاوہ کئی مقامی ز بانوں پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس نابغۂ روزگار تخلیق کار نے پچاس ہزار سے زائد اشعار لکھ کر جریدہ ء عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کا تخلص’’ معانی ‘‘تھا۔ اردو زبان میں اسے پہلے صاحب کلیات شاعر کی حیثیت سے امتیازی مقام حاصل ہے۔ 1020 ہجری میں اس کا دیوان مکمل ہوا جس کا منظوم دیباچہ عبداللہ قطب شاہ نے تحریر کیا۔ اس منظوم دیباچے کے چند اشعار درج ذیل ہیں :
رہیا جائے نا شاعراں من منیں
بن آ کے صفت شعر کے فن سنیں
جو خاصا ہے یو شاعراں کا ہر ئیک
نہ ریں بن کہے وصف بتیاں کیتک
مگر شاہ کہے بیت پچاس ہزار
دہرے وصف ایس سو کہن بہت عار
قلی قطب شاہ کے دربار میں اس عہد کے متعدد نامور ادیب، شاعر اور دانش ور موجود تھے۔ ان میں میر محمد مومن، ملا وجہی، اور غواصی کے نام قابل ذکر ہیں۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ نے جو لسانی تجربہ کیا اس کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کے تخلیقی عمل میں کئی تہذیبوں کا سنگم دکھائی دیتا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے ایرانی، عربی اور مقامی تہذیب و ثقافت کے درخشاں پہلوؤں کو اپنے فکر و فن کی اساس بنایا۔ اس کے تخلیقی عمل میں فارسی شاعری کی روایت اور اسا لیب پر توجہ مرکوز رہی۔ اس نے علم عروض، صنائع بدائع بالخصوص تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کے سلسلے میں بالعموم فارسی زبان کی روایات کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس کی شاعری میں اس عہد کی تہذیب و معاشرت کی حقیقی تصویر جلوہ گر ہے۔ جہاں تک حسن و رومان اور عشق و محبت کے موضوع کا تعلق ہے، قلی قطب شاہ نے یہاں ہندی روایت کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس نے اظہار محبت، اور پیمان وفا باندھنے کے سلسلے میں ہندی روایت ہی کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ عشق کی ہندی روایت میں محبت کا اظہار سب سے پہلے عورت کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ محبت کے دشت پر خار میں جب آبلہ پا مسافر کی طرح صدائے جرس کی جستجو میں بھٹک کر سرابوں اور سکوت کے صحرا میں آہ و فغاں کرتی ہے تو یہ بات قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ حریف اور رقیب کے ستم تو حرف حرف بیان کیے جا سکتے ہیں مگر عاشق کی کج ادائی اور بے وفائی خون کے آنسو رلاتی ہے۔ قلی قطب شاہ کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے اس کے چند اشعار پیش ہیں :
پیا کس سوں گمائی رات ساری
تمن انکھیاں میں پائی میں خماری
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیاباج یک تل جیا جائے نا
کہی تھے پیا بن صبوری کروں
کہیا جائے اماکیا جائے نا
نہیں عشق جس وہ بڑا کوڑ ہے
کدھیں اس سے مل بیسیا جائے نا
قطب شاہ نہ دے مج دوانے کو ں پند
دوانے کوں کج پند دیا جائے نا
سلطان محمد قلی قطب شاہ کو سراپا نگاری میں کمال حاصل تھا۔ اس کے نظام خیال میں سادگی، سلاست، خلوص اور درد مندی کی فراوانی ہے۔ وہ ہر موضوع پر بے تکلفی سے اظہار خیال کرنے پر قادر ہے۔ اس کے اسلوب میں تصنع اور ریا کاری کہیں موجود نہیں۔ وہ راست گوئی کو شعار بنا کر زندہ و تابندہ خیالات کی ا ساس پر اپنی شاعری کا قصر عالی شان تعمیر کرنے کی سعی میں مصروف رہا۔ اس عہد کے حالات، احساساتی کیفیات اور خیالات کو جس حسین پیرائے میں اس نے بیان کیا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے :
پھل بن رخ یار خوش ندیسے
بن مد پھلی جھاڑ خوش ندیسے
مری پیاری سہاتی ہے تجھے اپ حسن زیبائی
( معانی : سہاتی :سجتی، زینت بخشتی، تجھے اپ حسن : تجھے اپنے حسن )
بہت روپ ونت ناریاں ہیں دیا اللہ تج شاہی
عشق میں کرے اپ آشیانہ
سچیں تج کو سہاتا ہے اے خانہ
( معانی : سچیں :سچ مچ، بجا طور پر، بر محل )
ساقیا آ شراب ناب کہاں
چند کے پیالے میں آفتاب کہاں
( معانی : چند : چاند )
ساری بھنواں تیریاں جوں کہ چند
اسے دیکھنے میں ہیں عشاق بند
توں سولہ سنگاراں کوں جب پین آئے
تجے کون سکلائے اے مست چھند
ہوئے عاشقاں بے خبر دیکھ تج
تجھے دیکھ کر پائے عیشاں انند
(معانی : انند :مسرت، راحت، خوشی )
تمھار حسن سو قدرت تھی روشنی پایا
ہوراں کا حسنترے حسن انگے جیسے چراغ
شراب پھول کھلے تیرے باغ نو خط میں
پلا توں ساقی ء سر مست منج کوں یک دو ایاغ
برہ کا باؤ منجے باوارا کیا ہے اب
صبا کا باؤ معطر کریں توں میرا دماغ
معانی شکر خدا کر، نہ کر توں غم ہر گز
نبی ﷺ کے نانوں تھی آتا تو جھے خوشی کا سراغ
بہمنی دور کے بعد قطب شاہی دور میں اردو زبان و ادب کے فروغ کا سلسلہ جاری رہا۔ جنوبی ہند میں اردو زبان و ادب کو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں اس عہد کے تخلیق کاروں نے بڑی محنت اور جگر کاوی کا ثبوت دیا۔ اس عہد کے ادیبوں نے تاریخی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے قارئین ادب کو اخلاص و مروت کا پیغام دیا۔ گولکنڈہ کے قدیم ادیبوں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ اس عہد کے اہم تخلیق کاروں کی تخلیقی فعالیت کا اجمالی جائزہ درج ذیل ہے :
1۔ ملا خیالی :یہ با کمال تخلیق کار جس نے 1569تک تخلیق ادب کی شمع فروزاں رکھی وفات کے بعد گوشہ ء گم نامی میں چلا گیا۔ سیل زماں کے تھپیڑوں نے اس کی حیات اور خدمات کو ریگ ساحل پر لکھی تحریر کے مانند مٹا دیا۔ اس عہد کے ممتاز ادیب جن میں نشاطی اور ملا وجہی جیسے صاحب کمال شامل ہیں وہ بھی اس کے ادبی کمالات کے معترف تھے۔ اپنی تصنیف ’’پھول بن‘‘ میں ابن نشاطی نے اس عظیم تخلیق کار کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے :
اچھے تو دیکھتا ملا خیالی
یو میں برتیا ہوں صاحب کمالی
2۔ سید محمود : سید محمود کا کلام قدیم اردو کا نمونہ ہے اسے سمجھنے میں کافی مشکل پیش آتی ہے۔ اسے اپنے عہد میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ ملا وجہی نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
کہ فیروز و محمود اچتے جو آج
تو اس شعر کوں بھوت ہوتا رواج
ابن نشاطی نے بھی سید محمود کے اسلوب کوسراہتے ہوئے س کی حق گوئی اور بے باکی کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ اس کا خیال تھا کہ سید محمود نے کبھی مصلحت کی پروا نہ کی اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ اس کا تجزیاتی انداز لائق تقلید تھا۔ اب نشاطی نے سید محمود کے بارے اپنے خیالات میں اس کی انصاف پسندی کو اس کی شخصیت کا اہم وصف قرار دیا ہے :
رہے صد حیف جو نہیں سید محمود
کتے پانی کوں پانی دود کوں دود
سلطان محمد قلی قطب شاہ نے بھی سید محمود کے اسلوب کو پسند کیا اور اسے اپنے عہد کا ایک اہم شاعر قرار دیا۔ سید محمود نے مقامی لہجے کو اپنایا اور دکھنی اردو میں اپنا ما فی الضمیر بیان کیا۔ قلی قطب شاہ نے اس کے بارے میں جو رائے دی ہے وہ اس تخلیق کار کے منصب کو سمجھنے میں مد دیتی ہے :
اگر محمود ہور فیروز بے ہوش ہویں عجب کیا
ہوئے تج وصف نا کر سک ظہیر ہور انوری بے ہوش
3۔ فیروز : مشہور شاعر فیروز نے گولکنڈہ میں رہتے ہوئے اردو شاعری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ فیروز کی مثنوی ’’توصیف نامہ ‘‘جو 1565ء سے قبل کی تصنیف ہے، اس عہد کے ادب کی مجموعی صورت حال کے بارے میں اہم معلومات سے لبریز ہے۔ مثنوی ’’توصیف نامہ ‘‘ میں فیروز نے اپنے مرشد مخدوم جی (متوفی :1564ء ) کے حضور اپنی عقیدت کے جذبات پیش کیے ہیں۔
مرا پیر مخدوم جی جگ منے
منگوں نعمتاں میں سدا اس کنے
پیا جیو تھے تو ہمیں پیاس ہے
تو ہم جیو کے پھول کا باس ہے
وہی پھول جس پھول کی باس توں
وہی جیو جس جیو کی آس توں
کریماں کی مجلس کرامات تجے
امیناں کی صف میں امامت تجے
جسے پیر مخدوم جی پیاک ہے
اسے دین و دنیا میں کیا باک ہے
4۔ ملا وجہی :دکن کے اس نامور ادیب نے ابراہیم قطب شاہ سے لے کر عبداللہ قطب شاہ تک کے عہد حکومت (1550-1625)چار بادشاہوں کی حکومت کے دوران علم و ادب کی شمع فروزاں رکھی۔ اس کی زندگی کے مکمل حالات دستیا ب نہیں۔ اس کا انتقال 1656اور 1671کے درمیانی عرصے میں ہوا۔ محمد قلی قطب شاہ نے اسے شاہی دربار میں عزت و تکریم سے نوازا اور اسے ملک الشعرا کا منصب عطا کیا۔ سلطان محمد قطب شاہ کے دور میں ملا وجہی کو نظر انداز کیا گیا اور اس نے کسمپرسی کے عالم میں وقت گزارا۔ ابتلا اور آزمائش کا یہ دور اس خود دار شاعر پر بہت بھاری رہا۔ اس نے ہلاکت خیزیوں کے اس دور میں بھی صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے تخلیق فن پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس کی مستحکم شخصیت کا نمایاں وصف یہ تھا کہ اس نے اپنی الگ پہچان بر قرار رکھی اور اپنے رنج و غم کا بر ملا اظہار کر کے تزکیہ نفس کی صورت تلاش کر لی۔ اس کے حالات زندگی کی ادبی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس نے لکھا ہے :
پادشاہ جہاں مفلسم
خاک ہم نیست در دخترانہ ء ما
اس کے بعد عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر ملا وجہی نے 1635میں ’’سب رس ‘‘لکھی۔ اس معرکہ آرا تصنیف میں ملا وجہی نے دکن کی ادبی روایات کی اساس پر اپنی نثری تخلیق کی عظیم عمارت تعمیر کی۔ ملا وجہی سے قبل دکن میں نثری ادب کے جو ابتدائی نقوش ملتے ہیں انھیں ملا وجہی نے نکھارا اور انھیں دکن کے نثری ادب کی لائق صد رشک روایت کی شکل عطا کر دی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملا وجہی نے دکن کی قدیم اردو نثر میں اظہار و ابلاغ کے لیے جو طرز فغاں اپنائی وہ اس قدر جامع، پر کشش اور عام فہم تھی کہ اسے بے حد پذیرائی ملی اور وہی اپنی اس مکمل صورت میں بعد میں آنے والوں کے لیے طرز ادا ٹھہری۔ اسی لیے ملا وجہی کے اسلوب نثر کو دبستان دکن کی نثری روایت کا نقطۂ تکمیل قرار دیا جاتا ہے۔ (3) اردو نثر کی ایک اور تصنیف ’’تاج الحقائق ‘‘بھی ملا وجہی کی تصنیف خیال کی جاتی ہے لیکن اس بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ یہ ملا وجہی کی تصنیف ہے بھی یا نہیں۔ (4)ملا وجہی کی ایک اور تصنیف ’’قطب مشتری ‘‘ ہے۔ یہ مثنوی معیار اور وقار کی اس رفعت کی امین ہے کہ اسے دکن میں صنف مثنوی کی بلند و بالا عمارت کی خشت اول سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اپنی اس تصنیف پر ملا وجہی کو بہت ناز تھا۔ اس نے لکھا ہے :
قطب مشتری میں جو بو لیا کتاب
سو ہوئی جگ میں روشن کہ جیوں آفتاب
اپنی قدامت کے اعتبار سے ’’قطب مشتری ‘‘کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسے اس عہد کے اذہان کی مقیاس یا ذہنی قطب نما قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ (5)اپنی شاعری میں ملا وجہی نے اپنے تجربات، مشاہدات اور حالات و واقعات کی لفظی مرقع نگاری میں اپنے کمال فن کا ثبوت دیا ہے۔ دکن کی محبت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے جس کا وہ بر ملا اظہار کرتا ہے :
دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں
پنچ فاضلاں کا ہے اس ٹھار میں
دکھن ہے نگینہ انگوٹھی ہے جگ
انگوٹھی کوں حرمت نگینا ہے لگ
دکھن ملک کوں دھن عجب ساج ہے
کہ سب ملک سر ہور دکھن تاج ہے
دکھن ملک بھوتیج خاصا اہے
تلنگانہ اس کا خلاصہ اہے
قطب مشتری میں ملا وجہی کا اسلوب اس زمانے کے ادبی معیار کو دیکھتے ہوئے بلا شبہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس زمانے میں اس قدر موثر کلام عنقا تھا۔ ڈاکٹر گراہم بیلی نے اپنی کتاب تاریخ ادب اردو (A History Of Urdu Literature ) میں ملا وجہی کی تصنیف قطب مشتری کو اس عہد کے پورے ہندوستان کے ادبیات کی ایک اہم تصنیف قرار دیا ہے۔ سب رس نے اردو کے نثری ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور قطب مشتری کو اردو شاعری کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ قطب مشتری میں ملا وجہی حالات و واقعات کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے وہ قابل توجہ ہے:
شہنشاہ مجالس کے ایک رات
وزیروں کے فرزند تھے سب سنگات
ہر یک خوب صورت ہرا یک خوش لقا
سو ہر ایک دل کش ہر ایک دل ربا
مہابت کے کامن میں جم جم ہے جیون
شجاعت کے کاماں میں رستم ہے جیون
ندیم ہور مطرب سگھڑ فہم دار
اتھے شہ سوں مل کر یو سب ایک ٹھار
صراحی، پیالے لے ہاتاں منے
ندیماں تھے مشغول باتاں منے
لگے مطرباں گانے یوں ساز سو
کہ دھرتی ہے ست آواز سوں
ندیماں لطافت میں جو چکر آئیں
تو روتیاں کو خوش کر گھڑی میں ہنسائیں
مر کے زہد و تقو لشن کے مشور 5۔ سلطان محمد قطب شاہ : (عرصہ ء اقتدار : 1611-1625)یہ گولکنڈہ کا چھٹا بادشاہ تھا۔ اس نے بھی اردو میں شاعری کی لیکن اس کا کلام دستیاب نہیں۔ اس کی شاعرانہ استعداد اس منظوم دیباچے میں ملتی ہے جو اس نے قلی قطب شاہ کے دیوان کے لیے لکھا تھا۔
6۔ ملا غواصی :ملا غواصی ایک قادر الکلام شاعر تھا۔ یہ محمد قلی قطب شاہ اور ملا وجہی کا ہم عصر تھا۔ زبان و بیان پر اس کی کامل دسترس، قدرت کلام اور فنی مہارت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1618ء (1025ہجری) میں اس نے دو ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل مثنوی ’’سیف الملوک و بدیع الجمال ‘‘ صرف تیس دن میں مکمل کی :
برس یک ہزار ہور پنج بیس میں
کیا ختم یو نظم دن تیس میں
7۔ سلطان عبداللہ قطب شاہ :(پیدائش :1614ء وفات :1672ء ) اس کا عرصۂ اقتدار 1626-1672ہے۔ اس نے دکن کی مقامی تہذیب و ثقافت، سماج اور معاشرت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ اس کی شاعری میں دکن کی معاشرتی زندگی کی دلکش تصویر کشی کی گئی ہے۔ حسن و جمال اور سراپا نگاری پر اسے عبور حاصل ہے۔
جن تج کو ایسا روپ دے اپروپ کر نجائیا
تج گال کا لٹ شام میں کیا خوب دیوا لائیا
روشن ہے جگ تج بھان تھے نازک ہتھیلیاں پان تھے
تج سار تن کسی کھان تھے اجنوں نکل نہیں آیا
دو پھند نا لکھ چھند کا بے مثل بے مانند کا
تج دھن کے بازو بند کا خوش منج رجھا لبدائیا
مختلف ادوار میں گولکنڈہ کے جن شعرا نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ان میں قطبی، شاہ سلطان، جنیدی، ابن نشاطی، میراں جی، میراں یعقوب، بلاقی، طبعی، محب، کبیر، اولیا، غلام علی، سیوک، فائز، لطیف، شاہ راجو، فتاحی، افضل اور شاہی کے نام قابل ذکر ہیں۔
مغلوں نے 1685میں بیجا پور اور 1658میں گولکنڈہ کو فتح کر لیا تو جغرافیائی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تہذیبی، ثقافتی، لسانی، معاشرتی اور سماجی تبدیلیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا جس نے سلطنت میں ہر شعبۂ زندگی کو متاثر کیا۔ مغلیہ عہد میں دکن میں جو ادب تخلیق ہوا وہ اردو زبان کے ارتقا کا مظہر ہے۔ اس عرصے میں جو مثنویاں لکھی گئیں ان میں شعرا نے با لعموم تصوف، اخلاقیات، حسن و رومان اور رزم اور بزم کی شان دل ربائی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر سراج اور نگ آبادی کی مثنوی ’’بوستان خیال‘‘ موضوع اور اسلوب کی دل کشی کے لحاظ سے شمالی ہند میں تخلیق ہونے والی مثنویوں سے کسی طرح کم نہیں۔
سراج اور نگ آبادی نے مثنوی بوستان خیال میں تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہوئے اپنے کمال فن کو ادبی تخلیق میں احسن طریقے سے سمو دیا ہے۔ قاری اسے پڑھ کر حظ اٹھاتا ہے :
اری ہم نشینو!مرا دکھ سنو
مرے دل کے گلشن کی کلیاں چنو
کہوں کیا کلیجے میں سوراخ ہے
مری داستاں شاخ در شاخ ہے
مغلیہ عہد میں دکن میں جن شعرا نے تخلیق ادب کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں شیخ داؤد، قاضی محمود، سید محمد خاں، خواجہ محمود مجرمی، ولی ویلوری، اشرف، وجدی اور غضنفر کے نام اہم ہیں۔ اس عہد کے شعرا نے رزم نامے، حسن و رومان کی داستانیں، سچی کہانیاں، لوک داستانیں، اخلاقیات، تصوف اور فلسفیانہ خیالات پر مبنی تمثیلی مثنویاں لکھ کر قارئین ادب کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا۔ ان شعرا کے اسلوب کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے شعرا نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی سعی کی۔ دکن میں تخلیق ہونے والی ان مثنویوں کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی جاتی ہے کہ شمالی ہند کے شعرا نے اس اسلوب کو لائق تقلید سمجھا اور خاصی مدت تک اس کی تقلید کی۔ (6)۔ اس عہد کے ایک نا مور شاعر خواجہ محمود بحری نے ذاتی رومان پر مبنی اپنی شاعری کو ساحری میں بدل دیا ہے :
اس عمر میں عشق جیو میں جاگ
یوں گھیر لیا جیوں بھیڑ کو بھاگ
آگ عشق کی دل میں دہکی تھی
بھر تن میں تمام تک پکی تھی
پن مجھ کو سمجھ نہیں جو یہ کیا
یو نامہ، یو ناز، یو نگہ کیا
یو درد سو کیا یو دل جلے کیوں
تن آنچہ سوں عشق کے گلے کیوں
8۔ ولی دکنی (پیدائش اور نگ آباد۔ مہا راشٹر :1667وفات :احمد آباد 1707)نے اردو غزل کے پہلے صاحب دیوان شاعر کی حیثیت سے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ اس کی شاعری میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں جلوہ گر ہیں۔ اس نے چار سو تہتر (473)کے قریب غزلیں لکھیں جو تین ہزار دو سو پچیس (3225) اشعار پر مشتمل ہیں۔ ولی نے فارسی مضامین اور خیالات کو بڑی کامیابی سے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اسی لیے اسے اردو غزل کے جدید اسلوب کا معمار اول سمجھا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ولی نے فارسی شاعری کے تخیل کی اساس پر اردو شاعری کی فلک بوس عمارت تعمیر کرنے کی خشت اول رکھی۔ ولی نے 1700ء میں سید ابوالمعالی کے ہمراہ دلی کا سفر کیا۔ یہاں ایک ملاقات میں شاہ سعد اللہ گلشن (متوفی :1728)نے ولی کے اسلوب شعر کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے ایک صائب مشورے سے نوازا:
’’ایں ہمہ مضامین فارسی کہ بے کار افتادہ اند، در ریختہ ء خود بہ کار بہ بر، از تو کہ محاسبہ خواہد گرفت۔ ‘‘(7)
ولی دکنی نے شاہ سعد اللہ گلشن کے مشورے پر عمل کیا اور اس کے بعد اس کے اسلوب میں ایک واضح تبدیلی کے آثار سامنے آئے۔ فارسی زبان کی شعری روایت سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے ولی دکنی نے اپنے رنگ سخن کو صد رنگ تخلیق کی مثال بنا دیا۔ اس طرح اردو شاعری کو افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جستجو کی ترغیب ملی۔ ولی دکنی کے فکری، فنی اور لسانی تجربے اردو ادب میں نئے امکانات تک رسائی میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوئے۔ ان سے مروج اسلوب کی یکسانیت کا خاتمہ ہوا اور ندرت و تنوع پر مبنی نئے اسالیب شعر کی تخلیق کی راہ ہموار ہو گئی اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں ہر جگہ موضوعات، مواد اور واقعات کا ذخیرہ قریب قریب ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن انداز بیاں اور پیرایہ ء اظہار ہر جگہ الگ رہتا ہے۔ یہی منفر اسلوب کی پہچان ہے۔ ولی دکنی کی شاعری کا امتیازی پہلو اس کا منفرد لہجہ ہی ہے، جس نے اس کی شاعری کی تاثیر کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے ولی دکنی کے اسلوب کے بارے میں لکھا ہے :
’’ایک زبان کو دوسری زبان سے ایسا بے معلوم جوڑ لگایا کہ آج تک زمانے نے کئی پلٹے کھائے مگر پیوند میں جنبش نہیں آئی۔ ‘‘(8)
دکن میں اردو زبان کے جو علاقائی رنگ موجود تھے ان میں ریختہ، ہندوی، گجری اور دکنی شامل ہیں۔ اس عہد میں ریختہ گویان کے اسلوب میں جو خاص کیفیت رہی اس میں بالعموم جو پہلو اہم ہیں ان میں فارسی زبان کی شعری روایت کی تقلید، زبان و بیان کی سادگی اور بے ساختگی اور سلاست شامل ہے۔ جنوبی ہند سے جانے والی شعری روایت نے شمالی ہند کے ادب پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ شمالی ہند کے ادب پر پہلے ہی سے فارسی زبان کے ادب کے اثرات موجود تھے۔ ولی دکنی کی دلی آمد سے ان میں زیادہ پختگی پیدا ہوئی۔ ولی دکنی نے فارسی زبان کی شعری روایت کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنی شاعری میں رو بہ عمل لانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے اسلوب کے چند نمونے درج ذیل ہیں :
چہرۂ گل رنگ و زلف موج زن خوبی منیں
آیت جنات تجری تحتہا الانہار ہے
یٰسین و طہٰ والضحیٰ نازل ہوئے تجھ شان میں
واللیل اور والشمس ہے تجھ زلف و مکھ کے درمیاں
ولی دکنی کی شاعری میں حسن و جمال، عشق و محبت، سیاسی، مجلسی، معاشی اور معاشرتی معاملات کے بارے میں نہایت دردمندی اور خلوص سے اظہار کی صورتیں سامنے آتی ہیں۔ وہ صبر و تحمل اور توکل وقناعت کا دامن تھام کر آلام روزگار کے سامنے سینہ سپر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ قاری محسوس کرتا ہے کہ اس کی شاعری سے سکون اور مسرت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔ حبس کے ماحول اور کثیف فضا میں اس کی شاعری تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔ ولی دکنی کا شاعری سے ایک عہد آفریں تجربے کا آغاز ہوا جس کے اعجاز سے تخلیق ادب کے تمام معائر بدل گئے۔ اس کی شاعری نے یکسانیت اور جمود کی فضا کا قلع قمع کردیا اور حرکت و عمل کو زاد راہ بنایا۔ اس منفرد اسلوبیاتی تجربے نے تخلیق ادب کو نئی اقدار و روایات سے روشناس کرایا اور اس طرح اردو زبان و ادب کی جہان تازہ تک رسائی کو یقینی بنا دیا گیا۔ دکن کی ہندی روایت جو سالہا سال سے دکن میں تخلیق ہونے والے ادب کا امتیازی وصف رہا اس نے فارسی زبان کے امتزاج سے ایک متنوع اسلوب شعر کی صورت اختیار کر لی اور یہ اسلوب شعر ولی دکنی کے ذریعے جب شمالی ہند میں پہنچا تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ ولی دکنی کے اسلوب کی چند مثالیں :
گر ہو ا ہے طالب آزادگی
بند مت ہو سجہ وزنار میں
حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے
بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو
ملک ہر گز نہیں رہے آباد
تخت سیں جس کے شہر یار گیا
باعث رسوائی ء عالم ولی
مفلسی ہے، مفلسی ہے، مفلسی
طمع مال کی سر بہ سر عیب ہے
خیالات گنج جہاں سر سوں ٹال
ولی دکنی کے اسلوب سے شمالی ہند میں جہاں پہلے اردو شاعری کی کوئی قابل قدر روایت موجود نہ تھی وہاں ایک نئی، مضبوط اور مستحکم شعری روایت پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ شمالی ہند میں ریختہ اپنی ابتدائی شکل میں موجود تھا۔ اس علاقے کے شاعر یا تو خالص ہندی زبان میں دوہے کی تخلیق پر توجہ دیتے تھے یا ان کے اسلوب پر فارسی آمیز بھاشا کا غلبہ تھا۔ اس زمانے کے ادب کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی میں سوائے امیر خسرو کے ریختہ، جعفر زٹلی اور خواجہ عطا کی شاعری کے اور کوئی قابل ذکر تخلیق موجود نہ تھی۔ جنوبی ہند سے آنے والے تازہ ہو ا کے جھونکوں سے شمالی ہند کے گلشن ادب میں بہار کے امکاں روشن ہوئے۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت نے قارئین ادب کے دلوں کو مر کز مہر و وفا کر دیا۔ ولی دکنی کی دہلی آمد سے پہلے جو ادبی فضا تھی وہ یکسر بدل گئی اور مرحلۂ شوق تھا کہ سب اس کی جانب رواں دواں تھے۔ ولی دکنی کے اسلوب کے اثر سے شمالی ہند کے ادب پر انمٹ نقوش مرتب ہوئے۔ مجموعی اعتبار سے دیکھیں تو دکن سے شروع ہونے والے علم و ادب کی روشنی کے سفر نے پورے بر عظیم کو اپنی آب و تاب سے منور کر دیا۔ تاریخ ادب میں دکن میں فروغ اردو کی مساعی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج بھی دکن سے اردو زبان و ادب کے لافانی تخلیق کار اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس علاقے سے عزیز احمد جیسا عظیم ناول نگار، جیلانی بانو اور واجدہ تبسم جیسی ہفت اختر شخصیات کا تعلق ہو اس کے مردم خیز ہونے کے بارے میں یقین ہو جاتا ہے۔ دکن میں اس لسانی عمل کو تہذیبی ار تقا کی ایک صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ دنیا کی مختلف اقوام اور ملل کا عروج اور جاہ و جلال تو سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کے ما نند بہہ گیا مگر وہاں تہذیب کو کبھی کوئی گزند نہ پہنچا۔ ہر عہد میں تعلیم و تربیت کے وسیلے سے نسل نو کو تہذیبی میراث کی منتقلی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دکن میں بھی اسی انداز میں تہذیبی ارتقا کو یقینی بنایا گیا۔ دکن کے تخلیق کاروں نے تہذیب و تمدن کے تحفظ، بالیدگی اور ارتقا میں گہری دلچسپی لی اور ادب و فنون لطیفہ کے شعبوں میں ہر چیلنج کا بڑی استقامت سے مقابلہ کیا۔ ان کی اس محنت، لگن، استقامت اور جگر کاوی کے نتیجے میں اردو زبان و ا دب میں یہ استعداد پیدا ہوئی کہ وہ جہد للبقا کے لیے اپنے وجود کا اثبات کر سکے اور اپنی بقا اور دوام کو یقینی بنا سکے۔
دکن میں اردو زبان و ادب کے ارتقا سے معاشرے کی اجتماعی زندگی پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس لسانی عمل کو محض اتفاقی نہیں سمجھنا چاہیے بل کہ یہ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہے جس نے زندہ الفاظ کو اس معجز نما قوت سے متمتع کر دیا جس نے افراد کی بصیرت، ذہانت، وجدانی اور روحانی کیفیت کو تاب و تواں عطا کی اور اظہار کے متعدد نئے پہلو سامنے آتے چلے گئے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ دکن میں ہونے والے لسانی تجربات نے جہاں تہذیبی ارتقا کو یقینی بنایا وہاں حیات و کائنات کے اہم مسائل سے آگاہی کی صورت بھی سامنے آئی۔ تخلیق ادب کے وسیلے سے قارئین ادب کے شعور و بصیرت میں ایک انقلاب آ گیا جس کے ثمرات سے نئی نسل آج بھی مستفید ہو رہی ہے۔ تاریخ ادب میں اس لسانی و تہذیبی ارتقا کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مآخذ
(1)اشتیاق حسین قریشی ڈاکٹر :بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ، جامعہ کراچی، اشاعت اول (اردو ترجمہ )، 1967، صفحہ 69۔
(2)حسن ریاض سید :پاکستان نا گزیر تھا، جامعہ کراچی، اشاعت سوم، 1982، صفحہ 4۔
(3) وحید قریشی ڈاکٹر :تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، چھٹی جلد، جامعہ پنجاب، لاہور، 1971، صفحہ 446۔
(4)ایضاً صفحہ 416۔
(5)غلام حسین ذوالفقار ڈاکٹر :اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، جامعہ پنجاب، لاہور، 1966، صفحہ 126۔
(6)عبداللہ ڈاکٹر سید :ولی سے اقبال تک، مکتبہ خیابان ادب، لاہور، بار چہارم، 1976، صفحہ 38۔
(7)میر تقی میر :نکات الشعرا، نظامی پریس، بدایوں، انجمن ترقی اردو، ہند، اور نگ آباد، 1935 صفحہ 94۔
(8)محمد حسین آزاد :آب حیات، لاہور، 1950، صفحہ 89َ۔
٭٭٭
٭٭٭
تشکر: پروفیسر غلام شبیر رانا جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
افسانوی اور غیر افسانوی ادب کا فرق کیا هوگا