فہرست مضامین
دوڑ
ہندی ناولٹ
ممتا کالیا
ترجمہ:عامر صدیقی
وہ اپنے آفس میں گھسا۔ شاید اس وقت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ٹائم شروع ہو گیا تھا۔ مرکزی ہال میں ایمرجنسی ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ وہ اس کے سہارے اپنے کیبن تک آیا۔ اندھیرے میں میز پر رکھے کمپیوٹر کی ایک بھدی سی پرچھائیں بن رہی تھی۔ فون، انٹرکام سبھی بے جان سے لگ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ساری اشیاء بے ہوش پڑی ہیں۔
بجلی کی موجودگی میں، یہ چھوٹا سا کمرہ اس کی سلطنت ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں آنکھیں اندھیرے کی عادی ہوئیں، تو میز پر پڑا ماؤس بھی نظر آیا۔ وہ بھی ماؤس تھا۔ پون کو ہنسی آ گئی، نام ہے چوہا پر چلتا نہیں۔ بجلی کے بغیر پلاسٹک کا ننھا سا کھلونا ہے بس۔
’’بولو چوہے کچھ تو بولو، چوں چوں ہی سہی۔ ‘‘اس نے کہا۔ مگر چوہا بے جان پڑا رہا۔
پون کو اچانک اپنا چھوٹا بھائی سگھن یاد آیا۔ رات میں بسکٹوں کی تلاش میں وہ دونوں باورچی خانے میں جاتے۔ باورچی خانے میں نالی کے راستے بڑے بڑے چوہے دوڑ لگاتے رہتے تھے۔ انہیں بڑا ڈر لگتا تھا۔ باورچی خانے کا دروازہ کھول کر بجلی جلاتے ہوئے، چھوٹو مسلسل منہ سے میاؤں میاؤں کی آوازیں نکالتا رہتاتا کہ چوہے یہ سمجھیں کہ باورچی خانے میں بلی آ پہنچی ہے اور وہ ڈر کر بھاگ جائیں۔ چھوٹو کی پیدائش بھی چینی جوتش کے حساب سے چوہے کے سال کی ہی ہے۔
پون زیادہ دیر یادوں میں نہیں رہ پایا۔ اچانک بجلی آ گئی، گھپ اندھیرے کے بعد چکاچوند کرتی بجلی کے ساتھ ہی آفس میں جیسے جان واپس آ گئی۔ داتارنے ہوٹ پلیٹ پرکافی کاپانی چڑھا دیا، بابو بھائی فوٹو کاپی مشین میں کاغذ لگانے لگے اور شلپا کابرا اپنی ٹیبل سے اٹھ کر، ناچتی ہوئی سی چتریش کی ٹیبل تک گئی۔
’’یو نو ہمیں نرولاج کا کنٹریکٹ مل گیا۔ ‘‘
پون پانڈے کو اس نئے شہر اور اپنی نئی ملازمت پر ناز ہوا۔ اب دیکھئے نا بجلی چار بجے گئی اور ٹھیک ساڑھے چار بجے آ گئی۔ پورے شہر کو ٹائم زون میں بانٹ دیا ہے، صرف آدھے گھنٹے کیلئے بجلی بند کی جاتی ہے، پھر اگلے زون میں آدھے گھنٹے۔ اس طرح کسی بھی علاقے پر زور نہیں پڑتا۔ نہیں تو اس کے پرانے شہر یعنی الہ آباد میں تو یہ عالم تھا کہ اگر بجلی چلی گئی، تو تین تین دن تک آنے کا نام نہ لیتی۔ بجلی جاتے ہی چھوٹو کہتا۔ ’’بھیا، ٹرانسفارمر دھڑام بولا تھا، ہم نے سنا ہے۔ ‘‘
امتحان کے دنوں میں ہی شادی بیاہ کا بھی موسم ہوتا۔ جیسے ہی محلے کی بجلی پر زیادہ زور پڑتا، بجلی فیل ہو جاتی۔
پون جھجلاتا، ’’ماں، ابھی تین چیپٹر باقی ہیں، کیسے پڑھوں گا۔ ‘‘
ماں اس کی ٹیبل کے چاروں کونوں پر چار موم بتیاں لگا دیتی اور بیچ میں رکھ دیتی، اس کی کتاب۔ اس نئے تجربے کے شوق میں پون، بجلی جانے پر اور بھی اچھی طرح پڑھائی کرتا۔
پون نے اپنی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے دانت پیسے۔ یہ بیوقوف لڑکی شیلاہمیشہ غلط آدمی سے بات کرتی رہتی ہے۔ اسے کیا پتہ نہیں کہ چتریش کی چوبیس تاریخ کو نوکری سے چھٹی ہونے والی ہے۔ اس نے دو جمپس(تنخواہ میں اضافہ) مانگے تھے، کمپنی نے اسے جمپ آؤٹ کرنا ہی بہتر سمجھا۔ اس وقت تلواریں دونوں اطراف تنی ہوئی ہیں۔ چتریش کو جواب نہیں ملا ہے، پر اسے اتنا اندازہ ہے کہ معاملہ کہیں پھنس گیا ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے اس نے ایشین پینٹس میں انٹرویو بھی دے دیا۔ ایشین پینٹس کا ایریا منیجر پون کو نرولاج میں ملا تھا اور اس کو بھرم مار رہا تھا کہ تمہاری کمپنی چھوڑ چھوڑ کر لوگ ہمارے یہاں آتے ہیں۔ پون نے چتریش کی سفارش کر دی تاکہ چتریش کا جو فائدہ ہونا ہے وہ تو ہو، اس کی کمپنی کے سر پر سے بھی یہ دردِسر ہٹے۔ وہیں اسے یہ بھی خبر ہوئی کہ نرولاج میں روز بیس سلنڈر کی کھپت ہے۔ آئی۔ او۔ سی اپنے ایجنٹ کے ذریعے ان پر دباؤ برقرار رکھے ہوئی ہے کہ وہ ان سے سال بھر کا معاہدہ کر لیں۔ گوجر گیس نے بھی عرضی لگا رکھی ہے۔ آئی۔ او۔ سی کی گیس کم قیمت ہے۔ امکان تو یہی بنتا ہے کہ ان کے ایجنٹ شاہ اینڈ سنز معاہدہ کر جائیں گے۔ پر ایک چیز پر بات اٹکی ہوئی ہے۔ کئی بار ان کے یہاں مال کی سپلائی ٹھپ پڑ جاتی ہے۔ پبلک سیکٹر کے سو مسائل۔ کبھی ملازمین کی ہڑتال، تو کبھی ٹرک ڈرائیوروں کی شرائط۔ ان کے مقابلے گوجر گیس میں ڈیمانڈاور سپلائی کے درمیان ایسا توازن رہتا ہے کہ ان کا دعوی ہے کہ ان کا وجود، مطمئن صارفین کی دنیا ہے۔
چھوٹو اسی بہانے بجلی گھر کے چار چکر لگا آتا۔ اسے بچپن سے بازاروں میں گھومنے کا شوق تھا۔ گھر کا راشن لاتے، پوسٹ آفس، بجلی گھر کے چکر لگاتے لگاتے، یہ شوق اب لت میں بدل گیا تھا۔ امتحان کے دنوں میں بھی وہ کبھی نئی پنسل خریدنے کے بہانے، تو کبھی یونیفارم استری کروانے کے بہانے گھر سے غائب رہتا۔ جاتے ہوئے کہتا، ’’ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘لیکن اس سے یہ نہ پتہ چلتا کہ حضرت جا کہاں رہے ہیں۔ جیسے مراٹھی میں، گھر سے جاتے ہوئے مہمان یہ نہیں کہتا کہ میں جا رہا ہوں، وہ کہتا ہے ’’می یتو۔ ‘‘ یعنی ’’میں آتا ہوں۔ ‘‘۔ یہاں گجرات میں ایک اور خوبصورت رواج ہے۔ گھر سے مہمان رخصت ہوتا ہے، تو میزبان کہتے ہیں، ’’آؤ جو۔ ‘‘یعنی پھر آنا۔
یہ ٹھیک ہے کہ پون گھر سے اٹھارہ سو کلومیٹر دور آ گیا ہے۔ پر ایم بی اے کے بعد کہیں نہ کہیں تو اسے جانا ہی تھا۔ اس کے والدین یہ ضرور چاہتے تھے کہ وہ وہیں ان کے پاس رہ کر نوکری کرے، پر اس نے کہا، ’’پاپا، یہاں میرے لائق سروس کہاں ؟ یہ تو بے روزگاروں کا شہر ہے۔ زیادہ سے زیادہ نورانی تیل کی مارکیٹنگ مل جائے گی۔ ‘‘
ماں باپ سمجھ گئے تھے کہ ان کا آسمانوں میں اڑتابیٹا، کہیں اور بسے گا۔
پھر یہ نوکری مکمل طور پون نے خود ڈھونڈ نکالی تھی۔ ایم بی اے کے آخری سال کی جنوری میں، جو چار پانچ کمپنیاں انسٹیٹیوٹ میں آئیں، ان میں بھائی لال بھی تھی۔ پون پہلے دن، پہلے انٹرویو میں ہی منتخب کر لیا گیا۔ بھائی لال کمپنی نے اسے اپنے ایل۔ پی۔ جی یونٹ میں ٹرینی اسسٹنٹ منیجر بنا لیا۔ انسٹیٹیوٹ کا قانون تھا کہ اگر ایک نوکری میں طالب علم منتخب ہو جائے، تو وہ باقی کے تین انٹرویو نہیں دے سکتا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ طالب علموں کو فائدہ ہو رہا تھا اور کیمپس میں باہم مقابلے کی بنیاد ڈلی تھی۔ پون کو بعد میں یہی افسوس رہا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس انسٹی ٹیوٹ میں وِپرو، ایپل اور بی۔ پی۔ سی۔ ایل جیسی کمپنیاں بھی آئی تھیں۔ فی الحال اسے یہاں کوئی شکایت نہیں تھی۔ اپنے دوسرے کامیاب ساتھیوں کی طرح اس نے سوچ رکھا تھا کہ اگر سال گزرتے گزرتے اس کے عہدے اور تنخواہ میں، اس سے زیادہ گریڈ نہیں دیا گیا، تو وہ یہ کمپنی چھوڑ دے گا۔
٭٭٭
سی پی روڈ کے چورا ہے پر کھڑے ہو کے اس نے دیکھا، سامنے سے شرد جین آ رہا ہے۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ وہ دونوں الہ آباد میں اسکول ساتھ پڑھے تھے اور اب دونوں کوہی احمد آباد میں نوکری ملی تھی۔ درمیان میں دو سال شرد نے آئی۔ اے۔ ایس کے چکر میں تباہ کئے، پھر مقابلہ فیس دے کر سیدھا آئی۔ آئی۔ ایم احمد آباد میں داخل ہو گیا۔
اس نے شرد کو روکا، ’’کہاں یار؟ پزا ہٹ چلتے ہیں، بھوک لگ رہی ہے۔ ‘‘
وہ دونوں پزا ہٹ میں جا بیٹھے۔ پزا ہٹ ہمیشہ کی طرح لڑکے لڑکیوں سے گل و گلزار ہو رہا تھا۔ پون نے کوپن لئے اور کاؤنٹر پر دے دیے۔ شردنے للچاتے ہوئے کہا، ’’میں تو جین پزا لوں گا۔ تم جو چاہے کھاؤ۔ ‘‘
’’رہے تم وہیں کے وہیں سالے۔ پزا کھاتے ہوئے بھی جین جم نہیں چھوڑیں گے۔ ‘‘
احمد آباد میں ہر جگہ مینو کارڈ میں لازمی جین پکوان شامل رہتے ہیں، جیسے جین پزا، جین آملیٹ، جین برگر وغیرہ۔
پون کھانے کے معاملے میں حساس تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ ہر پکوان کی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ اسے اسی انداز میں کھانا چاہئے۔ اسے فیوژن سے اسے چڑ تھی۔
مینو کارڈ میں جین پزا کے آگے اس میں ڈالی جانے والی اشیاء کی تفصیل بھی دی گئی تھی، ٹماٹر، شملہ مرچ، بند گوبھی اور تیکھی میٹھی چٹنی وغیرہ۔
شرد نے کہا، ’’کوئی خاص فرق تو نہیں ہے، صرف چکن کی چار پانچ بوٹیاں اس میں نہیں ہوں گی، اور کیا؟‘‘
’’ ساری لذت تو ان ہی بوٹیوں میں ہے، یار۔ ‘‘ پون ہنسا۔
’’میں نے ایک دو بار کوشش کی تھی، پر کامیاب نہیں ہوا۔ رات بھر لگتا رہا جیسے پیٹ میں مرغا بول رہا ہے ککڑوں کوںں ں۔ ‘‘
’’تم ہی جیسوں کی وجہ سے گاندھی جی آج بھی سانسیں لے رہے ہیں۔ ان کے پیٹ میں بکرا میں میں کر رہا ہے۔ ‘‘
شرد نے ویٹر کو بلا کر پوچھا، ’’ کون سا پزا زیادہ بکتا ہے یہاں۔ ‘‘
’’ جین پزا۔ ‘‘ویٹر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’دیکھ لیا۔ ‘‘ شرد بولا، ’’پون، تم اس کو مانو کہ سات سمندر پار کی ڈش کا پہلے ہم بھارتیہ کرن کرتے ہیں، پھر کھاتے ہیں۔ گھر میں ممی بیسن کا ایسا لذیذ آملیٹ بنا کر کھلاتی ہیں کہ انڈے اس کے آگے پانی بھریں۔ ‘‘
’’میں تو جب سے گجرات آیا ہوں، بیسن ہی کھا رہا ہوں۔ پتہ ہے بیسن کو یہاں کیا بولتے ہیں ؟ چنے کا لوٹ۔ ‘‘
پتہ نہیں یہ جین مذہب کا اثر تھا یا گاندھی کا، گجرات میں گوشت، مچھلی اور انڈے کی دکانیں مشکل سے ہی دیکھنے میں آتیں۔ ہوسٹل میں رہنے کی وجہ سے پون انڈے کھانے کا عادی تھا، پر یہاں صرف اسٹیشن کے آس پاس ہی انڈے ملتے۔ وہیں تلی ہوئی مچھلی کی بھی چند دکانیں تھیں۔ پر اکثر میم نگر سے اسٹیشن تک آنے کی اور ٹریفک میں پھنسنے کی اس کی خواہش نہ ہوتی۔ تب وہ کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھا کر اپنی طلب پوری کرتا۔
وہ اپنے پرانے دن یاد کرتے رہے، دونوں کے بیچ لڑکپن کی بیشمار بیوقوفیاں مشترک تھیں اور تعلیم کی جد و جہد بھی۔ پون نے کہا، ’’پہلے دن جب تم امداباد آئے، تب کی بات بتانا ذرا۔ ‘‘
’’تم کبھی امداباد کہتے ہو کبھی احمد آباد، یہ چکر کیا ہے۔ ‘‘
’’ایسا ہے اپنا گجراتی کلائنٹ احمد آباد کو امداباد ہی بولنا مانگتا، تو اپن بھی ایسا اِچ بولنے کا۔ ‘‘
’’میں کہتا ہوں یہ بالکل بیوپاری شہر ہے، سو فیصد۔ میں چالیس گھنٹے کے سفر کے بعد یہاں اترا۔ ایک تھری وھیلروالے سے پوچھا، ’’آئی۔ آئی۔ ایم چلو گے ؟‘‘، ’’کدر۔ ‘‘ اس نے پوچھا۔ میں نے کہا، ’’بھائی، وستراپر جھیل، جہاں مینیجری کی پڑھائی ہوتی ہے، اسی جگہ جانا ہے۔ ‘‘تو جانتے ہو سالا کیا بولا، ٹو ہنڈریڈ بھاڑا لگے گا۔ میں نے کہا، تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ اس نے کہا، ’’ ساب آپ ادھر سے پڑھ کر بیس ہزار کی نوکری پاؤ گے، میرے کو ٹو ہنڈریڈ دینا آپ کو زیادہ لگتا کیا؟‘‘، ’’ تمہارا سر گھوم کیا؟‘‘ بائی گاڈ۔ مجھے لگا وہ ایک دم ٹھّگو ہے۔ پر جس بھی تھری وھیلروالے سے میں نے بات کی سب نے یہی ریٹ بتایا۔ ‘‘
’’مجھے یاد ہے، شام کو تم نے مجھ سے مل کر، سب سے پہلے یہی بات بتائی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے گھر اور شہر سے باہر آدمی، ہر روز ایک نیا سبق سیکھتا ہے۔ اور بتاؤ، جاب ٹھیک چل رہی ہے ؟‘‘
’’ ٹھیک کیا یار، میں نے کمپنی ہی غلط چن لی۔ بینر تو بڑا اچھا ہے، اسٹارٹ بھی اچھا دیا ہے ؟۔ پر پروڈکٹ بھی دیکھو۔ بوٹ پالش۔ حالت یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف دس فیصد لوگ چمڑے کے جوتے پہنتے ہیں۔ ‘‘
’’ باقی نوے فیصد کیا ننگے پاؤں پھرتے ہیں ؟‘‘
’’مذاق نہیں، باقی لوگ چپلیں پہنتے ہیں یا پھر ربڑ شوز۔ ربڑ کے جوتے، کپڑوں کی طرح ڈٹرجنٹ سے دھل جاتے ہیں اور چپل چٹخا نے والے پالش کے بارے میں کبھی سوچتے نہیں۔ پالش بکے تو کیسے ؟‘‘
پون نے فخریہ ریستوران میں کچھ پیروں کی طرف دیکھا۔ زیادہ تر پیروں میں ربڑ کے موٹے جوتے تھے۔ کچھ پیروں میں چپلیں تھیں۔ ’’ابھی ہیڈ آفس سے فیکس آیا ہے کہ مال کی اگلی کھیپ بھجوا رہے ہیں۔ ابھی پچھلا مال توبکا نہیں ہے۔ دکاندار کہتے ہیں وہ اور زیادہ مالا سٹور نہیں کریں گے، ان کے یہاں جگہ کی قلت ہے۔ ایسے میں میری سن شائن شو پالش کیا کرے ؟۔ ڈیلر کو کوئی گفٹ آفر دو، تو وہ مال نکالے۔
سب کو سن شائن رکھنے کیلئے وال ریک دیئے ہیں، ڈیلروں کا کمیشن بڑھوایا ہے، پر میں نے خود کھڑے ہو کر دیکھا ہے، کاؤنٹر سیل نہیں کے برابر ہے۔ ‘‘
پون نے مشورہ دیا، ’’کوئی حکمت عملی سوچو۔ کوئی انعامیا سکیم، ہالیڈے پروگرام؟‘‘
’’انعامی اسکیم کی تجویز بھیجی ہے۔ ہمارا ہدف اسکول کے طالب علم ہیں۔ ان کی دلچسپی ٹافی یا قلم میں ہو سکتی ہے، ہالیڈے پروگرام میں نہیں۔ ‘‘
’’ ہاں، یہ اچھا منصوبہ ہے۔ بائی گاڈ، اگر سرکاری اسکولوں میں چمڑے کے جوتے پہننے کا اصول نہ ہوتا، تو ساری بوٹ پالش کمپنیاں بند ہو جاتیں۔ انہی کے بوتے پر باٹا، کیوی، بلی، سن شائن سب زندہ ہیں۔ اس لحاظ سے میری پروڈکٹ اچھی ہے۔ ہر موسم میں ہر طرح کے آدمی کو گیس سلنڈر کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن یار، جب بلک میں پروڈکٹ نکالنی ہو، یہ بھی بھاری پڑ جاتی ہے۔ ‘‘پون اٹھ کھڑا ہوا، ’’ تھوڑی دیر اور بیٹھے تو یہاں ڈنر ٹائم ہو جائے گا۔ تم کہاں کھانا کھاتے ہو آج کل۔ ‘‘
’’وہیں جہاں تمہیں بتایا تھا، موسی کے ہاں۔ اور تم؟‘‘
’’ میں بھی موسی کے یہاں کھاتا ہوں پر میں نے موسی بدل لی ہے۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’وہ کیا ہے یار موسی کڑھی اور کریلے میں بھی گڑ ڈال دیتی تھی اور کھانا پروسنے و الی اس کی بیٹی کچھ ایسی تھی کہ جھیلی نہیں جاتی تھی۔ ‘‘
’’ہماری والی موسی تو بہت سخت مزاج ہے، کھاتے وقت آپ واک مین بھی نہیں سن سکتے۔ بس کھاؤ اور جاؤ۔ ‘‘
’’یار، کچھ بھی کہو اپنے شہر کا خستہ سموسہ بہت یاد آتا ہے۔ ‘‘
٭٭٭
شہر میں جگہ جگہ گھروں میں خواتین نے ماہانہ کی بنیاد پر کھانا کھلانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ نوکری پیشہ، چھڑے چھانٹ نوجوان، ان کے گھروں میں جا کر کھانا کھا لیتے۔ روٹی، سبزی، دال اور چاول۔ نہ رائتہ نہ چٹنی نہ کچھ اور۔ شرح تین سو پچاس روپے مہینہ، ایک وقت کا۔ ان خواتین کو موسی کہا جاتا۔ ا گرچہ ان کی عمر پچیس ہو یا پھر پچاس۔ رات ساڑھے نو کے بعد کھانا نہیں ملتا۔ تب یہ لڑکے اُڈپی بھوجنالیہ میں ایک مسالہ دوسا کھا کر سو جاتے۔ اتنی تکلیف میں بھی ان نوجوانوں کو کوئی شکایت نہ ہوتی۔ اپنے بل پر رہنے اور جینے کا اطمینان سب کے اندرہے۔
گھر گرہستی والے ساتھی پوچھتے، ’’زندگی کے اس ڈھنگ سے تکلیف نہیں ہوتی؟‘‘
’’ہوتی ہے کبھی کبھی۔ ‘‘انوپم کہتا، ’’ سن چوراسی سے باہر ہوں۔ پہلے پڑھنے کی خاطر، اب نوکری کی خاطر۔ ‘‘
کبھی کبھی چھٹی کے دن انوپم کھانابناتا۔ باقی لڑکے اسے چڑاتے، ’’تم انوپم نہیں، انوپما ہو۔ ‘‘
وہ بیلن ہاتھ میں نچاتے ہوئے کہتا، ’’ ہم اپنے لالو انکل کو لکھوں گا، ادھر میں تم سب، ایک سیدھے سادے بہاری کو ستاتے ہو۔ ‘‘
جب آپ اپنا شہر چھوڑ دیتے ہیں، اپنی شکایات بھی وہیں چھوڑ آتے ہیں۔ دوسرے شہر کا ہر منظر پرانی یادوں کو کریدتا ہے۔ دل کہتا ہے ایسا کیوں ہے، ویسا کیوں نہیں ہے ؟ ہر گھر کے آگے ایک عدد ٹاٹا سومو کھڑی ہے۔ ماروتی 800 کیوں نہیں ؟ منطقی لحاظ سے طے کیا جا سکتا ہے کہ یہ خاندان کی ضرورت اوراقتصادی حیثیت کا تعارفی خط ہے۔ پر یادیں ہیں کہ لوٹ لوٹ آتی ہیں، سول لائنز، ایلگن روڈ اور چیتھم لائنس کی سڑکوں پر جہاں ماچس کی ڈبیوں جیسی کاریں اور اسٹیرنگ کے پیچھے بیٹھے نمکین چہرے، طبیعت کو تر و تازہ کر جاتے۔ اف، نئے شہر میں سب کچھ نیا ہے۔ یہاں دودھ ملتا ہے پر بھینسیں نہیں دکھتیں، کہیں سائیکل کی گھنٹی ٹنٹناتے دودھ والے نظر نہیں آتے۔ بڑی بڑی ڈیری شاپ ہیں، ائیر کنڈیشنڈ، جہاں چمکتی اسٹیل کی ٹنکیوں کی ٹونٹیوں سے دودھ نکلتا ہے۔ ٹھنڈا، پاسچرائزڈ۔ وہیں ملتا ہے دہی، میٹھا دودھ، کھویا اور کھیر۔
یہی ہال سبزی ترکاریوں کا ہے۔ ہر کالونی کے گیٹ پر صبح تین چار گھنٹے ایک اونچا سا ٹھیلا سبزی ترکاریوں سے سجا کھڑا رہے گا۔ وہ گھر گھر گھوم کر آواز نہیں لگاتا۔ عورتیں اس کے پاس جائیں گی اور خریداری کریں گی۔ اس ٹھیلے پر خاص اور عام ہر قسم کی سبزی ترکاریوں کا انبار لگا ہوتا ہے۔ سبز شملہ مرچ ہے تو سرخ اور پیلی بھی۔ گوبھی ہے تو بروکولی بھی۔ سلاد کی شکل کا تھائی کیبج بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ خاص سبزیاں کسی بھی صورت میں ڈیڑھ دو سو روپے کلو سے کم نہیں ہوتیں۔ یہ بڑے بڑے سرخ ٹماٹر ایک طرف رکھے ہیں کہ دور سے دیکھنے پر پلاسٹک کی گیند لگتے ہیں۔ یہ ٹماٹر کیاری میں نہیں، تجربہ گاہیں میں اگائے گئے لگتے ہیں۔ قیمت دس روپے پاؤ۔ ٹماٹر کا سائز اتنا بڑا ہے کہ ایک پاؤ میں ایک ہی چڑھ سکتا ہے۔ دس روپے کا ایک ٹماٹر ہے۔ بھگوان، کیا ٹماٹر بھی این۔ آر۔ آئی ہو گیا۔ شکاگو میں ایک ڈالر کا ایک ٹماٹر ملتا ہے۔ بھارت میں ٹماٹر اسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ سبزیاں عالمی مارکیٹ کی جنس بنتی جا رہی ہیں۔ ان کا گلوبلائزیشن ہو رہا ہے۔ پون کو یاد آتا ہے اس کے شہر میں کچرے پر بھی ٹماٹر اگ جاتا تھا۔ کسی نے پکا ٹماٹرکوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا، وہیں کلی لہلہا اٹھی۔ دو ماہ گزرتے گزرتے اس میں پھل لگ جاتے۔ چھوٹے چھوٹے سرخ ٹماٹر، رس سے بھرپور، یہاں جیسے بڑے، بناوٹی اور مصنوعی نہیں، اصل اور کھٹے میٹھے۔
٭٭٭
شہر کے بازاروں میں گھومنا شرد، پون، دیپندر، روجوندر اور شلپا کابرا کا شوق بھی ہے اور معمول بھی۔ روجوندر آلودگی پر پراجیکٹ رپورٹ تیار کر رہی ہے۔ کندھے پرپرس اور کیمرہ لٹکائے، کبھی وہ ایلس برج کے ٹریفک جام کی تصاویر اتارتی ہے، تو کبھی مارکیٹ میں جنریٹر سے نکلنے والے دھوئیں کا جائزہ لیتی ہے۔
دیپندر کہتا ہے، ’’روجو تمہاری رپورٹ سے کیا ہو گا۔ کیا ٹرک اور جنریٹر دھواں چھوڑنا بند کر دیں گے ؟‘‘
روجو سگریٹ کا آخری کش لے کر اس کا ٹوٹا پاؤں کے نیچے مسلتی ہے، ’’مائی فٹ! تم تو میری جاب کو ہی چیلنج دے رہے ہو۔ میری کمپنی کو اس سے مطلب نہیں ہے کہ گاڑیاں دھوئیں کے بغیر چلیں۔ اس کی منصوبہ بندی ہے کہ ہوا صاف کرنے والی پروڈکٹ بنیں۔ ایک ہربل اسپرے بھی بنا نے والی ہے۔ اسے ایک بار ناک کے پاس اسپرے کر لو، تو دھوئیں کی آلودگی آپ کی سانس کے راستے اندر نہیں جاتی۔ ‘‘
’’اور جو آلودگی آنکھ اور منہ کے راستے جائے گی وہ؟‘‘
’’تو منہ بند رکھو اور آنکھ میں ڈالنے کا کوئی آئی ڈراپ لاؤ۔ ‘‘
پون کے منہ سے نکل جاتا ہے، ’’میرے شہر میں آلودگی نہیں ہے۔ ‘‘
’’آ ہا ہا، پوری دنیا کو آلودگی پر تشویش ہے اور یہ پون کمار آ رہے ہیں سیدھا آسمان سے کہ دیکھیں ہمارے شہر میں آلودگی نہیں ہے۔ آپ الہ آباد کے بارے میں رومانٹک ہونا کب چھوڑو گے ؟‘‘
روجو ہنستی ہے، ’’واٹ ہی مینس از وہاں آلودگی کم ہے۔ ویسے پون میں نے سنا ہے یو پی میں، اب بھی رسوئی میں لکڑی کے چولہے پر کھانا بنتا ہے۔ تب تو وہاں گھر کے اندر ہی دھواں بھر جاتا ہو گا؟‘‘
’’الہ آباد گاؤں نہیں شہر ہے، تعلیمی دنیا میں اسے مشرق کا آکسفورڈ کہتے ہیں۔ ‘‘
شلپا کابرا بات درمیان میں کاٹ دیتی ہے، ’’ ٹھیک ہے، اپنے شہر کے بارے میں تھوڑا رومانٹک ہونے میں کیا حرج ہے۔ ‘‘
پون احسان مند نظروں سے شلپا کو دیکھتا ہے۔ اسے یہ سوچ کر برا لگا کہ شلپا کی غیر موجودگی میں وہ سب اس کے بارے میں ہلکے پن سے بولتے ہیں۔ پون کا ہی دیا ہوا لطیفہ ہے۔ شلپا کابرا، شلپا کا ’’برا‘‘۔
٭٭٭
’’ وشواس نی جوت گھری گھرے گوجر گیس لاوے چھے ‘‘ یہ نعرہ ہے پون کی کمپنی کا۔ اس پیغام کو فروغ دینے اورمشتہر کرنے کا معاہدہ شیبا کمپنی کو ساٹھ لاکھ میں مل گیا۔ اس نے بھی سڑکیں اور چورا ہے رنگ ڈالے ہیں۔
اٹیچی کیس میں کپڑے، آنکھوں میں خواب اوردل میں طرح طرح کے خیال لئے، نہ جانے کہاں کہاں سے نوجوان لڑکے نوکری کی خاطر اس شہر میں آ پہنچتے ہیں۔ بڑی بڑی سروس انڈسٹریز میں نوکری کرتے یہ نوجوان، صبح نو بجے سے رات نو بجے تک انتھک محنت کرتے ہیں۔ ایک دفتر کے دو تین لڑکے مل کر تین یا چار ہزار تک کے کرائے کا ایک فلیٹ لے لیتے ہیں۔ سبھی برابر شئیر کرتے ہیں، کرایہ، دودھ کا بل، نہانے دھونے کا سامان، لانڈری کا خرچا۔ اس انجان شہر میں جم جانا، ان کے آگے نوکری میں جم جانے جیسا ہی ایک چیلنج ہوتا ہے، ہر سطح پر۔ کہاں اپنے گھر میں یہ لڑکے شہزادوں کی طرح رہتے تھے، کہاں ساری سہولیات سے محروم، گھر سے اتنی دور، یہ سب کامیابی کی جد و جہد میں لگے ہیں۔ نہ انہیں کھانے پینے کی فکر ہے، نہ آرام کا خیال۔ ایک آنکھ کمپیوٹر پر گڑائے، یہ کھانے کی رسم ادا کر لیتے ہیں اور پھر لگ جاتے ہیں، کمپنی کی کاروباری ترقی کو بڑھانے کی کوششوں میں۔ ظاہر ہے، کاروبار یا منافع کے اہداف، اتنے اونچے ہوتے ہیں کہ کامیابی کی خوشی، ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی۔ کامیابی، اس دنیا میں، ایک فوروھیل ڈرائیو ہے، جس میں اسٹیرنگ آپ کے ہاتھ میں ہے، پر باقی سارے کنٹرول کمپنی کے ہاتھ میں۔ وہی طے کرتی ہے آپ کو کس رفتار سے دوڑنا ہے اور کب تک ایل۔ پی۔ جی کے سیکشن میں کام کرنے والوں کے حوصلے اور حسرتیں بلند ہیں۔ سب کو یقین ہے کہ وہ جلد ہی آئی۔ او۔ سی کو گجرات سے نکال دیں گے۔ ڈائریکٹر سے لے کر ڈلیوری مین تک میں، کام کیلئے جذبہ اور جنون ہے۔ مرکزی شہر میں جہاں جی۔ جی۔ سی۔ ایل کا دفتر ہے، وہ ایک خوبصورت عمارت ہے، تین اطراف ہریالی سے گھری۔ سامنے کچھ خوبصورت مکانات ہیں، جنکے برآمدوں میں بڑے بڑے جھولے لگے ہیں۔ بغل میں سینٹ جیویرس اسکول ہے۔ چھٹی کی گھنٹی پر جب نیلے یونیفارم پہنے، چھوٹے چھوٹے بچے اسکول کے دروازے سے باہر بھیڑ لگاتے ہیں، تو جی۔ جی۔ سی۔ ایل کے سرخ سلنڈروں سے بھری لال گاڑیاں، بڑا اچھاکنٹراسٹ بناتی ہیں، لال نیلا، نیلا لال۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی کے تین جادو بھرے حروفوں نے بہت سے نوجوانوں کی زندگی اور سوچ کی سمت ہی بدل ڈالی تھی۔ یہ تین حروف تھے، ایم بی اے۔ ملازمتوں میں ریزرویشن کی آندھی سے ستائے اعلی ذات کے خاندان، دھڑا دھڑ اپنے بیٹے بیٹیوں کو ایم بی اے میں داخل ہونے کا مشورہ دے رہے تھے۔ جو بچہ پون، شلپا اور روجوندر کی طرح کیٹ، میٹ جیسے داخلہ امتحانات نکال لے وہ تو ٹھیک، جو نہ نکال پائے اس کے لئے لمبی چوڑی داخلہ فیس دینے پر ایم۔ ایم۔ ایس کے دروازے کھلے تھے۔ ہر بڑے کالج نے دو طرح کے کورس بنا دیئے تھے۔ ایک کے ذریعے وہ شہرت حاصل کرتے تھے، تو دوسرے کے ذریعے فنڈز۔ معاشرے کی طرح تعلیم میں بھی درجہ بندی آتی جا رہی تھی۔ ایم بی اے میں لڑکے سال بھر پڑھتے، پروجیکٹ بناتے، رپورٹ پیش کرتے اور ہر سیشن کے امتحان میں پاس ہونے کی جی توڑ محنت کرتے۔ ایم۔ ایم۔ ایس میں رئیسوں، صنعت کاروں اور سیٹھوں کے بگڑے شاہزادے این۔ آر۔ آئی کوٹے سے داخلہ لیتے، جم کر وقت برباد کرتے اور دو کی جگہ تین سال میں ڈگری لے کر، اپنے والد کا کاروبار سنبھالنے یا بگاڑنے واپس چلے جاتے۔
شرد کے والد، الہ آباد کے نامی گرامی ڈاکٹر تھے۔ شرد کو جب ایم۔ بی۔ بی۔ ایس میں داخل کروانے کی ان کی تمام تر کوششیں ناکام رہیں، تو انہوں نے یکمشتد اخلہ فیس دے کر اس کا نام ایم۔ ایم۔ ایس میں لکھوا دیا۔ ایم۔ ایم۔ ایس کی ڈگری کے بعد، انہوں نے اپنے اثرورسوخ سے اسے سن شائن بوٹ پالش میں ملازمت بھی دلوا دی۔ پر اس میں کامیاب ہونا، اب شرد کی ذمہ داری تھی۔ اسے اپنے والد کا سخت چہرہ یاد آتا اور وہ سوچ لیتا کہ کام میں چاہے کتنی بھی بے عزتی ہو، وہ سہ لے گا، پر والد صاحب کی حقارت وہ نہیں سہ پائے گا۔ کمپنی کے ایم ڈی کبھی کبھار ہیڈ آفس سے آ کر چکر کاٹ جاتے۔ وہ اپنے منیجروں کو بھیج کر جائزہ لیتے اور شرد اور اس کے ساتھیوں پر برس پڑتے کہ، ’’پوری مارکیٹ میں بلی چھائی ہوئی ہے۔ شو رومز سے لے کر بل بورڈز اور بینرز تک، سب جگہ بلی ہی بلی ہے۔ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ اگر اسٹوریج کی قلت ہے، تو بلی کیلئے کیوں نہیں، سن شائن ہی کیوں ؟‘‘
شرد اور اس کے ساتھی اپنی پرانی دلیلیں پیش کرتے، تو ایم ڈی تامرپرنی صاحب اور بھڑک جاتے، ’’بلی پالش کیا ربڑ شوز پر لگائی جا رہی ہے یا اس سے چپلیں چمکائی جا رہی ہیں ؟‘‘
اس بار انہوں نے شرد اور اس کے ساتھیوں کو ہدایت دی کہ شہر کے موچیوں سے بات کر کے رپورٹ دیں کہ وہ کون سی پالش استعمال کرتے ہیں اور کیوں ؟
ایم ڈی تو پھوں پھاں کر کے چلتے بنے اور پیچھے لڑکوں کو موچیوں سے سر کھپانے کیلئے چھوڑ گئے۔ شرد اور اس کے ساتھی، صبح نو سے بارہ کے دوران شہر کے موچیوں کو ڈھونڈتے، ان سے بات کرتے اور نوٹس لیتے۔ در اصل مارکیٹ میں دن بدن مقابلہ سخت ہوتا جا رہا تھا۔ پیداوار، مارکیٹنگ اور فروخت کے درمیان مطابقت بٹھانا، شرد کا کام تھا۔ ایک ایک پروڈکٹ کے مقابلے میں، بیس بیس متبادل تھے۔ اور اوپر سے ان سب کو بہترین بتاتی ان کی اشتہاری مہم تھی، جن کی وجہ سے مارکیٹنگ کا کام آسان ہونے کے بجائے مشکل سے مشکل ہوتا جاتا۔ صارفین کے پاس ایک ایک چیز کی کئی کئی بڑھیا چوائس تھیں۔
روجوندر نے پرانی کمپنی چھوڑ کر انڈیا لیور کے ٹوتھ پیسٹ ڈویژن میں کام سنبھالا تھا۔ اسے آج کل دنیا میں دانتوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کہتی، ’’ہماری پروڈکٹ کے ایک ایک آئٹم کو اتنا جدید کر دیا گیا ہے کہ اب اس میں صرف صابن ملانے کی کسر باقی ہے۔ ‘‘ریڈیو اور ٹی وی پر دن میں سو بار سامعین اورناظرین کے شعور کو جھنجوڑتے اشتہارات، مارکیٹنگ کی کوششوں میں چیلنج اور انتباہ کا کام کرتے۔ صارفین بہت زیادہ امید کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ خریدتا، جو ایکبارگی پوری نہ ہوتی دِکھتی۔ وہ واپس اپنے پرانے ٹوتھ پیسٹ پر آ جاتا، بغیر یہ سوچے کہ اسے اپنے دانتوں کی ساخت، کھانے پینے کی اقسام، فطرت اور موروثی باتوں پر بھی غور کرنا چاہئے۔
شرد کو لگتا بوٹ پالش فروخت کرنا، سب سے مشکل کام ہے۔ تو روجوندر کو لگتا کہ گاہکوں کے منہ میں نیا ٹوتھ پیسٹ چڑھوانا ایک عذاب ہے اور پون پانڈے کو لگتا کہ وہ اپنی کمپنی کا ٹارگٹ، سیلز کا ہدف کس طرح پورا کرے۔ خالی وقت میں اپنی اپنی مصنوعات پر بحث کرتے کرتے وہ اتنی شرارت کرتے کہ لگتا کامیابی کا کوئی سٹہ کھیل رہے ہیں۔ پون میوزک سسٹم پر گانا لگا دیتا، ’’یہ تیری نظریں جھکی جھکی، یہ تیرا چہرہ کھلا کھلا۔ بڑی قسمت والا ہے۔۔ ۔ ‘‘
’’ سنی ٹوتھ پیسٹ جسے ملا ‘‘روجوندر گانے کی لائن مکمل کرتی۔
ایناگرام فنانس کمپنی کی طرف سے، شہر میں تین روزہ ثقافتی پروگرام کا انعقاد ہوا۔ گجرات یونیورسٹی کے وسیع گراؤنڈ میں انتہائی خوبصورت فرنشنگ کی گئی۔ گجرات ویسے بھی اپنے روایتی پنڈالوں کی ساخت اور خوبصورتی کے لئے مشہور رہا ہے، پھر اس تقریب میں بجٹ کی کوئی حد نہ تھی۔ پون، شلپا، روجو، شرد اور انوپم نے پہلے ہی اپنے پاس منگوا لئے۔ پہلے دن رقص کا پروگرام تھا، اگلے دن کلاسیکل میوزک تھا۔ پنڈت بھیم سین جوشی کا گانا، ہری پرساد چورسیہ کی بانسری اور شیو کمار شرما کا سنتور۔ احمد آباد جیسے صنعتی، تجارتی نگری کے لئے، یہ ایک بے مثال ثقافتی سنگم تھا۔
تقریب کے تمام انتظامات، اے۔ ایف۔ سی کے نوجوان منیجروں کے ذمے تھے۔ مرکزی احاطے میں پندرہ ہزار ناظرین کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ احاطے کے چاروں کونوں اور بیچ بیچ میں بہت بڑے سپرا سکرین لگے تھے، جن پر اسٹیج کے فنکاروں کودکھایا جا رہا تھا۔ ان کی وجہ سے دور بیٹھے ناظرین کو بھی فنکاروں کے قریب ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ ناظرین کی سیٹوں سے ہٹ کر، احاطے کی بیرونی دیوار کے قریب ایکا سنیک بازار لگایا گیا تھا۔ ثقافتی پروگرام میں داخلہ مفت تھا، تاہم کھانے پینے کے لئے سب کو پچاس روپے فی کس کے حساب سے کوپن خریدنا لازمی تھا۔
دوسرے دن پون، بھیم سین جوشی کو سننے گیا تھا۔ سپرا سکرین پر بھیم سین جوشی، مہا بھیم سین جوشی نظر آ رہے تھے۔ ’’سب ہے تیرا‘‘ پر آتے آتے انہوں نے ہمیشہ کی طرح سر اور تال سے سماں باندھ دیا۔ لیکن پون کو اس بات سے الجھن ہو رہی تھی کہ ارد گرد کی سیٹوں پر بیٹھے ناظرین کی دلچسپی گانے سے زیادہ کھانے پینے میں تھی۔ وہ بار بار اٹھ کرا سنیک بازار جاتے، وہاں سے انکل چپس کے پیکٹ اور پیپسی لاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ماحول میں راگ اہیر بھیرو کے ساتھ کچر رکچر ر، چرر چرر کی آوازیں بھی شامل ہو گئیں۔ زیادہ تر ناظرین کے لئے وہاں دیکھا جانا ہی اپنی موجودگی کی علامت تھی۔
پون نے اپنے شہر میں اس آرٹسٹ کو سنا تھا۔ مہتا سنگیت کمیٹی کے ہال میں کھچا کھچ بھیڑ میں ساکت بیٹھے تھے ناظرین۔ الہ آباد میں آج بھی ادب اور موسیقی کے سب سے زیادہ چاہنے والے اور پرستار نظر آتے ہیں۔ وہاں اس طرح درمیان میں اٹھ کر کھانے پینے کا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
اپنے شہر کے ساتھ ہی اپنے گھر کی یاد بھی اسے امڈ آئی۔ اس نے سوچا کہ پروگرام ختم ہونے پر وہ گھر فون کرے گا۔ ماں اس وقت کیا کر رہی ہوں، شاید دہی میں خمیر لگا رہی ہوں گی؟ دن کا آخری کام۔ پاپا کیا کر رہے ہوں گے، شاید خبروں کی پچاسویں قسط سن رہے ہوں گے۔ بھائی کیا کر رہا ہو گا۔ وہ ضرور ٹیلی فون پر چپکاہو گا۔ اسی کی وجہ سے فون اتنا مصروف رہتا ہے کہ خود پون کو اپنے گھر بات کرنے کے لئے بھی پی۔ سی۔ او پر ایک ایک گھنٹے بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ بالآخر جب فون ملتا ہے، تب سگھن سے پتہ چلتا ہے کہ ماں پاپا کی ابھی ابھی آنکھ لگی ہے۔ کبھی ان سے بات ہوتی ہے، کبھی نہیں ہوتی۔ جب ماں اداس لہجے میں پوچھتی ہیں، ’’کیسے ہو پنّو، کھانا کھایا، چٹھی ڈالا کرو۔ ‘‘وہ ہر بات پر ہاں کر دیتا ہے۔ پر تسلی نہیں ہوتی۔ اس کا اپنی ماں سے بے حد قریبی رشتہ رہا ہے۔ فونز کے روپ میں، آلات کو بیچ میں ڈال کر، صرف اس تک پہنچا جا سکتا ہے، پرمحسوس نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ماں کے چہرے کی ایک ایک جنبش دیکھنا چاہتا ہے۔ والد صاحب ہنستے ہوئے حیرت انگیز طور پر خوبصورت لگتے ہیں۔ اتنی دور بیٹھ کر پون کو لگتا ہے ماں، باپ اور بھائی اس کے البم کی سب سے خوبصورت تصاویر ہیں۔ اسے لگا اب سگھن کس سے الجھتا ہو گا۔ سارا دن اس پر لدا رہتا تھا، کبھی تکرار میں، توکبھی لاڈ میں۔ کئی بار سگھن اپنا بچپنا چھوڑ کر بڑا بھیا بن جاتا۔ پون کسی بات سے اداس ہوتا، تو سگھن اسے لپٹ لپٹ کر مناتا، ’’بھیا، بتاؤ کیا کھاؤ گے ؟ بھیا، تمہاری شرٹ استری کر دوں ؟ بھیا، ہمیں سبل لائنز لے چلو گے ؟‘‘
شعر و سخن سے محبت کرنے والے والدین کی وجہ سے، گھر میں کمرے کتابوں سے بھرے پڑے تھے۔ اسکول کی پڑھائی کی وجہ سے دوسری کتابیں پڑھنے کا ٹائم نہیں ملتا تھا، پھر بھی اپنے پاپا اور ماں کے اکسانے کی وجہ سے، وہ تھوڑا بہت پڑھ لیتا تھا۔ انہوں نے اسے پریم چند کی کہانیاں اور کچھ مضامین پڑھنے کو دیئے تھے۔ ’’کفن‘‘، ’’پوس کی رات‘‘ جیسی کہانیاں اس ذہن پر نقش ہو گئی تھیں، لیکن مضامین کے حوالے سب گڈمڈ ہو گئے تھے۔
مطالعے کے لئے اب وقت ہی نہیں تھا۔ کمپنی کی کرم بھومی نے اسے اس زمانے کا ابھی منیو بنا دیا تھا۔ گھر کی بہت ہڑک اٹھنے پر ہی فون پر بات کرتا۔ ایک آنکھ بار بار میٹرا سکرین پر اٹھ جاتی۔ چھوٹو کوئی چٹکلا سنا کر ہنستا۔ پون بھی ہنستا، پھر کہتا، ’’اچھا چھوٹو، اب کام کی بات کر، چالیس روپے کا ہنس لئے ہم لوگ۔ ‘‘
ماں پوچھتی، ’’تم نے گدا بنوا لیا؟‘‘
وہ کہتا، ’’ ہاں ماں، بنوا لیا۔ ‘‘
حقیقت یہ تھی کہ گدا بنوانے کی فرصت ہی اس کے پاس نہیں تھی۔ گھر سے فوم کی رضائی لایا تھا، اسی کو بستر پر گدے کی طرح بچھا کے رکھا تھا۔ پر اسے پتہ تھا کہ ’’نہیں ‘‘ کہنے پر ماں نصیحتوں کے ڈھیر لگا دیں گی۔
’’گدے کے بغیر کمر اکڑ جائے گی۔ میں یہاں سے بنوا کر بھیجوں ؟۔ اپنا خیال بھی نہیں رکھ پاتا، ایسی نوکری کس کام کی۔ پبلک سیکٹر میں آ جا، چین سے تو رہے گا۔ ‘‘
احمد آباد، الہ آباد کے درمیان ایس۔ ٹی۔ ڈی کال کی پلس ریٹ، دل کی دھڑکن کی طرح سرپٹ چلتی ہے، ابھی پانچ منٹ بات کر کے دل بھی نہیں بھرا ہوتا کہ سو روپے نکل جاتے۔ تب اسے لگتا ’’ٹائم از منی‘‘۔ وہ خودکو دھتکارتا کہ گھر والوں سے بات کرنے میں بھی وہ بنیا پن دکھا رہا ہے۔ پر شہر میں دیگر چیزوں پر اتنا خرچ ہو جاتا کہ فون کے لئے پانچ سو سے زیادہ کی گنجائش، بجٹ میں نہ رکھ پاتا۔
ہفتہ کی شام پون ہمیشہ کی طرح ابھیشیک شکلا کے یہاں پہنچا تو پایا کہ وہاں ماحول کچھ الگ ہے۔ اکثر یہ ہوتا کہ وہ، ابھیشیک، اس کی بیوی راجُل اور ان کے ننھے بیٹے انکور کے ساتھ کہیں گھومنے نکل جاتا۔ لوٹتے ہوئے وہ باہر ہی ڈنر کر لیتے یا کہیں سے بڑھیا سبزی کا سالن پیک کرا کر لے آتے اور روٹی سے کھاتے۔ آج انکور ضد پکڑے بیٹھا تھا کہ پارک میں نہیں جائیں گے، بازار جائیں گے۔ راجُل اسے منا رہی تھی، ’’انکور پارک میں تمہیں ریچھ دکھائیں گے اور خرگوش بھی۔ ‘‘
’’وہ سب میں نے دیکھ لیا، ہم بجال دیکھیں گے۔ ‘‘
ہارمان کر وہ بازار چل دئیے۔ کھلونوں کی دکان پر انکور اڑ گیا۔ کبھی وہ ائیرگن ہاتھ میں لیتا، توکبھی ٹرین۔ اس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ کیا لے۔ پون نے الیکٹرانک بندر اسے دکھایا، جو تین بار چھلانگیں مارتا اور کھوکھو کرتا تھا۔
انکور پہلے تو چپ رہا۔ جیسے ہی وہ لوگ دام چکا کر اور بندر پیک کرا کر چلنے لگے، انکور مچلنے لگا، ’’بندر نہیں، گن لینی ہے۔ ‘‘
راجُل نے کہا، ’’ گن گندی، بندر اچھا۔ راجابیٹا بندر سے کھیلے گا۔ ‘‘
’’ ہم ٹھائیں ٹھائیں کریں گے، ہم بندر پھینک دیں گے۔ ‘‘
دوبارہ دکان پر جا کر کھلونے دیکھے گئے۔ بے دلی سے ائیرگن پھر نکلوائی گئی۔ ابھی اسے دیکھ، سمجھ رہے تھے کہ انکور کی توجہ پھر بھٹک گئی۔ اس نے دکان پر رکھی سائیکل دیکھ لی۔ ’’ چھیکل لینا، چھیکل لینا۔ ‘‘وہ چلانے لگا۔
’’ابھی تم چھوٹے ہو۔ ٹرائی سائیکل گھر میں ہے تو۔ ‘‘راجُل نے سمجھایا۔
ابھیشیک کی برداشت ختم ہو رہی تھی، ’’اس کے ساتھ بازار آنا ایک مصیبت ہے، ہر بار کسی بڑی چیز کے پیچھے لگ جائے گا۔ گھر میں کھلونے رکھنے کی جگہ بھی نہیں ہے اور یہ خریدتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘
بڑی مہارت سے انکور کی توجہ واپس بندر میں لگائی گئی۔ دکاندار بھی اب تک اکتا چکا تھا۔ ان سب چکر وں میں اتنی دیر ہو گئی کہ اور کہیں جانے کا وقت ہی نہیں بچا۔ واپسی میں وہ لَوگارڈن سے ملحقہ مارکیٹ میں بھیل پوری، پانی پوری کھانے رک گئے۔ بازار گاہکوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ انکور نے کچھ نہیں کھایا، اسے نیند آنے لگی۔ کسی طرح اس کو گاڑی میں لٹا کر وہ گھر آئے۔
ابھیشیک نے کہا، ’’پون تم لکی ہو، ابھی تمہاری جان کو نہ بیوی کا جھنجھٹ ہے اورنہ بچے کا۔ ‘‘
راجُل تنک گئی، ’’ میرا کیا جھنجھٹ ہے تمہیں ؟‘‘
’’ میں تو جنرل بات کر رہا تھا۔ ‘‘
’’ یہ جنرل نہیں اسپیشل بات تھی۔ میں نے تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں ابھی بچہ نہیں چاہتی۔ تمہیں ہی بچے کی پڑی تھی۔ ‘‘
پون نے دونوں کو سمجھایا، ’’ اس میں جھگڑے والی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک بچہ تو گھر میں ہونا ہی چاہئے۔ ایک سے کم تو پیدا بھی نہیں ہوتا، اس وجہ سے ایک تو ہو گا ہی ہو گا۔ ‘‘
ابھیشیک نے کہا، ’’ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ نو مور ڈسکشن۔ ‘‘
لیکن راجُل کا موڈ خراب ہو گیا۔ وہ گھر کے آخری کام نپٹاتے ہوئے بھنبھناتی رہی، ’’ہندوستانی مرد کو شادی کے سارے سکھ چاہئے، بس ذمہ داری نہیں چاہئے۔ میرا کتنا حرج ہوا۔ اچھی بھلی سروس چھوڑنی پڑی۔ میری تمام کولیگس کہتی تھیں، راجُل اپنی آزادی چوپٹ کرو گی اور کچھ نہیں۔ آج کل تو ڈرنکس کا زمانہ ہے۔ ڈبل انکم نو کڈز (دوہری آمدنی، بچے نہیں )۔ سینٹی منٹ کے چکر میں پھنس گئی۔ ‘‘
کسی طرح رخصت لے کرپون وہاں سے نکلا۔
کمپنی نے پون اور انوپم کا تبادلہ راجکوٹ کر دیا۔ وہاں انہیں نئے سرے سے آفس شروع کرنا تھا، ایل۔ پی۔ جی کی خوردہ مارکیٹ کو سنبھالنا تھا اور پورے سوراشٹر میں جی۔ جی۔ سی نیٹ ورک کوپھیلانے کے امکانات پر پراجیکٹ تیار کرنا تھا۔
تبادلے اپنے ساتھ تکلیفیں بھی لاتے ہیں۔ پر ان دونوں کو اتنی نہیں ہوئیں، جتنی کا خدشہ تھا۔ ان کے لئے احمد آباد بھی انجانا تھا اور راجکوٹ بھی۔ پردیسی کے لئے پردیس میں پسند کیا، ناپسند کیا۔ احمد آباد میں اتنی جڑیں جمی نہیں تھیں کہ اکھڑے جانے پر درد ہوتا۔ پر احمد آباد، راجکوٹ روٹ پر ڈیلکس بس میں جاتے ہوئے، دونوں کو یہ ضرور لگ رہا تھا کہ وہ ہیڈ آفس سے برانچ آفس کی جانب دھکیل دئیے گئے ہیں۔
گوجر گیس، سوراشٹر کے دیہاتوں میں اپنے پاؤں پسار رہی تھی۔ اس کے لئے وہ اپنے نئے عہدے داروں کو دورے اور معلومات کا وسیع پروگرام سمجھا چکی تھی۔ استعمال کا شعور، توانائی، فنانس اور مارکیٹنگ کے لئے مختلف ٹیمیں گاؤں کی سطح پر کام کرنے نکل پڑی تھیں۔ یوں تو پون اور انوپم بھی ابھی نئے ہی تھے، پر انہیں ان چھبیس عہدے داروں کو کام سمجھانا اور ان کا جائزہ لینا تھا۔ راجکوٹ میں ابھی وہ ایک دن ٹکتے نہیں تھے کہ اگلے ہی دن انہیں سورت، بھڑوچ، انکلیشور کے دورے پر بھیج دیا جاتا۔ ہر جگہ کسی تین ستارہ ہوٹل میں انہیں ٹکایا جاتا، پھر اگلا مقام۔
سورت کے پاس ہجیرا میں بھی پون اور انوپم گئے۔ وہاں کمپنی کے تیل کے کنوئیں تھے۔ لیکن پہلا احساس انہیں کمپنی کے تسلط کانہیں، بلکہ بحیرہ عرب کے تسلط کا ہوا۔ ایک طرف ہرے بھرے درختوں کے درمیان واقع بڑی بڑی فیکٹریاں، دوسری طرف شور مچاتا بحیرہ عرب۔
ایک دن انہیں ویر پور بھی بھیجا گیا۔ راجکوٹ سے پچاس میل پر اس چھوٹے سے قصبے میں جلرام بابا کا آشرم تھا۔ وہاں کے پجاری کو پون نے گوجر گیس کی اہمیت سمجھا کر چھ گیس کنکشن کا آرڈر لیا۔ کچھ ہی دیر میں جلرام بابا کے بھگتوں اور حامیوں میں خبر پھیل گئی کہ بابا نے گوجر گیس واپرنے (استعمال کرنے ) کا حکم دیا ہے۔ دیکھتے دیکھتے شام تک پون اور انوپم نے دو سو چونسٹھ گیس کنکشنز کے آرڈرز حاصل کر لیے۔ ویسے گوجر گیس کا مقابلہ ہر جگہ آئی۔ او۔ سی سے تھا۔ لوگ صنعتی اور گھریلو استعمال کے فرق کو اہمیت نہیں دیتے۔ جس میں چار پیسے بچیں، وہیں انہیں بہتر لگتا۔ کئی جگہ انہیں پولیس کی مدد لینی پڑی کہ گھریلو گیس کا استعمال صنعتی اکائیوں میں نہ کیا جائے۔
کریٹ ڈیسائی نے چار دن کی چھٹی مانگی۔ توپون کا ما تھا ٹھنک گیا۔ پرائیویٹ انٹرپرائز میں دو گھنٹے کی چھٹی لینا بھی فضول خرچی سمجھا جاتا تھا، پھر یہ تو اکٹھے چار دن کا معاملہ تھا۔ کریٹ کی غیر حاضری کا مطلب تھا، ایک دیہی علاقے سے چار دنوں کے لئے بالکل کٹ جانا۔
’’آخر تمہیں ایسا کیا کام آ پڑا؟‘‘
’’ اگر میں بتاؤں گا، تو آپ چھٹی نہیں دیں گے۔ ‘‘
’’ کیا تم شادی کرنے جا رہے ہو؟‘‘
’’نہیں سر۔ میں نے آپ کو بولا نہ۔ میرے کوجرور جانا مانگتا۔ ‘‘
بہت کریدنے پر پتہ چلا کریٹ ڈیسائی، سرل مارگ کے کیمپ میں جانا چاہتا ہے۔ راجکوٹ میں ہی تیرہ میل دور، اس کے سوامی جی کا کیمپ لگے گا۔
’’جو کام تمہارے ماں باپ کے لائق ہے، وہ تم ابھی سے کرو گے۔ ‘‘پون نے کہا۔
’’نہیں سر، آپ ایک دن کیمپ کے میڈٹیشن میں حصہ لیجئے۔ دل کو بہت شانتی ملتی ہے۔ سوامی جی کہتے ہیں، میڈٹیشن پری پئیرس یو فار یورمنڈیز۔ ‘‘( دھیان لگانے سے آپ اپنے سومواروں کا سامنا بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ )
’’تو اس کے لئے چھٹی کی کیا ضرورت ہے۔ تم کام سے لوٹ کر بھی کیمپ میں جا سکتے ہو۔ ‘‘
’’نہیں سر۔ پوجا اور دھیان پھل ٹائم جاب ہے۔ ‘‘
پون نے بے دلی سے کریٹ کو چھٹی دے دی۔ دل ہی دل میں وہ کھولتا رہا۔ ایک شام وہ یوں ہی کیمپ کی طرف چل پڑا۔ دل میں کہیں یہ بھی تھا کہ کریٹ کی موجودگی چیک کر لی جائے۔
راجکوٹ/ جونا گڑھ لنک روڈ پر دائیں ہاتھ کو بہت بڑے پھاٹک پر ’’ دھیان شِوِر سرل مارگ‘‘ کا بورڈ لگا تھا۔ تقریباً سارا ہی شہر موجود تھا۔ گاڑیوں کے قافلے آ اور جا رہے تھے۔ اتنی بھیڑ تھی کہ اس میں کریٹ کو ڈھونڈنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اکتایا ہوا پون اندر گھسا۔ بہت بڑے احاطے میں ایک طرف بڑی سی کھلی جگہ گاڑی کھڑے کرنے کے لئے چھوڑی گئی تھی، جو تین چوتھائی بھری ہوئی تھی۔ وہیں آگے کی طرف لال پیلے رنگ کا پنڈال تھا۔ دوسری طرف ترتیب سے خیمے لگے ہوئے تھے۔ کچھ خیموں کے باہر کپڑے بھی خشک ہو رہے تھے۔ اس حصے میں بھی ایک پھاٹک تھا جس پر لکھا تھا کہ داخلہ منع ہے۔
پنڈال کے اندر جب تک پون گھسنے میں کامیاب ہوا، تب تک سوامی جی کا پروچن اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ وہ نہایت پرسکون، معتدل، انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ’’ پریم کرو، پرانماتر سے پریم کرو۔ پریم کوئی ٹیلی فون کنکشن نہیں ہے، جو آپ صرف ایک منش سے بات کریں۔ پریم وہ آلوک ہے، جوسموچے کمرے کو، سموچے جیون کو آلوکت کرتا ہے۔ اب ہم دھیان کریں گے۔ اوم۔ ‘‘
ان کے ’’اوم‘‘کہتے ہی پانچ ہزار افراد سے بھرے پنڈال میں سناٹا چھا گیا۔ جو جہاں جیسے بیٹھا تھا، ویسے ہی آنکھ موند کر دھیان میں چلا گیا۔
آنکھیں بند کر کے پانچ منٹ بیٹھنے پر، پون کو بھی بہت زیادہ سکون کا احساس ہوا۔ کچھ کچھ ویسا ہی، جب وہ لڑکپن میں بہت بھاگ دوڑ کر لیتا تھا، تو ماں اسے زبردستی اپنے ساتھ لٹا لیتی اور تھپکتے ہوئے ڈپٹتی، ’’بچہ ہے کہ آفت۔ خاموشی سے آنکھیں بند کر، اور سو جا۔ ‘‘اسے لگا اگر کچھ دیر اور وہ ایسے بیٹھ گیا، تو واقعی سو جائے گا۔
اس نے تھوڑی سے آنکھیں کھول کر اغل بغل دیکھا، سبھی دھیان میں گم تھے۔ دیکھنے سے سبھی وی آئی پی ٹائپ کے لوگ تھے، جیب میں جھانکتے موبائل فون اور گھٹنوں کے درمیان دبی منرل واٹر کی بوتلیں، انہیں ایک الگ مقام دے رہی تھیں۔ کامیابی کی اونچائیوں کی تلاش میں، یہ بھگت جانے کس جیٹ کی رفتار سے دن بھر دوڑتے پھرتے تھے، اپنے بزنس یا جاب کے اہداف کی تکمیل کا حصہ بنے انسان۔ پر یہاں اس وقت یہ شانتی کے سفیر تھے۔
کچھ دیر بعد اجتماع ختم ہوا۔ سب نے سوامی جی کو مون نمن کیا اور اپنی اپنی گاڑیوں کی سمت چل دیئے۔ پارکنگ پر گاڑیوں کی آوازیں اور تیکھے میٹھے ہارن سنائی دینے لگے۔ واپسی میں پون کا کریٹ پر غصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اسے اپنا آپ پرسکون اور صحت مند لگ رہا تھا۔ اسے یہ اچھا لگا کہ بھاگ دوڑ سے بھری زندگی میں، چار دن کا وقت دھیان کے لئے نکالا جائے۔ سوامی جی کے خیالات بھی اسے بہترین اور تازگی سے بھرے لگے۔ جہاں دیگر، دھرم کی رسومات کو خاص اہمیت دیتے ہیں، وہاں کریٹ کے سوامی جی صرف روحانیت پر زور دیتے رہے۔ سوچو، غور کرو اور روح کی صفائی، ان کی سرل مارگ( سادہ راستے )کے اصول تھے۔
سرل مارگ مشن کے بھگت، ان بھگتوں سے ہر اعتبار سے مختلف تھے، جو اس نے اپنے شہر میں سالہا سال ماگھ میلے میں آتے دیکھے تھے۔ پریشان حالی کی تصویر بنے وہ بھگت ناقابل بیان تکلیفیں جھیل کر مکتی پانے کی کوشش کرتے۔ ذاتی اشیاء کے نام پر ان کے پاس ایک عدد میلی کچیلی گٹھری ہوتی، ساتھ میں بوڑھی ماں یا بہن اور انٹی میں دس بیس روپے۔ کمبھ کے میلے پر لاکھوں کی تعداد میں یہ بھگت گنگا میا تک پہنچنے، ڈپکی لگاتے اور نجات کی خواہش کے ساتھ گھر واپس لوٹ جاتے۔ غور و فکر کے بجائے منتر جپ کروہ بھگت، بس اتنا سمجھتے کہ گنگا ایک مقدس پانی ہے اور ان کے گناہوں کو اتارنے والا۔ اس سے اوپر سوچنا ان کے بس سے باہر تھا۔
پر کریٹ کے سوامی، کرشنا سوامی جی مہاراج کے بھگت، سوسائٹی کے ایک سے ایک تعلیم یافتہ، اعلی سطح کے افسر اور تاجر تھے۔ کوئی ڈاکٹر تھا تو کوئی انجینئر، کوئی بینک افسر، تو کوئی پرائیویٹ سیکٹر کا منیجر۔ یہاں تک کہ بہت سے چوٹی کے آرٹسٹ بھی ان کے بھگتوں میں شمار ہوتے تھے۔ سال میں چار بار وہ اپنا کیمپ لگاتے، ملک کے مختلف شہروں میں۔ پورے ملک سے ان کے بھگت وہاں پہنچتے۔ ان کے کچھ غیر ملکی بھگت بھی تھے، جو ہندوستانیوں سے زیادہ مقامی بننے اور دِکھنے کی کوشش کرتے۔
پون نے دو چار بار سوامی جی کی گفتگو سنی۔ سوامی جی کی گفتگو اثر دار تھی اور شخصیت پر کشش۔ وہ تہمد کے اوپر کرتا پہنا کرتے۔ دیگر دھرم اچاریوں کی طرح نہ انہوں نے بال بڑھا رکھے تھے، نہ داڑھی۔ وہ مانتے تھے کہ انسان کو اپنا ظاہری روپ بھی اندرونی روپ کی طرح صاف رکھنا چاہئے۔ ان کا حقیقت پسندانہ جیون فلسفہ ان کے بھگتوں کو بہت درست لگتا۔ وہ سب بھی اپنے کاموں کو بالکل ترک نہیں کرتے، بس اس میں سے چار دن کی مہلت نکال کر، اس روحانی ہالیڈے کے لئے آتے۔ وہ اسے ایک ’’تجربہ‘‘مانتے۔ جب سوامی جی ایک دم رواں اورپر اعتماد انگریزی میں ہندوستانی لوگوں کی طاقت اور قوت سمجھاتے، بھگتوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا۔ سوامی جی ہندی بھی بخوبی بول لیتے۔ عورتوں کے کیمپ میں وہ اپنا آدھا بیان ہندی میں دیتے اور آدھا انگریزی میں۔
سرل مارگ مشن شروع کرنے سے پہلے سوامی جی۔ پی۔ پی۔ کے کمپنی میں اسٹاف مینیجر تھے۔ مشن کی ساخت، آپریشن اور کام کی منصوبہ بندی میں ان کی انتظامی مہارت دیکھنے کو ملتی تھی۔ کیمپ میں اتنی بھیڑ جمع ہوتی تھی، پر نہ کہیں افراتفری ہوتی نہ شورشرابا۔ لا شعوری طور پر پون ان سے متاثر ہوتا جا رہا تھا۔ مگر یہ اثرات اس پر زیادہ دیرٹھہر نہیں پاتے، کیونکہ کام کے سلسلے میں اسے راجکوٹ کے ارد گرد کے علاقوں کے علاوہ بار بار احمدآباد بھی جانا پڑتا۔ احمد آباد میں دوستوں سے ملنا بھی اچھا لگتا۔ ابھیشیک کے یہاں جا کر انکور کی نئی نئی شرارتیں دیکھنا اسے مزہ دیتا۔
ابھیشیک نے سنجیدگی سے آئیڈیا سمجھا۔ ا سکرپٹ لکھا گیا۔ اب اشتہاری فلم بننی تھی۔ اسے ایسی ماڈل کی تلاش تھی، جس کی شخصیت میں دانت اہمیت کے حامل ہوں، ساتھ ہی وہ خوبصورت بھی ہو۔ اس کے علاوہ دو ایک لائن کے ڈائیلاگ بولنے کا بھی اسے کچھ شعور ہو۔ اس کے پاس ماڈلزکی ایک مفصل فہرست تھی، پر اس وقت وہ کام نہیں آ رہی تھی۔ مشکل یہ تھی کسی بھی پروڈکٹ کی تشہیر کرنے میں، ایک ماڈل کا چہرہ دن میں اتنی بار میڈیا نیٹ ورک پر دکھایا جاتا کہ وہ اسی پروڈکٹ کے اشتہارات سے چپک کر رہ جاتا۔ اگلی کسی پروڈکٹ کے اشتہار میں اسی ماڈل کو لینے سے اشتہار ہی پٹ جاتا۔ نئے چہروں کی بھی کمی نہیں تھی۔ روز ہی اس فیلڈ میں نئی نئی لڑکیاں جوکھم اٹھانے کو تیار آتی تھیں، پر انہیں ماڈل بنائے جانے کا بھی ایک طریقہ کار تھا۔ اگر سب کچھ طے ہونے کے بعد کیمرہ مین اسے ریجیکٹ کر دے، تب بھی اسے لینا مشکل تھا۔ ابھیشیک جس اشتہاری کمپنی میں کام کرتا تھا، اس کی آج کل ایک اور کمپنی کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ وار چھڑی ہوئی تھی۔ دونوں کے اشتہارات ایک کے بعد ایک ٹی وی چینلوں پر دکھائے جاتے۔ ایک میں ڈینٹسٹ کا بیان ثبوت کے طور پر دیا جاتا، تو دوسرے میں اسی بیان کی تردید۔ دونوں ٹوتھ پیسٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تھے۔ ان کمپنیوں کا جتنا پیسہ ٹوتھ پیسٹ بنانے پر لگ رہا تھا، تقریباً اتنا ہی اس کی مشہوری پر۔ ٹوتھ پیسٹ تقریباً ًایک جیسے ہی تھے، دونوں کی رنگت بھی ایک تھی، پر کمپنیاں مختلف ہونے کی وجہ سے ان کی مختلف خاصیتوں اور فوائد کو ثابت کرنے کی ایک دوڑ سی مچی ہوئی تھی۔ اسی لئے ابھیشیک کی کمپنی کریسنٹ کارپوریشن کو نوے لاکھ کا ایڈورٹائزنگ بجٹ ملا تھا۔
آج کل ابھیشیک کے ذمے کسی ماڈل کا انتخاب کرنا تھا۔ وہ ایک بیوٹی پارلر کی مالکن نیکتا پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی تانیا کو ماڈلنگ کرنے دیں۔ اس سلسلے میں وہ کئی بار ’’روزِز‘‘ پارلر میں گیا۔ اسی کو مدعا بنا کر میاں بیوی میں کشیدگی ہو گئی۔
راجُل کا خیال تھا کہ روزِز اچھی جگہ نہیں ہے۔ وہاں علاج کی آڑ میں غلط دھندے ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اشتہاری فلم بنانے کا کام، اس کی کمپنی کا بمبئی یونٹ کرے، یہاں احمدآباد میں اچھی فلم بننا ممکن نہیں ہے۔ ابھیشیک کا کہنا تھا کہ وہ بمبئی کی روائتی اشتہاری فلموں سے اکتا گیا ہے۔ وہ یہیں رہ کر بہترین کام کر کے دکھائے گا۔
’’یوں کہو کہ تمہیں ماڈل کی تلاش میں مزہ آ رہا ہے۔ ‘‘راجُل نے طعنہ مارا۔
’’یہی سمجھ لو۔ یہ میرا کام ہے، اسی کی مجھے تنخواہ ملتی ہے۔ ‘‘
’’مزے ہیں۔ تنخواہ بھی ملتی ہے، لڑکی بھی ملتی ہے۔ ‘‘
ابھیشیک اکھڑ گیا، ’’ کیا مطلب تمہارا؟ تم ہمیشہ ٹیڑھاہی سوچتی ہو۔ جیسے تمہارے ٹیڑھی دانت ہیں، ویسی ہی ٹیڑھی تمہاری سوچ ہے۔ ‘‘
راجُل کا، اوپر نیچے کا ایک ایک دانت ٹیڑھا نکلا ہوا تھا۔ خاص زاویہ سے دیکھنے پر وہ ہنستے ہوئے اچھا بھی لگتا تھا۔
’’شروع میں اسی بانکے دانت پر آپ فدا ہوئے تھے۔ ‘‘راجُل نے کہا، ’’ آج آپ کو یہ ٹیڑھا لگنے لگا۔ ‘‘
’’ پھر تم نے غلط لفظ استعمال کیا۔ بانکا لفظ دانت کے ساتھ نہیں بولا جاتا۔ بانکی ادا ہوتی ہے، دانت نہیں۔ ‘‘
’’لفظ اپنی جگہ سے ہٹ بھی سکتے ہیں۔ لفظ پتھر نہیں ہیں جو جمے رہیں۔ ‘‘
’’ تم اپنی زبان و بیان کی کمزوری چھپا رہی ہو۔ ‘‘
’’ کوئی بھی بات ہو، سب سے پہلے تم میری غلطیاں گنانے لگتے ہو۔ ‘‘
’’ تم میرا دماغ خراب کر دیتی ہو۔ ‘‘
’’اچھا سوری، پر اب تم نیکتا کے یہاں نہیں جاؤ گے۔ اس سے اچھا ہے کہ تم یونیورسٹی کی طالبات میں کوئی صحیح چہرہ تپاش کرو۔ ‘‘
’’ تپاس نہیں، تلاش کرو۔ ‘‘
’’تلاش ہی سہی، پر آپ روزِز نہیں جاؤ گے۔ ‘‘
جب سے راجُل نے نوکری چھوڑی، اس کے اندر عدمِ تحفظ کا احساس گھر کر گیا تھا۔ ساڑھے چار سال کی نوکری کے بعد وہ صرف اس وجہ سے ہٹا دی گئی کیونکہ اس کی اشتہاری ایجنسی مانتی تھی کہ گھر اور دفتر کے دونوں محاذ بیک وقت سنبھالنا، اس کے بس کی بات نہیں۔ خاص طور پر جب وہ حاملہ تھی اور اس کے ہاتھ سے سارے اہم کام لے کر سادھنا سنگھ کو دے دیے گئے تھے۔ انکور کے پیدا ہونے تک دفتر میں ماحول اتنا بگڑ گیا کہ ڈیلیوری کے بعد راجُل نے استعفی دے دیا۔ لیکن اس کے بعد سے وہ شوہر کے بارے میں بڑی ہوشیار اور حساس ہو گئی تھی۔ اسے لگتا تھا ابھیشیک اتنا مصروف نہیں رہتا، جتنا وہ ڈرامہ کرتا ہے۔ پھر اشتہاری کمپنیوں کی دنیا تغیر اورکشش سے بھرپور تھی۔ روز نئی نئی لڑکیاں ماڈل بننے کا خواب آنکھوں میں لیے ہوئے، کمپنیوں کے دروازے کھٹکھٹاتیں۔ ان کے استحصال کے خدشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اشتہاری ایجنسی کا سارا نیٹ ورک خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کی وجہ سے، کئی دنوں سے راجُل کے اندر جو سوال جنم لے رہے تھے، ان پر وہ ابھیشیک کے ساتھ بات کرنا چاہتی تھی۔ پر ابھیشیک جب بھی گھر آتا، لمبی چوڑی باتوں کے موڈ میں ہرگز نہ ہوتا۔ بلکہ وہ چڑچڑا سا ہی لوٹتا۔ اس دن وہ کھانا کھا رہے تھے۔ ٹی وی چل رہا تھا۔ خبروں سے پہلے ’’اسپارکل‘‘ ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار نمودار ہوا۔ اس کی کاپی ابھیشیک نے تیار کی تھی۔
انکور چلایا، ’’پاپا کا ایڈ، پاپا کا ایڈ۔ ‘‘
یہ اشتہار آج پانچویں بار آیا تھا، پر وہ پوری توجہ سے دیکھ رہے تھے۔ اشتہار میں ایک پارٹی کا منظر تھا، جس میں ہیرو کے کچھ کہنے پر ہیروئن ہنستی ہے۔ اس ہنسی پر ہر دانت سے موتی گرتے ہیں۔ ہیرو انہیں اپنی ہتھیلی پر روک لیتا ہے۔ سارے موتی جمع ہو کر ’’اسپارکل‘‘ ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب بن جاتے ہیں۔ اگلے شاٹ میں ہیرو ہیروئن تقریباً بوسہ لینے جیسے ہو جاتے ہیں۔
ابھیشیک نے کہا، ’’راجُل کیسا لگا ایڈ؟‘‘
’’ بس ٹھیک ہی ہے۔ ‘‘راجُل نے کہا۔ اس کی کمزور سی آواز سے ابھیشیک کا مزاج اکھڑ گیا۔ اسے لگا راجُل اس کے کام کو زیرو دے رہی ہے، ’’ایسی شمشان گھاٹ جیسی آواز میں کیوں بول رہی ہو؟‘‘
’’نہیں، میں سوچ رہی تھی، اشتہارات کتنی مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ کسی کے ہنسنے سے پھول جھڑتے ہیں نہ موتی، پھر بھی محاورہ ہے کہ لکیر پیٹ رہا ہے۔ ‘‘
’’سچائی تو یہ ہے کہ ماڈل لینا بھی اسپارکل استعمال نہیں کرتی ہے۔ وہ مخالف کمپنی کاٹِکّو استعمال کرتی ہے۔ پر ہمیں سچائی نہیں، پروڈکٹ بیچنی ہے۔ ‘‘
’’پر لوگ تو تمہارے اشتہاروں کو ہی سچ مانتے ہیں۔ کیا یہ ان کے لئے یہ دھوکہ نہیں ہے ؟‘‘
’’ بالکل نہیں۔ آخر ہم ٹوتھ پیسٹ کی جگہ ٹوتھ پیسٹ ہی دکھا رہے ہیں، گھوڑے کی لید نہیں۔ تمام ٹوتھ پیسٹوں میں ایک سی چیزیں پڑی ہوتی ہیں۔ کسی میں رنگ زیادہ ہوتا ہے کسی میں کم۔ کسی میں جھاگ زیادہ، کسی میں کم۔ ‘‘
’’ایسے میں کاپی رائٹرکی اخلاقیات کیا کہتی ہیں ؟‘‘
’’او شٹ۔ سیدھا سادہ ایک پروڈکٹ بیچنا ہے، اس میں تم اخلاقیات اور حقیقت جیسے بھاری بھرکم سوال میرے سر پر دے مار رہی ہو۔ میں نے آئی۔ آئی۔ ایم میں دو سال بھاڑ نہیں جھونکا۔ وہاں سے مارکیٹنگ سیکھ کر نکلا ہوں۔ آئی کین سیل اے ڈیڈ ریٹ (میں مردہ چوہا بھی بیچ سکتا ہوں )۔ یہ سچائی، اخلاقیات سب میں کلاس چہارم تک مورل سائنس میں پڑھ کر بھول چکا ہوا ہوں۔ مجھے اس طرح کی ڈوز مت پلایا کرو، سمجھیں ؟‘‘
راجُل من ہی من میں اسے گالی دیتی، برتن سمیٹ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ ابھیشیک منہ پھیر کر سو گیا۔ اگلے دن پون آیا۔ وہ انکور کے لئے چھوٹا سا کرکٹ بیٹ اور گیند لایا تھا۔ انکور فوری طور پر بالکنی سے اپنے دوستوں کو آواز دینے لگا، ’’شبّو، رنجھن، جلدی آؤ، بیٹ بال کھیلنا ہے۔ ‘‘
ابھیشیک ابھی آفس سے واپس نہیں آیا تھا۔ راجُل نے دو گلاس کولڈ کافی بنائی۔ ایک گلاس پون کو تھما کر بولی، ’’تمہیں اشتہارات کی دنیا کیسی لگتی ہے ؟‘‘
’’بہت اچھی، جادو بھری۔ راجُل، ملک کی ساری حسین لڑکیاں اشتہاروں میں چلی گئی ہیں، تبھی راجکوٹ کی سڑکوں پر ایک بھی حسینہ نظر نہیں آتی۔ ‘‘
’’ الٹی سیدھی چھوڑو، سیریئسلی بولو، تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ مارکیٹنگ کے لئے بنائے جانے والے اشتہار جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے ایسا نہیں لگتا۔ یہ تو مہم سازی ہے، اس میں سچ اور جھوٹ کی بات کہاں آتی ہے ؟‘‘
تبھی ابھیشیک بھی آ گیا۔ آج وہ اچھے موڈ میں تھا۔ اس کے ٹوتھ پیسٹ والے اشتہار کو بہترین اشتہار کا ایوارڈ ملا تھا۔ اس نے کہا، ’’راجُل، کل تم مجھے کنڈیم کر رہی تھیں، آج مجھے اسی کاپی پر ایوارڈ ملا۔ ‘‘
’’ مبارک ہو۔ ‘‘ پون اور راجُل نے ایک ساتھ کہا۔
’’کل تو تم لعنتیں دے رہی تھیں۔ میری پر دادی کی طرح بول رہی تھیں۔ ‘‘
’’جب ایتھکس کی یعنی اخلاقیات کی بات آئے گی، میں پھر کہوں گی کہ اشتہارجھوٹ بولتے ہیں۔ پر اب ایسا نہیں ہے کہ صرف تم ایسا کرتے ہو، سبھی ایسا کرتے ہیں۔ عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔ ‘‘
’’عوام کو آگاہی اور معلومات بھی تودیتے ہیں۔ ‘‘پون نے کہا۔
’’پر ساتھ میں عوام کی توقعات اور امیدوں کو بڑھا کر ان کے پیسے بھی تو برباد کرواتے ہیں۔ ‘‘راجُل نے کہا۔
’’ ہاں، ہاں، آج تک میں نے ایسا اشتہار نہیں دیکھا جو کہتا ہو یہ چیز نہ خریدیں۔ ‘‘ابھیشیک نے کہا، ’’ اشتہارات کی دنیا خرچ اور فروخت کی دنیا ہے۔ ہم خوابوں کے سوداگر ہیں، جو چاہے مارکیٹ جائے، خواب اور امیدوں سے بھری ٹیوب خریدلے۔ یہ اشتہاروں کا ہی کمال ہے کہ ہمارے تین افرادوالے گھر میں تین طرح کے ٹوتھ پیسٹ آتے ہیں۔ انکور کو دھاریوں والا ٹوتھ پیسٹ پسند ہے، تمہیں اُس مزے والا اور مجھے سانس کی بو دور کرنے والا۔ ٹوتھ پیسٹ تو پھر بھی غنیمت ہے، تم کو معلوم ہے ڈٹرجنٹ کے اشتہاروں میں اور بھی اندھیر مچی ہے۔ ہم لوگ سونا ڈٹرجنٹ کی ایڈ فلم جب شوٹ کر رہے تھے تو سیورس کے کلین ڈٹرجنٹ سے ہم نے بالٹی میں جھاگ بنائے تھے۔ کلین میں سونا سے زیادہ جھاگ پیدا کرنے کی طاقت ہے۔ ‘‘
پون نے کہا، ’’بے شک مارکیٹ کی معاشیات میں اخلاقیات جیسا لفظ لا کر، راجُل، تم صرف کنفیوژن پھیلا رہی ہو۔ میں نے اب تک پانچ سو کتابیں تو مینجمنٹ اور مارکیٹنگ پر پڑھی ہوں گی۔ ان میں اخلاقیات پر کوئی چیپٹر نہیں ہے۔ ‘‘
اسٹیلا، ڈمیلو انٹرپرائز کارپوریشن میں برابر کی پارٹنر تھی اور اس کی کمپنی گوجر گیس کمپنی کو کمپیوٹر سپلائی کرتی تھی۔ پہلے تو وہ پون کے لئے کاروباری خطوط پر محض ایک دستخط بھر تھی، پر جب کمپیوٹرکے دو ایک مسئلے مسائل سمجھنے، پون شلپا کے ساتھ اس کے آفس گیا، تو اس دبلی پتلی ہنس مکھ لڑکی سے اس کا اچھا تعارف ہو گیا۔
اسٹیلا کی عمر مشکل سے چوبیس سال تھی، پر اس نے اپنے والدین کے ساتھ آدھی دنیا گھوم رکھی تھی۔ اس کی ماں سندھی اور باپ عیسائی تھا۔ ماں سے اسے گوری رنگت ملی تھی اور باپ سے تراشہ ناک نقشہ۔ جینز اور ٹاپ میں وہ لڑکا زیادہ اور لڑکی کم نظر آتی۔ اس کے آفس میں ہر وقت گہما گہمی رہتی۔ فون بجتے رہتے، فیکس آتے رہتے۔ کبھی کسی فیکٹری سے بیس کمپیوٹر کا ایک ساتھ آرڈر مل جاتا، کبھی کہیں کانفرنس سے بلاوا آ جاتا۔ اس نے کئی معاون رکھے ہوئے تھے۔ اپنے کاروبار کے ہر پہلو پر اس کی کڑی نظر رہتی۔
اس بار پون اپنے گھر گیا، تو اس کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے نئے شہر اور کام کے بارے میں گھر والوں کو بتاتے وقت کئی بارا سٹیلا کا ذکر کر گیا ہے۔ سگھن بی ایس سی کے بعد ہارڈ ویئر کا کورس کر رہا تھا۔ پون نے کہا، ’’تم اس وقت میرے ساتھ راجکوٹ چلو، تمہیں میں ایسے کمپیوٹر ورلڈ میں داخلہ دلاؤں گا کہ تمہاری آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ ‘‘
سگھن نے کہا، ’’جاؤں گا تو حیدرآباد جاؤں گا، وہ تو سائبر سٹی ہے۔ ‘‘
’’ایک بار تم انٹرپرائز جوائن کرو گے، تو دیکھو گے وہ سائبر سٹی سے کم نہیں۔ ‘‘
ماں نے کہا، ’’اس کو بھی لے جاؤ گے تو ہم دونوں بالکل اکیلے رہ جائیں گے۔ ویسے ہی سینئر سٹیزن کالونی بنتی جا رہی ہے۔ سبھی کے بچے پڑھ لکھ کر باہر جاتے جا رہے ہیں۔ ہر گھر میں، سمجھو، ایک بوڑھا، ایک بوڑھی، ایک کتا اور ایک گاڑی بس یہی رہ گیا ہے۔ ‘‘
’’الہ آباد میں کچھ بھی بدلہ نہیں ہے ماں۔ دو سال پہلے جیسا تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ آپ بھی راجکوٹ چلی آؤ۔ ‘‘
’’اور تیرے پاپا؟ وہ یہ شہر چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ‘‘
پاپا سے بات کی گئی۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ’’شہر چھوڑنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے بیٹے۔ اس سے اچھا ہے تم کسی ایسی کمپنی میں ہو جاؤ جو آس پاس ہی کہیں ہو۔ ‘‘
’’ یہاں میرے لائق کام کہاں، پاپا۔ زیادہ سے زیادہ نینی میں نورامنٹ کی مارکیٹنگ کر لوں گا۔ ‘‘
’’دہلی تک بھی آ جاؤ تو اچھا ہے، دہلی آنا جانا بالکل مشکل نہیں ہے۔ رات کو پریاگراج ایکسپریس سے چلو، سویرے دہلی میں۔ کم از کم ہر ماہ تم کو دیکھ تو لیں گے۔ یا کلکتے آ جاؤ۔ وہ تو بگ سٹی ہے۔ ‘‘
’’پاپا، میرے لئے شہر اہم نہیں ہے، کیریئر اہم ہے۔ ابھی کلکتے کو ہی لیجئے۔ کہنے کو میٹروپولیٹن ہے، پر مارکیٹنگ کے نقطہ نظر سے بالکل لدّھڑ۔ کلکتہ میں پروڈیوسرز کی مارکیٹ ہے، کنزیومرزکی نہیں۔ میں ایسے شہر میں رہنا چاہتا ہوں جہاں کلچر ہو نہ ہو، کنزیومر کلچر ضرور ہو۔ مجھے ثقافت نہیں، صارفین چاہئیں، تبھی میں کامیاب رہوں گا۔ ‘‘ اس کے ماں باپ کو پون کی باتوں نے افسردہ کر دیا۔ بیٹا اس امید کو بھی ختم کئے دے رہا تھا، جس کی ڈور سے بندھے بندھے وہ اسے ٹائمز آف انڈیا کے دہلی ایڈیشن کے پیپر ڈاک سے بھیجا کرتے تھے۔
رات جب پون اپنے کمرے میں چلا گیا، راکیش پانڈے نے بیوی سے کہا، ’’آج پون کی باتیں سن کر مجھے بڑا دھکا لگا۔ اس نے تو گھر کے طور طریقوں کو بالکل ہی چھوڑ دیا۔ ‘‘
ریکھا دن بھر کے کام سے تھکی تھی، ’’ پہلے تمہیں اندیشہ تھا کہ بچے کہیں آپ کی طرح پرانی سوچ والے نہ بن جائیں۔ اسی لیے اسے ایم بی اے کرایا۔ اب وہ حقیقت پسندانہ بن گیا ہے کہ تو تکلیف ہو رہی ہے۔ جہاں جیسی نوکری کر رہا ہے، وہیں کی سوچ تو اختیار کرے گا۔ ‘‘
’’یعنی تمہیں اس کے رویے سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ‘‘راکیش حیران ہوئے۔
’’دیکھو، ابھی اس کی نئی نئی نوکری ہے۔ اس میں اسے پاؤں جمانے دو۔ گھر سے دور جانے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بچہ گھر بھول گیا ہے۔ کس طرح میری گود میں سر رکھ کر دوپہر کو لیٹا ہوا تھا۔ ایم اے، بی اے کر کے یہیں جوتیاں چٹخاتا رہتا، تب بھی تو ہمیں پریشانی ہوتی۔ ‘‘
ریکھا کے چچا کا لڑکا بھی ناگپور میں مارکیٹنگ منیجر تھا۔ اسی لئے اس کو تھوڑا بہت اندازہ تھا کہ اس فیلڈمیں کتنا سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ وہ ایک بیکار سے اسکول میں ٹیچر تھی۔ اس کیلئے بیٹے کی کامیابی فخر کا ذریعہ تھی۔ اس کی ساتھیوں کے بچے پڑھائی کے بعد طرح طرح کی جد و جہدوں میں لگے تھے۔ کوئی آئی۔ اے۔ ایس، پی۔ سی۔ ایس کے امتحانوں کو پار نہیں کر پا رہا تھا، تو کسی کو بینک کا امتحان ستا رہا تھا۔ کسی کا بیٹا بہت سے انٹرویوز میں ناکام ہونے کے بعد کسی لت میں پڑ گیا تھا، تو کسی کی بیٹی ہر سال پی۔ ایم۔ ٹی میں اٹک جاتی۔ زندگی کے پچپن ویں سال میں ریکھا کو یہ سوچ کر بہت اچھا لگتا کہ اس کے دونوں بچے پڑھائی میں اول رہے اور انہوں نے خود ہی اپنے کیریئر کی سمت متعین کر لی۔ سگھن ابھی چھوٹا تھا، پر وہ بھی جب اپنے کیریئر پر غور کرتا، تواس کو شہروں میں ہی امکانات نظر آتے۔ وہ دوستوں سے مانگ کر ملکی و غیر ملکی کمپیوٹر جرنل پڑھتا۔ اس کا زیادہ وقت ایسے دوستوں کے گھروں میں گزرتا جہاں کمپیوٹر ہوتا۔
راکیش بولے، ’’تم سمجھ نہیں رہی ہو۔ پون کے بہانے ایک پوری کی پوری نوجوان نسل کو پہچانوں۔ یہ اپنی جڑوں سے کٹ کر جینے والے لڑکے سماج کی کیسی تصویر تیار کریں گے۔ ‘‘
’’اور جو جڑوں سے جڑے رہے ہیں، انہوں نے ان سترسالوں میں کون سا بدلاؤ کر دیا ہے۔ تمہیں اتنی ہی تکلیف ہے تو کیوں کروایا تھا پون کو ایم بی اے۔ گھر کے برآمدے میں دکان کھلوا دیتے، ماچس اور صابن بیچتا رہتا۔ ‘‘
’’تم مورکھ ہو، ایسا بھی نہیں لگتا مجھے، بس میری بات کاٹناتم کو اچھا لگتا ہے۔ ‘‘
’’اچھا اب سو جاؤ۔ اور دیکھو، صبح پون کے سامنے پھر یہی بحث مت چھیڑ دینا۔ چار روز کے لیے بچہ گھر آیا ہے، راضی خوشی رہے، راضی خوشی جائے۔ ‘‘
ریکھا نے رات کو تو بیٹے کی حمایت کی، پر اگلے دن اسکول سے گھر واپس آئی، تو پون سے اس کی کھٹ پٹ ہو گئی۔ دوپہر میں دھوبی کپڑے استری کر کے لایا تھا۔ آٹھ کپڑوں کے بارہ روپے ہوتے تھے، پر دھوبی نے سولہ مانگے۔ پون نے سولہ روپے دے دیے۔ پتہ چلنے پر ریکھا اکھڑ گئی۔ اس نے کہا، ’’بیٹے، کپڑے لے کر رکھ لینے تھے، حساب میں اپنے آپ کرتی۔ ‘‘
پون بولا، ’’ماں کیا فرق پڑا، میں نے دے دیے۔ ‘‘
ریکھا نے کہا، ’’ٹورسٹ کی طرح تم نے اسے من مانے پیسے دے دیے، وہ اپنا ریٹ بڑھا دے گا، تو روز بھگتنا تو مجھے پڑے گا۔ ‘‘
پون کو ٹورسٹ لفظ پتھر کی طرح چبھ گیا۔ اس کے سنہرے بالوں والا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، ’’ماں، آپ نے مجھے ٹورسٹ کہہ دیا۔ میں اپنے گھر آیا ہوں، ٹور پر نہیں نکلا ہوں۔ ‘‘
شام تک پون کچکچاتا رہا۔ اس نے باپ سے شکایت کی۔ باپ نے کہا، ’’یہ نہایت بے سروپا سی بات ہے۔ تم کیوں پریشان ہو رہے ہو۔ تمہیں پتہ ہے تمہاری ماں کی زبان بے لگام ہے۔ چھوٹی سی بات پر سخت سی بات جڑ دیتی ہے۔ ‘‘
نوکری لگ جانے کے ساتھ ہی پون بہت نازک مزاج ہو گیا تھا۔ اسے آفس میں اپنے تسلط اور پاورکی یاد آئی، ’’دفتر میں سب مجھے پون سر یا پھر مسٹر پانڈے کہتے ہیں۔ کسی کی ہمت نہیں کہ میرے حکم کی خلاف ورزی کرے۔ گھر میں کسی کو اپنی مرضی سے میں چار روپے نہیں دے سکتا۔ ‘‘
ریکھا سہم گئی، ’’بیٹے، میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ میں تو صرف یہ کہہ رہی تھی کہ کپڑے روز استری ہوتے ہیں، ایک بار ان لوگوں کو زیادہ پیسہ دے دو، تو یہ بالکل سر چڑھ جاتے ہیں۔ ‘‘اور بھی چھوٹی چھوٹی کتنی ہی باتیں تھیں، جن میں ماں بیٹے کا نقطہ نظر کافی مختلف تھا۔
پون نے کہا، ’’ماں، میرا جنم دن اس بار یوں ہی نکل گیا۔ آپ نے فون کیا پر گریٹنگ کارڈ نہیں بھیجا۔ ‘‘
ریکھا حیران رہ گئی، ’’بیٹے گریٹنگ کارڈ تو باہری لوگوں کو بھیجا جاتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری سالگرہ ہم کس طرح مناتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح میں مندر گئی، اسکول میں سب کو مٹھائی کھلائی، رات کو تمہیں فون کیا۔ ‘‘
’’میرے تمام کولیگزہنسی اڑا رہے تھے کہ تمہارے گھر سے کوئی گریٹنگ کارڈ نہیں آیا۔ ‘‘
ماں کو لگا انہیں اپنے بیٹے سے محبت کرنے کا کوئی نیا طریقہ سیکھنا پڑے گا۔ مشکل سے پانچ دن ٹھہرا پون۔ ریکھا نے سوچا تھا اس کی پسند کی کوئی نہ کوئی ڈش روز بنا کر اسے کھلائے گی۔ پر پہلے ہی دن اس کا پیٹ خراب ہو گیا۔
پون نے کہا، ’’ماں، میں لیمونیڈ کے سوا کچھ نہیں لوں گا۔ دوپہر کو تھوڑی سی کھچڑی بنا دینا۔ اور پانی کون سا استعمال کرتے ہیں آپ لوگ؟‘‘
’’وہی جو تم پیدائش سے پیتے آئے ہو، گنگا جل آتا ہے ہمارے نل میں۔ ‘‘ریکھا نے کہا۔
’’اس کے بعد سے اب تک گنگا جی میں نہ جانے کتنا پاخانہ پیشاب شامل ہو چکا ہے۔ میں تو کہوں گا یہ پانی آپ کے لئے بھی مہلک ہے۔ فلٹر کیوں نہیں لگاتے ؟‘‘
’’یاد کرو، تم ہی کہا کرتے تھے فلٹر سے اچھا ہے ہم اپنے جسمانی نظام کی مزاحمتی طاقت میں اضافہ کریں۔ ‘‘
"وہ یہ سب فضول کی جذباتی باتیں تھیں ماں۔ تم اس پانی کی ایک بوند اگر خوردبین کے نیچے دیکھ لو تو کبھی نہ پیو۔ ‘‘
پون کو اپنی جنم بھومی کا پانی راس نہیں آ رہا تھا۔ شام کو پون نے سگھن سے بارہ بوتلیں منرل واٹر منگوایا۔ باورچی خانے کے لئے ریکھا نے پانی ابالنا شروع کیا۔ نل کا پانی زہر آلود ہو گیا۔ ملک میں پردیسی ہو گیاپون۔
طبیعت کچھ سنبھلنے پر اس نے اپنے پرانے دوستوں کی تلاش کی۔ پتہ چلا کہ زیادہ تر یاتوشہر چھوڑ چکے ہیں یا اس قدر روکھے اور اجنبی ہو گئے ہیں کہ ان کے ساتھ دس منٹ بِتانا بھی سزا برابر ہے۔
پون نے دکھی ہو کر پاپا سے کہا، ’’میں ناحق اتنی دور آیا۔ سگھن سارا دن کمپیوٹر سینٹروں کی خاک چھانتا ہے۔ آپ اخبارات میں لگے رہتے ہیں۔ ماں صبح کی گئی شام کو لوٹتی ہیں۔ کیا ملا مجھے یہاں آ کر؟‘‘
’’تم نے ہمیں دیکھ لیا، کیا یہ کافی نہیں ؟‘‘
’’یہ کام تو میں انٹرپرائز کے سیٹلائٹ فون سے بھی کر سکتا تھا۔ مجھے لگتا ہے یہ شہر اب ہر گز وہ نہیں جسے میں چھوڑ کر گیا تھا۔ ‘‘
’’شہر اور گھر رہنے سے ہی بستے ہیں، بیٹا۔ اب اتنی دور ایک نامعلوم مقام کو تم نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہے۔ پرائی زبان، پرائے پہناوے اور پرائے کھانے کے باوجود وہ تمہیں اپنا لگنے لگا ہے۔ ‘‘
’’سچ تو یہ ہے پاپا جہاں ہر ماہ تنخواہ ملے، وہی جگہ اپنی ہوتی ہے اور کوئی نہیں۔ ‘‘
’’صرف پیسوں سے زندگی نہیں کٹتی پون، اس میں تھوڑا سا فلسفہ، تھوڑی سی روحانیت اور ڈھیر ساری جذباتیت بھی پنپنی چاہئے۔ ‘‘
’’آپ کو پتہ نہیں دنیا کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اب مذہب، فلسفہ، اور روحانیت زندگی میں ہر وقت رسنے والے پھوڑے نہیں ہیں۔ آپ سرل مارگ کے کیمپ میں کبھی جا کر دیکھئے۔ چار پانچ دن کا کورس ہوتا ہے، وہاں جا کر آپ میڈیٹیشن کیجیے اور چھٹے دن واپس اپنے کام سے لگ جائیے۔ یہ نہیں کہ ڈی سی بجلی کی طرح ہمیشہ کے لئے اس سے چپک جائیے۔ ‘‘
’’ تم نے تو ہر چیز کی پیکیجنگ ایسی کر لی ہے کہ جیب میں سما جائے۔ بھگتی کے کیپسول بنا کر بیچتے ہیں آج کل کے یہ مذہبی رہنما۔ صبح صبح ٹی وی کے تمام چینلز پر کوئی نہ کوئی گرو، پروچن دیتا نظر آتا ہے۔ پر ان میں وہ بات کہاں جو شنکرآچاریہ میں تھی یا سوامی وویکانند میں۔ ‘‘
’’ہر پرانی چیز آپ کو بہترین لگتی ہے، یہ آپ کی نظر کا قصور ہے، پاپا۔ اگر ایسا ہی ہے تو جدید چیزوں کا آپ استعمال بھی کیوں کرتے ہیں، پھینک دیجئے اپنا ٹی وی سیٹ، ٹیلی فون اور ککنگ گیس۔ آپ نئی چیزوں کامزہ بھی لوٹتے ہیں اور ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ‘‘
’’پون، میری بات صرف چیزوں تک نہیں ہے۔ ‘‘
’’مجھے پتہ ہے۔ آپ روحانیت اور مذہب پر بول رہے تھے۔ آپ کبھی میرے سوامی جی کو سنیے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے یہی سمجھایا ہے کہ مذہب جہاں ختم ہوتا ہے، روحانیت وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ آپ بچپن میں مجھے شنکر آچاریہ جی کا لیکچر سمجھاتے تھے۔ میرے کچھ پلے نہیں پڑتا تھا۔ آپ نے زندگی میں مجھے بہت کنفیوز کیا ہے، پر سرل مارگ میں بالکل سیدھی، سچی، حقیقت پسندانہ باتیں بتائی جاتی ہیں۔ ‘‘
والد مجروح نظروں سے دیکھتے رہ گئے۔ ان کے بیٹے کی شخصیت میں مادیت، روحانیت اور حقیقت پسندی کی کیسی سہ رخی دھارا بہہ رہی ہے۔
راجکوٹ آفس سے پون کے لئے ٹرنک کال آئی کہ پیر کو وہ سیدھا احمد آباد آفس پہنچے۔ تمام مارکیٹنگ منیجروں کی اعلی سطحی ملاقات تھی۔ پون کا من اچانک جوش سے بھر گیا۔ گزشتہ گذرے پانچ دن پانچ سالوں کی طرح گزرے تھے۔ پرجاتے جاتے وہ گھر والوں لئے بہت جذباتی ہو گیا۔
’’ماں، آپ راجکوٹ آنا۔ پاپا، آپ بھی۔ میرے پاس بڑا سا فلیٹ ہے۔ آپ کوذرا بھی دقت نہیں ہو گی۔ اب تو کک بھی مل گیا ہے۔ ‘‘
’’اب تیری شادی بھی کر دیں، کیوں۔ ‘‘ریکھا نے پون کا من ٹٹولا۔
’’ماں، شادی ایسے تھوڑے ہی ہو گی۔ پہلے تم میرے ساتھ سارا گجرات گھومو۔ ارے وہاں میرے جیسے لڑکوں کی بڑی مانگ ہے۔ وہاں کے گجراتی لڑکے بڑے دبکو کھِسّوسے ہوتے ہیں۔ میرا تو پاپا جیسا قد دیکھ کر ہی لٹو ہو جاتے ہیں سب۔ ‘‘
’’کوئی لڑکی دیکھ رکھی ہے کیا؟‘‘ریکھا نے کہا۔
’’ایک ہو تو نام بتاؤں۔ تم آنا، تمہیں سب سے متعارف کرا دوں گا۔ ‘‘
’’پر شادی تو ایک ہی کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘
پون ہنسا اوربھائی کو لپٹاتا ہوا بولا، ’’جان ٹماٹر، تم کب آؤ گے۔ ‘‘
’’پہلے اپنا کمپیوٹر بنا لوں۔ ‘‘
’’اس میں تو بہت دن لگیں گے۔ ‘‘
"نہیں بھیا، ممی ایک بار دہلی جانے دیں تو نہرو پیلس سے باقی کے سب لوازمات لے آؤں۔ ‘‘
’’لے یہ ہزار روپے تو رکھ لے کام آئیں گے۔ ‘‘
میٹنگ میں حصہ لینے والے تمام اراکین کو پریسیڈنسی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ دو دنوں کے چار سیشنوں میں مارکیٹنگ کے تمام پہلوؤں پر کھل کر بحث ہوئی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ایندھن جیسی ضروری چیز کو بھی ’’ آپشنل کنزیومر کونٹین‘‘کے زمرے میں رکھ کر اس کے پھیلاؤ اور ترقی کا پروگرام تیار کیا جا رہا تھا۔ بہت سی ایندھن کمپنیاں میدان میں آ گئیں تھیں۔ کچھ کثیر القومی تیل کمپنیاں ایل۔ پی۔ جی یونٹ کھول چکی تھیں، کچھ کھولنے والی تھیں۔ دوسری طرف کچھ صنعت کاروں نے بھی ایل۔ پی۔ جی بنانے کے حقوق حاصل کر لئے تھے۔ اس سے مقابلہ تو بڑھ ہی رہا تھا۔ کاروباری صارفین بھی کم ہو رہے تھے۔ نجی صنعتکار موٹا بھائی نانوبھائی، اپنے تمام کارخانوں میں اپنی پیداشدہ ایل۔ پی۔ جی ہی استعمال کر رہے تھے۔ جبکہ پہلے وہاں جی۔ جی۔ سی۔ ایل کی سلنڈر گیس جاتی تھی۔ کثیر القومی کمپنی کی فطرت تھی کہ شروع میں وہ اپنی مصنوعات کی قیمت بہت کم رکھتی ہے۔ جب اس کا نام اورمعیار لوگوں کی نگاہوں میں چڑھ جاتے ہیں، تووہ آہستہ سے اپنا دام بڑھا دیتی ہے۔ جی۔ جی۔ سی۔ ایل کے مالکان کے لئے یہ سب تبدیلیاں سردرد پیدا کر رہی تھیں۔ انہوں نے صاف طور پر کہا، ’’گزشتہ پانچ سال میں کمپنی کو ساٹھ کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ ہم آپ سب کو صرف دو سال دیتے ہیں۔ یا توخسارہ کم کیجیے یا اس یونٹ کو بند کیجئے۔ ہمارا کیا ہے، ہم ڈینم بیچتے تھے، ڈینم بیچتے رہیں گے۔ پر یہ آپ لوگوں کافیلیئرہو گا کہ اتنی بڑی بڑی ڈگریاں اور تنخواہ لے کر بھی آپ نے کیا کیا۔ آپ اسٹڈی کیجیے ایسا کیا ہے، جو ایسّو اور شیل میں ہے اور جی۔ جی۔ سی۔ ایل میں نہیں۔ وہ بھی ہندوستانی ملازمین سے کام لیتے ہیں، ہم بھی۔ وہ بھی وہی لال سلنڈر بناتے ہیں اور ہم بھی۔ ‘‘
نوجوان منیجروں میں ایم۔ ڈی کی اس تقریر سے کھلبلی مچ گئی۔ ایل۔ پی۔ جی محکمے کے حکام کے چہرے اتر گئے۔ اختتامی سیشن شام سات بجے ختم ہوا۔ تب بہتوں کو لگا جیسے یہ ان کی الوداعی تقریب بھی ہے۔
پون بھی تھوڑا اکھڑ گیا۔ وہ اپنی رپورٹ بھی پیش نہیں کر پایا کہ سوراشٹر کے کتنے گاؤں میں اس کے یونٹ نے نئے آرڈرلئے اور کہاں کہاں سے دیگر کمپنیوں کونکال باہر کیا۔ رپورٹ کی ایک کاپی اس نے ایم ڈی کے سکریٹری گائیک واڑ کو دے دی۔
راجکوٹ جانے سے پہلے ابھیشیک سے بھی ملنا تھا۔ انوپم اس کے ساتھ تھا۔ انہوں نے گھر فون کیا۔ پتہ چلا ابھی دفتر سے نہیں آیا۔
وہ دونوں آشرم روڈ اس کے دفتر کی طرف چل دیے۔ انوپم نے کہا، ’’میں تو گھر جا کر سب سے پہلے اپنا بایو ڈیٹا اپ ٹو ڈیٹ کرتا ہوں۔ لگتا ہے یہاں سے چھٹی ہونے والی ہے۔ ‘‘
پون ہنسا، ’’کثیر القومی کمپنیوں سے جد و جہد کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ان میں خود گھس جاؤ۔ ‘‘
انوپم نے خوشی کا اظہار کیا، ’’واہ بھائی، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ‘‘
ابھیشیک اپنا کام سمیٹ رہا تھا۔ دوستوں کو دیکھ چہرہ کھل اٹھا۔
’’گزشتہ بارہ گھنٹے سے میں اس بھوت پریت کے آگے بیٹھا ہوں۔ ‘‘اس نے اپنے کمپیوٹر کی طرف اشارہ کیا، ’’ اب میں اور نہیں جھیل سکتا۔ چلو کہیں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں، پھر گھر چلیں گے۔ ‘‘
وہ کافی ہاؤس میں اپنے مستقبل سے زیادہ اپنی کمپنیوں کے مستقبل کی فکر کرتے رہے۔ ابھیشیک نے کہا، ’’ پرائیوٹ سیکٹر میں بدترین بات یہی ہے، نتھینگ از آن پیپر۔ ایم ڈی نے کہا خسارہ ہے تو ماننا پڑے گا کہ خسارہ ہے۔ پبلک سیکٹر میں ملازم سر پر چڑھ جاتے ہیں، پائی پائی کا حساب دکھانا پڑتا ہے۔ ‘‘
پھر بھی پبلک سیکٹر میں بیمار یونٹس کی تعداد بیشمار ہے۔ نجی شعبے میں ایسا نہیں ہے۔ ‘‘
ابھیشیک ہنسا، ’’مجھ سے زیادہ کون جانے گا۔ میرے پاپا اور چچا دونوں پبلک سیکٹر میں ہیں۔ آج کل دونوں کی کمپنیاں بند پڑی ہیں۔ پر پاپا اور چچا دونوں بے فکر ہیں۔ کہتے ہیں لیبر کورٹ سے جیت کر ایک ایک پیسہ وصول کر لیں گے۔ ‘‘
ابھیشیک کی کمپنی کی ساکھ اونچی تھی اور ابھیشیک وہاں پانچ سال سے تھا، پر کام کی وجہ سے عدمِ تحفظ کا احساس اسے بھی تھا۔ یہاں ہر دن اپنی کامیابی کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ کئی بار کلائنٹ کو پسند نہ آنے پر اچھی بھلی کاپی میں تبدیلیاں کرنی پڑتیں، تو کبھی پوراپروجیکٹ ہی کینسل ہو جاتا۔ تب اسے لگتا وہ ناحق تشہیر کے کام میں پھنس گیا، کوئی سرکاری نوکری کی ہوتی تو چین کی نیند سوتا۔ پر پٹری تبدیل کرنا ریلوں کے لئے نا ممکن ہوتا ہے، زندگی کے لئے ناقابل عمل۔ اب یہ اس کی جانی پہچانی دنیا تھی، اسی میں جد و جہد اور کامیابی مضمر تھی۔ ابھیشیک نے ڈیلائٹ سے چلی پنیر پیک کروایا کہ گھر چل کر کھانا کھائیں گے۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے دیکھا راجُل اور انکور باہر جانے کے لئے بنے ٹھنے بیٹھے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی وہ چہک کر بولے، ’’آہا، آپ آ گئے۔ چلو آج باہر کھانا کھائیں گے۔ انکور شام سے ضد کر رہا ہے۔ ‘‘
ابھیشیک نے کہا، ’’آج گھر میں ہی کھاتے ہیں، میں سبزی لے آیا ہوں۔ ‘‘
راجُل بولی، "تم نے صبح وعدہ کیا تھا کہ شام کو باہر لے چلو گے۔ سبزی ریفریجریٹر میں رکھ دیتے ہیں، کل کھائیں گے۔ ‘‘
راجُل تالے لگانے میں مصروف ہو گئی۔ ابھیشیک نے پون اور انوپم سے کہا، ’’سوری یار، کبھی کبھی گھر میں بھی کاپی غلط ہو جاتی ہے۔ ‘‘
تینوں تھکے ہوئے تھے۔ پون نے تو اٹھارہ سو کلومیٹر کا سفر کیا تھا۔ پر راجُل اور انکور کا جوش ٹھنڈا کرنا، انہیں بیدردی لگی۔
اسٹیلا اور پون نے اپنی جنم پتریاں کمپیوٹر سے میچ کیں، تو پایا چھتیس میں سے چھبیس گن ملتے ہیں۔ پون نے کہا، ’’لگتا ہے تم نے کمپیوٹر کو بھی رشوت دے رکھی ہے۔ ‘‘
اسٹیلا بولی، ’’یہ پنڈت تو بغیر رشوت کے کام کر دیتا ہے۔ ‘‘ کشش، دوستی اور دلجوئی کے بیچ کچھ دیر کے لیے، انہوں نے یہ بھلا ہی دیا کہ اس رشتے کے دور رس نتائج کس پرکار بیٹھیں گے۔
اسٹیلا کے والدین آج کل شکاگو گئے ہوئے تھے۔ اسٹیلا کے ای میل لیٹر کے جواب میں انہوں نے ای میل سے مبارکباد بھیجی۔ پون نے والدین کو فون پر بتایا کہ اس نے لڑکی پسند کر لی ہے اور وہ اگلے ماہ یعنی جولائی میں ہی شادی کر لیں گے۔
پانڈے خاندان پون کی خبر پر گم سم رہ گیا۔ نہ انہوں نے لڑکی دیکھی تھی، نہ اس کا گھر بار۔ ہنگامی طور پر ان کے دماغ میں سب سے پہلے شک پیدا ہوا۔ راکیش نے بیوی سے کہا، ’’پنّو کے دماغ میں ہر بات فتور کی طرح اٹھتی ہے۔ ایسا کرو، آپ ایک ہفتے کی چھٹی لے کر راجکوٹ ہو آؤ۔ لڑکی بھی دیکھ لینا اور پنّو کو بھی ٹٹول لینا۔ شادی کوئی چار دنوں کا کھیل نہیں، ہمیشہ کا رشتہ ہے۔ انٹر سے لے کر اب تک درجنوں دوستیں رہی ہیں پنّو کی، ایسا جھٹ پٹ فیصلہ تو اس نے کبھی نہیں کیا۔ ‘‘
’’تم بھی چلو، میں اکیلی کیا کر لوں گی۔ ‘‘
’’میں کیسے جا سکتا ہوں۔ پھر پنّو سب سے زیادہ تمہیں مانتا ہے، تم ہو آؤ۔ ‘‘
راستے بھر ریکھا کو لگتا رہا کہ جب وہ راجکوٹ پہنچے گی، تب پون تالی بجاتے ہوئے کہے گا، ’’ماں، میں نے یہ مذاق اسی لئے کیا تھا کہ تم دوڑی چلی آؤ۔ ویسے تو تم آتی نہیں۔ ‘‘
اس نے اپنے آنے کی خبر بیٹے کو نہیں کی تھی۔ دل میں اسے حیران کرنے کا جوش تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اسے پریشان نہ ہونا پڑے۔ احمد آباد سے راجکوٹ، بس کاسفر اسے بھاری پڑا۔ تیز رفتاری کے باوجود تین گھنٹے آرام سے لگ ہی گئے۔ ڈائری میں لکھے ایڈریس پر جب وہ اسکوٹر سے پہنچی تو چھ بج چکے تھے۔ پون تبھی آفس سے واپس آیا تھا۔ انوپم بھی اس کے ساتھ تھا۔ اسے دیکھ کر پون خوشی سے پاگل ہو اٹھا۔ بانہوں میں اٹھا کر اس نے ماں کو پورے گھر میں نچا دیا۔ انوپم نے جلدی سے خوب میٹھی چائے بنائی۔ تھوڑی دیر میں اسٹیلا بھی وہاں آن پہنچی۔
پون نے اس کا تعارف کرایا۔ اسٹیلا نے ہیلو کیا۔ پون نے کہا، ’’ماں، اسٹیلا میری بزنس پارٹنر، لائف پارٹنر، روم پارٹنر تینوں ہے۔ ‘‘
انوپم بولا، ’’ ہاں، اب جی۔ جی۔ جی۔ ایل چاہے بھاڑ میں جائے۔ تم تو انٹرپرائز کے سلیپنگ پارٹنر بن گئے۔ ‘‘
اسٹیلا نے کہا، ’’ پون ڈارلنگ، جتنے دن میم یہاں ہیں، میں مسز چھجنانی کے یہاں سوؤں گی۔ ‘‘
اسٹیلا رات کے کھانے کا انتظام کرنے باورچی خانے میں چلی گئی۔ پھر پون اس کو چھوڑ نے مسز چھجنانی کے گھر چلا گیا۔ پون کو کچھ کچھ اندازہ تھا کہ ماں سے بات کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ اس نے انوپم کو ثالث کی طرح ساتھ بٹھائے رکھا۔
بارہ بجے انوپم کا صبر ختم ہو گیا۔ اس نے کہا، ’’بھائی میں سونے جا رہا ہوں۔ صبح آفس بھی جانا ہے۔ ‘‘
کمرے میں اکیلے ہوتے ہی ریکھا نے کہا، ’’پنّو یہ بیکار سی لڑکی تجھے کہاں مل گئی؟‘‘
پون نے کہا، ’’تمہیں تو ہر لڑکی بیکار نظر آتی ہے۔ اس کا لاکھوں کا کاروبار ہے۔ ‘‘
’’پر لگتی تو دو کوڑی کی ہے۔ یہ تو بالکل تمہارے لائق نہیں۔ ‘‘
’’یہی بات تمہارے بارے میں دادی ماں نے پاپا سے کہی تھی۔ کیا انہوں نے دادی ماں کی بات مانی تھی، بتائیے۔ ‘‘
ریکھا کا پوراوجود اذیت سے بھر اٹھا۔ اس کا اپنا بیٹا، اب کل کی اس چھوکری کا مقابلہ اپنی ماں سے کر رہا ہے اور ان سب باتوں کا غلط استعمال کر رہا ہے جو گھر کا فرد ہونے کی وجہ سے اس کے پاس ہیں۔
’’میں نے تو ایسی کوئی لڑکی نہیں دیکھی، جو شادی سے پہلے ہی شوہر کے گھر میں رہنے لگے۔ ‘‘
"تم نے دیکھا کیا ہے ماں ؟ کبھی الہ آباد سے نکلو تو دیکھو گی نہ۔ یہاں گجرات، سوراشٹر میں شادی طے ہونے سے پہلے لڑکی مہینے بھر سسرال میں رہتی ہے۔ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے طور طریقے سمجھنے کے بعد ہی شادی کرتے ہیں۔ ‘‘
’’پر یہ سسرال کہاں ہے ؟‘‘
’’ماں ،ا سٹیلا اپنا کاروبار چھوڑ کر تمہارے قصبے میں تو جانے سے رہی۔ اس کا ایک ایک دن قیمتی ہے۔ ‘‘
ریکھا بھڑک گئی، ’’ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہے کہ ہم اس رشتے کے حق میں ہیں یا نہیں۔ ہماری رائے کا تمہارے لئے کوئی مطلب ہے یا نہیں۔ ‘‘
’’بالکل ہے تبھی تو تمہیں خبر کی، نہیں تو اب تک ہم نے سوامی جی کے آشرم میں جا کر شادی کر لی ہوتی۔ ‘‘
’’بالکل غلط بات کر رہے ہو پنّو، یہی سب سنانے کے لئے بلایا ہے مجھے۔ ‘‘
’’اپنے آپ آئی ہو۔ بغیر خبر دیے۔ تمہارے ارادے بھی مشکوک تھے۔ تمہیں میرا ٹائم ٹیبل پوچھ لینا چاہئے تھا۔ مان لو اگر میں باہر ہوتا۔ ‘‘
ریکھا کو رونا آ گیا۔ پون پر ناخوشگوار حقیقت کا دورہ پڑا تھا، جس کے تحت اس نے اپنی شکایتوں کے ترشول سے اسے زخمی کر دیا۔
’’میں صبح واپس چلی جاؤں گی، کوئی ڈھنگ کی گاڑی نہیں ہو گی، تو مال گاڑی میں چلی جاؤں گی پر اب ایک منٹ تیرے پاس نہیں رہوں گی۔ ‘‘
پون کی سختی کا بند ٹوٹ گیا۔ اس نے ماں کو بانہوں میں بھرا، ’’ماں، کیسی باتیں کرتی ہو۔ تم پہلی بار میرے پاس آئی ہو، میں تمہیں جانے دوں گا بھلا۔ گاڑی کے آگے لیٹ جاؤں گا۔ ‘‘
دونوں روتے رہے۔ پون کے آنسو ریکھا کبھی جھیل نہیں پائی۔ چوبیس سال کا ہونے پر بھی اس کے چہرے پر اتنی معصومیت تھی کہ ہنستے اور روتے وقت بچہ لگتا تھا۔ جذباتیت کے انہی لمحات میں ماں بیٹا بن گئی اور بیٹا ماں۔ پون نے ماں کے آنسو پونچھے، پانی پلایا اور تھپکاتھپکا کر ٹھنڈا کیا۔
صبح تیز موسیقی کی آواز سے ریکھا کی نیند ٹوٹی۔ ایک لمحے کو وہ بھول گئی کہ وہ کہاں ہے۔ ’’ہو رام جی میرا پیا گھر آیا‘‘ سی ڈی سسٹم پر پورے والیوم پر چل رہا تھا اور انوپم باورچی خانے میں چائے بنا رہا تھا۔ اس نے ایک کپ چائے ریکھا کو دی، ’’گڈ مارننگ۔ ‘‘پھر اس نے موسیقی کا والیوم تھوڑا کم کیا، ’’ سوری، صبح مجھے خوب زور زور سے گانا سننا اچھا لگتا ہے۔ اور پھر پون بھیا کو اٹھانے کا اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں۔ آرام سے پونے نو تک سوتے رہتے ہیں اور نو بجے اپنے آفس میں ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’صبح چائے ناشتہ کچھ نہیں لیتا؟‘‘
’’کسی دنا سٹیلا بھابھی ہمارے لئے ٹوسٹ اور کمپلان تیار کر دیتی ہیں۔ پر زیادہ تر تو ایسے ہی بھاگتے ہیں ہم لوگ۔ لنچ ٹائم تک پیٹ میں نقارے بجنے لگتے ہیں۔ ‘‘
چاول میں کنکر کی طرح رڑک گیا پھر اسٹیلا کا نام۔ کہاں سے لگ گئی یہ بلا میرے بھولے بھالے بیٹے کے پیچھے، ریکھا نے اداسی سے سوچا۔
’’ہٹو آج میں بناتی ہوں ناشتا۔ ‘‘
باورچی خانے کی پڑتال کرنے پر پتہ چلا ہے کہ ٹوسٹ اور دودھ کے سوا کچھ بھی بننا ممکن نہیں ہے۔ تھوڑے سے برتن تھے جو جوٹھے پڑے تھے۔
’’ابھی بھرت آ کر کرے گا۔ آنٹی آپ پریشان مت ہوں۔ بھرت کھانا بنا لیتا ہے۔ ‘‘
’’پون تو باہر کھاتا تھا۔ ‘‘
’’آنٹی، ہم لوگ کا ٹائم گڑبڑ ہو جاتا تھا۔ موسی لوگ کے یہاں ٹائم کی پابندی بہت تھی۔ ہفتے میں دو ایک دن بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ کئی بار ہم لوگ ٹور پر رہتے ہیں۔ تب بھی پورے پیسے دینے پڑتے تھے موسی کو۔ اب تینوں کا لنچ باکس بھرت پیک کر دیتا ہے۔ ‘‘
تبھی بھرت آ گیا۔ پون کی پرانی جینز اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے یہ بیس بائیس سال کا لڑکا تھا جس نے سر پر پٹکا باندھ رکھا تھا۔ انوپم کے بتانے پر اس نے نمستے کرتے ہوئے کہا، ’’پون بھائی نی با آوی چھے۔ ‘‘( پون بھائی کی ماں آئی ہیں۔ )
غضب کی تیزی تھی اس میں۔ کُل پون گھنٹے میں اس نے کام سنبھال لیا۔ روٹی بنانے سے پہلے وہ ریکھاکے پاس آ کر بولا، ’’با تمے کیٹلا روٹلی کھاتو؟‘‘(ماں، تم کتنی روٹی کھاتی ہو؟)
یہ سیدھا سا جملہ تھا پر ریکھا کے دل پر ڈھیلے کی طرح پڑا۔ اب بیٹے کے گھر میں اس کی روٹیوں کی گنتی ہو گی۔ اس نے جل بھن کر کہا، ’’ڈیڑھ۔ ‘‘
’’وے (دو) چلے گا۔ ‘‘کہہ کر بھرت پھر باورچی خانے میں چلا گیا۔ اس دوران پون نہا کر باہر نکلا۔
ریکھا سے رہا نہیں گیا۔ اس نے پون کو بتایا۔ پون ہنسنے لگا، ’’ارے ماں، تم تو پاگل ہو۔ بھرت کو ہمیں لوگوں نے کہہ رکھا ہے کہ کھانا بالکل برباد نہ کیا جائے۔ ناپ تول کر بنائے۔ اس کوہر ایک کا اندازہ ہے کہ کون کتنا کھاتا ہے۔ گھر کھلا پڑا ہے، تم جو چاہو بنا لینا۔ ‘‘
ریکھا کو لگا کہ اس ناپ تول کے پیچھے ضرور اسٹیلا کا ہاتھ ہو گا۔ اس کا بیٹا تو ایسا حسابی کبھی نہیں تھا۔ خود یہ جم کر برباد کرنے میں یقین کرتا تھا۔ ایک بار ناشتا بنتا، دو بار بنتا۔ پون کو پسند نہ آتا۔ شہزادے کی طرح فرما دیتا، ’’آلو کا ٹوسٹ نہیں کھائیں گے، آملیٹ بنائیں۔ ‘‘ابھی آملیٹ تیار ہوتا تووہ دانت صاف کرنے باتھ روم میں گھس جاتا۔ دیر لگا کر باہر نکلتا۔ پھر ناشتا دیکھتے ہی بھڑک جاتا، ’’یہ انڈے کی ٹھنڈی لاش کوئی کھا سکتا ہے ؟ مالتی پراٹھے بناؤ، نہیں تو ہم اب جا رہے ہیں باہر۔ ‘‘گھر کی پرانی خدمت گزار مالتی میں ہی اتنا برداشت تھا کہ ریکھا کی غیر موجودگی میں پون کے نخرے پورے کرے۔ کبھی بغیر کسی اطلاع کے تین تین دوست ساتھ لے آتا۔ سارا گھر ان کی مہمان داری میں لگ جاتا۔
پون نے کہا، ’’بھرت، میرا لنچ پیک مت کرنا، دوپہر میں میں گھر آ جاؤں گا۔ ‘‘پردوبارہ ریکھا سے کہا، ’’ ماں کیا کروں، آفس جانا ضروری ہے، دیکھو کل کی چھٹی کی جگاڑ کرتا ہوں کچھ۔ تم میرے پیچھے ٹی وی دیکھنا، سی ڈی سن لینا۔ کوئی دقت ہو تو مجھے فون کر لینا۔ سامنے پٹیل آنٹی رہتی ہے، کوئی ضرورت ہو تو ان سے بات کر لینا۔ ‘‘تبھی اسٹیلا پھولوں کا گلدستہ لئے آئی۔
’’گڈ مارننگ، میم۔ ‘‘اس نے گلدستہ ریکھاکو دیا۔ اس میں چھوٹا سا گفٹ کارڈ لگا تھا، ’’اسٹیلا پون کی جانب سے۔ ‘‘
پھولوں کے بجائے ریکھا اس کی چٹ کوبغور دیکھتی رہی۔ پون تاڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’ماں یہ ہم دونوں کی طرف سے ہے۔ ‘‘اس نے گفٹ کارڈ میں قلم سے اسٹیلا اور پون کے درمیان کوما لگا دیا۔
ریکھا کو تھوڑی پریشانی محسوس ہوئی۔ اس نے دیکھا کہا سٹیلا کے چہرے کے بھاؤ تھوڑے بدلے ہیں۔
اسٹیلا نے اپنا لنچ باکس اور آفس بیگ اٹھایا، ’’بائی، سی یو ان دی ایونگ میم، ٹیک کیئر۔ ‘‘
اسی کے پیچھے پیچھے پون، انوپم بھی گاڑی کی چابی لے کر نکل گئے۔
اکیلے گھر میں بستر پر پڑی ریکھا دیر تک خیالوں میں مگن رہی۔ درمیان میں خواہش ہوئی کہ راکیش سے بات کرے پر ایس۔ ٹی۔ ڈی کوڈ ڈائل کرنے پر ادھر سے آواز آئی، ’’یہ سوِدھا تمارے فون پر نتھی چھے۔ ‘‘فون کی ایس۔ ٹی۔ ڈی کی سہولت پر الیکٹرانک تالا تھا۔ ایک بار پھر ریکھا کو لگا اس گھر میں اسٹیلا کا کنٹرول بہت گہرا ہے۔
ریکھا کے تین دن کے قیام میں اسٹیلا صبح شام کوئی نہ کوئی تحفہ اس کے لئے لے کر آتی۔ ایک شام وہ اس کے لئے آبھلا (شیشے ) کی کڑھائی کی خوبصورت چادر لے کر آئی۔ پون نے کہا، ’’جیسے پیر شاہ پر چادر چڑھاتے ہیں ویسے ہم تمہیں منانے کو چادر چڑھا رہے ہیں، ماں۔ ‘‘
’’پیر اولیاء کے مزار پر چادر چڑھاتے ہے، مجھے کیا مردہ مان رہے ہو؟‘‘
’’نہیں ماں مردہ تو انہیں بھی نہیں سمجھا جاتا۔ تم ہر اچھی بات کا برا مطلب کہاں سے ڈھونڈ لاتی ہو۔ ‘‘
’’پر تم خود سوچو۔ کہیں کانچ کی چادر بستر پر بچھائی جاتی ہے۔ شیشے پیٹھ میں نہیں چبھ جائیں گے۔ ‘‘
ا سٹیلا نے ان دونوں کا ڈائیلاگ سنا۔ اس نے پون کی ٹانگوں پر ہاتھ مارا، ’’آئی گوٹ اِٹ۔ میم اسے وال ہینگنگ کی طرح دیوار پر لٹکا لیں۔ پوری دیوار کور ہو جائے گی۔ ‘‘
پون نے تعریفی نظروں سے اسے دیکھا، ’’تم جینیس ہو، سلی۔ ‘‘
چادر پلاسٹک بیگ میں ڈال کر ریکھا کے سوٹ کیس کے اوپر رکھ دی گئی۔
ریکھا کو رات میں یہی خواب بار بار آتا رہا کہ اس کے بستر پر شیشوں والی چادر بچھی ہے۔ جس کروٹ وہ لیٹتی ہے اس کے بدن میں شیشے چٹ چٹ ٹوٹ کر چبھ رہے ہیں۔
اس نے صبح پون سے بتایا کہ وہ چادر نہیں لے جائے گی۔ پون اکھڑ گیا، ’’ پتہ ہے ہمارے تین ہزار گفٹ پر خرچ ہوئے ہیں۔ اتنی قیمتی چیز کی کوئی قدر نہیں آپ کو؟‘‘
ریکھا کو لگا اگر اس وقت وہ تین ہزار ساتھ لائی ہوتی تو منہ پر مارتی اسٹیلا کے۔ اس نے کہا، ’’پنّو، اس لڑکی سے کہنابل بنا کر رکھ لے ہر چیز کا، میں وہاں جا کر پیسے بھجوا دوں گی۔ ‘‘
’’تم کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرو گی۔ وہ جو بھی کر رہی ہے، میری مرضی سے، میری ماں کے لئے کر رہی ہے۔ اب دیکھو وہ آپ کے لئے راجدھانی ایکسپریس کا ٹکٹ لائی ہے، یہاں سے امداباد وہ اپنی ایسٹیم میں خود آپ کو لے جائے گی۔ اور کیا کرے وہ، ستی ہو جائے۔ ‘‘
’’ستی اور ساوتری کے گن تو اس میں نظر نہیں آ رہے، بہترین کیئرسٹ بھلے ہی ہو۔ ‘‘
’’وہ بھی ضروری ہے، بلکہ ماں وہ زیادہ ضروری ہے۔ تم تو اپنے آپ کو تھوڑا بہت رائٹر بھی سمجھتی ہو، اتنی دقیانوس کب سے ہو گئیں کہ میرے لئے چراغ لے کر ستی ساوتری تلاش کرنے نکل پڑیں۔ وی آر میڈ فار ایچ اَدر۔ ہم اگلے ماہ شادی کر لیں گے۔ ‘‘
’’اتنی جلدی۔ ‘‘
’’ہمارے ایجنڈے پر بہت سارے کام ہیں۔ شادی کے لئے ہم زیادہ سے زیادہ چار دن خالی رکھ سکتے ہیں۔ ‘‘
’’کیا سول میرج کرو گے ؟‘‘ریکھا نے ہتھیار ڈال دیئے۔
’’سوامی جی سے پوچھیں گے۔ ان کا کیمپ اس وقت ان کے اہم آشرم، منپکّم میں لگے گا۔ ‘‘
’’کہاں ؟‘‘
’’مدراس سے تیس پینتیس میل دور ایک جگہ ہے، ماں۔ میں تو کہتا ہوں آپ وہاں جا کر دس دن رہو۔ آپ کی تکلیفیں، پریشانیاں، بے وجہ چڑنے کی عادت سب ٹھیک ہو جائیں گی۔ ‘‘
’’میں جیسی بھی ہوں ٹھیک ہوں۔ کوئی بیکار بیٹھی نہیں ہوں، جو آشرموں میں جا کر رہوں۔ نوکری بھی کرنی ہے۔ ‘‘
’’چھوٹی سی نوکری ہے تمہاری چھوڑ دو، چین سے جیو ماں۔ ‘‘
’’اسی چھوٹی سی نوکری سے میں نے بڑے بڑے کام کر ڈالے پنّو، تو کیا جانتا نہیں ہے ؟‘‘
’’پر آپ میں جیون درشن کی کمی ہے۔ ا سٹیلا کے ماں باپ کو دیکھو۔ اپنی لڑکی پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے وہ جو بھی کرے گی، سوچ سمجھ کر کرے گی۔ ‘‘
تلملا گئی ریکھا۔ بیٹیاں پرائی ہو جاتی ہیں، یہ تو اس نے دیکھا تھا، پر بیٹے پرائے ہو جائیں، وہ بھی شادی سے پہلے۔
’’یہ تیرا آخری فیصلہ ہے ؟‘‘
’’ ہاں ماں۔ سوامی جی نے بھی اس رشتے کے لیے او کے کر دیا ہے۔ ‘‘
’’اپنے پاپا کو پوچھا تک نہیں اور سب طے کر لیا۔ ‘‘
’’ان سے میں فون پر بات کر لوں گا۔ ویسے سوامی جی سب کے سپر پاپا، وہ سوچ سمجھ کر حامی بھرتے ہیں۔ انہوں نے بھی اس ڈیل پر مہر لگا دی۔ ‘‘
’’ڈیل کا کیا مطلب ہے۔ تم ابھی شادی جیسے رشتے کی سنجیدگی نہیں جانتے۔ شادی اور کاروباردو مختلف چیزیں ہیں۔ ‘‘
’’کوئی بھی نام دو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگلے ماہ آپ چوبیس کو مدراس پہنچو۔ سوامی جی کی سالگرہ کے موقع پر چوبیس جولائی کو بڑا شاندار جلسہ ہوتا ہے، کم از کم پچاس شادیاں کراتے ہیں سوامی جی۔ ‘‘
’’اجتماعی شادی؟‘‘
’’ہاں۔ ایک گھنٹے میں سب کام مکمل ہو جاتا ہے۔ ‘‘سرجری کے عمل کی طرح بیٹے نے سب کچھ مقرر کر رکھا تھا۔ پہلے بیٹے کو لے کر گھر والوں کے ارمانوں کے لئے اس میں کوئی گنجائش نہیں تھیں۔
ماں نے آخری دلیل دی، ’’تو کھرماس میں شادی کرے گا۔ اس میں شادیاں ممنوع ہوتی ہیں۔ ‘‘
پون نے پاس آ کر ماں کے کندھے کو پکڑ لیا، ’’ ماں میری پیاری ماں، یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی کہ ہم لوگ ان باتوں میں یقین نہیں کرتے۔ سلی کے ساتھ جب بندھن میں بندھ جاؤں وہی میرے لئے مبارک مہینہ ہے۔ ‘‘
مجروح دل اور خالی دماغ لئے ریکھا لوٹ آئی۔ شوہر اور چھوٹے بیٹے نے جو بھی سوال کئے، ان کا وہ کوئی مناسب جواب نہیں دے پائی۔
’’میرا پنّو اتنا کیسے بدل گیا۔ ‘‘وہ آہیں بھرتی رہی۔
پون نے فون پر ماں کی با حفاطت واپسی کی خبر لی۔ سگھن سے ای میل ایڈریس لیا اور دیا اور اپنے پاپا سے بات کرتا رہا، ’’پاپا، آپ اپنی شادی یاد کرو اور ماں کو سمجھانے کی کوشش کرو۔ میں لڑکی کو ڈِچ (دھوکہ) نہیں کر سکتا۔ ‘‘
راکیش درد کے اوپر چولا چڑھائے بیٹے کی آواز سنتے رہے۔ ’’ٹھیک ہے ‘‘، ’’اچھا ہوں ‘‘ کے علاوہ ان کے منہ سے کچھ نہیں نکلا۔ اس دن کسی نے کھانا نہیں کھایا گیا۔ راکیش نے کہا، ’’ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس لڑکی میں ضرور ایسی کوئی خاصیت ہو گی کہ ہمارا بیٹا اسے چاہتا ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا۔ ‘‘
’’مجھے لگا ا سٹیلا بڑی اچھی منتظم ہے۔ مجھے تو وہ لڑکی کی بجائے منیجر زیادہ لگی۔ ‘‘ریکھا نے کہا۔
’’تو اس میں برائی کیا ہے۔ پون دفتر اگرچہ مینج کر لے۔ گھر میں تو اسے ہر وقت ایک منیجرچاہئے۔ جو اس کا دھیان رکھے۔ یہاں یہ کام تم اور سگّو کرتے تھے۔ ‘‘
’’پر شادی بالکل الگ بات ہوتی ہے۔ ‘‘
’’کوئی الگ بات نہیں ہوتی۔ لڑکی کام سے لگی ہے۔ تمہارے جانے پر مسلسل تمہیں ملتی رہی۔ اپنا وقار اسی میں ہوتا ہے کہ بچوں سے تصادم کی صورت حال نہ آنے دیں۔ ‘‘
’’پر سب کچھ وہی طے کر رہی ہے، ہمیں صرف سر ہلانا ہے۔ ‘‘
’’تو کیا برائی ہے۔ تم خودکو حقوقِ نسواں کی علمبردار کہتی ہو۔ جب لڑکی سارے انتظامات میں پہل کرے، تو تمہیں برا لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’ہم اس سارے پلان میں کہیں نہیں ہیں۔ ہمیں تو پنّو نے اٹھا کر طاق پر رکھ دیا ہے، گزشتہ سال کے گنیش لکشمی کی طرح۔ ‘‘
’’سب یہی کرتے ہیں۔ کیا ہم نے ایسا نہیں کیا۔ میری ماں کو بھی ایسا ہی دکھ ہوا تھا۔ ‘‘
ریکھا بھڑک اٹھی، ’’تم اسٹیلا کو مجھ سے ملا رہے ہو۔ میں نے تمہارے گھر خاندان کی دھوپ چھایا جیسے کاٹی ہے، وہ کاٹ لے گی ویسے۔ بس بیٹھے بیٹھے کمپیوٹر جوڑنے کے سوا اور کیا آتا ہے اسے۔ ایک وقت کا کھانا نوکر بناتا ہے۔ دوسرے وقت باہر سے آتا ہے۔ دودھ تک گرم کرنے میں دلچسپی نہیں ہے اسے۔ ‘‘
’’مجھے لگتا ہے تم تعصب سے کام لے رہی ہو۔ میرا لڑکا غلط انتخاب نہیں کر سکتا۔ ‘‘
’’اب تم اس کی لے میں بول رہے ہو۔ ‘‘
کئی دنوں تک ریکھا کی حالت غیر بنی رہی۔ اس نے اپنی استانی سکھیوں سے بھی مشورہ کیا۔ جو بھی گھر آتا، اس کی تکلیف بھانپ جاتا۔ اس نے جانا کہ ہر خاندان میں ایک نہ ایک ان چاہا، من چاہا بیاہ ہوا ہے۔
اسے اپنے دن یاد آئے۔ بالکل ایسی تڑپ اٹھی ہو گی، راکیش کے ماتا پتا کے کلیجے میں بھی، جب ان کی دیکھی بھالی خوبصورت لڑکیوں کو ٹھکرا کر اس نے ریکھا سے شادی کا من بنایا۔ اس کے دوستوں تک نے اُس سے کہا، ’’تم کیا بالکل پاگل ہو گئے ہو؟‘‘در اصل وہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد تھے۔ راکیش تھے لمبے، تڑنگے، خوبصورت اور ہنس مکھ، ریکھا تھی چھوٹی، دبلی، قبول صورت اور کٹکھنی۔ بولتے وقت وہ زبان کو چاقو کی طرح استعمال کرتی تھی۔ اس کے اسی تیور نے راکیش کو کھینچا تھا۔ وہ اس کی دو چار نظموں پر دل دے بیٹھا۔ راکیش کے بڑوں کا خیال تھا کہ اول تو یہ شادی نہیں ہو گی اور ہو بھی گئی تو چھ ماہ میں ہی ٹوٹ جائے گی۔
ریکھا کو یاد آتا گیا۔ شادی کے بعد وہ لاکھ گھر کا کام، اسکول کی نوکری، اخراجات کا بوجھ سنبھالتی، پر ماں جی اس کے تئیں اپنے خیالات نہیں بدلتیں۔ اگر کبھی پتا جی یا راکیش اس کی کسی بات کی تعریف کر دیتے، تو اُس دن اُس کی شامت آ جاتی۔ ماں جی کی نظروں میں ریکھا چلتی پھرتی چنوتی تھی۔
جی۔ جی۔ سی۔ ایل مسلسل خسارے میں چلتے چلتے اب ڈوبنے کے دہانے پر تھی۔ ملازمین کی چھٹائی شروع ہو گئی تھی۔ ایم بی اے پاس لڑکوں میں اتنا صبر نہیں تھا کہ وہ ڈوبتے جہاز کامستول سنبھالتے۔ سبھی کسی نہ کسی آپشن کی تلاش میں تھے۔
پون نے گھر فون کر کے اطلاع دی کہ اس کا انتخاب ایک کثیر القومی کمپنی ’’ مَیل‘‘ میں ہو گیا ہے۔ نئی نوکری جوائن کرنے سے پہلے اس کے پاس تین ہفتے کا وقت ہو گا۔ اسی وقت وہ گھر آئے گا اور جی بھر کر رہے گا۔
اگلے ہفتے پون نے کمپیوٹر پر لکھا صاف ستھرا اور خوبصورت خط بھیجا۔ جس میں اس کی شادی کی دعوت تھی۔ سوامی جی کے پروگرام کے مطابق ان کی شادی دہلی میں ہونی تھی۔ شہروں کی دوریاں اور انجاناپن اُسکی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ بیٹے کے بنائے منصو بوں پر راضی ہونا، جیسے زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔ اپنے نام پون یعنی ہوا کی طرح ہی، وہ ہوا کی رفتار سے سارے انتظامات کر رہا تھا۔
اس دوران اتنا وقت ضرور مل گیا تھا کہ ریکھا اور راکیش اپنی ناراضگی اور عدمِ اطمینان کو توازن کی شکل دے سکیں۔ جب دہلی میں رام کرشناپُرم میں سرل مارگ کے کیمپ میں انہوں نے دس ہزار شائقین کی بھیڑ میں اجتماعی شادیوں کا منظر دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ اس تقریب میں روائتی شادی کی تقریب سے کہیں زیادہ وقار اور یقین ہے۔ نہ کہیں ماتا پتاکا اہم کردار تھا، نہ ڈرامائی انداز۔ سوامی جی کی موجودگی میں دلہن کو ایک سادہ سا منگل سوتر پہنایا گیا، پھر شادی کو نوٹری پبلک کی جانب سے رجسٹر کیا گیا۔ آخر میں تمام حاظرین کے بیچ لڈو بانٹ دیے گئے۔ بچیوں کے ماتا پتا کے چہروں پرتشکرکی روشنی تھی۔ ہاں لڑکوں کے سرپرستوں کے چہرے کچھ بجھے ہوئے تھے۔
اب تک اپنے غصہ پر ریکھا اور راکیش کنٹرول کر چکے تھے۔ نئے تجربے سے گزرنے کے تجسس میں انہیں اسٹیلا سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ وہ پون اور بہو کو لے کر گھر آئے۔ دو دن شلوار سوٹ پہننے کے بعد اسٹیلا نے کہہ دیا، ’’میں دوپٹہ نہیں سنبھال سکتی۔ ‘‘
وہ واپس اپنے پسندیدہ کپڑوں یعنی جینز اور ٹاپ میں نظر آئی۔ اس کی کام کی نوعیت بھی کچھ اس طرح کی تھی کہ لباس کی بِنا پر کوئی تنازعہ پیدا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے یہاں اپنی ساتھی فرم سے رابطہ کر کے سگھن کو کمپیوٹر کے پارٹس دلا دیے۔ سگھن نے فوراً اعلان کر دیا، ’’میری جیسی بھابھی کبھی کسی کو نہ ملی ہے، نہ ملے گی۔ ‘‘اسٹیلا کمپیوٹر مینو میں جتنی ماہر تھی، کچن کے مینو پر اتنی ہی اناڑی۔ مسلسل گھر سے باہر ہوسٹلوں میں رہنے کی وجہ سے، اس کے ذہن میں کھانا بنانے کا کوئی خاص تصور نہیں تھا۔ وہ انڈے آلو، چاول ابالنا جانتی تھی یا پھر میگی۔
ماں نے کہا، ’’اتنی بے سواد چیزیں تم کھا سکتی ہو؟‘‘
اسٹیلا نے کہا، ’’میں تو بس کیلوری گن لیتی ہوں اور آنکھ موند کر کھانا نگل لیتی ہوں۔ ‘‘
’’پر ہو سکتا ہے پون مزیدار کھانا کھانا چاہے۔ ‘‘
’’تو وہ کوکنگ سیکھ لے۔ ویسے بھی وہ اب مدراس جانے والا ہے۔ اور میں راجکوٹ اور احمد آباد کے درمیان چلتی پھرتی رہوں گی۔ ‘‘
’’پھر بھی میں تمہیں تھوڑا بہت سکھا دوں۔ ‘‘
اب پون نے مداخلت کی۔ وہ یہاں ماتا پتا کا آشیروادلینے آیا تھا، احکامات نہیں۔
’’ماں، جب سے میں نے ہوش سنبھالا، تمہیں اسکول اور باورچی خانے کے درمیان دوڑتے ہی دیکھا۔ مجھے یاد ہے جب میں سو کر اٹھتا تم باورچی خانے میں ہوتیں اور جب میں سونے جاتا، تب بھی تم باورچی خانے میں ہوتیں۔ تمہیں چاہئے کہ اسٹیلا کے لئے زندگی بھٹی نہ بنے۔ جو تم نے سہا، وہ کیوں سہے ؟‘‘
ریکھا کے چہرے کی لکیریں تن گئیں۔ حالانکہ بیٹے کی منطق کی وہ قائل تھی۔
دوپہر میں لیٹ کرآرام کرتے اسے لگا کہ ہر پیڑھی کا محبت کرنے کا طریقہ مختلف اور منفرد ہوتا ہے۔ ا سٹیلا بھلے ہی کمپیوٹر پر آٹھ گھنٹے کام کر لے، باورچی خانے میں آدھ گھنٹے نہیں رہنا چاہتی۔ پون بھی نہیں چاہتا کہ وہ باورچی خانے میں جائے۔ ریکھا نے کہا، ’’یہ دال روٹی تو بنانی سیکھ لے۔ ‘‘
پون نے جواب دیا۔ ‘‘ کھانا بنانے والا پانچ سو روپے میں مل جائے گا ماں، اسے باورچی تھوڑا بنانا ہے۔ ‘‘
’’اور میں جو ساری عمر تم لوگوں کی باورچن، دھوبن، جمادارن بنی رہی وہ؟‘‘
’’غلط کیا آپ نے اور پاپا نے۔ آپ چاہتی ہیں وہی غلطیاں میں بھی کروں۔ جو صلاحیتیں ہیں اس لڑکی کی، ان کی طرف دیکھو۔ کمپیوٹرو زرڈ ہے یہ۔ اس کے پاس بل گیٹس کے دستخط سے خط آتے ہیں۔ ‘‘
’’پر کچھ گھریلو کاموں کی صلاحیتیں بھی تو پیدا کرنے ہوں گی اسے۔ ‘‘
’’ارے ماں، آج کے زمانے میں عورت اور مرد کو الگ الگ شمارنہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ تو پڑھی لکھی ہوماں۔ وقت کی چاپ پہچانوں۔ اکیسویں صدی میں یہ سڑی گلی سوچ لے کر نہیں چلنا ہے ہمیں، ان کا گلہ گھونٹ ڈالو۔ ‘‘
اسٹیلا کی عادت تھی کہ جب ماں بیٹے میں کوئی جرح ہوتی، تو وہ بالکل مداخلت نہیں کرتی تھی۔ اس کی زیادہ دلچسپی مسائل کی ٹھوس تشخیص میں تھی۔ اس نے باپ سے کہا، ’’میں آپ کو آپریٹ کرنا سکھا دوں گی۔ پھر آپ دیکھئے گا، ترمیم کرنا آپ کے لئے کتنا آسان کام ہو گا۔ جہاں مرضی ترمیم کر لیں، جہاں مرضی مٹا دیں۔ ‘‘
ریکھا کی کئی کہانیاں اس نے کمپیوٹر پر اتار دیں۔ بتایا، ’’میم اس کی ایک ڈسک میں آپ کی کئی سو کہانیاں آ سکتی ہیں۔ بس یہ ڈسک سنبھال کر رکھ لیجئے، آپکی ساری ادبی دنیا اس میں ہے۔ ‘‘
حیران رہ گئے وہ دونوں۔ ریکھا نے کہا، ’’اب تم ہماری ہو گئی ہو۔ میم نہ بولا کرو۔ ‘‘
’’اوکے۔ مام سہی۔ ‘‘اسٹیلا ہنس دی۔
بچوں کے واپس جانے میں بہت تھوڑے دن باقی تھے۔ راکیش اس بات سے اکھڑے ہوئے تھے کہ شادی کے فوراً بعد پون اورا سٹیلا ساتھ نہیں رہیں گے، بلکہ ایک دوسرے سے تین ہزار میل کے فاصلے پر ہوں گے۔
انہوں نے دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پون نے کہا، ’’میں تو زبان دے چکا ہوں مَیل کو۔ میرا مدراس جانا طے ہے۔ ‘‘
’’اور جوزبان یا وچن جیون ساتھی کو دیا وہ؟‘‘
پون ہنسا، ’’پاپا، جملے بازی میں آپ کا جواب نہیں۔ ہماری شادی میں کوئی بھاری بھرکم وچنوں کا تبادلہ نہیں ہوا ہے۔ ‘‘
’’بہو اکیلی انجان شہر میں رہے گی؟ آج کل وقت اچھا نہیں ہے۔ ‘‘
’’وقت کبھی بھی اچھا نہیں تھاپاپا، میں تو پچیس سال سے دیکھ رہا ہوں۔ پھر وہ شہر اسٹیلا کے لئے انجانا نہیں ہے۔ ایک اور بات، راجکوٹ میں تشدد، جرم یہاں کا ایک پرسنٹ بھی نہیں ہے۔ راتوں میں لوگ بغیر تالا لگائے اسکوٹر پارک کر دیتے ہیں، چوری نہیں ہوتا۔ پھر آپ کی بہو کراٹے، تائی کوانڈو میں ماہر ہے۔ ‘‘
’’پر پھر بھی شادی کے بعد تمہارا فرض ہے ساتھ رہو۔ ‘‘
’’پاپا، آپ بھاری بھرکم لفظوں سے ہمارا رشتہ بوجھل بنا رہے ہیں۔ میں اپنا کیریئر، اپنی آزادی کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اسٹیلا چاہے تو اپنا بزنس مدراس لے چلے۔ ‘‘
’’تم تو ایڈوانس ریم ہو۔ میں مدراس پہنچوں اور تم سنگاپور چلے جاؤ تب!‘‘اسٹیلا ہنسی۔
پتہ چلا پون کے سنگاپور یا تائیوان جانے کی بھی بات چل رہی تھی۔
ریکھا نے کہا، ’’یہ بار بار خود کو ڈسٹرب کیوں کرتی ہو۔ اچھی بھلی کٹ رہی ہے سوراشٹر میں۔ اب پھر ایک نئی جگہ جا کر جد و جہد کریں گے ؟‘‘
’’وہی تو ماں۔ منزلوں کے لئے جد و جہد تو کرنا ہی پڑیگی۔ میری لائن میں چلتے رہنا ہی ترقی ہے۔ اگر یہیں پڑا رہ گیا تو لوگ کیا کہیں گے، دیکھا کیسا لدّھڑ ہے، کمپنی ڈوب رہی ہے اور یہ ’’ کیسا بلانکا ‘‘کی طرح اس میں پھنسا ہوا ہے۔ ‘‘
یہ باتیں راکیش کو بہت چبھیں، ’’تم اپنی ترقی کے لئے بیوی اور کمپنی دونوں چھوڑ دو گے ؟‘‘
’’چھوڑ کہاں رہا ہوں پاپا، یہ کمپنی اب میرے قابل نہیں رہی۔ میری صلاحیتوں کا استعمال اب ’’مَیل‘‘ کرے گی۔ رہی اسٹیلا۔ تو یہ اتنی مصروف رہتی ہے کہ انٹرنیٹ اور فون پر مجھ سے بات کرنے کی فرصت نکال لے یہی بہت ہے۔ پھر جیٹ، سہارا، انڈین ایئر لائینز کا بزنس آپ لوگ چلنے دو گے یا نہیں۔ صرف سات گھنٹے کی پرواز سے ہم لوگ مل سکتے ہیں۔ ‘‘
’’یعنی سیٹلائٹ اور انٹرنیٹ سے تم لوگوں کی شادی شدہ زندگی چلے گی؟‘‘
’’یس پاپا۔ ‘‘
’’میں تمہاری پلاننگ سے ذرا بھی خوش نہیں ہوں پنّو۔ ایک اچھی بھلی لڑکی کو اپنا جیون ساتھی بنا کر کچھ ذمہ داری سے جینا سیکھو۔ اور بیچاری جی۔ سی۔ سی۔ ایل نے تمہیں اتنے سالوں میں کام سکھا کر کسی قابل بنایا ہے۔ کل تک تم اس کے گیت گاتے نہیں تھکتے تھے۔ تمہاری ایتھکس کو کیا ہوتا جا رہا ہے ؟‘‘
پون چڑ گیا، ’’میرے ہر کام میں آپ یہ کیا ایتھکس، موریلٹی جیسے بھاری بھرکم پتھر مارتے رہتے ہیں۔ میں جس دنیا میں ہوں وہاں ایتھکس نہیں، پروفیشنل ایتھکس کی ضرورت ہے۔ چیزوں کو نئے زاویے سے دیکھنا سیکھیں۔ نہیں تو آپ کو پرانے اخبار کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔ آپ جنریشن گیپ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے کیا ہو گا، آپ ہی دکھی رہیں گے۔ ‘‘
’’تم ہماری نسل میں پیدا ہوئے ہو، بڑے ہوئے ہو، پھر جنریشن گیپ کہاں سے آ گیا۔ اصل میں پون ہم اورتم ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘
’’ایسا آپ کو لگتا ہے۔ آپ کو آج بھی کے ایل سہگل پسند ہے، مجھے بابا سہگل، اتنا فاصلہ ہے ہمارے آپ کے درمیان۔ آپ کو پرانی چیزیں، پرانے گیت، پرانی فلمیں سب اچھی لگتی ہیں۔ ڈھونڈڈھونڈ کر آپ کباڑ اکٹھا کرتے ہیں۔ ٹی وی پر کوئی پرانی فلم آئے تو آپ اس سے بندھ جاتے ہیں۔ اتنا فلم بور نہیں کرتی جتنا آپ کی یادیں بور کرتی ہیں -نِمّی ایسے دیکھتی تھی، ایسے بھاگتی تھی، اس کے ہونٹ انکسڈ لپس کہلاتے تھے۔ میرے پاس ان قصے کہانیوں کا وقت نہیں ہے۔ تکنیکی اعتبار سے کتنی خراب فلمیں تھیں وہ۔ ایک ڈائیلاگ بولنے میں ہیروئن دو منٹ لگا دیتی تھی۔ آپ بھی تو آدھی فلم دیکھتے دیکھتے اونگھ جاتے ہیں۔ ‘‘
ریکھا نے کہا، ’’باپ کو اتنا لمبا لیکچر پلا دیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ تیرے خوشی کی ہی سوچ رہے ہیں وہ۔ ‘‘
’’جب میں یہاں خوش رہتا تھا۔ اس وقت بھی تو آپ لوگ دکھی تھے۔ آپ نے کہا تھا ماں کہ آپ کے بڑے بابو کے لڑکے تک نے ایم بی اے کا داخلہ امتحان پاس کر لیا۔ اس وقت مجھے کیسا لگا تھا۔ ‘‘
’’تمام ماں باپ اپنے بچوں کو حقیقی معنوں میں کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔ تاکہ کوئی انہیں پھسڈّی نہ سمجھے۔ ‘‘
’’وہی تو میں نے کیا۔ آپ کے اوپر ان تین حروف کا کیسا جادو چڑھا تھا، ایم بی اے۔ آپ کو اس وقت لگا تھا کہ اگر آپ کے لڑکے نے ایم بی اے نہیں کیا تو آپ کی ناک کٹ جائے گی۔ ‘‘
’’ہمیں تمہاری ڈگری پر فخر ہے بیٹا، پر شادی کے ساتھ کچھ تال میل بھی بٹھانے پڑتے ہیں۔ ‘‘
’’تال میل بڑا گڑبڑ سا لفظ ہے۔ اس کے لئے نہ میں اسٹیلا کی رکاوٹ بنوں گا نہ وہ میری۔ ہم نے پہلے ہی یہ بات صاف کر لی ہے۔ ‘‘
’’پر تنہائی۔۔ ۔ ‘‘
’’یہ تنہائی آپ سب کے درمیان رہ کر بھی مجھے محسوس ہو رہی ہے۔ آپ میرے نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ آپ نے مجھے ایسے سمندر میں پھینک دیا ہے جہاں مجھے تیرنا ہی تیرنا ہے۔ ‘‘
’’تم پڑھ لکھ لئے، یہ غلطی بھی ہماری تھی کیوں ؟‘‘
’’پڑھ تو میں یہاں بھی رہا تھا، پر آپ اپنے خواب پورے کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے خواب میری جد و جہد بن گئے۔ یہ مت سوچئے کہ جد و جہد اکیلی آتی ہے۔ وہ سبق بھی سکھاتی چلتی ہے۔ ‘‘
راکیش بکھر گئے۔ انہیں لگا جتنا نادان وہ بیٹے کو مان رہے ہیں، اتنا وہ ہے نہیں۔
اسٹیلاکی ٹرین بکنگ دو دن پہلے کی تھی۔ اس کے جانے کے بعد پون نے سامان سمیٹنا شروع کیا۔ اس نے چھوٹے سے ’’اوڈیسی‘‘ اٹیچی کیس میں سلیقے سے اپنے کپڑے جما لئے۔ اور بیگ میں نہایت ضروری چیزوں کے ساتھ لیپ ٹاپ، منرل واٹر اور موبائل فون رکھ لیا۔
روانگی کے دن اس نے ماں کے نام بیس ہزار کا چیک کاٹا، ’’ماں، ہمارے آنے سے آپ کا بہت خرچ ہوا ہے، یہ میں آپ کو پہلی قسط دے رہا ہوں۔ تنخواہ ملنے پر اور دوں گا۔ ‘‘
ریکھا کا گلا روندھ گیا، ’’بیٹے، ہمیں تم سے قسطیں نہیں چاہئے۔ جو کچھ ہمارا ہے، سب تمہارا اور چھوٹو کا ہے۔ یہ مکان تم دونوں آدھا آدھا بانٹ لینا۔ اور جو کچھ بھی ہے اس میں برابر کا حصہ ہے۔ ‘‘
’’اب بتاؤ، حساب کی بات آپ کر رہی ہو یا میں ؟ اتنے سال کی نوکری میں کبھی ایک پیسہ آپ دونوں پر خرچ نہیں کیا۔ ‘‘
ریکھا نے چیک واپس کرتے ہوئے کہا، ’’رکھ لو نئی جگہ پر کام آئے گا۔ دو شہروں میں گرہستی جماؤ گے، ڈبل خرچ بھی ہو گا۔ ‘‘
’’سوچ لو ماں، لاسٹ آفر۔ پھر نہ کہنا پون نے گھر میں ادھار چڑھا دیا۔ ‘‘
بچوں کے جانے کے بعد گھر یکبارگی بھائیں بھائیں کرنے لگا۔ سگھن نے سافٹ ویئرکا لاگ ان امتحان پاس کر کے، دہلی میں ڈیڑھ سال کا کورس جوائین کر لیا۔ ریکھا اور راکیش ایک بار پھر اکیلے رہ گئے۔
تنہائی کے ساتھ سب سے جان لیوا ہوتے ہیں، اداسی اور شکستِ احساس! وہ دونوں صبح کی سیر پر جاتے۔ انجینئرنگ کالج کے گراؤنڈ کی صاف ہوا کچھ دیر کے لیے شادمان کرتی تھی کہ کالونی کا کوئی نہ کوئی شناسا نظر آ جاتا۔ بات صحت اور موسم سے ہوتی ہوئی لازمی بچوں پر آ جاتی۔ کالج کی ریلنگ پر گٹھیا والے پاؤں کو رکھ کر ذرا آرام دیتے سنہا صاحب بتاتے، ان کا امیت بمبئی میں ہے، وہیں اس نے قسطوں پر فلیٹ خرید لیا ہے۔ سونی صاحب بتاتے، ان کا بیٹا ایچ۔ سی۔ ایل کی جانب سے نیویارک چلا گیا ہے۔ مجیٹھیا کا چھوٹا بھائی کینیڈا میں ہارڈ ویئر کا کورس کرنے گیا تھا، وہیں بس گیا ہے۔
یہ سب کامیاب اولاد وں کے ماں باپ تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر خوف اور خدشات کے سائے تھے۔ بچوں کی کامیابیاں ان کی زندگی میں سناٹا بنا رہی تھیں۔
’’اتنی دور چلا گیا ہے بیٹا، پتہ نہیں ہمارا کریا کرم کرنے بھی پہنچے گا یا نہیں ؟‘‘سونی صاحب کہہ کر خاموش ہو جاتے۔
ریکھا اور راکیش ان سب سے ہٹ کر گھومنے کی کوشش کرتے۔ انہیں لگتا جو تکلیف وہ رات بھر جیتے ہیں، اسے صبح صبح الفاظ کا جامہ پہنا ڈالنا اتنا ضروری تو نہیں۔ دن بھر بات بات میں چھوٹو اور پون کا دھیان آتا رہتا۔ گھر میں پاؤ بھر سبزی بھی نہ کھپتی۔ ماں کہتی، ’’لو چھوٹو کے نام کی بچی ہے یہ۔ پتہ نہیں کیا کھایا ہو گا اس نے ؟‘‘
راکیش کو پون کا خیال آ جاتا، ’’اس جاب میں ٹور ہی ٹور ہیں۔ اتنا بڑا ایریا اسے دے دیا ہے۔ کیا کھاتا ہو گا۔ وہاں سب چاول کے کھانے ملتے ہیں، میری طرح اسے بھی چاول بالکل پسند نہیں۔ ‘‘
دونوں کے کان فون پر لگے رہتے۔ فون اب ان کے لئے کونے میں رکھا ایک آلہ نہیں، ایک امید تھا۔ پون جب اپنے شہر میں ہوتا فون کر لیتا۔ اگر چار پانچ دن اس کا فون نہ آئے تو یہ لوگ اس کا نمبر ملاتے۔ اس وقت انہیں چھوٹو کی یاد آتی۔ فون ملانے، اُٹھانے، ایس ٹی ڈی کا الیکٹرانک تالا کھولنے، لگانے کا کام چھوٹو ہی کیا کرتا تھا۔ اب وہ فون ملانے میں ڈرتے۔ صحیح نمبر دبانے پر بھی انہیں لگتا کہ نمبر غلط لگ گیا ہے۔ کبھی پون فون اٹھاتا، لیکن زیادہ تر ادھر سے یہی مشینی آواز آتی، ’’یو ہیو ریچڈ دی وائس میل باکس آف نمبر۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘
ریکھا کو وائس میل کی آواز بڑی منحوس لگتی۔ وہ اکثرپون سے کہتی، ’’تم خود تو باہر چلے جاتے ہو، اس ڈائن کو لگا جاتے ہو۔ ‘‘
’’کیا کروں ماں، میں تو ہفتے ہفتے باہر رہتا ہوں۔ لوٹ کر کم از کم یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ کس کا فون گھر میں آیا۔ ‘‘
سگھن کے ہاسٹل میں فون نہیں تھا۔ وہ باہر سے مہینے میں دو بار فون کر لیتا۔ اسے ہمیشہ پیسوں کی تنگی ستاتی۔ مہینے کے اوائل میں پیسے ملتے ہی وہ کمپیوٹرکے مہنگے رسائل خرید لیتا، پھر کبھی ناشتے میں کمی، کبھی کھانے میں کنجوسی برتتا۔ دہلی اتنی مہنگی تھی کہ بیس روپے روز آنے جانے میں نکل جاتے، جبکہ اس کے باوجود بس کیلئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑا ہونا پڑتا۔ ایک سمسٹر مکمل کر کے جب وہ گھر آیا تو ماں پاپا اسے پہچان ہی نہیں پائے۔ چہرے پر ہڈیاں نکل آئی تھیں۔ چہرے پر سے پہلے والا چھلکتا بچپنا اب غائب ہو گیا تھا۔
بیگ اور اٹیچی سے اس کے چیکٹ میلے کپڑے نکالتے ہوئے ریکھا نے کہا، ’’کیوں !کبھی کپڑے دھوتے نہیں تھے۔ ‘‘
اس نے گردن ہلا دی۔
’’کیوں ؟‘‘
’’ٹائم کہاں ہے ماں۔ روز رات تین بجے تک کمپیوٹر پر پڑھنا ہوتا ہے۔ دن میں کلاس۔ ‘‘
’’باقی لڑکے کس طرح کرتے ہیں ؟‘‘
’’لانڈری میں دھلواتے ہیں۔ میرے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ ‘‘
راکیش نے کہا، ’’جتنے تمہیں بھیجتے ہیں، اتنے تو ہم پون کو بھی نہیں بھیجتے تھے۔ ایک طرح سے تمہاری ماں کی پوری تنخواہ ہی چلی جاتی ہے۔ ‘‘
’’اس زمانے کی بات پرانی ہو گئی، پاپا۔ اب تو اکیلا چپ سو روپے کاہوتا ہے۔ ‘‘
’’کیا ضرورت ہے اتنے چپس کھانے کی؟‘‘ریکھا نے ابرو سکوڑے۔
سگھن ہنس دیا، ’’ماں، آلو چپس نہیں، پڑھنے والے چپ کی بات کر رہا ہوں۔ یہ تو ایک میگزین ہوا، اور نہ جانے کتنے ایسے ہیں، جو میں افورڈ نہیں کر پاتا۔ میرے کورس کی ایک ایک سی ڈی کی قیمت ڈھائی سو روپے ہوتی ہے۔ ‘‘
ناشتے کے بعد وہ بغیر نہائے سو گیا۔ اس کی میلی جینز رگڑتے ہوئے ماں سوچتی رہی، اس کے کپڑوں سے اس کی جد و جہد کا پتہ چل رہا ہے۔ جب تک وہ گھر میں تھا، ہمیشہ صاف ستھرا رہتا تھا۔ دوپہر میں اس کو کھانے کے لئے اٹھایا۔ بڑی مشکل سے وہ اٹھا، دو چار نوالے کھا کر پھر سو گیا۔ تبھی اس کے پرانے دوست یو گی کا فون آ گیا۔ اس کی ہارڈ ڈسک پھنس رہی تھی۔ سگھن نے کہا کہ وہ اس کے یہاں آ رہا ہے، مرمت کر دے گا۔
’’تم تو سافٹ ویئر پروگرامنگ میں ہو۔ ‘‘راکیش نے کہا۔
’’وہاں میں نے ہارڈ ویئر کا بھی ایوننگ کورس لے رکھا ہے۔ ‘‘سگھن نے جاتے جاتے کہا۔
ہم اپنے بچوں کو کتنا کم جانتے ہیں۔ ان کے ارادے، ان کی منزل، ان کی جد و جہد ایک ہی شاہراہ پر ہے۔ راکیش نے سوچا۔ اس کی یادوں میں وہ اب بھی لِیلا دکھانے والا چھوٹا سا کشن کنہیا تھا، جبکہ وہ انفارمیشن کی ایسی دنیا میں ہاتھ پیر چلا رہا تھا، جس کے ہاتھ پورے دنیا میں پھیلے تھے۔
ریکھا نے کہا، ’’جو میں نہیں چاہتی تھی وہ کر رہا ہے چھوٹو۔ ہارڈ ویئر کا مطلب ہے میکینک بن کر رہ جائے گا۔ ایک بھائی مینیجر دوسرا، میکینک۔ ‘‘
راکیش نے ڈانٹ دیا، ’’جو بات نہیں سمجھتی، اسے بولا مت کرو۔ ہارڈوئیروالوں کو ٹیکنیشین کہتے ہیں، میکینک نہیں۔ بیرون ملک سافٹ ویئر انجینئر سے زیادہ ہارڈ ویئر انجینئر کماتے ہیں۔ تمہیں یاد ہے جب یہ چھوٹا سا تھا، تین سال کا، میں نے اسے ایک روسی کتاب لا کر دی تھی ’’میں کیا بنوں گا؟‘‘با تصویر تھی وہ۔ ‘‘
ریکھا کا موڈ بدل گیا، ’’ ہاں، میں اسے پڑھ کر سناتی تھی، تو یہ بہت خوش ہوتا تھا۔ اس میں ایک جگہ لکھا تھا، میکینک اپنے ہاتھ پیر کتنے بھی گندے رکھیں ان کی ماں کبھی نہیں مارتی۔ اسے یہ بات بڑی اچھی لگتی۔ وہ تصویر تھی نہ، بچے کے دونوں ہاتھ گریس سے لتھڑے ہیں اور ماں اسے کھانا کھلا رہی ہے۔ ‘‘
’’پر چھوٹو کمزور بہت ہو گیا ہے۔ کل سے اسے وٹامن دینا شروع کرو۔ ‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ یہ کھانے پینے کے پیسے کاٹ کر ہارڈ ویئر کورس کی فیس بھرتا ہو گا۔ شروع کا گھنّا ہے۔ اپنی ضرورتیں بتاتا تو ہے ہی نہیں۔ ‘‘
ابھی سگھن کو صبح شام دودھ دلیا دینا شروع ہی کیا تھا کہ ہاٹ میل پر اسے تائیوان کی سافٹ ویئر کمپنی کی طرف سے نوکری کا بلاوا آ گیا۔ گم ہو گئی اس کی تھکاوٹ اور خاموشی۔ کہنے لگا، ’’مجھے دس دنوں سے اس کا انتظار تھا۔ سارے بیچ نے اپلائی کیا تھا، پر پوسٹ صرف ایک تھی۔ ‘‘
ماں باپ کے چہرے پھیکے پڑ گئے۔ ایک لڑکا اتنی دور مدراس میں بیٹھا ہے۔ دوسرا چلا جائے گا ایک ایسے پردیس، جس کے بارے میں وہ ہجے سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔
راکیش کہنا چاہتے تھے سگھن سے، ’’کوئی ضرورت نہیں اتنی دور جانے کی، تمہارے علاقے میں، یہاں بھی کام ہے۔ ‘‘
پر سگھن اپنی رضامندی بھیج چکا تھا۔ پاسپورٹ اس نے گزشتہ سال ہی بنوا لیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’پاپا، بس ہوائی ٹکٹ اور پانچ ہزار کا انتظام آپ کر دو، باقی میں مینج کر لوں گا۔ آپ کا خرچ میں پہلی پے میں سے چکا دوں گا۔ ‘‘
ریکھا کو لگا سگھن میں سے پون کا چہرہ جھانک رہا ہے۔ وہی بنیا گیری والی پیشکش اور سیاق و سباق۔ اسے یہ بھی لگا کہ نوجوان بیٹے نے ایک منٹ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ اس کے ماں باپ یہاں کس کے سہارے زندہ رہیں گے۔
پناہ گزین اور مہاجر صرف سیاح اور پنچھی نہیں ہوتے، بچے بھی ہوتے ہیں۔ وہ دوڑ دوڑ کر درزی کے یہاں سے اپنے نئے سلے کپڑے لاتے ہیں، اٹیچی کیس میں اپنا سامان اور کاغذات رکھتے ہیں، منی بیلٹ میں اپنا پاسپورٹ، ویزا اور چند ڈالر رکھ کر، روانہ ہو جاتے ہیں کسی نامعلوم ملک کے سفر پر، ماں باپ کو صرف ائیر پورٹ یا اسٹیشن پر ہاتھ ہلاتے چھوڑ کر۔
پلیٹ فارم پر لڑکھڑاتی ریکھا کو اپنے تھرتھراتے ہاتھوں سے سنبھالتے ہوئے راکیش نے کہا، ’’ٹھیک ہی کیا چھوٹو نے۔ جتنی کامیابی یہاں دس سال میں حاصل کرتا، اتنی وہ وہاں دس مہینوں میں کر لے گا۔ باصلاحیت تو ہے ہی۔ ‘‘
کالونی کے گپتا میاں بیوی بھی ان کے ساتھ اسٹیشن آئے ہوئے تھے۔ مسز گپتا نے کہا، ’’وائرل فیور کی طرح فارن وائرس بھی بہت پھیلا ہوا ہے آج کل۔ ‘‘
’’تم کچھ بھی کہہ لو، ہمارا چھوٹو ایسا نہیں ہے۔ اس کی فیلڈکے بارے میں یہاں کچھ زیادہ ہے ہی نہیں۔ کہہ کر گیا ہے کہ ٹیکنیکس آف دی ٹریڈ سیکھتے ہی میں لوٹ آؤں گا۔ یہیں رہ کر بزنس کروں گا۔ ‘‘
’’اجی رام رام کہو۔ ‘‘گپتا جی بولے، ’’ جب وہاں کے عیش و آرام میں رہ لے گا، تب بھلا لوٹنے کی کیا سوچے گا؟ یہ ملک، یہ شہر، یہ گھرسب اسے کسی جیل کی طرح لگے گا، جیل کی طرح۔ ‘‘
’’لیٹس ہوپ فار دی بیسٹ۔ ‘‘راکیش نے سب کو خاموش کیا۔
گھر وہی تھا، درو دیوار وہی تھے، تمام لوازمات بھی وہی تھا، یہاں تک کہ روٹین بھی وہی تھی پرپون اور سگھن کے والدین کو مانو بن باس مل گیا۔ اپنے ہی گھر میں وہ اکیلے پنچھیوں کی طرح کمرے کمرے پھڑپھڑاتے ادھر ادھرڈولتے۔ پہلے دو دن تو انہیں بستر پر لگتا رہا کہ جیسے کوئی انہیں ہوا میں اڑاتا ہوا لے جا رہا ہے۔ جب تک سگھن کا وہاں سے فون نہیں آ گیا، ان کے پاؤں کی تھرتھراہٹ نہیں تھمی۔
چھوٹے بیٹے کے چلے جانے سے بڑے بیٹے کی غیر موجودگی بھی نئے سرے سے کھلنے لگی۔ دن بھر چھوٹے چھوٹے کرشمے اور کارنامے، بچوں کو پکار کر دکھانے کا من کرتا۔ کبھی کتاب میں پڑھا کوئی اچھاسا واقعہ، کبھی اخبار میں چھپی کوئی بڑھیا خبر، کبھی باغیچے میں کھلا نیا گلاب، ان سب کو بانٹنے کے لئے وہ آپس میں پورے ہوتے ہوئے بھی آدھے تھے۔ راکیش صبح اٹھتے ہی اپنے چھوٹے سے ہفتہ وار اخبارکے مطالعے میں مصروف ہو جاتے، ریکھا ککر چڑھانے کے ساتھ ساتھ کاپیاں بھی چیک کرتی رہتی، پر گھر بھائیں بھائیں کرتا رہتا۔ صبح آٹھ بجے ہی جیسے دوپہر ہو جاتی۔
بچے گھر میں کس قدر سمائے ہوتے ہیں، یہ ان کی غیر موجودگی میں ہی پتہ چلتا ہے۔ دفتر جانے کے لئے راکیش اسکوٹر نکالتے۔ صبح کے وقت اسکوٹر کو کک لگانا انہیں ناگوار لگتا۔ وہ اسٹارٹ کرنے کی پہلی کوشش کرتے کہ انہیں لگتا کہ سگھن نے پاؤں اسکوٹر کک پر رکھا ہے۔ ’’لاؤ پاپا، میں اسٹارٹ کر دوں۔ ‘‘حیران نظر یں دائیں بائیں اٹھتیں، پھر اڑیل اسکوٹر پر بے دلی سے ٹھہر جاتیں۔
باورچی خانے میں طاق بہت اونچے لگے تھے۔ ریکھا کا قد صرف پانچ فٹ تھا۔ اوپر کے طاقوں پر کئی ایسے لوازمات رکھے تھے، جن کی ضرورت روز نہ پڑتی تھی، پر پڑتی توتھی۔ ریکھا ایک پیر کے پنجے پر اچک کر مرتبان اتارنے کی کوشش کرتی، پر کامیاب نہ ہو پاتی۔ اسٹول پر چڑھنا فریکچر کو کھلا بلاوا دینا تھا۔
بالآخر جب وہ چمٹے یا سنسی سے کوئی چیز اتارنے کو ہوتی، اسے لگتا کہیں سے آ کر دو شناسا ہاتھ مرتبان اتار دیں گے۔ ریکھا باؤلی بن کر ادھر ادھر کمروں میں بچوں کو ڈھونڈتی پر کمروں کی ویرانی میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ کالونی میں کم و بیش سب کی یہی حالت تھی۔ اس بڈھا بڈھی کالونی میں صرف گرمی کی طویل چھٹیوں میں کچھ رونق دکھائی دیتی، جب گھروں کے نواسے پوتے اندر باہر دوڑتے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ورنہ یہاں چہل پہل کے نام پر صرف سبزی والوں کے یا ردی خریدنے والوں کے ٹھیلے گھومتے نظر آتے۔ بچوں کو محفوظ مستقبل کے لئے تیار کر کے، ہر گھر کے ماں باپ خود ایکدم غیر محفوظ زندگی جی رہے تھے۔
شاید عدم تحفظ کے احساس سے لڑنے کے لئے ہی، یہاں کی عوامی فلاحی کمیٹی ہر منگل والے دن کسی ایک گھر میں سندر کانڈ کا پاٹھ منعقد کرتی۔ اس دن وہاں جیسے بڑھوا منگل ہو جاتا۔ پاٹھ کے نام پر سندر کانڈ کا کیسٹ میوزک سسٹم میں لگا دیا جاتا۔ تب گھر کے سازو سامان پر بات چیت شروع ہوتی۔
ڈائننگ ٹیبل پر مائکروویوا وون دیکھ کر مسز گپتا، مسز مجیٹھیا سے پوچھتی، ’’یہ کب لیا؟‘‘
مسز مجیٹھیا کہتیں، ’’اس بار دیور آیا تھا، وہی دلا گیا ہے۔ ‘‘
’’آپ کیا پکاتی ہیں اس میں ؟‘‘
’’کچھ نہیں، بس دلیہ کھچڑی گرم کر لیتے ہیں۔ جھٹ سے گرم ہو جاتا ہے۔ ‘‘
’’ارے، یہ اس کا استعمال نہیں ہے، کچھ کیک ویک بنا کر کھلائیں۔ ‘‘
’’بچے پاس ہوں تو کیک بنانے کا مزہ ہے۔ ‘‘
پتہ چلا کسی کے گھر میں ویکیوم کلینر پڑا دھول کھا رہا ہے، توکسی کے یہاں فوڈ پروسیسر۔ لمبی گرہستی کی زندگی میں اپنی ساری امنگیں خرچ کر چکی یہ سیانی خواتین ایک طرح کی چلتی پھرتی، کڑتی، کراہتی دستاویزات تھیں۔ ریکھا کو ان منگلواروں کے اجلاسوں سے دہشت ہوتی۔ اسے لگتا آنے والے سالوں میں اسے اِن جیسا ہی ہو جانا ہے۔
اس کا دل بار بار بچوں کے بچپن اور لڑکپن کی یادوں میں الجھ جاتا۔ گھوم پھر کر وہی دن یاد آتے جب پنّو، چھوٹو ساڑی سے لپٹ لپٹ جاتے تھے۔ کئی بار تو انہیں اسکول بھی لے کر جانا پڑتا، کیونکہ وہ پلو چھوڑتے ہی نہیں تھے۔ کسی کمیٹی میٹنگ میں اس کو دعوت دی جاتی، تب بھی ایک نہ ایک بچہ اس کے ساتھ ضرور چپک جاتا۔ وہ مذاق کرتی، ’’مہارانی لکشمی کی پشت پر بچہ دکھایا جاتا ہے، میرا انگلی سے بندھا ہوا۔ ‘‘
کیا دن تھے وہ! تب ان کی دنیا کا محور ماں تھی، اسی میں تھی ان کی پوری کائنات اور سوچیں۔ ماں کی گود ان کا جھولا، پالنا اور پلنگ۔ ماں کی نظر ان کے خیالوں کی اڑان۔ پون کی ابتدائی تعلیم میں ریکھا اور راکیش دونوں ہی باؤلے رہے تھے۔ وہ اپنے اسکوٹر پر اس کی اسکول بس کے پیچھے پیچھے چلتے جاتے، یہ دیکھنے کہ بس کون سے راستے جاتی ہے۔ اسکول کی جھاڑیوں میں چھپ کر وہ پون کو دیکھتے کہ کہیں وہ رو تو نہیں رہا۔ وہ شہزادے کی طرح روز نیا فرمان سناتا۔ وہ دوڑ دوڑ کر اس کی خواہش پوری کرتے۔ امتحان کے دنوں میں وہ اس کے سونے پر سوتے، اس کے جاگنے پرجاگتے۔
ریکھا کے کلیجے میں ہوک سی اٹھتی، کتنی جلدی گزر گئے وہ دن۔ اب تو دن مہینوں میں بدل جاتے ہیں اور مہینے سالوں میں، وہ اپنے بچوں کو بھر آنکھ دیکھ بھی نہیں پاتی۔ ویسے اسی نے تو انہیں سارے سبق یاد کرائے تھے۔ اسی عمل میں بچوں کے اندر پھرتی، حوصلہ، تیز رفتاری، پراعتمادی، طاقت اور خود انحصاری جیسی خصوصیات آئیں۔ وہی تو سکھاتی تھی انہیں کہ زندگی میں ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھو، کبھی پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے وہ ایک قصہ سناتی تھی۔ پون اور سگھن کو اس قصے کوسننے میں بہت مزہ آتا تھا۔ سگھن اس کی ساڑی میں لپٹ کر تتلاتا، ’’مما، جب بییا جنتل منتل پل چرگیا تب کا ہوا؟‘‘ ریکھا کے سامنے وہ قصہ زندہ ہو اٹھتا۔
وہ پورے تسلسل سے بتانے لگتی، ’’پتہ ہے پنّو ایک بار ہم دہلی گئے۔ تُو ڈھائی سال کا تھا۔ اچھا بھلا میری انگلی پکڑے جنتر منتر دیکھ رہا تھا۔ ادھر راکیش مجھے دھوپ گھڑی دکھانے لگے، ادھر تو کب ہاتھ چھڑا کر بھاگا، پتہ ہی نہیں چلا۔ جیسے ہی میں دیکھوں کہ پون کہاں ہے، اے بھگوان تُو تو جنتر منتر کی اونچی سیڑھیاں چڑھ کر سب سے اوپر کھڑا تھا۔ میری حالت ایسی ہو گئی کہ کاٹو تو خون نہیں۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ایک بار غصے سے مجھے گھورا، ’’دھیان نہیں رکھتی؟‘‘گھبرا یہ بھی رہے تھے پر تجھے پتہ نہیں چلنے دیا۔ سیڑھی کے نیچے کھڑے ہو کر بولے، ’’بیٹا، بغیر نیچے دیکھے، سیدھا اتر آؤ، شاباش، کہیں دیکھنا نہیں۔ ‘‘
پھر مجھ سے بولے، ’’تم اپنا چلانا روک کر رکھو، نہیں تو بچہ گر جائے گا۔ تُو دھم دھم کر کے ساری سیڑھیاں اتر آیا۔ ہم دونوں نے اس دن پرساد چڑھایا۔ بھگوان نے ہی حفاظت کی تیری۔ ‘‘
بار بار سن کر بچوں کو یہ قصے ایسے یاد ہو گئے تھے، جیسے کہانیاں۔
پون کہتا، ’’ماں، جب تم بیمار پڑی تھیں، چھوٹو اسکول سے سیدھا ہسپتال آ گیا تھا۔ ‘‘
’’سچی۔ ایسا اس نے خطرہ مول لیا۔ کے جی ٹو میں پڑھتا تھا۔ سینٹ انتھونی میں تین بجے چھٹی ہوئی۔ آیا جب تک اسے ڈھونڈے، بس میں بٹھائے، یہ چل دیا باہر۔ ‘‘
پون کہتا، ’’ویسے ماں ہسپتال اسکول سے دور نہیں ہے۔ ‘‘
’’ارے کیا؟ چوراہا دیکھا ہے وہ بالسن والا۔ چھ راستے نکلتے ہیں وہاں۔ کتنے ٹرک چلتے ہیں۔ اچھے بھلے لوگ گھن چکر ہو جاتے ہیں سڑک پار کرنے میں اور یہ ایڑیاں اچکاتا جانے کس طرح ساری ٹریفک پار کر گیا کہ مما کے پاس جانا ہے۔ ‘‘
سگھن کہتا، ’’ہمیں پچھلے دن پاپا نے کہا تھا کہ تمہاری ماں مرنے والی ہے۔ ہم اس لئے گئے تھے۔ ‘‘
"تم نے یہ نہیں سوچا کہ تم کچل جاؤ گے۔ ‘‘
’’نہیں۔ ‘‘سگھن سر ہلاتا، ’’ ہمیں تو مما چاہئے تھی۔ ‘‘
اب اس کے بغیر کتنے دور رہ رہا ہے سگھن۔ کیا اب یاد نہیں آتی ہو گی؟ کتنا قابو رکھنا پڑتا ہو گا خود پر۔
بھاگی وان ہوتے ہیں وہ، جن کے بیٹے بچپن سے ہوسٹل میں پلتے ہیں، دور رہ کر پڑھائی کرتے ہیں اور ایک دن باہر باہر ہی بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی ماؤں کے پاس یادوں کے نام پر صرف خط اور خبر ہوتی ہے، فون پر ایک آواز اور کرسمس کے گریٹنگ کارڈ۔ پر ریکھا نے تو رچ رچ کر پالے ہیں اپنے بیٹے۔ ان کے گُو مُوت میں گیلی ہوئی ہے، ان کے آنسو اپنے بوسوں سے سکھائے ہیں، ان کی ہنسی اپنے دل میں اتاری ہے۔
راکیش کہتے ہیں، ’’بچے اب ہم سے زیادہ زندگی کو سمجھتے ہیں۔ انہیں کبھی پیچھے مت کھینچنا۔ ‘‘
رات کوپون کا فون آیا۔ ماں باپ دونوں کے چہرے کھل گئے۔
’’طبیعت کیسی ہے ؟‘‘
’’بالکل ٹھیک۔ ‘‘دونوں نے کہا۔ اپنی کھانسی، الرجی اور درد بتا کر اسے پریشان تھوڑے کرنا ہے۔
’’چھوٹو کی کوئی خبر؟‘‘
’’بالکل مزے میں ہے۔ آج کل چینی بولنا سیکھ رہا ہے۔ ‘‘
’’وی سی ڈی پر تصویر دیکھ لیا کرو، ماں۔ ‘‘
’’ ہاں، دیکھتی ہوں۔ ‘‘صاف جھوٹ بولا ریکھا نے۔ اسے وی سی ڈی میں ڈسک لگانا کبھی نہیں آئے گا۔
پچھلی بار پون مائکروویواون دلا گیا تھا۔ فون پر پوچھا، ’’مائکروویو سے کام لیتی ہو؟‘‘
’’مجھے اچھا نہیں لگتا۔ یہ مجھے سنتا نہیں، میری ہر چیز زیادہ پکا دیتا۔ پھر بھی سبزیاں بالکل سفید لگتی ہیں جیسے کچی ہوں۔ ‘‘
’’اچھا یہ میں لے لوں گا، آپ کو دوسرا دلا دوں گا۔ ‘‘
’’اسٹیلا کہاں ہے ؟‘‘
پتہ چلا کہ اس کے ماں باپ شکاگو سے واپس آ گئے ہیں۔ پون نے چہکتے ہوئے بتایا، ’’اب چھوٹی ممی بزنس سنبھالے گی۔ اسٹیلا بس وزٹ دے سکے گی۔ ‘‘
وزٹ لفظ کھٹکا، پر وہ الجھے نہیں۔ پھر بھی فون رکھنے سے پہلے ریکھا کے منہ سے نکلا، ’’تبھی ہم سے ملنے نہیں آئے۔ ‘‘
’’آئیں گے ماں، پہلے تو جیٹ لیگ (تھکاوٹ) رہا، اب بزنس میں گھرے ہیں۔ ویسے آپ کی بہو آپ لوگوں سے ان کی ملاقات کاپلان بنا رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کسی ہالیڈے ریزورٹ میں آپ چاروں، دو تین دن رہو۔ وہ لوگ بھی آرام کر لیں گے اور آپ کے لئے بھی چینج ہو جائے گا۔ ‘‘
’’اتنے لوازمات کی کیا ضرورت ہے ؟ انہیں یہاں سیدھا آنا چاہئے۔ ‘‘
’’یہ آپ اسٹیلا سے فون پر ڈسکس کر لینا۔ بہت لمبی بات ہو گئی، بائی‘‘
کچھ دیر بعد ہی اسٹیلا کا فون آیا۔ ’’مما، اپنا کمپیوٹر آن رکھا کرو۔ میں نے کتنی بار آپ کے ای میل پر میسج دیا۔ ممی نے بھی آپ دونوں کو ہیلو بولا، پر آپ کا سسٹم آف تھا۔ ‘‘
’’تمہیں پتہ ہی ہے، جب سے چھوٹو گیا ہم نے کمپیوٹر پر کور اوڑھا کر رکھ دیا ہے۔ ‘‘
’’او نو مام۔ اگر آپ کے کام نہیں آ رہا تو یہاں بھجوا دیجئے۔ میں منگوا لوں گی۔ اتنی یوز فل چیز آپ لوگ ویسٹ کر رہے ہیں۔ ‘‘
ریکھا کہنا چاہتی تھی کہ اس کے والدین ان سے ملنے نہیں آئے۔ پر اسے لگا کہ شکایت اسے چھوٹا بنائے گی۔ وہ ضبط کر گئی۔ لیکن جب اسٹیلا نے اسے اگلے ماہ واٹر پارک کے لئے بلاوا دیا، اس نے صاف انکار کر دیا، ’’میری چھٹیاں ختم ہیں۔ میں نہیں آ سکتی۔ یہ چاہیں تو چلے جائیں۔ ‘‘
اس پروگرام میں راکیش کی بھی دلچسپی نہیں تھی۔
کئی دنوں کے بعد ریکھا اور راکیش انجینئرنگ کالج کے کیمپس میں گھومنے نکلے۔ ایک ایک کر کے شناسا چہرے نظر آتے گئے۔ اچھا لگتا رہا۔ منہاج صاحب نے کہا، ’’گھومنے میں ناغہ نہیں کرنا چاہئے۔ روز گھومنا چاہئے، چاہے پانچ منٹ گھومو۔ ‘‘انہی سے خبر ملی کہ کالونی کے سونی صاحب کو دل کا دورہ پڑا تھا، ہاسپٹل میں بھرتی ہیں۔
ریکھا اور راکیش فکر مند ہو گئے۔ مسز سونی چونسٹھ سال کی گٹھیا کی ستائی خاتون ہیں۔ ہسپتال کی بھاگ دوڑ کیسے سنبھالیں گی؟
’’دیکھو جی، کل تو میں نے بھوشن کو بٹھا دیا تھا وہاں پر۔ آج تو اس نے بھی کام پر جانا تھا۔ ‘‘
ریکھا اور راکیش نے طے کیا وہ شام کو سونی صاحب کو دیکھ کر آئیں گے۔
پر سونی کے دل نے اتنی مہلت نہ دی۔ وہ تھک کر پہلے ہی دھڑکنا بند کر بیٹھا۔ شام تک کالونی میں ہسپتال کی ایمبولنس سونی کا جسد خاکی اور ان کی بے حال بیوی کو اتار کر چلی گئی۔
سونی کی لڑکی کو اطلاع دی گئی۔ وہ دہرادون بیاہی تھی۔ پتہ چلا وہ اگلے روز، رات تک پہنچ سکے گی۔ مسز سونی سے سدھارتھ کا فون نمبر لے کر انہی کے فون سے انٹرنیشنل کال ملائی گئی۔
مسز سونی شوہر کے سوگ میں ایک دم نڈھال ہو رہی تھیں۔ فون میں وہ صرف روتی اور کہتی رہیں، ’’تیرے ڈیڈی، تیرے ڈیڈی۔۔ ۔ ‘‘
تب فون منہاج صاحب نے سنبھالا، ’’ بھئی سدھارتھ، بڑا ہی برا ہوا۔ اب تو جلدی سے آ کر اپنا فرض پورا کر۔ تیرے انتظار میں فیونرل روکے کیارکھیں ؟‘‘
ادھر سے سدھارتھ نے کہا، ’’انکل، آپ ممی کو سنبھالیں۔ آج کی تاریخ سب سے منحوس ہے۔ انکل، میں جتنی بھی جلدی کروں گا، مجھے پہنچنے میں ہفتہ بھر لگ جائے گا۔ ‘‘
’’ہفتے بھر باڈی کیسے پڑی رہے گی؟‘‘منہاج صاحب بولے۔
’’آپ مردہ گھر میں رکھوا دو۔ یہاں تو مہینوں باڈی مارچیوری میں رکھی رہتی ہے۔ جب بچوں کو فرصت ہوتی ہے فیونرل کر دیتے ہیں۔ ‘‘
’’وہاں کی بات اور ہے۔ ہمارے ملک میں ائیر کنڈیشنڈ مردہ گھر کہاں ہیں۔ اویہ پتر تیرا باپ اُپّر چلا گیا تو اِنّی دور بیٹھا بہانے بنا رہا ہے۔ ‘‘
’’ذرا ممی کو فون دیجئے۔ ‘‘
کالونی کے سبھی گھروں کے لوگ انتظامات میں لگ گئے۔ جس کو جو یاد آتا گیا، وہی کام کرتا گیا۔ سویرے تک پھول، گلال، شال سے ار تھی ایسی سجی کہ سب اپنی محنت پر خود دنگ رہ گئے۔ پر اس مشکل کام کے دوران بہت سے لوگ تھک گئے۔ منہاج صاحب کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ ان کے لڑکے نے کہا، ’’ابو، آپ رہنے دو، میں گھاٹ چلا جاتا ہوں۔ ‘‘
بھوشن نے ہی آگ دی۔
ریکھا، مسز گپتا، مسز یادو، مسز سنہا اور دیگر عورتیں، مسز سونی کے پاس بیٹھی رہیں۔ مسز سونی اب کچھ پرسکون تھیں، ’’آپ سب نے دکھ کی گھڑی میں ساتھ دیا۔ ‘‘
’’یہ تو ہمارا فرض تھا۔ ‘‘کچھ آوازیں آئیں۔
ریکھا کے منہ سے نکل گیا، ’’ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ فرض پہچانتے ہیں، کچھ نہیں۔ ارے سکھ میں نہیں، پر دکھ میں تو ساتھ دو۔ ‘‘
مسز سونی نے کہا، ’’اپنے بچے کے بارے میں کچھ بھی کہنا برا لگتا ہے، پر سدھو نے کہا کہ میں کسی کو بیٹا بنا کر سارے کام کروا لوں۔ ایسا بھی کبھی ہوتا ہے۔ ‘‘
’’اور ریڈی میڈ بیٹے مل جائیں، یہ بھی کہاں ممکن ہے۔ مارکیٹ میں سب چیز مل جاتی ہیں، پر بچے نہیں ملتے۔ ‘‘
’’ایسا ہی پتہ ہوتا ہے کہ پچیس برس پہلے خاندانی منصوبہ بندی کیوں کرتے۔ ہونے دیتے اور چھ بچے۔ ایک نہ ایک تو پاس رہتا۔ ‘‘
’’ویسے اتنی دور سے فوری طور پر آنا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ ‘‘مسز مجیٹھیا نے کہا، ’’ ہماری ساس مری تو ہمارے دیور کہاں آ پائے۔ ‘‘
’’پر آپ کے شوہر تو تھے نا؟ انہوں نے اپنا فرض نبھایا۔ ‘‘
اس افسوسناک واقعے نے سب کے لئے سبق کا کام کیا۔ سبھی نے اپنے وصیت نامے سنبھالے اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات۔ کیا پتہ کب کس کا بلاوا آ جائے۔ الماری میں دو چار ہزار روپے رکھنا ضروری سمجھا گیا۔
کالونی کے پھرتیلے بزرگوں کی خاصیت تھی کہ وہ ہر کام مشن کی طرح ہاتھ میں لیتے۔ جیسے کبھی انہوں نے اپنے دفتروں میں فائلوں نپٹائی ہوں گی، ویسے ہی وہ ایک ایک کر کے اپنی ذمہ داریاں نبٹانے میں لگ گئے۔ سنہا صاحب نے کہا، ’’بھئی، میں نے تو ایکادشی کو گؤدان بھی جیتے جی کر لیا۔ پتہ نہیں امیت بمبئی سے آ کر یہ سب کرے یا نہیں۔ ‘‘
گپتا جی بولے، ’’ایسے جنت میں سیٹ ریزرو نہیں ہوتی۔ بیٹے کا ہاتھ لگنا چاہئے۔ ‘‘
شری واستو جی کے کوئی لڑکا نہیں تھا، اکلوتی لڑکی ہی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’کسی کے بیٹا نہ ہو تو؟‘‘
’’تب اسے ایسی تڑپن نہیں ہوتی، جیسی سونی صاحب کی مسز کو ہوئی۔ ‘‘
ریکھا یہ سب دیکھ سن کر دہشت سے بھر گئی۔ ایک تو ابھی اتنی عمردراز وہ نہیں ہوئی تھی کہ اپنا ایک پاؤں شمشان میں دیکھے۔ دوسرے، اسے لگتا یہ سب لوگ اپنے بچوں کوکھل نائیک بنا رہے ہیں۔ کیا بوڑھے ہونے پر احساس سمجھنے کی قدرت جاتی رہتی ہے ؟
کالونی کے ہر سخت فیصلے پر اسے لگتا کہ میں ایسی نہیں ہوں، میں اپنے بچوں کے بارے میں ایسی بیدردی سے نہیں سوچتی۔ میرے بچے ایسے نہیں ہیں۔
رات کے آخری نیوز بلیٹن سن کر وہ ابھی لیٹے ہی تھے کہ فون کی طویل گھنٹی بجی۔ گھنٹی کے ساتھ ساتھ دل کا تار بھی بجا، ’’ضرور چھوٹو کا فون ہو گا، پندرہ دن سے نہیں آیا۔ ‘‘فون پر بڑکو پون بول رہا تھا، ’’ ہیلو ماں، کیسی ہو؟ آپ نے فون نہیں کیا؟‘‘
’’کیا تھا پر مشین کے بولنے سے پہلے کاٹ دیا۔ تم گھر میں نہیں ٹکتے۔ ‘‘
’’ارے ماں، میں تو یہاں تھا ہی نہیں۔ ڈھاکہ چلا گیا تھا، وہاں سے بمبئی اترا، تو سوچا اسٹیلا کو بھی دیکھتا چلوں۔ وہ کیا ہے اس کی شکل بھی بھولتی جا رہی تھی۔ ‘‘
"تم نے جانے کی خبر نہیں دی۔ ‘‘
’’آنے کی تو دے رہا ہوں۔ میرا کام ہی ایسا ہے۔ اٹیچی ہر وقت تیار رکھنی پڑتی ہے۔ اور تم، تمہارے لئے ڈھاکا کی ساڑیاں لایا ہوں۔ ‘‘
نہال ہو گئی ریکھا۔ اتنی دور جا کر بھی اسے ماں کی یاد آتی رہی۔ فوری طور پر بہو کا دھیان آیا۔
’’اسٹیلا کے لئے بھی لے آنی تھی۔ ‘‘
’’لایا تھا ماں، اس کو اور چھوٹی ممی کو پسند ہی نہیں آئیں۔ اسٹیلا کو وہیں سے جینز دلائی۔ چلو آپ کے لئے تین ہو گئیں۔ تین سال کی چھٹی۔ ‘‘
’’میں نے تو تم سے مانگی بھی نہیں تھیں۔ ‘‘ ریکھا کی آواز مشکل سے نکلی۔
ایک اچھے مینیجر کی طرح پون باپ سے مخاطب ہوا، ’’پاپا، اتوار سے میں سوامی جی کے دھیان کیمپ میں چار دن کے لئے جا رہا ہوں۔ سنگاپور سے میرے باس اپنی ٹیم کے ساتھ آ رہے ہیں۔ وہ دھیان کیمپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ بھی منپکّم آ جائیے۔ آپ کو بہت شانتی ملے گی۔ اپنے اخبار کا ایک خصوصی شمارہ پلان کر لیجئے سوامی جی پر۔ اشتہارات خوب ملیں گے۔ یہاں ان کی بہت بڑی شاگرد منڈلی ہے۔ ‘‘
راکیش ہوں، ہاں کرتے رہے۔ ان کے لئے جگہ کا فاصلہ، زبان کا مسئلہ، چھٹی کی قلت، جیسے بہت سے روڑے تھے راہ میں۔ وہ اسی میں خوش تھے کہ پنّو انہیں بلا رہا ہے۔
’’چھوٹو کی کوئی خبر؟‘‘
’’ ہاں، پاپا اس کا تائی پے سے خط آیا تھا۔ جاب اس کی ٹھیک چل رہی ہے۔ پر اس کی چال ڈھال ٹھیک نہیں لگی۔ وہ وہاں کی لوکل پالیٹکس میں حصہ لینے لگا ہے۔ یہ چیز خطرناک ہو سکتی ہے۔ ‘‘
راکیش گھبرا گئے، ’’تمہیں اسے سمجھانا چاہئے۔ ‘‘
’’میں نے فون کیا تھا، وہ تو لیڈر کی طرح بول رہا تھا۔ میں نے کہا، نوکری کونوکری کی طرح کرو، اس میں اصول، قاعدے ٹھوکنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘
’’اس نے کیا کہا؟‘‘
’’کہہ رہا تھا بھیا، یہ میرے وجود کا سوال ہے۔ ‘‘
ریکھا کو کسی خرابی کا احساس ہوا۔ اس نے فون راکیش سے لے لیا، ’’بیٹے، اس کو کہو فوراً واپس آ جائے۔ اسے چین تائیوان کے تنازعے سے کیا مطلب۔ ‘‘
’’ماں، میں سمجھا ہی سکتا ہوں۔ وہ جو کرتا ہے اس کی ذمہ داری ہے۔ بہت سے لوگ ٹھوکر کھا کر ہی سنبھلتے ہیں۔ ‘‘
’’ پنّو، تیرا اکلوتا بھائی ہے سگھن، اور تو پہلو جھاڑ رہا ہے۔ ‘‘
’’ماں، آپ فون کرو، چٹھی لکھو۔ اڑیل لوگوں کے لئے میری برداشت بہت کم ہو گئی ہے۔ میری کوئی شکایت ملے تو کہنا۔ ‘‘
دہشت سے دہل گئی ریکھا۔ فوری طور پر چھوٹو کو فون ملایا۔ وہ گھر پر نہیں تھا۔ اس کو تلاش کرنے میں دو ڈھائی گھنٹے لگ گئے۔ اس دوران ماں باپ کا برا حال ہو گیا۔ راکیش بار بار باتھ روم جاتے۔ اور ریکھا ساڑی کے پلو میں اپنی کھانسی دبانے میں لگی رہی۔
بالآخر چھوٹو سے بات ہوئی۔ اس نے سمجھایا۔
’’ایسا ہے پاپا، اگر میں لوکل لوگوں کی حمایت میں نہیں بولوں گا تو یہ مجھے تباہ و برباد کر دیں گے۔ ‘‘
’’تو تم یہاں چلے آؤ۔ انفوٹیک( تکنیکی معلومات) میں یہاں بھی اچھی سے اچھی نوکریاں ہیں۔ ‘‘
’’یہاں میں جم گیا ہوں۔ ‘‘
’’پردیس میں انسان کبھی نہیں جم سکتا۔ خیمے کا کوئی نہ کوئی کونا اُکھڑا ہی رہتا ہے۔ ‘‘
’’ہندوستان اگر لوٹا تو اپنا کام کروں گا۔ ‘‘
’’یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ ‘‘
’’پر پاپا، اس کے لئے کم سے کم تیس چالیس لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی۔ میں آپ کو لکھنے ہی والا تھا۔ آپ کتنا انتظام کر سکتے ہیں، باقی جب میں جمع کر لوں گا تب آؤں گا۔ ‘‘
راکیش ایک دم گڑبڑا گئے، ’’تمہیں پتہ ہے گھر کا حال۔ جتنا کماتے ہیں اتنا خرچ کر دیتے ہیں۔ سارا پونچھ پانچھ کر نکالیں تو بھی ایک ڈیڑھ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ ‘‘
’’اسی بنا پر مجھے واپس بلا رہے ہیں۔ اتنے میں تو پی سی او بھی نہیں کھلے گا۔ ‘‘
"تم نے بھی کچھ جوڑا ہو گا اتنے برسوں میں۔ ‘‘
’’پر وہ کافی نہیں ہے۔ آپ نے ان برسوں میں کیا کیا؟ دونوں بچوں کا خرچ آپ کے سر سے اٹھ گیا، گھومنے آپ جاتے نہیں، سنیما آپ دیکھتے نہیں، دارو آپ پیتے نہیں، پھر آپ کے پیسوں کا کیا ہوا؟‘‘
راکیش آگے بول نہیں پائے۔ بچہ ان سے روپے آنے پائی میں حساب مانگ رہا تھا۔
ریکھا نے فون جھپٹ کر کہا، ’’تو کب آ رہا ہے چھوٹو؟‘‘
سگھن نے کہا، ’’ماں جب آنے کے قابل ہو جاؤں گا تبھی آؤں گا۔ تمہیں تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید