FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

دعوت القرآن

 

 

حصہ ۲: آل عمران  و النساء

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

(۳) سورۂ آل عمران

 

 (۲۰۰ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورۃ کی آیت ۳۳ میں آل عمران کا ذکر ہوا ہے۔ عمران حضرت مریمؑ کے والد کا نام تھا اور عیسیٰ علیہ السلام ان کے نواسے تھے ، اسی مناسبت سے علامت کے طور پر اس سورہ کا نام "آل عمران” رکھا گیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

یہ سورۃ مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگِ احد ۰۳ھ کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ کا مرکزی مضمون بھی ہدایت ہی ہے اور اس بنا پر یہ سورۃ سابق سورۃ کے ساتھ نہ صرف گہرا ربط رکھتی ہے بلکہ یہ اس کا تتمّہ ہے۔ نورِ ہدایت ہونے کے لحاظ سے سورۂ بقرہ کی حیثیت اگر آفتاب سی ہے تو اس کی حیثیت ماہتاب کی۔ چناں چہ حدیث شریف میں ان کو زہراوین (دو روشن ترین سورتوں) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اگر یہود سے خطاب کیا گیا تھا تو سورۂ آل عمران میں نصاریٰ سے خطاب کیا گیا ہے۔ سابق سورۃ میں المغضوب علیہم کی تشریح‌ کی گئی ہے تو اس سورۃ میں ضآلّین کی تشریح‌ کی گئی ہے۔ اس طرح‌ما قبل سورہ میں ہدایت کے جو پہلو مجملاً بیان کئے گئے تھے ، اس سورہ میں ‌کھول کھول کر ان کو بیان کر دیا گیا ہے اور صاف صاف یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ دین جو حقیقۃً اللہ کی ہدایت کا نام ہے ، صرف اسلام ہے۔

لہٰذا جو شخص بھی اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا، وہ اللہ کے ہاں ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسے لوگ آخرت میں بالکل تباہ ہوں گے۔ اس طرح یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ اللہ کی ہدایت کی راہ صرف اسلام ہے نہ کہ مختلف ادیان اور نجاتِ اخروی اسلام کو قبول کئے بغیر ممکن نہیں۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۹ تمہید کی حیثیت رکھتی ہیں جن میں توحید کو بنیادی حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ قرآن فرمانِ الٰہی ہے اور اس بِنا پر تمام ’مذہبی اختلافات کے سلسلے میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔

آیت ۱۰ تا ۳۲ میں اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب سب کو متنبّہ کر دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اس قرآنی ہدایت کو جس کا نام اسلام ہے قبول نہیں کیا تو یہ اللہ سے کفر ہو گا جس کی سزا ہمیشگی کی جہنّم ہے اور جس ’دین داری، اور ’مذہب پرستی، کا لبادہ انہوں نے اوڑھ رکھا ہے اس کی حقیقت قیامت کے دن آشکارا ہو گی جب کہ وہ بالکل بے نقاب ہو چکے ہوں گے۔

آیت ۳۳ تا ۶۳ میں حضرت مریمؑ اور عیسیٰؑ سے متعلق واقعات اور حقائق پیش کئے گئے ہیں جو ان باطل عقائد کی تردید کرتے ہیں جن کو نصاریٰ نے دین میں داخل کر دیا تھا۔ اس ضمن میں حضرت زکریاؑ اور حضرت یحیٰؑ کا بھی ذکر ہوا ہے۔

آیت ۶۴ تا ۱۰۱ میں اہلِ کتاب اور بالخصوص عیسائیوں کی گمراہیوں اور ان کے اخلاق و دینی انحطاط پر گرفت کرتے ہوئے اہلِ ایمان کو ان سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

آیت ۱۰۲ تا ۱۲۰ میں اہلِ ایمان کو خطاب کر کے اسلام پر مضبوطی کے ساتھ جم جانے ، کتابِ الٰہی کو تھام لینے ، اس کو اپنی اجتماعیت کی بنیاد بنانے اور اپنے اندر سے ایک گروہ کو ابھارنے کی ہدایت کی گئی ہے جو دعوت و اصلاح کی خدمت کے لئے مختص ہوتا کہ وہ ملّتِ اسلامیہ کو ہر قسم کے انحراف اور نت نئے فتنوں سے بچا سکے۔ اور اللہ کا پیغام بندگانِ خدا تک پہنچائے۔ ساتھ ہی ساتھ ہی اہلِ کتاب کی فتنہ انگیزیوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

آیت ۱۲۱ تا ۱۸۹ میں غزوۂ احد کے حالات و واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے اور ان کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اس وقت نمایاں ہوئیں۔

آیت ۱۹۰ تا ۲۰۰ کی حیثیت خاتمۂ کلام کی ہے۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ایمان کوئی اندھا عقیدہ نہیں بلکہ عقل و فطرت کی آواز ہے۔ اس آواز پر جب انسان لبّیک کہتا ہے تو اس کا تعلّق اپنے سے صحیح معنیٰ میں جُڑ جاتا ہے اور اس کے دل سے بے اختیار یہ دعا نکلتی ہے کہ اس کا انجام بخیر ہو۔ اس موقع پر اُس کا اُسے بہتر انجام کی خوشخبری سناتا ہے اور اطمینان دلاتا ہے کہ جو قربانیاں اُس نے راہِ حق میں دی ہیں ، اُن کا بھر پور اجر وہ اُسے عطا فرمائے گا۔ اخیر میں راہِ حق میں لڑنے وا لے اہلِ ایمان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور انہیں حق و باطل کے معرکے میں ثابت قدم رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

                   ترجمہ

 

نوٹ: نشان ” *” سے تفسیری نوٹ کے نمبر شمار کی نشان دہی کی گئی ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الف ، لامَ، میم ۱*۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جس کے سوا کوئی الٰہ۲* (خدا) نہیں وہ زندہ ہستی ہے جو قائم ہے اور سب کو سنبھالے ہوئے ہے ۳*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے تم پر کتاب بر حق نازل ۴* کی جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور وہ تورات ۵* اور انجیل ۶* نازل کر چکا ہے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز اس نے فرقان ۷* اتارا۔ یقین جانو جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کریں گے ان کو سخت سزا ملے گی۔ اللہ غالب ہے اور (گناہوں کی پاداش میں) سزا دینے والا ہے ۸*۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ زمین میں نہ آسمان ۹* میں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جو رحموں کے اندر جس طرح چاہتا ہے صورت گری ۱۰* کرتا ہے۔ اس غالب اور حکمت وا لے کے سوا کوئی خدا نہیں۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس میں محکم ۱۱* آیات ہیں جو کتاب کی اصلِ بنیاد ۱۲* ہیں اور دوسری ایسی ہیں جو متشابہ ۱۳* ہیں۔ تو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں ۱۴* تاکہ فتنہ برپا کریں اور ان کی اصل حقیقت معلوم کریں حالانکہ ان کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں سخت ہیں وہ کہتے ہیں ہم پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے ہی کی طرف سے ہیں۔ اور یاد دہانی تو عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے!جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر اور ہم پر اپنی رحمت کا فیضان کر۔ واقعی تو بڑا فیاض ہے ۱۵*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے پروردگار !تو ضرور سب لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ۱۶* نہ ان کے مال اللہ کے ہاں کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد ۱۷*۔ ایسے ہی لوگ آتشِ (جہنم) کا ایندھن بنیں گے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی اسی ڈگر پر ہیں جس پر آل فرعون اور ان کے پیش تھے۔ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا تو اللہ نے ان کو گناہوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان سے کہہ دو کہ عنقریب تم مغلوب ہو گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن دو گروہوں میں مڈ بھیڑ ہوئی ان میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑا تھا اور دوسرا کافر تھا۔ یہ ان کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دو گنی تعداد میں دیکھے تھے اور اللہ اپنی نصرت سے جس کو چاہتا ہے تقویت پہنچاتا ہے اس (واقعہ) میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے جو دیدۂ بینا رکھتے ہیں ۱۸*۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کے لئے مرغوباتِ نفس زن ،فرزند ،سونے چاندی کے ڈھیر،نفیس گھوڑے ،مویشی اور کھیتیاں بڑی خوشنما بنا دی گئی ہیں یہ سب دنیوی زندگی کا سامان ہے اور بہتر ٹھکانہ تو اللہ ہی کے پاس ہے ۱۹*۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا میں تمہیں بتاؤں ان سے بہتر چیز کیا ہے ؟ جو لوگ تقویٰ ۲۰* اختیار کریں ان کے لئے ان کے پاس باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ۲۱* انہیں حاصل ہو گی۔ اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھتا ہے ۲۲*۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ہم ایمان لائے پس تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آتشِ (جہنم) کے عذاب سے بچا۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ صابر ہیں ،ست باز ہیں ، غایت درجہ فرمانبردار ہیں ، انفاق کرنے وا لے ہیں اور اوقاتِ سحر ۲۳* میں گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۲۴*۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اس بات کی شہادت دی کہ اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں اور فرشتے اور اہلِ علم بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عدل و انصاف کے ساتھ تدبیر و انتظام کرنے والی اس ہستی کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ غالب اور حکیم ہے ۲۵*۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے نزدیک اصل دین ۲۶* صرف اسلام ہے اور اہلِ کتاب نے جو اختلاف کیا وہ علم ۲۷* آ جانے کے بعد محض باہمی عناد کی وجہ سے کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام کا انکار کرے گا تو (اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے ۲۸*۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کرتے ہیں تو ان سے کہو میں نے اور میرے پیروؤں نے تو اپنے کو اللہ کے حوالے کر دیا اور اہلِ کتاب اور اُمّیوں ۲۹* سے پوچھو کہ کیا تم نے بھی اسلام قبول کیا؟ اگر انہوں نے بھی اسلام قبول کیا تو وہ راہ راست پا گئے اور اگر منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہونچا دینے کی ذمہ داری ہے اللہ اپنے بندوں کے حال پر نظر رکھتا ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ کی ہدایت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ۳۰* اور ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ۳۱* گئے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جنہیں کتابِ الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ۳۲* ان کو جب اللہ کی کتاب ۳۳* کی طرف دعوت دی جاتی ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے ۳۴* تو ان میں کا ایک گروہ منہ پھیرتا ہے اور انحراف کرنا تو ان لوگوں کا شیوہ ہی ہے ۳۵*۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگ کہتے ہیں دوزخ کی آگ ہمیں چھوئے گی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کے لئے سزامل جائے۔ ان کو ان کی من گھڑت باتوں نے ان کے دین کے بارے میں ان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۳۶*۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس دن ان کا کیا حال ہو گا جبکہ ہم سب کو جمع کر لیں گے اور جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں اسز ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا کسی پر بھی ظلم نہ ہو گا۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اللہ !اقتدار کے مالک ۳۷* !تو جسے چاہے اقتدار عطا فرمائے اور جس سے چاہے چھین لے ، جس کو چاہے عزت دے ، جس کو چاہے ذلت دے ، بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۳۸*۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات ۳۹* میں ، زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے ۴۰*۔ اور تو جس کو چاہتا ہے بے حساب بخششوں سے نوازتا ہے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ ایمان مؤمنوں کے مقابلہ میں کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۴۱* جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں اِلّا یہ کہ تم کسی اندیشہ کے تحت ان سے بچنے کی کوئی صورت اختیار کر لو ۴۲* مگر اللہ تمہیں ا پنی ذات سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو !جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ اس کو جانتا ہی ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ہر شخص اپنے اچھے اور برے اعمال کو اپنے سامنے موجود پائے گا اس وقت وہ یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس دن کے درمیان مدّت مدید حائل ہوتی اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ اپنے بندوں کے حق میں نہایت شفیق ہے ۴۳*۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ۴۴* اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو !اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اگر وہ نہیں مانتے تو جان لیں کہ اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ۴۵* نے آدم ، نوح ، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران ۴۶* کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب فرمایا تھا۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک دوسرے کی نسل سے تھے اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ۴۷* ہے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جبکہ عمران کی بیوی نے دعا کی اے میرے ! میں اس بچہ کو جو میرے پیٹ میں ہے تیرے لئے نذر کرتی ہوں کہ وہ تیری عبادت کے لئے وقف ہو گا ۴۸* اسے میری طرف سے قبول فرما، بیشک تو سننے اور جاننے والا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو کہنے لگی میرے!میرے یہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے اور جو کچھ اس نے جنا تھا وہ اللہ کو اچھی طرح معلوم تھا ۴۹* اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا ۵۰*۔ اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم (مردود) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس کے نے اسے حسنِ قبولیت سے نوازا، عمدہ طریقہ پر اس کو پروان چڑھایا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا ۵۱* ، جب کبھی زکریا اس کے پاس محراب ۵۲* (حجرۂ عبادت) میں جاتا تو ا س کے پاس پاتا۔ پوچھا اے مریم !یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے ؟ اس نے جواب دیا یہ اللہ کے پاس سے ہے ۵۳*۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب عطا فرماتا ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ۵۴* موقع پر زکریا نے اپنے کو پکارا۔ عرض کیا اے میرے پروردگار !مجھے خاص اپنے پاس سے اچھی اولاد عطا فرما، بیشک تو دعا سننے والا ہے۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرشتوں نے اسے پکارا جبکہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھا تھا۔ اللہ تجھے یحیٰ ۵۵* کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کے ایک کلمہ ۵۶* کی تصدیق کرنے والا ۵۷* ہو گا ، سردار ۵۸* ہو گا۔ ضبطِ نفس سے غایت درجہ کام لینے والا ہو گا۔ اور نبی ہو گا صالحین کے زمرہ میں سے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اے میرے!میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا جبکہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ۵۹* ہے ؟ فرمایا اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۶۰*۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا تمہارے لئے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا بات نہ کر سکو گے اور اپنے کو بہ کثرت یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو ۶۱*۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم !اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا ، تجھے پاکیزگی عطا کی اور تجھے دنیا کی عورتوں کے مقابلہ میں منتخب فرمایا ۶۲*۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے مریم !اپنے کی مخلصانہ اطاعت کر (اس کے لئے سجدہ کیا کر) ، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہ ۶۳*۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی وحی ہم تم پر ۶۴* کرے ہیں ورنہ تم ان کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے جبکہ وہ یہ بات طے کرنے کے لئے کہ مریم کا کفیل کون ہو، اپنے اپنے قلم پھینک کر قرعہ اندازی کر رہے ۶۵* تھے اور نہ تم اس وقت ان کے پاس موجود تھے جب وہ باہم جھگڑے تھے۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم !اللہ تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰؑ بن مریمؑ ہو گا ۶۶*۔ وہ دنیا و آخرت دونوں میں ذی وجاہت ۶۷* ہو گا اور اللہ کے مقربین میں سے ہو گا۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگوں سے گہوارے میں بات کر ے گا ۶۸* اور بڑی عمر میں بھی ۶۹* اور صالحین میں سے ہو گا ۷۰*۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بولیں !اے میرے پروردگار! میرے کس طرح لڑکا ہو گا جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگا یا ؟ فرمایا !اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو فرمایا ہے ہو جا، اور وہ ہو جاتا ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ اس کو کتاب و حکمت ۷۱* کی تعلیم دے گا اور اسے تورات و انجیل سکھائے گا۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا ۷۲* اور جب وہ ان کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ میں تمہارے کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندہ کی سی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے واقعی پرندہ بن جاتی ہے۔ میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو اس میں یقیناً تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۷۳*۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تورات کا جو حصہ میرے سامنے موجود ہے اس کی میں تصدیق کرنے والا بن کر ۷۴* آیا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ بعض ان چیزوں کو تمہارے لئے حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۷۵* اور میں تمہارے پاس تمہارے کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشک اللہ میرا بھی ہے اور تمہارا بھی لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ۷۶* ہے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے کفر محسوس کیا تو کہا کون ہے اللہ کی راہ میں میرا مدد گار؟ حواریوں ۷۷* نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مدد گار ۷۸*۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئیے کہ ہم مسلم ہیں ۷۹*۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے پروردگار جو ہدایت تو نے نازل کی ہے اس پر ہم ایمان لائے اور ہم نے رسول کی پیروی اختیار کی۔ ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے ۸۰*۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے (بنی اسرائیل نے) مسیح کے خلاف سازشیں کیں تو اللہ نے بھی اس کا توڑ کیا اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے ۸۱*۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تمہیں قبض (تمہارا وقت پورا) کرنے والا ہوں ۸۲* اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان سے تمہیں پاک کرنے والا ہوں ۸۳*ّ۔ نیز تمہاری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک تمہارے منکرین پر غالب رکھنے والا ۸۴* ہوں پھر تم سب کو میری طرف پلٹنا ہے اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے بارے میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ان کو دنیا و آخرت میں سخت سزا دوں گا اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے انہیں وہ ان کا اجر پورا پورا دے گا اللہ ظالموں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ (ہماری آیات اور حکمت بھرا) ذکر ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ۸۵*۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے کہ اسے مٹی سے بنایا اور فرمایا ہو جا اور وہ ہو گیا ۸۶*۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی حق ہے تمہارے کی طرف سے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس علم کے آ جانے کے بعد جو کوئی اس معاملہ میں تم سے حجت کریں تو ان سے کہو کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔ ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاؤ ہم خو دبھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر ہم مل کر دعا کریں کہ اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر ۸۷*۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک یہ سچے واقعات ہیں اور حقیقتاً اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ ہی غلبہ والا اور صاحبِ حکمت ہے۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اگر یہ لوگ اعراض کریں تو اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۸۸*۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہلِ کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ۸۹* ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا بنائے ۹۰* اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو گواہو ہم تو مسلم ہیں۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد نازل کی گئیں کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ۹۱*۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو جس چیز کا تمہیں علم تھا اس کے بارے میں تم بحث کر چکے اب تم ایسی باتوں کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ راست مسلم تھے اور وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم سے نسبت کے سب سے زیادہ حقدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور یہ نبی اور اہلِ ایمان۔ اور اللہ تعالیٰ مومنوں کا رفیق ہے۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ کتاب کا ایک گروہ اس بات کا متمنی ہے کہ کاش وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائے حالانکہ یہ لوگ اپنے ہی کو گمراہ کرے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب ؟ اللہ کی آیات کا کیوں انکار کرتے ہو جبکہ تم خود اس پر گواہ ہو۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب کیوں حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہو اور کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو ؟

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ ایمان والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو انکار کرو تاکہ وہ بھی پھر جائیں ۹۲*۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نیز وہ کہتے ہیں) اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانو۔ کہو اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے ۹۳*۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو چیز تمہیں دی گئی ہے ویسی چیز کسی اور کو مل جائے یا وہ تمہارے خلاف تمہارے کے حضور حجت پیش کر سکیں ۹۴*۔ ان سے کہو فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ۹۵* ہے اللہ بڑی وسعت والا جاننے والا ہے ۹۶*۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر تم ان کے پاس مال کا ایک ڈھیر امانت رکھ دو تو وہ تمہیں ادا کریں گے اور ان میں ایسے بھی ہیں کہ اگر تم ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو وہ تمہیں ادا کرنے وا لے نہیں جب تک کہ تم ان کے سر پر کھڑے نہ ہو جاؤ۔ یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں امیوں ۹۷* کے معاملہ میں ہم پر کوئی گرفت نہیں  ۹۸* یہ لوگ دانستہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں جو لوگ اپنے عہد کو پورا کریں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے تو اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں ۹۹* ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا ۱۰۰* اور نہ انہیں پاک کرے گا ان کے لئے درد ناک سزا ہے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کو اس طرح مروڑ کر کتاب پڑھتے ہیں کہ تم سمجھو یہ کتاب ہی کی عبارت ہے حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی ۱۰۱* اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی انسان کا یہ کام نہیں کہ اللہ اسے کتاب ، حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے میرے پرستار بن جاؤ ۱۰۲* بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ ربانی (اللہ وا لے) بنو جیسا کہ کتاب الٰہی کا تقاضہ ہے جس کی تم دوسروں کو تعلیم دیتے ہو اور خود بھی پڑھتے ہو۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تمہیں ہرگز یہ حکم نہیں دے گا کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو اپنا بناؤ۔ کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم مسلم ہو۔ ؟

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد کرو جب اللہ نے (تم سے) نبیوں کے متعلق عہد لیا تھا کہ میں نے تمہیں کتاب و حکمت سے نوازا ہے اس کے بعد کوئی رسول اس کتاب کی جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے تصدیق کرتا ہوا آئے گا تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی لازماً مدد کرو گے ۱۰۳*۔ پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تم گواہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد جو لوگ (اس عہد سے) پھر جائیں وہی فاسق ہیں ۱۰۴*۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں ۱۰۵* حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوق چار و ناچار اسی کی فرمانبردار ہے ۱۰۶* اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۱۰۷*۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو نازل کی گئی ہم پر اور جو ابراہیم ، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اور اولادِ یعقوب پر نازل ہوئی تھی۔ اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں نیز ہمارا ایمان اس چیز پر بھی ہے جو موسیٰ ، عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے کی جانب سے دی گئی۔ ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اس کے فرمانبردار (مسلم) ہیں۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد ہو گا ۱۰۸*۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ان لوگوں کو کس طرح ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا ۱۰۹*ّ حالانکہ وہ اس بات کی گواہی دے چکے ہیں کہو رسول برحق ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آ چکی ہیں اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۱۱۰*۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ان کو مہلت ہی ملے گی۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اپنے طرزِ عمل کو درست کر لیا تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور اپنے کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہو گی ۱۱۱*۔ ایسے لوگ پکے گمراہ ہیں۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً جن لوگوں کفر کیا اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے اگر ان میں سے کوئی (نجات حاصل کرنے کے لئے) زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا ۱۱۲* ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نیکی کے مقام کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو عزیز ہیں ۱۱۳* اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانے کی یہ تمام چیزیں ۱۱۴* بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں بجز ان چیزوں کے جن کو اسرائیل نے نزول تورات سے پہلے اپنے اوپر حرام ٹھہرایا تھا ۱۱۵* کہو تورات لاؤ اور اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو ۱۱۶*۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کریں وہی ظالم ہیں۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اللہ نے سچ فرمایا ہے تو ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرو جو راست تھا اور شرک کرنے والوں میں ہرگز نہ تھا۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ پہلا گھر ۱۱۷* جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو "بکہ ” ۱۱۸* میں ہے۔ دنیا والوں کے لئے باعثِ برکت ۱۱۹* اور موجب ہدایت ۱۲۰*۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں ۱۲۱* مقام ابراہیم ۱۲۲* ہے اور جو کوئی اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔ جو لوگ اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر اللہ کے لئے اس گھر کا حج فرض ہے اور جو کفر کرے تو اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۱۲۳*۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہلِ کتاب تم اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ تم جو کچھ کرے ہو اللہ اسے دیکھا ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب تم ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے کیوں کتے ہو ۱۲۴* ؟ تم اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہو ۱۲۵* جبکہ تم گواہ ہو ۱۲۶*۔ اللہ تمہاری حرکتوں سے بے خبر نہیں ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اگر تم اہل کتاب کے کسی گروہ ۱۲۷* کی بات مان لو گے تو وہ تمہیں ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں گے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم کس طرح کفر کرو گے جبکہ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور اس کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے ۱۲۸* اور جس نے اللہ کو مضبوط پکڑ لیا ۱۲۹* اسے صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۱۳۰* اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۱۳۱*۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی رسی ۱۳۲* کو سب مل کر ۱۳۳* مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۱۳۴* اور اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ۱۳۵* تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور اس کے فضل سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں (ہدایات) واضح فرماتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہو ۱۳۶*۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں ایک گروہ ضرور ایسا ہونا چاہئیے جو خیر کی طرف دعوت دے ، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے ۱۳۷* ایسے ہی لوگ فلاح پانے وا لے ہیں۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو تفرقہ میں پڑ گئے اور جنہوں نے واضح ہدایات پانے کے بعد اختلاف کیا ۱۳۷* الف۔ ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن کتنے ہی چہرے روشن ہوں گے اور کتنے ہی سیاہ۔ تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ لو اب اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے وہ اللہ کی طرف رحمت میں ہوں گے اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں اور اللہ دنیا والوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے اور سارے معاملات بالآخر اسی کے حضور پیش ہوں گے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم خیر امت ۱۳۸* (بہترین گروہ) ہو جسے انسانوں (کی اصلاح و رہنمائی) کے لئے برپا کیا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم کرتے ہو،منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۱۳۹* ان میں کچھ لوگ تو مؤمن ہیں لیکن اکثر لوگ فاسق ہیں۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے بجز تھوڑی سی اذیت رسانی کے اور اگر وہ تم سے جنگ کریں گے تو پیٹھ دکھائیں گے ۱۴۰* پھر ان کو کہیں سے مدد نہیں مل سکے گی۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جہاں کہیں پائے گئے ان پر ذلت کی مار پڑی اِلّا یہ کہ اللہ کے عہد یا انسانوں کے عہد کے تحت ان کو (وقتی طور پر) پناہ مل گئی ہو ۱۴۱*۔ وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور ان پر پستی و محتاجی مسلط کر دی گئی ۱۴۲*۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرنے لگے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے اور یہ ہے نتیجہ ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حد سے تجاوز کرنے لگے تھے ۱۴۳*۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب یکساں نہیں ہیں۔ ان اہل کتاب میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو (عہد پر) قائم ہے۔ یہ لوگ رات کی گھڑیوں میں اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ اور یوم آخر پر ایما ن رکھتے ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں منکر سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم ہیں۔ یہ لوگ صالحین میں سے ہیں ۱۴۴*۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لیکن) جن لوگوں نے کفر کیا ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ کام آنے والی نہیں ۱۴۵* وہ دوزخی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا کی اس زندگی میں وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ ان لوگوں کی کھیتی پر چل جائے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور وہ اسے تباہ کر کے رکھ دے ۱۴۶*۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرے ہیں۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنے سوا کسی اور کو اپنا راز دار نہ بناؤ ۱۴۷*۔ وہ نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے وہ تمہارے لئے تکلیف کے خواہاں ہیں۔ ان کی دشمنی ان کے منہ سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے اپنی ہدایات واضح کر دی ہیں اگر تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تم ہو کہ ان سے دوستی رکھتے ہو جبکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے ۱۴۸* اور تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔ وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں ۱۴۹* اور جب اکیلے میں ہوتے ہیں تو مارے غصہ کے اپنی انگلیاں کاٹنے لگتے ہیں۔ ان سے کہو اپنے غصہ میں جل مرو۔ اللہ ان باتوں کو بخوبی جانتا ہے جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو ان کو ناگوار ہوتا ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ۱۵۰* لیکن اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو ۱۵۱* تو ان کی چالبازیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی اور وہ جو حرکتیں کر رہے ہیں اللہ انہیں گھیرے ہوئے ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۱۵۲* (یاد کرو) جب تم اپنے گھر سے صبح سویرے نکلے تھے اور مؤمنین کو جنگ کے مورچوں پر متعین کر رہے تھے اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت تم میں سے دو گروہ ۱۵۳* کمزوری دکھانا چاہتے تھے حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا اور اللہ ہی پر اہلِ ایمان کو بھروسہ رکھنا چاہئیے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ اللہ نے تمہاری مدد بد ر ۱۵۴* میں کی تھی جبکہ تم نہایت کمزور تھے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ اس کے شکر گزار بنو۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت تم مؤمنوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے ۱۵۵* ؟

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ تمہارے اوپر دفعتہً حملہ آور ہوئے تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان رکھنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۱۵۶*

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اسے تمہارے لئے بشارت بنایا اور تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں ورنہ نصرت تو اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے جو غالب بھی ہے اور حکیم بھی ۱۵۷*۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز (تمہاری مد د) اس لئے کہ اللہ کافروں کے ایک حصہ کو کاٹ دے یا انہیں ایسا ذلیل کر دے کہ وہ نامراد ہو کر لوٹیں۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس معاملہ میں تمہیں کوئی اختیار نہیں ۱۵۸* وہ چاہے انہیں معاف کرے یا سزا دے کہ وہ ظالم ہیں۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے ۱۵۹*۔ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !یہ دوگنا چوگنا سود نہ کھاؤ ۱۶۰*۔ اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

۱۳۲ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت کی طرح ہے ۱۶۱*۔ یہ متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو خوشحالی اور تنگی ہر حال میں انفاق کرتے ہیں ، غصہ کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کا معاملہ کرتے ہیں اللہ ایسے نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب یا (کوئی گناہ کر کے) اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کو ن ہے جو گناہوں کو معاف کرے ۱۶۲* اور وہ جانتے بوجھتے اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۱۶۳*۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے۔ نیز ایسے باغات ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ کیا ہی اچھا اجر ہے عمل کرنے والوں کے لئے۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے سنن الٰہی کے واقعات گزر چکے ہیں تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ۱۶۴*۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگوں کے لئے بیان ہے ۱۶۵* اور متقیوں کے لئے ہدایت و نصیحت۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پست ہمت نہ ہو اور غم نہ کرو۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو ۱۶۶*۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم کو زخم لگا ہے تو اسی طرح کا زخم ان لوگوں (دشمن) کو بھی لگ چکا ہے ۱۶۷* ان ایام ۱۶۸* کو ہم اسی طرح لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں اور (یہ دن تم پر اس لئے لایا گیا کہ) اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سچّے اہل ایمان کو ن ہیں اور چاہتا تھا کہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید بنائے ۱۶۹*۔ اللہ کو ظالم لوگ پسند نہیں ہیں

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (یہ حادثہ اس لئے پیش آیا) تاکہ اللہ اہل ایمان کو خالص کر دے اور کافروں کی سرکوبی کرے۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ اللہ نے ابھی یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون لوگ جہاد کرنے وا لے ہیں ۱۷۰* اور (یہ ابتلا اس لئے بھی ضروری ہے) تاکہ وہ دیکھ لے کہ کو ن صبر کرنے وا لے ہیں۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم موت کے سامنے آنے سے پہلے اس کی تمنا کر رہے تھے ۱۷۱* لیکن جب تم نے اسے دیکھ لیا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد تو بس ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں پھر کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ۱۷۲* ؟ جو کوئی الٹے پاؤں۔ پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اور اللہ قدرشناس ۱۷۳* لوگوں کو جلد ہی جزاء سے نوازے گا۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر مر نہیں سکتا اس کا وقت مقرر ہے اور لکھا ہوا ہے ۱۷۴* جو کوئی دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اسی میں سے دیتے ہیں اور جو آخرت کے انعام کا طالب ہو تو ہم اسے اس میں سے دیں گے اور ہم شکر کرنے والوں کو ضرور جزا سے نوازیں گے۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنے ہی انبیاء گزرے ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ۱۷۵* اور جو مصیبتیں انہیں اللہ کی راہ میں پیش آئیں ان کی وجہ سے وہ پست ہمت نہیں ہوئے نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ (دشمنوں کے آگے) جھکے اور اللہ کو ثابت قدم رہنے وا لے لوگ ہی پسند ہیں۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی زبان سے تو بس یہی کلمات نکلے کہ اے ہمارے رب !ہمارے گناہوں کو بخش دے ، ہمارے کام میں جو زیادتیاں ہو گئی ہوں ان سے درگزر فرما، ۱۷۶* ہمارے قد م جما دے اور کافروں پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نتیجہ یہ کہ اللہ نے ان کو دنیا کے انعام سے بھی نوازا اور آخرت کے بہترین انعام سے بھی۔ اور اللہ کو ایسے ہی نیک کردار لوگ پسند ہیں ۱۷۷*۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!اگر تم کافروں کا کہنا مان لو گے تو وہ تمہیں الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا مولیٰ (رفیق) تو اللہ ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عنقریب ہم کافروں کے دل میں رعب ۱۷۸* بٹھا دیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا جن کے لئے اس نے کوئی سند نازل نہیں فرمائی۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور کیا ہی بری جائے قیام ہے ظالموں کے لئے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے جو وعدہ تم سے کیا تھا اسے سچ کر دکھایا جبکہ تم اس کے اذن سے ان کو بے دریغ قتل ۱۷۹* کر رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور (مورچہ پر قائم رہنے کے) معاملہ میں باہم اختلاف کیا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھائی جس کے تم دلدادہ تھے۔ تم میں کچھ طالب دنیا تھے ۱۸۰* اور کچھ طالب آخرت۔ تب اس نے تمہارا رخ ان (دشمنوں) کی طرف پھیر دیا ۱۸۱* تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے۔ تاہم اس نے تمہیں معاف کر دیا اور اللہ مؤمنوں کے حق میں بڑا مہربان ہے ۱۸۲*۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم (مورچہ چھوڑ کر) چلے جا رہے تھے اور کسی کی طرف مڑ کر بھی دیکھتے نہ تھے حالانکہ رسول تم کو پیچھے سے پکار رہا تھا ۱۸۳* تو اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا ۱۸۴* تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے یا جو مصیبت تمہیں پیش آئے اس پر دل گرفتہ نہ ہو تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر اطمینان نازل فرمایا ، یہ اونگھ کی حالت تھی جو تم میں سے ایک گروہ پر طاری ہو رہی تھی ۱۸۵* مگر دوسرے گروہ کو اپنی جانوں ہی کی پڑی تھی یہ لوگ اللہ کے بارے میں خلاف حق جاہلیت کی سی بدگمانی کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کیا اس معاملہ میں ہمیں بھی کوئی اختیار ہے ؟ کہو سارا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اسے تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ (دراصل) ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر اس معاملہ میں ہمیں اختیار ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔ کہو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کا قتل ہونا مقدر تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے ۱۸۶*۔ یہ جو کچھ پیش آیا اس لئے پیش آیا تاکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اسے اللہ پرکھے اور جو (کدورت) تمہارے دلوں میں ہے اسے صاف کرے اللہ تمہارے باطن کا حال بخوبی جانتا ہے۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے ۱۸۷* اس دن تم میں سے جن لوگوں نے پیٹھ پھیری ان سے شیطان نے ان کے بعض اعمال کے باعث لغزش کرا دی تھی ۱۸۸*۔ اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ بلا شبہ اللہ بڑا بخشنے والا برد بار ہے۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کفر کیا اور جو اپنے بھائیوں کے بارے میں جبکہ وہ سفر پر گئے ہوں یا جنگ میں شریک ہوئے ہوں (اور انہیں موت آ جائے تو) کہتے ہیں اگر وہ ہمارے پاس موجود ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے (انہیں یہ خوش فہمی) اس لئے ہے تاکہ اللہ اس کو ان کے دلوں میں باعث حسرت بنا دے ۱۸۹* ورنہ اللہ ہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے یا مر گئے تو اللہ کی مغفرت اور رحمت (جس سے کہ تم نوازے جاؤ گے) ان تمام چیزوں سے کہیں بہتر ہے جن کو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خواہ تم مرو یا مارے جاؤ بہرحال تمہیں جمع اللہ ہی کے حضور ہونا ہے۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر) یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے نرم ہو ۱۹۰*۔ اگر تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے چھٹ جاتے۔ لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان کے حق میں استغفار کرو نیز (جہاد جیسے مہمات) امور میں ان سے مشورہ کرتے رہو ۱۹۱* پھر جب عز م کر لو تو اللہ پر توکل کرو۔ یقیناً اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو کو ن ہے جو تم پر غالب آئے ؟ اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کو ن ہے جو تمہاری مدد کرے گا اور اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئیے۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی نبی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کرے ۱۹۲* اور جو کو ئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اپنی خیانت کو لا حاضر کرے گا ۱۹۳* پھر ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو گی۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ایسا شخص جو اللہ کی رضا پر چلنے والا ہو اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اللہ کے غضب کا مستحق ہو اور جس کا ٹھکانا جہنم ہے نہایت ہی برا ٹھکانا!؟

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے نزدیک لوگوں کے درجے الگ الگ ہیں اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی نگاہ میں ہے ۱۹۴*۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعی اللہ نے اہل ایمان پر یہ بڑا احسان فرمایا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک ایسا رسول برپا کیا جو انہیں اس کی آیتیں سناتا ہے ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۱۹۵* ورنہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا بات ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی جیسے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (دشمنوں) پر پڑ چکی ہے تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آ گئی ۱۹۶* ؟ (اے پیغمبر) کہو یہ تمہارے ہی ہاتھوں آئی ہے ۱۹۷* یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۱۹۸*۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دونوں جماعتوں کے مقابلہ کے دن جو مصیبت تمہیں پہنچی وہ اللہ کے اذن ہی سے پہنچی اور یہ اس لئے ہوا تاکہ وہ مومنوں کو دیکھ لے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کو بھی دیکھ لے جو منافق ہیں ان (منافقوں) سے جب کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا (دشمن کو) دفع کرو تو وہ کہنے لگے اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ ہوتے ۱۹۹*۔ وہ اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے وہ اپنی زبان سے ایسی بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے اور جس بات کو یہ چھپاتے ہیں اس کو اللہ اچھی طرح جانتا ہے۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ خود تو بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو مارے نہ جاتے ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو اپنے اوپر سے موت کو ٹال کر دکھاؤ۔ ۲۰۰*

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۲۰۱*۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اس سے وہ خوش ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور ابھی ان سے ملے نہیں ہیں ان کے بارے میں خوشیاں منا رہے ہیں کہ ان کے لئے بھی نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۲۰۲*۔

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کی بشارت مل رہی ہے اور وہ مطمئن ہیں کہ اللہ مؤمنوں کے اجر کو ضائع نہیں کر ے گا ۲۰۳*۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا ۲۰۴* ان میں سے جو نیک کردار اور متقی ہیں ان کے لئے بڑا اجر ہے۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف ان لوگوں نے بڑی طاقت اکٹھا کی ہے لہٰذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو گیا ۲۰۵* اور وہ بول اٹھے اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ۲۰۶*۔

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایسا ہوا کہ یہ لوگ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس لوٹے۔ ان کو کسی طرح کا گزند نہیں پہنچا وہ اللہ کی رضا پر چلے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے ساتھیوں سے ڈرا رہا تھا لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ کفر (کی راہ) میں سرگرمی دکھا رہے ہیں ان کی وجہ سے تم آزردہ خاطر نہ ہو جاؤ وہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ جن لوگوں نے ایمان کے بعد کفر کا سودا کیا وہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا وہ یہ خیال نہ کریں کہ یہ ڈھیل جو ہم انہیں دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں بہتر ہے یہ ڈھیل تو ہم انہیں اس لئے دے رہے ہیں تاکہ وہ خوب گناہ سمیٹ لیں ۲۰۷* پھر ان کے لئے سخت رسوا کن عذاب ہے۔

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اہل ایمان کو اس حال پر ہرگز نہ چھوڑے گا جس پر تم اس وقت ہو جب تک کہ وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کر دے ۲۰۸* اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ عیب (کی ان باتوں) پر تمہیں مطلع کر دے ۲۰۹* بلکہ اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کام کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایما ن لاؤ اگر تم ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ اس میں بخل کرتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ایسا کرنا ان کے لئے اچھا ہے نہیں یہ ان کے لئے بہت برا ہے یہ مال جس میں یہ بخل کرتے ہیں قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بنا کر پہنا یا جائے گا ۲۱۰* اور اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی میراث ۲۱۱* اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۲۱۲*۔ ہم ان کے اس قول کو لکھ رکھیں گے اور ان کا انبیا ء کو ناحق قتل کرنا بھی۔ اور ہم کہیں گے کہ چکھو اب عذاب آتش کا مزہ۔

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں اپنے لئے مہیا کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ہر گز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش نہ کرے جسے آگ کھا لے ان سے کہو مجھ سے پہلے تمہارے پاس کتنے ہی رسول روشن نشانیاں لیکر آئے تھے اور وہ چیز بھی لیکر آئے جو تم کہتے ہو پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو ۲۱۳*۔

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پھر اے پیغمبر ؐ !) اگر یہ تمہیں جھٹلا تے ہیں تو تم سے پہلے بھی کتنے ہی رسولوں کو جھٹلایا جا چکا ہے وہ روشن نشانیاں ۲۱۴* ، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۲۱۵* اور تمہیں پورا پورا اجر تو قیامت ہی کے دن دیا جائے گا تو جو شخص آتشِ (دوزخ) سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ یقیناً کامیاب ہوا اور یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ سامان فریب ہے۔

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جان و مال کی آزمائش میں ضرور ڈالے جاؤ گے اور تمہیں ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی نیز مشرکین سے بہت کچھ اذیت دہ باتیں سننا پڑیں گی۔ لیکن تم نے صبر سے کام لیا اور تقویٰ پر قائم رہے تو یہ بڑے عزم و ہمت کی بات ہو گی۔

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یاد کرو جب اللہ نے ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے عہد لیا تھا کہ تم اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں مگر انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اس کو تھوڑی قیمت پر فروخت کر دیا ۲۱۶* تو کیا ہی بری قیمت ہے جسے وہ حاصل کر رہے ہیں۔

۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے ان کرتوتوں پر نازاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ان پر ان کی تعریف کی جائے ۲۱۷* انہیں تم عذاب سے محفوظ نہ سمجھو ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔

۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ ۲۱۸* آسمانوں اور زمین کی خلقت اور رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں دانشمندوں ۲۱۹* کے لئے بڑی ہی نشانیاں ۲۲۰* ہیں۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کا یہ حال ہے کہ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۲۲۱* اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں ۲۲۲*۔ (وہ پکار اٹھتے ہیں اے ہمارے رب ! یہ سب کچھ تو نے بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے تو پاک ہے (اس سے کہ عبث کام کرے) پس تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب!جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا اسے فی الواقع تو نے رسوا کر دیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہ ہو گا۔

۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب !ہم نے ایک پکارنے وا لے کو سنا جو ایمان کی طرف بلا رہا تھا۔ اس کی دعوت یہ تھی کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے پس اے ہمارے رب !ہمارے گناہ بخش دے ، ہماری برائیوں کو دور فرما اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ (دنیا سے) اٹھا۔

۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب !جن چیزوں کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وعدہ فرمایا ہے وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کر بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی ۲۲۳* کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے وا لے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۲۲۴* ، ضائع نہیں کروں گا۔ تم سب ایک دوسرے سے ہو ۲۲۵* تو جن لوگوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میر ی راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے ان سے ان کی برائیوں کو دور کروں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کی طرف سے جزا ہو گی اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے۔

۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملکوں میں کافروں کی دوڑ دھوپ تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے ۲۲۶*۔

۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھوڑے سے فائدہ کا سامان ہے ا س کے بعد انکا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا ہی بری آرام گاہ ہے وہ۔

۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کی طرف سے ان کے لئے سامان ضیافت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لئے کہیں بہتر ہے ۲۲۷*۔

۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس چیز پر بھی ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس چیز پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف نازل کی گئی تھی ۲۲۸* اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اللہ کی آیتوں کو وہ حقیر قیمت پر بیچ نہیں دیتے ایسے ہی لوگوں کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے یقین جانو اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔

۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ۲۲۹* ! صبر کرو، مقابلہ میں ثابت قدم رہو ، (جہاد کے لئے) تیار رہو ۲۳۰* ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ۲۳۱* تاکہ تم کامیاب ہو۔

 

                   تفسیر

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حروف مقطعات ہیں جن کی تشریح سورۂ بقرہ کے آغاز میں گز ر چکی۔ وہاں ہم زبور کے حوا لے سے یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ حروف سورہ کے مخصوص مضامین یا مخصوص الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس سورۃ کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حروف ان مضامین کے ساتھ خاص مناسبت رکھتے ہیں طوالت سے بچتے ہوئے ہم یہ عرض کریں گے کہ الف کا اشارہ "اللہ ” کی طرف ہے جس کی صحیح معرفت اس سورۃ میں بخشی گئی ہے۔ نیز اس کا اشارہ "آیات اللہ ” کی طرف بھی ہے جس کا ذکر اس سورہ میں بکثرت ہوا ہے اور خاص طور سے آیت ۷ میں آیات قرآنی کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں محکمات و متشابہات۔

اسی طرح لام کا اشارہ لااِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں) کی طرف ہے جن کو نہایت مہتمم بالشان طریقہ پر اس سورہ میں پیش کیا گیا ہے۔ (آیت۲ ،۶ ، ۱۸)

رہا میم تو وہ بھی اس سورہ کا ایک اہم عنصر ہے کیونکہ اس سورہ میں اللہ کی اس صفت کو کہ وہ مالک الملک ہے نہایت مؤثر پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے۔ (آیت ۲۶) نیز اس میں ملائکہ کا ذکر متعدد مقامات پر ہوا ہے اور توحید کے سلسلہ میں ان کی گواہی بھی پیش کی گئی ہے (آیت ۱۸) علاوہ ازیں اس میں مومنین و متقین کو کامیابی کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔

گویا ان حروف کی حیثیت نشاناتِ راہ کی ہے جو منزل کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ خداؤں میں سب سے بڑا ہے یعنی مہا دیو یا Chief God ہے بلکہ فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں یعنی اس کے سوا کسی خدا کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے لہٰذا اللہ کے سوا جن کو بھی خدا کے نام سے پکارا جاتا ہے وہ فرضی خد ا ہیں حقیقتہً ان میں سے کوئی بھی الوہیت (خدائی کی صفت) اپنے اندر نہیں رکھتا۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو ، سورہ بقرہ نوٹ ۴۰۹ ، ۴۱۰۔ یہاں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ قیّومیت اللہ ہی کی صفت ہے۔ اس لئے وہ بجا طور پر مستحقِ عبادت ہے لیکن جو لوگ مسیح یا کسی اور ہستی کی الوہیت کے قائل ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا یہ ہستیاں بھی اپنے اندر قیّومیت کی صفت رکھتی ہیں اگر نہیں ، اور واقعہ یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے تو پھر ان کو اِلٰہ قرار دینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نَزَّلَ (نازل کیا) میں الفاظ کے ساتھ اتارنے کا مفہوم شامل ہے یعنی اس احتمال کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وحیِ الٰہی کو الفاظ کا جامہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے پہنا یا ہو گا نہیں بلکہ قرآن لفظاً اور عبارتاً (Text) کی شکل میں اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اس کے الفاظ اور ان کی ترکیب میں کسی کا حتیٰ کہ پیغمبر کا بھی کوئی دخل نہیں ۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات کے عبرانی میں معنی قانون (Law) کے ہیں یہ اس کتاب کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ قرآن اسی کی تصدیق کرتا ہے لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ تورات موجو دہ بائبل (Old Testament) کا نام ہے۔ اور اس کے تمام مضامین کی قرآن تصدیق کر رہا ہے کیونکہ موجو دہ بائبل مذہبی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں اصل تورات کے اجزا ء ضرور موجود ہیں لیکن وہ تاریخی واقعات ، سیرت ، علماء کی تشریح و تعبیر اور فقہاء کی آراء کا ایسا مجموعہ ہے کہ نہ اس پورے مجموعے پر کتابِ الٰہی کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ اصل تورات کے اجزاء کو کوئی شخص اس مخلوطہ سے الگ کر سکتا ہے تا وقتیکہ وہ بصیرت سے کام نہ لے۔ موجو دہ بائبل خود یہ دعویٰ بھی نہیں کرتی کہ وہ من و عن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے نیز اس کے مضامین اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ یہ مجموعہ انسانوں ہی کا مرتّب کردہ ہے بلکہ اصلِ کلامِ الٰہی میں لوگوں نے جو تحریف کی اس کا اعتراف بھی بائبل کرتی ہے چنانچہ بائبل کی کتاب "یرمیاہ "میں ہے۔ ” کیونکہ تم نے زندہ خدا ربّ الافواج ہمارے خدا کے کلام کو بگاڑ ڈالا ہے ” (یرمیاہ ۲۳۔ ۳۶)

موجو دہ بائبل کے بارے میں اس کے ایک شارح کا یہ اعتراف ملاحظہ ہو کہ یہ مجموعہ بھی اسرائیل کی بابل سے واپسی کے بعد مرتّب کیا گیا ہے : چنانچہ Peak’s Commentary on the Bible, میں The Authority of the Bible کے تحت اس کا شارح رقم طراز ہے۔

” It was after the return of Israel from the Babylonian exile that the collection of the Books of the Law into the present corpus was made” (Page2)

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انجیل اس کتاب کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی۔ قرآن اسی کی تصدیق کرتا ہے۔ جہاں تک موجودہ بائبل کے عہد نامہ جدید کا تعلق ہے اس میں اصل انجیل کے اجزاء ضرور پائے جاتے ہیں جو قرآن سے بالکل ہم آہنگ ہیں لیکن یہ مجموعہ بھی اپنی موجود ہ شکل میں کلامِ الٰہی کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس میں کلامِ الٰہی کے منتشر اجزاء کے ساتھ تاریخی واقعات، روایات اور تشریح وغیرہ گھل مل گئی ہے۔ لوقا کی انجیل میں تو آغاز ہی میں یہ صراحت موجود ہے کہ اس کے مرتّب نے واقعات کو خود ہی مرتّب کیا ہے۔

” چونکہ بہتوں نے اس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں ان کو ترتیب وار بیان کریں جیسا کہ انہوں نے جو شروع ہی سے خود دیکھنے وا لے اور کلام کے خادم تھے ان کو ہم تک پہنچایا۔ اس لئے اے معزّز تھیفلس میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے ان کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں تاکہ جن باتوں کی تو نے تعلیم پائی ہے ان کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے "۔ (لوقا ۱: ۱۔ ۴ (اور اس بات کا اعتراف بائبل کا شارح اس طرح کرتا ہے :۔

The motive and method of the writing of a gospel are described in the prologue of the Gospel of Luke: without any claim to inspiration, the writer set out to get the best information that he could and to use the previous attempts which had been made. The narrative was not designed to be sacred scripture. It was a record of the events: where in the sacred scriptures were fulfilled ” (Peake’s Commentary on the Bible: Page4))۴

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرقان قرآن کی صفت ہے جس کے معنی ہیں حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب۔ یہاں اس صفت کا ذکر کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ تورات و انجیل میں جب اہل کتاب نے تحریف کر دی اور لوگوں کے لئے حق و باطل میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کو کسوٹی بنا کر اتارا تاکہ لوگوں پر راہِ ہدایت واضح ہو جائے۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کی شکل میں اللہ کی طرف سے واضح ہدایت آ جانے کے بعد بھی جو لوگ مذہبی اختلافات کے چکّر میں پڑے رہیں گے اور اس ہدایت کو قبول نہیں کریں گے ان کو اللہ سخت سزا د ے گا۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ لوگوں نے اللہ کی کتابوں میں تحریف کرنے کی جو جسارت کی اور اللہ کے نام سے جو مختلف مذہب ایجاد کر لئے اسے دیکھ کر کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہ سب باتیں اللہ سے مخفی ہیں۔ یا اس کے ہاں اندھیر نگری ہے۔ نہیں بلکہ وہ لوگوں کی ان حرکتوں کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن چونکہ انسان کا یہاں امتحان لینا مقصود ہے اس لئے اس کی حکمت ا س بات کی متقاضی ہوئی کہ لوگوں کو مہلتِ عمل دی جائے اور فیصلہ قیامت کے دن کے لئے اٹھا رکھا جائے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رحم مادر میں جنین کی تخلیق اللہ ہی کرتا ہے نہ کہ کوئی دیوی دیوتا، مشرکانہ مذہب میں یہ تصوّر پایا جاتا ہے کہ ایک مخصوص دیوی (Tvashtri) جنین کی صورت گری کرتی ہے مذکورہ آیت اس قسم کے تصورات کو باطل قرار دیتی ہے نیز سیاقِ کلام کے لحاظ سے آیت کا اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت مسیحؑ کی تخلیق حضرت مریمؑ کے رحم میں ہوئی تھی پھر وہ خدا کس طرح ہو سکتے ہیں؟

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محکم یعنی پختہ اور مستحکم۔ محکم سے مراد قرآن کی وہ آیتیں ہیں جو اپنے مفہوم اور مدّعا کے لحاظ سے بالکل صاف اور واضح ہیں مثلاً و ہ آیات جن میں اسلام کی دعوت، اس کی تعلیمات ، اس کے احکام و قوانین ، فرائض ، عبادات ،نصائح اور اس قسم کی دوسری باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محکمات کی حیثیت امّ الکتاب کی ہے یعنی وہ کتاب کی اصل بنیاد اور مرجع ہیں لہٰذا قرآن کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہ ہو گاجو محکمات کے خلاف ہو بلکہ جہاں بھی مفہوم کی تعین میں اشتباہ پیش آئے وہاں محکمات کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متشابہ یعنی ملتی جلتی۔ متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں حقائق جو انسان کے مشاہدات و محسوسات کی دسترس سے باہر ہیں۔ مثلاً اللہ کا عرش پر مستوی ہونا ، عالم بالا کے حقائق ، اعمال کا تولا جانا ،جنت کی نعمتیں ،دوزخ کی سزائیں ، آخرت کے کوائف ، وغیرہ اس قسم کی باتوں کو ایسے الفاظ اور اسالیب میں بیان کیا گیا ہے جو اصل حقیقت کے مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لئے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے مابعد الطبیعی حقائق کا علم انسان کو اس حد تک حاصل ہو جاتا ہے جس حد تک کہ اس کی ہدایت کے لئے ضروری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر آدمی ان کی اصلِ حقیقت معلوم کرنے کے درپے ہو جائے تو اصلِ حقیقت تک اس کی رسائی ہونے سے رہی البتّہ وہ لفظی اور کلامی بحثوں میں الجھ کر رہ جائے گا جو کسی دانا کا کام نہیں ہے۔

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا          غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متشابہات کے پیچھے پڑنے کی ایک مثال حضرت عیسیٰؑ کی تخلیق کا معاملہ ہے چونکہ آپ کی پیدائش بغیر باپ کے غیر معمولی طریقہ پر ہوئی تھی اس لئے آپ کو کَلِمَۃً مِّنْہُ (کلمہ منجانب اللہ) سے تعبیر فرمایا یعنی وہ اللہ کے ایک فرمان کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی تخلیق اللہ کے کلمۂ کُن (اللہ کا حکم کہ ہو جا) سے ہوئی تھی لیکن نصاریٰ نے اس میں فلسفیانہ موشگافیاں کیں اور حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے قائل ہو گئے اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کے لئے بھی فتنہ کا سامان کیا۔ افسوس ہے کہ قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود مسلمانوں کے بعض گروہوں نے پچھلے ادوار میں صفاتِ الٰہی وغیرہ کے بارے میں غیر ضروری اور لاطائل بحثیں چھیڑ دیں جس کے نتیجہ میں "علم کلام” وجود میں آیا اور اسلام کے سیدھے سادے عقائد بھی معمّہ بن گئے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعا جو علم میں پختگی رکھنے والوں کی زبان سے ادا ہوئی ہے ان کے جذباتِ ایمانی کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہ متشابہات کی تاویلات کے فتنوں سے بچنے کی فکر کرتے ہیں اور دین میں فتنہ پروری کرنے والوں سے ہوشیار رہتے ہیں اور اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کو کتاب اللہ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال و اولاد کا ذکر اس مناسبت سے ہوا ہے کہ بسا اوقات ان کی محبّت قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جنگِ بدر کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو ۰۲ھ میں اہل ایمان اور مشرکینِ مکہ کے درمیان بدر کے مقام پر پیش آیا۔ یہ پہلی جنگ تھی جو حاملینِ قرآن نے نبیﷺ کی قیادت میں لڑی۔ اس جنگ میں کفار کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور اہلِ ایمان کل تین سو تیرہ ۳۱۳تھے لیکن جب جنگ بالفعل شروع ہو گئی تو کفار کو اہل ایمان اپنی بہ نسبت دوگنی تعداد میں دکھائی دینے لگے۔ جس سے وہ مرعوب ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اللہ کی تائید و نصرت اہلِ ایمان کے ساتھ تھی جس کے نتیجہ میں اہلِ ایمان قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود غالب آ گئے۔ اور کفار کو کثیر تعداد ہونے کے باوجود شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

یہاں اس واقعہ کا حوالہ دینے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اس میں اہلِ حق کے شان دار مستقبل کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ حق و باطل کی اس کشمکش میں اللہ کی تائید و نصرت حاملینِ قرآن کے حق میں ظاہر ہوئی ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن چیزوں کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے وہ انسان کو طبعاً مرغوب ہیں اس لحاظ سے ان کی رغبت قابلِ اعتراض نہیں ہے لیکن ان چیزوں کا اس طرح آنکھوں میں کھب جانا کہ انسان کی ان کے ساتھ وابستگی حدِ اعتدال سے تجاوز کر جائے اور ان چیزوں کو وہ ذریعۂ امتحان سمجھنے کے بجائے مقصدِ حیات سمجھنے لگے تو یہ چیزیں انسان کو برے انجام کی طرف لے جاتی ہیں۔ آیت کا منشاء اسی بے اعتدالی سے انسان کو بچانا ہے۔ جس سیاق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ دعوتِ قرآنی کو قبول کرنے میں لوگوں کے لئے جو چیز مانع ہو رہی ہے وہ ان کا مادی اسباب پر ریجھ جانا ہے کیونکہ قرآن کی دعوت اس بات کو یکسر غلط ٹھہراتی ہے کہ آدمی مادی اسباب پر فریفتہ ہو اور غیر ذمہ دارانہ اور عیش کوشانہ زندگی گزارے۔ اس کے نزدیک دنیوی مال و اسباب چند روزہ زندگی کا سامان ہے۔ جو آزمائش کے لئے انسان کو عطا ہوا ہے اسی لئے اس میں کشش رکھی گئی ہے۔ رہا مستقبل اور ابدی انعام تو وہ آخرت میں ملے گا بشرطیکہ انسان نے اپنے کو اس کا مستحق بنایا ہو۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تقویٰ ایک جامع اصطلاح ہے اور یہاں اس کا یہ پہلو بالکل نمایاں ہو رہا ہے کہ مرغوباتِ نفس کے سلسلہ میں صحیح اور مبنی بر اعتدال رویہ اختیار کرنا اور آخرت کی نعمتوں کو نصب العین بنانا عین تقویٰ ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی خوشنودی تمام نعمتوں سے فائق تر ہے اللہ جب اپنے بندے سے خوش ہوا تو وہ کون سی سعادت ہے جو اسے ملنا باقی رہ گئی ؟

جنت میں انسان کو صرف ظاہری اور نعمتیں ہی نہیں ملیں گی بلکہ وہ خوشنودیِ رب کی روحانی دولت سے بھی مالامال ہو گا۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ اپنے بندوں کے حال پر نظر رکھے ہوئے ہے لہٰذا جو صحیح طرزِ عمل اختیار کرے گا اس کے لئے فکر کی کوئی بات نہیں ہے وہ اللہ کی خوشنودی سے ضرور نوازا جائے گا۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سحر کا وقت مناجاتِ الٰہی کے لئے نہایت سازگار اور قبولیت استغفار کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا سو رہی ہوتی ہے اور نفس آرام کا طالب ہوتا ہے اٹھ کر اللہ کے حضور استغفار کرنا ایک مجاہدانہ عمل ہے جو ریا کی آفتوں سے محفوظ ہوتا ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ صفات انسان کی عظمت اور بلندی کی ضامن ہیں جن لوگوں کے کردار کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں وہ دنیا کے مال و متاع اور اس کی آرائش و زیبائش پر ریجھتے نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی کو اپنا نصب العین بناتے ہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور اپنے قائم بالقسط ہونے پر اپنی ، اپنے فرشتوں کی اور اہلِ علم کی شہادت پیش کی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شہادت کا اظہار تو کائنات کی ایک ایک چیز سے ہو رہا ہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی وحدانیت پر دلالت نہ کرتی ہو اور جو توازن اس کائنات کے نظام کے اندر پایا جاتا ہے وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا خالق عدل و قسط کی صفت سے متّصف ہے۔

توحید انسان کے وجدان کی پکار ہے یہ بھی اللہ کی شہادت ہی ہے جو انسان کے باطن کے اندر ودیعت ہوئی ہے۔ اللہ کی شہادت کا اظہار وحی کے ذریعہ بھی ہوا ہے۔ قرآن اس کا بیّن ثبوت ہے۔

فرشتوں کی شہادت امر واقعہ کا اظہار ہے۔ فرشتے اللہ کے احکام کو کائنات میں نافذ کرتے ہیں اور پیغمبروں پر وحی لے کر آتے ہیں اس لئے ان کی شہادت اظہارِ حقیقت ہے۔ مشرکین ان کو خدائی میں شریک ٹھہراتے ہیں لیکن وہ خود ہر قسم کے شرک کی نفی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ واحد ہونے کی گواہی دیتے ہیں ان کا نزول جب کبھی انبیا پر ہوا ہے وہ اللہ کی طرف سے توحید ہی کا پیغام دیتے رہے ہیں۔

اہلِ علم کی شہادت سے مراد ان لوگوں کی شہادت ہے جو خدا اور کائنات کے بارے میں علم حقیقی سے بہرہ مند ہیں۔ یہ علم انبیاء کے ذریعہ انسانوں کو ملا ہے اور اہلِ علم کا یہ حقیقت شناس گروہ ہر زمانہ میں یہ شہادت دیتا رہا ہے۔

کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق          زبان اور دل کی شہادت کے لائق

اور یہ شہادت اس نے عظیم الشان قربانیاں دے کر قائم کی ہے۔ فحوائے کلام سے اہلِ علم کی عظمت کا پہلو بھی واضح ہو رہا ہے کیونکہ اہلِ علم کا ذکر فرشتوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "اَلدِّینْ” استعمال ہوا ہے۔ جس سے مراد اصل اور اور حقیقی دین ہے یعنی وہ دین جو واقعی اللہ کا نازل کردہ ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم سے مراد علمِ حق ہے اور خاص طور سے دین کی بنیادی باتوں کا علم جس کے بعد کسی اختلاف کے لئے گنجائش باقی نہیں رہتی۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے جو دین نازل فرمایا وہ اسلام ہے۔ یہی دین اللہ کا دین ہے اور تمام انبیاء پر وہ اسی دین کو نازل فرماتا رہا ہے۔ اس نے کبھی کسی ملک اور کسی زمانہ میں کسی بھی نبی یا رسول پر اسلام کے سوا کوئی اور دین نازل نہیں فرمایا لیکن پیغمبر کی امتوں نے اس اصلِ دین میں اختلاف کر کے الگ الگ مذہب ایجاد کر لئے۔ یہ یہودیت اور نصرانیت اسی قبیل سے ہیں۔ ان امتوں نے یہ اختلاف اس بناء پر نہیں کیا تھا کہ انہیں دینِ حق کا علم نہیں تھا بلکہ حق کے واضح ہو جانے کے باوجود انہوں نے محض نفسانیت ،باہمی عناد اور مبتدعانہ ذہنیت کی بناء پر ایسا کیا۔ لیکن اللہ چونکہ عدل و قسط کو قائم کرنے والا ہے اس لئے اس نے اسلام کو از سرِ نو نازل فرما یا ہے تاکہ لوگوں پر راہِ حق واضح ہو اس کے بعد بھی اگر انہوں نے کفر کی روش اختیار کی اور اللہ کی ان صریح آیتوں کو نہیں مانا تو اللہ ان کا حساب بہت جلد چکائے گا۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُمّی کے لغوی معنی ایسے شخص کے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو لیکن اصطلاحاً یہ لفظ بنی اسماعیل کے لئے بطور لقب استعمال ہوا ہے کیونکہ ان کے پاس نہ کتابِ الٰہی تھی اور نہ ان میں رسمی تعلیم کا رواج تھا بخلاف اس کے بنی اسرائیل حاملِ کتاب تھے اور ان میں رسمی تعلیم کا بھی رواج تھا

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قتلِ ناحق اور پھر وہ کسی نبی کا جرم کی سنگینی کو واضح کرنے کے لئے کا فی ہے۔ قتلِ انبیاء کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔

"تو بھی وہ نافرمان ہو کر تجھ سے باغی ہوئے اور انہوں نے تیری شریعت کو پیٹھ پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو تیر ی طرف پھرا لائیں قتل کیا اور انہوں نے غصّہ دلانے کے بڑے بڑے کام کئے۔ ” (نحمیاہ ۹: ۲۶)

"اے یروشلم ! اے یروشلم !تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا” (متی ۲۳:۳۷)

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ دینداری کے پردے میں اللہ کی ہدایت کو ماننے سے انکار کریں ، قتلِ انبیاءؑ جیسے جرم کے مرتکب ہوں اور ان نیک لوگوں کے در پئے آزار ہو جائیں جو اصلاح کی کوشش کریں اور حق و عدل کی دعوت لے کر اٹھیں ان کی یہ دینداری اللہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتی اور ان کی تمام کوششیں اور ان کے سارے مذہبی اعمال بالکل اکارت جانے وا لے ہیں آخرت میں اکارت جانا تو واضح ہی ہے۔ رہا دنیا میں اکارت جانا تو دنیا نے دیکھ لیا کہ قرآن اور اس کو لانے وا لے پیغمبرؑ کے مخالفین کا کیا حشر ہوا۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب کے ایک حصّہ سے مراد تورات ، انجیل وغیرہ آسمانی صحیفے ہیں۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی کتاب سے مراد قرآن ہے۔ تورات وغیرہ آسمانی صحیفوں اور قرآن میں نسبت جز اور کل کی ہے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فیصلہ ان اختلافات کا جو اہلِ کتاب نے اللہ کے دین کے سلسلہ میں پیدا کئے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حق سے اعراض کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ ان کے قومی مزاج کی خصوصیت ہے جس کا ثبوت ان کی تاریخ سے ملتا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ یہودیوں کے من گھڑت باتوں کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کتابِ الٰہی کو حاکمانہ حیثیت دینے کے لئے اس وجہ سے تیار نہیں ہیں کہ وہ آخرت کی سزا کی طرف سے بے فکر ہو گئے ہیں اور مکافاتِ عمل کا صحیح تصوّر ان کے ذہن میں نہیں ہے۔ اگرچہ کہ پچھلی کتابوں میں بھی مکافاتِ عمل کا وہی تصور پیش کیا گیا تھا جو قرآن پیش کرتا ہے یعنی انسان کی جیسی کمائی ہو گی ویسا اسے بدلہ ملے گا لیکن دین میں حاشیہ آرائی کر کے انہوں نے اپنے کو اس بات پر مطمئن کر لیا کہ چونکہ وہ ایک خاص مذہبی قومیت Religious communityسے تعلق رکھتے ہیں اس لئے آخرت میں ان کا بیڑہ پار ہے اس اطمینان نے ان کو بری طرح بے عملی میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس آئینہ میں موجودہ دور کے مسلمان بھی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں ان کی بھی ایک بڑی تعداد اس دھوکہ میں مبتلا ہے کہ نجات اخروی کے لئے پیدائشی مسلمان ہونا کافی ہے۔ نجات کے اس غلط تصور نے انہیں حقیقی ایمان اور عملِ صالح سے بے نیاز کر دیا ہے اور بدعات و بد اعمالیوں میں ایسے غرق ہو گئے ہیں کہ ان امور میں قرآن کو فیصلہ کن حیثیت دینے کے لئے عملاً تیار نہیں ہیں۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اقتدار کی حیثیت جس کو یہاں دعائیہ پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے۔ ہر قسم کے اختیار ات اور ہر قسم کے حکومتی اقتدار کا مالک تنہا اللہ ہے۔ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ دنیا میں جس کو بھی حکومت ملتی ہے اسی کے عطا کرنے سے ملتی ہے اور جس کے اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے اسی کے چھین لینے سے ہوتا ہے وہ اپنی حکمت کے تحت اشخاص اور گروہوں کو اقتدار عطا کرتا اور اس سے محروم کرتا رہتا ہے لہٰذا جس کے پاس اقتدار کے خزانے ہیں اور جن کے ہاتھ میں عزت اور سرفرازی ہے اسی کو مقتدر اعلیٰ ماننا چاہئیے اور اسی سے لو لگانا چاہئیے۔

اللہ کے مالک الملک ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان ہر قسم کے دنیوی اقتدار کو خواہ وہ بادشاہت کی شکل میں ہو یا جمہوریت کی شکل یا کسی اور شکل میں اللہ کی بخشی ہوئی امانت سمجھے اور اس کو اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق استعمال کرے۔ اقتدار کا یہ قرآنی تصور بادشاہ پرستی King worship کی بھی نفی کرتا ہے اور بادشاہ کے خدائی حق۔ (Divine Right) کی بھی۔ نیز جمہوریت کے اس دعوے کی بھی کہ اس کی حاکمیّت مطلق ہے اور خدا سے اسے سروکار نہیں۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھلائی صرف اللہ کے ہا تھ میں ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اور وہ خیر و برکت کا سرچشمہ ہے۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رات اور دن کا تسلسل اور ان کے اوقات میں کمی بیشی اللہ تعالیٰ ہی کی کارفرمائی ہے اور اس میں کسی کا ذرّہ برابر دخل نہیں۔ اس سے رات اور دن کے الگ الگ خدا ہونے۔ Night Deity or Day Deityکے مشرکانہ عقیدہ کی نفی ہوتی ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مثلاً انسان کو بے جان مادّہ (مٹی) سے پیدا کیا اور پھر یہی انسان مر کر مٹی (بے جان مادہ) ہو جاتا ہے اسی طرح وہ بے جان مادّوں سے جاندار مخلوق پیدا کرتا ہے اور جاندار اجسام سے بے جان مادوں کو خارج کرتا ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان کا تعلق تمام تعلقات پر مقدم ہے لہٰذا اہلِ ایمان کا یہ کام نہیں کہ خدا کے دشمنوں کو اپنا دوست بنائیں بلکہ وہ اپنا دوست ان ہی لوگوں کو بنا سکتے ہیں جو اللہ کو اپنا دوست رکھتے ہوں۔ واضح رہے کہ اس ہدایت کا منشا ء عام انسانی تعلقات کی نفی کرنا نہیں ہے اور نہ قرآن غیر عربی کافروں کے انسانی حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ عدل و قسط کا معاملہ کرنے سے روکتا ہے۔ یہ باتیں قرآن میں دوسرے مقامات پر واضح کر دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر درجِ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔

وَقُوْلُوْ ا لِلنَّاسِ حُسْناً (بقرہ ۸۳) "لوگوں سے بھلی بات کہو”

وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنَ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (مائدہ۔ ۸) "کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اس کے ساتھ انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ”

وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً (لقمان۔ ۱۵) ” (والدین اگر مشرک بھی ہوں تو) دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر”

وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ (نساء۔ ۳۶) "اور رشتہ دار ہمسایہ ، اجنبی ہمسایہ ، ہم نشین دوست اور مسافر کے ساتھ نیک سلوک کرو”

لَایَنْھَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوا اِلَیْھِمْ (الممتحنہ۔ ۸) ” اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا”

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کہیں اہل ایمان کافروں کے نرغہ میں پھنس جائیں اور وہ اپنے تحفظ کی کوئی صورت اختیار کریں جس سے بظاہر کفار کے ساتھ دوستی کا اظہار ہوتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن تاکید کی گئی ہے کہ اس حال میں بھی اللہ سے ڈرنا چاہئیے اور اپنی ذات کو بچانے کی خاطر کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئیے جو دین و ملّت کو نقصان پہنچانے والا ہو یا ظلم و زیادتی پر مبنی ہو۔ مثلاً راز کی باتوں سے دشمن کو آگا ہ کرنا ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا ،ناحق قتل و قتال کرنا وغیرہ۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شفقت میں ضرر سے بچانے کا پہلو غالب ہے۔ اللہ شفیق ہے اس لئے اس نے اپنے بندوں کو آگ کے عذاب کی طرف لے جانے والی باتوں سے آگا ہ کر دیا ہے تاکہ وہ اس بدترین عذاب سے بچیں۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کی محبت کا زبانی دعویٰ نجات کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کی محبت کا ثبوت اپنے عمل سے دینا چاہئیے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی پیروی اختیار کی جائے۔ اس آیت کے ذریعہ تمام اہلِ مذاہب اور تمام انسانوں کو آخری نبی کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور صاف صاف اعلان کر دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر اللہ سے محبت کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔

اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے بھی سبق ہے جو اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور عملاً رسولؐ کی پیروی سے گریز کرتے ہیں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے جو مضمون شروع ہوتا ہے وہ آیت ۶۳ تک چلتا ہے۔ اس کا مرکزی نقطہ حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت کو اپنے اصلی خدوخال کے ساتھ پیش کرنا اور یہ واضح کرنا ہے کہ نصاریٰ نے ان کے بارے میں الوہیت کا جو عقیدہ اختیار کر رکھا ہے وہ سراسر غلط اور یکسر باطل ہے۔

اس سلسلہ میں تمہید کے طور پر حضرت آدم ، حضرت نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران کا ذکر ہوا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ فرمایا تھا۔ یہ سب انسان تھے ان میں سے کوئی بھی نہ خدا تھا اور نہ اس کا بیٹا۔ حضرت عیسیٰؑ بھی ان برگزیدہ بندوں کی طرف اللہ کے برگزیدہ بندے تھے پھر ان کو خدائی کا درجہ دینے کے کیا معنیٰ؟

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمران بن ماتان حضرت مریم کے والد کانا م تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا ہیں۔ یہ حضرت داؤدؑ کی نسل سے تھے۔ اس سے یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام نہایت معروف اور شریف خاندان کے افراد ہیں۔ یہ دونوں انسا ن ہی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے برگزیدگی سے نوازا تھا لہٰذا جس طرح ان کی پاکیزگی پر شبہ کرنا صحیح نہیں ہے اسی طرح ان کو خدائی کا درجہ دینا بھی صحیح نہیں۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تم کوئی ناروا بات ان برگزیدہ شخصیتوں کی طرف منسوب کرتے ہو تو اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ ان باتوں کو سن رہا ہے اور تمہاری کذب بیانی کو بھی جانتا ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمران کی بیوی (حنّہ) جب حاملہ ہوئیں تو عمران کا انتقال ہو گیا۔ حنّہ نے یہ منّت مانی کہ جو بچہ پیدا ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کے لئے نذر ہو گا یعنی ا س کی عبادت کے لئے وقف ہو گا اور اس کی صورت بنی اسرائیل کے یہاں یہ تھی کہ وہ ہیکل سے متصل (حجرہ) محراب میں معتکف ہو جائے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جملہ معترضہ ہے۔ حضرت مریم کی والدہ کے بیان کو قطع کرتے ہوئے یہ بات اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ لڑکی کس شان کی پیدا ہو ئی ہے اور عمران کے گھر کیسی بڑی ہستی نے جنم لیا ہے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حنّہ کو لڑکے کی پیدائش کی توقع تھی لیکن جب لڑکی پیدا ہوئی تو انہیں تردّد ہوا کہ جس مقصد کے لئے انہوں نے نذر مانی ہے اس کے لئے لڑکی کس طرح موزوں ہو سکے گی ؟ البتہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرما لے تو اس کا بڑا احسان ہو گا۔

حضرت حنّہ نے "اور لڑکا لڑکی کی طرح تو نہیں ہوتا” کہا یہ نہیں کہا کہ "اور لڑکی لڑکے کی طرح نہیں ہوتی ” جبکہ پیدا لڑکی ہوئی تھی۔ اس لئے اس اسلوب میں ناشکری کا پہلو نکل سکتا تھا جو آدابِ دُعا کے خلاف ہے۔ لہٰذا انہوں نے اللہ کی عطا کردہ نعمت کی پوری قدر کرتے ہوئے صرف اپنے تردّد کا اظہار کیا۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم یتیم تھیں اور انہیں معبد میں معتکف بھی ہونا تھا اس لئے ان کی کفالت کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو جو پیغمبر ہیں اور حضرت مریمؑ کے خالو ہوتے ہیں ان کا کفیل بنایا۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محراب سے مراد وہ حجرہ ہے جس میں حضرت مریمؑ معتکف تھیں بیت المقدس میں اس طرح کے حجرے عبادت گزاروں کے لئے بنے ہوئے تھے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ (منتخب ، خاص) بندی تھیں۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق کا غیر معمولی انتظام کیا تھا اور رزق کا غیر معمولی انتظام کرنا اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زکریا، حضرت مریم کے کفیل تھے اس لئے ان کی دیکھ بھال کے لئے ان کے پاس جایا کرتے تھے وہ حضرت مریم علیہ السلام کی کم سنی میں عبادت گزاری اور صالحیت سے بہت متاثر تھے اور اللہ تعالیٰ انہیں غیر معمولی طریقہ سے جو رزق عطا کر رہا تھا اسے دیکھ کر ان کے دل میں صالح اولاد کی تمنا پیدا ہو گئی۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائبل میں یحیٰ کا نام یوحنا آیا ہے۔ ان کی ولادت حضرت عیسیٰ سے چھ ماہ قبل ہوئی تھی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ (اللہ کا ایک کلمہ) ۔ (A word from Allah) سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ ان کی ولادت چونکہ بغیر باپ کے اللہ تعالیٰ کے کلمہ کُن (ہو جا) سے ہوئی تھی اس لئے ان کو "اللہ کا کلمہ ” کے لقب سے نوازا گیا۔ ایک کلمہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار کلمات میں سے حضرت عیسیٰ بھی ایک کلمہ ہیں۔ اور جس طرح بے شمار مخلوقات اللہ کے کلمہ کُن سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ کا بھی ظہور ہوا اس سے عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں الوہیت کے عقیدہ کی تردید ہوتی ہے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام کا حضرت عیسیٰؑ کے تصدیق کرنے کا ذکر انجیل میں بھی موجود ہے۔

"یوحنا نے اس کی بابت گواہی دی اور پکار کر کہا کہ یہ وہی ہے جس کا میں نے ذکر کیا کہ میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے مقدم ٹھہرا۔ (یوحنا باب ۶ : آیت ۱۵) ”

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حضرت یحیٰ علیہ السّلام میں سرداری اور قیادت کی شان ہو گی وہ راہب نہیں ہوں گے بلکہ رہنما اور قائد ہوں گے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال انکار کی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ یہ استفہام تھا کہ اس کی شکل کیا ہو گی۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے بوڑھے اور تمہاری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود بچہ پیدا ہو گا کیونکہ اصل چیز اللہ کی مشیّت ہے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کر لے تو ظاہری اسباب ہرگز مانع نہیں ہو سکتے کیونکہ عالمِ اسباب پر اسی کی حکمرانی ہے۔

حضرت یحیٰؑ کی ولادت کا یہ واقعہ یہاں حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کے واقعہ کی تمہید کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی تو حضرت یحیٰؑ کی پیدائش بھی باپ کے بوڑھے اور ماں کے بانجھ ہونے کے باوجود ہوئی۔ اگر اس غیر معمولی واقعہ نے حضرت یحیٰؑ کو خدائی کا درجہ نہیں دیا تو حضرت عیسیٰؑ کی غیر معمولی ولادت کی بناء پر انہیں کیوں خدائی کا درجہ دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ کے اظہار کے لئے عالمِ اسباب میں تصرّف کرتا رہتا ہے اور غیر معمولی اور خارقِ عادت واقعات ظہور میں لاتا رہتا ہے۔ اس سے توحید کا تصور ابھر تا ہے لیکن بھٹکے ہوئے لوگ اس کو بھی ذریعۂ شرک بنا لیتے ہیں۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تین شبانہ روز بات نہیں کر سکو گے۔ البتہ اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح کر سکو گے۔ زبان کا لوگوں سے بات کرنے کے لئے نہ کھلنا اور اللہ کے ذکر و تسبیح کے لئے کھل جانا توحید کی واضح نشانی اور کسی غیر معمولی واقعہ کے ظہور میں آنے کی علامت تھی۔

اسے گونگے پن سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ گونگے پن میں زبان نہیں کھلتی جبکہ حضرت زکریا کی زبان تسبیح و تہلیل کے لئے کھل رہی تھی۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم نشانی کے ظہور کے لئے منتخب فرمایا تھا اور اس انتخاب میں انہیں دنیا کی تمام عورتوں پر ترجیح دی تھی۔ یہ بہت بڑا شرف ہے جو حضرت مریم کو حاصل ہوا۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے نماز با جماعت کی طرف۔ حضرت مریم چونکہ ہیکل کی معتکف تھیں اس لئے انہیں جماعت کی نمازوں کی سعادت حاصل کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب نبیﷺ سے ہے۔ اوپر جو واقعات بیان کئے گئے ان کے بارے میں فرمایا یہ غیب کی خبریں ہیں۔ اس لئے کہ جس وقت یہ واقعات پیش آئے ہیں نبیﷺ اس موقع پر موجود نہیں تھے اور نہ یہ واقعات اس تفصیل کے ساتھ تورات و انجیل ہی میں موجود ہیں۔ ایسی صورت میں ان واقعات کو اس صحت و صداقت کے ساتھ پیش کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تم خدا کے پیغمبر ہو۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقوق مساوی ہونے کی صورت میں نزاع کے تصفیہ کے لئے قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کرنا جائز ہے۔ اس وقت قرعہ اندازی کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے اپنے قلم دریا میں پھینک دئیے جاتے اور جس کا قلم دریا کے بہاؤ کے خلاف واپس آ جاتا اس کے نام قرعہ نکل آتا۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح حضرت عیسیٰ کا لقب ہے اور عیسیٰ بن مریم کے نام کی صراحت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اس لئے ان کو ان کی والدہ حضرت مریم کی طرف منسوب کیا گیا ورنہ معروف قاعدہ یہی ہے کہ اولاد کو باپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ قرآن میں جن انبیا ء علیہم السلام کا بھی ذکر ہوا ہے ان کے نام کے ساتھ ان کی ولدیت بیان نہیں کی گئی ہے لیکن حضرت عیسیٰؑ کے نام کے ساتھ بالعموم اب مریم کی تصریح کر دی گئی ہے اس سے جہاں حضرت عیسیٰؑ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا اثبات ہوتا ہے وہاں اس سے ان کے خدا کا بیٹا ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ نام کی ترکیب واضح کرتی ہے وہ حضرت مریم کے بیٹے تھے نہ کہ خدا کے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگرچہ کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوں گے لیکن ان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آسکے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ذی وجاہت اور معزز ہوں گے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کا گہوارہ میں بات کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نشانی کا ظہور تھا تاکہ حضرت مریمؑ کی پاکدامنی اور حضرت عیسی علیہ السلام کے معزّز ہونے اور غیر معمولی اوصاف کا حامل ہونے کا اظہار ہو۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھیڑ عمر میں بات کرنے کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ حضرت مریم کے لئے خوشخبری ہو کہ بچّہ بڑی عمر کو پہنچنے والا ہے۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ ان تمام کمالات کے باوجود خدا نہیں ہو گا بلکہ خدا کے نیک بندوں میں سے ہو گا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب سے خاص طور پر شریعت اور حکمت سے روحِ دین مراد ہے۔ شریعت تورات کی خصوصیت یہ اور حکمت انجیل کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی شریعت کے پیرو تھے وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے البتہ انہوں نے دین کی روح کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا جبکہ بنی اسرائیل نے اسے محض رسوم کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا تھا۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کے لئے رسول بنا کر بھیجنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی دعوت غیر اسرائیلیوں کے لئے نہیں تھی کیونکہ پیغمبروں کی دعوت نسل و قوم اور وطن وغیرہ کی بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان تفریق نہیں کرتی البتہ اس وقت کے مخصوص حالات کے لحاظ سے ان کا میدانِ کار محدود تھا اور خاص طور سے بنی اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بگاڑ کے پیشِ نظر ان پر حجت تمام کرنا مقصود تھا۔ اس لئے ان کی دعوت کے اصلِ مخاطب بنی اسرائیل قرار پائے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ معجزات تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو عطا کئے تھے تاکہ ان کے پیغمبر ہونے کی نشانی قرار پائیں۔ معجزہ ایک غیر معمولی اور خارقِ عادت چیز ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ہاتھوں ظہور میں لاتا ہے تاکہ ایک غیر معمولی واقعہ کے ظہور سے لوگ چونک جائیں اور اسے پیغمبر کے مامور من اللہ ہونے کی علامت سمجھ لیں معجزہ پیغمبر اپنی طرف سے نہیں دکھاتا بلکہ خدا کے اذن اور اس کی قدرت سے دکھا تا ہے اور اس کو خدا ہی کی طرف منسوب کرتا ہے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ اسلام ہی کو لے کر آئے تھے انہوں نے تورات کو منسوخ نہیں کیا بلکہ اس کی تصدیق کی اور اس کو قائم کیا انجیل میں آپ کا بیان ہے کہ :۔

” یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ” (متی ۵: ۱۷)

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ان چیزوں کو حلال قرار دینا ہے جن کو فقہائے یہود نے دین میں غلو اور شدت اختیار کر کے حرام قرار دیا تھا اور جو بنی اسرائیل کے گلے کا طوق بن گئے تھے تورات کی اصلِ شریعت پر یہود کے فقیہوں نے یہ جو حاشیہ آرائی کی تھی حضرت مسیح نے اس پر بے دریغ قینچی چلائی اور اس سلسلہ میں جب ان پر علمائے یہود نے بے دینی کا الزام لگایا تو انہوں نے اس کی مطلق پرواہ نہیں کی بلکہ ان کی جھوٹی دینداری کو بے نقاب کیا۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ وہ خدا کو "میرا باپ اور تمہارا باپ” کہتے رہے ہیں لیکن قرآن اس کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انہوں نے اللہ کو "میرا رب اور تمہارا رب” کہا تھا اور صاف لفظوں میں صرف اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا اور خدا تک پہنچنے کی سیدھی راہ بندگیِ رب ہی کو قرار دیا تھا اس سے واضح ہے کہ موجودہ انجیلوں میں خدا کے لئے باپ اور مسیحؑ کے بیٹے کے جو الفاظ ملتے ہیں وہ اصلِ انجیل کے الفاظ کا غلط ترجمہ اور صریح تحریف ہے جو حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے کی گئی ہے ان تحریفات کے باوجود موجودہ انجیلوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا اور سب کا خدا مانتے تھے مثلاً یوحنا کی انجیل میں ہے :۔

"اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں ” (یوحنا ۲۰: ۱۷)

” تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر ” (متی ۴: ۱۰)

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حواریین سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص ساتھی اور مددگار ہیں موجودہ انجیل میں ان کے لئے شاگرد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ وہ شب و روز عیسیٰ علیہ السلام کی تربیت میں رہتے تھے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین اور اس کے رسول کی تائید و حمایت ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں نے اپنے آپ کو "مسلم ” کہا "نصرانی یا عیسائی ” نہیں کہا کیونکہ ان کا دین بھی اسلام ہی تھا نہ کہ نصرانیت۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گواہی اس بات کی کہ ہم نے حضرت عیسیٰؑ کو پیغمبر تسلیم کر لیا اور اسلام ہی کو دین کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانے میں ملک پر رومیوں کی حکومت تھی۔ علمائے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر الزام عائد کر کے کہ یہ شخص قیصر کو خراج دینے سے روکتا ہے اور اسرائیل کا بادشاہ بننا چاہتا ہے حکومتِ وقت کو ان کے خلاف بھڑنے کی کوشش کی اور آپ کو گرفتار کرانے کے اسباب کئے اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے جو خفیہ تدبیریں کیں ان کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "مُتَوَفِّیْکَ” استعمال ہوا ہے جو ” توَفٰی”سے فاعل کا صیغہ ہے۔ توفیٰ کے اصل معنی پورا پورا لینے اور قبض کرنے کے ہیں موت کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے لازمی معنی موت کے نہیں ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اس لفظ کو جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس سے اس کی تائید ہوتی ہے مثلاً وَھُوَالَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ (الانعام :۶۰) "وہی ہے جو تم کو رات میں اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم دن میں کماتے ہو” اس حالت میں نیند کی حالت پر تُوَفّٰی کا اطلاق کیا گیا ہے۔

حَتّٰی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا ط (الانعام :۶۱) "یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ جاتی ہے تو ہمارے فرشتے اسے قبض کر لیتے ہیں ” اس آیت میں فرشتوں کی طرف توفی کی نسبت کی گئی ہے نہ کہ موت کی۔ اس لئے کہ موت دینا اللہ کا کام ہے اور فرشتوں کا کام قبضے میں لے لینا ہے

فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ (النساء :۱۵) "انہیں گھروں میں روکے رکھو یہاں تک کہ موت ان کو آلے”

اس آیت میں توفّٰی کا فاعل موت کو بنایا گیا ہے ظاہر ہے فعل اور فاعل دونوں یکساں نہیں ہو سکتے اس لئے محلِ کلام دلیل ہے کہ یہاں توفٰی کا لفظ موت کے معنی میں نہیں بلکہ جسم سمیت قبض کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور آیت کے سیاق و سباق ، متعلقہ آیات اور احادیث اور تمام قرائن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا اور دشمنوں کی سازشوں سے انہیں محفوظ رکھا۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافروں کے گندے ماحول سے نکال کر ملاء اعلیٰ کے روحانی ماحول میں داخل کروں گا۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نصاریٰ من حیث القوم ہمیشہ یہود پر غالب رہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کوئی قصّہ گوئی نہیں ہے اور نہ نصاریٰ کی طرح رنگ آمیزی کی گئی ہے بلکہ یہ حقیقت واقعہ ہے جسے آیات کی شکل میں نازل کیا گیا ہے۔ یہ باتیں سر تا سر نصیحت اور حکمت سے لبریز ہیں۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش ماں اور باپ دونوں کے بغیر ہوئی تھی لیکن اس کے با وصف وہ خدا نہیں ہیں اور نہ ان کی الوہیت کا کوئی قائل ہے پھر حضرت عیسیٰؑ محض باپ کے بغیر پیدا ہو جانے کی بنا پر خدا کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اتمام حجت کے بعد اللہ کی طرف سے نصاریٰ کو چیلنج تھا کہ اگر وہ اس وضاحت کے بعد بھی حضرت مسیح کے بارے میں اپنے موقف کو صحیح اور نبیﷺ کے موقف کو غلط سمجھتے ہیں تو مباہلہ (دعائے لعنت) کے چیلنج کو قبول کریں لیکن انہوں نے اس کی جرأت نہیں کی۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجران (یمن) کے نصاریٰ کا وفد نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اس موقع پر آپؐ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی لیکن وہ اسے قبول کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور اس کے بغیر ہی صلح کر کے واپس لوٹ گئے جس سے واضح ہو گیا کہ ان کو اپنے موقف کے بارے میں وثوق نہیں تھا برعکس اس کے نبیﷺ اپنے بال بچوں کو لیکر مباہلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے جس سے ثابت ہوا کہ آپ کو اپنے موقف کی صحت و صداقت پر پورا یقین تھا۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موقع کلام دلیل ہے کہ جو لوگ اللہ کو واحد الٰہ ماننے سے انکار کریں اور شرک پر جمے رہیں و ہ مفسد ہیں ، کیونکہ شرک نظام عدل و قسط کے لئے تباہی کا موجب ہے۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان اصلاً مشترک ہے۔ لیکن اہلِ کتاب نے احکامِ الٰہی کی غلط تاویل کر کے شرک اور بدعات کو اپنے دین میں شامل کر لیا ، جس کے نتیجہ میں ایک خدا کے ساتھ تین خداؤں کے تصور کے لئے بھی گنجائش پیدا ہو گئی لیکن ان کی تحریفات کے باوجود موجودہ تورات و انجیل میں بنیادی طور سے توحید کی تعلیم موجو دہے مثلاً تورات میں ہے :۔

"میرے آگے تو اور معبودوں کو نہ ماننا تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمانوں میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا، اور نہ ان کی عبادت کرنا کیوں کہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں” (استثناء ۵: ۷ تا ۹)

اور انجیل میں ہے :۔

"تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر ” (لوقا ۴:۸)

"یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن ’خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ ان سے بڑا اور کوئی حکم نہیں ” (مرقش ۱۲: ۲۹۔ ۳۰)

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے سوا کسی کو رب بنانے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو رب کے نام سے پکار ے بلکہ دلیل شرعی کسی کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو حلال اور اس کے ٹھہرائے ہوئے حرام کو حرام قرار دینا بھی اس کو رب بنا لینا ہے کیونکہ تحلیل و تحریم کا اختیار ، صرف اللہ کو ہے اور اس کے اس اختیار میں کسی کو شریک ٹھہرانا کھلا ہوا شرک ہے جس کو مٹانے اور انسانوں کو اس غلامی سے آزاد کرانے کے لئے اسلام آیا ہے۔ اہلِ مذاہب کی یہ گمراہی رہی ہے کہ وہ اپنے علماء و فقہاء، احبار و رہبان ،صوفیوں اور درویشوں اور پنڈتوں اور جوگیوں کو شریعت الٰہی میں مداخلت اور و حلت و حرمت کا حق دیتے رہے ہیں۔ اسلام اس طرزِ عمل کو شرک اور رب بنا لینے کے مترادف قرار دیتا ہے۔ چنانچہ بعض اہلِ کتاب کے اس اعتراض پر کہ ہم اپنے احبار و رہبان کو رب تو نہیں مانتے نبیﷺ نے فرمایا کہ کیا جس چیز کو وُہ حرام ٹھہراتے ہیں اس کو تم حرام اور جس چیز کو وہ حلال ٹھہراتے ہیں اس کو حلال نہیں ٹھہراتے ؟ انہوں نے اقرار کیا کہ ایسا تو ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا یہی ان کو رب بنا لینا ہے (ابن کثیر ج ۲ ، ص ۳۴۸بحوالہ ترمذی) اس سے واضح ہوا کہ تحریم و تحلیل کا حق کسی کے لئے تسلیم کرنا اس کو رب بنا لینا ہے خواہ آدمی معروف معنی میں اس کی پرستش کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ابراہیم بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل دونوں کے جد امجد ہیں۔ یہود ،نصاریٰ اور مشرکین مکہ سب ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے تھے اور اپنے مذہب کو ان ہی کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ اصل دینِ ابراہیمی ہمارا دین ہے اور قرآن جس دین کی دعوت دیتا ہے وہ ایک نیا دین ہے ان کے اس دعوے اور الزام کی تردید کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ یہودیت اور نصرانیت تو حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد کی چیز ہے پھر حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ ظاہر ہے یہ سراسر جہالت کی بات ہے اسی طرح اہل مکہ کا مشرکانہ مذہب بھی حضرت ابراہیم کے بعد کے دور کا اختراعی مذہب ہے حضرت ابراہیم ہر گز مشرک نہ تھے بلکہ وہ خالص توحید کے علمبردار اور مسلم تھے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ یہود کے گروہ کی ایک سازش تھی کہ اسلام میں داخل ہوں اور پھر اس سے برگشتہ ہو کر اس کے خلاف پروپگنڈہ کریں تاکہ لوگوں کا اسلام پر سے اعتماد اٹھ جائے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جملہ معترضہ ہے جو یہود کی بات کی تردید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا ہے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہود مذہب پرستی کی بات کہتے ہیں لیکن یہ ہدایت کی راہ نہیں ہے۔ ہدایت کی راہ یہ ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت واقعۃً موجود ہو آدمی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور یہ امر واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت قرآن کی شکل میں حضرت محمدﷺ پر نازل ہو گئی ے اس کو محض اس بنا پر قبول نہ کرنا کہ اس پر ہمارے اپنے مذہب کی چھاپ لگی ہوئی نہیں ہے یا ہمارے مذہبی فرقہ کے لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا ہے انسان کو روشنی سے محروم کر دینا ہے اس کے بعد اس کے حصہ میں "مذہب پرستی ” ہی آ جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت نہیں آتی۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ یہود کا قول ہے وہ آپس میں کہتے تھے کہ اس نبی کی بات نہ مانو ورنہ ا س کی نبوت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور اس صورت میں بنی اسرائیل کی یہ امتیازی حیثیت کہ انبیاء اسی کے اندر آتے رہے ہیں ختم ہو جائے گی اور اگر نبوت کو تسلیم کئے بغیر نبی کی ان باتوں کی تائید کی جو آپؐ کی نبوت پر دلالت کرتی ہیں تو قیامت کے دن مسلمانوں کو تمہارے خلاف حجت پیش کرنے کا موقع مل جائے گا۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۹۷)

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نہ تنگ نظر ہے اور نہ اس کا علم محدود ہے کہ نبوت عطا کرنے کے سلسلے میں غلط فیصلہ کر بیٹھے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امیوں سے مراد بنی اسمٰعیل ہیں۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کا یہ قول ان کی ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ انہوں نے خیانت اور سودخوری وغیرہ کی ممانعت کو اپنی قوم کے ساتھ خاص کر رکھا تھا رہیں دوسری قومیں تو ان کے نزدیک ان کے ساتھ بد معاملگی بالکل جائز تھی ان کے مفتیوں نے یہ من گھڑت فتوے تورات میں شامل کر لئے تھے جس کے نتیجہ میں ان کے اندر ایسی قومی عصبیت پیدا ہو گئی تھی کہ وہ اخلاق و معاملات کے دائرہ میں بھی اپنے اور غیر کے درمیان تفریق کرنے لگے تھے اور ان من گھڑت فتووں کی بناء پر غیر اقوام کا مال ہڑپ کر جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے چنانچہ بائبل میں ہے :

” تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا” (استثناء ۲۳:۲۰)

قرآن اس ذہنیت پر سخت گرفت کرتا ہے اور بد معاملگی کو کسی کے ساتھ بھی جائز قرار نہیں دیتا خواہ وہ مسلم ہویا غیر مسلم ، مومن ہو یا کافر ، اپنی قوم کا فرد ہو یا غیر قوم کا۔ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ناپید نہیں جو غیر مسلموں کے سلسلے میں غلط فتووں کا سہار ا لے کر سود جیسی چیز کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن قرآن کی یہ آیت اس قسم کے فتووں کو باطل قرار دینے کے لئے کافی ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے عہد سے مراد اللہ کی بندگی اور اطاعت کا عہد ہے اور قسموں سے خصوصیت کے ساتھ وہ قسمیں مراد ہیں جو لوگوں سے عہد و پیمان کر تے وقت کھائی جاتی ہیں اور تھوڑی قیمت پر بیچنے سے مراد آخرت کے لازوال فائدہ کے مقابلہ میں دنیا کے حقیر مفادات کو ترجیح دینا ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی طرف نظر عنایت نہیں کرے گا۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ یہود کی اس حرکت کی طرف کہ وہ کتمان حق کے لئے کتاب الٰہی کے بعض الفاظ کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ اس کا مطلب کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔

اس کی مثال قرآن کو ماننے والوں میں بھی موجود ہے چنانچہ بعض اہل بدعت جو نبیﷺ کی بشریت کے منکر ہیں آیتقُلْ اِنَّمَااَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔ (کہو میں تمہاری ہی طرح بشر ہوں) کو قُلْ اِنَّ مَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔ (کہو بیشک میں نہیں ہوں تم جیسا بشر) پڑھتے ہیں یعنی انما کو الگ الگ ان ما پڑھتے ہیں جس کا مطلب بالکل الٹ جاتا ہے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے ان تمام مشرکانہ عقائد کی تردید ہوتی ہے جن کو اہل مذاہب نے اپنی مذہبی کتابوں میں داخل کر کے پیغمبروں کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کسی پیغمبر کی یہ تعلیم ہوہی نہیں سکتی کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کا حکم دے یا فرشتوں اور پیغمبروں کو خدائی کا مقام دے ایسی اگر کوئی تعلیم کسی مذہبی کتاب میں ملتی ہے تو وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہے بلکہ یہ من گھڑت باتیں ہیں جو خدا اور پیغمبروں کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔ یہ معیارِ حق ہے جس پر پیغمبروں کی طرف منسوب تعلیمات کو پرکھنا چاہئیے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیاقِ کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہد بنی اسرائیل سے حضرت محمد مصطفیﷺ کی رسالت کے بارے میں لیا گیا تھا۔

چنانچہ تورات و انجیل میں آپ کی رسالت کے سلسلہ میں واضح پیشن گو ئیاں موجود تھیں ، جن کی طرف قرآن نے جابجا ارشادات کئے ہیں اور موجودہ بائبل میں بھی باوجود ترجمہ کی خامیوں اور کھلی تحریفات کے ان پیشن گوئیوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس پختہ عہد کے بعد بھی جو حضرت محمدﷺ کی رسالت کے متعلق لیا گیا تھا جو لوگ اس سے انحراف کر جائیں ان کی یہ جسارت ان کے نافرمان ہونے کا کھلا ثبوت ہے اگر چہ کہ انہوں نے اطاعت و زہد کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو اور اگر چہ کہ دنیا کی نظر میں وہ "مذہبی لوگ ” شمار کئے جاتے ہوں۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں اسلام کو اللہ کے دین سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں جو بہ کثرت مذاہب پائے جاتے ہیں نیز جو اس سے پہلے پائے جاتے تھے اگر چہ کہ وہ سب خدا ہی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں لیکن حقیقتاً اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اللہ کا دین کہلانے کا بجا طور پر مستحق ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اسلام کے واحد دین حق ہونے کی دلیل ہے جب انسان سمیت ساری مخلوق چار و ناچار اللہ کے آگ ے سر افگندہ ہے یہاں تک کہ کافر بھی تکوینی طور پر اللہ کے قانون کے آگے جھکنے پر مجبور ہے ، چنانچہ کٹر سے کٹر کافر بھی پاؤں ہی سے چلتا ، آنکھوں ہی سے دیکھتا اور ناک ہی سے سانس لیتا ہے کہ یہ سب اللہ کے بنائے ہوئے قوانین ہیں جن سے انحراف کسی شخص کے لئے ممکن نہیں تو اپنی اختیاری زندگی میں اس کے لئے یہ کس طرح روا ہوا کہ وہ اپنے کو اللہ کے حوا لے نہ کرے اور اس کی اطاعت سے آزاد ہو کر اپنے لئے کوئی سا ’مذہب ، یا زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ اختیار کر لے ؟

اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اسلام کسی ایک نسل یا ایک گروہ کا دین نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ پورے عالم اور ساری کائنات کا دین ہے اور جو شخص اسلام کو دین کی حیثیت سے اختیار کرتا ہے وہ دینِ کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرتا ہے یا کسی الحاد و بے دینی کا طریقہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے کو دین کائنات سے ہرگز ہم آہنگ نہیں کرتا بلکہ بنیادی حقیقت ہی سے انحراف کرتا ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب سب کو لوٹنا اللہ ہی کے حضور ہے تو جو لوگ ایسے مذہب کو اختیار کرتے ہیں جو اس کا منظور شدہ دین نہیں ہے یا خدا سے بے تعلقی ہی کو اپنا طریقہ زندگی بنا لیتے ہیں وہ اپنے اس سرکشانہ اور باغیانہ رویہ کی کیا توجیہ خدا کے حضور پیش کرسکیں گے ؟

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا صریح اعلان ہے کہ خدا کے ہاں صرف سرکاری سکہ چلے گا اور وہ ہے اسلام۔ اس کے علاوہ جو سکے بھی ہوں گے وہ سب رد اور باطل ٹھہریں گے خواہ وہ کسی مذہب کے نام کا سکہ ہو یا سرے سے اس پر کوئی مذہبی چھاپ لگی ہوئی ہی نہ ہو۔ بالفاظ دیگر خدا سے تعلق کا غیر منظور شدہ طریقہ اختیار کیا گیا ہویا خدا سے بے تعلق ہو کر زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہو۔ ان میں سے کوئی طریقہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہو گا بلکہ آخرت کی عدالت میں ایسے لوگوں پر جعلی سکہ چلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ اور انہیں اپنی جعلسازی کی سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب تک آدمی ظالمانہ روش ترک کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو جائے ہدایت کی راہ اس پر کھلتی نہیں ہے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو زندگی بھر کفر کرتے رہے اور جب موت کی گھڑی آ نمودار ہوئی تو توبہ کرنے لگے ایسے لوگوں کی توبہ میں کوئی خلوص نہیں۔ اس لئے وہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی توبہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخلصانہ ہو اور جس کے پیچھے اصلاح کا جذبہ ہو۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقصود کافروں کی بے بسی کو واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جب کافروں کے ابدی عذاب کا فیصلہ ہو جائے گا تو پھر ان کے لئے نجات کی کوئی صورت بھی ممکن نہیں ہو گی۔ اگر بالفرض کسی کا فر کے پاس زمین بھر سونا ہو تو وہ نجات حاصل کرنے کے لئے اسے فدیہ میں دینے کے لئے بخوشی آمادہ ہو جائے گا لیکن نہ تو اس روز کسی کے پاس دینے کے لئے کچھ ہو گا اور نہ کسی سے کوئی ہدیہ قبول کیا جائے گا۔

دنیا میں جو لوگ نجات اخروی سے بے پرواہ ہو کر صرف دنیا حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں انہیں اپنی اس حماقت کا صحیح اندازہ قیامت ہی کے دن ہو سکے گا۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی نیک کام کو کرنا اور بات ہے اور نیکی کے مقام کو پا لینا اور جہاں رسمی دین داری ہو گی وہاں بظاہر کچھ نہ کچھ خیر اور نیکی کے کام ہوں گے لیکن اپنے پسندیدہ مال میں سے اللہ کے لئے خرچ کرنے اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کا جذبہ مفقود ہو گا اس کے برعکس جہاں حقیقی دین داری ہو گی وہاں آدمی اپنا محبوب مال اللہ کے لئے خرچ کرنے اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کے لئے بہ خوشی آمادہ ہو جائے گا۔ یہ ایک کسوٹی ہے جس پر اللہ کی محبت اور اس کی وفاداری کے دعوے کو پرکھا جا سکتا ہے۔ یہودی انفاق کے معاملہ میں بڑے بخیل واقع ہوئے تھے اس لئے اس کسوٹی نے ان کی دینداری کی حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیا۔

اپنی بہترین چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہترین مثال وہ ہے جو حضرت ابو طلحہؓ نے پیش فرمائی۔ مدینہ میں بیر حاء ان کا پسندیدہ باغ تھا۔ اس باغ میں نبیﷺ تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کا پانی بڑی رغبت سے پیتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ یہ باغ اللہ کے لئے صدقہ ہے۔ اس کو آپﷺ جس طرح مناسب سمجھیں مصرف میں لائیں۔ آپﷺ نے فرمایا یہ مال بہت خوب ہے اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تمہارے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا آپﷺ ایسا ہی کیجئے۔ چنانچہ نبیﷺ نے اس باغ کو ان کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص۳۸۱)

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ جانور ہیں جن کا کھانا شریعت میں حلال ہے۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے وہ پیغمبر تھے اور پیغمبر کسی چیز کو اللہ کے اذن کے بغیر حرام نہیں ٹھہراتا ، اس لئے اس شبہ کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے جو چیزیں اپنے اوپر حرام ٹھہرائی تھیں وہ محض اپنی مرضی کا نتیجہ تھیں۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کا اصل اعتراض یہ تھا کہ قرآن بعض ان چیزوں کو حلال قرار دے رہا ہے جو ملت ابراہیمی میں حرام تھیں خاص طور سے ان کا اشارہ اونٹ کی طرف تھا جس کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے لیکن یہود اس کی حرمت کے قائل تھے چنانچہ تورات میں ہے :

"مگر جو جگالی کرتے ہیں یا جن کے پاؤں الگ ہیں ان میں تم ان جانوروں کو نہ کھانا یعنی اونٹ کو کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اس کے پاؤں الگ نہیں سو وہ تمہارے لئے ناپاک ہے ” (احبار ۱۱:۴)

اس کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ جن چیزوں کو قرآن حلال قرار دے رہا ہے وہ ملت ابراہیمی میں بھی حلال تھیں جن میں اونٹ بھی شامل ہے اور یہ بات نزول تورات سے پہلے کی ہے اس لئے بعد میں جو چیزیں خواہ وہ حضرت یعقوب کے ذریعہ حرام ٹھہرا دی گئی ہوں یا تورات کے ذریعہ ان کی نوعیت بالکل دوسری ہے یعنی وہ بعض خاص وجوہ سے خاص بنی اسرائیل ہی کے لئے حرام ٹھہرا دی گئی تھیں لہٰذا ان کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ اصل ملت ابراہیمی میں حرام تھیں صحیح نہیں ہے۔ یہود کے اس غلط دعوے کی تردید خود تورات سے ہوتی ہے اس لئے کہ تورات میں یہ صراحت کہیں نہیں ہے کہ یہ چیزیں اول روز سے حرام چلی آ رہی تھیں جہاں تک موجودہ محرف تورات کا تعلق ہے اس میں بھی ایسی باتیں موجود ہیں جو اس دعوے کو باطل قرار دیتی ہیں مثلاً نوح علیہ السلام کے قصہ میں ہے :

"ہر چلتا پھرتا جاندار تمہارے کھانے کو ہو گا ہری سبزی کی طرح میں نے سب کا سب تم کو دے دیا مگر تم گوشت کے ساتھ خون جو اس کی جان ہے نہ کھانا ” (پیدائش ۹:۳۔ ۴)

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے گھر سے مراد اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا جانے والا پہلا گھر یا پہلی عبادت گاہ ہے اس آیت میں صراحت کی گئی ہے کہ وہ خانۂ کعبہ ہے جو مکہ میں واقع ہے اور دوسرے مقام پر قرآن نے اس کی تعمیر کے تعلق سے واضح کیا ہے کہ اس کے معمار حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل ہیں اس سے درج ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے :

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے اللہ کی عبادت کے لئے کسی مستقل عبادت گاہ کا وجود نہیں تھا۔

۲۔ جن روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خانۂ کعبہ کو سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تعمیر جدید کی ، ان کی تردید قرآن کے مذکورہ بیان سے ہو جاتی ہے اگر واقعہ وہ ہوتا جو ان روایتوں میں بیا ن کیا گیا ہے تو قرآن اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ معمار اول کا ذکر نہ کرنا اور صرف اس کی تجدید کرنے وا لے کا ذکر کرنا قرآن سے مناسبت رکھنے والی بات نہیں ہے۔ مزید برآں یہ روایتیں حدیث صحیح کا درجہ نہیں رکھتیں ابن کثیر نے بیہقی کی ایک روایت جس میں حضرت آدم علیہ السلام کے کعبہ کو تعمیر کرنے کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ ابن لہیعہ کے مفردات (روایات) میں سے ہے جو ضعیف ہے اور غالباً عبد اللہ بن عمرو پر موقوف ہے (یعنی نبیﷺ کا ارشاد نہیں ہے) (ابن کثیر ج ۱ ص ۳۸۳)

اور تاریخ ابن کثیر میں ہے :

ولم یجیٔ خبر صحیح عن معصوم۔ نبیﷺ سے کوئی صحیح حدیث اس سلسلہ میں وارد نہیں ہوئی ہے (الجامع اللطیف ص۶۹بحوالہ تاریخ ابن کثیر)

۳۔ بیت المقدس کی تعمیر خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد ہوئی ہے چنانچہ بائبل میں صراحت ہے کہ اس کی تعمیر حضرت سلیمانؑ کے ہاتھوں ہوئی :

"اور بنی اسرائیل کے ملک مصر سے نکل آنے کے بعد چارسو اسیویں سال کی سلطنت کے چوتھے برس زیو کے مہینہ میں جو دوسرا مہینہ ہے ایسا ہوا کہ اس نے خداوند کا گھر بنانا شروع کیا ” (۱۔ سلاطین ۶:۱)

اس لئے یہود کا یہ دعویٰ تاریخی طور پر غلط ہے کہ بیت المقدس کو اولیت حاصل ہے۔

۴۔   توحید کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسان۔ اس کے تاریخی شواہد میں سے خانۂ کعبہ ہے جس کی بناء اس شخصیت نے رکھی تھی جس کو دنیا کی تین ملتیں یعنی یہود ، نصاریٰ اور مسلمان (موجودہ دنیا کی اکثریت) اپنا امام تسلیم کرتی ہیں۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بکہ مکہ کا قدیم نام ہے جس کے معنی شہر کے ہیں۔ زبور میں اس کا ذکر آیا ہے لیکن یہود نے تحریف کر کے ’وادی بکہ ، کو ’وادی بُکا ، بنا دیا جس کے معنی ہیں رونے کی وادی !

"وہ وادی بُکا سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں بلکہ پہلی بارش اسے کبوتروں سے معمور کر دیتی ہے۔ وہ طاقت پر طاقت پاتے ہیں ” (زبور ۸۴: ۶۔ ۷)

البتہ انگریزی بائبل میں اس کا ترجمہ Valley of Baca ملتا ہے۔ اس قسم کی تحریفات کے ذریعہ انہوں نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ بیت اللہ اور آخری نبی کو لوگ پہچان نہ سکیں۔ قرآن نے مکہ کے اس قدیم نام کا ذکر کر کے اصل حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی روحانی فیوض کا سرچشمہ۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے توحید کی راہ روشن ہوتی ہے اور انسان کی خدا پرستی کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانیاں توحید کی۔ نشانیاں اس گھر کے مقبولیت کی۔ نشانیاں اسلام کے دینِ حق ہونے کی اور نشانیاں اس بات کی کہ اس گھر کے زیر سایہ عظیم شخصیتوں نے پرورش پائی اور اس نے مجاہدانہ زندگی کی روح ان کے اندرا س طرح پھونکی کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں مغلوب نہ کرسکی۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقام ابراہیم کے معنی ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ مراد وہ جگہ ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ جگہ مسجد حرام ہے نہ کہ بیت المقدس۔ یہود نے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے تورات میں جا بجا تحریفات کی تاہم موجودہ بائبل میں ایسے ارشادات موجو دہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ بائبل کی کتاب پیدائش میں ہے :

اور وہاں سے کوچ کر کے اس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیت ایل مغرب میں اور عین مشرق میں پڑا اور وہاں اس نے خداوند کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور خداوند سے دعا کی اور ابرام سفر کرتا جنوب کی طرف بڑھ گیا ” (پیدائش ۱۲: ۸۔ ۹)

اس میں بیت ایل سے مراد بیت اللہ ہے کیونکہ ایل کو عبرانی میں خدا کہتے ہیں اس لئے بیت ایل کے لفظی معنی ہوئے خانۂ خدا۔ خانۂ کعبہ کے مشرق میں صفا اور مروہ کی پہاڑیاں ہیں کوہ صفا پر ابراہیمؑ کا مسکن تھا اور مروہ پر حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی کا واقعہ پیش آیا۔ جنوب کی طرف حضرت ابراہیم کے بڑھنے کا جو ذکر ہے تو اس سے مراد عرفات کا سفر ہے کیونکہ عرفات بیت اللہ کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔

مقام ابراہیم کا یہ مفہوم اپنے اصل اور وسیع معنی کے لحاظ سے ہے۔ ویسے مقام ابراہیم اس پتھر کو بھی کہتے ہیں جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے خانۂ کعبہ تعمیر کیا تھا اس پتھر پر غیر معمولی طور پر حضرت ابراہیمؑ کے قدم کا نشان ثبت ہو گیا تھا اور آج بھی یہ پتھر قدم مبارک کے نشان کے ساتھ موجو دہے جو خانۂ کعبہ کے پاس مطاف میں رکھا ہوا ہے۔ گویا تاریخ نے ابراہیم علیہ السلام کے نشانِ قدم کو بھی محفوظ رکھا ہے تاکہ آپ کے معمار بیت اللہ ہونے کے بارے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہ رہے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان واضح نشانیوں کے بعد بھی جو لوگ توحید کو قبول کرنے اور بیت اللہ کو مرکز توحید کی حیثیت سے تسلیم کرنے اور بیت اللہ کو مرکز توحید کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوں وہ کافر ہیں اور اللہ کو اپنی نشانیاں واضح کر دینے کے بعد اس بات کی پرواہ نہیں کہ کون کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور کون ایمان کی۔

حج اسلام کا ایک فریضہ ہے اور اس کا پانچواں رکن ہے۔ استطاعت کے باوجود حج نہ کرے اللہ کو اس کی پروا ہ نہیں کہ یہودی ہو کر مرتا ہے یا نصرانی ہو کر۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان شبہات کی طرف جو اہل کتاب ملت ابراہیم ، بیت اللہ اور آخری پیغمبر کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی راہ میں کجی پیدا کرنے کا مطلب اس کے اصل دین میں تحریف کرنا اور اس میں بدعتیں وغیرہ پیدا کرنا ہے۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں دین حق کا گواہ بنا کر کھڑا کیا گیا تھا مگر تم نے شہادت حق کی جگہ شہادت زور اور کتمان حق کو اپنا شیوہ بنا لیا۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ خاص طور سے اہل کتاب کے اس گروہ کی طرف ہے جس کے اعتراضات اور مخالفتوں کا اوپر ذکر ہوا۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسی حالت میں جبکہ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور اس کا رسول بھی تمہارے درمیان موجود ہے اگر تم نے کفر کی راہ اختیار کی تو یہ نہایت سنگین اور انتہائی بد بختی کی بات ہو گی۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو مضبوط پکڑنے کا مطلب اس کے ساتھ گہرا تعلق اور وابستگی پیدا کرنا ہے۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے معیار مطلوب کہ آدمی اللہ سے اس طرح ڈرے جس طرح کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے رہی تقویٰ کی فقہی اور قانونی حد تو اس کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا ہے فَاتَّقُو اللّٰہَ مَاسْتَطَعْتُمْ (اللہ سے ڈرو جس حد تک کہ تمہارے بس میں ہے) (التغابن :۱۶)

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زندگی بھر اسلام پر قائم رہو اور جب اس دنیا سے رخصت ہو تو مسلمان کی حیثیت سے رخصت ہو۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حبل (رسی) سے مراد اللہ کی کتاب (قرآن) ہے جو بندوں کو خد اسے جوڑتی ہے اور جس کی حیثیت عہد اور میثاق کی ہے اس لئے اس کو تھامنا خدا کو تھام لینے کے ہم معنی ہے حدیث میں آتا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض (اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے) (ابن کثیر ج ۱، ص ۳۸۹، بحوالہ طبری)

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمان صرف فرداً فرداً ہی نہیں بلکہ اجتماعی حیثیت میں بھی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں اور امت کے اندر اسی کتاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور وہ اس کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کریں۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تفرقے اس صورت میں برپا ہوتے ہیں جبکہ کتاب الٰہی کے ساتھ تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور عملاً اس کو نقطۂ ارتکاز ، مرجع اور معیار قرار نہیں دیا جاتا گو اظہارِ عقیدت کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ کتابِ الٰہی کو توجہات کا مرکز قرار دینے کے بجائے شخصیتوں کے اقوال اور ان کی کتابوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور پھر عقیدت مندی کے جو حلقے وجود میں آتے ہیں وہ اپنے اپنے "امام” اپنے اپنے "صوفی” اپنے اپنے "بزرگ” اپنے اپنے "قائد ” اور اپنے اپنے "علامہ ” کی رسی کو اتنا مضبوط پکڑ لیتے ہیں کہ اللہ کی رسی ” قرآن ” کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا ذرا احساس نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ شدید اختلافات اور فرقہ بندیاں امت کے اندر ابھرنے لگتی ہیں اور ملت کا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔

افسوس کہ ا س تنبیہ کے باوجود مسلمانوں میں فرقہ بندیاں ہوئیں۔ یہ فرقہ بندیاں اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہیں جبکہ مسلمان بلا لحاظ فرقہ و مسلک کتاب اللہ کو وہی حیثیت دیں جس کی وہ مستحق ہے اور اس کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کریں۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے عربوں کی باہم دشمنی کی طرف جس کے نتیجہ میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے برسر پیکار ہوتا تھا۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس دین کی قدر کرو جس نے تمہارے اندر اخوت اور کمال درجہ کی یکجہتی پیدا کر دی۔ معلوم ہوا کہ اسلام ہی وہ بنیاد ہے جس کو صحیح طور سے اپنانے کی صورت میں انسانی معاشرہ کے اندر حقیقی معنی میں برادرانہ تعلقات ، کامل یکجہتی اور جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر مسلمان کا لازمی وصف ہے جیسا کہ قرآن کی تصریحات سے واضح ہے لیکن دعوتِ دین کا کام تیاری بھی چاہتا ہے اور صلاحیت بھی۔ نیز اس کے لئے وقت نکالنے اور جدوجہد کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس خدمت کے لئے ایک گروہ کا مختص ہونا ضروری ہے تاکہ یہ فریضہ بہ حسن و خوبی انجام پا سکے۔ امت مسلمہ کی یہ عظیم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر سے اہل علم اور با صلاحیت افراد پر مشتمل داعیانِ حق کا ایک گروہ ابھارے اور اس کام کے لئے اس کو ضروری وسائل فراہم کرے۔ اگر امت اس معاملہ میں تساہل برتے گی تو وہ اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے میں کوتاہ کا ر ثابت ہو گی کیونکہ اس امت کو امت وسط اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ اسے شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دینا ہے۔

آیت میں "خیر ” سے مراد دین اسلام ہے جو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور "معروف” سے مراد جانی پہچانی بھلائیاں ہیں مثلاً خدا خوفی ، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، صلۂ رحمی ، ہمسایوں کے ساتھ اچھا برتاؤ، محتاجوں کی مدد ، سچائی و امانت داری ، عدل و انصاف ، مظلوموں کی مدد وغیرہ اور منکر سے مراد وہ برائیاں ہیں جن کا برائی ہونا بالکل واضح ہے مثلاً خدا کا انکار، قتل ناحق، ظلم ، جھوٹ ، بد عہدی، فریب ، بد دیانتی ، یتیموں کا مال ہڑپ کرنا، بخل ، زنا، بے حیائی ، عریانیت وغیرہ۔ یہ وہ معروف اور منکر ہیں جن پر فطرت انسانی معروف اور منکر کا حکم لگاتی ہے۔ اس لئے انسان ان کے بھلائی یا برائی ہونے کو جانتا ہے اور اس لحاظ سے ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار اور خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ اسلام نے بھلائیوں اور برائیوں کی جو تفصیل پیش کی ہے اس میں سر فہرست یہی معروف اور منکر ہیں جن کی نشاندہی فطرت انسانی کرتی ہے۔

معروف پر لوگوں کو مطلع کرنے اور منکر سے انہیں باز رکھنے کے لئے تذکیر و تلقین کی ضرورت ہے اور بعض حالات میں قوت کے استعمال کی بھی۔ اس لئے ایک ایسے گروہ کو ابھارنے کی ہدایت کی گئی ہے جو مخصوص طور سے یہ خدمت انجام دے اور جہاں مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو وہاں اقتدار کا استعمال لازماً بھلائیوں کی پرورش کا سامان کرنے اور برائیوں کو مٹانے کے لئے ہونا چاہئیے۔

۱۳۷ الف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "جو تفرقہ میں پڑ گئے اور جنہوں نے واضح ہدایات پانے کے بعد اختلاف کیا "سے اشارہ یہود و نصاریٰ کی طرف ہے جنہیں تورات و انجیل کے ذریعہ دین کا واضح تصور دیا گیا تھا اور جن پر توحید کا مفہوم اچھی طرح آشکارا کیا گیا تھا۔ نیز دین کی تعلیمات کھول کر بیان کی گئی تھیں لیکن انہوں نے کلامی مباحث اور فقہی موشگافیوں میں الجھ کر ہزار ہا مسائل پیدا کر لئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فرقوں میں بٹ گئے اور اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئے۔

یہاں یہود و نصاریٰ کے طرز عمل کا حوالہ دینے سے مقصود مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن کے ذریعہ جو حق ان پر واضح ہوا ہے اور جو روشن تعلیمات انہیں ملی ہیں اس کی وہ قدر کریں اور گمراہ امتوں کے نقش قدم پر نہ چلیں۔

افسوس کہ اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے قرآن کی پیش کردہ تعلیمات میں یہاں تک کہ عقائد میں بھی نت نئے مسائل پیدا کر دئیے جس سے دین کا تصور بگڑ گیا اور وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئے۔ اور پھر اختلاف کی شدت نے فرقوں کو جنم دیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہر فرقہ کا تصور دین ہی الگ ہے۔ اس صورتحال کا حقیقی اور موثر علاج یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایک ایسا گروہ اٹھ کھڑا ہو جو ہر قسم کی فرقہ وارانہ ، گروہی اور مسلکی تعصبات سے بالا تر ہو کر براہ راست اور بے لاگ طور پر اس دین کی طرف دعوت دے جسے قرآن نے "خیر ” سے تعبیر فرمایا ہے۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر امت اس بنا پر کہ یہی امت دین حق پر قائم ہے اہل کتاب نے انحراف کی راہیں اختیار کر کے اصل دین کو گم کر دیا۔ اب انسانیت کی اصلاح اور رہنمائی و ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو برپا کیا ہے۔ اس امت کا وصف یہ ہے کہ وہ ایمان سے متصف ہو کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اسی بنا پر اس امت کو خیر امت کا لقب عطا کیا گیا ہے نہ کہ نسل و نسب کی بنا پر جیسا کہ اہل کتاب اپنے بارے میں خیال کرتے رہے ہیں۔

خیر امت کے منصب کے ہر طرح سزاوار صحابۂ کرام تھے اور ان کے بعد وہ لوگ جن کے اندر یہ وصف پایا گیا ، رہے و ہ مسلمان جن کو ایمان سے کوئی دلچسپی نہیں اور جن کی ساری دوڑ دھوپ منکر کو قائم کرنے اور معروف کو مٹانے کے لئے ہو تی ہے تو وہ اپنے منصب کو غلط استعمال کرتے ہیں ایسے لوگ حقیقتاً خیر امت کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۱۶۶)

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ یہود و نصاریٰ اگر قرآن اور اس کے لانے وا لے پیغمبر پر ایمان لاتے اور خیر امت میں شامل ہو جاتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ لیکن ان میں ایمان لانے وا لے بہت تھوڑے ہیں اور اکثریت نا فرمانوں اور فاسقوں کی ہے۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس وقت کے اہل کتاب کا حال بیان ہوا ہے کہ وہ نہایت پست ہمت ہیں۔ اس لئے صرف اذیت دینے ہی کی باتیں کرسکتے ہیں۔ ورنہ سچے اہل ایمان کے مقابلہ میں وہ ٹک نہیں سکتے۔ بعد کے واقعات نے قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر دی۔ چنانچہ اہل کتاب کو زبردست شکست کا سامنا کر نا پڑا۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اپنے بل بوتے پر قائم نہیں ہیں بلکہ کہیں اسلامی ریاست نے معاہدے کے تحت ان کو امان دے دی ہے اور کہیں دیگر قوموں نے ان کو سہارا دے دیا ہے یہ سہارے عارضی ہیں۔ ان کی اپنی سطوت و عزت کچھ نہیں ہے۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا پرستی کے غلبہ کے نتیجہ میں آخرت کو ترجیح دینے اور دین کے لئے ایثار و قربانی کا حوصلہ ان کے اندر باقی نہیں رہا تھا اور وہ اخلاقی زوال اور عملی انحطاط کی انتہا ء کو پہنچ گئے تھے۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ان جرائم کی شہادت بائبل میں بھی موجود ہے۔

"اے یروشلم !اے یروشلم !تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پا س بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ” (متی ۲۳: ۳۷)

"تو بھی وہ نافرمان ہو کر تجھ سے باغی ہوئے اور انہوں نے تیری شریعت کو پیٹھ پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو تیری طرف پھرا لائیں قتل کیا اور انہوں نے غصہ دلانے کے بڑے بڑے کام کئے اس لئے تو نے ان کو ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کر دیا ” (نحمیاہ ۹: ۲۶۔ ۲۷)

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جو اللہ سے کئے ہوئے عہد پر قائم تھا۔ یہ لوگ صالح مومن تھے اور جوں جوں ان پر قرآن اور پیغمبر کی حقانیت واضح ہوتی گئی وہ ایما ن لا کر مسلمانوں کے زمرہ میں شامل ہوتے گئے۔ قرآن نے یہاں ایسے ہی اہل کتاب کی تعریف کی ہے۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو کفر پر آمادہ کرنے والی چیزیں یہی مال اور اولاد کی محبت ہے لیکن یہ چیزیں انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گی۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مثال میں ہوا سے مراد خیر و خیرات ہے اور پا لے سے مراد صحیح ایمان کا فقدان اور کفر ہے اور کھیتی سے مراد کشت زار حیات ہے۔ جس طرح ہوا میں جو کھیتی کے لئے ایک مفید چیز ہے اگر پالا ہو تو وہ کھیتی کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ برفباری کھیتی کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح خیر خیرات ایک مفید چیز ہونے کے باوجود جب جذبۂ ایمانی سے خالی ہوتی ہے اور کفر کا زہر اس میں موجود ہوتا ہے تو وہ اجر آخرت تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کے باہر کے کسی فرد کو اپنا راز دار اور معتمد نہ بنائیں اور اس کی وجہ بھی بیان کر دی گئی ہے کہ یہ لوگ اپنی اسلام اور مسلم دشمنی کی بنا پر تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ یہ ہدایت جنگ کے موقع پر دی گئی تھی جبکہ اندیشہ تھا کہ مسلمان یہود سے اپنے پرانے دوستانہ تعلقات کی بنا پر ان کے سامنے جنگی رازوں وغیرہ کا ذکر نہ کر بیٹھیں اس لئے کہ یہود مسلمانوں کے دشمنوں کی پشت پناہی کر رہے تھے اور اسلام کے خلاف ان کے اندر بغض پیدا ہو گیا تھا۔

اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں غلبۂ اسلام کی جدوجہد جہاد کے مرحلہ میں داخل ہو گئی ہو یا جہاں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہو وہاں انہیں جنگی رازوں اور سیاسی حکمت عملی وغیرہ کے سلسلہ میں کا فی محتاط رہنا چاہئیے اور ان لوگوں کو اپنا ہمراز اور معتمد ، بنانے سے احتراز کرنا چاہئیے جنہوں نے ایمان لانے اور ملت اسلامیہ میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم ان کے خیر خواہ ہو لیکن وہ تمہارے بد خواہ ہیں اور بری طرح اسلام اور مسلم دشمنی میں مبتلا ہیں۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود اس بات کے مدعی تھے کہ ہم اللہ اور آخرت کو ، مانتے ہیں اس لئے ہم اہل ایمان ہیں درانحالیکہ وہ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ قرآن کہتا ہے جب تک کوئی شخص بشمول قرآن اللہ کی تمام کتابوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا وہ ہرگز مؤمن نہیں ہے اور اس کا ایمان ہر گز معتبر نہیں۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تصویر ہے ان لوگوں کی جو اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اسلام پھلے پھولے اور ملت اسلامیہ کو غلبہ و اقتدار نصیب ہو۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ہمیشہ عصبیت میں مبتلا رہتے ہیں اور مسلمانوں کی ہر کامیابی ان کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تقویٰ سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اوپر جو ہدایات دی گئیں ان پر عمل کیا جائے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے غزوۂ احد کے حالات و واقعات پر تبصرہ شروع ہوتا ہے ” احد” مدینہ سے تین چار میل کے فاصلہ پر شمال کی جانب ایک پہاڑی ہے جس کے دامن میں یہ جنگ شوال ۰۳ھ (۰۶۲۵ء) میں لڑی گئی کفار مکہ جارح کی حیثیت سے مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے اور انہوں نے احد کے پاس پڑاؤ ڈال دیا تھا۔ نبیﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ کیا کہ مقابلہ مدینہ سے باہر نکل کر کیا جائے یا مدینہ ہی میں ر ہ کر۔ اکثر لوگوں کا مشورہ یہ تھا کہ باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے البتہ منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی کا مشورہ تھا کہ مدینہ ہی میں ر ہ کر مقابلہ کیا جائے۔ نبیﷺ نے مشورے کے بعد باہر نکل کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ فرمایا اور ایک ہزار ، مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے روانہ ہو گئے لیکن راستہ میں عبد اللہ بن ابی یہ کہتے ہوئے اپنے تین سو ساتھیوں کو لیکر الگ ہو گیا کہ ہماری رائے نہیں مانی گئی۔ نبیﷺ کے ساتھ اب صرف سات سو مسلمان رہ گئے تھے اور وہ بھی بے سر و سامانی کی حالت میں۔ لیکن آپﷺ ان ہی کو لیکر آگے بڑھے اور احد پہنچ کر کفار کا مقابلہ کیا جو تعداد میں تین ہزار تھے اور سامان جنگ سے ہر طرح لیس تھے۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قبیلہ خزرج کے بنوسلمہ اور قبیلۂاوس کے بنو حارثہ ہیں۔

جنگ احد میں کفار کی تعداد تین ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعداد صرف ایک ہزار۔ ان میں سے بھی تین سو کی تعداد کو لیکر منافقین کا سردار عبد اللہ بن ابی الگ ہو گیا۔ اس واقعہ کا کچھ اثر مسلمانوں کے دو گروہوں کے حوصلہ پر پڑا،جس کی طرف آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن نے اس پر گرفت کی اور فرمایا کہ راہ خدا میں اہل ایمان کا کارساز اللہ ہوتا ہے اس لئے اس کی مدد پر پورا پورا بھروسہ رکھنا چاہئیے۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدر کی جنگ رمضان ۰۲ھ (مطابق مارچ ۰۶۲۴ء) میں ہوئی تھی جس میں مسلمان غالب رہے تھے۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات نبیﷺ نے اس وقت فرمائی تھی جبکہ عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لیکر واپس ہو گیا۔ اس موقع پر مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ ان تین سو آدمیوں کی جگہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ؟

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی تائید میں فرمائی کہ تین ہزار نہیں بلکہ پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کی جائے گی بشرطیکہ تم ثابت قدم رہو اور تقویٰ اختیار کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو ا اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دی لیکن شکست دے چکنے کے بعد مسلمانوں کے ایک دستہ نے رسول کی ہدایت کی خلاف ورزی کی اور مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو زک پہنچی۔

نشان رکھنے وا لے فرشتوں سے مراد یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا نشان لگائے ہوئے ہوں گے اور خاص اہتمام کے ساتھ اس مقصد کے لئے نازل کئے جائیں گے۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتوں کے ذریعہ مدد کا یہ وعدہ بشارت کے طور پر تھا۔ اگر یہ بشارت نہ بھی دی جاتی تب بھی تمہیں یہی سمجھنا چاہئیے کہ فتح و نصرت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ غالب ہے جسے چاہے غلبہ عطا فرمائے اور حکیم ہے اس لئے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب نبیﷺ سے ہے اور اختیار سے مراد کسی کے بارے میں عذاب الٰہی کے مستحق ہونے کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آج تمہارے اور اسلام کے دشمن بنے ہوئے ہیں ضروری نہیں کہ آئندہ بھی دشمن ہی رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے اور وہ اسلام کی طرف پلٹ آئیں اور اللہ انہیں معاف کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے ظلم کی بنا پر توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور سزا کے مستحق قرار پائیں۔

اس آیت میں توبہ کا جو اشارہ تھا وہ کچھ دنوں کے بعد حقیقت بن گیا چنانچہ یہی دشمنانِ اسلام جو نبیﷺ کے خلاف احد میں صف آراء ہوئے تھے مثلاً ابو سفیان ، خالد بن ولید ، صفوان بن امیہ وغیرہ وہ کچھ عرصہ بعد ایمان لا کر نبیﷺ کے حامی و ناصر بن گئے۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۴۷۸۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوگنے چوگنے سود کی ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف سود در سود حرام ہے بلکہ سود ہر طرح کا حرام ہے خواہ وہ مفر دہو یا مرکب اور اس کی شرح معمولی ہو یا بھاری جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ۲۷۵ سے واضح ہے۔

یہاں دوگنے چوگنے کی صفت محض سود کی قباحت کو واضح کرنے کے لئے ہے تاکہ اس سے پوری طرح نفرت پیدا ہو کیونکہ آدمی ایک مرتبہ جب سود خوری کو جائز کر لیتا ہے تو پھر اسے اس کی بدترین شکل اختیار کرنے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔ سود کی حرمت کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۵۶ تا ۴۶۴۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تم اپنے لئے مادی فوائد کی ایک آب جو حاصل کرنا چاہتے ہو جو چند روزہ دنیا کے لئے ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں بحر بے کراں عطا کرنا چاہتا ہے یعنی ایسی وسیع جنت جس کا عرض آسمان و زمین کے برابر ہے اور جو ابدی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن زمین اور آسمان کے درمیان کی فضا جنت کی فضا ہو گی اور جنتی لوگ اس فضا کی سیر بہ آسانی کر سکیں گے۔ زمین و آسمان کی وسعت کی تمثیل سے جنت کی وسعت کا یہ دھندلا سا تصور سامنے آتا ہے اصل حقیقت اللہ ہی کو معلوم ہے۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے عیسائیوں کے اس عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ گنا ہ کو بخشنے کا اختیار حضرت عیسیٰؑ کو اور ان کے چرچ کے پادریوں کو ہے۔ بائبل میں حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ بات غلط منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا : "جن کے گناہ تم بخشو ان کے گناہ بخشے گئے ہیں جن کے گناہ تم قائم رکھو ان کے قائم رکھے گئے ہیں ” (یوحنا ۲۰:۲۳)

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں تو خدا کی یاد انہیں توبہ و استغفار پر آمادہ کر تی ہے اور وہ گناہ پر جمے نہیں رہتے۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنن سے مراد اللہ کے وہ قاعدے ہیں جن کے تحت وہ قوموں کو سزا دیتا رہتا ہے۔ اس سنت کے مظاہر تباہ شدہ قوموں کے آثار کی شکل میں سرزمین عرب میں موجود تھے مثلاً قوم ثمود اور قوم لوط وغیرہ کے آثار۔ ان علاقوں کا سفر کر کے آدمی ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ جو سفر تلاشِ حقیقت اور تاریخی واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی غرض سے کیا جائے وہ یقیناً مفید ہو گا اور یہاں ترغیب ایسے ہی سفر کو دی گئی ہے رہا وہ سفر جو تاریخی آثار کی محض سیر کرنے اور کھنڈرات کو دیکھ کر اپنی جغرافیائی اور فنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے ہو اس سے عظیم مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حقیقت افروز بیان ہے۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وقتی طور سے تمہیں شکست سے دوچار ہو نا پڑا ہے اور وہ بھی تمہاری اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں تو اس کا ایسا اثر قبول کرنا صحیح نہ ہو گا کہ مستقبل کی طرف سے مایوس ہو کر بیٹھ رہو بلکہ تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور تمہیں یقین رکھنا چاہئیے کہ کفر واسلام کی کشمکش میں بالآخر پلڑا تمہاری ہی بھاری رہے گا اور سربلند تم ہی رہو گے بشرطیکہ تم نے اپنے کو سچا اور پکا مؤمن ثابت کر دکھایا کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اہل ایمان اپنے ایمانی تقاضوں کو پورا کریں اور رسول کی رفاقت میں راہ خدا میں تن من دھن کی بازی لگائیں اور اس کے بعد بھی اللہ کی نصرت سے محروم رہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کا یہ وعدہ حرف بہ حرف پورا ہوا۔

واضح رہے کہ غالب اور سربلند رہنے کا یہ وعدہ افراد سے نہیں بلکہ گروہ مؤمنین سے ہے اور یہ اس صورت میں ہے جبکہ کفر اور اسلام کی جنگ برپا ہو یعنی خالصۃً اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے جہاد کیا جائے اور صبر و تقویٰ کا دامن چھوڑ نہ دیا جائے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے جنگ بدر کی طرف جس میں کافروں کو چوٹ کھانا پڑی تھی۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایام سے مراد وہ تاریخی دن ہیں جن میں قوموں کی فتح و شکست کے واقعات پیش آئے۔ یہ واقعات اللہ تعالیٰ کے قانون ابتلا کے تحت پیش آئے ہیں۔

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہید وہ ہے جو اللہ کی راہ میں مارا جائے اسے شہید کا لقب اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت کی گواہی جان دے کر پیش کرتا ہے۔ شہادت نہایت بلند درجہ ہے اور غزوۂ احد میں جو مسلمان مارے گئے ا س کی حکمت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس اعلیٰ مقام پر فائز کرنا چاہتا تھا۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ خیال غلط ہے کہ حق کی راہ آزمائشوں کی راہ نہیں ہے اور آدمی ایمان لانے کا دعویٰ کر کے سیدھے جنت میں داخل ہوسکتا ہے اور اسے کسی ایسے مرحلے سے گزرنا نہیں ہو گا جس میں اس کے دعوۂ ایمانی کی جانچ ہو اور قربانیوں کا اس سے مطالبہ ہو۔

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان نوجوانوں کی طرف جنہیں جنگ بدر میں شرکت کا موقع نہیں ملا تھا وہ "شہادت ” کی تمنا کا اظہار کر رہے تھے اور اسی شوق شہادت میں انہوں نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تھا۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الٹے پاؤں پھر جانے کا مطلب کفر اور جاہلیت کی طرف پلٹنا ہے۔

یہاں جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں اللہ کے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اسی طرح حضرت محمدﷺ بھی اللہ کے ایک رسول ہیں۔ اس لئے جس طرح دوسرے رسولوں کو موت سے دوچار ہونا پڑا اسی طرح حضرت محمدﷺ کو بھی ایک دن وفات پانا ہے۔ ان کے رسول ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ وفات نہیں پائیں گے یا قتل نہیں ہوسکتے۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے اور اس میں رسولوں کے ساتھ بھی آزمائشیں لگی ہوئی ہیں۔

موقع کلام کے لحاظ سے یہاں اس تاثر کا ازالہ مقصود ہے جو بعض مسلمانوں نے جنگ احد کے موقع پر حضرت محمدﷺ کے شہید ہو جانے کی افواہ کے نتیجہ میں قبول کیا تھا۔ واضح رہے کہ جنگ احد کے موقع پر کافروں نے یہ افواہ اڑائی تھی کہ پیغمبر قتل کر دئیے گئے جس سے مسلمانوں کی صفوں میں وقتی طور پر انتشار پیدا ہو گیا تھا اگرچہ کہ اولوالعزم صحابہؓ نے یہ حوصلہ افزا جواب دیا تھا کہ جس مقصد کیلئے آپﷺ نے جان دی اس کے لئے ہم کیوں نہ جان دے دیں یا یہ کہ جب آپﷺ ہی نہ رہے تو ہمارے رہنے سے کیا فائدہ۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنہوں نے دینِ اسلام کی نعمت پا لینے کے بعد اس کی قدر کی خواہ اس کا رسول ان کے درمیان موجود ہو یا وفات پاچکا ہو ان کو اللہ جزاء سے نوازے گا

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے ہر شخص کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے جو ایک نوشتہ میں درج ہے موت نہ اس سے پہلے آتی ہے نہ اس کے بعد۔ لہٰذا موت کے اندیشہ سے جہاد جیسے دینی فریضہ سے فرار کی راہ اختیار کرنا صحیح نہیں۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان جنگوں کی طرف جو حضرت سموئیلؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قیادت میں لڑی گئیں۔ اس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جنگ احد میں مسلمانوں کو جن شدائد کا سامنا کرنا پڑا اس سے وہ بد دل نہ ہوں۔ راہِ خدا میں جنگ اور مصائب کا پیش آ جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ انبیاء اور ان کے رفقاء کو بھی یہ مراحل پیش آتے رہے ہیں اور ان سے گزر کر ہی وہ بلند مقام کو پہنچ سکے ہیں۔

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان مصیبتوں کے پیش آنے پر انہوں نے خدا اور اس کے رسول کے خلاف باتیں نہیں کیں بلکہ اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے رہے اور اللہ سے اپنے قصوروں کے لئے معافی کے خواستگار ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو دنیا میں بھی سرفرازی نصیب ہوئی اور آخرت میں بھی وہ بہترین انعامات سے نوازے گئے۔

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "محسنین” استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ لوگ جو احسان یعنی حسن عمل کا رویہ اختیار کریں مراد نیک کردار اور خوب کار لوگ ہیں جو اپنے فرائض Duties کو نہ صرف ادا کرتے ہیں بلکہ بحسن و خوبی ادا کرتے ہیں اوپر جن لوگوں کی صفت راہِ خدا میں جاں فروشی بیا ن کی گئی ہے ان کو محسنین کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ احسان کے مفہوم میں دین کے لئے سرفروشانہ جدوجہد کرنا اور اللہ کی خاطر قربانیاں دینا بدرجۂ اولیٰ شامل ہے۔

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایما ن ،عزم اور حوصلہ کی بنیا دہے اس لئے مؤمنوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور یہ بلند حوصلگی مشرکین اور کفار کے دلوں میں رعب پیدا کرتی ہے۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے نصرت بالرعب مسیرۃ شھر (میری ایسے رعب کے ذریعہ مدد کی گئی ہے کہ اگر دشمن ایک ماہ کی مسافت کے بقدر دوری پر ہو تو اس پر بھی رعب طاری ہو گا۔) ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص۴۱۱،بحوالہ صحیحین)

اور واقعات نے اس کی تصدیق کی چنانچہ مسلمانوں کی دھاک قیصر و کسریٰ ہی پر نہیں بیٹھی بلکہ اس کے اثرات ہندوستان اور اسپین تک وسیع ہوئے۔

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ نصرت غزوۂ احد کے موقع پر بھی پورا ہوا چنانچہ مسلمان تعداد میں کم ہونے اور بے سر و سامانی کی حالت میں ہونے کے باوجود مشرکین پر بھاری رہے جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ مشرکین میں سے جو لوگ یکے بعد دیگرے پرچم سنبھال رہے تھے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور بالآخر پرچم زمین پر گر گیا جو اس زمانہ میں شکست کی علامت تھی۔ لیکن اس کے بعد مسلمانوں سے کچھ کمزوریوں کا صدور ہوا جس کے نتیجہ میں انہیں بڑی زک پہنچی۔

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھیں وہ کمزوریاں اور غلطیاں جو غزوۂ احد کے موقع پر عین حالتِ جنگ میں مسلمانوں سے سرزد ہوئیں۔ اول تو مسلمان ابتدائی فتحمندی کو دیکھنے کے بعد ڈھیلے پڑ گئے کہ گویا فتح تو ہمارے لئے مقدر ہی ہے۔

دوسرے یہ کہ اللہ کے رسول نے ایک دستہ پشت کی طرف درّے پر حفاظت کے لئے متعین کیا تھا اور انہیں تاکید کی تھی کہ وہ اسے کسی حال میں نہ چھوڑیں لیکن فتح کو اپنے سامنے دیکھ کر ان کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ ایسی صورت میں اسے چھوڑ کر مال غنیمت حاصل کرنے میں کیا حرج ہے اگر چہ کہ دستہ کے سردار عبد اللہ بن جبیر نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن سوائے چند افراد کے سب نے نافرمانی کی۔ تیسرے یہ کہ وہ حکم رسول کی خلاف ورزی کر کے قبل از وقت مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے اور صرف تھوڑے آدمی اپنی جگہ قائم رہے اس چیز سے دشمن نے فائدہ اٹھایا اور پشت سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے حوصلے پست ہوئے۔ چوتھے یہ کہ مسلمانوں کے بعض لوگوں نے مال غنیمت سمیٹنے میں جلدی کر کے آخرت کے بجائے دنیا پر اپنی نگاہیں جما دیں۔

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کمزوریوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ تم میں دشمن سے مقابلہ کا حوصلہ نہیں رہا۔

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے اللہ کا وعدۂ نصرت غیر مشروط نہیں ہے کہ وہ جو رویہ بھی چاہیں اختیار کریں لیکن خدا کی نصرت ہر حال میں ان کے ہم رکاب ہی ہے بلکہ یہ مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ مسلمان ادائے فرض میں ڈھیلے نہ پڑیں ،اطاعت امر میں اختلاف نہ کریں ، خدا اور رسول کی نافرمانی نہ کریں ، آخرت کو چھوڑ کر دنیا کے طالب نہ بنیں۔ اگر اس طرح کی کوئی چیز ان کے اندر پائی جاتی ہے تو بھی اللہ تعالیٰ یہ نہیں کرتا کہ ان پر غضب نازل کر دے بلکہ ان کو ایسی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے جن سے ان کی یہ کمزوریاں دور ہوں اور وہ خدا کی تائید و نصرت کے حقدار بن سکیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے عفو و درگزر اور اس کے فضل و عنایت ہی کی ایک شکل ہوتی۔ چنانچہ آیت کے آخر میں اس عفو و فضل کی طرف بھی اشارہ فرمایا ” (تدبر قرآن ج ۱، ص۷۹۵)۔

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کی صفوں میں جب انتشار پیدا ہوا تو نبیﷺ نے چند جانباز صحابہ کے ساتھ جن میں حضرت علیؓ ، حضرت ابو بکرؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے جان نثار شامل تھے اپنی جگہ جمے رہے اور مسلمانوں کو آواز دے رہے تھے کہ میری طرف آؤ میں اللہ کا رسول ہوں اس کے بعد خود اللہ کا رسول زخمی ہوا۔

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غم اس بات کا کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو سخت زک پہنچی چنانچہ ستر (۷۰) مسلمان شہید ہوئے جن میں حضرت حمزہؓ اور عبد اللہ بن جحشؓ جیسی ممتاز شخصیتیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی اس پر مزید غم جو پہاڑ کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا وہ اس غلط خبر کا تھا کہ نبیﷺ شہید ہو گئے۔

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ میں ایک موقع ایسا آیا کہ خوف کی شدت کو زائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ کی حالت طاری کر دی۔ یہ حالت اس وقت طاری ہوئی جبکہ لڑائی کچھ دیر کے لئے رک گئی تھی اور مسلمان نبیﷺ کے گرد جمع ہو کر اپنی قوت مجتمع کر رہے تھے۔

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم میں ایک گروہ خدا کے بارے میں بد گمانیوں میں مبتلا رہا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر مدینہ میں رہ کر جنگ لڑی جاتی تو ہم قتل نہ ہوتے اس کی تردید میں فرمایا تمہارا یہ خیال غلط ہے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو نوشتۂ الٰہی غالب آتا اور تمہاری موت وہیں ہوتی جہاں کے لئے مقدر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت کا وقت اور اس کے مرنے کی جگہ لکھ رکھی ہے۔ اور اس کی تصدیق آئے دن کے حادثات سے ہوتی ہے کہ آدمی کا گمان جس جگہ کے لئے نہیں ہوتا وہاں وہ کسی نہ کسی بہانے پہنچ کر رہتا ہے اور اس کی موت واقع ہوتی ہے۔

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد جنگ احد ہے (ملاحظہ ہو نوٹ ۱۵۲)

۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین کی شرارت سے کچھ کمزور قسم کے مسلمان بھی متاثر ہوئے تھے لیکن بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ یہاں اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بعض پچھلے گناہوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں ٹھوکر کھلائی کیونکہ شیطان کا حربہ ان لوگوں پر کارگر ثابت ہوتا ہے جو گناہ کے لئے اپنے نفس کو ڈھیل دے دیتے ہیں۔

۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لو گ اپنی تدبیروں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں وہ قضائے الٰہی کے تحت پیش آ جانے وا لے واقعات کی غلط توجیہ کرتے ہیں اور یہ توجیہ ان کے لئے واضح حسرت بن کر رہ جاتی ہے اور وہ کف افسوس ملتے رہے جاتے ہیں کہ اگر ایسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا۔

۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنے ساتھیوں کی اصلاح کے معاملہ میں جو نرم روش تم اختیار کئے ہو وہ آئندہ بھی برقرار رہے ایسا نہ ہو کہ جن کمزوریوں کا صدور اس وقت (جنگ احد کے موقع پر) ان سے ہوا ہے اس کے پیش نظر تمہارا رویہ ان کے ساتھ سخت ہو جائے بلکہ یہ نرم خوئی ہی انہیں تمہارا گرویدہ بنائے گی اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو سکیں گے۔ واضح ہوا کہ نرم خوئی بہت بڑی اخلاقی خوبی ہے اور ایک داعی اور مصلح میں اس صفت کا ہونا ضروری ہے ورنہ وہ لوگوں کو اپنے سے قریب نہیں کر سکتا اور یہی صفت انسان کو ہر دل عزیز بنا دیتی ہے۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں معاملات میں اہل ایمان سے مشورہ کرتے رہنے کی ہدایت نبیﷺ کو دے دی گئی ہے اور سیاق کلام سے واضح ہے کہ معاملات سے مراد جہاد جیسے مہمات امور ہیں جن کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے کوئی واضح حکم نازل نہ ہوا ہو یا حکم تو نازل ہوا ہو لیکن مسئلہ اس کی تطبیق اور اس کو بروئے کار لانے کے سلسلہ میں تدبر کا ہو ورنہ حکم خداوندی کی موجودگی میں مشورہ کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ مشورہ کے اس حکم پر غور کرنے سے درج ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے :۔

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شورائیت اسلامی اجتماعیت کا ایک اہم ترین اصول اور اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد ی خصوصیت ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشورہ کی ہدایت مہمات امور کے لئے ہے یعنی وہ امور و مسائل جن کا اثر امت کی اجتماعی زندگی پر پڑتا ہو اس میں سیا ست، جنگ ، امن اور اسلامی ریاست سے متعلق تمام امور نیز مصالح امت اور دعوت اسلامی کی جدوجہد سے تعلق رکھنے وا لے جملہ اہم امور و مسائل داخل ہیں۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشورہ کرنے کی ہدایت جب نبیﷺ کو دی گئی تو امت پر اس کی پابندی بدرجۂ اولیٰ عائد ہوتی ہے کیونکہ امت نبی سے زیادہ اس کی ضرورت مند ہے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہمات امور کے بارے میں فیصلہ مشورہ کے بعد کرنا چاہئیے اور یہ فیصلہ (عزم) مشورہ کا نتیجہ ہو بالفاظ دیگر جمہوری رائے فیصلہ کن ہو گی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا اور صاحب امر نے اپنی رائے ہی کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار کیا تو شوریٰ کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور مشورہ بے وقت اور بے اثر ہو کر رہ جائے گا نیز اس سے آمرانہ رجحانات پرورش پائیں گے جس کا نتیجہ حقیقی جمہوریت کے خاتمہ اور آمریت واستبداد کے لئے راہ ہموار ہونے ہی کی شکل میں نکل سکتا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکثریت دلیل صحت نہیں وہ جمہور کے علی الرغم صاحب امر کو فیصلہ کا اختیار دیتے ہیں بالفاظ دیگر وہ صاحب امر کو دلیل صحت تسلیم کرتے ہیں جبکہ یہ مفروضہ ہی سرے سے غلط ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک دلیل صحت کا تعلق ہے نہ جمہور دلیل ہیں اور نہ صاحب امر۔ البتہ مصالح کے پیش نظر اسلام نے جمہور کی رائے کو وزن دیکر اسے فیصلہ کن حیثیت دی ہے جو ایک معقول اور منصفانہ بات ہے اور موجودہ زمانہ میں جبکہ خود رائی اور خواہش پرستی کا زور ہے صاحب امر کو جمہور کی رائے سے آزاد کرنا اور اسے غیر معمولی اختیارات دے دینا شدید خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر قبل از وقت غنیمت لوٹنے میں جو حصہ لیا اس کی وجہ ان کا یہ گمان تھا کہ اگر ہم غنیمت لوٹنے میں شریک نہیں ہوں گے تو ہمیں اس میں حصہ نہیں ملے گا جبکہ فوج کی قیادت اللہ کے نبی کر رہے تھے ایسی صورت میں اس بدگمانی کی کوئی وجہ نہ تھی۔ کیونکہ کوئی نبی امانت و دیانت کے خلاف کوئی کام ہر گز نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ نبی کریمﷺ پر کسی نے خیانت کا الزام لگایا تھا تاہم قرآن نے واضح کیا کہ ایک نبی کسی حال میں خیانت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہوئی تاکہ مال غنیمت وغیرہ کی تقسیم کے سلسلہ میں نبی کے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی نہ ہونے پائے۔

۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیانت کے سلسلہ میں حدیث میں نہایت سخت وعید سنائی گئی ہے اور نبیﷺ نے عمال کو سرکاری خزانہ کے سلسلہ میں اس قدر محتاط رہنے کی ہدایت فرمائی تھی کہ ایک سوئی کا چھپانا بھی ان کے لئے روانہ تھا۔ فرمایا :

یا ایھا الناس من عمل لنا منکم عملاً فکتمنا منہ مخیطا فما فوقہ فھو غل یاتی بہ یوم القیامۃ

"لوگو! تم میں سے جو کوئی ہمارے کسی کام پر مامور ہو اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے کمتر چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے وہ قیامت کے دن لا حاضر کرے گا ” (ابن کثیر ج۱، ص ۴۲۲، بحوالہ احمد)

۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عمل کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں تو نتیجہ کے اعتبار سے کس طرح یکساں ہو سکتے ہیں ؟

۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضروری ہے کہ بھلے اور برے کا فرق کیا جائے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱۴۹إ)

۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اس جنگ میں تمہیں نقصان پہنچا ہے تو اس سے پہلے جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں دشمن کو اس سے دوگنا نقصان پہنچ چکا ہے چنانچہ بد ر میں کفار کے ۷۰آدمی شہید ہوئے تاہم اس جنگ میں بھی مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کے کئی آدمی قتل ہوئے لیکن بعد میں مسلمانوں کو ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے زک پہنچی۔

۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کے نتیجہ میں۔

۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں غالب کرنے پر بھی قادر ہے اور پسپا کرنے پر بھی۔

۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ منافقین کی طرف ہے جنہوں نے موت کے ڈر سے جہاد میں شریک ہونے سے گریز کیا اور بہانہ یہ بناتے رہے کہ ہم سمجھتے تھے کہ جنگ ہو گی ہی نہیں اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ جنگ ہو گی تو ہم ضرور شریک ہوتے لیکن ساتھ ہی ان لوگوں کے بارے میں جو جنگ میں مارے گئے کہتے رہے کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل چیز موت کا ڈر ہے جس کی بنا پر یہ جنگ کے لئے نہیں نکلے۔

واضح رہے کہ ان غزوات میں نبیﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے تھے اور جب نبی خود محاذ پر جنگ لڑ رہا ہو تو اس کو چھو ڑ کر کسی مسلمان کا گھر میں بیٹھ رہنا غیرت ایمانی کے سراسر خلاف تھا اس لئے ایسے مسلمانوں پر جو درحقیقت منافق تھے قرآن میں سخت گرفت کی گئی ہے۔

۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر موت سے بچانا تمہارے اختیار میں ہے تو اپنے آپ کو موت سے بچاؤ۔

۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی راہ میں شہادت ابدی زندگی کی ضمانت ہے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہو نے وا لے مر گئے لیکن درحقیقت موت کا عمل محض جسم کے ساتھ ہوتا ہے روح کے ساتھ نہیں۔ شہید ہونے وا لے کی روح کو عالم بالا میں ایک خاص طرح کی زندگی نصیب ہوتی ہے اور یہ زندگی اس قدر پر مسرت اور پر کیف ہو تی ہے کہ اس کا تصور بھی اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۱۸۵)

صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا "شہدا ” کی روحیں سبز پرندوں کے خول میں ہوتی ہیں اور ان کا مستقر عرش سے لٹکتے ہوئے قندیلوں کے پاس ہوتا ہے وہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں اس کے بعد ان قندیلوں کے پاس واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان سے پوچھتا ہے تمہیں کس چیز کی خواہش ہے ؟ وہ کہتی ہیں ہمیں کس چیز کی خواہش ہوسکتی ہے جبکہ ہم جنت کی جس طرح چاہیں سیر کرسکتی ہیں اللہ تعالیٰ ان سے تین مرتبہ یہ سوال کرتا ہے وہ جب دیکھتی ہیں کہ ان سے بار بار سوال کیا جا رہا ہے تو کہتی ہیں : اے ہمارے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسم میں لوٹا دی جائیں تاکہ ہم دوبارہ تیری راہ میں قتل کر دئیے جائیں اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔

۲۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہداء کی روحیں عالمِ برزخ میں اعزازو اکرام سے نوازے جانے پر بہت خوش ہو جاتی ہیں اور مزید خوشی انہیں اس بات کی ہوتی ہے کہ جن صالح متعلقین کو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ گو ابھی ان سے ملے نہیں ہیں لیکن عنقریب ان سے ملیں گے اور ان کے لئے نہ کسی قسم کا اندیشہ ہے اور نہ رنج و ملال۔

۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ عدالت برپا کرے گا۔

۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو غزوۂ احد کے فوراً بعد پیش آیا احد میں مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لئے کفار مکہ اسی روز واپس روانہ ہو گئے لیکن روحاء کے مقام پر پہنچنے کے بعد جو مدینہ سے تیس میل کے فاصلہ پر ہے ان کو احساس ہوا کہ اس قدر جلد واپس ہو کر انہوں نے غلطی کی۔ اس موقع پر انہیں مدینہ پر حملہ آور ہو نا چاہئیے تھا اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا چاہئیے تھا چنانچہ پھر انہوں نے جنگ کی ٹھان لی ادھر جب نبیﷺ کو ان کے ارادوں کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے اپنے مخلص ساتھیوں کو لے کر ان کے تعاقب میں حمراء الاسد تک پہنچے جو مدینہ سے ۸میل کے فاصلے پر ہے اور یہ واقعہ احد کا دوسرے دن یعنی ۱۶!شوال ۰۳ھ کا ہے جبکہ اس کی اطلاع کفار کو ہوئی تو انہوں نے یہ محسوس کر کے کہ مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں ارادہ بدل دیا اور مکہ واپس ہو گئے ادھر مسلمان اپنی دھاک بٹھا کر کامیاب لوٹے اس آیت میں رسول کے ان ہی مخلص اور وفادار ساتھیوں کا ذکر ہے جنہوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد جرأت کا ثبوت دیا اور ایک نئی مہم پر روانہ ہو گئے۔

۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کے طرف سے خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش ان کے عز م و ایمان میں اضافہ کا مو جب ہوئی گویا ان باتوں نے ان کے عزم و ہمت کے لئے مہمیز کا کام دیا۔

۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پر توکل کی کیفیت اہل ایمان کے اندر عز م اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ یہ کلمات ،حسبنا اللہ ونعم الوکیل ،ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے اس وقت نکلے تھے جبکہ انہیں آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔

۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں شیطان کے ساتھیوں سے مراد کفار کا لشکر ہے۔

اللہ تعالیٰ دراصل کافروں کو ڈھیل اس لئے دیتا ہے تاکہ انہیں غور و فکر اور اصلاح کا پورا موقع ملے اور وہ کسی نہ کسی وقت اپنی غلطی محسوس کر کے ایمان کی طرف پلٹ سکیں۔ لیکن جب وہ اس ڈھیل سے غلط فائدہ اٹھا کر اپنے کفر میں اور پختہ ہو جاتے ہیں تو وہ گناہ پر گناہ ہی کئے جاتے ہیں اور انجام بد سے دوچار ہو جاتے ہیں اس طرح نتیجہ کے اعتبار سے یہ ڈھیل ان کے لئے موجب ہلاکت بن جاتی ہے گویا اللہ تعالیٰ نے انہیں جو ڈھیل دی تھی وہ اسی لئے دی تھی کہ وہ اپنی تباہی کا سامان کریں۔

۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ مسلمانوں کی جماعت کو آزمائشوں سے گزارے گا تاہ سچے اہل ایما ن کا کردار بھی واضح ہو جائے اور منافقین کا بھی۔

۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ غیب کے ذریعہ تمہیں نہیں بتائے گا کہ فلاں مؤمن ہے اور فلاں منافق بلکہ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ ہر ایک کا حال کھل جائے۔

۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اللہ کے بخشے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور اس کے عائد کردہ مالی حقوق کو ادا کرنے سے دریغ کرتے ہیں قیامت کے دن ان کا یہ مال ان کی گردنوں کا بوجھل طوق بنے گا۔ طوق سے اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ اللہ کے حق سے بے نیا ز ہو کر سونے کے جو ہار زیب و زینت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں وہ اس رو ز گلے کا طوق بن جائیں گے۔

۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو مال انسان کو ملا ہے وہ بطور امانت کے ہے بالآخر ساری چیزیں اللہ ہی کی طرف پلٹ جانے والی ہیں اس لئے جس شخص کو مال ملا ہے وہ یہ خیال نہ کرے کہ وہ واقعی مال کا مالک بن گیا ہے بلکہ اس پر اس کا قبضہ اور تصرف عارضی ہے لہٰذا اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر نے میں تامل نہیں کرنا چاہئیے اللہ تعالیٰ کے وارث ہونے کا تصور زر پرستی اور مادہ پرستی کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جب قرآن میں انفاق کی ترغیب میں فرمایا گیا کہ ’کو ن ہے جو اللہ کو قرض دے تو یہود اور بعض منافقین جو یہود میں سے تھے یہ کہہ کر مذاق اڑانے لگے کہ اللہ میاں بھی فقیر ہو گئے ہیں جو ہم سے قرض مانگ رہے ہیں۔

۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انبیاء بنی اسرائیل میں سے بعض رسولوں سے یہ معجزہ صادر ہوا ہے کہ قربانی کی قبولیت کی علامت کے طور پر ، آسمان سے آگ اتری اور اس نے پیش کردہ قربانی کو کھا لیا مثلاً ایلیا نبی کے متعلق ہے :

” تب خداوند کی آگ نازل ہوئی اور اس نے اس سوختی قربانی کو لکڑیوں اور پتھروں سمیت بھسم کر دیا ” (۱۔ سلاطین ۱۸:۳۸)

” اور جب سلیمانؑ دعا کر چکا تو آسمان پر سے آگ اتری اور سوختی قربانیوں اور ذبیحوں کو بھسم کر دیا ” (۲!تواریخ ۷: ۱)

نیز ملاحظہ ہو قضاۃ ۶ ، ج ۱۹ تا ۲۱ ، احبار ۹:

۲۴لیکن کہیں بھی اس کو رسالت کی شرط نہیں قرار دیا گیا تھا کہ جب تک کوئی پیغمبر یہ معجزہ نہ دکھائے اس کی نبوت کو قبول نہ کرنا۔ یہ شرط یہود نے اپنی طرف سے محض شرارتاً پیش کی تھی اس لئے ان کی اس ذہنیت کے پیش نظر یہ جو اب دینے پر اکتفا کیا گیا کہ حضرت محمدﷺ سے پہلے بعض ایسے پیغمبر بھی آ چکے ہیں جنہوں نے سوختی قربانی کا معجزہ پیش کیا تھا پھر بھی تم نے انہیں قتل کیا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو بائبل میں ہے۔ ’ اس نے (ایلیا نے) کہا مجھے خداوند لشکروں کے خدا کے لئے بڑی غیرت آئی کیونکہ بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور میرے مذبحوں کو ڈھایا اور تیرے نبیوں کو تلوا ر سے قتل کیا ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔ ، (۱۔ سلاطین ۱۹: ۱۴)

لہٰذا اگر مطلوبہ معجزہ نبیﷺ کے ہاتھوں دکھا بھی دیا جائے تو یہ لو گ جو شرارت پر اتر آئے ہیں ایمان نہ لانے کے لئے کوئی اور بہانہ تلاش کریں گے۔

۲۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روشن نشانیوں (بینات) میں معجزے بھی شامل ہیں۔

۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص مشاہد ہ کرتا ہے انسان اپنی ساری سائنسی ترقیوں کے با وجود موت پر قابو نہ پا سکا اور انسانی جسم کی ساخت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ آئندہ انسان اس پر قابو پا سکے گا لہٰذا جب موت اٹل حقیقت ہے تو یہ سوال کہ موت کے اس پار کیا ہے انسان کی اولین توجہ کا مستحق ہو جاتا ہے اتنے اہم مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہ کرنا یا کوئی اندھا اور غیر حقیقت پسندانہ عقیدہ اپنے ذہن میں بٹھا لینا وہ بنیادی غلطی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی ساری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے دوسری عظیم حقیقت جس پر قرآن پر دہ اٹھاتا ہے کہ موت انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ موت وہ پل ہے جس کو پار کر کے آدمی عمل کی دنیا سے نتائج کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔

۲۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۶۴۔

۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ حقیقت میں دیندار نہیں ہوتے وہ جب دینداری کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں تو لوگوں سے اپنی دینداری اور پارسائی کی تعریف سننا چاہتے ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ لوگ ان کی تعریف کے قصیدے پڑھتے رہیں۔

۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے آخری سورہ تک کی آیات خاتمۂ کلام کے طور پر ہیں حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نصف شب گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیات تلاوت فرماتے گویا ذکر و فکر کے لئے رات کا آخری حصہ بہترین وقت ہے کیونکہ اس وقت انسان کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔

۲۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے نزدیک دانشمند وہ ہیں جو کائنات کا مطالعہ اس طور سے کرتے ہیں کہ اس کے پیدا کرنے وا لے کی معرفت انہیں حاصل ہو اور اس کی مقصدیت ان پر واضح ہو نہ کہ وہ لوگ جو اس بنیادی سوال کے سلسلہ میں ایک تعصبانہ جواب اپنے ذہن میں رکھ کر فلکیات و طبیعیات وغیرہ کا مطالعہ محض اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی غرض سے کرتے ہیں ایسے لوگ آسمان کی سیر کر کے بھی خالی ہاتھ واپس آتے ہیں انہیں نہ کہیں خدا ملتا ہے اور نہ ان پر آخرت منکشف ہوتی ہے۔ ۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

ظاہر ہے جس کی منزل مقصود "معلومات ” کا حصول ہو اس کی رسائی ’حقیقت ، تک کیوں ہونے لگے ’حقیقت ، تک رسائی تو اسی کی ہو سکتی ہے جس کا سفر "تلاش حقیقت” کے لئے ہو۔

۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آسمان و زمین کی خلقت اور رات اور دن کا یہ نظام اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے اور نہ اس کے بنانے اور چلانے وا لے متعدد خدا ہیں بلکہ یہ ایک خدائے برتر کی تخلیق ، ایک صاحب حکمت کا تیار کردہ منصوبہ ، ایک عادل ہستی کا عادلانہ نظام اور رحمن و رحیم کی رحمت و رأفت کا مظہر ہے لہذا انسان اور اس کائنات کا وجود ہر گز بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ اللہ پاک ہے اس سے کہ کوئی بے مقصد اور فضول کام کرے۔

۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو یاد کرنے کے لئے کسی خاص وقت کی قید نہیں ہے بلکہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں مطلوب ہے خواہ آدمی کھڑا ہو یا بیٹھا ، مشغول ہو یا آرام کر رہا ہو۔ جس طرح سانس انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے اسی طرح اللہ کی یاد روحانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور عقلمندوں کا وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے کسی وقت بھی غافل نہیں ہوتے۔

۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہل دانش کی دوسری خصوصیت ہے کہ ان کا ذکر فکر سے خالی نہیں ہوتا اور اسلام میں یہ دونوں باتیں ہی مطلوب ہیں یعنی ذکر الٰہی کے ساتھ فکر آخرت بھی ہونی چاہئیے۔

۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعا جذبہ ایمانی کے ساتھ تھی اس لئے قبولیت اختیار کر گئی۔

۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی ہے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں سخت مصائب برداشت کرنا پڑ رہے تھے اس میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل تھیں اس لئے ان کا خاص طور سے ذکر کر کے ان کی ڈھا رس بندھائی گئی۔

۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مرد اور عورت دونوں ایک ہی جنس سے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت اور مرد کے لئے فیصلے کے معیار الگ الگ نہیں ہیں لہٰذا کسی کا عورت ہونا اس کے اجر میں ہر گز کمی کا موجب نہ ہو گا۔

۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافروں کی مادی ترقی ، دنیوی خوشحالی اور ان کی بین الاقوامی سرگرمیوں کو دیکھ کر تم اس مغالطہ میں نہ پڑو کہ یہ صحیح اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کی بہار ہے اس کے بعد یہ سیدھے جہنم میں پہنچنے وا لے ہیں۔

۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موقع کی مناسبت سے اس آیت میں کمزور اور مظلوم مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ اگر وہ تقویٰ کی روش پر قائم رہے تو آخرت میں نہایت شاندار طریقہ پر ان کی ضیافت کا سامان کیا جائے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے وفادار بندوں کے لئے بہترین چیزیں تیار کر رکھی ہیں۔

۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ اہل کتاب ہیں جو واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے چنانچہ وہ سابقہ کتب پر ایما ن رکھنے کے ساتھ قرآن پر بھی ایمان لے آئے بالفاظ دیگر یہ اہل کتاب حقیقت میں مسلمان تھے اس لئے نزول قرآن کے بعد ان کو قرآن اور اس کے لانے وا لے پیغمبر پر ایمان لانے میں تامل نہیں ہوا۔

۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تتمّۂ کلام ہے اور اس میں حالات کی رعایت سے وہ ہدایات دی گئی ہیں جو مخالف اسلام طاقتوں سے نبرد آزما ہو نے کے لئے ضروری تھیں۔

۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح تیار رہو۔ لفظ "رابطو”میں جہاد کے لئے مادی تیار ی کرنا ، قوت فراہم کرنا ، حفاظت کا سامان کرنا، پاسبانی کرنا اور لڑنے مرنے کے لئے کمر بستہ رہنا سب شامل ہے۔ حدیث میں "رباط” (جہاد کے لئے تیار رہنے اور پاسبانی کرنے) کو بہترین خدمت قرار دیا گیا ہے :”رباط یوم فی سبیل اللّٰہ خیرمن الدنیا وما علیھا” اللہ کی راہ میں ایک دن کی پاسبانی (رباط) دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ، (ابن کثیر بحوالہ بخاری ج ۱،ص ۴۴۵)

۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا تھا "یہ ہدایت ہے متقیوں کے لئے ” اور یہاں آل عمران کا خاتمہ پر فرمایا کہ” اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو "۔ اس سے واضح ہوا کہ ان دو سورتوں کے اندر جو احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں اور جو ہدایات دی گئی ہیں ان کی نگرانی اور ان کی تعمیل تقویٰ ہے اور متقی وہ ہیں جنہوں نے یہ وصف اپنے اندر پیدا کیا ہو۔

٭٭٭

 

 

 (۴) سورۃ النساء

 

 (۱۷۶ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کا نام النساء ہے۔ یہ نام ان مضامین کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں نساء یعنی عورتوں کے حقوق وغیرہ بیان کئے گئے ہیں۔

 

زمانۂ نزول

 

سورہ مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۂ آل عمران کے بعد کی تنزیل ہے اور اس کے مضامین اواخر ۰۳ھ سے ۰۵ھ تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہوں گے جنہیں بعد میں یکجا کر دیا گیا۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں لیکن اسلوبِ کلام نہ خشک ہے اور نہ پیچیدہ بلکہ نہایت سادہ، دل و دماغ کو اپیل کرنے والا اور بصیرت افروز ہے۔ ان احکام و قوانین کے پہلو بہ پہلو دعوتِ قرآنی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ اصل مقصدِ حیات پر نگاہیں جمی رہیں اور احکام و قوانین کی تعمیل اُن کی سپرٹ کے ساتھ کی جائے نہ کہ محض قانونی اور فقہی انداز میں۔

 

سورہ کے ایک حصے میں منافقین کی حرکتوں اور فتنہ پرداز یوں پر گرفت کی گئی ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت کے حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ منافقین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا نوٹِس لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ دینی احکام اور شرعی قوانین پر صحیح طور پر عمل درآمد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اپنے ایمان میں مخلص ہو، ورنہ اس سے گریز کے لئے وہ ہزار بہانے تراشے گا اور بس چلے تو شرعی قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کرے گا گویا مسلمانوں کے معاشرے کو اصل خطرہ منافقین ہی سے ہے اور شرعی قوانین پر عمل در آمد کی صورت میں یہ لوگ زبردست رُکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں۔

 

نظمِ کلام

 

یہ سورہ ما سبق سورۂ آل عمران سے بھی مربوط ہے اور سورۂ بقرہ سے بھی۔ سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں اہلِ ایمان کو اللہ سے ڈرنے کی تاکید کی گئی تھی (واتقو اللہ) اور اس سورہ کا آغاز ہی تقویٰ کی ہدایت سے ہوا ہے۔ اور عام لوگوں کو خطاب کر کے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ (یا ایہاالناس اتقو ربہم) گویا کہ یہ ایک ہی لَے کے دو سُر ہیں۔ رہا سوال سورۂ بقرہ سے ربط، تو سورۂ بقرہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے سلسلے میں ہدایات دی گئی تھیں، اس سلسلے میں مزید رہنمائی کا سامان اس سورہ میں کیا گیا ہے۔ اس طرح سورہ کا رُخ تکمیلِ شریعت کی طرف ہے۔

 

آیت۔ ۱ کی حیثیت تمہید کی ہے۔ اس میں جو بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ اسلام کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے لئے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔

آیت۔ ۲ تا ۴۳ میں معاشرتی احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں مثلاً یتیموں کے حقوق، قرابت داروں کے حقوق، تقسیمِ وراثت کا ضابطہ، عورتوں کے حقوق، نکاح کے قوانین، جان و مال کا احترام وغیرہ۔ ان احکام کا اختتام نماز سے متعلق احکام پر ہوا ہے۔

آیت ۴۴ تا ۵۷ میں اہلِ کتاب کو ان کی گمراہیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔

آیت ۵۸ اور ۵۹ میں ایمان کے تقاضے پیش کئے گئے ہیں جو اسلامی حکومت اور اسلامی کے نظمِ اجتماعی سے متعلق ہیں۔

آیت ۶۰ تا ۷۰ میں منافقین کی روش پر گرفت کی گئی ہے اور انہیں فہمائش کرتے ہوئے دعوت فکر دی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کے سچّے وفا دار بن کر رہیں گے، انہیں آخرت میں کیسا بلند مقام حاصل ہو گا۔ آیت ۷۱ تا ۱۲۶ کا مضمون بھی اسی سیاق میں ہے منافقین قربانیوں سے جی چراتے تھے، خواہ وہ ہجرت کی راہ میں ہوں یا جہاد کی راہ میں، اس پس منظر میں ہجرت اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ قربانیاں اہلِ ایمان کے لئے باعثِ سعادت ہیں۔ ضمناً جہاد کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل۔ مثلاً صلوٰۃ خوف وغیرہ کے سلسلے میں احکام دئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی منافقین کی فتنہ سامانیوں اور مفسدانہ سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ہی صحیح اور سچا دین ہے۔

آیت ۱۲۷ تا ۱۷۵ کا مضمون سوری کا آخری حصّہ ہے۔ اس میں ان سوالات کے جوابات دئے گئے ہیں جو آغازِ سورہ میں بیان کردہ احکام کے سلسلے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے بعد آخر سورہ تک اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے ہدایات دی گئی ہیں اور منافقین اور اہلِ کتاب کو ان کی بعض گمراہیوں پر متنبّہ کرتے ہوئے اصلاح کی جان متوجّہ کیا گیا ہے۔

آیت ۱۷۶ ضمیمے کے طور پر ہے۔ اس میں وراثت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔

 

             ترجمہ

 

نوٹ: نشان ” *” سے تفسیری نوٹ کے نمبر شمار کی نشان دہی کی گئی ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو ۱* جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۲*  اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کر دیا۳*  اور ان دونوں سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۴*  اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے (حقوق) طلب کرتے ہو۵*  اور قطع رحمی سے بچو ۶* یقین جانو اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیموں ۷*  کا مال ان کے حوالہ کرو اور (ان کے) اچھے مال کو (اپنے) مال سے بد ل نہ ڈالو اور 4623نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھا جاؤ کہ یہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے۸*۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں ۹*  کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۱۰* ، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل۱۱* نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو یا پھر ان عورتوں پر جو تمہارے قبضہ میں آ گئی ہیں ۱۲*  بے انصافی سے بچنے کے لئے یہ زیادہ قرین صواب ہے

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے عطیہ۱۳* کے طور پر دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا مال جسے اللہ نے تمہارے لئے قیام (معیشت) کا ذریعہ ۱۴* بنا یا ہے نادانوں کے حوالہ نہ کرو۱۵* البتہ اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہنا تے رہو اور انکو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے بھلی بات کہو۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی ۱۶* عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ۱۷* پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالہ کر دو۔ اور اس خیال سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے ان کا مال اسراف کر کے جلدی جلدی کھا نہ جاؤ جو غنی ہو اس کو چاہئیے کہ پرہیز کرے اور جو حاجت مند ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے۱۸* پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرو تو اس پر گواہ بنا لو اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ۔ یہ حصہ مقرر ہے۱۹*۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تقسیم کے وقت قرابت دار، یتیم اور مسکین آ موجود ہوں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دو اور ان سے بھلی بات کہو۲۰*۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کو ڈرنا چاہئیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو ان کے معاملہ میں انہیں کیسا کچھ اندیشہ ہوتا ۲۱* لہٰذا انہیں چاہئیے کہ اللہ سے ڈریں اور درست بات کہیں۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر تے ہیں عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا۲۲* (حکم دیتا) ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ۲۳* ہے۔ اگر صرف لڑکیاں ہوں، دو سے زیادہ تو ترکہ میں ان کا حصہ دو تہائی ہو گا۲۴* اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اسے نصف (ترکہ) ملے گا۲۵* اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۲۶*۔ اگر میت کے اولاد نہ ہوں اور صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا۲۷* اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۲۸*۔ یہ حصے میت نے جو وصیت۲۹* کی ہو اس کی تعمیل اور جو قرض ۳۰* چھوڑا ہو اس کی ادائے گی کے بعد تقسیم کئے جائیں۔ تم اپنے باپ اور بیٹوں کے بارے میں نہیں جانتے کہ مفاد کے لحاظ سے، کون تم سے قریب تر ۳۱* ہے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ یقین جانو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ۳۲*۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری بیویوں کے ترکہ میں تمہارا (شوہر کا) نصف حصہ ہے بشرطیکہ ان کے اولاد نہ ہو۔ اگر ان کے اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں تمہارا حصہ ایک چوتھائی ہو گا اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو انہوں نے چھوڑا ہو اور ان کے لئے (یعنی بیویوں کے لئے) تمہارے ترکہ میں چوتھائی حصہ ہے۔ بشرطیکہ تمہارے اولاد نہ ہو۔ اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا ۳۳*۔ اس وصیت کی تعمیل کے بعد، جو تم کر جاؤ اور اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو تم نے چھوڑا ہو۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے کلالہ ہو (یعنی نہ اس کے اولاد ہو اور نہ ہی والد ہی زندہ ہو) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے ۳۴* اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو کی گئی ہو یا اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو میت نے چھوڑا ہو بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۳۵*۔ یہ وصیت حکم) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم والا بھی ہے اور بہت بردبار بھی ۳۶*۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں ۳۷* اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے انہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے (مقرر کردہ) حدود سے تجاوز کرے گا، اسے وہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے ۳۸*۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ۳۹* ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو ۴۰* اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روکے رکھو ۴۱* یہاں تک کہ موت ان کا وقت پورا کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ نکال دے ۴۲*۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں سے جو (مرد عورت) اس فعل کا ارتکاب کریں ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ ۴۳* ، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کرو ۴۴* کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پر توبہ قبول کرنے کا حق تو انہی لوگوں کے لئے ہے جو نادانی میں کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ۴۵* ہیں ایسے ہی لوگوں کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی توبہ توبہ نہیں ہے جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہوتی ہے تو کہنے لگتے ہیں اب میں نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی توبہ حقیقت میں توبہ ہے جو کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں ۴۶*  ایسے لوگوں کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۴۷* اور نہ یہ جائز ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لینے کی غرض سے انہیں تنگ کرنے لگو الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں ۴۸*  ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں (تمہارے لئے) بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۴۹*۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو اور تم نے ایک بیوی کو ڈھیروں مال بھی دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ۵۰* کیا اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے ؟

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اسے کس طرح واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے زن و شوئی کا تعلق قائم کر چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۵۱* ؟

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں ۵۲* مگر جو کچھ اس سے پہلے ہو چکا سو ہو چکا ۵۳*۔ یہ بڑی بے حیائی اور نفرت کی بات ہے اور نہایت برا چلن ہے۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پر حرام کی گئیں ۵۴* تمہاری مائیں ۵۵* ، بیٹیاں ۵۶* ، بہنیں ۵۷* ، پھوپھیاں ، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو۵۸* ، تمہاری رضاعی بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں، تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جن سے تم نے مباشرت کی ہو لیکن جن بیویوں سے تم نے مباشرت نہ کی ہو، ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ۵۹*  اور (حرام کی گئیں تم پر) تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں ۶۰* ، نیز یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرو۶۱* مگر جو پہلے ہو چکا۶۲*۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں ۶۳* سوائے ان کے جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ آ گئی ہوں ۶۴* یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم ہے ۶۵* ان عورتوں کے علاوہ اور عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ اپنے مال کے ذریعہ انہیں قید نکاح ۶۶* میں لانا مقصود ہو نہ کہ شہوت رانی کرنا۔ پھر جن عورتوں سے تم (ازدواجی زندگی کا) فائدہ اٹھاؤ ان کو ان کے مہر فریضہ کے طور پر ادا کرو، مہر مقرر کرنے کے بعد اگر آپس کی رضامندی سے (کمی بیشی کی) کوئی بات طے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۶۷* یقیناً اللہ علیم و حکیم ہے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص تم میں سے آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو وہ ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے جو تمہارے قبضہ میں آ گئی ہوں، اور مؤمنہ ہوں۔ اللہ تمہارے ایمان کا حال بخوبی جانتا ہے۶۸*۔ تم سب ایک ہی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہو ۶۹*۔ لہٰذا ایسی عورتوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو اور معروف کے مطابق ان کے مہر ان کو ادا کرو۷۰*۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ان کو قید نکاح میں رکھا جائے نہ تو وہ شہوت رانی کرنے والی ہوں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کرنے والی۔ اگر قید نکاح میں آنے کے بعد وہ بدکاری کی مرتکب ہوں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے اس کی نصف سزا ان کے لئے ہو گی ۷۱* (لونڈیوں سے نکاح کی) یہ رخصت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۷۲* اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنے احکام واضح کرے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ۷۳* نیز وہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ متوجہ ہونا چاہتا ہے لیکن جو لوگ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے بھٹک کر دور جا پڑو۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کر دے اور (واقعہ یہ ہے کہ) انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۷۴*۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۷۵* البتہ باہمی رضامندی سے لین دین ہو سکتا ہے۷۶* اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۷۷* اللہ تم پر بڑا مہربان ہے ۷۸*۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا ہم اسے ضرور آگ میں جھونک دیں گے اور یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں ۷۹* سے جن سے تمہیں روکا جار ہا ہے بچتے رہے تو ہم تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو دور کریں گے اور تمہیں با عزت جگہ داخل کریں گے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے جس چیز میں ایک کو دوسرے پر فوقیت بخشی ہے اس کی تمنا نہ کرو۸۰* ، مردوں کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق (نتائج میں) حصہ ہے اور عورتوں کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق حصہ۔ البتہ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ یقیناً اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے والدین اور اقرباء میں سے ہر ایک کے ترکہ میں وارث مقرر کئے ہیں ۸۱* ۔ رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہیں تو ان کو ان کا حصہ دو ۸۲*۔ یقین جانو اللہ ہر چیز پر نگران ہے۸۳*۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد عورتوں کے سربراہ ہیں ۸۴*۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے نیز اس بنا پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں ۸۵*  اور اللہ کی حفاظت میں راز کی باتوں کی حفاظت کرتی ہیں ۸۶* اور جن عورتوں سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ، خوابگاہ میں انہیں تنہا چھوڑ دو اور انہیں زود و کوب بھی کر سکتے ہو۸۷*  پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو یقین جانو اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے متعلقین میں سے اور ایک حکم عورت کے متعلقین میں سے مقرر کرو۸۸* اگر دونوں صلح کرا دینا چاہیں گے تو اللہ دونوں (زوجین) کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو۸۹*  اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۹۰*۔ نیز قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، رشتہ دار ہمسایہ۹۱* ، اجنبی ہمسایہ، ہم نشین۹۲* ، مسافر اور لونڈی غلاموں ۹۳*  کے ساتھ جو تمہارے قبضہ میں ہوں حسن سلوک کرو۔ اللہ اترانے والے اور فخر کرنے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۹۴*۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کے لئے کہتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے ناشکری کرنے والوں کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ آخر پر اور جس کا ساتھی شیطان ہو ا تو کیا ہی برا ساتھی ہے یہ !

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا کیا بگڑتا اگر وہ اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے اور اللہ کے بخشے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ؟ اللہ ان کو خوب جانتا ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ذرہ برابر کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا اگر ایک نیکی ہو گی تو وہ اس کو کئی گنا کر دے گا اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۹۵*۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن (ان کا) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور تمہیں ان لوگوں پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے ۹۶*۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول کی نافرمانی کی تھی تمنا کریں گے کہ کاش ان کے سمیت زمین برابر کر دی جاتی وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !نشہ کی حالت۹۷* میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ یہ نہ جانو۹۸* کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت ۹۹* کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو الا یہ کہ رہ گزر میں ہو۱۰۰* اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۱۰۱* (مباشرت کی ہو) اور پانی میسر نہ آئے تو پاک زمین سے کام لو۔ اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کر لو۱۰۲*۔ بے شک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے۱۰۳*۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے۱۰۴* ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ۱۰۵* دیا گیا ہے وہ گمراہی مول لے رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہارے دشمنوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور اللہ رفاقت کے لئے بھی کافی ہے اور اللہ مدد کے لئے بھی کافی ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بات کو اس کی اصل جگہ سے پھیر دیتے ہیں اور دین پر طعن۱۰۶* کرنے کی غرض سے زبان کو تو ڑ مروڑ کر کہتے ہیں سمعنا و عصینا (ہم نے سنا اور خلاف ورزی کی)  اسمع غیر مسمع (سنئے اور نہ سن سکو) اور راعنا (اے ہمارے چروا ہے) ۱۰۷* اگر وہ سمعنا و اطعنا (ہم نے سنا اور اطاعت کی) اور اسمع (سنئے) اور انظرنا (ہماری طرف توجہ فرمائیے) کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، اور یہ بات بھی بالکل درست ہوتی لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے۱۰۸* اس لئے وہ کم ہی ایمان رکھتے ہیں۔ ۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی !ایمان لاؤ اس (کتاب) پر جو ہم نے نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس موجود ہے قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مسخ کر کے پیچھے پھیر دیں ۱۰۹*  یا ان پر بھی اسی طرح لعنت کریں جس طرح سبت والوں ۱۱۰* پر لعنت کی تھی اور اللہ کی بات تو پوری ہو کر رہتی ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ شرک۱۱۱* کو کبھی نہیں بخشے گا اس کے سوا دوسرے گناہوں کو جس کے لئے چاہے گا معاف کر دے گا۱۱۲* اور جو کوئی اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۱۱۳*۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کو پاکیزہ ٹھہراتے ہیں ۱۱۴* حالانکہ پاکیزگی اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور ان کے ساتھ ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ لوگ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور ان کے صریح گناہ گار ہونے کے لئے یہ ایک گناہ ہی کافی ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا یہ جبت۱۱۵* (اوہام و خرافات) اور طاغوت ۱۱۶* پر اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں  کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ اہل ایمان کے مقابلہ میں زیادہ صحیح راستہ پر ہیں ۱۱۷*۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے ان کا تم کوئی مدد گار نہ پاؤ گے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے قبضہ میں سلطنت کا کوئی حصہ آ گیا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں ۱۱۸* کو رتی برابر بھی نہ دیتے۱۱۹*۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر یہ لوگوں سے اس بنا پر حسد کر رہے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے۱۲۰* اگر یہ بات ہے تو (انہیں اس بات کو بھولنا نہیں چاہئیے کہ) ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت سے نوازا تھا اور عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی۱۲۱*۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کسی نے رو گردانی کی اور (رو گردانی کرنے والوں کے لئے) جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کافی ہے۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ان کو ہم آگ میں جھونک دیں گے اور جب کبھی ایسا ہو گا کہ ان کے بدن کی کھال پک جائے گی ہم اس کی جگہ دوسری کھال پید ا کر دیں گے تاکہ وہ (اچھی طرح) عذاب کا مزہ چکھیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زبردست قدرت والا ہے اور حکیم بھی ۱۲۲*۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کرینگے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی نیز انہیں ہم گھنی چھاؤ ں میں داخل کریں گے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں ۱۲۳* کو ان کے حقداروں کے حوالہ کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۱۲۴*  اللہ تمہیں بہترین باتوں کی نصیحت کرتا ہے یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر۱۲۵*  (صاحب اختیار) ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۱۲۶*  اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو یہ طریقہ باعث خیر بھی ہے اور بہتر نتیجہ کا موجب بھی ۱۲۷*۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کتاب تم پر ناز ل کی گئی ہے اس پر نیز تم سے پہلے ناز ل کی گئی تھی اس پر بھی وہ ایمان رکھتے ہیں ، لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کے لئے طاغوت۱۲۸*  (سرکشوں) کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں اس سے انکار کا حکم دیا گیا تھا اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر بہت دور لے جائے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس (حکم) کی طرف جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور آؤ رسول کی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تم سے کترانے لگتے ہیں ۱۲۹*۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس وقت ان کا کیا حال ہو گا جب کہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے ان پر مصیبت آ پڑے گی ؟ اس وقت وہ تمہارے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے کہ ہم تو بھلائی چاہتے تھے اور ہمارا مقصد تو (دونوں کے درمیان) موافقت پیدا کرنا تھا۱۳۰*۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ جانتا ہے تو ان سے صرف نظر کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جانے والی ہو ۱۳۱*۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے جو رسول بھی بھیجا اسی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۱۳۲*  اور یہ لوگ جب اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتے تھے اگر تمہاری خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی دعا کرتا ۱۳۳* تو یقیناً وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا پاتے۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر نہیں (اے پیغمبر !) تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ اپنے نزاعی معاملات میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اسے سر آنکھوں سے تسلیم کر لیں  ۱۳۴*۔ ۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہو تو ان میں سے چند کے سوا کو ئی بھی اس کی تعمیل نہ کرتا ۱۳۵* حالانکہ جس بات کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ی کا باعث اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتی۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں سیدھے راستہ پر چلاتے ۱۳۶*۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ۱۳۷*  یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے رفیق ہیں یہ  ۱۳۸* !

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کا علم کفایت کرتا ہے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنے ہتھیار سنبھالو اور جہاد کے لئے نکلو الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اکٹھے ہو کر ۱۳۹*۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں کوئی تو ایسا ہے جو ٹال مٹول کرتا ہے اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑی مہربانی کی کہ میں ان لوگوں کے ساتھ شریک نہ ہوا۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل ہوتا ہے تو گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تعلق ہے ہی نہیں کہنے لگتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا کہ مجھے بڑی کامیابی حاصل ہو جاتی ۱۴۰*۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اللہ کی راہ میں ان لوگوں کو جنگ کرنی چاہئیے ج دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے فروخت کر دیں ۱۴۱*  اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا پھر وہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اسے ضرور اجر عظیم عطا کریں گے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ان بے بس مرد، عورتوں اور بچوں کی خاطر فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں ۱۴۲*  اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنے پاس سے ہمارا کوئی مدد گار کھڑا کر۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ۱۴۳*  تو تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو۔ یقین جانو شیطان کی چال بالکل بودی ہوتی ہے۱۴۴*۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو ۱۴۵*۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے کوئی اللہ سے ڈر رہا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۱۴۶*۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب !تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کی۔ ہمیں کچھ اور مہلت کیوں نہ دی کہو دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے آخرت کہیں بہتر ہے اور تمہارے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی ۱۴۷*۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جہاں کہیں ہو موت تم کو پالے گی خواہ تم مضبوط قلعوں ہی میں کیوں نہ ہو۱۴۸* اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری وجہ سے ہے۔ کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھ نہیں  پاتے۱۴۹*۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (در حقیقت) تمہیں جو فائدہ بھی پہنچتا ہے اللہ ہی کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو نقصان پہنچتا ہے وہ تمہارے اپنے نفس کے بہ سبب پہنچتا ہے۱۵۰* اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسو ل بنا کر بھیجا ہے اور اس پر اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۱۵۱*۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۱۵۲* اور جو رو گردانی کرتا ہے تو ہم نے تم کو ایسے لوگوں پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے ۱۵۳*۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ (زبان سے تو) کہتے ہیں ہم نے اطاعت قبول کی لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمہاری باتوں کے خلاف رات کو مشورے کرنے لگتا ہے ۱۵۴* اللہ ان کی یہ سرگوشیاں لکھ رہا ہے تو ان کی باتوں پر دھیان نہ دو اور اللہ پر بھروسہ رکھو کہ کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ اس میں بہ کثرت اختلاف پاتے۱۵۵*۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان کے پاس امن یا خطرہ کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں اگر یہ اسے رسول کے سامنے اور اصحاب امر (حکم و اختیار والے) کے سامنے پیش کرتے تو جو لو گ ان میں سے بات کی تہہ تک پہنچنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے۱۵۶* اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے چل پڑتے۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو (اے پیغمبر !) اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنے نفس کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں اور مؤمنوں کو (جنگ کی) ترغیب دو۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے۔ اللہ بڑا زور آور ہے اور سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اچھی بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا۱۵۷* اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب کوئی تمہیں دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے تو تم بھی اس کے جو اب میں بہتر کلمات کہو یا کم از کم ان ہی کلمات کو لوٹاؤ۱۵۸* اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ ضرور تمہیں جمع کرے گا اور کون ہے جس کی بات اللہ سے زیادہ سچی ہو؟

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا بات ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے۱۵۹* ہو حالانکہ اللہ نے انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے الٹا پھیر دیا ہے۱۶۰* کیا تم ایسے لوگوں کو ہدایت دینا چاہتے ہو، جن کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہے (یاد رکھو) جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ کافر ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ۱۶۱*  تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ لہٰذا ان میں سے کسی کو تم اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں ۱۶۲* اور اگر وہ اس سے اعراض کریں تو انہیں جہاں کہیں پاؤ پکڑو اور قتل کرو ۱۶۳* اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مدد گار نہ بناؤ۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان کے جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اسی طرح وہ لوگ بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ لڑائی سے دل برداشتہ ہوں نہ تم سے لڑنا چاہیں اور نہ اپنی قوم سے۱۶۴*۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے۱۶۵*۔ لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کے لئے بڑھیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان کے خلاف اقدام کرنے کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تمہیں ملیں گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بچ کر رہیں اور اپنی قوم سے بھی (لیکن ان کا حال یہ ہے کہ) جب کبھی فتنہ۱۶۶*  کی طرف پھیر دئیے جائیں اس میں گر پڑیں۔ اگر یہ تم سے کنارہ کش نہ رہیں اور تمہاری طرف صلح کے لئے ہاتھ نہ بڑھائیں اور جنگ سے اپنے ہاتھ نہ روکیں تو انہیں جہاں کہیں پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو۔ ان لوگوں کے خلاف ہم نے تمہیں کھلا اختیار دے دیا ہے ۱۶۷*۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے الا یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جس شخص نے کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو اسے چاہئیے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے۱۶۸*  اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ۱۶۹* الا یہ کہ وہ (خون بہا) معاف کر دیں لیکن اگر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور وہ خود مومن ہو تو ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرنا ہو گا اور اگر وہ کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو خون بہا بھی دینا ہو گا اور ایک مومن کو بھی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا ۱۷۰* جسے یہ میسر نہ ہو وہ دو ماہ تک متواتر روزے رکھے۱۷۱*  توبہ کا یہ طریقہ اللہ کا مقرر کیا ہوا ہے۱۷۲* اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس شخص نے کسی مومن کو قصداً قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت ہوئی اور ایسے شخص کے لئے اس نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۱۷۳*۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے محض اس بنا پر کہ دنیوی زندگی کا فائدہ مطلوب ہے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں ہے۱۷۴* (تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ کے پاس بہ کثرت اموال غنیمت ہیں۔ تمہارا حال بھی تو پہلے ایسا ہی تھا لیکن اللہ نے تم پر فضل فرمایا ۱۷۵*۔ لہٰذا تحقیق کر لیا کرو تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مومنوں میں بلا عذر بیٹھ رہنے والے اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں اللہ نے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجہ کے اعتبار سے فضیلت بخشی ہے اور دونوں ہی سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۱۷۶* مگر مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی طرف سے درجے ہیں اور مغفرت و رحمت اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم ڈھایا ہے ان کی جان جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ اس میں ہجرت کر جاتے ؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے ۱۷۷*۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ وہ بے بس مرد، عورتیں اور بچے جو نہ تو کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ (ہجرت کی کوئی) راہ پاتے ہیں۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کو امید ہے کہ اللہ معاف کر دے گا اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۱۷۸* اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اسے موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا۱۷۹*۔ اللہ بہت بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم سفر میں نکلو تو نماز میں قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں تکلیف دیں گے ۱۸۰* کافر تو ہیں ہی تمہارے کھلے دشمن

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم (اے پیغمبر !) ان (مسلمانوں) کے درمیان موجود ہو اور نماز میں ان کی امامت کر رہے ہو تو چاہئے کہ ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو جائے اور اپنے ہتھیار لئے رہے جب وہ سجدہ کر چکے تو وہ تمہارے پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے تمہارے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے اور چاہئے کہ وہ اپنی حفاظت کا سامان اور اپنے اسلحہ لئے ہوئے ہو ۱۸۱*۔ کافر چاہتے ہیں کہ تم اپنے اسلحہ اور سامان (جنگ) سے ذرا بھی غافل ہو تو وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں۔ البتہ اگر بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تم اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو پھر بھی اپنی حفاظت کے سامان لئے رہو ۱۸۲*۔ یقین جانو اللہ نے کافروں کے لئے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ۱۸۳* اور جب اطمینان کی حالت میسر آ جائے تو پوری نماز قائم کرو ۱۸۴* بیشک نماز اہل ایمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کر دی گئی ہے ۱۸۵*۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دشمنوں کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ۔ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو وہ بھی تمہاری ہی طرح تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو ۱۸۶* جس چیز کی امید وہ نہیں رکھتے۔ اللہ علم والا بھی ہے اور حکمت والا بھی۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ ناز ل کی ہے تاکہ جو حق اللہ نے تمہیں دکھایا ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو ۱۸۷*۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ سے مغفرت مانگو بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کی وکالت نہ کرو جو اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو بد دیانت اور معصیت کیش ہوں۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگوں سے چھپتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپ سکتے۔ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ وہ رات کو اس کی مرضی کے خلاف مشورے کر رہے ہوتے ہیں ۱۸۸* وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ تم ہو کہ دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑا کر لیا لیکن قیامت کے دن کون ہو گا جو ان کی طرف سے اللہ سے جھگڑا کرے گا یا کو ن ان کا ذمہ دار بنے گا ۱۸۹* ؟

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہو یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور پھر اللہ سے بخشش مانگے تو وہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا ۱۹۰*۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص بھی برائی کماتا ہے اس کی کمائی کا وبال اسی پر ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکمت رکھنے والا ہے۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جس شخص نے کسی گناہ یا جرم کا ارتکاب کر کے اس کا الزام کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا ۱۹۱*۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تی تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں غلط راستہ پر ڈال دینے کا قصد کر ہی لیا تھا حالانکہ یہ اپنے ہی کو غلط راستہ پر ڈال رہے ہیں۔ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ نے تم پر کتاب و حکمت نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا اللہ کا تم پر بہت بڑا فضل ہے۱۹۲*۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۱۹۳*۔ ہاں جو شخص پوشیدگی میں صدقہ یا بھلی بات یا لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کے لئے کہے تو اس میں ضرور بھلائی ہے۱۹۴*۔ اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسے کام کرے گا اسے ہم اجر عظیم سے نوازیں گے۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مؤمنین کی راہ کو چھوڑ کر۱۹۵* کسی اور راہ کو اختیار کرے گا ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جس کی طرف وہ پھر ا اور اسے جہنم میں داخل کرینگے جو بہت بری جگہ ہے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اس بات کو ہر گز نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک۱۹۶* ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہے گا بخش دے گا۱۹۷* اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ بھٹک کر بہت دور جا پڑا۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اس کو چھوڑ کر دیویوں کو پکارتے ہیں ۱۹۸* اور (حقیقت یہ ہے کہ) یہ شیطان سرکش ہی کو پکارتے ہیں ۱۹۹*۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اس پر لعنت فرمائی ہے۲۰۰* اس نے (اللہ سے) کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقر رہ حصہ لے کر رہوں ۲۰۱*  گا۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ضرور ان کو بہکاؤں گا، ان کو امیدیں ۲۰۲* دلاؤں گا، انہیں حکم دوں گا تو وہ جانوروں کے کان چیریں گے۲۰۳* اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی، ساخت میں تبدیلی کریں گے۲۰۴* اور جس نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنا لیا وہ صریح تباہی میں پڑ گیا۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ان سے وعدے کرتا اور امیدیں دلاتا ہے اور شیطان کے وعدے تو سراسر فریب ہیں۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ اس سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ پائیں گے۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں رواں ہوں گی وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بڑھ کر کو ن اپنی بات میں سچا ہو سکتا ہے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نجات) نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو کوئی برائے کرے گا اس کا بدلہ پائے گا ۲۰۵* اور پھر اللہ کے مقابلہ میں نہ اسے کوئی حامی ملے گا اور نہ مددگار۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مؤمن تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دین کے معاملہ میں اس سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو اللہ کے حوالہ کر دیا اور وہ نیکو کار بھی ہے اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی جو راست رو تھا اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا مخلص دوست۲۰۶* بنا لیا تھا۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۲۰۷*۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۲۰۸*  کہو اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے نیز (ان احکام کی یاد دہانی کراتا ہے) جو تمہیں کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں سنائے جا رہے ہیں ۲۰۹* وہ یتیم لڑکیاں جنہیں تم ان کا مقر رہ حق نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو ۲۱۰* اسی طرح بے سہارا بچوں کے بارے میں جو احکام دئیے گئے ہیں ۲۱۱* (ان کی بھی یاد دہانی کراتا ہے) نیز اس حکم کی بھی کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کرو ۲۱۲* اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ دونوں باہم صلح کر لیں اور صلح کرنا ہی بہتر ہے ۲۱۳*۔ طبیعتیں تنگ دلی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں ۲۱۴* لیکن اگر تم اچھا سلوک ۲۱۵* کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقین جانو تم جو کچھ کرو گے اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم عورتوں کے درمیان عدل کرنا چاہو بھی تو پورا پورا عدل نہیں کر سکتے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہئیے کہ ایک ہی کی طرف جھک پڑو اور دوسری کو اس طرح چھوڑ دو کہ گویا وہ معلق ہے اور اگر تم معاملہ درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۲۱۶*۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو (دوسرے سے) بے نیاز کر دے گا ۲۱۷*۔ اللہ بڑی وسعت والا اور بڑی حکمت والا ہے۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات اللہ ہی کی ملک ہیں تم سے پہلے جن کو کتاب دی گئی تھی انہیں بھی ہم نے یہ ہدایت کی تھی اور تمہیں بھی یہ ہدایت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو گے تو (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے۔ اللہ بے نیاز اور کمالات سے متصف ہے۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے۲۱۸* اور کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم کو ہٹا دے اور (تمہاری جگہ) دوسروں کو لے آئے اللہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص دنیا کے اجر کا طالب ہو تو (اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کا اجر ہے۲۱۹* اور اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے اور اللہ کی خاطر گواہی دینے والے بنو اگر چہ یہ گواہی خود اپنی ذات، تمہارے والدین اور تمہارے قرابت داروں کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتی ہو۲۲۰*۔ اگر کوئی امیر ہے یا غریب ہے تو اللہ کا حق ان پر سب سے زیادہ ہے۲۲۱* لہٰذا خواہشات کی پیروی میں عدل سے گریز نہ کر و اور اگر تم نے گول مول کہا یا پہلو تہی کی تو یاد رکھو اللہ تمہاری کاروائیوں سے باخبر ہے۲۲۲*۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !ایمان لاؤ۲۲۳* اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے اور جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخر سے کفر۲۲۴* (انکار) کیا وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا اور نہ ان کو راہ دکھائے گا۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو مؤمنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنا تے ہیں کیا وہ ان کے پاس عزت کے خواہاں ہیں ؟ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے ۲۲۵*۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی کتاب میں تم پر یہ ہدایت نازل کر چکا ہے۲۲۶* کہ جن تم سنو (یا دیکھو) کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ نہ جائیں ورنہ تم بھی ان ہی جیسے ہو جاؤ گے۲۲۷* اللہ سب منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ تمہارے معاملہ میں نتیجہ کے منتظر ہیں اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح نصیب ہو جائے تو کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری ہو جائے تو کہیں گے کیا ہم تم پر غالب نہ آ گئے تھے ؟ پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچا لیا تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور اللہ کافروں کے لئے مؤمنوں پر غالب آنے کی ہر گز کوئی سبیل نہ رکھے گا۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں ۲۲۸* حالانکہ اللہ ہی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ محض لوگوں کو دکھانے کے لئے۲۲۹* اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۲۳۰*۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں کے درمیان ڈانواں ڈول ہیں نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف اور جسے اللہ بھٹکائے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے ۲۳۱*۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اہل ایمان کے بجائے کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۲۳۲*۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح حجت قائم کر لو؟

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ۲۳۳*  میں ہوں گے اور تم ان کا کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں اور اللہ سے اپنا تعلق استوار کریں اور اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر دیں ۲۳۴*  ایسے لوگ ضرور مؤمنین کے ساتھ ہوں گے اور اللہ مؤمنوں کو ضرور اجر عظیم عطاء فرمائے گا۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم شکر کرو۲۳۵*  اور ایمان لاؤ تو اللہ کو تمہیں عذاب دے کر کیا کرنا ہے ؟ اللہ بڑا قدردان۲۳۶*  ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو یہ بات پسند نہیں کہ (تم کسی کی) برائی کے لئے زبان کھولو الّا یہ کہ کسی پر ظلم ہو ا ہو۲۳۷*  (اور وہ اس کی مذمت کرے) اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۲۳۸*۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو یا چھپا کر کرو یا کسی برائی سے درگزر کرو تو (دیکھو) اللہ معاف کرنے والا ہے (جبکہ وہ سزا دینے پر) پوری قدرت رکھتا ہے ۲۳۹*

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بین بین کو ئی راہ اختیار کریں۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں ۲۴۰* اور کافروں کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی ان کو وہ ضرور ان کا اجر دے گا۲۴۱* اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۲۴۲*۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر !) اہل کتاب تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرا دو، وہ اس سے بھی بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اللہ کو کھلم کھلا دکھلا دو اور ان کی ظالمانہ حرکت کی وجہ سے کڑک (بجلی) نے انہیں پکڑ لیا تھا ۲۴۳* پھر باوجودیکہ واضح نشانیاں ان کے پاس آ چکی تھیں انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ۲۴۴* پھر بھی ہم نے (ان کی) اس حرکت سے در گزر کیا اور موسیٰ کو صریح حجت عطا کی۲۴۵*۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ان سے عہد لینے کے لئے (کوہ) طور ان پر کھڑا کیا تھا ۲۴۶* ، اور حکم دیا تھا کہ دروازے میں سجدے کرتے ہوئے داخل ہو۲۴۷* ، اور ہدایت کی تھی کہ سبت کی خلاف ورزی نہ کرو ۲۴۸* اور ہم نے ان سے شریعت کی پابندی کا پختہ عہد لیا تھا۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان کی عہد شکنی کی وجہ سے (ہم نے ان پر لعنت کی) ۲۴۹* اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ۲۵۰* اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے نیز کہا کہ ہمارے دل بند ہیں ۲۵۱* حالانکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (وہ ملعون ہوئے) اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور مریم پر بہت بڑا بہتان لگایا ۲۵۲*۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے اس دعوے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کر دیا۲۵۳*۔ حالانکہ نہ تو وہ قتل کر سکے اور نہ صلیب پر چڑھا سکے بلکہ (صورت واقعہ) ان پر مشتبہ ہو گئی۲۵۵*۔ اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ۲۵۶* وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو اس (حقیقت حال) کا کوئی علم نہیں ہے۔ بلکہ گمان کی پیروی کر رہے ہیں ۲۵۷* یقیناً انہوں ۲۵۸* نے اسے قتل نہیں کیا۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۲۵۹*۔ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۲۶۰*۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اہل کتاب میں سے ایسا کوئی نہ ہو گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے ۲۶۱* اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دے گا ۲۶۲*۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الغرض ۲۶۳* یہود کی ان ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے ہم نے کتنی ہی پاک چیزیں ان پر حرام کر دی ہیں جو (پہلے) ان کے لئے حلال تھیں اس وجہ سے بھی کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا ۲۶۴* اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریقہ سے کھانے لگے اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۲۶۵*۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ ان میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ ہیں ۲۶۶* اور جو ۲۶۷* مومن ہیں وہ اس (ہدایت) پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی یہ لوگ نماز قائم کرنے والے، زکوٰۃ ادا کرنے والے ۲۶۸* اور اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھنے والے ہیں ایسے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے۔

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے ۲۶۹* جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی اور ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد یعقوب۲۷۰* ، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی بھیجی تھی ۲۷۱*۔ نیز ہم نے داؤد کو زبور ۲۷۲* عطا کی تھی۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی بھیجی جن کا حال اس سے پہلے تم سے بیان کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا ۲۷۳* اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ فی الواقع کلام کیا جاتا ہے۲۷۴*۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب رسول خوش خبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے کوئی عذر نہ رہ جائے۲۷۵*۔ اللہ غالب بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اس کے با وجود اگر یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے۲۷۶* اور فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں گو اللہ کی گواہی کافی ہے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا اور اللہ کے راستے سے روکا وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم ڈھایا اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا۔

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجز جہنم کی راہ کے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لئے ایسا کرنا بالکل آسان ہے۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو !یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آ گیا ہے۔ ایمان لاؤ تمہارے حق میں بہتر ہو گا اور اگر کفر کرتے ہو تو (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہل کتاب!اپنے دین میں غلو نہ کرو ۲۷۷* اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۲۷۸*۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کے رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے، جس کو اللہ نے مریم کی طرف القا کیا اور اس کی جانب سے ایک روح ہے ۲۷۹* پس تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں ۲۸۰* باز آ جاؤ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی ایک خدا ہے۔ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کے اولاد ہو۔ آسمانوں اور زمینوں کی ساری چیزیں اسی کی ہیں اور ان کی خبر گیری کے لئے اللہ کافی ہے۲۸۱*۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح کو ہر گز اس بات سے عار نہیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب فرشتوں کو اس سے عار ہے اور جو کوئی اس کی بندگی کو عار سمجھے گا اور تکبر کرے گا تو وہ وقت دور نہیں جب اللہ سب کو اپنے حضور جمع کرے گا۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور جنہوں نے نیک عمل کئے تھے پورا پورا اجر دے گا اور اپنے فضل سے مزید عطا فرمائے گا برخلاف اس کے جنہوں نے اس کی بندگی کو عار سمجھا تھا اور تکبر کیا تھا ان کو وہ درد ناک سزا دے گا اور وہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کو اپنا دوست یا مددگار نہ پائیں گے۔

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح حجت آ گئی ہے۲۸۲* اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین ۲۸۳* نازل کیا ہے۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں گے اور اس کو مضبوط پکڑ لیں گے انہیں وہ اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور اپنی طرف راہ راست کی ہدایت بخشے گا۲۸۴*

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں ۲۸۵*  کہو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۲۸۶* اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو۲۸۷* تو اسے اس کے ترکہ کا نصف ملے گا اور (اگر بہن مر جائے اور بھائی زندہ ہو تو) وہ اس بہن کا وارث۲۸۸* ہو گا بشرطیکہ اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو اگر بہنیں دو ہوں تو وہ اس کے تر کہ کا دو تہائی پائیں گی۲۸۹* اور اگر کئی بھائی بہن ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا ۲۹۰* اللہ تمہارے لئے (احکام) واضح فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ اور (یاد رکھو) اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

 

                   تفسیر

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ میں جو انسانی حقوق اور جو معاشرتی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ان کے لئے یہ ہدایت بمنزلۂ اساس کے ہے اور یہ واقعہ ہے کہ سچی خدا خوفی انسان کے اندر انسانیت پیدا کرتی ہے اور اسے دوسرے انسانوں کے حقوق ادا کرنے اور بالخصوص کمزور طبقات کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرنے پر آمادہ کرتی ہے جو جو لوگ مذہب بیزاری کی بنا پر خدا خوفی کو بے وقعت قرار دیتے ہیں اور پھر انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے منصوبے بناتے ہیں وہ ہوا میں قلعے تعمیر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے میں بالکل ناکام ہیں جو انسانیت کے سچے بہی خواہ، ان کے حقوق کے محافظ، اور فرض شناس ہوں بخلاف اس کے قرآن کی اس ہدایت کو جس نے بھی اپنایا یعنی خدا خوفی اپنے اندر پیدا کر لی وہ واقعی انسانیت کا علمبردار بنا۔ قرآن نے ہر دور میں اس کی بہترین مثالیں پیش کیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے چنانچہ آج بھی انسانیت نوازی کا حقیقی وصف ان ہی لوگوں کے اندر ملے گا جنہوں نے قرآن کی اس تعلیم خدا خوفی کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آدم سے جو تمام انسانوں کے باپ ہیں۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حوا کی پیدائش آدم ہی سے ہوئی۔ قرآن کا یہ بیان کہ تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حوا کی پیدائش آدم سے ہوئی تھی اگر حوا کی پیدائش علیحدہ سے ہوئی ہوتی تو کہا جاتا کہ تم کو دو جان سے پیدا کیا۔ رہی حوا کی پیدائش کی تفصیلی کیفیت تو وہ نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ حدیث میں اس لئے ہمیں قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کرنا چاہئیے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں دو اہم حقیقتیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ تمام انسانوں کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا ہے اور وہی ان کا رب بھی ہے دوسرے یہ کہ نسل انسانی کا آغاز ایک ہی شخص آدم سے ہوا ہے اس لئے تمام انسان خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کالے ہوں یا گورے اور خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملک میں پیدا ہوئے ہوں ایک ہی باپ آدم اور ایک ہی ماں حوا کی اولاد ہیں اس لئے ان میں انسان ہو نے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے سب یکساں احترام کے مستحق ہیں اور سب کے حقوق کا پاس و لحاظ کیا جانا چاہئیے۔

بنی نوع انسان کے بارے میں قرآن کی یہ اصل عظیم ذات پات کے تصور کو باطل قرار دیتی ہے۔ نیز اس مشرکانہ تصور کی بھی جڑ کاٹ دیتی ہے کہ اونچی ذات دیوتاؤں کی نسل سے ہے اور نچلی ذات (شودر) راکشسوں کی نسل سے۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جبکہ دوسرے سے ہمدردی، انصاف، اور ادائے گی حقوق کے لئے خدا ہی کے نام پر اپیل کرتے ہیں یہ گویا انسان کے وجدان کی پکار ہے کہ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے اور اس کی عظمت کا تصور ہی انسان کو دوسرے کے حقوق کی ادائے گی پر آمادہ کرتا ہے۔ قرآن وجدان کی اس پکار کی تصدیق کرتا ہے اور باہمی حقوق کی ادائے گی کے لئے خدا خوفی ہی کو بنیاد قرار دیتا ہے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قطع رحمی سے بچنے کی ہدایت جس تاکید کے ساتھ یہاں کی گئی ہے اس سے اس کا زبردست گناہ ہونا بھی واضح ہوتا ہے اور صلۂ رحمی اور قرابت داری کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ حدیث میں نہایت مؤثر طریقہ پر صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے اور رشتہ داری کے تعلقات کو خراب ہونے سے روکا گیا ہے۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے : الرحم شجنۃ من الرحمن فقال اللّٰہ من وصلک وصلۃ ومن قطعک قطعتہٗ رحم رحمن سے مشتق ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو تجھے جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا میں اس سے کٹ جاؤں گا ” (مشکوٰۃ بحوالہ بخاری)

لا یدخل الجنۃ قاطع رحم” قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا ” (مسلم)

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم بچے سوسائٹی کا سب سے کمزور طبقہ ہیں۔ باپ کا سہارا اٹھ جانے کی وجہ سے وہ بے سہارا ہوتے ہیں اس لئے ان کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت اولین اہمیت کے ساتھ اور بڑے تاکید ی انداز میں دی گئی ہے۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم کے مال کو الگ رکھنا ضروری ہے۔ اس میں خرد برد گناہ کبیر ہ ہے اور سرپرست کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ یتیم کے مال سے فائدہ اٹھائے۔ اگر یتیم کا مال تجارت میں لگایا گیا ہو تو اس کا فائدہ اس یتیم ہی کو پہنچانا چاہئیے۔ رہا کھانے پینے میں اشتراک تو اس کی اجازت سورہ بقرہ ۲۲۰میں دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۲۱۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم اس نابالغ کو کہتے ہیں جس کے باپ کا انتقال ہو چکا ہو لیکن شرعاً اس کا اطلاق بالغ ہونے کے بعد بھی ہوتا ہے جب تک کہ سوجھ بوجھ کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ اس آیت میں لفظ یتامیٰ استعمال ہوا ہے جو یتیم کی جمع ہے اور مذکر و مونث دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ یہاں اس سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور خطاب اصلاً ان کے سرپرستوں سے ہے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم یتیم لڑکیوں کے سرپرست کی حیثیت سے یہ اندیشہ محسوس کرتے ہو کہ ان سے نکاح کی صورت میں ان کے حقوق ٹھیک طور سے ادا نہ کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے بشرطیکہ وہ محرمات میں سے نہ ہوں نکاح کر لو۔

زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ان کے سرپرست ان سے خود نکاح کر لیتے اور پھر ان کے ساتھ انصاف نہ کرتے۔ چنانچہ ان کے ورثہ پر وہ خود قابض ہو جاتے اور ان کا مہر وغیرہ بھی نہ ادا کرتے اس لئے ان کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان سرپرستوں کو اس شرط کے ساتھ دی گئی کہ وہ ان کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ انصاف کریں۔

تعدد ازواج کی جو اجازت دی گئی ہے وہ متعدد اخلاقی اور معاشرتی مصلحتوں پر مبنی ہے مثلاً بیواؤں کا مسئلہ حل کرنے کی غرض سے یا بے اولا دہو نے کی صورت میں یا بیوی کے دائم المریض ہونے کی بنا پر، یا مرد کا ایک بیوی پر قانع نہ ہونے کی صورت میں دوسرا نکاح کرنا۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے وجوہ نہایت معقول ہیں اور ان مصالح کی رعایت کرتے ہوئے شریعت نے ایک سے زائد عورتوں سے نکاح کی راہ کھلی رکھی ہے تاکہ آدمی غلط اور ناجائز طریقے اختیار کرنے سے بچے اور اس کی ضرورتیں جائز طریقہ سے پوری ہوں۔ زمانۂ جاہلیت میں تعدد ازواج کے لئے کوئی قید نہیں تھی لیکن قرآن نے اس آیت کے ذریعہ تعدد ازواج کو محدود کر دیا اور زیادہ سے زیادہ چار عورتوں تک نکاح کی اجازت دے دی اور وہ بھی عدل کی شرط کے ساتھ۔

واضح رہے کہ چار عورتوں کی حد تک نکاح کے جواز پر علماء کا اجماع ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہے کہ ایک سے زائد بیوی کی اجازت عدل کی شرط کے ساتھ مشروط ہے جو شخص اس شرط کو خاطر میں لائے بغیر ایک سے زائد نکاح کرتا ہے وہ اللہ کی اس عطا کردہ رخصت سے غلط فائدہ اٹھا تا ہے اور ایسے شخص کے لئے حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔

"من کانت لہ امر اتان یمیل لاحد اھما علی الاخریٰ جاء یوم القیامۃ یجرّ احد شقیّہ ساقطا او مائلا ” جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ صرف ایک کی طرف مائل ہو کر رہ جائے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک بازو گر رہا ہو گا اور وہ اسے گھسیٹ رہا ہو گا ” (اہل السنن)

اور عدل سے مراد کھانے پینے، رہنے سہنے اور شب باشی وغیرہ کے معاملہ میں تمام بیویوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا اور ان سب کے حقوق ادا کرنا ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نزول قرآن کے زمانہ میں لونڈیوں کا وجود تھا۔ اسلام نے ایک طرف ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دی نیز ان کو آزاد کرنے کے سلسلے میں کچھ ضابطے بھی بنائے اور دوسری طرف موجودہ لونڈیوں کو صنفی آوارگی سے بچانے کا بھی اہتمام کیا چنانچہ جن لوگوں کے قبضہ میں لونڈیاں تھیں ان کو ان سے تمتع کی اجازت دے دی لونڈیوں کے سلسلہ میں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ نوٹ ۶۴۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہر وہ عطیہ ہے جو شوہر بیوی کو عقد نکاح میں بندھ جانے پر دیتا ہے اس کی حیثیت لازمی عطیہ یا ہدیہ کی ہے جسے ساقط کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ ہے البتہ عورت کو اختیار ہے کہ وہ نکاح کے بعد اس کا جو حصہ چاہے معاف کرے۔ اسلام میں مہر عورت کی قیمت یا نکاح کا معاوضہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک شرعی فریضہ اور پر خلوص ہدیہ ہے جس سے مقصود زوجین کے درمیان الفت و محبت کے تعلقات پیدا کرنا اور عقد نکاح کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے واضح رہے کہ مہر عورت کا حق ہے نہ کہ اس کے باپ یا سرپرستوں کا۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال کو اللہ تعالیٰ نے قیام معیشت کا ذریعہ بنا یا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ آدمی اس کی قدر و منزلت پہچانے اسے ضائع ہونے سے بچائے بالخصوص یتیموں کا مال جس کی تحویل میں ہو وہ اس کی حفاظت اس طرح کرے کہ گویا وہ اس کا اپنا مال ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یتیم بچے ہیں اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ یتیموں کو ان کا مال حوالہ کرنے کی جو تاکید کی گئی ہے ا سکا یہ مطلب نہیں کہ مال کو نا سمجھ اور بے عقل بچوں کے حوالے کر دیا جائے بلکہ یتیم کے سرپرست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مال کو ضائع ہونے سے بچائے اور اس کی پوری پوری حفاظت کر ے۔ اس میں سے وہ یتیموں کے خورد و نوش اور لباس وغیرہ کی ضروریات پر خرچ کر سکتا ہے لیکن جب وہ بالغ ہو جائیں اور ان میں سوجھ بوجھ بھی پیدا ہو جائے تو ان کا مال ان کے حوالہ کیا جائے۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نکاح کی عمر سے مراد سن بلوغ کو پہنچنا ہے شرعاً اس کا اعتبار قدرتی نشوونما کے ظاہر ہو جانے پر کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک شادی کی عمر کا اعتبار لڑکے یا لڑکی کے سن بلوغ کو پہنچ جانے پر ہے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کے لئے ان کا سنِ بلوغ کو پہنچنا کا فی نہیں ہے بلکہ ان میں سوجھ بوجھ کا پایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مال کو ذمہ داری کے ساتھ خرچ کر سکیں۔ اگر کسی یتیم لڑکے یا لڑکی میں بالغ ہو جانے پر یہ اہلیت پیدا نہ ہوئی ہو تو مزید انتظار کرنا چاہئیے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کسی یتیم کا سرپرست محتاج ہو تو وہ یتیم کے مال میں سے ان کی خدمت کے تعلق سے بقدر احتیاج لے سکتا ہے البتہ اس سلسلہ میں معقول اور مناسب طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس قانون وراثت کی تمہید ہے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے یتیموں کے بعد دوسرا کمزور طبقہ عورتوں کا ہے جس کو وراثت سے محروم کیا جاتا رہا ہے چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہ ہوتا تھا اور نہ بچوں کو وراثت میں شریک کیا جاتا بلکہ صرف مرد وارث قرار پاتے۔ وراثت کے سلسلہ میں ان کا یہ تصور تھا کہ جنگ کرنے کی قابلیت مردوں ہی میں ہوتی ہے اس لئے وہی وراثت کے مستحق ہیں عورت اور بچے جنگ کے اہل نہیں ہیں اس لئے وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہئیے اس باطل تصور اور ظالمانہ قانون نے بیواؤں اور یتیم بچوں اور بچیوں کو وراثت سے یکسر محروم کر دیا تھا۔ اسلام نے جاہلیت کے اس قانون Customary Law کو باطل قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ مردوں کے پہلو بہ پہلو، عورتیں بھی وراثت میں شریک ہیں اسی طرح اسلام نے بچوں کو بھی وارث قرار دیا اور ان سب کے حصے مقرر کئے تاریخ میں سماج اور قانون کا اصلاح کا یہ زبردست کا کام تھا جو اسلام کے ہاتھوں انجام پا یا اور جس کے گہرے اثرات اقوام عالم کی سماجی زندگی پر مرتب ہوئے ورنہ عربوں کے علاوہ دیگر اقوام کا تصور بھی عورتوں کے بارے میں کچھ مختلف نہ تھا یہاں تک کہ غیر مہذب اقوام کے نزدیک عورت کی حیثیت بھی مال و جائیداد ہی کی تھی جس کو میراث سمجھ لیا جاتا تھا اس لئے ان کو میراث میں حصہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

Women do not inherit they are themselves the property of their husbands.  (Ency. of Religion & Ethnics Vol VII P.306) Women as inheritable property….many primitive people especially in Africa, regard wives and daughters as an important part of the estate to be transmitted in accordance with the regular rules of inheritance with the rest of the property. The explanation at is to be sought partly in the economic value of women either as workers or in the case of daughters, as potential wealth in the shape of a bride- price. Do P.290)

یہ آیت میراث کے سلسلہ میں اس قانون کو بھی واضح کرتی ہے کہ ترکہ بہرحال تقسیم ہونا چاہئیے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کم ہو اس کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ ہر قسم کے اموال پر ہو گا اور اگر کوئی چیز قابل تقسیم نہیں ہے تو اسے فروخت کر کے اس کی رقم تمام وارثوں میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دی جائے گی۔

آیت میں أقربون کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ قریب ترین رشتہ داروں کے ہیں اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ قریب ترین رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وارث نہیں ہو سکتے۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب ورثاء سے ہے انہیں ترغیب دی گئی ہے کہ رشتہ داروں میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کا از روئے شرع میراث میں حصہ نہ ہو لیکن وہ غریب اور ضرورت مند ہوں اسی طرح جو یتیم اور مسکین آ موجود ہوں انہیں میراث میں سے کچھ نہ کچھ دو اور اگر گنجائش نہ ہو تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی ضرور کرو۔

اس ہدایت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اگر یتیم پوتا وارث نہ قرار پاتا ہو اور دادا نے اس کے لئے وصیت بھی نہ کی ہو تو وارثوں کو چاہئیے کہ قرابت دار اور یتیم ہونے کی بنا پر اسے اس کے دادا کی وراثت میں سے کچھ نہ کچھ دیں اور اس کی دل جوئی کریں۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو یہ خیال کرنا چاہئیے کہ جس طرح دو مرد کے بچے یتیم ہوئے ہیں اسی طرح ان کے بچے بھی یتیم ہو سکتے ہیں یہ خیال انہیں یتیموں کی حق تلفی اور دل شکنی کرنے سے باز رکھے گا۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیات میں تقسیم وراثت کے احکام بیان ہوئے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وصیت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ نہایت مہتمم بالشان اور تاکیدی حکم ہے۔

نیز اس میں یہ بات مضمر ہے کہ سور ہ بقرہ کی آیت ۱۸۰میں اہل ایمان کو والدین اور اقرباء کے حق میں وصیت کرنے کا جو حکم مطلقاً دیا گیا تھا اس کو اس نے مقید کر دیا ہے اس لئے جن لوگوں کے حق میں اللہ نے وصیت فرما دی ہے یعنی ورثاء ان کے لئے وصیت کرنے کا کوئی سوال اہل ایمان کے لئے باقی نہیں رہتا یعنی اب وصیت صرف ایسے ہی رشتہ داروں کے حق میں کی جا سکتی ہے جو شرعاً وارث نہ قرار پاتے ہوں۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں لڑکے کا حصہ لڑکیوں کے مقابلہ دو گنا رکھا ہے جس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلہ میں فروتر ہیں اگر ایسا ہوتا تو کسی صورت میں بھی عورتوں کا حصہ مردوں کے برابر نہ رکھا جاتا۔ حالانکہ متعدد صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں کے مساوی رکھا گیا ہے۔ مثلاً میت کے اولاد ہونے کی صورت میں جہاں باپ کو ۶/۱ملے گا وہاں ماں کو بھی ۶/۱ملے گا اسی طرح میت کے ماں شریک بھائی بہن کا حصہ برابر رکھا گیا ہے۔

اصل میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے برابر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داری عورت پر نہیں بلکہ مرد پر ڈالی ہے وہ بیوی کی بھی کفالت کا ذمہ دار ہے اور بچوں کی کفالت کا بھی جبکہ عورت پر اپنی کفالت کا بوجھ بھی نہیں ڈالا گیا ہے مزید بر آں مرد پر عورت کے مہر کا بھی بار ڈالا گیا ہے ان ذمہ داریوں کے پیش نظر انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ مرد کا حصہ عورت کی بہ نسبت دو گنا رکھا جائے۔ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میت نے اپنے پیچھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی چھوڑی ہو تو دیگر ورثاء کو اگر کوئی ہوں ان کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکے کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ لڑکی کو ملے گا اور دو حصے لڑکے کو اور اگر کئی لڑکے لڑکیاں ہوں تو ان کے درمیان میراث اس طرح تقسیم ہو گی کہ ہر لڑکے کودو حصے اور ہر لڑکی کو ایک حصہ ملے گا اور اگر صرف لڑکے ہوں تو ان کے درمیان ترکہ برابر تقسیم ہو گا۔ واضح رہے کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ باپ کی موجودگی میں دادا وارث نہیں ہوتا۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میت نے اگر صرف لڑکیاں چھوڑی ہوں اور وہ دو سے زیادہ ہوں تو ان کا حکم یہ بیان کیا گیا ہے انہیں دو تہائی حصہ ملے گا یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے یعنی اگر میت نے صرف لڑکیاں چھوڑی ہوں اور وہ دو ہوں تو ان کو بھی دو تہائی ہی ملے گا۔ یہ بات فحوائے کلام سے واضح ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ جو فرمایا کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہو نے کی صورت میں لڑکے کو ۳/۲ملے گا اور لڑکی کو ۳/۱، لڑکے کا یہ ۳/۲ حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے یہ بات فحوائے کلام سے واضح تھی اس لئے دو سے زائد لڑکیوں کا حکم صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا مزید برآں آیت ۱۷۶میں دو بہنوں کا حصہ ۳/۲بیان کیا گیا ہے لہٰذا دو لڑکیوں کا حصہ بدرجۂ اولیٰ ۳/ ۲ ہو گا۔

دو لڑکیوں کے حصہ کا دو تہائی ہونا حدیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی بیوی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسو ل اللہ سعد کی یہ دو بیٹیاں ہیں ان کے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کے چچا نے ان کے پورے مال پر قبضہ کر لیا ہے اب ان سے نکاح کو ن کرے گا اس پر آیت میراث نازل ہوئی اور نبیﷺ نے ان بچیوں کے چچا کو بلا کر فرمایا کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی دے دو اور ان کی والدہ کو ۸/۱ اس کے بعد جو بچ جائے وہ تم لے لو۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص ۴۵۷)

ترکہ کا یہ ۳/۲حصہ تمام لڑکیوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جائے گا بقیہ ۳ /۱ کے حقدار دوسرے وارث ہوں گے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر میت نے صرف ایک لڑکی چھوڑی ہو اور اس کے ساتھ کوئی لڑکا نہ ہو تو لڑکی کو نصف میراث ملے گی اور بقیہ نصف کے حقدار دوسرے ورثاء ہوں گے

اس سے یہ حکم بھی ملتا ہے اگر صرف ایک لڑکا ہو تو وہ لڑکی کے دو گنا یعنی پور ے ترکہ کا وارث ہو گا البتہ اگر دوسرے ورثا مثلاً ماں باپ موجود ہوں تو ان کے حصے ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ پورا کا پورا لڑکے کو ملے گا۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اولاد خواہ ایک ہو یا زائد اور خواہ لڑکی ہو یا لڑکا بہر صورت میت کے والدین میں سے ہر ایک ۶ /۱ کا حقدار ہو گا والدین کا حق اولاد کے مقابلہ میں زیادہ ہے لیکن وراثت میں اولا دکا حصہ زیادہ اور والدین کا حصہ کم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ والدین ایک ایسی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں جب انہیں مال کی ضرورت زیادہ نہیں رہتی بخلاف اس کے اولاد اپنی عمر کے اعتبار سے مال کا زیادہ ضرورت مند ہوتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ تقسیم کتنی حکیمانہ ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی والدین کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو ماں کو ۳/۱ اور بقیہ حصہ باپ کو ملے گا۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میت کے اگر بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کو ۳/۱ کے بجائے ۶/۱ ملے گا اور بقیہ باپ کو ملے گا کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں واضح رہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا صرف باپ کے زندہ ہونے کی صورت میں اس کے بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملتا۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وصیت کرنے کا اختیار آدمی کو اپنی میراث کے ۳/۱ کی حد تک ہے جیسا کہ حدیث سے واضح ہے نیز کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے اور نہ ایسی وصیت نافذ ہو گی الا یہ کہ ورثا اس کی اجازت دیں ایک تہائی کی حد تک وصیت کی گنجائش اس لئے رکھی گئی ہے کہ قانون وراثت کی رو سے جن رشتہ داروں کو حصہ نہ ملتا ہو اور وہ مدد کے مستحق ہوں مثلاً یتیم پوتا یا پوتی یا بیوہ، بہو وغیرہ تو آدمی ان کے حق میں وصیت کر سکتا ہے اسی طرح دوسرے مستحقین کے حق میں یا کسی کار خیر میں صرف کرنے کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے۔ سورہ بقرہ نوٹ ۲۳۳بھی پیش نظر رہے)

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرض سب سے پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت کی تعمیل کی جائے گی اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔ وصیت کا ذکر قرض سے پہلے اس لئے کیا گیا ہے تاکہ اس معاملہ میں لوگ بے اعتنائی نہ برتیں کیونکہ وصیت بغیر کسی عوض کے ہوتی ہے جس کا ادا کرنا طبیعتوں پر بار ہوتا ہے بخلاف قرض کے کہ یہ ایک مسلمہ حق ہے جس کی ادائے گی واجب ہے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وراثت کے معاملہ میں انسان اپنے محدود علم کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا نہ وہ وارثوں کا صحیح طور سے تعین کر سکتا ہے اور نہ ان کے حصوں کا چنانچہ انسان نے آسمانی ہدایت سے بے نیاز ہو کر جب کبھی میراث کی تقسیم کا ضابطہ بنانا چاہا ہے جذباتیت کا شکار ہو کر غلط اور غیر منصفانہ فیصلے ہی کرتا رہا ہے اگر قدیم جاہلیت میں عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا تو جدید جاہلیت میں ان کو مردوں کے برابر لا کھڑا کر دیا گیا جبکہ دونوں کی ذمہ داریاں یکساں نہیں۔

نپولین نے جو سول کوڈ بنایا اس میں خونی رشتہ داروں کی موجودگی میں زوجین کو ایک دوسرے کی وراثت سے محروم کر دیا۔ ہندو کوڈ اولاد کی موجودگی میں باپ کا حصہ تسلیم نہیں کرتا البتہ ماں کے حصہ کا ضرور قائل ہے اور انڈین سکسیشن ایکٹ Indian Succession Act ۱۹۲۵ کی روسے اولاد کی موجودگی میں میت کے ماں باپ دونوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وراثت کی تقسیم کے مسئلہ میں انسان اپنی خواہشات اور وقت کے نظریات اور رجحّانات کا شکار رہا ہے اور جو ضابطے بھی اس سلسلے میں بنائے جاتے رہے ہیں وہ کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں بنائے گئے لیکن اسلام کا قانون علم الٰہی پر مبنی ہے اسلئے اس میں کمال درجہ کا توازن پایا جاتا ہے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی اسلئے اس کی تقسیم غلط نہیں ہو سکتی۔ تمہارے اپنے رجحّانات اور نظریات غلط اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو سکتے ہیں تمہارے حقیقی مفاد اور مصالح کو جاننے والا اللہ ہی ہے لہٰذا ہمیں اس کی شریعت کے صحیح ہونے پر یقین کرنا چاہئیے اور شرعی قوانین ہی کی پابندی قبول کرنا چاہئیے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میت کے اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کی بیوی کا حصہ ۴/۱ اور اولاد ہونے کی صورت میں ۸/۱ ہو گا اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو وہ سب اس ۴/۱ یا ۸/۱ میں برابر شریک ہوں گی۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ حکم اخیانی یعنی ماں شریک بھائی بہنوں کا ہے رہے سگے اور صرف باپ شریک بھائی بہن تو ان کا حکم اس سورہ کے آخر میں بیان ہوا ہے۔ اخیانی بھائی بہن کا حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اسے ۶/۱ ملے گا اور دویا دو سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو ۳/۱ میں وہ سب برابر کے شریک ہوں گے واضح رہے کہ میت کے اخیانی بھائی بہن اسی صورت میں حصہ پاتے ہیں جبکہ میت کے نہ اولاد ہو اور نہ باپ زندہ ہو۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وصیت اور قرض کے لئے قانون وراثت میں جو گنجائش رکھی گئی ہے اس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے مثلاً کوئی شخص شرعی وارثوں کے حقوق تلف کرنے کی غرض سے بے جا وصیت کر جائے یا اپنے ذمہ ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو اس قسم کی ضرر رسانی کو حدیث میں گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفتوں علم اور بردباری کا حوالہ دیا ہے جس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی شخص ان احکام وراثت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ اس کے حال سے اللہ باخبر ہے اور وہ محض اپنی بردباری کی بنا پر فوری طور سے سزا نہیں دے رہا ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے بچ سکے گا۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدود سے مراد قوانین اور ضابطے ہیں وراثت کے ان احکام کی حیثیت جو قرآن میں بیان کئے گئے ہیں قانون الٰہی Divine Law کی ہے جس کی پابندی لازماً اس کے بندوں پر عائد ہوتی ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وراثت کے احکام بیان کر نے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہے اس سے ان لوگوں کے جرم کی سنگینی واضح ہے جو اللہ کے مقرر کئے ہوئے قانون وراثت کو تبدیل کرنا چاہیں یا اسلامی ضابطۂ وراثت کیک جگہ کوئی اور ضابطۂ وراثت Succession Code لانا چاہیں یہ ان ہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے کوئی سروکار نہ ہو ور نہ کوئی مسلمان اس کی ہرگز جسارت نہیں کر سکتا۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زنا ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کوئی مسلمان عورت زنا کی مرتکب ہو تو اس کو اسی صورت میں سزا دی جا سکتی ہے جبکہ اس کا جرم چار مسلمان گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے۔ زنا کے لئے اسلام نے چار کی گواہی ضروری قرار دی ہے جبکہ دوسرے جرائم کے لئے دو کی گواہی کا فی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا وہ سنگین جرم ہے جس کے بعد انسان کی عزت و عفت باقی نہیں رہتی اور اس کی اخلاقی موت واقع ہو جاتی ہے اسی سنگین برائی کو کسی کی طرف منسوب کرنے میں ظاہر ہے سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو عورتیں زنا کی مرتکب ہوں اور ان کا یہ جرم چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے انہیں گھروں میں نظر بند رکھنے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے تاکہ وہ بدکاری سے باز آ جائیں۔ نیز انہیں اغوا وغیرہ کے خطرات سے بھی بچایا جا سکے۔ یہ حکم مخصوص حالات کے لئے ہے جس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زنا کی مرتکب عورتوں کی نظر بندی کا حکم مخصوص حالات کے لئے دیا گیا ہے رہا مستقل حکم تو وہ بعد میں ناز ل کیا جائے گا چنانچہ بعد میں یعنی ۰۶ھ میں سورہ نور میں سو کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی (سور ۂ نور آیت ۲) اس کا یہ مطلب نہیں کہ نظر بندی کا حکم منسوخ ہو گیا اگر ایسا ہوتا تو قرآن میں اس کی تلاوت باقی نہ رکھی جاتی۔ تلاوت جب باقی رکھی گئی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ حکم ان حالات کے لئے اب بھی باقی ہے جن میں مسلم معاشرہ اس پوزیشن میں نہ ہو کہ کوڑوں کی سزا نافذ کر سکے البتہ جو معاشرہ کوڑوں کی سزا نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہو اسے کوڑوں کی سزا ہی نافذ کرنا ہو گی اس آیت میں زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی جو شرط بیان کی گئی ہے وہ کوڑوں کی سزا کا حکم آ جانے کے بعد بھی باقی رکھی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن میں کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہے بعض احکام جو بادی النظر میں مختلف معلوم ہوتے ہیں ان میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ایک حکم ایک حالات کے لئے ہے اور دوسرا حکم دوسری طرح کے حالات کے لئے مثلاً ایک جگہ حکم دیا گیا ہے کہ کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور دوسری جگہ حکم دیا گیا ہے کہ ان سے جنگ کرو ظاہر ہے کہ یہ مختلف مراحل سے تعلق رکھنے والے احکام ہیں نہ کہ دوسرا حکم پہلے حکم کا ناسخ۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اذیت سے مراد ملامت، زجر و توبیخ اور اصلاح و تادیب کی حد تک مارنا ہے۔ تعزیر کا یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے جو زنا کے مرتکب ہوئے ہوں۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصلاح کی صورت میں خواہ وہ مرد ہو یا عورت اذیت پہنچانے سے احتراز کیا جائے گا لیکن عورت کو گھر میں روکے رکھنے کا جو حکم آیت ۱۵میں دیا گیا ہے وہ اذیت کے حکم کے علاوہ ہے اور اس کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں اس لئے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر جو توبہ کا ذکر ہوا ہے اس کی مناسبت سے توبہ کی حقیقت یہاں واضح کر دی گئی۔ توبہ کے معنی گناہ سے باز آنے اور اللہ کی اطاعت کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جو شخص نادانی میں یا جذبات و خواہشات سے مغلوب ہو کر گناہ کر بیٹھتا ہے مگر اس پر اصرار نہیں کرتا بلکہ اس پر نادم ہو کر اللہ کی طرف رجو ع کرتا ہے اور اس سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے ایسے شخص کی توبہ سچی توبہ ہے اور اسے قبول کرنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عمر بھر گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں اور اس سے باز نہیں آتے مگر جب موت کا فرشتہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ سے معافی مانگنے لگتا ہے ایسے لوگوں کی توبہ سچی توبہ نہیں ہے کیونکہ جب امتحان کی گھڑی ختم ہو گئی اور نتائج کے ظہور کا وقت آ گیا اس وقت توبہ کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں، لیکن جب موت آ جاتی ہے اور آدمی حقائق کو بے نقاب ہوتا دیکھنے لگتا ہے اس وقت اللہ سے معافی کا خواستگار ہو تا ہے کیونکہ وہ وقت آزمائش کا نہیں بلکہ نتائج کے رونما ہونے کا ہوتا ہے لہٰذا اگر معاملہ گناہ کا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ جلد اس سے باز آ جائے اور اگر اب تک اس کی روش کفر و انکار کی رہی ہے تو بلا تاخیر اپنا رویہ بدل دے اور ایمان لے آئے۔ معلوم نہیں کس کی موت کا وقت کب آ جائے اور توبہ کی مہلت ختم ہو جائے۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب جاہلیت میں یہ قبیح رواج چلا آ رہا تھا کہ مرنے والے کی بیویاں بھی میراث میں شامل سمجھی جاتیں۔ چنانچہ باپ کے مرنے پر بیٹا اپنی سوتیلی ماں کا وارث بن جاتا تھا اور اس سے زن و شوئی کے تعلقات قائم کر لیتا تھا۔ قرآن نے اس کو حرام قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ عورت متروکہ جائیداد نہیں ہے کہ اس پر میت کے ورثاء قبضہ کر لیں بلکہ وہ عدت ت گزارنے کے بعد آزاد ہے۔ شرعی حدود میں رہ کر جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک انقلابی نوعیت کی اصلاح تھی جو اسلام نے عورتوں کے سلسلہ میں کی۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بد چلنی کی مرتکب ہو نے کی صورت میں انہیں ایذا دینے کا حق تمہیں پہنچتا ہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض اس لئے کہ بیوی خوبصورت نہیں ہے یا اس میں کوئی اور نقص ہے اسے تنگ کرنا جائز نہیں اور نہ اسے چھوڑ دینا کوئی مناسب بات ہے۔ اگر وہ پاکدامن ہے تو اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنا چاہئیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں دوسری خوبیاں موجود ہوں جو ازدواجی زندگی کے لئے اہمیت رکھتی ہوں اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس کے حسن سیرت کی بناء پر اس رشتہ کو باعث خیر بنا دے لہٰذا رشتہ منقطع کرنے کے معاملے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہئیے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیوی کو جو مہر دیا گیا ہو نیز زوجیت کے تعلقات کی بناء پر اسے ہدیتہً جو کچھ دیا گیا ہو طلاق کی صورت میں شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں سے کسی چیز کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عقد نکاح کو پختہ عہد (میثاقِ غلیظ) سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اس کے ساتھ حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔ یہ کوئی معمولی رشتہ نہیں بلکہ نہایت محکم رشتہ اور مضبوط پیمان وفا ہے لہٰذا اگر مرد اپنی خواہش سے اس عہد کو ختم کر دینا چاہتا ہے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس لے لے خواہ وہ مہر ہو یا دوسرے تحائف۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باپ کے انتقال پر اپنی سوتیلی ماں سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کا جو رواج زمانہ جاہلیت سے چلا آ رہا تھا اس کو قرآن نے قطعاً ممنوع اور حرام قرار دیا۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قانوناً پچھلے رشتوں کی تحقیق نہیں کی جائے گی۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں قریب ترین رشتہ داروں سے نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے یہ حرمت انسانی فطرت کے اس تقاضے پر مبنی ہے کہ رشتہ داری کے یہ تعلقات محبت و شفقت کے اعلیٰ جذبات پر قائم ہونے چاہئیں۔ اس میں شہوانی جذبات کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئیے ورنہ اس سے انسانی سوسائٹی میں فساد عظیم برپا ہو گا۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں خواہ سگی ہو یا سوتیلی حرام ہی ہے اسی طرح باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہن خواہ سگی ہو یا باپ شریک یا ماں شریک سب یکساں طور سے حرام ہیں۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچہ کی پرورش جس عورت کے دودھ سے ہوئی ہے وہ اس کے بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے اس لئے اسلام نے اس رشتہ کا احترام ملحوظ رکھا۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے : "یحرم من الرضاعۃ مایحرم من النسب جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں ” (تفسیر ابن کثیر ص ۴۶۹ بحوالہ مسلم)

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیوی کی وہ لڑکی جو اس کے پہلے شوہر سے ہو اس کی حرمت اس صورت میں ہے جبکہ وہ مدخولہ بیوی سے ہو لیکن اگر وہ ایسی بیوی سے ہے جس سے محض نکاح ہوا تھا اور مباشرت سے پہلے اسے طلاق دی تھی تو اس کی لڑکی سے نکاح جائز ہے۔ رہا آغوش میں پلا ہوا ہونا تو یہ شرط کے طور پر نہیں ہے بلکہ رشتہ کی نزاکت کا احساس دلانے کے لئے ہے اگر سوتیلی لڑکی مدخولہ بیوی سے ہے تو وہ آدمی پر بہر حال حرام ہے خواہ اس نے اس کی گود میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قید نے متبنی (منہ بولے بیٹے) کی بیوی سے نکاح کو حرمت کے حکم سے خارج کر دیا ہے نکاح حرام صرف اس بیٹے کی بیوی سے ہے جو آدمی کے اپنے نطفہ سے ہو۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو بہنوں کو جمع کرنے کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ باہم رقابت میں مبتلا ہو جائیں گی اور اس سے رحمی رشتہ متاثر ہو گا اس لئے اس کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے یہی مفسدہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے میں ہے اس لئے حدیث میں نبیﷺ نے اس کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس حکم کے نزول سے پہلے جو ہو چکا سو ہو چکا اب اس سے باز آ جاؤ تو جو غلطیاں تم کرتے رہے ہو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو عورت کسی دوسرے کے نکاح میں ہو وہ حرام ہے کیونکہ عورت بیک وقت ایک مر د ہی کے نکاح میں ہو سکتی ہے دو مردوں کے نکاح میں نہیں ہو سکتی۔ چند شوہری Polyandryانسانی فطرت کے خلاف ہے اس لئے وحی الٰہی اسے ہمیشہ حرام قرار دیتی رہی ہے اس کا رواج اگر کہیں رہا ہے تو وحشیانہ قبائل میں یا پھر موجودہ ملحدانہ تہذیب اس کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آ گئی ہوں اور ان کے کافر شوہر دار الحرب میں موجو دہوں وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اس صورت میں ان کا سابقہ نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ غلاموں اور باندیوں سے متعلق اسلام کے احکام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھا جائے جن میں یہ احکام دئے گئے تھے۔ اس زمانہ میں اسیرانِ جنگ کو غلام اور باندی بنانے کا رواج بین الاقوامی سطح پر رائج تھا جیل کا رواج بہت کم تھا اور اسیران جنگ War prisoners کے لئے بڑے پیمانے پر قید و بند اور خورد و نوش کا انتظام کرنا بہت مشکل تھا اس لئے ان کو غلام بنا کر افراد کی تحویل میں دیا جاتا تھا ان حالات میں اسلام نے جو غلام بنانے کی نہیں بلکہ غلاموں کو رہا کر نے کی ترغیب دے رہا تھا اور اسے انسانیت کی بہت بڑی خدمت اور بہت بڑی نیکی قرار دے رہا تھا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اسیران جنگ کی حد تک گوارا کر لیا اگر چہ کہ عام ہدایت یہی تھی کہ جنگی قیدیوں کو یا تو احسان کے طور پر چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کیا جائے جیسا کہ سورہ محمد آیت ۴سے واضح ہے۔ نبیﷺ کے زمانہ میں جو جنگیں لڑی گئیں ان میں اسیران جنگ کے ساتھ بالعموم یہی معاملہ کیا جاتا رہا تاہم چونکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا جسے فوری طور سے بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق متعین کئے اور ان کے سلسلہ میں ضروری احکام دئیے اس سلسلہ کا ایک حکم یہاں بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں اور ان کو حکومت نے باقاعدہ طور پر مسلمان افراد کے قبضہ میں دیا ہو ان کے سابقہ نکاح جو کافر شوہروں کے ساتھ ہو چکے ہوں باقی نہیں رہیں گے اور جس شخص کے قبضہ میں ایسی عورت دی گئی ہو اس پر جہاں اس کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں اسے اس کے ساتھ تمتع کا حق بھی حاصل ہو گا نیز اسے یہ حق بھی ہو گا کہ وہ خود تمتع کرنے کے بجائے کسی ضرورت مند مسلمان کی زوجیت میں اسے دیدے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو گئی ہو لیکن جیسا کہ بعد والی آیت کے احکام سے ظاہر ہے کسی کو بھی اس بات کی ہرگز اجازت نہ ہو گی کہ وہ لونڈیوں کو قحبہ گری یا شہوت رانی کا ذریعہ بنائے۔ یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں جو پالیسی اختیار کی اس کے نتیجہ میں کتنے ہی لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور کتنوں ہی نے اسلامی سوسائٹی میں نہایت اونچا مقام حاصل کر لیا۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عائلی زندگی سے متعلق یہ احکام قانون الٰہی Divine Law کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی لازماً پابندی کی جانی چاہئیے۔ اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں قرآن کے عائلی قانون ہی کا نفاذ ہونا چاہئیے اس کے علاوہ کسی بھی عائلی قانون Family Law کے قابل قبول ہونے کا سوال مسلمانوں کے لئے پیدا ہی نہیں ہوتا۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "احصان ” استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اپنی رفیقۂ حیات بنا نے کے عزم کے ساتھ اپنی حفاظت میں لے لے اور عورت بھی اسی ارادہ کے ساتھ قید نکاح میں داخل ہو۔ کسی عورت سے وقتی اور عارضی تعلق پیدا کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس لئے مذکورہ شرط لگا کر قرآن نے متعہ کے اس مکروہ رواج کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میاں بیوی آپس کی رضامندی سے مقر رہ مہر میں کمی بیشی کر سکتے ہیں۔ اس ہدایت میں موجودہ غلو آمیز مہر کے مسئلہ کا حل موجود ہے۔ بعض برادریوں میں بڑی مہر باندھنا ایک رسم کے طور پر چلا آ رہا ہے جس کا منشاء محض "باندھنا ” ہوتا ہے تاکہ خاندان کی ناک اونچی رہے ورنہ شوہر کی مالی حیثیت بالعموم اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ چالیس تولہ سونا جیسی بھاری مقدار میں مہر ادا کرے اس لئے بالعموم اس کی ادائے گی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ جبکہ مہر کا اصل منشاء ادا کرنا ہے نہ کہ محض "باندھنا ” اس لئے جن کے ایسے رسمی مہر مقرر کئے جا چکے ہیں اور ان کی ادائے گی ان کے شوہروں کے بس کی بات نہ ہو وہ اپنی بیویوں کو اس پر نظر ثانی کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں اور باہمی رضامندی سے اس میں ترمیم ہو سکتی ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عزت و شرف کی اصل بنیاد ایمان ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی اپنے ایمان کی بنا پر آزاد عورت سے بہتر ہو۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نسل کے اعتبار سے سب ایک آدم و حوا کی اولاد ہیں خواہ آزاد ہوں خواہ غلام اس لئے لونڈی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈی سے نکاح کی صورت میں مہر لونڈی کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ ان کے مالکوں کو۔ بالفاظ دیگر مہر عورت کا حق ہے خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی۔ اس سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے لونڈیوں کو حق ملکیت عطا کر کے سوسائٹی میں ان کا مقام کتنا بلند کیا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قید نکاح میں آ جانے کے بعد اگر کوئی لونڈی زنا کی مرتکب ہو تو آزاد عورت کے لئے جو سزا مقرر کی گئی ہے یعنی سو کوڑے (سورہ نور آیت ۲) اس کی نصف سزا لونڈی کو بھی دی جائے گی۔ سزا میں یہ رعایت اس لئے رکھی گئی ہے کہ لونڈیوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورتوں کو حاصل تھا۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان لوگوں کے لئے ہے جو یہ اندیشہ محسوس کرتے ہوں کہ اگر انہوں نے نکاح نہیں کیا تو وہ معصیت میں مبتلا ہو جائیں گے جو لوگ یہ اندیشہ محسوس نہ کرتے ہوں ان کے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ دوسرے مالکوں کی لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی صورت میں مالک کے حقوق اور شوہر کے حقوق کو نباہنا مشکل تھا اس لئے اس قسم کے نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد انبیاء علیہم السلام اور صالحین کے طریقے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن عائلی زندگی کے لئے اس طریقہ کی رہنمائی کر تا ہے جو ہمیشہ سے خدا کے نبیوں اور نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ خد اسے سرکشی کرنے والے لوگ باپ دادا کی پیروی کے نام پر فاسد کلچر یا جدید تہذیب کے نام پر گمراہ کن نظریہ یا جدید سول کوڈ Modern Civil Code کے نام پر باطل قوانین کی طرف تمہیں بھٹکا کر لے جانا چاہتے ہیں۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان فطرۃ ً غیر ضروری اور غیر فطری پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا خود ساختہ شریعتوں اور من گھڑت رسموں کے بوجھ اتار پھینکنا ضروری ہے۔ اسلامی شریعت تکلفات سے پاک اور سادہ شریعت ہے جس میں انسان پر اتنا ہی بوجھ ڈالا گیا ہے جس کا انسان فطری طور پر متحمل ہو سکتا ہے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جن میں اخلاقی قباحت پائی جاتی ہو یا جنہیں شریعت نے ناجائز قرار دیا ہو۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لین دین حقیقی باہمی رضامندی سے ہونا چاہئیے جس لین دین میں دھوکا اور فریب جیسی چیزیں شامل ہوں وہ جائز نہیں۔ رشوت ستانی بھی باطل کی تعریف میں آتی ہے اس لئے کہ اس میں اخلاقی قباحت کا پایا جانا ایک حقیقت ہے اور اس میں دوسروں کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا اس کے ذریعہ کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصول مال کے لئے آدمی جب ناروا طریقے اختیار کرتا ہے تو اس غرض کے لئے قتل و خون سے بھی کام لینے لگتا ہے گویا قتل و خون کا نتیجہ ہے حصول مال کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے کا۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسی باتوں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی ہلا کت ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے گناہوں (کبائر) سے مراد وہ گناہ ہیں جن کی ممانعت میں نص صریح وارد ہوئی ہے اور جن کے ارتکاب پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حدیث میں نبیﷺ نے شرک، قتل نفس، والدین کی نافرمانی، شہادت زور، سود خوری، یتیم کا مال ہڑپ کر جانا، جہاد میں مقابلہ کے وقت بھاگ جانا اور اسی قسم کی دوسری باتوں کے گناہ کبیرہ ہو نے اور ان میں سے بعض کے اکبر الکبائر ہو نے کی صراحت کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کبائر ان چند گناہوں تک محدود ہیں بلکہ کبائر کی یہ چند مثالیں ہیں چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہ سات ہیں تو انہوں نے فرمایا سات کے مقابلہ میں سات سو ہو نا اقرب ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۴۸۶)

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں خلقی لحاظ سے فرق رکھا ہے دونوں میں طبعی طور پر مکمل یکسانیت نہیں ہے اور اس بنا پر ان کے حقوق و فرائض میں بھی شریعت نے فرق کیا ہے لہٰذا مردوں کا عورت بننے کی تمنا کرنا یا عورتوں کا مرد بننے کی خواہش کرنا اور اس تمنا اور خواہش کے زیر اثر ایک دوسرے سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نظام فطرت میں خلل پیدا کرنے کی کوشش ہے اور نتیجہ کے اعتبار سے بالکل بے سود ہے اسی طرح شریعت کے مقرر کردہ حقوق و فرائض سے انحراف کر کے مکمل مساوات کے نظریہ پر دونوں کے حقوق و فرائض کرنا شریعت اور فطرت دونوں سے ٹکر لینے کے ہم معنی ہیں اس لئے اس ذہنیت سے بچنے اور اللہ سے اس کا فضل طلب کرنے کی ہدایت اس آیت میں کی گئی ہے۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ تقسیم وراثت کے اس قانون کی طرف ہے جو آیت ۷میں بیان ہوا یہ آیت اس بات کو مزید مؤکد کر رہی ہے کہ اصل وارث وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان میں اپنی خواہشات کی بنا پر کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جانی چاہئیے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وارث تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں رہے وہ لوگ جن کو تم نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے تو ان کو اتنا دو جو جائز وصیت کے دائرہ میں آتا ہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں لو گ ایک دوسرے کی میراث کے حق دار بننے کا عہد و پیمان کرتے تھے اسلام نے اس طریقہ کو ختم کر کے اقرباء کو اصل وارث قرار دیا اور میراث میں صرف ایک تہائی کی حد تک وصیت کے لئے گنجائش رکھی۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر وراثت کے اس قانون سے تم نے انحراف کیا تو یہ بات اللہ سے پوشیدہ نہیں رہے گی۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے سربراہی کا مقام عطا کیا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ بیان فرمائی ہے کہ مرد کو، عورت پر اس کی فطرت اور قدرتی ساخت کے لحاظ سے نمایاں، فوقیت بخشی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اس ذمہ داری کے اٹھانے کا اہل ہے چنانچہ مرد حفاظت و نگرانی کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اور معاشی دوڑ دھوپ کی بھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب جس نے مساوات مردو زن کے غلو آمیز نظریہ کو پیش کیا، خاندان کے لئے سربراہ کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی زندگی، نظم Discipline سے محروم ہو گئی۔ جبکہ قوت، فعالیت اور حوصلہ کے لحاظ سے مرد کی عورتوں پر فوقیت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے:

Connected result of male superiority i.e. strength, activity and courage is the element of protection in male love, and of trust on the side of the female (ERE VIII , P.156)

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۳۷) ۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا :خیر النساء امراۃ اذانظرت الیھا سر تک واذا امرتھا اطاعتک واذا غبت عنھا حفظتک فی نفسھا ومالک بہترین عورت وہ ہے جسم تم دیکھو تو وہ تمہیں خوش کرے، جب اسے حکم دو تو وہ اطاعت کرے اور تمہاری غیر موجودگی میں اپنے نفس اور تمہارے مال کی حفاظت کرے (تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)

آیت سے اس وصف کا منفی پہلو بھی واضح ہوتا ہے یعنی اطاعت شعاری کے بر خلاف جو عورتیں مردوں کی نافرمانی کرنے والی ہوں اور عورت کے بجائے مرد بن کر رہنا چاہتی ہوں وہ صالحات نہیں بلکہ فاسقات ہیں۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نیک عورت مرد کے رازوں کی امین، اس کے گھر، اس کے مال اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تادیبی اختیارات ہیں جو مرد کو دئیے گئے ہیں اور یہ اسی صورت میں استعمال کر نے کے لئے ہیں جبکہ عورت سرتابی کرنے لگے، عورت کی طرف سے ہر قسم کی کوتاہی اور غلطی پر سخت قدم اٹھانا صحیح نہیں ہے زود و کوب کے سلسلہ میں حدیث میں ہدایت کی گئی ہے کہ اس طرح نہیں مارنا چاہئے کہ عورت کو تکلیف پہنچے یا اس کے جسم پر نشان پڑ جائے۔ عورت کو اخلاقی حدود میں رکھنے اور گھر کے نظام کو درست رکھنے کے لئے مرد کو ان اختیارات کا دیا جانا ضروری تھا لیکن اس کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے کہ مرد ان اختیارات کو من مانے طریقے پر Arbitrarilyاستعمال کرے۔ آیت کے آخر میں اللہ کی یہ صفت کہ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے کا حوالہ مرد کو یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ وہ اپنی قوامیت کے زعم میں عورت پر زیادتی نہ کرے بلکہ یاد رکھے کہ ایک بلند و بالا ہستی اس کے اوپر موجود ہے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زوجین کے درمیان نزاع کی صورت میں یہاں ایک آخری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہ تدبیر یہ ہے کہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں میں سے ایک ایک حکم مقرر کیا جائے اور یہ دونوں مل کر صلح صفائی کی کوشش کریں۔ عدالت کے مقابلہ میں یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ عدالت میں لے جانے کی صورت میں میاں بیوی کے مسائل منظر عام پر آ جاتے ہیں جو کوئی مناسب بات نہیں ہے نیز اس سے مصالحت کے امکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ رہا حکم (پنچ) کے اختیارات کا مسئلہ تو حکم کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں کو مل کر فیصلہ کرنے کا اختیار ہو گا یہ فیصلہ زوجین کو ملانے کا بھی ہو سکتا ہے اور ان کو جدا کر نے کا بھی اور جمہور علما اسی کے قائل ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص ۴۹۳)

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معاشرتی احکام کے خاتمہ پر اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کی ہدایت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تمام شرعی احکام کی اصل توحید ہے اور آدمی اسلام کے معاشرتی احکام پر صحیح طور پر اسی صورت میں عمل پیر ا ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ کی عبادت ٹھیک طور سے کر رہا ہو کیونکہ اللہ کی عبادت بشرطیکہ وہ شعور کے ساتھ ہو انسان کی خواہشات کے پیچھے چلنے اور جذبات کی رو میں بہنے سے روکتی ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے اس لئے کہ وہی پرورش کا ذریعہ بنے ان کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلو ک کیا جائے۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی حدیث میں بھی بڑی تاکید آئی ہے نبیﷺ نے فرمایا : مازال جبریل یو صینی بالجار حتی ظننت انہٗ سیورثہ جبرئیل مجھے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی برابر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ وہ اسے وارث قرار دیں گے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دوست ہے اور ایسا شخص بھی جس کا وقتی طور سے ساتھ ہو جائے مثلاً رفیق سفر، شریک تجارت، ہم سبق، کسی مجلس میں ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے وغیرہ ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہئیے کہ انہیں کوئی اذیت اور تکلیف نہ پہنچے اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کیا جائے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں نبیﷺ نے واضح فرمایا ہے کہ غلاموں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائے :۔

ھم اخوانکم خولکم جعلھم اللّٰہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفو ھم ممّا یغلبھم فان کلفتمو ھم فاعینو ھم یہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہئیے کہ جو کھانا وہ کھاتا ہے وہ اسے بھی کھلائے اور جو کپڑا وہ پہنتا ہے وہ اسے بھی پہنائے اور دیکھو ان پر اتنا بار نہ ڈالو جو ان کی برداشت سے باہر ہو اور اگر کوئی بھاری بوجھ ڈالو تو ان کی مدد کرو (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۴۹۵) (بحوالہ بخاری و مسلم) ۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اترانا اور فخر کرنا حسن سلو ک کے منافی ہے جو لوگ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اپنی قابلیت کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں ان کے اندر گھمنڈ اور فخر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ ذہنیت انہیں لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ نیک سلو ک کرنے سے باز رکھتی ہے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر نیک عمل کی جز ا اس کی جنس سے دوگنا ملے گی علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ خاص اپنی طرف سے بھی جزا عطاء فرمائے گا جس کی کوئی تحدید نہیں۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبیﷺ کو قرآن سناتے ہوئے اس آیت پر پہنچے تو نبیﷺ شدت تاثر سے آبدیدہ ہو گئے کیونکہ یہ آیت جہاں آپ کے لئے شرف کا باعث ہے وہاں وہ آپ پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہر پیغمبر کو یہ گواہی دینا ہو گی کہ اس نے اللہ کا دین بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے اور حضرت محمدﷺ کو بھی یہ گواہی دینا ہو گی اور قرآن صراحت کرتا ہے کہ آپ کی بعثت دنیا کے تمام اقوام کے لئے ہے اور آپ آخری نبی ہیں اس لئے آپ کی رسالت کا دور قیامت تک کے لئے ہے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ سکاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نشہ کی حالت میں اس سے معلوم ہوا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے خواہ وہ شراب ہو یا کوئی ٹھوس چیز۔ شراب کی حرمت کا حکم سورہ بقرہ آیت ۲۱۹میں گزر چکا ہے یہاں نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت کی گئی ہے۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۱۶)

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا نماز کے لئے ہوش اور بیداری ضروری ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنابت سے مراد وہ نا پاکی ہے جو قضائے شہوت یا احتلام کی صورت میں لاحق ہوتی ہے اس حالت میں نماز پڑھنا منع ہے اور اس کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کیا جائے اور غسل کا نہایت سادہ طریقہ اسلام نے تجویز کیا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے پورے جسم پر پانی بہا دے جس میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی شامل ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سفر کی حالت میں غسل سے استثناء ہو سکتا ہے جیسا کہ اسی آیت میں آگے بیان کر دیا گیا ہے یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جنابت کی حالت میں شرعی عذر کی بناء پر جس کی مثال سفر میں پانی کا نہ ملنا ہے غسل کئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہو بشرطیکہ تیمم کر لو جیسا کہ اسی آیت میں آگے حکم دیا گیا ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ لَا مَسْتُمْ استعمال ہوا ہے جس کے معنی چھونے کے ہیں عربی زبان میں یہ جماع کے لئے کنا یہ ہے (لسان العرب) اور حضرت ابن عباس سے یہی تفسیر مروی ہے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے شرعی اصطلاح میں تیمم کہتے ہیں جو وضو اور غسل دونوں کا قائم مقام ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اسے چہر ہ اور دونوں ہاتھوں پر پھیر لیا جائے اس سے اصل طریقہ طہارت کی یا دبھی ذہن میں قائم رہتی ہے اور طہارت کا احساس بھی برقرار رہتا ہے۔

مرض میں چونکہ وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے یہ رعایت ہوئی کہ تیمم کیا جائے اسی طرح سفر میں ایسی حالت پیش ہو سکتی ہے کہ پانی نہ ملے تیمم کی رعایت اس صورت کے لئے بھی ہے۔ ان دونوں صورتوں پر، دوسری صورتوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے مثلاً سخت سردی میں جب کہ جنابت لاحق ہو اور غسل کرنے سے ضرر کا اندیشہ ہو یا کسی موقع پر پانی تو موجود ہو لیکن کمیابی کے باعث اسے پینے کیلئے محفوظ رکھنا پڑے یا ریل اور ہوائی جہاز کا سفر جس میں غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو ایسی تمام صورتوں میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ نجاست کی یہاں دو حالتیں بیان کی گئی ہیں ایک رفع حاجت اور دوسرے قضائے شہوت، اس حکم میں دوسری چھوٹی موٹی نجاستیں بھی داخل ہیں اور ہر قسم کی نجاست کے لئے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا جا سکتا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی یہ صفات اس بات کی متقاضی ہوئیں کہ تمہارے لئے شرعی احکام میں نرمی کی جائے اور تمہیں تیمم کی رعایت دی جائے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر جو شرعی احکام دئیے گئے ان کے سلسلہ میں مسلمانوں کو جن لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ان کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پچھلے آسمانی صحیفوں اور قرآن کریم کے درمیان نسبت جزء اور کل کی ہے اس لئے اہل کتاب کو جو کتاب دی گئی تھی اس کی حیثیت کتاب الٰہی کے ایک جز ء کی تھی جب کہ حضرت محمدﷺ کو جو کتاب دی گئی ہے وہ ہر لحاظَ سے ایک مکمل کتاب ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود نبیﷺ کی شان میں جو گستاخانہ کلمات کہتے تھے اسے یہاں دین پر طعنہ زنی سے تعبیر کیا گیا ہے معلوم ہوا کہ ہر وہ طنز و تشنیع جو پیغمبرﷺ پر کی جائے براہ راست دین پر حملہ ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱۲۲۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت وہی لوگ کرتے ہیں جو کافر اور سرکش ہیں اور ان کے کفر اور سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ان پر پڑی ہے۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چہر ہ جسم کا اشرف حصہ اور اللہ کی نعمت کا خصوصی مظہر ہے اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق اور محسن کا قدر شناس اور سپاس گزار ہو لیکن جو لو گ کفر کی روش اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کرتے ہیں وہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی حق کو دیکھنے کے لئے اندھے ہو جاتے ہیں اور منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی حق بولنے کے لئے گونگے ہو جاتے ہیں اور اپنی بینائی، گویائی اور سماعت کا غلط اور الٹا استعمال کرتے ہیں اس لئے بجا طور پر اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان کے چہرے مسخ کر کے پیچھے پھیر دئیے جائیں چنانچہ قیامت کے دن انہیں درد ناک سزا سے دوچار ہونا ہو گا۔ انسان اگر ہوش سے کام لے تو یہ سخت وعید اس کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے حضرت کعب احبار (مشہور یہودی) اس آیت کو سن کر ایمان لائے تھے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحاب سبت کا ذکر سورہ بقرہ آیت ۶۵میں گزر چکا۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے خواہ وہ سورج ہو یا تارے، ناگ ہو یا آگ، بت ہو یا آسمان، فرشتے ہوں یا جن، ولی ہوں یا پیغمبر، مادی چیزیں ہوں یا روحانی اور مزعومہ دیوی ہو یا دیوتا۔

اللہ کی ذات میں شرک کی ایک مثال تو وہ ہے جو نصرانیت میں پائی جاتی ہے وہ ایک کی جگہ تین خداؤں کے قائل ہو گئے۔ باپ، بیٹا اور روح القدس اور دوسری مثال ہندوستان کے ایک بہت بڑے مذہبی گروہ کے عقیدے کی ہے جو خالق اور مخلوق میں فرق نہیں کرتا بلکہ ایک ہی وجود کا قائل ہے۔ یعنی اس کے نزدیک سب کچھ خدا ہے اور انسان بھی خدا ہی کا جز ء ہے اس نظریہ کو ہمہ اوست یا وحدۃ الوجود کہتے ہیں۔ اللہ کی صفات میں شرک کی مثال یہ عقیدہ ہے کہ خدائی انتظامات میں اور اس کے اقتدار (Sovereignty) میں دوسرے بھی دخیل اور شریک ہیں مثلاً کوئی بارش کا دیوتا ہے اور کوئی ہوا کا یا کوئی بیماری کی دیوی ہے اور کوئی دولت کی۔ اسی طرح اولیاء اور بزرگوں کے بارے میں یہ تصور کہ وہ غوث اور مشکل کشا ہیں اور انسان کی حاجت روائی کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی اس صفت میں کہ وہی رب اور حاجت روا ہے دوسروں کو شریک ٹھہرانا ہے اللہ تعالیٰ کی ایک مہتمم بالشان صفت یہ ہے کہ وہی پرستش کے لائق ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ بندے اسی کی عبادت کریں۔ اس میں شرک یہ ہے کہ آدمی غیر اللہ کو بھی عبادت کے لائق سمجھنے لگے یا کسی دیوی، دیوتا، بت اور سورج وغیرہ کی پوجا کرنے لگے یا اولیاء و انبیاء کی پرستش شروع کر دے۔ یہ سب شرک کی صورتیں ہیں ان کے علاوہ یہ بھی کھلا شرک ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو مطلق طور پر اطاعت کا مستحق سمجھا جائے یا کسی کے لئے شرعی قوانین میں ترمیم کا حق تسلیم کیا جائے یا جمہور کے اس دعوے کو صحیح قرار دیا جائے کہ اللہ کے احکام و قوانین سے قطع نظر انہیں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔ شرک چونکہ اس فطرت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور یہ سراسر اس کے خلاف سرکشی اور بغاوت ہے اس لئے اس کو سب سے بڑا جرم اور ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ شرک کے حکم میں کفر اور الحاد بھی شامل ہے کیونکہ اس کے معنی اللہ سے سرکشی اور بغاوت ہی کے ہیں اور اللہ کا انکار کر کے آدمی اپنے کو نیز دوسرے انسانوں کو خدائی کے مقام پر بٹھاتا ہے ظاہر ہے کہ اس طرح وہ لازماً شرک کا مرتکب ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ شرک مذہبی روپ میں آتا ہے اور الحاد لا دینیت کے روپ میں۔ آیت کے پس منظر میں چونکہ یہود ہیں جو خدا کے قائل ہو تے ہوئے شرک کا ارتکاب کرتے تھے اس لئے یہاں واضح کیا گیا کہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک سے کمتر درجہ کے جو گناہ ہوں گے ان کے معافی کا امکان ہے لیکن شرک پر اگر آدمی قائم رہا اور اس نے توبہ نہیں کی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہو گئی تو اس گناہ کے بارے میں اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اور بت پرستی کو معمولی گناہ خیال نہ کرو واقعۃً ً یہ زبردست گناہ ہے اور قیامت کے دن مشرکوں اور بت پرستوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا یا جائے گا۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کو بڑا پاکباز ظاہر کر تے ہیں جب کہ یہ شرک کی نجاست سے آلود ہ ہیں اور گناہ پر اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ انہیں من گھڑت باتوں کو مذہب کے نام سے پیش کرنے اور خدا کی طرف منسوب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ یہود اعتقاد و عمل کی ان تمام خرابیوں کے باوجود اس بات کے دعویدار تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "جبت ” استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی بے فائدہ چیز کے ہیں یہاں اس سے مراد ہر قسم کے اوہام و خرافات اور سفلی اعمال ہیں جن کا سرا شرک سے جا ملتا ہے مثلاً جادو، ٹونے، ٹوٹکے، رمل جفر، نجوم (جیوتش) ، فال گیری، بد شگونی وغیرہ۔ نیز اس کا اطلاق ساحر، کاہن، بت اور معبودان باطل پربھی ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : العیافۃ والطرق و الطیرۃ من الجبت جانوروں کے ناموں، ان کی آوازوں اور ان کے گزرنے سے شگون لینا، کنکریاں مار کر یا خط کھینچ کر کہانت کرنا، نیز ہر قسم کی بد شگونی "جبت ” کے قبیل سے ہے۔ وہم پرستی اور شرک کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اہل مذہب نے اپنے اپنے مذہب میں اوہام و خرافات کو بری طرح داخل کیا ہے لیکن اسلام کا دامن ان چیزوں سے بالکل پاک ہے اس کی بنیاد حقائق پر ہے اور اس نے وہم پرستی کی جڑ کاٹ دی ہے موجودہ مسلم سماج میں جو اوہام و خرافات پائے جاتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اسلام ان کا سخت مخالف ہے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "طاغوت” کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۸میں گز ر چکی۔ یہاں خاص طور سے وہ مذہبی پیشوا مراد ہیں جو فاسد عقائد کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ عقیدت مندی کو ” ایمان بالطاغوت ” (طاغوت پر اعتقاد رکھنے) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کو مسلمانوں سے ایسی کد پید ا ہو گئی تھی کہ وہ بت پرستوں کو اہل توحید کے مقابلہ میں برسر حق قرار دینے لگے تھے جبکہ ان کی مذہبی کتاب "تورات ” بت پرستی کو صریح گمراہی قرار دیتی ہے۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مسلمان ہیں۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر مدینہ میں ان کی سلطنت قائم ہوتی تو یہ اپنی تنگ نظری اور تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو ہر فائدہ سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا اس لئے وہ مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی قوت دیکھ کر اندر ہی اندر جل رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اطراف مدینہ میں یہودیوں کی جو آبادیاں تھیں ان کی حیثیت آزاد قبائل کی تھی اس دائرہ سے باہر مدینہ کی عام آبادی پر ان کا تسلط نہ تھا۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہیں نبیﷺ اور آپ کے پیروؤں سے اس بنا پر حسد ہے کہ نبوت جو ان کے خاندان (یعنی بنی اسرائیل) میں چلی آ رہی تھی وہ دوسرے خاندان (یعنی بنی اسماعیل) میں کس طرح چلی گئی۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ بات بنی اسرائیل کے ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ ابراہیم کی اولاد تم بھی ہو اور بنی اسماعیل بھی ہیں آج اگر ہم نے بنی اسماعیل کو کتاب و حکمت سے نوازا ہے اور انہیں اقتدار بخش رہے ہیں تو اس میں حسد کرنے کی کیا بات ہے یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہے بخشے، ویسے تمہیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئیے کہ وہ اس سے پہلے تمہیں بھی کتاب و حکمت سے نواز چکا ہے اور زبر دست سلطنت بھی عطا کر چکا ہے (مثلاً حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت) لیکن تم نے اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری کی اور اپنی نااہلی کا ثبوت دیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فضل کے لئے خاندان ابراہیمؑ کی دوسری شاخ (بنی اسمٰعیل) کا انتخاب فرمایا ہے

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان صفات کا حوالہ دینے سے مقصود (یہ واضح کرنا ہے کہ اتنی سخت سزا دینے پر اللہ قادر ہے اور اس کی حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ سرکشوں کو ایسی سخت سزا دی جائے ورنہ نظام کائنات حق و انصاف پر قائم نہیں رہ سکے گا۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امانتوں میں عام امانتیں بھی شامل ہیں مثلاً ڈپازٹ، واجب الادا قرضے وغیرہ اور ذمہ داری کے منصب بھی خواہ ان کا تعلق قیادت سے ہو یا حکومت سے اس دوسرے مفہوم کی تائید سیاق کلام سے ہوتی ہے نیز ذمہ داری کے منصب کے لئے امانت کا لفظ حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ قیامت کب آئے گی اپ نے فرمایا: اذا ضیعت الامانۃ فانتظر الاساعۃ قال کیف اضاعتھا قال اذا وسد الا مرُ الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو، پوچھا امانت کا ضائع کرنا کیا ہے ؟ فرمایا "جب معاملات (حکومت) نااہلوں کے حوالہ کر دئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو” (بخاری) ۔ معلوم ہوا کہ قیادت و رہنمائی اور سیاست و حکومت کی ذمہ داریوں کے مناصب نااہل، بد اخلاق، ظالم، بد دیانت، اور فاسق و فاجر لو گوں کے سپر د کرنا عام بگاڑ اور زبردست تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے (اصولی بات یہی ہے رہی حالات کی مجبوری تو اس کا تعلق اجتہاد سے ہے) امانت کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں اللہ کی سپر د کردہ امانتیں ہیں جن کے بارے میں اس کے حضور جوابدہی کرنا ہو گی۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ اقتدار کی ذمہ داری کی طرف ہے اور ہدایت یہ کی جا رہی ہے کہ اللہ کی طرف سے اقتدار پانے کے بعد تمہاری اولین ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اولی الامر (اصحاب امر) سے مراد ارباب اقتدار (Men of Authority) ہیں خواہ ان کا تعلق حکومت کے کسی بھی شعبہ سے ہو نبیﷺ جہاد کے لئے جو فوجی دستے روانہ کرتے تھے ان پر کسی کو امیر مقرر فرماتے تھے منکم کا لفظ صراحت کرتا ہے کہ یہاں وہ ارباب اقتدار مراد ہیں جو مسلمانوں میں سے ہوں ان کی اطاعت اس لئے مطلوب ہے تاکہ اسلام کے اجتماعی احکام کی تعمیل ہو، اس کے قوانین کو نافذ کیا جا سکے سوسائٹی کو صالح بنانے میں مدد ملے اور ایک عادلانہ نظام کا قیام عمل میں آئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کلمۂ حق سربلند ہو، اصحاب امر کی اطاعت کے سلسلہ میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

۱) اس آیت میں اللہ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس حکم میں اطاعت کا لفظ دو جگہ بیان ہوا ہے ایک اللہ کے ساتھ اور دوسرے رسول کے ساتھ جبکہ اولی الامر کے ساتھ یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اصل اطاعت اور وفاداری اللہ کی ہے اور اس کے بعد اس کے رسول کی، رہی اولی الامر کی اطاعت تو وہ ان دو اطاعتوں کے تابع ہے اس سے آزاد ہر گز نہیں۔

۲) یہاں اولی الامر کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کو ان حکمرانوں پر منطبق کرنا صحیح نہیں ہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا یا جن کا مشن ہی اللہ سے بغاوت پر لوگوں کو آمادہ کرنا ہو یا جو لادینی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوں یا خود فرعون بن بیٹھے ہوں۔

۳) اولی الامر کی اطاعت کا حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف کوئی حکم نہ دیں اگر وہ کوئی ایسا حکم دیں جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہو تو اس صورت میں اطاعت کا سوال پیدا نہیں ہوتا نبیﷺ کی حدیث ہے : لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ”

۴) اس آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا جو مثبت حکم دیا گیا ہے اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اس سے یہ منفی معنی نکالنا صحیح نہیں کہ اگر مسلمان کسی غیر اسلامی حکومت کے ماتحت ہوں تو وہاں ان کے لئے بدنظمی (Anarchy) کی صورت پیدا کرنا روا ہے۔ موجو دہ نظام حکومت میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اس لئے قطع نظر اس سے کہ قانون بنانے والے لوگ کون ہیں اور کیسے ہیں قانون اگر بجائے خود اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے نہیں ٹکراتا یا اسلام نے مباحات کاجو وسیع دائرہ رکھا ہے اس سے متعلق ہے تو اس کی پابندی اسلام کے منشا کے خلاف ہر گز نہیں بصورت دیگر اسے اضطرار اور مجبوری کی حد تک ہی گوارا کیا جا سکتا ہے

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا نے سے مراد کتاب و سنت کی طرف رجو ع کرنا ہے۔ اوپر حکم و اختیار رکھنے والوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا یہاں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں کتاب و سنت کی طرف رجو ع کرو یہ ہدایت دونوں کے لئے ہے ان کے لئے بھی جن کو اصحاب امر کی اطاعت کرنا ہے اور ان کے لئے بھی جو اصحاب امر ہیں یہ ایک جامع ہدایت ہے جس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے۔

۱) مسلمانوں کو ارباب اقتدار کے ساتھ اختلاف کا حق ہے اور اختلاف کی صورت میں فیصلہ کن چیز کتاب و سنت ہیں۔

۲) اس حق کا تقاضا یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ارباب اقتدار پر تنقید کی آزادی کا حق حاصل ہو۔

۳) اختلافات خواہ امت کے درمیان ہوں یا حکومت اور عوام کے درمیان یا خود اصحاب امر کے اندر فیصلہ کے لئے قرآن و سنت کی طرف رجو ع کرنا چاہئیے اور جو فیصلہ وہاں سے ملے اس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا چاہئیے۔

۴) حق کی کسوٹی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے اس لئے علماء، بزرگ، ائمہ، فقہا اور قائدین سب کے اقوال کو اسی کسوٹی پر پرکھنا چاہئیے ان میں سے کوئی بھی حق کی کسوٹی نہیں ہے کہ اس کا قول اور عمل لازماً صحیح ہو یا حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہو۔

۵) امام کے معصوم ہونے کا تصور جیسا کہ مسلمانوں کے بعض فرقوں کا عقیدہ ہے سراسر باطل ہے اگر یہ صحیح ہوتا تو عام مسلمانوں کو ان سے اختلاف کا حق دیا نہیں جاتا اور عام مسلمانوں کے آپس کے اختلاف کی صورت میں امام کی طرف رجو ع کرنے کا حکم دیا جاتا جبکہ اس آیت سے ان دونوں باتوں کی تردید ہوتی ہے چرچ کی معصومیت جیسا کوئی تصور اسلام میں ہرگز نہیں ہے۔

۶) کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جن مسائل میں کتاب و سنت کے نصی احکام موجود ہیں ان کی اسی طرح تعمیل کی جائے اور اگر حالات نے کوئی نیا مسئلہ کر دیا ہو تو کتاب و سنت کی دلیل کو متعلقہ مسئلہ میں فیصلہ کن تسلیم کیا جائے اور اشارات اور مقتضیات کو سامنے رکھکر یہ معلوم کیا جائے کہ کو ن سی بات کتاب و سنت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کے اس طریقہ کو قیاس اور اجتہاد کہتے ہیں۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر قسم کے اختلافات میں خواہ ان کی نوعیت مذہبی ہو یا سیاسی ہو قرآن و سنت کی طرف رجو ع کرنا ایمان کا صریح تقاضا ہے اس سے دنیا میں بھی بھلائی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہترین ثمرہ ملے گا۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "طاغوت” استعمال ہوا ہے جس کی تشریح اس سے پہلے گزر چکی (سورہ نساء نوٹ ۱۱۶، سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۸) یہاں طاغوت کا لفظ کتاب و سنت کے مقابل کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے جیسا کہ بعد والی آیت سے واضح ہے اس لئے یہاں اس سے مراد وہ حاکم یا جج ہے جو اللہ اور رسول کا مخالف ہو اور کتاب و سنت کے خلاف فیصلہ کرتا ہو۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جس بات کو ایمان کے منافی قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کتاب و سنت کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اور ” طاغوت” کی عدالت میں اپنا مقدمہ اس لئے لے جائے تاکہ وہاں اس کے حق میں فیصلہ ہو اگر چہ کہ وہ فیصلہ شریعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو واضح رہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر کیا گیا ہے وہ اہل کتاب سے تعلق رکھتے تھے وہ ایمان لانے کے بھی مدعی تھے اور ساتھ ہی اپنے مقدمات رسول کی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے یہود کی عدالت میں پیش کرنا چاہتے۔ روایات میں کعب ابن اشرف کنام آتا ہے جو یہودیوں کا سردار تھا اور مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا منافقین اس کی طرف رجو ع کر تے ظاہر ہے کہ ان کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی تھا لیکن وہ ایمان اور کفر دونوں کو جمع کرنا چاہتے تھے یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ ان آیات کے نزول کے وقت تک مدینہ کی اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع نہیں ہو سکا تھا اور مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کی قبائلی ریاستیں قائم تھیں اس طرح گویا اس علاقہ میں اسلام اور طاغوت کی متوازی عدالتیں Parallel courts قائم تھیں۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس وقت اسلام دشمن طاقتوں کا زور ٹوٹے گا اور مسلمانوں کو غلبہ اور استحکام حاصل ہو گا اس وقت یہ منافقین اپنے کو بے یار و مددگار پا کر تمہارے پاس معذرت کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے سابقہ رویہ کی یہ توجیہ کریں گے کہ ہمارا مقصد تو، مسلمانوں اور یہودیوں میں میل ملاپ پیدا کرنا تھا چنانچہ اس آیت کے نزول کے چند سال بعد یہی صورت پیش آئی۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے ان کے علاج کی صحیح تدبیر یہاں بتائی گئی جس سے دعوت و اصلاح کا کام کرنے والوں کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ وہ اپنے اس کام کے لئے مورث پیرایہ بیان اختیار کریں اور ان کا طریقۂ دعوت Approach ایسا ہو کہ دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول اسلئے نہیں آتا کہ اس کے ساتھ صرف ف عقیدت کا اظہار کرو اور پھر اس کی اطاعت یا نہ کرو بلکہ رسول اس لئے آتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے کیوّنکہ رسول خدا کی طرف سے احکام اور قوانین لے کر آتا ہے۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسو ل کی موجودگی میں طاغوت کی عدالت میں مقدمات لے جانا رسو ل کے لئے تکلیف دہ بات تھی اور اس سے عدالت رسول کی توہین ہوتی تھی اس لئے اس گناہ کی تلافی کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اللہ سے معافی کے خواستگار ہونے کے ساتھ رسول کی بھی دعائے مغفرت کے طالب بنیں۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ رسول کی اطاعت بغیر کسی تحفظ کئے اور بے چوں و چرا کرنا ایمان کا کھلا ہوا تقاضا ہے نبیﷺ کے کسی بھی فیصلہ پر ایک مسلمان کو خلش تک نہیں محسوس کرنا چاہئے کجا یہ کہ وہ آپ کے کسی حکم اور کسی فیصلہ کو اپنی خواہش یا زمانہ کے رجحانات کے مطابق نہ پا کر اس پر ناک بھوں چڑھانے لگے۔

علامہ جصاص لکھتے ہیں ” یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے ک جو شخص اللہ یا اس کے رسولﷺ کے کسی حکم کو رد کر دے وہ اسلام سے خارج ہے خواہ اس نے شک کی بنا پر اس حکم کو رد کیا ہو یا ماننے اور قبول کرنے ہی سے اسے انکار ہو ” (احکام القرآن ، ج ۲، ص ۲۶۰)

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو اختیار ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جس بات کا چاہے حکم دے اور جب دنیا کی زندگی آزمائش ہی کے لئے ہے تو اپنے آپ کو قتل کرنے یا گھر بار چھوڑ دینے کا حکم دے کر بھی آزمائش کی جا سکتی تھی لیکن خداوند رحمن نے انسان کو اتنی زبردست آزمائش میں نہیں ڈالا اور شریعت آسان بنا دی۔

اس کے بعد بھی اگر لوگ شریعت پر نہ چلیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہو گی اس آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی اصل روح Spirit یہ ہے کہ اللہ کی وفاداری ہر چیز پر مقدم ہو حتی کہ اپنی جان پر بھی اور اس کی خاطر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے یہاں تک کہ اپنے گھر بار اور اپنے وطن عزیز کو بھی خیر باد کہا جا سکتا ہے جس موقع پر دین کا جو تقاضا ہو اس کا پورا کرنا ہی اصل دینداری ہے۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ منافقانہ طرز عمل چھوڑ دیتے اور خلوص کے ساتھ رسول کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرتے تو انہیں زندگی کے ہر معاملہ میں حق و صداقت کا راستہ نظر آتا اور صحیح طرز عمل کی توفیق نصیب ہوتی۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام سے مراد ایمان اور ہدایت کی نعمت سے نوازنا ہے (ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ ۱۰) ۔

۱۳۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام یافتہ گروہ چار ہیں : انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین۔

انبیاء سے مراد وہ تمام پیغمبر ہیں جو مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں اللہ کی طرف سے دین حق لے کر آئے۔

صدیقین سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں صداقت شعاری کا وصف کمال درجہ پر ہو یہ ایمان و عمل کے لحاظ سے انبیاء کے بعد صف اول کے لوگ ہیں۔ شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کی شہادت دینے میں اپنی جان بھی قربان کر دی اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کا رویہ اختیار کیا جنت کی سوسائٹی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہو گی گویا انسانیت کا سارا جوہر وہاں موجود ہو گا ایسے بہترین لوگوں کی رفاقت کا میسر آنا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہو گا نیک آدمی دنیا میں بھی اپنی رفاقت کے لئے نیک آدمیوں ہی کا انتخاب کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی نیک لوگوں ہی کے زمرہ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت جنگ کی دو صورتیں تھیں ایک منظم فوج کشی دوسرے دستوں کی صورت میں دشمن پر چھاپہ مارنا جسے ” سَرِیّہ ” کہتے ہیں ان دونوں طریقوں کو اختیار کرنے کی ہدایت اس آیت میں دی گئی ہے اور نبیﷺ نے یہ دونوں طریقے اختیار کئے تھے۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منافقین مسلمانوں کی کامیابی کو اپنی کامیابی نہیں سمجھتے اس لئے انہیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو کامیابی ہوئی اور وہ مال غنیمت میں حصہ دار بننے سے محروم رہے۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے ان لوگوں کو اٹھنا چاہئے جو آخرت کی خاطر اپنی دنیا تج دیں ایسے ہی لوگ اپنے ایمان میں مخلص اور اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں رہے وہ لوگ جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے مفاد کو عزیز رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین کے لئے انہیں کوئی قربانی نہ دینا پڑے تو جہاد کی راہ ایسے لوگوں کے لئے نہیں ہے۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت مکہ اور اس کے اطراف میں مسلمان محض اس لئے کافروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا تھا الفاظ دیگر وہ مسلمانوں کو ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق دینے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ظلم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ تھے قرآن نے بتلایا کہ ایسے مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کے لئے جنگ کرنا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے جیسا کہ بعد کے فقرہ سے واضح ہے اور طاغوت کی راہ میں لڑنے سے مراد ان باطل مقاصد کے لئے لڑنا ہے جن کے لئے شیطان انسان کو ابھارتا ہے یعنی اللہ کے دین کی مخالفت کرنے، اس کے ماننے والوں کا زور توڑنے، حکم خداوندی کی جگہ انسان کا حکم چلانے، زمین پر اصلاح کے بجائے فساد برپا کرنے اور اسلام کے بجائے کفر کو غالب کرنے کی غرض سے لڑنا۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ شیطان کے ورغلانے میں آ کر اسلام اور اس کے علمبرداروں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں ان کی یہ کاروائیاں کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں ہوتیں اس لئے اگر اہل حق ان کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں تو ان کے سارے منصوبے خاک میں مل کر رہ جائیں گے۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت سے امام رازی نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ جہاد پر مقدم ہیں (ملاحظہ ہو تفسیر رازی، ج ۳، ص ۲۷۲) بلاشبہ دین میں ان دو چیزوں کو اولیت حاصل ہے اور یہ عبادتیں مقصود بالذات ہیں رہا جہاد تو اس کی اہمیت اور فضیلت اپنی جگہ، وہ واجب اسی وقت ہو تا ہے جبکہ حالات اس کے متقاضی ہوں ورنہ ایک مسلمان کے لئے اس کی نیت رکھنا کافی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جہاد کا مقام نہایت بلند ہو نے کے باوجود اس کا شمار ارکان خمسہ میں نہیں ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ جہاد جب فرض عین قرار پائے تو اس سے جی چرانا ایمان کو مشتبہ بنا دیتا ہے کیونکہ یہ ایمان کا کھلا تقاضا ہے کہ آدمی دین کے لئے غلبہ چاہے اور اللہ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب تک جنگ کا حکم نہیں دیا گیا تھا اس کے لئے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن جب اس کا حکم دے دیا گیا تو ان پر شاق گزرنے لگا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جو قربانیاں بھی تم دو گے وہ رائیگاں جانے والی نہیں ہیں بلکہ تمہیں ان کا پورا پورا اجر ملے گا۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی تدبیر اور احتیاط سے کام نہ لے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس گمان میں مبتلا نہ ہو کہ تدابیر اسے موت سے بچا سکتی ہے موت تو اپنے وقت پر آ کر رہے گی اس لئے آدمی کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے گریز نہ کرے۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کسی مشکل سے دوچار ہو تو اسے یہ منافق پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے ہیں حالانکہ پیغمبر کو ئی کام بغیر خدا کے حکم کے نہیں کرتا اور کائنات میں تصرف بھی اللہ ہی کا ہے اس کی مشیت کے بغیر نہ کوئی نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان اس لئے کسی نقصان کے پہنچ جانے پر اس کی ذمہ داری پیغمبر پر ڈالنا خلاف واقعہ بھی ہے اور ایمان کے منافی بھی۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گو خیر اور شر دونوں چیزیں اللہ ہی کی مشیت سے ظہور میں آتی ہیں لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ خیر کی حالت ا للہ کی رحمت کا فیضان ہے جبکہ شر کی حالت انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور اللہ کے بخشے ہوئے اختیارات کو غلط طریقہ پر استعمال کرنے سے ظہور میں آتی ہے اس لئے شر کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا چاہئے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر منافقین رسول کی ہر بات کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے ہیں تو نہ سمجھیں محمدﷺ کے رسول ہونے کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے اور یہ گواہی اللہ نے قرآن کے ذریعہ دی ہے اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ صرف عربوں کی طرف نہیں بلکہ تمام اقوام کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اور اس طرح کی دوسری آیات صراحت کرتی ہیں کہ رسو ل کی اطاعت درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے اس لئے کہ رسو ل جو بھی حکم دیتا ہے خدا ہی کی طرف دیتا ہے نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی اطاعت بہ حیثیت رسول نہ صرف آپ کی زندگی بلکہ آپ کی وفات کے بعد اسی طرح مطلوب ہے

ہمارے لئے آپ کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ سنت ثابتہ اور احادیث صحیحہ ہیں ان کی پیروی آپؑ کی اطاعت کے ہم معنی ہے اور ان سے انکار آپﷺ کی نافرمانی کے مترادف ہے۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو زبردستی راہ ہدایت پر چلائے بلکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین میں بعض ایسے بھی تھے جو مدینہ میں رات کو مجلسیں جما کر اسلام اور نبیﷺ کے خلاف خفیہ مشورے کرتے تاکہ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں اور اپ کو زک پہنچائی جا سکے۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں قرآن پر تدبر کی دعوت دی گئی ہے جس سے درج ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔

۱) تدبر کی یہ دعوت عام ہے چنانچہ ان لوگوں کو بھی قرآن پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو مؤمن نہیں ہیں تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ اس کے مضامین باہم مربوط اور اس کی تعلیمات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں جبکہ اس کا موضوع نہایت وسیع ہے یعنی انسانی زندگی کے لئے مکمل ہدایت، یہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو ایسے وسیع موضوع پر جس کا تعلق مشاہدات ہی سے نہیں ما بعد الطبیعی حقائق سے بھی ہو اور جو انسان کی فطرت، اس کی نفسیات، اس کے مبداء و معاد اور اس کی زندگی کے جملہ گوشوں سے بحث کرتا ہو ممکن نہیں کہ اس میں تضاد نہ پایا جائے۔

کیونکہ انسان کا علم محدود ہے اس لئے وہ کائنات کے اسرار پر سے پردہ اٹھا سکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات پیش کر سکتا ہے جو انسان کو صحیح طور سے زندگی گزارنے اور اس کے خالق سے صحیح تعلق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔

۲) قرآن پر غور کرتے رہنے سے حکمت کے دروازے کھلتے ہیں اور ایمان و ایقان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

۳) یہ بات صحیح نہیں کہ قرآن صرف عالموں کے سمجھنے کی چیز ہے بلکہ ہر انسان کے سمجھنے کی چیز ہے اگر یہ عالموں کے لئے مخصوص ہوتا تو اس پر تدبر کی عام دعوت نہ دی جاتی۔

۴) قرآن کی تمام باتیں باہم مربوط اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اس لئے کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو دوسری آیتوں سے متناقض ہو۔

۵) قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا اور اس کی تعلیمات پر معترض ہونا سراسر تضاد فکری ہے اور یہ نتیجہ ہے قرآن پر تدبر نہ کرنے کا۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت مدینہ میں جنگ کے حالات تھے۔ ایسے حالات میں افواہیں پھیلانے میں سرگرم ہو گئے تھے اس لئے ان کی اس حرکت پر گرفت کی گئی اور اس قسم کی خبروں کو رسول اور ذمہ دار لوگوں کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے اصولی طور پر یہ ہدایت ملتی ہے کہ ملت کی سیاسی زندگی پر اثر انداز ہونے والی خبروں کو عوام میں پھیلانے سے پہلے ذمہ دار افراد کے علم میں لانا چاہئے تاکہ وہ ان کی حقیقت معلوم کر سکیں ضمناً اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اصحاب امر کے منصب کے لئے موزوں وہ لوگ ہو سکتے ہیں جن کے اندر سوجھ بوجھ معاملہ فہمی اور تدبر کے اوصاف پائے جاتے ہوں۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو حق کی تائید و حمایت کریں گے وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کی مخالفت کریں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین سے اعراض کی جو ہدایت آیت ۸۱میں دی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان ان کے ساتھ اخلاق سے پیش نہ آئیں اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کریں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ جو شخص بھی اپنے کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور تمہیں سلام کرتا ہے تم اس سے بے رخی نہ برتو بلکہ اس کے سلام کا جواب اس سے بہتر طریقہ پر دو یا کم از کم ان الفاظ ہی کو لوٹاؤ۔ اسلامی تہذیب کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو السّلامُ علیکم (تم پر سلام ہو) کے دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے اور اس کے جواب میں دوسرا مسلمان وَعَلَیْکُمُ السّلَامُ (تم پر بھی سلام ہو) کہے سلام کے یہ کم سے کم کلمات ہیں اور اگر اس پر و رحمۃ اللہ و برکاتہ (اور تم پر اللہ کی رحمت اور برکت بھی ہو) کا اضافہ کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ حدیث میں یہ کلمات آئے ہیں۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دار الحرب کے منافقین ہیں جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے لیکن اصلاً انہیں دلچسپی کفر سے تھی چنانچہ وہ کافروں کے ساتھ مل کر ان کاروائیوں میں حصہ لیتے تھے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جاتیں اور انہیں اپنا گھر بار اتنا عزیز تھا کہ وہ ہجرت کر کے نبی اور اس کے ساتھیوں سے ملنے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں مسلمانوں میں دو رائیں پائی جاتی تھیں ایک گروہ کہتا تھا کہ ان کے ساتھ بھی کافروں جیسا معاملہ کیا جانا چاہئے لیکن دوسرا گروہ اس امید پر کہ وہ اچھے مسلمان بن جائیں گے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر قرآن نے انہیں متنبہ کیا کہ وہ خود کیا مسلمان بنیں گے الٹے وہ تمہیں کا فر بنا نے کی فکر میں ہیں اگر وہ اپنے ایمان میں مخلص ہیں تو ہجرت کر کے نبی اور اس کے ساتھیوں سے آ ملیں بصورت دیگر ان سے بھی جنگ کرنا چاہئیے۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے مصلحت پرستی اختیار کی اور کفر کی طرف قدم بڑھایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو الٹے پاؤں کفر ہی کی طرف دھکیل دیا۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہاں ان لو گوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا لیکن تھے وہ در حقیقت کافر اور اس بات کے خواہشمند تھے کہ مسلمان بھی کافر بن جائیں ان کا یہ کفر ہی تھا جو انہیں ہجرت سے روک رہا تھا کیونکہ ہجرت کے لئے زبردست قربانی کی ضرورت تھی۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ ہجرت کرتے ہیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مخلص مسلمان بنیں گے اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے انہیں مخلص مؤمن بننے کی توفیق عطا کرے واضح رہے کہ یہاں ہجرت کے ساتھ فی سبیل اللہ کی بھی قید ہے یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہجرت ایمان کے تحفظ اور اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ہو اسی صورت میں دوست بنایا جا سکتا ہے۔

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسی صورت میں تم انہیں دشمنوں کا ساتھی سمجھو اور جہاں پاؤ، پکڑو اور قتل کرو۔ یہ حکم ان منافقین کا ہے جو کافر قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں اوپر نوٹ ۱۵۹میں اس کی تشریح گزر چکی ہے۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان لوگوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جو قتل کے حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی جو منافق کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہد ہ ہے تو معاہد ہ کے احترام کی بنا پر ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا اسی طرح ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا جو غیر جانب دار رہیں یعنی نہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کریں اور نہ مسلمانوں کی حمایت میں اپنی قوم سے لڑیں۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اللہ ان کو حوصلہ دیتا تو وہ تم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے لیکن ایسا نہیں ہوا لہٰذا ان کے موجود ہ رویہ کو غنیمت سمجھو اور جب تک وہ تم سے نہ لڑیں اور تمہارے ساتھ صلح و آشتی کا رویہ اختیار کئے رہیں تم بھی ان کے خلاف اقدام نہ کرو۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں فتنہ سے مراد جنگی کاروائیاں ہیں جو کفار مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکم ان لوگوں کے بارے میں ہے جو مسلمانوں کے خطرے سے بھی محفوظ رہنا چاہتے تھے اور اپنی قوم کے خطرے سے بھی لیکن جب ان کی قوم کا دباؤ پڑ جاتا یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنی قوم کے ساتھ شریک ہو جاتے۔ چنانچہ قبیلہ اسد و غطفان کے لوگوں نے مدینہ آ کر اسلام قبول کیا اور نبیﷺ سے معاہدہ بھی کیا لیکن اپنی قوم میں واپس لوٹ کر قوم کے اصرار پر مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدامات میں شریک ہو گئے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اللہ نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ ان کو جہاں پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قتل خطا کا کفارہ ہے چونکہ مقتول مؤمن تھا اس لئے اس کا کفارہ یہ مقرر کیا گیا کہ ایک مومن غلام کو آزاد کیا جائے موجود ہ زمانہ میں غلامی کا رواج باقی نہیں رہا اس لئے کفارہ کی ادائے گی کی دوسری صورت اختیار کرنا ہو گی یعنی دو ماہ کے مسلسل روزے جیسا کہ اسی آیت میں آگے بیان ہو ا ہے۔

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیت (خون بہا) کی مقدار نبیﷺ نے ایک سو اونٹ مقرر فرمائی تھی (احکام القرآن للجصاص، ج ۲، ص ۲۸۳)

لہذا اگر نقدی کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس کے مساوی قیمت ادا کرنا ہو گی۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں کسی مسلمان کے غلطی سے قتل کئے جانے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی صورت یہ کہ مقتول دار الاسلام کا باشندہ ہو اس صورت میں کفارہ بھی ادا کرنا ہو گا اور خون بہا بھی دینا ہو گا دوسری صورت یہ ہے کہ مقتول دار الحرب کا باشندہ ہو اس صورت میں صرف کفارہ دینا ہو گا اور تیسری صورت یہ ہے کہ مقتول معاہد ہ قوم سے تعلق رکھتا ہو یعنی کسی ایسے دار الکفر کا باشندہ ہو جس سے مسلمانوں نے معاہدہ کر رکھا ہے اس صورت میں کفارہ بھی دینا ہو گا اور دیت بھی ادا کرنا ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے خالد بن ولید کو بنی خزیمہ کی طرف بھیجا انہوں نے بنی خزیمہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی انہوں نے اپنے قبول اسلام کا اعلان ایک ایسے لفظ سے کیا جو مبہم تھا یعنی (اسلمنا) کے بجائے (صبأنا) کہا حضرت خالدؓ نے غلط فہمی میں ان کے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ جب نبیﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا خدایا خالد نے جو کچھ کیا اس سے میں بری ہوں اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیج کر ان کے مقتولوں کو دیت ادا کر دی اور ان کے نقصان کی تلافی کی حتی کہ ان کے کتے کی بھی قیمت ادا کر دی۔ یہ حدیث بخاری کی ہے اور اسے نقل کر کے ابن کثیر ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ حکم نکلتا ہے امام یا اس کے نائب (سپہ سالار وغیرہ) سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس کا معاوضہ بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۵۳۵)

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ زمانہ میں جب کہ غلامی کا رواج ختم ہو گیا ہے غلام کو آزاد کرنے کا بدل یہ ہو گا کہ دو ماہ کے متواتر روزے رکھے جائیں متواتر کا مطلب یہ ہے کہ بلا عذر شرعی ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑ نہ دیا جائے اور جو شخص روزے بھی نہ رکھ سکتا ہو اس کے مسئلہ کا حل علماء کا ایک گروہ یہ بتا تا ہے کہ اسے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یہ بات ظہار کے کفار ہ پر قیاس کر کے کہی گئی ہے۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کفارہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ توبہ ہے تاکہ قتل کرنے والے کو اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ ندامت اور شرمساری کے ساتھ اللہ کی طرف رجو ع ہو۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں کسی مسلمان کو ناحق اور دانستہ قتل کرنے والے کے لئے پانچ وعیدیں آئی ہیں ایک یہ کہ اس کی سزا جہنم ہو گی دوسری یہ کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا تیسری یہ کہ اس پر اللہ کا غضب ہو گا چوتھی یہ کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور پانچویں یہ کہ اسے بہت بڑا عذاب بھگتنا ہو گا جو اس کے لئے خاص طور سے تیار رکھا گیا ہے اس سے اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے اسلام میں شرک کے بعد یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور حدیث میں اسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے نبیﷺ کا ارشاد ہے :” سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر”” مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے (مسلم کتاب الایمان) ۔ لا ترجعو ا بعد ی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (مسلم کتاب الایمان) ۔

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی علاقہ پر حملہ کے لئے نکلو تو پوری تحقیق کر لو کہ مسلمان کہاں کہاں ہیں تاکہ ان پر غلطی سے حملہ نہ کر بیٹھو اور اگر کوئی شخص اپنے ایمان کے اظہار کے لئے تمہیں سلام کرے تو اس کے اسلام کا انکار نہ کرو اگر مال غنیمت کے لالچ میں اس پر حملہ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہئیے اللہ کے پاس مال ک بڑے ذخیرے ہیں لہذا اجر آخرت کو مقصود بناؤ۔ اسلام میں جنگ کا مقصد محض ملک فتح کرنا نہیں ہے بلکہ حق اور عدل کا قیام ہے اس لئے اگر عین حالت جنگ میں دشمن قوم کا کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے یا السلام علیکم کہ کر اپنے مسلمان ہو نے کا اظہار کرتا ہے تو باوجود اس احتمال کے کہ ممکن ہے جان بچانے کی خاطر جھوٹ بول رہا ہو اس کو قتل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ واقعی مسلمان ہو گیا ہو لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔ اس سے یہ اصولی ہدایت ملتی ہے کہ کسی کلمہ گو کی تکفیر نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلائے اسے مسلمان تسلیم کرنا چاہئیے الّا یہ کہ تحقیق سے ثابت ہو جائے کہ وہ اپنے دعوے میں بالکل جھوٹا ہے۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے پہلے تم نے بھی محض کلمہ پڑھ کر اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان میں پختگی عطا فرمائی اور تم پکے مسلمان بن گئے اسی طرح یہ لوگ بھی اگر اپنے مسلمان ہونے کا زبانی اقرار کریں تو اسے تسلیم کرو۔

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس صورت کا ذکر ہے جبکہ جہاد کے لئے نفیر عام نہ ہوئی ہو اور کچھ لوگوں کا جہاد کرنا کفایت کرتا ہو چنانچہ نبیﷺ چھوٹی چھوٹی مہم پر فوجی دستے روانہ کرتے تھے جس کو ” سریّہ ” کہا جاتا ہے ایسے حالات میں جہاد کی حیثیت ایک درجۂ فضیلت ہی کی ہے لیکن اگر جہاد فرض عین یا نفیر عام ہو جائے تو اس صورت میں بھلائی کا وعدہ بلا عذر رہنے والوں کے لئے نہیں ہے واضح رہے کہ جن غزوات میں خود نبیﷺ نکل گئے تھے ان میں بلا عذر بیٹھ رہنے والوں پر قرآن میں سخت گرفت کی گئی ہے کیونکہ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ اللہ کا رسو ل اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ایک مہم پر روانہ ہو جائے اور اس کے پیرو اپنی جان بچانے کے لئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں جبکہ ایمان کا صریح تقاضا یہ ہے کہ نبی کی جان اپنی جان سے بھی عزیز تر ہو اور واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر جہاد سے وہی لوگ کتراتے تھے جو منافق تھے ورنہ ہر مسلمان جان نثارِ رسول تھا۔

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبیﷺ کے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد جو مسلمان مکہ اور اس کے اطراف میں رہ گئے تھے ان پر ہجرت فرض ہو گئی تھی ہجرت کا یہ حکم درج ذیل وجوہ سے دیا گیا تھا :

۱) مکہ اور اس کے اطراف کے علاقہ میں جہاں مشرکین کو اقتدار حاصل تھا عقیدہ و ضمیر کی آزادی حاصل نہیں تھی اس لئے جو لوگ مشرکانہ مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور انہیں اس بات کے لئے مجبور کیا جار ہا تھا کہ وہ دین اسلام چھوڑ کر مشرکانہ مذہب میں واپس آ جائیں ان حالات میں ایمان پر قائم رہنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا نتیجہ یہ کہ جن لوگوں کا ایمان ابھی پختہ نہیں ہوا تھا وہ یا تو اپنے ایمان کو چھپاتے یا مشرکانہ مذہب کے ساتھ سازگاری پید آ کرتے اس طرح اسلام اور شرک اور ایمان اور کفر دونوں کو جمع کیا جاتا ظاہر ہے کہ جس زمین میں ایمان پر قائم رہنے کی آزادی نصیب نہ ہو اس زمین کو خیر آباد کہنا ایمان کا صریح تقاضہ ہے خواہ وہ مکہ کی مقدس زمین ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ایمان اور خدا سے وفاداری خاک و خون کی وفاداریوں پر مقدم ہے۔

۲) اللہ کے رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد مسلمانوں کے ہجرت سے گریز کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ رسول کی محبت پر اپنے گھر بار کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں جب رسول سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کو رسو ل نے چھوڑا اسے اہل ایمان بھی چھوڑ دیں اور رسول کی معیت اس کی خدمت میں حاضری اور اس کی مدد کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھیں اور اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

۳) اسلام اور کفر کے درمیان جنگ برپا تھی اور اللہ کا رسول اپنے مٹھی بھر رفقاء کے ساتھ مشرکین مکہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے خود میدان جہاد میں موجود ہوتا تھا اس لئے اس وقت اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کی طاقت ایک مرکز پر جمع ہو اور رسول کی قیادت میں دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا جائے لیکن جن مسلمانوں نے ہجرت نہیں کی تھی ان کا وزن اسلام کے پلڑے میں پڑنے کے بجائے دشمنان اسلام کے پلڑے میں پڑ رہا تھا یہاں تک کہ بعض لوگ مشرکین کے دباؤ کی وجہ سے ان کے لشکر میں شریک ہونے کے لئے اپنے کو مجبور پاتے اور اس طرح رسول اور اس کے ساتھیوں کے مقابلہ کے لئے میدان جنگ میں آ موجود ہوتے۔ یہ تھے اس وقت کے حالات جن میں مکّہ اور اس کے اطراف میں رہنے والے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں اس حکم کی تعمیل نہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ایمان کو فتنہ میں ڈالنا گوارا کر لیں لیکن اپنا گھر بار چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں اسی لئے اس آیت میں کسی حقیقی عذر کے بغیر ہجرت نہ کرنے کو اپنے نفس پر ظلم ڈھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور انہیں سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جس ملک میں بھی اظہار اسلام کی آزادی نہ ہو اور جبر و استبداد کی وجہ سے ایمان ہی خطرہ میں پڑ جائے وہاں سے کسی ایسے خطۂ زمین کی طرف ہجرت کرنا ضروری ہے جہاں ایمان کی حفاظت کی جا سکتی ہو اور اسلام کے کم از کم بنیادی تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہو الّا یہ کہ ایسے حالات میں بھی آدمی ہجرت کرنے پر قادر نہ ہو۔

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کا یہ وعدہ حرف بہ حرف پور ا ہوا اور مہاجرین کو مدینہ میں بڑا عمدہ ٹھکانہ میسر آیا اور رفتہ رفتہ انہیں معاشی فراوانی بھی حاصل ہو گئی۔

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی حکم کی بجا آوری کے سلسلہ میں آدمی کی نیت اور عملی قدم اٹھانے کا اعتبار ہے اگر اس کام کی تکمیل سے پہلے اس کی موت واقع ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر مارا نہیں جائے گا اور وہ اس کی بخششوں اور رحمتوں کا مستحق قرار پائے گا۔

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ "صلوٰۃ خوف ” کا بیان ہے یعنی حالت جنگ میں نماز ادا کر نے کا طریقہ جسے "قصر ” سے تعبیر کیا گیا ہے اور "قصر” کی جو شکل نبیﷺ کی سنت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نمازوں کی رکعتیں چار چار کے بجائے دو دو پڑھی جائیں رہیں مغرب اور فجر کی نمازیں تو ان میں قصر نہیں ہے لہٰذا سفر اور حضر دونوں میں مغرب کی تین رکعتیں اور فجر کی دو رکعتیں ادا کی جائیں گی۔ قصر کا حکم اصلاً جہاد کی وجہ سے دیا گیا تھا لیکن پھر ہر طرح کے سفر کے لئے عام کر دیا گیا لیکن سفر میں بالعموم بے اطمینانی کی کیفیت ہوتی ہے نبیﷺ نے حالت امن کے سفر میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کو جائز ٹھہراتے ہوئے فرمایا : صدقۃ تصدق اللّٰہ بھا علیکم فَاقْبَلُو اصدقتہ قصر کی اجازت اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے لہٰذا اس بخشش کو قبول کرو۔ (مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین) ۔ اور نبیﷺ سے یہ سنت بھی ثابت ہے کہ آپﷺ خوف اور امن دونوں حالتوں میں قصر فرمایا کرتے تھے۔

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں حالت جنگ میں نماز با جماعت کی ادائے گی کا ایک مخصوص طریقہ بتا یا گیا ہے جو نبیﷺ کی موجودگی میں اختیار کرنا ضروری تھا کیونکہ آپﷺ کی موجودگی میں جب کہ آپﷺ نماز کی امامت فرما رہے ہوں مناسب یہی تھا کہ پوری فوج آپ ہی کی اقتداء میں نماز ادا کرے الگ الگ امام اور الگ الگ جماعتیں نہ ہوں اور صحابہ کرامؓ پر بھی یہ بات شاق تھی کہ آپﷺ امامت فرمائیں اور ان میں سے کوئی شخص اس میں شرکت سے محروم رہے اس لئے اپ کی موجود گی میں صلوٰۃ خوف ادا کرنے کا مخصوص طریقہ بتا یا گیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک گروہ اسلحہ کے ساتھ آپ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑا ہو اور دوسرا گروہ حفاظت کا کام انجام دے جب پہلا گروہ آپ کی اقتداء میں ایک رکعت ادا کر چکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے اور اس کے بعد پیچھے چلا جائے اور حفاظت کا کام سنبھال لے اور دوسرا گروہ اسلحہ کے ساتھ آئے اور آپﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے جب اپ کے ساتھ ایک رکعت ادا کر چکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے۔ اس سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ عین میدان جنگ میں بھی اس کی ادائے گی ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جہاد کی اصل روح نماز ہی ہے نیز اس سے نماز با جماعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے حالت جنگ میں اگر جماعت سے نماز ادا نہ کی جا سکتی ہو تو پھر فرداً فرداً ادا کرنا چاہئے اگر قبلہ کی طرف رخ نہ کیا جا سکتا ہو تو جس طرف بھی رخ کیا جا سکے اور اگر رکو ع اور سجدہ نہ کیا جا سکتا ہو تو اشارہ سے نماز پڑھنا چاہئے اور اگر ایسی حالت ہو کہ کسی طرح بھی نماز ادا نہ کی جا سکتی ہو تو پھر قضا کرنی چاہئیے۔ نبیﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر جبکہ معرکۂ قتال گرم تھا نماز مؤخر کی اور بعد میں قضاء پڑھی۔

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر بارش کی وجہ سے ہتھیار اتارنا پڑے تو حفاظتی نوعیت کی چیزیں ضرور لئے رہو اس زمانہ میں حفاظتی نوعیت کی چیزیں زرہ بکتر، خود، ڈھال وغیرہ تھیں اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن نے دفاع کا اہتمام کرنے پر کس قدر زور دیا ہے۔

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کو ہر حال میں یاد کرو، اللہ کو یاد کرنے سے حوصلے بلند ہوتے ہیں لہذا میدان جنگ میں بھی ذکر الٰہی سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب خوف کی حالت دور ہو اور اطمینان کی صورت پیدا ہو جائے تو معمول کے مطابق پوری نماز ادا کرو۔

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ نماز کے اوقات مقر رہیں جن کی پابندی اہل ایمان پر فرض ہے رات اور دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء۔ ان نمازوں کے اوقات کی تفصیل نبیﷺ نے بیان فرمائی ہے۔

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم اللہ سے اس کی نصرت اور آخرت کی کامیابی کی امید رکھتے ہو اس لئے تمہارے حوصلے بلند ہو نے چاہئیں اور تمہیں صبر سے کام لینا چاہئیے۔

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں خیانت سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بے وفائی ہے جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے وہ ایک نہ ایک حرکت ایسی کرتے جس سے دین کو نقصان پہنچتا اور خدا اور رسول کے تعلق سے ان کی غلط ذہنیت کا اظہار ہوتا لیکن چونکہ یہ لوگ مسلمان کہلانے کی بنا پر مسلم معاشرے کا جز ء بن گئے تھے اور مسلمانوں کی ان سے رشتہ داریاں بھی تھیں اس لئے جب ان کی غلط حرکتوں پر گرفت کی جاتی تو بعض مسلمان ان کی حمایت کرنے لگتے یہاں اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بد عہدی کرنے والوں کی حمایت کرنا صحیح نہیں۔ کسی کے برسر حق ہونے یا بر سر باطل ہونے کا فیصلہ کتاب الٰہی کی روشنی ہی میں ہونا چاہئے اور بے لاگ ہونا چاہئے۔ آیت میں خطاب نبیﷺ سے ہے لیکن دراصل تنبیہ آپ کے واسطے سے ان مسلمانوں کو ہے جو منافقین کی حمایت کرتے تھے۔

۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی خفیہ مجلسوں اور سازشوں کی طرف۔

۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص صرف اپنے کئے کا ذمہ دار ہو گا اور دوسروں کے گناہوں کا بوجھ قبول کرنے والا نہیں پھر تم دنیا میں نام نہاد مسلمانوں کی بیجا حمایت کر کے کیا حاصل کر و گے ؟

۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے اور اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت کے خلاف در پردہ سازشیں کر رہے تھے انہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر اب بھی وہ اپنی گزشتہ حرکتوں پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگیں اور اللہ سے وفاداری کا تعلق جوڑیں تو اللہ کی بخشش و رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی اس حرکت کی طرف کہ جب ان کی کوئی سازش پکڑی جاتی یا ان کا کوئی گناہ ظاہر ہو جاتا تو وہ بہانہ بنا کر دوسروں کو اس کا قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کرتے، قرآن نے اصولی طور پر واضح کیا کہ کسی بھی جرم یا گناہ کا ارتکاب بجائے خود بری بات ہے لیکن اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپنا، گناہ کا بہت بڑا بوجھ اپنے سر لینا ہے کیونکہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے۔

۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں نبیﷺ کو خطاب کر کے اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو منافقین کے فتنوں سے تم بچ نہیں سکتے تھے وہ تمہارے خلاف برابر سازشیں کر رہے ہیں اور تمہیں غلط راستے پر ڈالنے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں ان کے فتنوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ جس کتاب و حکمت سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں نواز ا ہے اس کی قدر کرو۔

۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان منافقین کی اکثر سرگوشیاں فتنہ و فساد کے لئے ہوتی ہیں۔

۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترغیب ہے اس بات کی کہ پوشیدگی میں بھی بھلائی کی باتیں کی جائیں اور بھلائی ہی کے منصوبے بنائے جائیں۔

۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمنین کی راہ سے مراد سچے اہل ایمان کا طریقہ ہے اس آیت کے نزول کے وقت اس کے مصداق صحابۂ کرام تھے جنہوں نے دین کی مخلصانہ پیروی کا طریقہ اختیار کیا تھا وہ رسول کے سچے وفادار تھے اس کی مکمل اتباع کرتے اور انہیں رسول کی طرف سے جو حکم بھی ملتا اس کی تعمیل میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے اگر چہ کہ اس کے لئے انہیں شدید خطرات مول لینا پڑتے دوسری طرف منافقین کا گروہ تھا جو اپنے کو مسلمان کہلاتا تھا لیکن جس پر دین کی مخلصانہ پیروی کرنا اور رسول کی سچی وفاداری کا ثبوت دینا شاق گزر رہا تھا اس لئے وہ دین کے معاملے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہتا تھا جو ” مطابق مصلحت ” ہو اور اسے اپنی خواہشات ، اپنے رجحانات، اپنے مال اور اپنی جان کی قربانی نہ دینا پڑے۔ وہ رسمی اور بے روح دینداری کو اختیار کر کے مطمئن تھا کہ جنت میں جانے کے لئے یہ "شارٹ کٹ ” کا فی ہے۔ اس ذہنیت کے لوگ آج بھی مسلمانوں کے اندر دیکھے جا سکتے ہیں زمانہ کی ” مصلحتوں ” نے انہیں اسلام میں ایک نئی راہ نکالنے پر مجبور کیا ہے اس لئے ان کی ” دینداری ” میں اور مخلص مسلمانوں کی ” دینداری” میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ایک کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے تو دوسرے کا اس کی مخالف سمت کو، ایک اسلام کے احکام پر خلوص کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا بہانے تلاش کر کے اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے ایک دین کی روح اجاگر کرتا ہے تو دوسرا اس پر مادیت کے پردے ڈال دیتا ہے ایک گروہ چاہتا ہے کہ اسلام کے معاشرتی قوانین برقرار رہیں مگر دوسرا گروہ اس کا خاتمہ چاہتا ہے ایک گروہ شرعی احکام کی تطبیق پر زور دیتا ہے لیکن دوسرا گروہ اصرار کرتا ہے کہ انسان کے خود ساختہ قوانین ہی رائج ہو نے چاہئیں اس طرح دونوں کے زاویۂ نگاہ، طرز عمل، اور طریقۂ جدوجہد میں مشرق اور مغرب کا فرق ہوتا ہے یہ سب لوگ مسلم معاشرہ میں شامل سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ دوسرا گروہ مسلمان نہیں ہوتا اس قسم کے لو گ مسلمان کہلانے کے باوجود آخرت میں جہنم کے مستحق قرار پا سکتے ہیں۔

۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک، کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۱۱۱۔

۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی گناہ ہے لہٰذا اس سے ہر حال میں لازماً بچنا چاہئیے۔

۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے سے مراد حاجت روائی، مشکل کشائی اور فریاد رسی کیلئے پکار نا ہے۔ مشرکین حاجت روائی کے لئے دیویوں کو پکارتے ہیں کیونکہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہو تے ہیں کہ خدا نے اپنے اختیارات ان میں تقسیم کر دئے ہیں اس لئے کوئی دیوی دھن دولت سے نواز سکتی ہے تو کوئی بیمار کو اچھا کر سکتی ہے کوئی اولاد عطا کر سکتی ہے تو کوئی بگڑی ہوئی قسمت بنا سکتی ہے قرآن بتا تا ہے اور عقل اور فطرت اس کی تائید کرتی ہے کہ اول تو دیوی دیوتاؤں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے سارے اختیارات اور کامل اقتدار اللہ ہی کے پاس ہے اور خدائی ایک ناقابل تقسیم چیز ہے اور پھر حاجت روائی کے لئے کسی کو پکارنا در حقیقت اس کو معبود بنانا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کو ئی بھی عبادت کے مستحق نہیں ہے۔ ” یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مشرکین کی دیو مالا میں خواہ وہ کسی قوم و ملک کے مشرکین ہوں دیویوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے چین، ہندوستان، عرب، مصر اور بابل نینوا وغیرہ کے مشرکانہ مذاہب کی جو تاریخ موجود ہے اس پر ایک سرسری نظر ڈال کر اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے یہ بات بھی خاص طور پر ملحوظ رکھنے کی ہے کہ زندگی کی جو اصل ضرورتیں ہیں وہ بیشتر انہیں دیویوں سے متعلق سمجھی جاتی رہی ہیں۔ عرب جاہلیت میں بھی خدائی کے نظام پر بیشتر دیویوں ہی کا قبضہ تھا۔ لات، منات، عزّیٰ، وغیرہ دیویوں ہی کے نام ہیں۔ یہ فرشتوں کے بت تھے جن کے متعلق مشرکین کا عقیدہ تھا کہ یہ خدا کی لاڈلی اور چہیتی بیٹیاں ہیں جن کی بات خدا کبھی نہیں ٹالتا اس وجہ سے ان کے واسطہ سے جو کچھ مانگا جائے اگر یہ راضی ہوں تو وہ مل کر رہتا ہے۔ (تدبر قرآن، ج ۲، ص ۱۶۰) ۔ واضح رہے کہ شر ک صرف مشرکین (بت پرستوں) ہی میں نہیں تھا بلکہ اہل کتاب نے بھی مشرک قوموں سے متاثر ہو کر مشرکانہ طریقے اختیار کر لئے تھے۔

۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیوی دیوتاؤں کا تصور دراصل شیطان کا فریب ہے اور ان کی پرستش کرنے کا حکم بھی شیطان ہی دیتا ہے اس لئے جو لوگ اس کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں وہ در حقیقت شیطان ہی کے پرستار ہیں۔

۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے اس لئے وہ خیر سے یکسر محروم اور سرتا پا شر ہیں لہٰذا جو خیالات بھی وہ انسان کے ذہن میں ڈالے گا وہ گمراہ کن ہی ہوں گے اس حقیقت کے پیش نظر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہے اور ذہن میں پیدا ہونے والے فاسد خیالات کا کوئی اثر قبول نہ کرے۔

۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ابلیس کا قول ہے جو شیطانوں کا سردار ہے اس نے یہ بات اللہ تعالیٰ سے اس وقت کہی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے زمین کی خلافت کا تاج اس کے سر پر رکھا تھا ابلیس کو انسان سے حسد تھا اور اس نے قیامت تک کے لئے زندہ رہنے کی مہلت اللہ تعالیٰ سے حاصل کر لی تھی اس لئے اس نے اپنے اس منصوبہ کا اعلان کر دیا کہ وہ بندگان خدا کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گا۔ واضح رہے کہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ انسان کو زبردستی غلط راستہ پر ڈال دے بلکہ اسے غلط راستہ کی طرف بلانے، گناہ کی ترغیب دینے اور برائی کو خوشنما بنا کر پیش کرنے کا اختیار دیا ہے تاکہ خیر و شر کے معاملہ میں انسان کی آزمائش ہو۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ انسان دین کے معاملہ میں حقیقت پسند نہ بنے اس لئے وہ دین کی بنیادی باتوں کے سلسلہ میں غلط توجیہات میں الجھا کر اسے کامیابی کے سبز باغ دکھانے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ صریح شر ک میں مبتلا ہو نے کے باوجود خد ا سے انعام کی امید رکھتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دین میں بدعات و خرافات پیدا کر کے اس کی جڑ پر کلہاڑا چلاتے ہیں اور اپنی ان ” خدمات ” پر اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہیں۔

۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین جانوروں کے کان نذر کی علامت کے طور پر چیر تے تھے اور انہیں اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔

۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی کی ایک شکل تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی یعنی جانوروں کے کان چیرنا۔ اس کے علاوہ اس کی دوسری بھی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں مثلاً تحدید نسل کے لئے نس بندی، نزاکت پیدا کرنے کے لئے پنڈلیوں وغیرہ کو کاٹنا ، خصی کرنا، جنس تبدیل کرنا، مرد کا عورت نما اور عورت کا مرد نما بننا وغیرہ۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے جس ساخت پر انسان کو پیدا فرمایا ہے اس میں وہ کسی قسم کے رد و بد ل کا مجاز نہیں ہے الا یہ کہ شارع نے خود اس کی اجازت دی ہو مثلاً ختنہ کرنا، ناخن ترشوانا، بغل کے بال مونڈنا وغیرہ جو در حقیقت فطرت ہی کے تقاضے ہیں یا پھر انسانی عضو میں کسی قسم کی کاٹ چھانٹ کرنے کے لئے شدید مجبوری لاحق ہو جیسا کہ بعض حالات میں آپریشن کر کے ہا تھ پاؤں بھی کاٹ ڈالنا پڑتے ہیں ان استثنائی صورتوں کو چھو ڑ کر مشرکانہ مقاصد کے لئے یا تہذیب جد ید کے نام پر یا باطل نظریات کے زیر اثر خدا کی بنائی ہوئی ساخت میں کسی قسم کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنا وہ ماڈل Modelپسند نہیں کرتے جو ہمارے خالق نے بنا یا ہے بلکہ چاہتے ہیں کہ اپنی پسند کے موڈل میں ڈھل جائیں ظاہر ہے کہ یہ فطرت سے جنگ کرنے کے ہم معنی اور شیطان کی تحریک کا نتیجہ ہے۔

۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں جہنم سے نجات باطل آرزوؤں اور جھوٹی امیدوں میں مگن رہنے سے نہیں ملے گی بلکہ وہاں جزائے عمل کا قانون حرکت میں آئے گا دنیا میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب سے رسمی وابستگی کو اپنی نجات (مکتی) کے لئے کافی خیال کرتے ہیں اور خوش گمانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم فلاں اور فلاں مذہبی پیشواؤں کے نام لیوا ہیں اس لئے ہمارا بیڑا پار ہے مسلمان بھی اسی طرح کی خوش اعتقادی میں مبتلا ہو گئے ہیں لیکن قرآن متنبہ کرتا ہے کہ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ بننے والا نہیں ہے۔ آخرت میں جس بنیاد پر فیصلہ ہو گا وہ انسان کا اپنا ایمان اور عمل صالح ہے لہٰذا جس کسی کا عمل برا ہو گا وہ اس کی سزا ضرور پائے گا خواہ وہ اپنے کوکسی مذہب کی طرف منسوب کرتا رہا ہو۔

۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کا مخلص دوست یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے بائبل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ” اے یعقوب جس کو میں نے پسند کیا جو میرے دوست ابرہام کی نسل سے ہے ” (یسعیاہ ۴۱: ۸) ۔

۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ کا اقتدار بھی ہمہ گیر ہے اور علم بھی ہمہ گیر۔

۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز میں عدل کی شرط کے ساتھ تعدد ازواج کی جو اجازت دی گئی ہے اس کے سلسلہ میں بعض سوالات پیدا ہو گئے تھے جن کا جواب یہاں دیا گیا ہے یہ جواب آگے آیت ۱۲۸میں درج ہے اور اس جواب سے سوال کی نوعیت خود واضح ہو جاتی ہے۔

۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کے اصل سوال کا جواب دینے سے قبل ان احکام کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جن میں یتیموں کے حقوق اور خاص طور سے یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک یتیموں کے حقوق کی کیا اہمیت ہے اور ان کی ادائے گی کی کتنی سخت تاکید کی گئی ہے۔

۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے آیت ۳  کی طرف جس میں فرمایا گیا تھا کہ ” اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کر لو ” یہاں واضح فرمایا کہ ” وہ یتیم لڑکیاں جنہیں تم ان کا مقر رہ حق نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو ” اس سے معلوم ہوا کہ آیت ۳میں یتیموں سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور ان کے ساتھ انصاف نہ کرنے سے مراد ان کا حق ادا نہ کرنا ہے اس مقر رہ حق میں ان کا حق وراثت (ان کے باپ کی چھوڑی ہوئی دولت) بھی شامل ہے اور یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر کسی نے ایک بیوی کے ہوتے ہوئے یتیم لڑکی سے شادی کر لی تو اسے اس کے ساتھ بھی برابری کا سلو ک کر نا ہو گا۔ آیت کا خطاب گو عام ہے لیکن یہاں خاص طور سے یتیم بچیوں کے سرپرست مراد ہیں چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو یتیم بچیاں مالدار ہونے کے ساتھ خوبصورت بھی ہوتیں ان سے ان کے سرپرست خود نکاح کر لیتے اور ان کے مال پر قابض ہو جاتے ان کا نکاح دوسری جگہ کرنے سے اس لئے کتراتے کہ ان کا حق وراثت ادا نہ کرنا پڑے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص ۵۶۱)

اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ قرآن یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کی حوصلہ شکنی کرتا ہے یتیم لڑکی کو رفیقہ حیات بنا لینا بجائے خود نیکی کا کام ہے لیکن جب یہ کام کسی کا مال ہڑپ کرنے کی غرض سے کیا جائے یا ایک بیوی کی موجودگی کسی یتیم لڑکی سے اسے بے وقعت سمجھ کر شادی کر لی جائے اور عدل و قسط کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر تعدد ازواج کے قانون سے فائدہ اٹھایا جائے تو پھر یہ کام نیکی کا نہیں رہتا۔ اس سے اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اسلام میں اصل اہمیت فر د کے اخلاقی رویہ کی ہے اس لئے اسے اسی پہلو سے سوچنا چاہئیے نہ کہ محض ” مسائل کو حل کرنے ” کے پہلو سے۔

۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو سورہ کے آغاز میں نادانوں کو ان کا مال حوالہ کرنے نیز بچوں کے حق وراثت کے سلسلہ میں دئیے گئے ہیں۔

۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو سورہ کی ابتدائی آیتوں میں یتیموں سے متعلق دئیے گئے ہیں۔

۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اصل استفتاء کا جواب قرآن نے تعدد ازواج کی اجازت کو عدل کی شرط کے ساتھ جو مشروط کیا ہے اس کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی پہلی بیوی سے عدل کا معاملہ نہ کرے اور اس بیوی کو یہ اندیشہ محسوس ہو کہ اگر وہ اس پر زور دیتی ہے تو وہ اسے طلاق دے دے گا اور وہ نہیں چاہتی کہ وہ اسے طلاق دے تو کیا ایسی صورت میں بیوی اپنے کچھ حقوق سے دست بر دار ہو کر شوہر کو اس بات پر آمادہ کر سکتی ہے کہ وہ طلاق نہ دے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے یعنی اگر کوئی عورت یہ محسوس کرے کہ شوہر اس کے حقوق ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے یا اس معاملہ میں بے پروا ہے اور اس پر زور دینے کی صورت میں طلاق کا اندیشہ ہے تو باہم سمجھوتہ کر لینا بہتر ہے ایسی صورت میں عورت اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو سکتی ہے کیونکہ طلاق کے معاملہ میں مصالحت بہر حال بہتر ہے ۲۱۴یعنی معاشرتی تعلقات کی خرابی میں تنگ دلی کو بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ تنگ دلی مرد کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور عورت کی طرف سے بھی۔ اگر دونوں وسیع القلبی کے ساتھ ایک دوسرے سے معاملہ کریں تو ایک دوسرے کے حقوق بھی اد ا ہو سکتے ہیں اور گھر کی فضاء بھی خوشگوار ہو سکتی ہے۔

۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعدد ازواج کی صورت میں عدل کو جو لازم قرار دیا گیا ہے اس کے تعلق سے یہ سوال پیدا ہو ا کہ محبت و رغبت سب بیویوں کے ساتھ یکساں نہیں ہو سکتی اور نہ جسمانی تعلق سب کے ساتھ بالکل یکساں رکھا جا سکتا ہے ایسی صورت میں عدل کی شرط کو کیونکر پورا کیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہاں یہ دیا گیا کہ اس حد تک یکسانیت تو یقیناً انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ عور توں کے درمیان مختلف حیثیتوں سے فرق بھی ہوتا ہے مثلاً خوبصورتی، مزاج، عمر، صحت اور قابلیت وغیرہ کے لحاظ سے ایک کو دوسرے پر فوقیت ہوتی ہے اور اس بنا پر مرد کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہو سکتا ہے اس لئے شریعت بیویوں کے درمیان ایسی مساوات قائم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتی جو انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان امکان بھر عدل کر و اور ایک بیوی کی طرف اس طرح جھک نہ پڑو کہ دوسری کو معلق چھوڑ دو تمہیں دونوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اصلاح اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے باوجود اس معاملہ میں اگر کچھ غلطیاں سرزد ہو گئیں تو اللہ سے امید رکھو کہ وہ معاف فرمائے گا۔

۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کوشش کے باوجود نباہ نہ ہو سکا اور زوجین کو ایک دوسرے سے علیٰحدگی ہی اختیار کرنا پڑی تو انہیں چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ دونوں کو اپنے فضل سے مستغنی کرے گا۔

۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے ” اس کو یہاں تین مرتبہ دہرا یا گیا ہے (آیت ۱۳۱ میں دو مرتبہ اور آیت ۱۳۲میں ایک مرتبہ) یہ محض تکرار نہیں ہے بلکہ مختلف پہلوؤں سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ مالکِ کل تنہا وہی ہستی ہے اس لئے اسی سے امیدیں وابستہ کی جانی چاہئیں اسی سے ڈرنا چاہئیے اور اسی کو مرجع بنانا چاہئے۔ پہلی مرتبہ اس فقرہ کا ذکر اس پہلو سے ہے کہ جو ہستی آسمان و زمین کی مو جود ات کی مالک ہے وہ تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہو سکتی وہ یقیناً بڑی فراخ دست اور بڑی فیاض ہے اس لئے تم (زوجین علیٰحدگی کی صورت میں) اس سے بجا طور پر یہ امید کر سکتے ہو کہ وہ تم میں سے ہر ایک کو اپنے فضل سے مستغنی کر دے گا۔ دوسری مرتبہ اس کو دہرانے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ یہ جو معاشرتی ہدایات دی گئی ہیں وہ تمہاری اپنی بھلائی کے لئے ہے اس سے اللہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے اگر تم کفر بھی کرو تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ بگڑنے والا نہیں کیونکہ ساری کائنات اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر طرح کے کمالات سے متصف ہے اور تیسری مرتبہ اس کے اعادہ کا منشاء یہ ہے کہ بندے اسی پر توکل کریں۔

۲۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے نزدیک دنیا کے فائدے بھی ہیں اور آخرت کے بھی اب یہ تمہارے اپنے ظرف اور حوصلہ کی بات ہے کہ تم صرف دنیا کے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو یا دنیا اور آخرت دونوں کے۔ اگر دنیا اور آخرت دونوں کے فائدے حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرو۔

۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے، بے لاگ انصاف کرنے اور غیر جانبدارانہ طریقہ پر بالکل بے لوث ہو کر صرف خدا کی خاطر گواہی دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ عدل و قسط اور شہادت حق کا وہ اعلیٰ معیار ہے جس پر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ حقوق العباد میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے لیکن قرآن کے نزدیک حق پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ بے لاگ انصاف کیا جائے اور گواہی کے معاملہ میں ان کی بھی رعایت نہ کی جائے اور جب والدین کی رعایت کرنا درست نہیں تو ان کے بعد جن کا درجہ ہے ان کی رعایت کے لئے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ بالفاظ دیگر یہ اصولی ہدایت ہر قسم کی بے جا عصبیت اور جانبداری کی جڑ کاٹ دیتی ہے ا ور یہ واضح کرتی ہے کہ آدمی کا مقام خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو انصاف کے معاملہ میں سب یکساں ہیں۔

۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کا حق سب سے بڑا ہے لہذا اللہ کے قانون عدل کے سامنے سب برابر ہیں۔

۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مقدمہ میں گواہی صاف صاف دینا چاہئے اور گواہی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس پر خدا کے یہاں گرفت ہو گی۔

۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایمان لانے والوں سے مراد عام مسلمان ہیں جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کا دین اسلام ہے خواہ وہ اپنے دین میں مخلص ہوں یا نہ ہوں۔ ان سے ایمان لانے کا مطالبہ یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ دل سے ایمان لائیں اور سچے اور پکے مؤمن بن جائیں۔

۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کفر کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی صاف صاف انکار کر دے اور دوسری شکل یہ ہے کہ زبان سے تو اقرار کرے لیکن دل سے نہ مانے۔

۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہو ا کہ مؤمنوں کے مفاد کے خلاف کافروں سے دوستی گانٹھنا تاکہ کرسی اور عہدے ملیں اور لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں منافقانہ حرکت ہے کسی سچے مسلمان کا یہ کام ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی ملت کے ساتھ غدار ی کرے۔

قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود آج مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ملت اسلامیہ سے غداری کر کے کافروں کی طرف پینگیں بڑھاتے ہیں اور انہیں ہر قیمت پر خوش کرنے کا سامان کرتے ہیں تاکہ انہیں عزت کا مقام حاصل ہو۔ کاش انہیں خبر ہوتی ک یہ جھوٹی عزت ہے جس پر وہ ریجھ گئے ہیں سچی عزت تو اللہ ہی کے پاس ہے اور اس کی رضامندی کے کام کر کے ہی اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورہ انعام آیت کی طرف۔

۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن مجلسوں میں اللہ کے دین اور اس کے احکام و ہدایات کے خلاف کافرانہ خیالات کا اظہار کیا جاتا ہو یا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہو ان میں شرکت غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔

۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ بقرہ آیت ۹میں یہ مضمون گزر چکا۔

۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی نماز محض دکھاوے کی ہوتی ہے۔

اس زمانہ میں اپنا شمار مسلمانوں میں کرانے کے لئے نماز با جماعت میں شرکت ضروری تھی لیکن اب انحطاط کا یہ عالم ہے کہ جو شخص سر ے سے نماز ہی نہ پڑھتا ہو وہ نہ صرف مسلمان ہو سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کا قائد اور ہیرو بھی اور مسجد میں حاضر نہ ہونے والا مسجد کا متولی بن سکتا ہے۔

۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں منافقین کے نماز کی تین بڑی خرابیاں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ کاہلی کے ساتھ کھڑا ہونا، دوسرے یہ کہ دکھاوے کی نماز پڑھنا، تیسرے یہ کہ اللہ کو برائے نام یاد کرنا۔ اس سے مخلصین مؤمنین کی نماز کی خصوصیات آپ سے آپ واضح ہو جاتی ہیں۔ یعنی نماز کے لئے چستی کے ساتھ کھڑے ہونا، ریا اور نمائش سے احتراز کرتے ہوئے محض اللہ کے لئے نماز پڑھنا اور اللہ سے د ل لگا کر اس کو بہ کثرت یاد کرنا۔

۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس نے غلط راستہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ایسے شخص کو راہ راست پر لگانا پھر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

۲۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو نوٹ ۴۱آل عمران۔

۲۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنبیہ ہے منافقین کو کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ وہ چونکہ اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے وہ کافروں کے مقابلہ میں بہتر ہیں اور خدا کے ہاں ان کی کوئی قدر ہو گی نہیں بلکہ وہ کافروں سے بدتر ہیں اور ان سے زیادہ سخت سزا کے مستحق ہیں اس لئے کہ دل سے یہ بھی کافر ہیں مزید برآں اپنے کو مسلمان ظاہر کر کے خدا اور خلق کے ساتھ دھوکہ بازی کرتے ہیں۔

۲۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منافقین عذاب سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں جبکہ وہ اپنی یہ ذہنی، فکری اور عملی اصلاح کر لیں۔

۲۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ کفر اور نفاق سراسر ناشکری ہے جبکہ ایمان کی حقیقت شکر ہے۔

۲۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہذا اگر تم شکر گزار بندے بنو تو وہ تمہارے اعمال اور خدمات کی قدر کرے گا اور اس کا بھر پور صلہ دے گا۔

۲۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مظلوم کو ظالم کے خلاف بولنے کا حق ہے۔

۲۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان صفات کے ذکر سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ مظلوموں کی فریاد سنتا ہے اور ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کا اسے اچھی طرح علم ہے جس سیاق میں یہ بات ارشاد ہو ئی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے مخالفین اور منافقین مسلمانوں کو مشتعل کر نے اور انہیں زک پہنچانے کے درپے تھے۔

۲۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مخالفین کی زیادتی کے باوجود اگر تم نے کھلے اور چھپے بھلا ئی کی روش اختیار کی اور درگزر سے کام لیتے رہے تو تمہارا یہ طرز عمل اللہ کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ ہو گا کیونکہ وہ سزا دینے پر پوری طرح قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں سے در گزر فرماتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی ان صفات کا اثر اس کے بندے قبول کریں۔

۲۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ ان لوگوں کو کافر قرار دیتی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کو مانتے ہوئے کسی ایک رسول کو نہ مانیں کیونکہ ایمان وہی معتبر ہے جو خدا کی ہدایت کے مطابق ہو نہ کہ اپنے من مانے طریقہ پر۔ لہذا جو شخص حضرت محمدﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لاتا اس کے کٹر کافر ہو نے میں کوئی شبہ نہیں ہے خواہ وہ خدا اور اس کے رسولوں کو ماننے کا کتنا ہی بلند بانگ دعویٰ کرے۔

۲۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ان کا اجر ” کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان و عمل کے لحاظ سے جس درجہ کے ہوں گے اس درجہ کے اجر کے وہ مستحق قرار پائیں گے۔

۲۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لائین گے ان کے ساتھ وہ درگزر کا معاملہ کرے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔

۲۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لو گ اس قسم کے مطالبے کر تے ہیں وہ دراصل اس بات کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ حقیقت اس طرح آشکارا ہو کر ان کے سامنے آ جائے کہ وہ اپنے سر کی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں اور غیب پر ایمان لانے کا سوال باقی نہ رہے۔ ظاہر ہے ان کی یہ خواہش اور یہ مطالبہ اس حکمت کے سراسر خلاف ہے جو انسان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے اور وہ اپنی عقل سے کام لیکر اور حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والی نشانیوں کو دیکھ کر آسمانی ہدایت کی روشنی میں غیبی حقائق پر ایمان لائے۔ اگر انسان حقیقت پسندی سے کام لے تو وہ اس قسم کے مطالبات کبھی نہیں کرے گا بلکہ اللہ کی اس اسکیم کو جو اس دنیا میں نافذالعمل ہے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔

” کڑک نے پکڑ لیا تھا ” اس واقعہ کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۷۵۔

۲۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے کے بعد بچھڑے کی پوجا کی تھی ان کے اسی قومی جرم کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اور اسکی تفصیل سور ہ اعراف آیات ۱۵۲۔ ۱۴۸ اور سورہ طٰہٰ آیات ۸۷۔ ۹۸میں بیان ہوئی ہے۔

۲۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو حجت قاطع عطا کی تھی تاکہ وہ جو باتیں اللہ کی طرف سے پیش کریں ان کو صحیح تسلیم کرنے میں لوگوں کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔

فحوائے کلام سے واضح ہے کہ نبیﷺ کو قرآن کی شکل میں حجت قاطع عطا کی گئی ہے لہٰذا اس کو من جانب اللہ تسلیم کرنے میں خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب کوئی عذر باقی نہیں رہا۔

۲۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سور ہ بقرہ نوٹ ۸۸۔

۲۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۸۹۔

۲۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۸۹۔

۲۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کے جرائم بیان کرنے میں اس قدر جوش غضب کا اظہار ہو ا ہے اور کلام میں ایسا زور اور شدت پیدا ہو گئی ہے کہ ان جرائم کی بنا پر جو سزا انہیں دی گئی اس کو الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی لئے جو بات یہاں محذوف ہے اسے ہم نے قوسین میں بیان کر دیا ہے یعنی ان جرائم کی بنا پر اللہ کا یہود پر لعنت کرنا، گویا جوش غضب کے اظہار سے آپ سے آپ غضب ٹوٹ پڑا ہے۔

۲۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں بنی اسرائیل کے ان جرائم کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جس قوم کی تاریخ اس قسم کے جرائم سے بھری پڑی ہو اور جن کا قومی مزاج ہی باغیانہ بن چکا ہو وہ اگر آج تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ قرآن کو آسمان سے اترتا ہوا دکھا دو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ ان کو نہ کوئی بات سمجھنا ہے اور نہ ایمان لانا بلکہ وہ محض بات ٹالنے کی غرض سے شرائط اور مطالبات پیش کر رہے ہیں۔

۲۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود فخر کے ساتھ کہتے کہ ہمارا عقیدہ اتنا پختہ ہے کہ تمہاری بات کا کوئی اثر ہمارے دلوں پر نہ ہو گا حالانکہ حق آ جانے کے بعد غلط عقائد پر جمے رہنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔

۲۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معجزانہ طریقہ پر بغیر باپ کے ہوئی تھی اور آپ نے گہوارہ میں سے خطاب کر کے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا تھا اس لئے آپ کے دور میں کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی تھی کہ وہ آپ کی والدہ محترمہ پر اس سلسلہ میں بہتان لگا تا لیکن بعد میں یہود یوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کی غرض سے حضرت مریم پر گھناؤنا الزام لگایا۔

۲۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود گناہ پر اتنے ڈھیٹ ہو گئے تھے کہ حضرت عیسیٰ ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کے خلاف قتل کی سازش کرنے میں انہیں ذرا تامل نہ ہوا اور پھر فخر کے ساتھ دعویٰ کرنے لگے کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا۔ اگر چہ کہ ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سازش کو ناکام بنا دیا لیکن اس سے ان کے جرم کی سنگینی اور ان کی سنگ دلی کا اندازہ ہوتا ہے۔

۲۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے آیت ۱۵۹ کے اخیر ” ان پر گواہی دے گا ” تک کا مضمون جملہ معترضہ کے طور پر ہے چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی بات چھڑ گئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اوپر کے سلسلۂ بیان کو روک کر حقیقت حال واضح فرما دی۔

۲۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ یہود کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو سولی دی وہ نہ قتل کر سکے اور نہ سولی دے سکے بلکہ واقعہ یہ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بحفاظت اپنی طرف اٹھا لیا اور آپ کے اچانک اوپر اٹھا لئے جانے سے حقیقت حال ان پر مشتبہ ہو گئی۔ انہوں نے آپ کو رسوا کرنے اور آپ کے مشن کو ناکام بنا نے کے لئے سولی دئیے جانے کے فرضی افسانے گڑھ لئے اور اس کا پروپگنڈہ اتنے بڑے پیمانے پر کیا کہ نصاریٰ بھی اس فریب کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو مظلوم ثابت کر دکھانے اور پھر اس پر کفار ہ کے عقیدہ کی عمارت کھڑی کر نے کی غرض سے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اسے بائبل میں بھی شامل کر لیا۔ حالانکہ یہ بات جہاں یہود کے لئے باعث فخر تھی وہاں نصاریٰ کے لئے باعث استخفاف تھی۔ قرآن نے قتل مسیح کی حقیقت پر سے پر دہ اٹھا کر حضرت مسیح کی شان میں اضافہ ہی کیا ہے رہا یہ سوال کہ اشتباہ کس طور سے پیش آیا تو اس کی صورت متعین کرنا مشکل ہے۔ اس سلسلہ میں اٹکل سے بات کرنے کے بجائے قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کر لینے ہی میں سلامتی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت بیت المقدس پر رومیوں کی حکومت تھی اور یہودی علماء اور ان کے سرداروں نے ایک سازش کے تحت رومی حکام کو حضرت مسیح کے خلاف اکسایا تھا اور انہیں گرفتار کرنے اور سولی دینے پر آمادہ کیا تھا حکومت وقت کو مشتعل کرنے کے لئے انہوں نے خاص طور سے جو حربہ استعمال کیا تھا وہ ان کا یہ الزام تھا کہ حضرت مسیح یہود کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

۲۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اختلاف کرنے والوں سے مراد نصاریٰ ہیں۔

۲۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جس زمانہ میں قرآن نازل ہو رہا تھا قتل مسیح کے بارے میں نصاریٰ کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح کو سولی دئے جانے اور قبر سے ان کے اٹھ کھڑے ہونے کا جو قصہ بائبل میں بیان ہوا ہے ایک معمہ سا بن گیا ہے۔ بائبل کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی بناء پر مسیحیوں نے حضرت مسیح کی موت کے بارے میں عجیب و غریب فلسفے ایجاد کئے۔ چنانچہ ایک فلسفہ Docetism کے نام سے مشہور ہوا جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا جسم مادی تھا۔ اس غیر حقیقت پسندانہ ذہنیت نے انہیں یہ باور کرایا کہ وہ خدا کے بندے نہیں بلکہ نعوذ باللہ اس کے بیٹے تھے۔ یہ سب تصورات بعد میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں ہے :

"One would thought that the first and second Christian generations would at any rate have had no doubt about our Lord’s real manhood”.

(Ency. of Religion & Ethics Vol. Vol IV Page 832)

"It was a possible to show to any one who accepted the story of His life in the Gospels that He was a real man, subject to the normal conditions of human life”.

(ERE Vol. IV Page 833)

اس انسائیکلوپیڈیا میں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ باسلق اس بات کے قائل ہیں کہ صلیب غلطی سے سائمن کو دی گئی تھی۔

"Irenaeus says that Besilides’ account of the crucifixion was that Simon of Cyrene was crucified by mistake”.

ERE Vol. Page 833

رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبر سے جی اٹھنے کا قصہ جو بائبل میں مختلف انداز سے بیان ہوا ہے تو اس کے انداز بیان ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں جن کو جمع کر لیا گیا ہے اور جن کی حقیقت افسانہ سے زیادہ نہیں۔ مثال کے طور پر یوحنا کی انجیل میں ہے :

"لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھک کر اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہوئے ایک سرہانے اور دوسرے کو پیتانے بیٹھے دیکھا۔ جہاں یشوع کی لاش پڑی تھی۔ انہوں نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روتی ہے ؟ اس نے ان سے کہا اس لئے کہ میرے خداوند کو اٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھا ہے ؟ یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑ ے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ یسوع نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روتی ہے ؟ کس کو ڈھونڈتی ہے ؟ مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں کو خبر دی کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں ” (یوحنا ۲۰: ۱۱۔ ۱۸)

واضح رہے کہ یہاں جس مریم کا ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہیں بلکہ دوسری مریم ہے) لیکن لوقا کی انجیل میں مریم کے یسوع کو قبر کے پاس کھڑے دیکھنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں یہ قصہ اس طرح بیان ہوا ہے۔

” اور جب اس کی لاش نہ پائی تو یہ کہتی ہوئی آئیں کہ ہم نے رؤیا میں فرشتوں کو ہی دیکھا انہوں نے کہا وہ زندہ ہے اور بعض ہمارے ساتھیوں میں سے قبر پر گئے اور جیسا عورتوں نے کہا تھا ویسا ہی پایا مگر اس کو نہ دیکھا ” (لوقا ۲۴: ۲۳۔ ۲۴)

اس بیان کے مطابق عورتوں نے فرشتوں کو رؤیا میں دیکھا اور فرشتوں نے یہ خبر دی تھی کہ عیسیٰ زندہ ہیں یعنی ان عورتوں کا عینی مشاہدہ نہ تھا۔ اسی طرح مرقس کی انجیل میں بھی اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ان عورتوں نے یسوع کو قبر کے پاس کھڑے دیکھا بلکہ یہ صراحت ہے کہ :

"اور وہ نکل کر قبر سے بھاگیں۔ کیونکہ لرزش اور ہیبت ان پر غالب آ گئی تھی اور انہوں نے کسی سے کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ ڈرتی تھیں ” (مرقس ۱۶:۔ ۸)

ان انجیلوں میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ شاگردوں نے یسوع کو مرنے کے بعد گلیل میں دیکھا ساتھ ہی یہ اعتراف بھی موجو دہے کہ بعض نے شک کیا :

"اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا مگر بعض نے شک کیا ” (متی ۲۸: ۱۷)

اور مرقس کی انجیل یہ کہتی ہے کہ :

” پھر وہ ان گیارہ کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور اس نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر ان کو ملامت کی کیونکہ جنہوں نے اس کے جی اٹھنے کے بعد اسے دیکھا تھا انہوں نے ان کا یقین نہ کیا تھا ” (مرقس ۱۶: ۱۴)

اور یوحنا کی انجیل میں ہے کہ یسوع آٹھ روز کے بعد اپنے شاگردوں کے درمیان ظاہر ہوا۔ نیز یہ بھی بیان کیا گیا ہے :

"یسوع مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یہ تیسری بار شاگردوں پر ظاہر ہوا ” (یوحنا ۲۱: ۱۴)

بائبل کا یہ الجھا ہوا اور غیر یقینی بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت مسیح کے دفن ہونے اور اس کے بعد قبر سے جی اٹھنے کا قصہ خواب پریشان سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ بیان اس قدر الجھا ہوا ہے کہ بائبل کا شارح خود تسلیم کرتا ہے کہ:

"There are however numerous critical problems about the story (See Taylor  602ff) especially when it is compared in details with the accounts in the other Gospels”.

Peak’s Commentary on the Bible Page 818)

اور اس کے شارح نے انجیل مرقس کے آخری باب کے بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ وہ اصلاً مرقس کا حصہ نہیں ہے :

"It is now generally agreed that 9-20 are not an original part of MK. They are not found in the oldest MSS and indeed were apparently not in the copies used by Mt. and LK.” (Do)

اسی طرح یوحنا کی انجیل کے آخری باب (۲۱) کے بارے میں اس کا شارح لکھتا ہے کہ اس کا اضافہ انجیل کے مؤلف نے خود کیا ہے۔

"It was a supplement added by the evangelist himself.” (Do Page 867)

غرض یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے قبر سے جی اٹھنے کا قصہ محض افسانہ ہے اور پھر یہ محض افسانہ نہیں رہا بلکہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ قرار پایا جس پر پور ے مسیحی علم کلام کی عمارت کھڑی کر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن نے اپنے اس حقیقت افروز بیان کے ذریعہ کہ حضرت مسیح کو نہ قتل کیا جا سکا اور نہ سولی دی ماسکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا مسیحی علم کلام کی عمارت ڈھا دیتا ہے۔

۲۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہود حضرت مسیح کو ہر گز قتل نہ کر سکے یہ بات شبہ سے بالا تر ہے۔

۲۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۸۲۔

۲۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ کی ان دو صفات کے ذکر سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کا واقعہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور یہ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت کا غیر معمولی ظہور ہے۔

۲۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت جب واقع ہو گی تو اس وقت جتنے اہل کتاب موجود ہوں گے خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ سب ان کی رسالت پر ایمان لا چکے ہوں گے۔

حدیث میں نبیﷺ نے صراحتہً بتلا یا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے قریب نازل ہوں گے اور اس وقت کے یہودیوں کے سب سے بڑے لیڈر اور مفسد دجال کو قتل کریں گے جس کے بعد سب اہل کتاب حضرت مسیح پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائیں گے اور دنیا میں نہ یہودیت باقی رہے گی اور نہ نصرانیت۔ بلکہ اسلام اور صرف اسلام ہو گا۔

نزول عیسیٰ ؑ کے سلسلہ میں جو احادیث صحیحہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبل احد”” حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیراً من الدنیا وما فیھا۔ ثم یقول ابوہریرہ اقرء أ و اان شئتم و ان من اھل الکتاب الخ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابن مریم تمہارے درمیان حاکم عادل بن کر ضرور آئیں گے پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور سور کو قتل کریں گے اور جنگ ختم کر دیں گے (اس وقت) مال کی ایسی کثرت ہو گی کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا۔ اس وقت (اللہ کے حضور) ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا اس کو روایت کرنے کے بعد ابو ہریرہؓ نے فرمایا اس کی تصدیق چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو و ان من اھل الکتاب الخ

عن النواس بن سمعان قال قال رسو ل اللہﷺ فبینما ھو کذلک اذ بعث اللہ المسیح ابن مریم فینزل عند النارۃ البیضاء مشرقی دمشق مھر ودتین واضعاً کفیہ علی اجنحۃ ملکین اذا طا طأ راسہٗ قطر و اذا رفعہ تحدر منہ جمان کاللؤلو فلا یحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات ونفسہ ینتھی الیٰ حیث ینتھی طرفہٗ فیطلبہٗ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہٗ (مسلم کتاب الفتن)

نواس بن سمعان روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا اس اثناء میں (کہ دجال فتنہ برپا کر رہا ہو گا) اللہ مسیح ابن مریم کو بھیج دے گا اور وہ دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید مینارے کے پاس زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہو گا کہ موتی کے قطرے ڈھلک رہے ہیں ان کی سانس کی ہوا جس کافر تک پہنچے گی وہ مر جائے گا اور ان کی سانس حد نظر تک پہنچے گی پھر وہ دجال کا پیچھا کریں گے اور اسے لُد کے دروازے کے پاس پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے۔

عن مجمع بن جاریۃ الانصاریؓ قال : سمعت رسول اللہﷺ یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لُدّ (ترمذی ابو اب الفتن)

مجمع بن جاریّہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابن مریم دجال کو لُد کے دروازے پر قتل کریں گے۔

یہ اور اس طرح کی دوسری حدیثیں جو اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جو آخری زمانہ میں ہو گا ایک مخصوص مہم کو سر کرنے کے لئے ہو گا یعنی دجال کو ہلاک کرنا، اور اس کے برپا کئے ہوئے فتنۂ عظیم کا استیصال کرنا اور قرآن کی مذکورہ آیت سے مترشح ہوتا ہے کہ نزول عیسیٰ ؑ کا خاص مقصد یہ ہو گا کہ یہود کے اس دعوے کو کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کیا غلط ثابت کر دکھا یا جائے۔ نیز نصاریٰ کے غلط عقائد خاص طور سے ان کے خدا کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کو باطل کر دکھایا جائے اور حضرت عیسیٰ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کا مزید ثبوت فراہم ہو جائے نیز ان کی طبعی موت جو ابھی واقع نہیں ہوئی ہے اسی زمین پر واقع ہو جائے۔ واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول کی حیثیت سے حضرت محمدﷺ سے پہلے آ چکے ہیں اور مسلمان اپ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں آخری زمانہ میں ان کا جو نزول ہو گا وہ کسی نئے نبی کی حیثیت سے نہیں ہو گا اس لئے ان کے نزول سے حضرت محمدﷺ کے ختم نبوت کے عقیدہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناز ل ہوتے ہی کوئی دعویٰ شروع نہیں کریں گے بلکہ وہ کام کر دکھائیں گے جس کے لئے انہیں خاص طور سے بھیجا گیا ہو گا۔ ان کی اس مہم میں کامیابی خود بتا دے گی کہ وہ عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو انہیں پہچاننے میں کوئی دقت نہ ہو گی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو ان فتنوں سے آدمی بچ سکتا ہے جو قادیانیت وغیرہ کی شکل میں ابھر تے رہتے ہیں اور اپنے مسیح ہونے کا باطل دعویٰ کر کے لوگوں کی گمراہی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔

۲۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو گواہی دیں گے اس کی تفصیل سورہ مائدہ آیت ۱۱۷۔ ۱۱۶میں بیان ہوئی ہے۔

۲۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جملہ معترضہ اوپر ختم ہو گیا اب یہاں سے پھر وہی سلسلۂ کلام شروع ہوتا ہے جو آیت ۱۵۵سے چلا آ رہا تھا۔

۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سود کی حرمت کا حکم بائبل میں آج بھی موجود ہے جس کے اقتباسات ہم سورہ بقرہ کے نوٹ ۴۵۶میں نقل کر چکے ہیں۔

۲۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک یہود کے جرائم کا ذکر ہوا ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس قوم کا رویہ اس حد تک سرکشانہ رہا ہو وہ اگر آج قرآن پر ایمان لانے کے سلسلہ میں ہٹ دھرمی دکھا رہی ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ انہیں خبردار کرتا ہے کہ جو لوگ بھی کفر پر جمے رہیں گے ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۲۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ علماء ہیں جو دین کا صحیح علم رکھتے ہیں اور اس میں پختہ تھے وہ اپنے قول و عمل اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے عام علماء یہود سے ممتاز تھے ان کی حق پسندی کی بنا پر انہیں قرآن پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوئی۔

۲۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ لوگ ہیں جو اگر چہ کہ علم میں راسخ ہو نے کا درجہ نہیں رکھتے تھے لیکن وہ خیر پسند اور نیک کردار تھے قرآن کی دعوت جب انہوں نے سنی تو وہ اس پر ایمان لے آئے۔

۲۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود نماز اور زکوٰۃ دونوں چیزوں کو ترک کر چکے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دین ہی کو ضائع کر بیٹھے صرف وہی لوگ دین پر قائم رہے جو نماز اور زکوٰۃ پر کار بند تھے ایسے ہی لوگوں نے آگے بڑھ کر قران کی دعوت کو قبول کر لیا گویا یہ نماز اور زکوٰۃ ہی کا فیضان تھا کہ انہیں قبول حق کی توفیق نصیب ہوئی اس سے واضح ہو ا کہ جہاں ان دو بنیادی ارکان کو ضائع کر دیا گیا ہو وہاں دین باقی نہیں رہتا۔

۲۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” وحی ” کے معنی اشارہ کر نے اور دل میں کوئی بات ڈالنے کے ہیں اللہ اپنا پیغام جس خفیہ طریقے سے اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے اس کے لئے قرآن نے وحی کی اصطلاح استعمال کی ہے (مرہٹی میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے انگریزی کا لفظ Revealبھی اس کے پورے مفہوم پر حاوی نہیں) ۔

۲۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ اسباط استعمال ہوا ہے جو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لئے مخصوص اصطلاح ہے یہاں اس سے مراد وہ انبیاء ہیں جو ان بارہ قبیلوں میں مبعوث ہوئے تھے۔

۲۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت محمدﷺ پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے اللہ کی طرف وحی کے آنے کا دعویٰ کیا ہو بلکہ آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اسی طرح وحی فرماتا رہا ہے جس طرح حضرت محمد ؐ پر نازل فرما رہا ہے سب انبیاء علیہم السلام ایک ہی منبع ہدایت سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔

۲۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد ؑ کو اللہ تعالیٰ نے جو ” زبور ” عطا کی تھی وہ اپنی اصلی شکل میں آج موجود نہیں ہے البتہ اس کے اجزاء اس صحیفہ میں دیکھے جا سکتے ہیں جو زبور کے نام سے بائبل میں موجود ہے اس میں خدا کی حمد و ثنا اور اس کی توحید کے ساتھ موعظت کی باتیں بڑے موثر انداز میں بیان ہوئی ہیں۔

۲۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ جن پیغمبروں کا ذکر اس نے ناموں کی صراحت کے ساتھ کیا ہے بس وہی پیغمبر تھے اور ان کے علاوہ اور کوئی پیغمبر نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی پیغمبر بھیجے گئے تھے جن کے ناموں کی صراحت نہیں کی گئی ہے تاہم سب پیغمبروں پر مجملاً ایمان لانا ضروری ہے۔

۲۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام کے لئے وحی کا مخصوص طریقہ اختیار کیا گیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہم کلام ہوتا تھا بائبل میں بھی اس کا ذکر ہے :

” اور جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند روبرو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا ” (خروج ۳۳:۱۱)

۲۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان پیغمبروں کو بھیجنے کی غرض یہ تھی کہ قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہمیں غفلت سے بیدار کرنے اور اعمال بد کے نتائج سے آگاہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ورنہ ہم آخرت سے غافل اور دنیا پرستی میں مگن نہ رہتے۔

۲۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گواہی اس بات کی کہ قرآن اللہ کی جانب سے ناز ل ہوا ہے جس میں شیاطین کا کوئی دخل نہیں ہے اور یہ خالص اور بے آمیز کلام الٰہی ہے اللہ کی گواہی کو ہر وہ شخص سن سکتا ہے جو قرآن کو بغور پڑھے کیونکہ اس کی ایک ایک آیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ کلام الٰہی ہے مگر یہ آواز وہی لوگ سن سکتے ہیں جو گوش حقیقت نیوش رکھتے ہوں۔

۲۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "غلو ” کسی کی عقیدت میں یا کسی بات کی تائید و حمایت میں حد سے گزر جانے کو کہتے ہیں۔ دین میں ” غلو "کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی جو قدر دین میں متعین ہے اس کو بڑھا دیا جائے اور اسے جو مقام دیا گیا ہے اس سے زیادہ بلند مقام اس کے لئے تجویز کیا جائے۔ غلو کی بہت نمایاں مثال نصاریٰ کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو جو اللہ کے بندے اور رسول ہیں خدا کا بیٹا مان کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ غلو کی مثالیں دوسرے مذاہب میں بھی بہ کثرت ملتی ہیں کسی نے رسول کو اوتار کا درجہ دے دیا تو کسی نے اپنے مذہبی پیشواؤں کو خدائی کے منصب پر بٹھا دیا۔ قرآن کے ماننے والے بھی رفتہ رفتہ غلو کا شکار ہو گئے چنانچہ کسی نے بزرگوں کے لئے پیغمبر کا درجہ تجویز کیا تو کسی نے اولیاء کو خدا کے مقام پر پہونچا دیا اور ان کے لئے غوث العظام اور مشکل کشا جیسے القاب تراشے حالانکہ یہ القاب خدا ہی کے لئے موزوں ہیں اور اسی کے لئے خاص ہیں اسی طرح کسی نے امام کے معصوم ہو نے کا عقیدہ گڑھ لیا اور کسی نے طریقت ایجاد کی اور تصور شیخ لیکر بیٹھ گیا اسلام نے قبروں کو سادہ بنا نے کا حکم دیا تھا لیکن غلو پسند طبیعتوں نے اپنے بزرگوں کی عالی شان درگاہیں تعمیر کر ڈالیں۔ اسلام نے قناعت پسندی کی تعلیم دی تھی لیکن غلو کی ذہنیت نے زہد کے روپ میں رہبانیت کو اختیار کر لیا اسی طرح جو کام مستحب تھے ان کو فرض اور واجب کے درجہ میں رکھ دیا اس کا اثر دین کے مزاج پر پڑا اور پھر نہ اسلام کی سادگی باقی رہ سکی اور نہ اس کا اعتدال۔ نتیجہ یہ کہ ملت کے اندر طرح طرح کے فتنے پیدا ہو گئے اور فرقوں نے جنم لیا اور غلو پسند لوگوں کے ہاتھوں دین کی کوئی اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکی بلکہ دین کا پور ا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔

۲۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ کی طرف وہی باتیں منسوب کی جائیں جو حق ہیں تو تمام فتنوں کا سدباب ہو جاتا ہے لیکن جب اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس نے نہیں کہی ہیں توغلو اور بدعت کی راہ کھل جاتی ہے اور پھر دین کا حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے نصاریٰ کی گمراہیوں کی اصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے دین میں بہت سی من گھڑت باتیں شامل کر لیں اور کسی بھی من گھڑت بات کو دین میں شامل کرنا اسے اللہ کی طرف منسوب کرنے کے ہم معنی ہے کیونکہ دین عبارت ہے اس نظام عبادت اور اطاعت سے جو اللہ کا نازل کردہ ہے اس میں اپنی طرف سے کسی بھی چیز کو داخل کرنا گویا اس بات کا دعویٰ کرنا ہے کہ یہ بات من جانب اللہ ہے درانحالیکہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اندر بھی بہت سی گمراہیاں بہت سی بدعات ہی کی راہ سے داخل ہوئیں ہیں اور انہوں نے بہت سی خرافات کو دین کا جز بنا لیا ہے اس لئے آدمی جب تک صاف ذہن سے قرآن و سنت کا مطالعہ نہ کرے اس کے لئے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اللہ کا اصل دین کیا ہے ؟

۲۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں ایک یہ کہ وہ اللہ کے رسول ہیں دوسرے یہ کہ وہ اللہ کا ایک کلمہ ہیں اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی جانب سے ایک روح ہیں اس تصریح سے مقصود حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں نصاریٰ کے عقیدہ الوہیت کی تردید کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی غیر معمولی طریقہ پر ولادت کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ان کو خدا کا بیٹا بنا یا جائے۔ غیر معمولی طریقہ پر ان کی ولادت حکم خداوندی سے ہوئی تھی اور ان کے اندر جو روح تھی وہ اللہ ہی کی عطا کردہ تھی اس لئے یہ عقیدہ انتہائی گمراہ کن ہے کہ اللہ کی روح ان کے اندر حلول کر گئی تھی۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۵۶) ۔

۲۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تین خداؤں کا عقیدہ مسیحیت کا خود ساختہ عقیدہ ہے۔ جو باپ، بیٹا اور روح القدس سے مرکب ہے یہ عقیدہ سراسر مشرکانہ ہے۔ لیکن چونکہ تورات، زبور اور انجیل تمام آسمانی کتابوں کی تعلیم توحید کی تعلیم ہے اس لئے توحید اور تثلیث دونوں کا بیک وقت دعویٰ کیا گیا اور دونوں کو نبھانے کی کوشش کی گئی اور اس تکلف میں دین کا حلیہ بری طرح بگڑ کر رہ گیا۔

یہ آیت جہاں مسیحیوں کے تین خداؤں کے عقیدہ کی تردید کرتی ہے وہاں وہ مشرکانہ مذاہب کے متعدد خداؤں کے تصور کو بھی یکسر باطل قرار دیتی ہے خواہ وہ دو خداؤں کا عقیدہ ہو یا سینکڑوں اور ہزاروں خداؤں کا۔

۲۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات اللہ ہی کی ہیں تو پھر اسے بیٹا بنا نے کی کیا ضرورت اور جب وہ سب کی خبر گیری کے لئے کافی ہے تو اس کو اس بات کی کہاں حاجت ہو سکتی ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنا کر اس سے مدد لے۔

۲۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جس کا انداز دعوت عقلی اور استدلالی ہے اور اس لحاظ سے وہ انسانوں پر اللہ کی حجت ہے۔

۲۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قرآن کی دوسری خصوصیت ہے کہ وہ حق و باطل میں امتیاز کرتا اور زندگی بسر کر نے کی صحیح راہ دکھاتا ہے۔

۲۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں انہیں قرب الٰہی حاصل ہو گا جو ہدایت کی آخری منزل ہے۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ جو لوگ قرآن پر ایمان لائیں گے اور اللہ کا دامن پکڑ لیں گے وہ اپنی آخری غایت یعنی اللہ کو پا لینے میں کامیاب ہوں گے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو انہیں حاصل ہو گی۔

۲۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز میں وراثت کے جو احکام بیان ہوئے ہیں ان کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں یہ آیت بطور توضیح کے نازل ہوئی جسے سورہ کے آخر میں بطور ضمیمہ کے شامل کر دیا گیا۔

۲۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ سوال کلالہ (جس کا نہ باپ زندہ ہو اور نہ اولاد) کی میراث کے بارے میں تھا جس کا حکم آیت ۱۲میں گزر چکا۔  (تشریح کے لئے ملاحظہ نوٹ ۳۴) ۔

۲۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت میں اخیانی (ماں شریک) بھائی بہن کا حصہ بیان کیا گیا تھا۔ اس آیت میں اعیانی (سگے) اور علاقی (باپ شریک) بھائی بہن کا حصہ بیان کیا گیا ہے

۲۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اصحاب فروض Quranic Shares میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہو تو بھائی پورے ترکہ کا وارث ہو گا اور اگر ان میں سے کوئی زندہ ہو مثلاً شوہر تو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ مال کا وارث بھائی ہو گا۔

۲۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی حکم دو سے زائد بہنوں کا بھی ہے وہ دو تہائی میں برابر کی شریک ہوں گی۔

۲۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سگے اور باپ شریک بھائی کے ورثہ پانے کی صور توں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نقشہ میراث۔ ضمیمہ

 

ضمیمہ

                   میراث میں حصہ پانے والے

                   Table of heirs with their shares

 

نمبر شمار وارث کیفیت حصہ معمولاً ایک فرد  ہونے کی صورت میں دو یا دو سے زیادہ افراد ہونے کی صورت میں ورثہ پانے کے شرائطConditions
Normal Share or Portion
۱ لڑکا عصبہ ( (Residuary لڑکی کے دوگنا ہر لڑکے کا حصہ لڑکی کے دوگنا جب کہ میت کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں اور صرف وہی وارث ہوں۔
" " کل کل میں برابر کے شریک جبکہ تنہا ایک لڑکا یا کئی لڑکے وارث ہوں
" " " اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے 

اس میں سب برابر کے شریک

جبکہ میت کا باپ، بیوی یا شوہر موجود ہوں تو ان کو دینے کے بعد جو باقی بچے
۲ لڑکی صاحب فریضہ 

Quranic sharer

۱/۲ ۲/۳ میں برابر کی شریک 

 

جبکہ میت کا لڑکا نہ ہو
" عصبہ لڑکے کے نصف ہر لڑکی کا حصہ لڑکے کے نصف جبکہ میت کا لڑکا موجود ہو۔
۳ باپ صاحب فریضہ ۱/۶ جبکہ میت کا لڑکا موجود ہو۔
صاحب فریضہ و عصبہ ۱/۶اور اصحاب فروض کو دینے کے بعد جو باقی بچے جبکہ میت کی لڑکی موجو دہو اور لڑکا نہ ہو
" عصبہ کل جبکہ میت کے کوئی اولاد نہ ہو اور نہ اس کی ماں، شوہر یا بیوی موجود ہو
۴ ماں صاحب فریضہ ۱/۶ جبکہ میت کی اولاد یا اس کے بھائی بہن دو یا زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔
" " ۱/۳ جبکہ میت کے کوئی اولاد نہ ہو اور نہ اس کے بھائی بہن کم از کم دو کی تعداد میں موجود ہوں
" " ۱/۳ جبکہ میت کا باپ، بیوی یا شوہر موجود ہو اس صورت میں شوہر یا بیوی کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ کا ۳/۱ ماں کو دیا جائے گا
۵ شوہر صاحب فریضہ ۱/۲ ۱جبکہ میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
" " ۱/۴ جبکہ میت کی اولاد موجود ہو۔
۶ بیوی صاحب فریضہ ۱/۴ ۱/۴ میں سب برابر کی شریک ہیں جبکہ میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
صاحب فریضہ ۱/۸ ۱/۸ میں سب برابر کی شریک جبکہ میت کی اولاد موجود ہو۔
۷ ماں شریک بھائی یا بہن Uterine Brother or Sister صاحب فریضہ ۱/۶ ۳/۱ میں سب بھائی بہن برابر کے شریک جبکہ میت کی کوئی اولاد یا باپ موجود نہ ہو۔
Excluded 

محجوب

کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کی اولاد یا باپ موجود ہو۔
۸ سگی بہن صاحب فریضہ ۱/۲ ۲/۳ جبکہ میت کا باپ اس کی اولاد اور اس کا سگا بھائی ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو۔
عصبہ لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کی لڑکی موجود ہو لیکن اس کا باپ، نرینہ اولاد اور سگا بھائی ان میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
۸ سگی بہن عصبہ بھائی کا نصف ہر بہن کو بھائی کا نصف جبکہ میت کا سگا بھائی موجود ہو لیکن اس کا باپ یا نرینہ اولاد موجود نہ ہو۔
محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کا باپ یا اس کی نرینہ اولاد موجود ہو۔
۹ سگا بھائی عصبہ کل کل میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کا باپ، نرینہ اولاد، بیوی یا شوہر اور ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
" اصحاب فروض کو ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے اصحاب فروض کو ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے اس میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کا باپ یا نرینہ اولاد موجود نہ ہو لیکن لڑکی ماں، ماں شریک بھائی بہن اور شوہر یا بیوی میں سے کوئی موجود ہو تو اس کو دینے کے بعد جو باقی بچے کا وہ سگے بھائی کو ملے گا
محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کا باپ یا نرینہ اولاد مو جود ہو۔
۱۰ باپ شریک بہن 

Onsanguine sister

صاحب فریضہ ۱/۲ ۲/۳ جبکہ میت کے سگے بھائی بہن، باپ شریک بھائی، باپ اور اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
" ۱/۶ ۱/۶ جبکہ میت کی صرف ایک سگی بہن موجود ہو، اور باپ شریک بھائی، باپ اور اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
عصبیہ ۱لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کے لڑکی موجود ہو لیکن سگے بھائی بہن، باپ شریک بھائی، ماں شریک بھائی بہن، شوہر یا بیوی، باپ اور نرینہ اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
عصبیہ بھائی کا نصف بھائی کا نصف جبکہ میت کا باپ شریک بھائی موجود ہو لیکن سگا بھائی، باپ، شوہر یا بیوی اور نرینہ اولا دمیں سے کوئی نہ ہو۔
محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کی دو سگی بہنیں، سگا بھائی، باپ، نرینہ اولاد میں سے کوئی موجو دہو یا ایک سگی بہن بطور عصبہ کے ہو۔
۱۱ باپ شریک بھائی عصبہ کل میراث کل میراث میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کے ماں باپ، اولاد، شوہر یا بیوی، سگے بھائی بہن، علاقی بہن، ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
عصبہ اصحاب فروض کو دینے کے بعد جو باقی بچے اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے اس میں سب برابر کے شریک ہیں جبکہ میت کی لڑکی، ماں، شوہر یا بیوی، سگی بہن، ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود ہو۔ 

گر باپ شریک بہن موجود ہو تو اس کے دو گنا باپ شریک بھائی کو ملے گا۔

محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کا باپ، لڑکا، سگا بھائی یا سگی بہن موجود ہو۔

نوٹ :۔

٭اس نقشہ میں صرف ان ورثاء کے حصے بیان کئے گئے ہیں جن کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔

٭اس بات پر اجماع ہے کہ بیٹے کی عدم موجودگی میں پوتا اور باپ کی عدم موجودگی میں دادا وارث ہو گا وعلی ہٰذا علی القیاس۔

٭مذکورہ ورثاء میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو ذوی الارحام (Distant Kinded) حصہ پاتے ہیں۔

یہ مسائل حدیث نیز فقہاء کے قیاس اور اجتہاد پر مبنی ہیں۔

٭٭٭

ای بک:اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود

ت القرآن

 

 

حصہ ۲: آل عمران  و النساء

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

 

(۳) سورۂ آل عمران

 

 (۲۰۰ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورۃ کی آیت ۳۳ میں آل عمران کا ذکر ہوا ہے۔ عمران حضرت مریمؑ کے والد کا نام تھا اور عیسیٰ علیہ السلام ان کے نواسے تھے ، اسی مناسبت سے علامت کے طور پر اس سورہ کا نام "آل عمران” رکھا گیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

یہ سورۃ مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگِ احد ۰۳ھ کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ کا مرکزی مضمون بھی ہدایت ہی ہے اور اس بنا پر یہ سورۃ سابق سورۃ کے ساتھ نہ صرف گہرا ربط رکھتی ہے بلکہ یہ اس کا تتمّہ ہے۔ نورِ ہدایت ہونے کے لحاظ سے سورۂ بقرہ کی حیثیت اگر آفتاب سی ہے تو اس کی حیثیت ماہتاب کی۔ چناں چہ حدیث شریف میں ان کو زہراوین (دو روشن ترین سورتوں) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اگر یہود سے خطاب کیا گیا تھا تو سورۂ آل عمران میں نصاریٰ سے خطاب کیا گیا ہے۔ سابق سورۃ میں المغضوب علیہم کی تشریح‌ کی گئی ہے تو اس سورۃ میں ضآلّین کی تشریح‌ کی گئی ہے۔ اس طرح‌ما قبل سورہ میں ہدایت کے جو پہلو مجملاً بیان کئے گئے تھے ، اس سورہ میں ‌کھول کھول کر ان کو بیان کر دیا گیا ہے اور صاف صاف یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ دین جو حقیقۃً اللہ کی ہدایت کا نام ہے ، صرف اسلام ہے۔

لہٰذا جو شخص بھی اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا، وہ اللہ کے ہاں ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسے لوگ آخرت میں بالکل تباہ ہوں گے۔ اس طرح یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ اللہ کی ہدایت کی راہ صرف اسلام ہے نہ کہ مختلف ادیان اور نجاتِ اخروی اسلام کو قبول کئے بغیر ممکن نہیں۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۹ تمہید کی حیثیت رکھتی ہیں جن میں توحید کو بنیادی حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ قرآن فرمانِ الٰہی ہے اور اس بِنا پر تمام ’مذہبی اختلافات کے سلسلے میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔

آیت ۱۰ تا ۳۲ میں اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب سب کو متنبّہ کر دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اس قرآنی ہدایت کو جس کا نام اسلام ہے قبول نہیں کیا تو یہ اللہ سے کفر ہو گا جس کی سزا ہمیشگی کی جہنّم ہے اور جس ’دین داری، اور ’مذہب پرستی، کا لبادہ انہوں نے اوڑھ رکھا ہے اس کی حقیقت قیامت کے دن آشکارا ہو گی جب کہ وہ بالکل بے نقاب ہو چکے ہوں گے۔

آیت ۳۳ تا ۶۳ میں حضرت مریمؑ اور عیسیٰؑ سے متعلق واقعات اور حقائق پیش کئے گئے ہیں جو ان باطل عقائد کی تردید کرتے ہیں جن کو نصاریٰ نے دین میں داخل کر دیا تھا۔ اس ضمن میں حضرت زکریاؑ اور حضرت یحیٰؑ کا بھی ذکر ہوا ہے۔

آیت ۶۴ تا ۱۰۱ میں اہلِ کتاب اور بالخصوص عیسائیوں کی گمراہیوں اور ان کے اخلاق و دینی انحطاط پر گرفت کرتے ہوئے اہلِ ایمان کو ان سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

آیت ۱۰۲ تا ۱۲۰ میں اہلِ ایمان کو خطاب کر کے اسلام پر مضبوطی کے ساتھ جم جانے ، کتابِ الٰہی کو تھام لینے ، اس کو اپنی اجتماعیت کی بنیاد بنانے اور اپنے اندر سے ایک گروہ کو ابھارنے کی ہدایت کی گئی ہے جو دعوت و اصلاح کی خدمت کے لئے مختص ہوتا کہ وہ ملّتِ اسلامیہ کو ہر قسم کے انحراف اور نت نئے فتنوں سے بچا سکے۔ اور اللہ کا پیغام بندگانِ خدا تک پہنچائے۔ ساتھ ہی ساتھ ہی اہلِ کتاب کی فتنہ انگیزیوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

آیت ۱۲۱ تا ۱۸۹ میں غزوۂ احد کے حالات و واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے اور ان کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اس وقت نمایاں ہوئیں۔

آیت ۱۹۰ تا ۲۰۰ کی حیثیت خاتمۂ کلام کی ہے۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ایمان کوئی اندھا عقیدہ نہیں بلکہ عقل و فطرت کی آواز ہے۔ اس آواز پر جب انسان لبّیک کہتا ہے تو اس کا تعلّق اپنے سے صحیح معنیٰ میں جُڑ جاتا ہے اور اس کے دل سے بے اختیار یہ دعا نکلتی ہے کہ اس کا انجام بخیر ہو۔ اس موقع پر اُس کا اُسے بہتر انجام کی خوشخبری سناتا ہے اور اطمینان دلاتا ہے کہ جو قربانیاں اُس نے راہِ حق میں دی ہیں ، اُن کا بھر پور اجر وہ اُسے عطا فرمائے گا۔ اخیر میں راہِ حق میں لڑنے وا لے اہلِ ایمان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور انہیں حق و باطل کے معرکے میں ثابت قدم رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

                   ترجمہ

 

نوٹ: نشان ” *” سے تفسیری نوٹ کے نمبر شمار کی نشان دہی کی گئی ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الف ، لامَ، میم ۱*۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جس کے سوا کوئی الٰہ۲* (خدا) نہیں وہ زندہ ہستی ہے جو قائم ہے اور سب کو سنبھالے ہوئے ہے ۳*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے تم پر کتاب بر حق نازل ۴* کی جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور وہ تورات ۵* اور انجیل ۶* نازل کر چکا ہے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز اس نے فرقان ۷* اتارا۔ یقین جانو جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کریں گے ان کو سخت سزا ملے گی۔ اللہ غالب ہے اور (گناہوں کی پاداش میں) سزا دینے والا ہے ۸*۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ زمین میں نہ آسمان ۹* میں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جو رحموں کے اندر جس طرح چاہتا ہے صورت گری ۱۰* کرتا ہے۔ اس غالب اور حکمت وا لے کے سوا کوئی خدا نہیں۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس میں محکم ۱۱* آیات ہیں جو کتاب کی اصلِ بنیاد ۱۲* ہیں اور دوسری ایسی ہیں جو متشابہ ۱۳* ہیں۔ تو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں ۱۴* تاکہ فتنہ برپا کریں اور ان کی اصل حقیقت معلوم کریں حالانکہ ان کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں سخت ہیں وہ کہتے ہیں ہم پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے ہی کی طرف سے ہیں۔ اور یاد دہانی تو عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے!جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر اور ہم پر اپنی رحمت کا فیضان کر۔ واقعی تو بڑا فیاض ہے ۱۵*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے پروردگار !تو ضرور سب لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ۱۶* نہ ان کے مال اللہ کے ہاں کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد ۱۷*۔ ایسے ہی لوگ آتشِ (جہنم) کا ایندھن بنیں گے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی اسی ڈگر پر ہیں جس پر آل فرعون اور ان کے پیش تھے۔ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا تو اللہ نے ان کو گناہوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان سے کہہ دو کہ عنقریب تم مغلوب ہو گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن دو گروہوں میں مڈ بھیڑ ہوئی ان میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑا تھا اور دوسرا کافر تھا۔ یہ ان کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دو گنی تعداد میں دیکھے تھے اور اللہ اپنی نصرت سے جس کو چاہتا ہے تقویت پہنچاتا ہے اس (واقعہ) میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے جو دیدۂ بینا رکھتے ہیں ۱۸*۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کے لئے مرغوباتِ نفس زن ،فرزند ،سونے چاندی کے ڈھیر،نفیس گھوڑے ،مویشی اور کھیتیاں بڑی خوشنما بنا دی گئی ہیں یہ سب دنیوی زندگی کا سامان ہے اور بہتر ٹھکانہ تو اللہ ہی کے پاس ہے ۱۹*۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا میں تمہیں بتاؤں ان سے بہتر چیز کیا ہے ؟ جو لوگ تقویٰ ۲۰* اختیار کریں ان کے لئے ان کے پاس باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ۲۱* انہیں حاصل ہو گی۔ اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھتا ہے ۲۲*۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ہم ایمان لائے پس تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آتشِ (جہنم) کے عذاب سے بچا۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ صابر ہیں ،ست باز ہیں ، غایت درجہ فرمانبردار ہیں ، انفاق کرنے وا لے ہیں اور اوقاتِ سحر ۲۳* میں گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۲۴*۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اس بات کی شہادت دی کہ اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں اور فرشتے اور اہلِ علم بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عدل و انصاف کے ساتھ تدبیر و انتظام کرنے والی اس ہستی کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ غالب اور حکیم ہے ۲۵*۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے نزدیک اصل دین ۲۶* صرف اسلام ہے اور اہلِ کتاب نے جو اختلاف کیا وہ علم ۲۷* آ جانے کے بعد محض باہمی عناد کی وجہ سے کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام کا انکار کرے گا تو (اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے ۲۸*۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کرتے ہیں تو ان سے کہو میں نے اور میرے پیروؤں نے تو اپنے کو اللہ کے حوالے کر دیا اور اہلِ کتاب اور اُمّیوں ۲۹* سے پوچھو کہ کیا تم نے بھی اسلام قبول کیا؟ اگر انہوں نے بھی اسلام قبول کیا تو وہ راہ راست پا گئے اور اگر منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہونچا دینے کی ذمہ داری ہے اللہ اپنے بندوں کے حال پر نظر رکھتا ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ کی ہدایت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ۳۰* اور ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ۳۱* گئے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جنہیں کتابِ الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ۳۲* ان کو جب اللہ کی کتاب ۳۳* کی طرف دعوت دی جاتی ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے ۳۴* تو ان میں کا ایک گروہ منہ پھیرتا ہے اور انحراف کرنا تو ان لوگوں کا شیوہ ہی ہے ۳۵*۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگ کہتے ہیں دوزخ کی آگ ہمیں چھوئے گی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کے لئے سزامل جائے۔ ان کو ان کی من گھڑت باتوں نے ان کے دین کے بارے میں ان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۳۶*۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس دن ان کا کیا حال ہو گا جبکہ ہم سب کو جمع کر لیں گے اور جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں اسز ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا کسی پر بھی ظلم نہ ہو گا۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اللہ !اقتدار کے مالک ۳۷* !تو جسے چاہے اقتدار عطا فرمائے اور جس سے چاہے چھین لے ، جس کو چاہے عزت دے ، جس کو چاہے ذلت دے ، بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۳۸*۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات ۳۹* میں ، زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے ۴۰*۔ اور تو جس کو چاہتا ہے بے حساب بخششوں سے نوازتا ہے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ ایمان مؤمنوں کے مقابلہ میں کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۴۱* جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں اِلّا یہ کہ تم کسی اندیشہ کے تحت ان سے بچنے کی کوئی صورت اختیار کر لو ۴۲* مگر اللہ تمہیں ا پنی ذات سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو !جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ اس کو جانتا ہی ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ہر شخص اپنے اچھے اور برے اعمال کو اپنے سامنے موجود پائے گا اس وقت وہ یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس دن کے درمیان مدّت مدید حائل ہوتی اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ اپنے بندوں کے حق میں نہایت شفیق ہے ۴۳*۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ۴۴* اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو !اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اگر وہ نہیں مانتے تو جان لیں کہ اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ۴۵* نے آدم ، نوح ، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران ۴۶* کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب فرمایا تھا۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک دوسرے کی نسل سے تھے اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ۴۷* ہے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جبکہ عمران کی بیوی نے دعا کی اے میرے ! میں اس بچہ کو جو میرے پیٹ میں ہے تیرے لئے نذر کرتی ہوں کہ وہ تیری عبادت کے لئے وقف ہو گا ۴۸* اسے میری طرف سے قبول فرما، بیشک تو سننے اور جاننے والا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو کہنے لگی میرے!میرے یہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے اور جو کچھ اس نے جنا تھا وہ اللہ کو اچھی طرح معلوم تھا ۴۹* اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا ۵۰*۔ اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم (مردود) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس کے نے اسے حسنِ قبولیت سے نوازا، عمدہ طریقہ پر اس کو پروان چڑھایا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا ۵۱* ، جب کبھی زکریا اس کے پاس محراب ۵۲* (حجرۂ عبادت) میں جاتا تو ا س کے پاس پاتا۔ پوچھا اے مریم !یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے ؟ اس نے جواب دیا یہ اللہ کے پاس سے ہے ۵۳*۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب عطا فرماتا ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ۵۴* موقع پر زکریا نے اپنے کو پکارا۔ عرض کیا اے میرے پروردگار !مجھے خاص اپنے پاس سے اچھی اولاد عطا فرما، بیشک تو دعا سننے والا ہے۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرشتوں نے اسے پکارا جبکہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھا تھا۔ اللہ تجھے یحیٰ ۵۵* کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کے ایک کلمہ ۵۶* کی تصدیق کرنے والا ۵۷* ہو گا ، سردار ۵۸* ہو گا۔ ضبطِ نفس سے غایت درجہ کام لینے والا ہو گا۔ اور نبی ہو گا صالحین کے زمرہ میں سے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اے میرے!میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا جبکہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ۵۹* ہے ؟ فرمایا اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۶۰*۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا تمہارے لئے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا بات نہ کر سکو گے اور اپنے کو بہ کثرت یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو ۶۱*۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم !اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا ، تجھے پاکیزگی عطا کی اور تجھے دنیا کی عورتوں کے مقابلہ میں منتخب فرمایا ۶۲*۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے مریم !اپنے کی مخلصانہ اطاعت کر (اس کے لئے سجدہ کیا کر) ، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہ ۶۳*۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی وحی ہم تم پر ۶۴* کرے ہیں ورنہ تم ان کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے جبکہ وہ یہ بات طے کرنے کے لئے کہ مریم کا کفیل کون ہو، اپنے اپنے قلم پھینک کر قرعہ اندازی کر رہے ۶۵* تھے اور نہ تم اس وقت ان کے پاس موجود تھے جب وہ باہم جھگڑے تھے۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم !اللہ تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰؑ بن مریمؑ ہو گا ۶۶*۔ وہ دنیا و آخرت دونوں میں ذی وجاہت ۶۷* ہو گا اور اللہ کے مقربین میں سے ہو گا۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگوں سے گہوارے میں بات کر ے گا ۶۸* اور بڑی عمر میں بھی ۶۹* اور صالحین میں سے ہو گا ۷۰*۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بولیں !اے میرے پروردگار! میرے کس طرح لڑکا ہو گا جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگا یا ؟ فرمایا !اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو فرمایا ہے ہو جا، اور وہ ہو جاتا ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ اس کو کتاب و حکمت ۷۱* کی تعلیم دے گا اور اسے تورات و انجیل سکھائے گا۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گا ۷۲* اور جب وہ ان کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ میں تمہارے کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندہ کی سی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے واقعی پرندہ بن جاتی ہے۔ میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو اس میں یقیناً تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۷۳*۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تورات کا جو حصہ میرے سامنے موجود ہے اس کی میں تصدیق کرنے والا بن کر ۷۴* آیا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ بعض ان چیزوں کو تمہارے لئے حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۷۵* اور میں تمہارے پاس تمہارے کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشک اللہ میرا بھی ہے اور تمہارا بھی لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ۷۶* ہے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے کفر محسوس کیا تو کہا کون ہے اللہ کی راہ میں میرا مدد گار؟ حواریوں ۷۷* نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مدد گار ۷۸*۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئیے کہ ہم مسلم ہیں ۷۹*۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے پروردگار جو ہدایت تو نے نازل کی ہے اس پر ہم ایمان لائے اور ہم نے رسول کی پیروی اختیار کی۔ ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے ۸۰*۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے (بنی اسرائیل نے) مسیح کے خلاف سازشیں کیں تو اللہ نے بھی اس کا توڑ کیا اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے ۸۱*۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تمہیں قبض (تمہارا وقت پورا) کرنے والا ہوں ۸۲* اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان سے تمہیں پاک کرنے والا ہوں ۸۳*ّ۔ نیز تمہاری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک تمہارے منکرین پر غالب رکھنے والا ۸۴* ہوں پھر تم سب کو میری طرف پلٹنا ہے اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے بارے میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ان کو دنیا و آخرت میں سخت سزا دوں گا اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے انہیں وہ ان کا اجر پورا پورا دے گا اللہ ظالموں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ (ہماری آیات اور حکمت بھرا) ذکر ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ۸۵*۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے کہ اسے مٹی سے بنایا اور فرمایا ہو جا اور وہ ہو گیا ۸۶*۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی حق ہے تمہارے کی طرف سے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس علم کے آ جانے کے بعد جو کوئی اس معاملہ میں تم سے حجت کریں تو ان سے کہو کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔ ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاؤ ہم خو دبھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر ہم مل کر دعا کریں کہ اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر ۸۷*۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک یہ سچے واقعات ہیں اور حقیقتاً اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ ہی غلبہ والا اور صاحبِ حکمت ہے۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اگر یہ لوگ اعراض کریں تو اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۸۸*۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہلِ کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ۸۹* ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا بنائے ۹۰* اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو گواہو ہم تو مسلم ہیں۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد نازل کی گئیں کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ۹۱*۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو جس چیز کا تمہیں علم تھا اس کے بارے میں تم بحث کر چکے اب تم ایسی باتوں کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ راست مسلم تھے اور وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم سے نسبت کے سب سے زیادہ حقدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور یہ نبی اور اہلِ ایمان۔ اور اللہ تعالیٰ مومنوں کا رفیق ہے۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ کتاب کا ایک گروہ اس بات کا متمنی ہے کہ کاش وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائے حالانکہ یہ لوگ اپنے ہی کو گمراہ کرے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب ؟ اللہ کی آیات کا کیوں انکار کرتے ہو جبکہ تم خود اس پر گواہ ہو۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب کیوں حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہو اور کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو ؟

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ ایمان والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو انکار کرو تاکہ وہ بھی پھر جائیں ۹۲*۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نیز وہ کہتے ہیں) اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانو۔ کہو اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے ۹۳*۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو چیز تمہیں دی گئی ہے ویسی چیز کسی اور کو مل جائے یا وہ تمہارے خلاف تمہارے کے حضور حجت پیش کر سکیں ۹۴*۔ ان سے کہو فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ۹۵* ہے اللہ بڑی وسعت والا جاننے والا ہے ۹۶*۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر تم ان کے پاس مال کا ایک ڈھیر امانت رکھ دو تو وہ تمہیں ادا کریں گے اور ان میں ایسے بھی ہیں کہ اگر تم ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو وہ تمہیں ادا کرنے وا لے نہیں جب تک کہ تم ان کے سر پر کھڑے نہ ہو جاؤ۔ یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں امیوں ۹۷* کے معاملہ میں ہم پر کوئی گرفت نہیں  ۹۸* یہ لوگ دانستہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں جو لوگ اپنے عہد کو پورا کریں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے تو اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں ۹۹* ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا ۱۰۰* اور نہ انہیں پاک کرے گا ان کے لئے درد ناک سزا ہے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کو اس طرح مروڑ کر کتاب پڑھتے ہیں کہ تم سمجھو یہ کتاب ہی کی عبارت ہے حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی ۱۰۱* اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی انسان کا یہ کام نہیں کہ اللہ اسے کتاب ، حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے میرے پرستار بن جاؤ ۱۰۲* بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ ربانی (اللہ وا لے) بنو جیسا کہ کتاب الٰہی کا تقاضہ ہے جس کی تم دوسروں کو تعلیم دیتے ہو اور خود بھی پڑھتے ہو۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تمہیں ہرگز یہ حکم نہیں دے گا کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو اپنا بناؤ۔ کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم مسلم ہو۔ ؟

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد کرو جب اللہ نے (تم سے) نبیوں کے متعلق عہد لیا تھا کہ میں نے تمہیں کتاب و حکمت سے نوازا ہے اس کے بعد کوئی رسول اس کتاب کی جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے تصدیق کرتا ہوا آئے گا تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی لازماً مدد کرو گے ۱۰۳*۔ پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تم گواہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد جو لوگ (اس عہد سے) پھر جائیں وہی فاسق ہیں ۱۰۴*۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں ۱۰۵* حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوق چار و ناچار اسی کی فرمانبردار ہے ۱۰۶* اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۱۰۷*۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو نازل کی گئی ہم پر اور جو ابراہیم ، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اور اولادِ یعقوب پر نازل ہوئی تھی۔ اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں نیز ہمارا ایمان اس چیز پر بھی ہے جو موسیٰ ، عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے کی جانب سے دی گئی۔ ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اس کے فرمانبردار (مسلم) ہیں۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد ہو گا ۱۰۸*۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ان لوگوں کو کس طرح ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا ۱۰۹*ّ حالانکہ وہ اس بات کی گواہی دے چکے ہیں کہو رسول برحق ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آ چکی ہیں اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۱۱۰*۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ان کو مہلت ہی ملے گی۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اپنے طرزِ عمل کو درست کر لیا تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور اپنے کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہو گی ۱۱۱*۔ ایسے لوگ پکے گمراہ ہیں۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً جن لوگوں کفر کیا اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے اگر ان میں سے کوئی (نجات حاصل کرنے کے لئے) زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا ۱۱۲* ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نیکی کے مقام کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو عزیز ہیں ۱۱۳* اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانے کی یہ تمام چیزیں ۱۱۴* بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں بجز ان چیزوں کے جن کو اسرائیل نے نزول تورات سے پہلے اپنے اوپر حرام ٹھہرایا تھا ۱۱۵* کہو تورات لاؤ اور اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو ۱۱۶*۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کریں وہی ظالم ہیں۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اللہ نے سچ فرمایا ہے تو ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرو جو راست تھا اور شرک کرنے والوں میں ہرگز نہ تھا۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ پہلا گھر ۱۱۷* جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو "بکہ ” ۱۱۸* میں ہے۔ دنیا والوں کے لئے باعثِ برکت ۱۱۹* اور موجب ہدایت ۱۲۰*۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں ۱۲۱* مقام ابراہیم ۱۲۲* ہے اور جو کوئی اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔ جو لوگ اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر اللہ کے لئے اس گھر کا حج فرض ہے اور جو کفر کرے تو اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۱۲۳*۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہلِ کتاب تم اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ تم جو کچھ کرے ہو اللہ اسے دیکھا ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب تم ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے کیوں کتے ہو ۱۲۴* ؟ تم اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہو ۱۲۵* جبکہ تم گواہ ہو ۱۲۶*۔ اللہ تمہاری حرکتوں سے بے خبر نہیں ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اگر تم اہل کتاب کے کسی گروہ ۱۲۷* کی بات مان لو گے تو وہ تمہیں ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں گے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم کس طرح کفر کرو گے جبکہ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور اس کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے ۱۲۸* اور جس نے اللہ کو مضبوط پکڑ لیا ۱۲۹* اسے صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۱۳۰* اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۱۳۱*۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی رسی ۱۳۲* کو سب مل کر ۱۳۳* مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۱۳۴* اور اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ۱۳۵* تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور اس کے فضل سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں (ہدایات) واضح فرماتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہو ۱۳۶*۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں ایک گروہ ضرور ایسا ہونا چاہئیے جو خیر کی طرف دعوت دے ، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے ۱۳۷* ایسے ہی لوگ فلاح پانے وا لے ہیں۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو تفرقہ میں پڑ گئے اور جنہوں نے واضح ہدایات پانے کے بعد اختلاف کیا ۱۳۷* الف۔ ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن کتنے ہی چہرے روشن ہوں گے اور کتنے ہی سیاہ۔ تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ لو اب اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے وہ اللہ کی طرف رحمت میں ہوں گے اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں اور اللہ دنیا والوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے اور سارے معاملات بالآخر اسی کے حضور پیش ہوں گے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم خیر امت ۱۳۸* (بہترین گروہ) ہو جسے انسانوں (کی اصلاح و رہنمائی) کے لئے برپا کیا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم کرتے ہو،منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۱۳۹* ان میں کچھ لوگ تو مؤمن ہیں لیکن اکثر لوگ فاسق ہیں۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے بجز تھوڑی سی اذیت رسانی کے اور اگر وہ تم سے جنگ کریں گے تو پیٹھ دکھائیں گے ۱۴۰* پھر ان کو کہیں سے مدد نہیں مل سکے گی۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جہاں کہیں پائے گئے ان پر ذلت کی مار پڑی اِلّا یہ کہ اللہ کے عہد یا انسانوں کے عہد کے تحت ان کو (وقتی طور پر) پناہ مل گئی ہو ۱۴۱*۔ وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور ان پر پستی و محتاجی مسلط کر دی گئی ۱۴۲*۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرنے لگے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے اور یہ ہے نتیجہ ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حد سے تجاوز کرنے لگے تھے ۱۴۳*۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب یکساں نہیں ہیں۔ ان اہل کتاب میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو (عہد پر) قائم ہے۔ یہ لوگ رات کی گھڑیوں میں اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ اور یوم آخر پر ایما ن رکھتے ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں منکر سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم ہیں۔ یہ لوگ صالحین میں سے ہیں ۱۴۴*۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لیکن) جن لوگوں نے کفر کیا ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ کام آنے والی نہیں ۱۴۵* وہ دوزخی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا کی اس زندگی میں وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ ان لوگوں کی کھیتی پر چل جائے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور وہ اسے تباہ کر کے رکھ دے ۱۴۶*۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرے ہیں۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنے سوا کسی اور کو اپنا راز دار نہ بناؤ ۱۴۷*۔ وہ نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے وہ تمہارے لئے تکلیف کے خواہاں ہیں۔ ان کی دشمنی ان کے منہ سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے اپنی ہدایات واضح کر دی ہیں اگر تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تم ہو کہ ان سے دوستی رکھتے ہو جبکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے ۱۴۸* اور تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔ وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں ۱۴۹* اور جب اکیلے میں ہوتے ہیں تو مارے غصہ کے اپنی انگلیاں کاٹنے لگتے ہیں۔ ان سے کہو اپنے غصہ میں جل مرو۔ اللہ ان باتوں کو بخوبی جانتا ہے جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو ان کو ناگوار ہوتا ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ۱۵۰* لیکن اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو ۱۵۱* تو ان کی چالبازیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی اور وہ جو حرکتیں کر رہے ہیں اللہ انہیں گھیرے ہوئے ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۱۵۲* (یاد کرو) جب تم اپنے گھر سے صبح سویرے نکلے تھے اور مؤمنین کو جنگ کے مورچوں پر متعین کر رہے تھے اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت تم میں سے دو گروہ ۱۵۳* کمزوری دکھانا چاہتے تھے حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا اور اللہ ہی پر اہلِ ایمان کو بھروسہ رکھنا چاہئیے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ اللہ نے تمہاری مدد بد ر ۱۵۴* میں کی تھی جبکہ تم نہایت کمزور تھے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ اس کے شکر گزار بنو۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت تم مؤمنوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے ۱۵۵* ؟

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ تمہارے اوپر دفعتہً حملہ آور ہوئے تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان رکھنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۱۵۶*

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اسے تمہارے لئے بشارت بنایا اور تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں ورنہ نصرت تو اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے جو غالب بھی ہے اور حکیم بھی ۱۵۷*۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز (تمہاری مد د) اس لئے کہ اللہ کافروں کے ایک حصہ کو کاٹ دے یا انہیں ایسا ذلیل کر دے کہ وہ نامراد ہو کر لوٹیں۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس معاملہ میں تمہیں کوئی اختیار نہیں ۱۵۸* وہ چاہے انہیں معاف کرے یا سزا دے کہ وہ ظالم ہیں۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے ۱۵۹*۔ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !یہ دوگنا چوگنا سود نہ کھاؤ ۱۶۰*۔ اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

۱۳۲ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت کی طرح ہے ۱۶۱*۔ یہ متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو خوشحالی اور تنگی ہر حال میں انفاق کرتے ہیں ، غصہ کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کا معاملہ کرتے ہیں اللہ ایسے نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب یا (کوئی گناہ کر کے) اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کو ن ہے جو گناہوں کو معاف کرے ۱۶۲* اور وہ جانتے بوجھتے اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۱۶۳*۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے۔ نیز ایسے باغات ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ کیا ہی اچھا اجر ہے عمل کرنے والوں کے لئے۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے سنن الٰہی کے واقعات گزر چکے ہیں تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ۱۶۴*۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگوں کے لئے بیان ہے ۱۶۵* اور متقیوں کے لئے ہدایت و نصیحت۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پست ہمت نہ ہو اور غم نہ کرو۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو ۱۶۶*۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم کو زخم لگا ہے تو اسی طرح کا زخم ان لوگوں (دشمن) کو بھی لگ چکا ہے ۱۶۷* ان ایام ۱۶۸* کو ہم اسی طرح لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں اور (یہ دن تم پر اس لئے لایا گیا کہ) اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سچّے اہل ایمان کو ن ہیں اور چاہتا تھا کہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید بنائے ۱۶۹*۔ اللہ کو ظالم لوگ پسند نہیں ہیں

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (یہ حادثہ اس لئے پیش آیا) تاکہ اللہ اہل ایمان کو خالص کر دے اور کافروں کی سرکوبی کرے۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ اللہ نے ابھی یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون لوگ جہاد کرنے وا لے ہیں ۱۷۰* اور (یہ ابتلا اس لئے بھی ضروری ہے) تاکہ وہ دیکھ لے کہ کو ن صبر کرنے وا لے ہیں۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم موت کے سامنے آنے سے پہلے اس کی تمنا کر رہے تھے ۱۷۱* لیکن جب تم نے اسے دیکھ لیا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد تو بس ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں پھر کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ۱۷۲* ؟ جو کوئی الٹے پاؤں۔ پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اور اللہ قدرشناس ۱۷۳* لوگوں کو جلد ہی جزاء سے نوازے گا۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر مر نہیں سکتا اس کا وقت مقرر ہے اور لکھا ہوا ہے ۱۷۴* جو کوئی دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اسی میں سے دیتے ہیں اور جو آخرت کے انعام کا طالب ہو تو ہم اسے اس میں سے دیں گے اور ہم شکر کرنے والوں کو ضرور جزا سے نوازیں گے۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنے ہی انبیاء گزرے ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ۱۷۵* اور جو مصیبتیں انہیں اللہ کی راہ میں پیش آئیں ان کی وجہ سے وہ پست ہمت نہیں ہوئے نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ (دشمنوں کے آگے) جھکے اور اللہ کو ثابت قدم رہنے وا لے لوگ ہی پسند ہیں۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی زبان سے تو بس یہی کلمات نکلے کہ اے ہمارے رب !ہمارے گناہوں کو بخش دے ، ہمارے کام میں جو زیادتیاں ہو گئی ہوں ان سے درگزر فرما، ۱۷۶* ہمارے قد م جما دے اور کافروں پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نتیجہ یہ کہ اللہ نے ان کو دنیا کے انعام سے بھی نوازا اور آخرت کے بہترین انعام سے بھی۔ اور اللہ کو ایسے ہی نیک کردار لوگ پسند ہیں ۱۷۷*۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!اگر تم کافروں کا کہنا مان لو گے تو وہ تمہیں الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا مولیٰ (رفیق) تو اللہ ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عنقریب ہم کافروں کے دل میں رعب ۱۷۸* بٹھا دیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا جن کے لئے اس نے کوئی سند نازل نہیں فرمائی۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور کیا ہی بری جائے قیام ہے ظالموں کے لئے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے جو وعدہ تم سے کیا تھا اسے سچ کر دکھایا جبکہ تم اس کے اذن سے ان کو بے دریغ قتل ۱۷۹* کر رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی اور (مورچہ پر قائم رہنے کے) معاملہ میں باہم اختلاف کیا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھائی جس کے تم دلدادہ تھے۔ تم میں کچھ طالب دنیا تھے ۱۸۰* اور کچھ طالب آخرت۔ تب اس نے تمہارا رخ ان (دشمنوں) کی طرف پھیر دیا ۱۸۱* تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے۔ تاہم اس نے تمہیں معاف کر دیا اور اللہ مؤمنوں کے حق میں بڑا مہربان ہے ۱۸۲*۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم (مورچہ چھوڑ کر) چلے جا رہے تھے اور کسی کی طرف مڑ کر بھی دیکھتے نہ تھے حالانکہ رسول تم کو پیچھے سے پکار رہا تھا ۱۸۳* تو اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا ۱۸۴* تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے یا جو مصیبت تمہیں پیش آئے اس پر دل گرفتہ نہ ہو تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر اطمینان نازل فرمایا ، یہ اونگھ کی حالت تھی جو تم میں سے ایک گروہ پر طاری ہو رہی تھی ۱۸۵* مگر دوسرے گروہ کو اپنی جانوں ہی کی پڑی تھی یہ لوگ اللہ کے بارے میں خلاف حق جاہلیت کی سی بدگمانی کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کیا اس معاملہ میں ہمیں بھی کوئی اختیار ہے ؟ کہو سارا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اسے تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ (دراصل) ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر اس معاملہ میں ہمیں اختیار ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔ کہو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کا قتل ہونا مقدر تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے ۱۸۶*۔ یہ جو کچھ پیش آیا اس لئے پیش آیا تاکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اسے اللہ پرکھے اور جو (کدورت) تمہارے دلوں میں ہے اسے صاف کرے اللہ تمہارے باطن کا حال بخوبی جانتا ہے۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے ۱۸۷* اس دن تم میں سے جن لوگوں نے پیٹھ پھیری ان سے شیطان نے ان کے بعض اعمال کے باعث لغزش کرا دی تھی ۱۸۸*۔ اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ بلا شبہ اللہ بڑا بخشنے والا برد بار ہے۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کفر کیا اور جو اپنے بھائیوں کے بارے میں جبکہ وہ سفر پر گئے ہوں یا جنگ میں شریک ہوئے ہوں (اور انہیں موت آ جائے تو) کہتے ہیں اگر وہ ہمارے پاس موجود ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے (انہیں یہ خوش فہمی) اس لئے ہے تاکہ اللہ اس کو ان کے دلوں میں باعث حسرت بنا دے ۱۸۹* ورنہ اللہ ہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے یا مر گئے تو اللہ کی مغفرت اور رحمت (جس سے کہ تم نوازے جاؤ گے) ان تمام چیزوں سے کہیں بہتر ہے جن کو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خواہ تم مرو یا مارے جاؤ بہرحال تمہیں جمع اللہ ہی کے حضور ہونا ہے۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر) یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے نرم ہو ۱۹۰*۔ اگر تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے چھٹ جاتے۔ لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان کے حق میں استغفار کرو نیز (جہاد جیسے مہمات) امور میں ان سے مشورہ کرتے رہو ۱۹۱* پھر جب عز م کر لو تو اللہ پر توکل کرو۔ یقیناً اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو کو ن ہے جو تم پر غالب آئے ؟ اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کو ن ہے جو تمہاری مدد کرے گا اور اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئیے۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی نبی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کرے ۱۹۲* اور جو کو ئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اپنی خیانت کو لا حاضر کرے گا ۱۹۳* پھر ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو گی۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ایسا شخص جو اللہ کی رضا پر چلنے والا ہو اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اللہ کے غضب کا مستحق ہو اور جس کا ٹھکانا جہنم ہے نہایت ہی برا ٹھکانا!؟

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے نزدیک لوگوں کے درجے الگ الگ ہیں اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی نگاہ میں ہے ۱۹۴*۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعی اللہ نے اہل ایمان پر یہ بڑا احسان فرمایا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک ایسا رسول برپا کیا جو انہیں اس کی آیتیں سناتا ہے ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۱۹۵* ورنہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا بات ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی جیسے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (دشمنوں) پر پڑ چکی ہے تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آ گئی ۱۹۶* ؟ (اے پیغمبر) کہو یہ تمہارے ہی ہاتھوں آئی ہے ۱۹۷* یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۱۹۸*۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دونوں جماعتوں کے مقابلہ کے دن جو مصیبت تمہیں پہنچی وہ اللہ کے اذن ہی سے پہنچی اور یہ اس لئے ہوا تاکہ وہ مومنوں کو دیکھ لے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کو بھی دیکھ لے جو منافق ہیں ان (منافقوں) سے جب کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا (دشمن کو) دفع کرو تو وہ کہنے لگے اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ ہوتے ۱۹۹*۔ وہ اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے وہ اپنی زبان سے ایسی بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے اور جس بات کو یہ چھپاتے ہیں اس کو اللہ اچھی طرح جانتا ہے۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ خود تو بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو مارے نہ جاتے ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو اپنے اوپر سے موت کو ٹال کر دکھاؤ۔ ۲۰۰*

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۲۰۱*۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اس سے وہ خوش ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور ابھی ان سے ملے نہیں ہیں ان کے بارے میں خوشیاں منا رہے ہیں کہ ان کے لئے بھی نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۲۰۲*۔

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کی بشارت مل رہی ہے اور وہ مطمئن ہیں کہ اللہ مؤمنوں کے اجر کو ضائع نہیں کر ے گا ۲۰۳*۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا ۲۰۴* ان میں سے جو نیک کردار اور متقی ہیں ان کے لئے بڑا اجر ہے۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف ان لوگوں نے بڑی طاقت اکٹھا کی ہے لہٰذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو گیا ۲۰۵* اور وہ بول اٹھے اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ۲۰۶*۔

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایسا ہوا کہ یہ لوگ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس لوٹے۔ ان کو کسی طرح کا گزند نہیں پہنچا وہ اللہ کی رضا پر چلے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے ساتھیوں سے ڈرا رہا تھا لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ کفر (کی راہ) میں سرگرمی دکھا رہے ہیں ان کی وجہ سے تم آزردہ خاطر نہ ہو جاؤ وہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ جن لوگوں نے ایمان کے بعد کفر کا سودا کیا وہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا وہ یہ خیال نہ کریں کہ یہ ڈھیل جو ہم انہیں دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں بہتر ہے یہ ڈھیل تو ہم انہیں اس لئے دے رہے ہیں تاکہ وہ خوب گناہ سمیٹ لیں ۲۰۷* پھر ان کے لئے سخت رسوا کن عذاب ہے۔

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اہل ایمان کو اس حال پر ہرگز نہ چھوڑے گا جس پر تم اس وقت ہو جب تک کہ وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کر دے ۲۰۸* اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ عیب (کی ان باتوں) پر تمہیں مطلع کر دے ۲۰۹* بلکہ اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کام کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایما ن لاؤ اگر تم ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ اس میں بخل کرتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ایسا کرنا ان کے لئے اچھا ہے نہیں یہ ان کے لئے بہت برا ہے یہ مال جس میں یہ بخل کرتے ہیں قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بنا کر پہنا یا جائے گا ۲۱۰* اور اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی میراث ۲۱۱* اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۲۱۲*۔ ہم ان کے اس قول کو لکھ رکھیں گے اور ان کا انبیا ء کو ناحق قتل کرنا بھی۔ اور ہم کہیں گے کہ چکھو اب عذاب آتش کا مزہ۔

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں اپنے لئے مہیا کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ہر گز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش نہ کرے جسے آگ کھا لے ان سے کہو مجھ سے پہلے تمہارے پاس کتنے ہی رسول روشن نشانیاں لیکر آئے تھے اور وہ چیز بھی لیکر آئے جو تم کہتے ہو پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو ۲۱۳*۔

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پھر اے پیغمبر ؐ !) اگر یہ تمہیں جھٹلا تے ہیں تو تم سے پہلے بھی کتنے ہی رسولوں کو جھٹلایا جا چکا ہے وہ روشن نشانیاں ۲۱۴* ، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۲۱۵* اور تمہیں پورا پورا اجر تو قیامت ہی کے دن دیا جائے گا تو جو شخص آتشِ (دوزخ) سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ یقیناً کامیاب ہوا اور یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ سامان فریب ہے۔

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جان و مال کی آزمائش میں ضرور ڈالے جاؤ گے اور تمہیں ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی نیز مشرکین سے بہت کچھ اذیت دہ باتیں سننا پڑیں گی۔ لیکن تم نے صبر سے کام لیا اور تقویٰ پر قائم رہے تو یہ بڑے عزم و ہمت کی بات ہو گی۔

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یاد کرو جب اللہ نے ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے عہد لیا تھا کہ تم اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں مگر انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اس کو تھوڑی قیمت پر فروخت کر دیا ۲۱۶* تو کیا ہی بری قیمت ہے جسے وہ حاصل کر رہے ہیں۔

۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے ان کرتوتوں پر نازاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ان پر ان کی تعریف کی جائے ۲۱۷* انہیں تم عذاب سے محفوظ نہ سمجھو ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔

۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ ۲۱۸* آسمانوں اور زمین کی خلقت اور رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں دانشمندوں ۲۱۹* کے لئے بڑی ہی نشانیاں ۲۲۰* ہیں۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کا یہ حال ہے کہ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۲۲۱* اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں ۲۲۲*۔ (وہ پکار اٹھتے ہیں اے ہمارے رب ! یہ سب کچھ تو نے بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے تو پاک ہے (اس سے کہ عبث کام کرے) پس تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب!جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا اسے فی الواقع تو نے رسوا کر دیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہ ہو گا۔

۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب !ہم نے ایک پکارنے وا لے کو سنا جو ایمان کی طرف بلا رہا تھا۔ اس کی دعوت یہ تھی کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے پس اے ہمارے رب !ہمارے گناہ بخش دے ، ہماری برائیوں کو دور فرما اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ (دنیا سے) اٹھا۔

۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب !جن چیزوں کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وعدہ فرمایا ہے وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کر بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی ۲۲۳* کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے وا لے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۲۲۴* ، ضائع نہیں کروں گا۔ تم سب ایک دوسرے سے ہو ۲۲۵* تو جن لوگوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میر ی راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے ان سے ان کی برائیوں کو دور کروں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کی طرف سے جزا ہو گی اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے۔

۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملکوں میں کافروں کی دوڑ دھوپ تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے ۲۲۶*۔

۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھوڑے سے فائدہ کا سامان ہے ا س کے بعد انکا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا ہی بری آرام گاہ ہے وہ۔

۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کی طرف سے ان کے لئے سامان ضیافت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لئے کہیں بہتر ہے ۲۲۷*۔

۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس چیز پر بھی ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس چیز پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف نازل کی گئی تھی ۲۲۸* اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اللہ کی آیتوں کو وہ حقیر قیمت پر بیچ نہیں دیتے ایسے ہی لوگوں کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے یقین جانو اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔

۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ۲۲۹* ! صبر کرو، مقابلہ میں ثابت قدم رہو ، (جہاد کے لئے) تیار رہو ۲۳۰* ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ۲۳۱* تاکہ تم کامیاب ہو۔

 

                   تفسیر

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حروف مقطعات ہیں جن کی تشریح سورۂ بقرہ کے آغاز میں گز ر چکی۔ وہاں ہم زبور کے حوا لے سے یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ حروف سورہ کے مخصوص مضامین یا مخصوص الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس سورۃ کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حروف ان مضامین کے ساتھ خاص مناسبت رکھتے ہیں طوالت سے بچتے ہوئے ہم یہ عرض کریں گے کہ الف کا اشارہ "اللہ ” کی طرف ہے جس کی صحیح معرفت اس سورۃ میں بخشی گئی ہے۔ نیز اس کا اشارہ "آیات اللہ ” کی طرف بھی ہے جس کا ذکر اس سورہ میں بکثرت ہوا ہے اور خاص طور سے آیت ۷ میں آیات قرآنی کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں محکمات و متشابہات۔

اسی طرح لام کا اشارہ لااِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں) کی طرف ہے جن کو نہایت مہتمم بالشان طریقہ پر اس سورہ میں پیش کیا گیا ہے۔ (آیت۲ ،۶ ، ۱۸)

رہا میم تو وہ بھی اس سورہ کا ایک اہم عنصر ہے کیونکہ اس سورہ میں اللہ کی اس صفت کو کہ وہ مالک الملک ہے نہایت مؤثر پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے۔ (آیت ۲۶) نیز اس میں ملائکہ کا ذکر متعدد مقامات پر ہوا ہے اور توحید کے سلسلہ میں ان کی گواہی بھی پیش کی گئی ہے (آیت ۱۸) علاوہ ازیں اس میں مومنین و متقین کو کامیابی کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔

گویا ان حروف کی حیثیت نشاناتِ راہ کی ہے جو منزل کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ خداؤں میں سب سے بڑا ہے یعنی مہا دیو یا Chief God ہے بلکہ فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں یعنی اس کے سوا کسی خدا کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے لہٰذا اللہ کے سوا جن کو بھی خدا کے نام سے پکارا جاتا ہے وہ فرضی خد ا ہیں حقیقتہً ان میں سے کوئی بھی الوہیت (خدائی کی صفت) اپنے اندر نہیں رکھتا۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو ، سورہ بقرہ نوٹ ۴۰۹ ، ۴۱۰۔ یہاں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ قیّومیت اللہ ہی کی صفت ہے۔ اس لئے وہ بجا طور پر مستحقِ عبادت ہے لیکن جو لوگ مسیح یا کسی اور ہستی کی الوہیت کے قائل ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا یہ ہستیاں بھی اپنے اندر قیّومیت کی صفت رکھتی ہیں اگر نہیں ، اور واقعہ یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے تو پھر ان کو اِلٰہ قرار دینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نَزَّلَ (نازل کیا) میں الفاظ کے ساتھ اتارنے کا مفہوم شامل ہے یعنی اس احتمال کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وحیِ الٰہی کو الفاظ کا جامہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے پہنا یا ہو گا نہیں بلکہ قرآن لفظاً اور عبارتاً (Text) کی شکل میں اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اس کے الفاظ اور ان کی ترکیب میں کسی کا حتیٰ کہ پیغمبر کا بھی کوئی دخل نہیں ۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات کے عبرانی میں معنی قانون (Law) کے ہیں یہ اس کتاب کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ قرآن اسی کی تصدیق کرتا ہے لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ تورات موجو دہ بائبل (Old Testament) کا نام ہے۔ اور اس کے تمام مضامین کی قرآن تصدیق کر رہا ہے کیونکہ موجو دہ بائبل مذہبی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں اصل تورات کے اجزا ء ضرور موجود ہیں لیکن وہ تاریخی واقعات ، سیرت ، علماء کی تشریح و تعبیر اور فقہاء کی آراء کا ایسا مجموعہ ہے کہ نہ اس پورے مجموعے پر کتابِ الٰہی کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ اصل تورات کے اجزاء کو کوئی شخص اس مخلوطہ سے الگ کر سکتا ہے تا وقتیکہ وہ بصیرت سے کام نہ لے۔ موجو دہ بائبل خود یہ دعویٰ بھی نہیں کرتی کہ وہ من و عن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے نیز اس کے مضامین اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ یہ مجموعہ انسانوں ہی کا مرتّب کردہ ہے بلکہ اصلِ کلامِ الٰہی میں لوگوں نے جو تحریف کی اس کا اعتراف بھی بائبل کرتی ہے چنانچہ بائبل کی کتاب "یرمیاہ "میں ہے۔ ” کیونکہ تم نے زندہ خدا ربّ الافواج ہمارے خدا کے کلام کو بگاڑ ڈالا ہے ” (یرمیاہ ۲۳۔ ۳۶)

موجو دہ بائبل کے بارے میں اس کے ایک شارح کا یہ اعتراف ملاحظہ ہو کہ یہ مجموعہ بھی اسرائیل کی بابل سے واپسی کے بعد مرتّب کیا گیا ہے : چنانچہ Peak’s Commentary on the Bible, میں The Authority of the Bible کے تحت اس کا شارح رقم طراز ہے۔

” It was after the return of Israel from the Babylonian exile that the collection of the Books of the Law into the present corpus was made” (Page2)

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انجیل اس کتاب کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی۔ قرآن اسی کی تصدیق کرتا ہے۔ جہاں تک موجودہ بائبل کے عہد نامہ جدید کا تعلق ہے اس میں اصل انجیل کے اجزاء ضرور پائے جاتے ہیں جو قرآن سے بالکل ہم آہنگ ہیں لیکن یہ مجموعہ بھی اپنی موجود ہ شکل میں کلامِ الٰہی کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس میں کلامِ الٰہی کے منتشر اجزاء کے ساتھ تاریخی واقعات، روایات اور تشریح وغیرہ گھل مل گئی ہے۔ لوقا کی انجیل میں تو آغاز ہی میں یہ صراحت موجود ہے کہ اس کے مرتّب نے واقعات کو خود ہی مرتّب کیا ہے۔

” چونکہ بہتوں نے اس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں ان کو ترتیب وار بیان کریں جیسا کہ انہوں نے جو شروع ہی سے خود دیکھنے وا لے اور کلام کے خادم تھے ان کو ہم تک پہنچایا۔ اس لئے اے معزّز تھیفلس میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے ان کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں تاکہ جن باتوں کی تو نے تعلیم پائی ہے ان کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے "۔ (لوقا ۱: ۱۔ ۴ (اور اس بات کا اعتراف بائبل کا شارح اس طرح کرتا ہے :۔

The motive and method of the writing of a gospel are described in the prologue of the Gospel of Luke: without any claim to inspiration, the writer set out to get the best information that he could and to use the previous attempts which had been made. The narrative was not designed to be sacred scripture. It was a record of the events: where in the sacred scriptures were fulfilled ” (Peake’s Commentary on the Bible: Page4))۴

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرقان قرآن کی صفت ہے جس کے معنی ہیں حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب۔ یہاں اس صفت کا ذکر کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ تورات و انجیل میں جب اہل کتاب نے تحریف کر دی اور لوگوں کے لئے حق و باطل میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کو کسوٹی بنا کر اتارا تاکہ لوگوں پر راہِ ہدایت واضح ہو جائے۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کی شکل میں اللہ کی طرف سے واضح ہدایت آ جانے کے بعد بھی جو لوگ مذہبی اختلافات کے چکّر میں پڑے رہیں گے اور اس ہدایت کو قبول نہیں کریں گے ان کو اللہ سخت سزا د ے گا۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ لوگوں نے اللہ کی کتابوں میں تحریف کرنے کی جو جسارت کی اور اللہ کے نام سے جو مختلف مذہب ایجاد کر لئے اسے دیکھ کر کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہ سب باتیں اللہ سے مخفی ہیں۔ یا اس کے ہاں اندھیر نگری ہے۔ نہیں بلکہ وہ لوگوں کی ان حرکتوں کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن چونکہ انسان کا یہاں امتحان لینا مقصود ہے اس لئے اس کی حکمت ا س بات کی متقاضی ہوئی کہ لوگوں کو مہلتِ عمل دی جائے اور فیصلہ قیامت کے دن کے لئے اٹھا رکھا جائے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رحم مادر میں جنین کی تخلیق اللہ ہی کرتا ہے نہ کہ کوئی دیوی دیوتا، مشرکانہ مذہب میں یہ تصوّر پایا جاتا ہے کہ ایک مخصوص دیوی (Tvashtri) جنین کی صورت گری کرتی ہے مذکورہ آیت اس قسم کے تصورات کو باطل قرار دیتی ہے نیز سیاقِ کلام کے لحاظ سے آیت کا اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت مسیحؑ کی تخلیق حضرت مریمؑ کے رحم میں ہوئی تھی پھر وہ خدا کس طرح ہو سکتے ہیں؟

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محکم یعنی پختہ اور مستحکم۔ محکم سے مراد قرآن کی وہ آیتیں ہیں جو اپنے مفہوم اور مدّعا کے لحاظ سے بالکل صاف اور واضح ہیں مثلاً و ہ آیات جن میں اسلام کی دعوت، اس کی تعلیمات ، اس کے احکام و قوانین ، فرائض ، عبادات ،نصائح اور اس قسم کی دوسری باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محکمات کی حیثیت امّ الکتاب کی ہے یعنی وہ کتاب کی اصل بنیاد اور مرجع ہیں لہٰذا قرآن کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہ ہو گاجو محکمات کے خلاف ہو بلکہ جہاں بھی مفہوم کی تعین میں اشتباہ پیش آئے وہاں محکمات کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متشابہ یعنی ملتی جلتی۔ متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں حقائق جو انسان کے مشاہدات و محسوسات کی دسترس سے باہر ہیں۔ مثلاً اللہ کا عرش پر مستوی ہونا ، عالم بالا کے حقائق ، اعمال کا تولا جانا ،جنت کی نعمتیں ،دوزخ کی سزائیں ، آخرت کے کوائف ، وغیرہ اس قسم کی باتوں کو ایسے الفاظ اور اسالیب میں بیان کیا گیا ہے جو اصل حقیقت کے مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لئے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے مابعد الطبیعی حقائق کا علم انسان کو اس حد تک حاصل ہو جاتا ہے جس حد تک کہ اس کی ہدایت کے لئے ضروری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر آدمی ان کی اصلِ حقیقت معلوم کرنے کے درپے ہو جائے تو اصلِ حقیقت تک اس کی رسائی ہونے سے رہی البتّہ وہ لفظی اور کلامی بحثوں میں الجھ کر رہ جائے گا جو کسی دانا کا کام نہیں ہے۔

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا          غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متشابہات کے پیچھے پڑنے کی ایک مثال حضرت عیسیٰؑ کی تخلیق کا معاملہ ہے چونکہ آپ کی پیدائش بغیر باپ کے غیر معمولی طریقہ پر ہوئی تھی اس لئے آپ کو کَلِمَۃً مِّنْہُ (کلمہ منجانب اللہ) سے تعبیر فرمایا یعنی وہ اللہ کے ایک فرمان کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی تخلیق اللہ کے کلمۂ کُن (اللہ کا حکم کہ ہو جا) سے ہوئی تھی لیکن نصاریٰ نے اس میں فلسفیانہ موشگافیاں کیں اور حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے قائل ہو گئے اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کے لئے بھی فتنہ کا سامان کیا۔ افسوس ہے کہ قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود مسلمانوں کے بعض گروہوں نے پچھلے ادوار میں صفاتِ الٰہی وغیرہ کے بارے میں غیر ضروری اور لاطائل بحثیں چھیڑ دیں جس کے نتیجہ میں "علم کلام” وجود میں آیا اور اسلام کے سیدھے سادے عقائد بھی معمّہ بن گئے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعا جو علم میں پختگی رکھنے والوں کی زبان سے ادا ہوئی ہے ان کے جذباتِ ایمانی کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہ متشابہات کی تاویلات کے فتنوں سے بچنے کی فکر کرتے ہیں اور دین میں فتنہ پروری کرنے والوں سے ہوشیار رہتے ہیں اور اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کو کتاب اللہ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال و اولاد کا ذکر اس مناسبت سے ہوا ہے کہ بسا اوقات ان کی محبّت قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جنگِ بدر کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو ۰۲ھ میں اہل ایمان اور مشرکینِ مکہ کے درمیان بدر کے مقام پر پیش آیا۔ یہ پہلی جنگ تھی جو حاملینِ قرآن نے نبیﷺ کی قیادت میں لڑی۔ اس جنگ میں کفار کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور اہلِ ایمان کل تین سو تیرہ ۳۱۳تھے لیکن جب جنگ بالفعل شروع ہو گئی تو کفار کو اہل ایمان اپنی بہ نسبت دوگنی تعداد میں دکھائی دینے لگے۔ جس سے وہ مرعوب ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اللہ کی تائید و نصرت اہلِ ایمان کے ساتھ تھی جس کے نتیجہ میں اہلِ ایمان قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود غالب آ گئے۔ اور کفار کو کثیر تعداد ہونے کے باوجود شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

یہاں اس واقعہ کا حوالہ دینے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اس میں اہلِ حق کے شان دار مستقبل کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ حق و باطل کی اس کشمکش میں اللہ کی تائید و نصرت حاملینِ قرآن کے حق میں ظاہر ہوئی ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن چیزوں کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے وہ انسان کو طبعاً مرغوب ہیں اس لحاظ سے ان کی رغبت قابلِ اعتراض نہیں ہے لیکن ان چیزوں کا اس طرح آنکھوں میں کھب جانا کہ انسان کی ان کے ساتھ وابستگی حدِ اعتدال سے تجاوز کر جائے اور ان چیزوں کو وہ ذریعۂ امتحان سمجھنے کے بجائے مقصدِ حیات سمجھنے لگے تو یہ چیزیں انسان کو برے انجام کی طرف لے جاتی ہیں۔ آیت کا منشاء اسی بے اعتدالی سے انسان کو بچانا ہے۔ جس سیاق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ دعوتِ قرآنی کو قبول کرنے میں لوگوں کے لئے جو چیز مانع ہو رہی ہے وہ ان کا مادی اسباب پر ریجھ جانا ہے کیونکہ قرآن کی دعوت اس بات کو یکسر غلط ٹھہراتی ہے کہ آدمی مادی اسباب پر فریفتہ ہو اور غیر ذمہ دارانہ اور عیش کوشانہ زندگی گزارے۔ اس کے نزدیک دنیوی مال و اسباب چند روزہ زندگی کا سامان ہے۔ جو آزمائش کے لئے انسان کو عطا ہوا ہے اسی لئے اس میں کشش رکھی گئی ہے۔ رہا مستقبل اور ابدی انعام تو وہ آخرت میں ملے گا بشرطیکہ انسان نے اپنے کو اس کا مستحق بنایا ہو۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تقویٰ ایک جامع اصطلاح ہے اور یہاں اس کا یہ پہلو بالکل نمایاں ہو رہا ہے کہ مرغوباتِ نفس کے سلسلہ میں صحیح اور مبنی بر اعتدال رویہ اختیار کرنا اور آخرت کی نعمتوں کو نصب العین بنانا عین تقویٰ ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی خوشنودی تمام نعمتوں سے فائق تر ہے اللہ جب اپنے بندے سے خوش ہوا تو وہ کون سی سعادت ہے جو اسے ملنا باقی رہ گئی ؟

جنت میں انسان کو صرف ظاہری اور نعمتیں ہی نہیں ملیں گی بلکہ وہ خوشنودیِ رب کی روحانی دولت سے بھی مالامال ہو گا۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ اپنے بندوں کے حال پر نظر رکھے ہوئے ہے لہٰذا جو صحیح طرزِ عمل اختیار کرے گا اس کے لئے فکر کی کوئی بات نہیں ہے وہ اللہ کی خوشنودی سے ضرور نوازا جائے گا۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سحر کا وقت مناجاتِ الٰہی کے لئے نہایت سازگار اور قبولیت استغفار کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا سو رہی ہوتی ہے اور نفس آرام کا طالب ہوتا ہے اٹھ کر اللہ کے حضور استغفار کرنا ایک مجاہدانہ عمل ہے جو ریا کی آفتوں سے محفوظ ہوتا ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ صفات انسان کی عظمت اور بلندی کی ضامن ہیں جن لوگوں کے کردار کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں وہ دنیا کے مال و متاع اور اس کی آرائش و زیبائش پر ریجھتے نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی کو اپنا نصب العین بناتے ہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور اپنے قائم بالقسط ہونے پر اپنی ، اپنے فرشتوں کی اور اہلِ علم کی شہادت پیش کی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شہادت کا اظہار تو کائنات کی ایک ایک چیز سے ہو رہا ہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی وحدانیت پر دلالت نہ کرتی ہو اور جو توازن اس کائنات کے نظام کے اندر پایا جاتا ہے وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا خالق عدل و قسط کی صفت سے متّصف ہے۔

توحید انسان کے وجدان کی پکار ہے یہ بھی اللہ کی شہادت ہی ہے جو انسان کے باطن کے اندر ودیعت ہوئی ہے۔ اللہ کی شہادت کا اظہار وحی کے ذریعہ بھی ہوا ہے۔ قرآن اس کا بیّن ثبوت ہے۔

فرشتوں کی شہادت امر واقعہ کا اظہار ہے۔ فرشتے اللہ کے احکام کو کائنات میں نافذ کرتے ہیں اور پیغمبروں پر وحی لے کر آتے ہیں اس لئے ان کی شہادت اظہارِ حقیقت ہے۔ مشرکین ان کو خدائی میں شریک ٹھہراتے ہیں لیکن وہ خود ہر قسم کے شرک کی نفی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ واحد ہونے کی گواہی دیتے ہیں ان کا نزول جب کبھی انبیا پر ہوا ہے وہ اللہ کی طرف سے توحید ہی کا پیغام دیتے رہے ہیں۔

اہلِ علم کی شہادت سے مراد ان لوگوں کی شہادت ہے جو خدا اور کائنات کے بارے میں علم حقیقی سے بہرہ مند ہیں۔ یہ علم انبیاء کے ذریعہ انسانوں کو ملا ہے اور اہلِ علم کا یہ حقیقت شناس گروہ ہر زمانہ میں یہ شہادت دیتا رہا ہے۔

کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق          زبان اور دل کی شہادت کے لائق

اور یہ شہادت اس نے عظیم الشان قربانیاں دے کر قائم کی ہے۔ فحوائے کلام سے اہلِ علم کی عظمت کا پہلو بھی واضح ہو رہا ہے کیونکہ اہلِ علم کا ذکر فرشتوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "اَلدِّینْ” استعمال ہوا ہے۔ جس سے مراد اصل اور اور حقیقی دین ہے یعنی وہ دین جو واقعی اللہ کا نازل کردہ ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم سے مراد علمِ حق ہے اور خاص طور سے دین کی بنیادی باتوں کا علم جس کے بعد کسی اختلاف کے لئے گنجائش باقی نہیں رہتی۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے جو دین نازل فرمایا وہ اسلام ہے۔ یہی دین اللہ کا دین ہے اور تمام انبیاء پر وہ اسی دین کو نازل فرماتا رہا ہے۔ اس نے کبھی کسی ملک اور کسی زمانہ میں کسی بھی نبی یا رسول پر اسلام کے سوا کوئی اور دین نازل نہیں فرمایا لیکن پیغمبر کی امتوں نے اس اصلِ دین میں اختلاف کر کے الگ الگ مذہب ایجاد کر لئے۔ یہ یہودیت اور نصرانیت اسی قبیل سے ہیں۔ ان امتوں نے یہ اختلاف اس بناء پر نہیں کیا تھا کہ انہیں دینِ حق کا علم نہیں تھا بلکہ حق کے واضح ہو جانے کے باوجود انہوں نے محض نفسانیت ،باہمی عناد اور مبتدعانہ ذہنیت کی بناء پر ایسا کیا۔ لیکن اللہ چونکہ عدل و قسط کو قائم کرنے والا ہے اس لئے اس نے اسلام کو از سرِ نو نازل فرما یا ہے تاکہ لوگوں پر راہِ حق واضح ہو اس کے بعد بھی اگر انہوں نے کفر کی روش اختیار کی اور اللہ کی ان صریح آیتوں کو نہیں مانا تو اللہ ان کا حساب بہت جلد چکائے گا۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُمّی کے لغوی معنی ایسے شخص کے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو لیکن اصطلاحاً یہ لفظ بنی اسماعیل کے لئے بطور لقب استعمال ہوا ہے کیونکہ ان کے پاس نہ کتابِ الٰہی تھی اور نہ ان میں رسمی تعلیم کا رواج تھا بخلاف اس کے بنی اسرائیل حاملِ کتاب تھے اور ان میں رسمی تعلیم کا بھی رواج تھا

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قتلِ ناحق اور پھر وہ کسی نبی کا جرم کی سنگینی کو واضح کرنے کے لئے کا فی ہے۔ قتلِ انبیاء کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔

"تو بھی وہ نافرمان ہو کر تجھ سے باغی ہوئے اور انہوں نے تیری شریعت کو پیٹھ پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو تیر ی طرف پھرا لائیں قتل کیا اور انہوں نے غصّہ دلانے کے بڑے بڑے کام کئے۔ ” (نحمیاہ ۹: ۲۶)

"اے یروشلم ! اے یروشلم !تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا” (متی ۲۳:۳۷)

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ دینداری کے پردے میں اللہ کی ہدایت کو ماننے سے انکار کریں ، قتلِ انبیاءؑ جیسے جرم کے مرتکب ہوں اور ان نیک لوگوں کے در پئے آزار ہو جائیں جو اصلاح کی کوشش کریں اور حق و عدل کی دعوت لے کر اٹھیں ان کی یہ دینداری اللہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتی اور ان کی تمام کوششیں اور ان کے سارے مذہبی اعمال بالکل اکارت جانے وا لے ہیں آخرت میں اکارت جانا تو واضح ہی ہے۔ رہا دنیا میں اکارت جانا تو دنیا نے دیکھ لیا کہ قرآن اور اس کو لانے وا لے پیغمبرؑ کے مخالفین کا کیا حشر ہوا۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب کے ایک حصّہ سے مراد تورات ، انجیل وغیرہ آسمانی صحیفے ہیں۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی کتاب سے مراد قرآن ہے۔ تورات وغیرہ آسمانی صحیفوں اور قرآن میں نسبت جز اور کل کی ہے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فیصلہ ان اختلافات کا جو اہلِ کتاب نے اللہ کے دین کے سلسلہ میں پیدا کئے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حق سے اعراض کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ ان کے قومی مزاج کی خصوصیت ہے جس کا ثبوت ان کی تاریخ سے ملتا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ یہودیوں کے من گھڑت باتوں کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کتابِ الٰہی کو حاکمانہ حیثیت دینے کے لئے اس وجہ سے تیار نہیں ہیں کہ وہ آخرت کی سزا کی طرف سے بے فکر ہو گئے ہیں اور مکافاتِ عمل کا صحیح تصوّر ان کے ذہن میں نہیں ہے۔ اگرچہ کہ پچھلی کتابوں میں بھی مکافاتِ عمل کا وہی تصور پیش کیا گیا تھا جو قرآن پیش کرتا ہے یعنی انسان کی جیسی کمائی ہو گی ویسا اسے بدلہ ملے گا لیکن دین میں حاشیہ آرائی کر کے انہوں نے اپنے کو اس بات پر مطمئن کر لیا کہ چونکہ وہ ایک خاص مذہبی قومیت Religious communityسے تعلق رکھتے ہیں اس لئے آخرت میں ان کا بیڑہ پار ہے اس اطمینان نے ان کو بری طرح بے عملی میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس آئینہ میں موجودہ دور کے مسلمان بھی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں ان کی بھی ایک بڑی تعداد اس دھوکہ میں مبتلا ہے کہ نجات اخروی کے لئے پیدائشی مسلمان ہونا کافی ہے۔ نجات کے اس غلط تصور نے انہیں حقیقی ایمان اور عملِ صالح سے بے نیاز کر دیا ہے اور بدعات و بد اعمالیوں میں ایسے غرق ہو گئے ہیں کہ ان امور میں قرآن کو فیصلہ کن حیثیت دینے کے لئے عملاً تیار نہیں ہیں۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اقتدار کی حیثیت جس کو یہاں دعائیہ پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے۔ ہر قسم کے اختیار ات اور ہر قسم کے حکومتی اقتدار کا مالک تنہا اللہ ہے۔ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ دنیا میں جس کو بھی حکومت ملتی ہے اسی کے عطا کرنے سے ملتی ہے اور جس کے اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے اسی کے چھین لینے سے ہوتا ہے وہ اپنی حکمت کے تحت اشخاص اور گروہوں کو اقتدار عطا کرتا اور اس سے محروم کرتا رہتا ہے لہٰذا جس کے پاس اقتدار کے خزانے ہیں اور جن کے ہاتھ میں عزت اور سرفرازی ہے اسی کو مقتدر اعلیٰ ماننا چاہئیے اور اسی سے لو لگانا چاہئیے۔

اللہ کے مالک الملک ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان ہر قسم کے دنیوی اقتدار کو خواہ وہ بادشاہت کی شکل میں ہو یا جمہوریت کی شکل یا کسی اور شکل میں اللہ کی بخشی ہوئی امانت سمجھے اور اس کو اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق استعمال کرے۔ اقتدار کا یہ قرآنی تصور بادشاہ پرستی King worship کی بھی نفی کرتا ہے اور بادشاہ کے خدائی حق۔ (Divine Right) کی بھی۔ نیز جمہوریت کے اس دعوے کی بھی کہ اس کی حاکمیّت مطلق ہے اور خدا سے اسے سروکار نہیں۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھلائی صرف اللہ کے ہا تھ میں ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اور وہ خیر و برکت کا سرچشمہ ہے۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رات اور دن کا تسلسل اور ان کے اوقات میں کمی بیشی اللہ تعالیٰ ہی کی کارفرمائی ہے اور اس میں کسی کا ذرّہ برابر دخل نہیں۔ اس سے رات اور دن کے الگ الگ خدا ہونے۔ Night Deity or Day Deityکے مشرکانہ عقیدہ کی نفی ہوتی ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مثلاً انسان کو بے جان مادّہ (مٹی) سے پیدا کیا اور پھر یہی انسان مر کر مٹی (بے جان مادہ) ہو جاتا ہے اسی طرح وہ بے جان مادّوں سے جاندار مخلوق پیدا کرتا ہے اور جاندار اجسام سے بے جان مادوں کو خارج کرتا ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان کا تعلق تمام تعلقات پر مقدم ہے لہٰذا اہلِ ایمان کا یہ کام نہیں کہ خدا کے دشمنوں کو اپنا دوست بنائیں بلکہ وہ اپنا دوست ان ہی لوگوں کو بنا سکتے ہیں جو اللہ کو اپنا دوست رکھتے ہوں۔ واضح رہے کہ اس ہدایت کا منشا ء عام انسانی تعلقات کی نفی کرنا نہیں ہے اور نہ قرآن غیر عربی کافروں کے انسانی حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ عدل و قسط کا معاملہ کرنے سے روکتا ہے۔ یہ باتیں قرآن میں دوسرے مقامات پر واضح کر دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر درجِ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔

وَقُوْلُوْ ا لِلنَّاسِ حُسْناً (بقرہ ۸۳) "لوگوں سے بھلی بات کہو”

وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنَ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (مائدہ۔ ۸) "کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اس کے ساتھ انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ”

وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً (لقمان۔ ۱۵) ” (والدین اگر مشرک بھی ہوں تو) دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر”

وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ (نساء۔ ۳۶) "اور رشتہ دار ہمسایہ ، اجنبی ہمسایہ ، ہم نشین دوست اور مسافر کے ساتھ نیک سلوک کرو”

لَایَنْھَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوا اِلَیْھِمْ (الممتحنہ۔ ۸) ” اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا”

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کہیں اہل ایمان کافروں کے نرغہ میں پھنس جائیں اور وہ اپنے تحفظ کی کوئی صورت اختیار کریں جس سے بظاہر کفار کے ساتھ دوستی کا اظہار ہوتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن تاکید کی گئی ہے کہ اس حال میں بھی اللہ سے ڈرنا چاہئیے اور اپنی ذات کو بچانے کی خاطر کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئیے جو دین و ملّت کو نقصان پہنچانے والا ہو یا ظلم و زیادتی پر مبنی ہو۔ مثلاً راز کی باتوں سے دشمن کو آگا ہ کرنا ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا ،ناحق قتل و قتال کرنا وغیرہ۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شفقت میں ضرر سے بچانے کا پہلو غالب ہے۔ اللہ شفیق ہے اس لئے اس نے اپنے بندوں کو آگ کے عذاب کی طرف لے جانے والی باتوں سے آگا ہ کر دیا ہے تاکہ وہ اس بدترین عذاب سے بچیں۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کی محبت کا زبانی دعویٰ نجات کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کی محبت کا ثبوت اپنے عمل سے دینا چاہئیے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی پیروی اختیار کی جائے۔ اس آیت کے ذریعہ تمام اہلِ مذاہب اور تمام انسانوں کو آخری نبی کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور صاف صاف اعلان کر دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر اللہ سے محبت کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔

اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے بھی سبق ہے جو اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور عملاً رسولؐ کی پیروی سے گریز کرتے ہیں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے جو مضمون شروع ہوتا ہے وہ آیت ۶۳ تک چلتا ہے۔ اس کا مرکزی نقطہ حضرت عیسیٰؑ کی شخصیت کو اپنے اصلی خدوخال کے ساتھ پیش کرنا اور یہ واضح کرنا ہے کہ نصاریٰ نے ان کے بارے میں الوہیت کا جو عقیدہ اختیار کر رکھا ہے وہ سراسر غلط اور یکسر باطل ہے۔

اس سلسلہ میں تمہید کے طور پر حضرت آدم ، حضرت نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران کا ذکر ہوا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ فرمایا تھا۔ یہ سب انسان تھے ان میں سے کوئی بھی نہ خدا تھا اور نہ اس کا بیٹا۔ حضرت عیسیٰؑ بھی ان برگزیدہ بندوں کی طرف اللہ کے برگزیدہ بندے تھے پھر ان کو خدائی کا درجہ دینے کے کیا معنیٰ؟

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمران بن ماتان حضرت مریم کے والد کانا م تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا ہیں۔ یہ حضرت داؤدؑ کی نسل سے تھے۔ اس سے یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام نہایت معروف اور شریف خاندان کے افراد ہیں۔ یہ دونوں انسا ن ہی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے برگزیدگی سے نوازا تھا لہٰذا جس طرح ان کی پاکیزگی پر شبہ کرنا صحیح نہیں ہے اسی طرح ان کو خدائی کا درجہ دینا بھی صحیح نہیں۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تم کوئی ناروا بات ان برگزیدہ شخصیتوں کی طرف منسوب کرتے ہو تو اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ ان باتوں کو سن رہا ہے اور تمہاری کذب بیانی کو بھی جانتا ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمران کی بیوی (حنّہ) جب حاملہ ہوئیں تو عمران کا انتقال ہو گیا۔ حنّہ نے یہ منّت مانی کہ جو بچہ پیدا ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کے لئے نذر ہو گا یعنی ا س کی عبادت کے لئے وقف ہو گا اور اس کی صورت بنی اسرائیل کے یہاں یہ تھی کہ وہ ہیکل سے متصل (حجرہ) محراب میں معتکف ہو جائے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جملہ معترضہ ہے۔ حضرت مریم کی والدہ کے بیان کو قطع کرتے ہوئے یہ بات اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ لڑکی کس شان کی پیدا ہو ئی ہے اور عمران کے گھر کیسی بڑی ہستی نے جنم لیا ہے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حنّہ کو لڑکے کی پیدائش کی توقع تھی لیکن جب لڑکی پیدا ہوئی تو انہیں تردّد ہوا کہ جس مقصد کے لئے انہوں نے نذر مانی ہے اس کے لئے لڑکی کس طرح موزوں ہو سکے گی ؟ البتہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرما لے تو اس کا بڑا احسان ہو گا۔

حضرت حنّہ نے "اور لڑکا لڑکی کی طرح تو نہیں ہوتا” کہا یہ نہیں کہا کہ "اور لڑکی لڑکے کی طرح نہیں ہوتی ” جبکہ پیدا لڑکی ہوئی تھی۔ اس لئے اس اسلوب میں ناشکری کا پہلو نکل سکتا تھا جو آدابِ دُعا کے خلاف ہے۔ لہٰذا انہوں نے اللہ کی عطا کردہ نعمت کی پوری قدر کرتے ہوئے صرف اپنے تردّد کا اظہار کیا۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم یتیم تھیں اور انہیں معبد میں معتکف بھی ہونا تھا اس لئے ان کی کفالت کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو جو پیغمبر ہیں اور حضرت مریمؑ کے خالو ہوتے ہیں ان کا کفیل بنایا۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محراب سے مراد وہ حجرہ ہے جس میں حضرت مریمؑ معتکف تھیں بیت المقدس میں اس طرح کے حجرے عبادت گزاروں کے لئے بنے ہوئے تھے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ (منتخب ، خاص) بندی تھیں۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق کا غیر معمولی انتظام کیا تھا اور رزق کا غیر معمولی انتظام کرنا اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زکریا، حضرت مریم کے کفیل تھے اس لئے ان کی دیکھ بھال کے لئے ان کے پاس جایا کرتے تھے وہ حضرت مریم علیہ السلام کی کم سنی میں عبادت گزاری اور صالحیت سے بہت متاثر تھے اور اللہ تعالیٰ انہیں غیر معمولی طریقہ سے جو رزق عطا کر رہا تھا اسے دیکھ کر ان کے دل میں صالح اولاد کی تمنا پیدا ہو گئی۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائبل میں یحیٰ کا نام یوحنا آیا ہے۔ ان کی ولادت حضرت عیسیٰ سے چھ ماہ قبل ہوئی تھی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ (اللہ کا ایک کلمہ) ۔ (A word from Allah) سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ ان کی ولادت چونکہ بغیر باپ کے اللہ تعالیٰ کے کلمہ کُن (ہو جا) سے ہوئی تھی اس لئے ان کو "اللہ کا کلمہ ” کے لقب سے نوازا گیا۔ ایک کلمہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار کلمات میں سے حضرت عیسیٰ بھی ایک کلمہ ہیں۔ اور جس طرح بے شمار مخلوقات اللہ کے کلمہ کُن سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ کا بھی ظہور ہوا اس سے عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں الوہیت کے عقیدہ کی تردید ہوتی ہے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام کا حضرت عیسیٰؑ کے تصدیق کرنے کا ذکر انجیل میں بھی موجود ہے۔

"یوحنا نے اس کی بابت گواہی دی اور پکار کر کہا کہ یہ وہی ہے جس کا میں نے ذکر کیا کہ میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے مقدم ٹھہرا۔ (یوحنا باب ۶ : آیت ۱۵) ”

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حضرت یحیٰ علیہ السّلام میں سرداری اور قیادت کی شان ہو گی وہ راہب نہیں ہوں گے بلکہ رہنما اور قائد ہوں گے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال انکار کی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ یہ استفہام تھا کہ اس کی شکل کیا ہو گی۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے بوڑھے اور تمہاری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود بچہ پیدا ہو گا کیونکہ اصل چیز اللہ کی مشیّت ہے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کر لے تو ظاہری اسباب ہرگز مانع نہیں ہو سکتے کیونکہ عالمِ اسباب پر اسی کی حکمرانی ہے۔

حضرت یحیٰؑ کی ولادت کا یہ واقعہ یہاں حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کے واقعہ کی تمہید کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی تو حضرت یحیٰؑ کی پیدائش بھی باپ کے بوڑھے اور ماں کے بانجھ ہونے کے باوجود ہوئی۔ اگر اس غیر معمولی واقعہ نے حضرت یحیٰؑ کو خدائی کا درجہ نہیں دیا تو حضرت عیسیٰؑ کی غیر معمولی ولادت کی بناء پر انہیں کیوں خدائی کا درجہ دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ کے اظہار کے لئے عالمِ اسباب میں تصرّف کرتا رہتا ہے اور غیر معمولی اور خارقِ عادت واقعات ظہور میں لاتا رہتا ہے۔ اس سے توحید کا تصور ابھر تا ہے لیکن بھٹکے ہوئے لوگ اس کو بھی ذریعۂ شرک بنا لیتے ہیں۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تین شبانہ روز بات نہیں کر سکو گے۔ البتہ اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح کر سکو گے۔ زبان کا لوگوں سے بات کرنے کے لئے نہ کھلنا اور اللہ کے ذکر و تسبیح کے لئے کھل جانا توحید کی واضح نشانی اور کسی غیر معمولی واقعہ کے ظہور میں آنے کی علامت تھی۔

اسے گونگے پن سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ گونگے پن میں زبان نہیں کھلتی جبکہ حضرت زکریا کی زبان تسبیح و تہلیل کے لئے کھل رہی تھی۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم نشانی کے ظہور کے لئے منتخب فرمایا تھا اور اس انتخاب میں انہیں دنیا کی تمام عورتوں پر ترجیح دی تھی۔ یہ بہت بڑا شرف ہے جو حضرت مریم کو حاصل ہوا۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے نماز با جماعت کی طرف۔ حضرت مریم چونکہ ہیکل کی معتکف تھیں اس لئے انہیں جماعت کی نمازوں کی سعادت حاصل کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب نبیﷺ سے ہے۔ اوپر جو واقعات بیان کئے گئے ان کے بارے میں فرمایا یہ غیب کی خبریں ہیں۔ اس لئے کہ جس وقت یہ واقعات پیش آئے ہیں نبیﷺ اس موقع پر موجود نہیں تھے اور نہ یہ واقعات اس تفصیل کے ساتھ تورات و انجیل ہی میں موجود ہیں۔ ایسی صورت میں ان واقعات کو اس صحت و صداقت کے ساتھ پیش کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تم خدا کے پیغمبر ہو۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقوق مساوی ہونے کی صورت میں نزاع کے تصفیہ کے لئے قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کرنا جائز ہے۔ اس وقت قرعہ اندازی کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے اپنے قلم دریا میں پھینک دئیے جاتے اور جس کا قلم دریا کے بہاؤ کے خلاف واپس آ جاتا اس کے نام قرعہ نکل آتا۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح حضرت عیسیٰ کا لقب ہے اور عیسیٰ بن مریم کے نام کی صراحت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اس لئے ان کو ان کی والدہ حضرت مریم کی طرف منسوب کیا گیا ورنہ معروف قاعدہ یہی ہے کہ اولاد کو باپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ قرآن میں جن انبیا ء علیہم السلام کا بھی ذکر ہوا ہے ان کے نام کے ساتھ ان کی ولدیت بیان نہیں کی گئی ہے لیکن حضرت عیسیٰؑ کے نام کے ساتھ بالعموم اب مریم کی تصریح کر دی گئی ہے اس سے جہاں حضرت عیسیٰؑ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا اثبات ہوتا ہے وہاں اس سے ان کے خدا کا بیٹا ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ نام کی ترکیب واضح کرتی ہے وہ حضرت مریم کے بیٹے تھے نہ کہ خدا کے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگرچہ کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوں گے لیکن ان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آسکے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ذی وجاہت اور معزز ہوں گے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کا گہوارہ میں بات کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نشانی کا ظہور تھا تاکہ حضرت مریمؑ کی پاکدامنی اور حضرت عیسی علیہ السلام کے معزّز ہونے اور غیر معمولی اوصاف کا حامل ہونے کا اظہار ہو۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھیڑ عمر میں بات کرنے کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ حضرت مریم کے لئے خوشخبری ہو کہ بچّہ بڑی عمر کو پہنچنے والا ہے۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ ان تمام کمالات کے باوجود خدا نہیں ہو گا بلکہ خدا کے نیک بندوں میں سے ہو گا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب سے خاص طور پر شریعت اور حکمت سے روحِ دین مراد ہے۔ شریعت تورات کی خصوصیت یہ اور حکمت انجیل کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی شریعت کے پیرو تھے وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے البتہ انہوں نے دین کی روح کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا جبکہ بنی اسرائیل نے اسے محض رسوم کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا تھا۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کے لئے رسول بنا کر بھیجنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی دعوت غیر اسرائیلیوں کے لئے نہیں تھی کیونکہ پیغمبروں کی دعوت نسل و قوم اور وطن وغیرہ کی بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان تفریق نہیں کرتی البتہ اس وقت کے مخصوص حالات کے لحاظ سے ان کا میدانِ کار محدود تھا اور خاص طور سے بنی اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بگاڑ کے پیشِ نظر ان پر حجت تمام کرنا مقصود تھا۔ اس لئے ان کی دعوت کے اصلِ مخاطب بنی اسرائیل قرار پائے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ معجزات تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو عطا کئے تھے تاکہ ان کے پیغمبر ہونے کی نشانی قرار پائیں۔ معجزہ ایک غیر معمولی اور خارقِ عادت چیز ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ہاتھوں ظہور میں لاتا ہے تاکہ ایک غیر معمولی واقعہ کے ظہور سے لوگ چونک جائیں اور اسے پیغمبر کے مامور من اللہ ہونے کی علامت سمجھ لیں معجزہ پیغمبر اپنی طرف سے نہیں دکھاتا بلکہ خدا کے اذن اور اس کی قدرت سے دکھا تا ہے اور اس کو خدا ہی کی طرف منسوب کرتا ہے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ اسلام ہی کو لے کر آئے تھے انہوں نے تورات کو منسوخ نہیں کیا بلکہ اس کی تصدیق کی اور اس کو قائم کیا انجیل میں آپ کا بیان ہے کہ :۔

” یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ” (متی ۵: ۱۷)

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ان چیزوں کو حلال قرار دینا ہے جن کو فقہائے یہود نے دین میں غلو اور شدت اختیار کر کے حرام قرار دیا تھا اور جو بنی اسرائیل کے گلے کا طوق بن گئے تھے تورات کی اصلِ شریعت پر یہود کے فقیہوں نے یہ جو حاشیہ آرائی کی تھی حضرت مسیح نے اس پر بے دریغ قینچی چلائی اور اس سلسلہ میں جب ان پر علمائے یہود نے بے دینی کا الزام لگایا تو انہوں نے اس کی مطلق پرواہ نہیں کی بلکہ ان کی جھوٹی دینداری کو بے نقاب کیا۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ وہ خدا کو "میرا باپ اور تمہارا باپ” کہتے رہے ہیں لیکن قرآن اس کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انہوں نے اللہ کو "میرا رب اور تمہارا رب” کہا تھا اور صاف لفظوں میں صرف اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا اور خدا تک پہنچنے کی سیدھی راہ بندگیِ رب ہی کو قرار دیا تھا اس سے واضح ہے کہ موجودہ انجیلوں میں خدا کے لئے باپ اور مسیحؑ کے بیٹے کے جو الفاظ ملتے ہیں وہ اصلِ انجیل کے الفاظ کا غلط ترجمہ اور صریح تحریف ہے جو حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے کی گئی ہے ان تحریفات کے باوجود موجودہ انجیلوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا اور سب کا خدا مانتے تھے مثلاً یوحنا کی انجیل میں ہے :۔

"اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں ” (یوحنا ۲۰: ۱۷)

” تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر ” (متی ۴: ۱۰)

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حواریین سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص ساتھی اور مددگار ہیں موجودہ انجیل میں ان کے لئے شاگرد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ وہ شب و روز عیسیٰ علیہ السلام کی تربیت میں رہتے تھے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین اور اس کے رسول کی تائید و حمایت ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں نے اپنے آپ کو "مسلم ” کہا "نصرانی یا عیسائی ” نہیں کہا کیونکہ ان کا دین بھی اسلام ہی تھا نہ کہ نصرانیت۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گواہی اس بات کی کہ ہم نے حضرت عیسیٰؑ کو پیغمبر تسلیم کر لیا اور اسلام ہی کو دین کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانے میں ملک پر رومیوں کی حکومت تھی۔ علمائے یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر الزام عائد کر کے کہ یہ شخص قیصر کو خراج دینے سے روکتا ہے اور اسرائیل کا بادشاہ بننا چاہتا ہے حکومتِ وقت کو ان کے خلاف بھڑنے کی کوشش کی اور آپ کو گرفتار کرانے کے اسباب کئے اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے جو خفیہ تدبیریں کیں ان کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "مُتَوَفِّیْکَ” استعمال ہوا ہے جو ” توَفٰی”سے فاعل کا صیغہ ہے۔ توفیٰ کے اصل معنی پورا پورا لینے اور قبض کرنے کے ہیں موت کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے لازمی معنی موت کے نہیں ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اس لفظ کو جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس سے اس کی تائید ہوتی ہے مثلاً وَھُوَالَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ (الانعام :۶۰) "وہی ہے جو تم کو رات میں اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم دن میں کماتے ہو” اس حالت میں نیند کی حالت پر تُوَفّٰی کا اطلاق کیا گیا ہے۔

حَتّٰی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا ط (الانعام :۶۱) "یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ جاتی ہے تو ہمارے فرشتے اسے قبض کر لیتے ہیں ” اس آیت میں فرشتوں کی طرف توفی کی نسبت کی گئی ہے نہ کہ موت کی۔ اس لئے کہ موت دینا اللہ کا کام ہے اور فرشتوں کا کام قبضے میں لے لینا ہے

فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ (النساء :۱۵) "انہیں گھروں میں روکے رکھو یہاں تک کہ موت ان کو آلے”

اس آیت میں توفّٰی کا فاعل موت کو بنایا گیا ہے ظاہر ہے فعل اور فاعل دونوں یکساں نہیں ہو سکتے اس لئے محلِ کلام دلیل ہے کہ یہاں توفٰی کا لفظ موت کے معنی میں نہیں بلکہ جسم سمیت قبض کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور آیت کے سیاق و سباق ، متعلقہ آیات اور احادیث اور تمام قرائن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا اور دشمنوں کی سازشوں سے انہیں محفوظ رکھا۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافروں کے گندے ماحول سے نکال کر ملاء اعلیٰ کے روحانی ماحول میں داخل کروں گا۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نصاریٰ من حیث القوم ہمیشہ یہود پر غالب رہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کوئی قصّہ گوئی نہیں ہے اور نہ نصاریٰ کی طرح رنگ آمیزی کی گئی ہے بلکہ یہ حقیقت واقعہ ہے جسے آیات کی شکل میں نازل کیا گیا ہے۔ یہ باتیں سر تا سر نصیحت اور حکمت سے لبریز ہیں۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش ماں اور باپ دونوں کے بغیر ہوئی تھی لیکن اس کے با وصف وہ خدا نہیں ہیں اور نہ ان کی الوہیت کا کوئی قائل ہے پھر حضرت عیسیٰؑ محض باپ کے بغیر پیدا ہو جانے کی بنا پر خدا کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اتمام حجت کے بعد اللہ کی طرف سے نصاریٰ کو چیلنج تھا کہ اگر وہ اس وضاحت کے بعد بھی حضرت مسیح کے بارے میں اپنے موقف کو صحیح اور نبیﷺ کے موقف کو غلط سمجھتے ہیں تو مباہلہ (دعائے لعنت) کے چیلنج کو قبول کریں لیکن انہوں نے اس کی جرأت نہیں کی۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجران (یمن) کے نصاریٰ کا وفد نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اس موقع پر آپؐ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی لیکن وہ اسے قبول کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور اس کے بغیر ہی صلح کر کے واپس لوٹ گئے جس سے واضح ہو گیا کہ ان کو اپنے موقف کے بارے میں وثوق نہیں تھا برعکس اس کے نبیﷺ اپنے بال بچوں کو لیکر مباہلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے جس سے ثابت ہوا کہ آپ کو اپنے موقف کی صحت و صداقت پر پورا یقین تھا۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موقع کلام دلیل ہے کہ جو لوگ اللہ کو واحد الٰہ ماننے سے انکار کریں اور شرک پر جمے رہیں و ہ مفسد ہیں ، کیونکہ شرک نظام عدل و قسط کے لئے تباہی کا موجب ہے۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان اصلاً مشترک ہے۔ لیکن اہلِ کتاب نے احکامِ الٰہی کی غلط تاویل کر کے شرک اور بدعات کو اپنے دین میں شامل کر لیا ، جس کے نتیجہ میں ایک خدا کے ساتھ تین خداؤں کے تصور کے لئے بھی گنجائش پیدا ہو گئی لیکن ان کی تحریفات کے باوجود موجودہ تورات و انجیل میں بنیادی طور سے توحید کی تعلیم موجو دہے مثلاً تورات میں ہے :۔

"میرے آگے تو اور معبودوں کو نہ ماننا تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمانوں میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا، اور نہ ان کی عبادت کرنا کیوں کہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں” (استثناء ۵: ۷ تا ۹)

اور انجیل میں ہے :۔

"تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر ” (لوقا ۴:۸)

"یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن ’خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ ان سے بڑا اور کوئی حکم نہیں ” (مرقش ۱۲: ۲۹۔ ۳۰)

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے سوا کسی کو رب بنانے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو رب کے نام سے پکار ے بلکہ دلیل شرعی کسی کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو حلال اور اس کے ٹھہرائے ہوئے حرام کو حرام قرار دینا بھی اس کو رب بنا لینا ہے کیونکہ تحلیل و تحریم کا اختیار ، صرف اللہ کو ہے اور اس کے اس اختیار میں کسی کو شریک ٹھہرانا کھلا ہوا شرک ہے جس کو مٹانے اور انسانوں کو اس غلامی سے آزاد کرانے کے لئے اسلام آیا ہے۔ اہلِ مذاہب کی یہ گمراہی رہی ہے کہ وہ اپنے علماء و فقہاء، احبار و رہبان ،صوفیوں اور درویشوں اور پنڈتوں اور جوگیوں کو شریعت الٰہی میں مداخلت اور و حلت و حرمت کا حق دیتے رہے ہیں۔ اسلام اس طرزِ عمل کو شرک اور رب بنا لینے کے مترادف قرار دیتا ہے۔ چنانچہ بعض اہلِ کتاب کے اس اعتراض پر کہ ہم اپنے احبار و رہبان کو رب تو نہیں مانتے نبیﷺ نے فرمایا کہ کیا جس چیز کو وُہ حرام ٹھہراتے ہیں اس کو تم حرام اور جس چیز کو وہ حلال ٹھہراتے ہیں اس کو حلال نہیں ٹھہراتے ؟ انہوں نے اقرار کیا کہ ایسا تو ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا یہی ان کو رب بنا لینا ہے (ابن کثیر ج ۲ ، ص ۳۴۸بحوالہ ترمذی) اس سے واضح ہوا کہ تحریم و تحلیل کا حق کسی کے لئے تسلیم کرنا اس کو رب بنا لینا ہے خواہ آدمی معروف معنی میں اس کی پرستش کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ابراہیم بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل دونوں کے جد امجد ہیں۔ یہود ،نصاریٰ اور مشرکین مکہ سب ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے تھے اور اپنے مذہب کو ان ہی کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ اصل دینِ ابراہیمی ہمارا دین ہے اور قرآن جس دین کی دعوت دیتا ہے وہ ایک نیا دین ہے ان کے اس دعوے اور الزام کی تردید کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ یہودیت اور نصرانیت تو حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد کی چیز ہے پھر حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ ظاہر ہے یہ سراسر جہالت کی بات ہے اسی طرح اہل مکہ کا مشرکانہ مذہب بھی حضرت ابراہیم کے بعد کے دور کا اختراعی مذہب ہے حضرت ابراہیم ہر گز مشرک نہ تھے بلکہ وہ خالص توحید کے علمبردار اور مسلم تھے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ یہود کے گروہ کی ایک سازش تھی کہ اسلام میں داخل ہوں اور پھر اس سے برگشتہ ہو کر اس کے خلاف پروپگنڈہ کریں تاکہ لوگوں کا اسلام پر سے اعتماد اٹھ جائے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جملہ معترضہ ہے جو یہود کی بات کی تردید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا ہے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہود مذہب پرستی کی بات کہتے ہیں لیکن یہ ہدایت کی راہ نہیں ہے۔ ہدایت کی راہ یہ ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت واقعۃً موجود ہو آدمی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور یہ امر واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت قرآن کی شکل میں حضرت محمدﷺ پر نازل ہو گئی ے اس کو محض اس بنا پر قبول نہ کرنا کہ اس پر ہمارے اپنے مذہب کی چھاپ لگی ہوئی نہیں ہے یا ہمارے مذہبی فرقہ کے لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا ہے انسان کو روشنی سے محروم کر دینا ہے اس کے بعد اس کے حصہ میں "مذہب پرستی ” ہی آ جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت نہیں آتی۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ یہود کا قول ہے وہ آپس میں کہتے تھے کہ اس نبی کی بات نہ مانو ورنہ ا س کی نبوت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور اس صورت میں بنی اسرائیل کی یہ امتیازی حیثیت کہ انبیاء اسی کے اندر آتے رہے ہیں ختم ہو جائے گی اور اگر نبوت کو تسلیم کئے بغیر نبی کی ان باتوں کی تائید کی جو آپؐ کی نبوت پر دلالت کرتی ہیں تو قیامت کے دن مسلمانوں کو تمہارے خلاف حجت پیش کرنے کا موقع مل جائے گا۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۹۷)

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نہ تنگ نظر ہے اور نہ اس کا علم محدود ہے کہ نبوت عطا کرنے کے سلسلے میں غلط فیصلہ کر بیٹھے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امیوں سے مراد بنی اسمٰعیل ہیں۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کا یہ قول ان کی ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ انہوں نے خیانت اور سودخوری وغیرہ کی ممانعت کو اپنی قوم کے ساتھ خاص کر رکھا تھا رہیں دوسری قومیں تو ان کے نزدیک ان کے ساتھ بد معاملگی بالکل جائز تھی ان کے مفتیوں نے یہ من گھڑت فتوے تورات میں شامل کر لئے تھے جس کے نتیجہ میں ان کے اندر ایسی قومی عصبیت پیدا ہو گئی تھی کہ وہ اخلاق و معاملات کے دائرہ میں بھی اپنے اور غیر کے درمیان تفریق کرنے لگے تھے اور ان من گھڑت فتووں کی بناء پر غیر اقوام کا مال ہڑپ کر جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے چنانچہ بائبل میں ہے :

” تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا” (استثناء ۲۳:۲۰)

قرآن اس ذہنیت پر سخت گرفت کرتا ہے اور بد معاملگی کو کسی کے ساتھ بھی جائز قرار نہیں دیتا خواہ وہ مسلم ہویا غیر مسلم ، مومن ہو یا کافر ، اپنی قوم کا فرد ہو یا غیر قوم کا۔ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ناپید نہیں جو غیر مسلموں کے سلسلے میں غلط فتووں کا سہار ا لے کر سود جیسی چیز کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن قرآن کی یہ آیت اس قسم کے فتووں کو باطل قرار دینے کے لئے کافی ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے عہد سے مراد اللہ کی بندگی اور اطاعت کا عہد ہے اور قسموں سے خصوصیت کے ساتھ وہ قسمیں مراد ہیں جو لوگوں سے عہد و پیمان کر تے وقت کھائی جاتی ہیں اور تھوڑی قیمت پر بیچنے سے مراد آخرت کے لازوال فائدہ کے مقابلہ میں دنیا کے حقیر مفادات کو ترجیح دینا ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی طرف نظر عنایت نہیں کرے گا۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ یہود کی اس حرکت کی طرف کہ وہ کتمان حق کے لئے کتاب الٰہی کے بعض الفاظ کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ اس کا مطلب کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔

اس کی مثال قرآن کو ماننے والوں میں بھی موجود ہے چنانچہ بعض اہل بدعت جو نبیﷺ کی بشریت کے منکر ہیں آیتقُلْ اِنَّمَااَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔ (کہو میں تمہاری ہی طرح بشر ہوں) کو قُلْ اِنَّ مَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔ (کہو بیشک میں نہیں ہوں تم جیسا بشر) پڑھتے ہیں یعنی انما کو الگ الگ ان ما پڑھتے ہیں جس کا مطلب بالکل الٹ جاتا ہے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے ان تمام مشرکانہ عقائد کی تردید ہوتی ہے جن کو اہل مذاہب نے اپنی مذہبی کتابوں میں داخل کر کے پیغمبروں کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کسی پیغمبر کی یہ تعلیم ہوہی نہیں سکتی کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کا حکم دے یا فرشتوں اور پیغمبروں کو خدائی کا مقام دے ایسی اگر کوئی تعلیم کسی مذہبی کتاب میں ملتی ہے تو وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہے بلکہ یہ من گھڑت باتیں ہیں جو خدا اور پیغمبروں کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔ یہ معیارِ حق ہے جس پر پیغمبروں کی طرف منسوب تعلیمات کو پرکھنا چاہئیے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیاقِ کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہد بنی اسرائیل سے حضرت محمد مصطفیﷺ کی رسالت کے بارے میں لیا گیا تھا۔

چنانچہ تورات و انجیل میں آپ کی رسالت کے سلسلہ میں واضح پیشن گو ئیاں موجود تھیں ، جن کی طرف قرآن نے جابجا ارشادات کئے ہیں اور موجودہ بائبل میں بھی باوجود ترجمہ کی خامیوں اور کھلی تحریفات کے ان پیشن گوئیوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس پختہ عہد کے بعد بھی جو حضرت محمدﷺ کی رسالت کے متعلق لیا گیا تھا جو لوگ اس سے انحراف کر جائیں ان کی یہ جسارت ان کے نافرمان ہونے کا کھلا ثبوت ہے اگر چہ کہ انہوں نے اطاعت و زہد کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو اور اگر چہ کہ دنیا کی نظر میں وہ "مذہبی لوگ ” شمار کئے جاتے ہوں۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں اسلام کو اللہ کے دین سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں جو بہ کثرت مذاہب پائے جاتے ہیں نیز جو اس سے پہلے پائے جاتے تھے اگر چہ کہ وہ سب خدا ہی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں لیکن حقیقتاً اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اللہ کا دین کہلانے کا بجا طور پر مستحق ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اسلام کے واحد دین حق ہونے کی دلیل ہے جب انسان سمیت ساری مخلوق چار و ناچار اللہ کے آگ ے سر افگندہ ہے یہاں تک کہ کافر بھی تکوینی طور پر اللہ کے قانون کے آگے جھکنے پر مجبور ہے ، چنانچہ کٹر سے کٹر کافر بھی پاؤں ہی سے چلتا ، آنکھوں ہی سے دیکھتا اور ناک ہی سے سانس لیتا ہے کہ یہ سب اللہ کے بنائے ہوئے قوانین ہیں جن سے انحراف کسی شخص کے لئے ممکن نہیں تو اپنی اختیاری زندگی میں اس کے لئے یہ کس طرح روا ہوا کہ وہ اپنے کو اللہ کے حوا لے نہ کرے اور اس کی اطاعت سے آزاد ہو کر اپنے لئے کوئی سا ’مذہب ، یا زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ اختیار کر لے ؟

اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اسلام کسی ایک نسل یا ایک گروہ کا دین نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ پورے عالم اور ساری کائنات کا دین ہے اور جو شخص اسلام کو دین کی حیثیت سے اختیار کرتا ہے وہ دینِ کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرتا ہے یا کسی الحاد و بے دینی کا طریقہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے کو دین کائنات سے ہرگز ہم آہنگ نہیں کرتا بلکہ بنیادی حقیقت ہی سے انحراف کرتا ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب سب کو لوٹنا اللہ ہی کے حضور ہے تو جو لوگ ایسے مذہب کو اختیار کرتے ہیں جو اس کا منظور شدہ دین نہیں ہے یا خدا سے بے تعلقی ہی کو اپنا طریقہ زندگی بنا لیتے ہیں وہ اپنے اس سرکشانہ اور باغیانہ رویہ کی کیا توجیہ خدا کے حضور پیش کرسکیں گے ؟

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا صریح اعلان ہے کہ خدا کے ہاں صرف سرکاری سکہ چلے گا اور وہ ہے اسلام۔ اس کے علاوہ جو سکے بھی ہوں گے وہ سب رد اور باطل ٹھہریں گے خواہ وہ کسی مذہب کے نام کا سکہ ہو یا سرے سے اس پر کوئی مذہبی چھاپ لگی ہوئی ہی نہ ہو۔ بالفاظ دیگر خدا سے تعلق کا غیر منظور شدہ طریقہ اختیار کیا گیا ہویا خدا سے بے تعلق ہو کر زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہو۔ ان میں سے کوئی طریقہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہو گا بلکہ آخرت کی عدالت میں ایسے لوگوں پر جعلی سکہ چلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ اور انہیں اپنی جعلسازی کی سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب تک آدمی ظالمانہ روش ترک کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو جائے ہدایت کی راہ اس پر کھلتی نہیں ہے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو زندگی بھر کفر کرتے رہے اور جب موت کی گھڑی آ نمودار ہوئی تو توبہ کرنے لگے ایسے لوگوں کی توبہ میں کوئی خلوص نہیں۔ اس لئے وہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی توبہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخلصانہ ہو اور جس کے پیچھے اصلاح کا جذبہ ہو۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقصود کافروں کی بے بسی کو واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جب کافروں کے ابدی عذاب کا فیصلہ ہو جائے گا تو پھر ان کے لئے نجات کی کوئی صورت بھی ممکن نہیں ہو گی۔ اگر بالفرض کسی کا فر کے پاس زمین بھر سونا ہو تو وہ نجات حاصل کرنے کے لئے اسے فدیہ میں دینے کے لئے بخوشی آمادہ ہو جائے گا لیکن نہ تو اس روز کسی کے پاس دینے کے لئے کچھ ہو گا اور نہ کسی سے کوئی ہدیہ قبول کیا جائے گا۔

دنیا میں جو لوگ نجات اخروی سے بے پرواہ ہو کر صرف دنیا حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں انہیں اپنی اس حماقت کا صحیح اندازہ قیامت ہی کے دن ہو سکے گا۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی نیک کام کو کرنا اور بات ہے اور نیکی کے مقام کو پا لینا اور جہاں رسمی دین داری ہو گی وہاں بظاہر کچھ نہ کچھ خیر اور نیکی کے کام ہوں گے لیکن اپنے پسندیدہ مال میں سے اللہ کے لئے خرچ کرنے اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کا جذبہ مفقود ہو گا اس کے برعکس جہاں حقیقی دین داری ہو گی وہاں آدمی اپنا محبوب مال اللہ کے لئے خرچ کرنے اور اس کی راہ میں قربانیاں دینے کے لئے بہ خوشی آمادہ ہو جائے گا۔ یہ ایک کسوٹی ہے جس پر اللہ کی محبت اور اس کی وفاداری کے دعوے کو پرکھا جا سکتا ہے۔ یہودی انفاق کے معاملہ میں بڑے بخیل واقع ہوئے تھے اس لئے اس کسوٹی نے ان کی دینداری کی حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیا۔

اپنی بہترین چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہترین مثال وہ ہے جو حضرت ابو طلحہؓ نے پیش فرمائی۔ مدینہ میں بیر حاء ان کا پسندیدہ باغ تھا۔ اس باغ میں نبیﷺ تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کا پانی بڑی رغبت سے پیتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ یہ باغ اللہ کے لئے صدقہ ہے۔ اس کو آپﷺ جس طرح مناسب سمجھیں مصرف میں لائیں۔ آپﷺ نے فرمایا یہ مال بہت خوب ہے اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تمہارے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا آپﷺ ایسا ہی کیجئے۔ چنانچہ نبیﷺ نے اس باغ کو ان کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص۳۸۱)

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ جانور ہیں جن کا کھانا شریعت میں حلال ہے۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے وہ پیغمبر تھے اور پیغمبر کسی چیز کو اللہ کے اذن کے بغیر حرام نہیں ٹھہراتا ، اس لئے اس شبہ کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے جو چیزیں اپنے اوپر حرام ٹھہرائی تھیں وہ محض اپنی مرضی کا نتیجہ تھیں۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کا اصل اعتراض یہ تھا کہ قرآن بعض ان چیزوں کو حلال قرار دے رہا ہے جو ملت ابراہیمی میں حرام تھیں خاص طور سے ان کا اشارہ اونٹ کی طرف تھا جس کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے لیکن یہود اس کی حرمت کے قائل تھے چنانچہ تورات میں ہے :

"مگر جو جگالی کرتے ہیں یا جن کے پاؤں الگ ہیں ان میں تم ان جانوروں کو نہ کھانا یعنی اونٹ کو کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اس کے پاؤں الگ نہیں سو وہ تمہارے لئے ناپاک ہے ” (احبار ۱۱:۴)

اس کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ جن چیزوں کو قرآن حلال قرار دے رہا ہے وہ ملت ابراہیمی میں بھی حلال تھیں جن میں اونٹ بھی شامل ہے اور یہ بات نزول تورات سے پہلے کی ہے اس لئے بعد میں جو چیزیں خواہ وہ حضرت یعقوب کے ذریعہ حرام ٹھہرا دی گئی ہوں یا تورات کے ذریعہ ان کی نوعیت بالکل دوسری ہے یعنی وہ بعض خاص وجوہ سے خاص بنی اسرائیل ہی کے لئے حرام ٹھہرا دی گئی تھیں لہٰذا ان کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ اصل ملت ابراہیمی میں حرام تھیں صحیح نہیں ہے۔ یہود کے اس غلط دعوے کی تردید خود تورات سے ہوتی ہے اس لئے کہ تورات میں یہ صراحت کہیں نہیں ہے کہ یہ چیزیں اول روز سے حرام چلی آ رہی تھیں جہاں تک موجودہ محرف تورات کا تعلق ہے اس میں بھی ایسی باتیں موجود ہیں جو اس دعوے کو باطل قرار دیتی ہیں مثلاً نوح علیہ السلام کے قصہ میں ہے :

"ہر چلتا پھرتا جاندار تمہارے کھانے کو ہو گا ہری سبزی کی طرح میں نے سب کا سب تم کو دے دیا مگر تم گوشت کے ساتھ خون جو اس کی جان ہے نہ کھانا ” (پیدائش ۹:۳۔ ۴)

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے گھر سے مراد اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا جانے والا پہلا گھر یا پہلی عبادت گاہ ہے اس آیت میں صراحت کی گئی ہے کہ وہ خانۂ کعبہ ہے جو مکہ میں واقع ہے اور دوسرے مقام پر قرآن نے اس کی تعمیر کے تعلق سے واضح کیا ہے کہ اس کے معمار حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل ہیں اس سے درج ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے :

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے اللہ کی عبادت کے لئے کسی مستقل عبادت گاہ کا وجود نہیں تھا۔

۲۔ جن روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خانۂ کعبہ کو سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تعمیر جدید کی ، ان کی تردید قرآن کے مذکورہ بیان سے ہو جاتی ہے اگر واقعہ وہ ہوتا جو ان روایتوں میں بیا ن کیا گیا ہے تو قرآن اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ معمار اول کا ذکر نہ کرنا اور صرف اس کی تجدید کرنے وا لے کا ذکر کرنا قرآن سے مناسبت رکھنے والی بات نہیں ہے۔ مزید برآں یہ روایتیں حدیث صحیح کا درجہ نہیں رکھتیں ابن کثیر نے بیہقی کی ایک روایت جس میں حضرت آدم علیہ السلام کے کعبہ کو تعمیر کرنے کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ ابن لہیعہ کے مفردات (روایات) میں سے ہے جو ضعیف ہے اور غالباً عبد اللہ بن عمرو پر موقوف ہے (یعنی نبیﷺ کا ارشاد نہیں ہے) (ابن کثیر ج ۱ ص ۳۸۳)

اور تاریخ ابن کثیر میں ہے :

ولم یجیٔ خبر صحیح عن معصوم۔ نبیﷺ سے کوئی صحیح حدیث اس سلسلہ میں وارد نہیں ہوئی ہے (الجامع اللطیف ص۶۹بحوالہ تاریخ ابن کثیر)

۳۔ بیت المقدس کی تعمیر خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد ہوئی ہے چنانچہ بائبل میں صراحت ہے کہ اس کی تعمیر حضرت سلیمانؑ کے ہاتھوں ہوئی :

"اور بنی اسرائیل کے ملک مصر سے نکل آنے کے بعد چارسو اسیویں سال کی سلطنت کے چوتھے برس زیو کے مہینہ میں جو دوسرا مہینہ ہے ایسا ہوا کہ اس نے خداوند کا گھر بنانا شروع کیا ” (۱۔ سلاطین ۶:۱)

اس لئے یہود کا یہ دعویٰ تاریخی طور پر غلط ہے کہ بیت المقدس کو اولیت حاصل ہے۔

۴۔   توحید کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسان۔ اس کے تاریخی شواہد میں سے خانۂ کعبہ ہے جس کی بناء اس شخصیت نے رکھی تھی جس کو دنیا کی تین ملتیں یعنی یہود ، نصاریٰ اور مسلمان (موجودہ دنیا کی اکثریت) اپنا امام تسلیم کرتی ہیں۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بکہ مکہ کا قدیم نام ہے جس کے معنی شہر کے ہیں۔ زبور میں اس کا ذکر آیا ہے لیکن یہود نے تحریف کر کے ’وادی بکہ ، کو ’وادی بُکا ، بنا دیا جس کے معنی ہیں رونے کی وادی !

"وہ وادی بُکا سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں بلکہ پہلی بارش اسے کبوتروں سے معمور کر دیتی ہے۔ وہ طاقت پر طاقت پاتے ہیں ” (زبور ۸۴: ۶۔ ۷)

البتہ انگریزی بائبل میں اس کا ترجمہ Valley of Baca ملتا ہے۔ اس قسم کی تحریفات کے ذریعہ انہوں نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ بیت اللہ اور آخری نبی کو لوگ پہچان نہ سکیں۔ قرآن نے مکہ کے اس قدیم نام کا ذکر کر کے اصل حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی روحانی فیوض کا سرچشمہ۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے توحید کی راہ روشن ہوتی ہے اور انسان کی خدا پرستی کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانیاں توحید کی۔ نشانیاں اس گھر کے مقبولیت کی۔ نشانیاں اسلام کے دینِ حق ہونے کی اور نشانیاں اس بات کی کہ اس گھر کے زیر سایہ عظیم شخصیتوں نے پرورش پائی اور اس نے مجاہدانہ زندگی کی روح ان کے اندرا س طرح پھونکی کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں مغلوب نہ کرسکی۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقام ابراہیم کے معنی ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ مراد وہ جگہ ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ جگہ مسجد حرام ہے نہ کہ بیت المقدس۔ یہود نے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے تورات میں جا بجا تحریفات کی تاہم موجودہ بائبل میں ایسے ارشادات موجو دہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ بائبل کی کتاب پیدائش میں ہے :

اور وہاں سے کوچ کر کے اس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیت ایل مغرب میں اور عین مشرق میں پڑا اور وہاں اس نے خداوند کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور خداوند سے دعا کی اور ابرام سفر کرتا جنوب کی طرف بڑھ گیا ” (پیدائش ۱۲: ۸۔ ۹)

اس میں بیت ایل سے مراد بیت اللہ ہے کیونکہ ایل کو عبرانی میں خدا کہتے ہیں اس لئے بیت ایل کے لفظی معنی ہوئے خانۂ خدا۔ خانۂ کعبہ کے مشرق میں صفا اور مروہ کی پہاڑیاں ہیں کوہ صفا پر ابراہیمؑ کا مسکن تھا اور مروہ پر حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی کا واقعہ پیش آیا۔ جنوب کی طرف حضرت ابراہیم کے بڑھنے کا جو ذکر ہے تو اس سے مراد عرفات کا سفر ہے کیونکہ عرفات بیت اللہ کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔

مقام ابراہیم کا یہ مفہوم اپنے اصل اور وسیع معنی کے لحاظ سے ہے۔ ویسے مقام ابراہیم اس پتھر کو بھی کہتے ہیں جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے خانۂ کعبہ تعمیر کیا تھا اس پتھر پر غیر معمولی طور پر حضرت ابراہیمؑ کے قدم کا نشان ثبت ہو گیا تھا اور آج بھی یہ پتھر قدم مبارک کے نشان کے ساتھ موجو دہے جو خانۂ کعبہ کے پاس مطاف میں رکھا ہوا ہے۔ گویا تاریخ نے ابراہیم علیہ السلام کے نشانِ قدم کو بھی محفوظ رکھا ہے تاکہ آپ کے معمار بیت اللہ ہونے کے بارے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہ رہے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان واضح نشانیوں کے بعد بھی جو لوگ توحید کو قبول کرنے اور بیت اللہ کو مرکز توحید کی حیثیت سے تسلیم کرنے اور بیت اللہ کو مرکز توحید کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوں وہ کافر ہیں اور اللہ کو اپنی نشانیاں واضح کر دینے کے بعد اس بات کی پرواہ نہیں کہ کون کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور کون ایمان کی۔

حج اسلام کا ایک فریضہ ہے اور اس کا پانچواں رکن ہے۔ استطاعت کے باوجود حج نہ کرے اللہ کو اس کی پروا ہ نہیں کہ یہودی ہو کر مرتا ہے یا نصرانی ہو کر۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان شبہات کی طرف جو اہل کتاب ملت ابراہیم ، بیت اللہ اور آخری پیغمبر کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی راہ میں کجی پیدا کرنے کا مطلب اس کے اصل دین میں تحریف کرنا اور اس میں بدعتیں وغیرہ پیدا کرنا ہے۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں دین حق کا گواہ بنا کر کھڑا کیا گیا تھا مگر تم نے شہادت حق کی جگہ شہادت زور اور کتمان حق کو اپنا شیوہ بنا لیا۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ خاص طور سے اہل کتاب کے اس گروہ کی طرف ہے جس کے اعتراضات اور مخالفتوں کا اوپر ذکر ہوا۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسی حالت میں جبکہ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور اس کا رسول بھی تمہارے درمیان موجود ہے اگر تم نے کفر کی راہ اختیار کی تو یہ نہایت سنگین اور انتہائی بد بختی کی بات ہو گی۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو مضبوط پکڑنے کا مطلب اس کے ساتھ گہرا تعلق اور وابستگی پیدا کرنا ہے۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے معیار مطلوب کہ آدمی اللہ سے اس طرح ڈرے جس طرح کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے رہی تقویٰ کی فقہی اور قانونی حد تو اس کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا ہے فَاتَّقُو اللّٰہَ مَاسْتَطَعْتُمْ (اللہ سے ڈرو جس حد تک کہ تمہارے بس میں ہے) (التغابن :۱۶)

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زندگی بھر اسلام پر قائم رہو اور جب اس دنیا سے رخصت ہو تو مسلمان کی حیثیت سے رخصت ہو۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حبل (رسی) سے مراد اللہ کی کتاب (قرآن) ہے جو بندوں کو خد اسے جوڑتی ہے اور جس کی حیثیت عہد اور میثاق کی ہے اس لئے اس کو تھامنا خدا کو تھام لینے کے ہم معنی ہے حدیث میں آتا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض (اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے) (ابن کثیر ج ۱، ص ۳۸۹، بحوالہ طبری)

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمان صرف فرداً فرداً ہی نہیں بلکہ اجتماعی حیثیت میں بھی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں اور امت کے اندر اسی کتاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور وہ اس کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کریں۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تفرقے اس صورت میں برپا ہوتے ہیں جبکہ کتاب الٰہی کے ساتھ تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور عملاً اس کو نقطۂ ارتکاز ، مرجع اور معیار قرار نہیں دیا جاتا گو اظہارِ عقیدت کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ کتابِ الٰہی کو توجہات کا مرکز قرار دینے کے بجائے شخصیتوں کے اقوال اور ان کی کتابوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور پھر عقیدت مندی کے جو حلقے وجود میں آتے ہیں وہ اپنے اپنے "امام” اپنے اپنے "صوفی” اپنے اپنے "بزرگ” اپنے اپنے "قائد ” اور اپنے اپنے "علامہ ” کی رسی کو اتنا مضبوط پکڑ لیتے ہیں کہ اللہ کی رسی ” قرآن ” کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا ذرا احساس نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ شدید اختلافات اور فرقہ بندیاں امت کے اندر ابھرنے لگتی ہیں اور ملت کا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔

افسوس کہ ا س تنبیہ کے باوجود مسلمانوں میں فرقہ بندیاں ہوئیں۔ یہ فرقہ بندیاں اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہیں جبکہ مسلمان بلا لحاظ فرقہ و مسلک کتاب اللہ کو وہی حیثیت دیں جس کی وہ مستحق ہے اور اس کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کریں۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے عربوں کی باہم دشمنی کی طرف جس کے نتیجہ میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے برسر پیکار ہوتا تھا۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس دین کی قدر کرو جس نے تمہارے اندر اخوت اور کمال درجہ کی یکجہتی پیدا کر دی۔ معلوم ہوا کہ اسلام ہی وہ بنیاد ہے جس کو صحیح طور سے اپنانے کی صورت میں انسانی معاشرہ کے اندر حقیقی معنی میں برادرانہ تعلقات ، کامل یکجہتی اور جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر مسلمان کا لازمی وصف ہے جیسا کہ قرآن کی تصریحات سے واضح ہے لیکن دعوتِ دین کا کام تیاری بھی چاہتا ہے اور صلاحیت بھی۔ نیز اس کے لئے وقت نکالنے اور جدوجہد کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس خدمت کے لئے ایک گروہ کا مختص ہونا ضروری ہے تاکہ یہ فریضہ بہ حسن و خوبی انجام پا سکے۔ امت مسلمہ کی یہ عظیم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر سے اہل علم اور با صلاحیت افراد پر مشتمل داعیانِ حق کا ایک گروہ ابھارے اور اس کام کے لئے اس کو ضروری وسائل فراہم کرے۔ اگر امت اس معاملہ میں تساہل برتے گی تو وہ اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے میں کوتاہ کا ر ثابت ہو گی کیونکہ اس امت کو امت وسط اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ اسے شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دینا ہے۔

آیت میں "خیر ” سے مراد دین اسلام ہے جو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور "معروف” سے مراد جانی پہچانی بھلائیاں ہیں مثلاً خدا خوفی ، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، صلۂ رحمی ، ہمسایوں کے ساتھ اچھا برتاؤ، محتاجوں کی مدد ، سچائی و امانت داری ، عدل و انصاف ، مظلوموں کی مدد وغیرہ اور منکر سے مراد وہ برائیاں ہیں جن کا برائی ہونا بالکل واضح ہے مثلاً خدا کا انکار، قتل ناحق، ظلم ، جھوٹ ، بد عہدی، فریب ، بد دیانتی ، یتیموں کا مال ہڑپ کرنا، بخل ، زنا، بے حیائی ، عریانیت وغیرہ۔ یہ وہ معروف اور منکر ہیں جن پر فطرت انسانی معروف اور منکر کا حکم لگاتی ہے۔ اس لئے انسان ان کے بھلائی یا برائی ہونے کو جانتا ہے اور اس لحاظ سے ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار اور خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ اسلام نے بھلائیوں اور برائیوں کی جو تفصیل پیش کی ہے اس میں سر فہرست یہی معروف اور منکر ہیں جن کی نشاندہی فطرت انسانی کرتی ہے۔

معروف پر لوگوں کو مطلع کرنے اور منکر سے انہیں باز رکھنے کے لئے تذکیر و تلقین کی ضرورت ہے اور بعض حالات میں قوت کے استعمال کی بھی۔ اس لئے ایک ایسے گروہ کو ابھارنے کی ہدایت کی گئی ہے جو مخصوص طور سے یہ خدمت انجام دے اور جہاں مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو وہاں اقتدار کا استعمال لازماً بھلائیوں کی پرورش کا سامان کرنے اور برائیوں کو مٹانے کے لئے ہونا چاہئیے۔

۱۳۷ الف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "جو تفرقہ میں پڑ گئے اور جنہوں نے واضح ہدایات پانے کے بعد اختلاف کیا "سے اشارہ یہود و نصاریٰ کی طرف ہے جنہیں تورات و انجیل کے ذریعہ دین کا واضح تصور دیا گیا تھا اور جن پر توحید کا مفہوم اچھی طرح آشکارا کیا گیا تھا۔ نیز دین کی تعلیمات کھول کر بیان کی گئی تھیں لیکن انہوں نے کلامی مباحث اور فقہی موشگافیوں میں الجھ کر ہزار ہا مسائل پیدا کر لئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فرقوں میں بٹ گئے اور اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئے۔

یہاں یہود و نصاریٰ کے طرز عمل کا حوالہ دینے سے مقصود مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن کے ذریعہ جو حق ان پر واضح ہوا ہے اور جو روشن تعلیمات انہیں ملی ہیں اس کی وہ قدر کریں اور گمراہ امتوں کے نقش قدم پر نہ چلیں۔

افسوس کہ اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے قرآن کی پیش کردہ تعلیمات میں یہاں تک کہ عقائد میں بھی نت نئے مسائل پیدا کر دئیے جس سے دین کا تصور بگڑ گیا اور وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئے۔ اور پھر اختلاف کی شدت نے فرقوں کو جنم دیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہر فرقہ کا تصور دین ہی الگ ہے۔ اس صورتحال کا حقیقی اور موثر علاج یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایک ایسا گروہ اٹھ کھڑا ہو جو ہر قسم کی فرقہ وارانہ ، گروہی اور مسلکی تعصبات سے بالا تر ہو کر براہ راست اور بے لاگ طور پر اس دین کی طرف دعوت دے جسے قرآن نے "خیر ” سے تعبیر فرمایا ہے۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر امت اس بنا پر کہ یہی امت دین حق پر قائم ہے اہل کتاب نے انحراف کی راہیں اختیار کر کے اصل دین کو گم کر دیا۔ اب انسانیت کی اصلاح اور رہنمائی و ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو برپا کیا ہے۔ اس امت کا وصف یہ ہے کہ وہ ایمان سے متصف ہو کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اسی بنا پر اس امت کو خیر امت کا لقب عطا کیا گیا ہے نہ کہ نسل و نسب کی بنا پر جیسا کہ اہل کتاب اپنے بارے میں خیال کرتے رہے ہیں۔

خیر امت کے منصب کے ہر طرح سزاوار صحابۂ کرام تھے اور ان کے بعد وہ لوگ جن کے اندر یہ وصف پایا گیا ، رہے و ہ مسلمان جن کو ایمان سے کوئی دلچسپی نہیں اور جن کی ساری دوڑ دھوپ منکر کو قائم کرنے اور معروف کو مٹانے کے لئے ہو تی ہے تو وہ اپنے منصب کو غلط استعمال کرتے ہیں ایسے لوگ حقیقتاً خیر امت کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۱۶۶)

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ یہود و نصاریٰ اگر قرآن اور اس کے لانے وا لے پیغمبر پر ایمان لاتے اور خیر امت میں شامل ہو جاتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ لیکن ان میں ایمان لانے وا لے بہت تھوڑے ہیں اور اکثریت نا فرمانوں اور فاسقوں کی ہے۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس وقت کے اہل کتاب کا حال بیان ہوا ہے کہ وہ نہایت پست ہمت ہیں۔ اس لئے صرف اذیت دینے ہی کی باتیں کرسکتے ہیں۔ ورنہ سچے اہل ایمان کے مقابلہ میں وہ ٹک نہیں سکتے۔ بعد کے واقعات نے قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر دی۔ چنانچہ اہل کتاب کو زبردست شکست کا سامنا کر نا پڑا۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اپنے بل بوتے پر قائم نہیں ہیں بلکہ کہیں اسلامی ریاست نے معاہدے کے تحت ان کو امان دے دی ہے اور کہیں دیگر قوموں نے ان کو سہارا دے دیا ہے یہ سہارے عارضی ہیں۔ ان کی اپنی سطوت و عزت کچھ نہیں ہے۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا پرستی کے غلبہ کے نتیجہ میں آخرت کو ترجیح دینے اور دین کے لئے ایثار و قربانی کا حوصلہ ان کے اندر باقی نہیں رہا تھا اور وہ اخلاقی زوال اور عملی انحطاط کی انتہا ء کو پہنچ گئے تھے۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ان جرائم کی شہادت بائبل میں بھی موجود ہے۔

"اے یروشلم !اے یروشلم !تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پا س بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ” (متی ۲۳: ۳۷)

"تو بھی وہ نافرمان ہو کر تجھ سے باغی ہوئے اور انہوں نے تیری شریعت کو پیٹھ پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو تیری طرف پھرا لائیں قتل کیا اور انہوں نے غصہ دلانے کے بڑے بڑے کام کئے اس لئے تو نے ان کو ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کر دیا ” (نحمیاہ ۹: ۲۶۔ ۲۷)

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جو اللہ سے کئے ہوئے عہد پر قائم تھا۔ یہ لوگ صالح مومن تھے اور جوں جوں ان پر قرآن اور پیغمبر کی حقانیت واضح ہوتی گئی وہ ایما ن لا کر مسلمانوں کے زمرہ میں شامل ہوتے گئے۔ قرآن نے یہاں ایسے ہی اہل کتاب کی تعریف کی ہے۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو کفر پر آمادہ کرنے والی چیزیں یہی مال اور اولاد کی محبت ہے لیکن یہ چیزیں انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گی۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مثال میں ہوا سے مراد خیر و خیرات ہے اور پا لے سے مراد صحیح ایمان کا فقدان اور کفر ہے اور کھیتی سے مراد کشت زار حیات ہے۔ جس طرح ہوا میں جو کھیتی کے لئے ایک مفید چیز ہے اگر پالا ہو تو وہ کھیتی کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ برفباری کھیتی کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح خیر خیرات ایک مفید چیز ہونے کے باوجود جب جذبۂ ایمانی سے خالی ہوتی ہے اور کفر کا زہر اس میں موجود ہوتا ہے تو وہ اجر آخرت تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کے باہر کے کسی فرد کو اپنا راز دار اور معتمد نہ بنائیں اور اس کی وجہ بھی بیان کر دی گئی ہے کہ یہ لوگ اپنی اسلام اور مسلم دشمنی کی بنا پر تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ یہ ہدایت جنگ کے موقع پر دی گئی تھی جبکہ اندیشہ تھا کہ مسلمان یہود سے اپنے پرانے دوستانہ تعلقات کی بنا پر ان کے سامنے جنگی رازوں وغیرہ کا ذکر نہ کر بیٹھیں اس لئے کہ یہود مسلمانوں کے دشمنوں کی پشت پناہی کر رہے تھے اور اسلام کے خلاف ان کے اندر بغض پیدا ہو گیا تھا۔

اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں غلبۂ اسلام کی جدوجہد جہاد کے مرحلہ میں داخل ہو گئی ہو یا جہاں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہو وہاں انہیں جنگی رازوں اور سیاسی حکمت عملی وغیرہ کے سلسلہ میں کا فی محتاط رہنا چاہئیے اور ان لوگوں کو اپنا ہمراز اور معتمد ، بنانے سے احتراز کرنا چاہئیے جنہوں نے ایمان لانے اور ملت اسلامیہ میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم ان کے خیر خواہ ہو لیکن وہ تمہارے بد خواہ ہیں اور بری طرح اسلام اور مسلم دشمنی میں مبتلا ہیں۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود اس بات کے مدعی تھے کہ ہم اللہ اور آخرت کو ، مانتے ہیں اس لئے ہم اہل ایمان ہیں درانحالیکہ وہ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ قرآن کہتا ہے جب تک کوئی شخص بشمول قرآن اللہ کی تمام کتابوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا وہ ہرگز مؤمن نہیں ہے اور اس کا ایمان ہر گز معتبر نہیں۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تصویر ہے ان لوگوں کی جو اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اسلام پھلے پھولے اور ملت اسلامیہ کو غلبہ و اقتدار نصیب ہو۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ہمیشہ عصبیت میں مبتلا رہتے ہیں اور مسلمانوں کی ہر کامیابی ان کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تقویٰ سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اوپر جو ہدایات دی گئیں ان پر عمل کیا جائے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے غزوۂ احد کے حالات و واقعات پر تبصرہ شروع ہوتا ہے ” احد” مدینہ سے تین چار میل کے فاصلہ پر شمال کی جانب ایک پہاڑی ہے جس کے دامن میں یہ جنگ شوال ۰۳ھ (۰۶۲۵ء) میں لڑی گئی کفار مکہ جارح کی حیثیت سے مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے اور انہوں نے احد کے پاس پڑاؤ ڈال دیا تھا۔ نبیﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ کیا کہ مقابلہ مدینہ سے باہر نکل کر کیا جائے یا مدینہ ہی میں ر ہ کر۔ اکثر لوگوں کا مشورہ یہ تھا کہ باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے البتہ منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی کا مشورہ تھا کہ مدینہ ہی میں ر ہ کر مقابلہ کیا جائے۔ نبیﷺ نے مشورے کے بعد باہر نکل کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ فرمایا اور ایک ہزار ، مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے روانہ ہو گئے لیکن راستہ میں عبد اللہ بن ابی یہ کہتے ہوئے اپنے تین سو ساتھیوں کو لیکر الگ ہو گیا کہ ہماری رائے نہیں مانی گئی۔ نبیﷺ کے ساتھ اب صرف سات سو مسلمان رہ گئے تھے اور وہ بھی بے سر و سامانی کی حالت میں۔ لیکن آپﷺ ان ہی کو لیکر آگے بڑھے اور احد پہنچ کر کفار کا مقابلہ کیا جو تعداد میں تین ہزار تھے اور سامان جنگ سے ہر طرح لیس تھے۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قبیلہ خزرج کے بنوسلمہ اور قبیلۂاوس کے بنو حارثہ ہیں۔

جنگ احد میں کفار کی تعداد تین ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعداد صرف ایک ہزار۔ ان میں سے بھی تین سو کی تعداد کو لیکر منافقین کا سردار عبد اللہ بن ابی الگ ہو گیا۔ اس واقعہ کا کچھ اثر مسلمانوں کے دو گروہوں کے حوصلہ پر پڑا،جس کی طرف آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن نے اس پر گرفت کی اور فرمایا کہ راہ خدا میں اہل ایمان کا کارساز اللہ ہوتا ہے اس لئے اس کی مدد پر پورا پورا بھروسہ رکھنا چاہئیے۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدر کی جنگ رمضان ۰۲ھ (مطابق مارچ ۰۶۲۴ء) میں ہوئی تھی جس میں مسلمان غالب رہے تھے۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات نبیﷺ نے اس وقت فرمائی تھی جبکہ عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لیکر واپس ہو گیا۔ اس موقع پر مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ ان تین سو آدمیوں کی جگہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ؟

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی تائید میں فرمائی کہ تین ہزار نہیں بلکہ پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کی جائے گی بشرطیکہ تم ثابت قدم رہو اور تقویٰ اختیار کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو ا اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دی لیکن شکست دے چکنے کے بعد مسلمانوں کے ایک دستہ نے رسول کی ہدایت کی خلاف ورزی کی اور مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو زک پہنچی۔

نشان رکھنے وا لے فرشتوں سے مراد یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا نشان لگائے ہوئے ہوں گے اور خاص اہتمام کے ساتھ اس مقصد کے لئے نازل کئے جائیں گے۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتوں کے ذریعہ مدد کا یہ وعدہ بشارت کے طور پر تھا۔ اگر یہ بشارت نہ بھی دی جاتی تب بھی تمہیں یہی سمجھنا چاہئیے کہ فتح و نصرت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ غالب ہے جسے چاہے غلبہ عطا فرمائے اور حکیم ہے اس لئے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب نبیﷺ سے ہے اور اختیار سے مراد کسی کے بارے میں عذاب الٰہی کے مستحق ہونے کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آج تمہارے اور اسلام کے دشمن بنے ہوئے ہیں ضروری نہیں کہ آئندہ بھی دشمن ہی رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے اور وہ اسلام کی طرف پلٹ آئیں اور اللہ انہیں معاف کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے ظلم کی بنا پر توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور سزا کے مستحق قرار پائیں۔

اس آیت میں توبہ کا جو اشارہ تھا وہ کچھ دنوں کے بعد حقیقت بن گیا چنانچہ یہی دشمنانِ اسلام جو نبیﷺ کے خلاف احد میں صف آراء ہوئے تھے مثلاً ابو سفیان ، خالد بن ولید ، صفوان بن امیہ وغیرہ وہ کچھ عرصہ بعد ایمان لا کر نبیﷺ کے حامی و ناصر بن گئے۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۴۷۸۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوگنے چوگنے سود کی ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف سود در سود حرام ہے بلکہ سود ہر طرح کا حرام ہے خواہ وہ مفر دہو یا مرکب اور اس کی شرح معمولی ہو یا بھاری جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ۲۷۵ سے واضح ہے۔

یہاں دوگنے چوگنے کی صفت محض سود کی قباحت کو واضح کرنے کے لئے ہے تاکہ اس سے پوری طرح نفرت پیدا ہو کیونکہ آدمی ایک مرتبہ جب سود خوری کو جائز کر لیتا ہے تو پھر اسے اس کی بدترین شکل اختیار کرنے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔ سود کی حرمت کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۵۶ تا ۴۶۴۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تم اپنے لئے مادی فوائد کی ایک آب جو حاصل کرنا چاہتے ہو جو چند روزہ دنیا کے لئے ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں بحر بے کراں عطا کرنا چاہتا ہے یعنی ایسی وسیع جنت جس کا عرض آسمان و زمین کے برابر ہے اور جو ابدی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن زمین اور آسمان کے درمیان کی فضا جنت کی فضا ہو گی اور جنتی لوگ اس فضا کی سیر بہ آسانی کر سکیں گے۔ زمین و آسمان کی وسعت کی تمثیل سے جنت کی وسعت کا یہ دھندلا سا تصور سامنے آتا ہے اصل حقیقت اللہ ہی کو معلوم ہے۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے عیسائیوں کے اس عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ گنا ہ کو بخشنے کا اختیار حضرت عیسیٰؑ کو اور ان کے چرچ کے پادریوں کو ہے۔ بائبل میں حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ بات غلط منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا : "جن کے گناہ تم بخشو ان کے گناہ بخشے گئے ہیں جن کے گناہ تم قائم رکھو ان کے قائم رکھے گئے ہیں ” (یوحنا ۲۰:۲۳)

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں تو خدا کی یاد انہیں توبہ و استغفار پر آمادہ کر تی ہے اور وہ گناہ پر جمے نہیں رہتے۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنن سے مراد اللہ کے وہ قاعدے ہیں جن کے تحت وہ قوموں کو سزا دیتا رہتا ہے۔ اس سنت کے مظاہر تباہ شدہ قوموں کے آثار کی شکل میں سرزمین عرب میں موجود تھے مثلاً قوم ثمود اور قوم لوط وغیرہ کے آثار۔ ان علاقوں کا سفر کر کے آدمی ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ جو سفر تلاشِ حقیقت اور تاریخی واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی غرض سے کیا جائے وہ یقیناً مفید ہو گا اور یہاں ترغیب ایسے ہی سفر کو دی گئی ہے رہا وہ سفر جو تاریخی آثار کی محض سیر کرنے اور کھنڈرات کو دیکھ کر اپنی جغرافیائی اور فنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے ہو اس سے عظیم مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حقیقت افروز بیان ہے۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وقتی طور سے تمہیں شکست سے دوچار ہو نا پڑا ہے اور وہ بھی تمہاری اپنی غلطیوں کے نتیجہ میں تو اس کا ایسا اثر قبول کرنا صحیح نہ ہو گا کہ مستقبل کی طرف سے مایوس ہو کر بیٹھ رہو بلکہ تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور تمہیں یقین رکھنا چاہئیے کہ کفر واسلام کی کشمکش میں بالآخر پلڑا تمہاری ہی بھاری رہے گا اور سربلند تم ہی رہو گے بشرطیکہ تم نے اپنے کو سچا اور پکا مؤمن ثابت کر دکھایا کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اہل ایمان اپنے ایمانی تقاضوں کو پورا کریں اور رسول کی رفاقت میں راہ خدا میں تن من دھن کی بازی لگائیں اور اس کے بعد بھی اللہ کی نصرت سے محروم رہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کا یہ وعدہ حرف بہ حرف پورا ہوا۔

واضح رہے کہ غالب اور سربلند رہنے کا یہ وعدہ افراد سے نہیں بلکہ گروہ مؤمنین سے ہے اور یہ اس صورت میں ہے جبکہ کفر اور اسلام کی جنگ برپا ہو یعنی خالصۃً اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے جہاد کیا جائے اور صبر و تقویٰ کا دامن چھوڑ نہ دیا جائے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے جنگ بدر کی طرف جس میں کافروں کو چوٹ کھانا پڑی تھی۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایام سے مراد وہ تاریخی دن ہیں جن میں قوموں کی فتح و شکست کے واقعات پیش آئے۔ یہ واقعات اللہ تعالیٰ کے قانون ابتلا کے تحت پیش آئے ہیں۔

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہید وہ ہے جو اللہ کی راہ میں مارا جائے اسے شہید کا لقب اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت کی گواہی جان دے کر پیش کرتا ہے۔ شہادت نہایت بلند درجہ ہے اور غزوۂ احد میں جو مسلمان مارے گئے ا س کی حکمت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس اعلیٰ مقام پر فائز کرنا چاہتا تھا۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ خیال غلط ہے کہ حق کی راہ آزمائشوں کی راہ نہیں ہے اور آدمی ایمان لانے کا دعویٰ کر کے سیدھے جنت میں داخل ہوسکتا ہے اور اسے کسی ایسے مرحلے سے گزرنا نہیں ہو گا جس میں اس کے دعوۂ ایمانی کی جانچ ہو اور قربانیوں کا اس سے مطالبہ ہو۔

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان نوجوانوں کی طرف جنہیں جنگ بدر میں شرکت کا موقع نہیں ملا تھا وہ "شہادت ” کی تمنا کا اظہار کر رہے تھے اور اسی شوق شہادت میں انہوں نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تھا۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الٹے پاؤں پھر جانے کا مطلب کفر اور جاہلیت کی طرف پلٹنا ہے۔

یہاں جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں اللہ کے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اسی طرح حضرت محمدﷺ بھی اللہ کے ایک رسول ہیں۔ اس لئے جس طرح دوسرے رسولوں کو موت سے دوچار ہونا پڑا اسی طرح حضرت محمدﷺ کو بھی ایک دن وفات پانا ہے۔ ان کے رسول ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ وفات نہیں پائیں گے یا قتل نہیں ہوسکتے۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے اور اس میں رسولوں کے ساتھ بھی آزمائشیں لگی ہوئی ہیں۔

موقع کلام کے لحاظ سے یہاں اس تاثر کا ازالہ مقصود ہے جو بعض مسلمانوں نے جنگ احد کے موقع پر حضرت محمدﷺ کے شہید ہو جانے کی افواہ کے نتیجہ میں قبول کیا تھا۔ واضح رہے کہ جنگ احد کے موقع پر کافروں نے یہ افواہ اڑائی تھی کہ پیغمبر قتل کر دئیے گئے جس سے مسلمانوں کی صفوں میں وقتی طور پر انتشار پیدا ہو گیا تھا اگرچہ کہ اولوالعزم صحابہؓ نے یہ حوصلہ افزا جواب دیا تھا کہ جس مقصد کیلئے آپﷺ نے جان دی اس کے لئے ہم کیوں نہ جان دے دیں یا یہ کہ جب آپﷺ ہی نہ رہے تو ہمارے رہنے سے کیا فائدہ۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنہوں نے دینِ اسلام کی نعمت پا لینے کے بعد اس کی قدر کی خواہ اس کا رسول ان کے درمیان موجود ہو یا وفات پاچکا ہو ان کو اللہ جزاء سے نوازے گا

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے ہر شخص کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے جو ایک نوشتہ میں درج ہے موت نہ اس سے پہلے آتی ہے نہ اس کے بعد۔ لہٰذا موت کے اندیشہ سے جہاد جیسے دینی فریضہ سے فرار کی راہ اختیار کرنا صحیح نہیں۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان جنگوں کی طرف جو حضرت سموئیلؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قیادت میں لڑی گئیں۔ اس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جنگ احد میں مسلمانوں کو جن شدائد کا سامنا کرنا پڑا اس سے وہ بد دل نہ ہوں۔ راہِ خدا میں جنگ اور مصائب کا پیش آ جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ انبیاء اور ان کے رفقاء کو بھی یہ مراحل پیش آتے رہے ہیں اور ان سے گزر کر ہی وہ بلند مقام کو پہنچ سکے ہیں۔

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان مصیبتوں کے پیش آنے پر انہوں نے خدا اور اس کے رسول کے خلاف باتیں نہیں کیں بلکہ اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے رہے اور اللہ سے اپنے قصوروں کے لئے معافی کے خواستگار ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو دنیا میں بھی سرفرازی نصیب ہوئی اور آخرت میں بھی وہ بہترین انعامات سے نوازے گئے۔

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "محسنین” استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ لوگ جو احسان یعنی حسن عمل کا رویہ اختیار کریں مراد نیک کردار اور خوب کار لوگ ہیں جو اپنے فرائض Duties کو نہ صرف ادا کرتے ہیں بلکہ بحسن و خوبی ادا کرتے ہیں اوپر جن لوگوں کی صفت راہِ خدا میں جاں فروشی بیا ن کی گئی ہے ان کو محسنین کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ احسان کے مفہوم میں دین کے لئے سرفروشانہ جدوجہد کرنا اور اللہ کی خاطر قربانیاں دینا بدرجۂ اولیٰ شامل ہے۔

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایما ن ،عزم اور حوصلہ کی بنیا دہے اس لئے مؤمنوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور یہ بلند حوصلگی مشرکین اور کفار کے دلوں میں رعب پیدا کرتی ہے۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے نصرت بالرعب مسیرۃ شھر (میری ایسے رعب کے ذریعہ مدد کی گئی ہے کہ اگر دشمن ایک ماہ کی مسافت کے بقدر دوری پر ہو تو اس پر بھی رعب طاری ہو گا۔) ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص۴۱۱،بحوالہ صحیحین)

اور واقعات نے اس کی تصدیق کی چنانچہ مسلمانوں کی دھاک قیصر و کسریٰ ہی پر نہیں بیٹھی بلکہ اس کے اثرات ہندوستان اور اسپین تک وسیع ہوئے۔

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ نصرت غزوۂ احد کے موقع پر بھی پورا ہوا چنانچہ مسلمان تعداد میں کم ہونے اور بے سر و سامانی کی حالت میں ہونے کے باوجود مشرکین پر بھاری رہے جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ مشرکین میں سے جو لوگ یکے بعد دیگرے پرچم سنبھال رہے تھے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور بالآخر پرچم زمین پر گر گیا جو اس زمانہ میں شکست کی علامت تھی۔ لیکن اس کے بعد مسلمانوں سے کچھ کمزوریوں کا صدور ہوا جس کے نتیجہ میں انہیں بڑی زک پہنچی۔

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھیں وہ کمزوریاں اور غلطیاں جو غزوۂ احد کے موقع پر عین حالتِ جنگ میں مسلمانوں سے سرزد ہوئیں۔ اول تو مسلمان ابتدائی فتحمندی کو دیکھنے کے بعد ڈھیلے پڑ گئے کہ گویا فتح تو ہمارے لئے مقدر ہی ہے۔

دوسرے یہ کہ اللہ کے رسول نے ایک دستہ پشت کی طرف درّے پر حفاظت کے لئے متعین کیا تھا اور انہیں تاکید کی تھی کہ وہ اسے کسی حال میں نہ چھوڑیں لیکن فتح کو اپنے سامنے دیکھ کر ان کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ ایسی صورت میں اسے چھوڑ کر مال غنیمت حاصل کرنے میں کیا حرج ہے اگر چہ کہ دستہ کے سردار عبد اللہ بن جبیر نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن سوائے چند افراد کے سب نے نافرمانی کی۔ تیسرے یہ کہ وہ حکم رسول کی خلاف ورزی کر کے قبل از وقت مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے اور صرف تھوڑے آدمی اپنی جگہ قائم رہے اس چیز سے دشمن نے فائدہ اٹھایا اور پشت سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے حوصلے پست ہوئے۔ چوتھے یہ کہ مسلمانوں کے بعض لوگوں نے مال غنیمت سمیٹنے میں جلدی کر کے آخرت کے بجائے دنیا پر اپنی نگاہیں جما دیں۔

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کمزوریوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ تم میں دشمن سے مقابلہ کا حوصلہ نہیں رہا۔

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے اللہ کا وعدۂ نصرت غیر مشروط نہیں ہے کہ وہ جو رویہ بھی چاہیں اختیار کریں لیکن خدا کی نصرت ہر حال میں ان کے ہم رکاب ہی ہے بلکہ یہ مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ مسلمان ادائے فرض میں ڈھیلے نہ پڑیں ،اطاعت امر میں اختلاف نہ کریں ، خدا اور رسول کی نافرمانی نہ کریں ، آخرت کو چھوڑ کر دنیا کے طالب نہ بنیں۔ اگر اس طرح کی کوئی چیز ان کے اندر پائی جاتی ہے تو بھی اللہ تعالیٰ یہ نہیں کرتا کہ ان پر غضب نازل کر دے بلکہ ان کو ایسی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے جن سے ان کی یہ کمزوریاں دور ہوں اور وہ خدا کی تائید و نصرت کے حقدار بن سکیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے عفو و درگزر اور اس کے فضل و عنایت ہی کی ایک شکل ہوتی۔ چنانچہ آیت کے آخر میں اس عفو و فضل کی طرف بھی اشارہ فرمایا ” (تدبر قرآن ج ۱، ص۷۹۵)۔

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کی صفوں میں جب انتشار پیدا ہوا تو نبیﷺ نے چند جانباز صحابہ کے ساتھ جن میں حضرت علیؓ ، حضرت ابو بکرؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے جان نثار شامل تھے اپنی جگہ جمے رہے اور مسلمانوں کو آواز دے رہے تھے کہ میری طرف آؤ میں اللہ کا رسول ہوں اس کے بعد خود اللہ کا رسول زخمی ہوا۔

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غم اس بات کا کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو سخت زک پہنچی چنانچہ ستر (۷۰) مسلمان شہید ہوئے جن میں حضرت حمزہؓ اور عبد اللہ بن جحشؓ جیسی ممتاز شخصیتیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی اس پر مزید غم جو پہاڑ کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا وہ اس غلط خبر کا تھا کہ نبیﷺ شہید ہو گئے۔

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ میں ایک موقع ایسا آیا کہ خوف کی شدت کو زائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ کی حالت طاری کر دی۔ یہ حالت اس وقت طاری ہوئی جبکہ لڑائی کچھ دیر کے لئے رک گئی تھی اور مسلمان نبیﷺ کے گرد جمع ہو کر اپنی قوت مجتمع کر رہے تھے۔

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم میں ایک گروہ خدا کے بارے میں بد گمانیوں میں مبتلا رہا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر مدینہ میں رہ کر جنگ لڑی جاتی تو ہم قتل نہ ہوتے اس کی تردید میں فرمایا تمہارا یہ خیال غلط ہے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو نوشتۂ الٰہی غالب آتا اور تمہاری موت وہیں ہوتی جہاں کے لئے مقدر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت کا وقت اور اس کے مرنے کی جگہ لکھ رکھی ہے۔ اور اس کی تصدیق آئے دن کے حادثات سے ہوتی ہے کہ آدمی کا گمان جس جگہ کے لئے نہیں ہوتا وہاں وہ کسی نہ کسی بہانے پہنچ کر رہتا ہے اور اس کی موت واقع ہوتی ہے۔

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد جنگ احد ہے (ملاحظہ ہو نوٹ ۱۵۲)

۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین کی شرارت سے کچھ کمزور قسم کے مسلمان بھی متاثر ہوئے تھے لیکن بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ یہاں اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بعض پچھلے گناہوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں ٹھوکر کھلائی کیونکہ شیطان کا حربہ ان لوگوں پر کارگر ثابت ہوتا ہے جو گناہ کے لئے اپنے نفس کو ڈھیل دے دیتے ہیں۔

۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لو گ اپنی تدبیروں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں وہ قضائے الٰہی کے تحت پیش آ جانے وا لے واقعات کی غلط توجیہ کرتے ہیں اور یہ توجیہ ان کے لئے واضح حسرت بن کر رہ جاتی ہے اور وہ کف افسوس ملتے رہے جاتے ہیں کہ اگر ایسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا۔

۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنے ساتھیوں کی اصلاح کے معاملہ میں جو نرم روش تم اختیار کئے ہو وہ آئندہ بھی برقرار رہے ایسا نہ ہو کہ جن کمزوریوں کا صدور اس وقت (جنگ احد کے موقع پر) ان سے ہوا ہے اس کے پیش نظر تمہارا رویہ ان کے ساتھ سخت ہو جائے بلکہ یہ نرم خوئی ہی انہیں تمہارا گرویدہ بنائے گی اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو سکیں گے۔ واضح ہوا کہ نرم خوئی بہت بڑی اخلاقی خوبی ہے اور ایک داعی اور مصلح میں اس صفت کا ہونا ضروری ہے ورنہ وہ لوگوں کو اپنے سے قریب نہیں کر سکتا اور یہی صفت انسان کو ہر دل عزیز بنا دیتی ہے۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں معاملات میں اہل ایمان سے مشورہ کرتے رہنے کی ہدایت نبیﷺ کو دے دی گئی ہے اور سیاق کلام سے واضح ہے کہ معاملات سے مراد جہاد جیسے مہمات امور ہیں جن کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے کوئی واضح حکم نازل نہ ہوا ہو یا حکم تو نازل ہوا ہو لیکن مسئلہ اس کی تطبیق اور اس کو بروئے کار لانے کے سلسلہ میں تدبر کا ہو ورنہ حکم خداوندی کی موجودگی میں مشورہ کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ مشورہ کے اس حکم پر غور کرنے سے درج ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے :۔

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شورائیت اسلامی اجتماعیت کا ایک اہم ترین اصول اور اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد ی خصوصیت ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشورہ کی ہدایت مہمات امور کے لئے ہے یعنی وہ امور و مسائل جن کا اثر امت کی اجتماعی زندگی پر پڑتا ہو اس میں سیا ست، جنگ ، امن اور اسلامی ریاست سے متعلق تمام امور نیز مصالح امت اور دعوت اسلامی کی جدوجہد سے تعلق رکھنے وا لے جملہ اہم امور و مسائل داخل ہیں۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشورہ کرنے کی ہدایت جب نبیﷺ کو دی گئی تو امت پر اس کی پابندی بدرجۂ اولیٰ عائد ہوتی ہے کیونکہ امت نبی سے زیادہ اس کی ضرورت مند ہے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہمات امور کے بارے میں فیصلہ مشورہ کے بعد کرنا چاہئیے اور یہ فیصلہ (عزم) مشورہ کا نتیجہ ہو بالفاظ دیگر جمہوری رائے فیصلہ کن ہو گی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا اور صاحب امر نے اپنی رائے ہی کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار کیا تو شوریٰ کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور مشورہ بے وقت اور بے اثر ہو کر رہ جائے گا نیز اس سے آمرانہ رجحانات پرورش پائیں گے جس کا نتیجہ حقیقی جمہوریت کے خاتمہ اور آمریت واستبداد کے لئے راہ ہموار ہونے ہی کی شکل میں نکل سکتا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکثریت دلیل صحت نہیں وہ جمہور کے علی الرغم صاحب امر کو فیصلہ کا اختیار دیتے ہیں بالفاظ دیگر وہ صاحب امر کو دلیل صحت تسلیم کرتے ہیں جبکہ یہ مفروضہ ہی سرے سے غلط ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک دلیل صحت کا تعلق ہے نہ جمہور دلیل ہیں اور نہ صاحب امر۔ البتہ مصالح کے پیش نظر اسلام نے جمہور کی رائے کو وزن دیکر اسے فیصلہ کن حیثیت دی ہے جو ایک معقول اور منصفانہ بات ہے اور موجودہ زمانہ میں جبکہ خود رائی اور خواہش پرستی کا زور ہے صاحب امر کو جمہور کی رائے سے آزاد کرنا اور اسے غیر معمولی اختیارات دے دینا شدید خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر قبل از وقت غنیمت لوٹنے میں جو حصہ لیا اس کی وجہ ان کا یہ گمان تھا کہ اگر ہم غنیمت لوٹنے میں شریک نہیں ہوں گے تو ہمیں اس میں حصہ نہیں ملے گا جبکہ فوج کی قیادت اللہ کے نبی کر رہے تھے ایسی صورت میں اس بدگمانی کی کوئی وجہ نہ تھی۔ کیونکہ کوئی نبی امانت و دیانت کے خلاف کوئی کام ہر گز نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ نبی کریمﷺ پر کسی نے خیانت کا الزام لگایا تھا تاہم قرآن نے واضح کیا کہ ایک نبی کسی حال میں خیانت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہوئی تاکہ مال غنیمت وغیرہ کی تقسیم کے سلسلہ میں نبی کے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی نہ ہونے پائے۔

۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیانت کے سلسلہ میں حدیث میں نہایت سخت وعید سنائی گئی ہے اور نبیﷺ نے عمال کو سرکاری خزانہ کے سلسلہ میں اس قدر محتاط رہنے کی ہدایت فرمائی تھی کہ ایک سوئی کا چھپانا بھی ان کے لئے روانہ تھا۔ فرمایا :

یا ایھا الناس من عمل لنا منکم عملاً فکتمنا منہ مخیطا فما فوقہ فھو غل یاتی بہ یوم القیامۃ

"لوگو! تم میں سے جو کوئی ہمارے کسی کام پر مامور ہو اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے کمتر چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے وہ قیامت کے دن لا حاضر کرے گا ” (ابن کثیر ج۱، ص ۴۲۲، بحوالہ احمد)

۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عمل کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں تو نتیجہ کے اعتبار سے کس طرح یکساں ہو سکتے ہیں ؟

۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضروری ہے کہ بھلے اور برے کا فرق کیا جائے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱۴۹إ)

۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اس جنگ میں تمہیں نقصان پہنچا ہے تو اس سے پہلے جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں دشمن کو اس سے دوگنا نقصان پہنچ چکا ہے چنانچہ بد ر میں کفار کے ۷۰آدمی شہید ہوئے تاہم اس جنگ میں بھی مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کے کئی آدمی قتل ہوئے لیکن بعد میں مسلمانوں کو ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے زک پہنچی۔

۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کے نتیجہ میں۔

۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں غالب کرنے پر بھی قادر ہے اور پسپا کرنے پر بھی۔

۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ منافقین کی طرف ہے جنہوں نے موت کے ڈر سے جہاد میں شریک ہونے سے گریز کیا اور بہانہ یہ بناتے رہے کہ ہم سمجھتے تھے کہ جنگ ہو گی ہی نہیں اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ جنگ ہو گی تو ہم ضرور شریک ہوتے لیکن ساتھ ہی ان لوگوں کے بارے میں جو جنگ میں مارے گئے کہتے رہے کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل چیز موت کا ڈر ہے جس کی بنا پر یہ جنگ کے لئے نہیں نکلے۔

واضح رہے کہ ان غزوات میں نبیﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے تھے اور جب نبی خود محاذ پر جنگ لڑ رہا ہو تو اس کو چھو ڑ کر کسی مسلمان کا گھر میں بیٹھ رہنا غیرت ایمانی کے سراسر خلاف تھا اس لئے ایسے مسلمانوں پر جو درحقیقت منافق تھے قرآن میں سخت گرفت کی گئی ہے۔

۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر موت سے بچانا تمہارے اختیار میں ہے تو اپنے آپ کو موت سے بچاؤ۔

۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی راہ میں شہادت ابدی زندگی کی ضمانت ہے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہو نے وا لے مر گئے لیکن درحقیقت موت کا عمل محض جسم کے ساتھ ہوتا ہے روح کے ساتھ نہیں۔ شہید ہونے وا لے کی روح کو عالم بالا میں ایک خاص طرح کی زندگی نصیب ہوتی ہے اور یہ زندگی اس قدر پر مسرت اور پر کیف ہو تی ہے کہ اس کا تصور بھی اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۱۸۵)

صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا "شہدا ” کی روحیں سبز پرندوں کے خول میں ہوتی ہیں اور ان کا مستقر عرش سے لٹکتے ہوئے قندیلوں کے پاس ہوتا ہے وہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں اس کے بعد ان قندیلوں کے پاس واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان سے پوچھتا ہے تمہیں کس چیز کی خواہش ہے ؟ وہ کہتی ہیں ہمیں کس چیز کی خواہش ہوسکتی ہے جبکہ ہم جنت کی جس طرح چاہیں سیر کرسکتی ہیں اللہ تعالیٰ ان سے تین مرتبہ یہ سوال کرتا ہے وہ جب دیکھتی ہیں کہ ان سے بار بار سوال کیا جا رہا ہے تو کہتی ہیں : اے ہمارے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسم میں لوٹا دی جائیں تاکہ ہم دوبارہ تیری راہ میں قتل کر دئیے جائیں اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔

۲۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہداء کی روحیں عالمِ برزخ میں اعزازو اکرام سے نوازے جانے پر بہت خوش ہو جاتی ہیں اور مزید خوشی انہیں اس بات کی ہوتی ہے کہ جن صالح متعلقین کو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ گو ابھی ان سے ملے نہیں ہیں لیکن عنقریب ان سے ملیں گے اور ان کے لئے نہ کسی قسم کا اندیشہ ہے اور نہ رنج و ملال۔

۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ عدالت برپا کرے گا۔

۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو غزوۂ احد کے فوراً بعد پیش آیا احد میں مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لئے کفار مکہ اسی روز واپس روانہ ہو گئے لیکن روحاء کے مقام پر پہنچنے کے بعد جو مدینہ سے تیس میل کے فاصلہ پر ہے ان کو احساس ہوا کہ اس قدر جلد واپس ہو کر انہوں نے غلطی کی۔ اس موقع پر انہیں مدینہ پر حملہ آور ہو نا چاہئیے تھا اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا چاہئیے تھا چنانچہ پھر انہوں نے جنگ کی ٹھان لی ادھر جب نبیﷺ کو ان کے ارادوں کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے اپنے مخلص ساتھیوں کو لے کر ان کے تعاقب میں حمراء الاسد تک پہنچے جو مدینہ سے ۸میل کے فاصلے پر ہے اور یہ واقعہ احد کا دوسرے دن یعنی ۱۶!شوال ۰۳ھ کا ہے جبکہ اس کی اطلاع کفار کو ہوئی تو انہوں نے یہ محسوس کر کے کہ مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں ارادہ بدل دیا اور مکہ واپس ہو گئے ادھر مسلمان اپنی دھاک بٹھا کر کامیاب لوٹے اس آیت میں رسول کے ان ہی مخلص اور وفادار ساتھیوں کا ذکر ہے جنہوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد جرأت کا ثبوت دیا اور ایک نئی مہم پر روانہ ہو گئے۔

۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کے طرف سے خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش ان کے عز م و ایمان میں اضافہ کا مو جب ہوئی گویا ان باتوں نے ان کے عزم و ہمت کے لئے مہمیز کا کام دیا۔

۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پر توکل کی کیفیت اہل ایمان کے اندر عز م اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ یہ کلمات ،حسبنا اللہ ونعم الوکیل ،ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے اس وقت نکلے تھے جبکہ انہیں آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔

۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں شیطان کے ساتھیوں سے مراد کفار کا لشکر ہے۔

اللہ تعالیٰ دراصل کافروں کو ڈھیل اس لئے دیتا ہے تاکہ انہیں غور و فکر اور اصلاح کا پورا موقع ملے اور وہ کسی نہ کسی وقت اپنی غلطی محسوس کر کے ایمان کی طرف پلٹ سکیں۔ لیکن جب وہ اس ڈھیل سے غلط فائدہ اٹھا کر اپنے کفر میں اور پختہ ہو جاتے ہیں تو وہ گناہ پر گناہ ہی کئے جاتے ہیں اور انجام بد سے دوچار ہو جاتے ہیں اس طرح نتیجہ کے اعتبار سے یہ ڈھیل ان کے لئے موجب ہلاکت بن جاتی ہے گویا اللہ تعالیٰ نے انہیں جو ڈھیل دی تھی وہ اسی لئے دی تھی کہ وہ اپنی تباہی کا سامان کریں۔

۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ مسلمانوں کی جماعت کو آزمائشوں سے گزارے گا تاہ سچے اہل ایما ن کا کردار بھی واضح ہو جائے اور منافقین کا بھی۔

۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ غیب کے ذریعہ تمہیں نہیں بتائے گا کہ فلاں مؤمن ہے اور فلاں منافق بلکہ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ ہر ایک کا حال کھل جائے۔

۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اللہ کے بخشے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور اس کے عائد کردہ مالی حقوق کو ادا کرنے سے دریغ کرتے ہیں قیامت کے دن ان کا یہ مال ان کی گردنوں کا بوجھل طوق بنے گا۔ طوق سے اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ اللہ کے حق سے بے نیا ز ہو کر سونے کے جو ہار زیب و زینت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں وہ اس رو ز گلے کا طوق بن جائیں گے۔

۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو مال انسان کو ملا ہے وہ بطور امانت کے ہے بالآخر ساری چیزیں اللہ ہی کی طرف پلٹ جانے والی ہیں اس لئے جس شخص کو مال ملا ہے وہ یہ خیال نہ کرے کہ وہ واقعی مال کا مالک بن گیا ہے بلکہ اس پر اس کا قبضہ اور تصرف عارضی ہے لہٰذا اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر نے میں تامل نہیں کرنا چاہئیے اللہ تعالیٰ کے وارث ہونے کا تصور زر پرستی اور مادہ پرستی کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جب قرآن میں انفاق کی ترغیب میں فرمایا گیا کہ ’کو ن ہے جو اللہ کو قرض دے تو یہود اور بعض منافقین جو یہود میں سے تھے یہ کہہ کر مذاق اڑانے لگے کہ اللہ میاں بھی فقیر ہو گئے ہیں جو ہم سے قرض مانگ رہے ہیں۔

۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انبیاء بنی اسرائیل میں سے بعض رسولوں سے یہ معجزہ صادر ہوا ہے کہ قربانی کی قبولیت کی علامت کے طور پر ، آسمان سے آگ اتری اور اس نے پیش کردہ قربانی کو کھا لیا مثلاً ایلیا نبی کے متعلق ہے :

” تب خداوند کی آگ نازل ہوئی اور اس نے اس سوختی قربانی کو لکڑیوں اور پتھروں سمیت بھسم کر دیا ” (۱۔ سلاطین ۱۸:۳۸)

” اور جب سلیمانؑ دعا کر چکا تو آسمان پر سے آگ اتری اور سوختی قربانیوں اور ذبیحوں کو بھسم کر دیا ” (۲!تواریخ ۷: ۱)

نیز ملاحظہ ہو قضاۃ ۶ ، ج ۱۹ تا ۲۱ ، احبار ۹:

۲۴لیکن کہیں بھی اس کو رسالت کی شرط نہیں قرار دیا گیا تھا کہ جب تک کوئی پیغمبر یہ معجزہ نہ دکھائے اس کی نبوت کو قبول نہ کرنا۔ یہ شرط یہود نے اپنی طرف سے محض شرارتاً پیش کی تھی اس لئے ان کی اس ذہنیت کے پیش نظر یہ جو اب دینے پر اکتفا کیا گیا کہ حضرت محمدﷺ سے پہلے بعض ایسے پیغمبر بھی آ چکے ہیں جنہوں نے سوختی قربانی کا معجزہ پیش کیا تھا پھر بھی تم نے انہیں قتل کیا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو بائبل میں ہے۔ ’ اس نے (ایلیا نے) کہا مجھے خداوند لشکروں کے خدا کے لئے بڑی غیرت آئی کیونکہ بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور میرے مذبحوں کو ڈھایا اور تیرے نبیوں کو تلوا ر سے قتل کیا ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔ ، (۱۔ سلاطین ۱۹: ۱۴)

لہٰذا اگر مطلوبہ معجزہ نبیﷺ کے ہاتھوں دکھا بھی دیا جائے تو یہ لو گ جو شرارت پر اتر آئے ہیں ایمان نہ لانے کے لئے کوئی اور بہانہ تلاش کریں گے۔

۲۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روشن نشانیوں (بینات) میں معجزے بھی شامل ہیں۔

۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص مشاہد ہ کرتا ہے انسان اپنی ساری سائنسی ترقیوں کے با وجود موت پر قابو نہ پا سکا اور انسانی جسم کی ساخت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ آئندہ انسان اس پر قابو پا سکے گا لہٰذا جب موت اٹل حقیقت ہے تو یہ سوال کہ موت کے اس پار کیا ہے انسان کی اولین توجہ کا مستحق ہو جاتا ہے اتنے اہم مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہ کرنا یا کوئی اندھا اور غیر حقیقت پسندانہ عقیدہ اپنے ذہن میں بٹھا لینا وہ بنیادی غلطی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی ساری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے دوسری عظیم حقیقت جس پر قرآن پر دہ اٹھاتا ہے کہ موت انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ موت وہ پل ہے جس کو پار کر کے آدمی عمل کی دنیا سے نتائج کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔

۲۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۶۴۔

۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ حقیقت میں دیندار نہیں ہوتے وہ جب دینداری کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں تو لوگوں سے اپنی دینداری اور پارسائی کی تعریف سننا چاہتے ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ لوگ ان کی تعریف کے قصیدے پڑھتے رہیں۔

۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے آخری سورہ تک کی آیات خاتمۂ کلام کے طور پر ہیں حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نصف شب گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیات تلاوت فرماتے گویا ذکر و فکر کے لئے رات کا آخری حصہ بہترین وقت ہے کیونکہ اس وقت انسان کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔

۲۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے نزدیک دانشمند وہ ہیں جو کائنات کا مطالعہ اس طور سے کرتے ہیں کہ اس کے پیدا کرنے وا لے کی معرفت انہیں حاصل ہو اور اس کی مقصدیت ان پر واضح ہو نہ کہ وہ لوگ جو اس بنیادی سوال کے سلسلہ میں ایک تعصبانہ جواب اپنے ذہن میں رکھ کر فلکیات و طبیعیات وغیرہ کا مطالعہ محض اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی غرض سے کرتے ہیں ایسے لوگ آسمان کی سیر کر کے بھی خالی ہاتھ واپس آتے ہیں انہیں نہ کہیں خدا ملتا ہے اور نہ ان پر آخرت منکشف ہوتی ہے۔ ۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

ظاہر ہے جس کی منزل مقصود "معلومات ” کا حصول ہو اس کی رسائی ’حقیقت ، تک کیوں ہونے لگے ’حقیقت ، تک رسائی تو اسی کی ہو سکتی ہے جس کا سفر "تلاش حقیقت” کے لئے ہو۔

۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آسمان و زمین کی خلقت اور رات اور دن کا یہ نظام اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے اور نہ اس کے بنانے اور چلانے وا لے متعدد خدا ہیں بلکہ یہ ایک خدائے برتر کی تخلیق ، ایک صاحب حکمت کا تیار کردہ منصوبہ ، ایک عادل ہستی کا عادلانہ نظام اور رحمن و رحیم کی رحمت و رأفت کا مظہر ہے لہذا انسان اور اس کائنات کا وجود ہر گز بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ اللہ پاک ہے اس سے کہ کوئی بے مقصد اور فضول کام کرے۔

۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو یاد کرنے کے لئے کسی خاص وقت کی قید نہیں ہے بلکہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں مطلوب ہے خواہ آدمی کھڑا ہو یا بیٹھا ، مشغول ہو یا آرام کر رہا ہو۔ جس طرح سانس انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے اسی طرح اللہ کی یاد روحانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور عقلمندوں کا وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے کسی وقت بھی غافل نہیں ہوتے۔

۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہل دانش کی دوسری خصوصیت ہے کہ ان کا ذکر فکر سے خالی نہیں ہوتا اور اسلام میں یہ دونوں باتیں ہی مطلوب ہیں یعنی ذکر الٰہی کے ساتھ فکر آخرت بھی ہونی چاہئیے۔

۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعا جذبہ ایمانی کے ساتھ تھی اس لئے قبولیت اختیار کر گئی۔

۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی ہے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں سخت مصائب برداشت کرنا پڑ رہے تھے اس میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل تھیں اس لئے ان کا خاص طور سے ذکر کر کے ان کی ڈھا رس بندھائی گئی۔

۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مرد اور عورت دونوں ایک ہی جنس سے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت اور مرد کے لئے فیصلے کے معیار الگ الگ نہیں ہیں لہٰذا کسی کا عورت ہونا اس کے اجر میں ہر گز کمی کا موجب نہ ہو گا۔

۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافروں کی مادی ترقی ، دنیوی خوشحالی اور ان کی بین الاقوامی سرگرمیوں کو دیکھ کر تم اس مغالطہ میں نہ پڑو کہ یہ صحیح اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کی بہار ہے اس کے بعد یہ سیدھے جہنم میں پہنچنے وا لے ہیں۔

۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موقع کی مناسبت سے اس آیت میں کمزور اور مظلوم مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ اگر وہ تقویٰ کی روش پر قائم رہے تو آخرت میں نہایت شاندار طریقہ پر ان کی ضیافت کا سامان کیا جائے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے وفادار بندوں کے لئے بہترین چیزیں تیار کر رکھی ہیں۔

۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ اہل کتاب ہیں جو واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے چنانچہ وہ سابقہ کتب پر ایما ن رکھنے کے ساتھ قرآن پر بھی ایمان لے آئے بالفاظ دیگر یہ اہل کتاب حقیقت میں مسلمان تھے اس لئے نزول قرآن کے بعد ان کو قرآن اور اس کے لانے وا لے پیغمبر پر ایمان لانے میں تامل نہیں ہوا۔

۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تتمّۂ کلام ہے اور اس میں حالات کی رعایت سے وہ ہدایات دی گئی ہیں جو مخالف اسلام طاقتوں سے نبرد آزما ہو نے کے لئے ضروری تھیں۔

۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح تیار رہو۔ لفظ "رابطو”میں جہاد کے لئے مادی تیار ی کرنا ، قوت فراہم کرنا ، حفاظت کا سامان کرنا، پاسبانی کرنا اور لڑنے مرنے کے لئے کمر بستہ رہنا سب شامل ہے۔ حدیث میں "رباط” (جہاد کے لئے تیار رہنے اور پاسبانی کرنے) کو بہترین خدمت قرار دیا گیا ہے :”رباط یوم فی سبیل اللّٰہ خیرمن الدنیا وما علیھا” اللہ کی راہ میں ایک دن کی پاسبانی (رباط) دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ، (ابن کثیر بحوالہ بخاری ج ۱،ص ۴۴۵)

۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا تھا "یہ ہدایت ہے متقیوں کے لئے ” اور یہاں آل عمران کا خاتمہ پر فرمایا کہ” اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو "۔ اس سے واضح ہوا کہ ان دو سورتوں کے اندر جو احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں اور جو ہدایات دی گئی ہیں ان کی نگرانی اور ان کی تعمیل تقویٰ ہے اور متقی وہ ہیں جنہوں نے یہ وصف اپنے اندر پیدا کیا ہو۔

٭٭٭

 

 

 (۴) سورۃ النساء

 

 (۱۷۶ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کا نام النساء ہے۔ یہ نام ان مضامین کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں نساء یعنی عورتوں کے حقوق وغیرہ بیان کئے گئے ہیں۔

 

زمانۂ نزول

 

سورہ مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۂ آل عمران کے بعد کی تنزیل ہے اور اس کے مضامین اواخر ۰۳ھ سے ۰۵ھ تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہوں گے جنہیں بعد میں یکجا کر دیا گیا۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں لیکن اسلوبِ کلام نہ خشک ہے اور نہ پیچیدہ بلکہ نہایت سادہ، دل و دماغ کو اپیل کرنے والا اور بصیرت افروز ہے۔ ان احکام و قوانین کے پہلو بہ پہلو دعوتِ قرآنی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ اصل مقصدِ حیات پر نگاہیں جمی رہیں اور احکام و قوانین کی تعمیل اُن کی سپرٹ کے ساتھ کی جائے نہ کہ محض قانونی اور فقہی انداز میں۔

 

سورہ کے ایک حصے میں منافقین کی حرکتوں اور فتنہ پرداز یوں پر گرفت کی گئی ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت کے حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ منافقین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا نوٹِس لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ دینی احکام اور شرعی قوانین پر صحیح طور پر عمل درآمد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اپنے ایمان میں مخلص ہو، ورنہ اس سے گریز کے لئے وہ ہزار بہانے تراشے گا اور بس چلے تو شرعی قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کرے گا گویا مسلمانوں کے معاشرے کو اصل خطرہ منافقین ہی سے ہے اور شرعی قوانین پر عمل در آمد کی صورت میں یہ لوگ زبردست رُکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں۔

 

نظمِ کلام

 

یہ سورہ ما سبق سورۂ آل عمران سے بھی مربوط ہے اور سورۂ بقرہ سے بھی۔ سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں اہلِ ایمان کو اللہ سے ڈرنے کی تاکید کی گئی تھی (واتقو اللہ) اور اس سورہ کا آغاز ہی تقویٰ کی ہدایت سے ہوا ہے۔ اور عام لوگوں کو خطاب کر کے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ (یا ایہاالناس اتقو ربہم) گویا کہ یہ ایک ہی لَے کے دو سُر ہیں۔ رہا سوال سورۂ بقرہ سے ربط، تو سورۂ بقرہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے سلسلے میں ہدایات دی گئی تھیں، اس سلسلے میں مزید رہنمائی کا سامان اس سورہ میں کیا گیا ہے۔ اس طرح سورہ کا رُخ تکمیلِ شریعت کی طرف ہے۔

 

آیت۔ ۱ کی حیثیت تمہید کی ہے۔ اس میں جو بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ اسلام کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے لئے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔

آیت۔ ۲ تا ۴۳ میں معاشرتی احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں مثلاً یتیموں کے حقوق، قرابت داروں کے حقوق، تقسیمِ وراثت کا ضابطہ، عورتوں کے حقوق، نکاح کے قوانین، جان و مال کا احترام وغیرہ۔ ان احکام کا اختتام نماز سے متعلق احکام پر ہوا ہے۔

آیت ۴۴ تا ۵۷ میں اہلِ کتاب کو ان کی گمراہیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔

آیت ۵۸ اور ۵۹ میں ایمان کے تقاضے پیش کئے گئے ہیں جو اسلامی حکومت اور اسلامی کے نظمِ اجتماعی سے متعلق ہیں۔

آیت ۶۰ تا ۷۰ میں منافقین کی روش پر گرفت کی گئی ہے اور انہیں فہمائش کرتے ہوئے دعوت فکر دی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کے سچّے وفا دار بن کر رہیں گے، انہیں آخرت میں کیسا بلند مقام حاصل ہو گا۔ آیت ۷۱ تا ۱۲۶ کا مضمون بھی اسی سیاق میں ہے منافقین قربانیوں سے جی چراتے تھے، خواہ وہ ہجرت کی راہ میں ہوں یا جہاد کی راہ میں، اس پس منظر میں ہجرت اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ قربانیاں اہلِ ایمان کے لئے باعثِ سعادت ہیں۔ ضمناً جہاد کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل۔ مثلاً صلوٰۃ خوف وغیرہ کے سلسلے میں احکام دئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی منافقین کی فتنہ سامانیوں اور مفسدانہ سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ہی صحیح اور سچا دین ہے۔

آیت ۱۲۷ تا ۱۷۵ کا مضمون سوری کا آخری حصّہ ہے۔ اس میں ان سوالات کے جوابات دئے گئے ہیں جو آغازِ سورہ میں بیان کردہ احکام کے سلسلے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے بعد آخر سورہ تک اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے ہدایات دی گئی ہیں اور منافقین اور اہلِ کتاب کو ان کی بعض گمراہیوں پر متنبّہ کرتے ہوئے اصلاح کی جان متوجّہ کیا گیا ہے۔

آیت ۱۷۶ ضمیمے کے طور پر ہے۔ اس میں وراثت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔

 

             ترجمہ

 

نوٹ: نشان ” *” سے تفسیری نوٹ کے نمبر شمار کی نشان دہی کی گئی ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو ۱* جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۲*  اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کر دیا۳*  اور ان دونوں سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۴*  اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے (حقوق) طلب کرتے ہو۵*  اور قطع رحمی سے بچو ۶* یقین جانو اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیموں ۷*  کا مال ان کے حوالہ کرو اور (ان کے) اچھے مال کو (اپنے) مال سے بد ل نہ ڈالو اور 4623نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھا جاؤ کہ یہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے۸*۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں ۹*  کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۱۰* ، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل۱۱* نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو یا پھر ان عورتوں پر جو تمہارے قبضہ میں آ گئی ہیں ۱۲*  بے انصافی سے بچنے کے لئے یہ زیادہ قرین صواب ہے

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے عطیہ۱۳* کے طور پر دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا مال جسے اللہ نے تمہارے لئے قیام (معیشت) کا ذریعہ ۱۴* بنا یا ہے نادانوں کے حوالہ نہ کرو۱۵* البتہ اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہنا تے رہو اور انکو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے بھلی بات کہو۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی ۱۶* عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ۱۷* پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالہ کر دو۔ اور اس خیال سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے ان کا مال اسراف کر کے جلدی جلدی کھا نہ جاؤ جو غنی ہو اس کو چاہئیے کہ پرہیز کرے اور جو حاجت مند ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے۱۸* پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرو تو اس پر گواہ بنا لو اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ۔ یہ حصہ مقرر ہے۱۹*۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تقسیم کے وقت قرابت دار، یتیم اور مسکین آ موجود ہوں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دو اور ان سے بھلی بات کہو۲۰*۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کو ڈرنا چاہئیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو ان کے معاملہ میں انہیں کیسا کچھ اندیشہ ہوتا ۲۱* لہٰذا انہیں چاہئیے کہ اللہ سے ڈریں اور درست بات کہیں۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ یتیموں کا مال ظلماً کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر تے ہیں عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا۲۲* (حکم دیتا) ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ۲۳* ہے۔ اگر صرف لڑکیاں ہوں، دو سے زیادہ تو ترکہ میں ان کا حصہ دو تہائی ہو گا۲۴* اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اسے نصف (ترکہ) ملے گا۲۵* اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۲۶*۔ اگر میت کے اولاد نہ ہوں اور صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا۲۷* اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۲۸*۔ یہ حصے میت نے جو وصیت۲۹* کی ہو اس کی تعمیل اور جو قرض ۳۰* چھوڑا ہو اس کی ادائے گی کے بعد تقسیم کئے جائیں۔ تم اپنے باپ اور بیٹوں کے بارے میں نہیں جانتے کہ مفاد کے لحاظ سے، کون تم سے قریب تر ۳۱* ہے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ یقین جانو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ۳۲*۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری بیویوں کے ترکہ میں تمہارا (شوہر کا) نصف حصہ ہے بشرطیکہ ان کے اولاد نہ ہو۔ اگر ان کے اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں تمہارا حصہ ایک چوتھائی ہو گا اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو انہوں نے چھوڑا ہو اور ان کے لئے (یعنی بیویوں کے لئے) تمہارے ترکہ میں چوتھائی حصہ ہے۔ بشرطیکہ تمہارے اولاد نہ ہو۔ اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا ۳۳*۔ اس وصیت کی تعمیل کے بعد، جو تم کر جاؤ اور اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو تم نے چھوڑا ہو۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے کلالہ ہو (یعنی نہ اس کے اولاد ہو اور نہ ہی والد ہی زندہ ہو) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے ۳۴* اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو کی گئی ہو یا اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو میت نے چھوڑا ہو بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۳۵*۔ یہ وصیت حکم) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم والا بھی ہے اور بہت بردبار بھی ۳۶*۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں ۳۷* اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے انہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے (مقرر کردہ) حدود سے تجاوز کرے گا، اسے وہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے ۳۸*۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ۳۹* ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو ۴۰* اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں روکے رکھو ۴۱* یہاں تک کہ موت ان کا وقت پورا کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ نکال دے ۴۲*۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں سے جو (مرد عورت) اس فعل کا ارتکاب کریں ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ ۴۳* ، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے درگزر کرو ۴۴* کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پر توبہ قبول کرنے کا حق تو انہی لوگوں کے لئے ہے جو نادانی میں کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ۴۵* ہیں ایسے ہی لوگوں کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی توبہ توبہ نہیں ہے جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہوتی ہے تو کہنے لگتے ہیں اب میں نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی توبہ حقیقت میں توبہ ہے جو کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں ۴۶*  ایسے لوگوں کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۴۷* اور نہ یہ جائز ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لینے کی غرض سے انہیں تنگ کرنے لگو الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں ۴۸*  ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو عجب نہیں کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں (تمہارے لئے) بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۴۹*۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو اور تم نے ایک بیوی کو ڈھیروں مال بھی دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ۵۰* کیا اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے ؟

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اسے کس طرح واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے زن و شوئی کا تعلق قائم کر چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۵۱* ؟

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں ۵۲* مگر جو کچھ اس سے پہلے ہو چکا سو ہو چکا ۵۳*۔ یہ بڑی بے حیائی اور نفرت کی بات ہے اور نہایت برا چلن ہے۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پر حرام کی گئیں ۵۴* تمہاری مائیں ۵۵* ، بیٹیاں ۵۶* ، بہنیں ۵۷* ، پھوپھیاں ، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو۵۸* ، تمہاری رضاعی بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں، تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جن سے تم نے مباشرت کی ہو لیکن جن بیویوں سے تم نے مباشرت نہ کی ہو، ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ۵۹*  اور (حرام کی گئیں تم پر) تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں ۶۰* ، نیز یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرو۶۱* مگر جو پہلے ہو چکا۶۲*۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں ۶۳* سوائے ان کے جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ آ گئی ہوں ۶۴* یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم ہے ۶۵* ان عورتوں کے علاوہ اور عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ اپنے مال کے ذریعہ انہیں قید نکاح ۶۶* میں لانا مقصود ہو نہ کہ شہوت رانی کرنا۔ پھر جن عورتوں سے تم (ازدواجی زندگی کا) فائدہ اٹھاؤ ان کو ان کے مہر فریضہ کے طور پر ادا کرو، مہر مقرر کرنے کے بعد اگر آپس کی رضامندی سے (کمی بیشی کی) کوئی بات طے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۶۷* یقیناً اللہ علیم و حکیم ہے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص تم میں سے آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو وہ ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے جو تمہارے قبضہ میں آ گئی ہوں، اور مؤمنہ ہوں۔ اللہ تمہارے ایمان کا حال بخوبی جانتا ہے۶۸*۔ تم سب ایک ہی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہو ۶۹*۔ لہٰذا ایسی عورتوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو اور معروف کے مطابق ان کے مہر ان کو ادا کرو۷۰*۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ان کو قید نکاح میں رکھا جائے نہ تو وہ شہوت رانی کرنے والی ہوں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کرنے والی۔ اگر قید نکاح میں آنے کے بعد وہ بدکاری کی مرتکب ہوں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے اس کی نصف سزا ان کے لئے ہو گی ۷۱* (لونڈیوں سے نکاح کی) یہ رخصت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۷۲* اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنے احکام واضح کرے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ۷۳* نیز وہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ متوجہ ہونا چاہتا ہے لیکن جو لوگ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے بھٹک کر دور جا پڑو۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کر دے اور (واقعہ یہ ہے کہ) انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۷۴*۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۷۵* البتہ باہمی رضامندی سے لین دین ہو سکتا ہے۷۶* اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۷۷* اللہ تم پر بڑا مہربان ہے ۷۸*۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا ہم اسے ضرور آگ میں جھونک دیں گے اور یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں ۷۹* سے جن سے تمہیں روکا جار ہا ہے بچتے رہے تو ہم تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو دور کریں گے اور تمہیں با عزت جگہ داخل کریں گے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے جس چیز میں ایک کو دوسرے پر فوقیت بخشی ہے اس کی تمنا نہ کرو۸۰* ، مردوں کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق (نتائج میں) حصہ ہے اور عورتوں کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق حصہ۔ البتہ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ یقیناً اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے والدین اور اقرباء میں سے ہر ایک کے ترکہ میں وارث مقرر کئے ہیں ۸۱* ۔ رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہیں تو ان کو ان کا حصہ دو ۸۲*۔ یقین جانو اللہ ہر چیز پر نگران ہے۸۳*۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد عورتوں کے سربراہ ہیں ۸۴*۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے نیز اس بنا پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں ۸۵*  اور اللہ کی حفاظت میں راز کی باتوں کی حفاظت کرتی ہیں ۸۶* اور جن عورتوں سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ، خوابگاہ میں انہیں تنہا چھوڑ دو اور انہیں زود و کوب بھی کر سکتے ہو۸۷*  پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو یقین جانو اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے متعلقین میں سے اور ایک حکم عورت کے متعلقین میں سے مقرر کرو۸۸* اگر دونوں صلح کرا دینا چاہیں گے تو اللہ دونوں (زوجین) کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو۸۹*  اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۹۰*۔ نیز قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، رشتہ دار ہمسایہ۹۱* ، اجنبی ہمسایہ، ہم نشین۹۲* ، مسافر اور لونڈی غلاموں ۹۳*  کے ساتھ جو تمہارے قبضہ میں ہوں حسن سلوک کرو۔ اللہ اترانے والے اور فخر کرنے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۹۴*۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کے لئے کہتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے ناشکری کرنے والوں کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ آخر پر اور جس کا ساتھی شیطان ہو ا تو کیا ہی برا ساتھی ہے یہ !

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا کیا بگڑتا اگر وہ اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے اور اللہ کے بخشے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ؟ اللہ ان کو خوب جانتا ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ذرہ برابر کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا اگر ایک نیکی ہو گی تو وہ اس کو کئی گنا کر دے گا اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۹۵*۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن (ان کا) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور تمہیں ان لوگوں پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے ۹۶*۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول کی نافرمانی کی تھی تمنا کریں گے کہ کاش ان کے سمیت زمین برابر کر دی جاتی وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !نشہ کی حالت۹۷* میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ یہ نہ جانو۹۸* کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت ۹۹* کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو الا یہ کہ رہ گزر میں ہو۱۰۰* اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۱۰۱* (مباشرت کی ہو) اور پانی میسر نہ آئے تو پاک زمین سے کام لو۔ اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کر لو۱۰۲*۔ بے شک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے۱۰۳*۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے۱۰۴* ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ۱۰۵* دیا گیا ہے وہ گمراہی مول لے رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہارے دشمنوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور اللہ رفاقت کے لئے بھی کافی ہے اور اللہ مدد کے لئے بھی کافی ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بات کو اس کی اصل جگہ سے پھیر دیتے ہیں اور دین پر طعن۱۰۶* کرنے کی غرض سے زبان کو تو ڑ مروڑ کر کہتے ہیں سمعنا و عصینا (ہم نے سنا اور خلاف ورزی کی)  اسمع غیر مسمع (سنئے اور نہ سن سکو) اور راعنا (اے ہمارے چروا ہے) ۱۰۷* اگر وہ سمعنا و اطعنا (ہم نے سنا اور اطاعت کی) اور اسمع (سنئے) اور انظرنا (ہماری طرف توجہ فرمائیے) کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، اور یہ بات بھی بالکل درست ہوتی لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے۱۰۸* اس لئے وہ کم ہی ایمان رکھتے ہیں۔ ۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی !ایمان لاؤ اس (کتاب) پر جو ہم نے نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس موجود ہے قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مسخ کر کے پیچھے پھیر دیں ۱۰۹*  یا ان پر بھی اسی طرح لعنت کریں جس طرح سبت والوں ۱۱۰* پر لعنت کی تھی اور اللہ کی بات تو پوری ہو کر رہتی ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ شرک۱۱۱* کو کبھی نہیں بخشے گا اس کے سوا دوسرے گناہوں کو جس کے لئے چاہے گا معاف کر دے گا۱۱۲* اور جو کوئی اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۱۱۳*۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کو پاکیزہ ٹھہراتے ہیں ۱۱۴* حالانکہ پاکیزگی اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور ان کے ساتھ ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ لوگ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور ان کے صریح گناہ گار ہونے کے لئے یہ ایک گناہ ہی کافی ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا یہ جبت۱۱۵* (اوہام و خرافات) اور طاغوت ۱۱۶* پر اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں  کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ اہل ایمان کے مقابلہ میں زیادہ صحیح راستہ پر ہیں ۱۱۷*۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے ان کا تم کوئی مدد گار نہ پاؤ گے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے قبضہ میں سلطنت کا کوئی حصہ آ گیا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں ۱۱۸* کو رتی برابر بھی نہ دیتے۱۱۹*۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر یہ لوگوں سے اس بنا پر حسد کر رہے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے۱۲۰* اگر یہ بات ہے تو (انہیں اس بات کو بھولنا نہیں چاہئیے کہ) ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت سے نوازا تھا اور عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی۱۲۱*۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کسی نے رو گردانی کی اور (رو گردانی کرنے والوں کے لئے) جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کافی ہے۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ان کو ہم آگ میں جھونک دیں گے اور جب کبھی ایسا ہو گا کہ ان کے بدن کی کھال پک جائے گی ہم اس کی جگہ دوسری کھال پید ا کر دیں گے تاکہ وہ (اچھی طرح) عذاب کا مزہ چکھیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زبردست قدرت والا ہے اور حکیم بھی ۱۲۲*۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کرینگے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی نیز انہیں ہم گھنی چھاؤ ں میں داخل کریں گے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں ۱۲۳* کو ان کے حقداروں کے حوالہ کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۱۲۴*  اللہ تمہیں بہترین باتوں کی نصیحت کرتا ہے یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر۱۲۵*  (صاحب اختیار) ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۱۲۶*  اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو یہ طریقہ باعث خیر بھی ہے اور بہتر نتیجہ کا موجب بھی ۱۲۷*۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کتاب تم پر ناز ل کی گئی ہے اس پر نیز تم سے پہلے ناز ل کی گئی تھی اس پر بھی وہ ایمان رکھتے ہیں ، لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کے لئے طاغوت۱۲۸*  (سرکشوں) کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں اس سے انکار کا حکم دیا گیا تھا اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر بہت دور لے جائے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس (حکم) کی طرف جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور آؤ رسول کی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تم سے کترانے لگتے ہیں ۱۲۹*۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس وقت ان کا کیا حال ہو گا جب کہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے ان پر مصیبت آ پڑے گی ؟ اس وقت وہ تمہارے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے کہ ہم تو بھلائی چاہتے تھے اور ہمارا مقصد تو (دونوں کے درمیان) موافقت پیدا کرنا تھا۱۳۰*۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ جانتا ہے تو ان سے صرف نظر کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جانے والی ہو ۱۳۱*۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے جو رسول بھی بھیجا اسی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۱۳۲*  اور یہ لوگ جب اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتے تھے اگر تمہاری خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی دعا کرتا ۱۳۳* تو یقیناً وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا پاتے۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر نہیں (اے پیغمبر !) تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ اپنے نزاعی معاملات میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اسے سر آنکھوں سے تسلیم کر لیں  ۱۳۴*۔ ۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہو تو ان میں سے چند کے سوا کو ئی بھی اس کی تعمیل نہ کرتا ۱۳۵* حالانکہ جس بات کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ی کا باعث اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتی۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں سیدھے راستہ پر چلاتے ۱۳۶*۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ۱۳۷*  یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے رفیق ہیں یہ  ۱۳۸* !

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کا علم کفایت کرتا ہے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنے ہتھیار سنبھالو اور جہاد کے لئے نکلو الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اکٹھے ہو کر ۱۳۹*۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں کوئی تو ایسا ہے جو ٹال مٹول کرتا ہے اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑی مہربانی کی کہ میں ان لوگوں کے ساتھ شریک نہ ہوا۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل ہوتا ہے تو گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تعلق ہے ہی نہیں کہنے لگتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا کہ مجھے بڑی کامیابی حاصل ہو جاتی ۱۴۰*۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اللہ کی راہ میں ان لوگوں کو جنگ کرنی چاہئیے ج دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے فروخت کر دیں ۱۴۱*  اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا پھر وہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اسے ضرور اجر عظیم عطا کریں گے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ان بے بس مرد، عورتوں اور بچوں کی خاطر فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں ۱۴۲*  اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنے پاس سے ہمارا کوئی مدد گار کھڑا کر۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ۱۴۳*  تو تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو۔ یقین جانو شیطان کی چال بالکل بودی ہوتی ہے۱۴۴*۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو ۱۴۵*۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے کوئی اللہ سے ڈر رہا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۱۴۶*۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب !تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کی۔ ہمیں کچھ اور مہلت کیوں نہ دی کہو دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے آخرت کہیں بہتر ہے اور تمہارے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی ۱۴۷*۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جہاں کہیں ہو موت تم کو پالے گی خواہ تم مضبوط قلعوں ہی میں کیوں نہ ہو۱۴۸* اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری وجہ سے ہے۔ کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھ نہیں  پاتے۱۴۹*۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (در حقیقت) تمہیں جو فائدہ بھی پہنچتا ہے اللہ ہی کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو نقصان پہنچتا ہے وہ تمہارے اپنے نفس کے بہ سبب پہنچتا ہے۱۵۰* اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسو ل بنا کر بھیجا ہے اور اس پر اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۱۵۱*۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۱۵۲* اور جو رو گردانی کرتا ہے تو ہم نے تم کو ایسے لوگوں پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے ۱۵۳*۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ (زبان سے تو) کہتے ہیں ہم نے اطاعت قبول کی لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ تمہاری باتوں کے خلاف رات کو مشورے کرنے لگتا ہے ۱۵۴* اللہ ان کی یہ سرگوشیاں لکھ رہا ہے تو ان کی باتوں پر دھیان نہ دو اور اللہ پر بھروسہ رکھو کہ کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ اس میں بہ کثرت اختلاف پاتے۱۵۵*۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان کے پاس امن یا خطرہ کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں اگر یہ اسے رسول کے سامنے اور اصحاب امر (حکم و اختیار والے) کے سامنے پیش کرتے تو جو لو گ ان میں سے بات کی تہہ تک پہنچنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے۱۵۶* اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے چل پڑتے۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو (اے پیغمبر !) اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنے نفس کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں اور مؤمنوں کو (جنگ کی) ترغیب دو۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے۔ اللہ بڑا زور آور ہے اور سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اچھی بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا۱۵۷* اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب کوئی تمہیں دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے تو تم بھی اس کے جو اب میں بہتر کلمات کہو یا کم از کم ان ہی کلمات کو لوٹاؤ۱۵۸* اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ ضرور تمہیں جمع کرے گا اور کون ہے جس کی بات اللہ سے زیادہ سچی ہو؟

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا بات ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے۱۵۹* ہو حالانکہ اللہ نے انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے الٹا پھیر دیا ہے۱۶۰* کیا تم ایسے لوگوں کو ہدایت دینا چاہتے ہو، جن کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہے (یاد رکھو) جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ کافر ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ۱۶۱*  تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ لہٰذا ان میں سے کسی کو تم اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں ۱۶۲* اور اگر وہ اس سے اعراض کریں تو انہیں جہاں کہیں پاؤ پکڑو اور قتل کرو ۱۶۳* اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مدد گار نہ بناؤ۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان کے جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اسی طرح وہ لوگ بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ لڑائی سے دل برداشتہ ہوں نہ تم سے لڑنا چاہیں اور نہ اپنی قوم سے۱۶۴*۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے۱۶۵*۔ لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کے لئے بڑھیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان کے خلاف اقدام کرنے کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تمہیں ملیں گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی بچ کر رہیں اور اپنی قوم سے بھی (لیکن ان کا حال یہ ہے کہ) جب کبھی فتنہ۱۶۶*  کی طرف پھیر دئیے جائیں اس میں گر پڑیں۔ اگر یہ تم سے کنارہ کش نہ رہیں اور تمہاری طرف صلح کے لئے ہاتھ نہ بڑھائیں اور جنگ سے اپنے ہاتھ نہ روکیں تو انہیں جہاں کہیں پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو۔ ان لوگوں کے خلاف ہم نے تمہیں کھلا اختیار دے دیا ہے ۱۶۷*۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے الا یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جس شخص نے کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو اسے چاہئیے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے۱۶۸*  اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ۱۶۹* الا یہ کہ وہ (خون بہا) معاف کر دیں لیکن اگر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور وہ خود مومن ہو تو ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرنا ہو گا اور اگر وہ کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو خون بہا بھی دینا ہو گا اور ایک مومن کو بھی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا ۱۷۰* جسے یہ میسر نہ ہو وہ دو ماہ تک متواتر روزے رکھے۱۷۱*  توبہ کا یہ طریقہ اللہ کا مقرر کیا ہوا ہے۱۷۲* اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس شخص نے کسی مومن کو قصداً قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت ہوئی اور ایسے شخص کے لئے اس نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۱۷۳*۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے محض اس بنا پر کہ دنیوی زندگی کا فائدہ مطلوب ہے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں ہے۱۷۴* (تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ کے پاس بہ کثرت اموال غنیمت ہیں۔ تمہارا حال بھی تو پہلے ایسا ہی تھا لیکن اللہ نے تم پر فضل فرمایا ۱۷۵*۔ لہٰذا تحقیق کر لیا کرو تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مومنوں میں بلا عذر بیٹھ رہنے والے اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں اللہ نے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجہ کے اعتبار سے فضیلت بخشی ہے اور دونوں ہی سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۱۷۶* مگر مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی طرف سے درجے ہیں اور مغفرت و رحمت اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم ڈھایا ہے ان کی جان جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ اس میں ہجرت کر جاتے ؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے ۱۷۷*۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ وہ بے بس مرد، عورتیں اور بچے جو نہ تو کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ (ہجرت کی کوئی) راہ پاتے ہیں۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کو امید ہے کہ اللہ معاف کر دے گا اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۱۷۸* اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اسے موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا۱۷۹*۔ اللہ بہت بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم سفر میں نکلو تو نماز میں قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں تکلیف دیں گے ۱۸۰* کافر تو ہیں ہی تمہارے کھلے دشمن

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم (اے پیغمبر !) ان (مسلمانوں) کے درمیان موجود ہو اور نماز میں ان کی امامت کر رہے ہو تو چاہئے کہ ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو جائے اور اپنے ہتھیار لئے رہے جب وہ سجدہ کر چکے تو وہ تمہارے پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے تمہارے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے اور چاہئے کہ وہ اپنی حفاظت کا سامان اور اپنے اسلحہ لئے ہوئے ہو ۱۸۱*۔ کافر چاہتے ہیں کہ تم اپنے اسلحہ اور سامان (جنگ) سے ذرا بھی غافل ہو تو وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں۔ البتہ اگر بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تم اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو پھر بھی اپنی حفاظت کے سامان لئے رہو ۱۸۲*۔ یقین جانو اللہ نے کافروں کے لئے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ۱۸۳* اور جب اطمینان کی حالت میسر آ جائے تو پوری نماز قائم کرو ۱۸۴* بیشک نماز اہل ایمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کر دی گئی ہے ۱۸۵*۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دشمنوں کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ۔ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو وہ بھی تمہاری ہی طرح تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو ۱۸۶* جس چیز کی امید وہ نہیں رکھتے۔ اللہ علم والا بھی ہے اور حکمت والا بھی۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ ناز ل کی ہے تاکہ جو حق اللہ نے تمہیں دکھایا ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو ۱۸۷*۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ سے مغفرت مانگو بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کی وکالت نہ کرو جو اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو بد دیانت اور معصیت کیش ہوں۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگوں سے چھپتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپ سکتے۔ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ وہ رات کو اس کی مرضی کے خلاف مشورے کر رہے ہوتے ہیں ۱۸۸* وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ تم ہو کہ دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑا کر لیا لیکن قیامت کے دن کون ہو گا جو ان کی طرف سے اللہ سے جھگڑا کرے گا یا کو ن ان کا ذمہ دار بنے گا ۱۸۹* ؟

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہو یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور پھر اللہ سے بخشش مانگے تو وہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا ۱۹۰*۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص بھی برائی کماتا ہے اس کی کمائی کا وبال اسی پر ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکمت رکھنے والا ہے۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جس شخص نے کسی گناہ یا جرم کا ارتکاب کر کے اس کا الزام کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا ۱۹۱*۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تی تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں غلط راستہ پر ڈال دینے کا قصد کر ہی لیا تھا حالانکہ یہ اپنے ہی کو غلط راستہ پر ڈال رہے ہیں۔ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ نے تم پر کتاب و حکمت نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا اللہ کا تم پر بہت بڑا فضل ہے۱۹۲*۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۱۹۳*۔ ہاں جو شخص پوشیدگی میں صدقہ یا بھلی بات یا لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کے لئے کہے تو اس میں ضرور بھلائی ہے۱۹۴*۔ اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسے کام کرے گا اسے ہم اجر عظیم سے نوازیں گے۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مؤمنین کی راہ کو چھوڑ کر۱۹۵* کسی اور راہ کو اختیار کرے گا ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جس کی طرف وہ پھر ا اور اسے جہنم میں داخل کرینگے جو بہت بری جگہ ہے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اس بات کو ہر گز نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک۱۹۶* ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہے گا بخش دے گا۱۹۷* اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ بھٹک کر بہت دور جا پڑا۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اس کو چھوڑ کر دیویوں کو پکارتے ہیں ۱۹۸* اور (حقیقت یہ ہے کہ) یہ شیطان سرکش ہی کو پکارتے ہیں ۱۹۹*۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اس پر لعنت فرمائی ہے۲۰۰* اس نے (اللہ سے) کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقر رہ حصہ لے کر رہوں ۲۰۱*  گا۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ضرور ان کو بہکاؤں گا، ان کو امیدیں ۲۰۲* دلاؤں گا، انہیں حکم دوں گا تو وہ جانوروں کے کان چیریں گے۲۰۳* اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی، ساخت میں تبدیلی کریں گے۲۰۴* اور جس نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنا لیا وہ صریح تباہی میں پڑ گیا۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ان سے وعدے کرتا اور امیدیں دلاتا ہے اور شیطان کے وعدے تو سراسر فریب ہیں۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ اس سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ پائیں گے۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں رواں ہوں گی وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بڑھ کر کو ن اپنی بات میں سچا ہو سکتا ہے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نجات) نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو کوئی برائے کرے گا اس کا بدلہ پائے گا ۲۰۵* اور پھر اللہ کے مقابلہ میں نہ اسے کوئی حامی ملے گا اور نہ مددگار۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مؤمن تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دین کے معاملہ میں اس سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو اللہ کے حوالہ کر دیا اور وہ نیکو کار بھی ہے اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی جو راست رو تھا اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا مخلص دوست۲۰۶* بنا لیا تھا۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۲۰۷*۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۲۰۸*  کہو اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے نیز (ان احکام کی یاد دہانی کراتا ہے) جو تمہیں کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں سنائے جا رہے ہیں ۲۰۹* وہ یتیم لڑکیاں جنہیں تم ان کا مقر رہ حق نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو ۲۱۰* اسی طرح بے سہارا بچوں کے بارے میں جو احکام دئیے گئے ہیں ۲۱۱* (ان کی بھی یاد دہانی کراتا ہے) نیز اس حکم کی بھی کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کرو ۲۱۲* اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ دونوں باہم صلح کر لیں اور صلح کرنا ہی بہتر ہے ۲۱۳*۔ طبیعتیں تنگ دلی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں ۲۱۴* لیکن اگر تم اچھا سلوک ۲۱۵* کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقین جانو تم جو کچھ کرو گے اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم عورتوں کے درمیان عدل کرنا چاہو بھی تو پورا پورا عدل نہیں کر سکتے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہئیے کہ ایک ہی کی طرف جھک پڑو اور دوسری کو اس طرح چھوڑ دو کہ گویا وہ معلق ہے اور اگر تم معاملہ درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۲۱۶*۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو (دوسرے سے) بے نیاز کر دے گا ۲۱۷*۔ اللہ بڑی وسعت والا اور بڑی حکمت والا ہے۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات اللہ ہی کی ملک ہیں تم سے پہلے جن کو کتاب دی گئی تھی انہیں بھی ہم نے یہ ہدایت کی تھی اور تمہیں بھی یہ ہدایت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو گے تو (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے۔ اللہ بے نیاز اور کمالات سے متصف ہے۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے۲۱۸* اور کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم کو ہٹا دے اور (تمہاری جگہ) دوسروں کو لے آئے اللہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص دنیا کے اجر کا طالب ہو تو (اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں کا اجر ہے۲۱۹* اور اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے اور اللہ کی خاطر گواہی دینے والے بنو اگر چہ یہ گواہی خود اپنی ذات، تمہارے والدین اور تمہارے قرابت داروں کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتی ہو۲۲۰*۔ اگر کوئی امیر ہے یا غریب ہے تو اللہ کا حق ان پر سب سے زیادہ ہے۲۲۱* لہٰذا خواہشات کی پیروی میں عدل سے گریز نہ کر و اور اگر تم نے گول مول کہا یا پہلو تہی کی تو یاد رکھو اللہ تمہاری کاروائیوں سے باخبر ہے۲۲۲*۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !ایمان لاؤ۲۲۳* اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے اور جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخر سے کفر۲۲۴* (انکار) کیا وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا اور نہ ان کو راہ دکھائے گا۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو مؤمنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنا تے ہیں کیا وہ ان کے پاس عزت کے خواہاں ہیں ؟ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے ۲۲۵*۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی کتاب میں تم پر یہ ہدایت نازل کر چکا ہے۲۲۶* کہ جن تم سنو (یا دیکھو) کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ نہ جائیں ورنہ تم بھی ان ہی جیسے ہو جاؤ گے۲۲۷* اللہ سب منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ تمہارے معاملہ میں نتیجہ کے منتظر ہیں اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح نصیب ہو جائے تو کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری ہو جائے تو کہیں گے کیا ہم تم پر غالب نہ آ گئے تھے ؟ پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچا لیا تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور اللہ کافروں کے لئے مؤمنوں پر غالب آنے کی ہر گز کوئی سبیل نہ رکھے گا۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں ۲۲۸* حالانکہ اللہ ہی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ محض لوگوں کو دکھانے کے لئے۲۲۹* اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۲۳۰*۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں کے درمیان ڈانواں ڈول ہیں نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف اور جسے اللہ بھٹکائے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے ۲۳۱*۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اہل ایمان کے بجائے کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۲۳۲*۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح حجت قائم کر لو؟

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ۲۳۳*  میں ہوں گے اور تم ان کا کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں اور اللہ سے اپنا تعلق استوار کریں اور اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر دیں ۲۳۴*  ایسے لوگ ضرور مؤمنین کے ساتھ ہوں گے اور اللہ مؤمنوں کو ضرور اجر عظیم عطاء فرمائے گا۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم شکر کرو۲۳۵*  اور ایمان لاؤ تو اللہ کو تمہیں عذاب دے کر کیا کرنا ہے ؟ اللہ بڑا قدردان۲۳۶*  ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو یہ بات پسند نہیں کہ (تم کسی کی) برائی کے لئے زبان کھولو الّا یہ کہ کسی پر ظلم ہو ا ہو۲۳۷*  (اور وہ اس کی مذمت کرے) اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۲۳۸*۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو یا چھپا کر کرو یا کسی برائی سے درگزر کرو تو (دیکھو) اللہ معاف کرنے والا ہے (جبکہ وہ سزا دینے پر) پوری قدرت رکھتا ہے ۲۳۹*

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بین بین کو ئی راہ اختیار کریں۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں ۲۴۰* اور کافروں کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی ان کو وہ ضرور ان کا اجر دے گا۲۴۱* اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۲۴۲*۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر !) اہل کتاب تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرا دو، وہ اس سے بھی بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اللہ کو کھلم کھلا دکھلا دو اور ان کی ظالمانہ حرکت کی وجہ سے کڑک (بجلی) نے انہیں پکڑ لیا تھا ۲۴۳* پھر باوجودیکہ واضح نشانیاں ان کے پاس آ چکی تھیں انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ۲۴۴* پھر بھی ہم نے (ان کی) اس حرکت سے در گزر کیا اور موسیٰ کو صریح حجت عطا کی۲۴۵*۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ان سے عہد لینے کے لئے (کوہ) طور ان پر کھڑا کیا تھا ۲۴۶* ، اور حکم دیا تھا کہ دروازے میں سجدے کرتے ہوئے داخل ہو۲۴۷* ، اور ہدایت کی تھی کہ سبت کی خلاف ورزی نہ کرو ۲۴۸* اور ہم نے ان سے شریعت کی پابندی کا پختہ عہد لیا تھا۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان کی عہد شکنی کی وجہ سے (ہم نے ان پر لعنت کی) ۲۴۹* اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ۲۵۰* اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے نیز کہا کہ ہمارے دل بند ہیں ۲۵۱* حالانکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (وہ ملعون ہوئے) اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور مریم پر بہت بڑا بہتان لگایا ۲۵۲*۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے اس دعوے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کر دیا۲۵۳*۔ حالانکہ نہ تو وہ قتل کر سکے اور نہ صلیب پر چڑھا سکے بلکہ (صورت واقعہ) ان پر مشتبہ ہو گئی۲۵۵*۔ اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ۲۵۶* وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو اس (حقیقت حال) کا کوئی علم نہیں ہے۔ بلکہ گمان کی پیروی کر رہے ہیں ۲۵۷* یقیناً انہوں ۲۵۸* نے اسے قتل نہیں کیا۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۲۵۹*۔ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۲۶۰*۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اہل کتاب میں سے ایسا کوئی نہ ہو گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے ۲۶۱* اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دے گا ۲۶۲*۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الغرض ۲۶۳* یہود کی ان ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے ہم نے کتنی ہی پاک چیزیں ان پر حرام کر دی ہیں جو (پہلے) ان کے لئے حلال تھیں اس وجہ سے بھی کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا ۲۶۴* اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریقہ سے کھانے لگے اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۲۶۵*۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ ان میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ ہیں ۲۶۶* اور جو ۲۶۷* مومن ہیں وہ اس (ہدایت) پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی یہ لوگ نماز قائم کرنے والے، زکوٰۃ ادا کرنے والے ۲۶۸* اور اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھنے والے ہیں ایسے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے۔

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے ۲۶۹* جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی اور ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد یعقوب۲۷۰* ، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی بھیجی تھی ۲۷۱*۔ نیز ہم نے داؤد کو زبور ۲۷۲* عطا کی تھی۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی بھیجی جن کا حال اس سے پہلے تم سے بیان کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا ۲۷۳* اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ فی الواقع کلام کیا جاتا ہے۲۷۴*۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب رسول خوش خبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے کوئی عذر نہ رہ جائے۲۷۵*۔ اللہ غالب بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اس کے با وجود اگر یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے۲۷۶* اور فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں گو اللہ کی گواہی کافی ہے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا اور اللہ کے راستے سے روکا وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم ڈھایا اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا۔

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجز جہنم کی راہ کے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لئے ایسا کرنا بالکل آسان ہے۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو !یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آ گیا ہے۔ ایمان لاؤ تمہارے حق میں بہتر ہو گا اور اگر کفر کرتے ہو تو (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہل کتاب!اپنے دین میں غلو نہ کرو ۲۷۷* اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۲۷۸*۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کے رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے، جس کو اللہ نے مریم کی طرف القا کیا اور اس کی جانب سے ایک روح ہے ۲۷۹* پس تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں ۲۸۰* باز آ جاؤ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی ایک خدا ہے۔ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کے اولاد ہو۔ آسمانوں اور زمینوں کی ساری چیزیں اسی کی ہیں اور ان کی خبر گیری کے لئے اللہ کافی ہے۲۸۱*۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح کو ہر گز اس بات سے عار نہیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب فرشتوں کو اس سے عار ہے اور جو کوئی اس کی بندگی کو عار سمجھے گا اور تکبر کرے گا تو وہ وقت دور نہیں جب اللہ سب کو اپنے حضور جمع کرے گا۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور جنہوں نے نیک عمل کئے تھے پورا پورا اجر دے گا اور اپنے فضل سے مزید عطا فرمائے گا برخلاف اس کے جنہوں نے اس کی بندگی کو عار سمجھا تھا اور تکبر کیا تھا ان کو وہ درد ناک سزا دے گا اور وہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کو اپنا دوست یا مددگار نہ پائیں گے۔

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح حجت آ گئی ہے۲۸۲* اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین ۲۸۳* نازل کیا ہے۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں گے اور اس کو مضبوط پکڑ لیں گے انہیں وہ اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور اپنی طرف راہ راست کی ہدایت بخشے گا۲۸۴*

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں ۲۸۵*  کہو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۲۸۶* اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو۲۸۷* تو اسے اس کے ترکہ کا نصف ملے گا اور (اگر بہن مر جائے اور بھائی زندہ ہو تو) وہ اس بہن کا وارث۲۸۸* ہو گا بشرطیکہ اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو اگر بہنیں دو ہوں تو وہ اس کے تر کہ کا دو تہائی پائیں گی۲۸۹* اور اگر کئی بھائی بہن ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا ۲۹۰* اللہ تمہارے لئے (احکام) واضح فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ اور (یاد رکھو) اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

 

                   تفسیر

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ میں جو انسانی حقوق اور جو معاشرتی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ان کے لئے یہ ہدایت بمنزلۂ اساس کے ہے اور یہ واقعہ ہے کہ سچی خدا خوفی انسان کے اندر انسانیت پیدا کرتی ہے اور اسے دوسرے انسانوں کے حقوق ادا کرنے اور بالخصوص کمزور طبقات کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرنے پر آمادہ کرتی ہے جو جو لوگ مذہب بیزاری کی بنا پر خدا خوفی کو بے وقعت قرار دیتے ہیں اور پھر انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے منصوبے بناتے ہیں وہ ہوا میں قلعے تعمیر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے میں بالکل ناکام ہیں جو انسانیت کے سچے بہی خواہ، ان کے حقوق کے محافظ، اور فرض شناس ہوں بخلاف اس کے قرآن کی اس ہدایت کو جس نے بھی اپنایا یعنی خدا خوفی اپنے اندر پیدا کر لی وہ واقعی انسانیت کا علمبردار بنا۔ قرآن نے ہر دور میں اس کی بہترین مثالیں پیش کیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے چنانچہ آج بھی انسانیت نوازی کا حقیقی وصف ان ہی لوگوں کے اندر ملے گا جنہوں نے قرآن کی اس تعلیم خدا خوفی کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آدم سے جو تمام انسانوں کے باپ ہیں۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حوا کی پیدائش آدم ہی سے ہوئی۔ قرآن کا یہ بیان کہ تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حوا کی پیدائش آدم سے ہوئی تھی اگر حوا کی پیدائش علیحدہ سے ہوئی ہوتی تو کہا جاتا کہ تم کو دو جان سے پیدا کیا۔ رہی حوا کی پیدائش کی تفصیلی کیفیت تو وہ نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ حدیث میں اس لئے ہمیں قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کرنا چاہئیے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں دو اہم حقیقتیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ تمام انسانوں کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا ہے اور وہی ان کا رب بھی ہے دوسرے یہ کہ نسل انسانی کا آغاز ایک ہی شخص آدم سے ہوا ہے اس لئے تمام انسان خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کالے ہوں یا گورے اور خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملک میں پیدا ہوئے ہوں ایک ہی باپ آدم اور ایک ہی ماں حوا کی اولاد ہیں اس لئے ان میں انسان ہو نے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے سب یکساں احترام کے مستحق ہیں اور سب کے حقوق کا پاس و لحاظ کیا جانا چاہئیے۔

بنی نوع انسان کے بارے میں قرآن کی یہ اصل عظیم ذات پات کے تصور کو باطل قرار دیتی ہے۔ نیز اس مشرکانہ تصور کی بھی جڑ کاٹ دیتی ہے کہ اونچی ذات دیوتاؤں کی نسل سے ہے اور نچلی ذات (شودر) راکشسوں کی نسل سے۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جبکہ دوسرے سے ہمدردی، انصاف، اور ادائے گی حقوق کے لئے خدا ہی کے نام پر اپیل کرتے ہیں یہ گویا انسان کے وجدان کی پکار ہے کہ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے اور اس کی عظمت کا تصور ہی انسان کو دوسرے کے حقوق کی ادائے گی پر آمادہ کرتا ہے۔ قرآن وجدان کی اس پکار کی تصدیق کرتا ہے اور باہمی حقوق کی ادائے گی کے لئے خدا خوفی ہی کو بنیاد قرار دیتا ہے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قطع رحمی سے بچنے کی ہدایت جس تاکید کے ساتھ یہاں کی گئی ہے اس سے اس کا زبردست گناہ ہونا بھی واضح ہوتا ہے اور صلۂ رحمی اور قرابت داری کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ حدیث میں نہایت مؤثر طریقہ پر صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے اور رشتہ داری کے تعلقات کو خراب ہونے سے روکا گیا ہے۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے : الرحم شجنۃ من الرحمن فقال اللّٰہ من وصلک وصلۃ ومن قطعک قطعتہٗ رحم رحمن سے مشتق ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو تجھے جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا میں اس سے کٹ جاؤں گا ” (مشکوٰۃ بحوالہ بخاری)

لا یدخل الجنۃ قاطع رحم” قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا ” (مسلم)

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم بچے سوسائٹی کا سب سے کمزور طبقہ ہیں۔ باپ کا سہارا اٹھ جانے کی وجہ سے وہ بے سہارا ہوتے ہیں اس لئے ان کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت اولین اہمیت کے ساتھ اور بڑے تاکید ی انداز میں دی گئی ہے۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم کے مال کو الگ رکھنا ضروری ہے۔ اس میں خرد برد گناہ کبیر ہ ہے اور سرپرست کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ یتیم کے مال سے فائدہ اٹھائے۔ اگر یتیم کا مال تجارت میں لگایا گیا ہو تو اس کا فائدہ اس یتیم ہی کو پہنچانا چاہئیے۔ رہا کھانے پینے میں اشتراک تو اس کی اجازت سورہ بقرہ ۲۲۰میں دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۲۱۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم اس نابالغ کو کہتے ہیں جس کے باپ کا انتقال ہو چکا ہو لیکن شرعاً اس کا اطلاق بالغ ہونے کے بعد بھی ہوتا ہے جب تک کہ سوجھ بوجھ کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ اس آیت میں لفظ یتامیٰ استعمال ہوا ہے جو یتیم کی جمع ہے اور مذکر و مونث دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ یہاں اس سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور خطاب اصلاً ان کے سرپرستوں سے ہے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم یتیم لڑکیوں کے سرپرست کی حیثیت سے یہ اندیشہ محسوس کرتے ہو کہ ان سے نکاح کی صورت میں ان کے حقوق ٹھیک طور سے ادا نہ کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے بشرطیکہ وہ محرمات میں سے نہ ہوں نکاح کر لو۔

زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ان کے سرپرست ان سے خود نکاح کر لیتے اور پھر ان کے ساتھ انصاف نہ کرتے۔ چنانچہ ان کے ورثہ پر وہ خود قابض ہو جاتے اور ان کا مہر وغیرہ بھی نہ ادا کرتے اس لئے ان کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان سرپرستوں کو اس شرط کے ساتھ دی گئی کہ وہ ان کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ انصاف کریں۔

تعدد ازواج کی جو اجازت دی گئی ہے وہ متعدد اخلاقی اور معاشرتی مصلحتوں پر مبنی ہے مثلاً بیواؤں کا مسئلہ حل کرنے کی غرض سے یا بے اولا دہو نے کی صورت میں یا بیوی کے دائم المریض ہونے کی بنا پر، یا مرد کا ایک بیوی پر قانع نہ ہونے کی صورت میں دوسرا نکاح کرنا۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے وجوہ نہایت معقول ہیں اور ان مصالح کی رعایت کرتے ہوئے شریعت نے ایک سے زائد عورتوں سے نکاح کی راہ کھلی رکھی ہے تاکہ آدمی غلط اور ناجائز طریقے اختیار کرنے سے بچے اور اس کی ضرورتیں جائز طریقہ سے پوری ہوں۔ زمانۂ جاہلیت میں تعدد ازواج کے لئے کوئی قید نہیں تھی لیکن قرآن نے اس آیت کے ذریعہ تعدد ازواج کو محدود کر دیا اور زیادہ سے زیادہ چار عورتوں تک نکاح کی اجازت دے دی اور وہ بھی عدل کی شرط کے ساتھ۔

واضح رہے کہ چار عورتوں کی حد تک نکاح کے جواز پر علماء کا اجماع ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہے کہ ایک سے زائد بیوی کی اجازت عدل کی شرط کے ساتھ مشروط ہے جو شخص اس شرط کو خاطر میں لائے بغیر ایک سے زائد نکاح کرتا ہے وہ اللہ کی اس عطا کردہ رخصت سے غلط فائدہ اٹھا تا ہے اور ایسے شخص کے لئے حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔

"من کانت لہ امر اتان یمیل لاحد اھما علی الاخریٰ جاء یوم القیامۃ یجرّ احد شقیّہ ساقطا او مائلا ” جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ صرف ایک کی طرف مائل ہو کر رہ جائے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک بازو گر رہا ہو گا اور وہ اسے گھسیٹ رہا ہو گا ” (اہل السنن)

اور عدل سے مراد کھانے پینے، رہنے سہنے اور شب باشی وغیرہ کے معاملہ میں تمام بیویوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا اور ان سب کے حقوق ادا کرنا ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نزول قرآن کے زمانہ میں لونڈیوں کا وجود تھا۔ اسلام نے ایک طرف ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دی نیز ان کو آزاد کرنے کے سلسلے میں کچھ ضابطے بھی بنائے اور دوسری طرف موجودہ لونڈیوں کو صنفی آوارگی سے بچانے کا بھی اہتمام کیا چنانچہ جن لوگوں کے قبضہ میں لونڈیاں تھیں ان کو ان سے تمتع کی اجازت دے دی لونڈیوں کے سلسلہ میں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ نوٹ ۶۴۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہر وہ عطیہ ہے جو شوہر بیوی کو عقد نکاح میں بندھ جانے پر دیتا ہے اس کی حیثیت لازمی عطیہ یا ہدیہ کی ہے جسے ساقط کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ ہے البتہ عورت کو اختیار ہے کہ وہ نکاح کے بعد اس کا جو حصہ چاہے معاف کرے۔ اسلام میں مہر عورت کی قیمت یا نکاح کا معاوضہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک شرعی فریضہ اور پر خلوص ہدیہ ہے جس سے مقصود زوجین کے درمیان الفت و محبت کے تعلقات پیدا کرنا اور عقد نکاح کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے واضح رہے کہ مہر عورت کا حق ہے نہ کہ اس کے باپ یا سرپرستوں کا۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال کو اللہ تعالیٰ نے قیام معیشت کا ذریعہ بنا یا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ آدمی اس کی قدر و منزلت پہچانے اسے ضائع ہونے سے بچائے بالخصوص یتیموں کا مال جس کی تحویل میں ہو وہ اس کی حفاظت اس طرح کرے کہ گویا وہ اس کا اپنا مال ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یتیم بچے ہیں اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ یتیموں کو ان کا مال حوالہ کرنے کی جو تاکید کی گئی ہے ا سکا یہ مطلب نہیں کہ مال کو نا سمجھ اور بے عقل بچوں کے حوالے کر دیا جائے بلکہ یتیم کے سرپرست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مال کو ضائع ہونے سے بچائے اور اس کی پوری پوری حفاظت کر ے۔ اس میں سے وہ یتیموں کے خورد و نوش اور لباس وغیرہ کی ضروریات پر خرچ کر سکتا ہے لیکن جب وہ بالغ ہو جائیں اور ان میں سوجھ بوجھ بھی پیدا ہو جائے تو ان کا مال ان کے حوالہ کیا جائے۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نکاح کی عمر سے مراد سن بلوغ کو پہنچنا ہے شرعاً اس کا اعتبار قدرتی نشوونما کے ظاہر ہو جانے پر کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک شادی کی عمر کا اعتبار لڑکے یا لڑکی کے سن بلوغ کو پہنچ جانے پر ہے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کے لئے ان کا سنِ بلوغ کو پہنچنا کا فی نہیں ہے بلکہ ان میں سوجھ بوجھ کا پایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مال کو ذمہ داری کے ساتھ خرچ کر سکیں۔ اگر کسی یتیم لڑکے یا لڑکی میں بالغ ہو جانے پر یہ اہلیت پیدا نہ ہوئی ہو تو مزید انتظار کرنا چاہئیے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کسی یتیم کا سرپرست محتاج ہو تو وہ یتیم کے مال میں سے ان کی خدمت کے تعلق سے بقدر احتیاج لے سکتا ہے البتہ اس سلسلہ میں معقول اور مناسب طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس قانون وراثت کی تمہید ہے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے یتیموں کے بعد دوسرا کمزور طبقہ عورتوں کا ہے جس کو وراثت سے محروم کیا جاتا رہا ہے چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہ ہوتا تھا اور نہ بچوں کو وراثت میں شریک کیا جاتا بلکہ صرف مرد وارث قرار پاتے۔ وراثت کے سلسلہ میں ان کا یہ تصور تھا کہ جنگ کرنے کی قابلیت مردوں ہی میں ہوتی ہے اس لئے وہی وراثت کے مستحق ہیں عورت اور بچے جنگ کے اہل نہیں ہیں اس لئے وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہئیے اس باطل تصور اور ظالمانہ قانون نے بیواؤں اور یتیم بچوں اور بچیوں کو وراثت سے یکسر محروم کر دیا تھا۔ اسلام نے جاہلیت کے اس قانون Customary Law کو باطل قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ مردوں کے پہلو بہ پہلو، عورتیں بھی وراثت میں شریک ہیں اسی طرح اسلام نے بچوں کو بھی وارث قرار دیا اور ان سب کے حصے مقرر کئے تاریخ میں سماج اور قانون کا اصلاح کا یہ زبردست کا کام تھا جو اسلام کے ہاتھوں انجام پا یا اور جس کے گہرے اثرات اقوام عالم کی سماجی زندگی پر مرتب ہوئے ورنہ عربوں کے علاوہ دیگر اقوام کا تصور بھی عورتوں کے بارے میں کچھ مختلف نہ تھا یہاں تک کہ غیر مہذب اقوام کے نزدیک عورت کی حیثیت بھی مال و جائیداد ہی کی تھی جس کو میراث سمجھ لیا جاتا تھا اس لئے ان کو میراث میں حصہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

Women do not inherit they are themselves the property of their husbands.  (Ency. of Religion & Ethnics Vol VII P.306) Women as inheritable property….many primitive people especially in Africa, regard wives and daughters as an important part of the estate to be transmitted in accordance with the regular rules of inheritance with the rest of the property. The explanation at is to be sought partly in the economic value of women either as workers or in the case of daughters, as potential wealth in the shape of a bride- price. Do P.290)

یہ آیت میراث کے سلسلہ میں اس قانون کو بھی واضح کرتی ہے کہ ترکہ بہرحال تقسیم ہونا چاہئیے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کم ہو اس کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ ہر قسم کے اموال پر ہو گا اور اگر کوئی چیز قابل تقسیم نہیں ہے تو اسے فروخت کر کے اس کی رقم تمام وارثوں میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دی جائے گی۔

آیت میں أقربون کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ قریب ترین رشتہ داروں کے ہیں اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ قریب ترین رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وارث نہیں ہو سکتے۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب ورثاء سے ہے انہیں ترغیب دی گئی ہے کہ رشتہ داروں میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کا از روئے شرع میراث میں حصہ نہ ہو لیکن وہ غریب اور ضرورت مند ہوں اسی طرح جو یتیم اور مسکین آ موجود ہوں انہیں میراث میں سے کچھ نہ کچھ دو اور اگر گنجائش نہ ہو تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی ضرور کرو۔

اس ہدایت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اگر یتیم پوتا وارث نہ قرار پاتا ہو اور دادا نے اس کے لئے وصیت بھی نہ کی ہو تو وارثوں کو چاہئیے کہ قرابت دار اور یتیم ہونے کی بنا پر اسے اس کے دادا کی وراثت میں سے کچھ نہ کچھ دیں اور اس کی دل جوئی کریں۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو یہ خیال کرنا چاہئیے کہ جس طرح دو مرد کے بچے یتیم ہوئے ہیں اسی طرح ان کے بچے بھی یتیم ہو سکتے ہیں یہ خیال انہیں یتیموں کی حق تلفی اور دل شکنی کرنے سے باز رکھے گا۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیات میں تقسیم وراثت کے احکام بیان ہوئے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وصیت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ نہایت مہتمم بالشان اور تاکیدی حکم ہے۔

نیز اس میں یہ بات مضمر ہے کہ سور ہ بقرہ کی آیت ۱۸۰میں اہل ایمان کو والدین اور اقرباء کے حق میں وصیت کرنے کا جو حکم مطلقاً دیا گیا تھا اس کو اس نے مقید کر دیا ہے اس لئے جن لوگوں کے حق میں اللہ نے وصیت فرما دی ہے یعنی ورثاء ان کے لئے وصیت کرنے کا کوئی سوال اہل ایمان کے لئے باقی نہیں رہتا یعنی اب وصیت صرف ایسے ہی رشتہ داروں کے حق میں کی جا سکتی ہے جو شرعاً وارث نہ قرار پاتے ہوں۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں لڑکے کا حصہ لڑکیوں کے مقابلہ دو گنا رکھا ہے جس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلہ میں فروتر ہیں اگر ایسا ہوتا تو کسی صورت میں بھی عورتوں کا حصہ مردوں کے برابر نہ رکھا جاتا۔ حالانکہ متعدد صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں کے مساوی رکھا گیا ہے۔ مثلاً میت کے اولاد ہونے کی صورت میں جہاں باپ کو ۶/۱ملے گا وہاں ماں کو بھی ۶/۱ملے گا اسی طرح میت کے ماں شریک بھائی بہن کا حصہ برابر رکھا گیا ہے۔

اصل میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے برابر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داری عورت پر نہیں بلکہ مرد پر ڈالی ہے وہ بیوی کی بھی کفالت کا ذمہ دار ہے اور بچوں کی کفالت کا بھی جبکہ عورت پر اپنی کفالت کا بوجھ بھی نہیں ڈالا گیا ہے مزید بر آں مرد پر عورت کے مہر کا بھی بار ڈالا گیا ہے ان ذمہ داریوں کے پیش نظر انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ مرد کا حصہ عورت کی بہ نسبت دو گنا رکھا جائے۔ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میت نے اپنے پیچھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی چھوڑی ہو تو دیگر ورثاء کو اگر کوئی ہوں ان کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکے کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ لڑکی کو ملے گا اور دو حصے لڑکے کو اور اگر کئی لڑکے لڑکیاں ہوں تو ان کے درمیان میراث اس طرح تقسیم ہو گی کہ ہر لڑکے کودو حصے اور ہر لڑکی کو ایک حصہ ملے گا اور اگر صرف لڑکے ہوں تو ان کے درمیان ترکہ برابر تقسیم ہو گا۔ واضح رہے کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ باپ کی موجودگی میں دادا وارث نہیں ہوتا۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میت نے اگر صرف لڑکیاں چھوڑی ہوں اور وہ دو سے زیادہ ہوں تو ان کا حکم یہ بیان کیا گیا ہے انہیں دو تہائی حصہ ملے گا یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے یعنی اگر میت نے صرف لڑکیاں چھوڑی ہوں اور وہ دو ہوں تو ان کو بھی دو تہائی ہی ملے گا۔ یہ بات فحوائے کلام سے واضح ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ جو فرمایا کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہو نے کی صورت میں لڑکے کو ۳/۲ملے گا اور لڑکی کو ۳/۱، لڑکے کا یہ ۳/۲ حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے یہ بات فحوائے کلام سے واضح تھی اس لئے دو سے زائد لڑکیوں کا حکم صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا مزید برآں آیت ۱۷۶میں دو بہنوں کا حصہ ۳/۲بیان کیا گیا ہے لہٰذا دو لڑکیوں کا حصہ بدرجۂ اولیٰ ۳/ ۲ ہو گا۔

دو لڑکیوں کے حصہ کا دو تہائی ہونا حدیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی بیوی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسو ل اللہ سعد کی یہ دو بیٹیاں ہیں ان کے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کے چچا نے ان کے پورے مال پر قبضہ کر لیا ہے اب ان سے نکاح کو ن کرے گا اس پر آیت میراث نازل ہوئی اور نبیﷺ نے ان بچیوں کے چچا کو بلا کر فرمایا کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی دے دو اور ان کی والدہ کو ۸/۱ اس کے بعد جو بچ جائے وہ تم لے لو۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص ۴۵۷)

ترکہ کا یہ ۳/۲حصہ تمام لڑکیوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جائے گا بقیہ ۳ /۱ کے حقدار دوسرے وارث ہوں گے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر میت نے صرف ایک لڑکی چھوڑی ہو اور اس کے ساتھ کوئی لڑکا نہ ہو تو لڑکی کو نصف میراث ملے گی اور بقیہ نصف کے حقدار دوسرے ورثاء ہوں گے

اس سے یہ حکم بھی ملتا ہے اگر صرف ایک لڑکا ہو تو وہ لڑکی کے دو گنا یعنی پور ے ترکہ کا وارث ہو گا البتہ اگر دوسرے ورثا مثلاً ماں باپ موجود ہوں تو ان کے حصے ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ پورا کا پورا لڑکے کو ملے گا۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اولاد خواہ ایک ہو یا زائد اور خواہ لڑکی ہو یا لڑکا بہر صورت میت کے والدین میں سے ہر ایک ۶ /۱ کا حقدار ہو گا والدین کا حق اولاد کے مقابلہ میں زیادہ ہے لیکن وراثت میں اولا دکا حصہ زیادہ اور والدین کا حصہ کم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ والدین ایک ایسی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں جب انہیں مال کی ضرورت زیادہ نہیں رہتی بخلاف اس کے اولاد اپنی عمر کے اعتبار سے مال کا زیادہ ضرورت مند ہوتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ تقسیم کتنی حکیمانہ ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی والدین کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو ماں کو ۳/۱ اور بقیہ حصہ باپ کو ملے گا۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میت کے اگر بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کو ۳/۱ کے بجائے ۶/۱ ملے گا اور بقیہ باپ کو ملے گا کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں واضح رہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا صرف باپ کے زندہ ہونے کی صورت میں اس کے بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملتا۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وصیت کرنے کا اختیار آدمی کو اپنی میراث کے ۳/۱ کی حد تک ہے جیسا کہ حدیث سے واضح ہے نیز کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے اور نہ ایسی وصیت نافذ ہو گی الا یہ کہ ورثا اس کی اجازت دیں ایک تہائی کی حد تک وصیت کی گنجائش اس لئے رکھی گئی ہے کہ قانون وراثت کی رو سے جن رشتہ داروں کو حصہ نہ ملتا ہو اور وہ مدد کے مستحق ہوں مثلاً یتیم پوتا یا پوتی یا بیوہ، بہو وغیرہ تو آدمی ان کے حق میں وصیت کر سکتا ہے اسی طرح دوسرے مستحقین کے حق میں یا کسی کار خیر میں صرف کرنے کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے۔ سورہ بقرہ نوٹ ۲۳۳بھی پیش نظر رہے)

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرض سب سے پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت کی تعمیل کی جائے گی اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔ وصیت کا ذکر قرض سے پہلے اس لئے کیا گیا ہے تاکہ اس معاملہ میں لوگ بے اعتنائی نہ برتیں کیونکہ وصیت بغیر کسی عوض کے ہوتی ہے جس کا ادا کرنا طبیعتوں پر بار ہوتا ہے بخلاف قرض کے کہ یہ ایک مسلمہ حق ہے جس کی ادائے گی واجب ہے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وراثت کے معاملہ میں انسان اپنے محدود علم کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا نہ وہ وارثوں کا صحیح طور سے تعین کر سکتا ہے اور نہ ان کے حصوں کا چنانچہ انسان نے آسمانی ہدایت سے بے نیاز ہو کر جب کبھی میراث کی تقسیم کا ضابطہ بنانا چاہا ہے جذباتیت کا شکار ہو کر غلط اور غیر منصفانہ فیصلے ہی کرتا رہا ہے اگر قدیم جاہلیت میں عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا تو جدید جاہلیت میں ان کو مردوں کے برابر لا کھڑا کر دیا گیا جبکہ دونوں کی ذمہ داریاں یکساں نہیں۔

نپولین نے جو سول کوڈ بنایا اس میں خونی رشتہ داروں کی موجودگی میں زوجین کو ایک دوسرے کی وراثت سے محروم کر دیا۔ ہندو کوڈ اولاد کی موجودگی میں باپ کا حصہ تسلیم نہیں کرتا البتہ ماں کے حصہ کا ضرور قائل ہے اور انڈین سکسیشن ایکٹ Indian Succession Act ۱۹۲۵ کی روسے اولاد کی موجودگی میں میت کے ماں باپ دونوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وراثت کی تقسیم کے مسئلہ میں انسان اپنی خواہشات اور وقت کے نظریات اور رجحّانات کا شکار رہا ہے اور جو ضابطے بھی اس سلسلے میں بنائے جاتے رہے ہیں وہ کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں بنائے گئے لیکن اسلام کا قانون علم الٰہی پر مبنی ہے اسلئے اس میں کمال درجہ کا توازن پایا جاتا ہے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی اسلئے اس کی تقسیم غلط نہیں ہو سکتی۔ تمہارے اپنے رجحّانات اور نظریات غلط اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو سکتے ہیں تمہارے حقیقی مفاد اور مصالح کو جاننے والا اللہ ہی ہے لہٰذا ہمیں اس کی شریعت کے صحیح ہونے پر یقین کرنا چاہئیے اور شرعی قوانین ہی کی پابندی قبول کرنا چاہئیے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میت کے اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کی بیوی کا حصہ ۴/۱ اور اولاد ہونے کی صورت میں ۸/۱ ہو گا اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو وہ سب اس ۴/۱ یا ۸/۱ میں برابر شریک ہوں گی۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ حکم اخیانی یعنی ماں شریک بھائی بہنوں کا ہے رہے سگے اور صرف باپ شریک بھائی بہن تو ان کا حکم اس سورہ کے آخر میں بیان ہوا ہے۔ اخیانی بھائی بہن کا حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اسے ۶/۱ ملے گا اور دویا دو سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو ۳/۱ میں وہ سب برابر کے شریک ہوں گے واضح رہے کہ میت کے اخیانی بھائی بہن اسی صورت میں حصہ پاتے ہیں جبکہ میت کے نہ اولاد ہو اور نہ باپ زندہ ہو۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وصیت اور قرض کے لئے قانون وراثت میں جو گنجائش رکھی گئی ہے اس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے مثلاً کوئی شخص شرعی وارثوں کے حقوق تلف کرنے کی غرض سے بے جا وصیت کر جائے یا اپنے ذمہ ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو اس قسم کی ضرر رسانی کو حدیث میں گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفتوں علم اور بردباری کا حوالہ دیا ہے جس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی شخص ان احکام وراثت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ اس کے حال سے اللہ باخبر ہے اور وہ محض اپنی بردباری کی بنا پر فوری طور سے سزا نہیں دے رہا ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے بچ سکے گا۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدود سے مراد قوانین اور ضابطے ہیں وراثت کے ان احکام کی حیثیت جو قرآن میں بیان کئے گئے ہیں قانون الٰہی Divine Law کی ہے جس کی پابندی لازماً اس کے بندوں پر عائد ہوتی ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وراثت کے احکام بیان کر نے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہے اس سے ان لوگوں کے جرم کی سنگینی واضح ہے جو اللہ کے مقرر کئے ہوئے قانون وراثت کو تبدیل کرنا چاہیں یا اسلامی ضابطۂ وراثت کیک جگہ کوئی اور ضابطۂ وراثت Succession Code لانا چاہیں یہ ان ہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے کوئی سروکار نہ ہو ور نہ کوئی مسلمان اس کی ہرگز جسارت نہیں کر سکتا۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زنا ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کوئی مسلمان عورت زنا کی مرتکب ہو تو اس کو اسی صورت میں سزا دی جا سکتی ہے جبکہ اس کا جرم چار مسلمان گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے۔ زنا کے لئے اسلام نے چار کی گواہی ضروری قرار دی ہے جبکہ دوسرے جرائم کے لئے دو کی گواہی کا فی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا وہ سنگین جرم ہے جس کے بعد انسان کی عزت و عفت باقی نہیں رہتی اور اس کی اخلاقی موت واقع ہو جاتی ہے اسی سنگین برائی کو کسی کی طرف منسوب کرنے میں ظاہر ہے سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو عورتیں زنا کی مرتکب ہوں اور ان کا یہ جرم چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے انہیں گھروں میں نظر بند رکھنے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے تاکہ وہ بدکاری سے باز آ جائیں۔ نیز انہیں اغوا وغیرہ کے خطرات سے بھی بچایا جا سکے۔ یہ حکم مخصوص حالات کے لئے ہے جس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زنا کی مرتکب عورتوں کی نظر بندی کا حکم مخصوص حالات کے لئے دیا گیا ہے رہا مستقل حکم تو وہ بعد میں ناز ل کیا جائے گا چنانچہ بعد میں یعنی ۰۶ھ میں سورہ نور میں سو کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی (سور ۂ نور آیت ۲) اس کا یہ مطلب نہیں کہ نظر بندی کا حکم منسوخ ہو گیا اگر ایسا ہوتا تو قرآن میں اس کی تلاوت باقی نہ رکھی جاتی۔ تلاوت جب باقی رکھی گئی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ حکم ان حالات کے لئے اب بھی باقی ہے جن میں مسلم معاشرہ اس پوزیشن میں نہ ہو کہ کوڑوں کی سزا نافذ کر سکے البتہ جو معاشرہ کوڑوں کی سزا نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہو اسے کوڑوں کی سزا ہی نافذ کرنا ہو گی اس آیت میں زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی جو شرط بیان کی گئی ہے وہ کوڑوں کی سزا کا حکم آ جانے کے بعد بھی باقی رکھی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن میں کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہے بعض احکام جو بادی النظر میں مختلف معلوم ہوتے ہیں ان میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ایک حکم ایک حالات کے لئے ہے اور دوسرا حکم دوسری طرح کے حالات کے لئے مثلاً ایک جگہ حکم دیا گیا ہے کہ کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور دوسری جگہ حکم دیا گیا ہے کہ ان سے جنگ کرو ظاہر ہے کہ یہ مختلف مراحل سے تعلق رکھنے والے احکام ہیں نہ کہ دوسرا حکم پہلے حکم کا ناسخ۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اذیت سے مراد ملامت، زجر و توبیخ اور اصلاح و تادیب کی حد تک مارنا ہے۔ تعزیر کا یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے جو زنا کے مرتکب ہوئے ہوں۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصلاح کی صورت میں خواہ وہ مرد ہو یا عورت اذیت پہنچانے سے احتراز کیا جائے گا لیکن عورت کو گھر میں روکے رکھنے کا جو حکم آیت ۱۵میں دیا گیا ہے وہ اذیت کے حکم کے علاوہ ہے اور اس کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں اس لئے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر جو توبہ کا ذکر ہوا ہے اس کی مناسبت سے توبہ کی حقیقت یہاں واضح کر دی گئی۔ توبہ کے معنی گناہ سے باز آنے اور اللہ کی اطاعت کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جو شخص نادانی میں یا جذبات و خواہشات سے مغلوب ہو کر گناہ کر بیٹھتا ہے مگر اس پر اصرار نہیں کرتا بلکہ اس پر نادم ہو کر اللہ کی طرف رجو ع کرتا ہے اور اس سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے ایسے شخص کی توبہ سچی توبہ ہے اور اسے قبول کرنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عمر بھر گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں اور اس سے باز نہیں آتے مگر جب موت کا فرشتہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ سے معافی مانگنے لگتا ہے ایسے لوگوں کی توبہ سچی توبہ نہیں ہے کیونکہ جب امتحان کی گھڑی ختم ہو گئی اور نتائج کے ظہور کا وقت آ گیا اس وقت توبہ کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں، لیکن جب موت آ جاتی ہے اور آدمی حقائق کو بے نقاب ہوتا دیکھنے لگتا ہے اس وقت اللہ سے معافی کا خواستگار ہو تا ہے کیونکہ وہ وقت آزمائش کا نہیں بلکہ نتائج کے رونما ہونے کا ہوتا ہے لہٰذا اگر معاملہ گناہ کا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ جلد اس سے باز آ جائے اور اگر اب تک اس کی روش کفر و انکار کی رہی ہے تو بلا تاخیر اپنا رویہ بدل دے اور ایمان لے آئے۔ معلوم نہیں کس کی موت کا وقت کب آ جائے اور توبہ کی مہلت ختم ہو جائے۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب جاہلیت میں یہ قبیح رواج چلا آ رہا تھا کہ مرنے والے کی بیویاں بھی میراث میں شامل سمجھی جاتیں۔ چنانچہ باپ کے مرنے پر بیٹا اپنی سوتیلی ماں کا وارث بن جاتا تھا اور اس سے زن و شوئی کے تعلقات قائم کر لیتا تھا۔ قرآن نے اس کو حرام قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ عورت متروکہ جائیداد نہیں ہے کہ اس پر میت کے ورثاء قبضہ کر لیں بلکہ وہ عدت ت گزارنے کے بعد آزاد ہے۔ شرعی حدود میں رہ کر جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک انقلابی نوعیت کی اصلاح تھی جو اسلام نے عورتوں کے سلسلہ میں کی۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بد چلنی کی مرتکب ہو نے کی صورت میں انہیں ایذا دینے کا حق تمہیں پہنچتا ہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض اس لئے کہ بیوی خوبصورت نہیں ہے یا اس میں کوئی اور نقص ہے اسے تنگ کرنا جائز نہیں اور نہ اسے چھوڑ دینا کوئی مناسب بات ہے۔ اگر وہ پاکدامن ہے تو اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنا چاہئیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں دوسری خوبیاں موجود ہوں جو ازدواجی زندگی کے لئے اہمیت رکھتی ہوں اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس کے حسن سیرت کی بناء پر اس رشتہ کو باعث خیر بنا دے لہٰذا رشتہ منقطع کرنے کے معاملے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہئیے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیوی کو جو مہر دیا گیا ہو نیز زوجیت کے تعلقات کی بناء پر اسے ہدیتہً جو کچھ دیا گیا ہو طلاق کی صورت میں شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں سے کسی چیز کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عقد نکاح کو پختہ عہد (میثاقِ غلیظ) سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اس کے ساتھ حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔ یہ کوئی معمولی رشتہ نہیں بلکہ نہایت محکم رشتہ اور مضبوط پیمان وفا ہے لہٰذا اگر مرد اپنی خواہش سے اس عہد کو ختم کر دینا چاہتا ہے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس لے لے خواہ وہ مہر ہو یا دوسرے تحائف۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باپ کے انتقال پر اپنی سوتیلی ماں سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کا جو رواج زمانہ جاہلیت سے چلا آ رہا تھا اس کو قرآن نے قطعاً ممنوع اور حرام قرار دیا۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قانوناً پچھلے رشتوں کی تحقیق نہیں کی جائے گی۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں قریب ترین رشتہ داروں سے نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے یہ حرمت انسانی فطرت کے اس تقاضے پر مبنی ہے کہ رشتہ داری کے یہ تعلقات محبت و شفقت کے اعلیٰ جذبات پر قائم ہونے چاہئیں۔ اس میں شہوانی جذبات کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئیے ورنہ اس سے انسانی سوسائٹی میں فساد عظیم برپا ہو گا۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں خواہ سگی ہو یا سوتیلی حرام ہی ہے اسی طرح باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہن خواہ سگی ہو یا باپ شریک یا ماں شریک سب یکساں طور سے حرام ہیں۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچہ کی پرورش جس عورت کے دودھ سے ہوئی ہے وہ اس کے بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے اس لئے اسلام نے اس رشتہ کا احترام ملحوظ رکھا۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے : "یحرم من الرضاعۃ مایحرم من النسب جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں ” (تفسیر ابن کثیر ص ۴۶۹ بحوالہ مسلم)

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیوی کی وہ لڑکی جو اس کے پہلے شوہر سے ہو اس کی حرمت اس صورت میں ہے جبکہ وہ مدخولہ بیوی سے ہو لیکن اگر وہ ایسی بیوی سے ہے جس سے محض نکاح ہوا تھا اور مباشرت سے پہلے اسے طلاق دی تھی تو اس کی لڑکی سے نکاح جائز ہے۔ رہا آغوش میں پلا ہوا ہونا تو یہ شرط کے طور پر نہیں ہے بلکہ رشتہ کی نزاکت کا احساس دلانے کے لئے ہے اگر سوتیلی لڑکی مدخولہ بیوی سے ہے تو وہ آدمی پر بہر حال حرام ہے خواہ اس نے اس کی گود میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قید نے متبنی (منہ بولے بیٹے) کی بیوی سے نکاح کو حرمت کے حکم سے خارج کر دیا ہے نکاح حرام صرف اس بیٹے کی بیوی سے ہے جو آدمی کے اپنے نطفہ سے ہو۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو بہنوں کو جمع کرنے کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ باہم رقابت میں مبتلا ہو جائیں گی اور اس سے رحمی رشتہ متاثر ہو گا اس لئے اس کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے یہی مفسدہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے میں ہے اس لئے حدیث میں نبیﷺ نے اس کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس حکم کے نزول سے پہلے جو ہو چکا سو ہو چکا اب اس سے باز آ جاؤ تو جو غلطیاں تم کرتے رہے ہو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو عورت کسی دوسرے کے نکاح میں ہو وہ حرام ہے کیونکہ عورت بیک وقت ایک مر د ہی کے نکاح میں ہو سکتی ہے دو مردوں کے نکاح میں نہیں ہو سکتی۔ چند شوہری Polyandryانسانی فطرت کے خلاف ہے اس لئے وحی الٰہی اسے ہمیشہ حرام قرار دیتی رہی ہے اس کا رواج اگر کہیں رہا ہے تو وحشیانہ قبائل میں یا پھر موجودہ ملحدانہ تہذیب اس کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آ گئی ہوں اور ان کے کافر شوہر دار الحرب میں موجو دہوں وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اس صورت میں ان کا سابقہ نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ غلاموں اور باندیوں سے متعلق اسلام کے احکام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھا جائے جن میں یہ احکام دئے گئے تھے۔ اس زمانہ میں اسیرانِ جنگ کو غلام اور باندی بنانے کا رواج بین الاقوامی سطح پر رائج تھا جیل کا رواج بہت کم تھا اور اسیران جنگ War prisoners کے لئے بڑے پیمانے پر قید و بند اور خورد و نوش کا انتظام کرنا بہت مشکل تھا اس لئے ان کو غلام بنا کر افراد کی تحویل میں دیا جاتا تھا ان حالات میں اسلام نے جو غلام بنانے کی نہیں بلکہ غلاموں کو رہا کر نے کی ترغیب دے رہا تھا اور اسے انسانیت کی بہت بڑی خدمت اور بہت بڑی نیکی قرار دے رہا تھا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اسیران جنگ کی حد تک گوارا کر لیا اگر چہ کہ عام ہدایت یہی تھی کہ جنگی قیدیوں کو یا تو احسان کے طور پر چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کیا جائے جیسا کہ سورہ محمد آیت ۴سے واضح ہے۔ نبیﷺ کے زمانہ میں جو جنگیں لڑی گئیں ان میں اسیران جنگ کے ساتھ بالعموم یہی معاملہ کیا جاتا رہا تاہم چونکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا جسے فوری طور سے بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق متعین کئے اور ان کے سلسلہ میں ضروری احکام دئیے اس سلسلہ کا ایک حکم یہاں بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں اور ان کو حکومت نے باقاعدہ طور پر مسلمان افراد کے قبضہ میں دیا ہو ان کے سابقہ نکاح جو کافر شوہروں کے ساتھ ہو چکے ہوں باقی نہیں رہیں گے اور جس شخص کے قبضہ میں ایسی عورت دی گئی ہو اس پر جہاں اس کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں اسے اس کے ساتھ تمتع کا حق بھی حاصل ہو گا نیز اسے یہ حق بھی ہو گا کہ وہ خود تمتع کرنے کے بجائے کسی ضرورت مند مسلمان کی زوجیت میں اسے دیدے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو گئی ہو لیکن جیسا کہ بعد والی آیت کے احکام سے ظاہر ہے کسی کو بھی اس بات کی ہرگز اجازت نہ ہو گی کہ وہ لونڈیوں کو قحبہ گری یا شہوت رانی کا ذریعہ بنائے۔ یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں جو پالیسی اختیار کی اس کے نتیجہ میں کتنے ہی لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور کتنوں ہی نے اسلامی سوسائٹی میں نہایت اونچا مقام حاصل کر لیا۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عائلی زندگی سے متعلق یہ احکام قانون الٰہی Divine Law کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی لازماً پابندی کی جانی چاہئیے۔ اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں قرآن کے عائلی قانون ہی کا نفاذ ہونا چاہئیے اس کے علاوہ کسی بھی عائلی قانون Family Law کے قابل قبول ہونے کا سوال مسلمانوں کے لئے پیدا ہی نہیں ہوتا۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "احصان ” استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اپنی رفیقۂ حیات بنا نے کے عزم کے ساتھ اپنی حفاظت میں لے لے اور عورت بھی اسی ارادہ کے ساتھ قید نکاح میں داخل ہو۔ کسی عورت سے وقتی اور عارضی تعلق پیدا کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس لئے مذکورہ شرط لگا کر قرآن نے متعہ کے اس مکروہ رواج کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میاں بیوی آپس کی رضامندی سے مقر رہ مہر میں کمی بیشی کر سکتے ہیں۔ اس ہدایت میں موجودہ غلو آمیز مہر کے مسئلہ کا حل موجود ہے۔ بعض برادریوں میں بڑی مہر باندھنا ایک رسم کے طور پر چلا آ رہا ہے جس کا منشاء محض "باندھنا ” ہوتا ہے تاکہ خاندان کی ناک اونچی رہے ورنہ شوہر کی مالی حیثیت بالعموم اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ چالیس تولہ سونا جیسی بھاری مقدار میں مہر ادا کرے اس لئے بالعموم اس کی ادائے گی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ جبکہ مہر کا اصل منشاء ادا کرنا ہے نہ کہ محض "باندھنا ” اس لئے جن کے ایسے رسمی مہر مقرر کئے جا چکے ہیں اور ان کی ادائے گی ان کے شوہروں کے بس کی بات نہ ہو وہ اپنی بیویوں کو اس پر نظر ثانی کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں اور باہمی رضامندی سے اس میں ترمیم ہو سکتی ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عزت و شرف کی اصل بنیاد ایمان ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی اپنے ایمان کی بنا پر آزاد عورت سے بہتر ہو۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نسل کے اعتبار سے سب ایک آدم و حوا کی اولاد ہیں خواہ آزاد ہوں خواہ غلام اس لئے لونڈی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈی سے نکاح کی صورت میں مہر لونڈی کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ ان کے مالکوں کو۔ بالفاظ دیگر مہر عورت کا حق ہے خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی۔ اس سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے لونڈیوں کو حق ملکیت عطا کر کے سوسائٹی میں ان کا مقام کتنا بلند کیا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قید نکاح میں آ جانے کے بعد اگر کوئی لونڈی زنا کی مرتکب ہو تو آزاد عورت کے لئے جو سزا مقرر کی گئی ہے یعنی سو کوڑے (سورہ نور آیت ۲) اس کی نصف سزا لونڈی کو بھی دی جائے گی۔ سزا میں یہ رعایت اس لئے رکھی گئی ہے کہ لونڈیوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورتوں کو حاصل تھا۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان لوگوں کے لئے ہے جو یہ اندیشہ محسوس کرتے ہوں کہ اگر انہوں نے نکاح نہیں کیا تو وہ معصیت میں مبتلا ہو جائیں گے جو لوگ یہ اندیشہ محسوس نہ کرتے ہوں ان کے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ دوسرے مالکوں کی لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی صورت میں مالک کے حقوق اور شوہر کے حقوق کو نباہنا مشکل تھا اس لئے اس قسم کے نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد انبیاء علیہم السلام اور صالحین کے طریقے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن عائلی زندگی کے لئے اس طریقہ کی رہنمائی کر تا ہے جو ہمیشہ سے خدا کے نبیوں اور نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ خد اسے سرکشی کرنے والے لوگ باپ دادا کی پیروی کے نام پر فاسد کلچر یا جدید تہذیب کے نام پر گمراہ کن نظریہ یا جدید سول کوڈ Modern Civil Code کے نام پر باطل قوانین کی طرف تمہیں بھٹکا کر لے جانا چاہتے ہیں۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان فطرۃ ً غیر ضروری اور غیر فطری پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا خود ساختہ شریعتوں اور من گھڑت رسموں کے بوجھ اتار پھینکنا ضروری ہے۔ اسلامی شریعت تکلفات سے پاک اور سادہ شریعت ہے جس میں انسان پر اتنا ہی بوجھ ڈالا گیا ہے جس کا انسان فطری طور پر متحمل ہو سکتا ہے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جن میں اخلاقی قباحت پائی جاتی ہو یا جنہیں شریعت نے ناجائز قرار دیا ہو۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لین دین حقیقی باہمی رضامندی سے ہونا چاہئیے جس لین دین میں دھوکا اور فریب جیسی چیزیں شامل ہوں وہ جائز نہیں۔ رشوت ستانی بھی باطل کی تعریف میں آتی ہے اس لئے کہ اس میں اخلاقی قباحت کا پایا جانا ایک حقیقت ہے اور اس میں دوسروں کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا اس کے ذریعہ کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصول مال کے لئے آدمی جب ناروا طریقے اختیار کرتا ہے تو اس غرض کے لئے قتل و خون سے بھی کام لینے لگتا ہے گویا قتل و خون کا نتیجہ ہے حصول مال کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے کا۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسی باتوں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی ہلا کت ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے گناہوں (کبائر) سے مراد وہ گناہ ہیں جن کی ممانعت میں نص صریح وارد ہوئی ہے اور جن کے ارتکاب پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حدیث میں نبیﷺ نے شرک، قتل نفس، والدین کی نافرمانی، شہادت زور، سود خوری، یتیم کا مال ہڑپ کر جانا، جہاد میں مقابلہ کے وقت بھاگ جانا اور اسی قسم کی دوسری باتوں کے گناہ کبیرہ ہو نے اور ان میں سے بعض کے اکبر الکبائر ہو نے کی صراحت کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کبائر ان چند گناہوں تک محدود ہیں بلکہ کبائر کی یہ چند مثالیں ہیں چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہ سات ہیں تو انہوں نے فرمایا سات کے مقابلہ میں سات سو ہو نا اقرب ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۴۸۶)

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں خلقی لحاظ سے فرق رکھا ہے دونوں میں طبعی طور پر مکمل یکسانیت نہیں ہے اور اس بنا پر ان کے حقوق و فرائض میں بھی شریعت نے فرق کیا ہے لہٰذا مردوں کا عورت بننے کی تمنا کرنا یا عورتوں کا مرد بننے کی خواہش کرنا اور اس تمنا اور خواہش کے زیر اثر ایک دوسرے سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نظام فطرت میں خلل پیدا کرنے کی کوشش ہے اور نتیجہ کے اعتبار سے بالکل بے سود ہے اسی طرح شریعت کے مقرر کردہ حقوق و فرائض سے انحراف کر کے مکمل مساوات کے نظریہ پر دونوں کے حقوق و فرائض کرنا شریعت اور فطرت دونوں سے ٹکر لینے کے ہم معنی ہیں اس لئے اس ذہنیت سے بچنے اور اللہ سے اس کا فضل طلب کرنے کی ہدایت اس آیت میں کی گئی ہے۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ تقسیم وراثت کے اس قانون کی طرف ہے جو آیت ۷میں بیان ہوا یہ آیت اس بات کو مزید مؤکد کر رہی ہے کہ اصل وارث وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان میں اپنی خواہشات کی بنا پر کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جانی چاہئیے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وارث تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں رہے وہ لوگ جن کو تم نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے تو ان کو اتنا دو جو جائز وصیت کے دائرہ میں آتا ہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں لو گ ایک دوسرے کی میراث کے حق دار بننے کا عہد و پیمان کرتے تھے اسلام نے اس طریقہ کو ختم کر کے اقرباء کو اصل وارث قرار دیا اور میراث میں صرف ایک تہائی کی حد تک وصیت کے لئے گنجائش رکھی۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر وراثت کے اس قانون سے تم نے انحراف کیا تو یہ بات اللہ سے پوشیدہ نہیں رہے گی۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے سربراہی کا مقام عطا کیا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ بیان فرمائی ہے کہ مرد کو، عورت پر اس کی فطرت اور قدرتی ساخت کے لحاظ سے نمایاں، فوقیت بخشی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اس ذمہ داری کے اٹھانے کا اہل ہے چنانچہ مرد حفاظت و نگرانی کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اور معاشی دوڑ دھوپ کی بھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب جس نے مساوات مردو زن کے غلو آمیز نظریہ کو پیش کیا، خاندان کے لئے سربراہ کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی زندگی، نظم Discipline سے محروم ہو گئی۔ جبکہ قوت، فعالیت اور حوصلہ کے لحاظ سے مرد کی عورتوں پر فوقیت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے:

Connected result of male superiority i.e. strength, activity and courage is the element of protection in male love, and of trust on the side of the female (ERE VIII , P.156)

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۳۷) ۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا :خیر النساء امراۃ اذانظرت الیھا سر تک واذا امرتھا اطاعتک واذا غبت عنھا حفظتک فی نفسھا ومالک بہترین عورت وہ ہے جسم تم دیکھو تو وہ تمہیں خوش کرے، جب اسے حکم دو تو وہ اطاعت کرے اور تمہاری غیر موجودگی میں اپنے نفس اور تمہارے مال کی حفاظت کرے (تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)

آیت سے اس وصف کا منفی پہلو بھی واضح ہوتا ہے یعنی اطاعت شعاری کے بر خلاف جو عورتیں مردوں کی نافرمانی کرنے والی ہوں اور عورت کے بجائے مرد بن کر رہنا چاہتی ہوں وہ صالحات نہیں بلکہ فاسقات ہیں۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نیک عورت مرد کے رازوں کی امین، اس کے گھر، اس کے مال اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تادیبی اختیارات ہیں جو مرد کو دئیے گئے ہیں اور یہ اسی صورت میں استعمال کر نے کے لئے ہیں جبکہ عورت سرتابی کرنے لگے، عورت کی طرف سے ہر قسم کی کوتاہی اور غلطی پر سخت قدم اٹھانا صحیح نہیں ہے زود و کوب کے سلسلہ میں حدیث میں ہدایت کی گئی ہے کہ اس طرح نہیں مارنا چاہئے کہ عورت کو تکلیف پہنچے یا اس کے جسم پر نشان پڑ جائے۔ عورت کو اخلاقی حدود میں رکھنے اور گھر کے نظام کو درست رکھنے کے لئے مرد کو ان اختیارات کا دیا جانا ضروری تھا لیکن اس کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے کہ مرد ان اختیارات کو من مانے طریقے پر Arbitrarilyاستعمال کرے۔ آیت کے آخر میں اللہ کی یہ صفت کہ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے کا حوالہ مرد کو یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ وہ اپنی قوامیت کے زعم میں عورت پر زیادتی نہ کرے بلکہ یاد رکھے کہ ایک بلند و بالا ہستی اس کے اوپر موجود ہے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زوجین کے درمیان نزاع کی صورت میں یہاں ایک آخری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہ تدبیر یہ ہے کہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں میں سے ایک ایک حکم مقرر کیا جائے اور یہ دونوں مل کر صلح صفائی کی کوشش کریں۔ عدالت کے مقابلہ میں یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ عدالت میں لے جانے کی صورت میں میاں بیوی کے مسائل منظر عام پر آ جاتے ہیں جو کوئی مناسب بات نہیں ہے نیز اس سے مصالحت کے امکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ رہا حکم (پنچ) کے اختیارات کا مسئلہ تو حکم کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں کو مل کر فیصلہ کرنے کا اختیار ہو گا یہ فیصلہ زوجین کو ملانے کا بھی ہو سکتا ہے اور ان کو جدا کر نے کا بھی اور جمہور علما اسی کے قائل ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص ۴۹۳)

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معاشرتی احکام کے خاتمہ پر اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کی ہدایت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تمام شرعی احکام کی اصل توحید ہے اور آدمی اسلام کے معاشرتی احکام پر صحیح طور پر اسی صورت میں عمل پیر ا ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ کی عبادت ٹھیک طور سے کر رہا ہو کیونکہ اللہ کی عبادت بشرطیکہ وہ شعور کے ساتھ ہو انسان کی خواہشات کے پیچھے چلنے اور جذبات کی رو میں بہنے سے روکتی ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے اس لئے کہ وہی پرورش کا ذریعہ بنے ان کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلو ک کیا جائے۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی حدیث میں بھی بڑی تاکید آئی ہے نبیﷺ نے فرمایا : مازال جبریل یو صینی بالجار حتی ظننت انہٗ سیورثہ جبرئیل مجھے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی برابر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ وہ اسے وارث قرار دیں گے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دوست ہے اور ایسا شخص بھی جس کا وقتی طور سے ساتھ ہو جائے مثلاً رفیق سفر، شریک تجارت، ہم سبق، کسی مجلس میں ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے وغیرہ ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہئیے کہ انہیں کوئی اذیت اور تکلیف نہ پہنچے اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کیا جائے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں نبیﷺ نے واضح فرمایا ہے کہ غلاموں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائے :۔

ھم اخوانکم خولکم جعلھم اللّٰہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفو ھم ممّا یغلبھم فان کلفتمو ھم فاعینو ھم یہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہئیے کہ جو کھانا وہ کھاتا ہے وہ اسے بھی کھلائے اور جو کپڑا وہ پہنتا ہے وہ اسے بھی پہنائے اور دیکھو ان پر اتنا بار نہ ڈالو جو ان کی برداشت سے باہر ہو اور اگر کوئی بھاری بوجھ ڈالو تو ان کی مدد کرو (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۴۹۵) (بحوالہ بخاری و مسلم) ۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اترانا اور فخر کرنا حسن سلو ک کے منافی ہے جو لوگ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اپنی قابلیت کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں ان کے اندر گھمنڈ اور فخر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ ذہنیت انہیں لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ نیک سلو ک کرنے سے باز رکھتی ہے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر نیک عمل کی جز ا اس کی جنس سے دوگنا ملے گی علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ خاص اپنی طرف سے بھی جزا عطاء فرمائے گا جس کی کوئی تحدید نہیں۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبیﷺ کو قرآن سناتے ہوئے اس آیت پر پہنچے تو نبیﷺ شدت تاثر سے آبدیدہ ہو گئے کیونکہ یہ آیت جہاں آپ کے لئے شرف کا باعث ہے وہاں وہ آپ پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہر پیغمبر کو یہ گواہی دینا ہو گی کہ اس نے اللہ کا دین بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے اور حضرت محمدﷺ کو بھی یہ گواہی دینا ہو گی اور قرآن صراحت کرتا ہے کہ آپ کی بعثت دنیا کے تمام اقوام کے لئے ہے اور آپ آخری نبی ہیں اس لئے آپ کی رسالت کا دور قیامت تک کے لئے ہے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ سکاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نشہ کی حالت میں اس سے معلوم ہوا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے خواہ وہ شراب ہو یا کوئی ٹھوس چیز۔ شراب کی حرمت کا حکم سورہ بقرہ آیت ۲۱۹میں گزر چکا ہے یہاں نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت کی گئی ہے۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۱۶)

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا نماز کے لئے ہوش اور بیداری ضروری ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنابت سے مراد وہ نا پاکی ہے جو قضائے شہوت یا احتلام کی صورت میں لاحق ہوتی ہے اس حالت میں نماز پڑھنا منع ہے اور اس کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کیا جائے اور غسل کا نہایت سادہ طریقہ اسلام نے تجویز کیا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے پورے جسم پر پانی بہا دے جس میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی شامل ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سفر کی حالت میں غسل سے استثناء ہو سکتا ہے جیسا کہ اسی آیت میں آگے بیان کر دیا گیا ہے یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جنابت کی حالت میں شرعی عذر کی بناء پر جس کی مثال سفر میں پانی کا نہ ملنا ہے غسل کئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہو بشرطیکہ تیمم کر لو جیسا کہ اسی آیت میں آگے حکم دیا گیا ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ لَا مَسْتُمْ استعمال ہوا ہے جس کے معنی چھونے کے ہیں عربی زبان میں یہ جماع کے لئے کنا یہ ہے (لسان العرب) اور حضرت ابن عباس سے یہی تفسیر مروی ہے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے شرعی اصطلاح میں تیمم کہتے ہیں جو وضو اور غسل دونوں کا قائم مقام ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اسے چہر ہ اور دونوں ہاتھوں پر پھیر لیا جائے اس سے اصل طریقہ طہارت کی یا دبھی ذہن میں قائم رہتی ہے اور طہارت کا احساس بھی برقرار رہتا ہے۔

مرض میں چونکہ وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے یہ رعایت ہوئی کہ تیمم کیا جائے اسی طرح سفر میں ایسی حالت پیش ہو سکتی ہے کہ پانی نہ ملے تیمم کی رعایت اس صورت کے لئے بھی ہے۔ ان دونوں صورتوں پر، دوسری صورتوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے مثلاً سخت سردی میں جب کہ جنابت لاحق ہو اور غسل کرنے سے ضرر کا اندیشہ ہو یا کسی موقع پر پانی تو موجود ہو لیکن کمیابی کے باعث اسے پینے کیلئے محفوظ رکھنا پڑے یا ریل اور ہوائی جہاز کا سفر جس میں غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو ایسی تمام صورتوں میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ نجاست کی یہاں دو حالتیں بیان کی گئی ہیں ایک رفع حاجت اور دوسرے قضائے شہوت، اس حکم میں دوسری چھوٹی موٹی نجاستیں بھی داخل ہیں اور ہر قسم کی نجاست کے لئے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا جا سکتا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی یہ صفات اس بات کی متقاضی ہوئیں کہ تمہارے لئے شرعی احکام میں نرمی کی جائے اور تمہیں تیمم کی رعایت دی جائے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر جو شرعی احکام دئیے گئے ان کے سلسلہ میں مسلمانوں کو جن لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ان کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پچھلے آسمانی صحیفوں اور قرآن کریم کے درمیان نسبت جزء اور کل کی ہے اس لئے اہل کتاب کو جو کتاب دی گئی تھی اس کی حیثیت کتاب الٰہی کے ایک جز ء کی تھی جب کہ حضرت محمدﷺ کو جو کتاب دی گئی ہے وہ ہر لحاظَ سے ایک مکمل کتاب ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود نبیﷺ کی شان میں جو گستاخانہ کلمات کہتے تھے اسے یہاں دین پر طعنہ زنی سے تعبیر کیا گیا ہے معلوم ہوا کہ ہر وہ طنز و تشنیع جو پیغمبرﷺ پر کی جائے براہ راست دین پر حملہ ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱۲۲۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت وہی لوگ کرتے ہیں جو کافر اور سرکش ہیں اور ان کے کفر اور سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ان پر پڑی ہے۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چہر ہ جسم کا اشرف حصہ اور اللہ کی نعمت کا خصوصی مظہر ہے اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق اور محسن کا قدر شناس اور سپاس گزار ہو لیکن جو لو گ کفر کی روش اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کرتے ہیں وہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی حق کو دیکھنے کے لئے اندھے ہو جاتے ہیں اور منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی حق بولنے کے لئے گونگے ہو جاتے ہیں اور اپنی بینائی، گویائی اور سماعت کا غلط اور الٹا استعمال کرتے ہیں اس لئے بجا طور پر اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان کے چہرے مسخ کر کے پیچھے پھیر دئیے جائیں چنانچہ قیامت کے دن انہیں درد ناک سزا سے دوچار ہونا ہو گا۔ انسان اگر ہوش سے کام لے تو یہ سخت وعید اس کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے حضرت کعب احبار (مشہور یہودی) اس آیت کو سن کر ایمان لائے تھے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحاب سبت کا ذکر سورہ بقرہ آیت ۶۵میں گزر چکا۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے خواہ وہ سورج ہو یا تارے، ناگ ہو یا آگ، بت ہو یا آسمان، فرشتے ہوں یا جن، ولی ہوں یا پیغمبر، مادی چیزیں ہوں یا روحانی اور مزعومہ دیوی ہو یا دیوتا۔

اللہ کی ذات میں شرک کی ایک مثال تو وہ ہے جو نصرانیت میں پائی جاتی ہے وہ ایک کی جگہ تین خداؤں کے قائل ہو گئے۔ باپ، بیٹا اور روح القدس اور دوسری مثال ہندوستان کے ایک بہت بڑے مذہبی گروہ کے عقیدے کی ہے جو خالق اور مخلوق میں فرق نہیں کرتا بلکہ ایک ہی وجود کا قائل ہے۔ یعنی اس کے نزدیک سب کچھ خدا ہے اور انسان بھی خدا ہی کا جز ء ہے اس نظریہ کو ہمہ اوست یا وحدۃ الوجود کہتے ہیں۔ اللہ کی صفات میں شرک کی مثال یہ عقیدہ ہے کہ خدائی انتظامات میں اور اس کے اقتدار (Sovereignty) میں دوسرے بھی دخیل اور شریک ہیں مثلاً کوئی بارش کا دیوتا ہے اور کوئی ہوا کا یا کوئی بیماری کی دیوی ہے اور کوئی دولت کی۔ اسی طرح اولیاء اور بزرگوں کے بارے میں یہ تصور کہ وہ غوث اور مشکل کشا ہیں اور انسان کی حاجت روائی کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی اس صفت میں کہ وہی رب اور حاجت روا ہے دوسروں کو شریک ٹھہرانا ہے اللہ تعالیٰ کی ایک مہتمم بالشان صفت یہ ہے کہ وہی پرستش کے لائق ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ بندے اسی کی عبادت کریں۔ اس میں شرک یہ ہے کہ آدمی غیر اللہ کو بھی عبادت کے لائق سمجھنے لگے یا کسی دیوی، دیوتا، بت اور سورج وغیرہ کی پوجا کرنے لگے یا اولیاء و انبیاء کی پرستش شروع کر دے۔ یہ سب شرک کی صورتیں ہیں ان کے علاوہ یہ بھی کھلا شرک ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو مطلق طور پر اطاعت کا مستحق سمجھا جائے یا کسی کے لئے شرعی قوانین میں ترمیم کا حق تسلیم کیا جائے یا جمہور کے اس دعوے کو صحیح قرار دیا جائے کہ اللہ کے احکام و قوانین سے قطع نظر انہیں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔ شرک چونکہ اس فطرت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور یہ سراسر اس کے خلاف سرکشی اور بغاوت ہے اس لئے اس کو سب سے بڑا جرم اور ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ شرک کے حکم میں کفر اور الحاد بھی شامل ہے کیونکہ اس کے معنی اللہ سے سرکشی اور بغاوت ہی کے ہیں اور اللہ کا انکار کر کے آدمی اپنے کو نیز دوسرے انسانوں کو خدائی کے مقام پر بٹھاتا ہے ظاہر ہے کہ اس طرح وہ لازماً شرک کا مرتکب ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ شرک مذہبی روپ میں آتا ہے اور الحاد لا دینیت کے روپ میں۔ آیت کے پس منظر میں چونکہ یہود ہیں جو خدا کے قائل ہو تے ہوئے شرک کا ارتکاب کرتے تھے اس لئے یہاں واضح کیا گیا کہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک سے کمتر درجہ کے جو گناہ ہوں گے ان کے معافی کا امکان ہے لیکن شرک پر اگر آدمی قائم رہا اور اس نے توبہ نہیں کی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہو گئی تو اس گناہ کے بارے میں اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اور بت پرستی کو معمولی گناہ خیال نہ کرو واقعۃً ً یہ زبردست گناہ ہے اور قیامت کے دن مشرکوں اور بت پرستوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا یا جائے گا۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کو بڑا پاکباز ظاہر کر تے ہیں جب کہ یہ شرک کی نجاست سے آلود ہ ہیں اور گناہ پر اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ انہیں من گھڑت باتوں کو مذہب کے نام سے پیش کرنے اور خدا کی طرف منسوب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ یہود اعتقاد و عمل کی ان تمام خرابیوں کے باوجود اس بات کے دعویدار تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "جبت ” استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی بے فائدہ چیز کے ہیں یہاں اس سے مراد ہر قسم کے اوہام و خرافات اور سفلی اعمال ہیں جن کا سرا شرک سے جا ملتا ہے مثلاً جادو، ٹونے، ٹوٹکے، رمل جفر، نجوم (جیوتش) ، فال گیری، بد شگونی وغیرہ۔ نیز اس کا اطلاق ساحر، کاہن، بت اور معبودان باطل پربھی ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : العیافۃ والطرق و الطیرۃ من الجبت جانوروں کے ناموں، ان کی آوازوں اور ان کے گزرنے سے شگون لینا، کنکریاں مار کر یا خط کھینچ کر کہانت کرنا، نیز ہر قسم کی بد شگونی "جبت ” کے قبیل سے ہے۔ وہم پرستی اور شرک کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اہل مذہب نے اپنے اپنے مذہب میں اوہام و خرافات کو بری طرح داخل کیا ہے لیکن اسلام کا دامن ان چیزوں سے بالکل پاک ہے اس کی بنیاد حقائق پر ہے اور اس نے وہم پرستی کی جڑ کاٹ دی ہے موجودہ مسلم سماج میں جو اوہام و خرافات پائے جاتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اسلام ان کا سخت مخالف ہے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "طاغوت” کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۸میں گز ر چکی۔ یہاں خاص طور سے وہ مذہبی پیشوا مراد ہیں جو فاسد عقائد کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ عقیدت مندی کو ” ایمان بالطاغوت ” (طاغوت پر اعتقاد رکھنے) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کو مسلمانوں سے ایسی کد پید ا ہو گئی تھی کہ وہ بت پرستوں کو اہل توحید کے مقابلہ میں برسر حق قرار دینے لگے تھے جبکہ ان کی مذہبی کتاب "تورات ” بت پرستی کو صریح گمراہی قرار دیتی ہے۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مسلمان ہیں۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر مدینہ میں ان کی سلطنت قائم ہوتی تو یہ اپنی تنگ نظری اور تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو ہر فائدہ سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا اس لئے وہ مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی قوت دیکھ کر اندر ہی اندر جل رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اطراف مدینہ میں یہودیوں کی جو آبادیاں تھیں ان کی حیثیت آزاد قبائل کی تھی اس دائرہ سے باہر مدینہ کی عام آبادی پر ان کا تسلط نہ تھا۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہیں نبیﷺ اور آپ کے پیروؤں سے اس بنا پر حسد ہے کہ نبوت جو ان کے خاندان (یعنی بنی اسرائیل) میں چلی آ رہی تھی وہ دوسرے خاندان (یعنی بنی اسماعیل) میں کس طرح چلی گئی۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ بات بنی اسرائیل کے ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ ابراہیم کی اولاد تم بھی ہو اور بنی اسماعیل بھی ہیں آج اگر ہم نے بنی اسماعیل کو کتاب و حکمت سے نوازا ہے اور انہیں اقتدار بخش رہے ہیں تو اس میں حسد کرنے کی کیا بات ہے یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہے بخشے، ویسے تمہیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئیے کہ وہ اس سے پہلے تمہیں بھی کتاب و حکمت سے نواز چکا ہے اور زبر دست سلطنت بھی عطا کر چکا ہے (مثلاً حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت) لیکن تم نے اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری کی اور اپنی نااہلی کا ثبوت دیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فضل کے لئے خاندان ابراہیمؑ کی دوسری شاخ (بنی اسمٰعیل) کا انتخاب فرمایا ہے

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان صفات کا حوالہ دینے سے مقصود (یہ واضح کرنا ہے کہ اتنی سخت سزا دینے پر اللہ قادر ہے اور اس کی حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ سرکشوں کو ایسی سخت سزا دی جائے ورنہ نظام کائنات حق و انصاف پر قائم نہیں رہ سکے گا۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امانتوں میں عام امانتیں بھی شامل ہیں مثلاً ڈپازٹ، واجب الادا قرضے وغیرہ اور ذمہ داری کے منصب بھی خواہ ان کا تعلق قیادت سے ہو یا حکومت سے اس دوسرے مفہوم کی تائید سیاق کلام سے ہوتی ہے نیز ذمہ داری کے منصب کے لئے امانت کا لفظ حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ قیامت کب آئے گی اپ نے فرمایا: اذا ضیعت الامانۃ فانتظر الاساعۃ قال کیف اضاعتھا قال اذا وسد الا مرُ الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو، پوچھا امانت کا ضائع کرنا کیا ہے ؟ فرمایا "جب معاملات (حکومت) نااہلوں کے حوالہ کر دئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو” (بخاری) ۔ معلوم ہوا کہ قیادت و رہنمائی اور سیاست و حکومت کی ذمہ داریوں کے مناصب نااہل، بد اخلاق، ظالم، بد دیانت، اور فاسق و فاجر لو گوں کے سپر د کرنا عام بگاڑ اور زبردست تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے (اصولی بات یہی ہے رہی حالات کی مجبوری تو اس کا تعلق اجتہاد سے ہے) امانت کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں اللہ کی سپر د کردہ امانتیں ہیں جن کے بارے میں اس کے حضور جوابدہی کرنا ہو گی۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ اقتدار کی ذمہ داری کی طرف ہے اور ہدایت یہ کی جا رہی ہے کہ اللہ کی طرف سے اقتدار پانے کے بعد تمہاری اولین ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اولی الامر (اصحاب امر) سے مراد ارباب اقتدار (Men of Authority) ہیں خواہ ان کا تعلق حکومت کے کسی بھی شعبہ سے ہو نبیﷺ جہاد کے لئے جو فوجی دستے روانہ کرتے تھے ان پر کسی کو امیر مقرر فرماتے تھے منکم کا لفظ صراحت کرتا ہے کہ یہاں وہ ارباب اقتدار مراد ہیں جو مسلمانوں میں سے ہوں ان کی اطاعت اس لئے مطلوب ہے تاکہ اسلام کے اجتماعی احکام کی تعمیل ہو، اس کے قوانین کو نافذ کیا جا سکے سوسائٹی کو صالح بنانے میں مدد ملے اور ایک عادلانہ نظام کا قیام عمل میں آئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کلمۂ حق سربلند ہو، اصحاب امر کی اطاعت کے سلسلہ میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

۱) اس آیت میں اللہ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس حکم میں اطاعت کا لفظ دو جگہ بیان ہوا ہے ایک اللہ کے ساتھ اور دوسرے رسول کے ساتھ جبکہ اولی الامر کے ساتھ یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اصل اطاعت اور وفاداری اللہ کی ہے اور اس کے بعد اس کے رسول کی، رہی اولی الامر کی اطاعت تو وہ ان دو اطاعتوں کے تابع ہے اس سے آزاد ہر گز نہیں۔

۲) یہاں اولی الامر کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کو ان حکمرانوں پر منطبق کرنا صحیح نہیں ہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا یا جن کا مشن ہی اللہ سے بغاوت پر لوگوں کو آمادہ کرنا ہو یا جو لادینی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوں یا خود فرعون بن بیٹھے ہوں۔

۳) اولی الامر کی اطاعت کا حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف کوئی حکم نہ دیں اگر وہ کوئی ایسا حکم دیں جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہو تو اس صورت میں اطاعت کا سوال پیدا نہیں ہوتا نبیﷺ کی حدیث ہے : لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ”

۴) اس آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا جو مثبت حکم دیا گیا ہے اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اس سے یہ منفی معنی نکالنا صحیح نہیں کہ اگر مسلمان کسی غیر اسلامی حکومت کے ماتحت ہوں تو وہاں ان کے لئے بدنظمی (Anarchy) کی صورت پیدا کرنا روا ہے۔ موجو دہ نظام حکومت میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اس لئے قطع نظر اس سے کہ قانون بنانے والے لوگ کون ہیں اور کیسے ہیں قانون اگر بجائے خود اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے نہیں ٹکراتا یا اسلام نے مباحات کاجو وسیع دائرہ رکھا ہے اس سے متعلق ہے تو اس کی پابندی اسلام کے منشا کے خلاف ہر گز نہیں بصورت دیگر اسے اضطرار اور مجبوری کی حد تک ہی گوارا کیا جا سکتا ہے

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا نے سے مراد کتاب و سنت کی طرف رجو ع کرنا ہے۔ اوپر حکم و اختیار رکھنے والوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا یہاں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں کتاب و سنت کی طرف رجو ع کرو یہ ہدایت دونوں کے لئے ہے ان کے لئے بھی جن کو اصحاب امر کی اطاعت کرنا ہے اور ان کے لئے بھی جو اصحاب امر ہیں یہ ایک جامع ہدایت ہے جس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے۔

۱) مسلمانوں کو ارباب اقتدار کے ساتھ اختلاف کا حق ہے اور اختلاف کی صورت میں فیصلہ کن چیز کتاب و سنت ہیں۔

۲) اس حق کا تقاضا یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ارباب اقتدار پر تنقید کی آزادی کا حق حاصل ہو۔

۳) اختلافات خواہ امت کے درمیان ہوں یا حکومت اور عوام کے درمیان یا خود اصحاب امر کے اندر فیصلہ کے لئے قرآن و سنت کی طرف رجو ع کرنا چاہئیے اور جو فیصلہ وہاں سے ملے اس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا چاہئیے۔

۴) حق کی کسوٹی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے اس لئے علماء، بزرگ، ائمہ، فقہا اور قائدین سب کے اقوال کو اسی کسوٹی پر پرکھنا چاہئیے ان میں سے کوئی بھی حق کی کسوٹی نہیں ہے کہ اس کا قول اور عمل لازماً صحیح ہو یا حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہو۔

۵) امام کے معصوم ہونے کا تصور جیسا کہ مسلمانوں کے بعض فرقوں کا عقیدہ ہے سراسر باطل ہے اگر یہ صحیح ہوتا تو عام مسلمانوں کو ان سے اختلاف کا حق دیا نہیں جاتا اور عام مسلمانوں کے آپس کے اختلاف کی صورت میں امام کی طرف رجو ع کرنے کا حکم دیا جاتا جبکہ اس آیت سے ان دونوں باتوں کی تردید ہوتی ہے چرچ کی معصومیت جیسا کوئی تصور اسلام میں ہرگز نہیں ہے۔

۶) کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جن مسائل میں کتاب و سنت کے نصی احکام موجود ہیں ان کی اسی طرح تعمیل کی جائے اور اگر حالات نے کوئی نیا مسئلہ کر دیا ہو تو کتاب و سنت کی دلیل کو متعلقہ مسئلہ میں فیصلہ کن تسلیم کیا جائے اور اشارات اور مقتضیات کو سامنے رکھکر یہ معلوم کیا جائے کہ کو ن سی بات کتاب و سنت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کے اس طریقہ کو قیاس اور اجتہاد کہتے ہیں۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر قسم کے اختلافات میں خواہ ان کی نوعیت مذہبی ہو یا سیاسی ہو قرآن و سنت کی طرف رجو ع کرنا ایمان کا صریح تقاضا ہے اس سے دنیا میں بھی بھلائی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہترین ثمرہ ملے گا۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "طاغوت” استعمال ہوا ہے جس کی تشریح اس سے پہلے گزر چکی (سورہ نساء نوٹ ۱۱۶، سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۸) یہاں طاغوت کا لفظ کتاب و سنت کے مقابل کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے جیسا کہ بعد والی آیت سے واضح ہے اس لئے یہاں اس سے مراد وہ حاکم یا جج ہے جو اللہ اور رسول کا مخالف ہو اور کتاب و سنت کے خلاف فیصلہ کرتا ہو۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جس بات کو ایمان کے منافی قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کتاب و سنت کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اور ” طاغوت” کی عدالت میں اپنا مقدمہ اس لئے لے جائے تاکہ وہاں اس کے حق میں فیصلہ ہو اگر چہ کہ وہ فیصلہ شریعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو واضح رہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر کیا گیا ہے وہ اہل کتاب سے تعلق رکھتے تھے وہ ایمان لانے کے بھی مدعی تھے اور ساتھ ہی اپنے مقدمات رسول کی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے یہود کی عدالت میں پیش کرنا چاہتے۔ روایات میں کعب ابن اشرف کنام آتا ہے جو یہودیوں کا سردار تھا اور مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا منافقین اس کی طرف رجو ع کر تے ظاہر ہے کہ ان کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی تھا لیکن وہ ایمان اور کفر دونوں کو جمع کرنا چاہتے تھے یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ ان آیات کے نزول کے وقت تک مدینہ کی اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع نہیں ہو سکا تھا اور مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کی قبائلی ریاستیں قائم تھیں اس طرح گویا اس علاقہ میں اسلام اور طاغوت کی متوازی عدالتیں Parallel courts قائم تھیں۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس وقت اسلام دشمن طاقتوں کا زور ٹوٹے گا اور مسلمانوں کو غلبہ اور استحکام حاصل ہو گا اس وقت یہ منافقین اپنے کو بے یار و مددگار پا کر تمہارے پاس معذرت کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے سابقہ رویہ کی یہ توجیہ کریں گے کہ ہمارا مقصد تو، مسلمانوں اور یہودیوں میں میل ملاپ پیدا کرنا تھا چنانچہ اس آیت کے نزول کے چند سال بعد یہی صورت پیش آئی۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے ان کے علاج کی صحیح تدبیر یہاں بتائی گئی جس سے دعوت و اصلاح کا کام کرنے والوں کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ وہ اپنے اس کام کے لئے مورث پیرایہ بیان اختیار کریں اور ان کا طریقۂ دعوت Approach ایسا ہو کہ دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول اسلئے نہیں آتا کہ اس کے ساتھ صرف ف عقیدت کا اظہار کرو اور پھر اس کی اطاعت یا نہ کرو بلکہ رسول اس لئے آتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے کیوّنکہ رسول خدا کی طرف سے احکام اور قوانین لے کر آتا ہے۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسو ل کی موجودگی میں طاغوت کی عدالت میں مقدمات لے جانا رسو ل کے لئے تکلیف دہ بات تھی اور اس سے عدالت رسول کی توہین ہوتی تھی اس لئے اس گناہ کی تلافی کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اللہ سے معافی کے خواستگار ہونے کے ساتھ رسول کی بھی دعائے مغفرت کے طالب بنیں۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ رسول کی اطاعت بغیر کسی تحفظ کئے اور بے چوں و چرا کرنا ایمان کا کھلا ہوا تقاضا ہے نبیﷺ کے کسی بھی فیصلہ پر ایک مسلمان کو خلش تک نہیں محسوس کرنا چاہئے کجا یہ کہ وہ آپ کے کسی حکم اور کسی فیصلہ کو اپنی خواہش یا زمانہ کے رجحانات کے مطابق نہ پا کر اس پر ناک بھوں چڑھانے لگے۔

علامہ جصاص لکھتے ہیں ” یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے ک جو شخص اللہ یا اس کے رسولﷺ کے کسی حکم کو رد کر دے وہ اسلام سے خارج ہے خواہ اس نے شک کی بنا پر اس حکم کو رد کیا ہو یا ماننے اور قبول کرنے ہی سے اسے انکار ہو ” (احکام القرآن ، ج ۲، ص ۲۶۰)

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو اختیار ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جس بات کا چاہے حکم دے اور جب دنیا کی زندگی آزمائش ہی کے لئے ہے تو اپنے آپ کو قتل کرنے یا گھر بار چھوڑ دینے کا حکم دے کر بھی آزمائش کی جا سکتی تھی لیکن خداوند رحمن نے انسان کو اتنی زبردست آزمائش میں نہیں ڈالا اور شریعت آسان بنا دی۔

اس کے بعد بھی اگر لوگ شریعت پر نہ چلیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہو گی اس آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی اصل روح Spirit یہ ہے کہ اللہ کی وفاداری ہر چیز پر مقدم ہو حتی کہ اپنی جان پر بھی اور اس کی خاطر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے یہاں تک کہ اپنے گھر بار اور اپنے وطن عزیز کو بھی خیر باد کہا جا سکتا ہے جس موقع پر دین کا جو تقاضا ہو اس کا پورا کرنا ہی اصل دینداری ہے۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ منافقانہ طرز عمل چھوڑ دیتے اور خلوص کے ساتھ رسول کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرتے تو انہیں زندگی کے ہر معاملہ میں حق و صداقت کا راستہ نظر آتا اور صحیح طرز عمل کی توفیق نصیب ہوتی۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام سے مراد ایمان اور ہدایت کی نعمت سے نوازنا ہے (ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ ۱۰) ۔

۱۳۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام یافتہ گروہ چار ہیں : انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین۔

انبیاء سے مراد وہ تمام پیغمبر ہیں جو مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں اللہ کی طرف سے دین حق لے کر آئے۔

صدیقین سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں صداقت شعاری کا وصف کمال درجہ پر ہو یہ ایمان و عمل کے لحاظ سے انبیاء کے بعد صف اول کے لوگ ہیں۔ شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کی شہادت دینے میں اپنی جان بھی قربان کر دی اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کا رویہ اختیار کیا جنت کی سوسائٹی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہو گی گویا انسانیت کا سارا جوہر وہاں موجود ہو گا ایسے بہترین لوگوں کی رفاقت کا میسر آنا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہو گا نیک آدمی دنیا میں بھی اپنی رفاقت کے لئے نیک آدمیوں ہی کا انتخاب کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی نیک لوگوں ہی کے زمرہ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت جنگ کی دو صورتیں تھیں ایک منظم فوج کشی دوسرے دستوں کی صورت میں دشمن پر چھاپہ مارنا جسے ” سَرِیّہ ” کہتے ہیں ان دونوں طریقوں کو اختیار کرنے کی ہدایت اس آیت میں دی گئی ہے اور نبیﷺ نے یہ دونوں طریقے اختیار کئے تھے۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منافقین مسلمانوں کی کامیابی کو اپنی کامیابی نہیں سمجھتے اس لئے انہیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو کامیابی ہوئی اور وہ مال غنیمت میں حصہ دار بننے سے محروم رہے۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے ان لوگوں کو اٹھنا چاہئے جو آخرت کی خاطر اپنی دنیا تج دیں ایسے ہی لوگ اپنے ایمان میں مخلص اور اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں رہے وہ لوگ جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے مفاد کو عزیز رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین کے لئے انہیں کوئی قربانی نہ دینا پڑے تو جہاد کی راہ ایسے لوگوں کے لئے نہیں ہے۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت مکہ اور اس کے اطراف میں مسلمان محض اس لئے کافروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا تھا الفاظ دیگر وہ مسلمانوں کو ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق دینے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ظلم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ تھے قرآن نے بتلایا کہ ایسے مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کے لئے جنگ کرنا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے جیسا کہ بعد کے فقرہ سے واضح ہے اور طاغوت کی راہ میں لڑنے سے مراد ان باطل مقاصد کے لئے لڑنا ہے جن کے لئے شیطان انسان کو ابھارتا ہے یعنی اللہ کے دین کی مخالفت کرنے، اس کے ماننے والوں کا زور توڑنے، حکم خداوندی کی جگہ انسان کا حکم چلانے، زمین پر اصلاح کے بجائے فساد برپا کرنے اور اسلام کے بجائے کفر کو غالب کرنے کی غرض سے لڑنا۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ شیطان کے ورغلانے میں آ کر اسلام اور اس کے علمبرداروں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں ان کی یہ کاروائیاں کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں ہوتیں اس لئے اگر اہل حق ان کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں تو ان کے سارے منصوبے خاک میں مل کر رہ جائیں گے۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت سے امام رازی نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ جہاد پر مقدم ہیں (ملاحظہ ہو تفسیر رازی، ج ۳، ص ۲۷۲) بلاشبہ دین میں ان دو چیزوں کو اولیت حاصل ہے اور یہ عبادتیں مقصود بالذات ہیں رہا جہاد تو اس کی اہمیت اور فضیلت اپنی جگہ، وہ واجب اسی وقت ہو تا ہے جبکہ حالات اس کے متقاضی ہوں ورنہ ایک مسلمان کے لئے اس کی نیت رکھنا کافی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جہاد کا مقام نہایت بلند ہو نے کے باوجود اس کا شمار ارکان خمسہ میں نہیں ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ جہاد جب فرض عین قرار پائے تو اس سے جی چرانا ایمان کو مشتبہ بنا دیتا ہے کیونکہ یہ ایمان کا کھلا تقاضا ہے کہ آدمی دین کے لئے غلبہ چاہے اور اللہ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب تک جنگ کا حکم نہیں دیا گیا تھا اس کے لئے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن جب اس کا حکم دے دیا گیا تو ان پر شاق گزرنے لگا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جو قربانیاں بھی تم دو گے وہ رائیگاں جانے والی نہیں ہیں بلکہ تمہیں ان کا پورا پورا اجر ملے گا۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی تدبیر اور احتیاط سے کام نہ لے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس گمان میں مبتلا نہ ہو کہ تدابیر اسے موت سے بچا سکتی ہے موت تو اپنے وقت پر آ کر رہے گی اس لئے آدمی کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے گریز نہ کرے۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کسی مشکل سے دوچار ہو تو اسے یہ منافق پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے ہیں حالانکہ پیغمبر کو ئی کام بغیر خدا کے حکم کے نہیں کرتا اور کائنات میں تصرف بھی اللہ ہی کا ہے اس کی مشیت کے بغیر نہ کوئی نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان اس لئے کسی نقصان کے پہنچ جانے پر اس کی ذمہ داری پیغمبر پر ڈالنا خلاف واقعہ بھی ہے اور ایمان کے منافی بھی۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گو خیر اور شر دونوں چیزیں اللہ ہی کی مشیت سے ظہور میں آتی ہیں لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ خیر کی حالت ا للہ کی رحمت کا فیضان ہے جبکہ شر کی حالت انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور اللہ کے بخشے ہوئے اختیارات کو غلط طریقہ پر استعمال کرنے سے ظہور میں آتی ہے اس لئے شر کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا چاہئے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر منافقین رسول کی ہر بات کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے ہیں تو نہ سمجھیں محمدﷺ کے رسول ہونے کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے اور یہ گواہی اللہ نے قرآن کے ذریعہ دی ہے اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ صرف عربوں کی طرف نہیں بلکہ تمام اقوام کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اور اس طرح کی دوسری آیات صراحت کرتی ہیں کہ رسو ل کی اطاعت درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے اس لئے کہ رسو ل جو بھی حکم دیتا ہے خدا ہی کی طرف دیتا ہے نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی اطاعت بہ حیثیت رسول نہ صرف آپ کی زندگی بلکہ آپ کی وفات کے بعد اسی طرح مطلوب ہے

ہمارے لئے آپ کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ سنت ثابتہ اور احادیث صحیحہ ہیں ان کی پیروی آپؑ کی اطاعت کے ہم معنی ہے اور ان سے انکار آپﷺ کی نافرمانی کے مترادف ہے۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو زبردستی راہ ہدایت پر چلائے بلکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین میں بعض ایسے بھی تھے جو مدینہ میں رات کو مجلسیں جما کر اسلام اور نبیﷺ کے خلاف خفیہ مشورے کرتے تاکہ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں اور اپ کو زک پہنچائی جا سکے۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں قرآن پر تدبر کی دعوت دی گئی ہے جس سے درج ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔

۱) تدبر کی یہ دعوت عام ہے چنانچہ ان لوگوں کو بھی قرآن پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو مؤمن نہیں ہیں تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ اس کے مضامین باہم مربوط اور اس کی تعلیمات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں جبکہ اس کا موضوع نہایت وسیع ہے یعنی انسانی زندگی کے لئے مکمل ہدایت، یہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو ایسے وسیع موضوع پر جس کا تعلق مشاہدات ہی سے نہیں ما بعد الطبیعی حقائق سے بھی ہو اور جو انسان کی فطرت، اس کی نفسیات، اس کے مبداء و معاد اور اس کی زندگی کے جملہ گوشوں سے بحث کرتا ہو ممکن نہیں کہ اس میں تضاد نہ پایا جائے۔

کیونکہ انسان کا علم محدود ہے اس لئے وہ کائنات کے اسرار پر سے پردہ اٹھا سکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات پیش کر سکتا ہے جو انسان کو صحیح طور سے زندگی گزارنے اور اس کے خالق سے صحیح تعلق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔

۲) قرآن پر غور کرتے رہنے سے حکمت کے دروازے کھلتے ہیں اور ایمان و ایقان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

۳) یہ بات صحیح نہیں کہ قرآن صرف عالموں کے سمجھنے کی چیز ہے بلکہ ہر انسان کے سمجھنے کی چیز ہے اگر یہ عالموں کے لئے مخصوص ہوتا تو اس پر تدبر کی عام دعوت نہ دی جاتی۔

۴) قرآن کی تمام باتیں باہم مربوط اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اس لئے کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو دوسری آیتوں سے متناقض ہو۔

۵) قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا اور اس کی تعلیمات پر معترض ہونا سراسر تضاد فکری ہے اور یہ نتیجہ ہے قرآن پر تدبر نہ کرنے کا۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت مدینہ میں جنگ کے حالات تھے۔ ایسے حالات میں افواہیں پھیلانے میں سرگرم ہو گئے تھے اس لئے ان کی اس حرکت پر گرفت کی گئی اور اس قسم کی خبروں کو رسول اور ذمہ دار لوگوں کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے اصولی طور پر یہ ہدایت ملتی ہے کہ ملت کی سیاسی زندگی پر اثر انداز ہونے والی خبروں کو عوام میں پھیلانے سے پہلے ذمہ دار افراد کے علم میں لانا چاہئے تاکہ وہ ان کی حقیقت معلوم کر سکیں ضمناً اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اصحاب امر کے منصب کے لئے موزوں وہ لوگ ہو سکتے ہیں جن کے اندر سوجھ بوجھ معاملہ فہمی اور تدبر کے اوصاف پائے جاتے ہوں۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو حق کی تائید و حمایت کریں گے وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کی مخالفت کریں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین سے اعراض کی جو ہدایت آیت ۸۱میں دی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان ان کے ساتھ اخلاق سے پیش نہ آئیں اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کریں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ جو شخص بھی اپنے کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور تمہیں سلام کرتا ہے تم اس سے بے رخی نہ برتو بلکہ اس کے سلام کا جواب اس سے بہتر طریقہ پر دو یا کم از کم ان الفاظ ہی کو لوٹاؤ۔ اسلامی تہذیب کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو السّلامُ علیکم (تم پر سلام ہو) کے دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے اور اس کے جواب میں دوسرا مسلمان وَعَلَیْکُمُ السّلَامُ (تم پر بھی سلام ہو) کہے سلام کے یہ کم سے کم کلمات ہیں اور اگر اس پر و رحمۃ اللہ و برکاتہ (اور تم پر اللہ کی رحمت اور برکت بھی ہو) کا اضافہ کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ حدیث میں یہ کلمات آئے ہیں۔

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دار الحرب کے منافقین ہیں جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے لیکن اصلاً انہیں دلچسپی کفر سے تھی چنانچہ وہ کافروں کے ساتھ مل کر ان کاروائیوں میں حصہ لیتے تھے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جاتیں اور انہیں اپنا گھر بار اتنا عزیز تھا کہ وہ ہجرت کر کے نبی اور اس کے ساتھیوں سے ملنے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں مسلمانوں میں دو رائیں پائی جاتی تھیں ایک گروہ کہتا تھا کہ ان کے ساتھ بھی کافروں جیسا معاملہ کیا جانا چاہئے لیکن دوسرا گروہ اس امید پر کہ وہ اچھے مسلمان بن جائیں گے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر قرآن نے انہیں متنبہ کیا کہ وہ خود کیا مسلمان بنیں گے الٹے وہ تمہیں کا فر بنا نے کی فکر میں ہیں اگر وہ اپنے ایمان میں مخلص ہیں تو ہجرت کر کے نبی اور اس کے ساتھیوں سے آ ملیں بصورت دیگر ان سے بھی جنگ کرنا چاہئیے۔

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے مصلحت پرستی اختیار کی اور کفر کی طرف قدم بڑھایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو الٹے پاؤں کفر ہی کی طرف دھکیل دیا۔

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہاں ان لو گوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا لیکن تھے وہ در حقیقت کافر اور اس بات کے خواہشمند تھے کہ مسلمان بھی کافر بن جائیں ان کا یہ کفر ہی تھا جو انہیں ہجرت سے روک رہا تھا کیونکہ ہجرت کے لئے زبردست قربانی کی ضرورت تھی۔

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ ہجرت کرتے ہیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مخلص مسلمان بنیں گے اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے انہیں مخلص مؤمن بننے کی توفیق عطا کرے واضح رہے کہ یہاں ہجرت کے ساتھ فی سبیل اللہ کی بھی قید ہے یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہجرت ایمان کے تحفظ اور اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ہو اسی صورت میں دوست بنایا جا سکتا ہے۔

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسی صورت میں تم انہیں دشمنوں کا ساتھی سمجھو اور جہاں پاؤ، پکڑو اور قتل کرو۔ یہ حکم ان منافقین کا ہے جو کافر قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں اوپر نوٹ ۱۵۹میں اس کی تشریح گزر چکی ہے۔

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان لوگوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جو قتل کے حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی جو منافق کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہد ہ ہے تو معاہد ہ کے احترام کی بنا پر ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا اسی طرح ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا جو غیر جانب دار رہیں یعنی نہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کریں اور نہ مسلمانوں کی حمایت میں اپنی قوم سے لڑیں۔

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اللہ ان کو حوصلہ دیتا تو وہ تم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے لیکن ایسا نہیں ہوا لہٰذا ان کے موجود ہ رویہ کو غنیمت سمجھو اور جب تک وہ تم سے نہ لڑیں اور تمہارے ساتھ صلح و آشتی کا رویہ اختیار کئے رہیں تم بھی ان کے خلاف اقدام نہ کرو۔

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں فتنہ سے مراد جنگی کاروائیاں ہیں جو کفار مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے۔

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکم ان لوگوں کے بارے میں ہے جو مسلمانوں کے خطرے سے بھی محفوظ رہنا چاہتے تھے اور اپنی قوم کے خطرے سے بھی لیکن جب ان کی قوم کا دباؤ پڑ جاتا یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنی قوم کے ساتھ شریک ہو جاتے۔ چنانچہ قبیلہ اسد و غطفان کے لوگوں نے مدینہ آ کر اسلام قبول کیا اور نبیﷺ سے معاہدہ بھی کیا لیکن اپنی قوم میں واپس لوٹ کر قوم کے اصرار پر مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدامات میں شریک ہو گئے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اللہ نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ ان کو جہاں پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو۔

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قتل خطا کا کفارہ ہے چونکہ مقتول مؤمن تھا اس لئے اس کا کفارہ یہ مقرر کیا گیا کہ ایک مومن غلام کو آزاد کیا جائے موجود ہ زمانہ میں غلامی کا رواج باقی نہیں رہا اس لئے کفارہ کی ادائے گی کی دوسری صورت اختیار کرنا ہو گی یعنی دو ماہ کے مسلسل روزے جیسا کہ اسی آیت میں آگے بیان ہو ا ہے۔

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیت (خون بہا) کی مقدار نبیﷺ نے ایک سو اونٹ مقرر فرمائی تھی (احکام القرآن للجصاص، ج ۲، ص ۲۸۳)

لہذا اگر نقدی کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس کے مساوی قیمت ادا کرنا ہو گی۔

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں کسی مسلمان کے غلطی سے قتل کئے جانے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی صورت یہ کہ مقتول دار الاسلام کا باشندہ ہو اس صورت میں کفارہ بھی ادا کرنا ہو گا اور خون بہا بھی دینا ہو گا دوسری صورت یہ ہے کہ مقتول دار الحرب کا باشندہ ہو اس صورت میں صرف کفارہ دینا ہو گا اور تیسری صورت یہ ہے کہ مقتول معاہد ہ قوم سے تعلق رکھتا ہو یعنی کسی ایسے دار الکفر کا باشندہ ہو جس سے مسلمانوں نے معاہدہ کر رکھا ہے اس صورت میں کفارہ بھی دینا ہو گا اور دیت بھی ادا کرنا ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے خالد بن ولید کو بنی خزیمہ کی طرف بھیجا انہوں نے بنی خزیمہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی انہوں نے اپنے قبول اسلام کا اعلان ایک ایسے لفظ سے کیا جو مبہم تھا یعنی (اسلمنا) کے بجائے (صبأنا) کہا حضرت خالدؓ نے غلط فہمی میں ان کے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ جب نبیﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا خدایا خالد نے جو کچھ کیا اس سے میں بری ہوں اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیج کر ان کے مقتولوں کو دیت ادا کر دی اور ان کے نقصان کی تلافی کی حتی کہ ان کے کتے کی بھی قیمت ادا کر دی۔ یہ حدیث بخاری کی ہے اور اسے نقل کر کے ابن کثیر ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ حکم نکلتا ہے امام یا اس کے نائب (سپہ سالار وغیرہ) سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس کا معاوضہ بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۵۳۵)

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ زمانہ میں جب کہ غلامی کا رواج ختم ہو گیا ہے غلام کو آزاد کرنے کا بدل یہ ہو گا کہ دو ماہ کے متواتر روزے رکھے جائیں متواتر کا مطلب یہ ہے کہ بلا عذر شرعی ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑ نہ دیا جائے اور جو شخص روزے بھی نہ رکھ سکتا ہو اس کے مسئلہ کا حل علماء کا ایک گروہ یہ بتا تا ہے کہ اسے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یہ بات ظہار کے کفار ہ پر قیاس کر کے کہی گئی ہے۔

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کفارہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ توبہ ہے تاکہ قتل کرنے والے کو اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ ندامت اور شرمساری کے ساتھ اللہ کی طرف رجو ع ہو۔

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں کسی مسلمان کو ناحق اور دانستہ قتل کرنے والے کے لئے پانچ وعیدیں آئی ہیں ایک یہ کہ اس کی سزا جہنم ہو گی دوسری یہ کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا تیسری یہ کہ اس پر اللہ کا غضب ہو گا چوتھی یہ کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور پانچویں یہ کہ اسے بہت بڑا عذاب بھگتنا ہو گا جو اس کے لئے خاص طور سے تیار رکھا گیا ہے اس سے اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے اسلام میں شرک کے بعد یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور حدیث میں اسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے نبیﷺ کا ارشاد ہے :” سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر”” مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے (مسلم کتاب الایمان) ۔ لا ترجعو ا بعد ی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (مسلم کتاب الایمان) ۔

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی علاقہ پر حملہ کے لئے نکلو تو پوری تحقیق کر لو کہ مسلمان کہاں کہاں ہیں تاکہ ان پر غلطی سے حملہ نہ کر بیٹھو اور اگر کوئی شخص اپنے ایمان کے اظہار کے لئے تمہیں سلام کرے تو اس کے اسلام کا انکار نہ کرو اگر مال غنیمت کے لالچ میں اس پر حملہ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہئیے اللہ کے پاس مال ک بڑے ذخیرے ہیں لہذا اجر آخرت کو مقصود بناؤ۔ اسلام میں جنگ کا مقصد محض ملک فتح کرنا نہیں ہے بلکہ حق اور عدل کا قیام ہے اس لئے اگر عین حالت جنگ میں دشمن قوم کا کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے یا السلام علیکم کہ کر اپنے مسلمان ہو نے کا اظہار کرتا ہے تو باوجود اس احتمال کے کہ ممکن ہے جان بچانے کی خاطر جھوٹ بول رہا ہو اس کو قتل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ واقعی مسلمان ہو گیا ہو لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔ اس سے یہ اصولی ہدایت ملتی ہے کہ کسی کلمہ گو کی تکفیر نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلائے اسے مسلمان تسلیم کرنا چاہئیے الّا یہ کہ تحقیق سے ثابت ہو جائے کہ وہ اپنے دعوے میں بالکل جھوٹا ہے۔

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے پہلے تم نے بھی محض کلمہ پڑھ کر اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان میں پختگی عطا فرمائی اور تم پکے مسلمان بن گئے اسی طرح یہ لوگ بھی اگر اپنے مسلمان ہونے کا زبانی اقرار کریں تو اسے تسلیم کرو۔

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس صورت کا ذکر ہے جبکہ جہاد کے لئے نفیر عام نہ ہوئی ہو اور کچھ لوگوں کا جہاد کرنا کفایت کرتا ہو چنانچہ نبیﷺ چھوٹی چھوٹی مہم پر فوجی دستے روانہ کرتے تھے جس کو ” سریّہ ” کہا جاتا ہے ایسے حالات میں جہاد کی حیثیت ایک درجۂ فضیلت ہی کی ہے لیکن اگر جہاد فرض عین یا نفیر عام ہو جائے تو اس صورت میں بھلائی کا وعدہ بلا عذر رہنے والوں کے لئے نہیں ہے واضح رہے کہ جن غزوات میں خود نبیﷺ نکل گئے تھے ان میں بلا عذر بیٹھ رہنے والوں پر قرآن میں سخت گرفت کی گئی ہے کیونکہ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ اللہ کا رسو ل اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ایک مہم پر روانہ ہو جائے اور اس کے پیرو اپنی جان بچانے کے لئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں جبکہ ایمان کا صریح تقاضا یہ ہے کہ نبی کی جان اپنی جان سے بھی عزیز تر ہو اور واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر جہاد سے وہی لوگ کتراتے تھے جو منافق تھے ورنہ ہر مسلمان جان نثارِ رسول تھا۔

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبیﷺ کے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد جو مسلمان مکہ اور اس کے اطراف میں رہ گئے تھے ان پر ہجرت فرض ہو گئی تھی ہجرت کا یہ حکم درج ذیل وجوہ سے دیا گیا تھا :

۱) مکہ اور اس کے اطراف کے علاقہ میں جہاں مشرکین کو اقتدار حاصل تھا عقیدہ و ضمیر کی آزادی حاصل نہیں تھی اس لئے جو لوگ مشرکانہ مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور انہیں اس بات کے لئے مجبور کیا جار ہا تھا کہ وہ دین اسلام چھوڑ کر مشرکانہ مذہب میں واپس آ جائیں ان حالات میں ایمان پر قائم رہنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا نتیجہ یہ کہ جن لوگوں کا ایمان ابھی پختہ نہیں ہوا تھا وہ یا تو اپنے ایمان کو چھپاتے یا مشرکانہ مذہب کے ساتھ سازگاری پید آ کرتے اس طرح اسلام اور شرک اور ایمان اور کفر دونوں کو جمع کیا جاتا ظاہر ہے کہ جس زمین میں ایمان پر قائم رہنے کی آزادی نصیب نہ ہو اس زمین کو خیر آباد کہنا ایمان کا صریح تقاضہ ہے خواہ وہ مکہ کی مقدس زمین ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ایمان اور خدا سے وفاداری خاک و خون کی وفاداریوں پر مقدم ہے۔

۲) اللہ کے رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد مسلمانوں کے ہجرت سے گریز کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ رسول کی محبت پر اپنے گھر بار کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں جب رسول سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کو رسو ل نے چھوڑا اسے اہل ایمان بھی چھوڑ دیں اور رسول کی معیت اس کی خدمت میں حاضری اور اس کی مدد کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھیں اور اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

۳) اسلام اور کفر کے درمیان جنگ برپا تھی اور اللہ کا رسول اپنے مٹھی بھر رفقاء کے ساتھ مشرکین مکہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے خود میدان جہاد میں موجود ہوتا تھا اس لئے اس وقت اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کی طاقت ایک مرکز پر جمع ہو اور رسول کی قیادت میں دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا جائے لیکن جن مسلمانوں نے ہجرت نہیں کی تھی ان کا وزن اسلام کے پلڑے میں پڑنے کے بجائے دشمنان اسلام کے پلڑے میں پڑ رہا تھا یہاں تک کہ بعض لوگ مشرکین کے دباؤ کی وجہ سے ان کے لشکر میں شریک ہونے کے لئے اپنے کو مجبور پاتے اور اس طرح رسول اور اس کے ساتھیوں کے مقابلہ کے لئے میدان جنگ میں آ موجود ہوتے۔ یہ تھے اس وقت کے حالات جن میں مکّہ اور اس کے اطراف میں رہنے والے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں اس حکم کی تعمیل نہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ایمان کو فتنہ میں ڈالنا گوارا کر لیں لیکن اپنا گھر بار چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں اسی لئے اس آیت میں کسی حقیقی عذر کے بغیر ہجرت نہ کرنے کو اپنے نفس پر ظلم ڈھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور انہیں سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جس ملک میں بھی اظہار اسلام کی آزادی نہ ہو اور جبر و استبداد کی وجہ سے ایمان ہی خطرہ میں پڑ جائے وہاں سے کسی ایسے خطۂ زمین کی طرف ہجرت کرنا ضروری ہے جہاں ایمان کی حفاظت کی جا سکتی ہو اور اسلام کے کم از کم بنیادی تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہو الّا یہ کہ ایسے حالات میں بھی آدمی ہجرت کرنے پر قادر نہ ہو۔

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کا یہ وعدہ حرف بہ حرف پور ا ہوا اور مہاجرین کو مدینہ میں بڑا عمدہ ٹھکانہ میسر آیا اور رفتہ رفتہ انہیں معاشی فراوانی بھی حاصل ہو گئی۔

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی حکم کی بجا آوری کے سلسلہ میں آدمی کی نیت اور عملی قدم اٹھانے کا اعتبار ہے اگر اس کام کی تکمیل سے پہلے اس کی موت واقع ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر مارا نہیں جائے گا اور وہ اس کی بخششوں اور رحمتوں کا مستحق قرار پائے گا۔

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ "صلوٰۃ خوف ” کا بیان ہے یعنی حالت جنگ میں نماز ادا کر نے کا طریقہ جسے "قصر ” سے تعبیر کیا گیا ہے اور "قصر” کی جو شکل نبیﷺ کی سنت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نمازوں کی رکعتیں چار چار کے بجائے دو دو پڑھی جائیں رہیں مغرب اور فجر کی نمازیں تو ان میں قصر نہیں ہے لہٰذا سفر اور حضر دونوں میں مغرب کی تین رکعتیں اور فجر کی دو رکعتیں ادا کی جائیں گی۔ قصر کا حکم اصلاً جہاد کی وجہ سے دیا گیا تھا لیکن پھر ہر طرح کے سفر کے لئے عام کر دیا گیا لیکن سفر میں بالعموم بے اطمینانی کی کیفیت ہوتی ہے نبیﷺ نے حالت امن کے سفر میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کو جائز ٹھہراتے ہوئے فرمایا : صدقۃ تصدق اللّٰہ بھا علیکم فَاقْبَلُو اصدقتہ قصر کی اجازت اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے لہٰذا اس بخشش کو قبول کرو۔ (مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین) ۔ اور نبیﷺ سے یہ سنت بھی ثابت ہے کہ آپﷺ خوف اور امن دونوں حالتوں میں قصر فرمایا کرتے تھے۔

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں حالت جنگ میں نماز با جماعت کی ادائے گی کا ایک مخصوص طریقہ بتا یا گیا ہے جو نبیﷺ کی موجودگی میں اختیار کرنا ضروری تھا کیونکہ آپﷺ کی موجودگی میں جب کہ آپﷺ نماز کی امامت فرما رہے ہوں مناسب یہی تھا کہ پوری فوج آپ ہی کی اقتداء میں نماز ادا کرے الگ الگ امام اور الگ الگ جماعتیں نہ ہوں اور صحابہ کرامؓ پر بھی یہ بات شاق تھی کہ آپﷺ امامت فرمائیں اور ان میں سے کوئی شخص اس میں شرکت سے محروم رہے اس لئے اپ کی موجود گی میں صلوٰۃ خوف ادا کرنے کا مخصوص طریقہ بتا یا گیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک گروہ اسلحہ کے ساتھ آپ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑا ہو اور دوسرا گروہ حفاظت کا کام انجام دے جب پہلا گروہ آپ کی اقتداء میں ایک رکعت ادا کر چکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے اور اس کے بعد پیچھے چلا جائے اور حفاظت کا کام سنبھال لے اور دوسرا گروہ اسلحہ کے ساتھ آئے اور آپﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے جب اپ کے ساتھ ایک رکعت ادا کر چکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے۔ اس سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ عین میدان جنگ میں بھی اس کی ادائے گی ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جہاد کی اصل روح نماز ہی ہے نیز اس سے نماز با جماعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے حالت جنگ میں اگر جماعت سے نماز ادا نہ کی جا سکتی ہو تو پھر فرداً فرداً ادا کرنا چاہئے اگر قبلہ کی طرف رخ نہ کیا جا سکتا ہو تو جس طرف بھی رخ کیا جا سکے اور اگر رکو ع اور سجدہ نہ کیا جا سکتا ہو تو اشارہ سے نماز پڑھنا چاہئے اور اگر ایسی حالت ہو کہ کسی طرح بھی نماز ادا نہ کی جا سکتی ہو تو پھر قضا کرنی چاہئیے۔ نبیﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر جبکہ معرکۂ قتال گرم تھا نماز مؤخر کی اور بعد میں قضاء پڑھی۔

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر بارش کی وجہ سے ہتھیار اتارنا پڑے تو حفاظتی نوعیت کی چیزیں ضرور لئے رہو اس زمانہ میں حفاظتی نوعیت کی چیزیں زرہ بکتر، خود، ڈھال وغیرہ تھیں اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن نے دفاع کا اہتمام کرنے پر کس قدر زور دیا ہے۔

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کو ہر حال میں یاد کرو، اللہ کو یاد کرنے سے حوصلے بلند ہوتے ہیں لہذا میدان جنگ میں بھی ذکر الٰہی سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب خوف کی حالت دور ہو اور اطمینان کی صورت پیدا ہو جائے تو معمول کے مطابق پوری نماز ادا کرو۔

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ نماز کے اوقات مقر رہیں جن کی پابندی اہل ایمان پر فرض ہے رات اور دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء۔ ان نمازوں کے اوقات کی تفصیل نبیﷺ نے بیان فرمائی ہے۔

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم اللہ سے اس کی نصرت اور آخرت کی کامیابی کی امید رکھتے ہو اس لئے تمہارے حوصلے بلند ہو نے چاہئیں اور تمہیں صبر سے کام لینا چاہئیے۔

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں خیانت سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بے وفائی ہے جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے وہ ایک نہ ایک حرکت ایسی کرتے جس سے دین کو نقصان پہنچتا اور خدا اور رسول کے تعلق سے ان کی غلط ذہنیت کا اظہار ہوتا لیکن چونکہ یہ لوگ مسلمان کہلانے کی بنا پر مسلم معاشرے کا جز ء بن گئے تھے اور مسلمانوں کی ان سے رشتہ داریاں بھی تھیں اس لئے جب ان کی غلط حرکتوں پر گرفت کی جاتی تو بعض مسلمان ان کی حمایت کرنے لگتے یہاں اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بد عہدی کرنے والوں کی حمایت کرنا صحیح نہیں۔ کسی کے برسر حق ہونے یا بر سر باطل ہونے کا فیصلہ کتاب الٰہی کی روشنی ہی میں ہونا چاہئے اور بے لاگ ہونا چاہئے۔ آیت میں خطاب نبیﷺ سے ہے لیکن دراصل تنبیہ آپ کے واسطے سے ان مسلمانوں کو ہے جو منافقین کی حمایت کرتے تھے۔

۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی خفیہ مجلسوں اور سازشوں کی طرف۔

۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص صرف اپنے کئے کا ذمہ دار ہو گا اور دوسروں کے گناہوں کا بوجھ قبول کرنے والا نہیں پھر تم دنیا میں نام نہاد مسلمانوں کی بیجا حمایت کر کے کیا حاصل کر و گے ؟

۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے اور اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت کے خلاف در پردہ سازشیں کر رہے تھے انہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر اب بھی وہ اپنی گزشتہ حرکتوں پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگیں اور اللہ سے وفاداری کا تعلق جوڑیں تو اللہ کی بخشش و رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی اس حرکت کی طرف کہ جب ان کی کوئی سازش پکڑی جاتی یا ان کا کوئی گناہ ظاہر ہو جاتا تو وہ بہانہ بنا کر دوسروں کو اس کا قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کرتے، قرآن نے اصولی طور پر واضح کیا کہ کسی بھی جرم یا گناہ کا ارتکاب بجائے خود بری بات ہے لیکن اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپنا، گناہ کا بہت بڑا بوجھ اپنے سر لینا ہے کیونکہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے۔

۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں نبیﷺ کو خطاب کر کے اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو منافقین کے فتنوں سے تم بچ نہیں سکتے تھے وہ تمہارے خلاف برابر سازشیں کر رہے ہیں اور تمہیں غلط راستے پر ڈالنے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں ان کے فتنوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ جس کتاب و حکمت سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں نواز ا ہے اس کی قدر کرو۔

۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان منافقین کی اکثر سرگوشیاں فتنہ و فساد کے لئے ہوتی ہیں۔

۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترغیب ہے اس بات کی کہ پوشیدگی میں بھی بھلائی کی باتیں کی جائیں اور بھلائی ہی کے منصوبے بنائے جائیں۔

۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمنین کی راہ سے مراد سچے اہل ایمان کا طریقہ ہے اس آیت کے نزول کے وقت اس کے مصداق صحابۂ کرام تھے جنہوں نے دین کی مخلصانہ پیروی کا طریقہ اختیار کیا تھا وہ رسول کے سچے وفادار تھے اس کی مکمل اتباع کرتے اور انہیں رسول کی طرف سے جو حکم بھی ملتا اس کی تعمیل میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے اگر چہ کہ اس کے لئے انہیں شدید خطرات مول لینا پڑتے دوسری طرف منافقین کا گروہ تھا جو اپنے کو مسلمان کہلاتا تھا لیکن جس پر دین کی مخلصانہ پیروی کرنا اور رسول کی سچی وفاداری کا ثبوت دینا شاق گزر رہا تھا اس لئے وہ دین کے معاملے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہتا تھا جو ” مطابق مصلحت ” ہو اور اسے اپنی خواہشات ، اپنے رجحانات، اپنے مال اور اپنی جان کی قربانی نہ دینا پڑے۔ وہ رسمی اور بے روح دینداری کو اختیار کر کے مطمئن تھا کہ جنت میں جانے کے لئے یہ "شارٹ کٹ ” کا فی ہے۔ اس ذہنیت کے لوگ آج بھی مسلمانوں کے اندر دیکھے جا سکتے ہیں زمانہ کی ” مصلحتوں ” نے انہیں اسلام میں ایک نئی راہ نکالنے پر مجبور کیا ہے اس لئے ان کی ” دینداری ” میں اور مخلص مسلمانوں کی ” دینداری” میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ایک کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے تو دوسرے کا اس کی مخالف سمت کو، ایک اسلام کے احکام پر خلوص کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا بہانے تلاش کر کے اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے ایک دین کی روح اجاگر کرتا ہے تو دوسرا اس پر مادیت کے پردے ڈال دیتا ہے ایک گروہ چاہتا ہے کہ اسلام کے معاشرتی قوانین برقرار رہیں مگر دوسرا گروہ اس کا خاتمہ چاہتا ہے ایک گروہ شرعی احکام کی تطبیق پر زور دیتا ہے لیکن دوسرا گروہ اصرار کرتا ہے کہ انسان کے خود ساختہ قوانین ہی رائج ہو نے چاہئیں اس طرح دونوں کے زاویۂ نگاہ، طرز عمل، اور طریقۂ جدوجہد میں مشرق اور مغرب کا فرق ہوتا ہے یہ سب لوگ مسلم معاشرہ میں شامل سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ دوسرا گروہ مسلمان نہیں ہوتا اس قسم کے لو گ مسلمان کہلانے کے باوجود آخرت میں جہنم کے مستحق قرار پا سکتے ہیں۔

۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک، کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۱۱۱۔

۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی گناہ ہے لہٰذا اس سے ہر حال میں لازماً بچنا چاہئیے۔

۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے سے مراد حاجت روائی، مشکل کشائی اور فریاد رسی کیلئے پکار نا ہے۔ مشرکین حاجت روائی کے لئے دیویوں کو پکارتے ہیں کیونکہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہو تے ہیں کہ خدا نے اپنے اختیارات ان میں تقسیم کر دئے ہیں اس لئے کوئی دیوی دھن دولت سے نواز سکتی ہے تو کوئی بیمار کو اچھا کر سکتی ہے کوئی اولاد عطا کر سکتی ہے تو کوئی بگڑی ہوئی قسمت بنا سکتی ہے قرآن بتا تا ہے اور عقل اور فطرت اس کی تائید کرتی ہے کہ اول تو دیوی دیوتاؤں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے سارے اختیارات اور کامل اقتدار اللہ ہی کے پاس ہے اور خدائی ایک ناقابل تقسیم چیز ہے اور پھر حاجت روائی کے لئے کسی کو پکارنا در حقیقت اس کو معبود بنانا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کو ئی بھی عبادت کے مستحق نہیں ہے۔ ” یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مشرکین کی دیو مالا میں خواہ وہ کسی قوم و ملک کے مشرکین ہوں دیویوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے چین، ہندوستان، عرب، مصر اور بابل نینوا وغیرہ کے مشرکانہ مذاہب کی جو تاریخ موجود ہے اس پر ایک سرسری نظر ڈال کر اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے یہ بات بھی خاص طور پر ملحوظ رکھنے کی ہے کہ زندگی کی جو اصل ضرورتیں ہیں وہ بیشتر انہیں دیویوں سے متعلق سمجھی جاتی رہی ہیں۔ عرب جاہلیت میں بھی خدائی کے نظام پر بیشتر دیویوں ہی کا قبضہ تھا۔ لات، منات، عزّیٰ، وغیرہ دیویوں ہی کے نام ہیں۔ یہ فرشتوں کے بت تھے جن کے متعلق مشرکین کا عقیدہ تھا کہ یہ خدا کی لاڈلی اور چہیتی بیٹیاں ہیں جن کی بات خدا کبھی نہیں ٹالتا اس وجہ سے ان کے واسطہ سے جو کچھ مانگا جائے اگر یہ راضی ہوں تو وہ مل کر رہتا ہے۔ (تدبر قرآن، ج ۲، ص ۱۶۰) ۔ واضح رہے کہ شر ک صرف مشرکین (بت پرستوں) ہی میں نہیں تھا بلکہ اہل کتاب نے بھی مشرک قوموں سے متاثر ہو کر مشرکانہ طریقے اختیار کر لئے تھے۔

۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیوی دیوتاؤں کا تصور دراصل شیطان کا فریب ہے اور ان کی پرستش کرنے کا حکم بھی شیطان ہی دیتا ہے اس لئے جو لوگ اس کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں وہ در حقیقت شیطان ہی کے پرستار ہیں۔

۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے اس لئے وہ خیر سے یکسر محروم اور سرتا پا شر ہیں لہٰذا جو خیالات بھی وہ انسان کے ذہن میں ڈالے گا وہ گمراہ کن ہی ہوں گے اس حقیقت کے پیش نظر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہے اور ذہن میں پیدا ہونے والے فاسد خیالات کا کوئی اثر قبول نہ کرے۔

۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ابلیس کا قول ہے جو شیطانوں کا سردار ہے اس نے یہ بات اللہ تعالیٰ سے اس وقت کہی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے زمین کی خلافت کا تاج اس کے سر پر رکھا تھا ابلیس کو انسان سے حسد تھا اور اس نے قیامت تک کے لئے زندہ رہنے کی مہلت اللہ تعالیٰ سے حاصل کر لی تھی اس لئے اس نے اپنے اس منصوبہ کا اعلان کر دیا کہ وہ بندگان خدا کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گا۔ واضح رہے کہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ انسان کو زبردستی غلط راستہ پر ڈال دے بلکہ اسے غلط راستہ کی طرف بلانے، گناہ کی ترغیب دینے اور برائی کو خوشنما بنا کر پیش کرنے کا اختیار دیا ہے تاکہ خیر و شر کے معاملہ میں انسان کی آزمائش ہو۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ انسان دین کے معاملہ میں حقیقت پسند نہ بنے اس لئے وہ دین کی بنیادی باتوں کے سلسلہ میں غلط توجیہات میں الجھا کر اسے کامیابی کے سبز باغ دکھانے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ صریح شر ک میں مبتلا ہو نے کے باوجود خد ا سے انعام کی امید رکھتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دین میں بدعات و خرافات پیدا کر کے اس کی جڑ پر کلہاڑا چلاتے ہیں اور اپنی ان ” خدمات ” پر اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہیں۔

۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین جانوروں کے کان نذر کی علامت کے طور پر چیر تے تھے اور انہیں اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔

۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی کی ایک شکل تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی یعنی جانوروں کے کان چیرنا۔ اس کے علاوہ اس کی دوسری بھی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں مثلاً تحدید نسل کے لئے نس بندی، نزاکت پیدا کرنے کے لئے پنڈلیوں وغیرہ کو کاٹنا ، خصی کرنا، جنس تبدیل کرنا، مرد کا عورت نما اور عورت کا مرد نما بننا وغیرہ۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے جس ساخت پر انسان کو پیدا فرمایا ہے اس میں وہ کسی قسم کے رد و بد ل کا مجاز نہیں ہے الا یہ کہ شارع نے خود اس کی اجازت دی ہو مثلاً ختنہ کرنا، ناخن ترشوانا، بغل کے بال مونڈنا وغیرہ جو در حقیقت فطرت ہی کے تقاضے ہیں یا پھر انسانی عضو میں کسی قسم کی کاٹ چھانٹ کرنے کے لئے شدید مجبوری لاحق ہو جیسا کہ بعض حالات میں آپریشن کر کے ہا تھ پاؤں بھی کاٹ ڈالنا پڑتے ہیں ان استثنائی صورتوں کو چھو ڑ کر مشرکانہ مقاصد کے لئے یا تہذیب جد ید کے نام پر یا باطل نظریات کے زیر اثر خدا کی بنائی ہوئی ساخت میں کسی قسم کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنا وہ ماڈل Modelپسند نہیں کرتے جو ہمارے خالق نے بنا یا ہے بلکہ چاہتے ہیں کہ اپنی پسند کے موڈل میں ڈھل جائیں ظاہر ہے کہ یہ فطرت سے جنگ کرنے کے ہم معنی اور شیطان کی تحریک کا نتیجہ ہے۔

۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں جہنم سے نجات باطل آرزوؤں اور جھوٹی امیدوں میں مگن رہنے سے نہیں ملے گی بلکہ وہاں جزائے عمل کا قانون حرکت میں آئے گا دنیا میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب سے رسمی وابستگی کو اپنی نجات (مکتی) کے لئے کافی خیال کرتے ہیں اور خوش گمانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم فلاں اور فلاں مذہبی پیشواؤں کے نام لیوا ہیں اس لئے ہمارا بیڑا پار ہے مسلمان بھی اسی طرح کی خوش اعتقادی میں مبتلا ہو گئے ہیں لیکن قرآن متنبہ کرتا ہے کہ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ بننے والا نہیں ہے۔ آخرت میں جس بنیاد پر فیصلہ ہو گا وہ انسان کا اپنا ایمان اور عمل صالح ہے لہٰذا جس کسی کا عمل برا ہو گا وہ اس کی سزا ضرور پائے گا خواہ وہ اپنے کوکسی مذہب کی طرف منسوب کرتا رہا ہو۔

۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کا مخلص دوست یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے بائبل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ” اے یعقوب جس کو میں نے پسند کیا جو میرے دوست ابرہام کی نسل سے ہے ” (یسعیاہ ۴۱: ۸) ۔

۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ کا اقتدار بھی ہمہ گیر ہے اور علم بھی ہمہ گیر۔

۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز میں عدل کی شرط کے ساتھ تعدد ازواج کی جو اجازت دی گئی ہے اس کے سلسلہ میں بعض سوالات پیدا ہو گئے تھے جن کا جواب یہاں دیا گیا ہے یہ جواب آگے آیت ۱۲۸میں درج ہے اور اس جواب سے سوال کی نوعیت خود واضح ہو جاتی ہے۔

۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کے اصل سوال کا جواب دینے سے قبل ان احکام کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جن میں یتیموں کے حقوق اور خاص طور سے یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک یتیموں کے حقوق کی کیا اہمیت ہے اور ان کی ادائے گی کی کتنی سخت تاکید کی گئی ہے۔

۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے آیت ۳  کی طرف جس میں فرمایا گیا تھا کہ ” اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کر لو ” یہاں واضح فرمایا کہ ” وہ یتیم لڑکیاں جنہیں تم ان کا مقر رہ حق نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو ” اس سے معلوم ہوا کہ آیت ۳میں یتیموں سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور ان کے ساتھ انصاف نہ کرنے سے مراد ان کا حق ادا نہ کرنا ہے اس مقر رہ حق میں ان کا حق وراثت (ان کے باپ کی چھوڑی ہوئی دولت) بھی شامل ہے اور یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر کسی نے ایک بیوی کے ہوتے ہوئے یتیم لڑکی سے شادی کر لی تو اسے اس کے ساتھ بھی برابری کا سلو ک کر نا ہو گا۔ آیت کا خطاب گو عام ہے لیکن یہاں خاص طور سے یتیم بچیوں کے سرپرست مراد ہیں چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو یتیم بچیاں مالدار ہونے کے ساتھ خوبصورت بھی ہوتیں ان سے ان کے سرپرست خود نکاح کر لیتے اور ان کے مال پر قابض ہو جاتے ان کا نکاح دوسری جگہ کرنے سے اس لئے کتراتے کہ ان کا حق وراثت ادا نہ کرنا پڑے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص ۵۶۱)

اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ قرآن یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کی حوصلہ شکنی کرتا ہے یتیم لڑکی کو رفیقہ حیات بنا لینا بجائے خود نیکی کا کام ہے لیکن جب یہ کام کسی کا مال ہڑپ کرنے کی غرض سے کیا جائے یا ایک بیوی کی موجودگی کسی یتیم لڑکی سے اسے بے وقعت سمجھ کر شادی کر لی جائے اور عدل و قسط کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر تعدد ازواج کے قانون سے فائدہ اٹھایا جائے تو پھر یہ کام نیکی کا نہیں رہتا۔ اس سے اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اسلام میں اصل اہمیت فر د کے اخلاقی رویہ کی ہے اس لئے اسے اسی پہلو سے سوچنا چاہئیے نہ کہ محض ” مسائل کو حل کرنے ” کے پہلو سے۔

۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو سورہ کے آغاز میں نادانوں کو ان کا مال حوالہ کرنے نیز بچوں کے حق وراثت کے سلسلہ میں دئیے گئے ہیں۔

۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو سورہ کی ابتدائی آیتوں میں یتیموں سے متعلق دئیے گئے ہیں۔

۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اصل استفتاء کا جواب قرآن نے تعدد ازواج کی اجازت کو عدل کی شرط کے ساتھ جو مشروط کیا ہے اس کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی پہلی بیوی سے عدل کا معاملہ نہ کرے اور اس بیوی کو یہ اندیشہ محسوس ہو کہ اگر وہ اس پر زور دیتی ہے تو وہ اسے طلاق دے دے گا اور وہ نہیں چاہتی کہ وہ اسے طلاق دے تو کیا ایسی صورت میں بیوی اپنے کچھ حقوق سے دست بر دار ہو کر شوہر کو اس بات پر آمادہ کر سکتی ہے کہ وہ طلاق نہ دے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے یعنی اگر کوئی عورت یہ محسوس کرے کہ شوہر اس کے حقوق ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے یا اس معاملہ میں بے پروا ہے اور اس پر زور دینے کی صورت میں طلاق کا اندیشہ ہے تو باہم سمجھوتہ کر لینا بہتر ہے ایسی صورت میں عورت اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو سکتی ہے کیونکہ طلاق کے معاملہ میں مصالحت بہر حال بہتر ہے ۲۱۴یعنی معاشرتی تعلقات کی خرابی میں تنگ دلی کو بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ تنگ دلی مرد کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور عورت کی طرف سے بھی۔ اگر دونوں وسیع القلبی کے ساتھ ایک دوسرے سے معاملہ کریں تو ایک دوسرے کے حقوق بھی اد ا ہو سکتے ہیں اور گھر کی فضاء بھی خوشگوار ہو سکتی ہے۔

۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعدد ازواج کی صورت میں عدل کو جو لازم قرار دیا گیا ہے اس کے تعلق سے یہ سوال پیدا ہو ا کہ محبت و رغبت سب بیویوں کے ساتھ یکساں نہیں ہو سکتی اور نہ جسمانی تعلق سب کے ساتھ بالکل یکساں رکھا جا سکتا ہے ایسی صورت میں عدل کی شرط کو کیونکر پورا کیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہاں یہ دیا گیا کہ اس حد تک یکسانیت تو یقیناً انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ عور توں کے درمیان مختلف حیثیتوں سے فرق بھی ہوتا ہے مثلاً خوبصورتی، مزاج، عمر، صحت اور قابلیت وغیرہ کے لحاظ سے ایک کو دوسرے پر فوقیت ہوتی ہے اور اس بنا پر مرد کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہو سکتا ہے اس لئے شریعت بیویوں کے درمیان ایسی مساوات قائم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتی جو انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان امکان بھر عدل کر و اور ایک بیوی کی طرف اس طرح جھک نہ پڑو کہ دوسری کو معلق چھوڑ دو تمہیں دونوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اصلاح اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے باوجود اس معاملہ میں اگر کچھ غلطیاں سرزد ہو گئیں تو اللہ سے امید رکھو کہ وہ معاف فرمائے گا۔

۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کوشش کے باوجود نباہ نہ ہو سکا اور زوجین کو ایک دوسرے سے علیٰحدگی ہی اختیار کرنا پڑی تو انہیں چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ دونوں کو اپنے فضل سے مستغنی کرے گا۔

۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے ” اس کو یہاں تین مرتبہ دہرا یا گیا ہے (آیت ۱۳۱ میں دو مرتبہ اور آیت ۱۳۲میں ایک مرتبہ) یہ محض تکرار نہیں ہے بلکہ مختلف پہلوؤں سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ مالکِ کل تنہا وہی ہستی ہے اس لئے اسی سے امیدیں وابستہ کی جانی چاہئیں اسی سے ڈرنا چاہئیے اور اسی کو مرجع بنانا چاہئے۔ پہلی مرتبہ اس فقرہ کا ذکر اس پہلو سے ہے کہ جو ہستی آسمان و زمین کی مو جود ات کی مالک ہے وہ تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہو سکتی وہ یقیناً بڑی فراخ دست اور بڑی فیاض ہے اس لئے تم (زوجین علیٰحدگی کی صورت میں) اس سے بجا طور پر یہ امید کر سکتے ہو کہ وہ تم میں سے ہر ایک کو اپنے فضل سے مستغنی کر دے گا۔ دوسری مرتبہ اس کو دہرانے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ یہ جو معاشرتی ہدایات دی گئی ہیں وہ تمہاری اپنی بھلائی کے لئے ہے اس سے اللہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے اگر تم کفر بھی کرو تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ بگڑنے والا نہیں کیونکہ ساری کائنات اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر طرح کے کمالات سے متصف ہے اور تیسری مرتبہ اس کے اعادہ کا منشاء یہ ہے کہ بندے اسی پر توکل کریں۔

۲۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے نزدیک دنیا کے فائدے بھی ہیں اور آخرت کے بھی اب یہ تمہارے اپنے ظرف اور حوصلہ کی بات ہے کہ تم صرف دنیا کے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو یا دنیا اور آخرت دونوں کے۔ اگر دنیا اور آخرت دونوں کے فائدے حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرو۔

۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے، بے لاگ انصاف کرنے اور غیر جانبدارانہ طریقہ پر بالکل بے لوث ہو کر صرف خدا کی خاطر گواہی دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ عدل و قسط اور شہادت حق کا وہ اعلیٰ معیار ہے جس پر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ حقوق العباد میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے لیکن قرآن کے نزدیک حق پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ بے لاگ انصاف کیا جائے اور گواہی کے معاملہ میں ان کی بھی رعایت نہ کی جائے اور جب والدین کی رعایت کرنا درست نہیں تو ان کے بعد جن کا درجہ ہے ان کی رعایت کے لئے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ بالفاظ دیگر یہ اصولی ہدایت ہر قسم کی بے جا عصبیت اور جانبداری کی جڑ کاٹ دیتی ہے ا ور یہ واضح کرتی ہے کہ آدمی کا مقام خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو انصاف کے معاملہ میں سب یکساں ہیں۔

۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کا حق سب سے بڑا ہے لہذا اللہ کے قانون عدل کے سامنے سب برابر ہیں۔

۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مقدمہ میں گواہی صاف صاف دینا چاہئے اور گواہی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس پر خدا کے یہاں گرفت ہو گی۔

۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایمان لانے والوں سے مراد عام مسلمان ہیں جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کا دین اسلام ہے خواہ وہ اپنے دین میں مخلص ہوں یا نہ ہوں۔ ان سے ایمان لانے کا مطالبہ یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ دل سے ایمان لائیں اور سچے اور پکے مؤمن بن جائیں۔

۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کفر کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی صاف صاف انکار کر دے اور دوسری شکل یہ ہے کہ زبان سے تو اقرار کرے لیکن دل سے نہ مانے۔

۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہو ا کہ مؤمنوں کے مفاد کے خلاف کافروں سے دوستی گانٹھنا تاکہ کرسی اور عہدے ملیں اور لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں منافقانہ حرکت ہے کسی سچے مسلمان کا یہ کام ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی ملت کے ساتھ غدار ی کرے۔

قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود آج مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ملت اسلامیہ سے غداری کر کے کافروں کی طرف پینگیں بڑھاتے ہیں اور انہیں ہر قیمت پر خوش کرنے کا سامان کرتے ہیں تاکہ انہیں عزت کا مقام حاصل ہو۔ کاش انہیں خبر ہوتی ک یہ جھوٹی عزت ہے جس پر وہ ریجھ گئے ہیں سچی عزت تو اللہ ہی کے پاس ہے اور اس کی رضامندی کے کام کر کے ہی اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورہ انعام آیت کی طرف۔

۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن مجلسوں میں اللہ کے دین اور اس کے احکام و ہدایات کے خلاف کافرانہ خیالات کا اظہار کیا جاتا ہو یا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہو ان میں شرکت غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔

۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ بقرہ آیت ۹میں یہ مضمون گزر چکا۔

۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی نماز محض دکھاوے کی ہوتی ہے۔

اس زمانہ میں اپنا شمار مسلمانوں میں کرانے کے لئے نماز با جماعت میں شرکت ضروری تھی لیکن اب انحطاط کا یہ عالم ہے کہ جو شخص سر ے سے نماز ہی نہ پڑھتا ہو وہ نہ صرف مسلمان ہو سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کا قائد اور ہیرو بھی اور مسجد میں حاضر نہ ہونے والا مسجد کا متولی بن سکتا ہے۔

۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں منافقین کے نماز کی تین بڑی خرابیاں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ کاہلی کے ساتھ کھڑا ہونا، دوسرے یہ کہ دکھاوے کی نماز پڑھنا، تیسرے یہ کہ اللہ کو برائے نام یاد کرنا۔ اس سے مخلصین مؤمنین کی نماز کی خصوصیات آپ سے آپ واضح ہو جاتی ہیں۔ یعنی نماز کے لئے چستی کے ساتھ کھڑے ہونا، ریا اور نمائش سے احتراز کرتے ہوئے محض اللہ کے لئے نماز پڑھنا اور اللہ سے د ل لگا کر اس کو بہ کثرت یاد کرنا۔

۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس نے غلط راستہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ایسے شخص کو راہ راست پر لگانا پھر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

۲۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو نوٹ ۴۱آل عمران۔

۲۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنبیہ ہے منافقین کو کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ وہ چونکہ اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے وہ کافروں کے مقابلہ میں بہتر ہیں اور خدا کے ہاں ان کی کوئی قدر ہو گی نہیں بلکہ وہ کافروں سے بدتر ہیں اور ان سے زیادہ سخت سزا کے مستحق ہیں اس لئے کہ دل سے یہ بھی کافر ہیں مزید برآں اپنے کو مسلمان ظاہر کر کے خدا اور خلق کے ساتھ دھوکہ بازی کرتے ہیں۔

۲۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منافقین عذاب سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں جبکہ وہ اپنی یہ ذہنی، فکری اور عملی اصلاح کر لیں۔

۲۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ کفر اور نفاق سراسر ناشکری ہے جبکہ ایمان کی حقیقت شکر ہے۔

۲۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہذا اگر تم شکر گزار بندے بنو تو وہ تمہارے اعمال اور خدمات کی قدر کرے گا اور اس کا بھر پور صلہ دے گا۔

۲۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مظلوم کو ظالم کے خلاف بولنے کا حق ہے۔

۲۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان صفات کے ذکر سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ مظلوموں کی فریاد سنتا ہے اور ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کا اسے اچھی طرح علم ہے جس سیاق میں یہ بات ارشاد ہو ئی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے مخالفین اور منافقین مسلمانوں کو مشتعل کر نے اور انہیں زک پہنچانے کے درپے تھے۔

۲۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مخالفین کی زیادتی کے باوجود اگر تم نے کھلے اور چھپے بھلا ئی کی روش اختیار کی اور درگزر سے کام لیتے رہے تو تمہارا یہ طرز عمل اللہ کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ ہو گا کیونکہ وہ سزا دینے پر پوری طرح قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں سے در گزر فرماتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی ان صفات کا اثر اس کے بندے قبول کریں۔

۲۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ ان لوگوں کو کافر قرار دیتی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کو مانتے ہوئے کسی ایک رسول کو نہ مانیں کیونکہ ایمان وہی معتبر ہے جو خدا کی ہدایت کے مطابق ہو نہ کہ اپنے من مانے طریقہ پر۔ لہذا جو شخص حضرت محمدﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لاتا اس کے کٹر کافر ہو نے میں کوئی شبہ نہیں ہے خواہ وہ خدا اور اس کے رسولوں کو ماننے کا کتنا ہی بلند بانگ دعویٰ کرے۔

۲۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ان کا اجر ” کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان و عمل کے لحاظ سے جس درجہ کے ہوں گے اس درجہ کے اجر کے وہ مستحق قرار پائیں گے۔

۲۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لائین گے ان کے ساتھ وہ درگزر کا معاملہ کرے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔

۲۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لو گ اس قسم کے مطالبے کر تے ہیں وہ دراصل اس بات کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ حقیقت اس طرح آشکارا ہو کر ان کے سامنے آ جائے کہ وہ اپنے سر کی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں اور غیب پر ایمان لانے کا سوال باقی نہ رہے۔ ظاہر ہے ان کی یہ خواہش اور یہ مطالبہ اس حکمت کے سراسر خلاف ہے جو انسان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے اور وہ اپنی عقل سے کام لیکر اور حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والی نشانیوں کو دیکھ کر آسمانی ہدایت کی روشنی میں غیبی حقائق پر ایمان لائے۔ اگر انسان حقیقت پسندی سے کام لے تو وہ اس قسم کے مطالبات کبھی نہیں کرے گا بلکہ اللہ کی اس اسکیم کو جو اس دنیا میں نافذالعمل ہے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔

” کڑک نے پکڑ لیا تھا ” اس واقعہ کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۷۵۔

۲۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے کے بعد بچھڑے کی پوجا کی تھی ان کے اسی قومی جرم کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اور اسکی تفصیل سور ہ اعراف آیات ۱۵۲۔ ۱۴۸ اور سورہ طٰہٰ آیات ۸۷۔ ۹۸میں بیان ہوئی ہے۔

۲۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو حجت قاطع عطا کی تھی تاکہ وہ جو باتیں اللہ کی طرف سے پیش کریں ان کو صحیح تسلیم کرنے میں لوگوں کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔

فحوائے کلام سے واضح ہے کہ نبیﷺ کو قرآن کی شکل میں حجت قاطع عطا کی گئی ہے لہٰذا اس کو من جانب اللہ تسلیم کرنے میں خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب کوئی عذر باقی نہیں رہا۔

۲۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سور ہ بقرہ نوٹ ۸۸۔

۲۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۸۹۔

۲۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۸۹۔

۲۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کے جرائم بیان کرنے میں اس قدر جوش غضب کا اظہار ہو ا ہے اور کلام میں ایسا زور اور شدت پیدا ہو گئی ہے کہ ان جرائم کی بنا پر جو سزا انہیں دی گئی اس کو الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی لئے جو بات یہاں محذوف ہے اسے ہم نے قوسین میں بیان کر دیا ہے یعنی ان جرائم کی بنا پر اللہ کا یہود پر لعنت کرنا، گویا جوش غضب کے اظہار سے آپ سے آپ غضب ٹوٹ پڑا ہے۔

۲۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں بنی اسرائیل کے ان جرائم کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جس قوم کی تاریخ اس قسم کے جرائم سے بھری پڑی ہو اور جن کا قومی مزاج ہی باغیانہ بن چکا ہو وہ اگر آج تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ قرآن کو آسمان سے اترتا ہوا دکھا دو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ ان کو نہ کوئی بات سمجھنا ہے اور نہ ایمان لانا بلکہ وہ محض بات ٹالنے کی غرض سے شرائط اور مطالبات پیش کر رہے ہیں۔

۲۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود فخر کے ساتھ کہتے کہ ہمارا عقیدہ اتنا پختہ ہے کہ تمہاری بات کا کوئی اثر ہمارے دلوں پر نہ ہو گا حالانکہ حق آ جانے کے بعد غلط عقائد پر جمے رہنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔

۲۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معجزانہ طریقہ پر بغیر باپ کے ہوئی تھی اور آپ نے گہوارہ میں سے خطاب کر کے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا تھا اس لئے آپ کے دور میں کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی تھی کہ وہ آپ کی والدہ محترمہ پر اس سلسلہ میں بہتان لگا تا لیکن بعد میں یہود یوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کی غرض سے حضرت مریم پر گھناؤنا الزام لگایا۔

۲۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود گناہ پر اتنے ڈھیٹ ہو گئے تھے کہ حضرت عیسیٰ ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کے خلاف قتل کی سازش کرنے میں انہیں ذرا تامل نہ ہوا اور پھر فخر کے ساتھ دعویٰ کرنے لگے کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا۔ اگر چہ کہ ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سازش کو ناکام بنا دیا لیکن اس سے ان کے جرم کی سنگینی اور ان کی سنگ دلی کا اندازہ ہوتا ہے۔

۲۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے آیت ۱۵۹ کے اخیر ” ان پر گواہی دے گا ” تک کا مضمون جملہ معترضہ کے طور پر ہے چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی بات چھڑ گئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اوپر کے سلسلۂ بیان کو روک کر حقیقت حال واضح فرما دی۔

۲۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ یہود کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو سولی دی وہ نہ قتل کر سکے اور نہ سولی دے سکے بلکہ واقعہ یہ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بحفاظت اپنی طرف اٹھا لیا اور آپ کے اچانک اوپر اٹھا لئے جانے سے حقیقت حال ان پر مشتبہ ہو گئی۔ انہوں نے آپ کو رسوا کرنے اور آپ کے مشن کو ناکام بنا نے کے لئے سولی دئیے جانے کے فرضی افسانے گڑھ لئے اور اس کا پروپگنڈہ اتنے بڑے پیمانے پر کیا کہ نصاریٰ بھی اس فریب کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو مظلوم ثابت کر دکھانے اور پھر اس پر کفار ہ کے عقیدہ کی عمارت کھڑی کر نے کی غرض سے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اسے بائبل میں بھی شامل کر لیا۔ حالانکہ یہ بات جہاں یہود کے لئے باعث فخر تھی وہاں نصاریٰ کے لئے باعث استخفاف تھی۔ قرآن نے قتل مسیح کی حقیقت پر سے پر دہ اٹھا کر حضرت مسیح کی شان میں اضافہ ہی کیا ہے رہا یہ سوال کہ اشتباہ کس طور سے پیش آیا تو اس کی صورت متعین کرنا مشکل ہے۔ اس سلسلہ میں اٹکل سے بات کرنے کے بجائے قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کر لینے ہی میں سلامتی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت بیت المقدس پر رومیوں کی حکومت تھی اور یہودی علماء اور ان کے سرداروں نے ایک سازش کے تحت رومی حکام کو حضرت مسیح کے خلاف اکسایا تھا اور انہیں گرفتار کرنے اور سولی دینے پر آمادہ کیا تھا حکومت وقت کو مشتعل کرنے کے لئے انہوں نے خاص طور سے جو حربہ استعمال کیا تھا وہ ان کا یہ الزام تھا کہ حضرت مسیح یہود کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

۲۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اختلاف کرنے والوں سے مراد نصاریٰ ہیں۔

۲۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جس زمانہ میں قرآن نازل ہو رہا تھا قتل مسیح کے بارے میں نصاریٰ کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح کو سولی دئے جانے اور قبر سے ان کے اٹھ کھڑے ہونے کا جو قصہ بائبل میں بیان ہوا ہے ایک معمہ سا بن گیا ہے۔ بائبل کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی بناء پر مسیحیوں نے حضرت مسیح کی موت کے بارے میں عجیب و غریب فلسفے ایجاد کئے۔ چنانچہ ایک فلسفہ Docetism کے نام سے مشہور ہوا جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا جسم مادی تھا۔ اس غیر حقیقت پسندانہ ذہنیت نے انہیں یہ باور کرایا کہ وہ خدا کے بندے نہیں بلکہ نعوذ باللہ اس کے بیٹے تھے۔ یہ سب تصورات بعد میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں ہے :

"One would thought that the first and second Christian generations would at any rate have had no doubt about our Lord’s real manhood”.

(Ency. of Religion & Ethics Vol. Vol IV Page 832)

"It was a possible to show to any one who accepted the story of His life in the Gospels that He was a real man, subject to the normal conditions of human life”.

(ERE Vol. IV Page 833)

اس انسائیکلوپیڈیا میں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ باسلق اس بات کے قائل ہیں کہ صلیب غلطی سے سائمن کو دی گئی تھی۔

"Irenaeus says that Besilides’ account of the crucifixion was that Simon of Cyrene was crucified by mistake”.

ERE Vol. Page 833

رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبر سے جی اٹھنے کا قصہ جو بائبل میں مختلف انداز سے بیان ہوا ہے تو اس کے انداز بیان ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں جن کو جمع کر لیا گیا ہے اور جن کی حقیقت افسانہ سے زیادہ نہیں۔ مثال کے طور پر یوحنا کی انجیل میں ہے :

"لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھک کر اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہوئے ایک سرہانے اور دوسرے کو پیتانے بیٹھے دیکھا۔ جہاں یشوع کی لاش پڑی تھی۔ انہوں نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روتی ہے ؟ اس نے ان سے کہا اس لئے کہ میرے خداوند کو اٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھا ہے ؟ یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑ ے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ یسوع نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روتی ہے ؟ کس کو ڈھونڈتی ہے ؟ مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں کو خبر دی کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں ” (یوحنا ۲۰: ۱۱۔ ۱۸)

واضح رہے کہ یہاں جس مریم کا ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہیں بلکہ دوسری مریم ہے) لیکن لوقا کی انجیل میں مریم کے یسوع کو قبر کے پاس کھڑے دیکھنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں یہ قصہ اس طرح بیان ہوا ہے۔

” اور جب اس کی لاش نہ پائی تو یہ کہتی ہوئی آئیں کہ ہم نے رؤیا میں فرشتوں کو ہی دیکھا انہوں نے کہا وہ زندہ ہے اور بعض ہمارے ساتھیوں میں سے قبر پر گئے اور جیسا عورتوں نے کہا تھا ویسا ہی پایا مگر اس کو نہ دیکھا ” (لوقا ۲۴: ۲۳۔ ۲۴)

اس بیان کے مطابق عورتوں نے فرشتوں کو رؤیا میں دیکھا اور فرشتوں نے یہ خبر دی تھی کہ عیسیٰ زندہ ہیں یعنی ان عورتوں کا عینی مشاہدہ نہ تھا۔ اسی طرح مرقس کی انجیل میں بھی اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ان عورتوں نے یسوع کو قبر کے پاس کھڑے دیکھا بلکہ یہ صراحت ہے کہ :

"اور وہ نکل کر قبر سے بھاگیں۔ کیونکہ لرزش اور ہیبت ان پر غالب آ گئی تھی اور انہوں نے کسی سے کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ ڈرتی تھیں ” (مرقس ۱۶:۔ ۸)

ان انجیلوں میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ شاگردوں نے یسوع کو مرنے کے بعد گلیل میں دیکھا ساتھ ہی یہ اعتراف بھی موجو دہے کہ بعض نے شک کیا :

"اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا مگر بعض نے شک کیا ” (متی ۲۸: ۱۷)

اور مرقس کی انجیل یہ کہتی ہے کہ :

” پھر وہ ان گیارہ کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور اس نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر ان کو ملامت کی کیونکہ جنہوں نے اس کے جی اٹھنے کے بعد اسے دیکھا تھا انہوں نے ان کا یقین نہ کیا تھا ” (مرقس ۱۶: ۱۴)

اور یوحنا کی انجیل میں ہے کہ یسوع آٹھ روز کے بعد اپنے شاگردوں کے درمیان ظاہر ہوا۔ نیز یہ بھی بیان کیا گیا ہے :

"یسوع مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یہ تیسری بار شاگردوں پر ظاہر ہوا ” (یوحنا ۲۱: ۱۴)

بائبل کا یہ الجھا ہوا اور غیر یقینی بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت مسیح کے دفن ہونے اور اس کے بعد قبر سے جی اٹھنے کا قصہ خواب پریشان سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ بیان اس قدر الجھا ہوا ہے کہ بائبل کا شارح خود تسلیم کرتا ہے کہ:

"There are however numerous critical problems about the story (See Taylor  602ff) especially when it is compared in details with the accounts in the other Gospels”.

Peak’s Commentary on the Bible Page 818)

اور اس کے شارح نے انجیل مرقس کے آخری باب کے بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ وہ اصلاً مرقس کا حصہ نہیں ہے :

"It is now generally agreed that 9-20 are not an original part of MK. They are not found in the oldest MSS and indeed were apparently not in the copies used by Mt. and LK.” (Do)

اسی طرح یوحنا کی انجیل کے آخری باب (۲۱) کے بارے میں اس کا شارح لکھتا ہے کہ اس کا اضافہ انجیل کے مؤلف نے خود کیا ہے۔

"It was a supplement added by the evangelist himself.” (Do Page 867)

غرض یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے قبر سے جی اٹھنے کا قصہ محض افسانہ ہے اور پھر یہ محض افسانہ نہیں رہا بلکہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ قرار پایا جس پر پور ے مسیحی علم کلام کی عمارت کھڑی کر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن نے اپنے اس حقیقت افروز بیان کے ذریعہ کہ حضرت مسیح کو نہ قتل کیا جا سکا اور نہ سولی دی ماسکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا مسیحی علم کلام کی عمارت ڈھا دیتا ہے۔

۲۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہود حضرت مسیح کو ہر گز قتل نہ کر سکے یہ بات شبہ سے بالا تر ہے۔

۲۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۸۲۔

۲۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ کی ان دو صفات کے ذکر سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کا واقعہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور یہ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت کا غیر معمولی ظہور ہے۔

۲۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت جب واقع ہو گی تو اس وقت جتنے اہل کتاب موجود ہوں گے خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ سب ان کی رسالت پر ایمان لا چکے ہوں گے۔

حدیث میں نبیﷺ نے صراحتہً بتلا یا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے قریب نازل ہوں گے اور اس وقت کے یہودیوں کے سب سے بڑے لیڈر اور مفسد دجال کو قتل کریں گے جس کے بعد سب اہل کتاب حضرت مسیح پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائیں گے اور دنیا میں نہ یہودیت باقی رہے گی اور نہ نصرانیت۔ بلکہ اسلام اور صرف اسلام ہو گا۔

نزول عیسیٰ ؑ کے سلسلہ میں جو احادیث صحیحہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبل احد”” حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیراً من الدنیا وما فیھا۔ ثم یقول ابوہریرہ اقرء أ و اان شئتم و ان من اھل الکتاب الخ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابن مریم تمہارے درمیان حاکم عادل بن کر ضرور آئیں گے پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور سور کو قتل کریں گے اور جنگ ختم کر دیں گے (اس وقت) مال کی ایسی کثرت ہو گی کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا۔ اس وقت (اللہ کے حضور) ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا اس کو روایت کرنے کے بعد ابو ہریرہؓ نے فرمایا اس کی تصدیق چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو و ان من اھل الکتاب الخ

عن النواس بن سمعان قال قال رسو ل اللہﷺ فبینما ھو کذلک اذ بعث اللہ المسیح ابن مریم فینزل عند النارۃ البیضاء مشرقی دمشق مھر ودتین واضعاً کفیہ علی اجنحۃ ملکین اذا طا طأ راسہٗ قطر و اذا رفعہ تحدر منہ جمان کاللؤلو فلا یحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات ونفسہ ینتھی الیٰ حیث ینتھی طرفہٗ فیطلبہٗ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہٗ (مسلم کتاب الفتن)

نواس بن سمعان روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا اس اثناء میں (کہ دجال فتنہ برپا کر رہا ہو گا) اللہ مسیح ابن مریم کو بھیج دے گا اور وہ دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید مینارے کے پاس زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہو گا کہ موتی کے قطرے ڈھلک رہے ہیں ان کی سانس کی ہوا جس کافر تک پہنچے گی وہ مر جائے گا اور ان کی سانس حد نظر تک پہنچے گی پھر وہ دجال کا پیچھا کریں گے اور اسے لُد کے دروازے کے پاس پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے۔

عن مجمع بن جاریۃ الانصاریؓ قال : سمعت رسول اللہﷺ یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لُدّ (ترمذی ابو اب الفتن)

مجمع بن جاریّہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابن مریم دجال کو لُد کے دروازے پر قتل کریں گے۔

یہ اور اس طرح کی دوسری حدیثیں جو اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جو آخری زمانہ میں ہو گا ایک مخصوص مہم کو سر کرنے کے لئے ہو گا یعنی دجال کو ہلاک کرنا، اور اس کے برپا کئے ہوئے فتنۂ عظیم کا استیصال کرنا اور قرآن کی مذکورہ آیت سے مترشح ہوتا ہے کہ نزول عیسیٰ ؑ کا خاص مقصد یہ ہو گا کہ یہود کے اس دعوے کو کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کیا غلط ثابت کر دکھا یا جائے۔ نیز نصاریٰ کے غلط عقائد خاص طور سے ان کے خدا کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کو باطل کر دکھایا جائے اور حضرت عیسیٰ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کا مزید ثبوت فراہم ہو جائے نیز ان کی طبعی موت جو ابھی واقع نہیں ہوئی ہے اسی زمین پر واقع ہو جائے۔ واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول کی حیثیت سے حضرت محمدﷺ سے پہلے آ چکے ہیں اور مسلمان اپ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں آخری زمانہ میں ان کا جو نزول ہو گا وہ کسی نئے نبی کی حیثیت سے نہیں ہو گا اس لئے ان کے نزول سے حضرت محمدﷺ کے ختم نبوت کے عقیدہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناز ل ہوتے ہی کوئی دعویٰ شروع نہیں کریں گے بلکہ وہ کام کر دکھائیں گے جس کے لئے انہیں خاص طور سے بھیجا گیا ہو گا۔ ان کی اس مہم میں کامیابی خود بتا دے گی کہ وہ عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو انہیں پہچاننے میں کوئی دقت نہ ہو گی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو ان فتنوں سے آدمی بچ سکتا ہے جو قادیانیت وغیرہ کی شکل میں ابھر تے رہتے ہیں اور اپنے مسیح ہونے کا باطل دعویٰ کر کے لوگوں کی گمراہی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔

۲۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو گواہی دیں گے اس کی تفصیل سورہ مائدہ آیت ۱۱۷۔ ۱۱۶میں بیان ہوئی ہے۔

۲۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جملہ معترضہ اوپر ختم ہو گیا اب یہاں سے پھر وہی سلسلۂ کلام شروع ہوتا ہے جو آیت ۱۵۵سے چلا آ رہا تھا۔

۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سود کی حرمت کا حکم بائبل میں آج بھی موجود ہے جس کے اقتباسات ہم سورہ بقرہ کے نوٹ ۴۵۶میں نقل کر چکے ہیں۔

۲۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک یہود کے جرائم کا ذکر ہوا ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس قوم کا رویہ اس حد تک سرکشانہ رہا ہو وہ اگر آج قرآن پر ایمان لانے کے سلسلہ میں ہٹ دھرمی دکھا رہی ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ انہیں خبردار کرتا ہے کہ جو لوگ بھی کفر پر جمے رہیں گے ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۲۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ علماء ہیں جو دین کا صحیح علم رکھتے ہیں اور اس میں پختہ تھے وہ اپنے قول و عمل اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے عام علماء یہود سے ممتاز تھے ان کی حق پسندی کی بنا پر انہیں قرآن پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوئی۔

۲۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ لوگ ہیں جو اگر چہ کہ علم میں راسخ ہو نے کا درجہ نہیں رکھتے تھے لیکن وہ خیر پسند اور نیک کردار تھے قرآن کی دعوت جب انہوں نے سنی تو وہ اس پر ایمان لے آئے۔

۲۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود نماز اور زکوٰۃ دونوں چیزوں کو ترک کر چکے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دین ہی کو ضائع کر بیٹھے صرف وہی لوگ دین پر قائم رہے جو نماز اور زکوٰۃ پر کار بند تھے ایسے ہی لوگوں نے آگے بڑھ کر قران کی دعوت کو قبول کر لیا گویا یہ نماز اور زکوٰۃ ہی کا فیضان تھا کہ انہیں قبول حق کی توفیق نصیب ہوئی اس سے واضح ہو ا کہ جہاں ان دو بنیادی ارکان کو ضائع کر دیا گیا ہو وہاں دین باقی نہیں رہتا۔

۲۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” وحی ” کے معنی اشارہ کر نے اور دل میں کوئی بات ڈالنے کے ہیں اللہ اپنا پیغام جس خفیہ طریقے سے اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے اس کے لئے قرآن نے وحی کی اصطلاح استعمال کی ہے (مرہٹی میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے انگریزی کا لفظ Revealبھی اس کے پورے مفہوم پر حاوی نہیں) ۔

۲۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ اسباط استعمال ہوا ہے جو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لئے مخصوص اصطلاح ہے یہاں اس سے مراد وہ انبیاء ہیں جو ان بارہ قبیلوں میں مبعوث ہوئے تھے۔

۲۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت محمدﷺ پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے اللہ کی طرف وحی کے آنے کا دعویٰ کیا ہو بلکہ آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اسی طرح وحی فرماتا رہا ہے جس طرح حضرت محمد ؐ پر نازل فرما رہا ہے سب انبیاء علیہم السلام ایک ہی منبع ہدایت سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔

۲۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد ؑ کو اللہ تعالیٰ نے جو ” زبور ” عطا کی تھی وہ اپنی اصلی شکل میں آج موجود نہیں ہے البتہ اس کے اجزاء اس صحیفہ میں دیکھے جا سکتے ہیں جو زبور کے نام سے بائبل میں موجود ہے اس میں خدا کی حمد و ثنا اور اس کی توحید کے ساتھ موعظت کی باتیں بڑے موثر انداز میں بیان ہوئی ہیں۔

۲۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ جن پیغمبروں کا ذکر اس نے ناموں کی صراحت کے ساتھ کیا ہے بس وہی پیغمبر تھے اور ان کے علاوہ اور کوئی پیغمبر نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی پیغمبر بھیجے گئے تھے جن کے ناموں کی صراحت نہیں کی گئی ہے تاہم سب پیغمبروں پر مجملاً ایمان لانا ضروری ہے۔

۲۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام کے لئے وحی کا مخصوص طریقہ اختیار کیا گیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہم کلام ہوتا تھا بائبل میں بھی اس کا ذکر ہے :

” اور جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند روبرو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا ” (خروج ۳۳:۱۱)

۲۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان پیغمبروں کو بھیجنے کی غرض یہ تھی کہ قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہمیں غفلت سے بیدار کرنے اور اعمال بد کے نتائج سے آگاہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ورنہ ہم آخرت سے غافل اور دنیا پرستی میں مگن نہ رہتے۔

۲۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گواہی اس بات کی کہ قرآن اللہ کی جانب سے ناز ل ہوا ہے جس میں شیاطین کا کوئی دخل نہیں ہے اور یہ خالص اور بے آمیز کلام الٰہی ہے اللہ کی گواہی کو ہر وہ شخص سن سکتا ہے جو قرآن کو بغور پڑھے کیونکہ اس کی ایک ایک آیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ کلام الٰہی ہے مگر یہ آواز وہی لوگ سن سکتے ہیں جو گوش حقیقت نیوش رکھتے ہوں۔

۲۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "غلو ” کسی کی عقیدت میں یا کسی بات کی تائید و حمایت میں حد سے گزر جانے کو کہتے ہیں۔ دین میں ” غلو "کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی جو قدر دین میں متعین ہے اس کو بڑھا دیا جائے اور اسے جو مقام دیا گیا ہے اس سے زیادہ بلند مقام اس کے لئے تجویز کیا جائے۔ غلو کی بہت نمایاں مثال نصاریٰ کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو جو اللہ کے بندے اور رسول ہیں خدا کا بیٹا مان کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ غلو کی مثالیں دوسرے مذاہب میں بھی بہ کثرت ملتی ہیں کسی نے رسول کو اوتار کا درجہ دے دیا تو کسی نے اپنے مذہبی پیشواؤں کو خدائی کے منصب پر بٹھا دیا۔ قرآن کے ماننے والے بھی رفتہ رفتہ غلو کا شکار ہو گئے چنانچہ کسی نے بزرگوں کے لئے پیغمبر کا درجہ تجویز کیا تو کسی نے اولیاء کو خدا کے مقام پر پہونچا دیا اور ان کے لئے غوث العظام اور مشکل کشا جیسے القاب تراشے حالانکہ یہ القاب خدا ہی کے لئے موزوں ہیں اور اسی کے لئے خاص ہیں اسی طرح کسی نے امام کے معصوم ہو نے کا عقیدہ گڑھ لیا اور کسی نے طریقت ایجاد کی اور تصور شیخ لیکر بیٹھ گیا اسلام نے قبروں کو سادہ بنا نے کا حکم دیا تھا لیکن غلو پسند طبیعتوں نے اپنے بزرگوں کی عالی شان درگاہیں تعمیر کر ڈالیں۔ اسلام نے قناعت پسندی کی تعلیم دی تھی لیکن غلو کی ذہنیت نے زہد کے روپ میں رہبانیت کو اختیار کر لیا اسی طرح جو کام مستحب تھے ان کو فرض اور واجب کے درجہ میں رکھ دیا اس کا اثر دین کے مزاج پر پڑا اور پھر نہ اسلام کی سادگی باقی رہ سکی اور نہ اس کا اعتدال۔ نتیجہ یہ کہ ملت کے اندر طرح طرح کے فتنے پیدا ہو گئے اور فرقوں نے جنم لیا اور غلو پسند لوگوں کے ہاتھوں دین کی کوئی اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکی بلکہ دین کا پور ا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔

۲۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ کی طرف وہی باتیں منسوب کی جائیں جو حق ہیں تو تمام فتنوں کا سدباب ہو جاتا ہے لیکن جب اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس نے نہیں کہی ہیں توغلو اور بدعت کی راہ کھل جاتی ہے اور پھر دین کا حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے نصاریٰ کی گمراہیوں کی اصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے دین میں بہت سی من گھڑت باتیں شامل کر لیں اور کسی بھی من گھڑت بات کو دین میں شامل کرنا اسے اللہ کی طرف منسوب کرنے کے ہم معنی ہے کیونکہ دین عبارت ہے اس نظام عبادت اور اطاعت سے جو اللہ کا نازل کردہ ہے اس میں اپنی طرف سے کسی بھی چیز کو داخل کرنا گویا اس بات کا دعویٰ کرنا ہے کہ یہ بات من جانب اللہ ہے درانحالیکہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اندر بھی بہت سی گمراہیاں بہت سی بدعات ہی کی راہ سے داخل ہوئیں ہیں اور انہوں نے بہت سی خرافات کو دین کا جز بنا لیا ہے اس لئے آدمی جب تک صاف ذہن سے قرآن و سنت کا مطالعہ نہ کرے اس کے لئے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اللہ کا اصل دین کیا ہے ؟

۲۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں ایک یہ کہ وہ اللہ کے رسول ہیں دوسرے یہ کہ وہ اللہ کا ایک کلمہ ہیں اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی جانب سے ایک روح ہیں اس تصریح سے مقصود حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں نصاریٰ کے عقیدہ الوہیت کی تردید کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی غیر معمولی طریقہ پر ولادت کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ان کو خدا کا بیٹا بنا یا جائے۔ غیر معمولی طریقہ پر ان کی ولادت حکم خداوندی سے ہوئی تھی اور ان کے اندر جو روح تھی وہ اللہ ہی کی عطا کردہ تھی اس لئے یہ عقیدہ انتہائی گمراہ کن ہے کہ اللہ کی روح ان کے اندر حلول کر گئی تھی۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۵۶) ۔

۲۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تین خداؤں کا عقیدہ مسیحیت کا خود ساختہ عقیدہ ہے۔ جو باپ، بیٹا اور روح القدس سے مرکب ہے یہ عقیدہ سراسر مشرکانہ ہے۔ لیکن چونکہ تورات، زبور اور انجیل تمام آسمانی کتابوں کی تعلیم توحید کی تعلیم ہے اس لئے توحید اور تثلیث دونوں کا بیک وقت دعویٰ کیا گیا اور دونوں کو نبھانے کی کوشش کی گئی اور اس تکلف میں دین کا حلیہ بری طرح بگڑ کر رہ گیا۔

یہ آیت جہاں مسیحیوں کے تین خداؤں کے عقیدہ کی تردید کرتی ہے وہاں وہ مشرکانہ مذاہب کے متعدد خداؤں کے تصور کو بھی یکسر باطل قرار دیتی ہے خواہ وہ دو خداؤں کا عقیدہ ہو یا سینکڑوں اور ہزاروں خداؤں کا۔

۲۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات اللہ ہی کی ہیں تو پھر اسے بیٹا بنا نے کی کیا ضرورت اور جب وہ سب کی خبر گیری کے لئے کافی ہے تو اس کو اس بات کی کہاں حاجت ہو سکتی ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنا کر اس سے مدد لے۔

۲۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جس کا انداز دعوت عقلی اور استدلالی ہے اور اس لحاظ سے وہ انسانوں پر اللہ کی حجت ہے۔

۲۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قرآن کی دوسری خصوصیت ہے کہ وہ حق و باطل میں امتیاز کرتا اور زندگی بسر کر نے کی صحیح راہ دکھاتا ہے۔

۲۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں انہیں قرب الٰہی حاصل ہو گا جو ہدایت کی آخری منزل ہے۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ جو لوگ قرآن پر ایمان لائیں گے اور اللہ کا دامن پکڑ لیں گے وہ اپنی آخری غایت یعنی اللہ کو پا لینے میں کامیاب ہوں گے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو انہیں حاصل ہو گی۔

۲۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز میں وراثت کے جو احکام بیان ہوئے ہیں ان کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں یہ آیت بطور توضیح کے نازل ہوئی جسے سورہ کے آخر میں بطور ضمیمہ کے شامل کر دیا گیا۔

۲۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ سوال کلالہ (جس کا نہ باپ زندہ ہو اور نہ اولاد) کی میراث کے بارے میں تھا جس کا حکم آیت ۱۲میں گزر چکا۔  (تشریح کے لئے ملاحظہ نوٹ ۳۴) ۔

۲۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت میں اخیانی (ماں شریک) بھائی بہن کا حصہ بیان کیا گیا تھا۔ اس آیت میں اعیانی (سگے) اور علاقی (باپ شریک) بھائی بہن کا حصہ بیان کیا گیا ہے

۲۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اصحاب فروض Quranic Shares میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہو تو بھائی پورے ترکہ کا وارث ہو گا اور اگر ان میں سے کوئی زندہ ہو مثلاً شوہر تو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ مال کا وارث بھائی ہو گا۔

۲۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی حکم دو سے زائد بہنوں کا بھی ہے وہ دو تہائی میں برابر کی شریک ہوں گی۔

۲۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سگے اور باپ شریک بھائی کے ورثہ پانے کی صور توں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نقشہ میراث۔ ضمیمہ

 

ضمیمہ

                   میراث میں حصہ پانے والے

                   Table of heirs with their shares

 

نمبر شمار وارث کیفیت حصہ معمولاً ایک فرد  ہونے کی صورت میں دو یا دو سے زیادہ افراد ہونے کی صورت میں ورثہ پانے کے شرائطConditions
Normal Share or Portion
۱ لڑکا عصبہ ( (Residuary لڑکی کے دوگنا ہر لڑکے کا حصہ لڑکی کے دوگنا جب کہ میت کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں اور صرف وہی وارث ہوں۔
" " کل کل میں برابر کے شریک جبکہ تنہا ایک لڑکا یا کئی لڑکے وارث ہوں
" " " اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے 

اس میں سب برابر کے شریک

جبکہ میت کا باپ، بیوی یا شوہر موجود ہوں تو ان کو دینے کے بعد جو باقی بچے
۲ لڑکی صاحب فریضہ 

Quranic sharer

۱/۲ ۲/۳ میں برابر کی شریک 

 

جبکہ میت کا لڑکا نہ ہو
" عصبہ لڑکے کے نصف ہر لڑکی کا حصہ لڑکے کے نصف جبکہ میت کا لڑکا موجود ہو۔
۳ باپ صاحب فریضہ ۱/۶ جبکہ میت کا لڑکا موجود ہو۔
صاحب فریضہ و عصبہ ۱/۶اور اصحاب فروض کو دینے کے بعد جو باقی بچے جبکہ میت کی لڑکی موجو دہو اور لڑکا نہ ہو
" عصبہ کل جبکہ میت کے کوئی اولاد نہ ہو اور نہ اس کی ماں، شوہر یا بیوی موجود ہو
۴ ماں صاحب فریضہ ۱/۶ جبکہ میت کی اولاد یا اس کے بھائی بہن دو یا زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔
" " ۱/۳ جبکہ میت کے کوئی اولاد نہ ہو اور نہ اس کے بھائی بہن کم از کم دو کی تعداد میں موجود ہوں
" " ۱/۳ جبکہ میت کا باپ، بیوی یا شوہر موجود ہو اس صورت میں شوہر یا بیوی کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ کا ۳/۱ ماں کو دیا جائے گا
۵ شوہر صاحب فریضہ ۱/۲ ۱جبکہ میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
" " ۱/۴ جبکہ میت کی اولاد موجود ہو۔
۶ بیوی صاحب فریضہ ۱/۴ ۱/۴ میں سب برابر کی شریک ہیں جبکہ میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔
صاحب فریضہ ۱/۸ ۱/۸ میں سب برابر کی شریک جبکہ میت کی اولاد موجود ہو۔
۷ ماں شریک بھائی یا بہن Uterine Brother or Sister صاحب فریضہ ۱/۶ ۳/۱ میں سب بھائی بہن برابر کے شریک جبکہ میت کی کوئی اولاد یا باپ موجود نہ ہو۔
Excluded 

محجوب

کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کی اولاد یا باپ موجود ہو۔
۸ سگی بہن صاحب فریضہ ۱/۲ ۲/۳ جبکہ میت کا باپ اس کی اولاد اور اس کا سگا بھائی ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو۔
عصبہ لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کی لڑکی موجود ہو لیکن اس کا باپ، نرینہ اولاد اور سگا بھائی ان میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
۸ سگی بہن عصبہ بھائی کا نصف ہر بہن کو بھائی کا نصف جبکہ میت کا سگا بھائی موجود ہو لیکن اس کا باپ یا نرینہ اولاد موجود نہ ہو۔
محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کا باپ یا اس کی نرینہ اولاد موجود ہو۔
۹ سگا بھائی عصبہ کل کل میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کا باپ، نرینہ اولاد، بیوی یا شوہر اور ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
" اصحاب فروض کو ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے اصحاب فروض کو ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے اس میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کا باپ یا نرینہ اولاد موجود نہ ہو لیکن لڑکی ماں، ماں شریک بھائی بہن اور شوہر یا بیوی میں سے کوئی موجود ہو تو اس کو دینے کے بعد جو باقی بچے کا وہ سگے بھائی کو ملے گا
محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کا باپ یا نرینہ اولاد مو جود ہو۔
۱۰ باپ شریک بہن 

Onsanguine sister

صاحب فریضہ ۱/۲ ۲/۳ جبکہ میت کے سگے بھائی بہن، باپ شریک بھائی، باپ اور اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
" ۱/۶ ۱/۶ جبکہ میت کی صرف ایک سگی بہن موجود ہو، اور باپ شریک بھائی، باپ اور اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
عصبیہ ۱لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کے لڑکی موجود ہو لیکن سگے بھائی بہن، باپ شریک بھائی، ماں شریک بھائی بہن، شوہر یا بیوی، باپ اور نرینہ اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
عصبیہ بھائی کا نصف بھائی کا نصف جبکہ میت کا باپ شریک بھائی موجود ہو لیکن سگا بھائی، باپ، شوہر یا بیوی اور نرینہ اولا دمیں سے کوئی نہ ہو۔
محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کی دو سگی بہنیں، سگا بھائی، باپ، نرینہ اولاد میں سے کوئی موجو دہو یا ایک سگی بہن بطور عصبہ کے ہو۔
۱۱ باپ شریک بھائی عصبہ کل میراث کل میراث میں سب برابر کے شریک جبکہ میت کے ماں باپ، اولاد، شوہر یا بیوی، سگے بھائی بہن، علاقی بہن، ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
عصبہ اصحاب فروض کو دینے کے بعد جو باقی بچے اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے اس میں سب برابر کے شریک ہیں جبکہ میت کی لڑکی، ماں، شوہر یا بیوی، سگی بہن، ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود ہو۔ 

گر باپ شریک بہن موجود ہو تو اس کے دو گنا باپ شریک بھائی کو ملے گا۔

محجوب کچھ نہیں کچھ نہیں جبکہ میت کا باپ، لڑکا، سگا بھائی یا سگی بہن موجود ہو۔

نوٹ :۔

٭اس نقشہ میں صرف ان ورثاء کے حصے بیان کئے گئے ہیں جن کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔

٭اس بات پر اجماع ہے کہ بیٹے کی عدم موجودگی میں پوتا اور باپ کی عدم موجودگی میں دادا وارث ہو گا وعلی ہٰذا علی القیاس۔

٭مذکورہ ورثاء میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو ذوی الارحام (Distant Kinded) حصہ پاتے ہیں۔

یہ مسائل حدیث نیز فقہاء کے قیاس اور اجتہاد پر مبنی ہیں۔

٭٭٭

ای بک:اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود