FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

دعوت القرآن

 

حصہ ۱۸: پارۂ عم، دوم (الیل تا الناس)

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

 

 

 (۹۲)۔ سورہ اَلَّیل

 

(۲۱ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں لیل (رات)  کی قسم کھائی گئی ہے اس مناسبت س اس سورہ کا نام اَلَّیْل ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے ابتدائی مرحلہ میں نازل ہوئی۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ واضح کرنا ہے کہ انسان کی کوششوں کے دو مختلف رخ ہیں جس کا تقاضا ہے کہ دونوں کے اثرات و نتائج بھی مختلف ہوں اور منزلیں بھی الگ الگ ہوں۔

اس سورہ کا مضمون سورہ الشمس کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔ اس میں نفس کو پاک کرنے اور آلودہ کرنے کا انجام بینا کیا گیا تھا اس سورہ میں اس ات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ نفس کو پاک کرنے ولی چیزیں کیا ہیں اور آلودہ کرنے والی چیزیں کیا۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۴ میں چند شہادتوں کو پیش کر کے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان کی سعی و عمل جب مختلف ہے تو ضروری ہے کہ اس کے نتائج بھی مختلف ہوں۔

آیت ۵ تا ۱۱ میں اچھے اور برے کردار کی چند خصوصیات پیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اچھی خصوصیات نیکی کی راہ ہموار کرتی ہیں ور بری خصوصیات بدی کی راہ کو۔

آیت ۱۲ تا ۱۴ میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کا کام ہدایت کی راہ دکھا دینا ہے اور اس نے یہ راہ تمہیں دکھا دی ہے۔ دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے اس لیے اس نے تمہیں خبردار کر دیا ہے کہ آخرت میں کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔

آیت ۱۴ تا ۲۱ میں بتایا گیا ہے کہ بد کردار لوگ کس طرح برے انجام سے دو چار ہوں گے اور نیک کردار لوگوں کا انجام کتنا خوشگوار  ہو گا۔

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم۱*  ہے رات کی جب کہ وہ چھا جائے أ۲*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دن کی جب کہ وہ روشن ہو ۳*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس ذات ۴*  کی جس نے نر اور مادہ پیدا کیے ۵*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً تمہاری کوششیں مختلف ہیں ۶*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ۷* جس نے (مال )دیا ۸*  اور پرہیز گاری اختیار کی ۹*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہترین بات کو سچ مانا ۱۰*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے ہم آسانی کو پہنچنے والی راہ ہموار کر دیں گے ۱۱*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس نے بخل کیا ۱۲*  اور بے نیازی برتی ۱۳*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہترین ۱۴*  بات کو جھٹلایا۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے ہم سختی کو پہنچنے والی راہ ہموار کر دیں گے۔ ۱۵*

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ گڑھے میں گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ ۱۶*

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہہ راہ دکھانا ہمارے ذمہ ہے ۱۷*

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی اختیار میں ہیں ۱۸*

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے خبر دار کر دیا ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں وہی پڑے گا جو بڑا بد بخت ہو گا ۱۹*

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے جھٹلایا اور رو گردانی کی۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے ایسے شخص کو بچا لیا جائے گا جو نہایت پرہیز گار ہے ، ۲۰*

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کی خاطر دیت ہے ۲۱*

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے نزدیک کسی کے حق میں کوئی احسان بدلہ کے لیے نہیں ہے ۲۲*

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ وہ صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے  لیے دیتا ہے ۲۳*

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ضرور خود ہو گا۔ ۲۴*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَسَم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ رات کی خصوصیت تاریکی ہے۔ جب وہ آ جاتی ہے تو سب پر تاریکی چھا جی ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رات کے بالمقابل دن کی خصوصیت روشنی ہے۔ جب وہ نمودار ہوتا ہے تو سب چیزیں روشن ہو جاتی ہیں۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد خالق کی قسم ہے ور خالق کی قسم یہاں بات کو مؤکد کرنے اور دعوے کو قطعیت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نر و مادہ جانوروں میں بھی پیدا کیے اور انسانوں میں بھی یہ جنسی اختلاف اپنی خصوصیات رکھتا ہے۔ جو خصوصیت مرد کی ہے وہ عورت کی نہیں اور جو عورت کی ہے وہ مرد کی نہیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ حقیقت جس پر مذکورہ قسمیں کھائی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اس طرح ہوئی ہے کہ اس میں چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور الگ الگ خصوصیات کی حامل ہیں۔ مثال کے طور پر رات اور دن باہم مختلف ہیں ور اگر ایک کی خصوصیت تاریکی پھیلانا ہے تو دوسرے کی خصوصیت روشنی پھیلانا۔ مرد اور عورت بھی جنسی اعتبار سے باہم مختلف ہیں اور اگر ایک میں فعالیت کی خصوصیت پائی جاتی ہے تو دوسرے میں انفعالیت کی۔ اگر ایک صنف میں باپ بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے تو دوسری صنف میں ماں بننے کی، یہی حال انسان کی کوششوں کا ہے کہ کوئی نیکی اور بھلائی کا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو کوئی بدی اور شر کا۔ کوئی خدا کا وفا دار بندہ بن کر رہتا ہے تو کوئی نافرمان اور سرکش بن کر، کوئی ایک سچے خدا کو مانتا ہے اور کسی نے ہزاروں جھٹے خدا بنا رکھے ہیں ، کسی کی تگ و دو خیر کی راہ میں ہوتی ہے اور کسی کی شر کی راہ میں ، کوئی مفسد اور ظالم بن کر اٹھتا ہے ور کوئی مصلح بنتا اور انصاف کی ترازو قائم کرتا ہے ، کوئی دنیا میں مزے اڑاتا ہے اور کوئی فرض شناسی کا ثبوت دیتا ہے۔ میدان کار میں انسان کی کوششوں کا یہ تفاوت بھی اپنے اندر مختلف خصوصیات اور اپنے الگ الگ اثرات رکھتا ہے اور یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کے الگ الگ نتائج رو نما ہوں۔ اور جب دنیا کی حیثیت دار العمل اور دار الامتحان کی ٹھہری تو ایک دار الجزاء کی ضرورت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ پس قرآن کا یہ دعویٰ کہ آخرت دار الجزاء ہے جہاں نیکی و بدی کے الگ الگ نتائج رونما ہوں گے اور انسان اپنی سعی و عمل کے مطابق جزا یا سزا پئے گا ٹھیک اس حقیقت کے مطابق ہے جو مظاہر کائنات پر غور کرنے سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔

جو لوگ اتنی بڑی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ انتہائی غیر معقولیت کا ثبوت دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ہر چیز اپنی ایک خصوصیت رکھتی ہے لیکن اگر کوئی چیز اپنی خصوصیت نہیں رکھتی تو وہ اخلاقی اور غیر اخلاقی رویہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر چیز اپنا اثر رکھتی ہے لیکن اگر کوئی چیز اثر نہیں رکھتی تو وہ نیکی اور بدی ہے۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ہر کام کا ایک نتیجہ ہے لیکن ان کے نزدیک اگر کوئی کام نے نتیجہ ے تو وہ خدا کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے کام ہیں کہ دونوں طرز عمل یکساں ہیں اور ان کا کوئی اچھا اور برا نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں۔ انسان خدا پر ایمان لائے یا کفر کرے ، اس کی ہدایت کو تسلیم کرے یا نہ کرے نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بتایئے اس سے بڑھ کر نادانی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اچھے اور بڑے طرز عمل کا فرق واضح کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلے چند ان اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جو انسان کو سنوارتے اور اس کے کردار کی تعمیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خصلتیں بیان کی گئی ہیں جو انسان کو بگاڑتے اور اس کو بد کردار بناتے ہیں۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ جو کام اس کی ناراضگی کے ہیں ان سے پرہیز کرے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہترین بات (الْحُسْنیٰ)  سے مراد وہ بات ہے جس کی طرف قرآن دعوت دے رہا ہے یعنی کلمہ توحید کو قبول کرنے اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نیکی کی راہ پر چلنا اس کے لیے آسان ہو  گا اور اس پر چل کر وہ اس منزل تک پہنچ جائے گا جہاں آسانیاں ہی آسانیاں اور راحت ہی راحت ہے۔ نیکی کی راہ گو سخت دشوار گزار راہ ہے لیکن اس پر چلنا ان لوگوں کے لیے آسان ہو جاتا ہے جو خدا اور آخرت پر ایمان لا کر تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ گویا یہ توفیق اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بخشتا ہے جو راہ حق پر چلنے کی ہمت کرتے ہیں اور اس کی بنیادی شرطیں پوری کر دیتے ہیں۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخل سے مراد نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال خرچ نہ کرنا ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنے عیش و آرام اور دوسرے نمائشی کاموں پر تو خوب خرچ کرتا ہے لیکن خدا اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی اس پر گراں گزرتی ہے۔

موقع کلام کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ بخل اور زر پرستی وہ اخلاقی برائیاں ہیں جو نفس کو آلودہ کر دیتی ہیں اور پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی راہ خدا میں خرچ کرے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے نیازی برتنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا اور اس کی ہدایت سے بالکل بے تعلق ہو جائے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہ ہو کہ خد کی خوشنودی کن کاموں کے کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور اس کا غضب کس طرح کے کام کرنے سے ٹوٹ پڑتا ہے۔

استغناء (بے نیازی برتنے )  کا لفظ تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیز گاری )  کے بالمقابل استعمال ہوا ہے اس لیے اگر تقویٰ کدا خوفی کے زیر اثر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے ور فرض شناسی کا ثبوت دینے کا نام ہے تو استغناء یہ ہے کہ آدمی خد سے بے پروا ہو کر غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارے اور نا فرض شناسی کا ثبوت دے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہترین بات کی تشریح اوپر نوٹ ۱۰ میں گزر چکی۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بدی کی راہ چلنا اس کے لیے آسان ہو گا اور اس پر چل کر وہ اس کٹھن منزل تک پہنچ جائے گا جہاں سختیاں ہی سختیاں ہیں۔ بدی کی رہ اس لحاظ سے آسان ہے کہ اس پر چلنے والا اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس میں اسے مادی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں اور دنیوی لذتیں بھی۔ جو شخص ان جلد ملنے والے فائدوں کے لالچ میں آ کر اس غلط راہ کا انتخاب کتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس پر چلنے کے لیے ڈھیل دیتا ہے اور اس کے لیے وہ وسائل فراہم کر دیتا ہے جو برائیوں کے ارتکاب کو اس کے لیے آسان بنا دیتے ہیں لیکن بالآخر یہ آسانیاں اسے نہایت کٹھن منزل پر لے جا کر چھوڑ دیتی ہیں۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گڑھے میں گرنے سے مراد ہلاکت کے گڑھے میں گرنا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ مال جسے آدمی جمع کرتا ہے اور بھلائی کے کاموں میں صَرف نہیں کرتا اس کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو گا بلکہ موجب ہلاکت ہو گا۔ اگر وہ خدا کی خاطر بھلائی کے کاموں میں صرف کرتا تو یہ اس کی اخروی زندگی کے لیے محفوظ سرمایہ بن جاتا۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں تک انسان کو راہ راست دکھانے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ ضرور لیا ہے اور یہ کام اس نے اپنے پیغمبر کو بھیج کر اور اپنی اس کتاب کو نازل کر کے پورا کر دیا ہے۔ رہا راہ راست کو اختیار کرنا تو یہ انسان کی اپنی ذمہ  داری ہے۔ کرے گا تو کامیاب ہو گا اور نہیں کرے گا تو نا مراد ہو گا۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا و آخرت دونوں جہانوں کے مالک ہم ہی ہیں اور دونوں کا نفع نقصان ہمارے ہی ہاتھ میں ہے لہٰذا جو شخص دنیا کے مادی فائدوں کی خاطر راہ راست کو اختیار نہیں کرتا سے سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں وہ اتنے ہی فائدے حاصل کر سکے گا جتنے کہ اس کی گمراہی کے باوجود اس کا خدا اسے پہنچانا چاہے۔ اس سے زیادہ وہ دنیا میں کچھ حاصل نہ کر سکے گا۔ رہی آخرت تو وہاں ایسے لوگوں کے لیے محرومی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کم درجہ کا بد بخت ہو گا وہ آگ میں نہیں پڑے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت جو دو کردار کے لوگ سامنے تھے۔ ایک وہ جو پیغمبر کو جھٹلا رہے تھے۔ اور وہ جس ہدایت کو لے کر آیا ہے اس سے منہ موڑ رہے تھے اور دوسرے وہ جو پیغمبر کی تصدیق کر رہے تھے اور اس کی لائی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنا مال راہ خدا میں خرچ کر رہے تھے۔ ان میں سے پہلے کردار کے لوگ ہی یعنی پیغمبر کو جھٹلانے والے ، بھڑکتی آگ میں پڑیں گے نہ کہ دوسرے کردار کے لوگ جو پیغمبر کی تصدیق کر رہے تھے۔ ان جھٹلانے والوں کو انتہائی بد بخت (اَشْقیٰ)  اس لیے فرمایا کہ جب پیغمبر نے براہ راست ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا جس کی وجہ سے اللہ کی حجت ان پر پوری طرح قائم ہو گئی اور پھر بھی وہ انکار کرتے رہے تو ان سے زیادہ بد بخت اور کون ہو سکتا ہے۔

قرآنی آیات کا مفہوم متعین کرتے وقت موقع و محل اور ان حالات کو جن میں وہ آیات نازل ہوئی ہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے نیز کسی آیت کا ایسا مطلب لینا بھی صحیح نہ ہو گا جو قرآن کے دوسرے بیانات سے ہم آہنگ نہ ہو۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی کہنے کا منشاء یہ نہیں ہے کہ صرف بڑے متقی ہی آگ سے بچائے جائیں گے اور عام متقی نہیں بچائے جائیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو دو کردار ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ اور یہاں سورہ کے نزول کے وقت اور پیغمبر کی موجودگی میں ابھر کر سامنے آ گئے تھے۔ ان میں سے صرف دوسرے کردار کے لوگ ہی آگ سے بچا لیے جائیں گے جنہوں نے اپنے متقی (پرہیز گار)  ہی نہیں بلکہ اتقیٰ (نہایت پرہیز گار)   ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ رہے اشقیٰ تو وہ لازماً آگ میں پڑیں گے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ واضح رہے کہ جن لوگوں نے ابتداء ہی میں رسول کی دعوت قبول کر لی تھی اور اللہ سے ڈرتے  ہوئے  اپنے اندر پاکیزگی پیدا کر رہے تھے انہوں نے بہت بڑے حوصلہ کا ثبوت دیا تھا اس لیے ان کا درجہ بہت بڑا ہے اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر ہونے کی وجہ سے وہ  سب اتقیٰ(نہایت پرہیز گار )  ہیں۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنا تزکیہ نفس کا بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اس سے زر پرستی اور دنیا پرستی کی جڑ کٹ جاتی ہے اور خدا پرستی اور آخرت پسندی کا جذبہ پرورش پانے لگتا ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ جو کچھ کسی کو دیتا ہے بدلہ کی غرض سے نہیں دیت اس کے نزدیک کسی کی مدد کرنا اس کو ممنون احسان کرنے کے لیے نہیں ہے کہ اس سے کسی نہ کسی شکل میں اس کا بدلہ مطلوب ہو بلکہ وہ خلوص کے ساتھ اور بے لوث ہو کر مدد کرتا ہے۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انفا وہی مقبول ہے جو خالصۃً اس کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے اور ایسے ہی انفاق سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو انفاق کسی پر احسان دھرنے یا شہرت و ناموری حاصل کرنے کی غرض سے کیا جائے اس سے نہ اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور نہ نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس شخص کا کردار یہ ہے اسے اس کا رب اس طرح نوازے گا کہ وہ خوش ہو جائے گا۔ یہ آیت صرف دو لفظوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے اندر مذکورہ او صاف کے حاملین کے لیے بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(۹۳)۔ سورہ الضحیٰ

 

                   (۱۱ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آغاز ہی میں  ضُحیٰ (روز روشن)  کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلضّحیٰ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ آغاز نبوت کے کچھ ہی عرصہ بعد نازل ہوئی تھی جب کہ آپ کے سامنے دعوت حق کی مشکلات پہاڑ بن کر کھڑی تھیں اور منکرین رسالت کے طنز و تشنیع سے آپ کبیدہ خاطر ہو رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

خطاب براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور آپؐ کو شاندار مستقبل اور عظیم عنایات سے نوازے جانے کی خوش خبری دیتے ہوئے آپؐ کی تسلی کا پورا پورا سامان کیا گیا ہے۔ یہ تو ہے اس سورہ کا خاص پہلو لیکن اس خاص پہلو کے ساتھ اس کا ایک عام پہلو بھی ہے جو فحوائے کلام سے واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ کار زار حیات میں انسان کو جن مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا راہ حق میں جن دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے ان کو اللہ کی ناراضگی پر محمول کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ ابتلا و آزمائش کے لیے ہوتی ہیں اور وہ انسان کے لیے حقیقی ترقی کے مدارج طے کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ اور ۲ میں دن اور رات کی شہادت پیش کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ندیا بنائی ہی اس طرح ہے کہ یہاں نور بھی ہے اور ظلمت بھی۔ اسی طرح تکلیفیں بھی ہیں اور راحت بھی اور یہ دونوں حالتیں آزمائش کے لیے ضروری ہیں۔

آیت ۳ میں مذکورہ بالا حقیقت کے پیش نظر یہ واضح کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو راہ حق کی جن مشکلات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے اس کا یہ مطلب لینا ہر گز صحیح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی طرف سے نظر عنایت پھیر لی ہے یا وہ آپؐ سے ناراض ہوا ہے۔

آیت ۴ اور ۵ میں آپؐ کو عظیم کامرانیوں کی بشارتیں دی گئی ہیں۔

آیت ۶ تا ۸ میں ان مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بعثت سے پہلے دو چار ہو ئے نیز خدا کے ان احسانات کا بھی جن کے نتیجہ میں آپؐ کے لیے راہیں کھلیں۔

آیت ۹ تا ۱۱ میں بتایا گیا ہے کہ ان احسانات کا تقاضا کیا ہے یعنی اس کے نتیجہ میں تمہارا رویہ کمزوروں اور نے بسوں کے ساتھ ہمدردانہ ہونا چاہیے اور خدا کی نعمت کا اعتراف و اظہار کرنا چاہیے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَسم ۱*  ہے روز روشن کی

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کی جب کہ وہ طاری ہو جائے ۲*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے پیغمبر !)  تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا ۳*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخرت تمہارے لیے دنیا سے کہیں بہتر ہے ۴*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عنقریب تمہارا رب تمہیں وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۵*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس نے تم کو یتیم پایا تو ٹھکانا دیا ؟ ۶*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور راہ سے بے خبر پایا ۷*  تو ہدایت دی ؟ ۸*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نادار پایا تو غنی کر دیا ؟ ۹*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا تم یتیم کو مت دباؤ۔ ۱۰*

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سائل کو نہ جھڑکو ۱۱*

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار ۱۲*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں جو قسمیں کھائی گئی ہیں ان سے مقصود اس اصولی حقیقت کو ذہن نشین کرانا ہے کہ اس دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک ہی حالت اور ایک ہی کیفیت طاری نہیں رہتی۔ یہاں دن کی روشنی بھی ہے اور رات کی تاریکی بھی۔

ومھما استطال اللیل فا الصبح واصل

اور رات خواہ کتنی ہی طویل ہو صبح نمودار ہو کر رہتی ہے۔

اس لیے جس طرح رات کی تاریکی کو دیکھ کر کسی کا روشنی سے مایوس ہو جانا صحیح نہیں اسی طرح تکلیف اور مصیبت کے امڈتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر یہ خیال کرنا بھی صحیح نہیں کہ یہ بادل کبھی چھٹنے والے نہیں ہیں اور نہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح ہے کہ دنیا کی تکلیف لازماً اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ جس طرح آزمائش کے لیے رات اور دن دونوں کا وجود ضروری ہے اسی طرح تکلیف اور راحت دونوں ابتلاء کے لیے ضروری ہیں نیز تکلیفیں انسان کی تربیت اور اس کی مخفی صلاحیتوں کو ابھارنے کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دعوت حق کا آغاز فرمایا تو مشکلات اور دشواریاں پہاڑ بن کا آپؐ کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور آپ کے اس دعوے پر کہ آسمان سے آپؐ پر وحی نازل ہوتی ہے مخالفتوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ منکرین آپؐ کا مذاق اڑانے اور طنز و تشنیع کرنے لگے۔ ایک نبی کو ان حالات میں گھرا ہوا دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر نبی واقعی خدا کا منظور نظر ہے تو اس کی راہ میں یہ مشکلات کیسی؟ اور پھر جب وحی کچھ دنوں کے لیے رک جاتی تو مخالفین یہ طنز کرتے کہ اللہ نے آپؐ کو چھوڑ دیا ہے اور آپؐ سے ناراض ہے۔ مخالفین کے ان شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اطمینان اور تسلی دی جا رہی ہے کہ جن حالات میں آپؐ اپنے کو گھرا ہوا پا رہے ہیں وہ کار نبوت کا اقتفاء اور اللہ کی اس عظیم حکمت کے تحت ہیں جس کے مطابق اس دنیا کا پورا نظام چلایا جا رہا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ انسان کی آزمائش ہو جس سے انبیاء علیہم السلام بھی مستثنیٰ نہیں ہیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ نرم گرم ہر طرح کے حالات سے سابقہ پیش آئے۔ ایک پیغمبر جب راہ حق کی مشکلات اور مخالفتوں کے طوفان سے گزر تا ہے تو اس سے عظیم فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً پیغمبر کے اخلاقی محاسن نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور اس کے کردار کی بلندی آسمان کو چھونے لگتی ہے ، جن دلوں میں انسانیت جاگ رہی ہوتی ہے اور وہ اس پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پیغمبر کے عزم اور حوصلہ کو دیکھ کر اس کے پیروؤں میں بھی استقامت اور پا مردی کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ رہی وحی الٰہی کے نزول میں تاخیر تو یہ بھی اس بنا پر نہیں ہے کہ اللہ پیغمبر سے ناراض ہو گیا ہے بلکہ وحی کا پورا معاملہ اللہ کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ اس کی حکمت جس وقت اور جتنی وحی کی  متقاضی ہوتی ہے وہ نازل کر دیتا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خوش خبری اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت سنائی جب کہ آپؐ کو انتہائی نامساعد حالات سے گزرنا پڑ رہا تھا اور سخت مشکلات آپؐ کی راہ میں حائل تھیں۔ ان حالات میں آپؐ کے لیے اخروی فیروز مندی کی بشارت نہ صرف تسلی بلکہ حوصلہ افزائی کا بھی باعث تھی۔

معلوم ہوا کہ اگر آدمی آخرت کی کامیابی پر نظر رکھے تو اس سے عزم و حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور راہ حق کی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ متن میں ’’ الآخرۃ‘‘ اور الاولیٰ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو ’’آخرت‘‘ اور ’’دنیا‘‘ کے لیے قرآن کے اصطلاحی الفاظ ہیں اور قرآن میں جہاں بھی یہ الفاظ مطلق طور پر آتے ہیں اسی مفہوم میں آئے ہیں ما قبل سورۃ الیل آیت ۱۳  وَاِنَّ لَنَا لَلْآخِرَۃَ وَالْاُوْلیٰ (بے شک آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی اختیار میں ہیں۔ )  میں بھی یہ الفاظ اسی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے آخرت کے ان ابدی انعامات کی طرف جن سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نوازا جائے گا۔ وہاں آپؐ عزت و سرفرازی کے جس مقام پر فائز ہوں گے اور عطاء و بخشش کی آپؐ پر جو بارش ہو گی اس کی ایک جھلک ان آیات و احادیث میں دیکھی جا سکتی ہے جن میں آپؐ کے رب کی طرف سے آپؐ پر کی جانے والی عنایات کا ذکر ہوا ہے ورنہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو کچھ دینے کا وعدہ فرمایا ہے اس کی وسعت و عظمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم یتیم پیدا ہوئے تھے۔ آپؐ ابھی بطن مادر ہی میں تھے کہ آپؐ کے والد عبد اللہ کا انتقال ہو گیا اور جب چھ سال کے ہوئے تو آپؐ کے دادا عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی لیکن ابھی آپؐ آٹھ سال ہی کے تھے کہ دادا کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد آپؐ کے چچا ابو طالب نے آپؐ کی کفالت کی اور آپؐ کے ساتھ بڑا اچھا برتاؤ کیا یہاں تک کہ ان کی شفقت آپؐ کی بعثت کے بعد بھی بر قرار رہی۔ (سیرۃ النبی لا بن ہشام ج ۱ ص ۱۷۱، ۱۷۹، ۱۸۰ ،۱۹۳ )۔

آپؐ کی پرورش کا یہ بہترین انتظام اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں یتیموں کی ناقدری کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہی کا نتیجہ تھا۔

یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ یتیمی کی حالت میں گو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن باپ کے سہارے سے محروم ہونے کی وجہ سے آدمی کے اندر ایک طرح کی خود اعتمادی پیدا ہونے لگتی ہے اور اس سے بڑھ کر خدا اعتمادی کا جذبہ پرورش پانے لگتا ہے۔ غور کیجیے یتیمی کی حالت میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ کس طرح تربیت کا سامان کرتا ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ ’’ضَالّاً ‘‘ استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے۔ یہ لفظ ہدایت کے مقابلہ میں متعدد معنی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے ایک معنیٰ بے خبر اور نا واقف ہونے کے بھی ہیں چنانچہ عربی کی سب سے بڑی اور مستند لغت ’’لسان العرب‘‘ میں ہے : وضللتُ المسجدَ و الدارَ اذالم تعرف مو ضعَھما  یعنی اگر تم مسجد اور گھر کی جگہ سے واقف نہ ہو تو کہو گے میں مسجد اور گھر سے ضلالت میں (ناواقف)  رہا۔ (ملاحظہ ہو لسان العرب لفظ ضلل)  یہاں یہ لفظ اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔

بعثت سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فطرت سلیمہ پر قائم تھے۔ اور تمام انبیاء علیہم السلام کا بعثت سے پہلے یہی حال ہوتا ہے کہ وہ فطرت سلیمہ سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ اور انسان کی فطرت سلیمہ سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ اور انسان کی فطرت سلیمہ اپنے رب کو پہچانتی اور اسی کو معبود قرار دیتی ہے نیز خیر و شر میں تمیز بھی کرتی ہے اور یہ دونوں ہی وصف نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں پائے جاتے تھے چنانچہ بعثت سے پہلے آپؐ کا غار حراء میں یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں منہمک ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ توحید پر قائم تھے۔ اسی طرح آپؐ کا پاکیزہ زندگی گزارنا یہاں تک کہ آپؐ  قوم کی نظر میں معتمد ٹھہرے اور امین کے لقب سے پکارے گئے آپؐ کی اخلاقی بر تری کی روشن دلیل ہے۔ مزید برآں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کے جو اجزاء اس وقت تک باقی رہ گئے تھے مثلاً بیت اللہ کی تعظیم، حج وغیرہ ان پر آپؐ عمل پیرا تھے چنانچہ یہ واقعات تاریخ سے ثابت ہیں (سیرۃ النبی ابن ہشام ج ۱ ص ۱۹۷ اور ص ۲۲۱)  گویا جس حد تک فطرت اور دین ابراہیمی کی روشنی آپؐ کے سامنے موجود تھی آپؐ اس روشنی میں چلتے لیکن آپؐ کو ایمان کی حقیقت معلوم تھی اور نہ شریعت کی تفصیلات کا علم تھا چنانچہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے : مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا اِیمَانُ (تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے۔ سورۃ الشوریٰ۔ ۵۲)  اسی حالت کو یہاں ضال (جو راہ سے بے خبر ہو)  سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ جستجوئے راہ اور تلاش حق کی حالت تھی اس لیے اس کو ضلالت بمعنیٰ گمراہی ہر گز نہیں کہا جا سکتا اور بالخصوص جب کہ آپؐ کے بارے میں معلوم ہے کہ نہ کبھی آپؐ نے خدا کا انکار کیا اور نہ بت پرستی اختیار کی، نہ برائیوں سے آپؐ کو واسطہ رہا اور نہ فسق و فجور سے اور نہ ہی آپؐ نے کسی باطل چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ بخاری میں بعثت سے پہلے کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھانا پیش کیا گیا جوب کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانور کا تھا۔ آپؐ نے کھانے سے انکار کیا (بخاری کتاب المناقب باب حدیث زید بن عمر و بن نفیل )۔

جہاں تک دین ابراہیمی کے بعض اجزاء کے برقرار رہنے کا تعلق ہے علامہ ابن حجر شرح بخاری میں لکھتے ہیں :

انما کان عند اہل الجاہلیۃ بقایا من دین ابراہیمَ ’’ اہل جاہلیت کے پاس دین ابراہیمی کے کچھ اجزاء ہی باقی رہ گئے تھے۔ ‘‘ (فتح الباری ج ۷ ص ۱۱۳ )

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہدایت سے مراد وحی الٰہی ہے جس نے صراط مستقیم پوری طرح آپؐ پر روشن کر دی۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن یتیمی کی حالت میں گزرا اور جب آپؐ جوان ہوئے تو افلاس ہی کی حالت رہی یہاں تک کہ قریش کی سب سے زیادہ مالدار خاتون نے آپؐ کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کیا اور آپؐ کو شام کے تجارتی سفر میں خوب نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ نے آپؐ کی دیانت داری ، شرافت اور حسن اخلاق سے متاثر ہو کر آپؐ سے نکاح کر لیا جس کے بعد آپؐ کی معاشی حالت کافی اچھی ہوئی۔ (سیرۃ النبی ابن ہشام ج ۱ ص ۲۰۲ تا ۲۰۶ )۔

یہ جو کچھ ہوا عالم اسباب کے تحت ہوا لیکن حقیقۃً یہ اللہ تعالیٰ ہی کے فضل کا نتیجہ تھا کہ افلاس کی حالت غِنا سے بدل گئی۔۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر فرمایا تھا اب مختصراً ان کے تقاضے بیان کیے جا رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہاری یتیمی کی حالت میں تمہیں پناہ دی اسی طرح تم بھی یتیموں کے حقوق کے پاسباں بن جاؤ۔ کسی یتیم کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ اس ہدایت کے براہ راست مخاطب گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں لیکن آپؐ کے واسطے سے یہ ہدایت قرآن کے ہر قاری کے لیے ہے اور اس میں زر پرستوں کے اس رویہ کی مذمت بھی ہے جو یتیموں اور کمزوروں کے سلسلہ میں وہ اختیار کرتے ہیں یعنی ان کو حقیر جان کر ان کے ساتھ عزت کا برتاؤ نہیں کرتے ، ان کو دباتے ہیں اور ان کے حقوق غصب کر جاتے ہیں۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس احسان کا تقاضا ہے جو اوپر آیت ۸ میں بیان ہوا یعنی ’’ نادار پایا تو غنی کر دیا‘‘۔ اس احسان کا حق یہ ہے کہ محتاجوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آیا جائے۔ اور اگر کسی مانگنے والے کی مدد نہ کی جا سکتی ہو تو اچھے انداز سے معذرت کر دی جائے اور ان لوگوں کا طریقہ ہر گز نہ اختیار کیا جائے جو مال کے گھمنڈ میں غریبوں کو حقارت کی نظر ے دیکھتے ہیں اور مانگنے والوں کو ڈانٹتے اور جھڑکتے ہیں۔

اس حکم کی تعمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شدت کے ساتھ کی کہ نہ صرف یہ کہ کسی سائل کو کبھی ڈانٹا نہیں بلکہ ’’ نہیں ‘‘ کہہ کر اسے خالی ہاتھ واپس لوٹانا بھی پسند نہ فرماتے چنانچہ حضرت جابر کا بیان ہے کہ : ماسُئِلَ رَسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شَیْئاً قَطُّ فَقَالَ لَا۔ (بخاری کتاب الادب)۔

’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو تو آپؐ نے فرمایا ہو ’’نہیں ‘‘ اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت بھی ملتی ہے کہ : اِتّقُوا النَّارَوَلَوْ بِشِقِّ تَمَرۃٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍطَیِّبَۃٍ۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ)

’’جہنم سے بچو اگرچہ کہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کر کے ، بچنے کا سامان کر سکو اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات ہی کہو‘‘۔ یعنی سائل کو ڈانٹنے کے بجائے اچھی بات کہہ کر معذرت کر دو۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نعمت سے مراد عام نعمتیں بھی ہیں اور خاص نعمت ہدایت بھی ہے۔

اوپر آیت ۷ میں ہدایت سے نوازے جانے کا جو ذکر ہوا یہاں اسی کا حق بیان کیا جا رہا ہے۔ گو ترتیب کے لحاظ سے اس کا مقام ایک آیت پہلے تھا لیکن بات کو مؤکد کرنے کے لیے اس کو اخیر میں بیان کر دیا گیا تاکہ اس کی اہمیت اچھی طرح واضح ہو جائے اور اس پر توجہ مرکوز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جن عنایات سے نوازا ان میں اس کی سب سے بڑی عنایت ہدایت ہی ہے۔ یہ ہدایت قرآن کی شکل میں آپؐ کو ملی اور آپؐ کو منصب رسالت سے سرفراز کیا گیا۔ یہاں اسی نعمت کے اظہار کی تاکید کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نوازش کا کہ اس نے تم کو پیغمبر بنایا اور قرآن جیسی عظیم اور حکمت سے لبریز کتاب عطاء کی لوگوں میں کوب چرچا کرو اس پیغام کو ان تک پہنچاؤ اور انہیں اس راہ کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے ذریعہ تم پر کھولی ہے دعوت دو۔ یہ ہدایت اگرچہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے دی گئی ہے لیکن آپؐ کے واسطہ سے اس کے مخاطب پیروان اسلام بھی ہیں۔ انہیں قرآن کی جو نعمت پیغمبر کے واسطہ سے ملی ہے وہ چھپانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اظہار اور بیان کے لیے ہے تاکہ اس کا فیض عام ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۹۴)۔ سورہ   اَلَم نشرح

 

(۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز اَلَمْ نَشْرَحْ کے الفاظ سے ہوا ہے اس مناسبت سے یہ الفاظ اس سورہ کا نام قرار پائے ہیں۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں نازل ہوئی جب کہ آپؐ کے اندر منصب نبوت کی گراں بار ذمہ داریاں سنبھالنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا تھا جس کے نتیجہ میں مخالفتوں کے طوفان سے گزرنا آپؐ کے لیے آسان ہو گیا تھا۔ نبوت کا چرچا بھی عام ہو گیا تھا اور آپؐ کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کی ایک تعداد بھی آپؐ کے گرد جمع ہو گئی تھی۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ سورہ سابق سورہ (الضحیٰ )  کا تکملہ ہے۔ سابق سورہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذہنی پریشانی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ان احسانات کا حوالہ دیا ہے جن سے اس نے اپنے نبی کو نوازا۔ اس سورہ میں شرح صدر کی عظیم نعمت سے سرفراز کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ کو اطمینان دلایا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اور یہی اس سورہ کا مرکزی نقطہ ہے یعنی ہر مشکل کے بعد آسانی کی راہ کھلتی ہے گویا مشکلات ہمت نہیں ہونا چاہیے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شرح صدر کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور وہ بوجھ اتار دیا جو آپؐ کی کمر توڑ دے رہا تھا۔

آیت ۴ میں آپؐ کو یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ آپؐ کا آواز بلند کر دیا گیا ہے۔

آیت ۵ اور ۶ میں اطمینان دلایا گیا ہے کہ راہ حق کی ہر مشکل آسانی کا پیش خیمہ ہے۔

آیت ۷ ور ۸ میں نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے کہ جب اپنے مشاغل سے تم فارغ ہو جاؤ تو اللہ کی عبادت میں سرگرم ہو جاؤ اور ای سے لَو لگاؤ کہ تمام غایتوں کی غایت یہی ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے پیغمبر !)  کیا ہم نے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا ؟ ۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم پر سے وہ بوجھ اتار نہیں دیا۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہاری کمر توڑے دے رہا تھا ؟۲*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا ذکر بلند نہیں کیا۳* ؟

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (دیکھو*  مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ ۴*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس جب تم فارغ ہو تو عبادت میں سرگرم ہو جاؤ۵*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب ہی سے لَو لگاؤ ۶*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرح صدر (سینہ کھول دینے )  سے مراد اطمینان قلب اور عزم و حوصلہ کی وہ کیفیت ہے جو ایمان اور بصیرت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت قوت و طاقت کا سرچشمہ ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد راہ حق کی مشکلات کو برداشت کرنا، مخالفتوں کا سامنا کرنا اور مزاحم قوتوں سے ٹکر لینا آسان ہو جاتا ہے۔ سورہ انعام میں ارشاد ہوا ہے :

فَمَنْ یُرِدِاللہُ اَنْ یَّھْدِیُہٗ یَشْرَھْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ (الانعام۔ ۱۲۵ )  ’’ جس شخص کو اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ ‘‘

پس سینہ کا کھل جانا سراسر اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شرح صدر کی نعمت سے سرفراز کیے جانے کا جو ذکر ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی تمام ذہنی اُلجھنوں کو دور کر دیا اور آپؐ کو وہ آہنی عزم،وہ وسعت حوصلہ اور وہ تور بصیرت عطا فرمایا جو نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے در کار تھا۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورۃ الضحیٰ کی آخری آیت میں نعمت رسالت کے اظہار و اعلان کی جو ہدایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے وہ ایک انبار اور کمر توڑ ذمہ داری تھی کیونکہ ایک ایسے ماحول میں جہاں لوگ جاہلیت کی زندگی گزار رہے تھے اور بت پرستی اور شرک جن کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا توحید و آخرت کی دعوت پیش کرنا اور خاص طور سے یہ کہنا کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے کوئی آسان کام نہ تھا بلکہ سخت جاں گُسل کام تھا چنانچہ جوں ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دعوت کا آغاز فرمایا ہر طرف سے مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور آپؐ کی رسالت کا لوگوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ خوب مذاق اڑانے لگے۔ دعوت و تبلیغ، اظہار حق، اور فرائض رسالت کی ادائیگی کی یہی وہ کمر توڑ ذمہ داری تھی جس کو ادا کرنے کی فکر میں آپؐ اس طرح ڈوبے رہتے کہ گویا کوہ غم آپؐ پر ٹوٹ پڑا ہے۔ بعد کے مرحلہ میں یہ کیفیت نہیں رہی کیونکہ شرح صدر نے زبردست تقویت کا سامان کیا، حوصلہ کی بلندی نے مشکل کام کو بھی آسان کر دیا نیز مخلص ساتھیوں کے فراہم ہو جانے سے دل کو اطمینان اور سکون نصیب ہوا۔ اسی اطمینان اور سکون کی کیفیت کو جا بعد کے مرحلہ میں پیدا ہوئی بوجھ اتار دینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور حقیقت حال کا علم اللہ ہی کو ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب سے بڑا اعزاز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں عطا کیا گیا۔ رفع ذکر کا مطلب محض شہرت نہیں ہے بلکہ اس میں بڑی معنویت ہے اور بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔ اس کے چند پہلو یہ ہیں کہ آپؐ کا ذکر مبارک بلند سطح سے ہو گا، آپؐ کی رسالت کا چرچا عام ہو گا۔ آپؐ کا نام نہایت ادب و احترام کے ساتھ لیا جائے گا، آپ کی رسالت کی گواہی دیے بغیر کوئی شخص بھی اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اذان میں آپؐ کے نام کی صدا برابر گونجتی رہے گی، کوئی نماز آپؐ کے ذکر خیر سے خالی نہیں ہو گی، آپؐ دنیائے انسانیت کے نجات دہندہ کہلائیں گے ، کوئی آپؐ کو یتیموں کا والی کہے گا، تو کوئی غلاموں کا مولیٰ ، کہیں آپؐ کا تذکرہ معلم اخلاق اور مزکّی نفوس کی حیثیت سے ہو گا تو کہیں تاریخ ساز انقلابی شخصیت کی حیثیت سے ہو گا تو کہیں آپؐ سرور عالم کے لقب سے پکارے جائیں گے تو کہیں رحمۃ للعالمین کے لقب سے ، قومیں آپؐ کو ہادیٔ اعظم کے نام سے یاد کریں گی تو علماء اور فضلاء نور مجسم کے نام سے ، آپؐ کی سیرت دلوں پر نقش ہو گی اور آپؐ کی حیات طیبہ کے ذکر سے محفلیں مہک اٹھیں گی، آپؐ کی شان میں نعت پڑھنا لوگوں کے لیے باعث فخر ہو گا اور بَلَغَالْعُلیٰ بِکمالِہٖ جیسے کلمات زبان زد عام ہوں گے۔ اہل ایمان کو آپؐ سے گہری عقیدت ہو گی اور شب و روز آپؐ کی خدمت میں ہدیہ و درود و سلام پیش کرتے رہیں گے صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت کے نزول کے وقت تو فرع ذکر کی ایک جھلک ہی دیکھی جا سکتی تھی لیکن بعد میں جب آفتاب عالم تب کی طرح اس کی صداقت روشن ہو گئی تو کسی کا انکار کی مجال نہ رہی الّا یہ کہ کسی نے اپنی آنکھیں ہی بند کر لی ہوں۔

موقع کلام کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطمینان دلانا مقصود ہے کہ اے نبی ! تمہارے مخالفین تمہیں کتنا ہی جھٹلائیں اور تمہارا کیسا ہی مذاق اڑائیں اللہ تعالیٰ نے تو تمہاری شان بلند کی ہے اور اپنے نیک بندوں میں تمہارے لیے کمال درجہ کی مقبولیت رکھ دی ہے چنانچہ تمہارے ذکر سے فضا گونج رہی ہے لہٰذا تم مخالفتوں کی کوئی پرواہ نہ کرو اور اطمینان رکھو کہ وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ اہم حقیقت ہے جس کو اصلاً ذہن نشین کرانا مقصود ہے۔ اس سورہ میں نیز سابق سورہ (الضحیٰ )  میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی سے متعلق جن واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد فراخی، تکلیف کے بعد راحت اور مشکلات کے بعد آسانی کی راہ کھولتا ہے۔ اس حقیقت کو پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ مشکلات آئندہ بھی پیش  آ سکتی ہیں لیکن آپؐ پریشان نہ ہوں کیونکہ ہر مشکل آسانی کا پیش خیمہ ہے اور ہر دشواری سہولت کی ضمانت۔ ابتلاء کے ان مرحلوں سے گزر کر ہی آپؐ اس منزل کو پہنچ سکیں گے جہاں آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی۔

اس سے یہ اصولی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آدمی راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات سے پریشان اور دل گرفتہ نہ ہو بلکہ اطمینان رکھ کہ مشکلات کے بعد آسانیوں کا دور بھی آئے گا اور آسانیوں کا دور اتنا قریب ہے کہ گویا ساتھ ہی چلا آ رہا ہے۔

’’ مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے ‘‘ یہ بات دو مرتبہ دہرائی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ راہ حق میں مشکلات بار بار پیش آ سکتی ہیں لیکن ہر مشکل کے بعد بہ شرط یہ کہ آدمی ہمت نہ ہارے آسانی کی راہ لازماً کھلے گی۔ ایسے ہی حالات سے گزر کر اہل ایمان اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکتے ہیں یعنی اس مقام کو جہاں مشکلات کا گزر ہی نہیں اور جس کا اصطلاحی نام جنت ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فارغ ہونے کے مفہوم میں ہر طرح کے مشاغل سے فارغ ہونا شامل ہے لیکن یہاں خاص طور سے اشارہ دعوتی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کی طرف ہے کیونکہ ما قبل سورہ کی آخری آیت : وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ میں دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہدایت دی گئی تھی اور یہاں اسی سیاق میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ جب تم فارغ ہو تو عبادت میں سرگرم ہو جاؤ‘‘ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو عبادت الٰہی ہی ہے چنانچہ اس ہدایت کی تعمیل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا عبادت میں انہماک اس قدر بڑھ گیا تھا کہ طویل قیام لیل کی وجہ سے آپؐ کے پاؤں متورم ہو جاتے۔

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت : کان النبیّ صلی اللہ علیہ و سلم یقوم من اللیل حتی تتفطرقد ماہ، فل تلہ : لم تصنع ھذا یا رسول اللہ وقد غفرلک ما تقدم من ذنبک و ما تاخر ؟ قال : افلا اکون عبداً شکوراً۔ (بخاری مسلم)

حضرت عائشہ رضی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رات میں اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپؐ کے قدم متورم ہو جاتے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپؐ اتنا طویل قیام کیوں فرماتے ہیں جب کہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیے گئے ہیں۔ فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں ‘‘۔

اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے ہ اسلام میں عبادت کا مقام کیا ہے۔ گو شریعت کے سب احکام اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن جو چیز تمام احکام پر فوقیت رکھتی ہے وہ عبادت ہی ہے یعنی نماز ، ذکر، دعا جیسی چیزیں کہ یہ عبادت مقررہ وقت پر بھی  مطلوب ہے اور اس وقت بھی جب کہ دوسری مصروفیتوں سے آدمی فارغ ہو۔ بالفاظ دیگر اہل ایمان کو سب سے زیادہ جس کام سے دلچسپی ہونی چاہیے اور جو کام مسلسل انجام دیتے رہنا چاہیے وہ عبادت الہیٰ ہی ہے۔ اگر غذا اور پانی انسان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے تو اس سے کہیں زیادہ ضروری سانس لینے کا عمل ہے۔ اگر ایک منٹ کے لیے آدمی سانس نہ لے تو وہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اسی طرح شرعی احکام خواہ وہ احکام دعوت و تبلیغ سے متعلق ہوں یا تعلیم و تربیت سے متعلق، انفرادی زندگی ے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے متعلق، اگر اسلامی زندگی گزارنے کے لیے ان کی پابندی ضروری ہے تو اللہ کی عبادت و پرستش اس سے کہیں زیادہ ضروری۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے احکام کی تعمیل کے سلسلہ میں حالات کی مناسبت سے ذمہ داریوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن نماز مؤمن کی زندگی کا جز و لاینفک ہے اور اس کا جتنا اہتمام وہ کرتا ہے اتنا ہی اس کا تعلق اللہ سے مضبوط ہو جاتا ہے یہاں تک کہ نماز اس کے آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رب ہی کی طرف متوجہ ہو جاؤ، اس کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو ، اس سے استغفار کرو اور عاجزی کے ساتھ اس سے دعائیں مانگو۔

یہ ہدایت گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے دی گئی ہے مگر یہ سب کے لیے عام ہے اور اس سے جو اہم ترین حقیقت واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام غایتوں کی غایت اللہ سے لَو لگانا یا بالفاظ دیگر تعلق باللہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۹۵)۔ سورہ التین

 

                   (۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں تین (انجیر )  کی قَسمَ کھائی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلتِّین ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور اس کے مکی ہونے پر آیت ۳ دلالت کرتی ہے جس میں ’’ اس امن والے شہر ‘‘ کی قسم کھائی گئی ہے جس سے مراد ظاہر ہے شہر مکہ ہی ہے۔ مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

جزائے عمل ہے جس کی معقولیت نہایت دلنشین انداز میں واضح کی گئی ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں ان مقامات کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے جو جلیلُ القدر پیغمبروں کی یاد تازہ کرتے ہیں اور جہاں سے ہدایت کی روشنی پھیلی۔

آیت ۴ تا ۶ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے تاکہ وہ اپنے کو اس مقام بلند کا اہل ثابت کرے جہاں اس کا رب اسے پہنچانا چاہتا ہے مگر اس نے پستی کی راہ اختیار کی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے انتہائی پستی کے گڑھے میں پھینک دیا۔ البتہ جن لوگوں نے اپنے کو مقام بلند کا اہل ثابت کر دیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دائمی اجر کا وعدہ ہے۔

آیت ۷ و ۸  میں اس بات پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور متضاد طرز عمل پائے جاتے ہیں تو دونوں کا انجام یکساں کیسے ہو گا یا یہ بات کس طرح صحیح ہو سکتی ہے کہ سرے سے کوئی انجام ہو گا ہی نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات سراسر غیر معقول ہے کیونکہ عقل اور فطرت دونوں کی گواہی یہ ہے کہ اللہ تمام حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہے پھر جو سب سے بڑا حاکم ہو وہ انصاف کیسے نہیں کرے گا۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱*  ہے انجیر اور زیتون کی ۲*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور طور سینین کی ۳*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس امن والے شہر کی ۴*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۵*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسے پست ترین حالت کی طرف پھیر دیا۶*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا۔ ۷*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (اے پیغمبر!)  اس کے بعد کون ہے جو تمہیں جزا و سزا کے معاملہ میں جھٹلاتا ہے ؟ ۸*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ؟ ۹*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں انجیر اور  زیتون کا ذکر کنایۃً اس علاقہ کے لیے ہوا ہے جہاں یہ دونوں چیزیں بکثرت پیدا ہوتی ہیں یعنی بیتُالمقدس کی سر زمین۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے بعد طور سینا اور امن والے شہر کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے انجیر و زیتون سے مراد ان کی پیداوار کا علاقہ ہی ہو سکتا ہے۔

سر زمین فلسطین انجیر اور زیتون کی پیداوار کے لیے قدیم زمانہ سے مشہور رہی ہے چنانچہ عہد نامہ عتیق میں ہے :

’’کیونکہ خداوند میرا خدا تجھ کو ایک اچھے ملک میں لیے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا ملک ہے جہاں گیہوں اور جو اور انگور اور انجیر کے درخت اور انار ہوتے ہیں وہ ایسا ملک ہے جہاں روغن دار زیتون اور شہد بھی ہے ‘‘ (استثناء ۸ : ۷، ۸ )

اور عہد نامہ جدید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انجیر کے درخت کے پاس سے گزرنے اور اس کی تمثیل بیان کرنے کا ذکر تعدد مقامات پر ہوا ہے مثلاً مرقس کی انجیل باب ۱۱: ۱۲، ۱۳ ،۱۴ ، میں اور لوقا کی انجیل باب ۲۱: ۲۹ تا ۳۳ میں ، اور کوہ زیتون کا ذکر تو موجودہ انجیلوں میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ اس کے ایک معلوم اور معروف مقام ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی۔ یہ مشہور پہاڑ یروشلم کے مشرقی جانب ہے

Mt. Of Olives ——- A hill which is before Jerusalem on the east

(A Dictionary O the Bible p. 554)

اس پہاڑ پر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام تشریف لے جاتے او اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے اس سلسلہ  میں آپ ے نہایت مؤثر خطبے ارشاد فرمائے ہیں جو موجودہ انجیل میں منقول ہیں اور جو کوہ زیتون کی چوٹی پر دے گئے تھے۔

پس انجیر کے علاقہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو دعوت پیش کی اور کوہ زیتون پر آپ نے جو درس دیا اسمیں آخرت کی جزا و سزا کا واضح تصور پیش کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :

’’ پھر اس نے اپنے شاگردوں کی طرف نظر کر کے کہا مبارک ہو تم جو غریب ہو کیونکہ خدا کی بادشاہی تمہاری ہے۔ مبارک ہو تم جو اب بھوکے ہو کیونکہ آسودہ ہو گے۔ مبارک ہو تم جو اب روتے ہو کیونکہ ہنسو گے ……….. اس لیے کہ دیکھو آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے ……………. مگر افسوس تم پر جو دولت مند ہو کیونکہ تم اپنی تسلی پا چکے۔ افسوس تم پر جو اب سیر ہو کیونکہ بھوکے ہو گے۔ افسوس تم پر جو اب ہنستے ہو کیونکہ ماتم کرو گے اور روؤ گے ………….. کیونکہ جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے لیے ناپا جائے گا ……. کیونکہ کوئی اچھا درخت نہیں جو بُرا پھل لائے اور نہ کوئی بُرا درخت ہے جو اچھا پھل لائے۔ ہر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ جھاڑیوں سے انجیر نہیں توڑتے (لوقا ۶ : ۲۰ تا ۴۴ )۔

جب وہ زیتون کے پہاڑ پر ہیکل کے سامنے بیٹھا تھا تو پطرس اور یعقوب اور یوحنا اور اندر یاس نے تنہائی میں اس سے پوچھا ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی ؟ ………….. مگر ان دنوں میں اس مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان سے ستارے گرنے لگیں گے اور جو  قوتیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی ……….

اب انجیر کے درخت سے تمثیل سیکھو۔ جوں ہی اس کی ڈالی نرم ہوتی ہے اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے۔ اسی طرح جب تم ان باتوں کو ہوتے دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہر گز تمام نہ ہو گی۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں نہ ٹلیں گی۔ لیکن اس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ ‘‘ (مرقس ۱۳ : ۳ تا ۳۲ )۔

’’ یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی ‘‘ (متی ۲۵ : ۴۶ )

بائبل کے ان اقتباسات میں زیتون اور انجیر دونوں کا نہ صرف ذکر موجود ہے بلکہ ساتھ ہی قیامت اور جزا و سزا کا بیان بھی۔ قرآن کا اشارہ تین اور زیتون کی قسم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اسی درس اور اسی تعلیم کی طرف ہے۔ اور یہ الفاظ کنایہ کے طور پر اس لیے استعمال کیے گئے ہیں تاکہ وہ ماحول مصور ہو کر سامنے آ جائے جس میں جزا و سزا کا واضح تصور پیش کیا گیا تھا اور جہاں انجیل نازل ہوئی تھی۔ یہ بلاغت کا ایک اسلوب ہے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا دورا نام طور سینا ہے۔ کوہ طور جہاں موسیٰ علیہ السلام کو شریعت عطا ہوئی تھی جزیرہ نمائے سینا میں واقع ہے۔ نبی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد کوہ سینا کے دامن میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ طور سینین سے اشارہ تورات کی طرف ہ جس میں صراحت کے ساتھ یہ بات پیش کی گئی تھی کہ قیامت کے دن جزا و سزا کا معاملہ لازماً پیش آئے گا۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد شہر مکہ ہے جو ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں امن والا قرار پایا اور اس کی یہ حیثیت ہمیشہ بر قرار رہی یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بھی یہاں لڑائی ممنوع تھی۔ اس کی یہ صفت کہ وہ امن والا ہے اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان کی عظمت کا راز خدا کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی پاسداری میں ہے اور اس کی خلاف ورزی انسان کے لیے باعث ذلت ہے۔

بلدِ امین (امن والا شہر)  اس بت کا تاریخی ثبوت ہے کہ یہاں سے ہدایت کی روشنی پھیلی ہے ور اس ہدایت کا ایک اہم جز آخرت کی جزا و سزا پر ایمان لانا تھا اور جو صحیفہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا گیا تھا اس میں جزا و سزا کا یہ تصور شامل تھا۔ (ملاحظہ ہو سورہ اعلیٰ نوٹ ۱۹)

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہترین ساخت پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے اسے نہاتی موزوں ساخت عطاء کی گئی ہے۔ جسم بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا دیا گیا ہے اور اس میں قوتیں اور صلاحیتیں بھی اعلیٰ قسم کی رکھ دی گئی ہیں۔ پھر عقل و فہم ور علم و حکمت کی قابلیتوں نے تو گویا اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج رکھ دیا ہے۔ وہ نہ پیدائشی گنہگار ہے۔ اور نہ اس کی فطرت شر پسند ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اسے فطرت مستقیمہ پر پیدا کیا گیا ہے۔ اور خیر و شر کا امتیاز اس کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ بھلائی اور برائی کے رجحانات اس کے اندر ضرور پائے جاتے ہیں لیکن جہاں تک اس کی اصل فطرت کا تعلق ہے وہ خیر پسند ہی ہے۔

انسان کو یہ بہترین ساخت جو عطاء ہوئی ہے وہ خدائے واحد کی خلّاقی اور اس کے فضل کا نتیجہ ہے اور مقصود یہ ہے کہ انسان ان صلاحیتوں سے کام لے کر وہ ذمہ داریاں پوری کرے جو خدا نے اس کے سپرد کی ہیں اور وہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرے جو انسانیت کا کمال ہیں تاکہ وہ آنے والی زندگی میں اپنے رب کے ابدی انعامات کا مستحق قرار پائے۔ واضح ہوا کہ آخرت کی جزا و سزا انسان کے بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا لازمی تقاضا ہے لہٰذا قرآن کا یہ دعویٰ کہ جزا و سزا واقع ہو کر رہے گی اس کی صداقت کی دلیل ہے اور اس کی یہ دعوت کہ اس تصور کی بنیاد پر اپنی زندگیاں سنوارو کوئی انوکھی دعوت نہیں ہے جو پہلی مرتبہ پیش ہوئی ہو بلکہ اس سے پہلے بھی یہی دعوت انبیاء علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں چنانچہ ان جلیل القدر پیغمبروں نے جن کی طرف بڑی  بڑی ملتیں منسوب ہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیروؤں کو اسی کی تعلیم دی تھی۔ انجیرو زیتون کی سر زمین (بیت المقدس )  گواہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عدالت خداوندی کے تصور کو اجاگر کر کے پیش کیا تھا اور کوہ زیتون پر اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ تمہاری سعی و جہد کا مقصد حصول آخرت ہونا چاہیے۔ جزا و سزا کی حقیقت انجیل میں بڑے مؤثر انداز سے بیان ہوئی تھی۔

اسی طرح طور سینا گواہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب۔ تورات۔ نازل کی گئی تھی اس میں بھی اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا تھا اور آپ نے بنی اسرائیل کو جو درس کوہ طور کے دامن میں دیا تھا، اور ان سے شریعت کی پابندی کاجو عہد لیا تھا اس میں آخرت کی جزا و سزا کا یہ بنیادی تصور پوری طرح شامل تھا، اور شہر مکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جزا و سزا کے تصور ہی کی بنیاد پر ایک نئے شہر اور ایک نئے سماج کی داغ بیل ڈالی تھی ،صحیفہ ابراہیمی میں ایمان بالآخرۃ کی دعوت واضح طور سے موجود تھی اور انہوں نے جو صدا بلند کی وہ فلاح آخرت کی طرف دوڑنے ہی کی صدا تھی ان تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ :

اولاً : جس طرح تمام انبیاء علیہم السلام نے توحید کی دعوت دی تھی اسی طرح جزا و سزا پر یقین رکھنے کی بھی دعوت دی تھی۔ حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم نے تعلیم و ارشاد کے جو مراکز قائم کیے تھے وہ اپنے اندر اس تعلیم کی تاریخی شہادت رکھتے ہیں۔

ثانیاً : جزائے عمل کا انکار، انبیاء علیہم السلام کی تکذیب ور ان کی دعوت کا انکار ہے۔

ثالثاً : ہر وہ تصور جو آخرت کی جزا و سزا کے خلاف ہو خواہ وہ دنیا کو مقصود بنانے کا تصور ہو یا مرنے کے بعد انسان کے کسی اور مخلوق میں تبدیل ہو جانے (تناسخ)  کا تصور مثلاً جانور یا درخت بن جانے کا تصور یا پھر یہ خیال کہ مرنے کے بعد زندگی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے یا یہ وہم کہ (نعوذ با للہ)  انسان مرنے کے بعد خدا میں ضم ہو جاتا ہے وہ گمراہی ہے جو انسان کے سارے شرف کو خاک میں ملا کر رکھ دیتی ہے اور اس کی زندگی کو ناکام با کر اسے تباہی کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

رابعاً : جزا و سزا کا تصور انسان کو ذمہ دار اور با کر دار بناتا ہے نیز اس کی  صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر اسے حقیقی ترقی کی راہ پر لگا دیتا ہے۔

خامساً : یہ تاریخی مقامات جہاں جلیل القدر پیغمبر مبعوث ہوئے اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ پاکیزہ نفوس اخلاق و کردار کے اعلیٰ معیار پر تھے اور ان کی عظمت نے آسمان کو چھو لیا تھا۔ نیز جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کر کے جزائے عمل کی بنیاد پر اپنے کردار کی تعمیر کی تھی وہ بام عروج کا پہنچ گئے۔ یہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بہترین صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں اور وہ توحید و آخرت کی بنیاد پر زندگی بسر کر کے ان صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتا ہے اور اپنے کو اتنا اونچا اٹھا سکتا ہے کہ ثریا بھی اس کی رفعت پر رشک کرنے لگے۔ ؎

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

آیت ۱ تا ۳ میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں اور آیت ۴ میں جو بات ارشاد ہوئی ہے ان کے اشارات اور مضمرات ان تمام حقائق کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں جن کو مختصراً ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پست ترین حالت سے مراد گراوٹ اور تنزل کی انتہائی حالت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے اپنی ساخت کی قدر نہیں کی اور ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کیا جو اس کے اندر ودیعت کی گئی تھیں اور اوپر اٹھے کے بجائے اس نے گرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے گراوٹ کے آخری درجہ کو پہنچا دیا۔ نتیجہ یہ کہ وہ قعر جہنم میں جا گرا۔

معلوم ہوا کہ انسان جب اس مقصد کو اپنا نصب العین نہیں بناتا جس کے لیے اسے اعلیٰ صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں تو پھر وہ انسانیت کا جوہر کھو دیتا ہے اور حیوان سے بھی بد تر ثابت ہوتا ہے چنانچہ انسانی گراوٹ کی بد ترین مثالوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں اور آج بھی ذلیل حرکتوں اور کمینہ پن کے ایسے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے رہتے ہیں کہ انسانیت ماتم کرنے لگتی ہے۔ عبادت کے مقدس جذبہ کی یہ توہین کہ انسان اینٹ پتھر کو معبود بنا لے یہاں تک کہ آلۂ تناسل کو پوجنے لگے ، انسانی خون کی یہ ارزانی کی جانور کی قدر و قیمت انسانی جانوں سے بھی زیادہ قرار پائے، صنف نازک پر یہ ظلم کہ مرد ان کو اپنی ہو کا نشانہ بنا لیں۔ کمزوروں کے حقوق کی یہ پامالی کہ یتیموں کا مال ہڑپ کر جائے ، خود غرضی کی یہ انتہا کہ غریبوں کا خون چوسنے لگے ، انسانوں کی اس درجہ بے وقعتی کہ ان کو اذیت دینے کے درد ناک طریقے اختیار کرے اور انسانی سماج کی یہ بے حرمتی اور اس کے ساتھ ایسی دشمنی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کو اس کی تباہی کے لیے استعمال کرے یہاں تک کہ ایک بم کے دھماکے میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ یہ اور اس طرح کی دوسری خرابیاں انسانی گراوٹ کا ناقابل انکار ثبوت ہیں۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کی قدر کی اور اپنے کو ایمان و عمل صالح سے سنوارا وہ پستی میں گرنے سے بچ گئے۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال صحیح مقصد کے لیے کیا اور آخرت کی منزل کو سامنے رکھتے ہوئے بلندیوں پر چڑھنے کا حوصلہ کیا اس لیے وہ آخرت میں دائمی اجر کے مستحق ہوں گے اور ابدی انعام سے نوازے جائیں گے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان واضح اور محکم دلائل کے سامنے آ جانے کے بعد قیامت اور جزائے عمل کے بارے میں پیغمبر کو جھٹلانے میں کیا معقولیت ہے ؟ پس جو لوگ اس کے باوجود پیغمبر کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں وہ اپنے ہی نا معقول ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا کا سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہونا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کیونکہ آسمان اور زمین اور انسان اور فرشتے اور جِن سب پر اس کی حکومت قائم ہے پھر کیا تم اس سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ اچھے اور برے انسانوں میں امتیاز نہ کرے گا ؟ اس کے نزدیک انصاف کوئی چیز نہیں اور وہ کبھی عدالت بر پا نہیں کرے گا ؟ وہ نہ مجرموں کو سزا دے گا اور نہ نیکو کاروں کو انعام ؟ جب تم دنیا کے حاکموں سے بھی انصاف کی توقع رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو احکم الحاکمین ہے یہ خیال کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی انصاف کرنے والا نہیں ہے اور نہ جزا و سزا کی کوئی حقیقت ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

(۹۶)۔ سورہ اَلْعَلَق

 

(۲۱ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۲ میں انسان کے عَلَقْ (خون کی پھُٹکی )  سے پیدا کیے جانے کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْعَلَقْ ہے اور اس کا دوسرا نام اِقْرَأ (پڑھ)  بھی ہے اس مناسبت سے کہ سورہ کا آغاز اسی لفظ سے ہوا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور پہلی وحی جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی وہ اس سورہ کی ابتدائی پانچ آیتیں تھیں۔ بقیہ آیتیں بعد میں اس وقت نازل ہوئیں جب کہ ابو جہل نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی اور آپؐ کی کھلی مخالفت پر اتر آیا۔ یہ ہے کہ یہ کتاب خالق کائنات کا فرمان ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے پیغمبر پر نازل ہوا ہے تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے رب کی بندگی کرے اور اس کا قرب حاصل کرے لیکن انسان کا حال عجیب ہے بجائے اس کے کہ وہ اس سعادت کو حاصل کرتا اپنے رب سے سرکشی کرنے لگتا ہے اور پیغمبر کی مخالفت پر اتر آتا ہے۔ اس طرح اپنی عاقبت خراب کرتا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵ میں قرآن پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اسی ضمن میں انسان کے خالق کی کرشمہ سازی کا ذکر کرتے ہوئے جو اس کی تخلیق میں نمایاں ہے علم حقیقی کی دولت سے نوازے جانے کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔

آیت ۶ تا ۸ میں انسان کو اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے الٹا اپنے رب سے سرکشی کرتا ہے درآں حال یہ کہ پہنچنا اسے اپنے رب ہی کے پاس ہے۔

آیت ۹ تا ۱۴ میں ان لوگوں کو سرزنش کی گئی ہے جو پیغمبر کی مخالفت پر تل گئے تھے اور آپؐ کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے۔

آیت ۱۵ تا ۱۸ میں سرکشوں کو انجام بد سے آگاہ کیا گیا ہے۔

آیت ۱۹ میں پیغمبر کو اور اس کے واسطے سے اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان سرکشوں کی بات نہ مانو اور اللہ کی بندگی میں لگے رہو۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھو۱*  اپنے رب کے نام سے ۲*  جس نے پیدا کیا۳*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے ۴*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھو۵*  اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۶*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۷*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا ۸*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سرکشی کرتا ہے ۹*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے کو بے نیاز خیال کرتا ہے ۱۰*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جب کہ)  یہ بات یقینی ہے کہ تمہارے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانا ۱۱*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے اس شخص کو دیکھا جو روکتا ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بندے کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے ؟ ۱۲*

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے سوچا اگر (بندہ)  ہدایت پر ہو۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا پرہیز گاری کا حکم دیتا ہو۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے سوچا اگر یہ (روکنے والا شخص)  جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو! ۱۳*

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اسے نہیں معلوم کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟۱۴*

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبردار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ۱۵*

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹی اور خطا کار پیشانی ! ۱۶*

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس وہ بلا لے اپنی ٹولی کو ۱۷*

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی بلاتے ہیں عذاب کے فرشتوں کو ۱۸*

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبردار ! اس کی بات نہ مانو۱۹* اور سجدہ کرو۲۰*  اور قرب حاصل کرو۲۱*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ابتدائی پانچ آیتیں پہلی وحی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی جب کہ آپؐ غار حرا میں جو مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے عبادت خداوندی کی غرض سے معتکف تھے۔ یہ ماہ رمضان کی کوئی شب تھی اور اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی۔ سن عیسوی کے اعتبار سے یہ ۶۱۰ A .D.  کا واقعہ ہے۔ بخاری میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ غار حرا میں یکایک فرشتہ آپؐ کے سامنے نمودار ہوا اور اس نے کہا اِقْرَأ ’’پڑھو‘‘ آپؐ فرماتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑا اور کہا ’’پڑھو‘‘ میں نے کہا ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہو‘‘ اس نے دوسری مرتبہ مجھے دبایا یہاں تک کہ میرے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا ’’پڑھو‘‘ میں نے کہا ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘‘۔ اس نے تیسری مرتبہ مجھے دبایا یہاں تک کہ مریے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اَقْرَأ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا)  یہاں تک کہ اس نے مَالَمْ یَعْلَمْ تک کی آیتیں پڑھیں (بخاری بدء الوحی ، کتابُ التفسیر )

اس طرح قرآن کے نزول کا آغاز ہوا اور آپؐ  نبوت سے سرفراز کیے گئے۔ یہ معاملہ یکایک پیش آیا تھا۔ ا سے پہلے یہ بات آپؐ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ آپؐ کو نبی بایا جانے والا ہے۔ البتہ نبوت سے پہلے بھی آپ خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے اور یہ عبادت کا ذوق و شوق ہی تھا جو آپؐ کو غار حرا میں کھینچ لایا تاکہ آپؐ یکسوئی کے ساتھ عبادت میں منہمک ہو جائیں۔ جس فرشتہ کو آپؐ نے دیکھا وہ جبرئیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کا کلام لے کر آئے تھے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم امّی تھے یعنی آپؐ نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا اس لیے کلام الٰہی کو پڑھنے کے سلسلہ میں اشکال محسوس کیا۔ لیکن جب فرشتہ نے آپؐ کو تین مرتبہ دبایا تو آپؐ کا اشکال دور ہو گیا اور کلام الٰہی کے اخذ کرنے اور پڑھنے کی غیر معمولی صلاحیت پیدا ہو گئی۔

اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں پڑھنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے مراد قرآن کا پڑھنا ہے جو کتاب ہدایت ہے جو لوگ قرآن کے اولین مخاطب تھے ان کی زبان عربی تھی ور قرآن عربی ہی میں نازل ہو رہا تھا اس لیے پڑھنے کا حکم ان کے لیے سمجھ کر پڑھنے کے ہم معنیٰ تھا لیکن جن کی زبان عربی نہیں ہے ان کے لیے اس حکم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ قرآن کے اصل متن کو پڑھتے ہوئے اس کے معنیٰ و مفہوم کو بھی سمجھے کی کوشش کریں۔ جو کتاب ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے اس کو آدمی جب تک سمجھ کر نہیں پڑھے گا اس کی ہدایت اور خیر و برکت سے فائدہ کس طرح اٹھا سکے گا؟

واضح رہے کہ قرآن  پڑھنے کا یہ حکم عربوں یا مسلمانوں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ اس حکم کا مخاطب ہر وہ انسان ہے جس تک یہ کتاب پہنچے کیونکہ یہ کتاب انسان کے خالق نے انسان کی ہدایت کے لیے نازل کی ہے۔ انسانوں کے کسی مخصوص گروہ کی ہدایت کے لیے نہیں اور چونکہ یہ قیامت تک کے لیے ہدایت ہے اس لیے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسان اس حکم کے مخاطب ہیں۔ اگر ایک دوست کے خط کو غیر زبان میں پا کر آدمی کے اندر اس کے سمجھنے کے لیے بے چینی پیدا ہوتی ہے تو اس سے کہیں زیادہ بے چینی آدمی کو بہ شرط یہ کہ اس کے اندر انسانیت زندہ ہو اپنے خالق کا ہدایت نامہ سمجھنے کے لیے ہو گی جو اگرچہ کہ اس کی اپنی زبان میں نہیں ہے مگر اس کو سمجھنے کے لیے وسائل مہیا کر دیے گئے ہیں۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رب کا نام لے کر قرآن پڑھو۔ بِسْم کی ’’ب‘‘ بائے استعانت ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ قرآن پڑھنا خدا کی توفیق پر منحصر ہے لہٰذا اس کا آغاز کرتے ہوئے اپنے رب سے مدد طلب کی جائے۔ اس حکم کی تعمیل کا طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے اور وہ ہے اور وہ ہے بِسْم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا چنانچہ سورہ فاتحہ جو قرآن کا دیباچہ ہے اور دیگر تمام سورتوں کا آغاز بجز سورہ توبہ کے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (اللہ رحمٰن و رحیم کے نام )  سے ہی ہوتا ہے۔

قرآن کو اللہ کے نام سے جو پیش کیا گیا ہے وہ در اصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ کتاب لفظاً لفظاً اللہ کا کلام ہ۔ پیغمبر کا اپنا کلام نہیں اور یہ ہر طرح کی آمیزش سے پاک ہے۔ (مزید تشریح کے لی ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ ۱)

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمے ہوئے خون سے مراد استقرار حمل یعنی (Ovum)  کے Fertilize  ہونے کے بعد کی وہ حالت ہے جب کہ انسان اپنی تخلیق کے ابتدائی مرحلہ میں ہوتا ہے۔

یہاں اس کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اتنی حقیر چیز سے انسان جیسی اشرف مخلوق کو بنا کر کھڑا کر دینا خالق کی عظیم قدرت ، کمال حکمت ، اس کی کرشمہ سازیوں اور بے انتہا نوازشوں پر دلالت کرتا ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اَقْرَأ یعنی پڑھنے کا حکم یہاں دو بارہ دیا گیا ہے جس سے تاکید بھی مقصود ہے اور قرآن کی اہمیت کا اظہار بھی کہ یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جو بار بار پڑھے جانے کے لائق ہے اور تمہیں یہ تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے کہ اسے ایک بار نہیں بلکہ بار بار پڑھو۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’ اَکْرَم ‘‘ بیان ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑے شرف و عظمت والی ہستی ہے اور وہ بندوں کے حق میں نہایت محسن ہے یہاں اس صفت کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہی شرف والا اور صاحب عظمت ہے۔ انسان کی تخلیق تو نہایت حقیر مادہ سے ہوئی ہے اس لیے اسے غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح انسان کو یہ احساس دلانا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ بہترین مخلوق بنا کراس کی رشد و ہدایت کا سامان کیا۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قلم علم کی اشاعت کا محفوظ اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ یہ ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ قرآن کو ضبط تحریر میں لایا جائے چونکہ قرآن ایک ایسی قوم پر نازل کیا جا رہا تھا جو امی تھی اس لیے قلم (کتابت)  کی اہمیت واضح کی گئی تاکہ اب اسے اشاعت قرآن کی جو خدمت انجام دینا ہے اور اس میں تحریر و کتابت کا جو مقام ہے اسے وہ محسو کرے اور اس کے لیے مستعد ہو جائے چنانچہ آگے چل کر تعلیمی میدان میں اس نے جو ترقی کی اور قرآن کو ضبط تحریر میں لا کر اس کی اشاعت کے سلسلہ میں جو بیش بہا خدمات انجام دیں وہ اسی ہدایت ربّانی کے اثرات و نتائج تھے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ اس نے ایک حقیر ترین مادہ سے  بلند ترین صفات کی مخلوق کھڑی کر دی جس کی ایک ممتاز ترین صفت اس کا صاحب علم ہونا ہے۔

’’وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا ‘’ سے مراد غیب کی حقیقتوں کا وہ علم ہے جو وحی کے ذریعہ انسان کو دیا گیا۔ یہ حقیقی اور بنیادی علم ہے جو قرآن کی شکل میں انسان کو عطاء ہوا ہے اور اسی پر اس کے ارتقاء اور اس کی ابدی کامیابی کا دارو مدار ہے۔ گویا قرآن کا نزول انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے چنانچہ سورہ رحمٰن میں اس کو اپنی رحمت کا سب سے بڑا فیضان قرار دیا ہے :

اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ’’ رحمٰن نے قرآن سکھایا’’ اور اس کا ذکر انسان کی پیدائش کے ذکر سے پہلے کیا ہے خَلَقَ الْاِنْسَانَ (انسان کو پیدا کیا)  تاکہ واضح ہو کہ اس کی پیدائش کا مقصد ہدایت کا حصول ہے جس کا سرچشمہ قرآن ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بجائے اس کے کہ انسان اللہ کی اس نعمت کی قدر کرتا اس سے سرکشی کرنے لگتا ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سرکشی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کو خدا سے بے نیاز خیال کرنے کے لیے آزاد رہے اس لیے اسے نہ خدا کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کی ہدایت کی۔ اور اگر اسے مال و دولت اور جاہ منصب بھی حاصل ہو تو پھر اس کے اندر متکبرانہ نفسیات بڑی تیزی سے پیدا ہونے لگتی ہیں اور وہ خدا کے خلاف سرکشی پر اتر آتا ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا سے بے نیازی اختیار کر کے کوئی شخص بھی اپنے کو عدالت خداوندی کی حاضری سے بچا نہیں سکتا۔ اہاں اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس سرکشی کا کیا نتیجہ نکلا۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو حدیث میں بیان ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بعثت کے بعد جب مسجد حرام میں نماز ادا کرنے لگے تو ابو جہل نے جو بڑا سرکش تھا آپؐ کو نماز سے روکنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔

اس مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ کے علاوہ آیت کا عمومی پہلو یہ ہے کہ جو شخص بھی جس کسی بندہ کو نماز سے جو بندگی رب کا اولین مظہر ہے روکتا ہے وہ ایک بے ہودہ حرکت کرتا ہے جو ہر طرح قابل مذمت ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں قرآن کے ہر مخاطَب کو یہ سوچنے کی دعوت دی گئی ہے کہ ایک طرف اللہ کا وہ بندہ ہے جو خود راہ راست پر ہے اور دوسروں کو خدا سے ڈرنے اور اس کی نا فرمانی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور دوسری طرف وہ شخص ہے جس کا کام حق کو جھٹلانا اور اس سے رو گردانی کرنا ہے تو بتاؤ ان میں سے کس کی روش صحیح ہے ؟ اور پھر اگر یہ جھٹلانے والا شخص اسلام دشمنی میں اندھا ہو کر اس نیک بندہ پر زیادتیاں کر رہا ہو اور اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہو تو اس کی یہ حرکت کیسی ہے ؟

پس منظر کے لحاظ سے ان آیات کا اشارہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو جہل کی طرف ہے مگر اپنے مفہوم کے لحاظ سے اس میں عمومیت ہے۔ جو شخص بھی اسلام دشمنی میں کسی نیک بندے کو راہ حق سے روکے اس کی یہ حرکت اسی طرح قابل مذمت ہے جس طرح کہ ابو جہل کی حرکت قابل مذمت تھی۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا یہ ظالمانہ حرکتیں کرنے والا شخص اس بات سے بے خبر ہے کہ اللہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور جب وہ ظالم و مظلوم اور بد کردار و نیک کردار سب کو دیکھ رہا ہے تو وہ ظالم کو سزا کیسے نہیں دے گا اور مظلوم کی داد رسی کیسے نہیں کرے گا؟ کیا جس ہستی کی نظر اس کے بندوں اور ان کی تمام حرکات و سکنات پر ہو ، اس کے نزدیک اس کی بندگی کرنے والے اور اس کی بندگی سے روکنے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انصاف کا ایک دن برپا ہو۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ سرکش اگر اپنی ان حرکتوں سے باز نہیں آیا تو وہ دن آتا ہے جب کہ فرشتے اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ سورہ رحمٰن میں مجرموں کے بارے میں فرمایا ہے کہ :

فَیُؤ خَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ (الرحمٰن ۴۱)  ’’ ان کی  پیشانیوں کے بال اور ان کی ٹانگیں پکڑ کر ان کو گھسیٹا جائے گا‘‘۔

سرکش بڑے گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کے دماغ میں یہ ہوا بھر جاتی ہے کہ وہ بڑے لوگ ہیں اس لیے ان کو قیامت کے دن یہ رسوا کن عذاب دیا جائے گا کہ فرشتے ان کی پیشانیوں کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے اور انہیں جہنم رسید کریں گے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹی اور خطا کار پیشانی اس لیے کہا کہ جو پیشانی اپنے خالق کے حضور نہ جھکی اور دوسروں کو بھی اس کے حضور جھکنے سے روکتی رہی اس کے جھوٹی اور خطا کار پیشانی ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے ابو جہل کی اس دھمکی کی طرف کہ اس وادی میں میری ٹولی کے لوگ زیادہ ہیں۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر کسی کو اپنی ٹولی کے لوگوں پر ناز ہے تو وہ ان کو اپنی حمایت کے لیے بلا لے ہم بھی اپنی پولیس (زبانیہ)  یعنی دوزخ کے فرشتوں کو بلاتے ہیں پھر وہ دیکھ لے کہ اس کے اندر کتنا بل بوتا ہے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان سرکشوں کی باتوں میں نہ آؤ جو خدائے واحد کی بندگی سے تمہیں روکنا چاہتے ہیں۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کے معنیٰ جھکنے کے بھی ہیں اور ماتھا زمین پر ٹیک دینے کے بھی۔ یہاں سجدہ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے واحد ہی کے آگے جھکو ، اسی کے آگے ماتھا ٹیکو اور اسی کے لیے نماز پڑھو۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

اَقْرَبُ مَا یَکُوْ نُ الْعَبْدُ مِنْ رَّ بِّہٖ وَھُوَ سَاجِدٌ  (مسلم کتاب الصلاۃ)

’’ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے ‘‘۔

واضح ہوا کہ سجدہ جو نماز کا اہم ترین رکن ہے قرب الٰہی کا اہم ترین ذریعہ ہے کیونکہ سجدہ میں انسان اپنی پیشانی کو جو جسم کا اشرف ترین حصہ ہے زمین پر رکھ دیتا ہے اور خدا کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی پاکیزگی بیان کرتا ہے (سَبْحانَ رَبِّی الْاَعْلیٰ)

اس سے پہلے کی آیت میں خطا کار پیشانی کا ذکر تھا جسے جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ اس کے مقابل میں یہ آیت مؤمن کی پیشانی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کی بناء پر معزز قرار پائے گی۔

سورہ کی ابتداء قرآن پڑھنے کے حکم سے ہوئی تھی اور اختتام خدا کا قرب حاصل کرنے کے حکم پر ہوا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ قرآن پڑھنے کا ثمرہ خدا کا قرب ہے۔ اس سے اونچا کوئی مقام نہیں جس کا انسان تصور کر سکے اور اس سے بلند کوئی غایت نہیں جو حاصل کی جا سکتی ہو۔

اس آیت پر سجدہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ (مسلم کتاب المساجد)

٭٭٭

 

 

 

 

(۹۷)۔ سورہ القدر

 

(۵آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  قرآن کے شب قدر میں  نازل ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الْقَدَرْ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے جیسا کہ امام سیوطی نے الاتقان میں  صراحت کی ہے (الاتقان ج1 ص 22) نیز مضمون سے بھی اس کے مکی ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

قرآن کی اہمیت اور اس کی عظمت کو واضح کرنا ہے۔

نزول قرآن کا آغاز سورہ علق کی ابتدائی آیات سے ہوا تھا۔ اس سورہ میں  بتایا گیا ہے کہ وہ گھڑی نہایت مبارک تھی جب کہ نزول قرآن کا آغاز ہوا۔

 

نظم کلام

 

سب سے پہلے اس عظیم تاریخی واقعہ سے آگاہ کیا گیا ہے کہ نزول قرآن کا آغاز نہایت مہتم بالشان طریقہ پر ایک جلیل القدر رات میں  کیا گیا کیونکہ قرآن کا نزول کوئی معمولی بات نہیں  ہے بلکہ یہ وہ عظیم الشان فیصلہ الٰہی ہے جو قوموں  کی تقدیر کو بدلنے والا اور دنیائے انسانیت کی کایا پلٹ دینے والا ہے۔

اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اس رات کی برکتیں  کیا ہیں  اور کس طرح یہ رات صبح تک سرتا سر سلامتی کی رات ہوتی ہے۔

اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جو کتاب اس شان کے ساتھ نازل ہوئی ہے اس سے بے اعتنائی برتنے والے اور اس کو بے وقعت خیال کرنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں  جو اتنے بڑے خیر سے اپنے کو محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے اسے ۱* شب قدر میں  نازل کیا۔ ۲*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں  کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ *۳

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شب قدر ہزار مہینوں  سے بہتر *۴ ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں  فرشتے اور روح  *۵  (الامین) اپنے رب کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اترتے ہیں   *۶

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سراپا سلامتی ہے وہ شب طلوع فجر تک  *۷۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قرآن کو۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قَدْر کے معنیٰ قدر و منزلت کے ہیں  اور (شبِ  قدر ) کے معنی ہیں  قدر و منزلت والی رات۔ یہ وہ رات ہے جس میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلی وحی نازل ہوئی جب کہ آپ غار حراء میں  معتکف تھے۔ چونکہ اس رات کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں  نزول قرآن کا آغاز ہوا اس لیے اسے  لیلۃ مبارکۃٍ (مبارک شب) بھی کہا گیا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ان ایام کو منحوس قرار دیا گیا جن میں  قوم عاد پر عذاب نازل ہوا تھا۔

فَارَسَلْنَا عَلَیْھمِ ریْحاً فِی اَیَّامٍ نَحِسَاتٍ ’’  تو ہم نے ان پر منحوس دنوں  میں  سخت تند ہوا بھیج دی ‘‘(حٰم السجدہ۔ ۱۶)

ظاہر ہے اس آیت میں  منحوس دنوں  کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے بلکہ چونکہ ان ایام میں  قوم عاد پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا اس لیے وہ دن اس قوم کے لیے منحوس قرار پائے۔ اس کی دوسری مثال رمضان کا مہینہ ہے کہ اس کی فضیلت و برکت اس بنا پر ہے کہ اس میں  قرآن نازل ہوا اسی طرح لیلۃ القدر کی فضیلت و برکت اس بنا پر ہے کہ اس میں  نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ رات رمضان کی تھی جیسا کہ قرآن میں  ارشاد ہوا ہے : شَھْرُرَمضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنُ۔ ’’رمضان کا مہینہ جس میں  قرآن نازل کیا گیا‘‘ (البقرہ۔ ۱۸۵ )

یہ رات جیسا کہ احادیث صحیحہ میں  آتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات تھی۔

واضح رہے کہ لیلۃ القدر میں  قرآن کے نازل ہونے کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ اس شب میں  پورا قرآن نازل ہوا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس متبرک کتاب کے نزول کی ابتداء اسی شب میں  ہوئی۔ گویا رحمت خداوندی اسی رات کو جوش میں  آئی اور ہدایت کے سوتے اسی شب میں  پھوٹ پڑے۔ نزول قرآن کے لیے ان کے بجائے رات کا انتخاب خالی از حکمت نہیں  ہے۔ رات کا وقت سکون و طمانیت کا وقت ہوتا ہے خدا پر ست انسانوں  کی طبیعتوں  کا میلان خدا کی طرف ہوتا ہے کہ پر سکون اوقات روح کی بالیدگی کے لیے بہت موزوں  ہوتے ہیں  اور بالخصوص شب کا آخری حصہ تو مناجات الٰہی اور آہ سحر گا ہی کے لیے موزوں  ترین وقت ہوتا ہے اس لیے قرآن اور حدیث میں  شب کے آخری حصہ میں  نماز اور دعا کی بڑی فضیلت آیت ہے اور عجب نہیں  کہ قرآن کا نزول بھی لیلۃ القدر کے آخری حصہ میں  ہوا ہو۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سوال لیلۃ القدر کی عظمت و برکت واضح کرنے کے لیے ہے نیز اس کا اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ اس رات کا معاملہ اسرار غیب میں  سے ہے اس لیے اس کے بارے میں  وحی الٰہی نے جو کچھ بتلایا ہے اس سے زیادہ تفصیلات جاننے کا انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں  ہے۔ چنانچہ اس رات کی ٹھیک ٹھیک تعین کرنا انسان کے بس کی بات نہیں  ہے۔ حدیث میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں  میں  اسے تلاش کرنے کا جو حکم دیا ہے اس پر اکتفاء کرنا چاہیے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہزار مہینوں  کی تعبیر خیر و برکت کی کثرت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ رات اپنے اس شرف کی بنا پر کہ اس میں  انسان کو ہدایت سے نوازے جانے کا حکیمانہ فیصلہ ہوا اور نزول قرآن کے سلسلہ کی ابتدا ہوئی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز کیا گا دوسری ہزاروں  راتوں  بلکہ ہزار مہینوں  پر بھی بھاری ہے۔ اور جب ظرف(رات) اس درجہ کا ہے تو مظروف (قرآن ) کس درجہ کا ہو گا۔

اس رات نے اپنی برکتوں  کے خزانے تو اس وقت کھول دیے تھے جب کہ فرشتہ غار حراء میں  پہلی وحی لے کر آیات تھا لیکن اس کی برکتیں  مستقل طور سے باقی رہ گئیں  چنانچہ ہر سال رمضان کے مہینہ میں  نزول قرآن کی یاد گار کے طور پر اسے منایا جاتا ہے اور اس کے منانے کی شکل یہ ہوتی ہے کہ اس میں  نماز ، تلاوت قرآن اور ذکرو  دعا کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَا ناً وَ اِحْتِسَاباً غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ ’’ جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور اللہ سے اجر کی امید پر شب قدر میں  عبادت کی اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کریے گئے ‘‘۔ (بخاری کتابُ صلاۃ التراویح )

جس رح کہ بارش کا موسم کا شت کاری کے لیے بڑا سازگار ہوتا ہے اسی طرح قرب الٰہی کے حصول کے لیے شریعت کے مقرر کردہ مخصوص اوقات ، مخصوص دن اور مخصوص راتیں  نہایت سازگار ہوتی ہیں  مثلاً تہجد کا وقت ، جمعہ کا دن ، رمضان کا مہینہ، یوم عرفات وغیرہ۔ اسی طرح لیلۃ القدر قرب الٰہی کے حصول کے لیے بہترین اور موزوں  ترین شب ہے۔ اسی لیے حدیث میں  اسے رمضان کی آخری دس راتوں  میں  تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔  : عن عائشہ رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: تحَرُّوْ الَیلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ العشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَنَ۔ (بخاری۔ کتابُ صلاۃ التراویح)

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں  میں  تلاش کرو‘‘

طاق راتوں  سے مراد رمضان کی اکیوسویں  ، تیئسویں ، پچیسویں  ، ستائیسویں  ، اور انتیسویں  شب ہے۔ کسی ایک شب کا تعین اس لیے نہیں  کیا گیا کہ اس کی تلاش کا شوق پیدا ہو اور لوگ کئی راتیں  عبادت میں  گزاریں۔ اس پہلو سے اعتکاف کی مصلحت بھی واضح ہے جو رمضان کے آخری عشرہ میں  کیا جاتا ہے۔

رہا یہ سوال کہ دنیا کے ایک حصہ میں  رات ہوتی ہے تو دوسرے حصہ میں  دن اس لے جب مکہ میں  شب قدر ہو تو دور کے علاقے کے لوگ کس طرح اس کو پا سکیں  گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے گھڑی کو بابرکت قرار دے کر عبادت کے لیے مختص کیا ہے اس کے سلسلہ میں  مقامی وقت کا اعتبار ہو گا مثلاً شب کا آخری حصہ جو دعا کی قبولیت کے لی خاص ہے یا جمعہ کا وقت تو اس سلسلہ میں  مقامی وقت ہی کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق نماز وغیرہ ادا کی جاتی ہے اور اس سے وہ برکتیں  غائب نہیں  ہو جاتیں  جو مخصوص وقت یا مخصوص دن کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اسی طرح شب قدر کی برکتیں  بھی مقامی وقت کا اعتبار کرنے کے باوجود باقی رہتی ہیں  اور ہر علاقے کے لوگ اسے پا سکتے ہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح سے مراد روح الامین ہیں  جو حضرت جبریل کا لقب ہے۔ ان کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں  کے سردار ہیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تَنَزَّلُ (اترتے ہیں ) کا صیغہ تصویر حال کے لیے ہے تاکہ اس وقت کی تصویر سامنے آ جائے جب کہ فرشتے کلام الٰہی کو لے کر نازل ہو رہے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی بادشاہ کے سپاہی شاہی فرمان کو لے کر کسی مہم پر دوڑے پڑتے ہیں  اسی طرح جبریل فرشتوں  کی فوج کے ساتھ فرمان الٰہی کو لے کر نازل ہوئے تھے اور اس شان سے نازل ہوئے تھے کہ گویا روحانی عالم میں  یہ جشن قرآن کی شب تھی۔

ہر حکم کو لے کر نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر میں  فرشتوں  کا نزول یونہی نہیں  ہوا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی پانچ آیتوں  کو جو سورہ علق کی ابتدائی آیات میں  نازل کرنا، مکہ کے غار حراء میں  نازل ہونا ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل کر کے آپؐ کو خلعت نبوت پہنانا، آپؐ کو پکڑ کر بھینچنا تا کہ آپؐ میں  اخذ وحی کی اور اس کو صحت کے ساتھ پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے وغیرہ۔ ان کے علاوہ نزول خیر و برکت کے سلسلہ میں  فرشتوں  کو جو احکام  دیے گئے تھے ان میں  سے ہر ہر حکم کی انہوں  نے ٹھیک ٹھیک تعمیل کی اس لیے نزول قرآن اور نبوت سے سرفراز کیے جانے کا جو معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیش آیا وہ شبہہ سے بالاتر ہے۔

واضح رہے کہ آغاز وحی کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صرف جبریل علیہ السلام دکھائی دیے تھے مگر جیسا کہ یہ آیت صراحت کرتی ہے اس شب میں  دورے فرشتے بھی نازل ہوئے تھے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے فرشتہ کو دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا جس کا متحمل ہونا کوئی آسان بات نہیں  تھی۔ اس لیے آپؐ کے سامنے صرف جبریل علیہ السلام کو ظاہر کیا گیا۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نزول قرآن کے موقع پر آسمان پر سخت پہرے بٹھا دیے گئے تھے تاکہ شیاطین قرآن میں  خلل اندازی نہ کر سکیں  اور نہ انہیں  ملاء اعلیٰ سے سن گن لینے کا موقع مل سکے کیونکہ اگر انہیں  پیغمبر کی بعثت کی خبر قبل از وقت ہوئی یا جو پیغامات پیغمبر کی رف بھیجے جا رہے ہیں  ان کی بھنک انہوں  پائی تو وہ کاہنوں  کے کانوں  میں  الٹی سیدھی باتیں  ڈال کر زمین پر فتنہ بر پا کریں  گے۔ چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی انتظام کا نتیجہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے کسی کو کانوں  کان خبر نہیں  ہوئی کہ آپ کو نبی بنایا جانے والا ہے اور نہ نزول قرآن سے پہلے کسی کو یہ خبر ہوئی کہ فلاں  شب کو یہ اور یہ پیغام نازل ہو نے والا ہے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کی شب کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھنے کا سامان کیا تھا اور اس رات کو کامل طور پر سلامتی کی رت بایا تھا اور یہ کیفیت تھوڑی دیر کے لیے نہیں  بلکہ طلوع فجر تک رہی کیونکہ یہ مبارک شب قرآن کریم کے افتتاح کی شب تھی اور اب جو نزول قرآن کی یاد گار کے طور پر شب قدر منائی جاتی ہے تو اس میں  بھی اس کی سلامتی اور برکتیں  طلوع فجر تک رہتی ہیں  اس لیے یہ پوری رت اس لائق ہے کہ عبادت میں  گزری جائے۔

شب قدر سرتا سر سلامتی کی رات تھی اور اس میں  جو کتاب نازل ہوئی وہ بھی سر تا سر سلامتی ہی کی کتاب ہے یہ انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام ہے۔ اس کو قبول کرنے والے دنیا میں  بھی سلامتی کی زندگی گزاریں  گے اور آخری میں  انہیں  ابدی سلامتی نصیب ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۹۸)۔ سورہ البینۃ

 

(۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  اَلْبَیِّنَۃُ (روشن دلیل) کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْبَیِّنَۃُ رکھا گیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے اس دور میں  نازل ہوئی جب کہ اہل کتاب اور مشرکین پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا رسول ہو ان اچھی طرح واضح ہو گیا تھا اور اس کے باوجود انہوں  نے انکار کی روش اختیار کر لی تھی۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ میں  یہ واضح کیا گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول بنا کر بھیجنے اور آپؐ پر کتاب نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں  بتایا گیا ہے کہ لوگوں  کو کفر کی حالت سے نکالنے کے لیے ضروری تھا کہ کتاب سے ساتھ ایک رسول بھیجا جائے تاکہ وہ اللہ کے دین کو صحیح شکل میں  پیش کرے۔

آیت ۴ اور ۵ میں  واضح کیا گیا ہے کہ اہل کتاب کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشن تعلیمات آ چکی تھیں  لیکن اس کے باوجود وہ تفرقہ میں  پڑ گئے اور دین کی اصل تعلیمات کو بھلا بیٹھے۔

آیت ۶ تا ۸ میں  بیان کیا گیا ہے کہ رسول کا انکار کرنے والے کیسے درد ناک انجام سے دوچار کس طرح کامیاب اور با مراد ہوں  گے۔

 

ارشاد رسول

 

حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں  تمہیں  سورہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سناؤں۔ حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر یہ حکم دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا جی ہاں  ! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب کی آنکھیں  اشکبار ہو گئیں۔ (بخاری کتاب التفسیر)

حضرت اُبی بن کعب اہل کتاب میں  سے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لائے تھے اور چونکہ اس سورہ میں  ان ایمان لانے والوں  کے لیے بشارت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی قدر فرماتے ہوئے انہیں  یہ سورہ سنانے کا حکم اپنے نبی کو دیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ادر دیکھ کر حضرت ابی بن کعب پر رقت طری ہو گئی جو ایمان کا خاصہ ہے۔

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب ۱* اور مشرکین ۲* میں  سے جنہوں  نے کفر کیا ۳* وہ باز آنے والے نہ تھے جن تک کہ ان کے پاس واضح دلیل نہ آ جاتی ۴*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ (یعنی )اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے ۵* پڑھ کر سنائے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میں  درست احکام لکھے ہوئے ہوں  ۶*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں  کو کتاب دی گئی تھی وہ واضح ہدایت آ جانے کے بعد ہی تفرقہ میں  پڑ گئے ۷*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں  ۸* دین کو اس کے لیے خالص کر کے ۹* راست روی کے ساتھ ۱۰* اور نماز قائم کریں  اور زکوٰۃ دیں  ۱۱*۔ یہی صحیح دین ہے ۱۲*۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب اور مشرکین میں  سے جنہوں  نے کفر کیا ۱۳* وہ جہنم کی آگ میں  پڑیں  گے اور ہمیشہ اس میں  رہیں  گے۔ یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں  ۱۴*۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً جو لوگ ایمان لائے ۱۵* اور جنہوں  نے نیک عمل کیے وہ بہترین مخلوق ہیں  ۱۶*۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی جزا ان کے رب کے پاس جاودانی باغ ہیں  جن کے نیچے نہریں  بہ رہی ہو گی۔ وہ ان میں  ہمیشہ ہمیش رہیں  گے۔ اللہ ان سے راضی ۱۷* اور وہ اس سے راضی ! یہ (جزا ) اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے ۱۸*۔

                   تفسیر

 

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں  جن کے پاس اللہ کی کتاب۔ تحریف شدہ شکل میں  سہی۔۔۔ موجود تھی اور جہاں  تک اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کا تعلق ہے آج بھی تورات، زبور ، اور انجیل میں  یہ نمایاں  طور سے موجود ہے یہ اور بات ہے کہ تحریف کی وجہ سے اس میں  شرک کی آمیزش بھی ہو گئی ہے لیکن چونکہ یہود اور نصاریٰ اصلاً توحید کو مانتے تھے اور شرک ان کے اندر باطل تاویلات کے نتیجہ میں  آ گیا تھا وہ آخرت اور سلسلہ رسالت کو بھی تسلیم کرتے تھے اس لیے قرآن نے اس گروہ کے لیے اہل الکتاب کی اصطلاح استعمال کی اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے سلسلہ میں  مخصوص شرعی احکام بھی دئے مثلاً یہ کہ ان کی عورتوں  سے نکاح کیا جا سکتا ہے اور ان کا ذبیحہ۔ اگر شرعی طریقہ پر ہو۔ کھایا جا سکتا ہے۔

رہے دوسرے اہل مذاہب تو چونکہ ان بنیادی عقائد کے سلسلہ میں  ان کے تصورات بہت مختلف تھے اور ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب اس شکل میں  بھی موجود نہیں  تھی جس شکل میں  کہ تورات و انجیل یہود و نصاریٰ کے پاس موجود تھی اس لیے ان دو گروہوں  کے علاوہ کسی بھی مذہبی گروہ کو قرآن نے اہل کتب قرار نہیں  دیا حتیٰ کہ نبی اسمعیل۔ قریش مکہ کو بھی جو ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے اور جن کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے بعض اجزاء مثلاً طواف کعبہ حج وغیرہ موجود تھے اہل کتاب میں  شامل نہیں  کیا اور صریح بت پرستی میں  مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کے لیے مشرکین کی اصطلاح استعمال کی۔ اسی طرح مجوسیوں  کو باوجود یہ کہ ان کے پاس مذہبی کتب تھی ’’اہل کتاب‘‘ قرار نہیں  دیا۔ اس سے واضح ہو کہ ’’ اہل کتاب‘‘ کی اصطلاح یہود و نصاریٰ کے لیے خاص ہے اور اس حکم کا اطلاق کسی دوسرے مذہبی گروہ پر نہیں  کیا جا سکتا اگرچہ کہ اس کے پاس کوئی مذہبی کتا ہو۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین یعنی اللہ کا شریک ٹھہرانے والے۔ یہاں  یہ لفظ عرب کے بت پر پرستوں  کے لیے بطور اصطلاح استعمال ہوا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں  کفر سے مراد وہ کفر ہے جس کے ساتھ ہٹ دھرمی بھی ہو جیسا کہ بعد کے فقرہ ’’ باز آنے والے نہ تھے ‘‘ سے واضح ہے ایسے ہٹ دھرم کا فر اہل کتاب میں  بھی تھے اور مشرکین میں  بھی۔ مشرکین کا کفر تو واضح ہی ہے کہ انہوں  نے توحید کو چھوڑ کر بت پرستی کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ وہ آخرت کے بھی  منکر تھے اور سلسلہ رسالت کے بھی۔

رہے اہل کتاب تو ان کے کفر کی مختلف صورتیں  تھیں  مثلاً کوئی حضرت عُزَیر کو خدا کا بیٹا قرار دیتا تھا تو کوئی حضرت عیسیٰ کو، کوئی تو حضرت عیسیٰ کی رسالت ہی کا منکر تھا اور کسی کے نزدیک وہ کفارہ بن گئے۔ (یعنی عیسائیوں  کے گناہوں  کی معافی کا ذریعہ بن گئے )

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح دلیل سے مراد ایک نئے رسول کی آمد ہے جیسا کہ بعد والی آیت میں  بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں  سے جو لوگ کفر میں  شدید تھے ان کے کیفر کے ٹوٹنے کی اگر کوئی صورت ہو سکتی تھی تو وہ یہی تھی کہ ایک نئے رسول کی آمد ہو۔ گویا ایک نئے رسول کی آمد حالات کا اقتضاء تھا اور اس ضرورت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت نے پورا کر دیا ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی میں  مبتلا رہتا ہے تو اس کے جرم کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ صحیفے یعنی لکھے ہوئے اوراق ہیں  جو خالصۃً اللہ کے کلام پر مشتمل ہوں  اور ہر قسم کی تحریف اور باطل عقائد اور اخلاقی گندگی کی آمیزش سے پاک ہوں۔

آج جو لوگ مذہب بیزار ہیں  وہ بائیبل اور دوسری ’’مقدس‘‘ کتابوں  کا مطالعہ کریں  تو ان میں  پائی جانے والی گمراہیوں ، خدا کے بارے میں  گھٹیا تصورات، انبیاء کی  طرف منسوب غیر اخلاقی باتوں ، بے سر و پا  روایتوں ، لغو قصوں  اور رسومات کی جکڑ بندیوں  کو دیکھ کر ان کی مذہب بیزاری کو اگر کوئی کتاب دور کر سکتی ہے تو وہ قرآن ہی ہے جو نہ صرف  ان تمام خرابیوں  سے پاک ہے بلکہ ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کی اور نہایت حکیمانہ تعلیمات پر  مشتمل ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی طرف سے باتیں  گڑھ کر خدا کی طرف منسوب کرنا اور ان کو ’’ مقدس‘‘ کتابوں  میں  شامل کرنا مذہب کا ناجائز انتفقع (Exploitation) کرنے والوں  کا شیوہ رہا ہے اور اس کی  مثالیں  بائیبل اور دوسری مذہبی کتابوں  میں  دیکھی جاستی ہیں۔ ان ’’ مقدس‘‘ کتابوں  کا یہ حال دیکھ کر ایک ایسی کتاب کی ضرورت ابھر کر سامنے آتی ہے جن میں  اللہ کے احکام صحیح شکل میں  موجود ہوں  اور ایسی ٹھوس باتیں  ہوں  جو انسانی زندگی کے لیے صحیح شکل میں  موجود ہوں  اور ایسی ٹھوس باتیں  ہوں  جو انسانی زندگی کے لیے صحیح منزل کا تعین کر سکیں  اور اس کو صحیح رخ پر ڈال سکیں۔ قرآن ہی وہ کتاب ہے جو اس معیار پر پوری اترتی ہے اور انسان کی اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل کتاب کے فرقوں  میں  بٹ جانے کی وجہ یہ نہیں  ہے کہ ان کے پاس اللہ کی ہدایت واضح طور پر نہیں  آئی تھی بلکہ اس کی وجہ ہدایت خداوندی سے بے اعتنائی، خواہشات کے پیچھے چلنا اور نفسانیت ہے ورنہ انہیں  جو کتاب دی گئی تھی اس میں  اللہ کی روشن ہدایت موجود تھی اور کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ گمراہ ہوتے اور الگ الگ فرقوں  میں  بٹ جاتے۔

واضح رہے کہ اہل کتاب دو بڑے فرقوں  میں  بٹ گئے۔ یہود اور نصاریٰ اور ان دونوں  نے الگ  الگ مذہب کی شکل اختیار کر لی نیز ان کے اندر ذیلی فرقے بھی بکثرت پیدا ہو گئے۔ مثلاً عیسائیوں  میں  کیتھولک پروٹسٹنٹ وغیرہ۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں  خدائے واحد کی پرستش اور بندگی کا حکم دیا گیا تھا مگر انہوں  نے اس اولین ہدایت ہی کی خلاف ورزی کی چنانچہ یہود کو بت پرستی میں  بھی باک نہ ہوا اور وہ حضرت عُزَیر کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ور نصاریٰ نے ایک کی جگہ تین خدا بنا لیے نیز دونوں  گروہوں  نے اپنے فقہاء اور مشائخ کو رب بنا لیا کہ وہ جس چیز کو چاہیں  حرام قرار دیں  ور جس چیز کو چاہیں  حلال۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ’’ دین‘‘ کے معنیٰ اس اطاعت کے ہیں  جو خضوع کے ساتھ ہو، نیز مطلق اور غیر مشروط ہو۔ خالق و مال ہونے کی حیثیت سے اس اطاعت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اس لیے یہ اطاعت خالصتاً اسی کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کی ہدایت سابقہ کتابوں  میں  بھی دی گئی تھی اور قرآن میں  بھی دی گئی ہے۔

خدائے  واحد کی عبادت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے ساتھ ’’ دین‘‘ کو اس کے لیے خالص کرنے کا مطالبہ اسلام میں  عبادت کی نوعیت کو بخوبی واضح کرتا ہے اور وہ ہے پرستش کے ساتھ اطاعت کا امتزاج۔ بالفاظ دیگر اسلام میں  خدائے واحد کی پرستش اس طور سے مطلوب ہے کہ آدمی اس کی غیر مشروط اطاعت کرنے کے لیے دل سے آمادہ ہو اور اس مستقل بالذات اطاعت کو اللہ کے لیے مختص کر دے۔ اس اطاعت میں  اللہ کی شریعت اور اس کا پورا دین شامل ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ راست روی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو دل کا میلان غیر اللہ کی پرستش کی طرف ہو اور نہ اس کی عبادت میں  وہ بدعات کو شامل کرے بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت اس طریقہ پر کرے جو طریقہ کہ اللہ  نے عبادت کے لیے مقرر کیا ہے۔ چونکہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ یہی تھا اس لیے حنیفیت طریقہ ابراہیمی کا دوسرا نام ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم اہل کتاب کو دیا گیا تھا لیکن انہوں  نے نماز کو ضائع کر دیا یہاں  تک کہ تورات سے یہ حکم ہی غائب کر دیا البتہ زکوٰۃ کے احکام کسی نہ کسی شکل میں  اب بھی بائیبل میں  موجود ہیں۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دین  حق کی یہ بنیادی تعلیمات ہیں۔ یہی دین اہل کتاب کو دیا گیا تھا لیکن انہوں  نے ان بنیادی تعلیمات کو کھو دیا اور کھوکھلی دینداری کو لے کر بیٹھ گئے۔ ا س معیار پر دوسرے مذاہب کو بھی پرکھا جا سکتا ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں  کفر سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول اور قرآن کو اس کی نازل کردہ کتاب ماننے سے انکار کرنا ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جو مخلوق اپنے خالق سے کفر و بغاوت کا رویہ اختیار کرے اس کے بد ترین مخلوق ہونے میں  شبہہ کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے ؟ معلوم ہوا کہ کفر کے نتیجہ میں  انسان جو ہر انسانیت کھو بیٹھتا ہے اور بجائے ارتقاء کے تنزل کے آخری گڑھے میں  جا گرتا ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان لانے کے مفہوم میں  توحید کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول اور قرآن کو اس کی نازل کردہ کتاب تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل صالح کے نتیجہ میں  جوہر انسانیت کھلتا ہے اور وہ حقیقی ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کرتا ہے۔

جو مخلوق ہر قسم کی شیطانی ترغیبات کے علی الرغم اور ہر قسم کی آزمائشوں  سے گزرنے کے باوجود قائم ہے اور اس کی وفدار اور اطاعت شعار بن کر رہے اس کے بہترین مخلوق ہونے میں  شبہہ کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے ؟

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی رضا سب سے بڑا انعام ہے جس سے اہل ایمان نوازے جائیں  گے۔ جنت اللہ تعالیٰ کی رضا کا مظہر ہو گی اور وہاں  ظاہری نعمتوں  کے ساتھ ساتھ یہ باطنی نعمت بھی اہل ایمان کو نصیب ہو گی۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب سے ڈرنا دین کی اصل روح ہے جن لوگوں  کے اندر یہ روح موجود ہوتی ہے ان کے اندر صحیح دینداری ہوتی ہے اس بنا پر وہ اس جزاء کے مستحق ہوتے ہیں  جو اس آیت میں   بیان ہوئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۹۹)۔ سورہ الزلزال

 

(۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  قیامت کے دن زمین کے ہلائے جانے کا ذکر ہوا ہے اور اس سلسلہ میں  لفظ زلزال آیا ہے جس کی مناسبت سے اس سورہ کا نام الزلزال  ہے۔

زمانۂ نزول

 

مکی ہے ور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کے ابتدائی مرحلہ میں  نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

قیامت کے دن نسان کا اٹھ کھڑا ہونا ہے تاکہ اس کے اعمال کا پورا کچا چٹھا اس کے سامنے رکھا جائے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں  زمین کی اس کیفیت کا ذکر ہے جو قیامت کے دن اس پر طاری ہو گی اور جس کو دیکھ کر انسان ششدر رہ جائے گا۔

آیت ۴ اور ۵ میں  بتایا گیا ہے کہ اس روز زمین بول پڑے گی اور اپنی داستان سنائے گی تا کہ انسان اس کی پیٹھ پر جو کچھ کرتا رہا ہے اس کی تاریخی شہادت  سامنے آ جائے۔

آیت ۶ تا ۸ میں  بتایا گیا ہے کہ اس روز لوگ مختلف گروہوں  کی شکل میں  ، اعمال کی پیشی کے لیے نکل پڑیں  گے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی بھلائی یا برائی ایسی نہیں  ہو گی جواس کے سامنے نہ آ جائے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی ۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی ۲ *

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے ! ۳ *

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز وہ اپنی خبریں  سنائے گی ۴ *

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ تمہارے رب نے اس کو حکم دیا ہو گا ۵ *

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز لوگ مختلف گروہوں  کی شکل میں  نکلیں  گے تاکہ انہیں  ان کے اعمال دکھا دیے جائیں  ۶ *

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ ۷ *۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دوسرے مرحلہ کا ذکر ہے جب کہ تمام مرے ہوئے انسان زندہ ہو کر نکل پڑیں  گے جیسا کہ آگے کے مضمون سے واضح ہے۔

اس روز پورا کرہ ارض اس شدت کے ساتھ ہلایا جائے گا کہ اس ہلائے جانے کا صحیح تصور بھی نہیں  کیا جا سکتا۔ زمین پر جتنے بھی زلزلے آئے ہوں ، قیامت کا زلزلہ اتنا عظیم ہو گا کہ بڑے ے بڑا زلزلہ بھی اس کے مقابلہ میں  کچھ نہ ہو گا۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مردے ہیں  جن کو زمین قیامت کے دن اگل دے گی۔ گویا مردے زمین کے لیے بوجھ ہیں  جن سے وہ خالی ہوا چاہتی ہے۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم مٹی میں  جو مل جاتا ہے وہ فنا نہیں  ہو جاتا بلکہ یہ امانت بن کر زمین کے پاس رہتا ہے خواہ کیمیائی طور پر (Chemically) اس نے کسی بھی مادہ کی شکل اختیار کر لی ہو اور یہ امانت اپنی اصل شکل میں  قیامت کے دن زمین حاضر کر دے گی یعنی انسانی جسم کے اعضاء کیمیائی تغیرات سے گزرنے کے بعد اپنی اصل ہیئت میں  پھر ظاہر ہو جائیں  گے۔

بوجھ باہر نکالنے کے مفہوم میں  وہ شہادتیں  بھی شامل ہیں  جو زمین میں  مدفون ہیں۔

(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انشقاق نوٹ ۴)

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان قبر سے نکلتے ہی بد حواسی کے عالم میں  پکار اٹھے گا کہ زمین کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ وہ جھٹکے پر جھٹکے لے رہی ہے اور ایک زبردست حادثہ سے دو چار ہے۔ زمین کی یہ حالت دیکھ کر انسان اول تو حیران و پریشان ہو گا اس کے  بعد اس پر یہ بات ظاہر ہو گی کہ یہ قیامت کا دن ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے ایمان میں  مخلص ہیں  ان پر قیامت کی کوئی گھبراہٹ طاری نہیں  ہو گی۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین اپنی ساری سرگزشت سنائے گی کہ انسان نے جسے زمین میں  خلیفہ بنایا گیا تھا اس پر کس طرح کے تصریفات کیے۔ کون زمین کے خالق کے آگے سجدہ ریز ہوا اور کون بھومی پوجا کرتا رہا، کس نے دھرتی پر مسجد بنائی اور کس نے مندر ، کس نے رفاہِ عامہ کے ادارے قائم کیے اور کس نے سینما گھر ، کس نے دینی اجتماعات منعقد کیے اور کس نے ناچ رنگ کی مجلسیں  سجائیں۔ کون انسانیت کے امن و امان کے لیے دوڑ دھوپ کرتا رہا اور کون بستیوں  کو اجاڑنے کے لیے بم برساتا رہا، کون اصلاح کا کام کرتا رہا اور کس نے فسادات برپا کیے ، جنگیں  کن لوگوں  نے لڑیں ، کب لڑیں  ، کس میدان میں  لڑیں  اور کن اغراض کے لیے لڑیں۔ غرض زمین گزرے ہوئے تمام واقعات اس طرح سنائے گی جیسے ہر واقعہ جو زمین پر رونما ہوا تھا ٹیپ کر لیا گیا تھا اور قیامت کے دن یہ پورا ریکارڈ انسان کو سنایا جائے گا تاکہ وہ زمین پر جو کچھ کرتا رہا اس کا ثبوت فراہم ہو اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی اور پوچھا جانتے ہو زمین کیا خبریں  سنائے گی ؟ لوگوں  نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا وہ ہر بندے اور بندی کے بارے میں  گواہی دے گی کہ اس نے یہ اور یہ کام فلاں  اور فلاں  دن اس کی پیٹھ پر کیے تھے۔ (ترمذی ابواب تفسیر القرآن)

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال ذہن میں  پیدا ہو سکتا ہے کہ زمین تو جمادات میں  سے ہے پھر وہ انسانی اعمال کی سرگزشت کس طرح سنائے گی ؟ اس کا جواب اس آیت میں  دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بول پڑے گی۔ قرآن میں  دوسرے مقام پر یہ صراحت ہے کہ قیامت کے دن مجرموں  کی کھالیں  بھی اس کے خلاف گواہی دیں  گی اور وہ جب تعجب سے پوچھیں  گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں  گواہی دی تو کھالیں  جواب دیں  گی کہ جس خدا نے ہر چیز کو گویائی بخشی اس نے ہمیں  بھی گویا کر دیا (حٰم سجدہ : ۲۱)

گویا جو چیزیں  ہمارے تجربہ میں  غیر ناطق ہیں  ان کے ناطق ہونے کا مشاہدہ ہم قیامت کے دن کریں گے اور جو ہستی مٹی سے انسان بنا کر کھڑا کر سکتی ہے اس کے لیے مٹی میں  گویائی کی صفت پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ جب ہم اپنی صدائے بازگشت گنبدوں  سے اسی دنیا میں  سن سکتے ہیں  تو قیامت کے دن جب کہ ایک نیا نظام قائم ہو گا اپنی ان باتوں  کی جو دنیا میں  کرتے رہے ہیں  صدائے بازگشت سننا کیوں  ناممکن ہے ؟ اور ٹیلیویژن ، ٹیپ ریکارڈر اور فوٹو گرافی جیسی ایجادات کے اس دور میں  تو یہ بات محتاجِ دلیل نہ رہی کہ انسان کی تمام حرکات و سکنات ذرہ ذرہ پر ثبت ہو رہی ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن لوگ زمین کے مختلف گوشوں  سے مختلف حالت میں  گروہوں  کی شکل میں  نکلیں  گے تاکہ میدان حشر میں  جمع ہو جائیں  اور وہاں  انہیں  ان کے اعمال دکھا دیے  جائیں۔ قیامت تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے اور مرے خواہ کوئی زمین میں  دفن ہوا ہو یا سمندر میں  غرق ہوا ہو ، کسی کی لاش جلا  دی گئی ہو یا فضا میں  تحلیل ہو گئی ہو قیامت کے دن سب کے سب زمین سے نکل پڑیں  گے تاکہ وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں  اس کا نتیجہ ان کے سامنے آئے۔ ’’ تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں ‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے اس کی عملی زندگی کے مناظر پیش کیے جائیں  گے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو جو اس کی قولی و عملی زندگی کا مشاہدہ کرایا جائے گا تو وہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی بدی کو دیکھ لے گا۔ رہا جزا و سزا کا معاملہ تو وہ انصاف کے تقاضوں  کو پورا کرتے ہوئے ان قاعدوں  کے مطابق ہو گا جن کی صراحت قرآن میں  دوسرے مقامات پر کی گئی ہے مثلاً یہ کہ جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہ کامیاب ہوں  گے یا یہ کہ کافروں  کے اعمال بے وزن قرار پائیں  گے یا یہ کہ شرک ناقابل معافی گناہ ہے اور کافروں  کے لیے ابدی جہنم کی سزا ہے وغیرہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 (۱۰۰)۔ سورہ العٰدیات

(۱۱ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  العٰدیات (دوڑنے والے گھوڑوں  ) کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’ العٰدیات‘‘ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

خدا کے حضور جوابدہی سے غفلت کے نتیجہ میں  پیدا ہونے والا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جو انسان کو خدا کا ناشکر گزار بناتا ہے اور اس کی بخشی ہوئی نعمتوں  اور قوتوں  کے غلط استعمال پر اسے آمادہ کرتا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵ میں  جنگی گھوڑوں  کو اس بات کی شہادت میں  پیش کیا گیا ہے کہ انسان خدا کی عطا کردہ قوتوں  کا کتنا غلط استعمال کرتا ہے۔

آیت ۶ تا ۸ میں انسان کو خدا کا ناشکرا گزار ہونے اور اس کے مال کی محبت میں  گرفتار ہونے پر ملامت کی گئی ہے۔

آیت ۹ تا ۱۱ میں  انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اسے قیامت کے دن قبر سے اٹھا کھڑا کیا جائے گا اور اسے خدا کے حضور حاضر ہونا ہو گا۔ اس روز انسان کے باطن کا حال کھل کر سامنے آ جائے گا اور وہ محسوس کرے گا کہ کوئی بات بھی حتیٰ کہ اس کی وہ نیتیں  اور ارادے بھی اللہ سے چھپے ہوئے نہیں  ہیں  جو دنیا میں  مختلف کاموں  کو انجام دیتے ہوئے اس نے اپنے دل میں  چھپائے رکھے تھے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم۱* ہے دوڑنے والے گھوڑوں  ۲* کی جو ہانپ اٹھتے ہیں  ۳*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ٹاپ مار کر چنگاریاں  جھاڑتے ہیں  ۴*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جو صبح کے وقت دھاوا مارتے ہیں  ۵*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس تگ و دو سے غبار اڑتے ہیں  ۶*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس حالت میں  غول میں  جا گھستے ہیں  ۷ *

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے ۸*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ خود اس پر گواہ ہے ۹*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ مال کی محبت میں  بہت سخت ہے ۱۰*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا وہ اس وقت کو نہیں  جانتا جب قبروں  میں  جو کچھ ہے اسے باہر نکال لیا جائے گا۱۱*

۱۰۔ اور سینوں  میں  جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو نکال کر پرکھا جائے گا۱۲*

۱۱۔ یقیناً ان کا رب اس روز ان سے اچھی طرح با خبر ہو گا۱۳*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد جنگی گھوڑے ہیں  جو سرپٹ دوڑتے ہیں۔ نزول قرآن کے زمانہ میں  گھوڑے بڑی جنگی اہمیت کے حامل تھے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ گھوڑوں  کا ہانپ اٹھنا اور ہانپنے کے باوجود اپنی دوڑ جاری رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر زبردست طاقت رکھی ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب جنگ یا غارتگری کے لیے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں  تو وہ ایسی سرگرمی دکھاتے ہیں  کہ ان کی ٹاپوں  سے چنگاریاں  جھڑنے لگتی ہیں۔ یہ چنگاریاں  گھوڑوں  کی سموں  کے تیزی کے ساتھ پتھریلی زمین سے ٹکرانے کے نتیجہ میں  نکلتی ہیں  اور رات کی تاریکی میں  دکھائی دیتی ہیں۔

گھوڑوں  کا چنگاریاں  جھاڑتے ہوئے بگ ٹٹ چلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک زبردست طاقت انسان کے تابع کر رکھی ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عربوں  کا قاعدہ تھا کہ جب وہ کسی قبیلہ یا بستی پر حملہ کرنا چاہتے تو رات کو گھوڑے دوڑاتے اور علی الصبح حملہ آور ہوتے۔ رات کو اس لیے حملہ نہیں  کرتے تھے کہ رات کی تاریکی میں  لڑنا مشکل تھا اور صبح کو اس لیے حملہ آور ہوتے کہ دشمن پر انہیں  اچانک ٹوٹ پڑنے کا موقع ملتا۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ گھوڑے اس برق رفتاری سے دوڑتے ہیں  کہ گرد و غبار کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور جب یہ حملہ آور ہوتے ہیں  تو اپنے ساتھ گرو غبار کی ایک آندھی لیے ہوئے ہوتے ہیں۔

واضح ہو کہ عربستان کا علاقہ ریگستانی ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں  پختہ سڑکیں  بھی نہیں  تھیں  اس لیے گھوڑوں  کی دوڑ سے جو گرد و غبار اٹھتا ہو گا اس کو دیکھ کر لوگ دور ہی سے اندازہ کر لیتے ہوں  گے کہ یہ غارتگری کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غول میں  گھس کر تباہی مچاتے ہیں۔

ان آیات میں  عربوں  کے ان حملوں  کی تصویر پیش کی گئی ہے جو لوٹ مار اور غارت گری کی غرض سے وہ کیا کرتے تھے۔ ایک قبیلہ جب دوسرے قبیلہ پر چڑھائی کرتا تو اس کے لیے گھوڑے استعمال کیے جاتے۔ یہ گھوڑے رات کی تاریکی میں  چنگاریاں  جھاڑتے ہوئے نکلتے اور علی الصبح گردو و غبار کی آندھی اٹھائے ہوئے بستی پر حملہ آور ہوتے اور مدافعت کرنے والوں  کے مجمع میں  جا گھستے۔ اس کے بعد لوٹ مار کی گرم بازاری ہوتی اور عورتوں  اور مردوں  کو پکڑ کر لونڈی اور غلام بنا لیتے۔ اس چیز نے عرب کے علاقہ میں  بد امنی کی فضا پیدا کر دی تھی اور بستیوں  پر یہ خطرہ منڈلاتا رہتا تھا کہ معلوم نہیں  کون قبیلہ کس بستی پر کب حملہ آور ہو۔

قرآن نے اس ظلم و ستم کا احساس دلانے کے لیے غارت گری کی اس مہم کی تصویر پیش کر دی جس میں  تیز رفتار گھوڑوں  کو استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آج باطل مقاصد کے لیے لڑی جانے والی جنگوں  میں  جو تیز رفتار طیارے استعمال کیے جاتے ہیں  اور ان کے ذریعہ جو بمباری کی جاتی ہے اور شہروں  اور بستیوں  کو جس طرح تباہ کیا جاتا ہے اس کی تصویر الفاظ میں  کھینچ لی جائے تاکہ ان ظالمانہ کار روائیوں  کے خلاف انسانیت کو جھنجھوڑا جا سکے۔۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بات ہے جس کا احساس دلانے کے لیے سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں  کی قسَم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تیز رفتار گھوڑے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں  اور زبردست جنگی اہمیت کے حامل ہیں  لیکن ان کو غلط اغراض اور ظالمانہ کار روائیوں  کے لیے استعمال کرنا اس نعمت کی ناقدری اور اپنے رب کی بڑی ناشکری ہے۔

موجودہ دور میں  ایٹمی توانائی کا انکشاف انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا شکر وہ اسی صورت میں  ادا کر سکتا ہے جب کہ وہ اس توانائی کو تعمیری کاموں  کے لیے استعمال کرے لیکن اگر وہ تخریبی کاموں  مثلاً ایٹم بم بنانے اور اس کو بڑے بڑے شہروں کو تباہ کرنے اور انسانیت پر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اس نعمت کی صریح نا قدری اور اس کو عطاء کرنے والے کی بڑی ناشکری ہو گی۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کا یہ ناشکرا پن محتاج دلیل نہیں  ہے اس کا ضمیر خود اس پر بہت بڑا گواہ ہے وہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں  کے ناجائز استعمال کے لیے کتنے ہی بہانے بنائے اس کی فطرت اندر سے ضرور پکار اٹھے گی کہ اس نے یہ غلط حرکت کی ہے۔ کتنے ہی انسان علانیہ اپنے پروردگار کے خلاف نا شکری کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی ناشکری پر خود حجت ہیں۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کو خدا سے زیادہ مال و دولت سے محبت ہے وہ خدا پرست بننے کے بجائے زر پرست بن جاتا ہے۔ چنانچہ وہ حصول مال کے لیے کشت و خون اور غارت گری تک کرنے سے نہیں  رکتا۔

واضح رہے کہ قرآن مال کی محبت کو جو مذموم قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا سے زیادہ مال کو محبوب رکھے ، آخرت کو مقصود قرار دینے کے بجائے دنیا کی دولت کو مقصود قرار دے ، حصول مال میں  جائز اور نا جائز اور حلال و حرام کی تمیز نہ کرے اور بندگان خدا کی حق ماری اور ان کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں  بھی اسے دریغ نہ ہو۔ یہ زر پرستی ہر زمانہ میں  موجود رہی ہے اور اس کا نیا روپ موجودہ زمانہ کی سرمایہ پرستی ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام مرے ہوئے انسانوں  کو زندہ اٹھا کھڑا کیا جائے گا (ملاحظہ ہو سور زلزال نوٹ ۲ اور ۶ ) یہاں  سول بطور تنبیہ کے ہے کہ انسان لوٹ کھسوٹ اس لیے کرتا ہے اور زر پرستی میں  اس لیے مبتلا ہوتا ہے کہ اسے نہ اپنے دوبارہ زندہ کیے جانے کا یقین ہے اور نہ خدا کے حضور جواب دہی کا احساس ، حالانکہ یہ مرحلہ لازماً پیش آنا ہے۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن صرف ظاہری اعمال ہی کو نہیں  دیکھا جائے گا جو  دنیا میں انسان کرتا رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے جو جذبات ، ارادے ، نیتیں  ، اغراض اور محرکات رہے ہیں  ان کو بھی دیکھا اور پرکھا جائے گا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں  اور اس کے بعد ہی جزا یا سزا کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

اس سلسلہ میں  سب سے پہلے سینہ کے جس بھید کو ظاہر کیا  جائے گا وہ ایمان یا کفر ہو گا یعنی کس کے دل میں  ایمان تھا اور کس کے دل میں  کفر ، جو لوگ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے رہے  لیکن دلوں  میں  کفر کو چھپائے ہوئے تھے ان کے سینوں  سے اس روز کفر ہی برآمد ہو گا۔ اسی طرح جن لوگوں  نے نیکی اور بھلائی کے کام کسی غلط مقصد یا ناجائز محرکات کے تحت کیے ہوں  گے تو ان کی حقیقت بھی آشکارا ہو جائے گی اور جو لوگ غلط کام کر کے ان کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں  تاکہ لوگ باور کریں  کہ انہوں  نے کوئی غلط کام نہیں  کیا ہے ان کی اغراض اور نیتیں  بھی کھل کر سامنے آ جائیں  گی۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے ظاہر و باطن سے آج بھی با خبر ہے لیکن قیامت کے دن ہر شخص پر یہ حقیقت کھل جائے گی اور وہ ماننے کے لیے مجبور ہو گ کہ واقعی اللہ تعالیٰ کو ہر شخص کے ظاہری اور باطنی حالا ت کا پورا پورا علم تھا اور آج قیامت کے دن وہ جو فیصلہ بھی کر رہا ہے پوری طرح باخبر ہو کر ہی کر رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۰۱)۔ سورہ القارعۃ

 

(۱۱آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۱ میں  قیامت کے عظیم حادثہ کو القارعۃ (کھڑ کھڑانے والی آفت) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْقارِعَۃُ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے ابتدائی مرحلہ میں  نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

قیامت کے عظیم حادثہ سے خبر دار کرنا ہے اور اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ اس روز کامیابی و ناکامی کے لیے معیار حسنِ عمل ہو گا۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵  میں  قیامت کی ہولناکی اور اس کے نتیجہ میں  پیدا ہونے والی صورت حال سے خبر دار کیا گیا ہے۔

آیت ۶ اور ۷ میں  ان لوگوں  کا حسنِ انجام بیان کیا گیا ہے جن کے عمال میزان عدل میں  بھاری ہوں  گے۔

آیت ۸ تا ۱۱ میں  ان لوگوں  کا انجام بیان کیا گیا ہے جن کے اعمال میزان عدل میں  ہلکے ہوں  گے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کھڑ کھڑانے والی آفت ۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی آفت ۲*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں  کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی آفت کیا ۳* ہے ؟

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں  کی طرح ہوں  گے ۴*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں  گے ۵*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جس کی میزان بھاری ہو گی ۶*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دل پسند عیش میں  ہو گا۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ، اور جس کی میزان ہلکی ہو گی ۷*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ٹھکانہ ’’ہاویہ‘‘ ہو گا ۸*

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں  کیا معلوم کہ وہ کیا ہے ؟

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ دہکتی ہوئی آگ!۹*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں  لفظ ’’ القارعۃ ‘‘ استعمال ہوا ہے جو قیامت کے مختلف ناموں  میں  سے ایک نام ہے اس کے لفظی معنیٰ ہیں  ٹھونکنے والی، کھٹکھٹانے والی ، کھڑ کھڑانے والی عظیم آفت۔ قیمات کو ا س نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ظہور بہت بڑی آفت کی صورت میں  ہو گا اور جس طرح کوئی رات میں  آنے والا دروازے کو دستک دیتا ہے اور  سونے والے یکایک جاگ اٹھتے ہیں  اسی طرح یہ آفت اچانک آئے گی جس کو دیکھ کر لوگ گھبرا اٹھیں  گے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال س لیے ہے تکہ لوگ غفلت سے بیدار ہوں۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال قیامت کی حقیقت اور اس کی ہولناکی سے آگاہ کرنے کے لیے ہے۔ یعنی اس آفت کو معمولی واقعہ خیال نہ کرو۔

قرآن قیامت کا ذکر جس وثوق کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے جو احوال تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے وہ اس کی صداقت کی روشن دلیل ہے۔ آج آسمانی کتابوں  میں  کوئی تاب ایسی موجود نہیں  ہے جو قیامت کا اتنا واضح تصور اس تفصیل کے ساتھ پیش کرتی ہو۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن لوگ قبروں  سے متفرق طور پر نکل پڑیں  گے اور ان کے انتشار کا یہ حال ہو گا جیسے بکھرے ہوئے پتنگے۔ اس انتشار کی تصویر سورہ قمر میں  اس طرح کھینچی گئی ہے :

خُشَّعاً اَبْصَارُ ھُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْآحْدَاثِ کَاَ نَّھُمْ جَرَ ا وٌ  مُّنْتَشِرٌ (القمر۔ ۷)

’’پست نگاہوں  کے ساتھ قبروں  سے اس طرح نکلیں  گے کہ گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں  ہیں  ‘‘۔

انسان جب قبر سے اٹھے گا تو  نہ اس کے ساتھ اس کا خاندان ہو گا اور نہ ذات برادری کے لوگ بلکہ وہ اپنے کو ایک منتشر ہجوم اور ایک نئے ماحول میں  پائے گا اور زمین و آسمان کو بدلا ہوا دیکھ کر اس پر سخت دہشت طاری ہو گی۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح دھنکی ہوئی اُون ریشہ ریشہ ہو کر ہوا میں  اڑتی ہے اسی طرح یہ بڑے بڑے پہاڑ قیامت کے دن ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں  اُڑ رہے ہوں  گے۔ اور جب ہمالیہ جیسے پہاڑ اس روز اُڑ رہے ہوں  تو کونسا قلعہ ، کونسا محل اور کون سی عمارت ہے جو زمین پر باقی رہ سکے گی ؟

منکرین قیامت کو اس بات پر تعجب ہوتا تھا کہ پہاڑ جیسی مضبوط چیز کو کیوں  کر اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے ؟ ان کا یہ تعجب خدا کی قدرت کا صحیح اندازہ نہ کرنے کی بناء پر تھا۔ ظاہر ہے جو خدا پہاڑوں  کو پیدا کرنے اور ان کو زمین میں  گاڑ دینے پر قادر ہے وہ ان کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں  اڑا دینے پر کیوں  قادر نہ ہو گا ؟ موجودہ سائنسی اکتشافات کے دور میں  تو ان باتوں  کو سمجھنا بالکل آسان ہو گیا ہے۔ اگر یک ذرہ میں  اتنی قوت ہے کہ اس کو توڑنے Splitting کے نتیجہ میں  زبردست دھماکہ ہو سکتا ہے تو پہاڑوں  کے ذرات کو توڑنے Splitting  کے نتیجہ میں  قیامت کیوں  نہیں  برپا ہو سکتی ؟

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن اعمال تولے جائیں  گے اور ان کے تولنے کے لیے میزان (ترازو) قائم کی جائے گی۔ اس میزان میں  وہی اعمال وزنی قرار پائیں  گے جو حق کی بنیاد پر انجام دئے گئے ہوں  گے کیونکہ قیامت کے دن وزن صرف حق کو حاصل ہو گا جیسا کہ سورہ اعراف میں  فرمایا ہے

وَا لْوَزْنُ یَوْ مَئِذٍالْحَقُّ ؕ ’’ وزن اس روز حق ہو گا۔ ‘‘ (الاعراف۔ ۸)

اور کامیابی کے لیے شرط یہ ہو گی کہ یہ میزان بھاری ہو اور کسی شخص کی میزان اسی سورت میں  بھاری ہو گی جب کہ اس نے عملی زندگی حق کی بنیاد پر بسر کی ہو گی اور جس شخص  کی نیکیوں  کی مقدار جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی زیادہ یہ میزان بھاری ثابت ہو گی۔

اس میزان عدل کا تعلق احوال آخرت ے ہے اور عالم آخرت کے زمان و مکان اور وہاں  کے پیمانے سب کچھ اس دنیا سے بہت مختلف ہوں  گے اس لیے ہم آخرت کی میزان عدل کی نوعیت کا پوری طرح اس دنیا میں  اندازہ نہیں  کر سکتے لہٰذا ہمیں  قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کرنا چاہیے۔

اعمال کے تولے جانے میں  اگر حیرت کی کوئی بات تھی تو سائنس کی ایجادات نے اس کو بالکل ختم کر دیا ہے۔

کیونکہ کیفیتوں  کو ناپنے کے لیے مختلف قسم کے آلات ایجاد ہو گئے ہیں  چنانچہ جسم کی حرارت کو جو ایک کیفیت ہی ہے تھرمامیٹر کے ذریعہ ناپا جاتا ہے۔ اسی طرح ہوا کے دباؤ کو معلوم کرنے کے یے بیرو میٹر (Barometer) استعمال کیا جتا ہے اور جب انسان کے لیے کیفیتوں  کا ناپنا ممکن ہو گیا ہے تو زمین و آسمان کے خالق کے لیے عمال کو تولنے والی میزان قائم کرنا کیا مشکل ہے ؟

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلکی میزان ان لوگوں  کی ہو گی جنہوں  نے باطل کی بنیاد پر زندگی بسر کی تھی ان کے اعمال خواہ وہ بظاہر کتنے ہی اچھے کیوں  نہ دکھائی دیتے ہوں  آخرت کی میزان عدل میں  بالکل بے وزن ہوں  گے کیونکہ باطل سرے سے کوئی وزن ہی نہیں  رکھتا۔ اسی طرح ’’  سیّئات ‘‘ برائیوں  کے لیے بھی عالم آخرت میں  بے وزنی کی کیفیت ہو گی۔ آج جب کہ یہ بات مشاہدہ میں  آ ہی ہے کہ جو چیز زمین پر وزن رکھتی ہے وہ خلا میں  بالکل بے وزن ہو جاتی ہے یہ باور کرنا کیا مشکل ہے کہ باطل پرستوں  کا ’’ کارنامہ حیات‘‘ دنیا والوں  کی نظروں  میں  کتنا ہی وزنی اور شاندار رہا ہو آخرت کی فضا میں  وہ بالکل بے وزن ثابت ہو جائے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ھاوِیہ‘‘ کے معنیٰ گہرے گڑھے اور کھڈ کے ہیں۔ یہ جہنم کا نام ہے اور اسے اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت گہری ہو گی اور اس میں  دوزخ والوں  کو اوپر سے پھینک دیا جائے گا۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم کا یہ عمیق گڑھا دہکتی ہوئی آگ سے بھرا ہوا ہو گا۔

جہنم کی وسعت، اس کی گہرائی اور اس کی غیر معمولی آگ کا حال سن کر کتنے ہی لوگ اسے ناقابل یقین خیال کرتے رہے ہیں  اور آج بھی کرتے ہیں  لیکن در حقیقت یہ ان کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی ہے ورنہ جہنم کا وجود ہر گز باعث حیرت نہیں۔ سورج کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کا درجہ حرارت ۲۷ ملین ڈگری فارن ہائیٹ، اس کا قطر زمین کے قطر سے ۱۰۹ تنا، اور اس کا حجم زمین کے حجم سے تین لاکھ تیتیس ہزار گنا بڑا ہے سورج در اصل گرم گیسوں   (Highly Heated Gases)کا مجموعہ ہے جس میں  زبردست مقناطیسی طوفان اٹھتے رہتے ہیں۔ سائنس کی فراہم کردہ ان معلومات سے سورج کی بے پناہ وسعت، اس کی بے اندازہ گہرائی اور اس کی زبردست حرارت ک بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ گویا سورج دنیا میں  جہنم کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے آخرت کی جہنم نہ صرف ممکن معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۰۲)۔ سورہ التکاثر

 

(۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  تکاثر (مال و دولت کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی طلب ) کو اصل مقصد حیت سے غفلت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام التَّکَاثُرْ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوتی دور کے آغاز میں  نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

لوگوں  کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ مال و دولت اور دیگر دنیوی فوائد کے حصول میں  ایسا انہماک کہ عمریں اسی میں  کھپ جائیں  اور آخرت کی باز پرس کا خیال تک نہ آئے ، بہت بڑی ناعاقبت اندیشی اور زبردست خسارہ کا سودا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ اور ۲ میں  ان لوگوں  کو جھنجھوڑا گیا ہے جو دنیا کی دولت کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں  اور اس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی دھن ان پر ایسی سوار ہے کہ موت کے اس پار جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا انہیں  ہوش ہی نہیں۔

آیت ۳ تا ۵ میں  متنبہ کیا گیا ہے کہ موت کے اس پار کیا ہے وہ تمہیں  آنکھیں  بند ہوتے ہی معلوم ہو جائے گا۔ اگر آج تمہیں  اس کا یقین ہوتا تو اپنے مستقبل کی طرف سے غافل نہ ہوتے اور حصول دنیا کی یہ دھن تم پر سوار نہ ہوتی۔

آیت ۶ تا ۸ میں  خبر دار کیا گیا ہے کہ جہنم کے وجود پر تم یقین کرو یا نہ کرو وہ دن آ کر رہے گا جب اسے تم اپنی آنکھوں  سے دیکھ لو گے۔ اس وقت تمہیں  اس کے وجود کا پوری طرح یقین ہو جائے گا لیکن وہ وقت عمل کا نہیں  بلکہ حساب دینے کا ہو گا اور تمہیں  ہر ہر نعمت کے بارے میں  خدا کے حضور جواب دہی کرنی ہو گی۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مال و دولت کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی طلب نے تمہیں  غفلت میں  ڈال رکھا۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں  تک کہ تم قبروں  میں  جا پہنچے ۲*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں  عنقریب تمہیں  معلوم ہو جائے گا ۳*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سُن لو !یہ دھن صحیح نہیں  ، عنقریب تمہیں  معلوم ہو جائے گا ۴*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں  ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے ۵* تو دنیا کے پیچھے نہ پڑتے )

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ضرور دوزخ کو دیکھ لو گے ۶*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تم اسے  بالکل یقین کے ساتھ دیکھو گے ۷*

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس روز تم سے نعمتوں  کے بارے میں  ضرور باز پرس ہو گی ۸*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم لوگ مال و دولت کمانے دنیا کے فائدے حاصل کرنے اور سامان عیش فراہم کرنے میں  ایسے منہمک ہو کہ مقصد حیات اور اپنی حقیقی منزل تمہاری نظروں  سے اوجھل ہو گئی ہے۔ تمہاری ساری تگ و دو کسب زر، اور حصول جاہ و اقتدار کے لیے ہوتی ہے اس سے بلند ہو کر کچھ سوچنے کے لیے تم آمادہ ہی نہیں  ہو۔

مال و دولت کی حرص اور دنیوی فوائد کے حصول میں  انسان کا حد سے زیادہ انہماک انسان کی وہ بنیادی کمزوری  ہے جس میں  وہ ہمیشہ مبتلا رہا ہے البتہ موجودہ دور میں  اس نے کچھ ’’ترقی  یافتہ‘‘ شکلیں  اختیار کر لی ہیں  چنانچہ زر پرستی نے سرمایہ پر ستی کی اور دنیا پرستی نے مادہ پرستی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اگر انسان پہلے آخرت کا منکر تھا تو اب سرے سے خدا ہی کے وجود کو تسلیم نہیں  کرتا۔ اگر پہلے اخلاقی قدروں  کو پس پشت ڈال کر دنیوی فوائد حاصل کرتا تھا تو اب مفاد دنیا کی خاطر اخلاقی اقدار سے بالکل عاری ہو گیا ہے۔ پھر موجودہ تمدنی ترقی کے زیر اثر ہر شخص کو اپنا معیار زندگی (Standard of life)  بلند کرنے کی فکر ہے اور معاشی اور اقتصادی میدان میں  افراد اور قومیں  ایک دورے سے آگے نکلنا چاہتی ہیں  لیکن معیار اخلاق بلند کرنے کی فکر کسی کو نہیں  ہے ، اور نہ کوئی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کرتا ہے کہ آیا دنیا زندگی کا آخری مرحلہ ہے یا اس سے آگے بھی مراحل طے کرنا ہوں  گے ؟ اس اہم ترین سوال کی طرف توجہ نہ کر کے انسان اپنے مقصد حیات سے بہت دور جا پڑا ہے اور ایسی غفلت میں  مبتلا ہے کہ اسے آگے پیچھے کی کچھ خبر نہیں۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے اور دنیا حاصل کرنے کی کوشش میں  تم نے اپنی عمریں  کھپا دیں  ور مرتے دم تک تمہیں  یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ موت کے بعد جس چیز سے سابقہ پیش آنے والا ہے اس پر غور کرتے۔

انسان کی کثرت طلبی اور کبھی نہ ختم ہونے والی حرص پر اسے حدیث میں  بھی بڑے مؤثر انداز میں  متنبہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

لَو کَانَ لِاِبْنِ آدَمَ وَ ادِ یَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغیٰ ثَالِثاً وَ لَا یَمْلَاُ جَوْفَ ابنِ آدَمَ اِلَّا الّتُرَابُ (بخاری کتاب الرقاق )۔

’’آدمی کے پاس اگ مال سے بھری ہوئی دو وادیاں  ہوں  تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا۔ آدمی کا پیٹ تو مٹی ہی بھر سکتی ہے ‘‘۔

’’مٹی ہی پیٹ بھر سکتی ہے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی حرص کا خاتمہ خاک میں  مل جانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عنقریب یہ حقیقت تم پر کھل جائے گی کہ مال و دولت کی کثرت اور دنیوی سرو سامان کا وافر مقدار میں  حاصل ہو جاتا اصل کامیابی نہیں  ہے بلکہ اصل کامیابی اخروی نعمتوں  کا حصول ہے۔ اس وقت تمہیں  اپنی اس غلطی کا شدید احساس ہو گا کہ آخرت کو نظر انداز کر کے تم نے کتنے برے انجام کو دعوت دی ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ مضمون کی یہ تکرار تاکید کے لیے بھی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بھی کہ دنیا طلبی کی حقیقت پہلی مرتبہ ت موت کے آتے ہی سامنے آئے گی اور دوسری مرتبہ قیامت کے  دن ظاہر ہو گی۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن جس دن کی خبر دے رہا ہے اس پر اگر تمہیں  یقین ہوتا تو دنیا کے پیچھے پڑ کر غفلت کی زندگی ہر گز نہ گزارتے بلکہ اس دن کے لیے تیاری کرتے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم جہنم کے وجود کو اگر ماننا نہیں  چاہتے تو نہ مانو، اس کا وجود بہر حال ایک حقیقت ہے اور وہ دن لازماً آنا ہے جب کہ وہ تمہارے سامنے آ نمودار ہو گی اور تم اس کا اپنی آنکھوں  سے مشاہدہ کرو گے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا جہنم کو دیکھنا خواب کی دنیا میں  نہیں  بلکہ واقعات کی دنیا میں  ہو گا۔ آج جس چیز کو تم ناقابل یقین خیال کر رہے ہو وہ کل جب تمہارے مشاہدہ میں  آئے گی تو تمہیں  اس کے وجود کا پوری طرح یقین ہو جائے گ۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نعمتوں  میں  اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام نعمتیں  شامل ہیں  مثلاً سامان رزق ، مال و دولت، اولاد قوتیں  اور صلاحیتیں ، ذرائع و وسائل ، جاہ و منصب اور حکومت و اقتدار وغیرہ۔ دنیا میں  انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اپنے ساتھ ایک ذمہ داری بھی لاتی ہے اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ انسان اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اس کو ان کاموں  میں  استعمال کرے جو اسے پسند ہیں۔ اس طرح اگر انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کا حق ادا کرتا ہے تو قیامت کے دن اس کے لیے جوابدہی کا مرحلہ آسان ہو گا اور اپنے رب کی ابدی نعمتوں  کا مستحق ٹھہرے گا۔ لیکن اگر وہ سرے سے خدا کے وجود کو تسلیم ہی  نہیں  کرتا یا تسلیم تو کرتا ہے مگر یہ سمجھتا ہے کہ ان نعمتوں  کو عطا کرنے والے بہت سے خدا ہیں  یا فلاں  نعمت فلاں  دیوی دیوتا کی عطاء کردہ ہے اور اس فاسد عقیدہ کی بنا پر وہ ان نعمتوں  کو اللہ کی پسند نا پسند سے آزاد ہو کر استعمال کرتا ہے تو قیامت کے دن اس سے سخت باز پرس ہو گی اور اس ناشکری اور مجرمانہ طرز عمل کی بنا پر وہ سخت سزا کا مستحق ہو گا۔

محل کلام کے لحاظ سے اس آیت کا اشارہ خاص طور سے مال و دولت کی نعمت کی طرف ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر تمہیں  ضرور ہے لیکن اس سلسلہ میں  جو جواب دہی کرنا ہو گی س کا تمہیں  بالکل خیال نہیں۔ اگر خدا کے حضور جوابدہی کا احساس تم میں  ہوتا تو مال و دولت کے حریص بننے کے بجائے قناعت پسند ہوتے کہ دولت جتنی وافر مقدار میں  ملے گی حساب کا معاملہ انتا ہی بڑھ جائے گا اور جوابدہی مشکل ہو گی۔ واضح رہے کہ قیامت کے دن جوابدہی ہر کسی کو کرنا ہو گی خواہ دہ مسلمان ہو یا کافر۔ حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

لَا تَزُوْلُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّی یُسْأ لَ عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ وَعَنْ عِلْمِہٖ فِیْمَا فَعَلَ وَ عَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اِکتسَبَہٗ وَ فِیْمَا اَنْفَقَہٗ وَعَنْ جِسْمِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہُ۔ (ترمذی ابواب لزھد)۔

’’(قیامت کے دن) بندے کے قدم ہٹ نہ سکیں  گے ، جب تک کہ اس سے ان باتوں  کے بارے میں  پوچھ نہ لیا جائے گا، اس کی عمر کے بارے میں  کہ کس چیز میں  گزاری، اس کے علم کے بارے میں  کہ کہاں  تک اس پر عمل کیا، اس کے مال کے برے میں  کہ کہاں  سے کمایا اور کس چیز میں  خرچ کیا اور اس کے جسم کے بارے میں  کہ کس چیز میں  بوسیدہ کیا۔ ‘‘

ایک موقع پر جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھوک کی شدت کو رفع کرنے کے لیے ایک انصاری کے گھر گئے اور انہوں  نے آپ کی تواضع کھجور اور گوشت سے کی اور ساب شکم سیر ہو گئے تو آپ نے اپنے ساتھیوں  سے فرمایا :

وَالَّذِیْنَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتُسْاَلُنَّ عَنْ ھٰذَا النِعیْمِ یَومَ الْقِیَامَۃِ۔ (فتح القدیر لشو کانی ج ۵ ص ۴۹۰ بحوالہ مسلم) ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ  میں  میری جان ہے قیامت کے دن تم سے ضرور اس نعمت کے بارے میں  پوچھا جائے گا۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۰۳)۔  سورہ اَلْعَصْر

 

(۳ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  عصر (زمانہ ) کی قسم کھائی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورت کا نام اَلْعَصْر ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کے  ابتدائی مرحلہ میں  نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ انسانی قافلہ تیزی کے ساتھ ابدی ہلاکت کی طرف گامزن ہے۔ اس ہلاکت سے وہی لوگ بچ سکتے ہیں  جو ایمان اور عمل صالح کی راہ اختیار کریں  اور اس کے تقاضوں  کو پورا کریں۔

 

نظم کلام

 

یہ سورہ تین مختصر آیتوں  پر مشتمل ہے مگر معنیٰ کے لحاظ سے اس قدر جامع ہے کہ نہ صرف انسانیت کے عروج و زوال کی پوری تاریخ اس میں  سمٹ کر آ گئی ہے بلکہ مینارہ ہدایت بن کر افراد ، قوموں  ، اور ملتوں  کو صحیح سمت سفر سے آگاہ کر رہی ہے تاکہ وہ منزل مقصود کو پہنچ جائیں  اور غلط راہ پر پڑ کر تباہی کے گڑھے میں  گرنے سے بچیں۔

زمانہ کی شہادت اس بات کی تائید میں  پیش کی گئی ہے کہ انسان تباہی س نہیں  بچ سکتا اگر وہ اپنے اندر ایمانی اوصاف نہ پیدا کر لے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانہ کی قَسم ۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان گھاٹے میں  ہے ۲*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ سوائے ان لوگوں  کے جو ایمان لائے ۳* اور جنہوں  نے نیک اعمال کیے ۴* اور ایک دوسرے کو حق کی ہدایت ۵* اور صبر کی تلقین کی۔ ۶*

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے ہم واضح کر چکے ہیں  کہ قرآن میں  مختلف چیزوں  کی جو قسمیں  کھائی گئی ہیں  وہ ان کے تقدس یا عظمت کی بنا پر نہیں  کھائی گئی ہیں  بلکہ بطور شہادت اور دلیل کے کھائی گئی ہیں۔ یہاں  زمانہ کی قسم بھی اسی مفہوم میں  ہے۔

متن میں  لفظ  ’’ عصر‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی زمانہ کے ہیں۔ یہ لفظ خاص طور سے زمانہ کی تیز روی اور برق رفتاری کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ بات جس پر زمانہ کی گواہی پیش کی گئی ہے یہ گواہی درج ذیل پہلوؤں  سے ہے :

(۱)۔ انسان کے پاس سب سے زیادہ قیمتی چیز وقت ہی کا سرما یہ ہے جو گزرتے ہوئے زمانہ کا ایک حصہ ہے۔ یہ وقت نہایت محدود ہے اور بڑی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ جس طرح برف ہر لمحہ پگھلتی رہتی ہے اور اگر ایک تاجر اس کو جلد فروخت کر کے اس کی قیمت کھڑی نہ کر لے برف ختم ہو جائے گی اور اس کے پلہ کچھ بھی نہ پڑے گا اسی طرح انسان کو جو مہلت عمر ملی ہے اس سے اگر وہ فائدہ نہ اٹھائے اور اپنی عاقبت کا سامان نہ کرے تو وہ اس کا سرمایہ برابر گھٹ رہا ہے۔ گویا سیکنڈ کی سوئی جس تیزی کے ساتھ چلتی ہے اسی تیزی کے ساتھ وہ ہماری عمر کو گھٹا کر ہمارے نقصان میں   اضافہ ہی کرتی رہتی ہے الا یہ کہ ہم وقت کی قدر پہچانیں  اور اس کو ان کاموں  میں  گزاریں  جو مفید نتائج پیدا کرنے والے اور ہماری عاقبت کو سنوارنے والے ہوں۔

(۲)۔ تاریخ کے وہ واقعات جو عذاب الہی کا مظہر تھے اس بات کا ثبوت ہیں  کہ جن قوموں  نے کفر و سرکشی ، مخالفت حق اور ظلم و فساد کی راہ اختیار کی وہ ہلاکت سے دو چار ہوئیں۔ گویا زمانہ اپنی تاریخ کے آئینہ میں  اس حقیقت کو پیش کرتا ہے کہ ہلاکت و تباہی سے دو چار ہونے والے کون ہیں  اور اس سے بچنے والے کون۔

(۳)۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے نہ کہ سیر و تفریح کی جگہ۔ اس امتحان گاہ میں  انسان کو مختلف موضوعات پر پرچے حل کرنے کے لیئے دیئے گئے ہیں  اور اس کے لیئے وقت بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔ لہذا جو شخص  پر چہ حل کرنے کے بجائے تفریح میں  وقت گزار دیتا ہے وہ لازماً اپنا نقصان کرتا ہے اور وقت کو ضائع کرنے والے کے لیئے ناکامی مقدر ہے۔

ان پہلوؤں  کے علاوہ عصر کی قسم میں  یہ اشارہ بھی مضمر ہے کہ دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب آ لگا ہے گویا آخری نبی کی بعثت اور قیامت کے درمیان اتنا ہی فاصلہ رہ گیا جتنا کہ انسانی آبادی کی کل عمر کو ایک دن فرض کرنے کی صورت میں  عصر اور مغرب کے درمیان ہوتا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے کہ :

اِنمَّا بَقاعُ کُمْ فِیْمَنْ سَلَفَ قَبْلَکُمْ مِنَالْقُمَمِ کَمَا بَیْنَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ اِلیٰ غُرُوْبِ الشَّمْسِ۔ (روح المعانی ج ۱۰ ص ۲۹۲ بحوالہ بخاری)۔

’’جو امتیں  گزر چکیں  ان کے مقابلہ میں  تمہارا دنیا میں  رہنا اتنے ہی وقت کے لیے ہے جتنا وقت کہ نماز عصر اور غروب آفتاب کے درمیان ہوتا ہے ‘‘۔

خسران سے مراد زندگی بھر کا گھاٹا یعنی دائمی تباہی اور ہلاکت ہے جس سے فیصلہ کے دن انسان کو دوچار ہونا ہو گا۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کی ابدی ہلاکت سے وہی لوگ محفوظ رہیں گے جو ایمان لا کر صالحیت کی زندگی اختیار کریں  گے۔

ایمان لانے کا مطلب سورہ بقرہ نوٹ ۶ میں  بیان کیا جا چکا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہو کہ آخرت کے خسارہ سے بچنے کے لیے صرف ایمان لانا کافی نہیں  بلکہ اس کے ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جہاں  ایمان حقیقۃً موجود ہو گا وہاں اس کی روشنی سے عملی زندگی بھی منور ہو گی اور انسان نیک کردار بنے گا۔ لیکن جہاں  ایمان محض جامد عقیدہ کی شکل میں  ہو گا جس نے شعور کو متاثر نہ کیا ہو تو عملی زندگی بھی سنور نہ سکے گی۔ اچھے بیج سے اچھا درخت ہی پیدا ہوتا ہے اور خراب بیچ  خراب درخت۔ اس لیے ہو نہیں  سکتا کہ ایمان تو دل میں  موجود ہو اور عملی زندگی فسق و فجور سے بھی ہوئی ہو۔ عملی زندگی کا فساد اس بات کا ثبوت ہے کہ ایمان صحت کی حالت میں  موجود نہیں  ہے۔

اعمال صالحہ کی حقیقت علامہ فراہی نے بڑی عمدگی سے بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں  :

’’ اللہ تعالیٰ نے اعمال حسنہ کو صالحات سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے اس عظیم حکمت کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ انسان کی تمام ظاہری و باطنی دینی و دنیوی، شخصی و اجتماعی ، جسمانی وہ عقلی صلاح و ترقی کا ذریعہ اعمال حسنہ ہی ہیں۔ یعنی عمل صالح وہ عمل ہوا جو انسان کے لیے زندگی اور نشو و نما کا سبب بن سکے اور جس کے ذریعہ سے انسان ترقی کے ان اعلیٰ مدارج تک ترقی کر سکے جو اس کی فطرت کے اندر ودیعت ہیں۔ (مجموعہ تفاسیر فراہی ص ۳۵۲)

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ حق اور صبر اگرچہ اعمال صالحہ میں  شامل ہیں  لیکن چونکہ بنیادی نیکیوں  میں  سے ہیں  اس لیے ان کا ذکر خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے۔

حق اس بات کو کہتے ہیں  جو سچی ، مبنی بر عدل اور مطابق حقیقت ہو۔ یہ باطل کی ضد ہے اور اس کا اطلاق پورے دین حق پر بھی ہوتا ہے اور اس کی تعلیمات پر بھی نیز اس کلمہ حق پربھی جو عدل و انصاف کے تقاضے کے تحت ظالم حکمرانوں  یا باطل پرستوں  کے سامنے پیش کیا جائے۔ علاوہ ازیں  اس کا اطلاق ان حقوق پر بھی ہو تو ہے جن کا ادا کرنا اخلاقاً یا شرعاً انسان پر واجب ہے مثلاً خدا کا حق، ماں  باپ کا حق، رشتہ داروں  کا حق، پڑوسیوں  کا حق، غریبوں  کا حق وغیرہ۔

اہل ایمان کے ا س وصف کا جو ذکر فرمایا کہ وہ حق کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے ہیں  تو اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان حق پر نہ صرف خود جمے رہتے ہیں  بلکہ وہ دوسروں  کو بھی اس کی ہدایت و تلقین کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اہل ایمان ایسے بے حس نہیں  ہوتے کہ باطل ابھر رہا ہو یا معاشرہ میں  خلاف حق اور منکر باتیں  عام ہو رہی ہوں  اور وہ خاموش تماشائی بنے رہیں  بلکہ وہ اپنی معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے حق کی آواز بلند کرتے ہیں  اور ایک دوسرے کی اصلاح کے لیے کوشاں  رہتے ہیں۔

ضمناً اس سے یہ اصولی بات بھی ثابت ہوتی ہے  اظہار حق اہل ایمان کا حق ہے اور اس کی آزادی بہر حال انہیں  ہونی چاہیے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ حق کو قبول کرنے ، اس کی حمایت کرنے ، کلمہ حق کہنے اور راہ حق پر چلنے کے نتیجہ میں  طرح طرح کی مشکلات پیش آتی ہیں ، تکالیف اور مشقتوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مخالفتوں  کے طوفان سے گزرنا پڑتا ہے۔ نقصانات بھی برداشت کرنا پڑتا ہے اور قربانیاں  بھی دینا پڑتی ہیں  اس لیے حق کے ساتھ صبر و استقامت، تحمل و بردباری اور عزم و حوصلہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ صبر کے مفہوم میں  یہ تمام باتیں  شامل ہیں  اور اسی مناسبت سے صبر کی تلقین کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۰۴)۔ سورہ اَلْھُمَزَۃ

 

(۹ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  ھُمَزَہُ اہل ایمان پر انگلیاں  اٹھانے والوں  کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی یہ حرکتیں ان کے لیے تباہی کا موجب ہوں  گی۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْھُمَزَۃ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ عصر کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

زر پرستوں  کو جھنجھوڑنا ہے کہ جن کے کردار کا یہ حال ہو وہ لازماً کیفر کردار کو پہنچ کر رہیں  گے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں  رز پرستوں  کے کردار کی تصویر پیش کی گئی ہے اور انہیں  متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کردار لازماً تباہی کا موجب ہے۔

آیت ۴ تا ۹ میں  زر پرستوں  کا اخروی انجام بیان کیا گیا ہے۔

یہ سورہ سابق سورہ سے اس درجہ مربوط ہے کہ بالکل اس کا تتمہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر سابق سورہ کا اختتام ان اوصاف کے بیان کرنے پر ہوا تھا جو کامیابی کی ضمانت ہیں  تو اس سورہ کا آغاز ان خصائل کے ذکر سے ہوا ہے جو ہلاکت کا موجب ہیں۔

 

                    ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (اہل ایمان پر) انگلیاں  اٹھاتا اور طعن و تشنیع کرتا ہے ۱*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے مال سمیٹا اور اسے گن گن کر رکھا ۲*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال نے اس کو ہمیشگی کی زندگی بخشی ہے۔ ۳*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں  ۴* ، وہ حُطَمہ ۵* کچل دینے والی* میں  پھینک دیا جائے گا۔ ۶*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ حُطَمہ کیا ہے ؟ ۷*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی بھڑ کائی ہوئی آگ ۸*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دلوں  پر جا چڑھے گی ۹*۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ان کو بند کر دیا جائے گا۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ لمبے لمبے ستونوں  میں۔ ۱۰*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ سابق سورہ کی آخری آیت میں  وہ اوصاف بیان کیے گئے تھے جو آخرت کے خسران سے بچانے والے اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔ یہ اوصاف اہل ایمان کے کردار کی خصوصیات ہیں  لیکن دنیا پرستوں  کی نظر میں  ان کی کوئی اہمیت نہیں  ہوتی اور خاص طور سے جو لوگ مال و دولت کے پجاری ہوتے ہیں  وہ اس کردار کے لوگوں  کو نہ صرف نے وقعت خال کرتے ہیں  بلکہ ان کی تذلیل و تحقیر پر اتر آتے ہیں۔ مال کا گھمنڈ ان کے اندر اوچھا پن پیدا کر دیتا ہے اور وہ ان پر انگلیاں  اٹھاتے ہیں  کہ ان پر بس آخرت ہی کی دھن سوار ہے۔ وہ ان کی دینداری کا مذاق اڑاتے ہیں  اور جہاں  موقع پاتے ہیں  ان پر فقرے چست کر دیتے ہیں۔

اس سورہ کے نزول ک زمانہ میں  قریش کے سرداروں  کا یہی حال تھا وہ مال کے گھمنڈ میں  مبتلا تھے اور جو لوگ مال کے پیچھے پڑنے کے بجائے آخرت کی دولت جمع کر رہے تھے ان پر انگلیاں  اٹھا رہے تھے کہ یہ کس عزت کے مستحق ہیں  ؟ عزت والا تو وہی ہے جو دولت مند ہے۔ ان کی دینداری اور ان کی متقیانہ زندگیوں  پر وہ طرح طرح کی پھبتیاں  جست کرتے اور سخت طعنہ زنی کرتے۔ یہاں  ان کی ان ہی حرکتوں  پر گرفت کی گئی ہے۔

موقع کلام کے لحاظ سے اہل ایمان پر انگلیاں  اٹھانے اور طعن و تشنیع کرنے کی بری حرکت کو بخیل سرمایہ داروں  کا شیوہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آگے کی آیت سے واضح ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  کہ یہ حرکت صرف زر پرست ہی کرتے ہیں  بلکہ آیت کا اصل مدعا یہ ہے کہ جو بھی یہ حرکت کرے گا وہ اپنی تباہی ا سامان کرے گا۔ سورہ توبہ میں  جو مدنی سورہ ہے منافقین کی اس طعنہ زنی کا ذکر ہوا ہے پر وہ صدقات کے سلسلہ میں کیا کرتے تھے۔ غریب اہل ایمان محنت مزدوری کر کے جو کچھ کماتے اس میں  سے اللہ کی راہ میں  خرچ کرتے۔ مال کی بری مقدار ان کے پاس خرچ کے لیے نہ ہوتی مگر منافقین اس پر طنز کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے :

اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّ عِیْنَ مِنَ الْمؤ مِنیْنَ فِی الصَّدَقاَتِ وَا لَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلّا جُھْدَ ھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ (التوبۃ۔ ۷۹) ’’ جو خوش دلی سے انفاق کرنے والے مؤمنوں  پر ان کے صدقات کے سلسلہ میں  طعنہ زنی کرتے ہیں  اور ان لوگوں  کا مذاق اڑاتے ہیں  جو اپنی محنت و مزدوری کے سوا انفاق کے لیے کچھ اور نہیں  پا تے ‘‘۔

جہاں  تک آیت کے خصوصی پہلو کا تعلق ہے یعنی سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کا جو مفہوم ہے اس کی وضاحت اوپر ہو چکی۔ رہا اس کا مجموعی پہلو تو وہ یہ ہے کہ شریعت نے جن لوگوں  کے احترام کا حکم دیا ہے ان کا احترام کرنے کے بجائے ان کی پگڑی اچھالنا، عیب چینی کرنا اور ان کے خلاف دل خراش باتیں  کرنا وہ مذموم خصلت ہے جس کا نتیجہ آخرت میں  بہت برا نکلے گا خواہ اس کا مرتکب کوئی مسلمان ہی کیوں  نہ ہو۔

یہاں  یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ پرانے زمانہ میں  عیب چینی اور طعن و تشنیع کے جو طریقے رائج تھے مثلاً راہ چلتے آنکھوں  سے اشارہ کرنا ، انگلیاں  اٹھانا، آوازے کسنا ، پھبتیاں  چست کرنا ، برے نام دھرنا وغیرہ۔ موجودہ زمانہ میں  ان کے علاوہ کچھ نئے طریقوں  کا بھی اضافہ ہو گیا ہے مثلاً کارٹون ، طنز نگاری ، مزاحیہ ڈرامے ، تیر و نشتر کے کالم جو آج کل اخبارات کی زینت بن ہوئے ہیں  اور جس نے باقاعدہ فن کی شکل اختیار کر لی ہے ھَمْز و لَمْز (عیب چینی و طعنہ زنی ) ہی کی ’’ ترقی یافتہ ‘‘ شکلیں  ہیں  جب کہ ان کے ذریعہ ایسے لوگوں  کی پگڑی اچھالی جائے جن کی عزت کو شریعت نے محترم ٹھیرایا ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ مال کا گھمنڈ ہے جس نے ان کے اندر یہ ذہن پیدا کر دیا کہ وہ ان غریبوں  کو حقیر جانیں  اور ان کا مذاق اڑائیں  جنہوں  نے اپنے رب سے صحیح تعلق پیدا کر لیا ہے اور اپنی زندگیوں  کو نیکیوں  سے سنوارا ہے۔

زر پرستوں  کو ہمیشہ مال ہی کی فکر لگی رہتی ہے اور حریص سرمایہ دار ہمیشہ سرمایہ ہی کے الٹ پھیر میں  لگے رہتے ہیں۔ ان کا دل، کاروبار میں  اٹکا ہوا ہوتا ہے اور ان کا دماغ حساب کتاب میں  لگا ہوا۔ ان کی ساری توجہ ایک ہی مسئلہ پر مرکوز ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ان کے سرمایہ میں  کس طرح اضافہ ہو اور ان کا بنک بیلنس کس طرح بڑھے۔ یہ فکر ان کے دل و دماغ کو اس طرح پریشان کیے رہتی ہے کہ نہ انہیں  خدا اور آخرت کے بارے میں  کچھ سوچنے کی فرصت ہوتی ہے اور نہ نفسیاتی طور پر وہ نصیحت کی باتیں سننے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی حرص انہیں  اس بات کی بھی  اجازت نہیں  دیتی کہ وہ خدا کے بخشے ہوئے مال میں  بندگان خدا کا جو حق ہے وہ ادا کریں  بلکہ وہ اپنے مال پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ زر پرستی کی مذمت انجیل میں  بھی بڑے مؤثر انداز میں  کی گئی ہے مثلاً :

’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں  کیڑا اور زنگ خراب  کرتا ہے اور جہاں  چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں  بلکہ اپنے لیے آسمان پر مال جمع کرو جہاں  نہ کیڑا خراب کرتا ہے اور نہ زنگ اور نہ وہاں  چور نقب لگاتے ہیں  چراتے ہیں۔ کیونکہ جہاں  تیرا مال ہے وہیں  تیرا دل بھی لگا رہے گا‘‘۔ (متی ۶: ۱۹۔ ۲۱ )

’’تم خدا ور دولت دونوں  کی خدمت نہیں  کر سکتے ‘‘۔ (متی ۶ : ۲۴ )

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سرمایہ پرست کی نفسیات کا عکس ہے۔ وہ اپنے مال کو سرمایہ زندگی سمجھتا ہے اور جو طرز عمل اختیار کرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا اس کو دنیا میں  ہمیشہ رہنا ہے اور کبھی موت آنے والی نہیں  ہے۔

مال چونکہ دنیوی عیش و عشرت کا ذریعہ ہے اس لیے ارباب مال اس فریب میں  مبتلا ہو جاتے ہیں  کہ مال ان کے لیے حیات بخش ہے اور ان کی بقا کا موجب ہے۔ حالانکہ مال میں  نہ قوت حیات ہے اور نہ قوت بقاء ، اگر اس میں  قوت حیات ہوتی تو وہ انسان کو ضرور قلبی سکون بخشتا جب کہ مالداروں  کو یہ چیز نصیب نہیں  ہوتی اور بالعموم ان کی زندگیاں  پریشانیوں  میں  گھری ہوئی ہوتی ہیں  البتہ تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے انسان قلبی سکون محسوس کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان کو حیات جاوداں  عطاء کرنے والی چیز تقویٰ ہے نہ کہ مال۔ قرآن میں  یہ حقیقت مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے اور انجیل میں  اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آدمی روٹی ہی سے نہیں  جیتا بلکہ خدا کے کلام سے جیتا ہے (متی ۴:۴ ) اور واقعہ یہ ہے کہ آدمی کا مال اس کی قبر تک بھی نہیں  جاتا کجا کہ اسے حیات جاوداں  بخشے۔ مگر آج بھی مال کے معاملہ میں انسان کی ذہنیت وہی ہے جو ماضی میں  تھی یعنی وہ مال کو دنیوی زندگی کا سامان سمجھنے اور خیر کے کاموں  میں  خرچ کرنے کے بجائے اس سے اپنی بقا کی امیدیں  وابستہ کرتا ہے اور اسے جمع کرتا رہتا ہے۔ پھر جمع کرنے کی بھی کوئی حد نہیں  ہوتی۔ لکھ پتی بن جانے کے بعد وہ کروڑ پتی بننا چاہتا ہے اور کروڑ پتی بن جانے کے بعد، ارب پتی جب کہ معاشرہ میں  کتنے ہی لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں  کے لیے محتاج ہوتے ہیں  اور خیر کے کتنے ہی کام محض روپیے کی کمی کی وجہ سے انجام نہیں پاتے۔

مختصر یہ کہ قرآن مال جمع کرنے کے اس رجحان کو مذموم قرار دیتا ہے الا یہ کہ آدمی پنی اور اپنے متعلقین کی حقیقی ضروریات کے لیے مال روکے رکھے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سرمایہ پرستوں  کے اس خیال کی تردید ہے جو اوپر بیان ہوا۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں  لفظ حُطَمہ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ چُور چُور کر دینے والی ور کچلنے والی کے لیے ہیں۔ یہ جہنم کا نام ہے اور اس کی یہ صفت ہمز و لمز کی اس مذموم خصلت کے مقابلہ میں بیان ہوئی ہے جس کا ذکر آیت ۱ میں  ہوا۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جو شخص اللہ کے مخلص بندوں  کی عزت کو مجروح کرتا ہے جہنم اس کی عزت کے پرخچے اڑائے گی اور اہل ایمان کی تحقیر و تذلیل کرنے کی پاداش میں  اسے کچل ڈالے گی۔

غور کیجیے ہُمَزَہ و لُمَزَہ کے مقابلہ میں  حُطَمہ کے لفظ نے لفظی یکسانیت ہی نہیں  بلکہ معنوی مناسبت بھی پیدا کر دی ہے اور قرآن کی بلاغت اور اس کے اعجاز کی یہ ادنیٰ مثال ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پھینک دینے میں  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ وہ مال و دولت کی وجہ سے جس گھمنڈ میں  مبتلا تھا اس کا پتہ اسے اس وقت چلے گا جب کہ وہ جہنم میں  حقارت کے ساتھ پھینک دیا جائے گا۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال جہنم کی ہولناکی کا احساس دلانے کے لیے ہے۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حُطَمہ کی تشریح ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمائی ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جن دلوں  میں  اللہ کی محبت کے بجائے مال کی محبت رچ بس گئی تھی ان پر ایہ آگ چڑھ دوڑے گی۔ اور دل میں  آگ کے گھس جانے سے کرب و الم کی جو کیفیت سے بھی نہیں  کیا جا سکتا۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اس آگ کے لمبے لمبے ستونوں  میں  گھرے ہوئے ہوں  گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۱۰۵۔ سورہ الفیل

 

(۵ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  اصحابُ  الفیل (ہاتھی والوں ) کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْفِیْل ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور ابتدائی دور کی تنزیلات میں  سے ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

تاریخی اور عبرتناک مثال ان لوگوں  کے انجام کی جو دولت اور اقتدار کے نشہ میں  خانہ کعبہ کو ڈھا دینے کی غرض سے نکلے۔

نظم کلام

 

یہ پوری سورہ اس تاریخی واقعہ کے عبرتناک پہلوؤں  پر مشتمل ہے جو واقعہ فیل کے نام سے مشہور تھا۔ آیت ۱ میں  اس بات پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ جس لشکر نے خانہ کعبہ کو ڈھا دینے کے لیے اقدام کیا تھا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا ؟

آیت ۲ میں  بتایا گیا ہے کہ ان کی چال کس طرح الٹی پڑی۔ آیت ۳ اور ۴ میں  اللہ تعالیٰ کے کرشمہ قدرت کا ذکر ہوا ہے جو اس کے گھر کی حفاظت کے لیے ظہور میں  آیا اور آیت ۵ میں  حملہ آوروں  کا عبرتناک انجام بیان کیا گیا ہے جس کو تاریخ نے اپنے اوراق میں  ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے نہیں  دیکھا ۱* کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں  کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ ۲*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ن کی تدبیر کو بیکار نہیں  کر دیا ؟۳*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان پر پرندوں  کے جھنڈ کے جھنڈ نہیں  بھیجے ؟ ۴*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ان پر پکی ہوئی مٹی ۵* کے پتھر پھینک رہے تھے ۶*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہیں  ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھُس۔ ۷*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن اس کے اصل مخاطب قریش اور اہل عرب ہیں  جو اس واقعہ سے بخوبی واقف تھے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھی والوں  (اصحاب الفیل) سے مرد ابرہہ اور اس کا لشکر ہے جو ہاتھیوں  کو لے کر اللہ کے مقدس گھر پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس واقعہ کی تفصیلات قرآن نے بیان نہیں  کیں  کیونکہ اس واقعہ سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا نیز اس سورہ کے نزول کے وقت اس کے عینی شاہد بھی موجود تھے۔ اس لیے قرآن نے اس کے عبرتناک پہلوؤں  کی طرف اشارہ کرنے اور اپنے اس احتساب کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا کہ اس نے کس غیر معمولی طریقہ سے اپنے گھر کی حفاظت کا سامان کیا۔ حدیث میں  ابھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس واقعہ کی کوئی تفصیل منقول نہیں  ہے البتہ روات اور سیرت کی کتابوں  میں  تفصیلات بیان ہوئی ہیں  خاص طور سے سیرت ابن اسحاق میں  یہ قصہ تفصیلاً بیان ہوا ہے لیکن اس میں  رطب و یابس سبھی کچھ موجود ہے۔ دیگر روایات کا بھی کم و پیش یہی حال ہے اس لیے ہم ان روایات کو سامنے رکتے ہوئے صرف ان باتوں  کے ذکر پر اکتفا کریں  گے جن کی تائید قرائن سے ہوتی ہے یا جس کے قبول کرنے میں  کوئی امر مانع نہیں  ہے۔

یہ واقعہ ۵۷۰ ء یا ۵۷۱ ء کا ہے جب کہ یمن میں  ابرہہ نامی ایک عیسائی حکمراں  جو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے ماتحت تھا حکومت کر رہا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر کہ عربوں  کی عقیدت کا مرکز خانہ کعبہ ہے اور وہاں  ہر سال حج کا بڑا اجتماع ہوتا ہے ، حسد پیدا ہو گیا اور اس نے صنعاء (Sana)میں  نہایت شاندار کنیسہ تعمیر کرایا تاکہ عربوں  کے حج کا رخ اس کی طرف پھیرا جا سکے۔ اس غرض کے لیے اس نے خانہ کعبہ کو ڈھا دینے کا منصوبہ بنایا اور ساٹھ ہزار کا لشکر جرّار لے کر مکی کی طرف روانہ ہوا۔ اس لشکر میں  آگے آگے ہاتھیوں  کی ایک تعداد تھی اور اسی امتیاز کی وجہ سے یہ لوگ اصحابُ الفیل کہلائے۔

یہ لشکر جب یمن سے مکہ کے لیے روانہ ہوا تو راستہ میں  بعض عرب قبائل نے مزاحمت کی لیکن وہ اس کو روکنے میں  کامیاب نہ ہو سکے یہاں  تک کہ یہ لشکر منیٰ کے قریب وادی مُحَسّر میں  پہنچ گیا جو مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔

ادھر قریش کو جب اس فوج کشی کی خبر ہوئی تو ان کے سردار عبدالمطلب نے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا ہیں  خانہ کعبہ کے دروازے کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ اس دعا میں  قریش کے دوسرے لوگ بھی شریک تھے۔ اس موقع پر عبدالمطلب نے جو اشعار پڑھے وہ یہ ہیں۔

لَا ھُمَّ اِنَّ الْعَبْدَیَمْنَعُ رَحْلَہٗ فَامْنَعْ رِحَالَکَ۔ خدایا بندہ اپنے گھر والوں  کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے لوگوں  کی حفاظت کر

لَایَغْلِبَنَّ صَلِیْبُھُمْ وَمِحَالُھُمْ غدْوً ا مِحَالَکْ۔ کل ان کی صلیب اور ان کی قوت تیری قوت پر غالب نہ آنے پائے

اِنْکُنْتَ تَارِ لُھُمْ وَ قِبْلَتَنَا فَاَمْرٌ مَابَدَالَکْ۔ اگر تو ان کو اور ہمارے قبلہ کو یونہی چھوڑ دینا چاہتا ہے تو پھر تیری مرضی۔ (سیرۃ ابن ہشام ج ۱ ص ۵۱ )

قریش کے لیے جو تعداد میں  مختصر تھے ساٹھ ہزار کے لشکر جرار کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ اگر ان کے اور لشکر کے درمیان مڈ بھیڑ ہو بھی جاتی تو کامیابی کی امید نہیں  تھی اور معاملہ اللہ کے گھر کی حفاظت کا تھا۔

اس گھر کی حفاظت کا جو پہلا گھر ہے جو دنیا میں  اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ اس کی یہ غیر معمولی اہمیت اور فضیلت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس کی حفاظت کا غیر معمولی سامان ہو۔ چنانچہ غیرت حق جوش میں  آئی اور اس نے اس لشکر کو آگے بڑھنے نہیں  دیا۔ ابرہہ کا خاص ہاتھی جو آگے آگے تھا وادی محشر میں  یکایک بیٹھ گیا۔ اسے مار مار کر زخمی کر دیا گیا مگر وہ نہ اٹھا۔ اسے یمن یا شام یا مشرق کی طرف موڑنے کی کوشش کی جاتی تو وہ اٹھ کر دوڑنے لگتا اور جب مکہ کی طرف موڑا جاتا تو فوراً بیٹھ جاتا۔ اتنے  میں  پرندوں  کے جھنڈ آئے جن کی چونچوں  اور پنجوں  میں  کنکریاں  تھیں  اور انہوں  نے لشکر پر ان کی بارش کر دی۔ ان کنکریوں  کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ جس پر بھی گرتیں اس کے جسم پر پھوڑا نکل آتا اور پیپ اور لہو بہنے لگتا اور کچھ دیر میں  پورا جسم گلنے لگتا۔ جیسا کہ بعض روایتوں  سے ظاہر ہوتا ہے یہ غالباً چیچک کی قسم کا کوئی خطرناک مرض تھا جو یکایک پھوٹ پڑا تھا۔ کنکریاں  جو پکی ہوئی مٹی کی تھیں  کچھ ایسی سمیّت لیے ہوئے تھیں  کہ جس کے کنکری لگ جاتی اس کا جسم سڑنے گلنے لگتا۔ اس وبا نے لشکر کو اس طرح لپٹ میں  لیا کہ اس کے اندر زبردست بھگدڑ مچ گئی اور لاشوں  پر لاشیں  گرتی چلی گئیں۔ ابرہہ کا بھی بہت برا حال ہوا۔ اس کے جسم سے لہو اور پیپ بہہ رہا تھا اور جسم جھر رہا تھا بالآخر اس کا سینہ پھٹ گیا اور وہ بڑی طرح ہلاک ہو گیا۔

یہ واقعہ ماہ محرم میں پیش آیا تھا اور اسی سال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔ (البدایۃ والنہایۃ ج۱ ص ۱۷۵ )۔

اس واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام کیا۔ پرندوں  کے ذریعہ سنگریزوں  کی بارش اور وہ سنگریزے بھی ایسے جو بندوق کی گولی کا کام کریں ، خدا کی ایک معجزانہ نشانی تھی جو ظاہر ہوئی اور اس قسم کی نشانیاں  خاص خاص مواقع پر ہی ظاہر ہوتی ہیں۔

رہا اس کا تاریخی ثبوت تو قرآن بجائے خود سب سے بڑا تاریخی ثبوت ہے کیونکہ اگر قرآن کا بیان غلط ہوتا۔ اور یہ بات وہی لوگ سوچ سکتے ہیں  جن کو قرآن کی صداقت پر یقین نہیں۔ تو اہل مکہ ضرور اس کی تردید کرتے لیکن چونکہ اس واقعہ کے عینی شاہد ان کے درمیان موجود تھے اور واقعہ کی شہرت کی بنا پر وہ اس کی حقیقت سے باخبر تھے اس لیے قرآن کے بیان کو غلط قرار دینے کی کسی کو جرأت نہیں  ہوئی۔ علاوہ ازیں  قبل اسلام کے عرب شعراء نے اس واقعہ کا ذکر اپنے اشعار میں  کیا ہے۔ مثال کے طور پر نُفَیل جو اس واقعہ کا عینی شاہد ہے ، کہتا ہے :

حَمَدْتُ اللہَ اِذَا اَبْصَرْتُ طَیراً۔ میں  نے اللہ کا شکر ادا کیا جب پرندوں  کو دیکھا

وَخِفْتُ حِجَارَۃً تُلْقَیْ عَلَیْنَا۔ اور ڈرا کہ کوئی پتھر لگ نہ جائے جس کی ہم پر بارش ہو رہی تھی اور ابرہہ کی مغلوبی کا ذکر اس طرح کرتا ہے :

اَیْنَ الْمَفَرُّ وَالْاِلٰہُ الطَّا لِبْ۔ اب بھاگ کر کہاں  جائیں  جب کہ خدا  تعاقب کر رہا ہے۔

وَالْاَشْرِمُ الْمَغْلُوْ بُ لَیْسَ الغَلِبْ۔ اور نکٹا (ابرہہ ) مغلوب ہے غالب نہیں۔

(سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۵۳۔ ۵۴ )

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ابرہہ اور اس کے لشکر نے خانہ کعبہ کو ڈھانے  کی غرض سے جو اقدام کیا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنا دیا اور وہ اپنے ناپاک ارادوں  میں  ہر گز کامیاب نہ ہو سکے۔

اصحاب الفیل کی تدبیر کو ناکام بنانے میں  بتوں  یا دیوی دیوتاؤں  کا کوئی دخل نہیں  تھا بلکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کرشمہ قدرت تھا جو ان پر عذاب کی صورت میں  ظاہر ہوا۔ اہل عرب بھی اس کے معترف تھے چنانچہ عرب شعراء نے اسے اللہ ہی کا کرشمہ قدرت قرار دیا ہے اور قریش نے بھی عبدالمطلب کے ساتھ خانہ کعبہ کے دروازہ پر جو دعا مانگی تھی وہ خدا ہی سے مانگی تھی نہ کہ بتوں  سے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ توحید بر حق ہے جس کی دعوت نبی صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں  اور بت پرستی یکسر باطل ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس بات کی تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں  کی تدبیر کو کس طرح بے کار کر دیا۔ صورت یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کرنے کے لیے پرندوں  کے غول کے غول بھیج دیے۔ با لفاظ دیگر ہاتھی والے لشکر کا مقابلہ پرندوں  کے لشکر نے کیا۔

راویوں  کا بیان ہے کہ یہ پرندے خاص قسم کے تھے اور سمندر کی طرف سے آئے تھے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں  لفظ ’’سجیل‘‘ استعمال ہوا ہے جو فارسی کے دو لفظ سنگ اور گل کا مُعَرَّبْ ہے اور اس سے مرد وہ کنکر ہیں  جو پکی ہوئی مٹی سے بنے ہوں۔ آتش فشاں  علاقے میں  لاوے کی وجہ سے مڑی جو پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے شاید اسی کو سجیل کہا گیا ہے اور عجب نہیں  کہ پرندے ان سنگ ریزوں  کو اپنی چونچوں  اور پنجوں  میں  قریب کے کسی آتش فشاں  علاقہ سے لے آئے ہوں  اور ان کے اندر زہریلا مادہ ہو یا اس کے ساتھ زہریلے جراثیم ہوں  جس نے یکایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہو۔ بہر صورت یہ عام پتھر نہیں  تھے بلکہ خاص قسم کے سنگریزے تھے اسی لیے قرآن نے اس وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا کہ ’’سجیل کی قِسم کے پتھر‘‘۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پرندوں  کی یہ سنگباری گویا آسمانی بمباری تھی جس نے ہاتھیوں  کو بھی تباہ کیا اور ہاتھی والوں  کو بھی۔

پرندوں  کے سنگریزے گرانے کو سنگریزے پھینکنے (تَرْمَیْہِمْ ) سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں  نے لشکر پر سنگریزوں  کی ایسی بوچھار کر دی تھی کہ وہ پوری طرح اس کی زد میں  آ گیا۔ گو یہ تیر تھے جو نشانہ پر لگ گئے۔ اس سورت حال کے پیدا ہونے میں  ہو سکتا ہے کہ ہوا کا بھی دخل رہا ہو یعنی اس وقت تیز ہوا چلی ہو۔ غالباً اسی وجہ سے بعض شعرائے عرب نے پرندوں  کی اس سنگباری کو حاصِب (پتھر برسانے والی آندھی) سے تعبیر کیا ہے۔

ہاتھی والوں  پر پرندوں  کے جو جھنڈ کے جھنڈ بھیجے گئے تھے اس کی ایک تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہ پرندے ہاتھی والوں  کی لاشیں  کھانے کے لیے آئے تھے نہ کہ کنکر برسانے کے لیے مگر آیات کا سیاق و سباق اس تاویل کو قبول نہیں  کرتا نیز پرندوں  کا لاشیں  کھانا  کوئی ایسی بات نہیں  ہے کہ قرآن اس اہتمام کے ساتھ اس کا ذکر کرے۔ اس لیے جمہور مفسرین نے ان آیات کا جو مطلب بیان کیا ہے وہی صحیح ہے اور اس کی رو سے یہ پرندے لاشیں  کھانے کے لیے نہیں بلکہ لاشیں  گرانے کے لیے آئے تھے۔ رہا یہ سوال کہ قریش نے جو بیت اللہ کے متولی تھے فوج کا مقابلہ کیا یا نہیں  ؟ تو واقعہ یہ ہے کہ ان کی مڈ بھیڑ فوج سے ہوئی ہی نہیں۔ وہ مکہ میں تھے اور لشکر منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان تھا اس لیے نہ یہ بات صحیح ہے کہ وہ ڈر کر پہاڑوں  میں  جھپ گئے تھے جیسا کہ روایتوں  میں  بیان کیا گیا ہے اور نہ یہ خیال صحیح ہے کہ انہوں  نے پہاڑوں  پر سے لشکر پر پتھراؤ کیا تھا۔ پہاڑوں  میں  چھپنے کی بات اس لیے باور کرنے کے لائق نہیں  کہ قریش بزدل نہیں  تھے اور جب کہ ابرہہ کی مزاحمت بعض عرب قبائل نے راستہ میں  کی تھی جیسا کہ ان روایات ہی میں  بیان ہوا ہے تو قریش کس طرح مزاحمت نہ کرتے۔ ان کی غیرت و حمیت اس بات کو کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ بیت اللہ کو چھوڑ کر سب کے سب بھاگ جائیں  ؟ اور اللہ کے گھر پر قربان ہوں  کے لیے ایک آدمی بھی موجود نہ رہے ؟ عبدالمطلب کے ان دعائیہ اشعار سے جو اوپر نقل کیے گئے بزدلی کا اظہار نہیں  ہوتا۔ البتہ چونکہ قریش تعداد کی قلت کی وجہ سے ایک لشکر جرار کے مقابلہ میں  کامیاب نہیں  ہو سکتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت کا غیر معمولی سامان کیا۔ رہا یہ دعویٰ کہ در اصل انہوں  نے پہاڑوں  پر سے سنگباری کی تھی نہ کہ پرندوں  نے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے اور جب قریش کا ابرہہ کے لشکر کے نزدیک آنا ہی ثابت نہیں  تو پتھر پھینکنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان ہاتھی والوں  کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عبرتناک سزا دی کہ وہ سڑی گلی لاشوں  کا ڈھیر بن کر رہ گئے۔ کھائے ہوئے بھوسہ سے تشبیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بھوسہ ایک بے وقعت چیز ہے اور پامال کیا جاتا ہے اسی طرح یہ لشکر جرّار بے وقعت اور پامال ہو کر رہا۔ بھوسے کو جب جانور کھا لیتا ہے تو اس کی نہایت مکروہ شکل بنتی ہے۔ ہاتھی والوں  کی لاشوں  کا بھی یہی حال ہوا اس لیے ان کو کھائے ہوئے بھوسے سے  تشبیہہ دی گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۱۰۶)۔ سورہ قریش

 

(۴ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  قُرَیْش کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام قُریش ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اس سورہ میں  رَبَّ ھٰذا البَیْتِ ( اس گھر کا رب ) کے الفاظ آئے ہیں  جو اس بات کا ثبوت ہیں  کہ یہ سورہ مکی ہے کیونکہ خانہ کعبہ کے لیے شارہ قریب (ہٰذا ) مکہ میں  نازل ہونے کی صورت ہی میں  موزوں  ہو سکتا تھا۔

مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ فیل کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

قریش پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ اور ۲ میں  قریش کی اس اُلفت کو جو ان کو اپنے تجارتی سفر سے تھی قابل تعجب قرار دیا گیا ہے کیونکہ انہیں  یہ نعمت اللہ کے گھر کی بدولت حاصل تھی مگر وہ اللہ کی ناشکری کر رہے تھے۔

آیت ۳ میں  اس نعمت کا یہ تقاضا بیان کیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں۔

آیت ۴ میں  بتایا گیا ہے کہ رزق اور امن اللہ ہی کی بخشی ہوئی نعمتیں  ہیں  لہٰذا اس کا اعتراف کرتے ہوئے صرف اسی ی عبادت کرنا چاہیے۔

 

                    ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کس ۱*  قدر اُلفت ہے قریش ۲*  کو ! ۳*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو جو اُلفت ہے سرما و گرما کے سفر سے

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا ان کو چاہیے کہ اس گھر ۴*  کے رب کی عبادت کریں ۵*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے ان کو بھوک سے بچا کر کھانا کھلایا اور خوف سے بچا کر امن ۶*  بخشا۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ لِ (لام مجرور)  یہاں  تعجب کے معنی میں  ہے جسے عربی میں  لام تعجب کہتے ہیں۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی معنی کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے ہم نے لِاِیلافِ کا ترجمہ ’’ کس قدر الفت ہے !‘‘ کیا ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ قریش ایک قبیلہ کا نام ہے جس کے ہاتھ میں  خانہ کعبہ کی تَولِیَت تھی۔ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کو مکہ کی سر زمین میں  بسایا تھا۔ قریش ان ہی کی نسل سے ہیں۔ اس قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کہلائی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ مکہ کی زمین زراعت کے قابل نہیں  تھی اس لیے قریش نے تجارت کو اپنا پیشہ بنا لیا تھا۔ چنانچہ ان کے تجارتی قافلے سردیوں  میں  یمن کا رخ کرتے اور گرمیوں  میں  شام و فلسطین کا۔ یہ تجارتی سفر ان کی معاش کا بہت بڑا ذریعہ اور ان کی دولت میں  اضافہ کا باعث تھے۔ وہ جن راہوں  سے گزرتے تھے وہ اگر چہ کہ بین الاقوامی شاہراہیں  تھیں  لیکن عام بد امنی اور لوٹ مار کی وجہ سے محفوظ نہیں  تھیں۔ اس کے باوجود قریش کے کاروان تجارت بے خطر آیا جایا کرتے تھے کیونکہ کعبہ کے متولی ہونے کی بنا پر لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔ علاوہ ازیں  انہوں  نے ان ریاستوں  کے بادشاہوں  سے تجارتی مراعات حاصل کر لی تھیں  کہ وہ بے روک ٹوک ان کے ملک میں  آتے جاتے رہیں  گے۔ چنانچہ ہاشم نے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پر دادا ہیں  شام، روم اور غسان کے بادشاہ سے ، عبد شمس نے نجاشی سے ، نوفل نے کسریٰ سے اور مُطَّلب نے حِمْیَرْ (یمن) کے بادشاہ سے فرمان حاصل کر لیے تھے (البدایۃ و النہایۃ ج ۲ ص ۲۵۳ )

اس طرح اللہ کے گھر کی بدولت ان پر رزق کی راہیں  بھی کھل گئی تھیں  اور عام بد امنی کے باوجود انکے لیے سفر بھی پر امن ہو گیا تھا۔ ان فوائد کی وجہ سے ان کو اپنے تجارتی سفرو سے الفت پیدا ہو گئی تھی چنانچہ وہ پابندی کے ساتھ موسم سرما میں  یمن کا اور موسم گرما میں  شام و فلسطین کا سفر کرتے۔ یمن کا علاقہ چونکہ گرم ہے اس لیے موسم سرما میں  اس ملک کے سفر کو ترجیح دیتے اور شام و فلسطین اک علاقہ چونکہ سرد ہے اس لیے موسم گرما میں  ان ممالک کے سفر کو وہ موزوں  خیال کرتے۔

اس آیت میں  ان کے ان تجارتی سفروں سے الفت اور وابستگی کو اس بنا پ قبل تعجب قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے حق نا شناسی اور ناشکری کا نوبت دے رہے ہیں  کیونکہ یہ نعمتیں  انہیں  حاصل ہو رہی ہیں  خدا کے گھر کی بدولت لیکن وہ خدا کے ہی حق کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ کھاتے ہیں  خدا کا دیا ہوا رزق مگر گن گاتے ہیں  بتوں  کے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس گھر سے مراد خانہ کعبہ ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ قریش کو متوجہ کیا گیا ہے کہ جب تم اس گھر کو اللہ کا گھر مانتے ہو تو پھر تمہیں  س کا حق ادا کرن چاہیے اور وہ حق یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ اسی طرح اس گھر کی بدولت جو تجارتی فوائد تمہیں  حاصل ہو رہے ہیں  اور جو آسودگی تمہیں  میسر آ رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس گھر کے رب کے شکر گزار بندے بن کر رہو اور ناشکری کا طریقہ اختیار نہ کرو۔

خانہ کعبہ کی تعمیر خدائے واحد کی عبادت کے لیے ہوئی تھی پھر اس گھر کے متولیوں  کے لیے خدا کی پرستش کے بجائے بتوں  کی پرستش کے لیے جواز کہاں  سے پیدا ہو گیا ؟۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانہ میں  عربوں  کی معاشی حالت خستہ تھی اور اس علاقہ کے جغرافیائی حالات ایسے تھے کہ غذائی اجناس کی بھی بڑی قلت تھی۔ گویا یہ غربت اور فاقہ زدگی کا علاقہ تھا مزید برآں  قبائلی سسٹم ہونے اور کسی مضبوط حکومت کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بد امنی پھیلی ہوئی تھی۔ قتل و غارتگری اور لوٹ مار کے واقعات نے ان کی زندگی کا سکون چھین لیا تھا مگر قریش کی حالت معاشی لحاظ سے بھی  بہتر تھی اور امن و امان کے لحاظ سے بھی۔ معاشی لحاظ سے بہتر ہونے کی وجہ تو ان کے کامیاب تجارتی سفر تھے۔ رہا امن و امان تو اس کے حرم ہونے کی بنا پر تھا اور باہر نکلنے کے بعد ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کوئی شخص یا قبیلہ یا حکومت اس لیے نہیں  کرتی تھی کہ وہ پاسبان حرم اور خادم حجاج سمجھے جاتے تھے۔ مختصر یہ کہ قریش کو یہ دونوں  نعمتیں  یعنی رزق اور امن جو انسان کی بنیادی ضرورتیں  ہیں  خدا ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہو رہی تھیں  اس لیے اس کا شکر اور حق بندگی ان پر واجب تھا نہ کہ بتوں  کا جن کا نہ بھوک کو مٹانے میں  کوئی دخل تھا اور نہ خوف کو دور کرنے میں۔

اس سورہ میں  خدائے واحد کی عبادت کا مطالبہ اگر چہ کہ قریش سے کیا گیا ہے لیکن در حقیقت یہ مطالبہ پوری انسانیت سے ہے کیونکہ تمام انسانوں  کا رب وہی ہے جو خانہ کعبہ کا رب ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۰۷)۔ سورہ الماعون

 

(۷ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آخری آیت میں  ماعون (مال کا حق ) ادا نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’ الماعون‘‘ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی دور میں  نازل ہوئی ہو گی۔

مرکزی مضمون

 

اس کردار کو سامنے لانا ہے جو جزا و سزا سے انکار کے نتیجہ میں  پیدا ہوتا ہے تاکہ لوگ اس کے انجام بد ے خبردار ہوں۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ میں  س شخص کے کردار پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو جزا و سزا کا انکار کرتا ہے۔

آیت ۲ اور ۳ میں  بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگ ہی سوسائٹی کے کمزور اور بد حال لوگوں  کے ساتھ غیر ہمدردانہ اور سنگدلانہ برتاؤ کرتے ہیں۔

آیت ۴ تا ۶ میں  ان کی رسمی نماز کو بے حقیقت قرار دیا گیا ہے۔

اور آیت ۷ میں  ان کے بُخل کی خصلت پر گرفت کی گئی ہے۔

 

پس منظر

 

پس منظر میں  قریش کے وہ سردار ہیں  جنہیں  اپنی مذہبیت اور خانہ کعبہ کے متولی ہونے پر بڑا فخر تھا مگر اخلاق و عمل کے اعتبار سے انتہائی پستی کا شکار تھے جس کی چند مثالیں  اس سورہ میں  پیش کی گئی ہیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے۔

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے اس شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ! ۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ۲*  ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ۳*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں  دیتا ۴*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ایسی نماز پڑھنے والوں  کے لیے تباہی ہے ۵*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں  ۶*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ریا کاری کرتے ہیں  ۷*

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مال کا حق ادا نہیں  کرتے ۸*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جو جزائے عمل کا منکر ہے کہ اس کا کردار کتنا پست اور اس کے مذہبی مراسم کتنے بے حقیقت ہیں  ! جو شخص بھی سی لوگوں  کے حال پر غور کرے گا اس کے اندر یہ احساس ضرور ابھرے گا کہ صحت کردار اور سچی دینداری کے لیے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منکرین آخرت میں  جو اخلاقی و عملی خرابیاں  پیدا ہو جاتی ہیں  ان کا عکس اس کردار میں  دیکھا جا سکتا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یتیم کو دھکے دینے کے مفہوم میں اس کا مال کھانا، اس کا حق مارنا ، اس کو جھٹکنا، اس کی تحقیر و تذلیل کرنا اور اس کو دھکے دے کر اپنے دروازے سے ہٹا دینا، سب شامل ہے۔

قرآن نے نہ صرف یتیموں  کے حقوق ادا کرنے کی بھی ہدایت کی ہے  چنانچہ سورہ فجر میں  فرمایا :

کَلّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْم : (الفجر۔ ۱۷) ’’ نہیں  بلکہ تم یتیموں  کی قدر نہیں  کرتے۔ ‘‘

یعنی یتیموں  کی ناقدری ان لوگوں  کا شیوہ ہے جو خدا کے حضور جوابدہی کا تصور نہیں  رکھتے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ فجر نوٹ ۲۳ میں  گزر چکی۔

واضح رہے کہ مسکین کو کھانا کھلانا بجائے خود نیکی کا کام ہے قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم اور یتیم کو دھکے دینا بہر صورت گناہ کا کام ہے خواہ اس یتیم کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت سے ہو۔

جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی ہے مکہ میں مسلمانوں  کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ انگلیوں  پر گنے جا سکتے تھے لیکن جب انہیں  مسکین کو کھانا کھلانے اور اس کی ترغیب دینے کا حکم دیا گیا تو یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اسلام اپنے پیروؤں  میں  انسانی ہمدردی کا ایسا جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے جس کا دائرہ اثر پوری انسانیت کے لیے وسیع ہو اور جس کی بنا پر ہر مستحقِ کی مدد کی جا سکے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں  نماز سے مراد خدا کی پرستش کی وہ شکل ہے جو مشرکین  مکہ نے اختیار کی تھی۔ قرآن نے دوسری جگہ ان کی نماز کی ہیئت اور اس کی حقیقت اس طرح بیان کی ہے :

وَمَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَالبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصْدِیَۃً۔ (الانفال۔ ۳۵ ) ’’ بیت اللہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں  اورع تالیاں  بجانے کے سوا کچھ نہیں  ہے ‘‘۔

یہ ان کی رسمی نماز تھی اور وہ بھی ایسی کہ جس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تھا۔ جہاں  تک نماز کی اصلیت کا تعلق ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو اپنی اصل شکل میں  قائم کیا تھا اور اپنی اولاد کو بیت اللہ کے پاس اس لیے بسایا تھا کہ وہ نماز قائم کریں  : رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ (اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سورہ ابراہیم۔ ۳۷) اور حضرت اسمٰعیلؑ اپنے گھر والوں  کو اس کی تاکید کرتے رہے : وَکَانَ یَأمُرُ اَھْلَہٗ بِا الصَّلوٰۃ وَالزَّکوٰۃِ (اور وہ اپنے گھر والوں  کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا۔ سورہ مریم۔ ۵۵) لیکن بعد کے ادوار میں  دین میں  تحریف کرنے والوں  نے نماز کی شکل بگاڑ دی یہاں  تک کہ نزول قرآن کے زمانہ میں  نماز نام رہ گیا تھا سیٹیاں  اور تالیاں  بجانے کا۔۔۔ اس کی مثال آج بھی مندروں  میں  دیکھی جا سکتی ہے جہاں  بُت پرست بھجن گا کر اور جھانجر اور تالیاں  بجا کر ناچتے ہوئے پوجا پاٹ کرتے ہیں  اور سمجھتے ہیں  کہ اس سے خدا بھی خوش ہوتا ہے اور بُت بھی۔

یہاں  مشرکین کی اسی نماز کو ان کی تباہی کا سبب قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ نماز نہیں  ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ لوگوں  نے اگر غیر سنجیدہ حرکتوں  کا نام نماز یا عبادت رکھ لیا ہو تو اس کا حقیقی نماز اور عبادت سے کیا واسطہ ؟ یہ تو خدا کی عبادت نہیں  بلکہ اس کا مذاق ہے۔ بعض مفسرین نے اس سورہ کو مدنی قرار دیا ہے اور نماز سے منافقین کی نماز مراد لی ہے لیکن جس سیاق و سباق (Context) میں  نماز کا ذکر ہوا ہے اس کا تعلق منکرین آخرت سے ہے جن کی اخلاقی خرابیوں  کی نمایاں  مثالیں  پیش کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں  سابق سورہ میں  قریش کو خدائے واحد کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے متصلاً بعد سورہ ماعون کو رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے ہ اس کے پس منظر میں  قریش کے سردار ہیں  جو مشرک بھی تھے اور آخرت کے منکر بھی۔ لہٰذا اس آیت میں  جس نماز کا ذکر ہوا ہے وہ مشرکین مکہ اور خاص طور سے خانہ کعبہ کے متولیوں  کی نماز تھی۔ البتہ اس کے وسیع تر مفہوم میں  منافقین کی نماز بھی شامل ہے کیونکہ ان کی نماز بھی محض نام کی نماز تھی۔ حقیقی نماز سے وہ بھی غافل ہی تھے اور یہ بات صرف اس دور کے منافقین پر چسپاں  نہیں  ہوتی بلکہ ہر دور کے منافقین پر چسپاں  ہوتی ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ اپنی حقیقی نماز سے غافل ہیں۔ حقیقی نماز یہ ہے کہ آدمی شرک سے بچتے ہوئے خالصۃً اللہ کے لیے نماز ادا کرے ، اسی کی طرف متوجہ ہو اور اس کے حضور جوابدہی کا تصور رکھے نیز اس عبادت کی جو ہیئت کے ساتھ اسے ادا کرنے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو نماز اپنے پیچھے چھوڑی تھی اس کی یہ خصوصیات تھیں  اور اس میں  قیام ، رکوع ، اور سجدہ جیسے ارکان تھے مگر مشرکین اس کی ظاہری اور باطنی دونوں  خصوصیات کو کھو بیٹھے اور اس کو کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا۔ جب کہ یہ پیغمبر صلوٰۃ ابراہیمی کی تجدید کرنا چاہتا ہے یہ لوگ اس پر کان دھرنے کے لیے آمادہ نہیں  ہیں  اور پنی اس نام نہاد نماز ہی کو لیے بیٹھے ہیں۔

واضح رہ کہ آیت میں  عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ (وہ اپنی نماز سے غافل ہیں  ) فرمایا گی ہے نہ کہ : فِیْ صَلَاتِھِمْ سَھُوْنَ (وہ اپنی نماز میں  بھولتے ہیں ) کیونکہ نماز میں  بھول (سہو) تو اہل ایمان سے بھی ہو سکتی ہے لیکن نماز سے غافل ہو جانا ان ہی لوگوں  کا شیوہ ہے جو فکر آخرت سے آزاد ہیں۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی نماز دکھاوے کی ہوتی ہے۔ خلوص سے بالکل خالی محض ریا کاری کی نماز تاکہ لوگ ان کو مذہبی سمجھیں۔

اللہ کی عبادت حق بندگی سمجھ کر اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے کی جانی چاہیے لیکن ریا کاروں  کی عبادت محض نمائشی ہوتی ہے اور اس لیے ہوتی ہے تاکہ لوگوں  سے داد حاصل کی جائے۔ اس لیے ایسی عبادت کرنے والے آخرت میں  نہ صرف یہ کہ کسی اجر کے مستحق نہیں  ہوں  گے بلکہ اپنے اس گناہ کی وجہ سے سخت سزا کے مستحق ہوں  گے۔ ریا کاری کے سلسلہ میں  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیانا ت بھی بڑے مؤثر ہیں  ، جو بائیبل میں  منقول ہوئے ہیں  چنانچہ متّی کی انجیل میں  ہے :

’’خبردار اپنے راستبازی کے کام آدمیوں  کے سامنے کھانے کے لیے نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔ پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا کہ ریا کار عبادت خانوں  اور کوچوں  میں  کرتے ہیں  تاکہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں  تم سے سچ کہتا ہوں  کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہ اسے تیرا بایاں   ہاتھ نہ جانے۔۔ اور جب تم دعا کرو تو ریا کاروں  کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادت خانوں  میں  اور بازاروں  کے موڑوں  پر کھڑے ہو کر دعا کرنا پسند کرتے ہیں  تاکہ لوگ ان کو دیکھیں  میں  تم سے سچ کہتا ہوں  کہ وہ اپنا اجر پا چکے ‘‘۔ (متی : باب ۶)۔

اور بنی اسرائیل کے علماء اور فقہاء کو جنہوں  نے دین کے سلسلہ میں  ظاہر داری اختیار کر رکھی تھی اور جن کے اندر بد ترین قسم کی ریا کاری پیدا ہو گئی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سخت جھنجھوڑا :

’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ تم بیواؤں  کے گھروں  کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تمہیں  زیادہ سزا ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور نا پرہیز گاری سے بھرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ریا کار  فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں  کے مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں  مگر اندر مردوں  کی ہڈیوں  اور ہر طرح نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں  تو لوگوں  کو راست بار دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں  ریا کاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔

(متی باب ۲۳ )

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ بڑے بخیل واقع ہوئے ہیں۔ غریبوں  اور مسکینوں  کی امداد و اعانت میں  جو مال صرف ہونا چاہیے اسے روکے رکھتے ہیں۔ انہیں  در حقیقت نہ خدا سے محبت  اور نہ اس کے بندوں  سے ہمدردی بلکہ اپنے مال سے محبت ہے اور اپنی دنیا بنانے ہی کی فکر ہے۔ وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے  کو خدا پرست ظاہر کر رہے ہیں  لیکن ان غرباء و مساکین کے ساتھ ان کا غیر ہمدردانہ دعوے میں  سچے نہیں  ہیں  کیونکہ سچی خدا پرستی انسان کو با اخلاق ، کریم اور فیاض بناتی ہے۔

متن میں  لفظ ماعون استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنیٰ فائدہ کی چیز کے ہیں۔ اس کا اطلاق روز مرہ کے استعمال میں  پانے والی چیزوں  پر بھی ہوتا ہے اور مال پر بھی۔ مفسرین نے عام طور سے معمولی اور عام پڑوسی کو مستعار دیتا ہے اور جن کا نہ دینا باعث خِسّت سمجھا جاتا ہے اس میں  شک نہیں  کہ اس قسم کی چیزیں  دینے سے انکار کرنا اخلاقاً ذلت کی بات ہے۔ لیکن یہاں  جو وعید سنائی گئی ہے وہ ظاہر ہے کسی بہت بڑے حق کے ادا نہ کرنے یا کسی بڑے گناہ کے ارتکاب ہی پر ہے نیز سورہ کا مضمون بھی غرباء و مساکین کے حق سے متعلق ہے اس لیے ماعون سے مال کا حق مراد لینا ہی قرین صواب معلوم ہوتا ہے۔ اس کی تائید زُھری کے اس قول سے ہوتی ہے کہ ماعون قریش کی زبن میں  مال کو کہتے ہیں  (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۵۵۶) اور بعض حضرات نے اس سے مراد زکوٰۃ لی ہے لیکن حضرت ابن عمر کا قول اس کی بہترین تفسیر ہے۔ ان سے جب ماعون کے بارے میں  پوچھا گیا تو انہوں  نے کہا المال الذی لا یؤدی حقہ۔ ’’وہ مال جس کا حق ادا نہ کیا جائے ‘‘۔ پوچھنے والے نے کہا کہ ابن مسعود تو کہتے ہیں  کہ اس سے مراد برتنے کی وہ چیزیں  ہیں  جو لوگ ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہیں  تو  اس کے جواب میں  انہوں  نے کہا ماعون کا مطلب وہی ہے جو میں  بیان کر رہا ہوں  (فتح الباری ج ۸ ص ۵۹۴ بحوالہ طبری) اسی لیے ہم نے ، یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُون۔ کا ترجمہ ’’ مال کا حق ادا نہیں  کرتے ‘‘ کیا ہے۔ یہ بات قرآن میں  دوسرے طریقہ سے بھی  بیان ہوئی ہے مثلاً : مَنّاع لِلْخَیْر (سورہ قلم) ’’مال کو روکنے والا‘‘ یعنی بخیل۔ واضح رہے کہ خیر کا لفظ عربی میں  مال کے معنی میں  بھی آتا ہے اور منع کا لفظ روکنے نیز بخل کرنے کے معنی میں  بھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۱۰۸)۔ سورہ الکوثر

 

(۳ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی ہی آیت میں  کوثر (خیر کثیر) کے عطا کیے جانے کی خوش خبری دی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اََْلکوْثَر ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے آخری دور میں  نازل ہوئی ہو گی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مخالفتوں  کے طوفان سے گزر رہے تھے اور آپؐ کے دشمن آپؐ کوبد نام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ سورہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے عظیم بشارت اور آپؐ کے حق میں  فضل خاص کا اعلان ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ میں  آپؐ کو خیر کثیر عطا کیے جانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ آیت ۲ میں اس کے شکر کے طور پر نماز اور قربانی کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

آیت ۳ میں  آپؐ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ آپؐ کی دشمنی پر تلے ہوئے ہیں  وہ آپؐ کا کچھ بگاڑ نہ سکیں  گے البتہ اپنے کو بہت بڑے خیر سے ضرور محروم کر لیں  گے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ۱*  نے تمہیں  ۲*  کوثر عطا کیا ۳*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۴*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک تمہارا دشمن ہی خیر سے محروم ہے ۵*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شاہانہ طرز کلام ہے جس میں  واحد کی بجائے جمع کی ضمیر اِنَّا (ہم نے ) استعمال کی گئی ہے اور مقصود اس شان کا اظہار ہے جس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کوثر کا بابرکت عطیہ دربار خداوندی سے عنایت ہوا ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کوثر کے معنی خیر کثیر کے ہیں  (النہایۃ ج ۴ ص ۳۷ ، لسان العرب ج ۵ ص ۱۳۳) اور اسی مناسبت سے یہ جنت کی اس نہر کا نام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آخرت میں  عطا کی جائے گی مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے کوثر سے خیر کثیر مراد لیا ہے جس میں  جنت کی نہر بھی شامل ہے چنانچہ بخاری کی روایت ہے کہ :

عن سعید بن جُبُیْر عبابن عباسؓ انہ قال فِی الکوثر ھُوالخَیْرُ الذی اَعطاہُ اللہُ ایَّاہُ۔ قالَ ابو بشرْ قُلتُ لِسعید بن جُبَیْرٍ فاِنّ النَاسَ یَزْ عَمُوْ نَ اَنَّہُ نَھْرٌ  فِی الجَنّۃِ۔ فقالَ سَعیدٌ اَلنَّھْرُالَّذِی فِی الجَنَّۃِ مِنَ الخَیْرِ الَّذِی اَعْطَاہُ اللُ اِیَّاہُ۔  (بخاری کتابُ التفسیر )

’’سعید بن جُبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں  کہ انہوں  نے فرمایا کوثر وہ خیر ہے جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا فرمایا۔ ابو بشر (راوی) کہتے ہیں  کہ میں  نے سعید بن جُبیر سے کہا : لوگوں  کا خیال ہے کہ وہ جنت کی ایک نہر ہے۔ سعید  نے جواب دیا کہ جنت کی نہر اسی خیر میں  سے ہے جو اللہ نے آپؐ کو عطا فرمایا ہے ‘‘

اسی طرح اس کے مفہوم میں وہ حوض بھی شامل ہے جو قیامت کے دن میدان حشر میں  آپ کو عطا کیا جائے گا جس کا پانی آپؐ اپنے مخلص پیروؤں  کو پلائیں  گے۔ حدیث میں  اس حوض پربھی کوثر کا اطلاق کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں  حضرت انس کی روایت ہے کہ آپؐ نے کوثر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا :

ھُو حوضٌ ترِدُ عَلَیہِ اُمَّتِی یَومَ القیامۃِ۔ (مسلم کتابُ الصلاۃ)

’’وہ ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت پہنچے گی۔ ‘‘

گویا جس خیر کثیر سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو نوازا ہے اس میں  یہ دو نعمتیں  خاص طور سے قابل ذکر ہیں  کیوں کہ یہ عظیم الشان اور گراں  قدر ہونے کے علاوہ آپؐ کے مخصوص فضائل میں  شامل ہیں  اور آیت کا اشارہ جس کو حدیث نبوی نے کھول دیا ہے خاص طور سے ان دو عطیات خداوندی کی طرف ہے۔ اور جس بخشش کا وعدہ اللہ تعالیٰ فرمائے اس کا ملنا چونکہ یقینی ہے اس لیے اس کو ماضی کے صیغہ میں  اَعْطَیْنَا (ہم نے عطا کیا) بیان فرمایا جو اس کی قطعیت کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ بہت بڑی بشارت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت دی گئی جب کہ مشرکین مکہ آپؐ کے دشمن ہو گئے تھے اور انہوں  نے آپؐ کو اذیت دینے میں  کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اس موقع پر یہ بشارت آپؐ کی تسلی کا باعث تھی نیز اس سے مخالفین پر یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ تم جس ہستی کو اذیت پہنچا رہے ہو وہ خدا کے نزدیک کیسی عظیم المرتبت ہستی ہے جس پر خیر و برکت کی مسلسل بارش ہو رہی ہے اور اس خیر و برکت کا ظہور کس طرح حوض کوثر اور  نہر کوثر کی شکل میں  ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود اگر تم اس کی شان میں  گستاخی کرنا چاہتے ہو تو کرو آسمان کو تو تم اس پر پھول نچھاور کرنے سے نہیں  روک سکتے !

نہر کوثر اور حوض کوثر کے سلسلہ میں جو بہ کثرت صحیح اور صریح حدیثیں  وارد ہوئی ہیں  ان سب کو بیان کرنا تو طوالت کا باعث ہو گا اس لیے ہم چند حدیثیں  ذیل میں  نقل کرتے ہیں  :

نہر کوثر کا مشاہدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج کے موقع پر کرایا گیا تھا۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ : لَمَّا عُرِجَ بِا لنَّبِیِّ صَلَّی اللہ علیہ و سلم اِلَی السَّماءِ قَالَاَتَیْتُ عَلی نَھْرٍ حَافّتَاہُ قِبَابُ للُؤ لُو مُجَوّفٌ   ، فَقُلْتُماھٰذَا یَاجِبْرِیلُ ؟ قَالَ ھٰذَا الْکَوثَرُ۔ (بخاری کتابُ التفسیر)

’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب معراج کے لیے آسمان پر تشریف لے گئے تو (وہاں  جو کچھ مشاہدہ کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے ) آپؐ نے فرمایا : میں  ایک نہر پر آیا جس کے دونوں  کناروں  پر مُجوّف (اندر سے خالی ) موتیوں  کے قبے بنے ہوئے تھے میں  نے پوچھا جبرئیل یہ کیا ہے ؟  فرمایا یہ کوثر ہے ‘‘۔

اور بخاری ہی کی دوسری روایت میں  یہ الفاظ ہیں  : ھٰذا الکوثر الذی اعطاکَ رَبُّکَ۔ بخاری کتاب الرقاق) ’’یہ وہ کوثر ہے جو آپؐ کے رب نے آپؐ کو عطا کیا ہے ‘‘

اور عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اَلکَوثَرُ نَھْرٌ فِی الجَنَّۃِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَھَبٍ وَمَجْراہُ عَلی الدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ ، تُرْبَتُہُ اَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ وَمَا ؤُ ہٗ  اَحْلیٰ مِنَ الْعَسَلِ وَاَبْیَضُ مِنَ الثَّلجِ۔ ( ترمذی ابوابُالتفسیر) ’’ کوثر جنت میں  ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں  اور وہ یاقوت پر بہتی ہے ، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے اور اس کا پانی شہد سے زیادہ شیریں  اور برف سے زیادہ سفید ہے ‘‘۔

اور حوض کوثر کے بارے میں  حضرت سہل بن سعد کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

اِنّی فَرَطُکُمْ عَلیٰ الحَوْضِ منْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ ، وَمَنْ شَرِبَ لَم یَظْ مَأ اَبَداً۔ (بخاری کتاب الرقاق)۔ ’’ میں  تم سے پہلے حوض پر پہنچوں  گا۔ جو میرے پاس آئے گا اس کا پانی پیئے گا اور جو کوئی اس کا پانی پیئے گا  اسے پھر کبھی پیاس محسوس نہ ہو گی ‘‘۔

عبد اللہ بن عمرو کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : حَوضِی مَسِیْرۃُ شَھْرٍ مَاؤُ ہٗ اَبْیَضُ مِنَ اللَّبَنِ وَرِیْحُہٗ  اَطْیَبُ مِنَ المِسْکِ وَکِیْزَانُہٗ کَنُجُوْمِ السَّمَاءَ مَنْ شَرِبَ مِنْھَا فَلَایَطْمَاُ اَبَداً۔ ( بخاری کتاب الرقاق)۔ ’’ میرے حوض کا طول (یا عرض) ایک ماہ کی مسافت کے بقدر ہو گا۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے بھی زیادہ عمدہ اور اس کے کوزے آسمان کے تاروں  کی طرح بہ کثرت ہوں  گے جو اس کا پانی پیے گا اس کو پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ ‘‘

عقبہ بن عامر کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک روز ممبر پر چڑھ کر فرمایا: اِنّی فَرَطٌ لَکُمْ وَ اَنَا شَھِیْدٌ  عَلَیْکُمْ وَاِنّی وَاللہ لَاَنْظُرُ اِلیٰ حَوْضِیْ الْآ نَ۔ (مسلم کتابُ الفضائل )۔ ’’میں  تم سے پہلے (حوض پر ) پہنچنے والا ہوں  اور تم پر گواہ ہوں  گا۔ قسم بخدا میں  اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘

انس بن مالک کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ الحَوْضَ رِجَالٌ  مِمَّنْ صَاحَبَنِی حَتَّی اِذارَأ یتُھُمْ و رُفِعُو اَ اِلَیّ اتُلِجُوْا دُوْنِی فَلَاَقُولَنَّ اَیْ رَبِّ اَصَیْحَابِیْ اُصَیْحَابِیْ فَلیُقَا لَنَّ لِی أِ  نَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوا بَعْدَکَ۔ (مسلم کتابُ الفضائل)۔ ’’ میرے حوض پر کچھ ایسے لوگ بھی آئیں  گے جو میرے ساتھ رہے ہیں۔ میں  جب انہیں  دیکھ لوں  گا اور وہ میرے پاس لائے جائیں  گے تو انہیں  میرے پاس سے ہٹا دیا جائے گا۔ میں  کہوں  گا کہ اے رب یہ میرے ساتھی ہیں۔ یہ میرے ساتھی ہیں۔ لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں  معلوم کہ آپ کے بعد انہوں  نے کیا کیا‘‘۔

اس طرح کی بہ کثرت حدیثیں  جو حوض کے بارے میں  وارد ہوئی ہیں  اس بات کی صراحت کرتی ہیں  کہ آپ کے اس حوض پر آپ کی امت وارد ہو گی۔ البتہ اس سے سیراب ہونے کا موقع ان ہی لوگوں  کو دیا جائے گا جو آپ کے مخلص پیرو ہوں  گے اور جنہوں  نے آپ کے طریقہ (سنت) میں  کوئی تبدیلی نہیں کی ہو گی۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس گراں  قدر عطیہ سے نوازے جانے پر تم اپنے رب کا شکر ادا کرو اور اس کی شکر گزاری کا طریقہ نماز اور قربانی ہے۔ گویا یہ عبارتیں  شکر کا بہترین مظہر ہیں اور خدا کے تقرب کا بہترین ذریعہ بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز سے جو شغف تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہو گا کہ آپؐ رات کو اٹھ کر دیر تک نماز میں  مشغول رہتے یہاں  تک کہ آپؐ نے فرمایا کیا میں  اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں  ( بخاری مسلم)۔ اسی طرح قربانی کے حکم کی تعمیل بھی آپ بڑی رغبت سے کرتے رہے۔ مدینہ میں  عید الضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنا آپؐ کا معمول رہا اور حجۃ الوداع کے موقع پر تو آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ۶۳ اونٹ ذبح کیے۔

متن میں  لفظ وَانْحَرْ  استعمال ہوا ہے جو اصلاً اونٹ کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے اور یہاں  اس سے مقصود ملت ابراہیمی کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں  اونٹ کی قربانی ایک شعار کے طور پر تھی بخلاف اس کے یہود اونٹ کی قربانی کو جائز نہیں  سمجھتے تھے۔ اس شعار کو زندہ کرنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ لازماً اونٹ ہی کی قربانی کی جائے ورنہ قربانی نہیں  ہو گی بلکہ جیسا کہ آپؐ کے قول و عمل ے ثابت ہے کہ قربانی دوسرے جانوروں  کی بھی کی جا سکتی ہے اس لیے یہاں  حکم کا اصل منشاء قربانی پر زور دینا ہے خواہ وہ ان جانوروں  میں  سے کسی جانور کی ہو جن کی قربانی مشروع ہے۔ حدیث میں  نحر کا لفظ گائے کی قربانی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے : عَنْ جَا بِرٍ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ َرسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عاَ الحُدَیبِیّۃِ اِلبَقَرَۃَ عن سبعۃ والبدنۃ عن سبعۃٍ : جابر کہتے ہیں  کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی، گائے سات افراد کی طرف سے اور اونٹ سات افراد کی طرف سے ‘‘۔

نماز اور قربانی کا جو حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا ہے وہ آپ کے توسط سے پوری امت کے لیے ہے جس طرح یہ امت کوثر کے عطیہ میں  آپؐ کی شریک ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر سے فیض حاصل کرے گی اسی طرح وہ نماز اور قربانی کے حکم میں  بھی جو آپؐ کو دیا گیا ہے آپؐ کی شریک و سہیم ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے اس حکم کا یہ پہلو بھی یہاں  واضح ہو رہا ہے کہ سورہ ماعون میں  مشرکین کی جس نماز کو بے حقیقت قرار دیا گیا ہے اس کے مقابلہ میں  تمہاری نماز خالصۃً اللہ کے لیے ہونی چاہیے جیسا کہ دوسری جگہ زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے : قُلْ انّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔ لَا شرِیْکَ لَہٗ۔ (الانعام۔ ۱۶۲)۔ ’’ کہو میری نماز ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں  ‘‘۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مشرکین کی ان گستاخیوں  کے جواب میں  ہے جو آپؐ کی شان میں  وہ کرتے تھے۔ وہ توہین آمیز کلمات کے ساتھ آپؐ کے خلاف پروپگنڈہ کرتے تھے کہ آپؐ کا تعلق شرک اور بت پرستی کی مخالفت کی وجہ سے قوم سے منقطع ہو گیا ہے۔ قریش کو دنیا میں  جو قوت و اقتدار اور عزت و سرفرازی حاصل ہے اس سے آپؐ بالکل محروم ہو گئے ہیں  اور اب آپؐ کی حیثیت ایک بے یارو مدد گار شخص کی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے جواب میں  فرمایا گیا کہ آپؐ کے مخالفین ہر طرح کے خیر سے محروم ہیں  اور ابد تک ان کے لیے محرومی لکھ دی گئی ہے۔

یہ در حقیقت ایک پیشین گوئی تھی جو بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ دشمنان رسول اس طرح ذلیل و خوار اور تباہ و برباد ہوئے کہ ان کا نام و نشان بالکل مٹ گیا اور اللہ کے رسول کو ایسی عزت و سرفرازی حاصل ہوئی کہ کروڑ ہا لوگ آپؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں  اور قیامت تک بھیجتے رہیں  گے۔

واضح رہے کہ اس پیشین گوئی کا تعلق صرف اس زمانہ کے دشمنان رسول ہی سے نہیں  تھا بلکہ ہر زمانہ میں  پیدا ہونے والے دشمنان رسول سے ہے۔ جو بھی آپؐ کی شان میں  گستاخی کرے گا یا آپؐ کی مخالفت کرے گا اس کے لیے خیر سے محرومی مقدر ہے اور وہ ذلیل ہو کر رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۱۰۹)۔ سورہ الکافرون

 

(۶ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  الکافرون (کافرو !) کا لفظ آیا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْکَافِرون ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ مکہ کے آخری دور کی تنزیل ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

غیر اللہ کی پرستش سے بیزاری اور کفار کے دین سے قطعی بے تعلقی کا اطہار و اعلان ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت دی گئی ہے کہ کافروں  کو مخاطب کر کے دو ٹوک الفاظ میں  اعلان کر دو۔

آیت ۲ اور ۳ میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ پرستش کے معاملہ میں  میرا موقف کیا ہے اور تمہارا کیا۔

آیت ۴ اور ۵ میں  یہ اعلان کہ پرستش کے معاملہ میں کسی قسم کی رواداری برتنے یا کسی بھی مصالحتی فارمولے کو قبول کرنے کا سوال پیدا نہیں  ہوتا۔

آیت ۶ میں  کفار کے دین سے اظہار برأت ہے۔

 

حدیث

 

حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتوں  میں  نیز حجۃ الوداع کے موقع پر طواف کی دو رکعتوں  میں  سورہ قَلْ یٰٓاَیُّھَاالْکٰفِرُوْنَ اور سورہ قُلْ ھُوَاللہُ اَحَدٌ پڑھی تھیں۔

(مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین بروایت ابو ھریرۃ اور کتابُ الحج بروایت جابر بن عبد اللہ)

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ ۱*  دو اے کافرو! ۲*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ میں  ان کی پرستش نہیں  کرتا جن کی پرستش تم کرتے ہو ۳*۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ تم اس کی پرستش کرتے ہو جس کی پرستش میں  کرتا ہوں  ۴*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ میں  ان کی پرستش کرنے والا ہوں  جن کی پرستش تم نے کی ۵*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ تم اس کی پرستش کرنے والے ہو جس کی پرستش میں  کرتا ہوں  ۶*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۷*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مخاطب وہ لوگ ہیں  جن پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ حق اچھی طرح واضح ہو چکا تھا اور اس کے باوجود وہ کفر پر جمے رہے۔

کافر کے لفظی معنیٰ انکار کرنے والے کے ہیں  اور قرآن کی اصطلاح میں  کفر ایمان کے مقابل کا لفظ ہے اور کافر سے مراد وہ شخص ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ اس دین اس دین کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ صرف اسی کی عبادت کرے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ جو شخص غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے خواہ وہ بت پرستی کی شکل میں  ہو یا بھومی پوجا کی شکل میں  اور خواہ وہ دیوی دیوتاؤں  کو مدد کے لیے پکارتا ہو یا کسی فرضی خدا کے بھجن گاتا ہو ، کھلا ہوا شرک ہے اور جو مذہب بھی اس شرک کی اجازت دیتا ہے۔ وہ مشرکانہ مذہب  ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے کہ اس شرک کی جڑ کاٹ دیں  اور انسان  کو خدائے واحد کا پرستار بننے کی دعوت دیں۔

یہ دعوت آپؐ نے دلائل و شواہد کے ساتھ پیش فرمائی اور فہمائش کا بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کیا۔ یہ دعوتی جدو جہد ایک عرصہ تک جاری رہی یہاں  تک کہ حق اچھی طرح واضح ہو گیا اور اللہ کی حجت اس کے بندوں  پر قائم ہو گئی۔ دعوت ک اس مر حلہ میں  داخل ہونے کے بعد جو لوگ کفر پر بضد ہوئے اور رسول کی مخالفت اور دشمنی پر اتر آئے ان سے اے کافرو ! کہہ کر خطاب کیا گیا جو بالکل بر محل تھا لیکن اس سے مقصود مخالفین کو برا بھلا کہنا نہیں  تھا بلکہ ان کے منکر حق ہونے کا برملا اظہار کرنا تھا تاکہ واضح ہو جائے کہ خدا کی حجت ان پر قائم ہو چکی ہے اور ان کے کفر کی پاداش میں  غضب الہیٰ ان پر ٹوٹنے والا ہے یہ بات اگر چہ کہ کفار مکہ پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے اور وہی اس کے مخاطب اول تھے لیکن اصولی طور پر یہ بات ان لوگوں  پر بھی منطبق ہوتی ہ۔ جو کفار مکہ کی سی ہٹ دھرمی اختیار کریں۔ اور مدعا یہ ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے کافروں  پر اللہ کی حجت برابر قائم ہوتی رہے نیز اس کے ذریعہ مسلمانوں  کو بھی یہ سبق دینا مقصود ہے کہ کافروں  کی راہ الگ اور اہل ایمان کی راہ الگ ہے اور دونوں  کے درمیان ایسی وسیع خلیج حائل ہے کہ وہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ہر گز معاملہ نہیں  کر سکتے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد بت ہیں  جن کی پوجا مشرکین مکہ کرتے تھے نیز وہ تمام معبود بھی جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کیا کرتے تھے۔

پرستش کے سلسلہ میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے موقف کو واضح کرنے کا حکم دوسری سورتوں  میں  بھی دیا گیا ہے مثلاً سورہ یونس میں  فرمایا :

قُلْ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُ وْ نَ مِنْ دُونِ اللہِ وَلٰکِنْ اعْبُدُ اللہَ الَّذِیْ یَتَوَ فّٰکُمْ۔ (یونس ۱۰۴ ) ’’ کہو اے لوگو ! اگر تم میرے دین کے معاملہ میں  شک میں  ہو تو سن لو کہ میں  ان کی پرستش نہیں  کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو بلکہ صرف اللہ کی پرستش کرتا ہوں  جو تمہاری روح قبض کرتا ہے‘‘۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین مکہ خدا کے قائل تھے اور اس کی پرستش سے بھی انہیں  انکار نہیں  تھا لیکن وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں  تھے کہ بتوں  کو چھوڑ کر خدائے واحد کی پرستش کی جائے۔ وہ اگر خد کی پرستش کرتے تھے تو وہ شرک کے ساتھ ہوتی تھی اس لیے ان پر واضح کیا گیا کہ نہ یہ خدا کی پرستش ہے اور نہ ہی تم خدا کے پرستار ہو۔ خدا کی پرستش کے ساتھ کوئی اور پرستش جمع نہیں  ہو سکتی اس لیے اگر تمہارا گمان یہ ہے کہ تم بھی خدا کے پرستار ہو تو یہ تمہاری خام خیالی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین چاہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے بتوں  کی پرستش کریں  تاکہ مصالحت کی کوئی شکل پیدا ہو۔ سورہ زُمَر میں  ن کے اس مطالبہ کا جواب بڑے سخت انداز میں  دیا گیا ہے۔ فرمایا:

قُلْ اَفَغَیْرَ اللہِ تَاْمُرُوْنِیْ۔ (الزمر۔ ۶۴ ) ’’ کہو اے جاہلو ! پھر کیا تم مجھ سے مطالبہ کرتے ہو کہ میں  اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش کروں؟‘‘۔

اور یہاں  بھی انہیں  سخت مایوس کن جواب دیا گیا ہے تاکہ وہ اس سلسلہ میں  سمجھوتہ کی کوئی امید نہ رکھیں۔ آیت ۲ اور آیت ۴ میں  تکرار نہیں  ہے بلکہ اس لحاظ سے فرق ہے کہ آیت ۲ میں  حال سے متعلق آپ نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے اور آیت ۴ میں  آئندہ کے لیے اپنے موقف اور اپنے عزم کا اظہار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ میں  تمہارے معبودوں  کی پرستش کرتا ہو اور نہ مجھ سے آئندہ کے لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ میں  اس معاملہ میں  کوئی نرمی یا لچک پیدا کروں  گا۔ میں  حتمی طور پر اور ہمیشہ کے لیے تمہارے معبودوں  سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہوں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری ہٹ دھرمی کی بنا پر تم سے یہ توقع نہیں  کی جا سکتی کہ تم اپنے معبودوں  کو چھوڑ کر میرے معبود کی عبادت کرنے والے بن جاؤ گے۔

اس کا یہ مطلب نہیں  کہ ان کفار میں  سے آئندہ کسی کے بھی ایمان لانے کا کوئی امکان باقی ہی نہیں  رہا کیونکہ ان میں  ایسے بھی تھے جو بعد میں  حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ تمہارے اندر میرے معبود کی پرستش کے لیے کوئی آمادگی نہیں  پائی جاتی اور تم اپنے بتوں  ہی کے پجاری بن کے رہنا چاہتے ہو اس لیے میں  تم سے اعلان برأت کرتا ہوں  جب تک کہ تم اپنے اس کافرانہ اور مشرکانہ رویہ سے باز نہ آ جاؤ۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب پرستش کے معاملہ میں  جو خدا سے تعلق کی اصل بنیاد ہے جب میرے اور تمہارے درمیان کوئی اشتراک نہیں  ہے تو دونوں  کا دین ایک کس طرح ہو سکتا ہے اور سمجھوتہ اور رواداری کا سوال پیدا ہی کہاں  ہوتا ہے۔ اگر تم میری دعوت قبول کرنا نہیں  چاہتے تو تم اپنے موقف پر رہ اور میں  اپنے موقف پر قائم ہوں  یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر فرمائے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی سورہ یونس میں  فرمائی گئی ہے۔

وَاِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْوَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ۔ اَنْتُمْ بَرِ یْئُو نَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَ نَا بَرِئٌ  مِمَّا تَعْمَلُوْنَ (یونس۔ ۴۱ )

’’ اور اگر یہ تمہیں  جھٹلاتے ہیں  تو کہ دو کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے۔ میں  جو کچھ کرتا ہوں  اس سے تم بری ہو اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے میں  بری ہوں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑی بے باکی کے ساتھ اپنی قوم سے اعلان برأت کیا تھا جس کو قرآن نے اہل ایمان کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے :

قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ  حَسَنَۃٌ  فِیْ اِبْرَا ہِیْمَ وَ الَّذ ِیْنَ  مَعَہٗ۔ اِذْ قَالُو ا لِقَوْ مِھِمْ اِنَّا بُرَ  أ ؤُ مِنْکُمْ وَ مِمّا تَّعْبُدوْنَ مِنْ دُوْنِ الِلہِ کَفَرنَا بِکُمْ وَبَدَ ا بَیْنَکُمْ العَدَا وَۃُ وَ البَغْضَاءُ اَبَداً حَتّی تُو مِنُوْ ا بِاللہِ وَحْدَہٗ۔ (الممتحنہ۔ ۴ )

’’تمہارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں  میں  ایک اچھا نمونہ ہے۔ جب انہوں  نے اپنی قوم سے کہا ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ان سے بالکل بُری ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور نفرت ہو گئی۔ جب تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے آؤ۔ ‘‘

غرض یہ کہ یہ آیت کفار کے رویہ سے بیزاری اور ان کے دین سے بے تعلقی کا اعلان ہے اس لیے اس کو رواداری کے مفہوم میں  لینا اور اس سے استدلال کرتے ہوئے مشرکانہ مذاہب کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے سیاہ کو سفید سمجھ لینا یا رات کو دن ثبت کرنے کی کوشش کرنا۔

آج کل مذہبی رواداری کے نام پر وحدت ادیان (سب مذہب یکساں  ہیں  ان میں  حق و باطل کا کوئی امتیاز نہیں  ) کے نظریہ کو بڑے دلفریب انداز میں  پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا پرچار کرنے والے چاہتے ہیں  کہ خدا کو بتوں  کی صف میں  بٹھائیں  (تعالیٰ اللہُ عَمّا یُشرِکون) اور شرک اور توحید کا معجون مرکب تیار کریں۔ یہ لوگ اپنا شوق تو پورا کر سکتے ہیں  لیکن حق کو باطل کے ساتھ ہر گز نہیں  جمع کر سکتے۔ جس طرح دن اور رات دونوں  بیک وقت جمع نہیں  ہو سکتے اسی طرح حق اور باطل کو جمع کر نے کی کوشش بھی فضول ہے اور جہاں  تک قرآن کا تعلق ہے اس کی یہ سورہ ہی اس نظریہ کو باطل قرار دینے کے لیے کافی ہے اس لیے جو لوگ اسلام اور کفر کا ملغوبہ تیار کرنا چاہتے ہیں  وہ ہر گز یہ توقع نہ رکھیں  کہ انہیں  قرآن کی تائید حاصل ہو سکے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۱۱۰)۔ سورہ اَلنَّصْر

 

(۳ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  نَصْرِ (نُصرت الہیٰ) کے آنے کا ذکر ہوا ہے جس کی مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلنَّصْر ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی یہ آخری سورہ ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۵۶۱ بحوالہ نسائی ) سورہ کے مضمون سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے نیز جیسا کہ ابن عباس ک بیان ہے اس سورہ میں  یہ اشارہ موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے ابن عباس سے کہا کہ تم : اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَ الْفَتْحُ کے بارے میں  کیا کہتے ہو۔ انہوں  نے کہا کہ اس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دی گئی ہے کہ جب اللہ کی نصرت اور فتح آ گئی تو آپ کا وقت آن پورا ہوا لہٰذا آپؐ اللہ کی حمد و تسبیح اور استغفار کریں۔ حضرت عمر نے فرمایا میں  بھی یہی سمجھتا ہوں۔ (بخاری کتابُ  التفسیر) معلوم ہوا کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ آپؐ کی وفات کا وقت بالکل قریب آ گیا تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

نصرت الٰہی اور غلبہ دین کے ظہور پر بارگاہ خداوندی میں  نذرانہ شکر پیش کرنا یعنی حمد و تسبیح اور استغفار کرنا۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ میں  اللہ کی نصرت اور اس کی طرف سے ظاہر ہونے والی فتح۔۔  فتح مکہ۔۔ کا ذکر ہے۔

آیت ۲ میں  لوگوں  کے اجتماعی شکل میں  حلقہ بہ گوش اسلام ہونے کا ذکر ہے۔

آیت ۳ میں  اس فضل کے حاصل ہونے پر خدا کی مزید حمد و تسبیح ور استغفار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اللہ کی مدد اور فتح آ گئی ۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں  فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں  ۲ *

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ ۳*  اور اس سے مغفرت مانگو۴*۔ یقیناً وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ۵*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نَصْر (مدد) سے مراد وہ نُصرت ہے جس کا ظہور غلبہ حق کی شکل میں  ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں  سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ لازماً ان کے مخالفین کے مقابلہ میں  ان کی مدد فرمائے گا :

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَا لَّذِینَ آمَنُوْا فِی الحَیٰوۃ ا لدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُو مُ ا لْاَشْھَادُ۔ (المؤ من۔ ۵۱)

’’ یقیناً ہم اپنے رسولوں  کی اور ایمان لانے والوں  کی اس دُنیا میں  بھی مدد کرتے ہیں  اور اس دن بھی کریں  گے جب کہ گواہ کھڑے ہوں  گے ‘‘۔

اس مدد کا پورا پورا ظہور اس وقت ہوتا ہے جبکہ حق و باطل کی کشمکش آخری مرحلہ میں  داخل ہو جاتی ہے۔ اور یہی وہ مدد ہے جس کا انتظار رسول کے ساتھیوں  کو ہوتا ہے۔

مَتیٰ نَصْرُ اللہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْبٌ۔ (البقرہ۔ ۲۱۴)

’’ کب آئے گی اللہ کی مدد؟ یقین جانو ! اللہ کی مدد قریب ہے ‘‘۔

اور اسی مدد کو سورہ فتح میں  نَصْراً عَزِیْزاً (زبردست نصرت) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے جو ایک فیصلہ کن فتح تھی اور جس کے بعد مشرکین کا زور ٹوٹ گیا اور عرب میں  اسلام کو مکمل غلبہ حاصل ہوا۔

فتح مکہ کا واقعہ رمضان ۸ ھ (جنوری ۵۳۰ ء) کا ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دس ہزار جانباز ساتھیوں  کو لے کر مدینہ سے روانہ ہو گئے تھے۔ مکہ میں   آپؐ بغیر کسی قابل ذکر مزاحمت کے داخل ہوئے۔ اور اعلان فرمایا کہ جو شخص بھی ہتھیار ڈال دے گا اس امن دیا جائے گا۔ جو لوگ اسلام دشمنی میں  پیش پیش رہے تھے ان کو بھی آپؐ نے عام طور سے معاف کر دیا۔ اس موقع پر کتنے ہی لوگ آپؐ کی خدمت میں  حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ خانہ کعبہ میں  جو ایک بُت شکن رسول۔۔۔۔ حضرت ابراہیم۔۔۔۔ کا تعمیر کردہ تھا قریش نے ۳۶۰ بت بٹھائے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نجاست سے خانہ کعبہ کو پاک کیا۔ بتوں  کو لکڑی سے گراتے جاتے اور یہ آیت پڑھتے جاتے :

جَاءَ الحقُّ وَزَھَنَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَا طِلَ کَا نَ زَھُوْ قاً ( بنی اسرائیل۔ ۸۱ )

’’ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کے لیے تھا۔ ‘‘

ان بتوں  میں  سب سے بڑا بت ہبل تھا۔ بت پرست جنگ کے موقعہ پر اسی کی جے پکارتے تھے لیکن آج وہ خود ڈھیر ہو گیا تھا شکست سے دوچار ہونے والوں  کی وہ کیا مدد کرتا۔ اس کے بعد آپؐ نے اس فتح یابی پر نماز شکر ادا کی اور صدائے تکبیر بلند کرتے ہوئے یہ حقیقت افروز اعلان فرمایا :

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ صَدَ قَ وَّعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الاحزاب وَحْدَہٗ۔ (ابو داؤد کتابُ الدّیات)

’’ اللہ جس کے سوا کوئی اِلٰہَ نہیں  اس نے اپنا وعدہ سچا کیا، اپنے بندہ کی مدد ی اور تمام جتھوں  کو تنہا شکست دی ‘‘۔

واضح رہے کہ عربی میں  اِذَا عام طور سے مستقبل کے لیے آتا ہے لیکن کبھی کبھی ماضی کے لیے بھی آتا ہے اور یہاں  قرینہ نیز حضرت ابن عباس کا مذکورہ بیان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ماضی کے مفہوم میں  ہے اس لیے ہم نے آیت کا ترجمہ ’’ جب اللہ کی مدد اور فتح آ گئی ‘‘۔ کیا ہے جب کہ عام طور پر اس کا ترجمہ ’’ جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح آئے‘‘ یا ’’ آئے گی ‘‘ کیا جاتا ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ فتح مکہ کا اثر قریش تک محدود نہیں  رہا بلکہ عرب کے مختلف علاقوں  میں  جو قبائل آباد تھے ان پر اس کے زبردست اثرات پڑے۔ ان قبائل کے نمائندے وفود کی شکل میں  مدینہ آنا شروع ہوئے اور ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں  بہ کثرت وفود نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں  حاضر ہو کر قبول اسلام کا اعلان کیا اور اجتماعی شکل میں  لوگ اسلام میں  داخل ہونے لگے۔ جس دین کے لیے قریش اکیس (۲۱) سال تک رکاوٹیں  پیدا کرتے رہے وہ دو سال کے اندر عرب کے گوشہ گوشہ میں  پھیل گیا یہاں  تک کہ اس سر زمین پر کوئی مشرک باقی نہ رہا۔ گویا فتح مکہ اس زبردست انقلاب کی تمہید تھی۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غلبہ دین اور لوگوں  کے قبول اسلام کا یہ روح پرور منظر جو آپ نے دیکھا نصرت الٰہی کا نتیجہ ہے اس لیے اس فضل کے حاصل ہو جانے پر اے نبی آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور چونکہ آپ کی بعثت کا مقصد پورا ہو گیا ہے اس لیے آپ کو خدا کی حمد و تسبیح میں  زیادہ مشغول ہو جانا چاہیے۔

اس سے یہ اہم حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کا اصل نصب العین خدا کو پانا ہے اور اس کے لیے اسے اپنی آخری سانس تک سعی و عمل کرنا ہے۔ غلبہ دین کی جد و جہد کے مرحلہ میں  بھی اور اس کی تکمیل کے بعد بھی۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں  خدا سے یہ دعا کرنا چاہیے کہ اس خدمت کو انجام دینے میں  جو کوتاہیاں  ہوئی ہوں  اور ذمہ داریوں  کی ادائیگی میں  بھول چوک ہوئی ہو اسے وہ معاف فرمائے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ہدایت کے کر اہل ایمان کی رہنمائی اس بات کی طرف کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی خدمت کے انجام پانے یا کسی فتح و کامرانی کے حاصل ہو جانے پر دنیا دار لوگوں  کی طرح اترانے اور فخر کرنے کے بجائے اسے اللہ کے فضل اور اس کی توفیق کا نتیجہ سمجھیں  اور اس کی حمد و تسبیح کریں  کہ تعریف کا مستحق وہی ہے نیز اس احساس کے ساتھ کہ معلوم نہیں  اس خدمت کے انجام دے دینے میں  کیا کیا کوتاہیاں  ہوئی ہوں  گی اپنے رب سے نہایت عاجزی کے ساتھ معافی کے خواست گار ہوں۔ ایسے موقع پر اہل ایمان کا رویہ یہی ہونا چاہیے اور انہیں  ان طور طریقوں  سے احتراز کرنا چاہیے جو ان کے اندر احساس بندگی کے بجائے احساس بر تری پیدا کرنے والے ہوں۔

ایسی عظیم فتح اور ایسا زبردست غلبہ حاصل ہو جانے کے بعد قرآن نے جشن منانے کا حکم نہیں  دیا بلکہ بار گاہ خداوندی میں  شکر و بندگی کا نذرانہ پیش کرنے کا حکم دیا جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم وحی الٰہی ہے اور اس کو پیش کرنے والی شخصیت پیغمبر خدا ہی کی شخصیت ہو سکتی ہے۔

حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم دن میں  سو (۱۰۰) مرتبہ استغفار پڑھا کرتے تھے (مسلم کتابُ الذکر) نیز بخاری کی حدیث میں  ہے کہ اس سورہ کے نازل ہونے کے بعد آپ رکوع و سجود میں  بہ کثرت یہ پڑھا کرتے تھے۔

سَبْحَانَکَ اَللَّھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اَ لَّلھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ (بخاری کتاب التفسیر)

’’ پاکی تیرے ہی لیے ہے اے اللہ ہمارے رب میں  تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں۔ خدایا میری مغفرت فرما۔ ‘‘

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تواّب (بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا) بیان  ہوئی ہے جو منفی اور مثبت دونوں  پہلوؤں  کو لیے ہوئے ہے۔ منفی پہلو کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بندہ اس سے معافی مانگے اور توبہ کرے تو وہ اس کو معاف کر دیتا ہے اور اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور مثبت پہلو  کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جب اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ بندہ کی طرف اپنی مہربانیوں  کے ساتھ متوجہ ہو جاتا ہے۔ یہاں  اس صفت کا ذکر اس مفہوم میں  ہے کہ تم امید رکھو کہ وہ نہ صرف تمہاری معافی کی درخواست (استغفار) قبول فرمائے گا بلکہ تم پر اپنی نظر عنایت بھی فرمائے گا اور اپنی مہربانیوں  کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۱۱۱)۔ سورہ اللھب

 

(۳ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۳ میں  لہب کا لفظ آیا ہے جس کے معنی شعلہ کے ہیں۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَللَّھَبْ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے آخری دور میں  نازل ہوئی ہو گی کیونکہ اس میں  ابو لہب کا نام لے کر اس کا انجام بد بیان کیا گیا ہے اور انبیاء علیہم السلام کسی کا انجام بد اس پر حجت قائم کرنے کے بعد ہی بیان کرتے ہیں۔ اس لیے یہ سورہ سورہ کافرون کے بعد ہی نازل ہوئی ہو گی جس میں  کافروں  سے اعلان برأت کیا گیا ہے۔

 

 

مرکزی مضمون

 

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بد ترین دشمن کے انجام بد سے لوگوں  کو آگاہ کرنا ہے تاکہ قیامت تک پیدا ہونے والے دشمنان رسول اور مخالفین اسلام اس سورہ کے آئینہ میں  اپنا عکس دیکھ لیں۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں  دشمن رسول ابو لہب کا درد ناک انجام بیان کیا گیا ہے اور  آیت ۴ اور ۵ میں  اس کی بیوی کے عبرتناک انجام کا منظر پیش کیا گیا ہے جو اس دشمنی میں  اپنے شوہر کی ہمنوا اور شریک کار تھی۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹوٹ  گئے ابو لہب۱*  کے دونوں  ہاتھ ۲*  اور وہ تباہ ہو گیا۳*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کچھ کام نہ آئی۴*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عنقریب شعلہ زن آگ میں  داخل ہو گا ۵*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن اٹھائے ہوئے ہو گی ۶*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی گردن میں  مضبوط رہی ہو گی ۷*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو لہب کنیت ہے۔ اصل نام عبدالعزّیٰ تھا جس کے معنی ہیں  عُزّیٰ دیوی کا بندہ۔ چونکہ یہ مشرکانہ نام تھا اس لیے قرآن نے اس کا ذکر اس کے مکروہ نام سے کرنے کے بجائے اس کی کنیت سے کیا۔ ابولہب قریش کے خاندان  بنی ہاشم۔ کا رکن رکین، عبدالمطلب کا بیٹا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا چچا تھا۔

جن وجوہ سے اس کی زندگی میں  اس کی قسمت کا فیصلہ چکایا گیا ور اس کے انجام سے باخبر کرنے کے لیے ایک مکمل سورہ نازل کی گئی وہ مختصراً درج ذیل ہے۔

اولاً : ابولہب خانہ کعبہ کا متولی تھا اور خدا کے گھر کو بت کدہ بنائے رکھنے پر اصرار نیز بت پرستی میں  اس کا انہماک اس کا ب سے بڑا اور سنگین جرم تھا۔

ثانیاً : جو جاہ و منصب اس کو حاصل تھا اس نے اس کے اندر غرور و تکبر پیدا کر دیا تھا اور اسرکشی و بغاوت کا رویہ اختیار کر کے وہ فرعون کے مقام پرجا بیٹھا تھا۔

ثالثاً : دعوت اسلامی کی مخالفت کا آغاز اسی نے کیا تھا اس لی امامت کفر اس کا مقدر بن گئی۔

رابعاً : وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا کٹر دشمن تھا اور اس دشمنی میں اس نے تمام اخلاقی حدود کو پھاند ڈالا تھا یہاں  تک کہ رشتہ رحم کو کاٹتے میں  بھی وہ سب سے آگے نکل گیا۔ اس کی واضح مثال اس کا و طرز عمل ہے جو اس نے آپ کے معاشرتی ور معاشی بائیکاٹ کے سلسلہ میں  اختیار کیا۔ قریش کے بائیکاٹ کرنے پر جب آپ نے شعب ابی طالب میں  پناہ لی تو ابو لہب نے کفار قریش کا ساتھ دیا اور اسے اپنے بھتیجے پر اس وقت بھی رحم نہیں  آیا جب کہ وہ فاقہ کے دن گزار رہا تھا۔ (ابن ہشام ج ۱ ص ۳۷۲ )

خامساً : وہ زندگی بھر اسلام کی راہ کا کانٹا بنا رہا اور توحید کی مخالفت میں سب ے زیادہ سرگرم رہا چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عم قبائل عرب کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو ابولہب اس سے لوگوں  کو متنفر کرتا رہا۔ ربیعہ بن عباد کا بیان ہے کہ میں  نے  ذوالمجاز کے بازار میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ کہہ رہے ہیں  لوگو! ’’لا الہ الا اللہ (اللہ کے سو کئی معبود نہیں ) کہ فلاح پاؤ گے ‘‘۔ اور آپ کے پیچھے پیچھے ایک شخص کہتا جاتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے اس کی بات نہ مانو۔ میں  نے لوگوں  سے پوچھا یہ کون ہے ؟  انہوں  نے کہا یہ ان کا چچا ابولہب ہے۔ (ابن کثیر ج ۱ ص ۵۱۴ بحوالہ احمد)

سادساً : بخل اور زر پرستی میں  وہ اپنے زمانہ کا قارون تھا۔

سابعاً : اس کو اپنے خداؤں  پر بڑا ناز تھا چنانچہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بائیکاٹ میں  قریش کا ساتھ دیتے ہوئے ہند بن عتبہ سے کہا تھا ’’ جس شخص نے لات و عزیٰ کو چھوڑ دیا ہے اس کو چھوڑ کر کیا میں  نے ان خداؤں  کی مدد نہیں  کی؟ ہند نے کہا ’‘ ہاں  اور اللہ تجھے جزائے خیر دے ‘‘۔ (ابن ہاشم ج ۱ ص ۳۸۲ )

ابو لہب کے انجام کی یہ خبر در حقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ اگر پیغمبر کا چچا بھی کفر کرے تو وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہیں  سکتا۔ اس کا قانون عدل بے لاگ اور خاندان و نسب کے اثرات سے بالا تر ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد اس کے جسمانی ہاتھوں  کا تباہ ہو جانا بھی ہے جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت میں  وہ اٹھایا کرتا تھا اور اس کے زور کا ٹوٹ جانا اور اس کی شوکت کا ختم ہو جانا بھی۔ اس نے اللہ کے کلمہ کو پست کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا مگر وہ اپنے مقصد میں  بری طرح ناکام رہا۔ جنگ بدر میں  اس کا زور ٹوٹ گیا۔ اس کے حامی و ناصر بری طرح مارے گئے اور اس کی شان و شوکت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس طرح وہ پیشن گوئی پوری ہوئی جو اس آیت میں  کی گئی تھی۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ جب آیت : وَاَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ (شعراء ۲۱۴)  (اپنے قریب ترین رشتہ داروں  کو ڈراؤ ‘۔ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صف پر چڑھ کر پکارا: یا صباحاہ (صبح کے خطرہ سے ہوشیار! ) لوگوں  نے کہا یہ کون پکار رہا ہے ؟ پھر وہ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے فرمایا اگر میں  تمہیں  یہ بتاؤں  کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے آ رہا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانو گے ؟ لوگوں  نے کہا ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں  دیکھا۔ آپ نے فرمایا تو دیکھو میں  تمہیں  آنے والے عذب عظیم سے خبر دار کرتا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب نے کہا : تباً لَکَ مَا جَمَعْتَنَا اِلَّا لِھٰذا  (تباہ ہو جائے تو۔ کیا تو نے ہمیں  اسی لیے جمع کیا تھا ؟) اس پر : تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّ (ٹوٹ گئے ابو لہب کے دونوں  ہات اور وہ تباہ ہوا ) نازل ہوئی (بخاری کتابُ التفسیر)۔

اس کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ سورہ لہب اسی وقت نازل ہوئی کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے ، کسی کے حق میں  عذاب کا فیصلہ اسی وقت سنایا جاتا ہے جب کہ اسے آخری حد تک مہلت دی جا چکی ہو اور اس کے بعد وہ اپنے کفر و سرکشی پر اڑا رہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابولہب کی یہی وہ حرکتیں  تھیں  جن کی وجہ سے بالآخر وہ معتوب قرار پایا اور یہ سورہ اس کی حرکتوں  کا ٹھیک ٹھیک جواب ہے۔۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگ بدر میں  اس کے حامیوں  کی شکست کا اسے زبردست صدمہ ہوا اور اس کے بعد وہ خود بھی تباہ ہوا چنانچہ اس کی موت تباہی کی صورت میں  ہوئی اور آخرت کا درد ناک عذاب بھی اس کے لیے مقدر ہوا۔ جنگ بدر میں  وہ شریک نہیں  ہوا ور اس جنگ کو ختم ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ چیچک کے مرض میں  مبتلا ہونے کی وجہ سے اس کی موت واقعہ ہو گئی اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لاش تین دن تک اس کے گھر میں  پڑی سڑتی رہی مگر کوئی اس کو ٹھکانے لگانے والا نہ تھا کیونکہ قریش چیچک کے مرض کو چھوت کا مرض خیال کرتے تھے۔ بالآخر اس کے لڑکوں  نے اس کی لاش ایک دیوار کی آڑ میں  اس طرح دفن کر دی کہ دور  ہی سے اس کی قبر پر پتھر پھینکتے رہے۔ (البدیہ والنہایہ ج ۳ ص ۳۰۹)۔

آج ابولہب کا نام لینے والا کوئی نہ رہا البتہ اس پر لعنت بھیجنے کے لیے ایک پوری امت موجود ہے جو اپنی نمازوں  میں  سورہ لہب پڑھ کر اس دشمن رسول پر لعنت بھیجتی رہتی ہے۔ اس طرح قرآن کی یہ پیشین گوئی کہ رسول کو غلبہ حاصل ہو گا اور دشمن رسول تباہ ہو گا حرف بہ حرف پوری ہوئی قرآن کی صداقت کا یہ ایسا ثبوت ہے جو تا قیامت باقی رہے گا۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نہ اس کی وہ دولت خدا کی پکڑ سے اسے بچا سکی جس پر اسے ناز تھا اور نہ وہ اعمال ہی اس کے کچھ کام آ سکے جو جھوٹی مذہب پرستی کی بنیاد پر اس نے انجام دئے تھے۔

قرآن میں  اعمال کے لیے کَسَب (کمائی) کا لفظ بہ کثرت استعمال ہوا ہے۔ یہاں  بھی یہ اسی مفہوم میں  ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس کا اخروی انجام ہے جو قیامت کے دن اس کے سامنے آئے گا۔

ابو لہب اور نَاراً ذاتَ لَہَبْ (بھڑکتی آگ) میں  بڑی مناسبت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے دل میں  بغض و حسد کی جو آگ تھی وہ قیامت کے دن بھڑک اٹھے گی۔ جزاء در حقیقت انسان کے عمل ہی کا نتیجہ ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ابولہب کی بیوی کا نام اُم جمیل تھا۔ یہ ابو سفیان کی بہن تھی اور چونکہ اسلام دشمنی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بغض و عداوت میں  وہ اپنے شوہر کی معاون اور مخالفانہ سرگرمیوں  میں  اس کی شریک تھی اس لیے اس کا انجام بھی بیان فرمایا۔

وہ جہنم میں  اپنے شوہر کے لیے ایندھن ڈھونے کا کام کرے گی کیونکہ اس نے عداوت کی آگ بھڑکائی تھی۔ حَمَّالَۃَالحَطَبِ (ایندھن اٹھانے والی ) کا مطلب سعید بن جبیر نے گناہوں  کا بوجھ اٹھانے والی بیان کیا ہے (فتح القدیر للشو کانی ج ۵ ص ۵۱۲)۔ قیامت کے دن مجرمین کا جو حال ہو گا وہ قرآن میں  اس طرح بیان کیا گیا ہے :

وَھُمْ یَحْمِلُوْ نَ اَوْزَا رَھُمْ عَلیٰ طُھُوْرِ ھِمْ۔ (الانعام۔ ۳۱ ) ’’ وہ اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں  پر لادے ہوئے ہوں  گے ‘‘

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں  اس کی گردن میں  مضبوط رسی پڑہ ہوئی ہو گی۔ گویا اس کا حال اس لونڈی کا سا ہو گا جو سر پر لکڑیاں  (ایندھن) اٹھائے ہوئے ہو اور جس کی گردن میں  بٹی ہوئی رسی پڑی ہو۔ قیامت کے دن اسے ذلت کا جو عذاب  چھکنا ہو گا اس کی یہ تصویر ہے۔

سعید بن مسیب کہتے ہیں  کہ اس کی گردن میں  جواہرات کا قیمتی ہار تھا اور وہ کہا کرتی تھیکہ لات و عزیّ (بتوں  کے نام) کی قسم میں  اسے محمد کی عداوت میں  خرچ کروں  گی اس لیے قیامت کے دن اس کے جسم میں  یہ ہار عذاب کا موجب ہو گا۔ (فتح القدیر للشو کانی ج ۵ ص ۵۱۳ ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس ہار پر سے ناز ہے اور جس کو وہ مخالف رسول سرگرمیوں  میں  خرچ کرنا چاہتی ہے۔ وہ قیامت کے دن واقعی ’’ اس کے گلے کا ہار ‘‘ ثابت ہو گا اور اس کا یہ سامان آرائش اس کی رسوائی کا باعث ہو گا۔

ابو لہب کی بیوی کے اس انجام میں  عورتوں  کے لیے بھی عبرت ہے اور مردوں  کے لیے بھی عورتوں  کے لیے یہ عبرت کہ ایک عورت کفر و سرکشی کا رویہ اختیار کر کے کتنے برے انجام کو پہنچ ناتی ہے اور مردوں  کے لیے یہ عبرت کہ عورتیں  کس طرح گناہ کے کاموں  میں  مردوں  کی معاون بن کر ان کو تباہی کی طرف دھکیلتی رہتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۱۱۲)۔ سورہ الاخلاص

 

(۴ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کا ایک نام تو پہلی آیت قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ  ہی کو قرار دیا گیا ہے اور دوسرا نام اس کے مضمون کی مناسبت سے الاخلاص ہے کیونکہ یہ خالص توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون نیز اسلوب کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے ابتدائی دور میں  نازل ہوئی ہو گی کیونکہ اس دور میں  مختصر فقروں  میں  دین کی بنیادی باتوں  کو پیش کیا گیا ہے اور ان کی توضیح و تفصیل بعد کی سورتوں  میں  کی گئی ہے۔

ابتدائی دور میں  نازل ہونے کا ایک قرینہ حضرت بلال کا یہ واقعہ ہے کہ جب انہیں  امیہ بن خلف سخت دھوپ میں  لٹا کران کے سینہ پر بڑا پتھر رکھ دیتا اور کہتا کہ اسی حال میں  تجھے مرنا ہو گا الا یہ کہ تو محمدؐ کا انکار کر کے لات و عزیّ کو پوجنے لگے تو اس کے جواب میں  وہ احد احد کہتے (البدایہ و النہا یہ ج ۳ ص ۸۵ ) معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک سورہ اخلاص نازل ہو چکی تھی اور احد کا لفظ اسی سورہ کا تھا جو زبان زد ہو گیا تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

توحید ہے اور خاص طور سے اس کا یہ پہلو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا صحیح تصور پیش کرنا تاکہ مشرکانہ تصورات کی جڑ کٹ جائے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ اور ۲ میں  مثبت پہلو سے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان ہوئی ہیں  اور آیت ۳ اور ۴ میں  منفی پہلو سے تاکہ قوموں  اور ملتوں  میں  جن راہوں  سے شرک داخل ہوا ہے وہ مسدود ہوں۔

 

اہمیت و عظمت

 

سورہ اخلاص در حقیقت قرآن کی آخری سورہ ہے کیونکہ اس کے بعد کی دو سورتیں  اسی تصور توحید سے ابھری ہیں  اور اس تصور توحید نیز پورے قرآن کی حفاظت کا سامان ہیں۔ قرآن کا آغاز توحید سے ہوا تھا اور اختتام بھی توحید ہی پر ہوا ہے۔ اس سے توحید کی اہمیت نیز اس سورہ کی عظمت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ علامہ فراہی فرماتے ہیں  : ’’ اگرچہ یہ سورہ اپنے ظاہری انداز کے لحاظ سے تمام سورتوں  میں  ایسی چھوٹی ہے جیسی تمام بدن میں  آنکھ کی پتلی مگر سارا عالم ہدایت اسی سے روشن نظر آتا ہے ‘‘۔ (مجموعہ تفاسیر فراہی ص ۵۲۵ )

سورہ اخلاص کی فضیلت احادیث صحیح سے ثابت ہے بخاری میں  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّھَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرآنِ ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں  میری جان ہے یہ سورہ (قل ھو اللہُ احد ) قرآن کے ایک تہائی حصہ کے برابر ہے ‘‘۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن) اس کی یہ فضیلت معانی قرآن کے اعتبار سے ہے کیونکہ قرآن میں  توحید کا مضمون اس کثرت سے بیان ہوا ہے کہ گویا اس کا ایک تہائی حصہ اسی پر  مشتمل ہے اور چونکہ سورہ اخلاص میں  اس اہم اور پیلے ہوئے مضمون کو چار مختصر فقروں  میں  اس طرح سمیٹ دیا گیا ہے جیسے دریا کو کوزہ میں  بند کر دیا گیا ہو اس لیے اسے ایک تہائی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ رہی اس کی تلاوت کی برکتیں  تو اس سے وہی لوگ فیض یاب ہو سکتے ہیں  جو توحید خالص پر ایمان رکھتے ہوں  اور اپنے عقیدہ میں  شرک کا کوئی شائبہ نہ آنے دیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ  رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو ۱*  ، وہ ۲*  اللہ یکتا ہے ۳*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ وہ بالا تر ہستی ہے جو سب کا مرجع و ملجا ۴*  ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ اس کی کوئی اولاد ۵*  ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ۶*۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے ۷*

 

                   تفسیر

 

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور آپ کے  واسطے سے ہر اس شخص سے جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔ کہنے سے مراد اظہار و اعلان ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت میں  ھُوَا (وہ)  عربی قواعد کی رو سے ضمیر شان ہے جو  کسی بت کی اہمیت کو واضح کرنے اور اس پر توجہ کو مرکوز کرانے کے لیے جملہ کے آغاز میں  آتی ہے اور اس سے کلام میں  بڑی فصاحت پیدا ہو جاتی ہے مثلاً کہتے ہیں  ھوالزمان غدار (وہ زمانہ ہے جو بے وفائی کرتا ہے )۔ آیت قُلْ ھُو اللہُ اَحَدٌ  (کہو وہ اللہ یکتا ہے ) میں  ھُوَ (وہ) کی ضمیر بیان کی اہمیت کو واضح کر رہی ہے کہ اسے کان لگا کر سنو اور اس پر اپنی توجہ مرکوز کرو۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ اللہ یکتا ہے ‘‘۔ یعنی وہ اپنی ذات اور صفات میں  بالکل منفرد ہے۔ واحد (ایک) کے مقابلے میں  اَحَد (یکتا) کا لفظ اور بات کی صراحت کرتا ہے کہ اس کی وحدت میں  کثرت کا کوئی پہلو نہیں  ہے اور اس کی وحدانیت ایسی کامل ہے کہ نہ اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے اور نہ تقسیم اس کا وجود مستقل بالذات ہے اور مخلوقات سے بالکل الگ ہے۔ خداؤں  کی کوئی جنس نہیں  بلکہ وہ ایک ہی خدا ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

انسان کی فطرت خدا کے اس تصور سے آشنا ہے ، اس کے وجدان کی پکار بھی یہی ہے اور اس کی عقل بھی اسی کی شہادت دیتی ہے نیز کائنات کا ذرہ ذرہ اور اس کا پورا نظام اسی پر دلالت کرتا ہے ؃

وَفِی کُلِّ شَیْءٍ لَہٗ آیَۃٌ

تَدُ لُّ عَلٰ اَنَّہ وَاحِدٌ

’’ ہر چیز میں  س کی ایک نشانی ہے۔ جو اس کی وحدت پر دلالت کرتی ہے ‘‘ اس کا اَحَد(یکتا) ہونا کائنات کی سب سے بڑی ، سب سے زیادہ ابھری ہوئی اور سب سے زیادہ بنیادی حقیقت ہے اس حقیقت کو نظر انداز کر کے جن لوگوں  نے خدا کے بارے میں  سوچا ان کو ایسی زبردست ٹھوکر لگی کہ پھر وہ سنبھل نہ سکے۔ اس سلسلہ کی بنیادی غلطی خدا کو مخلوق پر قیاس کرنا ہے جب کہ یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ خالق اور مخلوق میں  کسی پہلو سے بھی مشابہت ممکن نہیں  ہے اور نہ ہماری محدود عقل اس قابل ہو سکتی ہے کہ اس کی ذات میں  غور و خوض کرنے لگے اس لیے اس کے یکتا و یگانہ ہونے کے سیدھے سادے تصور کو چھوڑ کر جتنے فلسفے بھی اہل مذاہب نے خدا کے وجود کے بارے میں  ایجاد کیے ہیں  وہ سب نے حقیقت اور یکسر باطل قرار پاتے ہیں۔ / ظاہر ہے جب پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی تو کتنی ہی بلند عمارت کیوں  نہ تعمیر کی  جائے وہ ٹیڑھی ہی ہو گی۔

رہے مادہ پرست لوگ جو خدا کے وجود ہی کو تسلیم نہیں  کرتے تو ن کا یہ انار فطرت انسانی  کے خلاف اعلان جنگ ہے اورت جو شخص اپنی فطرت ہی سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو اس کو کوئی بات بھی دلیل سے منوائی نہیں جا سکتی۔ انسان اپنی آنکھیں  پھوڑ دینے کے بعد کسی بھی چیز کے وجود سے انکار کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کو کوئی چیز بھی نہیں  دکھائی جا سکتی۔

جہاں  تک انبیائی ہدایت کا تعلق ہے بلا استثناء تمام پیغمبروں  نے توحید ہی کی تعلیم دی تھی چنانچہ بائیبل میں  باوجود تحریفات کے توحید کا تصور بنیادی طور سے موجود ہے مثلاً تورات میں  ہے :

’’ سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ‘‘۔ (استثنا ۶ : ۴)

’’ جو کوئی واحد خداوند کو چھوڑ کر کسی اور معبود کے آگے قربانی چڑھائے وہ بالکل نابود کر دیا جائے ‘‘۔ (خروج ۲۲ : ۲۰ )

اور زبور میں  ہے :

تو ہی واحد خدا ہے ‘‘۔  (زبور ۸۶: ۱۰ )

لیکن انبیاء علیہم السلام کی اس بنیادی تعلیم سے قوموں  اور ملتوں  نے انحراف کیا اور گمراہی میں  پڑ گئیں  اس انحراف کی ایک مثال تو عیسائی مذہب کا عقیدہ تثلیث (Trinity) ہے جو باپ بیٹا اور روح القدس ین خداؤں  کے مجموعہ کا نام ہے اور اس کی دوسری مثال ہمارے ملک کے بت پر ستوں  کا تری مورتی( ञिमूर्ति  Trimurty ) کا عقیدہ ہے جو تین دیوتاؤں  برہما، وشنو اور شیو کے مجموعہ کا نام ہے۔ ان کا مذہبی نشان ’’ اوم    Omتین خداؤں  کی نمائندگی کرتا ہے۔

"In later times. Om is the mystic name for the Hindu triad, and represents the union of the three gods.  Viz. a (Vishnu), u (Siva) m (Brahma) – (A Sanskrit – English Dictionary by Sir Monier, Oxford p.235)

اور ویدوں  کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر سی کنہن راجا اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں  کہ ہندوستان میں  ہم توحید کے  تصور سے ہمیشہ نا آشنا رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں  :

"The difficulty is that in India we never had a Monotheism till very recent times. If one reads the Mahabharata, it will be found that every divinity is in his turn a Supreme Godhead.  This is exactly what is found in the Vedas too …… and there never came a stage when there was only one God”.

(The Quintessence of the Rigveda P. 11)

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں  لفظ اَلصَّمَد استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں  بڑی وسعت ہے اس لیے کسی ایک لفظ میں  اس کا ترجمہ کرنا مشکل ہے۔

صمد کے لغوی معنیٰ ہیں  وہ جس کا قصد کیا جائے اور یہ اس سردار کے لیے بولا جاتا ہے جس سے بالا تر کوئی دوسرا شخص نہ ہو اور جس کی طرف لوگ اپنی ضرورتوں  اور معاملات میں  رجوع کرتے ہوں  اسی طرح صمد اس چٹان کو بھی کہا جاتا ہے جس کی دشمن کے حملہ کے وقت پناہ لی جائے نیز اس ٹھوس چیز کو بھی کہتے ہیں  جس میں  جوف نہ ہو۔ ان لغوی معنیٰ کے پیش نظر آیت میں  اللہ تعالیٰ کے لیے اَلصَّمَد کی جو صفت بیان ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بالا تر ہے ، اس کی سیادت کامل ہے ، وہی مقصود و مرجع ہے ، وہی ملجا و مأویٰ ہے۔ وہ بے نیاز ہے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں  جب کہ سب اس کے محتاج ہیں  اور وہ سب کی حاجتوں  کو پورا کرنے والا ہے۔ وہ پناہ کی چٹان ہے جیسا کہ زبور میں  کہا گیا ہے : ’’ خداوند میری چٹان اور میرا قلعہ اورع میرا چھڑانے والا ہے ‘‘ زبور ۱۸: ۲) ’’ اے خداوند تو ہی میری پناہ ہے ’‘۔ (زبور ۷۱: ۱ )

اس کی صَمَدیت کے مفہوم میں  یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ تو کوئی چیز اس کے اندر داخل ہوتی ہے۔

اور نہ کوئی چیز اس کے اندر سے خارج ہوتی ہے اس لیے اس کے اولاد ہونے کا سوال ہی نہیں  پیدا ہوتا اور وہ اس بات سے بھی پاک ہے کہ انسان اس میں  ضم ہو جائے جیسا کہ ہمارے ملک کے مشرکین کا عقیدہ ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں  پھر انسان نے ٹھو کر کھائی کہ خدا کو اپنے اوپر قیاس کر کے اس کے لیے اولاد تجویز کر بیٹھا حالانکہ یہ بات عقلاً بھی غلط ہے اور نقلاً بھی۔ عقلاً اس لیے غلط ہے کہ کسی کو خدا کا بیٹا ماننے کی صورت میں  یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ خدا کا جزء ہے کیونکہ بیٹا باپ کا جزء ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدائی قابل تجزیہ اور قابل تقسیم ہے نیز اس سے لازم آئے گا کہ اس کی کوئی بیوی ہو اور کسی کی بیوی اس کی ہم جنس ہی ہو سکتی ہے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ خدا کی بھی جنس ہے۔ ظاہر ہے اس سے زیادہ گھٹیا او لغو تصور خدا کے بارے میں  اور کیا ہو سکتا ہے مگر اس صریح خلاف عقل تصور کو اہل مذاہب نے محض جذبات سے مغلوب ہو کر اور غلو کا شکار ہو کر قبول کر لیا اور خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیاں  تجویز کیں۔  نقلاً یہ بات اس لیے غلط ہے کہ خد نے بندوں  کی ہدایت کے لیے جو کتابیں  بھی نازل فرمائیں  ان میں  توحید ہی کی تعلیم دی گئی تھی۔ ان کتابوں  کے جو اجزاء ہمارے سامنے موجود ہیں  ان میں  سارا زور توحید ہی پر دیا گیا ہے۔ رہا بائیبل کا وہ حصہ جس میں  حضرت مسیح کو خد کا بیٹا کہا گیا ہے تو اولاً یہ بات تورات زبور اور انجیل کی واضح اور بنیادی تعلیم کے خلاف ہے تورات بائیبل کے مجموعہ میں  سب سے پہلی اور سب سے قدیم کتاب ہے اس لی اس کی تعلیم کے خلاف اناجیل اربعہ کے بیان کی حیثیت تحریف ہی کی قرار پاتی ہے۔ ثانیاً  اناجیل اربعہ میں  جہاں  حضرت مسیح کے لیے ’’ بیٹا ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں  عمومیت کے ساتھ خدا کے نیک بندوں  کے لیے بھی خدا کے بیٹے کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں  مثلاً

’’ مبارک ہیں  وہ جو صلح کراتے ہیں  کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں  گے ‘‘۔ (متی ۵ : ۹)

بادی النظر میں  محسوس ہوتا ہے کہ یہ بات مجازی معنی میں  کہی گئی ہے نہ کہ حقیقی معنیٰ میں  لیکن اگر توحید کی اس تعلیم کو سامنے رکھا جائے جو تورات ، زبور اور انجیل کے اوراق میں  پھیلی ہوئی ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ عبد (بندہ ) کے لفظ کو ابن (بیٹا) سے بدل دیا گیا ہے۔ اسی طرح لفظ رب (پروردگار۔ مالک) کی جگہ اب (باپ) کا لفظ رکھ دیا گیا ہے۔ متی کی انجیل میں  ہے :

’’پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے ‘‘۔ (متی۶ :۹)۔

یہ کھلی ہوئی تحریف ہے جو یا تو ان کتابوں  کے مؤلفین نے کی ہے یا ان کے مترجمین نے کیونکہ انجیل ہی میں  واضح طور سے کہا گیا ہے :

’’ یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرائیل سن۔ خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ، اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ‘‘۔ (مرقس ۱۲: ۲۹، ۳۰ )

خدا کے لیے اولاد تجویز کرنے میں  نصاریٰ منفرد نہیں  ہیں  بلکہ دوری قومیں  بھی اس گمراہی میں  شریک ہیں۔ یہود حضرت عزیز کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں  اور مشرکین مکہ نے فرشتوں  کو خدا کی بیٹیاں  ٹھہرایا تھا۔ اس سے بھی دو قدم آگے ہندوستان کے بت پرست ہیں  جو نہ صرف بے شمار خداؤں  کے قائل ہیں  بلکہ ان کی اولاد کے بھی مثلاً

"The Maruts are the sons of Rudra. Another great god in the Rigveda” (The Quintessence of the Rigveda P. 45)

ان کے نزدیک مہد برہما وہ رحم ہے جس میں  بھگوان باپ کی حیثیت سے اپنا تخم ڈال دیتا ہے جس سے مخلوق جنم لیتی ہے چنانچہ گیتا میں  ہے :

Mahad – Brahma is the womb wherein I cast My Primal seedling  whence are born all creatures. Whatever beings are born from any  womb Mahad – Brahma is their Primal Mother and I Their Primal Father who inseminate her”.

(The Bhagavad Gita 14.3– 4 Engl. Transl. by Dilip Kumar Roy P. 160)

لیکن قرآن نے خدا کی معرفت ایسے صاف ستھرے حقیقت افروز اور دل لگتے انداز میں  پیش کی ہے کہ اس روشنی کے سامنے ساری تاریکیاں  کافور ہو گئی ہیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدا ہی کیا ہوا جسے کسی نے جنم دیا ہو لیکن مشرکانہ مذاہب میں  خداؤں  کے جنم لینے کا تصور پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر رِگ وید میں  خداؤں  کی پیدائش کا ذکر موجود ہے :

"There is a song about the birth of the gods (X-72).  The gods are spoken of generally as having been born from the heaven and the earth and in various other ways”.

(Quintessence of the Rigveda P. 100)

اسی مشرکانہ تصور کی یہاں  نفی کی گئی ہے کہ جس طرح اللہ کی کوئی اولاد نہیں  اسی طرح اس کا کوئی باپ بھی نہیں   ہے۔ جنم لیے ہوئے خدا تو فرضی خدا ہی ہو سکتے ہیں  حقیقی خدا تو سب کا خالق ہے وہ مخلوق کیوں  کر ہو سکتا ہے ؟ وہ تنہا اللہ ہی کی ذات ہے جس سے نہ کوئی چیز جنم لیتی ہے اور نہ کسی نے اسے جنم دیا ہے۔۔۔۔۔ کس قدر خدا کے شایان شان ہے قرآن کا یہ تصور توحید !

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نہ اللہ کی ذات میں  اس کی برابری اور اس کے جوڑ کا کوئی ہے اور نہ اس کی صفات میں۔ سب مخلوق ہیں  اور وہ تنہا خالق، سب محتاج ہیں  اور وہ اکیلا غنی و بے نیاز ، سب بندے اور غلام ہیں  اور وہ ایک معبود و آقا۔ اس کے مانند اور اس کے ہم رتبہ نہ کبھی کوئی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔

اس واضح حقیقت کے باوجود مشرکین نے خدا کے ہمسر ٹھہرائے۔ اس معاملہ میں  ہندوستان کے مشرکین سب سے آگے ہیں۔ انہوں  نے خالق اور مخلوق دونوں  کو ایک مخلوط وجود (ہمہ اوست ) قرار دیا۔ ان کی مذہبی کتاب اُپنیشد میں  شرک کو ایک فلسفہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے :

"All that exists, says the Upanishad, is He, He is that All and the Allis He”.

(The Upanishads by M.P. Pandit P. 154)

"The Self or Soul of everyone is Brahman”.

(Upanishads by Swami Sivananda P. 16)

ان کی دوسری مذہبی کتابوں  میں  بھی خدا کا تصور بہت الجھا ہوا ہے :

"There is no Personal Supreme God in the religion of Vedas”.

(The Quanitessence of the Rigveda P.7)

"He is in all and all are in Him …… He descended as the Avatar”.

(The Bhagavad Gita-A Revelation by D.K. Roy P.33)

” Lord, I behold in Your all gods”.

(The Bhagavad Gita – Ch XI: 15)

جو لوگ ان مشرکانہ فلسفوں  میں  الجھ کر تاریکیوں  میں  بھٹک رہے ہیں  ان کی نجات اس کے بغیر ممکن نہیں  ہے کہ وہ تعصبات کو چھوڑ کر قرآن کی روشنی کو قبول کر لیں۔

ززز

 

 

 

 

۱۱۳۔ سورہ الفلق

 

( ۵ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

پہلی آیت میں  لفظ فَلَق آیا ہے جس کے معنیٰ صبح کے ہیں۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْفَلَق ہے سورہ فلق اور سورہ ناس دونوں  استعاذہ کی سورتیں  ہیں  اس لیے ان کا مشترکہ نام مُعَوِّذَتَینِ (پناہ والی سورتیں ) بھی ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہو گی جب کہ شیطانی قوتیں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شر پہنچانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں  اور آپ کے مخالفین حسد کی آگ میں  جل رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

بندوں  کو اس بات کی تعلیم دینا ہے کہ وہ ہر قسم کے شر کے مقابلہ میں  اللہ ہی کی پناہ ڈھونڈیں  کہ وہی اکیلا پناہ دہندہ ہے۔ اس سلسلہ میں  ایسے دعائیہ کلمات سکھائے گئے ہیں  جو استعاذہ کے لیے موزوں  ترین ہیں۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ میں  اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ بندہ پناہ کے لیے اسی ہستی کی طرف رجوع کرے جس کی ربوبیت کے کرشمے وہ رات دن دیکھ رہا ہے۔

 

فضیلت

 

اس سورہ میں نیز اس کی بعد والی سورہ میں  پناہ مانگنے کے لحاظ سے جو جامع کلمات اور جو مؤثر دعا ارشاد ہوئی ہ اس کی اہمیت و فضیلت حدیث میں  اس طرح بیان ہوئی ہے۔ عُقبہ بن عامر کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا ، اَنزِلَتْ عَلَیَّ آیَاتٌ  لَمْ یُرَ مَثْلَھُنَّ قَطُّ : اَلْمُعَوِّ ذَتَیْنِ ’’مجھ پر ایسی آیات نازل ہوئی ہیں  جو بالکل بے مثال ہیں  یعنی مُعَوِّ ذَتَیْن ‘‘۔ (مسلم کتاب صلاۃ المسافرین)۔

 

برکتیں

 

حدیث میں  آتا ہے :

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنھا قَاَلَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلیٰ اللہِ علیہ و سلم اذا آویٰ اِلیٰ فِرَاشِہٖ نَفَثَ فِیْ کَفَّیْہِ بَقُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ لْمُعَوِّذَ تیْنِ جَمیْعاً ثُمَّ یَمْسَحُ بِھِمَا وَجْہَہٗ وَمَا بَلَغَتْ یَدَاہُ مِنْ جَسَدِہٖ۔ (بخاری کتاب الطب)۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بستر پر جاتے تو اپنے دونوں  ہاتھوں  میں  قُل ھُو اللہُ اَحَدْ اور مُعَوِّ ذَتَین پڑھ کر پھونکتے پھر ان کو اپنے چہرے اور جسم پر جہاں  تک کہ ہاتھ پہنچ جاتا پھیر لیتے ‘‘۔

تعویذ گنڈوں  سے بچتے ہوئے ان سورتوں  کی برکتوں  سے فیض اور شفاء حاصل کرنے کا یہ صحیح اور مسنون طریقہ ہے مگر یاد رہے کہ سورہ کا اصل مقصد توحید پر جمے رہنا ، اس کے تقاضوں  کو پورا کرنا اور اس بات کا خاص طور سے خیال رکھنا ہے کہ عقائد میں  شرک کا کوئی شائبہ نہ پایا جائے۔ جو لوگ اس مقصد عظیم کو نظر انداز کر کے کلام الٰہی کی صرف ظاہری برکتوں  کو حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں  ان کی مثال اس پیاسے شخص کی سی ہے جو دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنے ہاتھ اور اپنا منہ دھو لیتا ہے مگر پانی پینے کی زحمت گوارا نہیں  کرتا۔ ظاہر ہے اس کے اس عمل سے ہاتھ اور منہ تو دھل جائیں  گے لیکن اس کی پیاس ہر گز بجھ نہ سکے گی۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو،۱*  میں  پناہ مانگتا ہوں  ۲*  صبح کے رب کی ۳*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اس کے شر سے ۴*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے ۵*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گرہوں  میں  پھونکنے والوں  کے شر سے ۶*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے ۷*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ سے یہ دعا کیا کرو اور اس کی پناہ ان کلمات کے ذریعہ مانگا کرو۔ خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور آپ کے واسطہ سے ہر اس شخص سے جو قرآن پر ایمان لایا ہو۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پناہ کے معنی حفاظت ، بچاؤ اور امان کے ہیں۔ اور پناہ مانگنے سے مراد اپنی حفاظت کے لیے پناہ دینے ولی ہستی سے دعا کرنا، اس کی طرف رجوع کرنا ، اس کا سایہ عاطفت ڈھونڈنا اور اس کے سہارے کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا ہے۔ پس یہاں  اَعُوْذُ (میں  پناہ مانگتا ہوں ) کا مطلب یہ ہے کہ میں  خدا کو واحد پناہ دہندہ مان کر اپنے کو اس کی حفاظت میں  دے دیتا ہوں  وہی ہر قسم کے شر سے بچانے والا ہے اور میں  اسی سے بندی کا تعلق استوار کرتا ہوں۔

واضح رہے کہ کسی کو حقیقی معنی میں  پناہ دہندہ سمجھنا اس کو خدا قرار دینا ہے اس لیے اللہ کے سوا کسی کی پناہ مانگنا جیسا کہ مشرکین دیوی دیوتاؤں  کی پناہ مانگتے ہیں  کھلا شرک ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو رات کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح نمودار کرتا  ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے فَالِقُ الْاِصْبَاحِ (رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نمودار کرنے والا۔ الانعام : ۹۶)۔ یہاں  اللہ کی صفت ربوبیت کے ساتھ اس کے اس کرشمہ قدرت کا ذکر اس معنیٰ میں  ہے کہ گویا پناہ لینے والا اپنے اس یقین اور اطمینان کا اظہار کر رہا ہے کہ جو ہستی تاریکی کو پھاڑ کر صبح کو ظہور میں  لاتی ہے وہ مایوس کن حالات میں  امید کی کرن بھی پیدا کرے گی اور فتنوں  کے ہجوم کو چھانٹ کر امن و عافیت کی راہ بھی کھولے گی۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت پر غور کرنے سے درج ذیل باتیں  واضح ہوتی ہیں :

(۱) سب چیزیں  اللہ ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ خالق تنہا وہی ہے اور مالک بھی وہی اس لیے کوئی چیز بھی خالق کائنات سے زیادہ طاقتور نہیں  ہو سکتی۔ لہٰذا مخلوق کے شر سے بچنے کے لیے خالق کی پناہ ڈھونڈنا ہی صحیح طرز عمل ہے۔ برخلاف اس کے مخلوق کے شر سے بچنے کے لیے مخلوق ہی کی دہائی دینا خواہ اس مقصد کے لیے آدمی کسی دیوی دیوتا کو پکارے یا کسی ’’غوث‘‘ اور ’’ولی‘‘ کو سرا سر حماقت اور یکسر باطل ہے۔

(۲) ’’ جو کچھ اس نے پیدا کیا اس کے شر سے ‘‘کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ اس کی پیدا کردہ ہر چیز میں  لازم شر کا پہلو ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کی پیدا کردہ چیزوں  میں سے جو چیزیں  بھی اپنے اندر شر کا کوئی پہلو رکھتی ہیں  ان سب کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔

(۳) کوئی چیز بھی اپنی ذات میں  مؤثر نہیں  ہے اور نہ کوئی شر خود بخود کسی کو لاحق ہوتا ہے بلکہ ہر چیز اللہ کے حکم ہی سے اثر اندر ہوتی ہے اور شر بھی کسی کو لاحق ہوتا ہے اس کے اذن ہی سے ہوتا ہے اس لیے شر سے بچنے کے لیے اسی سے دعا کرنا چاہیے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

(۴) شر سے مراد محسوس ہونے والی آفتیں  اور بلائیں  بھی ہیں  اور معنوی مضرتیں  اور گمراہیاں  بھی پہلی چیز کی مثال بیماریاں  اور ایذائیں  ہیں  اور دوسری چیز کی مثال گناہ اور کفر و شرک ہے۔ سیاق کلام کے لحاظ سے شر کا یہ دوسرا پہلو خاص طور سے مراد ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مُعَوِّذَتَین کو قرآن کے بالکل اخیر میں  رکھا گیا ہے۔ یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کے  ذریعہ جس ہدایت سے نوازا گیا ہے اس کی حفاظت کے سلسلہ میں  چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ شر پسند قوتیں  اثر انداز نہ ہونے پائیں ، اور بھٹکانے میں  کامیاب نہ ہوں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلی آیت میں  مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کا ذکر عمومیت کے ساتھ ہوا ہے۔ اب بعض خاص چیزوں  کے شر سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔

رات آتی ہے تو تاریکی چھا جاتی ہے اور اس تاریکی میں  شر پسند عناصر اور شیطانی قوتوں  کو  ابھرنے کا موقع ملتا ہے۔ ظاہری اور جسمانی آفتوں  کے اعتبار سے بیماریاں  رات میں  بڑھتی ہیں  ور موذی جانور رات میں  نکلتے ہیں۔ غرض یہ کہ رات کو ڈر اور خوف کا ماحول رہتا ہے۔ رہی باطنی ور اخلاقی آفتیں  تو رات میں  جرائم کثرت سے ہوتے ہیں ، اکثر سازشیں  رات ہی میں  کی جاتی ہیں  اور شیطان اپنے لشکر کے ساتھ رات کی تاریکی ہی میں  حملہ آور ہوتا ہے اس لیے رات کی ظاہری تاریکی باطنی تاریکی کا موجب ہو سکتی ہے لہٰذا اس شر کی طرف سے چوکنا رہنے اور اس سے خدا کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ رات کی طرف شر کو منسوب کرنے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ رات میں  خیر کا نزول نہیں  ہوتا یا خیر کے کام انجام نہیں  پاتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ رات کا وقت شیطانی قوتوں  کے لیے شر پھیلانے کے تعلق سے بڑا ساز گار ہوتا ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ عُقَد (گرہوں ) سے مراد وہ گِرہیں  ہیں  جو شیاطین انسان کے شعور اور اس کے حواس پر لگا کر اسے غافل اور مد ہوش بنا دیتے ہیں  چنانچہ صحیحین کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

یَعْقِدُ الشَّیْطَانُ عَلیٰ قٰافِیَۃِ رَأسِ اَحَدِ کُمْ ثَلَاثَ عُقَدٍ اِذَ ا نَامَ۔ بِکُلِّ عُقْدَ ۃٍ یَضْرِبُ عَلَیْکَ لَیْلاً طویلاً۔ فَاِذَا اسْتَیْقَظَ فَذَکَرَ اللہَ  اِنُحَلِّتْ عُقْدَۃٌ  وَاِذَ ا تَوضَّأ اِنْحَلَّتْ عَنْہُ عَقْدَتَانِ۔ فَاِذَا صَلَّی اِنْحَلَّتِ العُقَدُ۔ فَاَسْبَحَ نَشِیْطاً طَیِّبَ النَّفْسِ وَ لّا اَصْبَحَ خَبِیْثَ النَّفْسِ کَسْلِانَ (مسلم کتاب صلاۃ المسافرین)۔

جب تم میں  کوئی شخص سوتا ہے تو اس کے سر کے پچھلے حصہ پر شیطان تین گرہیں  لگاتا ہے اور ہر گرہ کے ساتھ یہ بات بھی چسپاں کر دیتا ہے کہ ابھی رات لمبی ہے پھر جب وہ شخص جاگ اٹھتا ہے اور اللہ کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور جب وضو کرتا ہے تو دوری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور جب نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور صبح کو وہ ہشاش بشاش اور پاکیزگی نفس کی حالت میں  ہوتا ہے۔ بصورت دیگر وہ صبح کو سست اور خباثتِ نفس کی حالت میں  ہوتا ہے۔ ‘‘  یہ شیطان کے انسان کو غفلت میں  ڈالنے کی ایک مثال ہے جو حدیث میں  پیش کی گئی ہے۔ اس سے شیطان کے القاء، اس کی حرکتوں  اور اس کے حملوں  کا نہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نَفَّاثَا تْ کا لفظ نَفْث سے ہے جس کے معنیٰ پھونکنے کے ہیں۔ حدیث میں  القائے شیطانی کو اس کے نَفْث سے تعبیر کیا گیا ہے :

اَعُذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطانِ مِنْ نَفْخِہِ وَفَفْثِہٖ و ھَمْزِہٖ۔ ’’میں  اللہ کی پناہ مانگتا ہوں  شیطان کے نفخ ، اس کے نَفْث اور اس کے ہمزہ سے ‘‘۔

اس حدیث کے راوی ابن مرہ نے ان تینوں  الفاظ کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ شیطان کے نَفْث سے مراد شعر، اس کے نَفْخ سے مراد کِبر اور اس کے ھَمْز سے مراد جنون ہے۔ (ابو داؤد کتاب الصلٰۃ ج ۷۵۰ )

اس میں  نفث کو شعر سے جو تعبیر کیا گیا ہے وہ در اصل القائے شیطانی ہی کی ایک شکل ہے اس کی دوسری شکل سحر اور جادو بھی ہے۔

نَفَّثات کا لفظ جمع مؤنّث کا صیغہ ہے اور مبالغہ کے وزن پر ہے۔ یہ نفوس کی صفت ہے اس لیے عربی قواعد کے مطابق مؤنّث ہے۔ یعنی وہ نفوس جو پھونکنے کے عادی ہیں۔ مراد شیطانی نفوس ہیں  جو اپنے القاء کے ذریعہ انسان کے شعور اور اس کے حواس کو متاثر کر دیتے ہیں۔ اوپر حدیث میں  شیطان کے گرہ باندھنے کا جو ذکر ہوا ہے اس میں  بھی یہ بات بیان ہوئی ہے کہ وہ ہر گرہ کے ساتھ یہ بات بھی چسپاں  کر دیتا  ہے کہ ابھی رات لمبی ہے یہ در حقیقت شیطان کا  اس گرہ میں  نفث (پھونکنا ) ہی ہے۔

ان احادیث کی روشنی میں  آیت کا مطلب یہ ہے شیاطین اپنے القاء کے ذریعہ انسان کے شعور، اس کے حواس اور اس کی نفسیات کو متاثر کر کے اسے غفلت، بے خودی ، مدہوشی اور نفسیاتی امراض کا شکار بناتے ہیں  اور پر بری اور گمراہ کن باتیں  الہام کرتے ہیں۔ ان کے اس شر سے خدا کی پناہ مانگی گئی۔ یہ القائے شیطانی شاعری کی شکل میں  بھی ہو سکتا ہے اور ساحر کی شکل میں  بھی۔ زُخرف القول کی شکل میں  بھی ہو سکتا ہے گانے کی شکل میں  بھی اس لیے کوئی وجہ نہیں  کہ اس کو کسی ایک شکل میں  محدود سمجھا جائے۔ سِفلی عمل کرنے والوں  کے ہاں  تو گنڈوں  میں  پھونک مارنے کا طریقہ پہلے ہی سے چلا آ رہا ہے۔ ساحر اور ٹونے ٹوٹکے کرنے والے شیاطین کی مدد سے یہ عمل خبیث انجام دیتے ہیں  اور لوگوں  کے لیے گمراہی کا سامان کرتے ہیں  اور آج کل ہپناٹزم (Hypnotism)  کے ذریعہ بھی انسان کے حواس اور اس کی نفسیات کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب شیطانی اعمال کی مختلف شکلیں  ہیں۔ اس قسم کی تمام اذیتوں سے بچنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی پناہ لی جائے اور اس بت پر یقین رکھا جائے کہ اس کے اذن کے بغیر کوئی چیا ضرر نہیں  پہنچا سکتی۔

عام طور سے مفسرین اس آیت کے ذیل میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کی روایت نقل کرتے ہیں  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ میں  ایک یہودی نے یا ایک منافق نے جو یہود کا حلیف تھا اور جس کا نام لبید بن عاصم تھا آپ کی کنگھی کے بالوں  میں  جادو کر کے اس کو ایک کنویں  کے اندر پتھر کے نیچے دبا دیا تھا۔ اس جادو کے اثر سے آپ بیمار ہوئے اور یہ کیفیت ہوئی کہ کسی کام کے متعلق خیال کرتے کہ کر لیا ہے لیکن نہیں  کیا ہوتا۔۔۔۔ بعض روایتوں  کے مطابق چھ ماہ تک آپ پر اس کا اثر رہا۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آپؐ  کو وحی کے ذریعہ مطلع کیا گیا اور مُعَوِّذتین پڑھنے کی ہدایت ہوئی جس سے آپ شفا یاب ہو گئے۔

یہ روایت بخاری، مسلم اور دوسری کتب حدیث میں  نقل ہوئی ہے لیکن بوجوہ قابل قبول نہیں  :

اولاً : یہ روایت قرآن سے متصادم ہے کیونکہ قرآن نے کفار کے اس الزام کی نفی کی ہے کہ نبی ایک سحر زدہ آدمی ہے : یَقُولُ الظّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلّا رَجُلاً مَسْحُراً  ؕ (ظالم کہتے ہیں  کہ تم لوگ ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر رہے ہو)۔ ( بنی اسرائیل : ۴۷) گویا قرآن جس بات کی تردید کر رہا ہے یہ روایت ا کی تصدیق کر رہی ہے۔ اس کا جواب اس روایت پر یقین کرنے والے علماء یہ دیتے ہیں  جب نبی پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے جس طرح حضرت موسیٰ کو جادو گروں  کی رسیوں  اور لاٹھیوں  کے بارے میں  خیال ہوا تھا کہ وہ سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں  ( سورہ طہٰ: ۶۶)۔ رہا کفار کا الزام کہ نبی ایک سحر زدہ آدمی ہے تو وہ اس مفہوم میں  تھا کہ کسی جادو گر نے آپ کو پاگل بنا دیا ہے  جس کی قرآن نے تردید کی۔ نیز وہ کہتے ہیں  کہ ’’ جادو کا اثر صف ذات محمدؐ پر ہوا تھا نبوت محمدؐ  اس س بالکل غیر متاثر رہی ‘‘۔ لیکن یہ جواب محض سخن سازی ہے کیونکہ روایت میں  جادو کا یہ اثر بیان کیا گیا ہے کہ آپ کسی کام کے متعلق یہ خیال کرتے کہ کر لیا ہے لیکن نہیں  کیا ہوتا۔ یعنی جدو کا اثر معاذ اللہ آپ کے ذہن پر ہوا تھا اور وہ بھی کئی ماہ تک باقی رہا نیز آپ کو اس کی خبر س وقت ہوئی جب کہ وحی الٰہی نے آپ کو مطلع کیا جب کہ حضرت موسیٰ نے جادو گروں  کی رسیوں  اور لاٹھیوں  کو سانپ کی شکل میں  محض وقتی طور پر دیکھا تھا اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ رسیاں  اور لاٹھیاں  حقیقت میں  سانپ نہیں  ہیں  بلکہ سانپ کی شکل میں  دکھائی دے رہی ہیں  اس لیے اس کے دیکھنے سے ان کو دھوکا نہیں  ہوا پھر یہ کوئی بیماری نہیں  تھی جس میں  حضرت موسیٰ مبتلا ہوئے ہوں  اس لیے روایت میں  بیان کردہ سحر کے واقعہ کو حضرت موسیٰ کے واقعہ پر قیاس کرنا قیاس مع  الفارق ہے۔

ثانیاً : سحر کے اس واقعہ کو تسلیم کرنے سے عصمت انبیاء پر حرف آتا ہے کیونکہ روایت میں  سحر کا اثر  محض جسمانی حال پر نہیں  بلکہ ذہنی کیفیت پر بھی بتایا گیا ہے ظاہر ہے یہ بات منصب نبوت میں  قادح ہے اس لیے یہ دلیل بے معنی ہے کہ اگر آپ زخمی ہو سکتے تھے اور بیمار ہو سکتے تھے تو آپ پر جادو کا اثر بھی ہو سکتا تھا۔

عصمت انبیاء کا مسئلہ اجماعی ہے اور قرآن و سنت  اس پر ناطق ہیں  اس لیے ایسی روایت جو منصب نبوت میں  قادح ہو ہر گز قابل اعتناء نہیں  ہو سکتی خواہ وہ بخاری کی روایت ہو یا مسلم کی۔

ثالثاً : جہاں  تک سلسلہ روایت کا تعلق ہے اس میں  ایک راوی ہشام ہیں  جو اگر چہ کہ ثقہ ہیں  لیکن علامہ ان حجر نے تہذیب التہذیب میں  ان کے بارے میں  ایک بات یہ بھی نقل کی ہے کہ وہ عراق جانے کے بعد اپنے والد سے بہ کثرت روایت کرنے لگے تھے جس پر اہل عراق نے ناپسندیدگی کا اطہار کیا تھا نیز یہ کہ مالک نے ان کی ان حدیثوں  پر جو وہ اہل عراق سے بیان کرتے تھے نکارت کا اظہار کیا ہے۔ وہ تین مرتبہ کوفہ آئے تھے پہلی مرتبہ وہ اس طرح روایت کرتے حَدَّ ثَنِیْ اَبِی قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَۃ  ’’میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں  نے حضرت عائشہ کو فرماتے ہوئے سنا ‘‘ اور دوسری مرتبہ آئے تو اس طرح روایت کرنے لگے : اخبرنی ابی عن عائشۃ ’’ مجھے میرے والد نے خبر دی کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے ‘‘۔ اور تیسری مرتبہ آئے تو ان الفاظ میں  روایت کرنے لگے : ابی عن عائشۃ ’’میرے والد نے عائشہ سے روایت کی ہے ‘‘۔ (تہذیب التہذیب ج ۱۱ ص ۵۰) اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہشام اگرچہ کہ ثقہ راوی تھے لیکن روایت کرنے میں  کچھ بے احتیاطیاں  بھی ان سے ہونے لگی تھیں۔ ایسی صورت میں  ان کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سحر والی روایت کو جو ایک بہت بڑے مسئلہ میں  ہے ان کی بے احتیاطی پر کیوں  نہ محمول کیا جائے ؟

رابعاً : سلسلہ روایت میں  ایک راوی سفیان بن عُیَینہ ہیں  جو یہ اقرار کرتے ہیں  کہ میں  نے اسے ابن جریج سے پہلی مرتبہ سنا۔ اس پر مولانا امین احسن صاحب کی یہ گرفت بالکل بجا ہے کہ

’’ گویا اس واقعہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے سو سال بعد شہرت پائی ، اس سے پہلے اس کا علم صرف بعض افراد تک محدود رہا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ العیاذ باللہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم چھ ماہ تک مسحور رہے ہوتے تو یہ واقعہ اتنا غیر معمولی تھا کہ صدر اول ہی میں  اس کا چرچا ہو جاتا اور یہ روایت ایک متواتر روایت کی حیثیت سے ہم تک پہنچتی ‘‘۔ (تدبر قرآن ج ۸ ص ۶۶۶)

طوالت کلام سے بچتے ہوئے ہم ان چند وجوہ کو بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں  البتہ یہاں  ان مفسرین کے بیانات کے چند اقتباسات نقل کریں  گے جنہوں  نے شدت کے ساتھ سحر والی روایت کو رد کر دیا ہے۔

مشہور مفسر علامہ ابو بکر جصاص اپنی تفسیر احکام القرآن میں  فرماتے ہیں :

’’ اور لوگوں  نے جادو کے عمل سے بھی زیادہ بڑی اور ہولناک بات جائز قرار دی ہے چنانچہ ان کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیا گیا تھا اور اس کا اثر بھی  آپ پر ہوا تھا حتیٰ  کہ آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے ایسا خیال ہوتا ہے کہ میں  کوئی بات کہہ رہا ہوں  اور کر رہا ہوں  جب کہ میں  نے نہ وہ بات کہی ہوتی ہے اور نہ کی ہوتی ہے۔ اور ایک یہودی عورت نے آپ پر کھجور کے چھلکے کے اندر کنگھی اور بالوں  میں  جادو کر دیا تھا یہاں  تک کہ آپ کو اطلاع دی کہ اس عورت نے کھجور کے چھلکے کے اندر جادو کر دیا ہے اور وہ کنویں  کے پتھر کے نیچے ہے تو آپ نے اس کو نکلوایا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سے اس کا اثر زائل ہو گیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت کفار کے دعوے کو جھٹلاتے ہوئے فرمایا ہے : وَقَا لَ الظَّالِمُوْ نَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلّا رَجُلاً مَسْحُوراً (اور ظالم کہتے ہیں  کہ تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے )۔ اس طرح کی حدیثیں  در حقیقت ملحدوں  کی وضع کردہ ہیں ‘‘۔ (احکام القرآن ج۱ ص ۵۵ )

سید قطب اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں  فرماتے ہیں :

’’ لیکن یہ روایتیں  عمل و تبلیغ کے معاملہ میں  اصلاً عصمت نبوی کے خلاف ہیں  اور اس اعتقاد کے ساتھ کہ آپ کا ہر فعل اور ہر قول سنت و شریعت ہے درست نہیں  قرار پاتیں۔ نیز یہ روایات قرآن کے اس بیان سے بھی متصادم ہیں  جس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سحر زدہ ہونے کی نفی کی گئی ہے اور مشرکین کے اس باطل دعوے کو جھوٹ قرار دیا گیا ہے۔ اس بنا پر یہ روایتیں  بعید از قیاس ہیں۔ نیز خبر آحاد کو عقیدہ کے مسئلہ میں  قبول نہیں  کیا جا سکتا۔ اس کے لیے قرآن ہی مرجع ہے اور اصول اعتقاد کے معاملہ میں  احادیث کو قبول کرنے کے لیے تواتر شرط ہے جب کہ یہ روایتیں  متواتر نہیں  ہیں۔ مزید برآں  ان دونوں  سورتوں  کا نزول راجح قول کے مطابق مکہ میں  ہوا تھا‘‘۔ (فی ظلال القرآن ج ۶ ص ۴۰۰۸)

اور مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں۔

’’ اگر چہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اس جادو کا کوئی اثر آپ کے فرائض نبوت پر نہیں  پڑا لیکن ساتھ ہی نہایت سادہ لوحی سے یہ اعتراف بھی کر لیا گیا ہے کہ اس کا اثر حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ پڑا کہ آپ گھلتے جا رہے تھے ، کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ کر لیا ہے لیکن نہیں  کیا ہوتا۔ میرے نزدیک اس شان نزول کو رد کرنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ یہ اس مسلمہ عقیدے کے بالکل منافی ہے جو قرآن نے انبیاء علیہم السلام سے متعلق ہمیں  تعلیم کیا ہے۔ عصمت حضرات انبیاء (علیہم السلام ) کی ان خصوصیات میں سے ہے جو کسی وقت بھی  ان سے منفک نہیں  ہو سکتیں۔ اس عصمت کو اس امر سے کوئی نقصان نہیں  پہنچتا کہ نبی کے دندان مبارک شہید ہو گئے یا وہ زخمی ہو گیا یا وہ قتل کر دیا گیا۔ ان میں  سے کوئی چیز بھی اس کی نبوت میں  قادح نہیں  ہے کہ اس کو آپ اس امر کی دلیل بنائیں  کہ جب نبی ان چیزوں  میں   مبتلا ہو سکتا ہے تو مسحور بھی ہو سکتا ہے یہاں  تک کہ اس کو کردہ اور نا کردہ ، دیدہ اور نا دیدہ میں  کوئی امتیاز ہی باقی نہیں  رہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے شیطانی تصرفات سے اپنے نبیوں  کو محفوظ رکھا ہے اور ان کی یہ محفوظیت دین کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ محفوظیت ہی نبی کے ہر قول و فعل کو سند بناتی ہے۔ پورا قرآن انبیاء کی عصمت پر گواہ ہے اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان کی عصمت پر ایمان رکھے ‘‘۔ (تدبر قرآن ج ۸ ص ۶۶۵۔ ۶۶۶)

ان مفسرین کے مذکورہ بیانات سے سحر کے واقعہ اور روایت کی حقیقت منقح ہو جاتی ہے لیکن تعجب ہے کہ لوگوں  کو جتنی دلچسپی انہیں  اس بات سے نہیں  کہ اس کا عصمت انبیاء پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ روایت پرستی نہیں تو اور کیا ہے ؟

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ حَسَد کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو اپنی کسی نعمت یا فضیلت سے نوازا ہے تو دوسرا شخص اس پر جلنے لگے اور اس بات کا خواہشمند ہو کہ وہ اس سے چھن جائے۔ اور ’’حاسد جب حسد کرے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حاسدانہ کار روائی کرنے لگے ور جوش حسد میں  اقدام کر بیٹھے۔ ایسے موقع پر اس کے شر ، اس کی ایذاؤں  اور اس کی اذیتوں  سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگنا چاہیے۔

حاسد کا لفظ اگرچہ کہ عام ہے لیکن یہ بھی ایک ابھری ہوئی حقیقت ہے کہ حسد کی ابتداء شیطان ہی سے ہوئی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کر کے خلافت ارضی کا تاج اس کے سر پر رکھا تھا۔ اسی فضیلت کی بنا پر شیطان انسان کا دشمن بن گیا اور چاہتا ہے کہ انسان بھٹک جائے۔

قرآن میں  یہود کے حسد کا بھی خاص طور سے ذکر ہوا ہے :

وَدَّ کَثیْرٌ  مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّ وْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ اِیمَانِکُمْ کُفَّاراً احَسَداً مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ۔ (البقرہ۔ ۱۰۹ )

’’ بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہیں  کہ وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر تمہیں  کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ محض اپنے نفس کی حسد کی بنا پر‘‘

کفار مکہ کو بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بنا پر حسد تھا کہ مکہ اور طائف کے سرداروں  کو چھوڑ کر آپ کو کیوں  نبوت کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ کہتے تھے :

لَو لَا نُزِّلَ ھٰذَ الْقُرآنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔ (الزخرف : ۳۱)

’’ یہ قرآن دونوں  شہروں  کے (رئیسوں  میں  سے ) کسی بڑے بڑے آدمی پر کیوں  نہیں  نازل کیا گیا ؟ ‘‘۔

یہ حسد ہی کی آگ تھی جس نے انہیں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دشمن بنا دیا تھا۔ اور وہ نہیں  چاہتے تھے کہ اہل ایمان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی خیر نازل ہو:

مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ لَا الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِنْ خَیْرٍ مِنْ رَّبِّکُمْ، (البقرہ۔ ۱۰۵)

’’ جن لوگوں  نے کفر کیا خواہ وہ اہل کتاب ہوں  یا مشرک نہیں  چاہتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی خیر نازل ہو ‘‘۔

الغرض آیت کا منشاء یہ ے کہ ایک مؤمن کو جب کبھی کسی حاسد سے سابقہ پیش آئے تو وہ اس کے فتنوں  سے بچنے کے لیے خدا کی پناہ مانگے۔ اس طرح وہ اپنے غصہ کو بھی قابو میں  کھ سکے گا اور خدا کی مدد کا بھی مستحق ہو گا۔

قرآن کے اختتام پر حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کی جو ہدایت دی گئی ہے اس سے ایک اہم بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل ایمان خوب سمجھ لیں  کہ اس کتاب ہدایت کو پا کر انہیں  بڑی نعمت اور بہت بڑا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس پر ان کے دشمنوں  کا انہیں  حاسدانہ نگاہوں  سے دیکھنا اور توحید سے جو ہدایت کی اصل بنیاد ہے انہیں  پھیرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہر گز بعید نہیں  لہٰذا انہیں  چاہیے کہ اپنے حاسدوں  کی ریشہ دوانیوں  کی طرف سے چوکنا رہیں  اور ان کے فتنوں  سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا سہارا لیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۱۱۴)۔ سورہ الناس

 

(۶ آیات)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ میں  پانچ مرتبہ الناس (انسان) کا لفظ آیا ہے۔ اس مناسبت سے اس کا نام الناس ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہو گی جب کہ قرآن کے خلاف شیاطین انس و جن نے لوگوں  کے دلوں  میں  شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم شروع کر دی تھی۔

 

مرکزی مضمون

 

سورہ فلق کی طرح اس کا مرکزی مضمون بھی استعاذہ ہی ہے۔ البتہ اس میں  وسوسہ اندازی کا سب سے بڑا شر قرار دے کر اس سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں  پناہ دہندہ کی صفات بیان کی گئی ہیں۔

آیت ۴ میں  جس کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے اس کے ایک خطرناک اور شاطر دشمن ہونے سے متنبہ کیا گیا ہے۔

آیت ۵ میں  بتایا گیا ہے کہ اس کے حملوں  کا اصل نشانہ انسان کا دل ہوتا ہے۔

آیت ۶ میں  خبردار کیا گیا ہے کہ یہ دشمن جس طرح جنوں  میں  سے ہوتا ہے اس طرح انسانوں  میں  سے بھی ہوتا ہے۔

 

اہمیت

 

ترتیب کلام کے لحاظ قرآن کی یہ آخری سورہ ہے اور ایک پہلو سے وہ توحید کی محافظ ہے تو دوسرے پہلو سے پورے قرآن کی۔ توحید کی محافظ  اس طرح ہے کہ اس میں  توحید کے اصل دشمن شیطان کی شاطرانہ چالوں  سے ہوشیار رہنے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے خدائے واحد کا سہارا لینے اور اس کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ رہا اس سورہ کا پورے قرآن کے لیے محافظ اور پاسبان ہونی تو جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے : لَا یَتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَامِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِ یْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ۔ (باطل نہ اس کے آگے سے آ سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ یہ اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جو حکمت اور کمالات سے متصف ہے۔ حٰم السجدہ ۳۲)  مُعَوِّذَتَیْن کو اخیر یں  رکھ کر شیطان کے نفوذ کی تمام راہیں  بند کر دی ہیں  اس لیے کلام الہیٰ میں  شیطانی کلام کے خلط ملط اور باطل کے گڈ مڈ ہونے کا کوئی امکان نہیں  رہا۔ بالفاظ دیگر یہ سورہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ کتاب شیطان اور اس قماش کے انسانوں  کی دخل اندازیوں  سے قیامت تک کے لیے محفوظ رہے گی۔ اس میں  کسی قسم کی آمیزش یا تحریف ممکن نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ کے لیے اپنی اصل شکل میں   باقی رہنے والی کتاب ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو،۱*  میں  پناہ مانگتا ہوں انسانوں  کے رب کی ۲*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانوں  کے بادشاہ کی ۳*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانوں  کے معبود کی ۴*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وسوسہ ڈالنے والے خناس چھپنے والے *  کے شر سے ۵*

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگوں  کے سینوں دلوں *  میں  وسوسے ڈالتا ہے ۶*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو جنوں  میں  سے بھی ہوتا ہے اور انسانوں  میں  سے بھی ۷*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے اولین مخاطب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں  اور لفظ قُلْ (کہو) سے سورہ کا آغاز اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کلام وحی ہے ، اور خدائے تعالیٰ نے آپ کو جن الفاظ میں  پیغام پہنچانے کا حکم دیا تھا ٹھیک ٹھیک ان ہی الفاظ میں  آپ نے لوگوں  تک پہنچا دیا۔ ان میں  سے کوئی لفظ بھی حتیٰ کہ قُلْ (کہو) کا لفظ بھی آپ نے ساقط نہیں  فرمایا۔ یہ قرآن کے لفظ بہ لفظ وحیِ الٰہی ہونے کا صریح ثبوت ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانوں  کا رب یعنی تمام لوگوں  کا پروردگار اور مال حقیقی۔ (آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا انسانوں  کا رب ہے وہی پناہ دہندہ بھی ہے۔ اس کے سوا کوئی پناہ دینے والا نہیں  ہے۔ اس لیے میں  پناہ کے لیے اسی طرف جوع کرتا ہوں۔

زبور میں  بھی اس سے ملتا جلتا مضمون ہے :

’’ اے خدا ! میری حفاظت کر کیوں کہ میں  تجھ ہی میں  پناہ لیتا ہوں۔ میں  ے خداوند سے کہا تو ہی رب ہ۔ تیرے سوا میری بھلائی نہیں‘‘۔ (زبور ۱۶ : ۳۱)

واضح رہے کہ اَعُوْذُ کے لفظی معنی پناہ لینے کے ہیں  جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ بندہ خدا سے نہ صرف پناہ مانگتا ہے بلکہ عملاً اس نے اپنے کو اسی کی حفاظت میں  دے دیا ہے اور اسی کا سہارا لے لیا ہے لیکن چوں  کہ معوذتین دعائیہ سورتیں  ہیں  اور اردو محاورہ میں  ایسے موقع پر پناہ مانگنا بولا جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے لفظ اعوذ کا ترجمہ ’’ میں  پناہ مانگتا ہوں ‘‘ کیا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی چونکہ خدا انسانوں  کا بادشاہ حقیقی ہے اس لیے وہ بندوں  کی حفاظت پر پوری طرح قادر ہے اس لیے میں  اسی مقتدر اعلیٰ کا سہارا لیتا ہوں۔

اس سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ جس طرح زمین اور آسمانوں  پر قائم ہے اسی طرح پورے بنی نوع انسان پر بھی قائم ہے۔ انسانی گروہوں  میں  سے کوئی گروہ ایسا نہیں جس پر اس کی بادشاہت قائم نہ ہو۔ اس لیے کسی گروہ کا اپنے کو اس کی بادشاہت سے آزاد سمجھ لینا ایک خلاف واقعہ بات ہے اس سے حقیقت تو نہیں  بدلتی البتہ انسان کا طرز عمل غلط ہو کر رہ جاتا ہے۔ یعنی وہ اپنے دائرہ عمل میں  سرکش بنکر رہ جاتا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حقیقتاً تمام انسانوں  کا معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہاس کے رب اور بادشاہ ہونے کا تقاضا بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ لوگوں  نے اس حقیقت سے انحراف کر کے غیر اللہ کو معبود بنا لیا ہو۔ عبادت کی مستحق تنہا اور اللہ کی ذات ہے اور کا کائنات میں  معبود یعنی عبادت کے لائق ہونا تنہا اسی کی صفت ہے اور وہی ہے جس کی عبادت آسمانوں  میں  بھی کی جاتی ہے اور زمین میں  بھی ، اس لیے انسانوں  کا معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں  ہے۔

اللہ تعالیٰ رب ، مَلِک (بادشاہ) اور الٰہٖ (معبود) مان کر جب بندہ اس سے پناہ کی درخواست کرتا ہے تو وہ اسے قبول فرماتا ہے۔ بالفاظ دیگر دعائے تعوذ کی قبولیت کے لیے توحید شرط لازم ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ وسوسہ کے معنی بُری بات اور بُرے خیال کے ہیں  جو غیر محسوس طریقہ پر کسی کے دل میں  ڈالا جائے اور وسواس کے معنی ہیں  وسوسہ اندازی کرنے والا۔ یہ شیطان کی صفت سے اور اس کی دوسری صفت خناس ہے۔ جو خنوس سے ہے اور جس کے معنی چھپنے ، غائب ہو جانے اور پیچھے ہٹنے کے ہیں  نیز اس کے ایک معنی انقباض (سکڑنے ) کے بھی ہیں۔

شیطان جب انسان کو کسی گناہ پر آمادہ کرنا چاہتا ہے تو وہ گناہ کے کام کو خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے اور خوش گوار نتائج کی امید دلاتا ہے یہی چیز وسوسہ کی شکل میں  انسان کے دل میں  داخل ہوتی ہے اور جب وہ اس کے اثر کو قبول کرتا ہے تو یہ خیال پختہ ہو کر ارادہ اور عمل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سب سے پہلی وسوسہ اندازی شیطان نے آدم و حوا پر کی تھی :

فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیطٰنُ لِیُبْدِیَ لَھُمَا مَا وُرِیَ عَنْھَمَا مِنْ سَوْآتِھِمَا وقَا لَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ اَلشَّجَرَۃِ اِلَّا اَنْ تَکُوْ نَا مَلَکَیْنِ اَوْتَکُوْنَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ۔۔۔۔۔۔۔ وَ قَسَمَھُمَا اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ ( الاعراف ۲۰ ، ۲۱ )

’’ پھر شیطان نے ان پر وسوسہ اندازی کی تکہ ان کی شرمگاہیں  جو ان سے پوشیدہ رکھی گئی تھیں  ان کے سامنے کھول دے۔ اور کہا کہ تمہارے رب نے تم کو اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ تم کہیں  فرشتے نہ بن جاؤ یا تمہیں  حیات جاوداں  حاصِل نہ ہو جائے۔ اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں  تمہارا خیر خواہ ہوں  ‘‘۔

یہ شیطان کی وسوسہ اندازی کی واضح مثال ہے کہ کس طرح شیطان خیر خواہ بن کر آتا ہے اور گناہ کی ترغیب کیسے پر فریب انداز میں  دیتا ہے۔ آدم و حوا کے سامنے گو شیطان نمودار ہو گیا تھا، لیکن دنیا میں  اس کی وسوسہ اندازی چھپے دشمن کے حملہ کیطرح ہوتی ہے اس لیے آدمی کو اس کی وسوسہ اندازی کا پتہ نہیں  چلتا البتہ اپنے دل میں  وہ بُرے خیالات محسوس کرنے لگتا ہے لیکن ان خیالات کو قبول کرنا یا نہ کرنا انسان کے اپنے فیصلہ پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر وہ بیدار اور اپنے دشمن کی طرف سے چوکنا ہو تو شیطانی وساوس کا کوئی اثر قبول نہیں  کرتا اور اگر غافل ہو تو اثر قبول کرتا ہے اور انسان کا قلب اسی صورت میں  بیدار رہتا ہے جب کہ اس میں  خدا کی یاد بس گئی ہو۔ ذکر الٰہی انسان کی مدافعت کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس ہتھیار کو استعمال کر کے جب وہ دل میں  پیدا ہونے والے وسوسوں  سے خدا کی پناہ مانگتا ہے تو وسوسے بے اثر ہو کر رہ جاتے ہیں  اور شیطان کو ناکام لوٹنا پڑتا ہے۔ آیت کا منشاء شیطان کی ان چھپی کار روائیوں  سے جو وہ انسان کے خلاف کرتا ہے متنبہ کرنا ہے تاکہ انسان اپنے دشمن کی  طرف سے چوکنا رہے اور اپنی مدافعت کا سامان کرے۔

یہ تو آیت کے مفہوم کا عمومی پہلو ہے۔ رہا محل کلام کے لحاظ سے خصوصی پہلو تو  یہاں  خاص طور سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اہل ایمان کو قرآن کی شکل میں جو ہدایت عطا ہوئی ہے اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ اگر کوئی ہے تو وہ شیطان کی وسوسہ اندازی ہی ہے۔ یعنی وہ ایسی باتیں  دل میں  ڈال سکتا ہے جو قرآن کے معاملہ میں  شکوک و شبہات پیدا کرنے والی اور راہ ہدایت سے منحرف کر دینے والی ہوں ، خاص طور سے عقیدہ توحید جو دین کی اساس اور قرآن کی اصل روح ہے ، شیطان کی ریشہ دوانیاں اس کے خلاف ہو سکتی ہیں۔ اس لیے اس دشمن کی شاطرانہ چالوں  سے ہوشیار رہنے اور اپنے دین اور عقیدہ کی حفاظت کا سامان کرنے کی ضرورت ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ دلوں  میں  وسوسے ڈالنا اردو محاورہ کے لحاظ سے ہے ورنہ اصل میں لفظ صدور استعمال ہوا ہے جو صدر کی جمع ہے۔ اور جس کے معنی سینہ کے ہیں۔ شیطان کی وسوسہ اندازی کا محل انسان کا باطن یعنی اس کا سینہ ہے۔ سینہ دل کے لیے بمنزلہ دہلیز کے لیے جہاں  سے وسوسے دل میں  داخل ہوتے ہیں۔ علّامہ ابن قیم نے اس کی بڑی اچھی تشریح کی ہے۔

’’ یہ نکتہ قابل غور ہے اللہ تعالیٰ نے : یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ ( جو انسانوں  کے سینوں  میں  وسوسے ڈالتا ہے ) فرمایا اور یہ نہیں  فرمایا کہ ان کے دلوں  کی وسوسے ڈالتا ہے۔ کیونکہ سینہ دل کا صحن اور اس کا گھر ہے جہاں  سے واردات داخل ہو کر سینہ میں  مجتمع ہوتے ہیں  اس کے بعد دل میں  داخل ہوتے ہیں۔ لہٰذا سینہ دل کے لیے بمنزلہ دہلیز کے ہے۔ اور تمام احکام اور ارادے دل سے نکل کر سینہ میں  آتے ہیں  اور پھر وہاں  سے انکی تقسیم اس کے لشکروں  پر کی جاتی ہے ‘‘۔ (تفسیر العوذتین لا بن قیم۔ ص ۶۶)

یعنی وسوسے دل میں  براہ راست داخل نہیں  ہوتے بلکہ سینہ کے واسطہ سے داخل ہوتے ہیں۔ گویا شیطان کے تیر سینہ میں پیوست ہو جاتے ہیں  اور ان کا زہریلا اثر دل پر اسی وقت ہوتا ہے جب دل غفلت کی نیند سو رہا ہو۔ ورنہ اگر دل ذکر الٰہی سے بیدار ہو تو وہ مدافعت کر لیتا ہے اور اس کے اثر سے محفوظ رہتا ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وسوسہ اندازی کرنے والا شیطان محض ابلیس ہی نہیں  ہے بلکہ جنوں  اور انسانوں  میں  ایسے شیاطین بہ کثرت موجود ہیں  جو یہ کام کرتے رہتے ہیں  :۔

وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیِّ عَدُوًّ ا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بعْضٍ زُخُرُفَ الْقَوٰلِ غُرُوْراً۔ (الانعام : ۱۱۲)

’’ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں  اور جنوں  کے شیاطین کو دشمن بنا دیا ہے جو ایک دوسرے پر چکنی چپڑی باتیں  فریب دینے کے لیے القاء کرتے ہیں  ‘‘۔

جہاں  تک شیاطین جن کی وسوسہ اندازی کا تعلق ہے ان کا چھپ کر حملہ آور ہونا بالکل واضح  ہے۔ رہے شیاطین انس تو وہ بھی جب وسوسہ اندازی کرتے ہیں  تو اپنے اصلاً شیطان ہونے کی حیثیت کو چھپا کر ہی کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ انسان کے خیر خواہ بن کر نمودار ہوتے ہیں  کیونکہ وہ جانتے ہیں  کہ ان کا کوئی خیال اور ان کا کوئی مشورہ کسی کے لیے اسی صورت میں  ابل قبول ہو سکتا ہے جب کہ ایک ناصح اور ایک خیر خواہ کی حیثیت سے وہ سامنے آئیں  تو کوئی شخص بھی ان کی طرف توجہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو گا۔

یہاں  یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ شر پھیلانے کے تعلق سے اصل کردار شیاطین جن کا ہے جن کا سرغنہ ابلیس ہے۔ رہے شیاطین انس تو وہ ان ہی کے تابع ہیں۔

٭٭٭

ای بک: اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید