FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دس منٹ بارش میں

اور دوسرے افسانے

 

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

 

 

 

 

بھولا

 

میں نے مایا کو پتھر کے ایک کوزے میں مکھّن رکھتے دیکھا۔ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مایا نے کوزے میں پڑے ہوئے مکھن کو کنویں کے صاف پانی سے کئی بار دھویا۔ اس طرح مکھن کے جمع کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی۔ ایسی بات عموماً مایا کے کسی عزیز کی آمد کا پتا دیتی تھی۔ ہاں ! اب مجھے یاد آیا۔ دو دن کے بعد مایا کا بھائی اپنی بیوہ بہن سے راکھی بندھوانے کے لیے آنے والا تھا۔ یوں تو اکثر بہنیں بھائیوں کے ہاں جا کر انھیں راکھی باندھتی ہیں مگر مایا کا بھائی اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لیے خود ہی آ جایا کرتا تھا اور راکھی بندھوا لیا کرتا تھا۔ راکھی بندھوا کروہ اپنی بیوہ بہن کو یہی یقین دلاتا تھا کہ اگرچہ اس کا سہاگ لٹ گیا ہے مگر جب تک اس کا بھائی زندہ ہے، اس کی رکھشا، اس کی حفاظت کی ذمے داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ ننھے بھولے نے میرے اس خیال کی تصدیق کر دی۔ گنّا چوستے ہوئے اُس نے کہا: ’’ بابا ! پرسوں ماموں جی آئیں گے نا۔۔۔۔؟‘‘

میں نے اپنے پوتے کو پیار سے گود میں اٹھا لیا۔ بھولے کا جسم بہت نرم و نازک تھا اور اس کی آواز بہت سُریلی تھی۔ جیسے کنول کی پتیوں کی نزاکت اور سفیدی، گلاب کی سرخی اور بلبل کی خوش الحانی کو اکھٹا کر دیا ہو۔ اگرچہ بھولا میری لمبی اور گھنی داڑھی سے گھبرا کر مجھے اپنا منھ چومنے کی اجازت نہ دیتا تھا تاہم میں نے زبردستی اس کے سُرخ گالوں پر پیار کی مہر ثبت کر دی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا : ’’ بھولے تیرے ماموں جی تیری ماتا جی کے کیا ہوتے ہیں ؟‘‘بھولے نے کچھ وقت کے بعد جواب دیا ’’ ماموں جی !‘‘

مایا نے استوتر پڑھنا چھوڑ دیا اور ہنسنے لگی۔ میں اپنی بہو کے اس طرح کھل کر ہنسنے پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ مایا بیوہ تھی اور سماج اسے اچھے کپڑے پہننے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا۔ میں نے بار ہا مایا کو اچھے کپڑے پہننے ہنسنے کھیلنے کی تلقین کرتے ہوئے سماج کی پروانہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ مگر مایا نے خو د اپنے آپ کو سماج کے روح فرسا احکام کے تابع کر لیا تھا۔ اس نے اپنے تمام اچھے کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفّل کر کے چابی ایک جوہڑ میں پھینک دی تھی۔

مایا نے ہنستے ہوئے اپنا پاٹھ جاری رکھا۔

ہری ہری ہری ہر، ہری ہر، ہری

میر ی بار دیر کیوں اتنی کری

پھر اس نے اپنے لال کو پیار سے بلاتے ہوئے کہ ’’بھولے!۔۔ تم ننھی کے کیا ہوتے ہو ؟‘‘

’’ بھائی !‘‘ بھولے نے جواب دیا۔

’’ اسی طرح تیرے ماموں جی میرے بھائی ہیں۔‘‘

بھولا یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ایک ہی شخص کس طرح ایک ہی وقت میں کسی کا بھائی اور کسی کا ماموں ہو سکتا ہے۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ اس کے ماموں جان اس کے بابا جی کے بھی ماموں جی ہیں۔ بھولے نے اس مخمصے میں پڑنے کی کوشش نہ کی اور اچک کر ماں کی گود میں جا بیٹھا اور اپنی ماں سے گیتا سننے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ وہ گیتا محض اس وجہ سے سنتا تھا کہ وہ کہانیوں کا شوقین تھا اور گیتا کے ادھیائے کے آخر میں مہاتم سن کر وہ بہت خوش ہوتا اور پھر جوہڑ کے کنارے پھیلی ہوئی دوپ کی مخملی تلواروں میں بیٹھ کر گھنٹوں ان مہاتموں پر غور کیا کرتا۔

مجھے دوپہر کو اپنے گھر سے چھے میل دور اپنے مزارعوں کو ہل پہنچانے تھے۔ بوڑھا جسم، اس پر مصیبتوں کا مارا ہوا، جوانی کے عالم میں تین تین من بوجھ اٹھا کر دوڑا کیا۔ مگر اب بیس سیر بوجھ کے نیچے گردن پچکنے لگتی ہے۔ بیٹے کی موت نے امید کو یاس میں تبدیل کر کے کمر تو ڑ دی تھی۔ اب میں بھولے کے سہارے ہی جیتا تھا ورنہ دراصل تو مر چکا تھا۔

رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہے اونگھنے لگا۔ ذرا توقف کے بعد مایا نے مجھے دودھ پینے کے لیے آواز دی۔ میں اپنی بہو کی سعادت مندی پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور اسے سنکڑوں دعائیں دیتے ہوئے میں نے کہا : ’’ مجھ بوڑھے کی اتنی پروانہ کیا کرو بٹیا۔‘‘

بھولا ابھی تک نہ سویا تھا اس نے ایک چھلانگ لگائی اور میرے پیٹ پر چڑھ گیا۔ بولا : ’’ بابا جی ! آپ آج کہانی نہیں سنائیں گے کیا ؟‘‘

نہیں بیٹا۔‘‘ میں نے آسمان پر نکلے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہوئے کہا : ’’ میں آج بہت تھک گیا ہوں۔ کل دوپہر کو تمھیں سناؤں گا۔‘‘

بھولے نے روٹھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ میں تمھارا بھولا نہیں بابا۔ میں ماتا جی کا بھولا ہوں۔‘‘

بھولا بھی جانتا تھا کہ میں نے اس کی ایسی بات کبھی برداشت نہیں کی۔ میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھا کہ ’’بھولا بابا جی کاہے اور ماتا جی کا نہیں ‘‘ مگر اس دن ہلوں کا کندھے پر اٹھا کر چھے میل تک لے جانے اور پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا۔ شاید میں اتنا نہ تھکتا، اگر میرا نیا جوتا ایڑی کو نہ دباتا اور اس وجہ سے میرے پاؤں میں ٹیسیں نہ اٹھتیں۔ اس غیر معمولی تھکن کے باعث میں نے بھولے کی وہ بات بھی برداشت کی۔ میں آسمان پر ستاروں کو دیکھنے لگا۔ آسمان کے جنوبی گوشے میں ایک ستارہ مشعل کی طرح روشن تھا۔ غور سے دیکھنے پر وہ مدھم سا ہونے لگا۔ میں اونگھتے اونگھتے سوگیا۔

صبح ہوتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ بھولا سوچتا ہو گا کہ کل رات بابا نے میری بات کس طرح برداشت کی ؟ میں اس خیال سے لرز گیا کہ بھولے کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آیا ہو کہ اب بابا میری پروا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ صبح کے وقت اس نے میری گود میں آنے سے انکار کر دیا اور بولا :

’’ میں نہیں آؤں گا۔تیرے پاس بابا ؟‘‘

’’ کیوں بھولے ؟‘‘

’’ بھولا بابا جی کا نہیں۔ بھولا ماتا جی کا ہے۔‘‘

میں نے بھولے کو مٹھائی کے لالچ سے منا لیا اور چند ہی لمحات میں بھولا بابا جی کا بن گیا اور میری گود میں آ گیا اور اپنی ننھی ٹانگوں کے گرد میرے جسم سے لپٹے ہوئے کمبل کو لپیٹنے لگا۔ مایا ہری ہر استو تر پڑھ رہی تھی۔ پھر اس نے پاؤ بھر مکھّن نکالا اور اسے کوزے میں ڈال کر کنویں کے صاف پانی سے چھا چھ کی کھٹاس کو دھو ڈالا۔ اب مایا نے اپنے بھائی کے لیے سیر کے قریب مکھّن تیار کر لیا۔ میں بہن بھائی کے اس پیار کے جذبے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اتنا خوش کہ میری آنکھوں میں آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے دل میں کہا : عورت کا دل محبت کا ایک سمندر ہوتا ہے کہ ماں، باپ، بھائی بہن، خاوند بچے سب سے وہ بہت ہی پیار کرتی ہے اور اتنا کرنے پر بھی وہ ختم نہیں ہوتا۔ ایک دل کے ہوتے ہوئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے۔ بھولے نے دونوں ہاتھ میرے گالوں کی جھریوں پر رکھے۔ مایا کی طرف سے چہرے کو ہٹا کر اپنی طرف کر لیا اور بولا :

’’ بابا تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے نا۔۔؟‘‘

’’ کس بات کا۔۔۔بیٹا ؟‘‘

’’ تمھیں آج دوپہر کو مجھے کہانی سنانی ہے۔‘‘

’’ ہاں بیٹا۔۔!‘‘ میں نے اس کا منھ چومتے ہوئے کہا

یہ تو بھولا ہی جانتا ہو گا کہ اس نے دوپہر کے آنے کا کتنا انتظار کیا۔ بھولے کو اس بات کا علم تھا کہ بابا جی کے کہانی سنانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب وہ کھانا کھا کر اس پلنگ پر جا لیٹتے ہیں جس پر وہ بابا جی یا ماتا جی کی مدد کے بغیر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ وقت سے آدھ گھنٹہ پیشتر ہی اس نے کھانا نکلوانے پر اصرار شروع کر دیا۔ میرے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کہانی سننے کے چاؤ سے۔

میں نے معمول سے آدھ گھنٹہ پہلے کھانا کھایا۔ ابھی آخری نوالہ میں نے توڑا ہی تھا کہ پٹواری نے دروازے پر دستک دی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ہلکی سے جریب تھی۔ اس نے کہا کہ خانقاہ والے کنویں پر آپ کی زمین کو ناپنے کے لیے مجھے آج ہی فرصت مل سکتی ہے، پھر نہیں۔

دالان کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا۔ بھولا چار پائی کے چاروں طرف گھوم کر بستر بچھا رہا تھا۔ بستر بچھانے کے بعد اس نے ایک بڑا سا تکیہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور خود پائینتی میں پاؤں اڑا کر چار پائی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ بھولے کا مجھے اصرار سے جلد روٹی کھلانا اور بستر بچھا کر میری تواضع کرنا اپنی خود غرضی پر مبنی تھا تاہم میرے خیال میں آیا۔

’’آخر مایا ہی کا بیٹا ہے نہ۔۔۔ایشور اس کی عمر دراز کرے۔‘‘

میں نے پٹواری سے کہا، تم خانقاہ والے کنویں کو چلو اور میں تمھارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گا۔ جب بھولے نے دیکھا کہ میں باہر جانے کے لیے تیار ہوں تو اس کا چہرہ اس طرح مدھم پڑ گیا جیسے گزشتہ شب کو آسمان کے ایک کونے میں مشعل کی مانند روشن ستارہ مسلسل دیکھتے رہنے کی وجہ سے ماند پڑ گیا تھا۔ مایا نے کہا :

’’ بابا جی، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ ؟ خانقاہ والا کنواں کہیں بھاگا تو نہیں جاتا۔۔ آپ کم سے کم آرام تو کر لیں۔‘‘

اوہوں۔‘‘ میں نے زیر لب کہا ’’ پٹواری چلا گیا تو پھر یہ کام ایک ماہ سے ادھر نہ ہو سکے گا۔‘‘

مایا خاموش ہو گئی۔بھولا منھ بسورنے لگا۔ اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ اس نے کہا: ’’ بابا میری کہانی۔۔۔میر ی کہانی۔۔۔‘‘

’’ بھولے۔۔۔میرے بچے ؟ میں نے بھولے کو ٹالتے ہوئے کہا۔‘‘ دن کو کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔‘‘

’’ راستہ بھول جاتے ہیں !‘‘ بھولے نے سوچتے ہوئے کہا۔’’بابا تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔میں بابا جی کا بھولا نہیں بنتا۔‘‘

اب جب کہ میں تھکا ہوا بھی نہیں تھا اور پندرہ بیس منٹ آرام کے لیے نکال سکتا تھا، بھلا بھولے کی اس بات کو آسانی سے کس طرح برداشت کر لیتا۔ میں نے اپنے شانے سے چادر اتار کر چار پائی کی پائینتی پر رکھی اور اپنی دبی ہوئی ایڑی کو جوتی کی قید با مشقت سے نجات دلاتے ہوئے پلنگ پر لیٹ گیا۔ بھولا پھر اپنے بابا کا بن گیا۔ لیٹتے ہوئے میں نے بھولے سے کہا : ’’ اب کوئی مسافر راستہ کھو بیٹھے۔۔تو اس کے تم ذمے دار ہو:‘‘

اور میں نے بھولے کو دوپہر کے وقت سات شہزادوں اور سات شہزادیوں کی ایک لمبی کہانی سنائی۔ کہانی میں ان کی باہمی شادی کو میں نے معمول سے زیادہ دلکش انداز میں بیان کیا۔ بھولا ہمیشہ اس کہانی کو پسند کرتا تھا جس کے آخر میں شہزادہ اور شہزادی کی شادی ہو جائے مگر میں نے اس روز بھولے کے منھ پر خوشی کی کوئی علامت نہ دیکھی بلکہ وہ ایک افسردہ سا منھ بنائے خفیف طور پر کانپتا رہا۔

اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے کنویں پر انتظار کرتے کرتے تھک کر اپنی ہلکی ہلکی جھنکا ر پیدا کرنے والی جریب جیب میں ڈال کر کہیں اپنے گاؤں کا رخ نہ کر لے۔ میں جلدی جلدی مگر اپنے نئے جوتے میں دبتی ہوئی ایڑی کی وجہ سے لنگڑاتا ہوا بھاگا۔ گو مایا نے جوتی کو سرسوں کا تیل لگا دیا تھا۔ تاہم وہ نرم مطلق نہ ہوئی تھی۔

شام کو جب میں واپس آیا تو میں نے بھولے کو خوشی سے دالان سے صحن میں اور صحن سے دالان میں کودتے پھاندتے دیکھا۔ وہ لکڑی کے ایک ڈنڈے کو گھوڑا بنا کر اسے بھگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا :

’’ چل ماموں جی کے دیس۔۔۔۔رے گھوڑے، ماموں جی کے دیس۔

ماموں جی کے دیس، ہاں ہاں، ماموں جی کے دیس۔ گھوڑے۔۔۔‘‘

جوں ہی میں نے دہلیز میں قدم رکھا۔ بھولے نے اپنا گانا ختم کر دیا اور بولا۔

’’ بابا۔۔۔آج ماموں جی آئیں گے نا۔۔؟‘‘

’’ پھر کیا ہو گا بھولے۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ ماموں جی اگن بوٹ لائیں گے۔ ماموں جی کلّو ( کتا ) لائیں گے۔ ماموں جی کے سر پر مکّی کے بھٹوں کا ڈھیر ہو گا نا بابا۔ ہمارے یہاں تو مکّی ہوتی ہی نہیں بابا۔ اور تو اور ایسی مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی۔ ‘‘

میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس خوبی سے ’’ خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی ‘‘ کے الفاظ سات شہزادوں اور سات شہزادیوں والی کہانی کے بیان میں سے اس نے یاد رکھے تھے۔ ’’ جیتا رہے ‘‘ میں نے دعا دیتے ہوئے کہا ’’ بہت ذہین لڑکا ہو گا اور ہمارے نام کو روشن کرے گا۔‘‘

شام ہوتے ہی بھولا دروازے میں جا بیٹھا تاکہ ماموں کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اور پہلے پہل اپنی ماتا جی کو اور پھر مجھے اپنے ماموں جی کے آنے کی خبر سنائے۔

دیوں کو دیا سلائی دکھائی گئی۔ جوں جوں رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جاتا دیوں کی روشنی زیادہ ہوتی جاتی۔

متفکرانہ لہجے میں مایا نے کہا :

’’ بابا جی۔ بھیّا ابھی تک نہیں آئے۔‘‘

’’ کسی کام کی وجہ سے ٹھہر گئے ہوں گے۔‘‘

’’ ممکن ہے کوئی ضروری کام آ پڑا ہو۔۔۔۔ راکھی کے روپئے ڈاک میں بھیج دیں گے۔۔۔۔۔۔ ‘‘

’’ مگر راکھی ؟‘‘

’’ ہاں راکھی کی کہو۔۔انھیں اب تک تو آ جانا چاہیے تھا۔‘‘

میں نے بھولے کو زبردستی دروازے کی دہلیز پر سے اُٹھایا۔ بھولے نے اپنی ماتا سے بھی زیادہ متفکرانہ لہجے میں کہا :’’ ماتا جی۔۔ماموں جی کیوں نہیں آئے ؟‘‘

مایا نے بھولے کو گود میں اُٹھاتے ہوئے اور پیار کرتے ہوئے کہا۔’’ شاید صبح کو آ جائیں۔ تیرے ماموں جی۔ میرے بھولے۔‘‘

پھر بھولے نے اپنے نرم و نازک بازوؤں کو اپنی ماں کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا :

’’ میرے ماموں جی تمھارے کیا ہوتے ہیں ؟‘‘

’’ جو تم ننھی کے ہو۔‘‘

’’ بھائی ؟‘‘

’’ تم جانو۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

ہمدوش

 

 

سطحی نظر سے تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ مرکزی شفا خانے کے اُن لوگوں کو جن کی نگرانی میں بہت سے نا اُمید و پُر اُمید مریض رہتے ہیں، مساوات پر بہت یقین ہے۔ وہ ہر چھوٹے بڑے کو بلا امتیاز مذہب و ملت ،تیس تیس گرہ کے کھُلے پائنچوں کا پاجامہ اور کھلے کھلے بازوؤں والی قمیص پہنا دیتے ہیں، جن سے ایک خاص قسم کی سوندھی سوندھی نامانوس سی بُو آتی ہے۔ قمیص گھٹنے سے بھی چھ گرہ اُونچی ہوتی ہے۔ بعض وقت اتنی اُونچی کہ ازار بند بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ مرکزی شفا خانے اور مرکزی زندان خانے کے مکینوں کی پوشش میں فرق ہی کیا ہے؟ یہی نا کہ شفا خانے کے مکینوں کی پوشش قدرے مٹیالی رنگت کی مگر اُجلی ہوتی ہے، لیکن زندان خانے میں بسنے والے بدنصیبوں کو شاید ہی کبھی دھوبی کا منھ دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔

شفا خانے میں ان تیس تیس گرہ کے کھلے پائنچوں اور ڈھیلی ڈھالی قمیصوں میں ڈھکے ہوئے بدن بھی ایک ہی ساخت کے ہوتے ہیں۔ جسمانی لحاظ سے کوئی قدرے فربہ یا کوئی بہت لاغر ہو تو ہو، لیکن منھ پر ایک ہی سی زردی چھائی ہوتی ہے۔ ایک ہی خوف یا اندیشہ ہوتا ہے، جو ہر ایک کے دل میں اضطراب پیدا کرتا ہے۔

’’کیا ہم موت کے اس غار سے زندہ سلامت گزر جائیں گے؟‘‘

— اور یہی سوچ ان غریبوں پر راتوں کی نیند حرام کر دیتی ہے۔

سورج ڈوبنے کو ہے۔ شفا خانے کے احاطے کی مرمت طلب دیوار پر ممولے کی مادہ اپنے انڈوں کے خول بنانے کے لیے چُونا کریدنے آتی ہے اور اسی وقت انہی تیس تیس گرہ کے کھلے پائنچوں اور ڈھیلی ڈھالی قمیصوں میں بے رنگ و روپ چہروں والے لوگ حکمِ امتناعی کے باوجود شفا خانے کے احاطے کی مرمت طلب دیوار پر تندرستی کا نظارہ کرنے آتے ہیں اور گھنٹوں حسرت کے عالم میں اُس متحرک زندگی کا تماشا کرتے ہیں۔

شفا خانے کے سامنے ایک بساطی کی دُکان پر چند نوجوان لڑکیوں کا جمگھٹا ہے۔ اُن کی رنگارنگ ساڑھیوں کے پلّے بے باکانہ طور پر سر سے اُڑ رہے ہیں۔ کوئی ’ہمانی‘ کی خریدار ہے اور کوئی ’زینت‘ کی اور کوئی ’کوٹی‘ کی — دُکان کے اوپر ،چھت پر پروفیسر کی بیوی چِق کے پیچھے اپنے لبوں پر سے لپ سٹک کی اڑی ہوئی سرخی کو درست کرتی ہوئی دھندلی دھندلی سی دکھائی دیتی ہے۔

میرا ساتھی عظیم الدین کھیڑا مغلی — کھیڑا مغل کا رہنے والا ہے۔ مغلی پروفیسر کی حسین بیوی کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے اپنے کاربنکل، بلکہ وجود تک کے احساس سے بے نیاز ہو کر کہتا ہے۔

’’کیا اس کے لبوں پر سے سرخی اُڑ گئی تھی؟‘‘

’’دیکھتے نہیں — ابھی پروفیسر کے کمرے سے باہر آ رہی ہے — اور — ‘‘

’’ہش ش — ہش‘‘— اور ہمارا دوسرا ساتھی اشچرج لال پھر ہمیں فنا کے عالم میں لے آتا ہے۔

سڑک پر ایک سبز اوپل کار پورے زور سے ہارن بجاتی ہوئی گزرتی ہے۔ اُس میں بیٹھے ہوئے دو بوڑھوں کی نگاہیں تانگہ میں جاتی ہوئی دلہن کی سُرخ چوڑیوں میں پیوست ہیں اور دلہن کی نگاہیں سڑک کے کنارے پر پڑے ہوئے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر جم رہی ہیں۔

چند ایک اوباش چھوکرے اپنے مخصوص بے پروایانہ انداز سے ’ٹپے‘ گاتے ہوئے سینما کی طرف لپکے جا رہے ہیں اور اُن سے کچھ ہٹ کر سنبھل سنبھل کر چلتے ہوئے ایک سادھو مہاتما ہیں، جن کا ایک ایک قدم شانتی کے تجسس میں اُٹھتا ہے۔ وہ شانتی اور سکون جو کہیں نہیں ملتا— شفاخانے کے پھاٹک پر دو خوانچہ والے گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ دونوں بیک ساعت دروازے کے عین بغل میں اپنا خوانچہ رکھنا چاہتے ہیں — کمزور نے پیچھے ہٹ کر تنومند کو ایک پتھّر مارا ہے—

’’ارے او بے صبر و قناعت لوگو! صحت کی اس تھوڑی سی خوشی سے جو تمھیں عاریتاً دی گئی ہے، کیوں مستفیض نہیں ہوتے؟ ارے دیکھتے نہیں، ہم تمھارے بھائی کتنے حرماں نصیب ہیں؟‘‘

’’ہاں بھائی! — یہ سب تندرستی کی باتیں ہیں۔‘‘ اشچرج لال کہتا ہے۔

’’شاید ہم بھی تندرست ہو کر ایسا ہی کریں۔‘‘

پھر کھیڑا مغلی اُس قبرستان کی طرف، جو شفا خانے کے قریب واقع ہے، دیکھ کر چونک اُٹھتا ہے اور کہتا ہے—

’’کل ہمارے ہی کمرے میں — ساتویں چارپائی — اف ! میرا سر گھوم رہا ہے۔ مجھے یوں دکھائی دیتا ہے، جیسے وہ قبرستان ہماری طرف آ رہا ہے — ‘‘

’’ہش —ش ش — ‘‘ میں اُسے خاموش ہو جانے کے لیے کہتا ہوں۔’’ ایسی بات نہ کہو بھائی۔‘‘

لیکن یہ مغلی کے بس کی بات نہیں۔ وہ زور سے چھینکتا ہے۔ کاربنکل کے ساتھ اُسے انفلوئنزا نے بھی آ دبایا ہے۔ اس کے بالکل زرد، بے رونق چہرے پر سُرخ نوکدار رقیق لعاب سے بھری ہوئی ناک، ایک عجیب کریہہ منظر پیدا کر رہی ہے۔

لیکن پھر بھی ہمیں تندرستی کی دلچسپ حماقتیں محو کر ہی لیتی ہیں، حتیٰ کہ پھر مغلی ایک خوفناک انداز سے چھینکتا ہے اور بہت سے آبی، لعابی ذرّات دھوپ کی کرنوں میں اڑنے لگتے ہیں۔ چھینکنے سے مغلی کی ریڑھ کی ہڈی پر زور پڑتا ہے اور وہ درد کے ایک شدید احساس سے کاربنکل پر ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ جوں جوں درد کم ہوتا ہے، اُس کی مڑی ہوئی آنکھیں اور ہمارے رُکے ہوئے سانس آہستہ آہستہ واپس آتے ہیں۔ کچھ دم لینے کے بعد مغلی کہتا ہے۔

’’بھائی — کیا ہم اِن چوڑے والیوں، ان خوانچہ والوں — مزدوروں کے ہمدوش چل سکیں گے؟‘‘

’’تم جی میلا نہ کرو مغلی۔ میں — میرا خیال ہے کہ تم بالکل تندرست ہو جاؤ گے۔ اشچرج لال پہلے ہی رو بصحت ہے، لیکن میں ان لوگوں کے شانہ بشانہ کبھی نہیں چل سکوں گا، دیکھتے نہیں میری ٹانگ کو ؟ بالکل گل ہی تو گئی ہے — کاش! میں اُس گداگر کے دوش بدوش چل سکوں مغلی— مجھے اِس بات کی پروا نہیں۔ چاہے اس کی طرح میری بھی ایک ٹانگ کاٹ لی جائے— میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ صحت کی حالت میں اس احاطہ کی دیوار کو پھاند سکوں— ۔‘‘

— اور یوں اُن تندرست انسانوں کے ہمدوش چلنے کی ایک زبردست خواہش کو پالتے ہوئے ہم اپنے اپنے کمروں کا رُخ کرتے ہیں اور ممولے کی مادہ، جو کہ مٹی کے ایک ڈھیر پر بیٹھی ہمارے چلے جانے کا بڑی ہی بے صبری سے انتظار کر رہی تھی، پھر اُسی مرمت طلب دیوار پر اپنے انڈوں کے خول بنانے کے لیے چُونا کریدنے آتی ہے۔

۔۔

جب پرندہ پرواز کے لیے پَر تولتا ہے اور پنجے کا پچھلا حصہ زمین پر سے اُٹھا کر نشست و پرواز کی درمیانی حالت میں ہوتا ہے، اسے ’صورتِ ناہض‘ کہتے ہیں۔ بیمار کے لیے صورتِ ناہض بیٹھنا معیوب اور بد شگونی کی علامت گِنا جاتا ہے۔ ہاں! جو اس دنیا میں سے ایڑیاں اٹھا کر فضائے عدم میں پرواز کرنا چاہے، وہ بیمار بلا خوف صورتِ ناہض بیٹھے۔

کھیڑا مغلی اسی طرح بیٹھا تھا۔ میں نے اُسے یوں بیٹھنے سے منع کیا اور ہمیں دروازہ سے ’’گرٹی‘‘ آتے دکھائی دی۔

گرٹی ہماری نرس تھی۔ اس کا پورا نام مس گرٹروڈبینسن(Miss Gertrude Benson) تھا، مگر ہم میں سے چند ایک دیرینہ مریض اُس سے اتنے مانوس ہو گئے تھے کہ اُسے اُس کے عیسائی نام سے بُلانے سے ذرہ بھر بھی تامل نہیں کرتے تھے اور یہ چھوٹی سی رعایت گرٹی نے خود دے رکھی تھی۔ وہ مجھ پر عموماً اور کھیڑا مغلی پر خصوصاً مہربان تھی۔ مغلی کی اُجڈ، گنوارُو حرکتیں گرٹی کے لیے باعث تفریح تھیں۔ سُرخ کمبل کو ایک طرف سرکاتے ہوئے وہ اکثر مغلی کے پاس بیٹھ جاتی اور اُس کے جہلمی تراش کے بالوں میں اپنی خوبصورت اُنگلیاں پھیرا کرتی۔

جتنا وہ مغلی کو پیار کرتی، اُتنا ہی اُسے وہم ہو جاتا کہ وہ سلامتی سے بعید ہے۔ وہ کہتا ۔

’’وہ محض میری دلجوئی کے لیے مجھ سے پیار کرتی ہے — مریض کو ہر ممکن طریقے سے خوش رکھنا، ان کے پیشے کی خصوصیت ہے اور پھر گرٹی میں جذبۂ رحم بھی تو بہت ہے۔ وہ جانتی ہے کہ میرے دن بہت قریب ہیں اور پھر اس چہرے پر یہ رُوکھا پھیکا تبسّم بھی رقص نہ کرے گا۔‘‘

’’گرٹی! — گرٹی — ‘‘ ہم دونو نے پکارا۔

شفا خانے میں چند ایک مریض ایسے بھی تھے، جنھیں کھانا گھر سے منگوا لینے کی اجازت تھی۔ ہم ان خوش نصیبوں میں سے نہیں تھے۔ ہمیں شفا خانے کی طرف سے بیماروں کی خاص خوراک ملتی تھی — وہ خوش نصیب جب کھانا کھا کر چینی کے برتن دور رکھ دیتے اور ان میں سالن کی زردی اور روغن کی چکناہٹ دکھائی دیتی ، تو ہمارا دل ہمیں بغاوت کے لیے اُکساتا۔

گرٹی کے ہاتھ سے ہم نے کھانا چھینا۔ وہی روز مرّہ کا کھانا۔ اگر بھوک نہ ہوتی، تو اس کے کھانے سے ہمیں رتی بھر بھی رغبت نہیں رہتی تھی۔ بہت سے دودھ میں تھوڑا سا ساگودانہ تیرتا ہوا یوں دکھائی دیتا، جیسے برسات کے پانی میں مینڈک کے سینکڑوں انڈے چھوٹے چھوٹے سیاہ داغوں کی صورت میں ایک جھلّی میں لپٹے ہوئے تیرتے نظر آتے ہیں۔

ہم نے قحط زدہ لوگوں کے مخصوص انداز سے ایک ہی رکابی میں کھانا شروع کر دیا اور گرٹی کے کہے کی مطلق پروا نہ کی۔ مریضوں کی تیمار داری کے لیے آئے ہوئے لوگ ہمیں گھُورنے لگے۔

’’ایک سِکھ اور مسلمان — ساتھ ساتھ نہیں، ایک ہی رکابی میں!‘‘

— وہ کیا جانیں کہ شفا خانے کے احاطے کی چاردیواری سے باہر سب کچھ ہے، مگر یہاں کوئی ہندو ہے نہ مسلمان، سِکھ نہ عیسائی، گوڑ برہمن اور نہ اچھوت — یہاں ایک ہی مذہب کے آدمی ہیں، جنھیں بیمار کہتے ہیں اور جن کی نجات شفا ہے۔ جس کے حصول کے لیے وہ اپنی تمام خواہشات اور رہی سہی قوت صرف کر ڈالتے ہیں۔

اس دن شام کو ہم نے پھر تندرست انسانوں کی دلچسپ حماقتوں کا تماشا کیا۔ وہی ہنگامے، وہی بے صبری —سامنے ایک ڈبل فلائی راؤٹی خیمہ کے نیچے چند ایک آدمی دعوت اُڑا رہے تھے۔ ایک کونے میں چند بوتلیں کھلی پڑی تھیں۔ کبھی کبھی سوڈے کی ’بَز‘ کی آواز آتی— وہ لوگ ہنستے تھے، چلاّتے تھے۔ کیلے اور سنگتروں کے چھلکے ایک دوسرے پر پھینک کر نشانہ بازی کی مشق کرتے تھے اور اس دعوت کی تمام رونق قبرستان کے بے رونق پس منظر کی وجہ سے زیادہ با رونق دکھائی دے رہی تھی۔ بے شک! زندگی کی بہت سی خوشیاں موت کے پس منظر کی رہینِ منّت ہیں جس طرح اخترِ شب کی درخشندگی رات کی سیاہی اور آسمان کے نیلے پن کی۔

کھیڑا مغلی نے یک بیک صورت ناہض سے اُٹھ کر ایک کانپتا ہوا پُر جوش ہاتھ میرے شانہ پر رکھا اور مشکوک انداز سے بولا۔

’’بھائی — کیا ہم ان لوگوں کے ہمدوش بھی ہو سکیں گے؟‘‘

میں کچھ دیر مبہوت کھڑا آسمان پر اڑتی ہوئی چنڈولوں کو دیکھتا رہا۔ پھر میں نے مغلی سے لپٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں — مغلی، کیوں نہیں؟ لیکن تم اس طرح بیٹھا مت کرو۔‘‘

پھر کچھ رُک رُک کر میں نے کہا۔

’’کل میری ٹانگ کا اپریشن ہے — گرٹی نے مجھے بتایا تھا۔ شاید آج یہ میری اور تمھاری آخری ملاقات ہو۔ تم ان لوگوں کے دوش بدوش چل سکو گے — اشچرج بھی شفا پا جائے گا— لیکن میں —۔

اور ہم دونو چپ نمناک آنکھوں میں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

پھر کھیڑا مغلی نے ایک خوفناک چھینک لی۔

دوسرے دن میری ٹانگ کاٹ لی گئی۔

پانچویں دن میری آنکھ کھلی۔ میں ہل جُل نہیں سکتا تھا۔ میں نے دیکھا۔ کھیڑا مغلی میری پائینتی پر بیٹھا زیرِ لب کچھ ورد کر رہا تھا۔ میری آنکھیں کھلتے ہوئے دیکھ کر وہ مسکرانے لگا۔ میں نے اپنے بدن میں کچھ طاقت محسوس کرتے ہوئے اُس سے لپٹنے کے لیے کانپتے ہوئے ہاتھ پھیلا دیے۔ میں اپنی ٹانگ کے دکھ جانے سے بلبلا اُٹھا اور مغلی اپنے کاربنکل پر زور پڑنے سے!

۔۔۔

مغلی کا کاربنکل اچھا ہو رہا تھا۔ اسی دوران میں مَیں شفا پاکر ہسپتال سے چلا گیا۔ میری غیر حاضری میں میری رفیقِ زندگی فوت ہو چکی تھی۔ اب ایک شیشم کی، سخت سی دوہری لاٹھی میری رفیقِ زندگی بن گئی تھی۔ پہلی اور اس رفیقِ زندگی میں فرق صرف اتنا تھا کہ وہ مجھے اپنی باتونی طبیعت سے نالاں رکھتی اور یہ اپنی خاموشی سے نالاں تر۔

اُسی لاٹھی کو بغل میں دبائے میں آہستہ آہستہ کام پر چلا جاتا۔ مجھے اپنی ٹانگ کے کاٹے جانے کا چنداں افسوس نہ تھا۔ میں اس بات پر خوش تھا کہ تندرست تو ہو گیا اور اپنی خواہش کے مطابق شفا خانے کے احاطے کی دیوار سے باہر۔

ایک دفعہ میں شفا خانے کے پاس سے گزرا تو میری روح تک لرز گئی۔ اس وقت میرے ساتھی اور بعد میں آئے ہوئے مریض حسرت بھری نگاہوں سے ہماری دلچسپ حماقتیں دیکھنے میں محو تھے — اور احاطے کی مرمت طلب دیوار پر تین ممولے اپنی تین کاٹ کی دموں کو تھرتھرا رہے تھے۔ میرے خیال میں بڑا ممولا چھوٹے ممولوں کی ماں تھی جو ہماری بیماری کے ایّام میں اُسی دیوار پر اپنے انڈوں کے خول بنانے کے لیے چُونا کریدنے آیا کرتی تھی۔

اُس وقت میرے سوا اُن مریضوں کی تکلیف کو کون جان سکتا تھا۔ میں نے ان لوگو ں کی مصیبت پر چند ایک آنسو بہائے … مجھے سامنے بساطی کی دُکان پر چند نوجوان لڑکیوں کا جمگھٹا دکھائی دیا۔ اُن کی ساڑھیوں کے پلّے اُسی طرح بے باکانہ طور پر اڑ رہے تھے— اور چھت پر، چق کے پیچھے پروفیسر کی بیوی اپنی ساڑھی کی سِلوٹوں کو درست کر تی ہوئی دھندلی سی دکھائی دے رہی تھی۔ میں ایک مبہم سے احساس کے ساتھ بساطی کی دُکان کی طرف بڑھا اور وہاں سے کچھ رنگ دار ریشمی فیتے، لاٹھی کو سجانے کے لیے خریدا اور کچھ غیر مطمئن، کھویا کھویا اور لڑکھڑاتا ہوا واپس لوٹا۔

ایک دن میں شفا خانے کے اندر گیا، تو میں نے دیکھا، مغلی کا کاربنکل بہت حد تک ٹھیک ہو چکا تھا۔ ہاں اشچرج کی حالت نازک اور ناقابلِ بیان تھی — اس کے بعد مجھے اپنے ایک افسر کے ساتھ چند ہفتوں کے لیے باہر جانا پڑا۔

میرے دل میں کئی بار خیال آیا۔ کھیڑا مغلی مجھے کتنا کوستا ہو گا ۔ وہ تو پہلے ہی کہا کرتا تھا کہ انسان خود سکھی ہو کر اپنے گزشتہ دُکھ اور دوسروں کی تکالیف کو عمداً بھول جایا کرتا ہے۔ ہر چند یہ بات درست تھی، مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے مجھ پر عائد نہ ہوتی تھی۔

واپس آنے پر فرصت کے ایک دن میں شفا خانے گیا۔

گرٹی نے ایک روکھی پھیکی مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا۔ میں ڈر سے سہم گیا ۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اشچرج لال دو دن ہوئے مکمل شفا پا کر اجمیر جلا گیا ہے۔ مگر گرٹی نے کھیڑا مغلی کی بابت کچھ نہ کہا۔

میں احتیاط سے قدم اٹھا تا ہوا جنرل وارڈ کی طرف گیا۔ برآمدے کے نیچے شفا خانے کے ملازم چند ایک عورتوں اور بچوں کو بلند آواز سے رونے سے منع کر رہے تھے۔ اُن عورتوں میں سے ایک کھیڑا مغلی کی ضعیف العمر اور نیم مردہ ماں تھی، جو اپنے بیٹے کی دائمی مفارقت کے غم میں فلک شگاف چیخیں ما ر رہی تھی۔ — پھر اُس کی بیوی — بچے —

برآمدے کے ایک طرف مغلی موت کی میٹھی نیند سو رہا تھا۔ اُسے یوں دیکھ کر میری بغل میں سے لاٹھی گر پڑی — میں رو بھی نہ سکا۔

لوگوں نے چپکے سے مغلی کی میّت کو اُٹھایا۔ اُسے کندھوں کے برابر کیا اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے لے چلے!

٭٭٭

 

 

 

من کی من میں

 

 

مادھو کی بیوی کو لوگ کلکارنی پکارتے تھے۔ اگر میں کچھ زیادہ نہیں بھولتا تو یہ نام کُلتارنی سے ہی بگڑ کر بنا تھا۔ مطلب کُل کی (ڈوبتی ہوئی) نیّا کو پار لگانے والی۔ یہ پیارا دُلارا نام نہ صرف کُل کو لاج لگانے والی سے اختلاف ظاہر کرتا ہے،بلکہ اس کا کچھ اور بھی گہرا مطلب ہے، جسے مادھو کے سوا کوئی کم ہی جان سکتا ہے۔ عین اس طرح جیسے موسیقی سے فضا میں تموّج کے علاوہ ایک ایسی وجدانی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جسے کچھ دل ہی سمجھ سکتا ہے اور پھر چوٹ کھایا ہوا دل! —

سچ تو یہ ہے کہ یہ نام ہوتے ہی کچھ گورکھ دھندا سے ہیں۔ معلوم نہیں لوگ کیوں بعض وقت جنم کے اندھے کو نین سُکھ اور نپٹ گنوارو کو وِدیا ساگر کہہ دیتے ہیں۔

کئی دفعہ کوئی بھولا بھالا بچّہ اچانک اپنی ماں سے سوال کر دیتا ہے کہ میں— اس دنیا میں کہاں سے آیا، تو ماں گھبرا کر جواب دیتی ہے۔ بیٹا! نرالی پورنما کے روز اِندر بھگوان نے بہت سا مینہ برسایا۔ اس وقت بہت سے بچّے آکاش سے گرے تھے، اُن میں سے ایک تم تھے۔مجھے بہت من موہنے لگے اور میں نے تمھیں صحن میں سے اُٹھا لیا۔ یا کہتی ہے تمھارا باپ ایک سو بیالیس گھنڈیوں والا جال لے کر رام تلائی یا شاہ بلور کے جوہڑ میں مچھلیاں پکڑنے گیا۔ وہاں نہ مچھلی تھی نہ کچھوا، صرف جونکیں تھیں ۔ ایک ننھا سا مینڈک عمرو جولاہے کے گھر کے سامنے روئی کے ایک گالے پر آرام سے بیٹھا ہوا برسات کی خوشی میں گا رہا تھا۔ وہ تمھیں تھے۔ تمھارا باپ تمھیں اُٹھا لایا اور ہم نے پال لیا۔ کچھ ایسی ہی بات ہم نے مادھو کے متعلق بھی سُنی تھی کہ وہ چکنی مٹی کے ایک ڈھیلے سے بنا تھا— ادھری ندیا میں طغیانی آنے پر مٹی کے ایک ڈھیلے نے رام تلائی کے مندر میں ٹھاکرجی کے چرنوں کو چھُوا۔ مٹی پانی اور ہوا تو پہلے ہی موجود تھے۔ آکاش اور آگ ملی تو بچّہ بن گیا اور یہ سب کچھ ٹھاکرجی کی دَیا سے ہوا — گلاب گڑھ کے تمام پرائمری پاس یا مڈل فیل آدمی اس بات کو ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ بھلا وہ اس بات کا جواب تو دیں کہ سیتا جی کس طرح کھیت میں دبائے ہوئے ایک گھڑے کو ہل کی ٹھوکر لگ جانے سے پیدا ہو گئیں؟ کرن جی کسی طرح کنتی جی کے کانوں کی میل سے بن گئے؟ رام چندر جی کے دوسرے بیٹے کُش کو کُشا یعنی گھاس سے کیسے بنا لیا گیا؟

خواہ مادھو ،مٹی کے ایک ڈھیلے سے بنا تھا، پھر بھی اُسے مٹی کا مادھو نہیں کہا جا سکتا تھا کیوں کر وہ ایک بہت سمجھ دار آدمی تھا۔ اگر گھر کے آدمی اُسے مٹی کا مادھو سمجھتے تھے تو سمجھا کرتے۔ گھر کا جوگی جوگڑا… گھر والوں کو یہی شکایت تھی نا کہ مادھو گھر کا کام کاج کرنے کی بجائے دوسروں کا کام کر کے زیادہ خوش ہوتا تھا، اور حقیقت میں اس بات سے مادھو کی تعریف ہی کا پہلو نکلتا ہے۔

ہاں! کچھ مادھو کی صورت کے متعلق ۔ وہ قد کا گٹھیلا تھا اور جسم کا اکہرا ۔ عمر یہی کوئی چالیس پنتالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ چہرے پر چیچک کے داغ، گورے رنگ سے گھی کھچڑی ہو رہے تھے۔ کلکارنی کی آنکھیں تو رسیلی تھیں ہی، مگر مادھو کی زیادہ دور تک مار کرتی تھیں۔ قدرے باہر کو اُبھری ہوئی تھیں … اتنی اُبھری ہوئی کہ سوتے میں درِ فتنہ کی طرح ہمیشہ نیم باز رہتیں۔گلاب گڑھ کے پرائمری اسکول کے منشی بھائی گریب داس، جو کبھی کبھی شہر میں جا کر ایک آدھ ردّی سی فلم کے نظارے سے مستفیض ہو آیا کرتے تھے، مادھو کی آنکھوں کو ’’پیا ملن کی آس‘‘ مار کہ آنکھیں کہا کرتے تھے اور اُن کے ہونہار شاگرد اپنے اُستاد کے ارشاد پر تضمین کرتے، یا بالکل تجدید کرتے ہوئے مادھو کو چمگادڑ نینا، کہتے تھے۔

کلکارنی،زندگی کے روشن پہلو اور مادھو ،تاریک پہلو کو دیکھنے کا عادی تھا۔ دونوں میں ایک دلچسپ مگر خطرناک فطری تضاد تھا۔ اس وجہ سے اکثر اُن کی آپس میں ایک آدھ جھپٹ ہو جایا کرتی۔ مادھو کی قنوطیت اس درجہ نمایاں تھی کہ جو کوئی اُسے بازار میں ملتا تو بجائے جے رام جی کی یا صاحب سلامت کے کہتا۔

’’کہو بھئی مادھو — من کی من میں رہی؟‘‘

فنا کا نمائندہ اور قنوطیت کا علمبردار فی الفور ایک گہرا، ٹھنڈا سانس لیتا اور کہتا۔

’’ہاں— بھائی — من کی من میں رہی!‘‘

اور اس قسم کا طریقۂ تخاطب کلکارنی کو سر سے پانو تک جلا دیتا۔ کیا کرتی وہ؟     گلاب گڑھ کے لوگ تو اُس کی شادی سے پہلے ہی مادھو کو اس کی یاس پسندی کی وجہ سے یوں خطاب کرنے کے عادی تھے ۔اُنھیں روکنا اُس پودے کو موڑنے کے برابر تھا، جو ایک خاصا تن آور درخت بن چکا ہو۔ بہر حال وہ بہت ہی جھلاّتی اور جو کوئی مادھو کو یوں خطاب کرتا، اگلے روز اُس کی بیوی ، ماں یا بہن سے کلکارنی کی لڑائی ہوتی اور کلکارنی جواب طلب کرتی۔ ’’آخر اس من کی من میں رہی کا مطلب کیا ؟‘‘

مادھو، کلکارنی کے اس احتجاج پر بہت خوش ہوتا۔ دفلی بجاتا اور کہتا۔

’’میری زندگی کلکارنی کو کتنی پیاری ہے۔ کسی کو من کی من میں رہی کہنے ہی نہیں دیتی، حالاں کہ نہ اُسے ہنسلی بنوا کر دی ہے اور نہ پازیب… ارے تین مہینے سے تو پیٹ رہی ہے۔‘‘

ایک دن میں نے مادھو کو یک بیک فلسفی بنتے دیکھا۔ منشی گریب داس کے سامنے وہ عورت کی محبت و مروّت کو سراہ رہا تھا… کنگرو کی قلانچ سے زیادہ عجیب، اُجڈ اور دیہاتی انداز میں … اور کون نہیں بھانپ سکتا تھا کہ اس کا اشارہ کلکارنی کی طرف ہے۔ اُس کے لفظ تھے۔

’’بھائی گریب داس — اگر دنیا عورت کی بجائے آدمی کے پیٹ سے پیدا ہونے لگے تو دَیا ، پریم اور نرمی کا نام ہی نہ رہے۔ عورت آدمی کو اپنی کوکھ سے جنم دے کر اس کے اکھڑپن کو دور کر دیتی ہے۔‘‘

کتنا حقیقت سے لبریز تھا مادھو کا عملی فلسفہ۔ ایسی لاکھوں کی ایک سن کر بھی جو مادھو کو مٹی کا مادھو کہے، کیا وہ خود مٹی کا مادھو نہیں ہے؟

بُرج والے کنوئیں کی بیڑ، جھرکل، ڈھول یا لٹھ ٹوٹتی ٹوٹ جائے گی، مگر مادھو اُس کی طرف متوجہ نہ ہو گا۔ بیلوں کی جوڑی سے زیادہ سے زیادہ کام لے کر اور کم سے کم چارہ ڈال کر اس کے مزارع دو دو سو کے بیلوں کی جوگ کو ایسی ناکارہ بنا دیں گے کہ گلّو شاہ کے بھرے میلہ میں اُن کی قیمت پچاس پچاس روپئے سے کوڑی نہ بڑھے گی۔ گھر میں کسی خوشی یا غم کے موقع پر مادھو سے کسی قسم کی توقع بے کار ہو گی، مگر وہ دوسروں کی مدد کے لیے کتنی جلدی لنگر لنگوٹا کسے گا … گلاب گڑھ میں ایک بیوہ امبو رہتی تھی۔ اُس کے خاوند رُلیا کو مرے سات سال کے قریب ہوئے تھے۔ اُسی روز سے بے چاری اپنی عزّت کو سنبھالے بیٹھی تھی۔ اگر اُسے سماج کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو   بے چاری کبھی کی تباہ و برباد ہو چکی ہوتی۔مادھو کو اُس کی مدد کرتا دیکھ کر لوگ کئی طرح کے بہتان لگاتے۔ طرح طرح کی باتیں بنا کر معصوم مادھو اور بدنصیب بیوہ کو بدنام کرتے۔ سماج میں اتنی دَیا کہاں کہ جس چیز کو وہ خود دینے سے ہچکچاتی ہے،اپنے کسی فرد کو دیتا دیکھے۔ امبو کی مدد پر لوگوں کی مخالفت نے دونوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور اس مخالفت میں کلکارنی سب کی پیشوائی کرتی تھی۔

اگر یہ سچ ہے کہ کسی غیر مرد کا یوں بیوہ کی مدد کرنا پاپ ہے، تو یہ بھی سچ ہے کہ سماج کے دائرہ میں رکھ کر ایسی شکستہ حال بیوہ کے رہے سہے گوشت پوست کو نوچ نوچ کر کھانا کوئی پاپ نہیں!

ایک دن مادھو کہیں باہر سے آیا۔ وہ چہرے سے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا تھا۔

’’مجھے بیس روپئے دو گی — کارنی؟ مادھو نے گاڑھے کی چادر کو شانے پر ڈالتے ہوئے کہا۔

’’کیا کروگ ے اتنے روپوں کو؟‘‘

مادھو کو اسی سوال کی توقع تھی۔ کارنی کو اس بات کا وہم رہتا تھا کہ مادھو اپنی سخاوت پسند طبیعت کی وجہ سے جا و بے جا روپیہ خرچ کرتا رہتا ہے اور اس کا عقیدہ تھا کہ جو آپ کھایا سو کھایا ، جو کھلایا سو گنوایا۔ وہ روپیہ جمع بھی کرتی تو اس لیے کہ زندگی میں کبھی کام آئے گا۔ گویا وہ ہمیشہ جیتی رہے گی … اتنی لمبی آس … اور شرادھ میں گئے گزروں کے نام پر وہ بہت سا روپیہ دان بھی کرتی، مگر اِس قسم کے دان سے مادھو متفق نہیں تھا۔

’’کیا کرو گے اِن روپوں کو؟‘‘ اس سوال کا جواب مادھو نے پہلے ہی سے اپنے ذہن میں تراش رکھا تھا۔ فوراً بولا۔

’’چند دن ہی ہوئے تو خود ہی ہنسلی اور پازیب کے لیے کہہ رہی تھی … میں باہر جا رہا ہوں۔ بنوا لاؤں گا۔‘‘

کلکارنی اچھل پڑی۔ بھلا ہنسلی اور پازیب کے لیے کون بیس روپئے نہ دے گا۔ وہ فوراً گندم کے ڈھیر میں چھپائی ہوئی بانسلی اُٹھا لائی اور بیس کے پچیس روپئے مادھو کی کمر میں بندھوا کر بولی۔

’’سنو، کل سکرانت ہے … مکرسکرانت، تمھارے بہو بیٹے کا پہلا تیوہار ہو گا۔ ہو سکے تو سُنار کے پاس ہی بیٹھ کر ہنسلی ڈھلوا لینا ، نہیں تو اس کے عوض کوئی اور ہی لے آنا… پل کی پل پہن لوں گی۔ جلدی آنا، میں نے تیوہار منانے کا بندو بست کر لیا ہے ۔‘‘

مادھو نے کمر میں بندھی ہوئی بانسلی پر ایک چُست سی صدری ڈالی اور چل دیا۔

سکرانت بھی آ گئی۔ اس دن سورج دھن راسی سے نِکل کر مکر راسی میں داخل ہوتا ہے۔ اس لیے اُسے مکرسکرانت کہتے ہیں۔سکرانت کی دیوی نے سوائے مادھو کے پاپ کے گلاب گڑھ تو کیا، تمام دنیا میں سے پاپ کی بیخ کنی کے لیے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پھیلا اور ترشول تان کر دنیا کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ سجی دھجی عورتیں تِل، گڑ، بیر ، امرود اور گنڈیریاں بانٹ رہی تھیں۔ پریم کے اس تبادلے کو’’ اُوٹی بھرن‘‘ کہتے ہیں۔ اوٹی بھرن کرتے ہوئے وہ غیر ارادی طور پر ہماری زندگی میں ایک روح پھونک دینے والا پیغام دے رہی تھیں۔ دراز سے دراز اور سیاہ سے سیاہ زبان رکھنے والی عورت بھی اپنے چہرے کو ایک عارضی مسکراہٹ سے مزین کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ’’میٹھا میٹھا کھاؤ اور میٹھا میٹھا بولو۔‘‘

چونکہ مادھو کے بہو بیٹے کا پہلا تیوہار تھا، دونوں کو صحن کے وسط میں ایک دھوتی اور ایک لنگوٹی بندھوا کر بٹھا دیا گیا۔ جسم پر تیل اور دہی ملا گیا۔ اس کے بعد بہو کی بہن نے بہو کو اور دولھا کی بہن نے دولھا کو سہیلے گاتے ہوئے نہلایا۔ کونے میں بیٹھے ہوئے آدمیوں نے چند پرانے سے ناقوس اور نفیریاں بجائیں۔ دف پر چوٹ پڑی۔ کلکارنی نے سیندور اور مصری اور ناریل بانٹا۔ اُس وقت مادھو کا بدھائی لینے کے لیے وہاں ہونا لازمی تھا۔ مگر وہ کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔ کلکارنی کو تو اپنی ہنسلی اور پازیب کی پڑی تھی۔ وہ رہ رہ کر مادھو کو کوستی اور اپنے گلے اور ایڑیوں کو ساڑھی کے پلّوؤں سے چھپاتی … کلکارنی جان گئی کہ سنار نے ہنسلی بناتے ہوئے دیر لگا دی ہو گی۔

کبھی کبھی اُسے خیال آتا، شاید مادھو میری زیادتیوں کی وجہ سے مجھ سے روٹھ گیا ہو کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ مکرسکرانت کے دن رُوٹھے منائے جاتے ہیں۔ مگر سیدھا سادا مادھو اتنے چھل بل کہاں جان سکتا تھا … سُنار کے پاس آدمی دوڑایا گیا تو پتہ چلا کہ مادھو وہاں پہنچا ہی نہیں۔

مادھو کی ڈھنڈیا پٹی۔ کوئی بچہ تھوڑے ہی تھا کہ راستہ بھول جاتا۔ کلکارنی کی تشویش بڑھی۔ اُس نے چاروں طرف آدمی بھیجے۔ اِس میں شک نہیں کہ مادھو نے گھر، کلی طور پر کلکارنی سی ہوشیار عورت کو سونپ رکھا تھا۔ مگر وہ اتنا بے مہر نہیں تھا کہ اپنے بہو بیٹے کے پہلے تیوہار کے شگن منانے سے احتراز کرتا۔

شام تک مادھو پہنچا نہ کلکارنی کی ہنسلی اور پازیب۔ کلکارنی کا غصہ اور فکر دونوں سُرعت سے بڑھنے لگے۔

جب شام کو دِیوں کو دیاسلائی دکھائی گئی تو عورتیں سب کی سب ایک ایک کر کے رخصت ہو گئیں۔ پہلے شور و غوغا سے آشنا کان برابر کی خاموشی کو پاکر شائیں شائیں کرنے لگے۔ اس وقت کلکارنی کے کانوں میں ایک دھیمی سی آواز آئی۔ اس کا پڑوسی بنجارہ کہہ رہا تھا …

’’کہو بھائی … مادھو من کی من میں رہی؟‘‘

جواب میں ایک مردہ سی آواز آئی۔ ’’ہاں بھائی! من کی من میں رہی!‘‘

اب تک کلکارنی کا فکر اُس کے غصّہ پر غالب تھا، لیکن مادھو کو بے آنچ پہنچتے اور پھر برس کے برس، دن ’’من کی من میں ر ہی‘‘ کے الفاظ کہتے سُن کر اس کا غصّہ فکر پر غالب آ گیا۔ وہ سر سے پانو تک راکھ ہی تو ہو گئی۔ بجلی کی مانند لپکی۔ صحن میں آئی۔ ڈیوڑھی میں پہنچ کر دروازے کی زنجیر اندر سے چڑھا دی۔ ننگی ایڑیوں کو دیکھ کر اس کا غصّہ اور بھی چمک اُٹھا۔ اس اثنا میں مادھو دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا اور سردی سے کانپ رہا تھا۔ پوہ ماگھ کی سردی جگر تک پہنچتی ہے۔ کانپتے ہوئے مادھو نے کلکارنی سے دروازہ کھولنے کے لیے منّت کی۔

اندر سے آواز آئی۔ ’’جاؤ … باہر ہی رہو۔ اب تمھاری ضرورت ہی کیا ہے؟ جدھر منھ اُٹھائے ہو، اُدھر چلے جاؤ … اُتر ہے تو اُتر کو، دکھن ہے تو دکھن کو … گھر کیا ہے، ہنسی کھیل بنا رکھا ہے۔ بڑے سونٹھ کی جڑ تلاش کرنے گئے تھے … اتنا بھی نہیں سوجھا، گھر میں خوشی ہے … پرمیشر نے چاہا تو ، یہ من کی من میں رہے گی … واویلا کیوں کرتے ہو‘‘

مادھو کچھ دیر کے لیے ٹھٹک گیا۔ بھر بولا ۔ ’’دروازہ تو کھولو … کارنی، دیکھو سردی کے مارے اکڑ رہا ہوں۔ تمھاری ہنسلی اور پازیب ہی تو بنوانے گیا تھا۔‘‘

’’میں جانتی ہوں سنارکے پاس تو تمھاری پرچھائیں تک نہیں پھٹکی … سچ سچ کہو ،کیا تم اُس میری سوت کے پاس نہیں گئے تھے؟‘‘

’’کون سوت؟‘‘

’’امبو … اور میری سوت کون ہو گی؟‘‘

حقیقت میں مادھو اسی کے پاس گیا تھا۔ کلکارنی کے سامنے اس بات سے انکار کرنے کی جرأت نہ پڑی۔ اور وہ انکار کرتا بھی کیوں؟ … بولا …

’’ٹھیک ہے کارنی … امبو بہن نے کہلا بھیجا تھا۔ ساہوکار نے ایک ایک روپئے کے دو اور دو دو کے تین تین بنا لیے ہیں… اور میں نے بیس روپئے تم سے دراصل اسی لیے مانگے تھے۔ تمھاری ہنسلی میں اپنے پیسوں سے بنوا دوں گا ، جو ڈاک گھر میں جمع ہیں۔ فکر نہ کرو۔ دروازہ تو کھولو۔‘‘

مادھو کو کوئی جواب نہ ملا۔ کلکارنی کے بڑبڑانے کی آواز آئی ۔ وہ کہہ رہی تھی۔

’’برس دن کے بعد ایک آدھ دن خوشی کا آتا ہے … اُس میں بھی دُکھ ہی ملتا ہے … بہو بیٹے کا تیوہار روز روز آئے گا نا … سہیلے روز روز گائے جائیں گے … ایسے موقع پر خوشی کو دبا کر کون دق مول لے … یہ ہیں کہ … ‘‘

مادھو نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا۔

’’کسی بہن بھائی کو دکھی دیکھ کر مجھ سے تو مدن اور رتی کے سہیلے نہ گائے جاتے ہیں، نہ گائے جائیں گے!‘‘

کلکارنی نے دروازہ نہ کھولا …

مگر اُسے نیند کہاں آتی تھی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد اُس نے آہستہ سے کواڑ کھولے تو دیکھا، اس کا مجازی خدا دروازہ کی چوکھٹ پر سر ٹیک کر اونگھ گیا تھا۔ اس کے گھٹنے چھاتی سے لگ رہے تھے۔ کلکارنی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ شرمندگی کے ایک گہرے احساس سے اُس نے مادھو کا شانہ ہلایا۔ بولی ۔

’’میں کہتی ہوں… ‘‘

’’ … ‘‘

میں کہتی ہوں … چلو گے؟ اندر …‘‘

مادھو نے آنکھیں ملتے ہوئے سر اُٹھایا۔ اور بولا۔’’ہاں … چلوں گا!‘‘

مادھو اندھیرے میں اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔ سردی میں ہاتھ سُن ہو رہے تھے۔ یوں گمان ہوتا تھا ، جیسے وہ اُس کے اپنے نہیں ہیں۔ کلکارنی نے جلدی سے انگیٹھی جلائی، مادھو کے اکڑے ہوئے جسم کو گرم کیا اور اُس کے پانو پر سر رکھ کر دیر تک روتی رہی۔ — اور یہ رونا دھونا کاہے کا … مادھو کو تو ذرا بھی غصّہ نہیں تھا!

نصف شب کے قریب مادھو کو چھاتی میں کچھ درد محسوس ہوا۔ باقی رات وہ چھاتی کو دباتا اور کراہتا رہا۔ کلکارنی نے گھی گرم کر کے جائفل کوٹ کر مالش بھی کی۔ مگر مادھو کا دُکھ بڑھتا گیا۔

صبح ہوتے ہوتے اُس کی تکلیف بہت ہی بڑھ گئی۔ دور نزدیک سے سیانے لائے گئے۔ مادھو کو نمونیا ہو گیا تھا۔ اُس کے دونوں پھیپھڑے شل ہو گئے تھے۔ سانس مشکل سے آتی تھی۔ کارنی کہتی تھی کہ نمونیا وغیرہ کچھ نہیں۔ امبو بہت گنڈے تعویذ جانتی ہے۔ اس نے کچھ نہ کچھ دے دیا ہو گا۔ اگر وہ گزشتہ شب کے واقعہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اپنا قصور مان لیتی تو وہ دیوی سے کم کیا ہوتی۔ مگر وہ تو محض ایک عورت تھی۔

دوپہر کے قریب کچھ افاقہ ہوا۔ اُس نے کارنی کو بلایا اور بولا۔

’’میں نے سُنا ہے … کہ تم نے امبو کو اندر تک نہ آنے دیا۔ صبح جب وہ میری خبر لینے کے لیے آئی تھی … کیوں؟‘‘

’’نہ جانے کیوں۔‘‘

’’تم جانتی ہو میں امبو بہن سے بہت پیار کرتا ہوں …‘‘

’’ہاں … مگر میں جگ ہنسائی نہیں چاہتی۔ تمام دنیا میرے پیچھے کتّے لگائے گی … جانتے بھی ہو دنیا کو …؟‘‘

’’جانے دو دنیا کو‘‘ مادھو نے بائیں پھیپھڑے میں درد کی ایک ٹیس محسوس کرتے ہوئے کہا ۔’’اب جب کہ میں مر رہا ہوں۔ مجھے دنیا کی پروا ہی کیا ہے … میرے پاس تو اتنے بول بھی نہیں کہ میں امبو بہن اور اس کے ساتھ اپنے رشتے کی پاکیزگی کا دعوا کر سکوں… ہائے … تم اپنے مرتے ہوئے پتی کو بچن دو کہ تم اپنی زندگی میں اُس غریب کی ایسے ہی خبرگیری کرتی رہو گی… اُسے اپنے پاس بلا لو گی … کہو تو … ۔‘‘

’’میری خبرگیری کون کرے گا؟ … تمھارے دشمنوں کو … ‘‘ کلکارنی زار و قطار روتے ہوئے بولی۔

مادھو نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھائی۔

مادھو دنیا کو چھوڑ رہا تھا، مگر کارنی دُنیا سے چمٹی ہوئی تھی۔ اُس نے تو مادھو کو خالی تسکین دینے کے لیے بھی اثبات میں سر نہ ہلایا۔ وہ بالکل اُس آدمی کی طرح تڑپتا رہا، جس کے دل میں بہت سی خواہشیں ہوں، مگر موت اُس کا گلا آ دبائے … کچھ دیر بعد مادھو کا درد ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔

مرنے کے بعد مرحوم کی جو آخری باتیں نمایاں طور پر یاد آتی ہیں، اُن میں سے ایک یہ تھی۔ ’’کسی بھائی بہن کو دُکھی دیکھ کر مجھ سے مدن اور رتی کے سہیلے نہ گائے جاتے ہیں، نہ گائے جائیں گے!‘‘

۔۔۔

ہمارے ملک میں تیوہار ہی تیوہار تو ہیں اور ہئی کیا؟ کاش یہاں کوئی تیوہار نہ ہوتا۔ بیوائیں اور یتیم تو رونے سے بچ جاتے۔ پھر ایک بار مکرسکرانت آ گئی۔ پھر سورج دھن راسی سے مکر راسی میں داخل ہوا۔ سکرانت کی دیوی نے سماج کے کلنک یعنی امبو کے پاپ کے سوا تمام دنیا میں سے پاپ کی بیخ کنی کے لیے اپنی بڑی بڑی ڈراؤنی آنکھوں کو پھیلا اور ترشول تان کر دنیا کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اوٹی بھرن کرتے ہوئے دراز سے دراز اور سیاہ سے سیاہ زبان رکھنے والی عورت بھی اپنے چہرے کو ایک عارضی مسکراہٹ سے مزین کرتی ہوئی کہہ رہی تھی۔ ’’میٹھا میٹھا کھاؤ اور میٹھا میٹھا بولو۔‘‘

پھر موقع آیا کہ برسوں کے روٹھے ہوئے منائے جائیں۔ امبو سے تو گاؤں کا ہر ایک بچّہ بوڑھا روٹھ گیا تھا۔ وہ کس کس کو مناتی۔ ایک رُلیا اور مادھو کے رُوٹھ جانے سے کائنات کا ذرّہ ذرّہ اُس سے روٹھ گیا تھا۔ ہائے! رُلیا اور مادھو ایسے روٹھنے والے کوئی ماننے کے لیے تھوڑے ہی روٹھے تھے!

امبو کے گھر میں کانسی کے چمکتے ہوئے برتن بالکل سونے کے بنے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ جھونپڑی میں لیپ پوت یوں کیا گیا، جیسے امبو کے گھر میں کوئی آنے والا ہو۔ کبھی کبھی وہ آنکھ اُٹھا کر باہر دیکھ لیتی۔ کیا عجب جو کہیں گھومتا پھرتا رُلیا ہی آ جائے۔ نہیں تو مادھو کی صورت ہی دکھائی دے جائے۔

مادھو کے بیٹے میں امبو کو مادھو بھائی کی ہی روح نظر آتی تھی۔ اگرچہ وہ جانتی تھی کہ گانو کے لوگ عام طور پر اور کلکارنی اور اس کی بہو اور بیٹا خاص طور پر اُس کی شکل دیکھنے سے بیزار ہیں۔ کیوں کہ اُسی نے تو مادھو کو کوئی جنتر منتر دے دیا تھا۔ پھر بھی اُس نے ایک کانسی کی تھالی میں کچھ گاجریں، مٹر، امرود، بیر اور گنڈیریاں وغیرہ رکھیں تاکہ مادھو کی بہو کو دے۔ اپنی پھٹی ہوئی ساڑھی کے ایک پلّو سے اُس نے ساڑھی کو ڈھانپا اور مادھو کے گھر کی طرف چل دی۔

امبو کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ وہ دہلیز کے اندر قدم رکھے۔ ایک برس پہلے لوگوں کی مخالفت کے باوجود اس کی اس گھر میں پوچھ ہوتی تھی۔ آج وہ اِس گھر میں کون تھی۔ ایک عورت نے اُسے اندر آتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

’’لو بہن… وہ رہی تمھاری سوت۔‘‘

کلکارنی اُسے دیکھ کر جل بھُن گئی۔ آہستہ سے بولی۔ ’’مرتی بھی نہیں کم بخت… مرے تو میں آٹے میں لوبان اور گھی ریندھوں … دودھ کا کٹورا پؤں … گنگا نہاؤں ۔ نہ جانے کیا کیا کروں۔‘‘

جب امبو بالکل نزدیک آ گئی تو کلکارنی اپنے چہرے کو ایک عارضی مسکراہٹ سے مزیّن کرتی ہوئی بولی۔

’’آؤ بہن! … میٹھا میٹھا کھاؤ، اور میٹھا میٹھا بولو!‘‘

امبو نے اُن دونوں کی باتیں تھوڑی بہت سن لی تھیں۔ سوت کا لفظ کان میں پڑتے ہی اُس کا تمام جسم کانپنے لگا۔ بے ساختہ اُس کی زبان سے نکلا۔ ’’بھیّا کہاں ہیں؟‘‘

دوسری عورتیں مسکرانے لگیں۔

پچھلے سال ٹھیک اسی دن مادھو اس سے آخری بار ملنے گیا تھا۔ اس بات کو یاد کرتے ہوئے امبو کا دل مسلا گیا۔ کلکارنی ایک کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اُسے بھی پچھلی سکرانت یاد آ گئی۔ ٹھیک اسی دن امبو نے مادھو کا کلیجہ نکال لیا تھا۔ مگر وہ اس سکرانت کی رات کا واقعہ بالکل بھول گئی تھی۔ صرف اُسے مادھو کے وہ الفاظ یاد تھے ’’کسی بھائی بہن کو دکھی دیکھ کر مجھ سے مدن اور رتی کے سہیلے نہ گائے جاتے ہیں، نہ گائے جائیں گے۔‘‘

تمام عورتیں ہنستی کھیلتی رہیں۔ پھر اوٹی بھرن کیا گیا۔ سہاگنوں نے ایک دوسری کی مانگ میں سیندور لگایا۔ جب کلکارنی کی بہو کی مانگ میں پڑوس کی ایک دلہن نے سیندور لگایا تو امبو وہیں کھڑی رہی۔ سہاگن کے پاس بیوہ کھڑی رہے۔ رام رام !… کارنی نے امبو کو بازو سے پکڑا اور دھکا دے کر برآمدے سے باہر کر دیا۔ بولی ۔

’’دیکھتی نہیں کیا ہو رہا ہے؟‘‘

امبو نے چاروں طرف دیکھا کہ کوئی اس کی طرف تو نہیں دیکھ رہا۔ مگر سب کی نظریں اُسی کی طرف تھی۔ امبو نے منھ چھپا کر رونا چاہا۔ مگر وہ رو بھی تو نہ سکتی تھی۔ برس کا برس دن اور رونا! کارنی جان ہی تو نکال لے گی! مگر رونا، برس کے برس روز اور عام دن میں کوئی بھی تمیز نہیں کرتا۔ وہ آپی آپ آ جاتا ہے۔ بلکہ یتیم اور بیوہ کو رونا برس کے برس دن ہی تو آتا ہے۔ اسی دن مرے ہوئے بالکل نزدیک آ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی اُٹھتے ہیں … ساتھ ہی بیٹھتے ہیں، ہنسو تو ہنستے ہیں۔ روؤ تو روتے ہیں اور گلے مِل مِل کر روتے ہیں۔ کوئی انھیں دیکھتا ہے کوئی نہیں دیکھتا!

پڑوس کی بنجارن امبو کے پاس سے گزری اور محض امبو کو سنانے کی غرض سے گنگنانے لگی… ’’پتی برتا کا ایک ہے وبھچارن کے دوئے!‘‘

… اور پھر سکرانت کے شور و غوغا میں شامل ہوتے ہوئے بولی … ’’میٹھا میٹھا کھاؤ اور میٹھا میٹھا بولو!‘‘

امبو کو زمین میں جگہ نہیں ملتی تھی کہ اس میں سما جائے۔ اِس گومگو کی حالت میں کلکارنی نے اُسے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ وہ محض دنیا سے چمٹی ہوئی تھی اور مادھو کے آخری الفاظ کا اُسے کوئی خیال نہ تھا۔

اگلی صبح لوگ کہہ رہے تھے۔ ’’نہ جانے امبو کہاں چلی گئی۔‘‘

سماج کے ماتھے سے اس کلنک کے ٹیکے کو کلکارنی نے ہی تو دھویا تھا۔ لوگ اُس سے خوش تھے اور جب وہ بہت خوش ہو کر عقیدت سے کہتے۔ ’’بھئی کلکارنی نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔‘‘ تو سُوکھا سا منھ بناکر بھائی گریب داس ایک ٹھنڈا سانس لیتا اور کہتا ۔ ’’… آہ! مگر غریب مادھو کے من کی من ہی میں رہی!‘‘

٭٭٭

 

 

 

منگل اشٹِکا

 

 

12 ؍کارتک … تلسی بیاہ کا تہوار تھا۔ اُسی دن نندہ اور وجے کا بیاہ ہوا۔

نندہ کے چہرے کی سپیدی اور سُرخی کسی رنگ ریز کے نا تجربہ کار شاگرد کے سُرخ رنگے ہوئے کپڑے کی مانند تھی اور وہ کسی مستور جذبے سے سر تا پا کانپ رہی تھی۔ اگر اس خود فراموشی میں صرف اُسے اتنا سا خیال رہتا کہ وہ کہاں کھڑی ہے اور ایسی حالت میں اُسے کیا کرنا چاہیے، تو وہ آنکھیں جھپکے بغیر ایک مسلسل نظر سے جیوا رام پروہت کی آٹے سے کھینچی ہوئی لکیروں یا خوبصورت وجے کے گورے گورے پانو کی طرف نہ دیکھتی اور نہ ہی وہ پھیریاں لیتے ہوئے قدرے سیدھی کھڑی ہو جاتی۔ کیوں کہ قد میں وہ کچھ لمبی تھی اور سیدھی کھڑی ہونے سے وہ اپنے شوہر کے شانے سے بھی سر نکالتی تھی۔ بیاہ سے چند روز پہلے اُس کی ماں نے اُسے پھیری کے موقع پر جھک کر چلنے کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر نندہ تو یہ بھی بھول چکی تھی کہ بیاہ کے وقت اور بیاہ کے بعد جسمانی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر لحاظ سے اُسے اپنے شوہر سے نیچا ہو کر رہنا پڑے گا۔

وجے کی حرکات بہت حد تک اُس کی دلی کیفیت کی ترجمان تھیں۔ اس کی بیتاب امنگیں آنکھوں کے راستے سے نہایت آوارگی کے ساتھ پل پل کر نندہ کی گوری گوری کلائیوں اور جسم سے، جس کا چھریراپن سات پردوں میں ملبوس ہونے پر بھی دکھائی دے رہا تھا، بے محابا لپٹ رہی تھیں۔ کبھی کبھی وجے کسی گہرے خیال کے زیر اثر آنکھیں بند کر لیتا۔ جیسے مستقبل کی تمام مسرّتیں سِمٹ کر اس موجودہ لمحے میں مرکوز ہو رہی ہوں اور جیوا رام پروہت ان تمام جذبات کو بھانپنے کی کوشش کر رہا تھا۔

پنڈت جیوا رام کے سامنے آج یہ تیسرا جوڑا تھا، جسے وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک کر رہا تھا۔ جیوارام نے بیاہ کا ساتواں منتر پڑھا … منتر پڑھتے وقت اُسے اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہوتی تھی، کیوں کہ بچپن ہی میں جب روی شنکر چٹوپادھیائے نے اُسے منتر پڑھائے تو اُس نے سب کچھ صحیح طور پر ایسا رٹ لیا تھا کہ تلفظ درست کرنے، لہجہ سلجھانے، آواز کو اونچا نیچا کرنے اور سُر بدلنے کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ یوں بھی یہ فن اُسے ورثہ میں ملا تھا۔ وہ ایک خودبخود حرکت کرنے والی مشین کی مانند باقاعدہ طور پر اور معیّن جگہ پر … یعنی منگل، سنیچر، گنیش سے منسوب خشک آٹے کے خانوں میں پیسے رکھواتا، یا سیندور اور چاول پھنکواتا اور ایسا کرنے میں اُس سے بھول چوک کبھی نہ ہوتی۔

جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں، ایسی صحت سے وہ تمام ضروری رسوم سرانجام دیتے ہوئے تخیل میں کہیں کا کہیں پہنچ جاتا۔ اُس دن وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ایک اُونچی پہاڑی پر کھڑا ہے۔ پہاڑی کے دامن میں اُس کو ایک خوبصورت جھیل … اس میں تیرتے ہوئے بجرے، اُس کے کنارے پر لہلہاتی ہوئی کھیتیاں اور ساتھ ہی ماہی گیروں اور دہقانوں کے وہ جھونپڑے نظر آ رہے تھے جن میں وہ لوگ ایسی مسرّت سے سرشار تھے جس پر بادشاہوں کو بھی رشک آئے اور اس سے پرے امراء کے محل جن میں وہ اپنے زر و دولت اور شان شوکت کے باوجود غریبوں سے بھی زیادہ دکھی تھے۔ جھیل کے مشرقی کناروں پر پانی میں ناگ پھنی اور کنول اُگ رہے تھے اور شیشم کے ایک کمزور سے درخت کے نیچے کوئی تارک الدنیا، سنیاسی ترئی پھونک رہا تھا اور ترئی کی دلکش آواز اُس بات کی یاد دلا رہی تھی، جسے نسلِ انسان ازل سے بھولتی چلی آ رہی ہے … اور پھر جیوارام نے ایک گہری اور ٹھنڈی سانس لی۔ اب اُس نے دل میں کہا۔ ’’ان ہاتھوں سے سینکڑوں بیاہ رچے۔ ان ہاتھوں نے سینکڑوں گھر آباد کیے۔، کئی غم زدوں کا ایک ایک لمحہ انبساط و نشاط میں سمو دیا۔ مگر میں خود ویسے کا ویسا کنوارا، خانہ برباد اور تنہائی کی ختم نہ ہونے والی مصیبت میں گرفتار رہا۔ اس ناگ پھنی اور کنول کی مانند جو پانی میں اُگتے ہیں، مگر پانی سے آلودہ نہیں ہوتے۔

اچانک اُسے خیال آیا کہ وہ بیاہ کا آخری منتر… منگل اشٹکا پڑھ رہا ہے اور پھر اشٹکا کا بھی آخری لفظ۔

’’ساودھان‘‘ ۔ اُس نے خود کو کہتے ہوئے پایا۔

ساودھان کے لفظ کے ساتھ ہی بیاہ مکمل ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ہر طرف سے مبارکباد کی آوازیں آنے لگیں اور اس شور و غوغا نے جیوا رام کی توجہ کو اپنی طرف مائل کر لیا۔

’’ساودھان‘‘… جیوارام نے ایک دفعہ پھر کہا اور … تیسرا بیاہ پڑھنے کے بعد جیوارام پنڈت کچھ تھکن سی محسوس کرنے لگا۔ آمدنی کا لالچ اُسے اتنی محنت پر کم ہی مجبور کیا کرتا تھا۔ جیوارام نے اپنی بوجھل آنکھیں اوپر اُٹھائیں۔ آنکھوں کے نیچے بھاری بھاری تھیلے زیادہ بھاری اور سیاہ دکھائی دینے لگے۔ تھیلوں کو سکیڑ کر جیوارام نے ایک جمائی لی۔ نندہ کو منھ بسُورتے دیکھا، کیوں کہ وہ اپنے ماں باپ سے ہمیشہ کے لیے جُدا ہو رہی تھی، اور وجے کو مسکراتے ہوئے، کیوں کہ عنقریب وہ شادی کی مسرّتوں سے لطف اندوز ہونے والا تھا۔ کئی جمائیوں کے درمیان پروہت نے نہایت اختصار سے نندہ اور وجے کو خاوند اور بیوی کے جُداگانہ فرائض سے آشنا کیا۔ اُس کی تقریر کا لُبِ لباب یہ تھا کہ وہ آگ، پانی، ہوا، زمین اور آسمان کی گواہی میں ایک کیے جاتے ہیں۔ نندہ کو بتایا گیا کہ وہ ہر لحاظ سے شوہر سے کم رتبہ رکھتی ہے (اگرچہ جسمانی لحاظ سے وہ شوہر سے سر نکالتی ہے…) وجے سے کہا گیا کہ اُسے چاہیے کہ وہ نندہ کو اپنے گھر کی رانی بنا کر رکھے۔ پھر جیوارام نے وجے کو خاص طور پر برہمن، استری اور گائے کی حفاظت کرنے کی تلقین کی۔ شِوراتری کی کتھا کا ایک حصّہ سناتے ہوئے جیوارام نے کہا۔

— وجے تم بھی پنڈت ہو۔ تم خود جانتے ہو گے۔ شکاری جو تیر مارنا چاہتا تھا، اسے جانوروں نے اپدیش دیا۔

10 بکریوں کا مارنا برابر ہے   ایک بیل مارنے کے

100 آدمیوں کا مارنا برابر ہے   ایک براہمن مارنے کے

100براہمنوں کا مارنا برابر ہے   ایک استری مارنے کے

100 استریوں کا مارنا برابر ہے   ایک گربھ وَتی (حاملہ) استری مارنے کے

10 گربھ وتی استریوں کا مارنا برابر ہے   ایک گائے مارنے کے ……

اپنا کام نمٹا چکنے کے بعد جیوارام نے وہاں سے جانا چاہا۔ کس لیے؟ تنہائی کی مصیبت میں پھر گرفتار ہونے کے لیے، ویسا ہی برباد، کنوارا اور اچھوتا رہنے کے لیے، جیسے سخت بارش کے بعد ناگ پھنی اور کنول بِن بھیگے سر اُٹھائیں۔ اتنے بیاہ اس کے ہاتھوں سے ہوئے۔ شادیوں کی اس موسلادھار بارش میں بھی وہ ناگ پھنی کی مانند…

اس وقت جیوا رام کے تصور میں نندہ کا نہ بھول سکنے والا چہرہ، وجے کی اوباش و آوارہ نگاہیں اور کانوں میں براتیوں کا شور و غوغا اور گانے اور ہنسی مذاق کی آوازیں تھیں۔ اس کی جذباتی طبیعت درحقیقت اُسے وہاں سے رخصت ہو جانے پر مجبور کر رہی تھی۔

وہ طبیعت کیسی تھی … بات یہ تھی کہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہونے کی وجہ سے وہ باجے ڈھولک، گانے، مذاق اور چٹکیوں کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ بیاہ کے موقعے پر دلہن کے چہرے کا حیا سے رنگ بدلنا، نوشہ کی دزدیدہ نگاہیں، رخصت ہوتے وقت دلہن کا رونا، راگ رنگ، ہنسی اور مذاق اور قہقہے اس کے دل میں ایک ہیجان بپا کر دیتے۔

خصوصاً بیاہ کے گیت سن کر تو اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگ جاتا اور اپنے شدید کنوارے پن میں اُسے یہ محسوس ہونے لگ جاتا کہ وہ اس تمام شور و غوغا میں ایک ادنیٰ ، بے توقیر اور فالتو سی شخصیت ہے۔ اُس کا یہ وہم دیوانگی کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ منگل اشٹکا پڑھنے اور ساودھان کہہ چکنے کے بعد وہ فوراً ایک کونے کی طرف سرکنا شروع کر دیتا۔ جس قدر دلہن والے اور براتی اُس کی فوری کنارہ کشی دیکھتے، اُسی قدر اُسے بیٹھنے کے لیے مجبور کرتے۔ نہایت تکریم سے بلاتے۔ مگر جتنا کوئی اصرار کرتا، جیوارام کو اتنی ہی زیادہ خفّت ہوتی۔

ایک اور بات سے بھی اس کا اس قدر شرمیلا ہونا منسوب کیا جا سکتا تھا۔ شروع سال میں باتوں باتوں میں جیوارام نے مجھے بتایا کہ اُس سال چیت کی پورنماشی کو ہنومان جینتی کے دن وہ چالیسویں سال میں قدم رکھے گا۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ چیت کی پورنماشی کے دن ماروتی دیو یعنی ہنومان جی پیدا ہوئے تھے اور اُس دن سے چالیس برس پہلے جیوارام کی پیدائش بھی انھیں ستاروں کے زیر اثر ہوئی ہو گی، جس کے باعث اس کا جسم بھی تنومند تھا اور طبیعت میں ہنومان جی کی سی بے چینی اور جوش تھا۔ یعنی وہ ایک جگہ جم کر کم ہی بیٹھ سکتے تھے۔ فقط ایک بات تھی جو ہنومان جی میں نہ تھی اور وہ جیوارام میں تھی، اور وہ جیوارام کا شرمیلاپن اور غیرضروری حجاب تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہنومان جی کی پیدائش اور پنڈت جیوارام کی پیدائش میں کچھ وقت کا فرق پڑ گیا ہو اور جیوارام دوسری راس میں داخل ہو کر ہنومان جی سے تفریق پیدا کرچکا ہو اور کسی کمزور ستارے نے ہنومان جی کی سی بے باکی اور جرأت کو شرمیلے پن اور محجوبی میں بدل دیاہو۔ بہرحال وہ اُس وجہ سے بھی شرمیلا تھا کہ برسوں سے اکیلا رہتا آیا تھا۔ عمر کے چالیسویں سال میں قدم رکھتے ہوئے وہ اس خوفناک حد تک کنوارا تھا کہ اگر بیمار پڑ جائے تو کوئی اُسے پانی کو بھی نہ پوچھے۔ چوں کہ عورتوں کی بابت وہ کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے ان سے ڈرتا تھا۔ وہ فقط یہ جانتا تھا کہ دنیا میں بہت سے جھگڑوں کی ابتدا عورت سے ہوا کرتی ہے۔ اس بات کا بھی اُسے علم تھا کہ عورت کی طبیعت (اس کی اپنی طبیعت کی مانند) جذباتی ہوتی ہے۔ مبہم اور شرمیلی … نامعلوم کس وقت کوئی بات اُسے بُری معلوم ہونے لگے۔ حالاں کہ اس میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ جیوارام بُری بات کے معیار سے ناواقف تھا۔ بیسیوں بار اُس نے جی کڑاکر کے ایسی باتیں کی تھیں، جو اس نے پہلے دل میں بُری محسوس کی تھیں۔ مگر کسی عورت نے بُرا نہ مانا اور اب تو اس کی ہمت بڑھتی جاتی تھی۔

بیس برس سے چالیس برس کی عمر کے درمیان اُسے خیال آیا کہ وہ برہمچریہ آشرم سے گرہست آشرم میں داخل ہو جائے۔ مگر برہمچاری پنڈت کا درجہ سماج میں کتنا اونچا ہوتا ہے، اُس کا اسے غرور تھا۔ محض انگشت نمائی کے خوف سے اُس نے اپنے آپ کو روکے رکھا ، حتیّٰ کہ چالیس برس کی عمر کو پہنچنے تک یہ خیال بہت شکستہ ہو گیا تھا۔ کئی تخیل انگیز بیاہوں نے اس کی ہٹ پر کاری ضرب لگائی تھی اور رفتہ رفتہ یہ اُس کے ذہن نشین ہو گیاکہ چلتی پھرتی دنیا میں کسی کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا کام کاج چھوڑ چھاڑ کر انگشت نمائی کے لیے وقت نکال سکے۔ ایسا خیال کرنا تو اپنے ہی من کی مایا ہے۔

گرہست کے قضیوں کا رونا اگرچہ رُلنا شہر کے متعدد گرہستیوں سے انفرادی طور پر سنتے سنتے اس کے کان پک چکے تھے، پھر بھی کسی ہوش رُبا بیاہ کے اختتام پر چند لمحے حیرت میں ڈوبے رہنے کے بعد جیوارام منھ سے انگلی نکال کر سر کو ایک جھٹکا دیتا، جیسے کسی وکیل کو اپنے موکل کے بیان میں کوئی ایسا موافق نکتہ دکھائی دے جس پر تمام مقدمہ گھوم جائے۔ وہ مشکوک انداز سے کہتا۔

’’یہاں … یہ بات۔ بھئی! آخر کچھ تو ہے جو رونے پیٹنے کے باوجود لوگ خوش رہتے ہیں۔ اس کش مکش اور بے قراری میں بھی کچھ لطف ضرور ہے …۔‘‘

مگر جب جیوارام کے کان میں یہ الفاظ پڑتے کہ جیوارام چالیس برس کا ہو چکا ہے اور اُس نے ابھی استری کا منھ تک نہیں دیکھا، تو کو اپنی فوقیت اور عظمت میں شک نہ رہتا۔ ایسی بات سن کر جیوارام کے خوش آئند تخیل کی بنائی ہوئی بیاہ کی حسین عمارت ملبہ سمیت نیچے آ رہتی اور اسے از سرِ نو اور زیادہ وسیع اور شاندار بنانے کے لیے ایک ہوش رُبا بیاہ، اُس کی تمام رونق ، ازدواجی رشتوں میں منسلک ہونے والے لڑکی اور لڑکے کی غائبانہ کشش، اُن کے والدین کی خوشی، اُسی راگ رنگ، اور ہنگامۂ ہاؤ ہو کی ضرورت ہوتی… اور نندہ اور وجے کا بیاہ پڑھ چکنے کے بعد ایک ایسی تعمیر کے کنگرے جیوارام کے تخیل میں آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔

چند دنوں کے بعد اوباش وجے جو رُلنا ہی میں رہتا تھا اور دور نزدیک سے جیوارام کا   رشتہ دار بھی تھا، آیا۔ اُس کی آنکھوں کے سُرخ ڈورے زیادہ پھول رہے تھے اور اُن سے شعلے نکلتے دکھائی دیتے تھے، جیسے اُس کے اندر کوئی بھٹی جل رہی ہو۔ ہاں! شباب کی بھٹی تھی نا وہ …   ؎

ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام

وجے نے کنوئیں کی چرخی کا سہارا لیتے ہوئے جیوارام سے کہا۔

’’کہو دادا (بھائی) اتنے اُداس کیوں ہو؟‘‘

جیوارام نے اپنی افسردگی کو چھپا لیا اور بولا۔

’’بھئی کل سے بیمار ہوں۔ بہت لاچار ہوں … بھائی کو خط لکھا ہے۔ بھاوج کو یہاں بھیج دے۔ مجھے تو یہاں پانی دینے والا بھی کوئی نہیں۔‘‘

’’ارے بھاوج؟ … ایک ہی کہی تم نے … دھانوں کے دن ہیں۔ آج کل چھٹائی میں سر دھنتی ہو گی۔ جیٹھو کی کمائی انھیں تک محدود ہے اور آج کل تو بھاؤ پھلانگتا ہوا اُوپر جا رہا ہے۔ ایک پانی برس گیا تو اُن کے کوڑی دام نہیں۔‘‘

دور سے نیل رتن آتا دکھائی دیا۔نیل رتن مجسم شیطان تھا۔ وہ ہمیشہ بے وجہ ہنستا تھا۔ بے موقع ہنسی مذاق کیا کرتا۔ جب لوگ ہنستے تو وہ روتا۔ جب لوگ روتے تو وہ ہنستا۔ یہ تعریف اولیاء کی ہوتی ہے۔ مگر وہ ولی بھی تو نہ تھا اور یہی بات خطرناک تھی۔

نیل رتن سے ذکر کیا گیا تو وہ بولا۔

’’ٹھیک ہے، بھاوج کو غرض پڑی ہے کہ تمھارے ہاں آئے۔ اُس کے تین بچے ہیں، تینوں کمسن، تینوں لڑکیاں۔ جن کا تن ڈھانپتے ہی آدھا دن گزر جاتا ہے … بھلا آئے تو ایک ایک کٹوری سے کم دودھ کسی کو کیا دو گے … کیا کہتے ہو سیر ؟ … ایں؟ … میں کہتا ہوں دو اڑھائی سیر سے کم نہ لگے گا۔ ذرا حساب تو لگاؤ۔ … اور پھر کئی قسم کا خرچ آپڑے گا۔ یوں دبو گے جیسے چوہا بلّی کے نیچے دبا ہوتا ہے۔‘‘

پھر اس بات کا رخ خود بخود پلٹ گیا۔ نیل رتن بولا۔

’’کیوں وجے … بیاہ کیسا رہا۔ بیوی تو اچھی ہے نا؟‘‘

جیوارام نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

’’بھئی نندہ تو یوں بھی دیوی ہے… نری دیوی، وہ جہاں بھی جاتی گھر کو سورگ بنا دیتی۔‘‘

’’ٹھیک کہتے ہو دادا۔‘‘ وجے نے کنوئیں کی چرخی کا سہارا ہٹاتے ہوئے کہا۔

’’گرہست تو سچ مچ سورگ ہوتا ہے … کیا بتاؤں؟ نندہ تو سچ مچ نندہ ہی ہے … میں نے پچھلے جنم میں کوئی اچھے کرم کیے ہوں گے۔ جو مجھے نندہ ملی … ایشور کرے میرے ایسا سکھ ہر ایک کو نصیب ہو۔‘‘

اس کے بعد وجے نے اپنے آپ بتایا کہ نندہ اُس وقت تک کھانا نہیں کھاتی ،جب تک اُسے نہ کھلا لے۔ وہ کہیں باہر چلا جائے تو تمام دن انتظار ہوا کرتا ہے … دیر لگا کر آئے تو اُسے روتا ہوا پاتا ہے۔ شکوے ہوتے ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے اُس کے پانو دباتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ شاید یہ خوش ہونے کی بات تھی۔ اسی لیے نیل رتن نے افسردہ سا منھ بناتے ہوئے کہا۔

’’ایسا ہی ہوتا ہے بیٹا جی … چند روز … ذرا ایک دو برس گزرنے دو … ایک آدھ بچہ ہو جائے گا ، پھر دیکھنا یہ گرہست کس بھاؤ پڑتا ہے … کدھر جاتے ہیں وہ چوچلے۔‘‘

’’خیر کچھ بھی ہو۔‘‘ جیوارام نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’جس گھر میں نندہ سی بیوی چلی جائے … وہ گھر تو …‘‘

پھر نا معلوم جیوارام کو کیا ہوا۔ فوراً ہی مغموم سا منھ بناتے ہوئے بولا۔

’’وہ زندگی ہماری طرح تو نہیں کہ بیمار پڑ گئے تو کوئی پانی بھی نہ پوچھے۔ بھاوج کو لکھیں تو وہ دھانوں یا بچوں کی وجہ سے نہ آئے۔ اگر آئے تو دو اڑھائی سیر دودھ وغیرہ … یہی اندازہ تھا نا رتن؟‘‘

وجے اور نیل رتن نے شدید طور پر جیوارام پنڈت کی مصیبت کو محسوس کیا۔ نیل رتن نے ایک خاص انداز سے وجے کی طرف دیکھا۔ وجے بولا۔

’’دادا تم جانتے ہو۔ میں کس لیے تمھارے پاس آیا ہوں؟‘‘

’’نہیں … میں کیا جانوں۔‘‘

’’میں تم سے منگل اشٹکا سیکھنے آیا ہوں، باقی کے سات منتر تو مجھے آتے ہیں۔ منگل اشٹکا پڑھتے وقت کچھ روانی نہیں پاتا ہوں۔‘‘

’’تم بھی پروہتوں کا کام کرنے لگے … اپنا کام چھوڑ دیا تم نے؟‘‘

’’تمھیں سِکھا دینے میں تامل ہی کیا ہے۔ ایک خاص بیاہ پر ضرورت ہے … ‘‘

پھر جیوارام کے قریب آتے ہوئے وجے نے کہا۔

’’دادا ! بات یہ ہے۔ ہمارے ہاتھ تلے ایک لڑکی ہے … نہایت سندر، ذرا چنچل ہے… تمھاری طرح … عورتیں ہوتی ہی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں۔ تمھارا اُس سے بیاہ ہو جائے۔ بیاہ میں ہی پڑھ دوں۔ اور زیادہ لاگ لپٹ اور شور نہ ہو … گرہست میں تمھیں بہت سکھ ملے گا۔ تمھاری حالت کا اندازہ میں نے اُسی دن لگا لیا تھا۔ جب تم میرا بیاہ پڑھ رہے تھے۔‘‘

وجے اور نیل رتن ، جیوارام کے اثبات و نفی کا انتظار کرنے لگے۔

چند لمحات کے لیے خاموشی رہی۔

جیوارام کا جواب خاموشی تھا۔ جس کا مطلب تھا، نیم رضامندی۔

نیل رتن نے چپکے سے کہا۔

’’دادا … اچھی بات ہے۔ وجے پنڈت ہی ہے نا۔ وہ منگل اشٹکا وشٹکا پڑھ لے گا۔ بہت شور مچائے بغیر بیاہ ہو جائے گا۔ سکھی رہو گے۔ تم جانو تمھارا کام … ہم بھلے کی کہتے ہیں … دن مت دیکھو۔ 25 ـ؍کارتک، بدھ وار، شبھ لگن، شبھ مہورت، بس منگل اشٹکا اور ساودھان۔‘‘

ناگ پھنی اور کنول کو اپنی پتیاں بھیگتی ہوئی نظر آنے لگیں، جیوارام کی ذہنی تعمیر کے کنگرے آسمان سے باتیں کرتے کرتے بالکل آسمان سے جا ملے۔

جیوارام پروہت کے بیاہ کے لیے بہت ٹھاٹھ باٹھ کیا گیا۔ باجے بھی بجے اور ڈھولک بھی۔ مذاق بھی ہوئے اور قہقہے بھی بلند ہوئے۔ جیوارام کا دل بھی دھڑکا… اور بہت زور زور سے۔ فقط اتنی کسر تھی کہ چھاتی کی دیواریں نہ ہوتیں تو کبھی کا اُچک کرباہر آ رہتا۔

وجے نے دیکھا۔ پنڈت جیوارام کی نظریں بھی آوارہ ہو چکی تھیں اور مچل مچل کر اپنی ہونے والی بیوی کی گوری گوری کلائی پر چمکتی ہوئی چوڑیوں اور جسم، جس کا چھریراپن سات کپڑوں میں ملبوس ہونے پر بھی دکھائی دے رہا تھا، کا جائزہ لے رہی تھیں۔ اُس کی زوجہ نندہ کی طرح لمبی تھی اور اپنے شوہر سے سر نکالتی تھی اور یہ محض اتفاق کی بات تھی۔

وجے نے رسمیہ طور پر عہد کے لیے جیوارام کا ہاتھ اُس کی ہونے والی بیوی کے ہاتھ میں دیا۔ اس پر گیلا آٹا رکھا اور ساتواں منتر پڑھ دیا۔ چاروں طرف سے چاول وجے کے آگے گرنے لگے۔

وجے ایک استادانہ طرز سے پیسے منگل، سنیچر، گنیش، وغیرہ کے خانوں میں رکھوا رہا تھا۔ کانپتے ہوئے جیوارام نے اشارہ سے وجے کو بلایا۔ منتر گنگناتے ہوئے وجے نے اپنا کان جیوارام کے منھ کے پاس کر دیا۔ جیوارام نے کہا۔

’’بھیا … میرا دل بہت دھڑک رہا ہے … میں کانپ رہا ہوں۔ دیکھتے نہیں مجھے سردی لگ رہی ہے۔ نیل رتن سے کہنا مجھے ذرا تھامے رکھے۔‘‘

وجے برابر منتر گنگناتا گیا۔ وجے کا ایک اور ساتھی بولا۔

’’دادا … نیل رتن گیر ہٹ گیا ہے… تم جانتے ہو رُلنا سے بہت دور نہیں ہے۔ آتا ہی ہو گا۔‘‘

’’وجے … ٹھہرو۔‘‘ جیوارام نے آہستہ سے کہا۔ ’’منگل اشٹکا ابھی نہ پڑھو۔ مجھے سوچ لینے دو ۔ میری عمر چالیس برس کی ہے۔ اور میں برہمچاری پنڈت ہوں …‘‘

وجے نے دیکھا، جیوارام سچ مچ بیاہ کے لیے بہت معمر تھا۔ اس کے گلے میں خشکی پیدا ہو رہی تھی۔ لب سوکھ گئے تھے، جن پر جیوارام دیوانہ وار زبان پھیر رہا تھا۔

وجے نے آہستہ مگر ایک حقارت آمیز آواز سے جیوارام سے کہا۔

’’چھی چھی … تمھارے ایسے کمزور آدمیوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں دادا … دنیا ایسے لوگوں کا مذاق اُڑایا کرتی ہے۔‘‘

جیوارام کے بس کی بات ہوتی تو وہ منگل اشٹکا کا جاپ ہونے سے پہلے ہی اپنے پاک برہمچریہ کو گرہست کی آلودگیوں سے بچا لے نکلتا۔ مگر اس نے دیکھا کہ اُس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اس کی ہونے والی بیوی نے بہت زور سے دبا رکھا تھا۔ شاید وہ سوچتی تھی کہ وہ ہاتھ کیوں کانپ رہے ہیں؟ … شاید شرارت کے طور پر … چنچل تھی نا… جوانی تھی نا… عورت!

پھر جیوارام منگل اشٹکا کے جلدی جلدی پڑھے جانے کا انتظار کرنے لگا، تاکہ وہ جلد ہی اُس ذہنی کوفت سے نجات حاصل کر لے اور اپنی ہونے والی بیوی کا چہرہ دیکھے۔ اس کے تخیل کی مشین چلنے لگی۔ پھر اُس نے محسوس کیا کہ وہ ایک دلفریب پہاڑی پر کھڑا ہے۔ پہاڑی کے دامن میں اُس کو ایک خوبصورت نیلی جھیل … اس میں تیرتے ہوئے بجرے، اس کے کنارے پر لہلہاتی ہوئی کھیتیاں اور ساتھ ہی ماہی گیروں اور دہقانوں کے وہ جھونپڑے نظر آ رہے تھے، جن میں وہ لوگ ایسی مسرّت سے سرشار تھے جس پر بادشاہوں کو بھی رشک آئے، اور ان سے پرے امراء کے محل، جن میں وہ زر و دولت اور شان و شوکت کے باوجود غریبوں سے بھی زیادہ دُکھی تھے۔ جھیل کے مشرقی کناروں پر پانی میں ناگ پھنی اور کنول اُگ رہے تھے اور شیشم کے ایک پودے سے درخت کے نیچے کوئی تارک الدنیا سنیاسی ترئی پھونک رہا تھا۔ اور ترئی کی دلکش آواز اس بات کی یاد دلا رہی تھی، جسے نسلِ انسان ازل سے بھولتی چلی آ رہی ہے …

… فقط اب وہ اکیلا نہ تھا۔ اس کی بیوی بھی اس کے بازو میں بازو ڈالے محوِ نظارہ تھی۔

پانی میں ناگ پھنی اور کنول تر بتر ہو رہے تھے۔

یکایک منگل اشٹکا نے اُس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ کتنا خوبصورت پُر معنی منتر ہمارے بزرگوں نے …

’’ساودھان‘‘ کی آواز آئی اور لوگوں نے مبارک باد دی۔

وجے نے اپدیش دیا۔ بالکل جیوارام کی طرح … وجے نے آخر میں کہا۔

10 بکریوں کا مارنا برابر ہے       ایک بیل مارنے کے

100 آدمیوں کا مارنا برابر ہے       ایک براہمن مارنے کے

پاس ہی ایک شرارتی لڑکے نے آہستہ سے کہا۔

ایک من برابر ہے           چالیس سیر کے

ایک سیر برابر ہے           سولہ چھٹانک کے

اور وجے نے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’ہشت، ہشت‘‘

شام کو حجلۂ عروسی میں جیوارام نے اپنی دلہن کو گٹھڑی بنے ایک کونے میں بیٹھے دیکھا۔ جیوارام کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اپنی بیوی کا منھ دیکھنے کی اس میں جرأت نہ تھی۔ ’’شاید یہ حرکت اُسے بُری لگے‘‘ … جیوارام نے دل میں کہا۔’’عورت ہے نا … ‘‘جیوارام نے جتنی دفعہ کوشش کی، اتنی دفعہ ہی ناکام رہا۔ اُسے یہ محسوس ہونے لگاجیسے اُس کے کمرے میں اور بھی بہت سے آدمی ہیں۔ اُسے واہمہ گردانتے ہوئے جیوارام نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ مگر پھر روک لیا۔

’’تمھارے ایسی کمزور طبیعت والے آدمی کو تو دنیا آڑے ہاتھوں لیتی ہے …

’’چھی چھی ‘‘… وجے کے الفاظ جیوارام کے کانوں میں گونجنے لگے۔

جیوارام نے جب نہایت ہمّت سے کام لے کر آناً فاناً دلہن کا منھ بے نقاب کیا تو دلہن دیوانی ہو کر تالیاں بجانے لگی۔ جیوارام کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اُس نے دیکھا کہ بیاہا ہوتے ہوئے بھی وہ کنوارا تھا۔ یا کنوارا ہوتے ہوئے وہ رنڈوا تھا یا …‘‘

… دور چارپائی پر دلہن کی بجائے نہایت قیمتی کپڑوں میں ملبوس نیل رتن تالیاں بجا رہا تھا، اور باہر سے منگل اشٹکا کے اُونچے اُونچے جاپ کے درمیان بے تحاشا قہقہے بلند ہو رہے تھے!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

پان شاپ

 

 

بیگم بازار کی منحوس دکان میں ایک دفعہ پھر بیل دار و سُوتی کے بھاری بھاری پردے لٹکنے لگے۔موجد ’’دافع چنبل و داد‘‘ اور جاپانی کھلونوں کی دکان… اوساکا فیئر (جاپان سے متعلق) کے ملازم استعجاب سے تھارو لال فوٹوگرافر کو اوک پلائی کا ڈارک روم بناتے دیکھ کر اُس کے تاریک مستقبل پر آنسو بہانے لگے۔

’’ایک ماہ سے زیادہ چوٹ نہ سہے گا … بیچارہ !‘‘

’’دکان کیا ہو گی … بازار سے کچھ ہٹ کر ہے نا۔ نظر اُسے سامنے نہیں پاتی‘‘ اور بس۔‘‘

… ایک ماہ ، دو اور چار … تھارو لال وہیں تھا۔ موجد ’’دافع چنبل و داد‘‘ اور اوساکافیئر کے ملازموں نے حیرت سے انگلیاں منھ میں ڈال لیں۔ جب کہ 11ـ؍اگست کی صبح کو انھوں نے ایک جہازی سائز کا سائن بورڈ اُس منحوس دکان پر آویزاں ہوتے ہوئے دیکھا۔ 12×6 فٹ سائز کے سائن بورڈ پر دیو صورت حروف خالص صنعتی انداز سے ناچتے ہوئے انٹرنیشنل فوٹو سٹوڈیو کی شکل اختیار کر رہے تھے۔

اوساکا فیئر کے منتظم صمیم (خان زادہ) نے سیلولائیڈ کی ایک بڑی سی گڑیا کے اندرونی فیتے کو اُس کے اندرونی قلابوں سے احتیاط کے ساتھ باندھ دیا (تاکہ گاہک کو شکایت کا موقع نہ ملے) اور پھر تھارو کی دکان پر آویزاں سائن بورڈ کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔

’’انٹر … نیشنل فوٹو سٹوڈیو!‘‘

تھارو کا کام بیگم بازار ، اُس کے نواح کے تین محلوں، سامنے کے نشیبی چوک یا چھاؤنی کے ہائی اسکول تک محدود ہو گا، مگر وہ اپنی دکان کو ایک بین الاقوامی کاروبار سے کم نہیں دیکھنا چاہتا۔ کیا عجب جو اُسے کسی دن پیٹروگراڈ، ٹمبکٹو، یا ہونولولُو سے فوٹو کا مال مہیّا کرنے کے آرڈر ملنے لگیں … بہرحال بین الاقوامی نام رکھنے میں حرج بھی تو کوئی نہیں۔ اس نام سے دُکاندار کی فطری رجائیت ٹپکتی ہے۔

مگر افسوس ! سودے کی بدعت، ترقی پسند ہندستانی دُکاندار کو بیگم بازار کے نواحی تین محلوں، سامنے کے نشیبی چوک اور چھاؤنی کے ہائی اسکول سے دُور کیا جانے دے گی۔ وہ ہر     جائز و ناجائز طریقہ سے گاہک کو پھنسانے کی کوشش میں کسبِ کمال کی تو دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ گویا اپنے پانو میں آپ بیڑیاں ڈالتا ہے اور یوں زیادہ آمدنی کی توقع میں طبعی آمدنی بھی معدوم! … تھارو کی دکان پر اس جہازی قد کے سائن بورڈ کے نیچے ایک اور ٹین کی پلیٹ پر جدید عینک ساز بھی لکھا تھا۔ ترقی پسند مگر بھولے تھارو نے جدید عینک سازی، محض سودے کی بدعت یا نقل میں شروع کی تھی،کیونکہ اس کا پڑوسی دُکاندار جرابوں کے کارخانہ کے ساتھ ’’ٹیٹا گھر‘‘ کاغذ بھی فروخت کرتا تھا۔

11؍اگست کی شام کو اوساکا فیئر کا منتظم صمیم (خان زادہ) اور تھارو ،کچھ اداس خاطر ہو کر ملے۔ دونوں کی آمدنی کا بیشتر حصہ تعطیلاتِ گرما یا سرکاری دفاتر کے شملہ کی طرف کوچ کی نذر ہو چکا تھا۔ان دنوں میں سٹوڈیو کے سامنے پان شاپ پر بہت رونق رہتی تھی۔

پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے شیشے بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔ ایک ہلکی اور سبز جھلک رکھنے والے شیشے کے پیچھے ایک ہُک کے ساتھ ایک نفیس طلائی سیکنڈس گھڑی لٹک رہی تھی۔ اس کے نیچے قانون و فقہ کی کتابیں بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔ شاید کوئی قانون کا بے قانون اور فضول خرچ طالب علم اتنی قیمتی کتابیں کوڑیوں کے مول گروی رکھ کر پیسے لے گیا تھا۔ کتابوں کے پیچھے ایک پُرانی سنگر مشین پڑی تھی۔ اسے گروی رکھنے والے کو اتنی ضرورت یا اتنی جلدی تھی کہ اس نے مشین پر سے دھاگہ کی گولی بھی نہ اُٹھائی تھی۔

پان شاپ کے ایک کونے میں کانسی اور پیتل کے فلسطینی پیالوں کی شکل کے گلدستے اور لمبی لمبی ٹانگوں والے کلنگ پڑے تھے۔ فرنیچر کی دو قطاروں میں اخروٹ کی لکڑی میں کشمیری تراش کا ایک بڑا سا گنیش بھی پڑا تھا اور دیوار کے ساتھ پان شاپ کا مالک ایک آہنی صندوقچی پر اپنی کہنیاں رکھے ہوئے اپنے کسی گاہک سے باتیں کر رہا تھا۔

دو بلاّ وردی سپاہی پان شاپ کے مالک سے اجازت پاکر برآمدے میں پڑے ہوئے سائیکلوں کے نمبر دیکھ رہے تھے۔

’’A-11785 … نہیں۔‘‘

’’A- 222312 … یہ بھی نہیں۔‘‘

’’H- 97401 … یہ بھی نہیں ۔ کوئی بھی نہیں۔ چلو۔‘‘

ایک عیسائی لڑکی دو دفعہ بیگم بازار میں پان شاپ سے نشیبی چوک اور نشیبی چوک سے   پان شاپ کی طرف واپس آئی۔ وہ بار بار غور سے پان شاپ کے اندر دیکھتی۔اس وقت اس کے دبے ہوئے شانے پھرکنے لگتے۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ پان شاپ کے اندر بیٹھے ہوئے دو ایک آدمی چلے جائیں اور سپاہی اپنا کام کر کے رخصت ہوں تاکہ وہ تخلیہ میں آزادانہ اپنا کاروبار کرسکے، یا شاید وہ اپنا مال گروی رکھتے ہوئے جھجکتی تھی، اگرچہ اس کے پاس گروی رکھنے کے لیے کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی … اس کے قدرے عمدگی سے تراشے ہوئے کسمئی لب پھرکتے دکھائی دیتے تھے اور اس کی بے خواب اور بھاری آنکھیں بے قراری سے پپوٹوں میں حرکت کر رہی تھیں۔ پسینہ سے سفید ململ کا فراک اس کی پشت پر چمٹ گیا تھا اور پشت کی جانب سے اس کی انگیا کے تناؤ کے ریشمی فیتے شانوں پر گول چکر کاٹتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے تھے۔

’’آج بہت گرمی ہے … توبہ! … شام کو ضرور بارش ہو گی …‘‘اوساکا فیئر کے منتظم نے کانوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

تھارو نے یہ بات نہ سنی اور بہت انہماک سے پان شاپ کے اندر دیکھتا رہا۔ پھر یکایک کانپتے ہوئے اٹھا اور بولا۔

’’اس سے تو میں بھوکا مر جانا پسند کرتا ہوں۔‘‘

صمیم نے غور سے پان شاپ کے اندر دیکھا اور بولا۔

’’ضرورت مجبور کرتی ہے میرے بھائی، وگرنہ کوئی خوشی سے تھوڑا ہی …‘‘

لڑکی پان شاپ سے باہر آئی۔ اس کے بشرہ سے صاف عیاں تھا کہ گروی مال پر اس کے اندازے اور ضرورت سے اسے بہت ہی کم روپیہ ملا تھا۔ نہیں تو اطمینان اور خوشی کی تحریر اس کے چہرے پر ضرور دکھائی دیتی … وہ اپنے بیمار خاوند پر اپنا سب کچھ لٹا چکی تھی۔ اب اس کے پاس سنہری بالوں کے سوا گروی رکھنے کے لیے رہا بھی کیا تھا۔ کاش ان حلقہ دار لمبی لمبی سنہری زلفوں کی ہندستان میں کچھ قیمت ہوتی۔

لڑکی نے اپنا دایاں ہاتھ اُوپر اُٹھا کر ایک اُنگلی کو جڑھ سے مسلنا شروع کیا۔ اُنگلی پر ایک زرد سا حلقہ نظر آ رہا تھا۔ نامعلوم کتنی ضرورت سے مجبور ہو کر اس نے اپنی عزیز ترین چیز، اپنی رومانوی حیات معاشقہ کی آخری نشانی پان شاپ میں گروی رکھ دی تھی۔ اُس نے اپنے رنڈوے ہاتھ سے اپنی سنہری زلفوں کو نفرت سے پیچھے ہٹا دیا، کیونکہ ان کی کوئی قیمت نہ تھی اور پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے خوبصورت شیشوں میں اس نے اپنے حسین چہرے کے دھندلے عکس کو دیکھا اور رونے لگی … کیونکہ وہ حسن فروش نہ تھی۔

لوہے کی ایک خوردبین نما نال میں تھارو کرکس کے چند ہلکے سے محدّب شیشے ڈال کر نصف گھنٹہ کے قریب ایک بوڑھے کی آنکھوں کا معائنہ کرتا رہا۔ بوڑھے کے سامنے کچھ دور ایک طاق کے ساتھ اُردو کے حروفِ تہجی آویزاں تھے۔

تھارو بار بار اس نال کی درز میں کسی نئے اور ہلکے سے محدب شیشے کو رکھ دیتا۔ بوڑھا کہتا۔

’’اب ’’م‘‘ تمھارے کوٹ سے بھی بڑی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

’’اب ’’ظ‘‘ سے شعاعیں نکل رہی ہیں۔‘‘

’’اب ’’ع‘‘ دھندلی دھندلی اور پرچھائیں دار نظر آتی ہے۔‘‘

’’اب سب حروف دکھائی تو ٹھیک دیتے ہیں… مگر بہت ہی چھوٹے چھوٹے… تمھارے کوٹ کے بٹن سے بھی چھوٹے۔‘‘

وہ بوڑھا کیا جانے کہ اگر کسی محدّب شیشے میں سے تمام حروف تہجّی اپنے قدو قامت کے دکھائی دینے بھی لگیں ، تو بھی وہ تھارو لال … ’’جدید عینک ساز‘‘ اور فوٹوگرافر سے ایک دیدہ زیب سیلولائیڈ کا فریم کیا ہوا چشمہ لگوا کر ہمیشہ کے لیے اندھا ہو جائے گا۔

ڈیڑھ گھنٹہ کی ’’سائنٹیفک‘‘ دیکھ بھال کے بعد تھارو نے شیشے کا نمبر ایک کاغذ پر لکھا، اور عینک بوڑھے کو دے دی۔

بوڑھا ان امیر گاہکوں میں سے نہیں تھا، جو تھوڑے پیسوں کی ادائیگی کے لیے بھی یکم کا وعدہ کیا کرتے ہیں۔ پیسے اس کی مٹھی میں تھے۔ تھارو لال کے مانگنے پر اس نے چند پسینہ سے شرابور سکّے کونٹر پر بکھیر دیے۔ ان سکّوں کے دیکھنے سے گھِن آتی تھی۔ تھارو نے ایک حریصانہ انداز سے سکّے اُٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے اور اپنا ہاتھ پتلون سے پونچھنے لگا۔

تھارو نے ایک مغرورانہ انداز سے پان شاپ کی طرف دیکھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شریف آدمی جس کا منھ کان تک تمتما رہا تھا، آہستہ آہستہ پان شاپ کے سامنے کی تین سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔ نیچے اترتے ہوئے اس نے پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے خوبصورت شیشوں میں سے اپنے پُر شرافت چہرے کے دھندلے عکس کو دیکھا … اور غمزدہ ہو گیا… کیونکہ وہ بدمعاش نہیں تھا۔

’’پان شاپ کا مالک چار دن میں بھی اتنا سود جمع نہیں کرسکتا ۔ تھارو نے اپنی جیب میں سکّوں کی کھنکار پیدا کرتے ہوئے کہا۔

پھر تھارو ایک بے سود ، بے حاصل غرور کے جذبہ کے ساتھ آس پاس کے دُکانداروں کی آمدنی کا اندازہ لگانے لگا۔

اس لاحاصل جمع خرچ میں بیگم بازار کے بساطیوں کا کوئی دخل نہ تھا۔ ان کی آمدنی لامحدود تھی اور تھارو کے محدود تخیّل سے بہت ہی پرے۔

’’ہاں! موجد ’’دافع چنبل و داد‘‘ کے نسخہ کی قیمت زیادہ سے زیادہ دو آنے ہو گی۔ گندھک رال، سہاگہ، پھٹکڑی کا ایک حصہ اور نیلا تھوتھا 1/8 حصہ اور ایک مخفی چیز ،جو اس نسخہ کی کامیابی کی کلید ہے اور جس نے اس عطار کو موجد کا خطاب دیا ہے،وہ بھی ایک آدھ پیسہ میں آ جاتی ہو گی … اِس میں وہ کماتا کیا ہے۔ اوساکا فیئر کے منتظم کو کمیشن بٹہ کی بنا پر ملتا ہی کیا ہو گا … ہیئر کٹنگ سیلون والے فی حجامت چار آنے … پانچ آنے کما لیتے ہوں گے …‘‘ … تھارو نے ایک دفعہ پھر چمکتی ہوئی آنکھوں سے پان شاپ کی طرف دیکھا۔

اس کی پتلون کی جیب میں پسینہ سے شرابور سکّے، اس کی رانوں کو گیلے گیلے لگنے لگے۔

اس وقت اوساکا فیئر کا منتظم آیا۔

ہفتہ بھر اس کی دکان پر سوائے پرچون کے چند گاہکوں کے اور کوئی نہ آیا تھا۔ دسہرہ،   شب برات، یا دیوالی میں ابھی اڑھائی تین ماہ باقی تھے۔ کیا اوساکا کا بڑا آفس اکتوبر تک انتظار کرے گا؟ صمیم (خان زادہ) کا چہرہ قدرے سیاہ ہو گیا تھا اور اس کے گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتہ میں اتنے معمر دکھائی دینے کی کوئی خاص وجہ تھی۔

صمیم نے اپنے آپ کو آرام کرسی پر گرا دیا۔ تھارو بولا۔

’’یہ پان شاپ کا کام … ہمارے کاموں سے بیک وقت اچھا بھی ہے اور بُرا بھی ۔‘‘

’’اچھا کیسے؟‘‘

’’آمدنی … ہم کرکس کے چشمے اور فریم خریدتے ہیں۔ عکس لینے کے لیے منفی پلیٹیں اور مثبت کاغذ لاتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارا نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ پان شاپ میں پلّے سے کیا خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی میعاد کے بعد لی ہوئی رقم سے تگنی رقم کی چیز چھڑانے نہ آسکے، تو سب کچھ اپنا… اور ایک بڑا سا ڈکار۔‘‘

’’ بُرا کیسے؟‘‘

’’بُرا؟ بُرا … اس میں دھوکے کا خطرہ ہے۔ یہ لوگ دوسرے کا مال اپنے پاس گروی رکھتے ہوئے اور بغیر محسوس کیے ہوئے اپنا ضمیر اپنے گاہک کے سامنے گروی رکھ دیتے ہیں اور یہاں سے کبھی کبھی کوئی حسین لڑکی اپنی رومانوی حیاتِ معاشقہ کی عزیز ترین اور آخری نشانی دے کر حسرت کے عالم میں اپنے رنڈوے ہاتھ کو مسلتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں سنہری زلفوں کی کوئی قیمت ہو، تو یہ حریص آدمی ان کو بھی گروی رکھ لیا کریں۔ اگر کسی شریف ادھیڑ عمر کے آدمی کی شرافت بکاؤ ہو … تو یہ لوگ اسے بھی گروی رکھنے سے گریز نہ کریں۔‘‘

اور تھارو مسکرا کر غرور سے سکّے اپنی جیب میں اُچھالنے لگا۔

دو گھنٹہ سے تھارو نے چند منفی پلیٹیں برفیلے پانی میں ڈال رکھی تھیں۔ اب وہ ان سے مثبت کاغذ پر عکس اُتارنا چاہتا تھا۔ اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ پانی گرم ہو چکا تھا اور منفی پلیٹوں پر مصالحہ پگھل کر لاوہ کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ تھارو کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

وہ کچھ نہ بولا … وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔

یہ اسے چھ روپئے کا نقصان تھا۔ ایک عینک کی بچت سے تین گنا زیادہ نقصان۔

تھارو ایک انگڑائی لے کر صمیم کے پاس بیٹھ گیا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے ایک لمحہ میں اس کی سکت اس کے جسم سے کھینچ لی گئی ہو۔ تھارو ٹکٹکی باندھ کر پان شاپ کی طرف دیکھنے لگا۔ شیشے کے پیچھے طلائی سیکنڈس قانون و فقہ کی کتابوں پر لٹک رہی تھی۔ ایک کونے میں کانسی اور پیتل کے فلسطینی پیالوں کی شکل کے گلدستے اور لمبی لمبی ٹانگوں والے کلنگ پڑے تھے۔ فرنیچر کی دو قطاروں میں اخروٹ کی لکڑی میں کشمیری تراش کا ایک بڑا سا گنیش بھی دکھائی دے رہا تھا اور ایک دیوار کے ساتھ پان شاپ کا مالک ایک آہنی سیف پر اپنی کہنیاں رکھے …

اوک پلائی کے ڈارک روم میں دم گھٹ جانے پر تھارو نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر مثبت کاغذ پر نقش کو مستقل کرنے والے مرکب کو ہلاتا رہا۔ اُس وقت پسینہ اس کی کمر سے ہو کر گھٹنوں کی پشت پر قطرہ بہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔

شاید تھارو اوک پلائی کے ڈارک روم میں پگھل کر اپنی جان دے دیتا، اگر صمیم اوسکا فیئر کو بند کرتے ہوئے اِدھر نہ آ نکلتا۔ تھارو نے صمیم کی آواز پر باہر آتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنی قمیص اُتاری۔ اس میں سے پسینہ نچوڑا اور قمیص کو پانی کے ایک ٹپ میں چھوڑ دیا اور ہانپتے ہوئے بولا۔

’’آج کل ایمانداری کے کام میں پڑا ہی کیا ہے؟ …‘‘

… اور بین الاقوامی کاروبار کے شائق تھارو نے ایک پھٹی ہوئی بنیان آہستہ آہستہ سر سے نیچے اُتار لی۔

پانی کے ٹب میں تھارو کی قمیص کی جیب میں سے کاغذ کا ایک پرزہ نکل کر پانی پر تیرنے لگا۔ اس پر لکھّا تھا، تین آنے کا مرکب، دو آنے یونین کا چندہ، ایک پیسہ کی گنڈیریاں۔ کل سوا پانچ آنے۔

تھارو بولا۔ ’’یہ میری تمام دن کی آمدنی اور خرچ ہے … تم کنوارا دیکھ کر مذاق کرتے ہو… بیاہ … محبت کتنی میٹھی چیز ہے۔ مگر خالی معدہ میں تو پانی کی سی نعمت بھی جا کر تڑپا دیتی ہے۔‘‘

اوساکافیئر کا منتظم مبہوت بنا تھارو کے غم زدہ چہرے کے ٹیڑھے میڑھے شکنوں کی طرف دیکھتا رہا۔ اور بولا…

’’تم ٹھیک کہتے ہو بھائی… ایمانداری کے کام میں پڑا ہی کیا ہے … اوساکا سے چٹھی آئی ہے۔ اگر چھ ماہ کے اندر نقشہ کیفیت میں آمدنی کی مد بھاری یا کم از کم خاطر خواہ دکھائی نہ دی، تو یہ دکان دہلی کے دفتر سے ملحق کر دی جائے گی۔‘‘

چند لمحات کے لیے دونوں خاموش رہے۔ پھر تھارو بولا۔

’’پان شاپ کا مالک دس سے لے کر 12-½ فیصدی تک فرنیچر پر دیے ہوئے روپوں میں سے کاٹ لیتا ہے۔ عام طور پر نیشنل بنک اور پانسے کے سونا پر ایک پیسہ فی روپیہ سود لیتے ہیں۔ مگر ادھر دیکھو صمیم۔ تصویر کی طرف مت دیکھو۔ تمھیں دو لڑکی یاد ہے نا جس نے مجبوری اور حسرت کے عالم میں اپنی عزیز ترین چیز پان شاپ کے مالک کو دے دی تھی … اس کی انگشتری کی قیمت اسّی روپئے تھی۔‘‘

خان زادہ اچھل پڑا… تھارو بولا۔

پان شاپ کے مالک نے خود مجھے بتلایا ہے… اس کی قیمت اس نے تیس روپئے ڈالی… صرف تیس … میں سچ کہتا ہوں تیس روپئے اور ایک آنہ فی روپیہ سود لگایا۔ میعاد 31؍اگست تک ہے، یکم بھی نہیں… اس کے بعد وہ انگوٹھی اسی لٹیرے اور درندے کی ہو گی۔‘‘

ایک چیتھڑے سے کسی تصویر کی پشت کو کبوتروں کی بیٹ سے صاف کرتے ہوئے تھارو بولا۔

’’میری جیب میں کچی کوڑی بھی نہیں … دکان میں نہ منفی پلیٹیں ہیں نہ مثبت کاغذ۔ 200 بتی کی طاقت کا ایک بلب فیوز ہو گیا ہے۔ میں کام کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘

خان زادہ نے اوساکا سے آئی ہوئی چٹھی جیب سے نکالی اور شاید دسویں بار اسے پڑھنے لگا۔ کچھ دیر غور و فکر میں غرق رہنے کے بعد تھارو نے تصویر اور چیتھڑے کو میز پر رکھ دیا اور بولا ’’بیگم بازار کی منحوس دکان پھر اپنی دُکھ بھری کہانی کو دُہرائے گی… عنقریب ہی خالی ہو جائے گی۔ انٹرنیشنل فوٹو سٹوڈیو کا کام پیٹروگراڈ، ٹمبکٹو یا ہونولولُو تک وسیع ہونا تو ایک طرف رہا، وہ بیگم بازار سے نشیبی چوک تک بھی پہنچنے سے قاصر رہا… اور کیا بھائی… آج کل ایمانداری کے کام میں رکھا ہی کیا ہے … ‘‘

صمیم نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ سامنے تھارو کھڑا تھا۔ تھارو جس کا جسم و روح دونوں ارتقا پذیر ہو چکے تھے۔

پان شاپ کا مالک اور تھارو مقامی کاٹن مِل کے ہڑتالی مزدوروں کا مظاہرہ دیکھ رہے تھے۔ یکایک پان شاپ کے مالک نے تھارو کو اندر لے جا کر ایک چھوٹا سا کاغذ سامنے رکھ دیا۔

تھارو کا چہرہ کان تک تمتما اُٹھا۔ اس کی آنکھوں میں خون کے آنسو اُتر آئے۔ ہکلاتے ہوئے اس نے کہا۔

’’دس فیصدی؟ … د… س فیصدی تو بہت ہے۔‘‘

’’تمھیں یہ خاص رعایت ہے … ورنہ بارہ سے کم نہیں۔‘‘

’’تم کیمرہ کو فرنیچر میں کیوں گنتے ہو؟‘‘

’’اور وہ زیورات میں بھی تو شمار نہیں ہو سکتا۔‘‘

تھارو لال نے پھر ایک دفعہ کاغذ پر نظر ڈالی، اور اپنی شعلہ فگن آنکھوں کو اُوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔

’’31 ؍ اگست کو نہیں … تم مجھے لوٹنا چاہتے ہو … یکم کی شام تک ۔ بابو لوگ یکم کو ہی پیسے دیتے ہیں۔‘‘

بات صرف یہ ہے، 31؍اگست کی رات کو میں شملہ جا رہا ہوں۔ ورنہ یکم ہو جاتی تو کیا پروا تھی … عموماً اس معاملہ میں گاہکوں کی رضامندی ہمیں مطلوب ہوتی ہے … مگر …‘‘

مقامی کاٹن مِل کے ہڑتالی مزدوروں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے ایک شخص باہر نکلا۔ اُنگلی سے پیشانی پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے پان ٹکٹ نکالا۔ بیالیس روپئے پان شاپ کے مالک کی میز پر رکھ دیے اور سنگر مشین چھڑا کر اس تیزی سے بھاگا کہ دھاگہ کی گولی دکان کے اندر گِر کر اس کے پیچھے پیچھے گھسٹتی ہوئی دروازے کی ایک درز میں ٹوٹ گئی۔

تھارو نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کاغذ پر دستخط کر دیے۔ پان شاپ کے مالک نے ایک ڈبیہ کو کھولتے اور بند کرتے ہوئے کہا۔

ایک گواہی بھی ڈلوا دونا… خی خی … رسمیہ طور پر ضرورت ہوتی ہی ہے نا …       خی خی…‘‘

اوساکافیئر کے منتظم کو لے آؤ۔

تھارو کے ہاتھ زیادہ کانپنے لگے۔ وہ بھی صمیم کی طرح معمر نظر آنے لگا۔ تھارو کھانستے ہوئے بولا۔

’’مگر میں صمیم کے سامنے روپیہ لینا نہیں چاہتا۔‘‘

پان شاپ کا مالک ڈرامائی انداز سے ہنسنے لگا۔ ہنستے ہوئے اُس نے سامنے لٹکتے ہوئے جھومروں کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔

’’وہ صمیم کی بیوی کے ہیں۔‘‘

اب تھارو نے جانا کہ کیوں صمیم ایک ہفتہ میں ہی معمّر دکھائی دینے لگا تھا۔ اس نے چپکے سے سند پر بھی دستخط کر دیے۔ پان ٹکٹ ہاتھ میں لیا اور کسی دوسرے دُکاندار کی گواہی ڈلوا دی۔

پھر وہ پان شاپ کے پہیّے دار تختوں میں کھڑیا مٹی سے صاف کیے ہوئے خوبصورت شیشوں میں اپنے معمّر اور دیانت دار چہرے کے دھندلے عکس کو دیکھتے ہوئے پان شاپ کی سیڑھیوں پر سے اُترا۔ اُس کی آنکھیں پُر نم ہو گئیں… کیونکہ وہ ایمان فروش اور بدقماش نہیں تھا۔

31؍اگست تک تھارو سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ وہ اسی رسّی کی مانند ہو گیا تھا جو جل جانے کے بعد بھی ویسی صورت رکھتی ہے۔ اُسے کسی طرف سے آمدنی کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اس پر سکرات کی سی کیفیت طاری ہو گئی، جب کہ آدمی مایوس ہو کر آسمان کی طرف سر اُٹھا دیتا ہے … ایمان دار کی خدا مدد کرتا ہے … ایمان کی کمائی … ایمان کی کمائی میں برکت … ایمان … لعنت! …

اوساکافیئر کا منتظم تھارو کے پاس آیا۔ مایوسی کے انداز سے اس نے اپنے آپ کو ایک کرسی پر گرا دیا اور بولا۔

’’پان شاپ … میں ایک کیمرہ دکھائی دیتا ہے۔‘‘

تھارو لال نے شرمندہ ہو کر سر اُٹھایا اور ایک گہری نظر سے پان شاپ میں دیکھتے ہوئے بولا۔

’’ہاں… دکھائی دیتا ہے … اور جھومروں کی ایک جوڑی بھی …۔‘‘

خان زادے نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’کتنی میعاد ہے؟‘‘

’’31 ؍اگست … اور تمھاری؟‘‘

’’31؍اگست ۔‘‘

’’کوئی سبیل؟‘‘

’’کوئی نہیں … اور تمھاری؟‘‘

’’اُوں ہوں۔‘‘

اور دونوں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے سر گرا دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

کوارنٹین

 

 

پلیگ اور کوارنٹین!

ہمالہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھُندلا بنا دینے والی کُہرے کے مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سُن کر کانپ جاتا تھا۔

پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اُس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اُس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘‘ لکھا تھا۔

کوارنٹین کے متعلق لوگوں کا خوف بجا تھا۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اُس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایّام میں بیمار لوگوں کو تندرست انسانوں سے ازروئے قانون علاحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔ اگرچہ کوارنٹین میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا کافی انتظام تھا، پھر بھی مریضوں کے کثرت سے وہاں آ جانے پر اُن کی طرف فرداً فرداً توجہ نہ دی جا سکتی تھی۔ خویش و اقارب کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ کئی تو اپنے نواح میں لوگوں کو پَے در پَے مرتے دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مرگئے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ کوئی معمولی طور پر بیمار آدمی وہاں کی وبائی فضا ہی کے جراثیم سے ہلاک ہو گیا اور کثرتِ اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقہ پر ادا ہوتیں ،یعنی سینکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی کے مذہبی رسوم کا احترام کیے، پٹرول ڈال کر سب کو نذرِ آتش کر دیا جاتا اور شام کے وقت جب ڈوبتے ہوئے سورج کی آتشیں شفق کے ساتھ بڑے بڑے شعلے یک رنگ وہم آہنگ ہوتے تو دوسرے مریض یہی سمجھتے کہ تمام دنیا کو آگ لگ رہی ہے۔

کوارنٹین اس لیے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اُسے چھپانے لگتے، تاکہ کہیں مریض کو جبراً کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چوں کہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لیے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کراتے اور کسی گھر کے وبائی ہونے کا صرف اُسی وقت پتہ چلتا، جب کہ جگر دوز آہ و بُکا کے درمیان ایک لاش اُس گھر سے نکلتی۔

اُن دنوں میں کوارنٹین میں بطور ایک ڈاکٹر کے کام کر رہا تھا۔ پلیگ کا خوف میرے   دل و دماغ پر بھی مسلّط تھا۔ شام کو گھر آنے پر میں ایک عرصہ تک کار بالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا، یا پیٹ کو جلا دینے والی گرم کافی یا برانڈی پی لیتا۔ اگرچہ اُس سے مجھے بے خوابی اور آنکھوں کے چندھے پن کی شکایت پیدا ہو گئی۔ کئی دفعہ بیماری کے خوف سے میں نے قے آور دوائیں کھا کر اپنی طبیعت کو صاف کیا۔ جب نہایت گرم کافی یا برانڈی پینے سے پیٹ میں تخمیر ہوتی اور بخارات اُٹھ اُٹھ کر دماغ کو جاتے، تو میں اکثر ایک حواس باختہ شخص کے مانند طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتا ۔ گلے میں ذرا بھی خراش محسوس ہوتی تو میں سمجھتا کہ پلیگ کے نشانات نمودار ہونے والے ہیں … اُف ! میں بھی اس موذی بیماری کا شکار ہو جاؤں گا … پلیگ! اور پھر … کوارنٹین!

اُنھیں دنوںمیں نوعیسائی ولیم بھاگو خاکروب، جو میری گلی میں صفائی کیا کرتا تھا، میرے پاس آیا اور بولا۔ ’’بابوجی … غضب ہو گیا۔ آج ایمبو اسی محلہ کے قریب سے بیس اور ایک بیمار لے گئی ہے۔‘‘

’’اکیس؟ ایمبولینس میں …؟ ‘‘ میں نے متعجب ہوتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔

’’جی ہاں … پورے بیس اور ایک … اُنھیں بھی کونٹن (کوارنٹین) لے جائیں گے… آہ! وہ بے چارے کبھی واپس نہ آئیں گے؟‘‘

دریافت کرنے پر مجھے علم ہوا کہ بھاگو رات کے تین بجے اُٹھتا ہے۔ آدھ پاؤ شراب چڑھا لیتا ہے۔ اور پھر حسب ہدایت کمیٹی کی گلیوں میں اور نالیوں میں چونا بکھیرنا شروع کر دیتا ہے، تاکہ جراثیم پھیلنے نہ پائیں۔ بھاگو نے مجھے مطلع کیا کہ اُس کے تین بجے اُٹھنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ بازار میں پڑی ہوئی لاشوں کو اکٹھا کرے اور اُس محلہ میں جہاں وہ کام کرتا ہے، اُن لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کاج کرے جو بیماری کے خوف سے باہر نہیں نکلتے۔ بھاگو تو بیماری سے ذرا بھی نہیں ڈرتا تھا۔ اُس کا خیال تھا اگر موت آئی ہو تو خواہ وہ کہیں بھی چلا جائے، بچ نہیں سکتا۔

اُن دنوں جب کوئی کسی کے پاس نہیں پھٹکتا تھا، بھاگو سر اور منھ پر منڈاسا باندھے نہایت انہماک سے بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کر رہا تھا۔ اگرچہ اُس کا علم نہایت محدود تھا، تاہم اپنے تجربوں کی بنا پر وہ ایک مقرر کی طرح لوگوں کو بیماری سے بچنے کی تراکیب بتاتا۔ عام صفائی ، چونا بکھیرنے اور گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کرتا۔ ایک دن میں نے اُسے لوگوں کو شراب کثرت سے پینے کی تلقین کرتے ہوئی بھی دیکھا۔ اُس دن جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے پوچھا۔’’بھاگو تمھیں پلیگ سے ڈر بھی نہیں لگتا؟‘‘

’’نہیں بابوجی… بن آئی بال بھی بیکا نہیں ہو گا۔ آپ اِتے بڑے حکیم ٹھہرے، ہزاروں نے آپ کے ہاتھ سے شفا پائی۔ مگر جب میری آئی ہو گی تو آپ کا دارو درمن بھی کچھ اثر نہ کرے گا… ہاں بابوجی … آپ بُرا نہ مانیں۔ میں ٹھیک اور صاف صاف کہہ رہا ہوں۔‘‘ اور پھر گفتگو کا رُخ بدلتے ہوئے بولا۔ ’’کچھ کونٹین کی کہیے بابوجی… کونٹین کی۔‘‘

’’وہاں کوارنٹین میں ہزاروں مریض آ گئے ہیں۔ ہم حتّی الوسع اُن کا علاج کرتے ہیں۔ مگر کہاں تک، نیز میرے ساتھ کام کرنے والے خود بھی زیادہ دیر اُن کے درمیان رہنے سے گھبراتے ہیں۔ خوف سے اُن کے گلے اور لب سوکھے رہتے ہیں۔ پھر تمھاری طرح کوئی مریض کے منھ کے ساتھ منھ نہیں جا لگاتا۔ نہ کوئی تمھاری طرح اتنی جان مارتا ہے … بھاگو ! خدا تمھارا بھلا کرے۔ جو تم بنی نوع انسان کی اس قدر خدمت کرتے ہو۔‘‘

بھاگو نے گردن جھکا دی اور منڈاسے کے ایک پلّو کو منھ پر سے ہٹا کر شراب کے اثر سے سُرخ چہرے کو دکھاتے ہوئے بولا۔ ’’بابوجی، میں کس لائق ہوں۔ مجھ سے کسی کا بھلا ہو جائے، میرا یہ نکمّا تن کسی کے کام آ جائے، اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ بابوجی بڑے پادری لابے (ریورینڈ مونت ل، آبے) جو ہمارے محلوں میں اکثر پرچار کے لیے آیا کرتے ہیں، کہتے ہیں، خداوند یسوع مسیح یہی سکھاتا ہے کہ بیمار کی مدد میں اپنی جان تک لڑا دو … میں سمجھتا ہوں…‘‘

میں نے بھاگو کی ہمّت کو سراہنا چاہا، مگر کثرتِ جذبات سے میں رُک گیا۔ اُس کی خوش اعتقادی اور عملی زندگی کو دیکھ کر میرے دل میں ایک جذبۂ رشک پیدا ہوا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ آج کوارنٹین میں پوری تن دہی سے کام کر کے بہت سے مریضوں کو بقیدِ حیات رکھنے کی کوشش کروں گا۔ اُن کو آرام پہنچانے میں اپنی جان تک لڑا دوں گا۔ مگر کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کوارنٹین میں پہنچ کر جب میں نے مریضوں کی خوفناک حالت دیکھی اور اُن کے منھ سے پیدا شدہ تعفّن میرے نتھنوں میں پہنچا، تو میری روح لرز گئی اور بھاگو کی تقلید کرنے کی ہمت نہ پڑی۔

تاہم اُس دن بھاگو کو ساتھ لے کر میں نے کوارنٹین میں بہت کام کیا۔ جو کام مریض کے زیادہ قریب رہ کر ہو سکتا تھا، وہ میں نے بھاگو سے کرایا اور اُس نے بلا تامل کیا… خود میں مریضوں سے دُور دُور ہی رہتا، اس لیے کہ میں موت سے بہت خائف تھا اور اُس سے بھی زیادہ کوارنٹین سے۔

مگر کیا بھاگو موت اور کوارنٹین ،دونوں سے بالاتر تھا؟

اُس دن کوارنٹین میں چار سو کے قریب مریض داخل ہوئے اور اڑھائی سو کے لگ بھگ لقمۂ اجل ہو گئے!

یہ بھاگو کی جانبازی کا صدقہ ہی تھا کہ میں نے بہت سے مریضوں کو شفایاب کیا۔ وہ نقشہ جو مریضوں کی رفتارِ صحت کے متعلق چیف میڈیکل آفیسر کے کمرے میں آویزاں تھا، اُس میں میرے تحت میں رکھے ہوئے مریضوں کی اوسط صحت کی لکیر سب سے اُونچی چڑھی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ میں ہر روز کسی نہ کسی بہانہ سے اُس کمرہ میں چلا جاتا اور اُس لکیر کو سو فیصدی کی طرف اُوپر ہی اُوپر بڑھتے دیکھ کر دل میں بہت خوش ہوتا۔

ایک دن میں نے برانڈی ضرورت سے زیادہ پی لی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ نبض گھوڑے کی طرح دوڑنے لگی اور میں ایک جنونی کی مانند اِدھر اُدھر بھاگنے لگا ۔ مجھے خود شک ہونے لگا کہ پلیگ کے جراثیم نے مجھ پر آخرکار اپنا اثر کر ہی دیا ہے اور عنقریب ہی گلٹیاں میرے گلے یا رانوں میں نمودار ہوں گی۔ میں بہت سراسیمہ ہو گیا۔ اُس دن میں نے کوارنٹین سے بھاگ جانا چاہا۔ جتنا عرصہ بھی میں وہاں ٹھہرا، خوف سے کانپتا رہا۔ اُس دن مجھے بھاگو کو دیکھنے کا صرف دو دفعہ اتفاق ہوا۔

دوپہر کے قریب میں نے اُسے ایک مریض سے لپٹے ہوئے دیکھا۔ وہ نہایت پیار سے اُس کے ہاتھوں کو تھپک رہا تھا۔ مریض میں جتنی بھی سکت تھی اُسے جمع کرتے ہوئے اُس نے کہا، ’’بھئی اللہ ہی مالک ہے۔ اس جگہ تو خدا دشمن کو بھی نہ لائے۔ میری دو لڑکیاں …‘‘

بھاگو نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’خداوند یسوع مسیح کا شکر کرو بھائی … تم تو اچھے دکھائی دیتے ہو۔‘‘

’’ہاں بھائی شکر ہے خدا کا … پہلے سے کچھ اچھا ہی ہوں۔ اگر میں کوارنٹین…‘‘

ابھی یہ الفاظ اُس کے منھ میں ہی تھے کہ اُس کی نسیں کھچ گئیں۔ اُس کے منھ سے کف جاری ہو گیا۔ آنکھیں پتھرا گئیں۔ کئی جھٹکے آئے اور وہ مریض،جو ایک لمحہ پہلے سب کو اور خصوصاً اپنے آپ کو اچھا دکھائی دے رہا تھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ بھاگو اُس کی موت پر دکھائی نہ دینے والے خون کے آنسو بہانے لگا اور کون اُس کی موت پر آنسو بہاتا۔ کوئی اُس کا وہاں ہوتا تو اپنے جگر دوز نالوں سے ارض و سما کو شق کر دیتا۔ ایک بھاگو ہی تھا جو سب کا رشتہ دار تھا۔ سب کے لیے اُس کے دل میں درد تھا۔ وہ سب کی خاطر روتا اور کڑھتا تھا … ایک دن اُس نے خداوند یسوع مسیح کے حضور میں نہایت عجز و انکسار سے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے گناہ کے کفارہ کے طور پر بھی پیش کیا۔

اُسی دن شام کے قریب بھاگو میرے پاس دوڑا دوڑا آیا۔ سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ ایک دردناک آواز سے کراہ رہا تھا۔ بولا۔ ’’بابوجی … یہ کونٹین تو دوزخ ہے۔ دوزخ۔ پادری لابے اسی قسم کی دوزخ کا نقشہ کھینچا کرتا تھا … ‘‘

میں نے کہا۔ ’’ہاں بھائی، یہ دوزخ سے بھی بڑھ کر ہے … میں تو یہاں سے بھاگ نکلنے کی ترکیب سوچ رہا ہوں… میری طبیعت آج بہت خراب ہے۔‘‘

’’بابوجی اس سے زیادہ اور کیا بات ہو سکتی ہے … آج ایک مریض جو بیماری کے خوف سے بے ہوش ہو گیا تھا، اُسے مردہ سمجھ کر کسی نے لاشوں کے ڈھیروں میں جا ڈالا۔ جب پٹرول چھڑکا گیا اور آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، تو میں نے اُسے شعلوں میں ہاتھ پانوں مارتے دیکھا۔ میں نے کود کر اُسے اٹھا لیا۔ بابوجی ! وہ بہت بُری طرح جھلسا گیا تھا … اُسے بچاتے ہوئے میرا دایاں بازو بالکل جل گیا ہے۔‘‘

میں نے بھاگو کا بازو دیکھا۔ اُس پر زرد زرد چربی نظر آ رہی تھی۔ میں اُسے دیکھتے ہوئے لرز اُٹھا۔ میں نے پوچھا۔ ’’کیا وہ آدمی بچ گیا ہے۔ پھر… ؟‘‘

’’بابوجی … وہ کوئی بہت شریف آدمی تھا۔ جس کی نیکی اور شریفی (شرافت) سے دنیا کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکی، اتنے درد و کرب کی حالت میں اُس نے اپنا جھلسا ہوا چہرہ اُوپر اٹھایا اور اپنی مریل سی نگاہ میری نگاہ میں ڈالتے ہوئے اُس نے میرا شکریہ ادا کیا۔‘‘

’’… اور بابوجی‘‘ بھاگو نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اتنا تڑپا، اتنا تڑپا کہ آج تک میں نے کسی مریض کو اس طرح جان توڑتے نہیں دیکھا ہو گا… اس کے بعد وہ مر گیا۔ کتنا اچھا ہوتا جو میں اُسے اسی وقت جل جانے دیتا۔ اُسے بچا کر میں نے اُسے مزید دکھ سہنے کے لیے زندہ رکھا اور پھر وہ بچا بھی نہیں۔ اب ان ہی جلے ہوئے بازوؤں سے میں پھر اُسے اسی ڈھیر میں پھینک آیا ہوں…‘‘

اس کے بعد بھاگو کچھ بول نہ سکا۔ درد کی ٹیسوں کے درمیان اُس نے رُکتے رُکتے کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں … وہ کِس بیماری … سے مرا؟ پلیگ سے نہیں۔ … کونٹین سے … کونٹین سے!‘‘

اگرچہ ہمہ یاراں دوزخ کا خیال اُس لامتناہی سلسلۂ قہر و غضب میں لوگوں کو کسی حد تک تسلی کا سامان بہم پہنچاتا تھا، تاہم مقہور بنی آدم کی فلک شگاف صدائیں تمام شب کانوں میں آتی رہتیں۔ ماؤں کی آہ و بُکا، بہنوں کے نالے، بیویوں کے نوحے، بچوں کی چیخ و پکار شہر کی اُس فضا میں، جس میں کہ نصف شب کے قریب اُلّو بھی بولنے سے ہچکچاتے تھے، ایک نہایت الم ناک منظر پیدا کرتی تھی۔ جب صحیح و سلامت لوگوں کے سینوں پر منوں بوجھ رہتا تھا، تو اُن لوگوں کی حالت کیا ہو گی جو گھروں میں بیمار پڑے تھے اور جنھیں کسی یرقان زدہ کے مانند درو دیوار سے مایوسی کی زردی ٹپکتی دکھائی دیتی تھی اور پھر کوارنٹین کے مریض ،جنھیں مایوسی کی حد سے گزر کر ملک الموت مجسم دکھائی دے رہا تھا، وہ زندگی سے یوں چمٹے ہوئے تھے، جیسے کسی طوفان میں کوئی کسی درخت کی چوٹی سے چمٹا ہوا ہو، اور پانی کی تیزو تند لہریں ہر لحظہ بڑھ کر اُس چوٹی کو بھی ڈبو دینے کی آرزومند ہوں۔

میں اُس روز توہم کی وجہ سے کوارنٹین بھی نہ گیا۔ کسی ضروری کام کا بہانہ کر دیا ۔اگرچہ مجھے سخت ذہنی کوفت ہوتی رہی… کیوں کہ یہ بہت ممکن تھا کہ میری مدد سے کسی مریض کو فائدہ پہنچ جاتا۔ مگر اُس خوف نے جو میرے دل و دماغ پر مسلّط تھا، مجھے پا بہ زنجیر رکھا۔ شام کو سوتے وقت مجھے اطلاع ملی کہ آج شام کوارنٹین میں پانسو کے قریب مزید مریض پہنچے ہیں۔

میں ابھی ابھی معدے کو جلا دینے والی گرم کافی پی کر سونے ہی والا تھا کہ دروازے پر بھاگو کی آواز آئی۔ نوکر نے دروازہ کھولا تو بھاگو ہانپتا ہوا اندر آیا۔ بولا۔ ’’بابو جی … میری بیوی بیمار ہو گئی … اس کے گلے میں گلٹیاں نکل آئی ہیں … خدا کے واسطے اُسے بچاؤ … اس کی چھاتی پر ڈیڑھ سالہ بچہ دودھ پیتا ہے، وہ بھی ہلاک ہو جائے گا۔

بجائے گہری ہمدردی کا اظہار کرنے کے، میں نے خشمگیں لہجہ میں کہا۔ ’’اس سے پہلے کیوں نہ آسکے … کیا بیماری ابھی ابھی شروع ہوئی ہے؟‘‘

’’صبح معمولی بخار تھا… جب میں کونٹین گیا …‘‘

’’اچھا … وہ گھر میں بیمار تھی ۔ اور پھر بھی تم کوارنٹین گئے؟‘‘

’’جی بابوجی … ’’بھاگو نے کانپتے ہوئے کہا۔ ’’وہ بالکل معمولی طور پر بیمار تھی۔ میں نے سمجھا کہ شاید دودھ چڑھ گیا ہے … اس کے سوا اور کوئی تکلیف نہیں … اور پھر میرے دونوں بھائی گھر پر ہی تھے … اور سینکڑوں مریض کونٹین میں بے بس…‘‘

’’تو تم اپنی حد سے زیادہ مہربانی اور قربانی سے جراثیم کو گھر لے ہی آئے نا۔ میں نہ تم سے کہتا تھا کہ مریضوں کے اتنا قریب مت رہا کرو… دیکھو میں آج اسی وجہ سے وہاں نہیں گیا۔ اِس میں سب تمھارا قصور ہے۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں۔ تم سے جانباز کو اپنی جانبازی کا مزہ بھگتنا ہی چاہیے ۔ جہاں شہر میں سینکڑوں مریض پڑے ہیں …‘‘

بھاگو نے ملتجیانہ انداز سے کہا۔ ’’مگر خداوند یسوع مسیح …‘‘

’’چلو ہٹو … بڑے آئے کہیں کے … تم نے جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالا۔ اب اِس کی سزا میں بھگتوں؟ قربانی ایسے تھوڑے ہی ہوتی ہے۔ میں اتنی رات گئے تمھاری کچھ مدد نہیں کرسکتا …‘‘

’’مگر پادری لابے…‘‘

’’چلو … جاؤ … پادری ل، آبے کے کچھ ہوتے …‘‘

بھاگو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ اُس کے آدھ گھنٹہ بعد جب میرا غصہ فرو ہوا تو میں اپنی حرکت پر نادم ہونے لگا۔ میں عاقل کہاں کا تھا جو بعد میں پشیمان ہو رہا تھا۔ میرے لیے یہی یقینا سب سے بڑی سزا تھی کہ اپنی تمام خودداری کو پامال کرتے ہوئے بھاگو کے سامنے گزشتہ رویہ پر اظہارِ معذرت کرتے ہوئے اُس کی بیوی کا پوری جانفشانی سے علاج کروں۔ میں نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور دوڑادوڑا بھاگو کے گھر پہنچا… وہاں پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ بھاگو کے دونوں چھوٹے بھائی اپنی بھاوج کو چارپائی پر لٹائے ہوئے باہر نکال رہے تھے …

میں نے بھاگو کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’اسے کہاں لے جا رہے ہو؟

بھاگو نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’کونٹین میں…‘‘

’’تو کیا اب تمھاری دانست میں کوارنٹین دوزخ نہیں … بھاگو؟ …‘‘

’’آپ نے جو آنے سے انکار کر دیا،بابو جی … اور چارہ ہی کیا تھا۔ میرا خیال تھا، وہاں حکیم کی مدد مل جائے گی اور دوسرے مریضوں کے ساتھ اس کا بھی خیال رکھوں گا۔‘‘

’’یہاں رکھ دو چارپائی … ابھی تک تمھارے دماغ سے دوسرے مریضوں کا خیال نہیں گیا؟ … احمق …‘‘

چارپائی اندر رکھ دی گئی اور میرے پاس جو تیر بہ ہدف دوا تھی، میں نے بھاگو کی بیوی کو پلائی اور پھر اپنے غیر مرئی حریف کا مقابلہ کرنے لگا۔ بھاگو کی بیوی نے آنکھیں کھول دیں۔

بھاگو نے ایک لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ کا احسان ساری عمر نہ بھولوں گا، بابوجی۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’مجھے اپنے گزشتہ رویہ پر سخت افسوس ہے بھاگو… ایشور تمھیں تمھاری خدمات کا صلہ تمھاری بیوی کی شفا کی صورت میں دے۔‘‘

اُسی وقت میں نے اپنے غیر مرئی حریف کو اپنا آخری حربہ استعمال کرتے دیکھا۔ بھاگو کی بیوی کے لب پھڑکنے لگے۔ نبض جو کہ میرے ہاتھ میں تھی، مدھم ہو کر شانہ کی طرف سرکنے لگی۔ میرے غیر مرئی حریف نے جس کی عموماً فتح ہوتی تھی، حسبِ معمول پھر مجھے چاروں شانے چت گرایا۔ میں نے ندامت سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ ’’بھاگو ! بدنصیب بھاگو! تمھیں اپنی قربانی کا یہ عجیب صلہ ملا ہے … آہ!‘‘

بھاگو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

وہ نظارہ کتنا دل دوز تھا، جب کہ بھاگو نے اپنے بلبلاتے ہوئے بچے کو اس کی ماں سے ہمیشہ کے لیے علاحدہ کر دیا اور مجھے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ لوٹا دیا۔

میرا خیال تھا کہ اب بھاگو اپنی دنیا کو تاریک پاکر کسی کا خیال نہ کرے گا … مگر اُس سے اگلے روز میں نے اُسے بیش از پیش مریضوں کی امداد کرتے دیکھا۔ اُس نے سینکڑوں گھروں کو بے چراغ ہونے بچا لیا… اور اپنی زندگی کو ہیچ سمجھا۔ میں نے بھی بھاگو کی تقلید میں نہایت مستعدی سے کام کیا۔ کوارنٹین اور ہسپتالوں سے فارغ ہو کر اپنے فالتو وقت مَیں نے شہر کے غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر ،جو کہ بدروؤں کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے، یا غلاظت کے سبب بیماری کے مسکن تھے، رجوع کیا۔

اب فضا بیماری کے جراثیم سے بالکل پاک ہو چکی تھی۔ شہر کو بالکل دھو ڈالا گیا تھا۔ چوہوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارے شہر میں صرف ایک آدھ کیس ہوتا جس کی طرف فوری توجہ دیے جانے پر بیماری کے بڑھنے کا احتمال باقی نہ رہا۔

شہر میں کاروبار نے اپنی طبعی حالت اختیار کر لی، اسکول، کالج اور دفاتر کھلنے لگے۔

ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی، وہ یہ تھی کہ بازار میں گزرتے وقت چاروں طرف سے انگلیاں مجھی پر اُٹھتیں۔ لوگ احسان مندانہ نگاہوں سے میری طرف دیکھتے۔ اخباروں میں تعریفی کلمات کے ساتھ میری تصاویر چھپیں۔ اس چاروں طرف سے تحسین و آفرین کی بوچھار نے میرے دل میں کچھ غرور سا پیدا کر دیا۔

آخر ایک بڑا عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں شہر کے بڑے بڑے رئیس اور ڈاکٹر مدعو کیے گئے۔ وزیر بلدیات نے اُس جلسہ کی صدارت کی۔ میں صاحبِ صدر کے پہلو میں بٹھایا گیا، کیوں کہ وہ دعوت دراصل میرے ہی اعزاز میں دی گئی تھی۔ ہاروں کے بوجھ سے میری گردن جھکی جاتی تھی اور میری شخصیت بہت نمایاں معلوم ہوتی تھی۔ پُر غرور نگاہ سے میں کبھی ادھر دیکھتا کبھی اُدھر… ’’بنی آدم کی انتہائی خدمت گزاری کے صلہ میں کمیٹی، شکر گزاری کے جذبہ سے معمور ایک ہزار ایک روپئے کی تھیلی بطور ایک حقیر رقم میری نذر کر رہی تھی۔‘‘

جتنے بھی لوگ موجود تھے، سب نے میرے رفقائے کار کی عموماً اور میری خصوصاً تعریف کی اور کہا کہ گزشتہ آفت میں جتنی جانیں میری جانفشانی اور تن دہی سے بچی ہیں، ان کا شمار نہیں۔میں نے نہ دن کو دن دیکھا ،نہ رات کو رات، اپنی حیات کو حیاتِ قوم اور اپنے سرمایہ کو سرمایۂ ملت سمجھا اور بیماری کے مسکنوں میں پہنچ کر مرتے ہوئے مریضوں کو جامِ شفا پلایا!

وزیر بلدیات نے میز کے بائیں پہلو میں کھڑے ہو کر ایک پتلی سی چھڑی ہاتھ میں لی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کی توجہ اُس سیاہ لکیر کی طرف دلائی جو دیوار پر آویزاں نقشے میں بیماری کے دنوں میں صحت کے درجہ کی طرف ہر لحظہ افتاں و خیزاں بڑھی جا رہی تھی۔ آخر میں انھوں نے نقشہ میں وہ دن بھی دکھایا جب میرے زیر نگرانی چوّن (54) مریض رکھے گئے اور وہ تمام صحت یاب ہو گئے۔ یعنی نتیجہ سو فیصدی کامیابی رہا اور وہ سیاہ لکیر اپنی معراج کو پہنچ گئی۔

اس کے بعد وزیر بلدیات نے اپنی تقریر میں میری ہمت کو بہت کچھ سراہا اور کہا کہ لوگ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ بخشی جی اپنی خدمات کے صلہ میں لفٹیننٹ کرنل بنائے جا رہے ہیں۔

ہال تحسین و آفرین کی آوازوں اور پُر شور تالیوں سے گونج اُٹھا۔

ان ہی تالیوں کے شور کے درمیان میں نے اپنی پُر غرور گردن اُٹھائی۔ صاحبِ صدر اور معزز حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک لمبی چوڑی تقریر کی، جس میں علاوہ اور باتوں کے میں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی توجہ کے قابل ہسپتال اور کوارنٹین ہی نہیں تھے، بلکہ اُن کی توجہ کے قابل غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر تھے۔ وہ لوگ اپنی مدد کے بالکل ناقابل تھے اور وہی زیادہ تر اس موذی بیماری کا شکار ہوئے۔ میں اور میرے رفقا نے بیماری کے صحیح مقام کو تلاش کیا اور اپنی توجہ بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں صرف کر دی۔ کوارنٹین اور ہسپتال سے فارغ ہو کر ہم نے راتیں اُن ہی خوفناک مسکنوں میں گزاریں۔

اُسی دن جلسہ کے بعد جب میں بطور ایک لفٹیننٹ کرنل کے اپنی پُرغرور گردن کو اُٹھائے ہوئے، ہاروں سے لدا پھندا، لوگوں کا ناچیز ہدیہ، ایک ہزار ایک روپئے کی صورت میں جیب میں ڈالے ہوئے گھر پہنچا، تو مجھے ایک طرف سے آہستہ سی آواز سنائی دی۔

’’بابو جی… بہت بہت مبارک ہو۔‘‘

… اور بھاگو نے مبارک باد دیتے وقت وہی پُرانا جھاڑو قریب ہی کے گندے حوض کے ایک ڈھکنے پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے منڈاسا کھول دیا۔ میں بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔

’’تم ہو؟ … بھاگو بھائی!‘‘ میں نے بہ مشکل تمام کہا … ’’دنیا تمھیں نہیں جانتی بھاگو، تو نہ جانے … میں تو جانتا ہوں ۔ تمھارا یسوع تو جانتا ہے … پادری ل، آبے کے بے مثال چیلے… تجھ پر خدا کی رحمت ہو… !‘‘

اُس وقت میرا گلا سوکھ گیا۔ بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی اور بچے کی تصویر میری آنکھوں میں کھچ گئی۔ ہاروں کے بارِ گراں سے مجھے اپنی گردن ٹوٹتی ہوئی معلوم ہوئی اور بٹوے کے بوجھ سے میری جیب پھٹنے لگی۔ اور … اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود میں بے توقیر ہو کر اس قدرشناس دنیا کا ماتم کرنے لگا!

٭٭٭

 

 

 

چھوکری کی لُوٹ

 

 

بچپن کی بہت سی باتوں کے علاوہ پرسادی رام کو چھوکری کی لوٹ کی رسم اچھی طرح یاد تھی۔

دو بیا ہے ہوئے بھائیوں کا ساری عمر ایک ہی گھر میں رہنا کسی قدر مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاً جب کہ ان میں سے ایک تو صبح و شام گھی شکر میں ملا کر کھانا پسند کرے اور دوسرا اپنی قبول صورت بیوی کے سامنے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے کانوں کا کچا بنے۔ لیکن محلہ شہسوانی ٹولہ میں پرسادی کے پتا چمبا رام اور تایا ٹھنڈی رام جگت گورو اپنے باپ دادا کے مکان میں اکٹھے رہتے آئے تھے۔ یہ اکٹھے رہنے کی وجہ ہی تو تھی کہ چمبا رام کا کاروبار اچھا چلتا تھا اور ٹھنڈی رام کو نوکری سے اچھّی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ عورتوں کی گودیاں ہری تھیں اور صحن کو برکت تھی اور وہاں آم کے ایک بڑے درخت کے ساتھ کھرنی کا ایک خوبصورت سا پیڑ اُگ رہا تھا، جس کے پتّوں سے کھچڑی ہوتی ہوئی ککروندہ کی بیل بازار میں چھدامی کی دکان تک پہنچ گئی تھی اور آس پاس کے گانووں سے آئے ہوئے لوگوں کو ٹھنڈی میٹھی چھانو دیتی تھی۔

پرماتما کی کرنی، پرسادی کی پیدائش کے ڈیڑھ دو سال بعد چمبا رام کال بس ہو گئے، مگر جگت گوروجی نے بھاوج کو بیٹی کر کے جانا اور پرسادی کو اپنا بیٹا کر کے پہچانا اور تائی اماں بھی تو یوں بُری نہ تھیں۔ اساڑھی اور ساونی کے دو موقعوں کے سوا جب کہ بٹوارہ گھر میں آتا، وہ پرسادی کی اماں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتیں۔ کبھی تو یہ گمان ہونے لگتا جیسے دونوں ماں جائی بہنیں ہیں۔ اس اتفاق کی وجہ سے صحن کی برکت جوں کی توں رہی۔ صحن میں چار پانچ برس سے لے کر بیس اکیس برس تک لڑکیاں سہیلے، بدھائی، بچھوڑے اور دیس دیس کے گیت گاتیں۔ چرخے کاتتیں اور سوت کی بڑی بڑی انٹیاں مینڈھیوں کی طرح گوندھ کر بُنائی کے لیے جولاہے کے ہاں بھیج دیتیں۔ کبھی کبھی کھلے موسم میں اُن کا رت جگا ہوتا تو صحن میں خوب رونق ہو جاتی۔ اُس وقت تو پرسادی سے چھوکرے کو پٹاریوں میں سے گلگلے، میوئے بادام، برفی وغیرہ کھانے کے لیے مل جاتی۔

پرسادی کی بہن رتنی… اس کی تائی کی لڑکی ، عمر میں پرسادی سے گیارہ بارہ برس بڑی تھی۔ رتنی سے عمر کے اس فرق کا پرسادی کو بہت گلہ تھا ،اور گلہ تھا بھی بالکل بجا۔ سچ پوچھو تو رتنی ایک پل بھی اُس کے ساتھ نہ کھیلتی تھی۔ البتّہ سردیوں میں سوتی ضرور تھی اور جب تک وہ پرسادی کے ساتھ سوکر اُس کے بستر کو گرم نہ کر دیتی، پرسادی مچلتا رہتا۔

’’رتنی آؤ … آؤ نا رتنی … دیکھو تو مارے سردی کے سُن ہوا جاتا ہوں‘‘۔

رتنی بہت تنگ ہوتی۔ تو سٹپٹا کر کہتی۔ ’’سوجا، سوجا مونڈی کاٹے … میں کوئی انگیٹھی تھوڑے ہی ہوں‘‘۔

یہ تو ہوئی نا رات کی بات ۔ دن کو رتنی کسی اپنی ہی دھُن میں مگن رہتی۔ ہولے ہولے گاتی… ’’میٹھے لاگے وا کے بول…‘‘

آخر کوئی تو پرسادی کے ساتھ کھیلنے والا چاہیے تھا۔ جب وہ بالکل اکیلا ہوتا تو اُسے کچھ کچھ سمجھ آتی کہ کال بس ہو کر سورگ میں چلے جانے کا کیا مطلب ہے۔ وہاں لوگ اکیلے رہتے ہیں۔ لیکن انھیں کوئی بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ جب وہ سوچ سوچ کر تھک جاتا تو دوڑا دوڑا ماتا رانی کے جوہڑ پر پہنچ جاتا۔ تمام کپڑے اتار کر کنارے پر رکھ دیتا اور کچھ دور پانی میں جا کر ایک آدھ ڈبکی لگاتا اور بہت چکنی مٹی نکالتا اور گھر جا کر رتنی کو دیتا، تاکہ وہ اُسے ایک مُنّا بنا دے۔ بہت خوبصورت، مٹی کا مُنّا اور پھر وہ تمام دن مُنّا کے ساتھ کھیلتا رہے گا اور اُسے تنگ کرنا چھوڑ دے گا۔ رتنی کہتی ’’دیکھو پرسو … میں تب بناؤں گی تمھارے لیے مُناّ، اگر تم کوٹھا پھاند کر مُلّو کنہیّا کے پاس جاؤ اور اُسے کہو کہ آج شام وہ رتنی بہن کو ضرور ملیں‘‘۔

ملو کنہیّا کے مکان کی ڈھلوان سی چھت کو رینگ کر چڑھنا کوئی کھیل تھوڑا ہی تھا ۔ رتنی خود گھوڑی بن کر پیٹھ کی اوٹ دیتی، تب کہیں پرسادی منڈیر تک پہنچتا۔ لاکھ آسرا لینے پر بھی اُس کی کہنیاں اور گھٹنے چھِل جاتے اور اتنی محنت کے بعد جب پرسادی لوٹتا تو دیکھتا کہ رتنی کی بچی نے کوئی مُناّ ونّا نہیں بنایا اور پھلکاری کی اوڑھنی کو بوڑھی جمعدارنی کی طرح منھ پر کھسکائے، وہی بالکل فضول اور بے مطلب سا گانا گنگنا رہی ہے … میٹھے لاگے وا کے بول…

اُس وقت پرسادی کی بہت بُری حالت ہوتی۔ وہ چاہتا کہ وہ بھی کال بس ہو جائے۔

ہاں! ایک بات پرسادی نے بہت محسوس کی۔ وہ یہ تھی کہ ککروندہ کی اوٹ میں بیٹھنے والی بڑی لڑکیوں میں آئے دن تبدیلی ہوتی رہتی اور جیسے بھری دنیا میں دائیں یا بائیں سے کبھی کبھی آواز آتی ہے کہ فلاں کال بس ہو گیا، اسی طرح اُن میں سے آواز آتی۔

’’چمپو بھی بیاہی گئی … ‘‘

یا …

’’رام کلی بھی گئی … چلو چھٹی ہوئی … پرماتما کرے اپنے گھر بیٹھی لاکھوں برس سہاگ منائے … لاکھوں برس‘‘۔

اور پھر …

’’بہن! دھیرا کے بغیر تو گانے کا مزا ہی نہیں آتا۔ کیسی لٹک کے ساتھ کہتی تھی ’’وا بِن سب جگ لاگے پھیکا‘‘۔ کتنی سندر تھی۔ جب ناک میں تیلی ڈالتی تو یوں ہی دکھائی دیتی، جیسے گہنوں سے لدی ہو‘‘۔

اور پھر ایک اور بول اُٹھتی … ’’دھیرا بہت گُڑ کھاتی تھی … کہتے ہیں بہت گُڑ کھانا، اولاد کے لیے اچھا نہیں ہوتا‘‘۔

… تو کیا ککروندہ کے نیچے بیٹھی ہوئی ٹولی میں کمی واقع ہو جاتی ؟ بالکل نہیں۔ کیوں کہ چمپو، رام کلی اور دھیرا کی مانند سہاگ منانے کے لیے چلی جانے والی لڑکیوں کی جگہ کھرنی کے نیچے پہیلیاں کہتی سنتی ہوئی لڑکیاں آہستہ آہستہ پُر کر دیتیں۔ اور کھرنی کے نیچے بیٹھی ہوئی لڑکیوں کی خالی جگہ کو پُر کرنے کے لیے محلہ شہسوانی ٹولہ کی مائیں کثرت سے چھوکریاں جنتیں اور یوں سلسلہ بندھا رہتا ۔ یا شاید یہ سب کچھ اس لیے ہوتا کہ جگت گوروجی کے صحن میں وہ ریل پیل، وہ دھما چوکڑی ہمیشہ ہمیشہ بنی رہے۔

مگھر اور پوہ کے دن تھے، جب مکرسکرانت آئی اور عورتیں ڈھکے ہوئے پھل پھولوں کا تبادلہ کرنے لگیں اور ایک دوسری کے سہاگ کو عرصہ تک قائم رہنے کی دعائیں دینے لگیں۔ کنواری کو کلاؤں نے بھی آنے والی خوشی کی زندگی کی پیش قدمی میں ایک دوسری کے شگن منائے۔ گھر کے مرد اُن عورتوں کی آزادی میں مخل ہونے سے ڈرتے ہوئے اپنی اپنی گڑ گڑی وغیرہ اُٹھا کر ٹھاکر دوارے چلے گئے … پرسادی کی تائی امّاں اِن دنوں بہت فکرمند رہتی تھیں۔ کہتی تھیں ’’کہیں چھوکری کے ہاتھ پیلے کروں تو اپنی نیند سوؤں۔ ابھی تک بر نہیں ملا … یہ سنجوگ کی بات ہے نا … پرماتما ہی کرن ہار ہے … استری مرد کا وہی میل ملاتا ہے … جہاں سنجوگ ہوں گے…     ہے پر ماتما… !‘‘

اُس روز تمام عورتیں برآمدے میں بیٹھی ٹھٹھے اور ہنسی مذاق کی باتیں کر رہی تھیں۔ ایکا ایکی پرسادی کی تائی امّاں نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

لو بیٹی … تیار ہو جاؤ سب … اب میں اپنی چھوکری کی لوٹ مچاؤں گی …‘‘

… اس تیوہار میں یہ رسم بھی عجیب ہوتی ہے ۔ جس کی لڑکی بہت جوان اور شادی کے قابل ہو جائے، وہ اس کی لوٹ مچاتی ہے۔ تائی امّاں کی طرح کوئی بوڑھی سہاگن اُٹھ کر گری، چھوہارے، بیر اور قسم قسم کی پھل پھلاری لڑکی کے سر پر سے مٹھیاں بھر بھر کر گراتی ہے۔ جب وہ چیزیں نیچے بکھر جاتی ہیں، تو تمام کنواری کوکلائیں اور سہاگنیں پھل پھُولوں کو لوٹنے کے لیے جگت گوروجی کے صحن میں اُگے ہوئے پیڑوں اور بیل کے پتّوں کی طرح کھچڑی ہو جاتی ہیں۔ ہرایک کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پھل کھائے۔ اگر سہاگن کھائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے سہاگ کی عمر لمبی ہو جاتی ہے… شاید لاکھ برس تک! بانجھ کھائے تو اُس کے چاند سا بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ کنواری کھائے تو اُس کی عنقریب ہی شادی ہو جاتی ہے۔ اچھا سا بر مل جاتا ہے۔ اسی لیے تو کنواری لڑکیاں اٹھا کر چپکے چپکے اور چوری چوری وہ پھل کھاتی ہیں۔

پرسادی نے دیکھا، رتنی آپے سے باہر ہو رہی تھی … پرسادی کی ماں نے اسے بتایا کہ چھوکری کی لوٹ کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ تمھاری رتنی بہن کو کوئی بیاہ کر لے جائے گا … کوئی لوٹ کر لے جائے گا… اور پرسادی کی اماں ہنسنے لگیں۔ ’’تائی اماں خود بھی تو اپنی چھوکری کے لُٹ جانے کو پسند کرتی ہیں اور ایسے آدمی کی متلاشی ہیں، جو کہ اُسے سر سے پانو تک اپنی ہی ملکیّت بنا کر ڈولی میں بٹھا چل دے، اور بڑے شور و غوغا کے ساتھ … باجے بجواتا ہوا… اور پھر گھر میں سے آدھی جائداد سمیٹ کر لے جائے…‘‘

پرسادی نے سوچا۔ کسی کو کیا؟ مصیبت تو اُسے ہو گی۔ سردیوں میں رتنی چلی جائے گی تو اُس کے بستر کو کون گرم کرے گا؟ تائی اماں تو برف کی طرح ٹھنڈی ہیں اور اماں تو تمام رات کھانستی رہتی ہیں۔ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پہلو بدلتی اور چھت کی کڑیاں گنتی چلی جاتی ہیں۔ نہ آپ سوتی ہیں ، نہ سونے دیتی ہیں۔ کہتی ہیں میرے ساتھ سونا اچھا نہیں … مجھے دق ہے!

تایا جگت گورو ٹھنڈی رام بہت کاریگر تھے، تبھی تو لوگ اُنھیں جگت گورو کہتے تھے۔ صبح شہر میں بھیجنے کے لیے کیلنڈروں کی چفتیاں بنواتے رہے۔ آٹھ بجے کے اندر اندر کھوئے میں گجریلا تیار کر لیا اور پھر جھٹ سے کام پر بھی چلے گئے۔ بلا کے آدمی تھے جگت گورو۔ اس دن پرسادی بھی اُن کے ساتھ کام پر گیا۔

جگت گورو چنگی محصول پر محرر تھے۔ تمام دن وہ گلقند میں استعمال ہونے والے گلاب کے پھولوں اور خام کھالوں پر محصول لگاتے رہے۔ کبھی کبھی کسی سے کچھ لے کر اُسے یوں ہی چھوڑ دیتے۔ آخر جگت گورو تھے نا، اور رتنی کی لُوٹ مچانی تھی۔ اس طرح دھیلا دھیلا پیسہ پیسہ کر کے ہی تو کچھ بنتا ہے۔ تبھی تو وہ موٹے ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں رشوت لینے میں انسان موٹا ہوتا ہے اور رُوح اور ضمیر سُوکھ جاتے ہیں۔ لیکن جسم تو دکھائی دیتا ہے روح اور ضمیر کس کو نظر آتی ہے؟

چنگی پر خوشیا اور وفاتی آئے۔ بر تو اُنھیں اچھا مل گیا تھا۔ بہت ہی اچھا۔ اب ساہے کی تاریخ لینی تھی۔ جگت گورو نے لڑکے اور لڑکی کی جنم پتری پنڈت جی کو دکھا کر تاریخ سدھوا رکھی تھی اور جنم پتریاں جیب میں لیے پھرتے تھے۔ خوشیا اور وفاتی کے پوچھنے پر فوراً تاریخ بتا دی۔ لڑکے کی طرف سے کوئی میر مدّو آیا تھا۔ سب ’’بڑے بھاگ ججمان کے … بڑے بھاگ ججمان کے…‘‘ کہتے ہوئے رخصت ہوئے۔

تائی اماں بڑی بے صبری سے ساہے کا انتظار کرنے لگیں، اُنھوں نے کئی چاندی کے برتن بنوائے۔ سونے کے جھومر، جڑاؤ نکلیس، گھڑی چوڑی اور قسم قسم کے زیور تیار کروا لیے۔ آخر اسی بات کے لیے تو تایا نے گلقند میں استعمال ہونے والی گلاب کی گٹھیں دو دو چار چار آنے لے کر چھوڑ دی تھیں اور خام کھالوں کی گٹھیں دو دو چار چار روپئے لے کر … بیسیوں گلاس، بڑی کڑاہی، حمام، … ایک بڑا سا پلنگ بھی خریدا تھا تایا نے۔ اس پر پرسادی اور رتنی ایسے چھ سوجائیں۔ پھر کرسی، میز سنگاردان، باجہ، لڑکی کے سوٹ، لڑکے کے کپڑے اور بدائی پر روپئے دینے کے لیے شہر کے نوٹ گھر میں سے نئے روپئے منگوائے… اور پرسادی سوچنے لگا، کیا یہ سب کچھ لٹا دینے کے لیے ہے؟

پرسادی نے کہا۔ تایا کچھ اتنے سیانے نہیں دکھائی دیتے۔ مگر وفاتی، خوشیا، بیلی رام اور اَڑوس پڑوس کے سب آدمی جگت گورو کی واہ وا کر رہے تھے۔ لڑکی کا دان کرنا سو گائے کے دان کے برابر ہوتا ہے۔ تلا دان سے کم پھل نہیں ملتا۔ وہ سب کہتے تھے۔ بھئی جگت گورو کو یہ نام جدی تھوڑے ہی ملا ہے۔ اسی لیے تو یہ نام دیا ہے۔ بڑے سیانے، بڑے کاریگر آدمی ہیں۔ ایشور کسی کو بیٹی دے، تو لٹانے کے لیے اتنا دھن بھی دے … واہ وا … واہ وا … ۔

پرسادی نے اماں سے تایا کی عقل کے متعلق پوچھا، تو وہ کہنے لگی بیٹا! یہ چھوکری کی لُوٹ آج سے نہیں، جب سے دنیا بنی ہے، چلی آ رہی ہے۔ سب اپنی اپنی بیٹیوں کو یوں دے دیتے ہیں، اتنی دولت اور دھن بھی … ہائے! اس پر بھی بس ہو تو کوئی لاکھ منائے۔ بیٹیوں والے منتیں کرتے ہیں۔ پانو پڑتے ہیں۔ کیا جانے اُس کے سسرالی روٹھ جائیں۔ تب جا کر ساری عمر کے لیے کوئی کسی کی بیٹی لیتا ہے۔ کوئی بہت بے ڈھب ہو، تو لے دے کر بھی نہیں بساتا … اور پھر کسی نصیبوں جلی کا بنا بنایا سُہاگ اُجڑ جاتا ہے… ۔‘‘

اور پرسادی کی ماں کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ وہ بولیں۔

’’پرسُو تو بھی بڑا ہو گا، تو ایک چھوکری لوٹ کر لائے گا۔ اسی طرح دھن دولت سمیت… ایشور تیری عمر چار جُگ لمبی کرے! … اُسے اچھی طرح بسانا۔ مجھے نشچہ ہے۔ میں وہ بھاگوان سمے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکوں گی۔‘‘

اور پرسادی کی ماں رونے لگیں۔ پرسادی نے پُوچھا۔ ’’تو کہاں چلی جائے گی ماں؟‘‘

وہ اپنی آواز کو دباتے ہوئے بولیں۔

’’تمھارے پتا کے پاس … وہ بھی مجھے اسی طرح لُوٹ کر لائے تھے، میں اُن ہی کی ہوں۔‘‘

… پرسادی بجھے ہوئے تنور میں ٹانگیں لٹکائے تمام دن اداس بیٹھا سوچتا رہا۔ میں بڑا ہوں گا اور ایک چھوکری کو لوٹ لاؤں گا۔ اُس لڑکی کے گھر ککروندہ کی بیل کے نیچے ایک لڑکی کی کمی ہو جائے گی، جسے کوئی اور پُر کرے گی۔ ہاں! وہ بھی تو اپنے کسی بھائی کو سردیوں میں اپنے بسترے میں جم جانے یا تائی اماں کے برف سے ٹھنڈے جسم کے ساتھ لگ کر سوجانے کے لیے چھوڑ آئے گی۔ اُس کا بھائی تو رہ رہ کر مجھے گالیاں دے گا اور کہے گا۔ اِس سے تو کہیں اچھا ہے،کہ میں کال بس ہو جاؤں۔

ساہے کے دن پرسادی کے جیجا بہت سے آدمیوں کے ساتھ آئے۔ اگر اماں نہ روکتی تو پرسادی لٹھ لے کر سب کا مقابلہ کرتا۔ پھر کسی کی کیا مجال تھی کہ رتنی کو اتنی بے دردی سے لوٹ جانے کی جرأت کرتا، اگرچہ جگت گورو اور تائی اماں کی اِس لوٹ میں خوشی تھی۔ تائی اماں منڈپ کے نیچے جھنڈیوں اور لکڑی کی چڑیوں کے نیچے بیٹھی تھی ۔ ارد گرد عورتیں گا رہی تھیں۔ باہر باجا بج رہا تھا اور پنڈت جی کے شلوکوں کی آواز اس شور و غوغا سے علاحدہ سنی جا سکتی تھی۔ جب پھیرے ہو گئے۔ تو سب نے تائی اماں اور جگت گورو کو بدھائی دی۔ تائی اماں کی سُرخ پھلکاری اور جگت گوروجی کی گلابی پگڑی پر کیسر کے نشان لگائے گئے اور پیلے پیلے پھول اور پنکھڑیاں برسائی گئیں۔ جانے اُنھوں نے رتنی کو لُٹا کر بہت عقل مندی دکھائی۔ تائی اور اماں نے سبکدوشی کے ایک احساس سے اُس کی لُوٹ کی خوشی میں دودھ کے دو بڑے کٹورے بھر کر پیے۔

پرسادی کو جیجا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ پرسادی نے کہا، یہ مردہ سا، کالا کلوٹا آدمی رتنی بہن کو لُوٹ کر لے جائے گا۔ رتنی تو اس کی شکل دیکھ کر غش کھا جائے گی۔ لُوٹ کر لے جانے والے ڈاکو ہی تو ہوتے ہیں، بڑی بُری اور ڈراؤنی شکل کے … اس میں اور ان میں اتنا فرق ہے کہ ڈاکو منڈاسا باندھ کر آتے ہیں اور یہ کالا کلوٹا جیجا سہرا باندھ کر آیا ہے۔

جب کہاروں نے ڈولی اُٹھائی تو گھربھر میں کہرام مچ گیا۔ آج پھر ککروندہ کے نیچے ایک نشست خالی ہو رہی تھی۔ تائی اماں اونچے اونچے رونے لگیں۔ ہائے! بیٹی کا دھن عجیب ہے۔ پیدا ہوئی، راتیں جاگ، مصیبتیں سہ، گُو مُوت سے نکالا، پالا، پڑھایا، جوان کیا۔ اب یوں جا رہی ہے، جیسے میں اس کی کچھ ہوتی ہی نہیں۔ ایشور ! بیٹی کسی کی کوکھ میں نہ پڑے۔ اس کے وداع ہونے کا دکھ بُرا … ہائے! اس طرح تو کوئی آنکھیں نہیں پھیرتا۔ جگت گورو پرسادی کی طرح بلکنے لگے، اماں تو درو دیوار سے ٹکریں مارنے لگیں۔ ہائے! مجھ سے تو رتنی کا بچھوڑا نہ سہا جائے گا۔ میری بیٹی نے تو مجھے دو ہاگ کا دکھ بھلا دیا تھا … ہائے! اس سنسار کی ریت جھوٹی، اس سے پریت جھوٹی… جا… بیٹی جا… جا اپنے گھر سکھی رہ۔ تیری مہک ہمیں یہاں آتی رہے۔ تو لاکھوں برس سہاگ منائے ۔

تمام لڑکیاں بچھوڑا گاتے ہوئے رُک رُک گئیں۔

ڈولی کا پردہ اُٹھا کر رتنی نے پرسادی کو گلے سے لگا کر خوب بھینچا۔ پرسادی بھی اُسے روتا دیکھ کر خوب رویا۔ رتنی کہتی تھی۔ ’’پرسو بھیا … میرے لال! تو میرے بغیر سوتا ہی نہیں تھا۔ اب تو رتنی کو کہاں ڈھونڈے گا؟‘‘

پھر سب کو مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگی۔

’’مجھے اس گھر میں رکھنے کی کوئی بھی حامی نہیں دیتا۔ سبھی تو میری جان کے لاگو ہو رہے ہیں۔‘‘

اور جب جیتے جاگتے آدمیوں میں سے کسی نے اُسے نہ ٹھہرایا، تو رتنی دادا اور چمبا رام چچا کو یاد کر کے رونے لگی۔ در و دیوار سے باتیں کرنے لگی… میرے بابل کے گھر کے دوار … یہ محل… یہ باڑیاں، میں سمجھتی تھی میرا اپنا گھر ہے۔ کھرنی … اور میرے میٹھے آم… نِردئی پتا، تیرے بستے مندروں میں سے مجھے زبردستی نکال کر لے جا رہے ہیں … یہاں کا دانہ پانی چھوٹ گیا!‘‘

جب رتنی چلی گئی تو پرسادی اُسی بُجھے ہوئے تنور پر اُداس خاطر بیٹھا ادھیڑ بُن کرتا رہا۔ طرح طرح کے خیال اور وسوسے اُس کے دل میں آئے۔ اُس نے کہا۔ تائی اور اماں کے خیال کے مطابق جب پرماتما ہی مرد اور استری کا میل ملاتا ہے، تو پھر خوشیا اور وفاتی کی کیا ضرورت ہے؟ وہ یوں بھی تو گھر میں سے سیروں آٹا، گڑ اور گھی لے جاتے ہیں۔ گٹھوں کے گٹھے گنّوں کے… ساگ پات، پکا، کچا … بدماس کہیں کے … صرف اتنی سی بات کہتے ہیں۔ ’’بڑے بھاگ ججمانی کے … بڑے بھاگ ججمانی کے۔‘‘اور لا دیتے ہیں، اتنا مردہ سا کالا کلوٹا جیجا… پرماتما کے کیے میں دخل دیتے ہیں نا۔ کیوں نہیں ملّو کنہیّا رتنی کو لے جاتے ۔ پرماتما نے آپ ہی تو میل ملا دیا تھا اور رتنی بھی تو یہی کہتی تھی کہ تمھارا جیجا ملّو کنہیّا ہے۔ کبھی کسی کے دو دو جیجے بھی ہوتے ہیں۔ میں تو ملّو کنہیّا کو ہی جیجا کہوں گا۔ اُس مردوے کو کبھی نہیں۔ لاکھ زور کرے کوئی۔

نہ جانے یہ لوگ چھوکری کی لوٹ کے اتنے خواہش مند کیوں ہوتے ہیں۔ پل پل گِن کر ساہے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھیروں کے بعد دودھ کے کٹورے پیتے اور بدھائیاں لیتے ہیں اور پھر جب لوٹ ہوتی ہے تو روتے ہیں۔ اتنا مورکھ کون ہو گا، جو آپ ہی سب کام کاج کرے اور پھر روئے۔ جانے کوئی کال بس ہو گیا ہو، اور پھر رتنی کی بھی تو جانے کی مرضی نہ تھی۔ وہ دہلیز پکڑ پکڑ کر روتی تھی۔ بچاری! بُرا حال تھا۔

سب گھر لُٹا دیا اور پھر ہاتھ جوڑتے رہے۔ قبول کرو۔ میں تو یوں کبھی کسی کے پانو نہ پڑوں۔ اوّل تو دوں ہی نہیں۔ دوں تو یوں پانوں پڑ کر منتیں کر کے کبھی نہ دوں۔ نہ لیں تو جائیں بھاڑ میں!

اُس دن پرسادی ساری رات تائی اماں کے برف کے سے ٹھنڈے جسم کے ساتھ لگ کر جاگتا رہا۔

کچھ دنوں بعد رتنی آپ ہی آپ آ گئی۔ پرسادی کو اُس نے بہت چُوما، پیار کیا، گویا وہ اب اپنے ننھے سے بھائی کو چھوڑ کر کہیں نہ جائے گی اور اُسے خود بھی چھوکری کی لُوٹ پسند نہیں۔ اُس رات پرسادی بڑے سکھ اور چین سے رتنی کے ساتھ سویا۔ رتنی ساری رات پیار سے پرسادی کو بھینچتی رہی… جب صبح سویرے آنکھ کھلی تو رتنی بستر میں نہ تھی۔ پتہ چلا کہ وہی لٹیرا اُسے لوٹ کر لے گیا تھا۔

پرسادی پھر رویا۔ مگر ماں نے کہا، ’’بیٹا! یہ رسم آج سے نہیں، جب سے دنیا بنی ہے، چلی آئی ہے۔‘‘

سوچتے ہوئے پرسادی نے کہا۔ ’’بڑے نخرے کرتی تھی رتنی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ چھوکریاں خود بھی لٹ جانا پسند کرتی ہیں۔ وہ تو اپنے سوتے ہوئے بھائیوں کے جاگنے کا انتظار بھی نہیں کرتیں اور کالے کلوٹے جیجا کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں۔‘‘

اب کے جو رتنی آئی تو چھوکری کی لوٹ کے متعلق پرسادی نے اپنا نظریہ بالکل اُلٹ دیا۔ اُس نے کہا، دراصل یہ لوٹ سب کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ تائی، اماں ، جگت گورو جی اور خود رتنی بھی اسے پسند کرتی ہے اور خاص طور پر اُسے بھی اچھی لگتی ہے۔ مُناّ تو مل جاتا ہے۔ رتنی نے اُسے جیجا کی طرح دبلا پتلا، مگر اپنی طرح کا گورا چِٹا مُناّ کھیلنے کو لا دیا تھا۔ پرسادی نے ماں کو بلاتے ہوئے کہا۔

’’بھولی ماں … تو تو جتن کرنے سے رہی … کیا تُو نہ لٹے گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

گرم کوٹ

 

 

میں نے دیکھا ہے، معراج الدین ٹیلر ماسٹر کی دکان پر بہت سے عمدہ عمدہ سوٹ آویزاں ہوتے ہیں۔انھیں دیکھ کر اکثر میرے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ میرا اپنا گرم کوٹ بالکل پھٹ گیا ہے اور اس سال ہاتھ تنگ ہونے کے باوجود مجھے ایک نیا گرم کوٹ ضرور سلوا لینا چاہیے۔ ٹیلر ماسٹر کی دکان کے سامنے سے گزرنے یا اپنے محکمہ کی تفریح کلب میں جانے سے گریز کروں تو ممکن ہے، مجھے گرم کوٹ کا خیال بھی نہ آئے۔ کیوں کہ کلب میں جب سنتا سنگھ اور یزدانی کے کوٹوں کے نفیس ورسٹڈ (Worsted) میرے سمندِ تخیل پہ تازیانہ لگاتے ہیں تو میں اپنے کوٹ کی بوسیدگی کو شدید طور پر محسوس کرنے لگتا ہوں۔ یعنی وہ پہلے سے کہیں زیادہ پھٹ گیا ہے۔

بیوی بچّوں کو پیٹ بھر روٹی کھلانے کے لیے مجھ سے معمولی کلرک کو اپنی بہت سی ضروریات ترک کرنا پڑتی ہیں اور انھیں جگر تک پہنچتی ہوئی سردی سے بچانے کے لیے خود موٹا جھوٹا پہننا پڑتا ہے… یہ گرم کوٹ میں نے پارسال دہلی دروازے سے باہر پُرانے کوٹوں کی ایک دکان سے مول لیا تھا۔ کوٹوں کے سوداگر نے پُرانے کوٹوں کی سینکڑوں گانٹھیں کسی مرانجا، مرانجا اینڈ کمپنی کراچی سے منگوائی تھیں۔ میرے کوٹ میں نقلی سلک کے استر سے بنی ہوئی اندرونی جیب کے نیچے ’مرانجا، مرانجا اینڈ کو‘ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ مگر کوٹ مجھے ملا بہت سستا۔ مہنگا روئے ایک بار سستا روئے بار بار … اور میرا کوٹ ہمیشہ ہی پھٹا رہتا تھا۔

اسی دسمبر کی ایک شام کو تفریح کلب سے واپس آتے ہوئے میں ارادتاً انارکلی میں سے گزرا۔ اس وقت میری جیب میں دس روپئے کا نوٹ تھا۔ آٹا دال ، ایندھن، بجلی، بیمہ کمپنی کے بل چکا دینے پر میرے پاس وہی دس کا نوٹ بچ رہا تھا …جیب میں دام ہوں تو انارکلی میں سے گزرنا معیوب نہیں۔ اُس وقت اپنے آپ پر غصّہ بھی نہیں آتا بلکہ اپنی ذات کچھ بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت انارکلی میں چاروں طرف سوٹ ہی سوٹ نظر آ رہے تھے اور ساڑھیاں۔ چند سال سے ہر نتھو خیرا سوٹ پہننے لگا ہے … میں نے سُنا ہے گزشتہ چند سال میں کئی ٹن سونا ہمارے ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ شاید اسی لیے لوگ جسمانی زیبائش کا خیال بھی بہت زیادہ رکھتے ہیں۔ نئے نئے سوٹ پہننا اور خوب شان سے رہنا ہمارے افلاس کا بدیہی ثبوت ہے۔ ورنہ جو لوگ سچ مچ امیر ہیں، ایسی شان شوکت اور ظاہری تکلّفات کی چنداں پروا نہیں کرتے۔

کپڑے کی دکان میں ورسٹڈ کے تھانوں کے تھان کھلے پڑے تھے ۔ انھیں دیکھتے ہوئے میں نے کہا۔ کیا میں اس مہینے کے بچے ہوئے دس روپوں میں سے کوٹ کا کپڑا خرید کر بیوی بچوں کو بھوکا ماروں؟ لیکن کچھ عرصہ کے بعد میرے دل میں نئے کوٹ کے ناپاک خیال کا ردِ عمل شروع ہوا۔ میں اپنے پُرانے گرم کوٹ کا بٹن پکڑ کر اُسے بل دینے لگا۔ چونکہ تیز تیز چلنے سے میرے جسم میں حرارت آ گئی تھی، اس لیے موسم کی سردی اور اس قسم کے خارجی اثرات میرے کوٹ خریدنے کے ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر رہے۔ مجھے تو اس وقت اپنا وہ کوٹ بھی سراسر مکلّف نظر آنے لگا۔

ایسا کیوں ہوا؟ میں نے کہا ہے جو شخص حقیقتاً امیر ہوں وہ ظاہری شان کی چنداں فکر نہیں کرتے، جو لوگ سچ مچ امیر ہوں انھیں تو پھٹا ہوا کوٹ بلکہ قمیص بھی تکلف میں داخل سمجھنی چاہیے تو کیا میں سچ مچ امیر تھا کہ …؟

میں نے گھبرا کر ذاتی تجزیہ چھوڑ دیا اور بہ مشکل دس کا نوٹ صحیح سلامت لیے گھر پہنچا۔ شمی، میری بیوی، میری منتظر تھی۔

آٹا گوندھتے ہوئے اُس نے آگ پھونکنی شروع کر دی … کم بخت منگل سنگھ نے اِس دفعہ لکڑیاں گیلی بھیجی تھیں۔ آگ جلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ زیادہ پھونکیں مارنے سے گیلی لکڑیوں میں سے اور بھی زیادہ دھواں اُٹھا۔ شمی کی آنکھیں لال انگارہ ہو گئیں۔ اُن سے پانی بہنے لگا۔

’’کم بخت کہیں کا … منگل سنگھ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ان پُر نم آنکھوں کے لیے منگل سنگھ تو کیا میں تمام دنیا سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو جاؤں…۔‘‘

بہت تگ و دو کے بعد لکڑیاں آہستہ آہستہ چٹخنے لگیں۔ آخر ان پُر نم آنکھوں کے پانی نے میرے غصّے کی آگ بجھا دی … شمی نے میرے شانہ پر سر رکھا اور میرے پھٹے ہوئے گرم کوٹ میں پتلی پتلی اُنگلیاں داخل کرتی ہوئی بولی۔

’’اب تو یہ بالکل کام کا نہیں رہا۔‘‘

میں نے دھیمی سی آواز سے کہا۔ ’’ہاں۔‘‘

’’سی دوں؟ … یہاں سے … ‘‘

’’سی دو۔ اگر کوئی ایک آدھ تار نکال کر رفو کر دو تو کیا کہنے ہیں‘‘۔

کوٹ کو الٹاتے ہوئے شمی بولی۔ ’’استر کو تو موئی ٹڈیاں چاٹ رہی ہیں … نقلی ریشم کا ہے نا … یہ دیکھیے‘‘۔

میں نے شمی سے اپنا کوٹ چھین لیا۔ اور کہا ۔ ’’مشین کے پاس بیٹھنے کی بجائے تم میرے پاس بیٹھو۔ شمی … دیکھتی نہیں ہو، دفتر سے آ رہا ہوں … یہ کام تم اُس وقت کر لینا جب میں سوجاؤں‘‘۔

شمی مسکرانے لگی۔

وہ شمی کی مسکراہٹ اور میرا پھٹا ہوا کوٹ!

شمی نے کوٹ کو خود ہی ایک طرف رکھ دیا ۔ بولی ۔ ’’میں خود بھی اس کوٹ کی مرمت کرتے کرتے تھک گئی ہوں … اسے مرمت کرنے میں اُس گیلے ایندھن کو جلانے کی طرح جان مارنی پڑتی ہے … آنکھیں دُکھنے لگتی ہیں … آخر آپ اپنے کوٹ کے لیے کپڑا کیوں نہیں خریدتے؟‘‘

میں کچھ دیر سوچتا رہا۔

یوں تو میں اپنے کوٹ کے لیے کپڑا خریدنا گناہ خیال کرتا تھا، مگر شمی کی آنکھیں! … اُن آنکھوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے میں منگل سنگھ تو کیا، تمام دنیا سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو جاؤں۔ ورسٹڈ کے تھانوں کے تھان خرید لوں۔ نئے گرم کوٹ کے لیے کپڑا خریدنے کا خیال دل میں پیدا ہوا ہی تھا کہ پشپا مُنی بھاگتی ہوئی کہیں سے آ گئی۔ آتے ہی برآمدے میں ناچنے اور گانے لگی۔ اُس کی حرکات کتھا کلی مدرا سے زیادہ کیف انگیز تھیں۔

مجھے دیکھتے ہوئی پشپا منی نے اپنا ناچ اور گانا ختم کر دیا۔ بولی۔

’’بابوجی … آپ آ گئے؟ … آج بڑی بہن جی (اُستانی) نے کہا تھا۔ میز پوش کے لیے دو سوتی لانا اور گرم کپڑے پر کاٹ سکھائی جائے گی۔ گنیاماپ کے لیے اور گرم کپڑا…‘‘

چونکہ اس وقت میرے گرم کوٹ خریدنے کی بات ہو رہی تھی، شمی نے زور سے ایک چپت اُس کے منھ پر لگائی اور بولی۔

’’اِس جنم جلی کو ہر وقت … ہر وقت کچھ نہ کچھ خریدنا ہی ہوتا ہے … مشکل سے انھیں کوٹ سلوانے پر راضی کر رہی ہوں … ‘‘

… وہ پشپا منی کا رونا اور میرا نیا کوٹ!

میں نے خلافِ عادت اُونچی آواز سے کہا ۔ ’’شمی۔‘‘

شمی کانپ گئی۔ میں نے غصّے سے آنکھیں لال کرتے ہوئے کہا ۔ ’’میرے اس کوٹ کی مرمت کر دو … ابھی … کسی طرح کرو … ایسے جیسے رو پیٹ کر منگل سنگھ کی گیلی لکڑیاں جلا لیتی ہو … تمھاری آنکھیں! ہاں! یاد آیا … دیکھو تو پشپا منی کیسے رو رہی ہے۔ پوپی بیٹا! ادھر آؤ نا… اِدھر آؤ میری بچّی ۔ کیا کہا تھا تم نے؟ بولو تو … دو سوتی؟ گنیاماپ کے لیے اور کاٹ سیکھنے کو گرم کپڑا؟ … بچّو ننھا بھی تو ٹرائسکل کا راگ الاپتا اور غبارے کے لیے مچلتا سو گیا ہو گا۔ اُسے غبارہ نہ لے دو گی تو میرا کوٹ سِل جائے گا۔ ہے نا؟ … کتنا رویا ہو گا بے چارہ … شمی ! کہاں ہے بچّو؟‘‘

’’جی سو رہا ہے …‘‘ شمی نے سہمے ہوئے جواب دیا۔

’’اگر میرے گرم کوٹ کے لیے تم ان معصوموں سے ایسا سلوک کرو گی، تو مجھے تمھاری آنکھوں کی پروا ہی کیا ہے؟‘‘ پھر میں نے دل میں کہا۔ کیا یہ سب کچھ میرے گرم کوٹ کے لیے ہو رہا ہے۔ شمّی سچّی ہے یا میں سچا ہوں۔ پہلے میں نے کہا … دونوں … مگر جو سچا ہوتا ہے، اُس کا ہاتھ ہمیشہ اُوپر رہتا ہے۔ میں نے خود ہی دبتے ہوئے کہا۔

’’تم خود بھی تو اُس دن کافوری رنگ کے مینا کار کانٹوں کے لیے کہہ رہی تھیں…‘‘

’’ہاں … جی … کہہ تو رہی تھی مگر … ‘‘

مگر … مگر اس وقت تو مجھے اپنے گرم کوٹ کی جیب میں دس روپئے کا نوٹ ایک بڑا خزانہ معلوم ہو رہا تھا!

دوسرے دن شمی نے میرا کوٹ کہنیوں پر سے رفو کر دیا ۔ ایک جگہ جہاں پر سے کپڑا بالکل اڑ گیا تھا، صفائی اور احتیاط سے کام لینے کے باوجود سلائی پر بدنما سلوٹیں پڑنے لگیں۔ اس وقت معراج دین ٹیلر ماسٹر کی دکان کی دکان میرے ذہن میں گھومنے لگی اور یہ میرے تخیل کی پختہ کاری تھی۔ میرے تخیل کی پختہ کاری اکثر مجھے مصیبت میں ڈالے رکھتی ہے ۔میں نے دل میں کہا۔’’معراج دین کی دکان پر ایسے سُوٹ بھی تو ہوتے ہیں جن پر سلائی سمیت سو روپئے سے بھی زیادہ لاگت آتی ہے … میں ایک معمولی کلرک ہوں … اس کی دکان میں لٹکے ہوئے سوٹوں کا تصوّر کرنا عبث ہے … عبث … ۔

مجھے فارغ پاکر شمی میرے پاس آ بیٹھی اور ہم دونوں خریدی جانے والی چیزوں کی فہرست بنانے لگے … جب ماں باپ اکٹھے ہوتے ہیں تو بچّے بھی آ جاتے ہیں… پُشپا منی اور بچّو آ گئے۔ آندھی اور بارش کی طرح شور مچاتے ہوئے۔

میں نے شمی کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ یوں ہی کافوری رنگ کے مینا کار کانٹے سب سے پہلے لکھے۔ اچانک رسوئی کی طرف میری نظر اُٹھی۔ چولھے میں لکڑیاں دھڑ دھڑ جل رہی تھیں… اور اِدھر شمی کی آنکھیں بھی دو چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن تھیں۔ معلوم ہوا کہ منگل سنگھ گیلی لکڑیاں واپس لے گیا ہے۔

’’وہ شہتوت کے ڈنڈے جل رہے ہیں اور کھوکھا‘‘… شمی نے کہا ۔

’’اور اُپلے؟‘‘

’’جی ہاں، اُپلے بھی …‘‘

’’منگل سنگھ دیوتا ہے … شاید میں بھی عنقریب گرم کوٹ کے لیے اچھا سا ورسٹڈ خرید لوں۔ تاکہ تمھاری آنکھیں یوں ہی چمکتی رہیں، انھیں تکلیف نہ ہو … اس ماہ کی تنخواہ میں تو گنجائش نہیں … اگلے ماہ ضرور … ضرور … ‘‘

’’جی ہاں، جب سردی گزر جائے گی…‘‘

پشپا منی نے کئی چیزیں لکھائیں۔ دو سوتی، گنیا ماپ کے لیے گرم بلیزر سبز رنگ کا، ایک گز مربع، ڈی ایم سی کے گولے، گوٹے کی مغزی… اور امرتیاں اور بہت سے گلاب جامن… موئی نے سب کچھ ہی تو لکھوا دیا۔ مجھے دائمی قبض تھی۔ میں چاہتا تھا کہ یونانی دوا خانہ سے اطریفل زمانی کا ایک ڈبہ بھی لا رکھوں۔ دودھ کے ساتھ تھوڑا سا پی کر سو جایا کروں گا۔ مگر موئی پشپا نے اُس کے لیے گنجائش ہی کہاں رکھی تھی اور جب پشپا منی نے کہا ’’گلاب جامن‘‘ تو اُس کے منھ میں پانی بھر آیا۔ میں نے کہا سب سے ضروری چیز تو یہی ہے … شہر سے واپس آنے پر میں گلاب جامن وہاں چھپا دوں گا، جہاں سیڑھیوں میں باہر جمعدار اپنا دودھ کا کلسہ رکھ دیا کرتا ہے اور پشپا منی سے کہوں گا کہ میں تو لانا ہی بھول گیا … تمھارے لیے گلاب جامن … او ہو! … اُس وقت اُس کے منھ میں پانی بھر آئے گا اور گلاب جامن نہ پاکر اُس کی عجیب کیفیت ہو گی۔

پھر میں نے سوچا، بچّو بھی تو صبح سے غبارے اور ٹرائسکل کے لیے ضد کر رہا تھا۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے آپ سے سوال کیا ’’اطریفل زمانی؟‘‘ شمی بچّو کو پچکارتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ’’بچّو بیٹی کو ٹرائسکل لے دوں گی۔ اگلے مہینے… بچّو بیٹی سارا دن چلایا کرے گی ٹرائسکل… پوپی مُنا کچھ نہیں لے گا … ‘‘

بچّو چلایا کرے ’’گی‘‘ اور پوپی مُنا نہیں ملے ’’گا‘‘!

… اور میں نے شمی کی آنکھوں کی قسم کھائی کہ جب تک ٹرائسِکل کے لیے چھ سات روپٖئے جیب میں نہ ہوں، میں نیلے گنبد کے بازار سے نہیں گزروں گا، اس لیے کہ دام نہ ہونے کی صورت میں نیلے گنبد کے بازار سے گزرنا بہت معیوب ہے۔ خواہ نخواہ اپنے آپ پر غصّہ آئے گا۔ اپنی ذات سے نفرت پیدا ہو گی۔

اُس وقت شمی بلجیمی آئینے کی بیضوی ٹکڑی کے سامنے اپنے کافوری سپید سوٹ میں کھڑی تھی۔ میں چپکے سے اُس کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ’’میں بتاؤں تم اس وقت کیا سوچ رہی ہو؟‘‘

’’بتاؤ تو جانوں… ‘‘

’’تم کہہ رہی ہو ۔ کافوری سپید سوٹ کے ساتھ وہ کافوری رنگ کے مینا کار کانٹے پہن کر ضلع دار کی بیوی کے ہاں جاؤں تو دنگ رہ جائے …‘‘

’’نہیں تو‘‘ شمی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’آپ میری آنکھوں کے مدّاح ہوتے تو کبھی کا گرم … ‘‘

میں نے شمی کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ میری تمام خوشی بے بسی میں بدل گئی۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’بس … اِدھر دیکھو … اگلے مہینے … ضرور خرید لوں گا …‘‘

’’جی ہاں، جب سردی … ‘‘

… پھر میں اپنی اس حسین دنیا کو جس کی تخلیق پر محض دس روپئے صرف ہوئے تھے، تصور میں بسائے بازار چلا گیا۔

میرے سوا انارکلی سے گزرنے والے ہر ذی عزّت آدمی نے گرم سوٹ پہن رکھا تھا۔ لاہور کے ایک لحیم و شحیم جنٹل مین کی گردن نکٹائی اور مکلّف کالر کے سبب میرے چھوٹے بھائی کے پالتو بلی کتے، ٹائیگر کی گردن کی طرح اکڑی ہوئی تھی۔ میں نے ان سوٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’لوگ سچ مچ بہت مفلس ہو گئے ہیں … اس مہینے نہ معلوم کتنا سونا چاندی ہمارے ملک سے باہر چلا گیا ہے۔‘‘ کانٹوں کی دکان پر میں نے کئی جوڑیاں کانٹے دیکھے۔ اپنی تخیل کی پختہ کاری سے میں شمی کی کافوری سپید سوٹ میں ملبوس ذہنی تصویر کو کانٹے پہنا کر پسند یا ناپسند کر لیتا … کافوری سپید سوٹ … کافوری مینا کار کانٹے … کثرتِ اقسام کے باعث میں ایک بھی نہ منتخب کرسکا۔

اُس وقت بازار میں مجھے یزدانی مل گیا۔ وہ تفریح کلب سے ،جو دراصل پریل کلب تھی، پندرہ روپئے جیت کر آیا تھا۔ آج اُس کے چہرے پر اگر سُرخی اور بشاشت کی لہریں دکھائی دیتی تھیں تو کچھ تعجب کی بات نہ تھی۔ میں ایک ہاتھ سے اپنی جیب کی سلوٹوں کو چھپانے لگا ۔ نچلی بائیں جیب پر ایک روپئے کے برابر کوٹ سے ملتے ہوئے رنگ کا پیوند بہت ہی ناموزوں دکھائی دے رہا تھا … میں اُسے بھی ایک ہاتھ سے چھپاتا رہا۔ پھر میں نے دل میں کہا۔ کیا عجب یزدانی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھنے سے پہلے میری جیب کی سلوٹیں اور وہ روپئے کے برابر کوٹ کے رنگ کا پیوند دیکھ لیا ہو … اس کا بھی ردِّ عمل شروع ہوا اور میں نے دلیری سے کہا۔

’’مجھے کیا پروا ہے … یزدانی مجھے کون سی تھیلی بخش دے گا … اور اس میں بات ہی کیا ہے۔ یزدانی اور سنتاسنگھ نے بارہا مجھ سے کہا ہے کہ وہ رفعتِ ذہنی کی زیادہ پروا کرتے ہیں اور ورسٹڈ کی کم۔‘‘

مجھ سے کوئی پوچھے، میں ورسٹڈ کی زیادہ پروا کرتا ہوں اور رفعتِ ذہنی کی کم۔

یزدانی رخصت ہوا اور جب تک وہ نظر سے اوجھل نہ ہو گیا، میں غور سے اُس کے کوٹ کے نفیس ورسٹڈ کو پشت کی جانب سے دیکھتا رہا۔

پھر میں نے سوچا کہ سب سے پہلے مجھے پشپا منی کے گلاب جامن اور امرتیاں خریدنی چاہئیں۔ کہیں واپسی پر سچ مچ بھول ہی نہ جاؤں۔ گھر پہنچ کر انھیں چھپانے سے خوب تماشا رہے گا۔ مٹھائی کی دکان پر کھولتے ہوئے روغن میں کچوریاں خوب پھُول رہی تھیں۔ میرے منھ میں پانی بھر آیا۔ اس طرح جیسے گلاب جامن کے تخیل سے پشپامنی کے منھ میں پانی بھر آیا تھا۔ قبض اور اطریفل زمانی کے خیال کے باوجود میں سفید پتھر کی میز پر کہنیاں ٹکا کر بہت رغبت سے کچوریاں کھانے لگا …

ہاتھ دھونے کے بعد جب پیسوں کے لیے جیب ٹٹولی، تو اس میں کچھ بھی نہ تھا۔ دس کا نوٹ کہیں گر گیا تھا!

کوٹ کی اندرونی جیب میں ایک بڑا سوراخ ہو رہا تھا۔ نقلی ریشم کو ٹڈیاں چاٹ گئی تھیں۔ جیب میں ہاتھ ڈالنے پر اُس جگہ جہاں مرانجا، مرانجا اینڈ کمپنی کا لیبل لگا ہوا تھا، میرا ہاتھ باہر نکل آیا۔ نوٹ وہیں سے باہر گر گیا ہو گا۔

ایک لمحہ میں میں یوں دکھائی دینے لگا، جیسے کوئی بھولی سی بھیڑ اپنی خوبصورت پشم اتر جانے پر دکھائی دینے لگتی ہے۔

حلوائی بھانپ گیا۔ خود ہی بولا۔

’’کوئی بات نہیں بابو جی … پیسے کل آ جائیں گے۔‘‘

میں کچھ نہ بولا … کچھ بول ہی نہ سکا۔

صرف اظہارِ تشکر کے لیے میں نے حلوائی کی طرف دیکھا۔ حلوائی کے پاس ہی گلاب جامن چاشنی میں ڈوبے پڑے تھے۔ روغن میں پھُولتی ہوئی کچوریوں کے دھوئیں میں سے آتشیں سُرخ امرتیاں جگر پر داغ لگا رہی تھیں … اور ذہن میں پشپا منی کی دھندلی سی تصویر پھر گئی۔

میں وہاں سے بادامی باغ کی طرف چل دیا اور آدھ پون گھنٹہ کے قریب بادامی باغ کی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس عرصہ میں جنکشن کی طرف سے ایک مال گاڑی آئی۔ اس کے پانچ منٹ بعد ایک شنٹ کرتا ہوا انجن جس میں سے دہکتے ہوئے سُرخ کوئلے لائن پر گر رہے تھے … مگر اُس وقت قریب ہی کی سالٹ ریفائنری میں سے بہت سے مزدور اوور ٹائم لگا کر واپس لوٹ رہے تھے … میں لائن کے ساتھ ساتھ دریا کے پُل کی طرف چل دیا۔ چاندنی رات میں سردی کے باوجود کالج کے چند منچلے نوجوان کشتی چلا رہے تھے۔

’’قدرت نے عجیب سزا دی ہے مجھے‘‘ میں نے کہا۔ ’’پشپامنی کے لیے گوٹے کی مغزی، دو سوتی، گلاب جامن اور شمی کے لیے کافوری میناکار کانٹے نہ خریدنے سے بڑھ کر کوئی گناہ سرزد ہو سکتا ہے۔ کس بے رحمی اور بے دردی سے میری ایک حسین مگر بہت سستی دنیا برباد کر دی گئی ہے… جی تو چاہتا ہے کہ میں بھی قدرت کا ایک شاہکار توڑ پھوڑ کے رکھ دوں۔

… مگر پانی میں کشتی ران لڑکا کہہ رہا تھا۔

’’اس موسم میں تو راوی کا پانی گھُٹنے گھُٹنے سے زیادہ کہیں نہیں ہوتا۔‘‘

’’سارا پانی تو اُوپر سے اپرباری دواب لے لیتی ہے… اور یوں بھی آج کل پہاڑوں پر برف نہیں پگھلتی‘‘… دوسرے نے کہا۔

میں ناچار گھر کی طرف لوٹا اور نہایت بے دلی سے زنجیر ہلائی۔

میری خواہش اور اندازے کے مطابق پشپامنی اور بچو ننھا بہت دیر ہوئی دہلیز سے اُٹھ کر بستروں میں جا سوئے تھے۔ شمی چولھے کے پاس شہتوت کے نیم جان کوئلوں کو تاپتی ہوئی کئی مرتبہ اونگھی اور کئی مرتبہ چونکی تھی۔ وہ مجھے خالی ہاتھ دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ اُس کے سامنے میں نے چور جیب کے اندر ہاتھ ڈالا اور لیبل کے نیچے سے نکال لیا۔ شمی سب کچھ سمجھ گئی۔ وہ کچھ نہ بولی … کچھ بول ہی نہ سکی۔

میں نے کوٹ کھونٹی پر لٹکا دیا۔ میرے پاس ہی دیوار کا سہارا لے کر شمی بیٹھ گئی اور ہم دونوں سوتے ہوئے بچوں اور کھونٹی پر لٹکتے ہوئے گرم کوٹ کو دیکھنے لگے۔

اگر شمی نے میرا انتظار کیے بغیر وہ کافوری سوٹ بدل دیا ہوتا، تو شاید میری حالت اتنی متغیر نہ ہوتی!

یزدانی اور سنتا سنگھ تفریح کلب میں پریل کھیل رہے تھے۔ انھوں نے دو دو گھونٹ پی بھی رکھی تھی۔ مجھ سے بھی پینے کے لیے اصرار کرنے لگے، مگر میں نے انکار کر دیا۔ اس لیے کہ میری جیب میں دام نہ تھے۔ سنتا سنگھ نے اپنی طرف سے ایک آدھ گھونٹ زبردستی مجھے بھی پلا دیا۔ شاید اس لیے کہ وہ جان گئے تھے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ یا شاید اس لیے کہ وہ رفعت ذہنی کی ورسٹڈ سے زیادہ پروا کرتے تھے۔

اگر میں گھر میں اُس دن شمی کو وہی کافوری سپید سوٹ پہنے ہوئے دیکھ کر نہ آتا تو شاید پریل میں قسمت آزمائی کرنے کو میرا جی بھی نہ چاہتا۔ میں نے کہا ۔ کاش! میری بھی جیب میں ایک دو روپئے ہوتے۔ کیا عجب تھا کہ میں بہت سے روپئے بنا لیتا … مگر میری جیب میں تو کل پونے چار آنے تھے۔

یزدانی اور سنتاسنگھ نہایت عمدہ ورسٹڈ کے سوٹ پہنے نیک عالم، کلب کے سکریٹری سے جھگڑ رہے تھے۔ نیک عالم کہہ رہا تھا کہ وہ تفریح کلب کو پریل کلب اور ’’بار‘‘ بنتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ اُس وقت میں نے ایک مایوس آدمی کے مخصوص انداز میں جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا۔ ’’بیوی بچّوں کے لیے کچھ خریدنا قدرت کے نزدیک گناہ ہے۔ اس حساب سے پریل کھیلنے کے لیے تو اُسے اپنی گرہ سے دام دے دینے چاہئیں۔ ہی ہی …… غی غی ……‘‘

اندرونی کیسہ… بائیں نچلی جیب … کوٹ میں پشت کی طرف مجھے کوئی کاغذ سرکتا ہوا معلوم ہوا۔ اُسے سرکاتے ہوئے … میں نے دائیں جیب کے سوراخ کے نزدیک جا نکالا۔

— وہ دس روپئے کا نوٹ تھا، جو اُس دن اندرونی جیب کی تہ کے سوراخ میں سے گذر کر کوٹ کے اندر ہی اندر گم ہو گیا تھا!

اُس دن میں نے قدرت سے انتقام لیا۔ میں اُس کی خواہش کے مطابق پریل وریل نہ کھیلا۔ نوٹ کو مٹھی میں دبائے گھر کی طرف بھاگا۔ اگر اُس دن میرا انتظار کیے بغیر شمی نے وہ کافوری سوٹ بدل دیا ہوتا، تو میں خوشی سے یوں دیوانہ کبھی نہ ہوتا۔

ہاں، پھر چلنے لگا وہی تخیل کا دور۔ گویا ایک حسین سے حسین دنیا کی تخلیق میں دس روپئے سے اُوپر ایک دمڑی بھی خرچ نہیں آتی۔ جب میں بہت سی چیزوں کی فہرست بنا رہا تھا، شمی نے میرے ہاتھ سے کاغذ چھین کر پُرزے پُرزے کر دیا اور بولی۔

’’اتنے قلعے مت بنائیے … پھر نوٹ کو نظر لگ جائے گی۔‘‘

’’شمی ٹھیک کہتی ہے‘‘ ۔ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’نہ تخیل اتنا رنگین ہو، اور نہ محرومی سے اتنا دُکھ پہنچے۔‘‘

پھر میں نے کہا۔ ’’ایک بات ہے شمی! مجھے ڈر ہے کہ نوٹ پھر کہیں مجھ سے گم نہ ہو جائے… تمھاری کھیمو پڑوسن بازار جا رہی ہے ۔اُس کے ساتھ جا کر تم یہ سب چیزیں خود ہی خرید لاؤ … کافوری مینا کار کانٹے … ڈی ایم سی کے گولے، مغزی … اور دیکھو پوپی منّا کے لیے گلاب جامن ضرور لانا… ضرور… ‘‘

شمی نے کھیمو کے ساتھ جانا منظور کر لیا اور اُس شام شمی نے کشمیرے کا ایک نہایت عمدہ سوٹ پہنا۔

بچّوں کے شور و غوغا سے میری طبیعت بہت گھبراتی ہے۔ مگر اس دن میں عرصہ تک بچّو ننھے کو اُس کی ماں کی غیر حاضری میں بہلاتا رہا۔ وہ رسوئی سے ایندھن کی کولکی، غسل خانے کی نیم چھت پر … سب جگہ اُسے ڈھونڈتا پھرا ۔میں نے اُسے پچکارتے ہوئے کہا۔

وہ ٹرائسکل لینے گئی ہے… نہیں جانے دو ۔ ٹرائسکل گندی چیز ہوتی ہے۔ اخ تھو … غبارہ لائے گی، بی بی ، تمھارے لیے، بہت خوبصورت غبارہ …‘‘

بچو بیٹی نے میرے سامنے تھوک دیا۔ بولی، ’’اے … ای … گنڈی۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’کوئی دیکھے تو … کیسا بیٹیوں جیسا بیٹا ہے۔‘‘

پشپا منی کو بھی میں نے گود میں لے لیا اور کہا ۔’’پوپی منّا … آج گلاب جامن جی بھر کر کھائے گا نا …‘‘

اُس کے منھ میں پانی بھر آیا۔ وہ گودی سے اُتر پڑی۔ بولی ’’ایسا معلوم ہوتا ہے … جیسے ایک بڑا سا گلاب جامن کھا رہی ہوں۔‘‘

بچّو روتا رہا۔ پشپا منی کتھا کلی مدرا سے زیادہ حسین ناچ برآمدے میں ناچتی رہی۔

مجھے میرے تخیل کی پرواز سے کون روک سکتا تھا۔ کہیں میرے تخیل کے قلعے زمین پر نہ آ رہیں۔ اسی ڈر سے تو میں نے شمی کو بازار بھیجا تھا۔ میں سوچ رہا تھا۔ شمی اب گھوڑے ہسپتال کے قریب پہنچ چکی ہو گی … اب کالج روڈ کی نکڑ پر ہو گی … اب گندے انجن کے پاس…

اور ایک نہایت دھیمے انداز سے زنجیر ہلی۔

شمی سچ مچ آ گئی تھی۔ دروازے پر۔

شمی اندر آتے ہوئے بولی ۔ ’’میں نے دو روپئے کھیمو سے اُدھار لے کر بھی خرچ کر ڈالے ہیں۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

پھر بچّو، پوپی منّا اور میں تینوں شمی کے آگے پیچھے گھومنے لگے۔

مگر شمی کے ہاتھ میں ایک بنڈل کے سوا کچھ نہ تھا ۔ اُس نے میز پر بنڈل کھولا…

… وہ میرے کوٹ کے لیے بہت نفیس ورسٹڈ تھا۔

پشپا منی نے کہا۔ ’’بی بی‘‘ میرے گلاب جامن …‘‘

شمی نے زور سے ایک چپت اُس کے منھ پر لگا دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

تُلا دَان

 

 

دھوبی کے گھر کہیں گورا چٹا چھوکرا پیدا ہو جائے تواس کا نام بابو رکھ دیتے ہیں۔ سادھورام کے گھر بابو نے جنم لیا اور یہ صرف بابو کی شکل و صورت پر ہی موقوف نہیں تھا، جب وہ بڑا ہوا تو اس کی تمام عادتیں بابوؤں جیسی تھیں۔ ماں کو حقارت سے’’اے یو‘‘ اور باپ کو ’’چل بے‘‘ کہنا اُس نے نہ جانے کہاں سے سیکھ لیا تھا۔ وہ اُس کی رعونت سے بھری ہوئی آواز، پھونک پھونک کر پانو رکھنا، جوتوں سمیت چوکے میں چلے جانا، دودھ کے ساتھ بالائی نہ کھانا، سبھی صفات بابوؤں والی ہی تو تھیں۔ جب وہ تحکمانہ انداز سے بولتا اور چل بے کہتا۔ تو سادھورام … ’’خی خی … بالکل بابو، کہہ کر اپنے زرد دانت نکال دیتا اور پھر خاموش ہو جاتا۔

بابو جب سکھ نندن، امرت اور دوسرے امیر زادوں میں کھیلتا تو کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ یہ اُس مالا کا منکا نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایشور نے سب جیو جنتو کو ننگا کر کے اس دنیا بھیج دیا ہے۔ کوئی بولی ٹھولی نہیں دی۔ یہ نادار لکھ پتی ، مہا براہمن، بھنوٹ، ہریجن، لنگوا فرنیکا سب کچھ بعد میں لوگوں نے خود ہی ایجاد کیا ہے۔

بدھئی کے پُردا میں سکھ نندن کے ماں باپ کھاتے پیتے آدمی تھے اور سادھورام اور دوسرے آدمی انھیں کھاتے پیتے دیکھنے والے … سکھ نندن کا جنم دن آیا تو پُردا کے بڑے بڑے نیتا گگن دیو بھنڈاری، ڈال چند، گنپت مہا براہمن وغیرہ کھانے پر مدعو کیے گئے۔ ڈال چند اور گنپت مہا براہمن دونوں موٹے آدمی تھے اور قریب قریب ہر ایک دعوت میں دیکھے جاتے تھے۔ اُن کی اُبھری ہوئی توند کے نیچے پتلی سی دھوتی میں لنگوٹ، بھاری بھرکم جسم پر ہلکا سا جنیؤ، لمبی چوٹی، چندن کا ٹیکا دیکھ کر بابو جلتا تھا، اور بھلا یہ بھی کوئی جلنے کی بات تھی۔ شاید ایک ننّھا سا نازک بدن بابو بننے کے بعد انسان ایک بد زیب بے ڈول سا پنڈت بننا چاہتا ہے… اور پنڈت بننے کے بعد ایک پست ضمیر گناہ گار انسان اور اچھوت… ڈال چند اور گنپت مہا براہمن کے چلن کے متعلق بہت سی باتیں مشہور تھیں ۔ یہ انسانی فطرت کی نیرنگی ہر جگہ کرشمے دکھاتی ہے۔

بابو نے دیکھا،جہاں بھنڈاری اور مہا براہمن ، بھنوٹ آئے ہوئے تھے، وہاں عمداں مراثن، ہرکھُو ، جڑئی دادا کارندے اور دو تین جھوٹی پتّلیں اور دونے اٹھانے والے جھیور بھی دکھائی دے رہے تھے۔ جب دس پندرہ آدمی کھانے سے فارغ ہو جاتے تو جھیور پتّلوں اور دونوں سے بچی کھچی چیزیں ایک جگہ اکٹھی کرتے۔ جمعدارنی صحن میں ایک جگہ چادر کا ایک پلّو بچھائے بیٹھی تھی۔ وہ سب بچی کھچی چیزیں، حلوہ، دال، توڑے ہوئے لقمے، پکوڑیاں، ملے ہوئے آلو مٹر اور چاول اُس بچھی ہوئی چادر یا ایلومینیم کے ایک بڑے سے زنگ آلودہ تسلّے میں ڈال دیتے۔ اُس کے سامنے سب چیزیں کھچڑی دیکھ کر بابو نہ رہ سکا۔ بولا۔

’’جمعدارنی… کیسے کھاؤ گی یہ سب چیزیں؟‘‘

جمعدارنی ہنس پڑی، ناک سکیڑتی ہوئی بولی۔ ’’جیسے تم روٹی کھاتے ہو۔‘‘

اس عجیب اور سادہ سے جواب سے بابو کی رعونت کو ٹھیس لگی۔ بولا ’’کتنی ناسمجھ ہو تم … اتنی سی بات نہ سمجھیں۔ تبھی تو تم لوگ جوتوں میں بیٹھنے کے لائق ہو۔‘‘

ح لال خوری کی اکڑ زبان زد عوام ہے۔ ماتھے پر تیور چڑھاتے ہوئے جمعدارنی بولی۔

’’اور تم تو عرش پر بیٹھنے کے لائق ہو … ہے نا؟‘‘

’’یوں ہی خفا ہو گئیں تم تو‘‘ ۔ بابو بولا ۔’’میرا مطلب تھا۔ سالن میں حلوہ، پکوڑیوں میں آلومٹر، پلاؤ میں فرنی، یہ تمام چیزیں کھچڑی نہیں بن گئیں کیا؟‘‘

جمعدارنی نے کوئی جواب نہ دیا۔

بھنڈاری اور مہا براہمن کو اچھی جگہ پر بٹھایا گیا۔ وہ سادھوؤں کی سی رودرکش کی مالا گلے میں ڈالے کنکھیوں سے بار بار عمداں اور جمعدارنی کی طرف دیکھتے رہے۔ عمداں، جمعدارنی کے قریب ہی بیٹھی تھی۔ ہرکھُو، جڑئی، دادا دھوپ میں بیٹھے ہوئے کھاتے پیتے آدمیوں کا منھ دیکھ رہے تھے۔ کب وہ سب کھاچکیں تو اُنھیں بھی کچھ میسّر ہو۔ بابو نے دیکھا، عمداں کے قریب ہی ایندھن کی اوٹ میں اُس کی اپنی ماں بیٹھی تھی۔ اس کے قریب برتن مانجھنے کے لیے راکھ اور نیم سوختہ اوپلے پڑے تھے اور راکھ سے اس کا لہنگا خراب ہو رہا تھا۔ قمیص بھی خراب ہو رہی تھی۔ خیر! قمیص کی تو کوئی بات نہ تھی۔ وہ تو کسی کی تھی اور دھلنے کے لیے آئی تھی۔ ایک دفعہ دھوکر بابو کی ماں نے پہن لی، تو کچھ بگڑ نہیں گیا۔ پرماتما بھلا کرے بادلوں کا کہ ان ہی کی مہربانی سے ایسا موقع میسّر ہوا۔

جب اپنے دوست سکھی نندن کو ملنے کے لیے بابو نے آگے بڑھنا چاہا تو ایک شخص نے اُسے چپت دکھا کر وہیں روک دیا۔ اور کہا ۔ ’’خبردار! دھوبی کے بچے … دیکھتا نہیں کدھر جا رہا ہے۔‘‘ بابو تھم گیا۔ سوچنے لگا ۔ کہ اُس کے ساتھ لڑے یا نہ لڑے۔ جھیور کا تنومند جسم دیکھ کر دب گیا اور یوں بھی وہ ابھی بچہ تھا۔ بھلا اتنے بڑے آدمی کا کیا مقابلہ کرے گا۔ اُس نے ایک اُداس اچٹتی ہوئی نظر سے اچھی جگہ بیٹھ کر کھانے والوں اور نیم سوختہ اوپلوں کی راکھ اور جوتوں میں پڑے ہوئے انسانوں کو دیکھا۔ اور دل میں کہا، اگرچہ سب ننگے پیدا ہوئے ہیں، مگر ایک کارندے اور براہمن میں کتنا فرق ہے۔

پھر دل میں کہنے لگا۔ سکھ نندن اور بابو میں کتنا فرق ہے، اور ہلکی سی ایک ٹیس اُس کے کلیجہ میں اُٹھی۔ حقیقت تو بابو کے سامنے تھی۔ مگر اتنی مکروہ شکل میں کہ وہ خود اُسے دیکھنے سے گھبراتا تھا۔ بابو دل ہی دل میں کہنے لگا۔ ہم لوگوں کے وجود ہی سے تو یہ لوگ جیتے ہیں۔ دن کی طرح اُجلے اُجلے کپڑے پہنتے ہیں …‘‘ دراصل بابو کو بھوک لگ رہی تھی۔ وہی پکوڑیوں، حلوہ مانڈے کے خیال میں۔ مکروہ حقیقت تو کیا وہ اپنے وجود سے بھی بے نیاز ہو گیا۔ گرم گرم پوریوں کی صبر آزما خوشبو اس کے دماغ میں بسی جا رہی تھی۔ اچانک اُس کی نظر عمداں پر پڑی۔ عمداں کی نظر بھی ٹوکری میں گھی میں بسی ہوئی پوریوں کے ساتھ ساتھ جاتی تھی۔ جب سکھ نندن کی ماں قریب سے گزری تو اُس کو متوجہ کرنے کے لیے عمداں بولی۔

’’ججمانی … ذرا حلوائی کو ڈانٹو تو … اے دیکھتیں نہیں۔ کتنا گھی بہہ رہا ہے جمین (زمین)پر۔‘‘

ججمانی کڑک کر بولی۔

’’ارے او کشنو … حلوائی کو کہنا۔ ذرا پوریاں کڑاہی میں دبائے رکھے۔‘‘

بابو ہنسنے لگا۔ عمداں کچھ شرمندہ سی ہو گئی۔ بابو جانتا تھا کہ عمداں وہ سب باتیں محض اس وجہ سے کہہ رہی ہے کہ اُس کا اپنا جی پوریاں کھانے کو بہت چاہتا ہے۔ گو ججمانی کی توجہ کو کھینچنے والے فقرے سے اُس کی خواہش کا پتہ نہیں چلتا۔ وہ متعجب تھا اور سوچ رہا تھا کہ جس طرح اُس نے عمداں کے اُن غیر متعلق لفظوں میں چھپے ہوئے اصلی مطلب کو پالیا ہے، کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ اُس کی خاموشی میں کوئی اُس کی بات کو پالے۔ آخر خاموشی گفتگو سے زیادہ معنی خیز ہوتی ہے۔

اُس وقت سکھ نندن تُل رہا تھا۔ خوبصورت ترازو کے ایک پلڑے میں چاروں طرف دیکھ مسکراتا جا رہا تھا۔ دوسری طرف گندم کا انبار لگا تھا۔ گندم کے علاوہ چاول باسمتی، چنے، اُڑد، موٹے ماش اور دوسری اس قسم کی اجناس بھی موجود تھیں۔ سکھ نندن کو تول تول کر لوگوں میں اجناس بانٹی جا رہی تھیں۔ بابو کی ماں نے بھی پلّو بچھایا۔ اُسے گندم کی دھڑی مل گئی۔ وہ سکھ نندن کی درازیِ عمر کی دعائیں مانگتی ہوئی اُٹھ بیٹھی۔ بابو نے نفرت سے اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔گویا کہہ رہا ہو، چھی! تمھیں کپڑوں کی دھلائی پر قناعت ہی نہیں، تبھی تو ہر ایک کی میل نکالنے کا کام ایشور نے تمھارے سپرد کر دیا ہے، اور تم بھی جمعدارنی کی طرح جوتوں میں بیٹھنے کے لائق ہو۔ تمھاری کوکھ سے پیدا ہو جانے والے بابو کو چلچلاتی دھوپ میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ آگے بڑھنے پر لوگ اُسے چپت دکھاتے ہیں۔ ہائے! تیری یہ پھٹی ہوئی، بے قناعت آنکھیں، گندم سے نہیں قبر کی مٹی سے پُر ہوں گی۔ قریب سے ماں گزری تو بابو بولا۔ ’’اے بُو!‘‘

پھر سوچنے لگا۔ رام جانے میرا جنم دن کیوں نہیں آتا۔ میری ماں مجھے کبھی نہیں تولتی۔ جب سُکھ نندن کو اُس کے جنم دن کے موقع پر تول کر اجناس کا دان کیا جاتا ہے، تو اُس کی سبھی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔ اُسے سردی میں برف سے زیادہ ٹھنڈے پانی اور گرمیوں میں بھیجا جلا دینے والی دھوپ میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ بالوں میں لگانے کے لیے خاص لکھنؤ سے منگوایا ہوا آملے کا تیل ملتا ہے۔ جیب پیسوں سے بھری رہتی ہے۔ بخلاف اُس کے میں تمام دن صابن کی جھاگ بناتا رہتا ہوں۔ سُکھ نندن اس لیے صابن کے بلبلوں کو پسند کرتا ہے کہ وہ بلبلے اور اُن میں چمکنے والے رنگ اُسے ہر روز نہیں دیکھنے پڑتے ، یوں کپڑے نہیں دھونے ہوتے … سُکھی کی دنیا کو کتنی ضرورت ہے۔ خاص کر اُس کے ماں باپ کو۔ میرے ماں باپ کو میری ذرا بھی ضرورت نہیں ۔ورنہ وہ مجھے بھی جنم دن کے موقع پر یوں ہی تولتے۔ اور جب سے ننھی پیدا ہو گئی ہے… کہتے ہیں بلا ضرورت دنیا میں بھی کوئی پیدا نہیں ہوا۔ یہ باتھو، جو نالی کے کنارے اُگ رہا ہے، بظاہر ایک فضول سا پودا ہے۔ جب اُس کی بھجیا بنتی ہے تو مزا ہی آ جاتا ہے… اور پوریاں!

بابو کی ماں نے آواز دی۔

’’بابو … ارے او بابو۔‘‘

اس وقت سکھ نندن، بابو کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اب بابو کو اُمید بندھی کہ وہ خوب ضیافت اُڑا سکے گا۔ بابو اُس چُبھنے والی دھوپ کو بھی بھول گیا جو برسات کے بعد تھوڑے عرصہ کے لیے نکلتی ہے اور اسی عرصہ میں اپنی تب و تاب ختم کر دینا چاہتی ہے۔ اُس نے ماں کی آواز پر کان نہ دھرا اور کان دھرتا بھی کیوں؟ ماں کو اس کی کیا ضرورت تھی۔ ضرورت ہوتی تو وہ اس کا جنم دن نہ مناتی۔ وہ تو شاید اس دن کو کوستی ہو گی جس دن وہ پیدا ہو گیا … اگرچہ باتھو کی بھجیا بڑی ذائقہ دار ہوتی ہے۔

’’بابو … ارے او بابو کے بچے۔ آتا کیوں نہیں؟‘‘ بابو کی ماں کی آواز آئی۔

’’بابو جاؤ … ابھی میں نہیں آسکتا۔‘‘ سکھ نندن نے کہا۔ اور پھر ایک مغرورانہ انداز سے اپنے زر د و خستہ کوٹ اور بابو کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ’’کل آنا بھائی … دیکھتے نہیں ہو، آج مجھے فرصت ہے؟ جاؤ۔‘‘

عمداں کو پوریاں مل گئی تھیں۔ وہ ججمانی کو فرشی سلام کر رہی تھی۔ بابو نے سوچا تھا کہ شاید مسکراتا ہوا سکھی نندن اُس کی خاموشی میں اس کے من کی بات پالے گا۔ مگر سکھ نندن کو آج بابو کا خیال کہاں آتا تھا۔ آج ہر چھوٹے بڑے کو سکھی کی ضرورت تھی۔ لیکن سکھی کو کسی کی ضرورت نہ تھی۔ اپنی عظمت اور بابو کے سادہ اور بوسیدہ، ٹاٹ کے سے کپڑوں کو دیکھ کر وہ شاید اُس سے نفرت کرنے لگا تھا۔ اپنی عدیم الفرصتی کا اظہار کرتے ہوئے اُس نے گویا بابو کی رہی سہی رعونت کو مٹی میں ملادیا۔ پھر بابو کی ماں کی کرخت آواز آئی۔

’’بابو … تیرا ستیا ناس، طون (طاعون) مارے … گھُس جائے تیرے پیٹ میں ماتا کالی … آتا کیوں نہیں۔ دو سو کپڑے پڑے ہیں … لمبر گیر نے دالے۔ میں تو رو رہی ہوں تیری جان کو …‘‘

بابو کو یہ محسوس ہوا کہ نہ صرف سکھ نندن نے اُس کے جذبات کو ٹھیس لگائی ہے اور وہ اُس کے ساتھ کبھی نہیں کھیلے گا، بلکہ اُس کی ماں ،جس کے پیٹ سے وہ ناحق پیدا ہوا تھا، وہی عورت جس سے اُسے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کی توقع ہے، وہ اُس سے ایسا سلوک کرتی ہے۔ کاش! میں اس دنیا میں پیدا ہی نہ ہوتا۔ اگر ہوتا تو یوں بابو نہ ہوتا۔ میری مٹی یوں خراب نہ ہوتی۔ آخر میں سکھی سے شکل اور عقل میں بڑھ چڑھ کر نہیں؟

سکھ نندن کے جنم دن کو ایک مہینہ ہو گیا۔ تُلا دان کو آئی ہوئی گندم پسی۔ پس کر اس کی روٹی بنی۔ بابو کے ماں باپ نے کھائی۔ مگر بابو نے وہ روٹی کھانے سے انکار کر دیا۔ جتنی دیر تلا دان کا آٹا گھر میں رہا، وہ روٹی اپنے چچا کے ہاں کھاتا رہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جس طرح مانگے تانگے کی چیزیں کھا کھا کر اُس کے ماں باپ کی ذہنیت غلامانہ ہو گئی ہے، وہ روٹی کھا کر اُس میں بھی وہ بات آ جائے۔ گاڑھے پسینہ کی کمائی ہوئی روٹی سے تو دودھ ٹپکتا ہے۔ مگر حرام کی کمائی سے خون … اور غلامی خون بن کر اُس کے رگ و ریشہ میں سما جائے، یہ کبھی نہ ہو گا۔ سادھو رام حیران تھا۔ بابو کی ماں حیران تھی۔ چچا جس پر اُس کی روٹی کا بوجھ جبراً پڑ گیا تھا، حیران تھے۔ چچی ناک بھوں چڑھاتی تھی، اور جب گھر میں اس انوکھے بائیکاٹ کا چرچا ہوتا تو سادھورام یکدم کپڑوں پر ’’لمبرگیر نے‘ چھوڑ دیتا اور زرد زرد دانت نکالتے ہوئے کہتا۔

’’خی خی… بابو ہے نا۔‘‘

سکھ نندن نے اب بابو میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھی۔ بابو جس کا کام سے جی اُچاٹ رہتا تھا، اب دن بھر گھاٹ پر اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ بابو اب اس کے ساتھ نہیں کھیلتا تھا۔ ہریا کے تالاب کے کنارے ایک بڑی سی کروٹن چپل پر وہ اور اُس کے دو ایک ساتھی اسکول کے وقت کے بعد ’کان پتہ‘ کھیلا کرتے تھے۔ اب وہ جگہ بالکل سونی پڑی رہتی تھی۔ قریب بیٹھے ہوئے ایک سادھو جن کی کٹیا میں بچے اپنے بستے رکھ دیتے تھے۔ کبھی کبھی چرس کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے پوچھ لیتے۔ ’’بیٹا! اب کیوں نہیں آتے کھیلنے کو۔‘‘ اور سکھی نندن کہتا ۔ ’’بابو ناراض ہو گیا ہے باوا…‘‘ پھر مہاتما جی ہنستے اور چرس کا ایک دم اُلٹا دینے والا کش لگاتے اور کھانستے ہوئے کہتے۔

’’اوہوں … ہوں… واہ رے پٹھے … آخر بابو جو ہوا تُو!‘‘

اُس وقت سکھی نندن غرور سے کہتا ’’اکڑتا ہے بابو تو اکڑا کرے … اُس کی اوقات کیا ہے۔ دھوبی کے بچّے کی؟‘‘

… مگر بچوں کو اپنے ساتھ کھیلنے کے لیے کوئی نہ کوئی چاہیے۔ کھیل میں کسی طرح کی ذات پات اور درجہ کی تمیز نہیں رہتی۔ حقیقت میں چند ہی سال کی تو بات تھی، جب کہ وہ یکساں ننگے پیدا ہوئے تھے اور اُس وقت تک اُن میں نادار، لکھ پتی، مہا براہمن، بھنوٹ، ہریجن … اور اس قسم کی فضول باتوں کے متعلق خیال آرائی کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔

سکھ نندن اپنی تمام مصنوعی عظمت کو کینچلی کی طرح اُتار پھینک بابو کے ہاں گیا۔ بابو اُس وقت دن بھر کام کر کے تھک کر سو رہا تھا۔ ماں نے جھنجوڑ کر جگایا۔ ’’اُٹھ بیٹا! … اب کھیلنے کبھی نہ جاؤ گے کیا؟ سُکھی آیا ہے۔‘‘ بابو آنکھیں ملتا ہوا اُٹھا ۔ چارپائی کے نیچے اُس نے بہت سے میلے کچیلے اور اُجلے اُجلے کپڑے دیکھے۔ کپڑے جو کہ پیدائش ہی سے ایک سکھی نندن اور بابو میں   امتیاز و تفرقہ پیدا کر دیتے ہیں … بابو چارپائی پر سے فرش پر بکھرے ہوئے کپڑوں پر کود پڑا۔ دل میں ایک لطیف گدگدی سی پیدا ہوئی۔ کئی دنوں سے وہ کھیلا نہیں تھا اور اب شاید اپنی اکتسابی رعونت پر پچھتا رہا تھا۔ بابو کا جی چاہتا تھا کہ پھلانگ کر برآمدے سے باہر چلا جائے اور سکھی سے بغل گیر… اور کیا انسان کی انسان کے لیے محبت کپڑوں کی حد سے نہیں بڑھ جاتی؟ کیا سکھی کینچلی نہیں اُتار آیا تھا؟ بابو چاہتا تھا کہ دونوں بھائی رہے سہے کپڑے اُتار کر ایک سے ہو جائیں اور خوب کھیلیں، خوب … برآمدے میں کبوتروں کے کابک کے پیچھے جالی کے درمیان میں سے بابو کی نظر سکھی پر پڑی، جو پُر امید نظریں اُس کے گھر کے دروازے پر گاڑے کھڑا تھا۔ یکایک بابو کو سکھی کے جنم دن کی بات یاد آ گئی۔ وہ دل مسوس کر رہ گیا۔ کبوتروں کی جالی میں اُسے بہت سی بیٹیں نظر آ رہی تھیں اور بہت سے سراج، لقَہ اور دیسی قسم کے کبوتر ’گھوں گھوں‘ کرتے ہوئے اپنی گردنوں کو پھُلا رہے تھے۔ ایک نر پھُول پھُول کر مادہ کو اپنی طرف مائل کر رہا تھا۔ بابو نے بھی اپنی گردن کو پھُلایا اور گھوں گھوں کی سی آواز پیدا کرتا ہوا چارپائی پر واپس جا لیٹا۔ پھر اُسے خیال آیا۔ سکھی دھوپ میں کھڑا جل رہا ہے۔ مگر پھر وہ ایک فیصلہ کن لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے چارپائی پر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ آخر وہ بھی تو کتنا ہی عرصہ اُس کے گھر کے صحن میں برسات کی چلچلاتی دھوپ میں کھڑا رہا تھا اور اُس نے اُس کی کوئی پروا نہ کی تھی … امیر ہو گا تو اپنے گھر میں۔

’’اُسے کہہ دو … وہ نہیں آئے گا ماں … کہو اُسے فرصت نہیں ہے فرصت‘‘ بابو نے کہا۔

’’شرم تو نہیں آتی ہے۔‘‘ ماں نے کہا۔ ’’اتنے بڑے سیٹھوں کا لڑکا آوے تجھے بلانے کے لیے اور تو یوں پڑ رہے … گدھا!‘‘

بابو نے کہنیاں ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’میں نہیں جانے کا، ماں۔‘‘

ماں نے بُرا بھلا کہا۔ تو بابو بولا۔ ’’ سچ سچ کہہ دوں ماں۔ میں جانتا ہوں، میری کسی کو بھی ضرورت نہیں … واویلا کرو گی، تو میں کہیں چلا جاؤں گا۔‘‘

ماں کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اُس وقت ننھی بلند آواز سے رونے لگی اور ماں اُسے دودھ پلانے میں مشغول ہو گئی۔

بدھئی کے پُروا میں سیتلا (چیچک) کا زور تھا۔ پُروا کی عورتیں بندریوں کی طرح اپنے اپنے بچوں کو کلیجوں سے لگائے پھرتی تھیں۔ پڑوسن کی دہلیز تک نہیں پھاندتی تھیں۔کہیں بُو ، نہ پکڑ لیں اور سیتلا ماتا تو یوں بھی بڑی غصیلی ہیں … ڈال چند کی لڑکی، مہا براہمن کے دو بھتیجے ،سب کو سیتلا ماتا نے درشن دیا۔ اُن کی مائیں گھنٹوں ان کے سرہانے بیٹھ کر سچے موتیا کے ہار رکھ کر گوری میّا گاتی رہیں اور دیوی ماتا سے پرارتھنا کرتی رہیں کہ ان پر اپنا غصّہ نہ نکالے۔ جب بچیّ راضی ہو جاتے، تو مندر میں ما تھا ٹیکنے کے لیے لے جاتیں۔ ماتا تو ہر ایک قسم کی خواہش پوری کرتی تھی۔ جب سیتلا کا غصہ ٹلا اور بُو کچھ کم ہوئی، تو پُروا والوں نے سیتلا کی مورتی بنائی۔ اُسے خوب سجایا۔ سکھی نندن کے باپ نے مونگے کی مالا سیتلا ماتا کے گلے میں ڈالی۔ سب نے مل کر عزت و تکریم سے ماتا کو مندر سے نکالا اور سجی ہوئی بہلی میں براجمان کیا اور بہلی کو گھسیٹتے ہوئے گانو سے باہر چھوڑنے کے لیے لے گئے۔ پُروا کے سب بوڑھے بچے جلوس میں اکٹھے ہوئے، پیتل کی کھڑتالیں، ڈھول ڈھمکے بجتے جا رہے تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہ کرودھی ماتا کو ہریا کے تالاب کے پاس مہاتما جی کی کُٹیا کے قریب اُن ہی کی نگہبانی میں چھوڑ دیا جائے ،تاکہ ماتا اس گانوسے کسی دوسرے گانو کا رُخ کرے۔ وہ ماتا کو خوشی خوشی روانہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ اُن پر اُلٹی نہ برس پڑے۔ سکھی بھی جلوس کے ساتھ گیا۔ بابو بھی شامل ہوا۔ نہ بابو کو سکھی کے بلانے کی جرأت پیدا ہوئی، نہ سکھی کو بابو کے بلانے کی۔ ہاں کبھی کبھی وہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ لیتے تھے۔

ہریا کے تالاب کے پاس ہی دھوبی گھاٹ تھا۔ ایک چھوٹی سی نہر کے ذریعہ تالاب کا پانی گھاٹ کی طرف کھینچ لیا جاتا تھا۔ گھاٹ تھا بہت لمبا چوڑا۔ قریب کے قصبوں میں سے دھوبی کپڑے دھونے آیا کرتے تھے۔ اسی گھاٹ پر بابو اور اس کے بھائی بند، باپ دادا وہی ایک گانا، اُسی پُرانی سُرتال سے گاتے ہوئے کپڑے دھوئے جاتے۔ ایک دن گھاٹ پر سارا دن بابو، سکھی کے بغیر شدت کی تنہائی محسوس کرتا رہا۔ کبھی کبھی اکیلا ہی کروٹن چیل کے بل کھاتے ہوئے تنوں پر چڑھ جاتا اور اُتر آتا۔ گویا سکھی کے ساتھ کان پتہ کھیل رہا ہو۔ کھیل میں لطف نہ آیا تو وہ اینٹوں کے ڈھیر میں رکھی ہوئی سیتلا ماتا کی مورتی کو دیکھنے لگا اور پوچھنے لگا۔ آیا وہ اس گانو سے چلی گئی ہیں یا نہیں۔ ماتا کچھ کروپ (بد شکل) ناراض، دکھائی دیتی تھیں۔ شام کو بابو گھر آیا تو اُسے ہلکا ہلکا تپ تھا، جو کہ بڑھتا گیا۔ بابو کو اپنی سدھ بدھ نہ رہی۔ ایک دفعہ بابو کو ہوش آیا تو دیکھا ماں نے موتیا کا ایک ہار اُس کی چارپائی پر رکھا تھا۔ قریب ہی ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا کورا گھڑا تھا۔ گھڑے کے منھ پر بھی موتیا کے ہار پڑے تھے اور ماں ایک نیا خریدا ہوا پنکھا ہلکے ہلکے ہلا ہلا کر منھ میں گوری میّا گنگنا رہی تھی۔ پنکھا مرتے ہوئے آدمی کی نبض کی طرح آہستہ آہستہ ہل رہا تھا اور الگنی پر سُرخ پھلکاریوں کے پردے بابو کی بوڑھی دادی کی جھریوں کی طرح لٹک رہے تھے اور یہ سامان کچھ ماتا کی عزّت کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ بابو نے اپنی پلکوں پر منوں بوجھ محسوس کیا۔ اُسے تمام بدن پر کانٹے چبھ رہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اُسے کسی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہو۔

دو تین دن تو بابو نے پہلو تک نہ بدلا۔ ایک دن ذرا افاقہ سا ہوا۔ صرف اتنا کہ وہ آنکھیں کھول کر دیکھ سکتا تھا۔ آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا۔ سکھی اور اس کی ماں دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ سیٹھانی نے ناک پر دوپٹہ لے رکھا تھا۔ دراصل وہ دروازے میں اس لیے بیٹھے تھے کہ کہیں بُو نہ پکڑ لیں۔ مگر بابو نے سمجھا، آج ان لوگوں کا غرور ٹوٹا ہے۔ اُس نے دل میں ایک خوشی کی لہر محسوس کی۔ ایک جیوتشی جی سادھورام کو بہت سی باتیں بتا رہے تھے۔ انھوں نے ناریل، بتاشے، کھمنی، منگوائی۔ سادھورام کبھی کبھار اپنا ہاتھ بابو کے تپتے ہوئے ماتھے پر رکھ دیتا ، اور کہتا…

’’بابو … او بابو … بیٹا بابو؟‘‘

جواب نہ ملتا۔ تو ایک مُکاّ سا اس کے کلیجہ میں لگتا اور وہ گم ہو جاتا۔

بابو نے بمشکل تمام کانٹوں کے بستر پر پہلو بدلا۔ پھول ہاتھ سے سرکا کر سرہانے کی طرف رکھ دیے۔ گلے میں تلخی سی محسوس کی۔ ہاتھ بڑھایا تو ماں نے پانی دیا۔بابو نے دیکھا۔ اُس کے ایک طرف گندم کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ جیوتشی جی کے کہنے پر بابو کی ماں نے اُسے آہستہ سے اُٹھایا اور ایک طرف لٹکتے ہوئے ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا۔ ترازو کے دوسرے پلڑے میں گندم اور دوسری اجناس ڈالنی شروع کیں۔ بابو نے اپنے آپ کو تلتا ہوا دیکھا تو دل میں ایک خاص قسم کا روحانی سکون محسوس کیا۔ چار دن کے بعد آج اُس نے پہلی مرتبہ کچھ کہنے کے لیے زبان کھولی اور اتنا کہا۔

’’اماں … کچھ گندم اور ماش کی دال دے دو۔ سکھی کی ماں کو … کب سے بیٹھی ہے بچاری۔‘‘

سادھورام نے پھر اپنا ہاتھ بابو کے تپتے ہوئے ماتھے پر رکھ دیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی چند بوندیں گر کر فرش پر بکھرے ہوئے کپڑوں میں جذب ہو گئیں۔ سادھورام نے کپڑوں کو ایک طرف ہٹایا، اور بولا۔

’’پنڈت جی… دان سے بوجھ ٹل جائے گا؟ … میں تو گھر بار بیچ دوں… پنڈت جی…‘‘

بابو کی ماں نے سسکیاں لیتے ہوئے سیٹھانی جی کو کہا۔

’’مالکن … کل نینی تال جاؤ گی؟ … کل … نہیں تو پرسوں ملیں گے کپڑے… ہائے! مالکن! تمھیں کپڑوں کی پڑی ہے۔‘‘

بابو کو کچھ شک سا گزرا۔ اُس نے پھر تکلیف سہ کر پہلو بدلا اور بولا۔

’’امّاں … امّاں … آج میرا جنم دن ہے؟‘‘

اب سادھو رام کے سوتے پھُوٹ پڑے۔ ایک ہاتھ سے گلے کو دباتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

’’ہاں بابو بیٹا … آج جنم دن ہے تیرا … بابو … بیٹا!‘‘

… بابو نے اپنے جلتے ہوئے جسم اور روح پر سے تمام کپڑے اتار دیے۔ گویا ننگا ہو کر سکھی ہو گیا اور منوں بوجھ محسوس کرتے ہوئے آنکھیں آہستہ آہستہ بند کر لیں!

٭٭٭

 

 

 

 

 

حیاتِین — ب

 

 

ایجرٹن روڈ کے عین وسط میں جہاں جلی حروف میں ’’روڈ اپ‘‘ لکھا ہوا تھا اور نصف درجن کے قریب سُرخ پھریرے ہوا میں لہرا رہے تھے،میں بطور ایک چھوٹے اوورسیئر کے مزدوروں کے کام کی نگرانی کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک بہت لمبا ٹیپ تھا، جس سے بارہا مجھے مرمت طلب سڑک اور کٹی ہوئی روڑی کی پیمائش کرنی پڑتی تھی۔

’روڈاپ‘ بورڈ کے پاس ہی کولتار کے چند خالی پیپے پڑے تھے اور اُن میں سًرخ شیشوں والی بتیاں رات کے وقت استعمال کے لیے اقلیدسی نصف دائرہ میں پڑی تھیں۔ قریب ہی پگڈنڈی میں چند گہرے سے گڑھے نظر آ رہے تھے۔ اُن گڑھوں کو بطور چولھے کے استعمال کرتے ہوئے سڑک کے مرمت شدہ حصے پر بچھانے کے لیے کولتار کو گرم کیا جا رہا تھا اور دور ایک چیختا چلاتا ہوا انجن بچھی ہوئی کنکریوں کو دبا رہا تھا۔

پھریروں اور خالی ٹینوں کے ساتھ ہی چند مارواڑی اور پوربی عورتیں سڑک کے مرمت طلب قطعہ زمین کو بڑے بڑے برشوں سے صاف کر رہی تھیں اور اپنے مخصوص سُرتال سے گا کر کام میں روح پھونک رہی تھیں۔ پاس ہی سول لائن کے تھانے اور ایک بڑی سی نرسری کے درمیان ایک لہسوڑے کے نیچے دو ایک بچّے بلک رہے تھے۔ نرسری میں چند ایک چھوکرے غلیلیں اور گوپھیے ہاتھ میں لیے ثمر آور پودوں سے طوطوں وغیرہ کو اُڑا رہے تھے۔ کنکری چھوڑتے وقت وہ بلند آواز سے ’اللہ اکبر‘ پکارتے۔ کبھی کبھی بے وجہ چیختے، زور زور سے ہنستے اور اپنی آواز کی گونج سے حظ اُٹھاتے۔ میری توجہ نرسری کی طرف لہسوڑے کیے نیچے بلکتے ہوئے بچوں کی طرف منعطف ہو گئی۔ بچوں کے پیٹ پھولے ہوئے تھے اور اُن کی چھاتیاں اندر کو دھنس گئی تھیں۔ جب کوئی مارواڑی یا پُوربی عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے اُٹھتی تو ٹھیکیدار عرفانی خشم آلود نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگتا، مگر جیسے ہی پسِ پشت گر گراتا ہوا انجن سیٹی دیتا انجن سیٹی دیتا، عرفانی اچھل کر انجن کی زد سے باہر پٹڑی پر کھڑا ہو جاتا۔

اس دفعہ ٹھیکیدار عرفانی نے ٹنڈر بہت کم رقم کا بھرا تھا، اس لیے مزدوروں پر سخت نگرانی تھی۔ سستانا، گڑگڑی کے کش لگانا، دن میں دو دفعہ سے زیادہ پیشاب کے لیے کام چھوڑنا قواعد کے خلاف تھا۔ بچوں کو ایک دفعہ سے زیادہ دودھ پلانے کی اجازت نہ تھی۔ مادریت کے پھلنے پھولنے یا پیدائش کی شرح کا کسی کو خیال نہ تھا اور نہ حکومت کی طرف سے کوئی آسائش مہیّا تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ بلکتے ہوئے بچے بھُوک سے نڈھال ہو کر مرجائیں گے۔

جمعدار رام اوتار کی مدد سے میں پگڈنڈی پر پڑی ہوئی روڑی کو ناپنے لگا۔ روڑی ساڑھے تین فٹ چوڑی، آٹھ فٹ لمبی اور ایک فٹ اونچی تھی اور میرے انداز ے کے مطابق ایک بڑے سے بیضوی گڑھے کے لیے کافی تھی۔ اس وقت میں نے ماتادین کو اپنے ساتھیوں سے علاحدہ ہو کر سستانے کی خاطر بیٹھتے دیکھا۔ ماتادین ایک ادھیڑ عمر کا پوربی مزدور تھا۔ ذات اس کی کوری تھی۔ جسم کے لحاظ سے وہ باقی مزدوروں سے کہیں اچھا تھا۔ دھوپ میں ماتادین کا پسینہ سے شرابور سیاہ رنگت کا عریاں تنومند جسم، ایک بڑے کانسی کے مجسمے کی مانند دکھائی دیتا تھا۔

ماتادین کو اس حالت میں دیکھ کر میں نے ٹیپ کو جمعدار رام اوتار کے حوالہ کیا، اور روڈاپ کو پھلانگ کر ماتادین کے پاس جا پہنچا اور بلند آواز سے چیخا … ’’ہے … ماتادین۔‘‘

ماتادین گھبرا کر اُٹھ بیٹھا، اور اپنی خمار آلود نگاہیں مجھ پر ڈالتے ہوئے بولا۔’’مالک!‘‘

’’ہاں! مالک … آرام کر رہے تھے نا؟ … شاید تم عرفانی کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوئے۔‘‘

’’رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ اس لیے ذرا …‘‘

’’یہ کوئی وجہ نہیں۔‘‘

ماتادین ایک مہیب انداز سے مسکرا کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا، اس کے بد شکل چہرے میں مسوڑھے پھُول کر بڑے بڑے گھناؤنے دانتوں کو گویا چھوڑ رہے تھے۔ وہ روڑی کوٹتے ہوئے بولا۔

’’کام چور نہیں ہوں مالک … آپ جانتے ہیں میں تو دو ٹکیوں میں کام کیے جاتا ہوں مگر… ‘‘

ماتادین ایک ایماندار مزدور تھا۔ وہ باقی مزدوروں سے زیادہ ذہین تھا۔ اُسے دوبارہ بات سمجھانے کی ضرورت کبھی نہیں پیش آئی تھی۔ صبح جب اسی سڑک پر سورج کی پہلی ٹکیہ مشرق کی طرف نرسری کے چھوٹے چھوٹے درختوں کے پیچھے سے نمودار ہوتی، اس وقت سے لے کر شام تک جب کہ دوسری ٹکیہ مغرب کی طرف شہر کے مکانوں کے بے ربط منڈیروں کی طلائی مغزی ادھیڑتے ہوئے ڈوب جاتی، وہ دو ٹکیوں میں برابر کام کیے جاتا۔ اسی اثنا میں گرد و غبار سے سینہ صاف کرنے کے لیے ماتادین کوڑی بھر پشاوری گڑ کھاتا اور چھپ کر ایک آدھ گڑ گڑی کا کش لگاتا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی اُسے دم لیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔

عرفانی نظر سے اوجھل کھڑا تھا۔ اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کے بعد میں نے ماتادین سے پوچھا۔

’’عرصہ سے من بھری ان عورتوں میں دکھائی نہیں دیتی… اچھی تو ہے نا؟‘‘

’’اجی کہاں اچھی ہے‘‘ ماتادین بولا ’’اسی کے لیے تو رات کو جاگنا پڑتا ہے اور دن کو میری یہ دشا ہوتی ہے۔‘‘

مجھے ایک مخدوش سے قطعۂ زمین کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سڑک کے ایک دم مغرب کی طرف مڑ جانے کی وجہ سے انجن کے پہیّے پہنچنے سے قاصر تھے۔ مگر میری توجہ کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے ماتادین بولا۔

’’مالک… اسے بیری بیری ہو گئی ہے۔ شاید مجھے یہ نوکری چھوڑنے پڑے۔‘‘

’’بیری بیری‘‘؟ میں نے اپنے شانو کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔‘‘ میں نہیں جانتا بیری بیری کیا ہوتی ہے؟‘‘

ماتادین بولا۔ ’’آپ بیری بیری بھی نہیں جانتے … آپ سے پڑھے لکھے آدمی نہ جانیں گے تو اور کون جانے گا؟‘‘

… اور ایک مستعا ر سی مسکراہٹ ماتادین کے چہرے پر لڑھکنے لگی۔ اس نے اپنی پھٹی ہوئی دھوتی کے ایک پلّے کو کمر سے نکالا اور کپڑے کی کئی تہوں میں سے کاغذ کے ایک خستہ ٹکڑے کو برآمد کرتے ہوئے میرے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ لال جی بھارتی جی خیراتی ہسپتال کی تشخیصی پرچی تھی۔ مرض کا نام بیری بیری لکھا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ پٹھوں میں ورم ہو جانے کو بیری بیری کہتے ہیں، اور یہ مرض خوراک میں حیاتین ’ب‘ کے کافی مقدار میں موجود نہ ہونے کا لازمی نتیجہ ہے۔

’’تو کیا من بھری کے پٹھوں میں ورم ہو چکے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

ماتادین نے انگوٹھے اور اُنگلی سے ایک بڑے سے سوراخ کی شکل پیدا کرتے ہوئے کہا۔ ’’اِتے بڑے … سرکار۔‘‘

میرے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔

ماتادین کہنے لگا۔ ’’اُسے کھوراک اچھی نہیں ملتی … ڈاک ٹرکی رپٹ دیکھی ہے نا آپ نے؟ اس نے گول مانس، انڈے، مکھن اور پنیر کھلانے کے لیے کہا ہے۔‘‘

اس وقت میں سوچنے لگا۔ بھلا روکھی سُوکھی دال چپاتی میں سے من بھری کیوں کر حیاتین ’ب‘ اخذ کرسکتی ہے۔ اگرچہ کوری، کرمی اور نیچ ذات کے پوربی لوگ گوشت کھا لیتے ہیں، مگر ماتادین پٹھوں کا نرم نرم گوشت، انڈے، مکھن، پنیر، ٹماٹر اور اس قسم کی امیرانہ خوراک کہاں سے مہیّا کرے گا۔ جہاں تک میرا خیال تھا، اس نے تو عرصہ سے سبزی بھی استعمال نہ کی تھی اور اپنے گانو سے کسی بھائی بند کے ہاتھ مسور کی دال منگوا رکھی تھی، جسے وہ صبح و شام کھاتا تھا۔ تبھی تو اُسے دانتوں کی سکروی (SCURVY) تھی۔ سکروی، خوراک میں حیاتین ’ج‘ کے مفقود ہونے کا نتیجہ ہے۔ اس کے مسوڑھے بہت زیادہ پھول کر ٹیڑھے میڑھے دانتوں کو چھوڑ رہے تھے۔ میں نے کہا۔ ’’خواہ کسی ماتادین یا گنگادین کی جورو من بھری سے زیادہ خوبصورت ہو اور کوئی اس کے لیے ماتادین سے زیادہ جفاکشی کرے، مکھن، پنیر کی سی خوراک مہیّا نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد میں اس ڈاکٹر کی حماقت پر ہنسنے لگا جس نے بیری بیری کا نام ماتادین کے ذہن نشین کرا دیا تھا اور اس قسم کی خوراک بطورِ علاج لکھ دی تھی۔ ماتادین کے بیان کے مطابق ڈاکٹر کا اپنا رنگ ’سنگرپھی‘ (شنگرفی) ہو رہا تھا۔ کوئی جانے کھُون پھٹ کر باہر آ جائے گا ۔ ڈاکٹر نے ماتادین کو وہ دوائی کی بوتل بھی دکھائی تھی ، جس میں حیاتین ’ب‘ کا جزو کافی مقدار میں موجود تھا۔

یکایک مجھے یاد آیا، ماتادین کام چھوڑنے کے متعلق کہہ رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔

’’تم یہاں سے کام چھوڑ دو گے … کہاں جاؤ گے ماتادین؟‘‘

’’چھاؤنی میں مالک! … وہاں ڈنڈی دار کے پاس مُلاجم ہو جاؤں گا… ڈنڈی دار تمھاری طرح مہربان ہے۔‘‘

پھر ماتادین نے بتایا کہ ایجرٹن اور ایبٹ روڈ کی مرمت سے پہلے جب کہ لاٹ صاحب کا دفتر بن رہا تھا، وہاں ماتادین اور من بھری کام کر رہے تھے۔ ڈنڈی دار اُدھر آ نکلا۔ دھوپ میں بیٹھی ہوئی من بھری کو دیکھ کر ماتادین سے بولا۔’’اس بے چاری کو کیوں تکلیف دیتے ہو، میرے ساتھ چھاؤنی چلو، اسٹور میں بہت سے قلی چاہئیں۔ تمھیں رکھ لیں گے۔ پیسے اچھّے مل جائیں گے۔‘‘

پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا۔

’’اس نے خوراک دینے کا بھی وعدہ کیا مالک … اسٹور میں کام کرنے والے ڈنڈی دار آنکھ بچا کر وہاں سے بہت کچھ اُڑا سکتے ہیں۔ میس(MESS) میں سے پنیر، انڈے وغیرہ بھی لے سکتے ہیں۔ کم ازکم راشن میں سے تو کچھ نہ کچھ اُن کے پلّے پڑہی جاتا ہے۔‘‘

میں نے سوچا، شاید ماتادین کو وہاں سے حیاتین ’ج‘ بھی مل سکیں اور اس کی سکروی بھی دور ہو جائے۔ میس میں کاہو، گوبھی، کرم کلا، شلجم، رام ترئی سبھی کچھ تو آتا ہے۔

ایک محنتی مزدور کو کھو دینے پر ضرور رنج ہوتا ہے۔ مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ ماتادین کو کسی صورت بھی اس کے ارادہ سے باز رکھوں۔کون جانے من بھری کی بیری بیری کا علاج ہو جائے اور پھر وہ بھی ’’سنگرپھی‘‘ ہو جائے۔

چند دنوں بعد میں عرفانی کا معتبر ملازم ہو گیا۔

ایک پُرانے قبرستان میں ہمارے بزرگوں کی ہڈیوں اور ایک مسمار سی گڑھی کے کھنڈروں میں سے ایک سرکاری عمارت آہستہ آہستہ سر اٹھانے لگی۔ میرے ہاتھ میں وہی پُرانا ٹیپ تھا۔ بسااوقات مجھے بنیادوں کے اندر گھس کر کھدائی کی پیمائش کرنی ہوتی اور کبھی کندہ کاروں اور سنگ تراشوں کے کام کا جائزہ لینا ہوتا۔

عرفانی نے تمام بچّوں والی عورتوں کو کام سے علاحدہ کر دیا تھا۔ جو عورتیں ملازم رکھی گئی تھیں، وہ پیسے کم لے کر مردوں کے برابر کام کرتی تھیں۔

جب سرکاری تعمیر کی چھت پر لنٹل ڈالنا پڑا، تو چند ایک مزید مزدوروں کی ضرورت لاحق ہوئی۔ یہ کام عرفانی نے میرے سپرد کیا۔ مجھے چند محنتی اور ایماندار مزدوروں کی ضرورت تھی۔ میں نے جمعدار رام اوتار سے ماتادین کا پتہ پوچھا۔ کانے جمعدار نے مشکوک نگاہوں یا نگاہ سے میری طرف دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے ماتادین کا پتہ بتا دیا اور میں اس کی تلاش میں چھاؤنی جا پہنچا۔

شام کا وقت تھا۔ صدر بازار کی بجلیاں ابھی روشن نہ ہوئی تھیں۔ ایک گہرا دھواں مزدوروں کی گنجان بستی لال کُرتی اور فالور لائینز پر چھایا ہوا تھا اور وقت سے پہلے تیرگی پیدا کر رہا تھا۔ بڑی دِقت کے بعد مجھے ماتادین کی جھونپڑی ملی۔ ایک بیٹھے ہوئے چھپر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا تھا اور جھونپڑی میں ماتادین گڑ گڑی سلگا تمباکو پی رہا تھا۔ ایک خاص قسم کی بُو سب طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ماتادین کے قریب، ایک رکابی میں کوڑی بھر مکھن پڑا تھا۔ ایلومینم کی ایک تھالی میں ایک بڑا سا گوبھی کا پھُول رکھا تھا اور پھول میں سے ایک سنڈی کچھ چپ چپا، لسلسا سا لعاب اپنے پیچھے چھوڑتی ہوئی تھالی کے کنارے کنارے رینگ رہی تھی۔

حیاتین ’ج‘ سے تہی ایک مسکراہٹ ماتادین کے ٹیڑھے میڑھے دانتوں اور پھُولے ہوئے مسوڑھوں کو دکھانے لگی۔ عین اُس وقت جھونپڑی کے اندر سے کراہنے کی آواز آئی۔

میں نے جھونپڑی کے اندر ایک تاریک سے کمرے میں جھانکا۔ اس کمرے میں     من بھری پڑی تھی۔ وہاں ہوا اور روشنی کی پہنچ نہ تھی۔ میں نے کہا، مہربان ڈنڈی دار کی مہربانی سے من بھری کو خوراک تو اچھی مل جاتی ہے۔ ممکن ہے اسے بیری بیری سے نجات حاصل ہو جائے تو بھی اس قسم کی فضا میں ضرور وہ کسی اور خوفناک بیماری کا شکار ہو جائے گی۔ دنیا میں خوراک ہی سب کچھ نہیں ،روشنی بھی تو ہے۔ کھلی ہوا ہے … اور دق ہے۔

یک لخت روشنی سے اندھیرے میں چلے جانے پر مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ پھر آہستہ آہستہ من بھری کا سہما ہوا چہرہ اور مسلوب جسم نظر آنے لگا۔ اپنے کتابی اور سنگِ یشب کی طرح زرد چہرے کے ساتھ من بھری ہوبہو اس مصری لاش کی مانند دکھائی دیتی تھی، جس پر ابھی ابھی حنوطی عمل کیا گیا ہو، اور جسے نسلوں تک محفوظ رکھے جانے کے لیے ممی میں اُتارا جانا ہو۔

ماتادین نے گڑ گڑی کا ایک لمبا کش لگایا اور برتن میں سے سنڈی نکال کر باہر پھینک دی۔ گوبھی کو چیرا، اور مصالحہ بھونتے ہوئے اُسے تسلے میں ڈال دیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی جورو کے بیمار ہونے کی وجہ سے ڈنڈی دار اُسے بہت کم کام دیتا ہے، تمام قلی، افسروں کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، مگر اسے افسروں کے نزدیک جانے کا کام ہی نہیں دیا جاتا۔ اسٹور کیپر، ڈنڈی دار کا سگا ماموں ہے۔ راشن میں سے سب کچھ مل جاتا ہے۔ آخر ڈنڈی دار کتنا اچھا آدمی ہے۔ ایسے چند آدمیوں کے سہارے ہی تو دنیا جیتی ہے۔

پھر میرے قریب آتے ہوئے ماتادین بولا۔ ’’ایک کھُسی کی خبر سناؤں مالک؟‘‘

… اور پھر میرے کان کے قریب منھ لاکر بولا۔’’وہ امید سے ہے۔‘‘

ماتادین کے بیان کے مطابق ساڑھے تیرہ برس بیاہ کو آئے تھے اور اُس وقت تک اولاد کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ میری دانست میں تو یہ ماتادین کی خوش قسمتی تھی۔ غریب طبقہ کے لوگ عموماً کثرتِ اولاد سے نالاں ہوتے ہیں۔ ان کے لیے تو ایک بچہ بھی بوجھ ہو سکتا ہے، مگر ماتادین خوش تھا۔ میں نے سوچا شاید من بھری پہلے سے بھی زیادہ بیمار ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کی کچھ بیماریاں قدرتی طور پر دور ہو جائیں۔ بہر صورت من بھری کے عرصہ تک بیمار رہنے یا زچگی میں ماتادین کو اکیلے ہی گھر کا جُوا اٹھانا پڑے گا۔علاوہ اس کے خرچ بھی دوگنا ہو جائے گا۔

ماتادین کی اس عجیب و غریب زندگی میں کھوکر میں اپنے کام کو بھی بھول گیا۔ میں نے کہا، ڈنڈی دار کی مہربانی سے ان لوگوں کو حیاتین ’ب‘ اور ’ج‘ دونوں مل جاتے ہیں۔ ان کی خوشی … بچے کی امید بھی شاید حیاتین ’ب‘ کا کرشمہ ہے اور بچے کو بھی اس کے مقدر کا سب کچھ مل جائے گا۔ اب وہ عرفانی کی مزدوری نہیں کرے گا۔ اُسے پروا ہی کیا ہے۔ میں نے اس کے سامنے مزدوری کا تذکرہ ہی نہ کیا۔ گویا میں اُسے یوں ہی دیکھنے آیا تھا۔

عرفانی کا مال و اسباب شہر میں لے جانے کے لیے چھکڑوں میں سے دو ایک بیل زخمی تھے، پھر بھی ان سے برابر کام لیا جا رہا تھا۔ انجمن تحفظ جانوراں کے ایک افسر نے گاڑی بانوں کا چالان کر دیا۔ اس قضیہ کو نمٹانے کا کام بھی میرے سپرد کیا گیا اور میں انجمن کے ایک افسر کو رشوت دینے میں مصروف تھا۔

ایک طرف سے ماتادین ہانپتا ہوا آ نکلا۔ وہ بہ مشکل پہچانا جاتا تھا۔ اس چند ماہ کے عرصہ میں اس کی شکل یکسر تبدیل ہو گئی تھی۔ اس کے دانت زیادہ گھناؤنے ہو گئے تھے اور اپنے سامنے کھڑے ہوئے آدمی کا چہرہ اچھی طرح دیکھنے کے لیے وہ بار بار آنکھیں جھپکاتا تھا۔ پہلے تو وہ چند لمحات مجھے غور سے دیکھتا رہا، پھر میری آواز کو پہچان کر بولا۔

’’مالک! … رام اوتار کے کہنے پر یہاں آیا ہوں۔وہ کہتا تھا ، آپ کو مجوری چاہیے۔ میرا چھوٹا بھائی آپ کے پاس کام کر ہی رہا ہے۔ مجھے بھی رکھ لو۔‘‘

میں اپنی جگہ پر سے اُچھل پڑا۔ بھلا دو ٹکیوں میں کام کیے جانے والے ماتادین کو کون مزدور نہ رکھے گا۔ لیکن میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’کیا ڈنڈی دار کا راشن ختم ہو گیا ہے؟‘‘

ماتادین کچھ نہ بولا۔

’’کیا تمھیں خوراک نہیں ملتی اب؟‘‘ میں نے دوسرا سوال کیا۔

ماتادین آنکھیں جھپکتا ہوا انجمن تحفظِ جانوراں کے افسر کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ افسر جان گیا کہ یہ مزدور کچھ کہنا چاہتا ہے، مگر اس کی موجودگی نہیں چاہتا۔ وہ خود بخود وہاں سے ہٹ گیا اور ایک کچی دیوار کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگا۔ ماتادین بولا …

’’کیا کہوں مالک! … ڈنڈی دار نے تو ہماری جندگی برباد کر دی۔ کسی کی سکل سے کوئی کیا جانے۔ بڑا بدماس تھا۔ جب مجھے کام کرتے ہوئے چند روز ہو گئے تو کہنے لگا قلیوں نے اسٹورکیپر کو شکایت کر دی ہے، پھر بھی میں تمھیں تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ تمھیں سب کچھ گھر پہنچا دیا کروں گا۔ دو تین دفعہ گھر پہنچا، تو وہ مجھ سے پہلے وہاں موجود تھا۔‘‘

’’اور من بھری کہاں تھی‘‘؟ میں نے دم روکتے ہوئے کہا۔

’’وہ بھی اندر تھی… سیدھی سادھی عورت … جھانسے میں آ گئی۔ سرکار ہم اِجت والے آدمی ہیں۔ جب میں نے کھری کھری سنائیں تو ڈنڈی دار نے کھوراک دینی بند کر دی، اور دوسروں سے تگنا کام لینے لگا۔ اپھسر جھڑکنے لگے۔ قلی تنگ کرنے لگے۔ میں نے اس کی مجوری چھوڑ دی اور گودام میں کام کرنے لگا۔‘‘

پھر ماتادین نے اپنا شانہ برہنہ کیا۔ اس پر ایک بڑے سے زخم میں چربی دکھائی دے رہی تھی۔ ماتادین نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ بعد میں میس کی بوریاں اُٹھانے سے ہوا… میری جان ہی تو نکل جاتی اگر میں وہاں سے ملاجمت نہ چھوڑتا … میں نے بدنامی بھی سہی مالک … لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔‘‘

انجمن تحفظِ جانوراں کا انسپکٹر قریب آچکا تھا۔ میں نے پانچ کا ایک نوٹ اس کی مُٹھی میں دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ تمام کام ٹھیک ٹھاک کر دینے کا وعدہ دیا۔ اس وقت مجھے من بھری کے ہونے والے بچے اور اُس کے مستقبل کے سوا اور کچھ نہ سوجھتا تھا۔ ماتادین کا برہنہ شانہ اب بھی میرے سامنے تھا۔ میں نے انجمن تحفظِ جانوراں کے انسپکٹر کو ماتادین کا شانہ دکھاتے ہوئے پوچھا۔’’کیا آپ کا محکمہ ایسے ظلم کا انسداد نہیں کرتا؟‘‘ انسپکٹر صاحب نے جیب میں پانچ کا نوٹ ٹٹولتے، اور اپنے پالش کیے ہوئے بوٹوں پر چھڑی مارتے ہوئے کہا۔ ’’چودھری صاحب قبلہ … وہ تو صرف جانوروں کے لیے ہے‘‘ … اور میں نے ماتادین کو مزدور رکھ لیا۔

سڑکوں اور عمارتوں کے چیف انجینئر نے عرفانی کی بنائی ہوئی ایجرٹن روڈ ناقص قرار دی۔ چیف انجینئر کے ساتھ رشوت نہ چل سکی اور ایک دفعہ پھر ایجرٹن روڈ پر ’روڈاپ‘ کے بورڈ رکھ دیے گئے۔

پھر نرسری میں چند ایک چھوکرے سڑک پر سے کنکر اٹھا اٹھا کر اور انھیں ہوا میں چھوڑتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ وہ گوپھیے کو چھوڑتے ہوئے اونچی آواز سے اللہ اکبر پکارتے سنائی دیتے تھے … ماتادین کا چھوٹا بھائی منیسر کام کرنے کے بعد دو ایک کولتار کے خالی ٹینوں کے پیچھے پڑ کر سستانے لگا۔ روڈاپ کو پھلانگتے ہوئے میں اس کے پاس پہنچا۔ میں نے چلاّتے ہوئے کہا۔ ’’ہے … منیسر۔‘‘

منیسر گھبرا کر بولا۔ ’’مالک!‘‘

’’ہاں … مالک!‘‘ میں نے کہا ۔ ’’سستارہے تھے نا؟ اور ماتادین کہاں ہے؟ اُس کی چار دن سے غیر حاضری لگ رہی ہے۔‘‘

منیسر نے دبی آواز سے کہا … ’’ماتادین حوالات میں ہے سرکار۔‘‘

… میں اپنی جگہ پر سے اچھل پڑا۔ ’’حوالات میں؟‘‘

منیسر نے بتایا کہ ماتادین نے ایک ڈاکٹر کے ہاں چوری کی اور بھاوج کو ایک سفید دوائی پلائی۔ بعد میں پکڑا گیا۔ پولِس آئی تو ڈبہ گھر میں ملا۔ بھاوج اس میں سے آدھی دوائی کھا چکی تھی… میں سب کچھ سمجھ گیا۔ میں نے گھوم کر کام کرتی ہوئی عورتوں کی طرف دیکھا۔ مجھے وہ سب کی سب بیمار دکھائی دینے لگیں۔ گویا انھیں بڑے بڑے ورم ہو رہے ہوں۔ میرے تصور میں   من بھری کا سنگِ یشب کی طرح زرد چہرہ ظاہر ہو گیا۔ مجھے ماتادین سے بہت دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ میں حوالات میں گیا، تو دیکھا کہ ماتادین مسکرارہا تھا اور اُس کی مسکراہٹ مستعار نہ تھی۔ اُسے اپنی قید کی رتّی بھر بھی پروا نہ تھی۔ وہ خوش تھا کہ اُس کے ورم درست ہو جائیں گے۔ وہ خوش تھا کہ منیسر کے ہاں وہ آرام سے رہ کر ایک تندرست بچّہ کو جنم دے گی … مگر ماتادین کیا جانے کہ شدّتِ غم سے من بھری کا حمل گِر چکا ہے۔ وہ منیسر کے بازوؤں میں زندگی کے آخری سانس لے رہی ہے اور خون سے منیسر کی جھونپڑی کی تمام زمین شنگرفی ہو رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

لچھمن

 

 

 

لچھمن نے کنوئیں میں سے پانی کی سترہویں گاگر نکالی۔ اس دفعہ پانی سے بھری ہوئی گاگر کو اُٹھاتے ہوئے اُس کے دانتوں سے بے نیاز جبڑے آپس میں جم گئے۔ جسم پر پسینہ چھوٹ گیا۔ اُس نے داہنے ہاتھ سے نندو کی بہو … گوری کی گاگر کو تھاما اور چرخی پر اڑی ہوئی رسّی کو دوسرے ہاتھ سے اُتارا۔ ایک دفعہ چوکسی اور بیم د رجا سے تیس فٹ گہرے کنوئیں میں جھانکا۔ اپنے شانوں کو جھٹکا دیا۔ جبڑوں کو دبایا تو گال کچھ پھول سے گئے۔ لچھمن نے پھر غور سے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھا۔ ہتھیلی میں سے ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔ انگلیوں کے نیچے آج کچھ نئے نئے سرخ سے نشان بن رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ نشان آج دوپہر تک اُبھرتے ہوئے ایذا رساں آبلے بن جائیں گے اور شرادھ کی کھیر کھانے کے لیے اُس کی اُنگلیاں یک جا نہ ہو سکیں گی،تاہم نصرت کی ایک ہلکی سی سرخی اُس کے چہرے پر پھیل گئی۔ اُس نے کاٹھ گودام کی اُن بہو بیٹیوں کی طرف دیکھا اور ہانپتے ہوئے بولا۔

’’رام کالی … آج شرادھ ہے کس کا؟‘‘

نندو کی بہو آگے بڑھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے گھونگٹ کو چوٹی کی طرف کھسکایا، کولھے پر سے دھوتی کا پلّو سرک گیا۔ اُس نے احتیاط سے ایک پلّو سینہ پر ڈالا اور لجاتی ہوئی بولی۔ ’’میرے باوا کا … اور کس کا ہو گا؟‘‘

… اور پھر سب عورتیں لچھمن کی تعریف کرنے لگیں … ’’بہت بہادر آدمی ہے لچھمن۔ راٹھور ہے نا، دوسری بولی۔ لچھمن کا بیاہ ہو گا۔ میں اُس کی گھوڑی گاؤں گی۔گھوڑی کی باگ تھاموں گی۔ جوڑا گانو میں اس کی ماں کے میکے ہیں۔ میری ماں کے میکے بھی جوڑا گانو میں تھے۔ میں لچھمن کی بہن ہوئی نا۔ اور ایک کہنے لگی۔ ’’مجھے تو بھاوج کا رشتہ ہی پسند ہے۔ میں اس کی آنکھوں میں سلائی ڈالوں گی۔ میری گاگر بھری تو کیا احسان کیا؟ دیور ،بھابیوں کے سینکڑوں کام کرتے ہیں۔ گوری بہو ! چڑھے پوہ کوئی ساہا نکلے۔ گلابی سی سردی ہو۔ بڑا مزار ہے گا۔ اس سال نہ بھی ہو تو جلدی کاہے کی ہے۔ لچھمن بھائی کوئی بوڑھا تھوڑے ہی ہو گیا ہے …‘‘

… اور لچھمن کی عمر پچپن برس کی تھی۔ سترہویں گاگر نکال چکنے کے بعد اُس نے اپنے پھولتے ہوئے بازوؤں کی طرف دیکھا اور پھر کنکھیوں سے نندو کی بہو گوری کی طرف …     کاٹھ گودام کے سب آدمیوں نے گوری کے حسن کی تعریف توسُنی تھی،مگر لچھمن کے سوائے اسے جی بھر کر کسی نے نہ دیکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر لچھمن کو یاد نہ رہا کہ اس کے ہاتھوں پر ان ہی بڑی بڑی، مست، نیم وا آنکھوں نے کوئلے سے دھر دیے ہیں اور وہ عورت جس کے جوڑا گانو ننہال تھے، اُس کی ماں کو جب لچھمن کے باپ نے سالی کہا تھا، تو اچھا خاصا کوروکھشیتر چھڑ گیا تھا ۔ اور اسی کنوئیں پر جب اس نے ایک دفعہ بھابی کا آنچل تھاما، تو بھائی نے اس کی ناک توڑ دی تھی … دفعتاً لچھمن نے اپنے آپ کو ایک بڑی سی آنکھ بنتے دیکھا، جس میں گورے گورے بازو، جھنکارتے ہوئے پازیب، سرکتے ہوئے پلّو اور نہ جانے کیا کچھ سما گیا۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے یکے بعد دیگرے تیس بوجھل سے غلاف آہستہ آہستہ اُس کے جسم پر سے اُتر گئے ہوں۔ وہ اپنے آپ کو پچیس برس کا نوجوان سمجھنے لگا۔

لچھمن نے سوچا۔ اوّل تو عورتیں بہادری کو پسند کرتی ہیں، کیونکہ ان میں اس مادّہ کا فقدان ہوتا ہے، اور دوسرے وہ اس مرد کی طرف مائل ہوتی ہیں جو عورت کے سامنے مرد کی فطری کمزوری کو ظاہر نہ ہونے دے۔ دوسرے لفظوں میں محبت میں بس کر بھی اظہارِ تعشق نہ ہو، کیونکہ دوسری طرح بات کچھ عام سی ہو جاتی ہے۔ آج کنوئیں پر چھوٹی بڑی اس کی بہادری کا سکّہ مان گئیں۔ آج تو وہ بالکل شبدسروپ ہو گیا تھا، تبھی تو سب رادھائیں اس کی طرف کھچی چلی آتی تھیں۔ مگر اُس نے کمزور کم ظرف آدمی کی طرح ان کی طرف ضرورت سے زیادہ متوجہ ہو کر اپنے مردانہ وقار کو کم نہیں کیا اور … سترہ گاگریں؟سمر سنگھ کی جان نکل جائے، گوری تو ضرور اُٹھتی بیٹھتی یہی سوچتی ہو گی کہ میرا شوہر لچھمن کے مقابلہ میں کس قدر نالائق اور کمزور ہے … کاش میں لچھمن کی بیوی ہوتی!اگرچہ آج ان عورتوں میں سے ایک خود بخود بہن اور دوسری بھاوج بن گئی ہے۔ اس وقت لچھمن پل بھر کے لیے بھی یہ نہ سوچ سکا کہ کوروکھشیتر، کس طرح بپا ہوا تھا اور اس کی ناک کیوں توڑ دی گئی تھی۔ لچھمن نے نہ جانا کہ وہ کھوکھلی سی آوازیں صرف گاگریں نکالنے کی قیمت ہیں۔ اگر گھونگٹ کو ذرا سا چُٹیا کی طرف سرکا دینے سے شرادھ کے لیے ساراپانی مل جاتا ہے، تو کسی کا بگڑتا ہی کیا ہے۔ عورتیں اپنی آنکھوں کی ہیرا پھیری سے سینکڑوںکام سدھ کر لیتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سترہ گاگریں تو اکیلی گوری کے حُسن کی جھلک کی قیمت ہے اور محض ادنیٰ سی قیمت … اور وہ مست آنکھیں!… وگر نہ کون بھابی ہے اور کون دیور؟ گوری بھی ایک مایا ہے اور مایا ہی رہے گی!

کاٹھ گودام کے سبھی لوگ جانتے تھے کہ لچھمن کو بابا کے نام سے پکارنا کتنا خطرناک کام ہے۔ لچھمن بُری سے بری گالی برداشت کرنے کی قوت رکھتا تھا، مگر بابا کا لفظ اُس کے دماغی توازن کو مختل کر دیتا۔ بابا کے جواب میں تو بابا، تیری ماں بابا، تیرا بابا بابا اور اس قسم کی ہذیان بکتا اور بڑے بڑے پتھر پھینکتا۔ وہ ابھی اپنے آپ کو چھوکرا کیوں سمجھتا تھا؟ اسے کھٹکا سا لگا ہوا تھا کہ اگر وہ بوڑھا ہو گیا تو کون اسے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے چلے گا۔ چھوٹے چھوٹے لڑکے بابا لچھمن … بابا لچھمن کہہ کر تماشا دیکھتے، مگر وہ اپنے تجربہ کی خوفناک نوعیت سے واقف تھے۔ زور سے بابا کہہ چکنے کے بعد وہ کاٹھ گودام منڈی کی بوریوں کے پیچھے یا اس کی تنگ گلیوں میں غائب ہو جاتے۔

جب کوئی کہتا کہ مالک رام کے بیاہ کی تاریخ 15؍ پھاگن مقرر ہوئی ہے، تو لچھمن ایک اضطراب کے عالم میں سن باٹنی چھوڑ دیتا۔ اپنی لاٹھی کو اُٹھا کر زور سے زمین پر پٹکتا اور کہتا۔

’’ہاں بھائی! … 15 ؍ پھاگن۔‘‘

دوسرا کہتا ۔’’ہاں بھائی … ہم نہ بیا ہے تو کیسے ساہے؟‘‘

لیکن لوگ اُسے خوش کرنا بھی جانتے تھے۔ کوئی کہتا، لچھمن!آج تو تیرے چہرے پر سولہ برس کے جوان کا روپ ہے۔ ارے بھائی! ردھیا کی چھوکری جوان ہو رہی ہے۔ ایسی ہی جوان ہے، جیسے تم ہو۔ خوب میل ہے، بڑا جوڑ ہے۔ اگر تم اُسے حاصل کرسکو تو کتنا مزا رہے۔

لچھمن جوانی میں حبسِ بے جا اور اغوا کی سزائیں کاٹ چکا تھا، اس لیے وہ خاموشی سے دو تین بار ردھیا کی بیٹی کا نام لیتا، اور ذہن میں سینکڑوں بار … اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، … ردھیا کی بیٹی … ردھیا کی بیٹی … دہرائے جاتا، حتیٰ کہ اُس کی داڑھی میں کھجلی ہونے لگتی۔

کاٹھ گودام ایک چھوٹا سا گانو تھا۔ آٹھ نو سو کے لگ بھگ گھر ہوں گے۔ تحصیل سے ایک کچا راستہ کیکر اور شیشم کے تناور درختوں کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا چند میل جا کر ایک بڑے سے بڑ کے نیچے یک دم رُک جاتا۔ عام طور پر مسافر وہاں پہنچ کر ششدر رہ جاتے ۔ انھیں یو نہیں دکھائی دیتا، گویا راستہ اس سے آگے کہیں نہ جائے گا۔ یعنی باوجود زمین کے گول ہونے کے کاٹھ گودام دنیا کا ٹرمینس ہے۔ بات دراصل یہ تھی کہ بڑ کی بڑی بڑی داڑھیوں میں سے ہو کر تین چھوٹی چھوٹی گلیاں گانو میں داخل ہو جاتی تھیں۔ چند خستہ حالت کے کچّے مکانوں ، ایک آدھ چھوٹی اینٹ کی عمارت جس میں بورڈ کا ایک پرائمری اسکول تھا، شاہ رحیم کی قبر اور کالا بھیرو کے مندر کے گرد گھوم کر تینوں گلیاں پھر گانو کے مشرق کی طرف ایک کشادہ سی سڑک سے مل جاتی تھیں۔ کالا بھیرو کے مندر کے قریب کالے کالے کتے گھومتے رہتے تھے،اور ان کی آنکھوں سے غصّہ اور دانتوں سے زہریلا لعاب ٹپکتا تھا۔ کالا بھیرو شوجی مہاراج کے اوتار گنے جاتے ہیں۔ اُن کی رفاقت میں ہمیشہ ایک سیاہ فام کتا رہا کرتا تھا، اس لیے کالا بھیرو مندر کے پجاری چپڑی ہوئی روٹیوں اور پوریوں وغیرہ سے سیاہ فام کتوں کی خوب تواضع کیا کرتے تھے۔ اس قسم کے کتّے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، اور سرکاری آدمیوں کو اُنھیں ’’گولی‘‘ ڈالنے کی مجال نہ تھی۔ کُتے مفت کی کھاتے تھے اور موٹے ہوتے جا رہے تھے۔ کاٹھ گودام میں داخل ہونے والے راستہ کے پاس بڑ کے ایک تنے کے نیچے لچھمن بیٹھا کرتا تھا۔ وہ تین کام کرتا تھا۔ اوّل تو ہر ناواقف مسافر کو کالا بھیرو والے راستہ سے گزرنے کی ہدایت کر کے کتوں سے بچاتا۔ دوسرے اُسے اپنے کنوئیں کا شیریں اور مصفا پانی پلاتا اور تیسرے زندگی کا گزارا کرنے کے لیے سن کی رسیاں باٹتا۔

کبھی کبھی کوئی انجان مسافر بڑ کے نیچے لچھمن کو چہرے سے درویش صورت پاکر نہایت تپاک سے پوچھتا۔ ’’پانی پلاؤ گے بابا؟‘‘ تو لچھمن فوراً لاٹھی اُٹھا لیتا اور کہتا ۔ ’’بیٹی کا رشتہ تو نہیں مانگتا جو مجھے بابا سمجھتے ہو۔ اسی کنوئیں سے اس دن سترہ گاگریں پانی کی کھینچی تھیں۔ تمھارے گانو کی سب عورتوں کو اپنے دام میں گرفتار کرسکتا ہوں۔ سمجھتے کیا ہو۔ اس بات کو وشنو عطار جانتا ہے … سارا محلہ جانتا ہے، گانو جانتا ہے…‘‘ اور کالا بھیرو کے تمام کتے مسافر پر چھوڑ دیتا۔ اُس بیچارے کی خوب ہی آؤ بھگت ہوتی۔ حتیٰ کہ وشنو عطار یا بازار کا کوئی اور دُکاندار مسافر کو اُس کی غلطی سے آگاہ کر دیتا، اور اگر وہ اپنے گانو سے اُس کے لیے کسی میگھو، جنک دلاری یا ردھیا کا رشتہ لا دینے کا خیال ظاہر کرتا تو اُس کی مٹھی چاپی ہوتی۔ بستر بچھا بچھایا استراحت کے لیے مِل جاتا اور لچھمن پوچھتا۔

’’گانجا لاؤں چاچا … کالا بھیرو کا گانجا تو دُور دور مشہور ہے۔ سبھی لوگ جانتے ہیں۔ تم نہیں جانتے کیا؟‘‘

کبھی کبھی وشنو اور کاٹھ گودام کی چھوٹی سی منڈی کے لوگ دُور سے کسی مسافر کو آتا دیکھتے، تو وہ کہتے ۔ لچھمن بھائی، دیکھو وہ کوئی تمھیں دیکھنے کے لیے آ رہا ہے۔ شاید سیتا موہری کا باپ ہے۔ سیتا موہری جوڑا گانو کے نمبردار کی لڑکی ہے۔ بہت خوبصورت۔ ذرا سنور جاؤ۔ ہاں! یوں، لچھمن پہلے تو گانجا کا کش لگاتے ہوئے کہتا … او بھائی … لچھمن توجتی ہے۔ جتی ہونا کتنی اُونچی اوستھا ہے … مگر پھر فوراً ہی لچھمن اپنی دھوتی اور پٹکے کے بل درست کرنے لگ جاتا، اور عطار کی دُکان پر دھوکر ٹنگی ہوئی قمیص پہن کر جلدی جلدی اُس کے بٹن بند کر لیتا اور پھر باوجود نہایت ہوشیاری سے کام لینے کے، اُس کی داڑھی میں کھجلی ہونے لگتی۔

وشنو عطار کی وساطت سے لچھمن کو کالا تیل مل گیا تھا۔ کم از کم لچھمن کو اس دوائی کا نام کالا تیل ہی بتایا گیا تھا۔ اس میں خوبی یہ تھی کہ برف کی طرح سپید داڑھی چند ہی لمحوں میں اُتّر سے آنے والی گھٹا کی طرح کالی ہو جاتی تھی۔ لچھمن تو عطار کی حکمت کا سکّہ مان گیا تھا۔ یہ وشنو ہی میں طاقت ہے کہ وہ پلک جھپکنے میں پچپن برس کے بڈھے کو بیس برس کا جوان بنا دے۔ لچھمن نے اس کے عوض کتنی ہی سَن کی رسّیاں باٹ کر وشنو کو سامان وغیرہ باندھنے کے لیے دی تھیں۔

وشنو کی دُکان پر کبھی گلقند کے لیے کھانڈ کا قوام پکایا جاتا اور کبھی عرق گاؤ زبان نکالا جاتا۔ ہر روز بھٹی جلتی تھی۔ کبھی کبھی بہت سے اپلوں کی آنچ میں کشتے مارے جاتے تھے اور کالے تیل کا غلام بنا ہوا لچھمن، وشنو کے سینکڑوں کاموں کے علاوہ بھٹی میں آگ بھی جھونکا کرتا تھا۔

لچھمن تھوڑا بہت پڑھنا جانتا تھا۔ وہ کبھی کبھی حیرت سے وشنو کی دُکان میں رکھے ہوئے ڈبوں پر جلی قلم سے لکھے ہوئے لفظوں کو پڑھتا۔ عقر قرحا، معجون سرنجان، خمیرہ آبریشم عناب والا، جوارش آملہ عنبری … اس کے علاوہ اور بھی کئی بوتلیں تھیں۔کسی میں عرق برنجاسف تھا اور کسی میں بادیان۔ ایک طرف چھوٹی چھوٹی شیشیاں پڑی تھیں جن میں کشتہ سنگِ یشب، شنگرف وغیرہ رکھے تھے۔ ان چھوٹی شیشیوں پر لچھمن کی نظریں جمی رہتی تھیں۔

چھٹے شرادھ کے دن لچھمن کو نندو کے ہاں پھر بلایا گیا۔ لچھمن نے کالا تیل ملا اور نندو کے ہاں جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اُس کی آنکھوں میں گوری کی تصویر بجلی کی طرح کوند کوند جاتی تھی۔ اگرچہ اس کے ہاتھوں پر ابھی تک آبلے دہکتے ہوئے کوئلوں کی طرح پڑے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ مگر گوری کی موہنی مورت اُس کے کلیجہ میں ٹھنڈک پیدا کر رہی تھی۔

لچھمن نے ریشمی پٹکا باندھا۔ یہ اسے کالا بھیرو کے ایک پروہت نے دیا تھا۔ پروہت جی کے جسم پر آبلے پھوٹ جانے پر لچھمن نے اُن کی بڑی سیوا کی تھی۔ جیٹھ، ہاڑ اور ساون تین مہینے سردائی، ٹھنڈائی وغیرہ رگڑ کر پلائی تھی۔ پروہت کو وہ پٹکا ان کی کسی معتقد عورت نے دیا تھا۔ پروہت کے ارد گرد عورتوں کا تانتا لگا رہتا تھا اور عورتیں انھیں تھالیوں میں سیدھا اور نہ جانے کیا کیا بھینٹ کرتیں۔ عقیدت ہی تو ہے۔

لچھمن نے پٹکا باندھا اور غرور سے وشنو کی دُکان کے شیشے میں اپنی پگڑی کو دیکھا۔ الماری میں لگے ہوئے شیشوں میں اسے اپنی شکل اور چند ایک گدھے دکھائی دیے۔ گدھے اس کی پیٹھ کی جانب کمہار کے برتنوں سے لدے جا رہے تھے۔ کاٹھ گودام کے تمام برتن پک کر تحصیل میں بکتے تھے۔ اور وہ گدھے تحصیل ہی کو جا رہے تھے۔ عطار کی الماری کے شیشے میں لچھمن کو اپنا عکس بہت ہی دھندلا سا نظر آتا تھا، مگر اس کے باوجود لچھمن جانتا تھا کہ یہ اس کا اپنا عکس ہے، اور وہ قریب تر کھڑے ہوئے گدھے کا … وشنو نے لچھمن کی امتیاز کر لینے کی قوت کی جی کھول کر داد دی۔

لچھمن نے گوری کے گھر جانے کے لیے قدم اُٹھایا تو اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے سارے جسم پر کوئلے ہی کوئلے دھر دیے گئے ہوں۔ کچھ دیر کے لیے ہاتھ کی جلن تو ختم ہو گئی، کیونکہ اس کا سارا جسم ہی ایک بڑا سا ہاتھ بن گیا تھا۔ لچھمن اٹھا، لڑکھڑایا، لیٹ گیا۔ چند لمحات کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں ۔اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے کنوئیں کی منڈیر پر سترہ گاگریں ایک قطار میں رکھی ہوں۔ اس نے آنکھوں کو ملا۔ دکان کے اندر لگے ہوئے جالوں، بھڑ کے دو تین چھتّوں اور ایک آرام سے لٹکتی ہوئی چمگادڑ کو دیکھا۔ اور پھر آنکھیں بند کر کے ہوا کو ایک چھوٹی سی گالی دی، کیونکہ وہ اس کے پٹکے سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی۔

گدھوں پر مزید بوجھ لادا جا رہا تھا۔ کمہار نے چھ ماہ کے عرصہ میں چار پانچ سو برتن، حقے کی چلمیں، راہٹوں کی ٹنڈیں بنا رکھی تھیں۔ پہیّہ اور پانوں دن رات چلتے رہتے تھے، اور کمہار کے جھونپڑے سے گنگنانے، کھنکارنے، تھوکنے، حقے کی گڑ گڑاہٹ اور ٹھپ ٹھپ کی آوازیں پیہم سنائی دیتی تھیں۔ گدھے تو بوجھ محسوس ہی نہیں کرتے تھے۔ گویا سارے کا سارا کاٹھ گودام اٹھا لیں گے۔ لچھمن نے دل میں کہا، یقینا یہ گدھے مجھ سے زیادہ بوجھ اُٹھا سکتے ہیں … اگرچہ سترہ گاگریں…

اس وقت کمہار نے آواز دی۔ ’’او گدھے کے بچّے!‘‘

لچھمن نے کہا، آخر وہ گدھے ہیں، اور میں آدمی ہوں۔ اگر یہ بات اُونچے کہی جاتی تو شاید وشنو ایک دفعہ پھر اس کی امتیاز کرنے والی غیر معمولی قوت کی داد دیتا … بازار میں ایک لڑکا، جسے کھانسی کی شکایت تھی، بڑے مزے سے کھڑا پکوڑے کھا رہا تھا، اور کھانسے جاتا تھا۔ اُس کے پاس ہی ایک نسبتاً چھوٹا لڑکا قمیص کا کف منھ میں ڈال کر چوس رہا تھا۔ کئی چھوکرے تحصیل سے منگوائی ہوئی برف کے گولوں پر لال لال شربت ڈلوا کر انھیں چاٹ رہے تھے۔ گلی میں چند عورتیں باتیں کر رہی تھیں۔ ایک کہتی تھی جب میرا چندو پیدا ہوا تو اُسی دن ہماری گائے نے بچھڑا دیا۔ اور وشنو پکوڑے والے سے پوچھ رہا تھا ،کیوں بھائی! اس دفعہ اردھ کمبھی پر نہ جاؤ گے؟ چھوکروں نے لچھمن کو دیکھا تو اس کا حلیہ عجیب ہی بنا ہوا تھا۔ ان کا لڑکپن کاک کی طرح تیر کر سطح پر آ گیا۔ لڑکے چلاّئے۔ ’’بابا لچھمن … بابا لچھمن!‘‘

لچھمن بوکھلا کر اٹھا۔ چھت پر چمگادڑ چکر لگانے لگے۔ دو تین بھڑیں بھنبھنانے لگیں۔ چارپائی کے پائے سے لچھمن کا گھٹنا ٹکرایا … اُسے ایک بڑا سا چکر آیا۔ لچھمن نے ہوا کو ایک گالی دی، چھینکا اور رونے لگا۔

گوری عرصہ تک نئے لچھمن کو دیکھ کر ہنستی رہی۔ اسے ایسے دکھائی دے رہا تھا، جیسے وہ لچھمن کے عجیب سے روپ کو دیکھ کر شرادھ تو کیا، اپنے پتروں تک کو بھول گئی ہے۔ بھیرواستھان کے پروہت بھی آئے ہوئے تھے۔ جب گوری ان کی تواضع کرتی تو لچھمن کے دل میں خلش سی محسوس ہوتی۔ پھر وہ اپنی کم ظرفی پر اپنے آپ ہی کو کوستا۔ جب پروہت چلا گیا تو گوری نے گھونگٹ چٹیا کی طرف سرکا دیا۔ عورتیں بچوں ، ہجڑوں اور بوڑھوں سے پردہ اُٹھا دیتی ہیں اور اُس نے لچھمن سے پردہ اُٹھا دیا تھا۔ لچھمن نے مشکوک نگاہوں سے گوری کو دیکھا۔ دل میں یہ فیصلہ کیا کہ محبت بھی تو کسی کو بے پردہ بنا دیتی ہے۔ گوری نزدیک آئی تو لچھمن نے یوں محسوس کیا جیسے اس کے وجود کا اسے قطعی علم نہیں، اور جوں جوں وہ بے اعتنائی ظاہر کرتا، گوری کھچی چلی آتی تھی۔ لیکن پھر سوچا کہ یہ سب کھچ کھچاؤ کالے تیل کی وجہ سے تھا۔

روٹی سے فارغ ہونے پر محلہ بھر کی عورتیں لچھمن کے گرد ہو گئیں۔ گوری ان سب کی ترجمانی کرتی تھی۔ بولی، ’’سترہ گاگریں! … بہن میں تو مان گئی لچھمن کو … اپنے مرد تو بالکل کسی کام کے نہیں۔ دو گاگریں اتنے گہرے کنوئیں سے نہ نکال سکیں۔ لچھمن راٹھور ہے، آدمی تھوڑے ہے … ان کے بڑوں نے ہماری تمھاری لاج رکھی تھی۔ اب کل کی ہی تو بات ہے۔ کتنی آن والے آدمی تھے راٹھور!‘‘

لچھمن کا منھ کان تک سرخ ہو گیا ۔ اس نے اپنی خوشی کو چھپانے کی کوشش کی، مگر ناکامیاب رہا۔ وہ عورت جس کے جوڑا گانو ننہال تھے اور جس سے گاگر کی بہن، کا رشتہ تھا۔ بولی ’’میں تو بھابی کے آنے پر خوب رنگ رلیاں مناؤں گی۔ ناچوں گی … گاؤں گی… سگری رین موہے سنگ جاگا۔ بھور بھئی تو بچھڑن لاگا … اور بھابی کتنی خوش ہو گی؟‘‘

’گاگر کی بھابی‘ بولی ’’میں نے تو اپنے لیے دیورانی ڈھونڈ بھی لی ہے۔‘‘ لچھمن کے کان کھڑے ہو گئے۔ جب بھابی نے کہا ،مجھے تو اس کا نام بھی معلوم ہے تو لچھمن بہت خوش ہوا۔ ضبط نہ کرسکا۔ بولا۔

’’کیا نام ہے بھلا اس کا؟‘‘

’’نام بڑا سندر ہے۔‘‘

’’کہو گی بھی؟‘‘

’’ذرا مزاج کی سخت ہے۔‘‘

’’میں جو نرم ہوں۔‘‘

’’گوری بھی جانتی ہے۔‘‘

’’کوئی کہے گی بھی؟‘‘

’’کاؤ دیوی!‘‘ گوری نے کہا۔

’’کاؤ دیوی؟‘‘ لچھمن نے پوچھا۔ دو دفعہ نام کو دہرایا اور ذہن میں سینکڑوں بار اس کا جاپ کیا ،حتیٰ کہ اس کی داڑھی میں کھجلی ہونے لگی۔

گوری بولی ’’تم اعتبار نہیں کرتے، تو میں کالا بھیرو کی سوگند لیتی ہوں۔ کاؤ دیوی سے بیاہ کروانے کا میرا ذمہ۔ سارا خرچ میں اپنی گرہ سے دوں گی۔‘‘

اب لچھمن کے پانو زمین پر نہ پڑتے تھے۔ شب و روز وہ نندو کے گھر کا طواف کرنے لگا۔ اُس کے ذرا سے اشارے پر تحصیل چلا جاتا۔ کمہاروں کے گدھوں سے زیادہ بوجھ اُٹھا لیتا۔ کالا بھیرو کے کتوں سے زیادہ شور مچاتا اور کاٹھ گودام کے پنڈتوں سے زیادہ کھاتا۔

اس دفعہ برسات میں گوری کے گھر کا پرنالہ اوپر کی منزل پر بند ہو گیا تھا۔ گوری نے لچھمن کو کہا کہ وہ چھجے پر چڑھ کر پرنالہ تو صاف کر دے۔ لچھمن نے کوٹھے پر چڑھ کر دیکھا، تو پرنالے میں ایک کتے کا پلّہ مرا پڑا تھا اور پلّے کا سر پرنالے میں بے طور پھنس گیا تھا۔ اب پلّہ کالے رنگ کا تھا۔ اس کی عزّت ملحوظ خاطر تھی۔ مار کاٹ کر باہر نکالنا کالا بھیرو کی بے عزتی کرنا تھا۔ مگر پلّہ نہ اُوپر آتا تھا نہ نیچے جاتا تھا۔

لچھمن اپنے آپ میں ایک نئی جوانی پا رہا تھا، اور عنقریب ہی شادی کی خوشی میں اُس نے جوان بننے کے لیے وشنو عطار کی کئی دوائیاں کھائیں۔ آج دوائی زیادہ کھا لینے کی وجہ سے اس کا سر پھٹ رہا تھا، اور اُسے تمام جسم میں سے شعلے نکلتے دکھائی دیتے تھے۔ جوش میں وہ سب کام کیے جاتا تھا۔ تقریباً دو گھنٹہ تک وہ سخت دھوپ میں چھجے پر بیٹھا پرنالے کو صاف کرتا رہا۔ نیچے سے چند بچّوں اور عورتوں نے آوازیں دیں۔

’’بابا … بابا … کاؤ دیوی آئی۔‘‘

لچھمن نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ بچّوں کو گالیاں دیں۔ کتے کے پلّے کو دُم سے پکڑ کر زور سے کھینچا، تو وہ جھٹکے سے باہر نکل آیا، مگر ساتھ ہی لچھمن کو اس زور سے جھٹکا لگا کہ وہ اُوپر کی منزل سے زمین پر آ رہا۔

سارے کا سارا کاٹھ گودام نندو کے گھر پل پڑا۔ لوگوں کو لچھمن کے یوں مجروح ہونے کا بہت افسوس تھا۔ خصوصاً جب کہ کاؤ دیوی سے اُس کی شادی کا چرچا چھوٹے بڑے کی زبان پر تھا۔ نرم دل لوگوں نے بے چارے کی مصیبت پر آنسو بھی بہائے۔

شام کے قریب خبر ملی کہ چوٹ ووٹ کی اب کوئی بات نہیں رہی۔ لچھمن شادی کے لیے بالکل تیار ہے۔ آج شام کو اُس کی شادی ہو گی۔ ’’گاگر کی بھابی تو کہتی تھی، اتنی بھی جلدی کاہے کی ہے … لچھمن کوئی بوڑھا تھوڑے ہی ہو گیا ہے؟‘‘

شام کو باجا بجنے لگا۔ کاٹھ گودام کے بہت سے آدمی براتی بن کر شادی میں شامل ہوئے۔ لچھمن کو بہت اچھے پہناوے پہنائے گئے۔ سہرے باندھے گئے۔ وہ اور بھی جوان ہو گیا تھا۔ لوگوں نے شمشان میں ایک بڑے پرانے پیپل کے پیڑ تلے نوجوان لچھمن کو رکھ دیا۔ ایک طرف سے آواز آئی۔ ’’ہٹ جاؤ … دلہن آ رہی ہے‘‘ … ایک آدمی چھکڑا گھسیٹتا ہوا لایا۔ چھکڑے میں سے لکڑیاں اُتار کر زمین پر چتا کی صورت میں چُن دی گئیں۔ اوپر لچھمن کو رکھا اور آگ لگا دی … یہ عجب شادی تھی جس میں سب براتی رو رہے تھے، اور جب نندو کی بہو گوری نے کاؤ کی ان تمام لکڑیوں کا خرچ اپنی گرہ سے دیا، تواُس کی چیخ ہی نگل گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

ردِّ عمل

 

 

ج لال کو بالآخر فرصت مل ہی گئی کہ وہ اپنی عیش و نشاط کی محفل کو چھوڑ اور دختِ رز سے رخصت لے کر اپنے مرتے چچا کو اُس کی درخواست پر ایک دفعہ دیکھ لے۔

ابھی ابھی تھوڑا سا مینہ برسا۔ حبیب منزل کے سامنے پانی نشیب میں کھڑا ہو گیا۔ صرف گزرنے کے لیے ایک چھوٹی سی مخدوش پگڈنڈی رہ گئی۔ ج لال نے اپنی پتلون کے پائنچوں کو احتیاط سے سنبھالتے، ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر قدم رکھتے اور خاموشی کی زبان میں اس اہم طلب کی وقعت کو غیر ضروری گردانتے ہوئے اپنے چچا کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

سکینہ، ج لال کی چچازاد بہن نے دروازہ کھولا، اور پھیلتی ہوئی آنکھوں سے ج لال کی طرف دیکھا، اور آنسو کا وہ قطرہ جو کہ پہلے آنکھ میں اٹکا ہوا تھا، اس کے چہرے پر ٹپک پڑا۔ کچھ حیرانی سے اُس نے کہا۔

’’ج لال ، تم آ گئے … ابّا جان کی امیدوں کے خلاف … وہ تمھیں ابھی ابھی یاد کر رہے تھے۔‘‘

ج لال نے بہن کی بات کو بے توجہی سے سُنا۔ برآمدے کے اندر داخل ہوتے ہوئے اُس نے نیم بوسیدہ ٹاٹ سے اپنے بوٹوں کو نہایت اطمینان سے رگڑ رگڑ کر کیچڑ سے پاک کیا۔ ایک عام دنیا دار کی مانند ج لال نے ظاہری اضطراب کا کوئی نشان چہرے پر ہویدا نہ ہونے دیا، نہ اُس کی آنکھیں اپنے حلقوں میں گھبراہٹ سے پھیلیں، نہ اُس کی رفتار میں خلافِ معمول سرعت آئی۔ چسٹر کو اُتار کر کندھے پر ڈالتے ہوئے وہ برآمدے کے دائیں کونے کے دریچے میں ،جو گلی میں کھُلتا تھا، کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے ختم ہوتے ہوتے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگایا اور اُسے گلی میں پھینک دیا۔ سکینہ جو اپنی والدہ کو ج لال کی آمد کی اطلاع دے کر آئی تھی، بولی۔

’’ج لال … تم ابھی یہیں ہو بھائی؟‘‘

’’چچاکس کمرے میں ہیں، یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں سکینہ؟‘‘

’’اس کمرے میں … جس کے سامنے تم کھڑے ہو۔ جلال، جلدی پہنچو۔ تمھارے پہنچنے سے شاید اُن کی مضمحل طبیعت کچھ بہل جائے۔‘‘

ج لال نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہوتے ہی اُس کی نظر ڈاکٹر پر پڑی۔ ڈاکٹر کے ہاتھ میں ایک پُرانی سی سٹیتھوسکوپ تھی۔ دوسرے ہاتھ کی اُنگلی کولھوں تک لے جاتے ہوئے اُس نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ج لال ایڑیوں کے بل چلتا ہوا کمرے کے داہنی طرف ہولیا۔ وہاں سے اسے اپنے چچا حبیب احمد ادیب کا زرد چہرہ صاف طور پر نظر آ رہا تھا۔ اس پر تھکاوٹ کے آثار اچھی طرح سے نمایاں تھے۔ اس کا ہر ایک خط جو کسی نتیجہ خیز تجربہ زندگی کی نشانی تھا، زیادہ گہرا ہو گیا تھا۔ نقاہت کی وجہ سے ان کی آنکھیں مکمل طور پر بند نہ تھیں اور بے روشن ، نیم وا آنکھوں کے دھندلے پن کو دیکھ کر دل کو ایک وحشت سی محسوس ہوتی تھی۔

’’یہ ہے زرد رُو ، جھریوں والا، کل انچاس برس کا محنتی بوڑھا، جس کی بابت ملک الشعرا نے کہا تھا کہ وہ مکمل آدمی ہے۔‘‘ ج لال نے دل میں کہا ’’کتنا بڑا خطاب دیا اس نے۔ مکمل آدمی ہونا کتنا بڑا امتیاز ہے۔ آج کون آدمی صحیح طور پر مکمل کہا جا سکتا ہے۔‘‘

معاً ادیب نے آنکھیں کھولیں اور اپنا منھ دائیں طرف موڑا۔ سامنے ج لال کھڑا تھا۔ اس نے سلام کیا۔ لیکن ادیب نے صبر و سکون اور بے چینی کے مابین کش مکش کو محسوس کرتے ہوئے ماتھے پر تیور چڑھا کر آنکھیں بند کر لیں … ان کے لب آہستہ آہستہ پھڑک رہے تھے۔ گویا ایک صدیوں سے آشنا، پُر حلاوت، جذبات سے لبریز ایک قسم کی ہسٹریکل (Hysterical) بوسے کے لیے مرتعش ہوں … اور جیسے اُن کی روح عریاں ہو کر قلب کی اندروں ترین ماہیتوں میں ایک ایسے ہلکے ہلکے، میٹھے، مدہوش کن صورتِ ازل اور ایک ایسی خنک سی تجلّی کی متلاشی ہو جو اس   مقامِ ہُو کی عمیق ، بیکراں تاریکیوں میں اُس کے لیے شمع بردار ہو جائے۔ اور اُس کی رہنمائی کی وجہ سے وصلِ تمام ممکن …

ج لال نے اپنے بائیں طرف ادیب کی تصنیف کردہ کتابوں پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈالی۔ الماری کے پاس ہی اخروٹ کی لکڑی کا ایک ہشت پہلو میز دھرا تھا۔ اس میں کہیں کہیں سپید گلکاری کی ہوئی تھی۔ میز کے اُوپر قلم دوات ، چائے کی ایک پیالی اور ایک دُہرا کیا ہوا کاغذ پڑا تھا۔ ج لال نے کاغذ کو ہاتھ میں لے لیا۔ لکھا تھا۔

’’بوڑھے کے آنسو چار سو بکھر ے پڑے تھے۔

اُس نے ساری عمر کوئی ڈھنگ کا کام نہ کیا تھا۔

بوڑھے نے سر اُٹھایا اور کہا …

زندگی کے اسباب بکھرے پڑے ہیں،

سخی معشوق کی مسکراہٹوں کی مانند،

کسی غریب کے دل کی جمعیت کی مانند،

صرف ایک سبق رہ گیا ہے … پشیمانی کا،

… آ موت ! وہ بھی سکھادے۔‘‘

’’حبیب‘‘

ج لال کی طبیعت پریشان سی ہو گئی۔ وہ بے پروا ضرور تھا، مگر ایک لطیف ذہن اور ایک حساس دل کا مالک تھا۔ اُس کے مزاج کی مستقل دیوار متزلزل ہو گئی۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کئی زرد، سُرخ، مبہم سے حلقے ایک دوسرے میں خلط ملط ہو کر اس کی آنکھوں کے پاس کن پٹی سے چھوکر، انواع و اقسام کی اقلیدسی اشکال پیدا کرتے ہوئے فضا میں دور و نزدیک پھیل رہے ہیں۔ اس کے ذہن میں آہستہ آہستہ ایک خلجان سا پیدا ہوا۔ ایک غنودگی یا نیم غشی کی سی حالت میں اُس کے قلب میں یک لخت ایک تحریک، ایک زبردست سی رو پیدا ہوئی اور اُس نے چاہا کہ وہ اپنے سامنے میز پر پڑی ہوئی پیالی کو اوندھا کر دے۔ یہ بے مطلب ، لا حاصل خواہش کیوں پیدا ہوئی، ج لال نہ جان سکا۔ وہ صرف اس بات سے واقف تھا کہ ایک اندرونی طاقت اُسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے اُس نے دل کے ساتھ تصفیہ کر لیا کہ وہ ہرگز ہرگز پیالی کو اوندھا کرنے کے فضول خیال کو عملی جامہ نہیں پہنائے گا … بلکہ اس قسم کے خیال پیدا ہونے پر اس نے اپنی کمزور طبیعت کو کوسا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس نے دیکھا کہ جب تک وہ پیالی کو اوندھا نہ کر لے گا، اس کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا … مشکل ، نا ممکن … اور سب کے دیکھتے ہوئے اُس نے پیالی کو اوندھا کر دیا۔ تھوڑی سی چائے میز پر سے بہتی ہوئی فرش پر گر گئی۔ سب حیرت سے ج لال کی طرف دیکھنے لگے … اس کے فوراً بعد ہی اسی قسم کا خیال پیدا ہوا کہ وہ رو دے۔اس وقت ج لال نے اپنی ذہنی تحریک کے خلاف جانا بالکل بے سود سمجھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب نہ رونا اس کے بس کا روگ نہیں۔ اس وقت اُس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر اندرونی حکم کے تابع کر دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا …

محفل عیش و انبساط سے نکل کر اس فوری درد و کرب کی فضا میں، جہاں قہقہوں کی بجائے آنسو، جوانی کی بجائے بڑھاپا، ناکردہ گناہوں کی پشیمانی، موت گھوم رہی ہو، اُس کا جی نہ لگا۔ ج لال نے ایک عجب انداز سے شانے پھڑکائے۔ نئے جلائے ہوئے سگریٹ کی راکھ کو چٹکی سے گرایا اور دل میں کہا کہ کہیں سگریٹ کو باہر پھینک دینے کا خیال اس کے ذہن میں نہ پیدا ہو جائے۔ وہ کانپ اٹھا۔ برقی رو آنے سے پیشتر ج لال ایڑیوں کے بل چلتا ہوا کھڑکی میں پہنچا۔ اور سگریٹ کو باہر پھینک دیا، دُور … بہت دُور، جتنی دور اُس سے ممکن تھا اور روکھی سی مسکراہٹ لبوں تک لاتے ہوئے سوچنے لگا، بھلا ایک مکمل آدمی، محض ایک معمولی سی پشیمانی کی خاطر موت کو دعوت دیتا ہے۔ ناگاہ اُسے یاد آیا کہ اسی نوعیّت کا ایک اور خیال بھی چچا نے اپنی کتاب ’’رنگ و آہنگ‘‘ میں ظاہر کیا تھا کہ انسان اس قدر خود سر اور خود بیں ہے کہ اس پر آسمان کی گردش سے جتنی بھی بلائیں نازل ہو سکتی ہیں، یکسر نازل ہو جائیں، تو بھی انسان خود کردہ فعل کو غلطی یا گناہ کہنے اور صحیح طور پر پشیمان ہونے کی بجائے لچرباتوں سے دل کی تسلّی کے سامان بہم پہنچائے گا۔ وہ ہر وقت بچپن کے گناہوں کو طفلانہ پن، جوانی کے گناہوں کو جوانی نادانی پر اور بڑھاپے کے گناہوں کو انسانی ناتوانی اور کمزوری کے سر تھوپے گا۔ حتیٰ کہ حد سے زیادہ دیر ہو جائے گی اور موت اپنے تلخ جام کے ساتھ اُس کے ہر رگ و ریشہ میں پشیمانی کا سبق سرایت کر دے گی۔ ایک عمیق اور تنقیدی نظر اپنی مختصر سی زندگی پر ڈالتے ہوئے ج لال نے کہا، کس قدر درست بات ہے … برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن … قیامت کب کسی نے دیکھی ہے … یہی دن تو ہیں، … اور اُس کے اس قسم کے سینکڑوں کلمات اب تک ایتھر میں لہروں کی صورت گھوم رہے ہوں گے۔

’’میں ج لال سے کچھ کہنا چاہتا ہوں‘‘ دفعتہ ج لال کے چچا نے بہت نحیف آواز سے کہا، اور نہایت آرام و سکون سے اپنی آنکھیں اُس طرف پھیر لیں۔ ج لال تیزی سے چچا کی چارپائی کے نزدیک دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔

’’سکینہ … سامنا دروازہ تو کھول دو … مجھ تک ہوا آنے دو۔‘‘ ادیب نے پھر کہا۔

ایک لمحہ کے لیے چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ سکینہ نے دروازہ کھولا۔ ٹھنڈی ہوا ایک دم فراٹے سے اندر داخل ہوئی… سب نے ادیب کے چہرے پر نظریں جما دیں۔

’’باہر بارش اچھی ہو گئی ہے نا؟‘‘

’’جی چچا جان… کافی برس گیا، پانی۔‘‘

اور اپنی دھندلی آنکھوں میں سے باہر دیکھتے ہوئے ادیب بولا۔

’’دنیا کس قدر وسیع ہے … رنگین اور بے رنگ بھی …‘‘

’’جی ہاں … بہت وسیع ہے، رنگین اور بے رنگ بھی۔‘‘ ج لال نے چچا کے تخیل کی رَو کو سرعت سے بدلتے ہوئے دیکھ کر حیرت سے دہرایا۔ ادیب کے اس طور باہر دیکھنے پر سب لوگ باہر کی طرف دیکھنے لگے۔ باہر کچھ بھی نہ تھا۔ صرف سخت سردی میں ایک اندھا لاٹھی ٹیکتا ہوا جا رہا تھا۔ ج لال نے چچا کی طرف دیکھا۔ اُس نے محسوس کیا کہ چچا کچھ کہنے کو تھے، مگر قوتِ ارادی کی ناتوانی کی وجہ سے کہہ نہ سکے۔ ج لال نے دیکھا دوبارہ حد سے زیادہ زور لگاتے ہوئے چچا نے کہا۔

’’دیکھو ج لال بیٹا … باہر ایک اندھا جا رہا ہے۔ اس کے راستہ پر نشیب و فراز دونوں ہیں۔ جنھیں وہ دیکھ نہیں سکتا، تاہم اُسے چنداں فکر لازم نہیں۔ اس کے پاس لاٹھی ہے۔‘‘

ایسے معلوم ہوا جیسے یہ بات کہنے میں ادیب نے اپنی تمام قوت صرف کر دی ہو۔ اُن کو دو ہچکیاں سی آئیں اور اُس سے پہلے کہ فضا میں ہا و ہو کی آوازیں لرزش پیدا کر دیں، اُن کا جسم ساکت ہو گیا اور برف کی مانند ٹھنڈا۔

چچا حبیب احمد کو کفنانے دفنانے کے بعد واپس لوٹتے ہوئے ج لال ایک ارتعاشِ سوزاں محسوس کرتا ہوا بازار کی رونق میں سے گزر رہا تھا۔ سینتیس برس کی عمر میں خود کو چچا کے مقابلے پر لاتے ہوئے وہ اپنے آپ کو زیاد ہ معمر محسوس کرنے لگا اور شاید زیادہ تجربہ کار ۔لیکن اس کے خیال میں تلافی مافات کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی … بہت دیر … اور وہ مفردات جو کہ انسان کی بہتری کے لیے جمع ہوتے ہیں، اپنی تخریب سے بدن میں کپکپی پیدا کر رہے تھے۔ یکایک اس کے رونگٹے کھڑے ہونے شروع ہو گئے اور اُسے کانوں میں سائیں سائیں اور نفس کی نوع بہ نوع، موافق اور ناموافق سی آوازوں کے درمیان چچا کے آخری الفاظ گونجتے سنائی دیتے… ’’باہر ایک اندھا جا رہا ہے۔ اُس کے راستے پر نشیب و فراز دونو ہیں۔ جنھیں وہ دیکھ نہیں سکتا۔ تاہم اُسے چنداں فکر نہیں۔ اس کے پاس لاٹھی ہے۔‘‘

’’کیا یہ الفاظ کسی تشبیہ ِ مجازی کے حامل تھے، یا یوں ہی ایک گزرتے ہوئے نابینا کو دیکھ کر ایک علیل دماغ کی واہی تباہی …؟‘‘ج لال نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ پھر ج لال نے سوچا۔ ’’چچا استادِ استعارہ مانے جاتے تھے اور یہ کبھی ممکن نہیں کہ اپنے حواس کی موجودگی میں وہ الفاظ انھوں نے بے معنی طور پر اور اتفاقاً کہے ہوں گے … پھر اُس نے اپنی تمام تر علمیّت، جو کہ اب گزرے ہوئے زمانہ کی ایک حسین یادگار رہ گئی تھی، طلب کیا اور دل ہی دل میں ان الفاظ کی تفسیر و تشریح کرنی شروع کی۔

خوانچے والوں کی آوازیں، اخبار بیچنے والوں کا شور و غوغا، سنیما والوں کے ببانگِ دہل اعلان، ریڈیو مکینک کی دُکان کے اندر ایمپلی فائر کی مدد سے بلند ہوتا ہوا گانا، خوبصورت نیو ماڈل کاروں کے ہارن، اس کے کانوں میں جگہ پانے سے قاصر رہے۔ اس کے پاس ہی سے ایک مونگے رنگ کی ڈاج سیڈان گزری، جس کو ایک مونگے رنگ کی وردی کا شوفر چلا رہا تھا۔ کار کے اندر ایک نازنین اسی رنگ کی ایک کریپ کی نہایت خوشنما ساڑھی پہنے بیٹھی تھی۔ گزرتے ہوئے لوگ رنگ کی اس مشابہت و مطابقت دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے۔ جلال، جو آنکھیں پھاڑپھاڑ کر کار کی آخری سیٹوں کو دیکھا کرتا تھا، اس نے صرف ایک نظر سے اس کار میں دیکھا۔ اُس کے فوراً بعد ہی اُس کی نظر چند بھک منگوں کی طرف چلی گئی اور اس نے محسوس کیا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو ’’دنیا کس قدر وسیع ہے، رنگین اور بے رنگ بھی…‘‘ اور ج لال زمین پر نظریں گاڑے ہوئے وہاں سے گزر گیا۔

رٹزرسٹوران کے خانساماں نے اپنے گاہک ج لال کو اپنے کیفے کے نزدیک رکتے ہوئے دیکھ کر کہا۔’’حضور، پیرس سے پنیر کے دو ورقے سموسے آئے ہیں۔ شامپین سے اُن کا خاص…‘‘

ج لال نے ایک سخت نگاہ سے خانساماں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’پیچھے ہٹ جاؤ۔ نامعقول۔‘‘ اور خود آگے بڑھ گیا۔

’’چچا آخر کتنا سادہ آدمی تھا‘‘ ج لال نے سوچا اور نفس کُش، صحیح معنوں میں کفایت شعار، خرچ کرنے کی جگہ خرچ کرنے والا۔ خاموش ، سنجیدہ مزاج مگر بولنے کی جگہ جوشیلا مقرر … حقیقت اور اصلاح کے لیے قدرت کی مثبت و منفی دو نو طاقتوں کا استعمال کرنے والا۔ آخر وہ مکمل آدمی تھا۔

… ایک دفعہ پھر اُس کے کانوں میں ادیب کے آخری الفاظ گزرے۔ جس طرح تمام روئے زمین پر پھیل چکنے کے بعد ایتھر میں پھر ایک معین وقفہ کے بعد لہر آتی ہے … ’’باہر ایک اندھا جا رہا ہے۔ اس کے راستہ پر نشیب و فراز دونو ہیں، جنھیں وہ دیکھ نہیں سکتا مگر اسے چنداں فکر لازم نہیں۔ اس کے پاس لاٹھی ہے۔‘‘

تمام پریشانیوں سے اپنی توجہ کو یک سو راغب کرتے ہوئے اب ج لال نے مرحوم چچا کے آخری الفاظ کی تفسیر کرنی شروع کی۔ یکایک اس کی گالوں پر ایک ہلکی ہلکی سُرخی ،جو شفق پر سورج کی پہلی کرن نمودار ہونے یا حجلۂ عروسی میں پہلی مرتبہ متقابل جنس کے بازوؤں مین مستعفی ہونے سے دلہن کے چہرے پر ہویدا ہوتی ہے، نمودار ہونے لگی اور ایک تلخ سی مسکراہٹ، جو دوشیزگی کے وقار کو کھونے کے باوجود پیدا ہوتی ہے۔ مسکراتے ہوئے اُس نے کہا۔

’’آخر کتنا عمیق تھا چچا کا مطالعہ۔ انسان کی زندگی کے غیر ضروری، ناقابلِ توجہ واقعات سے وہ روزانہ سبق لیتے تھے۔ زندگی کی ہر لطیف جنبش سے اُنھوں نے کچھ نہ کچھ اخذ کیا، حتیٰ کہ موت سے پشیمانی۔ اس کی تفسیر اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے مستقبل یعنی زندگی کے نشیب و فراز اور اُونچے اُونچے راستہ پر ایک بے خبری کے عالم میں جا رہا ہے کیونکہ وہ ہونے والے واقعات سے آگاہ نہیں۔ وہ اونچی نیچی جگہ کو دیکھ نہیں سکتا۔ جس طرح اندھا آدمی اپنی لاٹھی کی مدد سے اپنا راستہ نشیب و فراز، پانی اور کیچڑ وغیرہ میں سے نکال لیتا ہے، اس طرح آدمی اپنی دُور اندیشی کی لاٹھی سے اپنی زندگی کو بے خطرہ اور استوار بنا سکتا ہے۔ جس اندھے کے پاس لاٹھی اور جس انسان کے پاس دوراندیشی نہیں، وہ دنیا کے نشیب و فراز، پانی اور کیچڑ میں منھ کے بل گرے گا۔

ج لال نے کلائی پر سے چسٹر کی آستین ہٹاتے ہوئے وقت دیکھا۔ ساڑھے سات بجے تھے اور سردیوں میں ساڑھے سات بجے اچھا خاصا اندھیرا ہو جاتا ہے۔ دھند نے سورج کے غروب ہوتے ہی تمام شہر کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا… اور یہ بلیرڈ کلب میں جانے کا وقت تھا۔

بلیرڈ کلب، سموکنگ کلب، پریل کلب یہ سب ایک ہی بات تھی۔ یہ سب مہذب، مرد عورتوں کی تفریح گاہیں تھیں۔ ج لال نے اپنی جیب ٹٹولی ۔ پرسوں کی سویپ اور پریل میں اُس نے تہتر روپے جیتے تھے۔ ج لال کو وہ کھجلی سی محسوس ہونے لگی، جوہر ایک جیتے ہوئے کھلاڑی کو اور داؤ لگاکر سب کچھ گنوا دینے کے لیے اُکساتی ہے۔ ج لال ایک قدم رُک گیا۔ چسٹر کی دونوں حبیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اُس نے فیصلہ کُن اقرار و دعوے سے کہا کہ وہ یقیناً ان روپوں کو کسی بہتر کام میں صرف کرے گا۔وہ اپنی بھُولی بسری بیوی کے لیے گرم ساڑھی لائے گا ،یا اپنے بڑے بیٹے کے لیے جو ایک مقامی کالج میں ایف اے کا متعلم تھا،ایک چھوٹی سی لائبریری خریدے گا۔ وہ نظارہ اُس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ جب کہ اُس کے بیٹے نے نہایت اشتیاق سے، کتابیں خرید کر لا دینے کی التجا میں انگلستان کے بڑے بڑے پبلشر انگلیوں پر گن ڈالے تھے۔

آج پھر ج لال نے اپنی گزشتہ زندگی پر ایک نظر ڈالی۔ اُس نے دیکھا کہ تمام گزشتہ وقت جوانی کا بیش قیمت زمانہ اُس نے عیش و نشاط کی محفلوں، مہذب بدمعاشوں کی صحبتوں، طوطا چشم ایکٹرسوں کو طول و طویل چٹھیاں لکھ کر اُن کی تصاویر منگوانے میں گنوایا تھا، اور خود کو اُس اندھے کی مانند بنا دیا جس کے پاس لاٹھی نہ ہو اور جسے ہر طرح کا فکر لازم ہو، اور اب بھی وہ زندگی کے نشیب و فراز میں دوراندیشی کی لاٹھی کے بغیر بھاگا جا رہا تھا اور وہ بھی بے تحاشا!

اُس نے بازار میں گزرتے ہوئے تمام آدمیوں کو دیکھ کر انسانی فطرت کے مطابق اپنے دل کو تسلی دینی شروع کی…

’’ان میں سے کسی کے پاس لاٹھی نہیں ہے۔ اگر ان میں کوئی سنبھلا ہوا ہے بھی ،تو وہ شخص ہے جو کہ لاٹھی کے نہ ہوتے ہوئے بے تحاشا نہیں بھاگتا، بلکہ استق لال سے قدم بہ قدم چل رہا ہے۔‘‘

’’مجھے کم از کم بے تحاشا نہیں بھاگنا چاہیے۔‘‘ ج لال نے دل ہی دل میں خود کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ اُس نے دیکھا کہ وہ خوبصورت استعارے کے زیر اثر خود بھی سست پڑ گیا ہے۔ اُس کی رفتار ایک عام کاروباری آدمی کی رفتار سے بہت کم ہو گئی تھی۔ ج لال نے اپنی رفتار تیز کر دی اور تیز چلتے ہوئے اس نے قدرے اُونچی آواز سے کہا … ‘‘

’’اپنی وہ لاٹھی جو میں نے گھر کے ایک کونے میں پھینک رکھی ہے اور جس کی ہستی کو بھی بھول چکا ہوں، محنت اور کاوش سے ڈھونڈ نکالوں گا اور اُسے استعمال کیا کروں گا‘،۔

شہر کے قمار خانے کی شکل پیگوڈا سے مشابہت رکھتی تھی۔ بنکوک کے ایک اعلیٰ کاریگر نے اُسے بنایا تھا۔ اُس کے چاروں طرف پینتالیس سیڑھیاں تھیں اور صبح و شام شہر کے لوگ سمندر سے آنے والی ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں جمع ہو جاتے۔ شراب کے متعلق ملک کے اس حصّے کا قانون سخت گیر نہ ہونے کی وجہ سے کئی شخص پینے کے بعد ایک سیڑھی پر بازو رکھ کر اُسے تکیے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے باقی کا جسم نچلی سیڑھی پر رکھے پڑے رہتے تھے، جس طرح کسی بڑے دریا کے رتیلے کناروں پر گھڑیال دھوپ تاپنے کے لیے پانو پھیلا کر دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑے رہتے ہیں۔ ج لال حسب معمول ان انسان نما گھڑیالوں یا گھڑیال نما انسانوں سے بچتا بچاتا قمار خانے کے اندر داخل ہوا۔ اُس کے ساتھی جو دو دن سے اُس کا انتظار کر رہے تھے، نہایت خلوص سے اُسے ملے۔ مگر ج لال دردِ سر کا بہانہ کر کے ان سے معذرت کا خواہاں ہوا اور ایک آرام کرسی میں دھنس گیا۔

ج لال صبح سے بھوکا تھا اور حالت گرسنگی میں آدمی لطیف سے لطیف خیالات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ جلال، جس کا پیٹ طرح طرح کے کھانوں کے علاوہ حرص و ہوا سے تنا رہتا تھا، آج اس قابل تھا کہ اُسے دور کی سُوجھ سکے اور وہ گزشتہ زندگی اور روزمرہ کے واقعات کا تصوّر کر کے پریشان و پشیمان ہو۔ بظاہر اس کی آنکھیں قمار بازوں کے سر پر لٹکی ہوئی قندیل پر جمی ہوئی تھیں۔ مگر دراصل وہ نیم خفتہ و نیم بیدار حالت میں تھا۔ اُسے مس میگی کا گھر دکھائی دیا۔ مس میگی شروع شروع میں ایک یوریشین سوسائٹی گرل تھی اور ایک بڑے بلند مرتبت خاندان کی چشم و چراغ۔ اسے پنٹنگ (Punting) کی لت پڑ گئی۔ بُک میکرز نے اُسے خوب لوٹا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے آپ کو بیچنے لگی اور اب اس کے ہاں امیر آدمیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا …

تصوّر میں ج لال نے اپنے آپ کو میگی کے دروازے پر کھڑا پایا۔ اُسے دیکھتے ہی وہ دوڑی دوڑی اُسے لینے کے لیے دروازے تک آئی۔ کیونکہ ج لال مس میگی کا مستقل ، مالدار اور قدر داں گاہک تھا، میگی نے اسی انداز سے جو شکایت سے تہی نہ تھی، پوچھا۔

تم گذشتہ دو شب کہاں رہے جلال؟ … تمھاری طبیعت مضمحل نظر آتی ہے کچھ۔‘‘

ایک اور سر و قد بت تھا، جو کہ میگی کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ بُت قدرے دھندلا سا دکھائی دیتا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ اُس بُت کے منھ میں زبان نہیں ہے۔ مگر پھر بھی کچھ کہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یکایک اُس بُت نے بھی وہی الفاظ دہرا دیے۔ وہ بُت ج لال کی بھُولی بسری بیوی تھی۔ ج لال نے اپنی بیوی اور مس میگی کے استفسار کا مقابلہ کیا۔ بیوی اُسے اُسی کے لیے چاہتی تھی اور کبھی کبھی شکایت کے آنسو گراتے ہوئے پوچھتی … ’’میں کہتی ہوں … آپ دو رات کہاں رہے۔ میں یہاں اکیلی تڑپتی رہی ہوں۔‘‘ اور وہ آواز مطلق تصنع اور ناز و انداز کی حامل نہ تھی، بلکہ دل ہی سے دماغ سے مشورہ لیے بغیر اُس کے خیالات لبوں تک آ جاتے۔ لیکن میگی، ج لال کو ج لال کے لیے نہیں، اُس کی جیب کے لیے چاہتی تھی، جو عموماً نہیں بلکہ ہمیشہ معمور ہوتی تھی۔

’’فیراڈے … اس دفعہ پھر ہار گیا ج لال … فیراڈے ہار گیا۔‘‘میگی نے ج لال کو تاسف سے بھری ہوئی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’اُسے ہمدردی چاہیے… ’’ج لال نے جواب دیا‘‘ اور پھر بولا۔ ’’میرے عزیز چچا حبیب احمد کل فوت ہو گئے ہیں…‘‘ اُس وقت اُس کی رحم طلب نگاہیں وہاں بیٹھے ہوئے دو ایک آدمیوں کی طرف اُٹھ گئیں۔ تمام نے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ اُن میں سے ایک نے یہ بھی محسوس کیا کہ ج لال نے عیش و نشاط کے موقع پر یہاں آ کر اپنی افسردہ دلی سے تمام انجمن کو افسردہ کر کے اپنی کم فہمی کا ثبوت دیا ہے۔

میگی نے کئی ایک باتوں سے ج لال کو تسلی دینی شروع کی اور یہ بھی کہا کہ اُس کے نہ آنے سے کتنی بجلیاں تھیں، جو اس پر کوندیں۔ اور کتنے وسوسے تھے جو اس کے دل میں آئے…

جوں جوں وہ یوریشین لڑکی خوشامد کرتی، توں توں ج لال کا دل اس سے متنفر ہوتا … اُس نے ایک ہاتھ اپنی جیب پر رکھ لیا، جس کو بچانے کا صرف آج کے لیے ہی نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے اُس نے تہیّہ کر لیا تھا۔ میگی کے پیش کردہ ہاتھ کو پرے دھکیلتے ہوئے ایک روکھی پھیکی مسکراہٹ سے ج لال نے کہا۔ ’’تمھیں ایک خبر سناؤں میگی … چچا اپنی جائداد کا ایک بڑا حصّہ میرے نام چھوڑ گئے ہیں۔‘‘

’’سچ؟‘‘ میگی نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا۔ یہ بات صحیح معنوں میں اُس کے لیے دل خوش کن اور دل نواز تھی۔ وہ اپنی خوشی کو فریبِ نظر کے دامن میں مستور نہ کرسکی،اگرچہ یہ اُس کے پیشے کی خصوصیت ہوتی ہے اور وہ چھپاتی بھی کیسے؟جب کہ ج لال کی نظر نہایت باریک بیں   ہو گئی تھی اور اس وقت وہ فولاد کے آرپار بھی دیکھ سکتی تھی۔‘‘

’’علاوہ اور چیزوں کے چچا مجھے ایک لاٹھی دے گئے ہیں … تاکہ میں ٹٹول ٹٹول کر اپنا راستہ بنا لوں اور نشیب و فراز میں نہ گروں۔‘‘ ج لال نے اپنے آپ کو کہتے ہوئے پایا۔

’’کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو ج لال … لو، پی کے بے نیاز ہو جاؤ‘‘… اور میگی نے سمجھا کہ یہ صرف چچا کی موت کا گہرا اثر ہے۔ ج لال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’تمھارا شباب زوروں پر ہے …‘‘

میگی نے اپنے جسم پر ایک چھچھلتی ہوئی نگاہ ڈالی اور مسکرائی۔

’’کل ڈھل جائے گا۔‘‘

مِس میگی نے دوسری دفعہ اپنے جسم کی طرف دیکھا اور خون اُس کے رخساروں اور کانوں کی طرف دوڑنے لگا۔

’’تم بوڑھی ہو جاؤ گی اور پھر تمھیں کوئی نہ پوچھے گا … یہ جتنے بھی بیٹھے ہیں اور میں خود بھی … ‘‘ اس نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمھارے شباب کے خریدار ہیں۔ جوانی کی شام ہونے پر یہ سب لوگ اپنے اپنے گھروندوں میں جا گھسیں گے۔ تم کو کوئی نہ پوچھے گا۔ پھر تم کیا کرو گی میگی؟‘‘

یہ سوال تو میں عنقریب ہی تم سے کرتی… ’’کیا تم اُس وقت میری خبر گیری نہ کرو گے۔‘‘

ایسا نہیں ہوا کرتا میگی۔ شباب کی رعنائیوں کے خریدار عمر کے ساتھ بوڑھی ہونے والی رعنائیوں کی کھوٹے داموں بھی قیمت ادا نہیں کرتے۔ اگر تم پنٹنگ میں تباہ ہونے کے فوراً بعد ہی شوہر کر لیتیں تو گو زندگی ظاہرا طور پر عیش سے نہ گزرتی، تب بھی تمھارا انجام خراب نہ ہوتا۔ عورت سے وابستہ وہ آدمی جسے شوہر کہتے ہیں، اپنے بڑھاپے میں معمر بیوی کی بوڑھی اور بھونڈی رعنائیوں کی بھی وہی قیمت ادا کرتا ہے،جو اس نے جوانی میں ادا کی ہو گی، بلکہ اس سے بھی زیادہ… میں نے تمھارے شباب کو عزیز کیا ہے اور اُس کے لطف کو خریدا ہے۔ مگر بیوی نے بغیر دام لیے اپنے جام، خلوص اور ایثار سے مجھے پلا دیے۔ اس لیے وہی ایک ہستی ہے جو میرے جذبۂ ایثار پر تسلط جمانے کا حق رکھتی ہے …

… میگی! تم اس اندھے کی مانند ہو جو کہ بے تحاشا بھاگا جا رہا ہو، حالاں کہ اُس کے پاس لاٹھی بھی نہیں۔ تم نے اپنی لاٹھی یہیں کہیں گھر کے کسی کونے میں بھول کر ڈال دی ہے۔ اُٹھو اسے ڈھونڈ نکالو اور اسے اپنے مستقبل میں اپنی راہ نشیب و فراز اور کیچڑ سے بچ کر نکال لو … ورنہ رنج و آلام کی گہرائیوں میں جاگرو گی …‘‘

ج لال کی آنکھ کھل گئی۔ اُس نے آخری الفاظ نہایت زور سے کہے تھے۔ قمار خانے کے سب آدمی ج لال کی طرف گھور رہے تھے۔ ج لال کچھ گھبراسا گیا۔ اُس نے ویسے ہی اُونچی آواز میں کہا۔

’’یہ میرے ادیب چچا کے آخری الفاظ ہیں اور تم سب لاٹھی کے بغیر ہو، تو بالضرور مصائب کی خندق میں اوندھے منھ گرو گے … ‘‘

…دو سرے لمحہ میں ج لال پیگوڈا نما قمار خانے کی پینتالیس سیڑھیوں کو بے تحاشا پھلانگتا ہوا جا رہا تھا اور اُسے اپنے پیچھے بے تحاشا، دیوانہ وار قہقہوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

موت کا راز

 

 

اس بے ربط و ناہموار زمین کے شمال کی طرف نباتاتی ٹیلوں کے دامن میں، میں نے گندم کی بتیسویں فصل لگائی تھی اور سرطانی سورج کی حیات کُش تمازت میں پکتی ہوئی بالیوں کو دیکھ کر میں خوش ہو رہا تھا۔ گندم کا ایک ایک دانہ پہاڑی دیمک کے برابر تھا۔ ایک خوشے کو مسل کر میں نے ایک دانہ نکالا۔ وہ کناروں کی طرف سے باہر کو قدرے پچکا ہوا تھا۔ اس کی درمیانی لکیر کچھ گہری تھی، یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ گندم اچھی ہے۔ اس میں خوردنی مادہ زیادہ ہے اور گورکھپور کی منڈی میں اس سال اس کی فروخت نفع بخش ہو گی۔

میرے خیالات کچھ یکسوئی اختیار کر رہے تھے ۔ اس وقت زندوں میں سے میرے نزدیک کوئی نہ تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر زندوں میں سے کوئی تمھارے نزدیک نہ تھا تو کیا مُردوں کی یاد تمھارے ویران خانۂ دل کو آباد کر رہی تھی؟ … میرا جواب اثبات میں ہے۔ میں آپ سے ایک اور بات بھی اصرار سے منوانا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ میں مُردوں کا تصوّر ہی نہیں کر رہا تھا، بلکہ اُن کو اپنے سامنے، پیچھے، دائیں اور بائیں کتھا کلی انداز سے رقص کرتے، ہنستے اور خوف سے کانپتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ جس طرح آپ کی داڑھی کا بال بال مجھے علاحدہ نظر آتا ہے اور آپ کی تمازت زدہ آنکھوں کے سُرخ ڈورے دیکھ رہا ہوں، اِسی طرح میں اُنھیں دیکھ رہا تھا۔ اُن میں سے کسی کا چہرہ جموی موتیا کی اس کلی کی مانند، جس کا چہرہ صبح کے وقت کاشمیری بہار کی شبنم نے دھو دیا ہو، شگفتہ ہو کر چمک رہا تھا اور کسی کے چہرے پر جھُریاں اور گہری گہری لکیریں تھیں۔ شاید وہ کسی نتیجہ خیز تجربہ ٔ زندگی کی نشانیاں تھیں۔

نہ وہ گندم کے کھیت کے کناروں پر کھیل رہے تھے، نہ ہی بتیس سالہ شیشم، جس کے گھنے سایہ دار پھیلاؤ کے نیچے میں آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا، اپنے ہلکے ہلکے پانوں کو نچا رہے تھے، بلکہ وہ خود میرے جسم کے اندر تھے … ہائیں! آپ حیران کیوں کھڑے ہیں۔ آپ پوچھتے ہیں کہ میں کہاں تھا؟ … سنیے تو … میں جسم کی اِس حالت میں تھا، جسے انہماک کی آخری منزل کہنا چاہیے۔ میں خود اپنے جسم سے علاحدہ ہو کر اسے یوں دیکھ رہا تھا، جس طرح پرانی حکایتوں کا شہزادہ کسی اونچے اور نباتاتی ٹیلے پر کھڑا دُور سے اِس شہزادی کے محل کا اُٹھتے ہوئے دھوئیں کے وجود سے اندازہ لگائے، جس نے اپنی شادی مشروط رکھی ہو۔

وہ رقصاں، خنداں ، لرزاں لوگ میرے بزرگ تھے … بچّہ اپنے والدین کی تصویر ہوتا ہے۔ میرا باپ اپنے باپ کی تصویر تھا۔ اس لیے میں اپنے دادا کی تصویر بھی ہو سکتا ہوں اور یوں ارتقائی منازل طے کرنے کی وجہ سے اپنے بزرگانِ سلف کی، اگر صاف نہیں تو دھندلی سی تصویر ضرور ہوں … ہندستانی تہذیب دو نسلوں سے شروع ہے۔ ایک دراوڑ اور دوسری آریہ۔ میں آریہ نسل سے ہوں۔ میرا دراز قد، سفید رنگ، سیاہ چشم، حساس خوش باش اور قدرے وہم پرست ہونا، اِس بات کا ثبوت ہے … یہ بات معلوم کرنے کی میری زبردست خواہش تھی کہ موت کا راز کیا ہے۔ مرتے وقت مرنے والے پر کیا کیا عمل ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مجھے یہ یقین دلایا جا چکا تھا، کہ مادہ اور روح لافانی ہیں۔ ایسی حالت میں اگر وہ موت کے عمل میں اپنی ہیئت بدلتے ہیں، تو اُس وقت ان کی کیا حالت ہوتی ہے … آخر مرنے والے گئے کہاں؟ وہ جا بھی کہاں سکتے ہیں، سوائے اِس بات کے کہ وہ کوئی دوسری شکل اختیار کر لیں، جسے ہم لوگ آواگون کہتے ہیں۔ کیونکہ مختلف ہئیات میں ظہور پذیر ہونے کے بعد پھر اس ذرہ کو جس سے ہم پیدا ہوئے ہیں، آدمی کی شکل دی جاتی ہے۔

یہ بات سُن کر شاید آپ بہت ہی متعجب ہوں گے کہ میں اپنے سامنے اپنی پیدا ہونے والی اولاد کو بھی دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے ایک گھنگریالے سیاہ بالوںاور چمکتے ہوئے دانتوں والا لحیم و شحیم بچّہ آیا،جو آج سے ہزاروں سال بعد پید ا ہو گا اور جو میری ایک دھندلی سی تصویر تھا۔ میں نے اُسے گود میں اُٹھا لیا اور چھاتی سے لگا، بھینچ بھینچ کر پیار کرنے لگا۔ اُسے پیار کرنے لگا۔ اسے پیار کرتے وقت مجھے فقط یہی محسوس ہوا، جیسے میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کندھے اور بایاں ہاتھ دائیں کندھے پر رکھ کر اپنے آپ کو بھینچ رہا ہوں ۔ اس بچے نے کہا۔

’’بڑے بابا … پرنام … میں جا رہا ہوں‘‘۔

میرا ہونے والا بچّہ اور بزرگانِ سلف تمام واپس جا رہے تھے۔ اِس انہماک کے عالم میں میں ابھی تک دُور کھڑا یہی محسوس کررہا تھا کہ میرا جسم زمین کا ایک ایسا حصہ ہے،جس میں میرے بزرگانِ سلف کی غاریں اور آئندہ نسلوں کے شاندار محل ہیں، جن میں برسوں کے مُردے اور نئے آنے والے اپنے قدیم اور جدید طریقوں سے جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں۔

… گھبرائیے نہیں ، اور سنیے تو … یہ میری باتیں جو بظاہر پاگلوں کی سی دکھائی دیتی ہیں۔ دراصل ہیں بڑی محنت خیز … مجھے کچھ سمجھا لینے دو … پھر میں آپ کو ادبی مضمون میں تشبیہ دینے کا طریقہ بتاؤں گا۔ کل ہی آپ کہہ رہے تھے کہ درختوں پر گدھ شام کے وقت بیٹھے یُوں دکھائی دے رہے تھے، جیسے کسی اونچے شیشم پر سنہری تربوز اوندھے لٹک رہے ہوں … کتنی بھونڈی تشبیہ کہی آپ نے! …

یہ تو میں جانتا ہی تھا کہ روح کے علاوہ مادہ بھی فنا نہیں ہوتا۔ مگر اِس بات کو دیکھنے کی ایک آگ سی ہر وقت سینہ میں سلگتی رہتی تھی، کہ موت کے عالم میں بظاہر فنا ہوتے ہوئے شخص، یعنی ذرہ کی مجموعی صورت کو کن کن تخریبی و تعمیری مدارج سے گزر کر دوسری ہیئت میں آنا پڑتا ہے … یعنی… آخر … موت کا راز کیا ہے؟

وہ ذرۂ عظیم، وہ جزو لایتجزّیٰ، جو کہ تمام ارضی و سماوی طاقت کا مغز ہے، کیسا منظم ہے۔ مثال کے طور پر اجرام فلکی کی گردش کا نظام لیجیے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی جرم اپنے مخصوص راستہ سے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر ہٹ جائے ، تو کیسی قیامت بپا ہو۔ چاند گرہن کے موقع پر ہم لوگ دان پُن بھی کرتے ہیں، تو اِسی لیے کہ وہی ایک ایسا وقت ہو سکتا ہے، جب کہ اجرام فلکی کا کشش ثقل سے اِدھر اُدھر ہو کر اور آپس میں ٹکرا کر مادۂ ہیولیٰ کی شکل اختیار کر لینا ممکن ہے۔ ہم آریہ … حساس، من موجی اور توہم پرست لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ہم کوئی برا کام کرتے ہوئے تباہ ہو جائیں اور وہ مادہ ہیولیٰ کا ایک حصّہ بن جائیں۔ دان پُن سے اچھا کام اور کیا ہو گا؟

… آپ اِسے تصوّف ، وہم، اور خشک اور ترش مضمون کہیں، مگر یہ اِن ہرسہ اقسام سے بالاتر ہے۔ ہاں ہاں! آپ نے پوچھا تھا کہ ذرۂ عظیم کیا ہے… یہ جاندار شئے کی ابتدائی صورت ہے۔ یہ عورت اور مرد دونوں میں زندہ ہے۔ تمام ارضی و سماوی طاقت کا مرکز ہے۔ شاید اِس سے بہتر اس کی کوئی تعریف نہیں کرسکتا۔ اس کے متعلق میں ایک قیاس غیر مصدق، جو بظاہر یاوہ گوئی دکھائی دیتا ہے، مگر ہے بہت جامع اور درست … دہرا دینا چاہتا ہوں۔ وہ قیاسِ غیر مصدق ریاضی طبیعیات کے ایک بڑے ماہر1 نے کہا تھا۔

’’ذرہ … جزو لایتجزّیٰ … ہم نہیں جانتے کیا … کیا کچھ کرتا ہے … ہم نہیں جانتے کیسے… ؟ … ‘‘

شاید ریاضی دانوں نے ریاضی قواعد ضرب و تقسیم اس ذرّے سے ہی سیکھے ہیں، وہ دو سے چار، چار سے آٹھ اور آٹھ سے چوگنا ہو جاتا ہے … اور پھر ہزاروں سے حیران کن طور پر ایک… یہ تو سب جانتے ہیں کہ وہ یہ سے وہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس بات سے پردۂ راز نہیں اُٹھا، کہ وہ کیسے؟جس دن یہ پردۂ راز اُٹھے گا، تو موت کا راز منکشف ہونے میں باقی رہ ہی کیا جائے گا؟

چند دن ہوئے میں اِسی اضطرابِ ذہنی میں مبتلا بیٹھا تھا اور سرطانی سورج گندم کی بالیوں کو پکا رہا تھا۔ بالیاں بالکل سوکھ چکے تھے اور اُن کی داڑھی اس قدر خشک ہو گئی تھی، ایک ایک بال کانٹے کی مانند چبھتا تھا۔ کچھ دبانے سے بال خود بخود جھڑنے لگتے۔ سٹے کو مسلتے مسلتے اس کا ایک بال میرے ناخن میں اتر گیا اور لاکھوں ذرات، جن کی میں مجموعی صورت ہوں، ان میں سے ایک ذرّے کو جو کہ انفرادی طور پر ذرہ عظیم سے کم نہیں، اُس نے آگے دھکیل دیا۔ وہ ذرّہ جو آگے دھکیلا گیا نامعلوم گذشتہ زمانے میں میرا کوئی بزرگ تھا، یا شاید آئندہ نسلوں میں سے کوئی … یہ میں جان نہ سکا۔ بہرحال سِٹے کا بال ان دونوں میں سے نہ تھا۔ وہ ایک بیرونی خارجی چیز تھی، جس کو میرے نظامِ جسم میں چلے آنا اِس مسافر کی مداخلت بے جا کی مانند تھا جو لفظ ’’شارع عام نہیں ہے‘‘ پڑھتے ہوئے بھی اندر گھس آئے۔ یہ قطعی ممانعت کی وجہ ہی تھی کہ درد کی ٹیس اُٹھ اُٹھ کر مجھے لرزہ بر اندام کر رہی تھی…

بھلا ایک کتا اپنی گلی میں دوسرے کتے کو نہیں آنے دیتا، تو میرے قابلِ پرستش بزرگوں اور معرکۃ الآرا کام کرنے والی آئندہ نسلوں کی عظیم الشان ہستیاں اِس خارجی چیز کی مداخلتِ بے جا کو کب برداشت کرسکتی تھیں۔ اُف درد! ماسوا اس چیز کے … اس ذرے کے جو کہ ہماری آئندہ نسلوں کا اپنی ضرب و تقسیم کے ساتھ روحانی اور جسمانی بُت بنے، یا ہمارے بزرگوں سے ہمیں ورثہ میں آئے، کسی اور چیز کو مطلق دخل نہیں۔ مادہ اور روح دونوں اس وقت تک چین نہیں پاتے جب تک خارجی مادے کو ہر ایک تکلیف سہ کر جسم سے باہر نہیں پھینک دیا جاتا۔

وہ ذرہ تو ہر جنبش سے اثرپذیر ہوتا ہے۔ اگر آپ نے غلط روی سے اپنے جسم و روح کے نامناسب استعمال سے انھیں کسی طرح مفلوک اور ناتواں بنا دیا ہے، تو آپ کے وہ ذرّے جنھوں نے آپ کے بیٹے اور پوتے بننا ہے، مفلوک اور ناتواں حالت میں آپ کے سامنے آ کر آپ کے دلی اور ذہنی اضطراب کا باعث ہوں گے۔ وہ اسے قسمت و تقدیر کہیں گے۔ لیکن اگر قسمت کی تعریف مجھ سے پوچھیں ، تو وہ یہ ہے ’’صحبت نیک و بد کے اثر کے علاوہ جو چیز پوری ذمہ داری سے ہمارے بزرگوں نے ہمیں دی ہے۔ وہ ہماری قسمت ہے‘‘۔ اِس لیے آپ جو بھی فعل کریں، سوچ کر کریں۔ انگلی بھی ہلائیں تو سوچ کر … یاد رکھیے ۔ یہ ایک معمولی بات نہیں ہے … اب شاید آپ ذرے کے قول و فعل سے کچھ واقف ہو گئے ہوں گے۔

جس دن سٹے کا بال میرے ناخن میں داخل ہوا، میں بہت مضطرب رہا … شام کو میں گھبرایا ہوا قریب ہی شہر کے ایک بڑے اختر شناس کے پاس گیا۔ اُس نے میری راس وغیرہ دیکھتے ہوئے قیافہ لگایا اور مجھے کہا کہ برہسپت کا اثر تمھیں ہر بلا سے محفوظ رکھے گا اور تمھاری عمر بہت لمبی ہے۔ اِس کا شاید خیال ہو کہ درازیِ عمر کی پیشین گوئی سن کر یہ مالدار زمیندار اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی میں چمکتی ہوئی طلائی انگوٹھی اُتار کر دے گا۔ مگر یہ بات سن کر مجھے سخت بے چینی ہوئی۔ مایوسی کے عالم میں مَیں نے اُسے اس کی قلیل فیس … ایک ناریل، آٹا اور پانچ پیسے دے دیے… میں تو مرنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ اِس حالت میں مجھ پر کیا عمل ہوتا ہے۔ مجھے اِس بات کا بھی شوق تھا کہ میں اِس راز کو، جس کی بابت بڑے بڑے حکیم اور طبیعیات کے ماہر کہہ چکے ہیں۔ … ’’وہ کرتا ہے کچھ … ہم نہیں جانتے کیسے … ‘‘ طشت از بام کر دوں اور دنیا میں پہلا شخص بنوں جو کہ دوسری ہیئت میں آتے ہوئے اپنی حیرت انگیز یاد داشت کے ذریعہ سے دُنیا پر واضح کر دے کہ ذرے کو یہ حالت پیش آتی ہے … اور وہ اس شکل میں تبدیل ہوتا ہے۔

اِس بات کے مشاہدہ کے لیے خود مرنا لازمی تھا۔ مگر عاقل اخترشناس نے اس کے برعکس درازیِ عمر کی روح فرسا خبر سنائی تھی۔ آتم گھات، خود کشی ایک پاپ تھا، جس کا ارتکاب نہ صرف میرے بزرگوں کے نام پر دھبہ لگاتا تھا، بلکہ موجودہ بچّوں اور آئندہ نسلوں پر بھی اثرانداز ہوتا تھا۔ چنانچہ میں نے خودکشی کے خیال کو بالکل باطل گردانا۔

میں جنگل میں ایک ٹیلے پر بیٹھا تھا۔ وہاں سے دریائے گنڈک کے کسی معاون کے ایک آبشار کی آواز صاف طور پر کانوں میں آ رہی تھی اور چونکہ مجھے وہی بات خوش کرسکتی تھی جو کہ میرے دل کو مضطرب کرے، اِس لیے گنڈک کے معاون کے آبشار کی دل کو بٹھا دینے والی آواز مجھے بھا رہی تھی۔ ایک پتھر کو الٹاتے ہوئے میں نے بہت سے کیڑے مکوڑے دیکھے۔ پھر میں نے کہا:۔

’’شاید اس آبشار کی آواز اور موت کے راگ میں کچھ مشابہت ہو … ‘‘شام ہو چکی تھی، سورج مکمل طور پر ڈوبا بھی نہیں تھا کہ سر پر چاند کا بے نور اور کاغذی رنگ کا جسم دکھائی دینے لگا۔ پتھروں میں سے ایک جلا دینے والی بھڑاس نکل رہی تھی۔ یکایک مجھے ایک خیال آیا۔ ایک ترکیب سوجھی جس سے میں ذرے کی ہیئت بدلنے کا مشاہدہ کرسکتا تھا۔ یعنی موت کا عمل بھانپ سکتا تھا۔ اُسے ہم خودکشی بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ صرف مشاہدہ کی آخری منزل ہے۔ وہ یہ … کہ گنڈک کے معاون کے آبشار سے آدھ میل بہاؤ کی طرف، جہاں پانی کی خوفناک لہریں ایک پتھریلے ٹیلے کو عموداً ٹکرا کر اپنا دم توڑتے ہوئے جنوب مشرق کی طرف گنڈک سے ملنے کے لیے بہ نکلتی ہیں، نہانے کے لیے اتر جاؤں اور غیر ارادی طور پر پانی کے اندر ہی اندر گہرائی اور تیز بہاؤ کی طرف آہستہ آہستہ چلتا جاؤں اور یہ صورت پیدا ہو، کہ یا میرا پانو کسی آبی جھاڑی میں اڑ جائے، یا کوئی جانور مجھے کھینچ لے، یا پانی کا کوئی زبردست ریلا وہ عمل میرے سامنے لے آئے جس سے ذرہ کو کوئی دوسری صورت ملے … شاید آپ اِسے بھی خودکشی کہیں مگر اِس غیر ارادی فعل کو میں تو قدرتی موت کہوں گا۔

چنانچہ مرنے سے بہت پہلے میں نے اپنے تصوّر میں کنکھل … گنگا مائی کے چرنوں پر سر رکھا، اور سوگند لی کہ میں ضرور اس غیر ارادی فعل کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔

گنڈک کی معاون، آبشار سے ایک میل بہاؤ کی طرف بھی اس تیز رفتاری سے بہ رہا تھا، باوجودیکہ عموداً چٹان سے ٹکراتے ہوئے اس کی لہریں اپنا دم توڑ چکی تھیں۔

میں کمر تک مکتی ناتھ اور دھولاگری کے ارد گرد کی پہاڑیوں سے آئے ہوئے برفانی پانی میں داخل ہو چکا تھا۔ میں جلدی جلدی آگے بڑھنا نہ چاہتا تھا، کیونکہ ایسا کرنا ارادتاً اپنے آپ کو مار ڈالنا تھا۔ کچھ آگے بڑھتے ہوئے میں نے آہستہ آہستہ پانو کو اقلیدسی نصف دائرہ کی شکل میں گھمانا شروع کیا اور تقریباً پانچ منٹ تک ایسا کرتا رہا، تاکہ کوئی پانی کا ریلا مجھے بہا لے جائے، یا کوئی تیندوا یا گھڑیال پانی میں ٹانگ پکڑ کر مجھے گھسیٹ لے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔

… معاً میرا پانوں ایک آبی جھاڑی میں الجھ گیا۔ اور میں پانی میں غوطے کھانے لگا۔ میرا پانوں پھسلا اور دوسرے لمحہ میں پانی کے ریلے بڑے زور شور سے میرے سر سے گزر رہے تھے۔

کچھ دیر تک تو میں نے اپنا دم سادھے رکھا۔ مگر کب تک؟ بے ہوش ہونے سے پہلے مجھے چند ایک باتیں یاد تھیں کہ میری ٹانگیں اور ہاتھ تیز پانی میں کانپتے ہوئے اِدھر اُدھر چل رہے تھے۔ باہر نکلتے ہوئے سانس سے چند بلبلے اُٹھ کر سطح کی طرف گئے۔ میرے دماغ میں زندہ رہنے کی ایک زبردست خواہش نے اکساہٹ پیدا کی۔ اِس کوشش میں مَیں کسی چیز کو پکڑنے کے لیے پانی میں اِدھر اُدھر ہاتھ پانوں مارنے لگا، مگر اب میں پانی کی زد سے باہر نہ آسکتا تھا، اگرچہ میں نے اس کے لیے بہت کچھ جد و جہد کی۔

اِس کے بعد میری یاد داشت مختل ہونے لگی… میرے بزرگان … کنکھل … پرانی حکایتوں کا شہزادہ … موت کا راز … مکتی ناتھ … کنکھل … موت کا راز … اِس کے بعد ایک نیلا سا اندھیرا چھا گیا۔ اندھیرے میں کبھی کبھی روشنی کی ایک جھلک ایک بڑے سے کیڑے کی شکل میں دکھائی دیتی … پھر پُرانی حکایتوں کا شہزادہ … ذرّہ … موت کا عمل … خاموشی اور اندھیرا ہی اندھیرا !!

اس مکمل بے ہوشی میں مجھے ایک نقطہ سا دکھائی دیا، جو کہ برابر پھیلتا گیا۔ شاید یہ وہی ذرۂ عظیم تھا جس کی بابت میں نے بہت کچھ کہا ہے۔ جو بسیط ہوتا گیا … پھیل کر ایک جھلی کی سی صورت میں میرے جسم کے اردگرد لپٹ گیا۔ اس طرح کہ اب پانی اس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے میں کسی خلا میں ہوں۔ جہاں سانس لینا بھی ایک تکلف ہے۔

ذرّۂ عظیم سے آواز آنے لگی ۔

موت کے عمل میں تین حالتیں ہوتی ہیں۔ قبل از موت، موت ، بعد از موت۔ اول حالت میں ہو سکتا ہے کہ دوسری حالت تم پر طاری ہونے سے پہلے تم زندہ رہ جاؤ۔ قدرتاً اس میں تمھیں دوسری حالت کا احساس نہیں ہو سکتا۔ دوسری حالت میں تم اِس بات کو ایک عارضی عرصہ کے لیے جان سکتے ہو، جس کی تم اتنی خواہش لیے ہوئے ہو، مگر اس کا اظہار نہیں کرسکتے۔ مابعد موت تمھیں زندگی کی پہلی نشانی گویائی کی قوت عطا کی جاتی ہے۔ پھر یادداشت کو جو اول دوم حالت میں تمھارے ساتھ ہوتی ہے، اسے خیرباد کہنا ہوتا ہے۔ ذرّے کو فراموشی عطا کر کے اس پر مہربانی کی جاتی ہے۔ عین اسی طرح جیسے آدمی کو غیب سے نا آشنا رکھ کر اس پر کرم کیا جاتا ہے … وہ راز یادداشت کی مکمل تحلیل میں پنہاں ہے۔

’’یادداشت کی مکمل تحلیل‘‘۔ میں نے اِن الفاظ کو ذہن میں دہراتے ہوئے کہا ’’یادداشت کی تحلیل … کیا ہماری نسلیں بھی ہماری یادداشت ہیں؟ … اور کیا اس کی مکمل تحلیل پر میں وہ راز دنیا والوں کے سامنے طشت از بام کرسکتا ہوں؟ … میں زندہ رہنا چاہتا ہوں‘‘۔

… زندگی کی اِس خواہش کے ساتھ ہی میں نے اپنے آپ کو مکتی ناتھ اور دھولاگری کے ارد گرد کی پہاڑیوں میں سے بہ کر آتے ہوئے برفانی پانی کی سطح پر پایا۔ جھلّی سی میرے جسم پر سے اُتر چکی تھی۔ زندگی کی ایک اور خواہش کے پیدا ہوتے ہی گنڈک کے معاون کے ایک ریلے نے مجھے کنارے پر پھینک دیا۔ اس وقت چاندنی رات میں ہوا تیزی سے چل کر سانس کی صورت میں میرے ایک ایک مسام میں داخل ہو رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

گرہن

 

رُوپو، شِبو، کُتھّو اور مُنّا … ہولی نے اساڑھی کے کائستھوں کو چار بچیّ دیے تھے اور پانچواں چند ہی مہینوں میں جننے والی تھی۔ اُس کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے پڑنے لگے۔ گالوں کی ہڈیاں اُبھر آئیں اور گوشت ان میں پچک گیا۔ وہ ہولی، جسے پہلے پہل میّا پیار سے چاند رانی کہہ کر پکارا کرتی تھی اور جس کی صحت اور سُندرتا کا رسیلا حاسد تھا، گرے ہوئے پتیّ کی طرح زرد اور پژمردہ ہو چکی تھی۔

آج رات چاند گرہن تھا۔ سرِ شام چاند،گرہن کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہولی کو اجازت نہ تھی کہ وہ کوئی کپڑا پھاڑ سکے … پیٹ میں بچے کے کان پھٹ جائیں گے۔ وہ سی نہ سکتی تھی … منھ سلا بچہّ پیدا ہو گا ۔ اپنے میکے خط نہ لکھ سکتی تھی … اس کے ٹیڑھے میڑھے حروف بچّے کے چہرے پر لکھے جائیں گے … اور اپنے میکے خط لکھنے کا اُسے بڑا چاؤ تھا۔

میکے کا نام آتے ہی اُس کا تمام جسم ایک نا معلوم جذبہ سے کانپ اُٹھتا۔ وہ میکے تھی تو اُسے سُسرال کا کتنا چاؤ تھا۔ لیکن اب وہ سُسرال سے اتنی سیر ہو چکی تھی کہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ اس بات کا اس نے کئی مرتبہ تہیّہ بھی کیا لیکن ہر دفعہ ناکام رہی۔ اُس کے میکے اساڑھی گانو سے پچیس میل کے فاصلہ پر تھے۔ سمندر کے کنارے ہر پھول بندر پر شام کے وقت سٹیمر لانچ مل جاتا تھا اور ساحل کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹہ کی مسافت کے بعد اُس کے میکے گانو کے بڑے مندر کے زنگ خوردہ کلس دکھائی دینے لگتے۔

آج شام ہونے سے پہلے روٹی، چوکا برتن کے کام سے فارغ ہونا تھا۔ میّا کہتی تھی گرہن سے پہلے روٹی وغیرہ کھا لینی چاہیے، وگر نہ ہر حرکت پیٹ میں بچے کے جسم و تقدیر پر اثرانداز ہوتی ہے۔ گویا وہ بد زیب، فراغ نتھنوں والی مٹیلی میّا اپنی بہو حمیدہ بانو کے پیٹ سے کسی اکبر اعظم کی متوقع ہے۔ چار بچوں، تین مردوں، دو عورتوں، چار بھینسوں پر مشتمل بڑا کنبہ اور اکیلی ہولی … دوپہر تک تو ہولی برتنوں کا انبار صاف کرتی رہی۔ پھر جانوروں کے لیے بنولے، کھلی اور چنے بھگونے چلی، حتیٰ کہ اُس کے کولھے درد سے پھٹنے لگے اور بغاوت پسند بچہ پیٹ میں اپنی       بے بضاعت مگر ہولی کو تڑپا دینے والی حرکتوں سے احتجاج کرنے لگا۔ ہولی شکست کے احساس سے چوکی پر بیٹھ گئی۔ لیکن وہ بہت دیر تک چوکی یا فرش پر بیٹھنے کے قابل نہ تھی اور پھر میّا کے خیال کے مطابق چوڑی چکلی چوکی پر بہت دیر بیٹھنے سے بچے کا سر چپٹا ہو جاتا ہے۔ مونڈھا ہو تو اچھا ہے۔ کبھی کبھی ہولی میّا اور کائستھوں کی آنکھ بچا کر کھاٹ پر سیدھی پڑ جاتی اور ایک شکم پُر کتیا کی طرح ٹانگوں کو اچھی طرح سے پھیلا کر جمائی لیتی اور پھر اسی وقت کانپتے ہوئے ہاتھ سے اپنے ننھے سے دوزخ کو سہلانے لگتی۔

یہ خیال کرنے سے کہ وہ سیتل کی بیٹی ہے، وہ اپنے آپ کو روک نہ سکتی تھی۔ سیتل سارنگ دیوگرام کا ایک متمول ساہوکار تھا اور سارنگ دیوگرام کے نواح کے بیس گانووں کے کسان اُس سے بیاج پر روپیہ لیتے تھے۔ اِس کے باوجود اُسے کائستھوں کے ہاں ذلیل کیا جاتا تھا۔ ہولی کے ساتھ کتّوں سے بھی بُرا سلوک ہوتا تھا۔ کائستھوں کو تو بچے چاہئیں۔ ہولی جہنم میں جائے۔ گویا سارے گجرات میں یہ کائستھ ہی کل ودھو (کل کو بڑھانے والی… بہو) کا صحیح مطلب سمجھتے تھے۔

ہر سال ڈیڑھ سال کے بعد وہ ایک نیا کیڑا گھر میں رینگتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے تھے،اور بچے کی وجہ سے کھایا پیا ہولی کے جسم پر اثرانداز نہیں ہوتا تھا۔ شاید اُسے روٹی بھی اسی لیے دی جاتی تھی کہ پیٹ میں بچہ مانگتا ہے اور اسی لیے اُسے حمل کے شروع چاٹ اور اب پھل آزادانہ دیے جاتے تھے …

’’دیور ہے تو وہ الگ پیٹ لیتا ہے‘‘ ہولی سوچتی تھی ’’اور ساس کے کوسنے مار پیٹ سے کہیں بُرے ہیں ،اور بڑے کائستھ جب ڈانٹنے لگتے ہیں تو پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ ان سب کو بھلا میری جان لینے کا کیا حق ہے؟ … رسیلا کی بات تو دوسری ہے۔ شاستروں نے اُسے پرماتما کا درجہ دیا ہے۔ وہ جس چھُری سے مارے اُس چھُری کا بھلا !… لیکن کیا شاستر کسی عورت نے بنائے ہیں؟ اور میّا کی تو بات ہی علاحدہ ہے۔ شاستر کسی عورت نے لکھے ہوتے تو وہ اپنی   ہم جنس پر اُس سے بھی زیادہ پابندیاں عائد کرتی …۔‘‘

… راہو اپنے نئے بھیس میں نہایت اطمینان سے امرت پی رہا تھا۔ چاند اور سورج نے وشنو مہاراج کو اس کی اطلاع دی اور بھگوان نے سدرشن سے راہو کے دو ٹکڑے کر دیے۔اس کا سر اور دھڑ دونو آسمان پر جا کر راہو اور کیتو بن گئے ۔ سورج اور چاند دونو ان کے مقروض ہیں۔ اب وہ ہر سال دو مرتبہ چاند اور سورج سے بدلہ لیتے ہیں اور ہولی سوچتی تھی۔ بھگوان کے کھیل بھی نیارے ہیں … اور راہو کی شکل کیسی عجیب ہے۔ ایک کالا سا راکشس، شیر پر چڑھا ہوا دیکھ کر کتنا ڈر آتا ہے۔ رسیلا بھی تو شکل سے راہو ہی دکھائی دیتا ہے۔ مُنّا کی پیدائش پر ابھی چالیسواں بھی نہ نہائی تھی تو آ موجود ہوا … کیا میں نے بھی اس کا قرضہ دینا ہے؟

اس وقت ہولی کے کانوں میں ماں بیٹے کے آنے کی بھنک پڑی۔ ہولی نے دونو ہاتھوں سے پیٹ کو سنبھالا اور اُٹھ کھڑی ہوئی اور جلدی سے توے کو دھیمی دھیمی آنچ پر رکھ دیا۔ اب اُس میں جھُکنے کی تاب نہ تھی کہ پھونکیں مار کر آگ جلا سکے۔ اس نے کوشش بھی کی لیکن اس کی آنکھیں پھٹ کر باہر آنے لگیں۔

رسیلا ایک نیا مرمت کیا ہوا چھاج ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوا۔ اُس نے جلدی سے ہاتھ دھوئے اور منھ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔ اس کے پیچھے میّا آئی اور آتے ہی بولی۔

’’بہو … اناج رکھا ہے کیا؟‘‘

ہولی ڈرتے ڈرتے بولی ’’ہاں ہاں … رکھا ہے … نہیں رکھا، یاد آیا، بھول گئی تھی میّا…‘‘

’’تو بیٹھی کر کیا رہی ہے، نباب جادی؟‘‘

ہولی نے رحم جویانہ نگاہوں سے رسیلے کی طرف دیکھا اور بولی ’’جی، مجھ سے اناج کی بوری ہلائی جاتی ہے کہیں؟‘‘

میّا لاجواب ہو گئی اور یوں بھی اسے ہولی کی نسبت اس کے پیٹ میں بچے کی زیادہ پروا تھی۔ شاید اسی لیے ہولی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی …

’’تُو نے سُرمہ کیوں لگایا ہے ری ؟ … رانڈ، جانتی بھی ہے آج گہن ہے جو، بچہّ اندھا ہو جائے تو تیرے ایسی بیسوا اُسے پالنے چلے گی؟‘‘

ہولی چُپ ہو گئی اور نظریں زمین پر گاڑے ہوئے منھ میں کچھ بڑبڑاتی گئی۔ اور سب ہو جائے لیکن رانڈ کی گالی اُس کی برداشت سے باہر تھی۔ اسے بڑبڑاتے دیکھ کر میّا اور بھی بکتی جھکتی چابیوں کا گچھّا تلاش کرنے لگی۔ ایک میلے شمعدان کے قریب سرمہ پیسنے کا کھرل رکھا ہوا تھا۔ اُس میں سے چابیوں کا گچھّا نکال کر وہ بھنڈارے کی طرف چلی گئی۔ رسیلے نے ایک پُرہوس نگاہ سے ہولی کی طرف دیکھا۔ اس وقت ہولی اکیلی تھی۔ رسیلے نے آہستہ سے آنچل کو چھُوا۔ ہولی نے ڈرتے ڈرتے دامن جھٹک دیا اور اپنے دیور کو آوازیں دینے لگی۔ گویا دوسرے آدمی کی موجودگی چاہتی ہے۔ اس کیفیت میں مرد کو ٹھکرا دینا معمولی بات نہیں ہوتی۔ رسیلا آواز کو چباتے ہوئے بولا۔

’’میں پوچھتا ہوں بھلا اتنی جلدی کاہے کی تھی؟‘‘

’’جلدی کیسی؟‘‘

رسیلا پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ’’یہی … تم بھی تو کُتیا ہو، کُتیا۔‘‘

ہولی سہم کر بولی۔ ’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟‘‘

ہولی نے نادانستگی میں رسیلے کو وحشی، بد چلن، ہوس ران سبھی کچھ کہہ دیا۔ چوٹ سیدھی پڑی۔ رسیلا کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ لاجواب آدمی کا جواب چپت ہوتی ہے اور دوسرے لمحے میں انگلیوں کے نشان ہولی کے گالوں پر دکھائی دینے لگے۔

اُس وقت میّا ماش کی ایک ٹوکری اٹھائے ہوئے بھنڈارے کی طرف سے آئی اور بہو سے بدسلوکی کرنے کی وجہ سے بیٹے کو جھڑکنے لگی۔ ہولی کو رسیلے پر تو غصّہ نہ آیا، البتہ میّا کی اس عادت سے جل بھَن گئی … ’’رانڈ، آپ مار ے تو اس سے بھی جیادہ ،اور جو بیٹا کچھ کہے تو ہمدردی جتاتی ہے، بڑی آئی ہے …‘‘

ہولی سوچتی تھی کل رسیلا نے مجھے اس لیے مارا تھا کہ میں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا، اور آج اس لیے مارا ہے کہ میں نے بات کا جواب دیا ہے۔ میں جانتی ہوں وہ مجھ سے کیوں ناراض ہے۔ کیوں گالیاں دیتا ہے۔ میرے کھانے پکانے، اُٹھنے بیٹھنے میں اُسے کیوں سلیقہ نہیں دکھائی دیتا … اور میری یہ حالت ہے کہ ناک میں دم آچکا ہے اور مرد عورت کو مصیبت میں مبتلا کر کے آپ الگ ہو جاتے ہیں، یہ مرد …!

میّا نے کچھ باس متی، دالیں اور نمک وغیرہ رسوئی میں بکھیر دیا اور پھر ایک بھیگی ہوئی ترازو میں اُسے تولنے لگی۔ ترازو گیلا تھا، یہ میّا بھی دیکھ رہی تھی اور جب باس متی چانول پیندے میں چمٹ گئے تو بہو مرتی کرتی پھوہڑ ہو گئی اور آپ اتنی سگھڑ کہ نئے دوپٹے سے پیندا صاف کرنے لگی۔ جب بہت میلا ہو گیا تو دوپٹے کو سر پر سے اُتار کر ہولی کی طرف پھینک دیا اور بولی۔

’’لے، دھو ڈال‘‘۔

اب ہولی نہیں جانتی بچاری کہ وہ روٹیاں پکائے یا دوپٹا دھوئے۔ بولے یا نہ بولے، ہِلے یا نہ ہِلے، وہ کُتیا ہے یا نباب جادی۔ اس نے دوپٹا دھونے ہی میں مصلحت سمجھی۔ اُس وقت چاند گرہن کے زمرہ میں داخل ہونے والا ہی ہو گا۔ بچہ دھُلے ہوئے کپڑے کی طرح چُرمُرسا پیدا ہو گا اور اگر ماہ دو ماہ بعد بچے کا بُرا سا چہرہ دیکھ کر اُسے کوسا جائے تو اس میں ہولی کا کیا قصور ہے؟… لیکن قصور اور بے قصوری کی تو بات ہی علاحدہ ہے کیونکہ یہ کوئی سننے کے لیے تیار نہیں کہ اس میں ہولی کا گناہ کیا ہے، سب گناہ ہولی کا ہے۔

اسی وقت ہولی کو سارنگ دیوگرام یاد آ گیا۔ کس طرح وہ اسوج کے شروع میںدوسری عورتوں کے ساتھ گربا ناچا کرتی تھی اور بھابی کے سر پر رکھے ہوئے گھڑے کے سوراخوں میں سے روشنی پھوٹ پھوٹ کر دالان کے چاروں کونوں کو منور کر دیا کرتی تھی۔ اس وقت سب عورتیں اپنے حنا مالیدہ ہاتھوں سے تالیاں بجایا کرتی تھیں اور گایا کرتی تھیں …

ماہندی1 توادی مالوے

اینو رنگ گیو گجرات رے

ماہندی رنگ لاگیو رے

اُس وقت وہ ایک اُچھلنے کودنے والی الھڑ چھوکری تھی، ایک بحر و قافیہ سے آزاد نظم، جو چاہتی تھی پورا ہو جاتا تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔ نباب جادی تو نہ تھی اور اُس کی سہیلیاں… وہ بھی اپنے اپنے قرض خواہوں کے پاس جا چکی ہوں گی۔

… سارنگ دیوگرام میں گرہن کے موقع پر جی کھول کر دان پُن کیا جاتا ہے۔ عورتیں اکٹھی ہو کر ترویدی گھاٹ پر اشنان کے لیے چلی جاتی ہیں۔ پھول، ناریل ، بتاشے سمندر میں بہاتی ہیں۔ پانی کی ایک اُچھال منھ کھولے ہوئے آتی ہے اور سب پھول پتوں کو قبول کر لیتی ہے۔ اس وقت کے اشنان سے سب مرد عورتوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔ ان گناہوں کا جن کا ارتکاب لوگ گزشتہ سال کرتے رہے ہیں، اشنان سے سب پاپ دھُل جاتے ہیں۔ بدن اور رُوح پاک ہو جاتی ہے۔ سمندر کی لہر لوگوں کے سب گناہوں کو بہا کر دُور، بہت دُور … ایک نامعلوم، ناقابلِ عبور، ناقابلِ پیمائش سمندر میں لے جاتی ہے … ایک سال بعد پھر لوگوں کے بدن گناہوں سے آلودہ ہو جاتے ہیں، پھر گہنا جاتے ہیں۔ پھر دیا کی ایک لہر آتی ہے اور پھر     پاک و صاف۔

جب گرہن شروع ہوتا ہے اور چاند کی نورانی عصمت پر داغ لگ جاتا ہے تو چند لمحات کے لیے چاروں طرف خاموشی اور پھر رام نام کا جاپ شروع ہوتا ہے۔ پھر گھنٹے، ناقوس، شنکھ ایک دم بجنے لگتے ہیں۔ اس شور و غوغا میں اشنان کے بعد سب مرد عورتیں جمگھٹے کی صورت میں گاتے بجاتے ہوئے گانو واپس لوٹتے ہیں۔

گرہن کے دوران میں غریب لوگ بازاروں اور گلی کوچوں میں دوڑتے ہیں۔ لنگڑے بیساکھیاں گھماتے ہوئے اپنی اپنی جھولیاں اور کشکول تھامے پلیگ کے چوہوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگتے چلے جاتے ہیں، کیونکہ راہو اور کیتو نے خوبصورت چاند کو اپنی گرفت میں پوری طرح سے جکڑ لیا ہے۔ نرم دل ہندو دان دیتا ہے تاکہ غریب چاند کو چھوڑ دیا جائے اور دان لینے کے لیے بھاگنے والے بھکاری چھوڑ دو، چھوڑ دو ، دان کا وقت ہے … چھوڑ دو کا شور مچاتے ہوئے میلوں کی مسافت طے کر لیتے ہیں۔

چاند ،گرہن کے زمرہ میں آنے والا ہی تھا، ہولی نے بچوں کو بڑے کائستھ کے پاس چھوڑا۔ ایک میلی کچیلی دھوتی باندھی اور عورتوں کے ساتھ ہر پھول بندر کی طرف اشنان کے لیے چلی۔

اب میّا ، رسیلا، بڑا لڑکا شِبو اور ہولی سب سمندر کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں پھُول تھے۔ گجرے تھے اور آم کے پتے تھے اور بڑی اماں کے ہاتھ میں رودرکش کی مالا کے علاوہ مشک کافور تھا ، جسے وہ جلا کر پانی کی لہروں پر بہا دینا چاہتی تھی، تاکہ مرنے کے بعد سفر میں اس کا راستہ روشن ہو جائے اور ہولی ڈرتی تھی … کیا اس کے گناہ سمندر کے پانی سے دھوئے دھُل جائیں گے؟

سمندر کے کنارے گھاٹ سے پون میل کے قریب ایک لانچ کھڑا تھا۔ وہ جگہ ہر پھول بندر کا ایک حصہ تھی۔ بندر کے چھوٹے سے ناہموار ساحل اور ایک مختصر سے ڈاک پر کچھ ٹینڈل غروبِ آفتاب میں روشنی اور اندھیرے کی کشمکش کے خلاف ننھے ننھے بے بضاعت سے خاکے بنا رہے تھے اور لانچ کے کسی کیبن سے ایک ہلکی سی ٹمٹماتی ہوئی روشنی سیماب دار پانی کی لہروں پر ناچ رہی تھی۔ اس کے بعد ایک چرخی سی گھومتی ہوئی دکھائی دی۔ چند ایک دھندلے سے سائے ایک اژدہا نما رسّے کو کھینچنے لگے۔ آٹھ بجے سٹیمر لانچ کی آخری سیٹی تھی۔ پھر وہ سارنگ دیوگرام کی طرف روانہ ہو گا۔ اگر ہولی اس پر سوار ہو جائے تو پھر ڈیڑھ دو گھنٹے میں وہ چاندنی میں نہاتے ہوئے گویا صدیوں سے آشنا کلس دکھائی دینے لگیں … اور پھر وہی اماں … کنوار پن اور گربا ناچ!

ہولی نے ایک نظر سے شبو کی طرف دیکھا۔ شبو حیران تھا کہ اس کی ماں نے اتنی بھیڑ میں جھک کر اُس کا منھ کیوں چوما اور ایک گرم گرم قطرہ کہاں سے اُس کے گالوں پر آ پڑا۔ اُس نے آگے بڑھ کر رسیلے کی انگلی پکڑ لی۔ اب گھاٹ آ چکا تھا جہاں سے مرد اور عورتیں علاحدہ ہوتی تھیں۔ ہمیشہ کے لیے نہیں، فقط چند گھنٹوں کے لیے … اسی پانی کی گواہی میں وہ اپنے مردوں سے باندھ دی گئی تھیں۔ پانی میں بھی کیا پُراسرار بعید الفہم طاقت ہے … اور دور سے لانچ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی ہولی تک پہنچ رہی تھی۔

ہولی نے بھاگنا چاہا مگر وہ بھاگ بھی تو نہ سکتی تھی۔ اس نے اپنی ہلکی سی دھوتی کو کس کر باندھا … دھوتی نیچے کی طرف ڈھلک جاتی تھی… آدھ گھنٹے میں وہ لانچ کے سامنے کھڑی تھی۔ لانچ کے سامنے نہیں … سارنگ دیوگرام کے سامنے … وہ کلس، مندر کے گھنٹے ، لانچ کی سیٹی اور ہولی کو یاد آیا کہ اُس کے پاس تو ٹکٹ کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔

وہ کچھ عرصہ تک لانچ کے ایک کونے میں بدحواس ہو کر بیٹھی رہی۔ پونے آٹھ بجے کے قریب ایک ٹینڈل آیا اور ہولی سے ٹکٹ مانگنے لگا۔ ٹکٹ نہ پانے پر وہ خاموشی سے وہاں سے ٹل گیا۔ کچھ دیر بعد ملازموں کی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں … پھر اندھیرے میں خفیف سے ہنسنے اور باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ کوئی کوئی لفظ ہولی کے کان میں بھی پڑ جاتا … مرغی … دُولے… چابیاں میرے پاس ہیں… پانی زیادہ ہو گا…

اس کے بعد چند وحشیانہ قہقہے بلند ہوئے اور کچھ دیر بعد تین چار آدمی ہولی کو لانچ کے ایک تاریک کونے کی طرف دھکیلنے لگے۔ اُسی وقت آبکاری کا ایک سپاہی لانچ میں وارد ہوا، عین جب کہ دُنیا ہولی کی آنکھوں میں تاریک ہو رہی تھی، ہولی کو امید کی ایک شعاع دکھائی دی۔ وہ سپاہی سارنگ دیوگرام کا ہی ایک چھوکرا تھا اور میکے کے رشتہ سے بھائی تھا۔ چھ سال ہوئے وہ بڑی امنگوں کے ساتھ گانو سے باہر نکلا تھا اور سابرمتی پھاند کر کسی نامعلوم دیس کو چلا گیا تھا۔ کبھی کبھی مصیبت کے وقت انسان کے حواس بجا ہو جاتے ہیں۔ ہولی نے سپاہی کو آواز سے ہی پہچان لیا۔ اور کچھ دلیری سے بولی۔

’’کتھو رام‘‘۔

کتھو رام نے بھی سیتل کی چھوکری کی آواز پہچان لی۔ بچپن میں وہ اُس کے ساتھ کھیلا تھا۔

کتھو رام بولا …

’’ہولے‘‘۔

ہولی یقین سے معمور مگر بھرّائی ہوئی آواز میں بولی ’’کتھو بھیّا … مجھے سارنگ دیوگرام پہنچا دو … ۔‘‘

کتھو رام قریب آیا۔ ایک ٹینڈل کو گھورتے ہوئے بولا۔

’’سارنگ دیو جاؤ گی ہولے؟‘‘ اور پھر اپنے سامنے کھڑے ہوئے آدمی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔’’تم نے اسے یہاں کیوں رکھا ہے بھائی؟‘‘

ٹینڈل جو سب سے قریب تھا بولا۔

’’بچاری کوئی دُکھیا ہے۔ اس کے پاس تو ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ ہم سوچ رہے تھے ہم اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟‘‘

کتھو رام نے ہولی کو ساتھ لیا اور لانچ سے نیچے اتر آیا۔ ڈاک پر قدم رکھتے ہوئے بولا۔

’’ہولے … کیا تم اساڑھی سے بھاگ آئی ہو؟‘‘

’’ہاں‘‘۔

’’یہ سریپھ جادیوں کا کام ہے؟ … اور جو میں کائستھوں کو خبر کر دوں تو؟‘‘

ہولی ڈر سے کانپنے لگی۔ وہ نہ تو نباب جادی تھی اور نہ سریپھ جادی۔ اس جگہ اور ایسی حالت میں وہ کتھو رام کو کچھ کہہ بھی تو نہ سکتی تھی۔ وہ اپنی کمزوری کو محسوس کرتی ہوئی خاموشی سے سمندر کی لہروں کے تلاطم کی آوازیں سننے لگی۔ پھر اس کے سامنے لانچ کے رسے ڈھیلے کیے گئے۔ ایک ہلکی سی وِسل ہوئی اور ہولے ہولے سارنگ دیوگرام ہولی کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس نے ایک دفعہ پیچھے کی جانب دیکھا۔ لانچ کی ہلکی سی روشنی میں اُسے جھاگ کی ایک لمبی سی لکیر لانچ کا پیچھا کرتی ہوئی دکھائی دی۔

کتھورام بولا ڈرو نہیں ہولے … میں تمھاری ہر ممکن مدد کروں گا۔ یہاں سے کچھ دور ناؤ پڑتی ہے۔ پَو پھٹے لے چلوں گا۔ یوں گھبراؤ نہیں۔ رات کی رات سرائے میں آرام کر لو۔‘‘

کتھو رام ہولی کو سرائے میں لے گیا۔ سرائے کا مالک بڑی حیرت سے کتھورام اور اُس کے ساتھی کو دیکھتا رہا۔ آخر جب وہ نہ رہ سکا، تو اُس نے کتھورام سے نہایت آہستہ آواز میں پوچھا۔

’’یہ کون ہیں؟‘‘

کتھورام نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’میری پتنی ہے۔‘‘

ہولی کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔ ایک دفعہ اُس نے اپنے پیٹ کو سہارا دیا اور دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئی۔ کتھورام نے سرائے میں ایک کمرہ کرائے پر لیا۔ ہولی نے ڈرتے ڈرتے اُس کمرے میں قدم رکھا۔ کچھ دیر بعد کتھورام اندر آیا تو اُس کے منھ سے شراب کی بو آ رہی تھی …

سمندر کی ایک بڑی بھاری اچھال آئی۔ سب پھُول، بتاشے، آم کی ٹہنیاں، گجرے اور جلتا ہوا مشک کافور بہا کر لے گئی۔ اس کے ساتھ ہی انسان کے مہیب ترین گناہ بھی لیتی گئی … دُور، بہت دور، ایک نامعلوم، ناقابلِ عبور، ناقابلِ پیمائش سمندر کی طرف … جہاں تاریکی ہی تاریکی تھی … پھر شنکھ بجنے لگے۔ اُس وقت سرائے میں سے کوئی عورت نکل کر بھاگی۔ سرپٹ، بگٹٹ … وہ گرتی تھی، بھاگتی تھی، پیٹ پکڑ کر بیٹھ جاتی، ہانپتی اور دوڑنے لگتی … اُس وقت آسمان پر چاند پورا گہنا جا چکا تھا۔ راہو اور کیتو دونو نے جی بھر کر قرضہ وصول کیا تھا۔ دو دھندلے سے سائے اُس عورت کی مدد کے لیے سراسیمہ ادھر اُدھر دوڑ رہے تھے … چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور دُور ، اساڑھی سے ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔

دان کا وقت ہے …

چھوڑ دو … چھوڑ دو … چھوڑ دو …

ہر پھول بندر سے آواز آئی …

پکڑ لو … پکڑ لو … پکڑ لو …

…………

…………

چھوڑ دو … دان کا وقت ہے … پکڑ لو … چھوڑ دو !!!

٭٭٭

 

 

 

دس مِنٹ بارش میں

 

 

— ابوبکر روڈ شام کے اندھیرے میں گم ہو رہی ہے۔یوں دکھائی دیتا ہے ، جیسے کوئی کشادہ سا راستہ کسی کوئلے کی کان میں جا رہا ہے… سخت بارش میں ورونٹا کی باڑ، سفرینا کا گلاب، قطب سید حسین مکّی کے مزار شریف کے کھنڈر میں، ایک کھلتے ہوئے مشکی رنگ کی گھوڑی جس کی پُشت نم آلود ہو کر سیاہ ساٹن کی طرح دکھائی دے رہی ہے، سب بھیگ رہے ہیں … اور راٹا بھیگ رہی ہے!

راٹا کون ہے؟ اسے کلپ برکش کہہ لو یا کام دھین گائے۔ یا اس سے بہتر راٹا … راٹا ہے۔ پھرایا لال کی بیوی، ایک دس سالہ کاہل، جاہل، نا اہل چھوکرے کی ماں۔ چند ماہ ہوئے تخفیف کے موقع پر ہیوم پائپ کمپنی والوں نے پھرایا لال کو کام سے الگ کر دیا۔ اُس وقت سے اُس کی پُرسکون زندگی میں قسمت کے گردباد پیدا ہونے لگے۔ تلاشِ معاش میں نہ جانے وہ کہاں چل دیا۔ سُنا ہے کہ وہ راٹا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا ہے،کیونکہ وہ اُس سے محبت کرتی ہے اور جس شخص میں محبت کی سی کمزوری ہو، وہ پائے استحقار سے ٹھکرا دیا جاتا ہے … مرچو تیزابی کا بیان ہے کہ پوہ کے ایک سرد، نیلے سے دھندلکے میں اُس نے پھرایا لال کو اپنی ہی برادری کی ایک عورت کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔ وہی عورت … کوڑی، جو ابوبکر روڈ کے مکانوں میں سے گملے اُٹھایا کرتی تھی۔ ان دنوں پھرایا لال بیکار تھا۔ بیکار انسان کے عقل و فکر میں خونِ جگر پینے یا کثرت سے محبت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں سماتا۔ بعض آدمیوں نے پھرایا کو کوٹ پتلی میں صفیں بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ قریب ہی کوڑی ایک غیر آدمی کے ساتھ مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھی … راٹا پھر بھی پھرایا لال کو دل سے چاہتی ہے۔ یہ محبت اور جنوں کے انداز بھی کبھی چھٹتے ہیں؟ … اور راٹا بھیگ رہی ہے!

راٹا کی گھوڑی ابوبکر روڈ پر ہماری کوٹھی کے سامنے گھوم رہی ہے۔ وہ اُس کا شبِ دیجور کاسا رنگ! … صرف اس کے ہنہنانے اور کبھی کبھی بجلی کے کوندنے سے اُس کے وجود کا علم ہوتا ہے۔ صبح سے بے چاری کو دانہ نہیں دیا گیا، نہ ہی اُس کی موچ والی ٹانگ پر ہلدی لگائی گئی ہے۔ بھوک کی شدّت سے بے بس اور بگڑ کر وہ آوارہ ہو رہی ہے۔ شاید پھرایا کو ڈھونڈتی ہو گی۔ پھرایا … جو اسے بھی چھوڑ کر کوڑی کے ساتھ چلا گیا ہے۔ کوڑی جو کوٹ پتلی میں کسی دوسرے مرد کے ساتھ مسکرامسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔ ایک وقت میں ایک دل کے اندر مشکی گھوڑی رہ سکتی ہے یا کوڑی ۔ کوڑی یا راٹا … اور بھوکی مشکی گھوڑی ہنہناتی ہے جیسے کبھی سکندر سے جُدا ہونے پر بُوس فیلس ہنہناتا تھا۔

راٹا اپنے سر سے بوریے کی اوڑھنی اُٹھا کر پوچھتی ہے۔

’’بابو جی… آپ نے یہاں رامی نہیں دیکھی؟ … رامی … میری مشکی گھوڑی۔‘‘

میں نے کہا ۔ ’’رامی؟ کون رامی؟ … اچھا رامی تمھاری مشکی گھوڑی۔ اری ! وہ ورونٹا کی باڑ کے پیچھے تو کھڑی ہے۔ تمھیں دکھائی نہیں دیتی کیا؟‘‘

راٹا آنکھوں کو سکیڑ کر باڑ کی طرف دیکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے۔ جب کھلتے ہوئے مشکی رنگ کی گھوڑی شام کے وقت بارش میں بھیگ جاتی ہے، تو وہ بھی شبِ دیجور کا ایک جزو بن جاتی ہے، اور بے نور، رو رو کر جوت گنوائی، آنکھوں کو اُسے تاریکیِ شام یا شامِ تاریک سے جدا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے … بارش کی رِم جھم، سرس کی لمبی لمبی پھلیوں کی کھڑکھڑ، گرتے ہوئے پتوں کے نوحے، رعد کی گرج، بطخوں کی بط بط، مینڈکوں کی ٹراہٹ، پرنالوں کے شور، اس کتیا کی اونہہ … اونہہ، جس نے ابھی ابھی سات بچّوں کا جھول جنا ہے، اور ایک بچے کو منھ میں پکڑے کسی سوکھی، نرم و گرم جگہ کی متلاشی ہے۔ ان سب کے شور و غوغا میں بھوکی گھوڑی کی جگر دوز ہنہناہٹ علاحدہ سنائی دیتی ہے۔

پراشر کہتا ہے۔ ’’میں بھیگ رہا ہوں … اور وہ بھی بھیگ رہی ہے۔‘‘

ماں خفا ہوتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’گیلا … گیلا … گیلا … تنور بالکل گرنے والا ہو گیا ہے۔ ایں؟ یہ موئی کتیا تنور میں چھپی بیٹھی ہے۔ میرا تنور گر جائے گا۔ یہ بے وقت کی بارشیں، رام رے! … ‘‘

ننھّے بشن کا فراک گر کر صحن میں پڑا ہوا یوں دکھائی دیتا ہے،جیسے کوئی مری ہوئی فاختہ ہو۔ ماں ناراض ہے کہ میں نے بشن کا فراک کیوں نہیں اٹھایا، حالاں کہ راٹا کی گھوڑی پکڑنے میں میں سر سے پانوں تک بھیگ گیا۔ ماں اس لیے بھی خفا ہے کہ میں پراشر جیسے آوارہ مزاج نوجوان کے ساتھ بارش میں لنگوٹا باندھ کر نہانے کے لیے چلا ہوں۔ ماں کا خیال ہے کہ میں بھی اس کے ساتھ رہ کر آوارہ ہو جاؤں گا۔ حقیقت میں ماں کے ماتھے پر بل اس لیے ہیں کہ میں نے راٹا کو مشکی گھوڑی پکڑنے میں مدد دی ہے۔ گھوڑی کو شام کی تاریکی سے علاحدہ کرتے ہوئے اس کی ایال راٹا کے ہاتھ میں دے دی ہے اور اس فعل کے ارتکاب میں اس سے چھو گیا ہوں۔

میں نے کہا ۔’’اسی پرائشچت میں تو میں نہا رہا ہوں، ماں۔‘‘

حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کی آلودگی کو میں پسند کرتا ہوں۔ پراشر کا کیا وہ تو ہر قسم کی آلودگی کو پسند کرتا ہے … کاش! پھرایا لال کبھی نہ آئے اور راٹا کو ہر ایک کام کے لیے ہمارا مرہونِ منت ہونا پڑے۔ کیا وہ گھوڑی ہی پکڑوائے گی اور کوئی کام نہیں کہے گی؟

ماں کہتی ہے، لوہار، بڑھئی، چمڑہ رنگنے والے ایک برہمن کو چوبیس قدم، چارومن بونے والے اڑتالیس قدم، موٹا مانس کھانے والے چوسٹھ قدم پر سے بھرشٹ کرسکتے ہیں۔ مگر میں ماں کو کہتا ہوں ، ماں! ان لوگوں کی وجہ سے تو ہم زندہ ہیں۔ برہمن کھیتی کی یہ لوگ باڑ ہیں … اور پھر تھوڑی بہت بُرائی ،سچائی کو بچانے کے لیے روزِ ازل سے زندہ ہے۔ ماں کہتی ہے، کل جگ ہے بیٹا، گھور کل جگ!

بظاہر میں ماں بشن سے باتیں کرتی ہے۔ مگر دراصل اس کا مقصد سب کچھ مجھے سنانا ہوتا ہے۔ ’’مہایگیہ برہما کا ایک دن ہے۔ کرت کرتیا، دوا پر اتنے لاکھ برسوں کے ہیں۔ کل جگ چار لاکھ بتیس ہزار برسوں کا ہے۔ پچھلے برس چیت کے مہینہ میں کل جگ کو صرف پانچ ہزار چھبیس برس گزرے ہیں۔ رام جانے ابھی کتنے باقی ہیں … اور یہ بے وقت کی بارشیں!

’’بارش نے کافی سردی پیدا کر دی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

’’ہاں بھائی … میرے تو دانت بجنے لگے … چلو برآمدہ میں چلیں۔‘‘

’’لیکن … ابھی بہت وقت تو نہیں ہوا۔‘‘

’’چائے بنوا دو نا… سردی ہو رہی ہے۔‘‘

’’چائے بن جائے گی۔ سگرٹ نہیں ملیں گے۔‘‘

’’کوئی بات نہیں! بیڑیاں جو ہیں میرے کوٹ کی جیب میں۔‘‘

’’ہمارے ٹی سنڈیکیٹ کو آج کل بارش بہت فائد ہ مند ہے۔‘‘

’’ہاں … چائے کے پودوں کی ڈھلوان جنوب کی طرف ہے۔ ابوبکر روڈ کا تمام پانی ادھر نہیں جاتا۔ مگر زیادہ بوچھاڑ چائے کے پودوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ جڑیں گل جانے کا اندیشہ ہے۔ ہلکی ہلکی پھوار کا تو کہنا ہی کیا … کچھ بھی ہو ۔ یہ بارش ایسوسی ایٹڈ ٹی سنڈیکیٹ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی۔ ہماری آمدنی بڑھ جائے گی۔ کیوں؟ ہے نا۔‘‘

’’ہاں‘‘

’’ایشور اپنی دیا بارش کے ذریعہ بھیجتا ہے۔‘‘

’’ہاں … دیا … آمدنی … ارے! راٹا کی جھونپڑی کی کھپریل اُڑ رہی ہے۔‘‘

’’ایشور کی دیا…‘‘

اب بارش بہت زیادہ ہونے لگی ہے، گویا سب کی سب ابوبکر روڈ پر ہی برس پڑے گی۔ نکٹیسر کے پتے بطخ کے پروں کی طرح بھیگتے نہیں۔ پانی کے قطرے ان پر پارے کی طرح لڑھکتے ہیں۔ کہیں کہیں اٹک کر ایک مدوّر ہیرے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور قطرہ وہیں ٹپکتا ہے، تو ہیرا زیادہ مدوّر اور بڑا ہو جاتا ہے۔ مگر نازک نازک رات کی رانی کے پھول اس بوچھاڑ کی تاب نہیں لا سکتے … ابوبکر روڈ کے دو رویہ کوٹھیوں میں بسنے والے نکٹیسر کے پتوں کی طرح ہیں۔ بارش ان کی سلیٹ کی چھتوں پر سے بہتی لڑھکتی ہوئی ابوبکر روڈ پر آ رہی ہے۔ بارش کے قطرے ان کے لیے مدوّر ہیرے ہیں۔ مگر رات کی رانی … راٹا سر پھینک دیتی ہے۔ گاہے سر اُٹھا کر کھپریل کو باندھنا شروع کر دیتی ہے اور اپنے بھیگتے ہوئے بالوں کی وجہ سے ووگن ویلیا کی حسین بیل دکھائی دیتی ہے۔

پہلے بے چاری مشکی گھوڑی کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ اب یہ اس کے لیے ایک نئی مصیبت ہے۔ جھونپڑی کی تمام چھت سے پانی بہنے لگا ہے۔بوریے کی اوڑھنی تو محض رسمی پناہ ہے۔ اس کے تمام کپڑے بھیگ کر جسم کے ساتھ چپک گئے ہیں۔ شام کے اندھیرے میں جب بجلی چمکتی ہے، تو وہ عریاں سی دکھائی دیتی ہے۔

بارش میں ایشور کی دیا سے کوئی نرم و گرم کپڑے زیب تن کرتا ہے تو کوئی عریاں ہو جاتا ہے۔ کسی کی آمدنی دوگنی ہو جاتی ہے، تو کسی کی کھپریل ٹوٹ جاتی ہے… کوئی شب سمور گزارتا ہے، کوئی شبِ تنور!

ووگن ویلیا کی بیل کو جب تند ہوا ہلاتی ہے، تو یوں دکھائی دیتا ہے، گویا کوئی حسینہ سرد ہونے کے بعد لبِ بام اپنے چمکیلے سیاہ بالوں کو زور سے نچوڑ کر دونوں ہاتھوں سے چھانٹتی ہے۔ راٹا کا بے عقل، کاہل… پاگل لڑکا جھونپڑی میں سویا پڑا ہے۔ بجھتے ہوئے چولھے کے پاس، گرم ہو کر… اگر وہ جاگتا ہوتا تو مشکی گھوڑی پکڑنے کے لیے اُس کی ماں کو میرا مرہونِ منّت نہ ہونا پڑتا … پھرایا لال تو چلا ہی گیا ہے۔ کاش! وہ کاہل لڑکا ہمیشہ کی نیند سوجائے!

شاید راٹا کھپریل بندھوانے کے لیے ہمیں بلائے۔ اس کے بارش کی وجہ سے بدن کے ساتھ چپکے ہوئے کپڑے! بجلی کی سی چمک میں اس کا بدن کتنا خوبصورت اور سڈول دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ماں … ماں کہتی ہے کل جگ ہے۔

… کلکتہ کی مارکیٹ میں چائے کتنی بِکے گی؟ کتنی دساور کو جائے گی۔ میری آمدنی بڑھ جائے گی۔ پراشر کی بھی … لیکن وہ کم بخت بیڑیاں پِیے گا۔ چائے کے پیالوں کے پیالے اور شراب اور …

’’تجھے نکلے گلٹی، ہیضے کے توڑے … سوئے کا سویا رہ جائے تو … ‘‘ راٹا اپنے چھوکرے کو گالیاں دیتی ہے۔

راٹا کو چائے کی ضرورت نہیں۔ گالیاں دیتے ہوئے اُس کے جسم میں کافی گرمی آ گئی ہے۔ وہ نکمّا ، سست لڑکا، اُس کے ساتھ کھپریل بھی تو نہیں بندھواتا۔ آرام سے بجھتے ہوئے چولھے کے پاس پڑ رہا ہے۔ پانی کی چھینٹیں پڑتی ہیں تو ٹانگیں سکیڑ لیتا ہے۔ جب اندر پانی ہی پانی ہو جائے گا تو وہ آنکھیں ملتا ہوا اُٹھے گا۔ صرف یہ کہے گا ۔ ماں کیا بات ہے جو اتنا شور مچا رکھا ہے؟ چین سے سونے بھی نہیں دیتی… جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ وہ تو شاید یہ بھی کہے میں ایسی عورت کے گھر کیوں پیدا ہوا جو ایسی ایسی گالیاں دیتی ہے، جسے میری کوئی ضرورت نہیں۔ کہتی ہے، سوئے کا سویا رہ جائے، تو … وہ بے وقوف کیا جانے کہ جب ماں یہ کہتی ہے کہ تو سوئے کا سویا رہ جائے تو اُس وقت وہ اُسے ہمیشہ کی نیند سے بچانے کے لیے طوفانِ باد و باراں میں تن تنہا بے یار مددگار اپنی جان تک لڑا دیتی ہے۔

ابھی انتہائی گرسنگی کی وجہ سے اس کی مشکی گھوڑی ہنہنا رہی تھی، جیسے سکندر سے جُداہونے پر بوس فیلس ہنہناتا تھا۔ مگر اب وہ خاموش ہے۔ شاید اس نے راٹا کی بے بسی کو دیکھ لیا ہے اور پھرایا کے پیار کو … اب وہ کبھی نہیں ہنہنائے گی!

پراشر بولا۔ ’’وہ ایک مرتبہ مدد کے لیے اشارہ تو کرے۔‘‘

’’ہاں … اور ہم دونو …‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’میں کہتا ہوں۔ کیوں نہ ہم خود ہی چلے جائیں۔‘‘

’’مگر ماں کہتی ہے، کل جگ کو صرف پانچ ہزار برس گزرے ہیں۔ رام جانے ابھی کتنے باقی ہیں۔‘‘

پھر وہی گالیاں …

’’تجھے آدے ڈھائی گھڑی کی … نکلے تیرا جنازہ للچاتاوا … گور میں پٹے … خون تھوکے تُو …‘‘

شاید وہ چھوکرا سوچتا ہو گا، میں کیوں اس عورت کے گھر پیدا ہو گیا، جو مجھے گور میں بھیجنا چاہتی ہے۔ وہ بے وقوف کیا جانے ، کہ حقیقت میں وہ اُسے آبی گور سے بچانے کے لیے اپنی جان تک لڑا رہی ہے۔ وہ دس سالہ بے عمل، غافل، کاہل چھوکرا اب تک اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ صرف اس لیے کہ راٹا کو اس سے محبت ہے۔ جس کا اس کاجوانامرگ کو اچھی طرح سے احساس ہے۔ وہی راٹا کی زندگی کا سہارا ہے۔ وہی اس کی آنکھوں کا نور ہے۔ اسی لیے تو وہ بے کس اور اندھی ہے… اگر راٹا پھرایا لال سے محبت نہ کرتی، اگر وہ اس چھوکرے پر اپنی تمام امیدیں نہ لگا دیتی تو سکھی ہو جاتی ۔

ابوبکر روڈ متحرک ہو کر کوئلے کی کان میں جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بہاؤ کے خلاف ایک دہقان بھیگتا ہوا آہستہ آہستہ اسی جانب آ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک بیل کی رسّی ہے۔ شاید وہ بیل کو کہیں سے چرُا لایا ہے۔ غالباً اُس کی خواہش ہے کہ ہم اسے برآمدے میں کچھ دیر ٹھہرنے کے لیے جگہ دیں اور یہ ممکن نہیں، کون جانے بیل گوبر سے برآمدے کا فرش خراب کر دے۔ اور ماں … پھر چوری کے مال کو اپنے پاس رکھنا…

’’بابوجی سلام۔‘‘ دہقان بولا۔

’’سلام۔‘‘ پراشر نے زیر لب کہا۔

پھر وہ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں سے ایک گیلا کاغذ پراشر کے ہاتھ میں دے دیتا ہے … پروانہ راہ داری … یہ اس بات کا ثبوت ہے، کہ بیل چوری کا مال نہیں اپنا ہے۔ جسے وہ تال محل کی منڈی میں بیچنے کے لیے جا رہا ہے۔

باعث تحریر آنکہ

ایک راس گاؤ نر ، جس کے سینگ اندر کو مڑے ہوئے ہیں، دُم کے سیاہ بالوں میں سفید…

… اور باقی کا بارش نے دھو دیا ہے۔ کتنے بے ربط ہوتے ہیں یہ دہقان لوگ۔ پہلے سینگ اور پھر دُم۔ ان کے لیے گویا دُم اور سینگوں کے درمیان کوئی جگہ ہی نہیں۔ جسم کا رنگ پہلے آنا چاہیے تھا۔ مخملیں جسم! جو بارش میں گیلا ہو کر سفید ساٹن کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اندھیرے میں اس کا سفید رنگ نظر آتا ہے۔ مگر جب بجلی چمکتی ہے، تو بیل بجلی کا ایک جزو بن جاتا ہے… بیل تمام زور لگا کر ہانکتا ہے، جیسے شیوجی مہاراج کو دیکھ کر پیار سے ان کا نندی گن ہانک رہا ہو۔ بیل صبح سے بھوکا ہے، مگر اپنے بوڑھے، مکروہ شکل مالک کو پیار کیے جاتا ہے۔ اگرچہ عقل حیوانی سے جانتا ہے کہ بوڑھا کل اسے تال محل کی منڈی میں بیچ ڈالے گا۔ ہائے! یہ محبت اور جنون کے انداز بھی کبھی چھٹتے ہیں؟

’’کیوں بیچتے ہو اتنے خوبصورت بیل کو؟‘‘

’’بابو جی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں … اور مالیہ دینا ہے … اُف! یہ بے وقت کی بارشیں۔ کیا میں اندر آ جاؤں، اس چھت کے نیچے؟‘‘

’’اوہوں … تمھارا یہ بیل گوبر سے برآمدے کو خراب کر دے گا۔‘‘

’’میں صاف کر دوں گا بابو جی! … شیشے کی طرح … بیل صبح سے بھُوکا ہے اتنی سردی کہاں برداشت کرے گا۔ اور پھر دوسری بات نہیں۔ فقط یہ پروانہ راہ داری دھل گیا، تو یہ بیل چوری کا مال سمجھا جائے گا۔ تال محل کا تھانے دار جہاں خاں بڑا کڑوا آدمی ہے۔ مار مار کر ادھ موا کر دے گا۔ بیل جاتا رہے گا۔ تال محل میں اس بیل کی قیمت پر ہی تمام امیدیں لگا رکھی ہیں… ہائے یہ بے وقت کی بارشیں…

’’جاؤ۔‘‘ پراشر نے کہا … ’’ہم تمھیں یہاں جگہ نہیں دے سکتے … جاؤ… ‘‘

دہقان سہم کر چلا گیا۔ کبھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھ لیتا۔ گویا رات کو ہمارے ہاں ہی سیندھ لگائے گا۔ ’’اگر وہ سیندھ لگائے بھی تو حق بجانب ہے۔‘‘ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔

بیل ابوبکر روڈ کے چوک میں گر پڑا ہے، وہ دہقان کے اُٹھائے… کسی کے اُٹھائے نہ اُٹھے گا۔ وہ نندی گن کی طرح دہقان کو دیکھ کر کبھی ہانک نہیں لگائے گا!

پھر میں نے پراشر سے کہا۔ ’’چائے تیار ہے بھائی … کتنی پیالیاں پیو گے۔‘‘

’’چھ‘‘

’’پارۂ شر … اور درجن بیڑیاں؟ کہہ دو ہاں۔‘‘

’’زیادہ… ‘‘

’’چھی‘‘

… بارش اور بھی تیز ہو رہی ہے اور … اور راٹا کی گالیوں کی بارش بھی!

راٹا کی کھپریل گرچکی ہے۔ دیواروں میں شگاف ہو گئے ہیں۔ قریب ہی ایک سیٹھ کے سہ منزلہ مکان کا پرنالہ راٹا کی جھونپڑی پر گرنے لگا ہے۔ جھونپڑی کے اِردگرد ابوبکر روڈ پر چلتے ہوئے پانی کو دیکھ کر طوفانِ نوح کا خیال آتا ہے۔ کیا ہم راٹا کی مدد کرسکتے ہیں؟ باوجود کل جگ کے… ہمارے برآمدے کے سوا اور کوئی نزدیک پناہ بھی تو نہیں ہے۔ پراشر خوش ہے۔ اس کے پاس چائے ہے۔ بیڑیاں ہیں … اور بے پناہ راٹا اِدھر آ ہی جائے گی…۔‘‘

راٹا چاروں طرف دیکھ رہی ہے۔ پراشر کہتا ہے۔

’’ابھی وہ کہے گی۔ مجھے اپنے دامن میں چھپا لو، بابوجی۔‘‘

’’کبھی نہیں۔‘‘ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’تو اِس کے سوا اسے چارہ ہی کیا ہے؟‘‘

’’یہ بارش کا دامن کیا اس کے لیے کم ہے؟ راٹا کی سی عورت کو میں جانتا ہوں… جب کسی ایسے انسان پرعزّت کے دامن تنگ ہو جاتے ہیں … تو خود بخود ایک بہت بڑا دامن اس کے لیے کھل جاتا ہے … ۔‘‘

… اور راٹا کی تو مٹھیاں بند ہیں۔ کبھی کبھی وہ دانت پیستے ہوئے چیختی ہے۔

’’جوان مرے … کلمُوئے… میں نے تو رو لیا تجھے بے چی۔

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید