فہرست مضامین
دستک
نظمیں
زرقا مفتی
ان ڈور پلانٹ
میں کسی سرمائی پودے کی طرح
کب سے رہتی ہوں ترے سائے تلے
سُرمئی سا ہے اندھیرا ہر طرف
روشنی کا نے صبا کا ہے گزر
کب سے ساون میں نہیں بھیگا بدن
چاند کھڑکی سے کبھی تکتا نہیں
تارے آنگن میں اُترتے ہی نہیں
دیکھ اس گوشے میں کتنی ہے گھُٹن
دیکھ لے سانسیں مری رُکنے لگیں
اب نہیں باقی مرے تن میں لچک
دیکھ رُخ پر بھی خزاں کا رنگ ہے
دیکھ اب ڈھل بھی چکا جوبن مرا
جل رہی ہیں میرے تن کی ڈالیاں
جھڑ گئے سب پات جتنے تھے ہرے
اپنے سائے کو ہٹا لے اب ذرا
پھول کی خوشبو کو دل میں بھر نے دے
اک نظر میں آسماں کو چھو نے دے
چاند تاروں سے دو باتیں کر نے دے
آخری سانسیں ہوا میں لینے دے
اے ستم گر، اب مجھے آزاد کر
٭٭٭
اے خُدا تو نے کہا تھا
اے خُدا تو نے کہا تھا
تا قیامت سرکشوں کو
بے اماں کرتا رہے گا
یہ وہ سر کش ہیں جنہیں تو نے چنا تھا
کہ جو اپنی بر تری کے زعم میں
پیغمبروں کو قتل کر دیتے تھے
جو تیری رضا پر راضی نہ تھے
اے خدا تو جانتا ہے
ارضِ اقدس پر نئے فرعون
مظلوموں کے خوں سے
اک نئی تاریخ لکھنے میں مگن ہیں
بستیاں تھیں کل جہاں اب مقبرے ہیں
پھول سے نازک
فرشتوں جیسے بچے مر رہے ہیں
اے خدا تیرا کہا ہے
ظلم کی رسی دراز ہو گی
مگر مہلت تمام ہوگی
ترا کہنا بجا ہے
پر غزہ کے باسیوں پر
وقت مشکل ہے بڑا
تو ہی بتا اب
صبر کب تک یہ کریں
یوں بے گناہ مرتے رہیں
اے خدا سچ کر دکھا اپنا کہا تُو۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
طوق غلامی
وطن سے بلاؤں کو ٹالو تو مانیں
اسے دشمنوں سے بچاؤ تو مانیں
بدیسی خداؤں کے ہاتھوں سے پہنا
یہ طوقِ غلامی اُتارو تو مانیں
اندھیروں میں ڈوبا ہمارا وطن ہے
امیدوں کو پھر سے جگاؤ تو مانیں
گرانی گھٹاؤ غریبی مٹاؤ
کوئی معجزہ کر دکھاؤ تو مانیں
بہت اُڑ لیے تم بدیسی ہوا میں
ہوا اب وطن کی جو کھاؤ تو مانیں
تجوری تمھاری لبالب بھری ہے
یہ قرضے وطن کے اُتارو تو مانیں
بہت لڑ چکے دوسروں کی لڑائی
ہمیں یہ لڑائی جتاؤ تو مانیں
کئی ہم وطن گم شدہ لا پتہ ہیں
کہیں سے اُنہیں ڈھونڈ لاؤ تو مانیں
٭٭٭
دہشت گردوں کے نام
شہر میں آگ لگانے والو
موت کا کھیل رچانے والو
خون سے پیاس بجھانے والو
خوف کے پہرے بٹھانے والو
آس کے دیپ بجھانے والو
دیس کا نام ڈبونے والو
کون سے دیس کے باسی ہو تم
کون سے دین کے پیرو ہو تم
شہر کو آگ لگانے والو
جان سے اپنی بھی تم جاؤ گے
نرک کی آگ میں جل جاؤ گے
کون سی حور سے مل پاؤ گے
٭٭٭
سیلاب ۲۰۱۰
غضب کا ہے طوفاں مچی ہے تباہی
خدا بھی خفا ہے خفا نا خُدا بھی
بہا لے گیا ہے گھروندوں کو پانی
بچی ہی نہیں ہے کوئی بھی نشانی
بلکتے ہیں بچے سسکتی ہیں مائیں
کہاں اب پناہ لیں کدھر کو سمائیں
اجل لے گئی ہے جنہیں وہ سُکھی ہیں
جو زندہ بچے ہیں وہی تو دُکھی ہیں
کسے اب پکاریں کوئی یہ بتا دے
مصیبت کے ماروں کو کوئی بچا لے
یہ آفت ہے یا ہے بلا ناگہانی
عذابِ الٰہی کی ہے یہ نشانی
یہ قدرت کی جانب سے ہے اک اشارا
کوئی سر کشی اب نہیں ہے گوارا
چلا آ رہا ہے نیا ایک ریلا
تباہی مچانے کو کچھ ہے بچا کیا
بچی ہے جو نفرت اُسے اب مٹا دو
تعصب کی دیوار کو بھی گرا دو
نکالے تھے جیسے مکیں سب گھروں سے
نکالو حرص کو بھی سب کے دلوں سے
سنا ہے کہ یونہی سنورتی ہیں قومیں
جو پڑتی ہے آفت سنبھلتی ہیں قومیں
کھلیں گے اُمیدوں کے پھر سے شگوفے
ہرے پھر سے ہوں گے جو مردہ ہیں جذبے
٭٭٭
گُلاب
برسوں کی رفاقت میں
حسرت ہی رہی مجھ کو
تم کام سے جب لوٹو
ہونٹوں پہ تبسم ہو
اک پھول ہو ہاتھوں میں
نہ تم نے کبھی ہمدم
وہ بات کہی مجھ سے
جس بات کو سننے کو
بے تاب میں رہتی تھی
معلوم تھا مجھ کو یہ
اظہار سے ڈرتے ہو
میں سوچتی رہتی تھی
برسوں کی مسافت میں
تھک جاتے ہیں کیا جذبے
مٹ جاتی ہے چاہت بھی
پر آج اچانک تم
دو پھول لیے آئے
حیران سی بیٹھی ہوں
یہ سوچ رہی ہوں میں
کیسا یہ کرشمہ ہے؟
کیسی یہ محبت ہے؟
٭٭٭
ہم بھکاری نہیں
ہم بھکاری نہیں ہم بھکاری نہیں
ہاتھ پھیلے ہیں جو وہ سوالی نہیں
گھر میں آٹا نہیں چینی ملتی نہیں
جیب میں بھی بچی ریزگاری نہیں
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں لیڈر سبھی
اپنے دھندوں سے ان کو تو فرصت نہیں
روٹی کپڑے کے وعدے ہوا ہو گئے
یہ حکومت ہماری عوامی نہیں
سستے بازار کی ان قطاروں میں اب
دھکے کھاتے ہیں جو وہ بھکاری نہیں
جیب کاٹی ہے ان کی حکومت نے ہی
کچھ بلوں نے ڈسا کچھ گرانی ہوئی
مہربانی ہے کچھ آئی ایم ایف کی
فکر ان کی نہیں ہے کسی کو یہاں
لیڈروں نے رچائے نئے کھیل ہیں
مفت افطار دے کر بنے نیک ہیں
جانتے ہیں سبھی ان کی نیت بری
گھر سے نکلی نہیں تھیں جو مائیں کبھی
آج خیرات لینے گئی تھی کہیں
موت دھوکے سے ان کو وہاں لے گئی
جس جگہ سےکوئی لوٹتا ہی نہیں
اے خدا تیری رحمت ہے سب کے لیے
جتنے محتاج ہیں ان کو کر دے غنی
٭٭٭
محبت مر ہی جائے گی
مجھے تم سے یہ کہنا ہے
مرے معصوم سے دل کو
لگا ہر دم یہ دھڑکا ہے
محبت مر ہی جائے گی
چلو یہ مان لیتی ہوں
کہ میں ہی اس کی مجرم ہوں
محبت میں نے ہی کی تھی
تمہیں اس کی ضرورت تھی
جلا کر اپنے خوابوں کو
تمہارا گھر کیا روشن
تمہاری ہر تمنا کو
بٹھایا دل کی مسند پر
تمہارے دل کے گلشن کو
سجایا خونِ دل دے کر
تمہاری راہ کے کانٹے
سبھی تو چُن لئے میں نے
بہاریں سونپ کر تم کو
کیا ویران اس دل کو
مگر پھر بھی یہ لگتا ہے
محبت مر ہی جائے گی
میں ہی نادان تھی مانا
اُمیدیں میں نے باندھی تھیں
تمہارے جو بھی وعدے تھے
اُنہیں سچ مان بیٹھی تھی
ہرا رکھوں بتا کیسے
وفا کے اس شجر کو میں
کہ ساری حسرتوں کا خوں
میں اس کو دان کر بیٹھی
صدا اس کی ذرا سُن لو
دلِ ناکام کہتا ہے
محبت جی نہیں سکتی
کسی ٹوٹے ہوئے دل میں
کسی بنجر سی کھیتی میں
کسی بے آب صحرا میں
کسی ویران گلشن میں
محبت مر ہی جائے گی
٭٭٭
تری چاہت کا کچا رنگ
تری چاہت کا کچا رنگ
دھنک رنگوں میں اُترا تھا
مرے بے داغ آنچل پر
خوشی کے پر لگا کر میں
چلی تھی آسماں چھونے
مگر موسم کی سختی میں
کسی بادِ مخالف نے
مرے پر نوچ ہی ڈالے
مرے آنچل سے چھوٹا ہے
تری چاہت کا کچا رنگ
تری چاہت کا کچا رنگ
مری آنکھوں میں اُترا تھا
ستاروں سی چمک لے کر
گلابی رنگ کے سپنے
دکھا کے چار دن مجھ کو
اُڑا کر لے گیا نیندیں
تری چاہت کا کچا رنگ
تری چاہت کا کچا رنگ
مرے چہرے پہ اُترا تھا
گلوں کی شوخیاں لے کر
جبیں تھی چاند سی روشن
تبسم تھا لبوں پر بھی
بہت اترا رہی تھی میں
یونہی شرما رہی تھی میں
کوئی رہزن کوئی دُشمن
چُرا کر لے گیا خوشیاں
مجھے بس دے گیا ہے وہ
خزاں کا زرد پیلا رنگ
مرے چہرے سے اُترا ہے
تری چاہت کا کچا رنگ
تری چاہت کا کچا رنگ
مرے دل پر بھی اُترا تھا
سنہری تھے ترے وعدے
ترے خوش کن ارادے تھے
ترا لہجہ تری باتیں
ترے ہی غم تری خوشیاں
مجھے بس یاد تھا تو ہی
میں خود کو بھول بیٹھی تھی
مگر تو نے غضب کیسا
مرے اس دل پہ ڈھایا ہے
مجھے دل سے بھلایا ہے
غموں کے سرمئی سائے
مرے دل پر یوں چھائے ہیں
مرے دل سے بھی اُترا ہے
تری چاہت کا کچا رنگ
٭٭٭
ایک سو چھ
ایک سرخی پھر لگی
اک خبر تازہ چلی
اک دھماکہ پھر ہوا
ایک سو چھ مر گئے
اور کچھ زخمی ہوئے
خبر کے پیچھے پڑھو
بند آنکھیں کھول کر
تیس مائیں چل بسیں
تیرہ بچے مر گئے
ساٹھ مردے اور تھے
اپنے کنبوں کے کفیل
کتنی لاشیں اور ہیں
بے کفن درگور ہیں
گنتی کرنے آئے وہ
ان کی قیمت کتنی ہے
ایک سو چھ مر گئے
جو مرے ہیں ان کے ساتھ
ان کی قیمت دے گا کون
٭٭٭
موت کی دستک
گھنیری زُلف کے سائے
گلابی جام ہونٹوں کے
سبھی تھے منتظر کب سے
کہ تم اب لوٹ کے آؤ
مگر افسوس ہے، تم نے
لگائی دیر آنے میں
ابھی کچھ روز پہلے ہی
کواڑوں پر مرے دل کے
ہوئی تھی موت کی دستک
مرے ویران سے دل نے
رسائی اُس کو دے دی تھی
یہاں اب اُس کا پہرا ہے
اندھیرا ہی اندھیرا ہے
سُنو تم لوٹ جاؤ اب
اُسی مصروف دُنیا میں
جہاں تم کو کبھی پہلے
نہ میری یاد آتی تھی
٭٭٭
ابھی آزاد ہیں قاتل
تمہارا ساتھ جب پایا
محبت پر یقیں آیا
بھرا خوشیوں سے آنگن تھا
کھلے تھے پھول گلشن میں
سہانی زندگانی تھی
مگر کیا جانئے کس پل
کسی حاسد کی نظرِ بد
لگی میرے نشیمن کو
لٹیرے تین آئے تھے
ارادے سے ڈکیتی کے
مجھے زیور بچانا تھا
نہ مجھ کو مال پیارا تھا
مگر اک خوف تھا دل میں
فقط تم سے جُدائی کا
کسے معلوم تھا لیکن
لکھا تھا کیا نصیبوں میں
بڑا بھاری وہ لمحہ تھا
نہ لرزا ہاتھ قاتل کا
چلائی اُس نے جو گولی
مری تو جان ہی لے لی
تمہیں لے کر میں بانہوں میں
لگی تھی التجاؤں میں
کہیں ٹوٹے نہ اے ہمدم
تمہارے سانس کی ڈوری
ابھی تو زندگانی کا
سفر کتنا ہی باقی ہے
مگر دستِ قضا سے تو
کبھی مہلت نہیں ملتی
تمہارے سب حسیں وعدے
مری خوشیاں مرے سپنے
تمہارے ساتھ جا سوئے
یہاں اب کچھ نہیں باقی
سوائے پانچ لاشوں کے
کبھی اے خادمِ اعلیٰ
یہاں سے جو گزرنا ہو
جھکا لینا یہ سر اپنا
تمہاری حکمرانی میں
نہیں محفوظ کوئی گھر
ابھی آزاد ہیں قاتل
٭٭٭
زندگی
زندگی ہے مختصر
خواب سارے منتشر
ہم تو ٹھہرے بے بصر
اے خُدائے مقتدر
تجھ پہ ہے یہ منحصر
ختم ہو کب یہ سفر
٭٭٭
ہاں تُم سے محبت تھی
سوچوں کے خرابے میں
بے نام سی اُلجھن تھی
آنکھوں کے کٹوروں میں
چھلکی ہوئی چاہت تھی
ہونٹوں کے تبسسم میں
اک شوخ شرارت تھی
انداز میں اتراہٹ
چہرے پہ چمک سی تھی
کیا مُجھ کو مُحبت تھی؟؟
ہاں تُم سے مُحبت تھی
٭٭٭
دستار
دستار سروں سے مہنگی ہے
کیا جان انا سے سستی ہے؟؟؟
یہ سوچ رہے دیوانے ہیں
بے مول ہیں ہم ، اس دُنیا میں
کیا عمر گنوانے آئے تھے؟
یہ پوچھ رہے ہیں دل والے
اب بادِ صبا چلتی ہے کیا؟
کیا پھول میں خوشبو ہوتی ہے؟
کیا چمن میں پنچھی گاتے ہیں؟
کیا چاند فلک پر سجتا ہے؟
کیا تارے بھی جھلمل کرتے ہیں؟
کیوں رنگ نہیں ہیں خوابوں میں؟؟
یہ کون سی دُنیا ہے یا رب؟
دل خالی ہیں ارمانوں سے
آزاد محبت وعدے سے
محتاج ہیں سب ہی پیسے کے
اب قدر نہیں ہے جذبوں کی
اب عشق ہے سب کو دولت سے
کیوں آس لگائے بیٹھے ہو
اب نوچ لو سپنے آنکھوں سے
آزار جو دل نے پالے ہیں
ہونٹوں پہ لگے اب تالے ہیں
ویران سی اپنی آنکھوں میں
کیوں ناچ رہی ہے وحشت سی
آسان ہے مرنا جینے سے
اے موجِ فنا اب لے لے جاں
٭٭٭
دائرے
دائروں کا مرکز ہوں،
خا مشی کا مظہر ہوں
ان کہی کہانی ہوں
دائروں کا مرکز ہوں!
اک مری محبت کا، اک تری ضرورت کا
اک تری اجازت کا، خواہشوں کی شدت کا
لمس اُس کی قُربت کا، اور تیری فرصت کا
اک مرے مقدر کا
دائروں کا مرکز ہوں!
جو مرے محافظ ہیں
اور مہرباں بھی ہیں
یہ مدار ہیں گویا
یہ حصار ہیں جیسے
مجھ کو گھیرے رہتے ہیں
مجھ کو روک لیتے ہیں
یہ مدار بھی اکثر
چھوڑ بھی نہیں سکتی اپنے ان مداروں کو
توڑ بھی نہیں سکتی اپنے ان حصاروں کو
مجھ سے ہی تو باقی ہیں
مجھ سے ہی تو زندہ ہیں
یہ تو میرا حصہ ہیں
یہ مدار بھی میرے
یہ حصار بھی میرے
دائروں کا مرکز ہوں!
کتنے آسمانوں کی
میں زمین ٹھہری ہوں
اک مری وفا کا ہے
اک مری انا کا ہے
اک مری حیا کا ہے
ایک میری چاہت کا
ایک میری ہستی کا
ایک گھر گرہستی کا
مجھ پہ سایہ کرتے ہیں
مہربان ہوتے ہیں
آسمان یہ میرے
اور دوسرے پل میں
بجلیاں گراتے ہیں
آسمان یہ میرے
انہی آسمانوں کے
نیچے مجھ کو رہنا ہے
اور مجھ کو سہنا ہے
آسمان یہ میرے
مجھ ہی سے تو ہیں قائم
سائبان یہ میرے
آسمان یہ میرے
دائروں کا مرکز ہوں!
اپنی سب اُمیدوں کے
حاصلوں کی حسرت ہوں
خامشی کا مظہر ہوں
ان کہی کہانی ہوں
دائروں کا مرکز ہوں!
٭٭٭
لڑکیاں
آنکھ شرمائی ہوئی اور زلف بل کھائی ہوئی
ہونٹ پہ لالی گلوں کی چال اترائی ہوئی
دن بہاروں کے ہیں راتیں بھی ہیں مہکائی ہوئی
ہر ادا اسکی ستائش کی تمنائی ہوئی
خود کو آنچل میں چھپا کر سمٹی سمٹائی ہوئی
لڑکیاں گھر سے نکلتی ہیں یوں گھبرائی ہوئی
روح پر چرکے لگاتی ہے ہر ایک چبھتی نظر
یہ جوانی تو مصیبت ہے کوئی آئی ہوئی
شہر کے تاریک کوچوں میں ذرا دیکھو کبھی
بے کفن پھرتی ہیں کتنی لاشیں بولائی ہوئی
تار چاندی کے اُتر آئے حسیں زلفوں میں اور
سُرمئی آنکھوں میں مایوسی ہے در آئی ہوئی
آئینے کے سامنے خود سے یہ کرتی ہے سوال
کس سیاہی سے تو نے قسمت ہے لکھوائی ہوئی
کتنے سپنوں کی یہاں اُتری ہیں باراتیں مگر
ان گھروں میں نہ کبھی مہمان شہنائی ہوئی
ان کی قسمت میں اُجالے بھی ہیں کملائے ہوئے
چاندنی بھی اُتری ہے آنگن میں گہنائی ہوئی
اب نہیں آتے ہیں شہزادے بدلنے کو نصیب
لڑکیاں مر جاتی ہیں کتنی ہی ٹھُکرائی ہوئی
٭٭٭
اندیشے
صنم تو بھی اگر نکلا جو ہرجائی تو کیا ہوگا؟
محبت میں ہوئی میری جو رسوائی تو کیا ہو گا؟
کسی گوری نے پائل اپنی چھنکائی تو کیا ہوگا؟
کوئی ناگن سی کالی زلف لہرائی تو کیا ہو گا؟
اگر تجھ کو کوئی اُس کی ادا بھائی تو کیا ہوگا؟
ترے دل میں لگی بجنے جو شہنائی تو کیا ہوگا؟
مری چاہت بھی تجھ کو روک نہ پائی تو کیا ہو گا؟
بھلانے کا تجھے وعدہ میں کر آئی تو کیا ہوگا؟
ستم سہنے کی عادت کام نہ آئی تو کیا ہو گا؟
گھٹا غم کی جو پلکوں پر اُتر آئی تو کیا ہو گا؟
چلی پھر سے تری یادوں کی پُروائی تو کیا ہوگا؟
اگر ڈسنے لگی مجھ کو یہ تنہائی تو کیا ہو گا؟
سندیسہ پھر ترا لے کر بہار آئی تو کیا ہوگا؟
کلی دل کی مگر پھر بھی نہ مُسکائی تو کیا ہو گا؟
ترے جھوٹے بہانوں سے میں اُکتائی تو کیا ہوگا؟
بھروسہ پھر کبھی تجھ پر نہ کر پائی تو کیا ہو گا؟
’’محبت بھی طبیعت کو نہ راس آئی تو کیا ہو گا‘‘؟
انا کو توڑ کر بھی جو نہ بن آئی تو کیا ہوگا؟
٭٭٭
Insomnia
کالی راتوں میں اکثر
بے کل اپنا من رہتا ہے
مردہ خوابوں کا مدفن
مجھ کو اپنا گھر لگتا ہے
دیواروں سے ڈر لگتا ہے
بستر کانٹوں کا لگتا ہے
آنکھیں جلتی ہیں
روٹھے خوابوں سے ڈر لگتا ہے
تکیہ چُبھتا ہے
دل کی دھک دھک سُن سُن کر
سر بھی دُکھنے لگتا ہے
کروٹ بدلوں تو
چُٹکی بھرتی ہے چُٹیا
تلوے جلتے ہیں
سانسیں رکتی ہیں نہ چلتی ہیں
گھڑیاں گن گن
جب تھک جاتا ہے من
تب ہولے سے کھڑکی پر
اک دستک سی ہوتی ہے
چندا چھپنے سے پہلے کہتا ہے
اب سو جا
آنکھیں بوجھل ہوتی ہیں
جب دن چڑھتا ہے
٭٭٭
تشکر: شاعرہ جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید