FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

خیال چہرہ

 

 

 

 

               افتخار راغب

 

 

 

 

 

 

 

               انتساب

 

شریکِ رنج و راحت

قرّۃ العین

کے نام

 

 

 

               کوائف

 

نام                    :           افتخار عالم راغبؔ

قلمی نام              :           افتخار راغبؔ

ولدیت             :           شیخ محمد ابراہیم

تاریخ پیدائش    :           ۳۱/مارچ  ۱۹۷۳ء

آبائی وطن          :           گوپال گنج، بہار

تعلیم                 :           B.Tech. in Civil Engg. (1998)

از جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی۔

مجموعۂ کلام          :           ۱؂  لفظوں میں احساس  (غزلیات، ۲۰۰۴ء)

۲؂ خیال چہرہ  (غزلیات، ۲۰۰۷ء)۔ٔ

قطر میں قیام        :           ۶/ مارچ ۱۹۹۹ء سے تا حال

موجودہ پتہ          :           پوسٹ بکس نمبر:11671 ، دوحہ۔ قطر

رابطہ نمبر (موبائیل)        : (00974) 5707870

Email: 1)  iftekhar_raghib@hotmail.com

2) iftekhar.raghib@gmail.com

ملازمت            :           Arab Engineering Bureau

P.O.Box: 1148, Doha-Qatar

مستقل پتہ          :           مقام نرائن پور، پوسٹ : میر گنج، ضلع: گوپال گنج، بہار

(موبائیل۔: 09931969250)


               اظہارِ تشکر

 

 

ممنون ہوں:

 

٭ خالقِ کائنات کا جس نے تخلیقی شعور عنایت کر کے پہلے ’ لفظوں میں احساس‘ اور اب ’خیال چہرہ ‘ادبی دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع عطا فرمایا۔

 

٭ اپنے والدین، اہلیہ اور بھائی اظہار ا ور  ذوالفقار کے ساتھ تمام عزیز و اقارب کا جن کی دعائیں اور محبتیں ہر قدم پر میرے ساتھ ہیں۔

 

٭ محترم امجد علی سرورؔ اور عزیزؔ رشیدی صاحب کا جن کی رہنمائیوں کی روشنی شعری سفر میں ہمیشہ مشعلِ راہ ہے۔

 

٭ ڈاکٹر ظفرؔ کمالی صاحب کا جنھوں نے بے حد شفقت و محبت سے ہر موقعہ پر میرا حوصلہ بڑھایا اور ’خیال چہرہ‘ کی پروف ریڈنگ انتہائی خلوص کے ساتھ فرما کر مفید مشوروں سے نوازا۔

 

٭ شاعر دوست عزیز نبیلؔ،  فریدؔ  ندوی، اشفاق قلقؔ اور اشفاق دیشمکھ کا جنھوں نے پروف ریڈنگ میں کار آمد مشورے عنایت کیے اور ہمیشہ میری ہمّت افزائی کی۔

 

٭قطر میں مقیم تمام متحرک شعراۓ کرام ، خصوصاً محمد ممتاز  راشدؔ ، شادؔ  اکولوی ، یوسفؔ کمال ، شفیق اخترؔ ، ارشادؔ اعظمی ، شوکت علی نازؔ ، ندیم ماہرؔ ، سید فہیم الدین ، اعجاز حیدرؔ ، منصورؔ اعظمی ، زوار حسین زائرؔ ، جمشیدؔ انصاری ، سعادت علی سعادتؔ اور حبیبؔ حیدر آبادی کا  جن کا دوستانہ ماحول شعری شعور کے فروغ میں کافی معاون رہا۔

 

٭ نیاز احسن کا،جو ایک دوست ہی نہیں بلکہ بھائی کی طرح ہر دکھ سکھ میں ساتھ رہا اور تازہ اشعار پر بغیر سوچے سمجھے تبصرہ فرما کر کبھی حوصلہ افزائی کی تو کبھی شعر کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔

 

٭ افتخار سہیل ، محبوب الٰہی اور سمیع اللہ وغیرہ کا جنھوں نے مجموعے کی اشاعت میں بھرپور مدد کی۔

 

٭ سید عبدالحئی ، سید سیف اللہ ، ابراہیم خان کمال ، سلیمان دہلوی ، حیدر علی ، ڈاکٹر عطاء الرحمن ندوی ، عبدالخاق مونس،خالد داد خان اور خالدبیگ وغیرہ محترم ادب نواز شخصیات کا جنھوں نے بے حد خلوص و محبت سے مسلسل میری ہمّت کو رنگ و روشنی کی نئی منزلوں کے راستے دکھائے۔

 

٭ قطر کے دیگر ادب دوست حضرات خصوصاً محمد فاروق احمد ، مرزا حامد علی ، طیّب حسین، اسلم پرویز ، ذاکر حسین ، محمد ربّانی ، افسر عاصمی ، سرور عالم اور عبداللہ وغیرہ کی بے لوث حوصلہ افزائیوں کا۔

 

٭قطر کے پر امن ماحول اور یہاں پھل پھول رہی اردو ادبی تنظیموں خصوصاً بزمِ اردو قطر ، حلقۂ ادبِ اسلامی قطر ، انجمن محبّانِ اردو ہند قطر ، مجلسِ فروغِ اردو ادب اور دبستان ادب قطر کے ادبی ماحول کا۔

 

٭ بھارتیہ ساہتیہ کار سنسد، سمستی پور بہار کے اراکین خصوصاً ناشادؔ اورنگ آبادی کا ،جن کی تنظیم نے ’لفظوں میں احساس‘ (ہندی) کے لیے ’جگرؔ مراد آبادی‘ سمّان سے (۲۰۰۷ء میں) نواز کر حوصلہ افزائی فرمائی۔

 

٭ انجمن ترقیِ اردو گوپال گنج بہار کے تمام اراکین خصوصاً اظہار الحق صدیقی ، معراج الدین تشنہؔ، ذاکر حسین ذکیؔ ، رضی احمد فیضیؔ اور فہمیؔ صاحب وغیرہ کا ، جنھوں نے میری معمولی ادبی کاوشوں کے لیے اعزازی سند سے نواز کر حوصلہ بڑھایا۔

 

٭ تمام قارئین کا جنھوں نے’ لفظوں میں احساس‘ کو پڑھنے کی زحمت گوارا کی اور ان حضرات کا بھی جنھوں نے پُر خلوص تبصرہ و تنقید ، تحسینی کلمات یا مشوروں سے نوازا۔

 

٭ ان تمام محبانِ اردو ادب کا بھی جنھوں نے ’ خیال چہرہ‘ کی اشاعت کا خیر مقدم کیا اور ان مخلصین کا بھی جو اسے پڑھنے کی زحمت اُٹھا کر مخلصانہ مشورے یا تنقید و تبصرے سے نوازیں گے۔

 

٭ ایک مخلص ادب دوست کا جس نے ’لفظوں میں احساس ‘ کی پسندیدگی اور اپنے خلوص کے اظہار میں ’خیال چہرہ‘ کی اشاعت میں مالی تعاون کیا اور اپنا نام ظاہر نہ کرنے حکم کا دیا۔

 

٭ آخر میں ان تمام احباب کی شکر گزاری کو دوہرانا ضروری سمجھتا ہوں جن کا ذکر ’لفظوں میں احساس ‘ میں ظاہراً  یا کنایۃً آیا ہے۔

 

 

 

حمد

 

نہیں ہے کوئی بھی ہم کو ترے سوا معلوم

ہمیں تو صرف ہے اک تو ہی اے خدا معلوم

 

خدا کی ذات اگرچہ نہیں ہے نامعلوم

خدا ہے کیسا ، کہاں ہے خدا ، خدا معلوم

 

ہے کائنات کی رگ رگ سے صرف تو واقف

ہر ایک ذرہّ کا تجھ ہی کو ہے پتا معلوم

 

خدا کے ذکر سے ملتی ہے روح کو تسکین

خدا کا ذکر ہے کیا چیز تم کو کیا معلوم

 

وہ چاہتا ہے جو کرنا وہ کر کے رہتا ہے

جہاں کو چاہے بھلا ہو کہ ہو برا معلوم

 

یقین تجھ پہ ہے امّید بھی تجھی سے ہے

خدا نہیں ہمیں کوئی بھی دوسرا معلوم

 

جو خیر چاہو تو اس پر نہ غور و فکر کرو

’’نہ ابتدا کوئی اس کی نہ انتہا معلوم‘‘

 

کرم نہ ہو اگر اس کا تو بالیقیں راغبؔ

پتہ کسی کو ہو منزل نہ راستہ معلوم

**

 

 

 

 

مناجات

 

اپنے بندوں کی سن لے دعائیں

اے خدا بخش دے سب خطائیں

 

کس کو ہم اپنا دکھڑا سنائیں

کون سنتا ہے دل کی صدائیں

 

یونہی روشن رہے شمعِ ایماں

لاکھ دشمن ہوں ظالم ہوائیں

 

ہر گھڑی ہم پہ تیرا کرم ہو

ہر قدم پر ہوں تیری عطائیں

 

کیا چھپا ہے نگاہوں سے تیری

اے خدا تجھ سے کیا ہم چھپائیں

 

کون معبود تیرے سوا ہے

کس کا دروازہ ہم کھٹکھٹائیں

**

 

 

 

نعت

 

چومیں گے لبِ دل سے طیبہ کی زمیں جا کر

آئے گا قرار اب تو اِس دل کو وہیں جا کر

 

وہ ارض کہ جو رشکِ فردوسِ بریں ٹھہری

دیکھیں گے زہے قسمت ہم بھی وہ زمیں جا کر

 

آنکھیں ہیں کہ شرمندہ ، دل ہے کہ بڑا نادم

کس کس کو سنبھالوں گا آقاؐ کے قریں جا کر

 

قرآنِ مبیں اکثر سنتے تھے سناتے تھے

دربارِ شہِ دیں ؐ میں جبریلِؑ امیں جا کر

 

غیروں کی سمجھ میں یہ آیا ہے نہ آئے گا

اِک رات میں ہو آئے وہ عرشِ بریں جا کر

 

اللہ نے چاہا تو ہم بھی وہاں جائیں گے

بڑھ جاتا ہے جس در پر ایمان و یقیں جا کر

 

مٹی کا بدن راغبؔ مٹ جائے تو اچھا ہے

سرکارِ دو عالمؐ کی گلیوں میں کہیں جا کر

**

 

 

 

نعت

 

خواہش نہیں ذرا بھی مجھے نام وام کی

میرے قلم کو پیاس ہے کوثر کے جام کی

 

یہ دل کہ جس میں پیار بسا ہے حضورؐ کا

اِک چیز بس یہی ہے مِرے پاس کام کی

 

پیغامِ شاہِ دیں کی ہے محتاج کائنات

رحمت ہے سب کے واسطے اُن کے پیام کی

 

دیوانہ وار ہر گھڑی شیداۓ مصطفےٰؐ

بس رٹ لگائے رہتے ہیں آقاؐ کے نام کی

 

انسان کے حقوق و فرائض عیاں کیے

تعلیمِ عدل آپؐ نے دنیا میں عام کی

 

تاریخ ہے گواہ کہ خیر الانامؐ نے

تفریق جڑ سے ختم کی آقا غلام کی

 

قول و عمل حضورؐ کے قرآں کے ترجماں

تشریح اُنؐ کی ذات خدا کے کلام کی

 

بس یہ کہ اُنؐ سا ہو گا کوئی اور نہ ہو سکا

کیا خوب ذاتِ پاک ہے خیرالانامؐ کی

 

اہلِ فلک گواہ کہ سارے جہان میں

خوشبو رچی بسی ہے درود و سلام کی

 

راغبؔ ہر ایک نعت ہے نذرانۂ خلوص

توصیف کب رقم ہوئی عالی مقام کی

**

 

 

 

نعت

بخالت کی وہ پہنچا انتہا تک

جو کہہ سکتا نہیں صلِّ علیٰ تک

 

بڑی وسعت ہے نعتِ مصطفےٰؐ میں

نہیں محدود یہ مدح و ثنا تک

 

بتا کر ربِّ یکتا کا ٹھکانہ

سکھایا کس نے آدابِ دعا تک

 

شکم پر باندھ لیتے سنگ آقاؐ

بچھانے کو نہ ہوتا بوریا تک

 

رکھا ہے رب نے اے قرآنِ ناطق

سلامت آپؐ کا ہر نقشِ پا تک

 

بڑے بنتے تھے جو سردارِ مکّہ

کہیں اُن کا نہیں اب تذکرا تک

 

ہوا خیرالبشرؐ ایسا نہ ہو گا

بشر کی ابتدا سے انتہا تک

 

میں دل کے لب سے اُس روضے کو چوموں

ثواب افزا ہے جس کو دیکھنا تک

 

نوازا رب نے جس بارِ گراں سے

لرز کر رہ گیا غارِ حرا تک

 

میں تنکے کی طرح اُڑ کر ہوا میں

پہنچ جاؤں درِ خیرالوریٰ تک

 

نہ ہو توفیقِ سیرابی تو راغبؔ

گزر جاتی ہے رحمت کی گھٹا تک

**

 

 

 

نعت

 

دل جس کا منوّر نہ ہوا نورِ ہدیٰ سے

ممکن نہیں بچ جائے وہ دوزخ کی سزا سے

 

تھامے ہوئے رہتے ہیں سدا صبر کا دامن

مومن نہیں گھبراتے کبھی کرب و بلا سے

 

ناموسِ رسالت کے تحفّظ کے لیے ہم

ٹکرائیں گے ہر دور کی منہ زور ہوا سے

 

انسان کا دل ہی نہیں ہر گوشۂ عالم

پر نور ہے خورشیدِ رسالتؐ کی ضیا سے

 

ہم پر بھی کرم ساقیِ کوثر کا ہو یا رب

محشر میں نہ رہ پائیں گے اِک آن بھی پیاسے

 

دنیا میں کوئی دین کوئی اِزم نہیں ہے

بہتر مِرے سرکارؐ کے نقشِ کفِ پا سے

 

آقاؐ کی محبّت میں تڑپتا ہے مِرا دل

یا کانپتا رہتا ہے سدا خوفِ خدا سے

 

مل جائے ہمیں بھیک شفاعت کی خدایا

ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہیں امیدوں کے کاسے

 

افسوس ہے اُس قلب کی پتھریلی زمیں پر

جو فیض اُٹھاتی نہیں رحمت کی گھٹا سے

 

اُس راہِ وفا ہی پہ ہمیں چلنا ہے راغبؔ

جس راہ میں قرباں ہوئے آقاؐ کے نواسے

 

 

غزلیں

 

انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو

اُلجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو

 

لگتا ہے کہ پنجرے میں ہوں دنیا میں نہیں ہوں

دو روز سے دیکھا کوئی اخبار نہیں تو

 

دنیا ہمیں نابود ہی کر ڈالے گی اِک دن

ہم ہوں گے اگر اب بھی خبردار نہیں تو

 

کچھ تو رہے اسلاف کی تہذیب کی خوشبو

ٹوپی ہی لگا لیجیے دستار نہیں تو

 

ہم برسرِ پیکار ستمگر سے ہمیشہ

رکھتے ہیں قلم ہاتھ میں تلوار نہیں تو

 

بھائی کو ہے بھائی پہ بھروسہ تو بھلا ہے

آنگن میں بھی اُٹھ جائے گی دیوار نہیں تو

 

بے سود ہر اِک قول ہر اِک شعر ہے راغبؔ

گر اس کے موافق تِرا کردار نہیں تو

***

 

 

چھوڑا نہ مجھے دل نے مِری جان کہیں کا

دل ہے کہ نہیں مانتا نادان کہیں کا

 

جائیں تو کہاں جائیں اِسی سوچ میں گم ہیں

خواہش ہے کہیں کی تو ہے ارمان کہیں کا

 

ہم ہجر کے ماروں کو کہیں چین کہاں ہے

موسم نہیں جچتا ہمیں اِک آن کہیں کا

 

اُس شوخیِ گفتار پر آتا ہے بہت پیار

جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا

 

یہ وصل کی رُت ہے کہ جدائی کا ہے موسم

یہ گلشنِ دل ہے کہ بیابان کہیں کا

 

کر دے نہ اُسے غرق کوئی ندّی کہیں کی

خود کو جو سمجھ بیٹھا ہے بھگوان کہیں کا

 

اک حرف بھی تحریف زدہ ہو تو دکھائے

لے آئے اُٹھا کر کوئی قرآن کہیں کا

 

محبوب نگر ہو کہ غزل گانْو ہو راغبؔ

دستورِ محبّت نہیں آسان کہیں کا

**

 

 

جی چاہے کہ دنیا کی ہر اِک فکر بھلا کر

کچھ شعر سناؤں میں تجھے پاس بٹھا کر

 

جانے کہاں کس موڑ پہ ہو جائے ملاقات

اس آس میں پھرتا ہوں ترے شہر میں آ کر

 

خوشیاں تجھے مل جاتیں تو افسوس نہ ہوتا

آخر تجھے کیا مل گیا دل میرا دکھا کر

 

یہ کیا کہ سدا اپنے ہی مطلب کی دعائیں

اوروں کے بھی حق میں کبھی اے دوست دعا کر

 

پھر دیکھ کہ ملتی ہے تجھے کتنی مسرّت

ہے شرط کہ اخلاص و محبّت سے ملا کر

 

چہرے سے ترے چپکی ہوئی ہیں مِری آنکھیں

تو بھی تو مری سمت کبھی دیکھ لیا کر

 

غیبت سے نہ بھر جائے کہیں نامۂ اعمال

جو کچھ تمھیں کہنا ہے کہو سامنے آ کر

 

بخشا ہے جو اُس نے دلِ خوش فہم کو راغبؔ

رکھّا ہے ہر اِک زخم کو سینے سے لگا کر

***

 

 

کیا آتشِ اُلفت ہے بیاں ہو نہیں سکتا

ہو جائیں گے ہم راکھ دھواں ہو نہیں سکتا

 

مٹھّی میں بھلا قید ہوئی ہے کبھی خوش بو

یہ رازِ محبّت ہے نہاں ہو نہیں سکتا

 

ٹوٹا ہے فلک یا کہیں ٹوٹا ہے کوئی دل

یونہی تو کہیں شورِ فغاں ہو نہیں سکتا

 

ملتے نہیں خوش بو بھرے خوش رنگ سے الفاظ

لفظوں میں تِرا روپ بیاں ہو نہیں سکتا

 

قسمت ہی سے بنتا ہے کوئی شاعر و فنکار

ہر شخص سے یہ کارِ گراں ہو نہیں سکتا

 

گھر کر گئے دل میں وہ کچھ اِس طرح سے راغبؔ

خالی کبھی اب دل کا مکاں ہو نہیں سکتا

 

 

 

 

 

ویسے تو وہ ’ ہوں ، ہاں ‘ کے سوا کچھ نہیں کہتے

کہنے پہ جب آ جائیں تو کیا کچھ نہیں کہتے!

 

ہو جائے مِرے دل میں کچھ الہام خدایا

کیوں ہو گئے وہ مجھ سے خفا کچھ نہیں کہتے

 

کوزے میں سمندر وہ سمونے کے ہیں قائل

وہ لوگ بھی غزلوں کے سوا کچھ نہیں کہتے

 

وہ حد سے گزرنے لگا جب ظلم و ستم میں

سب دیکھ کے ہم کیسے بھلا کچھ نہیں کہتے

 

برسوں سے سناتے ہیں وہی طرز بدل کر

ہر اِک کو پتا ہے وہ نیا کچھ نہیں کہتے

 

کرتے ہیں پریشاں وہ ہمیشہ مجھے راغبؔ

اپنی ہی کہے جاتے ہیں یا کچھ نہیں کہتے

***

ظلمت کے غضب سے نہیں ڈرتا کوئی سورج

تاریکی بڑھی حد سے کہ ابھرا کوئی سورج

 

کیا بھول گئے سارے اماوس کے پرستار

کرتا ہے ہر اِک رات کا پیچھا کوئی سورج

 

ہے نور کی ظلمات سے یہ جنگ پرانی

لڑتا ہے اندھیروں سے ہمیشہ کوئی سورج

 

ہوتے ہیں کئی چاند نمودار فلک پر

دیتا ہے جب انوار کا صدقہ کوئی سورج

 

جو تیرگیِ وقت کی وحشت سے ہو خائف

مومن کوئی ایسا ہے نہ ایسا کوئی سورج

 

ظلمت کی گھٹا چیر کے اے تیرہ نصیبو!

نکلے گا دمِ صبح چمکتا کوئی سورج

 

کیسے نہ تِرے فن کی ضیا بکھرے جہاں میں

سچ ہے کہ چھپائے نہیں چھپتا کوئی سورج

 

لڑنا ہے اندھیروں سے تو مت دیر لگاؤ

’’لاؤ کوئی جگنو ، کوئی تارا ، کوئی سورج‘‘

 

اِس درجہ اُجالوں سے ہے رغبت مجھے راغبؔ

ہوتا نہ میں انسان تو ہوتا کوئی سورج

***

 

کس درجہ ہے با کمال چہرہ

کہہ دیتا ہے دل کا حال چہرہ

 

ہے مشکل بہت ہی مسکرانا

ہو غم سے اگر نڈھال چہرہ

 

بے گرد و غبار فکر صورت

اور روشن رہے خیال چہرہ

 

بس چہرہ دکھا گیا ہے کوئی

اور ہونے لگا بحال چہرہ

 

اک انداز پر بنا ہے لیکن

ہر چہرہ ہے بے مثال چہرہ

 

چہرے میں چھپے ہیں کتنے چہرے

ہے گنتی تری محال چہرہ

 

جب لگتی ہے دل پہ چوٹ راغبؔ

ہو جاتا ہے پر ملال چہرہ

***

 

 

 

یوں چہرہ اُداس لگ رہا ہے

لگتا ہے کہ دل سلگ رہا ہے

 

کیا ہو گا لگاؤ گھر سے اس کو

بچپن ہی سے جو الگ رہا ہے

 

یہ دیکھو کہ بچّے پڑھ رہے ہیں

مت سوچو کہ کتنا لگ رہا ہے

 

اِک صورت ہے جو بسی ہے دل میں

اِک لاوا ہے جو سلگ رہا ہے

 

اُس نے ہی کیا ہے نام راغبؔ

جو سب سے الگ تھلگ رہا ہے

***

 

 

 

ست رنگی سی وہ چمک دکھا کر

چھُپ جاتے ہیں اِک جھلک دکھا کر

 

تم ترکِ وفا کے ہو مخالف

دکھلاؤ ذرا لچک دکھا کر

 

مت دھندلا کرو یقیں کا درپن

تھوڑا بھی غبارِ شک دکھا کر

 

پچھتاتے رہو گے عمر بھر تم

جانے کی مجھے سڑک دکھا کر

 

وہ مجھ پر اُٹھا رہے ہیں اُنگلی

اِک جگنو سرِ فلک دکھا کر

 

اپنے بھی ڈرا رہے ہیں راغبؔ

زخموں کو مرے نمک دکھا کر

***

 

سینے میں چھپا کے چاہ کوئی

مت دل کو کرے تباہ کوئی

 

پچھتانے سے مت گریز کرنا

ہو جائے اگر گناہ کوئی

 

ملتا ہے سرور کچھ اُسے بھی

جب کہتا ہے دل سے واہ کوئی

 

میں اپنے بدن میں بے ٹھکانہ

مل جائے مجھے پناہ کوئی

 

کھُل سکتے نہیں ہیں کان اُس کے

سمجھائے اب اُس کو خواہ کوئی

 

پیروں سے مرے بندھے بگولے

اور ملتی نہیں ہے راہ کوئی

 

میں سب کی بھلائی چاہتا ہوں

ہے میرا بھی خیر خواہ کوئی

 

اِس مکر و فریب کے جہاں میں

کس کس پہ رکھے نگاہ کوئی

 

تھکتا ہی نہیں جو کج روی سے

ہے ایسا بھی کج کلاہ کوئی

 

کس کو ہے امیدِ عدل راغبؔ

کیا حاضر کرے گواہ کوئی

***

تقدیرِ وفا کا پھوٹ جانا

میں بھولا نہ دل کا ٹوٹ جانا

 

کیا دیتا رہے گا دل پہ دستک

اِک جملہ جو میں نے جھوٹ جانا

 

اِک صورت اُتارنا غزل میں

لفظوں کا پسینا چھوٹ جانا

 

کیا روؤں تجھے اے دھیان درپن

پل بھر میں ہے تجھ کو ٹوٹ جانا

 

کس درجہ سُرور بخش تھا وہ

اُس کوچے میں جھوٹ موٹ جانا

 

رُک جائے گا ساتھ دھڑکنوں کے

خاموشی کا ٹوٹ پھوٹ جانا

 

وہ آنا کسی کا دل میں راغبؔ

اور صبر و قرار لوٹ جانا

***

ہے شر بھی بشر کے شر سے خائف

کیوں نکلے نہ کوئی گھر سے خائف

 

دیواروں سے سہمے در سے خائف

کیوں رہتے ہو اتنا گھر سے خائف

 

ہر دل میں نہیں ہے موت کا ڈر

ہر کشتی نہیں بھنور سے خائف

 

ہے اندازِ رہبری کچھ ایسا

رہزن بھی ہیں راہبر سے خائف

 

ہر لمحہ ہے طائرِ تخیّل

اب اپنے ہی بال و پر سے خائف

 

اُڑ جائیں گے سب کے سب پرندے

گر یوں ہی رہے شجر سے خائف

 

یوں شعلہ بدن ہر اِک خبر ہے

ہے اخبار بھی خبر سے خائف

 

دکھلائے ہیں اس نے وہ مناظر

آنکھیں بھی ہیں اب نظر سے خائف

 

ہے دھرتی کا کونا کونا راغبؔ

مظلوموں کی چشمِ تر سے خائف

***

 

 

 

 

 

دشتِ فرقت میں زندگانی کی

حد نہیں میری بے مکانی کی

 

زندگی بھر سزائیں کاٹی ہیں

ایک چھوٹی سی خوش گمانی کی

 

موسمِ ہجر کے اندھیروں میں

تیری یادوں نے ضو فشانی کی

 

دل ہمیشہ دعائیں دیتا ہے

ایک دشمن کو شادمانی کی

 

گفتگو جب نہ ہو سکی کھل کر

بدلیاں چھائیں بدگمانی کی

 

بے کلی کب ہوئی رقم راغبؔ

ہجر آلود زندگانی کی

***

 

 

 

 

جن کو بھرنے تھے کان بھرتے رہے

ہم وفا کی اُڑان بھرتے رہے

 

کانپ اٹھّے گا آسمان کا دل

آہ گر بے زبان بھرتے رہے

 

بھرنے والے تو آندھیوں میں بھی

اپنی اپنی اُڑان بھرتے رہے

 

وہ بھی خالی گئے جو دولت سے

زندگی بھر مکان بھرتے رہے

 

خونِ دل صرف کر کے ہم راغبؔ

اپنے شعروں میں جان بھرتے رہے

***

 

بن تِرے ہے کٹھن گزارا بھی

ہے کہاں اور کوئی چارا بھی

 

کیا کیا جائے تم ہی بتلاؤ

دل تو لگتا نہیں ہمارا بھی

 

میرے جیسا ہی گردشوں میں ہے

میری تقدیر کا ستارا بھی

 

جان میں جان ڈال دیتا ہے

ایک بے جان سا سہارا بھی

 

آرزوئیں پنپتی رہتی ہیں

چلتا رہتا ہے دل پہ آرا بھی

 

اپنے لب کو نہ دیجیے زحمت

ہے بہت آپ کا اشارا بھی

 

یار پردیس کی کمائی سے

فائدہ ہے تو ہے خسارا بھی

***

 

 

کِس کا گھر ہے قیام کس کا ہے

دل کی چوکھٹ پہ نام کس کا ہے

 

کس کی خوشبو ہے میرے ہونٹوں پر

تذکرہ صبح و شام کس کا ہے

 

کس کی باتیں ہیں پرکشش اِتنی

اتنا عمدہ کلام کس کا ہے

 

کس کے ڈر سے یہ تھرتھراتا ہے

دل ہمارا غلام کس کا ہے

 

کس کے دل میں ہے اتنی غم خواری

اتنا اونچا مقام کس کا ہے

 

کس کی آواز اتنی پیاری تھی

یاد اب تک سلام کس کا ہے

 

کس نے ویراں کیا ہے دل راغبؔ

کیا بتاؤں یہ کام کس کا ہے

***

 

 

کتنا خوش ہوں میں تیرے آنے سے

راہ تکتا تھا اِک زمانے سے

 

آتے جاتے رہو تو اچھّا ہے

پیار بڑھتا ہے آنے جانے سے

 

چبھ گئے کتنے خار ہاتھوں میں

پھول سے دوستی بڑھانے سے

 

ایک برگِ سمن کی چاہت تھی

اور چاہا تھا کیا زمانے سے

 

مسئلہ ایک بھی نہ حل ہو گا

مسئلوں سے نظر چرانے سے

***

 

 

 

یا سمن یا گلاب سا کچھ ہے

میری آنکھوں میں خواب سا کچھ ہے

 

ہر گھڑی اضطراب سا کچھ ہے

ہجر ہے یا عذاب سا کچھ ہے

 

ذہن و دل ہو رہے ہیں تابندہ

طاق میں آفتاب سا کچھ ہے

 

بالیقیں دوستوں کے سینے میں

دل نہیں ہے کباب سا کچھ ہے

 

تجھ سے ملنے کی آس میں ہر دم

ذہن و دل میں حساب سا کچھ ہے

 

زندگی ہی بدل گئی راغبؔ

عشق بھی انقلاب سا کچھ ہے

***

 

 

 

متّفق ہم اگر نہیں ہوتے

اتنے شیر و شکر نہیں ہوتے

 

جاں کی بازی لگانی پڑتی ہے

معرکے یونہی سر نہیں ہوتے

 

آگے حیران ہوتے رہتے تھے

اب کسی بات پر نہیں ہوتے

 

ان کو سمجھائیے کہ اپنوں سے

بدگماں اس قدر نہیں ہوتے

 

کارواں کب کا لٹ چکا ہوتا

ہم اگر باخبر نہیں ہوتے

 

خوبصورت نہ ہوتی منزل تو

راستے پرخطر نہیں ہوتے

 

سارے اشعار کس کے اچھّے ہیں

سارے قطرے گہر نہیں ہوتے

 

جانتے ہیں خودی کا جو مفہوم

خود سے وہ بے خبر نہیں ہوتے

 

’بزمِ اردو قطر‘ نہیں ہوتی

چند مخلص اگر نہیں ہوتے

 

آپ کا ساتھ مل گیا ہوتا

اس طرح دربدر نہیں ہوتے

 

وہ زیادہ ہی پھڑپھڑاتے ہیں

’’جن پرندوں کے پر نہیں ہوتے‘‘

 

خود غرض جو بھی پیڑ ہیں راغبؔ

اُن پہ میٹھے ثمر نہیں ہوتے

***

 

لَے ملاؤ نہ اُن کی لَے کے ساتھ

سُر بدلتے ہیں جو سَمے کے ساتھ

 

ہم مسائل میں ڈوب جاتے ہیں

روز سورج تِرے اُدَے کے ساتھ

 

پوچھتا ہوں کہ عشق ہے مجھ سے

بولتے ہیں ’نہیں ‘ بھی ’ہے‘ کے ساتھ

 

میرے دل کی دعائیں رہتی ہیں

کار آمد ہر ایک شے کے ساتھ

 

ہم ہیں ایسی سوسائٹی سے الگ

جس کی یاری ہو بزمِ مَے کے ساتھ

 

تم سمجھ لو نہ کچھ کا کچھ راغبؔ

لکھ دیا بانسری بھی نَے کے ساتھ

***

 

 

 

تجھ سا چہرا شناس کون ہوا

مجھ کو پڑھ کر اُداس کون ہوا

 

سارے فرقت زدہ ہوئے غمگیں

اِس قدر بے حواس کون ہوا

 

آپ سی کب ہوئی مسیحائی

آپ سا غم شناس کون ہوا

 

تیری خاطر دعائیں کر کر کے

کاسۂ التماس کون ہوا

 

ریت کی طرح کون اُڑتا رہا

دشت سے روشناس کون ہوا

 

ماسوا اِک مکینِ دل راغبؔ

ہر گھڑی آس پاس کون ہوا

***

 

 

 

یاس من کو اُداس رکھتی ہے

تازہ دم دل کو آس رکھتی ہے

 

اپنی اردو سبھی زبانوں میں

اِک الگ ہی مٹھاس رکھتی ہے

 

آج تک میرے دل کی ویرانی

پھول کھلنے کی آس رکھتی ہے

 

دور رہ کر بھی میری سوچ تجھے

ہر گھڑی آس پاس رکھتی ہے

 

تیرے آگے ہی میری محتاجی

کاسۂ التماس رکھتی ہے

 

اِک ذرا سی ہوَس کی چنگاری

عمر بھر بدحواس رکھتی ہے

 

زندگی سینت سینت کر راغبؔ

اُن کا غم اپنے پاس رکھتی ہے

***

 

 

میرے دل کو بھی تیرے جی کو بھی

چین اِک پل نہیں کسی کو بھی

 

جی رہا ہوں تِرے بغیر بھی میں

اور ترستا ہوں زندگی کو بھی

 

خون آلود کر کے چھوڑیں گے

لوگ اکّیسویں صدی کو بھی

 

مہربانی کا نام دیتے ہو

تم تو اپنی ستم گری کو بھی

 

ایک تیرے سوا مِرے ساقی

میں نہیں جانتا کسی کو بھی

 

مصلحت میں شمار کرتے ہیں

لوگ اب اپنی بزدلی کو بھی

 

رہ کے فکرِ معاش میں راغبؔ

وقت دیتا ہوں شاعری کو بھی

***

 

 

 

یاد کی چل پڑی ہے سرد ہوا

پھر اُبھارے گی کوئی درد ہوا

 

جانے کس کے لیے بھٹکتی ہے

شہر در شہر کوچہ گرد ہوا

 

وقت کی تیز و تند آندھی میں

ہو گئے کیسے کیسے فرد ہوا

 

خوب واقف ہے سب کی  رگ رگ سے

جسم پرور لہو نورد ہوا

 

موسمِ ہجر میں تمھاری یاد

گرم رُت میں چلی ہے سرد ہوا

 

جب بھی آنکھیں کوئی دکھاتا ہے

ٹوٹ پڑتی ہے لے کے گرد ہوا

 

پھر سے نکلیں گی کونپلیں راغبؔ

یونہی کب تک چلے گی زرد ہوا

***

 

 

طیش میں آئیں لہریں پانی کی

جب ہواؤں نے چھیڑخانی کی

 

آج وہ چھاؤں کو ترستا ہے

عمر بھر جس نے باغبانی کی

 

بے گھری سے اُسے ڈراتے ہو

جس نے فٹ پاتھ پر جوانی کی

 

کچھ تو بولے کوئی کہ دنیا نے

جیتے جی کس کی قدردانی کی

 

میرے احساس میری سوچوں کی

میرے شعروں نے ترجمانی کی

 

قید ہوں جسم کی عمارت میں

آزمائش ہے سخت جانی کی

 

کیا کوئی حد نہیں ستم دے دو!

بے حسی اور بے زبانی کی

 

ہو گئے گل کئی گھروں کے چراغ

جب بھی صرصر نے مہربانی کی

 

آج اُس کا ہی بول بالا ہے

جس نے راغبؔ غلط بیانی کی

***

 

مل گئی آپ کی رضا مجھ کو

اور کیا چاہئے بھلا مجھ کو

 

یہ سمجھ لو بلک رہا ہے دل

جب بھی دیکھو غزل سرا مجھ کو

 

بہکی بہکی سی میری باتوں پر

کوئی ہوتا جو ٹوکتا مجھ کو

 

خواب ہی میں سہی چلے آؤ

چین مل جائے اِک ذرا مجھ کو

 

ظالموں سے ملا سکوں آنکھیں

اِتنی ہمّت دے اے خدا مجھ کو

 

میں نے کھائی ہیں ٹھوکریں ہر گام

زندگی کا ہے تجربا مجھ کو

 

آدمی ہوں بہک بھی سکتا ہوں

مت سمجھ لینا دیوتا مجھ کو

 

میں بھٹکتا رہا کسی کے لیے

اور کوئی ڈھونڈتا رہا مجھ کو

 

تم تو خود ہی نہیں ہو رستے پر

کیا دکھاؤ گے راستا مجھ کو

 

چین اک پل نہیں کہیں راغبؔ

ہو گیا ہے نہ جانے کیا مجھ کو

***

 

 

 

 

دل ہے کیوں بے قرار مت پوچھو

کس کا ہے انتظار مت پوچھو

 

ان کے آنے سے گلشنِ دل میں

کیسی آئی بہار مت پوچھو

 

رفتہ رفتہ تمھاری چاہت کا

کیسے اترا خمار مت پوچھو

 

نقش رہتا ہے عمر بھر اس کا

کیا ہے بچپن کا پیار مت پوچھو

 

دل کو اُس بے وفا پہ تھا راغبؔ

کس قدر اعتبار مت پوچھو

***

 

اے مِرے پاسبان کچھ ہو جائے

اب تو امن و امان کچھ ہو جائے

 

گر سلیقے سے آبیاری ہو

کچھ سے یہ گلستان کچھ ہو جائے

 

میں ہوں کوشاں کہ میرے شعروں میں

حال دل کا بیان کچھ ہو جائے

 

اتنی چھوٹی سی بات پر نہ کہیں

آپ کے درمیان کچھ ہو جائے

 

آپ بھرتے ہیں دم رفاقت کا

آپ کا امتحان کچھ ہو جائے

 

مہربانی ہمارے دل پر بھی

اب تو اے مہربان کچھ ہو جائے

 

بولنا چاہتا ہوں کچھ راغبؔ

اور مجھ سے بیان کچھ ہو جائے

***

 

 

گو حقیقت نہیں ہے خواب ہے تو

زیست میں وجہِ انقلاب ہے تو

 

خوش نمائی کا آفتاب ہے تو

خوش ادائی میں لاجواب ہے تو

 

تیرے چہرے پہ کوئی داغ نہیں

کیسے کہہ دوں کہ ماہتاب ہے تو

 

ہر ورق دل پذیر ہے جس کا

دل ربائی کی وہ کتاب ہے تو

 

تیرا پرتو ہے میری غزلوں میں

میرے ہر شعر کا جواب ہے تو

 

جس پہ نازاں ہے گلشنِ ہستی

فصلِ گل کا وہی گلاب ہے تو

 

مجھ کو شاعر بنا کے جانِ غزل

اپنے مقصد میں کامیاب ہے تو

 

تجھ پہ اشعار کیا کہے راغبؔ

لاکھوں غزلوں کا انتخاب ہے تو

***

 

 

 

جب بھی وہ بام مجھ کو یاد آیا

کچھ اُدھر کام مجھ کو یاد آیا

 

خوشبوۓ یاسمن ہوئی محسوس

جب وہ گلفام مجھ کو یاد آیا

 

بات نکلی ہے جب بھی پھولوں کی

ایک ہی نام مجھ کو یاد آیا

 

بچ کے رہنا تھا وحشتِ دل سے

ہو کے بدنام مجھ کو یاد آیا

 

یہ کوئی زلف مجھ کو یاد آئی

یا کوئی دام مجھ کو یاد آیا

 

پھر دھڑکنے لگا ہے دل راغبؔ

پھر وہ بے نام مجھ کو یاد آیا

***

 

کیا بتاؤں سبب اُداسی کا

ہے کرم ایک بے وفا سی کا

 

بحر میں شعر کہہ نہیں سکتے

اور دعوےٰ ہے فن شناسی کا

 

حاسدوں کے دلوں میں ہر لمحہ

ایک عالم ہے بدحواسی کا

 

شہر میں کس طرح بسے گا وہ

جو قبیلہ ہے آدی باسی کا

 

سب ستاروں کا بجھ گیا چہرہ

چاند نکلا جو پورنماسی کا

 

اہلِ باطل کا ساتھ دیتے ہو

زعم ہے پھر بھی حق شناسی کا

 

دل پہ تازہ ہے آج تک راغبؔ

زخم اُنیس سو نواسی کا

***

 

 

 

 

کیا بتاؤں کس قدر دل بے سکوں ہے آج بھی

آپ سے ملنے کی خواہش جوں کی تُوں ہے آج بھی

 

آج بھی ہے عقل راہِ عشق میں زنجیرِ پا

بادبانِ کشتیِ الفت جنوں ہے آج بھی

 

آج بھی ہے ان سے حالِ دل بتانے کی تڑپ

رینگنے والی کہاں کانوں پہ جوں ہے آج بھی

 

آج بھی ہے خوف دل کے ٹوٹ جانے کا مجھے

آپ سے الفت مجھے ، کیسے کہوں ، ہے آج بھی

 

آج بھی اوروں کی خاطر اشک ہوتے ہیں رواں

دل کو دل سے راہ ہے سوزِ دروں ہے آج بھی

 

آج بھی انساں کے دم سے یہ زمیں ہے با وقار

آسماں عظمت پر اِس کی سرنگوں ہے آج بھی

 

آج بھی لوگوں کی رگ میں خون ہے قابیل کا

کس قدر ارزاں زمیں پر قتل و خوں ہے آج بھی

 

آج بھی دل یاد کرتا ہے بہت راغبؔ اُنھیں

سُونا سُونا میرے دل کا اندروں ہے آج بھی

***

 

 

 

آگ سینے میں حسد کی پل رہی ہے یا نہیں

آپ کو شہرت ہماری کھل رہی ہے یا نہیں

 

آپسی رنجش ہی دِل کو دَل رہی ہے یا نہیں

دشمنوں کی دال ہر سو گل رہی ہے یا نہیں

 

نفرتوں کی آندھیاں چلتی رہیں ہر دور میں

چاہتوں کی شمع پھر بھی جل رہی ہے یا نہیں

 

کارگاہِ زیست میں دکھلا کے ہم کو سبز باغ

اے حسیں دنیا ہمیں تو چھل رہی ہے یا نہیں

 

زندہ رہنے کے لیے کیا کیا نہیں کرتا کوئی

زندگی کی شام لیکن ڈھل رہی ہے یا نہیں

 

اے مِری چاہت کی نگری دل پہ رکھ کر ہاتھ دیکھ

مجھ کو کھو کر ہاتھ اپنے مل رہی ہے یا نہیں

 

چاہتوں کی جھیل میں فرقت کے پتھر پھینک کر

پوچھتے ہو مجھ سے تم ہلچل رہی ہے یا نہیں

 

میری چشمِ شوق اُن کی دید کی حسرت لیے

کاش وہ بھی جانتے جل تھل رہی ہے یا نہیں

 

میں تو پاگل ہوں تری چاہت میں تیرے پیار میں

زندگی مجھ پر بھی تو پاگل رہی ہے یا نہیں

 

کشتیِ دل پار اُتری یا نہیں راغبؔ مری

خواہشوں کی ہر طرف دلدل رہی ہے یا نہیں

***

 

 

 

 

ان کی چالوں کا ہمیں ادراک ہونا چاہئے

یعنی ہم لوگوں کو بھی چالاک ہونا چاہئے

 

جسم کی پاکیزگی کی منزلت اپنی جگہ

جسم کے جیسا ہی دل کو پاک ہونا چاہئے

 

محوِ حیرت ہے جنوں کیسی ہے یہ دیوانگی

جب گریباں ہے تو اس کو چاک ہونا چاہئے

 

پردہ داری ، عیب پوشی اور حفاظت جسم کی

ایک دوجے کی ہمیں پوشاک ہونا چاہئے

 

دیکھ کر مکر و دغا ، جور و جفا ، ظلم و ستم

دیدۂ احساس کو نمناک ہونا چاہئے

 

ہاتھ ہی کٹ جائے یا دھونا پڑے جاں ہی سے ہاتھ

شاعر و فنکار کو بے باک ہونا چاہئے

 

روندتا پھرتا ہے کون اہلِ زمیں کو اے خدا

کس کو نذرِ گردشِ افلاک ہونا چاہئے

***

 

 

 

آسماں ہلنے لگیں گے یہ زمیں پھٹ جائے گی

تیرے کانوں تک نہ پاے دل کی آہٹ جائے گی

 

چاہ کر بھی شمع پروانے سے کہہ پاتی نہیں

مت بڑھانا فاصلہ ورنہ کشش گھٹ جائے گی

 

دیکھنا ہو جائے گا سارا گلستاں باغ باغ

جب توجہ باغبانِ وقت کی ہٹ جائے گی

 

دھوپ میں تپتے ہوئے لوگوں کو تکنے کے سوا

کیا کرے گا پیڑ اک اک شاخ جب کٹ جائے گی

 

وہ تکبّر میں پڑے تھے اُن کو اندازہ نہ تھا

وقت پر اک بے اثر سی فوج بھی ڈٹ جائے گی

 

کس طرح حاصل ہمیں ہوگا وہ رعب و دبدبہ

چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں قوم جب بٹ جائے گی

 

کچھ بھی بولوں تو زباں پر نام آتا ہے تِرا

کیا خبر تھی یوں تجھے میری زباں رٹ جائے گی

 

سوچتا رہتا ہے راغبؔ اب یہی بوڑھا چراغ

کیا کسی دن شمس کی بھی روشنی گھٹ جائے گی

***

 

میرے سینے میں جب ارمانوں کا لشکر آ گیا

ایک بے چینی کا موسم دل کے اندر آ گیا

 

آ گیا طوفان میرے بحرِ احساسات میں

شاعری کرنا مجھے تجھ سے بچھڑ کر آ گیا

 

عمر بھر کی بے گھری اُس کا مقدّر بن گئی

جو وفورِ آرزو میں گھر سے باہر آ گیا

 

چونچ میں اپنی دبائے ایک برگِ یاسمن

ریگزارِ ہجر میں دل کا کبوتر آ گیا

 

بادبانِ صبر لے کر کشتیِ دل جب چلی

سامنے اُس کے غموں کا اِک سمندر آ گیا

 

کھل گئی انسان کی اُس پر حقیقت اُس گھڑی

جب حصارِ ذات سے وہ شخص باہر آ گیا

 

زلزلے کی زد میں آ کر یوں لگا راغبؔ ہمیں

ذکر سنتے آئے تھے جس کا وہ محشر آ گیا

***

 

 

 

 

ہو چراغِ علم روشن ٹھیک سے

لوگ واقف ہوں نئی تکنیک سے

 

علم سے روشن تو ہے اُن کا دماغ

دل کے گوشے ہیں مگر تاریک سے

 

راۓ اُس پر مت کرو قائم کوئی

جانتے جس کو نہیں نزدیک سے

 

مرتبہ کس کا ہے کیسا کیا پتہ

باز آنا چاہیے تضحیک سے

 

ہاتھ پھیلانا مقدّر بن نہ جائے

پیٹ بھرنا چھوڑ دیجیے بھیک سے

 

جڑ گیا شیشہ بھروسے کا مگر

رہ گئے ہیں بال کچھ باریک سے

 

جس کا مقصد عدل و امن و آشتی

دل ہے وابستہ اُسی تحریک سے

 

بے سبب راغبؔ تڑپ اُٹھتا ہے دل

دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے

***

 

 

 

دھوپ میں فرقت کی تپنے کے لیے

جی رہا ہوں میں تڑپنے کے لیے

 

خواہشوں کی سر بُریدہ کونپلیں

اب بھی کوشاں ہیں پنپنے کے لیے

 

مہرباں گلشن پہ ہے ظالم ہوا

پھول سے خوشبو ہڑپنے کے لیے

 

خود فراموشی کے اِس ماحول میں

دل نہیں تیار کھپنے کے لیے

 

کیا تری محفل میں آئے ہیں سبھی

صرف تیرا نام جپنے کے لیے

 

لکھ کے راغبؔ اپنی ہی تعریف ہم

بھیجتے رہتے ہیں چھپنے کے لیے

***

 

 

 

 

 

 

دل میں ہر دم ہے بپا محشر کوئی

یاد آ جاتا ہے رہ رہ کر کوئی

 

کوئی کہتا ہے بھلا کوئی برا

خوش نہیں رہتا کسی سے ہر کوئی

 

ہو گئے کافور سارے درد و غم

تیرا چہرا ہے کہ چھو منتر کوئی

 

دل کے دریا میں عجب لہریں اُٹھیں

آ گرا جب یاد کا کنکر کوئی

 

پیٹھ پیچھے کیسے کیسے تبصرے

نام تک لیتا نہیں منھ پر کوئی

 

عمر بھر آنکھیں برستی رہ گئیں

جھلملاتا رہ گیا منظر کوئی

 

موسموں کی سختیاں سہتا رہا

آسماں کی اوڑھ کر چادر کوئی

 

دل تو ہے پاگل ہمیں معلوم ہے

کس طرح تکیہ کرے اِس پر کوئی

 

رقص کرتا ہے بگولوں کی طرح

قید ہے اِس جسم کے اندر کوئی

 

ہر گھڑی ہاتھوں پر اپنے میرا نام

کاٹتا رہتا تھا لکِھ لِکھ کر کوئی

 

بھولنے کی کوششیں ہوتی رہیں

یاد بھی آتا رہا اکثر کوئی

 

آج بھی ہے مفلسی راغبؔ مگر

باندھتا ہے پیٹ پر پتھّر کوئی؟

***

 

 

 

 

حق نوائی کیوں لگے مشکل مجھے

حوصلہ دیتا ہے میرا دل مجھے

 

بر سرِ پیکار ہیں آتش وجود

جان کر تصویرِ آب و گِل مجھے

 

اک کھلونا اور مل جاتا اُنھیں

مل گیا ہوتا جو اور اک دل مجھے

 

کب تلک بھٹکیں گی میری چاہتیں

کب ملے گی پیار کی منزل مجھے

 

چشمِ بینا بن گئی دشمن مری

کھا رہی ہے فکرِ مستقبل مجھے

 

بن ترے جینے کا ڈھب کیا آ گیا

آ گیا مرنا بھی اب تل تل مجھے

 

مجھ سے کہتا ہے مرا ہر ایک شعر

شعر گوئی کا سمجھ حاصل مجھے

***

 

 

 

کس قدر سنسان ہو کر رہ گئے

ہجر میں ویران ہو کر رہ گئے

 

رہ گئے فرقت میں بھی زندہ مگر

مثلِ آتش دان ہو کر رہ گئے

 

جب سے خیمہ زن ہوئے پردیس میں

گھر پہ بھی مہمان ہو کر رہ گئے

 

بے حسی جب حد سے آگے بڑھ گئی

سب کے سب بے جان ہو کر رہ گئے

 

مل گیا ایماں وراثت میں ہمیں

صاحبِ ایمان ہو کر رہ گئے

 

آپ نے جب سے نگاہیں پھیر لیں

بے سر و سامان ہو کر رہ گئے

 

راست گوئی کے ہوئے تھے مرتکب

زینتِ زندان ہو کر رہ گئے

 

حد سے جب راغبؔ بڑھی پیچیدگی

ہم بڑے آسان ہو کر رہ گئے

***

 

 

 

ہر گھڑی ہنسنا ہنسانا یاد ہے

وہ حسیں دلکش زمانا یاد ہے

 

جانے کب بجلی گری کچھ یاد نئیں

بن چکا تھا آشیانا یاد ہے

 

آتشِ فرقت میں جلنا روز و شب

اشک کا دریا بہانا یاد ہے

 

ہجر کی اُس چلچلاتی دھوپ میں

یاد کا وہ شامیانا یاد ہے

 

کوچۂ دلدار میں دیوانہ وار

رات دن چکّر لگانا یاد ہے

 

تیری دل جوئی کی خاطر بارہا

وہ حسیں نغمے سنانا یاد ہے

 

ملتے ہی آنکھوں سے آنکھیں یک بہ یک

وہ تِرا نظریں چرانا یاد ہے

 

مسکرا کر بات کرنا غیر سے

اور مِرے دل کو جلانا یاد ہے

 

تیرے استقبال کو ہر دن مِرا

راہ میں پلکیں بچھانا یاد ہے

 

ساحلِ دریا پہ تنہا بیٹھ کر

تیری تصویریں بنانا یاد ہے

 

یاد ہے راغبؔ وہ رغبت وہ جنوں

جان و دل اُس پر لٹانا یاد ہے

***

 

 

 

مجھ کو رکھتی ہے پریشان مِری خوش فہمی

جان لے لے گی مِری جان مِری خوش فہمی

 

میری خوش فہمی مِرے جذبۂ الفت کی غذا

میری چاہت کی نگہبان مِری خوش فہمی

 

جب سے ٹوٹا ہے بھرم دل کو کہیں چین نہیں

قصرِ دل کر گئی ویران مِری خوش فہمی

 

کھویا رہتا ہوں خیالوں کی حسیں وادی میں

خود فریبی کا ہے سامان مِری خوش فہمی

 

میری چاہت کے گلستان کو مرتے دم تک

ہونے دے گی نہ بیابان مِری خوش فہمی

 

کیا کروں میں کہ کسی آن پسِ آئینہ

جانے دیتی ہی نہیں دھیان مِری خوش فہمی

 

کس سے امّیدِ وفا میں نے لگائی راغبؔ

کر گئی مجھ کو پشیمان مِری خوش فہمی

***

 

 

 

بن گیا شعلہ مظالم کا شرر آخرکار

ہم بھی ٹکرا گئے بے خوف و خطر آخرکار

 

خوش گمانی مری کچھ کام نہ آئی میرے

توڑ دی وقت نے چاہت کی کمر آخرکار

 

یہ الگ بات کہ کھائے ہیں بہت میں نے فریب

آ گیا مجھ کو بھی جینے کا ہنر آخرکار

 

اس نے بھی راست نوائی کی جسارت کی تھی

اس کو بھی ہونا پڑا شہر بدر آخرکار

 

ہو گئی بند تمّناؤں کی اک روز مشین

ہو گیا ختم ضرورت کا سفر آخرکار

 

مجھ کو امّید ہے ماحول مخالف ہے تو کیا

شاخِ امّید پر آئے گا ثمر آخرکار

 

خستہ حالات ، بڑی عمر ، سہارے کمزور

گر گیا بادِ مخالف میں شجر آخرکار

 

کام آئی نہ مرے میری بہادر شاہی

مجھ کو ہونا پڑا محرومِ ظفر آخرکار

 

روح اک عمر رہی بند بدن مسکن میں

مل گئی اس کو بھی اک راہِ مفر آخرکار

 

میں نے برسائے یوں اخلاص و محبّت راغبؔ

ہو گیا موم وہ پتھّر کا جگر آخرکار

***

 

 

اپنی آنکھوں کے چمتکار دکھاتے کسی دن

دفعتاً آ کے مِرے ہوش اُڑاتے کسی دن

 

میں گلے سے نہ لگا لوں تو مِرا نام نہیں

اِک ذرا دستِ رفاقت تو بڑھاتے کسی دن

 

ہاں یہی سچ ہے تمھیں پیار نہیں ہے ہم سے

ایسا ہوتا تو تمھیں یاد نہ آتے کسی دن

 

یک بہ یک ہو گئے ناراض ہمیشہ کے لیے

کیا شکایت ہے تمھیں مجھ سے بتاتے کسی دن

 

چھیڑتے ہجر کی روداد بہ اندازِ گلہ

اور رو رو کے مجھے خوب رُلاتے کسی دن

 

یاد کرتے ہو مجھے تم بھی ہمیشہ اے دوست

میرے دل کو بھی یہ احساس دلاتے کسی دن

 

میرے ہم درس، مِرے برسوں کے بچھڑے ساتھی

یاس کے دام سے راغبؔ کو چھُڑاتے کسی دن

***

 

 

 

 

خوب مجبوریِ حالات سمجھتا ہوں میں

مہرباں آپ کی ہر بات سمجھتا ہوں میں

 

میں سمجھتا ہوں مِرے دوست حقیقت اپنی

مقصدِ ارض و سماوات سمجھتا ہوں میں

 

روح کو ایک جواں حوصلہ قیدی کی طرح

جسم کو ایک حوالات سمجھتا ہوں میں

 

تجھ سے ملنے کی تڑپ مار نہ ڈالے مجھ کو

کیسے قابو میں ہیں جذبات سمجھتا ہوں میں

 

کیوں نہ ہر لمحہ اُنھیں دل سے لگائے رکھّوں

زخمِ دل آپ کی سوغات سمجھتا ہوں میں

 

دیکھنے والے سمجھتے ہیں اِسے اشکِ رواں ہے

کیسے ہوتی ہے یہ برسات سمجھتا ہوں میں

 

اپنے اشعار کی تشریح نہ کیجیے راغبؔ

آپ کے سارے کنایات سمجھتا ہوں میں

***

 

 

 

 

قتل و غارت جو مچائے ہوئے ہیں

پرچمِ امن اُٹھائے ہوئے ہیں

 

ایک مدّت سے غموں کے بادل

شہرِ احساس پہ چھائے ہوئے ہیں

 

اتنا بچّوں کو بھی سکھلا دیتے

جتنا توتے کو رٹائے ہوئے ہیں

 

اُن کی محفل میں نیا کچھ بھی نہیں

پاس جو کچھ ہے سنائے ہوئے ہیں

 

صرف الزام لگا کر ظالم

آسماں سر پر اُٹھائے ہوئے ہیں

 

ہم تماشائی بنے ہیں راغبؔ

اور وہ کہرام مچائے ہوئے ہیں

***

 

 

 

دل سے جب آہ نکل جائے گی

جاں بھی ہمراہ نکل جائے گی

 

دل میں کچھ بھی تو نہ رہ جائے گا

جب تِری چاہ نکل جائے گی

 

ہم نے سمجھا تھا کہ کچھ برسوں میں

فصلِ جاں کاہ نکل جائے گی

 

فن اگر لائقِ تحسین ہوا

خود بخود واہ نکل جائے گی

 

پھر سبھی جوڑ کے سر بیٹھے ہیں

پھر کوئی راہ نکل جائے گی

 

تم سے ملنے کی بھی کوئی صورت

انشاء اللہ نکل جائے گی

 

توڑ کر ساری فصیلیں راغبؔ

فکرِ آگاہ نکل جائے گی

***

 

 

 

ایک تصویر چھپائے ہوئے ہیں

اُن کو آنکھوں میں بسائے ہوئے ہیں

 

ایک مدّت سے تِری یادوں کو

اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں

 

کوئی امّید نہیں ہے پھر بھی

راہ میں پلکیں بچھائے ہوئے ہیں

 

ہم کو اوروں سے نہیں کوئی گلہ

اپنے ہی دل کے ستائے ہوئے ہیں

 

عکسِ احساس دکھانے کے لیے

دل کو آئینہ بنائے ہوئے ہیں

 

میں اُنھیں ڈھونڈ رہا ہوں راغبؔ

جو مِرے دل میں سمائے ہوئے ہیں

***

 

 

 

 

 

 

تمھارے لوٹ آنے کی ہمیشہ آس رہتی ہے

مِرے سیراب ہونٹوں پر سلگتی پیاس رہتی ہے

 

بسا ہے اِک سمن پیکر مِری آنکھوں میں کچھ ایسے

کہ دل کے صحن میں اُس کی سدا بو باس رہتی ہے

 

سیہ کرنے سے پہلے ایک لمحہ سوچ لیتے ہیں

وہ جن کی چشمِ فن میں عظمتِ قرطاس رہتی ہے

 

تغیّر آ نہیں سکتا کبھی کردار میں اُس کے

کہ اُس کی بے حسی ہر دم پسِ احساس رہتی ہے

 

اکیلے پن میں بھی راغبؔ نہ میں تنہا نہ تنہائی

میں اُس کے پاس رہتا ہوں وہ میرے پاس رہتی ہے

 

 

 

مِری گردن سے یوں تیغِ ستم ایجاد ملتی ہے

زمانے بھر سے میرے حوصلے کی داد ملتی ہے

 

نہیں محتاج شعر و شاعری تعلیم کی لیکن

لہک اُٹھتے ہیں وہ پودے جنھیں کچھ کھاد ملتی ہے

سمندر پار ملتے ہیں یقیناً ڈالر و درہم

پر اکثر زندگی افسردہ و ناشاد ملتی ہے

 

امیرِ شہر کی چشمِ کرم کو کون دکھلائے

کسے لوٹا حوادث نے کسے امداد ملتی ہے

 

سبھی کو رزق ملتا ہے خدا کے کارخانے سے

ہر اِک فرقت زدہ دل کو متاعِ یاد ملتی ہے

 

محبّت چاہتی ہے دیکھنا نمناک آنکھوں سے

کہانی میں کہاں تک ہجر کی روداد ملتی ہے

 

جہاں بھی دیکھتا ہوں کھود کر دل کی زمیں راغبؔ

کہیں آہیں نکلتی ہیں کہیں فریاد ملتی ہے

***

 

 

 

کسی کو خوں رُلانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

کہ رونے گڑگڑانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

 

کسی کو کچھ نہیں ملتا عداوت اور نفرت سے

کسی کا دل دکھانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

 

اگر غیرت ہے زندہ تو وسائل کیجیے پیدا

ہمیشہ دُم ہلانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

 

تمھاری مانگ جو بھی ہو سلیقے سے اُسے رکھّو

بھئی اُودھم مچانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

 

لگا رکھّی ہے تم نے آس لیکن بھول بیٹھے ہو

کہ قارونی خزانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

 

توجّہ سے کرو حاصل وہاں تعلیم و تربیّت

فقط کالج میں جانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

 

درختوں پر اُنھیں راغبؔ ہمیشہ چہچہانے دو

پرندوں کو اُڑانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا

***

 

 

 

 

 

نہ جانے کیا ہے اُس ظالم کے جی میں

کمی آتی نہیں کچھ کج رَوی میں

 

سہاگن ہو کے بھی ان برہنوں کی

جوانی کٹ رہی ہے بیوگی میں

 

مِرے محبوب تجھ سے دُور رہ کر

عجب سی بے کلی ہے زندگی میں

 

بتاؤ کون ہے دنیا میں ایسا

کمی کوئی نہیں جس آدمی میں

 

ملے اخلاص کا دریا سمندر

بڑی شدّت ہے میری تشنگی میں

 

تکبّر نے کیا برباد اُسے بھی

گزاری عمر جس نے بندگی میں

 

ابھی اِک دوسرے سے لڑ  رہے ہیں

کبھی کھاتے تھے دونوں ایک ہی میں

 

دیا ہے خون میں نے اس دئے کو

’’ مرا حصّہ بھی ہے اس روشنی میں ‘‘

 

نہ ہو جس کا اثر کچھ ذہن و دل پر

مزہ آتا نہیں اُس شاعری میں

 

دعا کیجیے کہ راغبؔ زندگی بھر

اضافہ ہو ہماری دوستی میں

***

 

 

 

 

میں سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں

میں پھر اسکول جانا چاہتا ہوں

 

ترے شہرِ محبّت کی گلی میں

میں بن کر دھول جانا چاہتا ہوں

 

میں اِس دنیا سے تیری چاہتوں کے

لیے کچھ پھول جانا چاہتا ہوں

 

اُسی کی یاد تڑپاتی ہے راغبؔ

میں جس کو بھول جانا چاہتا ہوں

***

 

 

 

کہاں خود میں سمٹ کر رہ گیا ہوں

کئی حصّوں میں بٹ کر رہ گیا ہوں

 

تِری یادیں ہیں مقناطیس جیسی

انھیں سے میں چمٹ کر رہ گیا ہوں

 

مقدّر میں تھا تنہائی کا صحرا

غبارِ غم میں اَٹ کر رہ گیا ہوں

 

پلٹ کر آپ کو آنا تھا جس سے

اسی رہ سے لپٹ کر رہ گیا ہوں

 

میں سب کو کاٹتا رہتا تھا راغبؔ

زمانے بھر سے کٹ کر رہ گیا ہوں

***

 

 

 

ہوا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

رہا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

سرِ صحرا برسنا چاہتا ہوں

گھٹا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

کہیں تو روشنی ہو جائے مجھ سے

دیا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

میں اِس عریاں وجود انسانیت کی

ردا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

فرشتوں نے مجھے سجدہ کیا ہے

جو تھا، ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

دیارِ درد میں آباد رہ کر

دوا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

محبّت میں کسی کی رفتہ رفتہ

فنا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

کسی مظلوم کے مجروح دل کی

دعا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

 

میں کوئی قرض ہوں خود پر ہی راغبؔ

ادا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

***

 

 

 

 

بڑی مشکل ہوا کے سامنے ہے

چراغِ دل ہوا کے سامنے ہے

 

چراغوں کی طرح ہیں دوست میرے

ہر اِک ، باطل ہوا کے سامنے ہے

 

ہوا کا سامنا ہو کیوں نہ اُس کو

وہ روشن دل ہوا کے سامنے ہے

 

جہاں چاہے وہاں بے خوف جائے

ہر اِک منزل ہوا کے سامنے ہے

 

وہی بادِ مخالف میں ہے روشن

جو اِس قابل ، ہوا کے سامنے ہے

 

ہوا ہو کر رہے گا جسم راغبؔ

یہ مشتِ گِل ہوا کے سامنے ہے

***

 

 

 

 

وفا داری میں جب کمزور ٹھہرے

بھلا کیسے وفا کی ڈور ٹھہرے

 

کسی کا شور و شر بھی امن پرور

کہیں آہ و فغاں بھی شور ٹھہرے

 

وہ لے کر امن کا پرچم اُٹھے ہیں

طبیعت سے جو آدم خور ٹھہرے

 

کہیں گے ہم سدا ظالم کو ظالم

رہیں چپ جن کے دیدے کور ٹھہرے

 

**

 

 

 

منا لوں کس طرح خود کو

سنبھالوں کس طرح خود کو

 

تِرے سانچے میں اے دنیا

میں ڈھالوں کس طرح خود کو

 

نہیں رہتا میں اِس دھُن میں

اُچھالوں کس طرح خود کو

 

تمنّاؤں کی دلدل سے

نکالوں کس طرح خود کو

 

جلاؤں گر نہ خونِ دل

اُجالوں کس طرح خود کو

 

نہیں میں خود غرض راغبؔ

بنا لوں کس طرح خود کو

***

 

 

ملنے چلے ہو بغض و کدورت کے باوجود

قائم رہے گا فاصلہ قربت کے باوجود

 

ہم لوگ دوستی ہی نبھاتے رہے سدا

اُن کی طرف سے لاکھ عداوت کے باوجود

 

خود داریِ مزاج نے تالا لگا دیا

ہلتی نہیں زبان ضرورت کے باوجود

 

پھر اُس کے حال ہی پر اُسے چھوڑ دیجیے

آئے نہ راہ پر جو ہدایت کے باوجود

 

دل ہے کہ اعتبار ہی کرتا چلا گیا

اُن سے ہزاروں شکوے شکایت کے باوجود

 

میں بھی تری طرح ہی اسیرِ انا رہا

ملنے نہ جا سکا کبھی چاہت کے باوجود

 

سختی سے پیش آنا پڑے ہے کبھی کبھار

بچّوں سے اپنے لاکھ محبّت کے باوجود

 

کچھ سوچنے سمجھنے کی دعوت تو دے گیا

آیا نہ جو سمجھ میں وضاحت کے باوجود

 

جادو اثر نہیں تو ہے بے لطف شاعری

فکر و خیال میں بڑی ندرت کے باوجود

 

سب سے بڑا دلیر ہے راغبؔ وہ آدمی

غصّے کی آگ پی لے جو قدرت کے باوجود

 

 

 

 

 

کیا بس گئے ہیں وہ مِرے دل کے مکان میں

آتا نہیں ہے کوئی بھی وہم و گمان میں

 

گستاخیاں بھی کرنی ہوں گر میری شان میں

یہ التجا ہے کیجیے اردو زبان میں

 

تلوار رہنے دیجیے راغبؔ میان میں

تاثیر پیدا کیجیے اپنی زبان میں

***

 

 

 

چاہے نگاہِ عقل میں ہو کچھ بھی احتیاط

ہر آدمی کے بس میں نہیں ہوتی احتیاط

 

لازم ہے احتیاط ہر اِک بات میں مگر

دیکھو بنا نہ دے کہیں بزدل ہی احتیاط

 

بے احتیاطیوں نے کیے برپا انقلاب

منھ دیکھتی ہی رہ گئی بے چاری احتیاط

 

زخمی نہ ہو قلم سے ہمارے کسی کا دل

کرتے ہیں ہر کلام میں ہم اِس کی احتیاط

 

ہم مصلحت پرست ہیں راغبؔ نہ متّقی

ہر بات میں تو ہم سے نہیں ہو گی احتیاط

***

 

 

 

کسی طرح بھی نہ تجھ کو قرار آئے گا

کہاں جُنوں کا لبادہ اُتار آئے گا

 

کچھ اِس طرح سے بچھایا ہے اُس نے دامِ فریب

کہ خود ہی جال میں اِک اِک شکار آئے گا

 

خرد کو چھوڑئے ہے عشق کو بڑی اُمّید

وفا کے رتھ پہ وہ ہو کر سوار آئے گا

 

اُنھیں ہماری شرافت نہیں شرارت پر

کہاں خبر تھی کہ اِس درجہ پیار آئے گا

 

خیال و فکر میں رنگت نہیں محبّت کی

غزل کے چہرے پہ کیسے نکھار آئے گا

 

یہ خشک ہوتا پسینا ہے پوچھتا ہر شام

کہ کب تلک یونہی راشن اُدھار آئے گا

 

وہ جان جائے گا کیا ہیں خلوص و مہر و وفا

جو اُن کے شہر میں اِک دن گزار آئے گا

 

سنبھل کے چلئے گا راغبؔ ڈگر پہ جیون کی

کہیں چڑھاؤ کہیں پر اُتار آئے گا

***

 

 

 

وفا کے پتلے بھی چاہت کی مورتیں بھی ہیں

دلِ حزیں میں کئی اور صورتیں بھی ہیں

 

ستم تو ڈھایا ہے مہنگائی نے بھی خوب مگر

قصوروار ہماری ضرورتیں بھی ہیں

 

قدم قدم پہ بچھا ہے عدو کا دامِ فریب

کرو تلاش تو بچنے کی صورتیں بھی ہیں

 

وہ ہم سے ملتے ہیں راغبؔ بڑے خلوص کے ساتھ

یہ اور بات کہ دل میں کدورتیں بھی ہیں

 

***

 

 

 

 

 

اگرچہ میری طبیعت بھی کوئی سخت نہیں

ذرا سی چوٹ سے دل میرا لخت لخت نہیں

 

ملو گے تم کبھی اب اتّفاق سے بھی کہیں

مجھے پتہ ہے میں ایسا بلند بخت نہیں

 

متاعِ زیست سمجھتا ہوں میں محبّت کو

بجز خلوص مِرے پاس کوئی رخت نہیں

 

ابھی تلاش جہانِ دِگر میں دوب کی ہے

درونِ شہرِ تمنّا کوئی درخت نہیں

 

قلندری ہے ہمارے مزاج میں شامل

ہمارے خواب میں بھی کوئی تاج و تخت نہیں

 

میں کیا کروں کہ ہے اردو مِری زباں راغبؔ

معاف کرنا جو لہجہ مِرا کرخت نہیں

***

 

 

 

 

 

ہر ایک لمحہ تمھارا خیال اب بھی ہے

کہ دل سے دل کا وہ رشتہ بحال اب بھی ہے

 

کئی برس ہوئے تجھ سے جدا ہوئے لیکن

تِری جدائی کا رنج و ملال اب بھی ہے

 

غمِ جہاں سے ہے پامال پر غزل کا دل

اسیرِ شوخیِ حسن و جمال اب بھی ہے

 

تمھارے دل میں ہے ایمان کی ضیا اب بھی

اگر تمیزِ حرام و حلال اب بھی ہے

 

بدل گیا ہے بہت رنگِ عاشقی لیکن

وہی مریضِ محبّت کا حال اب بھی ہے

 

خیال و فکر کی آلودگی عروج پہ ہے

اگرچہ جنسِ حیا خال خال اب بھی ہے

 

مشینی دور میں افراطِ معلومات تو ہے

پہ حالِ دل کا سمجھنا محال اب بھی ہے

 

کہاں ہے آج تمھارا وہ جامِ جم راغبؔ

ہمارے پاس تو جامِ سفال اب بھی ہے

***

 

 

 

کہاں ہوں ، کون ہوں ، کیسا ہوں ، کس شمار میں ہوں

غبارِ وقت ہوں ، الفت کی رہ گزار میں ہوں

 

عجیب حبس کے عالم میں جی رہا ہوں میں

دیارِ ہجر میں تنہائیوں کے غار میں ہوں

 

میں خود پرست نہیں ہوں نہ خود فریب ہوں میں

مجھے پتہ ہے کہ میں کس کے اختیار میں ہوں

 

اگرچہ ہجر زدہ ہوں ، وطن سے دور ہوں میں

خدا کا شکر ہے اک پر سکوں دیار میں ہوں

 

تلاش کرتا ہوں میں افتخار راغبؔ کو

کئی برس سے میں اپنے ہی انتظار میں ہوں

 

***

 

 

 

جو دوسروں کی خطائیں معاف کرتے ہیں

دراصل دل سے کدورت وہ صاف کرتے ہیں

 

ہر ایک بات میں ہامی نہیں بھری جاتی

اُنھیں گلہ ہے کہ ہم اختلاف کرتے ہیں

 

کبھی گمان کی صورت کبھی یقین کے ساتھ

دلوں کے راز کا وہ انکشاف کرتے ہیں

 

ہمیں یقیں بھی دلاتے ہیں ساتھ دینے کا

وہ سازشیں بھی ہمارے خلاف کرتے ہیں

 

پتہ ہے جن کو بھی مفہوم حرفِ توبہ کا

وہ اپنے جرم کا خود اعتراف کرتے ہیں

 

کہیں بھی پیار سے رہنا اُنھیں قبول نہیں

جہاں بھی جائیں ، دلوں میں شگاف کرتے ہیں

 

اُنھیں سے عظمتِ اردو بحال ہے راغبؔ

جو گفتگو میں ادا شین قاف کرتے ہیں

***

 

 

 

 

خلوص و اُنس میں جو صورتِ شجر ٹھہرے

غموں کی دھوپ میں تپ کر ہی معتبر ٹھہرے

 

ہمیں کسی سے عداوت نہیں شجر ہیں ہم

ہماری شاخ پہ بس پیار کا ثمر ٹھہرے

 

سکونِ قلب تو حاصل ہے ہم فقیروں کو

بلا سے آپ کی نظروں میں دربدر ٹھہرے

 

نکل کے خانہ بدوشی کی زندگانی سے

خدا کا شکر ہے کچھ دن تو اپنے گھر ٹھہرے

 

بڑے ہی کام کی مٹّی مِرے وجود میں ہے

سو مجھ پہ بھی تو کبھی چشمِ کوزہ گر ٹھہرے

 

ستم جو ڈھائے وہ ٹھہرائے خود کو امن پرست

خلافِ ظلم جو اٹھّے وہ فتنہ گر ٹھہرے

 

ہنر کا سارا خزانہ ہے جن کے سینے میں

وہی زمانے میں افسوس بے ہنر ٹھہرے

 

طرح طرح کی میں عینک لگا کے دیکھتا ہوں

کبھی تو اپنی کمی پر مِری نظر ٹھہرے

 

خدا کے خوف سے لرزیدہ ٹھہرا دل راغبؔ

سو دل میں کیسے کسی دوسرے کا ڈر ٹھہرے

***

 

 

 

کبھی زمین کبھی آسماں کے بارے میں

ہمیں ہے سوچنا سارے جہاں کے بارے میں

 

نہ جانے کیوں مِری آنکھیں برسنے لگتی ہیں

میں سوچتا ہوں جب اس گلستاں کے بارے میں

 

کسی کو راز بتانے کی کیا ضرورت تھی

سو کچھ نہ بولیے اب راز داں کے بارے میں

 

یہ تیری سادہ دِلی تجھ کو مار ڈالے گی

پتا نہیں تجھے اہلِ جہاں کے بارے میں

 

جو حق پرست ہیں مذہب ہے جن کا سچائی

وہ سوچتے نہیں سود و زیاں کے بارے میں

 

ہر ایک سمت سے برق و شرر نے گھیر لیا

ہر اِک کو علم تھا اُس آشیاں کے بارے میں

 

اِس اضطراب میں بھی اے قطر سکون سے ہوں

میں کیا لکھوں ترے امن و اماں کے بارے میں

 

یہاں کی فکر میں سب کچھ بھلائے بیٹھے ہیں

کبھی تو سوچئے صاحب وہاں کے بارے میں

 

متاعِ دردِ جگر جس نے کی عطا راغبؔ

زباں خموش ہے اُس مہرباں کے بارے میں

***

 

 

 

ضرورتوں کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں پاؤں میں

تمھیں بتاؤ کس طرح میں لوٹ آؤں گاؤں میں

 

اکیلے پن کی دھوپ میں تڑپ رہا ہوں اے خدا

کوئی پہر تو ہو بسر محبتوں کی چھاؤں میں

 

بچھڑ کے تم سے کس طرح گزاروں اپنی زندگی

الجھ گیا ہوں میں تمھاری یاد کی لتاؤں میں

 

تڑپ رہا ہوں پیاس سے ، بندھی ہوئی ہے آس بھی

نمی نہیں ہے کیا تمھارے پیار کی گھٹاؤں میں

 

ہوائے شہر سے ہوئی رداۓ امن تار تار

ترقیوں کی بجلیاں گریں یوں گاؤں گاؤں میں

 

کوئی دھرے گا کان کیا تمھارے امن امن پر

صداۓ مکر و فن جو ہے تمھاری کاؤں کاؤں میں

***

 

 

 

 

کوئی مجھ سے خفا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

سر تن سے جدا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

 

مِرے شعروں سے ، مِری آہوں سے ، مِرے نالوں سے ، مِری چیخوں سے

اِک حشر بپا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

 

یہ سچ کہنا اور سچ سننا ، یہ سچ پڑھنا اور سچ لکھنا

مِرے حق میں بُرا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

 

زلفِ اُردو سلجھانے میں ، احساس کے دیپ جلانے میں

نقصان بڑا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

 

ہے کون اجالوں کا دشمن ، کس کی جانب ہے روۓ سخن

دنیا کو پتا ہوتا ہے تو ہو رُک جائے قلم ناممکن ہے

***

 

 

 

 

یہ جواہر خیالات کے

عکس ہیں میرے جذبات کے

 

جب محبّت ہوئی سُرخ رو

دن تھے تیری عنایات کے

 

اب کہاں عشقِ اوّل کے دن

اور وہ طوفان جذبات کے

 

کاش رہتے وہ بچپن کے دن

اور کھلونے تِرے ہات کے

 

کتنا بے چین ہے میرا دل

واسطے اِک ملاقات کے

***

 

 

 

وہ حد سے زیادہ گریزاں ہے مجھ سے

جسے چاہتا ہوں میں حد سے زیادہ

 

وہیں پر ہے جمہوریت کار آمد

جہاں نیک رہتے ہوں بد سے زیادہ

 

نکلنے نہ دو پانْو چادر کے باہر

نہ اُونچا نظر آؤ قد سے زیادہ

 

یہ پتھّر کا گھر چار دن کے لیے ہے

ہے خاکی کو نسبت لحد سے زیادہ

***

 

 

 

 

ترے دل پہ جادو جگانے کے لائق

کہاں کچھ ہے تجھ کو سنانے کے لائق

 

کوئی تو کرے ظلم پر لب کشائی

کوئی تو رہے منھ دکھانے کے لائق

 

نہ بگڑے تعلّق تو اچھّا ہے لیکن

رہے رسم و رہ آنے جانے کے لائق

 

کوئی کس طرح ایسے زخموں کو روئے

جو ہیں صرف دل میں چھپانے کے لائق

 

ابھی اور تھوڑی سی مہلت عطا ہو

کہ بچّے نہیں ہیں کمانے کے لائق

 

مجھے اب مرے حال پر چھوڑ دیجیے

نہیں روگ دل کا بتانے کے لائق

 

ترا نام لکھّا ہے یوں لوحِ دل پر

نہیں ہے جو مٹنے مٹانے کے لائق

***

 

 

 

سمجھ میں خود اپنی بھی آتا نہیں کچھ

ہوا کیا ہے جو دل کو بھاتا نہیں کچھ

 

نہیں کچھ تری بخششوں کے علاوہ

مِرے پاس اے میرے داتا نہیں کچھ

 

تِری تنگ ظرفی کا اندازہ ہوتا

تو ہرگز میں تجھ کو بتاتا نہیں کچھ

 

وہاں علم کا نور پھیلے گا کیسے

جہاں عالموں کو بھی آتا نہیں کچھ

 

میں بے ذوق لوگوں کی محفل میں راغبؔ

چلا بھی گیا تو سناتا نہیں کچھ

***

 

 

 

بزمِ سخن میں خود کو ناچار لے کے آئے

نادر خیال روشن افکار لے کے آئے

 

فرقت کے زخم دل پر اِس سے کہیں سوا ہیں

ہم ساتھ جتنے ڈالر دینار لے کے آئے

 

پھر حرفِ یاس لے کر لوٹے تِری گلی سے

کیوں دل میں آرزوۓ دیدار لے کے آئے

 

خوش فہم دل کی ضد پر جب جب وہاں گئے ہم

دو چار زخم تازہ ہر بار لے کے آئے

 

اُس پار جا چکے جو دریائے زندگی کے

کوئی نہیں جو اُن کو اِس پار لے کے آئے

 

سب ظلمتوں پہ چھائی ہر سمت جگمگائی

وہ روشنی جو میرے سرکارؐ لے کے آئے

 

راغبؔ تمام خبریں ہوں گی اُسی طرح کی

پتھّر بنا کے دل کو اخبار لے کے آئے

***

 

 

 

 

امید مت لگاؤ تدبیر سے زیادہ

ملتا نہیں کسی کو تقدیر سے زیادہ

 

تقدیر سے زیادہ تدبیر آزماؤ

تقدیر پر یقیں ہو تدبیر سے زیادہ

 

گجرات سے زیادہ زخمی کیا گیا ہوں

ہے درد میرے دل میں کشمیر سے زیادہ

 

اُس قوم کی قیادت پھر رہ سکی نہ قائم

تخریب کی جب اُس نے تعمیر سے زیادہ

 

حالانکہ قصرِ فن کی کمزور سی کڑی ہوں

لیکن ہے بوجھ مجھ پر شہتیر سے زیادہ

 

چاہت کی ڈور ہے یہ ، دو دل بندھے ہیں اِس میں

مضبوط ہے یہ دھاگا زنجیر سے زیادہ

 

فرصت کہاں کسی کو اِس دورِ تیز رَو میں

تلخیص کارگر ہے تفسیر سے زیادہ

 

ہے وقت کا تقاضا راغبؔ کہ ہو توجہ

تقریر و گفتگو پر تحریر سے زیادہ

 

٭٭٭

شاعر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ جن سے ٹائپ شدہ مواد کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید