FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

خوشبوئیں اعلان کرتی ہیں

 

 

سمیرا گل عثمان

 

پت جھڑ سنگ بہار‘ نامی مجموعے میں شامل ایک طویل کہانی/ناولٹ

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

برستی بارش کی بوندوں کو اپنی ہتھیلی پر جمع کرتی وہ کچھ ملول اور افسردہ سی کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ یہ موسم ہمیشہ اسے اداس کر دیتا تھا۔

’’واؤ سورومینٹک۔‘‘ مائرہ اس کے کندھے پہ دباؤ ڈالتی آگے کو جھکی وہ ابھی سوکر اٹھی تھی موسم کی تمام تر رنگینیاں اس کے چہرے پر سمٹ آئیں۔

زویا نے اس کے چہرے پر پھیلتے رنگوں کو دیکھ کر سوچا وہ بھی ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے تحاشا خوش ہوا کرتی تھی۔

’’چلو، بارش میں بھیگتے ہیں۔‘‘ وہ اس کا بازو کھینچنے لگی۔

’’نہیں مجھے بارش میں بھیگنا اچھا نہیں لگتا میں دور سے ہی انجوائے کر لیتی ہوں۔‘‘ زویا نے صاف دامن چھڑاتے ہوئے رخ موڑ لیا اس کا بالکل موڈ نہیں ہو رہا تھا۔

’’بور لڑکی۔‘‘ مائرہ نے منہ پھلا لیا۔

تبھی ڈور بیل کی آواز نے دونوں کو چونکایا۔

’’اب اس وقت کون آ گیا! لوگوں کو بھی نا، بالکل تمیز نہیں جب دل چاہا منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔ میں نہیں جانے والی۔‘‘ وہ سر تا پا چادر اوڑھ کر پھر سے لیٹ گئی مگر تواتر سے بجی بیل پر اسے اٹھنا ہی پڑا تھا زویا تو رخ موڑے جانے کس مراقبے میں گم ہو چکی تھی۔

’’تم۔‘‘ دروازہ کھولتے ہی اس کی آنکھوں میں بے تحاشا حیرت امڈ آئی۔

’’چونک گئی نا۔‘‘ وہ مسکراتا ہوا اس کی حیرت پہ خاصا محظوظ ہوا تھا۔

’’جانتی ہوں تمہیں کبھی بھی معزز مہمانوں کی طرح اطلاع دے کر نہ آنا۔‘‘

’’یہ میرے نانا جان کا گھر ہے اور میں یہاں خود کو ہرگز مہمان تصور نہیں کرتا۔‘‘ وہ ڈھٹائی سے کہتا اس کی ہمراہی میں چلتا لاؤنج کی سیڑھیوں پر رک گیا۔ بے دھیانی میں اوپر اٹھی نگاہ نے اس قدموں کو جیسے وہیں زنجیر کر دیا تھا۔

’’نیلی آنکھیں، گندمی رنگت گھنگھریالے بالوں والی وہ لڑکی مگن سے انداز میں کھڑی اپنی پھیلی ہوئی ہتھیلیوں کی اوک میں بارش کے قطرے جمع کرتی اس کے دل کا ساز چھیڑ گئی تھی۔

’’اتنی معصومیت اتنی سادگی اور اتنی اداسی۔‘‘ اس کے من میں خیال آیا کہ اگر وہ اس منظر کو پینٹ کرے تو یقیناً یہ اس کی سب سے نایاب پینٹنگ ہو گی اسی وقت کوئی بھاری چیز اس پر آ گری تھی وہ چونکا مائرہ نے اس پر ٹاول پھینکا تھا۔

’’اپنا سر پونچھ لو اور اندر آ جاؤ۔‘‘ وہ ایک گہرا سانس خارج کرتا لاؤنج میں چلا آیا۔

’’یہ کیا کیا تم نے۔‘‘ اگلے ہی پل مائرہ اس کے سر پر کھڑی کڑے تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔

’’کیا ہوا؟‘‘ وہ بوکھلا گیا۔

’’آج ہی میں نے کشن کور بدلے تھے تم نے صوفے پر بیٹھ کر سب گیلا کر دیا۔‘‘ وہ روہانسی ہو کر چلائی۔

’’تو‘‘ وہ نہ صرف مزید پھیل کر بیٹھا بلکہ ایک کشن بھی اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا مائرہ کی تو پوری کی پوری آنکھیں کھول گئی تھیں۔ وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔

’’اچھا بابا ٹھیک ہے جا رہا ہوں۔‘‘ ایک تو پانی سے بھیگے کپڑے اوپر سے لمبے سفر کی تھکان وہ جلد از جلد فریش ہونا چاہتا تھا۔ مائرہ نے تنتناتے ہوئے گیسٹ روم کا ڈور اس کے لیے کھول دیا۔

’’مہربانی جناب۔‘‘ وہ ذرا سا اس کی جانب جھکتے ہوئے زیر لب مسکراتا اندر چلا گیا۔

’’اسٹوپڈ، احمق، بدتمیز۔‘‘ وہ لاؤنج صاف کرتے دیر تک بڑبڑاتی رہی۔

سڑک کے کنارے اس پار بارش کے پانی میں چھلانگیں مارتے بچوں کو دیکھ کر بے اختیار اس کی آنکھ کی پتلیوں پر اک منظر روشن ہوا تو ایک ہلکی سی مسکان اس کے لبوں کو چھو کر ماضی میں گم ہو گئی۔

وہ بھی تو ایسے ہی بارش میں بھیگتے۔ جمپ لگاتے ایک دوسرے پر پانی پھینکا کرتے تھے کبھی کاغذ کی کشتیاں بنتیں اور کبھی ریت کے گھروندے۔

’’مائی گاڈ تم ابھی تک یہیں کھڑی ہو۔ کچھ پکانے کا ارادہ نہیں ہے یا پھر آج آسمان سے بارش کے ساتھ من و سلویٰ اترے گا۔‘‘ مائرہ تیز آواز میں بولتی عین اس کے سر پر پہنچ چکی تھی۔

’’مائرہ ان بچوں کو دیکھو۔‘‘ بچپن کتنا خوبصورت ہوتا ہے نا۔‘‘ اس کی نگاہیں ابھی بھی اسی منظر پر ٹکی تھیں وہ مائرہ کی بات ان سنی کرتے کھوئی کھوئی سی آواز میں بولی۔

’’ہاں ہوتا ہو گا۔ میرا بچپن تو مت پوچھو کتنا بور تھا۔‘‘ مائرہ نے منہ بنایا۔

’’ہر وقت تنہائی اور اکیلا پن مگر جب سے تم آئی ہو نا تب سے بہت مزہ آنے لگا ہے۔‘‘ مائرہ نے لاڈ سے اس کے گلے میں بازو ڈالے اور پھر یاد آنے پر کہ وہ کس کام سے آئی تھی اسے کھینچ کر نیچے لے آئی۔

٭ … ٭ … ٭

’’جی پاپا میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔‘‘ اسے مائرہ کے ساتھ سیڑھیاں اترتے دیکھ کر اس نے مختصر سی بات کر کہ فون ڈس کنیکٹ کر دیا اور اب مکمل طور پر ان دونوں کی جانب متوجہ تھا۔

’’زویا یہ فیضی ہے میری پھوپھو کا بیٹا، آج ہی لندن سے آیا ہے اور فیضی یہ میری فرینڈ ہے زویا۔‘‘ اس نے دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر باقاعدہ تعارف کی رسم نبھائی۔

’’اسلام علیکم۔‘‘ وہ مدھم لہجے میں سلام کرتی اس کا جواب سنے بغیر کچن کی جانب چلی آئی۔‘‘ اس نے گھر میں پھیلے سناٹے کو بری طرح محسوس کیا تھا اور زویا کی ہچکچاہٹ کو بھی۔

’’ماما اور پاپا تو بڑے ماموں کے گھر گئے ہیں آج ان کی بیٹی علینہ آپی کی انگیجمنٹ تھی شام تک واپس آ جائیں گے۔‘‘ وہ اس کے ساتھ چلتی صوفے پر آ بیٹھی تھی۔

’’تم کیوں نہیں گئی۔‘‘

’’بس ایسے ہی موڈ نہیں تھا۔‘‘ وہ بے نیازی سے بولی۔

’’اور پھوپھو کی سناؤ ان کی طبیعت ٹھیک ہے نا، ایمان کیا کر رہی تھی۔‘‘

’’ہاں ماما ٹھیک ہیں اور کہہ رہی تھیں میری بھتیجی کو میری طرف سے پیار دینا۔‘‘ اور ساتھ ہی اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر مائرہ کے سر پر بڑے بوڑھوں کی طرح ہاتھ پھیرا جس پر وہ مطمئن نظروں سے اسے گھورنے لگی۔

’’اور ایمان یونیورسٹی گئی تھیں تمہیں سلام بھیجا ہے اس نے۔‘‘ وہ بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا بولے جا رہا تھا۔ پھر اسے نانا جان کا خیال آیا۔

’’دادا جان سو رہے ہیں اب انہیں ڈسٹرب کرنے نہ چل پڑنا۔‘‘ مائرہ نے اس کا ارادہ دیکھ کر واپس بٹھایا اور خود کچن میں چلی آئی۔ جہاں زویا بریانی تیار کر رہی تھی۔

کچن کے دروازے سے اس نے مڑ کہ دیکھا وہ صوفے پر نیم دراز بازوؤں میں کشن دبائے آنکھیں موندے لیٹا تھا دل اس کی وجاہت کا قائل ہو گیا۔

’’کیسا لگا تمہیں میرا کزن؟‘‘ وہ زویا کے قریب آ کر اشتیاق سے بولی۔

’’پتا نہیں۔‘‘ اس نے لاعلمی سے شانے اچکائے جس پر مائرہ اپنی جگہ تپ کر رہ گئی۔

’’مس زویا اپنے تصور جاناں سے نکل کر باہر ہی دیکھنے کی زحمت اگر آپ گوارہ کریں تو آپ کو احساس ہو کہ دنیا کس قدر حسین و رنگین ہے۔‘‘

’’مگر جس کی پوری دنیا ہی ایک شخص سے وابستہ ہو جائے وہ اور کیا دیکھے گا۔‘‘ وہ اس کی خفگی پر مسکرا کر بولی۔

’’ہیلو گرلز، کیا بن رہا ہے۔‘‘ وہ کچن کے دروازے پر آ کھڑا ہوا۔

’’بریانی، سیلڈ اور رائتہ۔‘‘ مائرہ نے اطمینان سے بتایا۔

’’بس۔‘‘ وہ اپنی جگہ اچھل کر رہ گیا۔

’’بھئی اگر تم مہمان ہوتے تو ہم کچھ اہتمام بھی کرتے۔‘‘ وہ مزے سے کھیرے کا ایک ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کچر کچر کھانے لگی۔ دادا جان اس وقت سو کر اٹھے تھے فیضان ان سے ملنے لگا تو مائرہ نے اس کی حالت زار پہ ترس کھاتے ہوئے اور کچھ دادا جان کا لحاظ کم کہ مینیو میں شامی کباب اور فرنی کا اضافہ بھی کر لیا تھا۔

٭ … ٭ … ٭

’’زویا چائے لے کر بیڈ روم میں آ جانا میں جا رہی ہوں۔‘‘ مائرہ نے کچن میں جھانک کر کہا اور کھٹ کھٹ کرتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔ وہ دادا جان، آنٹی اور انکل کو رات کی چائے دے کر اپنے اور مائرہ کے لیے کپوں میں ڈال رہی تھی جب وہ کچن میں چلا آیا۔

’’آپ چائے لیں گے ؟‘‘ زویا نے اسے چائے کی جانب دیکھتے پا کر پوچھ لیا۔

’’میں چائے نہیں پیتا ہاں اگر ایک کپ کافی مل جائے تو۔‘‘ وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر دوستانہ انداز میں بولا جبکہ کافی کی فرمائش پر وہ شش و پنج میں پڑ گئی۔

’’اگر آپ کا موڈ نہیں ہو رہا تو رہنے دیں۔‘‘ وہ اس کے انداز پر مایوسی سے گویا ہوا۔

’’نہیں ایسی بات نہیں ہے۔‘‘ وہ جلدی میں بول گئی۔

’’وہ اصل میں مجھے کافی بنانا نہیں آتی۔‘‘ ہچکچاتے ہوئے وہ یوں بولی جیسے کسی جرم کا اعتراف کر رہی ہو وہ اس کی معصومیت پر بے ساختہ ہنس پڑا۔

’’چلیں کوئی بات نہیں آج میں چائے ٹیسٹ کر کے دیکھتا ہوں۔‘‘ وہ ایک کپ اٹھا کر چلا گیا زویا اس کی پشت کو گھور کر رہ گئی۔ اب کہاں اپنے لیے پھر سے بنانے کا تردد کرتی مائرہ کا کپ اٹھا کر اوپر آ گئی۔

’’تمہارا کپ کہاں ہے ؟‘‘

’’میں پی آئی ہوں۔‘‘ وہ تسلی سے جواب دیتی اس کے پہلو میں لیٹ گئی۔ باہر خوشگوار ہوا چل رہی تھی بارش نے آج ہر چیز کو دھو کر نکھار دیا تھا آج پورے چاند کی رات تھی ہر چیز چاندنی کا پیراہن اوڑھے کس قدر روشن اور دلکش لگ رہی تھی کسی سحر انگیز لمحے نے چپکے سے اس کا دامن کھینچا اور وہ جیسے کھوسی گئی۔

رات کھانے کے بعد وہ حسب عادت چھت پر واک کر رہی تھی جب اس نے کسی کو چھت کی دیوار پھلانگ کر اپنے قریب آتے دیکھا۔

’’شہریار تم۔‘‘ وہ اسے سامنے دیکھ کر بوکھلا سی گئی۔

’’شش۔‘‘ وہ اس کے لبوں پر اپنی انگشت انگلی رکھ کر اسے کھینچتا ہوا دیوار کے پاس لے گیا۔

’’اب بیٹھ بھی جاؤ۔‘‘ دو اینٹوں کو برابر رکھتے ہوئے اس نے زویا کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی اور خود نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔

زویا نے میکانکی انداز میں اس کی ہدایات پر عمل کیا۔

اب وہ شاپر سے چاکلیٹ کیک کا ڈبہ نکال رہا تھا پھر اس نے ٹراؤزر کی جیب سے موم بتی نکالی اور شرٹ کی بیرونی پاکٹ سے ماچس۔ اگلے ہی لمحے وہ کیک پر موم بتی سجا کر اسے روشن کر چکا تھا۔

’’چلو بھئی جلدی سے کیک کاٹو۔‘‘ شہریار نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ جیسے ہوش میں آئی۔

’’شہری تم …  کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی، اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔‘‘

’’پلیز یار بور مت کرو۔‘‘ وہ اس کی خفگی کو خاطر میں لائے بغیر منہ بناتے ہوئے بولا۔

’’مم، مجھے ڈر لگ رہا ہے میں جا رہی ہوں۔‘‘ وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’کوئی نئی بات نہیں۔‘‘ شہریار نے اس کا ہاتھ کھینچ کر واپس بٹھایا۔

’’تم جانتی ہو اس کو کاٹ کر کھائے بغیر تم نہیں جا سکتی تو جلدی کرو۔‘‘ ہوا کے جھونکے پر شمع پھڑ پھڑا کر بجھ چکی تھی وہ اسے دوبارہ روشن کرتے ہوئے شانے اچکا کر بے نیازی سے بولا جس پر وہ اسے گھور کر رہ گئی تھی۔

’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔‘‘ وہ اس کے کان میں گنگنایا چٹکتی چاندنی رات میں وہ اس کے قریب بیٹھا وہ لمحے کتنے حسین تھے چاند نے رک کر کچھ پل انہیں دیکھا اور پھر اپنے سفر پر چل پڑا۔

’’زویا کیا تمہارا شہریار بہت خوبصورت ہے ؟‘‘ مائرہ نے کچھ خیال آتے ہی استفسار کیا۔

’’ہاں بالکل اس چاند جیسا۔‘‘ اس کی نظریں ہنوز چاند پر ٹکی تھیں۔

’’مگر مجھے تو چاند میں کچھ نظر نہیں آ رہا۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرائی۔

’’جب تمہیں کسی سے محبت ہو جائے گی نا، پھر تمہیں بھی چاند میں کچھ کچھ نظر آنے لگے گا۔‘‘زویا نے کہتے ہی سرتاپا چادر اوڑھ لی اس نے کچھ الجھ کر چاند کو دیکھا۔

’’کچھ ملا۔‘‘ کچھ دیر بعد زویا نے چادر سے سر باہر نکالا اور وہ اس کے بیوقوف بنانے پر سلگ کر رہ گئی۔

٭ … ٭ … ٭

صبح آنکھ کھلنے پر اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے والی کلاک کی جانب دیکھا جس پر چار بج رہے تھے وہ ایک بھرپور انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ساتھ ہی اس نے گہری نیند میں ڈوبی مائرہ کو بھی جھنجھوڑ کر جگایا۔

’’اٹھو اور نماز پڑھ لو۔‘‘ وہ کچھ دیر کسلمندی سے لیٹی رہی پھر زویا کو وضو کر کے واش روم سے نکلتے دیکھا تو جھٹ سے بستر چھوڑ دیا۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ تسبیح لے کر کھڑکی میں میں آ کھڑی ہوئی سحر کی ٹھنڈی خوشگوار ہوا کا جھونکا اسے روح تک سیراب کرتا گزر گیا اس نے دو تین لمبے لمبے سانس لیے  …  سورج ابھی مکمل طور پر بیدار نہیں ہوا تھا۔ زویا کو لگا جیسے وہ نیم وا آنکھوں سے جھانک رہا ہو۔

وہ کچھ دیر وہیں رک کر مائرہ کی نماز سے فراغت کا انتظار کرتی رہی اور جب مڑ کہ دیکھا تو وہ سرتایا چادر تانے مکمل طور پر نیند کی وادیوں میں اتر چکی تھی۔

’’اسٹوپڈ۔‘‘ زویا کو جی بھر کر غصہ آیا کتنے دنوں سے دونوں سوچ رہی تھیں کہ صبح صبح واک پر جایا کریں گی اور روز ہی وہ سو جاتی تھی وہ بھناتی ہوئی نیچے لان میں چلی آئی۔

’’ہیلو گڈ مارننگ۔‘‘ فیضی نے اس کو آتے دیکھ کر ہاتھ ہلایا تو جواباً اسے بھی ایک پر تکلف مسکان کا تبادلہ کرنا ہی پڑا۔

’’آپ یہاں واک کر رہی ہیں آئیے نا کہیں باہر چلتے ہیں۔‘‘ اس قدر بے تکلفی بھرا انداز زویا کو ہضم نہیں ہوا تھا وہ تو ایسے بی ہیو کر رہا تھا جیسے اس کا کوئی دیرینہ رشتے دار ہو۔

’’شکریہ میں یہیں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ رکھائی سے کہتی وہاں رکنے کی بجائے اندر لاؤنج میں چلی آئی۔

وہ جانتی تھی شہریار اس معاملے میں کس قدر کنز روٹیو ہے اسے بہت محتاط ہو کر رہنا تھا۔

مائرہ کو آواز دے کر اس نے کچن کا جائزہ لیا آج انکل اور دادا جان گھر میں ہی تھے اور ناشتے میں سب نے قیمہ بھرے پراٹھوں کی فرمائش کی تھی۔

مائرہ کچن کے دروازے میں استادہ دادا جان کو با آواز اخبار پڑھ کر سنا رہی تھی اور سامنے صوفے پر بیٹھا فیضی یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا جیسے دنیا میں اس سے ضروری کوئی کام نہ ہو۔

زویا نے اس کی نظروں کے ارتکاز کو محسوس کرتے دو بار اپنا ہاتھ جلایا تھا لیکن اس کے دیکھنے پر وہ کمال مہارت سے نظروں کا زاویہ بدل گیا۔

’’مائرہ ناشتہ ٹیبل پر لگا دو۔‘‘ کچھ دیر بعد اس نے مائرہ کو آواز دی اور خود وہیں کھڑے کھڑے ناشتہ کر لیا۔ اسے فیضان حسن کی خود پر جمی نظروں سے الجھن ہونے لگی تھی۔

’’زویا بیٹا اب تم بھی آ جاؤ۔‘‘ دادا جان کو کہاں چین تھا اس کے بغیر مسلسل اسے آوازیں دے رہے تھے۔

’’دادا جان میں نے ناشتہ کر لیا ہے۔‘‘ اس نے وہیں سے مطلع کیا۔

’’بیٹھو اور میرے سامنے کھاؤ۔ دن بدن اتنی ویک ہوتی جا رہی ہو بالکل اپنی ڈائیٹ کا خیال نہیں رکھتی۔‘‘ وہ ڈپٹتے ہوئے بولے تو اسے بیٹھنا ہی پڑا۔

’’فیضان تم اور لونا۔‘‘ آنٹی کی ساری توجہ فیض کو ناشتہ کروانے کی جانب تھی۔

’’ہاں پھوپھو کیوں نہیں۔‘‘ تابعداری کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے ایک اور پراٹھا اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیا۔

’’دادا جان پراٹھے بہت لذیذ ہیں نا۔‘‘ فیضان حسن نے براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانکتے دادا جان سے رائے طلب کی۔

’’ہاں بھئی یہ اپنی زویا کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے۔‘‘ دادا جان نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے سادگی سے کہا جس پر مائرہ نے منہ پھلا لیا۔

’’اور میں کہاں گئی۔‘‘

’’تم نے کبھی کچھ بنایا ہے۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر مسکرائے جس پر مائرہ کی آنکھیں پھیل گئیں حیرت کے باعث نہیں صدمے کے باعث کہ دادا جان کو اس کی کار کردگی تو کبھی نظر ہی نہیں آتی تھی۔

’’پوچھ لیں زویا سے آج پراٹھے بنوانے میں، میں نے اس کی کتنی ہیلپ کروائی ہے۔‘‘

’’جی دادا جان پراٹھوں کو گھی مائرہ نے ہی لگایا ہے۔‘‘ زویا کا انداز شرارتی تھا سب بے ساختہ ہنس پڑے مائرہ نے زور سے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی تو وہ بے ساختہ کراہ کر رہ گئی۔

’’دادا جان کے سامنے میری ٹانگ کھینچنا ضروری تھا۔‘‘ سب کے اٹھ جانے کے بعد وہ اس سے لڑی۔

’’بے حد۔‘‘ وہ برتن سمیٹتے ہوئے دلکشی سے مسکرائی۔ تو فیضان نے اپنے تیزی سے دھڑکتے دل پر بے ساختہ ہاتھ رکھا۔ وہ یہاں کس سے کام آیا تھا گویا سب بھول بھال کر ہمہ وقت اس کے خیالوں میں گم رہنے لگا تھا۔

٭ … ٭ … ٭

’’مائرہ یہ ہینڈسم کون ہے ؟‘‘ انجم نے فیضان کو دیکھتے ہی دریافت کیا وہ نیچے لان میں بیٹھا تھا۔

’’میرا کزن ہے۔‘‘ وہ پیپسی کا سپ لیتے ہوئے بولی۔

’’ارے یار کتنا سویٹ ہے۔‘‘ سیلنہ نے اک ٹھنڈی آہ بھری۔

’’اتنا بھی نہیں۔‘‘ مائرہ نے بے نیازی سے سر جھٹکا۔

’’اتنے اور کتنے کو چھوڑو، سویٹ تو ہے نا۔‘‘ میرین نے ایک آنکھ میچتے ہوئے شرارت سے کہا تو تینوں کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ تینوں مائرہ کی یونیورسٹی فرینڈز تھیں اپر کلاس فیملی کی انتہائی شوخ و چنچل اور بے باک اس کی یہ دوستیں زویا کو کچھ خاص پسند نہیں تھیں۔

’’ویسے مائرہ میں سوچ رہی ہوں اگر تمہیں اس کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے تو تم دونوں کا کپل کیسا لگے گا۔‘‘ انجم کچھ سوچتے ہوئے بولی۔

’’ہارٹ، فیورٹ، ایکسی لنٹ، بیوٹی فل۔‘‘ میرین نے چشم تصور میں دونوں کو ساتھ دیکھ کر وکٹری کا نشان بنایا۔

’’بکو نہیں تم دونوں۔‘‘ وہ جھینپ ہی گئی۔

’’تم کچھ بھی کہو ہم نے اسے اپنا جیجا جی مان لیا ہے۔‘‘ سلینہ نے پیپسی کا خالی ٹن باسکٹ میں پھٹکتے ہوئے ہاتھ جھاڑے۔ مائرہ نے سر زمین دل پر کسی کے قدموں کی آہٹ کو بے حد واضح محسوس کیا۔

’’کون ہے یہ جو شہر دل کے گلیوں میں دبے پاؤں چلتا ہے۔‘‘ اس نے آنکھیں بند کر کر جیسے اسے محسوس کرنے کی کوشش کی تو فیضان حسن کا سراپا اپنی تمام تر وجاہتوں سمیت اس کی آنکھوں میں اتر آیا تو اس نے بوکھلا کر آنکھیں کھول دیں۔

ان دونوں کی توپوں کا رخ اب میرین کی جانب مڑ چکا تھا وہ اپنے تینوں بوائے فرینڈز میں سے شادی کے لیے کسے سلیکٹ کرنے والی ہے۔

٭ … ٭ … ٭

وہ آفس میں بیٹھا تھا مگر اس کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا وہ اس کے تصور کو ذہن سے جھٹک کر فائل کھولتا تو کاغذوں میں اس کا چہرہ بن جاتا، کمپیوٹر کے سامنے جا کر بیٹھتا تو وہ اسکرین پر ابھر آتی۔ وہ آج اسے دیکھ بھی تو نہیں پایا تھا۔ وہ ناشتے کی میز پر بھی نہیں آئی تھی اور کتنی حیرت کی بات تھی کہ وہ جو اسے ہر جگہ دکھائی دے رہی تھی پھر بھی دل اس سے ملنے کو آنکھیں اسے دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔

مسلسل بجتے موبائل کی رنگ ٹیون پر اس نے بے دھیانی میں یس کر کے سیل کان سے لگا لیا۔

’’ہاں جی مائی سن کیسے ہو۔‘‘ دوسری جانب مرتضیٰ قریشی تھے۔

’’ٹھیک ہوں بابا۔‘‘ وہ یکدم سیدھا ہو بیٹھا۔

’’ماما اور ایمان کیسی ہیں ؟‘‘

’’اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں اور تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔‘‘

’’میں بھی آپ سب کو بہت مس کر رہا ہوں۔‘‘ وہ اداسی سے بولا۔

’’اچھا بھئی اور سناؤ پروجیکٹ کہاں تک پہنچا ہے۔‘‘ وہ اصل موضوع کی جانب آئے۔

’’آپ کے پروجیکٹ پر ابھی کام شروع نہیں کیا ہاں ایک پروجیکٹ ماما نے بھی مجھے دیا تھا وہ تو مکمل ہو گیا سمجھ لیں۔‘‘ وہ شرارت سے گویا ہوا۔

’’زرینہ کا کیسا پروجیکٹ؟‘‘ مرتضیٰ صاحب حیرت سے گویا ہوئے وہ اس کی بات کا مفہوم نہیں سمجھے تھے۔

’’اپنی بیوی ڈھونڈنے کا۔‘‘ وہ کہہ کر خود ہی ہنسا۔

’’یہ شہر یار آیا ہے اس سے بات کر لو، میں تم سے پھر بات کروں گا ابھی ایک اہم میٹنگ میں جانا ہے دیر ہو جائے گی۔‘‘ وہ شاید کافی عجلت میں تھے ریسیور شہریار کو تھما کر خود آفس سے باہر نکل گئے۔

’’تو مل گئی تمہیں تمہاری ڈریم گرل، یہاں لندن میں تو جناب کو کوئی پسند نہیں آتی تھی۔‘‘ شہریار نے چھوٹتے ہی استفسار کیا۔

’’ابے گامڑ، جب وہ اسلام آباد میں تھی تو مجھے لندن میں کیسے پسند آ جاتی۔‘‘ فیضی نے اسے لتاڑا۔

’’اچھا چلو بتاؤ کیسی ہے وہ؟‘‘ اس نے فوراً نرم انداز اختیار کیا۔

’’ایسا لگتا ہے جیسے کائنات کا سارا حسن سمٹ کر اس میں سما گیا ہے۔ بہت سادہ معصوم اور اداس آنکھوں والی وہ لڑکی اتنی پرکشش ہے کہ اسے دیکھ کر میں پلکیں جھپکنا بھول جاتا ہوں۔‘‘

’’تم تو گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہو۔‘‘ شہریار نے اس کھوئے کھوئے سے انداز پر دل کھول کر قہقہہ لگایا تھا۔

’’گوڈے گوڈے نہیں سر تک اور مجھ سے تو اب سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے کچھ کرو یار۔‘‘ اس نے دہائی دی۔

’’میں کیا کروں جو کرنا ہے تمہیں ہی کرنا ہے اچھا یہ بتاؤ معاملہ تو دو طرفہ ہے نا۔‘‘

’’پتہ نہیں۔‘‘ اس نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے کرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا اسے زویا کا وہ گریز پا انداز یاد آ گیا تھا وہ جب بھی اسے دیکھتی اس کے ماتھے پر ایک ادھ بل تو ضرور ہی پڑ جاتا تھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ اس آدھے ادھورے جواب پر وہ بھنا اٹھا۔

’’تم نے ابھی تک اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔‘‘ شہریار نے بے یقینی سے استفسار کیا۔

’’نہیں اور لگتا ہے کروں گا بھی نہیں۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘ شہریار نے تعجب سے پوچھا۔

’’میں اس سے معمولی عام سی روٹین کی کوئی بات کرتے ہوئے اتنا نروس ہو جاتا ہوں کہ جا کر محبت کا اظہار، وہ کوئی عام سی لڑکی نہیں ہے۔ جس سے جو منہ میں آیا بول دیا وہ اپنے مخاطب کو اتنی اجازت ہرگز نہیں دیتی کہ اس کی ذاتیات میں اترا جائے یا پھر اس سے وابستہ اپنی ہی کوئی فیلنگ شیئر کی جا سکے۔‘‘ اس نے کچھ جھنجھلا کر وضاحت دی اور گہری سوچوں میں غرق ہو گیا۔ شہریار نے کچھ دیر اس کے بولنے کا ویٹ کیا اور پھر آہستگی سے ریسیور رکھ دیا۔

٭ … ٭ … ٭

آدھی رات کے قریب اس کی آنکھ کھلی تو کمرے کی حبس زدہ فضا میں اس کا دل گھبرانے لگا لائیٹ نہ جانے کب کی جا چکی تھی اور اب اے سی والا کمرہ جلتے تنور کی مانند دھک رہا تھا اس نے اٹھ کر کرٹین ہٹائے اور کھڑکیاں کھول دیں باہر ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔

موتیا کی باڑ کے اوپر بے شمار جگنو چمکتے دکھائی دئیے۔

’’تو میں کیا کروں۔‘‘ وہ بھنا اٹھا گویا اس کی بات کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔

’’پکڑ کر لاؤ۔‘‘ وہ گھنٹہ بھر سے کیا بک رہا تھا زویا نے مکمل ان سنی کرتے ہوئے کہا۔

’’وہ جھاڑیوں کے اندر چلا گیا ہے وہاں سے کیسے لے کر آؤں۔‘‘

’’مجھے نہیں پتہ بس لا کر دو۔‘‘ وہ ضدی پن سے بولی تو وہ اٹھ کر چلا ہی گیا پندرہ منٹ میں وہ جگنو پکڑنے میں کامیاب ہوا تھا۔

’’یہ لو۔‘‘ زویا اس کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلنے لگی تھی شہریار اسے دیکھتا رہا پھر مسکرا کر بولا۔ ’’سوہا کہہ رہی تھی اتنی جلدی ہماری شادی نہیں ہو سکتی۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ وہ ٹھٹکی۔

’’ابھی تو تمہارے کھیلنے کے دن ہیں کھیلو اس جگنو کے ساتھ۔‘‘ اسے پھر سے تپ چڑھی تھی۔

’’اتنے خفا کیوں ہو رہے ہو تم بھی کھیل لونا۔‘‘ وہ جگنو اس کے سامنے کرتے ہوئے معصومیت سے بولی۔

’’زویا کی بچی۔‘‘ شہریار نے دانت کچکچائے تو وہ زور سے ہنس پڑی۔

’’یہ کمرے میں اتنی گرمی اور حبس کیوں ہے ؟‘‘ مائرہ کی جھنجھلائی ہوئی آواز اس کی پشت سے ابھری وہ ابھی مکمل طور پر بیدار نہیں ہوئی تھی زویا نے اپنے تصور سے چونک کر اسے دیکھا۔

’’لائیٹ بند ہے۔‘‘

’’تو جنریٹر آن کیوں نہیں کیا۔‘‘ وہ بالوں کو کچر میں جکڑتی سیدھی ہو بیٹھی۔

’’سب سو رہے ہیں جاؤ تم جا کر آن کر دو۔‘‘ زویا نے اسے بتایا اور پھر سے جگنوؤں کو دیکھنے لگی ابھی بھی اس کا دل چاہا کہ وہ سارے جگنو پکڑ کر اپنے مٹھی میں بند کر لے۔

’’اف نیچے کتنا اندھیرا ہے تم آؤ میرے ساتھ۔‘‘ وہ سیڑھیوں میں جا کر واپس پلٹ آئی تھی زویا ناگواری سے اسے گھورتے ہوئے اس کے ساتھ چلی آئی جنریٹر آن کرنے کے بعد زویا کا سیل فون اور ڈور بیل ایک ساتھ بجے تھے۔

شہریار کالنگ دیکھ کر زویا نے فوراً کال ریسیو کی تھی۔ مائرہ نے انٹر کام سے پوچھا تو معلوم ہوا فیضان صاحب دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔

’’ٹائم دیکھا ہے بارہ بج رہے ہیں تم کہاں سے آوارہ گردی کر کے آ رہے ہو۔‘‘

’’آفس میں بہت کام تھا تم پلیز ایک کپ چائے بنا دو بہت تھک گیا ہوں میں آج۔‘‘ وہ وہیں لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ گیا۔

’’مگر تم تو چائے نہیں پیتے۔‘‘ مائرہ کچن کے دروازے سے واپس پلٹی تھی۔

’’او …  ہاں وہ کافی بنا لاؤ۔‘‘ وہ سٹپٹا کر رہ گیا ایک بار اس کے ہاتھوں سے چائے پی تھی اور اب یہ حال تھا کہ چائے سے اچھا کوئی مشروب نہیں لگتا تھا اب بھی وہ اپنی خواہش کو دبا گیا۔

’’سو رہی تھی۔‘‘ دوسری طرف شہریار اس سے پوچھ رہا تھا۔

’’نہیں تمہیں یاد کر رہی تھی آج پھر ہمارے لان میں جگنو آئے ہیں تو بس وہ لمحے یاد آ گئے۔‘‘ زویا کی ہنسی بے ساختہ تھی اور اس نے جس طرح جھاڑیوں میں گھس کر بمشکل اس جگنو کو پکڑا تھا شہریار کو اپنی وہ مشقت یاد آنے پر خود بھی بہت ہنسی آئی تھی۔

’’اچھا یہ بتاؤ کیسے ہو؟‘‘

’’تمہارے بغیر بہت ادھورا۔‘‘ وہ اداسی سے بولا۔

’’تو لوٹ آؤ نا۔‘‘ وہ جیسے تھک کر بولی۔

’’تمہارے پاپا سے کیا ہوا وعدہ مجھے لوٹ کر آنے نہیں دیتا۔‘‘

’’جو لوگ رہے نہیں ان سے کیے وعدے کی پاسداری میں مجھے کیوں سزا دے رہے ہو۔‘‘ زویا کی آواز میں گویا یاسیت گھُل گئی تھی اور آج شہریار کے پاس اسے دینے کے لیے امید کا کوئی جگنو نہیں تھا۔

’’تم وہاں ڈالر کمانے میں لگے رہو اور میں یہاں تمہاری یاد میں گھل گھل کر ایک دن مر جاؤں گی۔‘‘ اس نے خفگی سے کہتے ہوئے سیل آف کر دیا۔ اس کی سوچوں کے دھارے مخالف سمت بہنے لگے تھے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماضی میں گم ہو گئی۔

٭ … ٭ … ٭

سوہا نے ایک جھٹکے سے اس پر سے لحاف کھینچا۔ جس پر اس نے ناگواری سے سوہا کی جانب دیکھا مگر مجال ہے جو اس نے زویا کی نظروں کو خاطر میں لایا ہو وہ مزے سے اپنا استری شدہ یونیفارم اٹھا کر ڈریسنگ روم میں گھسی ہوئی تھی مگر جاتے جاتے اس کی توجہ وال کلاک کی جانب مبذول کروانا نہیں بھولی تھی۔

’’پونے آٹھ۔‘‘ وہ اپنی جگہ اچھل کر رہ گئی ساری سستی کاہلی منٹوں میں اڑنچھو ہو چکی تھی۔ گرم گرم لحاف اس نے ایک جھٹکے سے دور ہٹایا اور فٹافٹ اپنا یونیفارم استری کرنے لگی۔ اگلے پانچ منٹ میں وہ بالکل تیار ناشتے کی میز پر تھی ناشتہ بھی اس نے برائے نام ہی کیا تھا اور جلدی سے بیگ کندھے پر لٹکا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’یہ دودھ کا گلاس خالی کرو۔‘‘ ماما نے اسے اٹھتے دیکھ کر ٹوکا تو اس نے بحث میں مزید ٹائم ضائع کرنے کی بجائے خاموشی سے مگر جلدی جلدی گلاس خالی کیا۔ سوہا کو ماما سے دو چٹیا بنوانے کا خیال بھی اب آیا تھا۔

’’سوہا جلدی کرو۔‘‘ اسے دیر ہو رہی تھی آج پہلے پیریڈ میں اس کا کمسٹری کا ٹیسٹ تھا۔

’’اب چٹیاں تو بنوا لینے دو۔‘‘ آج کل کالج میں دو چوٹیوں کا ٹرینڈ چل رہا تھا۔

’’تم بنواتی رہو میں جا رہی ہوں۔‘‘ وہ بیرونی گیٹ کی سمت مڑی۔

’’ہائے ماما روکیں اسے۔‘‘ اس نے منہ پھلایا۔

’’زویا بہن کو ساتھ لے کر جاؤ۔‘‘ ماما کی بجائے پاپا کی آواز آئی تو اسے نا چاہتے ہوئے بھی رکنا پڑا۔ باہر دھند کی دبیز چادر نے ہر منظر کو اپنی اوٹ میں چھپا رکھا تھا۔

دہلیز سے قدم باہر رکھتے ہی یخ بستہ ہواؤں نے شریانوں میں دوڑتے خون کو منجمد سا کر دیا تھا۔‘‘ اف کتنی سردی ہے۔‘‘ اس نے فائل بغل میں داب کر دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑا۔

’’واؤ از سورو میٹنگ سیزن۔‘‘ سوہا گول گول گھومتے ہوئے مسکرائی۔

’’تم ہر وقت میرا ٹمپریچر کیوں ہائی رکھتی ہو۔‘‘ زویا کو اس کی الٹی سیدھی حرکتیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔

’’تاکہ تمہیں سردی کا احساس کم ہو۔‘‘ وہ خود ہی اپنی بات کا مزہ لیتے ہوئے زور سے ہنسی۔

’’ایک تو اس کی قلقل کرتی ہنسی۔‘‘ اس نے مڑ کر اس کے سر پر فائل ماری اور واپس پلٹتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سے بری طرح ٹکڑائی۔ شکر تھا موٹر سائیکل کی رفتار کم تھی اسے لگی تو نہیں لیکن اس کی فائل دور جا گری تھی اور سارے نوٹس بکھر گئے تھے۔

نہ سوری نہ کوئی وضاحتی انداز مقابل کھڑا نوجوان بس اس پر نظریں جمائے گویا پلکیں جھپکنا بھی بھول چکا تھا ایسے میں اسے تپ نہ چڑھتی تو کیا ہوتا۔

’’اندھے ہو، نظر نہیں آتا۔‘‘ وہ غرا کر بولی۔

’’آتا ہے بالکل واضح اور شفاف۔‘‘ وہ زیر لب مسکرایا۔

’’یقین نہیں آتا بتاؤں۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولا۔

’’تمہاری آنکھیں نیلی ہیں شفاف کانچ کی طرح چمکتی ہوئی اور تمہارے  …‘‘

’’شٹ اپ۔‘‘ وہ غصے میں بالکل آؤٹ ہو چکی تھی سوہا کو لگا ابھی وہ اسے تھپڑ دے مارے گی اس نے سارے نوٹس سمیٹ کر دوبارہ سے فائل میں لگائے اور زویا کی جانب بڑھی۔

’’میں تو بس اپنی نظر کا ٹیسٹ دے رہا تھا۔ آپ تو خوامخواہ برا مان گئی۔‘‘ کمال وجہ کی معصومیت تھی زویا دانت کچکچاتے ہوئے سوہا سے فائل جھپٹ کر آگے بڑھ گئی۔ سوہا نے مسکرا کر اسے ’’ہیلو‘‘ کہا تھا زویا نے پلٹ کر اسے گھورا تو وہ شرافت سے اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔

وہ وہیں کھڑا انہیں تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی اس کے لبوں پرہلکی سی مسکراہٹ تھی۔

’’زویا ویسے لڑکا ہینڈسم تھا نا۔‘‘ کالج گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے سوہا کو وہ پھر سے یاد آیا تھا۔

’’اور اس کی باتیں کتنی شاعرانہ تھیں۔‘‘ اس نے اک سرد آہ بھری۔

’’تم ہوش میں تو ہو آج جا کر ماما کو بتاؤں گی کہ تم کس قدر فضول ہوتی جا رہی ہو۔‘‘ زویا نے اس کی کمر میں ایک دھپ رسید کرتے ہوئے دھمکایا۔

’’ارے میں کوئی اپنے لیے تھوڑی بول رہی ہوں۔‘‘ شاید دھمکی کا اثر تھا وہ فوراً لائن پر آئی تھی۔

’’تو پھر؟‘‘ زویا کی فراخ پیشانی پر ایک ساتھ کئی بل پڑے۔

’’میں تمہارے لیے۔‘‘ وہ کہہ کر بھاگ گئی تھی۔

کیمسٹری کی ٹیچر نہیں آئی تھی اس کا موڈ مزید خراب ہو گیا۔ رات کو دیر تک جاگ کر اس نے ٹیسٹ تیار کیا تھا وہ اپنی بکس سمیٹ کر لان میں چلی آئی۔ سوہا وہاں لڑکیوں کے گروپ میں بیٹھی نہ جانے کہاں کہاں کی گپیں ہانک رہی تھی۔ اس کی کوئی دوست نہیں تھی اور سوہا کو سہیلیوں سے ایک پل کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ زویا کو دیکھ کر وہ اس طرف چلی آئی۔

’’تمہارا تو ٹیسٹ تھا۔‘‘ وہ اس کو لان میں دیکھ کر حیرت سے بولی۔

’’مس نہیں آئی۔‘‘ وہ جھلاہٹ سے بولی سو سوہا بھی وہیں اس کے قریب بیٹھ گئی۔

’’اچھا مجھے اس پوئم کی ذرا ٹرانسلیشن بتا دو۔‘‘ سوہا نے انگلش بک کھول کر اس کے سامنے رکھی وہ سیکنڈ ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی اور زویا بی ایس سی فائنل میں تھی۔ زویا نے بک اٹھا کر پوئم پڑھنا شروع کی پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا تھا۔

’’ویسے سوہا اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں اسے برسوں سے جانتی ہوں وہ اجنبی تھا مگر لگتا نہیں۔‘‘ اس نے الجھن بھری نظروں سے سوہا کو دیکھا مگر اس کی تو ہنسی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ زویا کی خشمگیں نظروں پر اس نے بمشکل اپنے لبوں پر ہاتھ رکھا اور اگلے ہی پل پھر سے شروع ہو گئی۔

تم سے مل کر نہ جانے کیوں اور بھی کچھ یاد آتا ہے آتا ہے

اب وہ اس کا مذاق اڑا رہی تھی وہ احتجاجاً وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔

٭ … ٭ … ٭

واپسی پر مطلع صاف ہو چکا تھا سورج نے بھی آج کہیں تین دن بعد جا کر پردہ نشینی چھوڑی تھی ورنہ تو ہمہ وقت دھند کی چادر اوڑھے اونگھتا رہتا تھا۔ اب دھوپ کی ہلکی ہلکی تمازت مزہ دے رہی تھی۔ زویا نے اپنے گلوز اتار کر بیگ میں رکھے اور شال اچھی طرح اوڑھ کر کالج گیٹ سے باہر نکل آئی۔ البتہ سوہا کا منہ پھولا ہوا تھا اس کا بیوٹی فل سیزن جو نہیں رہا تھا۔

’’زویا وہ دیکھو پانی پوری چلو کھائیں۔‘‘ راستے میں ٹھیلے والے پر جو اس کی نظر پڑی تو بس جی مچل اٹھا زویا نے اسے یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو۔

’’عقل ہے تمہارے پاس یا پھر سہیلیوں کو دے آئی ہو۔‘‘ وہ بھنا کر رہ گئی۔

’’زویا میری اچھی بہن ہونا پلیز …‘‘

’’دیکھو وہاں کتنے لڑکے کھڑے ہیں۔‘‘ اس کے ملتجی لہجے پر وہ رسان سے بولی۔

’’تو کیا ہوا میں پانی پوری کھانے کی بات کر رہی ہوں لڑکوں کی نہیں۔‘‘

’’آرام سے چلو ورنہ آج پاپا کو تمہارے سارے کارنامے بتاؤں گی کہ تم کالج محض مستیاں کرنے جاتی ہو سارا دن سہیلیوں کو لے کر بس گپیں ہانکی جاتی ہیں اور آج کیا کر رہی تھی تم وہ رومانہ کے آئی برو بنائے ہیں تم نے، میرے پاس شکایت لے کر آئی تھی۔‘‘ وہ اس کی کلاس لے رہی تھی اور وہ محترمہ ریڑھی والے سے بھٹہ مانگ رہی تھی۔

دانت نکالتے ہوئے اس نے ایک بھٹہ اس کی جانب بڑھایا۔

’’سوہا تم کب سدھرو گی۔‘‘

’’کبھی نہیں۔‘‘ اس نے اپنی مخصوص ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔

’’دیکھو یار چار دن کی زندگی ہے اس کو ہنسی خوشی گزار کر جاؤ پتہ ہے بارہ بجائے چہرے مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے اور تم ابھی اگر اسی رفتار سے غصہ کرتی رہی تو ہو سکتا ہے قابل برداشت لوگوں کی لسٹ سے تمہارا نام بھی خارج ہو جائے۔‘‘ وہ شوخی سے کہتی آخر میں کچھ شرارت سے بولی۔

، ’’کیوں۔‘‘ زویا نے سر جھٹکا۔

’’ویسے آج رومانہ کا بڑا مزہ آیا تھا قسم سے میں نے اسے کہا بھی تھا کہ مجھے پلکنگ کرنا نہیں آتی بس دھاگہ چلانا آتا ہے مگر وہ مانے تب نا، اس کے اصرار پر میں نے بھی چلا دیا اور …‘‘ آگے کا منظر یاد کر کہ وہ بات ادھوری چھوڑ کر پھر سے ہنسنے لگی تھی۔ زویا کے لبوں پر بھی مدھم سا تبسم بکھر گیا۔

٭ … ٭ … ٭

’’ماما یہ ساتھ والے گھر میں کرائے دار آئے ہیں۔‘‘ آج بارہ سال بعد اس نے جو ساتھ والے گھر کا دروازہ کھلا دیکھا توپوچھ لیا۔

’’نہیں بھائی کرائے دار نہیں مالک مکان آئے ہیں۔‘‘ ماما نے دھلے ہوئے کپڑوں کو تہہ لگاتے ہوئے سرسری سا جواب دیا۔

’’کیا؟‘‘ وہ پوری کی پوری ان کی جانب گھوم گئی تھی۔

’’آپ کا مطلب میمونہ آنٹی …‘‘ مارے خوشی کے وہ فقرہ مکمل ہی نہ کر پائی اور پھر ماما کا اثبات میں ہلتا سر دیکھ کر فوراً چلنے کو تیار ہو گئی۔

’’میں ابھی ان سے مل کر آتی ہوں۔‘‘

’’میں بھی چلوں گی۔‘‘ سوہا فوراً اس کے پیچھے لپکی۔

’’جہاں میں جاؤں وہاں تمہاری شرکت ضروری ہے۔‘‘ زویا نے بیل پر انگلی رکھتے ہوئے اسے گھورا۔

مدمقابل کھڑے شخص کو دیکھ کر دونوں آپس میں الجھنا بھول کر حیرت سے شاکڈ رہ گئی تھیں۔

’’یہ تو صبح والا ہیرو ہے۔‘‘ سوہا اس کے کان میں گھسی۔

’’تو کیا یہ شہریار ہے۔‘‘ زویا ابھی تک بے یقین تھی۔

’’میں جانتا تھا میرا ذکر سنتے ہی تم دوڑتی ہوئی آؤ گی۔‘‘ وہ اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مسکرایا۔ تو وہ جیسے ہوش میں آتے ہی اسے سرے سے نظرانداز کرتی اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئی چھوٹی سی لابی عبور کرنے کے بعد آگے کھلا صحن تھا میمونہ آنٹی اسے کچن کے دروازے میں کھڑی نظر آئیں۔

’’اسے کیا ہوا؟‘‘ شہریار کے حیرت بھرے استفسار پے سوہا نے لاعلمی سے شانے اچکا دئیے۔ میمونہ آنٹی بہت ہی والہانہ انداز اور محبت سے ملی تھیں زویا سے تو ویسے بھی انہیں قدرتی انسیت تھی۔

’’آنٹی آپ آج شام کا ڈنر ہماری طرف کریں گی۔‘‘ زویا نے ان کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے اتنے لاڈ سے انوائیٹ کیا کہ وہ انکار نہیں کرپائیں    ویسے بھی انکار کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔

’’مگر تم دونوں بیٹھو تو سہی۔‘‘

’’ابھی تو کالج سے آئے ہیں اب شام میں ملاقات ہو گی۔‘‘ وہ ان کے لیے چائے بنانے والی تھیں جب زویا سہولت سے منع کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’مجھ سے کیا ناراضگی ہے ؟‘‘ دروازے کا ایک پٹ بند تھا اور دوسرے میں وہ کھڑا دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بڑی محویت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

’’سوہا ان سے کہہ دو کہ میں ان جیسے لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتی۔‘‘ وہ دوسرا کواڑ کھول کر گھر چلی آئی شہریار پیچھے کھڑا اس کے تیور ملاحظہ کرتا رہ گیا تھا۔

’’ماما میں نے میمونہ آنٹی کو ڈنر میں انوائیٹ کیا ہے اب آپ بتائیں کیا ڈشز بناؤں۔‘‘ اس نے ماما کو انفارم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی رائے بھی طلب کی۔

’’بریانی چکن قورمہ، رشین سیلڈ، شامی کباب، رائتہ، فرنی، فرنچ پوٹیٹو رول، ٹگس اور …‘‘

’’بس کرو تم، ہم نے کوئی کک نہیں رکھا ہوا۔‘‘ ماما سے پہلے سوہا نان اسٹاپ شروع ہو چکی تھی۔ زویا نے اسے جھاڑ کر رکھ دیا۔

’’تم فریج اور کچن دیکھ لو سب سامان تو ہے نا، اور اگر کچھ کم ہے تو لسٹ بنا دو میں منگوا دیتی ہوں اور ساری ڈشز میرے خیال میں ٹھیک رہے گی۔‘‘ وہ ماما کی رائے پر خوش ہوئی تھی اور زویا نے ابھی سے کچن کا رخ کیا۔

٭ … ٭ … ٭

’’تم نے مجھے لوفر اور آوارہ کیوں کہا؟‘‘ وہ کچن میں کھڑی سیلڈ بنا رہی تھی اور وہ جواب طلبی کے لیے عین اس کے سر پر کھڑا تھا۔

’’بیچ سڑک میں لڑکیوں سے فلرٹ کرتے لڑکوں کو غالباً اسی لقب سے نوازا جاتا ہے۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے دانت پیس کرے بولی وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ اس طرح کیوں ایکٹ کر رہی ہے۔ شہریار کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔

’’میں نے تو بس تمہیں تمہاری آنکھوں کا رنگ بتایا تھا اس میں فلرٹ کہاں سے آ گیا۔‘‘

’’مجھے نہیں۔‘‘ اس کا اندازہ کچھ جتاتا ہوا سا تھا وہ چونک گیا۔

’’بھئی وہ تم ہی تو تھی۔‘‘

’’مگر اس وقت تم نہیں جانتے تھے کہ وہ میں ہوں۔‘‘

’’بائے گاڈ، میں جانتا تھا۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولا۔

’’جھوٹ۔‘‘ وہ بے یقین رہی اور سوہا کو آواز دے کر برتن نکالنے کو کہا اور خود دروازہ کھول کر لاؤنج میں چلی آئی۔ اس کے احساسات عجیب سے ہو رہے تھے۔

وہ اس خالی گھر کو دیکھ کر سوچا کرتی تھی کہ کاش وہ کبھی لوٹ آئے اور شاید یہ اس کا انتظار تھا جو اسے واپس کھینچ لایا تھا۔ وہ اس کا واحد دوست تھا اس کے جانے کے بعد اس نے کبھی کسی سے دوستی نہیں کی تھی وہ اس طرح اچانک اسے چھوڑ کر بلکہ یہ شہر چھوڑ کر گیا تھا کہ کئی دنوں تک وہ بے یقین رہی تھی اور جب یقین آیا تب اسے سوچنے، یاد کرنے کے سوا زندگی میں جیسے کچھ باقی نہ رہا تھا۔ وہ جس قدر اس کے معاملے میں فیئر تھی وہاں سے بھی وہی ایکسپکٹ کرتی تھی۔

’’آنٹی آپ اتنے سالوں میں کبھی آئی کیوں نہیں۔‘‘ سوہا نے کسی بات کے جواب میں شکوہ کیا۔

’’بس بیٹا مصروفیات پھر شہریار کی اسٹڈی اور میری جاب، کبھی فرصت ہی نہیں ملی پہلے پہل میں نے تمہاری ماما کو خط لکھے تھے پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا فون تم لوگوں کے گھر میں نہیں تھا ورنہ کچھ تو رابطہ برقرار رہتا۔‘‘

میمونہ آنٹی اس کی ماما کی دوست اور ان کے پڑوسی تھے شہریار آٹھ سال کا تھا جب اس کے پاپا کی اچانک ہارٹ فیل ہونے سے ڈیتھ ہو گئی اور اس کے دو سال بعد آنٹی میمونہ اپنے پیرنٹس کے پاس کراچی چلی گئی تھیں اور اب واپسی کا ریزن یہ تھا کہ ماں، باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا اور بھابیوں سے ان کی کچھ خاص بنتی نہیں تھی سو ان کا خیال تھا جب رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں تو فاصلے پیدا کر لینے چاہئیں۔

٭ … ٭ … ٭

’’زویا رکو۔‘‘ وہ لیب سے نکل کر بیالوجی کی کلاس لینے جا رہی تھی جب سوہا نے پیچھے سے آواز دی وہ رک کر اس کا انتظار کرنے لگی۔

’’میٹ مائی نیو فرینڈ۔‘‘ سوہا نے اپنے ساتھ کھڑی لڑکی کا تعارف کروایا تو زویا نے مسکرا کر اس سے ہاتھ ملایا اسے پہلی بار سوہا کی کوئی دوست اچھی لگی تھی۔

’’میرا نام مائرہ ہے۔‘‘

’’نائس نیم۔‘‘ زویا نے توصیفی انداز میں کہا اسے ویسے بھی یہ نام پسند تھا۔

’’بس نام۔‘‘ اس کے اعتراض پر وہ بے ساختہ مسکرا دی۔

’’نہیں بھئی تم خود بھی بہت کیوٹ ہو۔‘‘

’’لیکن آپ سے زیادہ نہیں۔‘‘ اس نے سچائی سے اعتراف کیا۔

’’تھینک یو۔‘‘ زویا کو اس کا والہانہ انداز کچھ عجیب سا لگا تھا۔

’’چلو یار کینٹین چلتے ہیں۔‘‘ سوہا نے اس کا بازو کھینچا۔

’’ایسے موسم میں سموسے اور گول گپے نہ ہوں تو مزہ نہیں آتا۔‘‘ موسم آج صبح سے ابر آلود تھا ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی وہ راہداری میں کھڑی بھیگنے لگی تھیں۔

’’آپ بھی آؤ ہمارے ساتھ۔‘‘ وہ زویا سے مخاطب تھی اسے زویا بہت پسند تھی مگر اس نے دیکھا تھا کہ وہ کسی سے دوستی نہیں کرتی سواس نے پہلے سوہا سے فرینڈ شپ کر لی تھی۔

’’میری کلاس ہے میں ابھی نہیں آ سکتی۔‘‘ اس نے سہولت سے انکار کیا۔

’’کوئی بات نہیں ہم ویٹ کر لیتے ہیں۔‘‘

’’ایزیو وش۔‘‘ وہ کندھے اچکا کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔ سیل کی بیپ پر اس نے چونک کر بیگ میں جھانکا۔

’’اس وقت کون کال کر سکتا ہے۔‘‘ اس نے چیک کیا ایس ایم ایس تھا۔ انجان نمبر دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گئی اس کے سیل پر بس پاپا کی کال آتی تھی یا پھر سوہا کی دوستوں کی۔ ویو اوپن کرتے کرتے ہی اس کی نظریں اسکرین پر دوڑنے لگیں۔

کتنا اچھا لگتا ہے

جب زندگی ہو

جب آنکھیں ہوں

اور خواب بھی ہو

پر کتنا ادھورا لگتا ہے

جب رم جھم برستے ساون میں

ساتھی ہو مگر ساتھ نہ ہو

وہ کلاس بھول کر اس ایس ایم ایس میں الجھ کر رہ گئی۔

’’یہ آپ کلاس لے رہی ہیں۔‘‘ مائرہ نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔

’’تم دونوں میری جان چھوڑو گی جب تک کچھ ٹھونس نہ لو۔‘‘ وہ سیل بیگ میں رکھ کر ان کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔

واپسی پر مائرہ کا ڈرائیور لینے آیا تھا۔ موسم چونکہ بے حد خراب تھا تو اس نے سوہا اور زویا کو بھی ڈراپ کر دیا۔

’’اندر آؤ نا میری ماما سے ملو۔‘‘ سوہا نے آفر کی۔

’’آج نہیں پھر کبھی۔‘‘ اس نے ٹالا مگر سوہا ٹلنے والی نہیں تھی اسے کھینچ کر اندر لے آئی۔

’’تمہاری ماما بہت نائس ہیں بالکل میری ماما جیسی۔‘‘ آمنہ بیگم سے ملنے کے بعد وہ سوہا کے کان میں بولی۔

’’بیٹھو بیٹا کھانا کھا کر جانا۔‘‘ اسے اجازت طلب کرتے دیکھ کر آمنہ بیگم نے کچن سے آواز دی۔

’’شکریہ آنٹی پھر آؤں گی۔‘‘ وہ مسکرائی زویا نے اسے غور سے دیکھا سوہا کے ساتھ کھڑی وہ سوہا جیسی ہی لگتی تھی اور دونوں کی بے تحاشا ہنسنے کی عادت تو لگتا تھا ایک دوسرے سے چرائی ہے۔

’’نہیں ایسے کیسے جا سکتی ہو یہ کھیر تو کھانا پڑے گی۔‘‘ آمنہ بیگم نے ٹرے ان تینوں کے درمیان رکھی۔

’’واؤ کھیر۔‘‘ سوہا نے فوراً کٹوری اٹھا کر مہمان کا خیال کیے بغیر کھانا شروع کر دیا تھا۔

’’مائرہ تم بھی لونا۔‘‘ زویا نے ملامتی نظروں سے سوہا کو دیکھتے ہوئے دوسری کٹوری مائرہ کی جانب بڑھائی اور اتنے اصرار پر وہ اب منع نہیں کر پائی تھی۔

٭ … ٭ … ٭

رات وہ دونوں اپنے بستر میں گھسی کورس کی کتابیں پڑھ رہی تھیں یہ ان کا اسٹڈی ٹائم تھا وہ کیمسٹری کے فارمولوں کو رٹنے میں مصروف تھی جب ان کا سیل ایک بار پھر سے گنگنایا۔

سنو جاناں

میرے دل کی دھڑکنوں کو

ہر دھڑکن تمہارے نام سے دھڑکتی ہے

اس نے چور نظروں سے سوہا کو دیکھا وہ بری طرح سے اپنی کتابوں میں غرق تھی اسی دوران اسی ایس ایم ایس کی ٹون پھر سے بجی اس نے کانپتے ہاتھوں سے ان باکس گھولا۔

مدت سے دور تھے ہم تم

مدت بعد ملنا اچھا لگا

ساگر سے گہری تھیں تمہاری آنکھیں

تیرنا تو آتا تھا مگر

ڈوبنا اچھا لگا

’’اوہ۔‘‘ اب کی بار اس نے اطمینان بھرا سانس لیا اسے یقین ہو چکا تھا کہ یہ کوئی رانگ نمبر نہیں بالکل رائیٹ نمبر ہے۔

’’کون ہو تم؟‘‘ اس نے ٹائپ کر کے سینڈ کر دیا۔

’’تمہارا دیوانہ۔‘‘ اگلے ہی پل جواب حاضر تھا۔

’’جہنم میں جاؤ۔‘‘ اس الٹے جواب پر اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔

’’ساتھ چلو گی۔‘‘ وہ پھر سے بجا۔

’’وہاں جانے والے اعمال نہیں ہیں میرے۔‘‘

’’تو کیا میرے ہیں ؟‘‘ دوسری جانب سے دریافت کیا گیا۔

’’بالکل۔‘‘ اس نے لکھ کر خود ہی نعوذ باللہ کہا۔

’’چلو کوئی ایک عمل بتا دو۔‘‘ وہ جاننے پر مصر تھا۔

’’آج کل لوگ محبت کو بھی گناہ سمجھتے ہیں۔‘‘ وہ بھیج کر ویٹ کرنے لگی مگر دوسری جانب خاموشی چھ اچکی تھی۔

ان سے کہو جن کی نظر میں

محبت گناہ عظیم ہے

ہم نے گناہ سے

بہت آگے تمہیں چاہا

وہ کتابیں سمیٹ رہی تھی جب اس کا پیغام مل گیا وہ سیل ہاتھوں میں تھامے دیر تک ان لفظوں کو گھورتی رہی۔

’’کس کے میسج آ رہے ہیں۔‘‘ سوہا نے یونہی پوچھا۔

’’تم نے میرا نمبر دیا ہے کسی کو؟‘‘ اس نے الٹا سوال کیا۔

’’نہیں تو۔‘‘ اس نے ’’نہیں‘‘ کو خوب لمبا کھینچتے ہوئے انکار میں گردن ہلائی۔

’’اچھا۔‘‘ زویا اسے مشکوک نظروں سے گھورتے ہوئے بستر درست کرنے لگی سوہا نے جان چھوٹنے پر شکر ادا کیا اور لائیٹ آف کر دی۔

٭ … ٭ … ٭

’’سوہا، یہ زویا کتنی بدل گئی ہے نا۔‘‘ وہ کرسی کی بیک سے ٹیک لگائے افسردگی سے بولا۔

’’آپ کینو کھاؤ گے۔‘‘ وہ اس وقت دھوپ سنیکتے ہوئے کینو کھا رہی تھی پوچھنے کے ساتھ اس نے ایک کینو اس کی جانب اچھال دیا۔ شہریار بھنا کر رہ گیا تھا۔

’’ہاں تو کچھ کہہ رہے تھے آپ؟‘‘ ایک پھانک منہ میں رکھتے ہوئے اس نے سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔

’’میں کہہ رہا تھا کینو کھاتے ہیں۔‘‘ وہ لفظوں کو چبا چبا کر بولتا چھیلنے لگا۔

’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ سوہا نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے تائیدی انداز میں سرہلایا۔

’’کیا؟‘‘ اس نے سوالیہ نظریں اس پر جما دیں۔

’’کینو کھاتے ہیں۔‘‘ وہ کہہ کر زور سے ہنسی شہریار نے ہاتھ میں پکڑے چھلکے اس پر پھینک دئیے۔

’’اچھا بھئی خفا کیوں ہوتے ہو۔‘‘ سوہا کو اس پر ترس آ ہی گیا تھا مگر وہ ہنوز منہ پھلا کر بولا۔

’’آخر مسئلہ کیا ہے تم دونوں میں ؟‘‘ وہ یک دم سنجیدہ ہوئی۔

’’وہ مجھے ایک آوارہ، لوفر اور فلرٹ سمجھتی ہے مگر یقین …‘‘

’’میں نے بس لوفر کہا تھا اور فلرٹ نہیں۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر سامنے آ بیٹھی۔

’’شکریہ جناب اس مہربانی کا۔‘‘ وہ طنز سے گویا ہوا۔

روٹھنا خفا رہنا یہ وفا نہیں ہوتی

چاہتوں میں لوگوں سے کیا خطا نہیں ہوتی

سوہا نے دونوں کے درمیان مصلحانہ کردار ادا کیا۔

سب کو ایک جیسا کیوں تم سمجھنے لگے ہو

کیونکہ ساری دنیا تو بے وفا نہیں ہوتی

وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا زویا نے نظر یں اٹھائیں وہاں دور دور تک اس کا عکس جھلملا رہا تھا۔

ہر کسی سے پیار ہر کسی سے وعدے

پیار کرنے والوں میں یہ ادا نہیں ہوتی

وہ بھی ٹکا سا جواب دے کر اٹھ کھڑی ہوئی شہریار نے اس کی کلائی تھام کر واپس کرسی پر بٹھایا۔

’’چھوڑو میری کلائی۔‘‘ اس نے چھڑانے کی کوشش کی مگر اس کی گرفت مضبوط ہو چکی تھی۔

’’پاپا آ گئے۔‘‘ اس کے تیزی سے کہنے پر شہریار نے جھٹ سے کلائی چھوڑ دی اور فوراً سیدھا ہو کر بیٹھ گیا وہ چپکے سے اٹھ کر اندر چلی آئی۔

سوہا اور شہریار نے کچھ لمحوں کے انتظار کے بعد جو مڑ کہ دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا وہ ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر بے ساختہ مسکرادئیے۔

’’ویسے شہری بھائی آپ کو یقین تھا کہ آپ پھر یہاں واپس آؤ گے اور زویا سے ملیں گے۔‘‘

’’ہاں مجھے یقین تھا اور اگر ماما واپس نہ بھی آتی تو مجھے اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرنے کے بعد یہاں آنا ہی تھا۔‘‘ وہ معنی خیز انداز میں بولا۔

’’کیوں ؟‘‘ سوہا نے بے تکا سا سوال کیا۔

’’تمہیں اپنی آدھی گھر والی بنانے۔‘‘ اس نے ایک ابرو اچکا کر شرارت سے کہا تو وہ اسی کے جواب کو انجوائے کرتے ہوئے دیر تک ہنستی رہی۔

زویا نے بستر تہہ کرتے ہوئے اپنی کلائی کو دیکھا وہاں ابھی تک انگلیوں کے نشان اور ہلکا سا درد باقی تھا۔

’’اسٹوپڈ۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے زیر لب کہا اور کشن کہنیوں کے نیچے رکھتے ہوئے ٹانگیں جھلانے لگی۔

وہ ان جذبوں سے انجان تھی اس نے آج ایک انوکھے دلفریب احساس سے دو چار کروا دیا تھا۔ چاہا تو اس نے بہت تھا مگر چاہے جانے کی دلکشی اور لذت سے آج پہلی بار آشنا ہوئی تھی۔

’’زویا …  زویا …‘‘ دو، تین بار مائرہ نے اسے آواز دی اور پھر بھی اس کے متوجہ نہ ہونے پر اس کا شانہ زور سے ہلایا۔ تو وہ بوکھلا کر سیدھی ہوئی۔

’’کہاں گم تھی۔‘‘ اس کا انداز حیرت بھرا تھا۔ زویا نے غائب دماغی سے اسے دیکھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں ہے۔

’’جانتی ہو تم نے ساری رات لان میں گزار دی، چلو اب اٹھ جاؤ۔‘‘

’’ساری رات بیت گئی۔‘‘ وہ حیرانیسے سوچ کر رہ گئی۔

٭ … ٭ … ٭

سوہا لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی بلکہ ٹی وی کیا دیکھنا تھا بس چینل پر جینل بدل رہی تھی۔

’’ایک جگہ ٹکنے بھی دو۔‘‘ آمینہ بیگم نے اپنی جگہ بے چینی سے پہلو بدلا۔

’’کوئی اچھی سی مووی ہو تو ٹکنے بھی دوں نا۔‘‘ وہ حد درجہ بور ہو رہی تھی روز روز وہی گھسی پٹی موویز اور سانگز کچھ بھی نیا نہیں تھا۔

’’آج شام کھانے میں کیا بناؤں۔‘‘ انہوں نے زویا سے رائے طلب کی۔

’’دال، چاول بنا لیں۔‘‘ وہ سنڈے میگزین کے صفحے الٹ پلٹ کرتی ایک لمحے کو رک کر بولی۔

’’چلو سوہا، ماما کی کچن میں ہیلپ کرواؤ۔‘‘

’’رہنے دو، کوئی ضرورت نہیں اسے بخار ہے۔‘‘ سوہا کے بگڑتے زاویے کو دیکھ کر ماما نے فوراً اس کی سائیڈ لی۔

’’بخار۔‘‘ اس نے آنکھیں پھیلائیں جس پر سوہا نے ملتجیانہ نظروں سے اسے دیکھا۔

آج اس نے بخار کا بہانہ کر کے کالج سے چھٹی کی تھی اور زویا نے دیکھا تھا کہ وہ سب سے اوپر والی چھت پر چڑی پتنگ اڑا رہی تھی اور ماما سمجھ رہی تھی کہ اس نے آج پورا دن بستر میں گزارا ہے۔

’’تو پھر آپ اس کے لیے دلیہ بنائیں۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرائی۔

’’ایویں دلیہ۔‘‘ اس نے منہ بسورا۔

’’ماما میرا بریانی کو دل کر رہا ہے۔‘‘ ساتھ ہی فرمائشی پروگرام بھی نشر ہوا۔

’’دیکھا آپ نے بخار ہے۔‘‘

’’ہاں تو کیا ہوا بخار میں چٹ پٹی چیزیں کھانے کو دل کرتا ہے تم فریج دیکھو چکن ہے تو بریانی بنا لو، میں ذرا میمونہ کی جانب چکر لگا کر آتی ہوں دو چار روز سے نہیں آئی وہ۔‘‘ وہ ہدایات سے نوازتی یہ جا وہ جا پیچھے دانت نکالتی سوہارہ گئی تھی۔

’’آج ایسی بریانی کھلاؤں گی کہ دوبارہ تمہیں حسرت نہیں رہے گی۔‘‘ اس کی دھمکی نے اثر کیا تھا۔ کہ وہ اگلے ہی پل اس کے ساتھ کچن میں بطور ہیلپر موجود تھی۔

’’آج مائرہ ملی تھی۔‘‘ سوہا نے چکن دھوتے ہوئے استفسار کیا۔

’’ارے ہاں مجھے یاد ہی نہ رہا۔‘‘ وہ سر پر ہاتھ مار کر بولی۔

’’کل وہ کالج نہیں آئے گی اس کا برتھ ڈے ہے اور اس نے بطور خاص ہمیں انوائیٹ کیا ہے۔‘‘

’’اچھا تو پھر کل ہم بھی کالج نہیں جائیں گے صبح بازار شام پارٹی۔‘‘

’’شام میں پاپا تو نہیں جانے دیں گے اور ویسے بھی میرا موڈ نہیں۔‘‘ اس نے کن اکھیوں سے سوہا کو دیکھا جو چکن وہیں چھوڑ کر خشمگیں نظروں سے اسے گھورنے لگی تھی۔

’’بابا کو منانا ماما کا کام ہے اور ماما کو میرا اور تمہارے موڈ کی تو ایسی کی تیسی۔‘‘ اس نے دانت کچکچائے ماما نے تو سنتے ہی انکار کر دیا تھا جس پر سوہا نے خوب لمبی چوڑی تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا۔

’’ماما ایک تو آپ بھی اکلوتی اور پاپا بھی۔ آخر ہم جائیں تو کہاں جائیں۔ اس نے اتنی محبت اور اصرار سے بلایا ہے کیا ہو جائے گا جو ہم بھی ذرا انجوائے کر لیں گے۔‘‘ ماما تو اس ایموشنل پر کچھ کچھ ایگری ہو ہی گئی تھیں مگر پاپا مان کے نہیں دے رہے تھے مگر جب مائرہ نے اپنا ڈرائیور بھیجا اور فون کر کیپاپا کو تسلی دی کہ وہ خود واپس چھوڑنے آئے گی تب کہیں جا کر انہوں نے اجازت دی تھی وہ بھی بس دو گھنٹوں کی سوہا نے زبردستی اسے بھی ساتھ گھسیٹ لیا تھا۔

’’سوہا یہ تم میرے بالوں کا کیا بنا رہی ہو۔‘‘ دس منٹ سے وہ اس کا سر ایک ہی زاویے پر رکھے جانے کیا کاروائی کر رہی تھی زویا کی تو اب گردن اکڑنے لگی تھی۔

’’بس ایک منٹ۔‘‘ وہ جھنجھلائی۔

’’اور یہ ایک منٹ کب ختم ہو گا پوچھ سکتی ہوں کتنے سیکنڈ ہیں اس میں۔‘‘

’’اوہو کتنا بولتی ہو تم …  لو ہو گیا ختم۔‘‘ وہ آخری بل دے کر اپنے بالوں کی الجھنیں سلجھانے لگی۔

’’اف شکر ہے۔‘‘ وہ گردن کو دائیں بائیں ہلاتے اٹھ کھڑی ہوئی اور آئینہ دیکھ کر پھر سے شکر ادا کیا کہ یہ فرنچ ناٹ اس کے کتابی چہرے پر کافی جچی رہی تھی۔

’’سوہا مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا۔‘‘ اس کا بتایا اسٹائل ماما کی سمجھ سے بالاتر تھا۔

’’ماما یہ ’’بلی اسٹائل‘‘ کی بات کر رہی ہے جیسے اس کے دوکان ہوتے ہیں نا سر پر ویسے اس کی بھی دو پونیاں بنا دیں۔‘‘ زویا نے ہنستے ہوئے شرارت کی اسٹائل تو وہی تھا لیکن بلی کہنے پر وہ اچھا خاصا برا مان گئی تھی۔

’’پاپا سمجھا لیں اپنی بیٹی کو۔‘‘

’’زویا۔‘‘ مصطفیٰ زیدی صاحب نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے زویا کو تنبیہ کی مگر اس کی بات کا اثر یہ ہوا کہ ماما کو اسٹائل سمجھ میں آ گیا تھا انہوں نے ویسی ہی اس کی دو پونیاں بنائی تھیں۔ اس کے سلکی بال جو سامنے سے بے بی اسٹائل میں تھے ان پر وہ اسٹائل سج ہی گیا تھا۔

’’یہ زویا تو بس ایسے ہی بولتی رہتی ہے دیکھو تو میری بیٹی بالکل مانو بلی لگ رہی ہے۔‘‘ پاپا نے تو بڑے لاڈ سے کہا تھا مگر ’’مانو بلی‘‘ کہنے پر ماما اور زویا کا جو قہقہہ تھا وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔

پارٹی کا ارینج ان کے وسیع عریض لان میں تھا لان کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ایک جانب بڑا سا سوئمنگ پول تھا چاروں جانب فواروں کا پانی چاندنی میں چھن کر سات رنگوں کی ہولی کھیل رہا تھا درختوں پر سجے برقی قمقمے چراغوں کی مانند جل رہے تھے رات کی رانی اور موتیے کی خوشبو فضا میں رچی ہوئی تھی۔ زویا نے توصیفی انداز میں اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے دل ہی دل میں ہر چیز کی خوبصورتی کو سراہا۔

سوہا بہت جلد اس کی کزنز میں گھل مل گئی تھی اور پارٹی کو خوب انجوائے کر رہی تھی اور وہ ایک جانب رکھی کرسی پر بیٹھ کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگی وہ سوہا کی طرح پہلی ہی ملاقات میں ہر کسی سے فرینک نہیں ہو سکتی تھی بس اس کا مزاج ہی کچھ ایسا تھا۔

٭ … ٭ … ٭

’’زویا کیا بات ہے ؟‘‘ مائرہ نے تشویش سے پوچھا تو وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

’’تم بھی نا پچھلے دو روز سے بہت بور کر رہی ہو چلو کہیں گھوم کر آتے ہیں اسی بہانے تمہارا موڈ بھی فریش ہو جائے گا۔‘‘

’’نہیں یار اس وقت جانا مناسب نہیں۔‘‘ زویا نے باہر پھیلتے ملگجے سے اندھیرے کو دیکھ کر اعتراض کیا۔

’’میں ماما کو بتا کر آتی ہوں تم جا کر گاڑی میں بیٹھو۔‘‘ وہ اس کے اعتراض کو خاطر میں لائے بغیر کچن کی جانب چلی گئی تو زویا کو بھی اٹھنا پڑا جانتی جو تھی کہ اب وہ اس کی خلاصی نہیں کرنے والی۔

’’اچھا زویا ایک بات بتاؤ۔‘‘ زویا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

’’محبت کا بہترین ذریعہ اظہار کیا ہے۔‘‘ اس نے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا جس پر زویا نے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے اسے کافی کنفیوز لگ رہی تھی۔

’’تحفہ۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔

’’تھینک یو تم نے میری مشکل آسان کر دی۔‘‘ وہ یک دم پھر پرجوش ہو گئی تھی۔

’’ویسے تمہیں کسے تحفہ دینا ہے۔‘‘ اس نے سرسری سا پوچھا۔

’’فیضان کے لیے۔‘‘ مائرہ کے لبوں سے بے ساختہ پھسل گیا۔

’’کیوں۔‘‘ زویا کا انداز شرارت سے لبریز تھا وہ جھینپ سی گئی۔

’’بس ایسے ہی۔‘‘

’’ایسے ہی نہیں دال میں کچھ کالا ہے۔‘‘ اس کی مشکوک نظروں پر مائرہ نے ہتھیار ڈال دیا تھا۔

’’مگر تمہیں کیسے پتہ چلا۔‘‘

’’تمہاری آنکھوں سے، اس کا نام لیتے ہی جو جگنو کی طرح چمکنے لگتی ہیں۔‘‘ وہ شوخی سے بولی۔

’’اچھا پھر یہ بتاؤ فیضی کی آنکھوں میں تم نے کیا دیکھا۔‘‘ مائرہ کا اشتیاق قابل دید تھا زویا نے اپنے خشک ہوتے لبوں پہ زبان پھیرتے ہوئے رخ بدل لیا۔ اس کی آنکھوں میں جو نظر آتا تھا وہ اس کے متعلق کبھی سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

’’بولو نا۔‘‘ مائرہ پھر بولی تھی۔

’’مجھے کیا پتہ، میں نے کبھی اس کی آنکھیں نہیں دیکھی۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں کہتی ایسے ہی خود کو مصروف کرنے کے لیے ونڈو شاپنگ کرنے لگی۔

’’زویا ان دو شرٹس میں سے کون سی زیادہ اچھی ہیں۔‘‘ مائرہ کنفیوز سی ہو رہی تھی زویا اس کی آواز پر پلٹی اور اچانک موڑ کاٹ کر سامنے آتے فیضان حسن سے ٹکراتے ٹکراتے بمشکل بچی۔

’’ایم سوری۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔

’’آپ یہاں۔‘‘ فیضی کو اس حسین اتفاق پر خوشگواریت بھری حیرت نے گھیرا اس کے دل کی سب پھول کلیاں کھل اٹھی تھیں وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اسے پورے دو دن بعد دیکھ رہا تھا۔

زویا نے مائرہ کو دیکھا وہ اسے مسلسل اشارے کر رہی تھی کہ اسے دو منٹ تک باتوں میں الجھا کر رکھو تاکہ وہ اتنی دیر میں شرٹ پیک کرواسکے۔

’’میں مائرہ کے ساتھ آئی ہوں۔‘‘ مائرہ نے ہاتھ میں پکڑی شرٹس پیچھے چھپا لیں۔

’’اور مائرہ تم یہاں مجھے بتاتی میں بھی تم لوگوں کے ساتھ آ جاتا۔‘‘ مائرہ عجیب صورتحال میں پھنس گئی تھی۔

’’یہ کیا چھپا رہی ہو۔‘‘

’’شرٹس میں ڈیڈ کے لیے خرید رہی تھی۔‘‘ اب اس کے سوا کیا چارہ تھا۔

’’یہ سائز اور انکل کے ہیں۔‘‘ فیضان نے آنکھیں پھیلائیں تو زویا کی ہنسی نکل گئی۔ صاف شفاف کھنکتی ہوئی شوخ ہنسی جیسے جلترنگ بج اٹھے ہو اس نے پلٹ کر دیکھا آج پہلی بار اس نے اس لڑکی کو ہنستے مسکراتے دیکھا تھا۔ اور اس کا دل چاہا کاش وہ ہمیشہ ایسے ہی خوش رہے۔

’’ہماری گاڑی کہاں گئی اور ڈرائیور بھی نظر نہیں آ رہا۔‘‘ اس نے پارکنگ میں دور دور تک نظر دوڑاتے ہوئے فکر مندی سے کہا۔

’’ڈرائیور کو اس نے گھر بھیج دیا ہے اور ماما کو فون پر مطلع کر دیا ہے کہ ہم فیضان کے ساتھ ہیں۔‘‘ مائرہ نے مزے سے سارا پروگرام اس کے گوش گزار کیا۔ فیضان لبوں پر مسکراہٹ سجائے اپنی پراڈو کا دروازہ کھولے منتظر کھڑا تھا۔

’’مائرہ تم مجھ سے پوچھ تو لیتی۔‘‘ اسے شاید آج سے پہلے کبھی مائرہ پہ اتنا غصہ نہیں آیا تھا۔

’’اتنی رومینٹک چاندانی رات ہے آج تو آؤٹنگ کا مزہ آ جائے گا۔‘‘ وہ اپنے جوش میں اس کے تیور ملاحظہ نہیں کر پائی تھی۔ زویا لب بھینچ کر رہ گئی۔

’’مائرہ یار مانا کہ کچھ لوگ اداس بھی اچھے لگتے ہیں۔ مگر ان سے کہہ دو کہ وہ مسکراتے ہوئے اتنے بھی برے نہیں لگتے۔‘‘ وہ مرر سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اتنی اونچائی پر جا کر پورا اسلام آباد نظر آ رہا تھا روشنیوں میں بھیگا ہوا وہ شہر مکمل طور پر چاند کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ مائرہ اور فیضان باتوں میں مگن تھے اس کی نظریں چاند پر ٹک گئیں۔

’’زویا میرا دل کرتا ہے میں تمہیں چاندنی رات میں یہاں لے کر آؤں۔‘‘ کوئی اس کے کان میں بولا وہ بوکھلا کر پلٹی ہر سو لوگوں کا ہجوم تھا اس کی آنکھوں نے ان ہنستے مسکراتے پر رونق چہروں میں اسے کھوجنا چاہا۔ مگر وہ کہیں نہیں تھا اس کی نظریں مایوس ہو کر واپس پلٹ آئیں اس نے مڑ کر پھر سے چاند کو دیکھا تو جیسے اسے احساس ہوا وہ یہیں کہیں ہے۔

اس کی سانسوں میں اس کی باتوں میں، اس کی یادوں میں۔

’’کیوں چاندنی راتوں میں یہاں کیا ہوتا ہے۔‘‘ وہ چڑ کر بولی ایک تو زبردستی وہ آج اسے کالج سے لے اڑا تھا۔

’’بھوت آتے ہیں۔‘‘ وہ جل کر رہ گیا۔

’’یار کتنی ان رومینٹک لڑکی ہو تم۔‘‘

’’تم مجھے یہاں لے کر ہی کیوں آئے ہو وہ بھی کالج یونیفارم میں۔ لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے کہ میں یہاں تمہارے ساتھ ڈیٹ پر آئی ہوں۔‘‘

’’تقدیر کی مہربانی کو ڈیٹ کا نام تو مت دو۔‘‘ وہ خفا ہو گیا آج سوہا نہیں آئی تھی اور ماما نے شہریار کو بھیجا تھا اسے کالج سے پک کرنے کے لیے۔

’’اب جو مجھ سے غلطی سرزد ہو ہی چکی ہے تو تم اپنا موڈ نہیں درست کر سکتی۔‘‘

شہریار نے شرارت سے ہاتھ میں پکڑی آئسکریم اس کے رخساروں پر مل دی۔ تبھی اس کا سیل بجا تھا۔ سوہا کال کر رہی تھی۔ اس کی بات سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں اور زرد پڑتی رنگت شہریار کو بھی چونکا گئی تھی۔

’’سوہا بتا رہی ہے کہ تمہاری ماما ہاسپٹل ایڈمٹ ہیں۔‘‘

’’کیا ہوا ماما کو۔‘‘ شہریار نے اسے شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا تھا۔

’’صبح انہیں خون کی الٹیاں ہوئی ہیں اور سوہا کہہ رہی تھی کہ ماما اور پاپا انہیں ہاسپٹل لے گئے ہیں۔‘‘

’’اورگاڈ، اب تم گھر جاؤ گی یا ہاسپٹل۔‘‘ اس نے جلدی سے اپنی بائیک اسٹارٹ کی تھی۔

’’تم مجھے گھر چھوڑ دو میں اور سوہا شام کو آئیں گے۔‘‘

ٹیسٹ رپورٹ آ چکی تھیں ڈاکٹر نے بتایا تھا انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا ہے۔ شہریار تو اتنی خطرناک بیماری کا نام سنتے ہی ہمت ہار گیا تھا اس کے لیے تو اس کی کل کائنات اس کا اثاثہ حیات تھیں وہ ان کے بغیر تو جینے کا تصور ہی نا ممکن تھا۔

٭ … ٭ … ٭

’’اتنی سردی میں آئسکریم۔‘‘ زویا کو دیکھ کر ہی جھرجھری سی آ گئی۔

’’سردی میں تو مزہ ہے۔‘‘ سوہا نے مزے سے کہا وہ تینوں اس وقت ہاسپٹل کے لان میں کھڑے تھے۔ آنٹی کا آپریشن کامیاب ہوا تھا آج پندرہ روز کے بعد انہیں چھٹی مل رہی تھی اور اسی خوشی میں شہریار انہیں آئسکریم کھلا رہا تھا۔

کپ کو ہاتھ میں تھامتے ہی اس کے وجود میں کپکپی سی دوڑ گئی۔

’’یہ پکڑو ایک منٹ۔‘‘ اس نے واپس شہریار کو پکڑاتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑ کر سردی کے احساس کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ یہ جنوری کی سرد اور ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی چاروں جانب چھایا دھند کا غبار اور سرد برفیلی ہوائیں اس کی ہر کوشش بیکار کرنے پہ تلی تھیں۔ جبکہ وہ دونوں مزے سے آئسکریم کھاتے اس کی حرکتوں پر مسکرا رہے تھے۔

’’ویسے ایسے موسم میں، چاندنی رات ہو اور سمندر کا کنارا ہو تو میں بغیر اکتائے یا بور ہوئے گھنٹوں وہاں واک کر سکتی ہوں۔‘‘ بدن کو چھید کر گزرتی ہواؤں پر وہ فدا ہوئے جا رہی تھی۔

’’اف توبہ۔‘‘ زویا کی تو ایسے تصور سے ہی قلفی بننے لگی۔

’’ہاں بھئی یہ تو ہے کبھی ایسا موقع ملا تو مجھے ساتھ لے جانا۔‘‘ شہریار کو اس کا ہم خیال دیکھ کر وہ مسکرا دی آج کتنے دنوں بعد وہ اپنے رنگ میں واپس لوٹا تھا اس لمحے اس نے چپکے سے دعا مانگی کہ اب اس شخص کی زندگی میں کوئی غم نہ آئے جانے کیوں غم اسے ملے تو درد کا احساس زویا کو اس سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔ آنٹی ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی تھیں۔

شہریار نے اپنا بستر ان کے روم میں ہی لگا لیا تھا۔

ابھی زویا انہیں اپنے ہاتھوں سے سوپ پلا کر اور کھانا کھلا کر گئی تھی اور اس رات انہوں نے شہریار سے بہت سی باتیں کی تھیں اس کے پاپا کی، اپنے ماضی اور شہریار کے بچپن کی۔ وہ خاموشی سے پاس بیٹھا بس ان کا چہرہ دیکھے جا رہا تھا جو اسے پہلے سے زیادہ زرد اور پھیکا سا لگ رہا تھا۔

’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔‘‘ وہ اس کی محویت پر چونکیں۔

’’ماما آپ بہت جلد اچھی ہو جائیں گی۔‘‘ اس نے میمونہ بیگم کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے ان سے زیادہ جیسے خود کو تسلی دی۔ تو وہ محض مسکرا دیں۔

’’شہریار پریشان مت ہوا کرو، اگر تم افسردہ ہو گے تو آنٹی کا خیال کون رکھے گا۔‘‘ زویا بھی اسے سمجھاتی تھی۔ مگر نہ جانے کیوں وہ مطمئن نہیں ہو پاتا تھا کس انہونے لمحے کی خاموش چاپ اسے ہر لمحہ خوفزدہ کرتی تھی۔ وہ راتوں کو سو نہیں پاتا تھا۔

کبھی تو رات کو وہ آرام سے سو جاتی تھیں ورنہ دن رات ان کی درد میں ڈوبی آہیں، شہریار سے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی صحت مزید ڈاؤن ہوتی جا رہی تھی۔

٭ … ٭ … ٭

’’زویا اگر تم نہ ہوتی تو میں اکیلا کیسے ماما کا خیال رکھتا۔‘‘ زویا ابھی ابھی میمونہ آنٹی کو ناشتہ کروا کر کچن میں آئی تھی۔ شہریار کا انداز ممنونیت اور تشکر کے جذبات سے لبریز تھا۔

’’مجھے فارمیلیٹز پسند نہیں۔‘‘ زویا نے خفگی سے اسے گھورا پھر چائے کے دو کپ لے کر اس کے ساتھ ڈائننگ چیئر پر آ بیٹھی۔

’’اب مجھے بتاؤ کہ تم اتنے پریشان کیوں ہو۔‘‘ زویا نے گہری نظروں سےا س کا جائزہ لیا وہ اسے ہر وقت الجھا الجھا سا نظر آتا تھا۔

’’نہیں، کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ ٹالنے کی کوشش میں تھا۔

’’میں کیا تمہیں شکل سے بیوقوف لگتی ہوں یا پھر تم اپنی پرابلمز مجھ سے شیئر نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

’’ایسی بات نہیں ہے۔‘‘

’’تو پھر جو بات ہے وہ بتاؤ۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے دریافت کیا۔

’’میں ماما کی وجہ سے پریشان ہوں۔ تم نے آج دیکھا ہے نا انہیں وہ تو مجھے پہلے سے بھی زیادہ بیمار لگتی ہیں۔‘‘ وہ بے دردی سے نچلا لب کچلتا زویا کو اذیت اور بے بسی کی انتہاؤں پر محسوس ہوا تھا وہ اس کا درد سمجھ سکتی تھی مگر اس کی اذیت دور کرنا اس کے اختیار میں نہیں تھا۔

اس لمحے اسے کسی کے ہلکا ہلکا کراہنے کی آواز آئی، وہ دونوں بھاگ کر میمونہ آنٹی کے بیڈ روم کی جانب لپکے۔ شہریار تو دروازے میں ہی رک گیا تھا زویا جلدی سے آگے بڑھی وہ مسلسل خون کی الٹیاں کرتی جا رہی تھیں۔

’’شہریار آنٹی کو فوراً ہاسپٹل لے جانا ہو گا۔‘‘ زویا نے ان کو سنبھالتے ہوئے ساکت کھڑے شہریار کو آواز دی۔ تو وہ فوراً ٹیکسی لینے بھاگا۔

وہ اور شہریار انہیں سہارا دے کر ٹیکسی تک لائے تھے زویا نے احتیاط سے انہیں اندر بیٹھا کر ماما کو آواز دی اگلے ہی لمحے وہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔

مگر ہاسپٹل پہنچنے سے پہلے ہی وہ داغ مفارقت دے گئی تھیں ان کا ٹھنڈا برف ہاتھ ساکت ہو کر زویا کے ہاتھوں سے گر گیا۔

٭ … ٭ … ٭

آج بہت دنوں بعد وہ ان کے گھر آئی تھی سب مہمان جا چکے تھے بس اس کی بڑی خالہ تھیں وہ بھی کل صبح کی فلائیٹ سے واپس چلی گئی تھیں اسے گھر میں ایک عجیب سے خالی پن کا احساس ہوا۔ اتنا ویران اور اجاڑ تو یہ تب بھی نہیں لگتا تھا جب وہ لوگ یہاں نہیں رہتے تھے۔

شہریار کے روم کے ادھ کھلے دروازے سے اس نے اندر جھانکا وہ بیڈ پر چت لیٹا چھت پر جھولتے فانوس کو گھور رہا تھا زویا کے قدموں کی آہٹ اور اس کے پلو کی سرسراہٹ پر ذرا سا نظروں کا زاویہ موڑ کر اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکراتے ہوئے اٹھ کر سیدھا ہو بیٹھا۔

وہ زویا کو بہت کمزور اور نڈھال سا لگ رہا تھا۔

وہ خاموشی سے بیڈ کے پاس رکھی بید کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی کچھ لمحے دونوں کے مابین خاموشی حائل رہی پھر اسے شہریار کی آواز نے توڑا۔‘‘ کیسی ہو؟‘‘

’’اچھی ہوں۔‘‘ اس نے ایک لمحے کا توقف کیا۔ ’’مگر تمہیں کیا ہوا ہے۔‘‘ اس کے بکھرے بکھرے سے اور سرخ متورم آنکھوں پر زویا کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔

’’کچھ نہیں بس ہلکا سا ٹمپریچر ہے۔‘‘ وہ نقاہت سے بولا وہ کرسی سے اٹھ کر اس کے قریب آ بیٹھی اور کسی ماہر فزیشن کی طرح اس کی کلائی تھام کر ٹمپریچر چیک کرنا چاہا مگر اسے لگا جیسے اس کو کوئی انگارہ چھو گیا ہو۔ وہ بری طرح سے بخار میں تپ رہا تھا۔

زویا نے ملامت بھری نظروں سے اسے گھورتے ہوئے پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ اس کی اس درجہ حساسیت پر مسکرا دیا۔ ’’کیا کر رہی ہو؟ کچھ نہیں ہوا مجھے۔‘‘ شہریار نے اپنی پیشانی پر رکھا اس کا ہاتھ دھیرے سے تھام لیا۔

’’تم نے میڈیسن کیوں نہیں لی۔‘‘

’’میرا ڈاکٹر آ گیا ہے نا اب کسی میڈیسن کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس کی گہری نظروں پر اس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔

ارے نہیں یار تم روٹھنے کی تیاری نہ کرو میں پہلے ہی بہت تنہا اور اکیلا ہو چکا ہوں۔ جانتی ہو یہ خاموشی اور اس گھر کی ویرانی میرے لیے اک سزا بن چکی ہے وحشت ہونے لگی ہے مجھے اپنی تنہائیوں سے، میں پہروں اس کمرے میں بیٹھا رہتا ہوں کہیں سے کوئی آواز کوئی صدا نہیں آتی۔‘‘

وہ آزردہ لہجے میں کہتے کہتے اچانک رک گیا۔

’’میں تمہارا یہ اکیلا پن اور تمہارا ہر درد بانٹنا چاہتی ہوں شہریار۔‘‘

’’پگلی۔‘‘ شہریار نے اس بالوں کی ایک آوارہ لٹ کھینچی۔

’’میں نے تو تمہارے لیے سات جہاں کی خوشیاں سنبھال رکھی ہیں اور جانتی ہو ماما نے کیا کہا تھا؟‘‘

زویا نے پُرتجسس نظروں سے اسے دیکھا۔

’’ماما نے کہا تھا زویا کو ہمیشہ خوش رکھنا۔‘‘ میمونہ آنٹی کی یاد پر زوہا کی پلکیں پھر سے نم ہونے لگی تھیں۔

’’آئی لو یو زویا …  آئی لو یو سو مچ۔‘‘ شہریار نے اس کی پلکوں پر چمکتے اس واحد قطرے کو اپنی پوروں پر چنتے پورے دل سے اقرار کیا۔

اس نے سوچا تھا وہ آج کل میں ماما سے بات کرے گی مگر اس سے پہلے ہی اس کے لیے ایک ڈاکٹر کا پرپوزل آ چکا تھا بقول سوہا کے ان خاتون نے تمہیں مائرہ کے گھر پارٹی میں دیکھا تھا۔ جبکہ ذہن پر لاکھ زور ڈالنے پر بھی اسے ایسی کوئی خاتون یاد نہیں آئی تھیں جو اس پارٹی میں اس پر فریفتہ ہو چکی ہو اور پچھلے دنوں وہ اتنی ڈسٹرب رہی تھی کہ اسے سوہا نے تو بتایا تھا کہ وہ خاتون دو بار ہمارے گھر بھی آ چکی ہے مصطفی زیدی صاحب نے لڑکے اور اس کی فیملی سے متعلق اپنی بساط کے مطابق تمام تر معلومات بھی کروا لی تھیں اور وہ خاصے مطمئن بھی تھے اس رشتے پر …  بس وہی تھی جو تمام صورتحال سے اب تک بے خبر تھی۔

٭ … ٭ … ٭

’’زویا یہاں آؤ مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ وہ اپنی اور سوہا کی مشترکہ الماری سیٹ کر رہی تھی جب ماما نے بیڈ کے ایک کنارے پر ٹکتے ہوئے اسے پاس بلایا وہ حیرت سے ان کے تاثرات ملاحظہ کرتی اپنا کام ادھورا چھوڑ کر ان کے برابر آ بیٹھی میگزین کا مطالعہ کرتی سوہا نے شرارت سے اسے دیکھا تھا۔

’’جی ماما۔‘‘ اس نے ماما کو دیکھا جن کا موڈ آج کافی خوشگوار تھا اس نے سوچا وہ آج ان سے شہریار کے متعلق بات کرے گی۔

’’بیٹا ہم نے تمہارے لیے ایک لڑکا دیکھا ہے۔‘‘ انہوں نے بنا کسی تمہید کے بات کا آغاز کیا۔

’’لڑکا ڈاکٹر ہے، فیملی بھی بہت اچھی ہے تمہارے پاپا نے ساری معلومات کروا لیں ہیں جمعہ کے روز وہ لوگ باقاعدہ پرپوزل لے کر آ رہے ہیں انہیں تو بس ہماری جانب سے ہاں کا انتظار ہے تمہارے پاپا اور مجھے تو کوئی اعتراض نہیں بس تم خود کو ذہنی طور پر تیار کر لو۔‘‘ گویا وہ اس کی رائے طلب کرنے نہیں بلکہ اپنی رائے سے آگاہ کرنے آئی تھیں۔ اس نے اور سوہا نے حیرت سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ اڑتی خبر تو اسے بھی ملی تھی لیکن اس نے بات کو بہت سرسری سا لیا تھا صورتحال کی گھمبیرتا کا احساس تو اسے اب ہو رہا تھا۔

سوہا نے اسے کہنی مارتے ہوئے بولنے پر اکسایا۔

’’کچھ کہنا ہے۔‘‘ ماما نے اس کا تذبذب بھانپ لیا تھا۔

’’ماما …‘‘ اس سے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا اس کی نظریں اپنے ہاتھوں پر جم گئیں امینہ بیگم منتظر تھیں سوہا کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے اتنی نازک سچویشن میں بھی اسے مراقبے سوجھ رہے تھے۔

’’ہاں  …  ہاں بولو۔‘‘ سوہا کی آواز پر اس کا کچھ حوصلہ بڑھا۔

’’ماما میں شہریار سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ اٹک اٹک کر وہ بمشکل اپنا مدعا بیان کر پائی۔

’’شہریار سے۔‘‘ ماما نے اسے یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو۔

’’جی۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ پہلے کی طرح لڑکھڑایا نہیں تھا۔

’’ہرگز نہیں۔‘‘ ان کی درشت آواز پر زویا کا دل دھک سے رہ گیا اسے انکار کی توقع نہیں تھی کہاں اتنا شدید رد عمل ہے۔

’’تمہاری شادی ڈاکٹر عماد سے ہی ہو گی۔‘‘ وہ دو ٹوک الفاظ میں کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

’’ماما جب وہ شہری بھائی کے ساتھ خوش ہے تو آپ اس کے ساتھ زبردستی کیوں کر رہی ہیں شادی ایک خوشی کا نام ہے مجبوری کا بندھن نہیں جو گلے میں رسا ڈال کر بھی نبھانا پڑے۔

آپ کو اپنی بیٹی کی خوشی میں خوش ہونا چاہیے والدین اولاد کا بھلا کرتے ہیں لیکن یہ کیسا بھلا ہے جو آپ کی بیٹی کو زندہ درگور کر دے جو اس سے خوش ہونے کا حق چھین لے۔ زندگی اسے گزارنی ہے سو اپنے ہم سفر کا انتخاب بھی اسے کرنے دیجئے۔‘‘ وہ تو مہر بہ لب تھی مگر سوہا نے خوب جانفشانی سے اس کا مقدمہ لڑا تھا۔ امینہ بیگم جاتے جاتے پھر سے پلٹ کر زویا کے قریب آ بیٹھیں۔

’’زویا تم ایک بار ڈاکٹر عماد سے مل لو وہ تمہیں ضرور پسند آئے گا۔‘‘

’’ماما میں اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔‘‘ وہ بول کر خاموش ہوئی تو سوہا نے داد بھری نظروں سے اسے دیکھا۔

’’اچھا میں تمہارے پاپا سے بات کرتی ہوں۔‘‘ وہ اس کے دو ٹوک انداز اور مضبوط لہجے پر اٹھ کر چلی گئیں آج سنڈے تھا اس لیے مصطفی زیدی صاحب گھر میں ہی تھے۔ سوہا کچھ سوچنے لگی۔

’’سوہا پاپا مان جائیں گے نا۔‘‘ زویا نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔

’’تمہاری زبان تو جیسے ہر معاملے میں کنگ ہو جاتی ہے بندہ کم از کم اپنے حق کے لیے تو بولے۔‘‘ سوہا نے ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ڈانٹا۔

’’اور اب خدا کے لیے پاپا کے سامنے گونگے کا گڑ کھا کر مت بیٹھ جانا وہ کوئی آدم خور نہیں ہیں جو تمہیں کھا جائیں گے۔‘‘ ابھی وہ اپنی تمام تر ہمتیں مجتمع کرتی خود کو بولنے پر آمادہ کر ہی پائی تھی۔ کہ ماما مصطفی زیدی صاحب کا پیغام لیے چلی آئیں۔ جواب طلبی کا وقت آ گیا تھا اس نے مدد طلب نظروں سے سوہا کو دیکھا۔

’’تمہارے پاپا نے صرف تمہیں بلایا ہے جاؤ ان کی بات سن آؤ۔‘‘ ماما نے شاید اس کی نظروں کا اشارہ سمجھ لیا تھا۔ سوہا نے جان کر خود کو کتاب میں گم کر لیا جیسے اس سارے معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔

’’ماما آپ میری فیور کریں گی نا۔‘‘ کچھ بھی تھا لیکن پاپا کے سامنے اپنے منہ سے شادی کی بات …  اسے بہت الجھن ہونے لگی تھی۔

’’مجھے جو فیور کرنا تھی کر دی اب تم جانو اور تمہارا باپ۔‘‘ ماما کی لگتا تھا خوب خاطر ہوئی تھی جو وہ اتنے غصے میں بول رہی تھیں وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی لاؤنج میں چلی آئی۔

پاپا نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ میں پکڑی کتاب ایک جانب رکھ دی تھی اور سیدھے ہو بیٹھے۔

’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ ان کی سرد آواز لاؤنج کی خاموش فضا میں گونجی اس نے بیٹھنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی تھی مزید دو منٹ کھڑی رہتی تو یقیناً اب تک گر جاتی۔

’’بہت خوب، یہ میں کیا سن رہا ہوں  …  مجھے تم سے یہ امید ہرگز نہیں تھی۔‘‘ طنز میں لپٹے فقرے اس کی سماعتوں سے ٹکرائے۔

’’پاپا میں نے ایسا کیا کر دیا ہے۔‘‘ اس کا احتجاج بلند ہوا۔

’’تم ڈاکٹر عماد پر شہریار کو ترجیح دے رہی ہو کیا دے سکتا ہے وہ تمہیں ؟‘‘

’’محبت …  بے پناہ محبت۔‘‘ اس نے دل میں کہا اور نظریں جھکا لیں۔

’’تین مرلے کا گھر ہے اس کی ادھوری تعلیم اور بغیر نوکری کے وہ تو ابھی خود کے بھی قابل نہیں ہے۔ تمہارا بوجھ کیا اٹھائے گا۔ دیکھو بیٹا تم مجھے بہت عزیز ہو تمہاری پسند اگر کسی لائق ہوتی تو میں اسے اپنی مرضی پر ترجیح ضرور دیتا۔ مگر اب میں تمہیں ایسی حماقت کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا جو تمہاری زندگی برباد کر دے۔‘‘ زویا نے تڑپ کر سر اوپر اٹھایا اور نظریں شہریار کے دھواں دھواں ہوتے چہرے پہ جم گئیں۔ زویا نے کچھ کہنے کو لب وا کیے ہی تھے کہ وہ بول پڑا۔

’’انکل میں مانتا ہوں کہ میں ابھی زویا کے قابل نہیں ہوں لیکن آپ مجھے صرف دو سال کا وقت دیں میں زویا کو گھر گاڑی نوکر اور زندگی کی ہر آسائش دوں گا اور اگر میں اس میں کامیاب نہ ہو سکا تو جو آپ کا فیصلہ ہو ہم دونوں اس پر سر جھکائیں گے لیکن آپ سے اتنی ریکوسٹ ہے کہ پلیز مجھے ایک چانس دے دیں۔‘‘ وہ مصطفی زیدی صاحب کے قدموں میں بیٹھا بڑی آس اور منت بھرے لہجے میں بول رہا تھا اس کی آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں کے قطرے اس کے دل میں چھپا درد افشا کر رہے تھے۔ مصطفی زیدی صاحب نے اپنی بیٹی کو دیکھا۔

وہ سر تاپا سوال بنی کھڑی تھی۔ وہ اس لمحے دونوں کی آنکھوں میں اک انجانا سا خوف دیکھ رہے تھے ایک دوسرے کو کھو دینے کا خوف …

وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہو گئے انہیں شہریار سے کوئی بعض نہیں تھا لیکن اس کی مالی کنڈیشن اس وقت کسی قابل نہیں تھی اور پھر دو سال کا وقت …

ان کا دماغ کچھ سوچنے لگا کہ یقیناً یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا زویا کی کون سی عمر نکلی جا رہی تھی اور اگر شہریار دو سال میں اپنے وعدے کے مطابق اپنے قدموں پر اسٹینڈ ہو جاتا ہے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں شہریار سے بہتر کئی مل جائیں گے۔

شہریار نے ان کی گو مگوسی کیفیت پر دل میں جانے اس وقت کتنی ہی منتیں مانگ ڈالی تھیں۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے شہریار کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی رضا مندی دی تو زویا کو ایسا لگا جیسے انہوں نے صلیب پر لٹک کر موت کا انتظار کرتے شخص کو زندگی کا مژدہ سنا دیا ہو خوشی کی ایک انوکھی، دلفریب لہرا سے اندر تک سرشار کر گئی تھی۔

’’تھینک یو انکل  …  تھینک یو سو مچ۔‘‘ شہریار نے بڑی عقیدت سے ان کے ہاتھ چومے تو مصطفی زیدی صاحب کے دل کا سارا بوجھ سرک گیا۔ وہ چپکے سے کھسک کر اندر کمرے میں بھاگ گئی۔ جہاں سوہا پہلے سے اس کی منتظر تھی۔

’’کیا بنا؟‘‘ زویا کی چمکتی آنکھوں اور دمکتے چہرے کو دیکھ کر اسے اپناسوال بے معنی سا لگا مگر پھر بھی اس نے پوچھ ہی لیا۔

’’شہریار نے کہا کہ وہ دو سال میں ام …‘‘ جانے کیا ہوا تھا کہ وہ بے تحاشا جوش میں بولتے بولتے اچانک رک گئی اس کی ساری خوشی پل میں دھواں ہو چکی تھی اس نے اسی وقت اس کا نمبر ڈائل کیا۔‘‘ شہریار کیا کیا تم نے ؟‘‘

’’تمہیں خوشی نہیں ہو رہی؟‘‘ مسرور سا سوال آیا۔

’’اس خوشی کا کیا فائدہ جو بس دو پل کی مہمان ہو تم اب کیا کرو گے دو سال میں کیا تمہارا کوئی پرائز بانڈ نکلنے والا ہے۔‘‘

’’یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ کہ میں کیا کرنے والا ہوں ابھی تو تم ان خوبصورت لمحوں کو انجوائے کرو اور مجھے بھی کرنے دو۔‘‘ ٹوں ٹوں کی آواز کے بعد سیل خاموش ہو چکا تھا۔

’’یہ کیا پاگل پن ہے۔‘‘ وہ سیل کو گھورتی سخت کوفت کے عالم میں سوچنے لگی کہ وہ ایسا کیا کرنے والا ہے۔

٭ … ٭ … ٭

’’اندر آ جاؤ باہر بہت ٹھنڈی ہوا ہے تمہاری تو قلفی جم جائے گی۔‘‘ وہ اس سے بات کرتا خود مسلسل کانپ رہا تھا جانے کب سے باہر کھڑا تھا اس کی شرٹ پر بارش کی چند بوندوں کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ وہ آج اسے پورے دس روز کے بعد دیکھ رہی تھی اتنے دنوں سے وہ نہ جانے کن چکروں میں پڑا تھا۔ جو اس سے مکمل بات چیت بند کر رکھی تھی۔

’’تم کہیں جا رہے ہو؟‘‘ اس نے وہیں دہلیز پر رک کر پوچھا سامنے بیڈ پر ایک بڑا سوٹ کیس تیار رکھا تھا۔

’’ہاں۔‘‘ وہ مختصر جواب دے کر ادھر ادھر نہ جانے کیا تلاشنے لگا تھا اور زویا تو جیسے اپنی جگہ ساکت ہو چکی تھی۔

’’کہاں جا رہے ہو۔‘‘ کتنے ہی واہموں اور اندیشوں نے اس کے اندر سر اٹھایا تھا۔

’’انگلینڈ۔‘‘ وہ نظریں چرا کر بولا اس نے سوچا تھا وہ اسے سمجھا لے گا مگر …  انگلینڈ کا نام سنتے ہی اس کی کانچ سی نیلی آنکھوں کے کٹورے لبا لب آنسوؤں سے بھر گئے تھے۔

’’زویا پلیز سمجھنے کی کوشش کرو ہمارے اچھے مستقبل کے لیے  …‘‘

’’مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو۔‘‘ زویا نے گویا اس کی بات سنی ہی نہیں تھی۔

’’تمہیں پانے کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ نرمی سے گویا ہوا۔

’’تم میرے لیے اپنا گھر، یہ ملک سب چھوڑ رہے ہو۔‘‘ وہ کہنا چاہتی تھی۔

’’مت جاؤ مجھے نہیں چاہیے وہ ساری آسائشیں وہ گھر وہ گاڑی وہ نوکر چاکر وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ اسے ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں ہے وہ اس کے ساتھ اس چھوٹے سے گھر میں بھی بہت خوشی سے رہ سکتی ہے۔ بس تم مجھ سے دور مت جاؤ۔‘‘ مگر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکی وہ پاپا سے کیے وعدے کا پابند ہو چکا تھا اور اسے پاپا پر غصہ آ رہا تھا جنہوں نے اس کی شرافت اور اس کے کردار اور شخصیت کو دولت کے پلڑے میں رکھ کر تولا تھا۔ وہ بہت سادہ تھی اور سادہ طرز زندگی کو ترجیح دیتی تھی۔ بڑے بڑے محل نما گھر، نوکر چاکر، گاڑیاں اور بے تحاشا دولت کبھی بھی اس کا خواب نہیں تھا۔

وہ دونوں پورے راول ڈیم کا چکر لگا کر بوٹنگ کرنے کے بعد ہاتھوں میں آئسکریم کون پکڑے واپس بھی آ چکے تھے اور زویا ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ مائرہ نے شرارت سے اس کے کان میں ہاؤ کیا تھا جس پر وہ اپنی جگہ اچھل کر رہ گئی۔

’’کہاں تھی تم، یہ لو ہم تمہارے لیے آئسکریم لائے ہیں۔‘‘ مائرہ نے اس کے ڈرنے کو خاصا انجوائے کرتے ہوئے آئسکریم اس کی جانب بڑھائی جس پر زویا اسے محض گھور کر رہ گئی تھی۔

’’اب چلیں ؟‘‘

’’اب جب آئے ہیں تو ڈنر کر کے ہی جائیں گے۔‘‘ مائرہ نے مسکراتے ہوئے اگلے پروگرام سے آگاہ کیا جس کی تائید فیضان نے بھی کی تھی اور اس کے پاس دونوں کے ساتھ چلنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔

٭ … ٭ … ٭

’’مائرہ تمہاری اس دوست کے ساتھ کیا پرابلم ہے۔‘‘ وہ دونوں لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے فیضی کے وہاں آنے سے قبل مائرہ کے ساتھ زویا بیٹھی تھی جو اسے اس جانب آتا دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھی اس نے اپنی چھبیس سالہ زندگی میں ایسی لڑکی نہیں دیکھی تھی اتنی محتاط اس قدر گریز پا۔ تبھی تو وہ اس کی ایسی حرکتوں پر جھنجھلا جاتا تھا۔

’’کیوں کیا ہوا۔‘‘ مائرہ اس کی جھلاہٹ پر چونک کر اس جانب متوجہ ہوئی۔

’’میں نے آج تک کسی لڑکی کو اتنا گم صم اور اداس نہیں دیکھا اور خود سے لاتعلقی کی حد تو یہ ہے کہ اس روز محترمہ نے ساری رات کرسی پر بیٹھ کر گزار دی تھی تم اسے کسی سائیکا ٹرسٹ کو کیوں نہیں دکھاتی یہ تو مجھے سچ میں سائیکی کیس لگتی ہے۔‘‘ وہ اپنی جھلاہٹ پر قابو پاتا فوراً سنجیدہ ہوا مائرہ آج ہی تو اس ٹاپک پر بات کرنے میں آمادہ نظر آ رہی تھی ورنہ وہ جب بھی کچھ پوچھنا چاہتا وہ یا تو موضوع بدل دیتی یا پھر بات کو ہنس کر چٹکیوں میں اڑا دیتی۔ وہ جانتی تھی زویا کو ہمدردی سے سخت چڑ ہے اور اسے بالکل پسند نہیں تھا کہ اس ذات کو کسی سے ڈسکس کیا جائے۔

’’وہ ایسی نہیں ہوا کرتی تھی مگر اس حادثے نے اسے توڑ کر رکھ دیا ہے مگر پھر بھی میں اس کے حوصلے اور صبر کی داد دوں گی میں نے آج تک زویا سے زیادہ با ہمت اور حوصلہ مند لڑکی نہیں دیکھی اگر یہ سب میرے ساتھ ہوا ہوتا تو میں اتنی بہادری سے حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی اور پھر وہ حادثہ اس قدر اچانک رونما ہوا تھا پورے دو ماہ تو وہ کومہ میں رہی تھی ہم تو اس جانب سے مکمل مایوس ہو چکے تھے کہ اب وہ کبھی ہوش میں آئے گی بھی یا نہیں۔‘‘ مائرہ نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایک گہرا سانس خارج کیا۔

’’کیسا حادثہ؟‘‘ اس کی کھوئی کھوئی سی کیفیت کو نوٹ کرتے ہوئے فیضی نے بے تابی سے پوچھا۔

’’وہ گیارہ دسمبر کی شام تھی زویا کے ماما، پاپا اور سوہا ایک شادی میں شرکت کرنے گاؤں گئے تھے جب وہاں سے واپسی پر ان کی موٹر سائیکل کو کوئی گاڑی ہٹ کرتی گزر گئی۔ جانتے ہو سرد ٹھٹھرتی ہوئی رات میں بے یارو مددگار وہ زخموں سے چور اسی سڑک پر پڑے رہے ان کے زخم اتنے شدید نہیں تھے۔ اگر بروقت طبی امداد مل جاتی تو ان کی جان بچ سکتی تھی مگر …‘‘ کچھ کہتے کہتے اس نے سختی سے ہونٹ بھینچ لیے۔

’’وہ ایک شخص تین زندگیوں کا قاتل ہے۔‘‘ مائرہ نے نفرت سے کہا اور دونوں مگ ٹرے میں رکھ کر اندر چلی گئی اور فیضان حسن کو لگا اس کا وجود کہیں ہواؤں میں معلق ہو گیا ہے۔

وہ سرد رات اپنی تمام جزئیات کے ساتھ اس کے تصور میں ابھر آئی تھی۔

٭ … ٭ … ٭

آج سے ڈیڑھ سال پہلے وہ پاکستان کسی اہم پروجیکٹ کے سلسلے میں آیا تھا اور اس رات اپنا کام مکمل کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا اس کا ایک ساتھی اپنی جیپ میں اسے سی آف کرنے ایئرپورٹ ساتھ آیا تھا۔ جب راستے میں اس کی غلطی کی وجہ سے سامنے سے آتی موٹر سائیکل اور اس کے سوار الٹ کر دور جا گرے تھے اور ان کی جیپ کچھ دور جا کر اک جھٹکے سے رک گئی۔ وہ ابھی تک شاک میں تھا کہ اچانک یہ سب کیسے ہو گیا تھا۔ حواس قابو میں آتے ہی اس نے جیپ سے اترنا چاہا جب عاقب بول پڑا۔

’’سر کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘

’’جلدی اترو ان لوگوں کو ہاسپٹل پہچانا ہو گا۔‘‘

’’چھوڑیں سر آپ کن چکروں میں پڑ رہے ہیں اور پھر یہ تو اچھا خاصا پولیس کیس ہے آپ اس ملک کا قانون نہیں جانتے مدد کرنے جائیں گے اور الٹا پھنس جائیں گے اور پھر آپ کی فلائیٹ کا وقت ہو رہا ہے انہیں کوئی اور دیکھ لے گا آپ چلیں۔‘‘ عاقب نے اسے واپس گاڑی میں بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ مگر وہ راستہ بھر خود کو ملامت کرتار ہا تھا کچھ دور جا کر اس نے عاقب سے گاڑی واپس موڑنے کو کہا تو وہ بولا۔

’’سر ایئرپورٹ اب زیادہ دور نہیں ہے ان چکروں میں پڑ کر آپ کی فلائیٹ مس ہو جائے گی پھر اب تک کسی نہ کسی نے ان کو ہاسپٹل پہنچا دیا ہو گا آپ ٹینشن نہ لیں۔‘‘ اور وہ مطمئن ہو گیا تھا اسے نہیں پتہ تھا کہ عاقب نے محض اسے ٹالا ہے۔

’’تو کیا ان اداس آنکھوں کا مجرم میں ہوں میری وجہ سے وہ اپنا سب کچھ کھو کر دوسروں کے در پر پڑی ہے میری وجہ سے ایک ہنستا بستا گھر اجڑ گیا اور مجھے کبھی احساس بھی نہیں ہوا۔‘‘ آگہی واقعی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی سب جان لینے کے بعد وہ بھی ایسے ہی عذاب سے دوچار ہو گیا تھا۔

٭ … ٭ … ٭

سنو

یہ خوشبوئیں اعلان کرتی ہیں

کسی کے لوٹ آنے کا

تو پھر لفظوں میں کیسے لکھ سکیں گے

اس کی آمد کی کہانی کو

وفا کی حکمرانی کو

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی نظریں وال کلاک پر بھٹک رہی تھیں مگر وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا لمحے ساکت ہو چکے تھے یا وقت کی گردش تھم چکی تھی۔ صبح سے شام کرنا مشکل ہو رہا تھا۔

’’یا اللہ آج کے دن کو چھوٹا کر دے۔‘‘ وہ بے چینی سے لان میں ٹہلتے ہوئے دعائیں کر رہی تھی۔

’’کیا بات ہے آج بڑی خوش نظر آ رہی ہو۔‘‘ مائرہ چائے کے دو مگ لائی تھی ایک اس کی جانب بڑھاتے ہوئے خوشدلی سے بولی۔

’’آج وہ واپس آ رہا ہے۔‘‘ زویا نے اپنی خوشی میں اسے بھی پکڑ کر گھما ڈالا تھا۔

’’اسی لیے تمہارا وقت نہیں گزر رہا تم ایسا کرو میری اسائنمنٹ بنا دو دیکھو اسی بہانے ٹائم پاس ہو جائے گا۔‘‘ وہ زیر لب مسکراتے ہوئے شرارت سے بولی جس پر زویا نے ایک پل کو اسے گھورا اور اگلے ہی لمحے کچھ خیال آنے پر چونکی۔

’’ابھی تو مجھے اپنا حلیہ بھی درست کرنا ہے میں فریش ہو کر آتی ہوں۔‘‘ وہ جانے والی تھی جب مائرہ نے اس کی کلائی پکڑ کر روکا۔

’’کتنے بجے کی فلائیٹ سے آ رہے ہیں موصوف۔‘‘

’’شام چھ بجے۔‘‘ اس پر آج بوکھلاہٹیں سوار تھیں مائرہ نے اپنی ریسٹ واچ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی۔

’’دیکھ ابھی صرف گیارہ بجے ہیں۔‘‘ اور وہ سرکھجاتے ہوئے واپس بیٹھ گئی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں بتدریج بڑھتی جا رہی تھیں۔

پھر چھ سے آٹھ …  آٹھ سے بارہ  …  بارہ سے تین اور اس طرح پوری رات بیت گئی تھی مگر وہ نہ آیا اور نہ اس کا کوئی پیغام۔ وہ سیل فون ہاتھ میں لیے کوئی ہزاروں بار ٹرائی کر چکی تھی مگر رابطہ نہیں ہو رہا تھا چاند کب کا ڈوب چکا تھا پھر افق سے طلوع ہوتے سورج کو دیکھا جو کہ دھیرے دھیرے چلتا وہ بھی مغرب کے کنارے جا کھڑا ہوا شام ایک بار پھر دریچے میں آ کر ٹھہر سی گئی۔ اسے شہریار کا رویہ ویسے بھی کچھ دنوں سے روکھا، پھیکا اور بیزار سا لگ رہا تھا اس نے آنے کی خبر دی تھی مگر اس کے انداز میں ہمیشہ کی طرح کوئی گرمجوشی یا پھر والہانہ پن نہیں تھا۔ زویا نے اپنا وہم خیال کرتے ہوئے وقتی طور پر سر جھٹک دیا تھا مگر اب طرح طرح کے وسوسے، وہم اور اندیشے دل کو ہولا رہے تھے۔

اس کے خیالات کی رو جانے کس سمت جا مڑی تھی جب سیل فون کی بیل نے اسے چونکایا چمکتے لفظوں میں شہریار کالنگ سکرین پر ابھر رہا تھا۔

’’کہاں ہو تم کل سے، نہ کوئی خبر نہ کوئی اطلاع اوپر سے سیل بھی آف کر رکھا ہے جانتے ہو کس قدر پریشان ہو رہی تھی میں۔‘‘ وہ اس کی آواز سنتے ہی پھٹ پڑی تھی۔

’’تم ابھی مجھ سے ملنے آ سکتی ہو کیا؟‘‘ دوسری جانب سرد آواز میں استفسار کیا گیا تو وہ اپنی جگہ ٹھٹھک سی گی۔

’’کیا ہوا خیریت تو ہے۔‘‘ مگر دوسری جانب کال ڈسکنیکٹ ہو چکی تھی وہ کچھ الجھتی ہوئی مائرہ کو بتا کر گھر سے باہر نکل آئی پارک زیادہ دور نہیں تھا اس نے پیدل جانے کا سوچا مگر پندرہ منٹ کی مسافت بھی آج اسے صدیوں سے لمبی محسوس ہو رہی تھی سو اس نے واپس آ کر گاڑی نکال لی۔

٭ … ٭ … ٭

وہ گیٹ کے اندر کھڑا اسی کا ویٹ کر رہا تھا وہ ایک شانداری سی گاڑی سے باہر نکلی تھی ہلکا فیروزی اور ریڈ کنٹراسٹ میں وہ کتنی سادہ اور پرکشش لگ رہی تھی اسے دیکھتے ہی شہریار کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھر آئی تھی۔

زویا نے اس کے قریب آتے ہوئے ایک دلکش سی مسکراہٹ کے ساتھ ’’سلام‘‘ کیا جس کا جواب شہریار نے ہلکے سے سر ہلا کر دیا تھا دونوں بجری کی طویل روش پر ساتھ ساتھ چلنے لگے دونوں کے مابین خاموشی حائل تھی جسے اتنے لمبے راستے میں کسی فریق نے نہیں توڑا تھا۔

سامنے ایک بڑا درخت تھا شہریار اس کے ساتھ ٹیک لگا کر رک گیا زویا کے قدم بھی وہیں تھم گئے تھے۔

وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اسے دیکھ رہا تھا اور وہ اپنے پلو کو انگلیوں پر لپیٹی نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ اسے شہریار کے بدلے بدلے سے انداز و اطوار تشویش میں مبتلا کیے دے رہے تھے وہ اس سے لڑنا چاہتی تھی اس پر بگڑنا چاہتی تھی۔ مگر وہ کیسا اجنبی بن کر لاتعلق سا کھڑا تھا

’’تم فیضان حسن کو جانتی ہو۔‘‘ شہریار نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے براہ راست استفسار کیا۔

’’ہاں جانتی ہوں۔‘‘ وہ سرسری انداز میں بولی مگر شہریار کا لہجہ سرسری نہیں تھا۔

’’کیسے ؟‘‘ اگلا سوال زویا کے لیے قدرے غیر متوقع تھا وہ کچھ پل حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔

’’آئی میں کس حوالے سے ؟‘‘ اب کی بار شاید اس نے اپنے سوال کو آسان بنا کر پیش کیا تھا۔

’’وہ مائرہ کا کزن ہے۔‘‘

’’تم جس گھر میں اتنے عرصے سے رہ رہی ہو وہ بھی وہاں رہتا ہے۔‘‘

’’ظاہر ہے۔‘‘ اس نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔

’’تم جانتی ہو وہ تم میں انٹرسٹڈ ہے۔‘‘

’’شہریار پلیز …‘‘ اس کا انداز زویا کو سرتاپا سلگا گیا تھا وہ کنزروٹیو تھا مگر اس قدر کہ کبھی اس کی وفا پر بھی شک کرے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

’’آج ابھی اور اسی وقت ہمارا نکاح ہو گا اور تم آج کے بعد نہ تو اس گھر میں جاؤ گی نہ ان لوگوں سے کوئی رابطہ رکھو گی۔‘‘

’’شہریار یہ تم …‘‘ وہ شاک کے عالم میں اپنی جگہ گنگ رہ گئی تھی۔

’’اگر تمہیں منظور ہو تو ٹھیک ہے ورنہ تم جا سکتی ہو۔‘‘ وہ بے لچک انداز، اٹل لہجہ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر واپس چلی آئی۔

رات دیر تک وہ شہریار کے بارے میں سوچ سوچ کر اندر ہی اندر کھولتی رہی تھی۔ وہ کیسے اس کے لیے ان سب کو چھوڑ سکتی تھی۔

جنہوں نے اسے اس وقت سہارا دیا جب وہ بالکل بے امان ہو چکی تھی اتنی محبت تو کوئی اپنوں سے بھی نہیں کرتا آنٹی کو دیکھ کر اسے کبھی ماں کی کمی کا احساس نہیں ہوتا تھا وہ مائرہ اور اس میں کبھی فرق نہیں کرتی تھیں دادا جان کو ہر وقت اس کے کھانے کی فکر …  وہ مائرہ سے نظر بچا کر اس کے لیے چیزیں لایا کرتے تھے اور انکل ہر مہینے جیب خرچ کے نام پر ایک بھاری رقم اسے تھما دیتے اور وہ انکار ہی کرتی رہ جاتی تھی۔

’’زویا کیا ہوا؟‘‘ مائرہ کب سے اس کی عجیب و غریب سی کیفیت دیکھ رہی تھی۔

’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے سرتاپا چادر اوڑھ کر کروٹ بدل لی۔

٭ … ٭ … ٭

بہت سے دن گزر گئے وہ منتظر رہی کہ وہ منانے آئے گا اپنی اسٹوپڈ سی ڈیمانڈ پر پشیمان اس سے معذرت کرے گا مگر ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا وہ تو جیسے ہر رابطہ توڑ کر جا چکا تھا ہر تعلق ختم کر چکا تھا اور وہ خود پہل نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس صورت میں اسے شہریار کی بات ماننا پڑتی۔ اپنے بے کیف اور بے زار سے دنوں میں اک عجیب سی بات ہو گئی تھی۔ فیضان حسن کا اس کے لیے پرپوزل آیا تھا رات ڈنر میں انکل نے اسے بتایا اور ساتھ ہی اس کی رائے بھی طلب کی تو وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کچھ لمحے تو بولنے کے قابل ہی نہ رہی تھی۔

مائرہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی مائرہ کی فیضان حسن میں دلچسپی آنٹی کے لیے چھپی تو نہیں تھی وہ بھی چمچہ پلیٹ میں پٹخ کر مائرہ کے پیچھے چلی گئیں۔ فیضی ٹیبل پر موجود نہیں تھا۔ دادا جان اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے اور وہ فیضان کے پرپوزل پر انکل کو واضح انکار کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اس نے کچھ نہیں کیا تھا نہ ہی اس معاملے میں سرے سے اس کا کوئی سروکار تھا پھر بھی وہ آنٹی اور مائرہ کی نظروں میں چور بن گئی تھی۔

٭ … ٭ … ٭

’’آپ نے میرے پرپوزل پر انکار کیوں کیا؟‘‘ شام کا وقت تھا وہ لان میں بیٹھی اپنے اپنے آشیانوں کو واپس لوٹتے پرندوں کو دیکھ رہی تھی جب فیضان حسن نے عین اس کے سر پر کھڑے ہو کر استفسار کیا۔ وہ چونک کر اس کی جانب پلٹی۔

’’پہلے آپ بتائیں کہ آپ نے میرے لیے پرپوزل کیوں بھیجا؟‘‘

’’کیونکہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔ زویا نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا یقیناً وہ شہریار سے زیادہ خوبصورت تھا مگر دیکھنے والی نظر زویا کی تھی جن میں شہریار کے سوا کوئی اور جچتا ہی نہیں تھا۔

’’کیا کر سکتے ہو میرے لیے ؟‘‘ زویا نے سوالیہ نظریں اس پر ٹکا دیں۔

’’جو تم کہو۔‘‘ وہ مضبوط لہجے میں بولا۔

’’اچھا تو پھر مائرہ سے شادی کر لو۔‘‘ اس کی فرمائش پر فیضان اپنی جگہ بے ساختہ اچھل کر رہ گیا جیسے اسے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

’’یہ کیا پاگل پن ہے۔‘‘

’’محبت پاگل پن کا ہی دوسرا نام ہے اگر محبت ہے مجھ سے۔ تو یہ پاگل پن کر دکھاؤ۔‘‘ وہ بے یقینی سے اسے دیکھتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا اس کے اندر دور تک بہت کچھ ٹوٹ گیا تھا کچھ بولنے کی کوشش میں اس کے لب محض کانپ کر رہ گئے۔

زویا نے اپنا نچلا لب کاٹتے ہوئے آس بھری نظروں سے اسے دیکھا وہ کچھ نہیں تھا اس کا۔ لیکن زویا نے اس سے بہت کچھ مانگ لیا تھا۔ وہ بنا اس کی جانب دیکھے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

’’زویا تم نے مجھے میری ہی نظروں میں کتنا ارزاں کر دیا ہے۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ مائرہ نے دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو سن لی تھی اور اب وہ اس بات پر خفا ہو رہی تھی۔

’’فضول باتیں مت کرو۔ وہ تم سے محبت نہیں کرتا مگر تمہیں پسند تو کرتا ہے نا، اور ہم جنہیں پسند کرتے ہیں ان کے لیے فطری طور پر ہمارے دل میں محبت پہلے سے موجود ہوتی ہے تم دونوں بہت اچھے دوست ہو اور دو اچھے دوست دو بہترین ہم سفر ثابت ہو سکتے ہیں۔ تمہاری پھوپھو کل کی فلائیٹ سے آ رہی ہیں تم بس اپنی رخصتی کی تیاری کرو۔‘‘ زویا نے اس کی ایک نہیں چلنے دی تھی۔

٭ … ٭ … ٭

سوچا تھا اس شہر میں رہوں گا تو تمہاری یادیں تمہاری خوشبوئیں ان ہواؤں میں مہکتی تمہارا احساس دلائیں گی مگر …

مگر اب دل چاہتا ہے یہاں سے دور چلا جاؤں کسی انجان نگر میں اجنبی لوگوں کے بیچ شاید تمہیں بھول سکوں۔

ہاں اب میں تمہیں بھول جانا چاہتا ہوں

یہاں رہوں گا تو کسی موڑ کسی راستے میں اگر تم کہیں ٹکرا گئی۔ تو میں خود کو روک نہیں پاؤں گا۔

تمہاری وہ حسین نیلی آنکھیں جن پر اب کسی اور کا حق ہے وہ حوالہ مجھ سے برداشت نہ ہو گا کتنی عجیب بات ہے نا، تمہیں پانے کی چاہ میں پندرہ سال گزار دئیے میں نے  …  اور اب تم سے بچھڑ کر تمہیں کھو دینے کے بعد  …

ایک …  ایک دسمبر تنہا نہیں گزرتا۔

جب سے فیضان حسن نے اسے بتایا تھا کہ وہ شادی کر رہا ہے تب سے اسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے وجود سے روح کھینچ رہا ہو۔

وہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنے بیگ میں ضروری سامان بھرنے لگا جب فیصلہ ہو چکا تو پھر یہاں رکنے کا جواز ہی کیا تھا۔ بیگ کی زپ بند کرتے ہی اس کی نظر سامنے شلف پر رکھے تصویروں کے البم پر پڑی۔ اس نے بڑی عقیدت سے اسے اٹھا کر کھولا۔

اس البم میں اس کی اور زویا کی بچپن کی تصویریں تھیں اس کی ماما نے بتایا تھا کہ تمہارے پاپا کو فوٹو گرافی کا بڑا شوق تھا فرصت کے اوقات میں وہ تمہاری اور زویا کی تصویریں بنایا کرتے تھے۔ پہلی تصویر میں زویا بمشکل چھ ماہ کی تھی پنک فراک میں وہ گڑیا سی کشن کے سہارے بیٹھی تھی اور وہ اسی صوفے کا سہارا لیے اس کے قریب کھڑا تھا۔

اگلی تصویر اس کی زویا کی اور ماما کی تھی جہاں زویا نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا ماما کچھ فاصلے پر بیٹھی دونوں بازو وا کیے اسے اپنی جانب بلا رہی تھی زویا نے ہنستے ہوئے ایک قدم اٹھایا تھا۔ شاید وہ لڑکھڑا کر گرنے والی تھی جب شہریار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔

اس سے اگلی تصویر پر وہ دونوں سائیکل پر بیٹھے تھے وہ سائیکل چلا رہا تھا اور زویا پچھلی سیٹ پر بیٹھی تالیاں بجا رہی تھی۔ اس نے اگلا صفحہ الٹا۔

دونوں اسکول یونیفارم میں ملبوس کندھے پر بیگ لٹکائے ساتھ ساتھ کھڑے مسکرا رہے تھے یہ شاید ان کے سکول کا فرسٹ ڈے تھا۔

اگلی تصویر پر وہ تقریباً پانچ سال کی تھی دونوں چھوٹی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھے تھے اور ماما انہیں ہوم ورک کروا رہی تھی۔

پھر شہریار کی برتھ ڈے کی تصویر تھیں جس میں وہ سفید نیٹ کے فراک میں پرنسز بنی گھوم رہی تھی۔

اگلی تصویر ان کے سکول فنکشن کی تصویر تھی جس میں وہ سرخ لہنگا پہنے مکمل دلہن بنی کھڑی تھی اور ساتھ شیروانی میں وہ کھڑا مسلسل اسے دیکھ رہا تھا شہریار نے اس کا ایک ہاتھ تھام رکھا تھا جس پر اس کی کلائیوں کی چوڑیاں چھن چھن کرتی اس کی کہنیوں تک بکھر گئی تھیں۔

اسے یاد آیا اس نے یہ تصویر زویا کو دکھا کر کہا تھا۔

’’اپنی شادی پر تم اس رنگ کا لہنگا پہننا اور میں ایسی ہی شیروانی پہنوں گا پھر ہم ان دونوں تصویروں کو بڑا کروا کہ اپنے روم میں سجائیں گے۔‘‘ نارسائی کا کرب اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی صورت بہہ نکلا تھا اس نے البم بند کر دیا۔

٭ … ٭ … ٭

ستاروں بھرا آسمان کتنا روشن اور دلکش لگ رہا تھا وہ کھڑکی میں اپنے بخت کا ستارہ ڈھونڈ رہی تھی۔ جو روٹھ کر جانے کہاں جا چھپا تھا۔

’’شہریار تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟‘‘ اپنی ہی آواز کی بازگشت اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

’’آسمان پر ستارے ہیں۔‘‘ زویا نے آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھا وہ آج بھی جھلمل کرتے ویسے ہی دمک رہے تھے۔

’’بہت سارے۔‘‘

’’تو ان کو کاؤنٹ کرو۔‘‘

’’میں کیسے کاؤنٹ کر سکتی ہوں وہ تو ان گنت ہیں۔‘‘

’’ایسے ہی میری محبت تمہارے لیے بے پایاں اور بے حد ہے میں بھی نہیں بتا سکتا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں تم سمجھ لو جتنے آسمان پر ستارے ہیں اتنی …  جتنی سات سمندر کی وسعتیں ہیں اتنی …  جتنے زمین …‘‘

’’اور اب بس بھی کرو۔‘‘ زویا نے ہنستے ہوئے بے ساختہ ٹوکا۔

’’ہاؤ، مائرہ نے اس کے کان میں آ کر ڈرایا تو زویا اس کی ان بچوں والی حرکت پر محض اسے گھور کر رہ گئی اور پھر یاد آنے پر بولی۔

’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ بھئی ابھی اس محترمہ کا کل ہی تو نکاح ہوا تھا اور اسے اس وقت فیضان حسن کے پاس ہونا چاہیے تھا۔

مائرہ نے اس کی حیرت کو کافی انجوائے کیا تھا۔

’’بھئی کل تو مجھے پیا دیس چلے جانا جانا ہے تو میں آج کی رات تمہارے ساتھ گزاروں گی۔‘‘ مائرہ نے بڑے لاڈ سے اس کے گلے میں بازو ڈالے۔ دونوں مسکراتے ہوئے بیڈ پر آ بیٹھیں۔

اگلے ہی پل فیضان بھی وہیں چلا آیا۔

’’بھئی تمہاری بیگم اپنی مرضی سے یہاں آئی ہے میں نے کوئی زبردستی نہیں کی مجھے کوئی الزام مت دینا۔‘‘ وہ فیضان کی آمد کا مقصد یہی سمجھی تھی کہ وہ شاید مائرہ کو لینے آیا ہے۔

ان کے درمیان حائل تکلف کی دیوار کو گرانے میں پہل زویا نے کی تھی کہ اس کا فیضان حسن کے ساتھ بڑا معتبر رشتہ جڑ گیا تھا۔

’’زویا میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔‘‘ اس کے آزردہ لہجے پر وہ بالکل سنجیدہ نہیں ہوئی تھی۔

’’بھئی اب یہ معافیوں، تلافیوں کے کام اپنی بیگم سے کرنا مستقبل میں بہت ضرورت پڑنے والی ہے۔‘‘

’’زویا تمہارے پاپا کی موٹر سائیکل، میں نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا میرے ساتھی نے کہا کہ وہ مجھے چھوڑ کر ان کو ہاسپٹل پہنچا دے گا مگر …  اس سب کا ذمہ دار میں ہوں میں تمہارا مجرم ہوں۔‘‘ وہ زویا کے قدموں میں دونوں ہاتھ جوڑے اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ زویا کے چہرے کی ساری خوشگواریت غائب ہو چکی تھی مائرہ اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔

’’پلیز مجھے معاف کر دو۔‘‘ اس کی آنکھوں میں ندامت اور پشیمانی کے آنسو تھے وہ اس کے سامنے گڑ گ ڑا رہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ ایکسیڈنٹ کے وقت وہ بہت گھبرا گیا تھا اور اسے یہ خدشہ تھا کہ اگر ان میں سے کسی کی موت ہو گئی تو اسے جیل بھی ہو سکتی ہے۔

اور جس روز سے اسے پتہ چلا تھا کہ اس کی وجہ سے تین انسانوں کی جان گئی ہے تب سے وہ بہت اذیت میں تھا شاید اقرار جرم اور معافی مانگ کر وہ اپنے ضمیر پر رکھا بوجھ کم کرنا چاہتا تھا۔

’’فیضان اگر وہ ایکسیڈنٹ تمہاری گاڑی سے نہ ہوتا تو کسی اور سے ہو جاتا وہ وقت ان کی موت کا مقرر تھا موت تو ہر صورت آنی تھی تم تو بس بہانہ تھے۔‘‘ زویا نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور اٹھ کر باہر چلی آئی۔

اسے وہ سارے مناظر یاد آ رہے تھے سرد ٹھٹھرتی ہوئی رات میں وہ تین وجود زخموں سے چور لا وارثوں کی طرح سڑک کے کنارے پڑے تھے۔

جب بھی اسے وہ رات یاد آتی وہ فرسٹریٹ ہو جاتی تھی ایسے بے حس انسان کو معاف کرنا آسان تو نہیں تھا مگر اسے سہارا بھی تو انہی لوگوں نے دیا تھا نا۔ سو اسے اپنا دل بڑا کرنا ہی تھا۔

٭ … ٭ … ٭

’’اچھا ہوا جو فلائیٹ لیٹ ہو گئی۔ کچھ وقت مزید تمہارے ساتھ گزارنے کا موقع مل گیا۔‘‘ آج سب گھر والے مائرہ فیضان حسن اور انکل آنٹی کوسی آف کرنے ائیر پورٹ آئے تھے مگر پتہ چلا کہ مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے پروازیں دو گھنٹہ تاخیر سے جائیں گی۔ جس پر مائرہ نے تو شکر ادا کیا تھا جب کہ باقی گھر والے کچھ دیر وہاں ٹھہر کر اب واپس جا چکے تھے زویا اس کے پاس رک گئی تھی۔

’’مائرہ ہم کوئی لیلیٰ مجنوں تو نہیں ہیں۔ جو تم مجھ سے بچھڑتے ہوئے ایسے کر رہی ہو۔‘‘ صبح سے وہ دس بار خود رو کر اسے بھی رل اچکی تھی۔

’’مائرہ یہ میرا دوست ہے شہریار۔‘‘ وہ دونوں آپس میں الجھ رہی تھیں جب فیضان حسن اپنے کسی دوست کو تقریباً کھینچ کر ان کے پاس لایا تھا اور ابھی بھی فیضان حسن نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑ رکھا تھا کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔

جبکہ زویا ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کرتی رخ موڑے کھڑی تھی۔

’’اور شہریار یہ تمہاری بھابی ہے مائرہ۔‘‘ اور شہریار کے حواسوں پر تو جیسے کسی نے بم پھوڑا تھا۔ اسے فیضی نے بتایا تھا کہ وہ شادی کر رہا ہے اور اس نے یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کی تھی کہ وہ کس سے شادی کر رہا تھا بس اپنے طور پر فرض کر لیا کہ وہ زویا سے ہی شادی کر رہا ہو گا۔ اور اس کے بعد تو اس نے فیضی سے سارے کوٹینکٹ بھی ختم کر لیے تھے۔

اور آج فیضان حسن کے پہلو میں کھڑی مائرہ کو دیکھ کر اسے حقیقی معنوں میں شاک لگا تھا۔

’’السلام علیکم۔‘‘ مائرہ نے فوراً اخلاقی تقاضے نبھائے۔

’’ویسے تم جا کہاں رہے ہو۔‘‘ فیضان اس سے گلے شکووں میں مشغول ہو چکا تھا وہ مائرہ کے ساتھ چلتے چلتے ڈیپاچر لاؤنج سے باہر نکل آئی تھی۔

’’زویا میری بات تو سنو۔‘‘ ان کا جہاز فلائی کر چکا تھا وہ واپس آ رہی تھی جب شہریار بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا۔

’’مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی تم جہاں جا رہے ہو جاؤ کہیں تمہاری فلائیٹ مس نہ ہو جائے۔‘‘ وہ رکے بغیر بولی۔

’’زویا۔‘‘ شہریار نے اس کی کلائی تھام کر اسے روکا اور خود اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

’’پلیز یار مجھے میری صفائی میں کچھ کہنے کا ایک موقع تو دو۔‘‘ وہ مدھم لہجے میں بولا آس پاس سے گزرتے لوگ اب انہیں مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔

’’تم نے میری محبت، میری وفا اور خلوص پر شک کیا تھا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم ایسا کر سکتے ہو۔ تم نے میرا اعتبار کھو دیا ہے اور اب تم کچھ بھی بول کر خود کو بے قصور ثابت نہیں کر سکتے۔‘‘ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولتی قریب پڑے سنگی بینچ پر بیٹھ گئی۔ شہریار ایک گہرا سانس بھرتا اس کے قریب براجمان ہو چکا تھا۔

’’میں نے تو صرف تمہاری خوشی چاہی تھی زویا جو مجھے لگا کہ میرے ساتھ میں نہیں ہے۔‘‘ اس کے افسردہ لہجے کو خاطر میں لائے بغیر زویا نے لب بھینچ کر خشمگیں نظروں سے اسے گھورا۔ مگر وہ رکے بغیر بولتا ہی چلا گیا۔

’’جب میں انگلینڈ گیا تو دو مہینوں تک یوں ہی سڑکوں پر خوار ہوتا رہا۔ فیضان حسن میرا نیٹ فرینڈ تھا وہ مجھے وہاں پہلی بار اتفاق سے ملا تھا باپ کا اکلوتا بیٹا ان کا لندن میں وسیع کاروبار تھا مگر میں نے کبھی اپنے مالی حالات اس پر آشکار نہیں ہونے دئیے کیونکہ میں اس سے کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہیں لینا چاہتا تھا پھر ایک روز مجھے ونیزے ملی۔ میں ان دنوں اسی کے ریسٹورنٹ میں ویٹر کی جاب کرتا تھا وہ روز شام کو وہاں آتے جاتے بطور خاص مجھے دیکھتی ایک ہفتہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور ایک ماہ بعد اس نے مجھے ایک معمولی ویٹر سے اپنے ریسٹورنٹ میں مینیجر بنا دیا اس نے کہا کہ وہ میرے کام سے بہت خوش ہے اور اسے ایک اچھا اور ایماندار انسان لگتا ہوں۔

گزرتے دنوں کے ساتھ ہم میں کافی بے تکلفی بھی ہو چکی تھی مگر ایک حد تک۔ ایسے ہی دو سال کا عرصہ گزر گیا میں جس مقصد کے لیے آیا تھا اس میں کافی حد تک کامیاب ہو چکا تھا کہ میں تمہارے لیے ایک شاندار سا گھر بنا سکتا اپنا بزنس اسٹارٹ کر سکتا مجھے لگا وقت آ گیا ہے جب میرے سارے سپنے سچ ہونے والے ہیں۔

میں ان دنوں واپس آنے کے چکروں میں تھا کہ ونیزے نے مجھے پرپوز کر دیا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی۔

مجھے اسے صاف انکار کرنا مناسب نہ لگا تو میں نے اس سے دو دن کا وقت مانگ لیا۔ در اصل میرا اسے جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا میری سیٹ پہلے ہی کنفرم ہو چکی تھی میں رات بارہ بجے لندن کی گلیوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہتا بڑا مسرور ہیتھرو ایئرپورٹ کی جانب جا رہا تھا کہ ایک بار پھر تقدیر اپنا وار کر گئی۔

راستے میں کچھ سیاہ فام لوگوں نے ریوالور کے بل بوتے پر میرا وہ نوٹوں سے بھرا بیگ مجھ سے چھین لیا۔ میں نے وہ ساری رات اس فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھ کر گزاری۔ میری دن رات کی محنت میری ساری جمع پونجی وہ لے کر فرار ہو چکے تھے۔

اگلی صبح میرے پاس دو ہی راستے تھے کے میں یا تو واپس جا کر اس برٹش لڑکی سے شادی کر لوں یا پھر تمہیں ساری حقیقت بتا کر واپس لوٹ آؤں اور پھر میں واپس لوٹ آیا میں نے سوچا واپس آ کر تم سے روبرو بات کروں گا۔ اس روز میں شام چھ بجے تم سے ملنے آ رہا تھا جب فیضان حسن راستے میں مل گیا۔

’’اور زبردستی مجھے اپنے آفس میں لے گیا وہاں کچھ دیر گپ شپ کے بعد اس نے آفس سے ملحق آرٹ روم میں، مجھے تمہاری تصویریں دکھائیں۔‘‘

’’میری تصویریں ؟‘‘ زویا نے حیرت بھرا استفسار کیا۔

’’ہاں وہ لندن میں ایک مشہور مصور ہے اور تمہیں دیکھنے کے بعد پہلی نظر میں تم سے محبت کر بیٹھا تھا وہ نیٹ پر صبح و شام مجھ سے تمہاری باتیں کرتا تھا اور میں بھی اسے فضول مشوروں سے نوازتا میرے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ جس لڑکی کا ذکر سن سن کر میرے کان پک گئے تھے وہ تم بھی ہو سکتی ہو۔

اب ایک طرف میں تھا جس کے پاس وہی تین مرلوں کا گھر تھا اور جو ادھوری تعلیم اور بغیر کسی نوکری کے اپنے بھی قابل نہیں تھا۔

اور دوسری جانب فیضان حسن، لندن کا معروف بزنس میں مجھے لگا تم اس کے ساتھ زیادہ خوش رہ سکتی ہو۔‘‘

’’شہریار دولت ایک اضافی خوبی ضرور ہے مگر کسی شخصیت کو ماپنے کا پیمانہ ہرگز نہیں ہوتی ایک شریف با کردار اور مہذب انسان میرا آئیڈیل تھا اور تم اس خاکے میں بالکل فٹ آتے تھے۔‘‘ وہ خفگی سے بولی۔

’’شریف، با کردار اور مہذب تو فیضان حسن بھی تھا بقول تمہارے اپنی اس اضافی خوبی کے ساتھ، پھر تم نے اس کا پرپوزل کیوں ریجیکٹ کر دیا۔‘‘ وہ اسے ستانے کو بولا۔

’’تو تم نے کیوں اس برٹش لڑکی سے شادی نہیں کی وہ اضافی خوبی تو اس میں بھی موجود تھی گرین کارڈ ہولڈر ریسٹورنٹ کی مالک۔‘‘ وہ لفظوں کو چبا چبا کر بولی شہریار کی آنکھوں سے لپکتی شرارت اور ہونٹوں کے گوشوں سے جھانکتی دبی دبی سی مسکراہٹ وہ دیکھ چکی تھی۔

’’وہ شریف، با کردار اور مہذب نہیں تھی نا۔‘‘ وہ بھی شرارتی انداز میں بولا۔

’’اگر ہوتی تو تم کر لیتے۔‘‘ زویا نے بمشکل ہی اپنے ہاتھوں کو اس کی گردن دبانے سے روکا تھا۔

’’نہیں۔‘‘ اس نے جھٹ سے نفی میں سرہلا دیا۔

’’کیوں۔‘‘ اگلا سوال اس کی توقع کے برعکس تھا۔

’’دولت سے زیادہ مجھے میری محبت عزیز تھی۔‘‘ وہ ٹھوڑی پہ ہاتھ جما کر معصومیت سے بولا۔

’’اور اتنی سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ اس کا جھلاہٹ بھرا اقرار شہریار سے اپنا قہقہہ ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا وہ خفا ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی شہریار منانے کے لیے بھاگا۔

محبت کی دعائیں مانگتی شب نے

نئے اک سفر کا آغاز کیا ہے

یہ کیسا خوشنما احساس ہے

کہ آئندہ برسوں میں

ہر موسم ہر اک دن کی دھنک رتوں کو

ہم اک ساتھ برتیں گے

سنو یہ خوشبوئیں اعلان کرتی ہیں

کسی کے لوٹ آنے کا

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل