FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

خوابوں کے محل

 

 

 

                قرۃ العین حیدر

جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید

 

 

 

 

خوابوں کے محل

 

 

اور جب وہ کار سے اُتر کر میری طرف نظر کیے بغیر رومال سے ناک پونچھتا ہوا برآمدے کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گذشتہ رات کالج کی اسٹیج پر اس کے ساتھ آسٹرین ڈچس کے لباس میں رقص کرتی ہوئی ایمیلی شاید میرا مذاق اڑا رہی تھی۔ ’’اپنے چھوٹے سے رومان کا رو پہلا محل تو میں نے بنایا ہے۔ تم اس میں داخل ہونا کیسے چاہتی ہو۔ کیسے ہوسکتی ہو۔ ہا ہا ہا! یہ تو صرف میرے لیے ہے۔‘‘ اور میرے کانوں میں اس کے سریلے قہقہے کی آواز گونج کر رہ گئی۔

ثریا دریچے میں کھڑی لالہ کے پھولوں کو گل دان میں سجا رہی تھی۔ مجھے میرے کمرے میں آتا دیکھ کر اس نے اپنا آٹو گراف البم میری طرف پھینک دیا۔

’’میں کیا کروں اس کا ؟‘‘ ’’کرو کیا؟ اس کے دستخط ہیں اس میں۔ ڈرامہ ختم ہونے سے قبل گرین روم میں جا کر میں نے لے لیے تھے اس سے۔‘‘

’’تو آخر یہ مجھے اس خصوصیت سے کیوں دکھا رہا ہے بھئی۔‘‘ مجھے واقعی رونا آ گیا۔

ثریا نے گل دان ایک طرف رکھ سیٹی بجاتے ہوئے پھر کہا۔ ’’ رومانیتک___ حد سے زیادہ لیکن وہ پاؤڈر بھی لگاتا ہے۔‘‘

’’ ہر گز نہیں۔ لگاتا پاؤڈر۔ واہ۔‘‘ میں فوراً اس کی طرف داری پر آمادہ ہو گئی۔

’’ بالکل لگاتا ہے۔ میں نے خود اس کی سنگھار میز پر میکس فیکٹر پاؤڈر اور پونڈس کریم رکھی دیکھی ہے۔ ‘‘

’’ آخر تم اس قدر دل چسپی اور انہماک سے کیوں کر رہی ہو؟ ‘‘ میں نے جل کر کہا۔

’’ وہ اتنا خوب صورت جو ہے۔ خواب ناک آنکھیں اور نقرئی آواز___ ! ہا ہا ہا۔ قطعی خطرناک بات ہے۔‘‘ ثریا بہت صاف گو لڑکی ہے۔ دریچے میں بیٹھ کر ٹانگیں ہلاتے ہوئے وہ پھر بولی۔‘‘ اس وقت تو وہ خالہ جان سے نہایت سعادت مندی کے ساتھ کوئلے کی گرانی اور نوکروں کی قلت کے مسئلے پر گفتگو کر رہا ہے۔ پر سوں بھی تو آیا تھا۔‘‘

’’ کون آیا تھا پرسوں بھی؟‘‘ ریاض بھیّا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دخل در معقولات کی۔

’’ درزی۔‘‘ ثریا نے اطمینان سے جواب دیا اور لالہ کے پھولوں کو نئے سرے سے سجانے لگی۔ ریاض بھیّا تپائی پر جھک کر چائے بنا رہے تھے۔ اور ثریا نہایت معصومیت سے ان کے لیے سنترہ چھیل رہی تھی۔

میرا دل چاہ رہا تھا کہ ریاض بھیا اور ثریا دونوں کو چاء دانی میں ڈبو دوں اور پھر ڈرائنگ روم کی روشنیاں گل کر کے کشتوں میں منہ چھپا کر خوب روؤں۔

خالہ جان کے کمرے میں سے باتوں، قہقہوں اور چھینکوں کی آوازیں آنی بند ہو گئی تھیں۔ ریاض بھیا اور ثریا دریچے میں سے باہر باغ میں کود کر شاید ٹینس کھیلنے کے لیے جا چکے تھے۔ ریڈیو میں چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا تیزی سے بج رہا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور تصور میں بھورے بالوں والی آسٹرین ڈچس پھر آ کر کھڑی ہو گئی جو رقص کرتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔‘‘ میرے چھوٹے سے رومان کا رو پہلی محل___‘‘

___ ’’سرو کے درختوں سے ڈھکی ہوئی پہاڑی کی چوٹی پر بنا ہوا سرخ برجیوں اور اونچے اونچے کنگوروں والا محل جس میں خوابوں کی شہزادیاں رہتی ہیں۔

پچھلے ہفتے وہ اپنے کالج کے ڈرامے کے ٹکٹ بیچنے کے لیے ہمارے یہاں آیا۔ ریاض بھیّا نے میرے اور ثریا کے لیے دس دس روپے کے ٹکٹ خرید کر کہا ’’ Vepex‘‘ ہو گا آپ کے پاس؟‘‘ اور میں نے طے کر لیا کہ میں اسے اپنے اس سرخ برجیوں والے قلعے میں قطعی نہ گھسنے دوں گی۔ اسی دن شام کو ’’ پکیڈلی‘‘ میں پھر اس سے ٹکر ہو گئی۔ اس کے ساتھ اس کے دوستوں کے علاوہ ایک لڑکی بھی تھی___ یہ ہیں میری دوست مس ایمیلی آرکڈیل___ اور یہ ___ یہ ___ مس___ مس___‘‘ اس نے نیازی سے میرا تعارف کروایا۔ گویا میرے بے کار سے نام کو یاد کرنے کے لیے اسے اپنے دماغ پر زوردینے کی ضرورت پڑ رہی تھی اور وہ فضول سی اینگلو انڈین لڑکی جسے لپ اسٹک لگا کر سائیکل پر کناٹ پلیس کے چکر لگانے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہنس ہنس کر اس کی طرف سے ٹکٹ خریدنے کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔

لیکن اگلے دن اس نے مجھے فون کیاکہ ہمارے لیے آگے کی بہترین نشستیں اس نے خاص طور پر ریزرو کروالی ہیں اور کافی دیر تک وہ ادھر اُدھر کی بے معنیٰ باتیں کرتا رہا۔

اور رو پہلے محل کے ایوان پھر جگمگا اٹھے۔ خانہ بدوشوں کے کاروان کی موسیقی سے کہر اور دھندلکے میں چھپی ہوئی وادیاں گونجنے لگیں۔ اونچے اونچے کنگوروں والے چاکلیٹ کی رنگت کے قلعے کی شہزادی نے بربط پر اپنے پسندیدہ نغمے گنگنانے شروع کر دیئے۔

میں نے ریڈیو کی آواز مدھم کر کے پھر آنکھیں بند کر لیں ___ لیکن مگر اس کہانیوں کی سرزمین اس رنگین بوہیما پر کوئی بھورے بالوں والی آسٹرین ڈچس اپنا قبضہ کر لے تو___؟ جگمگاتے ہوئے بال روم میں بلوری میز پر جھکا ہوا جیسے کوئی آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا___ آپ کے آٹو گراف البم میں کیا لکھوں ___؟ ان سیاہ آنکھوں کا خیال مجھے کھوئے ہوئے خوابوں کی وادی میں پہنچا دیتا ہے۔ جہاں رائن کے پانیوں میں اترتے ہوئے زرد چاند کی کرنیں ان چمک دار پگڈنڈیوں پر پڑتی ہیں جو سر سبز پہاڑیوں اور شاہ بلوط کے گھنے جنگلوں میں سے گذرتی ہوئی خوابوں کے سرخ برجیوں والے قلعے تک باقی ہیں ___!

لیکن نہیں ___ اس نے تو کہا تھا۔ یہ میری دوست مس ایمیلی آرکڈیل۔ آپ ہمارے کالج کے ڈرامے میں ضرور تشریف لائیے گا۔ ہم دونوں کو بہت خوشی ہو گی ’’ ہم دونوں ‘‘___ خوابوں کے سربہ فلک قلعے پر جیسے کسی نے بمباری کر دی۔

’’ اجی وہ تو فلرٹ (Flirt)ہے بالکل۔ چاہے جس سے پوچھ لو۔ ایمیلی کے کالج میں آنے سے پہلے امرجیت اس کے ساتھ گھومتی رہتی تھی۔ اب دیکھ لینا اگر ایمیلی کہیں چلی گئی تو سلطانہ کا نمبر آ جائے گا۔‘‘ ثریا کہہ رہی تھی___ میں چڑ کر رہ گئی۔ بھئی اگر وہ فلرٹ ہے تو میں کیا کروں۔ آخر ثریا اس قدر باقاعدگی سے اس کی ریسرچ کیوں کر رہی ہے۔ لاحول ولا۔ میں نے مستقل مزاجی سے طے کر لیا ان رو پہلے محلات کو سجانے کا کام اگلے سال پر اٹھا رکھوں گی۔ کیونکہ سالانہ امتحانات بہت قریب آ گئے تھے___

کافی دن گذر گئے۔ ایک شام میں کسی کام کے لیے ڈرائنگ روم میں گئی ثریا سجی سجائی حسبِ معمول دریچے میں بیٹھی انڈین لِس نرؔ کے ورق الٹ پلٹ کر شاید کسی کا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر چھوٹتے ہی بولی ’’ ایک بڑے مزے کی بات سنوجی۔ پچھلے ہفتے تک تو شاہدہ بھلی چنگی کالج آئی تھی اور اس اتوار کو اس کی شادی ہو رہی ہے۔

’’ اچھا؟ بڑی خوشی کی بات ہے۔ کس سے ہو رہی ہے؟‘‘ ظاہر ہے مجھے شاہدہ کی شادی سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہوسکتی تھی۔

’’ اسی سے ___تم کو اس لیے انہوں نے نہیں بلایا کہ تمہاری پڑھائی میں ہرج ہو گا۔ فائنل ایئر ہے تمہارا___ ہماری تو کار بھی تین دن سے ان کے وہاں منگنی میں گئی ہوئی ہے۔‘‘ اور پھر وہ ایسا انداز بنا کر بیٹھ گئی کہ برقی لیمپ کی نیلی روشنی میں اس کے چہرے پر پڑے کیونکہ ریاض بھیا کمرے میں آ چکے تھے۔

کہانی ختم ہو گئی___ لیکن خوابوں کے سرخ برجیوں اور اونچے اونچے کنگوروں والے قلعے کی شہزادی آتش دان کے سامنے بیٹھی شاید تب بھی کسی شہزادے کا انتظار کر رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک شام

 

اوفّوہ بھئی…اللہ۔ ممی اچھے تو ہیں ہم بالکل۔ ذرا یوں ہی ساسر میں درد ہو جانے کا مطلب یہ تھوڑا ہی ہے کہ اب ہمیں دودھ اوولٹین پینا پڑے گا۔

اور ممی گھبرائی ہوئی کمرے سے چلی گئیں۔ شاید ڈاکٹر کو فون کرنے۔ میں نے لیمپ کا رخ مسہری کی طرف کر کے آسکر وائلڈ کی ایک کتاب اٹھا لی۔ ڈرائنگ روم میں سے ریڈیو کی آواز آ رہی تھی۔ وہی اختری فیض آبادی کی سمع خراش تانیں ___ اور پھر مجھے یاد آیا کہ ابھی کالج کا بہت سا کام کرنا باقی ہے اور اگلے ہفتے سے ششماہی امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ دودھ اوولٹین اور سوڈا بائی کار۔ میں نے جھنجھلا کر کتاب نیچے قالین پر پھینک دی اور لیمپ کے نیلے شیڈ پر بنے ہوئے چینی نقش ونگار کو غور سے دیکھنے لگی۔ اور پھر خیالات کہاں کہاں بھٹک گئے۔ لیمپ کے سرخ شیڈ اور آدھے جلے ہوئے سگریٹ___ بوہیمیا___ لیٹن کو اٹر___ تصویروں کے آڑے ترچھے بے تکے سے نقوش۔ ترچھی اور بڑی بڑی آنکھیں اور بے حد پتلی اور لمبی انگلیاں ___ پس منظر میں دھندلا دھندلا نہ معلوم کیا۔ اور دھواں سا بل کھاتا اور اوپر کو اٹھتا ہوا۔ لمبے لمبے فرانسیسی دریچے اور ان میں حجابؔ کے افسانے۔ نپولین اور لارڈ نیلسن۔ بے چارے کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ میری آنکھوں میں بھی تو درد ہو رہا ہے___ اور ایک لیڈی ہملٹن تھی___ اور پھر یہ اتنے سارے ’’ازم___‘‘ ’’سوشلزم‘‘

’’کمیونزم‘‘ ’’فاشزم___‘‘ ’’ناتسی ازم___‘‘۔ رزم وبزم___ اوفوہ بھئی___ توبہ۔

اور میری نظر رسالہ ’’ادب لطیف‘‘ کے تازے پرچہ پر پڑ گئی جو پاس کی میز پر رکھا ہوا تھا___ واقعی یہ نیا ادب بھی کیا کمال کی چیز نکلی ہے___ ترقی پسند ادب___ حسین پگڈنڈیاں۔ خوب صورت ہوائیں۔ جنتا۔ سماج___ مزدور___ روٹی___ بھوک بھوک بھوک۔

سچ مچ مجھے بھوک معلوم ہو رہی تھی۔ کیونکہ میں نے دوپہر کا کھانا بھی نہ کھایا تھا۔ اتنے میں ممی دودھ اوولٹین لے آئیں۔

اور سونے سے پہلے ممیؔ نے مجھ سے کہا کہ میں کل شام کو کہیں اور نہ جاؤں۔ کیونکہ پرویزؔ رومانی ’’کافی ہاؤس ‘‘ میں خالو جان کی رخصتی پارٹی دے رہے ہیں۔

خالو جان بے چارے جو ہماری سرکار والاتبار کی فوج میں لفٹننٹ کرنل ہیں۔ تبدیل ہو کر پونا جا رہے تھے۔ اور ان کی رخصتی دعوتوں کا سلسلہ کئی ہفتے پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔ یہ پرویزؔ رومانی صاحب جو تھے یہ ترقی پسند شاعری کرتے تھے اور محکمہ سپلائی میں ملازم ہونے سے قبل سبھاش بوس کے چیلے بھی رہ چکے تھے۔

اور دوسرے دن سہ پہر کے بعد ’’ کافی ہاؤس‘‘ میں فوجی افسروں کے علاوہ پرویزؔ صاحب کے ’’کامریڈز‘‘ یعنی ترقی پسند مصنفین جمع ہونے شروع ہوئے___ ڈھیلی ڈھیلی پتلونیں۔ لمبے لمبے بال___ سیاہ فریم کی عینکیں۔ انگلیوں میں پائپ یا سگریٹ اور کھدر کے پاجامے۔

اور جب چائے ختم ہوئی تو جہلم پار کے ایک نوگرفتار لفٹننٹ بولے۔’’جی کچھ گانا شانا نہیں ہونا ہے۔؟‘‘ اس پر ایک ترقی پسند ادیب نے میری خالہ زاد بہن فرخندہؔ سے فرمایا۔ ’’جی آپ لاہور سے آئے ہیں۔ ایک آدھ ڈھولک کا گیت سنا دیں۔ یہ ڈھولک کے گیت کس قدر حسین اور ستارہ بار ہوتے ہیں۔‘‘ اور میرا جی چاہا کہ اس کی اس سرخ اور لمبی ناک پر ساری چائے دانی انڈیل دوں۔

اتنے میں ہال کے دوسرے سرے میں نئے ادب کی افادیت پر نہایت شدومد سے بحث شروع ہو گئی۔ پیامؔ مرغی شہری فرما رہے تھے ’’جناب ہم ترقی پسند نوجوانوں نے اپنے لیے ایک نئی راہ نکالی اور ہماری خوب صورت نظموں اور افسانوں نے اردو کے دقیانوسی اور سرمایہ داروں کے ادب میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ ہمارا ایک نوجوان شاعر اپنی ایک بلند پایہ نظم میں کہتا ہے ؎

یہ کس نے لاش پھینک دی جوانیوں کی راہ میں

بڑھے چلو، بڑھے چلو، تباہیوں کی راہ میں

علی جرار صابری نے ارشاد کیا۔ اسی کے متعلق میں نے کہا ہے کہ ؎

مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں

غموں کے ناخداؤں کا سفینہ ڈگمگاتا ہے

خالو جان بے چارے خاموش بیٹھے سگار پی رہے تھے۔ پیام مرغی شہری نے پھر کہنا شروع کیا___ ’’تو گویا کہ کامریڈز___ ’’ادب برائے حیات‘‘ نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ اب ہندوستان کو اس ادب کی ضرورت نہیں جو سرمایہ داروں کے سجے ہوئے ایوانوں میں جنم لیتا ہے۔ بلکہ اب ہمیں ایسا ادب چاہئے جو جنتا کی دل کی دھڑکنوں کا آئینہ دار اور مزدوروں کے اندھیرے جھونپڑوں کا باسی ہو۔ اور جو جیل کی آ ہنی سلاخوں کے پیچھے چھپی ہوئی مضطرب چیخوں کی نمائندگی کرسکے___ ‘‘ اتنے میں ڈبلیو، اے، سی کی ایک اینگلو انڈین لڑکی نے پیامؔ صاحب کو آئس کریم پیش کی۔ اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ’’کافی ہاؤس‘‘ کا آرکیسٹرا تیزی کے ساتھ بج رہا تھا۔

ہال کے ستون کی دوسری طرف ایک نہایت ترقی پسند افسانہ نگار عظمتؔ چنگیزی خالو جان سے باتیں کر نے میں مصروف تھے۔ اور وہ بے چارے بھی ان سے ’’نئے ادب‘‘ پر گفتگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پام کے گملوں کے پیچھے ہال کے ایک گوشے میں فرخندہؔ اور پدماؔ میرے ساتھ بیٹھی چاکلیٹ کھا رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں دو ترقی پسند ادیب ہمارے قریب کی میز پر آ کر بیٹھ گئے___ ان کے نام مجھے یاد نہیں آ رہے___ اور ان میں سے ایک نے فرخندہؔ سے پوچھا۔ ’’آپ نے میرے تازہ ترین افسانے ’’پیٹی کوٹ‘‘ اور ’’توہین‘‘ ملاحظہ فرمائے ہوں گے؟‘‘۔ فرخندہ نے صاف جھوٹ بول دیا۔ ’’جی ہاں بہت عمدہ ہیں وہ‘‘۔ حالانکہ خالو جان کے ساتھ بچپن سے انگلستان میں رہنے کی وجہ سے اس کو اچھی طرح اردو پڑھنا بھی نہیں آتا۔ دوسرے ادیب نے مجھ پر عنایت کی۔ ’’جی آپ نے ’’چھپر‘‘ تو ضرور پڑھا ہو گا؟‘‘ گویا میری زندگی کا واحد مقصد ’’چھپر‘‘ پڑھنا ہی تھا۔ لیکن مجھے بھی فرخندہ کی تقلید کرنی پڑی۔‘‘ آپ کے افسانے تو مجھے بہت پسند ہیں۔‘‘ اور اب انہوں نے کہنا شروع کیا۔ ’’بات یہ ہے محترمہ کہ ادب اور زندگی کے متعلق میرا تخیل طوفانی راتوں میں ایک جھونپڑے میں رکھے ہوئے ٹمٹماتے چراغ کے مانند ہے۔ کھیتوں کی پگڈنڈیاں۔ گلیوں کی کچی دیواروں کے سائے۔ پنگھٹ کے کنارے۔ ان تمام چیزوں میں سیکڑوں ترقی پسند افسانے پوشیدہ ہیں۔ چنانچہ میرے سنہری حاشیوں والے دھندلے دھندلے خواب خاموش پتواروں کے پاس جنم لے کر کہانیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ___‘‘

میں ان کی اس تقریر کوسمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ پرویزؔ رومانی ہماری طرف آتے نظر آئے۔ اور قریب آ کر کہنے لگے۔’’اوہو! اس آتشیں کتاب ’’شرارے‘‘ کے مصنفین ابھی تک نہیں آئے۔ ٹھیریئے میں فون کرتا ہوں ___ ‘‘ اور پام کے گملوں کے سامنے بیٹھے ہوئے ایک ترقی پسند شاعر نے گنگنانا شروع کیا۔

یہ کس نے فون پر دی سال نو کی تہنیت مجھ کو

تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے

اور ان کے ایک ’’کامریڈ‘‘ نے پرویزؔ صاحب سے کہا۔ ہمارے ان شعلہ بیان مصنفوں میں سے آج شاید کوئی بھی نہ آسکے گا۔ کیونکہ ان میں سے ایک کو تو گورنمنٹ آف انڈیا میں ایک اعلیٰ عہدہ مل گیا ہے اور باقی ہندوستان کو آزاد کرانے میں مصروف ہیں۔‘‘

ہم سے کچھ دور کیپٹن و بیگم قریشیؔ بیٹھی تھیں۔ ہم اٹھ کر ان کے پاس چلے گئے۔ بدقسمتی سے چار پانچ کمیونسٹ اور اشتراکی قسم کے ادیب وہاں بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک کیپٹن قریشی سے کہہ رہے تھے۔’’یہی وجہ ہے کیپٹن صاحب کہ اب ہم زندگی کو ہر ترقی پسند زاویہ نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ہماری جنتا کو اس وقت ’’پیٹی کوٹ‘‘ اور ’’رضائی‘‘ وغیرہ قسم کے حسین افسانوں کی بے حد ضرورت ہے___‘‘اور جب وہ اپنا پائپ جلانے کے لیے رکے تو دوسرے ادیب نے کہنا شروع کیا۔ ’’ قصہ مختصر یہ کہ ہم ایک ایسے سنسار کے باسی ہیں جہاں بھوک ہے۔ محنت ہے۔ افلاس ہے۔ ظلم وستم ہے۔ حکومت کا استبداد ہے۔ آنسو ہیں اور آہیں ہیں۔ ہمارے نوجوان شعرا بھی اسی دنیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چنانچہ میں پیامؔ مرغی شہری سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی معرکۃ ا لآرا نظم ؎

سرخ و سیہ صدیوں کے سائے تلے

آدم و حوا کی اولاد پر کیا گزری ہے

سنا کر ہمیں محظوظ کریں ___‘‘ لیکن پیامؔ صاحب میزبان سے اجازت لیے بغیر شاید مس مارگریٹ رولینڈ کے ساتھ سنیما دیکھنے جا چکے تھے۔ اس لیے ان ادیب صاحب نے خود ہی اپنی ایک شاہکار نظم پڑھنی شروع کی ؎

دوپہر کی گرم لُو میں زرد پتیاں ویران سڑکوں پر یوں

اڑ رہی ہیں جیسے

میرے بھولے ہوئے خواب

یا کسی بھوکے مزدور کی آہیں جو

پانی کے نل کے پاس بیٹھا باسی چنے کھا رہا ہے۔

میرے سر میں ہلکا ہلکا درد پھر ہونے لگا تھا___ ’’واہ واہ‘‘ کے شور سے ہال گونج اٹھا۔ پھر ایک اور شاعر نے جو اب تک آرکیسٹرا میں پیانو بجانے والی لڑکی کے ساتھ بیٹھے کافی پی رہے تھے، اپنی نظم سنائی ؎

خوابوں کے دھندلے جزیروں کے اس پار

دور شفق کے رنگین کناروں میں کھوئے ہوئے خیالوں کی طرح

جب کلاس روم میں خاموش بیٹھا ہوتا ہوں میں

تو باہر گھاس کھودنے والی مزدور لڑکی کی چوڑیوں کی جھنکار

سن کر مجھے

غلام آباد ہندوستان کا خیال آتا ہے اے دوست

اور میں سوچتا ہوں کہ بپا کروں

ایک خونی انقلاب

یا پھر جمنا کی بے تاب لہروں کو چیر کے

افق سے جا ٹکراؤں

نوکری ملتی نہیں ہے مجھ کو اس لیے

نئے ادب کی شاعری کا عارضہ ہوا

ہے لاحق

کاش میں ہوسکتا داخل ایمرجنسی کمیشن میں

گر نہ ہوتا مجھے خیال اے دوست تیرا

میرے سر میں درد بہت زور سے شروع ہو گیا۔ میں نے پریشان ہو کر ممی کو دیکھا اور میزبان سے معذرت چاہ کے باہر کار میں آ کر لیٹ گئی اور اس رات خواب میں مجھے یہ معلوم ہوا جیسے بہت سے ترقی پسند ادیب اپنے حسین افسانوں اور خوب صورت نظموں سمیت میرے کمرے پر دھاوا کر رہے ہیں۔ تاکہ جنتا کی حالت سدھرے۔ اور غلام آباد ہندوستان کو آزادی نصیب ہو جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ باتیں

 

 

میرے دماغ میں اتنے بہت سے خیالات تیزی سے رقص کر رہے ہیں __ یہ بے معنی اور بے سروپا باتیں __ نہ معلوم میرے چھوٹے سے سر میں اتنی ساری باتیں کیسے ٹھونس دی گئیں __ میرا بے چارہ چھوٹا سا سر __ بالوں کی سیاہ لٹوں میں لپٹا ہوا __ میرے سیاہ بال اور نیلی آنکھیں بہت پسند کی جاتی ہیں __ ڈینیوب کے نیلے پانیوں کی طرح جھلکتی ہوئی آنکھیں ___ڈینیوب اور والگا __ اطالوی اور روسی تاکستانوں کے گھنے سائے اور سیب کے درختوں کے جھنڈ __ رومان __ زندگی __

لیکن میری زندگی پر بڑی قنوطیت سی چھائی جا رہی ہے۔ شاید موسم بدل رہا ہے اس لیے __ بے مزہ اور پھیکی پھیکی ہوائیں ہیں کہ چلے جا رہی ہیں __ پت جھڑ ختم ہونے ہی میں نہیں آتی۔ یہ ویران سبزہ گاہیں اور سڑکوں پر خاموشی سے چکر کاٹتے ہوئے بگولے __ یہ صحرائی جھونکے جب اپنے دامن میں شاہ بلوطہ اور شہتوت کے خشک پتوں کو سمیٹے ہوئے میرے دریچے کے سامنے سے گزرتے ہیں تو مجھے بڑے زوروں سے غصہ آ جاتا ہے __ نہ معلوم بہار کب آئے گی!

گذشتہ موسمِ گل میں تو ہمارا گھر گہرے نیلے اور قرمزی رنگ کے پھولوں کی گنجان بیلوں میں بالکل چھپ گیا تھا اور باغ میں شہد کی مکھیاں خوب اونچے سُروں میں بھنبھنایا کرتی تھیں اور خالد ٹینس کھیلتے کھیلتے سیٹیاں بجانی شروع کر دیتا تھا __ لیکن بھئی مجھے اس سے کیا!

رضیہ مجھ سے ایک دن کہہ رہی تھی کہ تم کتابیں و تابیں بہت پڑھتی رہتی ہو اسی لیے تمہارا دماغ خراب ہو چلا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے ہندوستان کو رومان کی ضرورت نہیں۔ اُسے روٹی چاہئے __ ٹھیک تو ہے __ ہا! بے چارہ کلرکوں اور مزدوروں کا ہندوستان۔ لیکن میں اکیلی بھلا کیا کرسکتی ہوں اس کے لیے!

پچھلے نومبر کی ایک سرد رات __ سنیما سے واپسی پر خالد نے میرا تعارف ایک بہت اچھے سے انسان سے کرایا اور میرا خیال ہے کہ پہلی ملاقات میں ہی میں نے اسے بے حد پسند کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے اسے چائے پر بُلایا۔ لیکن نہ معلوم وہ کیوں نہیں آیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بہت رات گئے تک برآمدے میں بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہی تھی __ کہرہ اور دھند لکا بڑھتا جا رہا تھا اور بارش شروع ہو گئی تھی۔ سامنے سڑک پر بڑی بڑی موٹریں کیچڑ کے چھینٹے اڑاتی ہوئی نکلی چلی جا رہی تھیں اور ان کی پچھلی سرخ روشنیاں تھوڑی دور تک نظر آنے کے بعد دھندلکے میں غائب ہو جاتی تھیں۔ لیکن وہ آیا ہی نہیں اور مجھے اتنی دیر تک ٹھنڈ میں موجود رہنے کی وجہ سے زکام بھی ہو گیا۔ اس رات کھانے کی میز پر رضیہ نے مجھے بتایا کہ میں بہت زیادہ بے وقوف ہوں۔

چند روز بعد وہ مجھے ایک کافی ہاؤس میں ملا۔ میں نے اس سے کہا کہ ٹی پارٹی پر میں نے اس کا بہت انتظار کیا۔ شاید بارش کی وجہ سے راستے میں موٹر خراب ہو گئی اس لیے وہ نہ آسکا ہو گا۔

’’ میرے پاس موٹر نہیں ہے۔‘‘ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔

’’ تو آپ نے مجھے فون کر دیا ہوتا، کار بھیج دیتی۔‘‘

’’ میرے پاس فون بھی نہیں ہے۔‘‘

__ ہا بے چارہ آدمی! __ کار اور ٹیلی فون کے بغیر کیسے زندگی گزارتا ہو گا۔ میرے دل میں اس کے لیے بے انتہا ہمدردی پیدا ہو گئی۔

اور پھر ہم دونوں میں دوستی ہو گئی۔ اس کے دماغ میں بھی ایسی باتیں ٹھنسی ہوئی تھیں جنہیں انگریزی میں ideas کہتے ہیں۔ اس نے مجھے چند کتابیں پڑھنے کو دیں __ ان میں روٹی اور زندگی کے متعلق بہت ساری باتیں لکھی ہوئی تھیں جنہیں میں سمجھ ہی نہ سکی۔ وہ مجھے۔ ’’ ماری انطونی‘‘ کہا کرتا تھا۔ اسے مصوری بھی آتی تھی اور میں نے اسے بتایا تھا کہ مجھے لمبے لمبے بالوں والے پائپ پیتے ہوئے آرٹسٹ بالکل چغد لگتے ہیں۔

اس کی باتیں بے حد دل چسپ ہوتی تھیں اور میرا دل چاہتا تھا کہ کشنوں کے سہارے بیٹھ کر انہیں سنتی رہوں یہاں تک کہ اس کے سگریٹ کا دھواں ساری کائنات کو اپنے حلقوں میں جکڑے اور پھر میں صوفے پر بیٹھی بیٹھی اتنے زور سے ٹھوکر لگاؤں کہ یہ احمق اور بے تُکی سی دنیا لڑھکتی ہوئی دور چلی جائے اور پھر بہت اچھی اچھی سی باتیں ہوں جو نہیں ہوسکتیں اور سب چیزیں ٹھیک ٹھیک ہو جائیں۔

وہ ہمارے یہاں بہت کم آتا تھا۔ نہ معلوم کیوں۔ آخری مرتبہ وہ چچا میاں کے پاس کسی کام سے آیا۔ چچا میاں وائے سرائے گل لاج کی پارٹی میں گئے ہوئے تھے۔ وہ باہر ہی سے واپس جا رہا تھا لیکن میں نے اسے اندر بلالیا۔ ہم دونوں کافی دیر تک آتش دان کے پاس بیٹھے رہے۔ جگمگاتا ہوا ڈرائنگ روم __ نرم و گرم صوفے اور قالین __ قہوے کی پیالیوں میں سے اٹھتی ہوئی بھاپ __ اور ریڈیو کی ہسپانوی موسیقی __ مجھے اس وقت اپنا گھر اور زندگی بے حد پیاری اور عزیز معلوم ہو رہی تھی اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ کاش اس کو بھی اتنی ہی راحت اور خوشی محسوس ہوسکے۔ مجھے یقین تھا کہ ساری دنیا میری طرح خوش و خرم ہے اور چند روز بعد سنیما ہال سے باہر نکلتے ہوئے میں نے سنا کہ اس کو شاید نمک کے محکمے میں نوکری مل گئی ہے اور وہ کہیں اور چلا گیا ہے۔ سویا سوا سو روپے کی نوکری __ اور میں سوچنے لگی کہ شاید خدا نے دنیا اسی لیے بنائی ہے کہ اس میں سو روپے کی کلرکی کی جائے اور بس۔

لیکن جب میری پیکارڈ سڑک پر ٹھہرے ہوئے بارش کے پانی کو زنّاٹے سے چیرتی ہوئی، جگمگاتی تفریح گاہوں کے سامنے سے گزر رہی تھی تو میں نے سوچا کہ جس نظام کے ماتحت ہماری زندگی رواں ہے اسے میں بدل نہیں سکتی۔ تھوڑا ہی سکتی ہوں، جو ہو رہا ہے اور ہوتا آیا ہے وہی ہو گا۔ بھئی خالد جو امپیریل سروس میں آ گیا ہے تو اس لیے کہ چچا میاں ’’ نائٹ‘‘ ہیں __ اور وہ _ وہ _افوہ__

اور موسمِ خزاں پھر آ گیا۔ رات میں اپنے ڈریسنگ روم کے دریچے سے باہر دیکھ رہی تھی۔ سڑک کے لیمپوں کی مدھم روشنیوں میں بھیگی ہوئی چھتوں اور گیلے کھمبوں کا غیر دل چسپ سا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا __ جس طرح میری زندگی ایک خاموش ہمواری اور یکسانیت سے گزرتی چلی جا رہی ہے۔

لیکن اچھے سے آدمی! میں اب تک تمہیں بھولی نہیں ہوں __ شاید اگلے موسمِ بہار تک بھول جاؤں __ پر بہار کب آئے گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

ارادے

 

 

اتوار کی ایک معمولی سی دوپہر۔ یعنی نہ کچھ زیادہ رنگین اور رومانوی اور نہ بالکل غیر دل چسپ___ ہم بے چاری لڑکیاں امرود کے ایک گھنے درخت کے نیچے قالین پر بیٹھی جمائیاں لے رہی تھیں۔ نیند تھی کہ خواہ مخواہ چلی آ رہی تھی اور ایک دوسرے سے لڑنے کو دل چاہ رہا تھا۔ اب یہ میں کیوں بتاؤں آپ کو کہ جب اس وقت اچھی خاصی طرح کمرے میں بیٹھ سکتے تھے تو ہمیں درخت کے سائے میں بیٹھنے کی کیا خاص ضرورت پیش آئی تھی۔ لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ آج کل لڑکیاں حد سے زیادہ رومان پسند ہوتی جا رہی ہیں اور آم کے تنے سے ٹیک لگا کر چارلس بوایئر کے فلموں اور غوث محمدؐ کے تازہ ترین ٹینس میچ پر تبصرہ کرنا ان کے لیے بے حد ضروری ہے۔

چاکلیٹ کھاتے ہوئے ہم لوگ بھی اسی قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ روس۔ مذہب، فلسفہ۔ بالی ووڈ، کیوٹکس کے رنگوں کا انتخاب۔ انڈیا گیٹ کے معرکوں کا ذکر خیر۔ یہ کہ فرخ پیاری جو شیفون کل تم لیلا رامؔ کے یہاں سے لائی ہوئی ہو اس پر کس طرح کی Piping کرو گی اور ہائے ڈوکی پرویز کے کوہاٹ جانے کے بعد شاہد کو میں نے تین مرتبہ وینگرز میں زرینہ کے ساتھ دیکھا۔ اس قدر غضب کا اسمارٹ لگ رہا تھا کہ کیا بتاؤں۔

زبیدہؔ دنیا سے قطعی بے زار ایک طرف کو اکڑوں بیٹھی لکڑی سے مٹی میں گڑھا کھودتے ہوئے شاید مسائل تصوف کے حل میں مصروف تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ اب وہ سب سے الگ تھلگ جنوبی فرانس کے مرغ زاروں میں ایک انگوروں کی بیل سے چھپی ہوئی شاخوں میں رہا کرے گی۔ پیانو بجائے گی۔ تصویریں بنائے گی۔ مختصر یہ کہ بالکل کسی الف لیلوی شہزادی کی سی زندگی بسر کرے گی اور یہ کہ اب اسے عزیزؔ یا کسی اور گدھے کی ذرا بھی پروا نہیں۔ کیونکہ وجہ یہ تھی کہ زبیدہ کو اسی دن صبح خالہ جان کی میز پر پڑا ہوا ایک خط مل گیا تھا۔ جس میں اسی گدھے عزیز نے یعنی زبیدہؔ کے سابق منگیتر نے اپنے کسی دوست کو یہ لکھا تھا کہ صاحب مجھے اس قسم کی لڑکیوں سے تو ڈر لگتا ہے جو سر پر پگڑی سی لپیٹ کر اور پتلون پہن کر امریکن وضع کی انگریزی بولتی ہوں اور یہ کہ میں تو ایک ایسی سیدھی سادی گھریلوسی لڑکی سے شادی کر رہا ہوں جو اس سال پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان دینے والی ہے۔ جو موزوں میں رفو کرنے کے علاوہ مرغ مسلم اور پلاؤ پکانا بھی خوب جانتی ہے۔

لیکن ابھی تک میں نے اس قسم کا کوئی ارادہ نہ کیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ابھی دنیا کو میری کافی سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور اسی سلسلے میں مجھے بہت سے کام کرنے باقی تھے۔ ایک تو یہ کہ اپنی نئی ٹشو کی ساری میں بارڈر لگانا تھا اور دوسرے پرویز کو فون کرنا تھا کہ ہال سرمینسؔ کا میچ دیکھنے کے لیے چلے۔

ہم سب چپ چاپ بیٹھے امرودوں کو گن رہے تھے کہ خالہ اماں نے باورچی خانے کے برآمدے میں سے آواز دی۔ ’’لڑکیو! خالی بیٹھی کیا کر رہی ہو؟ منشی گردھاری چرن کو پرچہ لکھ دو کہ صبح سے میں نے فیضو کو کوپن دے کر موہن اسٹورز آم اور شکر لینے کے لیے بھیجا ہوا ہے۔ اب تک انہوں نے کیوں نہیں بوریاں بھجوائیں۔ سوا دو روپے من تو کوئلہ دے رہے ہیں، اللہ مارے_____ ‘‘اُف کس قدر غیر رومانوی بات______

خالدہ نے اپنے لمبے لمبے عُنّابی ناخنوں کو دیکھتے ہوئے دھوئیں سے بھرے باورچی خانے میں رکھی ہوئی کوئلے کی بوریوں کے تکلیف دہ تصور کو ایک طرف جھٹک کر پھر رومان کی دنیا میں واپس آنا چاہا۔ اس لیے وہ امرود کا ایک پتا سونگھ کر بولی ’’پرویز کتنا حسین نام ہے۔ بالکل جیسے جہلم کے کنارے کوئی چرواہا الغوزہ بجا رہا ہو۔‘‘

’’واہ! کیا زوردار تخیل ہے آپ کا۔‘‘ میں نے فوراً جل کر کہا۔ ذرا دیکھو تو لڑکی کی باتیں۔ اتھل مینن، کراکا اور ہکسلے کی کتابیں پڑھتے پڑھتے اس کا دماغ خطرناک طور پر چل گیا ہے۔ یہ بے انصافی اور زیادتی ملاحظہ کیجئے کہ میں نے خود ہی خالدہ کا پرویز سے تعارف کرا دیا تھا اور اب کس اطمینان اور بے تکلفی سے وہ فرما تی ہیں کہ جہلم کے کنارے چرواہا الغوزہ بجا رہا ہے___ واہ بھئی۔

ہم پھر خاموش ہو کر جمائیاں لینے لگے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کون سی بات شروع کی جائے۔ جو موضوع بھی گفتگو کا میں چھیڑتی، یقیناً اس میں لڑائی کا کوئی پہلو نکل آتا۔ لہٰذا میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا اور کنکر سے نشانہ لگا کر امرود توڑنے کے مسئلے پر غور کرنے لگی۔

’’کیوں لالہ ڈیریسٹ، یہ عارفؔ کیوں آ رہت ہیں۔ تمہارے یہاں ؟‘‘ فرخ نے مجھے گویا آنے والی جنگ کا الٹی میٹم دے دیا۔

’’کیسا لغو سوال ہے۔ عام طور سے مہمان کیوں آیا کرتے ہیں ؟‘‘ میں نے فیضو کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ جو مہمان کمرے کی صفائی کے سلسلے میں نہایت مستعدی سے انتظامات کرتا پھر رہا تھا۔

’’تو تم شادی کرو گی ان چغد سے؟‘‘

’’ارادہ تو فی الحال ایسا ہی ہے۔‘‘ گویا اب تک جتنے چغد مہمان آئے تھے ان سے شادی کا ارادہ کرنا ایک ضروری بات تھی۔

خاک پڑے تمہارے ارادوں پر۔ کل شام امریتا شیرگلؔ کی تصاویر کی نمائش سے واپسی میں تم بالکل یقین کے ساتھ کہہ رہی تھیں کہ تمہارا ارادہ زندگی بھر بے لوثی سے آرٹ اور قوم کی خدمت کرنے کا ہے۔‘‘

اب میں اسے کیا یاد دلاتی کہ جب تک وہ شاہد سے نہ ملی تھی اس نے کامریڈ احمد سے صدق دل کے ساتھ وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ جنتا کی حالت سدھارے گی۔ اور اس موجودہ قومی اور پولتاری جنگ کو جیتنے کے سلسلے میں کامریڈ اسٹالین کا ہاتھ بٹائے گی اور اب وہ شاہد کے ساتھ مسوری جانے کے پروگرام بنا رہی تھی۔

’’فرخ! نہایت بورژوا ہو تم۔‘‘میں نے خالص ترقی پسند لہجہ میں اس سے کہا۔ اور پھر مجھے اس بے تکے سے لفظ کے استعمال کرنے پر خود ہنسی آ گئی۔ روس کس بری طرح ہم پر چھایا جا رہا ہے۔ میں نے سوچا۔

سیاسی افق پھر غبار آلود ہوتا جا رہا تھا، اس لیے میں نے فیضوؔ کو آواز دے کر چائے منگوائی۔ بدقسمتی سے قریب کے برآمدے میں ماموں جان بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگے تھے اور دو تین دفعہ انہوں نے عینک اتار کر ہماری طرف بھی نظر کی تھی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ بے چاری بچیاں کتنی محنت سے امتحان کی تیاری کر رہی ہیں۔

فرح بورژوا اور پولتاری کی تکرار پر نہایت جوش سے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اب خالہ جان بھی منشی گردھاری چرن کے کوپنوں کا انتظام کرتی ہوئی برآمد ے میں ماموں جان کے پاس آچکی تھیں۔ اس لیے میں نے اچھی اچھی لڑکی بننے کی کوشش کرتے ہوئے ذرا اونچی آواز سے کہا۔

’’خدا کے لیے لڑکیو ان لغویات کے علاوہ کبھی تو اور باتیں بھی کیا کرو۔ اب مثلاً یہ کہ تم تو اتنی قیمتی کیڈ بری چاکلیٹ اپنے کتے کو کھلا رہی ہو اور سرزمین بنگالہ کے سیکڑوں فرزند فاقہ _____‘‘ لیکن یہ تو بے حد پیٹنٹ قسم کا جملہ ہے۔ ہزاروں دفعہ دہرایا جا چکا ہے۔ میں اپنے دماغ پر زور ڈالنے لگی کہ کوئی اور شریفانہ سا تذکرہ چھیڑوں۔ یاد آیا کہ خالہ اماں تہذیب نسواں اور عصمت میں حقو ق نسواں، اصلاح نسواں اور تعلیم نسواں وغیرہ پر بہت مضامین لکھا کرتی تھیں۔ اس لیے___ ہاں تو ذرا اس جفا کا ر سماج کے مظالم پر غور کرو جو بے کس صنف نازک پر ____‘‘ نہیں بھئی یہ بھی نہیں، کچھ اور سوچنا چاہئے۔ ہاں خوب یاد آیا۔ قوم قوم ہماری کس تیزی سے قعر پستی میں گری جا رہی ہے۔ اس ڈوبتی نیّا کو کوئی پار لگانے والا نہیں۔ ہائے قوم۔ وائے قوم۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا_____پاکستان_____بہنو آؤ اور میدان عمل میں کود کر شاہراہ ترقی پر گامزن ہو جاؤ_____ زندہ باد مزدور سبھا_____ زندہ باد___

’’کافی ہاؤس۔‘‘ خالدہؔ نے چپکے سے جملہ پورا کر دیا۔ میں نے چونک کر گھڑی دیکھی۔ سوا پانچ بج چکے تھے اور چھ بجے پرویز نے کافی ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔

اور ہم سب اصلاح قوم اور آزادی ہندوستان کے ارادوں کو ملتوی کر کے تبدیل لباس کے لیے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیودار کے درخت

 

 

نیلے پتھروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی جنگلی نہر کے خاموش پانی پر تیرتے ہوئے۔ دیو داروں کے سائے بیتے دنوں کی یاد کے دھندلکے میں کھو کے مٹتے جا رہے ہیں۔ بھیگی بھیگی سرد ہوائیں چیڑھ کے نوکیلے پتوں میں سرسراتی ہوئی نکل جاتی ہیں اور دیوداروں کے جھنڈ کے پرے اس اونچی سی پہاڑی پر بنی ہوئی سرخ عمارت کی کھڑکیوں کے شیشوں پر چاند کی کرنیں پڑی جھلملاتی رہتی ہیں۔ لیکن کبھی بھول کر بھی۔ "We met in the Valley of Moon” والا محبوب گیت گانے کو دل نہیں چاہتا۔ ناشپاتی اور خوبانی کی جھکی ہوئی شاخوں کے نیچے سہ پہر کی چائے اب بھی ہوتی ہے مگر امی کی نظر بچا کے کچّی خوبانیاں نہیں توڑی جائیں۔ نیچے وادی میں رات کے نو بجے والی ٹرین روز اسی طرح بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے لیکن اس کی آواز سنتے ہی بے تحاشا بھاگتے ہوئے جا کر مسافروں کو شب بخیر کہنے یا روشنیاں گننے کی اب قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ___ یہ سب باتیں فضول اور پرانی ہو چکیں۔

ہمسائی میڈم لورنیزو کی ولا میں سے کبھی کبھی گتار پر ___ Moon light in Havana کی بھولی بسری آواز آ جاتی ہے تو دل جیسے چپکے سے ڈوب جانے کو تیار ہو جاتا ہے اور زرّیں پیانو بجاتے بجاتے تھک کر جمائیاں لینی شروع کر دیتی ہے ___ خوشی اور قہقہوں کے دن واقعی ختم ہو گئے۔ خالدہ، رباب، زرّیں ___ پتہ نہیں سب کو کیا ہو گیا ہے ___ دیوداروں کے درخت___ میڈم لورینزو کی سرخ ناک___ ان کی شاطو کے احاطے میں کھڑی ہوئی بغیر  ٭٭ ارافرڈ ماکپہیوں کی فورڈ۔ باورچی خانے کے پیچھے سفید اور اودے پتھروں پر سے بہتا ہوا پہاڑی نالہ___ یہ سب چیزیں اب بھی ویسی ہی موجود ہیں لیکن نہ جانے کیسا سا لگتا ہے، جیسے ساری کائنات پر ایک تھکی ہوئی اُداسی، ایک بیمار سا جمود طاری ہے۔

اس رات ___ باورچی خانے کی سرخ ٹین کی چھت پر بہت دیر تک بارش کے قطرے ٹپ ٹپ گرتے رہے۔ جی چاہ رہا تھا کہ باتیں کریں مگر چپ چاپ، بظاہر نہایت انہماک سے ایک کونے میں صوفے پراکڑوں بیٹھی ڈی ایف کراکا کی Just Flesh پڑھتی رہی۔ رباب اس قدر تن دہی سے دوسرے کونے میں رکھے ہوئے بجلی کے چولہے پر اخروٹ کی ٹافی بنانے میں مصروف تھی گویا اس وقت اس سے زیادہ اہم کام دنیا میں اور کوئی نہ تھا۔ زرّیں صبح میڈم لورینزو کے یہاں سے ایک نئی ٹیون سیکھ کر آئی تھی اور بار بار اسی کو بجائے جا رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر آج برف پڑتی تو کتنا مزہ آتا!

ہم چاروں ایک دوسرے سے بے زار اور روٹھے بیٹھے تھے۔ اتنے میں آڑو اور چنار کی ٹہنیوں سے الجھتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اس زور سے کمرے میں داخل ہوا کہ سارے دریچے پٹ سے کھل گئے اور ہمارے جسموں میں سردی کی ایک کپکپاتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔

’’ ذرا اٹھ کر سامنے والا دروازہ تو بند کر لو جان۔‘‘ خالدہ نے کتاب پر سے نظر اٹھائے بغیر مجھ سے کہا۔ ہم سب اپنے خیالوں میں اتنے کھوئے ہوئے تھے کہ ہوا کی بدتمیزی پر واقعی غصہ آ گیا۔

میں نے رباب کی طرف رخ کر کے بڑے پیار سے کہا : ’’ گڈو! تم تو دروازے کے اتنے قریب کھڑی ہو، ہاتھ بڑھا کر ذرا بند کر دو___ میں یہاں سے اٹھ کے سارا کمرہ عبور کروں، کس قدر طوالت ہو گی۔

رباب نے بڑی بے نیازی سے مڑ کر دروازہ بند کیا اور بادام توڑنے میں مشغول ہو گئی۔ خالدہ نے کتاب کے ڈسٹ کور کو اتار کر پھر سے چڑھانا شروع کر دیا۔ زرّیں موسیقی کی کتاب کے ورق الٹ پلٹ کر نہ جانے کون سا گیت ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

بارش کی بوچھار سے دریچوں کے شیشوں پر پانی گر کر نیچے پھسل رہا تھا۔ شیشوں کی جھلملاتی ہوئی سطح پانی کی آڑی سیدھی لکیروں سے دھندلی ہوتی جا رہی تھی اور اس دھندلکے میں باہر کا منظر عجیب پھیلا پھیلا اور غمگین سا دکھائی دے رہا تھا۔ تپائی پر جھپتال کی گت بجاتے بجاتے خواہ مخواہ میرا دل چاہا کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر ان شیشیوں کو چھولوں۔ ٹھنڈے ٹھنڈے کیسے اچھے لگیں گے۔ بالکل آئس کریم جیسے ___برف کی طرح سفید اور نیلے یونیفارم اور اودے کہرے میں سے جھانکتے ہوئے ستارے اسٹارز اینڈ اسٹرائیپس___ اخروٹ کی ٹافی___ دھن دھن دھاگے ترکٹ تو ناکٹ دھن ترکٹ دھنا___ اودے شنکر اور رام گوپال دھی نا دھی، دھی نا___ ریڈ کراس ویک منا نے کے لیے رنک میں جو منی پوری ناچ ہوا تھا کتنا اچھا تھا۔

زریں نے پیانو کے پردوں پر زور سے انگلیاں پٹک کر ایک بڑی رومینٹک سی جمائی لی۔ ٹپ ٹپ ٹپ۔ بوندوں کی ناگوار آواز اب مدھم پڑتی جا رہی تھی۔

’’ باتیں کرو گی؟‘‘ رباب نے اطمینان سے انگلیوں پر لگا ہوا قوام چاٹ کر پوچھا خالدہ نے کتاب بند کر کے قالین پر پھینک دی۔

’’ رِنک چلتی ہو بچیّو! ‘‘ میں نے سوچا کہ ایسے پیارے موسم میں اگر جاوید کے ساتھ اسکیٹنگ یا آئس ہاکی کھیلی جائے تو بس جنت کا مزا آ جائے۔

’’ میں بھلا کیسے چلوں گی۔‘‘ خالدہ نے بڑے اسٹائل سے شال اپنے گرد لپیٹی اور سر پیچھے ڈال کر دھندلے شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔ بے چاری کو ایک ہفتے سے ہلکا سا فلو ہو گیا تھا۔

’’ ہاں بھلا کیسے چل سکتے ہیں۔ گڑیا خالدہ کیسے جائے گی۔‘‘ زریں نے بے انتہا ہمدردی کے ساتھ کہا۔

’’ باتیں کریں ‘‘۔ رباب بولی۔ سب کا موڈ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا جا رہا تھا۔ ’’ قہوہ پیو گی پیاری۔‘‘ رباب لیڈی ارون کالج میں رہ کر بہترین قسم کی House wife بنتی جا رہی تھی۔ جذبی کی ایک نظم گنگنا کر وہ ٹافی کو ٹھنڈا کرنے لگی۔

’’ میڈم کے بڑے لڑکے کو دیکھا جو کل ہی یہاں آیا ہے۔ کس قدر بے تکی سنہری سنہری مونچھیں ہیں اس کی۔ ‘‘ زریں نے کہا۔ خالدہ بہت ہی بیمار انداز سے وکس سونگھتے سونگھتے آنکھیں بند کر چکی تھی۔ مونچھوں کا ذکر ہوتے ہی مجھے خالد کا خیال آ گیا۔ بے انتہا اسٹائلش۔ رانلڈ کالمین ٹائپ مونچھوں کا مالک۔ توبہ۔ کیا واہیات بات ہے۔

’’ ریڈکراس دیک ختم ہونے والا ہے۔ ہم نے لیڈی مودی سے وعدہ کیا تھا کہ اتوار کے دن سے قبل کمبل تیار کر دیں گے۔‘‘ میں نے گفتگو کا رخ جلدی سے دوسری طرف پھیر دیا۔

’’ اگر بارش یوں ہی ہوتی رہی تو کل جاوید بھی نہ آسکے گا۔‘‘ زریں بولی۔

’’ یہ جاوید کا اس وقت کیا ذکر تھا؟‘‘ خالدہ نے فوراً آنکھیں کھول کر پوچھا۔

’’ رباب ہی نے تجویز کی تھی کہ باتیں کی جائیں۔‘‘ زریں بگڑ کر پیانو پر جھک گئی۔

’’ ان کمبلوں کے ساتھ کی عنابی اون ہی نہیں مل رہی ہے۔‘‘ میں نے صلح کرنی چاہی۔

’’ یہ جاوید کو کل خاص طور سے کیوں مدعو کیا گیا ہے۔ ‘‘ خالدہ نے عنابی اون نہ ملنے کی مطلق پروانہ کرتے ہوئے پھر پوچھا۔ ہم چاروں میں وہ سب سے بڑی تھی۔ اور امّی کی عدم موجودگی میں ہمیں chaperon کرنے کا کام اس کے سپرد تھا۔

’’ کل ہیک مین میں وکٹری بال ہے۔ہم اس کے ساتھ جائیں گے۔ تم مت جانا ڈیر۔ زکام بڑھ جائے گا۔‘‘ زریں نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا۔

’’ تمہیں معلوم ہے زریں تاج بیگم امّی اس چیز کو ہر گز پسند نہیں کریں گی۔ کیا میڈم کے ساتھ وکٹری بال میں نہیں جا سکتیں۔‘‘ خالدہ وکس کی شیشی میز پر پٹخ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’ میری پیاری سینوریتا، غالباً آپ کو معلوم ہو گا کہ میں آپ سے صرف گیارہ مہینے چھوٹی ہوں۔ اور آپ مجھے ڈانٹنے کے کسی قانونی حق کی مالک نہیں۔ اور یہ کہ جاوید کی نیلی آنکھیں یا اس کے ساتھ آئس ہاکی کے میچ مجھ پر قطعی کوئی خطرناک اثر نہیں کرسکتے۔ اور یہ بھی کہ جاوید نے جو تصویر بھیجی تھی وہ صرف آپ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہم چاروں کے لیے تھی۔ اور اسے آپ اپنی خواب گاہ میں سجا کر بہت سخت قانونی غلطی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اور یہ کہ ___ ‘‘ زریں کا جملہ ابھی پورا نہ ہوا تھا کہ خالدہ تیزی سے شال لپیٹتی اپنے کمرے کی طرف جا چکی تھی۔

اس رات سے دو ہفتے قبل ہمارا کراؤن پرنس کھو گیا تھا۔ ہم چاروں اسے تلاش کرتے ہوئے نالے کو پھلانگ کر نیلے پتھروں والی پہاڑی پر چڑھ گئے۔ پہاڑی پر بنی ہوئی سرخ گول عمارت کے پیچھے جو گھاس کا ڈھلوان قطعہ ہے اس کے آخری سرے پر کراؤن پرنس کی ہلتی ہوئی دم کا سیاہ دھبّہ نظر آ گیا اور ہم سیٹیاں بجاتے اس کی طرف دوڑے___ اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس سرکاری لیباریٹری کے احاطے میں، جہاں جنگ کے سلسلے میں ریسرچ اور جانے کیا کیا ہوتا ہے، بغیر اجازت داخل ہونے کی سخت ممانعت ہے۔ بھاگتے میں خالدہ کے ہاتھ سے Dog’s Biscuits کا ڈبہ کہیں گر گیا اور وہ تھک کر ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ ہم کراؤن پرنس کو بلاتے بلاتے پریشان ہو گئے لیکن نہ جانے وہ کہاں غائب ہو چکا تھا۔ زریں نے زور سے سیٹی بجائی۔ معلوم ہوا کہ جواب میں لان کے دوسرے حصے سے سیٹی بجا کر کتّے کو کوئی اپنی طرف بلا رہا ہے۔ بارش ہو کر ابھی رکی تھی اور ہلکی سی گیلی گیلی دھوپ میں دیوداروں کے سفید تنے اور نیلے پتھر تیزی سے چمک رہے تھے۔ زریں، رباب اور میں بھیگی ہوئی ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس اور نیلوفر کے پودوں کو روندتے ہوئے نیچے کی طرف بھاگے۔ اتنے میں دور ڈھلوان کے دوسرے سرے پر سے دو سفید سے دھبّے ہماری جانب بڑھتے نظر آئے۔ قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ دو بہت خوب صورت آدمی ہیں جنہوں نے سفید ایپرن باندھ رکھے تھے۔ ان میں سے ایک کی آنکھیں نیلی سی تھیں۔ ہمارے پاس آ کر وہ رُک گئے۔ ابھی وہ دونوں کچھ کہنے ہی والے تھے کہ مجھے ایک دم کچھ یاد آ گیا اور میں نے سیاہ اسکارف میں بالوں کو لپیٹتے ہوئے پوچھا:

"Are we tress passing?”

’’ اجی بالکل نہیں ___ آپ کے کتّے کو بلا  ور دوں۔‘‘ نیلی آنکھوں والے نے نہایت بے تکلفی سے کہا۔ پھر اس نے زور سے سیٹی بجائی اور کراؤن پرنس نہ جانے کدھر سے بھاگتا ہوا آ گیا۔

’’ ___ ہا میری جان کا ٹکڑا ‘‘ رباب نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔

بے چارا رات بھر بارش میں بھیگنے کی وجہ سے بیمار ہو گیا تھا۔ ابھی میں نیلی آنکھوں والے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے خوب صورت سے الفاظ سوچ رہی تھی کہ پیچھے سے خالدہ کی آواز آئی : ’’ بچیو! اب واپس چلو۔ مالی کو بھیج کر ڈھونڈوا  re we tress passingلیں گے‘‘

اور خالدہ جب ہمارے پاس پہنچی تو یہ دیکھ کر یقیناً جل بھن کر رہ گئی کہ کس قدر رومینٹک جگہ پر، دیوداروں کے سائے میں جھکے جھکے بادلوں کے نیچے، دو بہت ہی زیادہ ڈیشنگ قسم کے لڑکے ہم سے اپنا تعارف کرا رہے ہیں۔ جاوید نیلی آنکھوں والا اور اجیت گھوش دوسرا۔ دونوں آئی۔ ایم۔ ایس میں تھے اور چند ہی روز ہوئے ان کا تبادلہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہوا تھا جہاں وہ ملیریا اور مچھروں وچھروں کی تحقیقات کر رہے تھے۔

’’ کسی روز ہمارے یہاں تشریف لائیے۔ ہم نہر کے اس پار سرخ چھت والی شاطو میں رہتے ہیں۔‘‘ خالدہ نے امّی کی قائم مقام کی حیثیت سے اُسے مدعو کیا اور جب ہم گھر واپس آ رہت تھے تو زریں نے چپکے سے کان میں کہا: Perfect heat throbs. اور خالدہ کو ٹھنڈ میں نکلنے کی وجہ سے زور سے چھینک آ گئی۔

بارش پھر شروع ہو چکی تھی۔ اگلا دن ڈرائنگ روم کے دروازے بند کر کے آتش دان کے پاس کراؤن پرنس کا علاج کرانے میں گزرا۔ شام کو جاوید کراؤن پرنس کی مزاج پرسی کے لیے آیا اور ہم سب بہت دیر تک اس سے باتیں کرتے رہے۔ بے چارا صبح سے شام تک لیباریٹری میں گھسا ریسرچ کیا کرتا تھا۔ چلتے وقت اس نے خالدہ سے کہا کہ وہ اس کے زکام کے لیے ایک بہت عمدہ دوا بھجوا دے گا۔ پھر ایک دن اس نے ہم کو لیباریٹری کی سیر کروائی اور ایک ایک چیز کی ماہیت، اثرات اور نہ معلوم کیا کیا الّم غلّم سب تفصیل سے سمجھاتا رہا۔ ہمیں بھلا اس میں کیا دل چسپی اور گھر پہنچ کر میں نے زریں کو ڈانٹا کہ جب وہ بلوری آلات پر جھکا ہوا مچھروں کی اقسام سمجھا رہا تھا تووہ خورد بین پر نظر جمانے کے بجائے اس کی نیلی آنکھوں کو مستقل کیوں دیکھتی رہی۔

تصویر کشی کے لیے دیوداروں کا جنگل اور اس کے نیچے پہاڑی بہترین پس منظر تھا۔ میں اکثر صبح صبح کراؤن پرنس کے ساتھ تصویریں بنانے کا سامان لے کر ان درختوں کے جھنڈ کی طرف چلی جایا کرتی تھی۔ ایک دن ان ہی پیڑوں کے نیچے میں لیڈی مودی کے لیے ایک تصویر تیار کر رہی تھی کہ پیچھے سے ہلکی سی سیٹی کی آواز آئی: ’’ ہلو! آرٹسٹ صاحبہ‘‘ جاوید بہت لااُبالانہ انداز سے پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پیچھے سے کاغذ پر جھکا ہوا تصویر کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔

’’ اوہ۔ ہلو کیپٹن۔‘‘ ہم کبھی کبھی دوستی کی موڈ میں اس کا نام لینے کے بجائے اسے ڈاکٹر، کیپٹن یا کامریڈ کہا کرتے ہیں۔

’’ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’ کس قدر بے وقوف ہو، ظاہر ہے کہ تصویر بنا رہی ہوں۔‘‘

’’ اچھا شرط لگا لو کہ اس وقت تم تصویر بنانے کے علاوہ دل میں مجھے بھی یاد کر رہی تھیں۔‘‘ وہ نہایت اطمینان سے قریب کے پتھر پر بیٹھ گیا۔

’’ واللہ ! کیا کیا مغالطے ہیں ! مولانا مجھے آپ کو یاد کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔‘‘

’’ سچ کہہ رہی ہو!‘‘ اس نے مجھے غور سے دیکھ کر کہا اور پھر زور سے ہنس پڑا۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے کاغذوں کو منتشر کر دیا اور میں جلدی سے انہیں چننے لگی۔

’’ دنیا روز بروز زیادہ خوب صورت اور خوش گوار ہوتی جا رہی ہے۔ ‘‘ تھوڑی دیر بعداس نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے ذرا سنجیدگی سے کہا۔ اس روز ہم بہت دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔ مجھے تصویر مکمل کرنی تھی۔ وہ پاس بیٹھا رنگوں کی آمیزش کے متعلق مشورے دیتا رہا۔

اسی طرح روز دیودار کے درختوں کے نیچے تصویریں بنائی جاتیں، باتیں ہوتیں، شام کے پروگرام بنتے، ملیریا اور مچھروں کا ذکر ہوتا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ واقعی دنیا بہت پیاری اور خوب صورت بن گئی ہے۔ ایک دفعہ اس نے بچوں کی سی سادگی سے کہا : ’’ بے بی، اگر ان ہی درختوں کے سائے میں ساری عمر گزر جائے تو کیسا اچھا ہو۔‘‘ اور میں اس کی خواہش پر زور سے ہنس پڑی تھی۔‘‘

دیوداروں کے نیچے وہ آخری دن تھا۔ خالدہ کے زکام نے بران کائٹس کی شکل اختیار کر لی تھی اور اس وجہ سے میں اب بہت کم وہاں آتی تھی۔ خالدہ میری بہترین دوست ہونے کے باوجود اب کچھ کھنچی کھنچی سی رہتی تھی___ اور اس کا مجھے بے حد افسوس تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اسے کس طرح خوش کروں۔ جاوید اپنے مخصوص پتھر پر بیٹھا دور نیچے پہاڑی نالے کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ نہ معلوم کیوں کچھ عرصے سے وہ بہت خاموش رہنے لگا تھا۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے بے چارے لڑکے کی صحت پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ میں نے فکر مندی سے سوچا۔ میں اس وقت چپ چاپ رنگوں کے برش صاف کر رہی تھی۔

’’ خالدہ اب کیسی ہیں ؟‘‘ اس نے یکلخت پوچھا۔

’’ آج تو اسے بخار نہیں آیا۔ شکر ہے ‘‘ میں نے جواب دیا، ’’ اسے دیکھنے کے لیے آتے نہیں ہو۔‘‘

’’ میں نے کل اجیت کو بھیجا تھا۔‘‘ وہ کچھ پریشان سا ہو گیا۔ بھاری بھاری بادل چوٹیوں پر سے گزرتے ہوئے ہماری سمت آ رہت تھے۔ میں نے کاغذ سمیٹنے شروع کر دیئے۔

’’ اب اٹھنا چاہئے۔ بارش آ رہی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

’’ ہاں اٹھو۔‘‘ اس کی آواز میں اجنبیت سی آ گئی تھی۔

’’ شام کو آنا۔ خالدہ بے چاری روز انتظار کرتی ہے۔ اچھا، چیریو!‘‘

’’ چیریو___ ‘‘ وہ اٹھا اور پگڈنڈی پر مڑ کر جھنڈ کی دوسری جانب نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

اس کے بعد ___ خالدہ دن میں کئی بار اسے فون کرتی اور وہ چپراسی کے ہاتھ خالدہ کے لیے نئی نئی کتابیں بھجواتا رہتا۔ شام کو اس نے خالدہ کی مزاج پرسی کے لیے آنا شروع کر دیا۔ اور اس وقت وہ یہی چاہتی تھی کہ میں، زریں اور رباب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہا کریں۔ وہ تمام دن اپنی خواب گاہ کے دریچے میں شال میں لپٹی لپٹائی گڑیا کی طرح بیٹھی جاوید کی بھیجی ہوئی کتابیں پڑھا کرتی تھی۔

اس شام ___ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے مجھے بہت دیر ہو گئی۔ آس پاس کی پہاڑیوں اور گھاٹیوں پر پھیلا ہوا کہرہ رات کی سیاہی میں گھل مل کر زیادہ بھاری ہوتا جا رہا تھا۔ دور اونچی اونچی برفانی چوٹیوں پر بادل جمع ہو رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں چاروں طرف پھیلے ہوئے مکانات اور عمارتوں میں ایک ایک کر کے روشنی ہو گئی اور جنگل کے پرے کا سارا منظر جگمگا اٹھا۔ دور افق کے نزدیک رنک کی سبز روشنی کہرے میں جھلملا رہی تھی۔ سردی محسوس ہو رہی تھی لیکن اندر جانے کے بجائے غیر ارادی طور پر میرے قدم خالدہ کے کمرے کی طرف جانے والی روش پر اٹھ گئے۔ میں باورچی خانے کی انگوروں کی بیل سے ڈھکی ہوئی گیلری کی جانب بڑھ رہی تھی کہ دریچے کے زرد شیشوں میں سے دو سلہٹ دکھائی دیے۔ خالدہ کہہ رہی تھی: ’’ امی کو تو آ جانے دو۔ آٹھ دس روز میں آ جائیں گی۔‘‘

’’ اسی طرح کب تک ٹالتی رہو گی گڑیا___ اگلے ماہ تک شاید میرے تبادلے کا حکم آ جائے گا۔‘‘

اُف یہ ان گدھوں کی فطرت ___ میں جلدی سے گیلری میں داخل ہو گئی۔ اس وقت مجھے خالدہ پر رحم آ رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ خوب خوب روؤں اور نہ معلوم کیا کر ڈالوں۔

دوسرے دن صبح میں وہیں سیڑھیوں پر بیٹھی ریڈ کراس ویک کی نمائش کے لیے جنرل منٹگمری کی نامکمل تصویر کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ آ گیا: ’’ ہلو بے بی! کئی دن سے تمہیں نہیں دیکھا۔‘‘ وہ پرانا دوستی کا انداز اور آواز میں شگفتگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ نچلی سیڑھی پر بیٹھ گیا اور پھر بولا: ’’ کل مجھے بے چاری خالدہ کے پاس بہت دیر تک بیٹھنا پڑ گیا۔ تم تینوں اس کا دل بہلانے کی ذرا کوشش نہیں کرتیں۔ اس کی اعصابی کمزوری کو سائیکلوجیکل علاج کی ضرورت ہے۔‘‘

’’ ہاں یہ تو ہے نہ ‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ اس نے سگریٹ جلا لیا اور کاغذوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اس کی نیلی آنکھیں مجھے زہر لگ رہی تھیں۔

’’ میں مخل تو نہیں ہو رہا ہوں۔‘‘

’’ بالکل نہیں۔‘‘

’’ کیا بات ہے۔ مجھ سے ناراض ہو بے بی؟‘‘

جیسے کن پٹیوں میں آگ سی لگ گئی۔ ساری دنیا کو ایک زور دار ٹھوکر لگا کر میں کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔ چند لمحوں تک اپنی نیلی آنکھوں کی مقناطیسی کشش کی پوری طاقت کے ساتھ وہ مجھے دیکھتا رہا۔ میں برش زمین پر ڈال کر اندر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سگریٹ کی راکھ جھٹک کر وہ بھی کھڑا ہو گیا۔

’’ اچھا خدا حافظ۔ خالدہ سے کہہ دینا کہ سہ پہر تک اگر میں خود نہ آسکا تو اجیت کے ہاتھ انجکشن کا سامان بھجوا دوں گا۔‘‘

میں تصویر کو غور سے دیکھتی رہی۔ وہ پھاٹک سے باہر جا چکا تھا۔ اس روز کے بعد سے وہ خود پھر کبھی نہ آیا۔

دن گزرتے گئے۔ زریں سارا دن میڈیم لورنیزو کے ہاں رقص سیکھنے میں مشغول رہتی تھی ___ رباب کاکالج کھل گیا تھا اور وہ بھی جا چکی تھی۔ خالدہ روز بروز بیمار ہوتی چلی جا رہی تھی۔ موسلا دھار بارشوں کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ میں صبح سے شام تک خواب گاہ کے دروازے بند کیے آتش دان کے قریب خالدہ کے پاس بیٹھی رہتی تھی۔ گھر پہ کوئی بڑا آدمی موجود نہ تھا۔ امی اور ابّا کئی ماہ کے لیے وطن گئے ہوئے تھے۔ دونوں بھائی محاذ پر تھے۔ ہماری اتالیق میڈیم لورینزو کو اپنے بچوں سے ہی فرصت نہ ملتی تھی جو وہ ہمارا دل بہلاتیں۔ خالدہ کے متواتر فون کرنے پر جاوید نے کہہ دیا تھا کہ آج کل اسے دگنا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ سر کھجانے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ کس قدر اُداس اور پریشان دن تھے۔

آخری رات ___ خالدہ کو تیز بخار ہو رہا تھا___ باہر زور کی بارش شروع ہو گئی تھی۔ میں کمرے کے سارے دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے خالدہ کے صوفے کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ بہت ہی پیارے انداز میں اپنا سفید ہاتھ پیشانی پر رکھے آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔ اس وقت اس کی بیمار آنکھوں کو دیکھ کر میں بہت ہی زیادہ فکر مند ہو گئی۔

’’ بے بی، پیاری! کیا تم مجھ سے بھی خفا ہو؟‘‘ یکلخت آنکھیں کھول کر اس نے کہا۔ مجھے اس وقت بے اختیار اپنی گڑیا سی خالہ زاد بہن پر بے انتہا پیار اور ترس آ گیا۔

’’ مجھے تم سے خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ گڈو ! ‘‘ میں اس کی غمگین آنکھوں اور چھوٹے چھوٹے کمزور سفید ہاتھوں کو دیکھ کر اُسے کب کا معاف کر چکی تھی۔

’’ سونے کی کوشش کرو جان۔ صبح تک بالکل اچھی ہو جاؤ گی۔ ‘‘ میں نے جھک کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اس نے کشنوں میں منہ چھپا کر دیوار کی طرف کروٹ لے لی۔ باہر طوفان بڑھتا جا رہا تھا۔ نہ جانے کس خیال سے میں ایک دم بہت ہی گھبرا گئی اور جلدی سے دوسرے کمرے میں ڈیڈی امی کو بلانے کے لیے ارجنٹ تار لکھا اور بوڑھے حفیظ کو برساتی اڑھا کر پوسٹ آفس کی طرف باہر پانی میں دھکیل دیا۔ خالدہ اسی طرح خاموش پڑی تھی۔ میز پر دوا کی ساری شیشیاں خالی پڑی تھیں۔ جاوید اپنے اسسٹنٹ گھوش کے ہاتھ دوائیں بھیج دیا کرتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس وقت خالدہ کو انجکشن ضروری ہے۔ میں نے جلدی سے لیباریٹری کا نمبر ملا کر جاوید کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔ دوسرے سرے سے کوئی آواز نہ آئی۔ آندھی کی وجہ سے ٹیلیفون کے تار ٹوٹ چکے تھے۔ خالدہ کی خواب گاہ کی مدھم سبز روشنی کی طرف دیکھ کر میں نے اور کچھ نہیں سوچا اور سرعت سے گیلری میں جا کر برساتی پہنی اور چھتری لے کر باہر نکل گئی۔ تیز ہوائیں کپڑوں کو مخالف سمت میں اڑائے لیے جا رہی تھیں۔ اندھیرے میں دیوداروں میں سے گزرتے ہوئے جھکّڑ اور پانی کی بوچھار کے شور سے دل بیٹھا جا رہا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر کے خدا سے دعا مانگی اور ہمت کر کے لیباریٹری کی طرف بے انتہا تیزی سے بھاگنے لگی۔ چکنے پتھر پیروں کے نیچے سے پھسلے جا رہے تھے۔ دور پہاڑی پر عمارت کی دھندلی روشنی چمک رہی تھی۔ نالے کے پل پر پہنچ کر دہشت و خوف کے نامعلوم جذبے سے پیر آپ سے آپ رک گئے لیکن خالدہ کا زرد چہرہ آنکھوں کے آگے آ گیا۔ میں نے تیزی سے پل کو عبور کیا اور پہاڑی پر چڑھنے لگی۔ ہوا کے تھپیڑے نیچے کو دھکیل رہے تھے۔ عمارت کی سفید چوڑی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے میں جاوید کے دار العمل کی طرف بڑھی۔ برآمدوں اور کمروں میں تیز روشنی ہو رہی تھی۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ میں نے شیشے پر دستک دی۔ جاوید دروازے کی طرف سے پشت کیے بلوری میز پر جھکا ہوا کچھ لکھ رہا تھا۔ دستک کی مدھم آواز طوفان کی گرج میں ڈوب کر رہ گئی۔ میں نے دوبارہ زور سے دروازہ کھٹ کھٹایا۔ جاوید نے پیچھے مڑ کر دیکھا: ’’ کون ___ ارے بے بی___ تم کیا___ کیا بات ہے۔‘‘

’’ جاوید ___ خالدہ ___‘‘ آواز میرے حلق میں اٹک گئی۔ وہ ششدر کھڑا تھا۔ میں نے اسے کچھ سوچنے کا موقع نہ دیا اور جلدی سے اس کا ہینڈ بیگ اٹھا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹی ہوئی باہر لے آئی۔ ہم دونوں تیزی سے نیچے اترنے لگے۔ ’’ میری برساتی لے لو۔ میرے پاس چھتری کافی ہے۔‘‘ اور میں نے اپنی برساتی اتار کراس کے کندھوں پر ڈال دی۔ اس وقت وہ مجھے خالدہ کی وجہ سے عزیز معلوم ہو رہا تھا۔ وہ بالکل خاموش تھا۔ پہاڑ سے اترنے میں کئی دفعہ میرا پیر رپٹتے رپٹتے بچا۔ اس نے مضبوطی سے میرا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ اس قدر سردی میں بھی اس کی ہتھیلیاں گرم ہو رہی تھی۔ ہوا کے ایک پر شور تھپیڑے نے مجھے اس کے اوپر دھکیل دیا۔ ’’ جاوید اور تیزی سے چلو۔‘‘ میں نے سنبھل کر اپنے پیر جماتے ہوئے کہا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی تیر کی طرح خالدہ کے پاس پہنچی۔ وہ اسی طرح کروٹ لیے پڑی تھی۔ اس کی نبض کی رفتار اور بھی مدھم ہو چکی تھی۔ ’’ جان۔ جاوید آ گیا۔‘‘ میں نے اس پر جھک کرکہا۔ جاوید تواب تک دوسرے کمرے میں کھڑا تھا۔ میں نے اسے خالدہ کے کمرے میں دھکیل دیا، اور خود ڈرائنگ روم میں آ کر دیو ان پر گر گئی۔ ’’ یا اللہ میری مدد کر۔‘‘ میں کُشنوں میں منہ چھپا کر بہت دیر تک دعائیں مانگتی رہی۔

’’ بے بی پیاری کہاں گئیں ؟‘‘ برابر والے کمرے سے خالدہ کی کمزور آواز آئی۔ ’’ ابھی آ رہی ہوں گڑیا۔ تم دونوں کے لیے قہوہ بنا رہی تھی۔‘‘

’’ ہم دونوں کے لیے۔ ‘‘ خالدہ کے زرد چہرے پر سرخی کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔ جاوید میری طرف سے پشت کیے انجکشن کا سامان بند کر رہا تھا۔

’’ خالدہ پیاری، امی ابّا آ رہت ہیں۔‘‘

’’ واقعی؟ کب؟‘‘ خالدہ کا چہرہ جگمگا اٹھا اور جاوید نے ہینڈ بیگ سے سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے مجھے دیکھا۔ کاش اس کی اس وقت کی سفید رنگت اور پیشانی پر چمکتے ہوئے قطروں کو کسی طرح بھول سکتی!

اور طوفان کے بعد، دوسرے روز شام کو، ہر طرف دیوداروں کے ٹوٹے ہوئے تنے بکھرے پڑے تھے۔ چنار کے مغرور درختوں نے سر جھکا لیا تھا اور رنگ برنگے سنگریزے بارش میں دھل کر شیشے کی طرح چمک رہے تھے۔ میں برآمدے میں کھڑی حفیظ کا انتظار کر رہی تھی جسے میں نے جاوید کو بلانے کے لیے بھیجا تھا۔ امی اور ابّا آ چکے تھے اور خالدہ ایک بیمار ضدّی بچے کی طرح ان کے پاس بیٹھی سنترہ کھا رہی تھی۔ حفیظ کو پھاٹک میں داخل ہوتے دیکھ کر میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچی۔

’’ بی بی! بڑے ڈاکٹر صاحب تو صبح ہی چلے گئے۔‘‘

’’ کہاں ؟‘‘ میرا دل ڈوبنے سا لگا۔‘‘

’’ اجیت بابو نے سلام بولا ہے اور کہا ہے کہ بڑے صاحب نے اپنا تبادلہ کروا لیا تھا اور اینٹی ملیریا یونٹ کے ساتھ لڑائی پر جانے سے پہلے ہی چھٹی لے چکے تھے۔ انجکشن کا سامان لے کر میں خود حاضر ہوتا ہوں۔‘‘

___ اور دیوداروں کے سائے میں جس چھوٹے سے افسانے نے جنم لیا تھا وہ ہمیشہ کے لیے ادھورا رہ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

دھندلکوں کے پیچھے

 

لیکن اچھے دن تو بہت تیزی سے گزر جاتے ہیں نا۔ پھولوں کے موسم کی رنگین سی ہوا کے ایک ہلکے جھونکے کی طرح۔ جو آلوچے کی پتلی ٹہنیوں کو لہراتا، پردوں کو ہلاتا اور بالوں کی لہریں الجھاتا ہوا دور سیب کے گھنے سایوں میں کھو جاتا ہے۔ سیب کی سفید کلیاں کھلتی ہیں اور دوپہر ڈھلتے زرد ہو کر زمین پر گر پڑتی ہیں۔ رات کی رانی مہکنا جانتی ہے لیکن صبح ہوتے ہوتے اس کی سہانی خوشبوئیں خوابوں کے ساتھ ساتھ ناچتی نہ جانے کون سی انجانی بستی کو چلی جاتی ہیں۔ چاندنی کی ٹھنڈی موجیں تو صبح کا بھی انتظار نہیں کرتیں۔ یہ زرد اور بے حس چاند پتہ نہیں کس ان دیکھی دنیا کی وادیوں میں جا کر چھپ رہتا ہے جہاں سنا ہے کبھی گرم اور گرد آلود ہوائیں نہیں چلتیں۔ بگولے نہیں اٹھتے اور انوکھے سپنوں کے نقرئی پُل چھوٹے چھوٹے ستاروں کی طرح نہیں ٹوٹا کرتے۔

پر زندگی کے تھکے ہارے مسافر ان چمکیلے اور چھپے ہوئے راستوں کی تلاش میں بھٹکتے اندھیرے جنگلوں اور تپتے ہوئے ریتیلے میدانوں میں جا نکلتے ہیں۔ جہاں شعلے لپکتے ہیں، مصیبتیں قہقہے لگاتی ہیں، تباہیاں مسکراتی ہیں۔ تلخیوں کے گرم اور کسیلے دھوئیں کی تاریکی کے پیچھے سے کوئی مدھم سی، خنک سی روشنی جھلملاتی ہے لیکن پھر دھندلکوں میں چھپ جاتی ہے۔

بھئی خدا کے لیے ! مجھے جذباتی بن جانے کا الزام مت دو۔ میں کیا کروں۔ تمہیں سال نو کی وہ کہر آلود شام یاد ہے __ ؟ ۳۱؍ دسمبر۔ آج بھی وہی تاریخ ہے ہم سب اس روز کتنی اودھم مچایا کرتے تھے۔ تحفے اور مبارکبادیں۔ خوشیاں اور قہقہے۔ ۳۱؍ دسمبر! بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی ہمارے دلوں میں کیسی محبوب سی، عزیز سی اہمیت اور قدر تھی۔ تمہاری سال گرہ کی تاریخ۔ عید کا دن، نو روز کی رات، امتحان کے آخری پرچے کی شام۔ ان معمولی چیزوں کی Sentimental Value کی وجہ سے زندگی زیادہ دل کش اور پر لطف معلوم ہوتی تھی نا۔ مگر یہ کیسی پیاری سی حماقت ہے۔ پرانی باتیں یاد آتی ہیں۔ رونے کو دل چاہتا ہے۔ اور پھر یہ سوچ کر ہنسی بھی آ جاتی ہے کہ پہلے ہم دوسروں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ واقعات کا جوار بھاٹا بہت ہی عجیب چیز ہے۔ !

دنیا بہت مزے دار جگہ تھی، ہم اور تم۔ ہمارا گھر ہمارے عزیزوں اور دوستوں کا حلقہ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی مصروفیتیں اور تفریحیں۔ ننھے منے غصے اور پیار۔ فلسفہ حیات پر غور کرنے کی کبھی ذرا سی بھی ضرور ت محسوس نہ ہوتی تھی۔ تم پینٹنگ کرتی تھیں۔ میں کارٹون بناتی تھی۔ پھر دونوں مل کر اپنے کارناموں پر تبصرہ کرتے تھے۔ ابسن کا ’’گڑیا کا گھر‘‘ پڑھ کے ایک دفعہ تم تقریباً رونے لگی تھیں اور میں نے تمہیں ڈانٹا تھا ہم اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتے تھے۔ لڑتے تھے اور چاکلیٹ کھاتے تھے۔ اب تم جانے کیا بن گئی ہو۔ مجھے بھی یقین نہیں کہ اب میں کیا ہوں، کم از کم دوسرے تو مجھے نہ معلوم کیا سمجھنے لگے ہیں۔ مغرور، ضدی، خودپسند۔ اور جھوٹ کی شائق۔ واقعی زندگی اب جھوٹ اور دھوکے کے رنگین لبادے میں لپٹ کر رہ گئی ہے۔

اگر وہ گزری باتیں بے تحاشا یاد آتی ہی پی جائیں تو میں کیا کروں۔ خدارا مجھے جذباتی مت سمجھو۔ ۳۱ ؍دسمبر کی شام! یاد ہے اس نے کہا تھا کہ اگر چمکتے ہوئے اونچے اونچے ستاروں کا عکس پگڈنڈی کے کنارے ٹھہرے ہوئے گدلے پانی میں پڑے تو اس میں ستاروں کا کیا قصور۔ لیکن جب وہ بے حقیقت جوہڑ ان ستاروں کے خواب دیکھنے لگے تو کیا ہو۔؟وہ اونچے اونچے ستارے تو صرف گومتی کے شفاف سنہرے پانیوں میں آنکھ مچولی کھیلیں گے۔ اس کا فلسفہ، اس کی معموں جیسی باتیں، اس کا بوہیمین انداز۔ مجبوریوں کا تند رو سیلاب تاش کے پتوں کے اس محل کو بہت دور بہا لے گیا ہے جو تم نے خوشی خوشی بنایا تھا۔ وہ دن بھی ختم ہو چکے ہیں۔‘‘ میبل کارمن برانڈا کی نقل کر رہی تھی۔ اسلمؔ وائلن پر وہی نغمہ بجا رہا تھا۔جس سے ہم ہر سال پہلی جنوری کی رات کو خوش آمدید کرتے تھے۔ میبلؔ اور اسلمؔ، انورؔ اور صبیحہؔ ایڈمنڈؔ اور خورشیدؔ۔ ملاحتیں اور صباحتیں، ناز اور نیاز۔ قہوے کی پیالیوں سے چاندی کے ننھے منے چمچے ٹکرا رہے تھے۔ زندگی، گرمی، خوشیاں، قہقہے، مجھے نامعلوم سا خوف محسوس ہو رہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ لمحے پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔ سپنوں کے رنگین سلسلے بہت جلد بکھر جاتے ہیں۔

اسلمؔ وائلن بجا رہا تھا۔ میبلؔ ان لرزتے تاروں سے اٹھتے ہوئے نغموں کے سیلاب میں بہی جا رہی تھی۔

I,I,I,I,I,I, Like You- a verry muchh!

I,I,I,I,I,I, Think you- a grand.

______ کیسا مضحکہ خیز گانا تھا۔ ہم سب ہنس ہنس کے لوٹے ہوئے جا رہے تھے۔ کتنے بے وقوف تھے ہم لوگ___

Why, why, why, why, why, why, when I Fell Your touch, My heart begins to beat, the band,

میبلؔ رقص کر رہی تھی۔ خوشیاں ناچ رہی تھیں۔ ایک پارٹی گیم ہم نے ایک دوسرے کے نام تجویز کیے تھے۔ ’’پلم پڈنگ‘‘ ’’مکی ماؤس‘‘ اور جانے کیا کیا۔ یا اللہ۔ پچھلے مہینے میں نے مکی ماؤس کا نام اسٹیٹس مین کی ہلاک شدگان کی فہرست میں دیکھا تھا۔ خیال تو کرو۔ وہ ہر وقت ہنسنے اور شور مچانے والا شخص جو صرف زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ ہم سب زندہ رہنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ عمر بھر ہنستے رہنے اور میوزیکل چیرز کھیلنے کے لیے۔

میبلؔ نے ایک اور گیت شروع کر دیا تھا۔ ’’آؤ رقص کریں بھئی۔لیکن پھر ہم تینوں کمرے کی گرم و روشن فضا سے بچنے کے لیے باہر خاموش بالکونی پر نکل آئے تھے___ یہ تیزی سے پرواز کرتے ہوئے لمحات ماضی کی بوجھل یادوں کو اپنے آنچل میں سمیٹ کر بہت دور لیے جا رہے ہیں چاند کی کرنوں پر سے اترتی ہوئی شبنمی نیندیں انہیں رخصت کرنا چاہتی ہیں۔ اب پچھلی ساعتوں کا غم کرنے کا کیا  فائدہ…؟‘‘

اس نے بالکونی کی ریلنگ پر جھکتے ہوئے ڈرامائی انداز سے کہا تھا’’ بھئی اپنی شاعری اس وقت تو بھول جاؤ، شاید تم بولی تھیں۔ دھیمی سی آواز میں جیسے کسی سحر کے زیر اثر تھیں اور اس سے بچنا چاہتی تھیں۔ ہماری نظروں کے سامنے درختوں کے پھیلے ہوئے اندھیرے میں کہیں کہیں مدھم روشنیاں جھلملا اٹھتی تھیں۔ خوابیدہ کائنات ناکامیوں اور اندھیروں کے سرد دھندلکے میں لپٹی ہوئی آنے والی کل کے انتظار میں خاموشی کی گہری گہری سانس لے رہی تھی۔ دور، چھتر منزل کا اداس سنہری گنبد اور یونیورسٹی کی مغرور برجیاں اسی زوردار اور بھاری کہرے میں ڈوبی جا رہی تھیں۔ ہمارے محبوب لامارٹنیزؔ کے کنگورے سیاہ دھند میں کھوئے ہوئے کیا سوچ رہے تھے۔ اس کے اونچے ہال کے روشن دانوں سے ہلکی نیلی روشنی جھلکنے لگی تھی۔ ضیافت شروع ہو چکی ہے۔ تم نے کہا تھا ہر سال ۳۱؍ دسمبر کی رات وہ ہال نیلی روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے جب ہم تم وہاں تھے اور اب بھی نئے سال کے استقبال کے لیے وہ شمع دان اب بھی جلائے جاتے ہیں۔ کل نیا سال ہے۔ زندگی کے غبار آلود راستے کا ایک اور نامعلوم سنگ میل کل کے بعد کیا کیا ہو گا۔ تجدید حیات نظام نو۔ نیا افق، آفتاب تازہ … ہش۔ جذباتی لغویات ___ دنیا تو جوں کی توں رہتی ہے۔ بوڑھی ہوتی جا رہی ہے۔ تھکن اور خستگی زیادہ ہو گئی ہے لیکن لوگ اچھے اچھے خواب دیکھنے سے باز نہیں آتے۔

خدارا اب اندر چلو۔ مجھے تو سردی بھی لگنے لگی۔ واقعی اتنی دیر تک گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتے اور شور مچاتے مچاتے زوروں کی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ دوسرے ساتھی ڈنر کے لیے دوسرے کمرے میں جا چکے تھے۔میوزک روم خاموش پڑا تھا۔

’’سردی لگ رہی ہے ؟ راحتیں اور رنگینیاں ایک لمحے کے لیے بھی چھوڑنا نہیں چاہتیں ؟ تم تو بڑی بڑی دشوار گزار پگڈنڈیوں اور ویرانوں میں سفر کرنے کے لیے تیار ہو؟ ‘‘ وہ اسی طرح ریلنگ پر جھکا ہوا تھا۔

’’ہاں لیکن تمہارے ساتھ۔ تمہارے سہارے !‘‘ پر یہ الفاظ زبان پر نہ آسکے تم بھی خاموش تھیں۔ فراز آسماں سے ایک ننھا سابے چارہ ستارہ ٹوٹ کر تاریکی کی گہرائیوں میں گم ہو گیا۔ ہم دونوں جیسے سہم سے گئے۔

ارے مسخروچلو جلدی ورنہ ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرتے ہیں کھانا، اسلم نے اندر سے چلا کر آواز دی۔

پھر بارہ بجے، کریکرز توڑے گئے کرسیاں الٹی گئیں۔ کشنوں کی لڑائی ہوئی۔ ’’ہیپی نیوایئر‘‘۔ نیا سال آ گیا۔ نئی خوشیاں، نئی امیدیں، نئی زندگی۔ یقیناً۔!! نئی خون آشامیاں۔ جنگوں میں مارے جانے والوں کی تازہ فہرستیں۔ تباہ کاریوں کے جدید کارخانے۔ نیا سال !!ہم سب پاگل تھے۔ احمق۔ تم بھی اور میں بھی۔ اور وہ بھی۔ اسلمؔ، میبلؔ،  انورؔ، سب کے سب۔ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد تھا۔ محبت تھی اور رفاقت کا خلوص۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھی تھے۔ طوفانوں کے مقابلے میں ایک ہی تختے پر بہنے والے۔ ایک ہی پگڈنڈی کے مسافر۔ کیسی کیسی حسین اور شیریں غلط فہمیاں تھیں ! وہ تمہیں چاہتا تھا۔ کم از کم یہی ظاہر کرتا تھا۔ جو ہڑ کا پانی اونچے اونچے ستاروں کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اسلمؔ، میبلؔ پر مرتا رہتا تھا۔ لیکن اب تک بالکل تندرست ہے۔ ہاں انورؔ مر چکا ہے۔ سوچو تو یہ تین الفاظ کہنے میں کیسے آسان ہیں لیکن اصلیت کتنی خوف ناک، بھیانک اور ظالم۔ وہ اٹلی میں اپنی یونٹ کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے ایک مورچے پر حملہ کر رہا تھا کہ اس پر مشین گن کی گولیوں کی بوچھار پڑی اور وہ مرگیا۔ نیلوفر کے ایک نازک سے پودے کی طرح گر پڑا اور ختم ہو گیا۔ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ ایک لحظے کے اندر اند ر اس کا دنیا میں آنا اور نہ آنا برابر ہوکے رہ گیا۔ تم نے اس کی موت کی خبر سنی ہو گی تو گہری سی سانس بھرکر کہہ دیا ہو گا۔ چچ چچ چچ بے چارہ؟ میبلؔ اور زبیدہؔ کی شاید پلکیں بھی نہ بھیگی ہوں۔ خدایا…!!

بتاؤ زبیدہ، کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ اب کے ۳۱؍ دسمبر کی رات کو کلاک کی طرف نظر اٹھا کے دیکھ سکو۔ وہی گھر ہے، وہی دنیا، وہی ہم تم ہیں۔ نیا سال اپنے دامن میں نہ جانے کتنی خوشیاں اور آنسو چھپائے چلا آ رہا ہے۔ ہنس کر اس کا استقبال کرسکو گی۔ وہ گیت بھول چکی ہو جس سے پہلی جنوری کو خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ اسلم کے وایلن کے تاروں میں تو شاید زنگ بھی لگ گیا ہو گا۔ وہ دن بھر راشننگ کے دفتر میں سرکھپا کر شام کو گھر جاتا ہے تو اس کی بیوی کی چلاتی ہوئی آواز اور اس کے تین چھوٹے چھوٹے چیں پیں کرتے ہوئے بچے اس کے سر کے درد کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ ہوائیں گتار اور اس کے گزرتے ہوئے تاروں پر جنوب کے نیلے سمندروں اور پام کے درختوں پر برستی ہوئی رسیلی چاندنی کے خواب آلود نغمے راشننگ کے اعداد و شمار کی تلخیوں سے بہت دور ہیں۔ بہت ہی دور۔

پر زبیدہؔ اچھے دن کیوں پیچھے رہتے جاتے ہیں۔ مجھے خدا سے بڑی شکایت ہے۔ بہت سی شکایتیں ہیں۔ دیکھو تو سہی۔ میں خدا سے روٹھنا بھی سیکھ گئی ہوں۔ ذرا فلسفی بنتی جا رہی ہوں۔

ہماری کیسی خوش گوار دنیا تھی۔ ہمارا سوئیٹ پی کا باغ۔ ناشپاتی کے درخت۔ باورچی خانے کی چمنی سے اٹھتا ہوا پرسکون سا دھواں، نوکروں کی مانوس چیخ پکار۔ امی کے احکام اور ڈانٹ ڈپٹ۔ سوئیٹ پی کی کیاریوں پر منڈلاتی رنگین مکھیوں کی بھنبھناہٹ، دوپہر کے سناٹے میں ریلوے لائن کے اس پار سے آتی ہوئی پیپر مل اور پن چکی کی صدائیں۔ وہ مخصوص اور محبوب سی آوازیں، وہ عزیز فضائیں، جیسے دنیا کی ہرچیز صرف ہمارے آرام کے لیے بنائی گئی تھی۔ لیکن اگر وہ ہماری اس دنیا میں داخل نہ ہوسکتا تھا تو یہ ستاروں کا قصور تھا۔ ہم نے فرصت اور بے فکری کی ایک سہ پہر ناشپاتی کے سائے میں بیٹھ کر جتنے احمقوں کی فہرست تیار کی تھی اس میں میں نے اس کا نام سب سے اوپر رکھا تھا اور تم بگڑ گئی تھیں۔وہ تمہارا آئیڈیل تھا نا___! یہ تخیل پرستیاں بعض مرتبہ کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں !

اس روز تم بھاگی بھاگی آئیں اور ریکٹ ایک طرف پھینک کر جلدی جلدی کہنے لگیں۔ آج۔آج۔ اُف اللہ۔ کیسی عجیب باتیں ہیں۔ اس نے۔ سنو تو۔ اس نے کہا۔‘‘ میں کالج کے کام میں بہت زیادہ مصروف تھی اور جانتی تھی کہ یہ عجیب عجیب باتیں عقل سے قطعی بالاتر اور بالکل فضول ہوا کرتی ہیں۔ اس وقت میں نے تمہاری داستان سننے کی ضرورت نہ سمجھی…مجھے پڑھنے دو بھئی۔ روز ہی یہ بے وقوفیاں ہوتی رہتی ہیں تمہارے لیے۔‘‘

’’بے وقوفیاں نہیں بھئی۔ موت وزیست کا مسئلہ ہے۔ سنوتو سہی۔ اس نے کہا‘‘… تم بولیں۔

’’اس نے کہا کہ نغمہ بہاراں کی نکہتیں انجم رنگین کی‘‘__ میں نے چڑ کر تمہاری بات کاٹ دی تھی۔

’’ارے نہیں۔ اللہ بات تو پوری کر لینے دو۔‘‘

’’بکواس قطعی__امتحان کے دن قریب آتے جا رہے ہیں اور تم بالکل نہیں پڑھتیں۔ تمہارے دماغ میں کیا بے تکی باتیں گھس گئی ہیں۔ خدارا اتنی احمق نہ بنو‘‘___ میں تمہیں نصیحت کرنے چلی تھی۔ اللہ میرے___!

اور پھر، تم مجھ سے خفا ہو گئیں ___ ہونا چاہئے تھا۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو کیا کرتی۔ وہ بیمار تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ اگر ہوسکے اور مناسب سمجھو تو آ کر مجھے دیکھ جاؤ۔ کچھ عرصے بعد وہ جانے والا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ تم دہرہ دون کیوں بھیجی جا رہی ہو___ میں اب کارٹون کیوں نہیں بناتی۔ اسے رخصت کرنے تم اسٹیشن تک نہ گئیں۔ شاید نہ جا سکتی تھیں تم امید کرتی تھیں کہ میں تمہیں منالوں گی۔ مگر میں اپنے آپ کو زیادہ عقل مند سمجھتی تھی۔ وہ چلا گیا۔ یہ کوئی خاص یا اہم بات نہیں تھی۔ ’’دل کشا‘‘ کی ڈھلوان سے اترتے ہوئے اس نے کہا تھا۔’’ ہم اپنے آپ کو خود ساختہ فریب میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ تین ستارے ٹکرا جائیں تو معلوم نہیں کون سا ستارہ ٹوٹے‘‘۔ اور ٹرین پلیٹ فارم کو چھوڑ کر آگے نکل گئی اور پٹڑیاں چمکتی رہیں۔ میں گھر واپس آ گئی۔ تم بھی اسی روز دہرہ دون جا چکی تھیں، رات کے گہرے سناٹے میں گھڑی کی متوازن ٹک ٹک کے ساتھ وہ لحظہ بہ لحظہ دور ہوتا جا رہا تھا۔ مجھ سے دور۔ تم سے دور___

اور ۳۱؍ دسمبر کی رات آنے والی ہے۔ دریچے میں وہ چینی واز خالی رکھا ہے جو اس زمانے میں ہمیشہ سفید پھولوں سے بھرا رہتا تھا۔ نہ معلوم ہمارے گھر کی کیا حالت ہو گی۔ سیب کی ٹہنیوں میں کلیاں کب آئیں گی۔ سوئیٹ پی کے پودے بڑے ہوں گے تو انہیں لکڑیوں کا سہارا لینے کی ضرورت پڑنے لگے گی۔ خدا کرے بہار جلد آ جائے۔ خزاں کی خشک ہوائیں اور پت جھڑ کی ویرانیاں تم کس طرح برداشت کرسکو گی؟

دنیا غمگین ہوتی جا رہی ہے۔ انورؔ ختم ہو چکا ہے۔ صبیحہؔ نے ایک گورنمنٹ کنٹریکٹر کے اکلوتے بیٹے سے شادی رچا لی ہے دماغ کی تندرستی کی یہی علامت ہے۔ میں بھی گزرے ہوئے دنوں کی یاد میں اپنا وقت کیوں خراب کروں۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ میبل WACD میں شامل ہو کر نہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔ اسلم اپنے بچوں کے لیے بازار میں موزے اور کھلونے خریدتا دکھلائی دے جاتا ہے۔ یاد کرو ہم سب اپنے آپ کو آئیڈیلسٹ کہا کرتے تھے___

کل سال نو ہے۔ آؤ اب اس افسانے کو ختم کریں۔ بھول جاؤ کہ رومان نے تمہارا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن مجبوریوں کی بھاری زنجیر نہ کھل سکی۔ چاہنے اور چاہے جانے کے نامعلوم راستے پر تم نے جتنے چراغ جلائے تھے وہ کب کے بجھ چکے۔ مسرتوں کے راگ ختم ہو گئے ہیں۔ اندھیرا بہت گہرا اور بہت ٹھنڈا ہو چلا ہے۔ بارہ بجنے والے ہیں آؤ نئی شمعیں روشن کر لیں۔ کیا پتہ اچھے دن اب زیادہ دور نہ ہوں __

٭٭٭

 

 

 

 

 

میری گلی میں ایک پردیسی

 

قہہ قہہ قہہ خی خی خی۔ کھٹ کھٹ کھٹ۔ پٹ پٹ۔ آخ خو خی خی …کیا کہنے ہیں میرے شیر۔ ملاؤ ہاتھ۔ کمال کر گئے یار۔ ہاہ ہاہ ہاہ، اونا معقول لڑکی، پانی پلاؤ ہمیں، کیا کہا؟ شام کو سنیما میں جگہیں ریزرو کرا دوں ؟ ارے جب تک ہمارے سوٹ پر استری نہیں کرو گی سنیما کیا تمہیں تو بندر کا تماشا بھی نہیں دکھایا جائے گا۔ لاؤجی کتنے پوائنٹ بنے___ کوئن میں نے لی ہے مولوی صاحب___ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔ بھائی جان___ آخا___ خو___

میں نے تنگ آ کر گیلری کا دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ جب سے چلّو بھائی رخصت پر گھر آئے تھے دن بھر اسی طرح شور مچتا رہتا تھا۔ ہر وقت برج، کیرم اودھم دھما چوکڑی۔ ایک منٹ بھی چین نہ ملتا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اگلے ہفتے سے خالہ بیگم کے یہاں چلی جاؤں گی۔ کچھ تو پڑھائی کا موقع ملے گا۔ چلّو بھائی کا کیا ہے کسی نہ کسی بہانہ سے چھٹی لے کر پھر آن موجود ہوں گے مگر مجھے ان سے قطعی اتنازبردست عشق نہیں کہ ان کی وجہ سے اپنا وقت برباد کروں۔ امتحان میں صرف پندرہ دن رہ گئے تھے۔

مُلّو کے کمرے میں نہایت زور شور سے کیرم ہو رہا تھا۔ کرسیاں گھسیٹی جا رہی تھیں۔ ساتھ ساتھ گراموفون بھی بج رہا تھا۔ اور گلّو اور ٹائینی گلا پھاڑ پھاڑ کر ’’والگا بوٹ مین کا گیت‘‘ الاپ رہے تھے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ سامنے کھلی ہوئی کتاب میں دھیان لگائے رکھوں۔ مسہری کے سرہانے والے دریچے پر نیلے اور سفید پھولوں کی ڈالیاں جھکی ہوئی تھیں۔انھیں دیکھ کر مجھے معاً یاد آیا کہ بہار کا موسم کب کا شروع ہو چکا ہے۔ لیکن بہار اور شفتالو کی کلیوں کا خیال دل سے نکالتے ہوئے میں نے پھر کتاب اٹھا لی۔ ہوا کے ایک دبیز سے جھونکے سے گیلری کا دروازہ دوبارہ کھل گیا۔ کاہلی کی وجہ سے جی نہ چاہا کہ اٹھ کر اسے بند کر دوں۔ باہر زرد گلاب کی جھاڑیوں میں شہد کی مکھیاں بہت مصروفیت سے بھنبھنا رہی تھیں اور بہت دور آلوچے کے درختوں کے نیچے نہر کا پانی پتھروں سے ٹکراتا ہوا جھیل میں گر رہا تھا__ خاموش اور پرسکون زندگی بعض مرتبہ کیسی نعمت معلوم ہونے لگتی ہے۔

برابر والے کمرے میں اسی طرح غل غپاڑہ مچ رہا تھا۔ چلّو بھائی کے گرج دار قہقہے، نشو کی باریک سی پیاری آواز۔ ٹائینی کے بے سرے گیت۔

ہاہاہا۔ لو مسٹرگلّو۔ کیا یاد کرو گے۔ بی نشو ایک عشق بازی تو ہو گئی مکمل (Love Game کا ترجمہ خالص اردو بولنے کی غرض سے عشق بازی کیا گیا تھا) بھئی بورڈ اتنا کھردرا ہو رہا ہے پھر آپ جیسے بے ایمانوں سے کیسے جیتیں۔ کیوں ہو رہا ہے بورڈ کھردرا___ ساری فرنچ چاک تو لے کے گرا دی آپ نے واہ___ لے آؤ نا وہی اپنا پاؤڈر جو سفید سفید روز اپنے منھ پر لگاتی ہو۔ اب پارٹنر بدلو جی۔ یہ قطعی قانون کے خلاف ہے۔ مستورات ایک طرف اور ہم لوگ ایک طرف، لیکن تمام مستورات یہاں موجود بھی تو نہیں ___ ارے رانی کہاں ہے؟ اپنے کمرے میں بے چاری پڑھ رہی ہے۔ یہ کیا نا معقول حرکت ہے اس کی، شریف آدمی ایسے اچھے موسم میں کہیں پڑھا کرتے ہیں۔ لاؤ اسے پکڑ کر___‘‘

یا اللہ اب میری آفت آئی اور دوسرے لمحے چلّو بھائی دریچے میں سے اندر کو د آئے۔ میں نے جلدی سے پلنگ پوش اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ گرج کر بولے۔

’’او لڑکی تم کو پلنگ پوش سمیت اٹھا کر جھیل میں پھینک دیا جائے گا۔ ورنہ اٹھو شریفوں کی طرح سے___‘‘

’’خدا کے لیے چلو بھائی۔ مجھے آج ہسٹری کا سارا کورس دہرا کر ختم کرنا ہے۔‘‘ میں نے التجا کی۔

’’ہش!کھڑی ہو جاؤ فوراً۔ ورنہ گیا تمہارا پاؤڈر کا ڈبہ! فرنچ چاک ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اور سچ مچ یہ چلو بھائی میرا بہترین ’’کوٹی ‘‘ کا ڈبہ اٹھا کر دریچے کی طرف مڑے۔ گویا دروازوں کے بجائے عام طور پر کھڑکیاں ہی آمدورفت کا صحیح ومناسب راستہ ہیں۔

ہائے اللہ میرے بہترین چلو بھیا۔ اچھا میں چلتی ہوں۔ لیکن میرا یہ پاؤڈر رکھ دیجئے۔ اب تو پانچ روپے میں بھی نہیں ملتا یہ‘‘۔

’’اچھا اگر تم آج شام کو آئس کریم بنا کر کھلاؤ تو پاؤڈر بھی واپس اور ایک مزے کی بات بھی بتائیں۔ آم کی آئس کریم ہو بھئی ایسے ٹھاٹ کی بات ہے کہ بس سن کر تمہاری طبیعت خوش ہو جائے گی۔‘‘ انھوں نے ڈبہ سنگھارمیز پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’فرمائیے‘‘۔ میں نے بُرا سا منھ بنا کر دوبارہ پلنگ پوش اوڑھتے ہوئے کہا۔

’’ہیں ہیں۔ پھر وہی حرکت___ ارے ہم تم سے شادی کر رہے ہیں ___ سنا‘‘۔

یہ مجھے پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا۔ لیکن میں نے تکلفاً ذرا بننے کی کوشش کی۔ ‘‘آق قی قی۔ یہ کیوں۔ قی قی قی۔ کس قدر گندی بات___ توبہ توبہ ‘‘۔ دریچے میں جا کر میں نے زور سے تھوکا آئس کریم ہی تو کھلائی جائے گی آپ کو۔ اللہ کرے آپ کو کرنل کا بھوت پکڑ کر لے جائے___ خی خی خو___ ‘‘ میرے منھ کا مزا اب تک ٹھیک نہیں ہوا___ اوق___‘‘

’’کرنل تو تم جیسی خودسر لڑکیوں کو پکڑ تا ہے۔ شادی بیاہ کے معاملوں میں کیسی پٹاپٹ بول رہی ہو۔ ارے ذرا تو شرمایا ہوتا اچھا چلو کیرم کھیلنے ورنہ کرتا ہوں شادی اگلے ہی مہینے۔ امتحان بھی نہیں دے پاؤ گی‘‘۔

یہ بات میں نے مان لی اور ہم دونوں دریچے میں سے باہر کود کر ملو کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ شہد کی مکھیاں اسی طرح بھنبھنائے جا رہی تھیں اور لالہ کے پھول دھوپ میں سرجھکائے کھرے اونگھ رہے تھے۔

چلو بھائی کی رخصت ختم ہو گئی اور اس کے کچھ عرصہ بعد ہمارے امتحانات بھی۔ جون کے خاموش اور غیر دل چسپ دن۔ کسی بات میں دل نہیں لگتا تھا۔ گرمیوں کی سست اور طویل دوپہر میں سبزبانس کی لمبی لمبی شاخیں جھیل کے اوپر جھولتی رہتیں۔ نرم نرم ہوا کی لپٹوں کے ساتھ دور سے بھنوروں اور سبز چمک دار مکھیوں کی تیز بھنبھناہٹ کی آوازیں تیرتی ہوئی آتیں اور گھنے پتوں میں چھپی ہوئی سرخ سرخ لیچیاں ٹپ ٹپ گھاس پر گرنے لگتیں۔ آلوچے اور نارنگی کی ڈالیوں کے سائے میں بہتے ہوئے پانی کے ہلکے ہلکے شور سے نیند آنے لگتی تھی۔ کیسا برا موسم تھا۔

یونی ورسٹی بند ہونے سے ایک روز قبل ہم سب ایک گھنے سرو کے نیچے بیٹھے دنیا جہان کے مسائل حل کر رہے تھے۔ کہ اگر سچ مچ میکس فکٹرلپ اسٹک کا بھی راشن ہو گیا تو کیا ہو گا۔ مایاؔ کیوں اب وکٹر کے بجائے ایڈمنڈ کے ساتھ روشن آرا میں نظر آتی ہے اور اس کا اثر اب مالینی پر کیا پڑے گا۔ وغیرہ۔ اتنے میں ہمارے سروں پر سے ایک امریکن بمبار گڑگڑاتا ہوا گزرا۔ اس کے انجن کے شور نے ہمیں متوجہ کر لیا۔ ویسے بھی ہوائی جہاز ہے مزے کی چیز۔ خصوصاً جب اسے کوئی خوب صورت ساپائلٹ اڑا رہا ہو۔ خیر تو وہ طیارہ تو دور پہاڑیوں کے پیچھے قرمزی بادلوں میں غائب ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ہم سب زیادہ دل چسپ قسم کی بکواس میں مشغول ہو گئے۔ ‘‘ بے چارے ختم بھی تو ہو جاتے ہیں اتنی جلدی‘‘  مالینی نے گھاس کا ایک تنکا توڑ کر کہا۔’’نیوی والے بھئی نسبتاً زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔ اور اسمارٹ کے اسمارٹ۔ ‘‘ شاہدہ نے اس سلسلے میں اپنی معلومات سے ہمیں مستفید فرمایا۔

’’ہونھ کیا ٹسٹ ہے آپ کا۔ ہر بندرگاہ میں تو ان کی ایک دوست موجود ہوتی ہے‘‘۔ ایلا کچھ عرصے سے آر۔ اے ایف کے کینٹین میں کام کرنے لگی تھی۔ بہت دیر تک اس مضمون پر بحث ہوتی رہی۔

’’چج چچ۔ کس قدر سطحی ہو تم لوگ__ہر وقت یہی باتیں۔‘‘ رفیعہ انتہائی۔ بے زاری کے ساتھ بولیں۔ وہ اب تک چپ چاپ بیٹھی آسمانوں کو تک رہی تھیں۔

’’جی آپ کے خیالات اور فلسفے کی گہرائی اندازاً کے ہزار فٹ ہو گی۔ ‘‘ میں نے ذرا تیزی سے پوچھا۔ اور اس وقت کیا ہم راجہ جی ؎۱ کے فارمولا پر بحث کرتے ؟ تھوڑی دیر میں قرمزی بادل پہلے اودی اور پھر سرمئی رنگت اختیار کر کے سارے آسمان پر چھا گئے اور بوندیں پڑنے لگیں۔ ہم سب ایک دوسرے کو جلدی جلدی خدا حافظ کہہ کر سائیکلوں کے شیڈ کی طرف بھاگے۔ بارش تیزی سے ہونے لگی۔

دوسرے دن بھی صبح سے ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ چائے پینے کے بعد مجھے یاد آیا کہ ایلا نے چند کتابیں منگوائی تھیں جو ڈرائنگ روم کے شیلف کے نچلے خانے میں بہت دنوں سے پڑی ہوئی تھیں۔ اسی وقت ایلا کا نوکر بھی آ گیا۔ اور جب میں وہ کتابیں لینے کے لیے ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگی تو اس کے آدھے کھلے ہوئے دروازے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ راج گوپال اچاریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سے ایک صاحب آرام کرسی پر دراز بڑے ٹھاٹھ سے اخبار پڑھتے نظر آئے۔ شاید گلو تھا۔ قریب جا کر یہ پتہ چلا کہ کوئی اور بزرگوار ہیں۔ میرے قدموں کی چاپ سن کر انھوں نے بڑی بے اعتنائی سے اخبار سامنے سے ہٹایا اور از راہ کرم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس انداز سے گویا مجھ پر بڑی مہربانی کر رہے ہیں۔ مجھے کمرے میں آ کر ان کے آرام میں مخل ہونا ہی نہ چاہئے تھا۔

’’آئیے آئیے بیٹھئے۔ تشریف رکھیے۔ ‘‘انھوں نے اس طرح کہا جیسے یہ ان کا گھر ہے اور میں ان سے ملنے آئی ہوں۔ میں بغیر جواب دیئے شیلف کی طرف مڑ گئی۔ نہ جان نہ پہچان۔ غصہ آنے کی بات ہی تھی۔

’’کہئے، کیسے پرچے کیے آپ نے ؟‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔

’’یااللہ یہ کیسا عجیب انسان ہے‘‘۔ میں الماری پر جھک کر بڑی مصروفیت سے ایک ایسی کتاب تلاش کرنے لگی جو مجھے معلوم تھا کہ وہاں موجود نہیں ہے۔ اخبار کے کاغذوں کی کھرکھراہٹ برابر جاری تھی۔

’’موسم خاصہ پر لطف ہو رہا ہے۔ کیا خیال ہے آپ کا۔‘‘

میں نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔ کیسا بدتمیز آدمی ہے ایک تو بغیر اجازت کمرے میں آگھسا اور اب بکواس کیے چلا جا رہا ہے اپنی مصروفیات ظاہر کرنے کے لیے بہت ساری کتابیں اٹھا کر میں جلدی سے گیلری کی طر ف بڑھی۔ آرام کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے پھر کہا۔ذرا یہ دریچہ کیا نام اس کا بند کرتی جائیے۔ مجھے بڑے زور کا زکام ہو رہا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے ایک زوردار چھینک لی مجھے غصہ کے باوجود بے اختیار ہنسی آ گئی اور میں نے مڑ کے دریچہ بند کر دیا۔ واقعی ہوا بہت تیز تھی اور اس کے ساتھ نارنگی کی کلیوں کی لپٹیں اندر آ رہی تھیں۔

’’اگر Mistol لاویں تو اور بھی عنایت ہو گی۔ شکر ہے کہ آپ کو ہنسی تو آ گئی۔ مجھے تو فکر ہو گئی تھی کہ اگر میزبانوں کے مزاج کا یہی عالم رہا تو میں بے چارہ اس بارش میں اب اور کہا جاؤں گا‘‘۔

’’میں تیزی سے کمرے کے باہر نکل گئی۔ پیچھے سے اس نے ذرا اونچی آواز میں کہا’’ اگر قہوہ یا چائے منگوا لیجئے تو بھی مضائقہ نہیں۔ عام طور پر ایسے پیارے موسم میں قہوہ سب سے اچھا لگتا ہے۔‘‘

’’یہ ڈرائنگ روم میں کون گدھا بیٹھا ہے۔؟‘‘ میں نے جو پہلا ملازم سامنے پڑا اس سے تقریباً چلا کر پوچھا۔

’’رانی بی بی پھاٹک تو بند ہے۔ گدھا کیسے اندر آ گیا۔‘‘مجید برتن صاف کر رہا تھا۔ میرے غصہ کی تیزی دیکھ کر گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ سے پلیٹیں چھوٹتے چھوٹتے رہ گئیں۔

’’ارے بھئی۔ تم نے کسی کو خبر کیوں نہیں کی کہ کوئی ملنے آیا ہے۔ جاؤ پوچھ کے آؤ آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں اور کہہ دینا کوئی گھر پر نہیں ہے‘‘۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر یاد آیا کہ اس زبردستی کے مہمان گدھے نے حالانکہ وہ گدھا قطعی نہ تھا۔ بالکل ٹائرن پاور کا ہم شکل تھا؟ بے چارہ مِسٹو۱ل کی فرمائش کی تھی۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں۔آخر میں غسل خانے میں جا کر بلاوجہ ہاتھ منھ دھونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے ٹائینی اور ملو کے قہقہوں کی آواز آئی۔ خدا کا شکر، لیکن اب ٹائینی قہوہ تیار کرنے کا حکم چلائے گا۔ میں چپکے سے غسل خانہ سے نکل کر ایلا کے گھر چلی گئی۔ نشو نپٹتی رہے گی اپنے آپ۔

اور رات کو بہت دیر تک نیند ہی نہ آئی۔ ناشپاتیوں کے باغ کے باہر سڑک پر کوئی خالی تانگہ گزر رہا تھا۔ اس کے گھوڑے کی ٹاپوں اور گھنٹیوں کی گونج خاموش اور بھیگی بھیگی فضا میں لرزتی رہی۔ میں نے روشنی بجھا کر آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے کہیں بہت دور خوابوں کی وادی میں چاند کی کرنوں سے بنے ہوئے راستے پر سے گزرتے ہوئے سیاہ آنکھوں والے ہسپانوی خانہ بدوشوں کے کارواں کی نقرئی گھنٹیاں ایک ساتھ بج رہی ہوں۔ باہر سیاہ آسمان پر چھوٹے چھوٹے ستارے تیزی سے چمک رہے تھے اور جھیل کے کنارے بانس کی سبزگھاس میں چھپا ہوا کوئی بوڑھا جھینگر تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد چلا اٹھتا تھا۔ ستارے بھی روز چمکتے تھے اور بوڑھا جھینگر بھی ہمیشہ یوں ہی چیخا کرتا تھا۔ لیکن آج یہ چیزیں کچھ بہت خاص اور اچھی اچھی یا شاید بری بری سی معلوم ہو رہی تھیں۔ میں نے سونے کی بہت کوشش کی لیکن ستاروں کی بستی میں چاند ی کی وہ ننھی منی گھنٹیاں پھر بجنے لگیں۔ستارے اور شیفوں کے اڑتے ہوئے نقاب سمر قند و بخارا۔ ڈان جوان قرطبہ کا قاضی___ مسٹول کی شیشیاں۔ چاکلیٹ، شفتالو کے پھول___ اور چلو بھائی بہت دور دھندلکے میں کھو گئے۔

صبح کو کھانے کے کمرے کی کھٹ پٹ نے جب جگایا تو دن کافی چڑھ گیا تھا۔ سورج کتب خانے کی چمنی تک پہنچ چکا تھا اور بھورے پروں والی چڑیوں نے جھیل میں نہا کر فراغت پالی تھی۔ کھانے کے کمرے میں پلیٹوں، چھری کانٹوں اور چمچوں کے شور میں ملی جلی بہت سی آوازیں گونج رہی تھیں، امی کے احکام، آپا کی بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ۔، ملو، گلو اور ٹائینی اور نشو کی ہنسی، لیکن آج روز کے اس خوش گوار سے شور و غل میں ایک نئے اور غیر مانوس سے قہقہے کا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ مجید کئی دفعہ جگانے کے لیے آ چکا تھا۔ مجبوراً اٹھنا پڑا۔ منھ دھونے میں بہت دیر لگانے کے بعد کھانے کے کمرے میں گئی جہاں دودھ اور اولٹین، زبردستی ٹھونسنا پڑتا تھا۔

’’پھاٹک تو بند تھا رانی بی بی، لیکن گدھا کھانے کے کمرے تک میں کیسے گھس آیا۔؟ ‘‘ کمرے میں داخل ہوتے ہی نیلوفر کے پھولوں کے پیچھے سے کسی نے کہا۔

ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ میں نے گھبرا کر میز کے دوسری طرف دیکھا۔ ایک تو تھا ہی ٹائرن پاور۔ اس وقت شیشوں میں سے چھنتی ہوئی دھوپ میں اور بھی زیادہ ٹائرن پاور لگ رہا تھا۔

’’می چی‘‘۔ ملو نے تعارف کرایا۔

’’بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر___‘‘ اور امی کی نظر بچا کے ٹی کوزی کے آڑ میں سے میں اس کا اچھی طرح جائزہ لینے لگی۔

’’یہ بے چاری چائے دانی اتفاق سے شفاف نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے سامنے سے چائے دانی ہٹا دی۔ اتنے میں ٹائینی اخبار لے کر اندر آ گیا۔ ’’رانی! آج تمہارا نتیجہ نکلنے والا تھا‘‘۔ اس نے پوچھا۔ میں تندہی سے بسکٹ پر مکھن لگانے میں مصروف تھی۔

’’اوہو، ارے ہاں خوب۔ آپ نے امتحان بھی تو دیا ہے___ کاہے کا؟___ میٹرک؟‘‘

’’جی نہیں، بی اے آنرز___ ‘‘ میں نے جھلا کر جواب دیا۔ کیا کہنے ہیں جیسے میں میٹرک پاس لگتی ہوں شکل سے___

’’ارے باپ رے باپ! یہ لڑکیاں اتنا پڑھ کر کیا کرتی ہیں ؟

اس نے گویا ڈر کر کرسی پیچھے کو سرکالی۔ پنجاب سے کیا ہو گا غالباً۔

یہ اس نے اور بے عزتی کی۔ جان جل کر رہ گئی۔

’’جناب عالی! میں نے الٰہ آباد سے کیا ہے بی اے___‘‘

میں نے ذرا رعب سے کہا۔

’’اوفوّہ! کس قدر خوف ناک بات۔ الٰہ آباد سے۔ ذرا خیال تو کیجئے، ہیں بھئی، ہمیں تو یقین ہی نہیں آتا۔ افوہ‘‘! وہ بولا۔

’’ میں تو س پلیٹ میں چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’ارے رے رے نہیں۔ بگڑئیے مت بھئی ہم تو اتنی دور سے آپ کے یہاں آئے ہیں اور آپ ہیں کہ بس جنگ پر تلی بیٹھی ہیں ‘‘ وہ ہنستے ہوئے خود بھی کھڑا ہو گیا۔ میں ٹائینی کے ہاتھ سے اخبار لے کر اس پر جھک گئی۔

’’رزلٹ نہیں نکلا آپ کا؟‘‘ اس نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے بات کی۔

’’جی نہیں، کل پرسوں تک آ جائے گا شاید‘‘۔ میں نے بھی صلح کر لینی مناسب سمجھی۔ امی جنس نکلوانے کے لیے پنیڑی کی طرف جا چکی تھیں اور ملو، گلو، ٹائینی اور نشو حسب معمول گیلری میں کھڑے کسی فضول سی بات پر الجھ رہے تھے۔

’’آپ ہیں کون آخر؟ ‘‘ میں نے اخبار پرے پھینکتے ہوئے بہت شرافت کے ساتھ دریافت کیا۔

’’میں …؟ ایک پردیسی ہوں بے چارہ۔ ادھر جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ راستہ بھول گیا۔ یہاں سادھو کی کٹیا کے بجائے رات بسر کرنے کو ایک سجی سجائی کوٹھی مل گئی اور اس میں ایک پریوں کی شہزادی___‘‘

اس نے بالکل کلارک گیبل کی طرح ایک بھوں اوپر اٹھا کر سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔ اور مجھے فوراً یاد آ گیا کہ آج اتوار ہے۔ دھوبی کو کپڑے دینے ہیں اور میں تیر کی طرح کھانے کے کمرے سے نکل کر دوسری طرف بھاگ گئی۔

اور جون کی بارش کی رو پہلی پھواروں میں نرگس و لالہ کے نرم و نازک پودے جھومتے رہے۔ گلابی بادلوں میں ڈوبتے ہوئے سورج کی ترچھی رنگ برنگی کرنیں دریچوں کے شیشوں پر جھلملاتی رہیں اور ذرا سی ٹھیس سے آلوچہ سے لدی ہوئی شاخوں پر سے پانی کے بڑے بڑے قطرے ٹپ ٹپ نیچے برس جاتے۔ موسم اچھا معلوم ہونے لگا تھا۔ محاذ پر سے چلو بھائی کے لمبے لمبے اور بے حد مزے دار خط ہر ہفتے آتے تھے۔ میرے بے چارے چلو بھائی‘‘۔!!

ایلاؔ ان دنوں بڑی مصروف نظر آ رہی تھی۔ ایک روز میں نے تنگ آ کر دعا مانگی کہ ’’خدا کرے ایلا جو بھی تمہارا تازہ ترین دوست ہے اس کا کل ہی تبادلہ ہو جائے‘‘۔ کوئی بات بھی، یہ آر۔ اے ایف نہ ہو ا مصیبت ہو گئی۔‘‘

’’بھئی یہ مت کہو۔ ابھی تو بے چارہ آیا ہے۔ اس نے بگڑ کر کہا

’’کون ہے وہ بے چارا۔ اللہ رحم کرے اس پر ‘‘۔ رفیعہ ٹھیک تو کہتی تھی۔ لڑکیاں ہیں کہ مری جا رہی ہیں۔ خواہ مخواہ۔ بھلا دیکھو تو۔

چلو بھائی نے لکھا تھا کہ میرا دوست امید ہے تم لوگوں کو پسند آیا ہو گا۔ بہت پر لطف شخص ہے۔‘‘ اور واقعی می چی بہت باتونی تھا۔ دوپہر کو جھیل کے کنارے سبز گھاس پر اوندھے لیٹ کر دنیا بھر کے بے سرو پا قصے سنایا کرتا۔ چاکلیٹ اور امرود کی جیلی کاتو جانی دشمن تھا۔ ادھر تیار کرو اور کہیں بھی چھپا کر رکھو اور ادھر وہ آپ سے آپ غائب۔کیرم کھیلتے تو ضد تھی کہ طرح طرح سے بے ایمانیاں کر کے ہمیں ہرا دے اور خود کسی حالت میں بھی ہار ماننے پر تیار نہ ہوتا۔ مجھ سے تو اس نے کبھی دوستی کی ہی نہیں جو بات میں کروں گی اس کی مخالفت کرنے کے لیے موجود۔ مجھے ڈائنا ڈربن کے گیتوں سے عشق تھا۔ آپ کہیں سے نرائن راؤ ویاس کے سارے ریکارڈ اٹھا لائے۔ ’’ہی ہی، آپ فرشتوں کی غلطی سے ہندوستان میں کیوں پیدا ہو گئیں۔اور وہ ریکارڈ میرے غسل خانے کے برابر والے کمرے میں صبح سے شام تک بجائے جاتے!

جس روز ہمارا نتیجہ نکلا می چی گھر پر نہ تھا۔ بہت جی چاہا کہ کسی طرح فوراً اس کو بتا دیا جائے کہ میں نشو، ایلا، گلو سب پاس ہو گئے ہیں۔ لیکن نہ معلوم کیوں تین دفعہ فون کی میز کے قریب جا کر میں پھر واپس آ گئی۔ شام کو اپنے دفترسے اس نے خود رنگ کیا۔ ’’ہر میجسٹی پاس ہو گئیں ؟‘‘ اس نے ٹائینی سے دریافت کیا لیکن جب اس کو پتہ چلا کہ میں بھی فون کے پاس کھڑی ہوں تو وہ فوراً لہجہ بدل کر کہنے لگا۔

’’سیکنڈ ڈویژن…؟ کل؟ وہ تو کہہ رہی تھیں کہ یونی ورسٹی میں ٹاپ کرنے جا رہی ہیں۔ چلو خیر، یہ بھی اچھا ہوا بھئی۔میری طرف سے دلی مبارک باد عرض کر دینا۔

دوسرے دن ہم نے پاس ہونے کی خوشی میں ایک زبردست مون لائٹ پکنک کا پروگرام بنایا۔ پارٹی کے بعد شام کا اندھیرا چھاتے ہی ہم سب ٹہلتے ہوئے سروکے درختوں کے اس پار کالی پہاڑی کی طرف نکل گئے جہاں فرانسیسی ریزیڈنٹ کے قلعہ کے باغ میں آنکھ مچولی کھیلنے کی صلاح کی گئی تھی۔ پام کے اونچے اونچے سیاہ پتوں میں سے بڑاسازرد چاند نیچے جھانک رہا تھا، اور پہاڑی کی ڈھلان پر بنی ہوئی کرنل کی کوٹھی سنسان رات کے سناٹے کو اور بھی زیادہ ہیبت ناک بنا رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کی کھڑکیوں میں سے ایک مدھم سی روشنی چمک کر غائب ہو جاتی۔ ہم ڈرتے ڈرتے بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی پر قدم رکھتے ہوئے پہاڑی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ لڑکے بہت آگے جا چکے تھے۔’’ارے بھئی سواریاں کہاں رہ گئیں ؟ تیزی سے چلو جی۔ ایلا تم تو میڈیکل مشن کے ساتھ چین جانے کو تیار تھیں۔ یہ تو فقط رات کے نو بجے قلعے کے باغ تک پہنچنے کا مرحلہ ہے۔بہت دور اندھیرے میں سے شاید ملو نے للکار کر کہا۔ اور ایلا آگے نکل گئی۔

’’اسی ہمت پر مردوں سے برابری کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

اچھا ہے بھئی، میری ہونے والی بیوی تو صرف پنجاب کا میٹرک پاس ہے‘‘۔ یہ می چی کی آواز تھی۔ قہقہوں اور سیٹیوں کا شور اور تیز ہو گیا۔ اب ہم کرنل کی کوٹھی کے بالکل پاس سے گزر رہے تھے۔ چاند پام کے جھنڈ کے پیچھے چھپ چکا تھا۔ کوٹھی کے احاطے میں ایک طرف ان انگریز فوجیوں کی چند بھوری بھوری شکستہ قبریں بنی ہوئی تھیں جو غدر میں اس مقام پر مارے گئے تھے۔ ہماری تو اس طرف نظر ڈالنے کی بھی ہمت نہ پڑی۔ می چی ایسے ایسے عجیب قصے سنا چکا تھا۔

’’قوم کا اگر کوئی بہادر فرد اس بیچ والی کرنل کی قبر پر ماچس کی یہ ڈبیا رکھ آئے تو میں پورا ایک آنہ دینے کو تیار ہوں۔ می چی نے آگے جاتے جاتے پیچھے مڑ کر اعلان کیا۔

’’اوئی۔ ہی۔ ہی۔ ‘‘ لڑکیوں نے بن بن کر ڈرنا شروع کیا اور پھر پگڈنڈی کا راستہ چھوڑ کر سب لڑکے باری باری احاطے کی ٹوٹی ہوئی دیوار پر سے ہوتے ہوئے قبروں پر سے چھلانگ لگا کر دوسری طرف کود گئے۔ ہائیں نہیں ادھر سے مت جاؤ بھئی۔‘‘ لڑکیاں بے اختیار چلائیں۔ مجھے بھی خوف ہوا کہ کہیں اندھیرے میں می چی کا پیر نہ رپٹ جائے یا اس کو کرنل کا بھوت نہ پکڑ لے لیکن وہ چپ چاپ ٹفن باسکٹ اٹھائے پگڈنڈی پر چلتی رہی۔ لڑکے جانتے تھے کہ ہم لوگ جان جان کر ڈرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹارچ کی روشنی کوٹھی پر ڈالتے ہوئے می چی اونچی آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا… ’’ہاں تو بھئی پھر کیا ہوا کہ میں رات کو بارہ بجے میکس سے واپس آ رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جناب وہ سب سے اونچی چمنی پر چڑھا بیٹھا حقہ پی رہا ہے۔ اور اس کی ٹانگیں۔؟ بس کچھ مت پوچھو اتنی لمبی تھیں کہ دوسری منزل سے زمین تک پہنچ رہی تھیں۔‘‘

’’اوئی۔ افوہ۔ ’’لڑکیوں نے تیزی سے لمبی لمبی گھاس کا میدان طے کرنا شروع کیا۔‘‘ٹہلتے ہوئے وہ ہمارے پاس سے اس طر ح گزر جاتا تھا کہ اس کی باتیں ہم اچھی طرح سن سکیں۔ پھر اس گورے نے کہا۔ Halt Who Comes Where?  میں نے سوچا کہ بھیا بھاگو یہاں سے۔ ایک تو اندھیر ی رات اور اوپر سے لگنے لگا ڈر___ تیزی سے سائیکل جو چلائی تو وہی گورا سامنے آ کر چلا چلا کر مکھن توس کی فرمائش کرنے لگا۔ پھر کیا دیکھتا ہوں جناب عالی کہ ایک صاحب بہادر گھوڑے پر سوار اس پولو کے میدان کا چکر لگائے جا رہے ہیں۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ صاحب بہادر کا سر ہی غائب تھا۔ یعنی ذرا خیال تو فرمائیے کہ ان کا سر تھا ہی نہیں ایک سرے سے اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے۔

God bless the Queen where is my head ?

اوفوہ___ اور اسی وقت پولو گراؤنڈ کی طرف سے درختوں کے جھنڈ میں کوئی سفیدسفید سی چیز ہلتی نظر آئی۔ ہمارا تو ہارٹ فیل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ڈر کے مارے تیزی سے چلایا بھی نہیں جا رہا تھا۔ لڑکے زور زور سے

Forhe is a Jolly good Fellow

گاتے ہوئے برج پر چڑھنے لگے۔ لڑکیوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ قلعے کے باغ میں پہنچ کر طرح طرح کے بے تکے کھیل ہوئے۔ ’’سزائیں ‘‘۔ "Opinions”

’’آج کی رات بہت دنوں تک یاد رہے گی نا؟___ ’’می چی نے کھیلتے کھیلتے دفعتاً بہت سنجیدگی سے کہا۔ اور وہ بھی مجھ سے بڑے میلو ڈریمٹک انداز سے___ مجھے ہنسی آ گئی، پھر وہ کچھ نہیں بولا۔

کھانے پینے کے بعد کیرم شروع ہوا اور اس میں ہمیشہ کی طرح اس نے سب کو ہرایا۔ لیکن کوئین تو چلو بھائی کی قسمت میں لکھی تھی۔

ایک ایک کر کے دن یوں ہی ختم ہوتے گئے۔ خوابوں کی وادی میں نقرئی گھنٹیوں والا کارواں چاند کی کرنوں پر سے بنے ہوئے راستے پر سے گزرتا ہوا اپنی نامعلوم منزل کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔

پھر سفید اور نیلے پھولوں کا موسم بھی گزر گیا، زرد گلاب کی جھاڑیوں میں چھپی ہوئی شہد کی مکھیوں نے بھنبھنانا چھوڑ دیا۔ اور ہواؤں میں بکھرے ہوئے خشک پتے تیرنے لگے۔ ’’می چی کل جا رہا ہے۔‘‘ ٹائینی اور گلو تقریباً روپڑے___ می چی آیا ہی کیوں تھا؟ بھلا!

اور می چی واقعی چلا گیا۔ اسے صبح منھ اندھیرے پر واز کرنا تھا۔ اس لیے وہ رات ہی کو ’’ایروڈروم ‘‘روانہ ہو رہا تھا۔ کھانے کے بعد ہم سب اس کو پہنچانے کے لیے گئے۔ کار سرو کے جھنڈ میں چھوڑ کر باقی کا راستہ ہم نے پیدل طے کرنا شروع کیا۔ ایروڈوروم کی سرخ روشنیاں دھندلکے میں دور سے جھلملا تی ہوئی نظر آنے لگی تھیں۔ می چی، گلو، ملو، ٹائینی بھاری بھاری قدم رکھتے ہوئے آگے جا رہے تھے۔ خاموش اور سحر آلود چاندنی میں … I Promise l I always Pray For You کے آخری الفاظ دیر تک گونجتے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا اس گیت سے مجھے ازلی نفرت تھی۔ می چی چلا گیا اور چاند کی ایک لرزتی ہوئی کرن بھیگی ہوئی آنکھوں میں تیرنے لگی۔ اور نرگس پر پڑے ہوئے بہت سے شبنم کے قطرے ایک ساتھ جگمگا اٹھے۔

اور پھر___وہی سفید اور نیلی کلیوں کا موسم تھا۔ اور وہی شفتالو کے پھولوں سے گھرے ہوئے راستے۔ چھوٹے چھوٹے زرد گلابوں کے گچھے، زرد قالین، زرد دیواریں اور زرد پتے، یہ رنگ ان کو پسند تھا۔ وہ صبح سے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ برساتی میں کار کی سفید روشنی کا سیلاب سا آ گیا اور پھر دروازہ زور سے کھلا۔ می چی آیا تھا۔ وہی چاکلیٹ چرانے اور بھوتوں کی کہانیاں سنانے والا۔ می چی، اس میں ذرا سا بھی فر ق نہ آیا تھا۔

وہ آتش دان کے شعلوں کو بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کروں۔’’قہوہ منگواؤں یا چائے‘‘ میں بے چینی سے دعا مانگ رہی تھی کہ وہ جلدی سے آ جائیں۔

’’عام طور پر ایسے پیارے موسم میں قہوہ زیادہ اچھا لگتا ہے۔‘‘ لیکن اس نے تو صرف یہی کہا ’’جو آپ منگوا دیں۔‘‘ اور میں بلا ضرورت اون کو ادھیڑ کر پھر سے بننے لگی۔

’’آپ ایران سے کب آئے؟‘‘

’’گزشتہ ماہ‘‘۔

’’کتنے دنوں کے لیے؟‘‘

’’دومہینے کی چھٹی لی ہے۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’ایلا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اسے اور بچی کو امی کے پاس پہنچانا ہے۔‘‘

’’اچھا___‘‘ میں سلائیوں پر زیادہ انہماک سے جھک گئی۔

وہ Onlooker کی ورق گردانی کرتا رہا۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور وہ اندر آ گئے۔ بے چارے دورے سے تھکے تھکائے آئے تھے۔ میں جلدی سے اٹھ کے دوسرے کمرے میں جاکے قہوہ تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔

___ ’’یہ جو آپ نے اپنے خیال میں بڑا شاہکار افسانہ لکھا ہے قطعی فضول ہے۔ نہ ٹھکانے کا پلاٹ نہ ڈیولپمنٹ نہ کلائمکس۔ اور یہ کہ آپ ضرورت سے زیادہ جذباتی اور بے وقوف ہیں۔ ایک گدھے صاحب آتے ہیں اور چند روز آپ کے یہاں رہ کر تشریف لے جاتے ہیں۔ یعنی روزمرہ کی زندگی کا ایک بے حد معمولی اور غیر اہم واقعہ۔ جس کی وجہ سے آپ اس قدر میلوڈریمٹک بن جاتی ہیں۔ کہ خدا کی پناہ، اور یہ ’’میری گلی میں ایک پردیسی‘‘___ قسم کے گیت آپ کو قطعی نہیں سننے چاہئیں۔‘‘

اور نشو ریڈیو بند کر کے پھر سے کیرم کی گوٹیں ترتیب سے رکھنے لگی۔

کہانی واقعی ختم ہو چکی تھی___!!

٭٭٭

 

 

 

آہ ! اے دوست

 

 

غمِ روزگار کو بھلا دینے کے لیے آؤ اور نج اسکویش پئیں۔ کچھ طلسماتی خوابوں کی باتیں کریں۔ تم یوں ہی بیٹھے بے وقوف بنتے رہو تو مجھے زیادہ اچھے لگو گے۔ بڑا اچھا مشغلہ ہے۔ ان سبز پردوں کی دوسری طرف انگور کی بیلوں سے ڈھکے ہوئے برآمدے میں مہادیو جی اپنی کلاس لے رہے ہیں۔ ایک دو تین۔ چھنن چھنن چھنن۔ کلاسیکل رقص دیکھو گے؟ خداؤں کا اپنا محبوب شغل۔ جگمگاتے تاروں کے پرے، ہمالیہ کی بلندیوں پر رہنے والے حسین خداؤں کے کھیل بہت پُر لطف اور انوکھے ہوتے ہیں۔ برج باسیوں میں شام، برج باسیوں میں شام، بنسری بجائے جا۔ بجائے۔ واللہ۔ کیا کیا نظمیں لکھتی ہے، تم لوگوں کی قوم۔ بیٹھے پیٹے جا رہے ہیں وہی پرانی باتیں۔ سایوں کا ناچ دیکھو گے؟ وہ سامنے دیوار کی رو پہلی سطح پر نارنجی اور قرمزی دھبّے اندھیرے میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہ دریا میں ڈوبتے سورج کی کرنوں کا الوداعی رقص ہے۔ کاش تم سدھیر یا اویا ما ہوتے۔ ہائے جمالیاتی حِس کا فقدان اور بد ذوقی کی فراوانی۔ کیا کروں، کہاں جاؤں بے چاری میں ؟

ایک دو۔ ایک دو۔ تال کہروا۔ جمنا کنارے شیاما، جمنا کنارے شیاما ناچیں گائیں سُرنگ بالا۔ چُپ دیوتاؤں کی لڑکیاں جمنا کنارے ناچ رہی ہیں۔ تم مہادیو جی سے ملے۔ مانی پور کی ہری ہری وادیوں کے اپنے بیٹے۔ کہتے ہیں زندگی ایک رقصِ مسلسل ہے۔ فکر کا ہے کی۔ چھنن چھنن۔ تیز کر وئے۔ مہادیو برمن مہاراج اصل فن کار ہیں۔ ہندوستان کے فن کار۔ ٹٹ ٹٹ۔ شانتی نکیتن میں ملازم تھے۔ گورودیو کی موت کے بعد دادا نے الموڑے بلا لیا اور اب تو کلچر سنٹر بھی ختم ہو گیا ہے۔ کاش کہ اپنے دیس واپس جا سکتے۔ پر کوئی فکر نہیں۔ ناچے جاؤ سُر رنگ بالا۔ دادا اور املا دیدی اگر ہندوستان کی بجائے روس یا امریکہ میں پیدا ہو گئے ہوتے تو کیا ہوتا؟ فضول کی باتیں۔ ہائے الموڑے کے پھولوں سے بھری گھاٹیاں۔ کاٹھ گودام سے جب موٹر بل کھاتی ہوئی اوپر چڑھتی ہے اور یوکلپٹس کے جھنڈوں سے چھنتی ہوئی ہوائیں سامنے آ کر ٹکرا جاتی ہیں۔ دادا کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں جو فنونِ لطیفہ کی مٹی… لاحول ولا قوۃ۔ یہ کیا فنون اور لطیفہ اور گڑ بڑ سٹربٹر لے بیٹھے۔ مہا دیو جی آپ ناچے جائیے۔ بڑی نالائق لڑکیاں ہیں۔ ایک ہفتے سے اسی ایک دھن سے آگے نہیں بڑھتیں۔ جی ہاں یہ سیزنل ڈانس ہے۔ پھر اس کے بعد ہاروسٹ ڈانس آپ کو دکھایا جائے گا۔ پھر فوک ڈانس یا ہندوستان کی پیاری پیاری معصوم بیٹیاں، دھان کے کھیتوں اور پہاڑیوں کی وادیوں اور ندی کے کنارے اور آم کے باغوں کی رنگین پرچھائیاں۔ اٹریا پر چور بھابی، دیا تو جلاؤ۔ put out the blue light sweetee pie پاروتی کے اسٹیج پر آنے سے پہلے ایک دم مدھم سازرو اجالا کر دو، effect زیادہ خوب صورت رہے گا۔ مسٹر رولینڈ خود ڈیڈی سے کہہ رہے تھے کہ آپ کی بچیوں کی مدد کے بغیر ہمارا جنگی ہفتہ اس قدر کامیاب نہ ہو پاتا۔ ہم سب اتحادیوں کی فتح کے لیے کوشاں ہیں۔ چھنانن نن۔ چھن چھن چھن۔ زندگی ایک نغمہ پیہم ہے، ایک رقصِ مسلسل۔ مہادیو جی آپ نے ہندوستان کی موسیقی پرور سرزمین میں جنم لیا ہے اسی لیے ایسے شاعرانہ طریقے سے سوچتے ہیں۔ آپ برہم پتر کی وادیوں کے لوگ ہر معمولی سے معمولی بات کو لطافت اور خوب صورتی سے ادا کرنے کے قائل ہیں۔ زندگی آپ کے لیے جل ترنگ ہے۔ دنیا کے نقرئی تاروں میں سے اُٹھتی ہوئی ایمن کلیان کی دُھنیں۔ یہی باتیں آپ اس طرف کے لوگوں سے کہیں تو ایک زور دار قہقہہ پڑے۔ دنیا ان کے لیے بوکسنگ رنگِ ہے یا گروسری شاپ۔ بہت ہی matter of fact قسم کے لوگ ہیں ہم۔ آپ کسی لڑکی کی تعریف کریں گے تو کہیے گا: کماری تم چاندنی میں تیرے ہوئے کنول کا خواب ہو۔ پاروتی کے مرمریں قدموں پر لرزاں دیپک کی جھلملاتی روشنی۔ میرے ساتھ گنگا کے دھارے پر ناؤ چلاؤ__ افوہ! سیدھے سادے طریقے پر کہہ دیجیے کہ ! look here تم مجھے بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔ میرے ساتھ شادی کر لو یا آج شام کو روشن آرا یا پکچرز چلی چلو__ ایک دو تین چُھن __

__ آ لی ری سائیں کے مندر میں دیا بار آؤں کر لوں سولہ سنگھار۔ سمکی دیدی ناچتی تھیں تو ایسا لگتا تھا، یعنی خیر__ مہا دیو جی آپ ناچے جائیے۔ اور اس زندگی میں کیا رکھا ہے؟ سب ہی ناچتے ہیں اپنی اپنی جگہ۔ سمکی دیدی کلچر سنٹر کے کلاس روم میں اور حضور وائسرائے بہادر وائسریگل لاج کے بار روم کی فلور پر اور رنگ برنگے پھولوں والے کپڑوں میں ملبوس پناہ گزیں پولش بچے کاٹھیاواڑ کی سمندری ریتوں پر __ اور __ اور __ اچھا۔

لیمپ کی روشنی ذرا کم کر دو۔ مالکونس کی لہریں ضرورت سے زیادہ نرم۔ سانجھ بھئی گھر آ بالموا۔ ہنسے جاؤ۔ مجھے تمہاری مسکراہٹ بہت پسند ہے۔ یہ روشنیاں کبھی تیز ہو جاتی ہیں کبھی مدھم۔ یہی تو سارا فلسفہ ہے بھئی۔ الموڑے کی چوٹیوں پر مال کے قمقمے جگمگاتے ہیں اور نیچے وادی میں رقص ہوتا رہتا ہے۔

الموڑہ۔ نینی تال۔ مسوری۔ ہائے مسوری۔ ہائے دہرہ دون۔ میرا پیارا بچپن کا رفیق دہرہ دون۔ ان کے بغیر ہندوستان، تمہارے گرم اور پھیکے ملک میں رہنا ایک مستقل مصیبت ہو جاتی۔ اللہ بڑا مہربان ہے۔ بڑا اونچا اور عمدہ۔ کیمسلز بیک روڈ پر ایک ہز ہائی نس کی چمک دار مخملیں رکشا کس قدر خوب صورتی سے بہتی چلی آ رہی ہے۔ اب تم مارکس اور لینن کا وظیفہ شروع کر دو۔ یہ تم ہندوستانی۔ قنوطیت پسندی تو تمہیں لے ڈوبی۔ کبھی یہ غور نہیں کرتے کہ ہماری Aristocracyکس قدر شان دار اور خوب صورت ہے۔ پرنسس کرم جیت اور شہزادی نیلو فر اور مہاراجہ راج پیپلا اور بیگم گوہر تاج اور مہارانی کوچ بہار __ ایک خاص رومان ہے ان ناموں میں۔ فش بیورلی فلکس۔ ان کے غیر ملکی سکریٹریوں سے ملو، ان کو رِنک میں اسکیٹنگ کرتے دیکھو۔ ان کے بال روم، سوائے کے کمرے، ریس کورس، وہ ڈائننگ ہال جہاں میزوں پر چھوٹی چھوٹی برقی ٹرینوں کے ذریعے کھانا سرو کیا جاتا ہے، آسٹریلین گھوڑے، اسکاچ کتے۔

کم از کم تم نے میرے کتے کی تو آج تک تکلفاً بھی ذرا سی تعریف نہیں کی۔ کیسی ایک خاص شاعرانہ انداز سے چاکلیٹ ملنے پر دُم ہلاتا ہے۔ دن بھر پچھلے برآمدے کے کونے میں اپنی ٹوکری کے گدیلے پر سمٹا سمٹا یا غور و فکر میں محو رہتا ہے یا کبھی کبھی محض از راہِ اخلاق ایک آنکھ کھول کر نرمی سے بھونک دیتا ہے۔ تم سے بہر حال زندگی کے متعلق اس کا نظریہ زیادہ صحت مند ہے۔

ہائے دہرہ دون، گرمیاں آ رہی ہیں، یعنی کیلے اور فالسے کے جھنڈوں میں بھنورے گو بخنا شروع کر دیں گے۔ ہائے یو۔ پی۔ میرا اپنا پیارا یو۔ پی۔ تم نے کبھی یو۔ پی۔ کی گرمیاں نہیں دیکھیں۔ آم کے باغوں میں دوپہر کے سناٹے کی خاموش موسیقی کا بوجھ محسوس نہیں کیا۔ امرودوں کے جھرمٹ میں سے بلند ہوتی ہوئی برہا اور آلھا  اودل کی تانیں نہیں سنیں۔ شاید کبھی ملیح آباد جا کر آم بھی نہیں کھائے۔ اور گومتی کے خربوزے، آہ میرا اودھ۔ قیصر باغ کی بارہ دری میں اندر سبھا ہو رہی ہے۔ سبز پری۔ نہیں کھول لو آنکھیں۔ پیچھے دیکھنے کے بجائے آگے دیکھنا صحت کے لیے مفید ہے۔

___تمہاری قنوطیت (یہی لفظ ہے نا شاید) یعنی بھئی کبھی تو زندگی کو خوش گوار رنگوں میں دیکھنے کی کوشش کیا کرو۔ مثلاً۔ مثلاً میرین ڈرائیو۔ جوہو۔ مالا بار ہل۔ ورسوا۔ گہرے نیلے سمندر میں ڈوبتی ہوئی قرمزی شفق اور اودے آسمانوں میں تیرتا ہوا نارنجی چاند، برے سے، رسیلے سے سنترے جیسا۔ تاج کا پرتگالی آرکیسٹرا یا پھر دمشق کے تیز سرخ گلاب۔ بغداد کے رنگین شگوفوں سے بھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے صحن۔ تمہیں معلوم نہیں مجھے زندگی سے کتنا بے انتہا عشق ہے۔ تم نے طہران کے امیروں کی اونچی دیواروں والی محل سرائیں اور ان کے اندر کے وہ باغ نہیں دیکھے جن میں چھوٹی چھوٹی نہریں بے حد الف لیلوی انداز سے بہتی رہتی ہیں اور جہاں سیاہ فراکوں میں ملبوس خانمیں ایک دوسرے سے نرم نرم اس طرح باتیں کرتی ہیں جیسے قہوے کی پیالیوں میں نقرئی چمچوں سے شکر گھولی جا رہی ہو۔ افوہ! مجھے بغداد، طہران اور قاہرہ کی یاد مت دلاؤ، ورنہ اس روکھے پھیکے ملک اور اس تنگ اور بد مزہ ماحول سے اڑ جانے کو جی چاہے گا۔ گزرے خوابوں کو یاد کر کے ایک کونے میں جگہ دینے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بہت حد تک Compensationکا کام دیتے ہیں۔ ارے! تو گویا قنوطیت پسندی بھی الٹرافیشن ایبل بنتی جا رہی ہے؟

اچھے گیت بھی تو اس وقت نہیں بج رہے۔ سحاب قزلباشؔ کو خط لکھنا پڑے گا۔ گریسی فیلڈ کا کوئی نیا ریکارڈ لگاؤں۔ اچھا تو تمہیں مغربی موسیقی سے دل چسپی نہیں۔ بد مذاق تو اب کیا باتیں کریں۔ علی گڑھ۔ میرس روڈ۔ سیاہ برقعے۔ نقوی پارک۔ گرلز کالج کی لاری۔ اسٹیشن۔ ڈاکٹر ضیاء الدین۔ نہیں کچھ اور سوچو۔ احمد عباس کی تازہ کتاب؟ یا The Brave New Worldنہیں بھئی۔ بہت زیادہ Boringہوتی جا رہی ہے دنیا۔ چلو امریکہ اڑ چلیں۔ نیلی آنکھیں جانتی ہو میری کمزوری ہیں، یعنی ویک پوائنٹ۔ میلون ڈگلس نے روشن آرا کلب میں میلینی کے ساتھ رقص بھی کیا تھا اور اسٹال پر پورے ساڑھے چار منٹ تک مجھ سے باتیں کرتا رہا تھا۔ ذرا خیال تو کرو، یہ کہہ رہا تھا۔ ’’ہالی ووڈ آؤ۔ ہم ہندوستان اور امریکہ کا کلچرل اور دوستانہ رشتہ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ’’میلون ڈگلس نے کہے یہ الفاظ، اوو۔‘‘

خیر تم کم از کم چیمسفورڈ یا روشن آرا کے ممبر بن جاؤ۔ تمہاری تندرستی بہت عمدہ ہو جائے گی۔ یا پھر گاجر کھاؤ۔ ٹماٹر بھی فائدہ مند ہوں گے۔ حیاتین کی کمی سے انسان کمیونسٹ بن جاتا ہے اور راز حیات پر گفتگو کرنے لگتا ہے۔ میں اتنی دیر سے کس قدر بصیرت افروز گفتگو کر رہی ہوں۔ بڑی بڑی گہرائیاں ہیں اس حیات مستعار میں جناب عالی۔ وہ تو یہ سمجھو کہ کیا کیا فلسفے ہیں۔ کیا ٹھکانا ہے میری قابلیت کا۔ بہت قابل ہوں۔ چین اور روس اور فرائڈ پر ساری کتابیں پڑھ چکی ہوں، گو یہ معلوم نہیں کہ ان کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہندوستان میں رہ کر تم کچھ نہیں کرسکتے۔ بہت ہی کم نظری اور رجعت پسندی اس ملک میں عام ہے اور نہر سویز کو پار کر لینے کے بعد ایک نہایت ہی وسیع قسم کی بلند نظری انسان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ دماغ کے اندر بے حد اعلیٰ خیالات آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں یہاں قرول باغ میں بیٹھے بیٹھے اس قدر وسیع نظر ہوں کہ چین ماچین سب دیکھ سکتی ہوں حالاں کہ سویز کو میں نے بچپن میں پار کیا تھا___ اس کے اثرات کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ قابلیت کے علاوہ مجھ میں ایک وصف اور بھی ہے۔ یعنی بہت کافی خوب صورت ہوں۔ بالکل تازہ تازہ میڈیم جین کے بیوٹی پارلر سے نکل کر آ رہی ہوں۔ بہت عمدہ فرم ہے۔ دیانت دار، خوش معاملہ، فیسیں بالکل واجبی اور معقول۔ ایک سٹنگ کے صرف پینتیس روپے اور بال بالکل ویو کرانے ہوں تو پچھتر روپے۔ کناٹ پیلیس کے انرسرکل میں ہے، فون نمبر۔۔۔۔۔

لیکن یہ رقص وسرور اور روشن آرا اور میڈیم جین کا بیوٹی پارلر___ یہ تعلیم دین کے منافی ہیں اور متقاضی ہیں اس امر کے کہ___ بھئی خوب یاد دلایا۔ میں بہت سخت مسلمان ہوں۔ ملت بیضا پر جان بھی نثار ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔ لکھنؤ میں مسلم لیگ کے سارے ایٹ ہوم ہمارے لان پر ہوتے تھے چاہے جس سے پوچھ لو، اور یہاں تو فی الحال___ تو دراصل بات یہ ہے کہ دہلی میں مکان نہیں مل رہے۔ بری قلت ہے مکانوں کی۔ عالم کون ومکاں Versus لامکاں۔ اے طائر لا ہوتی، نہ تو زمین کے لیے نہ آسماں کے لیے۔ ہوا میں معلق رہ۔ اسرار خودی پڑھو۔ رموز بے خودی پڑھو۔ اقبال کا مطالعہ کرو۔ تمہاری خود آگاہی اس قدر عمدہ ہو جائے گی اور تم میں ایسے بال وپر نکل آئیں گے کہ تم انٹر ویو میں آ جاؤ گے اور فوراً فلائٹ لفٹنٹنٹ بن جاؤ گے۔ اقبال ___ ہائے اقبال___ یہ ایک بہت بڑا شاعر تھا جس نے قوم کی بدنصیبی کی وجہ سے اس سرائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی اور بد نصیب قوم نے اخباروں کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ اس کا مزار بے حد گرینڈ بنوائے گی۔ لہذا چندہ جمع ہونا شروع ہوا اور فرزند کو ہستان’ شاہ افغانستان کی طرف سے بھی شاہی عطیے کا فرمان جاری ہوا( اچھا اب باقی آئندہ)۔

ہاں تو مہادیو جی آپ ناچے جائیے۔ مانی پور کے سنہرے مندروں کا ناچ۔ تنخواہ کم ہے تو کیا ہرج ہے۔ رام گوپال نیچے جنوب میں ایک اور سنٹر قائم کر رہا ہے بھرت نایٹم اور  کتھا کلی کے لیے۔ وہاں چلے جائیے گا۔ فی الحال تو ہمیں جنگی ہفتے کے کنسرٹ کے لیے فوک ڈانس کی مشق کرائے جائیے۔ بڑا اسکوپ پڑا ہے۔ ہندوستانی رقص کا فن معراج پر پہنچنے والا ہے۔ تعمیرات بعد ازجنگ میں فنون لطیفہ کا روس کی طرح خاص درجہ ہو گا۔ عوام کے تھیٹر اور کلچر کیمپ کھولے جائیں گے۔ (وغیرہ)

دادا پونا میں ایک انگریزی رنگین فلم تیار کر رہے ہیں۔ رام گوپال کو ایک فلم میں تین منٹ کے رقص کے لیے دس ہزار روپے ملے ہیں۔ تو مہادیو جی یہی تو دنیا ہے، آپ کے کنول کے پھولوں اور سنہری گھنگروؤں کی جھنکار سے علاحدہ اور ہم بہت پریکٹیکل لوگ ہیں۔ چلیے ریہرسل کروائیے۔ ایک دو تین۔ چھنن چھنن۔ پگ گھنگرو باندھ میرا ناچی رے۔ میرا ناچی رے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ٹوٹتے تارے

 

 

انجیر اور زیتون کے درختوں اور ستارہ سحری کے پھولوں سے گھری ہوئی کسی جھیل کے خاموش اور پر سکون پانیوں میں زور سے ایک پتھر پھینکنے سے لہروں کا لحظہ بہ لحظہ پھیلتا ہوا ایک دائرہ سا بن جاتا ہے نا! یا جب کوئی تھکا ہارا مطرب رات کے پچھلے پہر اپنے رباب پر ایک آخری مضراب لگا کر ساز کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور اس کے نقرئی تاروں میں سے جو لرزتا، دم توڑتا ہوا آخری نغمہ بلند ہوتا ہے۔ یا پھرجیسے سفید یاسمین کی معصوم کلیوں کی مہک کی تیز لپٹوں میں ملفوف ہوا کا ایک جھونکا صبح ہوتے چپکے سے اندر داخل ہو کر شمع کو بجھا دیتا اور پھر اس بجھی ہوئی شمع میں سے جو ہلکا سا غمگین سا دھواں لہراتا ہوا اوپر کو اٹھتا ہے نا __

لیکن ٹھہریئے بھئی۔ اس قدر شاعری کی ضرورت نہیں۔ بس یوں ہی سمجھ لیجئے کہ ایسی ہی کچھ ناقابلِ اطمینان، نا قابلِ تشریح سی کیفیت اس وقت شاہینہ پر چھائے جا رہی تھی بلکہ حاوی ہو رہی تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا، نہ جانے کیا کیا محسوس ہو رہا تھا، کیوں کہ ہماری اس احمق سی دنیا میں بہت سی باتیں ایسی عجیب سی ہو جاتی ہیں جن کی تشریح نہیں کی جا سکی اور نہ ان کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں آتی ہے۔جانے کیوں، پر ایسا ہوتا ضرور ہے، ہمیشہ، کہ جب، لیکن، خیر، کہانی بے ربط ہو جائے گی اور پھر آپ عقل مندوں کے نزدیک اس زندگی میں بہت سے گہرے گہرے اور اونچے اونچے نشیب و فراز ہیں، اور یہ زندگی ایک دو راہا ہے۔ ایک چھوٹا سا المیہ ہے یا طربیہ۔ یا المیہ اور طربیہ دونوں __ یا ایک __ خیر __ افوہ __!

کیوں کہ یہ رخشندہ کا خط تھا جسے وہ اب تک کم از کم پچیس مرتبہ پڑھ چکی تھی۔ اور اب اسے خوف ہو رہا تھا کہ کہیں اسے ڈاکٹر عارف سے اپنی سائیکوانالسس نہ کروانی پڑ جائے۔

زندگی بھی واقعی کیسی عجیب چیز ہے۔ بے انتہا عجیب۔ بالکل بے سروپا _ رخشندہ کا خط اسی طرح قالین پر پڑا ہوا تھا۔ بھئی اللہ یہ کرسمس کی صبح تھی۔ کیرل گانے والی ٹولیاں دور نکل چکی تھیں اور پہاڑی خوبانیوں کی ڈھلوان کے پرے کیتھیڈرل کی دوسری طرف سے بیگ پائپ کے تیز اور مدھم سروں کی لہریں برفانی ہوا میں تیرتی ہوئی دریچے کے شیشے سے ٹکرا کر اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہرسال یہ بیگ پائپ بجانے والے ۲۵؍ دسمبر کی صبح کو اسے اسی طرح جگا دیا کرتے تھے اور وہ جھنجھلا کر پھر تکیے میں منہ چھپا لیتی تھی۔ مگر اب__ اب تو ساری کہانی ہی ختم ہو چکی ہے۔ توبہ __ افوہ __ ہوا کے ایک جھونکے سے رخشندہ کا خط اڑتا ہوا آتش دان میں جا گرا۔ اس نے اٹھ کر دریچہ بند کر دیا اور دیوان پر گر گئی۔ صبح کی ہلکی ہلکی قرمزی روشنی دیواروں پر پڑ رہی تھی۔ کتھیڈرل کا گھنٹہ بجے جا رہا تھا اور Gants brough کا ’’ بلوبوائے‘‘ دیوار پر سے جھانک کر مسکرا رہا تھا۔

’’ بلو بوائے۔‘‘ شاہینہ نے آنکھیں بند کر لینی چاہیں لیکن تصویر کے شیشے پر بہت سی دھندلی دھندلی رنگین پر چھائیاں ناچنے لگیں۔

’’ جب میں بڑا ہو کر ڈیڈی کی طرح میجر بنوں گا اور ری شی سے شادی کروں گا تو تم اور سلیم ہمارے ہاں مہمان آنا۔ میں راج پور میں یوکلپٹس کے جنگلوں میں ایک بہت بڑا اور اونچا سا چاکلیٹ اور کیک کا گھر بناؤں گا۔ پھر اس میں ری شی اسنو وائٹ کی طرح رہا کرے گی۔‘‘

’’ ہشت ندیدے، کہیں ہر وقت چاکلیٹ کھاتے کھاتے بیمار جو پڑ جاؤ گے تو جناب عالی میں تو کبھی آپ کو دیکھنے بھی نہیں آؤں گی، اور ڈبل فیس لوں گی ہمیشہ۔ سلیم تم بھی کبھی نہ جانا ان لالچی خرگوشوں کے گھر۔ میاں عمر بھر پڑے رہیں گے یوں ہی۔ اور ہم تو اپنے ٹھاٹ سے ہوائی جہاز میں پھریں گے۔ صبح کو چاند میں جا کر چائے پی، دوپہر کو میکسیکو پہنچ گئے، رات کو گھر۔ آہاکیسے مزے کی زندگی ہو گی۔ لیکن رخشندہ نے لکھا تھا: خدا را شی شی میرا خط پڑھ کر اپنے آپ کو غمگین مت کر لینا۔ میں تم کو پورے چھ سال بعد لکھ رہی ہوں۔ کتنی طویل مدت ہے اور میں کس قدر احسان فراموش۔ یقیناً مجھے تم سے معافی مانگنی چاہئے۔ ایک یتیم اور کمزور لڑکی، جس نے تمہارے گھر پر، تمہارے گھر والوں کے رحم و کرم پر، پرورش پائی ہو اور وہ ایسی باغی اور سرکش نکل جائے۔ سوچو تو شی شی میں ہمیشہ ہنسنے والی ری شی کیسی عجیب باتیں لکھ رہی ہوں کیوں کہ زندگی نے مجھے رونا بھی سکھا دیا ہے۔ شاید میں اب بھی تم کو خط نہ لکھتی اور تم کو معلوم نہ ہونے پاتا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہی ہوں۔ لیکن گذشتہ ہفتے پونا سے بنگلور آتے ہوئے میری ایمبولینس کار ایک اور فوجی لاری سے ٹکرا کر کھڈ میں گر گئی اور میری یونٹ کے آفیسر کمانڈنگ کو مجھ سے پوچھ کر تمہیں میرے زخمی ہو جانے کی اطلاع دینی پڑی کیوں کہ اس وسیع دنیا میں میری Next of kin تم ہی ہو۔ پریشان نہ ہونا۔ اب میں اچھی ہوتی جا رہی ہوں۔ کرسمس آنے والا ہے اور نہایت سرگرمی سے اس کے استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ کاغذی ربن اور رنگین جاپانی قندیلیں، مصنوعی مسکراہٹیں اور لالہ کے پھولوں سے بھرے ہوئے گل دان۔ کینٹین میں رات گئے تک گیتوں اور قہقہوں کا شور رہتا ہے۔ اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور پڑے ہوئے امریکن اور آسٹریلین فوجی ہر وقت خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر وقت چیخ چیخ کر گاتے رہتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو خود فریبی میں مبتلا رکھنے کا کتنا شوقین ہے۔ ’’ ایلس بلو گاؤں ‘‘ کا ریکارڈ تیزی سے بج رہا ہے۔ یاد ہے ’’ بلو بوائے‘‘ کون تھا؟ اللہ! اچھا اب ختم کرتی ہوں۔ ہمارا نیا میجر ابھی اپنا راؤنڈ لینے کے لیے آنے والا ہے۔ اس نے ابھی مجھے لکھنے پڑھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ یا اللہ ! میں اس قدر احمق سی کیوں ہوتی جا رہی ہوں۔ صبح وہ مجھ پر جھکا ہوا میرا ٹمپریچر لے رہا تھا اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً وہاں سے ہٹ جائے، میرے راستے سے الگ ہو جائے اور پھر وہ نئے راگ سنانے پر نظر آتا ہے۔ اس کی نیلی آنکھیں دیکھ کر مجھے وہ گزرے دن اور پرانی باتیں اس قدر تیزی سے یاد آنے لگتی ہیں کہ جنہیں میں اس چھ سال کے عرصے میں بھولنے میں خاصی کامیاب ہو چکی ہوں۔ خدا کے لیے شی شی مسکراؤ۔‘‘

دس برس پہلے کرسمس کی ایسی ہی برفانی صبح تھی جب رخشندہ بھاگی بھاگی اس کے کمرے میں آئی تھی اور اس سے کہا تھا: ’’ کاہل بلّی اٹھو، مہمان آ گئے ہیں۔‘‘ اور شاہینہ یہ خبر سنتے ہی لحاف پرے پھینک کر برش سے جلدی جلدی بالوں کو ٹھیک کر ابّا جان کے کمرے میں پہنچی تھی جہاں وہ مہمان بیٹھے تھے جو اپنے بچوں کو سینٹ جو زفز اکیڈیمی میں داخل کر نے کے لیے آئے تھے۔ برآمدے میں ڈھیروں اسباب پھیلا پڑا تھا اور ان بچوں کی گوری سی ممّی سیاہ فرکے لبادے میں لپٹی اس کی امّی سے باتیں کر رہی تھیں۔ ان کے ڈیڈی بھی باتوں میں مصروف تھے اور ’’ بے حد شریر، بڑی بڑی، نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والے لڑکے نہایت مسکین اور غمگین صورت بنائے ایک ہولڈال پر چڑھے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک برابر ٹانگیں ہلائے جا رہا تھا اور دوسرا جس کی ناک سردی اور زکام کی وجہ سے ٹماٹر کی طرح سرخ ہو رہی تھی، رخشندہ کے ہاتھ سے چائے دانی گرانے کی فکر میں تھا جو میز پر جھکی ہوئی چائے بنا رہی تھی۔

’’ تم نے اپنی بہنوں کو سلام نہیں کیا۔‘‘

’’ ہم نہیں کیا کرتے لڑکیوں کو سلام۔ ہونہہ، احمق گلہریاں۔‘‘

’’ ہائیں اسلم بری بات۔‘‘ ان کے ڈیڈی نے ڈانٹا۔

’’ اچھا ہم سے دوستی نہیں کرو گے؟ لٹل بوائے بلو۔‘‘

’’ تمہیں اسکیٹنگ آتی ہے؟ باکسنگ کرو گی؟ ہمیں اپنی بے وقوف گڑیاں دکھاؤ۔‘‘ اور بہت جلد وہ چاروں کیڈ بری چاکلیٹ کے البم، مکینو، لیڈی سیلنڈ، مکی ماؤس اور ریل کے انجنوں کے ڈھیر میں منہمک ہو گئے، جیسے ہمیشہ کے ساتھی تھے اور زندگی بھر اسی طرح ایک ساتھ خوب صورت اور رنگین کھلونوں سے کھیلتے رہیں گے۔

اسلم نے سینئر کیمبرج فرسٹ گریڈ میں پاس کیا : ’’ بلو بوائے کیا انعام لو گے بتاؤ؟‘‘ رخشندہ نے پوچھا۔

’’ ہونہہ، بہت انعام دینے چلی ہیں۔ ذرا شکل تو اپنی آئینے میں ملاحظہ فرما لیجیے۔ میں خود تم کو نہ دے ڈالوں گڑیا ٹیڈی بئر گوبلن۔ مانگ کیا مانگتی ہے لڑکی؟‘‘

’’ سر تمہارا‘‘

’’ سر تو فی الحال نہیں دے سکتا۔ اس کی مجھے خود کافی ضرورت ہے۔ اور جو چاہے لے لو۔ رولر اسکیٹس کی نئی جوڑی خریدی ہے، لو گی؟‘‘

’’ جی میرے پاس خود ہیں اسکیٹس۔ آپ اپنے پاس ہی رکھیے اپنے۔‘‘

’’ واللہ کیا آپ کے اسکیٹس ہیں۔ نیلام میں خریدے تھے نا۔ اور اسکیٹنگ آپ کس قدر نفیس کرتی ہیں __ گویا__ موری نیا ڈگمگ ڈولے رے۔ اور کرکٹ …‘‘ ’’ کرکٹ کھیلتی ہیں تو کرکٹ سکھا کر آپ نے میری جان پر کیا احسان کر دیا۔ آپ تو مر کر بھی ایک پل اوور نہیں بن سکتے۔‘‘

’’ اگر ہمیں پُل اوور بننے ہوتے تو پھر خدا نے لڑکیاں کس مصرف کے لیے بنائی تھیں۔‘‘

نیلو فر اور نرگس کے شگوفوں سے گھرا ہوا راستہ اسی طرح طے ہوتا رہا لیکن اگر منزلیں مختلف نہ ہوتیں تو ستاروں کی راہوں کا یقین کسے آتا؟

اور اب اتنے برسوں کے بعد شاہینہ پھر اسی سایہ دار روش پر آہستہ آہستہ قدم رکھتی ہوئی نیچے اتر رہی تھی جس پر اس کے دل کا ساتھی کمل اس لیے اس کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا کیوں کہ وہ اس کے طبقے اور اس کے فرقے سے تعلق نہ رکھتا تھا اور اسلم بے دلی سے سیٹی بجاتا ہوا اس کے ساتھ ساتھ اس لیے آ رہا تھا کیوں کہ وہ ایک نائٹ کی لڑکی تھی اور وہ اس کے منگیتر کی حیثیت سے کرسمس گزارنے دہرہ دون مدعو کیا گیا تھا۔ پھر وہ آلوچے کی ٹہنیوں کے نیچے چلتے چلتے یک لخت رک گئی اور اس کی طرف مڑکے کہنے لگی:

’’ ٹھیک ٹھیک بتاؤ کیا تم واقعی میرے ساتھ خوش رہ سکو گے؟‘‘

’’ کوشش تو کروں گا۔‘‘ اس نے بے تعلقی سے ایک پتّا توڑ کر کہا۔

’’ اسلم ! میں تم سے التجا کرتی ہوں بنگلور واپس چلے جاؤ۔‘‘

’’ اوہو، رخشندہ پر کرم کرنا چاہتی ہیں آپ۔ بہت جلد اس کا خیال آیا۔ اطمینان رکھو، وہ تم سے ایک اور احسان کی آرزو مند نہیں ہے۔ وہ پوری طرح تندرست ہونے سے پہلے ہی ہسپتال چھوڑ کر کہیں اور جا چکی ہے۔‘‘ اسلم نے بے پروائی کے ساتھ کہا۔ ہوا کا جھونکا پتّوں میں سے سرسراتا ہوا نکل گیا۔

اسلم یکایک نہایت تلخی سے بولا: ’’ مجھے تم سے نفرت ہے۔ تمہارے گھر والوں سے نفرت ہے۔ سچ کہتا ہوں مجھے اس دن سے تم سے سخت نفرت ہے جب میں نے پہلی مرتبہ بچپن میں تم کو رخشندہ کے ساتھ ایک خادمہ کا سا برتاؤ کرتے دیکھا تھا۔‘‘

وہ پھاٹک تک پہنچ گئے : ’’ اچھا اب اجازت ہے، خدا حافظ۔‘‘ وہ اپنی ڈوج میں بیٹھا اور وہ زنّاٹے سے ڈھلوان پر سے اترتی ہوئی کتھیڈرل کے دوسری طرف جا کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

اور پھر بیگ پائپ اسی طرح بجتا رہا۔ ہوا نے دریچے کا پٹ کھول دیا تھا۔ شاہینہ نے اٹھ کر دوبارہ اسے بند کر دیا۔ باہر بارش کے پہلے قطروں سے بھیگی ہوئی سڑک دور تک خاموش اور سنسان پڑی تھی۔ یہ اجنبی راستے نہ معلوم کیوں شروع ہوئے اور کہاں جا کر ختم ہوں گے؟

٭٭٭

 

 

 

لیکن گومتی بہتی رہی

 

نشاط محل ہوسٹل کے ڈرائنگ روم میں پیانو بہت مدھم سُروں میں بج رہا تھا۔ اوما ریڈیو پر پروگرام ’’ پنکھڑیاں ‘‘ کے لیے گربا کی مشق کرواتے کرواتے اچھی طرح تھک چکی تھی۔ سندھ کے کنارے __ اب تو جیون ہارے __ اب تو جیون ہارے __ اکتاہٹ کی انتہا۔ نشاط کا سارا اپر فلور بالکل خاموش تھا۔ نیچے صرف پیانو بج رہا تھا۔ یا مس لینڈرم اپنے کمرے میں ٹائپ میں مصروف تھیں یا بارش کی ترچھی ترچھی پھواریں اور ہوا کے ریلے ہرے گل داؤدی کے پودوں کو جھکائے ڈال رہے تھے۔ اور پھر اسی وقت چیپل کا بھاری سفید دروازہ آہستہ سے کُھلا اور صلیب کے سامنے روشن شمع کی لَو ہوا کے جھونکوں سے ایک ثانیہ کے لیے بھڑکی اور بُجھ گئی۔ لیکن تم ایسے دنیا جہان سے بے زار کیوں بیٹھے ہو __ کہو خوب لکھ رہی ہو__ خوب لکھ رہی ہو۔ ‘‘

’’ یوں نہیں، واہ۔ ٹھیک سے تعریف کرو۔‘‘

’’ ٹھیک سے تعریف کر تا ہوں۔ سبحان اللہ۔ اللہم زد فزد۔ ان اللہ مع الصابرین __‘‘

’’ جانتا ہوں وہی ہزاروں برس پرانی لغو داستان۔ ابھی چیپل کا دروازہ کھلا ہے۔ یقیناً ہیروئن صاحبہ اس میں داخل ہوں گی۔ پھر آپ کچھ میڈونا کی تقدیس، مونا لیزا کے تبسّم یا اسی قسم کا کچھ تذکرہ کریں گی کہ پڑھنے والے بے چارے مرعوب ہو جائیں۔ اس کے بعد کچھ تحلیلِ نفسی ہو گی، کچھ چاندنی کی لہروں پر ایک انگریزی گیت گایا جائے گا۔ ورنہ پھر اوپلے، بھینس، کلرک __ بیل گاڑیاں __ بنگال __ کوئی جدّت پیدا کرو اپنی کہانی میں۔‘‘

’’ تو کہاں سے لاؤں جدّت؟ دنیا ہی اتنی پرانی اور گھسٹی پٹی ہے جو کام یا بات بھی شروع کروں وہ مجھ سے پہلے پچپن کروڑ دفعہ ہو چکی ہو گی۔ اب تمہارے لیے جہانِ نو پیدا کیا جائے۔ بالکل نئے اور انوکھے کردار اس میں آئیں۔‘‘

’’ جہانِ نو۔ اووف۔ اس سے زیادہ پرانی بات اور کیا ہو گی۔ روز شام کو یار لوگ کافی ہاؤس میں اکٹھے ہو کر ایک جہانِ نو پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، بلکہ اس سلسلے میں تمہاری سلطانہ آپا تو ایک بے انتہا بصیرت افزا مقالہ اپنی پی۔ایچ۔ ڈی۔ کے لیے لکھ رہی ہیں تعمیر بعد از جنگ __‘‘

’’ چُپو تو، ابھی اپنی اور یجنیلٹی کا مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ تمہیں منطق بالکل نہیں آتی۔‘‘

’’ یہی تو کہہ رہا ہوں بھائی__ یہ گومتی تو اسی طرح بہتی رہے گی۔ تمہارا نظام اور تمہارا ماحول تو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ تم کتنا ہی اُچھلو کودو، قہوے کی پیالیاں کی پیالیاں ختم کر ڈالو مگر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اس پر یاد آیا کہ عسکری بلگرامی اور عزت کے انتقال پر تم لوگ کتنا کتنا روئی تھیں۔ ہائے اب جلوسوں میں ہماری قیادت کرنے کون آئے گا؟ اللہ ذکیہ کیا کرے گی بے چاری؟ افوہ! عزت کا نتیجہ اس کے مرنے کے صرف ایک ہفتہ بعد نکلا۔ میڈیکل کالج کی برجیوں کی طرف تو دیکھا ہی نہیں جاتا۔ اب تو یہ __ وہ__ کیا__ وہ شعر بھی تو موزوں کیا گیا تھا: ؎

تذکرہ عسکریِ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ

اور اگلے سال ہی آپ سب کی سب ذکیہ کے عقدِ ثانی میں نہایت مستعدی سے تشریف لے گئیں اور __ ‘‘

’’ یہ تم نے کیا ذکر چھیڑ دیا۔ یہی تو طریقہ اظہارِ غم کا ہوتا ہے۔ اور کیا کرتے؟ ‘‘

’’ جی ہاں۔ اب آپ شعلوں کو بڑے رومان اور افسردگی کے ساتھ ملاحظہ فرما رہی ہیں۔ گویا میں نے عسکری اور عزت کی یاد تازہ کر کے بربطِ دل کے تار لرزاں کر دیئے۔ ارے کتنا بنتی ہو تم لوگ؟ ‘‘

’’ آپ موضوع سے بہت دور ہٹے جا رہے ہیں۔ میں افسانہ لکھ رہی ہوں۔‘‘

’’ پرسوں شکنتلا سے کہا جا رہا تھا: ’’ اوہ مس راجپال You were just wonderful last evening. اگر آپ نہ ہوتیں توبس جانے کیا ہو جاتا۔ (یقیناً آپ حضرات انتقال فرما جاتے اور یونی ورسٹی میں پولٹری فارم یا گرام سدھار کا محکمہ قائم ہو جاتا۔) اور شکنتلا اس طرح مسکراتی ہے جیسے آپ کے قصیدے کے ایک ایک لفظ کو سچ سمجھ رہی ہے۔ اور اسی وقت حوّا بائی سے التجا ہو رہی تھی: ’’ دیکھیے مس رحمن، مینی فیسٹو پر آپ کے دستخط تو بہت ہی ضروری ہیں۔ بلکہ علی سردار صاحب نے کہا تھا___ _‘‘

’’ اچھا تم افسانہ شروع کرو اپنا۔‘‘

’’ ابھی دیباچہ ہو رہا ہے۔ چپکے بیٹھے سنتے رہو۔ پٹی ہوئی زندگی میں کچھ تازگی اور ناولٹی کا تجربہ کرنے کے شوقین ہیں۔ لیکن یہ تم لوگوں کی ساری قوم کی قوم ہی__ ‘‘

’’ بھئی تم خود ہی کہہ رہی تھیں کہ نوولٹی کہاں سے آئے۔ دنیا تو روز بروز زیادہ پرانی ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن رہنا تو اسی میں ہے۔ یوکلپٹس کے جھنڈ میں چھپا ہوا تمہارا کالج کا چیپل اسی طرح ساکت اور بے حس کھڑا ہے۔ موتی محل برج کے اوپر سے اب تک نہ معلوم کتنے ایک دوسرے کے ساتھی ٹولیاں بنا بنا کر قہقہے لگاتے گزر چکے ہیں جو اب ان ہی حالات میں واپس نہ آئیں گے۔ مگر اس کی محرابوں کے نیچے ندی کا پانی ہمیشہ یوں ہی سکون سے لہراتا ہوا بہتا رہے گا۔ سچ مچ تمہاری یہ بے زاری اور افسردگی کی ادا بھی اب اپنا نیا پن کچھ کچھ کھو چکی ہے۔ تم ہر بات سے جلد اکتا کر پریشان اور غمگین ہو جاتی ہو۔ دنیا میں زندہ رہنا سیکھو بی بی۔‘‘

’’ بھئی اب اس فلسفے کو چھوڑو اپنے۔ میں کہانی لکھ رہی ہوں۔ تم کوئی اچھا سا عنوان سوچو اس کے لیے۔‘‘

’’ ہیروئن کون ہے؟‘‘

’’ جواب چیپل میں داخل ہونے والی تھی، یعنی ثریا۔‘‘

’’ مگر ثریا بگڑ جائے گی۔‘‘

’’ بگڑے گی تو ہم اسے منالیں گے۔‘‘

’’ اس ’’ ہم‘‘ میں میں بھی شامل ہوں۔‘‘

’’ جی قطعی نہیں۔ میں اپنی لکھنؤ کی زبان استعمال کر رہی ہوں __ ہائے لکھنؤ۔ آپ صرف عنوان بتا دیجیے۔‘‘

’’ گویا سارا کام تو میں کروں اور نام آپ کا ہو۔ تم لڑکیاں … ‘‘

’’ افوہ، ذرا سی آپ سے مدد جو مانگی تواترا گئے۔ اب تک جتنے افسانے میں نے لکھے ہیں وہ سب آپ ہی نے _____‘‘

’’ اوہو، آپ اور تخیلات۔ اے فلک کِج رفتار تو کیسی کیسی زیادتیاں روا رکھتا ہے۔ ذرا ٹھہرنا۔ میں ہنس لوں۔‘‘

’’ اترائے جاؤ۔ ہم تو لکھتے ہیں افسانہ۔ بیچ کھیت لکھیں گے۔ بلکہ ہم نے عنوان بھی منتخب کر لیا__ جھپا کے __ ‘‘

’’ خاصا اچھا ہے۔ زیادہ لطافت آمیز ترقی پسند ی کی خواہش ہو تو یہ لو__اور سڑک بنتی رہی__ اور ریل چلتی رہی__ اور گومتی بہتی رہی__ اور بارش ہوتی رہی__ اور بانسری بجتی رہی __‘‘

’’ خدا کی قسم۔ افوہ بھئی!‘‘

’’ دیباچہ ختم۔ اور کوئی اوریجنل سا عنوان بتاؤ۔‘‘

’’ اچھا چپ ہو جاؤ۔ دیکھو، ایک دنیا ہے چھوٹی سی، چمکتے سورج، لہکتے سبزے اور مہکتی کلیوں کی بستی – یوکلپٹس اور انجیر کے درختوں سے گھری ہوئی جس میں بڑے بڑے گل داؤدی کے گچھوں پر عنابی اور زردی پروں والی تتلیاں ناچتی رہتی ہیں۔ بس جیسے بیتھون کا نغمہ مسلسل جو مسز جارڈن کریسنتھ کورٹ کی طرف دیکھتی ہوئی بجاتی رہتی ہیں اور جہاں لمبے لمبے کو ریڈ ورز کے شفاف فرشوں پر سے رنگین پر چھائیاں ہنسی اور قہقہوں کے سُریلے شور کے ساتھ ادھر سے ادھر گزرتی ہیں اور پس منظر میں آرگن کے پردوں سے ایک ملکوتی موسیقی بلند ہوتی ہے اور اس دنیا کے کنارے بوٹ کلب کی ڈھلوان کے نیچے گومتی بہت سی پرانی کہانیاں سناتی ہوئی چلی جا رہی ہے__رواں اور مترنّم۔ اس دنیا کے باسی ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں۔ بہت بھولے، بہت معصوم اور بہت شیریں۔ ان کی ننّھی منی مسرتیں، جن کا مقابلہ سارے جہاں کی دولتیں نہیں کرسکتیں۔ ہفتے اور اتوار کی شام کو ’’ کامریڈ ایکس‘‘ یا ’’ بلڈ اینڈ سینڈ‘‘ جیسا ایک اچھا سا فلم۔ نیو انڈیا میں ایک مختصر سی دل چسپ پارٹی۔ ریڈیو پر ’’ پنکھڑیوں ‘‘ کا ایک کامیاب پروگرام عشرت رحمانی جی۔ ایم صاحبان کی تعریفیں اور سعیدہ آپا کی مسکراہٹ۔ اور پھر یہ بے حد ہنگامہ خیز مصروفیات۔ اگست کنسرٹ کی گرینڈ ریہرسل، یونین کا مشاعرہ، فرینڈز آف دی سوویت کا جلسہ، اودے شنکر یا کشور سا ہو کا ایٹ ہوم، مس عزیز یا مس خانم حاجی کاٹینس میچ۔ انہیں زندگی کے بوجھ کو محسوس کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ اس دنیا کے باسی ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں۔

’’ لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ آنسوؤں کے جگمگاتے ہوئے قطرے ان کی آنکھوں میں ناچنے لگتے ہیں اور بیتھون کے نغمے اور گومتی کی لہریں اور لنتھم کورٹ کی تتلیاں __ ان سب پر ایک ٹھنڈا سا دھندلکا چھا جاتا ہے __ اور اس دھندلکے میں چھپی ہوئی یہ دنیا غمگین ہو جاتی ہے۔

’’ سنو! ایک دفعہ کیا ہوا۔ اسی گومتی کے اس پار سے، جہاں چاندنی میں گیت بہتے تھے اور موجوں میں رنگ برنگی روشنیاں ناچا کرتی تھیں، ایک سرمئی سی گھٹا اٹھی جو آہستہ آہستہ سارے آسمان پر چھا گئی۔ اور پھر آندھی آئی اور بارش کے ریلے میں گل داؤدی کی ٹہنیاں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔ اور امرودوں کے باغ میں چھپے ہوئے سفید اور ٹھنڈے چیپل کے اندر مادرِ خداوند کے مجسمے پر کرنیں برساتی ہوئی سبز قندیل آہستہ آہستہ ہلنے لگی۔

وہ سوچ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے تھک چکی تھی۔ بھئی ایسا کیوں ہوتا ہے آخر؟ یعنی کوئی بات بھی۔ریشیل خاموشی سے چپکے چپکے التجا کر رہی تھی۔ ہولی میری مدَرَ اور گوڈ۔ ہولی میری مَدر اور گوڈ۔ ثریا نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔ ہولی میری خاور __ خاور __ خاور __

خالد بھئی! تم ہمارے کالج ڈے کے ایٹ ہوم میں ضرور آنا۔ میں تمہارے مرغی میجر بھائی کے لیے دعوت نامے بھجوا دوں گی۔ اچھا۔ پچھلے سال ہم نے ’’ کوالٹی اسٹریٹ‘‘ کیا تھا۔ اس کی ہیروئن چندر لیکھا تو آج کل امریکہ میں ٹھاٹ کر رہی ہے۔ اب کی دفعہ ہم ’ لالہ رُخ‘ ایکٹ کریں گے۔ اور معلوم ہے کل ہم مے فیئر میں رام گوپال سے ملے تھے۔ بہت ہی ڈیسنٹ آدمی ہے وہ۔ بہترین تلفظ اور لہجے میں انگریزی بولتا ہے۔ پچھلے ہفتے ہمارے کالج میں اسے مدعو کیا گیا تھا۔

وہ بہت دیر تک اسی طرح سیڑھیوں پر بیٹھی اپنی دل چسپی کی باتیں کرتی رہی تھی۔ یہ باتیں خاور کے لیے بالکل نئی اور انوکھی تھیں۔ شام ذرا خنک ہوتی جا رہی تھی۔ جب چپراسی نے خاور کے نام کی سلپ لا کر دی وہ سیدھی کھیل کے میدان سے واپس آ کر وہیں نکولس ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی۔

اور خاور پریشان سا ہو گیا۔ فلورنس نکولس ہال کے پورچ کے عظیم الشان یونانی ستون، پام کے بھیگے بھیگے پتّے، عنابی گلاب کی خوشبو سے بوجھل ہواؤں میں تیرتی ہوئی ’’ لیڈی آو اسپین آئی لویو ‘‘ کی لہریں۔ بارش کے چھینٹوں سے دھلی ہوئی سیڑھیوں کے مرمریں پتھر سرد تھے۔ سرد اور بے حس۔ عنابی گلاب کی کلیوں اور ’’ لیڈی آو اسپین ‘‘ کے نغموں میں گرمی تھی اور کیف، کیوں کہ وہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔

ہوا کا ایک جھونکا گل مہر کی ٹہنیوں کو ہلاتا ہوا نکل گیا اور دفعتاً ثریا کو خیال آیا کہ پھوپھی امّاں کی کوٹھی وہاں سے زیادہ دور نہیں اور یہ بھی کہ فرّخ اس کی بہترین دوست ہے __ فرّخ!

اس روز کریسنتھ کورٹ پر تتلیاں رقص کر رہی تھیں۔ فرخ کا پرچہ آیا: ’’ ثریا تم مس چاکو سے کہہ کر فوراً آ جاؤ۔ علی گڑھ سے پارے اور زرینہ آئی ہوئی ہیں۔ سلطانہ آپا اور اکرام بھائی بھی صبح ہی کان پور سے واپس آئے ہیں۔ لان پر مزے دار دھوپ پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں بیٹھ کر کیرم اور برج رہے گا۔ بس تمہاری کمی ہے۔ خالہ بی کو فون کر دو، بڑا افسوس ہے کہ اس دیک اینڈ پر تم نہیں آسکتیں کیوں کہ فرّخ نے بلایا ہے۔ کیا ہے، ہر ہفتے تو تم جاتی رہتی ہو گھر۔ مسعود بھائی تمہارے قطعی انتقال نہ کر جائیں گے۔ یہ منگیتر لوگ واقعی کس قدر مصیبت ہوتے ہیں۔ خاور صاحب بھی تشریف لے آئے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں آ کر ریسرچ میں داخلہ لیا ہے آپ نے۔ ذرا سوچو تو میری جان کے لیے مستقل مصیبت۔ اچھا تم ابھی آ جاؤ، فوراً۔ شام کو طلعت محمود کو بلایا ہے۔ اس سے وہی گیت سنیں گے:’ یہ وجہ کہ فصلِ بہار ہے__، تمہیں مرغی میجر بھائی سے بھی ملوائیں گے۔‘‘

لیکن مسعود بھائی تو منگیتر ہونے کے باوجود مصیبت نہیں تھے۔ کبھی انہوں نے رومانٹک بننے کی کوشش نہیں کی حالاں کہ یہ چچا زاد اور پھوپھی زاد قسم کے رشتے خواہ مخواہ کچھ افسانوی سا محسوس کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یعنی لوگوں کی پست ذہنیت کی حد ہے ناکہ جہاں بھی لڑکیوں اور لڑکوں کا کسی طرح سے بھی ایک ساتھ ذکر آیا اور فی الفور اوٹومیٹک طریقے سے افسانہ پیدا ہو جاتا ہے۔ توبہ اللہ میرے۔

لیکن وہ فرخ کے یہاں گئی۔ اور خاور سے ملی۔ اور افسانہ تیار ہو گیا: ’یہ وجہ کہ فصلِ بہار ہے۔‘

وہاں برآمدے میں سب جمع تھے: مرغی میجر بھائی، خاور، کامریڈ اکرام، کمال۔ تم نے رنگ برنگے پروں والی تیتریوں کو دیکھا ہے نا! جو سبزے پر نرگس کے پتوں پر جھلملا رہی ہیں۔ یہ تمہارے کسی فلسفے، کسی نظریے یا ایسی ہی کسی تخیلی خرافات کی قائل نہیں۔ دنیا ان کے لیے ایک بہت بڑا ساٹینس کورٹ ہے اور بس۔ جس پر ہم تم ان کے لیے گیندوں کی طرح لڑھکتے پھرتے ہیں۔ زندگی ذرا وسیع پیمانے پر حضرت گنج میں مے فیئر یا بلو ہیون کی ایک شام سمجھ لو۔ خاصیت ان کی یہ ہے کہ ’’ اشتمالی اقدار‘‘، ’’ بورژوا ماحول کی تلخیاں ‘‘ یا ’’ پرولتاری ادب‘‘ کا کچھ ذکر کرو فی الفور مرعوب ہو جائیں گی۔ پکچر نہ چلنے کے لیے مدعو کیا جائے گا۔ یونی ورسٹی یا حضرت گنج سے واپسی پر کار میں لفٹ دیے جائیں گے۔

کمال نے خاور سے تعارف کرایا۔

’’ افوہ، کس قدر مغالطہ فائڈ معلوم ہوتے ہیں یہ تمہارے کزن لوگ۔ حد کی حد۔‘‘ پارے نے بے زاری کے ساتھ کہا۔ لان پر بیٹھی ہوئی لڑکیاں برآمدے کی باتیں سُن سُن کر جل رہی تھیں۔ ’’ اس وقت کچھ رومان کی موڈ ہے نہیں، ورنہ تمہارے ان کمال بھائی کا دماغ ٹھیک کر دیا جاتا۔ خدا کی قسم۔‘‘

کمال صاحب کیا کچھ نہ تھے: وجیہ و شکیل۔ اپنے اندازے کے مطابق جلو میں سینکڑوں ملاحتیں، صباحتیں اور قیامتیں لیے ہوئے، بالکل مثنوی بدرِ منیر و بے نظیر کا جدید آکسفورڈ پمفلٹ۔ ریڈیو اسٹیشن پر ایک دن اوما سے ملے تو عرض کرنے لگے: آہ مس شیرالے۔ آپ کے نقرئی گھنگروؤں کی جھنکار کی خواب ناک گونج سے ستارے جھلملا اٹھے۔ شبستانِ حیات کے مدھم اجالے میں ایجنٹا کی __، ، اوما گھبرا گئی۔ یہ اسی طرح بولتے جائیں گے اور سعیدہ آپ سمجھیں گی کہ ابھی ریہرسل ختم نہیں ہوئی۔ ثریا، رفعت، فرخ، اوما، ریشیل__ سب سخت جلتی تھیں ان سے۔ اپنی gallantry کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہر جگہ موجود۔ ہسٹری سوسائٹی کی ہفتہ وار میٹنگ، کیمسٹری کلب کا جلسہ، نیو لائف یونین کی پارٹی، افوہ!

اور پھر خاور __ بہت خاموش، بہت سنجیدہ، لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا گھبرا جانے والا۔ چائے کے وقت سب کا ایک دوسرے سے پُر تکلّف طریقے سے دوبارہ تعارف کرایا گیا۔ تمہیں یاد ہے ثریا؟ ہمارے دُور کے رشتے کے ایک بھائی تھے جو دہرہ دون میں چھٹیاں گزارنے ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ بے چار سے باتیں بہت کرتے تھے۔ لیچیاں چرانے پر مالی سے پٹ بھی گئے تھے۔ ایک دفعہ ہر بات میں دل چسپی لینے اور دخل دینے کو مستعد رہتے تھے۔ بڑے ہو کر کپتان بننے کی شدید خواہش تھی۔ زو کی سیر کے سخت شوقین تھے۔ ہمارے بھائیوں نے ان کے لیے ایک شعر بھی کہا تھا:

کریما بہ بخشائے بر حالِ ما

کہ مرغی کا میجر تو مجھ کو بنا

رفعت کی بدقسمتی سے آپ انڈین پولس کے مقابلے میں کامیاب ہو کر یکا یک بے حد قریبی عزیز ثابت کر دیے گئے ہیں اور کرسمس بسر کرنے کے لیے انہیں الٰہ آباد سے پکڑ کر منگوا یا گیا ہے۔ ان سے ملو، یہ ہمارے مرغی میجر بھائی ہیں۔

’’ اخاہ، آپ ہیں ثریا بیگم۔ آئیے، آئیے۔ فرخ اور رفّی تو آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ثریا بیگم یہ کریم رولز لیجیے۔ ثریا بیگم سبزے پر جھکے ہوئے گلِ داؤدی کے گچّھے کتنے حسین لگ رہے ہیں۔ ثریا بیگم آپ کا پسندیدہ سٹار، روبرٹ ٹائیلر تو نہیں۔ ثریا بیگم __‘‘

اُف یہ بے چاری لڑکیاں، اور ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ آپ خود ہی نشانہ بننے کا مکمل ذوق اور صلاحیت رکھتے ہیں اور تیر اندازوں سے احتجاج کیا جاتا ہے کہ اگر آپ اس مشغلے سے باز آئیں تو دنیا میں امن قائم ہو جائے۔ رفعت، مرغی میجر بھائی کی ہمیشہ قصیدہ سرائی کرتی رہتی تھی: ’’ ہمارے کزن، جوالہ آباد میں ہیں، اس قدر مزے دار ہیں کہ کیا بتاؤں۔ گھر آتے ہیں تو لگتا ہے کہ طوفان آ گیا۔ ہر وقت قہقہے، ہنسی مذاق۔ کرکٹ بے حد عمدہ کھیلتے ہیں۔ گورنر زالیون میں رہ چکے ہیں۔ ورلڈز اولمپکس میں فیلڈ لفیا گئے تھے۔ اس کے علاوہ بہترین بہترین ادیب ہیں۔ افسانوں کی تعریف میں ان کے پاس لڑکیوں کے اتنے خطوط آتے ہیں کہ افوہ۔ اور ڈیشنگ تو اس قدر ہیں بھئی۔ بس آل راؤنڈر ہیں بالکل۔ ‘‘

مرغی میجر بھائی گویا قصّہ مختصر کسی اپالو قسم کے یونانی دیوتا کا پنگوئن ایڈیشن تھے__ اے میرے نیل کنول کے دیوتا!

اس وقت ثریا کو سچ مچ رونا آ گیا۔ اس تمہارے مرغی میجر بھائی نے کیوں بھیجا مجھے عید کارڈ۔ کیا سمجھتے ہیں یہ چغد۔ عید کی رات کو خالہ بی کے گھر سب جمع تھے۔ ثریا بہت دیر سے کوشش کر رہی تھی کہ طوفانی ندی کے اس ریلے کو روک سکے جو کہیں اس کے اندر اُبل رہا تھا۔ وہ جی میں محض یہی سمجھتا تھا کہ اگر اپنے دوستوں کے ساتھ سائیکلوں پر دل کشا میں مون لائٹ پکنک منانے کے لیے جایا جا سکتا ہے تو__ اووف__ اللہ، اللہ میرے، ثریا ڈریسنگ روم میں جا کر قالین پر منہ چھپا کر اتنا روئی کہ اس کا جی چاہا کہ سارے ٹب اور ساری بالٹیاں اس کے آنسوؤں سے بھر جائیں اور وہ روتی رہے __ روتی رہے __ خاموشی سے __ یہ برداشت سے باہر تھا۔ برابر کے کمرے میں مرغی میجر نے کیا کہا تھا ابھی ابھی۔ وہ کمرہ قہقہوں کے شور سے اب بھی گونج رہا تھا۔ علی گڑھ سے راز بھائی آئے ہوئے تھے اور اپنی تازہ غزل سنا رہے تھے:

چلا ہوں انہیں قصہ غم سُنا نے

مرے ہوش شاید نہیں ہیں ٹھکانے

مرے ہوش شاید __ اُف اللہ! ان لوگوں کے سامنے اس کے لیے کہا گیا۔ اکرام بھائی اور فرخ اور یہ راز بھائی جنہوں نے اس کی Definition کی تھی کہ اَماں اس لڑکی میں شعریت کس قدر ہے۔

اور پھر جانتے ہونا یہ ہندوستانی بورژوازی کی ایک Boringسی، بے معنیٰ سی داستان ہے جس میں سماج کا کودنا لازمی اور طے شدہ بات ہے۔ لہٰذا جنابِ عالی ’’ سماج‘‘ بڑے ٹھاٹھ سے عین موقع واردات پر کود پڑا۔

کیوں کہ پھولوں کی اس رنگین وادی میں رہتی ہوئی ثریا نے تاریخی شگوفوں کے تبسّم کی سی آہستگی سے کہا : ’’ آؤ۔‘‘ یہ بھول کر کہ اس کی مری ہوئی فرانسیسی ماں کا ماضی کیا تھا اور یہ بھی کہ معصوم مسرتوں کی یہ ننھی سی بستی اگر اس سخت اور بے حس کرّہ آب و گل سے ٹکرا گئی تو اس کا نتیجہ بہت زیادہ خوش گوار نہ ہو گا__ اور خاور آیا__ یہ جانتے ہوئے کہ __

خیر__ اور افسانہ ڈولپ منٹ کے تمام مدارج نہایت تیزی سے طے کر کے بہت جلد اینٹی کلائمکس پر اتر آیا۔ اور اینٹی کلائمکس قاعدے کے مطابق ہمیشہ بہت ہی بے مزہ اور ناخوش گوار سی ہوتی ہے۔

وہ دیر تک اندھیرے میں آنکھیں کھولے پڑی رہی۔ آدھی رات کی خنک سی ہوا کے جھونکوں سے دروازوں اور دریچوں کے پردے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ سارا کیمپس سرد چاندنی میں ڈوبا خاموشی کے گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔ اسٹڈی ہال سے واپس آ کر برابر کے پلنگ پر آ کر ربیکا سونے سے قبل کی دعا میں مصروف تھی: اے ہمارے آسمانی باپ__ تیری مرضی پوری ہو__ تیری بادشاہت آئے __!

تیری مرضی پوری ہو۔ اس نے سوچا کہ آسمانی بادشاہت کے دروازے تو اب شاید اس کے لیے ہمیشہ کے واسطے بند ہو جائیں گے۔ اسے ہنسی بھی آ گئی کہ وہ کیسی جذباتی بن گئی ہے۔ پھر اسے اپنے اوپر دفعتاً غصہ آ گیا۔ تم ہنس کیوں رہی ہو ثریا بیگم؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم صحیح الدماغی سے کام لے رہی ہو۔ صحیح الدماغی، افوہ، کتنا بڑا لفظ استعمال کیا ہے۔ تم بہت احمق ہو۔لیکن، ثریا بیگم، مجھے تم سے یہ امید نہ تھی۔ اس نے بے چینی سے دیوار کی طرف کروٹ لے لی۔ تمہیں تو Adventure کی تلاش تھی اور یہاں وہی پامال شدہ پٹے ہوئے واقعات شروع ہو گئے۔ چاندنی کا ایک ترچھا ساراستہ قالین پر بن گیا۔ چاند یو کلپٹس کے جھنڈ پر سے تیرتا ہوا نونہال ہوسٹل کی چھت پر پہنچ چکا تھا۔

نیلے جاپانی واز کے برابر رکھا ہوا وینس ڈی میلو کا مجسمہ کرنوں میں جگمگا اٹھا۔ تم اس سفید مجسمے کی طرح بے حس کیوں نہ رہیں ؟ کیا ہو گیا تمہیں، حقیقت خوف ناک طور پر واضح ہوتی چلی گئی۔ وہ کیا کرے؟ وہ کیا کرے__ اللہ!

صبح کے دھندلکے میں لینٹرن سروس میں شامل ہونے کے لیے ہاتھوں میں رنگین کاغذی قندیلیں اور للی کے سفید پھول لیے کرسمس کیرل گاتی ہوئی لڑکیاں سارے کالج کیمپس کا چکر لگا کر چیپل کی طرف بڑ ھ رہی تھیں۔ کرسمس کا مہینہ شروع ہو چکا تھا جس میں خدا کے نقرئی پروں اور گلابی ہونٹوں والے فرشتے رحمتوں اور برکتوں کے خوب صورت تحفے لے کر نیلے آسمانوں سے نیچے اترتے ہیں۔ رحمتیں اور برکتیں ! ثریا اسی طرح بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ رات بھر وہ سوچتی رہی اور جاگتی رہی۔ جاگتی رہی اور سوچتی رہی اور اب اس کے سر میں درد شروع ہو گیا تھا۔

’’بہترین نسخہ یہ ہے میرے یار کہ فی الفور کمیشن لے لو اور ٹکٹ کٹاؤ یہاں سے۔‘‘ گومتی کے کنارے آم کے سائے میں بندھی ہوئی ناؤ میں کمال صاحب بیٹھے اپنی زرّیں رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ سرمہاراج سنگھ ابھی نہیں آئے تھے اس لیے ریس شروع ہونے میں دیر تھی۔ کنارے پر بوٹ کلب کے سالانہ Regatta کے ایٹ ہوم کے لیے زور شور سے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ واٹر پولو کے مجاہدین لڑکیوں کو نہایت بے نیازی کے ساتھ ایک نگاہِ غلط انداز سے دیکھتے ہوئے ریس کے لیے پانی میں کود رہے تھے۔ شکنتلا علی جعفر صاحب سے دماغ کھپاتے کھپاتے تھک گئی اور اپنی ناؤ میں آ کر بیٹھ گئی تھی اور بے فکری سے پانی اچھال رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اکرام بھائی اس کے پاس آ گئے تھے: ’’ ہلو مس راج پال! کہیے آج کل کی تازہ ترین Gossip کیا ہے؟ ‘‘

شکنتلا کا دل نہ چاہا کہ وہ ثریا کے متعلق اس قسم کی باتیں کرے۔ اکرام بھائی کو مسکراتا دیکھ کر اسے نہ جانے کیوں ناقابلِ برداشت تکلیف ہوئی۔

لیکن کامریڈ اکرام ثریا تو بہت sensible لڑکی تھی۔‘‘

’’ جی ہاں، قطعی۔ آپ کو معلوم ہے حماقت اور عقل مندی کی حدیں بہت ہی اہم سیاسی مقامات سے پر ملتی ہیں۔‘‘

’’اچھا چلیے اور باتیں کریں۔ احمد علی دہلی سے آئے ہوئے ہیں، ان سے ملیے۔‘‘

’’ مجھے نہ بھیجو ندی کنارے __‘‘ یک لخت نہایت تیزی سے لاؤڈاسپیکر پر ریکارڈ بجنے لگے۔ فرخ کیمرہ لیے ہوئے سرمہاراج سنگھ سے باتیں کر رہی تھی۔ صوفے کے پیچھے سے مسعود بھائی گزرے۔ وہ بوٹ کلب کے کیپٹن تھے۔ انہوں نے فرخ کو دیکھا، جیسے کہہ رہے ہوں : ’’ فرخ بی بی جانتی ہو کیا ہو رہا ہے۔’‘ فرخ نے بے چینی سے کیمرے کا فیتہ اپنے ہاتھوں میں لپیٹنا شروع کر دیا اور وائس چانسلر کی میز کی طرف جھک گئی، جیسے اس نے کہا کہ ’’ ہاں مسعود بھائی میں جانتی ہوں۔ سب جان گئے ہیں لیکن یقین کرنے کو تو جی نہیں چاہتا۔‘‘

خالہ بی نے صرف اتنا ہی کہا : ’’ اپنی اصلیت پر گئی۔‘‘ اپنے بھائی کی موت کے بعد یہ دوسرا ناقابلِ بیان، ناقابلِ برداشت دھچکہ تھا جو انہیں اسی بھائی کی اکیلی لڑکی کی طرف سے پہنچا۔ اپنی اصلیت __ پر __ گئی۔ کس قدر خوف ناک اور تلخ تھے یہ چار لفظ۔ جیسے کالج کی تمام عمارتیں اپنے بھاری بھاری ستونوں اور چھتوں سمیت چاروں طرف سے ثریا پر گر پڑیں۔

سائنس بلاک کے پیچھے۔ ’’ فورسٹ آو آرڈن‘‘ کے پھاٹک کے اندر ریڈیو کی اسٹیشن دیگن دیر تک ہارن بجاتی رہی۔ رات کے دس بجے رفیع پیر کے ایک ڈرامے میں ثریا کا سب سے لمبا پارٹ تھا اور وہ نہ معلوم کہاں کھو گئی تھی۔ سعیدہ آپا نے جھنجھلا کر اسٹوڈیو سے تیسری مرتبہ فون کیا: ’’ کیسی لاپروا لڑکیاں ہیں، کبھی یاد نہیں رکھتیں کہ ٹھیک وقت پر ریہرسل کے لیے پہنچ جائیں۔‘‘ آج تو ثریا کا گھر جانے کا بھی دن نہ تھا۔ اوما، رفعت، قمر، اندو- سب کو سخت کوفت ہو رہی تھی۔ اسی ریہرسل کے مارے انہیں ’’ چوکلیٹ سولجر‘‘ Miss کرنی پڑی- اور اب ثریا صاحب غائب ہو گئیں۔ چوتھی بار پھر فون آیا۔ یہ سعیدہ آپا کی آواز نہیں تھی۔ حفیظ جاوید صاحب کی بھی نہیں۔ اور لڑکیوں میں سنسنی پھیل گئی__ کیوں کہ دوسرے سرے پر کرشن چندر صاحب بول رہے تھے۔ افوہ! اس قدر اکسائٹ منٹ کی وجہ کی حد، یعنی ذرا خیال تو کرو قمر__ کہ کرشن چندر کا تبادلہ لکھنؤ کا ہو گیا ہے اور آج کی تمثیل وہی پیش کریں گے۔ بھئی نہ معلوم کیسا ہو گا یہ افسانہ نگار۔ بے انتہا رومان آلود اور شعر پرور سا__ اس قیامت خیز، روح افزا خبر کو سن کر ثریا پر خفگی بھی فراموش کر دی گئی۔ لیکن ریڈیو اسٹیشن پہنچ کر بہت ہی شدید قسم کا Disappointment ہوا۔ خصوصاً جب یہ معلوم ہوا کہ __

’’ ذرا رُکنا ایک منٹ __ بہت دل چسپ کہانی ہے لیکن اس نکتہ پر تم پر defamation کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اس پیرے کو قلمزد نہ کر دو۔ اس سے تمہارے پلاٹ پر کچھ اثر نہ پڑے گا۔‘‘

’’ ہائے اللہ تم اتنی دیر سے چپکے بیٹھے تھے، اب پھر بیچ میں ٹپک پڑے۔‘‘

’’ میں تو ایک قانونی مشورہ دے رہا تھا۔ خیر چلو آگے۔‘‘

’’ اب بھئی پتا نہیں میں کہاں تک پہنچی تھی۔‘‘

’’ ہیروئن کہیں کھو گئی ہے، یعنی بھاگ گئی ہے اور بقیہ خواتین کو کرشن چندر کی طرف سے سخت مایوس ہوئی ہے۔ چلیے۔ ‘‘

__ اسٹوڈ یو نمبر ۳ میں گوہر سلطان ڈھولک پر گا رہی ہیں : ’’ امبوا تلے ڈولا رکھ دے کہاروا، آئی ساون کی پھوار اور نمبر ا میں مائک کے پاس اپنے پارٹ پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے دفعتاً رفعت کو ایک بدمزہ سا ناخوش گوار سا خیال آیا: زندگی آپ سے آپ پہیلی سی کیوں بنتی جا رہی ہے __ آخر؟ یعنی یہ کیا گڑ بڑ سڑ بڑ ہو رہی ہے بھئی؟ اللہ کرے مرغی میجر بھائی کوڈا کو پکڑ لے جائیں اور اکرام بھائی __ اکرام بھائی قہوے کی پیالی میں ڈوب کر خودکشی کر لیں __ چُغد کہیں کے۔

دیوار میں سرخ روشنی جل اٹھی اور ریہرسل شروع ہو گئی۔

پکچرز سے واپسی پر مرغی میجر بھائی نے ذرا تنبیہاً اس سے کہا کہ یہ تم لوگ کیسے کیسے فضول افیمچیوں اور لفنگوں سے ملنے لگی ہو تو رفعت کو بہت ہی بُرا لگا۔ اس نے ذرا تیزی سے جواب دیا کہ اکرام بھائی قطعی فضول اور افیمچی اور لفنگے نہیں ہیں حالاں کہ جس روز اکرام بھائی یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ کامریڈ سلطانہ کی بہنوں میں سب سے زیادہ chicلڑکی رفعت ہے۔ باتیں کرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے ستار پر ایمن کلیان کا الاپ بج رہا ہے۔ ہنستی ہے تو کلیاں کھل جاتی ہیں۔ جنتا کی بے حد ہمدرد ہے۔ ہر ہفتے قومی جنگ خریدتی ہے۔ وغیرہ __ تو اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی تھی کہ دو تارہ بجاتی ہوئی جنگلوں کو نکل جائے۔ اس روز نیو انڈیا کافی ہاؤس میں یومِ اسٹالین گراڈ منانے کے سلسلہ میں ایک پارٹی تھی، جہاں سلطانہ آپا نے پہلی مرتبہ اس کا تعارف اس سے کرایا تھا۔ اور رفعت کے اندازے کے مطابق وہ اعلیٰ درجے کے Bore ثابت ہوئے تھے جن کی موجودگی یہ احساس دلاتی تھی کہ کہیں سے مار کھا کے یا چوری کر کے آئے ہیں اور اب کورٹ مارشل ہونے والا ہے۔ نہایت خزاں دیدہ، ستم رسیدہ، دنیا جہاں سے بے زار۔ روس و چین میں مبتلا۔ شکل سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی پٹ کر آئے ہیں یا پٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود قومی جنگ کا پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آتے تھے اور اب__ مرغی میجر بھائی نے حضرت گنج کے چوراہے پر کار کی رفتار دھیمی کر کے گیئر بدلتے ہوئے پھر کہا کہ تم نے کبھی ذرا سی عقل بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے تو اس نے ایک زبردست سی اونہہ کی اور بارش کی پھوار سے بچنے کے لیے کھڑکیوں کے شیشے چڑھانے میں مصروف ہو گئی۔ مادام حواّ کی بیٹیوں نے ورثے میں کتنی بہت سی بے وقوفیاں حاصل کی ہیں۔ وہ جو آدم کے مغرور بیٹوں کا مذاق اڑانا چاہتی ہیں۔

’’ ایک آپ کی تقدیسِ مجسّم ثریا صاحبہ ہیں جنہیں میں نے محض یوں ہی تفریحاً عید کارڈ بھیج دیا تو__‘‘

’’ خدا کے لیے مرغی میجر بھائی خاموش رہیے۔‘‘

بارش تیزی سے ہونے لگی۔

شدّتِ احساس کا بوجھ دبائے ڈال رہا تھا۔ پھر بھی وہ سب خاموش تھے۔ کیا کہیں، کیا کریں ؟ زندگی سے کچھ عجیب سی نفرت ہو چلی تھی!

بارش اسی طرح ہوتی رہی۔ پانی سے لدی ہوئی ہوائیں چیپل کی یخ بستہ سفید دیواروں سے ٹکراتی ہوئی نکل گئیں۔ لوریٹو کانوونٹ میں مادرِ خداوند نے خاموشی سے کہا : ’’ افسوس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکی۔‘‘ اور انہوں نے اپنی بڑی بڑی معصوم آنکھیں جھکا لیں اور ان کا مجسّمہ دھندلکے میں ڈوب گیا۔

لیکن سعیدہ آپا نے زیادہ خوب صورت الفاظ میں اس کو خدا حافظ کہا اور جلد ملنے کی امید ظاہر کی اور لندن ہاؤس کے سامنے اسے اتار دیا۔ پھر ان کی سرمئی بیوک چھینٹے اڑاتی ایبٹ روڈ کی طرف مڑ گئی۔ لیکن اصلیت اتنی خوب صورت نہ تھی۔ بارش سے پناہ لینے کے لیے جو امریکن اور گورے لندن ہاؤس میں کھڑے سگریٹ کا بھیگا بھیگا دھواں اڑا رہے تھے ان کی سیٹیاں تیزی سے اس کے کان میں گھس کر کہہ رہی تھیں : ثریا بیگم، مسز داس نے اپنے خط میں تم سے درخواست کی ہے کہ تم مہربانی سے اپنے گھر چلی جاؤ۔‘‘ (کیوں کہ فلسفے، عمرانیات اور اخلاقیات کی تمام موٹی موٹی کتابیں اپنے دماغ میں ٹھونس لینے کے باوجود تم نے ایک نہایت ناشائستہ حرکت کی ہے۔ لہٰذا تمہیں ایکسپل کر دیا گیا ہے، یعنی تمہیں کالج سے نکال دیا گیا ہے۔) پھر وہ دیر تک دکانوں کے آگے کے برآمدے میں ادھر سے اُدھر ٹہلتی رہی اور پھر تھک کر انڈیا کافی ہاؤس کے پہلو کے خالی زینے کی نچلی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ کاش ! کاش! if wishes were horses beggars would ride.اچھا کاش تانگہ ہی مل جائے۔ بس ایک تانگہ۔

’’ چاند باغ چلیے گا بابا؟ آئیے!‘‘

حالاں کہ اس تانگے والے کو، جو ابھی ابھی ایک امریکن کو کافی ہاؤس پر اتار کر اس کی طرف مڑا تھا، یہ معلوم نہ تھا کہ عام طور پر ایسی بھیگی ہوئی سی خاموش دوپہر کے وقت چاند باغ کی بابا لوگ حضرت گنج میں تنہا نہیں ٹہلا کرتیں۔ اور پھر ہوا کے تھپیڑوں کے سہارے تانگہ چاند باغ کی طرف بڑھنے لگا: آرٹ اینڈ کریفٹس ایمپوریم __ لیلا رام __ پلازا__ نیو انڈیا کافی ہاؤس __ مے فیئر __ ہلو یشیا کورٹ __ فرنچ موٹرز__ جہانگیر آباد پیلیس __ موتی محل برج__ یونی ورسٹی __ اور گھر __ وہ گھر پہنچ گئی۔

لیکن گھر وہاں نہیں تھا۔ یعنی پھوپھی اماں تبدیلِ آب و ہوا کے لیے دہرہ دون چلی گئی تھیں۔ اختلاجِ قلب کی مریض تھیں۔ اور مسعود بھائی کو امپیریل ٹوبیکو میں نوکری مل گئی تھی۔ وہاں سے تار آیا تھا اور وہ کلکتہ چلے گئے تھے۔ پھوپھا جان تو خیر ہمیشہ رہتے ہی دورے پر تھے۔

جاڑے کی مہاوٹیں تھیں، تیزی سے برس کر بہت جلد کھل گئیں اور بادل چھٹ جانے پر دھلا دھلایا نیلا آسمان بہار کی آمد کا پیغام دینے لگا۔ چار باغ کے پلیٹ فارم نمبر ۳پر ٹہل ٹہل کر چوکلیٹ کھاتی ہوئی رفعت یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہی تھی کہ پھولوں کا موسم اب زیادہ دور نہیں۔ دہرہ دون میں مالی نے اس کی کوٹھی کے باغ کی بہار کے لیے صفائی ابھی سے شروع کر دی ہو گی۔ پھر مرغی میجر بھائی بھی آ جائیں گے۔ پھر سب معاملہ ٹھیک ہے۔ فِٹ __ فٹ__ بالکل __ وہ بہت خوش تھی۔ وہیلر بک سٹال پر ’’ قومی جنگ‘‘ کا تازہ پرچہ خرید کر پھراُسے وہیں پٹختی آئی تھی۔ اس میں لکھا تھا کہ کامریڈ اکرام نے کامریڈ سلطانہ کے ساتھ شادی کر لی ہے اور دونوں بنگال کے دورے سے واپس آ کر بمبئی کی گاندھی جناح مصالحت کو کامیاب بنانے اور ہندوستان کو آزاد کرانے کی فکر میں ہیں۔ جزاک اللہ ! رفعت نے اس پرچے کے بجائے اس مہینے کا ’فلم انڈیا‘ خرید لیا اور سوچنے لگی کہ سودا بُرا نہیں رہا۔

اور چار باغ جنکشن کے شور و غل سے دور، باہر کی طرف، وہ چھوٹا سا پلیٹ فارم خاموشی اور دھند میں ڈوبا ہوا تھا جہاں سے رات کے اندھیرے میں فوجیوں کی ریلیں اپنی نا معلوم منزل کی طرف روانہ کی جاتی ہیں۔ اور اس پلیٹ فارم پر سے ایک ٹرین ابھی آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی دور دھندلکے میں کھو چکی تھی اور بجلی کے کھمبے کا سہارا لیے تین پنجابی سپاہی سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے اور لا یعنی باتیں کر کے یا اپنی پسند کا گیت گنگنا کر اس وقت کو کاٹنا چاہتے تھے جو انہیں اپنی ریل کے انتظار میں وہاں گزارنا تھا۔ ایک بنگالی فوجی مستری بھی وہاں آ بیٹھا تھا۔

’’ یار ! مگر ہمارے کیپٹن صاحب نے بھی غضب ہی کر دیا۔ دل توڑ دیا ظالم نے، ہائے ہائے-‘‘

’’ ہاں جی تو شادی شودی اس نے کیا کرنی تھی۔ یہ تو ان چھوکریوں سے پوچھو کہ اتنا پڑھ لکھ کر یوں بےوقوف بنتی ہیں۔‘‘

’’ یَس، مگر استری کامن بڑا ونڈر فل چیز ہے۔ چاہے کیسا ہی کالج یا ولایت پاس ہو جائے، چاہے بالکل اَن پڑھ، پر تم اس کا دل کا بات نہیں سمجھ سکتا۔‘‘

’’ اماں جاؤ بھی بابو جی۔ یہاں تو یہ جانتے ہیں کہ یہ ہم کو اُلّو بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور خود اُلّو بنتی ہیں۔‘‘

’’ اور پھر آج کل ایک سے ایک کالج گرلیں ماری ماری پھرتی ہیں خود ہمارے کمانڈنگ صاحب ایک دفعہ __‘‘

اور بہت دور، گومتی کے اس پار، نشاط ہوسٹل کے ڈرائنگ روم میں اوما  شیرالے نے ناچتے ناچتے تھک کر گھنگرو اتار کر ایک طرف پھینک دیئے اور خود صوفے پر گر گئی اور گربا کے گیت کی لہریں شام کے سنّاٹے میں کھو گئیں __ سندھ کے کنارے __ اب تو جیون ہارے__ اب تو جیون __

ہے گووندا  راکھو شرن۔

٭٭٭

 

 

 

ایں دفتر بے معنی۔۔۔۔۔

 

 

نہ جانے کیسا پاگل پن تھا۔ انوکھا اور دل چسپ۔ پر اب تو کہکشاں کا یہ نقرئی راستہ پریوں کی سرزمین تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ کیسی تھکن، کیسی اکتاہٹ، کیسی بے کیفی۔ آدھے جلے ہوئے سگرٹوں کا بجھا بجھا دھواں فرن کے خشک پتّوں کے اوپر سے گزرتا ہوا اندھیرے میں پھیلتا جا رہا ہے۔ فریڈا بالکونی میں کھڑی شاید چاند کا انتظار کر رہی ہے۔ فریدہ بانو اندر آ جاؤ۔ ہوائیں خُنک ہوتی جا رہی ہیں۔ میں بہت زیادہ عقل مند ہوں فریدہ۔ فریدہ پیاری تم نے رات کو سوائے کے ڈنر کے لیے ساری کا انتخاب کر لیا؟ میرا وہ روپہلی بروکیڈ کا غرارہ نکال دینا اور اس کے ساتھ کی فرنچ ہیل والی جوتی۔ شاید کوئی بزرگ دار رقص کے لیے اصرار فرمائیں __ اور __ فریدہ تم نے اس سیاہ دوپٹے پر آئرن کر لیا۔ استری کا پلگ اور تار خراب ہو گئے ہیں۔ کام نہیں دے رہی ہے آج کل __ اور فریدہ بانو __ Dash it all کہاں تک خود کو فریب میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ فریدہ ! ایک کُشن میری طرف پھینک دو تاکہ میں اس میں بادام جیسی آنکھیں چھپا کر خوب روؤں __ کیوں کہ __ ! Hang it you blessed goose لیکن نہیں فریدا ڈیر۔ ہم سب کی اسپورٹنگ اسپرٹ ہونی چاہئے__ فِش __ آؤ خوب زور زور سے گائیں :

It was in the isle of capri that I found her !

Beneath the shades of an old walnut tree !

اتنا مت چیخو۔ کھڑکیوں کے پٹ بند کر دو۔ اب تمہاری بالکونی کے نیچے کوئی سیرینیڈ کرنے کو نہیں آئے گا۔ ہم چلتے چلتے تھک گئے اور اب آرام چاہتے ہیں۔ سکون اور خاموشی۔

ہم پہاڑ کی جگمگاتی چوٹیوں تک پہنچ کر ارغوانی اور قرمزی بادلوں میں رہنا چاہتے تھے۔ بلند اور علاحدہ۔ لیکن مذاق تو دیکھو ! Bang ایک سخت جھٹکے کے ساتھ سب کے سب نیچے آ رہت۔ کھردری اور بے حس زمین کی پستیوں میں۔ یہ سب ایک بہت بڑا عظیم الشان مذاق تھا، ایک بے حد خوف ناک لطیفہ۔ کبھی تم نے یہ بھی غور کیا کہ تم ہمیشہ ایک ہی سی باتیں کرتی ہو؟ یعنی بس، مایوسیاں ! بھائی یہی تو ساری ٹریجڈی ہے، پاگل پن بڑا عجیب سا، جیسے سچ مچ بڑا آرٹسٹ اور انٹلکچوئیل پن سوار ہو گیا ہو۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچ کر ہم سب بہت زیادہ قابل بن گئے تھے: مہم، رومان، خطرے، تیز سُرخ شعلوں کی گرمی، برف کے نرم اور سفید گالے، جاڑے کی راتوں میں آتش دان کے قریب بیٹھ کر جانے کیسی کیسی باتیں کیا کرتے تھے! cow boy قسم کے فلم دیکھنے کے بعد عجیب عجیب تصوّرات دماغ میں آیا کرتے تھے: چاندنی راتوں میں خطرناک پہاڑوں میں چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش میں سرپٹ گھوڑا دوڑاتے بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ ٹائرن پاور اور رابرٹ ٹیلر جیسے خوب صورت اور بہادر ہیرو چٹانوں پر چڑھتے ہوئے سُرخ رومال ہلا رہے ہیں۔ دور __ ہسپانوی خانہ بدوشوں کے کاروانوں کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ آؤ طوفانوں سے لڑیں، شعلوں سے آنکھ مچولی کھیلیں، جنوب کے نیلے آسمانوں اور ستاروں کے گیت گائیں اور اسی طرح شور مچاتے، چیختے اور ناچتے ہوئے طوفانی لہروں کے ریلوں کے ساتھ کہیں دُور نکل جائیں __ بہت دور __ جانے کتنی دور __

پھر ہمارا ایک بڑا سا کمرہ تھا جس کی کھڑکیاں پہلو کے باغ میں کھلتی تھیں اور جس کے دروازوں پر بھاری بھاری گہرے سبز پردے پڑے رہتے تھے۔ اس میں ایک آرٹسٹک بے ترتیبی سے ہمارا مصوری کا سامان، کتابیں اور ٹوٹے ہوئے مجسمے دیوان اور قالینوں پر بکھرے رہا کرتے تھے۔ ایک کونے میں وہ پرانا پیانو رکھا تھا جو ابّی اپنی شادی سے بھی پہلے قاہرہ سے ساتھ لائے تھے۔ دوسرے کونے میں ایک بڑا سا تانبے کا پردار گھوڑا سجا ہوا تھا جس پر اپالو بڑی شان سے چڑھا بیٹھا تھا۔ الماریوں میں رنگوں کے خالی ٹیوب اور ڈبّے، ٹوٹے پھوٹے برش، کینوس کے ٹکڑے، نامکمل تصویریں، کتابیں اور جانے کیا کیا بھرا ہوا تھا۔ سبز دیواروں پر ہمارے ’’شاہکار‘‘ اور دوسری تصویریں تھیں۔ اٹھارہویں صدی کی روسی اور ہسپانوی شہزادیاں، کنار رائن کے جنگل، میڈونا، آخری ضیافت، از ابلا اور کیتھرائن، روزیٹی کے پروفائل۔

اس کمرے کو اسٹوڈیو اور لیٹن کو ارٹر کہہ کر کتنی مسرت ہوتی تھی۔ ابی خوش ہوتے تھے اور ممّی پریشان۔ اللہ یہ لڑکیاں کس کے گھر میں پچ سکیں گی!

اور ہمارا چھوٹا بھائی اسلم کہتا: ’’ میں ایسے ایسے خوف ناک بم بنایا کروں گا کہ بھئی تمہاری روح خوش ہو جائے گی۔ اے فرانسیسی صوفوں اور ایرانی قالینوں پر عمر بتانے والی بورژوا گلہریو جب عالی جناب!… صاحب دون اسکول میں تقسیمِ انعامات کے لیے تشریف لائیں گے اور تم اپنے کانونٹ choir کے ساتھ بڑی مستعدی سے آنکھیں بند کر کے خوش آمدید کے نغمے الاپ رہی ہو گی اور دولہا بھائی خوش خوش سرگرمی سے اے۔ ڈی۔ سی۔ بنے پھر رہے ہوں گے اس وقت یہ خاکسار چپکے سے ایک نہایت نفیس سا__‘‘

’’ چپ رہو بچّو! کیا پاگل پن ہے؟‘‘ ہم ریڈکراس پارٹی کے ساتھ بَل کھاتی ہوئی سڑک پر تیزی سے کیمپ کی طرف جا رہے تھے۔ فوجی زخمیوں اور اطالوی قیدیوں کے لیے تحفوں کی پارسلیں اور ٹوکریاں لیے۔ وکٹر آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا اور بڑے زور سے جھکّڑ چلنا شروع ہو گیا اور پھر بادل چیخنے لگے۔ فضاؤں پر زرد زرد پتّے چھا  ٹر دُ گئے۔ گونجتی ہوا میں چکّر کاٹنے والے خشک پتّے۔ ’’ وکٹر ! دیکھو میرا اسکارف اڑا جا رہا ہے۔ اور تیز کرو رفتار۔ جی چاہتا ہے سامنے اس نقرئی ربن کی طرح پھیلی ہوئی سڑک کو انجن میں سمیٹتے ہوئے سرخ افق میں جا گھسیں۔‘‘ فریدا اتنا کیوں اترا رہی ہو۔ ایک چٹان اور ٹوٹ کر کھڈ میں جا گری۔ ’’ اور تیز کرو رفتار۔ یہاں تک کہ __ یہاں تک کہ جا کر آسمان کے کنارے ٹکرا جائیں۔ ان سیاہ بادلوں کے پرخچے اڑا ڈالیں چاہے سارا پٹرول ختم ہو جائے۔ اور ہم کیمپ کی طرف قیامت تک یوں ہی لڑھکتے چلے جائیں۔ یہ تیز رفتاری ہی تو زندگی ہے۔ وکٹر، ذرا سوچو تو، کتنا مزا ہو گا۔ اگر ہم اسی زنّاٹے سے چلتے رہیں۔ اور کار کے سارے بئیرنگ جل جائیں۔ ٹائر برسٹ ہو جائیں۔ ساری کائنات میں آگ لگ جائے۔ سچ مچ کی آگ۔ اوفوہ۔ میں تو خوشی کے مارے مر جاؤں بالکل۔ پھر جب یہ نظامِ عالم جل بھُن کر راکھ کا اونچا ساڈھیر اور کھنڈر بن جائے تو پھر اس دھواں دھار اندھیرے میں ہم ایک دوسرے کو پکارتے پھریں __ کہاں ہوا اسما اور فریدا اور امبریش اور وکٹر۔ آؤ ہم سب مل کر رقص کریں __ موت اور تباہی کا رقص۔ بھرت ناٹیم اسٹائل میں __ اوہو، واقعی دیکھو انجن میں آگ لگ گئی۔ انجن میں دھواں اٹھ رہا ہے۔ اچھا آپ پائپ فرما رہے ہیں۔ سلمان صاحب! دیکھیے آپ نے لیڈیز سے پوچھ لیا ہوتا کہ آپ کی موجودگی میں اس خاکسار کو دھواں اڑانے کی اجازت ہے؟ کاش ایک ایسا سیلاب آئے کہ آپ مع اپنے پائپ کے ساری دنیا سمیت اس میں غرق ہو جائیں۔ ایک اُلّو کی دم کا پر بھی باقی نہ رہے۔ علامہ مرحوم کا شعر کچھ ایسا سا ہے ؎

پھونک ڈالے یہ زمیں و آسمانِ مُستعار

اور خاکستر سے اپنی اک جہاں پیدا کرے

تو سلمان بھائی تخریب کے بعد تعمیر۔ یہی ہمارا پروگرام ہے۔ ہم ادب اور موسیقی اور چھایا چترا کے ذریعہ جنتا کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ نے ہمارے اوپن ایئر اور پیپلز تھیٹرز نہیں دیکھے۔ ہمارے افسانے اور نظمیں ملاحظہ نہیں فرمائیں۔آپ کیا جانیں ہم لوگ کس قدر صاحبِ نظر__ اور __ بات یہ ہے بھئی کہ میری اُردو کافی سے زیادہ کمزور ہے۔ بچپن سے کانونٹ میں پڑھا ہے اس لیے__ اور اگر ایسے ہی دو چار بے تکے مضمون یا افسانے لکھ لیے تو کیا ہوا۔ بات بات میں انگریزی کی مدد لینی پڑتی ہے۔ یعنی جملے کے جملے انگریزی کے ٹھونسے جاتے ہیں۔‘‘

’’ اوہ مس حیدر! آپ تو انکسار کی حد کرتی ہیں۔ اجازت ہے کہ پائپ سلگا لوں ؟‘‘

’’ ضرور۔ آپ کیا کرتے ہیں سلمان بھائی!‘‘

’’ جی میں موجودہ حالت میں آنے سے پہلے ایم۔ اے۔ کا امتحان دیا کرتا تھا، اور آپ؟‘‘

’’ اور میں ریڈکراس میں کام کر کے چاکلیٹ کھانے کے علاوہ تصویریں بنا کر اور افسانے لکھ کر ملک و قوم کی خدمت میں دن رات مصروف رہتی ہوں۔‘‘

خدا کے لیے اتنی باتونی کیوں بن گئی ہو۔

’’ چپّو تو فریدا۔ میں ان سے نہایت اہم مسائل پر تبادلہ خیالات کر رہی ہوں۔ جی تو سلمان صاحب وکٹر سے کہیے کہ رفتار اور تیز کرے۔ کیمپ میں ہمارا سخت انتظار کیا جا رہا ہو گا۔ ہم بے چارے زخمیوں کے لیے خوب صورت تحفے لیے جا رہے ہیں۔ بھلا ہم سے زیادہ ملک و قوم کا ہمدرد کون ہو گا۔ خدا سرکار کو ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ رات دن برطانیہ کی فتح کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ہماری ایک کوٹھی میں اطالوی قیدیوں کو مہمان رکھا گیا ہے۔ ہم ہندوستانی بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں۔ اور کسی بدتمیز نے یہ خبر اڑا دی کہ خدا نہ کرے فریدا اس نارنجی بالوں والے اطالوی کو، جو لیچی کے سائے میں، سبز بید کی کرسی پر بیٹھا، گتا ربجایا کرتا ہے، چیری کے مربے اور مار ملیڈ بھیجا کرتی ہے۔ جنابِ عالی! یہ تو ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ان بے چاروں کی میزبانی کریں۔

’’ لیکن فریڈا تمہیں وہ اطالوی قیدی یاد ہے جو ایک دفعہ کیاریوں میں کام کرتے کرتے کدال پر ہاتھ ٹیک کر تم سے نقرئی آواز میں بولا تھا:

سینو ریتا! اجازت دو کہ میں یہ زرد کلیاں تمہیں پیش کر کے اپنے گھر کے تاکستانوں اور سیاہ آنکھوں والی کنواریوں کی یاد میں ایک چھوٹا سا گیت گا سکوں۔‘‘

’’ خدا غارت کرے ان سب کو۔ مگر کیسے خوب صورت ہوتے ہیں یہ۔ اور پھر سوچو کہ ایسے خوب صورت، سینوریتاؤں کو جنوبی تاکستانوں کے نغمے سُنانے والے، روزانہ سینکڑوں ہزاروں مارے جا رہے ہیں۔

’’ ڈیش اِٹ۔ ابھی کل ہی تو … پر اُڑان کرتے ہوئے پولو کے طیارے میں آگ لگ گئی اور وہ جل کر مر گیا۔ تو کسی نے کیا کر لیا۔ وہ بھی تو صرف اٹھارہ سال کا تھا۔ اور وائلن پر بلو ڈینیوب بجایا کرتا تھا۔‘‘

’’ لیکن مس حیدر آپ کو زرد چاند اور نیلا سمندر اور پام کے درخت اور قہوے کی بھاپ، یہ سب چیزیں بہت دل چسپ معلوم ہوتی ہیں۔ رومان__ رومان__ کیا مصیبت ہے __ جی ہاں قطعی۔ تو آئیے آج سے زندگی کی کھردری حقیقتوں کا مطالعہ شروع کر دیں۔ آہ وہ دیکھیے، سڑک کے کنارے پہاڑی مزدور پتھر کوٹ رہے ہیں تاکہ سامراجی مشینیں اور موٹریں ان کو روندتی ہوئی گزریں۔ لیکن __‘‘ Bang! __ سوائے میں آرکسٹرا بجنے لگا۔ کیبرے شروع ہونے والا تھا۔ شام کی نیلگوں خاموشی میں کواٹر لینن کے ایک دریچے میں سے مدھم سی سبز اور نیلی روشنی اندھیرے کو کاٹتی ہوئی دور تک جا رہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے __ جیسے __ افوہ! اسما پیاری پردہ گرا دو۔ کیتھیڈرل کے میناروں کے پیچھے سے اٹھتا ہوا چاند کا گیت جھیل کی لہروں پر بکھرتا جا رہا ہے۔ کاش کوئی اس وقت اس دریچے کے نیچے اس کہکشاں جیسے نقرئی راستے کے کنارے کھڑے ہو کر سیرینیڈ کرتا۔ لیڈی آف اسپین! میرا نغمہ سنو!

Lady of Spain! I’m hearing of you

Lady of Spain! I’m yearning for you

Lady of Spain! I love you

لیڈی آف اسپین اپنے بالوں میں سجے ہوئے چیری کے شگوفے نیچے پھینک دو۔ میں وائلن بجا رہا ہوں۔ چاند سیاہ آنکھوں والے پری زادوں کے نغموں میں تیر رہا ہے۔ تمہارے دریچوں میں سبز روشنی کی موجیں خوابوں کی بستی کی طرف بہتی جا رہی ہیں۔ کرنوں کا زینہ بنا کر پھولوں کی اس وادی میں اتر آؤ جہاں میں سیرینیڈ کر رہا ہوں __ لیڈی آف اسپین!

اسماء یہ وائلن یوں ہی بجتا رہے گا۔ پردے ایک طرف کو سمیٹ دو چاند نگار خانے میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے کہہ دو ابھی انتظار کرے۔ سنہری بانسریاں بجانے والے پری زاد شاہِ بلوط کے جنگلوں میں چھپے بیٹھے ہیں __ آدھی رات کو جب کیتھڈرل کے گھنٹے کی گونج لرزتی ہوئی خاموشی میں ڈوبنے لگے اس وقت ہم، نیلو فر اور یاسمین کے پودوں کے پیچھے، پرستان کا رستہ ڈھونڈنے اس وادی میں آئیں گے۔ روشنی بجھا دو۔ چاندنی میں شبنم برس رہی ہے__ ہمیں سونے دو!

اس کی آنکھیں بھی کہہ رہی تھیں : ہمیں ان سبز پردوں اور چیری کے شگوفوں کا خواب دیکھتے ہوئے سوجانے دو۔ فریدا اور اسما سن سن دھارا کی جانب چڑھتے چڑھتے تھک کر پگڈنڈی کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گئی تھیں اور ساتھی آگے جا چکے تھے۔ وہ ان دونوں کا ساتھ دینے کے لیے قریب آ گیا: ’’ مادموزیل شاید آپ مجھے نہیں پہچانتیں لیکن میں آپ کے ساتھ رقص کر چکا ہوں۔ میں سگریٹ پی سکتا ہوں __؟‘‘

’’ اوہ، یقیناً! ‘‘

’’ شکریہ ! آپ ؟ نہیں ؟ غالباً آپ کو یاد ہو گا فینسی ڈریس بال میں پرنس یوجین تھا__‘‘

’’ اوہو۔ جی ہاں، بالکل۔ مجھے ماسک میں سے صرف آپ کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اچھا تو آپ ہی طہران سے تشریف لائے ہیں۔ آپ خاصے دل چسپ آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تشریف لائیے۔ میری چھوٹی بہن کو جب معلوم ہوا کہ آپ لیٹن کواٹر میں اتنے دنوں رہ چکے ہیں تو اس کا تو انتقال ہو جائے گا۔‘‘

اور وہ دیوان کے ایک کونے پر آ کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے کسی نے اسے نیند سے جگانے کے بعد زبردستی کمرے میں دھکیل کر پیچھے سے دروازہ بند کر دیا ہو۔ فریدا کا جی چاہا کہ چپکے سے اسی وقت اپنی اسکیچ بک پر اس کا پروفائینل کھینچ لے اور پھر بعد میں عمر بھر اس میں رنگ بھرتی رہے۔ پھر میسوری میں ایک سب سے بڑی نمائش کرے جس میں صرف اس کی تصویریں ہوں ___مختلف انداز کی ___طیارے سے اترتے ہوئے پرنس یوجین کے بھیس میں رقصاں، جھک کر سگریٹ جلاتے ہوئے، دھوپ کا چشمہ لگا کر دور پہاڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے ___اس طرح ___اس طرح ___توبہ اللہ!___

اور فریدا کشن پر کہنیاں ٹیک کو بری معصومیت سے اس سے پوچھتی۔ ’’آپ کا کام سچ مچ کتنا خطرناک ہوتا ہو گا۔ اڑتے ہوئے طیاروں اور ڈوبتے ہوئے جہازوں پر سے وہاں کے مناظر کی فلم لینا اور وہاں کی خبریں بھیجنا (بالکل ٹاؤن پاور کی طرح) کیسی Adventurousزندگی ہے آپ کی اور آپ آکسفرڈ میں کواکا کے ہم جماعت رہ چکے ہیں۔

ایسا محسوس ہوا جیسے وہ نگار خانہ کے کونے میں رکھے ہوئے اپالو کو نیچے گرا کر اس کے آسمانی رتھ پر چڑھ گیا اور ساری کائنات اس کے سوئیڈ کے بوٹوں پر جھک کر اس کی پرستش میں مصروف ہو گئی۔

’’کتنی Rashہو جاتی ہو تم لوگ۔ یعنی یہ انتہا ملاحظہ فرمائیے کہ صاحبزادی ایک رات سوائے کے فینسی ڈریس بال میں ان بزرگوار سے ملیں اور اگلے ہفتے منگنی کی خبر سوسائٹی میں اناؤنس کر دی گئی۔ کچھ پتا نہیں چھوکرا کون ہے، کہاں سے آیا ہے، کہاں کو جائے گا؟ لیکن یہ عجب لڑکیاں ہیں۔ مغرور، ضدی، خود سر، خود پسند، کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتیں۔ اپنی کوٹھی کا نام آشیانہ رکھ چھوڑا ہے حالاں کہ اسے زو کہنا چاہئے۔ دنیا جہان کے خرگوش، پہاڑی طوطے، لنگور اور جانے کیا کیا بلائیں پالی ہوئی ہیں۔ بنتی اس قدر ہیں جیسے ابھی پیرس سے چلی آ رہی ہیں۔ ابھی پرسوں دوپہر، باہر بوندیں پڑ رہی تھیں۔فریدہ بانو نے ریڈیو گرام پر کوئی چیخنے چلانے والا انگریزی ریکارڈ لگا کر مجھ سے ارشاد فرمایا۔ آئیے شوکت بھائیLambeth Walkکریں۔ میں غریب کیسے پوچھتا کہ یہ کس مصیبت کا نام ہے اور پھر وہ اسی نیلی آنکھوں والے لونڈے کے ساتھ جو طہران سے آیا ہوا ہے، برآمدے کے فرش پر اچھلنے کودنے لگیں۔ لڑکیوں کو اتنی آزادی دینے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

مگر اس وقت ان خود سر اور ضدی لڑکیوں کے پاس شوکت بھائی کی ان جلی بھنی باتوں پر ناک بھوں چڑھانے کی فرصت بھی کہاں تھی۔ اسماء بڑی فکر مندی کے انداز میں میز کے کونے پر بیٹھی دانتوں سے ناخون کتر رہی تھی: ’’ سنجیدگی سے مسئلے پر غور کرو جی۔ ممی کو کیسے bluffکریں اور اگر شوکت بھائی نازل ہو گئے __ اور ابی کو کس طرح بتائیں کہ وہاں وکٹر اور مکی ہاؤس کے علاوہ امبر بھی ہو گا۔

’’ امبر سے ابیّ کو خصوصیت کے ساتھ چڑ ہے۔ وہ اس وسیع دنیا میں یکہ و تنہا بے چارہ انسان۔ امبر بتاؤ میں کیا کروں۔ ابیّ اجازت نہیں دیتے کہ میں تمہاری میٹنگ میں شرکت کروں۔ ممی کس وقت سونے جاتی ہیں۔‘‘ کاش کوئی دیکھتا کہ پرانی دنیا کے خلاف کس طرح اسکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ بہت معصومیت سے۔

چائے کی میز پر ابیّ نے عینک اتار کر اخبار پر رکھ دی: ’’ آپ کو یہ یقین کیسے ہو گیا کہ آپ ممّی کے بغیر وہاں تشریف لے جا سکتی ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آج کی شام آپ خرگوشوں اور پو لیؔ کے ساتھ گزاریں۔‘‘ اور وہ اخبار اٹھا کر اپنے دار المطالعہ کی طرف چلے گئے__ امبریش __ امبریش۔

پر امبریش کم از کم تم پارٹی میں تو آ جانا جو ہم فریدا کی منگنی کی خوشی میں راج پور میں مسز چیپ مَین کے ہوٹل میں دے رہے ہیں۔ تم نے شاید اب تک فریدا کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی__ اور نہ مجھے __

ان دنوں رام گوپال اپنے ٹروپ کی دو لڑکیوں کے ہمراہ ہمارے یہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ دنیا جیسے گیتوں اور قہقہوں کے جھولے میں جھول رہی تھی۔

ہوٹل کے لان پر اسلم خوش خوش مہمانوں کا ایک دوسرے سے تعارف کراتا پھر رہا تھا۔ خالد صاحب آئیے آپ کو اپنے مہمانوں سے ملائیں : آپ انڈین آرمی آبزرور ہیں۔ ابھی ایران اور اٹلی سے آ رہت ہیں __ اور یہ ہیں مسٹر رام گوپال__ India’s dancing son __ اور آپ مس جانکی ہیں بھرتؔ نا ٹیم سٹائل میں ہندوستان کی نمبر وَن__ پریذیڈنسی کالج مدراس میں جونیر بی۔ ایس سی۔ میں پڑھ رہی ہیں __ اور یہ بیگم شاہد اور نینا دیوی__ ڈیش اِٹ مسعود۔ تکلف برطرف۔ ہم یو۔ پی۔ والے ہیں۔ پر آپ ہنستے کھیلتے پنجاب کے باسیوں کے ساتھ تکلف کیسا۔ کرسیاں ایک طرف کو رکھ دی گئیں اور سب گھاس پر بچھے ہوئے قالینوں پر بیٹھ گئے۔ سُرخ مونچھوں والے انگریز اور فرانسیسی، سیاہ چشم اطالوی یہ مشرق و مغرب کا ثقافتی اتحاد تھا۔ اسلم گرامو فون پر بیٹھ کر چلّایا: ہئی، India’s dancing son شروع کرو اپنا رقص۔ دھیم تانا دھی ری نا تانا دھی ری نا۔ جانکی بھی اٹھ کر رقص میں شامل ہو گئی۔ آؤ فریدا، آمنہ، اسماء، اوم ہمارے ساتھ فوک ڈانس میں شریک ہو جاؤ۔ رقص ہوتا رہا۔ لیکن نینا ایشیائی شہزادیوں کے سے وقار کے ساتھ قالین کے سرے پر بیٹھی سگریٹ کے دھویں کے حلقے بناتی رہی۔ شاید وہ نغمہ و نکہت کے اس طوفان سے دور اپنے مرہٹہ شوہر کا انتظار کر رہی تھی جو دور فلپائن کے جنگلوں میں موت سے لڑ رہا تھا۔ ممّی، خالہ، امّی اور ابیّ مسز چیپ مین کے ساتھ برآمدے کی سیڑھیوں پر آ کر کھڑے ہوئے۔ ان کے سامنے لان پر اُن کے بچے خوش خوش زندگی کی مسرتوں سے کھیل رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے خوب صورت اور شریر بچّے۔

پھر سب نیچے وادی میں آنکھ مچولی کھیلنے کے لیے اتر گئے۔ رام ادھر سے کود جاؤ۔ فریدا تم چٹان پر سے فوراً گر جاؤ گی۔ امبولینس منگوا کر ہسپتال پہنچا دیا جائے گا، اطمینان سے۔ نینا ڈارلنگ سگریٹ کا ڈبّہ پھینک دینا ادھر۔

وادی میں اندھیرا چھاتا جا رہا تھا۔ مسز چیپ مین نے آخری بار کھڑکی میں سے جھانک کر نیچے دیکھا اور پھر دروازے بند کر کے کونے میں اپنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ وادی میں سے ان شریر بچوں کے قہقہوں کی اور سیٹیوں کی مدھم آوازیں اب بھی آ رہی تھیں۔ انہوں نے آتش دان کے اوپر لگی ہوئی میڈونا کی تصویر کی طرف بھیگی ہوئی بوڑھی آنکھیں اٹھائیں اور آہستہ سے کہا :”God bless them” مسوری کی اونچی چوٹیوں پر سے سرو اور چیڑھ کے درختوں کی خوشبو میں بھیگا ہوا ہوا کا ایک جھونکا مسز چیپ مین کے چاندی کے تار جیسے بالوں کی لٹوں کو ہلاتا ہوا دوسرے دریچے سے باہر وادی میں نکل گیا جہاں آمنہ، اسماء اور اوم کے گیتوں کی صدائے بازگشت اب تک گونج رہی تھی۔

Under the greenwood tree

Who loves to lie with me

Come hither, Come hither, come hither,

There is no enemy

But winter and rough weather.

امبر تم کہاں کھوگئے اور خالد اور فریدہ__ رام، نینا اور جانکی اسٹیشن ویگن پر سوار ہو کر روز ماؤنٹ واپس جا چکے تھے کیوں کہ ایسی رات کو انہیں فوجیوں کے ایک پروگرام کے لیے رقص کی تیاری کرنی تھی۔

امبر تم ہمیپرز کو پیک کرنے میں میری مدد کرو۔ پارٹی کے بعد کی تھکن، بھاری بھاری آنکھیں، تھکے تھکے قدم۔ امبریش کیا واقعی تمہیں رنج ہے۔ لو ان پیالیوں کو اس ٹوکری میں ٹھونس دو۔ فریدا__ ہاں وہ وہیں ہے۔ آب شار کے کنارے اب تک ؟ اندھیرا ہو گیا ہے اور وہ بہت خطرناک جگہ ہے__ نہیں اس کا منگیتر بھی تو اس کے ساتھ ہے۔ ہاں ٹھیک ہے۔ اس کا منگیتر__ لو یہ چمچے گنتے جاؤ__ زندگی کا راستہ بہت پتھریلا اور کٹھن ہے۔ اسماء رانی __ افوہ حماقت کی انتہاء __

حماقت کی انتہا__ تعجب کی بات ہے نا کہ میں تمہارا پورا نام نہیں جانتی __ میرا خیال ہے کہ میں خاصا Matter of fact قسم کا انسان ہوں۔ شاید تمہیں اس بات سے تکلیف ہو__ اوہ گوش! تم نے غالباً اب تک یہ نہیں سوچا کہ ہماری عمروں میں کتنا فرق ہے۔ میں تمہارے سب سے بڑے بھائی سے بھی چار سال بڑا ہوں۔ میری بیوی اور بچّے ایران میں موجود ہیں __ لیکن تم تو اپنی بیوی کو طلاق دے چکے ہو __ او ہو تمہاری بہن اور وہ کمیونسٹ دوست مسز چیپ مَین کے وہاں سے تمہیں آوازیں دے رہے ہیں۔ وہ فریدا کا بازو تھام کر ہوٹل کی پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ اور فریدا کو ایسا لگا جیسے وہ آبشار کی گہرائیوں میں گری جا رہی ہے۔

رات کافی آ گئی تھی۔ نینا نے ڈریسنگ روم کی کھڑکی کھولی۔ ہو فریدا۔ ہاں ہاں آ جاؤ۔ فریدا اندر آ کر سنگھار میز کے کونے پر بیٹھ گئی۔ نینا نے بھویں پلک کرنے کی چمٹی میز پر رکھ دی اور سگریٹ جلا لیا۔ ’’ رام کب جا رہا ہے ؟ ‘‘ فریدا نے پوچھا۔

’’ پتا نہیں۔‘‘

’’ صبح تو وہ فون پر تامس کُک والوں سے امریکہ کے passage کے متعلق طے کر رہا تھا۔‘‘

’’ ہاں لیکن میرا خیال ہے کہ میں جلدی بنگلور واپس چلی جاؤں گی۔‘‘ اس نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور بھویں اٹھا کر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔ ’’ آج شام میں خاصی فکر مند سی ہو رہی ہوں۔ میرے شوہر کا خط آئے مدتیں گزر گئیں۔ اوہ فریدا تم نہیں جانتیں یہ لوگ کیا ہیں۔ سب ایک سے۔ بہت پرانی شکایت ہے مگر بالکل صحیح۔‘‘ اس نے جھک کر فریدا کا گلابی آنکھوں والا خرگوش اٹھا لیا۔

’’ اچھا شب بخیر نینا۔ اب تم آرام کرو۔ آج تم بہت کافی تھک گئی ہو گی۔ میں دیکھ آؤں میری بہن جانکی پر اپنی مصوری اور افسانہ نگاری کی قابلیت کا رعب جھاڑ کر اس کا دماغ چاٹ رہی ہے یا نہیں۔‘‘

لیکن فریدا جانکی کے کمرے میں جانے کے بجائے ایک مدھم سرخ لالٹین لے کر لیچیوں کا باغ پار کر کے جانوروں کے شیڈ کی طرف چلی گئی اور وہاں ایک اسٹول پر اس وقت تک بیٹھی رہی جب تک کہ شیڈ کی سرخ ٹین کی چھت پر ٹپکنے والی بارش کی بوندوں اور کیتھیڈرل نے اسے یہ یاد نہ دلایا کہ مہمانوں کے ناشتے کی تیاری کے انتظام میں ممی کی مدد کے لیے صبح سویرے جاگنا ہے۔

سوسائٹی کی دل چسپ ترین Gossip۔ ممّی خفا، ابیّ نا  ڑخوش، اسلم پریشان اور شوکت بھائی پر تو بالکل panic سوار ہو گیا۔ جولائی کا مہینہ بھی گزر گیا۔ فریدا رام کی تصویر میں بے دلی سے رنگ بھرتی رہی۔ اسماء نے جھنجھلا کر سارے برش زمین پر پٹخ دیئے اور دریچے میں جا کھڑی ہوئی۔

"Farida darling, I must do some thing drastic to take the gossip off you.”

ہش، کیا کرو گی تم کمزور گلہری!

امبریش کی بھیگی بھیگی بھاری بھاری سیاہ آنکھیں میز کی بلوریں سطح پر لرزنے لگیں۔ زندگی کا راستہ بہت پتھریلا اور کٹھن ہے اسماء رانی!

فریدا نے نامکمل تصویر میز کے نچلے خانے میں ڈال دی اور اسماء کے پاس آ گئی۔ آشیانے کی طرف بادل اور طوفان بڑھتے چلے آ رہت تھے۔ دور گولیاں چلنے کی آوازیں صاف سُنائی دے رہی تھیں۔

ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے نا۔ ایک دم انہیں کچھ یاد سا آ گیا۔ فریدا کمرے میں ٹہلنے لگی اور پھر مرایا ٹریزا کی تصویر کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ گولیوں کی گرج میں سے امبر کی آواز کہتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی: میں تمہاری کہکشاں کی پگڈنڈی سے علاحدہ ہو گیا ہوں۔ اسماء رانی کتنی اچھی ہے کہ میرے ساتھ سفر کرنے کو تیار ہے اس راستے پر، جہاں گولیاں برستی ہیں، اس دنیا میں جہاں پولیس ہماری الماریوں کی تلاشی لیتی ہے، جہاں ہماری شوق اور محنت سے لکھی ہوئیں کتابیں ضبط کر لی جاتی ہیں اور جہاں آخر میں ہمیں تاریک کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ تم نیلوفر کے شگوفے کی طرح نازک اور کمزور ہو۔ تمہیں حفاظت کی ضرورت ہے۔ تم پر شور طوفانی ندیوں اور اونچے پہاڑوں اور ریتلے میدانوں کو طے نہیں کرسکتیں۔ اسماء شاید اس سفر میں کامیاب ہوسکے۔

اگست کی بارشیں اور تیزی سے برسنے لگیں۔ کار نے دھواں چھوڑا اور ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔ ’’ خدا حافظ فریدہ، تم خوش گھر واپس آ جاؤ۔ آشیانہ بجلیوں کی زد سے اچھی طرح محفوظ ہے۔ شوکت بھائی سے شادی کر لو اور پھر اپنے سات آٹھ بچّوں کے لیے عمر بھر موزے بُنتی رہو۔ اور فریدہ پیاری ممی اور ابیّ کو میرا لو دے دینا اور ان سے کہنا کہ سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘

۹؍ اگست کے فوراً بعد امبر کی گرفتاری کا پروانہ آ چکا تھا۔ کار زنّاٹے سے ترائی کے میدانوں میں اترنے لگی اور موہن پاس کے موڑ کے نزدیک ایک بہت بھاری ملٹری پولس کی مسلح کار سے اس کی ٹکّر ہو گئی جو مخالف سمت سے اسی تیزی کے ساتھ آ رہی تھی۔ اور امبر کی سیاہ آنکھیں زخموں کے بوجھ سے آہستہ آہستہ بند ہونے لگیں اور وہ خاموشی سے سیٹ پر گر گیا۔

اور یہ پرانی دنیا اسی طرح قائم ہے۔ ابیّ شاہ بلوط کی بھاری میز پر کاغذات پر جھکے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں حد سے زیادہ مصروف رہتے ہیں۔ نگار خانے میں آتش دان کے اوپر کے شیشوں کے پیچھے سے بلو بوائے اور لیڈی جین گرے ہمیشہ کی طرح جھانک کر مسکرا رہی ہیں۔ رام گوپال کی تصویر میز کے نچلے خانے میں ادھوری پڑی ہے۔ تانبے کا ایک گھوڑا، جس پر یونانی دیوتا سوار تھا، گرد میں اٹا ہوا بڑے سکون کے ساتھ اسی کونے میں رکھا ہوا ہے۔ گھوڑے کا ایک کان اور اپالو کے تیر کی کمان ٹوٹ چکی ہے۔ شمران کے پہاڑیوں کے مناظر کی جو تصویریں فریدا نے بنائی تھیں وہ سب کی سب بہت احتیاط سے کینوس میں لپٹی ہوئی الماری کے اوپر رکھی ہوئی ہیں۔ شمران، جہاں وہ اپنی فرانسیسی بیوی اور چار سالہ بچّی کے ساتھ اطمینان سے رہتا ہے۔

یہ فرن کے خشک پتّے اور پینزی کی زرد اور اودی پنکھڑیاں اپریل کی ہواؤں میں اڑی جا رہی ہیں۔ دروازہ بند کر کے آؤ اب نیچے چلیں جہاں لیچی کے سائے میں شام کی چائے پر ہمارا انتظار ہو رہا ہو گا۔ اس بوڑھی دنیا میں serenading کے لیے قطعی کوئی جگہ نہیں۔ فریدہ بانو اندر آ جاؤ۔ اب تمہاری بالکونی کے نیچے وائلن بجانے کوئی نہیں آئے گا__ کوئی بھی نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

اودھ کی شام

 

 

عجیب __ بے حد عجیب__ تو تم میرے ساتھ نہیں ناچو گی__ نہیں۔ کیوں کہ تم انگریز ہو۔ اور اعلیٰ خاندانوں کی ہندوستانی لڑکیوں کا فوجیوں اور خصوصاً امریکن اور انگریز فوجیوں کے ساتھ رقص کرنا بڑی ویسی بات ہے اور جو دیو زاد سا فوجی پچھلے آدھ گھنٹہ سے برابر تمہارے ساتھ لڑھک رہا ہے وہ تو ہندوستانی ہے اور میرے چچا کا دوست ہے۔ تم ہندوستانیوں میں آپس میں بڑی محبت ہے __ اور کیا ہئی __ ارے جم تم تو انگریز ہو۔ فرنگی__ سفید فام، چقندر یا شلجم۔ ایک تم خوب صورت ہو تو کیا ہوا۔ تمہارے بھائی بند تو چقندروں ایسے ہوتے ہیں سارے کے سارے بڑی بے ایمان قوم ہے تمہاری۔ اب تمہیں کان پکڑ کر ہم نکال دیں گے__ کہ تشریف لے جائیے آپ گھر کو روتے ہوئے۔ کیوں کہ بھائی ہم کو تو آزادی ملنے والی ہے۔ سمجھے۔ ارے یہ بال روم میں پالیٹکس کس بد مذاق نے چھیڑ دی۔ ارے جم تم اس کی کچھ مت سننا۔ یہ بڑی وہ ہے۔ مسلم لیگر بڑی سخت۔ یہ تمہیں بتائے گی کہ جناح ایشیا کا سب سے بڑا آدمی ہے۔ جم اگر ہندوستان کو سمجھنا چاہتے ہو تو میں تمہیں کتابیں دوں گی پڑھنے کو۔ ٹیگور کی گیتانجلی اور نیتا جی کی سوانح عمری۔ اس کے علاوہ رامائن اور مہا بھارت بھی کافی مفید ہے۔ اس سے کرما اور نروان اور مکتی کے سب راز عیاں ہو جائیں گے۔ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے تم پر__ اور بھئی جم ہم تو کسی غیر ملکی سے بات بھی کرنا روا نہیں رکھتے۔ اور کیا __ لیکن تمہاری بات ذرا دوسری ہے۔ اسی لیے تمہیں ہم نے مدعو کیا ہے کیوں کہ تم ایک لارڈ کے لڑکے ہو اور میرے بھائی کے ساتھ آکسفرڈ میں پڑھ چکے ہو اور اس طرح کے نہیں ہو جس طرح کے تمہارے ہم وطن نظر آتے ہیں اور تم بے حد خوب صورت اور دل کش ہو۔ تمہاری سبز آنکھوں میں رومان، افسردگی، بے کسی، شرارت، سب کی ملی جلی لہریں تیرتی رہتی ہیں۔ مجھے تمہاری آنکھیں بہت پسند ہیں لیکن اس کے باوجود میں تمہارے ساتھ رقص نہیں کروں گی۔ تمہارا لہجہ بہت عمدہ ہے۔ تم پہلے انگریز ہو جو صحیح اور اچھے تلفظ کے ساتھ انگریزی بول سکنے کے علاوہ کسی ٹھوس اور سنجیدہ موضوع پر دیر تک آسانی سے گفتگو کر سکتے ہو۔ تم سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اڑاتے ہوئے کورنل وائلڈ کے سے انداز میں کہتے ہو کہ ہندوستان کے دو ہفتے کے قیام میں تم جن تین چار ہندوستانی لڑکیوں سے ملے انہوں نے تم کو بہت زیادہ امپریس کیا۔ وہ بہت عمدہ ہوتی ہیں۔ ان کے دماغ میں ideas ہیں اور وہ چین کی خانہ جنگی اور کمیونزم اور انڈونیشیا کی آزادی پر لمبی لمبی ثقیل بحثیں اسی خوب صورتی کے ساتھ کرتی ہیں جس خوب صورتی کے ساتھ وہ مانی پوری اور کتھک اور رمبا کرتی ہیں۔ ان کے انداز میں لوچ اور گفتار میں شیرینی ہے۔ ان کے قہقہے جل ترنگ جیسے ہوتے ہیں اور ان کے لباس گویا مرقع چغتائی کے نقرئی اوراق کھول دیئے گئے ہوں۔ ہم نے تمہاری ان باتوں کو بہت پسند کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریز ہوتے ہوئے بھی تم نے بال روم میں فلور پر سب سے پہلے میرے رو پہلے غرارے کو نوٹس کیا تھا۔ تو تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ تم لکھنؤ میں ہو جہاں شامِ اودھ ہوتی ہے۔ یہ اودھ در اصل ایک بڑی رومینٹک سی سلطنت تھی__ تاریخ کے سنہرے صفحات پلٹو تو معلوم ہو گا اور اس کے بادشاہ اوپیرا اور سنگیت سبھاؤں میں راجہ اندر اور جو گی بنا کرتے تھے۔ بڑے نالائق اور نکمّے تھے وہ لوگ۔ جبھی تو یہ جگمگاتی ہوئی پرستان جیسی سرزمین ان سے چھین لی گئی۔ اور یہ جو بے کار اور بے مصرف سے تعلقہ داران کے زمانے کی یاد گار باقی رہ گئے ہیں ان کی ریاستیں اور زمینیں ہماری نئی جمہوری اور نمائندہ حکومت اب بے چارے مظلوم کسانوں کو دے دے گی کیوں کہ یہ جنتا راج کا نیا زمانہ ہے۔ آیا خیالِ شریف میں تمہارے ؟ اور تم نے اوما کی مرہٹی اسٹائل کی ساری کی بہت تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ اس طرح کی ایک ساری تم اپنی بہن کے لیے ولایت لے جاؤ گے۔ تو وہ بھی کیا یاد کرے گی۔ بے چاری۔ اور تمہیں زینت کے جوڑے میں سجے ہوئے زرد اور بنفشی پھول بے حد آرٹسٹک نظر آتے تھے۔ دراصل بالوں میں پھول سجانے کا ہم لوگوں کو ایک خاص فن آتا ہے کیوں کہ ہندوستان پھولوں، خوشبوؤں اور نغموں کا ملک ہے۔ سمجھے؟ ارے کیا ہندوستان ہندوستان چلّا رہی ہو۔ ابھی گئی تھیں ملک کی واحد قومی جماعت کے خلاف الیکشن میں حصہ لینے۔ لیگ کی ایجنٹ کہیں کی۔ جم میں تم سے کہہ جو رہی ہوں کہ اس سے پولیٹکس کی باتیں نہ کرو۔ یہ تمہیں اپنے پاکستان کا مطلب بھی نہیں سمجھا سکے گی۔ آج تک نہیں سمجھا پائی۔ اور پاکستان ہو جائے گا۔ مس حیدر! تو آپ سے ملنے کے لیے پہلے پاسپورٹ حاصل کرنا پڑے گا۔ یعنی بھئی اگر لاہور جانا ہے تو پہلے پاسپورٹ بنواتے پھرو، پھر محصول ادا کرو۔ بڑی طوالت ہو گی۔ بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ آنند۔کتنے چغد ہو۔ یہ تھوڑا ہی ہو گا۔ چلونا چیں۔ والٹر کے لیے ہال کی روشنیاں مدھم کر دی گئیں۔ پاکستان کے متعلق بعد میں طے کرتے رہیں گے__ عجیب__ بے حد عجیب__ کیا بات ہے جم۔ تمہاری آنکھوں میں پھر وہی جھلک لہرا اٹھی جیسے چڑیا کا ایک معصوم چھوٹا سا بچہ سخت کرب اور بے چینی میں مبتلا ہو اور بے بسی کے مارے تڑپ بھی نہ سکے۔ تم اپنی کرسی پیچھے سرکا کر ایک طرف کو کیوں جھک گئے جب کہ والٹر کا ایک پیارا سا نغمہ اپنی پوری دلآویزی کے ساتھ بج رہا ہے اور مرمریں فلور پر رقصاں جوڑے ہال کے کناروں پر بکھری ہوئی میزوں اور کرسیوں کے قریب سے تیزی کے ساتھ چکّر کاٹتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ غرارے اور ساریاں اور سائے۔ جاؤ تم بھی ناچو اور ناچتے ہوئے انسانوں کے اس متحر ک اور رنگا رنگ جو ار بھاٹا میں کھو کربھول جاؤ کہ تم کہاں ہو اور کس سے باتیں کر رہے ہو۔ ہم لوگوں سے ملتے وقت تمہیں سوچنے کی عادت بالکل چھوڑ دینی چاہیے۔ جب اپنے ویلز کی شکار گاہوں کو واپس جاؤ گے اس وقت تمہیں کافی فرصت ہو گی کہ ہمارے کمینے پن، احسان فراموشی اور جنسی اور دوسری غلاظتوں کا اپنی عظمت، اپنی اعلیٰ تہذیب اور اپنی چاک کی سفید پہاڑیوں اور نیلے سمندروں کی خوب صورتی سے موازنہ کر کے ایک کتاب لکھ ڈالو۔ کہاں تک لڑے جاؤ گی بھائی! اس سے متعارف ہوئے ابھی تمہیں ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا اور تم لڑتے لڑتے اس کا دماغ چاٹ گئیں __ وہ بے چارہ اپنے ہم قوموں کی پچھلی نالائقیوں پر سخت شرمندہ اور نادم اور پشیماں ہے اور اس کی سبز آنکھوں میں وہی رومان، غمگینی، بے کسی اور شرارت کی ملی جلی لہریں جھلملا رہی ہیں اور اس کے معصوم اور بہادر برطانوی دل میں صرف یہی ایک خواہش ہے کہ تم اس کے ساتھ ایک آخری والٹر کر لو کیوں کہ کل صبح ہندوستان کو آزادی ملنے والی ہے اور اسے کان سے پکڑ کر تمہارے گھر سے نکال دیا جائے گا اور رات گہری ہوتی جا رہی ہے اور آرکیسٹرا کی اسٹیج کے نیچے بھاری زرد پردوں کے سائے میں نیلگوں مرمریں فرش پر کیبرے کی دو سفید فام لڑکیوں نے شب کا آخری ناچ شروع کر دیا ہے اور ہال کے بڑے بڑے اور چوڑے دریچوں کے باہر خوابیدہ فضاؤں میں ’’ گڈ نائٹ ماری‘‘ کے اداس سر لرز رہے ہیں۔ جم کی آنکھیں نیند سے جھکی جا رہی ہیں۔ جم تم خواب کیوں دیکھتے ہو؟ تمہیں خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ انگریز ہمیشہ جاگتا رہتا ہے۔ وہ صرف مشین گن چلانا جانتا ہے۔ تم بھی بڑے جھوٹے ہو۔ پوزیئر ہو بڑے زبردست۔ تم غلط کہتے ہو کہ تمہیں اس پر اسرار سرزمین سے عشق ہے جس میں ٹیگور کے گیت ہیں اور اودے شنکر کا ناچ ہے اور ہمالیہ کی برفانی بلندیاں اور نیلوفر سے بھی بھری ہوئی وادیاں ہیں __ اور __ اور جہاں کی سیاہ آنکھوں والی لڑکیاں اپنے بالوں میں زرد اور بنفشی پھول سجاتی ہیں اور رو پہلے غرارے پہنتی ہیں۔ یہ سب غلط ہے، جھوٹ ہے، دھوکا ہے بہت بڑا۔ یہاں پر صرف گندگی ہے اور غربت اور بے مزگی اور زندگی کا ناگوار، ناقابلِ برداشت بوجھ۔ زندگی کا کوئی مقصد نہیں، کوئی مصرف نہیں۔ اس یک رنگی، اس بے کیفی، اس خستگی اور اُکتاہٹ کے شدید احساس کو تم نہیں سمجھ سکتے۔ تم مے فیئر کے نیلگوں ایئر کنڈیشنڈ بال روم میں بیٹھ کر ہندوستان سے اظہارِ ہمدردی کرنا چاہتے ہو۔ تم گدھے ہو بہت اعلیٰ قسم کے۔ سمجھے؟ اودھ کی شام بہت کالی اور بہت خنک رات میں تبدیل ہو گئی ہے اور مے فیئر کی گیسٹ نائٹ اختتام پر ہے۔ تمہاری پلکیں خوابوں کے بوجھ سے جھکی جا رہی ہیں۔ زینت کے بالوں کے زرد پھول مرجھا کر فرش پر گر چکے ہیں جنہیں روندتے ہوئے ہم ابھی نیچے چلے جائیں گے، ہم سب کے سب اور یہ جگمگاتا ہوا رقص کا ایوان خالی ہو جائے گا اور اس کی تیز برقی روشنیاں ایک ایک کر کے بجھا دی جائیں گی اور آج کی رات کے بعد ہم سب تمہیں بھول جائیں گے۔ یہ سیاہ فام مدراسی کارٹونسٹ، جو ایک کونے میں خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اپنی اسکیچ بک میں تمہارے بے شمار پروفائل بنا چکا ہے، اور یہ خوب صورت اور ڈیشنگ اور مغرور ہمارے ہاں کے روزانہ انگریزی اخبار کا ایڈیٹر، اور آنند، ریڈیو کا یہ پروگرام ڈائریکٹر، جو انگریزی میں شاعری کرتے کرتے سب کو بور کر دیتا ہے اور اوما جو ایڈی لیمار کی طرح حسین ہے اور تمہیں پورن برھما کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش میں اپنی ساری شام ضائع کرچکی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ وہ اگلی اتوار کے پانیر کے میگزین سیکشن میں تمہارے متعلق ایک کہانی لکھے گی۔ اور زینت، جوسپرانو ہے، اور میرے بھائی کی منگیتر، وہ تمہاری یاد میں ایک گیت کمپوز کرنے والی ہے اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہاری ایک تصویر بناؤں گی اور اس میں تمہاری آنکھوں کے لیے آسمان کی نیلاہٹ اور کشمیر کی گل پوش جھیلوں کی سبزی اور چاند کی بھیگی بھیگی کرنوں کی جھلملاہٹ کے رنگ استعمال کروں گی اور آنند اپنی انگریزی نظموں کا جو مجموعہ لندن سے شائع کروا رہا ہے اس میں تمہارے اوپر بھی چند شعر شامل کرے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کل صبح کے بعد جب کہ تم ہندوستان سے جا چکے ہو گے، تم اس آسانی اور اطمینان کے ساتھ فراموش کر دیئے جاؤ گے جس آسانی اور اطمینان سے زندگی کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں اور واقعات بھلا دیئے جاتے ہیں۔ در اصل یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ تم نے ہماری تصویروں کی تعریف کی، ہمارے رقص دیکھے، ہماری موسیقی کو پرکھا لیکن یقین جانوں کہ ہماری تصویریں، ہمارے افسانے اور ہمارے ناچ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جب زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے تو ان چیزوں کا کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی Endہی نہیں تو Meansکی بہتری یا افادیت میں سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہارے میٹر آف فیکٹ برطانوی دماغ کے لیے ذرا انوکھی باتیں ہیں نا؟ ہم سب تمہارے لیے بہت انوکھے ہیں، اوما اور زینت اور میں __ سارے کے سارے۔ ہمارا فلسفہ بھی انوکھا ہے جسے ہم confusionism کا فلسفہ کہتے ہیں۔ جو بہترین ہے اور انتہائی مفید۔ زندگی جس طرح بھی سامنے آئے اُسے اپنا لو۔ نرالا فلسفہ ہے نا۔ ہر نرالی چیز ہی تو دل چسپ ہوتی ہے ورنہ تم اس وقت یہاں نہ ہوتے۔ یہ انسانیت کی لڑائی بے حد انوکھی تھی جس کی وجہ سے تم ویلش قلعے اور اپنی پہاڑی شکار گاہوں اور اپنا لارڈ باپ کو کشنوں پر سر ٹیکے لیبر گورنمنٹ کے بجٹ پر نکتہ چینی کرنے کے لیے چھوڑ کر اس وقت یہاں مے فیئر بال روم میں بیٹھے ویدانت کے فلسفے اور پاکستان کے جواز سے الجھنے کی کوشش میں مصروف ہو۔ یہ زندگی اور یہ شامیں بالکل نرالی ہیں جن میں آنے والے قحط اور مسٹر ہو ور کے اپنے اپنے اندیشے ظاہر کرنے کے بعد اپنی میزوں پر سے اٹھ اٹھ کر رقص میں گھومتے گھومتے متواتر پانچ چھ گھنٹے گزر جاتے ہیں اور ہم بالکل نہیں تھکتے۔ اوما انتہائی انوکھی لڑکی ہے کہ اعتقاداً سخت ہندو ہونے کے باوجود ایک مسلمان سے شادی کر کے غرارہ پہن کر سلام علیکم کہتی ہے اور میں شاید اس سے بھی زیادہ انوکھی ہوں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی جے ہند اور نمسکار کر لیتی ہوں جب کہ تمہیں بتایا گیا ہے کہ ہم لوگ بازاروں میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ ڈالتے ہیں۔ ’’ گوڈسیو دی کنگ‘‘ بجنا شروع ہو گیا ہے۔ جم فوراً کھڑے ہو جاؤ۔ تم میرے ساتھ ان باتوں میں اس قدر محو ہو گئے کہ تمہیں اس کا بھی خیال نہیں رہا۔ ہم لوگ نیچے جا رہے ہیں۔ اپنے نیشنل اینتھم کے بعد نیچے آ کر پورٹیکو میں ہم سے رخصت ہولینا کیوں کہ رات بھیگی جا رہی ہے اور سفیدے کے درختوں کے پیچھے سے ابھی چاند طلوع نہیں ہوا ہے اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے جم کہ اندھیری راتوں میں ہم لڑکیوں کو خواہ مخواہ ڈر لگا کرتا ہے۔ رات خاموش ہے اور ہماری کار تیزی سے مے فیئر کے پورٹیکو کی نیلگوں اور خنک دھندلی روشنیوں کو پیچھے چھوڑتی آ رہی ہے۔ دور لا مارٹیز کالج کی پر شکوہ فرانسیسی عمارتوں کا سیاہ عکس ان کی سیڑھیوں کے نیچے سوتی ہوئی جھیل پر لرز رہا ہے۔ چپ چاپ اور بے حس! اور سکندر باغ، دل کشا اور بنارسی باغ کے وسیع سبز مخملیں میدان، اور سفیدے کے جنگل، مدھم چاندنی کے سنّاٹے میں سائیں سائیں کر رہے ہیں اور گومتی کے شان دار موتی محل برج کے کنارے دریا پر جھکی ہوئی سرخ پتھر کی ایک شہ نشین پر آسمان کے مقابلے میں سلہٹ سا نظر آ رہا ہے اور اس کے سامنے چھتر منزل خاموشی اور غرور سے آدھی رات کے آسمان کی طرف اپنی طلائی چھتری بلند کیے اپنی رقص گاہ کی روشنیاں اپنے قدموں میں بہتی ہوئی گومتی کی سطح پر پھینک رہی ہے۔ یہ اودھ کی رات کا نقشہ ہے اور جم تم چند گھنٹوں بعد ان راتوں سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جاؤ گے اور تمہارا ڈیکوٹا طیارہ گومتی اور سر جو اور گنگا کی روپہلی لکیروں کے اوپر سے گزرتا، انہیں نیچے چھوڑتا ہوا دور مغربی سمندروں کے اونچے بادلوں میں کھو جائے گا۔ آدھی رات کا پرند پھر چلّا اٹھا ہے۔ چاروں طرف دور دور تک پھیلی ہوئی خوابیدہ کائنات پر پرستان کا سحر چھا رہا ہے۔ دریچے کے باہر، شریفے کے درختوں کی دوسری جانب سڑک کے کنارے وہ پرانا شاہی پھاٹک خاموشی سے ایستادہ ہے اور اس کی اوپر کی منزلوں اور شہ نشینوں میں مدھم روشنیاں جھلملا رہی ہیں۔دور چوکی دار باغ کی رکھوالی کرتے کرتے چلّا اُٹھتا ہے۔ ہَو ہَو ہَو __ لا لا لا __ اور اس کے برہا کی آواز بازگشت دیر تک گومتی کی روپہلی ریتوں پر گونجتی رہتی ہے اور ایریل کے بانس پر بیٹھے ہوئے چنڈول کی تیز آواز رات کے سنّاٹے کو کاٹتی ہوئی اندھیرے کی وسعتوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ چنڈول ذات کے لحاظ سے الّو کے چھوٹے بھائی کی ایک قسم ہے۔ جم بھی الّو کا چھوٹا بھائی ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ اس نے سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر، خدا حافظ کہتے وقت، کار کا دروازہ بند کرنے سے پہلے، جھک کر میرے غرارے کے پائنچے سمیٹ کر اندرا اٹھانے میں میری مدد کرتے ہوئے، جو فٹ بورڈ پر گرے جا رہے تھے، اگلی سیٹ پر مسز رحمن کو سگریٹ کا دھواں اڑاتے دیکھ کر مجھ سے چپکے سے کہا تھا کہ اسے عورتوں کا سگریٹ پینا بالکل پسند نہیں اور وہ اپنی بہنوں کو بھی سگریٹ نہیں پینے دیتا کیوں کہ وہ امریکن نہیں انگریز ہے اور انگریز بہت قدامت پرست ہوتے ہیں اور رات کے دو بجنے والے ہیں اور فرش پر برقی چولھے کے قریب کافی کی پیالیاں بے ترتیبی اور اکتاہٹ کے انداز میں منتشر ہیں۔ ابھی بہت پڑھنا ہے کیوں کہ امتحان میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔ کیا کریں گے اتنا پڑھ کر جانے۔ پرانے زمانے کے بادشاہوں کا وہ پھاٹک اندھیرے میں زیادہ بلند، زیادہ ہیبت ناک اور زیادہ خوب صورت نظر آ رہا ہے جس کی خوب صورتی اور عظمت سے دل میں ایک نا قابلِ بیان خوف سا محسوس ہوتا ہے اور جس کی عظیم الشان محرابوں کے نیچے سے دن بھر یو۔ ٹی۔ سی۔ کے جیپ اور لائبریری کو جانے یا وہاں سے واپس آنے والی لڑکیوں کے گروہ گزرتے رہتے ہیں اور میں پڑھنے کے بجائے تصویریں بنا رہی ہوں اور زینت کہتی ہے کہ تم تصویریں کیوں بناتی ہو۔ مت بنایا کرو تصویریں، بلکہ کوئی اور مفید کام شروع کر دو۔ مثلاً باورچی خانے کے باغ میں گو بھی کی کیاریاں تیار کرو تاکہ زیادہ غذا پیدا کی جا سکے اور گورنمنٹ ہاؤس کی ٹی پارٹیوں میں گورنر صاحب کی میم صاحب ہم لوگوں کی زیادہ تعریف کیا کریں اور زینت اکنومکس کی موٹی موٹی کتابوں کو قالین پر پھینک کر اپنی پیانو کی کاپی کے ورق اُلٹتے ہوئے سلام کا کوئی شعر گنگنا رہی ہے: میں اگر زندہ ہوں پھر شامِ اودھ آئے گی یا جانے کیا۔

واقعہ یہ ہے کہ ہم سب چُغد ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی کا سفر

 

 

پائین کے درختوں کے لمبے لمبے سائے ایک دوسرے کا پیچھا کرتے دور پہاڑوں کے پیچھے جا کر چھپ چکے تھے۔ سرچ لائٹ کی تیز نیلگوں روشنی کی ایک چوڑی سی دھار سیاہ اور پرسکون آسمان کی وسعتوں کو کاٹتی ہوئی وادی کے اس سرے سے اس سرے تک پھیل گئی۔ بھیگتی رات کی خوشبوؤں سے بوجھل ہوائیں۔ درختوں میں جھلملاتے ہوئے قمقموں، جاپانی قندیلوں اور ریشمی پرچموں کو ہلائے جا رہی تھیں۔ وہ رنگیں کپڑوں کے ٹکڑے___ نیلی سرخ سفید دھاریاں، اور ستارے، نارنجی سورج مکھی کے پھول سرخ ہتھوڑے___ وہ سرسراتے ہوئے، انسان کی خود فریبی اور خود ستائی کے اشتہار جو اوڈین، بیڈنند، ہوٹل رائیل، ہر پھاٹک، ہر چھت پر لہرا رہے تھے۔ اُن کے نیچے، پریڈ کے وسیع سبزہ زاروں پر کلیمنٹ ٹاؤن کے کیمپوں کی دنیا میں، رقص گاہوں کی کھلی چھتوں کے اوپر، نغموں اور قہقہوں کی موجیں لہریں مار رہی تھیں ___ انسان کس قدر جلد پچھلی تمام مصیبتیں ساری تکلیفیں بھول کر قہقہے لگانے پر تیار ہو جاتا ہے۔

سرچ لائٹ کی سفید لکیریں آسمان میں تیرتی رہیں ___ باہر سبزی پر رات کی دعوت کا انتظام ہو رہا تھا۔ تاروں کی دھیمی روشنی جو سرچ لائٹ کی جگمگاہٹ سے بالکل پھیکی پڑ چکی تھی۔ خاموشی سے آڑو کے شگوفوں اور خوابیدہ پھولوں پر اپنی کرنیں برساتی رہیں ___ ناچے جاؤ دنیا والو ہم اپنی بلندی پر سے ایسی بہت سی راتوں کا نظارہ کر چکے ہیں۔ آج کی رات تم آسمانوں کے سارے چاند ستارے توڑ کر اپنے ایوانوں میں سجالو چیخ چیخ کر اتنا گاؤ اپنی ہم رقصوں کو مضبوطی سے پکڑ کر اتنا ناچو کہ رقص گاہوں کے فرش گھس جائیں۔ ارغوانی پانیوں کے سیلرز خشک ہو جائیں اور تم تھک کے چور چور ہوکے گر پڑو___ پر ہم یوں ہی جھلملاتے رہیں گے وہ اندھیری راتیں جب تم اپنے دریچوں پر سیاہ پردے گرا کے آتش دان کے پاس دھڑکتے دلوں سے سمندر پار کی باتیں کرتے تھے۔ جب تمہارے چاہنے والے اور چاہے جانے والے تمہاری مسہریوں کے سرہانے سے تمہاری سنگھار میزوں اور آتش دانوں کے اوپر سے اپنی تصویروں کے شیشوں میں سے جھانک کر خاموشی سے التجا کرتے تھے۔ ہمیں یاد کرتے ہوئے ہمارے لیے دعائیں مانگتے رہو، شاید ہم تمہارے پاس واپس آ کر پرانی خوشیوں میں شریک ہوسکیں، پھر وہ لمحات، جن کی ہیبت ناک، گونجتی ہوئی تاریکی میں تمہارے دل خوف اور جذبات کی نامعلوم گہرائیوں میں ڈوب جاتے تھے۔ او بلند و برتر خداوند، ہماری مدد کو آ___ اور آج جبکہ تم ایک بے بنیاد اور نا پائیدار وقتی جذبے کے ریلے میں بہے جا رہے ہو اور بڑے غرور سے اپنی مصنوعی روشنیاں ہماری طرف پھینک کر خوش ہو رہے ہو۔ ہم اسی طرح زندگی کے راستوں پر جھلملاتے رہیں گے۔

ممی بے حد مصروفیت سے کمر پہ ہاتھ رکھے سبزے سے باورچی خانے اور باورچی خانے سے کھانے کے کمرے تک ٹہل ٹہل کر نوکروں کو ہدایات دے رہی تھیں اور بلا چیخے جا رہا تھا۔ ڈیش اِٹ اولڈ گرلز۔ چیخ ہی نہیں چکتیں ___ خرگوشنیاں ___ افوہ___ ادھر اُدھر ٹہل کر اور چیخ چلا کر وہ پھر غسل خانے میں گھس گیا___ اور زبیدہ کپڑوں کا انبار قالین پر لگا کر کچھ فیصلہ نہ کرسکی کہ آخر کون سی ساڑی پہنے___ اُس نے میری طرف امداد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ میں خود پریشان تھی۔ بھئی میرا تو ارادہ سیاہ جالی والی ساڑی کا ہے وہی جس کی نقرئی پائیپنگ___ واہ جناب وہ تو میں پہنوں گی۔ میں نے بہت پہلے سے طے کر رکھا ہے۔ جہنم میں جاؤ تم___ ہم دونوں میں پھر جنگ شروع ہو گئی۔ بلا غسل خانے میں سے للکارا___ ٹروس ٹروس ___ میں فیصلہ کر دوں بچیو۔ بھاگ جاؤ تم سے کون درخواست کر رہا ہے۔ ایک اپنا اکلوتا ڈریس سوٹ پہن کر اترائے جا رہے ہیں وہ بھی پیا سے مانگا ہوا ___ زبیدہ نے الماری کا دروازہ زور سے بند کر دیا گویا وہ اس زیر غور سیاہ ساڑی کو ضرور پہنے گی۔ میں اپنی آخری تنقید کے لیے آئینے پرجھک گئی، یعنی میں زبیدہ کے حق میں دستبردار ہوئی ہوں۔ وہ خوش ہو گئی اور اونچے سروں میں گنگنانے لگی۔ ایک بے حد فضول ساگیت جس کا مطلب تھا کہ ممّا سڑک کے کورنر پر تو پولس مین کھڑا ہے۔ بھلا میں ہال میں کیسے جاؤں، برف گر رہی ہے، اور روبن ریڈ بریسٹ اپنے گھونسلوں میں جا چھپے ہیں ممّا___ بھئی واللہ ___ زبیدہ ناچ گا کر ساڑی کا طویل آنچل فرش پر گراتی ہوئی باہر چلی گئی۔ برساتی اور سڑک کی بجری پر ٹائیروں کی رگڑ کی آوازیں آنی شروع ہو چکی تھیں۔ پلم اور لیچیوں کے جھنڈوں کے اس پار سیٹیاں بجاتے، گالیاں دیتے اور قسمیں کھاتے امریکن اور کینڈین دستے مارچ کرتے ہوئے پریڈ گراؤنڈ کی طرف بہتے چلے جا رہے تھے کہیں دور ہائی لینڈرز کی ایک ٹولی اونچی آواز میں ’’ بونی اسکاٹ لینڈ‘‘ الاپ رہی تھی۔ اپنے گھروں سے دور ایک اجنبی سرزمین کی وادی میں جو ان کے بھاری بوٹوں کے تلے روندی جا رہی تھی وہ اپنے محبوب گیت گائے بغیر اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کرسکتے تھے، وہ گیت جو ان کے دادا پرداد ا ہر پلاسیؔ ہر واٹرلوؔ کے بعد یوں ہی گاتے چلے آئے تھے۔ ’’ بونی اسکاٹ لینڈ‘‘ اور ’’ ڈوئی کِن جون پیل‘‘ اور ’’ یانکی ڈو ڈل ڈینڈی‘‘___

کیونکہ یہ جشنِ فتح کی رات تھی___ وی۔ ای۔ ڈے! ___ یقیناً ___!!

میں نے سنگھار میز کے سامنے سے ہٹ کر دریچے کا سہارا لے لیا___ سامنے، خوبانیوں کی دوسری جانب، کانونٹ والا پرانا راستہ تاروں کے دھندلکوں میں کتنا خاموش اور کتنا طویل معلوم ہو رہا تھا___ یہ چھ سال ___ یہ چھ سال___ میرے اللہ ___

میرے اللہ ___ اچانک ایک بے انتہا مضحکہ انگیز، حماقت آفریں بات معلوم ہوئی___ میری مسکراؔ سے سنواری ہوئی پلکیں بھیگی جا رہی تھیں ___ یوں ہی ___ یعنی بالکل خواہ مخواہ___ لیکن دیکھئے تو چھ سال کے اس ننھے سے عرصے میں زندگیوں میں، خیالات میں، دنیا میں کتنی ساری تبدیلیاں ہوئیں، کتنی بہت سی ایسی باتیں ہو گئیں جو اگر نہ ہوئی ہوتیں تو زیادہ اچھا رہتا___ بہت ہی اچھا رہتا___ یعنی، بھئی، اصل میں میں اپنے آپ کو ٹھیک سے ایکسپریس نہیں کر سکتی، انگریزی الفاظ کی اس ٹھونس ٹھانس کو آپ معاف فرمائیں گے___ میرا مطلب ہے کہ افوہ ڈکلی تم میں کتنا چینج ہو گیا ہے۔ مائی ڈیر ___ اولڈ اگلی ڈکلنگ ___ کتنی خوب صورت کتنی سمجھ دار کتنی لیڈی لائیک___ کاش میں بیس سال بعد پیدا ہوا ہوتا___ اکرم چچا جو بہت دنوں بعد اٹلی سے واپس آئے تھے۔ اس روز والتس کرتے ہوئے مجھ سے کہہ رہے تھے میں نے Blush کرنے کی کوشش کی تھی کہ واہ سمجھ دار تو ہمیشہ کی ہوں اور خوب صورت بھی۔

لیکن تبدیلی؟ واقعی اگر آپ مجھے دیکھیں تو قطعی نہ سمجھ سکیں گے کہ میں ڈکلی ہوں، یعنی۔ ڈک ___ لی___

اور پھر وہیں دریچے میں کھڑے کھڑے مجھے یاد آیا۔ اپنے برف جیسے بستر میں گھس کر سوتے وقت میں کس قدر سچے دل سے دعا مانگا کرتی تھی یا میرے اللہ تو ایک بڑا سا دیو ہی بھیج دے جو آ کر ہم سب کو کھا جائے یا کم از کم ایک سبک اور لطیف سا زلزلہ یعنی کچھ تو ہو آخر۔ زندگی فربزیڈر کی پرسکون گھوں گھوں کی رفتار کے ساتھ یکسانیت سے گذرے چلی جا رہی تھی۔ کچھ اس قدر سکون اور اطمینان برستا تھا ہمارے گھر پہ کہ کیا بتاؤں اور پھر میری وہ بھوری آنکھوں والی پھوپی زاد بہن حمیدہ خدا کی قسم کتنے ٹھاٹھ سے وہ صبح سے شام تک رولنگ چیئر پر جھول جھول کر قناعت کے ساتھ ’’ پکچر گوئر‘‘ پڑھتی رہتی تھی اور چاء کی میز پر بے حد معصومیت سے بالکل جیسے میڈونا کی تصویر میں جان پڑ جائے، وہ اپنی بڑی بڑی بھوری آنکھیں بچوں کی طرح گھما کر بلّے سے پوچھتی‘‘ اور ٹوس لو گے؟‘‘ اور پھر ایسے سرسری طریقے سے فیلڈ مارشل کی طرف پلیٹ سرکاتی ہوئی اپنی پیالی پر یوں مصروف ہو جاتی کہ مجھے اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے دل میں بے انتہا احمق بننا پڑتا۔ (فیلڈ مارشل) اور بلّا دونوں میرے چھوٹے بھائی تھے بے چارے)

پھر جب میں بہت چھوٹی تھی، یعنی اتنی چھوٹی کہ بھائی جان کے رائیل ملٹری اکیڈمی اور علی گڑھ میں پڑھنے والے گورے گورے شور مچاتے ہوئے دوستوں کی آمد پر مجھے بلے اور فیلڈر مارشل سمیت کان پکڑ کر ڈرائنگ روم یا بھائی جان کے کمرے سے باہر نکال دیا جاتا تھا، ایک دن بھائی جان کے بہت سے بالکل نئے نئے دوست اخباروں اور کتابوں کے بیگ لیے ہوئے آئے۔ ان سب کے چہروں سے اتنی سنجیدگی اور قابلیت ٹپک رہی تھی کہ مجھے بے حد مرعوب ہو جانا پڑا۔ بھائی جان نے اُن کے لیے قہوہ تیار کروایا اور مجھ سے کہا جانتی بھی ہو ہم لوگ کمیونسٹ ہیں اور اس وقت ایک بے حد اہم خفیہ میٹنگ کرنے والے ہیں۔ اب تم بھاگو یہاں سے، پھر رات گئے تک ڈرائنگ روم کے دروازے بند کر کے اور فرش پر بیٹھ کر وہ اہم میٹنگ ہوتی رہی بلّے کی مدد سے میں نے باغ والی کھڑکی میں سے جھانک کر اندر دیکھا افوہ کس قدر تاریخی منظر تھا۔ میں بے حد خوش تھی کہ اب ضرور کوئی نہ کوئی نئی بات ہو گی۔ وہ لوگ بالکل جو یس سیرز اور بُروٹسؔ کے سے انداز سے کہہ رہے تھے ’’ ہم ملک کی قسمت کا فیصلہ کر دیں گے ہم اپنی تقدیریں بدل ڈالیں گے، ’’ انگارے‘‘ ہندوستان میں آگ لگا دیں گے کامریڈز ___ افوہ کس قدر اس وقت میرے دل میں اُن کے لیے عقیدت کا دریا لہریں مارنے لگا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا، اور پھر یہ لفظ کمیونسٹ مجھے بہت پسند آیا، کتنا اسمارٹ سا لفظ تھا۔

لیکن افسوس کہ میں بہت دنوں تک دنیا یا کم از کم اپنے ماحول میں کسی سخت تبدیلی کا انتظار کرتی رہی، پر کچھ بھی نہ ہوا۔ ہال کا گرینڈ فادر کلاک اسی طرح ٹک ٹک کرتا رہا۔ پائین اور لیچیوں کے درخت یوں ہی جھومتے رہے وکٹورین عہد کی تصویریں اور پیانو جو مجھ آفت کی ماری کو سکھانے کی غرض سے کسی زمانے میں نیلام میں سے خریدا گیا تھا روز ہمیشہ کی طرح جھاڑا پونچھا جاتا رہا۔ پھر ایک روز شام بھائی جان تھکے ہارے اور بے حد خفا اور رنجیدہ گھر آ کر صوفے پر گر گئے اور کہنے لگے۔ ڈکلی’’ انگارے‘‘ ضبط کر لی گئی۔ میں نے قطعی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بے انتہا افسوس کے لہجے میں کہا اچھا؟ چچ چچ چچ۔

اس کے چند سال بعد جنگ شروع ہو گئی۔ قوموں کی لڑائی۔ ناتسیت اور فسطائیت۔ امریکن لینڈ اینڈلیز۔ چھوٹے ملکوں کی آزادی، جمہوریت کے اصول۔ اٹلانٹک چارٹر۔ عالمگیر گرانی، قحط سالی اور جانے کیا کیا۔ لیکن یقین جانئے میری زندگی میں تو وہی یک رنگی چلی جا رہی تھی۔ بس جانے کیسی کیسی سی، سوائے اس کے بھائی جان محاذ پر چلے گئے۔ فیلڈ مارشل ہنبوی میں اور ساتھ کی بہت سی اینگلو اور انگریز لڑکیاں جو نیر کیمبرج سے اسکول چھوڑ چھوڑ کر عورتوں کے امدادی دستے میں شامل ہو گئیں۔ پھر وہی بوریت (دیکھئے Boredom کا ہم نے ترجمہ کیا ہے)

خدا کی قسم کاش بمباری ہی ہو جاتی، ہم خندقوں میں گھستے، کیلوں پر گھاس کے میدانوں میں راتیں گزارتے، سینکڑوں میل کا پیدل سفر کرتے، خوب مزا آتا۔ ڈسٹرکٹ وار کمیٹی کی موٹی موٹی فارغ البال اور مطمئن انگریز اور ہندستانی خواتین نے ممّی سمیت اے۔ آر۔ پی کے زمانے میں ایٹ ہوم کے بعد ایک لمبی چوڑی انتظامات کی اسکیم بھی تو بنائی تھی۔

پھر جب عابدہ آپا کی منگنی ہوئی تو رات تک لڑکیاں ڈھولک بجاتی اور گاتی رہیں۔

مگر ان سب فضولیات کے باوجود ذرا دیکھئے تو کس قدر پر لطف بات ہوئی۔

خالو میاں کا تبادلہ ناگپور سے یہاں ہو گیا۔ ممّی بے حد خوش کہ دونوں بہنیں ایک جگہ رہیں گی۔ کچھ عرصہ خالو میاں ہمارے ساتھ رہے پھر ان کے لیے کوٹھی کی تلاش بڑے زوروں میں شروع ہو گئی۔ دُنیا جہان میں کوٹھیاں ڈھونڈ ڈالی گئیں، ہر ممکن مقام پر پہنچ کر استفسار کیا جاتا، لیکن کہیں سے کوئی انگریز سیٹی بجاتا ہوا نکلتا کہیں سے کوئی سردار صاحب اپنے تازہ ترین ٹھیکے کا حساب جوڑتے بر آمد ہوتے اور جواب ایک ہی یعنی جناب افسوس ہے کہ ایک کمرہ بھی خالی نہیں۔

خالو میاں کی کوٹھی ایک مستقل پر وبلم بنتی جا رہی تھی۔ کھانے کی میز پر، لیچیوں کے نیچے، شام کی چاء کے بعد، گفتگو کا یہی ایک موضوع رہ گیا تھا، یعنی برمی پناہ گزینوں کی فراوانی، کوٹھیوں اور نوکروں کی نایابی، شکر اور کوئلے کی گرانی، ممّی اور خالہ بیگم کے لیے اس سے زیادہ دلچسپ باتیں اور کیا ہوسکتی تھیں۔

ایک روز صبح صبح ہم بہن بھائی سائیکلیں لے کر کلیمنٹ ٹاؤن کی طرف نکل گئے۔ فیلڈ مارشل بھی رخصت پر گھر آیا ہوا تھا۔ کوٹھی کی تلاش میں ڈھلان پر چلے جا رہے تھے بہتے ہوئے کہ جناب دور سے یوکلپٹس کے درختوں میں ایک سرخ چھت جھلکتی نظر آئی۔ طے ہوا کہ چلو اس پر دھاوا بولیں۔ ہم نے سائیکلیں اس یوکلپٹس والی سڑک پر ڈال دیں۔ قریب پہنچے تو اوفوہ پھاٹک کے ستون کے بورڈ پر پیتل کے بڑے بڑے حرفوں میں چمکتا ہوا آئی۔ سی۔ ایس۔ خرمن ہوش پر بجلیاں گرانے لگا___ ارے بھائی اس میں تو کوئی آئی۔ سی۔ ایس رہتا ہے بھاگو واپس ہم نے فی الفور پسپائی کی ٹھانی۔ در اصل آئی۔ سی۔ ایس کے متعلق ہمارا بہت ہی خوفناک تجربہ تھا۔ کیونکہ جتنے بھی ہمارے کزن اس امپیریل سروس میں شامل ہوئے تھے۔ ہر وقت خالص ولایتی قسم کی انگریزی بولنے ’’ اور کوئی ہے ‘‘ ٹائپ کی اُردو۔ بونڈ اسٹریٹ، مے مینٹر، سو ہو، کر ا کا، ہمایوں کبیر وغیرہ کا تذکرہ اس طرح کرتے جیسے ہم آپ چاندنی چوک حضرت گنج، بھائی چھمّن یا منجھلے چچا کی باتیں کرتے ہیں۔ غرض کہ ہماری بہنوں کے قبیلے میں سے کوئی بھی ان لوگوں سے شادی کرنے پر تیار نہیں تھا۔ اس قدر بے تحاشا احساسِ برتری ان پر ٹپکتا ہے کہ کیا بتاؤں چنانچہ ایک بھائی نے ہماری ایک رشتے کی جرمن چچی فریڈاؔ کی صاحبزادی سے شادی کر لی۔ دوسرے نے منیکا کے ٹروپ کی ایک فن کار کو اپنا جیون ساتھی مقرر کیا، نہ معلوم اُن کا کیا انجام ہوا، سنا تھا کہ اونیلاؔ بھابی طلاق کی فکر میں ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم نے بورڈ پڑھ کر فوراً اس بے حد رومینٹک باغ سے واپس بھاگنے کی فکر کی۔ حالانکہ ہمارے اپنے باغ میں اتنے اچھے یوکلپٹس موجود تھے، اونچے اونچے، ہوا میں فلسفیوں کی طرح غور و فکر میں محو جھومتے ہوئے۔ مگر بھئی کیا بات تھی اس سرخ چھت والی چھوٹی سی کوٹھی کی۔ گویا راستہ بھول کر پریوں کے ملک میں پیٹرپینؔ کے چاکلیٹ سے بنے ہوئے کاٹج کے قریب آ نکلے ہیں (یہ تشبیہ حمیدہ نے دی تھی اسی وقت جسے سب نے خاصا پسند کیا) اس سے پہلے کہ کوئی کتا باہر نکلے اور ہم واپس ہوں ( اور ایک کتا واقعی باہر نکلا جو ہمارے فیڈوؔ سے زیادہ مہذب اور لائق قطعی نہ تھا۔ لیکن حمیدہ نے کہا کہ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔ فیلڈ مارشل بولا کہ آپا کیوں نہ اندر جا کر پوچھا جائے کہ اس کوٹھی کے خالی ہونے کا امکان ہوسکتا ہے؟ ممکن ہے کہ صاحب بہادر کا تبادلہ ہونے والا ہو، لہٰذا ہم سائیکلیں روش کے کنارے لٹا کر اندر بڑھے اور ہماری رفتار کی مناسبت سے اسی وقت ایک صاحب بہادر باہر نکلے جو قطعی آئی۔ سی۔ ایس لگ رہے تھے انہوں نے کہا۔ غالباً آپ حضرات اس طرف پک نک کے لیے آئے ہیں۔ کوئی خدمت؟‘‘

ہم نے سوچا کہ او ہو یہ تو اُردو بولتے ہیں چنانچہ فیلڈ مارشل نے اردو میں کہا۔ جی نہیں ہم نے سنا تھا کہ یہ کوٹھی خالی ہونے والی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جی نہیں فی الحال تو خالی نہیں ہو رہی۔ پھر تھوڑی سی اسی قسم کی جنرل اور بے معنی باتیں ہوئیں اور یہاں تک سلسلہ پہنچا کہ موسم کس قدر خوشگوار ہے اور آپ نے چارلسؔ بوایر کا ’’ کارواں ؔ‘‘ دیکھا ہرگز مس نہ کیجئے وغیرہ پھر دفعتاً انہوں نے بہت عمدہ لہجے کی انگریزی میں کہا کہ Don’t you come in, young ladies ___ اور ہم نے اسی اخلاق سے جواب دیا کہ We must buzz now غرض کہ تھوڑے سے تکلفات کے بعد ہم اندر گئے۔ کس قدر ٹیسٹ سے اس کا مختصر سا ڈرائنگ روم سج رہا تھا Posh بالکل، ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ اب خواب گاہ کے دروازے کا پردہ اُٹھے اور ایک سوئیٹ سی بیوی داخل ہو اور ہم اس کے مذاق کی تعریف کریں کہ آپ نے ضرور لیڈی ارون کالج میں پڑھا ہے، اپنے یہاں کی چائے کی دعوت دے ڈالیں، اپنے باغ کی لیچیاں اسے بھجوائیں لیکن پردے ہوا سے یوں ہی ہلتے رہے اور کوئی بھی اندر نہ آیا۔ حمیدہ نے قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ صاحب بہادر بولے۔ ’’دیکھئے اگر آپ کے خالو جان کو تکلیف نہ ہو تو وہ بڑی خوشی سے یہاں آسکتے ہیں۔ ایک طرف کا موٹ بالکل خالی پڑا ہے۔‘‘

’’ لیکن آپ کی بیگم صاحبہ کو دقت تو نہ ہو گی___ ؟ بلّے نے پوچھا۔ ’’ بیگم ___؟ اوہ___ وہ آج کل چند ماہ کے لیے گھر گئی ہوئی ہیں۔ ‘‘ صاحب بہادر نے کہا، اور حمیدہ کی بھوری آنکھوں سے اطمینان کی جھلک فوراً رخصت ہو گئی۔

’’ دیکھئے جب تک بیگم آئیں گی غالباً میرا تبادلہ بھی یہاں سے ہو جائے گا اس وقت آپ کے خالو جان پوری کوٹھی لے سکتے ہیں ‘‘ صاحب بہادر نے بہت اخلاق سے کہا۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور طے ہوا کہ وہ اگلے روز دفتر سے سیدھے ہمارے یہاں آئیں گے۔ وہ کلیمنٹ ٹاؤن میں اطالوی نظر بندوں کی کسی علت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ ہم نے خوش خوش گھر پہنچ کر بتایا کہ خالو میاں کے لیے کوٹھی مل بھی گئی۔ ایں ؟ سب اچھل پڑے کوٹھی؟ واقعی؟ کہاں ؟ ہم نے بڑی بے نیازی سے پتہ بتایا اور یہ بھی کہ اس میں ایک آئی۔ سی۔ ایس رہتا ہے۔ آئی۔ سی۔ ایس؟ یہ تم لوگ کہاں پہنچ گئے تھے؟ ہاں بالکل سچ مچ کا آئی۔ سی۔ ایس انور بھائی جیسا۔ وہ کل آئے گا ملنے۔

چنانچہ دوسرے روز سہ پہر کو کلیمنٹ ٹاؤن سے فون آیا کہ میں آ رہا ہوں۔ اپنی کوٹھی کا نمبر تو آپ نے بتایا ہی نہیں تھا۔ راجپور روڈ پر کس طرف ہے۔ پریڈ گراؤنڈز سے آتے میں یا جاتے میں۔ تفصیل سے ان کو پتہ بتایا گیا اور کہا گیا کہ جلدی آئیے چاء پر آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ وہ بالکل لارنس اولیور کے ہم شکل صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے ہمارے گرینڈ پیانو کو دیکھا دیواروں پر لٹکی ہوئی بڑی بڑی Paintings پر نظر کی فیلڈوؔ کی تہذیب و اخلاق کا غور سے مطالعہ کیا اور یقیناً دل میں وہ مرعوب ہو گئے کہ بقول شخصے یہ بھی معقول لوگ ہیں۔ چائے کی میز پر باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ ارے یہ تو تارےؔ بھائی ہیں بڑے پرانے دوست نکلے۔ ہمارے ابّا اور ان کے ابا گورکھ پور، بنارس اور جانے کہاں کہاں ساتھ تھے۔ جب ہمارے ابّا کلکٹر تھے تو ان کے ابّا ڈپٹی کلکٹر جب ہمارے ابّا ریٹائر ہوئے تو ان کے ابّا کلکٹر ہو گئے اور پھر مر گئے۔ اس کے بعد تارے بھائی ولایت جا کر آئی۔ سی۔ ایس بن گئے۔ یہ دہرہ دون گروپ کے بقول ہمارے جاپانی آئی۔ سی۔ ایسوں میں سے نہیں تھے بلکہ خالص ولایت سے بن کر آئے تھے پھر جناب باتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ ختم ہی ہونے میں نہ آیا۔ بچپن کی باتیں یاد کی گئیں۔ یوپی کے ان دور افتادہ ضلعوں کی ان خاموش دوپہروں کا ذرا رومانٹک طریقے سے ذکر کیا گیا جب بڑوں کی آنکھ بچا کے باغ میں جا کر ہری ہری کیریاں کھائی جاتی تھیں۔ پپیہا چلاتا تھا۔ آم کے کنجوں میں چھپی ہوئی کوئلیں برہا گاتی تھیں، مہوے کے درختوں کے نیچے نرم نرم زمین پر ریلوے اسٹیشن تیار کیے جاتے تھے اور سرنگیں کھودی جاتی تھی اور کس طرح تارے بھائی کی ٹرائیکل پر زبیدہ کے گڈے کی برات نکلی تھی اور کس طرح تارے بھائی نے حمیدہ کی اس بڑی سی گڑیا کے سنہری بال کتر ڈالے تھے جو چچی فریڈہ اس کے لیے برلن سے لائی تھیں۔ شام پڑے تک اسی قسم کی بے تکی باتیں ہوتی رہیں اور ہنسی آتی رہی۔ اور تارے بھائی جب چلنے لگے تو دونوں طرف سے بڑے زوروں میں یہ محسوس کیا گیا کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں اور خالو میاں قطعی اُن کی کوٹھی میں جا کر رہیں گے بلکہ اگر خالو میاں کو الگ سے کوٹھی مل بھی گئی تب بھی تارے بھائی انہیں کہیں اور نہ جانے دیں گے۔

کتنے دلچسپ نکلے تارے بھائی رات کو دنیا جہان کے مزے دار قصے اور لطیفے سنا رہے ہیں۔ پنگ پونگ کھیل رہے ہیں۔ میں تصویریں بناتی تو رنگوں کے متعلق مشورے دیتے رہتے۔ ہم بہنوں کو ہنگیرین اور اسپینش والز کے اسٹیپس سکھائے۔ بلّے سے بہت دوستی تھی۔ ٹینس میں حمیدہ یا مجھ سے مار جاتے لیکن اسپورٹنگ اتنے کہ ذرا بھی پرواہ نہیں۔ دیکھنے والے کہتے طارق ڈوب جاؤ۔ لڑکیوں سے ہار رہے ہو۔ اور وہ ایک بھوں اونچی کر کے ذرا سنجیدگی سے مسکرا دیتے۔ بالکل ایسا لگتا کہ لارنس اولیوئیرؔ آ کر جالی کے پاس کھڑا ہو گیا ہے۔

لیکن صرف تارے بھائی ہمارے گھر آتے تھے۔ ہم دو تین مرتبہ خالہ بی سے ملنے کے علاوہ کبھی خاص طور پر تارے بھائی کے وہاں نہیں گئے تھے۔ ہماری ممی کے اور بہت سے اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ صرف اس شخص سے ملاقات کی جاتی ہے جو اپنی بیوی کو ہمارے گھر والوں سے ملواتا ہے۔ اور ویسے بھی یہ قاعدے کی بات ہے کہ عام طور پر غیر شادی شدہ لوگوں کے یہاں یا بیویوں کی غیر موجودگی میں خواتین ان کے پارٹیوں میں نہیں جاتیں بشرطیکہ کوئی اور خاتون رشتہ دار بطور میزبان موجود نہ ہو۔ اسی اصول کے ماتحت، جب تارے بھائی نے ہم لوگوں کی دعوت کی تو ممّی نے کہہ دیا کہ جب اللہ رکھے تمہاری دلہن میکے سے آ جائیں گی، تب ہم آئیں گے تمہارے گھر، لڑکیوں کو بھی اس سے ملنے کا بہت شوق ہے تارے بھائی منہ لٹکا کر خاموش ہو گئے۔

پھر یہ ہوا کہ اتفاق سے دو تین مہینے بعد ہی خالو میاں کا تبادلہ راولپنڈی کا ہو گیا۔ تارے بھائی نے اپنے یوکلپٹس کے باغ میں اُن کے لیے ایک بڑا شان دار رخصتی بُغےؔ دیا۔ اس میں مسوری کا ایک خاندان بھی مدعو تھا جس کی لڑکیوں کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ اور وہ لڑکیاں واقعی تھیں بھی کچھ عجب سی بے تحاشا الڑاماڈرن۔ الڑا ماڈرن تو خیر بھئی ہم بھی ہیں۔ لیکن ایک حد کے اندر، یہ تھوڑا ہی ہے کہ بالکل ہی فاروٹؔ۔ مثلاً سنا گیا تھا کہ ایک بہن جتنے پرنس مسوری آتے ہیں ان کے ساتھ ہیک منیز میں نظر آتی ہے۔ دوسری ایک دفعہ گھر سے بھاگ چکی تھی اور اب دوسری بار لاہور جا کر فلم جوائن کرنے کی فکر میں تھی۔ ٹامیوں کے ساتھ بھی یہ لوگ گھومتی رہتی تھیں تو ان لوگوں کو اس وقت وہاں دیکھ کر ہم کو بے حد تعجب ہوا اور تھوڑا سا افسوس بھی کیا کہ تارے بھائی اس قسم کے ہیں۔ پھر جبکہ انہوں نے اپنی بیوی کو (جو یقیناً بہت سوئیٹ سی ہو گی) میکے بھیج رکھا ہے۔ پھر جب میں اپنی پلیٹ میں کباب لینے کے لیے ایک میز کی طرف گئی تو تارے بھائی وہاں مل گئے جو ان ہی خان سسٹرز میں سے ایک کے لیے ان کی پلیٹ میں کچھ لے رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح انہوں نے کوئی دلچسپ بات شروع کرنی چاہی لیکن میں بالکل غیر ارادی طور پر ان کی طرف سے مڑ کر دوسری میز پر جھک گئی اور وجے شنکرؔ کو Help کرنے میں مصروف ہو گئی۔ تارے بھائی نے شاید اس بات کو اچھی طرح محسوس کیا تھا۔ کھانے کے بعد Consequences کھیلنے کے لیے کاغذ پنسل تقسیم کرتے ہوئے وہ میرے قریب آئے۔ ڈکلیؔ بھئی ہماری پارٹنر بن جاؤ۔ انہوں نے کہا ’’ سوری تارے بھائی۔ وجے شنکر نے مجھ سے پہلے سے کہہ رکھا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’ اچھا‘‘ وہ منہ لٹکا کر آگے بڑھ گئے:

رات گئے گھر لوٹتے وقت جب میں نے انہیں، خان سسٹرز کو اپنی کار میں سوار کروا کے واپس آتے دیکھا تو میں نے سچ مچ جھنجھلا کر پو چھا ’’ آخر آپ بیگم طارق کو کیوں نہیں بلاتے۔‘‘ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ یقیناً مجھے تارے بھائی سے اتنی محبت نہیں ہے کہ میں لاڈ میں آ کر ان کی بیوی کو ’’ بھابھی‘‘ کے رومانٹک نام سے یاد کروں۔ اُن کی بیوی کے متعلق اس اوّلین ملاقات کے بعد یہ پہلی گفتگو تھی اور تارے بھائی کی کالی آنکھوں میں ایک بے حد عجیب سا بھیگا بھیگا پن جھلملا اٹھا اور انہوں نے ایک بہت ہی خاص انداز سے کار کا دروازہ بند کرتے ہوئے جھک کر کہا۔ ’’ اچھا شب بخیر۔ کل خالو میاں کو رخصت کرنے تم سب اسٹیشن آؤ گی نا۔‘‘

اس کے بعد بہت دنوں تک تارے بھائی سے ملنا نہ ہوسکا۔ ایک روز علی گڑھ سے ہمارے بہت سارے بہن بھائی آئے ہوئے تھے اور ہم سب ’’ اور ینٹ ‘‘ میں ’’ واٹر لو برج‘‘ دیکھ رہے تھے۔ آؤ اس لڑکی کو چلائیں۔ ہماری سامنے کی نشستیں بالکل خالی پڑی تھیں اور کونے پر صرف ایک اینگلو انڈین لڑکی سگریٹ پی رہی تھی۔

ہم اپنے پیروں سے اگلی نشستوں کو آگے ڈھکیلنے کے پسندیدہ شغل میں مصروف ہو گئے (دہرہ دون کے سنیما ہاؤسوں میں کرسیاں فرش میں جڑی ہوئی نہیں ہوتی ہیں ) انٹرویل کے بعد، سگریٹ لائیٹر کی روشنی بھڑکی اور میں نے تارے بھائی کو برابر والی کرسی پر بیٹھا پایا___ ’’ ارے ڈکلی___ تم تو بھئی اس وقت بہت متاثر نظر آ رہی ہو، مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنی نرم دل ہو‘‘___ انہوں نے کہا۔ لیکن اس وقت ہم سب روبرٹ ٹائیلر کو ایڈمائر کرنے میں حد سے زیادہ مصروف تھے۔ میں خاموش رہی پھر جب روشنی ہوئی اور گوڈسیودی کنگ بجنے سے پہلے ہی ہمیشہ کی طرح ہم لوگ باہر نکل آئے تو میں نے حمیدہ کی بھوری آنکھوں میں پانی جگمگاتا دیکھا اور مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ اس روز بھی اور آج بھی میں ضرور تارے بھائی سے اپنے اس رویے کی معافی مانگوں گی۔

کچھ عرصے بعد دسمبر میں ہمارے فائنل امتحان نازل ہو گئے۔

میں اس روز شام پڑے اپنے بستر میں کمبلوں میں ملفوف جغرافیہ کی تیاری کر رہی تھی اتنے میں دریچے کے راستے بلّا بے تحاشے تیزی سے بھاگا ہوا اندر آیا، اس کا سانس چڑھا ہوا تھا اور بال پیشانی پر بکھر گئے تھے۔ ڈکلی___ تارےؔ بھائی ___ ’’ وہ جیسے کوئی بے انتہا بری خبر سناتے سناتے رک کر صوفے پر گر گیا___ میرا دل لرز اٹھا___ ‘‘ تارے بھائی!___ کیا ہوا اُن کو ___‘‘

’’ڈکلی___ تارے بھائی___ اور حمّی ___ بھگ ___ بھاگ گئے دونوں ___ تارے بھائی حمّی کو لے کر چلے گئے___ سچ مچ بھاگ گئے___‘‘

سچ بتائیے آپ میری جگہ اس وقت ہوتے تو آپ کا رد عمل کیا ہوتا۔

’’ حمّی اوپر دریچے میں کھڑی تھی۔ نیچے تارے بھائی اس وقت کلیمنٹ ٹاؤن سے چلے آ رہت تھے۔ بیگم ارشاد اللہ کے ہاں ___ اور نجانے کیسے حمّیکسی دھکے کی وجہ سے ___ اپنا وزن نہ سنبھال سکی___ اور گر پڑی___ تارے بھائی نے اُسے سنبھال لیا___ اور سیدھے گئے اپنی___ موٹر کی طرف___ بلّا صوفے پر پڑے پڑے کہہ رہا تھا۔ زبیدہ ششدر رہ گئی___

ہمارے گھر پر سکوت چھا گیا۔

ڈنکرکؔ کے بعد فیلڈ مارشل زخمی ہو کر ہندستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔ بمبئی سے صحت یاب ہونے کے بعد وہ گھر آیا ___ اس وقت وہ کیسا اچھا کتنا پیارا معلوم ہو رہا تھا ’’ حمّی کہاں ہے؟‘’ اس نے چاروں طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’ مر گئی تمہاری حمّی‘‘ ممی نے چائے بناتے ہوئے اتنے رنج اتنے صدمے کو ضبط کرتے ہوئے کہا ___ پھر ایک اور، اس سے بھی زیادہ عجیب بات ہوئی___ فیلڈ مارشل میرے صوفے پر بیٹھا۔ ڈنکرک کی لڑائی کی تصویریں دکھا رہا تھا۔ ایک دم سے میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں گرم گرم اور بھیگی جا رہی ہیں ’’ ہش احمق مت بنو‘‘ میں نے آہستہ سے اس کو ڈانٹا۔‘‘ ڈکلی ___ حمّی جانتی ہے، تمہیں بھی معلوم ہے اور زبیدہ کو بھی، کہ مجھے ___ اس سے کتنی شدید محبت تھی___ میں نے دور اُن سیاہ چیختے ہوئے سمندروں میں، جلتے ہوئے جہازوں، پھٹتی ہوئی سرنگوں پر ہسپتال میں، ہر جگہ، ہر لحظہ موت کا کس امید پر مقابلہ کیا کن خوابوں کے سہارے لڑا___ اور ___ اب ___ اور اب ___ میرا پیار ا چھوٹا بھائی بچوں کی طرح رونے لگا___ باہر اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔

امتحانات ختم ہونے کے بعد ہم بہت ہی خاموش رہنے لگے۔ سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ کیا کریں، فیلڈ مارشل بمبئی واپس جا چکا تھا۔ ممّی ہمیں الموڑے بھیج دو، دسمبر سے لے کر جولائی میں کالج کے داخلے تک کا جو لمبا وقفہ ہے کیوں نہ اسے کلچر سنٹر میں رقص کر کے کار آمد بنا لیا جائے۔ سینئر کیمبرج کے امتحان کے فوراً بعد صرف آخری ٹرم کے لیے فرسٹ ایر میں داخل ہونے کے ہم قائل نہ تھے۔ ممّی مان گئیں۔

لیکن سوسائٹی کی دوسری خواتین___ ان کی دماغی صلاحیتوں نے اس خبر کی اصلیت کو قبول کرنے سے قطعی انکار کر دیا کہ بیگم اعجاز کی لڑکیاں ناچ سیکھنے کے لیے الموڑے جا رہی ہیں حمیدہ کے سنسنی خیز واقعے کو ابھی اچھی طرح فراموش بھی نہیں کیا جا چکا تھا کہ ان کے Gossip کے لیے ایک اور موضوع تیار ہو گیا۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ٹی پارٹیوں اور دوسرے سوشل مجمعوں میں جن اہم باتوں پر تبادلہ خیالات کیا جاتا ہے وہ کس قدر بے معنی ہوتی ہیں ارے بہن تم نے کچھ اور بھی سنا زہرہ نے کسی ہندو سے شادی کر لی___ ہو نہہ اور وہ ذکیہ جو میاں کے مرنے کے ایک سال کے اندر ہی کسی موئے انگریز سے بیاہ رچا کر بیٹھی ہیں تو انہیں کیا نتیجہ ملا___ شاہدہ کو تو طلاق مل ہی گئی آخر___ شاہدہ کا تو پتہ نہیں لیکن زہرہ تو کب کی طلاق دے چکی اپنے میاں کو___ ہاجرہ نے بھی بھئی خوب مزا چکھایا بے چارے کو___ سچ نہ جانے دنیا کہاں جا رہی ہے___ اور یہ بیگم اعجاز کے میاں کی بھانجی ابھی سب کو آزادی کا اچھا سبق پڑھا چکی ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے ناچ گانا سیکھنے کے لیے بھیج دیا لڑکیوں کو اپنی___ شابش ہے بھئی___ اور سنا مسز بھنڈاری نے کیا حرکت کی___

ممی نے یہ پسند نہیں کیا تھا کہ ہم سنٹر کے ہوسٹل میں رہیں کیونکہ وہاں ہندوستان بھر کے بھانت بھانت کے بنگالی، مدراسی، مرہٹے لڑکے اور لڑکیاں موجود تھیں کم از کم ہمیں اس ماحول سے مانوس ہونے میں بڑی مشکل پڑتی۔ چنانچہ ممّی کی دور دراز کے رشتے کی بہن تحقیق کر کے دریافت کی گئیں۔ بہنوئی ایک بہت بڑے ملٹری کنٹریکٹر۔ خالہ جان، خدا انہیں سمجھے اپنے چھوٹے بچوں کی تعلیم کی وجہ سے وہاں رہتی تھیں۔ نلنی ہوسٹل میں چلی گئی اور ہم دونوں بہنیں خالہ جان کے گھر۔ افوہ کتنا بے تحاشا روپیہ اُن کے یہاں بہہ رہا تھا۔ اس قدر دنیا جہان کے ٹھیکے ان کے پاس تھے۔ نینی تال کے جنگی نظر بندوں کے کیمپ کا کنٹریکٹ، چھاؤنیوں کا کنٹریکٹ، فوجی بارکوں کا کنٹریکٹ، زمین کا کنٹریکٹ آسمان کا کنٹریکٹ۔ ان کے یہاں رہ کر مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ موجودہ جنگ کی Boon کے کیا معنی ہیں۔ اس وقت محسوس ہوا کہ یہ طرح طرح کی نئی نئی بے تکی نظمیں اور افسانے جو اضطرابؔ نیا ادبؔ اور ادب لطیف وغیرہ میں چھپتی تھیں جو راتوں کو آتش داں میں روشن ہیڈ کے سامنے بیٹھ کر پڑھتے ہوئے بے حد مضحکہ خیز اور اپنی زندگی سے دور اور بے معنی معلوم ہوا کرتے تھے، واقعی کس قدر وزن رکھتے ہیں۔ ذرا جذباتی طریقے سے یہ باتیں سوچتے ہوئے میں نے اپنے کمرے کے دریچے سے باہر دیکھا___ ایک نیلی سی چٹان کے کنارے لالہ کے پھول اور نیلو فر کے پودے ہوا میں جھوم رہے تھے___ مجھے یاد آیا___ تارے بھائی کہا کرتے تھے ڈکلی مجھے لالہ کے پھولوں سے عشق ہے۔ میرے چاروں طرف لالہ کے پھول ہوں اور فضا میں موزارٹ کے نغمے، پھر مجھے زندگی میں کسی چیز کی خواہش نہ رہے___ موسیقی اور کتابیں اور پھول ___ اور ___ اور ___ میں جیسے کسی نرم نرم گھاس سے چھپی ہوئی پگڈنڈی پر چلتے چلتے الجھ کر گر پڑی___ تارے بھائی اتنے دور ہو چکے تھے___ اتنے دور___

ارے ڈکلی یہ تو آوا گڑھ ہاؤس ہے___ زبیدہ اُچھل پڑی ___ ہا آوا گڑھ ہاؤس___ گیلری میں جا کر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا___ خوشی کی ایک ہلکی سی چیخ میرے منہ سے نکل گئی۔ جب ابّا الموڑے میں تعینات تھے تو ہم اس کوٹھی میں رہا کرتے تھے___ برسوں پہلے ___ دیکھو ڈکلی وہ سیڑھیاں جہاں ہم نے اسنو مین بنایا تھا اور وہ الائچی کا درخت، دیکھنا انگور کی بیلیں اب بھی باقی ہیں یا جل جلا گئیں۔ اور ہم اپنا تکلف اور اجنبیت چھوڑ چھاڑ کر بچوں کی طرح سارے میں بھاگنے دوڑنے لگے۔ جیسے ہمیں فردوس گمشدہ مل گئی تھی۔ چلو وہ کمرہ ڈھونڈیں جس میں فیلڈ مارشل کو بند کیا تھا___ اور ہم اچھلتے کودتے گیلری کے سرے والے پہاڑی سے ملے ہوئے شیشے کے کمرے میں جا پہنچے___ اور ___ او ہو___ واللہ___ ہلّو___ السلام علیکم ___ بہت خوش نظر آتی ہیں آپ‘‘___ ’’ہلو ___ وعلیکم السلام___ ‘‘ ہم نے اپنی آواز اتنی مری ہوئی پائی کہ یقین ہو گیا کہ اب اس سرائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف سفر آخرت کرنے والے ہیں۔

مجھے آپ سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے یقین فرمائیے بے حد مسرت ہو رہی ہے۔ میں ہو ں آپ کا مخلص حمید الرحمن ___ ریل میں وہ چاء میں نے آپ کو قطعی نہیں بھجوائی تھی۔ بیرہ غلطی سے دے آیا تھا۔

یہ صاحب اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کاروبار کے سلسلے میں نینی تال، دہلی شملے وغیرہ چلے جایا کرتے اور گھر پر بھی اپنے دفتر کے کمرے میں حد سے زیادہ مصروف۔

اس روز شام کو اپنے کمرے کے فرش پہ ان نئے Steps کی مشق کرتے کرتے تھک کر جو اسی دن سیکھے تھے، میں پلنگ کے کنارے پر بیٹھ کر تسنیم کا خط دوبارہ پڑھنے لگی۔ اُس نے لکھا تھا ڈکلی امید ہے کلچر سنٹر تم خوب Enjoy کر رہی ہو گی اور میرا یہ خط تمہیں بشاش پائے گا آج کل یہاں بھی خاصی دلچسپ Date rights اور Dances رہتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں ___ ہاں تم کو شاید یہ معلوم نہیں کہ عارف نے امینہ سے شادی کر لی___ شاید تم میرے خیال سے سنجیدہ ہو جاؤ لیکن بھئی میں تو بہت خوش ہوں ___ اس دنیا میں بعض باتیں کتنی عجیب سی ہو جاتی ہیں نا___ ’’ واقعی میں سوچتی رہی، عارف شملے میں تسنیم سے ملا تھا اور اس وقت سے وہ دونوں کتنی ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے۔ عارف فلائنگ آفیسر تھا اور بے حد شرمیلا۔ دوستوں کی موجودگی میں دونوں اوروں سے خوب باتیں کرتے تھے اور جہاں تنہائی ہوئی اور بالکل خاموش بس چپ چاپ بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور شرمائے جا رہے ہیں۔ جب تسنیم کے والد کا تبادلہ کوئٹہ کا ہو گیا تب بھی عارف اور تسنیم میں خط و کتابت رہی، وہ بے حد دلچسپ خطوط لکھا کرتا تھا۔ شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی تھی___ اور اب ___ یا اللہ دنیا کتنی عجیب ہے___کس قدر عجیب ___ اسے کیا کہئے ___ سلیم جہانگیر تصویر کے شیشے میں آ کر پھر کھڑا ہو گیا___ دوسری منزل پر اس شام پیانو پر Base کے سروں میں کوئی غمگین سا گیت گایا جا رہا تھا۔ آنے جانے والوں کے خاموش اور مدھم سے سائے گیلریوں میں ادھر سے اُدھر حرکت کر رہے تھے اور میں امرتا شیر گل کی ایک تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر نلنی پر اپنی قابلیت کا رعب ڈالنے میں مصروف تھی کہ تم کیا جانو بے چاری۔ ان لکیروں اور ان سیاہ سفید دھبوں کے معنی تو صرف فن کار ہی سمجھ سکتے ہیں اب مثلاً یہ امپریشن اور ایکسپریشن ___ فش___ نلنی اتنی دیر تک تصویروں کے نقوش پر میرا عالمانہ تبصرہ سنتے سنتے عاجز آ کر دوسری طرف مڑ گئی___ اوہو___ میں نے غصہ میں آ کر اُسے ڈھکیل دیا___ اوہو ___ ہلو___ آداب عرض ___ ستون کے پیچھے سلیم جہانگیر کھڑا تھا ہمیشہ کی طرح اُس کی لمبی لمبی پتلی اور بے چین سی انگلیوں میں اٹکے ہوئے سگریٹ کے دھوئیں کی دو باریک سی لکیریں بل کھاتی ہوئی اوپر کو اُٹھ رہی تھیں وہ انگلیاں جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ بس اب وہ کائنات کی ساری خوب صورتی اور ساری لطافتیں اپنی طرف کھینچ کر کینوس پر بکھیر دیں گی___ وہ ذرا لمبے سے بے پرواہی سے پیچھے کو الٹے ہوئے بال جن میں اماوس کی کالی راتوں کی سیاہی بھی تھی۔ اور ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں پر جھلملانے والی کرنوں کا سنہرا پن بھی___ پھر وہ آنکھیں ___ سمندروں کی طرح گہری اور نیلی ___ کتنا ایکسپریشن تھا۔ ان آنکھوں میں ___ ایک عجیب Vacant سالک معصوم اور گھبرایا گھبرایا سا۔ جیسے اونچے قرمزی بادلوں سے پرے پرواز کرنے والے کسی فرشتے کو دنیا کی پستیوں میں ڈھکیل دیا گیا ہو۔ اور وہ اپنا گردو پیش دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا ہو۔

معاف فرمائیے گا۔ جب کبھی سلیم جہانگیر تصور میں آ کر کھڑا ہوتا ہے تو میں ضرورت سے زیادہ شاعر ی کرنے لگتی ہوں۔ مصیبت یہ ہے کہ آپ لوگ تو اپنی ہیروئن کو (Describe) کرنے کے لیے دنیا جہاں کے اچھے اچھے الفاظ استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی لڑکی کسی آدمی کا ذرا خوب صورت طریقے سے ذکر کرنا چاہے تو بڑا Awkward سا لگتا ہے۔

’’آپ دونوں کیوں لڑ رہی تھیں ؟‘‘ اس نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔ جب وہ بات کرتا تھا تو اُس کی نظریں جانے کہاں ہوتی تھیں دیواروں پر دریچے سے باہر، پہاڑوں سے پرے۔ بعض مرتبہ تو بڑی الجھن ہونے لگتی تھی۔ یعنی آپ کتنا ہی سوئیٹ ایکسپریشن بنائیں بات کرتے میں۔ لیکن وہ خدا کا بندہ آپ کے چہرے ہی کو نہیں دیکھے گا۔ ویسے اس کی نگاہیں ساری فضا میں تیرتی پھریں گی۔ سمندروں کی نیلی موجوں کی طرح___

’’ یہ ڈکلی مجھ پر شان جھاڑ رہی تھی۔ ’’ نلنی نے کہا۔ سگریٹ کا دھواں اُسی طرح اوپر کو لہراتا رہا۔ جب کوئی خاص بات کرنے کو نہ ہو اور ایٹی کیٹ کا تقاضا ہو کہ کوئی بات ضرور کی جائے، تو وہ وقت بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

کورس ختم کرنے کے بعد آپ کا ارادہ۔ ٹروپ میں شامل ہونے کا ہے؟۔ ’’ اس نے یوں ہی پوچھا۔‘‘ ٹروپ میں ؟ نہیں تو۔ ہم تو صرف جولائی تک رہیں گے۔ پھر لکھنؤ چلے جائیں گے۔ ’’ اور نلنی نے بالکل بلا ضرورت محض اخلاقاً ہنسنا شروع کر دیا۔ بھلا ہنسی کی کیا بات تھی۔

’’ امریتا شیر گل آپ کو کیسی لگتی ہے۔ ’’ پھر نلنی نے بڑے تنقیدی لہجے میں ایسا احمقانہ سوال کیا جیسے وہ بڑی ماہر نقاد ہے امریتا شیر گل کی۔ سلیم جہانگیر ایسی گہری شیریں آواز میں اتنی مختصر باتیں کرتا تھا جیسے آپ اور ینج اسکوائش آہستہ آہستہ پی رہی ہوں۔ اتنے میں اوپر سے راجندر بھائی صاحب آ گئے۔ نلنی کے بڑے بھائی۔ انہوں نے آتے ہی زور سے کہا، چلو تسی اوپرچل کے کچھ ٹی ٹُوپی لو۔ کچھ ٹھنڈا پانی شانیسلیم جہانگیر سے انہوں نے پھر کہا آپ بھی کچھ چائے سائیہمارے ساتھ پیو جی۔ اور ہم سب دوسری منزل پر چلے گئے۔

اسی رات کھانے کی میز پر میرے مقابل میں بیٹھے ہوئے رحمان بھائی نے زبیدہ کو دیکھا۔

’’ آج ہم ہوٹل ریجنٹ میں ایک خالص بوہیمین قسم کے آرٹسٹ سے ملے۔ ’’ زبیدہ نے جھک کر کہا۔‘‘

’’ کون وہ سلیم جہانگیر؟ جانتا ہوں اُسے۔ ’’ رحمان بھائی نے بے پرواہی سے جواب دیا۔ اور ابّا سے اپنے تازہ کنٹریکٹ کے متعلق باتوں میں مصروف ہو گئے۔

انہیں دنوں زبیدہ کے سامنے ایک فضول سی تجویز پیش کی گئی کہ کیوں نہ تم بھائی عبد الرحمن سے کر لو شادی۔ رات کو زبیدہ مجھ سے خوب لڑی اور صبح تک اتنا غصہ سوار رہا کہ ہم پف آستینوں کی بلاؤزیں پہنے پہنے سنٹر چلے گئے۔ بالکل یاد نہ رہا کہ دادا اس قسم کی پھولی پھولی آستینوں کو سخت نا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی وجہ سے رقص میں شانوں کی صحیح موومنٹ کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔

کیا بات ہے ایرانی بلیو ___ ؟ ‘‘ نلنی نے پریشان ہو کر پوچھا۔ کلاس شروع ہو چکی تھی۔ لکڑی کے فرش پر اُکھڑے اُکھڑے نپے تُلے قدم رکھے جانے لگے۔

دوسری صبح میں پہاڑی پر سے ذرا تیزی کے ساتھ نیچے مآل کی طرف اتر رہی تھی۔ دور سے سلیم جہانگیر اوپر آتا نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اخلاقاً مجھے اپنی چھتری نیچی کر لینی پڑی۔ اُس نے میرے ہاتھ سے پار سلیں اور پیکٹ جو میں پوسٹ کرنے کے لیے لے جا رہی تھی لینے چاہے۔ ‘‘ افوہ‘‘ شکریہ۔ لیکن مجھے بہت جلدی ہے۔ ’’ میں نے زیادہ تیزی سے نیچے اُترنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ میں بہت خاصی تر ش روئی سے پیش آئی ہوں۔ اُس نے آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے بہت رنجیدہ ہو کر کہا۔ ’’ میں نے تو سنا تھا کہ آپ بہت خلیق ہیں۔‘‘

’’ بالکل غلط سنا تھا۔ آپ نے۔‘‘

واپس اپنے لان کی سیڑھیوں پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ سلیم جہانگیر اور رحمن بھائی برآمدے میں ٹہل ٹہل کر باتیں کر رہے ہیں۔ زبیدہ اپنے کمرے میں سنگھار میز کے بلور پر جھکی ہوئی ناخنوں پر بادامی پولش کر رہی تھی۔ ’’فرمائیے جناب‘‘ اس نے سر اٹھا کے اپنی لمبی لمبی آنکھیں چیرتے ہوئے یوں ہی بے معنی سی کوئی بات شروع کرنی چاہی۔ ’’ اخوہ اترا کتنا گئیں۔ ’’ میں نے جل کر کہا۔ شام کو بسنت کا جشن منانے کے لیے جو ٹیبلو ہو رہا تھا اُس کی ہیروین کے لیے ’’املا‘‘ دیدی نے زبیدہ کو منتخب کیا تھا۔ کیونکہ انہیں لمبی لمبی نوکیلی اور ترچھی سی چغتائی آرٹ کی قسم کی آنکھوں والی زرد رو لڑکی کی ضرورت تھی۔ اور ایسی آنکھیں سارے سنٹر میں سوائے زبیدہ کے اور کسی کی نہ تھیں۔ حالانکہ میں یقین دلاتی ہوں آپ کو کہ میں اس پارٹ کو کہیں بہتر طریقے سے ادا کرسکتی تھی۔ کیونکہ مجھے مانی پوری اسٹائل اس وقت تک بہت اچھی طرح سے آ گیا تھا۔

ہئی۔ چوئنگ گم کھاؤ۔ راستے میں کیا۔ سلیم جہانگیر ملا تھا؟ مبارک ہو۔

’’ شیطان کی پر نانی___ ‘‘ میں نے خود کو رونے پر آمادہ پایا ’’ اچھا نہیں۔ کیا باتیں ہوئیں۔‘‘ آرٹ اور زندگی وغیرہ۔‘‘

’’ہیں میں نے ضرورت سے زیادہ Rudely behave کیا۔

’’ فون پر معذرت کر لینا اور رات کے جشن پر مدعو بھی۔

دوپہر کو میں نے ہوٹل ریجنٹ کا نمبر ڈائیل کر کے ذرا جھجھکتے ہوئے ریسیور اٹھایا ’’ ہلو‘‘___ کیا آوا گڈھ ہاؤس سے بول رہے ہیں۔ کیا رحمان صاحب ؟ ‘‘

’’ جی نہیں میں ___ ڈکلی___ آئی مین___‘‘

اوہو ڈگ___ بی ___ مس اعجاز ___‘‘

جی ہاں ___ سلیم صاحب مجھے بے حد افسوس ہے کہ صبح میں اتنی یعنی ذرا Hurt سی ہو رہی تھی___ اُمید ہے آپ Rude نہیں ہوئے ہوں گے۔

’’ Hurt جی قطعی نہیں ___ میں ایسی باتیں بہت جلد بھلا دیا کرتا ہوں ___ کوئی خدمت ؟ ‘‘ اس کا مطلب تھا کہ اب فون بند کر دیجئے تو کیسا رہے ؟ کمبخت ایکسچینج والا بیچ میں نہایت بدتمیزی سے بول اٹھا Be brief please یہ گدھا شاید میری اور زبیدہ کی آواز پہچان گیا تھا۔ اور ہمیشہ اسی طرح ٹپک پڑتا تھا۔ ریسیور زور سے پٹخ کر میں نے ارادہ کر لیا کہ غسل خانے میں جا کر خوب روؤں گی___ اُسی وقت رحمان بھائی گیلری میں آ گئے۔ ان کے ہاتھ میں تازہ اخبار تھا۔ ارے بھئی ڈکلی کوئی طارق احمد سید تمہارے کزن تھے___ یا اسی قسم کی کوئی چیز ___ آئی مین وہی جنہوں نے تمہارے ایک کزن سے ذرا دلچسپ طریقے سے شادی وادی کر لی تھی___ بڑا لمبا ہاتھ مارا میرے یار نے ___ برطانوی سفارت خانے کا اتاشی ہو کر ایران پہنچ گیا۔

یعنی تارے بھائی پہلے تو حمّی کو لے کر بھاگے، کس صفائی سے اور پھر ___ یا اللہ میں زبیدہ کو یہ زبردست خبر سنانے کے لیے تیرکی طرح بھاگی۔ وہ غسل خانے میں تھی میں اپنے دریچے کے قریب جا کر ٹھٹھک گئی اور اس وقت مجھے بے انتہا شدت، حد سے زیادہ تلخی کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ ___ یہ ساری باتیں ___ یہ تمام حماقتیں کس قدر فضول ہیں ___ باہر پہاڑیوں پر بہار کے پہلے بادل بکھر رہے تھے۔ غسل خانے میں سے زور زور سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ زبیدہ نہاتے ہوئے۔ سردی کو کم کرنے کے لیے بالکل مجاز کے انداز میں گا رہی تھی___ جوانی کی اندھیری رات ہے___ سوں سوں ___ مگر میں اپنی منزل___ سوں ___ کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں ___ میں ذرا ___ فلسفیانہ طریقے سے سوچنے لگی کہ ہم سب آخر کس چیز کی تلاش میں اتنے سرگرداں ہیں۔ اتنے پریشان۔ میں نے دریچے کی سفید چوکھٹ پر اپنا سر ٹیک کر اپنی چھوٹی سی ناک ٹھنڈے برف جیسے شیشوں سے چپکادی۔ ہلکے ہلکے بادل بسنت کی ہواؤں میں اڑتے پھر رہے تھے___ میں سوچتی رہی کہ بھئی آخر ان سب باتوں کے معنی کیا ہیں ؟ (بڑا پرانا اور احمقانہ سا سوال ہے) اور اس وقت نہ جانے کہاں سے میرے سر میں یہ خیال آ گیا کہ اگر سلیم جہانگیر، وہ جس نے اس روکھے پن سے فون بند کر دیا تھا، اس دریچے میں میرے قریب کھڑا ہوتا اور اس کی مخروطی بچپن سی انگلیاں تیزی سے کاغذوں پر سامنے کا منظر اُتارنے میں مصروف ہوتیں۔ پھر میں اُسے بتاتی کہ دیکھو واقعی دنیا کتنی خوب صورت ہے، اور زندگی اور اس کا احساس، کس قدر شیریں کیسا سکون بخش___ پائن کے درختوں کے پیچھے سے کرنیں پھینکتا ہوا گرم، روشن آفتاب، نیلے پتھروں پر گرنے والے پر شور نالے، خوبانی کی جھکی جھکی ڈالیاں، چائے دانی کی بھاپ خنک ہوائیں ___ سلیم جہانگیر کاش تم ان بظاہر بالکل معمولی اور بے معنی لذتوں کو میرے ساتھ ساتھ محسوس کرسکتے۔ جن کے سہارے میں زندگی کو دلچسپ سمجھنے پر مجبور تھی___ لیکن اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کیا ہوتا کچھ بھی تو نہیں ___ یہ بے کار تخیل پرستیاں۔

ہوا کے ایک جھونکے سے لالہ کے پھول تیزی سے جھولنے لگے___ تارے بھائی___ غلط ___ سلیم جہانگیر___ شاید یہ بھی غلط___ پر کیا کہئے اسے ___ زبیدہ چلائے جا رہی تھی___ ’’ بڑھتا ہی جاتا ہوں ___ مگر میں اجی اپنی منزل کی طرف ___ پانی گرتا رہا۔ ہوائیں اڑتی رہیں ___ تو کیا تارے بھائی کو اپنی منزل مل گئی تھی___ اور حمیدہ کو ___ میرے تصور میں یونی ورسٹی کے لڑکوں کے وہ جلوس آ کھڑے ہوئے جو حضرت گنج کی چمکیلی سڑک ’’ پرسیاسی قیدی آزاد کرو، ہم اپنا حق لے کر رہیں گے؟ مزدور ایک ہو جاؤ کے نعرے لگاتے ہوئے ہجوم کی وجہ سے ہماری کار کو رکنے پر مجبور کر دیتے تھے___ پھر وہ لوگ جو کافی ہاؤس میں، یونیورسٹی یونین کی اسٹیج پر، آم کے درختوں کے نیچے ہر جگہ، ہمیشہ، ایک ہی قسم کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ عجیب عجیب باتیں۔ ہنسی آتی تھی۔ ان بے چاروں پر___ اکثر رشیدہ آپا اپنے کھدر پوش رفیقوں کے ہمراہ امین آباد کی گنجان سڑکوں پر پیدل جاتی نظر آتی تھیں۔ حیرت ہوتی تھی کہ کیا ہو گیا ہے گڈّو رشید آپا کو کون جانے اُن کا سفر کب ختم ہو گا کب منزل ملے گی۔ اُنہیں ___ سلیم جہانگیر کہاں تک یوں ہی اپنا تصویروں کا بیگ اُٹھائے مارا مارا پھرے گا۔

مگر یہ چاند اور ستارے اور یہ قرمزی بادل بکھرے بکھرے، الگ الگ ہی اچھے لگتے ہیں اور یہ گاتے ہوئے جھرنے___ پھر مجھے بڑے زور کی ہنسی آ گئی۔

سب غلط، بالکل غلط یہ ساری باتیں ایک بہت ہی دلچسپ، بے انتہا حماقت انگیز، حد سے زیادہ فضول اور بے کار جھوٹ تھیں ___ بڑا ہی زبردست اور عظیم الشان جھوٹ___ کبھی آپ نے سوڈا بائی کا رب کی تلخ بے مزگی کا احساس کیا ہے؟ رازؔ بھائی اپنا ایک پسندیدہ شعر اکثر گنگنایا کرتے تھے___ عشق وفا کی موت ہے تکمیل آرزو___ اور جانے کیا___ بڑی سادہ اور معمولی سی بات ہے لیکن کس قدر صحیح۔

میں سوچتی رہی___ نفاست سے جھوٹ بولنا، سمجھنا اور اُس کو Appreciate کرنا دو سال پہلے مسوری میں ہیک منیزسے اُترتے ہوئے ___ ایک شام مجھے یکایک بے حد عمدہ طریقے سے آ گیا تھا___ ہم دونوں اس وقت اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ دونوں صاف جھوٹ بول رہی ہیں۔ لیکن اس احساس کے اظہار کی قطعی ضرورت نہ تھی۔ اُس کا خاندان، لارنس ٹیریس پر ٹھیرا ہوا تھا۔ ہم لوگ اس سال گلنؔ مائیر میں تھے۔ رنک جاتے ہوئے راستے میں اُس سے ٹکر ہو جاتی۔ وہ کہتا گڈ گوڈ ڈکلی رانی رات پھر مجھے تمہارا ہی خیال رہا۔ یقین جانو اب تمہارا زکام کیسا ہے۔ پکچرز چلتی ہو___؟ میں فوراً اس سے بھی زیادہ شیرینی سے جواب دیتی So Sweet of you سچ مچ اس وقت تو میں تم کو ہی یاد کر رہی تھی___ رینک نہیں چلو گے؟ موسم کتنا بہترین ہو رہا ہے___ ’’ بہت بہترین___ واقعی ___ ’’ پھر دونوں اپنے اپنے راستے چلے جاتے کیونکہ دونوں کو معلوم تھا کہ بادام پولوا کے یہاں جینٹ سسٹرز آئی ہوئی ہیں اور رینک میں آج روبن سے ملنا زیادہ ضروری ہے___ نیچے جاتے وقت اُس نے کہا یقین جانو ڈکلی مسوری میں تمہارے ساتھ بہترین وقت گزرا Exactly یہی میں تم سے کہنے والی تھی۔ یہ لمحات مجھے کبھی نہ بھول سکیں گے___ کبھی نہیں ___ اچھا بائی بائی ڈکلی___ ٹی ڈل اُو ___ اولڈ بوائے___ یہ زندگی اس طرح گزرتی ہے۔

پھر مجھے خیال آیا۔ لکھنؤ کی چاندنی راتوں میں جب ہم سب کار کی چھت اُتار کر سکندر باغ یا دلکشا کی خاموش سڑکوں پر سفیدے کے درختوں کے نیچے نیچے ڈرائیو کو جایا کرتے تھے اس وقت باتیں کرتے کرتے یک لخت ایک عجیب حساس سی خاموشی چھا جاتی تھی___ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چاند، ستارے، ہوائیں، ساری کائنات اپنی جگہ پر رُک کر کچھ سوچنے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارے دلوں میں جانے کیسے کیسے، انوکھے خیالات تیزی سے رقصاں ہیں۔ جن کا اظہار کرتے اپنی کمزوری اور حماقت کا احساس ہو گا۔ پھر ہم سب جھوٹ بولنا شروع کر دیتے۔ گویا مقابلہ ہوتا کہ دیکھو ہمیں تم سے زیادہ صفائی اور خوب صورتی سے فریب دینا آتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ تم بھی اس فن میں ماہر ہو اور پھر اُس وقت وہ سفیدے کے اونچے اونچے درخت وہ محمد باغ کلب سے آتی ہوئی پیانو کی آواز___ وہ چاند کے نیچے بہتی ہوئی چمکیلی اور خاموش پیکارڈ ___ یہ سب ایک بہت ہی مضحکہ انگیز دھوکا اور جھوٹ معلوم ہوتا تھا۔

پھر ایک دن زبیدہ نے چہک کر بتایا۔ ڈکلی میں تو سلیم جہانگیر سے شادی کر رہی ہوں۔ ’’ لیکن ابھی وہ اُسے اپنے ارادے سے مطلع بھی نہ کر پائی تھی کہ وہ الموڑے سے چلا گیا___ جانے کہاں کو___ شاید اپنی منزل کی تلاش میں ___

یہ منزلیں ___ یہ راستے___ کبھی نہ ختم ہونے والے ___ اجنبی___ اکیلے ___ بہت دن گزر گئے۔ زندگی پر کہرہ چھا رہا تھا۔ مدھم کہرہ اور اندھیری وادیوں پر برستی ہوئی غروبِ آفتاب کی خاموشی۔

شام ہو چکی تھی۔ دور، دور دھندلکوں میں چھپی ہوئی سرخ اور زرد روشنیاں جھلملائے جا رہی تھیں۔ ٹرین۔ دیودار کے جنگلوں اور اونچے پہاڑوں میں گونجنے والی طویل سرنگوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی سبز ہ زاروں میں نکل آئی۔ برابر کے کمپارٹمنٹ میں کچھ شوقین کسی فلم کی نقل میں گا رہے تھے۔ ’’ سانجھ کی بیرا___ یہ پنچھی اکیلا۔ پنچھی اکیلا میں نے پیچھے کی طرف دیکھا___ یہ چھ سال ___ جو زندگی کی پگڈنڈی پر سے گرتے پڑتے گزر چکے تھے___ یہ پنچھی ___ ٹوٹے ہوئے پروں والے ___ جنہوں نے اپنی اپنی جگہ سے پرواز کرنا چاہی تھی۔ اپنے خول چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے تھے فیلڈ مارشل جو دور سمندروں کی لڑائی میں اپنے خوابوں کی کشتی کھیتے کھیتے مارا گیا تھا___ سلیم جہانگیر جسے حیدر آباد میں بے حد عزت کی نوکری مل گئی تھی۔ زبیدہ جو بیگم حمید الرحمن کی حیثیت سے گلمن مائیر کے ڈیکوریشن میں تندہی سے مصروف تھی___ اور میں جو جرنلزم کی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کا Passage حاصل کر کے بمبئی سے واپس آ رہی تھی۔

شمال کے ایک چھوٹے سے خاموش اسٹیشن پر مجھے ٹرین تبدیل کرنی تھی۔ کہرا گہرا ہو چکا تھا۔ مجھے یاد آیا حمّی کہر آلود راتیں کس قدر پسند کرتی تھی___ کاش حمّی اس وقت میرے ساتھ ہوتی۔ حمّی ___ تارے بھائی ___ کہرے میں نہاتے ہوئے لالہ کے پھول ___ یا اللہ___ میں اسکارف سے بالوں کو اچھی طرح لپیٹ کر تیزی سے سنسان پلیٹ فارم طے کر کے دوسری جانب کھڑے ہوئے اُس ڈبّے کی طرف بڑھی جس پر میرے نام کا کارڈ لگا ہوا تھا۔ میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا___ اندر بیڈ لائیٹ جل رہی تھی۔ کوئی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ایک برتھ پر لیٹا تھا___ معاف کیجئے گا آپ روشنی Mind تو نہیں کریں گے؟ روشنی جگمگا اٹھی۔ لیمپ کا رخ آپ کی طرف کر دوں ___ یہ برتھ باہر کھینچ دی جائے___ یا آپ اوپر سونا زیادہ پسند کریں گی___ یہ تارے بھائی تھے۔ ہمیشہ کی طرح اخلاق اور شیرینی کا مجسمہ۔

پھر ہم دونوں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ گویا کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا___ کیونکہ ہم دونوں نے جھوٹ کے مصنوعی چہرے لگا رکھّے تھے___ ’’ مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کو Passage مل گیا۔ کمال ہے۔‘‘ واقعی آپ کو ایران کیسا لگتا ہے؟ بے حد دلچسپ ___؟ ‘‘

’’ بے حد ___ ‘‘

’’ افوہ کس قدر غضب کا کہرہ پڑ رہا ہے___ اب سونا چاہئے ہیں نا؟‘‘

’’ میرا بھی یہی خیال ہے۔ روشنی بجھا دوں۔ آپ Mind کریں گی؟‘‘

’’ یقیناً نہیں ___ اچھا شب بخیر___ ‘‘

’’ شب بخیر ڈک لیؔ‘‘

اور پھر صبح کے کہر آلود دھندلکے میں ٹرین اپنی چنگھاڑتی گرجتی ہوئی رفتار مدھم کر کے ایک بڑے جنکشن میں داخل ہو رہی تھی۔ میں نے کھڑکی میں سے باہر دیکھا___ دور دور حد نظر تک ریل کی خاموش اور طویل پٹریاں بل کھاتی ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی دھند میں گم ہوتی جا رہی تھیں۔ کمپارٹمنٹ رات کی سبز روشنی میں چپ چاپ سورہا تھا تارے بھائی رات ہی میں کہیں اُتر چکے تھے___ پھر ٹرین پلیٹ فارم میں داخل ہوئی۔ دوسری گاڑی کے انتظار میں مجھے وہاں کچھ دیر ٹھہرنا تھا۔ ویٹنگ روم تک جانا طوالت تھی۔ میں وہیں ٹہلتی رہی۔ کچھ فاصلے پر___ ایک لوہے کے ستون کے قریب بجلی کی دھندلی روشنی کے نیچے چند لوگ کمبلوں میں لیٹے پائپ کا دھواں اڑا رہے تھے۔ اسٹیشن کے گونجتے ہوئے سناٹے میں ان کی آوازیں بہت مدھم اور بہت صاف معلوم ہو رہی تھیں شاید یہ پھر بھی زندگی کے اجنبی، نا معلوم راستے کے مسافر تھے___ اور خود کو خوش محسوس کرنے کی کوشش کر رہے تھے___ میں خاموشی سے ٹہلتی رہی___ کامریڈ ہتھی چند۔

ہاں بھئی

ابھی صبح نہیں ہوئی___؟

نہیں

ارے ___ دیکھو___ وہ کون ہے___؟

یہ کون آج آیا سویرے سویرے

ایک عورت

یہاں کیا کر رہی ہے___ اس وقت___؟

کسی امریکن کا انتظار

ہنہ ___ ذلیل سرمایہ دار___ فرسٹ کلاس ویٹنگ روم کے سامنے ٹہل رہی ہے___ جب کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں ___ اس ٹھنڈے کھمبے کے نیچے۔

اسے یہاں بلاؤ۔ غریب بہت افسردہ معلوم ہوتی ہے۔ ہم اسے چائے پلائیں گے___ اور ’’ ہمارا لینن، کی ایک کاپی پڑھنے کو دیں گے۔

اور اُس کے ساتھ مل کر گائیں گے۔ ’’ یہ جنگ ہے جنگِ آزادی۔‘‘

پھر سب یہی آہستہ آہستہ گنگنانے لگے۔

یہ اڑوسن پڑوسن کہے جو کہے۔ میں تو چھورے کو بھرتی کرائی آئی رے۔

ہاہ ___ تم نے سنا قومی جنگ پر Banہو گیا

ہاہ___ ہائے ___ تیرہ ہزار

ارے تیرہ ہزار کو بھول جاؤ ___ سامنے دیکھو

بنتِ مہتاب ہو

تیزی سے آنے والی ٹرین کے گونجتے ہوئے شور میں یہ آوازیں آہستہ آہستہ ڈوبتی چلی گئیں۔

یہ زندگی کا سفر___!

پھر اس گہرے کہرے کو چیرتا نیا سورج نکلا اور فتح کے دن پر جگمگانے لگا۔ اور پھر جشن کی شام آئی۔

پائن کے درختوں کے سائے اور طویل ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

ہم لوگ

 

 

ہاؤ __ ہوّہ __ ہلو لیو ٹیننٹ__ اہم __ ٹٹ ٹٹ __ فلکس __ یپ__ مے فیئر__ یاہ__ او کے __ ٹیڈل اووسویٹی پائی __ چیریوسیم __ اور دوسرے لمحے ریٹا میری بہن نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ جیسے آپ ایک بار پلک جھپک کر کہیں ’’ جیک رو بنسن‘‘ میری آٹھ سلنڈرز والی موٹر پانی کے تیز چھینٹے اڑاتی زنّاٹے کے ساتھ موڑ پر سے گزر کر جنوبی مال کی طویل اور اندھیری خاموشی میں کھو جائے اور پیچھے رات کے بھاری کہرے میں ڈوبی ہوئی سڑک کی اونچی اور زرد اور دھندلی روشنیوں کی قطاریں بے بسی سے جھلملاتی رہیں۔ ریٹا اور پیکرڈ اور تم رائل انڈین نیوی کے گلفام ’’ سب لیوٹ‘‘ اور تھکی ہوئی سکون اور آرام کی خواہاں یہ خوابیدہ جنوبی مال جو ہم کو مے فیئر لے جا رہی ہے۔ آج رات تمام سڑکیں مے فیئر کو جا رہی ہیں کیوں کہ وہاں گالا نائٹ ہے ایک روسی اوپیرا کی نقل __ سمجھے؟ کم وَن، کم آل۔ ہم نے اسٹیج اور بار اور گیلریاں اور گرین روم سب کے سب ہتھوڑے اور درانتی والے سُرخ کاغذی پرچموں سے سجائے ہیں۔ پچھلی مرتبہ جب ہم نے مے فیئر کی اسٹیج پر ہندوستانی رقص پیش کیے تھے تو نیلی اور سرخ دھاریوں اور ستاروں اور لکیروں والے جھنڈے سارے میں آراستہ کیے تھے، سمجھے کامریڈ۔ اوہو معاف کرنا تم تو کامریڈ نہیں ہو بلکہ آر۔ آئی۔ این۔ کے ایک بے حد گل فام سے سب لفٹننٹ ہو۔ جنرل اسٹل ول کا جامِ صحت تجویز کرنے کے بعد فوری ہی اِز اے جولی گڈ فیلو‘‘ خوب زور زور سے اس لیے گاتے ہو کیوں کہ ہم ہندوستانیوں کا امریکہ اور امریکنوں سے بہت ہی گہرا قلبی تعلق ہے۔

لیکن کیسی فضول سی اور اکتا دینے والی باتیں ہیں یہ۔ میں بہت تھک گئی ہوں اور میری بہن ریٹا بھی مگر میری آٹھ سلنڈرز والی کار کبھی نہیں تھکتی۔ اس کے ٹائروں کے نیچے کہر آلود لیمپوں کی مدھم روشنی میں مال تیزی سے بہہ رہی ہے۔ مے فیئر ابھی بہت دور ہے۔ میرا چھوٹا اور خوب صورت سا نیند سے بوجھل سر اپنے شانوں پر رکھ لو۔ جنوبی مال تک، صرف شمالی مال سے لے کر جنوبی مال تک۔ یعنی کسی قدر مختصر یہ شرحِ زندگی ہے، سوچو تو!

اور ہماری دنیا ذرا اعلیٰ پیمانے پر کتنا کا ر آمد پِٹ منیز شارٹ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ۔ ریٹا خاموش ہے۔ ریٹا بہت سے اہم مرحلے اسی شارٹ ہینڈ میں طے کر لیتی ہے اور پھر اطمینان سے چوئنگ گم کھاتی رہتی ہے اور اپنی بڑی بڑی سبز آنکھیں اس طرح جھپکتی ہے جیسے پوچھ رہی ہو، معاف کیجئے گا، لیکن کیا آپ کو زندگی بسر کرنے کا فن آتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر سے جا کر کسی کنڈر  گارٹن میں داخل ہو جائیے ورنہ میرے ساتھ آ کر ناچیے۔

ارے آپ کو ناچنا بھی نہیں آتا؟ اور سوسائٹی میں یوں ہی داخل ہو گئے آپ؟ چچ چچ۔ اچھا آپ مادام والگا کے اسکول میں داخل ہو جائیے جو نیو انڈیا کافی ہاؤس کے اوپر ہے۔ اور آپ نے اس نکتے پر بھی غور نہیں فرمایا جسے امریکن بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ (فش !امریکن تمہارے اعصاب پر کب سے سوار ہو گئے ہیں بھئی!) یعنی زندگی تجارت ہے، تجارت اشتہار بازی ہے، اور اشتہار بازی زندگی۔ یہ سب اچھی طرح مکس کیے ہوئے کاک ٹیل کی طرح ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ دیکھئے مادام والگا کے رقص کے اسکول کا اشتہار کس خوب صورتی سے صرف ایک سطر میں میں نے آپ تک پہنچا دیا ہے۔ یہ فن میں نے یونی ورسٹی کی تعلیم ختم کرنے کے بعد کمرشیل کالج کی شام کی کلاسوں میں شغلِ بے کاری کے طور پر سیکھا ہے۔ آپ حضرات بھی اس طرف توجہ فرمائیے اور گھر بیٹھے ہزاروں روپیہ کمائیے۔ اس کے علاوہ ہماری فرم سے آپ امریکن یونی ورسٹی کی اعلیٰ ڈگریاں بذریعہ خط و کتابت حاصل کرسکتے ہیں۔ فیس بالکل واجبی۔ پھر آپ دیکھیے ڈبلیو۔ اے سی (آئی)۔ کی زندگی کس قدر دل چسپ ہے، اور ہندوستانی شاہی بحری بیڑے کو اس وقت آپ جیسی لڑکیوں کی کتنی ضرورت ہے۔ یہ مس معینہ امام ہیں اور یہ سینئر کمانڈر لتیک ا بنرجی۔

چنانچہ ہماری پیکارڈ اسی طرح تیز رفتاری سے مے فیئر کی طرف بڑھتی جا رہی ہے اور ہم بہت مطمئن ہیں۔ ہمیں تھکن محسوس نہ کرنی چاہیے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’منزل‘ مے فیئر کی ان نیلگوں روشنیوں سے بہت دور کہیں دھندلکوں کے پرے چھپی ہوئی ہے۔ منزل__ فِش بہت ہی لغو اور بے معنیٰ فقط ہے یہ۔ زندگی ذوقِ سفر کے سوا کچھ بھی نہیں، خصوصاً جب یہ سفر ایک پیکارڈ میں کیا جا رہا ہو۔

لیکن ریٹا اسلام احمد تم جو زندگی کی شارٹ ہینڈ میں ماہر ہو اور اپنی انسٹی ٹیوٹ کا بہترین اشتہار، آہستہ آہستہ ناچو، کیوں کہ برسات کی یہ کالی راتیں بہت جلد گزرتی جا رہی ہیں اور بادلوں کے اوپر تاریک آسمانوں میں نقرئی ستارے تیزی سے گھوم رہے ہیں۔

اور صبح صبح جب کھڑکی کے نیچے پھیلی ہوئی کچّی رس بھری کی مدھم خوشبو ناک میں گھستی ہے تو سبزے کے پرے رہنے والے کیپٹن عثمان اپنے دریچے میں کھڑے ہو کر یوں ہی بے فکری اور بے نیازی سے سیٹی بجانے لگتے ہیں۔ (یہ ایک اہم سائیکلوجیکل نکتہ ہے کہ انسان کھڑکی میں کھڑے ہو کر سیٹی کیوں بجاتا ہے۔) اس وقت ریٹا میری بہن کی آنکھ کھل جاتی ہے اور چند لمحوں تک اپنی بڑی بڑی سبز آنکھیں کاہلی سے جھپکانے کے بعد وہ دوسری کروٹ لے کر خوابوں کے نقرئی تارکو وہیں سے ملا دیتی ہے جہاں سے کیپٹن صاحب کی سیٹی نے اسے توڑ دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ بجھتے تاروں کی چھاؤں میں جنم لینے والے سپنے ہمیشہ خوش گوار اور سچّے ثابت ہوتے ہیں، رس بھری کی سوتی ہوئی خوشبو کی لپٹوں جیسے۔ ان دھندلے سنہری پانیوں میں اپنی خوابوں کی کشتی کھیتی رہو، ریٹا رانی__ انجانی چٹانوں اور اجنبی ساحلوں سے بچا کے۔

دیکھتے ہو کامریڈ۔ اس بورژوا لڑکی، اس جاگیر دارانہ نظام اور ذہنیت کی فروزاں قندیل کا وجود کتنا فضول اور بے مصرف ہے۔ اُٹھ اور خوب صورت کاہل عورت، تجھے اسکیٹنگ ہاکی ٹورنامنٹ کی شیلڈ حاصل کرنے کے حد سے زیادہ لغو خواب دیکھنے کا کیا حق ہے جب کہ __ جب کہ __ جاگ کہ سرخ سویرا آتا ہے۔ (’’ سرخ سویرا‘‘ اور تمام کمیونسٹ لٹریچر آپ کو قومی کتاب گھر مقابل پلازا سنیما مل سکتا ہے۔) گومتی کے پار نارنجی افق پر صبح کی پہلی کرنیں بکھرنے لگی ہیں اور ریٹا، میری بہن، ہلکی ہلکی سیٹیوں کی آوازوں کے سہارے خواب میں مسوری کی رِنک کی سطح پر شیلڈ کی جانب بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے نئے اوبیرائے کے اسکیٹس ہر سال اسی طرح اسے جیتنے میں مدد دیتے ہیں۔ (ہمیشہ اوبیرائے کے اسکیٹس اور ہاکیاں استعمال کیجیے)۔ اور مسوری کا چمپئن این۔ کے۔ خواجہ، جسے ریٹا نے پچھلے سیزن میں ہرایا تھا، کہتا ہے کہ ایک سخت میچ کے بعد روزیز اسکویش کا ایک گلاس مجھے ہمیشہ بے حد ریفریشنگ ثابت ہوا ہے۔ روزیز اسکویش کے علاوہ اگر آپ ہوٹل برلنگٹن کے نیلگوں کیفے میں تشریف لائیے تو ہم آپ کورس بھری کا بہترین شربت پیش کریں گے۔

اس لیے بھائی ریٹا اب جاگ اٹھو۔ اتنی آہستگی سے رقص نہ کرو، سمجھیں، کیوں کہ زندگی بہت مختصر ہے اور ہم بہت مصروف اور ابھی ہم کو کتنے بے حد ضروری کام کرنے باقی ہیں۔ تمہیں این۔ کے۔ خواجہ کو ہرانا ہے۔ میں ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے ایٹ ہوم میں مانی پور رقص پر انگریزی میں جو تقریر کرنے والی ہوں اس کے لیے کتابوں میں سے خوب صورت جملے چُرانے میں مشغول ہوں ( کیوں کہ ابھی ہندوستان میں فنِ تقریر سکھانے کے کالج قائم نہیں ہوئے) اور کیپٹن عثمان کے سیرینیڈ بے کار جا رہے ہیں۔ اب جاگو رادھا رانی!

کیوں کہ صبح ہو گئی ہے اور سنہری پھولوں کے راستے تمہارے منتظر ہیں۔

صبحِ نو۔ افوہ۔ صبحِ نو!

پھر ایک اور صبح اور ایک شام __ یہ دن اور راتیں __ حماقت کے افسانوں کے کارواں __ بے بس و بے معنیٰ ! آئیے کامریڈ میں آپ کو ایک نئی داستان سناؤں۔ امید ہے آپ کو معلوم ہو گا کہ میں ایک بڑی سحر طراز افسانہ نگار ہوں۔

جی ہاں۔ جی ہاں __ خوب! مس حیدر آپ کی تو نثر میں نظم کی سی حلاوت، روانی اور لچک ہے۔ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنے تازہ ترین قطعات آپ کے گوش گزار کروں جو میرے نئے مجموعے ’’ چھپّر‘‘ میں بھی شامل ہیں۔

عرض کرتا ہوں کہ __ مجھ کو منظور نہیں چاند ستاروں کا سفر!

میرے کھوئے ہوئے __

افوہ __ بہت بہت شکریہ __ واقعی کس قدر خوب صورت نظم ہے آپ کی۔ لیکن اب مجھے باہر جانا ہے۔ اگر آپ کسی اور دن تشریف لائیں تو کیسا رہے۔ خدا حافظ! کامریڈز۔ کھم اے لانگ کیپٹن!

اُف یہ سرمایہ دار!

یہ لڑکیاں !!

یہ لوگ !!!

عثمان، عثمان، سچ مچ میں بہت تھک گئی ہوں۔ سچ مجھے منظور نہیں چاند ستاروں کے سفر، بالکل سچ۔ مجھے منظور نہیں __ میں نے صاف جھوٹ بولا تھا کہ مجھے ان سایہ دار، خاموش، سکون بخش راستوں، اس سوتی ہوئی موسیقی، اس تیسرے درجے کی پٹی ہوئی رومان پر سستی سے شدید نفرت ہے۔

نہ جانے کیا کیا کہتی رہتی ہو۔ بھئی مجھ سے افسانوں والی کے علاوہ جو دوسری اردو ہوتی ہے اس میں بولا کرو۔ سمجھیں ؟ لیکن وہ جانتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتی__ نہیں سمجھنا چاہتی۔

پھر گومتی کے کنارے آموں کے سائے میں رُکی ہوئی پیکارڈ کے فٹ بورڈ پر بیٹھے بیٹھے کیپٹن عثمان دنیا جہاں کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ شبنمی خوابوں کی باتیں، قطعی غیر ضروری اور بالکل بے معنی جن کی کوئی اہمیت نہیں، جنہیں سنجیدگی سے لینے کا ذرا احساس نہیں ہوتا لیکن پھر بھی آموں کے سائے بڑھتے جاتے ہیں، گومتی بہتی رہتی ہے اور یہ باتیں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔

زندگی کے سوال کو اب تک ہم حل نہیں کرسکے ہیں۔

لیکن وہ متجسس اور متلاشی اور حساس آنکھوں اور بوجھل پلکوں والی زرد رو عیسائی لڑکی، جو بھائی میاں کے پاس ریڈیو کی ملازمت کی درخواست لے کر آئی تھی، بہت آسانی اور صفائی سے سوال کو حل کر چکی ہے۔

وہ سوتی ہوئی سی لڑکی، جو اس روز برآمدے میں پہنچ کر بھائی میاں کے سامنے جانے سے قبل ہیٹ ریک کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے کے لیے ایک لمحے کو ٹھٹک گئی تھی، مجھے اندر آرام کرسی پر ’’ لائف‘‘ کے صفحوں میں ڈوبا دیکھ کر جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں : تم رولنگ چیئر پر جھولتی رہو مگر یقین کرو کہ میں تم سے زیادہ عقل رکھتی ہوں۔ حالاں کہ میرے پاس یہی ایک بہترین ساری ہے جسے میں نے انٹرویو کے لیے اتنے دنوں سے سنبھال رکھا ہے۔ اس سے بھائی میاں نے پوچھا تھا آپ کو پہلے بھی کوئی کام کرنے کا تجربہ رہ چکا ہے؟ اور اس کی سایہ دار پلکیں لرز اٹھی تھیں۔ کیسا بھونڈا اور غیر ضروری سوال ہے۔ وہ ہمیشہ سے کچھ نہ کچھ کرتی آئی ہے اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتی رہے گی کیوں کہ اسے زندہ رہ کر زندگی کے سوال کا حل تلاش کرنا ہے اور زندہ رہنا رولنگ چیئر پر جھولنے والوں کے علاوہ دوسرے کے لیے خاصا مصیبت کا کام ہے۔

پھر بھائی میاں نے اس سے پوچھا تھا: آپ کس قسم کی ملازمت زیادہ آسانی اور دل چسپی سے کرسکیں گی۔

ٹیلی فون آپریٹر۔ ڈرامہ آرٹسٹ۔ ری سپ شن اِسٹ Anything, Anything۔ بھائی میاں نے اس کے الفاظ دہراتے ہوئے اس کا نام کاغذ پر بے فکری سے گرا دیا اور چلتے وقت اس نے بھائی میاں پر شکر یہ کا ایک تبسم پھینکا جو کہہ رہا تھا کہ تم نہیں جانتے زندگی کے پِٹ منیز شارٹ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ کا ایک اشتہار میں بھی ہوں جو گھر بیٹھے ایک ہزار ماہوار کمانے کی دعوت دیتا ہے لیکن یہ پیکارڈ کے کشنوں اور اسکیٹنگ رِنگ پر پھسلنے والی نفاست کا حامل نہیں بلکہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر شائقین کو مخاطب کرتے ہوئے ’’ چترا‘‘ اور ’’ بیسویں صدی‘‘ میں شائع ہونے والے اعلانوں کی قسم میں سے ہے جس کو نہایت آسانی اور بے تکلفی سے پڑھ سکتے ہیں اور جو زندگی سے زیادہ قریب اور زیادہ صحیح ہے۔

لیکن ہم اس عیسائی اور سوتی ہوئی سی لڑکی سے شکست ماننے کو تیار نہیں ہو سکتے __ ہم جو چار ہیں __ اور اس سے بہت بلند اور اعلیٰ و ارفع ہیں۔

ہم لوگ جو ستاروں سے پرے رہتے ہیں __ شیشے کے رنگ محلوں میں۔ اور شیشے کا رنگ محل بہت جلد ٹوٹ سکتا ہے۔

مگر ہم چاروں نیچے زمین کی پستیوں میں بسنے والوں پر پتھر پھینکتے رہتے ہیں اور چوئنگ گم کھاتے رہتے ہیں۔

شکنتلا وارشنے، جو ہیڈی لیمار کی طرح آنکھیں نیم وا کر کے فرصت کے لمحوں میں سوچا کرتی ہے کہ جب وہ فلائٹ لیفٹینیٹ روجرز کے ساتھ شادی کر کے زمانہ بعد از جنگ کے بین الاقوامی تعلقات استوار کرتی ہوئی فلاڈیلفیا یا میامی جائے گی تو کس قسم کا بالوں کا اسٹائل بنایا کرے گی۔

اور طلعت، جو کہ کمیونسٹ ہے اور ہندوستان کی قومی مشترکہ زبان کے لیے صبح سے شام تک فکر مند رہتی ہے اور جب سے ہمارے صوبے میں ’’ قومی جنگ‘‘ پر پابندی عائد کی گئی ہے اس کا وزن پورا آدھ پونڈ کم ہو گیا ہے۔ پارٹی کے حکم کے مطابق مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد سے اس نے بے حد مستعدی سے پاکستان کی اقتصادیات اور حکومتِ الٰہیہ پر کتابیں پڑھنی شروع کر دیں۔ روزانہ ہمیں فرسکو اور شملہ کانفرنس کے متعلق ضروری باتوں سے واقف کراتی ہے۔ اس قدر مخلص اور سویٹ بچی ہے۔ خدارا آپ ہی اس سے شادی کر لیجیے۔

اور ریٹا، جو میری ماموں زاد بہن ہے، جس کی آنکھیں شاہِ بلوط کے جنگلوں کے کنارے کسی جھیل کے پانی کی طرح گہری سبز ہیں اور جب وہ سیٹی بجاتی ہے تو کائنات زیر و زبر اور فضائیں تہ و بالا ہو جاتی ہیں اور بربطِ دل کے تار لرز اٹھتے ہیں اور نیلی آنکھوں والے امریکن اپنی چمکیلی ڈاج یا نیش کے بریک دبا کر اسے لفٹ دینے کو رُک جاتے ہیں، اسی طرح جیسے اس کی بلونڈ ماں میری آنٹ ربیکا کے گرم یہودی خون کی کشش سے مجبور ہو کر میرے ماموں میاں نے استفسارانہ سیٹی بجا کے بین الاقوامی نسلی مسائل کی گتھی میں ایک اور چھوٹی سی کبھی نہ کھل سکنے والی گرہ کا اضافہ کر دیا تھا۔ آنٹ ربیکا، جو برلن کے ایک دہکتے مہکتے ہوئے قہوہ خانہ کی ویٹرس تھیں اور میرے ماموں میاں جنہوں نے اعلی طبّی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جرمنی مراجعت فرمائی تھی اور وہاں سے واپس آ کر ہندوستان میں آفتابی اور بنفشی شعاعیں پھیلانے کے بجائے ایک میڈیکل کالج میں محض تھرڈ گریڈ لیکچرر ہو گئے تھے اور جو پروجرمن خیالات رکھنے کے جرم میں اب تک نینی تال میں نظر بند ہیں۔ آنٹ ربیکا عرصہ گزرا اسی میڈیکل کالج کے ایک انگریز پرنسپل کے ساتھ بھاگ چکی ہیں اور ان کی سبز آنکھوں والی بیٹی ریٹا سیٹیاں بجاتی ہے اور تاروں کی چھاؤں میں رس بھری کی ٹھنڈی کونپلوں کے خواب دیکھتی ہے، اپنی ماں جیسے __ اور اس کی ماں نے بھی یوں ہی ہلکی ہلکی سیٹیاں بجائی ہوں گی۔ میرا مطلب ہے کہ یوں ہی ہوتا آیا ہے۔ نظامِ عالم کی تشکیل و تنظیم اسی طرح ہوئی ہے بھئی!

لیکن حماقت دیکھیے کہ فرسکو کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ نسلوں کے اختلاف سے منتج مسائل کے حل کے لیے انٹرنیشنل ہیلتھ بیورو اور لیگ آف نیشنز قائم کی جاتی ہے، لڑائیاں لڑی جاتی ہیں، حالاں کہ اس ساری درد سری کے باوجو ان پر وبلمز کو نہایت آسانی سے اور اطمینان کے ساتھ نہایت نفاست سے انڈیا گیٹ کے آس پاس تاج کے سوٹوں اور و رسوا کی کاٹجوں میں حل کر دیا جاتا ہے۔ غور فرمائیے کہ ان ہی سیٹیوں اور جوابی مسکراہٹوں کے نقرئی اور غیر مرئی تار کے سہارے یہ دنیا رقصاں ہے ورنہ ہم سب کب کے ختم ہو چکے ہوتے۔ کرّے میں حرارت کی نارمل ڈگری برقرار رکھنے کے لیے یہ ساری باتیں بے حد ضروری ہیں۔ اور اس نکتے کو وہ زرد رُو عیسائی لڑکی اور میری بہن ریٹا اور شاہدہ اکرام، جو چند ماہ میں جونیر آفیسر سے ایک دم سینئر کمانڈر ہو گئی، اور میری آنٹ ربیکا سب اچھی طرح سمجھ چکی ہیں۔

چنانچہ یہ ہم لوگ ہیں۔ غور فرمایا آپ نے ؟ اگر غور نہیں فرمایا تو اور بھی اچھا کیا۔

مجھ سے ملیے۔ میں جو اپنی گونا گوں قابلیتوں پر بہت نازاں ہوں۔ بچپن میں کونوینٹ میں تھوڑی سی فرنچ سیکھی تھی۔ اب وہ بالکل یاد نہیں رہی مگر ت کے رومینتک تلفظ کے ساتھ انگریزی کے چند خاص خاص الفاظ اس طرح استعمال کرتی ہوں جیسے مجبوراً انگریزی بولنی پڑ رہی ہے۔ بچپن میں ایک دفعہ والدین کے ہمراہ یورپ گئی تھی شاید دو مہینے کے لیے۔ اب کسی نئے شخص سے تعارف ہوتا ہے تومیں اسے کہتی ہوں مجھے یاد پڑتا ہے شاید میں نے continent میں کہیں آپ کو دیکھا تھا۔ وہ بے چارہ فوراً مرعوب ہو جاتا ہے۔ دیگر اوصافِ حمیدہ یہ ہیں کہ بہترین conversationalist ہوں۔ پہلے جب ٹینس کا بے حد شوق تھا تو آپ پر ثابت کرسکتی تھی کہ ابھی ابھی سمنت مصرا کو ہرا کر چلی آ رہی ہوں۔ اب کچھ عرصے سے افسانہ نگاری شروع کر دی ہے اور اپنے ہر افسانے میں پیکار ڈیا ایک اسٹوڈی بیکر کار کا ذکر کر دینا ضروری خیال کرتی ہوں۔

اور ان چمکیلے دنوں اور سنہری راتوں کا کارواں اس طرح گزر رہا ہے۔ ہم بڑھتے جاتے ہیں اسی منزل کی جانب جو مے فیئر کی نیلی روشنیوں سے کہیں آگے چھپی ہوئی ہے۔ طلعت کی ’’قومی جنگ‘‘ اور دیہاتی گیتوں کے مجموعے، شکنتلا کا تان ہو رہ، ریٹا کی اسکیٹس __ میرے ٹینس ریکٹ۔ ہم سمجھتے ہیں جیسے ان چیزوں نے ہماری گہرائیوں کو پا لیا ہے۔ یہ ہماری شخصیتوں، ہماری طبیعتوں کی نمائندگی اور رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن یہ غلط ہے۔ ہمیں ان چیزوں سے بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی دنیا کی کسی اور معمولی چیز سے ہوسکتی ہے۔ گو ہم اپنی جگہ سے ہٹ کر اپنی ہار ماننے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہئے۔ دنیا کتنی بے انتہا اکتا دینے والی گھسی ہوئی اور گھٹیا جگہ ہے۔

طلعت ’’ ذہن پرست‘‘ ہے (اس اصطلاح سے میں ابھی چند روز ہوئے اشک کے ایک ڈرامے کے ذریعے واقف ہوئی ہوں )۔ یونی ورسٹی میں بھی سب سے انٹلکچوئل اور جانے کیا کیا سمجھتے ہیں لیکن اس وقت میں اس سے کہوں کہ اگر وہ مستقل اس پوز سے اکتا گئی ہو تو دوسرا دل چسپ مشغلہ شروع کر دے تو وہ یقیناً رو پڑنے کے علاوہ اور کچھ نہ کرے گی حالاں کہ وہ کہتی ہے کہ وہ سب کچھ کرسکتی ہے۔

وہ ’’ قومی جنگ‘‘ پر پابندی کے خلاف ایک زوردار احتجاجی مقالہ لکھنے میں محو ہے۔ شکنتلا تان پورے کوٹیون کرنے کی کوشش میں مشغول اور میں اس پر مصر کہ چونکہ میں موسیقی کے میرس کالج میں سکنڈ ایر تک رہ چکی ہوں اس لیے تان پورے کے درست کرنے کا حق قانوناً مجھ تک زیادہ پہنچتا ہے۔ خصوصاً جب کہ بارش میں لالہ کے پودے نکھر رہے ہیں اور کیپٹن عثمان کی سیٹیاں برساتی ہواؤں میں تیر رہی ہیں۔ آسمان پر ایک طویل و وسیع اکتاہٹ طاری ہے۔

روم جھوم بدروابر سے۔ روم جھم!

شکنتلا وارشنے، تان پورے سے سرٹیک کر گو ملہار کا خیال گاتی ہے۔ طلعت، جو سامراج اور فاشیت کے خلاف قہوے کی پیالیوں کے ذریعے لڑ رہی ہے۔ اور ریٹا جس کی آنکھوں کی سبزی میں ہمیشہ سکون اور خاموشی جھلکتی ہے__ محمد شاہ پیاسدا رنگیلے۔ محمد شاہ آہ پیاسدا رنگیلے__ اُن بِن جیرا تر سے__ جیرا ترسنے کا ساون کے مہینے سے کیا خاص تعلق ہے؟

ہیولاک ایلس کا مطالعہ کرو!

اے خدا__ کاش وہ سارے بکھرے ہوئے نغمے ایک مضر اب سے جاگ اٹھیں جو صدیوں سے تان پورے کے تاروں میں سمٹے ہوئے ہیں۔ وہ پرانے تار جو ہندوستان کے رنگیلے پیاؤں کے درباروں میں چھیڑے جاتے تھے۔ وہ رنگیلے پیا جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کو اتنا ضخیم بنا دیا کہ مقابلے کے امتحانوں میں ان کے متعلق جواب لکھ کر پی۔ سی۔ ایس۔ بنا جا سکے۔

دیکھا آپ نے ہم چاروں کو سیاسیات میں بھی دخل ہے۔

مجھے تمہارے میر قاسم اور تمہارے سراج الدولہ اور تمہارے جانِ عالم سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں۔ طلعت بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیا سوچتے ہوئے یک لخت کہہ اٹھتی ہے۔ وہ عوام کی کہاوتوں اور گیتوں پر ریسرچ کر رہی ہے۔

برسو رام دھڑاکے سے۔ بڑھیا مر گئی فاقے سے

کتنا زبردست اور عظیم الشان انکشاف ہے کہ عہدِ زرّیں میں، سامراج اور قحطِ بنگال سے بھی پہلے، بڑھیاں فاقے سے بھی مرا کرتی تھیں۔

فِش __ کیپٹن عثمان__

ایک نقطے پر ہم ہر پھر کے آتے آتے رُک جاتے ہیں۔

جہنم میں جائیں تمہارے کیپٹن عثمان اور جانِ عالم پیا__ سب کے سب۔ اور میری بادام جیسی آنکھوں میں پانی چھلک آتا ہے۔ مجھے اپنی بے کار تاریخ، اپنے مردہ بادشاہوں سے عشق ہے۔ میں انہیں موردِ الزام ٹھہرتے دیکھنا برداشت نہیں کرسکتی۔ اودھ کے وہ پرانے بادشاہ جن کی عطا کی ہوئی جاگیروں کی آمدنی اور معجونیں کھاتے کھاتے میرے سارے بزرگوں نے مسہری پر انتقال کیا۔ وہ بزرگ جن کی خلعتوں والی روغنی تصویریں ڈرائنگ روم کی شان میں اضافہ کرتی ہیں اور پکار پکار کر کہتی ہیں کہ اے آنے والے تم ایک تعلقہ دار کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہے ہو جس کے پردادا کے پاس پینتالیس گاؤں تھے اور جس کے پر پوتے نے فروخت اور ضبطی کے سلسلے کی آخری چوالیسویں کڑی تک پہنچ کر آخری گاؤں کے روپے سے ایک رولس خریدی جس کو village on wheels کہلاتا سن کر وہ اتنا خوش ہوتا تھا جیسے وہ خود جان عالم کا بھتیجا ہے۔ اس جانِ عالم کا بھتیجا جس کا ملک ویلز لے اور ڈلہوزی کی کوچ کے پہیّوں کی رگڑ سے ترش ترشا کے سات سمندر پار کے جگمگاتے تاج کا کوہِ نور بن چکا ہے۔ اور وہ ملک جس پر کبھی غروب نہ ہونے ولے آفتاب کی کرنیں دو سو سال سے مستقل برس رہی ہیں جن کی تمازت سے کھیت اور وادیاں سونا اُگلتی ہیں اور انسان سڑک کے کنارے پٹریوں پر سوتے ہیں اور اکثر وہیں مرتے بھی ہیں۔

اور ’’ مدرانڈیا‘‘ کے گرد پوش پر بنی دیو داسی کے پازیب کی جھنکار گونج اُٹھتی ہے۔

ریٹا چُپ چاپ مے فیئر کے نئے رقص کے متعلق سوچ رہی ہے۔ کیپٹن عثمان کی کوٹھی میں ریڈیو گرام بجتا رہتا ہے۔ ایف۔ کیسا نووا کا آرکسٹرا اور اس کے ساتھ ساتھ پنکج ملک کا گیت__ پران چاہیں __ نینا نہ چاہیں __ پران چاہیں __ کیپٹن عثمان، جنہیں اپنی خوب صورتی اور قابلیت کی وجہ سے مغالطہ ہے کہ سارے جہاں کی لڑکیاں ان پر ایک ساتھ جان دیتی ہیں۔ کیپٹن عثمان آئی۔ اے۔ ایم۔ سی میں ہیں۔ ایک دفعہ ایکٹنگ میجر رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت جلد لفٹننٹ کرنل ہو جائیں گے جو یقیناً بہت بڑی بات ہے کیوں کہ میڈیکل کالج سے نکلے ابھی پورے تین سال بھی نہیں ہوئے۔ ان کے باپ بھی فوج میں تھے اور دادا بھی اور پردادا بھی۔ ان کا راجپوت خاندان جان لارنس کے زمانے سے دولت انگلشیہ کا جاں نثار و وفادار رہا ہے اور پنجاب میں ستلج کے کنارے کنارے ان کے بہت سے چک ہیں جو غالباً انہیں بھی کسی پرچے پر خون سے لکھے ہوئے الفاظ میں ان کے پردادا کی غدر کی فوجی خدمات کے اعتراف کے سلسلے میں ملے تھے۔ (ستلج کے وہ کنارے جہاں الاؤ کے گرد اور بیریوں کے نیچے اور چوپال میں بانسریاں بجتی ہیں اور احمد ندیم قاسمی کے افسانے جنم لیتے ہیں۔) کیپٹن عثمان دلاور سورماؤں کی اسی زر خیز سرزمین کے فرزند ہیں۔ وہ جاپانی شہنشاہیت اور فسطائیت کے خلاف نہایت تن دہی سے سرگرمِ عمل ہیں۔ زخمیوں کو تندرست کر کے دوبارہ محاذ پر بھیجتے ہیں اور اپنی یونٹ کی سرخ ہونٹوں اور نارنجی بالوں والی ویلفیئر ورکرز سے فلرٹ کرتے ہیں۔ ان کا بیٹا بھی اپنی خاندانی بہترین روایات ملحوظ رکھتے ہوئے آئندہ پچیس سال بعد بین الاقوامی سیاست کی لیباریٹری میں تیار شدہ کسی نئی ’اِزم‘ کے خلاف لڑے گا اور فلرٹ کرے گا۔

تو آپ کیپٹن سے ملیں گے؟ مے فیئر تشریف لائیے۔ یہ آپ کے ساتھ بہترین پولکا کریں گے اور رومبا اور فوکس ٹروٹ۔ اگر آپ کو واپس گھر لوٹنے میں خنکی کی وجہ سے زکام ہو گیا ہو تو یہ آپ کو ہسپتال سے دن میں پندرہ مرتبہ فون کر کے یقین دلائیں گے کہ آپ کے زکام کی وجہ سے انہیں فکر کے مارے رات بھر نیند نہیں آئی اور آپ رات بھر چاندنی میں رس بھری کی خوشبوؤں کے خواب دیکھتی رہیں گی۔ پران چاہیں، ممکن ہے اخلاقی جرأت کی کمی کی وجہ سے نینا نہ چاہتے ہوں۔ اسی وجہ سے طلعت پوسٹ وار ورلڈ کے مضامین کے ڈھیر پر چڑھی بیٹھی رہتی ہے۔ یہ بھی بقول شکنتلا ایک بڑا اہم سائیکلوجیکل نکتہ ہے۔

لہٰذا میرے گل فام سب لیوٹ، ہم سارے کے سارے رات کے کہرے میں چھپی ہوئی اس مال پر رواں ہیں۔ ایک دوسرے کی نظروں سے بچتے ہوئے میں اور تم__ اور ریٹا میری بہن اور پیکر ڈ میری کار__ اور ہمارے پیچھے پیچھے ان کہی پہیلیوں اور جانے بوجھے سوالیہ نشانوں کا عظیم الشان کارواں دبے دبے قدموں سے گرتا پڑتا چلا آ رہا ہے۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ مُڑ کر اسے دیکھ سکیں۔ ہم اس سے چھپنے کے لیے مے فیئر کے نیلگوں دھندلکوں میں پناہ لیتے ہیں۔ بال روم کے ٹیریس پر، کھلے آسمان اور چمکیلے ستاروں کے نیچے، اپنی بلندی پر سے جھک کر دیکھیے زندگی کا یہ مارچ پاسٹ۔ تازہ ڈانس نمبر کے یہ اداس نغمے ریٹا  واقعئcome in, young dرنگین برقی قمقموں، جاپانی قندیلوں اور کاغذی ربنوں کے رقصاں و لرزاں سائے تلے آہستہ آہستہ ناچ رہی ہے، پنے تلے تھکے تھکے قدموں سے۔ آج فتحِ برلن کے جشن کی رات ہے۔ ڈانس کے دوسرے نمبر کے لیے اپنے پارٹنر کا انتظار کرتے کرتے ٹیریس کے ریلنگ کے سہارے مجھے مدھم سی نیند آ جاتی ہے۔ یہ ٹھنڈی ریلنگ کتنی پرسکون جائے پناہ ہے۔

ہم لوگ!

بے چارے !!

٭٭٭

 

 

 

رقصِ شرر

 

 

پارٹ وَن- کشتی پر

جیسو مرایا!

ہُم۔ جیسو مرایا !! (بالکل ولایتی ہو)

اوہ۔ ادھر دیکھو۔ چھتر منزل کے نیچے نیچے درختوں کے سائے میں گومتی کا رنگ کتنا گہرا سبز نظر آ رہا ہے۔

تمہاری آنکھوں کا رنگ بھی تو ایسا ہی ہے۔ دھندلا سا سبز اور چھلکتا ہوا جیسا۔

ہوں۔

کیسی __ میرا مطلب ہے کہ __نفیس بات ہے (در اصل مجھے اس سے بہتر اردو بولنی نہیں آتی۔)

بہت نفیس __ (افسوس کہ مجھے بھی نہیں آتی۔)

کیوں کہ ہم دونوں ہندوستان کے ہو کر بھی ہندوستان کے نہیں ہیں۔

نہیں ہیں !

کس قدر بُری بات ہے یہ!

بے انتہا۔

غروبِ آفتاب کی خاموش قرمزی موسیقی کے ساتھ ساتھ کشتی کھیلنا تمہیں پسند آ رہا ہے؟

خاصا۔ (اے میرے گیتوں کے ملاّح!)

اجازت دو کہ عرض کروں کہ کاش شفق کی سرخی پانیوں پر مچلتی رہے۔ شام کی دبیز ہوائیں تمہارے خوب صورت بال اسی طرح پریشان کرتی رہیں اور یہ کشتی ان نا معلوم آبی راستوں پر یوں ہی رواں رہے۔ (ٹیمز کی لہروں پر میں نے ان ہی الفاظ کا بہترین انگریزی ترجمہ کر دیا تھا۔)

میرا خیال نہیں۔

اور جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ ۱۹۴۰ء کے جاڑوں میں مے فیئر بال روم کی اسٹیج پر سفید پھولوں کا تاج پہنے جنوبی اطالیہ کے ساحلوں کا رقص کرتے دیکھا تھا (جہاں تمہارے کالج کا ڈرامہ ’’ ماہی گیر کی لڑکی – پرل‘‘ کھیلا جا رہا تھا) اور پھر پچھلے ہفتے جب تم پھلوں کے ڈبّے سنبھالے کینٹین سے نکل کر اپنی کار کی طرف بڑھ رہی تھیں۔

بے حد طویل عبارتیں زبانی کہہ ڈالتے ہو۔ ذرا مختصر الفاظ میں اپنا مطلب بیان کرو۔

ار __ میں یہ کہہ رہا تھا کہ چھتر منزل کے سائے دریا پر پھیلتے جا رہے ہیں اور میں بے انتہا خوش قسمت ہوں۔ ظاہر ہے__

تمہیں میرا شہر کیسا لگا؟

اچھا ہے __ خصوصاً نیو انڈیا کی بالکونی اور امبیسڈر۔ یہ پرسکون ندی اور وہ دوسرے کنارے پر بندھی ہوئی لمبی ناؤ اور کنارے پر پھونس کا گھر __

جناب! وہ ہمارے ہاں کا بوٹ کلب ہے۔

تمہارے ہاں کا؟

جی یونی ورسٹی کا ہماری۔

اور وہ بے حد شان دار سا پُل ؟

موتی محل بِرج۔

اسی پر سے رومان خوابوں کے گیت گاتا ہوا گزرتا ہے!

معلوم نہیں۔

شپ۔ شپ۔ شپ۔ شپ (پتوار کی آواز) چاروں طرف یہ سائے طویل ہوتے جا رہے ہیں۔ فطرت کے یہ مبہم، بے معنی سے اشارے۔ ایک نظم سنو۔ ہم تین دوست ہیں۔ میں اور میرا سایہ اور زرد چاند__ شنتوفوؔ کی رات میں جب ستاروں کے دیوتا فیوجی کو کا مقدس بربط بجاتے ہیں تو میں چیری کے نیچے بیٹھ کر یاما شٹیاؔ کے چاول کی سرخ شراب پیتا ہوں۔ لیکن چاند اور میرا سایہ شراب نہیں پی سکتے۔ پھر میں شاماکوراؔ کے مندر میں واپس چلا آتا ہوں __ ہم تین دوست ہیں۔ یہ جاپانی نظم تھی۔ چینی نظم سناؤں یا روسی!

اُف، خدا کے لیے چپ رہو۔

___شپ ___ چپ ___ شپ___

کیا سوچ رہی ہو؟

کچھ نہیں۔ ارے یہ کون؟

کہاں __ ؟ آنکھوں کے پپوٹے بھاری، ہونٹوں پہ نشے کی دھاری، یہ کون آیا__ یہ کون آیا؟

بے حد لغو ہو!

لیکن اس طرف اتنی دل چسپی سے کیا دیکھ رہی ہو۔ اس پھونس کے گھر کے نیچے سے کوئی رومال ہلا رہا ہے۔ ہو گا کوئی۔ وہ ہسپانوی نغمہ سنو جو سترھویں صدی کی __

ارے وکٹر__ قطعی وکٹر ہے __ دیو آؤٹ کر رہا ہے بے چارہ اتنی دیر سے۔

کون ہیں یہ بزرگ ؟

وکّی __ وک __ ٹر__ ہیلو __ شی__ شی__ شو۔ اس نے تمہاری آواز نہیں سنی۔ ہُنہ!

وکّی __ آئی سے __ شُو شُو شُو (وہ بھی سیٹی بجا رہا ہے۔ بہترین سیٹی بجاتا ہے۔)

آخر یہ کون صاحب ہیں جن سے آپ اتنی بے تکلف ہیں۔

وکٹر رونلڈ اجیت کمار سنگھ __ لامارٹینر میں میرے ساتھ پڑھتا تھا۔

بہرحال ایک تھرڈ کلاس اینگلو انڈین لڑکے کا تمہیں اس طرح رومال ہلانا میری نظروں میں سخت نا مناسب اور معیوب بات ہے۔

کیا فرمایا آپ نے __ تھرڈ کلاس__ جنابِ والا وہ سر مہارانا سنگھ کا بھتیجا____

فوّہ __

شپ۔ شپ۔ چپ۔ شپ۔

فوّہ__ شوّہ __

لالہ!

فرمائیے۔

میں تم سے صمیم قلب سے معافی چاہتا ہوں۔

اور میں آپ کو اسی صمیم قلب سے معاف کرتی ہوں۔

اچھا تو باتیں کرو۔

گومتی کے پانیوں پر اڑنے والے نیلے پرندے دیکھے ہیں تم نے __ (جنرل قسم کے Topic پر گفتگو کی جائے گی۔)

ہُم __ زوکی جھیل میں دیکھے تھے__ اور سارس__ اس کے علاوہ بطخ بھی نہایت عمدہ اور مفید پرند ہوتا ہے۔

کس قدر زبردست بور ہیں آپ۔

لالہ!

ارشاد!

کبھی تم نے یہ بھی غور کیا (قطع نظر اور باتوں کے) کہ محبت کتنا شیریں، خوب صورت اور پیارا خیال ہے۔

ربِّش۔ (بطخوں سے محبت پر آپ خوب پہنچ گئے۔)

لالہ! ایسے خوب صورت وقت میں ( جب کہ آئینہ آب پر، موجہ شاداب پر، سایہ مہتاب پر، منظرِ شبِ تاب پر__ ہے مری کشتی رواں اور میں ہوں نغمہ بار) اگر تم نے اپنی فلسفیانہ زندگی چھوڑ کر تھوڑی دیر رومان کی باتیں نہ کیں تو یقین جانو ان تمام چیزوں کے ساتھ (جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے) سخت زیادتی ہو گی (لہٰذا محبت کے متعلق اپنی رائے مفصل بیان کرو۔)

رَوٹ۔

ایں۔

ہوّہ۔

(جاپانی زبان میں بولتی ہو) تو یہ افواہ درست تھی کہ آپ انتہا سے زیادہ میٹر آف فیکٹ ہیں۔

قطعی درست ہے۔ تم سے کس نے کہا تھا۔

عارف کہہ رہا تھا بے چارہ، حالاں کہ اس کا خیال تھا کہ یہ اس کی پسند کی منگنی ہے۔

پسند کی منگنی! اس سے زیادہ تو کاروباری اور کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی، جیسے دنیا کی اور بہت سی باتیں ایک خالص پروگرام کے ماتحت چل رہی ہیں : رات کا سونا، صبح کی چائے، دوپہر کو یونی ورسٹی کے لیکچر، شام کو کافی ہاؤس __ اور اس وقت تمہارے ساتھ یہ کشتی رانی!

ایں ! لیکن اس رومان آفریں __

اس سے آگے پہنچ کر سارا رومان کوچ کر جائے گا__

پر اگر تم میرا یقین کرو__

تم جیسوں پر یقین کرنا کس __ گدھے نے بتایا ہے۔

میرا خیال ہے __ تمہیں اپنی زبان کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔

بہرکیف آپ اطمینان رکھیے__ میں دہلی کلاتھ ملز کے کپڑے کے کوپنوں اور پولسن مکھن کے ڈبّے کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ سکتی۔ لیکن آپ اور عارف اور آپ کے سارے قبیلے والے گلنار شفق کی سرخی اور شبنم کے گیت پر زندہ رہنا چاہتے ہیں۔

اور اگراس وقت تمہیں بتاؤں کہ میں تم پر بالکل __ مرتا ہوں تو تم کیا کرو گی؟

میں فوراً یہ کشتی الٹ دوں گی تاکہ ڈوب کر تم زیادہ آسانی سے مرسکو۔

کشتی الٹ دو گی۔ خدا کی قسم __ افوہ غالب نے یا شاید ذوق نے خوب کہا تھا :

احسان نا  خدا کا اٹھائے مری بلا

کشتی خدا پہ چھوڑ دوں، لنگر کو توڑ دوں

اس کے علاوہ جذبیؔ کہتا ہے۔

جب کشتی ثابت و سالم تھی…

ہائے اللہ ! کس قدر برجستہ اور با موقع شعر پڑھتے ہو، واقعی!

تسلیمات۔ تسلیمات۔ عرض کیا ہے کہ __ گیتوں کا طوفان اٹھا ہے اپنی بینا تیز کرو__ یعنی غور کرو کہ ان الفاظ میں طوفان __ ریڈیو آرکیسٹرا اور شاعر کے جذبات کی باہم چپقلش کو کس خوبی سے پیش کیا گیا ہے__ محبت کے فلسفے پر نوٹ لکھتے ہوئے اس دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ __

خدا کے لیے تم چپ بھی ہو گے یا نہیں۔ محبت۔ محبت __!

واللہ۔ خوب ! محبت کا افسانہ اور ان لبوں سے __ خوشاآں زبانے، زہے آں بیانے!

خوشاآں __ رازؔ بھی بھئی بڑے پایہ کا شاعر ہو گا۔ علی گڑھ میں میرا کلاس فیلو تھا__ اور سنو__ کہتا ہے کہ __ ارے تم تو واقعی اس قدر گلنار ہو رہی ہو جیسے__

اتنے بکواسی ہیں آپ خدا کی قسم __ اب میں سچ مچ رونا شروع کر دوں گی۔

اچھا تو پھر آؤ کاروباری باتیں کریں۔ بھائی مارکیٹ میں پچھلے تین گھنٹے میں دکھنی کپاس اور خاندیش کی مونگ پھلی ساڑھے سینتالیس فی صدی کے بھاؤ سے گر گئی__ اور گنیش فلور ملز کے پریفرنس شیئر ز __

پارٹ ٹُو __ کینٹین میں

جیسو مرایا!

ہا__ جیسو مرایا!!

سیلما __ چاندنی رات کا گیت، موسمِ گل کے نغمہ زاروں کی شراب__

اندر آ جاؤ __ میری نیلی آنکھوں والی سینوریتا__ اور آج کی رات کو محض آج کی رات سمجھو۔

سیلما__ تمہیں کون سی شراب پسند ہے۔ اسکوچ__ شیری __ ورموتھ__ کوک ٹیل بناؤں ؟

دونت مائند اے لتل شری۔

اور آپ__ مس__ ار__ مس۔

__ لالہ رُخ __ دونت یولائک ٹو__

نیوتھینکس، کرنل __ آئی ڈونٹ ڈرنک __ اوہ۔

اوہ__

__ فرالین سیلما مارینا پیٹرز برگ__

مس لالہ رُخ__

ڈیلائیڈ ٹو میٹ یو!

یقین جانو ہم بہترین دوست ثابت ہوں گے۔

سیلما مارینا__ کیسا رومانتیک اور جپسیوں جیسا نام ہے۔ (میری ٹوٹی پھوٹی فرینچ کا سارا زور لگا دینے پر بھی تم محض مسکرا رہی ہو۔ یہ بات ٹھیک نہیں )۔

تمہارے کیو ٹیکس کا شیڈ بہت پیارا ہے۔

ناچ کے تہوار کے بعد بھی ہم ملا کریں گے نا۔ تم لکھنؤ ہی میں رہتی ہونا؟ لاپلاز میں __ مجھے تم بہت اچھی لڑکی معلوم ہو رہی ہو۔ حالاں کہ عموماً غیر ملکی مجھے ذرا نہیں بھاتے (کیوں کہ ہم لوگ سخت قوم پرست ہیں )۔ میرا بھائی بھی تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔

تمہارا بھائی؟

ہاں، بہترین لیڈی کِلّر ہے۔ اس کینٹین کا ٹھیکہ اسی کے پاس ہے۔

میں اس سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔

__ سیلما__ آج کی رات__ آج کی رات__ کتنی بے وقوفی کی باتیں ہیں یہ ساری کی ساری__ جب کہ __ جب کہ خاموش ہوا پام کے پتّوں میں سے گذر رہی ہے اور باہر سبز آسمان پر روپہلے ستارے جھلملاتے ہیں۔ اور کل جب میں یہاں سے سیکڑوں میل دور جا چکا ہوں گا یہ پتّے اور یہ ہوائیں یوں ہی گاتی رہیں گی۔

سیلما!

ہوں __

کیا سوچ رہی ہو؟

وہ کون ہے؟

میرا منگیتر__

آفیشیل فیانسے__

یَپ __

اور وہ دوسرا؟

وہ کمال ہے __ انتہائی باتونی آدمی __ اور یہ میں ہوں __ لالہ رُخ اور تم ! __ محض ہنگرین سی بال روم ڈانسر __ اور __ یہ اپریل کی رات ہے __ اور ہم کینٹین کے باہر پائن کے سائے میں سبز بید کی کرسیوں پر بیٹھے بے معنیٰ باتیں کر کے بے حد خوش ہو رہے ہیں۔ اور پہلی مئی کے جشنِ بہاراں کی شام کو تم نیلے ڈینیوب کے سبزہ زاروں کا ناچ دکھلاؤ گی جس کے لیے تم کو ساڑھے تین سو روپے جنگی فنڈ میں سے دیئے جائیں گے__ سیلما__

ہاں !

کیا خیال ہے تمہارا؟

بہت خوب۔

تمہیں میرا منگیتر پسند آیا؟

نہیں۔

اور کمال؟

نہیں۔

میرا بھائی؟

وہ بھی نہیں ___

اوہ۔ پھر تمہارے لیے کیا کیا جائے؟

کچھ نہیں۔ شکریہ !

تمہیں ہندوستان کے لڑکے اچھے نہیں لگتے؟

بہت اچھے لگتے ہیں کیوں کہ بہت ویل ڈریسڈ ہوتے ہیں۔ بڑی عمدہ انگریزی بولتے ہیں۔ بے حد اسٹائل سے پیار کرتے ہیں۔ انتہائی احمق ہوتے ہیں لیکن انتہائی عقل مند نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تمہارے ملک کے لڑکے ایسے نہیں ہوتے۔

نہیں۔

__ فرالین سیلما!

ہاں۔

تمہاری ماں کون تھی؟

اس سلسلے میں میری ماں کا ذکر بھی ضروری ہے۔

نہیں، یوں ہی پوچھ رہی ہوں، از راہِ ہمدردی۔

اچھا، شکریہ __ میری ماں بوڈاپسٹ میں ٹوپیاں بیچتی تھیں __ مر گئی__ اوہ، __ اور باپ؟

اس سے بھی ہمدردی ہے؟ وہ برلن کے ایک لوہے کے کارخانے میں فورمین تھا۔

نازیوں نے مار ڈالا ؟

نہیں __ خود ہی مرگیا__ خودکشی کر کے۔

اوہ۔ ہاؤ بیورلی سیڈ__ برلن واپس جانا چاہتی ہو؟

نہیں۔

کیوں ؟

وہاں کے نائٹ کلب اُجڑ چکے ہیں اور یہاں روز ایک نائٹ کلب قائم ہو رہا ہے۔ تو تمہیں ہمارا ملک پسند ہے گویا!

بہت۔

__ سیلما__

تم نے پولٹ گوڈرڈ اور این شیرؔ یڈن کو دیکھا ہے؟

نہیں __ تم نے دیکھا ہے؟

ہاں __ دہلی کے روشن آرا کلب میں۔ دونوں ہالی ووڈ سے یہاں ہندستانی فوجوں کو محظوظ کرنے کے لیے آئی تھیں۔ (جی چاہتا ہے بیورلی نلکس کو پکڑ کر کھا جاؤں۔)

بیورلی نلکس کو نہیں جانتیں۔ اس نے ہمارے متعلق ایک سخت بے ہودہ کتاب لکھی ہے۔

اچھا__ میں کتابیں نہیں پڑھا کرتی۔

ارے__ پھر کیا کرتی ہو؟

کچھ نہیں۔

اوہ!

سیلما یہ کس کا اتنا سویٹ بچہ ہے۔

میرا۔

تم__ ہا__ را؟

ہاں۔ کوئی اعتراض ؟

یقیناً نہیں۔

(تم ایک زبردست سماجی انقلاب کی قائل ہو۔)

__ بھئی اللہ __ واقعی __ افوہ__

کیا ہو رہا ہے؟

فلسفہ حیات کی تفسیر۔

اہم__ کب سے؟

یہ میں ایک جدید طرز کی نظم لکھ رہی ہوں (ایک سفید فام بال روم ڈانسر سے متاثر ہوکے)۔

فرمائیے۔

یہ__ آسیلما مارینا__ آج کی رات (جسے محض آج کی رات سمجھ )۔

اے اجنبی عورت۔

ٹھیرو۔ اس رفتار سے بہت دیر لگے گی۔ لکھو:

یہ دُنیا ایک کینٹین ہے۔

یا میونسپلٹی کا دفتر۔

اور زندگی

ایک آرمی کنٹریکٹر کے بھاری ٹرک کا گھومتا ہوا پہیّہ

گوالیار پوٹری کا

خوب صورت شکر دان جس کا

چینی کا روغن بہت جلد اتر

جاتا ہے۔

چنانچہ میں چپ کھڑا ہوں زندگی کے موڑ پر

اور آمری جان مرے پاس دریچے کے قریب

یہ ڈرائنگ روم ہے۔

اور یہ پائپ ہے مرا

اے اجنبی عورت

__ ٹھیرو۔ یہ تو تم چُرا رہے ہو صفا۔

چپ چاپ سنتی رہو۔ آگے لکھو۔

ساقی کی اک نگاہ پہ لہرا کے پی گیا۔

رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا۔

ارے میاں گھبرا کے پی گیا۔ اجی ٹھکرا کے پی گیا

یہ راشدؔ کی مشہور غزل ہے۔

یہ راشدؔ کی نہیں جگرؔ کی مشہور غزل ہے

اچھا آپ میری جان پر کرم کیجئے۔

لیکن مجھے آپ سے کچھ عرض کرنا ہے۔

ارشاد!

کیا آپ واقعی عارف سے، اس نا معقول سے، جس کے آگے سارے کافی ہاؤس ڈینڈی پانی بھرتے ہیں، (اور جو بے انتہا سٹائل سے ہکلا کر پائپ پیتے ہوئے خالص ولایتی انگریزی بولتا ہے) شادی کر رہی ہیں ؟

جی (اور کل تک آپ اس کی ترجمانی اور نمائندگی فرما رہے تھے)۔

لیکن__

اچھا کمال صاحب ایک کام کیجئے۔ یہاں سے تشریف لے جایئے فی الحال__

یہ کتنے خوش رنگ پیارے سے پھول ہیں۔ کہاں سے خریدے؟

شکریہ۔ ہمارے ہاں پھول خریدے نہیں جاتے۔ میرے منگیتر نے اپنے باغ سے صبح بھیجے تھے۔ (ہماری دکانوں میں صرف مصنوعی پھول بکتے ہیں )۔

اوہ__ تمہارا منگیتر__ آفیشیل فیانسے آئی مین۔

ہاں __ اس سے ملو۔ دفتر سے آ کر صوفے پر بے حد اکتایا ہوا سا بیٹھا ہے۔ جوائنٹ مجسٹریٹ ہے یا اسی قسم کا کوئی بڑا سا کام کرتا ہے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ پر ایسا رعب ڈالنا چاہتا ہے جیسے مجھ سے شادی کر کے مجھ پر بڑا عظیم الشان احسان کرنے والا ہے۔ سلی گوس۔

ہماری منگنی کی اطلاع گذشتہ مہینے آفیشیل طور پر اخباروں میں چھپ چکی ہے لیکن ہم نے اب تک بہت کم باتیں کی ہیں۔ (موسم اور سنیما کے متعلق۔) ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر بہترین قسم کے منگیتر ثابت ہوئے ہیں۔ کریکٹ اور مثالی۔ وہ ستر میل کی رفتار سے کبھی ڈرائیو نہیں کرتا۔ پن اپ گرلز کی تصویروں سے کوئی دل چسپی نہیں۔ پکچرز کو موویز یا فلیکس کہتے اسے نہیں سنا گیا۔ چار آنہ پوائنٹ سے بھی برج نہیں کھیلتا۔ صبح بہت جلد اٹھ جاتا ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کے حلقے ہرگز نہیں بناتا۔ (اور کمال صاحب جو کچھ اس کے متعلق بیان کرتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔) یَس اور نو کو یپ اور نوپ نہیں کہتا۔

مجھے انتہائی مسرت ہوئی تمہارے منگیتر سے مل کر۔

اور یہ کمال صاحب ہیں۔ آپ چار پانچ لڑکیوں سے بہ یک وقت عشق فرماتے ہیں اور ہر تیسرے منٹ پر شعر پڑھتے ہیں۔

شعر!

ہاں ! ہمارے ہاں کے ڈون جَون شاعروں کے حوالے بہت دیتے ہیں اور اپنا مطلب بعد میں بیان کرتے ہیں۔

تم لپ سٹک کیوں استعمال کرتی ہو؟

تم بھی تو__

لیکن میں محض ایک بال روم ڈانسر ہوں۔ ہمارے ہاں کوئی اعلیٰ خاندان لڑکی میک اپ کا استعمال نہیں کرتی۔

تم نے زندگی کو جمالیاتی احساسات سے علاحدہ کر دیا ہے اور ہم جذبات واحساسات پر مرتے ہیں۔ آرٹ اور خوب صورتی کے پرستار ہیں۔ (تم نے لکھنؤ آرٹ اسکول کی نمائش دیکھی ہو گی۔)

یقینا۔ یہی وجہ ہے کہ تمہارے کافی ہاؤس آرٹ اور خوب صورتی کے پرستاروں سے پُر ہوتے ہیں۔

اوہ سیلما، نہ جانے تمہارے کیسے خیالات ہیں۔ تمہارے علاوہ کوئی اور غیر ملکی، خصوصاً یہ امریکن، جب ہم سے ملتے ہیں ایک ایک چیز کی تعریف میں بس مرے جاتے ہیں ہماری رنگ برنگی ساڑیاں، ہمارے سیاہ لمبے لمبے بالوں میں سجے ہوئے کنول اور یاسمین کے پھول، ہمارے منی پوری رقص۔ وہ کہتے ہیں کہ چغتائی کے نقوش اور ابھاروں میں جان پڑ گئی ہے۔ (اس اتوار کو ایسٹ اینڈ ویسٹ فریٹرینٹی کی میٹنگ میں چلنا۔ تمہارے خیالات ٹھیک ہو جائیں گے۔)

اور یہ میرا بھائی ہے۔ فوج میں تھا لیکن جب ہمارے یہاں ٹھیکوں کا کام حد سے زیادہ بڑھ گیا تو وہ کسی ترکیب سے ملازمت چھوڑ کر گھر آ گیا۔ بڑی بڑی تجارتی اور قومی فائدے کی اسکیمیں ہیں اس کے دماغ میں۔ علی گڑھ میں میڈیکل کالج قائم ہو جانے پر وہاں ایک کافی ہاؤس کھولے گا (تاکہ ملّت کے فرزندوں کو اسٹیشن جانے سے نجات ملے) اور پھر اعلیٰ کاروباری تجربہ حاصل کرنے کے واسطے امریکہ جائے گا۔

پارٹ تھری__ فائنل

اپنے نیلے پردوں والے دریچے میں سے صرف ایک بار اور جھانک لو__ آخری بار__ پھر جب تمہیں نیند آ جائے گی اس وقت ساحل بہت پیچھے رہ چکا ہو گا۔ اس گیت کی لہریں تمہیں فراموش کر دیں گی جن کے سہارے بہار کا چاند آسمان کا چکّر لگاتا ہے۔ آہستہ آہستہ قدم رکھو۔ سمندر کی موجیں ریت پر اپنے نشان چھوڑتی ہوئی گزر رہی ہیں __ بہت دور تمہاری خوابوں کی کشتی سمندر کی ایک اجنبی کرخت چٹان سے ٹکرا کر ڈوب چکی ہے اس کے ٹوٹنے کی آواز، لہروں کا غمگین نغمہ، اب بھی تمہیں سنائی دے رہا ہے۔ دھوئیں کے ان نیلے بادلوں کے پرے سے کوئی تمہیں پکار رہا ہے۔ آخری بار انہیں جواب دے دو۔ پھر وہ آوازیں واپس چلی جائیں گی۔ اپنا دریچہ بند کرنے سے پہلے سوچو، وہ لمحے، وہ گیت جو تم انہیں نہ دے سکیں۔ وہ بہت آگے نکل چکیں۔ ان کا پیچھا کرنے کی تم میں ہمت نہیں۔ اس شکست کا خیال کرو جو ایک شاہین کو ایک اونچی چٹان پر سے گرتے ہوئے محسوس ہوسکتی ہے۔ وہ راہیں کہاں کھو گئیں جن کے سبز کناروں پر مسرتوں کے جوان اور خوب صورت چرواہے اپنی رنگین بانسریاں بجایا کرتے تھے اور جہاں پہاڑیوں کے پرے سے رو پہلی تلواروں کی جھنکاریں سنائی دیتی تھیں۔ اپنی آنکھیں، بند کر لو۔ اپنی پگڈنڈیوں پر سے اترتے ہوئے ہم نے چٹانوں کے اونچے ایوان سجائے تھے۔ ہم ان چٹانوں پر کھڑے تھے لیکن ہمارے پرچم مخالف طوفانی ہواؤں کا مقابلہ نہ کرسکے اور آج جب کہ تم زرد بالوں اور نیلی آنکھوں والے سیگفریڈ سے بہت دور ہو جو تمہارے دریچے کے نیچے آتا ہے وہ سیگفریڈ ہوتا ہے۔ سیلما، سیلما__

__ فوّہ__ ہل__ وہ سستی سی دوغلی چھو کری جو ہماری کینٹین کے ہندوستانی کنٹریکٹر کو پرنس کے اسٹال پر چو کو بارز بیچتی ہوئی مل گئی تھی۔

ہنری ! مجھے پچاس روپے چاہئیں۔

اہم __ نہیں دے سکتا۔

ایک ہفتے سے مانگ رہی ہوں۔

میرے پاس نہیں ہیں۔ اپنے کالے ہندوستانی دوستوں سے لو۔

تم بے حد سور ہو۔

اور تم شیطان کی سگی بیٹی__ فائی فائی__ فو__ (جنگ ختم ہو گئی۔ ہم فاتح ہیں۔)

__ فائی __ فو__ جنگ ختم ہو گئی __ خدایا تیرا شکر۔ آج شام کو ہم چراغاں دیکھنے حضرت گنج چلیں گے۔ اور پھر امبیسڈر۔

کتنے خوش ہیں ہم آج۔ اور سیلما تم چرچ کے لیے اب تک تیار نہیں ہوئیں۔ چھاؤنی کی طویل اور چمکیلی سڑکوں پر پولس کی گارو خاموشی سے ٹہل رہی ہے کیوں کہ گورنر شکرانے کی سروس کے لیے سینٹ پال جانے والا ہے اور مہاراجہ جہانگیر آباد کی لمبی سیاہ کارکسی انتظام کے سلسلے میں ان سڑکوں پر سے بار بار تیزی سے گزر رہی ہے اور ان کی کوٹھی کے پھاٹک میں سے نکلی کر کلکتہ لا مارٹیز کے سیاہ پوش لڑکے قطار در قطارسیٹیاں بجاتے چرچ جا رہے ہیں۔ لفٹ رائٹ۔ لفٹ__ رائٹ__ او خدا۔ ہماری آزمائش کا صبر آزما زمانہ نصرت کے ترانے گاتا ہوا آج آخر ختم ہو گیا۔ ظلم اور تشدد کی اندھیری طاقتوں کے طوفان کے مقابلے میں ہم اور ہمارے ساتھیوں نے کتنی عظیم الشان قربانیاں پیش کیں، مصائب کا کیسی بہادری اور مسکراہٹ کے ساتھ سامنا کیا__اور کیا مضائقہ تھا جو ہندوستان کے ایک پست سے طبقے کے چند لاکھ نفوس (جو صدیوں سے چاول کھا کھا کر زمین پر رینگتے آتے تھے اور جنہیں ٹنڈ فروٹ کھانے کی تمیز نہیں تھی)سڑکوں پر لیٹ لیٹ کر مر گئے یا جنہوں نے دہلی کلاتھ ملز کے دروازوں پر بلوے کر کے غیر ملکیوں کو کتابیں لکھنے اور کمیونسٹوں کے گوناگوں تفکرات میں اضافہ کرنے کا موقع بہم پہنچایا۔ یہ ہماری طرف سے آزادی اور جمہوریت کی قربان گاہ پر ایک معمولی سی پیش کش تھی جسے اکابرِ ثلاثہ نے زراہِ لطف و کرم قبول فرمایا۔ ہم اپنی کوششوں میں اپنے ساتھی ملکوں سے پیچھے نہیں رہے۔ (دیکھو ریڈیو اسٹیشن، کونسل چیمبر، گنج کی اونچی اونچی عمارتوں اور ہماری موٹروں پر ہماری اتحادی قوموں کے پرچم کس خوب صورتی سے لہرا رہے ہیں۔) یونین جیک اپنی کار لگانے کے لیے تم بھی خرید لو۔ صرف ساڑھے چار آنے کا ہے۔) ہنہ __ تم__ تم جو ہمیں چین اور روس کی عورتوں کے کارنامے سناتے ہو۔ چین اور روس__ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہفتوں __ دن__ دن اور رات __ رات رات بھر ریڈکراس پارٹیوں کے ساتھ بعض مرتبہ صرف ٹن کے پھلوں اور کریم کریکرز پر گزارہ کر کے ہم نے محاذپر بھیجنے کے لیے اونی چیزیں، مٹھائیاں اور تحفوں کی پارسلیں تیار کیں۔ اے۔ آر۔ پی۔ کی ریہرسلوں کے بعد گورنمنٹ ہاؤس کی پارٹیوں کا انتظام کیا۔ ہفتے میں صرف ایک بار سنیما دیکھا اور باقی کے روپے سے رسالے اور کتابیں خرید کر ہسپتالوں میں بھیجیں۔ اس کے علاوہ بنگال ریلیف کے لیے ٹیگور اور شا کے ڈرامے اسٹیج کیے۔ ہوسٹل میں شان دار مشاعرے منعقد کروائے۔ ہم نے دنیا کو جمہوریت کے لیے محفوظ بنایا ہے۔ ہم ایک نئے دور کے پیغامبر ہیں۔ یہ امن اور صلح کی خوش گوار دنیا ہے۔ ایٹم بم کی نئی دنیا (جس میں پاکستان کے خواب دیکھنا انتہائی حماقت ہے)۔ زندہ باد اخوتِ انسانی۔ پائندہ باد عالمگیر جمہوریت__

فائی __ فو__ جنگ ختم ہو گئی __ میں بے ہوش ہوئی جا رہی ہوں __ -Horror__ horror جنگ ختم ہو گئی__ اس نے کہا۔ اور تم فاتح ہو__ یہ تمہارے جشنِ فتح کی رات ہے اور تم انگریز ہو اور میں جرمن__ تم میرے پاس رقص کے لیے آؤ گے۔ میں تمہیں پیار کروں گی__ تم مجھے چوئنگ گم دو گے اور پھر میں تمہیں __ جانتے ہو__ میں تمہیں شوٹ کر دوں گی__ بڑی آسان بات ہے۔ میں تمہیں اس ریوالور کے ذریعے ( جو اصل جرمن ساخت کا ہے اور جسے سیگفریڈ نے ہٹلر یوتھ میں شامل ہو کر اپنے قصبے سے رخصت ہونے والی صبح شراب خانے کے مالک سے خریدا تھا) شوٹ کر دوں گی۔ پھر تم مر جاؤ گے۔ ایک کے بعد ایک۔ اسکاس کی بوتلیں لُنڈھاتے ہوئے __ کینٹین میں کھلبلی مچ جائے گی۔ ملٹری پولس کی لاریاں اور ایمبولینس کاریں چاروں طرف دوڑنے لگیں گی۔ تمہارا آفیسر کمانڈنگ اس ہندوستانی آئی۔ سی۔ ایس کو جو اس کیمپ کا انچارج ہے، اور وہ ہندوستان آئی۔ سی۔ ایس۔ اپنی منگیتر اس لڑکی کو یہ دہشت ناک خبر سنائے گا اور پھر وہ بے ہوش ہو جائے گی۔ سب بے ہوش ہو جائیں گے۔ او خدا__ کس قدر لذیذ، مسرت بخش خیال ہے۔ پھر اس نے سچ مچ تین گوروں پر ریوالور سے حملہ کر دیا۔ اُف کمال__ کمال!

ایں __ جان سے مار ڈالا۔ اور تم واقعی بے ہوش ہوئی جا رہی ہو__ (کس قدر دل کش انداز ہے__ کاش میں شاعر ہوتا۔ علاوہ ازیں تم اس وقت قطعی اُن بے انتہا ترقی پسند افسانہ نگار خاتون کی طرح ایکٹ کر رہی ہو جنہیں پچھلے دنوں ریڈیو اسٹیشن پر سیاہ رومینٹک برقعے میں ملفوف ایک ڈرامے میں حصہ لیتے ہوئے مائیکروفون پر براڈ کاسٹ کے دوران میں ایک مرد آرٹسٹ کی زبانی خود کو لفظ ’’ پیاری‘‘ سے مخاطب ہوتے سن کر فی الفور غش آ گیا تھا۔) یقین کرو تمہاری دوست کی اس سنسنی خیز حرکت سے میرے قلب کو انتہائی صدمہ پہنچا۔ (لیکن مشیتِ ایزدی میں کیا چارہ ہے؟)

(کتنا لمبا جملہ تھا۔ اس کے ختم ہونے کا انتظار کرتی رہی)۔ shocking اور پھر جب عارف معائنے کے لیے موقعہ واردات پر پہنچا تو شیطان کا چھوٹا بھائی وہ کم بخت بچہ اسے دیکھتے ہی پپّا پپّا کہتے ہوئے چلّا چلّا کر دیر تک روتا رہا۔ اُف (فائی فو)

ایں __ (فائی فو!) لالہ __ تمہاری دھندلی سی سبز چھلکتی ہوئی آنکھیں آنسو گرانے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔

وہ بچّہ __ اور __ عارف__ !

یہ بھی زندگی کے کاروبار کی ایک شاخ ہے (یعنی برانچ آفس)۔ رومان اور سچائی __ اور یہ تمام خرافات زندگی کے خالص تجارتی پروگرام میں قطعی نہیں سما سکتیں۔ (لہٰذا لالہ رُخ پیاری) اس شاکنگ واقعہ کو بھول کر گومتی کے پُرسکون پانیوں پر چلو جہاں میں تمہیں وہ جاپانی نظم سناؤں گا جو شنتو فو کی رات میں یاما شیٹا کے سائے تلے فیوجی کو مارو کے ساز پر گائی جاتی ہے۔

ہم تین دوست ہیں۔ میں اور میرا سایہ اور زرد چاند (فائی فو) شپ __ فائی فو__ فائی فو۔

٭٭٭

 

 

 

پت جھڑ کی آواز

 

 

صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پر جھگڑ رہی تھی۔ اوپر باورچی خانے میں دال چاول ابالنے کے لیے چڑھا دیئے تھے۔ ملازم سودا لینے کے لیے بازار جا چکا تھا۔ غسل خانے میں وقار صاحب چینی کی چمچی کے اوپر لگے ہوئے مدھم آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہوئے گنگنا رہے تھے اور شیو کرتے جاتے تھے۔ میں سبزی والے سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے میں مصروف تھی کہ رات کے کھانے کے لیے کیا کیا تیار کیا جائے۔ اتنے میں سامنے ایک کار آن کر رکی۔ ایک لڑکی نے کھڑکی سے جھانکا اور پھر دروازہ کھول کر باہر اتر آئی۔ میں پیسے گن رہی تھی۔ اس لیے میں نے اُسے نہ دیکھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی۔ اب میں نے سر اٹھا کر اس پر نظر ڈالی۔

’’ارے___ تم___!‘‘ اس نے ہکا بکا ہو کر کہا اور وہیں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے وہ مدتوں سے مجھے مردہ تصور کر چکی ہے، اور اب میرا بھوت اس کے سامنے کھڑا ہے۔

اس کی آنکھوں میں ایک لحظے کے لیے جو دہشت میں نے دیکھی اس کی یاد نے مجھے باولا کر دیا ہے۔ میں تو سوچ سوچ کے دیوانی ہو جاؤں گی۔

یہ لڑکی (اس کا نام ذہن میں محفوظ نہیں، اور اس وقت میں نے جھینپ کے مارے اس سے پوچھا بھی نہیں، ورنہ وہ کتنا برا مانتی) میرے ساتھ دلی کے کوئین میری میں پڑھتی تھی۔ یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت کوئی سترہ سال کی رہی ہوں گی۔ مگر میری صحت اتنی اچھی تھی کہ اپنی عمر سے کہیں بڑی معلوم ہوتی تھی، اور میری خوب صورتی کی دھوم مچنی شروع ہو چکی تھی۔ دلّی میں قاعدہ تھا کہ لڑکے والیاں اسکول اسکول گھوم کے لڑکیاں پسند کرتی پھرتی تھیں، اور جو لڑکی پسند آتی تھی اس کے گھر ’’رقعہ‘‘ بھجوا دیا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی ماں، خالہ وغیرہ نے مجھے پسند کر لیا ہے (اسکول ڈے کے جلسے کے روز دیکھ کر) اور اب وہ مجھے بہو بنانے پر تلی بیٹھی ہیں۔ یہ لوگ نور جہاں روڈ پر رہتے تھے اور لڑکا حال ہی میں ریزرو بنک آف انڈیا میں دو ڈیڑھ سو روپے ماہوار کا نوکر ہوا تھا۔ چنانچہ ’’رقعہ‘‘ میرے گھر بھجوایا گیا۔ مگر میری اماں جان میرے لیے بڑے اونچے خواب دیکھ رہی تھیں۔ میرے والدین دلّی سے باہر میرٹھ میں رہتے تھے اور ابھی میرے بیاہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا لہٰذا وہ پیغام فی الفور نا منظور کر دیا گیا۔

اس کے بعد اس لڑکی نے کچھ عرصے میرے ساتھ کالج میں بھی پڑھا۔ پھر اس کی شادی ہو گئی اور وہ کالج چھوڑ کر چلی گئی۔ آج اتنے عرصے بعد لاہور کی مال روڈ کے پچھواڑے اس گلی میں میری اس سے مڈبھیڑ ہوئی۔ میں نے اس سے کہا___ اوپر آؤ___ چائے وائے پیو۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ لیکن اس نے کہا میں جلدی میں کسی سسرالی رشتے دار کا مکان تلاش کرتی ہوئی اس گلی میں آنکلی تھی۔ انشاء اللہ پھر کبھی ضرور آؤں گی۔ اس کے بعد وہیں کھڑے کھڑے اس نے جلدی جلدی نام بنام ساری پرانی دوستوں کے قصے سنائے۔ کون کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔ سلیمہؔ بریگیڈیر فلاں کی بیوی ہے۔ چار بچے ہیں۔ فرخندہؔ کا میاں فارن سروس میں ہے۔ اس کی بڑی لڑکی لندن میں پڑھ رہی ہے۔ ریحانہؔ فلاں کالج میں پرنسپل ہے۔ سعدیہؔ امریکہ سے ڈھیروں ڈگریاں لے آئی ہے اور کراچی میں کسی اونچی ملازمت پر براجمان ہے۔ کالج کی ہندو ساتھیوں کے حالات سے بھی وہ باخبر تھی۔ پربھاؔ کا میاں انڈین نیوی میں کموڈور ہے۔ وہ بمبئی میں رہتی ہے۔ سرلاؔ آل انڈیا ریڈیو میں اسٹیشن ڈائرکٹر ہے اور جنوبی ہند میں کہیں تعینات ہے۔ لوتیکاؔ بڑی مشہور آرٹسٹ بن چکی ہے اور نئی دلی میں اس کا اسٹوڈیو ہے، وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ سب باتیں کر رہی تھی مگر اس کی آنکھوں کی اس دہشت کو میں نہ بھول سکی۔

اس نے کہا___ ’’میں سعدیہؔ، ریحانہؔ وغیرہ جب بھی کراچی میں اکٹھے ہوتے ہیں تمہیں برابر یاد کرتے ہیں۔‘‘

’’واقعی___؟‘‘ میں نے کھوکھلی ہنسی ہنس کر پوچھا۔ معلوم تھا مجھے کن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہو گا۔ پچھلی پائیاں، ارے کیا یہ لوگ میری سہیلیاں تھیں ؟ عورتیں دراصل ایک دوسرے کے حق میں چڑیلیں ہوتی ہیں۔ کٹنیاں، حرافائیں، اس نے مجھ سے یہ بھی نہیں دریافت کیا کہ میں یہاں نیم تاریک سنسان گلی میں اس کھنڈر ایسے مکان کے شکستہ زینے پر کیا کر رہی ہوں۔ اسے معلوم تھا۔

عورتوں کی انٹلی جنس سروس اتنی زبردست ہوتی ہے کہ انٹر پول بھی اس کے آگے پانی بھرے، اور پھر میرا قصہ توالم نشرح ہے۔ میری حیثیت کوئی قابل ذکر نہیں گمنام ہستی ہوں۔ اس لیے کسی کو میری پروا نہیں۔ خود مجھے بھی اپنی پروا نہیں۔

میں تنویر فاطمہ ہوں۔ میرے ابا میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ معمولی حیثیت کے زمین دار تھے۔ ہمارے یہاں بڑا سخت پردہ کیا جاتا تھا۔ خود میرا میرے چچا زاد، پھوپھی زاد بھائیوں سے پردہ تھا۔ میں بے انتہا لاڈوں کی پلی چہیتی لڑکی تھی۔ جب میں نے اسکول میں بہت سے وظیفے حاصل کر لیے تو میٹرک کرنے کے لیے خاص طور پر میرا داخلہ کوئین میری اسکول میں کرایا گیا۔ انٹر کے لیے میں علی گڑھ بھیج دی گئی۔ علی گڑھ گرلز کالج کا زمانہ میری زندگی کا بہترین دور تھا کیسا خواب آگیں دور تھا۔ میں جذبات پرست نہیں لیکن اب بھی جب کالج کا صحن، روشیں، گھاس کے اونچے پودے، درختوں پر جھکی بارش، نمائش کے میدان میں گھومتے ہوئے کالے برقعوں کے پرے، ہوسٹل کے پتلے پتلے برآمدوں چھوٹے چھوٹے کمروں کی وہ شدید گھریلو فضائیں یاد آتی ہیں تو جی ڈوب سا جاتا ہے۔ ایم۔ ایس۔ سی کے لیے میں پھر دلی آ گئی۔ یہاں کالج میں میرے ساتھ یہی سب لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ ریحانہؔ، سعدیہؔ، پر بھاؔ، فلانی ڈھماکی، مجھے لڑکیاں کبھی پسند نہ آئیں۔ مجھے دنیا میں زیادہ تر لوگ پسند نہیں آئے۔ بیش تر لوگ محض تضیع اوقات ہیں۔ میں بہت مغرور تھی۔ حسن ایسی چیز ہے کہ انسان کا دماغ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر میں تو بقول شخصے لاکھوں میں ایک تھی۔ شیشے کا ایسا جھلکتا ہوا رنگ سرخی مائل سنہرے بال۔ بے حد شان دار ڈیل ڈول بنارسی ساری پہن لوں تو بالکل کہیں کی مہارانی معلوم ہوتی تھی۔

یہ جنگ کا زمانہ تھا، یا شاید جنگ اسی سال ختم ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ بہرحال دلی پر بہار آئی ہوئی تھی___ کروڑ پتی کاروباریوں اور حکومت ہند کے اعلیٰ افسروں کی لڑکیاں ___ ہندو، سکھ، مسلمان___ لمبی لمبی موٹروں میں اڑی اڑی پھرتیں نت نئی پارٹیاں، جلسے، ہنگامے، آج اندر پرستھ کالج میں ڈراما ہے، کل میرا نڈا ہاؤس میں، پرسوں لیڈی ارون کالج میں کونسرٹ ہے۔ لیڈی ہارڈنگ اور سینٹ اسٹیفن کالج___ چیمسفرڈ کلب، روشن آرا، امپریل جم خانہ، غرض کہ ہر طرف الف لیلہ کے باب بکھرے پڑے تھے۔ ہر جگہ نوجوان فوجی افسروں اور سول سروس کے بن بیاہے عہدے داروں کے پرے ڈولتے نظر آتے۔ ایک ہنگامہ تھا۔

پربھاؔ اور سرلاؔ کے ہم راہ ایک روز میں دلجیت کور کے یہاں جو ایک کروڑ پتی کنٹریکٹر کی لڑکی تھی کنگ ایڈورڈ روڈ کی ایک شان دار کوٹھی میں گارڈن پارٹی کے لیے مدعو تھی۔

یہاں میری ملاقات میجر خوش وقت سنگھ سے ہوئی۔ یہ جھانسی کی طرف کا چوہان راجپوت تھا۔ لمبا تڑنگا کالا بھجنگ، لانبی لانبی اوپر کو مڑی ہوئی نوکیلی مونچھیں، بے حد چمکیلے اور خوب صورت دانت، ہنستا تو بہت اچھا لگتا۔ غالبؔ کا پرستار تھا، بات بات پر شعر پڑھتا، قہقہے لگاتا اور جھک جھک کر بے حد اخلاق سے سب سے باتیں کرتا۔ اس نے ہم کو دو سرے روز سنیما چلنے کی دعوت دی۔ سرلاؔ، پربھاؔ، وغیرہ ایک بد دماغ لڑکیاں تھیں اور خاصی قدامت پسند، وہ لڑکوں کے ساتھ باہر گھومنے بالکل نہیں جاتی تھیں۔ خوش وقت سنگھ، دلجیت کے بھائی کا دوست تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیا جواب دوں کہ اتنے میں سرلاؔ نے چپکے سے کہا___ ’’خوش وقت سنگھ کے ساتھ ہرگز سنیما مت جانا___ سخت لوفر لڑکا ہے‘‘___ میں چپ ہو گئی۔

اس زمانے میں نئی دلی کی دو ایک آوارہ لڑکیوں کے قصے بہت مشہور ہو رہے تھے اور میں سوچ سوچ کر ڈرا کرتی تھی۔ شریف گھرانوں کی لڑکیاں اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کس طرح لوگوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں۔ ہوسٹل میں ہم اکثر اس قسم کی لڑکیوں کے لیے قیاس آرائیاں کیا کرتے یہ بڑی عجیب اور پر اسرار ہستیاں معلوم ہوتیں۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ بھی ہماری طرح ہی کی لڑکیاں تھیں۔ ساڑیوں اور شلواروں میں ملبوس۔ طرح دار، خوب صورت پڑھی لکھی___!

’’لوگ بدنام کر دیتے ہیں جی___‘‘ سعدیہؔ دماغ پر بہت زور ڈال کر کہتی___ ’’اب ایسا بھی کیا ہے۔‘‘

’’دراصل ہماری سوسائٹی اس قابل ہی نہیں ہوئی کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ہضم کرسکے___‘‘ سرلا کہتی۔

’’ہوتا یہ ہے کہ لڑکیاں احساس توازن کھو بیٹھتی ہیں۔‘‘ ریحانہؔ رائے دیتی۔

بہرحال کسی طرح یقین نہ آتا کہ یہ ہماری جیسی، ہمارے ساتھ کی چند لڑکیاں ایسی ایسی خوف ناک حرکتیں کس طرح کرتی ہیں۔

دوسری شام میں لیبارٹری کی طرف جا رہی تھی کہ نکلسن میموریل کے قریب ایک قرمزی رنگ کی لمبی سی کار آہستہ سے رک گئی۔ اس میں سے خوش وقت سنگھ نے جھانکا اور اندھیرے میں اس کے خوب صورت دانت جھلملائے۔

’’اجی حضرت! یوں کہیے کہ آپ اپنا اپوائیٹمنٹ بھول گئیں !‘‘

’’جی___!‘‘ میں نے ہڑ بڑا کر کہا۔

’’حضور والا___ چلیے میرے ساتھ فوراً۔ یہ شام کا وقت لیبارٹری میں گھس کر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ اتنا پڑھ کر کیا کیجئے گا___؟‘‘

میں نے بالکل غیر ارادی طور پر چاروں طرف دیکھا اور کار میں دبک کر بیٹھ گئی۔

ہم نے کناٹ پلیس جا کر ایک انگریزی فلم دیکھی۔

اس کے اگلے روز بھی۔

اس کے بعد ایک ہفتے تک میں نے خوب خوب سیریں اس کے ساتھ کیں۔ وہ میڈنز میں ٹھہرا ہوا تھا۔

اس ہفتے کے آخر تک میں میجر خوش وقت سنگھ کی مسٹریس بن چکی تھی۔

میں لٹریری نہیں ہوں، میں نے چینی، جاپانی، روسی، انگریزی یا اردو شاعری کا مطالعہ نہیں کیا۔ ادب پڑھنا میرے نزدیک وقت ضائع کرنا ہے___ پندرہ برس کی عمر سے سائنس میرا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ مابعد الطبیعاتی تصوارت کیا ہوتے ہیں۔ Mystic کشش کے کیا معنی ہیں۔ شاعری اور فلسفے کے لیے نہ میرے پاس فرصت جب تھی نہ اب ہے۔ میں بڑے بڑے مبہم، غیر واضح اور پر اسرار الفاظ بھی استعمال نہیں کرسکتی۔

بہرحال پندرہ روز کے اندر اندر یہ واقعہ بھی کم و بیش کالج میں سب کو معلوم ہو چکا تھا۔ لیکن مجھ میں اپنے اندر ہمیشہ سے بڑی عجیب سی خود اعتمادی تھی میں نے اب پروا نہیں کی۔ پہلے بھی میں لوگوں سے بول چال بہت کم رکھتی تھی۔ سرلاؔ وغیرہ کا گروہ اب مجھے ایسی نظروں سے دیکھتا گویا میں مریخ سے اتر کر آئی ہوں یا میرے سر پر سینگ ہیں۔ ڈائننگ ہال میں میرے باہر جانے کے بعد گھنٹوں میرے قصے دہرائے جاتے۔ اپنی انٹلی جنس سروس کے ذریعے میرے اور خوش وقت سنگھ کے بارے میں ان کو پل پل کی خبر رہتی۔ ہم لوگ شام کو کہاں گئے___ رات نئی دلی کے کون سے بال روم میں ناچے (خوش وقت معرکے کا ڈانسر تھا۔ اس نے مجھے ناچنا بھی سکھا دیا تھا) خوش وقت نے مجھے کیا کیا تحائف کون کون سی دکانوں سے خرید کر دیئے۔

خوش وقت سنگھ مجھے مارتا بہت تھا اور مجھ سے اتنی محبت کرتا تھا جو آج تک دنیا میں کسی مرد نے کسی عورت سے نہ کی ہو گی۔

کئی مہینے گزر گئے۔ میرے ایم۔ ایس۔ سی پریویس کے امتحان سر پر آ گئے اور میں پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ امتحانات کے بعد اس نے کہا___ ’’جان من___ دل ربا! چلو کسی خاموش سے پہاڑ پر چلیں ___ سولن، ڈلہوزی، لینسڈاؤن___ میں چند روز کے لیے میرٹھ گئی اور ابا سے یہ کہہ کر (اماں جان کا جب میں تھرڈ ایر میں تھی تو انتقال ہو گیا تھا) دلی واپس آ گئی کہ فائنل ایر کے لیے بے حد پڑھائی کرنی ہے، شمالی ہند کے پہاڑی مقامات پر بہت سے شناساؤں کے ملنے کا امکان تھا اس لیے ہم دور جنوب میں اوٹی چلے گئے وہاں مہینہ بھر رہے۔ خوش وقت کی چھٹی ختم ہو گئی تو دلی واپس آ کر تیمار پور کے ایک بنگلے میں ٹک گئے۔

کالج کھلنے سے ایک ہفتہ قبل خوش وقت کی اور میری بڑی زبردست لڑائی ہوئی۔ اس نے مجھے خوب مارا۔ اتنا مارا کہ میرا سارا چہرہ لہو لہان ہو گیا، اور میری بانہوں میں اور پنڈلیوں پر نیل پڑ گئے۔ لڑائی کی وجہ اس کی وہ مردار عیسائی منگیتر تھی جو جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی اور سارے میں میرے خلاف زہر اگلتی پھر رہی تھی۔ اگر اس کا بس چلتا تو مجھے کچا چبا جاتی۔ یہ چار سو بیس لڑکی جنگ کے زمانے میں فوج میں تھی اور خوش وقت کو برما کے محاذ پر ملی تھی۔ خوش وقت نے جانے کس طرح اس سے شادی کا وعدہ کر لیا تھا۔ لیکن مجھ سے ملنے کے بعد اب وہ اس کی انگوٹھی واپس کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔

اس رات تیمار پور کے اس سنسان بنگلے میں اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور رو رو کر مجھ سے کہا کہ میں اس سے بیاہ کر لوں، ورنہ وہ مر جائے گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ قیامت تک نہیں۔ میں اعلیٰ خاندان سید زادی، بھلا اس کالے تمباکو کے پنڈے ہندو جاٹ سے بیاہ کر کے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگاتی۔ میں تو اس حسین و جمیل کسی بہت اونچے مسلمان گھرانے کے چشم و چراغ کے خواب دیکھ رہی تھی جو ایک روز دیر، یا سویر، برات لے کر مجھے بیاہنے آئے گا۔ ہمارا آرسی مصحف ہو گا۔ میں سہرے جلوے سے رخصت ہو کر اس کے گھر جاؤں گی۔ بجلی بسنت نندیں دروازے پر دہلیز روک کر اپنے بھائی سے نیگ کے لیے جھگڑیں گی۔ میراثنیں ڈھولک لیے کھڑی ہوں گی۔ کیا کیا کچھ ہو گا۔ میں نے کیا ہندو مسلم شادیوں کا حشر دیکھا نہیں تھا۔ کئیوں نے ترقی پسند یا جذبہ عشق کے جوش میں آ کر ہندوؤں سے بیاہ رچائے اور سال بھر کے اندر جوتیوں میں دال بٹی۔ بچوں کا جو حشر خراب ہوا وہ الگ___ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ میرے انکار پر خوش وقت نے جوتے لات سے مار مار کر میرا بھرکس نکال دیا اور تیسرے دن اس ڈائن کالی بلا کیتھرین دھرم داس کے ساتھ آگرے چلا گیا جہاں اس نے اس بد ذات لڑکی سے سول میرج کر لی۔

جب میں نئی ٹرم کے آغاز پر ہوسٹل پہنچی تو اس حلیے سے کہ میرے سر اور چہرے پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ابا کو میں نے لکھ بھیجا کہ لیبارٹری میں ایک تجربہ کر رہی تھی، ایک خطرناک مادہ بھک سے اڑا اور اس سے میرا منہ تھوڑا سا جل گیا۔ اب بالکل ٹھیک ہوں۔ فکر نہ کیجئے۔

لڑکیوں کو تو سارا قصہ پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اخلاقاً میری خیریت بھی نہ پوچھی۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد مجھے ہوسٹل میں رہنے کی اجازت نہ دی جاتی مگر ہوسٹل کی وارڈن خوش وقت سنگھ کی بہت دوست تھی۔ اس لیے سب خاموش رہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی طرح کا ثبوت بھی نہ تھا۔ کالج کی لڑکیوں کو لوگ یوں بھی خواہ مخواہ بدنام کرنے پر تلے رہتے ہیں۔

مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو۔ صبح کے دس گیارہ بجے ہوں گے۔ ریلوے اسٹیشن سے لڑکیوں کے تانگے آ آ کر پھاٹک میں داخل ہو رہے تھے۔ ہوسٹل کے لان پر برگد کے درخت کے نیچے لڑکیاں اپنا اپنا اسباب اتروا کر رکھوا رہی تھیں۔ بڑی سخت چل پوں مچا رکھی تھی۔ جس وقت میں اپنے تانگے سے اتری وہ میرا ڈھاٹے سے بندھا ہوا سفید چہرہ دیکھ کر ایسی حیرت زدہ ہوئیں جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ میں نے سامان چوکیدار کے سر پر رکھوایا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ دوپہر کو جب میں کھانے کی میز پر آن کر بیٹھی تو ان قطاماؤں نے مجھ سے اس اخلاق سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں جن سے اچھی طرح یہ ظاہر ہو جائے کہ میرے حادثے کی اصل وجہ جانتی ہیں اور مجھے ندامت سے بچانے کے لیے اس کا تذکرہ ہی نہیں کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک نے جو اس چنڈال چوکڑی کی گرو اور ان سب کی استاد تھی، رات کو کھانے کی میز پر فیصلہ صادر کیا کہ میں نفسیات کی اصطلاح میں Nympho-Maniac ہوں (مجھے میری جاسوس کے ذریعے یہ اطلاع فوراً اوپر پہنچ گئی، جہاں میں اس وقت اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس ٹیبل لیمپ لگائے پڑھائی میں مصروف تھی) اور اس طرح کی باتیں تو اب عام تھیں کہ ایک مچھلی سارے جل کو گندا کرتی ہے۔ اسی لیے تو لڑکیوں کی بے پردگی آزادی خطرناک اور اعلیٰ تعلیم بدنام ہے وغیرہ وغیرہ۔

میں اپنی حد تک سوفی صدی ان آراء سے متفق تھی۔ میں خود سوچتی تھی کہ بعض اچھی خاصی بھلی چنگی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں آوارہ کیوں ہو جاتی ہیں۔ ایک تھیوری تھی کہ وہیں لڑکیاں آوارہ ہوتی ہیں جن کا ’’آئی۔ کیؤ‘‘ بہت کم ہوتا ہے۔ ذہین انسان کبھی اپنی تباہی کی طرف جان بوجھ کر قدم نہ اٹھائے گا۔ مگر میں نے تو اچھی خاصی سمجھ دار تیز و طرار لڑکیوں کو لوفری کرتے دیکھا تھا۔ دوسری تھیوری تھی کہ سیرو تفریح، روپے پیسے، عیش وآسایش کی زندگی، قیمتی تحائف کا لالچ، رومان کی تلاش، ایڈونچر کی خواہش، یا محض اکتاہٹ، یا پردے کی قید وبند کے بعد آزادی کی فضا میں داخل ہو کر پرانی اقدار سے بغاوت۔ اس صورت حال کی چند وجوہ ہیں۔ یہ سب باتیں ضرور ہوں گی ورنہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

میں فرسٹ ٹرمنل امتحان سے فارغ ہوئی تھی کہ خوش وقت پھر آن پہنچا۔ اس نے مجھے لیبارٹیری فون کیا کہ میں نرولاؔ میں چھ بجے اس سے ملوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ وہ کیتھرین کو اپنے ماں باپ کے یہاں چھوڑ کر سرکاری کام سے دلی آیا تھا اس مرتبہ ہم ہوائی جہاز سے ایک ہفتے کے لیے بمبئی چلے گئے۔

اس کے بعد اس سے ہر دوسرے تیسرے مہینے ملنا ہوتا رہا۔ ایک سال نکل گیا اب کے سے جب وہ دلی آیا تو اس نے اپنے ایک جگری دوست کو مجھے لینے کے لیے موٹر لے کر بھیجا۔ کیونکہ وہ لکھنو سے لاہور جاتے ہوئے پالم پر چند گھنٹے کے لیے ٹھہرا تھا۔ یہ دوست دلی کے ایک بڑے مسلمان تاجر کا لڑکا تھا۔ لڑکا تو خیر نہیں کہنا چاہئے اس وقت بھی وہ چالیس کے پیٹے میں رہا ہو گا۔ بیوی بچوں والا۔ تاڑ کا سا قد بے حد غلط انگریزی بولتا تھا۔ کالا۔ بد قطع۔ بالکل چڑی مار کی شکل، ہوش صفت۔

خوش وقت اب کی مرتبہ دلی سے گیا تو پھر کبھی واپس نہ آیا کیونکہ اب میں فاروقؔ کی مسٹریس بن چکی تھی۔

فاروق کے ساتھ اب میں اس کی ’’منگیتر‘‘ کی حیثیت سے باقاعدہ دلی کی اونچی سوسائٹی میں شامل ہو گئی۔ مسلمانوں میں تو چار شادیاں جائز ہیں لہٰذا یہ کوئی بہت بری بات نہ تھی۔ یعنی مذہب کے نقطہ نگاہ سے کہ وہ اپنی ان پڑھ، ادھیڑ عمر کی پردے کی بوبو کی موجودگی میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا جو چار آدمیوں میں ڈھنگ سے اٹھ بیٹھ سکے اور پھر دولت مند طبقے میں سب کچھ جائز ہے۔ یہ تو ہماری مڈل کلاس کے قوانین ہیں کہ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو___ طویل چھٹیوں کے زمانے میں فاروق نے بھی مجھے خوب سیریں کرائیں۔ کلکتہ، لکھنؤ، اجمیر، کون جگہ تھی جو میں نے اس کے ساتھ نہ دیکھی۔ اس نے مجھے ہیرے جواہرات کے گہنوں سے لاد دیا۔ ابا کو لکھ بھیجتی تھی کہ یونی ورسٹی کے طالب علموں کے ہم راہ ٹور پر جا رہی ہوں یا فلاں جگہ ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے بلایا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنا تعلیمی ریکارڈ اونچا رکھنے کی دھن تھی۔ فائنل امتحان میں میں نے بہت ہی خراب پرچے کیے اور امتحان ختم ہوتے ہی گھر چلی گئی۔

اسی زمانے میں دلی میں گڑ بڑ شروع ہوئی اور فسادات کا بھونچال آ گیا۔ فاروق نے مجھے میرٹھ خط لکھا کہ تم فوراً پاکستان چلی جاؤ۔ میں تم سے وہیں ملوں گا۔ میرا پہلے ہی سے یہ ارادہ تھا ابا بھی بے حد پریشان تھے اور یہی چاہتے تھے کہ ان حالات میں اب میں انڈیا میں نہ رہوں جہاں شریف مسلمان لڑکیوں کی عزتیں مستقل خطرے میں ہیں۔ پاکستان اپنا اسلامی ملک تھا۔ اس کی بات ہی کیا تھی۔ ابا جائیداد وغیرہ کی وجہ سے فی الحال ترک وطن نہ کرسکتے تھے۔ میرے بھائی دونوں بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور اماں جان کے انتقال کے بعد ابا نے ان کو میری خالہ کے پاس حیدر آباد دکن بھیج دیا تھا۔ میرا رزلٹ نکل چکا تھا اور میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئی تھی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ جب بلووں کا زور ذرا کم ہوا تو میں ہوائی جہاز سے لاہور آ گئی۔ فاروق میرے ساتھ آیا۔ اس نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ اپنے کاروبار کی ایک شاخ پاکستان میں قائم کر کے لاہور اس کا ہیڈ آفس رکھے گا۔ مجھے اس کا مالک بنائے گا اور وہیں مجھ سے شادی کر لے گا۔ وہ دلی سے ہجرت نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس کے باپ بڑے احراری خیالات کے آدمی تھے۔ پلان یہ تھا کہ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے دلی سے لاہور آتا رہے گا۔ لاہور میں افراتفری تھی حالانکہ ایک سے ایک اعلیٰ کوٹھی الاٹ ہوسکتی تھی، مگر فاروق یہاں کسی کو جانتا نہ تھا۔ بہرحال سنت نگر میں ایک چھوٹا سا مکان میرے نام الاٹ کرا کے اس نے مجھے وہاں چھوڑ دیا اور میری دوسراتھ کے لیے اپنے ایک دور کے رشتے دار کنبے کو میرے پاس ٹھہرا دیا جو مہاجر ہوکے لاہور آئے تھے اور مارے مارے پھر رہے تھے___

میں زندگی کی اس یک بیک تبدیلی سے اتنی ہکا بکا تھی کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا سے کیا ہو گیا۔ کہاں غیر منقسم ہندوستان کی وہ بھرپور، دل چسپ رنگا رنگ دنیا کہاں ۴۸ئ؁ کے لاہور کا وہ تنگ و تاریک مکان۔ غریب الوطنی___ اللہ اکبر___ میں نے کیسے کیسے دل ہلا دینے والے زمانے دیکھیں ہیں۔

میں اتنی خالی الذہن ہو چکی تھی کہ میں نے تلاشِ ملازمت کی بھی کوئی کوشش نہ کی۔ روپے کی طرف سے فکر نہ تھی کیونکہ فاروق میرے نام دس ہزار روپیہ جمع کرا گیا تھا (صرف دس ہزار وہ خود کروڑوں کا آدمی تھا مگر اس وقت میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ اب بھی نہیں آتا)

دن گزرتے گئے۔ میں صبح سے شام تک پلنگ پر پڑی فاروق کے رشتے کی خالہ یا نانی جو کچھ بھی وہ بڑی بی تھیں۔ ان سے ان کی ہجرت کے مصائب کی داستان اور ان کی سابقہ امارات کے قصے سنا کرتی اور پان پہ پان کھاتی، یا ان کی میٹرک میں پڑھنے والی بیٹی کو الجبرا، جیومیٹری سکھلایا کرتی۔ ان کا بیٹا فاروق کی برائے نام بزنس کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔

فاروق سال میں پانچ چھے چکر لگا لیتا۔ اب لاہور کی زندگی رفتہ رفتہ نارمل ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی آمد سے میرے دن کچھ رونق کے کٹتے۔ اس کی خالہ بڑی اہتمام سے دلی کے کھانے اس کے لیے تیار کرتیں۔ میں مال کے ہیر ڈریسر کے یہاں جا کر اپنے بال سیٹ کرواتی۔ شام کو ہم دونوں جم خانہ کلب چلے جاتے اور وہاں ایک کونے کی میز پر بیئر کا گلاس سامنے رکھے فاروق مجھے دلی کے واقعات سناتا۔ وہ بے تکان بولے چلا جاتا۔ یا پھر دفعتاً چپ ہو کر کمرے میں آنے والی اجنبی صورتوں کو دیکھتا رہتا۔ اس نے شادی کا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے بھی اس سے نہیں کہا۔ میں اب اکتا چکی تھی کسی چیز سے کوئی فرق نہ پڑتا جب وہ دلی واپس چلا جاتا تو میں ہر پندرہویں دن اپنی خیریت کا خط اور اس کے کاروبار کا حال لکھ بھیجتی اور لکھ دیتی کہ اب کی دفعہ آئے تو کناٹ پلیس یا چاندنی چوک کی فلاں دکان سے فلاں فلاں قسم کی ساڑیاں لیتا آئے کیونکہ پاکستان میں اچھی ساڑیاں ناپید ہیں۔

ایک روز میرٹھ سے چچا میاں کا خط آیا کہ ابا کا انتقال ہو گیا۔

جب احمدؐ ِ مرسل نہ رہے کون رہے گا

میں جذبات سے واقف نہیں ہوں مگر باپ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ ان کی موت کا مجھے سخت صدمہ ہوا۔ فاروق نے مجھے بڑے پیار کے دلاسے بھرے خط لکھے تو ذرا ڈھارس بندھی۔ اس نے لکھا___ نماز پڑھا کرو، بہت برا وقت ہے۔ دنیا پر کالی آندھی چل رہی ہے۔ سورج ڈیڑھ بلم پر آیا چاہتا ہے۔ پل کا بھروسا نہیں۔ سارے کاروباریوں کی طرح وہ بھی بڑا سخت مذہبی اور توہم پرست آدمی تھا۔ پابندی سے اجمیر شریف جاتا___ نجومیوں، رمالوں، پنڈتوں سیانوں، پیروں، فقیروں، اچھے اور برے شگونوں، خوابوں کی تعبیر، غرض کہ ہر چیز کا قائل تھا۔ ایک مہینہ نماز پڑھی۔ مگر جب میں سجدے میں جاتی تو دل چاہتا خوب زور زور سے ہنسوں۔

ملک میں سائنس کی خواتین لیکچراروں کی بڑی زبردست مانگ تھی۔ جب مجھے ایک مقامی کالج والوں نے بے حد مجبور کیا تو میں نے پڑھانا شروع کر دیا۔ حالانکہ ٹیچری کرنے سے مجھے سخت نفرت ہے۔ کچھ عرصے بعد مجھے پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کے گرلز کالج میں بلا لیا گیا۔ کئی سال تک میں نے وہاں کام کیا۔ مجھ سے میری طالب علم لڑکیاں اکثر پوچھتیں ___ ’’ہائے اللہ مس تنویر۔ آپ اتنی پیاری سی ہیں۔ آپ اپنے کروڑ پتی منگیتر سے شادی کیوں نہیں کرتیں ؟ ‘‘

اس سوال کا خود میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

یہ نیا ملک تھا۔ نئے لوگ، نیا معاشرہ۔ یہاں کسی کو میرے ماضی کا علم نہ تھا۔ کوئی بھی بھلا مانس مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوسکتا تھا( لیکن بھلے مانس، خوش شکل، سیدھے سادے شریف زادے مجھے پسند ہی نہیں آتے تھے، میں کیا کرتی؟ ) دلّی کے قصے دلّی میں رہ گئے۔ اور پھر میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ ایک سے ایک حرّافہ لڑکیاں اب ایسی پارسا بنی ہوئی ہیں کہ دیکھا ہی کیجیے۔ خود ایڈتھ ہری رام اور رانی خان کی مثال میرے سامنے موجود ہے۔

اب فاروق بھی کبھی کبھی آتا۔ ہم لوگ اس طرح ملتے گویا بیسیوں برس کے پرانے شادی شدہ میاں بیوی ہیں جن کے پاس سارے نئے موضوع ختم ہو چکے ہیں۔ اب سکون اور آرام اور ٹھہراؤ کا وقت ہے فاروق کی بیٹی کی حال ہی میں دلّی میں شادی ہوئی ہے۔ اس کا لڑکا اوکسفوڈ جا چکا ہے۔ بیوی کو مستقل دمہ رہتا ہے فاروق نے اپنے کاروبار کی شاخیں باہر کے کئی ملکوں میں پھیلا دی ہیں۔ نینی تال میں نیا بنگلہ بنوا رہا ہے۔ فاروق اپنے خاندان کے قصے، کاروبار کے معاملات مجھے تفصیل سے سنا یا کرتا اور میں اس کے لیے پان بناتی رہتی۔

ایک مرتبہ میں چھٹیوں میں کالج سے لاہور آئی تو فاروق کے ایک پرانے دوست سید وقار حسین خان سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ بھی اپنے پرانے وقت کے اکیلے تھے۔اور کچھ کم کم رُونہ تھے۔ دراز قد، موٹے تازے، سیاہ توا ایسا رنگ عمر میں پینتالیس کے لگ بھگ۔ اچھے خاصے دیو زاد معلوم ہوتے۔ ان کو میں نے پہلی مرتبہ نئی دلّی میں دیکھا تھا جہاں ان کا ڈانسنگ اسکول تھا۔ یہ رام پور کے ایک شریف گھرانے کے اکلوتے فرزند تھے۔ بچپن میں گھر سے بھاگ گئے۔ سرکس، کارینوال اور تھیٹر کمپنیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں میں گھومے۔ سنگارپور، ہانگ کانگ، شنگھائی، لندن، جانے کہاں کہاں۔ ان گنت قومیتوں اور نسلوں کی عورتوں سے وقتاً فوقتاً شادیاں رچائیں۔ ان کی موجودہ بیوی اڑیسہ کے ایک مارواڑی مہاجن کی لڑکی تھی جس کو یہ کلکتے سے اڑا لائے تھے۔ بارہ پندرہ سال قبل میں نے اسے دلّی میں دیکھا تھا۔ سانولی سلونی سی پستہ قد لڑکی تھی۔ میاں کی بدسلوکیوں سے تنگ آ کر ادھر اُدھر بھاگ جاتی۔ لیکن چند روز کے بعد پھر واپس موجود۔ خان صاحب نے کناٹ سرکس کی ایک بلڈنگ کی تیسری منزل میں انگریزی ناچ سکھانے کا اسکول کھول رکھا تھا جس میں وہ اور ان کی بیوی اور دو اینگلو انڈین لڑکیاں گویا اسٹاف میں شامل تھیں۔ جنگ کے زمانے میں اس اسکول پر ہن برسا۔ اتوار کے روز ان کے یہاں صبح کو ’’جیم سیشن‘‘ ہوا کرتے۔ ایک مرتبہ میں بھی خوش وقت کے ساتھ وہاں گئی تھی۔ سنا تھا کہ وقار صاحب کی بیوی ایسی مہاستی انسویاؔ کی اوتار ہیں کہ ان کے میاں حکم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں لڑکی سے بہنا پا گانٹھو اور پھر اسے مجھ سے ملانے کے لیے لے کر آؤ۔ اور وہ نیک بخت ایسا ہی کرتی۔ ایک بار وہ ہمارے ہوسٹل میں آئی اور چند لڑکیوں کے سر ہوئی کہ اس کے ساتھ بارہ کھمبا روڈ چل کر چائے پئیں۔

تقسیم کے بعد وقار صاحب بقول شخصے لُٹ لُٹا کر لاہور آن پہنچے تھے اور مال روڈ کے پچھواڑے ایک فلیٹ الاٹ کرو ا کر اس میں اپنا اسکول کھول لیا تھا۔ شروع شروع میں کاروبار مندا رہا۔ دلوں پر مردنی چھائی تھی۔ ناچنے گانے کا کسے ہوش تھا۔ اس فلیٹ میں تقسیم سے پہلے آریہ سماجی ہندوؤں کا میوزک اسکول تھا۔ لکڑی کے فرش کا ہال، پہلو میں دو چھوٹے کمرے، غسل خانہ اور باورچی خانہ، سامنے لکڑی کی بالکنی اور شکستہ ہلتا ہوا زینہ ’’ ہند ماتا سنگیت مہاودیالہ‘‘ کا بورڈ بالکنی کے جنگلے پر اب تک ٹیڑھا ٹنگا ہوا تھا۔ اُسے اُتار کر ’’ وقارز اسکول آف بال روم اینڈ ٹیپ ڈانسنگ ‘‘ کا بورڈ لگا دیا گیا۔ امریکی فلمی رسالوں سے تراش کر جین کیلی، فریڈ اسٹرؔ، فرینک سینا ٹرا، ڈورسؔ ڈے وغیرہ کی رنگین تصویریں ہال کی بوسیدہ دیواروں پر آویزاں کر دی گئیں اور اسکول چالو ہو گیا۔ ریکارڈوں کا تھوڑا سا ذخیرہ خان صاحب دلّی سے ساتھ لیتے آئے تھے۔ گرامو فون اور سیکنڈ ہینڈ فرنیچر فاروق سے روپیا قرض لے کر انہوں نے یہاں خرید لیا۔ کالج کے منچلے لونڈوں اور نئی دولت مند سوسائٹی کی تازہ تازہ فیشن ایبل بیگمات کو خدا سلامت رکھے۔ دو تین سال میں ان کا کام خوب چمک گیا۔

فاروق کی دوستی کی وجہ سے میرا اور ان کا کچھ بھاوج اور جیٹھ کا سا رشتہ ہو گیا تھا۔ وہ اکثر میری خیر خبر لینے آ جاتے، ان کی بی بی گھنٹوں میرے ساتھ پکانے، ریندھنے، سینے پرونے کی باتیں کیا کرتیں۔ بے چاری مجھ سے بالکل جٹھانی والا شفقت کا برتاؤ کرتیں۔ یہ میاں بیوی لا ولد تھے۔ بڑا اُداس، بے رنگ، بے تُکا سا غیر دل چسپ جوڑا تھا۔ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں ___!

کالج میں نئی امریکہ پلٹ نک چڑھی پرنسپل سے میرا جھگڑا ہو گیا۔ اگر وہ سیر تو میں سوا سیر۔ میں خود ابو الحسن تانا شاہ سے کون کم تھی۔ میں نے استعفاء کالج کمیٹی کے سرپر مارا۔ اور پھر سنت نگر لاہور واپس آ گئی۔ میں پڑھاتے پڑھاتے اُکتا چکی تھی۔ میں کوئی وظیفہ لے کر پی ایچ ڈی کے لیے باہر جا سکتی تھی۔ مگر اس ارادے کو بھی کل پر ٹالتی رہی۔ کل امریکنوں کے دفتر جاؤں گی جہاں وہ وظیفے بانٹتے ہیں۔ کل برٹش کونسل جاؤں گی۔ کل ایجوکیشن منسٹری میں اسکالر شپ کی درخواست بھیجوں گی۔

مزید وقت گزر گیا۔ کیا کروں گی کہیں باہر جا کر ___ ؟ کون سے گڑھ جیت لوں گی___ ؟ کون سے کدّو میں تیر مار لوں گی___؟ مجھے جانے کس چیز کا انتظار تھا___؟ مجھے معلوم نہیں !

اس دوران میں ایک روز وقار بھائی میرے پاس حواس باختہ آئے اور کہنے لگے___ ’’تمہاری بھابی کے دماغ میں پھر سودا اٹھا۔ وہ ویزا بنوا کر انڈیا واپس چلی گئیں۔ اور اب کبھی نہ آئیں گی۔‘‘

’’ یہ کیسے ___ ؟ ‘‘ میں نے ذرا بے پروائی سے پوچھا۔ اور ان کے لیے چائے کا پانی اسٹوو پر رکھ دیا۔

’’ بات یہ ہوئی کہ میں نے انہیں طلاق دے دی۔ ان کی زبان بہت بڑھ گئی تھی۔ ہر وقت ٹرٹر ___ ٹرٹر ___ ‘‘ پھر انہوں نے سامنے کے کھرّے پلنگ پر بیٹھ کر خالص شوہروں والے انداز میں بیوی کے خلاف شکایات کا ایک دفتر کھول دیا اور خود کو بے قصور اور حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔

میں بے پروائی سے یہ ساری کتھا سنا کی۔ زندگی کی ہر بات اس قدر بے رنگ، غیر اہم، غیر ضروری اور بے معنیٰ تھی___ !

کچھ عرصے بعد وہ میرے یہاں آ کر بڑ بڑائے:

’’ نوکروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کبھی اتنا بھی تم سے نہیں ہوتا کہ آ کر ذرا بھائی کے گھر کی حالت ہی درست کر جاؤ۔ نوکروں کے کان امیٹھو۔ میں اسکول بھی چلاؤں اور گھر بھی___ ‘‘ انہوں نے اس انداز سے شکایتاً کہا گویا ان کے گھر کا انتظام کرنا میرا فرض تھا۔

چند روز بعد میں اپنا سامان باندھ کر وقار صاحب کے کمروں میں منتقل ہو گئی اور ناچ سکھانے کے لیے ان کی اسسٹنٹ بھی بن گئی۔

اس کے مہینے بھر بعد پچھلے اتوار کو وقار صاحب نے ایک مولوی بلوا کر اپنے دو چُرکٹوں کی گواہی میں مجھ سے نکاح پڑھوا لیا۔

اب میں دن بھر گھر کے کام میں مصروف رہتی ہوں ___ میرا حُسن و جمال ماضی کی داستانوں میں شامل ہو چکا ہے۔ مجھے شور و شغف پارٹیاں ہنگامے مطلق پسند نہیں۔ لیکن گھر میں ہر وقت ’’ چاچا‘‘ اور کلپسو‘‘ اور ’’راک اینڈ رول‘‘ کا شور مچتا رہتا ہے۔ بہر حال یہی میرا گھر ہے!

میرے پاس اس وقت کئی کالجوں میں کیمسٹری پڑھانے کے اَوفر ہیں مگر بھلا خانہ داری کے دھندوں سے کہیں فرصت ملتی ہے۔ نوکروں کا یہ حال ہے کہ آج رکھو، کل غائب۔ میں نے زیادہ کی تمنّا کبھی نہیں کی۔ صرف اتنا ہی چاہا کہ ایک اوسط درجے کی کوٹھی ہو۔ سواری کے لیے موٹر۔ تاکہ آرام سے ہر جگہ آسکیں۔ ہم چشموں میں بے عزتی نہ ہو۔ چار ملنے والے آئین تو بٹھانے کے لیے قرینے کا ٹھکانہ ہو، اور بس!

اس وقت ہماری ڈیڑھ دو ہزار ماہوار آمدنی ہے جو دو میاں بیوی کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان اپنی قسمت پر قانع ہو جائے تو سارے دکھ آپ سے آپ مٹ جاتے ہیں۔

شادی کر لینے کے بعد لڑکی کے سر کے اوپر چھت سی پڑ جاتی ہے۔ آج کل کی لڑکیاں جانے کس رَو میں بہہ رہی ہیں۔ کس طرح یہ لوگ ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔ جتنا سوچوں، عجیب سا لگتا ہے اور حیرت ہوتی ہے۔

میں نے تو کبھی کسی سے فلرٹ تک نہ کیا۔ خوش وقت، فاروق اور اس سیاہ فام دیو زاد کے علاوہ جو میرا شوہر ہے، میں کسی چوتھے آدمی سے واقف نہیں۔ میں شدید بدمعاش تو نہیں تھی، نہ معلوم میں کیا تھی اور کیا ہوں ___ ریحانہ، سعدیہ، پربھا اور یہ لڑکی جس کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر دہشت پیدا ہوئی، شاید وہ مجھ سے زیادہ اچھی طرح مجھ سے واقف ہوں۔

اب خوش وقت کو یاد کرنے کا فائدہ___ ؟ وقت گزر چکا۔ جانے اب تک وہ بریگیڈیر میجر جنرل بن چکا ہو، آسام کی سرحد پر چینیوں کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھا ہو، یا ہندستان کی کسی ہری بھری چھاؤنی کے میس میں بیٹھا مونچھوں پر تاؤ دے رہا ہو، اور مسکراتا ہو، شاید وہ کب کا کشمیر کے محاذ پر مارا جا چکا ہو، کیا معلوم !

اندھیری راتوں میں میں آنکھیں کھولے چپ چاپ پڑی رہتی ہوں۔ سائنس نے مجھے عالمِ موجودات کے بہت سے رازوں سے واقف کر دیا ہے۔ میں نے کیمسٹری پر اَن گنت کتابیں پڑھی ہیں۔ پہروں سوچا ہے، پر مجھے بڑا ڈر لگتا ہے___ اندھیری راتوں میں مجھے بڑا ڈر لگتا ہے!

خوش وقت سنگھ ! ___ خوش وقت سنگھ ! تمہیں اب مجھ سے مطلب؟

٭٭٭

ماخذ: باز گشت ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید