FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حیدرآباد میں اردو نئی شاعری

 

اسلم عمادی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں

 

 

 

خورشید احمد جامی:

خورشید احمد جامی حیدرآباد کے ان اہم شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کا تعلق کبھی کسی ادبی تحریک سے نہیں رہا اور جن کے کلام نے عوام اور خواص دونوں میں مقبولیت حاصل کی۔  اس کا سبب ان کی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا بھرپور استعمال ہے۔  جامی کی شاعری میں دور تک یاس کا سایہ نہیں ملتا۔  اس میں زندگی خیزی جھلکتی ہے۔  جب دیکھیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جامی کسی نئے شہرِ سخن کی تعمیر میں محو ہیں۔  ان کے لہجہ میں متانت اور سنجیدگی ہے۔  جامی نے تشبیہات کے استعمال میں جس پرکھ کا استعمال کیا وہ ان کے پیرو اور ’’چربہ ساز‘‘ نہ کر سکے۔  اس لیے آسانی سے ان کے اشعار کی شناخت کی جا سکی ہے۔

جامی خود شناس اور خود حساب شاعر تھے۔  اسی لیے ان کی غزلیں باوجود معیاری ہونے کے زیادہ رسائل میں شائع نہ ہوئیں۔  انھوں نے سعی ہی نہیں کی۔  ایک خوبی جو جامی کے اشعار میں پائی جاتی ہے وہ مرصع صناعی ہے۔  انھوں نے معصومیت کے ساتھ بھی جو باتیں کہہ دی ہیں وہ قاری کو یکایک اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔

جامی کی شاعری میں غنائیت تو ہے لیکن رومانیت نہیں۔  عشق تو ہے لیکن فلسفیانہ باتیں نہیں۔  ان کی شاعری عام اور اوسط معاشرے کے لیے ہے اور زندہ رجحانات کی تابع دار ہے۔  مثلاً:

سنسان راستوں پہ تری یاد نے کہا

حالات کا فریب بھی کتنا حسین تھا

جامیؔ جو زندگی سے زیادہ عزیز تھے

ان کو بھی زندگی کی طرح بھولنا پڑا

شہر میں، شہر کی سڑکوں کے دھڑکتے دل میں

ریگ زاروں کی سلگتی ہوئی تنہائی ہے

صحرا کا سلگتا ہوا احساس ہوں جامی

ذروں کی طرح دہر میں بکھرا ہوا تن ہوں

جامی کی آواز کا نکھرا پن یہ بتاتا ہے کہ وہ شعر گوئی میں حسنِ بیان پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔  جامی نئے ادب کے بہت اہم اور اچھے شاعر تھے۔  ان کا ذکر ہمیشہ تشبیہ شناسوں کے درمیان رہے گا۔

٭

سلیمان اریب:

جامی کے بعد تیسرا اہم شاعر سلیمان اریب ہے جس نے مخدوم ہی کی طرح مقصدی ادب سے خالص اور نئے ادب کی طرف مراجعت کی تھی۔  سلیمان اریب کی شاعری میں پختگی کا احساس ۱۹۶۰ء کے بعد پیدا ہوا۔  یہ ان کے اپنے مدیرانہ مشاہدے و مطالعہ کا بھی نتیجہ ہے۔  اریب کو ایک مدیر کی حیثیت سے پہچانا گیا اور ان کی شاعری کا اعتراف قدرے تاخیر سے ہوا۔  وہ جدید سے جدید ترکی تلاش کو بہتر سمجھتے تھے۔  اس کے باوجود ان کی شاعری کا جھکاؤ سماجی افادیت کی طرف تھا۔  جدت طرازی کے سبب انھوں نے بعض اوقات اپنے وقار کو دھکا پہنچایا لیکن اریب کی شاعری کا سب سے دل چسپ عنصر ان کی شکستہ ’’انا‘‘ ہے۔  انھوں نے ’’ہم‘‘ پر ’’میں‘‘ کو ترجیح دی اور اس سے ان کے کلام میں بہت عمدہ اضافے ہوئے۔

اریب کا مزاج نظموں کے مقابلے میں غزلوں میں زیادہ واضح طور پر سامنے آتا ہے۔  ان کی شاعری خالی پن، خوابیدگی اور جذباتیت سے مملو ہے۔  نظموں میں ان کا کردار سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔  اکثر و بیش تر معمولات اور اظہارِ خیال ان کی شاعری کے واضح Dimensions ہیں۔  مثلاً:

زندگی شعر کا موضوع تو ہو سکتی ہے

شعر کے اور جو عنوان ہیں، گر وہ نہ رہیں

اس پہ کیا بحث کریں؟

بحث پھر بحث ہے

عورت پر ہو، لونڈے پہ ہو یا جنس پہ ہو

…… (لایعنیت)

جب کوئی قرض صداقت کا چکانے کے لیے

زہر کا دردِ تہہ جام بھی پی لیتا ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

میں اسے دیکھ کے چپکے سے کھسک جاتا ہوں

یہ تو میں خود ہوں وہ احمق، جس کی

اپنی رسوائی میں تسکینِ انا ہوتی ہے

…… (تسکینِ انا)

اریب نے شاعری میں بالکل واضح زبان استعمال کی ہے۔  ان کی نظمیں اعتراف و تبصرہ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔  ان کی غزلوں میں غنائیت فعال قوت ہے اور تحت لہجہ میں بڑی تیز باتیں کہہ جاتے ہیں:

شراب و شعر میں عریاں تو ہو گئے لیکن

فضائے ذات کے پردے ہر ایک چاک میں ہیں

لالہ و گل کی طرح کھینچے ہے دامانِ نگاہ

ہم نے اس طور سے زخموں کو سجا رکھا ہے

تمھاری میری رفاقت ہے چند قدموں تک

تمھارے پاؤں کا چھالا ہوں پھوٹ جاؤں گا

سلیمان اریب ایک با لہجہ شاعر تھے۔  یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انھوں نے اپنے رجحان کو سنبھال کر رکھا تھا اور بلا خوف تنقید اپنے نظریات کا اظہار کرتے تھے۔

٭

عزیز قیسی:

عزیز قیسی نئی شاعری کے ان ستونوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنی منفرد فکر سے اہم مقام حاصل کیا ہے۔  عزیز قیسی کا حیدرآباد سے ہمیشہ سے ادبی اور فکری تعلق رہا ہے۔  فکرِ معاش نے گرچہ انھیں حیدرآباد سے کچھ دور کر دیا ہے لیکن وہ حیدرآباد کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے اردو ادب و شعر میں اپنی آواز پیدا کر لی ہے۔

قیسی کی شاعری نے گرچہ ۱۹۶۰ء سے پہلے ہی اپنی اہمیت منوا لی تھی لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد انھوں نے اپنا لب و لہجہ یکسر بدل دیا۔  وہ وجود و حیات کے مسائل کو گہری اور پُر تجسس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی نظم علامتی فکر سے اور شاعرانہ نظر سے بڑی خوب صورت نظمیں کہہ جاتے ہیں۔  قیسی کی نظموں کو ان کی غزلوں پر بلاشبہ ترجیح حاصل ہے، اس لیے کہ یہی ان کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔  ظلمت، روشنی، خواہش، امید، حواس، وقت یہ سب وہ غیر مرئی اشیا اور محسوسات ہیں جن کی گرمی ہم زندگی کے پیکر میں محسوس کرتے ہیں اور پاتے ہیں۔  قیسی نے اپنی شاعری میں ان اشیا و محسوسات کو کلیدی مقام عطا کیا ہے۔  ان کی فکر کسی طرح ترقی پسندوں اور مقصد پرستوں کی نعرہ بازی کی اسیر نہیں۔  قیسی تجربوں اور ندرت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور نئے جہتوں کی تلاش میں کوشاں ہیں۔

یہاں پر قیسی کی شاعری کے اس پہلو کا ذکر ضروری ہے جو عجیب ہے۔  یعنی قیسی کی شاعری دو رنگوں میں بٹی ہوئی ہے اور دونوں رنگ تقریباً ایک دوسرے کی ضد ہیں۔  پہلا لہجہ وہ کہ جس میں وہ ایک تیز ذہن اور شاعرانہ تخیل کے ساتھ ملتے ہیں۔  مثلاً:

وہ مجھ سے کہتی ہیں

تم بھی تو روز اپنے بدن کے فولاد

دل کے شیشے کو یوں ہی بھٹی میں جھونکتے ہو

تو دیکھ لو

رات رات، دن دن، گھڑی گھڑی، لمحہ لمحہ

مری طرح تم بھی مر رہے ہو

(مری طرح سب ہی مَر رہے ہیں)

مگر نگاہیں بچائے رکھنا

…… (ایکشن نگری، ۲۰)

میں جیتا ہوں اس مٹی پر

جس سے گھر بنتے نہیں

جس سے قبریں بنتی ہیں

جس کا ذرہ ذرہ اوروں کا ہے

ان کا جس میں ’’میں‘‘ ہوں جو مجھ میں ہیں

……… (میں)

دوسرا لہجہ اس شاعر کا ہے جو شاعر کم اور فلسفی زیادہ ہے۔  اس لہجہ میں ایک حد تک اقبال کی شاعری کی پرچھائیں محسوس ہوتی ہے:

ترے درک و ہوش و حواس کی

مرے وجد و وہم و قیاس کی

یہی ایک پل تو اساس ہے

یہی ایک پل میرے پاس ہے

…… (بین العدمین)

قیسی کی شاعری کا ماحول محنت زدہ اور تھکا ہوا ہے۔  وقت نے اس کے مناظر پر زنگ لگا دیا ہے اور شاعری اس زنگ کو چاٹتی نظر آتی ہے۔  قیسی کا زاویہ نگاہ چمک دار اور روشن رہ گزر سے ہوتے ہوئے ایک بے بس اور مغموم انجام تک پہنچتا ہے۔  زبان و بیان میں خوب صورتی اور تعلیم یافتہ شائستگی ہے جو ان کے مطالعہ اور مزاج کی آئینہ دار ہے۔  جھنجھلاہٹ اور کثرت درجہ کی ظاہر پسندی کی شاعری میں نہیں۔

٭

شاذ تمکنت:

شاذ تمکنت کا شمار حیدرآباد کے اہم ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔  انھوں نے ہند و پاک میں اپنی واضح اور خوب صورت اور گہری شاعری کی مدد سے مقبولیت حاصل کی۔  انھوں نے اپنی آواز اور اپنی لفظیات میں حسین اور اچھوتی تشبیہات اور تراکیب کا لطف بھر دیا ہے۔  ان کے پاس خیالات میں حکمت کی ندرت نہیں ہے۔  ان کے لہجے میں شوخی و سادگی کی ایک پرُکیف آمیزش ہے۔  ان کی شاعری سے ایک تنہا اور خوش حال شخص کا پیکر ڈھلتا ہے۔  تراشیدہ کی اشاعت کے بعد ان کی شاعری متحرک ہو گئی ہے۔  انھوں نے ان دنوں نظمیں کے مقابلہ میں غزلوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔

شاذ کی نظموں میں ڈرامائیت، Structure اور لفظیات اظہار کی جان ہے۔  ان کی زبان اور اندازِ بیان میں فیضؔ اور فراقؔ کے رنگوں کے اثرات کا امتزاج محسوس ہوتا ہے اور ’’اچانک پن‘‘ کی بجائے تسلسل ملتا ہے۔  مثلاً:

چاند جگمگاتا ہے۔۔ ۔ !

تھال جیسے کندن کا

ہر کرن کے سینے میں

پھوٹتی ہیں جھنکاریں

یہ پھوار سی خنکی

یہ کٹار سی دھاریں

تو اگر میری ہوتی

رنگ ہی دِگر ہوتا

…… (خواب زار)

ان کی نظموں میں ’’حسرتِ بیدار‘‘، ’’مخدوم‘‘، ’’دائرہ‘‘ اہم اور خوب صورت نظمیں ہیں۔  زبان دیکھیے:

پلکیں نیندوں کے چنور، آنکھیں شبستاں کے چراغ

سخنِ زیر لبی مشک کے جھونکے جیسے

…… (دائرہ)

ان کی غزلیں ارتکاز جذبات سے عاری ہیں۔  شاذ کی نظموں کا ٹھہراؤ ان کی غزلوں میں بھی محسوس ہوتا ہے۔  وہ متانت اور وضاحت کو چنتے ہیں۔  ان کی غزلیں زبان کے لحاظ سے بوجھل نہیں ہوتیں بلکہ معنی خیز ہوتی ہیں:

بنا حسنِ تکلم حسنِ ظن آہستہ آہستہ

بہر صورت کھلا وہ کم سخن آہستہ آہستہ

دامن ہے دور اور گلے نارسا کے ہیں

گویا ہمارے ہاتھ فقط اب دعا کے ہیں

کیا یہ دنیا مرے ہاتھوں سے نکل جائے گی

دشت کو تاہ تری بے خبری کیسی ہے

کیوں آج مجھ سے ہیں یہ جی بہلنے کی باتیں

یہ کیسے بھول گئے تم رلا بھی سکتے ہو؟

شاذ کی غزلوں پر غالب کی آسان زبان والی غزلوں کا دھوکا بھی ہوتا ہے۔  لیکن یہ وجدانی کیفیت کا نتیجہ ہے۔  شاذ نے موجودہ نظم میں بہت خلوص سے کام کیا ہے اور ان کی شاعری ان کی لفظیات کی ندرت سے بھرپور ہے۔  یہ حقیقت ہے کہ شاذ تمکنت ادبی افق پر زبان و بیان کا نمائندہ ہے۔

٭٭٭

 

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل