FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جیون میں ایک بار جانا المانیہ اور سنگاپور

 

 

 

                   محمد خلیل الرحمٰن

 

 

 

 

 

بقلم خود

 

 

 

تعارف لکھنے کی فرمائش ہوئی تو جی چاہا کہ فوراً کہہ دیں ’’ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے ‘‘ لیکن پھر قبل اس کے کہ کوئی اور ہم پر ہنستا، ہمیں خود اپنے آپ پر ہنسی آ گئی۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، بہت بڑے لکھاری ہیں، لیکن ان سے ایک غلطی سرزد ہوہی گئی۔ تزکِ یوسفی میں اپنے بجائے ہمارا تعارف لکھ مارا۔ لکھتے ہیں ’’ یہ سرگزشت ایک عام آدمی کی کہانی ہے، جس پر بحمد اللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کجا اینٹی۔ ہیرو ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ عام آدمی تو بیچارہ اتنی سکت اور استطاعت نہیں رکھتا کہ اپنی زندگی کو مردم آزاری کے تین مسلمہ ادوار میں تقسیم کر سکے۔ یعنی جوانی میں فضیحت، ڈھلتی عمر میں نصیحت اور بڑھاپے میں وصیت۔ یہ طغیانِ شباب، لاف ہائے شادکامی، معاصرانہ چشمکوں اور سیاست کی شورا شوری کی داستان نہیں۔ نہ کسی کی مہم جوئی اور کشور کشائی کا ’’ساگا‘‘ ہے۔

 

حلیہ بیان کرتے وقت بھی یہی غلطی دہرائی، سوائے ناک کے، کہ یوسفی صاحب، صاحبِ ناک ہیں اور اِدھر ہمارے مدعا کی طرح ناک بھی عنقا ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’ نہاں خانہ دل کی ہیرو گیلری پر نگاہ کی تو کسی کی رمق تک اپنی ذات میں نظر نہ آئی۰۰۰ ہنری ہشتم، سیموئل جانسن، گوتم بدھ، فالسٹاف، بابر، غالب، پک وک، بچے، امیر خسرو۔ ۔ ہاں ذہن پر ذرا زور ڈالا تو بعض مشاہیر کے جن چیدہ چیدہ اوصاف اور شباہتوں کا اپنی ذات میں جمگھٹا نظر آیا، کاش وہ نہ ہوتیں تو زندگی سنور جاتی۔ مثلاً نپولین کا قد، جولیس سیزر کا چٹیل سر، جینا لولو برجیدا کا وزن، سیموئل جانسن کی بینائی، ناک بالکل قلوپطرہ کی مانند کہ اگر ۱یک بٹا بارہ انچ بھی چھوٹی ہوتی تو اس دکھیا کا شمار بد صورتوں میں اور اپنا خوبصورتوں میں ہوتا۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ

 

ہاتھی اور چوہے کی کہانی تو آپ نے سن رکھی ہو گی جنھوں نے ایک دوسرے سے اس کی عمر دریافت کی تھی۔ چوہے کا جواب کہ عمر تو میری بھی اتنی ہی ہے پر میں بچپن میں ذرا بیمار رہتا تھا، دراصل ہمارا بھی جواب ہے۔ بچپن میں ایک مرتبہ ٹائیفائڈ نے آ گھیرا تو جان کے لالے پڑ گئے۔ ماں پیاری نے، روتے ہوئے بچے کو گود میں اٹھا کر کئی کئی راتیں جاگ کر گزاریں۔ باپ فقیر منش آدمی تھے ( جن کی سادہ زندگی اور محیر العقل کارناموں پر کتاب لکھ ماری ہے، جو تقریباً مکمل ہے۔ یعنی لکھ چکے ہیں، بس ایک عدد پبلشر کا ملنا باقی ہے )۱،ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لینے کے لیے گئے اور لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ باری آنے پر کاونٹر کلرک نے دوا دیتے وقت کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی جانب سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور گھر چلے آئے۔

 

ہمیں شاعری اور لکھنے لکھانے کا شوق بھی بچپن ہی سے تھا۔ ایک مرتبہ سوتے سے اٹھے اور کچی نیند میں بڑبڑائے

 

 

لنگڑ دین بھائی لنگڑ دین

سالن تھوڑا روٹی تین

بجاؤ بین۔

 

اور پھر سو گئے۔ ابا جان جو مطالعے کا بیحد شوق رکھتے تھے، جاگ رہے تھے۔ انھوں نے یہ ساری کارروائی دیکھی۔ بعد میں اکثر سنایا کرتے اور خوب ہنستے۔

 

جب ذرا اور بڑے ہوئے تو ’’ بہتا تکیہ ‘‘ کے نام سے ایک کہانی لکھی، جس میں ایک بچے کو پانی پر بہتا ہوا ایک تکیہ ملتا ہے جس پر سونے کا ایک تاج محل بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ترنگ میں آئے تو اس وقت کے ڈکٹیٹر کی تعریف میں ایک نظم لکھ ماری اور ابا جان کو دکھائی۔ ابا جان جو اس ڈکٹیٹر کے سخت خلاف تھے، انھوں نے شفقتِ پدری سے اس نظم کو دیکھا، نظرِ ثانی اور تصحیح فرمائی۔ پھر ہم نے وہ نظم ریڈیو پاکستان پر بچوں کے پروگرام میں پڑھی اور داد سمیٹی۔

 

ایک رات ابا جان کو مطالعہ کرتے دیکھا تو خود بھی ان کے شیلف سے ایک کتاب ’’ الفاروق‘‘ نکال کر بیٹھ گئے اور کاغذ پینسل سنبھال کر کئی صفحوں پر مشتمل ایک ضخیم مضمون لکھ مارا۔ ماہنامہ تعلیم و تربیت کو یہ مضمون بھیجا تو انھوں نے ہماری اس مساعی کی لاج رکھتے ہوئے ایک صفحے کا مضمون بعنوان’’ بھوکے بچے خالی ہنڈیا‘‘ شایع کیا۔

 

‘غالبیات‘ پر کام کا شوق چرایا تو دیوانِ غالب نکال لی اور غالب سے ایک انٹرویو لے ڈالا جسے بعد میں ماہنامہ غنچہ کراچی کی ادبی نشست میں پڑھنے کا موقع ملا۔ اسی رسالے کے لیے ایک یتیم بچے کی دکھ بھری داستان ایک خط کی صورت میں لکھی جو شایع ہوئی۔ ایک دن اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھے اور بہت سی پاکستانی فلموں کے نام ایک کاغذ پر لکھ لیے، پھر اس فہرست سے ریڈیو پاکستان کے ایک کمرشیل پروگرام کے ماڈریٹر کے نام ایک خط لکھا، جس کے ہر ہر جملے میں کئی ایک فلموں کے نام آتے تھے۔ ماڈریٹر صاحب کو وہ خط اتنا بھایا کہ انھوں نے وہ خط نشر کرتے ہوئے سامعین سے سوال کیا کہ دو دوستوں کے اس خط میں کتنی فلموں کے نام آئے ہیں۔

 

اور پھر یوں ہوا کہ ہم انجینیرنگ کالج کے ادبی مجلے کے منظوم حصے کے ایڈیٹر بنا دیے گئے۔ خوش خوش گھر آئے اور چھ ماہ تک سوتے رہے۔ اس دوران صرف اتنا کیا کہ ہر ایرے غیرے سے ایک عدد نظم یا غزل لکھوا لی۔ چھ ماہ اور مسلسل کئی یاد دہانیوں کے بعد جب عمیر بھائی نے الٹی میٹم دیدیا کہ کل نظم سیکشن مکمل چاہیے تو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا، ساری رات جاگے اور دوستوں کی لکھی ہوئی ان ‘نظموں ‘ اور ‘غزلوں ‘   کا ڈائی سیکشن کیا۔ اگلے روز اپنی ‘چھ ماہ ‘کی عرق ریزیوں کا نچوڑ عمیر بھائی کے حوالے کیا تو وہ پھولے نہ سمائے۔ البتہ ہمارے ایک کلاس فیلو کئی دنوں تک ہم سے ناراض رہے کہ ہم نے ان کی نظم کو کیوں ’بدل‘ دیا۔

 

لگے ہاتھوں اب یہ بھی بیان ہو جائے کہ ہمارا ذریعہ معاش کیا ہے۔

 

آٹھویں جماعت میں پہنچے تو یہ سوال ہمارے سامنے آیا کہ ہم بیالوجی پڑھیں یا ریاضی۔ گویا یہ شعبے کے انتخاب کا پہلا مرحلہ تھا۔ ہم نے ابا جان سے پوچھا کہنے لگے ’’ اسکول میں طیب صاحب سے پوچھ لو‘‘۔ طیب صاحب ہمارے استاد تھے اور ابا جان سے ان کی دوستی ہو چکی تھی۔ اسکول پہنچے تو طیب صاحب کا یہ فرمان سننے کو ملا ’’ خبردار! کوئی بچہ بیالوجی نہ لے۔ ‘‘ اللہ جانے اس میں کیا رمز تھا، لیکن ہم نے میٹرک پری انجینئرنگ میں پاس کر لیا۔

 

ہمارے لیے اسکول والوں نے ایک عدد فیر ویل پارٹی کا بندوبست کیا۔ اپنے تمام نالائق  ہم جماعتوں کے لیے ہم نے خود ہی ٹائیٹل قطعات لکھے اور نویں جماعت والوں کو پیش کرنے کے لیے دیئے۔ چھوٹے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن نے ہم سے ہمارے اپنے ٹائیٹل کے بارے میں پوچھا تو ہم نے خاموشی اختیار کی۔ خود اپنے منہ میاں مٹھو کیسے بنتے، یا  سُبک سر بن کے کیسے کہہ دیتے کہ کوئی اور لکھ دے۔ تب ہی بھائی نے ہمارے لیے فی البدیہہ یہ قطعہ کہا۔

 

شاعرِ اسکول ہیں  یہ، نام  ان کا  ہے  خلیل

سوتے سوتے میں بھی اکثر شعر کہہ جاتے ہیں یہ

شاعری کا بھوت ان پر جب بھی ہوتا ہے سوار

اچھے اچھے شاعروں کو مات کر جاتے ہیں یہ

 

انٹر میڈیٹ میں داخلے کا مرحلہ آیا تو بڑے بھائی( مرحوم) نے صاف صاف کہہ دیا۔ جاؤ   اور پولی ٹیکنیک میں داخلہ لے کر تکنیکی مہارت بہم پہنچاؤ۔ انٹر، بی اے وغیرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

 

ہم پولی ٹیکنیک اداروں کے چکر کاٹتے رہے اور اِدھر ڈی جے اور آدم جی کالج سمیت تمام اچھے کالجوں میں داخلہ بند ہو گیا۔ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ آدم جی کالج کے پرنسپل صاحب نے ہماری رہنمائی نوٹس بورڈ تک کی جہاں پر داخلے بند ہو جانے کا نوٹس جلی حروف میں آویزاں تھا۔ عائشہ باوانی کالج پہنچے۔ پرنسپل صاحب نے ہماری مارکس شیٹ دیکھی تو ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ فوراً ہمارے فارم پر اپنے دستخط کیے اور ہمیں داخلہ کلرک کے پاس بھجوا دیا۔ جمعے کا دن تھا۔ وہ اپنا کھاتا بند کر چکا تھا۔ اس نے معذرت کی اور ہمیں ہفتے کے روز آنے کا کہہ کر کھڑکی بند کر دی۔

 

ہم روتے روتے نیشنل کالج پہنچے اور ابھی کالج کی خوبصورت عمارت کو دیکھ کر عش عش کر ہی رہے تھے کہ یارِ جانی شیخ صاحب نے ہمیں دیکھ لیا۔ پہلے تو ہمیں کئی موٹی موٹی گالیوں سے نوازا، پھر ہمیں لیے ہوئے کشاں کشاں پرنسپل صاحب کے کمرے میں پہنچے اور ان سے استدعا کی کہ   مانا کہ داخلے بند ہو چکے ہیں، لیکن اگر وہ ہمارے جیسے اچھے رزلٹ والے لڑکے کو کھو دیں گے تو کیا کریں گے۔ آخر کار انھیں منا لیا اور یوں ہم نے انٹر کالج میں داخلہ لیا اور اُڑتے ہوئے رنگوں ( فلائینگ کلرز) میں انٹر پاس کیا۔

 

اب گویا ایک ہی چوائس باقی رہ گئی تھی۔ شیخ صاحب کی دم سے بندھے ہوئے داؤد کالج پہنچے اور الیکٹرانکس میں سند یافتہ انجینئر بن کر نکلے۔ دو سال اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد ابا جان کی کوششوں سے ایک اچھی کمپنی میں ہمارا داخلہ ہوا اور اگلے کچھ سالوں میں ان چند بین الاقوامی کمپنیوں اور ان کے ترتیب دیے ہوئے تربیتی کورسوں نے ہمیں بائیو میڈیکل انجینئر بنا دیا۔

 

تو صاحبو! گویا یوں ہم نے اپنی مرضی کے بغیر اپنے آپ کو تلاشِ معاش میں کھو دیا۔ اگر آج الہ دین کا چراغ ہمارے پاس ہوتا اور ہمیں تلاشِ معاش میں یوں در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں تو آج ہم بھی لکھاری ہوتے۔ اب تو ہم ہیں اور ہماری عزیز ترین سہیلی ردی کی ٹوکری ہے۔ جو کچھ لکھتے ہیں، اس کی نذر کر دیتے ہیں۔

 

ابنِ صفی بقلم خود کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔ ’’ بقلم خود، اتنا کچھ لکھ دینے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ کہاں تک انانیت کو دبایا جا سکتا ہے۔ تھوڑی بہت لاف گزاف بھی ہو جاتی ہے۔ اسی لیے میرا اپنا ہی خیال ہے کہ اپنے بارے میں گفتگو کرنے والے اوّل درجے کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ لیکن مجھ سے یہ بے وقوفی سرزد کرائی گئی۔ میں خود اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘

 

ہم سے یہ بے وقوفی سرزد کرانے والے حضرات میں شمشاد بھائی، استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب، حافظ سمیع اللہ فاروقی بھائی اور اردو محفل کے وہ دیگر تمام کرم فرما شامل ہیں جنھوں نے ہماری تحریروں کی حوصلہ افزائی کی۔

 

اپنی تعلیمی و تربیتی اسناد کی فائل کے سر نامے پر ہم نے فیض صاحب کا یہ قطعہ چسپاں کر رکھا ہے، سو وہ آپ کی بھی نذر ہے، جو مزاجِ  یار میں آئے۔ ہم تہی دامنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔

 

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا، سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مئے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں

 

نوٹ ۱۔ یہ کتاب اب  ماشاء اللہ،  ماہنامہ تعمیرِ افکار  کراچی کے مولانا محمد اسمٰعیل آزاد نمبر فروری ۲۰۱۱ ء؁  کا حصہ ہے۔

 

محمد خلیل الرحمٰن

٭٭٭

 

 

 

 

المانیہ او المانیہ۔ جرمنی کی سیر

 

 

(۱)

 

 

 

ہمیں کالے پانی کی سزا ہو گئی۔ یہ وہی سزا ہے جسے منچلے پردیس کاٹنا کہتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ قسمت والوں ہی کے مقدر میں یہ سزا ہوتی ہے۔ عرصہ ایک سال ہم نے بڑی کٹھنائیاں برداشت کیں اور یہ وقت کاٹا۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے لیے اس علاقے ہی کو جنت نظیر بنا دیا گیا۔ پھر تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ پھر ہمیں یہ مژدہ جاں فزا سننے کو ملا کہ ہمیں جرمنی میں پانچ ہفتے کی تربیت یا جبری مشقت کے لیے چن لیا گیا ہے۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اپنا سفری بیگ اٹھایا اور کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر گھر والوں کو بھی یہ خوشخبری سنائی۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے اور جواب مضمون کے طور پر ہمیں ایک اور خوشخبری سنا دی۔

 

’’ تمہارے چھوٹے بھائی کا تبادلہ بھی اسلام آباد کر دیا گیا ہے اور اب وہ بھی تمہارے ساتھ ہی رہے گا۔ ‘‘

 

ابھی یہ بم ہمارے سر پر اچھی طرح پھٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بھائی نے گرینیڈ سے ایک اور حملہ کر دیا۔

 

’’ بھائی! یہ بتاؤ کہ کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اسلام آباد ائر پورٹ پر کسٹم پہلے ہوتا ہے یا پھر امیگریشن؟‘‘

 

ہم نے خون کے گھونٹ پی کر اس حملے کو بھی برداشت کیا اور سفر کی تیاریوں میں لگ گئے۔ اگلے روز کمپنی کے صدر دفتر پہنچے تو پرِ پروانہ اور دیگر ضروری دستاویزات کے ساتھ ایک عدد لمبی چوڑی فہرستِ اشیائے ضروریہ ہمارے حوالے کی گئی جن کا بہم پہنچایا جانا ہماری ہی صحت کے لیے بہت ضروری تھا۔

 

بڑے بھائی ( مرحوم ) کو ساتھ لیا اور بھاگے بھاگے لنڈا بازار پہنچے اور وہیں سے یہ تمام اشیاء بصد شوق خریدیں جن میں ایک عدد گرم سوئٹر، گرم واٹر پروف دستانے، ایک جوڑی لمبے جوتے، اندر پہننے کے لیے گرم پائجامے اور ایک عدد لانگ اوور کوٹ شامل تھے۔

 

اس اوور کوٹ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ جب ہم فخر سے اسے پہن کر باہر نکلتے تو گورے اور گوریاں ہمیں حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے۔ بقول جناب مختار مسعود:۔

 

’’ چلتے چلتے کسی نے نگاہِ غلط انداز ڈالی اور کسی نے نظر انداز کیا۔ نظر بھر کر دیکھنے والے بھی گو دوچار سہی، اس بھیڑ میں شامل تھے۔ ( برف کدہ۔ سفر نصیب)

 

واپسی پر اندازہ ہوا کہ ہم نے غلطی سے زنانہ اوور کوٹ مول لے لیا تھا۔ جس کے بٹن الٹی جانب تھے۔ ہم نے چونکہ زرِ کثیر صرف کر کے یہ قیمتی اوور کوٹ مول لیا تھا، لہٰذا اب اس کا استعمال ترک نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے اسے عرصہ کئی سال تک یورپ کے اکثر سفروں میں استعمال کیا یہاں تک کہ بیگم نے اسے سیلاب فنڈ میں دے دینے کا اعلان کر دیا اور ہم اس قیمتی اوور کوٹ سے جبراً محروم کر دئیے گئے۔

 

ہماری پہلی منزل فرینکفرٹ ائر پورٹ تھی، جہاں سے ہمیں جہاز تبدیل کر کے نورمبرگ کی فلائٹ لینی تھی۔ ہمیں تجربہ کار دوستوں نے اس ائر پورٹ سے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ یہ ائر پورٹ بہت بڑا ہے اور کئی طویل راستے اس میں طے کرنے پڑیں گے لہٰذا دیکھ بھال کر چلنا۔ مزید یہ کہ اس ائر پورٹ پر تمہیں چہرے جتنی چوڑائی والی بند کھڑکیاں بھی نظر آئیں گی۔ یہ وہاں کا مشہور تانک جھانک شو ( پیپ شو) ہے۔ سکہ ڈالتے ہی شیشے کی کھڑکی پر سے پردا چند منٹ کے لیے سرک جائے گا۔ مزے سے نظارہ کرو۔ اور دیکھو‘‘ انھوں نے تاکیداً کہا۔ ’’ اس چند منٹ کے عرصے کو پلکیں جھپکانے میں نہ گزار دینا۔ غور سے دیکھنا اور ایک ایک تفصیل کا دھیان رکھنا۔ ‘‘ گویا ہمیں واپسی پر اس تانک جھانک ہی کا تو تجزیہ لکھ کر کمپنی میں پیش کرنا تھا۔

 

فرینکفرٹ ائر پورٹ ٹرمنل کی عمارت واقعتاً ہمارے قیاس سے بھی بڑی تھی، لہٰذا ہم ہیبت کے مارے بھاگتے ہی چلے گئے اور نورمبرگ کی فلائٹ کی روانگی کے ہال پر جا کر ہی دم لیا اور وہاں پر اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر گورے گورے چہروں والی حسیناؤں کے سردی سے تمتمائے حسین چہروں کو تکتے رہے۔ ہمارے لیے یہی تانک جھانک بہت تھی۔

 

نورمبرگ ائر پورٹ سے ٹیکسی لی اور ڈرائیور کو چھپا ہوا کاغذ  دکھایا جس پر ہماری منزل کا پتا لکھا ہوا تھا۔ اس نے کچھ آئیں بائیں شائیں کی اور ایک نقشہ نکال کر اس پر جھک گیا۔ پھر اس نے وائر لیس ریڈیو پر کسی سے پشتو یا اس قبیل کی کچھ آوازیں نکال کر کچھ گپ شپ کی، دو منٹ بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہمیں منزل مقصود تک پہنچا کر ہی دم لیا۔

 

ارلانگن ہمارا مستقر دراصل ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کا اپنا کوئی ائر پورٹ نہیں ہے۔ نورمبرگ ائر پورٹ جو تاریخی شہر نورمبرگ اور ارلانگن کے درمیان واقع ہے، دونوں شہروں کے لیے ائر پورٹ کا کام دیتا ہے۔ قارئین کو علم ہو گا کہ نورمبرگ جرمنی کے جنوبی صوبے بویریا کا ایک تاریخی شہر ہے۔ ہٹلر کے زمانے میں اس شہر کے قلعے میں اس نے گسٹاپو کا عقوبت خانہ بھی بنوایا تھا۔

 

اس صوبے کا سب سے بڑا اور مشہور شہر میونخ ہے جسے جرمن میونچن کہتے ہیں۔

 

گھر پہنچے تو صرف ایک بزرگ جوڑا ہی گھر پر ملا۔ دونوں ہمیں دیکھ کر نہال ہو گئے اور مسلسل جرمن زبان میں استقبالیہ کلمات کہتے رہے جو ہمارے لیے آواز کی کرختگی کے لحاظ سے پشتو ہی تھے۔ انھوں نے گھر کے پچھواڑے ہمیں ایک کمرے تک پہنچا دیا جس کا دروازہ اور ایک کھڑکی صحن میں کھلتے تھے۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی ایک جانب ایک گوشے میں چھوٹے سے کچن کا بندو بست تھا اور دوسری جانب ایک باتھ روم تھا۔

 

ہم بھی ان بڑے میاں اور بڑی بی سے مل کر بہت خوش ہوئے اور اگلے پانچ ہفتوں تک مہ وشوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے، فارسی کا یہ شعر پڑھتے رہے اور جرمن زبان کا مزہ اپنے منہ میں محسوس کرتے رہے۔

 

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم

 

چہ خوش بودی اگر بودی زبانِ خوش دہانِ من

 

اب ہم نے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ آرام اور حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد باہر نکلنے کا ارادہ کیا تاکہ ابھی سے بس میں جا کر تربیتی مرکز دیکھ آئیں اور اگلے روز وقتِ مقررہ پر تربیت گاہ پہنچ سکیں۔

 

باہر سردی مزاج پوچھ رہی تھی۔ ہم نے دستانے چڑھائے، اوور کوٹ کو اچھی طرح اپنے جسم کے ارد گرد لپیٹ لیا اور بس اسٹاپ پر آ کر کھڑے ہوئے اور اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تاکہ اس جگہ کو پہچان کر واپسی کا راستہ متعین کر سکیں۔ پہلے تو ارد گرد کے ماحول کی تفصیلات کو ذہن میں بٹھایا، پھر اس بس اسٹاپ اور اس محلے کا نام معلوم کرنے کی دھن ہمارے دل میں سما گئی۔ یہ ایک چھوٹا سا بس اسٹینڈ تھا جہاں پر بس کا انتظار کرنے کے لیے ایک لکڑی کی بنچ لگائی گئی تھی۔ اسی طرح ایک کونے میں دو تین نوٹس بھی نظر آئے، دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہاں پر آنے والی بسوں کے روٹس اور اوقات ہیں۔ ساتھ ہی اوپر کی جانب ایک چھوٹے سے بورڈ پر ایک نام لکھا ہوا تھا جسے ہم نے ذہن میں بٹھا لیا۔

 

اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک گول مٹول، خوبصورت سی، مائل بہ فربہی، پیاری سے حسینہ ہمارے برابر آ کر کھڑی ہو گئی اور سامنے لگے ہوئے نوٹس کو غور سے پڑھنے لگی۔

 

ہم نے سوچا کہ اب ہمیں اس مظہرِ حسن کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دینا چاہیے، تاکہ اپنی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکیں۔ یہ سوچتے ہی پہلے تو پانچ منٹ تک اپنے حواس مجتمع کرتے رہے، پھر ہمت کر کے کھنکارے اور بھرائی ہوئی آواز میں یوں گویا ہوئے۔

 

’’ معاف کیجیے گا؟‘‘

 

اللہ جانے یہ سردی کا اثر تھا یا رعبِ حسن کا دبدبہ کہ ہمیں اپنی کپکپاتی ہوئی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔

 

’’ جی فرمایئے ؟‘‘ وہ حسینہ فوراً ہماری جانب متوجہ ہو گئی اور اپنی کوئل جیسی آواز میں انگریزی میں گنگنائی۔

 

’’ کیا اس جگہ کا نام نیو مالے ہے ؟‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

 

’’جی؟‘‘ اس نے غور سے سننے کی کوشش کی اور پھر ایک خوبصورت اندازِ پریشانی میں کندھے اچکائے۔ جرمنوں کا یوں کندھے اچکانے کا یہ انداز بھی ہمیں بہت پیارا لگا۔ جرمنوں کو جب بھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی، وہ اسی طرح اپنے کندھے اچکا دیتے ہیں۔

 

ہم نے کچھ دیر سوچا، اس صورتحال کا ادراک کیا اور پھر فوراً اپنی جیب سے ٹشو پیپر نکال کر اس پر اس جگہ کا نام لکھ دیا۔ جیسے اُس بورڈ پر لکھا ہوا تھا۔

 

’’ اوہ! نائے میوہلے۔ نائے میوہلے۔ ‘‘ وہ بیچاری کھل اٹھی۔

 

پھر ہم نے اس کی آواز کی نغمگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ ہم ابھی ابھی اس کے ملک میں وارد ہوئے ہیں اور یہ ہمارا اپنے ملک سے باہر کوئی پہلا سفر ہے۔

 

’’ میرا نام فاطمہ ہے۔ فاطمہ کیتی سی اوغلو!‘‘ اس نے بتایا۔

 

وہ ایک ترک مسلمان لڑکی تھی اور اپنی پیدائش سے ہی یہاں رہتی تھی۔ یعنی پیدایشی طور پر جرمن تھی۔ پھر کیا تھا۔ ہم نے اس کے ساتھ گپ شپ شروع کر دی۔ اسے اس جگہ کا پتہ بتلایا جہاں ہمیں جانا تھا۔ ورنافان سیمنز اسٹراسے کا نام سنتے ہی وہ دوبارہ کھل اٹھی اور اس نے بتایا کہ وہ بھی اسی جانب جائے گی، لہٰذا ہم دونوں کی بس ایک ہی ہے۔

 

بس آئی تو ہم دونوں اس میں سوار ہو گئے اور ایک ہی سیٹ پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے متعلق معلومات بہم پہنچاتے رہے۔ سنٹرم پہنچ کر وہ بس سے اتر گئی اور ہمیں بتلا دیا ہمیں اب سے کوئی تین چار اسٹاپ بعد میں ورنافان سیمنز اسڑاسے پر اترنا ہے اور بس ڈرائیور کو بھی اس بارے میں واضح ہدایات دیتی ہوئی وہ ہم سے رخصت ہوئی۔ ہم نے بھی اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔

 

ایک جگہ بس ڈرائیور نے ہمیں تار دیا جہاں سے ورنافان سیمنز اسٹراسے شروع ہو رہی تھی۔ سڑک کے گرد ڈھیروں برف پڑی ہوئی تھی۔ ہم نے اس برف میں چلنا شروع کر دیا۔ کافی دور تک اور دو ایک چوراہوں کو عبور کرنے کے بعد ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ ہمارا ٹریننگ سنٹر ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ اس عمارت کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد ہم واپس مڑے۔ راستے میں سنٹرم پر اترے میکڈانلڈ سے فش فلے اور گرم گرم کافی کا لنچ کیا اور گھر واپس آ گئے۔

 

شام تک بوڑھے میزبانوں کے بیٹی اور داماد بھی آ گئے جو ہفتے کا اختتامیہ ( ویک اینڈ) گزارنے کے لیے کہیں گئے ہوئے تھے۔ دونوں انگریزی جانتے تھے اور ہم سے بہت گرم جوشی کس ساتھ ملے۔ ان دونوں سے مل کر ہم نے کافی معلومات بہم پہنچائیں۔

 

دراصل جرمن بزرگ حضرات انگریزی بالکل نہیں جانتے، جبکہ نوجوان نسل انگریزی سیکھتی ہے۔ جہاں تک بولنے کا معاملہ ہے، اکثر نوجوان واجبی ہی بولنا جانتے ہیں، جبکہ کچھ بہت اچھی طرح بول سکتے ہیں۔ انگریزی بولنے کا رواج بالکل نہیں ہے۔ صرف غیر ملکیوں کے ساتھ انگریزی بولی جاتی ہے۔ چونکہ مشکل سے بولتے ہیں، لہٰذا ہر لفظ صاف صاف ادا کرتے ہیں اور ہمارے لیے ان کی کہی ہوئی بات کا سمجھنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔

 

جرمن لوگوں کو بات کرتے ہوئے سنیں تو وہ مزاج کے بہت اکھڑ لگتے ہیں۔ لیکن ان سے بات کیجیے تو وہ بہت خوش مزاج، مہربان اور مدد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اکثر یہ ہوا کہ جب بھی ہم کسی لائن میں لگ کر کاؤنٹر تک پہنچے اور کاؤنٹر والی خاتون کے ساتھ بات چیت شروع کی اور مشکل میں پھنسے، پیچھے کوئی لڑکی فوراً نکل کر آئی اور ہماری مشکل آسان کر دی۔ اسی طرح جہاں پر کسی کو روک کر کوئی سوال پوچھا، انھوں نے بہت خوش مزاجی کے ساتھ جواب دیا اور صحیح رہنمائی کی۔

 

سفر کی تھکن بہت زیادہ تھی اس لیے ہم سرِ شام ہی سو گئے اور اگلے دن صبح کی خبر لائے۔

 

 

 

(۲)

 

 

یورپ کے عین درمیان میں واقع، نارتھ اور بالٹک سمندروں اور سلسلہ کوہ آلپس کے درمیان موجود اس ملک کا سرکاری نام فیڈرل ریپبلک آف جرمنی ہے اور اس کا رقبہ لگ بھگ تین لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے مشرق میں پولینڈ اور چیک ریپبلک واقع ہیں تو جنوب میں آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ ہیں، مغرب میں فرانس، بیلجئیم لکسمبرگ اور ہالینڈ واقع ہیں اور شمال میں ڈنمارک۔ اس کا صدر مقام برلن ہے اور آبادی تقریباً اکیاسی ملین ہے۔ جس زمانے کا یہ قصہ ہے، یہ ملک دو حصوں میں بٹا ہوا تھا، مشرقی اور مغربی جرمنی۔ مغربی جرمنی فیڈرل ریپبلک آف جرمنی کہلاتا تھا اور مشرقی جرمنی پیپلز ریپبلک آف جرمنی۔ ایک ملک آہنی پردے کی اس جانب واقع تھا اور نیٹو کا حصہ تھا تو دوسرا دوسری جانب تھا اور وارسا پیکٹ میں شامل۔ ایک امریکن بلاک میں تھا تو دوسرا روسی بلاک میں۔ یورپین یونین ابھی وجود میں نہیں آیا تھا اور سوویت یونین اپنے تمامتر اتحادیوں سمیت موجود تھا۔ اور تو اور، شہر برلن بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مشرقی اور مغربی برلن۔ مغربی برلن جو مشرقی جرمنی کے عین درمیان میں واقع تھا، مغربی جرمنی کا شہر تھا اور مشرقی جرمنی والوں نے اس شہر کے گرد ایک دیوار کھینچ دی تھی جو دیوارِ برلن کہلاتی تھی۔ اِس جغرافیے کے پس منظر میں، ہم مغربی جرمنی کے مہمان تھے۔

 

اگلے دن کی سرمئی صبح برفباری کے ساتھ طلوع ہوئی۔ ہم بمشکل اٹھے اور تیاری وغیرہ کر کے بس اسٹاپ پر جا کھڑے ہوئے۔ بس اسٹاپ کے شیڈ میں پہنچے تو اپنے مشہورِ زمانہ اوور کوٹ سے برف کو جھٹکا، سردی سے تمتمائی ہوئی اپنی ناک کو اپنے ہاتھ سے چھو کر محسوس کیا تو اللہ کا شکر بجا لائے کہ ابھی اپنی جگہ پرہی موجود ہے اور بس کا انتظار شروع کر دیا۔ مسلسل برفباری کا یہ انوکھا منظر ہم نے پہلے کب دیکھا تھا، مبہوت ہو کر ہر طرف دیکھا کیے۔ سبحان تیری قدرت۔

 

بس آئی تو ایک انوکھا نظارہ دیکھا۔ نہ بس ڈرائیور نے بس کو اسٹاپ سے دور لے جا کر روکا، نہ لوگوں کا ہجوم اس کی طرف دوڑا بلکہ جو کچھ لوگ بشمول رنگا رنگ کپڑوں میں ملبوس طلبا و طالبات وہاں موجود تھے ایک باقاعدہ لائن بنا کر بس کے اگلے دروازے سے داخل ہونا شروع ہوئے اور ساتھ ہی ڈرائیور کو ٹکٹ کے پیسے دیکر، اس سے ٹکٹ حاصل کرتے ہوئے، اندر داخل ہوتے رہے۔ پچھلا دروازہ مسافروں کے بس سے اترنے کے لیے تھا، لہٰذا اُدھر سے کوئی بھی شخص داخل نہیں ہوا۔ بس چل پڑی۔ اتوار کی بہ نسبت زیادہ رش تھا، اس لیے ہم بھی ایک کونے میں ڈنڈا پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور اپنے اسٹاپ کا انتظار کر نے لگے۔

 

گو بس میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، لیکن سفر مزیدار گزر رہا تھا۔ جہاں برفباری کا حسین منظر بصارتوں کے لیے ایک حسین تحفہ ثابت ہو رہا تھا تو وہیں جرمن خواتین کی گفتگو کے آواز و انداز سماعتوں میں شیرینی گھول رہے تھے۔ ہم خوش ہوئے اور خوش خوش اپنے اسٹاپ پر اترے اور پھر وہیں سے اپنے تربیتی مرکز تک گرتی ہوئی برف کے مزے لیتے ہوئے ہم نے ایک طویل واک کا آغاز کر دیا۔ ہر قدم ایک نئی جد و جہد تھا۔ بمشکل زور لگا کر اپنا پاؤں برف میں سے نکالتے اور ایک فٹ دور اسے دوبارہ نرم سی برف میں دھنسا دیتے۔ برف میں چلتے چلتے، گرتے پڑتے آخر کار ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔ استقبالیہ پر پہنچ کر اپنے نام کا اعلان کیا اور ضروری کاروائیوں کے بعد اپنی کلاس میں پہنچا دئیے گئے۔ نئے دوستوں سے ملے۔ جو لوگ پچھلی مرتبہ کے تجربہ کار تھے، فوراً کچن سے چائے اور کافی کے تھر ماس اٹھا لائے جو فری تھے۔ ہم نے پہلی مرتبہ اسٹرانگ جرمن کافی نوش جان کی اور پسند کی۔ استاد کے آنے سے پہلے پہلے ہم کافی پی کر سردی سے بچاؤ کی تدابیر اور اپنی کلاس کے دوستوں کے ساتھ اچھی خاصی گپ شپ کر چکے تھے۔ استاد صاحب تشریف لائے اور ایک عدد بور قسم کی تربیت کا آغاز ہوا۔ دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو دوستوں کے ہمراہ کمپنی کی ایک دوسری عمارت میں پہنچ گئے۔ کینٹین میں پہنچے تو وہاں پر بھی ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ کیا چھوٹا، کیا بڑا ہر افسر و کلرک ایک ہی لائن میں کھڑے ہوئے تھے۔

 

ایک ہی صف میں کھڑے تھے گویا محمود و ایاز

 

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

 

کینٹین میں پہنچ کر حلال غذا کی تلاش شروع کی اور آخر کار تھک ہار کر سلاد، ڈبل روٹی اور مکھن قسم کی اشیا پر ہی گزارا کیا۔

 

شام سے پہلے پہلے ہم ریشارد شغم ( رچرڈ شرم) ایک جرمن ساتھی اور ایک کینیڈین ساتھی سے گہری دوستی گانٹھ چکے تھے۔ شرم کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتایا کہ ہم ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپیوٹر خریدنا چاہتے ہیں تو اس نے جی جان سے مدد کا وعدہ کر لیا۔ کینیڈین ساتھی نے بتایا کہ وہ سنٹرم کے قریب ہی ہوٹل پیئر میں قیام پذیر ہے تو روزانہ اس کے ساتھ پیدل ہی سنٹرم تک جانے لگے۔ سنٹرم تک پہنچ کر پہلے تو کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھ کر کافی کا ایک اور کپ نوشِ جان فرماتے اور اپنے کینیڈین ساتھی کو جامِ شراب لنڈھاتے ہوئے یعنی بئیر کا ایک بڑا گلاس اس کے حلق سے اتارتے ہوئے دیکھتے، ڈھیروں باتیں کرتے اور پھر اسے اس کے ہوٹل چھوڑتے ہوئے اپنی بس پکڑتے۔ کبھی کبھی رات ہو جانے پر میکڈانلڈ سے فش فلے اور کافی یا ہاٹ چاکلیٹ کا ایک بڑا گلاس لیتے اور اس طرح رات کے کھانے سے فارغ ہو کر ہی اپنے کمرے میں واپس پہنچتے۔ ادھر یہ بات بھی پتہ چلی کہ ہم پہلے دن سے جس بس اسٹاپ پر اترتے آرہے تھے وہ ٹریننگ سنٹر سے کافی دور تھا، اگر ہم ایک دو اسٹاپ بس کو اور برداشت کرتے تو قریبی اسٹاپ پر اتر سکتے تھے۔ خیر آئندہ کے لیے ہم نے اپنے راستے میں تبدیلی کر لی اور دو اسٹاپ کے بعد اترنے لگے۔

 

کینیڈین ساتھی ہی کی بدولت ایک اور یوروپین سے دوستی ہوئی جو کسی اور کلاس میں تھا اور وقفوں میں کافی پینے کے لیے ہمارے کمرے میں آجاتا تھا۔ اس کا نام اب بھی یاد ہے، وہ سوین گنار اولسن تھا۔ بلا کا باتونی۔ ہر موضوع پر بولتا اور اچھا بولتا تھا۔ ادھر شرم کے ساتھ دوستی بھی اچھی نبھ رہی تھی، یعنی اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا تھا۔ پہلے تو وہ ہمیں شہر کے مختلف اسٹورز پر لے گیا اور وہاں ہماری فرمائش پر کموڈور کی قیمت دریافت کی، پھر ہمیں لے کر شہر سے تقریباً باہر ایک بڑے اسٹور پر جا کر ان کے کاؤنٹر پر ہمیں پیش کر دیا۔ ہم نے کمپیوٹر کی قیمت دریافت کی تو پتہ چلا کہ قیمت میں کہیں بھی فرق نہیں ہے، لہٰذا ہم نے اپنے پیارے دوست شرم کے مشورے کے ساتھ، وہیں سے اپنی زندگی کا سب سے پہلا کمپیوٹر مع ایک عدد فلاپی ڈرائیو کے خریدا۔ ہم نے ان دونوں چیزوں کے نام لیے اور کلرک نے قریب ہی کسی شیلف سے نکال کر ان چیزوں کو ہمارے حوالے کر دیا۔ نہ چیکنگ کی دِقت اور نہ ڈبے کھولنے کی ضرورت، ہم نے قیمت ادا کی اور شرم کے ساتھ آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب ایک مشکل اور تھی۔ اس کمپیوٹر کو ہم کون مانیٹر پر دیکھیں گے ؟ ہم نے شرم کو اس مشکل سے آگاہ کیا تو اس نے فوراً گاڑی موڑ لی اور سنٹرم میں واقع واحد ڈیپارٹمنٹل اسٹور پہنچ کر ہمیں ایک عدد چھوٹا، چھ انچ اسکرین کا بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی بھی مول لے دیا۔ ہماری ساری مشکلیں آسان ہو چکی تھیں۔ کشاں کشاں گھر پہنچے۔ گھر پہنچ کر ٹی وی کو ٹیون کیا اور جرمن نشریات دیکھتے ہوئے کمپئیوٹر کو اس کے ڈبوں سے نکال کر سیٹ کیا۔ پھر کیا تھا، ہماری تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ رات کو باری باری، دیر تک، کبھی ٹی وی دیکھتے اور کبھی کمپیوٹر سے کھیلتے۔ چند ایک جملوں کے علاوہ،( مثلاً ڈانکے شون یا ڈانکے، بیٹے شون، آف ویڈے زین، اش بین آئنے ٹیکنیکار وغیرہ) جو ہم اب تک سیکھ چکے تھے، جرمن زبان گو ہماری سمجھ سے بالاتر تھی، پھر بھی کبھی کبھی تو اتنے ‘اچھے ‘ اور ‘دلچسپ‘ پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے کہ طبیعت باغ باغ ہو جاتی اور ہم عش عش کر اٹھتے۔ یہی لن ترانیاں تھیں اور ہم تھے۔ پورا ہفتہ اسی طرح مصروف گزر گیا۔

 

ایک ایسے ہی جمعے کی شام کا ذکر ہے، ہم ٹریننگ سنٹر کی مصروفیات سے فارغ ہو کر اپنے کینیڈین دوست کے ساتھ ایک قریبی ریستوران میں بیٹھے موسم کا لطف اٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی اسی طرح کافی کی چسکیاں لے رہے تھے، جس طرح ہمارا دوست بیئر کے مزے لے رہا تھا۔ کتنی شیریں تھی زندگی اُس پل۔ پاکستان سے باہر جا کر جمعہ کی شام کا تو لطف ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔ ڈھائی دن کی پُر لطف چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ چاہیں سوئیں، چاہیں اپنے نئے کمپیوٹر پر گیم کھیلیں، چاہیں لیٹے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے۔

 

اچانک ہمارے کینیڈین دوست نے اپنی خمار آلود نگاہیں اوپر اٹھائیں اور ہم سے مخاطب ہوا۔

 

’’ خلیل! کیا خیال ہے ؟ کیوں نہ برلن چلیں ؟‘‘

 

’’برلن؟ ابھی؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔ ’’ گورا نشے میں ہے۔ ‘‘ ہم نے سوچا۔

 

’’ہاں۔ کیوں نہیں ؟‘‘ وہ ترنگ میں آ کر بولا۔

 

اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ دو دن کی پہاڑ جیسی چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔

 

ہم دونوں نے جلد جلد اپنے مشروبات ختم کیے اور وہاں سے نکل کر ریلوے اسٹیشن پہنچے جو سنٹرم سے زیادہ دور نہ تھا۔ معلومات کی کھڑکی سے معلوم ہوا کہ برلن جانے والی انٹر سٹی ریل گاڑی رات بارہ بجے یہاں سے روانہ ہو گی۔ ہم نے بکنگ کروا لی اور اپنے اپنے مستقر کی طرف روانہ ہو گئے۔ رات بارہ بجے دوبارہ ایک ایک تھیلا لیے اسٹیشن پر ملے اور ٹرین کے آنے پر اطمینان کے ساتھ اس کی آرام دہ سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ ٹرین ساری رات کئی گھنٹے چل کر صبح سویرے برلن زو اسٹیشن پہنچے گی۔ ریل گاڑی چھکا چھک چلی اور ایرلانگن سے روانہ ہوئی اور رات کے کسی پہر سرحد پار کر گئی۔ کچھ سرحدی گارڈ ریل گاڑی پر چڑھ آئے اور لگے پاسپورٹ چیک کرنے۔ ہم دونوں نے اپنے پاسپورٹ ان کے حوالے کیے تو انھوں نے کاغذی کارروائی کے بعد ایک علیحدہ کاغذ پر مشرقی جرمنی کا ٹرانزٹ ویزا ہمارے حوالے کر دیا اور یوں ہم مغربی جرمنی سے مشرقی جرمنی میں داخل ہو گئے۔

 

ہم نے آرام دہ برتھ پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں اور ایک دوسری دنیا میں پہنچ گئے۔ صبح سویرے تازہ دم ہو کر اٹھے تو اجالا پھیل چکا تھا اور ریل گاڑی مشرقی جرمنی کے میدانوں، کھیتوں اور کھلیا نوں، بستیوں اور ویرانوں سے دوڑتی ہوئی گزرتی جا رہی تھی۔ پہلی چیز جو ہم نے محسوس کی وہ مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی کے ماحول کا واضح فرق تھا۔ جہاں مغربی جرمنی کے ماحول سے امارت ٹپکتی تھی وہیں مشرقی جرمنی کا ماحول نسبتاً غربت کی عکاسی کرتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم مشرقی جرمنی کو عبور کر کے مغربی برلن میں داخل ہو گئے اور صبح سات بجے کے قریب برلن زو نامی ریلوے اسٹیشن پر اتر گئے۔

 

ریلوے اسٹیشن سے خراماں خراماں چلتے ہوئے باہر نکلے تو برلن کی خوبصورت صبح اپنے حسین جلوے بکھیرے ہماری منتظر تھی۔ ہم نے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہلتے ہوئے ایک چکر لگا یا اور برلن کا مشہور ناشتہ کرنے کے لیے ریستوران کے باہر لگی ہوئی ایک میز پر براجمان ہو گئے۔ مزے لے لے کر ناشتہ کیا اور اس دوران موسم اور دیگر نظاروں کا خوب لطف اٹھایا۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ قریب ہی کئی ٹوور بسیں مسافروں کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ہم نے بھی مشرقی برلن کے ٹوور کا بس ٹکٹ خرید لیا۔ یہ سفر چار گھنٹے دورانیئے کا تھا۔ بس کچھ دیر مسافروں کے انتظار کے بعد ہمیں لے کر چلی تو آن کی آن میں دیوار برلن کی مشہور گزرگاہ چیک پوائنٹ چارلی پہنچ گئی۔ یہاں ہم قارئین کو اس بدنامِ زمانہ دیوار کی تاریخ سے آگاہ کرتے چلیں۔

 

جنگِ عظیم دوم کے اختتام پر شکست خوردہ جرمنی کو اتحادیوں کے چار فاتح ملکوں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے پوٹسڈیم ایگریمنٹ کے ذریعے چار حصوں میں بانٹ لیا۔ برلن جو جرمنی کا دارالخلافہ تھا، اسے بھی اسی طرح چار سیکٹرز یعنی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس بندر بانٹ کے دو سال کے اندر اندر ہی اتحادی قوتوں کا فاتح اتحاد پارہ پارہ ہو گیا اور روس اپنے حصے کو لیکر علیحدہ ہو گیا۔ اِدھر امریکہ برطانیہ فرانس اور قریبی ہالینڈ، بیلجئیم اور لکسمبرگ نے مارشل پلان کے ذریعے باقی تین حصوں کو ملا کر مغربی جرمنی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی۔ مغربی برلن بھی اسی منصوبے کے تحت مغربی جرمنی کی حدود میں آ گیا۔

 

مشرقی جرمنی کے تسلط سے آزادی پانے کے خواہش مند سینکڑوں باشندوں نے موقع غنیمت جانا اور اور سرحد پار کر کے مغربی برلن پہنچنا شروع ہو گئے، جہاں سے وہ آزاد ی کے ساتھ مغربی جرمنی جا سکتے تھے۔

 

اس صورتحال کے پیشِ نظر ۱۹۴۸ میں روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اسے چاروں طرف سے گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت اور سپلائیز کو روک دیا گیا۔ مغربی طاقتوں نے اس مشکل صورتحال سے اہلِ شہر کو نکالنے اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے برلن ائر لفٹ کا پروگرام بنایا اور اس طرح تمام نجی ائر لائینز کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ برلن ائر لفٹ نے اس بائیکاٹ کو بے معنی بنا دیا تو ۱۹۴۹ میں یہ بائیکاٹ ختم کر دیا گیا۔ ۱۳ اگست ۱۹۶۱ کو مشرقی جرمنی نے دیوار برلن کی تعمیر شروع کی اور اس طرح مغربی برلن کو گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت کو ناممکن بنا دیا۔

 

بالآخر ۱۹۸۹ میں جرمنی متحد ہوا، اور اس دیوار کو گرا دیا گیا لیکن اس عرصے میں تقریباً ۵۰۰۰ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی جن میں سے تقریباً دوسو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۱۹۸۶ میں جب ہم مغربی جرمنی پہنچے، تو جرمنی دو حصوں میں منقسم تھا اور دیوارِ برلن اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت موجود تھی، جسے ہم چار گھنٹے کے لیے عبور کیا چاہتے تھے۔

 

 

 

 

(۳)

 

 

ہماری بس چیک پوائینٹ چارلی پہنچی تو مغربی جرمنی کی سرحد پر متعین گارڈز نے ہمارے پاسپورٹ کا جائزہ لیا اور ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیا۔ بس رینگتی ہوئی آگے بڑھی اور نو مینز لینڈ سے ہوتی ہوئی مشرقی جرمنی کی سرحد پر پہنچ گئی۔ دیوارِ برلن کو دیکھ کر جو ہیبت ہم پر طاری ہو گئی تھی وہ اور زیادہ گہری ہو گئی۔ مشرقی جرمن فوجیوں نے انتہائی سرعت کے ساتھ بس کو گھیرے میں لے لیا اور اس کی جامع تلاشی شروع کر دی۔ تمام مسافروں کے پاسپورٹ چیک کر کے اپنے قبضے میں کر لیے گئے اور بس کی نچلی منزل پر واقع سامان کے کمپارٹمنٹ کو کھول کر اس کی بھی تلاشی لی گئی۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی چیکنگ کے بعد آخر کار ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا گیا۔ اب ہم اگلے چار گھنٹے تک اس بس سے چمٹے رہنے پر مجبور تھے اس لیے کہ ہمارے پاسپورٹ فوجیوں نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے جو بشرط واپسی ہی ہمیں لوٹائے جانے تھے۔ ہمارے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو چکا تھا کہ ہم ایک آزاد دنیا سے ایک قید خانے میں جا رہے تھے۔ ایک عجیب اداسی کی کیفیت ہمارے حواس پر طاری ہو رہی تھی۔ اے اداسی تجھے سلام۔ ہم جو صرف چار گھنٹے کے لیے اس دنیا میں داخل ہوا چاہتے تھے، پریشان تھے، اداس تھے، اپنی آزادی کے چھن جانے پر خوفزدہ تھے۔ ہمیں ان لوگوں کا بھی خیال تھا جو اپنی ساری زندگی اس قید خانے میں گزارنے پر مجبور تھے۔ جن کے ارد گرد ایک لوہے کا پردہ ڈال دیا گیا تھا۔ جو اس وسیع و عریض قید خانے میں ضمیر کے قیدی تھے۔ بھاری دل کے ساتھ ہم نے اس نئی دنیا میں قدم رکھا اور ہماری بس نے چیک پوایئنٹ چارلی سے مشرقی برلن ( مشرقی جرمنی) میں سفر شروع کیا۔

 

بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہمارے پیارے قارئین کو چیک پوائینٹ چارلی سے متعلق کچھ معلومات فراہم کر دی جائیں۔ یہ معلومات ہم نے مندرجہ ذیل ویب سائیٹ سے لی ہیں۔ قارئین اس ویب سائیٹ پر جا کر دیوارِ برلن کی پوری تاریخ جان سکتے ہیں۔

 

http://www.dailysoft.com/berlinwall/history/

 

’’ ۱۳ اگست ۱۹۶۱ کو سرحد بند کرنے کے دس دن بعد، سیاحوں، دوسرے ممالک کے افسروں ( ڈپلو میٹس ) اور مغربی طاقتوں کے فوجیوں کو مشرقی برلن میں داخلے کے لیے صرف فریڈریش اسٹراسے پر واقع گیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ کچھ دن بعد، اس کے علاوہ دو اور چیک پوائینٹس کھولے گئے جن میں سے ایک مغربی جرمنی کی سرحد پر واقع تھا اور ہیلم اشٹاڈ میں تھا اور دوسرا مغربی برلن اور مشرقی جرمنی کی سرحد پر،ڈرائی لنڈن میں تھا۔ ان تین چیک پوائینٹس کو بالترتیب چیک پوائینٹ الفا ( ڈرائی لنڈن)، چیک پوائینٹ براوو ( ہیلم اشٹاڈ) اور چیک پوائینٹ چارلی ( فریڈریش اسٹراسے ) کے نام سے پکارا گیا۔ ‘‘

 

چیک پوائینٹ چارلی سے آگے بڑھے تو ہماری حسین گائڈ نے بس کے انٹر کام پر ہمیں خوش آمدید کہا اور ارد گرد کی عمارات سے متعلق معلومات بہم پہنچانا شروع کر دیں۔ ہم ایک کشادہ سڑک پر پہنچے تو گائڈ نے بتایا کہ اس سڑک کا نام اُنٹر ڈی لنٹن یعنی ’’لیموں کے درختوں کی چھاؤں میں ‘‘ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس سڑک پر دو رویہ لیموں کے درخت لگائے گئے تھے جس کی وجہ سے اس اسٹراسے کا نام ہی اُنٹر ڈی لنٹن پڑ گیا تھا۔ اس وسیع و عریض شاہراہ کے دونوں جانب انتہائی عالیشان عمارتیں اس شہر کے عظیم ماضی کے قصے سنا رہی تھیں۔ ایک ایک عمارت دیکھنے کے لائق تھی۔ خوبصورت، عالیشان اور فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ۔ یکے بعد دیگرے ان عمارتوں کا ایک سلسلہ تھا جو دور تک پھیلا ہوا تھا۔ پتھر کی بنی ہوئی یہ بلند و بالا عمارتیں اس پارینہ عظمت کے گن گا رہی تھیں جو اس شہر اور اس عظیم ملک کا خاصہ تھی۔ ہم دیکھتے ہی چلے گئے۔ کبھی بس کے سامنے کے شیشے سے آنے والی عمارت کو دیکھتے، کبھی دائیں دیکھتے اور کبھی بائیں۔ ادھر ہماری گائڈ ایک خوبصورت جرمن خاتون تھی جس کے گلے کی حلاوت پر ہم کئی کئی مرتبہ قربان ہو ہو سے گئے۔ اس کا بیان پہلے جرمن اور پھر انگلش زبان میں ہوتا۔ پہلے ہم اس کے حسین چہرے کی بناوٹ کو دیکھتے ہوئے اس کے خوبصورت منہ سے جرمن زبان کی شیرینی کے مزے لوٹتے اور پھر انگلش میں اس کا مدعا جانتے۔ پہلے جرمن زبان میں وہ جب بھی شہر برلن کا تذکرہ کرتی، اس کے بیان میں لفظ ‘برلن‘ ہمیں بلین سنائی دیتا، پھر اس کے ترجمے میں وہ اسے انگلش لہجے میں بورلن ( رے کو پر کر کے ) ادا کرتی۔ ہم جو اس کے الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ پر پہلے ہی فدا ہو رہے تھے، اس لفظ کو دو مختلف زبانوں میں سن کر تو جھوم جھوم اٹھتے۔ اگلے تین گھنٹے کچھ اس تیزی کے ساتھ گزرے کہ ہم حیران رہ گئے۔ کاش کچھ اور وقت ملا ہوتا تاکہ ہم اس کی زبان کی شیرینی سے صحیح طور پر لطف اندوز ہو سکتے۔ کاش کچھ اور وقت ملا ہوتا اور ہم پیدل گھوم کر ان عمارتوں کو دیکھ پاتے۔ یہی سوچتے ہوئے ہم ایک ایک گزرے ہوئے لمحے کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرتے رہے۔

 

ایک جگہ، پتھر کی خوبصورت عمارت کے صحن میں ہمیں بس سے تارا گیا۔ ہم نے ٹانگیں سیدھی کیں اور گائڈ کی جانب دیکھا تو پتا چلا کہ ہمیں ایک عدد میوزیم کو دیکھنے کے لیے یہاں روکا گیا ہے۔ میوزیم بھی خاصا دلچسپ تھا۔ فارغ ہوئے تو پھر بس میں اپنی اپنی سیٹ سنبھالی اور اپنی حسین ٹوور گائڈ اور مشرقی برلن کے خوبصورت نظاروں میں کھو گئے۔

 

بس میں سے چلتے چلتے ہم نے ایک عدد عالیشان اور خوبصورت گیٹ کو بھی دیکھا جس کے اوپر ایک لائف سائز رتھ کو چار تنومند گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ اس ’’کواڈریگا ‘‘ یعنی رتھ کو جرمن دیومالائی کہانیوں کی فتح کی دیوی ’’ وکٹوریہ‘‘ چلا رہی ہے۔ پتھر کا بنا ہوا یہ مجسمہ اتنا دل لبھانے والا تھا کہ ہم مبہوت ہو کر اسے دیکھتے رہے جب تک کہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ یہ عمارت جس کا نام برنڈن برگ گیٹ ہے، برلن کا لینڈمارک یا علامتی عمارت کہلائی جانے کی بجا طور پر مستحق ہے

 

کبھی کبھی دیوار برلن کی بھی ہمیں ایک آدھ جھلک نظر آ جاتی تھی لیکن دور دور سے، ا دھر ہماری گائڈ اس بارے میں خاموش تھی۔ وہ ہمیں سامنے سے گزرنے والی عمارتوں کے ماضی بعید کے بارے میں فر فر بتاتی رہی، لیکن پچھلے پچاس ساٹھ سالہ تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

خیر صاحب، یہ چار گھنٹے کہاں گئے، ہمیں آج تک نہیں پتا چلا۔ ہم ایک خوابناک انداز میں اس عظیم الشان شہر کو دیکھتے رہے یہاں تک کہ بس دوبارہ چیک پوائینٹ چارلی پر پہنچ کر رک گئی۔ اب جو تلاشی شروع ہوئی ہے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بس کے ہر کونے کھدرے کی تلاشی لی گئی۔ سامان کے کمپارٹمنٹ کو دوبارہ کھلوا کر ایک ایک سوٹ کیس اور بیگ کو نکال کر دیکھا گیا۔ دراصل مشرقی جرمنی والے یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بھی شہری ان کے چنگل سے آزاد ہو کر آزاد دنیا میں جا سکے اور سکھ اور چین کا سانس لے سکے۔ ہمیں ہر لمحہ یہ خوف دامن گیر تھا کہ کہیں ہمیں کسی نا کر دہ گناہ کی پاداش میں روک ہی نہ لیا جائے۔ خیر خدا خدا کر کے اس تکلیف دہ صورت حال کا خاتمہ ہوا اور فوجیوں نے بس کو آگے بڑھانے کا اشارہ کر دیا۔ ہمیں اپنے پاسپورٹ کی بھی فکر دامن گیر تھی لیکن گائڈ کے ہاتھوں میں پاسپورٹوں کی گڈی میں جھانکتا ہوا ہرا رنگ دیکھ کر جان میں جان آئی۔ بس نے ہمیں اسی چوک میں اتار دیا جہاں سے ہم اس سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم مشرقی جرمنی کے شہر مشرقی برلن ہو آئے ہیں۔ ہم نے اور ہمارے کینیڈین دوست نے اپنے اپنے پاسپورٹ سنبھالے اور دوسری بس کی جانب بڑھے جو مغربی برلن کی سیر کے لیے تیار تھی۔

 

اگلے آدھے گھنٹے کے اندر اندر ہم مغربی برلن کی سیر کی غرض سے ایک دوسری بس میں آرام سے بیٹھے تھے، ہماری ہمسفر گائڈ ایک اور جرمن شگفتہ چہرے والی خاتون تھی اور بس اپنے سفر پر روانہ ہونے کو تھی۔ ہم نے اپنی نگاہیں گائڈ کے چاند سے چہرے پر گاڑ دیں اور مغربی برلن کی بہاریں دیکھنے کے لیے تیار ہو گئے۔

 

بس چلی تو سب سے پہلا نظارہ قیصر ویلہلم کا گرجا تھا جو جنگ عظیم دوم میں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اس کا تباہ شدہ مینار اب بھی اسی حالت میں کھڑا عظمت رفتہ کی کہانی سنا رہا ہے جس کے برابر ۱۹۶۳ میں ایک نئی عمارت بنا دی گئی ہے۔ بس گھومتی رہی اور ہم مغربی جرمنی کی خوبصورت اور نسبتاً نئی عمارات کو دیکھتے رہے۔ ہمارا خیال ہے کہ زیادہ تاریخی اور عالیشان عمارات شہر کے مشرقی حصے میں تھیں۔ بس نے ہمیں دیوارِ برلن کے قریب ایک عمارت میں اتارا اور ہم اس میوزیم کو دیکھتے ہوئے دیوارِ برلن کی اصل کہانی سنتے رہے۔ یہاں سے ہم دیوار کے قریب گئے اور اس پر مغربی جانب بنے ہوئے مصوری کے نمونے دیکھا کیے۔ قریب ہی کچھ قبریں بھی تھیں جو دیوار پار کرنے والوں پر مشرقی گارڈز کے ظلم کی داستان سنا رہی تھیں۔

 

ہم نے میوزیم کی عمارت کے چبوترے پر چڑھ کر دوسری طرف جھانکا تو قریب ہی برنڈن برگ گیٹ کی عالیشان عمارت نظر آ رہی تھی۔ دیوار کی دوسری جانب ایک ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا اور کوئی آدم یا آدم زاد نظر نہیں آتا تھا، گو یا کسی انسان کو بھی اُدھر دم مارنے کی اجازت نہ تھی، اِدھر مغربی جانب اسے ایک مصور دیوار کی حیثیت حاصل تھی جس پر ہزاروں مصوروں نے اپنے نقش و نگار چھوڑے تھے۔

 

بحیثیت مجموعی برلن ہمیں اچھا لگا تھا۔ آج تقریباً پچیس سال بعد ہم اس شہر کو دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ متحدہ برلن کتنا عظیم الشان شہر ہو گا۔ اس کریہہ المنظر دیوار کا کیا ہوا ہو گا۔ ٹی وی پر کئی مرتبہ اس دیوار کو گرتے ہوئے دیکھا ہے، جو ہمیں بہت اچھا لگا۔ اس وقت لوگوں کے بپھرے ہوئے جذبات کا کیا عالم ہو گا جب انھوں نے ہر زنجیر کو توڑ دیا اور اس قبیح دیوار کو آخر کار گرا دیا جس نے انھیں پچاس سال ایک دوسرے سے جدا رکھا تھا۔ اس دنیا میں ہم نے ایک ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ ہوتے ہوئے تو اکثر دیکھا ہے لیکن یونیفیکیشن یعنی ایک ملک کے دو حصوں کو متحد ہوتے ہوئے پہلی بار دیکھا۔ People have spoken عوام کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔

 

اپنے دن کی اس مصروفیت میں ہم دوپہر کا کھانا بھول چکے تھے، لہٰذا ان دونوں سفروں سے فارغ ہو کر ہم نے ایک ریستوران میں جا کر رات کا کھانا کھایا، اور اسٹیشن پہنچ کر میونخ کی ٹرین پر سوار ہو گئے۔ ابھی اتوار کا دن باقی تھا جسے ہم میونخ کی سیر میں گزارنا چاہتے تھے۔ آج ساری رات سفر میں سوتے ہوئے گزار کر کل صبح سویرے ہم میونخ پہنچ جائیں گے جسے اہلِ جرمنی میونچن کہتے ہیں۔

 

رات آئی تو پھر گارڈز نے ہمارے پاسپورٹ چیک کیے اور ہمیں مشرقی جرمنی کا ٹرازٹ ویزا تھما دیا۔ یہ دونوں کاغذات اب بھی ہمارے خزانے میں موجود ہیں۔ جب کبھی ہم اپنے اس خزانے کو نکال کر دیکھنا شروع کرتے ہیں میموری لین میں پہنچ جاتے ہیں، اپنی پیاری یادوں کے درمیان، جب ہم نے یہ سفر کیے تھے۔ جب ہم نے اس انوکھی سرزمین کی سیر کی تھی۔

 

اس سفر سے واپسی کے بعد برلن ہمارے لیے اجنبی شہر نہ تھا۔ جب کبھی کسی ناول میں اس کا تذکرہ آتا، ہم بہت شوق سے اسے پڑھتے۔ برلن جسے ہم دیکھ چکے۔ دیوارِ برلن جو اب قصہ پارینا بن چکی، ہم نے اسے دیکھا ہے۔ جان لی کار کا جاسوسی ناول ’’دی اسپائی ہو کیم ان فرام دی کولڈ‘‘ ہمارے پسندیدہ ناولوں میں سے ہے۔ یہ اسی دور کی کہا نی ہے جب دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ دیوار برلن کے اُس طرف اور دیوارِ برلن کے اِس طرف۔ آہنی پردے کر اُس طرف اور آہنی پردے کے اِس طرف۔ یہ ٹھنڈی جنگ یعنی ‘کولڈ وار‘ کا قصہ ہے۔ اسی ناول میں چک پوائینٹ چارلی کا تذکرہ بھی موجود ہے جسے عبور کرتے ہوئے ایک کر دار مشرقی جرمن فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہ وہی چیک پوائینٹ چارلی ہے جسے عبور کر کے ہم مشرقی برلن گئے تھے۔

 

اگلی صبح ہم میونچن پہنچ گئے اور سارا دن اسی طرح اس عظیم شہر کی سیر کی اور شام ڈھلے ایرلانگن کو سدھارے۔ میونچن، نورمبرگ اور ایرلانگن، جرمن صوبے بویریا کا حصہ ہیں۔ بویریا کے رہنے والے بائر کہلاتے ہیں۔ ریشارڈ شرم بھی ایک بائر تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا۔

 

It‘s nice to be a price but it‘s higher to be a Bayar

 

’’پرائس ہونا اچھا ہے لیکن بائر ہونا زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘

 

کہتے ہیں پرانے زمانے میں بویریا میں گھڑیاں الٹی چلتی تھیں۔ آج بھی بویریا کی گھڑیوں کی دکانوں پر آپ کو ایسی گھڑیاں مل جاتی ہیں جو کاؤنٹر کلاک وائز چلتی ہیں۔ ہم نے بھی میونچن سے ایک ایسی ہی دیوار گھڑی ( وال کلاک) مول لی جو الٹی چلتی تھی۔ گھر لا کر اکثر ہم اپنے مہمانوں کو یہ عجیب و غریب گھڑی دِکھا کر حیران کر دیا کرتے تھے۔

 

ہمارا ویک اینڈ ختم ہو رہا تھا۔ کل سے پھر وہی ٹریننگ ہو گی اور وہی مصروفیات۔ اِس کورس میں ابھی ایک ہفتہ باقی ہے۔ اگلے ہفتے بابو بھی کراچی سے آرہے ہیں جن کے ساتھ مل کر ہم ایک دوسری ٹریننگ حاصل کریں گے، ایک دوسری جماعت کا حصہ بنیں گے۔ ہمارا کینیڈین دوست، ہمارا جرمن دوست ریشادڑ شرم اور سوین گنار اولسن سب اپنے اپنے گھروں کو سدھاریں گے، شاید پھر کبھی نہ ملنے کے لیے۔ ٹرین جوں جوں ایرلانگن سے قریب ہوتی جاتی تھی، ہماری اداسی بڑھتی جاتی تھی۔ اے اداسی تجھے سلام۔

 

 

 

(۴)

 

 

اسی کشمکش میں گزریں مری جرمنی کی راتیں

 

کبھی کچھ حسین چہرے، کبھی ان کی شوخ باتیں

 

خبردار ! بلکہ ایک مرتبہ پھر خبردار!۔ کہیں شاعرِ مشرق کے ساتھ ہماری اس برجستہ گستاخی سے کوئی اور مطلب نہ نکال لیجیے گا۔ ہم تو ( غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ) صرف اس بات کے قائل ہیں کہ

 

نیند اس کی ہے ! دماغ اس کا ہے ! راتیں اس کی ہیں

 

تیری زلفیں جس کے خوابوں میں پریشاں ہو گئیں

 

جمعہ کی صبح ہمارے لیے، خوشی و غم کے ملے جلے جذبات لے کر آئی۔ آج جرمنی میں ہمارے پہلے کورس کا اختتام تھا اور اس حوالے سے جہاں ہمیں اپنے پرانے دوستوں کے بچھڑنے کا غم تھا وہیں بابو کی آمد اور نئے دوستوں سے ملاقات کی خوشی اور اشتیاق تھا۔ تربیت گاہ پہنچے تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ کسی منچلے نے تختۂ سیاہ پر جلی حروف میں ٹی۔ جی۔ آئی ایف لکھ دیا تھا۔ ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس شوخیِ تحریر کا آخر مدعا کیا ہے۔ ہمارے کینیڈین دوست نے فوراً ہماری مشکل آسان کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس کا مطلب ہے، ’’تھینک گاڈ اِٹس فرائیڈے‘‘ یعنی اللہ کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔

 

تب تو ہم فوراً سمجھ گئے۔ دراصل مغرب میں ہفتے کا اختتامیہ دو دن یعنی ہفتے اور اتوار پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان دو دنوں میں اہل مرکب مکمل تفریح کرتے ہیں، لہٰذا جمعے کا مبارک دن انہیں اس ڈھائی دن کی چھٹی کا مژدہ سناتا ہے۔ ہم نے وہاں برف باری کے دوران منچلے لوگوں کو اپنی فور وہیل ڈرائیو جیپ پر اپنی کھڑی سائیکلیں کسے گھر سے دور پکنک پر جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

 

کچھ دوست جو یورپ یا جرمنی ہی کے دوسرے شہروں سے آئے تھے، صبح ہی اپنے ہوٹلوں سے چھٹکارا حاصل کر چکے تھے اور اپنا سارا سامان اپنی موٹر گاڑیوں میں ڈال لائے تھے تاکہ دوپہر کو لنچ کرتے ہی اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ جائیں۔ ہم پچھلے ہفتے کھائی ہوئی دو دعوتوں کے خمار میں تھے۔ پہلی دعوت ہمارے پیارے دوست ریشارڈ شغم نے صرف ہمیں دی تھی اور دوسری دعوت ہمارے ریجن کے منتظم نے اپنے تمام مہمان طالب علموں کو دی تھی۔ ان دونوں حسین شاموں کا تذکرہ بھی اب ہمارے لیے ایک میٹھی میٹھی، لذت انگیز، درد بھری کسک کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ یہ دنیا اچھے، ملنسار اور دوست لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ جب بھی دو انسان کچھ دنوں کے لیے ایک دوسرے کے قریب وقت گزارتے ہیں، لازمی طور پر ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ ایک دن ہمیں ضرور یاد آتے ہیں اور بے طرح یاد آتے ہیں۔ ہمیں آج یہ واقعات لکھتے ہوئے نہ صرف اپنے وہ دوست یاد آرہے ہیں بلکہ اپنے سنڈک ری اسکول کے ایک استاد کا ہماری آٹو گراف بک پر لکھا ہوا یہ شعر بھی یاد آ رہا ہے۔

 

فرصت نہ دیں گے یوں تو غمِ زیست ایک پل

 

کچھ دن تمہاری یاد مگر، آئے گی ضرور

 

ایک دن صبح ہی ریشادڈ نے ہمیں اپنے گھر پر رات کے کھانے کے لیے دعوت دے ڈالی اور ہم نے لگے ہاتھوں، بصد شکریہ اس دعوت کو قبول بھی کر لیا۔ سہ پہر پانچ بجے جب اسکول کی چھٹی ہوئی تو ہم بھی اس کے ساتھ اس کی موٹر گاڑی میں بیٹھ گئے اور وہ ہمیں لے کر کشاں کشاں حلال گوشت کی تلاش میں نکلا۔ ایک جگہ حلال گوشت مل گیا تو وہ ہمیں اپنے جلو میں لیے ہوئے اپنے فلیٹ پر پہنچا اور فوراً ہی باورچی خانے میں جا کر ایک عدد پیتزا بنانے کا اہتمام شروع کر دیا۔ بز ار دقت پیتزا بن کر تیار ہوا، اس نے دو عدد موم بتیاں روشن کیں اور انھیں میز پر سجا کر ہم دونوں نے مزے لے لے کر مزیدار پیتزا کھانا شروع کیا۔ یورپ میں رات کے کھانے کے وقت موم بتیوں کا استعمال بھی خوب ہے۔ اسے کھانا کھاتے وقت ماحول کی ایک خوشگوار تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔ آپ جیسے ہی کسی ریستوران میں اپنی میز پر پہنچتے ہیں، ایک خوبصورت سی میزبان آگے بڑھ کر آپ کی میز پر رکھی ہوئی موم بتیوں کو روشن کر دیتی ہے اور فورا ً آپ کا آرڈر لینے کے لیے ہمہ تن گوش ہو جاتی ہے۔ اگر کسی نے آپ کو اپنے گھر پر دعوت دی ہے تو وہاں پر بھی کھانا شروع کرنے سے پہلے کھانے کی میز پر موم بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں۔ چاہنے والوں کے لیے تو کینڈل لائٹ ڈنر ایک خوبصورت اور معنی خیز دعوت ہوتی ہے۔

 

ہم دونوں اس لذیذ پیتزا کا مزا بھی لے رہے تھے اور دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں بھی کر  رہے تھے۔ دورانِ گفتگو ہم نے اس سے ایک انتہائی ذاتی قسم کا سوال کر ڈالا۔ ہم نے اس سے بے تکلفانہ انداز میں اس سے اس کے سنگل ہونے کا راز پوچھا۔

 

بغیر شرمائے اس نے بتایا کہ حال ہی میں اس کی اپنی گرل فرینڈ سے علیحدگی ہو چکی ہے۔

 

ہم نے اس کے اس جواب سے ہمت پکڑی اور فوراً حملہ کر دیا’’ اس کی وجہ؟‘‘

 

ریشارڈ نے اس بات کا بھی برا نہ منایا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یوں گویا ہوا۔

 

’’دراصل ہمارے تعلقات اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ ہم اپنی شادی کے ممکنات پر بھی غور شروع کر چکے تھے۔

 

’’واقعی؟ پھر کیا ہوا؟‘‘ ہم نے خوش ہوتے اور اس نازک صورتحال میں مزید دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔ ’’

 

’’ پھر یوں ہوا کہ اس نے میرے سامنے اپنے ماں باپ کی مرضی کے مطابق یہ مطالبہ رکھ دیا کہ شادی کے بعد ہم دونوں اس کے ماں باپ کے گھر پر رہیں گے۔ ‘‘

 

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

 

’’ مجھے یہ بات منظور نہیں تھی۔ میں چاہتا تھا کہ شادی کے بعد ہم دونوں یہاں اس فلیٹ میں رہیں۔ ‘‘

 

’’تو کیا اس نے تمہاری تجویز سے اتفاق نہیں کیا؟‘‘

 

’’نہیں۔ ہم دونوں میں اس بات پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا اور ہم علیحدہ ہو گئے۔ ‘‘

 

’’بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔ ‘‘ ہم نے اس کے ساتھ ہمدردی جتائی۔ آخر کو وہ ہمارا گہرا دوست تھا۔

 

’’افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اب میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلی مرتبہ اپنی کسی گرل فرینڈ سے شادی کے بارے میں سوچنے سے پہلے میں اس کے ساتھ سال چھ مہینے زندگی گزاروں گا تاکہ اسے اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی اس قسم کا کوئی فیصلہ کروں۔ ‘‘

 

’’ارے ؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔

 

وہ شام یونہی اوٹ پٹانگ باتوں میں گزر گئی۔ اگلے دن دورانِ کلاس ہمارے ریجنل منتظم نے ہمیں پیغام پہنچایا کہ شام کو وہ ہمارے اعزاز میں ایک دعوت دے رہے ہیں جو سنٹرم کے قریب ایک ریستوران میں ہو گی اور ہمیں چاہیے کہ ہم شام سات بجے وہاں پہنچ جائیں۔

 

اپنے تئیں ہم ٹھیک وقت پر گھر سے نکلے اور بس اسٹاپ پر پہنچ کر بس کا انتظار شروع کیا۔ اللہ جانے اس دن کیا ہوا کہ ہمیں وہ بس نہیں ملی اور ہم آدھ گھنٹے بعد آنے والی بس پکڑ کر ریستوران پہنچے۔ لیٹ ہو چکے تھے اس لیے وہاں پر مہتمم صاحب اپنی بیگم صاحبہ و دیگر مہمانوں سمیت نہایت بے چینی کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ سلام و تعارف اور دیگر رسمی خوشگوار جملوں کے تبادلے کے بعد ہم نے پیش کی گئی کرسی سنبھالی جو مہتمم صاحب کی بیگم صاحبہ کے برابر تھی، اپنے حواس درست کیے اور اپنے دیر سے آنے کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ خیر جرمنی میں بس کے نہ آنے یا دیر سے آنے کا خیال ہی بے معنی ہے، لذٰکا ہماری ساری کوششیں یونہی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گئیں اور بات آئی گئی ہو گئی۔

 

ہمارے ریجن کے جتنے بھی طالب علم اس وقت شہر میں موجود تھے، انھیں بھی مہتمم صاحب نے دعوت دی تھی، لہٰذا ہمیں ملا کر دعوت میں کل چھ اشخاص تھے۔ ہم چونکہ میزبان خاتون کے پہلو میں بیٹھے تھے، لہٰذا انھوں نے فوراً ہم سے پوچھا کہ ہم کون سا مشروب پینا پسند کریں گے ؟ ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا، ہماری میز پر ہر طرف بئیر کے گلاس نظر آرہے تھے۔ ہم نے محفوظ ترین مشروب یعنی کافی کا نام لے ڈالا۔ خاتون پریشان سی ہو گئیں اور ہم سے پوچھا کہ کیا واقعی ہم بئیر نہیں پئیں گے ؟

 

ہائے رے مجبوری۔

 

اول شب وہ بزم کی رونق،شمع بھی تھی، پروانہ بھی

 

یعنی موسم تو عاشقانہ تھاہی، میخانہ بھی گرم تھا، ساقی بھی ساقی گری کی لاج رکھنے کے لیے تیار تھا، ایک ہم ہی پینے والے نہ تھے۔

 

ہم نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم شراب نہیں پیتے اس پر ان خاتون کی پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا اور انھوں نے ہمیں وائن کی پیشکش کر دی۔ ہم نے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے، ان سے کہا کہ اے نیک دل خاتون، وائن بھی شراب ہی ہے لہٰذا ہم الکوحل سے پاک کوئی مشروب ہی پی سکتے ہیں۔ تب اس نیک دل خاتون نے ہماری توجہ آرنج جوس کی طرف دلائی تو ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ ان کی جان میں جان آئی کہ مہمان خوش ہوا اور انھوں نے ایک گلاس آرنج جوس کا آرڈر کر دیا۔ ادھر مہمان کی بھی جان میں جان آئی کہ یہ معاملہ بحسن و خوبی حل ہوا۔ چونکہ محفل کے دیگر تمام شرکا بے چینی کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہے تھے، لہٰذا ہماری آمد آمد کے ساتھ ہی کھانے کا آرڈر دیا گیا۔ اِدھر ایک مرتبہ پھر ہمیں دخل در معقولات کرنی پڑی اور ہم نے انھیں بتایا کہ ہم مذہبی طور پر چونکہ خنزیر کے گوشت یا گائے کے بغیر حلال کیے ہوئے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں لہٰذا ہم صرف سمندری غذا یا سبزی پرہی گزارا کریں گے۔ اب تو تمام دوستوں نے نہایت دلچسپی کے ساتھ اس کوشش میں حصہ لیا اور ہمارے لیے کھانے کی ڈش کا انتخاب کیا۔ یہ مشق بھی خوب تھی اور یاروں نے اس سے خوب ہی لطف اٹھایا۔ مینو کارڈ منگوا کر ہر ہر آئیٹم کا بغور جائزہ لیا گیا، اس کی جزئیات کو دیکھا گیا اور مآلِ کار کچھ ایسی ڈشز مل ہی گئیں جو ہمارے معیارِ انتخاب پر پوری اترتی تھیں۔ ڈنر کا آرڈر دیا گیا اور اس مشکل صورتحال سے بھی بخیر و خوبی نکلے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی میزبان خاتون سے باتیں شروع کیں، کچھ اپنی کہی اور کچھ ان کی سنی، اور اس طرح اس حسین شام کے طویل گھنٹے ہمارے لیے مختصر ہو گئے۔ ہم نے باتوں باتوں میں ان خوبصورت جرمن خاتون سے جرمن تہذیب و تمدن اور ثقافت کو سمجھنے کی کوششیں شروع کیں اور انہیں اپنی مشرقی روایات سے آگاہ کرنا شروع کیا تو ہم خود کھوئے سے گئے۔ ہم ان باتوں میں یوں کھوئے کہ اپنا آپ بھولے اور رات گئے ہوش آیا۔ دونوں میزبانوں نے ہم چاروں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ادھر ہم نے بھی اپنے دونوں میزبانوں اور خاص طور پر اپنی حسین میزبان کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی بدولت اس قدر حسین شام ہمارے حصے میں آئی اور رات بارہ بجے کی بس پکڑ کر اپنے کمرے کو سدھارے۔

 

خیر صاحب اس طرح جمعہ یعنی ہمارے اس کورس کا یومِ آخر بھی آ گیا۔ اپنی کلاس میں پہنچ کر اسامد صاحب کے آنے تک ہم نے خوب جی بھر کر اپنے  دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی۔ دوپہر بارہ بجے تک ہم سب تجربہ گاہ کو سمیٹ کر اور اپنے اساتذہ سے اپنی اپنی اسناد لے کر فارغ ہو چکے تھے۔ ہم آخری مرتبہ اپنے تمام دوستوں سے ملے اور دل پر ایک بھاری بوجھ لیے ان سب سے رخصت ہو گئے۔

 

اب ہم تھے اور ہماری تنہائی۔ اب ہمیں ڈھائی پہاڑ سے دن اس غیر ملک میں تنِ تنہا گزارنے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ بابو کا انتظار کرنا تھا۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے وطن سے نکلے اور اس غیر ملک میں پورے تین ہفتے، اپنی مادری زبان بولے بغیر، اپنے گھر والوں اور اپنے ہم وطنوں کو دیکھے بغیر گزار چکے تھے اور اب انگریزی بولتے بولتے اور پشتو نما جرمن سنتے سنتے تھک چکے تھے۔ اِدھر ہمیں یہ مژدہ جاں فزا بھی سننے کو مل چکا تھا کہ اگلے دو ہفتے یعنی اگلی کلاس میں ہمارے یارِ جانی عرف بابو بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ یوں یہ دو دن کا انتظار بھی کافی جان لیوا ثابت ہو رہا تھا۔

 

وہ سہہ پہر ہم نے بازار میں گزاری اور بابو کے شایانِ شان کوئی کھانے کی شے کھوجتے رہے۔ بالآخر طے کیا کہ ایک اچھے دوست کے لیے چاکلیٹ سے بہتر اور کوئی تحفہ تو ہو ہی نہیں سکتا اور ایک دکان سے باؤنٹی چاکلیٹ کے پانچ عدد چھوٹے پیکٹ مول لے لیے۔ بازار ہم گئے تھے، اک چوٹ مول لائے۔ ہفتے کے اختتامیے کے بعد بروزِ پیر جب بابو سے ملاقات ہو گی تو ہم انھیں کھانے کے یہ میٹھے اور ذائقے دار چاکلیٹ پیش کریں گے تو وہ ہماری دوستی اور خلوص سے کس قدر متاثر ہوں گے۔ ہم سا دوست کوئی کہاں سے پائے گا۔

 

ہفتے کے دن ہم دیر تک سوتے رہے۔ تقریباً دوپہر کو نہایت کسلمندی کے ساتھ اٹھے، ناشتہ کیا اور پھر سو گئے۔ اُٹھے تو خیال آیا کہ پانچ چاکلیٹ بہت ہوتے ہیں اور پھر بابو اتنے چاکلیٹ بھلا کب کھاتے ہوں گے، لہٰذا ایک چاکلیٹ نکال کر ہضم کر گئے۔ اسی طرح باقی وقت اور اتوار کا پورا دن بابو کا انتظار کرتے رہے اور چاکلیٹ کھاتے رہے، یہاں تک کہ انتظار کی گھڑیاں بھی کٹ گئیں اور چاکلیٹ بھی ختم ہو گئے اور ہم اگلے خوشگوار دن کا تصور اپنے ذہن میں لاتے ہوئے نیند کی وادی میں پہنچ گئے۔

 

 

 

 

(۵)

 

 

ہمارے اس سفر نامے کی پہلی قسط پڑھ کر ارلانگن ہی سے اردو محفل کے نبیل بھائی  نے اچانک ہم سے پوچھ لیا ’’ خلیل بھائی ! آپ ارلانگن کب تشریف لائے تھے۔ ‘‘

 

اس بے ساختہ سوال کو پڑھ کر ہم حواس باختہ رہ گئے۔ یہ سوال کچھ اتنا اچانک تھا گویا کوئی وقت کا راہی (ٹائم ٹریولر ) ہمارے ماضی سے نکل کر اچانک ہمارے سامنے آ بیٹھا ہو اور ہم سے پوچھ رہا ہو، ’’خلیل بھائی ! آپ ارلانگن کب تشریف لائے تھے۔ ‘‘ اور ہم سوچنے لگے کہ ان سے ہماری ملاقات اُس شہرِ غدار میں کہاں کہاں اور کس کس موڑ پر ہوئی تھی۔

 

دوسری مرتبہ ہمیں گڑبڑانے کا سہرا بھی نبیل بھائی ہی کے سر گیا۔ ہم نے حسینانِ ملکِ ختن کے لانبے بالوں پر اردو محفل ہی کے شمشاد بھائی کے مزیدار تبصرے پر کہا کہ لانبی گھنی زلفوں والی دلرباؤں کا غولِ بیابانی تو ہمارے ماضی میں رہتا ہے، حال کی خبر تو نبیل بھائی ہی دے سکیں گے۔ اس پر فوراً نبیل بھائی نے تڑکا لگایا، ’’جناب یہاں کیا خبر دیں، بس سرد شاموں میں نوئے میوہلے کے بس سٹاپ پر ایک خاتون بیٹھ کر ایک چوتھائی صدی پہلے کا وقت یاد کر کے آہیں بھرتی رہتی ہیں۔ ‘‘

 

اس پچھل پائی کے بارے میں سن کر ہماری تو سٹی گم ہو گئی، کیا واقعی نبیل بھائی کوئی وقت کے راہی ہیں جنہوں نے ہمیں نوئے میوہلے میں ایک عدد زنانہ اوور کوٹ پہنے انتہائی سرد شاموں میں سڑکیں ناپتے اور اپنے ناک اور منہ سے سگریٹ کی گرم گرم بھاپ نکالتے ہوئے دیکھا تھا اور اب وہاں سے واپسی پر ہمیں جتا رہے ہیں۔ یا پھر ہم خود ہی وقت کے راہی بن چکے ہیں۔ یہی آنا جانا رہا تو ہمارا تو خدا ہی حافظ ہے۔

 

جرمن وہ نہ تھے کوچے، اوراقِ مصور تھے

جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی

 

ہم ڈیفنی ڈی موریا کے ناول’’ دی ہاوس آن دی سٹرانڈ‘‘ سمیت دو تین ناولوں میں وقت کے مسافروں کی ذہنی اذیت کے بارے میں پڑھ چکے ہیں جو ماضی کی پر اسرار گلیوں میں اس حد تک کھو جاتے ہیں کہ حال میں وہ اجنبیوں کی طرح وقت گزارتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کیا رئیل ہے اور کیا سرئیل۔ کون سی صورتحال حقیقت ہے اور کون سی خواب۔ انھیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کہیں وہ ان تانوں بانوں اور اس بھول بھلیاں میں اپنا آپ ہی گم نہ کر بیٹھیں۔ شاید یہی وہ کیفیت ہو، یہی وہ ناسٹالجیا کا عذاب ہو جسے شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے

 

یادِ ماضی عذاب ہے یارب

 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

 

یارو ہم اس وقت جرمنی کے شہر ارلانگن میں اپنے سفر کی اس منزل پر تھے جہاں ہمیں اچانک اپنے ہم وطن سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی تھی، اور ہم خوشی سے بے قابو ہوئے جاتے تھے۔

 

کسی غیر ملک میں تربیت کے دوران یہ شاید ہمارا خوشگوار ترین پیر کا دن تھا، اس لیے نہیں کہ آج سے ہمارا نیا کورس شروع ہونے کو تھا، بلکہ اس لیے کہ آج ہماری ملاقات بابو سے ہونی طے تھی۔ ایسے خوشی کے موقعوں پر بقول پطرس جو ہنسی ہم ہنستے ہیں، اس میں معصوم بچے کی مسرت، جوانی کی خوش دلی، ابلتے ہوئے فواروں کی موسیقی اور بلبلوں کا نغمہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں، چنانچہ ہم اٹھتے ہی یہ ہنسی ہنسے اور ہنستے ہی رہے۔ یہاں تک کہ ہم تیار ہو کر گھر سے نکلے اور چشمِ زدن میں بس کا سفر طے کر کے سنٹرم بس اسٹاپ پر پہنچ گئے۔ اس مرتبہ ہمارا کورس سیمنز کے کارخانے میں ترتیب دیا گیا تھا، لہٰذا ہم نے میکڈانلڈ سے پیدل ہی سفر کرنے کی ٹھانی اور منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ ہی گئے۔

 

کلاس روم میں میں پہنچے تو گوہرِ مقصود ہاتھ آیا۔ افروز بابو اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت کلاس روم میں جلوہ افروز تھے۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے اور اس خوشی میں انگریزی ہی میں ان سے مخاطب ہو گئے اور ان کی خیریت پوچھی۔ بابو نے بھی انگریزی ہی میں جواب دیا اور اس طرح جرمنی میں ہمارے دو ہفتوں کے کورس کا آغاز ہوا۔ اس سارے کورس کے دوران ہم اور بابو کلاس میں انگریزی ہی میں بات کرتے اور کلاس سے باہر نکل کر اردو میں بات چیت شروع کرتے۔ دراصل ہم دونوں نہیں چاہتے تھے کہ کسی غیر پاکستانی کی موجودگی میں ایک ایسی زبان بولیں جو وہ نہ سمجھ سکے۔ ہم اپنے تئیں اسے ایک غیر اخلاقی حرکت گردانتے تھے۔

 

ہمارے دیگر کلاس فیلوز یعنی ہم جماعتوں نے ہمیں آپس میں بات کرتے ہوئے سنا تو حیرت ظاہر کی کہ کیا انگریزی ہی ہماری مقامی زبان ہے اور کیا اپنے ملک میں بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کے لیے انگریزی زبان ہی استعمال کرتے ہیں ؟ ہم نے نفی میں جواب دیا تو وہ اور زیادہ حیرت کا اظہار کرنے لگے۔ بالآخر انہیں سمجھانا پڑا کہ ہماری اس انگریزی دانی کا راز کیا ہے۔ دراصل یورپ کے غیر انگریزی داں علاقوں سے آئے ہوئے گورے، اگرچہ انگریزی جانتے ہیں، لیکن ان کی انگریزی بول چال کچھ واجبی ہی سی ہوتی ہے۔ ان کے سامنے ہم دونوں اپنی انگریزی دانی کی وجہ سے اندھوں میں کانے راجے سمجھے جاتے تھے۔

 

کلاس سے فارغ ہوتے تو ہم دونوں بھاگم بھاگ بازار کا رُخ کرتے، کچھ رات کی ہانڈی کا انتظام کرتے اور پھر نوئے میوہلے میں ہمارے کمرے میں پہنچ کر کھانا بنانے کا اہتمام کرتے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہوتے تب ہی بابو اپنے ہوٹل روانہ ہوتے اور ہم اپنا بستر سنبھالتے۔ ہمارا نیا کمپیوٹر اور ٹی وی بھی اپنے منحنی اسکرین سمیت بابو کو بہت پسند آیا تھا جس پر ہم دونوں جرمن زبان کے مختلف پرو گرام دیکھا کرتے اور لطف اندوز ہوتے۔

 

یارو ! عجیب دور تھا وہ بھی۔ ابھی کچھ ہی سال پہلے اپنے تعلیمی سفر کے دوران ہم نے حساب دانی میں سلائیڈ رول کو دیس نکالا دیتے ہوئے ایک انتہائی عجیب و غریب ایجاد یعنی کیلکو لیٹر کا استعمال شروع کیا تھا، اور اب نوئے میوہلے کے ایک گرم کمرے میں بیٹھے دنیائے سائنس کی حیرت انگیز ترین ایجاد کمپیوٹر سے کھیل رہے تھے۔ ڈیجیٹل الیکٹرانکس پڑھ چکے تھے، لیکن اس سائنسی شیطانی چرخے مائیکرو پروسیسر سے اب متعارف ہو رہے تھے۔ ایک دن ٹریننگ سنٹر میں چائے کے وقفے کے دوران دھیرے دھیرے گرم گرم کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے ہمارے کانوں میں کچھ آوازیں آئیں تو ہم چونک کر مڑے، ایک عدد ہیتھ کٹ بکاؤ تھی اور بابو ایک گورے کے ساتھ اس کا سودا کر رہے تھے۔ ہم بھی شریکِ گفتگو ہوئے تو پتہ چلا کہ سودا تقریباً ہو چکا ہے، بعوض ایک سو ڈوئچ مارک۔ ہم نے دلچسپی ظاہر کی اور ان صاحب سے پوچھا کہ اگر کوئی اور کٹ بکاؤ ہو تو ہم بھی خریدنا چاہتے ہیں۔ ان گورے صاحب کے ایک اور دوست جو قریب ہی کھڑے تھے، آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ ان کے پاس ایک کٹ موجود ہے اور وہ بھی اسے بیچنا چاہتے ہیں۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے قیمت دریافت کی۔

 

اسی اثنا میں، مارکیٹ میں مانگ بڑھ جانے کے باعث، اس کٹ کی قیمت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ان صاحب نے ہمیں اپنی کٹ کی قیمت ایک سو جرمن مارک اور ایک گلاس بیئر بتلائی۔ ہم نے بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ چونکہ ہم شراب نہیں پیتے لہٰذا انھیں بیئر نہیں پیش کر سکتے، اگر وہ اپنی کٹ ہمارے ہاتھ بیچنا چاہتے ہیں تو سودا ایک سو جرمن مارک میں طے ہو سکتا ہے۔ ہماری بات ان کے دل کو لگی اور انھوں نے ہماری پیشکش کو قبول کرتے ہوئے ڈلیوری کے لیے کل صبح تک کا وقت مانگ لیا۔ ادھر ہم نے ایک اور شرط عائد کر دی کہ اس کٹ کے ساتھ کتابیں انگریزی زبان میں ہونی چاہئیں، جسے انھوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کیا۔ یوں اگلے روز ہم ایک سو مارک سے محروم تو ہوئے لیکن اس کے بد لے ایک عدد ٹریننگ کٹ اور تین عدد موٹی موٹی فائلوں کے مالک بن گئے۔ ۶۸۰۰ مائیکرو پروسیسر کی یہ کٹ آج بھی ہمارے خزانے میں موجود ہے۔

 

اسی طرح تربیت کے یہ دن گزرتے چلے گئے یہاں تک کہ پورا ہفتہ ختم ہو گیا۔ اب ہمارے پاس جرمنی کے اس سفر میں صرف آخری ویک اینڈ یعنی اختتامِ ہفتہ بچا تھا جسے ہم دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہتے تھے۔ ہفتے کے روز دوپہر ایک بجے تک بازار کھلا ہوتا تھا لہٰذا ہم نے وہ ہفتہ شاپنگ کے مخصوص کر دیا اور اتوار کا دن جرمنی میں اپنی آخری سیر بمعنی سائیٹ سیینگ کے لیے مختص کیا۔ ہفتے کے روز ہم صبح ہی اٹھ گئے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر بس پکڑی، بابو کے ہوٹل پہنچ کر انھیں لیا اور دوپہر، دکانوں کے بند ہونے تک بازار کا چکر لگایا کیے۔

 

بازار سے فارغ ہوئے تو نوئے میوہلے کا رخ کیا تاکہ کچھ لنچ وغیرہ کا بندو بست کریں۔ نائے میوہلے کا بس اسٹاپ آیا تو ہم دونوں دوست بس سے اترے اور خراماں خراماں اپنے کمرے کی جانب چل دئیے۔ گو اب اتنے سالوں بعد موضوع تو یاد نہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ اس سمے ہم دونوں کسی خاص موضوع پر باتوں میں مصروف تھے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کمرے کی طرف خراماں خراماں چلے جاتے تھے۔ اچانک ہماری نظر ایک طرف کو اٹھی اور اٹھی ہی رہ گئی۔ ہم ٹھٹک گئے اور فورا ہی بابو کو ٹھہوکا دیا۔ سامنے ہی فاطمہ کیتی سی اوغلو جو شاید اسی بس سے اتری تھی جس سے ابھی ہم اترے تھے ,تیز تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب چلی جاتی تھی۔ اللہ جانے وہ سردی کا اثر تھا یا پھر شادی مرگ کی سی کیفیت ہم پر طاری تھی، ہم سے بولا نہ جاتا تھا۔ بڑی مشکل سے ہم نے اپنی آواز ڈھونڈی اور جلدی جلدی بابو کو فاطمہ کے بارے میں بتایا۔ پھر کیا تھا ہم دونوں نے اپنی رفتار تیز کی اور آناً فاناً فاطمہ کو جالیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہو گئی اور وہیں کھڑے کھڑے ہم دونوں نے ایک دوسرے سے نہایت گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملائے، ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

 

خیریت معلوم ہوئی تو ہم نے اگلا معرکہ طے کیا اور لگے ہاتھوں یارِ جانی بابو کا تعارف بھی اس سے کروا دیا۔ وہ بابو سے مل کر بہت خوش ہوئی، ادھر بابو کی بھی باچھیں کھلی ہوئی تھیں، گویا ریشہ ختمی ہوئے جاتے تھے۔ انھوں نے لگے ہاتھوں فاطمہ کو کافی کی دعوت دے ڈالی۔ ہم نے بھی ان کی ہاں میں ملائی اور یوں

 

خاطر سے یا لحاظ سے، وہ مان تو گئے

 

اور ہم تینوں اپنے کمرے کی جانب چل دئیے۔ اب جو ہم چلے ہیں تو دل کی ایک عجیب کیفیت تھی۔ ہم پاؤ ں کہیں رکھتے تھے، پڑتے کہیں اور تھے، گویا اڑے اڑے جاتے تھے۔ کمرہ قریب آیا تو جذب کی ایک کیفیت میں آگے بڑھ کر قفل کھولا اور کمرے میں داخل ہو کر ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ آج خوش قسمتی سے کمرہ اس قدر پھیلا ہوا نہیں تھا۔ ہم نے اپنا تولیا بستر سے اٹھا کر ایک طرف رکھا اور دونوں ہاتھ پھیلائے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہو گئے۔

 

وہ کافر ادا حسینہ ہمارے کمرے میں جلوہ افروز ہوئی تو ہم نے بابو کو اس کی دل بستگی کے لیے اس کے ساتھ بٹھا یا اور خود چولھا جلا کر چائے بنانے کا سامان کیا، ساتھ ہی ان کی باتوں میں شامل بھی رہے اور یوں

 

چائے بنائی جتن سے، دل کو دیا جلا

 

اور چائے سے مہمان کی خاطرداری کرنے کے بعد ہی اس کے سامنے بیٹھے۔ اب جو باتیں شروع ہوئی ہیں تو مت پوچھیے کیا حال رہا۔ ہم دونوں پاکستانیوں نے اپنے ملک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے اور وہ اللہ کی بندی حیرت سے آنکھیں پھاڑے ہماری باتیں سنتی رہی۔ پھر جب وہ بولتی تو ہم دونوں دنیا و مافیہا سے بے خبر اس کے حسین چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی شیریں زبانی کے مزے لوٹتے۔ وقت پر لگا کر اڑا اور ہم دونوں اس حسین مہمان کی خاطر داری میں اپنا آپ بھولے۔ چونکے تو شام ہو چکی تھی۔ اب اس مہمانِ دلنواز نے ہم سے اجازت چاہی اور ہم نے دل پر ہاتھ رکھ کر با دلِ ناخواستہ اسے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ورنہ دل تو چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے اور ہم اس کے حسین چہرے کو تکتے رہیں اور یونہی منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں میں دن سالوں میں اور سال صدیوں میں بدلتے رہیں۔

 

پاکستان پہنچے تو یہی ملاقات ہم دونوں دوستوں کی‘ بدنامی‘ کا باعث بن گئی۔ ہوا یوں کہ جب ہم نے اپنی کتھا حلقہ یاراں میں سنائی کہ کس طرح ایک قاتل حسینہ ہمارے کمرے میں آئی اور ہم دونوں نے گھنٹوں اس سے مزے مزے کی باتیں کیں تو یاروں نے خوب ہی ہماری بھَد اُڑائی۔ ہم دونوں کے لیے یہ ملاقات بے حد حسین تھی لیکن یاروں کو اس میں چاشنی کی کمی محسوس ہوئی اور وہ بے حد مایوس ہوئے۔ اف فوہ!!

 

ہم بات بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

 

اگلے دن اتوار تھا۔ ہم دونوں دوستوں نے سیر کے لیے قریبی قصبے نیورمبرگ کو چنا۔ ٹرین پکڑ کر وہاں پہنچے، سارا دن اس قصبے میں واقع قلعے کی سیر کی جس میں ہٹلر کا بنایا ہوا عقوبت خانہ بھی موجود تھا اور سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز تھا۔

 

اگلا پورا ہفتہ ٹریننگ میں مصروف رہ کر جب ہم اتوار کی صبح جرمنی سے اپنے ملک روانہ ہوئے تو ملے جلے جذبات لیے ہوئے تھے۔ جہاں اپنے گھر جانے اور گھر والوں سے ملنے کی خوشی تھی وہیں ان دوستوں سے بچھڑنے کا غم بھی تھا جو ہم نے اپنے اس سفر میں اپنے اس اجنبی ملک میں بنائے تھے۔ اتنا ضرور تھا کہ اب ہم پہلے کی طرح کنویں کے مینڈک نہیں رہے تھے۔ اب ہم نے دنیا دیکھ لی تھی اور کئی ممالک کے لوگوں سے ملاقات اور دوستی کر لی تھی۔ یادش بخیر! یہ زمانہ بیسویں صدی کا اواخر تھا، کمپیوٹر کو ایجاد ہوئے ابھی کچھ ہی سال ہوئے تھے۔ انٹر نیٹ اور ای میل کا دور دور تک پتہ نہیں تھا اور خط لکھنے کا یارا، نہ ہم میں تھا اور نہ ہی ہمارے کسی دوست نے اس کی ہمت کی، البتہ ہم ہر ایک سے اس امید پر جدا ہوئے کہ ’’ یہ دنیا ایک بہت چھوٹی دنیا ہے اور ہم مستقبل میں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی موڑ پر ضرور ملیں گے۔ ‘‘

 

فرصت نہ دیں گے یوں تو غمِ زیست ایک پل

کچھ دن تمہاری یاد مگر آئے گی ضرور

 

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جیون میں ایک بار آنا سنگاپور

 

 

 

 

 

یوں تو دلشاد بیگم کا دعوت نامہ، ’’ جیون میں ایک بار آنا سنگاپور‘‘ ہمیں کافی عرصے سے دعوتِ گناہ دے رہا تھا، لیکن جس بات نے ہمارے جذبۂ شوق پر مہمیز کا کام دیا وہ کچھ اور تھی۔ ہوا یوں کہ ہم شب و روز کی یکسانیت سے تنگ آ گئے۔ ڈاکٹروں اور طبیبوں کو دکھایا، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ

 

مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

 

تو علاج کے لیے قدیمی حکما کے نسخوں کو ٹٹولا۔ کرنل شفیق الرحمٰن دور کی کوڑی لائے۔

 

’’ تم اس جمود کو توڑتے کیوں نہیں۔ صبح اٹھ کر رات کا کھانا کھایا کرو، پھر قیلولہ کرو۔ سہہ پہر کو دفتر جاؤ، وہاں غسل کرو اور اور سنگل روٹی کا ناشتہ۔ حجام سے شیو کرواؤ اور حجام کا شیو خود کرو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

یہ بھی کر دیکھا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آخر کار تنگ آ کر دو ہفتہ کی چھٹی کے لیے درخواست داغ دی۔ جواب آیا۔ ’’ آپ کی چھٹی کی درخواست نامنظور کی جاتی ہے، اس لیے کہ کمپنی اس عرصے میں آپ کو تربیت کے لیے سنگاپور بھیج رہی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

 

کوئی جل گیا، کسی نے دعا دی۔ زادِ سفر کا مرحلہ درپیش ہوا تو دوستوں سے مشورہ لیا۔ سیر کے لیے فلاں فلاں جگہیں ہیں۔ خرید و فروخت کے لیے فلاں فلاں، اور کھانے کے لیے فلاں فلاں ریسٹورینٹ۔ اور مساج کے لیے فلاں فلاں سنٹر۔ اور دیکھو، آرچرڈ روڈ سے کچھ مت خریدنا، اور نہ ہی اپنے ہوٹل کے مساج سنٹر سے مساج کروانا، یہ دونوں جگہیں مہنگی ہیں۔ فلاں اسٹریٹ سے بچنا، وہاں رات گیے وہ لوگ اپنا بازار لگاتے ہیں جو ہیوں میں نہ شیوں میں۔

 

ایک صاحب کہنے لگے، ’’ سنگاپور سے مساج ضرور کروا کے آنا‘‘۔ ’’ اور دیکھو! ‘‘ انھوں نے تاکیداً کہا، ’’ واپسی پر جھوٹ نہ کہنا کہ مساج کروا آئے ہو۔ مجھے اس کے تمام لوازمات معلوم ہیں۔ ‘‘

 

بھاگے بھاگے ایک اور دوست کے پاس پہنچے اور ’’ مساج کے لوازمات ‘‘ معلوم کیے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

 

بڑی ردّ و قدح کے بعد، جس زاد سفر کا اہتمام کیا وہ یہ تھا۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس وزن بیس کلو اور ساتھ سفری بیگ میں کچھ کپڑے وغیرہ۔

 

ضروری کارروائیوں کے بعد پروانہ اور پرِ پرواز ہمیں عطا کر دیے گئے۔ اور یوں ہم اسلام آباد سے سنگاپور کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ راستہ میں ایک کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو ہم نے اس نحوست کے تدارک کے لیے پہلے پشاور جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں بھی خالہ خالو ہمارے قریب ترین رشتہ دار تھے۔ ( یہاں ہمارا مقصد اسلام آباد میں رہتے ہوئے مکانی فاصلہ کی قربت ہے )۔

 

پشاور پہنچے تو خالہ اور خالو ہمیں دیکھ کر کھل اٹھے۔ یہ آج سے کوئی بیس بائیس برس اُدھر، اُن دنوں کا ذکر ہے جب آتش بھی جوان تھا اور ہم بھی۔ پہلی پہلی نوکری ملی تھی اور اس سلسلے میں ہم اسلام آباد میں، اپنے گھر، کراچی اور اپنے خاندان سے دور کالے پانی کی سزا کاٹ رہے تھے۔ راول جھیل کے اسی کالے پانی میں اپنی گاڑی دھونے کے لیے کبھی کبھی جایا کرتے۔ خیر صاحب خالہ خالو نے دیکھا، حال چال دریافت کیے، تو ہم پھٹ پڑے۔ فوراً اگل دیا کہ ہم سنگاپور جا رہے ہیں۔ خالو نے حیران ہو کر ہمیں دیکھا اور پھر ہمارے زادِ سفر کی جانب نگاہ کی،کہنے لگے۔ ’’ اور میاں۔ تمہارا باقی سامان کہاں ہے۔ ‘‘ ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ہمیں۔ مشوروں کے اس سوٹ کیس کے بارے میں انھیں کیسے بتلاتے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے تو کیا، البتہ سنگاپور کی بے پردہ بیبیوں کے نام آتے تھے، اور پھر یہ مشورے گردن زدنی تو نہیں البتہ قابلِ گرفت ضرور تھے، اور ان پر’’ صرف بالغان کے لیے ‘‘ کا ٹیگ لگانا پڑا تھا، اور اس محفل میں ان کا تذکرہ مخرّبِ اخلاق ضرور گردانا جاتا۔

 

خیر صاحب، خالو جان ہمارے اس مختصر زادِ راہ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔ کہنے لگے، ’’ اور ایک ہماری بیٹی صاحبہ ہیں، کہ وہ جب دو ہفتوں کے لیے آسٹریلیا گئیں تو تین سوٹ کیس ان کے ساتھ گئے اور پانچ سوٹ کیس واپس آئے۔ ‘‘

 

کراچی پہنچے تو کراچی ائر پورٹ پر ہمارے ساتھ دو حادثے پیش آئے۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس اور پیمانۂ صبر، دونوں ہی کھوئے گئے اور  چودھری صاحب ہمارے ہم سفر بنا دئیے گئے۔

 

کراچی پہنچ کر ایک دن کا آرام ملا تو کشاں کشاں گھر پہنچے اور گھر والوں کو یہ مژدہ جاں فزاء سنایا کہ ہم سنگاپور جا رہے ہیں۔ گھر والوں نے دعا دی۔

 

’’ شکر ہے کہ اب تمہیں سنگاپور کی نوکری ملی۔ جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو اسی چہرہ بھی دکھاؤ‘‘۔

 

’’چہرہ تو ہم تین ہفتے بعد ہی دکھا دیں گے۔ تین ہفتے کا تربیتی کورس ہے سنگاپور میں، کوئی مستقل نوکری تو نہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں کوئی مستقل نوکری تھوڑا ہی تھی، چند ہفتے کی تربیت بھگتا کر واپس لوٹے تھے۔ ‘‘

 

بہرحال یہ خوشخبری بھی اپنی جگہ خوب تھی۔ سنگاپور کا تین ہفتے کا سفر۔ سب خوش ہوئے اور اگلے روز خوشی خوشی ہمیں رخصت کیا۔ ہمارے سنگاپور کے سفر کے لیے کمپنی کی جانب سے تھائی ائر کی فلائیٹ پہلے ہی سے بک تھی۔ جہاز پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اک غولِ بیابانی ہے جو ہمیں اڑائے لیے چلا ہے۔ ذکر ان پری وشوں کا اور پھر بیاں اپنا۔ کیا کیا بتائیں اور کہاں تک سنائیں۔ ہم اور چودھری صاحب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ان پری وشوں کی بلائیں لیا کیے۔ جانے کب جہاز اڑا اور جانے کب بنکاک ائر پورٹ پر پہنچ گیا۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔

 

ائر پورٹ پر امیگریشن کاونٹر سے فارغ ہوئے تو رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ اب اگلی دوپہر دو بجے تک کے لیے ہم فارغ تھے۔ فوراً انفارمیشن سے رجوع کیا اور ان کے مشورے سے رات کے لیے ایک ہوٹل پسند کر لیا اور وہیں پر اگلے دن صبح ایک عدد ٹوور کا انتظام بھی کر لیا۔ ٹیکسی پکڑ کر ہوٹل پہنچے، اور کمرے میں جا کر اگلی صبح تک یوں انٹا غفیل ہوئے کہ اگلی صبح ناشتے کے لیے بڑی مشکل سے آنکھ کھلی۔ فوراً تیار ہو کر لاونج میں پہنچے، ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہمیں ٹوور گائڈ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ ٹوور گائڈ کو دیکھا تو باچھیں کھل گئیں، یہ ایک خوبصورت سی خاتون تھیں۔ ان خوبصورت خاتون کی معیت میں تو ہم کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہو جاتے، یہ تو پھر بھی بنکاک کے مشہور بدھ عبادت گاہوں کا ٹوور تھا۔ آج سے کم و بیش بیس سال پہلے کا بنکاک ویسے تو یوں بھی بہت خوبصورت تھا، لیکن ان خوبصورت عبادت گاہوں نے تو اسے چار چاند لگا دیے تھے۔ ان تین گھنٹوں میں ہم نے چار عبادت گاہوں کا دورہ کیا جن میں گولڈن ٹمپل اور ٹمپل آف ریکلائیننگ بدھا بہت خوب تھے۔ بدھا کے یہ سنہری مجسمے جو ان عبادت گاہوں میں تھے، بہت بلند و بالا تھے لیکن ہم ان کا موازنہ لاہور میوزیم میں رکھے ہوئے اس مجسمے سے کر رہے تھے جس میں بدھا کو درخت کے نیچے تپسیا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ چھوٹا سا مجسمہ اپنی خوبصورتی اور صناعی کا یقیناً ایک اعلی نمونہ ہے، اور بنکاک کے ان عبادت گاہوں میں بنائے ہوئے یہ عالی شان مجسمے اس کے سامنے ہیچ تھے۔ ادھر چھوٹے چھوٹے مجسموں کی شکل میں بدھا کی زندگی کے حالات بھی منقش کیے گیے تھے۔ ایک طرف تو انسانی کاری گری کے یہ اعلیٰ نمو نے تھے اور دوسری طرف انسان تھے جو اپنے ہی بنائے ہوئے ان مجسموں کی عبادت کر رہے تھے۔ کتنا بڑا ظلم تھا اس انسان کے ساتھ، جو انھیں انسانیت سکھانے اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ان کے پاس آیا اور ان ظالم لوگوں نے اس کی ہی پوجا شروع کر دی۔

 

ظلم کی اس داستان میں جو ظلم ہمارے ساتھ ہوا وہ بھی ساتھ ساتھ بیان کرتے چلیں۔ جب ہم سنگاپور کا سفر ختم کر کے واپس پاکستان پہنچے اور یار دوستوں نے اس سفر کا حال دریافت کیا اور سن کر اس پر تبصرے کیے تو ہمیں حقیقتِ حال کا ادراک ہوا۔ دراصل کمپنی والے نوجوان لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق انھیں بنکاک میں ایک دن کا حضر عطا فرمایا کرتے تھے، تاکہ نوجوان اپنے دل کی تسلی کر لیں۔ ہم اور آگے بڑھے اور اس ہوٹل کا تذکرہ کیا جہاں پر ہم نے رات قیام کیا تھا، تو سننے والوں نے سر پیٹ لیا۔ یہی تو وہ علاقہ تھا جہاں پر ہم کچھ ‘دل پشوری ‘کر سکتے تھے۔

 

خیر صاحب، ولے بخیر گزشت۔ بنکاک کی سیر سے فارغ ہوئے تو فوراً ہوٹل کا حساب بیباق کیا اور ائر پورٹ کی جانب دوڑ لگائی تاکہ سنگاپور کی جانب عازمِ سفر ہو سکیں۔ باقی سفر جو نسبتاً مختصر تھا آرام سے گزر گیا اور ہم سنگاپور ائر پورٹ پر اتر گئے۔ ائر پورٹ پر پاسپورٹ اور امیگریشن کی لائن میں لگے ہوئے نہایت انہماک سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک ایک با وردی آفیسر نے ہمیں لائن سے علیحدہ ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے ساتھ لے کر ایک جانب کو چل دیا۔ ہم حیران تھے کہ یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے، کیوں اس آفیسر نے ہمیں ساتھ لے لیا ہے۔ ابھی ہم اس سے پوچھنے کے لیے اپنی انگریزی کو آواز دے ہی رہے تھے کہ وہ ہمیں لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے ایک اور آفیسر کے سامنے ایک پٹھان بھائی بیٹھے تھے، یہ بھائی صاحب پشتو اور ٹوٹی پھوٹی اردو کے علاوہ اور کچھ نہ جانتے تھے اور یہاں سنگاپور میں کپڑا خریدنے آئے تھے۔ ۔ ہم نے فوراً مترجم کے فرائض سنبھال لیے اور ان حضرت سے ان کے بارے میں پوچھ پوچھ کر آفیسر حضرات کو بتانے لگے۔ یہ مسئلہ حل ہوا تو ہم پھر اپنی لائن میں جا کر لگ گئے اور اس طرح سنگاپور کا ایک ماہ کا ویزہ لگوا کر ہی دم لیا۔ ادھر چودھری صاحب ہم سے پہلے ہی فارغ ہو کر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے فارغ ہونے پر وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑے، ہم دونوں نے اپنا سامان سنبھالا اور ٹیکسی کی لائن میں کھڑے ہو گئے۔ نہایت اعلیٰ درجے کی گاڑیوں کو ٹیکسی کے طور پر کھڑے دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ کہیں ہم وی وی آئی پی یعنی کوئی بہت ہی اعلیٰ شخصیت تو نہیں ہو گئے ؟ اپنے بازو پر زور سے چٹکی لی تو درد کی شدید لہر اور ‘سی‘ کی اپنی ہی آواز نے ہمیں جتلا دیا کہ ہم خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ سنگاپور کی ٹیکسی میں سفر کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنی اُسی افلاطونی انگریزی کو آواز دی جس کے ذریعے ابھی ابھی ہم ایک معرکۂ عظیم طے کر کے آرہے تھے اور بھاؤ تاؤ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ خدا جانے یہ ٹیکسی ڈرائیور ہمارے ہوٹل کی جانب جانا چاہتا ہو یا اس کا ارادہ کسی اور جانب کا ہے ؟ کیا جانیے وہ منھ پھاڑ کر کتنے پیسے مانگے ؟ کیا ہمیں کوئی سستی ٹیکسی مل سکتی ہے ؟ ہم ابھی اسی ادھیڑ بُن میں تھے کہ ٹیکسی ڈرائیور نے بھاؤ کیا اور نہ تاؤ، بلکہ یوں کہیے کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور نہایت ادب سے ہمارا سامان ڈِکی میں رکھا، ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور میٹر پر لگے ایک بٹن کو دبا کر چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔

 

اور صاحبو! یوں ہم ’ اپر بوکے تیما روڈ‘ پر واقع ’ نووٹیل آرکڈ اِن‘ نامی ایک نہایت عالیشان ہوٹل میں پدھارے۔ بکنگ کلرک مصروف تھا۔ اس نے نہایت ادب سے ہمیں ایک میز کی جانب بلایا اور ہمیں بٹھا کر ایک سنگاپوری حور کو آواز دی، وہ حسن کی دیوی فوراً ہماری جانب لپکی اور اپنی ایک ٹانگ لبادے سے نکال، کاغذ پینسل سنبھال، ہمارا آرڈر لینے کے لیے تیار ہو گئی۔ ہم نے کنکھیوں سے اس شمشیرِ برہنہ کی جانب دیکھتے ہوئے اک شانِ بے نیازی کے ساتھ آرینج جوس کا حکم صادر فرمایا۔ چودھری صاحب نے بھی کنکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے ‘وہی وہی‘ کی آواز نکالی۔ حسنِ بے پروا نے فوراً اپنے کاغذ پر کچھ لکھا اور اسے لپیٹتی ہوئی آگے چل دی۔ ہم یوں چونکے گویا ابھی ابھی ہماری آنکھ کھلی ہو۔ ہم نے چونک کر چاروں جانب دیکھا۔ ہمارے اطراف رنگ و نور کی اک عجیب دنیا پھیلی ہوئی تھی۔ تو یہ سنگاپور ہے، ہم نے ترنگ میں آ کر سوچا۔

 

ہم نے آرینج جوس کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے چیک اِن کیا اور اپنے اپنے کمرے میں جا کر ڈھیر ہو گئے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد جب ہوش ٹھکانے لگے اور رات کی بے آرامی کا کچھ مداوا ہوا تو دوپہر کے کھانے کا خیال دل کو ستانے لگا۔ ہوٹل کا کھانا بہت مہنگا پڑتا لہٰذا دونوں دوست ہوٹل سے نکلے اور کسی سستے ریسٹورینٹ کی تلاش شروع کی۔ دور دور تک ایسے کسی ریسٹورینٹ کا پتہ نہ چلا تو تھک ہار کر واپس ہوئے ہی تھے کہ ایک اسٹور پر نظر پڑی۔ چودھری صاحب نے مسکرا کر ہمیں معنی خیز نظروں سے دیکھا گویا کہہ رہے ہوں، ’’ اب دیکھو ! میں کیا کرتا ہوں۔ ‘‘، ایک عدد ڈبل روٹی خریدی اور ہمیں لیے ہوئے اپنے کمرے کی جانب آ گئے۔ کمرے میں پہنچ کر دروازہ لاک کیا اور اپنے سوٹ کیس میں سے ایک عدد بجلی کی ہیٹنگ راڈ برآمد کی، اسے قریب ترین بجلی کے ساکٹ میں لگا کر اس کا سرا ایک پانی کے برتن میں ڈال دیا۔ پانی گرم ہونا شروع ہوا، اتنے میں انھوں نے اپنے سوٹ کیس سے ‘ احمد‘ کا کوفتوں کے سالن کا سربند کین نکالا، اسے پانی میں رکھ کر خوب گرم کیا اور اسے کھول کر پلیٹ میں ڈال دیا۔ اس طرح ہم نے اس دوپہر اپنی بھوک مٹائی اور سیر کے لیے نکل پڑے۔ آج اتوار تھا اور ہم نے سن رکھا تھا کہ سنگاپور میں ایک جگہ ‘ لٹل انڈیا‘ نامی بھی ہے جہاں ہندوستانی کھانوں کے سستے ریسٹورینٹ موجود ہیں نیز یہ کہ وہاں پر دکانیں اتوار کے دن بھی کھلی رہتی ہیں۔

 

بس کے ذریعے سرنگون روڈ کے اسٹاپ پر اترے تو کچھ اور ہی سماں تھا۔ ہر طرف سجی سجائی ہندوستانی طرز کی دکانیں موجود تھیں جن میں قسم قسم کی ہندوستانی اشیاء فروخت کے لیے موجود تھیں۔ کہیں زرق برق بھڑکیلی، بنارسی ہندوستانی ساڑھیاں اور دیگر ہندوستانی کپڑے، کہیں سونے اور چاندی کے جڑاؤ زیور۔ کہیں ہندوستانی موسیقی پر مبنی کیسٹ اور سی ڈیاں۔ اور ان دکانوں کے درمیان خالص ہندوستانی کھانے سرو کرتے ریسٹورینٹ۔ کہیں روا ڈوسا اور مسالہ ڈوسا، کہیں اڈلی وڑہ، کہیں تھالی ریسٹورینٹ، جہاں پر آپ کی پسند کے مطابق اسٹیل کی تھالی میں یا کیلے کے پتے پر کھانا دیا جاتا ہے۔ کہیں صرف ویجیٹیرین یعنی سبزیوں والے کھانے، کہیں بسم اللہ بریانی۔ کہیں ہندوستانی مٹھائیاں۔ چوک سے چلنا شروع کیا تو ایک جگہ ’مصطفے ٰ اینڈ شمس الدین‘ کی دکان نظر آئی۔ یہ ان کی سب سے پرانی دکان ہے۔ نظارہ کرتے چلے تو لطف آ گیا۔ یوں تو اس سڑک کا نام سرنگون روڈہے لیکن اطراف میں چونکہ ہر طرف ہندوستانی آباد ہیں اور ان ہی کی دکانیں نظر آتی ہیں، لہٰذا اسے لٹل انڈیا یعنی‘ چھوٹا ہندوستان‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بازار یونہی پھیلتا ہوا اگلے چوک تک پہنچتا ہے جہاں پر اُس زمانے میں سرنگون پلازہ میں مصطفے ٰ اینڈ شمس الدین کا بڑا اسٹور ہوتا تھا، اب اس جگہ، اس سے بھی بڑا مصطفے ٰ سنٹر ہے۔ مصطفے ٰ سنٹر اب ایک بہت بڑا ملٹی اسٹوری ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے جہاں ضروریاتِ زندگی کی تقریباً ہر چیز ملتی ہے۔ آجکل، جب سے زمین دوز ٹرین ( جسے مقامی لوگ ایم آر ٹی یعنی ماس ریپڈ ٹرانزٹ کہتے ہیں ) چلی ہے اس کے دو اسٹیشن سرنگون روڈ پر ہیں۔ ایک بکے تیما روڈ اور سرنگون روڈ کے سنگم پر اور دوسرا مصطفے ٰ سنٹر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر۔ سرنگون روڈ پر چلتے ہوئے راستے میں ایک ہندو مندر اور مصطفے ٰ سنٹر کے عین سامنے انگولیا مسجد واقع ہے،بھی نظر آتے ہیں۔ اتوار کو تو یوں لگتا ہے گویا سڑک پر ایک جلوس چل رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے زیادہ تر اسی علاقے میں پہنچ کر کھانا کھاتے ہیں اور اپنی زیادہ تر خریداری یہیں سے کرتے ہیں۔ بسم اللہ ریسٹورینٹ میں ایک بزرگ ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، ان سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ ’مصطفے ٰ بھائی‘ ہندوستان سے آئے تو شروع میں ایک ٹھیلا لگاتے تھے، ایک صاحب اپنی دکان بیچ کر ہندوستان جا رہے تھے۔ مصطفے ٰ بھائی نے ان سے دکان خرید لی۔ اللہ نے برکت دی اور کاروبار اتنا بڑھا کہ اب ماشاء اللہ مصطفے ٰ سنٹر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے اور روزانہ ہزاروں خریدار خریداری کے لیے آتے ہیں اور لاکھوں کی خریداری کرتے ہیں۔

 

وہیں سے کٹ مارا اور سیدھے ہاتھ کی طرف ہولیے۔ چلتے چلتے راستے میں عرب اسٹریٹ نظر آئی، دیکھ کر دل خوش ہوا، وہیں سے نظر گھمائی تو دل پہلو میں رکتا ہوا سا محسوس ہوا۔ نظروں کے سامنے ایک انتہائی خوبصورت مسجد موجود تھی۔ تیز تیز چلتے ہوئے اس مسجد تک پہنچے۔ اس خوبصورت  اور عالی شان مسجد کا نام ’’ مجدی سلطان‘‘ ہے۔ مسجد باہر سے جتنی خوبصورت نظر آتی ہے، اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ اندر جا کر دو رکعت نمازِ عصر قصر پڑھی، کچھ تصویریں اندر باہر سے کھینچیں اور پھر عرب اسٹریٹ پر نظر کی تو یہاں کئی ملائین مسلم ریسٹورینٹ دکھائی دیئے جو انڈا پراٹھا قسم کی کوئی چیز بنا رہے تھے۔ اس ڈش کا نام مرطباق ہے۔ چائے کے ساتھ مرطباق کھایا۔ بہت لذیذ تھا۔ واپس اسی راستے سے لوٹے اور سرنگون روڈ پہنچے اور دیر تک وہاں ٹہل لگاتے رہے۔

 

راستے میں ایک جگہ ایک ریسٹورینٹ پر’’ عظمی ہوٹل‘‘ لکھا ہوا دیکھا تو قسمت آزمانے کا خیال آیا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر کسی بھی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے پہلے حلال وغیرہ سے متعلق پوچھ لیا کرتے تھے۔ یہاں بھی خیال آیا کہ پہلے دل کی تسلی کر لی جائے اس لیے اسی عظمی ہوٹل کے کاونٹر پر جا کر ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں حلال کھانا ملتا ہے۔ کرتا پائجامہ میں ملبوس ایک مولانا کاونٹر پر کھڑے تھے، برا مان کر بولے۔

 

’’عظمی ہوٹل نام ہے، سب کام کرنے والے یہاں مسلمان ہیں اور یہاں پر ہر کھانا حلال ہے۔ ‘‘

 

دل کو تسلی ہوئی تو ہم نے رات کا کھانا وہیں سے کھایا اور بس میں بیٹھ کر ہوٹل واپس لوٹ گئے۔ دروازے سے اندر آتے ہی کئی کارڈوں پر نظر پڑی جو دروازے کے نیچے سے کمرے میں ڈالے گئے تھے۔ یہ کارڈ مختلف مساج سنٹرز سے متعلق تھے۔ انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈالا اور کمرے میں ادھر ادھر نظر ڈالی۔ کمرے میں موجود ریفریجریٹر کے قریب بجلی کی کیتلی اور ساتھ ہی ایک طشت میں دو عدد چائے اور دو عدد کافی کا انتظام تھا جو ہوٹل کی جانب سے مفت تھا۔ مزے سے چائے بنا کر پی، آنے والے کل کی تیاری کر کے بستر پر لیٹ گئے اور ٹیلیویژن سے دل بہلانے لگے۔ چیک اِن کے ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے ایک خط ہمیں مل چکا تھا کہ اگلے روز ایک بس ہمیں ہوٹل کی لابی سے لیکر ٹریننگ سنٹر تک لے جائے گی، لہٰذا اس طرف سے اطمینان تھا۔ سفر کی تھکن اب تک محسوس ہو رہی تھی اس لیے لیٹے تو اگلے ہی لمحے گہری نیند نے ہمیں آ دبوچا۔ جانے کب تک سوتے رہے۔ اچانک ٹیلومین کی مسلسل گھنٹی کی آواز سے بیدار ہوئے۔ کچھ دیر تک تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ ہم کہاں ہیں اور اس وقت کے بجے ہیں۔ حواس باختہ سے لیٹے رہے۔ بارے کچھ سکون ملا تو رسیور اٹھا کر ’’ ہیلو!‘‘ کہا۔

 

کسی خاتون کی میٹھی سی آواز سنائی دی۔ وہ انگریزی میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ آپ نے ہمیں بلایا؟

 

ہمارے حواس دوبارہ گم ہو گئے۔ بڑی مشکل سے انھیں پھر سے مجتمع کیا اور نہایت تلخ لہجے میں جواب دیا۔ جی نہیں۔ ہم نے آپ کو کال کیا نہ بلایا۔ اور رسیور کریڈل پر پٹخ کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر اٹھے، حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر ٹیلیویژن کو بند کیا۔ لائٹ بند کی اور کافی دیر تک دھڑکتے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔

 

 

 

سنگا پور کے شب و روز

 

 

گلی صبح جب ہم نہا دھوکر تیار ہو چکے تو ہوٹل کے ریسٹورینٹ میں ناشتے کے لیے پہنچے۔ چودھری صاحب بھی ابھی کچھ ہی دیر پہلے پہنچے تھے۔ ہم دونوں نے ایک اچھی سے میز تلاش کی جہاں سے ہر طرف نظر رکھ سکتے، اور اس پر براجمان ہو کر دہن و نظر کا ناشتہ شروع کیا۔ لذتِ کام و دہن کے ساتھ ساتھ لذت ذہن و نظر کا بھی وافر مقدار میں انتظام ہو تو کیا کہنے۔ ہوٹل دنیا بھر کے سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستان سے باہر کی حوریں اعضا ء کی فی البدیہہ شاعری میں درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، ہنسنا بولنا سب شاعرانہ انداز میں ہوتا ہے۔ ہائے ! نہ ہوئے ہم نقاد، ورنہ کیسے کیسے بخیے اُدھیڑ تے۔ اِدھر چودھری صاحب نے ہمیں ایک فارمولے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ ناشتہ ہوٹل کی جانب سے فری ہے اور ساتھ ہی یہاں پر حلال اشیا ( صرف ناشتے کے لیے ) وافر مقدار میں موجود ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ڈٹ کر ناشتہ کریں، خدا جانے دوپہر کے کھانے کے لیے کچھ میسر آئے نہ آئے۔ تجویز چونکہ معقول تھی اس لیے ہم نے جلدی جلدی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا، لیکن دو انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ ڈبل روٹی کے صرف دو ہی سلائیس کھا سکے البتہ آرینج جوس کے ساتھ خوب دشمنی نبھائی اور کئی گلاس بغیر ڈکار لیے ہضم کر گئے۔ ادھر چودھری صاحب بات کے پکے نکلے اور انھوں نے ناشتے کے لیے موجود تمام اشیاء کے ساتھ خوب انصاف کیا۔

 

دورانِ ناشتہ وہ ترنگ میں آ کر کچھ اور کھُلے اور بتایا کہ کل رات انھوں نے ایک مساج سنٹر فون بھی کھڑکایا تھا اور بھاؤ  تاؤ وغیرہ کے تمام مراحل بحسن و خوبی سر کر لیے تھے۔ ہم نے انھیں معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے ان سے سوال کیا’’ ذرا بتانا تو! اپنے کمرے کا کیا نمبر تم نے انھیں لکھوایا تھا؟‘‘ اب تو وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے لہٰذا شرماتے ہوئے اعتراف کیا کہ انھوں نے ہمارے کمرے کا ہی نمبر لکھوا دیا تھا۔ البتہ اس بات نے ان کی حیرت اور خوشی کو دوبالا کر دیا کہ ان کی فون کال کا نتیجہ اتنی جلد نکل آیا تھا۔ اب انھوں نے راز دارانہ انداز میں ہمیں تاکید کی کہ آئندہ اگر فون آیا تو ہم انھیں بلا لائیں اور ان کی بات کروا دیں۔

 

ناشتے سے فارغ ہوئے تو پتہ چلا کہ کرائے کی ایک ویگن ہمیں ٹریننگ سینٹر تک چھوڑنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ اور اس طرح ایک نہایت خشک قسم کی تربیت کا آغاز ہوا، جو ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر سہہ پہر پانچ بجے تک جاری رہتی۔ سوائے اس کے کہ یہی تربیت ہمارے سنگاپور آنے اور اس سفر نامے کے لکھنے کا سبب بنی تھی کوئی اور قابلِ ذکر بات اس میں نہیں تھی جس کا ذکر کر کے ہم اپنے قارئین کو بور کر سکیں۔ ہاں البتہ ایک واقعہ ایسا بھی گزرا جس کا ذکر کیے بغیر آگے بڑھ جانا نری زیادتی ہو گی۔ ایک دن ہم اپنے ٹریننگ سنٹر میں اپنی معمول کی تربیتی سر گرمیوں میں مصروف تھے کہ اچانک ہماری تجربہ گاہ میں بہار آ گئی۔ ایک خوبصورت سی چینی نژاد سنگاپوری حسینہ اس خشک ماحول میں چودھویں کے چاند کی مانند طلوع ہوئی۔ ہم حیران تھے کہ

 

یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

 

ہم نے مشینوں پر خاک ڈالی اور اِس حسن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اُس کے گرد جمع ہو گئے۔ اس حسینہ نے اطمینان کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا چپٹا بکس میز پر رکھ دیا اور اسے کھول کر ہمارے معائنے کے لیے پیش کر دیا۔ اس بکس میں قسم قسم کی خوبصورت گھڑیاں موجود تھیں۔ ہم نے گھڑیاں دیکھیں تو میکانیکی انداز میں پیچھے ہٹ گئے۔ یہ گھڑیاں یقیناً قیمتی ہوں گی، اور ہم انھیں خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ چند لمحے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ دیکھتے رہنے کے بعد وہ حسینہ ہنس پڑی۔ ہمیں اس کے یکایک ہنسنے کی وجہ تو بعد میں پتہ چلی لیکن اُس وقت اس کے ہنسنے کا یہ انداز بہت پیارا لگا۔ ہم نے بھی جواباً مسکرا کے اس کو دیکھا اور منتظر رہے کہ دیکھیں دستِ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ پتہ چلا کہ یہ سب گھڑیاں نقلی تھیں۔ پھر کیا تھا۔ ہم سب ہم جماعت اس قیمتی مجموعے پر ٹوٹ پڑے اور سب دوستوں کی طرح ہم نے بھی دو گھڑیاں مول لے لیں۔ وہاں بھاؤ، تاؤ کیا کرتے، جو اس نے کہا مان لیا اور فوراً جیب سے پرس نکال کر مطلوبہ ڈالر اس کے ہاتھ میں تھما دیے۔

 

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

 

یہ وہ زمانہ تھا جب نقلی گھڑیاں ابھی نئی نئی آئی تھیں، لہٰذا ایک انوکھی شے سمجھ کر ہم خرید لائے اور گھر والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو شو کیسوں میں سجی گھڑیوں کو گھنٹوں تکا کرتے لیکن خریدنے کی سکت اپنے اندر نہ پاتے تھے۔ اب جو یہ نقلی گھڑیاں ہاتھ آئیں تو گویا وارے نیارے ہو گئے۔ خیر صاحب یہ تھی ہماری ٹریننگ کی داستان۔ شام کو تربیتی مرکز سے نکلتے، سرکاری ویگن ہمیں سیدھے ہوٹل لے جاتی، جہاں پر ہم اپنا بیگ کمرے میں پھینکنے کے بعد فوراً ہوٹل سے باہر نکل جاتے، رات دس گیارہ بجے تک سڑکوں اور شاپنگ سنٹرز کے چکر لگاتے اور جب تھک کر چور ہو جاتے تو واپس ہوٹل کی راہ لیتے۔ ہفتے کے اختتامیے ( ویک اینڈز) ہم نے مشہور سیر گاہوں کی سیر کے لیے مخصوص کر دیے تھے۔

 

سنگا پور استوائی خطے میں واقع ہے لہٰذا اس کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ بارشیں خوب ہوتی ہیں۔ دن کا اوسط درجہ حرارت تقریباً تیس درجے سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ ہر یا لی خوب ہے۔ سال کے بارہ مہینے آپ ایک عدد ٹی شرٹ میں گزارہ کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ہر روز ایک ہی ٹی شرٹ نہ ہو۔ یہاں آپ کو گرم کپڑوں کی بالکل ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ یہاں پر گرمی کی وجہ سے تمام دفاتر، زیادہ تر شاپنگ سنٹر اور ہوٹل وغیرہ ائر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں، جسے یہاں ائر کون کہا جاتا ہے، کسی بھی بلڈنگ کے اندر آپ کو گرم سوئٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے لہٰذا حفظ، ماتقدم کے طور پر سنگاپور آتے ہوئے ایک عدد سوئٹر ضرور رکھ لینی چاہیے۔

 

سنگاپور میں کئی قومیتوں اور رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں۔ سب سے زیادہ چینی نژاد ہیں جو آبادی کا تقریباً پچھتر فیصد ہیں۔ باقی پچیس فیصد میں ملایئن، ہندوستانی، پاکستانی، سری لنکن عرب وغیرہ ہیں۔ بڑے مذاہب میں بدھ ازم، ہندومت، اسلام اور عیسائیت ہیں جن کے عبادت خانے بھی نظر آتے ہیں۔ حکومت کا انداز جمہوری ہے لیکن کسی بھی شخص کو دوسرے کے مذہب پر تنقید کا حق نہیں ہے۔ ملک میں سیاحت ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاحوں کی دلچسپی کی ہر شے وہاں موجود ہے اور سستی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاح سنگاپور آئیں اور زرِ مبادلہ کمایا جا سکے۔ پورا سنگاپور ایک بہترین تفریح گاہ، ایک سیاحتی مرکز اور ایک بہت بڑا اور اعلیٰ درجے کا بازار ہے۔ ابھی حال ہی میں ( ۲۰۱۰) سنگاپور کے تفریحی جزیرے سینٹوسا آئی لینڈ میں بھی ایک عدد کسینو بنایا گیا ہے جہاں پر سیاحوں کا داخلہ مفت ہے جبکہ سنگاپوری شہریوں کیلیے داخلہ فیس ہی ایک سو ڈالر ہے۔

 

سنگاپور کا جو انداز سب سے پہلے آنکھوں کو بھاتا ہے وہ یہاں کی صفائی ستھرائی ہے۔ ہمیں تو سنگاپور یورپ سے بھی زیادہ صاف و شفاف نظر آیا، جس کی تائید ہمارے جرمن انسٹرکٹر نے بھی کی۔ صاف، شفاف، چمکتی ہوئی سڑکیں، عمارتیں اور پارک دل کو بھاتے ہیں۔ سنگاپوری شہریوں کے بقول ان کا ملک ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے، جس پر وہ بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ یہاں پر کوڑا کرکٹ پھیلانے پر سخت سزا اور جرمانے کا رواج ہے۔ یہ جرمانہ ۵۰ سے ۵۰۰ ڈالر تک ہو سکتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے کے متعلق سوچا جہاں پر اس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر ہمارا ایمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، لیکن اس صفائی سے مراد ہم گھر کی صفائی لیتے ہیں اور اس کا اطلاق اپنے گھر کی دہلیز سے باہر نہیں کرتے۔ ہمارے گھر سے باہر دراصل ہماری ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ ہم نے پہلے دن کے اختتام پر اپنی قمیص کی کالر کی حالت دیکھنی چاہی، وہ بالکل صاف تھی۔ اسی طرح ان تین ہفتوں میں ہمیں اپنے جوتوں پر پالش کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، وہ اسی طرح چمکتے ہوئے ہی ملے، جس طرح پہلے روز نظر آئے تھے۔ اب جب ۲۰۱۰ میں، اتنے سالوں بعد ہم دوبارہ سنگاپور پہنچے تو پتا چلا کہ سگریٹ اور چیونگم پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دراصل ایم آر ٹی کے چلنے کے بعد ایک مرتبہ سنا کہ کسی نے چیونگم کو چبا کر ٹرین کے آٹو میٹک دروازے میں چپکا دیا تھا جو دروازہ کھلنے میں تاخیر کا سبب بنا، لہٰذا چیونگم کے خلاف یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ سگریٹ سنگاپور میں بہت مہنگی ہے، البتہ چنگی ائر پورٹ کے انٹر نیشنل لاونج میں سستی۔ دفتروں، شاپنگ سنٹرز اور بس اسٹاپوں، ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر سگریٹ نوشی کی سختی سے ممانعت ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کو بھی وہ آلودگی تصور کرتے ہیں۔

 

لاہور سے ہمارے ایک سینئر  انجینیر نے ایک صاحب کا نام اور ٹیلیفون نمبر دیا تھا کہ ان سے رابطہ قائم کر کے سلام کہہ دینا۔ ہم نے انھیں کال کیا اور اپنے لاہوری دوست کا سلام و پیغام پہنچایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیں لینے کے لیے ہوٹل آ گئے۔ یہ صاحب پاکستانی تھے لیکن ایک سنگاپوری حور پر دل ہار بیٹھے تھے۔ اب اس سے شادی رچا کر گزشتہ سالہا سال سے سنگاپوری شہریت اختیار کر کے یہیں بس گئے تھے۔ اب تو ان کا ایک جوان بیٹا بھی تھا۔ انھوں نے ہمیں اپنے گاڑی میں بٹھایا اور ایک لمبی ڈرائیو پر نکل گئے۔ ہائی وے پر پہنچے اور ہمیں سنگاپور سے متعلق بتاتے ہوئے سنگاپور کی ہوائی سیر کروائی۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں کے قوانین بہت سخت ہیں اور غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے بیٹے نے کہیں اپنی یونیورسٹی کے کسی اخبار میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں ایک مضمون لکھ مارا تھا۔ اس کی پاداش میں اسے مسجد کمیٹی کی اپنی رکنیت سے مستعفی ہو جانا پڑا تھا۔ صحیح یا غلط، ان کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ کسی کی بھی مخالفت نہیں کرنی چاہے۔ اس ملٹی ایتھنک ملٹی ریشیل قسم کے ملک کے لیے یہی پالیسی بہتر ہے ورنہ ہر روز کوئی نہ کوئی گروہ جذبات میں آ کر اور مشتعل ہو کر ہنگامہ آرائی پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ اس دنیا میں بہت سی باتیں غلط ہو رہی ہیں، لیکن ان کی وجہ سے ہم جوش میں آ کر اپنے ہی سکون کو کیوں غارت کر لیں۔ ان صاحب نے ہمیں گھر لے جا کر چائے وغیرہ پلوائی اور پھر ہوٹل چھوڑ دیا۔

 

ان دنوں ہم ہوٹل سے باہر نکلتے تو زیادہ تر بس میں سفر کرتے تھے، اس لیے کہ ٹیکسی مہنگی پڑتی تھی اور ایم آر ٹی ابھی بنی نہیں تھی۔ سنگاپور میں آج تک ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیں۔ ہم بس اسٹاپ پر آ کر کھڑے ہو جاتے اور ڈبل ڈیکر کا انتظار کرتے اور جوں ہی ڈبل ڈیکر بس میسر آتی، فوراً اس میں سوار ہو کر اوپر کی منزل کی جانب لپکتے۔ اوپر جا کر وہاں سے سنگاپور کا نظارہ کرتے تھے، یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ہمیں اپنے بچپن میں کراچی کی سڑکوں پر چلتی ہوئی ڈبل ڈیکر بسوں کا بھی ہلکا سا دھیان ہے۔ ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا۔ اسی یاد کو تازہ کرنے کے لیے ہم نے سنگاپور کی ڈبل ڈیکر میں خوب سفر کیا اور خوب مزے لے لے کر کیا۔ اس زمانے میں انڈر گراونڈ ٹرین کی تیاری اور سرنگوں کی تعمیر چپکے چپکے کی جا رہی تھی، البتہ کہیں کہیں اس کے اسٹیشن ابر تے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس بارے میں مقامی لوگوں سے خاصا سننے کو مل جاتا تھا۔ ۱۹۹۵ ء میں جب ہم تیسری بار سنگاپور پہنچے تو یہی انڈر گراونڈ ٹرین بن کر تیار ہو چکی تھی اور اس نے اپنا کام بھی شروع کر دیا تھا لیکن ہمیں اسے دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کا اتفاق ۲۰۱۰ء میں ہوا۔

 

ہم نے سنگاپور پہنچتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کاغذ پینسل سنبھال کر بیٹھ گئے اور ایک مکمل بجٹ بنا لیا کہ ہمیں جو زرِ مبادلہ دیا گیا تھا، اس میں سے ہمارا اصل حصہ کتنا ہے اور کس قدر رقم ہمیں واپس لوٹا دینی ہے۔ پھر اپنے حصے میں سے ہم نے ہوٹل اور ٹیکسی کا حساب علیحدہ کر لیا تاکہ کھانے کے لیے اپنی ذاتی رقم کا اندازہ ہو سکے۔ ذاتی یوں کہ اسی میں سے ہم کچھ رقم پس انداز کر سکتے تھے اور اپنی ذاتی خریداری کر سکتے تھے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو اسی طرح ہم نے اپنے کھانے میں سے کافی رقم پس انداز کی تھی اور ایک عدد کمپیوٹر خریدا تھا۔ یہاں سے بھی ہم نے ایک عدد کمپیوٹر خریدنے کا پروگرام بنا لیا۔ سنگاپور میں یوں تو ساری دنیا کی طرح اچھے ریسٹورینٹ کافی مہنگے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے یہاں پر جگہ جگہ کھانے کے سستے اسٹال لگائے گئے ہیں۔ جہاں پر درمیان میں ایک مناسب بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کیا گیا ہے اور چاروں جانب کھانے کے اسٹال ہیں جہاں سے کھانے والے اپنی مرضی کی اشیاء خرید کر کھاتے ہیں۔ یہاں پر بیرے ( ویٹرز) نہیں ہوتے بلکہ لوگ خود اپنی مدد آپ( سیلف سروس) کے تحت اپنا کھانا خود ہی اپنی میز تک لے آتے ہیں۔ یہ بندوبست فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹوں یعنی میکڈانلڈ اور کے ایف سی سے بھی سستا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جگہ جگہ انڈین مسلمانوں یا ملاین مسلمانوں کے حلال کھانے کے ڈھابے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہماری دو عدد ترکیبیں ایسی تھیں جو ہماری بچت میں سراسر اضافے کا باعث تھیں۔ پہلی ڈٹ کر ناشتہ کرنا اور دوسری چودھری صاحب کے لائے ہوئے فوڈ کینز سے فائدہ اٹھانا۔ پہلی ترکیب پر ہم سے زیادہ چودھری صاحب عمل کر پاتے تھے اور دوسری ترکیب پر عمل پیرا ہونے میں ہم چودھری صاحب کے شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔

 

ہماری دوسری لسٹ خریداری کی تھی۔ اس دوسری لسٹ میں سرِ فہرست تو جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا ایک عدد کلون کمپیوٹر تھا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپیوٹر مول لے آئے تھے۔ ادھر کچھ ماہ سے آئی بی ایم کلون کمپیوٹر عام ہو گئے تھے اور سستے ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ میں تھے۔ باقی اشیاء کا دارومدار اس بات پر تھا کہ کمپیوٹر خریدنے کے بعد ہمارے پاس کتنی رقم بچ رہتی ہے۔ اس میں ہمارے اپنے کپڑوں کے علاوہ گھر والوں کے لیے کچھ تحفے تحائف وغیرہ شامل تھے۔ روزانہ رات کو سونے سے پہلے ہم ان دونوں لسٹوں کو بلا ناغہ اپڈیٹ کر لیتے تھے۔ تاکہ ہر وقت ہمیں اپنی جیب کی حیثیت کا احساس رہے اور ہم اپنے بجٹ سے زیادہ خرچ نہ کر سکیں

 

 

 

 

 

چل چل چنبیلی باغ میں

 

 

 

سنگاپور میں ہماری تربیت جاری رہی اور آخر کار جمعہ کا دن بھی آ گیا۔ اس روز ہم الارم بجنے سے کوئی پانچ منٹ پہلے ہی بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پطرس بخاری صاحب کی طرح غسل خانے میں دیر تک چل چل چنبیلی باغ میں گاتے رہے۔ آج جمعہ تھا یعنی اب سے کچھ ہی گھنٹے میں ہفتے کا اختتامیہ شروع ہو رہا تھا۔ پاکستان میں چونکہ ہفتہ وار چھٹی کا صرف ایک ہی دن معین ہوتا ہے لہٰذا وہاں پر لوگ جمعے کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر ہم نے یہ رمز جانا تھا۔ جمعہ کی صبح ہی سے وہاں پر لوگوں کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ ٹی جی آئی ایف۔ کلاس روم میں پہنچتے ہی ہم نے بورڈ پر چاک سے ٹی جی آئی ایف لکھ دیا۔ جو لوگ صاحبِ کشف تھے فوراً سمجھ گئے۔ ہمارے انسٹرکٹر صاحب بھی جو جرمن تھے اور ’گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو تھے ‘، مسکرا دیئے۔ اور بورڈ پر اس کے سامنے پورا جملہ لکھ مارا۔

 

تھینک گاڈ اِٹس فرائیڈے یعنی اللہ کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔

 

خیر صاحب! آج ایک گھنٹہ پہلے چھٹی ہونی تھی۔ نہیں بتا سکتے کہ کس طرح انگاروں پر یہ وقت گزارا۔ چھٹی ہوتے ہی، فائل وغیرہ کو بغل میں داب، ویگن میں آن بیٹھے اور آن کی آن میں ہوٹل پہنچ گئے۔ ابھی سہہ پہر کی دھوپ ڈھلنا شروع ہوئی تھی۔ کمرے میں پہنچے تو آج نوٹ کیا کہ پردے کھنچے ہوئے تھے اور شیشے میں سے سہہ پہر کی تیز روشنی کمرے میں آ رہی تھی۔

 

ہم نے کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ ہمارا کمرہ ہوٹل کی دسویں منزل پر تھا اور یہاں سے ہمیں چھٹی منزل پر بنا ہوا سو ئمنگ پول صاف نظر آ رہا تھا۔ اس وقت اس سوئمنگ پول میں دو عدد جل پریاں دو صورت حرام مردوں کے ساتھ چہلیں لگا رہی تھیں۔ بقول چچا غالب

 

جنوں کی دستگیری کس سے ہو، گر ہو نہ عریانی

 

دل تو چاہا کہ یہیں سے چھلانگ مار کر سوئمنگ پول کے اندر پہنچ جائیں، لیکن کیا کرتے، ہمارے سامان میں سوئمنگ کاسٹیوم نہیں تھا۔ کان پکڑ کر باہر نکال دیے جاتے۔ ہم نے فوراً اپنی خریداری لسٹ میں سوئمنگ کاسٹیوم کا اضافہ کیا اور طنطناتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔ چودھری صاحب کو بتایا تو وہ ابھی اسی وقت سوئمنگ پول کی طرف جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ بڑی مشکل سے انھیں راضی کیا کہ بھائی جان آپ تو تیرنا بھی نہیں جانتے۔ کیا آپ پول کے باہر اپنے پورے کپڑوں میں بیٹھے تماشا کرنا چاہیں گے ؟ خود بھی تماشا بنیں گے اور ہمیں بھی پول نکالا دلوائیں گے۔

 

طے پایا کہ آج کا باقی دن کمپیوٹر کی خریداری پر لگایا جائے اور کل بروز ہفتہ ژورونگ برڈ پارک جا کر رنگ برنگے پرندوں سے جی بہلائیں گے۔ اس زمانے میں سم لم اسکوائر ابھی نہیں بنا تھا۔ الیکٹرانکس کی تمام اشیاء سم لم ٹاور سے یا پھر کمپیوٹر کی قبیل کی اشیاء نارتھ برج روڈ پر واقع فونان سنٹر سے مل سکتی ہیں۔ پہلے بس میں بیٹھ کر بوکے تیما روڈ اور سرنگوں روڈ کے سنگم پر واقع سم لم ٹاور پہنچے اور مارکیٹ کا جائزہ لیا۔ پھر فونان سنٹر پہنچ کر ایک دکاندار سے بھاؤ تاؤ شروع کیا۔

 

پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں دکان پر پہنچ کر دکاندار سے کہا تھا کہ ایک کموڈور کمپیوٹر چاہئے اور اس نے شیلف سے ایک عدد سیل بند ڈبہ نکال دیا تھا جسے لے کر خوشی خوشی ہوٹل آ گئے تھے۔ یہاں پر جب ہم نے دکاندار سے کہا کہہ ہمیں ایک کمپیوٹر درکار ہے تو وہ پہلے تو حیران ہو کر ہمیں دیکھنے لگا، گویا ہم نے کوئی عجیب بات کہہ دی ہو۔ بولا

 

’’ کس قسم کا کمپیوٹر چاہیے آپ کو؟‘‘

 

ہم نے کہا ’’ جیسا ایک کمپیوٹر ہوتا ہے۔ ویسا ہی چاہیے۔ ‘‘

 

بولا’’ کچھ جزئیات کی تفصیل ہے آپ کے پاس۔ ‘‘

 

ہم نے کہا’’ کمپیوٹر ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو بجلی سے چلتا ہے اور آٹو میٹک ہوتا ہے۔ ‘‘

 

وہ ناہنجار اب بھی نہ سمجھا، بولا’’ وہ سب تو مجھے پتہ ہے لیکن آپ کو پروسسر کون سا چاہیے۔ ریم کون سی اور کتنی چاہیے۔ فلاپی ڈسک ڈرائیو کتنی درکار ہیں۔ مانیٹر کون سا چاہیے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بھی بہت سی تفصیل تھی جو ہمیں اب یاد نہیں ہے۔

 

اس بار ہم اس کی بات نہیں سمجھے۔ لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا اور طے پایا کہ وہ جاہل شخص ہمارے لیے ایک عدد کلون آئی بی ایم پی سی ایکس ٹی بنا دے گا، جس کی جزئیات کی تفصیل اس نے ایک کاغذ پر ہمیں لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ ہم نے اسے پیسوں کی نقد ادائیگی کر دی اور مال کے طالب ہوئے، بولا۔ ’’ کمپیوٹر آپ کو ایک ہفتے بعد ملے گا۔ اس عرصے میں میں اسے آپ کے لیے اسمبل کروں گا اور پورا ہفتہ اپنی دکان پر اسے ٹسٹ کروں گا۔ ‘‘

 

ہم نے کہا ’’ یہ عجب کہی تم نے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ہاتھ کے ہاتھ دکان سے کمپیوٹر لے آئے تھے۔ ‘‘

 

لیکن صاحب ہماری ایک نہ چلی۔ اس ناہنجار نے ہماری باتوں کو سمجھنے سے صاف انکار کر دیا اور ہم ناکام و نامراد وہاں سے واپس مڑے، اگلے ہفتے تک انتظار کی کوفت اٹھانے کے لیے۔

 

خیر صاحب، اس بڑے کام سے فارغ ہوئے تو پھر چائنا ٹاون سیر کی سوجھی۔ نارتھ برج روڈ سے ہوتے ہوئے چائنا ٹاون پہنچے۔ لٹل انڈیا کی طرح چائنا ٹاؤن کا بھی اپنا ایک نرالا انداز ہے۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی چائنیز دکانیں کھلی ہیں۔ کہیں چائنیز جڑی بوٹیاں بک رہی ہیں تو کہیں چائنیز کھانوں کے اسٹال ہیں۔ چائینیز کھانوں کی ناقابلِ برداشت بو سے دماغ پکا جاتا ہے۔ دکانوں میں سجاوٹ کا چائنیز سامان بک رہا ہے، اس لئے کہ سنگاپور میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی تہوار منایا جا رہا ہوتا ہے۔ چائنیز نئے سال کے موقعے پر تو چائنا ٹاؤن کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے اور یہ سجاوٹ دیدنی ہوتی ہے۔ ہم چونکہ جولائی میں سنگاپور پہنچے تھے اور اگست میں سنگاپور کا قومی دن منایا جانا طے تھا، لہٰذا آجکل اس تہوار کی خوشی میں سجاوٹ کی جا رہی تھی۔ اس زمانے کا ایک مشہور گیت جو ہمیں بہت پسند آیا تھا وہ تھا ’’ وی آر سنگاپور‘‘ یعنی ہم سنگاپور ہیں۔ ہمیں یہ گیت اتنا پسند آیا کہ ہم نے اس گیت پر مشتمل ایک عدد کیسٹ خرید لیا اور وطن واپس پہنچ کر اکثر اسے سنا کرتے اور سنگاپور کی یادیں تازہ کرتے تھے۔

 

وی آر سنگاپور

سنگاپورینز

سنگاپور آور ہوم لینڈ

اٹس ہیئر دیٹ وی بیلونگ

آل آف اس یونایئٹڈ

ون پیپل مارچنگ آن

 

ان انگریزی الفاظ کے لفظی ترجمہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ان جذبات و احساسات کی ترجمانی کی جائے تو امجد حسین کا گایا ہوا مندرجہ ذیل پاکستانی نغمہ بن جاتا ہے۔

 

ہم زندہ قوم ہیں

پایندہ قوم ہیں

ہم سب کی ہے پہچان

ہم سب کا پاکستان، پاکستان، پاکستان

ہم سب کا پاکستان

 

چائنا ٹاون میں رات کے وقت چھوٹی چھوٹی دکانوں کا ایک بازار سجتا ہے جو سیاحوں کی خاص دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ اس میں چھوٹی بڑی یادگاری چیزیں وغیرہ رکھی ہوتی ہیں اور سستے داموں فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ رات گئے تک ہم اس بازار میں آوارہ گردی کرتے رہے آخر کار تھک ہار کر ہوٹل پہنچے۔

 

ہفتے کے روز صبح سویرے، یعنی دس بجے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور مفت ناشتہ کو یقینی بناتے ہوئے ساڑھے دس بجے سے پہلے ہی ریسٹورینٹ میں داخل ہو گئے۔ اگر پانچ منٹ اور دیر سے اٹھتے تو ہمیں اس کی پاداش میں ناشتے کے لیے کچھ سنگاپوری ڈالر خرچ کرنے پڑ ہی جاتے۔ ناشتے کے فوراً بعد ہم نے چودھری صاحب کی معیت میں بس پکڑی اور اپر بوکے تیما روڈ پر شمال کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ سنگاپور باغوں، پارکوں اور تفریح گاہوں کا شہر ہے۔ مشہور باغوں میں زولوجیکل گارڈن، بوٹانیکل گارڈن، چائنیز اور جاپانیز گارڈن ژورونگ برڈ پارک اور جزیرہ سینتوسا شامل ہیں۔ برڈ پارک میں رنگ برنگ کے خوشنما پرندے اپنی شان دکھا رہے ہوتے ہیں۔

 

برڈ پارک پہنچے تو دیکھا کہ سامنے ہی ایک ٹرینر اپنے سدھائے ہوئے اژدھے کو لیے ہوئے ایک عجیب شو دکھا رہا تھا۔ وہ اپنا اژدھا اطمینان کے ساتھ سیاح کے گلے میں ڈال دیتا اور اس کی تصویریں کھینچ کر اس سے پیسے وصول کر لیتا۔ بہادر تو ہم بچپن سے ہی ہیں، اس دن اپنی بہادری کو آزمانے کا خیال آیا تو خم ٹھونک کر اژدھے والے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس ناہنجار نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، اور اپنا خوفناک اژدھا اٹھا کر ہمارے گلے میں ڈال دیا۔ یہ شاید ہماری زندگی کا بد ترین دن تھا۔ واہ میاں یہ بھی خوب رہی۔ بلی کی بلا طویلے کر سر۔ ہمیں تو اس وقت صحیح محاورہ تک یاد نہیں آ رہا تھا۔ خدا جانے کتنے گھنٹے وہ بلا ہمارے گلے سے لپٹی رہی اور وہ ناہنجار سپیرا مختلف پوز بنا بنا کر ہماری تصویریں کھینچتا رہا۔ ادھر چودھری صاحب بھی مختلف زاویوں سے ہمیں دیکھ دیکھ کر ہماری اس بے بسی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ ہمیں جتنی دعائیں یاد تھیں، ہم نے وہ سب دل ہی دل میں دہرانا شروع کر دیں۔ آخر کار خدا خدا کر کے اس مصیبت سے نجات ملی اور سپیرے نے اس خطرناک ترین اژدھے کو ہمارے گلے سے نکالا تو ہم نے یوں زندہ بچ جانے پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا، جوں توں کر کے کانپتے ہاتھوں سے اپنا پرس نکالا اور منہ مانگے ڈالر اس موذی کی نظر کیے۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں وہ دوبارہ اس اژدھے کو ہمارے گلے نہ منڈھ دے۔ اب چودھری صاحب کی باری تھی لیکن وہ اس مشکل صورتِ حال میں پھنسنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوئے اور بھاگ کر سپیرے کی پہنچ سے دور جا کھڑے ہوئے۔

 

آگے بڑھے تو شہباز کے شو کا وقت ہو چلا تھا۔ ایک کھلی جگہ پر لوگ شہباز کے ٹرینر کو گھیرے کھڑے تھے۔ اس نے لوگوں کو دور ایک اونچے درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بنا یا ہوا شہباز کا بسیرا دکھایا اور اعلان کیا کہ شہباز اس کی آواز پر لپکتا ہوا اس کے پاس آئے گا اور اس کے ہاتھ سے گوشت کی بوٹی لے جائے گا۔ اور یوں ہی ہوا۔ وقتِ مقررہ پر شہباز کے گھر کا دروازہ کھولا گیا، ٹرینر نے اسے پکارا اور وہ ایک اونچی اڑان لے کر جھپٹتا ہوا آیا اور ٹرینر کے ہاتھ سے گوشت کا پارچہ لے اڑا۔ پھر جب وہ اس پارچے کو اطمینان سے کھا چکا تو ایک لمبی اڑان لے کر دوبارہ اپنے ٹرینز کے کندھے پر آ بیٹھا اور داد سمیٹی۔ ہم نے بھی ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل کر خوب دل کھول کر اس پرندے کو اور اس کے ٹرینر کو سراہا۔ ہمیں علامہ اقبال کا شعر یاد آ گیا جو انھوں نے شاید ہمارے سنگاپور کے اس سفر میں شہباز کے اس مظاہرے کے لیے ہی لکھا تھا۔

 

جھپٹنا، پلٹنا، جھپٹ کر پلٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

 

سنگاپور آ کر نقلی رنگین پرندے تو بہت دیکھے تھے، یہاں پر آ کر ہم نے جی بھر کے اصلی رنگین پرندے دیکھے۔ جب یہاں سے خوب دل بھر گیا تو ہم نے روانگی کا پروگرام بنایا اور وہاں سے نکل کر سیدھے جزیرے کی دوسری جانب، چائنا ٹاون کے قریب دریائے سنگاپور کے کنارے پہنچے۔ نارتھ برج روڈ اور ساؤتھ برج روڈ کے سنگم پر دریا کے اوپر ایک نہایت خوبصورت پل بنایا گیا ہے اور اسی پل کی مناسبت سے ان دونوں سڑکوں کا نام رکھا گیا ہے۔ وہیں سے ہم پیدل چلتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں پر سر اسٹیمفورڈ ریفلز نے پہلی مرتبہ سنگاپور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ یہاں اب حکومت نے سر ریفلز کا ایک قد آدم مجسمہ کھڑا کر دیا ہے جو اس واقعے کی یاد دلاتا ہے۔

 

اب سے سینکڑوں سال پہلے جب علاقے میں ملاکا کی اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا اور وہ علاقے کی ایک قابلِ ذکر تجارتی منڈی بن گیا، تو سنگاپور اس سلطنت کا ایک حصہ بنا، بالآخر ۱۵۱۱ ء میں ملاکا پرتگیزیوں کے ہاتھوں فتح ہوا تو سنگاپور اس کی عملداری سے نکل کر جوہور بھارو کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ ۱۸۱۹ء میں سر ٹامس اسٹیمفورڈ بنگلے ریفلز نے اس جزیرے پر اتر کر اسے برطانوی عملداری میں دیدیا۔

 

جنگِ عظیم دوم کے بعد اسے ۱۹۴۹ میں محدود خود مختاری دی گئی۔ پھر جب ۱۹۶۵ ء میں برطانوی حکومت نے اس علاقے کو چھوڑا اور ملائشیا آزاد ہوا تو اسے بھی ملائشیا سے الگ کر کے ایک الگ ریاست کی شکل دیدی گئی۔

 

یہاں سے چلے تو مرلائن پارک پہنچے جہاں پر سنگاپور دریا کے دہانے پر مر لائن کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جس کا سر شیر کا اور دھڑ مچھلی کا ہے۔ یہ سنگاپور کا قومی نشان ہے۔ کچھ دیر تو ہم اس مجسمے کے منھ سے ابلتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہے اور پھر ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔

 

 

 

 

ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے

 

 

 

ہم سنگاپور کیا گئے، ہماری دیکھا دیکھی رجب علی بیگ سرور صاحب بھی ہمارے پیچھے سنگاپور ہولیے اور اس کا سارا حال اپنی کتاب فسانہ عجائب میں لکھنؤ اور سرزمینِ ختن کے خیالی شہر، فسحت آباد کے نام سے لکھ مارا۔ لکھتے ہیں :۔

 

’’ عجب شہرِ گلزار ہے، ہر گلی کوچہ دلچسپ باغ و بہار ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر با وضع قطع دار ہے۔ دو رویہ بازار کس انداز کا ہے۔ ہر دکان میں سرمایہ ناز و نیاز کا ہے۔ ہر چند ہر محلے میں جہاں کا ساز و سامان مہیا ہے پر ( ڈائی نے سٹی ہوٹل) سے ( ویسما ایٹریا، لکی پلازہ) اور (سنگاپورہ پلازہ ) تک، کہ صراطِ مستقیم ہے، ( اور آرچرڈ روڈ) کہلاتی ہے کیا جلسہ ہے۔ ‘‘

 

آگے لکھتے ہیں :۔

 

’’ باشندے یہاں کے ذکی، فہیم، عقل کی تیز اگر دیدہ انصاف اور نظرِ غور سے اس شہر کو دیکھے تو جہان کے دید کی حسرت نہ رہے۔ آنکھ بند کرے (شعر، سرور صاحب سے معذرت کے ساتھ)

 

سنا! رضواں بھی جس کا خوشہ چیں ہے

وہ (سنگا پور ہی) کی سر زمیں ہے

 

آگے ذرا برسات کا حال سنئیے :۔

 

’’برسات کا اگر موسم ہے، شہر کا یہ عالم ہے، ادھر مینہ برسا، پانی جا بجا بہہ گیا، گلی کوچہ صاف رہ گیا، ساون بھادوں میں زردوزی جوتا پہن کر پھرے، کیچڑ تو کیا مٹی نہ بھرے۔ فصل بہار کی صنعت، پروردگار کی قدرت، رضوان جن کا شائق، دیکھنے کے لائق۔ روز عیش باغ میں تماشے کا میلہ، ہر وقت چین کا جلسہ‘‘ (فسانہ عجائب از رجب علی بیگ سرور)

 

بھائی ! ہم باز آئے اپنی منظر کشی سے، آئندہ جب کبھی سنگاپور ی جلوہ حُسن کے متعلق لکھنا ہو تو کہہ دیں گے، دیکھئے فسانہ عجائب، صفحہ فلاں۔

 

مزید برآں کچھ، اسی قسم کا ظلم ہمارے ساتھ جناب قمر علی عباسی صاحب نے بھی روا رکھا۔ انھوں نے تو ہماری دیکھا دیکھی سنگاپور کا سفر نامہ تک لکھ ڈالا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے اِن دونوں شخصیات کو علم ہو چکا تھا کہ ہم سنگاپور کا ایک عجائب روزگار سفر نامہ لکھنے والے ہیں۔

 

 

 

 

ہائے سنگاپور، وائے سنگاپور

 

بھاڑ میں جائے سنگاپور

 

سنگاپور جو سرزمینِ ماوراء الہند یعنی شرق الہند میں ملائشیاء کے جنوب میں ایک جزیرہ ہے، ۱ ڈگری ۲۰ منٹ شمال طول البلد اور ۱۰۳ ڈگری ۵۰ منٹ عرض البلد مشرق میں واقع ہے اور خط استوا سے کوئی ۱۳۷ کلو میٹر کے فاصلے پر آبنائے ملاکا کے دہانے پر ہونے کی وجہ سے مشرق و مغرب کے درمیان ایک اہم بندرگاہ ہے۔ اس کا نام سنگاپور کیسے پڑا، اس کے بارے میں بھی ایک لوک داستان بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے ایک شہزادے کا دل ایک جل پری پر آ گیا اور اس نے اس جل پری سے شادی رچا لی اور ہنسی خوشی رہنے لگا۔ اس کے تین بیٹے ہوئے جو جوانمردی اور بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ منجھلے بیٹے نیلا اُتّم نے ایک دن سمندر پار ایک جزیرے کو دیکھا تو اس کی جستجو میں ایک بحری جہاز لے کر نکلا۔ سمندر میں طوفان آ گیا اور اس کا جہاز ڈوبنے لگا۔ شہزادے نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور کنارے پہنچا۔ یہاں پہنچتے ہی اس نے ایک عجیب جانور دیکھا جو در حقیقت ایک شیر تھا۔ اس نے جزیرے کو اپنی مملکت میں شامل کیا اور اس پہلے نظارے کی یاد میں اس جزیرے کا نام سنگا پورا یعنی شیر کا شہر رکھ دیا۔ اہلِ سنگاپور آج بھی اس شہزادے کو نہیں بھولے اور اس کی یاد میں مرلائن کو سنگاپور کا قومی نشان قرار دیا جس کا سر شیر کا اور دھڑ اس جل پری کے بیٹے کی یاد میں مچھلی کا ہے۔

 

یہی کچھ وہ اسمال ٹاک یعنی گپ شپ تھی جسے روا رکھتے ہوئے ہم نے اس شام برمی بجرے پر قدم رنجہ فرمایا اور چار گھنٹے کے اس حسین و رنگین سفر میں جاری رکھا جس کی منزل واپس سنگاپور ہاربر تھی۔ چار گھنٹے کا یہ کروز جس میں ایک عدد شاندار قسم کا ڈنر یعنی طعامِ شبینہ بھی شامل تھا، ہماری کمپنی کی جانب سے ہم مہمانانِ گرامی قدر کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ ہم گنتی کے جو چند مسلمان اس میں شامل تھے،ہمارے لیے علیحدہ حلال کھانے کا انتظام تھا۔ بحری بجرہ بین الاقوامی مہمانوں یعنی سیاحوں سے بھرا ہوا تھا، لہٰذا ہم سمندر اور اس کے قدرتی جزیروں کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ، ابنِ صفی کے قول کے مطابق انسانی جزیروں کی سیر سے بھی بدرجہ اتم لطف اندوز ہو رہے تھے۔

 

’’ اور کیا جناب!۔ ۔ ۔ اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر میں کیا رکھا ہے۔ خواہ وہ پہلی صدی عیسوی ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ یہ جھیل اور اس کے ساحل بھی لاکھوں سال پرانے ہیں۔ میں تو آپ کو وہ نایاب جزیرے دکھاؤں گا، جو آج ہیں کل نہ ہوں گے یا اگر ہوں گے بھی تو اس قابل نہ رہ جائیں گے کہ ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا کیا جا سکے !‘‘ ( پوائینٹ نمبر بارہ۔ عمران سیریز۔ از ابنِ صفی)

 

۱۸۱۹ ء میں سر اسٹیمفورڈ رئفلز یہاں پہنچے تو اس وقت جزیرے کی آبادی صرف چند نفوس پر مشتمل تھی۔ سر اسٹیمفورڈ ریفلز کے جزیرے پر قدم رکھتے ہی یہ شہر سلطان آف جوہر بھارو کی عملداری میں ہونے کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی منڈی کے طور پر جانا گیا۔ چاروں طرف سے لوگ اس کی جانب امڈ پڑے اور آج ( ۱۹۸۵ء ) اس کی آبادی پچیس لاکھ ہے۔

 

ہم نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ ٹوور گائڈ ہمیں اپنے پبلک ایڈریس سسٹم پر ارد گرد پھیلے ہوئے جزیروں کا جغرافیہ اور سنگاپور کی تاریخ سے آگاہی دلوا رہا تھا۔ تاریخ، جغرافیہ اور معاشرتی علوم میں ہم ویسے ہی کچے اور کورے رہے ہیں اس لیے ہم نے اس کی ان خرافات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے اڑا دیا۔ ان جزیروں کا حال ہم گائڈ کتابوں میں پڑھ ہی لیں گے۔ یہ وقت تو ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا تھا جو اس سمے ہمارے چاروں اُور پھیلے ہوئے تھے۔ سبحان تیری قدرت۔ ہم نے اپنی یادوں کی پٹاری کھولی تو اس میں اس شام کی یاد ان الفاظ کے ساتھ محفوظ تھی۔ ’’سنگاپور کی ایک شام جو بہتر انداز میں بسر ہوئی۔ ‘‘

 

اگلے دن ہمارے سب ہم جماعتوں نے استاد صاحب کے ساتھ ملکر تفریح کرنے کا پروگرام بنایا اور کلاس ختم ہوتے ہی دو ٹیکسیاں پکڑ کر سیدھے آرچرڈ روڈ پہنچ گئے۔ آرچرڈ روڈ سنگاپور کا سب سے بڑا خریداری کا علاقہ ہے۔ فرحت اللہ بیگ صاحب کی لکھی ہوئی تعریف ہم پہلے ہی پیش کر چکے ہیں۔ سمجھ لیجے کہ یہ بازار سنگاپور کا طارق روڈ یا لبرٹی ہے۔ اہالیانِ کراچی اور لاہور سمجھ گئے ہوں گے، دوسرے علاقوں کے مکین اپنے علاقائی ماحول کے مطابق کچھ اور تصور کر لیں۔ چونکہ اس پہلے دن ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل کے قریب ٹیکسی سے اتر کر پیدل آوارہ گردی کا آغاز کیا تھا، لہٰذا اس کے بعد ہمارے لیے آرچرڈ روڈ اسی نکتے سے شروع ہوتی تھی۔ پیدل ٹہلتے ہوئے چلے تو راستے میں آنے والے کئی شاپنگ سنٹر دیکھ ڈالے۔ ان دنوں لکی پلازا کا بڑا چرچا تھا، لہٰذا وہاں پہنچے اور زیادہ توجہ کے ساتھ دکانوں کا معائنہ شروع کیا۔ اکٹھے آٹھ لوگ کسی بھی دکان میں گھستے تو دکاندار سٹپٹا جاتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ کس کی طرف توجہ کریں اور کس کی نگرانی کریں۔ ایک دکاندار تو اس قدر گھبرایا کہ ہر ایک کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ جب کافی دیر تک ادھر ادھر اشیاء کا بغور معاینہ کرنے کے باوجود بھی ہم میں سے کسی نے کسی شے کو خریدنے کا عندیہ نہ دیا تو وہ کچھ مشتعل سا نظر آنے لگا۔ ہم چونکہ اپنی کالی رنگت کی بناء پر ویسے ہی سب کی توجہ کا مرکز تھے، اس کے غصے کا محور بھی بن گئے اور اس نے ہمیں دیکھ کر ایک نعرہ مستانہ بلند کیا’’ ہے یو؟‘‘ یعنی’’ ارے تم! کیا چاہیے تمہیں ؟‘‘ ہم غریبِ شہر کیا کہتے، ٹُک اسے دیکھا کیے، لیکن گورے استاد نے دکاندار کو تسلی دی کہ ہم سب اکٹھے ہیں اور سب ہی غیر ملکی ہیں۔ اس بات پر اسے کچھ تسلی ہوئی لیکن پھر جب یہ دیکھا کہ سب ہی بناء خریداری کیے دکان سے باہر جا رہے ہیں تو اس کا موڈ پھر بگڑ گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب ہم نے کسی سنگاپوری شہری کو اس طرح خراب موڈ میں دیکھا، ورنہ ہمیشہ سب ہی ہمیں خوش اخلاقی سے ملے۔

 

جس زمانے کا یہ قصہ ہے اس دور میں سنگاپور میں بھاؤ تاؤ کرنے کا بہت زیادہ رواج تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، اگر آپ دکاندار کی بتائی ہوئی قیمت پر بھروسا کر کے خریداری کر لیتے، تو گویا آپ لٹ چکے ہوتے۔ فارمولا یہ بتایا گیا کہ دکاندار جتنی قیمت بتائے، آپ اس کی آدھی قیمت سے بحث کا آغاز کریں۔ پھر جہاں پر بات بن جائے، وہیں بات ختم کر کے پیسے ادا کر دیں۔ بھاؤ تاؤ کا طریقہ بھی مخصوص تھا۔ دکاندار جس قیمت پر آپ سے بھاؤ تاؤ شروع کرنا چاہتا، وہی قیمت کیلکولیٹر پر لکھ کر آپ کے سامنے کر دیتا۔ آپ اپنی من پسند قیمت اسی کیلکولیٹر پر لکھ کر اس کے سامنے رکھ دیتے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ جو قیمت آپ کے نزدیک مناسب ہوتی اس پر پہنچ کر آپ اپنے بٹوے سے پیسے نکالتے جنھیں دیکھتے ہی دکاندار رام ہو جاتا اور آپ سے پیسے پکڑ کر خریدی ہوئی شے آپ کے حوالے کر دیتا۔ آرچرڈ روڈ اور خاص طور پر لکی پلازا اس قسم کی خریداری کے لیے مشہور تھے۔ سرنوسن روڈ پر مصطفے ٰ سنٹر میں البتہ ہر شے پر قیمت لکھی ہوئی تھی اور دھوکے کے امکانات کم تھے۔ لہٰذا ہم نے اصولی طور پر، طے کر رکھا تھا کہ اپنی تمام خریداری مصطفے ٰ سنٹر ہی سے کی جائے گی علاوہ معدودے چند اشیاء کے، جن میں کمپیوٹر سرِ فہرست تھا۔ (ایک ہفتے بعد فونان سنٹر سے ہمارا خریدا ہوا کمپیوٹر ہمارے حوالے کر دیا گیا تھا اور ہم اسے اپنے ہوٹل کے کمرے میں تختہ مشق بنائے ہوئے تھے )۔

 

واپسی پر سڑک پار کر کے دوسری جانب ہو گئے اور ویسما ایٹریا سمیت اس طرف کے تمام خریداری مرکز دیکھ ڈالے اور ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔ اگلی مرتبہ جب ہم اور چودھری صاحب اکیلے دکیلے ہی آرچرڈ روڈ پہنچے تو اس مرتبہ ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل سے دوسری جانب اس کاٹس روڈ پر چلنا شروع کیا اور تیسری بلڈنگ  اس کاٹ سنٹر کے تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک صاف ستھرے فوڈ سنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور مزے لے لے کر پیلی کھچڑی کے ساتھ حلال سالن تناول کیا اور اس کا لطف اٹھایا۔ اس سے آگے چلے تو فار ایسٹ پلازا نے ہمارا راستہ روکا اور ہمیں چہل قدمی کی دعوت دی۔

 

یہ وہ زمانہ تھا کہ ایم آر ٹی ابھی نہیں بنی تھی۔ بعد میں جب ہم ۲۰۱۰ء میں سنگاپور پہنچے تو آرچرڈ روڈ کے اسٹیشن پر اتر کر ان سب جگہوں کو تلاش کرتے رہے جہاں کبھی ہم نے وقت گزارا تھا۔ اس کاٹ سنٹر کی یہ عمارت غائب تھی اور ساتھ ہی یہ فوڈ سنٹر بھی۔ لکی پلازا اتنا دلکش نہ لگا جتنا کبھی لگا تھا، کیوں کہ راستے میں دونوں اطراف کئی ایک خوبصورت شاپنگ سنٹرز بن چکے تھے۔ خاص طور پر سنگاپورا پلازا جو آرچرڈ روڈ کی تقریباً دوسری جانب‘ دھوبی گھاٹ‘ نامی ایم آر ٹی جنکشن کے اوپر بنایا گیا ہے بہت خوبصورت اور با رونق ہے۔

 

۲۰۱۰ء میں ہم چوتھی مرتبہ سنگاپور پہنچے تو پچھلی دفعہ سے زیادہ سنگین واردات ہمارے ساتھ ہو چکی تھی۔ اس مرتبہ خان صاحب ہمارے ہمسفر تھے۔ اس مرتبہ ہم کسی بھی تفریحی مقام کی سیر کو نہ نکل سکے، اس لیے کہ خان صاحب کو تربیتی مرکز سے ہوٹل واپسی کے بعد کہیں اور جانے کے لیے آمادہ کرنا کار ِ دارد تھا۔ ہم لاکھ انھیں مناتے کہ بھائی کہیں تو نکل چلو، لیکن وہ اپنے کمرے میں، لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے، اپنی محبوبہ سے چیٹ یعنی ہوائی پینگیں بڑھایا کرتے۔ ہم چونکہ اس بار چائنا ٹاؤن کے ایک ہوٹل فوراما سٹی سنٹر میں ٹھرے تھے، لہٰذا ہر روز رات کا کھانا کھانے کے لیے انھیں سرنگون روڈ کھینچ کر لے جاتے۔ کھانا ختم کرتے ہی، وہ ہمیں ٹرین اسٹیشن کی جانب اور ہم انھیں شاپنگ سنٹر کی جانب کھینچتے۔ زیادہ تر جیت ان کی ہی ہوتی کیونکہ وہ ہم سے درخواست بھی کر رہے ہوتے تھے کہ ’وہ اپنی محبوبہ دلنواز کو انتظار کرتا چھوڑ آئے ہیں اور واپس پہنچ کر اس کے غصے کو برداشت کرنے اور اسے منانے کا خوشگوار کام بھی انھی کو سر انجام دینا ہے ‘۔

 

پاکستان واپس آ کر ہم نے ہمجولیوں میں ان کی شکایت کی کہ خان صاحب کا تو سنگاپور میں ایک ہی مشن تھا۔ اپنی محبوبہ دلنواز سے باتیں۔ ساتھی کہنے لگے ’’ بھئی! ہم نے تو انھیں ایک بالکل ہی مختلف مشن پر بھیجا تھا۔ خدا جانے وہ اس مقصد و مدعا میں کامیاب ہو پائے یا نہیں۔ ‘‘

ہم نے حیران ہو کر پوچھا ’’ وہ کیا مشن تھا؟‘‘

 

جواب ملا’’ ان کا مشن اپنے ’ٹی اے۔ ڈی اے ‘ کے پیسے مکمل طور پر بچا کر، کھانے کے لیے آپ کے ’ٹی اے۔ ڈی اے ‘ پر انحصارِ کلی تھا۔ ‘‘

 

ہم حیران رہ گئے۔ ہم ہنس دیے۔ ہم چپ رہے۔ کچھ اس کا سبب چپ تھا، کچھ اس کا سبب باتیں۔

 

خیر صاحب ولے بخیر گزشت۔ جن جگہوں کو ہم پچھلی مرتبہ دیکھ نہ پائے تھے، وہ ان دیکھی ہی رہ گئیں اور جن مقامات کو ایک مرتبہ دیکھ چکے تھے، انھیں دوسری بار دیکھنے کی ہوس رہ گئی۔ ان چند جگہوں میں خاص طور پر سینتوسا آئی لینڈ بھی شامل ہے۔

 

اگلے اتوار ہم اور چودھری صاحب جلد ہی اٹھ کر تیار ہو گئے اور مفت ناشتے کے فوائد حاصل کرتے ہوئے ٹیکسی پکڑ کر کوہِ فیبر پہنچ گئے۔ وہاں سے ان دنوں سینتوسا آئی لینڈ کے لیے کیبل کار روانہ ہوتی تھی۔ ہم نے فوراً ٹکٹ کٹایا اور کیبل کار میں بیٹھ کر فضائی نظارے کے مزے لیتے ہوئے سینتوسا جزیرے پر اتر گئے۔ آج کل مرینہ مال سے اس جزیرے کے لیے چھوٹی ٹرین چلتی ہے جو سمندر پر بنے ہوئے ایک پل سے گزرتی ہے۔ ۔ سینتوسا سنگاپور مین جزیرے کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جسے سیاحوں اور سیر کے رسیا افراد کے لیے ایک مکمل تفریحی مقام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ گویا موجودہ دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے , ۲۰۱۰۔ ء میں اس جزیرے میں دو دلچسپیوں کا اور اضافہ کیا گیا جن میں سے ایک یونیورسل اسٹوڈیو کا ڈسپلئے اور فن سنٹر اور دوسرا ایک عدد کسینو ہے۔ کسینو کی یہ خوبی بیان کی جاتی ہے کہ یہاں پر سیاحوں کے لیے داخلہ بالکل مفت اور مقامی شہریوں کے لیے سو ڈالر داخلہ فیس کے ساتھ ہے۔ اگر یہ کسینو اس زمانے میں بھی موجود ہوتا تو ہمارے چودھری صاحب لازمی اس کی سیر کرتے اور ہمیں ‘مجبوراً ‘ ان کا ساتھ دینا ہی پڑتا۔ سب سے پہلے ہم نے یہاں پر بنایا ہوا میوزیم دیکھا اوراس کے مظاہر میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔

 

آئی لینڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مفت مونو ریل چلتی ہے۔ لہٰذا ہم دونوں اس سہولت کا خوب فائدہ اٹھاتے رہے اور اس ریل میں بیٹھ کر بار بار مفت سیر کا لطف اٹھایا۔ ایک جگہ سمندر کے کنارے پیڈل بوٹ نظر آئی تو چودھری صاحب مچل گئے۔ ہم نے مونو ریل کے قریبی اسٹیشن پر اتر کر وہاں سے دوڑ لگائی اور ایک ایک پیڈل بوٹ کرائے پر لیکر تقریباً دو گھنٹے تک پیڈل مارتے رہے۔ عجیب واہیات سواری ہے۔ اس وقت کچھ احساس نہیں ہوتا، بعد میں خوب پتا چلتا ہے۔ دو گھنٹے گزار کر اس سے اترے تو اگلے دو دن تک لنگڑاتے رہے اور اس گھڑی کو کوستے رہے جب چودھری صاحب کو پیڈل بوٹس نظر آئی تھیں۔ جھٹپٹے کے وقت تک اسی طرح مختلف تفریحات میں مشغول رہے۔ اندھیرا پھیلنے لگا تو ٹکٹ لیکر میوزیکل فاؤنٹین کے چھوٹے سے اسٹیڈیم میں جا بیٹھے۔ درمیان میں ایک تالاب میں کئی فوارے پانی اچھال رہے تھے۔ اندھیرا چھا گیا تو شو شروع ہوا۔ مختلف رنگوں کی روشنیاں میدان میں رقص کرنے لگیں، بہترین ساؤنڈ سسٹم پر موسیقی شروع ہوئی تو رنگ و نور کا ایک طوفان آ گیا اور تمام فوارے اور رنگ برنگی روشنیاں اس موسیقی کی تال پر رقص کرتے ہوئے پانی سے کھیلتے رہے۔ ہم اس اسٹیڈیم میں موجود تمام تماشائیوں کے ہمراہ دم بخود اس حسین نظارے کو دیکھتے رہے۔ کوئی ایک گھنٹے کے اس شو میں انھوں نے کئی انگریزی، چائنیز اور ہندوستانی گانوں کی تال پر رقص کیا اور داد سمیٹی۔ آخر میں جب انڈین فلم قربانی کا مشہور یہ گانا چھیڑا گیا

 

’’ قربانی، قربانی، قربانی

 

اللہ کو پیاری ہے قربانی‘‘

 

تو فواروں، رقص و موسیقی او ر روشنی کے اس طوفان میں ہم بھی جھوم اٹھے۔ گانا، موسیقی، رنگ و نور اور فواروں کا رقص اپنے عروج پر پہنچ کر یکبارگی تھم گیا، لیکن ناظرین کی تالیاں اگلے دس منٹ تک فضا ء کو گرماتی رہیں۔ واقعی یہ ایک ایسا نظارہ تھا جو ہمیں مدتوں یاد رہے گا۔

 

اب تو سنا ہے کہ انڈر واٹر ورلڈ کے نام سے ایک اور مظہر وجود میں آ چکا ہے لیکن ہماری ۲۰۱۰ء کی سیر کے پروگرام میں خان صاحب کی محبوبہ آڑے آئیں اور ہم اس جزیرے کو دوبارہ نہیں دیکھ سکے۔ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے

 

ہم نے بارہا خان صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ سنگاپور سے واپسی تک اپنی محبوبہ دلنواز کو خدا حافظ کہہ دیں کہ واپسی پر تمہارے لیے ٹافیاں لے کر آئیں گے، لیکن وہ نہ مانے۔

 

آخری دن ہم اپنی شاپنگ لسٹ سنبھال کر مصطفے ٰ اور شمس الدین پہنچ گئے اور بشمول ایک عدد بڑے سوٹ کیس، تمام اشیاء وہیں سے بازار سے با رعائت خریدیں اور خوش خوش سنگاپور سے وطن واپس لوٹے۔

 

کراچی ائر پورٹ پر کسٹم آفیسر نے ہمارا سوٹ کیس اور اس کے ساتھ کمپیوٹر اور مانیٹر کے دو ڈبے دیکھے تو بظاہر گھبرا کر اور بباطن خوش ہوتے ہوئے سوال کیا۔ ’’ کیا کیا خرید لیا بھائی جان؟‘‘

 

ہم نے سوالیہ انداز میں ان کی جانب دیکھا تو وہ اور زیادہ خوش ہو گئے۔ مرغا پھنس گیا، انھوں نے شاید یہ سوچ کر ہمارا سامان کھلوا لیا، لیکن اسے دیکھتے ہی ان کا منہ بن گیا اور انھوں نے مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے ہمیں جانے کا اشارہ کر دیا۔ ادھر کئی کھیپیے لائن میں موجود تھے جن پر آفیسر صاحب کی نظر کرم ٹھہر گئی۔

 

دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی۔

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید