FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

جوگندر پال کے کچھ افسانچے

 

 

مرتب: ارشد خالد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد شمارہ ۲۳

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 ارے ہاں

 

اس نے اپنی تلاش میں گھر بار تیاگ دیا اور چار کھونٹ گھومتا پھرا، اور تلاش کرتے کرتے بھول گیا کہ وہ کیا تلاش کئے جا رہا ہے۔ مگر ایک دن اچانک اپنے آپ کو پھر اپنے گھر کی چوکھٹ پر پا کر مسرت سے اس کی گھگی بندھ گئی، کہ وہ گھر ہی تو بھولے ہوئے تھا، اور یہیں لوٹ کر عین میں وہیں پہنچ گیا ہے جس مقام کو ڈھونڈنے یہیں سے نکل کھڑا ہوا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

آج کے لوگ

 

ہاں، بھئی، ہاں میری موت واقع ہو لی تھی، مگر دیکھ لو، میرا دل کیسے دھائیں دھائیں دھڑکے جا رہا ہے۔

ہاں اور کیا؟پورے کا پورا مر چکا تھا مگر تم خود ہی دیکھ لو، جوں کاتوں زندہ ہوں۔

کیسے کیا؟جیسے ہے، ویسے !۔۔ جیتے جی جب میرے دل کی دھڑکن میں خلل واقع ہوا تو ڈاکٹروں نے میرے سینے میں ایک پیس میکر (Pace Maker) فٹ کر دیا اور دعویٰ کیا کہ اب دَم نکل جانے پر بھی میرا دل جوں کاتوں دھڑکتا رہے گا۔ سو جو ہے سو ہے۔۔ مر کھپ کر بھی۔۔ ۔ کیا؟۔۔ ۔ مرا کب؟۔۔ ۔ کتنے احمق ہو بھئی! جو مرگیا اسے کیا پتہ، وہ کب مرا؟۔۔ ہاں، بھئی، اب خدا کا ڈر کا ہے کو؟مر کر خدا کے پاس تھوڑا ہی جانا ہے۔۔ ہاں اور کیا؟اب تو سدا اپنے ہی پاس رہنا ہے۔۔ ۔ ہیہ ہیہ ہا! ٹھیک کہتے ہو اب تو صرف اسی نیک کام سے نجات وابستہ ہے کہ اپنی مشین بگڑنے نہ دو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

اپنا اپنا

 

ایک دفعہ سائبیریا کا ایک باشندہ ہمیں بتا رہا تھا۔ ‘‘ پھر کیا ہوا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک عجیب و غریب اُڑن کھٹولا زمین پر اُتر آیا۔ اس اُڑن کھٹولے سے دو شکلیں باہر نکلیں۔ بڑی مختلف النوع مخلوق تھی۔ الٹا سیدھا لباس پہن رکھا تھا اور چہروں پر کوئی آلے جما رکھے تھے۔ ‘‘

‘‘ کیا انہوں نے بھی آپ کو دیکھا؟‘‘

‘‘ نہیں، میں پاس ہی جھاڑی میں چھپ گیا تھا۔۔ تھوڑی دیر میں دو میں سے ایک کا آلہ اس کے منہ سے گر کر سینے پر لٹکنے لگا۔ اتنا عجیب چہرہ تھا کہ میرے بیان سے باہر ہے۔ کچھ دیر وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ ‘‘

‘‘ کیا باتیں کرتے رہے ؟‘‘

‘‘ مجھے ان کی زبان تو نہیں آتی مگر جب ایک نے دوسرے کی طرف دیکھ کر چونکی چونکی آواز میں ایک جملہ بولا تو مجھے لگا، اس نے کہا ہے، بے وقوف اپنا آلہ جلدی سے منہ پر چڑھا لو، ورنہ آکسیجن کے زہر سے دَم توڑ دو گے۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

محض

 

میں اپنے پیروں کے ٹکاؤ، ہاتھوں کی پینگ اور سر کی چھتری پر ہی اپنی ذات کو محمول کرنے لگا اور میری اصلی ذات سالہا سال بڑے صبر و سکون سے دو سرے عالم میں میرا انتظار کرتی رہی اور ہنستی رہی کہ میں اپنے آپ کو محض جوگندر پال سمجھ بیٹھا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

 گمشدہ

 

اُس کی ابھی آنکھ بھی نہ کھلی تھی کہ اُس نے ایک دم چیخ مار کر اپنی بیوی کو بلایا۔ وہ بیچاری سراسیمگی میں دوڑی دوڑی آئی۔ ‘‘ کیا ہوا؟‘‘

‘‘ اب کیا ہو گا؟‘‘  اس کا پاگل پتی اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا

‘‘ اپنا آپ تو میں اپنے خواب میں ہی چھوڑ آیا ہوں۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

کچّا پَن

 

‘‘ بابا، تم بڑے میٹھے ہو۔ ‘‘

‘‘ یہی تو میری مشکل ہے بیٹا۔ ابھی ذرا کچا اور کھٹا ہوتا تو جھاڑ سے جڑا رہتا۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

جیون کھیل تماشہ

 

‘‘ میں سپنوں میں بہتر دِکھتا ہوں۔ ‘‘

‘‘ مگر اس وقت تو آپ ہو بہو میرے سامنے موجود ہیں۔ ‘‘

‘‘ کیا سپنے میں بھی سب کچھ ہو بہو نہیں ہوتا؟‘‘

‘‘ مگر پھر آنکھ کھلتے ہی سب کچھ ایک دَم مٹی کیسے ہو جاتا ہے ؟‘‘

‘‘ ہاں بابا، جیسے آنکھ لگتے ہی ہم۔۔ ۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

بسے ہوئے لوگ

 

میرے ناول کے ہیرو اور ہیروئن دونوں مجھ سے ناراض تھے، کیونکہ جب ان کی شادی کے اسباب آپ ہی آپ عین فطری طور پر انجام پار ہے تھے تو میں نے ان کا بنا بنایا کھیل چوپٹ کر دیا اور اپنی ترجیحوں کو ناول پر لاد کر انہیں آخری صفحے تک ایک دوسرے سے جدا کرنے پر اڑا رہا۔

نہیں، میں ان دونوں کو بے حد عزیز رکھتا ہوں، مگر مشکل یہ ہے کہ اگر انہیں ایک دوسرے کے لیے جینے کا موقع فراہم کر دیتا ہے تو میری اپنی زندگی کے نشانے دھرے رہ جاتے۔ وہ بہر حال میرے کردار تھے اور جو اور جیسے تھے، میری ہی بدولت تھے اور انہیں یہی ایک چارہ تھا کہ میری زندگی کا اسباب کرتے رہیں۔

مگر وہ دونوں تو موقع کی تاک میں تھے۔ ایک دن نظریں بچا کر اچانک غائب ہو گئے۔ میں نے ناول کے مسودے کی ایک ایک سطر چھان ماری اور مقام پر انہیں اپنے ناموں کی اوٹ میں ڈھونڈتا رہا، مگر وہ وہاں ہوتے تو ملتے۔

مجھے بڑا پچھتاوا محسوس ہونے لگا۔

اگر وہ مجھے کہیں مل جاتے تو میں فوراً ان کا نکاح پڑھوا دیتا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ میں منھ سر لپیٹ کر پڑ گیا۔

آپ حیران ہوں گے کہ کئی سال بعد ایک دن وہ دونوں بہ اتفاق مجھے اپنے ہی شہر میں مل گئے۔

نہیں، وہ مجھے بڑے تپاک سے ملے اور اپنے گھر لے گئے۔

میرے ناول کے پنوں سے نکلتے ہی انھوں نے اپنی شادی کی تدبیر کر لی تھی اور اتنے سال بعد اب تین پھول جیسے بچوں کے ماں باپ تھے اور ان کا گھر بار خوب آباد تھا۔

نہیں، انہیں اپنے سنسار میں اس قدر پھلتے پھولتے پا کر مجھے حوصلہ ہی نہ ہوا کہ انہیں ناول میں لوٹ آنے کو کہتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 افسانچوں کے مجموعہ ‘‘ نہیں رحمن بابو‘‘  سے انتخاب

 

 

میرے کلینک میں آج ایک رو بو آ نکلا، رحمن بابو، چیک اپ کے بعد میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بتانے لگا، میں تھکا تھکا رہنے لگا ہوں، ڈاکٹر۔

اور اس کی شکایت سن کر مجھے یہ فکر لا حق ہونے لگی کہ کہیں اس میں جان تو نہیں پڑ گئی۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

نہیں، رحمن بابو، میں پاگل نہیں ہوں۔۔ ۔

کیا؟۔۔ ۔

اپنے آپ سے باتیں کیوں کرتا رہتا ہوں ؟

تم ہی بتاؤ رحمن بابو، گم شدگان تک اور کیسے پہنچا جا سکتا ہے ؟

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

ہم سب ہم مذہب ہیں رحمن بابو،

مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہر کسی کو اپنی اپنی بساط کا ہی خدا ملتا ہے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

تمہاری رائے سے مجھے اتفاق ہے رحمن بابو۔

تم کہتے ہو، دشمن سے ہمیشہ دوستی سے پیش آؤ۔ میں نے ساری زندگی یہی کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دشمن سے سدا دوستی سے ہی پیش آتے رہو تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے۔۔ ۔ کیسے ؟

ایسے بابو کہ میں بھی اپنے قابو میں کہاں تھا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اپنا سب سے بڑا دشمن میں خود آپ ہوں۔ پھر بھی میں اپنے آپ سے دوستی سے پیش آتا رہا۔ حتیٰ کہ میری روح میرا جسم چھوڑ کر آسمان کو پرواز کر گئی۔

نہیں بابو، اب کیا ہو سکتا ہے ؟ مرے ہوئے کو بھی کوئی زندہ کر سکتا ہے ؟

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

کیا سمجھنا چاہتے ہو رحمن بابو؟

ساری عمر سمجھ بوجھ سے ہی کام لے لے کر تو کنارے پر آ لگے ہو۔ اب آگے کی خبر لینا چاہتے ہو تو بے خبر ہو جاؤ۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

‘‘ پہلے بھی لوگ جھوٹ بولا کرتے تھے رحمن بابو، مگر تھے بڑے ایمان پرست۔ اسی لیے عدالتوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہر مقدمے سے پہلے اُنہیں خدا اور ایمان کی قسم کھانے کو کہا جائے۔۔ ۔ ہاں، یوں ہر مجرم مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی دھر لیا جاتا۔ ہاں اُسی وقت سے عدالتیں خدا کی قسم سے ہی ہر کیس کی چھان بین شروع کرتی آ رہی ہیں

بجا کہتے ہو، بابو۔ اب تو خدا کی گواہی کا موقعہ پا کر مجرم اتنا کارگر جھوٹ بولتے ہیں کہ بے گناہ فوراً اپنے جرم کا اقبال کر کے عدالتی رحم کے لیے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

‘‘ ہاں، رحمن بابو، اُس غریب ماشکی کو یہ ڈیوٹی سونپی گئی ہے کہ ہفتے میں ایک بار ہمارے سیاسی نیتا کے بُت کو دھو کر صاف کر دیا جائے، تاکہ منہ کالا نہ پڑ جائے۔ کیا؟۔۔ ہاں، نیتا لوگ خود آپ بھی تو بُت کے بُت ہوتے ہیں۔۔ ہاں، بابو، کچھ کرتے دھرتے تو ہیں نہیں، پھر بھی اُن کی تعریف کے نعرے سُن سُن کر کان پکنے لگتے ہیں۔

نہیں، بابو، غریب لوگ بے چارے کیا کریں ؟بُت اپنے منہ آپ تھوڑا ہی دھو سکتے ہیں، ماشکی نہ دھوئیں تو ہاتھ اُٹھا کر منہ کی کالک بھی نہ چھُپا سکیں۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

‘‘ نہیں مجھے ان سیدھے سادے قیدیوں کی کوئی فکر نہیں۔ یہ بے چارے تو دو یا دس سال کھلے کھلے اپنے کیے کی سزا بھگت کر مکت ہو جائیں گے، قابلِ رحم تو وہ سیاہ بخت ہیں جو تنگ و تاریک نظریوں کی کال کوٹھڑی میں اپنے نہ کیے کی سزا جھیل رہے ہیں۔ آؤ بابو، ان سیاہ بختوں کے حق میں دعا مانگیں۔ ‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

٭٭ ‘‘ میری ماں کو مَرے پندرہ برس ہو لیے ہیں رحمن بابو، آج میں نے اس کی تصویر دیکھی تو رنجیدہ ہو کر سوچنے لگا، تصویریں ہی اصل ہوتی ہیں جو رہ جاتی۔ ماں تو محض گمان تھی جو گزر گئی‘‘

 

‘‘ ہاں، مجھے بھی معلوم ہے رحمن بابو۔ کوئی درجن بھر لوگوں سے اس کی بیوی کے غیر اخلاقی جنسی تعلقات رہے ہیں۔۔ نہیں وہ چُپ کہاں بیٹھا رہا بابو؟اُسی دم گھر بار کو خیرباد کہہ دیا اور بھرے بازار اپنی بیوی کے عاشقوں کی قطار میں جا کھڑا ہوا۔ ‘‘

 

‘‘ میں نے ایک عمر اندھے پن میں ہی کاٹ دی رحمن بابو، لیکن جب ایک برٹش آئی بنک سے حاصل کی ہوئی آنکھیں میرے ساکٹس میں فِٹ کر دی گئیں تو مجھے دکھائی دینے لگا۔ اور میں سوچنے لگا، غیروں کا نقطۂ نظر اپنا لینے سے بھی اندھا پن دور ہو جاتا ہے ‘‘

 

‘‘ رحمن بابو، آج صبح ہجڑوں کا ایک پورا ٹولہ تالیاں پیٹ پیٹ کر بخشش کی خاطراس عالیشان گھر کے سامنے آ بیٹھا۔ کسی نے انہیں وہاں سے اُٹھ جانے کو کہا۔ تمہیں معلوم نہیں کہ مالک مکان کا پورے کا پورا کنبہ ایک کار حادثے میں کام آ چکا ہے ؟بے چارے کے آگے پیچھے کوئی نہیں رہا۔

مگر ہجڑے آئی پر آ جائیں بابو، تو ٹلتے تھوڑا ہی ہیں۔ ایک کو جو سوجھی تو اس نے جھوٹ موٹ کی آہ و زاری شروع کر دی اور پھر اس کے ساتھی بھی اس کے سُر میں سُر ملانے لگے۔ تعجب کی بات ہے بابو، ہجڑے شروع تو ہنسی مذاق میں رونے سے ہوئے پر سُر بندھتے ہی سب کے سب سچ مچ رونے لگے اور انجانے میں زار و قطار روتے چلے گئے۔ بھلا سوچو، بابو، کیوں۔ ‘‘

 

‘‘ نہیں، رحمن بابو، ایلورہ کے گپھاؤں میں تو پراچین کال کی مورتیاں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔

نہیں، پہلے گُپھا میں ہی مَیں حیرت سے کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ اَن گنت اپسرائیں اور دیوتا باہم ناچ رہے تھے۔۔ نہیں بابو، سچ مچ ناچ رہے تھے اور ناچ ناچ کر بے سُدھ ہو رہے تھے۔

ہاں مجھے یہی لگا کہ وہ سب لوگ زندہ ہیں اور صرف ایک مَیں، مُورت کا مُورت!‘‘

 

‘‘ دیکھو، بابو، تمہارا بچہ آپ ہی آپ بے اختیار ہنسے جا رہا ہے۔۔ ہاں، ہر نو زائیدہ بچہ یہی کرتا ہے۔ لیٹے لیٹے آپ ہی آپ ہنسنے لگتا ہے۔۔ ہاں، رونے بھی لگتا ہے۔۔ کیوں ؟۔۔ کیونکہ وہ اپنے نئے جنم پر ابھی پچھلا جنم ہی جئے جا رہا ہوتا ہے۔۔ نہیں، اپنے بچے کو ہلا ہلا کر ڈسٹرب مت کرو۔ اِس وقت شاید وہ اپنے پوتے کو گود میں لئے کھلکھلا رہا ہو۔۔ ۔ ‘‘

 

‘‘ بات صرف مذہب کی نہیں۔ بات توفیق کی بھی ہے۔ ہر کسی کو اپنی توفیق کا ہی خدا ملتا ہے۔ ‘‘

 

‘‘ ہمارے منے کو تعجب ہے کہ دادا بیٹری کے بغیر ہی کیوں کر اتنا تیز چلتا اور اتنے زور سے ہنہناتا ہے ‘‘

 

‘‘ خوش تو وہ ہوتا ہے بابو جو ہنستے کھیلتے اک ذرا جی بھر آنے پر کھلے کھلے رو دے !‘‘

 

‘‘ آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ بھی گمان میں نہ ہوں تو ہمیں کہاں نظر آتے ہیں ؟‘‘

 

‘‘ میری واپسی کے دن آن پہنچے ہیں اور مجھے سرے سے علم ہی نہیں کہ مجھے کہاں واپس جانا ہے۔ ‘‘

 

‘‘ چوٹیوں پر سینہ پھُلا کر اچھل کود کی گنجائش نہیں ہوتی‘‘

‘‘ کیا کلجگ آ گیا ہے !۔۔ انسانوں کو جانور ہوتے تو دیکھا اور سنا تھا، مگر جانوروں کو انسانوں کی طرح لوٹ مچاتے پہلی بار دیکھا‘‘

 

‘‘ چلتے آؤ۔ ہم صرف چلتے چلے جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور پہنچ جانے پر مر جاتے ہیں ‘‘

 

‘‘ زندگی تو اٹوٹ ہے، اسے کوئی ایک جنم میں کیسے پورا کرے۔ ہاں، اسی لیے میرا کہنا ہے کہ میں ہی چیخوف ہوں، میں ہی پریم چند، میں ہی منٹو۔۔ ۔ اور وہ بھی کوئی، جسے ابھی پیدا ہونا ہے۔ ہاں بابو، میں اسی لیے بار بار جنم لیتا ہوں کہ اپنا کام پورا کر لوں مگر میرا کام ہر بار ادھورا رہ جاتا ہے۔ نہیں، اچھا ہی ہے کہ ادھورا رہ جاتا ہے، اسی لیے تو زندگی کو زوال نہیں، بابو۔ ‘‘

٭٭٭

ماخذ: ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد شمارہ ۲۳

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل