فہرست مضامین
- جب ہم نے سفر آغاز کیا
- شہرِ منوّر کی دہلیز پر
- باب: ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
- باب: ایک ٹکٹ میں دو تماشے
- باب: جِس دی ہتھ جِس دی بانہہ آئی
- باب: رُخصتی……یُوسفِ با کارواں کی
- باب: ملازمت کی سہاگ رات
- باب: گربہ کشتن روز اوّل
- باب: پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
- باب: کوّا چال سے انگریزی زبان کی منافقت تک
- باب: دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
- باب: بُو قلمونیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشیب و فراز کی
- باب: صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
- باب: بِناتُ النعش ارضی و سماوی کے درمیان
- باب: کچّے دھَاگے سے کھنچی آئے گی سرکار مری
- باب : ہمارا تیسرا ٹھکانہ اور ہم
جب ہم نے سفر آغاز کیا
ماجد صدّیقی
حصہ اول
شہرِ منوّر کی دہلیز پر
ہمارا کارِ آشیاں بندی اور عرصۂ بے کاری و بے زاری ایک ساتھ شروع ہوئے کہ اِدھر ہماری منگنی ہوئی اور اُدھر ہمیں اپنی جیسی تیسی نوکری سے بہ یک بینی و دو گوش نکال باہر کر دیا گیا۔
دیکھیے، پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!
اک برہمن نے کہا ہے : ’’ کہ سال اچھا ہے ‘‘
ہماری منگنی کی خبر تو کچھ ایسی مسندِ وزارت پر بیٹھنے کی اطلاع نہ تھی جس کے رُعب میں ہمارا سرپرست محکمہ ہمارے سر سے اپنا سایہ ہٹا کر پَرے ہو بیٹھتا اور کہتا: ’’لو میاں ! اب تم جانو اور تمہاری آئندہ کی مصروفیاتِ جلیلہ‘ ہمارا تمہارا ساتھ تو صرف یہیں تک تھا ‘‘ … لیکن ہماری تو ابھی محض منگنی ہوئی تھی اور امرِ واقعہ یہ تھا کہ ہماری اصل تو کیا فالتو وفائیں بھی ابھی اپنے محکمے ہی کے نام تھیں لہٰذا جو کچھ ہوا اس میں زیادتی منشائے محکمہ ہی کی تھی، ہماری کسی کوتاہی کا اس میں دخل نہ تھا اس لئے کہ ہم نے تو اس دارِ فانی میں اس سے پہلے اور بعد میں جو ملازمت بھی اختیار کی اس کا پیراہن بالعموم کاغذی ہی رہا، گویا ملازمت کا انقطاع ہماری کسی حرکتِ نا زیبا یا فعلِ بد کے باعث نہ ہوا۔ اور اب کے بھی یہ تیر تقدیر کے ترکش سے چلا یا پھر اُس نظام کی خُرجی سے جو آج تک کوہِ ندا کی طرح ہماری زندگیوں پر آوازے کستا آ رہا ہے۔
کارِ آشیاں بندی کے لئے کمر باندھتے ہی ہمیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے تو اس کا سبب یہ نہ تھا کہ خدانخواستہ ہمارے لکھا پڑھا ہونے میں کوئی شُبہ تھا یا ہماری سندات میں کوئی جعل سازی کارفرما تھی۔ اس لئے کہ چور دروازوں سے سندات کی تقسیم کا پراپیگنڈہ ذرا بعد میں چلا ہمیں تو سندات کے حصول میں فرہاد کی محنتِ شاقہ سے بھی کہیں زیادہ دقّتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ دوسری وجہ ہم میں قوتِ کار کا فُقدان یا توڑ ہو سکتی تھی۔ سو وہ بھی نہ تھی کہ آتش ابھی ابھی جوان ہو رہا تھا۔ تیسرا سبب یہ ہو سکتا تھا کہ خدا نکردہ ہم کوتاہیِ فرض جیسے عارضے میں مبتلا ہوتے، سو یہ بھی غلط کہ ہم تو ایک مڈل ایس وی سربراہِ مکتب کے زیرِ نگیں اپنی پوسٹ گریجوایٹی کو ہر لحظہ سدھائے رکھنے کے بالارادہ قائل تھے۔ لہٰذا اس کے باوجود اگر ہمیں اس لائق نہ گردانا گیا کہ ہم چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کے نونہالوں کے منہ میں انگریزی کی چوسنی دئیے رکھتے تواس کا باعث ایک ہی تھا کہ ہماری گزشتہ شش سالہ ملازمت سرا سر بے نکاح تھی یعنی یہ کہ ہمیں پیشہ ورانہ تربیت حاصل نہ تھی تاہم اِس خرابی میں بھی تعمیر کی یہ صورت ضرور مضمر تھی کہ اگر ہم موجودہ محکمہ کی حدودِ اختیار سے ہجرت کر جاتے تو اسی استحصالی نظام میں ہم اس بات کے اہل بآسانی تھے کہ مڈل سکول کے طلباء کی بجائے کالج کے طلبا کو بغیر کسی پیشہ ورانہ پروانے کے پڑھا سکتے۔
دل سے قطرہ جو نہ نکلا تھا، وہ طُوفاں نکلا
اور ہوا بھی یہی کہ ہمیں کچھ مدت بعد مؤخر الذکر خدمت کے لئے منتخب کر لیا گیا۔
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
لیکن وہ جو ہم … اوّل الذکر خدمت سرانجام دیتے دیتے۔
’’تمہیں سو گئے داستاں کہتے کہتے ‘‘
ہو گئے تھے۔ اس خدمت کی انجام دہی اور اس خدمت کے مسندِ شاہجہانی پر بیٹھنے تک کے مراحل بھی کچھ کم جرأت نہ تھے۔
بارے اُن کا بھی کچھ بیاں ہو جائے
اور اس بیان کی ابتدا اس امر سے ہوتی ہے کہ ایف اے تک کی تعلیم ہم نے راون کی طرح نہیں رام چندر جی کی صورت ایک طرح کے بن باس کے عالم میں حاصل کی کہ
دانایاں گفتہ اند…… ’’فطرت اور مطالعہ کا تعلق بڑا گہرا ہے ‘‘۔ لہذا یوں سمجھیے کہ جو مطالعہ میں پڑا فطرت کے قریب تر ہو گیا اور جو فطرت کے قریب تر ہوا وہ ایک طرح کے بن باس پر نکل کھڑا ہوا یوں بھی دیہی جہالت کی راجدھانی سے ہمیں دلِ ناداں کے ہاتھوں چودہ سال کیجو مہلت ملی تھی اسے اپنے طور پر ہم بن باس ہی کہہ سکتے ہیں۔ ہر چند ہم نے اس بن باس کے صرف بارہ برس ہی ایک تسلسل سے گزارے پھر بھی چوراسی فیصد کامیابی نے ہمارے قدم ضرور چومے کہ ایف اے کا امتحان ہم نے 1:3½ کے کُلیے کے تحت زہر مار کیا یعنی اس میں ایک مضمون میں کمپارٹمنٹ کے ساتھ کامیاب ہوئے۔
میٹرک کا سرٹیفکیٹ ہم نے ایک دیہاتی سکول سے لیا تھا۔ اس لئے کہ ہم ’’جَم پَل‘‘ ہی ورڈزورتھ کی اسیDominion (قلمرو) کے تھے اور کالج کی تعلیم کا آغاز ایک ٹاؤن کالج سے کیا جو ہماری نظر میں بلاشبہ پہاڑ سر کرنے کے مترادف تھا۔
میٹرک میں کچھ اساتذہ کی بے پناہ شفقت سے ‘ کچھ ہم جماعتوں سے مسابقت کے شدید احساس سے اور کچھ اس وافر ذہانت سے جسے بچپن میں کوئی شغل بجز تعلیمی مصروفیات نہیں ملا تھا۔ ہم نے کچھ اچھے نمبر ہی حاصل کر لئے۔ بس یُوں جانیے کہ امتحانِ مذکورہ کا سرٹیفکیٹ ہم نے فریم کرا کے گھر میں آویزاں کر دیا اور شاید یہی وہ نیک شگون تھا جو ہمارے اور والدین کے درمیان ایک طویل نزاع کے بعد بالآخر صلح پر منتج ہوا۔ اس لئے کہ انہیں پس و پیش کے مفت کے مشوروں کے باعث ہم سے اصرار تھا کہ ہم ان کے ’’کماؤ‘‘ فرزند ہو جائیں کہ ہم کلرک وغیرہ بننے کی استعداد تو اپنے اندر بہرحال پیدا کر چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن… اُدھر ہمیں یہی دھُن… کہ ابھی تو ہم علم کے شہرِ منّور کی دہلیز پر ہی پہنچے ہیں۔ اس شہر کے اندر کیا ہے ؟ یہ جاننے کی جستجو ‘تمنائے سیف الملوک کی طرح برابر ہمارے سر پر سوار تھی۔
والدین کا اصرار بھلا اپنی اولاد کے حق میں ہٹ دھرمی کو کہاں پہنچ سکتا ہے اور پھر ایسے حالات میں جب والدین انتہائی بھولے بھالے، مّروّت و شفقت کے پیکر اور نپٹ دیہاتی ہوں اور اس پر مستزاد یہ کہ ہم ان کی آخری اولاد ہونے کے ناتے کچھ کم لاڈلے بھی نہ تھے، سو میدان سراسر ہمارے ہاتھ رہا۔
یہ بات اگرچہ ہم پر بھی واضح تھی کہ ہمارے اس اقدام سے ہمارے والدین کے کندھوں پر بوجھ کچھ زیادہ ہی بڑھ جائے گا۔ لیکن بچے کو بازار سے گزرتے ہوئے چاہے باپ کی جیب کا علم بھی ہو، کھلونوں کی چمک دمک اس کے قدموں کو زنجیر کر ہی لیتی ہے۔ تاہم جب یہ سلسلہ چل نکلا تو چلتا ہی رہا، ہماری علیٰحدگی پسندی سے نہ تو بنگلہ دیش کا سا کوئی کہرام بپا ہوا اور نہ ہی قحطِ بنگال کا سا کوئی فتنہ ‘چنانچہ بالآخر ہم نے کالج میں داخلہ لے ہی لیا۔
٭٭٭
باب: ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
ہم پر کہ پیدائشی پینڈو تھے۔ کالج میں پہنچتے ہی جو بات سب سے پہلے کھُلی،یہ تھی کہ ہم تو سرے سے ہیں ہی… ملآ نصر الدین اور یہ حادثہ ایک ہمارے ساتھ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ ان آدابِ انگلیسی کے پہلو سے سال بہ سال جنم لیتا تھا جن کے تحت انگریز بہادر نے اپنے ’’کامے ‘‘ ملک کے طلبا کی عزّتِ نفس کو ان کے اپنے ساتھیوں ہی کے ہاتھوں مجروح کرنے اور کالج کی حدود میں جم کر نہ پڑھنے کے لئے بیفولنگ جیسی رسمِ بد کو باقاعدہ فروغ دے رکھا تھا۔
ہم اس تجربے سے اگرچہ ایک تماشائی کی حیثیت ہی سے گزرے تاہم جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اس نے ہمیں سامراجیاذہان کی منفی قوّتوں کا پورا پورا معترف کر دیا۔ ان آدابِ انگلیسی کے علاوہ اپنے فول ہونے کا ایک ثبوت ہمیں یہ ملا کہ داخلہ لیتے وقت کچھ تو یہ کہ:
سو پُشت سے تھا پیشۂ آبا سپہ گری
کہ عسکری علاقے کے فرزند تھے اور اس امر کی تربیت ہی نہیں رکھتے تھے اور کچھ یُوں کہ نجی معاملات کو حل کرنے کے سلسلے میں ہم تھے ہی نرے ’’شرماکل‘‘ ہم نے اپنے لئے مضامین کا انتخاب اپنے ایک استاد مکرم سے کرایا جنہوں نے بہرحال ہماری بہبود اور زمانے کی رفتار کے پیشِ نظر ہمیں اقتصادیات اور ریاضی جیسے براق مضامین تجویز کئے جنہیں ہم نے بکمال عقیدت و انکساری قبولا اور پڑھنا شروع کر دیا لیکن
گرُبہ کُشتن روزِ اوّل ……
جیسا مُجّرب نسخہ ہمیں کسی نے بتایا نہ تھا کہ ہم ان مضامین کو ابتدائے نسبت ہی سے رام کر لیتے، سو نتیجہ وہی رہا جو کسی منہ زور بیوی اور حلیم الطبع خاوند کے باہم گُتھ جانے سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ اجوڑی یہاں تک بڑھی کہ ریاضی کا مضمون جب ہم سے چنگے بھلے ریاض کا تقاضا کرنے لگا اور ایلفا، گاما، تھیٹا جیسے مداری کے گولے ایک ایک سوال کے پہلو سے سینکڑوں کے حساب سے نکلنے لگے تو ہمیں اس پر پُرزے نکالتے مضمون سے ابتدائی ایّام ہی میں وحشت سی ہونے لگی اس لئے کہ ہم اس مضمون کے لئے نہ تو اتنی جگر کاوی کر سکتے تھے کہ اُن دنوں
خُشک سیروں تنِ شاعر سے لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ ترکی صورت
جیسے عملی تجربوں میں سرتاپا غرق تھے اور نہ ہی ہم خود کو اس طلسماتی فضا میں کھُل کر سانس لینے کے قابل سمجھتے تھے۔ علامہ مشرقی کا معاملہ الگ تھا جن کا ان دونوں ہمیں علم نہ تھا، یہ بات ہم پر اس میدان سے بھاگ جانے کے بعد کھُلی کہ:
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
ہم نے جس بیفولنگ کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا ہے اس کا کُچھ کُچھ شکار ہم خود بھی ہوئے اور یوں ہوئے کہ ریاضی کے طالب علم ہوتے ہوئے اور ایلفا۔ گاما۔ تھیٹا جیسی اصطلاحوں سے معاندانہ واقفیت رکھتے ہوئے بھی ہم ایک چکر میں آ گئے، ریاضی کے مضمون نے جب ملیریا بخار کیطرح ہمیں پیہم اُبکائیاں چھُڑا دیں تو ہم نے اس کے لئے علاج وہ تجویز کیا جو کونین نہ تھا کہ یہ کڑوا گھونٹ جیسے تیسے ہوتا چڑھا لیتے بلکہ وہ کیا جو خالصتاً مشرقی مدّ و جزر کی پیداوار تھا یعنی انتخابِ زبانِ اُردو۔ ۔ ۔ ۔ جو اُن دنوں محض اختیاری مضمون کے بطور ہی پڑھی جا سکتی تھی۔
مضمون کی تبدیلی کا فیصلہ تو ہوا سو ہوا۔ لیکن اسے عملی صورت دینا ہمیں تبدیلیِ جنس سے بھی کہیں زیادہ مشکل نظر آیا۔ اس لئے کہ وہ تو پھر ایک قدرتی عمل ہوتا ہے جو از خود ہونے لگتا ہے لیکن یہ تبدیلی۔ ۔ ۔ ۔ ! خدا کی پناہ!۔ ۔ ۔ ۔ اس میں تو ہمیں کُچھ باہلا ہی ’کھِجل خراب‘ ہونا پڑا اور کھِجل خراب ہم یوں ہوئے کہ سیکنڈ ائیر کے ایک سادہ لوح بلکہ بظاہر سادہ اور اپنے ہم مزاج طالب علم سے ہم نے اس تبدیلی کا طریقِ کار پوچھ ڈالا جس کم بخت نے اگرچہ ہمیں راہ تو سیدھی سُجھائی لیکن بقول شاعر کسی قدر ذاتی تصرف کے ساتھ یعنی
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
اور کہا ہمیں یہ کہ۔ ’’مضمون کی تبدیلی کے لئے پرنسپل کے نام درخواست لکھو، اُسے تھِیٹا صاحب کے پاس لے جاؤ وہ اس امر کی اجازت دے دیں تو بس مزے سے اپنا مضمون بھی بدل لو اور اپنی کلاس بھی بدل لو‘‘
ہر چند ہم تھیٹا کے چکر سے نکلنے کے لئے کوشاں تھے۔ ہمیں اس سازش کا احساس تک نہ ہونے پایا اور ہم بکمال سادہ دلی اپنے ہم مکتب ساتھی کے سُجھائے ہوئے بلاک میں جا کر چپڑاسی سے کسی قدر بلند آواز میں پوچھنے لگنے ’’ تھیٹا صاحب کہاں ہوں گے ‘‘ ہمارا اتنا کہنا تھا کہ
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
دوسرے لمحے ہم کُچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھے۔ تبدیلیِ مضمون کی درخواست کہاں رہ گئی اور ہم کہاں نکل گئے۔ اس کا اندازہ ہمیں بحالیِ حواس کے بہت بعد ہوا۔ اس لئے کہ مذکورہ استاد جنہیں ہم نے ’’تھیٹا ‘‘ کہہ کر پکارا تھا شاید اپنے اس عُرفِ بد کے کچھ زیادہ ہی نالاں تھے۔ ہمارے منہ سے اس لفظ کی معصومانہ ادائیگی کے فوراً بعد اپنی چھڑی سمیت ہم پر کچھ یوں جھپٹے جیسے پیرا شوٹ نہ کھلنے کی صورت میں ہوا باز زمین کی راہ لیتا ہے۔
ہم اس حادثے سے تو بقول فرازؔ ؎
جاں دے کے بھی سمجھو کہ سلامت نکل آئے
لیکن جو ملیریا بخار ہمیں لاحق تھا اس کا کوئی دارو ہوتا ہمیں نظر نہ آیا۔ اس لئے کہ؎
اُگنے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی
تاہم ہم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے ایک اور استادِ مکرّم سے رابطہ قائم کیا۔ تو یہ عُقدہ بھی کچھ کچھ وا ہوتا نظر آیا۔
استادِ مکرّم نے ہمیں ہدایت یہ دی کہ ’’برخوردار‘‘ پہلے اپنے دونوں مضامین سے متعلقہ اساتذہ سے درخواست پر تحریری رضامندی درج کراؤ، درخواست مجھے دو اور پھر بے شک وہی مضمون پڑھو جو تمہیں طبعاً موافق ہے۔
یہ نسخہ قدرے آسان نکلا، اس لئے کہ استاد ریاضیات نے تو درخواست سے مصافحہ کئے بغیر ہی اس پر اپنی رضامندی ثبت فرما دی۔ رہے استادِ ادبیات سو انہوں نے نہ صرف درخواست کی صحت کو اوپر نیچے ‘آگے پیچھے سے جانچا پرکھا بلکہ ہمارے جذبۂ شوق کی بھی خوب خوب تقطیع کی۔ تب کہیں انہیں یقین آیا کہ یہ رضامندی اگر ہم نے دے بھی دی تو غزنویؔ اور فردوسیؔ جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ سو اس، کسی قدرلیسلے پراسس کے طے ہونے کے بعد ہماری آدھی مشکل تو حل ہو گئی یعنی عارضۂ ریاضی سے ہم پوری طرح جانبر ہو گئے۔ رہا اقتصادیات کا مضمون سو اسے ہم نے رائج الوقت قومی زبوں حالی کے پیش نظر چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور کسی بھی سعادت مند فرزندِ وطن کی طرح حصول تعلیم میں جُٹ گئے۔
لیکن وہ علّت جو ہمیں میٹرک کے ایام ہی سے لاحق تھی اور جس نے ہمیں تعمیرِ مستقبل کی کھیتی میں پوہلی پیازی کی طرح جکڑ رکھا تھا، یعنی علّتِ شعر گوئی۔ اس کے تقاضے کچھ ایسے نکلے کہ یکسوئی سے پڑھنا ہمارے لئے۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
کی مثال ہو کر رہ گیا۔ اور اس طرح اقتصادیات کے مضمون کی تیاری میں ،یعنی سکے سے سونا بننے میں ایک آدھ آنچ کی کسر یوں باقی رہ گئی کہ جب عاقبت کو پہنچے تو ہماری غیر متوقع ناکامی پر (جو بے شک جزوی سہی) لوگوں کے منہ کھُلے کے کھُلے رہ گئے۔ اس لئے کہ کالج میں ہماری طالب علمانہ ساکھ کچھ ایسی نہ تھی بلکہ ویسی تھی یعنی ناقابلِ یقین حد تک او۔ ’کے ‘ اس کے باوجود خداوندانِ بورڈ نے اپنے پہلے ہی معرکے میں (کہ لاہور بورڈ کا یہ پہلونٹی کا امتحان تھا اور ہم اس کے ہزاروں سمیت پہلے امیدوار) ہماری آب دارو تابناک شخصیت کے ماتھے پر کمپارٹمنٹ کا نظر بٹو لگے ہاتھوں ٹکا دیا۔ اور ساتھ ہی تسلی بھی دلائی کہ
ابھی کم سن ہو رہنے دو کہیں کھو دو گے دل میرا
تمہارے ہی لئے رکھا ہے لے لینا، جواں ہو کر
اور کمپارٹمنٹ ہمیں اسی ناہنجار مضمون میں ملی۔ جسے ہم نے اتفاقاً اختیار کیا تھا یعنی وہی نامراد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقتصادیات‘ باقی مضامین تو جیسے ہمارے پالتو کبوتر تھے۔ جنہیں ہم جس طرح جی میں آتا قلابازیاں دلایا کرتے، اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری طالب علمانہ ساکھ اگر کچھ تھی تو ان ہی پالتو کبوتروں کے طفیل تھی۔ جن میں سے چاروں کی چاروں زبانیں تھیں جو ایک کے سوا سبھی غیر الہامی تھیں یعنی عربی، فارسی، اردو اور انگریزی جن میں سے عربی کے ہم صرف قاری تھے (کہ قرأت سے آگے جانا ویسے بھی ہمارے نصابِ مذہبی میں اختیاری مضمون ہے ) جبکہ انگریزی کے مزاج پر ہمارا وجود کسی قدر گراں تھا اس لئے کہ ہم طبعاً افضل رندھاوا جیسے نہ سہی نیم ٹھیٹھ پنجابی ضرور تھے لہذا ہم میں اور انگریزی میں اتنا بُعد بہرحال برقرار رہا جتنا بُعد چھ گز کے تہہ بند اور ڈیڑھ گز کی پتلون میں ہوتا ہے۔ تاہم اپنی سطح پر عربی انگریزی میں ہماری ہوا خاصی بندھی نظر آتی تھی۔
جہاں تک فارسی کا تعلق تھا۔ در آں حالیکہ تیل اب اس کے تفاخر کا سبب ہے ہمیں اس کا داماد جانیے کہ اس خوش دامن زبان میں ، ایک آدھ نیم پخت غزل کے خالق ہم اُس عہدِ طفلی میں بھی تھے۔ (جو آج تک ہماری فکری منصوبہ بندی کے تحت اکلوتی ہی پھر رہی ہے ) رہی اس کی لے پالک بچی ہماری مُراد اردو سے ہے۔ وہی عفیفہ جسے ہم نے بہ کاوشِ تمام اپنایا تھا سو ہمارے خیال میں موصوفہ ہر لحاظ سے ہماری منکوحہ تھی اور ہے۔ اگرچہ اس کے تقاضے کسی بھی منکوحہ کی طرح، آج تک تشنۂ تکمیل ہیں۔
نہیں کھیل بچوں کا اے داغؔ کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
٭٭٭
باب: ایک ٹکٹ میں دو تماشے
ایف اے کے نتیجے کا اعلان ہمارے لئے اعلانِ جنگ سے کسی طرح کم نہ تھا اور یہ اعلان ہم نے بے گناہ عوام کی طرح اپنے گاؤں ہی میں تیسرے دن پہنچنے والے ایک روزنامے میں پڑھا مگر جب…
چٹھی آئی ماہیے دی ……
تو اس میں ہمارا نام کہیں نہیں بولتا تھا۔ آخر جب دروازۂ خاور کھُلا یعنی نتیجے کا کارڈ موصول ہُوا تو ہمیں بروئے اخبار اپنی صد فیصد ناکامی کے مقابلے میں بروئے کارڈ چوراسی فیصد کامیابی پر کچھ زیادہ ہی مُسرت ہوئی کہ ہم ناکام تھے تو ساڑھے چار میں سے صرف ایک مضمون میں اور کون کہہ سکتا ہے کہ اسی فیصد کامیابی معمولی کامیابی ہوتی ہے۔ در آنحالیکہ ہم اس کنوارے کے دلِ و جان سے معتقد ہی نہیں مقّلد بھی تھے۔ جس نے اپنی متا عِ دل کسی دوشیزہ کے نام کر کے اُس سے شادی کی پچاس فیصد کامیابی کا اعلان از خود ہی کر ڈالا تھا کہ اس سودے میں ایک فریق تو بہر حال رضامند تھا۔ چنانچہ ہم نے قطع نظر اُس طعن و تشنیع سے جو ایسے موقعوں پر بعض کوتاہ فکروں کی طرف سے ہر کسی کو سننی پڑتی ہے۔ اپنی ذات پر کوئی تا بڑ توڑ حملہ ہو تے نہ دیکھا۔ جبھی شا ید ہم نے اپنی ہمت کو غیر متزلزل پایا اور سچ پوچھیں تو۔ ۔ شہاب الدین غوری کی توقیر بھی کُچھ اُسی موڑ پر ہما ری نگاہوں میں پیدا ہوئی لہٰذا ہم نے صبر و شکر کا توبرا اپنے منہ پر چڑھا یا اور دن رات ایک کر کے دو اور دو چار جیسا حسا بی اور دو ٹوک فیصلہ کر ڈالا کہ تخت یا تختہ۔ اب ہم اِس نا مرادیِ خفیف کا بارِ کثیف اپنے کندھوں پر ہرگز نہیں رہنے دیں گے۔
تعزیراتِ ہند کی دفعات کے اطلاق کی طرح کہ ملزم کو مقدمے کی تاریخیں سنا سنا کے جرائم سے یوں بیزار کرو کہ اُس کا جی جینے ہی سے دُوبھر ہو جائے یا اُس پو ستی کی طرح جسے محض ایک بنیان میں ملبوس بار بار کھُجلاتے دیکھ کر کسی نے مشورہ دیا تھا کہ … ’’بنیان اُتار کر اِسے جوؤں سے پاک کیوں نہیں کر لیتے۔ ‘‘ تو اُس نے بنیان فی الفور اتاری‘ اسے الٹا اور پھر زیبِ تن کر لیا اور جب کچھ دیر بعد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’حسبِ چسکا‘پھرکھُجلا نے لگا تو مشورہ باز کے مکرّر مشورے پر اُس نے بڑی سادگی سے کہا ’’ ہاں ہاں حضرت !میں اِنہیں مارنا تو چاہتا ہوں لیکن ذرا …ٹُرا ٹُرا کے۔ یعنی مبتلائے مسافت کر کے …‘‘ بورڈ کا روّیہ بھی اُن دنوں امید واروں کے ساتھ کچھ ایسا ہی تھا اور یُوں تھا کہ سپلیمنٹری امتحان اُن دنوں پنجاب بھر میں صرف لاہو رہی میں لیا جاتا تھا۔ یہ اہتمام اُس وقت کی نسبتاً کم آبادی کے پیشِ نظر تھا۔ بورڈ کے نوَنہال ہونے کے باعث تھا۔ یا خداوندانِ بورڈ ویسے ہی پیاسے کو کنوئیں تک بلانے میں توقیر محسوس کرتے تھے۔ بورڈ کی اس اجارَہ دارانہ دلیری پر توجہ دینے کی نہ تو ہمیں فرصت تھی اور نہ ہی کچھ ایسی ضرورت… بلکہ ہم تو ایک طرح سے اُس کے ممنُون تھے۔ جس نے ہماری رضا مندی لئے بغیر ہمیں ایک ٹکٹ میں دو تماشے دیکھنے کا یہ نادر موقع فراہم کر دیا تھا۔ ایک امتحان میں ادائے قضا کا اور دوسرا شہر لاہور دیکھنے کا۔ چنانچہ ہم نے امتحان بھی دیا اور لاہور بھی دیکھا نہ صرف ڈیٹ شیٹ کے مطابق ایک دو دنوں تک بلکہ اس سے ہشت گُونہ، نُہ گُونہ مُدّت زیادہ تک۔
لاہور میں ہمارا قیام زمانۂ کالج کے دوران کے ایک استادِ مکرم کے گھر رہا۔ جو ہمارے معلوماتی حدود اربعہ سے بخوبی واقف تھے اور ہمیں گنوار سمجھنے میں صد فیصد حق بجا نب اور جنہوں نے پہلے ہی روز ہمیں لاہور کی اونچ نیچ سے آ گاہ کر دیا اور تلقین یہ کی کہ اگر دورانِ لاہور کا سفر اختیار کرو، تو بذریعہ بس کرنا اور اگر جی ٹانگے کی سواری کو للچائے تو اپنی ٹانگوں پر بھروسہ مو زوں رہے گا، کہ لاہور کے
’’کو چوان را اعتبارے نیست‘‘
لیکن بسوں کے جو نمبر انہوں نے مقامات کی تفصیل کے ساتھ ہمیں بتائے اُس عا لمِ نَو عمری و نَو سفری میں اِس تخصیص کے ساتھ یاد رکھنا کہ کون سے نمبر کی بس کون سے مقام پر لے جائے گی۔ دھکم پیل کی صُورت میں کسی ثمر دار بس میں پیو ست ہونے والے اس مسافر کے سہوِ نظر کی مثال تھی جو لگے ہاتھوں سیٹ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے ہی کسی آشنا سے گتھم گتھا ہو جاتا ہے لیکن جب گرد و پیش کے ہنگامہ پرور ماحول سے مانوس ہوتا ہے تو اچھی طرح شرما بھی نہیں سکتا۔ ۔ ۔ اور یہ صورت ہمیں اس لئے درپیش تھی کہ اند رونِ شہر کے مقامات کے نام ہمیں سرے سے آتے ہی نہ تھے۔ پطرس بخاری کے جغرافیۂ لاہور کے ہم حافظ نہ تھے لہٰذا ہما ری دلچسپی کا مرکز اگر کچھ تھا تو مقاماتِ شہر سے قطع نظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بنی آدم اعضائے یک دیگرند
تھا بلکہ اُس سے بھی کچھ اَ گیرے … کہ ہم تو…
کبُوتر با کبُوتر باز با با ز
جیسے عقیدۂ خام میں مُبتلا تھے اور شعُرائے موجودہ و گزشتہ کی دید و زیارت کا سودا اپنے دل و دماغ میں سموئے پھرتے تھے۔ (یہ الگ بات… کہ امتحان ہم اقتصادیات کا دینے آئے تھے ) اور کسی غلط نمبر کی بس میں بیٹھ کر (کہ خیر سے پہلے ہی ہما ری بس کا نمبر کُچھ ایسا صحیح نہ تھا ) اس فرض کی ادائیگی میں کسی قضا کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے جس کے لیے ہم لاہور میں اُترے تھے سو اِن بیس دنوں میں ہم نے پا پیادہ سعادت یہ حاصل کی کہ دو جرائد کے مدیرانِ گرامی کو جیسے ٹی وی کی سکرین پر دیکھ لیا جو لاریب مسلّمہ شاعر بھی تھے اور زیارت ہم نے علامہ اقبال کے مزار کی کی، لیکن مقبرے سے برآمد ہُوئے تو اسِ شکوے کے سا تھ (جس کا کوئی جواب نہ تھا ) کہ اتنے رئیس التحریر اور بسیار گو شاعر کے اِکّا دُکّا اشعار ہی اور وُہ بھی صرف ایک فارسی غزل کے۔ ۔ ۔ (جبکہ دعوئے فا رسی منسُوب بہ غالب ہے )نقش بر دیوار کیوں کئے گئے گو یا مزارِ اقبالؒ کو۔ ۔ ۔ کُلیاتِ اقبال کیونکر نہ بنا دیا گیا۔
اسیکّا و تنہا سفر میں جو ہمارے افعالِ خود اختیاری کے سر اسر منافی تھا۔ ہمارا زادِ راہ زیادہ دنوں تک ہمارا ساتھ نہ دے سکا۔ گھر سے کچھ منگوانا اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ امتحان سے ہماری پیکار دو روزہ تھی بِ ست روزہ نہ تھی۔ چنانچہ اپنے زادِ سفر میں فطری انداز میں تو سیع پیدا کرنے کی ایک کوشش میں کامیاب ہوتے ہوتے ہم بال بال بچ گئے اور وُہ یُوں کہ ہم لاہور میں نوکر ہوتے ہوتے رہ گئے۔
ہمارے ایک اور میزبان کہ ہمارے پُرانے کرم فرما کے فرزندِ ارجمند تھے اور شہر کے کسی پریس کے معاملات میں مثلِ رضوان خاصے دخیل تھے۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں اپنے پریس میں سَو سوا سَو کی نوکری دلانے پر از خود ہی آمادہ ہو گئے اور نہ صرف اِس امر کی یقین دہانی کرائی بلکہ ہمیں ………قولِ مر واں جَان دارد کا بالعمل قائل بھی کر دیا۔ مگر ہماری تعیناتی کے زبانی احکامات میں ہم پر شرط یہ عائد کر دی کہ راوی روڈ پر تمہارا قیام تمہارے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے عین مخالف ہے لہٰذا اپنا بستر بوریا اٹھا لاؤ اور یہیں کے ہو رہو، یعنی رہائش بھی پریس ہی میں رکھو۔
ہم کہ تجربات کے اوون سے بہت ورے تھے۔ اور آتشِ ضروریات کے اوون میں جھنکنے کو تیار…… کہ
خود آئے نہ تھے، لائے گئے تھے
اپنے ساتھ بستر قسم کی کوئی چیز ہرگز لے کر نہیں آئے تھے بوریا البتہ ہمارے پاس ضرور تھا یعنی لکڑی کا ایک عدد اٹیچی کیس نما بکس جسے ہم اپنا تابوت تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم اس کے اندر نہ تھے بلکہ وہ ہمارے اندر تھا یعنی بغل میں۔ البتہ ہمارا ماضی و مستقبل اس میں ضرور پابند تھے کہ امتحانی سازورخت کے علاوہ ہم اس وقت تک کا اپنا سارے کا ساراشعری سرمایہ بھی اسی میں اٹھائے پھرتے تھے اور حادثہ یہ ہوا کہ اس تابوت کے دستے کی عمر ‘آغاز سفرہی میں اس کی گراں شکمی کے باعث’ بہ پایاں رسیدہ بُود‘ یعنی پوری ہو چکی تھی لہٰذا موصوف ہم سے ہر آن مصافحے کی بجائے معانقے کا متقاضی تھا۔
جہاں تک لاہور بینی کا شوق تھا وہ تو ہم نے کچھ قدموں اور کچھ نگاہوں … پورا کر ہی لیا تھا مگر اب کہ بقول غالب
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
ایک فرمائشی سّیاح سے یکایک ایک مزدور ہو کر ہم اپنی کار گاہ کو جا رہے تھے اور بقولِ استادِ مکرّم لاہور کے ’کوچواناں را اعتبارے نبود، اور بسوں پر ہمارا کوئی بس نہ تھاسو اس تابوت کے شکنجے سے ہمارا جانبر ہونا…… لمحہ بہ لمحہ خاصا… مخدوش ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ جب پھیپھڑوں کی دھونکنیاں جواب دینے لگیں تو ہم نے ایک شجرَسایہ دار کی پناہ لی اور تابوت کو زمین پر پٹخ…… اس پر پِڑی جمائی اور بیٹھ رہے۔
آ اے غم دوراں ! درِ میخانہ ہے نزدیک
آرام سے بیٹھیں گے، ذرا بات کریں گے !
لیکن وا حسرتا…… کہ اس وقت کوئی چیونٹی یا مکڑا ہمیں اس درخت پر چڑھتا اور چڑھتے چڑھتے گرتا دکھائی نہ دیا، ورنہ ہمارا مستقبل لاہور جیسے قطب الارشاد شہر میں قیام کے طفیل جانے کیا سے کیا ہوتا۔ اور جو ہوا وہ یہ تھا کہ ہم نے شہر سے نکلتی ہوئی ایک غیر اومنی بس کو اپنا خضرِ راہ مانا اور جب بس کے نمبردار نے ہماری منزل کا پتہ پوچھا تو ہم نے بھی جواباً وہی کار روائی کر ڈالی یعنی موصوف کی منزل پوچھ ڈالی جو راولپنڈی تھی، سوچند ہی گھنٹوں میں ہم اُس تابوت سمیت راولپنڈی میں تھے جہاں سے اپنے حواس کی بازیابی اور بکسے کی صحت یابی (یعنی دستہ یابی) کے بعد ہر طرح کی خیر خیریت کے ساتھ اپنے گاؤں پہنچ گئے۔
کیا فرض ہے یہ سب کو ملے ایک سا جواب
٭٭٭
باب: جِس دی ہتھ جِس دی بانہہ آئی
ہمارے سپلیمنٹری امتحان کا نتیجہ صد فیصد غور یا نہ بلکہ جدید تاریخی اصطلاح میں ’مانک شاہانہ‘ رہا۔ ہر چند ہم نے وہ مانک شاہی طریقے ہرگز استعمال نہ کئے جو آج کل امتحانات میں تھوک کے حساب سے مرّوج مشہور ہیں۔ (یعنی یہی کہ سپرنٹنڈنٹ امتحانات کو گھیر گھار کے اپنے نرغے میں لے لیا جائے اور جب وہ پھڑکنے تک نہ پائے تو چپکے سے اپنی منشا کے مطابق اپنی زندگی کی پراگریس رپورٹ میں اپنی بے مثال فتح کا اندراج اس سے کرا لیا جائے ) تاہم امتحان اور نتیجے کے اعلان میں جو بُعد اُن دنوں مروّج تھا اور شاید اب بھی ہو ہمیں ضرور بھگتنا پڑا۔ ہم کہ آغازِ سفر ہی میں اپنے کارواں سے پَچھڑ گئے تھے اور
یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ منزل دو رشد
کے عملی تجربے سے دوچار تھے، ہمارے اندر کی دنیا بھلا پُرسکون کیسے ہوتی۔ سو نتیجے کے اعلان تک کا عرصہ ہمارے دل و دماغ میں بیک وقت جغرافیائی و انتقادی اصطلاح کے مطابق شکست و ریخت کی جو کیفیت پیدا کر رہا تھا، ہمارے اعصاب اُس کے متحمل نہ ہوئے اور ہم نے اُنہیں اِس کیفیت کا متحمل بنایا بھی تو کچھ اِس طرح… کہ بہر اعتبار نوعمری کے با وصف ہم عارضۂ اختلالِ اعصاب میں مبتلا ہو گئے، جسے ہمارے ایک دوست اور… یکے از نو واردان قافلۂ شفا۔ ۔ حکیم نے بہ تمام دردمندی و نیاز مندی اختلاجِ قلب کا نام دے ڈالا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی آیورویدک فارماسٹیکل لیبارٹری میں تیّار شدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے ہر کشتۂ نیم کُشت (یا نیم پخت) کی پہلی چٹکی ہمیں کھلائی اور ہماری جانِ ناتواں پر اُس کشتے کا ردّ عمل دیکھ کر اُسے رہی سہی آنچ (جس کی کسر کا اس میں ہر بار رہ جانا ایک فطری امر تھا) دے دے کر ہمارے بعد نوازے جانے والے مریضوں کی جیبیں اور اپنی طبیعت ہلکی کرنے کے جملہ انتظامات بہر لحاظ مکمل کئے ۔ ادھر ہم تھے کہ ان کا اوّلین تختۂ مشق تھے ‘ روز بروز اُن کی اِس مشق ناز و نیاز سے اُدھڑتے چلے گئے۔ (کہ خون دو عالم تو کسی کی گردن پر تھا نہیں ) تا آنکہ انہوں نے ہمیں اپنے ریکارڈ میں لاعلاج قرار نہ دے ڈالا۔
اُٹھتے ہی شورِ سیل نے گم کر دیتے ‘ حواس
لائے جو ہوش میں وہ تھپیڑے تھے آب کے
حکیم موصوف کے حلقۂ طبابت سے نکلے تو ایک اور کھجور میں اٹک گئے۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کی تجربہ تجربہ اندوختہ دانائی کا رخ جیسےیکبارگی ہماری جانب پھر گیا چنانچہ ہمارے حق میں فیصلہ یہ ہوا کہ ہو نہ ہو ہم پر یہ اثر کسی نظرِ بد کا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ نظرِ بد اگر ہمارے ایف اے کو زہر مار کرنے کے بعد تعلیم یافتہ ہو جانے کے باعث ہمیں لگی تھی پھر تو سراسر خیالی اور فرضی تھی۔ اس لئے کہ اس کا توڑ ثانوی تعلیمی بورڈ نے کمپارٹمنٹ کی صورت میں ہمیں پہلے ہی فراہم کر دیا تھا اور اگر کسی اور سبب سے تھی تو اس کا اندازہ کچھ انہی بڑی بوڑھیوں کو تھا جن کی یہ تشخیص تھی۔
آدمی بھی کہ ہے زندانِ تمنا کا اسیر
کام جو کرنا نہ چاہے، وہی ناچار کرے
ہمارا برخوردارانہ فریضہ اگر کچھ تھا تو اس نازک مرحلے پر بس یہی تھا کہ نصابِ طب کے پرائیویٹ امیدوار اور اپنے دوست حکیم کی ابتدائی و انتہائی طبی مشقوں سے جان بر ہونے کے بعد ہم ان۔ ۔ ’سپیدو سیاہ دیدہ‘ خواتین کے چارہ ہائے بے سُود کا تختۂ مشق بنتے، لہٰذا بقولِ فراز
زخم جتنے تھے وہ سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
ہم نے اس فریضے کی بجا آوری میں اپنے دو ہونٹوں سے ’ سِ ی‘ تک نہ کی اور ماشوں تولوں کے حساب سے تعویذوں پر مرقوم طرح طرح کے جیومیٹریکل ہندسوں اور حرفوں کی سیاہی گھول گھول کر پیتے رہے۔
کون سیاہی گول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی
قتیل شفائی آج کی طرح ان دنوں بھی ہم سے قطعی دور تھے (کہ رائٹرز گلڈ کے ممبر نہ ہم اُن دنوں تھے نہ اب ہیں ‘درمیان میں رہے ہوں تو الگ بات) اور نہ اُن سے اپنے حق میں اِس شعر کی تشریح ضرور کرواتے۔
ہمارے حلقوم میں اترنے والے تعویذوں کی سیاہی ہمارے نوشِ جاں کردہ طبی نسخوں جتنی ہو گئی۔ لیکن
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
کا ورد ہم سے نہ چھوٹا اور اگر کچھ ہوا تو یہ کہ……
شعلہ سالپک جائے ہے آواز تو دیکھو
یہ شعلہ کہیں باہر سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی اندر سے ہماری جانب لپکتا دکھائی دیتا رہا اور وہ بھی آتشِ خاموش کا نہیں آتشِ گویا کا یعنی درونِ سینہ کا راز ہر لحظہ طشت از بام رہنے لگا کہ دھڑکن کے ساز پر جیسے ہوا کا ہاتھ تھا جو کسی آن بھی اُس ساز کو چھیڑنا نہ بھولتی یہاں تک کہ……
اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے
ہمیں اُس سازکی لَے سے گوش گردانی کے لئے سو سوحِیلے تلاش کرنے پڑتے جن میں سے ایک ابتدائی حِیلہ یہ بھی تھا کہ ہم بھیڑوں کے حلقۂ ارادت میں بھی بالارادہ شامل رہے۔
کہتے ہیں اس حیوانِ شریف پر اگر کوئی درندہ یورش کرے تو وہ ا پنی آنکھیں میچ لیتی ہے محض اس تشفی کو کہ بھلا وہ کب دیکھ رہی ہے کہ اُسے کسی کے پنجۂاستبداد نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے گویا اس کار روائی میں وہ سراسر بے قصور ہے۔
ہم بھی اپنے بے قصور ہونے کا ثبوت کچھ اس طرح دے رہے تھے …… کہ اندر کے کھڑکار سے چشم پوشی بلکہ گوش پوشی کی غرض سے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس ٹھونس کر سویا کئے۔ شکر اس بات کا ہے کہ ہمارے ضمیر میاں کسی پوشیدہ مرض سے دوچار نہ تھے۔ ورنہ ہمارا حال بھی دو بیویوں میں گھرے کسی نامراد خاوند جیسا ہوتا۔ اور اچھا ہوا کہ ہم شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے کی سعادت سے محروم رہے۔
سو صاحبو! اپنے جی کی تہ میں اُترے ہوئے تضادات کا جو زہر ہمارے دلِ ناداں کی رگوں میں سما گیا تھا۔ اُس کا نکلنا تو محال تھا کہ ہم اس کے وجود ہی سے آگاہ نہ تھے۔ اس کے نتائج البتہ ہمارے سامنے تھے۔ جنیں بھگتنے کے لئے ہم یہاں تک تیار ہو گئے کہ بہ فکرِ خویش بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
کل تیکن تے زہر سی دُکھاں دی کڑوان وی
اج میں سمجھاں موت وی، ہے اک جام شراب دا
یعنی حالات کے مقابلے کے لئے خود تو کمرِ ہمت باندھی ہی تھی اس گورکھ دھندے کا پرچار بزورِ نطق بھی کرنے لگے۔ حالانکہ یہ شاعرانہ روایات کی سراسر خلاف ورزی تھی۔
اس مقام پر ہمارے حالات کی جو کھڑکی باہر کو کھلتی تھی اس کی ایک جھلک آپ کو دکھائی جائے تو کچھ یوں تھی کہ ایف اے تو ہم نے کر ہی رکھا تھا۔ کالج کا رخ ہم کرنے سے رہے تھے کہ ایک تو دودھ کے جلے تھے چھاچھ کو پھونک پھونک کر کیوں نہ پیتے اور دوسرا بقول باقی صداقی ہماری بچگانہ آرزوؤں کی ’’ گَڈی بھی اپنے سٹیشن سے لنگھ چکی تھی اور ٹیشن ’’بھاں بھاں ‘‘ کرتا ہمیں صاف دکھائی دے رہا تھا اور ویسے بھی خرمنِ علم سے جتنی کچھ جنس ہم نے ’’تِیلاتِیلا‘‘ سمیٹ لی تھی۔ زندگی کے رن میں کودنے کے لئے کچھ ایسی کم نہ تھی کہ اسی مقدار کی متاع کے طفیل ہمارے کتنے ہی ہمجولی اپنے کندھوں پر پاکستان فورسز کے سٹارز لگا کر قدم قدم پر سلیوٹوں کی وصولی کے مقام تک پہنچ چکے تھے۔ ہمارے عزائم اگرچہ ایسے شاہانہ تو نہ تھے۔ تاہم کچھ نہ کچھ تھے ضرور۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ متاعِ نامراد (جسے ابتداً محض لگن کا نام دیا جاتا ہے ) جہاں مرزے کی پیوند کاری جَنڈ سے کراتی ہے، وہاں آرمسٹرانگ اینڈ کمپنی کو ارضِ ماہتاب سے بھی زندہ سلامت زمین پر لے آتی ہے اُس متاعِ نامراد کے ہاتھوں ہم پر کیا کچھ گزری۔ مرزا خان ہوئے یا آرمسٹرانگ اس فیصلے کی مثل تو ابھی نامکمل ہے اس لئے کہ حلقۂ طالب علمی سے نکلنا ہمیں گوارا نہ تھا اور جادۂ طالب علمی پر ہم گامزن نہ تھے لہٰذا ہمیں تلاش تھی تو کسی ایسی راہ کی جو مقتل سے بچ کر گزرنے والی ہوتی اور جس پر چل کر ہم خوش و خرّم بھی رہتے اور با مراد بھی لیکن شومی ٔ قسمت کہ یہ راہ ہمیں سمجھائی بھیدی تو کچھ ایسی کہ
صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے
سو صورت حال یہ تھی کہ ہم یا تو دیوبند جیسے کسی بڑے دینی مکتب کا رُخ کرتے اور دنیائے دُوں کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ نجاتِ اُخروی کی خواہش بھی پوری کر لیتے جو تقسیمِ ملک کے باعث از خود حدِ امکان سے باہر تھا یا اگر فل فلیجڈ زندوں میں ہوتے تو۔ ۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرتے یعنی یہ کہ امتحان بازی کے شغل میں جُٹ جاتے جس کی آگے دو ہی صورتیں تھیں۔ ایکیہ کہ السنہ شرقیہ کا (جن میں عربی کے علاوہ اردو، فارسی، اور پنجابی بھی دخیل تھیں ) کوئی امتحان داغ دیتے اور پھر تنہا انگریزی کی ڈفلی بجاتے بجاتے گریجوایٹی کی منزل تک پہنچ جاتے یعنیTaught سے Teacher ہو جاتے اور بغیر کسی پڑاؤ بلکہ اسقاط کے پورے نو ماہ کی سروس کے بعد بی اے کی فیس داخلہ بھیجنے کے استحقاق کا اعلان کر دیتے کہ طوقِ غلامی کی یہ رسی بھی اپنے دوسرے ہم وطنوں کے ہمراہ ہمارے گلے میں تھی جسے توڑ پھینکنے کی ضرورت کبھی کسی کو محسوس ہی نہ ہوئی اور ہم کہ اس لعنت کا احساس رکھتے تھے بقولِ فیض کیا تھے۔
جس طرح تنکا سمندر سے ہو سرگرم ستیز
جس طرح تیتری کوہسار پہ یلغار کرے
چنانچہ ہم نے یلغار بھی کی تو اس کا رخ بالآخر اپنی ہی جانب موڑا۔ السنہ شرقیہ سے تو سرِ دست ہم تمام تر وابستگی کے باوجود کوئی امتحانی رشتہ نہ گانٹھ سکے۔ البتہ بلاکسی تاخیر کے ہمیں اگر بالطبع کچھ پسند آیا تو وہ سکول ماسٹر بن جانا ہی تھا۔
جِس دے ہتھ جِس دی بانہہ آئی
لَے گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زوروزوری
٭٭٭
باب: رُخصتی……یُوسفِ با کارواں کی
عسکری علاقے سے متعلق ہونے کے باعث ہمارے یہاں یہ روایت آج بھی عام ہے کہ کوئی جوان جب بھی فوج میں ’’نانواں ‘‘ لگوا کر جاتا ہے اُس وقت سے اُس کی فطری یا جبری ریٹائرمنٹ کے عرصے تک اُس کی رسم مشایعت بڑے یادگار انداز سے ادا کی جاتی ہے جس کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو سڑک پر جاتی کوئی بھی بس اُس یوسف با کارواں کو لے جانے کے لالچ میں اپنی انتہائی تیز رفتاری کے باوجود ضرور رُک جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ خداوندانِ بس کے حریصانہ طور پر رکنے پر بھی۔
جو چیرا تو اک قطرۂ خون نکلا
والا منظر بس والوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ اُس جلوس میں سے بس والوں کا ساتھی (یعنی سواری)صرف ایک ہی ہوتا ہے چنانچہ ہم کہ اپنے علاقے کی عسکریانہ روایات کو توڑ کر جا رہے تھے۔ باوجود اس روایت شکنی کے جب سفرِ تعلیم و تدریس پر روانہ ہوئے تو اس رسم مشایعت سے ہرگز محروم نہ ہونے دئیے گئے اور جہاں اہلِ محلہ کو ہمارے برسرِ روزگار ہونے کی اطلاع بتاشوں اور ریوڑیوں کی صورت میں مل چکی تھی وہاں گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ہمیں رخصت کرنے والے جلوس کے ذریعے ہماری اس سعادت مندی سے آگاہ ہو گئے۔
ہمارا موجودہ سفر… ظاہر ہے بیرونِ ملک کا سفر نہ تھا بلکہ اندرونِ ملک کا بھی نہیں کہ کراچی کے کسی مکین کو چالیس میل کا یہ سفر بطور سفر تسلیم کرانا پڑے تو شاید وہ مدّعی کی ذہنی بلوغت پر ہی شک کرنے لگے تاہم ہمیں یہ چالیس میل ایک تو اس لئے چالیس صد میل لگے کہ؎
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
یعنی بہ فکرِ خویش بے عمر ہی ملازمت میں جھُنک چلے تھے، دوسرا اس لئے کہ اُن دنوں (اور یہ صرف اٹھارہ بیس سال ادھر کی بات ہے ) دنیا کے غبارے کی ہوا اس طرح نہیں نکلی تھی، جیسی صورت اب ہے خلائی شہزادوں کو پریس کانفرنس بھی کرنا ہوتی ہے۔ تو وہ یہ شوق کرۂ ارض سے سینکڑوں میل دور جا کر پورا کرتے ہیں جبکہ ہم ایک ایسے گاؤں سے متعلق تھے جس کے بعض بڈھوں نے اپنی آنکھوں سے ریلوے لائن تک کی زیارت نہیں کی تھی اور تیسرایوں کہ ہمارے سفر کا راستہ ہی دو پہلو طرز کا تھا کہ اٹھائیس میل تو بس اور پکّی سڑک کے ذریعے طے ہوتے تھے لیکن باقی بارہ میل کا پندھ کسی کیرئیر اور کچی سڑک یا ٹرین کے ذریعے طے کیا جا سکتا تھا چنانچہ ان حالات میں دو پہلو طرز کے اس سفر کی گرانی اگر ہمیں محسوس ہوئی تو کچھ ایسی بے جا نہ تھی۔
ہم نے رختِ سفر باندھا لیکن نہ اُس طرح جیسے زمانۂ طالب علمی میں لاہور جانے کے لئے باندھا تھا کہ سانپ کے ڈرسے اب رسی سے بھی ڈر رہے تھے اور اُس اٹیچی کیس سے خاصے محتاط تھے جس کے محض دستے کی عدم موجودگی نے ہمیں لاہور بدر کر دیا تھا۔ لہٰذا اب کے ہم نے ایک بیگ ہی میں اپنا سارا سامانِ حیات کھپایا اور بس میں سوار ہو گئے لیکن جب اٹھائیس میل کے بعد کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تو خیر سے خاصا صبر آزما نکلا اس لئے کہ اُن دنوں جو ٹرین ہماری نئی نئی منزلِ مقصود تک جاتی تھی اُس کی روانگی کے اوقات یا تو سراسر زوال پذیر تھے کہ دن ڈھلے ہی اُدھر کا رُخ کرتی۔ یا پھر زیادہ ہی ترقی پذیر کہ اُس کی روانگی کا دوسرا (یا شاید پہلا) وقت بارہ مہینے ماہِ رمضان کی سحری کے ریہرسل کے خیال سے مقر ر کیا گیا تھا لیکن بحمد للہ کہ ہمیں جو ٹرین درپیش تھی وہ اوّل الذکر تھی جسے ہم نے ریلوے سٹیشن پر تین گھنٹے تک دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کے بعد پکڑا تب کہیں چوتھے گھنٹے کے خاتمے پر ہم اپنی منزل مقصود پر تھے۔ سکول پہنچے تو وہاں بھی زوال اپنے عروج پر تھا۔ کہ اِدھر ہم نے سکول کی چاردیواری میں قدم رکھا اور اُدھر سکول کے دمِ واپسیں نے اپنی مخصوص ٹن ٹن سے ہمارا استقبال شروع کر دیا۔ جسے ہم نے اکیس توپوں کی سلامی سمجھا یا جانے کیا سمجھا طلبائے مدرسہ کے حق میں ہماری آمد بہر حال ایک نیک شگون ثابت ہوئی۔
طلباء کے ہجوم کو چیرتے ہم اسکول کے دفتر میں پہنچے تو وہاں ایک اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اس لئے کہ سارا سٹاف رجسٹر معلمین پر جھکا اپنی دہاڑی کھری کرنے کے در پے تھا سکول میں ہماری آمد چونکہ بذریعہ احکامات متوقع تھی لہٰذا تعارف کا مرحلہ یکطرفہ ہی رہا اور جب یہ سارا کُچھ ہو چکا تو ہم نے میرِ مجلس سے مصافحہ کی ٹھانی۔ لیکن استفسار پر پتہ چلا کہ وہ تو کوٹھے گئے ہیں لفظ کوٹھے نے ہمیں ایک پل تو شکوک و شبہات کی وادی میں دھکیل دیا لیکن حفظِ مراتب کے خوف سے دوسرے پل ہم نے جو قدرتی حرکت کی وہ یہ تھی کہ کمروں کے اوپر ’’ اوکڑنے‘‘ لگے جس پر ایک صاحب نے ہمیں اُلجھن میں دیکھ کر فرمایا ’’نہیں صاحب !کوٹھہ ایک گاؤں کا نام ہے۔ آپ ان کی غیر موجودگی سے پریشان نہ ہوں آپ کے لئے انہوں نے یہ اجازت پیشگی دے رکھی ہے کہ اگر آپ شام کی گاڑی سے پہنچ جائیں تو آپ کا آج کا دن آپ کا ملازمت کا پہلا دن قرار پائے گا‘‘ اور پھر رجسٹر معلمین ہمارے ہاتھ میں تھمایا جس پر ہم نے بقلم خود اپنا نام درج کیا اور صبح و شام کی حاضری ثبت کر دی۔
ا اور اب دوسرا مرحلہ۔ ۔ ۔ قیام و طعام کا مرحلہ تھا جس کا حل اس سے بھی زیادہ فوری نکلا اور ہمیں ایک’ چھَڑے‘ماسٹر صاحب سے لٔف کر دیا گیا ہم نے پہلی ہی نظر میں انہیں دیکھا تو ہمیں اپنی ملازمت کی چادر اپنے پیروں سے کُچھ چھوٹی ہی دکھائی دی کہ جو چادر انہوں نے اوڑھ رکھی تھی ہماری مُراد ان کے لباس سے ہے۔ اس پر کُچھ اس طرح نادم ہو رہے تھے کہ سکول سے قیام گاہ تک تعارف کے ابتدائی مرحلوں ہی میں۔ ۔ ۔ ۔ وہ بار بار زیادہ زور جس بات پر دیتے رہے۔ یہی تھی کہ انہوں نے اس طرزِ پو شش کو محض شعائرِ اسلامی کے طور پر اپنا رکھا ہے۔ ہم نے ایک آدھ بار زیر لب۔ ۔ ۔ ۔ اسلام پر اُن کی اس صریحاً الزام تراشی کے خلاف کُچھ کہنا بھی چاہا تو ان کی زبانِ توانا فلور مل کے گھگو کی طرح کُچھ اس تیزی سے چلتی پائی کہ ہماری بات کو ابھرنا ہی نصیب نہ ہوا، خوش لباسی یا بد لباسی کا تعلق تو ذوقِ لطیف کے علاوہ رزقِ خفیف سے بھی ہو سکتا تھا حادثہ یہ تھا کہ فطرت نے بھی جیسے ان سے کُچھ زیادہ ہی نا انصافی برتی تھی، کَج خطوط تو ہم بھی خاصے تھے لیکن اس میدان میں اگر ہم تھرڈ ڈویژنر تھے تو وہ یقیناً اس کالر شپ ہولڈر کا درجہ رکھتے تھے۔ ۔ ۔ لیکن قارئین کرام! ان کا یہ جائزہ تو کُچھ سسرالی قسم کا نہیں ہو چلا ہے ؟ معذرت چاہتے ہیں حضرات۔ آئیے اب ذرا آگے چلتے ہیں۔
ماسٹر صاحب کی اقامت گاہ پہنچے تو دروازہ کھلتے ہی ہم نے ایک چارٹ دیکھا جس پر بحروفِ جلی لکھا ہوا تھا:
کسی دن ادھر سے گزر کر تو دیکھو
بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے
ہم نے یہ شعر پڑھا تو ہمیں یوں لگا جیسے یہ جنّتِ ارضی ہماری ہی منتظر تھی کہ ماسٹر صاحب ہم پیشہ تو تھے ہی ہم ذوق بھی نکلے ہم نے اُن کے ذوقِ سخن کو کریدا تو کسی قدر چِڑ کر کہنے لگے۔ ’’ شعر وِعر‘‘ سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں یہ شعر تو ہمارے ایک دوست نے مکان ہذا کی ہئیت کذائی کے پیش نظر شرارتاً یہاں ٹانک دیا ہے ‘‘۔
یوں تو ہم اس گفتگو کو خاصی طوالت دیتے کہ اس وقت تک کی زندگی میں اگر ہماری کھٹی کمائی کُچھ تھی تو یہی تھی لیکن اپنے ذاتی تعارف کی تفصیل کا یہ وقت نہ تھا اور اگر وقت تھا تو یہ کہ رات کو پکایا کیا جائے گا جو اس لمحے اگرچہ ہمارا دردِ سر نہ تھا لیکن ماسٹر صاحب نے ادھر کا رُخ کیا تو احتراماً ہماری رائے بھی طلب کر لی چنانچہ ہم کہ تین چار ماہ سے ’’نکّالَون‘‘ یعنی کڑھی وغیرہ کھانے کے بالہدایت پابند تھے فرمائش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور فرمائش کی بھی تو سونف، اجوائن کی کڑھی کی جسے انہوں نے اپنے معمولات اور طبیعت کے عین موافق پایا اور متروکہ کانجی ہاؤس اور موجودہ استاد خانہ کے دوسرے کمرے میں گھُس گئے۔ اس لئے کہ ہماری فرمائش پوری کرنے کے لئے انہیں جس خشک رسد کی ضرورت تھی غالباً وہ رسد انہوں نے پہلے ہی سے وافر مقدار میں اپنے ہاں سٹاک کر رکھی تھی۔ ہم نے دوسرے کمرے میں جھانکا تو مکان اور مکین کو ایک جیسا پایا کہ کمرے کی چھت اور ہمارے میزبان کی قامت دونوں میں بہت کُچھ مشابہ نظر آیا جسے ضمیر جعفری کی زبان میں یوں بھی کہہ لیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو۔
جو چیز چاہیے تھی جہاں پر۔ ۔ ۔ ۔ وہیں نہیں
چھت بے تکلفی میں ‘کہیں ہے ‘ کہیں نہیں
٭٭٭
باب: ملازمت کی سہاگ رات
کانجی ہاؤس کے دونوں یونٹ (ہماری مراد اس کے اجزائے ترکیبی سے ہے ) ایک ایک ذی نفس سے آباد تھے۔ ایک کمرے میں ہم تھے اور دوسرے میں ہمارے ہم ذوق اور میزبان ماسٹر صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ماسٹر صاحب کے کمرے سے تو پھر کسی وقت پھنکارنے، کبھی کھنگارنے ( یعنی کھا نسنے اور دھواں نگلنے اگلنے ) اور گاہ گاہ زیرِ لب گنگنانے یا بڑبڑانے کی صدا اُبھرتی مگر ہم کہ تازہ تازہ اسیرِ کانجی ہاؤس ہوئے تھے اپنے ماضی و مستقبل کو اپنے کندھوں پہ بٹھائے اپنی اسیری کی پہلے دن کی تلخی اور ساتھ کے کمرے سے رات کی رانی کی طرح پھیلے ہوئے گیلی لکڑیوں کے گیلے دھوئیں کی کڑواہٹ میں سرتاپا غرق اس امر کے منتظر تھے کہ کب ماسٹر صاحب اپنے فرائض غیر منصبی سے فارغ ہوں اور کب بقولِ عدم اس مرگ آسا مصیبت سے نجات ملے۔
کوئی پھول چٹکا ؤ، کوئی جام کھنکاؤ
مستقل خموشی تو موت کی علامت ہے
لیکن جس طرح دیہاتوں میں بچے کی پیدائش کے وقت دایہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زچہ کے کمرے میں گھس کر ایک طرح سے اس کمرے کی الاٹمنٹ کی بجائے اس کا کلیم داخل کرا بیٹھتی ہے اور باہر والے کان لگائے لمحے لمحے کے دل کی دھڑکن سنا کرتے ہیں کُچھ ایسا ہی رشتہ اس سمے ہمارے اور ماسٹر صاحب کے درمیان استوار تھا دونوں کمروں کا وسطی دروازہ کسی نوبیاہتا دلہن کے ہونٹوں کی طرح بھنچا ہوا تھا شاید اس لئے کہ ماسٹر صاحب اپنی یکسوئی میں کسی قسم کی مداخلت کے متحمل نہ تھے البتہ جس طرح پہلے مذکور ہے ہمارے ساتھ ان کا نشریاتی رابطہ برابر بحال تھا یعنی گیلی لکڑیوں اور اُپلوں کا لیس دار دھواں بڑی روانی سے ہم تک پہنچ رہا تھا جو اِس بات کی علامت تھا کہ ماسٹر صاحب ہنوز فرائضِ میزبانی سے فارغ نہیں ہیں لیکن جب پورے دو گھنٹے گزرنے کو آئے تو ماسٹر صاحب نے اچانک اپنی کامیابی پر بلغمی مزاج کا ایک زوردار کھنگورا داغا اور کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے اپنے اطاق سے جوب بہ یک وقت کچن، سٹور روم، غسل خانہ اور جانے اور کیا کیا کُچھ تھا برا آمد ہوئے اور چھوٹتے ہی کہنے لگے ’’اب ذرا تھوڑی سی آکسیجن نہ کھا لی جائے۔ ‘‘
ہم نے اُن کے اِس طبی اور سائنسی جملے کا مفہوم کسی بھی بد حواس آدمی کی طرح یہی لیا کہ ماسٹر صاحب غالباً سیر کی فرمائش کر رہے ہیں۔ جو ازروئے اتفاق صد فیصد دُرست نکلا (ورنہ آکسیجن کا نام وہ اپنی شیریں سخنی کو بھی دے سکتے تھے )ہم نے ان کی فرمائش بہ دل و جان پھیپھڑوں کی حد تک قبول کی اور آکسیجن کھانے چل نکلے۔
کانجی ہاؤس سے نکلے تو ہم پر سراسر اُسی احساسِ نجات کے ترشح کا غلبہ تھا جو کسی بھی ذی نفس کو کسی ایسی جگہ سے نکلنے پر ہونا چاہئے لیکن ہماری نسبت یہ احساس ماسٹر صاحب پر کُچھ زیادہ ہی غالب نظر آیا۔ گاؤں کے جوار ہی میں ایک طول طویل کھُدر تھی۔ ماسٹر صاحب آکسیجن کے اس خوان کو سامنے پا کر کُچھ اس طرح مچلے کہ انہوں نے تو جیسے نوخیز بچھڑوں کو بھی مات کر ڈالا بلکہ دوڑتے کودتے پھلانگتے ہمیں کُچھ اس طرح گھسیٹنے لگے جیسے وہ سچ مچ کے غزال تھے اور ہم ایک تھکے ماندے بکروٹے جنہیں ان کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا یہ تو اچھا ہوا کہ غروبِ آفتاب کا وقت قریب تھا ورنہ خدا جانے وہ اس ادائے غزالی کی اور کیا کیا باریکیاں ہمیں سمجھاتے۔
سیر سے لوٹے تو ماسٹر صاحب کے اعصاب میں اگر چہ ٹھہراؤ تھا لیکن زبان کی رفتار میں وہی برق رفتاری جو سیر کو جاتے ہوئے اُن کی ٹانگوں میں یکایک عود کر آئی تھی۔ حاصلِ کلام یہ کہ وہ ہمیں راستہ بھر نکاح کے کلموں کی طرح یہی بات رٹاتے آئے کہ ہماری صحت کی خرابی کا اصل باعث بہر صورت ہماری تساہل پسندی ہے۔ جسے انہوں نے پہلی ہی نظر میں بھانپ لیا تھا اور جسے وہ چند ہی ایّام میں دور کر دینا چاہتے تھے اس دوران ہماری زبان پر ایک سوال آتے آتے جانے کیوں رُک رُک جاتا رہا کہ اگر ہماری خرابیِ صحت کا باعث ہماری سہل انگاری ہے تو آپ کے چہرے کا خاکستری پن کس کج ادائی کا کرشمہ ہے اور اچھا ہوا کہ ہم نے یہ سوال ان سے نہ ہی کیا ورنہ اُن کی تند خوئی اور تنک مزاجی کی جو جو خبریں ہمیں بعد میں ملیں وہ اگر صحیح تھیں تو ہم نے اپنی ملازمت کی سہاگ رات کانجی ہاؤس کی بجائے یقیناً کسی مسجد میں بسر ان کرنی تھی اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس لیے کہ ہم نے تھوڑی دوراندیشی سے کام لے لیا۔
کھُدروں سے ہو کر کانجی ہاؤس پہنچے تو ماسٹر صاحب کی اشتہا جس قدر چمک اُٹھی تھی کھانے کے بارے میں ہمارے عزائم اسی قدر پست ہو چکے تھے کانجی ہاؤس کے صحن میں داخل ہوئے تو اندھیرے کی مسیں بھیگ رہی تھیں کمروں کے قریب پہنچے تو ماسٹر صاحب کا ایک سعاد مند شاگرد اپنی بغل میں چپاتیاں دبائے کانجی ہاؤس کے گوشے میں درود شریف پڑھتا دکھائی دیا۔ جس کے فرائض میں نہ صرف روٹیاں لانا بلکہ ہمارے بستر بچھانا، ہمارے ہاتھ دھلانا، ہمیں کھانا کھلانا اور برتن وغیرہ دھونا جیسے سارے مراحل بہ یک وقت شامل تھے ہم نے اس طفلک کی جانِ ناتواں پر یہ بارِ گراں دیکھا تو ماسٹرصاحب سے اس زیادتی پر زیر لب احتجاج بھی کیا جس کا مختصر اور جامع جواب انہوں نے نہایت استغناء سے وہی دیا جب مدّتوں سے رائج ہے۔ یعنی یہ کہ
ہر کہ خدمت کراُو مخدوم شُد
ظاہر ہے اُن کے اس متحیّرانہ جواب پر ہمیں بہر حال خاموش ہو جانا چاہئے تھا۔ سو ہم ہو گئے جہاں تک کڑھی کی پُخت و خورش کا تعلق تھا اس کے جملہ حقوق ماسٹر صاحب ہی کے نام جانیے، اس لئے کہ چھٹانک بھر سونف اور چھٹانک بھرا جوائن میں دو سیر پانی پورے یکصدوبست منٹ تک ایک خاص احساسِ ریاضت سے اُبالا گیا تھا جس کے اوپر تلافیِ مافات کے طور پر گھی کی ایک ہلکی سی تہہ بھی جما دی گئی تھی ہمارے لئے مہینے بھر کا یہ راشن ایک ہی شام ختم کرنا بالفعل ناممکن تھا، لہذا یہ کار مرداں ہم نے انہیں ہی سونپا اور شیرینیِ کام و دہن ( جسے عرفِ عام میں لعابِ دہن اور سلیواSaliva وغیرہ بھی کہتے ہیں ) کی مدد سے ایک آدھ چپاتی نوشِ جان کر ڈالی پہلے سے بچھے ہوئے بستر پر دراز ہو کر کچی پکی نیند کے مزے لینے لگے اور بقول ریاض خیرآبادی’ جوں توں کر کے‘ آنے والی صبح کی دہلیز تک پہنچ گئے۔
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
٭٭٭
باب: گربہ کشتن روز اوّل
اگلا دن ہماری تنخواہ داری کا دوسرا لیکن بالعمل ملازمت کا پہلا دن تھا سکول پہنچے تو جیسے ہمیں اپنے سکول کا زمانہ یاد آ گیا (جسے گزرے ابھی بہ مشکل دو اڑھائی برس ہی ہوئے تھے ) چنانچہ تمام تر احتیاط کے باوجود بار بار جی یہی چاہتا کہ چپکے سے اساتذہ کی ٹُکڑی سے نکل کر طلبا کے جمِ غفیر میں ضم ہو جائیں لیکن اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا تھا کہ ہم بغیر ظاہری علاماتِ بزرگی کے (ہماری مراد یقیناً داڑھی مونچھوں وغیرہ سے ہے ) باقاعدہ استاد قرار دئے جا چکے تھے، چنانچہ اس طفلانہ احساس پر پہلے ہی روز قابو پانے کی بھرپور اور کسی قدر کامیاب کوشش کے بعد رجسٹر معلمین میں اپنے نام کے اندراج پر ہی مکتفی ہو بیٹھے۔
رئیس مکتب سے ہماری پہلی ملاقات بھی اُسی روز ہوئی اور موصوف نے ہمیں دیکھتے ہی ہم سے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا۔
’’آپ آ گئے ! کس گَیل آئے ؟‘‘
ہم آتو گئے تھے لیکن آئے کس ’’ گَیل‘‘ تھے جملے کے اس حصے کا جواب ایک بچگانہ مسکراہٹ کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ تھا جس کا مختصر جواب ہمیں وقتی طور پر وہی سوجھا جو کسی بھی غیر حاضر دماغ فرد کو سوجھنا چاہیے یعنی یہی کہ ’’اپنے نصیبوں کے ہمراہ‘‘
ہمیں ہمارا ٹائم ٹیبل ملا جو ایک لحاظ سے سکول بھر کا نصف ٹائم ٹیبل تھا کہ سکول بھر میں دو ہی انگریزی ماسٹر تھے، ایک ہم اور ایک وہ جو ہم سے پہلے اس راجدھانی میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے اپنا ٹائم ٹیبل سنبھالا اور یکے بعد دیگرے گھنٹی کے بجنے کے ساتھ ساتھ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کمرے میں بلا توقف گھُستے چلے گئے۔ لیکن ابھی ہم نے تیسرے کمرے میں قدم ہی ٹکایا ہو گا کہ یکایک رئیسِ مدرسہ کے کمرے میں ایک دھماکہ ہوا۔ یہ دھماکہ آج کے بعض دھماکوں سے تو قطعی مختلف تھا کہ اس سے متاثر ہونے والی کوئی عمارت یا کسی جلسے کے متعدد افراد نہ تھے، بلکہ صرف دو اشخاص تھے۔ ایک رئیسِ مدرسہ خود اور دوسرے ہمارے زیادہ سگے رفیقِ کار، یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر صاحب اور وہ دھماکہ اُن گرما گرم الفاظ کا گرما گرم تبادلہ تھا۔ جو ان دونوں حضرات کے درمیان ہو رہا تھا، اس دھماکے کو پہلے تو ہم نے اپنے حق میں استقبالیہ دھماکہ گردانا اور یہی خیال کیا کہ رئیسِ مدرسہ’گُربہ کشتن روز اوّل‘ کا بالقصد ریہرسل فرما رہے ہیں لیکن اگلا دن طلوع ہوا تو سکول بھر کی فضا ایک سنسنی سے دوچار تھی اور سنسنی اس امر سے پیدا ہوئی تھی کہ رئیسِ مدرسہ نے انگریزی ماسٹر صاحب سے پچھلے روز کی تکرار سے پیدا شدہ تکان اتارنے کے لئے نہ صرف یہ کہ درخواست رخصت ارسال کی بلکہ استادیِعُظمیٰ ہی کو اپنی ذات سے نوچ پھینکا یعنی اپنا استعفیٰ بھجوا دیا جسے منطقی طور پر تو متعلقہ حکامِ بالا تک بھجوا دیا جانا چاہتے تھے لیکن سٹاف کے کچھ بزرگ اور صاحبِ اولاد اساتذہ نے کچھ دیر تک سر جوڑے رکھنے کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ کچھ حضرات پر مشتمل ایک وفد ہیڈماسٹر صاحب کے پاس جائے اور انہیں اِس انتہائی اقدام سے باز رہنے کی استدعا کرے۔
یوں تو اس وفد کو سکول کے ابتدائی اوقات ہی میں اپنے مشن پر رخصت ہو جانا چاہئے تھا لیکن یہ وفد بہ ہزار دِقّت، عین بارہ بجے سکول سے روانہ ہوا جس کا اصل سبب اب تک آپ کی سمجھ میں آ جانا چاہئے …… کہ اس وفد میں ان صاحب کا ہونا از بس لازم تھا جن کی نادانی یا نوجوانی کے باعث یہ ساری بدمزگی پیدا ہوئی تھی اور یہ صاحب وہی ناعاقبت اندیش نوجوان تھے جنہوں نے اپنے افسرِ مجاز کے سامنے لب کشائی جیسے جُرم کا ارتکاب کیا تھا اور اب اس وفد کی تیاری کا انحصار ان ہی صاحب کے پچھلے روز کا غصہ تھوک دینے پر تھا، جو انہوں نے اپنے تمام تر زورِ شباب کے باوجود بالآخر برادری کی دوچار گھنٹوں کی تکرار کے بعد تھوک ہی دیا۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے مزہ نہ ہوا
وفد اپنے مشن پر نکلا تو ہم تو جیسے سحرزدہ سے ہو گئے لیکن اِدھر اُدھر سے کافی دیر کے رُکے ہوئے قہقہے بلند ہوتے دیکھ کر ہمیں کچھ تسلی بھی ہونے لگی کہ ہو نہ ہو یہ اونٹ اسی کروٹ بیٹھتا آ رہا ہو گا چنانچہ استفسار پر بھی کھُلا یہی کہ اس طرح کے واقعات ادارہ ہٰذا میں آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لہٰذا اس پر متعجب ہونے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔
روٹھے پِیا تو من کر آ گئے، لیکن ہمارا اپنا منوا کچھ کچھ گڑبڑانے لگا اور ہمہ دم خیال یہی رہنے لگا کہ اگر انہی سربراہِ ادارہ کے ساتھ گزر بسر کرنی ہے تو ملازمت کے جملہ آدابِ کورنش کو ہم غٹاغٹ کیسے نوشِ جان کر سکیں گے لیکن ہوا یہ کہ… حضرت کچھ کچھ ہم مذاق نکلے یعنی ایک جانب جہاں وہ اپنی پہلوانانہ کسرتوں کے باعث دیہہ بھر میں مشہور تھے وہاں دوسری جانب اندر سے اُسی قدر ملائم اور گداز ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے تھے جس کا ایک ثبوت تو انگریزی ماسٹر صاحب سے تکرار کے باعث ان کا ادارہ بھر سے روٹھ جانے کے بعد فوراً ’’من‘‘ جانا تھا، دوسرا ثبوت یہ سامنے آیا کہ خیر سے فنِ شعر گوئی سے بُری طرح وابستہ نکلے۔ اگرچہ ایسا تو کم ہی ہوا کہ خلافِ روایت ایک ’’باس‘‘ اپنے ادنیٰ ماتحت کو اپنی تخلیقات سے نوازتا لیکن یہ فرمائش گاہ گاہ ضرور ہوتی رہی کہ ہم انہیں اپنا کلام سنائیں بلکہ اگر ہو سکے تو کسی طشتری میں رکھ کر پیش کریں لیکن اس طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ اس لئے نہ ہونے پایا کہ ہمیں اردو شاعری سے گو برابر کی نسبت تھی لیکن زیادہ واویلا ہم نے اپنی پنجابی شاعری ہی کا کر رکھا تھا اور پنجابی زبان سے اُنہیں کداِس لئے تھی کہ ان کا جملہ ماتحت عملہ اگر کسی اعتبار سے اہلِ زبان ہو سکتا تھا تو وہ اِسی ایک زبان میں تھا۔ ہر چند موصوف بھی لکھنو یا دلی کی دھُلی دھُلائی اردو سے پیدائشی محروم تھے کہ انبالہ کایا کرنال کا جم پل تھے، تاہم اپنی اردوئے معلیٰ کو پنجابی زبان پر دن میں درجنوں بار ترجیح دیتے نظر آتے اور یہی حسنِ اتفاق ہمارے حق میں باعثِ رحمت ثابت ہوا کہ ہم بحیثیت شاعر اگرچہ ان کے دل کے قریب رہے لیکن ہمارا فن کسی بھی طرح ان پر کھلنے نہ پایا ورنہ یہ بات حدِ امکان کے عین اندر تھی کہ اِس میدان میں ان کا اور ہمارا بھی چھوٹا موٹا دنگل ضرور ہو جاتا بلکہ خدا کا شکر ہے کہ ایک بار بہت بعد میں ہوتے ہوتے رہ گیا جس کا ذکر اگر ضروری ہوا تو آئندہ کیا جائے گا۔
٭٭٭
باب: پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
کچھ دن کانجی ہاؤس میں بالفعل بند رہنے اور کڑھی جیسے چارہ نما سالن سے سیر ہو چکنے کے بعد ہمارے دل میں قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے جیسا احساس پیدا ہوا تو ہم نے اپنے ساتھی سے بالا بالا مکان کی تلاش شروع کر دی جس کے ابتدائی مراحل ہی میں ہمیں ایک بہت بڑی حویلی دکھائی دی جس کے بلند و بالا بیرونی دروازے سے صاف ظاہر تھا کہ ہو نہ ہو مکان کسی شتربان نے بنوایا ہو گا۔ جو حالات کی ستم ظریفی کے سبب خالی پڑا ہے لیکن ہمارا یہ واہمہ محض کانجی ہاؤس میں بند رہنے کے سبب تھا کہ اب جس عمارت پر بھی نظر پڑتی، ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا نظر آتا۔ یعنی اس پر جانوروں کی سکونت کا شک گزرتا۔ ورنہ وہ مکان جسے ہم نے دریافت کیا تھا کسی مذہبی گھرانے کا ٹھکانہ بلکہ آستانہ تھا، جو مدّتِ مدید سے گاؤں چھوڑ کر تلاشِ روزگار میں کہیں دور جا کر مقیم ہو چکے تھے۔ لیکن جب مکان کے ظواہر سے ہٹ کر اس کے اندر جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ مکان کلیتہً خالی نہیں بلکہ جزوی طور پر کرائے پر بھی چڑھا ہوا ہے۔ اور یہ کہ مکان کے ایک حصے میں گاؤں کاپوسٹ مین ماضی کی سہانی یادوں اور’ اَن ڈِیلیورڈ‘ ڈاک سمیتیکا و تنہا رہ رہا ہے اور یہ کہ ہمیں اگر مکان کی جستجو ہے تو موصوف کو ایک عدد ساتھی یا سامع (یہ بات ہم پر بعد میں کھلی) درکار ہے جو اُن کی خاموشیوں اور کرائے کے پیسوں ہر دو میں تخفیف کا سبب بن سکے۔
یہ معلومات حاصل کر چکنے کے بعد دوسرے ہی دن جب موصوف اپنی بِیٹ پر سکول میں تشریف لائے تو ہم نے انہیں تخلیے میں لے جا کر اپنے دل کے مدعا سے بالاہتمام آگاہ کیا جسے انہوں نے کسی مطلقہ عورت کو دعوتِ نکاح کے مترادف جانا۔ یعنی بقولِ غالب
آنکھ کی تصویر سرنامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جائے کہ اس کو حسرت دیدار ہے
اور ہمیں اسی شام بغیر کسی تاخیر کے انتقالِ مکانی کا مژدہ سنا کر چل دئیے اور ہم اُسی شام اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ جسے درمیان میں پڑنے والے ایک اتوار کو ہم اپنے گھرسے اٹھا لائے تھے پوسٹ مین مذکورہ کی حویلی میں منتقل ہو گئے۔
موصوف…… رنگ اور ہٹ کے سخت پکے تھے اور باتوں کی یک طرفہ ٹریفک کے تہِ دل سے قائل کہ جب کبھی (بلکہ ہمہ وقتی کہیے) اپنی ہانکنے پر آتے تو کسی مشّاق مبلّغ کا لاؤڈ سپیکر ہی کیوں نہ ان کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ مجال ہے جو ان کی آواز پر غالب آ سکتا۔ ان کی آواز کی پاٹداری اور معاملاتِ این او آں میں اُن کی ہٹ دھرمی اگرچہ ہمارے لئے اس امر کا ایک کھُلا چیلنج تھا کہ اگر ہم اُن کے ساتھ رہے تو ہمارے اعصاب کا بچا کھچارس بھی یقیناً نچڑ جائے گا۔ لیکن ہمارے سامنے مسئلہ اُس وقت انتخاب کا نہ تھا بلکہ اجتناب کا تھا یعنی کانجی ہاؤس سے اجتناب کا اسی لئے تو ہم نے عواقب کی پرواہ کئے بغیر اُن کی دعوت قبول کر لی۔
موصوف کا تعلق یو پی کے کسی علاقے سے تھا اور اُن کی تنہائی کا عالم کچھ یُوں تھا کہ خُدا بھی…شاید ہیاِس قدر تنہا ہو اگرچہ راولپنڈی میں اپنے بال بچے کی موجودگی کا ذکر انہوں نے پہلے ہی روز ہم سے کیا۔ لیکن بعد کے شواہدات سے ان کے اِس دعوے کا کوئی ثبوت ہم پر کھلنے نہ پایا اور ہمیں اس سے غرض بھی کیا تھی کہ ہماری غرض تو اپنے وسائل کے اندر رہ کر ایک جائے پناہ حاصل کرنے تک تھی جس پر وہ حضرت ہمیں جھونگے میں مل گئے تھے۔
کانجی ہاؤس سے نکلے تو باقاعدہ طور پر انسانوں کے لئے تعمیر شدہ مکان میں پہلی رات کانجی ہاؤس کی پہلی رات سے بھی سو ادلچسپ ٹھہری اس لئے کہ ہمارے ہم شب نے ہانڈی چولہے پر چڑھا دی۔ توہم بھی ازروئے اعانت ان کے قریب جا بیٹھے اور مٹر کی پھلیوں کو نا قبول بے رنگ لفافوں کی طرح کھولنے لگے، اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف نے ایک ایک کر کے پچاس سرخ مرچیں اپنی فطری خشک انگلیوں سے الگ کیں انہیں کسی خوردہ فروش کی دن بھر کی کمائی کی طرح ایک بار پھر گنا اور ایک حَجری ہاون میں ڈال کر کچھا س طرح رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے پرانے وقتوں کے کفش دوز چمڑے کوسِ دھایا کرتے تھے ہم نے پہلے تو سوچا کہ سردیوں کا موسم ہے اور موصوف ہفتے بھرکا مصالحہ ایک ہی بار رگڑ لینا چاہتے ہیں جب پلیٹ بھر مٹروں میں انہوں نے ہفتہ بھر کا یہ اضافی راشن یکسرانڈیل دینا چاہا تو ہماری زبان اس ہیبت ناک بلکہ عبرت ناک منظر ہی سے سُرسُر کرنے لگی، وضعِ مہمانی مانع تھی۔ لہٰذا ہم نے ان سے اس باب میں کوئی استفسار نہ کیا ویسے اندر سے ہماری حالت بقول فراز کچھ ایسی ہی تھی۔
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
اور سچ پوچھیں تو بہت برا کیا کہ آئندہ رات کی عاقبت ہم نے اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر ڈالی۔ شام ہوئی تو موصوف محلے کے تنور پر گئے اور اکٹھی دس بارہ چپاتیاں لے کر پلٹے، کھری زمین پر خوانِ نعمت چنا اور ہمیں شریکِ مائدہ کر کے اگلے دن کے لئے نمو یابی کے شغل میں جُٹ گئے۔ ’’ہم نے …… کہ مدتوں نِکالَون کھاتے رہنے کے بعد ’’وڈآلَون‘‘ کھانے کا شرف پہلی بار حاصل کر رہے تھے پہلا نوالہ ہی زبان پر رکھا تو یوں لگا جیسے ہمارا جبڑا بھولُو برادران میں سے کسی ایک کی زد میں ہے یکبارگی خدا یاد آیا لیکن اس سمے خدا کا بالفعل ہماری مدد کو پہنچنا بعید ازقیاس تھا کہ میزبان اپنی ڈوئی سمیت خوانِ نعمت کے رِنگ کے ہر نوالے پر ہمیں للکار رہے تھے۔
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
سو جو کچھ ہمارے حصہ میں آ چکا تھا اسے طوعاً و کرہاً بوجوہ زیر حلقوم کرنا پڑا، اور ……
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اس غیر متوقع حادثے سے ہمارے تن بدن کے جو جو حصے فوری طور پر متاثر ہوئے وہ تعداد میں چار تھے یعنی ناک زبان کان اور معدہ ناک کہ گزرگاہِ خشک و تر تھی ایک انجانے سیلاب کا مرجع دکھائی دے رہی تھی، کان قوّتِ سماعت کو یکبارگی اگل دینے پر تُلے ہوئے تھے، زبان کو جیسے بچپن کی ساری چغلیوں کا خمیازہ درپیش تھا کچھ اس طرح کلبلا رہی تھی جیسے کوئی سانپ چھڑی کی نوک تلے دب کر کسی منچلے کے ہتھے چڑھ گیا ہو اور مسلسل پھنکا رہا ہو اور معدے بیچارے کا یہ عالم کہ جیسے گرم تنور میں کوئی پانی کے چھینٹے دے رہا اور یہ چھینٹے اُس تازہ ہوا کے تھے جو خدا جانے ناک سے کن حالات میں ہمارے پھیپھڑوں اور ہمارے معدے کی راہ پا رہی تھی ان غیر مرئی زخموں کی تاب نہ لا کر ہم نے اُس شبِ سیاہ کی سحر کیسے کی۔ اس کا کچھ ادراک انہیں ہو تو ہو ہمیں رات بھر اس امر کی سدھ نہ تھی۔
ہم نے جوں توں کر کے اس رات کی سحرتو کر لی لیکن آنے والی شام بھی۔ ۔ ۔ اگر اتنی ہی سہانی تھی جتنی کہ شامِ گذشتہ تو ہمارے باقی ماندہ دَلدّر از خود ہی دھل جانے کو تھے اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اگر فتورِ اعصاب کا روگ سہیڑنے میں ہمیں اتنے برس لگے تھے تو یہ فتور ایک یا دو شاموں کے بیچوں بیچ ہی ہم سے یکایک بچھڑ جاتا۔ اور جاتی دفعہ دروازے کی کنڈی تک بھی نہ ہلانے پاتا۔ چنانچہ ہم نے نئے مکان میں اپنے قیام کی بقا کا ایک ہی حل تلاش کیا اور وہ تھا چُلھے چوکے کی حد تک اپنے ہم اطاق سے علیٰحدگی سو اُس ون یونٹ کے ٹوٹنے کے فوراً بعد اگلی شام ہم اپنے نو خریدہ سازورخت کے ساتھ بکفچۂ خویش ہانڈی پکانے میں سرتاپا غرق تھے۔ اور پھر اسی طرح جانے کتنی شامیں یونہی غرق رہے۔
ہم جس مکان سے اپنی ہم نفسی کا رشتہ جوڑ چکے تھے اس کا ایک جڑواں بھائی اور بھی تھا، اندر کا حال تو خدا ہی کو معلوم تھا لیکن باہر کے دروازے جو بہرحال دونوں مکانوں کے چہرے مہرے تھے ایک دوسرے سے اتنے مشابہ تھے کہ اتنی مشابہت بعد میں ہمیں اپنے احباب اصغر نیازی اور اجمل نیازی میں بھی نظر نہ آئی جن سے ابتدائی تعارف کے دوران ہم ایک بھائی کے حصے کی گفتگو دوسرے سے اور دوسرے کے حصے کی گفتگو پہلے بھائی سے کرتے ہُوئے اکثر ٹوک دئے جاتے رہے۔
ایک دِ ن دوپہر کو خدا جانے ہمیں کیا سوجھی۔ سکول سے چھٹی تھی اور گھر میں بیٹھے بیٹھے جی اکتانے سا لگا تو ہم نے بیرونِ دیہہ ملحقہ کھُدر کا رُخ کیا، وہاں پہنچے تو ہُو حق کے عالم میں فاختاؤں کے نغموں اور پھُلاہیوں کی دَرُشت شاخوں سے گزرتی نرم ہوا کی شاں شاں سے کچھ ایسے سیرگوش ہوئے کہ ہماری تخلیقی حس کئی دنوں تک نمک مرچ کے ذائقوں میں ملوث رہنے کے بعد جیسے ’’اچن اچان‘‘ بیدار ہو گئی اور اُس نے ہمیں کچھ اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ہم گھر لوٹے تو اپنی تخلیق کا سحر پوری طرح ہمیں اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھا اور اس سحر نے اپنا کرشمہ یوں دکھایا کہ جس کمرے میں دو چارپائیاں اور ایک ایک بستر بچھا تھا اور باقی کمرہ بھوکے ہاتھی کے معدے کی طرح ابوالہول بنا رہتا تھا۔ وہاں چار پانچ چارپائیاں بڑے سلیقے اور قرینے سے بچھی دیکھیں ، سامنے کی دیوار کوری بُسی ہونے کی بجائے رنگارنگ رکابیوں ، ٹریؤں ، موتیوں کی لڑیوں اور آویزاں کاغذی گلدستوں سے سجی ہوئی تھی۔ کمرے کا فرش جسے تازہ مٹی سے لیپا پوچا گیا تھا، …بھینی بھینی مہک سے دُکانِ عطار کو بھی مات کر رہا تھا اور ہم نے کہ عالمِ خواب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تخلیقِ شعر کی کیفیت میں سراسرمحوتھے اُس کمرے کے حسن و زیبائش کو بھی اسی عالم کا ایک حصہ تصور کیا اور بڑے استغراق سے ایک چارپائی پر نیم دراز ہو کر اپنی نووارد غزل کے اُن اشعار کو پچکارنا شروع کر دیا جو ابھی معرض وجود میں نہیں آ پائے تھے۔ لیکن یکایک کمرے کا دروازہ، روزنِ فردوس کی صورت اختیار کرنے لگا۔ سمندر سے اُٹھنے والی بے قابو لہر تھی یا کسی دائرے میں کھِلے پھولوں کے درمیان سے خوشبو کا اٹھتا ہوا ہُلہ، کہکشاں سمٹ کر زمین پر اُتر آئی تھی یا موسمِ بہار کی رانی قبل از وقت عالمِ خواب سے عالمِ بیداری میں ہمارے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ ہماری نگاہ میں یہ سارے منظر ایک ہی لمحے، ایک ہی پیکر کی صورت میں لہرا گئے اور جب ہم نے
کھول آنکھ، زمیں دیکھ فلک دیکھ، فضا دیکھ
کو اپنے اوپر منطبق کیا تو منظر کچھ اور ہی تھا۔ ہمارے کانوں میں ایک غزالِ رعنا کی شیرینیِ آواز خدا جانے کس قبیل کا رس گھول رہی تھی۔
’’ماسٹر جی! خیریت تو ہے، یہاں سے چلتے بنیے اس لئے کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ گھر والی تنور پہ گئی ہے اور بس آتی ہی ہو گی، چلیے چلیے اٹھیے اور ہاں ! یاد رکھیے آپ کا دل ایسا ہی بے قابو ہے تو اسے کچھ آداب بھی سکھائیے۔‘‘
اُس صنفِ مخالف کا سلسلۂ کلام جاری تھی لیکن ہمیں تو ایک انجانے خوف نے جیسے سوڈے کی بوتل کے کارک کی طرح اس خواب ناک ماحول سے دھول اڑاتی گلی کے حلق میں دے مارا، اور جب حواس کچھ بجا ہوئے تو ہمارے مکان کا نکھٹو دروازہ…… ہمیں اسی دروازے کے پہلو سے پھوٹتا دکھائی دیا جس میں ہم یُوں سما گئے تھے جیسے کوئی بیج کھیت کی خاک کا لقمہ بن جاتا ہے۔
غالب نے جو کچھ کہا شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا۔
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
٭٭٭
باب: کوّا چال سے انگریزی زبان کی منافقت تک
تخلیقِ شعر میں استغراق تو اپنی جگہ تھا سو تھا اور اس کے بعض منفی نتائج بھگتنے کی سکت بھی اُس وقت ہم میں تھی یعنی یہی کہ اپنے ارادوں میں کوئی فتور نہ تھا۔ لہٰذا۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟۔ ۔ ۔ ۔
سَو الزاموں کا ایک جواب تھا… لیکن ہمارے اعصاب میں خود طعامی کے باعث (جسے چھڑے لوگ اپنی زبان میں دست خود ‘دہان خود کے گلچھڑے بھی کہتے ہیں )جو تازگی اور شادابی رفتہ رفتہ آنے لگی تھی ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ طراوت ہمارے ہم اطاق کی بلند بانگی، طول گفتاری اور کج کلامی کی نذر ہو جاتی اس لئے کہ موصوف نہ صرف یہ کہ پچاس مرچوں کی ترکاری روزانہ زیرِ حلقوم کرتے بلکہ اگلی صبح سے شام تک اپنے نطق و لب کے ذریعے اپنی اس نرالی خوراک کا مزہ دوسروں کو بھی چکھاتے۔ جن میں از راہ خوش نصیبی ہم سرِ فہرست تھے چنانچہ ہمیں یہ ہم نفسی کچھ زیادہ عرصے کے لئے راس نہ آئی۔
قبل اس سے کہ ہم اپنے مزید سکونتی دکھوں کا پٹارا کھولیں ، آئیے آپ کو ان در و دیوار تک لے چلیں جن کے درمیان ہمارے ماہانہ رزق کی کھیتی اُگا کرتی تھی اور جو اپنے اندر کام و دہن کی شیرینیوں کے علاوہ محرکاتِ فکر و خیال بھی رکھتے تھے، سربراہِ مدرسہ کہ طبعِ موزون و زبانِ بے قابو رکھتے تھے، ازل ہی سے جیسے چھِدرے پہلوانی جسم اور کھُردرے تیوروں کے بلا شرکتِ غیرے مالک تھے مگر ہر کسی کی شنید یہی تھی کہ اندر سے حریر و پرنیاں ہیں اس لئے کہ حالات و واقعات سے یہی ہویدا تھا کہ اپنے ماتحت عملے پر ان کی پہلی گرفت تو ہمیشہ عقابی ہوتی یعنی سخت مضبوط لیکن جب معاملہ جزا و سزا کا آتا تو یکایک اپنی احتسابی کار روائی سے دست کش ہو جاتے لہٰذا یا تو وہی راہ اپناتے جس کا تذکرہ ہم نے پہلے بھی کیا ہے کہ روٹھ بیٹھتے یہاں تک کہ اپنا استعفے تک بھجوا دیتے یا پھر اپنے شکار کو اپنے قدموں میں لا ڈالتے اور اس کی خطا سے درگزر ہی نہ کرتے اسے سینے سے لگاتے، پیار کرتے بلکہ اس کے اعزاز میں ایک آدھ وقت کی ضیافت کا اہتمام بھی کر ڈالتے لیکن اُن دنوں صورتِ حال یہ تھی کہ اُن کا ہماراساتھ کچھ اس طرح کا تھا جس طرح کا ساتھ غروب آفتاب کے وقت آٹھویں دسویں کے چاند کا سورج سے ہوا کرتا ہے یعنی چاند نظر تو آ رہا ہوتا ہے لیکن غروبِ آفتاب تک اپنی کسی ضیا پاشی سے قاصر ہوتا ہے، مُراد یہ کہ وہ ریٹائر ہونے والے تھے اور ہماری ملازمت کی ابھی ابتدا ہو رہی تھی
تُجھ سے قسمت میں مری صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جُدا ہو جانا
موصوف کہ اندر سے خاصے نرم لیکن باہر سے خاصے گرم تھے کسی حد تک مزاج بھی شمسی رکھتے تھے کہ بادل کا کوئی ٹکڑا سامنے آ گیا تو سرا سر موم ہو گئے مگر جونہی وہ ٹکڑا ہٹا پھر اپنی اصلی تابانی پر اُتر آئے سکول کی آرڈر بُک ان کا عصائے پیری تھا وہ جو بات بھی کرتے بزبانِ قلم کرتے اور اگر صوت کی باری کبھی آ بھی جاتی تو وہ ان ہی حرفوں کی صداقت کو تسلیم کرانے کے موقع پر آتی جو ان کی زبان و قلم سے ٹپک چکے ہوتے اور پھر یوں آتی کہ گرم بھٹی میں جھنکنے والے دانوں کی صدا کاری بھی سننے والے کے ذہن سے محو ہو ہو جاتی لیکن یہ سارا کچھ میدانِ رزم کا قصہ تھا یعنی اوقاتِ درس و تدریس کی درمیانی حدوں تک محدود۔ ورنہ فارغ اوقات میں تو وہ بسا اوقات کچھ ایسی بے تکلفی پر اتر آتے کہ تقاضائے سن کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے۔
ایک دن کا ذکر ہے، کچھ اِسی طرح کے مُوڈ میں جملہ اساتذہ کے درمیان دولہا بنے بیٹھے تھے کہ کسرتِ جسمانی کا ذکر چل نکلا جس پر انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا روایتی پاجامہ گھٹنوں تک چھُنگ لیا آستینیں چڑھا لیں …… اور
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
کا نعرہ لگاتے رانوں پر چٹاک چٹاک ہاتھ بجاتے سکول کے گراؤنڈ میں نکل کھڑے ہوئے اور کّوا چال کا وہ مقابلہ آغاز کیا کہ سارے ہنس اپنی اپنی چال چوکڑی بھول گئے۔
موصوف کی ایجاد کردہ یہ کّوا چال…… پیروں کے بل بیٹھے بیٹھے ایک بہت بڑے دائرے کی شکل میں پیہم جادہ پیمائی پر مشتمل تھی جو شریکِ مقابلہ کی حسبِ استطاعت کئی چکروں کو پورا ہونے پر جا کر ختم ہوتی تھی اور یہ چال انہوں نے کچھ اس طرح کمائی ہوئی تھی کہ انجمنِ مذکور کے جوانانِ طناز تک ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر رہ گئے، احتراماً نہیں بلکہ واقعتاً ہم کہ شریکِ مقابلہ نہ تھے بلکہ ساحل نشیں تھے ان کی اس ادائے رستمانہ سے اندر ہی اندر سمٹتے جا رہے تھے کہ ان کی روایتی سینہ زوری کے اصل پس منظر کا ایک ایک پہلو ہم پر ان کے ایک ایک چکر کے ساتھ کھلتا جا رہا تھا۔ یعنی بقولِ غالب
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں ، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
ہمارا حافظہ موصوف کے دبدبے کا اب بھی شکار نہ ہو تو ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ہم بھی ایک بار اُن کی ایک ذاتی فرمائش کی زد میں آ گئے تھے، یہ مقابلہ فروغِ قوائے جسمانی کا نہیں بلکہ فروغ قوائے ذہنی کے سلسلے کا تھا یعنی وہ ہم سے انگریزی کا قاعدہ پڑھنے پر اتر آئے اس غرض سے نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنا تعلیمی کیرئیر مکمل کرنے کی فکر میں تھے بلکہ اس لئے کہ ان کا اکلوتا فرزندِ ارجمند آمدہ سیشن میں حصہ پرائمری سے حصہ مڈل میں پہنچنے والا تھا جس کی تدریس کا مکمل ذمہ وہ خود ہی لینے پر مصر تھے۔ جی ہاں بقول غالب
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو، ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم نے بکمال انکساری و اماں طلبی اپنے افسرِ مجاز کی اس ناگہانی فرمائش کو بہ سرو چشم قبول کیا اور ڈرتے جھجکتے انہیں ایک ایک حرف مادرانہ شفقت کے ساتھ چُسوانے لگے لیکن موصوف۔ ۔ ۔ کہ مدّتِ مدید سے ریزرو ذہن کے تنہا مالک تھے، ہماری زبان سے بہ تمام نرمی ٹپکنے والے زبانِ غیر کے ہر ہر حرف کو سو سو پہلو سے ٹٹولتے، ہزار انداز سے اس کا جائزہ لیتے تب کہیں اسے اپنے حلق سے نیچے اتارتے ٹی وی پر تعلیمِ بالغاں کا سلسلہ اب شروع ہوا ہے اگر ان دنوں شروع ہوا ہوتا تو جتنی بے نتیجہ محنت ہمیں ادب کے میدان میں اب تک کرنی پڑی ہے اس کی ہمیں ضرورت تک محسوس نہ ہوتی اس لئے کہ اس سمے ہماری استادی اور ان کی شاگردی کے جو جو مناظر مرتب ہوئے اگر ٹیلی وائیز کر لئے گئے ہوتے تو آج ٹی وی کی سکرین ہمارے ان اسباق سے بغیر کسی تردّد کے مزین ہو چکی ہوتی مگر خیر چھوڑئیے اس قصّے کو ہیڈماسٹر صاحب کے اور ہمارے درمیان تعلیم و تعّلم کا یہ سلسلہ چل نکلا تو نہ صرف یہ کہ آگے بڑھنے لگا بلکہ بعض اوقات اِدھر اُدھر بھی پھیل پھیل جانے لگا ا یعنی درمیان میں کچھ مقامات ایسے بھی آ جاتے کہ اگر ہم انہیں نصابی کتاب کا درس دے رہے ہوتے تو وہ ہمیں اپنی تجرباتی کتاب کے صفحات میں محو کر دیتے۔ (فیض سے معذرت کیساتھ)
جن کے ہر اک ورق پہ دل کو نظر
اُن کے جورو جفا کے باب آتے
تاہم ہوا یہ کہ جب انگریزی الفاظ کسی کھوچل، چین کی طرح ان کی زبان کی چرخی پر چڑھنے لگے تو ساتھ ہی ساتھ ان کے سر سے اس شوقِ فزوں کا بھُوت اترنے بھی لگا ہمیں اپنی ہم شیر زبان یعنی پنجابی کے بارے میں وہم تھا کہ اس کے الفاظ جس طرح بولنے میں آتے ہیں لکھنے میں نہیں آتے مثلاً پانی کہانی وغیرہ لیکن جب ہم نے ان کی زبانی یہی کرید زبانوں کی ملکہ انگریزی کے حق میں دیکھی تو ہمارا ان کی مشرق پرستی پر جیسے ایمان سا آنے لگا اور حق تو یہ ہے کہ ان کی یہی والہانہ وابستگی ان کے متذکرہ شوقِ فزوں میں اتار کا باعث بھی ٹھہری۔ اس سلسلے میں ان کا مؤقف یہ تھا کہ اگر انگریزی میں لفظ چیئر (کرسی) …… کے تلفظ میں سی ایچ (CH) … اردو کے حرف ’’چ‘‘ کی آواز دیتا ہے تو لفظ سکول، سکول کیوں ہے ؟ سچول کیوں نہیں ، اسی طرح کے کچھ اعتراضات انہیں اور بھی تھے، مثلاً بی یو ٹی، ’’بَٹ‘‘ ہے تو… پی یو ٹی ’’پُٹ‘‘ کیوں ہے۔ وغیرہ وغیرہ اور انہیں چونکہ حق شناسی کی نسبت اکثر بزرگوں کی طرح حق سرائی کا دعویٰ کچھ زیادہ ہی تھا لہٰذا وہ اپنا دامانِ فہم و ادراک (بقول خود) ایسی منافق زبان کے اکتساب سے تر نہیں کرنا چاہتے تھے جس کا نہ کوئی اصول ہے نہ قاعدہ! نہ دین ہے نہ ایمان،یعنی قدم قدم بلکہ سطر سطر پر دوغلے پن کا شکار ہے چنانچہ یہ سلسلہ تھوڑا ہی عرصہ چلا اور ٹھپ ہو کر رہ گیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کی ملازمت کے دن بھی پورے ہونے کو آ گئے جن کے قریب تر پہنچنے پر انہوں نے ایک بار پھر اپنی استعفیٰ بازی کا کھیل بھی رچایا لیکن غالباً …… وہ دن ان کے اس تپِ محرقہ کے بحران کے دن تھے لہٰذا اس سلسلے کی۔ ۔ ۔ آخری ناز برداری کا لطف سمیٹنے کے کچھ ہی دنوں بعد وہ فطری انداز ہی سے سکول کو خیرباد کہہ گئے۔
٭٭٭
باب: دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
ہر ہفتے دی شامنوں دِسّے منہ اتوار دا
جِنج بِن چٹھیوں ڈاکیہ ہسے پیار جتائے کے
یہ شعر اگرچہ ہم نے بہت بعد میں کہا لیکن اس کے الفاظ اور ہماری سابقہ مذکور جائے رہائش کے تیور آپس میں بہت ملتے جلتے تھے۔ لہٰذا اگر اس شعر کے ناطے آپ کا خیال ہمارے ہم اطاق دوست ڈاکیے کی جانب چلا گیا ہو تو بالکل صحیح سمت کو گیا ہے ہم نے گزشتہ سطور میں جس سکونتی علیٰحدگی کا حوالہ دیا تھا وہ علیٰحدگی بالآخر عمل میں آ گئی یہ نہیں کہ ہمارے وہ دوست مکان چھوڑ کر چلے گئے بلکہ ہمیں نے اپنا آشیانہ سطحِ زمین سے دس بارہ فٹ کی بلندی پر جا تلاش کیا یعنی فرشِ خاکی سے ایک چوبارے میں منتقل ہو گئے۔ جو بازار کے بائیں بازو کی دوکانوں پر کچھ اِس اندازسے تعمیر کیا گیا تھا جیسے سرحدوں پر ’’اوپی‘‘ کی چوکی تعمیر کی جاتی ہے، چوبارہ اپنے جغرافیائی اور سماجی حدود اربعہ کے باعث تو خالصتاً منفرد تھا ہی کہ پھیپھڑوں کے علاوہ قلب و جگر کو بھی تازہ ہوا مہّیا کرنے کے خاصے اسباب اپنے اندر رکھتا تھا لیکن چوبارے تک پہنچنے کے لئے جو سیڑھیاں قطب نمائی کرتی تھیں وہ شادی کے کسی ادارے کے قواعد جیسی تھیں کہ اکثر بھول بھّلیوں میں مبتلا کر دیتیں ، تاہم وہ جو کہتے ہیں۔
ہر گلے را خار باشد ہم نشیں
سیڑھیوں کی پیچیدگی چوبارے تک پہنچنے میں ہمارے لئے کبھی سدّراہ نہ ہو سکی کہ ہمیں تو ایک کشادہ منظر اور صاف ستھری آب و ہوا والے مکان کی جستجو تھی اور یہ خوبیاں موصوف میں بدرجۂ اتم موجود تھیں کہ اگرچہ بقامت کہتر تھا لیکن بقیمت بہتر‘ اس لئے کہ ہماری تنخواہ کے ناپ پر پورا اترتا تھا یعنی اس کا کرایہ نہیں تھا، چوبارہ کی تعمیر میں وہی بنیادی جذبہ کارفرما تھا جس کا ذکر ہم نے پہلے کیا ہے کہ اس سے مقصود بازار بھر کی نگہداری کے فرائض کی بہ طریقِ احسن تکمیل تھی۔ لہٰذا جس دن سے یہ چوبارہ محکمۂ تعلیم کے سپرد ہوا تھا اور یہ وہاں ہمارے منتقل ہونے سے پہلے کا قصّہ ہے، صاحبِ دکان نے (کہ چوبارہ اسی کی دوکان پر بنا تھا) دکان کے چوکیدار کو چھٹی دے رکھی تھی اور چوبارے کے مقیموں کا وہاں رہنا دوکان کے بیمہ کا پیشگی پریمیم تصور ہوتا تھا، اسی لئے کرائے جیسی علّت سے پاک تھا اس کے علاوہ اس کی ایک افادیت اور بھی تھی…… کہ بازار چوبارے کی عین بغل میں پڑتا تھا۔ گویا
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی۔ ۔ ۔ دیکھ لی
جہاں سے نہ صرف دودھ چائے اور لسی جیسے مشروبات منگوائے جا سکتے تھے بلکہ اسی نواح میں ایک دو جزوقتی ہوٹل ایسے بھی تھے جن کے مالکان خاندانی بنیادوں پر اپنے خریداروں کو وقتاً فوقتاً نان نفقہ بھی مہیّا کر دیتے مراد یہ کہ جو ’’مسّا اَلُونا‘‘ گھر میں پکتا… خریدار بھی اس میں شریک ہو جایا کرتے۔
ہم نے وہ چوبارہ اپنی نویکلی رہائش کے لئے نہیں ہتھیایا تھا کہ تنہائی وہ واحد مرحلہ ہے جسے ہم نے سرے سے بعدِ از مرگ مراحل میں شامل رکھا ہے اس لئے کہ
نیند پھر رات بھر نہیں آتی
لہٰذا یہ تیسری خوبی تھی جو اِس خوش اطوار میں پہلے ہی سے پائی جاتی تھی کہ اب کے ہمارا ہم اطاق ساتھی ہر طرح سے ہماری اس دیرینہ خواہش پر پورا اترتا تھا، کہ ہمدم ہو تو ایسا ہو جو نہ صرف ہم رزق بلکہ ہم اوقات بھی ہو کہ گھر لوٹیں تو ایک ساتھ پہنچیں اور کہیں جائیں تو ایک ساتھ ہی رخصت ہوں اور ہمارا یہ مدّعا بہر اعتبار پورا ہو چکا تھا۔
جہاں تک چوبارے کی اپنی نیّت کا تعلق تھا اس نے یوں تو ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جیسا سلوک کسی مشرقی ملک کے عوام اپنے رہنماؤں کے حق میں روا رکھتے ہیں کہ برسوں تک احتساب کی راہ کا نام تک نہیں لیتے تاہم ایک رات اس کا مزاج ضرور بگڑا اور ایسا بگڑا کہ خدا کی پناہ۔
ہوا یوں کہ موسمِ سرما کی ایک رات تھی جسے ردائے ابر نے کسی معصوم بچے کی طرح چاروں جانب سے ڈھانپ رکھا تھا اور قامتِ شب پر بوندیں اتنی تیزی مگر کم جسامتی سے پڑ رہی تھیں جیسے حجام شیو کرنے کے بعد گاہک کے چہرے پر اپنی بوتل کی کمان سے پھوہار چھوڑتا ہے یہ صورت کچھ اسی ایک شب پر حاوی نہ تھی بلکہ پچھلے تین روز سے بادلوں نے جیسے فرمائشی جلوس نکال رکھے تھے البتہ اس رات موسم کی طبیعت کچھ زیادہ ہی رواں نظر آتی تھا یعنی کوئی کوئی بوند چھت پر یوں بھی آن گرتی جیسے کسی بچے کا جھنجنا کسی بڑے کے گھٹنوں سے آن ٹکراتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ جلترنگ کی ساری سریں ایک ایک کر کے بیدار ہو رہی تھیں۔ رات کی سیاہی بڑھی تو ہماری آنکھوں کی روشنی بھی ماند پڑنے لگی چنانچہ حسبِ معمول اپنے ہمدم کے ساتھ روزمرہ گفتگو کا کوٹہ پورا ہونے سے پہلے ہی ہم نیند کی آغوش میں جا پڑے۔
چوبارے میں ہماری ہماری چارپائی شمالاً جنوباً تھی اور دروازے کے عین مطابق بچھی تھی جبکہ دوسرے صاحب شرقاً غرباً دراز تھے، سکندر کی نیند اگرچہ ہماری نیند سے مختلف تھی لیکن سوتے میں ہم کچھ طبعی طور پر ہی سکندر کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مع چہرہ بستر سے باہر نکال کر رکھنے کے عادی ہیں اور حسبِ عادت اس شب بھی اسی طرح محوِ خواب تھے۔
نصف رات کا عمل ہو گا یا اس سے کچھ کم، ہمیں یکایک کچھ یوں لگا جیسے ہماری داہنی آنکھ کا سارا نور بہنے کو ہے۔ ہم بلبلا کر اٹھّے کہ یہ کارستانی کسی خوابِ بد کی بھی ہو سکتی تھی، لیکن جب آنکھ کے علاوہ اپنے چہرے کو بھی نم آلود پایا تو ہم پر کھلا یہ کہ ہماری آنکھ کا نور از خود بہنے پر آمادہ نہ تھا بلکہ یہ کار روائی خارج سے آنکھ کی اندرونی دنیا پر وارد ہوئی تھی اور برسوں کی دُود آلود چھت کے عرقِ انفعال نے ٹپک کر ہماری آنکھ کی راہ لے رکھی تھی اور جس قطرے نے ہماری آنکھ کے در وا کر دئیے تھے وہ اپنی نوعیت کا تیسرایا چوتھا قطرہ تھا جس کی گواہی ہمارے چہرے کا غیر متاثرہ حصہ دے رہا تھا لیکن وہ تین یا چار قطرے جو ہماری آنکھ میں اٹک کر رہ گئے تھے انہوں نے تو ہمیں کچھ ایسا چکرا دیا کہ ہمارے منہ پر غزل کے وہی لغوی معنی چکرانے لگے جن کا تعلق ہرن برادری سے بتایا جاتا ہے۔
ہماری قوتِ برداشت نے ہمارا کچھ کچھ ساتھ دینا شروع کیا۔ تو ہم نے چھت کی طبیعت کو مائل بہ کرم دیکھ کر خود ہی اس راہ سے ہٹ جانا مناسب سمجھا۔ اور اپنی چارپائی اپنے ساتھی کی چارپائی کے عین متوازی بچھا لی لیکن اس احساسِ تعصب سے یکسر مغلوب ہو کر کہ یہ صاحب ابھی کیوں محوِ استراحت ہیں لہٰذا اگر کچھ ہو تو ہمارے بھاگوں یہ بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہیں چنانچہ اِس دعائے شر اور بحالیِ چشم کے کچھ دیر بعد ہم دوبارہ سو گئے مگر جب دوبارہ آنکھ کھلی تو ابتداً یوں لگا جیسے ہماری ناف نے پیدائش کے برسوں بعد ازسرنو رِسنا شروع کر دیا ہے۔ اور نمی کی یلغار نواحی علاقوں کو بھی یکساں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے رضائی سے ہاتھ باہر نکال کر پھیرا تو
قطرہ قطرہ بہم شود تالاب
میں جا پڑا، اب کے ہم نے بستر سے اچھلنے کی بجائے کھسک کر نکلنے کو ترجیح دی اور اسی دعائے شر کے زیرِ اثر جو پہلی بیداری کے دوران ہم نے مانگی تھی چپکے سے چوبارے میں نصب پڑچھتی کے نیچے ہو لئے تاکہ دعا کی مستجابی پر اگر وہ صاحب بھی پانی کی زد میں آئیں تو ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ ہو، مناسب وقت پر پڑچھتی کے نیچے ہو لینے سے ہمیں کہیں پہلے سے زیادہ تحفظ کا احساس ہوا تو نیند دبے پاؤں نہیں بلکہ بجتے کھنکتے قدموں آئی اور ہمیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ اپنے ساتھ بہا لے گئی لیکن اب کے ہمارے اور پانی کے درمیان چومکھی جنگ کا آغاز ہوا یعنی چھت در چھت ٹپکنے والے پانی نے ہم پر چو طرفہ حملہ کر دیا۔ اور یہ حملہ بوندوں یا قطروں کی صورت میں نہیں بلکہ تیز و تند دھاروں کی صورت میں ہوا جن میں سے پہلی دھار ہمارے منہ پر دوسری دل و جگر کے نواح میں اوراسی طرح تیسری اور چوتھی بالترتیب پیروں تک کو اپنا نشانہ بنا کر کچھ ایسے زوروں اور تسلسل سے پڑنے لگیں کہ ہماری آنکھ کے کھلتے کھلتے فمِ معدہ مِٹھ کڑوے پلستر سے لِپ چکا تھا چنانچہ اب کے بعد از بیداری اپنے اندر کے ہیجان سے یوں لگا جیسے ہمارے پھٹ پڑنے میں بس تھوڑی ہی کسر باقی ہے۔
یونہی گر روتا رہا، غالب تو اے اہلِ جہاں !
دیکھنا ان بستیوں کو تم۔ ۔ کہ ویراں ہو گئیں
تاہم اس کہرام میں بھی ہمیں مسرت کی ایک کرن ضرور جھلکتی دکھائی دی…کہ ہماری پہروں پہلے کی دُعائے شر، خیر سے اب مستجاب ہو چکی تھی اور ہمارے ساتھی کی چارپائی بھی اپنی جگہ سے ہجرت کر کے دروازے کی بغل میں جا پہنچی تھی، نہ صرف یہ بلکہ آنجناب بستر میں بھیگے کوّے کی طرح اکڑوں بیٹھے،
چھینک پر چھینک مار رہے تھے،
ہم نے اپنا مضروب گلا کھنکارا …تو ہماری صدائے مجروح سے انہیں بھی کچھ سکون سا محسوس ہوا، جوابًا آنکھوں کو ملتے اور ’’ اُتھو‘‘ کو فرو کرتے ہوئے کہنے لگے ’’چھت کا پانی ناک میں گھس گیا ہے بوکھلا کر اُٹھا اُوپر دیکھا تو آنکھوں نے بھی اپنی برات پالی، آپ کہیے آپ پر کیا گزری۔ ‘‘
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
ہم نے انہیں یہ تو نہ کہا تاہم جو کُچھ ہم پر گزر چکی تھی وہ ہرگز وہ نہ تھی جو ان پر گزری تھی لہٰذا بات جب اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے برعکس کھلتی دکھائی دی تو ہم نے کسی تفصیل میں جانا منا سب نہ سمجھا اور جہاں اپنے آپ کو بستر بدر کیا وہاں انہیں بھی یہی ترکیبِ عافیت سُجھائی، چارپائیوں کو کروٹوں کے بل لٹایا اور بستروں کو اُن کے کندھوں پر جما دیا۔
بستر لپیٹ کر ہم اُٹھ جائیں رہ سے اس کی
مقصد نہیں تھا شاید ایسا تو ‘ مُّدعی کا
اور دونو ’’جی‘‘ چوبارے کے کونے میں بنے کھُرے پر پہنچ کر جیسے اٹک سے گئے، جہاں ہم نے کتابوں کا سٹینڈبنایا اس پر لالٹین روشن کی اور تاش کے پتے لے کر چوکڑی جما دی تا آنکہ صبح ہو گئی۔
ایک رات تو گزر چکی تھی، مگر وہ رات۔ ۔ ۔ ۔ جو دس گھنٹوں کے بعد پھر اسی طمطراق سے آنے والی تھی اس کی راہ میں ہم کون سا ڈیم بناتے یہ فکر ہمیں اس لئے لگی رہی کہ بادل کسی بیمے کے ایجنٹ کی طرح جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ لہٰذا چھت کی لپائی کی بجائے کہ بالفعل ناممکن تھی ہم نے اپنے غنچے کو پکارا۔ (ہماری مراد عاشق محمد خان سے ہے ‘ قلم سنبھالا اور سودا کی روح سے رابطہ قائم کر کے ایک عدد قصیدہ ہجویہ در مدح آستانۂعالیہ رقم کیا بازار سے ایک بڑا سا کورا تعویذ منگوایا، نَے سے تراشے قلم کے ساتھ جلی حروف میں قصیدے کی کتابت کی اور اسے چوبارے کے حلقوم میں آویزاں کر دیا اور جب اگلی رات آئی تو ہمارے تعجب کی انتہا نہ تھی اس لئے کہ موسم کی تمام تر نادانی و شرپسندی کے با وصف ‘ہم‘ ہمارے بستر ہمارے خواب اور جانے کیا کیا کچھ اور۔ ۔ ۔ ۔ سارا کُچھ پانی کی دسترس سے یکسر باہر تھا، تب ہمیں یقین آیا کہ تعویذ گنڈے کا کاروبار بھی یقیناً برحق ہے اور وہ جو کہتے ہیں ؎
قولِ مرداں جان دارد
وہ بھی کُچھ ایسا غلط نہیں ہے۔
٭٭٭
باب: بُو قلمونیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشیب و فراز کی
سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر تو جا ہی چکے تھے، نئے ہیڈ ماسٹر صاحب کا مزاج بھی دو دھاری تلوار سے کم نہ نکلا کہ موصوف جس قدر خاموش تھے بباطن اتنے ہی پُر جوش تھے۔ انہیں جس قدر اپنی چو طرفہ پھیلتی چال، شمالاً نکلتی قامت، افقاً لپکتی نگاہوں اور رنگت کے گوراپے بلکہ سرخابے کا زُعم تھا اس سے کہیں زیادہ اپنی عقاب چشمی اور سحاب طبعی پر ناز تھا کہ جس پر مہربان ہوئے مہربان تر ہوتے گئے اور جس سے بگڑے، بگاڑ کی انتہا کو پہنچ گئے۔
موصوف کی طبعیت کی بّراقی اور طُرّے کی طمطراقی کُچھ اتنی موثر ثابت ہوئی کہ فضائے مدرسے کی ساری مخلوق ایک بار تو جیسے اُن کی پہلے ہی روز کی آمد سے سہم کا شکار ہو گئی اس لئے کہ انہوں نے جوبلّی پہلے ہی دن ماری وہ ان کے سربراہانہ مستقبل کو ہمہ وقتی تابناک کرنے کے لئے کافی سے زیادہ تھی اور یہ کرشمہ محض ان کی پہلی ملاقات کے اندازِ مصافحہ میں پنہاں تھا کہ چھوٹتے ہی انہوں نے جس کِہ و مِہ سے بھی ہاتھ ملایا۔ بس یوں جانیے کہ اسلام کو بّر صغیر کے برہمنی دور میں لے جاتے رہے۔ موصوف اپنی دو انگلیوں کا لقمہ اپنی جانب بڑھنے والے ہر محتاج ہاتھ میں تھماتے گئے اور جب سارے افرادِ عملہ بھگت چُکے تو باوجود سرتاپا کالا باغی لباس میں ملبوس ہونے کے انتہائی دساوری انداز میں اپنی مسند شاہانہ پر جا بیٹھے۔
ہمیں اُن کے اس اندازِ دلبرانہ پر پیار آیا، غصہ آیا،یا رونا، ہمیں یہ تو یاد نہیں پڑتا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب انہوں نے قدرے توقّف کے بعد سگریٹ سلگایا تو۔ ۔ ۔ ۔ اس بے زبان سے بھی مذکورہ مصافحے والا سلوک ہی کیا، سگریٹ کو آگ دکھائی، انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی میں اسے پیوست کیا، اور مٹھی اور ہونٹوں کی وا شلوں کے اتصال سے دھوئیں کو اندر لے لے جاتے اور باہر نکالتے رہے۔
اس دقیق منظر کا احساس اور کسی ناظر کو ہوا نہ ہوا، ہمیں ضرور ہوا۔ اسے ہماری زود حسی کہئے، یا عالمِ نَو عمری کہ ہماری قوتِ مشاہدہ ہمیں ہر آن ایسی ہی تاویلات میں لگائے رکھتی تھی، چنانچہ اس سمے بھی نیوٹن کی طرح ہم نے موصوف کی اس طُرفہ اندازِ سگریٹ نوشی سے نتیجہ یہی اخذ کیا کہ موصوف ابنائے آدم ہی سے نہیں اپنے مشروبات و ماکولات کی درمیانی نسل سے بھی وہی برتاؤ موزوں سمجھتے ہیں ، جو اُن کی بقائے مُسرت کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اور یہ دلیل ہے اس امر کی کہ رفقائے کار سے اُن کا کُچھ دیر پہلے کا اندازِ دلبرانہ کُچھ ایسا محلِ نظر نہیں ہے۔
سکول کا ماحول بدلتا گیا۔ دن گزرتے گئے اور ہم تعمیرِ مُستقبل کے منصوبوں میں سرتاپا غرق اپنے فرائضِ منصبی بکمال احتیاط و تندہی ادا کرتے رہے لیکن اس احتیاط ورزی میں ہمارا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا قصّہ یہ تھا کہ ہم محض نان نفقہ کی فکر میں حلقۂ تدریس میں شامل نہیں ہوئے تھے، بلکہ ہمارا یہ فیصلہ اپنے درس کی تکمیل کے لئے بھی تھا۔ اور اس درس کی تکمیل کے مراحل بڑے ہی کڑے تھے اور یہ تھے کہ ہمیں بی اے کا داخلہ بھیجنے کے لئے اپنے مربّیانہ سسرال یعنی محکمے سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا تھی جس کے لئے ہم نے
لب تمہارے ہیں شفا بخش ولی ہے بیمار
حیف صد حیف کہ اس وقت میں درماں نہ کرو
اپنی درخواست اپنے ہمہ وقتی دستیاب لیکن کم آمیز رئیسِ مدرسہ کو پیش کی تو اس پر غور قواعد و ضوابط کی روشنی میں شروع ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چونکہ سکول کے ایک دو معمّر اور صاحبِ اولادمدّرس بھی کسی امتحان میں بیٹھ رہے تھے لہٰذا ہم کنواروں کی درخواست اجازت برائے امتحان ایک سال تاخیر کی خوشخبری کے ساتھ ہمیں واپس کر دی گئی۔
ہم نے جب اپنے ٹھُوٹھے کا یہ حشر ہوتے دیکھا تو اُس کے ٹوٹنے کو بقولِ وارث شاہ تقدیر کیا کِیا ہی گردانا اور آئندہ سال کا انتظار کھینچنے لگے جسے بہر حال آنا تھا اور وہ آ بھی گیا۔ لیکن ہمارے فکر و خیال میں ولولے کی جو تازگی اور عزم کی جو پختگی پائی جاتی تھی اُس پر ایک طرح کی اوس ضرور پڑ گئی۔
نیا سیشن آیا …تو ہم نے چڑیوں کے گھونسلوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنی درخواست پھر بحضورِ عالی مرتبت گزاری جس پر موصوف کے سفارشی حروف کے ثبت ہونے تک ہم نے اپنی سانس کو یوں روکے رکھا جیسے سپریم کورٹ کے کسی مقدمے کے فیصلے کا اعلان، مدعیان کے ’’سوتر ‘‘سُکا دیتا ہے بالآخر ہیڈماسٹر صاحب نے سال بھر سے محفوظ کیا ہوا فیصلہ سنا ہی دیا یعنی ہمیں اس قابل ٹھہرا دیا کہ اگر محکمہ چاہے تو درخواست گزار بحرِ علم سے حسبِ استطاعت اپنے حصے کے تعلیمی موتی سمیٹ سکتا ہے اور سچ جانیے کہ اُن کی اِتنی سی کار گزاری سے ہم اُن کی فراوانیِ عظمت کو کُچھ یوں دیکھتے پائے گئے جیسے تاریخ کی بعض کتابوں میں سبکتگین کو دیکھتی ہوئی ہرنی دکھائی جاتی ہے
مُجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے
احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا
درخواست بعد از کار روائی جانے کو تو چلی گئی لیکن سکول اور ضلعی دفتر کے درمیان اٹک تو کیا لٹک کر رہ گئی اور یہ دفتر وہ تھا جسے اعرافِ ارضی کہیے تو بجا ہے یعنی دفتر اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر المعروف بہ اے ڈی آئی آفس۔ ہم دفتر مذکور میں پہنچے تو
یاد تھیں جتنی دُعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
اور اذنِ باریابی بھی مشکل نظر آیا۔ اس لئے کہ صاحبِ دفتر خود ایم اے امتحان کی تیاری میں غرق تھے اور اپنی ماتحت مخلوق کو شرفِ ملاقات بخشنے سے پوری طرح گریزاں ، تاہم ڈیڑھ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد دربان کی عنایتِ خاص کے طفیل شرفِ باریابی حاصل ہوا تو زمانے بھر کے نشیب و فرازجیسے دفتر کی چاردیواری میں یکجا ہو گئے کہ ہمارے افسرِ مجاز جہاں فراز ہی فراز تھے ہم وہاں پا بہ فرق نشیب بنے کھڑے تھے، اور سرتاپا گفتۂ غالب کی تصویر
دکھا کے جنبشِ لب ہی تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے
چنانچہ اس نشیب و فراز کے درمیان جو گفتگو ہوئی شاید اس کے کچھ الفاظ ہی فراز کے کانوں تک پہنچے جس کا مختصر اور تیر بہدف جواب انہوں نے یہ دیا کہ ڈگریاں یونیورسٹی سے ملا کرتی ہیں اے ڈی آئی آفس سے نہیں ، جائیے اور حق حلال کی روزی کمانے کی فکر کیجے،یہ کام دفتری نوعیت کا ہے۔ اور اپنے وقت پر ہو جائے گا۔
رسوائیاں اٹھائیں جور و عتاب دیکھا
عاشق تو ہم ہوئے پر کیا کیا عذاب دیکھا
ہم دفتر سے برآمد ہوئے تو خدا جانے احساس کی کن کھائیوں میں غرق ہو گئے، تاہم جب ابھرے تو پھر اُسی ماحول میں تھے، جہاں اطراف و جوانب میں نشیب ہی نشیب تھا، بجز ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے، لیکن اس پل ہمیں تو وہ بھی ایک معمولی سا ٹیلہ ہی دکھائی دیا، بہرحال اپنے احباب سے جب قّصہ اس نامرادی کا چھڑا تو انہوں نے ہمیں راستہ محکمانہ ہائیکورٹ کا سُجھایا،یعنی یہ کہ ہمیں ضلعی افسرِ اعلیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا یہ بات ہمیں زیادہ غیر معقول تو نہ لگی لیکن ہم کُچھ ہی عرصہ پہلے لاریب کالج کے ایک نمایاں طالب علم تھے۔ اور اپنے اساتذہ کے ایک واجب العزت شاگرد رہ چکے تھے، اس مقام پر پہنچے تو جیسے ٹھٹھک کر ہی رہ گئے، پھر بھی
زخمِ فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا
کُچھ دن گزرے تو ہم نے اچن چیت ضلعی دفتر کا رخ کیا۔
ہو لئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا!
لیکن جب وہاں پہنچے تو اپنی چستی و توانائی پر جیسے خِفّت سی ہونے لگی اس لئے کہ باوجود ستر میل کی مسافت کے دفتر مذکور میں صبح دم پہنچ جانا محکمانہ قواعد سے ہماری سراسر نا آگاہی تھا جس کا انکشاف اگر خداوندانِ محکمہ پر ہو جاتا تو ہمارا عاقبت نامہ یعنی سروس بُک ایڈورس ریمارکس سے ضرور ملوث ہو جاتی، جس سے ہماری سالانہ ترقی تو کیا رُکنی تھی کہ اس طرح کے فلیتوں کے ہم بالقواعد اہل نہ تھے، البتہ استمرارِ ملازمت کے حق میں اتنا لکھا بھی سَمِ قاتل ضرور ہو سکتا تھا، مگر بحمد اللہ کہ ہم اس خطرے سے قبل از وقت ہی آگاہ ہو گئے اور گیارہ بجے تک کا عرصہ چھُپ چھپا کے دفتر کے نواحی ہوٹلوں میں گزار دیا۔ اس لئے کہ صاحبِ ضلع سے ملاقات کا مسلّمہ و مروّجہ وقت صبح کے گیارہ بجے ہی تھا۔
گیارہ بجے سے پہلے ہمارے افسرِ اعلیٰ کیا کرتے رہے ہمیں اِس سے غرض تھی نہ واسطہ، لہٰذا دیگر مسائل کے ہمراہ جب گرد و پیش کا جغرافیہ اور ارتقائی جائزہ مکمل کر چکے تو خبر یہ ملی کہ صاحبِ ضلع دفتر میں تشریف لا چکے ہیں۔ جس پر ہم محکمہ کے سب سے بڑے دربان کے سامنے دستِ دعا دراز کرنے میں کامیاب ہو گئے اور چھوٹی سرکار کو عرض یہ گزاری کہ اگر وہ کرم گستری کرے اور ہمیں جائے مقصودہ تک پہنچا دے تو اُسے کُچھ دیر نہیں لگتی لیکن اس کی کرم گستری کا باب ابھی کھلنے بھی نہ پایا تھا کہ صاحب بہادر کسی میٹنگ میں شرکت کے لئے اپنی کرسیِ اقتدار سے کیا اٹھے دفتر بھر میں جیسے زلزلہ آ گیا جس کا شکار ہم بھی ہوئے۔
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تُجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
اور خدا کا شکر کہ بخیریت اپنی جائے ملازمت پرواپس پہنچ گئے۔
٭٭٭
باب: صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
ہمارے ہمزبان رفیقِ کار یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر ہمارے علاوہ وہ دوسرا ستون تھے جن کے دم سے انگریزی زبان کے مستقبل کی عمارت سکول میں قائم تھی، تعلیم ہم دونوں کی ہم وزن ہی تھی کہ وہ بھی ایف اے پاس تھے اور ہم بھی۔ لیکن تفاوت ہم دونوں میں یہ تھی کہ وہ زبان کے چٹک چٹک، چال ڈھال میں سیماب صفت اور بود باش میں فرد تھے کہ تنہا باشی کے کرانک مریض تھے جبکہ ہماری زبان کا سارا زورِ لِخت پَڑھت پر ہی صرف ہو جایا کرتا تھا، چال ڈھال میں انکساری ہم نے تقاضائے گرد و پیش کے تحت اختیار کر رکھی تھی۔ اور بود و باش کا احوال آپ پہلے ہی جان چکے ہیں۔ کہ کسی ذی روح کے ساتھ رہنا ہمیں بالطبع پسند تھا۔ اور یہ طبعی تفاوت اگرچہ ہمارا نجی معاملہ تھا جسے ہمارے حالاتِ ملازمت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہوا یوں کہ ہم دونوں میں کبھی ایکا نہ ہو سکا۔ جو کسی بھی اقلیتی گروپ کا خاصا ہوتا ہے۔ اور اکثریتی گروپ کو ہمیشہ کھَلتا ہے۔
نئے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آمد پر جہاں اور بہت سارے کرشمے جنم لینے لگے وہاں ایک عجوبہ یہ بھی ہوا کہ ہم اور ہماری نوعّیت کے دوسرے واحد رفیقِ کار ایک مقام پر اچانک باہم شیر و شکر ہو گئے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ہم سے تو بدگمان تھے ہی (کہ حصولِ اجازتِ امتحان کے سلسلے میں فریقین کے دلوں میں بہت سارے وسوسے جاگزیں ہو گئے تھے ) وہ ہمارے جڑواں رفیقِ کار کو بھی کبیدہ خاطر کر بیٹھے۔ جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ انہوں نے بھی سکول میں ہماری موجودگی کا اعتراف از خود ہی کر لیا۔
سالانہ امتحانات قریب تھے اور ہمارے رفیقِ ثانی کہ ایک عرصے سے ہیڈ ماسٹر کی ’’ گُڈ بُکس ‘‘ میں چلے آ رہے تھے اور تازہ تازہ ’’بَیڈبُبکس‘‘ میں آئے تھے، راز ہائے درونِ خانہ سے خاصے آگاہ تھے۔ ایک دن ہمارے پاس لال بھبھوکا ہو کر آئے تو پنجابی فلمی بڑھک کے انداز میں کہنے لگے۔
’’یار ماجد ! اس ہیدڈماسٹر نے اپنے آپ کو سمجھ کیا رکھا ہے ؟‘‘
ہم نے بکمال متانت عرض کیا۔ ’’ہیڈ ماسٹر‘‘ جس پر وہ اور بھی سیخ پا ہوئے اورسرگوشی کے انداز میں کہنے لگے۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ اِس نے چھٹی اور ساتویں کے پرچے کہاں سے مرتب کرائے ہیں۔ ‘‘ہم نے کہا ’’آپ سے … ‘‘تو وہ سپند وار اُچھلے اور کسی قدر راز داری کے ساتھ ہم پہ انکشاف یہ کیا کہ پرچے کسی باہر کے آدمی سے مرتب کرائے گئے ہیں ، ہم نے اس صریح دھاندلی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے ’’ یہ کام اب آپ کا ہے کہ اس بد گمانی کا مزہ اسے چکھاؤ۔ میرا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔ ‘‘ ہم نے پہلے تو ان کا غصہ فرو کرنے کی بہتیری کوشش کی اس لئے کہ ہم دونوں افراد محکمے کے فرزند تو تھے مگر تھے دونوں کے دونوں سوتیلے کہ عارضی ملازمت کا ٹیکہ ہمارے ماتھوں پہ ابتدائے ملازمت ہی سے چسپاں تھا اور محکمے کو یہ اختیار کُلی طور پر حاصل تھا کہ وہ جب چاہتا ہمارے جوتے الٹا دیتا اور ہمیں اپنی فرمانروائی کی سرحدوں سے دیس نکالا دے دیتا۔ علاوہ ازیں کسی پنشن یافتہ شخص سے بھی (بشرطیکہ وہ حضرتِ غالب نہ ہوتے ) قواعدِ ملازمت کا خلاصہ پوچھا جاتا تو متوقع جواب یہی ہو سکتا تھا کہ دورانِ ملازمت سربراہِ ادارہ سے اختلاف ہو جانا اور بات ہوتی ہے۔ لیکن اس اختلاف کو بنیاد بنا کر اس کے مدّمقابل آ جانا صریحاً ذہنی عدم بلوغت کا فتور ہوا کرتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ہمیں ان دنوں خدا جانے اتنی دانائی کہاں سے میسر آ گئی تھی کہ عالمِ نوعمری کے با وصف ہم نے قدرے تحمل سے کام لیا اور بسلامتی فکر ایک ایسی راہ نکالی جو بہت بعد کے کامیاب سیاسی حلقوں کے منشور کے عین مطابق نکلی۔
ہیڈ ماسٹر موصوف کے عدم التفات سے ہمیں اپنے مستقبل کی گاڑی پھنستی ضرور نظر آئی لیکن نہ اس قدر کہ ’’ انو کی‘‘ کی طرح ہم بہ نیّتِ رُسوائی محمد علی کلے کو سرِ عام زِ چ کرنے پر تُل جاتے اور معاملہ اُن سے الٹی سیدھی ٹکر لینے تک پہنچ جاتا۔ تاہم جب اپنے رفیقِ ثانی کا اصرار اور ہمارا ان کار کسی خاص مقام پر آن کے بے تفاوت ہو گیا تو طے یہ پایا مگر طے کیا پانا تھا۔
کیا پِدّی اور کیا پِدّی کا شوربا
ہوا یہ کہ جب سکول کا سالانہ امتحان شروع ہوا اور دن انگریزی کے پرچے کا آیا تو ہم دونوں کی مشکل حل ہوتی دکھائی دی جسے محض انتقامی جذبے ہی کی نہیں بلکہ کسی قدر طفلانہ شرارت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔
لڑکوں میں باہر سے برآمد شدہ پرچہ بٹ چکا تو ہماری آنکھیں چار ہوئیں اور اس کار روائی کا وقت آن پہنچا جسے ہم نے باہمی اشتراک سے مرتب کیا تھا۔ امتحان میں شریک پہلا طالب علم جسے پرچۂسوالات میں سے کوئی وضاحت مطلوب تھی، جب اُس انگریزی ماسٹر کے قریب گیا تو اُس نے اُسےاِس انگریزی ماسٹر کے پاس یعنی ہماری جانب روانہ کر دیا جسے ہم نے آن پاکستان سٹیٹ سروس بنام ہیڈ ماسٹر ری ڈائریکٹ کر دیا۔
یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا اور ساری مشکل اسی کے گرنے تک محدود تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کہ انگریزی میں قطعی صاف باطن تھے۔ ہماری اس دیدہ دلیری سے جیسے پھُنک کر رہ گئے جس کے بعد موصوف نے وہی کُچھ کیا جوہر زیرک سربراہِ ادارہ کا خاصا ہوتا ہے اور مذکورہ بارش کے قطروں کی پیہم بو چھاڑسے بو کھلا کر اپنا سرکاری چھاتہ یعنی آرڈر بک منگوائی اور اس پر جو کُچھ لکھا اس کا مفہوم قطعی سلیس اُردو میں یہ تھا۔ (اس لئے کہ ان کی اپنی اُردو بُہت فاضلانہ تھی ) کہ پرچوں کی مارکنگ جملہ تقاضہ ہائے دیانت داری کو بروئے کار لاتے ہوئے کی جائے ورنہ اس پابندی سے منحرف ہونے والے کا حشر وہی ہو گا جو استادِ شاہ کے حق میں ارتکابِ گستاخی پر غالب کے بارے میں تصوّر کیا جاتا ہے۔
ہم نے آرڈر مذکورہ پر اطلاع یابی کے دستخط ثبت کئے تو اندر سے اور بھی کھلکھلا اٹھے کہ پانی پت کا یہ میدان اب سراسر ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ اور یوں تھا کہ بہ اشتراکِ رفیقِ ثانی ہم نے پرچوں کے نمبر کچھ زیادہ ہی دیانت داری سے لگا ڈالے جس کے متحمل اس ادارے کے طلبا تو کیا اساتذہ بھی شاید ہی ہو سکتے تھے۔ کہ یہ مارکنگ اگر درست تسلیم کر لی جاتی (جو بہرحال درست تو تھی ہی ) تو نتیجہ امتحان نقطۂ انجماد سے بس کچھ ہی درجے اوپر رہ جاتا اور انگریزی کہ زبانِ مقدّسہ تھی اور لازمی مضمون کے طور پر عارضی اساتذہ کی زبانی پڑھائی جاتی تھی۔ سکول بھر کے نتیجے کو ساتھ لے ڈوبنے پر آمادہ نظر آتی تھی بلکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا طرّۂ لازوال بھی خاصے بڑے جنجال میں الجھتا نظر آنے لگا تھا۔ ہر چند موصوف کو نتیجے میں ردّ و بدل کا ازلی اختیار حاصل تھا۔ لیکن فی الوقت اُن کے حلقۂ اختیار کے چاروں کندھے اُن کے بس سے کسی قدر باہر تھے۔ شاید یہی وجہ ہوئی کہ دوسرے ہی دن آنجناب نے ہمیں بگوشۂ خلوت بلایا۔ سمجھایا بجھایا، پچکارا اور طرح طرح کے دلاسے دیئے۔ اور شاید بتاشے بھی اور بالآخر استدعائیہ انداز میں کُچھ اس طرح نشیب…میں اتر آئے کہ ہمیں کندھوں سے پکڑ کر انہیں اٹھانا پڑا
آئینہ دیکھ اپنا سے منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دیتے پہ کتنا غرور تھا
ہم نے انہیں یوں موم ہوتے دیکھا تو ہمارا سنگِ خارا رہنا بھلا کہاں ممکن ہوتا چنانچہ بالآخر ہم نے پرچوں پر نظر ثانی کا اقرار کر ہی لیا۔ لیکن جب پھر ہم دونوں کی نگاہیں باہم ٹکرائیں ، تو دلوں کا وسوسہ زبانوں پر بھی آ گیا …… ’’مگر اُس آرڈر کا کیا ہو گا جس پر نکاح نامے کی طرح ہم سے دستخط کرائے گئے ہیں ‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نہ ہمارے اتنے سے واہمے پر اپنے نامہ ہائے اعمال کی خاص الماری کھولی، آرڈر بک نکالی اور پرچوں کے ہمراہ اسے بھی ہماری آغوش میں دھکیل دیا۔
شکوک و شبہات کی فضا بھی عجیب ہوتی ہے۔ ہمیں وہ آرڈر بک اپنی جانب بڑھتا ہوا ناگ محسوس ہوئی۔ چنانچہ ہم نے بہ یک زبان کہا ’’… نا… نا… نا… قبلہ ہیڈ ماسٹر صاحب ! یہ متاعِ بے بہا اپنے پاس ہی رکھیے اور اپنا مختارِ کل قلم اپنی جیب سے نکالیے کہ اسی تیغِ با نیام کی حرکت میں ہماری جان ہے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہ خواہ مخواہ ہمارے معمول نظر آ رہے تھے۔ اپنا قلم نکالا اور اپنے زورِ بازو سے جو علا قہ اپنے زیرِ نگیں کیا تھا وہ سارے کا سارا علاقہ سپاہِ پورس کو لوٹا دیا، تاہم ہم اپنے اندر اس احساس کی بیداری سے بچ نہ سکے۔
گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہمصفیر!
اس فصل ہی میں۔ ۔ ہم کو گرفتار دیکھنا
٭٭٭
باب: بِناتُ النعش ارضی و سماوی کے درمیان
اب ذرا پھر چلئے۔ آپ کو وہاں لے چلیں جہاں ہماری ملازمت کے ہر دن کے اٹھارہ گھنٹے گزرا کرتے تھے، ہماری مراد یقیناً اپنے غریب خانے سے ہے۔ لیکن یہ ذکر اس بالا خانے کا نہیں جو ہمارے حلقۂ اورادِ شعری میں آ چکا تھا بلکہ ایک اور چوبارے کا ہے جو نسلاً اس چوبارے کا برادرِ بزرگ بھی تھا کہ اور ماحول کے اعتبار سے خاصا بوقلمون بھی اس لئے کہ اس کی آغوش میں صبح مسانت نئے مناظر کسی بد قسمت ملک کی روز دہاڑے کی سیاسی تبدیلیوں کی طرح ہر آن بنتے بگڑتے رہتے تھے بلکہ بقول استاد پّراُن مناظر کا خلاصہ شورش کاشمیری کی کسی کتاب کے سرنامے سے جا ملتا تھا ہمیں استاد پّرسے تو اتفاق نہ تھا کہ حضرت تیسری بیوی کا قُل کرا کے اب چوتھی بار اپنے ہاتھ پیلے کرانے کے درپے تھے تاہم اس چوبارے کی ایک سمت ایسی تھی جہاں کی صورتحال لی وکالت کرتے ہمیں آج بھی ایک طرح کا خوف محسوسہوتا ہے اور وہ سمت وہ تھی جہاں ہر پل چلتے ہنڈولے کے جھولوں جیسا منظر سامنے رہتا یہ الگ بات تھی کہ یہ سین گلوب کے اس حصے کی عکاسی کرتے تھے، جو سورج سے پردہ کئے ہوتا ہے اور وہ گل بوٹے جن کے حسن لا ابال سے یہ سین مرتب ہوتے تھے ایک ایسے باپ کی دخترانِ نیک اختر تھیں جو اپنے باپ کی اولادِ نرینہ کی آرزو جستجوئے بے پایاں میں ایک فطری تسلسل سے آتی تو رہی تھیں لیکن اب کہیں جانے کی راہ نہیں پا رہی تھیں۔ شنید یہ تھی کہ ان کے آبا حضور اولاد نرینہ سے مستقل محرومی کے باعث اس قدر سنکی ہو گئے تھے کہ اپنی یہ متاع کسی اور خوش نصیب کی اولادِ نرینہ کے حوالے کرنے سے الرجک تھے اور یہ الرجی ایسی تھی جس کا علاج شاید
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پٹیا کر
خاندانی منصوبہ بندی والوں کے پاس بھی نہیں تھا اور اگر نہیں تھی تو ہم ’’تریاکلوں ‘‘ کو اس سے غرض بھی کیا ہم تو اس صورتحال کے محض ایک خارجی شاہد تھے کہ ان بنات النعش ارضی میں سے ایک نہ ایک ہر لحظہ مکان کی بالائی فصیل پر حاضر و ناظر رہتی اور کھلے آسمان اور جیتی جاگتی راہوں کے جائزے پر مامور اس وقت تک مندر کی مورتی بنی اپنی جگہ سے نہ ہلتی جب تک دوسریوں کے جی میں یہی ولولہ پیدا نہ ہوتا اور جب دوسری آ چکتی تو پہلی اس کے اسی جذبہ کی تسکین کے احترام میں مسجد کے غسل خانے کی طرح اپنی جگہ خالی کر دیتی لیکن مناظر کی یہ زنجیر کبھی ٹوٹنے نہ پاتی کہ مذکورہ بنات النعش ارضی تعّدد کے اعتبار سے دوچار نہیں بلکہ پوری سات تھیں ، اور یوں سمجھئے کہ ساری کی ساری کنگ سائز بھی، کنگ سائز اس مفہوم میں کہ خیر سے سبھی کی سبھی بالغ النظر تھیں یا نہیں بالغ البدن ضرور تھیں اور صورت حال یہ تھی کہ ان کی دید سے کسی دل کو دھڑکا یا آنکھ کو پھڑکا لگتا نہ لگتا ان کے چہرے ہائے از کار رفتہ کے عکس سے ضیائے مہر و ماہ کو گہن لگ جانے کا کھٹکا ان کے ہر ناگہانی ناظر کو ضرور لگا رہتا۔
ہمارے چوبارے کی ایک سمت اور بھی تھی جہاں سے باہر کے گاہ گاہ کے کچھ مناظر دیدہ و دل پر از خود ہی کھلنے لگتے ان مناظر کا کینوس ایک اور بالائی مکان تھا۔ جس میں ہم جیسے تو نہیں البتہ باہر ہی کے کچھ لوگ آباد تھے جو کم از کم ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے کے مقیم تھے ان کے کرائے کا مکان بھی ایک فصیل رکھتا تھا جس کے کنارے لبان مونالینزا کی طرح کچھ زیادہ ہی آباد رہتے۔ ہمیں اس امر کا احساس ہونے میں کچھ مہینے لگے۔ اس لئے کہ ہم ٹلّے کے جوگی نہ تھے، استاد تھے اور اپنی حدود کو اچّھی طرح پہچانتے تھے لیکن جب کبھی ہمیں دھوپ تاپنے یا تازہ ہوا کھانے کا شوق چراتا اور اس غرض کو صحن میں کسی کھری چارپائی پہ دراز ہوتے تو……
کچھ توہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں ،
…… پس فصیل کچھ پرچھائیاں سی حرکت کناں نظر آتیں ، اور یوں ہوتا کہ یکایک چوڑیاں چھنکاتا کوئی دست سمیں فصیل کے ادھر سے اٹھتا اور لمحوں تک کے لئے ایک ہی جگہ ہوا میں ساکت ہو جاتا نم آلودہ اندھیرے کی بوچھاڑ جیسی کافر زلفیں فوارہ نما دائروں میں لہراتی دکھائی دیتیں۔ کبھی ممٹی کی زنجیر کے ساتھ لٹکتا ہوا کوئی گلدستہ نظر میں اتا اور کبھی کوئی رو مال کسی باغی موج کی طرح اپنا سر اٹھاتا اور غائب ہو جاتا۔ گویا علم معاشقہ کی لغت ہمارے سامنے ورق ورق بکھرتی رہتی لیکن ہم کہ جذبات نا پختہ کی کھیتی تھے۔ ان آداب کی نوعیت سے یکسر نابلد رہے مگر جب ان خوش ادائیوں میں مہینوں کا تواتر پیدا ہونے لگا تو اس جانب اٹھنے والی نگاہیں ؎
وہ کھینچتی ہے جسے پینگ پر بزورِ شباب
نگاہ چپکی اسی نصف دائرے پر ہے
کسی دائرے سے تو نہیں فصیل کے ساتھ کچھ کچھ ضرور چپکنے لگیں تب ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے اندر بھی کسینامعلوم توڑ پھوڑنے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ جدید ادب میں توڑ پھوڑ کی بحث ذرا بعد میں چلی ورنہ شاید اس طرح کی دو چار گرما گرم دساوری و نیم دساوری بحثوں میں شرکت کے بعد اس عارضے کا قلع قمع از خود ہی ہو جاتا لیکن جس مشکل کا ہمیں سامنا تھا۔ اس سے بچاؤ کی ہمارے پاس دو ہی تدبیریں تھیں ایک تو یہ کہ ہم اپنا مکان بدل لیتے اور اپنی استادانہ عظمت و آبرو کو کسی ناگہانی ریزش سے بچا لیتے اور دوسری یہ کہ چوبارے میں مفرور ملزموں کی طرح راتوں رات آیا کرتے اور گجر دم رخصت ہو جایا کرتے، لیکن فساد یہ تھا کہ ان دونوں شریفانہ تراکیب عافیت پر عمل پیرا ہونا بالفعل ممکن نہ تھا اس میں شاید ہمارے کسی اندر کے فتور کا بھی دخل ہو گا لیکن بظاہر ہم نے اس عاجزی کا سارا الزام حالات کی ناسازگاری کے سر تھوپ رکھا تھا یعنی کہ؎
دام ھوڑے ہیں تو ہر نعمت سے کیجئے احتراز
دھوپ سے محروم گھر ہی میں گزارا کیجئے
چنانچہ وضع احتیاط ہی وہ واحد راستہ دکھائی دیا جس پر رواروی میں ہم چل تو دئیے لیکن کچھ دنوں کی مسافت کے بعد ہمارا تو جیسے دم تک گھٹنے لگا اور ادھر اشارات و کنایات کی وہ فراوانی کہ اگر پیغام رسانی کو کبوتروں کی دستیابی ممکن ہوتی تو ہمارا چوبارہ صبح و شام ناصر کاظمی کا چوبارہ بنا رہتا اور جب یہ سارا کچھ نہ ہوا تو ہوا یہ کہ ہمارے چوبارے کا صحن غیر مری ابابیلوں کی جائے یلغار بن گیا۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران میں وقفوں وقفوں کے بعد کنکریاں چھاپہ ماروں کے گولوں کی طرح چٹاک پٹاک ہمارے سامنے آ آ کے گرتیں اور ہماری تمام تر احتیاط کا شیشہ چکنا چور کر دیتیں اور جب نگاہ اٹھتی تو وہی اٹھکیلیاں کرتے مناظر؎
اُس در سے سبہے گا تری رفتار کا سیماب
اِس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگ حنا کی
سلسلہ در سلسلہ مرتب ہونے لگتے۔ ہمیں اپنے یُوسفِ ثانی ہونے کا واللہ کوئی وہم نہ تھا لیکن صُورتِ حال ہی کچھ ایسی تھی جیسے ہمیں آئینے میں ہر روز جو چہرہ نظر آتا تھا وہ، وہ نہیں تھا جو باہر والوں …… کم سے کم فصیل سے ادھر کے مکینوں کو دکھائی دیتا تھا۔
ہم نے اس نازک مرحلے پر اپنے ساتھی کو بھی یہ احساس دلایا کہ ہو نہ ہو اس ساری جنّاتی کار روائی کا رُخ ان ہی کی جانب ہے جس کا ٹکا سا جواب انہوں نے یہ دیا اور بڑا معقول دیا کہ وہ تو جب بھی جائے سکونت پر آتے ہیں چمگادڑوں کے سائے ہی میں آتے ہیں۔ دن کے دوران میں انہیں اپنے ڈیرے پر آتے ان کے کراماً کاتبین نے دیکھا ہو تو دیکھا ہو۔ کسی اور نے نہیں دیکھا لہذا اس جن کا تعلق بہرحال ہماری ذات با صفات ہی سے ہونا چاہئے تھا جس کے لئے قبل اس سے کہ ہم کوئی تعویذ دھاگہ تلاش کرتے۔ کنکریوں کی چاند ماری کا انداز از خود ہی تعویذ دھاگے کی صورت اختیار کرنے لگا۔
تُجھ دہن کا کلام وہ بُوجھے
حق نے بخشا ہے جس کو فکرِ عمیق
کہ اب تو ہر روز ایک آدھ کنکری رجسٹرڈ پارسل کی طرح کاغذوں میں ملبوس صورت میں بھی آنے لگی۔ جسے کھول کر دیکھنا ہم پہ فرض نہیں تو واجب ضرور ہو جاتا اور جب یہ ملفوف کھلتے تو صفحہ قرطاس پہ حروف کی حدت، جذبات کی شدت اور نامعلوم لمس کی خوشبو سے ہماری ساری کی ساری خوابیدہ حسین مدفون سرنگوں کیطرح ایک ایک کر کے بیدار ہونے لگتیں ، تب ہم پر کھُلا کہ حضرت میر نے یہ کہہ کر محض نخرہ ہی کیا تھا۔
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
میر کی عاشقی اگر محض عاشقی تھی، پھر تو یہ بات کچھ قرینِ قیاس ہے لیکن اگر اس عاشقی کے پس منظر میں کسی کو ان کی شاعری بھی نظر پڑتی تھی پھر گفتہ میر محض پروپیگنڈا ہے۔ اس لئے کہ کنکریوں کے وسیلے سے ہم تک پہنچنے والی تحریروں سے ہم پر اپنی وہی خوبی یا خرابی کھلی جو میر صاحب میں عاشقی کے علاوہ پائی جاتی تھی یعنی فصیل سے ادھر بسنے والی نوخیز و مضطرب دوشیزہ کو ہم سے زیادہ ہمارے شعر سے دلچسپی تھی جو بے چارہ خود ابھی عالم شیر خوارگی میں تھا بہرحال اپنے صحن میں لگائے گئے کسی پودے کا پہلا ثمر اور وہ بھی بہر لحاظ کچّا کون کسی خود نما کو توڑنے دیتا ہے چاہے وہ خود نما زلیخا ہی کیوں نہ ہو۔
تُوں کُڑی ایں لکھ کروڑ دی
جے میں سولی چڑھان تیرے نام تے
تے توں ہس کے کولوں دی لنگھ جائیں۔
چنانچہ ہم نے بھی اپنے آپ پر یُوسف ثانی ہونے کے گمان کو یقین میں بدلتے ہوئے وہی راہ اختیار کی جو ایسے موقعوں پر ہر یُوسف اختیار کرتا ہے اور اپنے کھاتے میں فرار کی بدنامی لکھواتے اس چوبارے سے کوچ کر آئے گویا آسمان سے زمین پر آ گئے۔
پس خوشبو بھی مرگِ گُل کا منظر دیکھتے ہیں ہم
بہت مہنگا پڑا ماجدؔ ہمیں صاحبِ نظر ہونا
٭٭٭
باب: کچّے دھَاگے سے کھنچی آئے گی سرکار مری
ہم آسمان سے زمین پر کیا آئے گویا اپنے آپ میں آ گئے نہ وُہ پہلی سی ہوا آشامی تھی، نہ بادِ صبا کسی شوخ آنچل کی مہک ہم تک پہنچاتی نہ سورج کی کرن کسی آرائش جمال سے فارغ چہرے کو ہم پر منعکس کرتی۔ اور نہ ہی کسی نگاہوں کے قلا باز کبوتر کسی منڈیر پر آ کر یا جا کر غٹرغوں راگ الاپا کرتے اس لئے کہ ہم جہاں منتقل ہوئے تھے۔ وہ بیٹھے ہماری مجردانہ زندگی کی طرح ایک لمبی گلی کی نکڑ پر واقع تھی جس کی دونوں کھڑکیاں دیدہ ہائے یعقوب کی طرح اکثر بے نور رہتیں یعنی محض رات کو کھول کر خواب ہائے پریشاں کے خفیہ داخلے کے لئے رکھی گئی تھیں۔ دن کو ان کا کھولنا تعزیراتِ پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مترادف تھا اور گلی کنارے کھڑا ہونا تو گویا آ بیل مجھے مار کر کو عملی جامہ پہناتا تھا۔ چنانچہ ہم کو پیشے کے نصابی گرداب اور ماحول کے چو طرفہ زہر اب کے اسیر ہونے کے باعث رفتہ رفتہ بیشتر باتوں کیو جامہ و امہ پہنانے کی عادت سے عادی ہونے کا رجحان اپنے جی میں پالے بیٹھے تھے۔ بس بیٹھے ہیح کے ہو کر رہ گئے۔ لیکن دیہی و قصباتی فضاؤں کے رنگ بھی نرالے ہوتے ہیں۔ ملازمین ایسی جگہوں پر شیر قالین ہی کیوں نہ ہوں شیر بیشہ سے کم تصور نہیں کئے جاتے شرط صرف یہ ہے کہ محکمہ مال یا مآل (یعنی انتظامیہ سے متعلق ہوں اور ہم کو بقول کے محکمہ بے مال سے متعلق تھے۔ بہ نگاہ بیم نہیں تو بہ نظر نیم استعجاب ضرور دیکھے دیکھے جاتے تھے چنانچہ اس ناتے کچھ کچھ شیر بیشہ ہم بھی تھے۔
علاوہ ازیں شاعری کی وہ کر جو ہمیں لگی تھی چھوٹے سے قصبے میں کمپنی کی مشہوری کو کچھ کم ناکافی نہ تھی۔ اس لئے کہ (دروغ برگردن راوی) ایسی جگہوں پر تو محض کبڈی کا کھلاڑی یا کسی قدر ممتاز بٹیر باز ہونا بھی بعض حالات میں متعدد غیر متوقع نتائج کا حامل ہوا کرتا تھا اور یہ صورت حال بقول بزرگان (یدنی پٹواریاں و گرداوران) اسی ایکجگہ تک محدود نہ تھی۔ قصبہ یا دیہات مزاجاً یا استحصالاً اس اتفاقیہ قدردانی میں ایک جیسے ہوتے ہیں چنانچہ ہمارے پردہ نشین ہو جانے کے باوجود کیڑے کو پتھر میں خوراک کی فراہمی کا بندوبست از خود ہی ہونے لگا؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
کوئی دست غیبی تھا کہ ہماری بیٹھک کی کھڑکیوں کو ٹھکور
کر آناً فاناً غائب ہو جاتا ابتداً تو ہم نے اسے بچّوں کی چھیڑ چھاڑ پر محمول کیا۔ لیکن کسی دیہاتی استاد کا دروازہ بچے اور کسی کانسٹیبلیاحوالدار کا دروازہ دیہاتی ذرا کم ہی کھٹکھٹاتے ہیں لہذا جب واہمہ کسی صورت وبائے نہ دب سکا۔ تو ہم پہلے پہل محض دوزنِ نیم واسے اور پھر دروازے کے وسط سے جھانک جھانک کر اس دستِ غیبی کا کھوج لگانے لگے لیکن اس راز کی سربستگی میں ہفتوں تک قطعاً کوئی فرق نہ آیا؎
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نے بنے
یہاں تک کہ…… بحمد للہ… ہم دیہات کے ایک اور آبائی و وبائی مرض یعنی جنات کے چکر میں پڑتے پڑتے رہ گئے اور وہ اسطرح کہ ایک دن چور موقع واردات پر پکڑا گیا۔ ہماری بیٹھک کی کھڑکیاں ٹھکورنے والا ہا تھ ایک بُت طنّاز کے کسی جذبۂ بے خود سے مجبوراس عمل پر مامور تھا اور وہ بت طناز و غالیہ مو……اپنے مشک نافے کی اہمیت سے بے نیاز خانوادے کی آب رسانیپر مامور…… ہم پر اس منظر کے کھلنے کے پہلے ہی روز کشف کی جو کیفیت طاری ہوئی بیان سے باہر ہے۔ دو گھڑیوں کے بوجھ سے دہری ہو جاتی کمر یا اور کمان سے کہیں زیادہ تن جانے والا سینہاور سر کے پیچھے باہم پیوست ہاتھوں سے قوس قزح بناتے بازو اور اس سارے منظر پر سرخ و چہرے کا بے مثل عنوان؎
ہر حرف چاہتا تھا اسی پر رکے رہیں !
کیا کیا تھے باب اس کے بدن کی کتاب میں
والا قصہ تھا۔
وہ دن گزرا تو وہ لمحے بھی جلد ہی آ گئے جب جوگن سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھُک کر ہم نے سلام کیا…… اور یہ سلسلہ تمام تر وضع احتیاط کے باوجود دراز سے دراز تر ہی ہوتا گیا۔
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
بالآخر ہم نے قدموں کے اپنی منزل کی جانب بڑھنے کا یہ سماں بھی دیکھا اور الہامی کیفیات کے صدق پر پہلی بار ایمان لائے کھڑکی کو ٹھوکر لگنے میں ابھی کچھ ثانیے باقی ہوتے کہ ہمارے دل کے کواڑ پہلے ہی بجنے لگتے ہم دروازہ کھولتے اور……؎
صُبح دم دروازہ خاور کھُلا
یہ دروازہ تقریباً روزانہ ہی کھولا جانے لگا لیکن کسی اور دروازے کے کھلنے کی نوبت ابھی نہیں آئی تھی کہ یکایک ہماری نقل مکانی کے احکامات جاری ہو گئے یعنی مالکانِ مکان چھٹیاں گزارنے اچانک کہیں سے ٹپک پڑے اور ہم قبل اس سے کہ کسی مصطفی زیدی کی راہ پر چل نکلتے بال بال بچ گئے اور بڑی عافیت سے ایک اور بیٹھک میں منتقل ہو گئے۔
ہماری ایک اور صاحب سے کہ طبیعت کے منچلے اور معیشت کے ستائے ہوئے تھے تھوڑی بہت صاحب سلامت چلی آ رہی تھی مگربس اسی حد تک کہ ہم نے ان کی دہلیز سے ادھر اور انہوں نے ہماری دہلیز سے ادھر یعنی ہماری قیام گاہ تک کبھی قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا، ہم نے ایک دن موصوف کے گھر سے کسی تقریب میں جانے والی کرسیاں دیکھیں جن کے ہمراہ بھیجی جانے والی گدیوں پر کشیدہ کاری کے کچھ ایسے مرقعے تھے جنہیں ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ ہر چند اس سے پہلے ہماری اس فن پر گہری کیا چھچھلتی نظر بھی نہ تھی، مگر؎
مشک آن است کہ خود ببوید
کشیدہ کاری کے کمال نے ہمیں تو جیسے مسحوری کر ڈالا بعد میں ان سے استفسار ہوا تو پتہ چلا کہ یہ فن ان کے اپنے ہی گھرکی کھیتی ہے یعنی ان کی اہلیہ محترمہ کے ہاتھوں کا کرشمہ جنبش ہے ہمیں متعجب اور پھر خاموش ہوتے دیکھا تو انہوں نے جیسے ہمارے دل میں چھپی فرمائش از خود ہی بھانپ لی جسے بصد ستائش انہوں نے قبول بھی کر لیا اور ہم کہ کڑھائی کا یہ نمو نہ محض ڈیکوریشن پیس کے طور پر حاصل کرنا چاہتے تھے موقع پر ہی اس فیصلے سے آگاہ کر دئیے گئے۔ اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ وہ ہمیں کرسیوں کی گدیاں تو نہیں کہ یہ کام ذرا زیادہ محنت طلب تھا، سرہانے کا ایک آدھ غلاف ضرور کڑھوا دیں گے۔ جسے ہم نے خدا جانے کیوں بچوں جیسی خواہش سے قبول کر لیا اور غلاف کا پکڑا ان کے تامل و تردد کے باوجود کھڑے کھڑے خرید کر ان کے حوالے کر دیا۔
تخلیقِ کائنات کے دلچسپ جُرم پر
ہنستا تو ہو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی
ادھر وہ کافرہ (کہ ہم ایک اور نقل مکانی کے باوجود پھر اسی کی راہ میں پڑتے تھے ) ہماری کھڑکیوں کے سامنے آ کر مومن ہو جاتی۔ مگر عین اس جگہ سے چار قدم ادھر اور چار قدم ادھر پہنچ کر اپنے عقیدے سے پھر جایا کرتی یعنی مچھلی جال کو دیکھ کر گہرے پانیوں میں کھو کھو جاتی۔
کھنچ کرتا ر نظر خود متوجہ کرنا
کوئی دیکھے تو تغافل بھی جتاتے جانا
کا سا منظر تھا کہ روزانہ مرتب ہونے لگا۔ اور پھر ہوتا چلا گیا مگر کچھ اس انداز سے کہ جہاں ایک جانب فضا میں بعد از تجیم تحلیل ہوتا وہاں دوسری جانب ادراک و وجدان میں کچھ اور زیادہ گہر ار جاتا اور ہم کہ عاشق عقل پیشہ تھے مجنوں کی طرح از خود رفتہ تو نہ ہونے پائے مگر پوری طرح پاسبانِ عقل کی نگرانی میں بھی نہ تھے گویا مصلحتوں کا لوہا ہلکی مگر مسلسل آنچ پر روز بروز گرم ہو رہا تھا اور گاہ گاہ یوں بھی لگتا کہ جونہی کسی جنون کا سانچہ میسر آیا اس لوہے کو اس میں ڈھل جانے میں ہرگز تامل نہیں ہو گا مگر ایسی کوئی ساعت قریب نہیں آ رہی تھی اور اگر اطمینان تھا تو محض یہی کہ:
آنکھ مچولی کھیلتا نت کھڑکی کے ابر سے
آئے گا وہ چاند بھی پاس کبھی اُس پار سے
ہم نے جو سرہانہ بغرضِ صناعی اپنے شناسا کو دے رکھا تھا تقریباً عرصہ دو ماہ کے بعد سر را ہے اس کے متعلق ذکر چھیڑا و وہ صاحب کہنے لگے کہ بس تھوڑی سی کسر باقی ہے۔ اس استفسار کے فوراً ہی بعد وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور ہم نے اپنی راہ لی کہ ان سے ہماری مڈبھیڑ اتفاقاً اسی جگہ ہوئی تھی لیکن ہم ابھی چند ہی قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ ان کا بھتیجا
کّچے دھاگے سے کھنچی آئے گی سرکار مری
کا پیغام لئے ہمارے دامن کو پکڑتا محسوس ہوا۔ ہمیں واپس بلا لیا گیا تھا اور ہم واپس چلے بھی آئے اس خوشخبری پر کہ سرہانے پر جتنا کچھ کام ہوا ہے خدا راہ وہ تو دیکھتے جائیں۔ چنانچہ اس پراگریس رپورٹ کے ملاحظے کے لئے جب ہم نے اپنے آپ کو ان کے دروازے پر عموداً منطبق کرنا چاہا یعنی اندر جانے سے تعرض کیا تو صاحب خانہ بقول ظفر اقبال؎
کہنے سے و وہ بھلے ہی مانے
لے جائیے اس کو بھر کے تھبّی
ہمیں اور دھریک کے گھنے سائے میں چار کرسیاں اور ایک میز دراز تھی اور کرسیوں پر وہی گدیاں بچھی تھیں جن کے سوتی پھول ان کے نزدیک ہماری کمزوری قرار پا چکے تھے یعنی از راہ تواضع چنانچہ ہمارے ہر اقرار کو ان کار میں بدل کر ہمیں ان کی کرسیوں میں سے ایک پر جیسے ٹھونس تو کیا ٹھونک دیا گیا۔
موسم گرما کی نم آگیں دوپہر تھی اور دھوپ پتوں سے چھن چھن کر ماضی کی تلخ یادوں کی طرح جسم پر چپک رہی تھی مکان کا بیرونی دروازہ ہمیں اپنا نوالہ بنانے کے بعد بند ہو چکا تھا اور میزبان کی آنکھوں میں ایک بے ضر ر نوعیت کا سوال تھا جس کا ہلکا سا اظہار یوں ہوا کہ ٹھنڈا پئیں گے یا گرم لیکن قبل اس سے کہ ہما کی اس دعوت کو تسلیم کرتے، انہوں نے آن کی آن میں اپنے بھتیجے کے ہاتھوں دونوں مشروبات کے لئے خام مال مہیا کرا لیا یعنی لیموں بھی اور چائے کے لئے دودھ بھی۔ ہماری ہر بات جواس طلسماتی فضا میں ہم ان سے کر رہے تھے، بیکری کے خمیر کی طرح سمٹنے بھی نہ پاتی کہ پھر پھیل جاتی یعنی ہماری چھٹی حس پہلی پانچوں حِسوں کو نفس نفس دبائے جا رہی تھی اتنے میں گھر کے کسی قدر معمر کمرے کا در نیم باز ہوا۔ یوں جیسے چشم آہو بوجھل نیند کے دوران ذرا سی وا ہوتی ہے ایک دستِ حنائی باہر نکلا جس نے چند چواتیوں (چولہے کی لکڑیوں ) کو دہلیز سے باہر پٹک دیا۔ ہم کہ کنکھیوں سے ادھر بھی دیکھ رہے تھے اور ادھر بھی اس اجنبی طرز استقبال پر کچھ اور بھی زیادہ ٹھٹھکے اور ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ روز محشر کا دروازہ جیسےیکبارگی کھل گیا وہ کافر دوشیزہ جو واضح طور پر اس صحن میں ہماری طرح ہی کی ایک مہمان تھی اور جس سے ہماری آنکھوں اور آنکھوں کے راستے اور بہت سارے قوائے خفتہ کی صاحب سلامت تھی، پوری سج دھج کے ساتھ ہمارے بالمقابل کھڑی تھی، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا چوکا تو کیا، گھر کا گھر لویں دینے لگا۔
کہاں وہ راہ چلتے نشہ قرب کا بے حیثیت جرعہ اور کہاں یہ لطف دید کا لبالب بھرا جام بقول میر
کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش میں
اگلا پڑے ہے جامے سے باہر بدن تمام
جس ہستی نے یہ اہتمام کیا تھا اس کے چہرے کے نقوش سراسر گوتمی تھے بجز ایک ہلکی سی غیر مردانہ شوخی کے جو برابر ان کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی مگر کچھ اس طرح جیسے کسی غیر غالب کے گھر کی چھت۔
چائے پک رہی تھی کہ ہمارے نطق و لب نے جیسے جواب دے دیا۔ ہم نے اپنے میزبان کے بھتیجے کو جو کسی کے با وصف چولہے سے ادھر کسی کتاب پر جھُکا ہوا تھا، پانا لانے کا ایک ہلکا سا اشارہ کیا مگر وہ…… جن کے دم سے صحن دور آباد تھے ؎
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
کی تصویر بنے جیسے کانوں بلکہ دیگر اعضائے جسمانی سے بھی ہمیں ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے۔
ہر نظر شاخ سخن تھی پھول پتوں سے لدی
تھا خمار آرزو کچھ اس طرح چھایا ہوا
اُٹھے اور شیشے کے گلاس میں پانی لے کر ہم پر یو جھک گئے۔ جیسے مصور رباعیات خیام کے صفحات پر ساقیان دلنواز جھکے نظر آتے ہیں ، شفاف گلاس پر ان کی انگلیوں سے جو تحریر لکھی گئی تھی کچھ ایسی تعّطر آشنا ثابت ہوئی کہ ہماری پیاسی انگلیوں کے ذریعے ہماری روح کی پاتال تک اتر گی اور خارج کا عالم کچھ یُوں تھا کہ نگاہوں نے بیٹھے تھے گل لالہ کی اس ہمارے سامنے سے پیالی اٹھا لی گئی گویا طلب ورسد کا متوازن گراف تیار ہو رہا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وہ ادا کار میزبانہ بھی ہمارے ساتھ برابر کی میز پر بیٹھی تھی اور یہ حرکت اسی کی تھی کہ اس نے اپنی با کرہ پیالی تو ہمیں تھما دی اور ہماری جھوٹی پیالی غٹاغٹ خود چڑھا لی۔ ؎
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے
چائے مشام جان میں اتر چکی تو ہمارے اصلی اور وڈے میزبان کھنکارے۔ دھریک سے ادھر پانی سے بھرا آفتابہ اٹھایا اور مکان کے اوپر واقع لیٹرین میں سدھار گئے۔ ہمارا پہلا پیامی یعنی ان کا بھتیجا پہلے ہی کہیں باہر جا چکا تھا، صحن میں ہم تھے، خدا تھا اور…
چل چلئے دنیا دی اس نُکرے …
والی ساری مراعات اور ……
گویا ہے تیرا جسم زباں گرچہ ہے خموش
کھنچے ہے تیری سمت جو تیرا کہنا نہ ہو
ہمارے اس احساس کو جیسے اپنے اظہار کی حقیقی منزل مل چکی تھی لیکن جب کنارِ چناب کے مجوزہ عہد و پیمان ہو چکے تو یکایک ایک دھماکہ ہو۔ یوں جیسے کسی نے ہمیں اٹھا کر کسی گہری کھائی میں سر کے بل دے مارا ہو، ہماری آنکھوں میں خون تھا اور اعصاب میں رعشہ اور روح قفسِ عنصری سے پرواز تو نہ کرے پائی مگر بے ڈور پتنگ کی طرح ڈگمگا ضرور ہی تھی اس لے کہ وہ کافرہ ہمیں یہ پیغام سنا کر لڑکھڑاتے قدموں کمرے کے اندر جا رہی تھی۔ ’’آپ سے انہیں بھی ملنا ہے ‘‘ یعنی میزبان موصوف کی اہلیہ محترمہ کو بھی لیکن اس سے ذرا مختلف قسم کی تنہائی میں ‘‘ …… اور یہی وہ فقرہ تھا جس کے دھماکے سے ہم گھر پہنچنے تک کسی پہلو سنبھل نہیں رہے تھے اور ابھی اس سلسلے کو کچھ اور بھی دراز ہونا تھا۔
اگلی صبح طلوع ہوئی تو صبح دم ہی ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تو وہی لڑکا ٹرے میں ناشتہ لئے حضر تھا جس کے عم بزرگوار کی فردوس شمائل چائے ہم گزشتہ روز نوش جان کر چکے تھے، مگر قبل اس سے کہ ہم وہ من و سلویٰ لینے سے انکار کرتے اچانک گلی کی دوسری نکڑ سے ہمارا ایک مہمان ذی شان آورد ہوا۔ ہم نے ناشتے کی ٹرے ہاتھ میں لے لی۔ اور سارے کا سارا غصہ دوسریجانب تھوک دیا۔ ہاں ! اس لڑکے کو اتنی تاکید بقائمی ہوش و حواس ضرور کی کہ خالی برتن کسی وقت آ کر لے جانا اور لگے ہاتھوں مہمان کی تواضع میں جُٹ گئے یعنی پردہ غیب سے آئے ہوئے اس منفرد ناشتے میں اسے بھی شریک کر لیا۔ مگر جب؎
بجز وجدان دلبر کوئی نہ پاوے حال عاشق کا
توں میرے راز کے نامے ستی آگاہ قاصد نئیں
پہلا پراٹھا ہی گرہن کی زد میں آیا تو نیچے سے لکہ ابر کی طرح ایک کاغذ دکھائی دیا جسے نگلنا ہمارے لئے ناشتے کے نوالوں سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا مگر ہم اس لمحے اپنے ہاتھ کی صفائی یا حاضر دماغی کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے جب بکمال کامیابی و سربستگی ہم وہ کاغذ وہاں سے اڑا کر اپنی جیب میں اڑس چکے تھے۔
مہمان رُخصت ہوا توہم نے وہ نامۂ آتشیں پڑھا جسے ہماری گزشتہ روز کی پس پردہ میزبانہ نے بدست خود لکھا تھا اور بدہان خود یا بفرمانِ خود بھجوایا تھا اور جس میں دعوت لب و دندان کے علاوہ بھی جانے کیا کچھ رقم تھا۔ دعوتِ لب و دندان کے سلسلے میں یہ تاکید بار بار درج تھی کہ آپ کے طعام کا مکمل بندوبست اب اسی گھر میں رہے گا۔ کپڑوں نیز نظریات کی دھلائی کی دعوت اس پر مستزاد تھی۔
یہ سلسلہ دو ایک روز تک چلا، یعنی ہم ناشتے کا مغز تو نکال لیتے اور چھلکے واپس بھیج دیتے رہے اور وہ مغز اب کسی تشریح کا محتاج کب ہے۔ تیسرے روز ہم نے ان جملہ مغزیات کا جواب لکھنے میں جیسے قلم ہی توڑ دیا۔ ہمارے اندر کا شاعر زندگی میں پہلی بار کھل کر بولتا دکھائی دیا۔ اس لئے کہ پس نگاہ پکتے ہوئے ایسے ہی لاوؤں کی نقاب کشائی اس کا ایمان تھا۔ اگر اس در جواب آں غزل قسم کے نامے کی کوئی نقل ہم بقائمی جذبات محفوظ رکھ سکتے تو اردو ادب میں کچھ اضافہ ہوتا یا نہ ہوتا… شُہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں ہمارا نام ضرور پکارا جانے لگتا۔ مگر وائے نادانی کہ ہم نے عاقبت اندیشی سے اس وقت کام نہ لیا اور یوں یہ متاع گراں مایہ گنوا دی۔ مگر اتنا ہوا کہ اس تحریر نے غالب کے اس بیان کی جگہ ضرور رکھ لی جو ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے دوران اپنے مسلمان ہونے کے ثبوت میں انہوں نے اپنے کسی انگریز حاکم کو دیا تھا۔ اور جان کی امان پائی تھی۔ ؎
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نے ملے اور ہم کو تو نہ ملا
(ظفرؔ )
٭٭٭
باب : ہمارا تیسرا ٹھکانہ اور ہم
اپنے دو ٹھکانوں کا ذکر تو اب تک ہو رہا ہے لیکن زندگی کا وہ باب جسے سماجی تعلقات کا نام دیا جاتا ہے۔ ابھی ہم نے بطور کفایت شعاری الگ باندھ رکھا ہے۔ سکول اور گھر کے علاوہ ہمارا کچھ وقت گھومنے پھرنے میں بھی لگتا، جس میں ہم فطری مناظر کے ساتھ ساتھ کچھ غیر فطری مناظر سے بھی دوچار رہتے ہم نے لفظ غیر فطری قانون کی اصطلاح سے کوسوں دور مفہوم میں برتا ہے۔ ہماری مراد ان تہذیبی قواعد سے ہے جسے اپنا کر انسان فطرت سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ جس گاؤں یا قصبے میں ہم مقیم تھے اس کا بیشتر حصہ کسی عاشق زار کے دل ناداں کی طرح خاصا مجروح تھا کہ اس میں روز دیہاڑے مرتب ہوتی۔ تاریخ کے کچھ تازہ نشان کھنڈرات کی صورت میں نئے نئے مرتب ہوئے تھے۔ لیکن اسے اتفاق جانئے یا ایہل دیہہ کی دوراندیشی کو ان بھلے لوگوں نے بازار کی کسی ایک اینٹ تک کو بھی چھوا نہ تھا۔ جس کے باعث علاقے بھر کا یہ مرکزی بازار تقسیم ملک کے بعد بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ آباد تھا۔ چنانچہ گھرکی چاردیواری اور کمروں کی باد پیمائی کے بعد ہمارا تیسرا ٹھکانہ اسی بازار کی کچھ دکانیں تھیں لیکن نہ اس مفہوم میں کہ خدانخواستہ ہم ملازمت کے علاوہ اپنے فارغ اوقات میں کوئی اضافی کاروبار کرتے تھے اگر ایسا ہوتا تو ہماری دانشوری کا غبارہ کب کا پھٹ چکا ہوتا اور شاعری کی جگہ لامحالہ طور پر ان سکّوں نے لے رکھی ہوتی جن کی خاطر اپنے عزیز ہموطنوں کے خون کا جلترنگ بجا کرتا ہے۔ کہ ہمارے ہاں تجارت ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر کوئی شخص اپنے ہموطنوں سے ان کی ناعاقبت اندیشی کا انتقام راشد مرحوم کے انتقام سے بھی بڑھ چڑھ کر لے سکتا ہے جس کا ذکر انہوں نے اہل فرنگ کے حوالے سے اپنی کسی نظم میں کیا ہے اور یہ منتظم طبقہ بکارِ خویش اس قدر ہوشیار ہے کہ آج بھی ہمارے بھائی انور مسعودانہیں کچھ اسی طرح خراجِ عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
یہی اندازِ تجارت ہے توکل کا تاجر
برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہو گا
لفظ بازار اور استاد میں جس قدر بُعد ہے ان دنوں اتنا بلکہ اس سے سوا قرب ہمیں بازار سے حاصل ہوتا تھا…… کہ اگر اس ماحول میں کوئی اکّا دکّا کا ہم مزاج آدمی میسر آ سکتا تھا تو اس کا قیام اسی نواح میں تھا چشم تصّورسے دیکھا جائے تو متعدد چہرے ایسے نظر آتے ہیں جن سے بیک وقت ہماری موافقت، یگانگت اور معاونت وغیرہ سبھی کچھ رہا، موافقت کی ذیل میں ایسے افراد شامل تھے جو محض دوکان دار تھے لیکن ذرا اہل مروت کہ محکمہ تعلیم ان دنوں براہ راست ڈسٹرکٹ بورڈوں کے زیر نگیں ہوا کرتا تھا اور اساتذہ کو تنخواہیں رزاقی کے نہیں بلکہ نجیلی کے جذبے کے تحت دی جایا کرتی ہیں یہاں تک کہ تین تین مہینے ڈاکیے کا منہ دیکھتے گزر جاتے اور جب چوتھے مہینے یہ خبر عام ہوتی کہ بورڈ نے اپنے زیر اختیار شاہراہوں پر اگی کچھ ٹاہلیاں فروخت کر لی ہیں تواساتذہ برادری کو جیسے عید کا چاند نظر آ جاتا ایسے حالات میں وہ دوکاندار جو اساتذہ سے مروت سے پیش آتے تھے ظاہر ہے کہ بڑے دل گردے والے تھے چاہے وہ اپنے بال بچے کے نان نفقے کی فکر میں اساتذہ کے ہاتھ فروخت ہونے والی ہر شے کا نرخ ذرا سوچ سمجھ کر لگاتے تاہم یہی وہ موافق نسخہ تھا جو اساتذہ کو راس تھا اور ہم خود اس موافق نسخے کے ہمہ وقتی اسیر تھے۔
ہماری یگانگت ان دوکانداروں سے تھی جن کا تعلق ہمارے عارضہ اختلاج قلبسے تھا اور ان میں آیورویدک یا ایلوپیتھک کی کوئی قید نہ تھی بلکہ بعض حضرات سے تو ہم نے بیک وقت دونوں نسلوں کی دوائیں بھی حاصل کیں اور اپنی گاڑی کو آگے ریڑھتے رہے۔ اسی طرح کے ایک آیورویدک کم ایلوپیتھک پریکٹیشنر سے ہم نے ایک بار اپنے عارضے کا تذکرہ کیا تو ہمیں پکڑے پکڑے اپنے کلینک میں لے گئے اور ہم ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ہمیں اٹھا بھی دیا۔ یُوں جیسے انہوں نے ہمارے لئے اپنا مجرب نسخہ پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا وہ نسخہ ہم نے بصد عقیدت برتا اور یوں سمجھئے جیسے آوا گون کے قائل ہو گئے۔ تحفظ ذات مانع ورنہ ہم آپ کو اس نسخے کے اثرات کلیہ سے بالجزئیات آگاہ کرتے البتہ……
’’گفتہ آئد در حدیثِ دیگراں ‘‘ کا مقولہ اگر درست ہے تو ایک حکایت یاد پڑتی ہے جو کُچھ یوں ہے کہتے ہیں کہ کسی اہلِ ایمان نے کسی گرجدار مبلغ کا وعظ سنا تو دل سے اٹھی ہوئی بات اس کے دل میں بیٹھ گئی۔ بات کو حرزِ جان بنائے گھر آیا تو گھر کی ایک ایک شہ راہِ خدا میں لٹا دی یہاں تک کہ اس نے ستر ڈھانپنے کے سوا تن بدن پر موجود لباس بھی راہ ا اللہ مستحقین کے حوالے کر دیا اور گفتۂ واعظ کے تحت اس امر کا انتظار کرنے لگا کے کب خدا دینے والوں کو دُگنا دیتا ہے۔ اس دوران میں پہلے تو اس کی مڈ بھیڑ فاقہ مستی سے ہوئی یہ عارضہ ابھی بہ اشتداد موجود تھا کہ ذہنی قویٰ نے بھی جواب دینا شروع کر دیا۔ ذہن اور جسم دونوں پر وار ہوا تو اپنے کئے پر پچھتانے سے ایک تیسرا فریق بھی ناراض ہو گیا۔ یعنی یہ کہ بے چارے کا پیٹ چل گیا۔ داغ چلنے کی نوبت تو ابھی کہیں دور تھی، پیٹ کیا چلا کہ قدموں نے بھی چلنے سے ان کار کر دیا، دیہات کا رہنے والا تھا کھیتوں کے پھیرے لگاتا لگاتا عاجز آیا تو وہیں ڈیرہ جما لیا اور کیفیت یہ ہو گئی کہ رفع حاجت کے بعد اس کے لئے اٹھنا بھی امرِ محال ہونے لگا۔ ایسی ہی ایک کوشش میں اٹھنا چاہا تو مجبوراً ایک جھاڑی کا سہارا لینا پڑ ا۔ جس کی جڑیں خیر سے اس سے بھی زیادہ کھوکھلی تھیں ، چنانچہ جھاڑی اس مردِ نحیف کے خفیف جھٹکے ہی سے اکھڑ کر اس کے قدموں میں آ پڑی۔ اب اسے اتفاق کہیے یا رحمتِ ایزدی کے اسی جھاڑی نے اسے گفتۂ واعظ کے برحق ہونے کی دلیل بھی مہیا کر دی کہ جھاڑی کے نیچے سے وہی زرِ سرخبرآمد ہوئی جسے بقولِ واعظ اس کے ذاتی اثاثے کا دگنا کہا جا سکتا تھا اس نے وہ زر سرخ ہانپتے سینے اور کانپتے ہاتھوں کے زور سے سمیٹی اور ان ہی قدموں واپس آ گیا۔ جو چند لمحے پہلے اسے جواب دے چکے تھے۔ پھر کیا ہوا اس کی تفصیل ضروری نہیں۔
؎ چن چڑھیا کل عالم دیکھے
لوگ باگ جنہیں اس کی سابقہ سخاوت کا علم ہو چکا تھا۔ بڑی عقیدت کے ساتھ اس کے ہاں آتے اس کے ہاتھ چومتے اسے مبارک باد دیتے اور اس سے پوچھتے کہ یہ سار کُچھ ہونے کو تو ہو گیا لیکن اتنا تو کہیے کہ ہوا کیسے ؟ جس کے جواب میں وہ صرف ایک ہی فقرہ دہراتا:
خدا دینیدیاں نوں دینداتے ہے پر ذرا……
موانست کی ضمن میں ہمارے وہ دوکاندار دوست آتے تھے جو اپنی ہری بھری تجارت کے علاوہ علم و ادب سے بھی سر را ہے کی ملاقات رکھتے تھے ان کی تعداد اگرچہ ایک سے زیادہ تھی تاہم ان میں قابلِ ذکر شخصیت ایک ہی تھی جن کی دلچسپی علم و ادب سے ذرا آگے شعر و شاعری سے بھی تھی لیکن ہمیں اُن کی ذہانت سے نسبتاً زیادہ پیار تھا جو حالات کی موافقت سے کُچھ ایسی ڈمپ ہوئی کہ اس نے انہیں اپنے ماحول کا ایک مردِ خوفناک بنا دیا۔
موصوف ایک ریٹائرڈ سگنل مین تھے اور جنگ عظیم دوم میں بالقصد شریک رہ چکے تھے ہمارا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا تو ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ زیادہ ہی طول پکڑتا گیا،یہاں تک کہ نوبت ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے تک جا پہنچی، ابتدائی ملاقاتوں میں موصوف ایک دن اپنے گاؤں سے تشریف لائے تو ہم کہ ان کی دوکان کے قریب ہی پائے جاتے تھے پکڑے گئے، انہوں نے سائیکل وغیرہ اپنی جگہ پر ٹکائی، دوکان کھولی، اسے جھڑا پونچھا اور بڑے خفیہ انداز میں ایک دو دھاری قرولی اپنے ڈُبے سے نکال کر اپنی نشست گاہ کے نیچے رکھ دی ہم نے ان کی اس ذاتی حرکت کو بھانپ تو لیا تھا، استفسار سے باز نہ آئے کہ دل کے کمزور واقع ہوئے تھے جس پر انہوں نے کہا۔
اوہ: ماسٹر صاحب ہم غریبوں کو ویسے کون جینے دیتا ہے آپ کو شاید علم نہ ہو کے اس بھرے بازار میں آپ کے اس خاکسار کو اس حوالے سے زیادہ پہچانتے ہیں ہم نے ان کی اس حیثیت کی تفصیل بالاختصار پوچھی تو کہتے لگے
’’یہی خاکسار ہے جس نے اس آبادی کے سب سے بڑے پھنے خان کو اسی دکان کے تھڑے پر چاروں شانے چت لٹایا اور اس سے اس رقم کی وصولی کی وجوہ اپنی چودھراہٹ کے ٹیکس کے طور پر ہما شما قسم کے دوکانداروں سے ادھار کے سودے کی صورت میں ہتھیایا کرتا ہے ‘‘
عاقل را اشارہ کافیست ہم عاقل تو نہ تھے لیکن کچھ کچھ سگنل ضرور ریسیو کر لیتے تھے لہذا ہم نے سازش یہ کی کہ اس جوان وحشت ناک کو بزدل بنانے کی ٹھان لی بالکل اسی طرح جیسے مشہور ہے کہ کسی دیہاتی نے دو بچوں کے اعلیٰ تعلیم دلائی لیکن ایک دن جب کسی سے جھگڑا کر کے وہ خون میں لت پت اپنے گھر پہنچا اور اپنے دونوں بیٹوں کو للکارا کہ اٹھو اور جا کر اس ناہنجار کی تکہ بوٹی ایک کر دو جس نے تمہارے ہوتے سوتے میرا یہ حشر کیا ہے تو یہ فریادِ پدری سن کر اس کے دونوں بیٹے پہلے تو بلبلا اٹھے لیکن جونہی ہتھیار قسم کی کوئی چیز اُن کے ہاتھوں میں آئی اُن کے ذہنوں میں موجود علم قانون کی ان دفعات نے بھی بیدار ہونا شروع کر دیا جن کے تحت یہ فعل بلوے کی زد میں آتا تھا چنانچہ دونوں نے فیصلہ قانونی کاروائی کا کیا جس پران کے باپ نے سرِ شام اپنے مکان پر چڑھ کر ہوکا لگایا ’’ہوکا اوئے لوکا! کوئی ہے جیہڑا میرے دو پڑھاکو پُتر لے کے اک ان پڑھ تے ڈانگ ما پُتر مینوں دے دے۔ ہوکا، اوئے لوکا…!!!‘‘
سو حضرات ہماری اس سازش کا لُب لباب بھی کچھ ایسی ہی سکیم تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ صاحب جن کی دو دھاری چھری کی چمک ہماری آنکھوں کو خیال ہی خیال میں آج بھی چندھیائے دیتی ہے، خدا جانے کہاں رہ گئی کہ اب وہ حضرت اپنی تکڑی تول کے سارے سامان کا نیلام بول کر ( بلکہ بقول طارق عزیز اپنا گھر کا گھر لٹا کے ) اپنے علاقے کے صاحب قرولی اصحاب کو قانون کی گرفت سے نجات دلایا کرتے ہیں ہماری مراد ان کے پیشہ وکالت سے ہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ
٭٭٭