FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

تنقیدی نگارشات

 

حِصّہ اوّل

 

                مظفر حنفی

ترتیب و تدوین:  فیروز مظفر

 

 

 

 

محبت کے پیام بر: کبیرؔ داس

 

(ایک ریڈیو فیچر)

 

راوی  :       ہندوستان کی تاریخ میں ایسی کئی عظیم ہستیوں کے نقوش پا چراغِ منزل کی طرح روشن ہیں، جنھوں نے اپنی مثالی زندگی اور تابناک کارناموں کے ذریعے قوم کے حافظے میں اپنے لیے نمایاں مقام محفوظ کر لیا ہے، جنھوں نے تہذیب و ثقافت کے دامن پر اپنی انفرادیت کی مہریں ثبت کی ہیں، اپنی عظمت کا اعتراف کرنے پر سارے زمانے کو مجبور کیا ہے اور جنھوں نے اپنی محرومیوں اور لاچاریوں کے با وصف اپنی ذات کی تکمیل و توسیع کی ہے۔ کبیر داسؔ ایسے ہی ایک عظیم المرتبت انسان ہیں۔

راویہ:  کیا دلچسپ بات ہے کہ یہ وہی کبیرؔ داس ہیں جنھوں نے آج سے تقریباً چھ سو سال پہلے فرمایا تھا:

رہنا نہیں دیس بِرانا ہے

یہ سنسار کا گد کی پڑیا بوند پڑے دھُل جانا ہے

یہ سنسار کانٹ کی باڑی الجھ پُلجھ مر جانا ہے

یہ سنسار جھاڑ اوجھانکڑ آگ لگے برجانا ہے

کہت کبیرؔ سنو بھئی سادھو ست گرو نام ٹھکانا ہے

راوی:  لیکن جریدۂ عالم پر کبیرؔ داس کا نام دھُلنے کی بجائے اتنا گہرا نقش ہوا کہ کاغذ کی پُڑیا پر چھ سو برس تک بوندیں پڑتی رہیں اور ان کا نام نہ مٹا۔ کانٹوں بھرے سنسار کی باڑی میں الجھ پُلجھ کر اور جھاڑ جھنکاڑ میں آگ لگنے کے باوجود وہ آج بھی یاد کیے جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے عمر بھر خود بھی ست گرو کا نام یاد رکھا۔

راویہ:  کبیرؔ داس ہندوستانی سنتوں اور صوفیوں کے اس عدیم المثال سلسلے کی ایک کڑی ہیں جن میں خواجہ معین الدین چشتی، گرو نانک اور سوامی رامانند جیسے آفتاب و ماہتاب جگمگا رہے ہیں۔ سوامی رامانند کے بے شمار شاگردوں میں سنت رَے داس اور کبیرؔ نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔

راوی:      سد گرو کے پرتاپ سے مٹ گیو سب دکھ دند

کہہ کبیرؔ دُبدھا مِٹی، گرو ملیا رامانند

سوامی راما نند نہ صرف یہ کہ کبیر داس کے گرو تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ انھیں کی دعاؤں کے طفیل سے کبیرؔ داس کا جنم ہوا تھا۔

راویہ:  یہ داستان بھی بڑی پُر لطف ہے۔ مشہور ہے کہ ایک بیوہ برہمن عورت نے، جس نے گھونگھٹ نکال رکھا تھا، سوامی رامانند کے پاؤں چھوئے تو سوامی جی نے اَن جانے میں اس کے ہاں بیٹا ہونے کی دعا دی۔ لوگوں نے کہا مہاراج یہ کیا غضب کیا، آپ کا آشیرواد ہمیشہ سچ ہوتا ہے اور یہ عورت بیوہ ہے۔ رامانند بولے۔ اس کا بیٹا بہت بڑا سنت ہو گا اور اس کی رہتی دنیا تک شہرت ہو گی۔ اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔

راوی:  لیکن اس بیوہ کے یہاں کبیر داس کا جنم ہوا تو لوک لاج کی وجہ سے وہ بچّے کو کپڑے میں لپیٹ کر لہر تارا تالاب کے کنارے ڈال آئی جہاں سے انھیں ایک نیرو نام کا جولاہا اور اس کی بیوی نعیمہ اپنے گھر اٹھا لائے اور اسی مسلمان خاندان میں کبیرؔ نے پرورش پائی۔

راویہ:  اپنی پیدائش کے بارے میں ایک جگہ کبیرؔ نے خود کہا ہے :

سنتو میں ادی گت سوں چل آیا

میرا مرم کِنھو نہیں پایا

نا میرے جنم نہ گربھ بسیرا، بالک ہوے دکھلایا

کاسی پوری جنگل بِچ ڈیرا تہاں جولاہے پایا

راوی:  یہ جو بغیر کوکھ میں رہے اور بغیر جنم لیے وجود میں آنے کی بات ہے اس سے متعلق بھی ایک روایت ہے جس کے مطابق رامانند کے آشیرواد سے اس بیوہ برہمن عورت کے ہاتھ میں ایک بڑا سا چھالا پڑ گیا اور کبیرؔ اسی سے برآمد ہوئے اسی وجہ سے ان کا نام کربیر، یعنی ہاتھ کا لڑکا پڑا، جو بگڑ کر کبیرؔ ہو گیا۔

راویہ:  کبیرؔ کا سنہ پیدائش ۱۳۹۸ء بیان کیا جاتا ہے۔ یہ لودی خاندان کے آخری سلطان سکندر شاہ کا زمانہ تھا۔ غریب خاندان میں پروان چڑھنے والے کبیرؔ کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ البتہ نیرو نے انھیں کپڑا بننے کا فن اچھی طرح سکھلا دیا۔

راوی:  کبیرؔ نے یہ کہہ کر___ مٹی کا گد چھوؤ نہیں، قلم گہی نہیں ہاتھ___ خود بھی اپنے اَن پڑھ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

راویہ:  اور انھوں نے یہ بھی تو کہا ہے کہ _____

پوتھی پڑھ پڑھ جگ مُوا پنڈت بھیو نہ کوے

ڈھائی اکچھر پریم کے پڑھے سو پنڈت ہوے

پریم کے یہ ڈھائی اکچھر کبیرؔ نے جس خوبی کے ساتھ پڑھ رکھے تھے اس کے سامنے دنیا بھر کا علم و فضل حقیر اور بے معنی نظر آتا ہے۔

مغنّیہ:  پریم نہ کھیتوں اُوپجے پریم نہ ہاٹ بِکائی

راجا، پرجا جے ہی رُچے، سیس دیئی لے جائی

جا گھٹ پریم نہ سنچرے، سوگھٹ جان مسان

جیسے کھال لوہار کی، سانس لیت بِن پران

کبیرا یہ گھر پریم کا، خالہ کا گھر ناہیں

سیس اُتارے ہاتھ دھر، سو پیٹھے گھر ماہیں

کبیراؔ پیالا پریم کا، انتر لیالگاے

روم روم میں رم رہا اور امل کیا کھاے

راوی:  بیشک کبیرؔ کا بنیادی پیغام محبت کا رہا ہے اُن کی ساکھیاں ہوں یا دوسری شاعری، ہر جگہ انسانوں کو پریم کا سندیش اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں :

سمجھ دیکھ من میت پَیروا

عاشق ہو کر سوتا کیا رے

پایا ہو تو دے لے پیارے

پاے پاے پھر کھونا کیا رے

جب انکھیَن میں نیند گھنیری

تکیہ اور بچھونا کیا رے

کہیں کبیر پریم کا مارگ

سر دینا تو رونا کیا رے

راویہ:  یعنی کبیرؔ کے خیال میں راہِ محبت میں سر بھی جاتا رہے تو رونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ در اصل کبیرؔ کے زمانے میں سنتوں اور صوفیوں کی ایک بڑی جماعت محبت کے اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس مہم میں جو کامیابی کبیرؔ کو نصیب ہوئی وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئی۔

راوی:  ہمارے ملک میں تو ہر زمانے میں ایسے لوگ جنم لیتے رہے ہیں جو ذات پات کا فرق مٹا کر اور اونچ نیچ کے جذبے کو ختم کر کے آدمی کو آدمی سے قریب لانا چاہتے تھے اور انسان دوستی کو عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ امیر خسرو سے مہاتما گاندھی تک ایسے لوگوں کا ایک بڑا قافلہ ہے۔ کبیرؔ کے زمانے میں ہندو مسلمان، اونچ نیچ، امیر اور غریب کے درمیان یہ خلیج ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اس لیے انھیں محبت کا پیام بر ہونا ہی تھا۔

راویہ:  قدرت نے انھیں اس کام کے لیے ہی پیدا کیا تھا جیسا کہ ان کی پیدائش سے موت تک کے واقعات ظاہر کرتے ہیں۔ برہمن عورت کے بطن سے پیدا ہوئے، مسلمان گھرانے میں پرورش پائی اور سوامی رامانند سے شاگردی کا شرف حاصل کیا۔

راوی:  لڑکپن ہی سے کبیرؔ کے دل میں دنیا کی رغبت بہت کم تھی اور خدا کی طرف ان کا جھکاؤ زیادہ تھا۔

راویہ:  وہ سمجھتے تھے کہ خدا مل گیا تو سب کچھ مل گیا اور اسے پانے کا سب سے اچھا اور کار گر طریقہ یہ ہے کہ انسانوں سے محبت کی جائے۔

راوی:  وہ نِرگُن بھگوان اور ایک خدا کو مانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو اور مسلمان سب ایک خدا کے بندے ہیں اور اس کی نگاہ میں سب انسان برابر ہیں۔ مذہب کا فرق بے کار ہے نجات پانے کے لیے دل کی صفائی ضروری ہے۔

مغنّی:  سادھو، دیکھ جگ بورانا

سانچی کہو، تو مارن دھاوے جھوٹے جگ پتیانا

ہندو کہت ہے رام ہمارا مسلمان رحمانا

آپس میں دوؤ لڑے مرت ہیں مر م کوئی نہیں جانا

بہت ملے موہے نیمی دھرمی، پرات کریں اَسنانا

آتم چھوڑ پشانے پوجیں تِن کا تھوتھا گیانا

آسن مار، ڈمبھ دھر بیٹھیں، من میں بہت گُمانا

پیپل، پتھر پوجن لاگے تیرتھ برن بھلانا

مالا پہرے، ٹوپی پہرے، چھاپ تلک انومانا

ساکھی سیدے گاوت بھُولے آتم کبھو نہ جانا

گھر گھر منتر جو دیت پھرت ہیں مایا کے ابھیمانا

گرو سہت ششیہ سب بوڑے انت کال پچھتانا

بہت اک دیکھے پیر اولیا، پڑھیں کتاب، قرانا

کریں مُرید، قبر بتلاویں، اِن ہوں کھُدا نہ جانا

ہندو کی دیا، مہر تُر کن کی، دونوں گھر سے بھاگی

وہ کرے ذبح، وہ جھٹکا مارے، آگ دوؤ گھر لاگی

یا بدھ ہنست چلت ہیں ہم کو، آپ کہا ویں سیانا

کہیں کبیرؔ سنو بھئی سادھو، ان میں کون دوانا

راویہ:  کبیرؔ اسی قسم کے بھجن گا کر اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے لگے۔ انھوں نے رسمی مذہب پرستی کے خلاف بھی جہاد چھیڑ دیا اور ہندو ہوں یا مسلمان، مذہب کے نام پر کی جانے والی فضول اور نمائشی باتوں پر سخت تنقید کی۔

راوی:  انھیں مذہبی تعصّب، کٹّرپن اور ریاکاری سے سخت نفرت تھی اور ایسی خامیوں پر وہ طنزیہ شعر کہہ کر عوام کو ان سے محفوظ رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ اُن کے نزدیک رسماً سر منڈانا، دکھاوے کے لیے تسبیح پھیرتے رہنا اور پرانی باتوں کی تقلید کرنا مذہب کی سچی روح کے خلاف ہے خواہ وہ ہندو مت ہو یا اسلام، دونوں اس کے حق میں نہیں ہیں۔

راویہ: فرماتے ہیں :

موڑ موڑائے ہری ملیں تو ہر کوئی لییے مڑاے

بار بار کے مُوڑتے، بھیڑ نہ بیکنٹھ جاے

مالا پھیرت یُگ بھیا، گیا نہ من کا پھیر

کر کا منکا ڈاردے، من کا منکا پھیر

اور____

رنگی کو نارنگی کہے، جمے دودھ کو کھویا

چلتی کو گاڑی کہے، دیکھ کبیراؔ رویا

راوی:  ایسی کھری کھری باتوں اور سچی نکتہ چینیوں کی وجہ سے نا سمجھ ہندوؤں اورکم فہم مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ کبیرؔ کا مخالف ہو گیا اور انھیں مختلف طریقوں سے تنگ کیا جانے لگا لیکن ان رکاوٹوں نے کبیرؔ کے جذبۂ شوق کو اور بھی بھڑکا دیا وہ بر ملا اور وا شگاف انداز میں متعصّب پنڈتوں اور کٹّر ملّاؤں کی خامیوں کو نمایاں کرنے لگے۔

راویہ:  عوام میں ان کے بڑھتے ہوئے اثر کو کم کرنے کے لیے پنڈتوں نے طنزاً کہنا شروع کر دیا۔ کبیرؔ داس کا کوئی گرُو نہیں ہے چنانچہ کبیرؔ کے دل میں سوامی رامانند کا شاگرد بننے کی خواہش پیدا ہوئی جو اپنے دور کے بڑے مہاتما سمجھے جاتے تھے۔

راوی:  لیکن سوال یہ تھا کہ ایک وشنو پنڈت کسی مسلمان جولاہے کو اپنا چیلا کیوں تسلیم کرے گا اس لیے کبیرؔ نے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ ایک دن وہ صبح سویرے گنگا کے گھاٹ پر جا پہنچے اور دبک کر ایک سیڑھی پر لیٹ رہے۔ سوامی رامانند روز اشنان کے لیے اسی گھاٹ پر آتے تھے اس دن گنگا میں ڈبکی لگانے کے لیے سوامی جی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے کہ ان کا پاؤں کبیرؔ کے سر سے ٹکرا گیا۔ جب کبیرؔ نے ان کے پاؤں چھوئے تو سوامی رامانند کو معلوم ہوا کہ ان کا پیر کسی انسان کے سر پر پڑ گیا ہے۔ انھوں نے رام رام کہہ کر فوراً پاؤں کھینچ لیا۔

راویہ:  بس اس دن کے بعد سے کبیرؔ اپنے آپ کو رامانند سوامی کا چیلا کہنے لگے۔ رامانند تک بات پہنچی تو انھوں نے کبیرؔ کو بلا کر حقیقت معلوم کی۔ کبیرؔ نے سوامی کو بتایا کہ ہاں وہ ان کے چیلے ہیں اور راما نند جی انھیں رام نام کے منتر کی شکشا دے چکے ہیں کیا رام نام سے بڑھ کر بھی کوئی گرو منتر ہو سکتا ہے ؟

راوی:  ظاہر ہے اس بہترین جواب کے بعد سوامی رامانند نے کبیرؔ کو اپنا چیلا تسلیم کر لیا اور کبیرؔ نے ہمیشہ اس بات پر فخر کیا کہ انھیں رامانند کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ کہتے ہیں :

ست گرو کے پرتاپ سے مٹ گیو سب دکھ دند

کہہ کبیرؔ دُبدھا مٹی، گرو ملیارامانند

اور یہ مشہور ساکھی گرو کی شان میں کبیرؔ نے ہی کہی ہے جس کے مطابق گرو کا مرتبہ گوبند سے بھی بڑا ہے :

گرو گوبند دونوں کھڑے کا کے لاگوں پاے

بلہاری گرو آپنے، گوبند دیو بتاے

راویہ:  اپنے عظیم المرتبت مرشد یا گرو سے اتنی عقیدت کے باوجود کبیرؔ ان کے ساتھ بھی حق بیانی اور صاف گوئی سے ہی پیش آتے تھے۔ ایک بار اپنے پرکھوں کا شرادھ کر نے کے لیے رامانند کو گائے کے دودھ کی ضرورت ہوئی اور انھوں نے کبیر کو دودھ لانے کا حکم دیا۔ جب کبیرؔ کو لوٹنے میں بہت دیر ہوئی تو دوسرے شاگرد کو پتہ لگانے بھیجا کہ معاملہ کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ کبیرؔ ایک مردہ گائے کے منہ کے پاس گھاس رکھ کر بیٹھے تھے کہ وہ چارہ کھا لے تو دودھ نکالیں۔ سوامیؔ نے کبیرؔ سے اس حماقت کا سبب جاننا چاہا توکبیرؔ نے بہت ہی دلچسپ بات کہی۔

راوی:  انھوں نے کہا گرو مہاراج ابھی کل کی مری ہوئی گائے نے میری ہزار منت سماجت کے باوجود چارہ نہیں کھایا تو آپ کے مدّتوں پہلے مرے ہوئے پُرکھے دودھ کیسے پی سکتے ہیں۔ ظاہر ہے سوامی جی کو دھرم کے نام پر اس آڈمبر کا قائل ہونا پڑا۔

راویہ:  کبیرؔ نے تو دھرم اور عقیدے کے جامد پہلوؤں پر ہمیشہ جرأت اور بے باکی کے ساتھ وار کیے ہیں اور اکثر ایسی خطرناک حق گوئی سے کام لیا ہے ______

پتھر پوجے ہری ملے تو میں پُوجوں پہار

تا سے یہ چکّی بھلی، پیس کھائے سنسار

اور___

بکری پاتی کھات ہے تاکی کاڑھی کھال

جو بکری کو کھات ہیں تِن کو کون حوال

راوی:  کبیرؔ بُنکر کا پیشہ کرتے تھے۔ کپڑا بنتے اور بازار میں لے جا کر بیچ دیتے بلکہ اکثر تو کپڑا کسی غریب یا فقیر کو دے کر خالی ہاتھ گھر لوٹ آتے۔ ان کا کہنا تھا:

اونچا ہوا تو کیا ہوا جیسے پیڑ کھجور

پنچھی کو چھایا نہیں پھل لاگے اتی دُور

راویہ:  کبیرؔ نے دنیا میں رہ کر، دنیا داری نباہتے اور گرہستی کے فرض ادا کرتے ہوئے درویشانہ زندگی بسر کی۔ شادی کی تو ایک ایسی لڑکی کے ساتھ جس کے خاندان کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ ان کی بیوی کا نام لوئی تھا اور ایک بیراگی نے اس کی پرورش کی تھی۔

راوی:  ان کے ہاں دو اولادیں ہوئیں۔ بیٹے کا نام کمال اور بیٹی کا نام کمالی تھا۔ بیٹا کمال دنیا دار نکل گیا۔ کبیرؔ داس اس سے ناراض رہتے تھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ منہ بولے بیٹا بیٹی تھے اور حقیقت میں کمال ان کا شاگرد اور کمالی شیخ تقی کی بیٹی تھی لیکن دونوں کبیرؔ  کے ساتھ رہتے تھے۔

راویہ:  ابتدا میں تو لوگ کبیر سے ان کی صاف گوئی اور طنز آمیز باتوں کی وجہ سے خفا رہے لیکن جب ثابت ہو گیا کہ وہ ہر مذہب کی سچی روح کو پہچانتے ہیں اور صرف ظاہری باتوں، دکھاوے کی رسموں کو بُرا کہتے ہیں اور ہندو یا مسلمان کو نہیں بلکہ ڈھونگی اور فریب کار کو بُرا کہتے ہیں تو رفتہ رفتہ لوگ ان کی نیک نیتی کے قائل ہو گئے اور ان کی عزّت کرنے لگے۔

راوی:  کبیر داس نے اپنی سچائی اور خلوص، شاعری اور پیغام کے جادو سے عوام کے دلوں کو جیت لیا۔ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کا کلام ان کے عقیدت مند اور شاگرد لکھتے رہتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد شاگردوں اور مریدوں نے ان کے دوہے، ساکھیاں اور اقوال وغیرہ جمع کر کے کتابی شکل میں محفوظ کر لیے۔

راویہ:  جس طرح کبیر کی پیدائش ہندو و مسلم اتحاد کی علامت ہے، جس طرح کبیرؔ کا کلام اونچ نیچ کے بھید کو مٹانے کا ذریعہ ہے، اسی طرح اس مہان سنت کی موت بھی ذات پات کی تفریق کو مٹانے کا سبق دیتی ہے۔ انھوں نے بڑی لمبی عمر پائی۔ زندگی کے آخری دنوں  میں وہ کاشی سے مگہر چلے گئے جو اپنی جگہ خود ایک انقلابی قدم تھا کیونکہ یہ واہمہ اس زمانے میں عام تھا کہ مگہر میں مرنے والا اگلے زمانے میں گدھا بنتا ہے۔

راوی:  مگہر ہی میں ۱۵۱۸ء میں کبیرؔ کی وفات ہوئی۔ مشہور ہے کہ مرنے کے بعد کبیرؔ کے ہندو اور مسلمان مریدوں میں تکرار ہونے لگی۔ مسلمان کہتے تھے ہم لاش کو دفن کریں گے ہندو چیلے انھیں چتا پر جلانا چاہتے تھے۔ تکرار نے لڑائی کی شکل اختیار کر لی۔ تلواریں چلنے ہی کو تھیں کہ لاش پر سے چادر اُڑ گئی اور لوگوں نے دیکھا کہ کبیرؔ کی لاش کی جگہ پھولوں کا ایک ڈھیر لگا ہے۔ لوگ لڑنا جھگڑنا بھول گئے۔ آدھے پھول مسلمانوں نے لے کر مگہر ہی میں دفن کر دیے اور بجلی خاں نے اس جگہ ایک روضہ بنوا دیا۔ ہندوؤں نے اپنے حصہ کے پھول چتا پر رکھ کر بھسم کر دیے اور راکھ بنارس لے جا کر ایک مٹھ میں دفن کر دی۔ یہ مقام کبیر چورَے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح مرتے مرتے بھی صوفی سنت کبیرؔ ہندو اور مسلمانوں کو میل جول اور پیار محبت کا عملی سبق دے گئے۔

مغنّی:  ارے دل

پریم نگر کا انت نہ پایا جیوں آیا تیوں جاوے گا

سُن میرے ساجن، سُن میرے میتا، یا جیون میں کیا کیا بیتا

سرپا ہن کو بوجھا لیتا، آگے کون چھڑاوے گا

پرلی پار مرا میتا کھڑیا، اس ملنے کا دھیان نہ دھریا

ٹوٹی ناؤ اُوپر جو بیٹھا، غافل غوطہ کھاوے گا

داس کبیرؔ کہیں سمجھائی، انت کال ترا کون سہائی

چلا اکیلا، سنگ نہ کوئی، کِیا آپنا پاوے گا___ ارے دل___

(فیڈ آؤٹ)

٭٭٭

 

 

 

 

میر حسنؔ کی غزلیں

 

جس طرح اُردو میں میر تقیؔ میر مسلمہ طور پر غزل کے عظیم فنکار ہیں، سوداؔ بہترین قصیدہ نگار ہیں اور میرؔ انیس سب سے بڑے مرثیہ گو ہیں، اسی طرح میر حسن کی مثنوی ’سحر البیان‘ اُردو کی سب سے اچھی اور مقبول ترین مثنوی تسلیم کی جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ وہی میر حسنؔ ہیں جن کے پوتے میر انیسؔ نے ان کی پشت میں ہونے پر اپنے ایک مرثیے میں اظہار فخر کیا ہے :

پانچویں پشت ہے شبیر کی مدّاحی میں

اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا

اُردو تنقید میں اپنے تخلیق کاروں کو بہ لحاظ تخصیص، بارک بینی کے ساتھ ٹکڑوں میں بانٹ کر دیکھنے کی روش اتنی عام ہو گئی ہے کہ اکثر سوداؔکے بھاری بھرکم قصیدوں میں ان کی اچھی خاصی غزل، حالیؔ کی مصلحانہ تنقید کے پیچھے ان کی خالص جمالیاتی شاعری، اکبرؔ الٰہ آبادی کی مزاحیہ تخلیقات کے نیچے ان کی سنجیدہ نگارشات اور شادؔ عارفی کی تیکھی طنز نگاری کی آڑ میں ان کی عشقیہ غزلیں نیز رومانی و منظریہ نظمیں دب کر رہ گئیں اور ان جیسے بیشتر لوگوں کی جو پہلو دار ادبی شخصیت رکھتے تھے، مجموعی حیثیتوں کا کما حقہ اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو میر حسنؔ کے ساتھ سب سے زیادہ بے انصافی ہوئی۔ کوئی شبہ نہیں کہ اگر اُردو کے سب سے بڑے مثنوی نگار کا نام دریافت کیا جائے تو اُردو ادب کا کوئی معمولی طالب علم بھی فی الفور میر حسنؔ کا نام لے گا، لیکن اگر بحیثیت مجموعی اُردو کے پچیس اوسط قامت کے شعرا کی فہرست تیار کرنے کو کہا جائے تو اس میں قائمؔ، انشاءؔ، ذوقؔ، امیر مینائی اور دوسرے بہت سے غزل گو  تو شامل ہوں گے لیکن میر حسنؔ کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو گا۔ اگر میر حسنؔ کی کم و بیش پانچ سو غزلیات پر ابتدا سے ہی خاطر خواہ توجہ صرف کی گئی ہوتی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اُنھیں بھی اُردو کے اہم غزل گویوں کی صف میں شمار کیا جاتا۔

عام خیال یہ ہے کہ لکھنؤ اسکول کے بانی شیخ امام بخش ناسخؔ اور خواجہ حیدر علی آتشؔ ہیں۔ لیکن کوئی بھی ادبی دبستان محض ایک دو افراد کی ہی کاوشوں سے وجود میں نہیں آ جاتا۔ اس کی تشکیل اور تعمیر میں پوری پوری نسلوں کا اجتماعی ہاتھ ہوتا ہے۔ بلاشبہ دبستان لکھنؤ کی انفرادیت کو اجاگر کرنے اور اسے ادبی استحکام عطا کرنے میں ناسحؔ و آتشؔ اور اُن کے تلامذہ نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس اسکول کے بنیاد کاروں میں ان دہلوی شعرا کی بڑی تعداد کے نام بھی ہیں جو دست بُردِ زمانہ کا شکار ہو کر نوابین اودھ کے سایۂ عاطفت میں لکھنؤ آ گئے تھے اور جن میں سن رسیدہ میر غلام حسین ضاحکؔ نیز ان کے صاحبزادے میر حسنؔ بھی شامل تھے۔

اُن کے جدِّ اعلیٰ میر امام موسوی ہرات کے باشندے تھے اور شاہجہاں کے دور میں ہجرت کر کے دہلی آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بزرگ بھی کبھی کبھار شعر کہہ لیتے تھے لیکن اس خاندان میں صحیح معنوں میں شعر گوئی کا باقاعدہ آغاز میر غلام حسن ضاحکؔ سے ہوا۔ میر ضاحکؔ کے حالاتِ زندگی کی بابت اُردو کے محققین نے زیادہ تفصیل سے کام نہیں لیا البتہ اتنا پتہ چلتا ہے کہ ضاحکؔ سے قبل اس خاندان کی تین پشتیں دہلی میں گزر چکی تھیں اور ضاحکؔ کے والد میرعزیز اللہ ابن میر برأت اللہ ایک عالم و فاضل آدمی تھے۔ ڈاکٹر فضل الحق کی تحقیق کے مطابق میر ضاحکؔ کی پیدائش ۱۱۲۱ھ یا ۱۱۲۲ھ میں ہوئی اور ۱۱۹۲ھ میں انتقال ہوا۔ میر ضاحکؔ ایک بذلہ سنج، شگفتہ مزاج، قناعت پسند اور ہزل دوست آدمی تھے۔ ہر چند عالم و فاضل نہ تھے لیکن عربی میں دخل اور فارسی پہ دستگاہ رکھتے تھے۔ محمد حسین آزادؔ نے ’ آبِ حیات ‘ میں لکھا ہے کہ میرضاحکؔ کی وضع اور لباس قدمائے دہلی کے مطابق تھا۔ ان کے سر پر عموماً سبز عمامہ ہوتا تھا، بڑے گھیر کا پاجامہ یا جبہ جس کا رنگ بھی اکثر سبز ہی ہوتا، گلے میں خاکِ پاک کا کنٹھا، داہنے ہاتھ میں ایک چوڑی جس پر کچھ دعائیں کندہ تھیں، انگلیوں میں متعدد انگوٹھیاں پہنتے تھے۔ حنا آلودہ ریش جوزیادہ لمبی نہ تھی، بعض اوقات ہاتھوں میں بھی مہندی ملتے تھے۔ قد میانہ اور رنگ گورا تھا، مختلف تذکروں میں آیا ہے کہ وہ نواب سالار جنگ اور نوازش علی خاں کے درباروں سے کچھ دن وابستہ رہے لیکن پھر ترک روزگار کیا اور درویشی اختیار کر لی لیکن تا حال ان امور پر سیر حاصل تحقیق نہیں کی گئی کہ حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے۔

میر غلام حسین ضاحکؔ، جیسا کہ اُن کے تخلص سے واضح ہے، بنیادی طور پر ہجو نگار اور ہزل گو تھے لیکن ان کے کلام میں کچھ سنجیدہ غزلیں بھی پائی جاتی ہیں جن کا مطالعہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ اگر وہ اس طرف یکسوئی اور متانت کے ساتھ متوجہ ہوتے تو اچھے غزل گو ثابت ہو سکتے تھے۔ نمونے کے طور پر ان کی غزلوں سے چند سنجیدہ اشعار پیش خدمت ہیں :

 

اس آن تھمے آنسو جس آن کہ جی ڈوبا

تب جان سے ہم اُٹھّے جب دیدۂ نم اُٹھّے

 

کیا دیجیے اصلاح خدائی کو، ولیکن

کافی تھا ترا حُسن اگر ماہ نہ ہوتا

 

جب سے اس طفلِ پری وش نے چرائیں آنکھیں

بس مِرا چل نہ سکا روکے سجائیں آنکھیں

 

کچھ تذکرہ نگاروں نے ضاحکؔ کے ایک آدھ قصیدے، شہر آشوب، چند رباعیوں اور کچھ نثر پاروں کا بھی ذکر کیا ہے لیکن وہ اصلاً ہزل گو کی حیثیت سے ہی پہچانے جاتے ہیں فطرت نے انھیں طبع رسا اور قدرتِ کلام سے نوازا تھا جسے موصوف نے ہجو و ہزل گوئی میں صرف کیا۔ پہلے کچھ غیر ادبی اشخاص کی ہجویں کہیں اور پھر حالات نے انھیں مرزا محمد رفیع سوداؔ جیسے عظیم المرتبت شاعر اور تیکھے ہجو نگار کا مدِّ مقابل بنا دیا۔ میر ضاحکؔ نے مولوی ساجد کو نشانۂ ہجو بنایا تھا اور سوداؔ کو ان کی یہ حرکت ناگوار محسوس ہوئی۔ چنانچہ مولوی ساجد کی طرف سے ضاحکؔ کے مقابلے پر انھوں نے میدان سنبھال لیا، بعد ازاں دونوں بزرگوں میں جس سطح پر آ کر ہجویہ معرکہ آرائی ہوئی تہذیب اس کی تفصیل میں جانے سے شرماتی ہے۔

میر حسنؔ، جن کا اصل نام غلام میر حسن تھا، میرؔ ضاحک کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ کا نام حمیدہ بی بی تھا۔ میر حسنؔ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں محققین میں خاصا اختلاف ہے۔ ہمارے لیے اتنا جان لینا کافی ہے کہ کثرتِ رائے کے مطابق میر حسن پرانی دہلی کے محلہ سید واڑے میں ۱۱۴۲ھ ( مطابق ۱۷۲۹ئ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد میر ضاحکؔ کے زیر سایہ حاصل کی لیکن نا مساعد حالات کی بنا پر وہ میر ضاحکؔ ہی کی طرح باقاعدہ تعلیم سے محروم رہ گئے۔ پھر بھی عربی و فارسی میں واجبی دخل تھا۔ میانہ قد، خوش اندام آدمی تھے۔ رنگ گورا تھا۔ کپڑے نک سک سے درست اور عمدہ تراش کے پہنتے تھے۔ جامہ زیب تھے۔ بان کی ٹوپی، تن زیب کا کرتا زیب تن کرتے تھے، پہنسی ہوئی آستینیں کمر سے پٹکا بندھا ہوا، خندہ جبیں، شگفتہ مزاج، ظریف الطبع تھے۔ تقریر دلکش اور طرزِ ادا صاف و سادہ تھی۔

تاریخ ہندوستان میں اور دہلی والوں کے لیے یہ عجیب اور پُر آشوب زمانہ تھا جس میں شومیِ قسمت سے میر حسنؔ نے آنکھیں کھولیں اور اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ بسر کیا۔ سیاسی انتشار اور مالی پریشانیوں کا دہلی میں دور دورہ تھا، شرفاء بطورِ خاص افلاس و تنگی کا شکار تھے۔ ہندوستان بالخصوص دہلی کے عوام کا غیرت اور خود داری کے ساتھ زندگی بسر کرنا دوبھر ہو رہا تھا۔ دارالسلطنت میں درباری امراء اور منصب داروں میں سازشیں شباب پر تھیں اور ان کے باہمی اختلافات و خود غرضیوں نے خانہ جنگیوں اور باغیانہ شورشوں کو ہوا دے رکھی تھی۔ اس اندرونی خلفشار کے ساتھ بیرونی یلغاروں نے خاص و عام کی زندگیوں کو ضیق کر رکھا تھا۔ ۱۱۴۷ھ میں باجی راؤ نے مرہٹوں کے ساتھ دہلی پر یورش کی اور چوتھ کا مطالبہ کیا، والیِ سلطنت محمد شاہ نے صمصام الدولہ ( امیر الامراؤ) اور قمر الدین خاں ( اعتماد الدولہ) کو لشکر لے کر مقابلہ کے لیے بھیجا لیکن یہ دونوں عیش و عشرت کے متوالے میدانِ جنگ میں کیا دادِ شجاعت دیتے۔ صلح کی گفت و شنید شروع ہوئی البتہ برہان الملک کی غیرت نے جوش مارا اور ۱۱۴۹ھ میں موصوف نے ملہار راؤ کو شکست فاش دی اور باجی راؤ کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے۔ جب قومیں انحطاط سے دوچار ہوتی ہیں تو ایسے دلیروں اور محبانِ وطن کے راستے میں ہر قدم پر مشکلوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ برہان الملک کی شجاعت اور کامیابی نے دربارِ دہلی میں ان کے لیے دشمنوں اور حاسدوں کی فوج کھڑی کر دی اور درباری مفسدہ پردازوں کی ریشہ دوانیوں نے انھیں آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی۔ اس سراسر نازیبا مداخلت نے برہان الملک کو مرکزی حکومت سے بیزار کر دیا۔ ادہر دہلی کا شاہی خزانہ خالی ہو رہا تھا۔ ایسے میں انھیں یہی مناسب نظر آیا کہ مرہٹوں سے معاہدہ کر کے اودھ کی حفاظت کا بندوبست کر لیں۔

مغل بادشاہ محمد شاہ نے مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی شورش کا سامنا کرنے کے لیے نواب غضنفر جنگ اور قمر الدین خاں کو مقرر کیا اور ان کے ساتھ جو بڑا لشکر گیا اس کی عدم موجودگی میں راجدھانی کی حفاظت کے لیے فوج نہیں رہ گئی چنانچہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرہٹوں نے خود دہلی پر چڑھائی کر دی اور معمولی سے مقابلے کے بعد ان کی فتح ہو گئی بحالتِ مجبوری بادشاہ کو چوتھ ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کرنی پڑی۔ لیکن دہلی کی اس تباہی و بربادی کے باوجود والیِ سلطنت اور اس کے درباریوں کی آنکھیں نہ کھلیں اور وہ بدستور رنگ رلیوں میں مصروف ہو گئے۔ ریشہ دوانیاں اور بڑھ گئیں۔ سازشوں میں اضافہ ہو گیا۔

ظاہر ہے ان حالات میں دہلی والے معاشی بدحالی، افلاس زدگی اور انتشار و بد امنی کا سامنا کرنے پر مجبور تھے۔ عوام میں بے حوصلگی اورمایوسی عام تھی۔ اس دور ابتلاء میں میر ضاحکؔ کی قلندری اور درویش صفتی نے زور مارا اور انھوں نے ترکِ روزگار کر کے خاندان کی کفالت کا بار اپنے کمسن بیٹے میر حسنؔ کے کاندھوں پر ڈال دیا۔

۱۱۵۶ھ میں عمدۃ الملک نے شاہ دہلی کو مشورہ دے کر نواب صفدر جنگ کو اودھ سے دہلی طلب کر لیا اور انھیں توپ خانے کا افسر مقرر کر دیا گیا۔ ۱۱۶۱ھ میں محمد شاہ کے انتقال کے بعد صفدر جنگ اور ان کے حمایتوں نے عنانِ حکومت احمد شاہ کے سپرد کی اور احمد شاہ نے صفدر جنگ کو وزیر مملکت متعین کیا لیکن ۱۱۶۳ھ میں صفدر جنگ کو لڑائی میں پٹھانوں کے ہاتھ زک اٹھانی پڑی تو احمد شاہ اُن سے بد ظن ہو گیا، کسی طرح صلح صفائی ہوئی لیکن چند برسوں کے اندر ہی کدورت پھر بڑھ گئی اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ ۱۱۶۶ھ میں بادشاہ اور وزیر کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور تقریباً چھ مہینے تک دہلی خود اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں شکست و ریخت اور تاخت و تاراج سے دو چار رہی۔ آخر ۱۱۶۷ھ میں شاہ و فرزین میں مصالحت ہوئی اور صفدر جنگ دہلی چھوڑ کر اودھ چلے گئے جہاں کچھ مدت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔

۱۱۷۰ھ میں احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر پہلا حملہ کیا اور اسے جی بھر کے لوٹا۔ دہلی والے ابھی گزشتہ آفتوں کے زخموں سے کراہ رہے تھے کہ ۱۱۷۲ھ میں ابدالی نے دہلی کو دوبارہ نوچا کھسوٹا اور حالات اتنے دگرگوں ہو گئے کہ شرفاء کے لیے دہلی میں آبرو کے ساتھزندگی بسر کرنا دشوار ہو گیا۔ مختلف علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے لوگ، جن میں اہلِ علم و ادب بھی شامل تھے، اس پُر آشوب زمانے میں دہلی کی سکونت ترک کر کے ملک کے مختلف علاقوں کی طرف نکل گئے لیکن ان کی اکثریت نے اودھ کا رُخ کیا جہاں نسبتاً سکون اور خوش حالی تھی۔ شاعروں میں سب سے پہلے سراج الدین علی خاں آرزوؔ نے دہلی سے لکھنؤ کو ہجرت کی۔ ان کے دو ایک برس بعد ہجرت کرنے والے شعراء میں میر حسنؔ کا نام سر فہرست آتا ہے۔

دہلی کو خیر باد کہہ کر میر حسنؔ اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ ڈیگ پہنچے اور وہاں چھ مہینے رہ کر مکن پور ہوتے ہوئے لکھنؤ آئے لیکن یہ شہر انھیں پسند نہیں آیا۔ مثنوی ’’ گلزار اِرم‘‘ میں رقم طراز ہیں :

 

زبس یہ ملک ہے پتھر پہ بستا

کہیں اونچا، کہیں نیچا ہے رستا

کسی کا آسماں پہ گھر ہوا میں

کسی کا جھونپڑا تحت الثریٰ میں

ہر اک کوچہ یہاں تک تنگ تر ہے

ہوا کا بھی جہاں مشکل گزر ہے

سِیہ گِل سے گلی یوں تر رہے ہے

بغل جس طرح حبشی کی بہے ہے

بھلا اس طرح سے آرام کد ہو

رہے یاں وہ جو کوئی لا ولد ہو

 

اس وقت میر حسن کوئی پینتیس برس کے ہوں گے۔ لکھنؤ کو نا پسند کر کے موصوف فیض آباد پہنچے اور نواب سالار جنگ کی خدمت میں قصیدہ پیش کیا جو پسند خاطر ہوا اور میر حسنؔ کا وظیفہ مقرر کر دیا گیا۔ سالار جنگ کی وفات کے بعد وہ ان کے بیٹے نوازش علی خاں کی سرکار سے وابستہ رہے۔ اس زمانے میں انھوں نے مثنوی ’’ گلزارِ اِرم‘‘ کا آغازکیا جو بیشتر دہلی سے فیض آباد تک کے حالاتِ سفر پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی میں فیض آباد سے متعلق میر حسنؔ کے تاثرات کچھ اس قسم کے ہیں :

 

جو نہی داخل ہوا میں اس نگر میں

کھُلا جنت کا دروازہ نظر میں

عجب معمورۂ آباد پایا

مثالِ گُل ہر اک دل شاد پایا

دو رستہ اہلِ حرفہ اور دوکاندار

لڑی موتی کی ہو جیسے نمودار

بنایا ہے کسی استاد کا وہ

نمونہ ہے جہان آباد کا وہ

 

فیض آباد ہی میں انھیں محلات میں بے حجابانہ آمد و رفت کے دوران کسی خاتون سے عشق ہو گیا۔ نشانِ خاطر رہے کہ یہ میر حسنؔ کا دوسرا معاشقہ تھا کیونکہ دہلی میں پہلی محبوبہ کی مفارقت کا ماتم انھوں نے اکثر مقامات پر کیا ہے۔ اپنی دوسری محبت کے بارے میں ’’ گلزارِ اِرم‘‘ ہی میں انھوں نے لکھا ہے :

 

وہاں بھی میں نے اک محبوب پایا

نہایت دل کا وہ مرغوب پایا

نئی طرزوں سے میرے دل کو پھیرا

بھُلایا غم قدیمی اُس نے میرا

 

فیض آباد کے دورانِ قیام میں ہی میر حسنؔ نے اپنا مشہور ’ تذکرہ شعرائے اُردو‘ قلمبند کیا۔ یہاں میر حسنؔ کو سالار جنگ کی صحبت راس آئی اور محل میں بھی ان کی قدر و منزلت اتنی تھی کہ بیگمات ان کے سامنے بے حجاب آتی تھیں۔ ان صحبتوں نے دہلی کے قیام و تربیت سے آمیز ہو کر میر حسنؔ کو بیگماتی زبان اور ٹکسالی اردو کا رمز شناس بنا دیا لیکن نہ معلوم کیوں فیض آباد میں ان کی گزر بسر تنگ دستی کے ساتھ ہی ہوئی جس کا شکوہ اشعار کی صورت میں اکثر ان کی زبان پر آتا رہا حالانکہ یہ وہ عہد ہے جب اودھ میں بقول مؤرخین ہُن برس رہا تھا اور اس قسم کی کہاوتیں نوک بر زبان تھیں :

جس کو نہ دے مولا       اس کو دے آصف الدولہ

در حقیقت دہلی کی مرکزی حکومت کی گرفت دُور دراز کے علاقوں اور صوبے داروں پر کمزور پڑ رہی ٹھی جس میں شائبۂ خوبی تقدیر کے ساتھ ’’ ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی کار فرمائیاں بھی شامل تھیں۔ کچھ یہ بھی تھا کہ صفدر جنگ اور مغل بادشاہ کے درمیان ناچاقی نے وزیر کے جذبۂ وفاداری کو ماند کر دیا اور اس بات کا اثر آئندہ نسلوں پر بھی پڑا۔ پھر اودھ کے حکمرانوں نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور دور اندیشی کے وسیلے سے ہندوستان کے آئندہ نظامِ معیشت کا اندازہ بھی کیا ہو گا۔ بہرحال ان تمام باتوں کے مجموعی اثرات کے تحت والیانِ اودھ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اورنواب کہے جانے لگے۔ حالات کا جائزہ لے کر انھوں نے خود مناسب سمجھا یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدیداروں نے انھیں مجبور کیا، کہا نہیں جا سکتا، لیکن یہ ضرور تھا کہ نوابین اودھ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین وقتاً فوقتاً جو معاہدے ہوئے ان کے مطابق جہاں بانی کے اساسی فرائض مثلاً سرحدوں کی حفاظت، افواج کی تربیت اور تقرری نیز نظم و نسق کی بیشتر ذمہ داریاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپرد کر دی گئیں جس کا معاوضہ ظاہر ہے، انگریزوں نے دوسرے طریفوں سے وصول کیا۔ ان حالات میں سلطنت اودھ ایک عجیب قسم کی دو عملی کیفیت سے دوچار ہوئی جس میں رنج و مسرّت دونوں پہلو آمیز تھے۔ ہر چند کہ نوابین اودھ نے مغل بادشاہ سے یکسر بیزاری کا اعلان نہیں کیا اور ظاہراً اس کے وفادار رہے جیساکہ مرزا سلیمان شکوہ کے ساتھ نوابین اودھ کا احترام آمیز سلوک اور انھیں ملنے والے گراں قدر وظیفے سے ثابت ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ اب اودھ سے دہلی کے خزانے کو ادائیگی بند ہو گئی تھی اور خود والیِ اودھ کو فوج اور نظم و نسق کے دوسرے اخراجات برداشت کرنے سے بھی نجات مل چکی تھی، اس لیے خزانہ لبریز تھا۔ دوسری طرف نوابین اودھ اتنے سادہ لوح بھی نہ تھے کہ ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی انگریزی ریشہ دوانیوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدیداروں کی چالوں سے واقف نہ ہوں۔ دوسرے والیانِ ریاست کی طرح وہ بھی اس بڑھتی ہوئی آندھی کو روکنے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ جلد یابہ دیر انھیں، مغل بادشاہ کو اور دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی اپنی سلطنتیں انگریزی کمپنی کے حوالے کرنی ہوں گی۔ بصورتِ دیگر انھیں احساس تھا کہ جو بھرا پُرا خزانہ ان کی تحویل میں ہے کسی وقت بھی ان سے چھن سکتا ہے۔ ان حالات میں ہر آنے والے نواب نے فطری طور پر یہی چاہا کہ اپنے دور میں زیادہ سے زیادہ دولت خرچ کر کے ذاتی عیش و عشرت کے ساتھ ہی اپنی بقائے دوام اور نام و نمود کی صورت نکالی جائے اور اسی صورتحال نے انھیں داد و دہش کی طرف مائل کیا جس کے نتیجے میں ملک بھر خصوصاً دہلی سے، جو بار بار لُٹ کر قلاش ہو رہی تھی، مختلف علوم و فنون کے ماہرین، صنّاع، معمار، زرگر، زرباف، سپہ گر، شاعر، ادیب، رقاص، مصور، موسیقار اور ارباب نشاط، الغرض ہر شعبۂ حیات کے چنندہ افراد اودھ کی طرف کھنچنے لگے جہاں انھوں نے نوابین کی انفرادیت پسندی کو آسودہ کرنے کے لیے ہر فن اور ہر ہنر میں نئی نئی قلم کاریاں کیں اور دیگر ہنروروں کی طرح شعراء اور ادباء نے بھی اپنے میدان میں زبان کو صیقل کر کے اس میں حد درجہ شائستگی، نفاست اور سلاست و نزاکت پیدا کی، شاعری کا نیا دبستان وجود میں آیا، جس نے دہلوی دبستانِ شاعری سے منفرد ہونے کی شعوری کاوش میں دہلوی شعرا کی داخلیت کے بر عکس اپنے ہاں مختلف اصنافِ شعر میں خارجیت کو بیش از بیش جگہ دی۔ شعر و ادب کی دنیا میں اس انقلاب کا آغاز میر حسنؔ کے ورودِ فیض آباد کے زمانے میں ہو چکا تھا۔ البتہ اس کی رفتار سُست تھی جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا خارجیت اور سطحی نشاطیت کا رنگ بتدریج گہرا ہوتا گیا اور یہ رنگ بیسویں صدی تک نکھرتے نکھرتے شاگردانِ ناسخؔ و آتشؔ کے کلام میں اپنے شباب کو پہنچا۔

جیسا کہ عرض کیا گیا، میر حسنؔ کی تصنیفات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیض آباد میں وہ اقتصادی الجھنوں کا شکار رہے۔ ادھر نواب شجاع الدولہ کی وفات کے بعد ۱۱۸۸ھ میں نواب آصف الدولہ تخت نشین ہوئے اور عنانِ حکومت سنبھالنے کے سال بھر بعد ہی انھوں نے مستقلاً لکھنؤ کو اپنا مسکن قرار دیا۔ اس دوران فیض آباد میں مقیم میر حسنؔ کا یہ حال تھا:

یاں تک کیا ہے اس غمِ دوراں نے مجھ کو تنگ

کیا ہے عجب جو مجھ میں سما دے نہ میرا رنگ

 

افسردہ دل ہوں غنچۂ پژمردہ کی طرح

بادِ خزاں نے جی کی رکھی جی ہی میں اُمنگ

 

جوہر شناس ہو کوئی میرا تو سمجھے وہ

کس کس طرح کی ہے بھری دل میں مِرے اُمنگ

 

سیکھوں ہنر تو کس کے لیے، قدر داں ہے کون

سعدیؔ بھی ہوں اگر تو اُڑاتے پھریں پتنگ

 

نوبت بہ ایں جا رسید کہ میر حسنؔ جنھوں نے اول اول ورودِ اودھ کے موقع پر لکھنؤ کی ہجو میں اپنی مثنوی ’’ گلزار ارم‘‘میں متعدد اشعار شامل کیے تھے، ۱۱۹۲ھ میں مجبور ہو کر لکھنؤ پہنچے لیکن اس بار بھی قسمت نے یاوری نہ کی۔ اسی دوران میر ضاحکؔ کا انتقال ہو گیا اور ناسازگار حالات کے باعث میر حسنؔ کودو سال بعد واپس فیض آباد لوٹنا پڑا کیونکہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر نواب اُن سے ناراض ہو گئے تھے۔ اس اثناء میں وہ متواتر آصف الدولہ کے دربار میں رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور قصیدے کہہ کر آصف الدولہ کی خدمت میں بھیجتے رہے کہ اس دربارِ دُربار سے معاش کی کوئی صورت پیدا ہو لیکن آصف الدولہ بوجوہ میر حسنؔ سے کبیدہ خاطر ہی رہے۔ آخر میں میر حسن اپنی شاہکار مثنوی ’’ سحر البیان‘‘ کی تکمیل کے بعد بہت سی توقعات کے ساتھ نواب کے لیے مدحیہ شعر شامل مثنوی کر کے لکھنوی حکمراں کے دربار میں پہنچے۔ اسے قسمت کی ستم ظریفی ہی سمجھنا چاہیے کہ اس عظیم فن پارے کا وہ حصہ جس میں میرؔ حسن نے نواب کی شان میں مدحیہ اشعار شامل کیے تھے اور جس کی بنا پر والیِ حکومت سے لطف و عنایت کی توقع رکھتے تھے، شاعر کے لیے وہی جزوِ مثنوی عتاب شاہی کا موجب بن گیا۔ آصف الدولہ نے جو لاکھوں کی داد و دہش کرتے تھے، مثنوی میں جب اپنی شان میں یہ شعر دیکھا:

سخارت یہ ادنیٰ سی اک اس کی ہے

کہ اک دن دو شالے دیے سات سَے

تو انھیں خیال آیا کہ وہ تو ایک دن میں چودہ چودہ سو دو شالے مساکین و غرباء میں تقسیم کر چکے ہیں یہ کیسی مدح ہے جس میں ان کی سخاوت کے کارنامے بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے بجائے گھٹا کر پیش کیے گئے ہیں چنانچہ نکتہ سنج لیکن نازک مزاج نواب نے میر حسنؔ کو بطورِ انعام اپنا دوشالہ مرحمت فرمایا لیکن ساتھ ہی ان کی مدح بالذم کی سزا کے طور پر ان کا وظیفہ منسوخ کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ اس حادثے کے بعد میر حسنؔ ٹوٹ سے گئے اورمسلسل علیل رہنے لگے۔ بالآخر حرماں نصیبی کے اس عالم میں انھوں نے ۱۲۰۱ھ(۱۷۸۶ء) میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ لکھنؤ کے محلہ مفتی گنج میں انھیں قاسم علی کے عقب میں دفن کیا گیا، مصحفیؔ نے تاریخِ وفات کہی:

’’ شاعر شیریں زباں ‘‘ تاریخ یافت

اولاد کے معاملے میں میر حسنؔ کو اس اعتبار سے خوش قسمت کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے تینوں صاحبزادگان میر مستحسن خلیق، میر احسن خلق اور میر محسن محسن شاعر تھے پھر خلیقؔ کے صاحبزادے میر انیسؔ اور خاندان کے دوسرے اخلاف نے بھی دور تک علم و ادب کی شمعیں روشن کیں اور بقول انیسؔ:

نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا

میر حسنؔ کو گھریلو ماحول کی وجہ سے نو عمری سے ہی شعر و شاعری سے رغبت ہو گئی تھی ظاہر ہے کہ بالکل ابتدائی کلام پر اُن کے والد میر ضاحکؔ نے نظر اصلاح کی ہو گی۔ دہلی کے دورانِ قیام میں خواجہ میر دردؔ کے روحانی فیوض اور فیضانِ صحبت سے اس ذوق پر جِلا ہوئی۔ دہلی سے اودھ منتقل ہوئے تو وہاں میر ضیاء الدین ضیاؔ سے مشورۂ سخن کیا۔ بعض محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں میر حسنؔ نے کچھ دنوں تک مرزا محمد رفیع سوداؔ سے بھی بحیثیت شاگرد استفادہ کیا تھا۔

اس امر میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ میر حسنؔ کا میدان تخصیص مثنوی ہے۔ ہر چند کہ ان سے پہلے بھی اردو میں درجنوں مثنویاں لکھی گئیں لیکن یہ میرحسن ہی تھے جن کی تخلیقی کاوشوں نے اردو مثنوی کو ادبی صنف کے اعتبار سے نہ صرف بلند درجہ عطا کیا بلکہ اسے فارسی مثنویوں کے معیار تک لے گئے۔ ان کے دم قدم سے مثنوی میں داستانی عنصر شامل ہوا۔ ان کی مثنویوں میں ان کا سماج اور ماحول، اس کے رسم و رواج اور گنگا جمنی تہذیب بھرپور انداز میں جلوہ گر ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میر حسن کی مثنویوں کے بغیر ہم ایک خاص عہد کی جیتی جاگتی زندگی کا صحیح مطالعہ ہی نہیں کر سکتے۔

ہر چند کہ میر حسنؔ کی شہرت اور مقبولیت کا انحصار مثنوی ’ سحر البیان‘ پر ہے جو موصوف کی شاہکار اور آخری تصنیف ہے لیکن اس کے علاوہ بھی انھوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ میر حسنؔ نے کل گیارہ مثنویاں تخلیق کیں جن میں شرفِ اوّلیت ’’ مثنوی شادی‘‘ کو حاصل ہے جو آصف الدولہ کے جشن شادی کے بیان پر مشتمل ہے بعدازاں تاریخی ترتیب کے اعتبار سے جو مثنویاں میر حسن کے قلم سے نکلیں ان میں ’’ رموز العارفین‘‘ اخلاقی اقدار پر کاربند رہنے کا سبق دیتی اور زہد و تقویٰ کی تلقین کرتی ہے۔ ’ گلزار اِرم‘‘ میں انھوں نے فنی پختگی، کردار نگاری اور منظر کشی کا کمال دکھایا ہے۔ اس مثنوی میں میر حسنؔ کے دہلی سے لکھنؤ اور فیض آباد کے سفر کا بیان ہے اور ان کی آخری نیز شاہکار مثنوی ’’ سحر البیان‘‘ ایک عشقیہ داستان ہے۔ بقیہ مختصر مختصر مثنویوں میں ’’تہنیت عید‘‘، ’’ قصر جواہر‘‘، ’’ خوانِ نعمت‘‘، ’’ ہجو حویلی میر حسنؔ‘‘قابلِ ذکر ہیں لیکن جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے میر حسن کو بقائے دوام کے دربار میں ادبی مسند عطا کرنے والی شاہکار مثنوی ’’سحر البیان‘‘ ہے جسے بجا طور پر اُردو کی بہترین مثنوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اپنی بقیہ مثنویوں میں میر حسنؔ نے واقعہ کی پیشکش، بیانیہ کے حسن، رمز و استعارے پر قدرت، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری اور زبان و بیان کے جومحاسن بکھری ہوئی شکل میں اور جزواً پیش کیے تھے ان سب کی اجتماعی نمائندگی اور ملا جلا حُسن ’’ سحر البیان‘‘ میں موجود ہے۔ میر حسنؔ نے اپنی اس تصنیف کے بارے میں بجا طور پر کہا ہے :

 

ذرا منصفو داد کی ہے یہ جا

کہ دریا سخن کا دیا ہے بہا

ز بس عمر کی اس کہانی میں صرف

تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے حرف

رہے گا جہاں میں مرا اس سے نام

کہ ہے یاد گارِ جہاں یہ کلام

 

’’ سحر البیان‘‘جسے ’’مثنوی میر حسن‘‘اور مثنوی بدرِ منیر‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، زبان کی صفائی اور دہلوی داخلیت و لکھنوی خارجیت نگاری کا خوبصورت مرقع ہے۔ تذکرہ شعرائے اُردو کے مقدمے میں حبیب الرحمن شیروانی رقمطراز ہیں :

’’ جو پڑھ سکتے تھے انھوں نے پڑھی، جو نہیں پڑھ سکتے تھے انھوں نے پڑھوا کر سنی۔ جاہلوں کا بھی یہ عالم رہا کہ جودو چار شعر یاد تھے ان کو پڑھتے اور سر دھنتے تھے۔ چاندنی رات میں ماہ کامل کی روشنی بہت سے ستاروں کو نگاہ سے اوجھل کر دیتی ہے، یہی حال ’’ بدرِ منیر‘‘ کی آب و تاب کے سامنے میر حسنؔ کے باقی کلام کا ہوا۔ ‘‘

اس مثنوی کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا سکتا ہے لیکن چونکہ ہمارا موضوع دوسرا ہے اس لیے اتنے ہی پر اکتفا کرنا مناسب ہے۔

کلیات میر حسنؔمیں چند قصیدے بھی شامل ہیں جن میں سالار جنگ، آصف الدولہ، آفریں علی خاں، جواہر خاں وغیرہ کی مدح کی گئی ہے۔ ان قصائد کی تشبیبوں میں مثنوی جیسا مسلسل حسنِ بیان اور منظر یہ شاعری کے خوب صورت نمونے پائے جاتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی میر حسنؔ قصیدہ نگاری میں زیادہ کمال حاصل نہیں کر سکے۔ ان کی مرثیہ نگاری بھی برائے بیت کے ذیل میں ہی آتی ہے اور یہ زمانہ وہ تھا جب یہ کہاوت عام تھی کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو بن جاتا ہے۔ اس میدان میں ان کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ وہ شہنشاہ مرثیہ میر انیسؔ کے دادا ہیں۔

میر حسنؔ نے کم و بیش ڈیڑھ سو رباعیات کہیں اور اس مزاجا سنجیدہ و فلسفی صنفِ سخن میں عشقیہ مضامین کو شوخ و شنگ لہجے میں ادا کر کے اپنی انفرادیت کا نقش اجاگر کر گئے۔ علاوہ ازیں انھوں نے متعدد مخمس، مسدّس، مثلث اور قطعات کہہ کر اپنی قادر الکلامی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

میر حسنؔ کا ’ تذکرہ شعرائے اُردو‘ بھی اُردو تنقید کے ابتدائی نقوش میں ایک اہم حیثیت کا حامل ہے جو اپنی میانہ روی، اعتدال پسندی اور منصفانہ تنقید کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ مختلف شعراء کے کلام اور ان کی سیرت پر بندھے ٹکے الفاظ میں جیسی جامع اور اساسی باتیں میر حسنؔ نے اس تذکرے میں کہی ہیں وہ ان کے ادبی شعور کی بالیدگی کی مظہر ہیں۔

البتہ میر حسنؔ کی جملہ تحقیقات و تصنیفات کا معروضی جائزہ لیا جائے تو اُن کی مثنوی نگاری کے بعد تعداد و معیار ہر دو اعتبار سے نگاہ ان کی غزل گوئی پر ہی پڑتی ہے۔ میر حسنؔ کے کلیات میں کم و بیش پانچ سو غزلیں شامل ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں غزل کہنے والے اس شاعر کو دنیا کا بڑا حلقہ عموماً مثنوی نگار ہی سمجھا گیا۔ عام طور پر ہمارے تذکرہ نگار اور پھر نقادکسی شاعر کے ادبی قد و قامت پر حکم اس کی غزل کے تناظر میں ہی لگاتے آئے ہیں اور فنکار کی عظمت کا در و مدار عام طور پر اس بات پر ہوتا ہے کہ اس نے غزل کس پائے کی کہی ہے۔ اس کلیے پر پہلی ضرب سودا نے لگائی جو ہر چند کہ غزل گو تھے لیکن اس پائے کے قصیدے پیش کر گئے کہ اُردو کے بڑے شعراء کی صف میں قصائد کے سہارے ہی شامل ہوئے۔ خاندانِ ضاحکؔ اس اعتبار سے دو گنا شرف رکھتا ہے کہ اس خانوادے سے متعلق میر حسنؔ اپنی مثنوی اور میر انیس مرثیے کی بنا بر اہم شعرائے اردو میں شمار کیے جاتے ہیں حالانکہ دونوں نے غزلیں بھی کہیں خصوصاً میر حسنؔ کی غزلیات کا وافر ذخیرہ اور ان کا معیار کسی طرح نا قابلِ اعتنا نہیں ہے لیکن بقول کسے ماہ کامل کی روشنی میں ستاروں کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ ہماری تنقید وسیع پس منظر میں کسی فنکار کی مکمل شخصیت اور سارے کارناموں پر نگاہ ڈالنے کی کم عادی ہے اور تخصیصی پہلوؤں پر زیادہ زور دیتی ہے۔

پہلے کہہ چکا ہوں کہ میر حسن کی یہ غزلیں محض اپنی بڑی تعداد کی بنا پر ہی قابلِ توجہ نہیں قرار پاتیں بلکہ ان کا معیار بھی اچھا خاصا ہے۔ ہر چند کہ مولانا محمد حسین آزاد نے یہ خیال میر حسن کی مثنوی ’سحرالبیان‘ کے تعلق سے ظاہر کیا تھا کہ شاید انھیں اگلے سو سال کی باتیں سنائی دیتی تھیں، کیونکہ اس مثنوی کی زبان خاصی صاف اور منجھی ہوئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آزادؔ کے مندرجہ بالا قول پر مزید ایک صدی سے زائد گزر جانے کے بعد بھی موصوف کی یہ رائے میر حسن کی غزلوں پر بھی صادق آتی ہے۔ ذرا یہ اشعار دیکھیے :

 

پھر پھر کے پوچھتے ہو عبث آرزوئے دل

تم جانتے تو ہو کہ مرا مدّعا ہے وہ

………

حسنؔ کو زیر قدم اپنے جو رکھا تو نے

دماغ عرش پہ اس خاکسار کا پہنچا

………

غم ہوا تھا مری باتوں کا تمھیں کس کس دن

منہ مرا آپ نہ کھلوائیے اور سو رہیے

………

جب میں چلتا ہوں ترے کوچے سے کترا کے کبھی

دل مجھے پھیر کے کہتا ہے، ادھر کوچلیے

………

دل کوکس بو قلموں جلوہ نے ہے خون کیا

اشک آنکھوں سے جو یہ رنگ برنگ آتے ہیں

………

کہوں کیا ناتوانی کو کہ مجھ کو دُور رکھتی ہے

برنگِ نقش پا ہر ہر قدم پر اس کی محفل سے

………

میں نے تو بھر نظر تجھے دیکھا نہیں ابھی

رکھیو حساب میں نہ ملاقات آج کی

………

 

سیکڑوں ڈھب خراب کرنے کے

اس دلِ خانماں خراب میں ہیں

………

چشمِ بد دُور، تیری آنکھوں میں

نشہ ہے یا خمار ہے، کیا ہے

………

مزے نہ دیکھے کبھی ہم نے زندگانی کے

یوں ہی گزر گئے افسوس دن جوانی کے

 

اگر یہ اشعار میر حسنؔ کا نام ہٹا کر پیش کیے جائیں تو ماہرِ لسانیات بھی نہیں پہچان سکیں گے کہ یہ عہد رواں کی زبان نہیں ہے حالانکہ میر حسنؔ کے دَور میں یعنی آج سے تقریباً ڈھائی سو برس قبل زبان اتنی شستہ و سلیس اور منجھی ہوئی نہیں تھی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میرحسنؔ کے کلام میں تمام اشعار اسی صاف اور ترقی یافتہ زبان میں ہیں۔ اکثر ان میں ’’ آوے ہے / جاوے ہے ‘‘، ’’ لاویں / پاویں ‘‘، ’’ ٹک / تلک‘‘، ’’ کبھو/ کسو ‘‘، ’’سوں /تئیں، جوں / ساں ‘‘ ’’اودھر/ کیدھر‘‘ جیسے متروک الفاظ، تُو کہا/ میں سُنا، قسم کے فقرے، ’افسوس/ ناموس، اور ’ بھول / خول ‘ جیسے قافیے مل جاتے ہیں جو زبان کی بتدریج ترقی کے ساتھ آگے چل کر ترک کیے گئے۔ اسی طرح فکر، چشم، ، نگہ وغیرہ بہت سے الفاظ کے سلسلے میں اس دَور میں تذکیر و تانیث وغیرہ کے مسائل طے نہیں پائے تھے اس لیے آج کے قواعد سے روگردانی کی مثالیں میر حسنؔ کی غزلوں سے بآسانی تلاش کی جا سکتی ہے۔ مثلاً:

 

تو ہی نباہ اس سے جو چاہے تو کر حسنؔ

اس پر نہ بھولیو کہ کرے گا نباہ وہ

………

اب رفتہ رفتہ باتیں وہ ہموار ہو گئیں

آگے جنھوں کے نام سے دل کو ملال تھا

………

دیکھتے ہی مئے کو ساغر کا نہ کھینچا انتظار

مارے جلدی کے میں اپنا ہاتھ پیمانہ کیا

………

دیا ہے وعدۂ دیدار کس نے آج گلشن میں

کسیدیکھے ہے جھُک جھُک دیدۂ بیدار نرگس کا

………

شمع ساں شب کے میہماں ہیں ہم

صبح ہولے تو پھر کہاں ہیں ہم

………

گُل ہوئے جاتے ہیں چراغ کی طرح

ہم کو ٹُک جلد آن کر دیکھو

………

مر گئے پر بھی یہ حسنؔ نہ مندے

منتظر چشم تھے ترے کس کے

………

غمزہ، نگہ، کرشمہ، کس کس کو کہیے ہمدم

جو شے ہے، لُوٹنے کو دل ہی پہ آ جھکے ہے

 

مندرجہ بالا اشعار میں خط کشیدہ الفاظ اور فقروں پر ذرا سی توجہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ میرحسنؔ کی غزلوں میں بھی وہی ابتدائی طرز کی اُردو زبان استعمال ہوئی ہے جس کی مثالیں میر تقی میرؔ، مرزا محمد رفیع سوداؔ، خواجہ میر دردؔ اور اس زمانے کے دوسرے شعراء کے کلام میں عام تھیں البتہ اصحابِ نظر سے یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہا ہو گا کہ اس نا تراشیدہ زبان کے استعمال سے میر حسنؔ کے شعر میں کوئی خرابی کی صورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اشعار کی سادگی اور گھلاوٹ میں ایک نوع کے بھولپن اور معصومانہ کیفیت کا اضافہ ہو جاتا ہے اور سننے میں یہ اشعار اسی طرح بھلے لگتے ہیں جیسے بچوں کی تُتلاہٹ مزا دیتی ہے۔

ہر زمانے کا ادب اپنے ارد گرد کی زندگی اور معاشرتی و تہذیبی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس میں اپنے تخلیق کار کی ذاتی مسرتوں اور کلفتوں، حوصلہ مندیوں اور حسرتوں کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ میر حسنؔکے حالاتِ زندگی سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف دہلی کے اُجڑنے اور بار بار شکست و ریخت کے عمل سے گزرنے کا مشاہدہ کیا تھا، ہجرت کی کلفتیں سہی تھیں، وطن سے بے وطن ہو کر لکھنؤ اور فیض آباد کے اس ماحول میں جہاں دولت کی ریل پیل تھی، مسلسل حرماں نصیبیوں اور تنگ دستیوں کے شکار رہے تھے اور آصف الدولہ جیسے کشادہ دست نواب سے فیض یاب ہونے کی جگہ آزردہ خاطر ہوئے تھے۔ ایام شباب میں جو عشق ہوا تو ہجرت کے باعث دہلوی محبوبہ سے دائمی جدائی کی اذیت جھیلی، یہ ضرور ہے کہ اس کا ازالہ فیض آباد کے محلات کی ایک خاتون سے کامیاب عشق نے کسی حد تک کر دیا لیکن مجموعی اعتبار سے میر حسنؔ نے زندگی میں بادِ سموم کا سامنا زیادہ کیا اور سرد ہوا کے جھونکے ان کے حصے میں کم آئے، پھر یہ بھی ہے کہ ان کے ادبی مزاج کی نشو و نما دہلی میں ہوئی تھی اور دبستانِ دہلی کی بنیادی خصوصیات میں خلوص جذبات اور صداقتِ اظہار کا بڑا حصہ ہے اور سوز و گداز دہلوی غزل کی سرشت میں داخل ہے۔ چنانچہ میر حسنؔ کی غزل کا ان صفات سے آراستہ ہونا لازمی تھا جس کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں :

 

کل کسی کا ذکرِ خیر آیا تھا مجلس میں حسنؔ

اس دلِ بے تاب پر ہم ہاتھ دھر کر رہ گئے

………

کبھی بستا تھا اک عالم یہاں بھی

یہ دل جو اب کہ اُجڑا سا نگر ہے

………

 

تو ہی جب اپنے در سے دیو ے اُٹھا

پھر کدھر جا کے کوئی سر پٹکے

………

ہم نہ نکہت ہیں نہ گُل ہیں جو مہکتے جاویں

آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں

………

وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں

یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں

………

اظہارِ خموشی میں ہے سو طرح کی فریاد

ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

………

اب جہاں خار و خس پڑے ہیں، کبھی

ہم نے یاں آشیاں بنائے تھے

………

بندہ عاجز ہے، رو ہی دیتا ہے

آدمی پر جب آن پڑتی ہے

 

یاس و حرماں کے جذبات سے جھلملاتے ہوئے ایسے تابناک اور دلگداز، جاں سوز اور پُر تاثیر اشعار سے میر حسنؔ کا دیوان بھرا پڑا ہے۔ اُن کے کلیات میں بھی آپ ہر صفحے پر ایسے دو چار اشعار سے دو چار ہوں گے۔ ساتھ ہی مصحفیؔ کی طرح میرؔ حسن کے ذخیرۂ اشعار میں بھی آپ کو دوسرے اساتذہ مثلاً میرؔ، سوداؔ، دردؔ اور سوزؔ کے رنگ کلام کی جھلکیاں دکھائی دیں گی۔ سوزؔ کی مثنوی ’’ خواب و خیال‘‘ کی چھوٹ تو میر حسنؔ کی مثنویوں پر بھی پڑی ہے۔ جس طرح میر حسنؔ نے مختلف اصنافِ شعر پر طبع آزمائی کی ہے اُسی طرح اپنے پیشرو شعراء کے رنگ بھی کئی شعروں میں قبول کیے ہیں۔ میرؔ کے رنگ میں سوز و گداز کے حامل اشعار قبل ازیں پیش کیے جا چکے ہیں جن میں میرؔ ہی کی مانند زندگی سے نبرد آزما رہنے کا حوصلہ بھی آمیز ہے۔ سوداؔ کی طرح مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں بندش کی چُستی اور مضامین کی نُدرت بھی کلامِ میر حسنؔ میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ اشعار بطور مثال پیش خدمت ہیں :

 

لاکھ ہنگامے اگر کوچے میں ہوں تیرے، تو ہوں

ہم سپاہی ہیں، جہاں ڈر ہے وہاں گھر اپنا

………

میں کہا مجھ سے ملا کر تو لگا کہنے اوں ہوں

پھر کہا کچھ تو وفا کر تو لگا کہنے اوں ہوں

………

ہم اک کرشمۂ ابرو سے جس پہ مرتے ہیں

اب اس نے کھینچی ہے تلوار، دیکھیے کیا ہو

………

واں ٹک کسو نے ہنس کے کہیں اس سے بات کی

یاں جی لگا نکلنے کہ یہ بات کیا ہوئی

………

کل نامِ خدا اُس کا رنگ ایسا جھمکتا تھا

خورشید بھی دیکھ اس کو آنکھ اپنی جھپکتا تھا

………

اشکوں سے حسنؔ کیونکہ نہ ہو رازِ دل افشا

پانی کے چھڑکنے ہی سے بُو ہوتی ہے خس میں

………

پھر چھیڑا حسن نے اپنا قصہ

بس آج کی شب بھی سو چکے ہم

………

رشک اس مُرغِ چمن پر ہے کہ جو گُل کے حضور

داستاں کہتا گیا جی سے گزر آخرِ شب

………

دامنِ صحرا سے اٹھنے کو حسنؔ کا جی نہیں

پاؤں دیوانے نے پھیلائے بیاباں دیکھ کر

……

یہ کس بد مست کی ٹھوکر سے لذّت اس نے پائی ہے

پڑا ہنستا ہے شیشہ جس کی کیفیت میں قہہ قہہ کر

 

الغرض اس رنگ میں بھی بکثرت شعر میر حسنؔ کی غزلوں سے چُنے جا سکتے ہیں۔ متصوّفانہ مضامین کو غزلیہ انداز، گھلاوٹ اور شیرینی، متانت اور سہج سبھاؤ میں ادا کرنے کا سلیقہ بھی میر دردؔ کی طرح میر حسنؔ کو خوب آتا ہے۔ مثلاً:

 

گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہ ہوتا

تو خوابِ عدم سے کبھی بیدار نہ ہوتا

………

سر بستہ رہا یونہی یہ رازِ حرم و دیر

معلوم ہوا بھید یہاں کا نہ وہاں کا

………

ذرّے ذرّے میں دیکھ ہیں موجود

وہی جلوے جو آفتاب میں ہیں

………

دیکھتے ہیں اسی کو اہلِ نظر

گو نہاں وہ ہے اور عیاں ہیں ہم

………

ہستی نے کئی رنگ بنائے ہیں ہمارے

پردہ جو یہ اُٹھ جائے تو پھر ایک ہیں ہم سب

………

کعبہ اگر پہنچ نہ سکے دل کی دید کر

دلبر قریب ہے تو نہ عزمِ بعید کر

………

ہزار حیف کہ اپنی ہمیں خبر نہ ہوئی

تمام عمر لگی پر مہم یہ سر نہ ہوئی

………

ہم سے تو کسی چیز کی بنیاد نہ ہووے

جب تک کہ ادھر ہی سے کچھ امداد نہ ہووے

 

اسی طرح میر سوزؔ کا خاص رنگ چھوٹی بحر کی غزلوں میں رواں دواں چٹکیلے اور بلیغ اشعار میں ابھرتا ہے اور میر حسن کے مندرجہ ذیل اشعار بھی ان اوصاف سے مملو ہیں :

 

دل خدا جانے کس کے پاس رہا

ان دنوں جی بہت اُداس رہا

………

مر گئے ہم تو کہتے کہتے حال

کچھ تو تُو بھی زباں سے فرماتا

………

رائیگاں یُوں اُڑا نہ ہم کو فلک

خاک ہیں ہم کسی کی چوکھٹ کے

………

بے اختیار اٹھتی ہے بنیاد بیخودی

آتی ہے جب نظر تری دیوار دُور سے

………

میں تو اس ڈر سے کچھ نہیں کہتا

تُو مبادا اُداس ہو جاوے

………

تو خفا مجھ سے ہو تو ہو لیکن

میں تو تجھ سے خفا نہیں ہوتا

………

بو الہوس ہے اِسے اُسے چاہے

جو تجھے چاہے سو کسے چاہے

 

ان اشعار کی پیش کش سے یہ نتیجہ نکالنا مقصود نہیں ہے کہ میرحسنؔ کا اپنا کوئی رنگ نہیں تھا بلکہ یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ وہ مثنوی گوئی سے اکتا کر محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے غزل نہیں کہتے تھے بلکہ اس صنف ادب سے انھیں گہرا لگاؤ تھا اور جو فنکار اپنے عہد کے اساتذۂ سخن کے رنگ میں ایسے کامیاب شعر کہنے پر قادر ہو، غزل گوئی میں اس کی اس قدرت کلام سے انکار کرنا خلاف انصاف ہو گا، میر حسنؔ کی غزلوں میں انسانی نفسیات سے آگہی کا وافر ثبوت ملتا ہے۔ خواہ وہ عاشق کی نفسیات ہو یا معشوق کی۔ کمال یہ ہے کہ باریک سے باریک نفسیاتی نکتے وہ نہایت عام انداز اور سہل ممتنع میں ادا کر جاتے ہیں، چند اشعار بطور نمونہ حاضر ہیں :

 

اس شوخ کی فرقت میں عجب حال ہے میرا

جیسے کوئی بھولے ہوئے پھرتا ہے کچھ اپنا

………

مری ضد سے غیروں کو دیکھا کیا

یہی میری اس کی لڑائی رہی

………

کہا چاہے ہے کچھ کہتا ہے کچھ اور

حسن دھیان ان دنوں تیرا کدھر ہے

………

قاصد ایسی نہ بات کچھ کہیو

جس سے دل بے حواس ہو جاوے

………

کبھی جو اس کی ملاقات مجھ سے ہووے گی

تو میں یہ کہتا ہوں کیا بات مجھ سے ہووے گی

………

مرنا مجھے قبول ہے اس کے فراق میں

ملنا نہیں قبول وساطت سے غیر کی

 

غزلیات میر حسنؔ کے مطالعہ کے دوران یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ انھوں نے ذوقِ شعری ورثے میں پایا اور اس کی تربیت اور جلا کاری میں دہلوی داستان کے اساتذہ کا ہاتھ رہا نیز کم و بیش طبعی عمر کا نصف سے زائد اور ادبی زندگی کا کم از کم نصف حصہ انھوں نے دہلی میں بسر کیا چنانچہ داخلی اور غنائی شاعری میں ان کوائف و حالات نے انھیں مہارت بہم پہنچائی ہو گی پھر عمر کا بقیہ حصہ موصوف نے فیض آباد اور لکھنؤ میں بسر کیا چنانچہ دبستانِ لکھنؤ کی خارجیت اور بیانیہ شاعری کا حُسن بھی اُن کے کلام میں در آیا اور ان گنگا جمنی خصوصیات نے ان کی غزل کو بطور خاص ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا  جس میں خارجیت و داخلیت، آہ و واہ دونوں کا رنگ آمیز ہوتا نظر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی میر حسنؔ کا منفرد رنگ تغزل ہے جس میں معاملہ بندی اور محاکات بھی ہے اور زبان کا چٹخارہ بھی، معشوق کا سراپا بھی ہے اور عاشق کی وارداتِ قلب بھی۔ شوخی و طراری بھی اور دل گداختی و وا رفتگی بھی۔ اپنے اس خاص رنگ میں میر حسنؔ نے ایسے ایسے شعر کہے ہیں جنھیں اُردو غزل کے سخت سے سخت انتخاب میں جگہ مل سکتی ہے۔ مشتے از خروارے کے بطور چند بیتیں ملاحظہ فرمائیے :

 

تیرے ہم نام کو جب کوئی پکارے ہیں کہیں

جی دھڑک جائے ہے میرا کہ کہیں تُو ہی نہ ہو

………

جن کے پر تھے وہ اُڑے کُنجِ قفس سے چھُٹ کر

تابِ پرواز نہ تھی جن کو، وہ مجبور رہے

………

گُل ہزاروں کو آہ جس نے دیے

دل دیا اُس نے داغ دار مجھے

………

صیاد کی مرضی ہے کہ اب گُل کی ہوس میں

نالے نہ کریں مُرغِ گرفتارِ قفس میں

………

شبنم کی طرح سیرِ چمن بھی ضرور ہے

رو دھو کے ایک رات یہاں بھی گزار دے

………

اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے

اب تو پانی ہی بھرا رہوے ہے گھر کے آگے

……

سب میں شامل ہے اور سب سے جُدا

وہ بھی عیار ہے عجب کوئی

………

سراغِ ناقۂ لیلیٰ بتائیو اے خضر

کوئی جرس کی طرح پُر خروش آتا ہے

………

 

دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا

یاں لوگ عجب عجب ملیں گے

………

جو بھی آوے ہے وہ نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے

ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں

 

محاکات اور معاملہ بندی نیز معشوق کی سراپا نگاری میں جو کمال لکھنؤ کے شعراء نے حاصل کیا اس کے ابتدائی نقوش میر حسنؔ کی مثنوی میں بہت واضح اور غزلوں میں کم کم سہی لیکن موجود ہیں۔ مثلاً:

 

کیوں کہ بھلا لگے نہ وہ دلدار دُور سے

دُونی بہار دیوے ہے گلزار دُور سے

………

گریباں چاک اور خاموش مجھ کو دیکھ کہتا ہے

کروں کیا بات اس سے یہ تو کچھ دیوار و در سا ہے

………

ملگجے کپڑوں میں یوں ہے جلوہ گر اس کا بدن

دھوپ جیسے شام کی ہو اور سحر کی چاندنی

………

مرے ہی بولنے پر گر یہ غصہ ہے تو جانے دو

قسم ہے گر تمھاری بات میں بولا کروں اب سے

………

غیر اپنے رُو برو یوں تم سے مِل مِل بیٹھتے

کیا کہیں، کل ہم بڑی خاطر تمھاری کر گئے

………

مکھڑے کا عجب عالم تھا زرد دو شالے میں

ہیرا سا دمکتا تھا، کندن سا جھمکتا تھا

………

 

سر سوں آنکھوں میں کیوں نہ پھولے اب

زرد اوڑھے وہ شال جاتا ہے

 

اس موقع پر اہلِ نظر کی توجہ اس نکتے کی جانب بھی مبذول کرنا چاہوں گا کہ میر حسنؔ کے یہاں تغزل کا وہ رنگ ہے جس کے لیے آگے چل کر مومنؔ مشہور ہوئے یعنی غزل میں مضامین حُسن و عشق تک ہی خود کو محدود کر لینا اور اسی محدود دائرے میں گلکاری کرنا پہلے پہل میر حسنؔ نے اختیار کیا جس کی مثال میں ان کا پورا دیوان نقل کرنا ہو گا۔ اس لیے گریز کرتا ہوں۔ اسی طرح آتشؔ اپنی غزل مسلسل کے لیے مشہور ہیں اور غزلِ مسلسل کی بہترین مثالیں غزلیات میر حسنؔ میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً وہ غزلیں جن کے مطلع مندرجہ ذیل ہیں :

 

صبا کے ہاتھ خط اس گُلعذار کا پہنچا

خزاں رسیدوں کو مژدہ بہار کا پہنچا

………

دیکھنے بیٹھا جو وہ مہ اپنے گھر کی چاندنی

جب تلک بیٹھا رہا تب تک نہ سر کی چاندنی

………

 

کبھی یہ تھا کہ دیکھے تھا ہمیں وہ تُند خُو چھپ چھپ

ادا کرتا تھا خاموشی میں کیا کیا گفتگو چھپ چھپ

………

میں کہا مجھ سے ملا کر تو لگا کہنے اُوں ہوں

پھر کہا کچھ تو وفا کر تو لگا کہنے اُوں ہوں

………

ہر بات میں اُس سے جو سُنا اور نہیں تو

ہم کو بھی یہی درد لگا اور نہیں تو

 

رعایتِ لفظی کا حسن، تشبیہ و استعارے کا خوب صورت استعمال، ترکیب سازی کا ہنر، صنعت کاری، چستیٔ بندش، بیان کی برجستگی اور بے ساختگی اور پیکر تراشی کی حسین مثالیں کلامِ میرحسنؔ میں جگہ بہ جگہ دامنِ دل کو کھینچتی ہیں اور زبان و بیان کی طرفہ کاری، تخیل کی ندرت اور طرز ادا کی دلکشی قدم قدم پر خراجِ تحسین طلب کرتی ہے۔

ان سب کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ ان کی پانچ سو کے قریب غزلوں میں اکثر یکساں عشقیہ اور غم و الم کے مضامین اور رائج الوقت متصوفانہ تصورات کا بار بار اعادہ ناگوار گزرتا ہے لیکن یہ صرف میر حسنؔ کے کلام کی خامی نہیں ہے بلکہ اس عہد کے تمام پُر گو شعراء حتیٰ کہ خدائے سخن میرؔ کا کلام بھی ان عیوب سے یکسر پاک نہیں ہے۔ مانا کہ غزلیات میر حسنؔ میں میرؔ جیسی گہری کاٹ اور سوداؔ کی سی نازک خیالی کم کم ہے لیکن اپنے نشاطیہ آہنگ اور ہلکے پھلکے بات چیتی اسلوب میں میر حسنؔ  اکثر ایسے ایسے شعر کہہ گئے ہیں جن کی حیثیت ضرب المثل جیسی ہے۔ محاورات کا برمحل استعمال اور فصحا کے روز مرّہ کی شعروں میں شمولیت نیز عشقیہ مضامین میں ذاتی واردات کی آمیزش نے ان غزلوں کو تازہ و شگفتہ بنا دیا ہے۔ ہر چند کہ میر حسنؔ کی غزلوں میں مضامین کا تنوع کم اور تغزل کی حد بندی زیادہ ہے لیکن کھلے ڈلے بے تکلفانہ اندازِ بیان اور غم و الم کی کیفیات کے دوش بدوش زندگی کے نشاطیہ پہلو کی دھوپ چھاؤں سے یہ غزلیں بہت پُر لطف ہو گئی ہیں۔ لکھنوی دبستان کی وہ خارجیت جو آگے چل کر حدِّ اعتدال سے گزر جانے کے باعث مبتذل قرار پائی، میر حسنؔ کی غزل میں نہایت شگفتہ اور نکھری ہوئی شکل میں جلوہ گر ہے اور اہلِ ذوق سے ہمدردانہ مطالعے کا مطالبہ کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مثنوی حُزنِ اختر

 

’تزکِ بابری‘ اور ’ رقعاتِ عالمگیری‘ سے ’دیوانِ ظفرؔ‘ تک مستقل تصانیف کا ایک طویل سلسلہ ہے جو مغل شہنشاہوں کی اقلیم سخن پر تاج داری کی شہادت دیتا ہے۔ ان کے متوسلین میں بھی، خواہ حیدر آباد کے نظام ہوں یا اودھ کے نواب، علم و ادب سے انسیت اور رغبت کے وافر ثبوت ملتے ہیں۔ ان میں نواب واجد علی شاہ اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ وہ فنونِ لطیفہ سے شغف رکھنے میں بقیہ تمام حکمرانوں پر سبقت لے گئے۔ رقص و موسیقی کے میدانوں میں تو انھیں استادِ فن کی سی حیثیت حاصل ہے۔

مختلف ناقدین اور محققین نے سلطان واجد علی شاہ کی ستّر سے زائد تصانیف و تالیفات کا ذکر کیا ہے جن میں مثنویاں بھی شامل ہیں۔ ہر چند کہ ان میں سے تین داستانی مثنویاں ’’افسانۂعشق‘‘، ’’ دریائے تعشّق‘‘ اور ’’ بحرِ الفت‘‘ اپنی ادبی خوبیوں کی بنا پر نقادوں کی توجہ کا مرکز پہلے بنتی ہیں لیکن میری نظر میں واجد علی شاہ کی مثنوی’’ حُزنِ اختر‘‘ زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ اہلِ نظر جانتے ہیں واجد علی شاہ کا تخلص اخترؔ تھا اور اس مثنوی میں انھوں نے اپنی زندگی کے ان مصائب و آلام کا نقشہ پیش کیا ہے جن سے وہ تخت و تاج سے معزولی کے بعد لکھنؤ اور کلکتہ میں دوچار ہوئے تھے۔ ’’ حُزنِ اختر‘‘ کی تمہید میں لکھتے ہیں :

وہ قصّہ سُنا جو سراسر ہو سچ

نہ اپنی طرف ہو نہ غیروں کی پچ

وہ قصّہ سُنا جو گواہی رہے

فقیری میں بھی بادشاہی رہے

عجب وقت یہ داستاں ہے لکھی

کہ تھا قید میں بختِ بد مختفی

پُر تاثیر شاعری وہ ہوتی ہے جس میں فنکار نے اپنے اوپر بیتے ہوئے احساسات کو زبان عطا کی ہو اور ظاہر ہے کہ زیر بحث مثنوی میں شاعر نے انھیں حادثاتِ جاں سوز کو بیان کیا ہے جو اس پر گزرے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ادب کے ہر شعبے میں اس مخصوص عہد کی تصویریں محفوظ ہو جاتی ہیں جب اس کی تخلیق عمل میں آئی ہو۔ انھیں دو خصوصیات نے مثنوی ’’ حُزنِ اخترؔ‘‘ کو بھی دو آتشہ بنا دیا ہے۔ اپنی معزولی کا بیان واجد علی شاہ نے اس طرح کیا ہے :

کہ جب دس برس سلطنت کو ہوئے

جو طالع تھے بیدار سونے لگے

ہوا حکمِ جنرل گورنر یہ یار

کرو سلطنت کو خلا ایک بار

جب نواب نے اپنے مشیروں سے رائے لی تو:

سبھوں کی بس آخر یہ ٹھہری صلاح

کرو چل کے فریاد ہے یہ فلاح

چنانچہ:

یہ جرنیل روٹرم سے میں نے کہا

میں جاؤں گا فریاد کو، ہے خدا

رکھوں گا میں خود پیشِ ملکہ یہ تاج

انھیں کا ہے بخشا ہوا مجھ کو راج

ظاہر ہے روٹرم اتنے اہم مسئلے پر اپنے طور پر فیصلہ نہیں کر سکتا تھا اس لیے :

لکھا لاٹ صاحب کو صاحب نے حال

کہا مہر سے ہو نہ ردِّ سوال

اور اس کے بعد کی داستان چونکہ طویل ہے اس لیے اشعار کی جگہ منتخب مصرعوں کے پیرائے میں بیان کرنے کی اجازت دیجیے :

وہ احمد علی خاں جو تھے ذی کرم

کہا اُن سے میں نے کہ سُن اے جواں

کریں چل کے فریاد لندن میں ہم

رجب کی غرض پانچویں جب کہ آئی

لیا ساتھ ماں کو اور اِک بھائی کو

ولی عہد کو بھی لیا ہاتھوں ہاتھ

ہوئیں پانچ چھ بیبیاں میرے ساتھ

کیا بندے نے لکھنؤ سے سفر

رجب بھر رہے کانپور میں مقیم

بعد ازاں الٰہ آباد پہنچے اور:

رہے آٹھ دن اس میں اے خوش خرام

بنارس میں آ کر رہے چودہ روز

یہاں کا راجا:

بہت پیش آیا اطاعت کے ساتھ

وہاں پر دُخانی کیا اک جہاز

رہے اس میں ہم بیس انیس دن

تو کلکتہ میں آئے اے نیک نام

جو گِنیے تو تاریخ تھی ساتویں

ہر اک جا ہماری سلامی ہوئی

نہ لندن کو جانے کی نکلی سبیل

یہ بندہ علالت سے گھبرا گیا

کیا بیٹا ماں بھائی رخصت وہیں

کہ تم میری جانب سے لندن کو جاؤ

جو تھیں خاص بی بی مری، وہ رہیں

اس کے ایک برس کے بعد کا واقعہ ہے کہ:

یکایک جہاں میں اُڑی یہ خبر

کہ بلوائی کچھ جمع ہونے لگے

اُمڈتی ہے جس طرح دریا کی موج

کہ کچھ کارتوسوں کا قصہ ہوا

کہوں کیا میں ان روزوں تھا جو علیل

سلگتی تھی تالو کے اندر زباں

غرض بعد تبرید پائی شفا

تو کچھ شبہ سرکار کو آ گیا

جو تھا ایڈمنسٹن سکریٹر کا نام

انھوں نے کہا اتنا معلوم ہے

کہ غیروں کی شرکت کی کچھ دھوم ہے

چلیں گے جو ہمراہ فرمائیے

سوا آٹھ لوگوں کے ہووے نہ اور

وہ گاڑی کے پیچھے چڑھا خوش نہاد

قلی وہ جو دروازۂ قلعہ تھا

میں اترا وہاں درد و غم کے قریں

اور یہیں سے آلام و مصائب کا وہ لا متناہی دور شروع ہوتا ہے جس سے تادم مرگ واجدعلی شاہ اخترؔ دوچار رہے۔ مثنوی کے اگلے ابواب میں نواب اودھ نے اپنے ان رفیقوں اور خادموں کا نہایت دردمندی کے ساتھ تذکرہ کیا ہے جو اس مصیبت کے وقت ان کے وفادار رہے۔ لکھنؤ سے کلکتہ جلا وطنی کے دوران سفر و حضر میں ساتھ دینے والے اعزّا اور وفا دار ملازموں کی خاصی بڑی تعداد شامل ہے جن میں طبیب، چوبدار، چپراسی، حقہ بردار، خواص، بولدان بردار، کول بردار، گولہ انداز، آرام گوش، سقّہ، انگشت بردار، گاڑی پونچھ، زنِ پاندار، پوشاک دوز وغیرہ کی خدمات کا جی کھول کر اعتراف کیا گیا ہے، مثنوی کا یہ حصّہ ہمیں اودھ کی اُس تہذیب سے روشناس کراتا ہے جس تک رسائی کے دوسرے راستے مسدود ہیں۔

یہ مثنوی ہمیں بتاتی ہے کہ قلی باب میں آٹھ دن قیام کرنے کے بعد واجد علی شاہ کو لاٹ کنگ صاحب قائم مقام ڈلہوزی صاحب کے حکم سے قلعہ کے وسط میں واقع ایک کوٹھی میں منتقل کر دیا گیا جہاں بقول واجد علی شاہ:

کوئی آنکھ ہم سے ملاتا نہیں

اوپر جانور تک بھی آتا نہیں

ہوئے بند در قید خانے کے جب

لکھوں کیا جو گزرے ستم اور غضب

کلیجہ مرا منہ کو آ آ گیا

رکا دم جو سینے میں، گھبرا گیا

فورٹ ولیم میں اسیری کے دوران فتح الدولہ کے انتقال کا حال مثنوی میں بڑی حسرت کے ساتھ نظم ہوا ہے ان کے علاوہ دوسرے ۲۳ مرد و زن ہم قفسوں کی محبت اور وفا داری کا اعتراف واجد علی شاہ نے جی کھول کر کیا ہے :

مرے نام پر ہیں فدا جان سے

مجھے رکھتے ہیں وہ سِوا جان سے

زن و مرد ہمراہی ہیں سب فدا

بڑا حوصلہ ہے بڑا حوصلہ

اس دوران مہتمم الدولہ پاگل ہو گئے اور انھیں نواب سے علاحدہ کر کے موچی کھولے میں رکھا گیا۔ ایک اور واقعہ نواب اخترؔ نے پُر لُطف انداز میں نظم کیا ہے۔ ایک رات کو ایک انگریز فوجی افسر پہرے داری پر تعینات ہو کر قید خانے میں در آیا اس کے اعزّا ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں مارے گئے تھے اس لیے آتش انتقام میں سلگ رہا تھا۔ کہتا تھا:

مرے بابا اور میم مارے گئے

عزیز اس جہاں سے ہمارے گئے

کرو ایسے راجا کی گردن حلال

بکھیڑا ہی جائے، مٹے یہ وبال

واجد علی شاہ نے اس کی شکایت کرنیل صاحب تک پہنچائی تب کہیں اس بلائے ناگہانی سے نجات ملی۔ اسی طرح محمد شیر خاں گولہ انداز اور باقر علی چوبدار کی باہمی جنگ کا پُر لطف حال ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے۔ تو تو میں میں سے بڑھ کر یہ لوگ آمادۂ جدل ہوئے تو شیر خاں نے دانتوں سے باقر علی کی ناک کاٹ لی اور نتیجے میں اُسے اس قید خانے سے دوسرے زنداں میں منتقل کر دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد نواب کو لندن سے خط موصول ہوا کہ ان کی والدہ نواب تاج آرا بیگم نے انتقال فرمایا۔ ابھی اس غم سے پوری طرح عہدہ برآ بھی نہ ہوئے تھے کہ بھائی کے انتقال کی خبر آ گئی۔ ماں کی عمر پچپن برس اور بھائی کی تیس سال تھی پھر انھیں بھائی کی ایک سالہ بیٹی راہی ملکِ عدم ہو گئی۔ یہ لوگ فرانس میں دفن کیے گئے۔

۱۲۰۴ھ کو جب واجد علی شاہ کی عمر ۳۳ برس کی تھی فورٹ ولیم میں یہ خبر ملی کہ بیگم اختر محل کے بطن سے ان کے ہاں پسر تولّد ہوا ہے۔ اس چھوٹے سے نادیدہ بچے کا سراپا واجد علی شاہ نے مثنوی میں بہت جی لگا کر قلم بندکیا ہے جو اپنی نوعیت کا منفرد سراپا ہے۔ مثنوی کے ایک حصے میں شاعر نے اُن بیگمات اور دیگر متعلقین کی باہمی چپقلشوں اور گھریلو معرکہ آرائیوں کا تذکرہ بھی کیا ہے جو ان کے ساتھ ایام ابتلا میں فورٹ ولیم میں مقیم تھے۔ ان میں بطور خاس ایک ممتوعہ، جعفری بیگم کا ایڑی سے چوٹی تک کا سراپا بے حد دلکش ہے۔ یہ محترمہ حسین بھی ہیں اور چالاک بھی۔ اس لیے بھولے بھالے عاشق مزاج نواب سے گاہے ماہے ایک ہزار سے چھ ہزار تک وصول کرتی رہی ہیں۔ اکثر و بیشتر معذول نواب کو اپنے عہد رفتہ کی یاد آ کر پریشان کرتی ہے اور گزشتہ عیش و نشاط کے دن حافظے میں روشن ہو جاتے ہیں اور وہ چیخ اٹھتا ہے :

کبھی سر پہ رکھتا تھا میں کج کلاہ

اودھ کا کبھی میں بھی تھا بادشاہ

ملازم مرے تھے کبھی سو ہزار

فقط تیرہ سو تھے جو اہلِ قلم

طبیبوں کو کر پانچ سو تو رقم

پھر پندرہ سو چوبدار، ساٹھ ستّر محل اور ہزار طرح کی دوسری نعمتیں یاد آتی ہیں پھر زنداں کے افسروں اور عہدے داروں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کون کس منصب پر فائز ہے۔ آگے چل کر مثنوی میں شہزادگان اور شہزادیوں کا تذکرہ ہے اور ان کی تعداد بیان کی گئی ہے۔ ان میں بطورِ خاص آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔ واجد علی شاہ اخترؔ نے اس مثنوی میں مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر کچھ ایسے واقعات بھی نظم کر دیے ہیں جن سے قید خانے میں چند بیبیوں کی بے وفائی کا حال واضح ہوتا ہے مثلاً خجستہ محل کربلائی اور دوسری کچھ بیگمات کا خود غرضانہ عمل اور نواب کو چھوڑ کر رخصت ہو جانا، مثنوی میں کھول کر بیان کیا ہے۔ ان مقامات پر نواب نے زیب داستان کے طور پر جو اشعار نظم کیے ہیں وہ فن موسیقی پر ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اس مثنوی کا خاتمہ نہایت پُرسوز مناجات پر ہوتا ہے جس میں نواب نے مختلف اور متعدد بزرگانِ دین کے وسیلے سے بارگاہِ ایزدی میں دُعا مانگی ہے کہ انھیں قیدِ فرنگ سے رہائی نصیب ہو۔ اس طرح یہ مثنوی ابنے عہد کا تہذیبی، تاریخی، سیاسی اور سماجی مرقع بن گئی ہے۔

بلا شبہ یہ مثنوی مطالبہ کرتی ہے کہ شاہانِ اودھ کے سلسلے میں انگریزوں کی بیان کردہ مبالغہ آمیز روایتوں سے علیحدہ ہٹ کر غیر جانبدارانہ تحقیق کی جائے اور تاریخ کا یہ باب از سرِ نو لکھا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کلامِ غالبؔ میں طنز و مزاح کا عُنصر

 

مولانا حالیؔ نے اپنے نامور استاد مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کو حیوانِ ظریف کچھ غلط نہیں کہا۔ سرسری مطالعے کے بعد ہی پڑھنے والے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ خطوطِ غالبؔ ہوں یا کلامِ غالبؔ، نثر و شعر کے دونوں میدانوں میں غالبؔ نے طنز و مزاح کے اسلوب سے خوب خوب کام لیا ہے اور قدم قدم پر شگفتگی کے پھول کھِلائے ہیں۔ در اصل غالبؔ کے مزاج میں شوخی کا جو عنصر بطورِ خمیر قادرِ مطلق نے شامل کیا تھا، مرزا نے اسے اپنی تخلیقات میں اس خوبی سے منتقل کیا ہے کہ ان میں برجستگی، لطافت اور طرزِ ادا کی ندرت اُبھر آئی ہے۔ یوں تو ادبی حلقوں میں سب سے زیادہ لطیفے، انشاؔ اور مجازؔ سے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن میرؔ و اقبالؔ جیسے عظیم شعرا کی صف میں غالبؔ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ بذلہ سنجی اور لطیفہ بازی کی بہت سی روایات موصوف سے وابستہ کی جاتی ہیں جو اس امر کی غمّازی کرتی ہیں کہ غالبؔ کی فطرت میں شوخی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

کلامِ غالبؔ میں مسائلِ تصوف، فلسفیانہ تصوّرات اور تجسس و تحیر کی فضا نے ناقدین کو اپنی طرف اس طرح متوجہ رکھا اور شارحین کلام غالبؔ اشعار کی پہلو داری اور علاماتی پرتوں میں اتنے الجھے رہے کہ شعروں کی زیریں سطح اور بالائی پرت پر موجود شوخی کا عنصر خاطر خواہ توجہ کا مرکز نہیں بن سکا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ متداول دیوانِ غالبؔ کا پہلا شعر بلکہ پہلا مصرع ہی شوخیِ تحریر کا حامل ہے :

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

یہاں ’ شوخیِ تحریر‘ سے میری مراد اس لفظی ترکیب سے نہیں ہے جو شعر میں برتی گئی ہے بلکہ اس شوخ لب و لہجے سے ہے جو غالبؔ نے نقاشِ ازل کے تخلیقی عمل پر تبصرے کے لیے استعمال کیا ہے۔ آج سے تقریباً ایک سو پچاس برس پیشتر، جب معاشرہ، مذہب سے اس حد تک بیگانہ نہ ہوا تھا، جتنا کہ آج ہے، غالبؔ خدائے برتر سے مخاطبت کے دوران اکثر ایسا ہی شوخ و شنگ لہجہ اور انداز اختیار کر تے ہیں۔ چند بولتی ہوئی مثالیں ملاحظہ ہوں :

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم

اُلٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شوخی کا یہ انداز کہ درِ کعبہ وا نہ ہو تو حضرتِ غالبؔ اُلٹے پھِر آتے ہیں، فرشتوں کے لکھے پر بے اعتمادی کہ اس وقت ہمارا کوئی آدمی موجود نہ تھا، گناہ کا حساب دینے پر اس اعتراض کے ساتھ عذر خواہی کہ اس طرح خدا کے ودیعت کردہ داغِ حسرت دل یاد آ جاتے ہیں اور پھر یہ مطالبہ کہ تقدیر میں اتنے غم لکھے تھے تو دل بھی بہت سے عطا کرنے تھے، کچھ غالبؔ پر ہی پھبتا ہے کیونکہ ایسے نازک مقامات پر عام فنکاروں کا تو دم پھول جاتا ہے۔

قدیم عقائد اور مذہبی روایات کے سلسلے میں اظہارِ خبال کرتے ہوئے بھی غالبؔ کا لہجہ اکثر بے باک اور شوخ ہو جاتا ہے یوں تو عام طور پر زاہد کی ریاکاری اور شیخ کی نمائشی پارسائی پر فارسی و اُردو کے غزل گو طعن و تشنیع کرتے ہی رہتے ہیں لیکن غالبؔ اس راہ پر بہت آگے بڑھ کر اپنی شوخی اور ظریفانہ اندازِ گفتگو کے وسیلے سے قدیم عقائد پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ذرا ان اشعار کے تیور دیکھیے :

بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے

مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت، لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ چیز جس کے لیے ہو ہمیں بہشت عزیز

سوائے بادۂ گل فام و مشک بو کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو

کیا بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں

یہ سوئے ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور مذہبی امور میں شوخی کا یہ عنصر محض غزلوں تک محدود نہیں ہے قطعہ و رباعی بھی اس کی زد میں ہیں :

افطارِ صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو

اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہیں

روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

اہلِ نظر بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو غالبؔ مذہب اور محبوب حقیقی کے ساتھ ایسا کھُلا  شوخی آمیز رویّہ اختیار کرتے ہیں وہ معشوق مجازی کے بارے میں ویسی مؤدّبانہ خود سپردگی اختیار کرنے سے رہے جہاں غبارِ میرؔاُس سے دُور بیٹھتا ہے، چنانچہ ارضی محبوب کے ساتھ غالبؔ کی چہلیں ملاحظہ ہوں :

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام

مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے

میرا ذمّہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وعدہ آنے کا وفا کیجے یہ کیا انداز ہے

تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے

کہا جواس نے مرے ہاتھ پاؤں داب تو دے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر کھُلا ہے درِ عدالت ناز

گرم بازارِ فوجداری ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوّری

تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے

آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں

دھول دھپّہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، کہ اُٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بہرا ہوں میں تو چاہیے دُونا ہو اِلتفات

سُنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ مگر

ایسی باتوں سے وہ ظالم بدگماں ہو جائے گا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہر ایک بات پہ کہتے ہو مجھ سے، تُو کیا ہے

تمھیں بتاؤ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں، ورنہ

سبب کیا خواب میں آ کر تبسّم ہائے پنہاں کا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لیکن محبوب کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے اور فقرے چسپاں کرنے کا یہ عمل یکطرفہ نہیں ہے۔ کلامِ غالبؔ کے آئینے میں اُن کا محبوب بھی اتنا ہی شوخ و شنگ، بذلہ سنج اور حاضر جواب ہے۔ چنانچہ غالبؔ کے ساتھ اس کی حرکتوں اور گفتگو میں شوخی و ظرافت کی پھلجھڑیاں چھوٹتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ملاحظہ ہوں یہ دلچسپ محاکاتی اشعار:

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھُلا

تجاہل پیشگی سے مذّعا کیا

کہاں تک اسے سراپا نازکیا کیا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

داد دیتا ہے مرے زخم جگر کی، واہ واہ

یاد کرتا ہے مجھے، دیکھے ہے وہ جس جا نمک

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے کہا کہ بزمِ ناز غیر سے چاہیے تھی

سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پِینس میں گزرتے ہیں وہ کوچے سے جو میرے

کندھے بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

طنز و ظرافت اور شوخی و حاضر جوابی دو دھاری تلواریں ہیں جن کا وار مدِّ مقابل کے ساتھ خود اپنے آپ پر بھی پڑتا رہتا ہے۔ اُس روایتی پیر زن کی مانند جسے کوئی جھگڑنے کو نہیں ملتا تو ہوا سے تکرار کرتی ہے، غالبؔ بھی محبوب اور رقیب کے ساتھ خود اپنی ذات کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور اکثر اپنے بارے میں ایسے پُر لطف اعترافات کرتے ہیں :

ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اِتراتا

وگر نہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالبؔ کو نہ جانے

شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی

اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چاہتے ہیں خوب رُو یوں کو اسدؔ

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عشق نے غالب نکمَا کردیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دے وہ جس قدر ذِلّت ہم ہنسی میں ٹالیں گے

بارے آشنا نکلا اُن کا پاسباں اپنا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اُگاہے گھر میں ہر سو سبزہ، ویرانی تماشا کر

مدار، اب کھودنے پر گھاس کے، ہے میرے درباں کا

کاروبارِ عشق میں شوریدگی کے ہاتھوں غالبؔ جو مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں، ان کی دلچسپ تصویریں بھی اپنے اشعار میں محفوظ کر دیتے ہیں۔ ایسے چند تمسخر آمیز اور شوخ لفظی مرقعے آپ بھی دیکھیں :

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ

مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کو دینا

کہ اُس کے درپہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

اور شوخی کی یہ لَے کہیں اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ غالبؔ مرثیہ عارف لکھتے ہوئے بھی اپنے جذبے کی شوخی پر قابو نہیں رکھ پاتے اور کہتے ہیں :

تم ایسے کھرے بھی تو نہ تھے داد و ستد کے

کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور

البتہ ایسے بے شمار اشعار کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہ ہو گا کہ غالبؔ محض ایک ظریف شاعر اور شوخ لہجہ رکھنے والے غزل گو تھے کیونکہ یہ ان کے پہلو دار اسلوب کا ایک رُخ ہے مکمل اسلوب نہیں۔ غالبؔ نے شاید ایسے ہی مواقع سے بچنے کے لیے کہا ہے :

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ

کھُلا کہ فائدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

فراقؔ و جوشؔ: تضادات اور مماثلتیں

 

تنقید کا ایک دبستان بطور خاص اصرار کرتا ہے کہ فنکاروں کی تخلیقی کاوشوں کا تجزیہ اور ان کی ادبی حیثیتوں کا تعین ان کے ادوار کے تناظر میں کیا جائے۔ بات اپنی جگہ جی کو لگتی  ہے اور اکثر و بیشتر اوسط یا کمتر درجہ کی استعداد رکھنے والے فنکاروں کے بارے میں اس پیمانے کے ذریعہ صحیح نتائج تک پہنچنے میں سہولت بھی ہوتی ہے لیکن جہاں معاملہ بلند قامت اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیت رکھنے والے فنکاروں کا آ پڑتا ہے، وہاں ادوار کا پسِ منظر سچی تصویر کو اجاگر کرنے میں زیادہ کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ایک نمایاں مثال میرؔ اور سوداؔ کی ہے۔ دونوں کم و بیش ایک ہی دور کی پیداوار ہیں۔ دونوں نے دہلی کی بار بار تباہی کا کھلی آنکھوں سے سے مشاہدہ کیا اور حالات سے مجبور ہو کر لکھنؤ ہجرت کر گئے، لیکن دونوں کے مزاجِ شعر کی تشخیص میں ان کا دور اور اس عہد کے سیاسی حالات ہمیں مختلف نتائج پر پہنچاتے ہیں حالانکہ یکساں حالات اور ایک ہی دور میں شاعری کرنے والے ان فنکاروں کے یہاں فطری طور پر مماثلت کے زیادہ پہلو ہونے چاہیے تھے۔ کم و بیش یہی صورتِ حال مومنؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے ساتھ ہے۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار کے دورِ حکومت میں رہتے ہوئے ان تینوں فنکاروں نے جو تخلیقی کارنامے پیش کیے وہ اپنے فنی محاسن اور ادبی معیار کے اعتبار سے قطعی جداگانہ نوعیتوں کے حامل ہیں۔ بات یہ ہے کہ عظیم فنکار اکثر اپنے دور کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی ادبی اقدار اور انفرادی امتیازات کا حامل ہوا کرتا ہے جنھیں صرف ماہ و سال کے فریم میں سجا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرؔ، سوداؔ سے اور غالبؔ اپنے معاصرین ذوقؔ و مومنؔ سے بڑے بھی ہیں اور مختلف بھی۔ ایسی مثالیں بکثرت دی جا سکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادوار کو شاعری کی پرکھ میں واجبی واجبی اہمیت ہی حاصل ہے اور اس پر بہت زیادہ اصرار کرنا گمراہ کُن ہو سکتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک ہی خاندان میں پیدا ہونے اور بڑھنے والے بچوں میں سے کوئی ایک فن کار ہوتا ہے اور بقیہ شعر و ادب سے بے گانہ رہتے ہیں یا اگر ایک سے زائد کی دلچسپی شعر و ادب میں ہو تب بھی ان میں سے کوئی کرشن چندر اور کوئی غیاث احمد گدی بنتا ہے اور دوسرے بھائی مہندر ناتھ اور الیاس احمد گدی کی سطح پر رہ جاتے ہیں۔

جوشؔ و فراقؔ کم و بیش ایک ہی دور کی پیداوار ہیں۔ فراقؔ کا سنہ ولادت ۱۸۹۶ء ہے اور جوشؔ کی پیدائش ۱۸۹۸ء کی ہے اور سال وفات دونوں کا ۱۹۸۲ء ہے یعنی دونوں کی عمروں میں ڈیڑھ دو سال سے زیادہ کا فرق نہیں ہے۔ دونوں کے خاندانوں میں شاعری کی روایت چلی آ رہی تھی۔ جوشؔ کے پردادا فقیر محمد گویاؔ، دادا محمد احمد، والد بشیر احمد بشیرؔ اپنی اپنی جگہ صاحبِ دیوان تھے اور فراقؔ کے والد عبرتؔ گورکھ پوری اپنے دور کے منجھے ہوئے شعراء میں شمار کیے جاتے تھے۔ ادوار اور حالات کی اس یکسانیت کا اثر دونوں فنکاروں پر اس حد تک ضرور ہوا کہ دونوں نے اپنی زندگی میں شہرت و مقبولیت کی انتہائی بلندیوں کو چھو لیا اور ایک دوسرے کی عظمت کے معترف بھی رہے۔ مماثلت کا ایک رخ یہ بھی نکلتا ہے کہ دونوں فنکار طویل نظمیں اور لمبی غزلیں کہنے کے لیے مشہور تھے، لیکن ایک ہی دور، ایک ہی سرزمین اور یکساں سیاسی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے ان مختلف المزاج فنکاروں کی شخصیت اور فن کے کچھ دلچسپ تضاد بھی ملاحظہ فرمائیے :

(۱)    ہر چند کہ جوشؔ نے شاعری کی ابتداء غزل سے کی لیکن ۱۹۱۴ء کے آس پاس سلیمؔ  پانی پتی کے مشورے سے نظم گوئی کی طرف ایسے مائل ہوئے کہ آگے چل کر غزل سے اپنی بیزاری کا علی الاعلان اظہار کرنے لگے ( پانی پت کے میدان میں غزل تہِ تیغ ہوتی آئی ہے جس کی شہادت مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی دے سکتے ہیں ) اس ضمن میں جوشؔ کا وہ لطیفہ خاصا مشہور ہے کہ ایک بزرگ خاتون نے ملاقات کے دوران جب جوشؔ کی خیریت دریافت کی تو موصوف نے کہا:’’ آج راستے میں بھیڑ بہت تھی، آلو کا نرخ گھٹ رہا ہے، رات کو سردی اپنے عروج پر تھی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور جب ان خاتون نے حیران ہو کر اس بے ربط گفتگو کا مطلب دریافت کیا تو جوشؔ صاحب نے فرمایا کہ وہ غزل کہہ رہے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود جوش کی لمبی لمبی نظمیں، غزل کے اثرات سے یکسر آزاد نہیں رہ سکیں۔ اس کے بر عکس فراقؔ بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر ہیں۔ حالانکہ انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ منھ کا ذائقہ بدلنے والی جیسی چیزیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی اور مغربی ادب پر جوشؔ کی نگاہ واجبی واجبی ہے جب کہ فراقؔ انگریزی اور اس کے توسط سے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کر چکے تھے اور یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات کے استاد بھی تھے۔ اہلِ نظر سے یہ نکتہ پوشیدہ نہیں کہ مغربی شاعری کا مزاج بنیادی طور پر بیانیہ ہے اور نظم کو خوب راس آتا ہے (یقین نہ ہو تو کلیم الدین احمد اور ظ۔ انصاری سے پوچھ لیجیے ) اور یہ بھی تقریباً ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مشرقی مزاج کو رمزیہ اور کنایاتی اسلوب زیادہ موافق آتا ہے۔ کیا پُر لطف بات ہے کہ ان حقیقتوں کا اثر جوشؔ و فراق کے یہاں معکوس نظر آتا ہے یعنی جوشؔ مغربی مزاج کی حامل نظمیہ شاعری کی جانب مائل ہوئے اور انگریزی ادب کے عالم، فراقؔ مشرقی مزاج کو راس آنے والی غزل کے لیے وقف ہو گئے۔

(۲)    جوشؔ جیسا کہ ان کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں، سیاسی آدمی نہ تھے۔ جاگیردارانہ ماحول میں پرورش پانے والا یہ شاعر حیدر آباد کے دربار سے بھی منسلک رہا۔ کسی سیاسی پارٹی سے اس کا براہ راست تعلق بھی نہ تھا۔ پھر بھی آزادی سے قبل انھوں نے ’ ہٹلر اعظم‘، ’ تلاشی‘، اور ’ ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘ جیسی نظمیں کہیں اور آزادیِ ہند کے بعد ’ ماتمِ آزادی‘ لکھی۔ زندگی میں بھی کم از کم آزادی کے بعد اور ہجرت سے پیشتر وہ ہندوستان میں چوٹی کے سیاسی رہنماؤں کے قریبی دوست سمجھے جاتے رہے۔ اس کے بر عکس فراقؔ ایک زمانے میں کانگریس کے گرم جوش ہمنوا تھے اور براہِ راست سیاست میں اس حد تک شریک رہے کہ ۱۹۲۷ء کے آس پاس انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اور آئی سی ایس کی نامزدگی کو بھی اس سیاسی وابستگی کے باعث ٹھکرانے پر مجبور ہوئے۔ سنتے ہیں کہ اس زمانے میں فراقؔ، گاندھی جی کے بے حد قریب تھے لیکن فراقؔ کی پوری شاعری کا جائزہ لیجیے تو اس میں سیاسی نوعیت کی تخلیقات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔

(۳)   زندگی سے متعلق اپنے رویوں میں جوشؔ و فراق میں بُعد المشرقین ہے۔ جوشؔ شاعرِ انقلاب ہونے کے باوجود عام زندگی میں شائستہ مزاج اور اعتدال پسند انسان تھے۔ وہ ایک ذمہ دار شوہر، شفیق باپ اور خاندان کی کفالت کا فرض خوش اسلوبی سے ادا کرنے والے آدمی تھے۔ بیوی کا ذکر خواہ مذاقاً کیا جا رہا ہو، جوش ہمیشہ اپنی نصف بہتر کے لیے توصیفی کلمات زبان پر لاتے تھے۔ فراقؔ کا برتاؤ اپنی شاعری کے برعکس زندگی میں زیادہ باغیانہ ہے۔ اہلیہ کے لیے تعریف و تحسین کے پہلو نکالنا تو کجا، وہ موقعہ بہ موقعہ ان کی مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے تئیں ان کا رویہ انتہائی لا اُبالیانہ بلکہ غیر ذمہ دارانہ رہا۔ شائستہ محفلوں میں وہ ہمیشہ منھ پھٹ سمجھے جاتے رہے۔ شراب پی کر جوشؔ کے بہکنے کی بات کم سنی گئی جب کہ فراقؔ کے ساتھ معاملہ اس کے برعکس تھا۔

مندرجہ بالا مماثلتوں اور تضادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ میرؔ و سوداؔ اور غالبؔ و ذوقؔ کی طرح جوش و فراق کے فن اور شخصیتوں پر ایک ہی دور نے جداگانہ نوعیتوں کے اثرات مرتسم کیے۔ دونوں کی شاعری بھی قطعاً مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔ جوشؔ طنطنے، طمطراق، گھن گرج اور شان و شکوہ کے شاعر ہیں۔ انھیں لفظوں کا جادوگر کہا گیا ہے اور شاعرِ انقلاب بھی۔ ان کے بارے میں ناصرؔ کاظمی کا یہ قول خاصا مشہور ہوا کہ جوشؔ صاحب باجے تاشے کے ساتھ ہاتھی پر توپ لے کر شکار کو جاتے ہیں اور پدّی مار کر لاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ناصرؔ کاظمی کے اس قول میں جوشؔ کی نظموں سے کم لفّاظی نہیں ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بہر حال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نظموں میں جوشؔ گفتگو کو بہت پھیلا کر مختلف زاویوں سے گھوم پھر کر، لفظوں کی کفایت کا لحاظ کیے بغیر بات کرنے کے عادی ہیں۔ فراقؔ کے بارے میں تو مشہور ہی تھا اور اس کی ابتداء خود فراقؔ نے کی تھی کہ وہ رات گزارنے کے لیے غزل کہتے اور ہر ممکن قافیے کو باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی غزل اکثر بیس پچیس اشعار تک پھیل جاتی ہے لیکن جب یہ دونوں فن کار صنفِ رباعی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو چار مصرعوں کے حصار میں اپنی طول پسندی سے آزاد ہو کر بہت بندھی ہوئی، بے حد کسی ہوئی، انتہائی پر مغز اور مختصر لیکن جامع بات کہتے نظر آتے ہیں۔

رباعی بھی اردو کی ایک اہم صنفِ سخن ہے اور دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں کہیں زیادہ اختصار اور ایجاز کی متقاضی ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جب شاعر اپنے افکار و تجربات کا ذخیرہ مختلف اصنافِ سخن میں صرف کر چکا ہوتا ہے اور اس کے پاس تازہ مشاہدات و تجربات سے متعلق کہنے کو کچھ نہیں رہتا تو وہ اپنی استادی کو قائم رکھنے کے لیے رباعی کا سہارا لیتا ہے اور سابقہ مشقِ سخن کے سہارے اپنی قادر الکلامی کے ثبوت رباعیوں کی شکل میں پیش کرتا ہے لیکن یہ خیال بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ قدماء کا یہ تصور کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو ہوتا ہے۔ چار مصرعوں کے اندر سمندر سمو دینا کوئی آسان کام نہیں اور جب تک فن پر مکمل قدرت حاصل نہ ہو اچھی رباعی تخلیق کرنا ممکن ہی نہیں رباعی کی کم سخن اور مرد افگن صنفِ سخن، موضوع کی رفعت اور لفظوں پر قدرت سے زیادہ خیال کی گہرائی اور چوتھے مصرعے کی قوت پر بات کو سمیٹ کر کہنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ رباعی کے پہلے تین مصرعے در اصل کمان اور چلّے کا کام کرتے ہیں جن پر رکھ کر چوتھے مصرعے کا تیر سامع کے دل میں پیوست کر دیا جاتا ہے۔ اردو رباعیات کے سرمائے پر نگاہ ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ ہمارے کم و بیش سبھی رباعی گویوں نے موت، بے ثباتیِ دنیا، قناعت، خود داری، انسان دوستی، جبر و قدر اور اسی قسم کے دیگر فلسفیانہ مضامین ہی پر طبع آزمائی کی ہے۔ بہت ہوا تو عمر خیامؔ کے انداز میں خمریہ مضامین کی شراب رباعی کے پیمانے میں بھر دی گئی۔ حسن و عشق کے سچے تجربات جن کی جھلکیاں غزل میں نظر آتی ہیں رباعی کے پیرائے میں بہت کم بیان کیے گئے ہیں۔ جوشؔ و فراقؔ نے بھی جنون و خرد، ذات و کائنات، حیات و ممات اور جبر و قدر جیسے موضوعات پر رباعیاں کہیں۔ جوشؔ نے زیادہ فراقؔ نے نسبتاً کم۔ ملاحظہ ہوں ایک جیسے موضوعات پر دونوں شاعروں کی یہ رباعیاں :

جوش کہتے ہیں :

تا میری کرن سے برف اس کی گھُل جائے

جو رنگ غلط چڑھا ہے دھُل جائے

ہر مدّعیِ عقل سے ملتا ہوں میں

اس پر تا اپنی بے وقوفی کھُل جائے

اس موضوع پر فراقؔ کی ایک رباعی دیکھیے :

منطق کی مدد سے راز پنہاں معلوم

از نفسیّات، رازِ انساں معلوم

ہے عقل کی خورد بین ہر پتّی پر

اس تجزیے سے علمِ گلستاں معلوم

کم و بیش ایسا ہی ایک تاثر جوشؔ کی اس رباعی میں بھی پنہاں ہے :

یہ زہد و ورع، یہ اتقا کچھ بھی نہیں

یہ فضل و ہنر، یہ فلسفہ کچھ بھی نہیں

دے بادہ کہ انتہائے عِلم اے ساقی

اقرارِ جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں

فراقؔ کی کئی رباعیاں ایسے ہی خیالات کی حامل ہیں ان میں سے ایک دیکھیے :

احساس سے ہر پردہ اٹھا دیتا ہے

خود عقل کو وہ اس کا پتہ دیتا ہے

خود ساختہ جال میں پھنس جاتی ہے عقل

وجدان اسے آزاد کرا دیتا ہے

اسی نوع کی بہت سی رباعیاں جوشؔ کے مجموعہ ہائے کلام میں ’ حقائق‘، ’ پیرانِ سالوس‘، ’خمریات‘، ’ متفرقات، وغیرہ عنوانات کے تحت مل جاتی ہیں جن میں بیشتر کو نطشےؔ  اور خیامؔ کے نام منسوب کیا گیا ہے، جس سے ان کے مزاج اور پسندیدہ موضوعات کا اندازہ ہوتا ہے۔ رباعیات کے اس ہجوم میں ’ حسن و عشق‘ کے تحت تقریباً بیس پچیس رباعیاں جوشؔ کے یہاں ایسی بھی ہیں جو اردو رباعی کی عام فکری، نیم فلسفیانہ اور متصوفانہ روایات سے الگ ہٹ کر معشوقِ مجازی اور ارضی محبت کے خوبصورت مرقعے اور شگفتہ و شاداب تجربات پیش کرتی ہیں۔ مثلاً:

یکبارگی جھلملائے طاقوں میں دیے

تاروں نے لرز کر اپنے در بند کیے

چٹکی ان کی نقاب الٹنے کو اٹھّی

نکھری ہوئی چاندنی نے پَر تول لیے

………

کس ناز سے گلشن میں ٹہلتی ہوئی آئی

سانچے میں شگفتگی کے ڈھلتی ہوئی آئی

کلیوں کی گرہ کھل گئی، جب وہ دمِ صبح

آنکھوں کو ہتھیلیوں سے ملتی ہوئی آئی

………

اے کعبہ ذوقِ دید و اے دیر نگاہ

اے رہزنِ انجم و غارت گرِ ماہ

کیا تیرہ شبی کا اس مسافر کو ہو خوف

تیرے چہرے کی لَو ہے جس کے ہمراہ

………

زلفوں کو ہٹا کے کنمنایا کوئی

فرشِ مخمل پہ رسمایا کوئی

جیسے کندن پہ چاندنی کی لہریں

یوں چونک کے صبح مسکرایا کوئی

………

کیونکر نہ ہوائیں منھ اندھیرے لپکیں

کس طرح نہ ڈوبتے ستارے بہکیں

گُل رنگ بدن میں رات کے ہار کا رس

اور رات کے ہار میں بدن کی مہکیں

………

الفاظ میں غلطیدہ ہے جادُو گویا

آواز بدل رہی ہے پہلو گویا

لہجے کا ترے درد، عیاذاً باللہ

لفظوں سے ٹپک رہے ہیں آنسو گویا

………

رُخ پر ہے ترے قلبِ تپاں کا پرتو

ماتھے پہ ہے آتشِ نہاں کا پرتو

غلطاں ہے اداسی یہ تری آنکھوں میں

یانہر میں ہے ابرِ خزاں کا پرتو

………

چونکا ہے کوئی نگار، الٰہی توبہ

رس میں ڈوبا خمار، الٰہی توبہ

سکتے میں ہیں بھیرویں کی تانیں گویا

ہونٹوں کا خفیف ابھار، الٰہ توبہ

………

گلشن میں کہاں سے یہ اثر آتا ہے

تخئیل کا ہر نقش ابھر آتا ہے

اوڑھے ہوئے ہلکی سی دلائی کوئی شوخ

خوشبو میں چنبیلی کی نظر آتا ہے

………

اے حسن ٹھہر، آگ بھڑک جائے گی

صہبا تری ساغر سے چھلک جائے گی

مجھ کو تو یہ ڈر ہے کہ دلائی کیسی!

انگڑائی جو لی، جِلد مسک جائے گی

………

فقروں کی یہ تازگی، یہ لہجے کی بہار

قرباں ترے اے نگارِ شیریں گفتار

اللہ رے کھنکتی ہوئی آواز تری

چینی پہ ہو جیسے اشرفی کی جھنکار

………

اللہ رے بدمست جوانی کی نکھار

ہر نقشِ قدم پہ سجدہ کرتی ہے بہار

اس طرح وہ گامزن ہے فرشِ گل پر

پڑتی ہے ہری دوب پہ جس طرح پھوار

………

یہ سلسلۂ لا متناہی ہے کہ زلف

گہوارۂ بادِ صبح گاہی ہے کہ زلف

اے مستِ شباب دوشِ سیمیں پہ ترے

دھُنکی ہوئی رات کی سیاہی ہے کہ زلف

………

گفتار میں کھل رہی ہے بیلے کی کلی

رفتار میں مڑ رہی ہے ساون کی ندی

چہرے پہ سرور و نور، آنکھوں میں غرور

سرکار نے کیا آئینہ دیکھا تھا ابھی

………

سانچے میں گھٹا کے ڈھل رہا ہے کوئی

پانی کے دھوئیں میں جل رہا ہے کوئی

گردوں پہ ادھر جھوم رہے ہیں بادل

سینے میں ادھر مچل رہا ہے کوئی

………

پیش کردہ رباعیات میں آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ جوشؔ غیر ضروری لفّاظی کی جگہ سنبھل سنبھل کر ایسے الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں جو ان کے جمالیاتی تجربے کو جذبے کی پوری تھرتھراہٹ کے ساتھ سننے والے کے دل و دماغ میں منتقل کر سکیں۔ البتہ تشبیہات کا وہ جادو جو ان کی اکثر نظموں میں طلسمی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ان رباعیوں میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

وہ پسِ منظر جس میں محبوب کو چلتا پھرتا، سوتا جاگتا دکھایا گیا ہے، خالصتاً ہندوستانی ہے۔ اس طرح یہ تصویریں ماورائی بھی ہیں اور ارضی بھی۔ غالباً جوشؔ کے علاوہ پوری اردو شاعری میں بہ استثنائے فراقؔ، ایسی رباعیاں کہیں اور کم ہی ملیں گی۔ یہاں یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ رباعیاتِ جوشؔ کے سرمائے میں یہ رباعیاں جزو کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی تعداد بھی ایسی زیادہ نہیں۔ جب کہ فراقؔ کے یہاں ہندوستانی بوباس رکھنے والے محبوب کی سراپا نگاری ان کی تقریباً تین چوتھائی سے زیادہ رباعیات پر حاوی ہے اور ان کے مجموعۂ کلام ’ روپ‘ میں تقریباً سبھی رباعیاں جن کی تعداد کثیر ہے، اسی انداز کی ہیں۔ چند آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

وہ اک گہرا سکوت، کل رات گئے

طاقوں میں دیے نیند میں ڈوبے ڈوبے

پلکیں جھپکا رہی تھیں جب ٹھنڈی ہوائیں

آنا ترا اک نرم اچانک پن سے

………

مشرق سے جوئے شیر بہنے لگی جب

کافور ہوئی دہر سے تاریکیِ شب

اٹّھا کوئی نیند سے سمیٹے گیسو

اک نرم دمک لیے جبیں کا پورب

………

پیکر ہے کہ چلتی ہوئی پچکاری ہے

فوارۂ انوارِ سحر جاری ہے

پڑتی ہے فضا میں سات رنگوں کی پھوار

آکاش نہا اٹھتا ہے، بلہاری ہے

………

سوتے جادُو جگانے والے دن ہیں

عمروں کی حدیں ملانے والے دن ہیں

کنّیا اب کامنی ہے ہونے والی

آنکھوں کو نَین بنانے والے دن ہیں

………

حسن خوابیدہ میں ایسی سج دھج

زنجیر ہو بجلیوں کی جیسے کچھ کج

یہ بسترِ نرم و صاف، یہ جسم کی جوت

تکیوں پہ بادلوں کے جیسے سورج

………

ہے روپ میں وہ کھٹک، وہ رس، وہ جھنکار

کلیوں کے چٹکتے وقت جیسے گلزار

یا نور کی انگلیوں سے دیوی کوئی

جیسے شبِ ماہ میں بجاتی ہو ستار

………

راتوں کی جوانیاں، نشیلی آنکھیں

خنجر کی روانیاں، کٹیلی آنکھیں

سنگیت کی سرحدوں پہ کھلنے والے

پھولوں کی کہانیاں، رسیلی آنکھیں

………

قامت ہے کہ انگڑائیاں لیتی سرگم

ہو رقص میں جیسے رنگ و بو کا عالم

جگمگ جگمگ ہے شبنمستان اِرم

یا قوسِ قزح لچک رہی ہے پیہم

………

جب تاروں بھری رات نے لی انگڑائی

نمناک مناظر نے پلک جھپکائی

جب چھا گئی پر کیف اداسی ہر سمت

سرشار فضاؤں کو تری یاد آئی

………

رخسار پہ زلفوں کی گھٹا چھائی ہوئی

آنسو کی لکیر آنکھوں میں لہرائی ہوئی

وہ دل امڈا ہوا، وہ پریمی سے بگاڑ

آواز غم و غصّہ سے بھرّائی ہوئی

………

یہ نقرئی آواز یہ مترنّم خواب

تاروں پہ پڑ رہی ہو جیسے مضراب

لہجے میں یہ کھنک یہ رس، یہ جھنکار

چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہِ آب

………

جب پچھلے پہر پریم کی دنیا سولی

کلیوں کی گرہ پہلی کرن نے کھولی

جوبن رس چھلکاتی اٹھی چنچل نار

رادھا گوکل میں جیسے کھیلے ہولی

………

سنبل کے تر و تازہ چمن ہیں زلفیں

بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں

خود خضر یہاں راہ بھٹک جاتے ہیں

ظلمات کے بہکے ہوئے بن ہیں زلفیں

………

وہ نکھرے بدن کا مسکرانا ہے ہے

رس کے جوبن کا گنگنانا ہے ہے

کانوں کی لوؤں کا تھرتھرانا کم کم

چہرے کے تِل کا جگمگانا ہے ہے

………

آئینہ در آئینہ ہے شفاف بدن

جلوے کچھ اس انداز سے ہیں عکس فگن

اک خواب جمال ہے کہ بندھتا ہے طلسم

وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن

………

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان رباعیوں میں فراقؔ کا احساس جمال پوری طرح بیدار نظر آتا ہے۔ یہاں گوشت پوست کی ہندوستانی عورت محبوبہ کی شکل میں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہنستی بولتی، لجاتی اور دل لبھاتی ہوئی دکھائی پڑتی ہے۔ صرف عاشق کے قلب کی واردات اور نفسیاتی کیفیات کے بیان پر ہی قناعت نہیں کر لی گئی ہے، بلکہ محبوب کی باطنی کیفیتیں اور ذہنی و جذباتی صورتِ حال کی تمام نزاکتیں پوری طرح ان رباعیوں میں اجاگر ہوئی ہیں۔ اکّا دکّا مقامات کے علاوہ ’ روپ‘ کی بیشتر رباعیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تناظر میں صنفِ نازک کی مختلف تصویریں اس طرح پیش کی گئی ہیں کہ ارضیت اور جسمانیت کا حسن اور جنس کا تقدس سمٹ کر چار چار مصرعوں میں مرکوز ہو گیا ہے۔ یہاں بھی جوشؔ کی طرح محبوب کی رات میں آمد پر ٹھنڈی ہوائیں پلکیں جھپکنے لگتی ہیں اور دِیے نیند میں ڈوب جاتے ہیں۔ فضا میں سات رنگوں کی پھوار پڑنے لگتی ہے۔ نرم اور صاف بستر پر حُسن خوابیدہ کے جسم کی جوت سے بجلیوں کی زنجیر سی بندھ جاتی ہے۔ معشوق کی رسیلی آنکھیں سنگیت کی سرحدوں پر کھلنے والے پھولوں کی کہانیاں سناتی ہیں ز اس کی انگڑائی لچکتی ہوئی قوس قزح کا منظر پیش کرتی ہے اور لہجے کی کھنک تہہ آب بجتی ہوئی چاندی کی گھنٹیوں کی یاد دلاتی ہے۔ زلفیں ظلمات کے مہکتے ہوئے جنگل ہیں، بدن مسکراتا ہے اور چہرے کا تِل جگمگاتا ہے۔ ہونٹ سانسوں کی ٹھنڈی لو سے دہکے ہوئے ہیں اور شفاف چمکیلے بدن کے آئینہ میں طلسم سا بندھتا ہے اس حد تک فراقؔ کی رباعیاں، تقریباً رباعیاتِ جوشؔ کے متوازی چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ پھر بھی ان رباعیوں میں ایک ایسی جمالیاتی اور حسّیاتی کیفیت ہے جو اپنا قطعی الگ اور منففرد ذائقہ رکھتی ہے۔

جب فراقؔ کامنی ہوتی ہوئی کنّیا کی آنکھوں کو نَین بناتے ہیں، پیکر کو چلتی ہوئی پچکاری سے تعبیر کرتے ہیں۔ محبوب کو ایک نرم اچانک پن کے ساتھ خلوت کدے میں آتے ہوئے پیش کرتے ہیں، پر کیف اداسی سے سرشار فضاؤں پر اس کی یاد طاری کر دیتے ہیں۔ صبح کی پہلی کرن کے ہاتھوں کلیوں کی گرہ کشائی ہوتی ہے۔ پریمی سے بگاڑ پر مجبوبہ کے رخسار پر بکھری ہوئی لٹوں، آنکھوں میں آنسوؤں کی لکیر اور آواز کے بھرّانے کی بات کرتے ہیں اور روپ کی کھٹک کو شب ماہ میں نور کی انگلیوں سے کسی دیوی کی ستار نوازی سے تعبیر کرتے ہیں تو وہاں فراقؔ منفرد ہیں اور ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایسی رباعیاں فراقؔ کے یہاں محض دو چار درجن نہیں ہیں ان کا شمار کئی سو تک پہنچتا ہے اور ہر رباعی میں کسی نئے زاویے سے جمالیاتی ذوق رکھنے والوں کے لیے فرحت و انبساط کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔

انسان کے حواس خمسہ سے تعلق رکھنے والے سیّال متحرک اورغیر متحرک پیکر، فراقؔ کی رباعیوں میں جس کثرت سے ملتے ہیں اس کی مثالیں اردو رباعی میں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ لطافت، نرمی، دھیما پن، گھلاوٹ، شدّتِ احساس، جسمانیت، ارضیت اور ہندی گیت کا رس جَس، رباعی جیسی جزیل و ثقیل صنف سخن میں تحلیل کر دینا فراقؔ جیسے عظیم فنکار ہی کے بس کی بات ہے۔

اس مقام پر اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرنا چاہوں گا کہ جہاں تک فنی پختگی، تراکیب کی چستی، علوئے فکر، نزاکتِ خیال اور بندشِ الفاظ کا تعلق ہے جوشؔ کی رباعیاں فراق سے آگے ہیں۔ جوشؔ کی رباعی کے اختتام پر ایک خوشگوار حیرت اور استعجاب کا احساس ہوتا ہے لیکن عام طور پر جوشؔ کی رباعی کا بڑا حصہ ذہن کی چھلنی میں الجھا رہ جاتا ہے اور دل تک اس کے چند قطرے ہی چھن پاتے ہیں، اس کے بر عکس فراقؔ کی رباعی غزل کے اچھے شعر کی طرح اکائی بن کر پوری کی پوری سامع کے دل میں پیوست ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے اساتذۂ فن اسے رباعی کی خامی قرار دیں کہ اس کا ہر مصرعہ اپنی جگہ چوتھے مصرعے کی مانند ہموار اور اہم ہو، لیکن یہ خامی فراقؔ کی رباعیوں میں حسن اور قوت بن کر نمودار ہوتی ہے۔ اگر رباعی کے مخصوص وزن و بحر سے الگ ہٹ کر دیکھا جائے تو فراقؔ کی رباعیاں چار مصرعوں والے جدید قطعے کی ہم مزاج اور ہم آہنگ محسوس ہوتی ہیں۔

جوشؔ و فراقؔ کے ہم عصر ہونے کے باوجود دونوں کی شخصیتیں جدا گانہ خمیر رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری بھی مختلف المزاج ہے۔ صرف عشقیہ رباعیوں کے میدان میں ان بڑے فن کاروں کی شاعری کے دائرے ایک دوسرے سے اس احتیاط کے ساتھ ہم آغوش ہوتے ہیں کہ دونوں کا انفرادی رنگ پورے طور پر آمیز نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میں ہماری تنقید کے اس دبستان کو جو ادوار کی روشی میں فن کی پرکھ پر ضرورت سے زیادہ زور دیتا ہے، اپنے اصولوں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی کہ ان عظیم فن کاروں کے لیے یہ سانچہ تنگ پڑتا ہے۔

(کریم سٹی کالج جمشید پور کے جوشؔ و فراقؔ سیمینار میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

 

 

 

شادؔ عارفی کے معاشقے اور اُن کا تخلیقی ردّ عمل

 

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں

شادؔ عارفی نے دو بار عشق کیا اور دونوں مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھا۔ پہلا عشق بلوغت سے قبل شروع ہوا اور اس کا سلسلہ دس سال جاری رہا۔ لڑکی اُن کے نانہال کی طرف سے دُور کی رشتے دار تھی، لیکن خاندانی اعتبار سے ہم مرتبہ نہ تھی اور شادؔ عارفی اس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں ان کے بڑے بھائی ایک ساقط النسب عورت کے ساتھ دوسری شادی کرنے کے جرم میں خاندان سے علاحدہ کر دیے گئے تھے، لہٰذا شادؔ کو اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور وہ دوسری جگہ بیاہ دی گئی۔ عشق میں اس ناکامی نے ان کے ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور تقریباً تین سال تک ان پر جنونی کیفیت طاری رہی۔ اس کیفیت سے گزر چکنے کے تقریباً تین سال بعدانھیں دوسرا عشق تارا نام کی ایک لڑکی سے ہوا جس کے پڑوس میں شاؔد بچوں کو پڑھانے جاتے تھے لیکن یہاں بھی شادؔ عملاً ناکام رہے کیونکہ مذہب آڑے آتا تھا اور انھیں اس امر کا شدید احساس تھا کہ ان کے کسی غلط اقدام سے مسلمانوں پر ہندوؤں کو اعتماد نہ رہے گا۔ اس دوسرے عشق میں ناکامی نے شادؔ کی رہی سہی سکت چھین لی۔ اب ان کی مایوسیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ طرّہ یہ کہ اس دوہرے احساسِ شکست کو تا عمر زندہ و تازہ رکھنے کے لیے شادؔ کی دونوں محبوبائیں ان کے انتقال تک رامپور ہی میں مقیم رہیں۔

ان معاشقوں کی کچھ تفصیل شادؔعارفی کے مکتوب بنام علی حماد عباسی میں بیان ہوئی ہے۔ اس خط کا متعلقہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :

’’بات یہ ہوئی تھی کہ مجھے اپنے دُور کے خاندان میں سے ( جہاں ہماری بیاہ شادی ممنوع تھی ) بہ اعتبار قومیت وہ گھٹیا قوم کی لڑکی تھی اور ہم لوگ خالص افغانی رزّڑ، ڈوڈال، اور آفریدی۔ ایک لڑکی سے ( نام نہیں بتاؤں گا) بچپن ہی میں محبت ہو گئی جو ساتھ کھیلے کا نتیجہ تھی۔ اس پر میں نے ایک غزل میں مقطع یوں کہا تھا:

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں

نتیجہ تو وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا یعنی وہی جو میری نظم ’’ فسانۂ ناتمام‘‘ سے ظاہر ہے جس کو تفصیل سے میں نے اپنی نظم’سماج‘ میں بھی بیان کر دیا ہے۔ اس محبت نے مجھے جو نظمیں دیں وہ یہ ہیں ’ فسانۂ نا تمام‘، ’ خط کی چوری‘، ’سماج‘، ’ غمازہ‘، ’ مفارقت، اور ایک آدھ نظم جو اب یاد نہیں آ رہی ہے۔ غزلوں میں بھی کچھ زیادہ مواد اس لیے فراہم نہیں ہو سکا کہ اس محبت میں نہ تو فراق کا سوال تھا نہ رقیب کا ڈر۔ وہ لوگ (لڑکی والے ) خدا سے چاہتے تھے کہ میں پھنس کر شادی کر لوں تاکہ میرے خاندانی غرور کا سر نیچا ہو، اس لیے وہ ( اس کے ماں باپ) مجھے زیادہ سے زیادہ موقع دیتے رہے کہ میں خوب گھل مل جاؤں۔ اب ہم جوان تھے۔ ایک روز مجھے ’اُدمات‘ لگا۔ اُدمات کو سمجھے۔ جوش جوانی میں آپے سے باہر ہو جانا۔ مگر ایمان کی بات ہے کہ وہ لڑکی آڑے آ گئی۔ کہنے لگی میں تم سے باہر نہیں ہوں مگر اس کے بعد محبت ختم ہو جائے گی اگر آپ یہ چاہتے ہیں تومیں حاضر ہوں۔ عرب معشوقہ بثینیٰ اور اس کے عاشق جمیل کا واقعہ یاد آ گیا۔ یہ قصہ بھی سُن لو۔ یہ قبیلے بھی آپس میں بَیر رکھتے تھے مگر ان دونوں میں محبت ہو گئی۔ چھپ چھپ کر ملتے رہے۔ ایک دن جبکہ یہ قبیلے تلاشِ آب و سبزہ میں اپنے اپنے گلّے لے کر مختلف سمتوں میں جانے والے تھے گویا صبح کو روانہ ہوں گے تو بثینیٰ نے جمیل سے کہلا بھیجا کہ رات کو میں خیموں کے پیچھے روشنی کردوں گی تم اسے دیکھ کر چلے آنا۔ میں وہیں ملوں گی۔ چنانچہ اس نے یہی کیا اور جمیل وہاں پہنچ گیا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد جمیل نے اظہارِ مطلب ’’ خواہشِ وصل‘‘ کا اظہار کیا تو بثینیٰ نے اپنی کمر سے خنجر نکال لیا اور کہا کیا تم ایسا ارادہ کر کے یہاں آئے تھے۔ کیا اسی کو عفّتِ عشق کہتے ہیں۔ چلے جاؤ میرے سامنے سے ورنہ ابھی خنجر سے تمھارا کام تمام کر دوں گی۔ جمیل اس پر بجائے بگڑنے کے مسکرایا اور اپنا پیش قبض ( خاص قسم کا خنجر) کھینچ لیا اور کہا اگر تو وصل کا اقرار کر لیتی تومیں اسی خنجر سے تیرا کام تمام کر دیتا۔  خاندانی اختلاف کی بنا پر اُن میں شادی تو نہ ہو سکی مگر بیثنیٰ جب دوسری جگہ بیاہ کر چلی گئی تووہ فقیر کے بھیس میں وہاں پہنچا اور آخر وقت تک اس کے دروازہ پر فقیر بن کر پڑا رہا اور مر گیا۔ ہاں تو اس کے سمجھانے سے میں سنبھل گیا۔ یہ محبت گیارہ سال رہی پھر اس کی شادی ہو گئی۔ اب  میرے اوپر جُدائی کے تین سال قیامت بن کر گزر گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دیوانہ ہو جاؤں گا۔ مجبوراً میرے استاد حکیم غلام حیدر صاحب، جن سے میں نے فارسی اردو وغیرہ پڑھی تھی، جو جید طبیب بھی تھے، ان کے پاس پہنچا اور پوری حقیقت بیان کی۔ انھوں نے کہا اس کا علاج یہی ہے کہ کہیں اور محبت کرو۔ ’’ یہ کیسے ممکن ہے۔ ‘‘ میں نے عرض کیا۔ ’’ محبت آپ ہوتی ہے، محبت کی نہیں جاتی۔ ‘‘ تو پھر انھوں نے کہا تم پتنگیں اُڑایا کرتے تھے ؟ میں نے کہا ہاں۔ کہا پتنگ بازی شروع کر دو اور اپنے آپ کو اس میں کھو دو۔ چنانچہ بھیئے حماد! میں نے ساڑھے پانچ برس تک اس بُری طرح پتنگ بازی کی کہ شہر بھر میں میرا شہرہ ہو گیا۔ لوگ مجھے دیکھنے کو آنے لگے کہ کون ماسٹر ہے ( میں شہر میں ٹیوشن کرنے کی وجہ سے ماسٹر بھی مشہور تھا اور اب بھی ہوں ) جو اتنا بہتر پتنگ لڑاتا ہے۔ حکیم صاحب کا یہ علاج کارگر پڑا۔ اب میں اسے ایک حد تک بھُلا چکا تھا مگر مکمل طور پر آج بھی نہیں ( ابھی وہ زندہ ہے ) پھر میں ایک جگہ ٹیوشن پڑھاتا تھا اس مکان سے سڑک پار کر کے ایک مکان میں ایک لڑکی ’’تارا‘‘ نامی رہتی تھی وہ اسکول جا رہی تھی اور میں پڑھا کر لوٹ رہا تھا کہ اس کا سامنا ہوا اور وہی کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ عجیب الجھن اور دشواریوں کا سامنا رہا۔ میں مسلمان وہ ہندو۔ مگر زیادہ تر اس طرف سے، کچھ اس طرف سے ایسے حالات بنے یا بنائے گئے کہ خط و کتابت اور ملاقاتیں آسان ہو گئیں۔ یہ محبت پانچ برس رہی اور پھر سماج اور اختلاف مذہب کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اس کی تفصیل کافی دلچسپ ہے مگر پھر یہ فسانہ طویل ہو جائے گا۔ خط نہیں رہے گا۔ رامپور آؤ تو زبانی کہوں گا۔

اب میری عمر کافی زائد ہو چکی تھی۔ اس محبت نے کئی اچھی نظمیں دیں ’’ جہاں میں تھا‘‘، ’’ ہولی‘‘، ’’دسہرہ اشنان‘‘ وغیرہ۔ ادھر گھریلو حالات یہ تھے کہ میرے جس بھائی نے شادی کی وہ والدہ کو چھوڑ کر علاحدہ ہو گیا( ہم تین بھائی تھے ) دوسرے بھائی کی شادی ہوئی وہ بھی جورو کے غلام نکلے، زن مرید کہیں کے۔ بڑے بھائی نے دو شادیاں کیں اور دونوں ناکام، یعنی والدہ سے متنفر۔ اب ۳۸ سال کی عمر میں جب والدہ نے مجھے شادی کرنے کو کہا تو میں نے عرض کیا کہ دو بھائیوں نے آپ کی کون سی خدمت کی جو آپ مجھ سے اتنی توقع رکھتی ہیں کہ میں آپ کا فرماں بردار ہی رہوں گا۔ انھوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا نہیں، مجھے تجھ پر بھروسہ ہے۔ پھر بھی میں ٹالتا رہا۔ مگر ایک دن ( ہونے والی بات) والدہ صاحبہ نے جن کی عمر ۸۰ سال تھی اس وقت  (موصوفہ نے ۱۰۵ سال کی عمر میں وفات پائی)ایک روز بھنڈیاں پکائیں۔ بھنڈی بنانے کے بعد چاقو بھی چنگیر میں بند کر کے رکھ دیا اور پکاتے وقت نہ تو انھیں یاد رہا اور نہ سوجھا۔ چنانچہ چاقو بھنڈیوں کے ساتھ پک گیا۔ میں عموماً ٹیوشنیں کرنے کے بعد ۱۰ بجے رات کو گھر پلٹتا تھا۔ خود ہی کھانا نکالتا اور خود ہی کھاتا۔ بھنڈیاں جب نکالیں تو چاقو نے رکابی میں گر کر کھٹاکا دیا۔ میں نے چونک کر دیکھا کہ یہ کس قسم کی بھنڈی ہو سکتی ہے۔ لالٹین کی بتّی اونچی کی تو پتہ چلا کہ راجرس چاقو بھی بھنگرا گیا تھا۔ اس واقعہ سے میری خالائیں وغیرہ بہت متاثر ہوئیں اور میں نے بھی سوچا کہ والدہ کی خدمت کے لیے کوئی نہ کوئی ضروری ہے۔ نوکرانی کو نہ تو محبت ہو گی اور نہ ضرورت کہ وہ میرے پیچھے ان کی حسبِ منشا کام کرے اور نہ ساز و سامان سے ہمدردی۔ چنانچہ مجبوراً یہ شادی کی۔ یقین کرو کہ اب جنسی بھوک کا کوئی خیال نہ تھا۔ صرف والدہ کی خدمت مدِّ نظر تھی۔ چنانچہ وہ شادی رچا دی گئی۔ مرنے والی میں عموماً اچھائیاں دیکھی گئی ہیں اس لیے وہ بھی بڑی شوہر پرست اور خدمت گزار ثابت ہوئی۔ میری والدہ کی خدمت اپنا فرض سمجھتی رہی۔ کچھ یہ بھی تھا کہ وہ میرا منشاء پا گئی تھی۔ اس معاملے میں عورت بڑی چالاک ہوتی ہے۔ اس نے ایک آدھ مرتبہ والدہ کے سلسلے میں مجھے ٹٹولا مگر میرا اثر نہ لینا اسے ’’ پند نامۂ شوہر‘‘ ثابت ہوا اور پھر کوئی ایسی بات نہ کی جس سے میری والدہ کو تکلیف کا احساس ہوتا۔ ‘‘

ان معاشقوں کا ردِّ عمل شادؔ عارفی کے اشعار میں اس طرح نظر آتا ہے :

میرے ہاں وہ اور کبھی میں اس کے گھر

اک قدم پھولوں پہ، اک تلوار پر

………

سانولا رنگت کشیدہ قامت

نہ پری ہے نہ کوئی حُور ہے وہ

………

بھرا گھر جس کی شوخی اور طرّاری کا قائل ہے

مجھے دیکھا کہ اس پر ہو گئی سنجیدگی طاری

………

لائے ہیں تشریف تکیوں پر دلائی ڈال کر

حُسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے

………

راتیں گزر گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے

تکیوں سے اب تو اس کے پسینے کی بُو نہ آئے

………

چھُپ چھُپ کے جو مصروفِ دعا میرے لیے ہے

شاید وہ بُتِ ہوشربا میرے لیے ہے

………

مًسکرا دیں گے، مرا نام کوئی لے دیکھے

وہ کسی فکر میں بیٹھے ہوں، کسی کام میں ہوں

………

کھنچے رہیے تو سو سو طرح نظارے لُٹائیں گے

بُتوں سے آپ کو بھی واسطہ اکثر رہا ہو گا

………

کہیں پڑوس، نہ در تک، نہ بام پر جائیں

جو ہم پہ ہوں یہی پابندیاں تو مر جائیں

………

آپ یا میں، سوچیے، الفت جتاتا کون ہے

انجمن میں آنکھ ملتے ہی لجاتا کون ہے

………

جذبۂ محبت کو تیرِ بے خطا پایا

میں نے جب اسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

………

’حسیں ہو تم‘، ’ آپ کی بلا سے ‘، ’ پری ہو تم‘، ’ آپ کی دعا سے ‘

جواب ملتا ہے سخت لہجے میں، اُن سے جو بات پوچھتا ہوں

………

بھیجا ہے اس لحاظ سے شادؔ اس کو آئینہ

کیا حال ہو گیا ہے محبت چھپا کے، دیکھ

ان شعروں کی تخلیق آج سے پچاس سال قبل کی گئی تھی۔ عہدِ حاضر کے قاری اور اس زمانے کے پڑھنے والوں کے مزاجی فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو واضح ہو گا کہ ممکن ہے آج اس قسم کے اشعار کہنے والا غزل کا باغی نہ سمجھا جائے لیکن اس عہد میں اساتذہ نے شادؔ عارفی کو ضرور’ ناشاعر‘ قرار دیا ہو گا۔ اس زمانے میں اس نہج کی جدت اور اختراعیت کا کیا مفہوم تھا، اس کا صحیح اندازہ آج بمشکل ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان اشعار کی روشنی میں شادؔ عارفی کا یہ دعوہ کچھ ایسا غلط بھی نظر نہیں آتا کہ انھوں نے خوبصورتی کے ساتھ واقعیت کو مصور کرنے کی کوشش کی ہے صاف دکھائی پڑتا ہے کہ غزل میں ان کی محبوبہ متوسط طبقے کی ایک ہندوستانی لڑکی ہے جو ذہین اور تیز و طرار بھی ہے، الھڑ اور معصوم بھی۔ یہ محبت یکطرفہ نہیں ہے۔ شادؔ کی محبوبہ ان کی خاطر بال سکھانے حیلے سے آنگن ناپتی ہے، دردِ محبت سے بے چین ہو کر روتی ہے اور اسے چھپانے کے لیے دردِ سر کی آڑ لیتی ہے، راہ میں جہاں شادؔ  رُکتے ہیں، وہ برقِ سرو قد بھی ٹھہر جاتی ہے۔ انھیں رجھانے کے لیے مسلسل انگڑائیاں لیتی ہے۔ صرف شادؔ ہی اس کے گھر نہیں جاتے وہ بھی سماجی پابندیوں کی تلوار پر چل کر اُن کے گھرآتی ہے، وہ روایتی غزل کے فرضی مجبوب کی طرح پری یا حور نہیں، اسی جیتی جاگتی دنیا کی ایک کشیدہ قامت، سانولی رنگت کی حقیقی لڑکی ہے۔ عام طور پر شوخ و طرار لیکن شادؔکو دیکھتے ہی وہ مصنوعی سنجیدگی اختیار کر لیتی ہے، تکیوں پر دُلائی ڈال کر گھر سے بے خوف و خطر ان سے ملاقات کرنے آ جاتی ہے۔ شادؔ کے تکیے اس کے پسینے کی بُو سے رچ بس گئے ہیں۔ ۃہ ان کے لیے چھپ چھپ کر دعائیں مانگتی ہے۔ اور کتنی ہی فکر مند یا مصروف ہو، شادؔ کا نام سُن کر مسکرا دیتی ہے۔ شادؔ کھنچے کھنچے رہتے ہیں توسو سو طرح نظارے لُٹا کر انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، اس پر بھی پابندیاں عائد ہیں کہ پڑوس، در  یا  بام پر نہ جائے، وہ شادؔ سے آنکھ ملتے ہی لجا کر الفت کا اظہار کرتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ شادؔ سے خفا ہو کر پیار کی باتوں کے جواب میں آپ کی بلا سے، اور آپ کی دُعا سے، قسم کا بہ ظاہر سخت لیکن بہ باطن پیار بھرا لہجہ اپناتی ہے پھر بھی شادؔ جب اُسے دیکھتے ہیں، اپنی طرف دیکھتے ہوئے پاتے ہیں، اس کے سامنے پہنچ کر وہ واپس جانے کا تصور بھی نہیں کر پاتے۔ ان کی محبوبہ تابِ ہجر نہ لا کراس حالت کو پہنچ جاتی ہے کہ شادؔ کو بطورِ ہمدردی آئینہ بھیجنا پڑتا ہے کہ کہ وہ اپنی حالت سُدھار سکے۔

سادہ سادہ سے واقعات ہیں لیکن زندگی، حُسن اور حرارت سے کتنے بھرپور۔ شادؔعارفی کے علاوہ پوری اُردو شاعری میں غزل اس حد تک سچ بولتی ہوئی صرف حسرتؔ کے یہاں نظر آتی ہے۔ حسرتؔ اُردو غزل کے امام کہے جاتے ہیں کہ اُنھوں نے تجدیدِ غزل کا سامان کیا۔ امام کے لیے مقلدین ضروری ہوتے ہیں لیکن نگاہ غور بیں سے حسرتؔ کے قوراً بعد آنے والی نسل کا جائزہ لیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ کلامِ حسرتؔ نے اس حد تک اگلی نسل کو متاثر نہیں کیا جتنا کہ شادؔ عارفی کی شاعری نے نئی نسل پر اپنا اثر قائم کیا ہے۔ یہ بحث آگے آئے گی، فی الحال یہ عرض کرنا تھا کہ ہر چند کہ شادؔ عارفی نے کہا ہے :

دس پانچ برس حضرتِ حالیؔ  کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

لیکن یہاں اُن کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ حالیؔ کی طرح عاشقانہ شاعری سے مقصدی شاعری کی طرف آئے ہیں ورنہ ان کی عشقیہ شاعری دس پانچ برس کا نہیں چوتھائی صدی کا احاطہ کرتی ہے اور ان کی ’ ریشمیں غزلوں ‘ پر کہیں بھی حضرتِ حالیؔ کی عشقیہ غزلوں کے سپاٹ پن کا سایہ نہیں پڑا ہے نہ انھوں نے غزل میں حالیؔ سے اثر قبول کیا ہے  البتّہ حسرتؔ کے اثرات ان کی عاشقانہ غزلوں میں اس حد تک ضرور پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنی داستانِ عشق میں سچ بولتے ہیں اور ان کا عشق بھی حسرتؔ کی مانند دونوں طرف آگ لگاتا ہے۔ انھوں نے بھی حسرتؔ کی طرح خاندان کی لڑکی سے عشق کیا اور اپنی شاعر ی میں عرب کے شعرائے جاہلیت سے اثر قبول کرنے کے علاوہ’ بنتِ عم‘ سے عشق کرنے میں عربی روایت پر بھی عمل پیرا ہوئے۔ ان کی شاعری میں احساس کی جتنی شدت ہے اتنی ہی محسوسات کی صداقت بھی ہے لیکن حسرتؔ اور شادؔ کی عشقیہ شاعری میں بہت فرق بھی ہے۔ حسرتؔ کا عشق، ایک سیدھے سادے مولوی نما نوجوان کا عشق ہے اور ان کی محبوبہ بھی واجبی سی شوخی کے ساتھ ایک سادہ لوح دیہاتی لڑکی ہے۔ پھر حسرتؔ نے رودادِ عشق کے بیان میں کوئی خاص نُدرت نہیں برتی اور نہ کوئی مخصوص اسلوب اختیار کیا۔ اُن کے اشعار میں عاشق و محبوب کے نفسیاتی تجزیے بھی نظر نہیں آتے، وہ جیسا ان کے ساتھ عشق میں پیش آتا ہے اتنا کچھ ہی سچ سچ بیان کرنے پر قناعت کر لیتے ہیں۔ یہ سپاٹ سچ بھی ان کی غزلوں کے سبھی اشعار میں نظر نہیں آتا، اکثر غزلیں خالصتاً روایتی گل و بلبل والی شاعری کا نمونہ ہیں اور بیشتر غزلوں میں ان کے مخصوص ’ سچ‘ کے ساتھ روایتی رنگ کے اشعار ملے جلے ہیں۔ بر خلاف اس کے شادؔ عارفی کے ہاں ہمیں حسن و عشق کی پیچیدہ کیفیات کے دائرہ در دائرہ عکس بھی واضح نظر آتے ہیں اور سچ بولنے میں بھی وہ حسرتؔ سے میلوں آگے ہیں۔ ان کی عشقیہ غزل میں روایتی موضوعات پر مبنی اشعار بہت کم نظر آتے ہیں، بقول آل احمد سرور:

’’ شادؔ کے یہاں صرف سماج کی خرابیوں پر طنزہی نہیں، محبت اور نفسیاتِ انسانی کی سچی تصویریں بھی ہیں اور انھیں ایک ایسے تیور اور بانکپن سے پیش کیا گیا ہے کہ فوراً ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

شادؔ کا کہنا ہے :

شریکِ راہ محبت ہے طبعِ موزوں شادؔ

ہر ایک شعر مرا حسبِ حال ہوتا ہے

اور:

دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں

اُُن کے پاس دو دو معاشقوں کے ٹھوس اور حقیقی تجربات ہیں۔ وہ حسرتؔ کی طرف مسکین طبع نہیں، رامپوری پٹھان ہیں۔ ان کی محبوبہ بھی گھریلو عورت ہونے کے باوجود ایک زندہ دل، حاضر دماغ، ذی فہم، با شعور، چنچل اور ذہین دوشیزہ ہے۔ پھر شادؔ کی نُدرتِ ادا سونے پر سہاگے سے کم نہیں، چنانچہ:

تغافل، تجاہل سے آتا ہے عاجز

مرا کچھ نہ کہنا بھی حُسنِ طلب ہے

………

تو وہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہو رستے میں

پئے اظہارِ ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں

………

اے تُو! کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر

تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر

………

گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے

بن کے لیٹی ہو جوانی تو اٹھائے نہ بنے

………

مری بے بسی ہو کہ بیکسی تری بے رُخی ہو کہ دلبری

کوئی کہہ رہا تھا کہ بیٹھ ابھی تری بزم سے میں جہاں اٹھا

بھولی سی ہم مکتب کوئی، کوئی سہیلی خالہ زاد

ان کے ہاتھوں خط بھجواتے میں ڈرتا ہوں لیکن وہ

………

عتاب کی نگاہ سے جھلک رہی ہیں شوخیاں

کسی بھی فن میں ہو مگر کمال بھی تو چاہیے

………

نقاب کی یہ جنبشیں، حجاب کے یہ زاویے

جو اس سے چاہتا ہوں میں اسے سمجھ رہا ہے وہ

………

آپ اس کو اتفاقی بات کہتے ہیں، مگر

سامنے آ جائے وہ دیوانہ وار‘ آساں نہیں

………

کام کی شے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شادؔ

وہ نہ دیکھے مجھے، میں اس کا نظارا کر لوں

………

لکھ کر میرا نام اے شادؔ

اُس نے بھیجا ہے رومال

………

بہ پاسِ احتیاطِ آرزو یہ بارہا ہوا

نکل گیا قریب سے وہ حال پوچھتا ہوا

………

نگاہِ اشتیاق میں وہ زلف و رُخ کے زاویے

کبھی سلام ہو گیا، کبھی پیام ہو گیا

………

بھاگتا ہے جیسے جنگل میں شکاری سے ہرن

وہ ادھر دَر پر نظر آیا اُدھر روپوش تھا

………

خط غلط تقسیم ہو جاتے ہیں اکثر، تم نے بھی

کہہ دیا ہوتا یہ کس کا خط مرے نام آ گیا

………

کیا لکھ رہے ہومیری طرف دیکھ دیکھ کر

میں نے دیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں

………

رفتہ رفتہ میری ’الغرضی‘ اثر کرتی رہی

میری بے پروا ئیوں پر اُس کو پیار آتا گیا

………

میں اس کو دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ

ابھی تو جیسے محبت کی ابتدا بھی نہیں

آپ نے دیکھا، شادؔ کے یہ عشقیہ اشعار ہماری عام اردو غزل کے عاشقانہ اشعار سے بشمول حسرتؔ کتنے ہٹے ہوئے ہیں۔ ان کے عاشق نے محبوب کے آگے سرِ تسلیم اس لیے نہیں خم کر رکھا ہے کہ بے زبانی روایتی شاعری کے عاشق کا شیوہ ہے۔ اس کی خاموشی در اصل حُسنِ طلب ہے کیونکہ وہ صنفِ نازک کی اس فطرت سے واقف ہے کہ اس کے تغافل کا جواب تجاہل سے ملے تو خود کھینچتی ہے۔ عاشق محبوب کی ایک ایک ادا کا مزاج داں ہے چنانچہ اظہارِ ہمدردی کے لیے تشریف لانے والی محبوبہ کی اس بناوٹ کو بھانپ لیتا ہے جو ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ راہ سے گزرتے ہوئے وہ یوں ہی عاشق کے گھر بھی آ نکلی ہے، ادھر شوخ اور چنچل محبوبہ ہے کہ اس کے پاؤں شرارت سے زمین پر نہیں پڑتے، بن بن کر لیٹ جاتی ہے کہ تہذیب عاشق کو نہ گدگدانے دیتی ہے نہ ہاتھ لگانے کی ہمت پڑتی ہے۔ شاعر کو صحبتِ یار سے اٹھنا ہے لیکن طبیعت نہیں چاہتی۔ وہ تجزیہ نہیں کر پاتا کہ اسے اپنی بے بسی اور بے کسی سے تعبیر کرے یا محبوبہ کی بے رُخی یا دلبری کواس کا سبب سمجھے۔ محبوبہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے اور عاشق کا مشورہ ہے کہ بہر حال اسے دیکھ کر مسکرا دینے میں افشائے راز کا احتمال نہیں ہے۔ حیا خو محبوبہ اسے نگاہ بھر کر نہیں دیکھتی لیکن عاشق اس کے مدّعا کو پا لیتا ہے کیونکہ وہ محبوبہ کی محتاط طبیعت اور زمانے کی سخت گیری اور بہتان تراشی کوپہچانتا ہے۔ وہ محبوبہ کی ذرا ذرا سی بے اعتدالیوں پر اسے متنبہ کرتا ہے۔ کہیں کسی خاص خالہ زاد سہیلی کے ذریعے اور کبھی کسی بھولی بھالی ہم مکتب سے نامہ بر کا کام لیا جاتا ہے تو وہ محبوبہ کی رسوائی کے ڈر سے کانپ کانپ جاتا ہے۔ محبوبہ محبت کو عاشق سے بھی چھُپاتی ہے اور جواباً اسے آئینہ بھیجا جاتا ہے کہ دیکھ خود تیرا سراپا محبت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ محبوبہ کے نقاب کی ایک ایک جنبش اور حجاب کا ایک ایک زاویہ عاشق کے لیے سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ وہ دیوانہ وار عاشق کے سامنے بھی آتی ہے تو ایسی ذہانت کے ساتھ کہ لوگ سے ایک اتفاقی بات سمجھیں لیکن حقیقت عاشق پر روشن ہے۔ کروٹن کے گملوں کی آڑ سے چھپ چھپ کر اس طرح نظارہ کر لیا جاتا ہے کہ محبوبہ کو پتہ نہ چل پائے۔ دوسری طرف سے رومالوں پر شادؔ کے نام کاڑھ کر بھیجے جاتے ہیں۔ یہ اور ایسے ہزاروں معاملات شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل میں بھرپور شاعرانہ کیفیات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ہندوستانی، مسلم متوسط طبقے کے عاشق و معشوق کی ان باریک نفسیاتی کیفیتوں پر اُردو کے کسی شاعر کی نگاہ اس طرح نہیں پہنچ سکی جس طرح کہ شادؔ اُن کے غماز ہیں۔ یہاں نہ محبوب، میرؔ کے عہد کا ہے نہ عاشق قرونِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والا۔ شادؔ عارفی کی شاعری جس طرح ان کی شخصیت کے لیے نقاب نہیں بلکہ آئینے کا کام دیتی ہے بالکل وہی فریضہ ان کی عشقیہ، غزل اُن کے محبوب کے لیے انجام دیتی ہے اور یہ فریضہ ہماری شاعری میں کم کم ہی ادا کیا گیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :

’’ کلاسیکی اُردو غزل میں مجموعی طور پر محبوب کا تصور گھُٹا گھُٹا، بھنچا بھنچا ہے۔ دکنی شاعروں کو چھوڑ کی صرف میرؔ اور مصحفیؔ کے یہاں تصورِ حسن کا ہندوستانی روپ ملتا ہے، دہلوی شعراء سے لے کر حالیؔ اور حسرتؔ تک اُردو غزل میں جس محبوب کی کار فرمائی ملتی ہے اس کی ارضیت سے انکار نہیں لیکن اس کی جمال آرائی ٹھیٹھ ہندوستانی انداز سے نہیں کی گئی۔ ‘‘

(جوشؔ اور فراقؔ  کا جمالیاتی احساس۔ ماہنامہ ’ شاہکار‘ ( الٰہ آباد ) فراقؔ نمبر ص ۸۵)

شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل ایسے چبھتے ہوئے حقیقت آمیز اعتراضات کے سامنے استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔

شاد عارفی کی عشقیہ غزل، سلیم احمد کے الفاظ میں اُردو شاعری میں ایک ’ پورے آدمی‘ کے عشق کی داستان ہے جس کا لہجہ عام عشقیہ شاعری کے انفعالی لہجے سے علاحدہ اور منفرد ہے۔ اس آواز میں جو مردانہ پن ہے، وہ غزل کوایک نئے ذائقے سے روشناس کرتا ہے۔ حالیؔ کی اصلاحی تحریک کے زیر اثر، لکھنؤ اسکول کی بھونڈی اور مبتذل خارجیت کو ترک کر کے غزل میں میرؔ جیسی داخلیت کا دوبارہ دَور دورہ تو ہوا لیکن چونکہ اس داخلیت کو شعوری طور پر اپنایا جا رہا تھا اور اسے برتنے والوں میں کوئی میرؔ کی سی خلاقانہ صلاحیتوں کا عظیم فنکار نہ تھا اس لیے اپنی انتہا کو پہنچ کر اس نے فانیؔ کی قنوطیت کی شکل اختیار کر لی۔ جدید تر غزل کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کہتے ہیں :

’’ بعض شعراء کا خیال تھا کہ غزل ضرورت سے زیادہ داخلی ہو جانے کی وجہ سے انفعالیت کا شکار ہو گئی ہے اس لیے اسے مردانہ لہجہ اور صلابت عطا کرنے کے لیے خارجیت کو بھی ایک حد تک اپنا نا چاہیے۔ یگانہؔ اور شادؔ عارفی نے اس عنصر کو ایک بار پھر اپنی غزل میں جگہ دی۔ یگانہؔ اور شادؔ دونوں زبان و فن پر بڑی قدرت رکھتے تھے اور ان کے یہاں ایک طرح کی تلخی اور طنزیاتی رُوح ان کے مزاج کا فطری عنصر معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے انھوں نے اس خارجیت سے خاصا کام لیا۔ ‘‘

( عشقیہ غزل: خلیل الرحمن اعظمی۔ سہ ماہی ’’ فنون‘‘ ( لاہور) غزل نمبر حصہ اول ص ۷۲)

یہی وجہ ہے کہ شادؔ عارفی کی غزل پر کہیں کہیں آتشؔ کے رنگ کی چھوٹ پڑتی نظر آتی ہے۔ بے باک لہجہ اور بے تکلف انداز گفتگو اور محبوب کے سامنے بھی سپاہیانہ بانکپن کے ساتھ آنا، آتشؔ کی نمایاں خصوصیت ہے۔ شادؔ کے ہاں بھی ہمیں آتشؔ کی طرح شوخ لہجے کے ساتھ احساس کی گرمی، محبوب کے جسم کی آنچ، حُسن کی چلتی پھرتی تصویر اور عشق کی حقیقی کیفیات کی نقاشی ملتی ہے لیکن آتشؔ کی پوری شاعری اس پائے کی نہیں ہے اور بیشتر مقامات پر وہ بری طرح لکھنوی رنگ کا شکار ہو گئی ہے جب کہ شادؔ کی تقریباً تمام عشقیہ غزلیں ان خصوصیات کی حامل ہیں اور اُنکے ہاں یہ رنگ کافی نکھر کر اوپر آیا ہے۔ ان کے اشعار میں عاشق و محبوب کی انسانی فطرت اور نفسیات کے ایسے متحرک عکس نظر آتے ہیں جو پڑھنے والے کو دیر پا مسرت سے ہمکنار کرتے ہیں، احتساسی شاعری اور لمسیت کی اتنی اچھی اور ایسی وافر مثالیں جن کے لیے انگریزی ادب میں کیٹسؔ مشہور ہے، اردو میں شادؔ عارفی کے ہاں بکثرت ملتی ہیں۔ ثبوت میں کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔

 

انگلیاں اس کی مرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ

ہاتھ کھینچے نہ بنے، جام گرائے نہ بنے

………

 

دیکھ پاتے ہیں جو ہم کو درمیانِ کوئے دوست

کھڑکیوں سے جھول جاتے ہیں بُتانِ کوئے دوست

………

مچل رہے ہیں لبِ شگفتہ پہ اس طرح بے صدا دلاسے

چمن میں جس طرح ہل رہی ہوں گلاب کی پتّیاں ہوا سے

………

وہ چشم نیم خواب، وہ زلفیں گری ہوئی

صبحِ بہار ایک ہی انگڑائی کی ہوئی

………

شبِ مہتاب وہ پھولوں کا زیور منتشر زلفیں

بقولِ رازداں کیا خوشنما منظر رہا ہو گا

………

وہ قریب سے گزرا، بن کے صبح کا جھونکا

اس طرح کہ چپکے سے حرفِ مدعا کہہ دوں

………

وہ زبانِ بے زبانی سے ابھی واقف نہیں

ہاتھ رکھنا پڑ رہا ہے بارہا دل پر مجھے

………

ابھی ہنگامہ آرا دل میں ہے اک عشرتِ رفتہ

ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے میرے بستر سے

شادؔ عارفی نئی بات کہتے ہیں یا عام سی بات کو اس زاویے سے کہتے ہیں کہ نئی ہو جاتی ہے۔ انھوں نے پُرانے لفظوں کونئی فضا اور معنویت بخشی۔ یہی نہیں کہ ان کی عشقیہ غزلوں میں محاکات، معاملہ بندی اور واقعہ نگاری ایک ایسے انوکھے انداز سے کی گئی ہے جو ان سے قبل نا پید تھا بلکہ وہ عشق کے تاثرات اور وارداتِ قلب کو بھی اسی ندرت ادا کے ساتھ بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے موضوعات کو ادراک و احساس کا لمس بھی دیا۔ شادؔ کی عشقیہ غزل میں بڑی حلاوت اور جذباتی آسودگی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار دیکھیے :

 

سوتے ہی اپنے بسترپر

میں ہوتا ہوں اس کے گھر پر

………

ذرا خاموش رہنے دے کہ ذہنی طور پر ہمدم

ابھی واپس نہیں آیا ہوں میں اس کے شبستاں سے

………

لرز رہا تھا میں کہیں کھٹک نہ جائے انجمن

وہ انجمن میں آج اس قدر بچا بچا رہا

………

جیسے کسی حسین کے ہونٹوں پہ سرد آہ

پھولوں کی پتیوں پہ کرشمے ہوا کے دیکھ

………

حیرتِ جلوہ محبوب بتاؤں

ڈر رہا تھا کہ کہیں جاگ نہ جاؤں

………

چارہ گر الفت کی نفسیات سے واقف نہیں

لے کے نام اس کا کوئی دیکھے مرے چہرے کا رنگ

………

حُسن ہر حال میں ڈرتا ہے ہوسناکوں سے

پھول کھلِتا ہے تو ہر سو نگراں ہوتا ہے

………

دھیمی پے چل، بھینی خوشبو، ہلکی دستک جاری ہے

یا وہ ہے، یا صبحِ بہاراں، یا ذہنی گُلکاری ہے

………

تجھ بِن مرا مذاق اُڑانے کے واسطے

ہر مہ جبیں نقاب اُٹھا کر ٹھہر گئی

………

بتائیں کیا کہ کسی بُت کو ہم نے کیوں چاہا

یہ فیصلہ تو ہماری نگاہ پر رکھیے

………

جہاں سے اُس نے بچشم غلط نظر ڈالی

وہیں سے کنگرۂ آرزو بلند ہوا

………

جاڑے کی وہ بھیگی راتیں، گرمی کے یہ جلتے دن

یادوں کے دانتوں سے ناخن کاٹ رہا ہوں لیکن وہ

………

اپنی جانب سے نہیں ممکن جو ان کو خطِّ شوق

بھیج دینی چاہیے میری غزل لکھ کر مجھے

………

بڑھ جاتی ہے اس روز مناظر کی اُداسی

جب اس سے ملاقات کا امکاں نہیں ہوتا

………

شادؔ صاحب جو ہنسے پڑتے ہیں ہر بات میں آپ

آج وہ ہوشربا آپ کا مہماں تو نہیں

………

مخاطب ہے وہ ایسے زاویے سے

جسے دیکھو مرا منہ تک رہا ہے

………

دلنوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی

رُخِ محبوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے

………

 

ڈاک سے بھینی خوشبو والے خط پر خط آئے تو اک دن

پوچھے گا خط لانے والا، بابو جی! یہ خط کس کا ہے

 

شادؔ عارفی کی عشقیہ غزلوں میں فطری سادگی، شوخی اور لہجے کا انوکھا پن ہے۔ ان میں جوانی کی تازگی، متوسط طبقے کے نوجوان کو پیش آنے والا واقعات کی سرشاری اور زندگی کی حرارت ہے جس میں محاکاتی پہلوؤں کے ساتھ ایک خوشگوار سا کھُردرا پن، واقعیت، خلوص اور بے جھپک قسم کا مکالماتی طرز( جسے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ حقیقی شاعری کا جزوِ اعظم قرار دیتا ہے ) طرفہ کاری، تنوع، واشگاف مخاطبت اور ابلاغ کا براہِ راست انداز ہے۔ ہر چند کہ اس میں حیات و کائنات کے متعلق کوئی خاص نظریہ یا زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے گہرے تجربات کا عکس اور فلسفیانہ تفکر نہیں ہے ( جسے حقیقی عشق کے بیان میں ہونا بھی نہیں چاہیے ) لیکن اپنے جدید اسلوب اور مخصوص رنگ و آہنگ کے لحاظ سے اس غزل کی ایک جدا گانہ اور منفرد اہمیت ہے۔ در اصل شادؔ عارفی نے روایتی غزل کے مروّجہ  علائم ورموز سے رو گردانی کرتے ہوئے غزل کی مخصوص رمزیت اور اشاریت سے دانستہ پہلو تہی برتی اور موضوع کی براہِ راست ترجمانی کا فن اختیار کیا۔ اس طرح وہ بڑی فراخدلی کے ساتھ غزل کی مروجہ علامتوں، تمثیلوں، کنایوں اور ان کے ساتھ وابستہ ذہنی متعلقات اور تصوراتی لوازمات سے دست بردار ہو گئے۔ نتیجے کے طور پر ان کی غزل کسی حد تک ان لوازمات کی پیدا کردہ پہلو داری اور اس پس منظر کے ایک حصے سے محروم بھی ہو گئی جو غزل کی روایت عام اشعار کو فراہم کرتی ہے، نیز وہ شے بھی ان کے ہاں کم نظر آتی ہے جسے اساتذہ خالص تغزل کا نام دیتے ہیں۔

ان غزلوں کے گہرے مطالعے سے اس حیرتناک حقیقت کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اس کھلے کار و بارِ عاشقی میں کہیں جنسی کثافت کی کھوٹ نہیں ہے۔ شادؔ جیسا کھل کر بات کہنے والا شاعر کہیں محبوب یا تصورِ محبوب کے ساتھ کھل نہیں کھیلا۔ نازک سے نازک تر مقام پر بھی انھوں نے احترام حسن کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس کا سبب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ بے باک اور حق پرست تو تھے، لیکن ان کے دل و دماغ پر مذہب کا جو اثر قائم ہو چکا تھا اس نے عام زندگی میں بھی انھیں محبوب کے جسم سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں دیا حتیٰ کہ ان کے دونوں معاشقے اس اعتبار سے ناکام رہے کہ وہ اپنے محبوب سے شادی نہ کر سکے لیکن اس جذبے نے عشقیہ غزلوں میں جہاں انھیں شدتِ احساس سے مالامال کیا، وہیں انھیں دوسرا جرأتؔ ہونے سے بچا لیا ورنہ ان کا مزاج حقیقت کو نقاب پہنا کر سامنے لانے کا عادی نہ تھا۔ اس سلسلے میں ان کے خیالات کا اندازہ ان اشعار سے ہو سکتا ہے :

 

عشق بانہیں مروڑنے میں نہیں

شاعری پھول توڑنے میں نہیں

………

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اسے شادؔ میں قائل نہیں

………

احترامِ جلوہ چینی یہ بھی کچھ تھوڑا نہیں

آنکھ نے جس پھول کو دیکھا اسے توڑا نہیں

………

خوشنما پھولوں کو چھونا کفر تھا میرے لیے

گدگدا سکتا تھا ورنہ بارہا پہلوئے دوست

…………

ہم ہی کچھ احترام کرتے ہیں

ورنہ دامن چھڑا کے بھاگ نہ پاؤ

………

ذکر قرب دوست ہی میرے لیے کافی ہے شادؔ

جبکہ اربابِ غزل کہتے وہ ہم آغوش تھا

 

حسرتؔ جیسے مہذّب انسان اور پاکباز شاعر کے ہاں بھی کافی اشعار میں دھول دھپّے والی وہ کیفیت مل جاتی ہے جسے خود انھوں نے، فاسقانہ شاعری کا نام دیا ہے لیکن شادؔ کی غزلوں میں تلاشِ بسیار کے بعد بمشکل دو تین اشعار اس قسم کے ملیں گے :

پھانس نکلوانے کے کارن دے دیتا ہوں ہاتھ میں ہاتھ

موقع پا کر ران میں چٹکی بھر لیتا ہوں، لیکن وہ

………

اک بھینی بے نام سی خوشبو

شامل ہے ہونٹوں کے رس میں

………

یہ گدگدانا یہ بوسۂ لب اسی کا ردّ عمل سمجھیے

ابھی جو ارشاد ہو رہا تھا کہ ہم سے کیوں کوئی بولتا ہے

 

اپنی شاعری کی جنسیت اور ارضیت کے باوجود وہ عشق اور ہوسناکی کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ عملاً ہجر نصیب شاعر ہونے کے باوجود حرماں نصیبی کی فضا، چند اشعار کے استثناء کے ساتھ، شادؔ کی عشقیہ غزلوں میں نہیں پائی جاتی۔ انھیں خود بھی اعتراف ہے کہ:

’’ میرے یہاں غمِ جاناں کا ذکر بہت کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں محبت میں خود داری کو ہاتھ سے دینے کا قائل نہیں ہوں۔ ‘‘

اُن کی پوری عشقیہ شاعری دیکھ جائیے۔ بہت کم اشعار اس روایتی انداز میں ملیں گے جس میں ہمارے غزل گو محبوب کو ستم پیشہ اور غارت گر قرار دے کر اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ملتے ہیں، اور دشنامِ یار کے طبع حزیں پر گراں نہ گزرنے کا اعلان فرماتے ہیں۔ غالبؔ کی طرح شادؔ بھی اس معاملے میں بے حد غیور اور خود دار عاشق ہیں۔ محبوبہ کو جی جان سے چاہتے ہیں لیکن اس کے ہاتھ اپنی عزت نیلام نہیں کرتے :

محبت میں خودی کی موت بھی دیکھی نہ جائے گی

اگر میں بارِ خاطر ہوں تو اٹھ جاؤں ترے در سے

………

جھٹک کے ہاتھ سے دامن کو جانے والے، بس

ترے خیال کا دامن بھی چھوڑتا ہوں میں

………

کس طرف رُوئے سخن ہے، نام اس کا لیجیے

بِن بُلائے آپ کی محفل میں آتا کون ہے

………

یہ تو مت محسوس ہونے دیجیے

اجنبی ہیں آپ کی محفل میں ہم

اُردو غزل میں امتحانِ وفا، محض عاشق دیتا آیا ہے۔ شادؔ کی غز ل محبوبہ کا امتحان بھی لیتی ہے :

دیر سے پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن

اس کی بے قراری کو حسبِ مدّعا پایا

اس لیے شادؔ جورِ محبوب کا شکوہ بہت کم کرتے ہیں :

شادؔ غیر ممکن ہے شکوۂ بُتاں مجھ سے

میں نے جس سے اُلفت کی اس کو با وفا پایا

ان کی شاعری میں بڑی با وقار اور توانا ارضیت ہے۔ عام بول چال کی زبان میں اس نُدرتِ ادا کے ساتھ جو صرف انھیں سے مخصوص ہے، حقیقت پر مبنی واقعاتِ عشق کو بعینہٖ غزلوں میں منعکس کر کے شادؔ عارفی نے عشقیہ شاعری میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ اُن کی عشقیہ غزلیں غیر ضروری آرائش کے عناصر سے بالکل پاک ہیں۔ اسی لیے تغزل پسند طبیعتیں غزل کے مروجہ معیاروں کی روشنی میں ان کی غزلوں کی سچی قدر نہیں کر پاتیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

جمیلؔ مظہری کے قصیدے

 

جمیلؔ مظہری کی شخصیت خاصی پہلو دار تھی۔ وہ ایک اچھے معلم اور صاحبِ نظر دانشور تھے۔ انھوں نے انشائیے اور فکاہیہ میں بھی لکھے اور افسانہ نگاری بھی کی۔ کچھ تنقیدی مضامین بھی ان کے قلم سے نکلے جن سے ان کی گہری بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اصناف شاعری میں بھی وہ ایک چومکھے فنکار تھے۔ انھوں نے غزل، نظم، مثنوی، رباعی، فلمی نغمے، قصیدہ، سلام اور مرثیے تقریباً ہر صنفِ شعر میں اپنی خلاقی کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ’’ نقشِ جمیل‘‘، ’’فکرِ جمیل‘‘، ’’ وجدانِ جمیل‘‘، ’’ عرفانِ جمیل‘‘ اور ’’ آب و سراب‘‘ منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ان کی قصیدہ گوئی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مجھے بیشتر ’’عرفانِ جمیل‘‘ تک محدود رہنا پڑا ہے کیونکہ وقت کی تنگی کے باعث دوسرے مجموعہ ہائے کلام تک میری رسائی نہیں ہو سکی۔ ظاہر ہے کہ ان میں ( بطور خاص ’ وجدانِ جمیل‘ میں ) کچھ اور بھی قصائد شامل ہوں گے اور ممکن ہے کہ ان کا رنگ و آہنگ اور مزاج ’’ عرفانِ جمیل‘‘ میں شامل قصائد سے قدرے مختلف ہو۔

اردو قصائد کا مطالعہ ہمیں بڑے دلچسپ نتائج تک پہنچاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مختلف اصناف سخن کے عروج و زوال کا تعلق ان ادوار سے بہت گہرا ہوتا ہے جن میں یہ پروان چڑھتی اور اپنے عہدِ شباب کو پہنچتی ہیں۔ مثلاً مثنوی کے لیے سکون، اطمینان اور فارغ البالی درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صنف سخن دکن میں اسی دور میں پھلتی پھولتی ہے جب سلاطین دکن، مغل بادشاہوں کی لشکر کشی اور یلغار سے نسبتاُ محفوظ تھے۔ اس کے بر عکس مغلیہ سلطنت کے عہدِ زوال کے دوران شمالی ہند میں دبستان دہلی کے شعراء مثنوی میں کوئی بڑا کارنامہ پیش نہ کر سکے اور آگے چل کر نوابین اودھ کے دور میں جب معاشرہ نسبتاً خوشحالی اور سکون سے دوچار ہوا اور چند دہائیوں کے لیے اطمینان اور فراغت سے آشنا ہوا تو ’سحر البیان‘ اور ’ گلزارِ نسیم‘ جیسے شہہ پارے وجود میں آئے۔ یہی صورتِ حال مرثیے کے ساتھ رہی، جسے اردو کے عہدِ طفلی میں ایک خاص عقیدہ رکھنے والے عوام کی اکثریت اور درباری پشت پناہی نے دکن میں جنم دیا اور ایسے ہی عوامل نے لکھنؤ میں اس صنف کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ غزل کو شکست و ریخت اور انتشار کا زمانہ زیادہ راس آتا ہے چنانچہ مختلف ادوار میں اس نقطۂ نظر سے صنفِ غزل کے ارتقاء کا بآسانی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ۔ قصیدہ مزاج کے اعتبار سے ایک عظیم الشان دربار، جلالت مآب حکمراں، مستحکم سلطنت اور متمول معاشرے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس صنفِ سخن کی محرومی دیکھیے کہ اس نے اردو میں آنکھ کھولی تو دکن کی ریاستیں تقریباً تاراجی کی منزل کو پہنچنے والی تھیں اور دوسری طرف شمالی ہند میں سلطنتِ مغلیہ زوال کی حدوں میں داخل ہو رہی تھی۔ ہمارے سب سے بڑے قصیدہ گو سوداؔ کو جو زمانہ نصیب ہوا وہ آخری عظیم مغل بادشاہ عالمگیر کے انتقال کے بعد کا دور ہے جب تخت مغلیہ، اکبر اور اس جیسے دوسرے با صلاحیت اور پُر جلال حکمرانوں کی سرپرستی سے محروم ہو چکا تھا اور شاہ عالم جیسے کٹھ پتلی قسم کے حکمراں اس تخت پر براجتے تھے جس کی حکومت ایک کہاوت کے مطابق ’دلّی سے پالم تک‘ سمٹی ہوئی تھی۔ ایسے دور میں کمزور والیانِ حکومت اور نام نہاد رؤسائے مملکت کی شان میں قصیدے کہنے کے لیے شاعر کے پاس حقیقی واقعات اور سچے کردار کی جگہ لے دے کر تخیل اور مبالغہ جیسے حربے ہی رہ جاتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے مصنوعی اوزاروں سے کام لے کر سوداؔ اور ذوقؔ نے شاہ عالم اور بہادر شاہ ظفرؔ جیسے نام نہاد بادشاہوں کی شان میں قصیدے کے بلند و بالا ایوان تعمیر کر ڈالے۔ ایسی تخلیقی شان، قوتِ بیان اور قدرتِ کلام رکھنے والے قصیدہ نگاروں کو اگر اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں جیسے ممدوح نصیب ہوئے ہوتے تو اردو قصیدہ، فارسی سے یقیناً کئی ہاتھ بلند نظر آتا۔ ہمارے قصیدے پر تصنع اور مبالغے کی تہمتیں عائد کرنے والے ناقدین کو ان پہلوؤں پر بھی کبھی کبھی غور کر لینا چاہیے۔ میری اس بات کے جواز میں اردو کے ہجویہ اور مذہبی قصائد بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن میں مولانا حالیؔ کی پسندیدہ خصوصیاتِ شعر، سادگی، اصلیت اور جوش کی کمی نہیں ہے۔ کیونکہ ہجویہ قصائد بہر حال اپنے معاشرے کے خام پہلوؤں کی مذمت کی غرض سے لکھے گئے تھے اور مذہبی قصائد کے ممدوحین کی شان اور کردار کی امتیازی خصوصیات ظاہر ہے کہ کسی دور میں بھی رو بہ زوال نہیں ہوتیں، تا وقتیکہ عوام کا عقیدہ ہی کمزور نہ ہو جائے۔ البتہ اسے کیا کیا جائے کہ بقول رشید احمد صدیقی’’ اردو ایک تہذیب کا نام بھی ہے ‘‘ اور اس تہذیب میں کسی کی برائی کرنا گناہ میں داخل تھا۔ دوسرے ہماری زبان بیگماتی رہی ہے جہاں مردوں کے لہجے میں واشگاف انداز میں گفتگو اس کے لسانیاتی مزاج کے خلاف جاتی تھی۔ چنانچہ سوداؔ کی ہجویات ہمارے ادب میں وہ بلند مرتبہ حاصل نہ کر سکیں جو کہ عربی جیسی مردانہ زبان کے ہجویہ قصائد کو حاصل تھا۔ اپنے ہجویہ قصائد کے لیے سوداؔ کو تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے جس طرح ہدفِ ملامت بنایا، اس سے آئندہ نسلوں کے شاعروں نے عبرت پکڑی اور نتیجے میں ہجویہ قصائد کا سلسلہ زیادہ دور تک نہیں جا سکا۔ مدحیہ قصیدہ، جہاں تک اس کا تعلق حکمرانوں اور رئیسوں سے تھا، شخصی حکومتوں اور ریاستوں کے خاتمے کے ساتھ آخری سانس لے کر رخصت ہوا۔ لے دے کر بزرگانِ دین کی شخصیتیں باقی رہیں جن کی روحانی سلطنتوں کو اس وقت تک زوال نہیں ہوتا جب تک کہ اکثریت کے عقیدے ہی متزلزل نہ ہو جائیں۔ سو یہ بھی ہوا۔ انگریزی زبان کے غلبے اور مغربی علوم و فنون سے واقفیت نے قدیم اعتقادات کی جڑیں اس طرح ہلا ڈالیں کہ اہلِ ادب، فنِ شعر میں مذہب کو سمتِ ممنوعہ سمجھ بیٹھے اور آزادی ہند کے بعد نوبت بایں جا رسید کہ مرثیے اور مذہبی قصیدے کو ہاتھ لگاتے ہوئے بڑے بڑے شاعروں کے حوصلے چھوٹ جاتے تھے۔ ایسے میں چند استثنائی صورتیں جوشؔ، نجمؔ آفندی اور جمیل مظہری کے قالبوں میں نظر آ جاتی ہیں جن کے دم سے موجودہ نسل ان اصنافِ سخن کے ذائقے سے لذت یاب ہو سکی۔

’’ عرفانِ جمیل‘‘ میں کتاب کا ایک حصّہ قصائد کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس میں شامل تخلیقات کے عنوانات ہیں ’’ حدیث دلبری‘‘، ’’ تضمین‘‘، ’’ میخانہ کوثری‘‘، ’’ طلوع سحر‘‘، ’’مداح و ممدوح‘‘، ’’ زمزمۂ عرفان‘‘، ’’فیضانِ امامت‘‘، اور ’’ پیغامِ وفا‘‘۔ میرا خیال ہے مرتبین نے اس حصّے میں ’’ تضمین‘‘ شامل کر کے قصیدے کی ہیئت سے بغاوت کی کوشش کی ہے۔ اس مخمس کو نظموں کے حصّے میں جگہ ملنی چاہیے تھی۔ باقی ماندہ سارے قصیدے نعتیہ یا منقبتی ہیں۔ یعنی یہ ساتوں قصیدے شاعر کے مذہبی رجحانات اور اعتقادات کے ترجمان ہیں۔ جمیل مظہری کے ممدوحین میں پیغمبرِ اسلامؐ، حضرت علیؓ، امام حسنؓ اور امام حسینؓ شامل ہیں۔ عام طور پر قصائد کے مطلعے جس طنطنے اور شکوہ کا مطالبہ کرتے ہیں، جمیل مظہری کے قصائد میں ان کا فقدان ہے۔ اس کے بر عکس ان قصیدوں کے مطلعے ایک خاص نوع کی ملائمت، لطافت، سبک خرامی اور خود سپردگی کا سا انداز رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ مطلعے ملاحظہ ہوں :

بزمِ جہاں میں ہیں بلند غلغلہ ہائے زرگری

اے دلِ درد آشنا چھیڑ پریم بانسری

( حدیثِ دلبری)

کفِ گل دیکھ کر یاد آ گیا رندوں کو پیمانہ

الٰہی خیر توبہ کی عجب موسم ہے رندانہ

( میخانہ کوثری)

طلوعِ صبح کا منظر عیاں ہے آج چلمن سے

تجلی چھن رہی ہے آفتابِ روئے روشن سے

(طلوع سحر)

نہ اس صحرا نے پہچانا نہ اس صحرا نے پہچانا

غبارِ قیس تجھ کو کوچۂ لیلیٰ نے پہچانا

(زمزمۂ عرفاں )

سوچ رہا ہے چپ کھڑا رہروِ راہ ارتقاء

چار طرف ہے مظہریؔ سلسلہ ہائے نقشِ پا

(فیضانِ امامت)

مطلعوں کی یہ جمالیاتی کیفیت صرف قصیدوں کے آغاز سے ہی متعلق نہیں ہے۔ مختلف قصائد میں درمیان میں تازگی بیان پیدا کرنے کے لیے جمیلؔ مظہری نے اکثر جو مطلع ہائے ثانی و ثالث استعمال کیے ہیں ان کا مزاج بھی اولین مطلعوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس طرح جمیلؔ مظہری، سوداؔ اور ذوقؔ جیسے بلند آہنگ قصیدہ گویوں کی صف سے کٹ جاتے ہیں اور مزاجی اعتبار سے اپنا سلسلہ عزیز لکھنوی اور محسنؔ کاکوروی جیسے نرم رو قصیدہ نگاروں سے جوڑتے ہیں۔ البتہ ایک استثنائی صورت ان کے قصیدہ، ’مدّاح و ممدوح‘ میں نظر آتی ہے، جو غالبؔ کی زمین میں لکھا گیا ہے اس پر ہم علیحدہ گفتگو کریں گے اور کسی حد تک اس ذیل میں ان کا قصیدہ ’ فضیلتِ خاک‘ بھی آتا ہے (جو عرفانِ جمیل میں شامل نہیں ہے ) جس کا مطلع نہایت پُر تمکنت اور با  وقار ہے۔

جمیلؔ مظہری کے قصائد کی تشبیبیں اردو قصیدے کی روایتی تشبیبوں سے قطعی مختلف ہیں ان کی بیشتر تشبیبیں فلسفیانہ تفکر اور حکیمانہ خیالات کی حامل ہیں۔ ’’ میخانہ کوثری‘‘ میں شاعر نے بہاریہ اور زندانہ تشبیب پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن چونکہ یہ رنگ جمیلؔ مظہری کے مزاجِ شعر سے لاگ نہیں کھاتا اس لیے اس تشبیب میں کوئی خارجی منظر اور بہاریہ پیکر صاف اور روشن نظر نہیں آتا بلکہ یہاں بھی جمیلؔ مظہری کا سوچتا ہوا ذہن اور متجسس طبیعت اپنی جھلک دکھاتی ہے اور خارجی مناظر کی دھندلی سی تصویر سے داخلی احساسات اور فطری ارتعاشات کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ عام طور پر قدماء نے قصیدے کی تشبیب کو اپنی علمیت اور فضیلت کا آئینہ دار بنایا ہے۔ درباری قصیدے کے لیے یہ وصف لازمی بھی تھا جہاں ملک الشعرائی حاصل کرنے کے لیے قصیدہ گو کے لیے مختلف علوم و فنون میں اپنی مہارت اور ہمہ دانی کا ثبوت فراہم کرنا ضروری تھا۔ اسی لیے قصیدے کے ناقدین نے شرط لگائی تھی کہ تشبیب کو مدح سے زیادہ طویل نہ ہونا چاہیے۔ بہ صورتِ دیگر قصیدہ گو ممدوح کی ثنا خوانی سے زیادہ تشبیب میں اپنی تعریف کے مواقع پیدا کرتا۔ اوّل تو جمیلؔ مظہری کے یہ قصیدے دربار میں پیش کرنے کی غرض سے نہیں لکھے گیے تھے۔ دوسرے ان کے ممدوح بزرگانِ دین ہیں۔ اس لیے ان تشبیبوں میں غیر ضروری مبالغے، موشگافیوں اور ترکیب سازی سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ البتہ چونکہ جمیلؔ مظہری کی تشکیک انھیں الحاد کے خارزاروں میں بھی لے گئی تھی جہاں سے ان کا خلوص اور نیک نیتی، انھیں عقیدے کی نرم چھاؤں میں دوبارہ لے آئی۔ اس لیے ان کے ذہنی سفر کے نشیب و فراز اور تشکیک و اعتقاد کی دھوپ چھاؤں کا عکس ان کے قصائد کی ان تشبیبوں میں بھی جلوہ گر ہے۔ بے ثباتیِ دنیا، زمانے کی نا قدر شناسی اور اس قبیل کے حکیمانہ اخلاقی مسائل پر مشتمل اشعار جمیلؔ مظہری کی تشبیبوں کو ان کے پیش روؤں کے قصائد سے ممتاز بناتے ہیں۔ یہاں مغلق الفاظ، پیچیدہ تراکیب، لہجے کی گھن گرج اور قصیدے سے متعلق اسی قسم کے دوسرے لوازمات سے ہمارا سابقہ کم پڑتا ہے۔ ان تشبیبوں میں ہمیں اپنے دور کے فکر مند اور نرم دل شاعر کے احساسات اور خیالات ملتے ہیں کہیں کہیں ایسا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے قصیدہ گو کی بڑھی ہوئی عقیدت نے صبر و تحمل کا دامن چھوڑ دیا ہے اور تشبیب ہی میں مدح سرائی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مقامات پر جمیلؔ مظہری کی گریز اتنی برجستہ، بے ساختہ اور تحیر خیز نظر نہیں آتی کیونکہ مٹھی وقت سے پہلے کھل چکی تھی جس نے قاری کواس خوشگوار استعجابی کیفیت سے لطف اندوز نہ ہونے دیا جو اس تشبیب کو مدح کی آمیزش سے پاک رکھنے کی صورت میں پیدا ہوتی۔ جمیلؔ مظہری کے قصیدوں سے گریز کے چند شعر دیکھیے :

دیر تو خیر دیر ہے خاکِ حرم کو بھی سلام

اب تو ہے قبلۂ وفا خواب گہہِ پیمبری

( حدیثِ دلبری)

سنا ہے میکدے میں جشن ہے میلادِ ساقی کا

چلیں اور چل کے ہو جائیں شریکِ دورِ میخانہ

(میخانۂ کوثری)

اے یہ خوشا انتساب، خواہرِ زینب خطاب

از لقبِ بُو تراب دختر حیدر ہے خاک

(فضیلتِ خاک)

کون وہ کون وہی دشتِ عرب کا رہبر

وقت کی گرمیِ رفتار بڑھانے والا

(ایک نا تمام قصیدہ غیر مطبوعہ)

مندرجہ بالا گریز کے اشعار متعلقہ قصیدوں میں جن مقامات پر برتے گئے ہیں وہاں ربط اور تسلسل تو پیدا کرتے ہیں لیکن تحیر اور انوکھے پن کے حامل نہیں ہیں۔ مدح کے باب میں جمیلؔ مظہری کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے پر تقدس اور جلیل القدر ممدوحین کی ثنا خوانی میں کم سے کم مبالغہ کرتے ہیں۔ مذہبی شخصیتوں سے فنکار اور پڑھنے والوں کوجو گہری عقیدت ہوتی ہے اس کے پیشِ نظر قصیدے میں ہر مبالغہ قرینِ قیاس نظر آتا ہے، اسی لیے مذہبی قصائد میں سوداؔ سے غالبؔ تک ہرقصیدہ گو نے تخیل آفرینی اور مبالغہ آرائی سے بڑھ چڑھ کر کام لیا ہے۔ اس جزو کو تلمیحات، روایات، حکایات سے پُرزور اور پُرشکوہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جمیل مظہری کے قصیدوں میں بھی کہیں کہیں ان عناصر سے کام لیا گیا ہے لیکن زیادہ تر توجہ اپنے ممدوح کی انسانی صفات، اخلاقی اقدار اور اوصاف حمیدہ کے بیان پر صرف کی گئی ہے۔ مثلاً پیغمبرِ اسلامؐ کی شان میں یہ شعر:

اے ترے فقر کی دلیل چاک رِدائے سیدہ

اے ترے زہد کی وکیل نانِ شعیر حیدری

( حدیثِ دلبری)

حضرت علیؓ کے بارے میں یہ مطلع:

بغل میں ذو الفقار اور دوش پر دلقِ فقیرانہ

دلوں پر کی شہنشاہی بہ ایں وضعِ گدایانہ

(میخانۂ کوثری)

سرورِ کائناتؐ کی تعریف میں :

جواں ہو کر وہ بچّہ رحمتِ ہر دوسرانکلا

امینِ قوم کہتی تھی جسے دنیا لڑکپن سے

(طلوعِ سحر)

امام حسنؓ کی مدح میں :

تو نے میانِ دین و دہر ایک لکیر کھینچ دی

تخت کو چھوڑ کر کیا تو نے قبول بوریا

(فیضانِ امامت)

اور خلیفۂ چہارم کی مدح سرائی میں یہ اشعار:

جس کا یہ قول کہ حکام کا خوانِ نعمت

ہو بہ معیار غذائے فقرائے مسکیں

ظلم خدام کہ گندم بھی ملا دیں جَو میں

قہر سرکار کہ خالص نہیں کیوں نانِ جویں

وہی زاہد جو تکدر سے پھرائے منھ کو

گوش دختر میں اگر دیکھ لے دُر ہائے ثمیں

منزلِ رحم میں دشمن کو بھی دے کاسۂ شِیر

عرصۂ عدل میں بیٹے سے بھی ہو چیں بہ جبیں

(مدّاح و ممدوح)

مافوق الفطرت واقعات کے شانہ بہ شانہ مدح خوانی کا یہ حقیقت پسندانہ انداز بتاتا ہے کہ بحیثیت قصیدہ گو جمیلؔ مظہری اپنے سامعین اور قارئین کے مذہبی جذبات اور عقیدت کی تسکین کا سامان فراہم کر نے کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق کی تربیت اور کردار کی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے تھے جہاں انھوں نے کرامات اور معجزات کا بیان کیا ہے وہاں بھی توازن اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جمیلؔ مظہری کے قصائد کے مدحیہ حصّے میں، ان کی تشبیب کی بہ نسبت زیادہ جوش طنطنہ اور شوکتِ الفاظ کا اظہار ہوا ہے۔ اس حصّے میں فارسی تراکیب، علوئے خیال اور دقّت نظری کی آمیزش نے اشعار کو اکثر جلیل و متین قالب عطا کیے ہیں۔

قصیدے کا اختتام اکثر دعا پر کیا جاتا ہے۔ جمیلؔ مظہری کے بیشتر قصائد کا خاتمہ بھی دعاؤں پر ہوا ہے جن میں ان کا خلوص اور جوشِ عقیدت دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔ وہ ممدوح سے دنیاوی آسائشوں کے طلب گار نہیں ہوتے بلکہ قناعت پسندی، احسان دوستی اور اپنے ممدوح سے دلی قربت کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ چند اشعار مثال کے طور پر پیش ہیں :

سرِ شوریدہ کو بالینِ آسائش میسّر ہو

جو سو جاؤں تری چوکھٹ پہ سر رکھ کر غریبانہ

(میخانۂ کوثری)

عطا ہو بے خودیِ شوق کو احساسِ خود داری

کہ جگنو بھیک جلوؤں کی نہ مانگے ماہِ روشن سے

(طلوعِ سحر)

اب آیا ہوں ترے در پر مئے عرفاں کی چھینٹیں دے

تری چوکھٹ کی خنکی کو سرِ سودا نے پہچانا

(زمزمۂ عرفاں )

جن دو قصیدوں کا ذکر میں بطورِ خاص کرنا چاہتا تھا وہ ہیں ’ مداح و ممدوح‘ اور ’فضیلتِ خاک‘۔ نہ صرف یہ کہ ان قصیدوں میں اکثر مقامات پر سوداؔ کا سا طمطراق، ذوقؔ کی سی قدرتِ الفاظ  اور غالبؔ جیسی علوئے فکر نظر آتی ہے، بلکہ ان میں مذہبی شخصیتوں کے ساتھ ساتھ اربابِ دنیا کی عظمت کے ترانے بھی گائے گئے ہیں۔ ’ مداح و ممدوح‘‘ اس اعتبار سے بھی انفرادی شان رکھتا ہے کہ اس میں بیک وقت حضرت علیؓ اور ان کے مداح غالبؔ کی مدح کا پہلو ایک ساتھ نکالا گیا ہے۔ اس فن پارے کی اساس غالبؔ کے قصیدے  ع  ’ دہر جُز جلوہ یکتائی معشوق نہیں ‘ پر ہے جو حضرت علیؓ کی منقبت میں لکھا گیا تھا۔ اپنی جزالت اور گہرائی کے لحاظ سے یہ قصیدہ بے مثل تھا، جمیلؔ مظہری نے نہ صرف غالبؔ کی زمین اختیار کی بلکہ اس لہجے اور مزاج کو اپنے طویل قصیدے میں برت کر فن کا رانہ چابکدستی اور قدرتِ کلام کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ کم و بیش ہر شعر ویسی ہی شاندار ترکیبوں سے مزین، الفاظ کے ویسے ہی تخلیقی استعمال سے مرتعش اور بلندی فکر کی اسی عظمت کا نمونہ ہے جو غالبؔ کے مذکورہ قصیدے کے امتیازات ہیں۔ ندرت اور جودت اس قصیدے کے ہر شعر سے نمایاں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ اور ان کے مداح غالبؔ کی ثنا خوانی اس چابکدستی سے کی گئی ہے کہ قصیدے میں کہیں پیوند کاری کا ذرّہ بھر احساس نہیں ہوتا۔ یہی حال ’فضیلتِ خاک‘ کا ہے جس میں کائنات کے تمام مظاہر اور عناصر ترکیبی پر خاک کو فوقیت دی گئی ہے اور اس فوقیت کا سبب مقدس اور بزرگ ہستیوں کو قرار دیا گیا ہے اور اس طرح خاک کی ثنا خوانی کے پہلو بہ پہلو بزرگانِ دین کی مدح کے مواقع بھی پیدا کر دیے گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان دو قصیدوں کو جمیلؔ مظہری کے شاہکار قصائد کا درجہ ملنا چاہیے۔

’ مداح و ممدوح‘ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

بسکہ دشوار ہے اشیاء کی حقیقت کا سُراغ

آسماں گردِ نظر زنگِ تصور ہے زمیں

عرش دیباچۂ تفصیلِ طلوعِ اسرار

فرش آئینۂ ابہامِ ظہورِ خود بیں

کون دے دیدۂ حیراں کے سوالوں کا جواب

عالمِ غور میں سب چپ ہیں مکاں ہو کہ مکیں

اک خموشی ہے مذاہب کی زبانِ الہام

اک تحیر ہے مناظر کا سکوتِ سنگیں

حیرت آموزِ تمنا ہے تماشائے بہار

سر بہ زانوئے تأمل ہے نگاہِ گلچیں

اور ’ عظمتِ خاک‘ کے چند اشعار بھی ثبوت کے طور پر پیش خدمت ہیں :

خاک نشینانِ بزم تاجورِ مصر و شام

اور بہ نگاہِ امام تخت سے برتر ہے خاک

خاکِ کفِ پا تری چہرۂ سلما کا نور

سرمۂ بینائیِ چشمِ ابوذرؓ ہے خاک

اپنے جگر کا لہو کس نے دیا ہے اسے

جس سے توانا ہے خاک جس سے تونگر ہے خاک

دیدۂ روح الامیں دیکھتے ہیں رشک سے

کفشِ نبیؐ کے طفیل عرش کے اندر ہے خاک

بحیثیت مجموعی جمیل مظہری کے قصیدوں کی فلسفیانہ شان، متانت، سنجیدگی، علوئے فکر، زور بیان‘ دقیقہ سنجی اور بلند پروازی کے پیشِ نظر انھیں اردو قصیدے کے آخری دور کا ایک اہم قصیدہ گو ماننا پڑے گا۔ ان قصیدوں کی صورت میں ایک مرتی ہوئی صنفِ سخن نے آخری بار سنبھالا لیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کلکتہ میں اردو کا منظر نامہ اور سالکؔ لکھنوی

 

کلکتہ میں اردو کا منظر نامہ اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک سالک لکھنوی اس میں شامل نہ ہوں۔ کسی ہشت پہلو ہیرے کی طرح ترشی ہوئی ان کی شخصیت کا ہر پہلو تابناک اور درخشندہ ہے۔ وہ سی پی ایم کے بے حد فعال اور با اثر رکن ہیں، بڑا کاروبار چلاتے ہیں۔ آبشار کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے چیئر مین ہیں۔ کلکتہ یونیورسٹی کے سنیٹ ممبر ہیں، متعدد سماجی اور ثقافتی انجمنوں کے سرپرست ہیں اور شاعر بھی ہیں۔

ماشاء اللہ ستاسی کے پیٹھے میں ہیں۔ گردے کا آپریشن جھیل چکے ہیں۔ دل کے دو شدید دورے پڑ چکے ہیں لیکن کلکتہ اور اس کی نواحی بستیوں میں آئے دن ہونے والے مشاعروں اور ادبی جلسوں میں شریک ہونا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ اردو اکاڈمی کی تقریباً ہر میٹنگ میں موجود رہتے ہیں۔ گھر پہنچنے والے ہر ریسرچ اسکالر کے ساتھ گھنٹوں اتنی مغز باشی کرتے ہیں جتنی کہ اس کا با قاعدہ گائیڈ بھی نہیں کرتا۔ باہر سے آنے والا ہر شاعر اور ادیب جانتا ہے کہ اس نے سالک لکھنوی کو نہیں دیکھا تو کلکتہ بھی نہیں دیکھا۔

سالک لکھنوی باقاعدہ اعترافی ترقی پسند ہیں۔ لکھنؤ کی نفاست، شائستگی، نرم مزاجی اور شیریں کلامی کو ترقی پسندی کے خطیبانہ آہنگ سے ہم رشتہ کرناکیسا دشوار مسئلہ ہے، تخلیق کاروں سے پوچھیے۔ سالک لکھنوی نے یہ پل صراط بڑی کج کلاہی سے طے کیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اہل نظر اس کے نیچے تنے ہوئے روایت کے اس جال کو بھی دیکھ لیں جومیر انیس اور مرزا دبیر کے رجزیہ کلام نے برسوں پہلے ایسے ہی مواقع کے لیے تیار کر دیا تھا۔ کہیں کہیں سالک پر اقبالؔ کی چھوٹ پڑتی نظر آتی ہے البتہ نظریے نے زاویہ بدل رکھا ہے۔ میرے اس خیال کی تائید ان کی نظموں سے ہو گی جن کے عنوانات ہیں ’’ خونیں جشن آزادی‘‘ سورج کی تھالی‘‘ اور ’’خوابِ آزادی‘‘۔ ان کی ایک اور نظم’’ ویت نام ‘‘کا ذکر بھی خصوصیت کے ساتھ ضروری ہے کہ یہ اس موضوع پر غالباً اردو میں سب سے پہلی نظم ہے۔

’’ سورج کی تھالی‘‘ میں علاقائی پیرائے میں جنگ آزادی کے متوالوں کی بے بہا قربانیوں کا بیان کرتے ہوئے شاعر اس درد ناک حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے :

جب باغ میں فصل گل آئی جب پھول بسنتی کھلنے لگے

جب پت جھڑ کے دن بیت گئے جب شاخوں کو پھل ملنے لگے

وہ مالی بن کے آبیٹھے جو باغ کو بیچا کرتے تھے

پھولوں کا خون بہاتے تھے، کلیوں کو مسلا کرتے تھے

دل اکثر پوچھا کرتا ہے کیوں ہستی خوش انجام نہیں

کیوں اپنی سہانی صبح نہیں، کیوں اپنی سنہری شام نہیں

جو کل بھی دُکھ میں روتے تھے کیوں آج بھی دکھ میں روتے ہیں

جو بچے کل بھی بھوکے تھے کیوں آج بھی بھوکے سوتے ہیں

سپنے ٹوٹے تعبیریں گم، امیدیں کیوں بے آس گئیں

سورج کی تھالی سب کو ملی ہے کرنیں کس کے پاس گئیں ؟

سالک لکھنوی کی نظم’’ بنیاد کی اینٹیں ‘‘ بھی دامن دل کو کھینچتی ہے جس کے آخری بند میں شاعر یاد دلانا چاہتا ہے کہ ملک و قوم کی خدمت گزاری میں اس نے کبھی پہلو تہی نہیں کی:

دہرا کے فسانۂ دار و رسن گرمائے ہزاروں دل میں نے

جس محفل میں دل مردہ تھے کی برہم وہ محفل میں نے

طوفاں سے ٹکرا جانے کو ٹھکرا دیا ہر ساحل میں نے

رفتار سے اپنی کم کر دی سختیٔ رہِ منزل میں نے

تاروں کی درخشاں محفل میں ذروں کو کیا شامل میں نے

ایوان وطن کے گنبد میں بنیاد کی بھی کچھ اینٹیں ہیں

یہ پرچم جن سے رنگیں ہے وہ اپنے لہو کی چھینٹیں ہیں

ادھر چند برسوں سے انھیں اپنے عمر رسیدہ ہونے کا خیال ستانے لگا ہے اور اکثر وہ افسردہ ہو کر اس قسم کی باتیں کہہ جاتے ہیں :

قلم کو لفظ تخیل کو شعر ملتے نہیں

کوئی بھی نغمہ ہو اب دل کے تار ہلتے نہیں

شکستہ ساز سے جھنکار کی توقع کیا

شکستہ تیغ سے پیکار کی توقع کیا

شکستہ دست و پا رہوار کی توقع کیا

کسے خبر ہے کب ان کا پیام آ جائے

کسے خبر ہے کہاں اپنی شام آ جائے

لیکن ایسے مایوس کن لمحات میں بھی ان کے اندر چھپے ترقی پسند کا حوصلہ انگڑائی لے کر جاگ اٹھتا ہے اور نظم ( سناٹا) کا اختتام وہ ایسے سرکش تیوروں کے ساتھ کرتے ہیں :

ملا جو اب کوئی پتھر، اسے اٹھا لوں گا

اور اس سے توڑوں گا شیشہ میں اس زمانے کا

بلا سے شیشہ ہستی بکھر کے رہ جائے

کسی کرچ میں تو صورت کوئی نظر آئے

کہیں تو میرا جنوں کوئی ہم سفر پائے

کوئی تو ہو جو مری راہ سے گزر جائے

انھوں نے ۱۹۸۴ء میں عمر کے اکہتر سال مکمل ہونے پر ’’ لوحِ تربت‘‘ کے دلدوز عنوان سے جو نظم لکھی تھی، وہاں بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جواں دلوں کو ان کی آتشِ جنوں اور جذب دروں ودیعت کر دیا جائے :

تھکی نگاہوں کو اب رخصت سکوں مل جائے

جواں دلوں کو مری آتش جنوں مل جائے

خدا کرے کہ انھیں جذب اندروں مل جائے

سفر گزیدہ مسافر کو نیند آتی ہے

ان نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے بے ساختہ خلیل الرحمان اعظمی یاد آ گئے جنھوں نے اپنی موت سے کچھ پہلے ’’ کتبے ‘‘کے عنوان سے کچھ نظمیں کہی تھیں۔ دعا ہے کہ معبود حقیقی سالک لکھنوی کو انسانیت کی خدمت کے لیے ابھی مدتوں زندہ رکھے۔

اب ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

ہمارے گھر جلیں، ہم قتل ہوں، مجرم بھی ہم ٹھہریں

جہاں میں ناتوانوں کا یہی انجام ہوتا ہے

………

اگر ہیں بیڑیاں باقی تو ہیں پائے جنوں حاضر

اگر دیوار زنداں ہے تو ہے شانوں پہ سر باقی

………

جو ملے ہیں وہ ظلم و ستم بانٹ لیں

آؤ آپس میں آج اپنے غم بانٹ لیں

………

یہ کی کس آبلہ پائی سے خار و سنگ ہیں گلگوں

طلب کی راہ پہ ہر امتحاں سے کون گزرا ہے

………

چلے چلو کہ کسی راہزن کا خوف نہیں

کہ راہ اہلِ جنوں ہے ہمیشہ بے رہبر

………

جس نے خالی جام پٹکا اس مجاہد کو سلام

میکدے میں آج پیاسوں کو اشارہ مل گیا

………

رہ منزل میں تھرّائے قدم تو آرزو بولی

جہاں اندیشۂ منزل سے گزرا سر ہوئی منزل

ان اشعار کو پڑھ کر اہلِ نظر محسوس کریں گے کہ غزل میں بھی سالک لکھنوی بیش از بیش ترقی پسندانہ خیالات نظم کرتے ہیں اور اس ادا کے ساتھ کہ شعر، شعر ہی رہتا ہے پروپگنڈا نہیں بننے پاتا۔ یہ در اصل اس جذبۂ صادق کی دین ہے جو اشعار میں لہو بن کر دوڑتا ہے، انھیں پوسٹر بننے سے بچاتا ہے۔ پھر بھی کہیں کہیں پرویز شاہدی کی طرح سالک لکھنوی صاحب کے غزلیہ اشعار میں بھی ایسی پتھریلی چیزیں نکل آتی ہیں۔

بیدار ہوئی محنت، سرمائے کی نیند اجڑی

پھر تیشہ زنی جاگی، لرزاں ہوئی پرویزی

کاش بات تیشہ زنی اور پرویزی کی علامتوں میں مکمل کر دی جاتی۔ یوں محنت اور سرمائے کا براہِ راست غزل میں بکھان ایک لکھنوی شاعر کے شایان شان نہیں۔

اگراپنی تخلیقی صلاحیت کو مختلف حصوں میں نہ بانٹتے تو یقیناً سالک لکھنوی کا ادبی قد اور بھی بلند ہوتا کہ وہ خاصے دلچسپ انشائیے بھی لکھتے ہیں جن کا مجموعہ ’’ بے سر و پا‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ ’’پسِ شعر‘‘ کے عنوان سے اشعار کے تجزیے نثری نظموں کے انداز میں کرتے ہیں۔ تحقیق و تنقید کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں جیسا کہ ’’ بنگال میں اردو نثر کی تاریخ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے۔ مختلف انجمنوں کے انتظامات دیکھتے ہیں اور سماجی کاموں میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ اگر انھیں یکسوئی کے ساتھ تخلیق شعر کے مواقع ملے ہوتے تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں جہانِ تازہ آباد کرتیں۔ با ایں ہمہ ادب کو جتنا کچھ سالک لکھنوی نے دیا ہے وہ انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

آواز کا متلاشی۔ خورشید احمد جامیؔ

 

اپنی ادبی زندگی کی ابتدا سے آج تک شاعروں کی پسندیدگی و نا پسندیدگی کے معاملے میں میرا مزاج غیر مستقل رہا ہے۔ مثلاً حسرتؔ، جوشؔ، جگرؔ اور عدمؔ وغیرہ کبھی میرے محبوب شاعروں میں سے تھے۔ آج میں اُنھیں درجہ اوسط کے شعراء میں گنتا ہوں اور مخدومؔ، شادؔ عارفی، فیضؔ وغیرہ نے مجھے متاثر کرنے میں کافی وقت لیا۔ ہر چند کہ جامی ان صفوں کے شاعر نہیں ( اور نہ ہی یہاں دوسرے شعرا سے ان کا موازنہ مقصود ہے ) لیکن وہ ان دو چار شاعروں میں سے ایک ہیں جنھیں میں کل بھی پسند کرتا تھا اور آج بھی سراہتا ہوں۔

کل اور آج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جامیؔ کی کل کی شاعری بھی آج کی شاعری اور اُس کے مزاج سے بڑی حد تک مختلف ہے لیکن اُن کے شاعرانہ مزاج میں اپنے عصر سے متاثر ہونے اور اپنے عہد کو اپنے فن میں سمو لینے کی وہ اہم خصوصیت ہے جو معدودے چند فنکاروں کو نصیب ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جامی کے ہمعصر، کل کے بہت سے جدید شاعر آج کے پُرانے شاعروں میں گنے جاتے ہیں جبکہ جامیؔ کل بھی جدید تھے اور آج بھی نئے ہیں اور اُن کا یہ نیا پن کہیں اوپر سے اوڑھا ہوا نہیں لگتا۔

اپنے کو نیا شاعر کہنے کے باوجود بد قسمتی سے میں ان لوگوں میں سے ہوں جو شاعری میں نئے پن کو بہت کچھ تو سمجھتے ہیں لیکن سب کچھ نہیں۔ میرے نزدیک شاعری میں سب سے بڑی بات خود شاعری ہے ( جی چاہے تو آپ اسے شعریت کہہ لیجیے۔ البتہ میری مراد تغزل ہرگز نہیں ) دیکھتے دیکھتے دُنیا بدل گئی، اقدار بدل گئیں، معیار بدل گئے۔ جامی کی شاعری بھی بدلی لیکن وہ معصوم سی لذت جو شاعری کا اہم جزو ہے، جامی کی شاعری میں آج بھی ملتی ہے۔ کیا یہ کوئی آسان بات ہے۔ جامیؔ کی عمروں کے بہتیرے شاعر اس بدلنے کی کوشش میں نہ پرانے رہ گئے نہ نئے بن سکے کیونکہ نئے بننے کی کوشش میں وہ شعریت کا راستہ کاٹ گئے۔

’’ جلتی ہوئی تنہائیوں ‘‘، ’’ ٹوٹتے ہوئے خوابوں ‘‘ اور ’’ زخم خوردہ تجربوں ‘‘ کے اس شاعر کے ہاں اس قسم کے اشعار کی کمی نہیں جنھیں تغزل کے پرستار اور نئی شاعری کے رسیا، دونوں اپنے اپنے طور پر پسند کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے :

دن گزرتا ہے اجالوں کی توقع کرتے

رات زخموں کی مدارات میں کٹ جاتی ہے

دم گھٹ رہا ہے آج اندھیروں کے زہر سے

ہم لوگ جل کے آئے ہیں سورج کے شہر سے

رات پھر غم کے پہاڑوں سے اُتر آئی ہے

پھر زمانے میں چلی دور کے خوابوں کی ہوا

اتنی مدھم نظر آتی ہیں چراغوں کی لویں

میری دُنیا ہے بہت دُور کی دُنیا جیسے

سو بار بھی چاہے تو کوئی موت نہ آئے

اس دور میں شاید یہی جینے کی سزا ہے

ٹوٹی ہوئی اک قبر کے کتبے پہ لکھا تھا

یہ چین کسی کا ہے یہ آرام کسی کا

آج بھی شہر کی سڑکوں کے دھڑکتے دل میں

ریگزاروں کی سلگتی ہوئی تنہائی ہے

اپنے بچھڑے ہوئے سورج کا خیال آتے ہی

سامنے وقت کے تاریک سمندر آئے

کچھ نہیں ان راستوں میں دور تک

کھڑکھڑاتے خشک پتّوں کے سوا

چاہتیں ہیں کہ پگھلتی ہوئی زنجیریں ہیں

زندگی ہے کہ سلگتا ہوا ارمان کوئی

جو زہر ہے، صلیب ہے، خنجر کی پیاس ہے

وہ خواب لے چلا ہوں زمانے کے رو برو

بحثوں کی دھول بھی تھی خیالوں کی بھیڑ بھی

برسوں خود اپنے آپ کو ہم ڈھونڈھتے رہے

وقت کے ساتھ ہمیں روپ بدلنا آیا

ہم کہیں درد، کہیں گیت، کہیں پیار بنے

اب کے بھی درد مند بہاروں نے جا بجا

پھولوں کی تختیوں پہ ترا نام لکھ دیا

تنہائی کی آغوش میں ہیں کتنے بُجھے سے

وہ لوگ کہ جو شمعِ سرِ دار بنے تھے

ان پرت دار اشعار کو پڑھنے کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے زندگی، عصر اور فن کا ایسا توازن جن میں سے کوئی ایک دوسرے پر قربان نہیں کیا گیا ہو، اس عہد کے کتنے شاعروں میں ملتا ہے۔

جامیؔ کی شاعری میں وادی، صحرا، سمندر، چاند، دھول، ساحل، سورج وغیرہ زندگی کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ لفظ کو علامت کی طرح برتنے کا انھیں سلیقہ ہے۔ جامیؔ چونکہ بُنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور زندگی کے ترجمان بھی، اس لیے آج کی بکھری ہوئی  ریزہ ریزہ زیست کی طرح ان کی شاعری میں فکری تنظیم کی جستجو نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے شعروں میں آج کا انسان اپنی تمام تر محرومیوں، انتشار، کرب، اُلجھاؤ اور بے چینی کے ساتھ سانس لیتا ہے۔

سب سے عجیب بات یہ ہے کہ جامیؔ کی شاعری ترقی پسند تحریک کے دورِ شباب میں شروع ہوئی اور بڑی حد تک اس سے متاثر بھی ہوتی رہی، لیکن وہ یک رنگی، نعرے بازی اور نظریاتی تبلیغ سے آلودہ نہیں ہوئی، البتہ اس تحریک نے انھیں زندگی سے پیار کرنا ضرور سکھا دیا۔

پیچیدہ اور نازک جذبے کے اظہار پر قدرت، غزل کے کلاسیکل انداز اور رچاؤ، اپنے زمانے کے بکھراؤ کی عکاسی کرتے ہوئے اس میں شعریت پیدا کرنے کا سلیقہ، شاعری میں اپنی شخصیت، انفرادیت اور مترنم الفاظ کے امتزاج سے ایک مخصوص رنگ پیدا کرنا، جذبے، تجربے اور مشاہدے کے تال میل سے تھر تھراتی ہوئی لہریے دار شعری فضا تخلیق کرنا، غم کے بیان کو نشاط آور بنا دینا کچھ جامیؔ ہی کو آتا ہے۔ خود کہتے ہیں :

’’ تخلیق اور اظہار کی مختلف جہتیں ان گنت چھوٹی بڑی آوازوں کے شور میں اپنی آواز کو ڈھونڈھنے، پہچاننے اور پا لینے کی خواہش کے سوا کچھ اور نہیں۔ ‘‘      ( برگ آوارہ ص ۹)

میں کہتا ہوں یہ محض جامیؔ کا شاعرانہ انکسار ہے ورنہ وہ اپنی آواز کو پا چکے ہیں اور ان کی آواز چھوٹی بڑی آوازوں کی اس بھیڑ میں بہ آسانی پہچانی جا سکتی ہے۔

۱۹۶۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

وزیر آغا کی شاعری

 

پچھلے دنوں پاکستان سے موصولہ اردو مطبوعات میں سے جس کتاب نے سب سے پہلے دامنِ توجّہ کو اپنی جانب کھینچا وہ ہے ’’ چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘۔ یہ ڈاکٹر وزیر آغا کی تا حال معرضِ وجود میں آنے والی شعری تخلیقات کا ضخیم کلّیات ہے۔

مشفق خواجہ نے کہیں کہا ہے کہ وزیر آغا ان لکھنے والوں میں سے ہیں جو اپنے عہد کی شناخت بن جاتے ہیں۔ ان کا زرخیز قلم گزشتہ چالیس برسوں سے کشو رِ ادب میں اپنی تخلیقی توانائی اور خلاقی سے گلکاریوں میں مصروف ہے اور ان کی قلم رو میں اقلیم سخن کے تقریباً تمام ابعاد و جہات شامل ہیں۔ نظم، غزل، منظوم آپ بیتی، تنقید، مکتوبات، انشائیہ، سفر نامہ، تحقیق، ترتیب و تدوین، جریدہ نگاری، فکاہیہ اور متعدد دیگر اصنافِ ادب میں وزیر آغا نے اپنے تخلیقی سفر کے نقوشِ پا مرتسم کیے ہیں۔ چند برس پہلے موصوف سے ایک طویل مصاحبے کے دوران راقم الحروف کے بار بار دریافت کرنے پر بھی وہ کسی ایک صنفِ ادب کو اپنا بنیادی اور اساسی میدان تسلیم کرنے سے گریز کرتے رہے لیکن میں سمجھتا ہوں وہ شاعر پہلے ہیں نقّاد یا کچھ اور بعد میں۔ ہرچند کہ تعداد کے اعتبار سے وزیر آغا کی تنقیدی کتابیں اُن کے شعری مجموعوں سے کم و بیش دوگنی ہیں لیکن ادب کی دنیا میں اکثر دو اور دو پانچ ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے میں اس نتیجے پر وزیر آغا کے شعری کلیات ’’چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘ کے مطالعے کے بعد پہنچا ہوں اور کبھی ان کی نثری تخلیقات کا کلیات شائع ہو تو کوئی اس کی روشنی میں کچھ اور نتیجہ برآمد کرے حالانکہ ہمارے ہاں ابھی نثری کلیات کی روایت ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا کے لفظوں کی یہ چھاگل در اصل وہ کوزہ ہے جس میں ایک دو نہیں سات دریا سموئے ہوئے ہیں یعنی اس کلیات میں شاعر کے سات مجموعہ ہائے کلام ( شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، آدھی صدی کے بعد، غزلیں، گھاس میں تتلیاں اور اک کتھا انوکھی) کی نظمیں اور غزلیں یکجا کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ’’آدھی صدی کے بعد ‘‘ اور ’’ اِک کتھا انوکھی‘‘ طویل نظمیں ہیں اور باقی ماندہ نظموں میں ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب آزاد نظمیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر آغا نئی نظم کے ہراول دستے میں ایک ممتاز مقام کے حامل ہیں اور اُن کی شاعری، خصوصاً نظمیں، کیفیات اور امیجز کی شاعری کے ذیل میں آتی ہیں۔ ان میں سے اکثر نظمیں علاماتی ہیں لیکن وہ ژولیدہ بیانی اور اہمال، جس کے لیے مدتوں سے جدید شاعری کو مطعون کیا جاتا رہا ہے، وزیر آغا کی نظموں میں نہیں ملتے۔ ان کی نظموں میں فکر کی گہرائی بھی ہے اور تخیل کی شادابی بھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا اپنے موضوع پر مضبوط گرفت رکھنے کے ساتھ اسلوب میں ندرت پیدا کرنے کے گُر سے بھی واقف ہیں اور جدّت کے ساتھ شعریت کو آمیز کرنے کے رمز سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کی نظموں میں انسانی زندگی اور کائنات کا تصادم و مصالحت نیز تہذیبی ارتقا کے تسلسل کا گہرا احساس ملتا ہے۔ پیکر تراشی پر جیسی قدرت وزیر آغا کو حاصل ہے ان کے بہت سے ہمعصر نظم گو اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سیال و جامد، پیچ در پیچ پیکروں کا ایک لا متناہی سلسلہ وزیر آغا کی نظموں میں ٹھاٹھیں مارتا ہے اکثر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نظم کی پتلی سی ڈور اتنے بہت سے پیکروں کا بوجھ سہار نہ سکے گی لیکن اس کی بُنت میں شاعر کے ادراک کی پختگی نے وہ تکنیک اور ایسے رمز پوشیدہ رکھے ہیں کہ کم و بیش ہر نظم کئی کئی پیکروں کا مجموعہ لگتی ہے۔ کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں :

سلگتی شب کا عجب سماں تھا

فلک تھا پیتل کا تھال جس میں

چمکتاکانسی کا چندرماں تھا

دِیے کی مانند ضو فشاں تھا

درخت چپ تھے کہ جس طرح پا بجولاں مجرم

(ہوا کے جھونکے نے پنکھ کھولے )

فلک کی سیہ، گہری، سوکھی ہوئی باؤلی سے

کروڑوں ستارے

شعاعوں کی بے سمت، بے لفظ گونگی زباں میں

لرزتے لبوں سے،

’’ نہ ہونے کے ‘‘ منکر تھے

( نشر گاہ)

مجھے سورج کے رتھ سے آتشیں تیروں کا آنا

اور چھاگل سے ہمک کر آب کا گرنا

کسی بچے کا رونا اور پانی مانگنا بھولا نہیں تھا، میں کہاں جاتا

( ہوا کہتی رہی آؤ)

اندھیرے کے کشکول میں کس نے سونے کا دینار پھینکا

کہ کلیاں شعاعوں کی کھِلنے لگیں

سارے جنگل کے پتّے زمرّد بنے، ٹہنیاں پیلے سونے کی چھڑیاں ہوئیں

جھاڑیوں میں دہکنے لگے سرخ پھولوں کے فانوس

( دست بستہ کھڑا ہوں )

اور میں

اپنے بوجھل پپوٹوں کو میچے

کسی نرم جھونکے کی آہٹ سنوں

تنگ ہوتے ہوئے دودھیا بازوؤں کے

ملائم سے حلقے میں سونے لگوں

کاش سونے لگوں

(ذات کے روگ میں )

سارے شہر میں آگ لگی

کاغذ کے ملبوس جلے،

کالے، ننگے جسموں سے بازار بھرے

آوازوں کے جھکّڑ آئے بادل چیخا

آنگن کے بے داغ بدن میں جلی ہوئی ہڈیوں کے اولے

پتھر بن کر برس پڑے

(دیواریں )

نور کی برکھا گھنے چھتنار کی

چھلنی سے چھن کر آ گئی

میرے اوپر روشنی کی پتیاں بکھرا گئی

میرے سارے جسم کو سہلا گئی

( خدشہ)

یقیناً آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ ان نظموں میں اردو کی عام نظمیہ شاعری کی مانند محض بصری بیکروں کی بھرمار نہیں ہے بلکہ شاعر نے اپنے تمام حواسِ خمسہ حتیٰ کہ چھٹی حِس کو بھی بیدار رکھتے ہوئے شاعری کی ہے، اسی لیے اُس کے علاماتی پیکروں میں لامسہ، شامّہ، ذائقہ، سامعہ سبھی کی مساویانہ کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلا شبہ وزیر آغا کے ہاں نئی نظم  اچھوتی رفعتوں پر کمندیں ڈالتی نظر آتی ہے۔ اپنی نظموں میں وزیر آغا نے جتنی نئی علامتیں اور تازہ استعارے خلق کیے ہیں اور تخلیقی اظہار میں رنگا رنگی پیدا کی ہے، خارجی زندگی کے موجود اور معلوم مظاہر کو داخل کی بھیدوں بھری، اجنبی اور انجانی دنیا سے ہم رشتہ کیا ہے وہ بجائے خود ایک اہم تخلیقی تجربہ ہے۔ ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر وزیر آغا کی اکثر نظموں پر یاسیت کا غلبہ ہے لیکن اس محزونی میں بھی ویسا ہی لطف ہے جیسا کہ میرؔ کی شاعری میں محسوس ہوتا ہے، موصوف کی نظموں میں ’’دکھ‘‘، ’’ سناٹا‘‘، ’’ باز گشت‘‘، ’’ کوہِ ندا‘‘، ’’ ہوا کہتی رہی آؤ‘‘، ’’ ڈولتی ساعت‘‘، ’’ عفریت‘‘، نروان‘‘، ’’ ڈری ہوئی آواز‘‘، ’’ دُکھ میلے آکاش کا‘‘، ’’ اک سیال سونے کا ساگر‘‘، ’’دھوپ‘‘، ’’ٹین کا ڈبّہ‘‘، ’’ چرنوبل‘‘، ’’ بجھی راکھ کا رنگ‘‘ وغیرہ ایسی صفات کی حامل ہیں جو ہر دَور میں بڑی شاعری سے منسوب کی جاتی ہیں۔ اعتدال اور توازن ان نظموں کی ایک اور بڑی خصوصیت ہے۔ لطیف جذبات کی تازگی، آسودہ فکر کی حرارت اور ایک خود آگاہ شخصیت کی بے تکلف سادگی، وزیر آغا کی نظموں کو منفرد ذائقے کی حامل بناتی ہے۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ شاعر جو نقاد بھی ہیں، جب تخلیقِ شعر پر آمادہ ہوتے ہیں تو ان کی نگارشات میں ایک رُکی رُکی، تھمی تھمی سی ہکلاہٹ سے مماثل کیفیت اظہار پیدا ہو جاتی ہے یعنی ان کا تنقیدی ادراک کسی بڑی تخلیقی جست لگانے سے باز رکھتا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ کم از کم نظموں کی حد تک یہ کلّیہ وزیر آغا پر صادق نہیں آتا اور اسی لیے میں انھیں اساساً شاعر پہلے اور نقاد بعد میں تسلیم کرتا ہوں۔ کبھی ایسی رکاوٹ یا تھماؤ کا موقع آتا بھی ہے تو وزیر آغا اُسے بھی اپنی نظم کے لیے کار آمد بنا لیتے ہیں۔ غالبؔ کے بقول رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور_____  وزیر آغا روانی کی کمی کو نظم کی گہرائی اور موضوع کی وسعت کو خیال انگیزی میں ڈھال دیتے ہیں یعنی تخلیقی سوتے راہ نہ پا کر جب چڑھتے ہیں تو ان کی تھاہ پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس خیال کی تائید میں وزیر آغا کی طویل نظم’’ آدھی صدی کے بعد‘‘ اور نسبتاً کم طویل نظم ’’اِک کتھا انوکھی‘‘ پیش کی جا سکتی ہے۔ ’’ آدھی صدی کے بعد‘‘ میرے نزدیک اردو کی ایسی معدودے چند طویل نظموں میں سے ہے جنھیں عالمی ادب کے معیار پر پرکھا جا سکتا ہے۔ اس منظوم آپ بیتی میں شاعر کے خارجی اور باطنی ارتقا اور ذات و کائنات کے سفر کا بیک وقت مشاہدہ و مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس نظم کی سوچتی ہوئی روانی اور گمبھیر سادگی بلا شبہ بے نظیر ہے۔ کم و بیش انھیں اوصاف کی حامل ’’ اک کتھا انوکھی‘‘ بھی ہے۔ اس کا ایک اقتباس آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

سونے والے باہر آ

اور امرت رس سے بھرا ہوا مہتاب کا کاسہ

سورج کے ہاتھوں سے لے کر پی

کہ تیری آنکھ سے پھر کرنوں کا سونا

چشمہ بن کر پھُوٹ بہے

’’ چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘ میں اتنی بہت سی اور ایسی اچھی اچھی نظمیں بیک وقت مطالعے میں آئیں کہ ان پر تا دیر گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن میں تقریر کو مضمون نہیں بنانا چاہتا اس لیے بطور گریز وزیر آغا کی غزلوں کے کچھ شعر سنیے :

۱۔        اس کی آواز میں شامل تھے خد و خال اس کے

وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پرو بال اس کے

…………

۲۔      آنسو، ستارے، اوس کے دانے، سفید پھول

سب میرے غم گسار سرِ شام آئیں گے

…………

۳۔     رات بھیگے گی تو ہر تارا چُبھن بن جائے گا

رفتہ رفتہ خوں میں تر شب کی قبا ہو جائے گی

…………

۴۔     میں کس زمین میں دفناؤں اپنی آنکھوں کو

کہاں یہ دولتِ بیدار لے کے جاؤں میں

…………

۵۔     آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت

ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے

…………

۶۔      سوچا نہ تھا کہ ابرِ سیہ پوش سے کبھی

کوندے ترے بدن کے مرے نام آئیں گے

…………

۷۔     میرے دُکھی سوال کا اس شام تیرے پاس

بھیگی ہوئی نظر کے سوا کیا جواب تھا

…………

۸۔     تو نا سمجھ تھا کہ دہلیز تک چلا آیا

زمانہ اب تجھے بازار میں بلاتا ہے

…………

۹۔      جانے کس کھونٹ تجھ کو لے جائیں

شاہزادے ! نقوشِ پا سے ڈر

…………

۱۰۔     بانسری بول رہی تھی کہ اِدھر آ جاؤ

اُس کی آواز میں آواز ملا دی ہم نے

…………

۱۱۔     یہ میری سوچتی آنکھیں کہ جن میں

گزرتے ہی نہیں گزرے زمانے

…………

’’ چہک اٹھی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں شامل تقریباً سو غزلوں سے یہ گیارہ اشعار بآسانی چنے گئے ہیں لیکن ان میں وہ قوت اور ندرت ہے کہ اردو غزل کے اچھے اشعار کا سخت انتخاب کیا جائے تو ان میں بلا تکلف شامل کیے جا سکتے ہیں۔ وزیر آغا کی فکر کا تازہ پن ملاحظہ ہو کہ آواز کو تجسیم عطا کر دی اور پر و بال کو ہنسنا سکھا دیا(ش۱) پھر آنکھوں کو دولت بیدار کہنا (ش ۴) ابرِ سیہ پوش سے محبوب کے بدن کا شاعر کی خاطر کوندنا (ش ۶) رات بھیگنے کے ساتھ تاروں کا چبھن بن جانا (ش ۳) اور سوچتی ہوئی آنکھوں میں گزرے ہوئے زمانوں کا تھم جانا (ش ۱۱) اگر وزیر آغا کے جذبے اور فکر، شدّتِ احساس اور نُدرتِ اظہار کی غمازی کرتے ہیں تو شعر ۲، ۵، ۷، ۸، ۹  اور ۱۰ کی ربودگی، گھلاوٹ اور خود رفتگی، کلاسیکی غزل کے شہ پاروں کی یاد تازہ کرتی ہے لیکن کہیں کسی قدیم شعر کی چھوٹ پڑتی نظر نہیں آتی۔ یہ شعر سرتا سر آمد کے نہیں ہیں۔ فکر اور وسیع مطالعے کا ان کی تخلیق میں بڑا ہاتھ ہے پھر بھی اس پُرکاری میں سادگی پیدا کرنا وزیر آغا ہی کا کام ہے۔ ان میں خیال انگیزی اور تاثیر، معنی آفرینی اور کیفیت سازی بیک وقت محسوس کی جا سکتی ہے۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک نقاد دوست تشریف لائے خیر سے اہلِ زبان بھی ہیں۔ میں نے وزیر آغا کا شعر نمبر ۱  سُنا کر اُنھیں خوش کرنا چاہا تو فرمایا، یہ مصرع ثانی میں ’ تا، تھا، تو‘ آپ کے ذوقِ جمال پر گراں نہیں گزرتا؟ جواباً عرض کیا کہ ’’ چہک اُٹھی لفظوں کی چھاگل ‘‘ میں ایسے کچھ اور بھی مقاماتِ آہ و فغاں ہوسکتے ہیں، آخر وزیر آغا سرگودھا میں بیٹھ کر غزل کہہ رہے ہیں اور تازہ تازہ شعر نکالتے ہیں۔ اہلِ زباں ہوتے تو بہتوں کی طرح وہ بھی قدماء کی جگالی کرتے !

٭٭٭

 

کچھ ناطقؔ مالوی کے بارے میں

 

سرونج کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار میں قبل ازیں خالد محمود کے مجموعۂ کلام ’’سمندر آشنا‘‘ اور شاہد میرؔ کے شعری مجموعے ’ موسم زرد گلابوں کا‘ کے پیش لفظوں میں تفصیل کے ساتھ کر چکا ہوں، اسے میرے قصباتی مزاج کی افتاد کہیے یا سادہ لوحی سے تعبیر کیجیے، چھوٹے شہروں کی سادگی خلوص اور محبت مجھے میٹرو پولیٹن شہروں کی گہما گہمی اور چمک دمک کے مقابلے میں زیادہ پسند آتی ہے، میری پہلی آمد پر ہی متشرع پٹھانوں کی اس البیلی بستی نے مجھے موہ لیا تھا ’’جہاں بڑے دلچسپ قسم کے پٹھان اور زندہ دل عالم پائے جاتے ہیں، جہاں کے مشاعروں اور شعری نشستوں میں وہ بزرگ جنہیں نئی شاعری پر چیں بجبیں ہونا چاہیے، خالصتاً جدید رنگِ سخن پر بڑھ چڑھ کر داد سے نوازتے ہیں جہاں دو ایک ایسے بزرگ بھی ملے جوساٹھ کے پیٹھے میں  تھے، عربی اور فارسی کے ماہر تھے لیکن جدید شعر کہنے کی شعوری کاوش کرتے تھے، جہاں ادبی محفلوں میں واقعی پہلوانی کرنے والے پٹھان، شاعروں کے ساتھ رات رات بھر بیٹھ کر شعر سنتے اور سمجھتے دکھائی دیے اور تو اور دادا قسم کے لوگ فنکاروں کو زیادہ معاوضہ دلانے کے لیے اہلِ اقتدار کو گھڑکتے ہوئے ملے۔ ‘‘    ( پیش لفظ ’’موسم زرد گلابوں کا‘‘ ( شاہد میرؔ)ص ۵)

حاضرین کرام! دوسری بار سرونج آنے کے لیے ہمیں کچھ زیادہ پاپڑ بیلنے پڑے۔ بے تکلف احباب نے آپ کے ساتھ ہماری محبت کا سراغ پا لیاتھا چنانچہ انھوں نے باقاعدہ ہمارا استحصال کیا اور شرط عائد کی کہ سرونج میں داخلے کے لیے بطور پروانۂ راہداری ہمارے پاس ’’قصیدہ در شانِ ضیاء اسدی‘‘ ہونا چاہیے، جس طمطراق سے ’ جشن در جشنِ ضیاء‘ کی تیاریاں چل رہی تھیں اسی طنطنے کے ساتھ مدحیہ قصیدے کے سارے لوازمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے اپنی زندگی کا پہلا اور غالباً آخری قصیدہ قلمبند کیا جو’’ مدحیہ کم مزاحیہ‘‘ زیادہ تھا۔ اس جشن میں ہمارے ساتھ سینگ کٹا کر سرونجی بچھڑوں میں شامل ہونے کے لیے سیفیہ کالج بھوپال کے بھاری بھرکم پرنسپل عبدالشکور خاں اور حمیدیہ کالج کے صدر شعبۂ انگریزی پروفیسر حامد حسین اور عشرتؔ قادری جیسے کئی معتبر شاعر تشریف لائے تھے۔ تین دن تک ’ جشن در حشنِ ضیاء‘ کی گہما گہمی رہی۔ کیسۂ زر کی پیشکش، بزمِ مقاصدہ و مذاکرہ، موازنۂ میرؔ و غالبؔ و ضیاء، گلے میں نوٹوں کے ہار سمیت ممدوح کا شہر میں جلوس، فرازِ کوہ پر موصوف کی مسیحِ خوش نفس اور دیگر معاصرین سے ادبی معرکہ آرائیاں اور مشاعرہ۔ باور کیجیے یہ یادیں آج بھی ہمارے حافظے کو معطر و منور رکھتی ہیں۔ غالباً نویں جماعت میں ورڈ سورتھ کی ایک نظم ’ڈیفوڈلس، پڑھی تھی۔ شاعر جب بھی اداس ہوتا ہے حافظے میں محفوظ پھولوں سے لدی ایک وادی کا منظر یاد آ کر اُس کی پریشانی کم کر دیتا ہے۔ خالدمحمودسے پوچھ لیں، اکثر اُلجھنوں کو دُور کرنے کے لیے میں اُن کے ہاں پہنچا ہوں۔ ’جشن در جشنِ ضیاء‘ کی تصویریں دیکھی ہیں، اس کی جزئیات کا بیان سُن کر قہقہے لگائے ہیں اور ذہن سے الجھنوں کا جالا صاف کر لیا ہے۔ بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرنے دیجیے کہ جس قصیدے کا ذکر ہوا وہ ردیف میں ذرا سی تبدیلی اور چند اشعار میں ترمیم کے ساتھ ایک نیم مزاحیہ کتاب ’’عبد اللطیف اعظمی، حیات و کارنامے ‘‘ میں شامل ہے۔ یقین ہے اس ’’ تصرف زیبا‘‘ کے لیے ضیاء اسدی صاحب اپنے شوخ و شنگ ہمعصر، خالد محمود سے مناسب باز پرس کر لیں گے ! ضیاء صاحب ویسے بھی فرشتہ صفت انسان ہیں لیکن شاعری جیسا ایک آدھ گناہ ان سے سرزد بھی ہوا ہو تو انشاء اللہ بخش دیے جائیں گے کیونکہ ان کے وسیلے سے بہت سے لوگ خوش ہوتے رہتے ہیں۔

ایک بار بیگم خالد کی زبانی کارنامہ جات سرونج کی بھنک ہماری نصف بہتر کے کانوں میں بھی پڑی۔ فرمایا جیسے شہر میں اونٹ بدنام ہوتا ہے ویسے ہی سرونج میں آپ ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ اس بار ہم سرونج میں ایک نسبتاً سنجیدہ تر مقصد کے لیے حاضر ہوئے ہیں اور سرونج کے ایک البیلے شاعر کو بعد از مرگ ان کے مجموعۂ کلام کی اشاعت کے موقع پر خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں۔

یوں تو ناطقؔ مالوی مرحوم کو ادبی دنیا میں زندہ رکھنے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ ان کی آل میں شاہد میرؔجیسے قابلِ ذکر شاعر موجود ہیں لیکن خود ناطقؔ مالوی بھی اپنے عہد کے معروف غزل گو تھے۔ میں اپنے زمانۂ طالب علمی میں ان کی تخلیقات ’’ نگار‘‘، ’’ ہمایوں ‘‘ اور ’’ پیمانہ‘‘ جیسے وقیع ادبی جریدوں میں پڑھتا رہا ہوں، افسوس کہ ان سے شرف ملاقات کبھی حاصل نہ ہوا لیکن سنتا آیا ہوں کہ مرحوم مشاعروں میں شرکت فرماتے تھے اور ان کا کلام مقبول خاص و عام تھا۔ اب جو مدھیہ پردیش اُردو اکادمی نے مرحوم کا مجموعۂ کلام ’’ سخنِ معتبر‘‘ شائع کیا تو ان کی تخلیقات کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور احساس ہوا کہ ایک خاص علاقے اور خاص دَور کا اچھا خاصا شاعر کس طرح زمانے اور تنقید کی بے اعتنائی کا شکار ہو کر گوشۂ گمنامی میں جا پڑا ہے۔ ہرچند کہ چند برس قبل برادرم خالد محمود کا ایک مضمون ناطقؔ مالوی سے متعلق کسی پرچے میں شائع ہوا تھا لیکن مقامِ شکر ہے کہ خالد محمود نقاد نہیں ہیں۔

’’ سخن معتبر‘‘ کے ابتدائیہ کے سر نامے کے طور پر ناطقؔ مالوی کا یہ قطع شائع کیا گیا ہے :

کچھ لوگ خوش آواز ہوا کرتے ہیں

کچھ کہنے کے انداز ہوا کرتے ہیں

یہ وصف نہیں جن میں، وہ ناطقؔ کی طرح

اک نغمۂ بے ساز ہوا کرتے ہیں

اس نوع کے قطعے یا اشعار کو مجموعۂ کلام کے مجموعی مزاج سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اگر اس قطعے کا لہجہ طنزیہ ہوتا تو بات سمجھ میں آتی تھی ورنہ پھر زیر بحث مجموعہ خود شاعر نے مرتب کیا ہوتا تب بھی سمجھا جا سکتا تھا کہ قطعہ از راہِ انکسار، شامِل اشاعت ہے۔ موجودہ صورت میں کہ یہ شعری تصنیف شاعر کی وفات کے بعد کسی اور نے مرتب کی ہے، بطور سر نامہ اس قطعہ کو منتخب کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ خود مرتب نے سوانحی خاکے میں یہ اطلاع فراہم کی ہے کہ ناطقؔ کو موسیقی سے خاص رغبت تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ خوش آواز تھے حالانکہ مشاعروں میں غزل تحت اللفظ پڑھتے تھے ( شاہدؔ میر کے لیے لمحۂ فکر کہ ان کا عمل مشاعرے میں اس کے برعکس ہوتا ہے ) رہ گئی بات ناطقؔ مالوی کے کہنے کے انداز کی، سو دیکھیے وہ کس دھڑلے سے اور کس آن بان سے کہتے تھے۔ فرماتے ہیں :

در گزر مدِّ نظر ہے چرخِ بے بنیاد کی

ورنہ صرف اک آہ کافی تھی دلِ ناشاد کی

یہ وہی مقام ہے جہاں مومنؔ نے بے بس ہو کر کہا تھا:

نالہ اک دم میں اڑا ڈالے دھواں

چرخ کیا اور چرخ کی بنیاد کیا

کہنے کا کچھ ایسا ہی انوکھا اور تیکھا انداز ناطق مالوی کے ان اشعار میں بھی نظر آتا ہے :

میں کہ نہ تھا سورج کی کرن

اوسوں پیاس بجھاتا کیا

………

نہیں معلوم خوش فہمیاں کس روز جائیں گی

ابھی تک لوگ میخانوں کو میخانہ سمجھتے ہیں

………

مسکراتے ہوئے وہ جام بڑھانا اُن کا

کوئی انکار کا پہلو ہی نہ تھا، کیا کرتا

………

پا کے مزاجِ یار کچھ اپنی طرف جھکا ہوا

میں نے کہا زہے نصیب، دل نے کہا بُرا ہوا

………

آج کچھ اہلِ غرض جس کو وفا کہتے ہیں

آپ اس پستیِ کردار کو کیا کہتے ہیں

………

دل میں تو ہے چراغِ محبت کی روشنی

داغِ سیاہ لوحِ جبیں پر نہیں تو کیا

اور ذرا ملاحظہ فرمائیے کس پیارے انداز، لطیف طنز اور نادر اسلوب کے ساتھ کہتے ہیں :

حرم کے پاکیزہ ذوق لوگو، تمھاری باتوں کا کیا ٹھکانہ

شباب کو تم جنوں بتا دو، شراب کو تم حرام کر دو

یوں پاکیزہ ذوقی کو لہجے کی شگفتگی کے ساتھ بد ذوقی کا مترادف بنا دینا، کہنے کے انداز کا ہی کرشمہ ہے جس پر ناطقؔ مالوی کو قدرت حاصل ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ناطقؔ نے صرف لہجے کی کاٹ اور کہنے کے انداز پرہی قناعت کر لی ہو۔ وہ ایک سچے شاعر کی حیثیت سے اس رمز سے بخوبی واقف تھے کہ یہ شاعری کا ایک بڑا وصف تو ہے، مکمل شاعری نہیں اور نوح ناروی کی طرح صرف کہنے کے انداز پر اپنی شاعری کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ ناطقؔ کے متعدد اشعار میں جذبے کی حرارت اور فکر کی تازگی نے الگ الگ رنگوں میں آمیز ہو کر ایسے گل بوٹے کھلائے ہیں جو اہلِ ذوق کے لیے نکہت و رنگ کی نئی دنیا کے دروازے کھولتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں چند اشعار:

نہ پوچھو میں ہلاکِ کاوش بیداد ہوں کس کا

بہت ممکن ہے لب پر آپ ہی کا نام آ جائے

………

چشمِ ما روشن ابھی باقی ہیں کچھ ویرانیاں

کون کہتا ہے ہمارا گھر بیاباں ہو گیا

………

چل پھر کے دن تو کاٹ دیا جس طرح بنا

رات آئی خیریت سے وہی ہائے ہائے پھر

………

دیکھ لیں احباب کی غم خواریاں

وقت پر سب منہ چھُپا کر رہ گئے

………

ساری دنیا جلوہ گر ہے جلوۂ صد رنگ ہے

میرے مالک میرے گھر میں روشنی کچھ بھی نہیں

بڑی بات یہ ہے کہ ناطقؔ مالوی کے کلام کا مجموعی رنگ و آہنگ اپنے زمانے کے بیشتر غزل گو شعراء کی مانند سر تا سر انفعالیت اور یاسیت زدہ نہیں ہے۔ ان کی غزلوں میں جگہ بہ جگہ بلند حوصلگی، علوئے ہمت اور جہد پیہم کے جذبات سے مملو اشعار آبدار موتیوں کی طرح جگمگاتے ہیں۔ مثلاً:

اس آرزو میں کہ مجھ سے درسِ حیات لے کوئی آنے والا

اک آئینہ ہوں کہ راستے میں پڑا ہوا جھِلملا رہا ہوں

………

دل تو بیشک کچھ بہل جائے گا لیکن ہم نوا

کون شرمندہ ہو دو دن کی بہاروں کے لیے

غیر پھر غیر ہیں نظروں سے اُتر جائیں گے

تم سلامت رہو یہ دن بھی گزر جائیں گے

………

قفس میں چاہیں گے جس روز کھینچ لائیں گے

ابھی بہاروں پہ اتنا تو زور چلتا ہے

کتاب میں شامل شاعر کا سوانحی خاکہ کہتا ہے ’’ پیشہ :امینِ تحصیل۔ آٹھ سال کی عمر سے ملازمت کی۔ ملازمت سے جلد علاحدہ ہو گئے اور ذاتی کار و بار کیے جن میں ناکام ہو کر پرائیویٹ طور پر ایک دکان پر منشی گیری کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ‘‘ بالفاظِ دیگر ناطق مالوی کی زندگی خوش نہیں گزری۔ اس اعتبار سے تو شاعری میں انھیں فانیؔ کا مقلد ہونا اور اپنے کلام کے شامیانے تلے رونا دھونا چاہیے تھا لیکن اندر کی آنچ نے انھیں بُجھنے نہیں دیا، حُسن و خیر پر مکمل اعتماد نے انھیں قنوطی بننے سے بچا لیا اور حسرتؔ موہانی کی طرح ان کی غزل کے خمیر میں نشاطیہ رنگ و ذائقہ سرایت کر گیا۔ ذرا دیکھیے :

دن کو اک شعلۂ آتشیں ہی ملا

رات نے گود بھر کے ستارے لیے

………

چشم فلک سے یا رب اپنی اماں میں رکھنا

پھولوں میں تُل رہی ہے کیا شاخِ آشیانہ

………

نشیمن میں کہاں کا شاخِ سُنبل پر بسیرا تھا

قفس کی تیلیوں میں رہ کے دل ناشادماں کیوں ہو

………

بادہ نوشی کر رہے ہیں بُت پرستی کر چکے

چار دن کی زندگی میں اور کیا کیا کیجیے

ناطقؔ مالوی کے مجموعے میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں فکر کی مدھم مدھم جوت سہج سہج جلتی ہے۔ کم عیار غزل گویوں میں سے کوئی ان کی طرح اس سوچ سمندر میں غوطے لگاتا تو اس کا لہجہ پیامیہ بلکہ پیغمبرانہ ہو جاتا لیکن ناطق خود کلامی اورزیادہ سے زیادہ ہم کلامی کی حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ ذرا سنیے :

طلب اس کی زہے طاعت، تلاش اس کی زہے ہمت

مگر کچھ بے غرض رہ کر، مگر کچھ بے خبر ہو کر

………

ناطقؔ کسی کے گھر میں بہار آئے یا خزاں

ہم کو تو اپنے ہی در و دیوار دیکھنا

………

مری رودادِ غم کس شوق سے سُنتی رہی دنیا

جہاں تک اُن کا ذکر آیا، جہاں تک اُن کا نام آیا

………

نہ کاملِ عشق، کوہکن تھا، نہ واقفِ رازِ عشق، مجنوں

یہ سنگریزے تو دھوپ پا کر دمک اٹھے ہیں چمک گئے ہیں

………

ہوا دیتے رہے ہو جس سے تم مہر و محبت کی

اسی دامن پہ کچھ خونِ شہیداں میں نے دیکھا ہے

………

میرا جنونِ عشق تو رسوائے خلق ہے

لیکن حضور خود بھی جہاں تھے وہاں نہیں

………

وہی ایک صورت، وہی ایک جلوہ

فراز یقیں سے فراز گماں تک

اصطلاحوں میں حصار بند ناقدین ممکن ہے انھیں متصوفانہ اشعار قرار دیں لیکن میں سمجھتا ہوں ناطقؔ مالوی اس ڈھب پر نہیں گئے البتہ ان اشعار کو ان کی تھمی ہوئی گہری سوچ کا زائیدہ کہا جا سکتا ہے۔

’’ سخنِ معتبر‘‘ میں شامل موضوعاتی اور رومانی نظمیں شاعر کی چاق و چوبند فطرت اور قدرتِ کلام کی غماز ہیں لیکن پیش نظر کتاب کی روشنی میں ناطقؔ مالوی بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر ٹھہرتے ہیں۔ معمولی سی کاوش کی جائے تو ’’ سخنِ معتبر‘‘ سے ایسے اشعار نکالے جا سکتے ہیں جن میں کہیں زبان و بیان کا جھول ہے تو کہیں شُتر گربہ، تقابل ردیفین، شکستِ ناروا اور ایطا جیسے عیوب۔ لیکن یہاں نہ انھیں گنوانے کا موقع ہے نہ ضرورت یہ بات میں نے اُن نو واردانِ ادب کی عبرت کے کے لیے کہی ہے جنھیں شاعری کا نیا نیا شوق ہوا ہے۔ ناطقؔ مالوی نے اصلاح کسی سے نہیں لی اپنے ذوقِ سلیم کو ہی رہنما سمجھا، نتیجے میں ایسی فنّی خامیوں سے دو چار ہونا لازمی تھا۔ شاعر کو کسی اچھے استاد سے اصلاح لینی چاہیے ورنہ شاعری کے ساتھ خود ہی عروض و بیان کی کم از کم مبادیات سے واقفیت حاصل کر لینی چاہیے۔ ہر چند کہ عروض داں نفس شعر کی بہ نسبت اس کے عیوب پر زیادہ توجہ صرف کرتے ہیں لیکن اپنی اصابت رائے کو محفوظ رکھتے ہوئے میرا عقیدہ ہے کہ جان دار شعر کا عیب گوارا کیا جا سکتا ہے۔ بے جان شعر ہزار بے عیب ہو تب بھی بے کار ہے۔ ہاں اگر شعر میں کوئی فنی عیب بھی نہ ہو اور وہ جاندار بھی ہو تو سونے پر سہاگے جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور بلا شبہ ’’ سخن معتبر‘‘ میں کثیر تعداد ایسے جاندار اشعار کی ہے جواس بات کے ضامن ہیں کہ اگر ناطقؔ مالوی کا تمام اچھا کلام منظر عام پر آ جائے تو اُردو ادب کا کوئی بھی مؤرخ انھیں آسانی سے فراموش نہ کر سکے گا۔

اس موقع پر لوگوں کی تھوڑی سی ناراضگی کا خدشہ بھی مول لینا پڑے تو ہرج نہیں۔ ایک بات ضرور عرض کروں گا، شایداس کا مجھے حق بھی پہنچتا ہے۔ ادبی کوائف پر نگاہ رکھنے والے بخوبی واقف ہیں کہ اس خاکسار نے اپنے مجموعہ ہائے کلام سے پیشتر اپنے استادشادؔ عارفی کے مجموعے مرتب کیے اور انھیں شائع بھی کیا وہ بھی ان حالات میں کہ شادؔ عارفی کی بیاضیں ان کی وفات کے بعد موصوف کے مقامی دوستوں نے خرد برد کر دیں اور یہ سارا کلام مجھے رامپور سے سیکڑوں میل دُور رہ کر چالیس برسوں پر پھیلے رسالوں کی فائلوں سے یکجا کرنا پڑا۔ ناطقؔ مالوی نے ۴۷ برس کی عمر پائی، محتاط اندازے کے مطابق موصوف نے حفیظؔ جالندھری کی طرح کم و بیش نصف صدی تشکیل و تکمیلِ فن میں بسر کی

تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے

نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں

ناطقؔ نے ان پچاس برسوں میں بڑی تعداد میں غزلیں، نظمیں، قطعات، رباعیات، تضمین اور گیت وغیرہ تخلیق کیے لیکن ان کا دیوانِ غزلیات تاحال غیر مطبوعہ اور گمشدہ ہے، نظموں کا مجموعہ غیر مطبوعہ ہے۔ بہاریؔ کی ’’ ست سئی‘‘کا منظوم ترجمہ بھی غیر مطبوعہ اور گمشدہ ہے۔ ان تمام چیزوں کو سلیقے سے ترتیب دے کر شائع کرنا چاہیے۔ اسے میں حالات کی ستم ظریفی کہوں یاسرونج والوں کی بے رُخی۔ میں چونکہ اس علاقے کی ادب نوازی کا معترف ہوں اس لیے بھی یہ شکایت زیادہ شدید ہے اور اس میں رنج کا پہلو یو ں بھی نکلتا ہے کہ ناطق مرحوم کے اعزّا میں شاہدؔ میر جیسے پڑھے لکھے با استعداد اور با صلاحیت شاعر موجود ہیں تو ان کے تلامذہ میں دانشؔ مالوی اور اسماعیلؔ ذبیح جیسے با علم افراد شامل ہیں جن کے ہوتے کلامِ ناطقؔ کی ترتیب و اشاعت سے اس بے توجہی کا راز سمجھ میں نہیں آتا۔

سرونج کے بزرگو، دوستو اور نو جوانو!

یہ نہ سمجھیے کہ ’’ سخن معتبر‘‘ کے مرتب نے جو چند غزلیں اور نظمیں کسی طرح مرتب کر دی ہیں اور مدھیہ پردیش اُردو اکادمی نے انھیں رواروی میں سستے کاغذ پر چھاپ دیا ہے تو ناطقؔ مالوی کے تئیں آپ کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ تو در حقیقت قرض کی پہلی قسط چکائی گئی ہے۔

٭٭٭

 

رفعت سروش کی غزل

 

مشاہدہ کہتا ہے کہ شاعر فلموں میں گیا نہیں کہ بازاری ہوا، ریڈیو سے متعلق ہوتے ہی مقصدیت کا شکار ہو جاتا ہے ہے اور دانش گاہوں کی ملازمت اسے تخلیق کار سے نقاد بنا دیتی ہے۔ مثالیں درکار ہوں تو فلموں کے راہی معصوم رضا، ریڈیو کے سلام مچھلی شہری اور یونیورسٹی کے خلیل الرحمان اعظمی کو دیکھ لیجیے۔ یہ نام محض نمائندگی کے طور پر پیش کیے گئے ورنہ ان تینوں میدانوں سے ایسے درجنوں نام درج کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ ہر مسلّمہ کچھ مستثنیات بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ فلموں میں مجروحؔ، یونیورسٹی میں شہر یارؔ اور ریڈیو میں رفعت سروشؔ اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔

خیر سے میری عمر پچاس سال سے اوپر ہے اور میں رفعت سروش کی چیزیں لڑکپن سے پڑھتا آیا ہوں یعنی بلا مبالغہ وہ پچھلے پینتیس چالیس برسوں سے شعر کہہ رہے ہیں اور ان کی شاعری کم و بیش نصف صدی کا قصّہ ہے۔ انھوں نے ادبی دنیا میں اس وقت قدم رکھا جب وہاں ترقی پسندوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ رفعت سروشؔ  بھی ترقی پسندی کی شاہراہ پر اس تیزی سے گامزن ہوئے کہ ماسکو تک پہنچے اور سویٹ لینڈ نہرو ایوارڈ حاصل کیا۔ ان کی نظموں میں اپنے وقت کی اس سب سے بڑی ادبی تحریک کے نقوش اس التزام کے ساتھ مرتسم ہیں کہ ان کے مطالعے سے تحریک کے تمام نشیب و فراز اجاگر ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ نظمیں نیاز حیدر کی وقتی نظموں سے مختلف ہیں اور حالات کی تبدیلی کے بعد بھی اپنی ادبی حیثیت سے محروم نہیں ہوئیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ رفعت سروشؔ نے ہنگامی واقعات اور وقتی موضوعات پر کم سے کم کہا اور اپنی ترقی پسندانہ نظموں میں بھی عصری حسّیت اور فنی رچاؤ پر زیادہ اصرار کیا۔ انھوں نے کئی کامیابOPERAS بھی لکھے ( جو اسٹیج پر خاصے مقبول ہوئے ) اور مضامین بھی قلم بند کیے لیکن ان چیزوں کا تفصیلی جائزہ اس مضمون کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔

پیشہ ور قسم کے نقادوں کا کہنا ہے کہ غزل کی زمین ہی کچھ اتنی نم ہے کہ اس میں پڑنے والے ہر رجحان اور ہر تحریک کا بیج اُگ آتا ہے۔ مثال پیش کی جاتی ہے جذبیؔ اور مجازؔ کی کہ ان لوگوں کی نظمیں تو تحریک کے زیرِ اثر نعرہ بازی پر اتر آئیں لیکن غزل نے اپنا مزاج نہیں بدلا۔ میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرے سامنے حالیؔ بھی ہیں جن کی غزل اصلاحی مقاصد سے بوجھل ہو کر کوری نصیحت بن گئی۔ اقبال جیسا قد آور شاعر بھی ہے جس کی فلسفہ دانی نے غزل کو ثقیل نظم بنا دیا اور آئینے کے دوسرے رخ اور روشن پہلو کے طور پر مجروحؔ اور فیضؔ موجود ہیں، جنھوں نے ترقی پسند خیالات اور موضوعات کے سہارے عمدہ غزلیں کہی ہیں۔ بات در اصل نظریات کو جذبے میں تحلیل کرنے اور انھیں خوش سلیقگی کے ساتھ فن میں برتنے کی ہے۔ ترقی پسندوں میں جو معدودے چند غزل گو اس گُر سے واقف تھے رفعت سروشؔ ان میں سے ایک ہیں۔ ان کے چند شعر دیکھیے :

کہاں کھو گیا آج میرا سفینہ

سکوں ریز موجیں ہیں طوفاں نہیں ہے

………

جب بھی تھک کے بیٹھا ہوں، زندگی کی راہوں میں

ان کی شوخ نظروں نے حوصلے بڑھائے ہیں

………

ترے خیال نے وہ مشعلیں جلائی ہیں

کہ رات موت کے سائے مجھے ڈرا نہ سکے

………

یہی تشنگی کا عالم، یہی سوزشیں ہیں ساقی

تو بگڑ اٹھیں نہ میکش، تری زندگی سلامت

………

وہ اٹھا جنازۂ شب، وہ سسک رہے ہیں تارے

وہ ہجومِ رنگ و بو میں نئی صبح مسکرائی

………

کہاں مسکراتے وفاؤں کے پھول

نہ ہوتا اگر خار زارِ جفا!

اوپر جو اشعار پیش ہوئے ان کا زمانۂ تخلیق ۱۹۵۰ء سے پہلے کا ہے۔ اس وقت ترقی پسند تحریک کے متوازی یا مخالف کوئی دوسرا رجحان وجود میں نہ آیا تھا۔ لے دے کر ایک حلقۂ اربابِ ذوق تھا جس کا دائرہ بے حد محدود تھا اور نظم گو تووہاں بہت تھے لیکن اس حلقے میں بھی کوئی نمایاں غزل گو موجود نہیں تھا بالفاظ دیگر تحریک کی عطا کردہ بلند آہنگی پر کوئی قد غن لگانے والا نہ تھا لیکن رفعت سروشؔ کے شعروں میں خطابت کا عنصر یا لہجے کی کرختگی اور مقصدیت کا یک رخا پن کم نظر آتا ہے۔ حالانکہ ہر شعر اپنی جگہ ترقی پسند خیال کا حامل ہے۔ کہیں شاعر کو اس بات کا ملال ہے کہ اس کی کشتی پر سکون موجوں میں رواں ہے جب کہ اسے طوفان سے نبرد آزما ہونا تھا، کہیں محبوب کی شوخ نظروں کا تصور اسے زندگی کی راہوں پر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے، کہیں اس کا خیال شاعر کو موت کے سائے سے خائف نہیں ہونے دیتا، کہیں ساقی کی غلط بخشی کے تحت تشنہ رہ جانے والے مے کشوں کے غیض و غضب کا اظہار ہوتا ہے، کہیں شب کا جنازہ اٹھتا ہوا اور نئی صبح ہجومِ رنگ و بو میں مسکراتی دکھائی پڑتی ہے اور کہیں خار زار جفا میں وفاؤں کے پھول مسکراتے ہیں۔ رفعت سروشؔ نے اپنے سیاسی نظریات اور سماجی مقصدیت کو ایسے جمالیاتی پیرائے میں ادا کیا ہے کہ غزل کی پیشانی شکن آلود بھی نہیں ہوئی اور تحریک کا فرض بھی ادا ہو گیا۔ ایسے بہت سے اشعار رفعت سروشؔ کی ابتدائی غزلوں سے بیش کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے رچاؤ، سبھاؤ اور گھلاوٹ کا سرچشمہ در حقیقت یہ ہے کہ اپنے کلاسیکی سرمائے پر  رفعت سروشؔ کی گرفت مضبوط ہے اور وہ صنفِ غزل کے مزاج داں ہیں۔ اس لیے موضوع اور طرزِ ادا کے تال میل سے مطلوبہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

یادش بخیر، بیسویں صدی کی چھٹی دہائی اردو ادب میں خاصی اتھل پتھل کا دور ہے۔ اس زمانے میں ترقی پسند تحریک رو بہ زوال ہوئی اور ۱۹۶۲ء میں چینی جارحیت نے اس نظریے سے متعلق بہتوں کے سنہرے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ جدیدیت کا رجحان ساتویں دہائی میں پروان چڑھا۔ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے دوران جب جذبیؔ، مجازؔ حتیٰ کہ فیضؔ جیسے ترقی پسند شعراء کی غزل چراغِ سحر گزیدہ کی طرح بھڑک رہی تھی اور آج کے بیشتر نامور جدید شاعر اس عبوری دور میں خالصتاً روایتی غزل کہہ رہے تھے، رفعت سروشؔ کی غزل کا انداز کچھ ایسا تھا کہ بے ساختہ دامنِ کش توجہ ہوتا ہے۔ مثالیں ملاحظہ ہوں :

مرے نفس میں مچلتا ہے آرزو بن کر

وہ انقلاب جسے نغمۂ جہاں کہیے

………

بہار میں یہ نیا گل کھلا ہے اب کے برس

چمن کے پھول ترستے ہیں رنگ و بو کے لیے

………

کس خوش نصیب کو ہوئیں آزادیاں نصیب

بکھرے ہوئے قفس میں ہیں کیوں بال و پر تمام

………

برق کی کیا مجال تھی میرے چمن کو تاکتی!

جوشِ جنوں میں آشیاں میں نے ہی خود جلا دیا

………

میرے جنوں سے جل گئے عقل و خرد کے بال و پر

فتنۂ شر ہو با خبر، شعلۂ سر بہ سر ہوں میں

………

جنوں کے دور کی اک یادگار باقی ہے

ابھی یہ پیرہنِ تار تار باقی ہے

واقعہ ہے کہ رفعت سروشؔ نے ایک دور کو زندہ رکھا ہے۔ یہ اشعار رفعت سروشؔ کی ۱۹۶۳ء تک کی غزلیات سے کسی کاوش کے بغیر نکالے گئے ہیں اور ان کے اس عہد کے شعری رویّے کی غمازی کرتے ہیں۔ میں معیار کی بات نہیں کرتا نہ دوسرے ترقی پسند غزل گویوں سے رفعت سروشؔ کا تقابلی موازنہ مقصود ہے۔ واضح صرف یہ کرنا ہے کہ اس زمانے میں جب نامور اور Established قسم کے ترقی پسندوں کی سانسیں غزل کے میدان میں اس لیے پھولنے لگے تھیں کہ مارکسی تصورات کا دوسرا اور غیر متوقع رخ سامنے آ گیا تھا، رفعت سروشؔ کے عقائد اور نظریات میں کوئی لغزیدگی نہیں آئی۔ وہ ثابت قدم رہے اور ان کی غزل کا خمیر وہی رہا جو آزادی کے آس پاس تھا، کیونکہ عقیدہ در اصل ان کے لہو اور جذبے میں تحلیل ہو کر غزل سے چھلکتا تھا۔ یہ تصورات فیشن کے طور پر اوپر سے اوڑھے ہوئے نہیں تھے۔ ۱۹۵۵ء کے آس پاس کچھ جونیئر لیکن پر جوش قسم کے ترقی پسندشعراء نے جن میں وحید اختر، باقر مہدی اور خلیل الرحمان اعظمی پیش پیش تھے، تحریک سے اپنی بیزاری کا اظہار شروع کر دیا تھا اور اظہار و بیان کے نئے میلانات کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ موضوعات کی حصار بندی کے خلاف بھی ردِّ عمل شروع ہو گیا تھا۔ رفتہ رفتہ انھیں کے بطن سے جدیدیت کا رجحان پیدا ہوا جس نے چھ سات برسوں میں ہی ایک طوفان کی صورت اختیار کر لی اور اپنی باڑھ میں ترقی پسندتحریک کی خامیوں کے ساتھ ساتھ خوبیوں کو بھی بہا لے گیا۔ اوّل اوّل جیّد قسم کے مارکسی نقادوں اور فنکاروں نے اس طوفان کا سامنا کرنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی ان میں سے بیشتر دھارے کے ساتھ بہتے نظر آئے۔ میری بات کا یقین نہ ہو تو چھٹی دہائی میں تخلیق کردہ ترقی پسندادب کا مطالعہ کر دیکھیے۔ فیضؔ، ندیمؔ، سردار جعفری‘ جاں نثار اخترؔ، کیفیؔ اعظمی، سبھی اس زمانے میں اپنی شاعری میں جدیدیت سے متاثر نظر آئیں گے لیکن شعوری کاوش کا تخلیقی عمل سے واسطہ کم کم ہی ہوتا ہے، لہٰذا بات کچھ بنی نہیں۔ البتہ ناصر کاظمی اور خورشید احمدجامیؔ جیسے وہ ترقی پسند فن کار جن کے ہاں جدید اندازِ فکر باطن سے اُگا تھا، سچی اور اچھی نئی شاعری کے نمونے پیش کر گئے۔ رفعت سرو شؔ کے آخری دور کی غزل کومیں مذکورہ بالا دونوں درجات کے درمیان رکھتا ہوں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ان کی شاعری نے اپنی جڑیں زرخیزکلاسیکی زمین میں پیوست کر رکھی ہیں اور ترقی پسند نظریات کی دھوپ میں برگ و بار نکالے ہیں۔ اب۱۹۶۳ء کے آس پاس اس پر جدیدیت کے رجحان کی نرم پھواریں چاروں طرف سے پڑنے لگیں تو ان کی شاخ غزل سے کچھ اس قسم کے پھول اور کلیاں نمودار ہوئیں :

مجھ میں پوشیدہ ہے نہ جانے کون

میرا تو صرف نام ہے ساقی

………

یہ زندگی کا دشت یہ محرومیوں کی دھوپ

بیٹھیں کہاں کہ سایۂ دیوار بھی نہیں

………

روشنی میں نہ مجھ کو لے جاؤ

اپنے سائے سے بھی گریزاں ہوں

چاند ویران ہے صدیوں سے مرے دل کی طرح

زندگی گم ہے خلا میں مری منزل کی طرح

………

مبارک تمھیں اپنی خوشیاں مگر

مجھے اپنے حصّے کا غم چاہیے

………

اس پیار بھرے خط کو آنکھوں سے لگا رفعتؔ

اس شوخ کی مدت میں تحریر نظر آئی

………

جو دیکھیے تو بگولہ ہے  ریگِ آوارہ

جو سوچیے تو یہی آبروئے صحرا ہے

………

وہ تیز دھوپ ہے کہ پگھلنے لگے ہیں خواب

زلفوں کے سائے دیں گے فریبِ بہار کیا

………

جب پربت پر برف گرے گی سب پنچھی اُڑ جائیں گے

جھیل کنارے جا بیٹھیں گے اک انجانی پیاس لیے

………

میں کہ اِک نورِ معانی تھا نہ صورت نہ صدا

تم نے چہروں کی نقابوں میں چھپا یا ہے مجھے

………

خلا کے طشت میں یہ ٹوٹتا بکھرتا چاند

مرے خیال میں اک جوئے بارِ نغمہ ہے

………

میری پرواز ہے ابھی محدود

میں ابھی قیدِ بال و پر میں ہوں

………

توڑبھی دے یہ رشتے ناطے سارے بندھن جھوٹے ہیں

جیون کی اس بگیا میں سب کاغذ کے گل بوٹے ہیں

………

دن بھر تو آفتاب کی مٹھی میں قیدتھے

دربار شب سجا ہے تو موتی بکھر گئے

………

پیکرِ خاک ہوں مگر زیرِ قدم ہے کائنات

عالمِ سنگ و خشت کیا، عالمِ نور و نار کیا

………

گریز پا وقت کے افق سے ہے کس نئے قافلے کی آمد

سنہری کرنوں کے ساتھ رقصاں فضاؤں میں اک غبار سا ہے

………

اس قید کی جانے کیا ہے میعاد

ہم جسم میں قید ہو گئے ہیں

………

ذہن میں لفظوں کا اک انبار ہے

منجمد لیکن لبِ اظہار ہے

………

شب کے سناٹے میں ڈوبی ہوئی آواز ہوں میں

اس اندھیرے کے سمندر سے نکالو مجھ کو

………

ٹوٹا چھپّر ٹوٹے بانس

گھر کی اکھڑی اکھڑی سانس

………

اس کے نام کی خوشبو سی پھیلی تھی جنگل جنگل

پگڈنڈی پگڈنڈی میں ہم جا پہنچے اس شوخ کے گاؤں

………

سرِ راہ ہے کوئی ٹھوکر نہ کھاے

دیا اس لحد پر جلانے چلیں

………

پی لیا تھا درد نے اک اک لہو کی بوند کو

ساری دنیا چشمِ حیراں تھی مگر دفتر کے لوگ

………

مجھے احساس ہے کہ مثالیں کچھ زیادہ ہو گئیں لیکن یہ شعوری عمل ہے۔ قصہ یوں ہے کہ جدیدیت کے ابتدائی دور میں تواس کی مخالفت پر ترقی پسنداور روایتی شاعر ایک ساتھ صف آراء ہو گئے تھے لیکن یہ رجحان چونکہ وقت کی آواز تھا اور ہماری شاعری کے مزاج سے ہم آہنگ تھا اس لیے جلد ہی اس کا ڈنکا بجنے لگا اور بات یہاں تک پہنچی کہ ترقی پسنداور کلاسیکی طرز کے شعراء بھی اس لہجے کو اختیار کرنے پر مجبور ہوئے حتیٰ کہ مشاعرہ بازوں کو بھی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اس رنگ میں کہنے کی ضرورت پیش آئی۔ ایسے میں کسی بھی شاعر کے مجموعہ کلام سے نئے رنگ و آہنگ کے دس پانچ شعر تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ بہت سے شعر ثابت کرتے ہیں کہ رفعت سروشؔ کے ہاں صورتِ حال کچھ مختلف ہے انھوں نے غزل میں نئے لب و لہجہ کو وقتی ضرورت کے تحت قبول نہیں کیا بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے جدید حسیت کو جذب کر کے اشعار کے آبگینوں میں منتقل کیا ہے اور یہ رنگ ان کے مزاج کو اس طرح راس آیا ہے کہ رفعت سروشؔ کو مروجہ خیالات اور موضوعات قہر درویش بجان درویش کے مصداق نہیں برتنے پڑے بلکہ انھوں نے بیشتر اپنے سابقہ ادوار کے محبوب موضوعات و خیالات کو نئے قالب، نئے لہجے اور نئی لفظیات میں اس کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اگر ان شعروں پر سے رفعت سروشؔ کا نام ہٹا دیا جائے تو بادی النظر میں وہ کسی خالصتاً جدید شاعر کی تخلیق معلوم ہوں گے۔ بادی النظر کی قید میں نے اس لیے لگا دی ہے کہ جب ان اشعار کا تجزیہ کرنے بیٹھیں تو ان کا رجائی انداز، زندگی سے نبرد آزما رہنے کا حوصلہ، بہتر مستقبل کی امید، ابلاغ کی کامیابی اور شاعر کے پسندیدہ استعارات و تشبیہات کی کار فرمائی صاف گواہی دیتے ہیں کہ یہ اشعار فن پر قدرت رکھنے والے کسی راسخ العقیدہ ترقی پسندغزل گو کے ہیں جس نے اپنے اظہار کے لیے نئے اسالیب تراش لیے ہیں اور انھیں برتنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔ غالبؔ کی طرح میں بھی وفاداری بہ شرطِ استواری کو اصلِ ایماں سمجھتا ہوں۔ بہتوں کی طرح رفعت سروشؔ کا المیہ یہ ہے کہ ایک عبوری دور کی پیداوار ہونے کے سبب مارکسی نقادوں نے انھیں نسبتاً جونیئر سمجھ کر اپنے دورِ عروج میں زیادہ اہمیت نہیں دی اور نئے ادب کے علم برداروں نے غالباً ان کی ترقی پسندی کو عیب جان کر ان کے شاعرانہ مرتبے کا اعتراف نہیں کیا۔ کئی سال سے ڈاکٹر محمد حسن پوری جدید شاعری کو ترقی پسندی کی توسیع قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ توسیع پسندی کی یہ بڑھتی ہوئی خواہش قابلِ قبول نہیں ہو سکتی جس طرح کہ اسے سرے سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلا شبہ جدید شاعری کی صفوں میں باقرؔ مہدی، عمیقؔ حنفی، مظہر امامؔ، وحید اخترؔ جیسے فنکار موجود ہیں جو اس اصطلاح کے دائرے میں آتے ہیں اور رفعت سروشؔ اس فہرست میں اپنی ایک امتیازی و انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔

جمالیات کی خورد بین اور دشمن کی نگاہ سے تلاش کیا جائے تو رفعت سروشؔ کے ہاں بہت سے ایسے شعر بھی نکل آتے ہیں :

سوچ رہی ہے کیسے آشاؤں کا نشیمن بننا ہے

من کی چڑیا تن کے دوارے بیٹھی چونچ میں گھاس لیے

ظاہر ہے شعر جدید رنگ اختیار کرنے کی شعوری کاوش کی نذر ہو گیا لیکن ایسے اشعار کی حیثیت ان کے کلام میں و ہی ہے جیسے کہ بچوں کو نظر بدسے بچانے کے لیے ان کی پیشانی پر  کاجل لگا دیا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

عنوان چشتی کی غزل

 

 

عنوان چشتی ایک کثیر الجہات ادبی شخیت کے حامل ہیں۔ محقق، نقاد، خاکہ نگار، ماہر عروض، تدوین کار، سیمنارین، الغرض وہ یک رخے قلم کاروں کی طرح کسی ایک میدان کے پابند نہیں ہیں لیکن مجھ سے دریافت کیا جائے تومیں انھیں بنیادی طور پر شاعر اور وہ بھی غزل کا شاعر قرار دوں گا۔ عام زندگی میں ان کا جذباتی رویہ، سیماب صفتی، جمال پسندی اور مزاج کی نفاست بھی ان کے اوّل و آخر تخلیق کار ہونے کی غماز ہیں اور اسی محور پر ان کی دیگر ادبی جہات برنگ فانوس گردش کرتی ہیں۔ میرے اس خیال کی تائید میں عنوان چشتی کی دو ابتدائی کتابیں ’’ذوقِ جمال‘‘ اور ’’ نیم باز‘‘ بھی پیش کی جا سکتی ہیں، جو ان کے تنقیدی و تحقیقی کارناموں سے بہت پہلے یعنی اب سے کم و بیش ربع صدی قبل منظرِ عام پر آ گئی تھیں اور اس کے بعد بھی اپنی معلمانہ، صوفیانہ، محققانہ، ناقدانہ اور مدیرانہ مصروفیات کے با وصف وہ محبوب غزل کے خیال سے کبھی غافل نہیں رہے۔

بقول ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ شاعر ہی شاعری کا بہترین نقاد ہوتا ہے۔ اس قول کی روشنی میں پوری اردو نتقید کی تاریخ دیکھ جائیے۔ قدم قدم پر تائیدی شہادتیں ملیں گی۔ میر تقی میرؔ، محمدحسین آزاد، مولانا حالیؔ، شبلیؔ نعمانی، نیازؔ فتح پوری، عندلیبؔ شادانی، آل احمد سرورؔ، سردارؔجعفری، فراقؔ گورکھپوری، اثرؔ لکھنوی، یگانہؔ چنگیزی، حسن عسکری، خورشید الاسلام، سلیم احمد، اختر انصاری، خلیل الرحمن اعظمی، وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی، ممتاز شیریں اور متعدد دوسرے نقادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو اپنے دور کے شاعروں اور تخلیق کاروں میں شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت ناقد اور ماہر عروض، عنوان چشتی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ تخلیقی سطح پر فن کی نزاکتوں اور لطافتوں کا نجی تجربہ بھی رکھتے ہیں اور اسی وسیلے سے موصوف نے جذبے اور فکر میں تال میل پیدا کیا ہے۔

عنوان چشتی کے اولین شعری مجموعے کا نام ’’ ذوقِ جمال‘‘ ہی اعلان کر رہا ہے کہ اس فنکار کے ہاں جمالیاتی حِس زیادہ توانا اور مکمل طور پر بیدار ہے۔ عنوان چشتی کی کم و بیش چالیس سالہ شعری کاوشوں پر نگاہ ڈالنے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ان کی تقریباً ہر غزل میں اس نوع کے دو ایک شعر ضرور مل جاتے ہیں :

۱۔       سُنا ہے اس کی سواری نکلنے والی ہے

بچھاؤ راہ میں آنکھیں نگارِ جاں کے لیے

۲۔      یہ ایک دوست نے لکھا ہے خط میں اے عنوانؔ

تری جگہ مری پلکوں کے سائبان میں ہے

۳۔     فقیر عشق یہ کہتا تھا اور روتا تھا

جو دو دلوں کو ملا دے تو پھر جُدائی نہ دے

۴۔     اک اضطرار بھی شامل ہے دل کے رشتوں میں

جو اس کو اپنا کہا بھی تو بے ارادہ کہا

۵۔     کوئی غرض نہیں اس سے خوشی ملے نہ ملے

اُسے تو ضد ہے کہ بس دل دُکھانا ہے میرا

۶۔      دشمنوں کے ہاتھ اٹھتے ہیں دُعا کے واسطے

رحم اب تو مجھ پہ کر ظالم خدا کے واسطے

۷۔     یہ دو دلوں کی محبت کا سانحہ اے دوست

نیا ضرور ہے لیکن پُرانا لگتا ہے

۸۔     کہاں کا ’’روح تماشا‘‘ بدن شریعت کیا؟

نہ آدمی سے ہو رشتہ تو پھر محبت کیا؟

۹۔      غلط ہے یہ کہ تو شبنم ہے یا شرارہ ہے

ترا جمال محبت کا استعارہ ہے

۱۰۔     درود پڑھنے سلام کرنے میں عمر گزری

کتاب چہرے ورق ورق انتخاب دیکھے

۱۱۔     جو خط لکھو تو ہمارا سلام بھی لکھیو

پھر اس کی چھت پہ اترنے لگے کبوتر کیا

۱۲۔     آنکھوں کے دریچے سے در آیا تھا جو اک شام

اب دل سے اس آسیب کا سایہ نہیں جاتا

۱۳۔    وہ چاند چہرہ، گلاب آنکھیں، غزل سراپا

مگر اسے میرا دل دُکھانے کی ضد عجب تھی

۱۴۔    دل میں پھر اک حشر برپا ہو گیا

پھر تری یادوں کے لشکر آ گئے

۱۵۔    اس نے سمجھا ہی نہیں رشتۂ دل

شاخ سے کیسے جُدا ہو جاؤں

۱۶۔     نشۂ جذب و جنوں اور بھی گہرا ہو جائے

میں جو چھو لوں تو ترا رنگ سنہرا ہو جائے

ہر دَور کی غزل میں اپنا ایک اساسی مزاج ہوتا ہے۔ عہد رواں کی غزلوں میں بحیثیت مجموعی غیر رومانی اسلوب اور تلخ نوائی کا رجحان نمایاں ہے۔ ایسے میں عنوان چشتی کی غزلوں کے عشقیہ مضامین اور ان کا جمالیاتی اسلوب قاری کو بطور خاص رجھاتے اور لبھاتے ہیں لیکن حقیقتاً شاعر اس طرح لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے شعوری طور پر کوشش نہیں کرتا بلکہ یہ اس کے دل کی آواز ہے۔ انھوں نے غلط نہیں کہا:

’’خلافِ عشق کوئی چیز بھی دیکھی نہیں جاتی‘‘

پیش کردہ عشقیہ اشعار میں چند نکات پر آپ کی نظر بھی گئی ہو گی۔ مثلاً یہ کہ شاعری کے کلاسیکی دبستان سے تعلق کے با وصف عنوان چشتی کے عشقیہ شعروں میں دوسروں کی داستانِ عشق روایتی انداز میں بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ ان شعروں میں شاعر کی اپنی رودادِ محبت ہے اور اس کا اظہار بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں کرتا ہے۔ قدیم غزل کی مخصوص لفظیات سے صرف نظر کر کے عنوان چشتی نے اپنے فسانۂ الفت کے لیے کھلے ڈلے اسلوب سے مطابقت رکھتے ہوئے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا ہے جن کا استعمال عام طور پر پرانی عشقیہ غزل میں مفقود تھا۔ مثلاً محبوب کو نگارِ جاں کہنا( شعر نمبر ۱) عاشق کو فقیر عشق کا خطاب عطا کرنا (ش ۳) معشوق کو دل میں سمائے آسیب سے مشابہ کرنا ( ش ۱۲) عاشق کے لمس سے محبوب کا رنگ سنہرا ہو جانا (ش ۱۶) میرے نزدیک یقیناً ایک نئے طرزِ اظہار کے مترادف ہیں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ عروض پر گہری نگاہ کے باوجود عنوان چشتی عام عروضیوں کی طرح شعریت کو کٹّر اور جامد اصولوں کی بھینٹ نہیں چڑھاتے اور غالبؔ کے یک بیاباں ماندگی، کے قبیل کی متعدد تراکیب ان کے عشقیہ اشعار میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً روح تماشا، بدن شریعت( ش ۸) کتاب چہرے، ورق ورق انتخاب (ش۱۰) گلاب آنکھیں و غزل سراپا ( ش ۱۲) یہاں تکمیل گفتگو کے لیے عنوان چشتی کے غیر محولہ اشعار میں اندھیار، حسن پیکر، تل نمط سیاہی، تر شنکو، جھیل لینا، بدن مکان جیسی بندشوں اور لفظوں کا حوالہ ضروری ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل کہتے ہوئے عنوان چشتی زبان کو تخلیقی سطح پر استعمال کرتے ہیں اور حسبِ ضرورت اجتہاد کی جرأت بھی رکھتے ہیں۔

عنوان چشتی کی غزل کے عشقیہ اشعار میں مجھے وہ انفعالیت بھی نہیں ملی جس سے ہماری عشقیہ شاعری عام طور پر عبارت ہے۔ آپ کہیں گے کہ محولہ بالا مثالوں میں ( شعر نمبر ۳۔ ۵۔ ۶۔ ۱۳)حُزنیہ کیفیت جھلکتی ہے لیکن ذرا سا گہرائی میں جائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دراصل شاعر کی زود رنج طبیعت اور شدت احساس کا ہلکا سا عکس ہے جو جلد بُرا مان جاتا ہے اور اس سے بھی جلد من جاتا ہے۔ عنوان چشتی اُردو غزل میں حسرتؔ اور شادؔ عارفی جیسے کامیاب اور بامراد عاشق ہیں۔ اس لیے ان کی غزل میں آگ دونوں طرف برابر لگتی ہے چنانچہ ان کا دوست نہ صرف شاعر کو خط لکھتا ہے بلکہ یقین دلاتا ہے کہ اسے وہ اپنی پلکوں کے سائبان میں جگہ دیتا ہے (ش ۲) اس کی سواری نکلتی ہے تو شاعر راہ میں استقبال کے لیے موجود ہوتا ہے (ش ۱ )اور شاعر کے چھونے  سے اس کا رنگ سنہرا ہو جاتا ہے (ش ۱۶) اور جہاں اس کی نظر کسی حسین چہرے پر پڑتی ہے وہ سلام کرنا اور درود پڑھنا ضروری سمجھتا ہے (ش ۱۰)

عنوان چشتی کی داستانِ عشق میں نفسیاتی پیچیدگیوں اور نو بہ نو تجربات کے رنگ شامل ہیں اور اکثر کچھ اتنی نازک کیفیتوں کو شاعرانہ زبان مل گئی ہے جنھیں چھوتے ہوئے اوسط درجے  کے شاعر کی انگلیاں جلتی ہیں مثلاً جب عنوان چشتی دل کے رشتوں کو اضطراری عمل کہہ کر محبوب کو بے ارادہ اپناتے ہیں (ش۴) جب اُن کا محبوب ضد میں آ کر اُنکا دل دکھاتا ہے اور خود اس عمل سے خوش نہیں ہوتا (ش۵، ۳) تو وہ ہمیں وارداتِ عشق کو بالکل نئے اور اچھوتے زاویوں سے دیکھنے اور سننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کل ملا کر عنوان چشتی کے عشقیہ شعروں کا آہنگ نشاطیہ ہے المیہ نہیں۔

ہماری غزل میں ’’ تہذیبِ عاشقی‘‘ اور ’’ پاسِ ناموسِ عشق‘‘ وغیرہ کے نام پر ایک نوع کی ماورائیت اور افلاطونیت نے حصار بندی کر رکھی ہے جس کی وجہ سے اکثر فراق والی ارضیت اور حسیت و شاد عارفی جیسی جسمانیت اور لمسیت کا عشقیہ شعروں میں فقدان سا نظر آتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھیے تو عنوان چشتی نے حقیقت کو لطیف پیرایۂ بیان میں سہی، ظاہر کرنے سے گریز نہیں کیا اور انھوں نے اکثر جنسی تجربات کو جرأت کے ساتھ شعروں کے فریم میں محفوظ کر دیا ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ اشعار:

۱۷۔    بلندیوں سے اترنے میں دیر ہو شاید

ہوس کا شوخ پرندہ ابھی اڑان میں ہے

۱۸۔    رگوں میں درد کی سرگوشیاں سی ہوتی ہیں

لہو کی ضد ہے فقط، پیار کیا، محبت کیا

۱۹۔     نگاہ سے نہیں، ہونٹوں سے اس کو پڑھتا ہوں

کتاب چہرہ، تمنّا کا گوشوارہ ہے

۲۰۔    یہ کون سا ہے مصور کہ ہونٹ زخمی ہیں

تراشتا ہے یہ بوسوں سے حُسن پیکر کیا

۲۱۔     مرمریں، نرم، خنک اس کا بدن

ریت کی گرم ہوا ہو جاؤں

۲۲۔    دیکھوں تو اس کے حُسن پہ دھوکا ہو خواب کا

لیکن چھوؤں تو جسم بھی سوتا دکھائی دے

عنوان چشتی کی غزلوں میں کسی خاص کاوش کے بغیر ایسے متعدد اشعار مل جائیں گے، جن میں مرد قلندر نے کھل کر ایسی باتیں اور راز ہائے درونِ پردہ پڑھنے والوں کے سامنے کھول کر پیش کیے ہیں جنہیں عام شاعر خصوصاً وہ جن کا تعلق تدریسی اداروں سے ہے، محسوس تو کرتے ہیں لیکن بیان کرنے کی ہمت نہیں رکھنے۔ پیش کردہ اشعار (۱۷ تا ۲۲) اتنے علاماتی بھی نہیں ہیں کہ ان کا تجزیہ کرنا ضروری ہو، اوسط قاری ان کی رمزیت اور جنسیت دونوں سے بخوبی محظوظ ہو سکتا ہے۔ عشق کی بات چلی ہے تو اسے معشوق حقیقی تک بھی پہنچنا چاہیے کہ عنوان چشتی نہ صرف صوفی ہیں بلکہ ایک معروف خانوادے کے سجادہ نشین بھی ہیں۔ اب مندرجہ  ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے :

۲۳۔    جسم پارہ پارہ ہے، روح استعارہ ہے

ہر زمین پر لیکن اک گگن ہیں صوفی جی

۲۴۔    وہ آدمی ہوں کہ جس کو خدا سے نسبت ہے

نیا نہیں ہے پُرانا گھرانا ہے میرا

۲۵۔    جس راہ سے گزرا ہوں ملا ہے وہی مجھ کو

کیا کہیے کہ یہ عزمِ سفر کس کے لیے ہے

۲۶۔    ازل سے ڈھونڈتا ہوں میں زمین پر جس کو

وہ شخص خواب میں اکثر مجھے دکھائی دیا

۲۷۔    تمنّا، تصوّر، تجلّی، وصال

یہ جو کچھ ہے سب فضلِ رب ہے میاں

۲۸۔    جھلک رہا ہے ترا عکس میری صورت میں

دکھا رہا ہے ترا چہرہ آئینہ مجھ کو

۲۹۔    اس بُت کو سجدہ کر کے اٹھایا جواپنا سر

محسوس یہ ہوا کہ خدا ہو گیا ہوں میں

۳۰۔    ایک ہی رنگ میں سو رنگ نظر آتے ہیں

دل کے آئینے میں پابند نظر ہوں کب سے

۳۱۔    مرا وجود ہے میرے عدم کا آئینہ

خود اپنی روح میں رقصاں ہوں میں خلا کی طرح

۳۲۔    اُف یہ افسانہ و افسوں کا طلسم شب و روز

زیست معدوم نہیں اور حقیقت بھی نہیں

یہ اور ان جیسے سیکڑوں شعر عنوان چشتی نے کہے ہیں اور ان کے ہاں ان کی نوعیت سُنی سنائی باتوں کی جگالی جیسی نہیں ہے بلکہ خود پر بیتی ہوئی واردات ہے، جسے جگ بیتی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے شناورانِ تصوف کو ان میں نئے نکتے اور نئی کیفیتیں نظر نہ آئیں کہ ان شعروں میں بھی وہی وحدت الوجود کا فلسفہ اوروحدت فی لاکثرت کا نظریہ کار فرما ہے۔ (ش۲۴، ۳۰) عرفانِ ذات (ش ۲۴، ۲۸، ۲۹، ۳۰) بے ثباتی دنیا (ش ۳۱، ۳۲) وسیع المشربی اور مذہبی رواداری(ش۲۵، ۲۷) اور ایسے ہی متصوفانہ مضامین کی تکرار ہے لیکن بڑی بات یہ ہے کہ عنوان چشتی نے ان ہزاروں بار کہی اور سُنی گئی باتوں کو ایسے دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے کہ وہ نئی اور ان کہی لگتی ہیں اور اس اسلوبِ تازہ نے ان مضامین میں پرتیں بھی ڈال دی ہیں۔ مجھے یہ تو نہیں کہنا ہے کہ عنوان چشتی کے متصوفانہ اشعار دردؔ، اصغرؔ یا بے نظیر وارثی سے ٹکّر لیتے ہیں۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ شعراء کی نئی نسل میں ان جیسے متصوفانہ اشعار ایک آدھ شاعر کے علاوہ اور کوئی نہیں کہہ رہا ہے۔ مشاہدۂ حق کی گفتگو کرتے ہوئے زیست کوافسانہ وافسوں کا طلسمِ شب و روز کہنا (ش ۳۲) خود روح میں خلا کی طرح رقص کرتے ہوئے واضح کرنا کہ وجود در اصل عدم کا آئینہ ہے (ش ۳۱) کسی بُت کو سجدہ کرنے کے بعد خود کو بشریت کے حصار سے بالا تر کر لینا (ش ۲۹) تمنّا، تصور، تجلی اور وصال کی تدریجی منزلوں سے گزرتے ہوئے یقین رکھنا کہ فضل رب کے بغیر یہ کچھ بھی ممکن نہیں (ش ۲۷) ہمارے عہد میں عنوان چشتی کو ہی زیب دیتا ہے۔

اُردو شاعری کے لیے ہمیشہ اساطیر کا فقدان رہا ہے۔ کیونکہ ہندو دیو مالائی اور رومن مائیتھولوجی کی طرح اسلام کے پیرو کاروں میں دیوی دیوتاؤں پر اعتقاد رکھنا شرک و کفر کے مترادف تھا  اس لیے اس کمی کو اُردو شعرا نے مختلف علاقوں میں مشہور عشقیہ داستانوں، فارسی کی مشہور مثنویوں اور منصور و سرمد جیسی انقلابی ہستیوں کے حوالوں سے پُر کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں واقعہ کربلا نے شعراء کو مواد فراہم کیا اور اُردو غزل میں اس سانحہ عظیم کے تذکرے اور حوالے ابتدائی دور سے ہی نظر آنے لگے۔ عنوان چشتی کے ہاں تو سانحہ کربلا دہری اہمیت رکھتا ہے۔ اول تووہ صوفی ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ایک استثناء کے ساتھ صوفیا کے تمام سلسلے حضرت علیؓ سے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے حسینؓ سے تمام صوفیاء کو خصوصی ارادت و عقیدت ہونی چاہیے۔ مزید برآں اُردو غزل کی روایت اس عقیدت کو تقویت پہنچاتی ہے چنانچہ عنوان چشتی کی غزلوں میں حسینؓ اور ان کے رفقاء حق پرستی، انسان دوستی اور سرفروشی کی علامتوں کے روپ میں بار بار جلوہ گر ہوتے ہیں کہیں ان کے حوالے تلمیح کے طور پر کہیں تشبیہ، کہیں استعارہ اور کہیں کنائے کے رنگ میں عنوان چشتی کی غزل میں جگہ جگہ نمودار ہوئے ہیں۔ مشتے از خروارے کچھ مثالیں :

۳۳۔    جو شمر ہو تو رجز میں بھی لُطف آتا ہے

نہ ہو جو وہ تو کوئی جنگ کیا شہادت کیا؟

۳۴۔    خبر یہ ہے پس طوفاں بھی شہر کہنہ میں

ضمیر بیچنے والی دُکان سالم ہے

۳۵۔    ہماری تشنہ لبی پر نہ جا کہ ہم اکثر

سمندروں کو بھی جوئے کم آب لکھتے ہیں

۳۶۔    کیا مزہ آتا سرِ مقتل یہ منظر دیکھتا

میری صورت دیکھ کر وہ اپنا خنجر دیکھتا

۳۷۔    ممکن ہو تو کچھ اشک ہی آنکھوں میں بچا لو

سنتے ہیں کہ اب شہر میں پانی نہ ملے گا

۳۸۔    عجیب بات کہ سہما ہوا ہے لشکر کیا

دکھائی دینے لگے دُور سے بہتّر کیا؟

۳۹۔    آگے بڑھنا ہے تو غسل اپنے لہو میں کرنا

کام ماتم سے نہیں دوستو! چلنے والا

۴۰۔    اس دَور میں ظالم کو جو تم کوس رہے ہو

کس دَور میں مظلوم کی شنوائی ہوئی ہے

۴۱۔    زندگی میں بطور زادِ سفر

تیغ رکھ لے، رگِ گلو رکھ لے

۴۲۔    رجز پڑھو کہ ہے نیزے پہ نور زاد کا سر

جوارِ شہر ہے آغوش کربلا کی طرح

۴۳۔    مقتل میں دو صدا کدھر اہلِ ہوس گئے ؟

اپنے لہو کے ذائقے کو ہم ترس گئے

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ عنوان چشتی کے مندرجہ بالا اشعار میں حادثۂ کربلا بطور حوالہ (ش۴۰) بطور تلمیح (ش ۳۳، ۳۸) بطور تشبیہ (ش۴۲) بطور استعارہ ( ش ۵۳، ۴۱) اور بطور کنایہ (ش ۳۴، ۳۶، ۴۳) کس تخلیقی حسن اور واقعاتی مناسبتوں کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ پھر اس سانحے میں عنوان چشتی عہدِ حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل سے مطابقت، موانست اور افادیت کے پہلو جس فنکاری کے ساتھ برآمد کرتے ہیں، اہلِ نظر اس کی داد دیں گے۔ شہروں میں پانی کی قلت(ش ۳۷) اور عہدِ حاضر میں سرفروشی کے جذبے سے شہادت پر آمادہ کرنا اور محض ماتم سے گریز کا مشورہ دینا (ش ۳۹) عنوان چشتی کی ماضی و حال کو ایک مطابقتی کڑی میں پرو دینے کی مہارت کے شاہد ہیں۔ حسینؓ اور ان کے رفقاء کی دل دوز شہادت کا حادثہ عام طور پر ہمارے غزل گویوں کے لیے باعثِ کشش رہا ہے لیکن عنوان چشتی نے تاریخ اسلام کے کئی اور واقعات کو بھی اپنے خیالات کی ترسیل اور تاثیر میں شدّت پیدا کرنے کا وسیلہ بنایا ہے۔ مثلاً:

۴۴۔    ہمارا شہر مدینہ نہیں مگر پھر بھی

ہر ایک گھر میں مہاجر قیام کرتے ہیں

۴۵۔    ابھی سے صلح کا پیغام درمیان میں ہے

مرے حریف، مرا تیر ابھی کمان میں ہے

۴۶۔    زندہ رہنا ہے تو پھر کیوں نہ خدا بن جاؤں

ہے یہ وہ شہر کہ کافر بھی پیمبر ہے یہاں

طوالت کے خوف سے زیادہ مثالیں نہیں پیش کی جا رہی ہیں ملاحظہ فرمائیے کہ عنوان چشتی نے رسولِ اکرمؐ کی مکہ سے ہجرت کے واقعے کو موجودہ دَور کے ابتلا و انتشار سے کس خوبصورتی کے ساتھ آمیز کر دیا ہے (ش ۴۴) جنگ جمل کا حوالہ کس طرح شعریت اور لہجے کی کاٹ میں اضافہ کر رہا ہے اور یہ بھی دیکھیے کہ ایک صوفی کی حیثیت سے عنوان چشتی اس معرکے میں حضرت علیؓ کے ساتھ ہیں (ش ۴۵) ایک شعر میں شاعر نے کس چابکدستی کے ساتھ پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد پیغمبری کا کاذب دعویٰ کرنے والوں کے تذکرے سے اپنی خودی کو بلند کرنے کا جواز پیدا کیا ہے۔ (ش ۴۶)

اب تک میں ان مخصوص امتیازات کی بابت اظہارِ خیال کرتا آیا ہوں جو عنوان چشتی کی غزل سے منسوب ہیں۔ عام طور پر قابلِ ذکر غزل گویوں کے مطالعے کے دوران دو پہلوؤں پر نگاہ جاتی ہے۔ اوّل تو اس کے وہ امتیازی نقوش جو صرف اس خاص فنکار کے لیے مخصوص ہیں اور جن سے اس کی انفرادیت تشکیل پاتی ہے اور دوسرے وہ محاسن جو ہر اچھی غزل میں ہونے چاہئیں اور اس دوہرے پہلو پر نظر کیجیے تو عنوان چشتی کی غزل کسی خاص کلاسیکی یا جدید رنگ تغزل میں پھیکی نظر نہیں آتی جہاں تک با محاورہ اور صاف ستھری، سلیس، رواں دواں اور نفیس زبان کا تعلق ہے۔ عنوان چشتی کے لیے وہ گھر کی چیز ہے کہ ان کا سلسلۂ تلمّذ ابرا حسنی سے ملتا ہے، جو ایک اچھے مصلح اور فن داں تھے اور ان سے عروض و بیان کے رموز عنوان چشتی کو ورثے میں ملے تھے۔ زیادہ مثالیں پیش کرنا ضروری نہ ہو گا کہ یہ خوبی تو در اصل ہر شعر میں موجود ہے پھر بھی چند اشعار پیش خدمت ہیں :

۴۷۔    یہ کیا کہ غیر رہیں اور تیرے کہلائیں

اگر یہ سچ ہے تو ہم کیا ہماری نسبت کیا

۴۸۔    عجیب شخص ہے، جادو سا کیا بیان میں ہے

زبان اس کی ہے دل میں کہ دل زبان میں ہے

۴۹۔    ہم فقیروں سے آشنائی کر

اور چاہے جہاں خدائی کر

ان شعروں میں سہلِ ممتنع کی یہ خوبی زبان اور اظہار پر مکمل گرفت کے بغیر پیدا نہیں کی جا سکتی(ش ۴۷، ۴۸، ۴۹) بے تکلفانہ اندازِ بیان اور بر جستگی (ش ۴۷، ۴۹) اور الفا ظ کی الٹ پھیر سے مفہوم میں وسعت اور لُطف پیدا کرنا (ش ۴۸) عنوان چشتی کی غزل میں بے تکلفی کی فضا تخلیق کرتے ہیں اور اُردو کے روز مرّہ اور محاورے پر ان کے عبور کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ سلاست اور بے ساختگی عنوان چشتی کی غزلوں کے اشعار میں اس طرح پیوست ہے جیسے مچھلی کے رگ و ریشے میں کانٹے پوشیدہ ہوتے ہیں اور انھیں علاحدہ علاحدہ شمار کرنا دشوار ہوتا ہے۔ البتہ کلام کا عمومی مطالعہ کرتے ہوئے قدم قدم پر یہ اوصاف اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ کچھ اور اشعار دیکھیے عنوان چشتی کے :

۵۰۔    پکنے نہیں پاتی ہیں کہ کٹ جاتی ہیں فصلیں

کس شان سے خنجر پہ بہار آئی ہوئی ہے

۵۱۔    اب جو بچھڑا تو پلٹ کر نہ کبھی آؤں گا

ابھی موقع ہے بلا کر مجھے گھر میں لے جا

۵۲۔    عجیب شخص ہے اک رنگ میں نہیں ملتا

کبھی صنم کی طرح ہے کبھی خدا کی طرح

۵۳۔    اتنا تو خیر ربط ہے اب بھی کہ اس کی یاد

شانے پہ ہاتھ رکھ کے مرے گھر تک آئے گی

۵۴۔    میرے اشکوں کو مرے درد کا حاصل نہ سمجھ

ہائے وہ آگ جو دل سے اٹھے دل پر برسے

۵۵۔    ہر چہرہ ترا چہرہ ہے ہر آنکھ مری آنکھ

یہ تجھ سے جدا ہو کے نئی بات ہوئی ہے

۵۶۔    اس نے کیسی نظر سے دیکھا، جی دھک سے یوں بیٹھ گیا

جیسے اچانک پتھّر برسیں شیشے کی دیواروں پر

۵۷۔    تنہائی ہو یا سنّاٹا تیرے لیے

روح کا پارہ، جسم کا سونا تیرے نام

۵۸۔    سچ سچ کہنا اے دل ناداں بات ہے کیا رسوائی میں

سیکڑوں آنکھیں جھانک رہی ہیں کیوں میری تنہائی میں

۵۹۔    ایک ٹھہرا ہوا سناٹا سہی میرا وجود

تو کہ آواز ہے لہرا کے اتر جا مجھ میں

۶۰۔    دل کی طرح گھر کی ویرانی پل دو پل کی بات نہیں

اب تو سبزہ بھی نہیں اُگتا یارو ان دیواروں پر

۶۱۔     یادوں کے دریچوں سے بلاتے ہیں کئی چاند

اک شخص سے پیمانِ وفا ٹوٹ نہ جائے

۶۲۔    تمام جسم ہے ڈوبا ہوا اندھیروں میں

مگر یہ دل کہ تیرے غم کی روشنی ہے یہاں

۶۳۔    یہ زندگی ہے اسے ٹوٹ کر نہ کیوں چاہوں

کہ اس کے بعد بہار و خزاں نہیں ہے کوئی

۶۴۔    جو امن شہر کے ضامن ہیں کرفیو میں وہی

سُنا یہ ہے کہ بہت قتل عام کرتے ہیں

۶۵۔    جو اپنے خون کے رشتوں کے نام پوچھتے ہیں

تو دشمنوں کو بھی اللہ ایسے بھائی نہ دے

۶۶۔    مت سوچ کہ کیا رنگ ہے اس کا سرِ محفل

یہ دیکھ کہ قاتل کی نظر کس کی طرف ہے

۶۷۔    دلِ حزیں کی روش اس سے ملتی جلتی ہے

یہ دوست وہ ہے جو دشمن پُرانا ہے میرا

۶۸۔    سُنا ہے میرا دشمن آئینے سے خوف کھاتا ہے

کہ اس سے اپنی ہی بے چہرگی دیکھی نہیں جاتی

۶۹۔    بچوں سے محبت ہے مگر جیب ہے خالی

کس سے کہیں پردیس سے گھر کیوں نہیں جاتے

۷۰۔    مرا شہر شہرِ غضب ہے میاں

کئی دن سے دن میں بھی شب ہے میاں

۷۱۔    عجیب چیز ہے عنوانؔ دل کا پیمانہ

شکستہ ہو تو یہ دل کش زیادہ لگتا ہے

۷۲۔    سستی ہیں بہت آج بھی بازار میں جانیں

امسال کہاں شہر میں مہنگائی ہوئی ہے

۷۳۔    سنسان زندگی کی مسافت ہے اور میں

مجھ کو بھی اپنے ہاتھ میں اک ہاتھ چاہیے

۷۴۔    اسی کے دم سے بچی آبرو قبیلے کی

وہ ایک شخص جو آوارہ خاندان میں ہے

۷۵۔    کہیں گولی، کہیں گالی، محبت سے ہے دل خالی

خبر یہ تھی تو بچوں کو نیا اخبار کیا دیتا

شعر نمبر ۵۰، ۵۲، ۵۳، ۵۵، ۵۷، ۶۱، ۶۶، ۷۱، ۷۲، میری خاطر ایک بار پھر پڑھ جائیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کلاسیکی غزل کی کون سی معروف خوبی ایسی ہے جو ان میں موجود نہیں۔ الفاظ کی بندش بقول آتشؔ نگوں کی جڑائی جیسی، رعایتِ لفظی کا تقریباً ہر مصرع میں التزام، اپنے ہر دعوے کا جواز اور ثبوت پیش کرنا، قافیوں کو ردیف سے یوں چسپاں کرنا جیسے چوڑی سے چوڑی بیٹھتی ہے، مضامین ہیں تو خالص غزل کے جن کا محور دل، باطنی واردات اور معاملات حسن و عشق ہیں۔ تشبیہ، استعارے، ترکیب سازی حسبِ ضرورت صنعتوں کا استعمال سب کچھ ان شعروں میں اتنے مناسب امتزاج کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ نگاہ ہر شعر پر ٹھہر تی ہے اور دل کھنچتا ہے۔ ہمارے تغزل چشیدہ وہ بزرگ بھی جن کے ابرو نئی غزل کے نام پر چڑھ جاتے ہیں، عنوان چشتی کے ان شعروں کو آنکھوں سے لگاتے ہیں لیکن تھوڑا سا غور کیجیے تو ان میں ہی سے تقریباً ہر شعر کیچلی سی اتار کر نئے رنگ میں سامنے آتا ہے۔ یوں خنجر کی بہار کے ہاتھوں فصلوں کا پکنے سے پہلے کٹ جانا ( ش ۵۰) محبوب کی یاد کاشانے پر ہاتھ رکھ کر عاشق کو اس کے گھر تک پہنچانا (ش ۵۳) ہر چہرے میں محبوب کے چہرے کو دیکھنے کے لیے ہر آنکھ کو اپنی آنکھ بنا لینا (ش۵۵) معشوق کی خاطر روح کو پارہ ( ہر دو معنوں میں ) کر لینا اور جسم کو تپا کر سونا بنا نا (ش۵۷) یادوں کے دریچے سے بیک وقت متعدد مہتابوں کا شاعر کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور اس کا یہ ڈر کہ کہیں محبوب سے پیمانِ وفا نہ ٹوٹ جائے (ش ۶۱) قاتل کے حُسن سے زیادہ اس کے مطمحِ نظر پر توجہ کا مشورہ (ش۶۶) اور ایسے دوسرے نا در خیالات اور پُر پیچ اسالیب، کٹیلا لہجہ اور عصری حسیت سے مملو مضامین قدیم غزل میں تو نظر نہیں آتے۔ بالفاظِ دیگر عنوان چشتی کی غزل کا رنگ کلاسیکی تو ہے لیکن قدیم نہیں ہے یہاں نئے اور پُرانے کا ایسا پُر لطف امتزاج ہے کہ تار حریر دو رنگ کی مانند دلکشی رکھتا ہے۔ لیکن ان کے دھاگے الگ نہیں کیے جا سکتے۔

پھر اس گروہ کے باقی ماندہ اشعار کو کس خانے میں رکھیے گا جن میں کہیں شاعر خود محبوب کا قالب اختیار کرتا نظر آتا ہے (ش ۵۱) کہیں محبوب کی ایک نظر سے اس کا جی اس طرح دھک سے بیٹھ جاتا ہے جیسے شیشے کی دیوار پر پتھر برستے ہوں (ش۵۴)کہیں معشوق کی آواز کو لہریے کی مانند اپنے وجود کے سنّاٹے میں اتارنے کی خواہش کا اظہار ہے (ش ۵۹) کہیں دل کی دیوار پر سبزہ نہ اُگنے کا عمل بھی اس کی ویرانی میں اور اضافہ کرتا ہے (ش ۶۰) کہیں اس کا جسم اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن دل غم کی روشنی میں نہایا ہوا ہے (ش۶۲) زندگی سے جی بھر کر پیار کرنے کا ارادہ کہ بقول بابر عالم دوبارہ نیست (ش ۶۳) کرفیو کے زمانے میں امن کی حفاظت کرنے والوں کا قتل عام کرنا (ش ۶۴) اس دَور میں بھائی اپنے خون کے رشتوں کو نہیں پہچانتے (ش۶۵)شاعر کے دشمن بے چہرگی کے خوف سے آئینہ نہیں دیکھتے (ش ۶۸) پردیسی کو بچوں کی محبت ستاتی ہے لیکن خالی جیب لے کر گھر لوٹنا نہیں چاہتا (ش ۶۹) آج کا شہر غضب جہاں دن میں بھی رات رہتی ہے (ش۷۰) گرانی کے زمانے میں شاعر کے دیار میں جانوں کی ارزانی ہے (ش ۷۲) آوارہ سمجھے جانے والوں کا قبیلے کی آبرو بچا لینا( ش ۷۴) اخبارات میں گولیوں اور گالیوں کے علاوہ ہر اس چیز کا فقدان جو بچوں کے پڑھنے کے لائق ہو(ش ۷۵) اور ایسے ہی نو بہ نو تازہ نادر اور چبھتے ہوئے، سلگتے ہوئے زندگی آمیز مسائل سے عنوان چشتی کی غزلوں کے شعر مزین ہیں۔ ان میں سماجی مقصدیت بھی ہے، فرد کی شکست و ریخت کا ماتم بھی، عصری آگہی بھی ہے اور نئی حسیت بھی۔ مضامین بھی نئے ہیں اور انھیں نئے طرز میں باندھا بھی گیا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ نئی غزل کے بہت سے نئے ناموں کی طرح اشعار میں ترسیل کا المیہ نہیں ہے، نہ زندگی سے فرار کی تلقین پائی جاتی ہے۔ مجھ سے پوچھیے تو ان اشعار کو جدید غزل کا رجائی آہنگ کہوں گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

منورؔ رانا : مغربی بنگال کے شعری مزاج کا ترجمان

 

مغربی بنگال میں آزادی کے بعد کے ادبی سرمائے کا جائزہ لیجیے تو سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ نظر آتی ہے کہ اس علاقے میں، جہاں فورٹ ولیم کالج کے وسیلے سے عام فہم ادبی نثر کی بنیاد پڑی تھی، آج قابلِ ذکر نثر نگاروں کی تعداد افسوس ناک حد تک کم ہے۔ میری اس بات پر ممکن ہے جاوید نہال، شانتی رنجن بھٹا چاریہ، عبد الرؤف، سالک لکھنوی، ظفرؔ اوگانوی وغیرہ کبیدہ خاطر ہوں لیکن میرا مقصد ان کی نثری کاوشوں کی قدر و قیمت کو کم کرنا ہرگز نہیں ہے۔ غرض اتنی ہے کہ پچھلے تیس پینتیس برسوں میں شعر کہنے والوں کی جتنی بڑی تعداد منظرِ عام پر آئی ہے اس کے مقابلے میں نثر لکھنے والے انگلیوں پر شمار کیے جا سکتے ہیں۔ میری یہ بات بے موقعہ اور بے محل بھی نہیں ہے کہ علامہ وحشتؔ اور پرویزؔ شاہدی سے لے کر اعزاز افضل اور منور رانا تک تخلیق کاروں کا ایک بڑا قافلہ ہے جس سے ہماری تنقید بے اعتنائی برتتی چلی آ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر اس خطے نے دو چار نقاد بھی پیدا کیے ہوتے توصورتٍ حال یقیناُ مختلف ہوتی۔

ماہنامہ ’ شاعر‘ ( بمبئی) نے حال ہی میں میرے دوست بشیر بدرؔ کا ایک دلچسپ مضمون ’غزل کی زبان‘ شائع کیا ہے جس میں موصوف نے منور راناؔ اور ان کے ہم عصر چند اور شعراء کے ( جن کا تعلق مغربی بنگال سے ہے ) اشعار درج کر کے سوال کیا ہے کہ ان اشعار کا کسی خاص علاقے سے تعلق ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بشیر بدرؔ نے اپنے مضمون میں اور بھی کئی تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں مثلاً میرؔ اور غالبؔ کی شاعری کا بڑا حصہ جسے غزل سمجھا جاتا ہے، دراصل غزل سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتا، غزل کی کوئی زبان نہیں ہوتی، اردو سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اردو مر جائے گی اور غزل زندہ رہے گی وغیرہ وغیرہ۔ سب سے زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ پورے مضمون میں پیش کردہ اشعار میں سے نوے فی صد خود بشیر بدرؔ کے ہیں جنھیں فاضل مقالہ نگار نے مثالی غزلیہ شعروں کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ یہاں میں بشیر بدرؔ کی دوسری باتوں سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف منور راناؔ کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے منور راناؔ کے شعر پڑھیے جو بشیر بدرؔ نے اپنے مضمون میں درج کیے ہیں :

بچپن میں کسی بات پہ ہم روٹھ گئے تھے

اس دن سے اسی شہر میں ہیں گھر نہیں جاتے

اس وقت بھی اکثر تجھے ہم ڈھونڈنے نکلے

جس دھوپ میں مزدور بھی چھت پر نہیں جاتے

اور اب منورؔ رانا کے کچھ اور اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے جو مندرجہ بالا اشعار ہی کے ہم مزاج ہیں :

شرم آتی ہے مزدوری بتاتے ہوئے ہم کو

اتنے میں تو بچوں کا غبارہ نہیں ملتا

………

میں اِک فقیر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ ہوں

کسی سے بھی مری قیمت ادا نہیں ہوتی

………

جہاں پر گن کے روٹی بھائیوں کو بھائی دیتے ہوں

سبھی چیزیں وہاں دیکھیں مگر برکت نہیں دیکھی

………

ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے

یہاں اب کوئلہ چنتے ہیں پھولوں سے بدن والے

………

میں کہ فرہاد نہیں باپ ہوں اِک بیٹے کا

صرف روزی کے لیے کوہ کنی آ جائے

………

مرے گھر کے درو دیوار کی حالت نہیں دیکھی

برستے بادلو! تم نے بھی میری چھت نہیں دیکھی

………

ہمیں بھی پیٹ کی خاطر خزانہ ڈھونڈ لینا ہے

اسی پھینکے ہوئے کھانے سے دانہ ڈھونڈ لینا ہے

………

جب یہ سنا کہ جنگ سے لوٹا ہوں ہار کے

راکھی زمیں پہ پھینک کے بہنیں چلی گئیں

………

ہمیشہ اپنی ہی شرطوں پہ ہجرتیں کی ہیں

مسافروں نے قلی کی طرف نہیں دیکھا

………

اس خرابے کو بھی گلزار بنانا تھا اسے

ورنہ آدم کو زمیں پر نہیں پھینکا جاتا

………

جو دھوپ میں جلنے کا سلیقہ نہیں رکھتے

ان پیڑوں کو پتوں کی قبا بھی نہیں ملتی

منورؔ رانا کوئی پُر گو شاعر نہیں ہیں لیکن ان کے زیرِ طبع پہلے مجموعۂ کلام ’’ نیم کے پھول‘‘ میں اسی زمرے کے اشعار کی جو کثرت ہے کیا وہ کسی خاص مزاج شعر کی غمازی نہیں کرتی؟ کوئی تو سبب ہو گا کہ راناؔ بار بار مزدوروں اور غریبوں کا ذکر کرتے ہیں اور انتہائی ہمدردی کے ساتھ کرتے ہیں۔ کہیں دھوپ میں ان کا پسینہ بہتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں ان کی اجرت کم ہونے کا گلہ ہے۔ کہیں قلی سے مسافروں کی بے اعتنائی شاعر کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ کہیں فقیر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور اس کی بے وقعتی پر شاعر کا خون کھولتا ہے۔ کسی شعر میں پھینکے ہوئے کھانے سے رزق تلاش کرنے والے نظر آتے ہیں تو کہیں پھول سے بدن والے کوئلہ چنتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور کہیں بھائی بھائیوں کو گن کر روٹیاں فراہم کرتا ہوا ملتا ہے۔ کہیں روزی کے لیے کوہکنی کی جا رہی ہے تو کہیں گھر کی حالت نہ دیکھنے پر بادلوں کی بے حسی کا شکوہ کیا جا رہا ہے۔ پھر روٹی، روزی، مکان، مزدور، غریبی اور مجبوروں کے استحصالِ بیجا پر شعر کہنے والا یہ نوجوان، جدید نسل کے دوسرے شاعروں کی طرح گردن ڈال کر چلنے سے انکار بھی کرتا ہے۔ اس کے اشعار میں بہنیں شکست خوردہ بھائی کو راکھی باندھنے سے انکار کر دیتی ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ آدم کو زمین پر اس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ اس خرابے کو گلزار بنائے اور پیڑوں کو پیغام دیتا ہے کہ دھوپ میں جلنے کا سلیقہ نہ ہو تو پتوں کی قبا ہاتھ نہیں آتی۔ اتنے بہت سے شواہد موجود ہوں اور ہم علاقے کا تعین نہ کر سکیں تو ہمیں اپنی سخن شناسی پر اتنا اعتبار نہیں کرنا چاہیے جتنا بشیر بدرؔ کو ہے۔

کسی دسویں جماعت کے طالب علم سے سوال کر دیکھیے کہ برہمی اور احتجاج کی لَے ہندوستان کے کس علاقے میں سب سے بلند ہوتی ہے ؟ جواب ملے گا بنگال میں۔ از ابتدا تا حال، یہ خطہ اشتراکیت کا پر جوش علمبردار رہا ہے اور وہاں آج بھی کمیونسٹ پارٹی برسرِ اقتدار ہے۔ بالآخر منورؔ  رانا، سبھاش چندر بوس اور قاضی نذرالاسلام کے بنگال میں قیام پذیر ہیں، جس کے خمیر میں ذوق جمال اور لطافتِ طبع کے ساتھ احتجاج، برہمی، جوش، ولولہ اور سرکشی داخل ہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اچھا اور سچا فنکار اپنی زمین سے کٹ کر اور اپنے ماحول سے بے نیازی برت کر شعر کہہ سکے۔ البتہ راناؔ کو اپنے پیش روؤں سے، جن میں بیشتر غالی ترقی پسند تھے، ورثے میں جو مزاج شعر حاصل ہوا، اس میں عصری رجحانات اور تقاضوں کو آمیز کر کے انھوں نے ایک ایسا رنگ برآمد کیا جس میں جدیدیت، مقصدیت اور ترقی پسندی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ ان کا شعر ترقی پسندی کی باڑھ میں آ کر نعرہ بازی نہیں کرتا بلکہ اس نظریے کو جذبے میں تحلیل کر کے نئی لفظیات سے آراستگی کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ چنانچہ اپنی تمام تر مقصدیت اور نظریاتی وابستگی کے با وصف وہ شعر رہتا ہے، جمالیاتی حس کو آسودگی اور دل و دماغ کو بیک وقت متاثر کرنے والا شعر۔

لیکن مغربی بنگال میں تو منور راناؔ کے جونیر اور سینئر ہم عصر شاعروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ کسی جانب سے سوال اٹھ سکتا ہے کہ ان کے درمیان منورؔ رانا کی شناخت کیا ہے ؟ جواب ہے کہ اچھے شاعر کبھی بھیڑ میں گم نہیں ہوا کرتے۔ یہ جواب میرا ہی نہیں منورؔ رانا کے مندرجہ ذیل اشعار بھی کچھ یہی کہتے ہیں :

بڑے شہروں میں بھی رہ کر برابر یاد کرتا تھا

وہ اک چھوٹے سے اسٹیشن کا منظر یاد کرتا تھا

………

وہ میلا سا، بوسیدہ سا آنچل نہیں دیکھا

برسوں ہوئے ہم نے کوئی پیپل نہیں دیکھا

………

کچی سڑکوں سے لپٹ کر بیل گاڑی رو پڑی

غالباً پردیس کو کچھ گاؤں والے جائیں گے

………

ہم گاؤں میں جب تک رہتے تھے یہ سب منظر مل جاتے تھے

دو چار کنوئیں مل جاتے تھے دس بیس شجر مل جاتے تھے

………

گفتگو فون پہ ہو جاتی ہے راناؔ صاحب

اب کسی چھت پہ کبوتر نہیں پھینکا جاتا

………

تو اب اس گاؤں سے رشتہ ہمارا ختم ہوتا ہے

پھر آنکھیں کھول لی جائیں کہ سپنا ختم ہوتا ہے

………

ابھی تک میرے قصبے میں کئی ایسے گھرانے ہیں

کبھی رمضان میں مسجد سے افطاری نہیں لاتے

………

یہ اور اس قبیل کے بہت سے اشعار بتاتے ہیں کہ راناؔ کا بچپن گاؤں میں گزرا ہے جہاں کا اسٹیشن، پیپل کے پیڑ، کنوئیں، کچی سڑکیں، بیل گاڑیاں، تالاب، ماں کا میلا اور بوسیدہ آنچل، گھونسلے سے چرائے ہوئے پرندوں کے بچے، چھتوں پر پھینکے ہوئے کبوتر، شاعر کو بار بار یاد آتے ہیں اور یہ یادیں اشعار میں جگہ بنا کر منورؔ رانا کی انفرادیت کا تعین کرتی ہیں۔ ایسے تمام  اشعار یکجا کر کے دیکھے جائیں تو ان سے ابھرتا ہوا گاؤں بنگال کا نہیں، صاف مشرقی یوپی کا نظر آتا ہے۔ یارانِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام ہے، خود تجزیہ کر کے دیکھ لیں۔

منور راناؔ کے شعری رویّے کا ایک روشن اور گہرا رنگ یہ بھی ہے کہ ان کے اکثر اشعار میں بہن کی محبت، ماں کی ممتا، پدرانہ شفقت اور بچوں کی معصومیت کو شاعری کی زبان مل گئی ہے مثلاً:

ماں باپ کی بوڑھی آنکھوں میں اک فکر سی چھائی رہتی ہے

جس کمبل میں سب سوتے تھے اب وہ بھی چھوٹا پڑتا ہے

………

کھلونوں کے لیے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے

تجھے اے مفلسی کوئی بہانا ڈھونڈ لینا ہے

………

اب دیکھیے کون آئے جنازے کو اٹھانے

یوں تار تو میرے سبھی بیٹوں کو ملے گا

………

گھیر لینے کو مجھے جب بھی بلائیں آ گئیں

ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں گئیں

………

کچھ کھلونے کبھی آنگن میں دکھائی دیتے

کاش ہم بھی کسی بچے کو مٹھائی دیتے

………

جس کو بچوں میں پہنچنے کی بہت عجلت ہو

اس سے کہیے نہ کبھی کار چلانے کے لیے

………

کسی بچے کا یہ جملہ ابھی تک یاد ہے راناؔ

یتیموں کو پڑھانے کوئی استانی نہیں جاتی

………

ہر سہولت تھی میسر لیکن اس کے باوجود

ماں کے ہاتھوں کی پکائی روٹیاں اچھی لگیں

………

دوستی دشمنی دونوں شامل رہیں، دوستوں کی نوازش تھی کچھ اس طرح

کاٹ لے شوخ بچہ کوئی جس طرح ماں کے رخسار پر پیار کرتے ہوئے

………

یہ بوڑھی آنکھیں، چھوٹا کمبل، بچوں کے کھلونے، باپ کی موت کا تار، ماں کی دعائیں اور اس کے ہاتھ کی پکائی روٹیاں، یتیموں کو نہ پڑھانے والی استانی، بچوں میں مٹھائی بانٹنے کی خواہش اور ماں کے رخسار کو کاٹنے والے شوخ بچے کس طرح سامنے کی بات اور پیش پا افتادہ مضامین نہ رہ کر غزل کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں، اہلِ نظر محسوس کر سکیں گے۔ یہ باتیں ایک خاص دھرتی کی بو باس میں رچی بسی ہیں۔ دوسرے علاقوں مثلاً مغربی ممالک کے شاعر انھیں اس طرح نہیں کہہ سکتے۔ در اصل ایک مخصوص خطّہ ارض اور کوئی خاص زبان کسی صنف شعر کے لیے والدین کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ خصوصاً راناؔ پر یہ بات زیادہ صادق آتی ہے کہ وہ اردو کی غزلیہ شاعری میں مغربی بنگال کے مزاج شعری کے ترجمان ہیں نیز خاندان اور رشتوں کی تقدیس پر ایمان رکھتے ہیں۔ بشیر بدرؔ کو ان کا ایک شعر سنا کر میں اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں :

آسمانو! کبھی پاتال کی جانب آنا

مجھ سے ملنا ہو تو بنگال کی جانب آنا

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید