FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

تقسیم کہانی

 

حصہ چہارم

 

 

تحقیق اور انتخاب : عامر صدیقی

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

وورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

گڈریا

 

اشفاق احمد

 

 

یہ سردیوں کی ایک یخ بستہ اور طویل رات کی بات ہے۔ میں اپنے گرم گرم بستر میں سر ڈھانپے گہری نیند سو رہا تھا کہ کسی نے زور سے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔

’’کون ہے۔‘‘میں نے چیخ کر پوچھا اور اس کے جواب میں ایک بڑا سا ہاتھ میرے سر سے ٹکرایا اور گھپ اندھیرے سے آواز آئی ’’تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کر لیا۔‘‘

’’کیا؟‘‘ میں لرزتے ہوئے ہاتھ کو پرے دھکیلنا چاہا۔ ’’کیا ہے؟‘‘

اور تاریکی کا بھوت بولا ’’ تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کر لیا…. اس کا فارسی میں ترجمہ کرو۔‘‘

’’داؤ جی کے بچے‘‘ میں نے اونگھتے ہوئے کہا ’’آدھی آدھی رات کو تنگ کرتے ہو…. دفع ہو جاؤ…. میں نہیں…. میں نہیں…. آپ کے گھر رہتا۔ میں نہیں پڑھتا…. داؤ جی کے بچے…. کتے!‘‘ اور میں رونے لگا۔

داؤ جی نے چمکار کر کہا ’’اگر پڑھے گا نہیں تو پاس کیسے ہو گا ! پاس نہیں ہو گا تو بڑا آدمی نہ بن سکے گا، پھر لوگ تیرے داؤ کو کیسے جانیں گے؟‘‘

’’اللہ کرے سب مر جائیں۔ آپ بھی آپ کو جاننے والے بھی…. اور میں بھی …. میں بھی….‘‘

اپنی جواں مرگی پر ایسا رویا کہ دو ہی لمحوں میں گھگھی بندھ گئی۔

داؤ جی بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور کہہ رہے تھے ’’بس اب چپ کر شاباش…. میرا اچھا بیٹا۔ اس وقت یہ ترجمہ کر دے، پھر نہیں جگاؤں گا۔‘‘

آنسوؤں کا تار ٹوٹتا جا  رہا تھا۔ میں نے جل کر کہا ’’آج حرامزادے رانو کو پکڑ کر لے گئے کل کسی اور کو پکڑ لیں گے۔ آپ کا ترجمہ تو….‘‘

’’نہیں  نہیں‘‘ انہوں نے بات کاٹ کر کہا ’’میرا تیرا وعدہ رہا آج کے بعد رات کو جگا کر کچھ نہ پوچھوں گا…. شاباش اب بتا ’’تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کر لیا۔‘‘ میں نے روٹھ کر کہا ’’مجھے نہیں آتا‘‘۔

’’فوراً نہیں کہہ دیتا ہے‘‘ انہوں نے سر سے ہاتھ اٹھا کر کہا ’’کوشش تو کرو۔‘‘ ’’نہیں کرتا!‘‘ میں نے جل کر جواب دیا۔

اس پر وہ ذرا ہنسے اور بولے ’’کارکنانِ گزمہ خانہ رانو را توقیف کردند…. کارکنانِ گزمہ خانہ، تھانے والے۔ بھولنا نہیں نیا لفظ ہے۔ نئی ترکیب ہے، دس مرتبہ کہو۔‘‘

مجھے پتہ تھا کہ یہ بلا ٹلنے والی نہیں، نا چار گزمہ خانہ والوں کا پہاڑہ شروع کر دیا، جب دس مرتبہ کہہ چکا تو داؤ جی نے بڑی لجاجت سے کہا اب سارا فقرہ پانچ بار کہو۔ جب پنجگانہ مصیبت بھی ختم ہوئی تو انہوں نے مجھے آرام سے بسترمیں لٹاتے ہوئے اور رضائی اوڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’بھولنا نہیں! صبح اٹھتے ہی پوچھوں گا۔‘‘ پھر وہ جدھر سے آئے تھے ادھر لوٹ گئے۔

شام کو جب میں ملا جی سے سیپارے کا سبق لے کر لوٹتا تو خراسیوں والی گلی سے ہو کر اپنے گھر جایا کرتا۔ اس گلی میں طرح طرح کے لوگ بستے تھے۔ مگر میں صرف موٹے ماشکی سے واقف تھا جس کو ہم سب ’’کدو کریلا ڈھائی آنے‘‘ کہتے تھے۔

ماشکی کے گھر کے ساتھ بکریوں کا ایک باڑہ تھا جس کے تین طرف کچے پکے مکانوں کی دیواریں اور سامنے آڑی ترچھی لکڑیوں اور خار دار جھاڑیوں کا اونچا اونچا  جنگلا تھا۔ اس کے بعد ایک چوکور میدان آتا تھا، پھر لنگڑے کمہار کی کوٹھڑی اور اس کے ساتھ گیرو رنگی کھڑکیوں اور پیتل کی کیلوں والے دروازوں کا ایک چھوٹا سا پکا مکان۔ اس کے بعد گلی میں ذرا سا خم پیدا ہوتا اور قدرے تنگ ہو جاتی پھر جوں جوں اس کی لمبائی بڑھتی توں توں اس کے دونوں بازو بھی ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے۔ شاید وہ ہمارے قصبے کی سب سے لمبی گلی تھی اور حد سے زیادہ سنسان! اس میں اکیلے چلتے ہوئے مجھے ہمیشہ یوں لگتا تھا جیسے میں بندوق کی نالی میں چلا جا رہا ہوں اور جونہی میں اس کے دہانے سے باہر نکلوں گا زور سے ’’ٹھائیں‘‘ ہو گا اور میں مر جاؤں گا۔ مگر شام کے وقت کوئی نہ کوئی راہگیر اس گلی میں ضرور مل جاتا اور میری جان بچ جاتی۔ ان آنے جانے والوں میں کبھی کبھار  ایک سفید سی مونچھوں والا لمبا سا آدمی ہوتا جس کی شکل بارہ ماہ والے ملکھی سے بہت ملتی تھی۔ سر پر ململ کی بڑی سی پگڑی۔ ذرا سی خمیدہ کمر پر خاکی رنگ کا ڈھیلا اور لمبا کوٹ۔ کھدر کا تنگ پائجامہ اور پاؤں میں فلیٹ بوٹ۔ اکثر اس کے ساتھ میری ہی عمر کا ایک لڑکا بھی ہوتا جس نے عین اسی طرح کے کپڑے پہنے ہوتے اور وہ آدمی سر جھکائے اور اپنے کوٹ کی جیبوں کی ہاتھ ڈالے آہستہ آہستہ اس سے باتیں کیا کرتا۔ جب وہ میرے برابر آتے تو لڑکا میری طرف دیکھتا تھا اور میں اس کی طرف اور پھر ایک ثانیہ ٹھٹھکے بغیر گردنوں کو ذرا ذرا موڑتے ہم اپنی اپنی راہ پر چلتے جاتے۔

ایک دن میں اور میرا بھائی ٹھٹھیاں کے جوہڑ سے مچھلیاں پکڑنے کی ناکام کوشش کے بعد قصبہ کو واپس آ رہے تھے تو نہر کے پل پر یہی آدمی اپنی پگڑی گود میں ڈالے بیٹھا تھا اور اس کی سفید چٹیا میری مرغی کے پر کی طرح اس کے سر سے چپکی ہوئی تھی۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے میرے بھائی نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے سلام کیا۔’’داؤ جی سلام‘‘ اور داؤ جی نے سر ہلا کر جواب دیا۔ ’’جیتے  رہو‘‘۔

یہ جان کر کہ میرا بھائی اس سے واقف ہے میں بے حد خوش ہوا اور تھوڑی دیر بعد اپنی منمنی آواز میں چلایا۔ ’’داؤ جی سلام‘‘۔

’’جیتے رہو۔ جیتے رہو!!‘‘ انہوں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر کہا اور میرے بھائی نے پٹاخ سے میرے زناٹے کا ایک تھپڑ دیا۔

’’شیخی خورے، کتے‘‘ وہ چیخا۔ جب میں نے سلام کر دیا تو تیری کیا ضرورت رہ گئی تھی؟ ہر بات میں اپنی ٹانگ پھنساتا ہے کمینہ…. ’’بھلا کون ہے وہ؟‘‘

’’داؤ جی‘‘ میں نے بسور کر کہا۔

’’کون داؤ جی‘‘ میرے بھائی نے تنک کر پوچھا۔

’’وہ جو بیٹھے ہیں‘‘ میں نے آنسو پی کر کہا۔

’’بکواس نہ کر‘‘ میرا بھائی چڑ گیا اور آنکھیں نکال کر بولا۔ ہر بات میں میری نقل کرتا ہے کتا…. شیخی خورا۔‘‘

میں نہیں بولا اور اپنی خاموشی کے ساتھ راہ چلتا رہا۔ دراصل مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ داؤ جی سے تعارف ہو گیا۔ اس کا رنج نہ تھا کہ بھائی نے میرے تھپڑ کیوں مارا۔ وہ تو اس کی عادت تھی۔ بڑا تھا نا اس لئے ہر بات میں اپنی شیخی بگھارتا تھا۔

 

داؤ جی سے علیک سلیک تو ہو ہی گئی تھی  اس لئے میں کوشش کر کے گلی میں سے اس وقت گزرنے لگا جب وہ آ جا رہے ہوں۔ انہیں سلام کر کے بڑا مزا آتا تھا اور جواب پا کر اس سے بھی زیادہ اس سے بھی زیادہ۔ جیتے رہو کچھ ایسی محبت سے کہتے کہ زندگی دو چند ہو سی جاتی اور آدمی زمین سے ذرا اوپر اٹھ کر ہوا میں چلنے لگتا…. سلام کا یہ سلسلہ کوئی سال بھر یونہی چلتا رہا اور اس اثناء میں مجھے اس قدر معلوم ہو سکا کہ داؤ جی گیرو رنگی کھڑکیوں والے مکان میں رہتے ہیں اور چھوٹا سا لڑکا ان کا بیٹا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے ان کے متعلق کچھ اور بھی پوچھنا چاہا مگر وہ بڑا سخت آدمی تھا اور میری چھوٹی بات پر چڑ جاتا تھا۔ میرے ہر سوال کے جواب میں ا س کے پاس گھڑے گھڑائے دو فقرے ہوتے تھے۔ ’’تجھے کیا‘‘ اور ’’بکواس نہ کر‘‘ مگر خدا کا شکر ہے میرے تجسس کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چلا۔ اسلامیہ پرائمری سکول سے چوتھی پاس کر کے میں ایم۔ بی ہائی سکول کی پانچویں جماعت میں داخل ہوا تو وہی داؤ جی کا لڑکا میرا ہم جماعت نکلا۔ اس کی مدد سے اور اپنے بھائی کا احسان اٹھائے بغیر میں یہ جان گیا کہ داؤ جی کھتری تھے اور قصبہ کی منصفی میں عرضی نویسی کا کام کرتے تھے۔ لڑکے کا نام امی چند تھا اور وہ جماعت میں سب سے زیادہ ہشیار تھا۔ اس کی پگڑی کلاس بھر میں سب سے بڑی تھی اور چہرہ بلی کی طرح چھوٹا۔ چند لڑکے اسے میاؤں کہتے تھے اور باقی نیولا کہہ کر پکارتے تھے مگر میں داؤ جی کی وجہ سے اس کے اصلی نام ہی سے پکارتا تھا۔ اس لئے وہ میرا دوست بن گیا اور ہم نے ایک دوسرے کو نشانیاں دے کر پکے یار بننے کا وعدہ کر لیا تھا۔

 

گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے میں کوئی ایک ہفتہ ہو گا جب میں امی چند کے ساتھ پہلی مرتبہ اس کے گھر گیا۔ وہ گرمیوں کی ایک جھلسا دینے والی دوپہر تھی لیکن شیخ چلی کی کہانیاں حاصل کرنے کا شوق مجھ پر بھوت بن کر سوار تھا اور میں بھوک اور دھوپ دونوں سے بے پرواہ ہو کر سکول سے سیدھا اس کے ساتھ چل دیا۔

 

امی چند کا گھر چھوٹا سا تھا لیکن بہت ہی صاف ستھرا اور روشن۔ پیتل کی کیلوں والے دروازے کے بعد ذرا سی ڈیوڑھی تھی۔ آگے مستطیل صحن، سامنے سرخ رنگ کا برآمدہ اور اس کے پیچھے اتنا ہی بڑا کمرہ۔ صحن میں ایک طرف انار کا پیڑ۔ عقیق کے چند پودے اور دھنیا کی ایک چھوٹی سی کیاری تھی۔ دوسری طرف چوڑی سیڑھیوں کا ایک زینہ جس کی محراب تلے مختصر سی رسوئی تھی۔ گیرو رنگی کھڑکیاں ڈیوڑھی سے ملحقہ بیٹھک میں کھلتی تھیں اور بیٹھک کا دروازہ نیلے رنگ کا تھا۔ جب ہم ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو امی چند نے چلا کر ’’بے بے نمستے!‘‘ کہا اور مجھے صحن کے بیچوں بیچ چھوڑ کر بیٹھک میں گھس گیا۔ برآمدے میں بوریا بچھائے بے بے مشین چلا رہی تھی اور اس کے پاس ہی ایک لڑکی بڑی سی قینچی سے کپڑے قطع کر رہی تھی۔ بے بے نے منہ ہی منہ میں کچھ جواب دیا اور ویسے ہی مشین چلا تی رہی۔ لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور گردن موڑ کر کہا۔ ’’بے بے شاید ڈاکٹر صاحب کا لڑکا ہے۔‘‘

مشین رک گئی۔

’’ہاں ہاں‘‘ بے بے نے مسکرا کر کہا اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا۔ میں اپنے جز دان کی رسی مروڑتا اور ٹیڑھے ٹیڑھے پاؤں دھرتا برآمدے کے ستون کے ساتھ آ لگا۔

’’کیا نام ہے تمہارا‘‘ بے بے نے چمکار کر پوچھا اور میں نے نگاہیں جھکا کر آہستہ سے اپنا نام بتا دیا۔

’’آفتاب سے بہت شکل ملتی ہے۔‘‘ اس لڑکی نے قینچی زمین پر رکھ کر کہا۔ ’’ہے نا بے بے؟‘‘

’’کیوں نہیں بھائی جو ہوا۔‘‘

’’آفتاب کیا؟‘‘ اندر سے آواز آئی، آفتاب کیا بیٹا؟‘‘

’’آفتاب کا بھائی ہے داؤ جی‘‘ لڑکی نے رکتے ہوئے کہا۔ ’’امی چند کے ساتھ آیا ہے۔‘‘

اندر سے داؤ جی برآمد ہوئے۔ انہوں نے گھٹنوں تک اپنا پائجامہ چڑھا رکھا اور کرتہ اتارا ہوا تھا۔ مگر سر پر پگڑی بدستور تھی۔ پانی کی ہلکی سی بالٹی اٹھا وہ برآمدے میں آ گئے اور میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ’’ہاں بہت شکل ملتی ہے مگر میرا آفتاب بہت دبلا ہے اور یہ گولو مولو سا ہے۔‘‘ پھر بالٹی فرش پر رکھ کے انہوں نے میرے سر ہاتھ پھیرا اور پاس کا ٹھ کا ایک اسٹول کھینچ کر اس پر بیٹھ گئے۔ زمین سے پاؤں اٹھا کر انہوں نے آہستہ سے انہیں جھاڑا اور پھر بالٹی میں ڈال دئے۔

’’آفتاب کا خط آتا ہے؟‘‘ انہوں نے بالٹی سے پانی کے چلو بھر بھر کر ٹانگوں پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

’’آتا ہے جی‘‘ میں نے ہولے سے کہا۔ ’’پرسوں آیا تھا‘‘۔

’’کیا لکھتا ہے؟‘‘۔

’’پتا نہیں جی، ابا جی کو پتہ ہے۔‘‘

’’اچھا‘‘ انہوں نے سر ہلا کر کہا۔ ’’تو ابا جی سے پوچھا کرنا! …. جو پوچھتا نہیں اسے کسی بھی بات کا علم نہیں ہوتا۔‘‘

میں چپ رہا۔

تھوڑی دیر انہوں نے ویسے ہی چلو ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ’’کونسا  سیپارہ پڑھ رہے ہو؟‘‘

’’چوتھا‘‘ میں نے وثوق سے جواب دیا۔

’’کیا نام ہے تیسرے سیپارے کا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

’’جی نہیں پتہ۔ ’’میری آواز پھر ڈوب گئی۔

’’تلک الرسل‘‘ انہوں نے پانی سے ہاتھ باہر نکال کر کہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ جھٹکتے اور ہوا میں لہراتے رہے۔ بے بے مشین چلاتی رہی۔ وہ لڑکی نعمت خانے سے روٹی نکال کر برآمدے کی چوکی پر لگانے لگی اور میں جزدان کی ڈوری کو کھولتا لپیٹتا رہا۔ امی چند ابھی تک بیٹھک کے اندر ہی تھا اور میں ستون کے ساتھ ساتھ جھینپ کی عمیق گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا، معاً داؤ جی نے نگاہیں میری طرف پھیر کر کہا….

’’سورة فاتحہ سناؤ۔‘‘

’’مجھے نہیں آتی جی‘‘ میں نے شرمندہ ہو کر کہا۔

انہوں نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’الحمدللہ بھی نہیں جانتے؟‘‘

’’الحمدللہ تو میں جانتا ہوں  جی‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔

وہ ذرا مسکرائے اور گویا اپنے آپ سے کہنے لگے۔ ’’ایک ہی بات ہے! ایک ہی بات ہے!!‘‘ پھر انہوں نے سر کے اشارے سے کہا سناؤ۔ جب میں سنانے لگا تو انہوں نے اپنا پائجامہ گھٹنوں سے نیچے کر لیا اور پگڑی کا شملہ چوڑا کر کے کندھوں پر ڈال دیا اور جب میں نے وَلَا الضَّالِّیُنَ کہا تو میر ے ساتھ ہی انہوں نے بھی آمین کہا۔ مجھے خیال ہوا کہ وہ ابھی اٹھ کر مجھے کچھ انعام دیں گے کیونکہ پہلی مرتبہ جب میں نے اپنے تایا جی کو الحمدللہ سنائی تھی تو انہوں نے بھی ایسے ہی آمین کہا تھا اور ساتھ ہی ایک روپیہ مجھے انعام بھی دیا تھا۔ مگر داؤ جی اسی طرح بیٹھے رہے بلکہ اور بھی پتھر ہو گئے۔ اتنے میں امی چند کتاب تلاش کر کے لے آیا اور جب میں چلنے لگا تو میں نے عادت کے خلاف آہستہ سے کہا ’’داؤ جی سلام‘‘ اور انہوں نے ویسے ہی ڈوبے ڈوبے ہولے سے جواب دیا۔ ’’جیتے رہو‘‘۔

بے بے نے مشین روک کر کہا ’’کبھی کبھی امی چند کے ساتھ کھیلنے آ جایا کرو۔‘‘

’’ہاں ہاں آ جایا کر‘‘ داؤ جی چونک کر بولے۔ ’’آفتاب بھی آیا کرتا تھا‘‘ پھر انہوں نے بالٹی پر جھکتے ہوئے کہا ’’ ہمارا آفتاب تو ہم سے بہت دور ہو گیا اور فارسی کا شعر سا پڑھنے لگے۔

یہ داؤ جی سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی اور اس ملاقات سے میں یہ نتائج اخذ کر کے چلا کہ داؤ جی بڑے کنجوس ہیں۔ حد سے زیادہ چپ ہیں اور کچھ بہرے سے ہیں۔ اسی دن شام کو میں نے اپنی اماں کو بتایا کہ میں داؤ جی کے گھر گیا تھا اور وہ آفتاب بھائی کو یاد کر رہے تھے۔

اماں نے قدرے تلخی سے کہا ’’تو مجھ سے پوچھ تو لیتا۔ بے شک آفتاب ان سے پڑھتا رہا ہے اور ان کی بہت عزت کرتا ہے مگر تیرے اباجی ان سے بولتے نہیں ہیں۔ کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تھا سو اب تک ناراضگی چلی آتی ہے۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ تو ان کے ہاں گیا تھا تو وہ خفا ہوں گے، پھر اماں نے ہمدرد بن کر کہا ’’اپنے ابا سے اس کا ذکر نہ کرنا۔‘‘

میں ابا جی سے بھلا اس کا ذکر کیوں کرتا، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ میں داؤ جی کے ہاں جاتا رہا اور خوب خوب ان سے معتبری کی باتیں کرتا رہا۔

وہ چٹائی بچھائے کوئی کتا ب پڑھ رہے ہوتے۔ میں آہستہ سے ان کے پیچھے جا کر کھڑا ہو جاتا اور وہ کتاب بند کر کے کہتے ’’گولو  آ گیا‘‘ پھر میری طرف مڑتے اور ہنس کر کہتے ’’کوئی گپ سنا ‘‘ اور میں اپنی بساط کے اور سمجھ کے مطابق ڈھونڈ ڈھانڈ کے کوئی بات سناتا تو وہ خوب ہنستے۔ بس یونہی میرے لئے ہنستے حالانکہ مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسی دلچسپ باتیں بھی نہ ہوتی تھیں، پھر وہ اپنے رجسٹر سے کوئی کاغذ نکال کر کہتے لے ایک سوال نکال۔ اس سے میری جان جاتی تھی لیکن ان کا وعدہ بڑا رسیلا ہوتا تھا کہ ایک سوال اور پندرہ منٹ باتیں۔ اس کے بعد ایک اور سوال اور پھر پندرہ منٹ گپیں۔ چنانچہ میں مان جاتا اور کاغذ لے کر بیٹھ جاتا لیکن ان کے خود ساختہ سوال کچھ ایسے الجھے ہوتے کہ اگلی باتوں اور اگلے سوالوں کا وقت بھی نکل جاتا۔ اگر خوش قسمی سے سوال جلد حل ہو جاتا تو وہ چٹائی کو ہاتھ لگا کر پوچھتے یہ کیا ہے؟ ’’چٹائی‘‘ میں منہ پھاڑ کر جواب دیتا ’’اوں ہوں‘‘ وہ سر ہلا کر کہتے ’’فارسی میں بتاؤ‘‘ تو میں تنک کر جواب دیتا ’’لو جی ہمیں کوئی فارسی پڑھائی جاتی ہے‘‘ اس پر وہ چمکار کر کہتے ’’میں جو پڑھاتا ہوں گولو…. میں جو سکھاتا ہوں…. سنو! فارسی میں بوریا، عربی میں حصیر‘‘ میں شرارت سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ’’بخشو جی بخشو، فارسی بھی اور عربی بھی میں نہیں پڑھتا مجھے معاف کرو‘‘ مگر وہ سنی ان سنی ایک کر کے کہے جاتے فارسی بوریا، عربی حصیر۔ اور پھر کوئی چاہے اپنے کانوں میں سیسہ بھر لیتا۔ داؤ جی کے الفاظ گھستے چلے جاتے تھے…. امی چند کتابوں کا کیڑا تھا۔ سارا دن بیٹھک میں بیٹھا لکھتا پڑھتا رہتا۔ داؤ جی اس کے اوقات میں مخل نہ ہوتے تھے، لیکن ان کے داؤ امی چند پر بھی برابر ہوتے تھے، وہ اپنی نشست سے اٹھ کر گھڑے سے پانی پینے آیا، داؤ جی نے کتاب سے نگاہیں اٹھا کر پوچھا۔ ’’بیٹا ؟؟؟؟ کیا ہے۔ اس نے گلاس کے ساتھ منہ لگائے لگائے  ’’ڈیڈ‘‘ کہا اور پھر گلاس گھڑونچی تلے پھینک کر اپنے کمرے میں آگیا۔ داؤ جی پھر پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ گھر میں ان کو اپنی بیٹی سے بڑا پیار تھا۔ ہم سب اسے بی بی کہہ کر پکارتے تھے۔ اکیلے داؤ جی نے اس کا نام قرۃ رکھا ہوا تھا۔ اکثر بیٹھے بیٹھے ہانک لگا کر کہتے ’’قرۃ بیٹی یہ قینچی تجھ سے کب چھوٹے گی؟‘‘ اور وہ اس کے جواب میں مسکرا کر خاموش ہو جاتی۔ بے بے کو اس نام سے بڑی چڑ تھی۔ وہ چیخ کر جواب دیتی۔ ’’تم نے اس کا نام قرۃ رکھ کر اس کے بھاگ میں کرتے سینے لکھوا دئے ہیں۔ منہ اچھا نہ ہو تو شبد تو اچھے نکالنے چاہئیں‘‘ اور داؤ جی ایک لمبی سانس لے کر کہتے ’’جاہل اس کا مطلب کیا جانیں‘‘ اس پر بے بے کا غصہ چمک اٹھتا اور اس کے منہ میں جو کچھ آتا کہتی چلی جاتی۔ پہلے کوسنے، پھر بد دعائیں اور آخر میں گالیوں پر اتر آتی۔ بی بی رکتی تو داؤ جی کہتے ’’ہوائیں چلنے کو ہوتی ہیں بیٹا اور گالیاں برسنے کو، تم انہیں روکو مت، انہیں ٹوکو مت۔ پھر وہ اپنی کتابیں سمیٹتے اور اپنا محبوب حصیر اٹھا کر چپکے سے سیڑھیوں پر چڑھ جاتے۔

 

نویں جماعت کے شروع میں مجھے ایک بری عادت پڑ گئی اور اس بری عادت نے عجیب گل کھلائے۔ حکیم علی احمد مرحوم ہمارے قصبے کے ایک ہی حکیم تھے۔ علاج معالجہ سے ان کو کچھ ایسی دلچسپی نہ تھی لیکن باتیں بڑی مزیدار سناتے تھے۔ اولیاؤں کے تذکرے، جنوں بھوتوں کی کہانیاں اور حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا کی گھریلو زندگی کی داستانیں ان کے تیر بہدف ٹوٹکے تھے۔ ان کے تنگ و تاریک مطب میں معجون کے چند ڈبوں، شربت کی دس پندرہ بوتلوں اور دو آتشی شیشیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ دواؤں کے علاوہ وہ اپنی طلسماتی تقریر اور حضرت سلیمانؑ کے خاص صدری تعویذوں سے مریض کا علاج کیا کرتے تھے۔ انہی باتوں کے لئے دور دراز گاؤں کے مریض ان کے پاس کھنچے چلے آتے اور فیض یاب ہو کر جاتے۔ ہفتہ دو ہفتہ کی صحبت میں میرا ان کے ساتھ ایک معاہدہ ہو گیا، میں اپنے ہسپتال سے ان کے لئے خالی بوتلیں اور شیشیاں چرا کے لاتا اور اس کے بدلے وہ مجھے داستانِ امیر حمزہ کی جلدیں پڑھنے کے لئے دیا کرتے۔

یہ کتابیں کچھ ایسی دلچسپ تھیں کہ میں رات رات بھر اپنے بستر میں دبک کر انہیں پڑھا کرتا اور صبح دیر تک سویا رہتا، اماں میرے اس رویے سے سخت نالاں تھیں، ابا جی کو میری صحت برباد ہونے کا خطرہ لاحق تھا لیکن میں نے ان کو بتا دیا تھا کہ چاہے جان چلی جائے اب کے دسویں میں وظیفہ ضرور حاصل کروں گا۔ رات طلسم ہوشربا کے ایوانوں میں بسر ہوتی اور دن بینچ پر کھڑے ہو کر، سہ ماہی امتحان میں فیل ہوتے ہوتے بچا۔ ششماہی میں بیمار پڑ گیا اور سالانہ امتحان کے موقع پر حکیم جی کی مدد سے ماسٹروں سے مل ملا کر پاس ہو گیا۔

 

دسویں میں صندلی نامہ، فسانۂ  آزاد اور الف لیلیٰ ساتھ ساتھ چلتے تھے، فسانۂ آزاد اور صندلی نامہ گھر پر رکھے تھے، لیکن الف لیلیٰ سکول کے ڈیسک میں بند رہتی۔ آخری بینچ پر جغرافیہ کی کتاب تلے سند باد جہازی کے ساتھ ساتھ چلتا اور اس طرح دنیا کی سیر کرتا…. بائیس مئی کا واقعہ ہے کہ صبح دس بجے یونیورسٹی سے نتیجہ کی کتاب ایم۔ بی ہائی سکول پہنچی۔ امی چند نہ صرف سکول میں بلکہ ضلع بھر میں اول آیا تھا۔ چھ لڑکے فیل تھے اور بائیس پاس۔ حکیم جی کا جادو یونیورسٹی پر نہ چل سکا اور پنجاب کی جابر دانش گاہ نے میرا نام بھی ان چھ لڑکوں میں شامل کر دیا۔ اسی شام قبلہ گاہی نے بید سے میری پٹائی کی اور گھر سے باہر نکال دیا۔ میں ہسپتال کے رہٹ کی گدی پر آ بیٹھا اور رات گئے تک سوچتا رہا کہ اب کیا کرنا چاہئے اور اب کدھر جانا چاہئے۔ خدا کا ملک تنگ نہیں تھا اور میں عمرو عیار کے ہتھکنڈوں اور سند باد جہازی کے تمام طریقوں سے واقف تھا مگر پھر بھی کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔ کوئی دو تین گھنٹے اسی طرح ساکت و جامد اس گدی پر بیٹھا زیست کرنے کی راہیں سوچتا رہا۔ اتنے میں اماں سفید چادر اوڑھے مجھے ڈھونڈتی ڈھونڈتی ادھر آ گئیں اور اباجی سے معافی لے دینے کا وعدہ کر کے مجھے پھر گھر لے گئیں۔ مجھے معافی وافی سے کوئی دلچسپی نہ تھی، مجھے تو بس ایک رات ا ور ان کے یہاں گزارنی تھی اور صبح سویرے اپنے سفر پر روانہ ہونا تھا، چنانچہ میں آرام سے ان کے ساتھ جا کر حسب معمول اپنے بستر پر دراز ہو گیا۔

 

اگلے دن میرے فیل ہونے والے ساتھیوں میں سے خوشیا کوڈو اور دیسو یب یب مسجد کے پچھواڑے ٹال کے پاس بیٹھے مل گئے۔ وہ لاہور جا کر بزنس کرنے کا پرو گرام بنا رہے تھے۔ دیسو یب یب نے مجھے بتایا کہ لاہور میں بڑا بزنس ہے کیونکہ اس کے بھایا جی اکثر اپنے دوست فتح چند کے ٹھیکوں کا ذکر کیا کرتے تھے جس نے سال کے اندر اندر دو کاریں خرید لی تھیں۔ میں نے ان سے بزنس کی نوعیت کے بارے میں پوچھا تو یب یب نے کہا لاہور میں ہر طرح کا بزنس مل جاتا ہے۔ بس ایک دفتر ہونا چاہئے اور اس کے سامنے بڑا سا سائن بورڈ۔ سائن بورڈ دیکھ کر لوگ خود ہی بزنس دے جاتے ہیں۔ اس وقت بزنس سے مراد وہ کرنسی نوٹ لے رہا تھا۔

میں نے ایک مرتبہ پھر وضاحت چاہی تو کوڈو چمک کر بولا ’’ یار دیسو سب جانتا ہے۔ یہ بتا، تو تیار ہے یا نہیں؟‘‘

پھر اس نے پلٹ کر دیسو سے پوچھا ’’انار کلی میں دفتر بنائیں گے نا؟‘‘

دیسو نے ذرا سوچ کر کہا ’’انار کلی میں یا شاہ عالمی کے باہر دونوں ہی جگہیں ایک سی ہیں۔‘‘

میں نے کہا انار کلی زیادہ مناسب ہے کیونکہ وہی زیادہ مشہور جگہ ہے اور اخباروں میں جتنے بھی اشتہار نکلتے ہیں ان میں انار کلی لاہور لکھا ہوتا ہے۔‘‘

چنانچہ یہ طے پایا کہ اگلے دن دو بجے کی گاڑی سے ہم لاہور روانہ ہو جائیں!

گھر پہنچ کر میں سفر کی تیاری کرنے لگا۔ بوٹ پالش کر رہا تھا کہ نوکر نے آ کر شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا ’’چلو جی ڈاکٹر صاحب بلاتے ہیں۔‘‘

’’کہاں ہیں؟‘‘ میں نے برش زمین پر رکھ دیا اور کھڑا ہو گیا۔

’’ہسپتال میں ‘‘ وہ بدستور مسکرا رہا تھا کیونکہ میری پٹائی کے روز حاضرین میں وہ بھی شامل تھا۔

میں ڈرتے ڈرتے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھا۔ پھر آہستہ سے جالی والا دروازہ کھول کر اباجی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں ان کے علاوہ داؤ جی بھی بیٹھے تھے۔ میں نے سہمے سہمے داؤ جی کو سلام کیا اور اس کے جواب میں بڑی دیر کے بعد جیتے رہو کی مانوس دعا سنی۔

’’ان کو پہچانتے ہو؟‘‘ اباجی نے سختی سے پوچھا۔

’’بے شک‘‘ میں نے ایک مہذب سیلزمین کی طرح کہا۔

’’بے شک کے بچے، حرامزادے، میں تیری یہ سب….‘‘۔

’’نہ نہ ڈاکٹر صاحب‘‘ داؤ جی نے ہاتھ اوپر اٹھا کر کہا ’’یہ تو بہت ہی اچھا بچہ ہے اس کو تو ….‘‘

اور ڈاکٹر صاحب نے بات کاٹ کر تلخی سے کہا ’’آپ نہیں جانتے منشی جی اس کمینے نے میری عزت خاک میں ملا دی۔‘‘

’’اب فکر نہ کریں ‘‘ داؤ جی نے سر جھکائے کہا۔ ’’یہ ہمارے آفتاب سے بھی ذہین ہے اور ایک دن….‘‘

اب کے ڈاکٹر صاحب کو غصہ آگیا اور انہوں نے میز پر ہاتھ مار کر کہا ’’کیسی بات کرتے ہو منشی جی! یہ آفتاب کے جوتے کی برابری نہیں کر سکتا۔‘‘

’’کرے گا، کرے گا…. ڈاکٹر صاحب‘‘ داؤ جی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ’’آپ خاطر جمع رکھیں۔‘‘

پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ’’میں سیر کو چلتا ہوں، تم بھی میرے ساتھ آؤ، راستے میں باتیں کریں گے۔‘‘

اباجی اسی طرح کرسی پر بیٹھے غصے کے عالم میں اپنا رجسٹر الٹ پلٹ کرتے اور بڑبڑاتے رہے۔ میں نے آہستہ آہستہ چل کر جالی والا دروازہ کھولا تو داؤ جی نے پیچھے مڑ کر کہا

’’ڈاکٹر صاحب بھول نہ جائیے ابھی بھجوا دیجئے گا۔‘‘

داؤ جی نے مجھے ادھر ادھر گھماتے اور مختلف درختوں کے نام فارسی میں بتاتے نہر کے اسی پل پر لے گئے جہاں پہلے پہل میرا ان سے تعارف ہوا تھا۔ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ کر انہوں نے پگڑی اتار کر گود میں ڈال لی سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور کہا ’’آج سے میں تمہیں پڑھاؤں گا اور اگر جماعت میں اول نہ لا سکا تو فرسٹ ڈویژن ضرور دلوا دوں گا۔ میرے ہر ارادے میں خداوند تعالیٰ کی مدد شامل ہوتی ہے اور اس ہستی نے مجھے اپنی رحمت سے کبھی مایوس نہیں کیا….‘‘

’’مجھ سے پڑھائی نہ ہو گی‘‘ میں نے گستاخی سے بات کاٹی۔

’’تو او ر کیا ہو گا گولو؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔

میں نے کہا ’’میں بزنس کروں گا، روپیہ کماؤں گا اور اپنی کار لے کر یہاں ضرور آؤں گا، پھر دیکھنا….‘‘

اب کے داؤ جی نے میری بات کاٹی اور بڑی محبت سے کہا ’’خدا ایک چھوڑ تجھے دس کاریں دے لیکن ایک ان پڑھ کی کار میں نہ میں بیٹھوں گا نہ ڈاکٹر صاحب۔‘‘

میں نے جل کر کہا ’’ مجھے کسی کی پرواہ نہیں ڈاکٹر صاحب اپنے گھر راضی، میں اپنے یہاں خوش۔‘‘

انہوں نے حیران ہو کر پوچھا ’’میری بھی پرواہ نہیں؟‘‘ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ دکھی سے ہو گئے اور بار بار پوچھنے لگے۔

’’میری بھی پرواہ نہیں؟‘‘

’’او گولو میری بھی پرواہ نہیں؟‘‘

مجھے ان کے لہجے پر ترس آنے لگا اور میں نے آہستہ سے کہا۔ آپ کی تو ہے مگر….‘‘ مگر انہوں نے میری بات نہ سنی اور کہنے لگے اگر اپنے حضرت کے سامنے میرے منہ سے ایسی بات نکل جاتی؟ اگر میں یہ کفر کا کلمہ کہہ جاتا…. تو …. تو ….‘‘ انہوں نے فورا پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لی اور ہاتھ جوڑ کہنے لگے۔ ’’ میں حضور کے دربار کا ایک ادنیٰ کتا۔ میں حضرت مولانا کی خاک پا سے بد تر بندہ ہو کر آقا سے یہ کہتا۔ لعنت کا طوق نہ پہنتا؟ خاندانِ ابو جہل کا خانوادہ اور آقا کی ایک نظر کرم۔ حضرت کا ایک اشارہ۔ حضور نے چنتو کو منشی رام بنا دیا۔ لوگ کہتے ہیں منشی جی، میں کہتا ہوں رحمۃ اللہ علیہ کا کفش بردار…. لوگ سمجھتے ہیں….‘‘ داؤ جی کبھی ہاتھ جوڑتے، کبھی سر جھکاتے کبھی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو لگاتے اور بیچ بیچ میں فارسی کے اشعار پڑھتے جاتے۔ میں کچھ پریشان سا پشیمان سا، ان کا زانو چھو کر آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا ’’داؤ جی! داؤ جی‘‘ اور داؤ جی ’’میرے آقا، میرے مولانا، میرے مرشد‘‘ کا وظیفہ کئے جاتے۔

جب جذب کا یہ عالم دور ہوا تو نگاہیں اوپر اٹھا کر بولے ’’کیا اچھا موسم ہے دن بھر دھوپ پڑتی ہے تو خوشگوار شاموں کا نزول ہوتا ہے ‘‘ پھر وہ پل کی دیوار سے اٹھے اور بولے ’’چلو اب چلیں بازار سے تھوڑا سودا خریدنا ہے۔‘‘ میں جیسا سرکش و بد مزاج بن کر ان کے ساتھ آیا تھا، اس سے کہیں زیادہ منفعل اور خجل ان کے ساتھ لوٹا۔ گھمسے پنساری یعنی دیسو یب یب کے باپ کی دکان سے انہوں نے گھریلو ضرورت کی چند چیزیں خریدیں اور لفافے گود میں اٹھا کر چل دئے، میں بار بار ان سے لفافے لینے کی کوشش کرتا مگر ہمت نہ پڑتی۔ ایک عجیب سی شرم ایک انوکھی سی ہچکچاہٹ مانع تھی اور اسی تامل اور جھجک میں ڈوبتا ابھرتا میں ان کے گھر پہنچ گیا۔

وہاں پہنچ کر یہ بھید کھلا کہ اب میں انہی کے ہاں سویا کرو ں گا اور وہیں پڑھا کروں گا۔ کیونکہ میرا بستر مجھ سے بھی پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا اور اس کے پاس ہی ہمارے یہاں سے بھیجی ہوئی ایک ہری کین لالٹین بھی رکھی تھی۔

 

بزنس مین بننا اور پاں پاں کرتی پیکارڈ اڑائے پھرنا میرے مقدر میں نہ تھا۔ گو میرے ساتھیوں کی روانگی کے تیسرے ہی روز بعد ان کے والدین بھی انہیں لاہور سے پکڑ لائے لیکن اگر میں ان کے ساتھ ہوتا تو شاید اس وقت انار کلی میں ہمارا دفتر، پتہ نہیں ترقی کے کون سے شاندار سال میں داخل ہو چکا ہوتا۔

 

داؤ جی نے میری زندگی اجیرن کر دی، مجھے تباہ کر دیا، مجھ پر جینا حرام کر دیا، سارا دن سکول کی بکواس میں گزرتا اور رات، گرمیوں کی مختصر رات، ان کے سوالات کا جواب دینے، کوٹھے پر ان کی کھاٹ میرے بستر کے ساتھ لگی ہے اور وہ مونگ، رسول اور مرالہ کی نہروں کے بابت پوچھ رہے ہیں، میں نے بالکل ٹھیک بتا دیا ہے، وہ پھر اسی سوال کو دہرا رہے ہیں، میں نے پھر ٹھیک بتا دیا ہے اور انہوں نے پھر انہی نہروں کو آگے لا کھڑا کیا ہے، میں جل جاتا اور جھڑک کر کہتا ’’مجھے نہیں پتہ میں نہیں بتاتا‘‘ تو وہ خاموش ہو جاتے اور دم سادھ لیتے، میں آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرتا تو وہ شرمندگی کنکر بن کر پتلیوں میں اتر جاتی۔

میں آہستہ سے کہتا ’’داؤ جی۔‘‘

’’ہوں‘‘ ایک گھمبیر سی آواز آتی۔

’داؤ جی کچھ اور پوچھو۔‘‘

داؤ جی نے کہا ’’بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ اس کی ترکیب نحوی کرو۔‘‘

میں نے سعادت مندی کے ساتھ کہا ’’جی یہ تو بہت لمبا فقرہ ہے صبح لکھ کر بتا دوں گا کوئی اور پوچھئے۔‘‘

انہوں نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائے کہا ’’میرا گولو بہت اچھا ہے۔‘‘

میں نے ذرا سوچ کر کہنا شروع کیا بہت اچھا صفت ہے، حرف ربط مل کر بنا مسند….

اور داؤ جی اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئے۔ ہاتھ اٹھا کر بولے جانِ پدر، تجھے پہلے بھی کہا ہے مسند الیہ پہلے بنایا ہے۔

میں نے ترکیبِ نحوی سے جان چھڑانے کے لئے پوچھا ’’آپ مجھے جانِ پدر کیوں کہتے ہیں جانِ داؤ کیوں نہیں کہتے؟‘‘

’’شاباش‘‘ وہ خوش ہو کر کہتے ’’ایسی باتیں پوچھنے کی ہوتی ہیں۔ جان لفظ فارسی کا ہے اور داؤ بھاشا کا۔ ان کے درمیان فارسی اضافت نہیں لگ سکتی۔ جو لوگ دن بدن لکھتے یا بولتے ہیں سخت غلطی کرتے ہیں، روز بروز کہو یا دن پر دن اسی طرح سے….‘‘

اور جب میں سوچتا کہ یہ تو ترکیبِ نحوی سے بھی زیادہ خطرناک معاملے میں الجھ گیا ہوں تو جمائی لے کر پیار سے کہا ’’داؤ جی اب تو نیند آ رہی ہے!‘‘

’’اور وہ ترکیب نحوی؟‘‘ وہ جھٹ سے پوچھتے۔۔

اس کے بعد چاہے میں لاکھ بہانے کرتا ادھر ادھر کی ہزار باتیں کرتا، مگر وہ اپنی کھاٹ پر ایسے بیٹھے رہتے، بلکہ اگر ذرا سی دیر ہو جاتی تو کرسی پر رکھی ہوئی پگڑی اٹھا کر سر پر دھر لیتے۔ چنانچہ کچھ بھی ہوتا۔ ان کے ہر سوال کا خاطر خواہ جواب دینا پڑتا۔

 

امی چند کالج چلا گیا تو اس کی بیٹھک مجھے مل گئی اور داؤ جی کے دل میں اس کی محبت پر بھی میں نے قبضہ کر لیا۔ اب مجھے داؤ جی بہت اچھے لگنے لگے تھے لیکن ان کی باتیں جو اس وقت مجھے بری لگتی تھیں۔ وہ اب بھی بری لگتی ہیں بلکہ اب پہلے سے بھی کسی قدر زیادہ، شاید اس لئے کہ میں نفسیات کا ایک ہونہار طالب علم ہوں اور داؤ جی پرانے مُلّائی مکتب کے پروردہ تھے۔ سب سے بری عادت ان کی اٹھتے بیٹھتے سوال پوچھتے رہنے کی تھی اور دوسری کھیل کود سے منع کرنے کی۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ آدمی پڑھتا رہے پڑھتا رہے اور جب اس مدقوق کی موت کا دن قریب آئے تو کتابوں کے ڈھیر پر جان دے دے۔ صحتِ جسمانی قائم رکھنے کے لئے ان کے پاس بس ایک ہی نسخہ تھا، لمبی سیر اور وہ بھی صبح کی۔ تقریباً سورج نکلنے سے دو گھنٹے پیشتر وہ مجھے بیٹھک میں جگانے آتے اور کندھا ہلا کر کہتے ’’اٹھو گولو موٹا ہو گیا بیٹا‘‘ دنیا جہاں کے والدین صبح جگانے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ اٹھو بیٹا صبح ہو گئی یا سورج نکل آیا مگر وہ ’’موٹا ہو گیا‘‘ کہہ کر میری تذلیل کیا کرتے، میں منمناتا  تو چمکار کر  کہتے ’’بھدا ہو جائے گا بیٹا تو، گھوڑے پر ضلع کا دورہ کیسا کرے گا!‘‘ اور میں گرم گرم بستر سے ہاتھ جوڑ کر کہتا

’’ داؤ جی خدا کے لئے مجھے صبح نہ جگاؤ، چاہے مجھے قتل کر دو، جان سے مار ڈالو۔‘‘

یہ فقرہ ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی وہ فوراً میرے سر پر لحاف ڈال دیتے اور باہر نکل جاتے۔

بے بے کو ان داؤ جی سے اللہ واسطے کا بیر تھا اور داؤ جی ان سے بہت ڈرتے تھے، وہ سارا دن محلے والیوں کے کپڑے سیا کرتیں اور داؤ جی کو کوسنے دئے جاتیں۔ ان کی اس زبان درازی پر مجھے بڑا غصہ آتا تھا مگر دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہ ہو سکتا تھا۔ کبھی کبھار جب وہ ناگفتنی گالیوں پر اتر آتیں تو داؤ جی میری بیٹھک میں آ جاتے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کرسی پر بیٹھ جاتے۔ تھوڑی دیر بعد کہتے ’’غیبت کرنا بڑا گناہ ہے لیکن میرا خدا مجھے معاف کرے تیری بے بے بھٹیارن ہے اور اس کی سرائے میں، میں، میری قرة العین اور تھوڑا تھوڑا، تو بھی، ہم تینوں بڑے عاجز مسافر ہیں۔ ‘‘ اور واقعی بے بے بھٹیارن سی تھی۔ ان کا رنگ سخت کالا تھا اور دانت بے حد سفید، ماتھا محراب دار اور آنکھیں چنیاں سی۔ چلتی تو ایسی گربہ پائی کے ساتھ جیسے (خدا مجھے معاف کرے) کٹنی کنسوئیاں لیتی پھرتی ہے۔ بچاری بی بی کو ایسی ایسی بری باتیں کہتی کہ وہ دو دو دن رو رو کر ہلکان ہوا کرتی۔ ایک امی چند کے ساتھ اس کی بنتی تھی شاید اس وجہ سے کہ ہم دونوں ہم شکل تھے یا شاید اس وجہ سے کہ اس کو بی بی کی طرح اپنے داؤ جی سے پیار نہ تھا۔ یوں تو بی بی بے چاری بہت اچھی لگتی تھی مگر اس سے میری بھی نہ بنتی۔ میں کوٹھے پر بیٹھا سوال نکال رہا ہوں، داؤ جی نیچے بیٹھے ہیں اور بی بی اوپر برساتی سے ایندھن لینے آئی تو ذرا رک کر مجھے دیکھا پھر منڈیر سے جھانک کر بولی، داؤ جی! پڑھ تو نہیں رہا، تنکوں کی طرح چارپائیاں بنا رہا ہے۔‘‘

میں غصیل بچے کی طرح منہ چڑا کر کہتا ’’تجھے کیا، نہیں پڑھتا، تو کیوں بڑ بڑ کرتی ہے…. آئی بڑی تھانیدارنی۔‘‘

اور داؤ جی نیچے سے ہانک لگا کر کہتے ’’ نہ گولو مولو بہنوں سے جھگڑا نہیں کرتے۔‘‘

اور میں زور سے چلاتا ’’پڑھ رہا ہوں جی، جھوٹ بولتی ہے۔‘‘

داؤ جی آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جاتے اور کاپیوں کے نیچے نیم پوشیدہ چارپائیاں دیکھ کر کہتے ’’قرۃ بیٹا تو اس کو چڑایا نہ کر۔ یہ جن بڑی مشکل سے قابو کیا ہے۔ اگر ایک بار بگڑ گیا تو مشکل سے سنبھلے گا۔‘‘

بی بی کہتی ’’کاپی اٹھا کر دیکھ لو داؤ جی اس کے نیچے ہے وہ چارپائی جس سے کھیل رہا تھا۔‘‘

میں قہر آلود نگاہوں سے بی بی کو دیکھتا اور وہ لکڑیاں اٹھا کر نیچے اتر جاتی۔ پھر داؤ جی سمجھاتے کہ بی بی یہ کچھ تیرے فائدے کے لئے کہتی ہے ورنہ اسے کیا پڑی ہے کہ مجھے بتاتی پھرے۔ فیل ہویا پاس اس کی بلا سے! مگر وہ تیری بھلائی چاہتی ہے، تیری بہتری چاہتی ہے اور داؤ جی کی یہ بات ہر گز سمجھ میں نہ آتی تھی۔ میری شکایتیں کرنے والی میری بھلائی کیونکر چاہ سکتی تھی!۔

 

ان دنوں معمول یہ تھا کہ صبح دس بجے سے پہلے داؤ جی کے ہاں سے چل دیتا۔ گھر جا کر ناشتہ کرتا اور پھر سکول پہنچ جاتا۔ آدھی چھٹی پر میرا کھانا سکول بھیج دیا جاتا اور شام کو سکول بند ہونے پر گھر آ کے لالٹین تیل سے بھرتا اور داؤ جی کے  یہاں آ جاتا۔ پھر رات کا کھانا بھی مجھے داؤ جی کے گھر ہی بھجوا دیا جاتا۔ جن ایام میں منصفی بند ہوتی، داؤ جی سکول کی گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ جاتے اور میرا انتظار کرنے لگتے۔ وہاں سے گھر تک سوالات کی بوچھاڑ رہتی۔ سکول میں جو کچھ پڑھایا گیا ہوتا اس کی تفصیل پوچھتے، پھر مجھے گھر تک چھوڑ کر خود سیر کو چلے جاتے۔ ہمارے قصبہ میں منصفی کا کام مہینے میں دس دن ہوتا تھا اور بیس دن منصف صاحب بہادر کی کچہری ضلع میں رہتی تھی۔ یہ دس دن داؤ جی باقاعدہ کچہری میں گزارتے تھے۔ ایک آدھ عرضی آ جاتی تو دو چار روپے کما لیتے ورنہ فارغ اوقات میں وہاں بھی مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھتے۔ بے بے کا کام اچھا تھا۔ اس کی کتر بیونت اور محلے والوں سے جوڑ توڑ اچھے مالی نتائج پیدا کرتی تھی۔ چونکہ پچھلے چند سالوں سے گھر کا بیشتر خرچ اس کی سلائی سے چلتا تھا، اس لئے وہ داؤ جی پر اور بھی حاوی ہو گئی تھی…. ایک دن خلاف معمول داؤ جی کو لینے میں منصفی چلا گیا۔ اس وقت کچہری بند ہو گئی تھی اور داؤ جی نانبائی کے چھپر تلے ایک بینچ پر بیٹھے گڑ کی چائے پی رہے تھے۔ میں نے ہولے سے جا کر ان کا بستہ اٹھا لیا اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا ’’چلئے، آج میں آپ کو لینے آیا ہوں‘‘ انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر چائے کے بڑے بڑے گھونٹ بھرے، ایک آنہ جیب سے نکال کر نانبائی کے حوالے کیا اور چپ چاپ میرے ساتھ چل دئے۔

میں نے شرارت سے ناچ کر کہا ’’گھر چلئے، بے بے کو بتاؤں گا کہ آپ چوری چوری یہاں چائے پیتے ہیں۔‘‘

داؤ جی جیسے شرمندگی ٹالنے کو مسکرائے اور بولے ’’اس کی چائے بہت اچھی ہوتی ہے اور گڑ کی چائے سے تھکن بھی دور ہو جاتی ہے پھر یہ ایک آنہ میں گلاس بھر کے دیتا ہے۔ تم اپنی بے بے سے نہ کہنا، خواہ مخواہ ہنگامہ کھڑا کر دے گی۔ پھر انہوں نے خوفزدہ ہو کر کچھ مایوس ہو کر کہا ’’اس کی تو فطرت ہی ایسی ہے‘‘۔ اس دن مجھے داؤ جی پر رحم آیا۔ میرا جی ان کے لئے بہت کچھ کرنے کو چاہنے لگا مگر اس میں میں نے بے بے سے نہ کہنے کا ہی وعدہ کر کے ان کے کے لئے بہت کچھ کیا۔ جب اس واقعہ کا ذکر میں نے اماں سے کیا تو وہ بھی کبھی میرے ہاتھ اور کبھی نوکر کی معرفت داؤ جی کے ہاں دودھ، پھل اور چینی وغیرہ بھیجنے لگیں مگر اس رسد سے داؤ جی کو کبھی بھی کچھ نصیب نہ ہوا۔ ہاں بے بے کی نگاہوں میں میری قدر بڑھ گئی اور اس نے کسی حد تک مجھ سے رعایتی برتاؤ شروع کر دیا۔‘‘

مجھے یاد ہے، ایک صبح میں دودھ سے بھرا تاملوٹ ان کے یہاں لے کر آیا تھا اور بے بے گھر نہ تھی۔ وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ بابا ساون کے جوہڑ میں اشنان کرنے گئی تھی اور گھر میں صرف داؤ جی اور بی بی تھے۔ دودھ دیکھ کر داؤ جی نے کہا ’’چلو آج تینو ں چائے پئیں گے۔ میں دکان سے گڑ لے کر آتا ہوں، تم پانی چولہے پر رکھو‘‘۔ بی بی نے جلدی سے چولہا سلگایا۔ میں پتیلی میں پانی ڈال کر لایا اور پھر ہم دونوں وہیں چوکے پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ داؤ جی گڑ لے کر آ گئے تو انہوں نے کہا ’’تم دونوں اپنے اپنے کام پر بیٹھو چائے میں بناتا ہوں۔‘‘چنانچہ بی بی مشین چلانے لگی اور میں ڈائریکٹ اِن ڈائریکٹ کی مشقیں لکھنے لگا۔ داؤ جی چولہا بھی جھونکتے جاتے تھے اور عادت کے مطابق مجھے بھی اونچے اونچے بتاتے جاتے تھے۔

گلیلیو نے کہا ’’زمین سورج کے گرد گھومتی ہے‘‘۔ گلیلیو نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ نہ لکھ دینا کہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔  پانی ابل رہا تھا داؤ جی خوش ہو رہے تھے۔ اسی خوشی میں جھوم جھوم کر وہ اپنا تازہ بنایا ہوا گیت گا رہے تھے۔ او گولو! او گولو! گلیلیو کی بات مت بھولنا، گلیلیو کی بات مت بھولنا۔ انہوں نے چائے کی پتی کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دی۔ برتن ابھی تک چولہے  پر ہی تھا اور داؤ جی ایک چھوٹے سے بچے کی طرح پانی کی گلب گل بل کے ساتھ گولو گلیلیو! گولو گلیلیو کئے جا رہے تھے، میں ہنس رہا تھا اور اپنا کام کئے جا رہا تھا، بی بی مسکرا رہی تھی اور مشین چلائے جاتی تھی اور ہم تینوں اپنے چھوٹے سے گھر میں بڑے ہی خوش تھے گویا سارے محلے بلکہ سارے قصبہ کی خوشیاں بڑے بڑے رنگین پروں والی پریوں کی طرح ہمارے گھر میں اتر آئی ہوں۔۔

اتنے میں دروازہ کھلا اور بے بے اندر داخل ہوئی۔  داؤ جی نے دروازہ کھلنے کی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور ان کا رنگ فق ہو گیا۔ چمکتی ہوئی پتیلی سے گرم گرم بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کے اندر چائے کے چھوٹے چھوٹے چھلاوے ایک دوسرے کے پیچھے شور مچاتے پھرتے تھے اور ممنوعہ کھیل رچانے والا بڈھا موقع پر پگڑا گیا۔ بے بے نے آگے بڑھ کر چولہے کی طرف دیکھا اور داؤ جی نے چوکے سے اٹھتے ہوئے معذرت بھرے لہجے میں کہا ’’چائے ہے!‘‘

بے بے نے ایک دو ہتڑ داؤ جی کی کمر پر مارا اور کہا ’’بڈھے بروہا تجھے لاج نہیں آتی۔ تجھ پر بہار پھرے، تجھے یم سمیٹے، یہ تیرے چائے پینے کے دن ہیں۔ میں بیوہ گھر میں نہ تھی تو تجھے کسی کا ڈر نہ رہا۔ تیرے بھانویں میں کل کی مرتی آج مروں تیرا من راضی ہو۔ تیری آسیں پوری ہوں۔ کس مرن جوگی نے جنا اور کس لیکھ کی ریکھا نے میرے پلے باندھ دیا…. تجھے موت نہیں آتی…. اوں ہوں تجھے کیوں آئے گی‘‘ اس فقرے کی گردان کرتے ہوئے بے بے بھیڑنی کی طرح چوکے  پر چڑھی کپڑے سے پتیلی پکڑ کر چولہے سے اٹھائی اور زمین پر دے ماری۔ گرم گرم چائے کے چھپاکے داؤ جی کی پنڈلیوں اور پاؤں پر گرے اور وہ ’’اوہ تیرا بھلا ہو جائے! او تیرا بھلا ہو جائے‘‘ کہتے وہاں سے ایک بچے کی طرح بھاگے اور بیٹھک میں گھس گئے۔ ان کے اس فرار بلکہ اندازِ فرار کو دیکھ کر میں اور بی بی ہنسے بنا نہ رہ سکے اور ہماری ہنسی کی آواز ایک ثانیہ کے لئے چاروں دیواروں سے ٹکرائی۔ میں تو خیر بچ گیا لیکن بے بے نے سیدھے جا کر بی بی کو بالوں سے پکڑ لیا اور چیخ کر بولی ’’میری سوت بڈھے سے تیرا کیا ناطہ ہے، بتا نہیں تو اپنی پران لیتی ہوں۔ تو نے اس کو چائے کی کنجی کیوں دی؟‘‘

بی بی بیچاری پھس پھس رونے لگی تو میں بھی اندر بیٹھک میں کھسک آیا۔ داؤ جی اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھے تھے اور اپنے پاؤں سہلا رہے تھے۔ پتہ نہیں انہیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے پھر کیوں گدگدی ہوئی کہ میں الماری کے اندر منہ کر کے ہنسنے لگا، انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے پاس بلایا اور بولے ’’شکرِ کردگار کنم کہ گرفتارم بہ مصیبتے نہ کہ معصیتے۔

تھوڑی دیر رک کر پھر کہا ’’میں اس کے کتوں کا بھی کتا ہوں جس کے سرِ مُطہّر  پر مکے کی  ایک کم نصیب بڑھیا غلاظت پھینکا کرتی تھی۔‘‘

میں نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے ’’آقائے نامدار کا ایک ادنیٰ حلقہ بگوش، گرم پانی کے چند چھینٹے پڑنے پر نالہ شیون کرے تو لعنت ہے اس کی زندگی پر۔ وہ اپنے محبوبﷺ کے طفیل نارِ جہنم سے بچائے۔ خدائے ابراہیمؑ مجھے جرأت عطا کرے، مولائے ایوبؑ مجھے صبر کی نعمت دے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’داؤ جی آقائے نامدار کون؟‘‘

تو داؤ جی کو یہ سن کر ذرا تکلیف ہوئی۔ انہوں نے شفقت سے کہا ’’جان پدر  یوں نہ پوچھا کر۔ میرے استاد، میرے حضرت کی روح کو مجھ سے بیزار نہ کر، وہ میرے آقا بھی تھے، میرے باپ بھی اور میرے استاد بھی، وہ تیرے دادا استاد ہیں…. دادا استاد …‘‘ اور انہوں نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لئے۔ آقائے نامدار کا لفظ اور کوتاہ و قسمتِ مجوزہ کی ترکیب میں نے پہلی بار داؤ جی سے سنی۔ یہ واقعہ سنانے میں انہوں نے کنتی ہی دیر لگا دی کیونکہ ایک ایک فقرے کے بعد فارسی کے بیشمار نعتیہ اشعار پڑھتے تھے اور بار بار اپنے استاد کی روح کو ثواب پہنچاتے تھے۔‘‘

جب وہ یہ واقعہ بیان کر چکے تو میں نے بڑے ادب سے پوچھا ’’ داؤ جی آپ کو اپنے استاد صاحب اس قدر اچھے کیوں لگتے تھے اور آپ ان کا نام لے کر ہاتھ کیوں جوڑتے ہیں اپنے آپ کو ان کا نوکر کیوں کہتے ہیں؟‘‘

داؤ جی نے مسکرا کر کہا ’’جو طویلے کے ایک خر کو ایسا بنا دے کہ لوگ کہیں یہ منشی چنت رام جی ہیں۔ وہ مسیحا نہ ہو، آقا نہ ہو تو پھر کیا ہو؟‘‘

میں چارپائی کے کونے سے آہستہ آہستہ پھسل کر بستر میں پہنچ گیا اور چاروں طرف رضائی لپیٹ کر داؤ جی کی طرف دیکھنے لگا جو سر جھکا کر کبھی اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی پنڈلیاں سہلاتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے وقفوں کے بعد ذرا سا ہنستے اور پھر خاموش ہو جاتے….۔

کہنے لگے ’’میں تمہارا کیا تھا اور کیا ہو گیا…. حضرت مولانا کی پہلی آواز کیا تھی! میری طرف سر مبارک اٹھا کر فرمایا، چوپال زادے ہمارے پاس آؤ، میں لاٹھی ٹیکتا ان کے پاس جا کھڑا ہوا۔ چھتہ پٹھار اور دیگر دیہات کے لڑکے نیم دائرہ بنائے ان کے سامنے بیٹھے سبق یاد کر رہے تھے۔ ایک دربار لگا تھا اور کسی کو آنکھ اوپر اٹھانے کی ہمت نہ تھی…. میں حضور کے قریب گیا تو فرمایا، بھئی ہم تم کو روز یہاں بکریاں چراتے دیکھتے ہیں۔ انہیں چرنے چگنے کے لئے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جایا کرو اور کچھ پڑھ لیا کرو…. پھر حضور نے میری عرض سنے بغیر پوچھا کہ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ میں نے گنواروں کی طرح کہا چنتو…. مسکرائے…. تھوڑا سا ہنسے بھی…. فرمانے لگے پورا نام کیا ہے؟ پھر خود ہی بولے چنتو رام ہو گا…. میں نے سر ہلا دیا…. حضور کے شاگرد کتاب سے نظریں چرا کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میرے گلے میں کھدر کا لمبا سا کرتہ تھا۔ پائجامہ کی بجائے صرف لنگوٹ بندھا تھا۔ پاؤں میں ادھوڑی کے موٹے جوتے اور سر پر سرخ رنگ کا جانگیہ لپیٹا ہوا تھا۔ بکریاں میری….‘‘

میں نے بات کاٹ کر پوچھا ’’آپ بکریاں چراتے تھے داؤ جی؟‘‘

’’ہاں ہاں ‘‘ وہ فخر سے بولے ’’میں گڈریا تھا اور میرے باپ کی بارہ بکریاں تھیں۔‘‘

حیرانی سے میرا منہ کھلا رہ گیا اور میں نے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے جلدی سے پوچھا۔ ’’اور آپ سکول کے پاس بکریاں چرایا کرتے تھے۔‘‘داؤ جی نے کرسی چارپائی کے قریب کھینچ لی اور اپنے پاؤں پائے پر رکھ کر بولے ’’جان پدر اس زمانے میں تو شہروں میں بھی سکول نہیں ہوتے تھے، میں گاؤں کی بات کر رہا ہوں۔ آج سے چوہتر برس پہلے کوئی تمہارے ایم بی ہائی سکول کا نام بھی جانتا تھا؟ وہ تو میرے آقا کو پڑھانے کا شوق تھا۔ ارد گرد کے لوگ اپنے لڑکے چار حرف پڑھنے کو ان کے پاس بھیج دیتے…. ان کا سارا خاندان زیورِ تعلیم سے آراستہ اور دینی اور دنیوی نعمتوں سے مالا مال تھا۔ والد ان کے ضلع بھر کے ایک ہی حکیم اور چوٹی کے مبلغ تھے۔ جدِ امجد مہاراجہ کشمیر کے میر منشی۔ گھر میں علم کے دریا بہتے تھے، فارسی، عربی، جبر  و مقابلہ، اقلیدس، حکمت اور علم ہیئت ان کے گھر کی لونڈیاں تھیں۔ حضور کے والد کو دیکھنا مجھے نصیب نہیں ہوا لیکن آپ کی زبانی ان کے تبحرِ علمی کی سب داستانیں سنیں، شیفتہ اور حکیم مومن خاں مومن سے ان کے بڑے مراسم تھے اور خود مولانا کی تعلیم دلی میں مفتی آزردہ مرحوم کی نگرانی میں ہوئی تھی….‘‘

مجھے داؤ جی کے موضوع سے بھٹک جانے کا ڈر تھا اس لئے میں نے جلدی سے پوچھا۔ ’’پھر آپ نے حضرت مولانا کے پاس پڑھنا شروع کر دیا۔‘‘ ’’ہاں‘‘ داؤ جی اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے، ’’ان کی باتیں ہی ایسی تھیں۔ ان کی نگاہیں ہی ایسی تھیں جس کی طرف توجہ فرماتے تھے، بندے سے مولا کر دیتے تھے۔ مٹی کے ذرے کو اکسیر کی خاصیت دے دیتے تھے…. میں تو ا پنی لاٹھی زمین پر ڈال کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ فرمایا، اپنے بھائیوں کے بوریے پر بیٹھو۔ میں نے کہا جی اٹھارہ برس دھرتی پر بیٹھے گزر گئے اب کیا فرق پڑتا ہے۔ پھر مسکرا دئے اپنے چوبی صندوقچے سے حروف ابجد کا ایک مقوا نکالا اور بولے الف۔ بے۔ بے۔ تے…. سبحان اللہ کیا آواز تھی۔ کس شفقت سے بو لے تھے، کس لہجہ میں فرما رہے تھے الف، بے، پے، ت ‘‘ اور جی داؤ جی ان حرفوں کا ورد کرتے ہوئے اپنے ماضی میں کھو گئے۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’ادھر رہٹ تھا اور اس کے ساتھ مچھلیوں کا حوض۔‘‘ پھر انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ ہوا میں لہرا کر کہا ’’ اور اس طرف مزارعین کے کوٹھے، دونوں کے درمیان حضور کا باغیچہ تھا اور سامنے ان کی عظیم الشان حویلی۔ اسی باغیچے میں ان کا مکتب تھا۔ درِ فیض کھلا تھا جس کا جی چاہے آئے، نہ مذہب کی قید نہ ملک کی پابندی….‘‘

میں نے کافی دیر سوچنے کے بعد با ادب با ملاحظہ قسم کا فقرہ تیار کر کے پوچھا ’’حضرت مولانا کا اسم گرامی شریف کیا تھا؟‘‘ تو  پہلے انہوں نے میرا فقرہ ٹھیک کیا اور پھر بولے۔ ’’حضرت اسماعیل چشتی فرماتے تھے کہ ان کے والد ہمیشہ انہیں جانِ جاناں کہہ کر پکارتے تھے۔ کبھی جانِ جاناں کی رعایت سے مظہر جانِ جاناں بھی کہہ دیتے تھے۔

میں ایسی دلچسپ کہانی سننے کا ابھی اور خواہش مند تھا کہ داؤ جی اچانک رک گئے اور بولے۔ سب سڈی ایری سسٹم کیا تھا؟ ان انگریزوں کا برا ہو یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں آئے یا ملکہ وکٹوریہ کا فرمان لے، سارے معاملے میں کھنڈت ڈال دیتے ہیں۔ سوا کے پہاڑے کی طرح میں نے سب سڈی ایری سسٹم کا ڈھانچہ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ پھر انہوں نے میز سے گرائمر کی کتاب اٹھائی اور بولے ’’باہر جا کر دیکھ کے آ کہ تیری بے بے کا غصہ کم ہوا یا نہیں۔‘‘ میں دوات میں پانی ڈالنے کے بہانے باہر گیا تو بے بے کو مشین چلاتے اور بی بی کو چکوا صاف کرتے پایا۔‘‘

 

داؤ جی کی زندگی میں بے بے والا پہلو بڑا ہی کمزور تھا۔ جب وہ دیکھتے کہ گھر میں مطلع صاف ہے اور بے بے کے چہرے پر کوئی شکن نہیں ہے، تو وہ پکار کر کہتے ’’سب ایک ایک شعر سناؤ‘‘ پہلے مجھی سے تقاضا ہوتا اور میں چھوٹتے ہی کہتا:

 

لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

 

اس پر وہ تالی بجاتے اور کہتے ’’اولین شعر نہ سنوں گا، اردو کا کم سنوں گا اور مسلسل نظم کا ہر گز نہ سنوں گا۔‘‘

بی بی بھی میر ی طرح اکثر اس شعر سے شروع کرتی۔

 

شنیدم کہ شاپور دم در کشید

چو خسرو بر آتش قلم در کشید

 

اس پر داؤ جی ایک مرتبہ پھر آرڈر آرڈر پکارتے

بی بی قینچی رکھ کر کہتی:

 

شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشوریم

دیدیم کہ باقی ست شبِ فتنہ غنودیم

 

داؤ جی شاباش تو ضرور کہہ دیتے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ’’بیٹا یہ شعر تُو کئی مرتبہ سنا چکی ہے۔‘‘

پھر وہ بے بے کی طرف دیکھ کر کہتے۔ ’’بھئی آج تمہاری بے بے بھی ایک سنائے گی‘‘ مگر بے بے روکھا سا جواب دیتی ’’مجھے نہیں آتے شیر، کبت‘‘۔

اس پر داؤ جی کہتے۔ ’’گھوڑیاں ہی سنا دے۔ اپنے بیٹوں کے بیاہ کی گھوڑیاں ہی گا دے۔

اس پر بے بے کے ہونٹ مسکرانے کو کرتے لیکن وہ مسکرا نہ سکتی اور داؤ جی عین عورتوں کی طرح گھوڑیاں گانے لگتے۔ ان کے درمیان کبھی امی چند اور کبھی میرا نام ٹانک دیتے۔ پھر کہتے ’’میں اپنے اس گولو مولو کی شادی پر سرخ پگڑی باندھوں گا۔ برات میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ چلوں گا اور نکاح نامے میں شہادت کے دستخط کروں گا۔ میں دستور کے مطابق شرما کر نگاہیں نیچی کر لیتا تو وہ کہتے۔ ’’پتہ نہیں اس ملک کے کسی شہر میں میری چھوٹی بہو پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھ رہی ہو گی، ہفتہ میں ایک دن لڑکیوں کی خانہ داری ہوتی ہے۔ اس نے تو بہت سی چیزیں پکانی سیکھ لی ہو گی۔ پڑھنے میں بھی ہوشیار ہو گی۔ اس بدھو کو تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ مادیاں گھوڑیاں ہوتی ہے یا مرغی۔ وہ تو فر فر سب کچھ سناتی ہو گی۔ میں تو اس کو فارسی پڑھاؤں گا پہلے اس کو خطاطی کی تعلیم دوں گا پھر خطِ شکستہ سکھاؤں گا۔ مستورات کو خطِ شکستہ نہیں آتا۔ میں اپنی بہو کو سکھا دوں گا…. سن گولو! پھر میں تیرے پاس ہی رہو گا۔ میں اور میری بہو فارسی میں باتیں کریں گے۔ وہ بات بات  پر بفرمائید  بفرمائید کہے گی اور تو احمقوں کی طرح منہ دیکھا کرے گا۔ پھر وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکتے "خیلے خوب خیلے خوب” کہتے۔ جانِ پدر چرا ایں قدر زحمت می کشی…. خوب…. یاد دارم…. اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہتے۔ بچارے داؤ جی! چٹائی پر اپنی چھوٹی سی دنیا بسا کر اس میں فارسی کے فرمان جاری کئے جاتے….

ایک دن جب چھت پر دھوپ پر بیٹھے ہوئے وہ ایسی ہی دنیا بسا چکے تھے تو ہولے سے مجھے کہنے لگے۔ ’’جس طرح خدا نے تجھے ایک نیک سیرت بیوی اور مجھے سعادت مند بہو عطا کی ہے ویسے ہی وہ اپنے فضل سے میرے امی چند کو بھی دے۔‘‘

اس کے خیالات مجھے کچھ اچھے نہیں لگتے، یہ سوانگ یہ مسلم لیگ یہ بیلچہ پارٹیاں مجھے پسند نہیں اور امی چند لاٹھی چلانا گٹکا کھیلنا سیکھ رہا ہے میری تو وہ کب مانے گا، ہاں خدائے بزرگ و برتر اس کو ایک نیک مومن سی بیوی دلا دے تو وہ اسے راہِ راست پر لے آئے گی۔

اس مومن کے لفظ پر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور میں چپ سا ہو گیا۔ چپ محض اس لئے ہوا تھا کہ اگر میں نے منہ کھولا تو یقیناً ایسی بات نکلے گی جس سے داؤ جی کو بڑا دکھ ہو گا…. میری اور امی چند کی تو خیر باتیں ہی تھیں، لیکن بارہ جنوری کو بی بی کی برات سچ مچ آ گئی۔ جیجا جی رام پرتاب کے بارے میں داؤ جی مجھے بہت کچھ بتا چکے تھے کہ وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور اس شادی کے بارے میں انہوں نے جو استخارہ کیا تھا اس پر وہ پورا اترتا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی داؤ جی کو اس بات کی تھی کہ ان کے سمدھی فارسی کے استاد تھے اور کبیر پنتھی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ بارہ تاریخ کی شام کو بی بی وداع ہونے لگی تو گھر بھرمیں کہرام مچ گیا، بے بے زار و قطار رو رہی ہے امی چند آنسو بہا رہا ہے اور محلے کی عورتیں پھس پھس کر رہی ہیں۔ میں دیوار کے ساتھ لگا کھڑا ہوں اور داؤ جی میرے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں آج زمین کچھ میرے پاؤ ں نہیں پکڑتی۔ میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ جیجا جی کے باپ بولے۔ ’’منشی جی اب ہمیں اجازت دیجئے‘‘ تو بی بی پچھاڑ کر گر پڑی۔ اسے چارپائی پر ڈالا، عورتیں ہوا کرنے لگیں اور داؤ جی میرا سہارا لے کر اس کی چارپائی کی طرف چلے۔ انہوں نے بی بی کو کندھے سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا ’’ یہ کیا ہوا بیٹا۔ اٹھو! یہ تو تمہاری نئی اور خود مختار زندگی کی پہلی گھڑی ہے۔ اسے یوں منحوس نہ بناؤ۔ بی بی اس طرح دھاڑیں مارتے ہوئے داؤ جی سے لپٹ گئی، انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’قرۃ العین میں تیرا گنہگار ہوں کہ تجھے پڑھا نہ سکا۔ تیرے سامنے شرمندہ ہوں کہ تجھے علم کا جہیز نہ دے سکا۔ تو مجھے معاف کر دے گی اور شاید برخوردار رام پرتاب بھی لیکن میں اپنے کو معاف نہ کر سکوں گا۔ میں خطا کار ہوں اور میرا خجل سر تیرے سامنے خم ہے۔‘‘ یہ سن کر بی بی اور بھی زور زور سے رونے لگی اور داؤ جی کی آنکھوں سے کتنے سارے موٹے موٹے آنسوؤں کے قطرے ٹوٹ کر زمین پر گرے۔ ان کے سمدھی نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’منشی جی آپ فکر نہ کریں میں بیٹی کو کریما پڑھا دوں گا‘‘ داؤ جی ادھر پلٹے اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’کریما تو یہ پڑھ چکی ہے، گلستان بوستان بھی ختم کر چکا ہوں، لیکن میری حسرت پوری نہیں ہوئی۔‘‘ اس پر وہ ہنس کر بولے۔ ’’ساری گلستان تو میں نے بھی نہیں پڑھی، جہاں عربی آتی تھی، آگے گزر جاتا تھا…. ’داؤ جی اسی طرح ہاتھ جوڑے کتنی دیر خاموش کھڑے رہے، بی بی نے گوٹہ لگی سرخ رنگ کی ریشمی چادر سے ہاتھ نکال کر پہلے امی چند اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور سکھیوں کے بازوؤں میں ڈیوڑھی کی طرف چل دی۔ داؤ جی میرا سہارا لے کر چلے تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ زور سے بھینچ کر کہا۔ ’’یہ لو یہ بھی رو رہا ہے۔ دیکھو ہمارا سہارا بنا پھرتا ہے۔ او گولو…. او مردم دیدہ…. تجھے کیا ہو گیا…. جانِ پدر تو کیوں….‘‘

اس پر ان کا گلا رندھ گیا اور میرے آنسو بھی تیز ہو گئے۔ برات والے تانگوں اور اِکوں پر سوار تھے۔ بی بی رتھ میں جا رہی تھی اور اس کے پیچھے امی چند اور میں اور ہمارے درمیان میں داؤ جی پیدل چل رہے تھے۔ اگر بی بی کی چیخ ذرا زور سے نکل جاتی تو داؤ جی آگے بڑھ کر رتھ کا پردہ اٹھا تے او ر کہتے۔ ’’لا حول پڑھو بیٹا، لاحول پڑھو۔‘‘اور خود آنکھوں پر رکھے رکھے ان کی پگڑی کا شملہ بھیگ گیا تھا۔

 

رانو ہمارے محلے کا کثیف سا انسان تھا، بدی اور کینہ پروری اس کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھر ی تھی۔ وہ باڑہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے، اسی کا تھا۔ اس میں بیس تیس بکریاں اور گائیں تھیں جن کا دودھ صبح و شام رانو گلی کے بغلی میدان میں بیٹھ کر بیچا کرتا تھا۔ تقریباً سارے محلے والے اسی سے دودھ لیتے تھے اور اس کی شرارتوں کی وجہ سے دبتے بھی تھے۔ ہمارے گھر کے آگے سے گزرتے ہوئے وہ یونہی شوقیہ لاٹھی زمین پر بجا کر داؤ جی کو ’’پنڈتا جے رام جی کی ’’ کہہ کر سلام کیا کرتا۔

داؤ جی نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا بھی کہ وہ پنڈت نہیں ہیں معمولی آدمی ہیں کیونکہ پنڈت ان کے نزدیک بڑے پڑھے لکھے اور فاضل آدمی کو کہا جا سکتا تھا لیکن رانو نہیں مانتا تھا وہ اپنی مونچھ کو چبا کر کہتا۔ ’’ارے بھئی جس کے سر پر بودی (چٹیا) ہو وہی پنڈت ہوتا ہے….‘‘ چوروں یاروں سے اس کی آشنائی تھی شام کو اس کے باڑے میں جوا بھی ہوتا اور گندی اور فحش بولیوں کا مشاعرہ۔ بی بی کے جانے کے ایک دن بعد جب میں اس  سے دودھ لینے گیا تو اس نے شرارت سے آنکھ میچ کر کہا۔ ’’مورنی تو چلی گئی بابو اب تو اس گھر میں رہ کر کیا لے گا۔‘‘ میں چپ رہا تو اس نے جھاگ والے دودھ میں ڈبہ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’گھر میں گنگا بہتی تھی سچ بتا کہ غوطہ لگایا کہ نہیں۔‘‘ مجھے اس بات پر غصہ آگیا اور میں نے تاملوٹ گھما کر اس کے سر پر  دے مارا۔ اس ضربِ شدید سے خون وغیرہ تو برآمد نہ ہوا لیکن وہ چکرا کر تخت پر گر پڑا اور میں بھاگ گیا۔ داؤ جی کو سارا واقعہ سنا کر میں دوڑا دوڑا اپنے گھر گیا اور ابا جی سے ساری حکایت بیان کی۔ ان کی بدولت رانو کی تھانہ میں طلبی ہوئی اور حوالدار صاحب نے ہلکی سی گو شمالی کے بعد اسے سخت تنبیہ کر کے چھوڑ دیا۔ اس دن کے بعد رانو داؤ جی پر آتے جاتے طرح طرح کے فقرے کسنے لگا۔ وہ سب سے زیادہ مذاق ان کی بودی کا اڑایا کرتا تھا اور واقعی داؤ جی کے فاضل سر پر وہ چپٹی سی بودی ذرا اچھی نہ لگتی تھی۔ مگر وہ کہتے تھے۔ ’’یہ میری مرحوم ماں کی نشانی ہے اور مجھے اپنی زندگی کی طرح عزیز ہے۔ وہ اپنی آغوش میں میرا سر رکھ کر اسے دہی سے دھوتی تھی اور کڑوا تیل لگا کر چمکاتی تھی۔ گو میں نے حضرت مولانا کے سامنے کبھی بھی پگڑی اتارنے کی جسارت نہیں کی، لیکن وہ جانتے تھے اور جب میں دیال سنگھ میموریل ہائی سکول سے ایک سال کی ملازمت کے بعد چھٹیوں میں گاؤں آیا تو حضور نے پوچھا ’’شہر جا کر چوٹی تو نہیں کٹوا دی؟‘‘ تو میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا تم سا سعادت مند بیٹا کم ماؤں کو نصیب ہوتا ہے اور ہم سا خوش قسمت استاد بھی خال خال ہو گا جسے تم ایسے شاگردوں کو پڑھانے کا فخر حاصل ہوا ہو، میں نے ان کے پاؤں چھو کر کہا حضور آپ مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ سب آپ کے قدموں کی برکت ہے، ہنس کر فرمانے لگے چنت رام ہمارے پاؤں نہ چھوا کرو بھلا ایسے لمس کا کیا فائدہ جس کا ہمیں احساس نہ ہو۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے کہا اگر کوئی مجھے بتا دے تو سمندر پھاڑ کر بھی آپ کے لئے دوائی نکال لاؤں۔ میں اپنی زندگی کی حرارت حضور کی ٹانگوں کے لئے نذر کر دوں لیکن میرا بس نہیں چلتا…. خاموش ہو گئے اور نگاہیں اوپر اٹھا کر بولے خدا کو یہی منظور ہے تو ایسے ہی سہی۔ تم سلامت رہو کہ تمہارے کندھوں پر میں نے کوئی دس سال بعد سارا گاؤں دیکھ لیا ہے….‘‘ داؤ جی گزرے ایام کی تہہ میں اترتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

’’میں صبح سویرے حویلی کی ڈیوڑھی میں جا کر آواز دیتا ’’خادم  آ گیا‘‘ مستورات ایک طرف ہو جاتیں تو حضور صحن سے آواز دے کر مجھے بلاتے اور میں اپنی قسمت کو سراہتا ہاتھ جوڑے جوڑے ان کی طرف بڑھتا۔ پاؤں چھوتا اور پھر حکم کا انتظار کرنے لگتا، وہ دعا دیتے میرے والدین کی خیریت پوچھتے، گاؤں کا حال دریافت فرماتے اور پھر کہتے ’’لو بھئی چنت رام ان گناہوں کی گٹھڑی کو اٹھا لو‘‘ میں سبدِ گل کی طرح انہیں اٹھاتا اور کمر پر لاد کر حویلی سے باہر آ جاتا۔ کبھی فرماتے، ہمیں باغ کا چکر دو کبھی حکم ہوتا سیدھے رہٹ کے پاس لے چلو اور کبھی کبھار بڑی نرمی سے کہتے چنت رام تھک نہ جاؤ تو ہمیں مسجد تک لے چلو۔ میں نے کئی بار عرض کیا کہ حضور ہر روز مسجد لے جایا کروں گا مگر نہیں مانے یہی فرماتے رہے کہ کبھی جی چاہتا ہے تو تم سے کہہ دیتا ہوں۔ میں وضو کرنے والے چبوترے پر بٹھا کر ان کے ہلکے ہلکے جوتے اتارتا اور انہیں جھولی میں رکھ کر دیوار سے لگ کر بیٹھ جاتا۔ چبوترے سے حضور خود گھسٹ کر صف کی جانب جاتے تھے۔ میں نے صرف ایک مرتبہ انہیں اس طرح جاتے دیکھا تھا اس کے بعد جرأت نہ ہوئی۔ ان کے جوتے اتارنے کے بعد دامن میں منہ چھپا لیتا اور پھر اسی وقت سر اٹھاتا جب وہ میرا نام لے کر یاد فرماتے۔ واپسی پر میں قصبے کی لمبی لمبی گلیوں کا چکر کاٹ کر حویلی کو لوٹتا۔ تو فرماتے ہم جانتے ہیں چنت رام تم ہماری خوشنودی کے لئے قصبہ کی سیر کراتے ہو لیکن ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ایک تو تم پر لدا لدا پھرتا ہوں اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہما ہے دوسرے تمہارا وقت ضائع کرتا ہوں۔ اور حضور سے کون کہہ سکتا کہ آقا یہ وقت ہی میری زندگی کا نقطۂ عروج ہے اور یہ تکلیف ہی میری حیات کا مرکز ہے۔

اور حضور سے کون کہہ سکتا کہ آقا یہ وقت ہی ایک ہما ہے جس نے اپنا سایہ محض میرے لئے وقف کر دیا ہے…. جس دن میں نے سکندر نامہ زبانی یاد کر کے انہیں سنایا۔ اس قدر خوش ہوئے گویا ہفت اقلیم کی بادشاہی نصیب ہو گئی۔ دین و دنیا کی ہر دعا سے مجھے مالا مال کیا۔ دستِ شفقت میرے سر پر پھیرا اور جیب سے ایک روپیہ نکال کر انعام دیا۔ میں نے اسے حجرِ اسود جان کر بوسہ دیا۔ آنکھوں سے لگایا اور سکندر کا افسر سمجھ کر پگڑی میں رکھ لیا۔ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر دعائیں دے رہے تھے اور فرما رہے تھے جو کام ہم سے نہ ہو سکا وہ تو نے کر دکھایا۔ تو نیک ہے خدا نے تجھے یہ سعادت نصیب کی۔ چنت رام تیرا مویشی چرانا پیشہ ہے تُو شاہ بطحا کا پیرو ہے اس لئے خدائے عز و جل تجھے برکت دیتا ہے وہ تجھے اور بھی برکت دے گا۔ تجھے اور کشائش میسر آئے گی….‘‘

داؤ جی یہ باتیں کرتے کرتے گھٹنوں پر سر رکھ کر خاموش ہو گئے۔

میرا امتحان قریب آ رہا تھا اور داؤ جی سخت ہوتے جا رہے تھے۔ انہوں نے میرے ہر فارغ وقت پر کوئی نہ کوئی کام پھیلا دیا تھا۔ ایک مضمون سے عہدہ برا ہوتا تو دوسرے کی کتابیں نکال کر سر پر سوار ہو جاتے تھے۔ پانی پینے اٹھتا تو سایہ کی طرح ساتھ ساتھ چلے آتے اور نہیں تو تاریخ کے سن ہی پوچھتے جاتے۔ شام کے وقت سکول پہنچنے کا انہوں نے وطیرہ بنا لیا تھا۔ ایک دن میں سکول کے بڑے دروازے سے نکلنے کی بجائے بورڈنگ کی راہ پر کھسک لیا تو انہوں نے جماعت کے کمرے کے سامنے آ کر بیٹھنا شروع کر دیا۔ میں چڑچڑا اور ضدی ہونے کے علاوہ بد زبان بھی ہو گیا تھا۔ داؤ جی کے بچے، گویا میرا تکیہ کلام بن گیا تھا اور کبھی کبھی جب ان کی یا ان کے سوالات کی سختی بڑھ جاتی تو میں انہیں کتے کہنے سے بھی نہ چوکتا۔ ناراض ہو جاتے تو بس اس قدر کہتے ’’دیکھ لے ڈومنی تو کیسی باتیں کر رہا ہے۔ تیری بیوی بیاہ کر لاؤں گا تو پہلے اسے یہی بتاؤں گا کہ جانِ پدر یہ تیرے باپ کو کتا کہتا تھا۔ ‘‘ میری گالیوں کے بدلے وہ مجھے ڈومنی کہا کرتے تھے۔ اگر انہیں زیادہ دکھ ہوتا تو منہ چڑی ڈومنی کہتے۔ اس سے زیادہ نہ انہیں غصہ آتا تھا نہ دکھ ہوتا تھا۔ میرے اصلی نام سے انہوں نے کبھی نہیں پکارا میرے بڑے بھائی کا ذکر آتا تو بیٹا آفتاب، برخوردار آفتاب کہہ کر انہیں یاد کرتے تھے لیکن میرے ہر روز نئے نئے نام رکھتے تھے۔ جن میں گولو انہیں بہت مرغوب تھا۔ طنبورا دوسرے درجہ پر مسٹر ہونق اور اخفش اسکوائر ان سب کے بعد آتے تھے اور ڈومنی صرف غصہ کی حالت میں۔ کبھی کبھی میں ان کو بہت دق کرتا۔ وہ اپنی چٹائی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے ہیں، مجھے الجبرے کا ایک سوال دے رکھا ہے اور میں سارے جہان کی ابجد کو ضرب دے دے کر تنگ آ چکا ہوں تو میں کاپیوں اور کتابوں کے ڈھیر کو پاؤں سے پرے دھکیل کر اونچے اونچے گانے لگتا۔

تیرے سامنے بیٹھ کے رونا تے دکھ تینوں نیو دسنا

داؤ جی حیرانی سے میری طرف دیکھتے تو میں تالیاں بجانے لگتا اور قوالی شروع کر دیتا۔ نیوں نیوں نیوں دسنا۔ تے دکھ تینوں نیوں دسنا…. دسنا دسنا دسنا…. تینوں تینوں تینوں۔ سارے گاما رونا رونا سارے گاما رونا رونا…. تے دیکھ تینوں نیوں دسنا۔ وہ عینک کے اوپر سے مسکراتے۔ میرے پاس آ کر کاپی اٹھاتے، صفحہ نکالتے اور تالیوں کے درمیان اپنا بڑا سا ہاتھ کھڑا کر دیتے۔

’’سن بیٹا‘‘ وہ بڑی محبت سے کہتے ’’ یہ کوئی مشکل سوال ہے! ‘‘ جونہی وہ سوال سمجھانے کے لئے ہاتھ نیچے کرتے میں پھر تالیاں بجانے لگتا۔ ’’دیکھ پھر، میں تیرا داؤ نہیں ہو؟‘‘ وہ بڑے مان سے پوچھتے۔

’’نہیں‘‘ میں منہ پھاڑ کر کہتا۔

’’ تو اور کون ہے؟‘‘ وہ مایوس سے ہو جاتے۔

’’وہ سچی سرکار‘‘ میں انگلی آسمان کی طرف کر کے شرارت سے کہتا۔ وہ سچی سرکار، وہ سب کا پالنے والا…. بول بکرے سب کا والی کون؟‘‘

وہ میرے پاس سے اٹھ کر جانے لگتے تو میں ان کی کمر میں ہاتھ ڈال دیتا ’’داؤ جی خفا ہو گئے کیا۔‘‘

وہ مسکرانے لگتے۔ ’’چھوڑ طنبورے! چھوڑ بیٹا! میں تو پانی پینے جا رہا تھا…. مجھے پانی تو پی آنے دے۔

میں جھوٹ موٹ برا مان کر کہتا۔ ’’لو جی جب مجھے سوال سمجھنا ہوا داؤ جی کو پانی یاد آگیا۔‘‘

وہ آرام سے بیٹھ جاتے اور کاپی کھول کر کہتے۔ ’’اخفش اسکوائر جب تجھے چار ایکس کا مربع نظر آ رہا تھا تو تو نے تیسرا فارمولا کیوں نہ لگایا اور اگر ایسا نہ بھی کرتا تو….‘‘اور اس کے بعد پتہ نہیں داؤ جی کتنے دن پانی نہ پیتے۔

 

فروری کے دوسرے ہفتہ کی بات ہے۔ امتحان میں کل ڈیڑھ مہینہ رہ گیا تھا اور مجھ پر آنے والے خطرناک وقت کا خوف بھوت بن کر سوار ہو گیا تھا۔ میں نے خود اپنی پڑھائی پہلے سے تیز کر دی تھی اور کافی سنجیدہ ہو گیا تھا لیکن جیومیٹری کے مسائل میری سمجھ میں نہ آتے تھے۔ داؤ جی نے بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ آخر ایک دن انہوں نے کہا کُل باون پراپوزیشنیں ہیں زبانی یاد کر لے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ میں انہیں رٹنے میں مصروف ہو گیا لیکن جو پراپوزیشن رات کو یاد کرتا صبح کو بھول جاتا۔ میں دل برداشتہ ہو کر ہمت چھوڑ سی بیٹھا۔ ایک رات داؤ جی مجھ سے جیومیٹری کی شکلیں بنوا کر اور مشقیں سن کر اٹھے تو وہ بھی کچھ پریشان سے ہو گئے تھے۔ میں بار بار اٹکا تھا اور انہیں بہت کوفت ہوئی تھی۔ مجھے سونے کی تاکید کر کے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تو میں کاپی پینسل لے کر پھر بیٹھ گیا اور رات کے ڈیڑھ بجے تک لکھ لکھ کر رٹا لگاتا رہا مگر جب کتاب بند کر کے لکھنے لگتا تو چند فقروں کے بعد اٹک جاتا۔ مجھے داؤ جی کا مایوس چہرہ یاد کر کے اور اپنی حالت کا اندازہ کر کے رونا آگیا اور میں باہر صحن میں آ کر سیڑھیوں پر بیٹھ کے سچ مچ رونے لگا، گھٹنوں پر سر رکھے رو رہا تھا اور سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تو میں نے داؤ جی کی عزت بچانے کے لئے یہی ترکیب سوچی کہ ڈیوڑھی کا دروازہ کھول کر چپکے سے نکال جاؤں اور پھر واپس نہ آؤں۔ جب یہ فیصلہ کر چکا اور عملی قدم آگے بڑھانے کے لئے سر اوپر اٹھایا تو داؤ جی کمبل اوڑھے میرے پاس کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے بڑے پیار سے اپنے ساتھ لگایا تو سسکیوں کا لامتناہی سلسلہ صحن میں پھیل گیا۔ داؤ جی نے میرا سر چوم کر کہا۔ ’’لے بھئی طنبورے میں تو یوں نہ سمجھتا تھا تو تو بہت ہی کم ہمت نکلا۔‘‘ پھر انہوں نے مجھے اپنے ساتھ کمبل میں لپیٹ لیا اور بیٹھک میں لے آئے۔ بستر میں بٹھا کر انہوں نے میرے چاروں طرف رضائی لپیٹی اور خود پاؤں اوپر کر کے کرسی پر بیٹھ گئے۔

انہوں نے کہا ’’اقلیدس چیز ہی ایسی ہے۔ تو اس کے ہاتھوں یوں نالا ں ہے، میں اس سے اور طرح تنگ ہوا تھا۔ حضرت مولانا کے پاس جبر و مقابلہ اور اقلیدس کی جس قدر کتابیں تھیں انہیں میں اچھی طرح پڑھ کر اپنی کاپیوں پر اتار چکا تھا۔ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سے الجھن ہوتی۔ میں نے یہ جانا کہ ریاضی کا ماہر ہو گیا ہوں لیکن ایک رات میں اپنی کھاٹ پر پڑا متساوی الساقلین کے ایک مسئلہ پر غور کر رہا تھا کہ بات الجھ گئی۔ میں نے دیا جلا کر شکل بنائی اور اس پر غور کرنے لگا۔ جبر و مقابلہ کی رو سے اس کا جواب ٹھیک آتا تھا لیکن علمِ ہندسہ سے پایۂ ثبوت کو نہ پہنچتا تھا۔ میں ساری رات کاغذ سیاہ کرتا رہا لیکن تیری طرح سے رویا نہیں۔ علی الصبح میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اپنے دستِ مبارک سے کاغذ پر شکل کھینچ کر سمجھانا شروع کیا لیکن جہاں مجھے الجھن ہوئی تھی وہیں حضرت مولانا کی طبعِ رسا کو بھی کوفت ہوئی۔ فرمانے لگے۔ ’’چنت رام اب ہم تم کو نہیں پڑھا سکتے۔ جب استاد اور شاگرد کا علم ایک سا ہو جائے تو شاگرد کو کسی اور معلم کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ‘‘ میں نے جرأت کر کے کہہ دیا کہ حضور اگر کوئی اور یہ جملہ کہتا تو میں اسے کفر کے مترادف سمجھتا لیکن آپ کا ہر حرف اور ہر شوشہ میرے لئے حکمِ ربانی سے کم نہیں۔ اس لئے خاموش ہو ں۔ بھلا آقائے غزنوی کے سامنے ایاز کی مجال! لیکن حضور مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔ فرمانے لگے ’’ تم بے حد جذباتی آدمی ہو۔ بات تو سن لی ہوتی، میں نے سر جھکا کر کہا ارشاد! فرمایا ’’ دلی میں حکیم ناصر علی سیستانی علمِ ہندسہ کے بڑے ماہر ہیں اگر تم کو اس کا ایسا ہی شوق ہے تو ان کے پاس چلے جاؤ اور اکتسابِ علم کرو۔ ہم ان کے نام رقعہ لکھ دیں گے۔ میں نے رضا مندی ظاہر کی تو فرمایا اپنی والدہ سے پوچھ لینا اگر وہ رضامند ہوں تو ہمارے پاس آنا…. والدہ مرحومہ سے پوچھا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق جواب پانا انہونی بات تھی۔ چنانچہ میں نے ان سے نہیں پوچھا۔

حضور پوچھتے تو میں دروغ بیانی سے کام لیتا کہ گھر کی لپائی تپائی کر رہا ہوں جب فارغ ہوں گا تو والدہ سے عرض کروں گا۔‘‘

چند ایام بڑے اضطرار کی حالت میں گزرے۔ میں دن رات اس شکل کو حل کرنے کی کوشش کرتا مگر صحیح جواب برآمد نہ ہوتا۔ اس لا ینحل مسئلہ سے طبیعت میں اور انتشار پیدا ہوا۔ میں دلی جانا چاہتا تھا لیکن حضور سے اجازت مل سکتی تھی نہ رقعہ، وہ والدہ کی رضامندی کے بغیر اجازت دینے والے نہ تھے اور والدہ اس بڑھاپا میں کیسے آمادہ ہو سکتی تھیں…. ایک رات جب سارا گاؤں سو رہا تھا اور میں تیری طرح پریشان تھا تو میں نے اپنی والدہ کی پٹاری سے اس کی کل پونجی دو روپے چرائے اور نصف اس کے لئے چھوڑ کر گاؤں سے نکل گیا۔ خدا مجھے معاف کرے اور میرے دونوں بزرگوں کی روحوں کو مجھ پر مہربان رکھے! واقعی میں نے بڑا گناہ کیا اور ابد تک میرا سر ان دونوں کرمفرماؤں کے سامنے ندامت سے جھکا رہے گا…. گاؤں سے نکل کر میں حضور کی حویلی کے پیچھے ان کی مسند کے پاس پہنچا جہاں بیٹھ کر آپ پڑھاتے تھے۔ گھٹنوں کے بل ہو کر میں نے زمین کو بوسہ دیا اور دل میں کہا۔ ’’بد قسمت ہوں، بے اجازت جا رہا ہوں لیکن آپ کی دعاؤں کا عمر بھر محتاج رہوں گا۔ میرا قصور معاف نہ کیا تو آ کے قدموں میں جان دے دوں گا۔ اتنا کہہ کر اٹھا اور لاٹھی کندھے پر رکھ کر میں وہاں سے چل دیا…. سن رہا ہے؟‘‘ داؤ جی نے میری طرف غور سے دیکھ کر پوچھا۔

رضائی کے بیچ خارپشت بنے، میں نے آنکھیں جھپکائیں اور ہولے سے کہا۔ ’’جی؟‘‘

داؤ جی نے پھر کہنا شروع کیا ’’قدرت نے میری کمال مدد کی۔ ان دنوں جاکھل جنید سرسہ حصار والی پٹڑی بن رہی تھی۔ یہی راستہ سیدھا دلی کو جاتا تھا اور یہیں مزدوری ملتی تھی۔ ایک دن میں مزدوری کرتا اور ایک دن چلتا، اس طرح تائیدِ غیبی کے سہارے سولہ دن میں دلی پہنچ گیا۔ منزل مقصود تو ہاتھ آ گئی تھی لیکن گوہرِ مقصود کا سراغ نہ ملتا تھا۔ جس کسی سے پوچھتا حکیم ناصر علی سیستانی کا دولت خانہ کہاں ہے، نفی میں جواب ملتا۔ دو دن ان کی تلاش جاری رہی لیکن پتہ نہ پا سکا۔ قسمت یاور تھی صحت اچھی تھی۔ انگریزوں کے لئے نئی کوٹھیاں بن رہی تھیں۔ وہاں کام پر جانے لگا۔ شام کو فارغ ہو کر حکیم صاحب کا پتہ معلوم کرتا اور رات کے وقت ایک دھرم شالہ میں کھیس پھینک کر گہری نیند سو جاتا۔ مثل مشہور ہے جوئندہ یابندہ! آخر ایک دن مجھے حکیم صاحب کی جائے رہائش معلوم ہو گئی، وہ پتھر پھوڑوں کے محلہ کی ایک تیرہ و تاریک گلی میں رہتے تھے شام کے وقت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں فروکش تھے اور چند دوستوں سے اونچے اونچے گفتگو ہو رہی تھی۔ میں جوتے اتار کر دہلیز کے اندر کھڑا ہو گیا۔ ایک صاحب نے پوچھا۔’’کون ہے؟‘‘ میں نے سلام کر کے کہا۔ ’’حکیم صاحب سے ملنا ہے۔‘‘ حکیم صاحب دوستوں کے حلقہ میں سر جھکائے بیٹھے تھے اور ان کی پشت میری طرف تھی۔ اسی طرح بیٹھے بولے ’’اسم  گرامی‘‘ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’پنجاب سے آیا ہوں اور ….‘‘ میں بات پوری بھی نہ کرپا یا تھا کہ زور سے بولے ’’اوہو! چنت رام ہو؟‘‘ میں کچھ جواب نہ دے سکا۔ فرمانے لگے۔ ’’ مجھے اسماعیل کا خط ملا ہے لکھتا ہے شاید چنت رام تمہارے پاس آئے۔ ہمیں بتائے بغیر گھر سے فرار ہو گیا ہے اس کی مدد کرنا۔ ‘‘ میں اسی طرح خاموش کھڑا رہا تو پاٹ دار آواز میں بولے ’’میاں اندر آ جاؤ کیا چپ کا روزہ رکھا ہے؟‘‘ میں ذرا آگے بڑھا تو بھی میری طرف نہ دیکھا اور ویسے ہی عروسِ نو کی طرح بیٹھے رہے۔ پھر قدرے تحکمانہ انداز میں کہا۔ ’’برخوردار بیٹھ جاؤ۔ میں وہیں بیٹھ گیا تو اپنے دوستوں سے فرمایا، بھئی ذرا ٹھہرو مجھے اس سے دو دو ہاتھ کر لینے دو۔ پھر حکم ہوا بتاؤ ہندسہ کا کونسا مسئلہ تمہاری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا تو انہوں نے اسی طرح کندھوں کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے اور آہستہ آہستہ کُرتا یوں اوپر کھینچ لیا کہ ان کی کمر برہنہ ہو گئی۔ پھر فرمایا۔ ’’بناؤ اپنی انگلی سے میری کمر پر ایک متساوی الساقین۔‘‘ مجھ پر سکتہ کا عالم طاری تھا۔ نہ آگے بڑھنے کی ہمت تھی نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت۔ ایک لمحہ کے بعد بولے، میاں جلدی کرو۔ نابینا ہوں۔ کاغذ قلم کچھ نہیں سمجھتا۔ میں ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا اور ان کی چوڑی چکلی کمر پر ہانپتی ہوئی انگلیوں سے متساوی الساقین بنانے لگا۔ جب وہ غیر مرئی شکل بن چکی تو بولے اب اس نقطہ ’س‘ سے خط ب ج‘  پر عمود گراؤ۔ ایک تو میں گھبرایا ہوا تھا دوسرے وہاں کچھ نہ آتا تھا۔ یونہی اٹکل سے میں نے ایک مقام پر انگلی رکھ کر عمود گرانا چاہا تو تیزی سے بولے ہے ہے کیا کرتے ہو یہ نقطہ ہے کیا؟۔

پھر خود ہی بولے آہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گے۔ وہ بول رہے تھے اور میں مبہوت بیٹھا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ابھی ان کے آخری جملے کے ساتھ نور کی لکیر متساوی الساقین بن کر ان کی کمر پر ابھر آئیں گی۔‘‘ پھر داؤ جی دلی کے دنوں میں ڈوب گئے۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں وہ میری طرف دیکھ رہے تھے لیکن مجھے نہیں دیکھ رہے تھے۔ میں نے بے چین ہو کر پوچھا۔ ’’پھر کیا ہوا داؤ جی؟‘‘انہوں نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ’’رات بہت گزر چکی ہے اب تو سو جا پھر بتاؤں گا۔‘‘ میں ضدی بچے کی طرح ان کے پیچھے پڑ گیا تو انہوں نے کہا۔ ’’پہلے وعدہ کر کہ آئندہ مایوس نہیں ہو گا اور ان چھوٹی چھوٹی پراپوزیشنوں کو  پتاشے سمجھے گا‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’حلوہ سمجھوں گا آپ فکر نہ کریں‘‘ انہوں نے کھڑے کھڑے کمبل لپیٹتے ہوئے کہا۔ ’’بس مختصر یہ کہ میں ایک سال حکیم صاحب کی حضوری میں رہا اور اس بحرِ علم سے چند قطرے حاصل کر کے اپنی کور آنکھوں کو دھویا۔ واپسی پر میں سیدھا اپنے آقا کی خدمت میں پہنچا اور ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ فرمانے لگے چنت رام اگر ہم میں قوت ہو تو ان پاؤں کو کھینچ لیں۔ اس پر میں رو دیا تو دستِ مبارک محبت سے میرے سر  پر پھیر کر کہنے لگے، ہم تم سے ناراض نہیں ہیں لیکن ایک سال کی فرقت بہت طویل ہے۔ آئندہ کہیں جانا ہو تو ہمیں بھی ساتھ لے جانا، یہ کہتے ہوئے داؤ جی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ مجھے اسی طرح گم سم چھوڑ کر بیٹھک میں چلے گئے۔‘‘

امتحان کی قربت سے میرا خون خشک ہو رہا تھا لیکن جسم پھول رہا تھا۔ داؤ جی کو میرے موٹاپے کی فکر رہنے لگی۔ اکثر میرے تھن متھنے ہاتھ پکڑ کر کہتے۔ ’’اسپِ تازی بن طویلہ خر نہ بن۔‘‘ مجھے ان کا یہ فقرہ بہت ناگوار گزرتا اور میں احتجاجاً ان سے کلام بند کر دیتا۔ میرے مسلسل مرن برت نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا اور ان کی فکر، اندیشہ کی حد تک بڑھ گئی۔ ایک صبح سیر کو جانے سے پہلے انہوں نے مجھے آ جگایا اور میری منتوں، خوشامدوں، گالیوں اور جھڑکیوں کے باوجود بستر سے اٹھا کوٹ پہنا کر کھڑا کر دیا۔ پھر وہ مجھے بازو سے پکڑ کر گویا گھسیٹتے ہوئے باہر گئے۔ سردیوں کی صبح کوئی چار بجے کا عمل۔ گلی میں آدم نہ آدم زاد، تاریکی سے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا اور داؤ جی مجھے اسی طرح سیر کو لے جا رہے تھے۔ میں کچھ بک رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے ابھی گراں خوابی دور نہیں ہوئی ابھی طنبورا بڑبڑا رہا ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد کہتے کوئی سر نکال طنبورے کی آہنگ پر بجا یہ کیا کر رہا ہے! جب ہم بستی سے دور نکل گئے اور صبح کی یخ ہوا نے میری آنکھوں کو زبردستی کھول دیا تو داؤ جی نے میرا بازو چھوڑ دیا۔ سرداروں کا رہٹ آیا اور نکل گیا۔ ندی آئی اور پیچھے رہ گئی۔ قبرستان گزر گیا مگر داؤ جی تھے کہ کچھ آیتیں ہی پڑھتے چلے جا رہے تھے۔ جب تھبہ پر پہنچے تو میری روح فنا ہو گئی۔ یہاں سے لوگ دوپہر کے وقت بھی نہ گزرتے تھے کیونکہ پرانے زمانے میں یہاں ایک شہر غرق ہو ا تھا۔ مرنے والوں کی روحیں اسی ٹیلے پر رہتی تھیں اور آنے جانے والوں کا کلیجہ چبا جاتی تھیں۔ میں خوف سے کانپنے لگا تو داؤ جی نے میرے گلے کے گرد مفلر اچھی طرح لپیٹ کر کہا۔

سامنے ان دو کیکروں کے درمیان اپنی پوری رفتار سے دس چکر لگاؤ، پھر سو لمبی سانسیں کھینچو اور چھوڑ دو، تب میرے پاس آؤ، میں یہاں بیٹھتا ہوں، میں تھبہ سے جان بچانے کے لئے سیدھا ان کیکروں کی طرف روانہ ہو گیا۔ پہلے ایک بڑے سے ڈھیلے پر بیٹھ کر آرام کیا اور ساتھ ہی حساب لگایا کہ چھ چکروں گا وقت گزر چکا ہو گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ اونٹ کی طرح کیکروں کے درمیان دوڑنے لگا اور جب دس یعنی چار چکر پورے ہو گئے تو پھر اسی ڈھیلے پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں کھینچنے لگا۔ ایک تو درخت پر عجیب و غریب قسم کے جانور بولنے لگے تھے دوسرے میری پسلی میں بلا کا درد شروع ہو گیا تھا۔ یہی مناسب سمجھا کہ تھبہ پر جا کر داؤ جی کو سوئے ہوئے اٹھاؤں اور گھر لے جا کر خوب خاطر کروں؟ غصہ سے بھرا اور دہشت سے لرزتا میں ٹیلے کے پاس پہنچا۔ داؤ جی تھبہ کی ٹھیکریوں پر گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیوانوں کی طرح سر مار رہے تھے اور اونچے اونچے اپنا محبوب شعر گار ہے تھے۔

 

جفا کم کن کہ فردا روزِ محشر

بہ پیشِ عاشقاں شرمندہ باشی!

 

کبھی دونوں ہتھیلیاں زور سے زمین پر مارتے اور سر اوپر اٹھا کر انگشتِ شہادت فضا میں یوں ہلاتے۔ جیسے کوئی ان کے سامنے کھڑا ہو اور اس سے کہہ رہے ہو دیکھ لو، سوچ لو میں تمہیں…. میں تمہیں بتا رہا ہوں …. سنا رہا ہوں…. ایک دھمکی دئے جاتے تھے۔ پھر تڑپ کر ٹھیکریوں پر گرتے اور جفا کم کن جفا کم کن کہتے ہوئے رونے لگتے۔ تھوڑی دیر میں ساکت و جامد کھڑا رہا اور پھر زور سے چیخ مار کر بجائے قصبہ کی طرف بھاگنے کے پھر کیکروں کی طرف دوڑ گیا۔ داؤ جی ضرور اسمِ اعظم جانتے تھے اور وہ جن قابو کر رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک جن ان کے سامنے کھڑا دیکھا تھا۔ بالکل الف لیلیٰ با تصویر والا جن تھا۔ جب داؤ جی کا طلسم اس پر نہ چل سکا تو اس نے انہیں نیچے گرا لیا تھا۔ وہ چیخ رہے تھے جفا کم کن جفا کم کن مگر وہ چھوڑتا نہیں تھا۔ میں اسی ڈھیلے پر بیٹھ کر رونے لگا…. تھوڑی دیر بعد داؤ جی آئے انہوں نے پہلے جیسا چہرہ بنا کر کہا۔ ’’چل  طنبورے‘‘ اور میں ڈرتا ڈرتا ان کے پیچھے ہو لیا۔ راستہ میں انہوں نے گلے میں لٹکتی ہوئی کھلی پگڑی کے دونوں کونے ہاتھ میں پکڑ لئے اور جھوم جھوم کر گانے لگے۔

 

تیرے لمے لمے وال فریدا ٹریا جا!

 

اس جادو گر کے پیچھے چلتے ہوئے میں نے ان آنکھوں سے واقعی ان آنکھوں سے دیکھا کہ ان کا سر تبدیل ہو گیا۔ ان کی لمبی لمبی زلفیں کندھوں پر جھولنے لگیں اور ان کا سارا وجود جٹا دھاری ہو گیا…. اس کے بعد چاہے کوئی میری بوٹی بوٹی اڑا دیتا، میں ان کے ساتھ سیر کو  ہر گز نہ جاتا!

 

اس واقعہ کے چند ہی دن بعد کا قصہ ہے کہ ہمارے گھر میں مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے اور اینٹوں کے ٹکڑے آ کر گرنے لگے۔ بے بے نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ کتیا کی بچوں کی طرح داؤ جی سے چمٹ گئی۔ سچ مچ ان سے لپٹ کر گئی اور انہیں دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔ وہ چلا رہی تھی۔ ’’بڈھے ٹوٹکی یہ سب تیرے منتر ہیں۔ یہ سب تیری خارسی ہے۔ تیرا کالا علم ہے جو الٹا ہمارے سر پر آگیا ہے۔ تیرے پریت میرے گھر میں اینٹیں پھینکتے ہیں۔ اجاڑ مانگتے ہیں۔ موت چاہتے ہیں۔‘‘ پھر وہ زور زور سے چیخنے لگی ’’میں مر گئی، میں جل گئی، لوگوں اس بڈھے نے میرے امی چند کی جان لینے کا سمبندھ کیا ہے۔ مجھ پر جادو کیا ہے اور میرا انگ انگ توڑ دیا ہے۔‘‘ امی چند تو داؤ جی کو اپنی زندگی کی طرح عزیز تھا اور اس کی جان کے دشمن بھلا وہ کیونکر ہو سکتے تھے لیکن جنوں کی خشت باری انہیں کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ جب میں نے بھی بے بے کی تائید کی تو داؤ جی نے زندگی میں پہلی بار مجھے جھڑک کر کہا ’’ تو احمق ہے اور تیری بے بے ام الجاہلین…. میری ایک سال کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ تو جنوں بھوتوں میں اعتقاد کرنے لگا۔ افسوس تو نے مجھے مایوس کر دیا، اے وائے کہ تو شعور کی بجائے عورتوں کے اعتقاد کا غلام نکلا۔ افسوس…. صد افسوس‘‘ بے بے کو اسی طرح چلاتے اور داؤ جی کو یوں کراہتے چھوڑ کر میں اوپر کوٹھے پر دھوپ میں جا بیٹھا…. اسی دن شام کو جب میں اپنے گھر جا رہا تھا تو راستے میں رانو نے اپنے مخصوص انداز میں آنکھ کانی کر کے پوچھا ’’ بابو تیرے کوئی اینٹ ڈھیلا تو نہیں لگا؟ سنا ہے تمہارے پنڈت کے گھر میں روڑے گرتے ہیں۔‘‘

میں نے اس کمینہ کے منہ لگنا پسند نہ کیا اور چپ چاپ ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا۔ رات کے وقت داؤ جی مجھ سے جیومیٹری کی پراپوزیشن سنتے ہوئے پوچھنے لگے ’’بیٹا کیا تم سچ مچ جن، بھوت یا پری چڑیل کو کوئی مخلوق سمجھتے ہو؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ ہنس پڑے اور بولے واقعی تو بہت بھولا ہے اور میں نے خواہ مخواہ جھڑ ک دیا۔ بھلا تو نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ جن ہوتے ہیں اور اس طرح سے اینٹیں پھینک سکتے ہیں۔ ہم نے جو دلی اور پھتے مزدور کو بلا کر برساتی بنوائی ہے، وہ تیرے کسی جن کو کہہ کر بنوا لیتے لیکن یہ تو بتا کہ جن صرف اینٹیں پھینکنے کا کام ہی کرتے ہیں کہ چنائی بھی کر لیتے ہیں۔‘‘ میں نے جل کر کہا ’’جتنے مذاق چاہو کر لو مگر جس دن سر پھٹے گا اس دن پتہ چلے گا داؤ‘‘۔ داؤ جی نے کہا ’’تیرے جن کی پھینکی ہوئی اینٹ سے تو تا قیامت سر نہیں پھٹ سکتا اس لئے کہ وہ نہ ہے نہ اس سے اینٹ اٹھائی جا سکے گی اور نہ میرے تیرے یا تیری بے بے کے سر میں لگے گی۔‘‘

پھر بولے۔ ’’سن! علمِ طبعی کا موٹا اصول ہے کہ کوئی مادی شے کسی غیر مادی وجود سے حرکت میں نہیں لائی جا سکتی…. سمجھ گیا۔‘‘

’’سمجھ  گیا‘‘ میں نے چڑ کر کہا۔

ہمارے قصبہ میں ہائی سکول ضرور تھا لیکن میٹرک کا امتحان کا سنٹر نہ تھا۔ امتحان دینے کے لئے ہمیں ضلع جانا ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ صبح آ گئی جس دن ہماری جماعت امتحان دینے کے لئے ضلع جا رہی تھی اور لاری کے ارد گرد والدین قسم کے لوگوں کا ہجوم تھا اور اس ہجوم میں داؤ جی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ اور سب لڑکوں کے گھر والے انہیں خیر و برکت کی دعاؤ ں سے نواز رہے تھے اور داؤ جی سارے سال کی پڑھائی کا خلاصہ تیار کر کے جلدی جلدی سوال پوچھ رہے تھے اور میرے ساتھ ساتھ خود ہی جواب دیتے جاتے تھے۔ اکبر کی اصطلاحات سے اچھل کر موسم کے تغیر و تبدل پر پہنچ جاتے وہاں سے پلٹتے تو ’’اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا کہ اپنی وضع سے ہندو معلوم ہوتا تھا۔ وہ نشہ میں چور تھا ایک صاحبِ جمال اس کا ہاتھ پکڑ کر لے آئی تھی اور جدھر چاہتی تھی پھراتی تھی ‘‘ کہہ کر پوچھتے تھے یہ کون تھا؟

’’جہانگیر ‘‘ میں نے جواب دیا۔ اور وہ عورت۔ ’’نور جہان‘‘ ہم دونوں ایک ساتھ بولے…. ’’صفتِ مشبہ اور اسم فاعل میں فرق؟‘‘ میں نے دونوں کی تعریفیں بیان کیں۔ بولے مثالیں؟ میں نے مثالیں دیں۔ سب لڑکے لاری میں بیٹھ گئے اور میں ان سے جان چھڑا کر جلدی سے داخل ہوا تو گھوم کر کھڑکی کے پاس آ گئے اور پوچھنے لگے بریک ان اور بیک ان ٹو کو فقروں میں استعمال کرو۔ ان کا استعمال بھی ہو گیا اور موٹر سٹارٹ ہو چلی تو اس کے ساتھ قدم اٹھا کر بولے طنبورے مادیاں گھوڑیاں ماکیاں مرغی…. مادیاں گھوڑیاں…. ماکیاں…. ایک سال بعد خدا خدا کر کے یہ آواز دور ہوئی اور میں نے آزادی کا سانس لیا!

 

پہلے دن تاریخ کا پرچہ بہت اچھا ہوا۔ دوسرے دن جغرافیہ کا اس بھی بڑھ کر، تیسرے دن اتوار تھا اور اس کے بعد حساب کی باری تھی۔ اتوار کی صبح کو داؤ جی کا کوئی بیس صفحہ لمبا خط ملا جس میں الجبرے کے فارمولوں اور حساب کے قاعدوں کے علاوہ اور اور کوئی بات نہ تھی۔

حساب کا پرچہ کرنے کے بعد برآمدے میں میں نے لڑکوں سے جوابات ملائے تو سو میں سے اسی نمبر کا پرچہ ٹھیک تھا۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا۔ زمین پر پاؤں نہ پڑتا تھا اور میرے منہ سے مسرت کے نعرے نکل رہے تھے۔ جونہی میں نے برآمدے سے پاؤں باہر رکھا۔ داؤ جی کھیس کندھے پر ڈالے ایک لڑکے کا پرچہ دیکھ رہے تھے۔ میں چیخ مار کر ان سے لپٹ گیا۔ اور اسی نمبر!! اسی نمبر‘‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ انہوں نے پرچہ میرے ہاتھ سے چھین کر تلخی سے پوچھا ’’کون سا سوال غلط ہو گیا؟‘‘ میں نے جھوم کر کہا ’’چار دیواری والا ‘‘ جھلا کر بولے ’’تو نے کھڑکیاں اور دروازے منفی نہ کئے ہوں گے‘‘ میں نے ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیڑ کی طرح جھلاتے ہوئے کہا ’’ہاں ہاں جی…. گولی مارو کھڑکیوں کو ‘‘ داؤ جی ڈوبی ہوئی آواز میں بولے ’’تو نے مجھے برباد کر دیا طنبورے سال کے تین سو پینسٹھ دن میں پکار پکار کر کہتا رہا سطحات کا سوال آنکھیں کھول کر حل کرنا مگر تو نے میری بات نہ مانی۔ بیس نمبر ضائع کئے…. پورے بیس نمبر۔‘‘

اور داؤ جی کا چہرہ دیکھ کر میری اسی فیصد کامیابی بیس فیصد ناکامی کے نیچے یوں دب گئی گویا اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ راستہ بھر وہ اپنے آپ سے کہتے رہے۔ ’’اگر ممتحن اچھے دل کا ہوا تو دو ایک نمبر تو ضرور دے گا، تیرا باقی حل تو ٹھیک ہے‘‘۔ اس پرچے کے بعد داؤ جی امتحان کے آخری دن تک میرے ساتھ رہے۔ وہ رات کے بارہ بجے تک مجھے اس سرائے میں بیٹھ کر پڑھاتے جہاں کلاس مقیم تھی اور اس کے بعد بقول ان کے اپنے ایک دوست کے ہاں چلے جاتے۔ صبح آٹھ بجے پھر آ جاتے اور کمرہ امتحان تک میرے ساتھ چلتے۔

 

امتحان ختم ہوتے ہی میں نے داؤ جی کو یوں چھوڑ دیا گویا میری ان سے جان پہچان نہ تھی۔ سار ا دن دوستوں یاروں کے ساتھ گھومتا اور شام کو ناولیں پڑھا کرتا۔ اس دوران میں اگر کبھی فرصت ملتی تو داؤ جی کو سلام کرنے بھی چلا جاتا۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ میں ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ ان کے ساتھ گزاروں تاکہ وہ مجھے کالج کی پڑھائی کے لئے بھی تیار کریں لیکن میں ان کے پھندے میں آنے والا نہ تھا۔ مجھے کالج میں سو بار فیل ہونا گوارا تھا اور ہے لیکن داؤ جی سے پڑھنا منظور نہیں۔ پڑھنے کو چھوڑیئے ان سے باتیں کر نا بھی مشکل تھا۔ میں نے کچھ پوچھا۔ انہوں نے کہا اس کا فارسی میں ترجمہ کرو، میں نے کچھ جواب دیا فرمایا اس کی ترکیب نحوی کرو۔ حوالداروں کی گائے اندر گھس آئی میں اسے لکڑی سے باہر نکال رہا ہوں اور داؤ جی پوچھ رہے ہیں cow ناؤن ہے یا  ورب۔ اب ہر عقل کا اندھا پانچویں جماعت پڑھا جانتا ہے کہ گائے اسم ہے مگر داؤ جی فرما رہے ہیں کہ اسم بھی ہے اور فعل بھی۔۔

cow to کا مطلب ہے ڈرانا، دھمکی دینا۔ اور یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب میں امتحان سے فارغ ہو کر نتیجہ کا انتظار کر رہا تھا…. پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ہم چند دوست شکار کھیلنے کے لئے نکلے تو میں نے ان سے درخواست کی کہ منصفی کے آگے سے نہ جائیں کیونکہ وہاں داؤ جی ہوں گے اور مجھے روک کر شکار، بندوق اور کارتوسوں کے محاورے پوچھنے لگیں گے۔ بازار میں دکھائی دیتے تو میں کسی بغلی گلی میں گھس جاتا۔ گھر پر رسماً ملنے جاتا تو بے بے سے زیادہ اور داؤ جی سے کم باتیں کرتا۔ اکثر کہا کرتے۔ افسوس آفتاب کی طرح تو بھی ہمیں فراموش کر رہا ہے۔ میں شرارتاً خیلے خوب خیلے خوب کہہ کر ہنسنے لگتا۔

 

جس دن نتیجہ نکلا اور ابا جی لڈوؤں کی چھوٹی سی ٹوکری لے کر ان کے گھر گئے۔ داؤ جی سر جھکائے اپنے حصیر میں بیٹھے تھے۔ ابا جی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اندر سے کرسی اٹھا لائے اور اپنے بوریے کے پاس ڈال کر بولے ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے سامنے شرمندہ ہوں، لیکن اسے بھی مقسوم کی خوبی سمجھئے، میرا خیال تھا کہ اس کی فرسٹ ڈویژن آ جائے گی لیکن اس کی بنیاد کمزور تھی….‘‘

’’ایک ہی تو نمبر کم ہے۔‘‘ میں نے چمک کر بات کاٹی۔ اور وہ میری طرف دیکھ کر بولے ’’تو نہیں جانتا اس ایک نمبر سے میرا دل دو نیم ہو گیا ہے۔ خیر میں اسے منجانب اللہ خیال کرتا ہوں۔ پھر اباجی اور وہ باتیں کرنے لگے اور میں بے بے کے ساتھ گپیں لڑانے میں مشغول ہو گیا۔

 

اول اول کالج سے میں داؤ جی کے خطوں کا باقاعدہ جواب دیتا رہا۔ اس کے بعد بے قاعدگی سے لکھنے لگا اور آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ چھٹیوں میں جب گھر آتا تو جیسے سکول کے دیگر ماسٹروں سے ملتا ویسے ہی داؤ جی کو بھی سلام کر آتا۔ اب وہ مجھ سے سوال وغیرہ نہ پوچھتے تھے۔ کوٹ، پتلون اور ٹائی دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ چارپائی پر بیٹھنے نہ دیتے۔ ’’اگر مجھے اٹھنے نہیں دیتا تو خود کرسی لے لے‘‘ اور میں کرسی کھینچ کر ان کے پاس ڈٹ جاتا۔ کالج لائبریری سے میں جو کتابیں ساتھ لایا کرتا انہیں دیکھنے کی تمنا ضرور کرتے اور میرے وعدے کے باوجود اگلے دن خود ہمارے گھر آ کر کتابیں دیکھ جاتے۔ امی چند بوجوہ کالج چھوڑ کر بنک میں ملازم ہو گیا تھا اور دلی چلا گیا تھا۔ بے بے کی سلائی کا کام بدستور تھا۔ داؤ جی منصفی جاتے تھے لیکن کچھ نہ لاتے تھے۔ بی بی کے خط آتے تھے وہ اپنے گھر میں خوش تھی…. کالج کی ایک سال کی زندگی نے مجھے داؤ جی سے بہت دور کھینچ لیا۔ وہ لڑکیاں جو دو سال پہلے ہمارے ساتھ آپو ٹاپو کھیلا کرتی تھیں بنت عم بنت بن گئی تھیں۔ سیکنڈ ائیر کے زمانے کی ہر چھٹی میں آپو ٹاپو میں گزارنے کی کوشش کرتا اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوتا۔ گھر کی مختصر مسافت کے سامنے ایبٹ آباد کا طویل سفر زیادہ تسکین دہ اور سہانا بن گیا۔

 

انہی ایام میں میں نے پہلی مرتبہ ایک خوبصورت گلابی پیڈ اور ایسے ہی لفافوں کا ایک پیکٹ خریدا تھا اور ان پر نہ ابا جی کو خط لکھے جا سکتے تھے اور نہ ہی داؤ جی کو۔ نہ دسہرے کی چھٹیوں میں داؤ جی سے ملاقات ہو سکی تھی نہ کرسمس کی تعطیلات میں۔ ایسے ہی ایسٹر گزر گیا اور یوں ہی ایام گزرتے رہے…. ملک کو آزادی ملنے لگی تو کچھ بلوے ہوئے پھر لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ ہر طرف سے فسادات کی خبریں آنے لگیں اور اماں نے ہم سب کو گھر بلوا لیا۔ ہمارے لئے یہ بہت محفوظ جگہ تھی۔ بنئے ساہو کار گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے تھے لیکن دوسرے لوگ خاموش تھے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہی لوگ یہ خبر لائے کہ آزادی مل گئی! ایک دن ہمارے قصبے میں بھی چند گھروں کو آگ لگی اور دو ناکوں پر سخت لڑائی ہوئی۔ تھانے والے اور ملٹری کے سپاہیوں نے کرفیو لگا دیا اور جب کرفیو ختم ہوا تو سب ہندو سکھ قصبہ چھوڑ کر چل دئے، دوپہر کو اماں جی نے مجھے داؤ جی کی خبر لینے بھیجا تو اس جانی پہنچانی گلی میں عجیب و غریب صورتیں نظر آئیں۔ ہمارے گھر یعنی داؤ جی کے گھر کی ڈیوڑھی میں ایک بیل بندھا تھا اور اس کے پیچھے بوری کا پردہ لٹک رہا تھا۔ میں نے گھر آ کر بتایا کہ داؤ جی اور بے بے اپنا گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور یہ کہتے ہوئے میرا گلا رندھ گیا۔ اس دن مجھے یوں لگا جیسے داؤ جی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہیں اور لوٹ کر نہ آئیں گے۔ داؤ جی ایسے بے وفا تھے!….

 

کوئی تیسرے روز غروب آفتاب کے بعد جب میں مسجد میں نئے پنا ہ گزینوں کے نام نوٹ کر کے اور کمبل بھجوانے کا وعدہ کر کے اس گلی سے گزرا تو کھلے میدان میں سو دو سو آدمیوں کی بھیڑ جمع دیکھی، مہاجر لڑکے لاٹھیاں پکڑے نعرے لگا رہے تھے اور گالیاں دے رہے تھے۔ میں نے تماشائیوں کو پھاڑ کر مرکز میں گھسنے کی کوشش کی مگر مہاجرین کی خونخوار آنکھیں دیکھ کر سہم گیا۔ ایک لڑکا کسی بزرگ سے کہہ رہا تھا۔

’’ساتھ والے گاؤں گیا ہوا تھا جب لوٹا تو اپنے گھر میں گھستا چلا گیا۔‘‘

’’کون سے گھر میں؟‘‘ بزرگ نے پوچھا۔

’’رہتکی مہاجروں کے گھر میں‘‘ لڑکے نے کہا۔

’’پھر کیا انہوں نے پکڑ لیا۔ دیکھا تو ہندو نکلا۔‘‘

اتنے میں بھیڑ میں سے کسی نے چلا کر کہا۔ ’’اوئے رانو جلد آ اوئے جلدی آ…. تیری سامی…. پنڈت…. تیری سامی۔‘‘

رانو بکریوں کا ریوڑ باڑے کی طرف لے جا رہا تھا۔ انہیں روک کر اور ایک لاٹھی والے لڑکے کو ان کے آگے کھڑا کر کے وہ بھیڑ میں گھس گیا۔ میرے دل کو ایک دھکا سا لگا جیسے انہوں نے داؤ جی کو پکڑ لیا ہو۔ میں نے ملزم کو دیکھے بغیر اپنے قریبی لوگوں سے کہا۔

’’یہ بڑا اچھا آدمی ہے بڑا نیک آدمی ہے…. اسے کچھ مت کہو…. یہ تو…. یہ تو….‘‘ خون میں نہائی ہوئی چند آنکھوں نے میری طرف دیکھا اور ایک نوجوان گنڈاسی تول کر بولا۔

’’بتاؤں تجھے بھی …. آگیا بڑا حمایتی بن کر…. تیرے ساتھ کچھ ہوا نہیں نا‘‘ اور لوگوں نے گالیاں بک کر کہا۔ ’’انصار ہو گا شاید۔‘‘

میں ڈر کر دوسری جانب بھیڑ میں گھس گیا۔ رانو کی قیادت میں اس کے دوست داؤ جی کو گھیرے کھڑے تھے اور رانو داؤ جی کی ٹھوڑی پکڑ کر ہلا رہا تھا اور پوچھ رہا تھا۔ اب بول بیٹا، اب بول‘‘ اور داؤ جی خاموش کھڑے تھے، ایک لڑکے نے پگڑی اتار کر کہا۔ ’’پہلے بودی کاٹو بودی‘‘ اور رانو نے مسواکیں کاٹنے والی درانتی سے داؤ جی کی بودی کاٹ دی۔ وہی لڑکا پھر بولا ’’بلا دیں جے؟‘‘ اور رانو ں نے کہا۔’’جانے دو بڈھا ہے، میرے ساتھ بکریاں چرایا کرے گا۔‘‘ پھر اس نے داؤ جی کی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے ہوئے کہا ’’کلمہ پڑھ پنڈتا‘‘ اور داؤ جی آہستہ سے بولے:

’’کون سا؟‘‘

رانو نے ان کے ننگے سر پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ گرتے گرتے بچے اور بولا ’’سالے کلمے بھی کوئی پانچ سات ہیں!‘‘

جب وہ کلمہ پڑھ چکے تو رانو نے اپنی لاٹھی ان کے ہاتھ میں تھما کر کہا۔’’چل بکریاں تیرا انتظار کرتی ہیں۔‘‘

اور ننگے سر داؤ جی بکریوں کے پیچھے پیچھے یوں چلے جیسے لمبے لمبے بالوں والا فریدا چل رہا ہو!۔

***

 

 

 

 

 

پرمیشر سنگھ

 

احمد ندیم قاسمی

 

اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی جیب سے روپیہ گر پڑے۔ ابھی تھا اور ابھی غائب۔ ڈھنڈیا پڑی مگر بس اس حد تک کہ لٹے پٹے قافلے کے آخری سرے پر ایک ہنگامہ صابن کی جھاگ کی طرح اٹھا اور بیٹھ گیا۔ ’’کہیں آ ہی رہا ہو گا۔‘‘ کسی نے کہہ دیا ’’ہزاروں کا تو قافلہ ہے‘‘ اور اختر کی ماں اس تسلی کی لاٹھی تھامے پاکستان کی طرف رینگتی چلی آئی تھی۔ ’’آ ہی رہا ہو گا‘‘ وہ سوچتی ’’کوئی تتلی پکڑنے نکل گیا ہو گا اور پھر ماں کو نہ پا کر رویا ہو گا اور پھر۔ پھر اب کہیں آ ہی رہا ہو گا۔ سمجھ دار ہے پانچ سال سے تو کچھ اوپر ہو چلا ہے۔ آ جائے گا وہاں پاکستان میں ذرا ٹھکانے سے بیٹھوں گی تو ڈھونڈ لوں گی۔‘‘

لیکن اختر تو سرحد سے کوئی پندرہ میل دور اُدھر یونہی بس کسی وجہ کے بغیر اتنے بڑے قافلے سے کٹ گیا تھا۔ اپنی ماں کے خیال کے مطابق اس نے تتلی کا تعاقب کیا یا کسی کھیت میں سے گنّے توڑنے گیا اور توڑتا رہ گیا۔ بہر حال وہ جب روتا چلاتا ایک طرف بھاگا جا رہا تھا تو سکھوں نے اسے گھیر لیا تھا اور اختر نے طیش میں آ کر کہا تھا ’’میں نعرۂ تکبیر ماروں گا‘‘ اور یہ کہہ کر سہم گیا تھا۔

سب سکھ بے اختیار ہنس پڑے تھے، سوائے ایک سکھ کے، جس کا نام پرمیشر سنگھ تھا۔ ڈھیلی ڈھالی پگڑی میں سے اس کے الجھے ہوئے کیس جھانک رہے تھے اور جوڑا تو بالکل ننگا تھا۔ وہ بولا ’’ہنسو نہیں یارو، اس بچے کو بھی تو اس واہ گورو نے پیدا کیا ہے جس نے تمھیں اور تمھارے بچوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘

ایک نوجوان سکھ جس نے اب تک اپنی کرپان نکال لی تھی، بولا ’’ذرا ٹھہر پرمیشر‘‘ کرپان اپنا دھرم پورا کر لے، پھر ہم اپنی دھرم کی بات کریں گے۔‘‘

’’مارو نہیں یارو‘‘ پرمیشر سنگھ کی آواز میں پکار تھی۔ اسے مارو نہیں اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔

اختر کے پاس آ کر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور بولا۔

’’نام کیا ہے تمھارا؟‘‘

’’اختر‘‘۔۔ ۔ اب کی اختر کی آواز بھرائی ہوئی نہیں تھی۔

’’اختر بیٹے‘‘ پرمیشر سنگھ نے بڑے پیار سے کہا۔

’’ذرا میری انگلیوں میں جھانکو تو‘‘

اختر ذرا سا جھک گیا۔ پرمیشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں میں ذرا سی جھری پیدا کی اور فوراً بند کر لی ’’آہا‘‘ اختر نے تالی بجا کر اپنے ہاتھوں کو پرمیشر سنگھ کے ہاتھوں کی طرح بند کر لیا اور آنسوؤں میں مسکرا کر بولا۔ ’’تتلی‘‘

’’لو گے؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔

’’ہاں‘‘ اختر نے اپنے ہاتھوں کو ملا۔

’’لو‘‘ پرمیشر سنگھ نے اپنے ہاتھوں کو کھولا۔ اختر نے تتلی کو پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ راستہ پاتے ہی اڑ گئی اور اختر کی انگلیوں کی پوروں پر اپنے پروں کے رنگوں کے ذرّے چھوڑ گئی۔ اختر اداس ہو گیا اور پرمیشر سنگھ دوسرے سکھوں کی طرف دیکھ کر بولا ’’سب بچے ایک سے کیوں ہوتے ہیں یارو! کرتارے کی تتلی بھی اڑ جاتی تھی یوں ہی منھ لٹکا لیتا تھا۔۔ ۔‘‘

’’پرمیشر سنگھ تو آدھا پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ نوجوان سکھ نے ناگواری سے کہا اور پھر سارا گروہ واپس جانے لگا۔

پرمیشر سنگھ نے اختر کو کنارے پر بٹھا لیا اور جب اسی طرف چلنے لگا جدھر دوسرے سکھ گئے تھے تو اختر پھڑک پھڑک کر رونے لگا ’’ہم اماں پاس جائیں گے۔ اماں پاس جائیں گے‘‘ پرمیشر سنگھ نے ہاتھ اٹھا کر اسے تھپکنے کی کوشش کی مگر اختر نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا پھر جب پرمیشر سنگھ نے اس سے یہ کہا کہ ’’ہاں ہاں بیٹے‘‘ تمھیں تمھاری اماں پاس لیے چلتا ہوں۔ تو اختر چپ ہو گیا۔ صرف کبھی کبھی سسک لیتا تھا اور پرمیشر سنگھ کی تھپکیوں کو بڑی ناگواری سے برداشت کرتا جا رہا تھا۔

پرمیشر سنگھ اسے اپنے گھر میں لے آیا۔ پہلے یہ کسی مسلمان کا گھر تھا۔ لٹا پٹا پرمیشر سنگھ جب ضلع لاہور سے ضلع امرت سر میں آیا تھا تو گاؤں والوں نے اسے یہ مکان الاٹ کر دیا تھا وہ اپنی بیوی اور بیٹی سمیت جب اس چار دیواری میں داخل ہوا تھا، ٹھٹھک کر رہ گیا تھا۔ اس کی اتنا ذرا سا تو ہے اور اسے بھی تو اسی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے جس نے۔۔ ۔‘‘

’’پوچھ لیتے ہیں اسی سے‘‘ ۔۔ ۔ ایک اور سکھ بولا پھر اس نے سہمے ہوئے اختر کے پاس جا کر کہا۔۔ ۔ ’’بولو تمھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ خدا نے کہ واہگورو جی نے؟‘‘

اختر نے ساری خشکی کو نگلنے کی کوشش کی جو اس کی زبان کی نوک سے لے کر اس کی ناف تک پھیل چکی تھی، آنکھیں جھپک کر اس نے ان آنسوؤں کو گرا دینا چاہا جو ریت کی طرح اس کے پپوٹوں میں کھٹک رہے تھے۔ اس نے پرمیشر سنگھ کی طرف یوں دیکھا جیسے ماں کو دیکھ رہا ہے۔ منھ میں گئے ہوئے ایک آنسو کو تھوک ڈالا اور بولا۔ ’’پتہ نہیں۔‘‘

’’لو اور سنو‘‘ کسی نے کہا اور اختر کو گالی دے کر ہنسنے لگا۔

اختر نے ابھی اپنی بات پوری نہیں کی تھی، بولا۔۔ ۔ ’’اماں تو کہتی ہے میں بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔‘‘

سب سکھ ہنسنے لگے مگر پرمیشر سنگھ بچوں کی طرح بلبلا کر کچھ یوں رویا کہ دوسرے سکھ بھونچکا سے رہ گئے اور پرمیشر سنگھ رونی آواز میں جیسے بین کرنے لگا۔۔ ۔ ’’سب بچے ایک سے ہوتے ہیں یارو۔ میرا کرتار ابھی تو یہی کہتا تھا وہ بھی تو اس کی ماں کو بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔‘‘

کرپان میان میں چلی گئی۔ سکھوں نے پرمیشر سنگھ سے الگ تھوڑی دیر کھُسر پھُسر کی۔ پھر ایک سکھ آگے بڑھا۔ بلکتے ہوئے اختر کو بازو سے پکڑے وہ چپ چاپ روتے ہوئے پرمیشر سنگھ کے پاس آیا اور بولا۔۔ ۔ ’’لے پرمیشرے‘‘ سنبھال اسے، کیس بڑھوا کر اسے اپنا کرتارا بنا لے۔۔ ۔ لے پکڑ‘‘۔

پرمیشر نے اختر کو یوں جھپٹ کر اٹھا لیا کہ اس کی پگڑی کھل گئی اور کیسوں کی لٹیں لٹکنے لگیں۔ اس نے اختر کو پاگلوں کی طرح چوما۔ اسے اپنے سینے سے بھینچا اور پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور مسکرا مسکرا کر کچھ ایسی باتیں سوچنے لگا جنھوں نے اس کے چہرے کو چمکا دیا پھر اس نے پلٹ کر دوسرے سکھوں کی طرف دیکھا۔ اچانک وہ اختر کو نیچے اتار کر سکھوں کی طرف لپکا، مگر ان کے پاس سے گزر کر دور تک بھاگا چلا گیا۔ جھاڑیوں کے ایک جھنڈ میں بندروں کی طرح کودتا اور چھپتا رہا اور اس کے کیس اس کی لپک جھپٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ دوسرے سکھ حیران کھڑے دیکھتے رہے، پھر وہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں رکھے بھاگتا ہوا واپس آیا۔ اس کی بھیگی ہوئی داڑھی میں پھنسے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور سرخ آنکھوں میں چمک تھی۔ آنکھیں پتھرا سی گئی تھیں اور وہ بڑی پر اسرار سرگوشی میں بولا تھا۔ ’’یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘

گرنتھی جی اور گاؤں کے دوسرے لوگ ہنس پڑے تھے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی نے انھیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ کرتار سنگھ کے بچھڑتے ہی انھیں کچھ ہو گیا ہے۔ ’’جانے کیا ہو گیا ہے اسے‘‘ اس نے کہا تھا۔ واہگورو جی جھوٹ نہ بلوائیں تو وہاں دن میں کوئی دس بار تو یہ کرتار سنگھ کو گدھوں کی طرح پیٹ ڈالتا تھا۔ اور جب سے کرتار سنگھ بچھڑا ہے تو میں تو خیر رو دھو لی پر اس کا رونے سے بھی جی ہلکا نہیں ہوا۔ وہاں مجال ہے جو بیٹی امر کور کو میں ذرا بھی غصے سے دیکھ لیتی، بپھر جاتا تھا، کہتا تھا، بیٹی کو برا مت کہو۔ بیٹی بڑی مسکین ہوتی ہے۔ یہ تو ایک مسافر ہے بے چاری۔ ہمارے گھروندے میں سستانے بیٹھ گئی ہے۔ وقت آئے گا تو چلی جائے گی اور اب امر کور سے ذرا سا بھی کوئی قصور ہو جائے تو آپے ہی میں نہیں رہتا۔ یہاں تک بک دیتا ہے کہ بیٹیاں بیویاں اغوا ہوتے سنی تھیں یارو۔ یہ نہیں سنا تھا کہ پانچ برس کے بیٹے بھی اٹھ جاتے ہیں۔‘‘

وہ ایک مہینے سے اس گھر میں مقیم تھا مگر ہر رات اس کا معمول تھا کہ پہلے سوتے میں بے تحاشا کروٹیں بدلتا پھر بڑبڑانے لگتا اور پھر اٹھ بیٹھتا۔ بڑی ڈری ہوئی سرگوشی میں بیوی سے کہتا۔ ’’سنتی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘ ۔۔ ۔ بیوی اسے محض ’’اونہہ‘‘ سے ٹال کر سو جاتی تھی مگر امر کور کو اس سرگوشی کے بعد رات بھر نیند نہ آئی۔ اسے اندھیرے میں بہت سی پرچھائیاں ہر طرف بیٹھی قرآن پڑھتی نظر آئیں اور پھر جب ذرا سی پو پھٹتی تو وہ کانوں میں انگلیاں دے لیتی تھی۔ وہاں ضلع لاہور میں ان کا گھر مسجد کے پڑوس ہی میں تھا اور جب صبح اذان ہوتی تھی تو کیسا مزا آتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے پورب سے پھوٹتا ہوا اجالا گانے لگا ہے۔ پھر جب اس کی پڑوسن پریتم کور کو چند نوجوانوں نے خراب کر کے چیتھڑے کی طرح گھورے پر پھینک دیا تھا تو جانے کیا ہوا کہ موذن کی اذان میں بھی اسے پریتم کور کی چیخ سنائی دے رہی تھی، اذان کا تصور تک اسے خوف زدہ کر دیتا تھا اور وہ یہ بھی بھول جاتی تھی کہ اب ان کے پڑوس میں مسجد نہیں ہے۔ یوں ہی کانوں میں انگلیاں دیتے ہوئے وہ سو جاتی اور رات بھر جاگتے رہنے کی وجہ سے دن چڑھے تک سوئی رہتی تھی اور پرمیشر سنگھ اس بات پر بگڑ جاتا۔۔ ۔ ’’ٹھیک ہے سوئے نہیں تو اور کیا کرے۔ نکمی تو ہوتی ہیں یہ چھوکریاں۔ لڑکا ہو تو اب تک جانے کتنے کام کر چکا ہوتا یارو۔‘‘

پرمیشر سنگھ آنگن میں داخل ہوا تو آج خلاف معمول اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس کے کھلے کیس کنگھے سمیت اس کی پیٹھ اور ایک کندھے پر بکھرے ہوئے تھے اور اس کا ایک ہاتھ اختر کی کمر تھپکے جا رہا تھا۔ اس کی بیوی ایک طرف بیٹھی چھاج میں گندم پھٹک رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے اور وہ ٹکر ٹکر پرمیشر سنگھ کو دیکھنے لگی۔ پھر وہ چھاج پر سے کودتی ہوئی آئی اور بولی۔

’’یہ کون ہے؟‘‘

پرمیشر سنگھ بدستور مسکراتے ہوئے بولا۔۔ ۔ ’’ڈرو نہیں بیوقوف اس کی عادتیں بالکل کرتارے کی سی ہیں یہ بھی اپنی ماں کو بھوسے کی کوٹھری میں پڑا ملا تھا۔ یہ بھی تتلیوں کا عاشق ہے اس کا نام اختر ہے۔‘‘

’’اختر‘‘ بیوی کے تیور بدل گئے۔

’’تم اسے اختر سنگھ کہہ لینا‘‘ پرمیشر سنگھ نے وضاحت کی۔۔ ۔ ’’اور پھر کیسوں کا کیا ہے، دنوں میں بڑھ جاتے ہیں۔ کڑا اور کچھیرا پہنا دو، کنگھا کیسوں کے بڑھتی لگ جائے گا۔‘‘

’’پر یہ ہے کس کا؟‘‘ بیوی نے مزید وضاحت چاہی۔

’’کس کا ہے!‘‘ پرمیشر سنگھ نے اختر کو کندھے پر سے اتار کر اسے زمین پر کھڑا کر دیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ واہگورو جی کا ہے ہمارا اپنا ہے اور پھر یارو یہ عورت اتنا بھی دیکھ نہیں سکتی کہ اختر کے ماتھے پر جو یہ ذرا سا تل ہے یہ کرتارے ہی کا تل ہے۔ کرتارے کے بھی تو ایک تل تھا اور یہیں تھا۔ ذرا بڑا تھا پر ہم اسے یہیں تل پر تو چومتے تھے۔ اور یہ اختر کے کانوں کی لویں گلاب کے پھول کی طرح گلابی ہیں تو یارو۔ یہ عورت یہ تک نہیں سوچتی کہ کرتارے کے کانوں کی لویں بھی تو ایسی ہی تھیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ذرا موٹی تھیں یہ ذرا پتلی ہیں اور۔۔ ۔‘‘

اختر اب تک مارے حیرت کے ضبط کیے بیٹھا تھا۔ بلبلا اٹھا۔۔ ۔ ’’ہم نہیں رہیں گے، ہم اماں پاس جائیں گے، اماں پاس۔‘‘

پرمیشر سنگھ نے اختر کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیوی کی طرف بڑھایا۔۔ ۔ ’’اری لو۔ یہ اماں کے پاس جانا چاہتا ہے۔‘‘

’’تو جائے۔‘‘ بیوی کی آنکھوں میں اور چہرے پر وہی آسیب آ گیا تھا جسے پرمیشر سنگھ اپنی آنکھوں اور چہرے میں سے نوچ کر باہر کھیتوں میں جھٹک آیا تھا۔۔ ۔ ’’ڈاکہ مارنے گیا تھا سورما۔ اور اٹھا لایا یہ ہاتھ بھر کا لونڈا۔ ارے کوئی لڑکی ہی اٹھا لاتا۔ تو ہزار میں نہ سہی، ایک دو سو میں بک جاتی۔ اس اجڑے گھر کا کھاٹ کھٹولہ بن جاتا اور پھر۔۔ ۔ پگلے تجھے تو کچھ ہو گیا ہے، دیکھتے نہیں یہ لڑکا مُسلّا ہے؟ جہاں سے اٹھا لائے ہو وہیں واپس ڈال آؤ۔ خبردار جو اس نے میرے چوکے میں پاؤں رکھا۔‘‘

پرمیشر سنگھ نے التجا کی۔۔ ۔ ’’کرتارے اور اختر کو ایک ہی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے، سمجھیں۔‘‘

’’نہیں‘‘ اب کے بیوی چیخ اٹھی۔۔ ۔ ’’میں نہیں سمجھی اور نہ کچھ سمجھنا چاہتی ہوں، میں رات ہی رات میں جھٹکا کر ڈالوں گی اس کا، کاٹ کے پھینک دوں گی۔ اٹھا لایا ہے وہاں سے، لے جا اسے پھینک دے باہر۔‘‘

’’تمھیں نہ پھینک دوں باہر؟‘‘۔۔ ۔ اب کے پرمیشر سنگھ بگڑ گیا۔

’’تمھارا نہ کر ڈالوں جھٹکا؟ وہ بیوی کی طرف بڑھا اور بیوی اپنے سینے کو دو ہتڑوں سے پیٹتی، چیختی، چلاتی بھاگی۔ پڑوس سے امر کور دوڑی آئی۔ اس کے پیچھے گلی کی دوسری عورتیں بھی آ گئیں۔ مرد بھی جمع ہو گئے اور پرمیشر سنگھ کی بیوی پٹنے سے بچ گئی۔ پھر سب نے اسے سمجھایا کہ نیک کام ہے، ایک مسلمان کا سکھ بنانا کوئی معمولی کام تو نہیں۔ پرانا زمانہ ہوتا تو اب تک پرمیشر سنگھ گرو مشہور ہو چکا ہوتا۔ بیوی کی ڈھارس بندھی مگر امر کور ایک کونے میں بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے روتی رہی۔ اچانک پرمیشر سنگھ کی گرج نے سارے ہجوم کو ہلا دیا۔۔ ۔ ’’اختر کدھر گیا ہے۔‘‘ وہ چڑھ گیا یارو۔۔ ۔؟اختر۔۔ ۔ اختر۔۔ ۔!‘‘ وہ چیختا ہوا مکان کے کونوں کھدّوں میں جھانکتا ہوا باہر بھاگ گیا۔ بچے مارے دلچسپی کے اس کے تعاقب میں تھے۔ عورتیں چھتوں پر چڑھ گئی تھیں اور پرمیشر سنگھ گلیوں میں سے باہر کھیتوں میں نکل گیا تھا۔۔ ۔ ’’ارے میں تو اسے اماں پاس لے چلتا یارو۔ ارے وہ گیا کہاں؟ اختر۔۔ ۔! اے اختر۔۔ ۔!‘‘

’’میں تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔‘‘ پگڈنڈی کے ایک موڑ پر گیان سنگھ کے گنے کے کھیت کی آڑ میں روتے ہوئے اختر نے پرمیشر سنگھ کو ڈانٹ دیا۔ ’’تم تو سکھ ہو۔‘‘

’’ہاں بھیا میں تو سکھ ہوں۔‘‘ پرمیشر سنگھ نے جیسے مجبور ہو کر اعتراف جرم کر لیا۔

’’تو پھر ہم نہیں آئیں گے۔‘‘ اختر نے پرانے آنسوؤں کو پونچھ کر نئے آنسوؤں کے لیے راستہ صاف کیا۔

’’نہیں آؤ گے؟‘‘ پرمیشر سنگھ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔

’’نہیں۔‘‘

’’نہیں آؤ گے؟‘‘

’’نہیں۔ نہیں نہیں۔‘‘

’’کیسے نہیں آؤ گے؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے اختر کو کان سے پکڑا اور پھر نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر اس کے منہ میں چٹاخ سے ایک تھپڑ مار دیا۔ ’’چلو‘‘ وہ کڑکا۔

اختر یوں سہم گیا جیسے ایک دم اس کا سارا خون نچڑ کر رہ گیا ہے۔ پھر ایکا ایکی وہ زمین پر گر کر پاؤں پٹخنے، خاک اڑانے اور بلک بلک کر رونے لگا۔ ’’نہیں چلتا، بس نہیں چلتا تم سکھ ہو، میں سکھوں کے پاس نہیں جاؤں گا۔ میں اپنی اماں پاس جاؤں گا، میں تمھیں مار دوں گا۔‘‘

اور اب جیسے پرمیشر سنگھ کے سہنے کی باری تھی۔ اس کا بھی سارا خون جیسے نچڑ کر رہ گیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ کو دانتوں میں جکڑ لیا۔ اس کے نتھنے پھڑکنے لگے اور پھر اس زور سے رویا کہ کھیت کی پرلی مینڈ پر آتے ہوئے چند پڑوسی اور ان کے بچے بھی سہم کر رہ گئے اور ٹھٹک گئے۔ پرمیشر سنگھ گھٹنوں کے بل اختر کے سامنے بیٹھ گیا۔ بچوں کی طرح یوں سسک سسک کر رونے لگا کہ اس کا نچلا ہونٹ بھی بچوں کی طرح لٹک آیا اور پھر بچوں کی سی روتی آواز میں بولا۔

’’مجھے معاف کر دے اختر، مجھے تمھارے خدا کی قسم میں تمھارا دوست ہوں، تم اکیلے یہاں سے جاؤ گے تو تمھیں کوئی مار دے گا۔ پھر تمھاری ماں پاکستان سے آ کر مجھے مارے گی۔ میں خود جا کر تمھیں پاکستان چھوڑ آؤں گا۔ سنا؟ پھر وہاں اگر تمھیں ایک لڑکا مل جائے نا۔ کرتارا نام کا تو تم اسے ادھر گاؤں میں چھوڑ جانا۔ اچھا؟‘‘

’’اچھا!‘‘ اختر نے الٹے ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے پرمیشر سنگھ سے سودا کر لیا۔

پرمیشر سنگھ نے اختر کو کندھے پر بٹھا لیا اور چلا مگر ایک ہی قدم اٹھا کر رک گیا۔ سامنے بہت سے بچے اور پڑوسی کھڑے اس کی تمام حرکات دیکھ رہے تھے۔ ادھیڑ عمر کا ایک پڑوسی بولا۔۔ ۔ ’’روتے کیوں ہو پرمیشرے، کل ایک مہینے کی تو بات ہے، ایک مہینے میں اس کے کیس بڑھ آئیں گے تو بالکل کرتارا لگے گا۔‘‘

کچھ کہے بغیر وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ پھر ایک جگہ رک کر اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آنے والے پڑوسیوں کی طرف دیکھا۔۔ ۔ ’’تم کتنے ظالم لوگ ہو یارو۔ اختر کو کرتارا بناتے ہو اور ادھر اگر کوئی کرتارے کو اختر بنا لے تو؟ اسے ظالم ہی کہو گے نا۔‘‘ پھر اس کی آواز میں گرج آ گئی۔۔ ۔ ’’یہ لڑکا مسلمان ہی رہے گا۔ دربار صاحب کی سوں۔ میں کل ہی امرت سر جا کر اس کے انگریزی بال بنوا لاؤں گا۔ تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے، خالصہ ہوں، سینے میں شیر کا دل ہے، مرغی کا نہیں۔‘‘

پرمیشر سنگھ اپنے گھر میں داخل ہو کر ابھی اپنی بیوی اور بیٹی ہی کو اختر کی مدارات کے سلسلے میں احکام ہی دے رہا تھا کہ گاؤں کا گرنتھی سردار سنتو سنگھ اندر آیا اور بولا۔

’’پرمیشر سنگھ۔‘‘

’’جی‘‘ پرمیشر سنگھ نے پلٹ کر دیکھا۔ گرنتھی جی کے پیچھے اس کے سب پڑوسی بھی تھے۔

’’دیکھو‘‘ گرنتھی جی نے بڑے دبدبے سے کہا۔۔ ۔ ’’کل سے یہ لڑکا خالصے کی سی پگڑی باندھے گا، کڑا پہنے گا، دھرم شالہ آئے گا اور اسے پرشاد کھلایا جائے گا۔ اس کے کیسوں کو قینچی نہیں چھوئے گی۔ چھو گئی تو کل ہی سے یہ گھر خالی کر دو سمجھے؟‘‘

’’جی‘‘ پرمیشر سنگھ نے آہستہ سے کہا۔

’’ہاں۔‘‘ گرنتھی جی نے آخری ضرب لگائی۔

’’ایسا ہی ہو گا گرنتھی جی۔‘‘ پرمیشر سنگھ کی بیوی بولی۔۔ ۔ ’’پہلے ہی اسے راتوں کو گھر کے کونے کونے سے کوئی چیز قرآن پڑھتی سنائی دیتی ہے۔ لگتا ہے پہلے جنم میں مُسلّا رہ چکا ہے۔ امر کور بیٹی نے تو جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے گھر میں مُسلّا چھوکرا آیا ہے تو بیٹھی رو رہی ہے، کہتی ہے گھر پر کوئی اور آفت آئے گی۔ پرمیشرے نے آپ کا کہا نہ مانا تو میں بھی دھرم شالہ میں چلی آؤں گی اور امر کور بھی۔ پھر یہ اس چھوکرے کو چاٹے مُوا نکما، واہگورو جی کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔‘‘

’’واہگورو جی کا لحاظ کون نہیں کرتا گدھی‘‘ پرمیشر سنگھ نے گرنتھی جی کی بات کا غصہ بیوی پر نکالا۔ پھر وہ زیر لب گالیاں دیتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اٹھ کر گرنتھی جی کے پاس آ گیا۔ ’’اچھا جی اچھا۔‘‘ اس نے کہا۔ گرنتھی جی پڑوسیوں کے ساتھ فوراً رخصت ہو گئے۔

چند ہی دنوں میں اختر کو دوسرے سکھ لڑکوں سے پہچاننا دشوار ہو گیا۔ وہی کانوں کی لوؤں تک کس کر بندھی ہوئی پگڑی، وہی ہاتھ کا کڑا اور وہی کچھیرا۔ صرف جب وہ گھر میں آ کر پگڑی اتارتا تھا تو اس کے غیر سکھ ہونے کا راز کھلتا تھا۔ لیکن اس کے بال دھڑا دھڑ بڑھ رہے تھے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی ان بالوں کو چھوکر بہت خوش ہوتی۔۔ ۔ ’’ذرا ادھر تو آ امر کورے، یہ دیکھ کیس بن رہے ہیں۔ پھر ایک دن جوڑا بنے گا۔ کنگھا لگے گا اور اس کا نام رکھا جائے گا کرتار سنگھ۔‘‘

’’نہیں ماں۔‘‘ امر کور وہیں سے جواب دیتی۔۔ ۔ ’’جیسے واہگورو جی ایک ہیں، اور گرنتھ صاحب ایک ہیں اور چاند ایک ہے۔ اسی طرح کرتارا بھی ایک ہے۔ میرا ننھا منا بھائی!‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی اور مچل کر کہتی۔۔ ۔ ’’میں اس کھلونے سے نہیں بہلوں گی ماں، میں جانتی ہوں ماں یہ مسلا ہے اور جو کرتارا ہوتا ہے وہ مسلا نہیں ہوتا۔‘‘

’’میں کب کہتی ہوں یہ سچ مچ کا کرتارا ہے۔ میرا چاند سا لاڈلا بچہ!‘‘۔۔ ۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی بھی رو دیتی۔ دونوں اختر کو اکیلا چھوڑ کر کسی گوشے میں بیٹھ جاتیں۔ خوب خوب روتیں، ایک دوسرے کو تسلیاں دیتیں اور پھر زارزار رونے لگتیں وہ اپنے کرتارے کے لیے روتیں، اختر چند روز اپنی ماں کے لیے رویا، اب کسی اور بات پر روتا، جب پرمیشر سنگھ شرنارتھیوں کی امدادی پنچایت سے کچھ غلّہ یا کپڑا لے کر آتا تو اختر بھاگ کر جاتا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا اور رو رو کر کہتا۔۔ ۔ ’’میرے سر پر پگڑی باندھ دو پرموں۔۔ ۔ میرے کیس بڑھا دو۔ مجھے کنگھا خرید دو۔‘‘

پرمیشر سنگھ اسے سینے سے لگا لیتا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتا۔۔ ۔ ’’یہ سب ہو جائے گا بچے۔ سب کچھ ہو جائے گا پر ایک بات کبھی نہ ہو گی۔ وہ بات کبھی نہ ہو گی۔ وہ نہیں ہو گا مجھ سے سمجھے؟ یہ کیس ویس سب بڑھ آئیں گے۔‘‘

اختر اپنی ماں کو بہت کم یاد کرتا تھا۔ جب تک پرمیشر سنگھ گھر میں رہتا وہ اس سے چمٹا رہتا اور جب وہ کہیں باہر جاتا تو اختر اس کی بیوی اور امر کور کی طرف یوں دیکھتا رہتا جیسے ان سے ایک ایک پیار کی بھیک مانگ رہا ہے۔ پرمیشر سنگھ کی بیوی اسے نہلاتی، اس کے کپڑے دھوتی، اور پھر اس کے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے رونے لگتی اور روتی رہ جاتی۔ البتہ امر کور نے جب بھی دیکھا، ناک اچھال دی۔ شروع شروع میں تو اس نے اختر کو دھموکا بھی جڑ دیا تھا مگر جب اختر نے پرمیشر سنگھ سے اس کی شکایت کی تو پرمیشر سنگھ بپھر گیا اور امر کور کو بڑی ننگی ننگی گالیاں دیتا اس کی طرف بڑھا کہ اگر اس کی بیوی راستے میں اس کے پاؤں نہ پڑ جاتی تو وہ بیٹی کو اٹھا کر دیوار پر سے گلی میں پٹخ دیتا۔۔ ۔ ’’الو کی پٹھی۔‘‘ اس روز اس نے کڑک کر کہا تھا۔

’’سنا تو یہی تھا کہ لڑکیاں اٹھ رہی ہیں پر یہاں یہ مشٹنڈی ہمارے ساتھ لگی چلی آئی اور اٹھ گیا تو پانچ سال کا لڑکا جسے ابھی اچھی طرح ناک پونچھنا نہیں آتا۔ عجیب اندھیر ہے یارو۔‘‘ اس واقعے کے بعد امر کور نے اختر پر ہاتھ تو خیر کبھی نہ اٹھایا مگر اس کی نفرت دو چند ہو گئی۔

ایک روز اختر کو تیز بخار آ گیا۔ پرمیشر سنگھ وید کے پاس چلا گیا اور اس کے جانے کے کچھ دیر بعد اس کی بیوی پڑوسن سے پسی ہوئی سونف مانگنے چلی گئی۔ اختر کو پیاس لگی۔

’’پانی‘‘ اس نے کہا، کچھ دیر بعد لال لال سوجی سوجی آنکھیں کھولیں۔ ادھر ادھر دیکھا اور پانی کا لفظ ایک کراہ بن کر اس کے حلق سے نکلا۔ کچھ دیر کے بعد وہ لحاف کو ایک طرف جھٹک کر اٹھ بیٹھا۔ امر کور سامنے دہلیز پر بیٹھی کھجور کے پتوں سے چنگیر بنا رہی تھی۔۔ ۔ ’’پانی دے!‘‘ اختر نے اسے ڈانٹا۔ امر کور نے بھنویں سکیڑ کر اسے گھور کر دیکھا اور اپنے کام میں جٹ گئی۔ اب کے اختر چلایا۔۔ ۔ ’’پانی دیتی ہے کہ نہیں۔۔ ۔ پانی دے ورنہ ماروں گا‘‘۔۔ ۔ امر کور نے اب کے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ بولی۔۔ ۔ ’’مار تو سہی۔ تو کرتارا نہیں کہ میں تیری مار سہہ لوں گی۔ میں تو تیری بوٹی بوٹی کر ڈالوں گی۔‘‘ اختر بلک بلک کر رو دیا۔ اور آج اس نے مدّت کے بعد اپنی اماں کو یاد کیا۔ پھر جب پرمیشر سنگھ دوا لے آیا اور اس کی بیوی بھی پسی ہوئی سونف لے کر آ گئی تو اختر نے روتے روتے بری حالت بنا لی تھی اور وہ سسک سسک کر کہہ رہا تھا۔ ’’ہم تو اب اماں پاس چلیں گے۔ یہ امر کور سور کی بچی تو پانی بھی نہیں پلاتی۔ ہم تو اماں پاس جائیں گے۔‘‘ پرمیشر سنگھ نے امر کور کی طرف غصے سے دیکھا۔ وہ رو رہی تھی اور اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔۔ ۔ ’’کیوں پانی پلاؤں؟ کرتارا بھی تو کہیں اسی طرح پانی مانگ رہا ہو گا کسی سے۔ کسی کو اس پر ترس نہ آئے تو ہمیں کیوں ترس آئے اس پر۔۔ ۔ ہاں‘‘ ۔

پرمیشر سنگھ اختر کی طرف بڑھا اور اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

’’یہ بھی تو تمھاری ماں ہے بیٹے۔‘‘

’’نہیں‘‘ اختر بڑے غصے سے بولا۔ ’’یہ تو سکھ ہے۔ میری اماں تو پانچ وقت نماز پڑھتی ہے اور بسم اللہ کہہ کر پانی پلاتی ہے۔‘‘

پرمیشر سنگھ کی بیوی جلدی سے ایک پیالہ بھر کر لائی تو اختر نے پیالے کو دیوار پر دے مارا اور چلایا۔ ’’تمھارے ہاتھ سے نہیں پئیں گے۔‘‘

’’یہ بھی تو مجھی سور کی بچی کا باپ ہے۔‘‘ امر کور نے جل کر کہا۔

’’تو ہوا کرے‘‘ اختر بولا۔۔ ۔ ’’تمھیں اس سے کیا۔‘‘

پرمیشر سنگھ کے چہرے پر عجیب کیفیتیں دھوپ چھاؤں سی پیدا کر گئیں۔ وہ اختر کے مطالبے پر مسکرایا بھی اور رو بھی دیا۔ پھر اس نے اختر کو پانی پلایا۔ اس کے ماتھے کو چوما۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، اسے بستر پر لٹا کر اس کے سر کو ہولے ہولے کھجاتا رہا اور کہیں شام کو جا کر اس نے پہلو بدلا۔ اس وقت اختر کا بخار اتر چکا تھا اور وہ بڑے مزے سے سو رہا تھا۔

آج بہت عرصے کے بعد رات کو پرمیشر سنگھ بھڑک اٹھا اور نہایت آہستہ سے بولا۔

’’اری سنتی ہو؟۔ ۔ سن رہی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘

بیوی نے پہلے تو اسے پرمیشر سنگھ کی پرانی عادت کہہ کر ٹالنا چاہا مگر پھر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی اور امر کور کی کھاٹ کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے ہولے ہولے ہلا کر آہستہ سے بولی۔۔ ۔ ’’بیٹی!‘‘

’’کیا ہے ماں؟‘‘ امر کور چونک اٹھی۔

اور اس نے سرگوشی کی۔ ’’سنو تو۔ سچ مچ کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘

یہ ایک ثانیے کا سناٹا بڑا خوف ناک تھا۔ امر کور کی چیخ اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی اور پھر اختر کی چیخ خوف ناک تر تھی۔

’’کیا ہوا بیٹا‘‘ پرمیشر سنگھ تڑپ کر اٹھا اور اختری کھاٹ پر جا کر اسے چھاتی سے بھینچ لیا۔ ’’ڈر گئے بیٹا۔‘‘

’’ہاں‘‘ اختر لحاف میں سے سر نکال کر بولا۔ ’’کوئی چیز چیخی تھی۔‘‘

’’امر کور چیخی تھی‘‘ پرمیشر سنگھ نے کہا۔۔ ۔ ’’ہم سب یوں سمجھے جیسے کوئی چیز یہاں قرآن پڑھ رہی ہے۔‘‘

’’میں پڑھ رہا تھا‘‘ اختر بولا۔

اب کے بھی امر کور کے منہ سے ہلکی چیخ نکل گئی۔

بیوی نے جلدی سے چراغ جلا دیا اور امر کور کی کھاٹ پر بیٹھ کر وہ دونوں اختر کو یوں دیکھنے لگیں جیسے وہ ابھی دھواں بن کر دروازے کی جھریوں میں سے باہر اڑ جائے گا اور باہر سے ایک ڈراؤنی آواز آئے گی۔ ’’میں جن ہوں میں کل رات پھر آ کر قرآن پڑھوں گا۔‘‘

’’کیا پڑھ رہے تھے بھلا؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے پوچھا۔

’’پڑھوں؟‘‘ اختر نے پوچھا۔

’’ہاں ہاں‘‘ پرمیشر سنگھ نے بڑے شوق سے کہا۔

اور اختر قُل ہو اللہ اَحَد پڑھنے لگا۔ کُفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے گریبان میں چھوکی اور پھر پرمیشر سنگھ کی طرف مسکراتے ہوئے بولا۔۔ ۔ ’’تمھارے سینے میں بھی چھو کر دوں؟‘‘

’’ہاں ہاں‘‘ پرمیشر سنگھ نے گریبان کا بٹن کھول دیا اور اختر نے چھو کر دی۔ اب کے امر کور نے بڑی مشکل سے چیخ پر قابو پایا۔

پرمیشر سنگھ بولا۔۔ ۔ ’’کیا نیند نہیں آتی تھی؟‘‘

’’ہاں‘‘ اختر بولا۔۔ ۔ ’’امّاں یاد آ گئی۔ اماں کہتی ہے، نیند نہ آئے تو تین بار قُل ہو اللّٰہ پڑھو نیند آ جائے گی، اب آ رہی تھی، پر امر کور نے ڈرا دیا۔‘‘

’’پھر سے پڑھ کر سو جاؤ‘‘ پرمیشر سنگھ نے کہا۔۔ ۔ ’’روز پڑھا کرو۔ اونچے اونچے پڑھا کرو اسے بھولنا نہیں ورنہ تمھاری اماں تمھیں مارے گی۔ لو اب سو جاؤ۔‘‘ اس نے اختر کو لٹا کر اسے لحاف اوڑھا دیا۔ پھر چراغ بجھانے کے لیے بڑھا تو امر کور پکاری۔۔ ۔ ’’نہیں، نہیں بابا۔ بجھاؤ نہیں۔ ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’جلتا رہے، کیا ہے؟‘‘ بیوی بولی۔

اور پرمیشر سنگھ دیا بجھا کر ہنس دیا۔۔ ۔ ’’پگلیاں‘‘ وہ بولا۔۔ ۔ ’’گدھیاں۔‘‘

رات کے اندھیرے میں اختر آہستہ آہستہ قل ہو اللّٰہ پڑھتا رہا۔ پھر کچھ دیر بعد ذرا ذرا سے خراٹے لینے لگا۔ پرمیشر سنگھ بھی سو گیا اور اس کی بیوی بھی۔ مگر امر کور رات بھر کچی نیند میں ’’پڑوس‘‘ کی مسجد کی اذان سنتی رہی اور ڈرتی رہی۔

اب اختر کے اچھے خاصے کیس بڑھ آئے تھے۔ ننھے سے جوڑے میں کنگھا بھی اٹک جاتا تھا۔ گاؤں والوں کی طرح پرمیشر سنگھ کی بیوی بھی اسے کرتارا کہنے لگی تھی اور اس سے خاصی شفقت سے پیش آتی تھی مگر امر کور اختر کو یوں دیکھتی تھی جیسے وہ کوئی بہروپیا ہے اور ابھی وہ پگڑی اور کیس اتار کر پھینک دے گا اور قُل ہو اللّٰہ پڑھتا ہوا غائب ہو جائے گا۔

ایک دن پرمیشر سنگھ بڑی تیزی سے گھر آیا اور ہانپتے ہوئے اپنی بیوی سے پوچھا۔

’’وہ کہاں ہے؟‘‘

’’کون؟ امر کور؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’کرتارا؟‘‘

’’نہیں۔۔ ۔‘‘ پھر کچھ سوچ کر بولا۔۔ ۔ ’’ہاں ہاں وہی کرتارا۔‘‘

’’باہر کھیلنے گیا ہے۔ گلی میں ہو گا۔‘‘

پرمیشر سنگھ واپس لپکا۔ گلی میں جا کر بھاگنے لگا۔ باہر کھیتوں میں جا کر اس کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ پھر اسے دور گیان سنگھ کے گنوں کی فصل کے پاس چند بچے کبڈی کھیلتے نظر آئے۔ کھیت کی اوٹ سے اس نے دیکھا کہ اختر نے ایک لڑکے کو گھٹنوں تلے دبا رکھا ہے۔ لڑکے کے ہونٹوں سے خون پھٹ رہا ہے مگر کبڈی کبڈی کی رٹ جاری ہے۔ پھر اس لڑکے نے جیسے ہار مان لی۔ اور جب اختر کی گرفت سے چھوٹا تو بولا۔۔ ۔ ’’کیوں بے کرتارو! تو نے میرے منھ پر گھٹنا کیوں مارا ہے؟‘‘

’’اچھا کیا جو مارا‘‘ اختر اکڑ کر بولا اور بکھرے ہوئے جوڑے کی لٹیں سنبھال کر ان میں کنگھا پھنسانے لگا۔

’’تمھارے رسول نے تمھیں یہی سمجھایا ہے؟‘‘ لڑکے نے طنز سے پوچھا۔

اختر ایک لمحے کے لیے چکرا گیا۔ پھر سوچ کر بولا۔۔ ۔ ’’اور کیا تمھارے گُرو نے تمھیں یہی سمجھایا ہے؟‘‘

’’مُسلّا‘‘ لڑکے نے اسے گالی دی۔

’’سکھڑا‘‘ اختر نے اسے گالی دی۔

سب لڑکے اختر پر ٹوٹ پڑے مگر پرمیشر سنگھ کی ایک ہی کڑک سے میدان صاف تھا۔ اس نے اختر کی پگڑی باندھی اور اسے ایک طرف لے جا کر بولا۔۔ ۔ ’’سنو بیٹے! میرے پاس رہو گے کہ اماں کے پاس جاؤ گے۔۔ ۔؟‘‘

اختر کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ کچھ دیر تک پرمیشر سنگھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا پھر مسکرانے لگا اور بولا۔۔ ۔ ’’اماں پاس جاؤں گا۔‘‘

’’اور میرے پاس نہیں رہو گے؟‘‘

پرمیشر سنگھ کا رنگ یوں سُرخ ہو گیا جیسے وہ رو دے گا۔

’’تمھارے پاس بھی رہوں گا؟‘‘ اختر نے معمے کا حل پیش کر دیا۔ پرمیشر سنگھ نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور وہ آنسو جو مایوسی نے آنکھوں میں جمع کیے تھے، خوشی کے آنسو بن کر ٹپک پڑے۔ وہ بولا۔۔ ۔ ’’دیکھو بیٹے!۔۔ ۔ اختر بیٹے آج یہاں فوج آ رہی ہے یہ فوجی تمھیں مجھ سے چھیننے آ رہے ہیں، سمجھے؟ تم کہیں چھپ جاؤ۔ پھر جب وہ چلے جائیں گے نا، تو میں تمھیں لے آؤں گا۔‘‘

پرمیشر سنگھ کو اس وقت دور غبار کا ایک پھیلتا ہوا بگولہ دکھائی دیا۔ مینڈ پر چڑھ کر اس نے لمبے ہوتے ہوئے بگولے کو غور سے دیکھا اور اچانک تڑپ کر بولا۔۔ ۔ ’’فوجیوں کی لاری آ گئی۔۔ ۔‘‘ وہ مینڈ پر سے کود پڑا اور گنے کے کھیت کا پورا چکر کاٹ گیا۔

’’گیا نے، او گیان سنگھ!‘‘ وہ چلایا۔ گیان سنگھ فصل کے اندر سے نکل آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے ہاتھ میں تھوڑی سی گھاس تھی۔۔ ۔ پرمیشر سنگھ اسے الگ لے گیا، اسے کوئی بات سمجھائی پھر دونوں اختر کے پاس آئے۔ گیان سنگھ نے فصل میں سے ایک گنا توڑ کر درانتی سے اس کے پتے کاٹے اور اسے اختر کے حوالے کر کے بولا۔۔ ۔ ’’آؤ بھائی کرتارے تم میرے پاس بیٹھ کر گنا چوسو جب تک یہ فوجی چلے جائیں۔ اچھا خاصا بنا بنایا خالصہ ہتھیانے آئے ہیں۔ ہونہہ!‘‘۔۔ ۔ پرمیشر سنگھ نے اختر سے جانے کی اجازت مانگی۔۔ ۔ ’’جاؤں۔۔ ۔؟‘‘

اور اختر نے دانتوں میں گنے کا لمبا سا چھلکا جکڑے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ اجازت پا کر پرمیشر سنگھ گاؤں کی طرف بھاگ گیا۔ بگولا گاؤں کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔

گھر جا کر اس نے بیوی اور بیٹی کو سمجھایا۔ پھر بھاگم بھاگ گرنتھی جی کے پاس گیا۔ ان سے بات کر کے ادھر ادھر دوسرے لوگوں کو سمجھاتا پھیرا۔ اور جب فوجیوں کی لاری دھرم شالہ سے ادھر کھیت میں رک گئی تو سب فوجی اور پولیس والے گرنتھی جی کے پاس آئے۔ ان کے ساتھ علاقے کا نمبردار بھی تھا۔ مسلمان لڑکیوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوتی رہی۔ گرنتھی جی نے گرنتھ صاحب کی قسم کھا کر کہہ دیا کہ اس گاؤں میں کوئی مسلمان لڑکی نہیں ’’لڑکے کی بات دوسری ہے۔‘‘ کسی نے پرمیشر سنگھ کے کان میں سرگوشی کی اور آس پاس کے سکھ پرمیشر سنگھ سمیت زیر لب مسکرانے لگے۔ پھر ایک فوجی افسر نے گاؤں والوں کے سامنے ایک تقریر کی۔ اس نے مامتا پر بڑا زور دیا جو ان ماؤں کے دلوں میں ان دنوں ٹیس بن کر رہ گئی تھی جن کی بیٹیاں چھن گئی تھیں اور ان بھائیوں اور شوہروں کی پیار کی بڑی دردناک تصویر کھینچی جن کی بہنیں اور بیویاں ان سے ہتھیا لی گئی تھیں۔۔ ۔ ’’اور مذہب کیا ہے دوستو۔‘‘ اس نے کہا تھا۔۔ ۔ ’’دنیا کا ہر مذہب انسان کو انسان بننا سکھاتا ہے اور تم مذہب کے نام لے کر انسان کو انسان سے لڑا دیتے ہو۔ ان کی آبرو پر ناچتے ہو اور کہتے ہو ہم سکھ ہیں، ہم مسلمان ہیں۔۔ ۔ ہم واہگورو جی کے چیلے ہیں، ہم رسول کے غلام ہیں۔‘‘

تقریر کے بعد مجمع چھٹنے لگا۔ فوجیوں کے افسر نے گرنتھی جی کا شکریہ ادا کیا۔ ان سے ہاتھ ملایا اور لاری چلی گئی۔

سب سے پہلے گرنتھی جی نے پرمیشر سنگھ کو مبارک باد دی۔ پھر دوسرے لوگوں نے پرمیشر سنگھ کو گھیر لیا اور اسے مبارک باد دینے لگے لیکن پرمیشر سنگھ لاری آنے سے پہلے حواس باختہ ہو رہا تھا تو اب لاری جانے کے بعد لُٹا لُٹا سا لگ رہا تھا۔ پھر وہ گاؤں سے نکل کر گیان سنگھ کے کھیت میں آیا۔ اختر کو کندھے پر بٹھا کر گھر میں لے آیا۔ کھانا کھلانے کے بعد اسے کھاٹ پر لٹا کر کچھ یوں تھپکا کہ اسے نیند آ گئی۔ پرمیشر سنگھ دیر تک کھاٹ پر بیٹھا رہا۔ کبھی داڑھی کھجاتا اور ادھر ادھر دیکھ کر پھر سوچ میں بیٹھ جاتا۔ پڑوس کی چھت پر کھیلتا ہوا ایک بچہ اچانک اپنی ایڑی پکڑ کر بیٹھ گیا اور زار زار رونے لگا۔ ’’ہائے اتنا بڑا کانٹا اتر گیا پورے کا پورا۔‘‘ وہ چلایا اور پھر اس کی ماں ننگے سر اوپر بھاگی۔ اسے گود میں بٹھا لیا پھر نیچے بیٹی کو پکار کر سوئی منگوائی۔ کانٹا نکالنے کے بعد اسے بے تحاشا چوما اور پھر نیچے جھک کر پکاری۔۔ ۔ ’’ارے میرا دوپٹہ تو اوپر پھینک دینا۔ کیسی بے حیائی سے اوپر بھاگی چلی آئی۔‘‘

پرمیشر سنگھ نے کچھ دیر بعد چونک کر بیوی سے پوچھا۔

’’سنو کیا تمھیں کرتارا اب بھی یاد آتا ہے۔‘‘

’’لو اور سنو‘‘ بیوی بولی اور پھر ایک دم چھاجوں رو دی۔۔ ۔ ’’کرتارا تو میرے کلیجے کا ناسور بن گیا ہے پرمیشرے!‘‘

کرتارے کا نام سن کر ادھر سے امر کور اٹھ کر آئی اور روتی ہوئی ماں کے گھٹنے کے پاس بیٹھ کر رونے لگی۔

پرمیشر سنگھ یوں بدک کر جلدی سے اٹھ بیٹھا جیسے اس نے شیشے کے برتنوں سے بھرا ہوا طشت اچانک زمین پر دے مارا ہو۔

شام کے کھانے کے بعد وہ اختر کو انگلی سے پکڑے باہر دالان میں آیا اور بولا۔ ’’آج تو دن بھر خوب سوئے ہو بیٹا۔ چلو آج ذرا گھومنے چلتے ہیں۔ چاندنی رات ہے۔‘‘

اختر فوراً مان گیا۔ پرمیشر سنگھ نے اسے کمبل میں لپیٹا اور کندھے پر بٹھا لیا۔ کھیتوں میں آ کر وہ بولا۔ ’’یہ چاند جو پورب سے نکل رہا ہے نا بیٹے، جب یہ ہمارے سر پر پہنچے گا تو صبح ہو جائے گی۔‘‘

اختر چاند کی طرف دیکھنے لگا۔

’’یہ چاند جو یہاں چمک رہا ہے نا۔ یہ وہاں بھی چمک رہا ہو گا۔ تمھاری اماں کے دیس میں۔‘‘

اب کے اختر نے جھک کر پرمیشر سنگھ کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔

’’یہ چاند ہمارے سر پر آئے گا تو وہاں تمھاری اماں کے سر پر بھی ہو گا۔‘‘

اب کے اختر بولا ’’ہم چاند دیکھ رہے ہیں تو کیا اماں بھی چاند کو دیکھ رہی ہو گی؟‘‘

’’ہاں پرمیشر سنگھ کی آواز میں گونج تھی۔۔ ۔ ’’چلو گے اماں کے پاس؟‘‘

’’ہاں‘‘ اختر بولا۔۔ ۔ ’’پر تم جاتے نہیں، تم بہت برے ہو، تم سکھ ہو۔‘‘

پرمیشر سنگھ بولا۔۔ ۔ ’’نہیں بیٹے، آج تو تمھیں ضرور ہی لے جاؤں گا۔ تمھاری اماں کی چٹھی آئی ہے۔ وہ کہتی ہے میں اختر بیٹے کے لیے اداس ہوں۔‘‘

’’میں بھی تو اداس ہوں۔‘‘ اختر کو جیسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی۔

’’میں تمھیں تمھاری اماں ہی کے پاس لیے جا رہا ہوں۔‘‘

’’سچ۔۔ ۔؟‘‘ اختر پرمیشر سنگھ کے کندھے پر کودنے لگا اور زور زور سے بولنے لگا۔۔ ۔ ’’ہم اماں پاس جا رہے ہیں۔ پرموں ہمیں اماں پاس لے جائے گا۔ ہم وہاں سے پرموں کو چٹھی لکھیں گے۔‘‘

پرمیشر سنگھ چپ چاپ روئے جا رہا تھا۔ آنسو پونچھ کر اور گلا صاف کر کے اس نے اختر سے پوچھا۔

’’گانا سنو گے؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’پہلے تم قرآن سناؤ۔‘‘

’’اچھا‘‘ اور اختر قُل ہو اللّٰہ پڑھنے لگا، کفواً اَحَد پر پہنچ کر اس نے اپنے سینے پر چھُو کی اور بولا۔۔ ۔ ’’لاؤ تمھارے سینے پر بھی چھو، کر دوں۔‘‘

رک کر پرمیشر سنگھ نے گریبان کا ایک بٹن کھولا اور اوپر دیکھا۔ اختر نے لٹک کر اس کے سینے پر چھُو کر دی اور بولا۔۔ ۔ ’’اب تم سناؤ۔‘‘

پرمیشر سنگھ نے اختر کو دوسرے کندھے پر بٹھا لیا۔ اسے بچوں کا کوئی گیت یاد نہیں تھا۔ اس لیے اس نے قسم قسم کے گیت گانا شروع کیے اور گاتے ہوئے تیز تیز چلنے لگا۔ اختر چپ چاپ سنتا رہا۔

بنتو داس سر بن ورگا جے

بنتو دا منہ ورگا جے

بنتو دالک چترا جے

لوکو

بنتو دا لک چترا

’’بنتو کون ہے؟‘‘ اختر نے پرمیشر سنگھ کو ٹوکا۔

پرمیشر سنگھ ہنسا پھر ذرا وقفے کے بعد بولا۔۔ ۔ ’’میری بیوی ہے نا۔ امر کور کی ماں۔ اس کا نام بنتو ہے۔ امر کور کا نام بھی بنتو ہے۔ تمھاری اماں کا نام بھی بنتو ہی ہو گا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ اختر خفا ہو گیا۔۔ ۔ ’’وہ کوئی سکھ ہے؟‘‘

پرمیشر سنگھ خاموش ہو گیا۔

چاند بہت بلند ہو گیا تھا۔ رات خاموش تھی، کبھی کبھی گنے کے کھیتوں کے آس پاس گیدڑ روتے اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ اختر پہلے تو گیدڑوں کی آواز سے بہت ڈرا، مگر پرمیشر سنگھ کے سمجھانے سے بہل گیا اور ایک بار خاموشی کے طویل وقفے کے بعد اس نے پرمیشر سنگھ سے پوچھا۔۔ ۔ ’’اب کیوں نہیں روتے گیدڑ؟‘‘ پرمیشر سنگھ ہنس دیا۔ پھر اسے ایک کہانی یاد آ گئی۔ یہ گُرو گوبند سنگھ کی کہانی تھی۔ لیکن اس نے بڑے سلیقے سے سکھوں کے ناموں کو مسلمانوں کے ناموں میں بدل دیا اور اختر ’’پھر؟پھر؟‘‘ کی رٹ لگاتا رہا اور کہانی ابھی جاری تھی، جب اختر ایک دم بولا۔ ’’ارے چاند تو سر پر آ گیا!‘‘

پرمیشر سنگھ نے بھی رک کر اوپر دیکھا۔ پھر وہ قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر دور دیکھنے لگا اور بولا۔۔ ۔ ’’تمھاری اماں کا دیس جانے کدھر چلا گیا۔‘‘

وہ کچھ دیر ٹیلے پر کھڑا رہا۔ جب اچانک کہیں دور سے اذان کی آواز آنے لگی اور اختر مارے خوشی کے یوں کودا کہ پرمیشر سنگھ اسے بڑی مشکل سے سنبھال سکا۔ اسے کندھے پر سے اتار کر وہ زمین پر بیٹھ گیا اور کھڑے ہوئے اختر کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولا۔۔ ۔ جاؤ بیٹے، تمھیں تمھاری اماں نے پکارا ہے۔ بس تم اس آواز کی سیدھ میں۔۔ ۔‘‘

’’شش!‘‘ اختر نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور سرگوشی میں بولا۔

’’اذان کے وقت نہیں بولتے۔‘‘

’’پر میں تو سکھ ہوں بیٹے!‘‘ پرمیشر سنگھ بولا۔

’’‘‘شش اب کے اختر نے بگڑ کر اسے گھورا۔

اور پرمیشر سنگھ نے اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس کے ماتھے پر ایک بہت طویل پیار دیا اور اذان ختم ہونے کے بعد آستینوں سے آنکھیں رگڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

’’میں یہاں سے آگے نہیں آؤں گا۔ بس تم۔۔ ۔‘‘

’’کیوں۔۔ ۔؟ کیوں نہیں آؤ گے۔۔ ۔؟ اختر نے پوچھا۔

’’تمھاری اماں نے چٹھی میں یہی لکھا ہے کہ اختر اکیلا آئے۔‘‘

پرمیشر سنگھ نے اختر کو پھسلایا۔۔ ۔ ’’بس تم سیدھے چلے جاؤ۔ سامنے ایک گاؤں آئے گا۔ وہاں جا کر اپنا نام بتانا کرتارا نہیں اختر، پھر اپنی ماں کا نام بتانا۔ اپنے گاؤں کا نام بتانا اور دیکھو، مجھے ایک چٹھی ضرور لکھنا۔‘‘

’’لکھوں گا‘‘ اختر نے وعدہ کیا۔

’’اور ہاں تمھیں کرتارا نام کا کوئی لڑکا ملے نا، تو اسے ادھر بھیج دینا۔‘‘

’’اچھا‘‘ پرمیشر سنگھ نے ایک بار پھر اختر کا ما تھا چوما اور جیسے کچھ نگل کر بولا۔

’’جاؤ!‘‘

اختر چند قدم چلا مگر پلٹ آیا۔۔ ۔ ’’تم بھی آ جاؤ نا۔‘‘

’’نہیں بھئی!‘‘ پرمیشر سنگھ نے اسے سمجھایا۔۔ ۔ ’’تمھاری اماں نے چٹھی میں یہ نہیں لکھا۔‘‘

’’مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ اختر بولا۔

’’قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟‘‘ پرمیشر سنگھ نے مشورہ دیا۔

’’اچھا‘‘ بات سمجھ میں آ گئی اور وہ قُل ہو اللّٰہ کا ورد کرتا ہوا جانے لگا۔

نرم نرم پو افق کے دائرے پر اندھیرے سے لڑ رہی تھی اور ننھا سا اختر دور دھندلی پگڈنڈی پر ایک لمبے تڑنگے سکھ جوان کی طرح تیز تیز جا رہا تھا۔ پرمیشر سنگھ اس پر نظریں گاڑے ٹیلے پر بیٹھا رہا اور جب اختر کا نقطہ فضا کا ایک حصہ بن گیا تو وہاں سے اتر آیا۔

اختر ابھی گاؤں کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ دو سپاہی لپک کر آئے اور اسے روک کر بولے۔ ’’کون ہو تم؟‘‘

’’اختر۔‘‘

وہ یوں بولا جیسے ساری دنیا اس کا نام جانتی ہے۔

’’اختر!‘‘ دونوں سپاہی کبھی اختر کے چہرے کو دیکھتے اور کبھی اس کی سکھوں کی سی پگڑی کو۔ پھر ایک نے آگے بڑھ کر اس کی پگڑی جھٹکے سے اتار لی تو اختر کے کیس کھل کر ادھر ادھر بکھر گئے۔

اختر نے بھنا کر پگڑی چھین لی اور پھر ایک ہاتھ سے سر کو ٹٹولتے ہوئے وہ زمین پر لیٹ گیا اور زور زور سے روتے ہوئے بولا۔۔ ۔ ’’میرا کنگھا لاؤ۔ تم نے میرا کنگھا لے لیا ہے۔ دے دو ورنہ میں تمھیں ماروں گا۔‘‘

ایک دم دونوں سپاہی دھپ سے زمین پر گرے اور رائفل کو کندھوں سے لگا کر جیسے نشانہ باندھنے لگے۔

’’ہالٹ۔‘‘

ایک پکارا جیسے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ پھر بڑھتے ہوئے اجالے میں انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ایک نے فائر کر دیا۔ اختر فائر کی آواز سے دہل کر رہ گیا اور سپاہیوں کو ایک طرف بھاگتا دیکھ کر وہ بھی روتا چلاتا ہوا ان کے پیچھے بھاگا۔

سپاہی جب ایک جگہ جا کر رُکے تو پرمیشر سنگھ اپنی ران پر کس کر پٹی باندھ چکا تھا مگر خون اس کی پگڑی کی سیکڑوں پرتوں میں سے بھی پھوٹ آیا۔ اور وہ کہہ رہا تھا۔۔ ۔ ’’مجھے کیوں مارا تم نے، میں تو اختر کے کیس کاٹنا بھول گیا تھا؟ میں اختر کو اس کا دھرم واپس دینے آیا تھا یارو۔‘‘

اور اختر بھاگا آ رہا تھا اور اس کے کیس ہوا میں اڑ رہے تھے۔

***

 

 

 

 

 

لاجونتی

 

راجندر سنگھ بیدی

 

 

’’ہتھ لائیاں کمھلاں نی لاجونتی دے بوٹے۔۔ ۔‘‘ (یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)۔۔ ایک پنجابی گیت

بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی۔۔ ۔

گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوتی تھی۔

اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلّے ’’ملّا شکور‘‘ میں ایک کمیٹی قائم ہو گئی اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سندر لال بابو کو اس کا سکریٹری چُن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلّے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کر سکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندر لال کی اپنی بیوی اغوا ہو چکی تھی اور اس کا نام تھا بھی لاجو۔ لاجونتی۔

چنانچہ پربھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے۔ ’’ہتھ لائیاں کمھلان نی لاجونتی دے بوٹے۔۔‘‘ تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہو جاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچتا، جانے وہ کہاں ہو گی، کس حال میں ہو گی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہو گی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟۔ ۔ اور پتھریلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔

اور اب تو یہاں تک نوبت آ گئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس کا غم اب دُنیا کا غم ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کر دیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا ’’انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اُٹھنے بیٹھنے، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔

اور لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح، نازک سی دیہاتی لڑکی تھی۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اُس کا اضطراب شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کر اس کے بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر اور کبھی اُدھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دُبلا پن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مار پیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اُس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اُداس نہ بیٹھ سکتی تھی، اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اُس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اُٹھتی۔۔ ۔ ’’پھر مارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی۔۔ ۔‘‘ صاف پتہ چلتا تھا، وہ ایک دم ساری مار پیٹ بھول چکی ہے۔ گانو کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں، بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں ’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا، عورت جس کے قابو میں نہیں آتی۔۔ ۔‘‘ اور یہ مار پیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خود لاجو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔ لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لو لگا لی اور اس کا نام تھا سندر لال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گانو۔‘‘ چلا آیا تھا اور جس نے دولھا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا۔۔ ۔ ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار۔ بیوی بھی چٹ پٹی ہو گی۔‘‘ لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا، مگر وہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے سے بُوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے!

اور پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا۔ ایک بار صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسا لوں اور لوگوں کو بتا دوں۔۔ ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہو جانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوس ناکیوں کا شکار ہو جانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا، انھیں اپنا نہیں لیتا۔۔ ۔ ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کر دینا چاہیے۔ وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا، جو گھر میں کسی بھی عورت، کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا۔ انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوئیں۔۔ کیوں کہ ان کے دِل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں، چھوئی موئی کی طرح ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گے۔

گویا ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلّہ ملّا شکور کی اس کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی اُلجھن۔ رات بھر چوکیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سُن کر صرف اتنا کہتے، او! وہی منڈلی ہے! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپگینڈا سنا کرتے۔ وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ میں کچھ منمناتے چلے جاتے۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بساؤ‘‘ کے فریادی اور اندوہ گین پروپگنڈے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔

لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبد بیکار نہیں جاتا۔ وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکّر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا۔ پر گُنگناتا چلا جاتا ہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں، جب کہ مِس مردولا سارا بائی، ہند اور پاکستان کے درمیان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں، تو محلّہ ملّا شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سرجھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندر لال بابو کبھی ’’مہندر سنگھ زندہ باد‘‘ اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے اور وہ نعرے لگاتے رہے، حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے۔

لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماں باپ، بہن اور بھائیوں نے اُنھیں پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھا لیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟وہ بُزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لُٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھیں سے موت کو گھُور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک اُنھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی۔۔ ۔ سہاگ ونتی۔۔ ۔ سہاگ والی۔۔ ۔ اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی۔۔ ۔ تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے اور بہاری چلّا دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا، جو در اصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔

لیکن فوجی ٹرک میں مس سارابائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں، ان میں لاجو نہ تھی۔ سندر لال نے امید و بیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھا اور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچند کر دیا۔ اب وہ صرف صبح کے سمے ہی پربھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے، بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے، اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے ملی جُلی ایک تقریر کر دیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈ اسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام، محرر چوکی کچھ کہنے کے لیے اُٹھتے۔ لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پُرانوں کا حوالہ دیتے، اُتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اُٹھتا، لیکن وہ دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلا رُک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پاتا۔ آخر بیٹھ جاتا۔ لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھا جاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر، جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا۔ لیکن لوگ وہیں رو دیتے۔ اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لَوٹ جاتے۔

ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہو رہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا۔۔ میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا، ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟‘‘ نارائن باوا نے کہا، ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘

کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رُک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اُٹھا۔

’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا!‘‘

’’چُپ رہو جی‘‘۔۔ ۔ ’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘۔۔ ۔ ’’خاموش!‘‘ مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا۔ ’’مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

پھر ملی جُلی آوازیں آئیں، ’’خاموش!‘‘۔۔ ۔ ’’ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی، ’’مار دیں گے۔‘‘

نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا۔ ’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندر لال!‘‘

سندر لال نے کہا۔ ’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘‘

انہی لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں، اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بول اُٹھے۔ ’’سُنو، سُنو، سُنو۔‘‘

رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندر لال بولے۔ ’’شری رام نیتا تھے ہمارے۔ پر یہ کیا بات ہے بابا جی! انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا، مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کر پائے؟‘‘

نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا۔ ’’اِس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘

’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا۔ ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اُسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کر سکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے۔  اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے۔  اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘

آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے۔۔ سیتا، لاجونتی اور سندر لال بابو نے رونا شروع کر دیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سُرخ جھنڈے اُٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اور پھر وہ سب ’’سندر لال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا۔ ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئی۔ ’’شری رام چندر‘‘

اور پھر بہت سی آوازیں آئیں۔ ’’خاموش! خاموش!‘‘ اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میں شامل ہو گئے، جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد اور حکم سنگھ محرر چوکی کلاں، جا رہے تھے، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے اور ان کے درمیان کہیں سندر لال جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے۔ آج اس کے دل کو بڑی ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا رہے۔

’’ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے!‘‘

ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ابھی صبح بھی نہیں ہو پائی تھی اور محلہ ملّا شکور کے مکان  کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک سی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ’’گرائیں‘‘ لال چند، جسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپو دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنی گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا۔

’’بدھائی ہو سندر لال۔‘‘

سندر لال نے میٹھا گڑ چلم میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘

’’میں نے لاجو بھابی کو دیکھا ہے۔‘‘

سندر لال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا۔ ’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘ اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑ دیا۔

’’واگہ کی سرحد پر۔‘‘

سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا ’’کوئی اور ہو گی۔‘‘

لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں بھیّا، وہ لاجو ہی تھی، لاجو۔۔ ۔‘‘

’’تم اسے پہچانتے بھی ہو؟‘‘ سندر لال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اُٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا، اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حُقّے پر سے اُٹھا لی اور بولا۔ ’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟‘‘

’’ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر۔‘‘

’’ہاں ہاں ہاں‘‘ اور سندر لال نے خود ہی کہہ دیا ’’تیسرا ماتھے پر۔‘‘ وہ نہیں چاہتا تھا، اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لاجونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیندولے یاد آ گئے، جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوا لیے تھے، جو ان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کمھلانے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان تیندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرما جاتی تھی اور گم ہو جاتی تھی، اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔ گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہو گئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لُٹ جانے سے وہ مفلس ہو گئی ہو۔ سندر لال کا سارا جسم ایک اَن جانے خوف، ایک اَن جانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پھنکنے لگا۔ اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا۔

’’لاجو واگہ کیسے پہنچ گئی؟‘‘

لال چند نے کہا۔ ’’ہند اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہو رہا تھا نا۔‘‘

’’پھر کیا ہوا۔؟‘‘ سندر لال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا پھر؟‘‘

رسالو بھی اپنی چارپائی پر اُٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا۔ ’’سچ مچ آ گئی ہے لجونتی بھابی؟‘‘

لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’واگہ پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں۔ لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہمارے والنٹیر اعتراض کر رہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں، ان میں ادھیڑ، بوڑھی اور بیکار عورتیں زیادہ ہیں۔ اس تنازع پر لوگ جمع ہو گئے۔ اس وقت اُدھر کے والنٹیروں نے لاجو بھابی کو دکھاتے ہوئے کہا ’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو۔ دیکھو۔ جتنی عورتیں تم نے دی ہیں، ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی؟ ’’اور وہاں لاجو بھابی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندولے چھُپا رہی تھی۔‘‘

پھر جھگڑا بڑھ گیا۔ دونوں نے اپنا اپنا ’’مال‘‘ واپس لے لینے کی ٹھان لی۔ میں نے شور مچایا۔ ’’لاجو۔ لاجو بھابی۔‘‘ مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کے بھگا دیا۔

اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا، جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔ رسالو اور نیکی رام چُپ چاپ بیٹھے رہے اور سندر لال کہیں دور دیکھنے لگا۔ شاید سوچنے لگا۔ لاجو آئی بھی پر نہ آئی اور سندر لال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا، جیسے وہ بیکانیر کا صحرا پھاند کر آیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھانو میں، زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔ مُنھ سے اتنا بھی نہیں نکلتا۔ ’’پانی دے دو۔‘‘ اسے یوں محسوس ہوا، بٹوارے سے پہلے بٹوارے کے بعد کا تشدّد ابھی تک کارفرما ہے۔ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔ کسی سے پوچھو، سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہا کرتا تھا اور اس کی بھابی بنتو تو وہ جھٹ سے کہتا ’’مر گئے‘‘ اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بے خبر بالکل عاری آگے چلا جاتا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر، انسانی مال، انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ کرنے لگے۔ مویشی خریدنے والے کسی بھینس یا گائے کا جبڑا ہٹا کر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔

اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کی شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔ تشدّد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رو مال ڈال لیتے اور یوں ’’گپتی‘‘ کر لیتے۔ گویا رو مال کے نیچے انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہو جاتا تھا۔ اب ’’گپتی‘‘ کا رو مال بھی ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہو رہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے تھے۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا کاروبار پُرانے زمانے کی داستان معلوم ہو رہا تھا، جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فروخت کا قصّہ بیان کیا جاتا ہے۔ از بیک اَن گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا اُن کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو اُنگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑ جاتا ہے اور اس کے اردگرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سُرخیاں ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے دوڑتی ہیں۔ ازبیک آگے گزر جاتا ہے اور ناقابلِ قبول عورت ایک اعترافِ شکست، ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازار بند تھامے اور دوسرے سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سِسکیاں لیتی ہے۔

سندر لال امرتسر (سرحد) جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اسے لاجو کے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبر مل جانے سے سندر لال گھبرا گیا۔ اس کا ایک قدم فوراً دروازے کی طرف بڑھا، لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اور پھر روئے، لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا۔ اُس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے چوکی کلاں کی طرف چل دیا، کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی تھی۔

اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبے سے کانپ رہی تھی۔ وہی سندر لال کو جانتی تھی، اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک غیر مرد کے ساتھ زندگی کے دن بِتا کر آئی تھی، نہ جانے کیا کرے گا؟ سندر لال نے لاجو کی طرف دیکھا۔ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بکّل مارے ہوئے تھی، عادتاً محض عادتاً دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اور بالآخر اپنے صیّاد کے دام سے بھاگ جانے کی آسانی تھی اور وہ سندر لال کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ ہندو اور مسلمان کی تہذیب کے بنیادی فرق دائیں بُکل اور بائیں بُکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی تھی۔ اب وہ سندر لال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی، ایک اُمید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ۔

سندر لال کو دھچکا سا لگا۔ اس نے دیکھا لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھا اور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی۔ نہیں۔ وہ موٹی ہو گئی تھی۔ سندر لال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا، وہ سب غلط تھا۔ وہ سمجھتا تھا غم میں گھُل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہو چکی ہو گی اور آواز اس کے منھ سے نکالے نہ نکلتی ہو گی۔ اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے، اسے بڑا صدمہ ہوا، لیکن وہ چُپ رہا کیونکہ اس نے چُپ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اگرچہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوش تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا۔ لیکن ایک چیز وہ نہ سمجھ سکا کہ لاجونتی کا سنولایا ہوا چہرہ زردی لیے ہوئے تھا اور غم، محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ غم کی کثرت سے ’’موٹی‘‘ ہو گئی تھی اور ’’صحت مند‘‘ نظر آتی تھی، لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے۔‘‘

مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر کچھ عجیب سا ہوا۔ لیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کسی نے کہا۔ ’’ہم نہیں لیتے مسلمران (مسلمان) کی جھوٹی عورت۔‘‘

اور یہ آواز رسالو، نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گُم ہو کر رہ گئی۔ ان سب آوازوں سے الگ کالکا پرشاد کی پھٹتی اور چلّاتی آواز آ رہی تھی۔ وہ کھانس بھی لیتا اور بولتا بھی جاتا۔ وہ اس نئی حقیقت، اس نئی شدھی کا شدّت سے قائل ہو چکا تھا۔ یُوں معلوم ہوتا تھا آج اس نے کوئی نیا وید، کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصّے دار بنانا چاہتا ہے۔ ان سب لوگوں اور ان کی آوازوں میں گھِرے ہوئے لاجو اور سندر لال اپنے ڈیرے کو جا رہے تھے اور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں دیپ مالا کر رہے ہیں، اور دوسری طرف انھیں اتنی لمبی اذیّت دیے جانے پر تاسف بھی۔

لاجونتی کے چلے آنے پر بھی سندر لال بابو نے اسی شدّ و مد سے ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھا دیا تھا اور وہ لوگ جنھیں سندر لال کی باتوں میں خالی خولی جذباتیت نظر آتی تھی، قائل ہونا شروع ہوئے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس۔ مکان  کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملّا شکور کی بہت سی عورتیں سندر لال بابو سوشل ور کر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔

لیکن سندر لال کو کسی کی اعتنا یا بے اعتنائی کی پروا نہ تھی۔ اس کے دل کی رانی آ چکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔ سندر لال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل کے مندر میں استھاپت کر لیا تھا اور خود دروازے پر بیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔ لاجو جو پہلے خوف سے سہمی رہتی تھی، سندر لال کے غیر متوقع نرم سلوک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ کھُلنے لگی۔

سندر لال، لاجونتی کو اب لاجو کے نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ اسے کہتا تھا ’’دیوی!‘‘اور لاجو ایک اَن جانی خوشی سے پاگل ہوئی جاتی تھی۔ وہ کتنا چاہتی تھی کہ سندر لال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سب گناہ دھُل جائیں۔ لیکن سندر لال، لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کھُل جانے میں بھی ایک طرح سے سِمٹی رہتی۔ البتہ جب سندر لال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔ جب سندر لال اس کی وجہ پوچھتا تو وہ ’’نہیں‘‘ ’’یو نہیں‘‘ ’’اونھوں‘‘ کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکا ہارا سندر لال پھر اونگھ جاتا۔ البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندر لال نے لاجونتی کے ’’سیاہ دنوں‘‘ کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا۔

’’کون تھا وہ؟‘‘

لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا، ’’جُمّاں‘‘ پھر وہ اپنی نگاہیں سندر لال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندر لال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلارہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کر لیں اور سندر لال نے پُوچھا۔

’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’مارتا تو نہیں تھا؟‘‘

لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا، ’’نہیں‘‘۔  اور پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا، پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی۔ اب تو نہ مارو گے؟‘‘

سندر لال کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا، ’’نہیں دیوی! اب نہیں۔  نہیں ماروں گا‘‘

’’دیوی!‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔

اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی، لیکن سندر لال نے کہا، ’’جانے دو بیتی باتیں۔ اس میں تمھارا کیا قصور ہے؟ اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔ وہ تمھاری ہانی نہیں کرتا، اپنی کرتا ہے۔‘‘

اور لاجونتی کی من کی من ہی میں رہی۔ وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’’دیوی‘‘ کا بدن ہو چکا تھا۔ لاجونتی کا نہ تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش۔ لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔ وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی، جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پا کر ایکا ایکی اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔

جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لیے نہیں کہ سندر لال بابو نے پھر وہی پرانی بدسلوکی شروع کر دی تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ لاجو سے بہت ہی اچھا سلوک کرنے لگا تھا۔ ایسا سلوک جس کی لاجو متوقع نہ تھی۔ وہ سندر لال کی، وہ پرانی لاجو ہو جانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑ پڑتی اور مولی سے مان جاتی۔ لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔ سندر لال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے، جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتی ہے، پر لاجو نہیں ہو سکتی۔ وہ بس گئی، پر اُجڑ گئی۔ سندر لال کے پاس اُس کے آنسو دیکھنے کے لیے آنکھیں تھیں اور نہ آہیں سننے کے لیے کان! پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملّا شکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اُسی آواز میں گاتا رہا۔

’’ہتھ لائیاں کملان نی، لاجونتی دے بُوٹے

***

 

 

 

 

 

پت جھڑ کی آواز

 

قرۃ العین حیدر

 

 

صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پر جھگڑ رہی تھی۔ اوپر باورچی خانے میں دال چاول ابالنے کے لیے چڑھا دیئے تھے۔ ملازم سودا لینے کے لیے بازار  جا چکا تھا۔ غسل خانے میں وقار صاحب چینی کی چمچی کے اوپر لگے ہوئے مدھم آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہوئے گنگنا رہے تھے اور شیو کرتے جاتے تھے۔ میں سبزی والے سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے میں مصروف تھی کہ رات کے کھانے کے لیے کیا کیا تیار کیا جائے۔ اتنے میں سامنے ایک کار آن کر رکی۔ ایک لڑکی نے کھڑکی سے جھانکا اور پھر دروازہ کھول کر باہر اتر آئی۔ میں پیسے گن رہی تھی۔ اس لیے میں نے اُسے نہ دیکھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی۔ اب میں نے سر اٹھا کر اس پر نظر ڈالی۔ ’’ارے تم!‘‘ اس نے ہکا بکا ہو کر کہا اور وہیں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے وہ مدتوں سے مجھے مردہ تصور کر چکی ہے، اور اب میرا بھوت اس کے سامنے کھڑا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک لحظے کے لیے جو دہشت میں نے دیکھی اس کی یاد نے مجھے باولا کر دیا ہے۔ میں تو سوچ سوچ کے دیوانی ہو جاؤں گی۔ یہ لڑکی (اس کا نام ذہن میں محفوظ نہیں، اور اس وقت میں نے جھینپ کے مارے اس سے پوچھا بھی نہیں، ورنہ وہ کتنا برا مانتی) میرے ساتھ دلی کے کوئین میری میں پڑھتی تھی۔

یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت کوئی سترہ سال کی رہی ہوں گی۔ مگر میری صحت اتنی اچھی تھی کہ اپنی عمر سے کہیں بڑی معلوم ہوتی تھی، اور میری خوب صورتی کی دھوم مچنی شروع ہو چکی تھی۔ دلّی میں قاعدہ تھا کہ لڑکے والیاں اسکول اسکول گھوم کے لڑکیاں پسند کرتی پھرتی تھیں، اور جو لڑکی پسند آتی تھی اس کے گھر ’’رقعہ‘‘ بھجوا دیا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی ماں، خالہ وغیرہ نے مجھے پسند کر لیا ہے (اسکول ڈے کے جلسے کے روز دیکھ کر) اور اب وہ مجھے بہو بنانے پر تلی بیٹھی ہیں۔ یہ لوگ نور جہاں روڈ پر رہتے تھے اور لڑکا حال ہی میں ریزرو بنک آف انڈیا میں دو ڈیڑھ سو روپے ماہوار کا نوکر ہوا تھا۔ چنانچہ ’’رقعہ‘‘ میرے گھر بھجوایا گیا۔ مگر میری اماں جان میرے لیے بڑے اونچے خواب دیکھ رہی تھیں۔ میرے والدین دلّی سے باہر میرٹھ میں رہتے تھے اور ابھی میرے بیاہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا لہٰذا وہ پیغام فی الفور نا منظور کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس لڑکی نے کچھ عرصے میرے ساتھ کالج میں بھی پڑھا۔ پھر اس کی شادی ہو گئی اور وہ کالج چھوڑ کر چلی گئی۔ آج اتنے عرصے بعد لاہور کی مال روڈ کے پچھواڑے اس گلی میں میری اس سے مڈبھیڑ ہوئی۔ میں نے اس سے کہا۔ اوپر آؤ، چائے وائے پیو۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔

لیکن اس نے کہا میں جلدی میں کسی سسرالی رشتے دار کا مکان تلاش کرتی ہوئی اس گلی میں آنکلی تھی۔ انشاء اللہ پھر کبھی ضرور آؤں گی۔ اس کے بعد وہیں کھڑے کھڑے اس نے جلدی جلدی نام بنام ساری پرانی دوستوں کے قصے سنائے۔ کون کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔ سلیمہ بریگیڈیر فلاں کی بیوی ہے۔ چار بچے ہیں۔ فرخندہ کا میاں فارن سروس میں ہے۔ اس کی بڑی لڑکی لندن میں پڑھ رہی ہے۔ ریحانہ فلاں کالج میں پرنسپل ہے۔ سعدیہ امریکہ سے ڈھیروں ڈگریاں لے آئی ہے اور کراچی میں کسی اونچی ملازمت پر براجمان ہے۔ کالج کی ہندو ساتھیوں کے حالات سے بھی وہ باخبر تھی۔ پربھا کا میاں انڈین نیوی میں کموڈور ہے۔ وہ بمبئی میں رہتی ہے۔ سرلا آل انڈیا ریڈیو میں اسٹیشن ڈائرکٹر ہے اور جنوبی ہند میں کہیں تعینات ہے۔ لوتیکا بڑی مشہور آرٹسٹ بن چکی ہے اور نئی دلی میں اس کا اسٹوڈیو ہے وغیرہ وغیرہ۔

وہ یہ سب باتیں کر رہی تھی مگر اس کی آنکھوں کی اس دہشت کو میں نہ بھول سکی۔ اس نے کہا، ’’میں سعدیہ، ریحانہ وغیرہ جب بھی کراچی میں اکٹھے ہوتے ہیں تمہیں برابر یاد کرتے ہیں۔‘‘

’’واقعی؟‘‘ میں نے کھوکھلی ہنسی ہنس کر پوچھا۔

معلوم تھا مجھے کن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہو گا۔ پچھلی پائیاں، ارے کیا یہ لوگ میری سہیلیاں تھیں؟ عورتیں در اصل ایک دوسرے کے حق میں چڑیلیں ہوتی ہیں۔ کٹنیاں، حرافائیں، اس نے مجھ سے یہ بھی نہیں دریافت کیا کہ میں یہاں نیم تاریک سنسان گلی میں اس کھنڈر ایسے مکان کے شکستہ زینے پر کیا کر رہی ہوں۔ اسے معلوم تھا۔ عورتوں کی انٹلی جنس سروس اتنی زبردست ہوتی ہے کہ انٹر پول بھی اس کے آگے پانی بھرے، اور پھر میرا قصہ تو الم نشرح ہے۔ میری حیثیت کوئی قابل ذکر نہیں گمنام ہستی ہوں۔ اس لیے کسی کو میری پروا نہیں۔ خود مجھے بھی اپنی پروا نہیں۔

میں تنویر فاطمہ ہوں۔ میرے ابا میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ معمولی حیثیت کے زمین دار تھے۔ ہمارے یہاں بڑا سخت پردہ کیا جاتا تھا۔ خود میرا میرے چچا زاد، پھوپھی زاد بھائیوں سے پردہ تھا۔ میں بے انتہا لاڈوں کی پلی چہیتی لڑکی تھی۔ جب میں نے اسکول میں بہت سے وظیفے حاصل کر لیے تو میٹرک کرنے کے لیے خاص طور پر میرا داخلہ کوئین میری اسکول میں کرایا گیا۔ انٹر کے لیے میں علی گڑھ بھیج دی گئی۔ علی گڑھ گرلز کالج کا زمانہ میری زندگی کا بہترین دور تھا کیسا خواب آگیں دور تھا۔ میں جذبات پرست نہیں لیکن اب بھی جب کالج کا صحن، روشیں، گھاس کے اونچے پودے، درختوں پر جھکی بارش، نمائش کے میدان میں گھومتے ہوئے کالے برقعوں کے پرے، ہوسٹل کے پتلے پتلے برآمدوں چھوٹے چھوٹے کمروں کی وہ شدید گھریلو فضائیں یاد آتی ہیں تو جی ڈوب سا جاتا ہے۔ ایم۔ ایس۔ سی کے لیے میں پھر دلی آ گئی۔

یہاں کالج میں میرے ساتھ یہی سب لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ ریحانہ، سعدیہ، پربھا، فلانی ڈھماکی، مجھے لڑکیاں کبھی پسند نہ آئیں۔ مجھے دنیا میں زیادہ تر لوگ پسند نہیں آئے۔ بیش تر لوگ محض تضیع اوقات ہیں۔ میں بہت مغرور تھی۔

حسن ایسی چیز ہے کہ انسان کا دماغ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر میں تو بقول شخصے لاکھوں میں ایک تھی۔ شیشے کا ایسا جھلکتا ہوا رنگ سرخی مائل سنہرے بال۔ بے حد شان دار ڈیل ڈول بنارسی ساری پہن لوں تو بالکل کہیں کی مہارانی معلوم ہوتی تھی۔ یہ جنگ کا زمانہ تھا، یا شاید جنگ اسی سال ختم ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ بہرحال دلی پر بہار آئی ہوئی تھی۔ کروڑ پتی کاروباریوں اور حکومت ہند کے اعلیٰ افسروں کی لڑکیاں ہندو، سکھ، مسلمان۔ لمبی لمبی موٹروں میں اڑی اڑی پھرتیں نت نئی پارٹیاں،  جلسے، ہنگامے، آج اندر پرستھ کالج میں ڈراما ہے، کل میرانڈا ہاؤس میں، پرسوں لیڈی ارون کالج میں کونسرٹ ہے۔ لیڈی ہارڈنگ اور سینٹ اسٹیفن کالج۔ چیمسفرڈ کلب، روشن آرا، امپریل جم خانہ، غرض کہ ہر طرف الف لیلہ کے باب بکھرے پڑے تھے۔ ہر جگہ نوجوان فوجی افسروں اور سول سروس کے بن بیا ہے عہدے داروں کے پرے ڈولتے نظر آتے۔ ایک ہنگامہ تھا۔ پربھا اور سرلا کے ہم راہ ایک روز میں دلجیت کور کے یہاں جو ایک کروڑ پتی کنٹریکٹر کی لڑکی تھی کنگ ایڈورڈ روڈ کی ایک شان دار کوٹھی میں گارڈن پارٹی کے لیے مدعو تھی۔ یہاں میری ملاقات میجر خوش وقت سنگھ سے ہوئی۔ یہ جھانسی کی طرف کا چوہان راجپوت تھا۔ لمبا تڑنگا کالا بھجنگ، لانبی لانبی اوپر کو مڑی ہوئی نوکیلی مونچھیں، بے حد چمکیلے اور خوب صورت دانت، ہنستا تو بہت اچھا لگتا۔ غالب کا پرستار تھا، بات بات پر شعر پڑھتا، قہقہے لگاتا اور جھک جھک کر بے حد اخلاق سے سب سے باتیں کرتا۔ اس نے ہم کو دو سرے روز سنیما چلنے کی دعوت دی۔

سرلا، پربھا، وغیرہ ایک بد دماغ لڑکیاں تھیں اور خاصی قدامت پسند، وہ لڑکوں کے ساتھ باہر گھومنے بالکل نہیں جاتی تھیں۔ خوش وقت سنگھ، دلجیت کے بھائی کا دوست تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیا جواب دوں کہ اتنے میں سرلانے چپکے سے کہا۔ ’’خوش وقت سنگھ کے ساتھ ہرگز سنیما مت جانا۔ سخت لوفر لڑکا ہے‘‘

میں چپ ہو گئی۔ اس زمانے میں نئی دلی کی دو ایک آوارہ لڑکیوں کے قصے بہت مشہور ہو رہے تھے اور میں سوچ سوچ کر ڈرا کرتی تھی۔ شریف گھرانوں کی لڑکیاں اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کس طرح لوگوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں۔ ہوسٹل میں ہم اکثر اس قسم کی لڑکیوں کے لیے قیاس آرائیاں کیا کرتے یہ بڑی عجیب اور پر اسرار ہستیاں معلوم ہوتیں۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ بھی ہماری طرح ہی کی لڑکیاں تھیں۔ ساڑیوں اور شلواروں میں ملبوس۔ طرح دار، خوب صورت پڑھی لکھی!

’’لوگ بدنام کر دیتے ہیں جی۔‘‘ سعدیہ دماغ پر بہت زور ڈال کر کہتی۔ ’’اب ایسا بھی کیا ہے۔‘‘

’’در اصل ہماری سوسائٹی اس قابل ہی نہیں ہوئی کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ہضم کر سکے۔‘‘ سرلا کہتی۔

’’ہوتا یہ ہے کہ لڑکیاں احساس توازن کھو بیٹھتی ہیں۔‘‘ ریحانہ رائے دیتی۔ بہرحال کسی طرح یقین نہ آتا کہ یہ ہماری جیسی، ہمارے ساتھ کی چند لڑکیاں ایسی ایسی خوف ناک حرکتیں کس طرح کرتی ہیں۔

دوسری شام میں لیبارٹری کی طرف جا رہی تھی کہ نکلسن میموریل کے قریب ایک قرمزی رنگ کی لمبی سی کار آہستہ سے رک گئی۔ اس میں سے خوش وقت سنگھ نے جھانکا اور اندھیرے میں اس کے خوب صورت دانت جھلملائے۔ ’’اجی حضرت! یوں کہیے کہ آپ اپنا اپوائیٹمنٹ بھول گئیں!‘‘

’’جی!‘‘ میں نے ہڑ بڑا کر کہا۔

’’حضور والا___ چلئے میرے ساتھ فوراً۔ یہ شام کا وقت لیبارٹری میں گھس کر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ اتنا پڑھ کر کیا کیجئے گا۔؟‘‘

میں نے بالکل غیر ارادی طور پر چاروں طرف دیکھا اور کار میں دبک کر بیٹھ گئی۔ ہم نے کناٹ پلیس جا کر ایک انگریزی فلم دیکھی۔ اس کے اگلے روز بھی۔ اس کے بعد ایک ہفتے تک میں نے خوب خوب سیریں اس کے ساتھ کیں۔ وہ میڈنز میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس ہفتے کے آخر تک میں میجر خوش وقت سنگھ کی مسٹریس بن چکی تھی۔ میں لٹریری نہیں ہوں، میں نے چینی، جاپانی، روسی، انگریزی یا اردو شاعری کا مطالعہ نہیں کیا۔ ادب پڑھنا میرے نزدیک وقت ضائع کرنا ہے۔ پندرہ برس کی عمر سے سائنس میرا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ مابعد الطبیعاتی تصورات کیا ہوتے ہیں۔ Mystic کشش کے کیا معنی ہیں۔ شاعری اور فلسفے کے لیے نہ میرے پاس فرصت جب تھی نہ اب ہے۔ میں بڑے بڑے مبہم، غیر واضح اور پر اسرار الفاظ بھی استعمال نہیں کر سکتی۔ بہرحال پندرہ روز کے اندر اندر یہ واقعہ بھی کم و بیش کالج میں سب کو معلوم ہو چکا تھا۔ لیکن مجھ میں اپنے اندر ہمیشہ سے بڑی عجیب سی خود اعتمادی تھی میں نے اب پروا نہیں کی۔ پہلے بھی میں لوگوں سے بول چال بہت کم رکھتی تھی۔ سرلا وغیرہ کا گروہ اب مجھے ایسی نظروں سے دیکھتا گویا میں مریخ سے اتر کر آئی ہوں یا میرے سر پر سینگ ہیں۔ ڈائننگ ہال میں میرے باہر جانے کے بعد گھنٹوں میرے قصے دہرائے جاتے۔ اپنی انٹلی جنس سروس کے ذریعے میرے اور خوش وقت سنگھ کے بارے میں ان کو پل پل کی خبر رہتی۔ ہم لوگ شام کو کہاں گئے۔ رات نئی دلی کے کون سے بال روم میں ناچے (خوش وقت معرکے کا ڈانسر تھا۔ اس نے مجھے ناچنا بھی سکھا دیا تھا) خوش وقت نے مجھے کیا کیا تحائف کون کون سی دکانوں سے خرید کر دیئے۔ خوش وقت سنگھ مجھے مارتا بہت تھا اور مجھ سے اتنی محبت کرتا تھا جو آج تک دنیا میں کسی مرد نے کسی عورت سے نہ کی ہو گی۔

کئی مہینے گزر گئے۔ میرے ایم۔ ایس۔ سی پریویس کے امتحان سر پر آ گئے اور میں پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ امتحانات کے بعد اس نے کہا، ’’جان من، دل ربا! چلو کسی خاموش سے پہاڑ پر چلیں۔ سولن، ڈلہوزی، لینس ڈاؤن۔‘‘

میں چند روز کے لیے میرٹھ گئی اور ابا سے یہ کہہ کر (اماں جان کا جب میں تھرڈ ائیر میں تھی تو انتقال ہو گیا تھا) دلی واپس آ گئی کہ فائنل ائیر کے لیے بے حد پڑھائی کرنی ہے، شمالی ہند کے پہاڑی مقامات پر بہت سے شناساؤں کے ملنے کا امکان تھا اس لیے ہم دور جنوب میں اوٹی چلے گئے وہاں مہینہ بھر رہے۔ خوش وقت کی چھٹی ختم ہو گئی تو دلی واپس آ کر تیمار پور کے ایک بنگلے میں ٹک گئے۔ کالج کھلنے سے ایک ہفتہ قبل خوش وقت کی اور میری بڑی زبردست لڑائی ہوئی۔ اس نے مجھے خوب مارا۔ اتنا مارا کہ میرا سارا چہرہ لہو لہان ہو گیا، اور میری بانہوں میں اور پنڈلیوں پر نیل پڑ گئے۔ لڑائی کی وجہ اس کی وہ مردار عیسائی منگیتر تھی۔ جو جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی اور سارے میں میرے خلاف زہر اگلتی پھر رہی تھی۔ اگر اس کا بس چلتا تو مجھے کچا چبا جاتی۔ یہ چار سو بیس لڑکی جنگ کے زمانے میں فوج میں تھی اور خوش وقت کو برما کے محاذ پر ملی تھی۔ خوش وقت نے جانے کس طرح اس سے شادی کا وعدہ کر لیا تھا۔ لیکن مجھ سے ملنے کے بعد اب وہ اس کی انگوٹھی واپس کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ اس رات تیمار پور کے اس سنسان بنگلے میں اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور رو رو کر مجھ سے کہا کہ میں اس سے بیاہ کر لوں، ورنہ وہ مر جائے گا۔

میں نے کہا، ہرگز نہیں۔ قیامت تک نہیں۔ میں اعلیٰ خاندان سید زادی، بھلا اس کالے تمباکو کے پنڈے ہندو جاٹ سے بیاہ کر کے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگاتی۔ میں تو اس حسین و جمیل کسی بہت اونچے مسلمان گھرانے کے چشم و چراغ کے خواب دیکھ رہی تھی جو ایک روز دیر، یا سویر، برات لے کر مجھے بیاہنے آئے گا۔ ہمارا آرسی مصحف ہو گا۔ میں سہرے جلوے سے رخصت ہو کر اس کے گھر جاؤں گی۔ بجلی بسنت نندیں دروازے پر دہلیز روک کر اپنے بھائی سے نیگ کے لیے جھگڑیں گی۔ میراثنیں ڈھولک لیے کھڑی ہوں گی۔ کیا کیا کچھ ہو گا۔ میں نے کیا ہندو مسلم شادیوں کا حشر دیکھا نہیں تھا۔ کیّوں نے ترقی پسند یا جذبہ عشق کے جوش میں آ کر ہندوؤں سے بیاہ رچائے اور سال بھر کے اندر جوتیوں میں دال بٹی۔ بچوں کا جو حشر خراب ہوا وہ الگ۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ میرے انکار پر خوش وقت نے جوتے لات سے مار مار کر میرا بھرکس نکال دیا اور تیسرے دن اس ڈائن کالی بلا کیتھرین دھرم داس کے ساتھ آگرے چلا گیا۔ جہاں اس نے اس بد ذات لڑکی سے سول میرج کر لی۔

جب میں نئی ٹرم کے آغاز پر ہوسٹل پہنچی تو اس حلیے سے کہ میرے سر اور چہرے پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ابا کو میں نے لکھ بھیجا کہ لیبارٹری میں ایک تجربہ کر رہی تھی، ایک خطرناک مادہ بھک سے اڑا اور اس سے میرا منہ تھوڑا سا جل گیا۔ اب بالکل ٹھیک ہوں۔ فکر نہ کیجئے۔ لڑکیوں کو تو سارا قصہ پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اخلاقاً میری خیریت بھی نہ پوچھی۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد مجھے ہوسٹل میں رہنے کی اجازت نہ دی جاتی۔ مگر ہوسٹل کی وارڈن خوش وقت سنگھ کی بہت دوست تھی۔ اس لیے سب خاموش رہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی طرح کا ثبوت بھی نہ تھا۔ کالج کی لڑکیوں کو لوگ یوں بھی خواہ مخواہ بدنام کرنے پر تلے رہتے ہیں۔

مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو۔ صبح کے دس گیارہ بجے ہوں گے۔ ریلوے اسٹیشن سے لڑکیوں کے تانگے آ آ کر پھاٹک میں داخل ہو رہے تھے۔ ہوسٹل کے لان پر برگد کے درخت کے نیچے لڑکیاں اپنا اپنا اسباب اتروا کر رکھوا رہی تھیں۔ بڑی سخت چل پوں مچا رکھی تھی۔ جس وقت میں اپنے تانگے سے اتری وہ میرا ڈھاٹے سے بندھا ہوا سفید چہرہ دیکھ کر ایسی حیرت زدہ ہوئیں جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ میں نے سامان چوکیدار کے سر پر رکھوایا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ دوپہر کو جب میں کھانے کی میز پر آن کر بیٹھی تو ان قطاماؤں نے مجھ سے اس اخلاق سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں جن سے اچھی طرح یہ ظاہر ہو جائے کہ میرے حادثے کی اصل وجہ جانتی ہیں اور مجھے ندامت سے بچانے کے لیے اس کا تذکرہ ہی نہیں کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک نے جو اس چنڈال چوکڑی کی گرو اور ان سب کی استاد تھی، رات کو کھانے کی میز پر فیصلہ صادر کیا کہ میں نفسیات کی اصطلاح میں Nympho Maniac ہوں (مجھے میری جاسوس کے ذریعے یہ اطلاع فوراً اوپر پہنچ گئی، جہاں میں اس وقت اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس ٹیبل لیمپ لگائے پڑھائی میں مصروف تھی) اور اس طرح کی باتیں تو اب عام تھیں کہ ایک مچھلی سارے جل کو گندا کرتی ہے۔ اسی لیے تو لڑکیوں کی بے پردگی آزادی خطرناک اور اعلیٰ تعلیم بدنام ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں اپنی حد تک سوفی صدی ان آراء سے متفق تھی۔ میں خود سوچتی تھی کہ بعض اچھی خاصی بھلی چنگی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں آوارہ کیوں ہو جاتی ہیں۔ ایک تھیوری تھی کہ وہیں لڑکیاں آوارہ ہوتی ہیں جن کا ’’آئی۔ کیؤ‘‘ بہت کم ہوتا ہے۔ ذہین انسان کبھی اپنی تباہی کی طرف جان بوجھ کر قدم نہ اٹھائے گا۔ مگر میں نے تو اچھی خاصی سمجھ دار تیز و طرار لڑکیوں کو لوفری کرتے دیکھا تھا۔

دوسری تھیوری تھی کہ سیرو تفریح، روپے پیسے، عیش و آسایش کی زندگی، قیمتی تحائف کا لالچ، رومان کی تلاش، ایڈونچر کی خواہش، یا محض اکتاہٹ، یا پردے کی قید و بند کے بعد آزادی کی فضا میں داخل ہو کر پرانی اقدار سے بغاوت۔ اس صورت حال کی چند وجوہ ہیں۔ یہ سب باتیں ضرور ہوں گی ورنہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ میں فرسٹ ٹرمنل امتحان سے فارغ ہوئی تھی کہ خوش وقت پھر آن پہنچا۔ اس نے مجھے لیبارٹیری فون کیا کہ میں نرولا میں چھ بجے اس سے ملوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔

وہ کیتھرین کو اپنے ماں باپ کے یہاں چھوڑ کر سرکاری کام سے دلی آیا تھا اس مرتبہ ہم ہوائی جہاز سے ایک ہفتے کے لیے بمبئی چلے گئے۔ اس کے بعد اس سے ہر دوسرے تیسرے مہینے ملنا ہوتا رہا۔ ایک سال نکل گیا اب کے سے جب وہ دلی آیا تو اس نے اپنے ایک جگری دوست کو مجھے لینے کے لیے موٹر لے کر بھیجا۔ کیونکہ وہ لکھنو سے لاہور جاتے ہوئے پالم پر چند گھنٹے کے لیے ٹھہرا تھا۔ یہ دوست دلی کے ایک بڑے مسلمان تاجر کا لڑکا تھا۔ لڑکا تو خیر نہیں کہنا چاہئے اس وقت بھی وہ چالیس کے پیٹے میں رہا ہو گا۔ بیوی بچوں والا۔ تاڑ کا سا قد بے حد غلط انگریزی بولتا تھا۔ کالا۔ بد قطع۔ بالکل چڑی مار کی شکل، ہوش صفت۔ خوش وقت اب کی مرتبہ دلی سے گیا تو پھر کبھی واپس نہ آیا کیونکہ اب میں فاروق کی مسٹریس بن چکی تھی۔ فاروق کے ساتھ اب میں اس کی ’’منگیتر‘‘ کی حیثیت سے باقاعدہ دلی کی اونچی سوسائٹی میں شامل ہو گئی۔

مسلمانوں میں تو چار شادیاں جائز ہیں لہٰذا یہ کوئی بہت بری بات نہ تھی۔ یعنی مذہب کے نقطہ نگاہ سے کہ وہ اپنی ان پڑھ، ادھیڑ عمر کی پردے کی بو بو کی موجودگی میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا جو چار آدمیوں میں ڈھنگ سے اٹھ بیٹھ سکے اور پھر دولت مند طبقے میں سب کچھ جائز ہے۔ یہ تو ہماری مڈل کلاس کے قوانین ہیں کہ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو___ طویل چھٹیوں کے زمانے میں فاروق نے بھی مجھے خوب سیریں کرائیں۔ کلکتہ، لکھنو، اجمیر، کون جگہ تھی جو میں نے اس کے ساتھ نہ دیکھی۔ اس نے مجھے ہیرے جواہرات کے گہنوں سے لاد دیا۔ ابا کو لکھ بھیجتی تھی کہ یونی ورسٹی کے طالب علموں کے ہم راہ ٹور پر جا رہی ہوں یا فلاں جگہ ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے بلایا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنا تعلیمی ریکارڈ اونچا رکھنے کی دھن تھی۔ فائنل امتحان میں میں نے بہت ہی خراب پرچے کیے اور امتحان ختم ہوتے ہی گھر چلی گئی۔

اسی زمانے میں دلی میں گڑ بڑ شروع ہوئی اور فسادات کا بھونچال آ گیا۔ فاروق نے مجھے میرٹھ خط لکھا کہ تم فوراً پاکستان چلی جاؤ۔ میں تم سے وہیں ملوں گا۔ میرا پہلے ہی سے یہ ارادہ تھا ابا بھی بے حد پریشان تھے اور یہی چاہتے تھے کہ ان حالات میں اب میں انڈیا میں نہ رہوں جہاں شریف مسلمان لڑکیوں کی عزتیں مستقل خطرے میں ہیں۔ پاکستان اپنا اسلامی ملک تھا۔ اس کی بات ہی کیا تھی۔ ابا جائیداد وغیرہ کی وجہ سے فی الحال ترک وطن نہ کر سکتے تھے۔ میرے بھائی دونوں بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور اماں جان کے انتقال کے بعد ابا نے ان کو میری خالہ کے پاس حیدر آباد دکن بھیج دیا تھا۔ میرا رزلٹ نکل چکا تھا اور میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئی تھی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ جب بلووں کا زور ذرا کم ہوا تو میں ہوائی جہاز سے لاہور آ گئی۔ فاروق میرے ساتھ آیا۔ اس نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ اپنے کاروبار کی ایک شاخ پاکستان میں قائم کر کے لاہور اس کا ہیڈ آفس رکھے گا۔ مجھے اس کا مالک بنائے گا اور وہیں مجھ سے شادی کر لے گا۔ وہ دلی سے ہجرت نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس کے باپ بڑے احراری خیالات کے آدمی تھے۔ پلان یہ تھا کہ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے دلی سے لاہور آتا رہے گا۔ لاہور میں افراتفری تھی حالانکہ ایک سے ایک اعلیٰ کوٹھی الاٹ ہو سکتی تھی، مگر فاروق یہاں کسی کو جانتا نہ تھا۔ بہرحال سنت نگر میں ایک چھوٹا سا مکان میرے نام الاٹ کرا کے اس نے مجھے وہاں چھوڑ دیا اور میری دوسراتھ کے لیے اپنے ایک دور کے رشتے دار کنبے کو میرے پاس ٹھہرا دیا جو مہاجر ہوکے لاہور آئے تھے اور مارے مارے پھر رہے تھے۔

میں زندگی کی اس یک بیک تبدیلی سے اتنی ہکا بکا تھی کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا سے کیا ہو گیا۔ کہاں غیر منقسم ہندوستان کی وہ بھرپور، دل چسپ رنگا رنگ دنیا کہاں ۴۸ء کے لاہور کا وہ تنگ و تاریک مکان۔ غریب الوطنی۔ اللہ اکبر۔۔ میں نے کیسے کیسے دل ہلا دینے والے زمانے دیکھیں ہیں۔ میں اتنی خالی الذہن ہو چکی تھی کہ میں نے تلاشِ ملازمت کی بھی کوئی کوشش نہ کی۔ روپے کی طرف سے فکر نہ تھی۔ کیونکہ فاروق میرے نام دس ہزار روپیہ جمع کرا گیا تھا (صرف دس ہزار وہ خود کروڑوں کا آدمی تھا، مگر اس وقت میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ اب بھی نہیں آتا) دن گزرتے گئے۔ میں صبح سے شام تک پلنگ پر پڑی فاروق کے رشتے کی خالہ یا نانی جو کچھ بھی وہ بڑی بی تھیں۔ ان سے ان کی ہجرت کے مصائب کی داستان اور ان کی سابقہ امارات کے قصے سنا کرتی اور پان پہ پان کھاتی، یا ان کی میٹرک میں پڑھنے والی بیٹی کو الجبرا، جیومیٹری سکھلایا کرتی۔ ان کا بیٹا فاروق کی برائے نام بزنس کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ فاروق سال میں پانچ چھے چکر لگا لیتا۔ اب لاہور کی زندگی رفتہ رفتہ نارمل ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی آمد سے میرے دن کچھ رونق کے کٹتے۔ اس کی خالہ بڑی اہتمام سے دلی کے کھانے اس کے لیے تیار کرتیں۔ میں مال کے ہیر ڈریسر کے یہاں جا کر اپنے بال سیٹ کرواتی۔ شام کو ہم دونوں جم خانہ کلب چلے جاتے اور وہاں ایک کونے کی میز پر بیئر کا گلاس سامنے رکھے فاروق مجھے دلی کے واقعات سناتا۔ وہ بے تکان بولے چلا جاتا۔ یا پھر دفعتاً چپ ہو کر کمرے میں آنے والی اجنبی صورتوں کو دیکھتا رہتا۔ اس نے شادی کا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے بھی اس سے نہیں کہا۔ میں اب اکتا چکی تھی کسی چیز سے کوئی فرق نہ پڑتا، جب وہ دلی واپس چلا جاتا تو میں ہر پندرہویں دن اپنی خیریت کا خط اور اس کے کاروبار کا حال لکھ بھیجتی اور لکھ دیتی کہ اب کی دفعہ آئے تو کناٹ پلیس یا چاندنی چوک کی فلاں دکان سے فلاں فلاں قسم کی ساڑیاں لیتا آئے کیونکہ پاکستان میں اچھی ساڑیاں ناپید ہیں۔

ایک روز میرٹھ سے چچا میاں کا خط آیا کہ ابا کا انتقال ہو گیا۔ جب احمدِ مرسل نہ رہے کون رہے گا۔ میں جذبات سے واقف نہیں ہوں مگر باپ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ ان کی موت کا مجھے سخت صدمہ ہوا۔ فاروق نے مجھے بڑے پیار کے دلاسے بھرے خط لکھے تو ذرا ڈھارس بندھی۔ اس نے لکھا، نماز پڑھا کرو،۔ بہت برا وقت ہے۔ دنیا پر کالی آندھی چل رہی ہے۔ سورج ڈیڑھ بلم پر آیا چاہتا ہے۔ پل کا بھروسا نہیں۔ سارے کاروباریوں کی طرح وہ بھی بڑا سخت مذہبی اور توہم پرست آدمی تھا۔ پابندی سے اجمیر شریف جاتا___ نجومیوں، رمالوں، پنڈتوں سیانوں، پیروں، فقیروں، اچھے اور برے شگونوں، خوابوں کی تعبیر، غرض کہ ہر چیز کا قائل تھا۔ ایک مہینہ نماز پڑھی۔ مگر جب میں سجدے میں جاتی تو دل چاہتا خوب زور زور سے ہنسوں۔ ملک میں سائنس کی خواتین لیکچراروں کی بڑی زبردست مانگ تھی۔ جب مجھے ایک مقامی کالج والوں نے بے حد مجبور کیا تو میں نے پڑھانا شروع کر دیا۔ حالانکہ ٹیچری کرنے سے مجھے سخت نفرت ہے۔ کچھ عرصے بعد مجھے پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کے گرلز کالج میں بلا لیا گیا۔ کئی سال تک میں نے وہاں کام کیا۔ مجھ سے میری طالب علم لڑکیاں اکثر پوچھتیں، ’’ہائے اللہ مس تنویر۔ آپ اتنی پیاری سی ہیں۔ آپ اپنے کروڑ پتی منگیتر سے شادی کیوں نہیں کرتیں؟‘‘

اس سوال کا خود میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ یہ نیا ملک تھا۔ نئے لوگ، نیا معاشرہ۔ یہاں کسی کو میرے ماضی کا علم نہ تھا۔ کوئی بھی بھلا مانس مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو سکتا تھا( لیکن بھلے مانس، خوش شکل، سیدھے سادے شریف زادے مجھے پسند ہی نہیں آتے تھے،  میں کیا کرتی؟) دلّی کے قصے دلّی میں رہ گئے۔ اور پھر میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ ایک سے ایک حرّافہ لڑکیاں اب ایسی پارسا بنی ہوئی ہیں کہ دیکھا ہی کیجیے۔ خود ایڈتھ ہری رام اور رانی خان کی مثال میرے سامنے موجود ہے۔ اب فاروق بھی کبھی کبھی آتا۔ ہم لوگ اس طرح ملتے گویا بیسیوں برس کے پرانے شادی شدہ میاں بیوی ہیں جن کے پاس سارے نئے موضوع ختم ہو چکے ہیں۔ اب سکون اور آرام اور ٹھہراؤ کا وقت ہے فاروق کی بیٹی کی حال ہی میں دلّی میں شادی ہوئی ہے۔ اس کا لڑکا اوکسفوڈ  جا چکا ہے۔ بیوی کو مستقل دمہ رہتا ہے فاروق نے اپنے کاروبار کی شاخیں باہر کے کئی ملکوں میں پھیلا دی ہیں۔ نینی تال میں نیا بنگلہ بنوا رہا ہے۔ فاروق اپنے خاندان کے قصے، کاروبار کے معاملات مجھے تفصیل سے سنا یا کرتا اور میں اس کے لیے پان بناتی رہتی۔ ایک مرتبہ میں چھٹیوں میں کالج سے لاہور آئی تو فاروق کے ایک پرانے دوست سید وقار حسین خان سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ بھی اپنے پرانے وقت کے اکیلے تھے۔ اور کچھ کم کم رُو نہ تھے۔ دراز قد، موٹے تازے، سیاہ توا ایسا رنگ عمر میں پینتالیس کے لگ بھگ۔ اچھے خاصے دیو زاد معلوم ہوتے۔ ان کو میں نے پہلی مرتبہ نئی دلّی میں دیکھا تھا۔ جہاں ان کا ڈانسنگ اسکول تھا۔ یہ رام پور کے ایک شریف گھرانے کے اکلوتے فرزند تھے۔ بچپن میں گھر سے بھاگ گئے۔ سرکس،  کارنیوال اور تھیٹر کمپنیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں میں گھومے۔ سنگارپور، ہانگ کانگ، شنگھائی، لندن، جانے کہاں کہاں۔ ان گنت قومیتوں اور نسلوں کی عورتوں سے وقتاً فوقتاً شادیاں رچائیں۔ ان کی موجودہ بیوی اڑیسہ کے ایک مارواڑی مہاجن کی لڑکی تھی۔ جس کو یہ کلکتے سے اڑا لائے تھے۔ بارہ پندرہ سال قبل میں نے اسے دلّی میں دیکھا تھا۔ سانولی سلونی سی پستہ قد لڑکی تھی۔ میاں کی بدسلوکیوں سے تنگ آ کر ادھر اُدھر بھاگ جاتی۔

لیکن چند روز کے بعد پھر واپس موجود۔ خان صاحب نے کناٹ سرکس کی ایک بلڈنگ کی تیسری منزل میں انگریزی ناچ سکھانے کا اسکول کھول رکھا تھا جس میں وہ اور ان کی بیوی اور دو اینگلو انڈین لڑکیاں گویا اسٹاف میں شامل تھیں۔ جنگ کے زمانے میں اس اسکول پر ہن برسا۔ اتوار کے روز ان کے یہاں صبح کو  ’’جیم سیشن‘‘ ہوا کرتے۔ ایک مرتبہ میں بھی خوش وقت کے ساتھ وہاں گئی تھی۔ سنا تھا کہ وقار صاحب کی بیوی ایسی مہاستی انسویّا کی اوتار ہیں کہ ان کے میاں حکم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں لڑکی سے بہناپا گانٹھو اور پھر اسے مجھ سے ملانے کے لیے لے کر آؤ۔ اور وہ نیک بخت ایسا ہی کرتی۔ ایک بار وہ ہمارے ہوسٹل میں آئی اور چند لڑکیوں کے سر ہوئی کہ اس کے ساتھ بارہ کھمبا روڈ چل کر چائے پئیں۔ تقسیم کے بعد وقار صاحب بقول شخصے لُٹ لُٹا کر لاہور آن پہنچے تھے اور مال روڈ کے پچھواڑے ایک فلیٹ الاٹ کروا کر اس میں اپنا اسکول کھول لیا تھا۔ شروع شروع میں کاروبار مندا رہا۔ دلوں پر مردنی چھائی تھی۔ ناچنے گانے کا کسے ہوش تھا۔

اس فلیٹ میں تقسیم سے پہلے آریہ سماجی ہندوؤں کا میوزک اسکول تھا۔ لکڑی کے فرش کا ہال، پہلو میں دو چھوٹے کمرے، غسل خانہ اور باورچی خانہ، سامنے لکڑی کی بالکنی اور شکستہ ہلتا ہوا زینہ ’’ہند ماتا سنگیت مہا ودیالہ‘‘ کا بورڈ بالکنی کے جنگلے پر اب تک ٹیڑھا ٹنگا ہوا تھا۔ اُسے اُتار کر ’’وقارز اسکول آف بال روم اینڈ ٹیپ ڈانسنگ‘‘ کا بورڈ لگا دیا گیا۔ امریکی فلمی رسالوں سے تراش کر جین کیلی، فریڈ اسٹر، فرینک سینا ٹرا، ڈورس ڈے وغیرہ کی رنگین تصویریں ہال کی بوسیدہ دیواروں پر آویزاں کر دی گئیں اور اسکول چالو ہو گیا۔ ریکارڈوں کا تھوڑا سا ذخیرہ خان صاحب دلّی سے ساتھ لیتے آئے تھے۔ گرامو فون اور سیکنڈ ہینڈ فرنیچر فاروق سے روپیا قرض لے کر انہوں نے یہاں خرید لیا۔ کالج کے منچلے لونڈوں اور نئی دولت مند سوسائٹی کی تازہ تازہ فیشن ایبل بیگمات کو خدا سلامت رکھے۔ دو تین سال میں ان کا کام خوب چمک گیا۔

فاروق کی دوستی کی وجہ سے میرا اور ان کا کچھ بھاوج اور جیٹھ کا سا رشتہ ہو گیا تھا۔ وہ اکثر میری خیر خبر لینے آ جاتے۔ ان کی بی بی گھنٹوں میرے ساتھ پکانے، ریندھنے،  سینے پرونے کی باتیں کیا کرتیں۔ بے چاری مجھ سے بالکل جٹھانی والا شفقت کا برتاؤ کرتیں۔ یہ میاں بیوی لا ولد تھے۔ بڑا اُداس، بے رنگ، بے تُکا سا غیر دل چسپ جوڑا تھا۔ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں!

کالج میں نئی امریکہ پلٹ نک چڑھی پرنسپل سے میرا جھگڑا ہو گیا۔ اگر وہ سیر تو میں سوا سیر۔ میں خود ابو الحسن تانا شاہ سے کون کم تھی۔ میں نے استعفاء، کالج کمیٹی کے سرپر مارا۔ اور پھر سنت نگر لاہور واپس آ گئی۔

میں پڑھاتے پڑھاتے اُکتا چکی تھی۔ میں کوئی وظیفہ لے کر پی ایچ ڈی کے لیے باہر جا سکتی تھی۔ مگر اس ارادے کو بھی کل پر ٹالتی رہی۔ کل امریکنوں کے دفتر جاؤں گی، جہاں وہ وظیفے بانٹتے ہیں۔ کل برٹش کونسل جاؤں گی۔ کل ایجوکیشن منسٹری میں اسکالر شپ کی درخواست بھیجوں گی۔ مزید وقت گزر گیا۔ کیا کروں گی کہیں باہر جا کر؟ کون سے گڑھ جیت لوں گی؟ کون سے کدّو میں تیر مار لوں گی؟ مجھے جانے کس چیز کا انتظار تھا؟ مجھے معلوم نہیں!

اس دوران میں ایک روز وقار بھائی میرے پاس حواس باختہ آئے اور کہنے لگے، ’’تمہاری بھابی کے دماغ میں پھر سودا اٹھا۔ وہ ویزا بنوا کر انڈیا واپس چلی گئیں۔ اور اب کبھی نہ آئیں گی۔‘‘

’’یہ کیسے؟‘‘ میں نے ذرا بے پروائی سے پوچھا۔ اور ان کے لیے چائے کا پانی اسٹوو پر رکھ دیا۔

’’بات یہ ہوئی کہ میں نے انہیں طلاق دے دی۔ ان کی زبان بہت بڑھ گئی تھی۔ ہر وقت ٹرٹر، ٹرٹر۔‘‘ پھر انہوں نے سامنے کے کھرّے پلنگ پر بیٹھ کر خالص شوہروں والے انداز میں بیوی کے خلاف شکایات کا ایک دفتر کھول دیا اور خود کو بے قصور اور حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ میں بے پروائی سے یہ ساری کتھا سنا کی۔

زندگی کی ہر بات اس قدر بے رنگ، غیر اہم۔ غیر ضروری اور بے معنیٰ تھی! کچھ عرصے بعد وہ میرے یہاں آ کر بڑبڑائے۔ ’’نوکروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کبھی اتنا بھی تم سے نہیں ہوتا کہ آ کر ذرا بھائی کے گھر کی حالت ہی درست کر جاؤ۔ نوکروں کے کان امیٹھو۔ میں اسکول بھی چلاؤں اور گھر بھی۔‘‘ انہوں نے اس انداز سے شکایتاً کہا۔ گویا ان کے گھر کا انتظام کرنا میرا فرض تھا۔

چند روز بعد میں اپنا سامان باندھ کر وقار صاحب کے کمروں میں منتقل ہو گئی اور ناچ سکھانے کے لیے ان کی اسسٹنٹ بھی بن گئی۔ اس کے مہینے بھر بعد پچھلے اتوار کو وقار صاحب نے ایک مولوی بلوا کر اپنے دو چُرکٹوں کی گواہی میں مجھ سے نکاح پڑھوا لیا۔ اب میں دن بھر گھر کے کام میں مصروف رہتی ہوں۔ میرا حُسن و جمال ماضی کی داستانوں میں شامل ہو چکا ہے۔ مجھے شور و شغف پارٹیاں ہنگامے مطلق پسند نہیں۔ لیکن گھر میں ہر وقت ’’چاچا‘‘ اور کلپسو‘‘ اور ’’راک اینڈ رول‘‘ کا شور مچتا رہتا ہے۔ بہر حال یہی میرا گھر ہے!

میرے پاس اس وقت کئی کالجوں میں کیمسٹری پڑھانے کے اَوفر ہیں مگر بھلا خانہ داری کے دھندوں سے کہیں فرصت ملتی ہے۔ نوکروں کا یہ حال ہے کہ آج رکھو، کل غائب۔ میں نے زیادہ کی تمنّا کبھی نہیں کی۔ صرف اتنا ہی چاہا کہ ایک اوسط درجے کی کوٹھی ہو۔ سواری کے لیے موٹر۔ تاکہ آرام سے ہر جگہ آ سکیں۔ ہم چشموں میں بے عزتی نہ ہو۔ چار ملنے والے آئین تو بٹھانے کے لیے قرینے کا ٹھکانہ ہو، اور بس! اس وقت ہماری ڈیڑھ دو ہزار ماہوار آمدنی ہے۔ جو دو میاں بیوی کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان اپنی قسمت پر قانع ہو جائے تو سارے دکھ آپ سے آپ مٹ جاتے ہیں۔ شادی کر لینے کے بعد لڑکی کے سر کے اوپر چھت سی پڑ جاتی ہے۔ آج کل کی لڑکیاں جانے کس رَو میں بہہ رہی ہیں۔ کس طرح یہ لوگ ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔ جتنا سوچوں، عجیب سا لگتا ہے اور حیرت ہوتی ہے۔ میں نے تو کبھی کسی سے فلرٹ تک نہ کیا۔ خوش وقت، فاروق اور اس سیاہ فام دیو زاد کے علاوہ جو میرا شوہر ہے، میں کسی چوتھے آدمی سے واقف نہیں۔ میں شدید بدمعاش تو نہیں تھی، نہ معلوم میں کیا تھی اور کیا ہوں۔ ریحانہ، سعدیہ، پربھا اور یہ لڑکی جس کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر دہشت پیدا ہوئی، شاید وہ مجھ سے زیادہ اچھی طرح مجھ سے واقف ہوں۔ اب خوش وقت کو یاد کرنے کا فائدہ؟ وقت گزر چکا۔ جانے اب تک وہ بریگیڈیر میجر جنرل بن چکا ہو، آسام کی سرحد پر چینیوں کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھا ہو، یا ہندستان کی کسی ہری بھری چھاؤنی کے میس میں بیٹھا مونچھوں پر تاؤ دے رہا ہو، اور مسکراتا ہو، شاید وہ کب کا کشمیر کے محاذ پر مارا  جا چکا ہو، کیا معلوم! اندھیری راتوں میں میں آنکھیں کھولے چپ چاپ پڑی رہتی ہوں۔

سائنس نے مجھے عالمِ موجودات کے بہت سے رازوں سے واقف کر دیا ہے۔ میں نے کیمسٹری پر اَن گنت کتابیں پڑھی ہیں۔ پہروں سوچا ہے، پر مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔ اندھیری راتوں میں مجھے بڑا ڈر لگتا ہے! خوش وقت سنگھ!۔ خوش وقت سنگھ! تمہیں اب مجھ سے مطلب؟

***

 

 

 

 

 

تقسیم

 

گلزار

 

 

چوراسی پچاسی (84۔ 85) کی بات ہے جب کوئی ایک صاحب امرتسر سے اکثر خط لکھا کرتے تھے کہ میں ان کا ’’تقسیم‘‘ میں کھویا ہوا بھائی ہوں۔ اقبال سنگھ نام تھا ان کا اور غالباً خالصہ کالج میں پروفیسر تھے۔ دو چار خط آنے کے بعد میں نے انہیں مفصل جواب بھی دیا کہ میں تقسیم کے دوران دہلی میں تھا اور اپنے والدین کے ساتھ ہی تھا اور میرا کوئی بھائی یا بہن ان فسادات میں گم نہیں ہوا تھا۔ لیکن اقبال سنگھ اس کے باوجود اس بات پر بضد رہے کہ میں ان کا گمشدہ بھائی ہوں اور شاید اپنے بچپن کے واقعات سے ناواقف ہوں یا بھول چکا ہوں۔

ان کا خیال تھا کہ میں بہت چھوٹا تھا جب ایک قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہوئے گم ہو گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ مجھے بچا کر اپنے ساتھ لے آئے تھے ان لوگوں نے بتایا نہ ہو مجھے، یا میں ان کا اتنا احسان مند ہوں کہ اب کوئی صورت حال مان لینے کے لیے تیار نہیں۔ میں نے یہ بھی بتایا تھا انہیں کہ 1947ء میں اتنا کم عمر بھی نہیں تھا۔ قریب گیارہ برس کی عمر تھی میری۔ لیکن اقبال سنگھ کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میں نے جواب دینا بند کر دیا۔ کچھ عرصے بعد خط آنے بھی بند ہو گئے۔

قریب ایک سال گزرا ہو گا کہ ممبئی کی ایک فلم ساز سائی پرانچے کا پیغام ملا۔ کوئی ہربھجن سنگھ ہیں دہلی میں، مجھ سے ممبئی آ کر ملنا چاہتے ہیں۔ وجہ ملاقات سائی نے نہیں بتائی۔ لیکن کچھ پراسرار سوال پوچھے جن کی میں ان سے توقع نہیں کرتا تھا۔ پوچھنے لگیں۔

’’تقسیم کے دنوں میں تم کہاں تھے؟‘‘

’’دہلی میں!‘‘ میں نے بتایا! ’’کیوں؟‘‘

’’یوں ہی!‘‘

سائی بہت خوبصورت اردو بولتی ہیں۔ لیکن آگے انگریزی میں پوچھا۔

’’اور والدین تمہارے؟‘‘

’’دہلی میں تھے۔ میں ساتھ ہی تھا ان کے۔ کیوں؟‘‘

تھوڑی دیر بات کرتی رہیں۔ لیکن مجھے لگ رہا تھا جیسے انگریزی کا پردہ ڈال رہی ہوں بات پر، کیوں کہ مجھ سے ہمیشہ اردو میں بات کرتی تھیں جسے وہ ہندی کہتی ہیں۔ بالآخر پھوٹ ہی پڑیں۔

’’دیکھو گلزار یوں ہے کہ آئی ایم ناٹ سپوزڈ ٹوٹیل یو۔ لیکن دہلی میں کوئی صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ تم تقسیم میں کھوئے ہوئے ان کے بیٹے ہو!‘‘

یہ ایک نئی کہانی تھی۔

قریب ایک ماہ بعد امول پالیکر ممبئی کے مشہور اداکار کا فون آیا۔ کہنے لگے۔

’’مسز ڈنڈوتے تم سے بات کرنا چاہتی ہے۔ دہلی میں۔‘‘

’’مسز ڈنڈوتے کون؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ایکس فنانس منسٹر آف جنتا گورنمنٹ مسٹر مدھو ڈنڈوتے کی پتنی۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’پتہ نہیں۔ لیکن وہ کس وقت تمہیں کہاں فون کر سکتی ہیں؟‘‘

میرا کوئی سروکار نہیں تھا مسٹر یا مسز ڈنڈوتے کے ساتھ۔ کبھی ملا بھی نہیں تھا۔

مجھے حیرت ہوئی۔ امول پالیکر کو میں نے دفتر اور گھر کے اوقات بتا دیے۔

افسانہ بل کھا رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ بھی اسی سائی والے افسانے کی کڑی ہے لیکن امول پالیکر کیوں کہ اداکار ہے، اچھی اداکاری کر گیا اور مجھے اس کی وجہ نہیں بتائی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اس وقت بھی وجہ ضرور جانتا ہو گا۔

کچھ روز بعد پرمیلا ڈنڈوتے کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ دہلی سے ایک سردار ہربھجن جی ممبئی آ کر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے میں تقسیم میں کھویا ہوا ان کا بیٹا ہوں۔ وہ نومبر کا مہینہ تھا۔ اتنا یاد ہے۔ میں نے ان سے کہا میں جنوری میں دہلی آ رہا ہوں۔ انٹرنیشنل فلم اتسو میں۔ دس جنوری کو میں دہلی میں ہوں گا۔ تب ہی مل لوں گا۔ انہیں یہاں مت بھیجیے۔ میں نے ان سے یہ بھی پوچھا کر سردار ہربھجن سنگھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا جنتا راج کے دوران وہ پنجاب میں سول سپلائی منسٹر تھے۔

جنوری میں دہلی گیا۔ اشوک ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ ہربھجن سنگھ صاحب کے یہاں سے فون آیا کہ وہ کب مل سکتے ہیں۔ تب تک مجھے یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ کوئی بہت معتبر بزرگ انسان ہیں۔ بات کرنے والے ان کے بیٹے تھے۔ احتراماً عرض کیا۔

’’آپ انہیں زحمت نہ دیں۔ کل دوپہر کے وقت آپ تشریف لائیں۔ میں آپ کے ساتھ چل کر ان کی دولت خانے پر مل لوں گا۔‘‘

حیرت ہوئی یہ جان کر کہ سائی بھی وہاں تھی، امول پالیکر بھی وہاں تھے اور میری اگلے روز کی اس اپائنٹمنٹ کے بارے میں دونوں جانتے تھے۔

اگلے روز دوپہر کو جو صاحب مجھے لینے آئے وہ ان کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کا نام اقبال سنگھ تھا۔ وہ مجھے گھر لے گئے۔

پنجابیوں کی عمر ہو جاتی ہے لیکن بوڑھے نہیں ہوتے۔ اٹھ کر بڑے پیار سے ملے۔ میں نے بیٹوں کی طرح ہی ’’پیری پونا‘‘ کیا۔ انہوں نے ماں سے ملایا۔

’’یہ تمہاری ماں ہے بیٹے۔‘‘

ماں کو بھی ’’پیری پونا‘‘ کیا۔ بیٹے انہیں دار جی کہہ کر بلاتے تھے۔ دوسرے بیٹے، بہوویں، بچے۔ اچھا خاصہ ایک پریوار تھا۔ کافی کھلا بڑا گھر! یہ کھلا پن پنجابیوں کے رہن سہن میں ہی نہیں ان کے مزاج میں شامل ہے۔

تمام علیک سلیک کے بعد کچھ کھانے کو بھی آ گیا، پینے کو بھی آ گیا اور دار جی نے بتایا کہ مجھے کہاں کھویا تھا۔

’’بڑے سخت دنگے ہوئے جی۔ ہر طرف آگ ہی آگ تھی اور آگ میں جھلسی ہوئی خبریں، پر ہم بھی ٹکے ہی رہے۔ زمیندار مسلمان تھا اور ہمارے پتا جی کا دوست تھا اور بڑا مہربان تھا ہم پر اور سارا قصہ جانتا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی بے وقت ہمارے دروازے پر دستک بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اس کا بیٹا سکول میں میرے ساتھ پڑھتا تھا (شاید ایاز نام لیا تھا)۔ لیکن جب پیچھے سے آنے والے قافلے ہمارے قصبے سے گزرتے تھے تو دل دہل جاتا تھا۔ اندر ہی اندر کانپ جاتے تھے ہم۔ زمین دار روز صبح شام کو آ کر مل کر جاتا تھا۔ حوصلہ دے کر جاتا تھا۔ میری پتنی کو بیٹی بنا رکھا تھا اس نے۔

ایک روز دو دہائیاں دیتا ایسا ایک قافلہ گزرا کہ ساری رات چھت کی منڈیر پر کھڑے گزری۔ ہمیں نہیں سارا قصبہ جاگ رہا تھا۔ لگتا تھا وہی آخری رات ہے صبح پر لے (قیامت) آنے والی ہے۔ ہمارے پاؤں اکھڑ گئے۔ پتہ نہیں کیوں لگا کہ یہی آخری قافلہ ہے۔ اب نکل لو۔ اس کے بعد کچھ نہیں بچے گا۔ اپنے محسن اپنے زمیندار سے سلام دعا کر کے نکل آئے۔

وہ روز کہا کرتا تھا۔

’’میری حویلی پر چلو میرے ساتھ رہو۔ کچھ دن کے لیے تالا مار دو گھر کو۔ کوئی نہیں چھوئے گا۔‘‘

لیکن ہم جھوٹ موٹ کا حوصلہ دکھاتے رہے۔ اندر ہی اندر ڈرتے تھے۔ سچ بتاؤں سمپورن کاکا، ایمان ہل گئے تھے۔ جڑیں کانپنے لگی تھیں۔ سارے قافلے اسی راستے سے گزر رہے تھے۔ سنا تھا میانوالی سے ہو کر جموں میں داخل ہو جاؤ تو آگے نیچے تک جانے کے لیے فوج کی کمک مل جائے گی۔

گھر ویسے کے ویسے ہی کھلے چھوڑ آئے۔ سچ تو یہ ہے کہ دل نے بانگ دے دی تھی کہ اب وطن کی مٹی چھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ کوچ کر چلو۔ دو لڑکے بڑے، ایک چھوٹی بیٹی آٹھ نو برس کی اور سب سے چھوٹے تم! دو دن کا سفر تھا۔

میانوالی تک پیدل کھانے کو، جس گاؤں سے گزرتے کچھ مل جاتا تھا۔ دنگے سب جگہ ہوئے تھے۔ ہو بھی رہے تھے۔ لیکن دنگے والوں کے لشکر ہمیشہ باہر ہی سے آتے تھے۔ میانوالی تک پہنچتے پہنچتے قافلہ بہت بڑا ہو گیا۔ کئی طرف سے لوگ آ کر جڑتے جاتے تھے۔ بڑے ڈھارس ہوتی تھی بیٹا، اپنے جیسے دوسرے بدحال کو دیکھ کر۔ میانوالی ہم رات کو پہنچے۔ اسی بیچ کئی بار بچوں کے ہاتھ چھٹے ہم سے، بدحواس ہو کر پکارنے لگتے تھے اور بھی تھے ہم جیسے، اور کہرام سا مچا تھا۔

’’پتہ نہیں کیسے یہ خبر پھیل گئی کہ اس رات میانوالی پر حملہ ہونے والا ہے۔ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔ خوف اور ڈر کا ایسا سناٹا کبھی نہیں سنا۔ رات کی رات ہی سب چل پڑے۔‘‘

دار جی کچھ دیر کو چپ ہو گئے۔ ان کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ لیکن ماں چپ چاپ ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہی تھی۔ کوئی اموشن نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر۔ دار جی بڑے دھیرے سے بولے۔

’’بس اسی رات اس کوچ میں چھوٹے دونوں بچے ہم سے چھٹ گئے۔ پتہ نہیں کیسے؟ پتہ ہو تو۔‘‘

وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر چپ ہو گئے۔

مجھے بہت تفصیل سے یاد نہیں۔ بیٹے، بہوویں کچھ اٹھیں، کچھ جلہ بدل کے بیٹھ گئے۔ دار جی نے بتایا۔

’’جموں پہنچ کر بہت عرصہ انتظار کیا! ایک ایک کیمپ میں جا کر ڈھونڈتے تھے اور آنے والے قافلوں کو دیکھتے تھے۔ بے شمار لوگ تھے۔ قافلوں کی شکل میں ہی کچھ پنجاب کی طرف چلے گئے، کچھ نیچے اتر گئے جہاں جہاں جس کسی کے رشتے دار تھے۔ جب مایوس ہو گئے ہم تو پنجاب آ گئے۔ وہاں کے کیمپ دیکھتے رہے۔ بس ایک تلاش رہ گئی۔ بچے گم ہو چکے تھے، امید چھٹ چکی تھی۔‘‘

’’کوئی بیس بائیس سال بعد ایک جتھا ہندوستان سے جا رہا تھا۔ گرودوارہ پنجہ صاحب کی یاترا کرنے۔ بس جی کر آیا جانے کے لیے۔ اپنا گھر دیکھنے کا بھی کئی بار خیال آیا تھا لیکن یہ بھلی مانس ہمیشہ اس خیال سے ہی ٹوٹ کر نڈھال ہو جاتی تھی۔‘‘ انہوں نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’اور پھر یہ گلٹ (Guilt) بھی ہم سے چھٹا نہیں کہ ہم نے اپنے قصبے کے زمین دار کا اعتبار نہیں کیا، سوچ کر ایک شرمندگی کا احساس ہوتا تھا۔‘‘

’’بہرحال ہم نے جانے کا فیصلہ کر لیا اور جانے سے پہلے میں نے ایک خط لکھا زمیندار کے نام اور ان کے بیٹے ایاز کے نام بھی۔ اپنے کیے کی معافی بھی مانگی۔ اپنے ہجرت کے حالات بھی بتائے، پریوار کے بھی اور دونوں گم شدہ بچوں کا ذکر بھی کیا۔ سیتہ اور سمپورن کا۔ خیال تھا شاید ایاز تو نہ پہچان سکے لیکن زمین دار افضل ہمیں نہیں بھول سکتا۔ خط میں نے پوسٹ نہیں کیا۔ سوچا وہیں جا کے کروں گا۔ بیس پچیس دن کا دورہ ہے اگر ملنا چاہے گا تو چاچا افضل ضرور جواب دے گا۔ بلوایا تو جائیں گے، ورنہ اب کیا فائدہ قبریں کھول کے؟ کیا ملنا ہے؟‘‘

’’وہ خط میری جیب میں پڑا رہا پنی جی۔ میں مانا ہی نہیں۔ واپسی میں کراچی سے ہو کر آیا اور جس دن لوٹ رہا تھا، پتہ نہیں کیا سوجھی، میں نے ڈاک میں ڈال دیا۔‘‘

’’نہ چاہتے ہوئے بھی ایک انتظار رہا۔ لیکن کچھ ماہ گزر گئے تو وہ بھی ختم ہو گیا۔ آٹھ سال کے بعد مجھے جواب آیا۔‘‘

’’افضل چاچا کا؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔ وہ چپ رہے۔ میں نے پھر پوچھا ’’ایاز کا؟‘‘ سر کو ہلکی سی جنبش دے کر بولے ’’ہاں! اسی خط کا جواب تھا۔ خط سے پتہ چلا کہ تقسیم کے کچھ سال بعد ہی افضل چاچا کا انتقال ہو گیا تھا۔ سارا زمیندارا ایاز سنبھالا کرتا تھا۔ چند روز پہلے ہی ایاز کا انتقال ہوا تھا۔ اس کے کاغذ پتر دیکھے جا رہے تھے تو کسی ایک قمیض کی جیب سے وہ خط نکلا۔ ماتم پرسی کے لیے آئے لوگوں میں سے کسی نے وہ خط پڑھ کر سنایا، تو ایک شخص نے اطلاع دی کہ جس گمشدہ لڑکی کا ذکر ہے اس خط میں، وہ ایاز کے انتقال پر ماتم پرسی کرنے آئی ہوئی ہے۔ میانوالی سے۔ اسے بلا کر پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کا اصلی نام ستیہ ہے۔ وہ تقسیم میں اپنے ماں باپ سے بچھڑ گئی تھی اور اب اس کا نام دلشاد ہے۔‘‘

ماں کی آنکھیں اب بھی خشک تھیں۔ لیکن دار جی کی آواز پھر سے رندھ گئی تھی۔

’’واہگورو کا نام لیا اور اسی روز روانہ ہو گئے۔ دلشاد وہیں ملی، افضل چاچا کے گھر۔ لو جی اسے سب یاد تھا۔ پرانا گھر یاد نہیں۔ ہم نے پوچھا وہ کھوئی کیسے؟ بچھڑی کیسے ہم سے؟ تو بولی ’’میں چل چل کر تھک گئی تھی۔ مجھے بہت نیند آ رہی تھی۔ میں ایک گھر کے آنگن میں جہاں تندور لگا تھا اس کے پیچھے جا کر سوگئی تھی۔ جب اٹھی تو کوئی بھی نہیں تھا۔ سارا دن ڈھونڈ کے وہاں جا کر سوجاتی تھی۔ تین دن بعد گھر والے آئے تو انہوں نے جگایا مجھے۔ میاں بیوی تھے۔ پھر وہیں رکھ لیا کہ شاید کوئی ڈھونڈتا ہوا آ جائے پر کوئی آیا ہی نہیں۔ انہی کے گھر نوکرانی سی ہو گئی۔ کھانا کپڑا ملتا رہا۔ پر بہت اچھی طرح رکھا انہوں نے۔ پھر بہت سال بعد، شاید آٹھ نو سال بعد مالک نے مجھ سے اپنا نکاح پڑھ کر اپنی بیگم بنا لیا۔ اللہ کے فضل سے دو بیٹے ہیں۔ ایک پاکستان ایئرفورس میں ہے، دوسرا کراچی میں اچھے عہدے پر نوکری کر رہا ہے۔‘‘

رائیٹرز کو کچھ کلیشے قسم کے سوالات کرنے کی عادت ہوتی ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے پوچھا۔

’’وہ حیران نہیں ہوئی آپ کو دیکھ کر؟ یا مل کر؟ روئی نہیں؟‘‘

’’نہیں حیران تو ہوئی۔ لیکن ایسی کوئی خاص متاثر نہیں ہوئی۔‘‘ دار جی نے کہا۔

’’اور سمپورن؟ اس کے ساتھ نہیں تھا؟‘‘

’’نہیں اسے تو یاد بھی نہیں تھا۔‘‘

ماں نے پھر وہی کہا جو ان باتوں کے درمیان دو تین بار کہہ چکی تھی۔

’’پنی (سمپورن) تو مان کیوں نہیں جاتا۔ کیوں چھپاتا ہے ہم سے! اپنا نام بھی چھپا رکھا ہے تو نے۔ جیسے ستیہ دلشاد ہو گئی، تجھے بھی کسی نے گلزار بنا دیا ہو گا۔‘‘

تھوڑے سے وقفے کے بعد پھر بولی۔

’’گلزار کس نے نام دیا تجھے؟ تیرا نام سمپورن سنگھ ہے!‘‘

میں نے دار جی سے پوچھا

’’میری خبر کیسے ملی آپ کو؟ یا کیسے خیال آیا میں آپ کا بیٹا ہوں؟‘‘

’’ایسا ہے پتر واہگورو کی کرپا سے تیس پینتیس سال بعد بیٹی مل گئی، تو امید بندھ گئی شاید واہگورو بیٹے سے بھی ملوا دے۔ اقبال نے ایک دن تمہارا انٹرویو پڑھا کسی پرچے میں اور بتایا تمہارا اصلی نام سمپورن سنگھ ہے اور تمہاری پیدائش بھی اسی طرف کی ہے۔ پاکستان کی۔ تو اس نے تلاش شروع کر دی۔ ہاں میں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا نام اقبال افضل چاچا کا دیا ہوا ہے۔‘‘

ماں نے کہا، ’’کاکا تو جہاں مرضی ہے رہ! تو مسلمان ہو گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ پر مان تو لے تو ہی میرا بیٹا ہے، پنی۔‘‘

میں اپنے خاندان کی ساری تفصیل دے کر ایک بار پھر ہربھجن سنگھ جی کو نا امید کر کے لوٹ آیا۔

اس بات کو بھی سات آٹھ سال ہو گئے۔

اب سن 1993 ہے!

اتنے برسوں بعد اقبال کی چٹھی ملی اور بھوگ کا کارڈ ملا کہ سردار بھجن سنگھ جی پرلوک سدھار گئے۔ ماں نے کہلوایا ہے کہ چھوٹے کو ضرور خبر دینا۔

مجھے لگا جیسے سچ مچ میرے دار جی گزر گئے۔

***

 

 

 

 

 

ایک طوائف کا خط

 

کرشن چندر

 

مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ آج تک آپ نے میری اور اس قماش کی دوسری عورتوں کی صورت بھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو میرا یہ خط لکھنا کس قدر معیوب ہے اور وہ بھی ایسا کھلا خط مگر کیا کروں حالات کچھ ایسے ہیں اور ان دونوں لڑکیوں کا تقاضا اتنا شدید ہے کہ میں یہ خط لکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ خط میں نہیں لکھ رہی ہوں، یہ خط مجھ سے بیلا اور بتول لکھوا رہی ہیں۔ میں صدق دل سے معافی چاہتی ہوں، اگر میرے خط میں کوئی فقرہ آپ کو ناگوار گزرے۔ اسے میری مجبوری پر محمول کیجئے گا۔

بیلا اور بتول مجھ سے یہ خط کیوں لکھوا رہی ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں کون ہیں اور ان کا تقاضا اس قدر شدید کیوں ہے۔ یہ سب کچھ بتانے سے پہلے میں آپ کو اپنے متعلق کچھ بتانا چاہتی ہوں، گھبرایئے نہیں۔ میں آپ کو اپنی گھناؤنی زندگی کی تاریخ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گی کہ میں کب اور کن حالات میں طوائف بنی۔ میں کسی شریفانہ جذبے کا سہارا لے کر آپ سے کسی جھوٹے رحم کی درخواست کرنے نہیں آئی ہوں۔ میں آپ کے درد مند دل کو پہچان کر اپنی صفائی میں جھوٹا افسانہ محبت نہیں گھڑنا چاہتی۔ اس خط کے لکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو طوائفیت کے اسرارو رموز سے آگاہ کروں مجھے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا ہے۔ میں صرف اپنے متعلق چند ایسی باتیں بتانا چاہتی ہوں جن کا آگے چل کر بیلا اور بتول کی زندگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔

آپ لوگ کئی بار بمبئی آئے ہوں گے جناح صاحب نے تو بمبئی کو بہت دیکھا ہو مگر آپ نے ہمارا بازار کا ہے کو دیکھا ہو گا۔ جس بازار میں میں رہتی ہوں وہ فارس روڈ کہلاتا ہے۔ فارس روڈ، گرانٹ روڈ اور مدن پورہ کے بیچ میں واقع ہے۔ گرانٹ روڈ کے اس پار لمنگٹم روڈ اور اوپر ہاؤس اور چوپاٹی میرین ڈرائیور اور فورٹ کے علاقے ہیں جہاں بمبئی کے شرفا رہتے ہیں۔ مدن پورہ میں اس طرف غریبوں کی بستی ہو۔ فارس روڈ ان دونوں کے بیچ میں ہے تاکہ امیر اور غریب اس سے یکساں مستفید ہو سکیں۔ گور فارس روڈ پھر بھی مدن پورہ کے زیادہ قریب ہے کیونکہ ناداری میں اور طوائفیت میں ہمیشہ بہت کم فاصلہ رہتا ہے۔ یہ بازار بہت خوبصورت نہیں ہے، اس کے مکین بھی خوبصورت نہیں ہیں اس کے بیچوں بیچ ٹرام کی گڑگڑاہٹ شبو روز جاری رہتی ہے۔ جہاں بھر کے آوارہ کتے اور لونڈے اور شہدے اور بے کار اور جرائم پیشہ مخلوق اس کی گلیوں کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔

لنگڑے، لولے، اوباش، مدقوق تماش بین۔ آتشکدۂ سوزاک کے مارے ہوئے کانے، لنجے، کوکین باز اور جیب کترے اس بازار میں سینہ تان کر چلتے ہیں۔ غلیظ ہوٹل، سیلے ہوئے فٹ پاتھ پر کیلے کے ڈھیروں پر بھنبھناتی ہوئی لاکھوں مکھیاں لکڑیوں اور کوئلوں کے افسردہ گودام، پیشہ ور دلال اور باسی ہار بیچنے والے کوک شاستر اور ننگی تصویروں کے دکان دار چین حجام اور اسلامی حجام اور لنگوٹے کس کر گالیاں بکنے والے پہلوان، ہماری سماجی زندگی کا سارا کوڑا کرکٹ آپ کو فارس روڈ پر ملتا ہے۔ ظاہر ہے آپ یہاں کیوں آئیں گے۔ کوئی شریف آدمی ادھر کا رخ نہیں کرتا، شریف آدمی جتنے ہیں وہ گرانٹ روڈ کے اس پار رہتے ہیں اور جو بہت ہی شریف ہیں وہ ملبار ہل پر قیام کرتے ہیں۔ میں ایک بار جناح صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گزری تھی اور وہاں میں نے جھک کر سلام بھی کیا تھا بتول بھی میرے ساتھ تھی۔ بتول کو آپ سے (جناح صاحب) جس قدر عقیدت ہے اس کو میں کبھی ٹھیک طرح سے بیان نہ کر سکوں گی۔ خدا اور رسول کے بعد دنیا میں اگر وہ کسی کو چاہتی ہو تو صرف وہ آپ ہیں۔ اس نے آپ کو تصویر لاکٹ میں لگا کر اپنے سینے سے لگا رکھی ہو۔

کسی بری نیت سے نہیں۔ بتول کی عمر ابھی گیارہ برس کی ہے، چھوٹی سی لڑکی ہی تو ہے وہ۔ گو فارس روڈ والے ابھی سے اس کے متعلق برے برے ارادے کر رہے ہیں مگر خیر وہ بھی کبھی آپ کو بتاؤں گی۔ تو یہ ہے فارس روڈ جہاں میں رہتی ہوں، فارس روڈ کے مغربی سرے پر جہاں چینی حجام کی دکان ہے اس کے قریب ایک اندھیری گلی کے موڑ پر میری دکان ہے۔ لوگ تو اسے دکان نہیں کہتے مگر خیر آپ دانا ہیں آپ سے کیا چھپاؤں گی۔ یہی کہوں گی وہاں پر میری دکان ہے اور وہاں پر میں اس طرح بیوپار کرتی ہوں جس طرح بنیا، سبزی والا، پھل والا، ہوٹل والا، موٹر والا، سنیما والا، کپڑے والا یا کوئی اور دوکاندار بیوپار کرتا ہے اور ہر بیوپار میں گاہک کو خوش کرنے کے علاوہ اپنے فائدے کی بھی سوچتا ہے۔ میرا بیوپار بھی اسی طرح کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ میں بلیک مارکیٹ نہیں کرتی اور مجھ میں اور دوسرے بیوپاریوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دوکان اچھی جگہ پر واقع نہیں ہے۔ یہاں رات تو کجا دن میں بھی لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ اس اندھیری گلی میں لوگ اپنی جیبیں خالی کر کے جاتے ہیں۔ شراب پی کر جاتے ہیں۔ جہاں بھر کی گالیاں بکتے ہیں۔ یہاں بات بات پر چھرا زنی ہوتی ہے وہ ایک خوں دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے ہیں۔

غرضیکہ ہر وقت جان ضیق میں رہتی ہے اور پھر میں کوئی اچھی طوائف نہیں ہوں کہ پون جا کے رہوں یا ورلی پر سمندر کے کنارے ایک کوٹھی لے سکوں۔ میں ایک بہت ہی معمولی درجے کی طوائف ہوں اور اگر میں نے سارا ہندوستان دیکھا ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ہر طرح کے لوگوں کی صحبت میں بیٹھی ہوں لیکن اب دس سال سے اسی شہر بمبئی میں۔ اسی فارس روڈ پر۔ اسی دکان میں بیٹھی ہوں اور اب تو مجھے اس دکان کی پگڑی بھی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ حالانکہ یہ جگہ کوئی اتنی اچھی نہیں۔ فضا متعفن ہے کیچڑ چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں اور خارش زدہ کتے گھبرائے ہوئے گاہکوں کی طرف کاٹ کھانے کو لپکتے ہیں پھر بھی مجھے اس جگہ کی پگڑی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ اس جگہ میری دکان ایک منزلہ مکان میں ہے۔ اس کے دو کمرے ہیں۔ سامنے کا کمرہ میری بیٹھک ہو۔ یہاں میں گاتی ہوں، ناچتی ہوں، گاہکوں کو رجھاتی ہوں، پیچھے کا کمرہ، باورچی خانے اور غسل خانے اور سونے کے کمرے کا کام دیتا ہے۔ یہاں ایک طرف نل ہے۔ ایک طرف ہنڈیا ہے اور ایک طرف ایک بڑا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے ایک اور چھوٹا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے میرے کپڑوں کے صندوق ہیں، باہر والے کمرے میں بچلی کی روشنی ہے لیکن اندر والے کمرے میں بالکل اندھیرا ہے۔ مالک مکان نے برسوں سے قلعی نہیں کرائی نہ وہ کرائے گا۔ اتنی فرصت کسے ہے۔

میں تو رات بھر ناچتی ہوں، گاتی ہوں اور دن کو وہیں گاؤ تکیے پر سر ٹیک کر سو جاتی ہوں، بیلا اور بتول کو پیچھے کا کمرہ دے رکھا ہے۔ اکثر گاہک جب ادھر منہ دھونے کے لیے جاتے ہیں تو بیلا اور بتول پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگ جاتی ہیں جو کچھ ان کی نگاہیں کہتی ہیں۔ میرا یہ خط بھی وہی کہتا ہے۔ اگر وہ میرے پاس اس وقت نہ ہوتیں تو یہ گناہ گار بندی آپ کی خدمت میں یہ گستاخی نہ کرتی، جانتی ہوں دنیا مجھ پر تھو تھو کرے گی جانتی ہوں شاید آپ تک میرا یہ خط بھی نہ پہنچے گا۔ پھر بھی مجبور ہوں یہ خط لکھ کے رہوں گی کہ بیلا اور بتول کی مرضی یہی ہے۔

شاید آپ قیاس کر رہے ہوں کہ بیلا اور بتول میری لڑکیاں ہیں۔ نہیں یہ غلط ہے میری کوئی لڑکی نہیں ہے۔ ان دونوں لڑکیوں کو میں نے بازار سے خریدا ہے۔ جن دنوں ہندو مسلم فساد زوروں پر تھا، اور گرانٹ روڈ، اور فارس روڈ اور مدن پورہ پر انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا۔ ان دنوں میں نے بیلا کو ایک مسلمان دلال سے تین سو روپے کے عوض خریدا تھا۔ یہ مسلمان دلال اس لڑکی کو دہلی سے لایا تھا جہاں بیلا کے ماں باپ رہتے تھے۔ بیلا کے ماں باپ راولپنڈی میں راجہ بازار کے عقب میں پونچھ ہاؤس کے سامنے کی گلی میں رہتے تھے، متوسط طبقے کا گھرانہ تھا، شرافت اور سادگی گھٹی میں پڑی تھی۔ بیلا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور جب راولپنڈی میں مسلمانوں نے ہندوؤں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا اس وقت چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ یہ بارہ جولائی کا واقعہ ہے۔ بیلا اپنے اسکول سے پڑھ کر گھر آ رہی تھی کہ اس نے اپنے گھر کے سامنے اور دوسرے ہندوؤں کے گھروں کے سامنے ایک جم غفیر دیکھا۔ یہ لوگ مسلح تھے اور گھروں کو آگ لگا رہے تھے اور لوگوں کو اور ان کے بچوں کو اور ان کی عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر انہیں قتل کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ بھی بلند کرتے جاتے تھے۔ بیلا نے اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے اپنی آنکھوں سے اپنی ماں کو دم توڑتے ہوئے دیکھا۔ وحشی مسلمانوں نے اس کے پستان کاٹ کر پھینک دیئے تھے۔ وہ پستان جن سے ایک ماں کوئی ماں، ہندو ماں یا مسلمان ماں، عیسائی ماں یا یہودی ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور انسانوں کی زندگی میں کائنات کی وسعت میں تخلیق کا ایک نیا باب کھولتی ہے وہ دودھ بھرے پستان اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ کاٹ ڈالے گئے۔

کسی نے تخلیق کے ساتھ اتنا ظلم کیا تھا۔ کسی ظالم اندھیرے نے ان کی روحوں میں یہ سیاہی بھر دی تھی۔ میں نے قرآن پڑھا ہے اور میں جانتی ہوں کہ راولپنڈی میں بیلا کے ماں باپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسلام نہیں تھا وہ انسانیت نہ تھی، وہ دشمنی بھی نہ تھی، وہ انتقال بھی نہ تھا، وہ ایک ایسی سعادت، بے رحمی، بزدلی اور شیطانیت تھی جو تاریخ کے سینے سے پھوٹتی ہے اور نور کی آخری کرن کو بھی داغدار کر جاتی ہے۔

بیلا اب میرے پاس ہے۔ مجھ سے پہلے وہ داڑھی والے مسلمان دلال کے پاس تھی بیلا کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں تھی جب وہ چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ اپنے گھر میں ہوتی تو آج پانچویں جماعت میں داخل ہو رہی ہوتی۔ پھر بڑی ہوتی تو اس کے ماں باپ اس کا بیاہ کسی شریف گھرانے کے غریب سے لڑکے سے کر دیتے، وہ اپنا چھوٹا سا گھر بساتی، اپنے خاوند سے۔ اپنے ننھے ننھے بچوں سے، اپنی گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے۔ لیکن اس نازک کلی کو بے وقت خزاں آ گئی، اب بیلا بارہ برس کی نہیں معلوم ہوتی۔ اس کی عمر تھوڑی ہے لیکن اس کی زندگی بہت بوڑھی ہے۔ اس کی آنکھوں میں جو ڈر ہے۔ انسانیت کی جو تلخی ہے یا اس کا جو لہو ہے موت کی جو پیاس ہے قائد اعظم صاحب شاید اگر آپ اسے دیکھ سکیں تو اس کا اندازہ کر سکیں۔ ان بے آسرا آنکھوں کی گہرائیوں میں اتر سکیں۔ آپ تو شریف آدمی ہیں۔ آپ نے شریف گھرانے کی معصوم لڑکیوں کو دیکھا ہو گا ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکیوں کو، شاید آپ سمجھ جاتے کہ معصومیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ ساری انسانیت کی امانت ہے۔ ساری دنیا کی میراث ہے جو اسے مٹاتا ہے اسے دنیا کے کسی مذہب کا کوئی خدا معاف نہیں کر سکتا۔ بتول اور بیلا دونوں سگی بہنوں کی طرح میرے ہاں رہتی ہیں۔ بتول اور بیلا سگی بہنیں نہیں ہیں۔ بتول مسلمان لڑکی ہے۔ بیلا نے ہندو گھر میں جنم لیا۔ آج دونوں فارس روڈ پر ایک رنڈی کے گھر میں بیٹھی ہیں۔

اگر بیلا راولپنڈی سے آئی ہے تو بتول جالندھر کے ایک گاؤں کھیم کرن کے ایک پٹھان کی بیٹی ہے۔ بتول کے باپ کی سات بیٹیاں تھیں، تین شادی شدہ اور چار کنواریاں، بتول کا باپ کھیم کرن میں ایک معمولی کاشتکار تھا۔ غریب پٹھان لیکن غیور پٹھان جو صدیوں سے کھیم کرن میں آ کے بس گیا تھا۔ جاٹوں کے اس گاؤں میں یہی تین چار گھر پٹھانوں کے تھے، یہ لوگ جس حلم و آشتی سے رہتے تھے شاید اس کا اندازہ پنڈت جی آپ کو اس امر سے ہو گا کہ مسلمان ہونے پر بھی ان لوگوں کو اپنے گاؤں میں مسجد بنانے کی اجازت نہ تھی۔ یہ لوگ گھر میں چپ چاپ اپنی نماز ادا کرتے، صدیوں سے جب سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے عنان حکومت سنبھالی تھی کسی مومن نے اس گاؤں میں اذان نہ دی تھی۔ ان کا دل عرفان سے روشن تھا لیکن دنیاوی مجبوریاں اس قدر شدید تھیں اور پھر رواداری کا خیال اس قدر غالب تھا کہ لب وا کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔

بتول اپنے باپ کی چہیتی لڑکی تھی۔ ساتوں میں سب سے چھوٹی، سب سے پیاری، سب سے حسین، بتول اس قدر حسین ہے کہ ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی ہے، پنڈت جی آپ تو خود کشمیری النسل ہیں اور فن کار ہو کر یہ بھی جانتے ہیں کہ خوبصورتی کسے کہتے ہیں۔ یہ خوبصورتی آج میری گندگی کے ڈھیر میں گڈمڈ ہو کر اس طرح پڑی ہے کہ اس کا پرکھ کرنے والا کوئی شریف آدمی اب مشکل سے ملے گا، اس گندگی میں گلے سڑے مار دھاڑی، گھنی مونچھوں والے ٹھیکیدار، ناپاک نگاہوں والے چار بازاری ہی نظر آتے ہیں۔ بتول بالکل ان پڑھ ہے۔ اُس نے صرف جناح صاحب کا نام سنا تھا، پاکستان کو ایک اچھا تماشہ سمجھ کر اس کے نعرے لگائے تھے۔ جیسے تین چار برس کے ننھے بچے گھر میں انقلاب زندہ باد، کرتے پھرتے ہیں، گیارہ برس ہی کی تو وہ ہے۔ ان پڑھ بتول، وہ چند دن ہی ہوئے میرے پاس آئی ہے۔ ایک ہندو دلال اسے میرے پاس لایا تھا۔ میں نے اسے پانچ سو روپے میں خرید لیا۔ اس سے پہلے وہ کہاں تھی۔ یہ میں نہیں کہہ سکتی۔ ہاں لیڈی ڈاکٹر نے مجھ سے بہت کچھ کہا ہے کہ اگر آپ اسے سن لیں تو شاید پاگل ہو جائیں۔

بتول بھی اب نیم پاگل ہے۔ اس کے باپ کو جاٹوں نے اس بیدردی سے مارا ہے کہ ہندو تہذیب کے پچھلے چھ ہزار برس کے چھلکے اتر گئے ہیں اور انسانی بربریت اپنے وحشی ننگے روپ میں سب کے سامنے آ گئی ہے۔ پہلے تو جاٹوں نے اس کی آنکھیں نکال لیں۔ پھر اس کے منہ میں پیشاب کیا، پھر اس کے حلق کو چیر کر اس کی یہ آنتیں تک نکال ڈالیں۔ پھر اس کی شادی شدہ بیٹیوں سے زبردستی منہ کالا کیا۔ اسی وقت ان کے باپ کی لاش کے سامنے، ریحانہ، گل درخشاں، مرجانہ، سوہن، بیگم، ایک ایک کر کے وحشی انسان نے اپنے مندر کی مورتیوں کو ناپاک کیا۔ جس نے انہیں زندگی عطا کی، جس نے انہیں لوریاں سنائی تھیں، جس نے ان کے سامنے شرم اور عجز سے اور پاکیزگی سے سر جھکا دیا تھا۔ ان تمام بہنوں، بہوؤں اور ماؤں کے ساتھ زنا کیا۔

ہندو دھرم نے اپنی عزت کھو دی تھی اپنی رواداری تباہ کر دی تھی، اپنی عظمت مٹا ڈالی تھی، آج رگ دید کا ہر منتر خاموش تھا۔ آج گرنتھ صاحب کا ہر دوہا شرمندہ تھا۔ آج گیتا کا ہر اشلوک زخمی تھا۔ کون ہے جو میرے سامنے اجنتا کی مصوری کا نام لے سکتا ہے۔ اشوک کے کتبے سنا سکتا ہے، ایلورا کے صنم زادوں کے گن گا سکتا ہے۔ بتول کے بے بس بھنچے ہوئے ہونٹوں، اس کی بانہوں پر وحشی درندوں کے دانتوں کے نشان اور اس کی بھری ہوئی ٹانگوں کی ناہمواری میں تمہاری اجنتا کی موت ہے۔ تمہارے ایلورا کا جنازہ ہے۔ تمہاری تہذیب کا کفن ہے۔ آؤ آؤ میں تمہیں اس خوبصورتی کو دکھاؤں جو کبھی بتول تھی۔ اس متعفن لاش کو دکھاؤں جو آج بتول ہے۔

جذبے کی رو میں بہہ کر میں بہت کچھ کہہ گئی۔ شاید یہ سب مجھے نہ کہنا چاہئے تھا۔ شاید اس میں آپ کی سبکی ہے۔ شاید اس سے زیادہ ناگوار باتیں آپ سے اب تک کسی نے نہ کی ہوں نہ سنائی ہوں گی۔ شاید آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ شاید تھوڑا بھی نہیں کر سکتے۔ پھر بھی ہمارے ملک میں آزادی آ گئی ہے۔ ہندوستان میں اور پاکستان میں اور شاید ایک طوائف کو بھی اپنے رہنماؤں سے پوچھنے کا یہ حق ضرور ہے کہ اب بیلا اور بتول کا کیا ہو گا۔ بیلا اور بتول دو لڑکیاں ہیں دو قومیں ہیں دو تہذیبیں ہیں۔ دو مندر اور مسجد ہیں۔ بیلا اور بتول آج کل فارس روڈ پر ایک رنڈی کے ہاں رہتی ہیں جو چینی حجام کی بغل میں اپنی دکان کا دھندا چلاتی ہے۔ بیلا اور بتول کو یہ دھندا پسند نہیں۔ میں نے انہیں خریدا ہے۔ میں چاہوں تو ان سے یہ کام لے سکتی ہوں۔ لیکن میں سوچتی ہوں میں یہ کام نہیں کروں گی جو راولپنڈی اور جالندھر نے ان سے کیا ہے۔ میں نے انہیں اب تک فارس روڈ کی دنیا سے الگ تھلگ رکھا ہے۔ پھر بھی جب میرے گاہک پچھلے کمرے میں جا کر اپنا منہ ہاتھ دھونے لگتے ہیں، اس وقت بیلا اور بتول کی نگاہیں مجھ سے کہنے لگتی ہیں مجھے ان نگاہوں کی تاب نہیں۔ میں ٹھیک طرح سے ان کا سندیسہ بھی آپ تک نہیں پہنچا سکتی ہوں۔ آپ کیوں نہ خود ان نگاہوں کا پیغام پڑھ لیں۔ پنڈت جی میں چاہتی ہوں کہ آپ بتول کو اپنی بیٹی بنا لیں۔ جناح صاحب میں چاہتی ہوں کہ آپ بیلا کو اپنی دختر نیک اختر سمجھیں ذرا ایک دفعہ انہیں اس فارس روڈ کے چنگل سے چھڑا کے اپنے گھر میں رکھے اور ان لاکھوں روحوں کا نوحہ سنئے۔ یہ نوحہ جو نواکھالی سے راولپنڈی تلک اور بھرت پور سے بمبئی تک گونج رہا ہے۔ کیا صرف گورنمنٹ ہاؤس میں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی، یہ آواز سنیں گے آپ؟

آپ کی مخلص

فارس روڈ کی ایک طوائف

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل