FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

تقسیم کہانی

 

حصہ اول

 

 

انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

 

چلو بھر پانی، چلو بھر خون

 

نارائن گنیش گورے

مراٹھی کہانی

 

 

آسمان میں کہیں چھوٹا سا بادل بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اوپر سے جیسے آگ برس رہی تھی۔ باہر زرد، مرطوب دھوپ تھی۔ ہماری گاڑی دھیمی رفتار سے الہ آباد کی جانب رواں دواں تھی، جیسے گڑ کی بھیلی پر مکھی چلتی ہے۔ ڈبے میں کھچا کھچ بھیڑ تھی اور اگر کوئی لیٹرین تک بھی جانا چاہتا تو لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو دبا کر یا ان کا سامان روندتے ہوئے ہی جا سکتا تھا۔ الہ آباد پہنچتے ہی بھیڑ میں اضافہ ہو جائے گا اور دہلی تک پہنچتے پہنچتے یہ سکھ بھی کسی کو نصیب نہیں ہو گا، یہ بات ہر کوئی جانتا تھا۔ جیسے ہی گاڑی نے سمت بدلی اور پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی، اس وقت تک ڈبے کا ہر مسافر اس قدر سنبھل کے بیٹھ گیا، جیسے کسی جنگ کا مورچہ باندھ رہا ہو۔ کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے مہاجرین نے کھڑکیوں کے شٹرز گرا دیئے اور جنگی فوجیوں کی طرح تن کر بیٹھ گئے۔ اس ایک لمحے میں پورے ڈبے کے مسافروں میں ایک برادری کا سا اُنس پیدا ہو گیا۔

گاڑی الہ آباد اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آ گئی تھی۔ وہ رکتی، اس سے پہلے ہی سبز وردی والے فوجیوں نے ہمارے ڈبے کو گھیر لیا۔ یوں تو جہاں دیکھو وہیں تمام ہی پلیٹ فارم پر فوجی سپاہی ہی نظر آ رہے تھے۔ مغل سرائے سے ایک مارواڑی اپنا بھاری بھرکم بستر لگائے بیٹھا تھا۔ کسی نے باہر سے دروازہ کھولا تو بیچارہ مارواڑی چوہے دان میں پھنسے چوہے کی طرح چلانے لگا۔ ہم سب بھی چلّا کر بولنے لگے،  ’’کہاں گھسے آ رہے ہو؟ یہاں جگہ نہیں ہے۔‘‘ لیکن کوئی سنے تب نا! داڑھی مونچھ والے سکھ، بیروں کی ٹوپیاں لگائے ہوئے پنجابی اور جاٹ فوجی دیکھتے دیکھتے اندر گھس آئے۔ آتے ہی انہوں نے ساری کھڑکیاں کھول کر وہاں سے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا سامان اندر لینا شروع کر دیا۔ بندوقیں، کتابوں کے بستے، بستر، بڑے بڑے پٹارے۔۔۔ پوچھو مت۔ ایک جانب کھڑکی سے سامان اندر آ رہا تھا۔ تو دوسری جانب دروازے سے فوجی جوان۔ ہم پہلے سے بیٹھے مسافر اس طرح سے تنگ ہو گئے تھے۔ ہمارے لباس سے پسینے کی بو آ رہی تھی اور سارا بدن میلا کچیلا ہو گیا تھا، تین چار دن کا سفر۔۔۔ اور اوپر سے یہ بلا۔

جھنجلا کر میں نے کہا،  ’’پتہ نہیں یہ بلا ہمارے ہی سر پر کیوں آئی! اپنے ڈبوں میں ہی کیوں نہیں چلے گئے یہ لوگ!‘‘

’’بھائی، سب فوجی ہیں۔ انہیں کون روک سکتا ہے؟ شکر ہے انہوں نے ہمیں ہی اٹھا کر باہر نہیں پھینک دیا۔‘‘ سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ایک بوڑھا مسلمان بولا، جو نجانے کب سے تمباکو چبا رہا تھا۔

ایک ادھیڑ عمر کی عورت سر پر کھنچے گھونگھٹ میں سے بولی، ’’آپ نے ٹھیک کہا بابا۔ ان فوجیوں کو نہ کسی کی شرم ہے نہ حیا۔ ان میں انسانیت نام کی چیز نہیں ہوتی۔‘‘

ہم پہلے والے مسافر آپس میں ان کے بارے میں یوں ہی باتیں کر رہے تھے، مگر انہوں نے ہماری طرف قطعی توجہ نہیں دی۔ وہ اپنا اپنا سامان ٹھیک کرنے میں مصروف تھے۔ اپنے بڑے بڑے پٹاروں پر بقیہ سامان رکھ کر انہوں نے پاؤں دھرنے لائق جگہ بنا لی تھی۔ ان کے بدن پسینے سے تر تھے اور جگہ جگہ سے ان کی وردیاں بھیگ گئی تھیں۔ اگرچہ ہمارا حال بھی ٹوکرے میں بند مرغیوں سے بہتر نہیں تھا۔ ایسے میں کہیں سے ایک کھڑے ہوئے سردار جی نے اپنی بھاری آواز میں پوچھا،  ’’ہو گیا سارا معاملہ ٹھیک ٹھاک؟‘‘

’’جی، ہاں جی سردار جی۔‘‘

’’بوت اچھا! ہن آرام کرو بیٹا۔‘‘ کہہ کر انہوں نے اپنی بیلٹ ڈھیلی کر دی اور بیٹھتے بیٹھتے خود سے ہی بولے،  ’’جنگ ختم ہوئی۔ چلو، پانچ سالوں بعد گھر کے درشن ہوں گے۔‘‘

داڑھی مونچھوں کے جنگل سے مکمل طور پر جملہ ادا بھی نہیں کیا گیا۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ تھوڑا سا آگے جھکے اور خاموش ہو گئے۔ برابر میں بیٹھے مسلمان سپاہی نے کہا، ’’فکر نہ کرو یار۔ جہنم سے زندہ لوٹے ہو، خدا کے فضل سے۔ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

سردار جی کچھ نہیں بولے۔ داڑھی میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ان کے منہ سے نکلا،  ’’وا ہے گرو، وا ہے گرو۔‘‘

بینچ کے پیچھے سے ایک چھوٹا سا گورا بازو سردار جی کا کندھا چھو گیا۔ پھر بچے کے پیار بھرے توتلے لفظ سنائی دیے،  ’’چاچا جی، چاچا جی!‘‘

ہم سب اسی طرف دیکھنے لگے۔ بھٹے جیسے نرم سنہری لال بال اور شرارتی آنکھیں والا گورا چٹا بچہ اپنی خرگوش کے پنجے جیسی ہتھیلیاں سردار جی کے کندھوں پر رکھ کر بلا رہا تھا،  ’’چاچا جی، چاچا جی۔‘‘

سردار جی نے مڑ کر اس کی ہتھیلیاں اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیں اور اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔ بچہ بھی ڈھیٹ تھا۔ اس نے بھی نظر نہیں ہٹائی۔ پہاڑ نما وہ فوجی سپاہی اس نرم گرم لمس سے برف کی طرح اندر ہی اندر پگھل رہا تھا۔ وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر ہو گیا تھا۔ ابتدا میں بچہ وردی کو، داڑھی مونچھوں کے گھنے جنگل کو سہما سا دیکھ رہا تھا۔ مگر اب اس کا خوف دور ہو گیا تھا۔ سردار جی کی داڑھی میں اپنی انگلیاں پھنساتے ہوئے وہ بولا،  ’’ماں، دیکھو یہ شیر۔‘‘

برقع اوڑھے بیٹھی اس کی ماں نے ڈانٹتے ہوئے کہا،  ’’انور! بدتمیز کہیں کا!‘‘

لیکن سردار جی بہت خوش ہوئے۔ ہنستے ہنستے انہوں نے پوچھا،  ’’اچھا! میں شیر ہوں۔ پھر تم کون ہو؟ خرگوش۔‘‘

یہ لاڈ پیار بھرا منظر ہم سب دیکھ رہے تھے۔ لیکن میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ ماں بچہ ڈبے میں کب سوار ہوئے۔ الہ آباد سے پہلے تو یہ ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ تو اتنی بھیڑ میں کیسے آئے ہوں گے؟ شاید ان فوجیوں کے ریلے کے دھکے سے بِنا تکلیف کے اندر آ گئے ہوں گے۔ خرگوش جیسے ملائم بدن والے اس باتونی لڑکے کو ہم کاہلی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ سردار جی پر سوالوں کی بوچھاڑ کر رہا تھا،  ’’ہماری گاڑی کب چھوٹے گی؟‘‘

’’بس، ابھی چھوٹنے ہی والی ہے۔‘‘

’’یہ لباس کیوں پہنا ہے آپ نے؟‘‘

’’فوجی لوگ ایسا ہی لباس پہنتے ہیں۔‘‘

’’یہ بندوق ہے نا، کیا کرتے ہیں اس سے؟‘‘

’’بندوق سے کیا کرتے ہیں؟ گولی چلاتے ہیں، ٹھاہ کر کے۔‘‘

’’کس پر چلاتے ہو؟‘‘

’’آدمیوں پر۔‘‘

’’ہاں، مگر کیوں؟‘‘

’’تنگ کرتے ہیں نہ! اس لیے۔‘‘

انور کی ماں جانتی تھی کہ اس کے سوال کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ اس نے کہا،  ’’دیکھو انور، بک بک بند کرو، ورنہ سردار جی کہیں گے کہ یہ بچہ بہت ہی شرارتی ہے۔ تنگ کرتا ہے۔‘‘

وہ ڈرنے والا تھوڑی ہی تھا۔ اپنے دونوں ہاتھ سردار جی کے ہاتھوں میں رکھے، وہ ماں کی طرف جھک کر چڑھاتے ہوئے بولا،  ’’تب چاچا جی مجھے گولی سے اڑا دیں گے؟‘‘ وہ ہنس رہا تھا اور اس کے بال مرغے کی کلغی کی طرح لہرا رہے تھے۔

سردار جی نے اچانک اپنے ہاتھ بھینچ لیے اور اس کا گال سہلاتے ہوئے بولے،  ’’پاگل کہیں کا۔ بلبل جیسے چہکنے والے بچے کو کوئی گولی مارتا ہے بھئی!‘‘

پھر اس کا دھیان دوسری طرف کرنے کیلئے انہوں نے پوچھا،  ’’بولو، کیا کھاؤ گے؟‘‘

’’کچھ نہیں،‘‘ انور بولا۔

تب اسے جیسے پیاس لگی ہو۔ وہ ماں کی گود میں چلّا گیا اور ضد کرنے لگا،  ’’ماں مجھے پانی دو۔ مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘

ماں نے اسے خالی لوٹا دکھاتے ہوئے کہا،  ’’جانتے نہیں ہو کہ بھیڑ میں پانی بکھر گیا۔ ابھی پانی کیلئے ضد نہیں کرو بیٹا۔ لکھنؤ پہنچیں گے نہ، تو ملے گا، ہاں میرا اچھا بیٹا۔‘‘

سردار جی جھٹ کھڑے ہو کر کہنے لگے،  ’’بہن جی، مجھے دیجئے لوٹا۔ میں ابھی بھر لاتا ہوں۔‘‘

لوٹا لے کر وہ کھڑکی سے باہر کی طرف سے جھکے ہی تھے کہ ان کا دوست بولا،  ’’اُدھم سنگھ، گاڑی کے چلنے کا وقت ہو رہا ہے۔ میرے پاس پانی کی بوتل میں پانی ہے۔ میں دیتا ہوں۔ جاؤ نہیں۔۔۔‘‘

لیکن تب تک اُدھم سنگھ باہر کود چکا تھا اور نلکے کی جانب تیزی سے دوڑ رہا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں گاڑی سیٹی دے کر دھیمے دھیمے چلنے لگی۔ کھڑکی کی طرف بیٹھے مسافر دیکھ رہے تھے کہ گاڑی پکڑنے کیلئے اُدھم سنگھ دوڑ رہا تھا۔ اس کے کچھ دوست اسے چلّا کر اگلے اسٹیشن پر آنے کو کہہ رہے تھے، تو کوئی اور زور سے دوڑنے کا مشورہ دے رہا تھا۔

ان سب میں انور کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس میں اس کا کوئی قصور ہے یا چاچا جی گاڑی سے گر گئے ہیں؟ اس کی آنکھوں کی شرارت بجھ گئی تھی۔ اسے پیاس خوب لگی تھی۔ گرمی کی وجہ سے گال مزید لال ہو رہے تھے۔ گاڑی نے اب رفتار پکڑ لی تھی۔ قریب بیٹھا پنجابی مسلمان کہہ رہا تھا،  ’’اب نہیں آ سکتا وہ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی پانی کی بوتل انور کے سامنے کر دی۔ اس نے وہ منہ کو لگائی ہی تھی کہ دروازے سے سردار جی کی آواز آئی،  ’’انور بیٹا، یہ لو پانی۔‘‘

یہ سنتے ہی اس نے پانی کی بوتل اپنے منہ سے ہٹا دی اور سردار جی کا لایا ہوا لوٹا ہاتھوں میں پکڑ کر پانی پینے لگا۔ سردار جی کی موٹی انگلیاں اس کے بالوں کا ریشم سہلا رہی تھیں۔

اس منظر کو سراہتے ہوئے دوسرے سپاہی نے اپنی پانی کی بوتل ہٹا لی۔ دیکھنے والوں میں سے ایک جاٹ نے ہنس کر کہا،  ’’محبت بھی کیا چیز ہوتی یار۔‘‘

انور کے ہونٹوں سے گرنے والی پانی کی بوند سردار جی نے یوں پونچھی کہ جیسے وہ گلاب کی پنکھڑیوں سے اوس کی بوند سوکھ رہے ہوں۔ بولے،  ’’میرا لچھمن بھی تو اتنا ہی بڑا ہو گیا ہو گا۔‘‘ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں، گلا رندھ گیا تھا۔

اس واقعے کو دو اڑھائی سال ہوئے تھے۔ دو دنوں کے بعد یومِ آزادی تھا۔ ہندوستان کا پہلا یومِ آزادی۔ قرول باغ میں جامعہ ملیہ کے اسکول میں تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ساری کلاسیں رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجی ہوئی تھیں۔ بچوں میں جوش بھرا ہوا تھا۔ ہم نے ان کی بنائی تصاویر، نقشے اور کھلونے وغیرہ دیکھے۔ وہاں کے تفریح گاہ کی دیکھ بھال بھی بچے ہی کرتے تھے۔ ہندوستان کے کمسن شہری وہاں تیار کئے جاتے تھے۔ وہ صرف اسکول نہیں تھا، بلکہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ان کے دیگر ساتھیوں کا خواب بھی تھا۔ گھنٹی بجی اور ہم سب اسکول کے اجتماع گاہ میں جمع ہو گئے۔ بچے دوسرے دن کے پروگرام کی ریہرسل کر رہے تھے۔

سب سے پہلے جامعہ ملیہ کا فلیگ سونگ ہوا۔ بعد میں ہر اسکول میں ہونے والے وہی پروگرام۔ میں اٹھنے والا ہی تھا کہ علامہ اقبال کے اشعار سنائی دیئے اور میں کرسی پر پھر بیٹھ گیا۔ سفید گلاب جیسا تازہ گورا چہرہ اور جئی کے پھول جیسی سنہری آنکھیں۔ وہ گا رہا تھا:

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

بلبل۔ گورا چہرہ اور سنہری آنکھیں۔ مجھے کچھ کچھ یاد آ رہا تھا۔ وہ گا رہا تھا:

اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو

اترا تیرے کنارے جب کارواں ہمارا

تو مجھے کیوں نہیں یاد آتا کہ میں نے اسے کہاں دیکھا ہے۔

ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا

نظم ختم ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے قریب بیٹھے استاد سے پوچھا،  ’’کون ہے یہ لڑکا؟‘‘

’’یہ انور حسین ہے۔ کافی ہوشیار ہے۔‘‘ جواب ملا۔

’’لکھنؤ کا ہے کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ہاں۔ آپ جانتے ہیں اسے؟‘‘

’’نہیں، جانتا نہیں۔ یوں ہی۔‘‘ میں نے کہا۔

انور۔۔۔ اب یاد آ رہا تھا۔ گھر کی جانب چلتے وقت مجھے لگ رہا تھا کہ بہت دنوں سے کھوئی ہوئی کوئی چیز یہاں مل گئی ہو جیسے۔ من ہلکا ہو گیا تھا۔ وہ گرمیوں کی دوپہریا، ڈبے میں امنڈتی ہوئی بھیڑ، گھر جانے کیلئے بیتاب سپاہی، وہ سکھ اور انور۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اب بھی میں گاڑی میں ہوں۔

میں اپنی سوچوں میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ بارہ کھمبے کی جانب جانے والی بس کے ڈرائیور نے مجھے ہارن بجا کر جب اشارہ کیا، وہ میں نے سنا ہی نہیں۔ بریک لگا اور میں بال بال بچ گیا۔ نکڑ کی دوکان کا سکھ ’’بابو جی، بابو جی‘‘ کہتے ہوئے دوڑ کر میرے پاس آیا۔ ڈرائیور نے ایک بار میری طرف دیکھا، پھر میرے کھادی کے لباس کو اور پھر زبان پر آئی گالی نگل کر چلّا گیا۔ اس سردار نے میرا بازو پکڑ لیا اور ہنستے ہوئے پوچھا، ’’کیوں، خود کشی کرنے کا ارادہ تھا کیا؟‘‘

’’نہیں،‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

’’بال بال بچے۔ ایسا کون سا خواب دیکھ رہے تھے آپ؟‘‘ اس نے پوچھا۔

میں نے یکایک پوچھا،  ’’اُدھم سنگھ جی، آپ یہاں کیسے؟‘‘

جیسے ہی میں نے اس کا نام لیا، وہ بھونچکا سا رہ گیا۔ اپنی دوکان کی طرف لے جاتے ہوئے وہ خود کلامی کرتا جا رہا تھا، ’’عجیب بات ہے۔ مجھے یاد ہی نہیں آ رہا کہ میں نے آپ کو کہاں دیکھا ہے۔ آئیے بابو جی، چلئے دوکان میں بیٹھیے۔‘‘

بیٹھتے ہی میں نے پوچھا،  ’’آپ کا لچھمن کیسا ہے؟ اب تو وہ اسکول جاتا ہو گانا؟‘‘

اُدھم سنگھ مزید ہکا بکا ہو گیا۔ اجنبی اس کا اتنا شناسا ہے اور وہ خود کچھ بھی نہیں جانتا۔ اسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے مجھ سے گناہِ عظیم کا ارتکاب کیا ہے۔

’’لچھمن پنڈی میں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر سے اپنی یادوں کو ٹٹولنے لگا۔ اب میں نے اسے مزید حیرانگی میں رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اُس سفر کو یاد کرایا اور پوچھا،  ’’آپ کو یاد ہے اُس انور کی؟ وہ یہیں پر ہے جامعہ ملیہ میں۔ آج ہی میں نے اسے دیکھا۔‘‘

’’اچھا، وہ مسلمان بچہ؟ جامعہ ملیہ میں ہی ہو گا وہ اور ہو بھی کہاں سکتا ہے؟‘‘ اُدھم سنگھ نے جواب دیا۔ میں اس کی طرف بغور دیکھ رہا تھا، مگر وہ محبت، چاہت جو ڈبے میں انور کیلئے امڈ پڑی تھی، کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ مجھے لگا کہ یہ فوجی لوگ اور ہمارے دکّن کے دریا ایک جیسے ہی ہیں۔ برسات کے دنوں میں سیلاب، ورنہ ریت کا عذاب۔ میں نے اسے مزید کریدا اور کہا،  ’’بہت ہی پیارا بچہ تھا، نہیں؟‘‘

میری طرف چائے کی پیالی بڑھاتے ہوئے اس نے جواب دیا،  ’’پیارا تو تھا ہی، لیکن تھا سانپ کا بچہ۔‘‘

پیالی نیچے رکھ کر میں نے پوچھا،  ’’مطلب؟‘‘

’’مطلب صاف ہے بابو جی۔ مسلمان کی اولاد ہے نہ۔ کبھی نہ بھولیے۔‘‘ اس کی آنکھیں کرپان کی طرح چمک اٹھیں۔

آزادی کا نشہ فوراً اتر گیا تھا۔ اب تصویر یوں لگ رہی تھی کہ جیسے پہلے آم کا درخت بور سے بھر کر پھل کی امید دکھائے اور اچانک اوس گر کر اس پر پانی پھر جائے۔ آزادی اور ملک کی جے مالا ہو ہی رہی تھی کہ منڈپ ٹوٹ پڑا۔ امرتسر، سیالکوٹ، لاہور، گاؤں گاؤں، بستی بستی آگ میں جھلسنے لگے، جل کر راکھ ہونے لگے۔ تباہی بھرا عذاب نازل ہوا تھا اور اس کا پاؤں کبھی یہاں، کبھی وہاں پڑ رہا تھا۔ اس کی پکڑ کی سنگین آوازیں دہلی کے چاروں میناروں کو کپکپا رہی تھیں۔ اس کی سختی ہماری قوتِ برداشت کو مفلوج کر رہی تھی۔ ہمارے چہرے پر موجود انسانیت کا نقاب پگھل رہا تھا اور اندر گیدڑ کی آنکھیں اُگنے لگی تھیں۔ انگلیوں پر شیر کے ناخن، جنگلی سور کے دانت اور بکرے کا آلہ تناسل۔ آج تک انسان نے کون سی چیز اپنی عزیز سمجھی ہے؟ محبوبہ کی محبت۔ کون سی چیز مقدس جانی ہے؟ ماں کے آنسو۔ کون سی چیز اسے مدھر لگتی ہے؟ بچے کی کلکاری۔ تب پھر کیوں ہم ان سب کو پاؤں تلے روند کر، ان کے خون میں نہا کر، دنیا کے سامنے بے شرمی سے ننگ دھڑنگ ناچتے ہیں؟ کیوں ہم ایک دوسرے کی ماؤں کے پستانوں کو، بیویوں کی جانگھوں کو اور بچوں کے گلوں کو دبا کر دکھ پہنچاتے ہیں؟

اب تک دہلی سلگ رہی تھی۔ جھلس نہیں گئی تھی۔ پنجاب سے آتی خبروں سے وہ اندر ہی اندر رو رہی تھی۔ ہندوؤں اور سکھوں کی آنکھیں اس سے سرخ ہو رہی تھیں۔ تو مسلمانوں کی خوف کی دہشت سے۔ آہستہ آہستہ خبریں آنے لگیں کہ کہیں مسجد گرائی گئی توسبزی منڈی میں کسی کو چھرا بھونکا گیا۔ کبھی کسی مسلمان کے گھر پر پتھراؤ ہی ہو گیا۔ آندھی کی یہ واضح علامتیں تھیں، گھنگھور گھٹا کی پہلی بوندیں۔ اور جیسے ہی مغربی پنجاب سے آئے جلا وطنوں کا سیلاب سونی پت سے ہو کر دہلی میں اترا، تو ان کی لائی ہوئی کہانیوں سے پہلے تو یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ جل کر راکھ ہوئے، پھر اس کے انگارے بنے۔ جلاوطنی کی کہانیوں کا ایک ایک لفظ سننے والوں کو بے چین بنا رہا تھا۔ ماحول میں لفظ گونجنے لگے تھے۔ ’’بدلہ، خون کا بدلہ۔‘‘

ہر کونے میں، ہر نکڑ پر لوگوں کے گروہ جمع ہونے لگے۔ لمحے بھر کیلئے چرچا کرتے اور پھر غائب ہو جاتے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دہلی میں اجنبی لوگ کافی تعداد میں آ گئے ہیں یا پھر شناسا ہی انجان سے لگ رہے ہیں۔ لوگ یا تو خاموش رہتے یا گھر میں پڑے رہتے یا پھر گالی گلوچ ہی کرنے لگتے۔ سڑکوں پر عورتوں کا اور بچوں کا چلنا پھرنا تقریباً بند ہو گیا تھا۔

پھر بھی اُدھم سنگھ کی دوکان پر لوگوں کا آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ وہ گاہک نہیں تھے۔ ایک بار میں نے وہاں کافی لوگ جمع ہوئے دیکھے۔ اس دن اس سے دوبارہ ملاقات ہونے کے بعد میں کبھی کبھار اس سے ملنے چلّا جاتا تھا۔ اس لئے میں نے دیکھا کہ ادھم سنگھ اداس بیٹھا تھا اور باقی سب اس کے ارد گرد کھڑے تھے۔ کوئی کچھ بولتا نہیں تھا۔ پر کچھ کالی سی چیز ان کے من میں تھی، یہ تو میں بھانپ گیا تھا، جیسے ایک جانور دوسرے جانور کو سونگھ کر اس کے من کی باتیں جان لیتا ہے۔ شاید میں بھی ان دنوں میں بدل گیا تھا۔ میں نے اسے بلایا،  ’’سردار جی، اُدھم سنگھ۔‘‘

ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہاتھ ویسے ہی رکھ کر اس نے میری طرف اپنی برف جیسی سرد نگاہ ڈالی۔ میں نے پوچھا،  ’’کیا ہوا؟‘‘

’’جو ہونا تھا سو ہو گیا،‘‘ تلخ سا ہنستے ہوئے اس نے جواب دیا۔ پھر آگے بولا،  ’’پنڈی میں، سیالکوٹ میں جو ہو رہا ہے وہی ہو گیا بابو جی۔‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’میرا پورا ستیاناس ہو چکا ہے بابو جی،‘‘ اپنے فولادی بازو میرے کندھوں پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔ اور پھر مجھے ہی نہیں بلکہ دہلی کے تمام باشندوں کو خطاب کرتے ہوئے بولا،  ’’کل دہلی میں قیامت آئے گی۔ سارے سانپ کچل دیے جائیں گے۔‘‘

اور حقیقتاً ہی دوسرے دن دہلی میں قیامت آ گئی۔ مسلمان اپنے بال بچے اور بیویوں کو لے کر چھپنے کی نیت سے جانے لگے۔ راستے میں ان پر حملے ہونے لگے۔ گھروں کو جلایا جانے لگا۔ شہر بھر میں یہی چل رہا تھا، اور میں؟ میں کہاں تھا؟ کیا کر رہا تھا؟

کیا ان سب پر مجھے اعتراض تھا؟ سچ پوچھو تو نہیں۔ خود میں نے نہ تو کسی کو لوٹا، نہ کسی کو چھرا بھونکا۔ اور نہ ہی کسی مسلمان لڑکی کو بھگایا تھا۔ وجہ یہی تھی کہ دل سے میں کمزور تھا، نامرد۔ پر اوروں کی طرف سے ہونے والی یہ مردانگی دیکھ کر میں بہت خوش ہوتا تھا۔ اسی لیے تو میں شہر بھر میں گھوم رہا تھا۔ جیسے وِنگ میں بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ رہا ہوں۔ جیسے چیتے کا کیا ہرن کا شکار، دیکھنے والے کا خون کھولاتا ہے اور جانوروں کے ملن کا منظر نسیں اکڑا دیتا ہے۔ ٹھیک ایسا ہی میرا حال تھا۔ میرے اندر اس دوپہر کو ایک مبصر چھپا تھا۔ دوسروں کے بھونکے ہوئے چھرے سے ٹپکتے خون میں ہاتھ ڈبونے والا، دوسروں کے ذریعے عریاں کی گئی لڑکیوں کے پستان دبانے والا۔۔۔۔ میں سب جگہ دل سے حصے دار تھا۔

دوپہر دو بجے سنا کہ جامعہ ملیہ کے قریب کچھ گڑبڑ ہوئی۔ لگا پیٹ میں آتیں کھنچنے لگیں ہوں۔ میں اس طرف ہو لیا۔ دیکھا اسکول کی عمارت سے لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ نزدیکی درختوں کے پتے جل گئے تھے، اور ہوا سے اڑ رہے تھے۔ کچھ کاغذ بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ کوے کبوتر ڈر کر اِدھر اُدھر اڑ رہے تھے۔ لوگوں کی آواز آ رہی تھیں۔ دو تین سو مسلمان عورتیں، بچے اور مرد ہماری ہی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔ مطلب گھسٹ رہے تھے۔ چلنے سے ان کے پاؤں لاچار تھے۔ راستے کے دونوں کناروں پر لوگ قطار میں کھڑے ان بد نصیبوں کو دیکھ کر گالیاں بک رہے تھے۔ ہنس رہے تھے۔ اب تک انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

نکڑ پر اُدھم سنگھ کی دکان تھی۔ وہاں پہنچتے ہی سارا منظر پلٹ گیا۔ دکان سے پچاسوں آدمی اس بھیڑ پر ٹوٹ پڑے۔ لاٹھیاں، چھرے، برچھے، طرح طرح کے ہتھیار چلنا شروع ہو گئے۔ آدمی بھاگ کھڑے ہوئے۔ عورتیں بچوں کو سینے سے لگا کر چیخنے لگیں۔ لڑھکتے ہوئے برتنوں سے جیسے پانی آتا ہے، ویسے ہی خون بہنے لگا۔ لاشوں کا ڈھیر لگنے لگا۔

اس میں ایک کراہتی چیخ میں نے سنی۔ دیکھا تو اُدھم سنگھ نے اپنے فولادی شکنجے میں ایک بچے کے بال جکڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہاتھ میں موجود خون سے رنگا کرپان بچے کے سینے میں ٹکا دیا تھا۔ اس لڑکے کی آنکھیں بجھی بجھی لگ رہی تھیں۔ ہونٹ سفید پڑ گئے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا پر لفظ ہی نکل نہیں رہے تھے۔۔۔

میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ انور ہی تھا۔ گلاب کے پھول جیسا، بلبل جیسا انور۔ اسے بچانا ہی چاہیے۔ میں چلانا چاہتا تھا کہ ادھم سنگھ ہاتھ ہٹاؤ۔ یہ انور ہے۔ اپنا انور۔

لیکن میں کچھ بولوں اس سے قبل ہی ادھم سنگھ کے کرپان نے انور کا سینہ چاک کر دیا تھا۔ وہی انور کے ریشم جیسے بال جو کبھی اُدھم سنگھ نے سہلائے تھے، جسے پانی پلایا تھا، وہی انور اب چلو بھر خون گرا کر اسی کے پاس پر سکون سویا پڑا تھا۔ اس کے ہونٹ پھر سے سرخ ہو گئے تھے اور گال نرم۔ بال چمک رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ ابھی وہ اٹھے گا اور اپنے بازو اُدھم سنگھ کے کندھے پر رکھ کر کہے گا، ’’چاچا جی۔۔۔!‘‘

***

 

 

 

 

ہمسایہ

 

شیخ ایاز

سندھی کہانی

 

خانو حجام اس وقت، ہیئر سیلون میں بال کاٹ رہا تھا، جب قومی گارڈ پریڈ کرتے جا رہے تھے۔۔ لیفٹ رائٹ۔۔۔ لیفٹ رائٹ۔۔۔ لیفٹ رائٹ۔۔۔ لیفٹ رائٹ۔۔۔ خاکی وردی پہنے جوان، پسینے سے تر بتر، بے پرواہ، مغرور اور مضبوط۔ بال کٹوا کے شام داس سیٹھ نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر خوف، بے بسی اور نفرت کی پرچھائیاں دکھائی پڑیں۔

’’خانو، وہ جو چاند تارے کا جھنڈا لے کر قیادت کر رہا ہے، وہ کون ہے؟‘‘ اس نے بہت ہی ڈرتے ہوئے پوچھا۔

’’وہ خان محمد ہے۔ لوہار کا کام کرتا ہے۔‘‘

سیٹھ نے خانو پر اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریافت کیا،  ’’یہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ کہیں یہ دنگا فساد تو نہیں کریں گے؟‘‘

خانو تھا تو کٹر مسلم لیگی اور اس کا دل اسلام کی عظمت میں ڈوبا تھا، لیکن وہ گاہکوں کے ساتھ ہمیشہ محبت اور مروت برتتا تھا۔ اس لئے اس نے کہا،  ’’سیٹھ جی یہ دنگافساد کیوں کریں گے بھلا؟ یہ تو صرف ورزش کر رہے ہیں۔‘‘

’’مگر دوست، ورزش تو یہ راما مُستی یا واحد بخش کے اکھاڑے میں بھی کر سکتے ہیں، یہاں بیچوں بیچ راستے پر کیوں  ’’لیفٹ رائٹ۔۔ لیفٹ رائٹ‘‘ لگائی ہوئی ہے۔ میں تو کل جودھپور جا رہا ہوں۔ بال بچوں، بیوی کو بھی ساتھ لے جا رہا ہوں۔‘‘

خانو دو چار دن سے ایسی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے الوحید اور سنسار سماچار میں بنگال اور بہار کے فسادات کے خبریں پڑھی تھیں، جو دردناک اور دل دہلانے والی تھیں۔ وہاں پر انسانیت کو کّا ا گیا تھا اور بھائی، بھائی کے خون سے ہولی کھیل رہا تھا۔ وہاں عورتوں کی عصمت لوٹی گئی تھیں اور معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ لاہور اور بمبئی میں بھی خوفناک فسادات ہوئے تھے اور ان کی تصویریں بھی اس نے دیکھی تھیں۔ اس کے دل میں کئی بار یہ خیال آیا تھا کہ ہندوؤں نے بہار کے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے۔ ہمارے مذہبی بھائیوں کے خون کے ساتھ کھیلا گیا ہے۔ پردہ نشین خواتین کی عزتیں لوٹی گئی ہیں۔ وہ سوچتا کہ کیا دو جون کے بعد یہاں پر بھی فسادات ہوں گے؟ خانو استرا چلاتے ہوئے سوچ رہا تھا، کیا ہم بہار کے مسلمانوں کا بدلہ یہاں لیں گے؟ مثال کے طور پر کیا میں اس سیٹھ کا گلا اس استرا سے کاٹ دوں گا؟ یہ خیال آتے ہی اس کا دل کانپ اٹھا۔

خانو تھا تو حجام، پر شام کو جب وہ پامابِیچ کی پینٹ پہن کر لکھی دروازے پر گھومتا تھا، تب اس کو کوئی حجام نہیں کہہ سکتا تھا۔ شکار پور کے بہت سے کالج اسٹوڈنٹ اس سے دوستی کرنا چاہتے تھے، کیونکہ سندھ کے تمام کالجوں کے طرح طرح کے میگزین اس کی دکان میں پڑھنے کو ملتے اور اردو، سندھی کے دیگر رسائل بھی اس کے پاس آتے تھے، اشوک کمار اور پرتھوی راج کپور کے پوسٹر اس کے سیلون میں لگے تھے۔ خانو فلموں اور لٹریچر پر بحث کرتا تو معلوم ہوتا کہ وہ کوئی بہت بڑا عالم فاضل ہے۔ خانو کی دکان میں معیاری پاؤڈر اور تیل وغیرہ بھی رکھے رہتے تھے، جن پر لٹو ہو کر اسکول کے اسٹوڈنٹ، خانو سے جان پہچان بڑھاتے تھے۔ خانو کی دوستی کالج کے لونڈوں سے یا ان پڑھ ہندو سیٹھوں سے یا مسلمان زمینداروں کے لڑکوں سے ہوتی تھی، جو پینٹ پہنتے اور فلمی اداکاروں پر بحث کرتے یا سیر اور شکار کے شوقین تھے۔ دو تین کمیونسٹ بھی اس کے سیلون میں آتے تھے۔ لیکن وہ آپس میں باتیں کرتے تھے اور خانو پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ کل بھی وہ بال کٹوانے آئے تھے۔ آپس میں بول رہے تھے۔

’’سندھ تو سندھیوں کا ہے۔ آج ہماری سندھی قوم کی ایک الگ پہچان خطرے میں ہے۔ یہ پنجابی، بہاری، گجراتی، ہماری زبان و ثقافت، تجارت اور زمین ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تمام بیماریوں کو جڑ سے ختم کر دیں۔ سندھ کی کانگریس پر گجراتی لوگوں کا کنٹرول ہے اور مسلم لیگ والے تو بہاریوں اور پنجابیوں کے لئے لنگر کھول کر بیٹھے ہیں، سندھی لوگ بھلے ہی بھوکے مر جائیں۔‘‘

ان میں سے جو ایک ہندو تھا، اس نے کہا،  ’’میں اودے پور یا جودھپور میں ہندوؤں کے ساتھ رہنے کے مقابلے میں یہاں سندھ میں مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا۔ اس ملک کے ساتھ میری روح جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کے راستے، باغ باغیچے اور لوگ میری روح میں رچ بس گئے ہیں۔ میری ہستی سندھ کے بغیر مردے کے برابر ہے۔‘‘

خانو نے اس سے پہلے اتنا بڑا دل رکھنے والا اور کوئی ہندو نہیں دیکھا تھا۔ لہٰذا وہ اس کی باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا۔

اس ہندو نے جوش میں آ کر کہا، ’’جئے سندھ۔‘‘

پہلے خانو نے ’’جے ہند‘‘ کا نعرہ سنا تھا، تب اس کو اس میں ہندو پن کی بو آئی تھی اور خانو کو ایسا محسوس ہوا تھا، گویا کسی نے اس کو استرا سے کاٹ دیا ہو۔ لیکن ’’جے سندھ‘‘سنتے ہی اس نے ایسا محسوس کیا کہ جیسے کسی نے گلاب کے پانی سے اسے شرابور کر دیا ہو اور جس نے اس کا من خوشبوؤں سے بھر دیا ہو۔

آج اس کو خیال آیا، اگر کل سندھ میں بھی فسادات ہوں گے تو وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ اس استرے سے سیٹھ کا گلا کاٹ دے گا؟ سیٹھ کا لڑکا کالج میں پڑھتا تھا اور اس کے پاس بال کٹوانے آتا تھا۔ کئی بار وہ لوگ نوروز کے میلے پر سندھو دریا کے کنارے خانو کو ملے بھی تھے۔ انہوں نے خانو کو اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا تھا۔ چاروں طرف بڑی چہل پہل تھی۔ سندھو دریا لبالب بہہ رہا تھا۔ پل کے قریب لہریں اچھل اچھل کر دل میں امنگیں بھر رہی تھیں۔ اس وقت خانو نے کان پر ہاتھ رکھ کر دوہے گائے تھے، ’’چولے باری نینگری (اے کرتے والی چھوکری)‘‘

اس وقت جیسے محبت اور پیار کا ماحول چھا گیا تھا۔ تب ہندو اور مسلمان کا امتیاز نہ رہا، سب مل کر موسیقی کا امرت پی رہے تھے۔ انہوں نے تیرنے کے کڈھو اٹھائے تھے اور ان پر تال دے دے کر موسیقی کے ساتھ تال ملا رہے تھے۔ پھر وہ لوگ دریا میں اتر کر تیرنے لگے تھے اور آم چوستے جا رہے تھے۔ خانو نے سوچا، دریا جو بہہ رہا تھا، وہ تو دونوں کے لئے یکساں تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ پانی ہندوؤں کو ڈوبا دیتا اور مسلمان تیرتے جاتے اور دونوں کے سر پر سورج چمک رہا تھا۔ اور دونوں ہی اپنے سر کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے پانی میں ڈبکیاں لگا لیتے تھے۔ ایسا تو تھا نہیں کہ سورج مسلمانوں کو تو چھاؤں میں رکھتا اور ہندوؤں کو دھوپ میں جلا دیتا۔ جب یہ قدرت کے عناصر ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں رکھتے، تو وہ ان کو پیدا کرنے والا کیوں امتیاز رکھے گا؟ اور جب خالق امتیاز نہیں رکھتا تو مخلوق کیوں امتیاز رکھے؟ خانو کا دماغ جیسے کسی اردو رسالے کا ایک صفحہ بن گیا ہو، اس نے جو کتابیں پڑھی تھیں، وہ سب کے سب مل کر اس پر ادب کا رنگ چڑھا رہی تھیں۔ اور خانو سوچ رہا تھا کہ جن کے ساتھ اس نے کھایا پیا تھا، اٹھا بیٹھا تھا، ان کا یا ان کے ماں باپ کا گلا وہ کس طرح کاٹ سکتا ہے؟

خانو اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ شاہی باغ میں بھگت سننے کو جاتا تھا، اور جب مہات کان پر ہاتھ رکھ کر شاہ لطیف کی کافی پڑھتا۔

 

پھر ماحول ایسا بھر جاتا کہ خانو کا دل چاہتا کہ وہ وہیں مر جائے۔ اسی طرح اس بڑے اور ٹھنڈک دینے والے برگد کے درخت کے پتے جھومتے رہیں۔ اس کی قبر یہیں بنے اور ہمیشہ اس کی قبر پر وہ پتے جھڑتے رہیں اور شاہی باغ کی ٹھنڈی ہوا اس کی قبر کو سہلاتی رہے اور جب جب بھگت گائے تو اس لہراتی آواز اور موگرے کی مہک اس روح کو گدگداتی رہیں اور وہ قبر میں بھی گاتا رہے، لہراتا رہے اور اگر فرشتے اس کو جنت میں لے جائیں، تو وہ وہاں سے بھی دامن چھڑا کر بھاگ آئے اور یہاں آ کر بھگت کی آواز میں بندھ جائے اور موگرے کی جھاڑیوں سے چھیڑخانی کرے، ایسے کئی جذبات نہ صرف خانو کے دل میں ابھرتے تھے، بلکہ کئی ہندو مسلمان سننے والوں کے دلوں کے اندر یہی احساسات تھے۔ یہ ہندو سندھ چھوڑ جائیں گے۔ کیسے یہ لوگ ’’مار وی‘‘ کا مسکن چھوڑیں؟ اور کون انہیں شاہ لطیف کی کافیاں سنائے گا۔ پر خانو نے جو گیت ریڈیو پر سنے تھے، ان سے اس کو نفرت ہوئی تھی اور اس نے اسٹیشن تبدیل کر دیا تھا، جیسے وہ بھوت پریتوں کی بولی ہو۔ دوسری زبان میں ہمیں وہ ذائقہ کیسے ملے گا۔ جن زبانوں میں سے باجرے کی سوکھی روٹی کی سی بو آتی ہو، ان میں ہم گندم کھانے والوں کو کس طرح سے سواد آئے گا؟ ہم سندھ، شاہ کی شاعری پر جان دینے والے، سندھو دریا پر رہنے والے، سندھ سے باہر جا کر کس طرح زندگی گزار پائیں گے؟

خانو کو کئی ایسی، زندگی میں بنی ہوئی شکلیں نظر آئیں، جن میں عام ہندو اور عام مسلمان آپس میں تانے بانے کی طرح جڑے ہوئے تھے اور جن میں سندھ کی ایک تہذیب، ایک قومیت جھلکتی تھی۔ خانو سندھ سے چلے جانے کے بارے میں سوچتا رہا، اس کا دماغ بال کاٹنے والی مشین کی طرح کام کرتا تھا۔

شام کو جب خانو دکان بند کر کے گھر جا رہا تھا، تو اس نے دیکھا، لوگوں اور سامانوں سے بھری ہوئی، بہت ساری گھوڑا گاڑیاں، ریلوے اسٹیشن کی جانب مسلسل رواں دواں تھیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے پیدائشی وطن کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے جا رہے تھے دور، جہاں پر نہ شاہ لطیف تھا، نہ سامی تھا، نہ سادھوبیلا، نہ زندہ پیر، نہ بھگت، نہ لوگوں کا دنگل، نہ بارہویں کا میلہ تھا، نہ جہاں چودھویں کا راگ ہوتا تھا۔ دور ایک ان جانے دیس میں وہ لوگ جا رہے ہیں، جہاں کی رسم و رواج، لباس اور زبان، وہ نہیں جانتے تھے۔

پر خانو کے ذہن میں ایک خیال آیا، سندھ سے باہر جانے کا خیال تو صرف دو چار سیٹھ لوگ ہی کر سکتے ہیں، جن کی جے پور اور اودے پور میں اپنی کوٹھیاں ہیں اور جو لوگ سفر کا خرچ اٹھا سکیں گے۔ پر وہ غریب منشی، کلرک، سندھی اسکولوں کے اساتذہ جو اس کے سیلون میں آتے تھے، اور بال کاٹنے کے چار آنے دینا بھی جن کو بھاری پڑتا تھا، وہ لوگ کیسے اتنا خرچ کر پائیں گے؟ سیٹھ لوگ تو وہاں جا کر بھی تجارت ہی کریں گے، پر استاد اور کلرک لوگ کیا کریں گے؟

دوسرے دن صبح خانو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا مسواک کر رہا تھا تو گلی میں کسی نے ہانک لگائی۔

‘ ‘پلّو مچھّی۔۔ پلّو مچھّی۔‘‘

خانو کی زال نے گھر سے باہر آ کر مچھلی والی کو روکا اور مچھلی مانگنے لگی۔ ’’مجھے آدھا پلا چاہئے۔ ’’اس نے کہا۔

اتنے میں ساتھ والے گھر سے پیسورام کی ماں باہر نکلی اور خانو کی زال سے کہنے لگی۔  ’’بہن جبل، پورا پلا لے لو۔ آدھا میں لے لوں گی۔‘‘

اور دونوں نے پورا پلا لے کر آدھا آدھا کر لیا۔

تب پیسورام کی ماں نے کہا۔  ’’بہن جبل، سنتے ہیں آپس کی نفرت بہت بڑھ گئی ہے، مسلمان فسادات کرنے والے ہیں، ایسا ہوا تو میں تمہارے پاس آ کر رہوں گی۔‘‘

خانو نے مذاق کرتے ہوئے پیسورام کی ماں سے کہا۔ ’’میں تو مسلم لیگی ہوں اور جناح کیپ پہنتا ہوں، تمہیں تو مجھ سے ہی ڈرنا چاہئے۔‘‘

’’نہیں ادّا، کیا کہتے ہو۔‘‘ پیسورام کی ماں نے نفی میں سر کو ہلایا اور پھر نتھ کو جھلاتے ہوئے بولی۔ ’’آپ لاکھ لیگی ہو جاؤ، ہمارے لئے تو وہی خانو بھائی ہو۔ ہمیں آپ کیوں ماریں گے؟ آپ ہی تو کہتے ہیں نا، پڑوسی تو ماں باپ، بہن بھائی ہوتے ہیں۔ آپ عید پر ہم کو فرنی دیتے ہیں اور شِیتلا کے وقت ہمارے ساتھ میٹھی روٹی کھاتے ہیں، پھر کیا اس کا لحاظ بھی نہیں ہو گا؟ اگر پھر بھی آپ کے ہاتھوں سے مروں گی تو آپ پر قربان ہو جاؤں گی۔‘‘ پھر پیسورام کی ماں نے ایک کہاوت سنا دی، ’’مار لو میرے چھوٹے بھائی، سر کاٹ لو۔‘‘

یہ کہاوت ماں، بھائی بہن کی لڑائی ہوتے وقت کہی جاتی ہے۔

یہ سن کر خانو کے نہاں خانے واہو گئے۔ کیا اس عورت کو وہ مارے گا جو پناہ مانگ رہی تھی؟ کبھی نہیں، کبھی نہیں۔ وہ اتنا سنگدل نہیں ہو سکتا۔ بہار میں اگر ہندوؤں نے مسلمانوں کو مارا تھا، تو اس میں پیسورام کی ماں کا کیا قصور ہے؟ وہ تو بچپن سے اس کے پڑوس میں پلی اور بڑی ہوئی ہے۔ دونوں نے بچپن میں ایک ہی بیری میں پتھر مار کر بیر گرائے اور کھائے تھے۔ دونوں نے ایک نل سے پانی بھرا تھا۔ خانو نے کئی بار گاگر اٹھا کر پیسورام کی ماں کے سر پر رکھی ہے۔ کئی بار اس کی پتنگ اس کے کوٹھے پر جا گری تھی، تو پیسورام کی ماں نے جا کر اسے دی تھی۔ اتنا ہی نہیں جب خانو کی زال جبل کو بچہ ہونے والا تھا، تب پیسورام کی ماں نے اس کو پانی اور دھاگے سنتوں سے پڑھا کر دیئے تھے؟ اس کو کیوں مارا جائے؟ کبھی نہیں، کبھی نہیں! اس صوفیوں کے دیس ’’سندھ‘‘ میں کبھی فسادات نہیں ہوں گے۔ اس کے کانوں میں جیسے کسی نے وہی لفظ پھونک دیئے۔ ’’جئے سندھ‘‘ کون ایسا ظالم اور سنگدل ہو گا، جو پڑوسی کی حفاظت نہ کرے گا اور بے سہارا لوگوں کا گلا کاٹے گا۔ اس کے دل میں جو دھند تھی، وہ صاف ہو گئی تھی ایسے جیسے کلین شیو۔

***

 

 

 

 

انتظار

 

کھِمن مولانی

سندھی کہانی

 

 

جس بلاک میں ہم رہائش پذیر تھے، اسی کے کونے والے کوارٹر میں سورج مل نام کے ایک عمر رسیدہ شخص بھی رہتے تھے۔ عمر کوئی ستر سال سے اوپر تھی۔ زیادہ تر سب لوگ انہیں ’’کاکا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ اکثر بیماری جھیلا کرتے تھے، اسی لیے کوئی کام دھندہ نہیں کرتے تھے۔ تمام دن گھر میں ہی فارغ بیٹھے رہتے تھے۔ بیٹے اور پوتے کماتے تھے، جس سے گھر کی گاڑی چل جاتی تھی۔

کاکا دھوتی اور اوپر سے آدھے بازو والی سندھی قمیض پہنتے تھے۔ سر پر سندھی ٹوپی رکھ کر، اس پر پٹکا باندھتے تھے۔ میں جب بھی سبزی ترکاری لینے کے بہانے یا کسی دوسرے کام سے ان کے گھر کے قریب سے گزرتا تھا، تو وہ اکثر مجھے مسکرا کر مسرت بھری آواز سے کہتے،  ’’بھائی صاحب، رام رام۔‘‘

’’رام رام کاکا، رام رام۔‘‘ میں جواب دیتے ہوئے آگے نکل جاتا تھا۔

کاکا اپنی تنہائی مٹانے کیلئے مجھ سے ملنا چاہتے تھے، مگر میں بیکار ہی وقت گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ میں ان کی باتوں سے بور ہو جاتا تھا۔ اسی لیے کبھی کبھی تو میں دوسرے راستے سے نکل جاتا، تاکہ ان کا منہ نہ دیکھو۔

ایک دن میں کاکا کے گھر کے قریب سے گزر رہا تھا، تو مجھے ان کی آواز سنائی نہیں دی۔ میرا دھیان اس جانب چلّا گیا اور میں رک گیا۔ میں نے کاکا کے گھر کی طرف دیکھا۔ وہ صحن میں اپنے پرانے خستہ حال پلنگ پر روز کی طرح حقہ منہ میں لگائے بیٹھے تھے اور ایک ٹک سامنے والی دیوار کو تک رہے تھے۔ مجھے یوں احساس ہوا کہ شاید کاکا کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انہیں آواز دی۔

’’کاکا، رام رام۔‘‘

کاکا کی توجہ میری جانب نہیں تھی۔ مجھے تعجب ہوا۔ آگے بڑھ کر میں ان کے قریب جا کھڑا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ کاکا کی آنکھیں نم تھیں۔ میں نے پھر سے کہا،  ’’کاکا، رام رام۔‘‘ ۔ لیکن کاکا کی حالت میں تب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مجھے شک ہونے لگا کہ کاکا کہیں اس دنیا سے کوچ تو نہیں کر گئے ہیں۔ میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ زور سے کہا،  ’’کاکا۔۔۔ ہرے۔۔۔ رام۔‘‘

میری آواز پر کاکا چونک پڑے۔ جیسے ان کا دھیان تحلیل ہو چکا ہو۔ حیران نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگے اور میں انہیں دیکھ کر مسکرانے لگا۔ کاکا نے بھی زبردستی اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے، اپنے انگوچھے کے پلو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

’’آؤ بیٹے، آؤ بیٹھو، بہت دنوں بعد آئے ہو۔‘‘

میں بنا کچھ کہے، ایک فرمانبردار بچے کی طرح خاموشی سے ان کے برابر میں بیٹھ گیا۔ یہ سوچ کر میں ابھی تک حیران تھا کہ ہمیشہ خوش و خرم رہنے والے کاکا آج اتنے غمگین کیوں ہیں؟ کاکا پھر بھی خاموش رہے، پر مجھ سے رہا نہ گیا۔ اس لئے ان کی خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا، ’’کاکا کیا حال چال ہیں؟‘‘

خود کو سنبھالتے ہوئے کاکا نے کہا، ’’سب ٹھیک ٹھاک ہے بیٹا۔‘‘

مجھے اس جواب سے جب کوئی اطمینان نہ ہوا۔ تو تب دوسرا سوال کرنا چاہا، ’’پر کاکا۔۔۔؟‘‘

کاکا نے مجھے اپنا جملہ پورا نہیں کرنے دیا اور کہا، ’’بس بیٹا ایسے ہی پرانی یادیں دل میں تیر آئیں اور من بھر آیا۔ دنیا دیکھی ہے، بہت کچھ پایا اور بہت کچھ گنوایا ہے۔ پر بیٹا، گنوانے کا دکھ تو ہر انسان کو ہوتا ہی ہے۔‘‘

میں ان کی بات کا مطلب مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا۔ میں جاننے کے لئے بے چین ہوا کہ ان کی ایسی کون سی چیز گم ہو گئی ہے کہ وہ اتنے پریشان ہوئے ہیں۔ لیکن میں اپنی سوچوں کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا پایا۔ بس اتنا ہی کہا، ’’کاکا، آپ کی کون سی چیز کھوئی ہے؟‘‘

کاکا نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’بیٹے، میں نے ایک قیمتی چیز گنوائی ہے۔‘‘

’’ایسی کون سی چیز ہے وہ؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔

کاکا نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ’’بیٹا میں نے اپنی جنم بھومی گنوائی ہے۔ جنم بھومی جو جنت سے بھی زیادہ عظیم ہوتی ہے۔‘‘

میری ہنسی چھوٹنے والی تھی، لیکن میں نے اسے دبا کر رکھا۔ کچھ لمحے رک کر کہا، ’’کاکا، لیکن یہ تو تقسیم کے بعد کی بات تھی۔ اب توسن اکہتر چل رہا ہے۔ تقسیم کو پورے چوبیس سال ہونے کو ہیں، آپ ابھی تک سندھ کو یاد کر رہے ہیں۔‘‘

’’سچ کہتے ہو بیٹے، لیکن جہاں آگ لگتی ہے، وہیں تپش محسوس کی جاتی ہے۔ کسی اور کو کیا پتہ کہ عذاب کیا ہوتا ہے۔‘‘

ایسا کہہ کر کاکا میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے، ’’پتہ ہے، رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ ایسا خوشگوار خواب میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں، میں حیدرآباد اسٹیشن پر جا کر اترا ہوں۔ اسٹیشن دیکھ کر جو خوشی مجھے ہوئی، میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک ایک آتے جاتے آدمی کو غور سے دیکھتا ہوں۔ ایسے جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ ہمارے گاؤں کا دلارا خان میرے سامنے کھڑا ہے اور وہ مجھے گھورے جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہی آنکھیں گھومتی ہوئیں اس پر ٹھہر گئیں۔ کھینچ کر اسے گلے سے لگایا۔ پھر تو وہ گلے لگ کر رونے لگا۔ زور زور سے سسکیوں کے بیچ جیسے اس کی آواز رندھ گئی۔ میں بھی رونے لگا تو لوگ جمع ہونے لگے۔ سبھی پوچھنے لگے کہ ماجرا کیا ہے؟ کیا ہوا ہے؟ میں انہیں کیا بتاتا کہ کیا ہوا ہے۔ آخر کہا، ’’بھائی برسوں بعد ملے ہیں۔ اسی وجہ سے آنکھیں بھر آئی ہیں۔‘‘ لوگ تو چلے گئے، لیکن دلارا بھولی بسری یادوں کی کہانیاں لے بیٹھا۔

’’یار تمہارے جانے کے بعد ہم تو مسائل سے گھر گئے ہیں۔ تم تو ہمیں اکیلا تنہا کر کے چلے گئے۔ اب تو پردیسیوں کی زور زبردستی نے ہمیں چور چور کر دیا ہے۔ ہمارے ساتھ اپنے ہی دیس میں پردیسیوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔‘‘ پھر کچھ دیر رک کر کہنے لگا، ’’سورج مل، تم کو یہاں سے جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔‘‘

ایسا کہہ کر کاکا کچھ لمحے ٹھہرے اور پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولے، ’’بیٹا، سچ پوچھو تو دلارے کی وہ پہلے سی محبت اور لگاؤ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ اسی طرح باتیں کرتے کرتے ہم نے گاؤں کے دو ٹکٹ لیے اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔‘‘ کاکا بات کرتے کرتے رک گئے۔

’’پھر کیا ہوا کاکا۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھ لیا۔

کاکا نے میری طرف کچھ اس طرح دیکھا جیسے وہ میرا چہرہ پڑھ رہے ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا، ’’پھر نہ جانے کیا ہوا بیٹے۔ بدقسمتی سے آنکھ کھل گئی۔ اس ڈائن نیند کا وار ہی شاید ایسا ہے۔ سسی سے پنوں کو چھینا اور مجھ سے میری جنم بھومی کے نظارے۔‘‘

میں نے کہا، ’’کاکا، کبھی خواب بھی سچ ہوتے ہیں؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم جو یہاں پیدا ہوئے ہیں، پلے بڑھے ہیں، اگر سندھ واپس بھی چلے جائیں تو کیا ہمیں یہ اپنا وطن یاد نہیں آئے گا؟ اور پھر، وہاں جو ہماری طرح نئی نسل پیدا ہوئی ہو گی، ان کے دلوں میں کیا آپ کے لیے وہی پیار، محبت اور عزت ہو گی؟‘‘

کاکا کو میری بات نہ بھائی، کہنے لگے، ’’چھوڑو بیٹا ان باتوں کو۔ بتاؤ ملک کی کیا تازہ خبریں ہیں؟‘‘ کاکا نے بات تبدیل کرنے کیلئے میری طرف ایک نیا سوال اچھال دیا۔

’’سب ٹھیک ہے کاکا۔ ملک ایسے ہی چل رہا ہے جیسے چلتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

کاکا سوچ میں پڑ گئے کہنے لگے، ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ پھر سندھ میں لوٹ جانا ہو گا؟‘‘

’’نہیں کاکا، مجھے تو نہیں لگتا، پھر بھی مولا جانے۔‘‘ میں کاکا کے دل کو دُکھانا نہیں چاہتا تھا۔

’’نہیں بیٹا، ایسے مت کہو۔ وقت بڑا بلوان ہے، رب بڑا مہربان ہے۔ وہ چاہے تو کیا نہیں کر سکتا۔ میری روح کہتی ہے کہ جائیں گے ضرور۔‘‘ ایسے کہتے ہوئے بابا کے چہرے پر ایک انوکھی چمک چھا گئی۔

میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’کاکا، اس بات کا امکان بہت کم ہے۔‘‘

یہ سن کر پہلے تو وہ خیال میں پڑ گئے، پھر سر اٹھا کر کہنے لگے۔‘‘ سچ کہہ رہے ہو بیٹا، مگر میرا دل نہیں مانتا۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہم سندھی ایک دن ضرور اپنی جنم بھومی پر جا کر بس جائیں گے۔‘‘

’’کاکا یہ تو ایک دم جذباتی باتیں ہیں۔ در حقیقت آپ کو سندھ چھوڑنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘

’’ہاں بیٹا، پر میں نے جنم بھومی اپنی مرضی سے نہیں چھوڑی۔ حالات ہی کچھ ایسے بنتے گئے۔‘‘ کاکا نے اپنی مجبوری بتائی۔

’’حالات میں تو سدھار ضرور آ جاتا۔ جلد بازی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’ارے بیٹے، میں نے سندھ ہمیشہ کے لئے تو نہیں چھوڑا تھا۔ پتہ ہے، سن چھیالیس میں، گاؤں میں محل جیسا ہی نیا گھر بنایا تھا۔ سب روک رہے تھے کہ کیوں بیکار کا خرچ کر رہے ہو۔ اب ہمیں ہندوستان چلنا پڑے گا۔ میں نے کسی کی نہیں سنی۔ سب سے یہی کہا کہ پاگل ہو گئے ہو۔ کبھی کسی نے اپنا گھر بھی چھوڑا ہے؟ ہم صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، پلے بڑھے ہیں، پھر کیوں اپنی جنم بھومی چھوڑیں؟ اس وقت بھی سب مجھ پر ہنستے تھے ؛ جیسے آج تم ہنس رہے ہو۔‘‘

ایسا کہتے ہی کاکا کی آنکھوں میں پھر سے آنسو امڈ آئے۔ کچھ رک کر پھر جیسے خود سے بڑبڑانے لگے، ’’اپنا محل جیسا بسا بسایا گھر ایسے ہی چھوڑ آیا۔ تالا لگا کر، چابیاں اپنے دوست بڑے گل محمد کو دی اور کہا، ہم تیرتھ کرنے ہندوستان جا رہے ہیں، جلد ہی واپس آئیں گے۔ تب تک یہ چابیاں سنبھال رکھنا۔‘‘

’’پھر لوٹ کر کیوں نہیں گئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’میں تو جانا چاہتا تھا، پر رشتہ داروں نے، گھر والوں نے جانے ہی نہیں دیا۔ کہنے لگے، حالات اب بھی خراب ہیں، وہاں جا کر کیا کرو گے؟ بس ایسے ہی مجبور ہو گیا۔‘‘ کاکا کہہ کر خاموش ہو گئے۔

’’کاکا، ان باتوں کو اب دل سے نکال ہی دیں۔‘‘ میں نے تجویز پیش کی۔

کاکا نے ایک لمبی سانس لی، پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹے تم مجھے لاکھ بار سمجھا لو، پر میرا دل بھی تو مانے نا۔ بار بار شاہ کا کلام کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔‘‘

میں نے کاکا کے اندر موجود کرب کو محسوس کرتے ہوئے، تسلی کے ارادے سے کہا۔‘‘ کاکا، سچ کہہ رہے ہیں آپ، دل کی لگی بری بلا ہے۔‘‘

’’بیٹے، تم چاہے جیسی بھی باتیں کر لو، مگر مجھے یقین ہے کہ میں مروں گا تو اپنے وطن میں، اگر ایسا نہیں ہوا تو میں وصیت بنواؤں گا کہ میری خاک سندھو دریا میں بہا دی جائیں، اس وقت تک میں اپنی جنم بھومی کے بچھڑنے کا درد سینے میں سجائے، اس کے دیدار کا انتظار کرتا رہوں گا۔‘‘

میں خاموشی سے کاکا کے چہرے کو گھورتا رہا۔ اور اس کے دل کے درد میں خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کرتا رہا۔ میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل پایا۔

***

 

 

 

 

ٹھنڈی دیواریں

 

گرمکھ سنگھ جیت

پنجابی کہانی

 

 

ایشور داس نے گھٹن سی محسوس کی۔ مئی کا مہینہ، بے حد تیز گرمی اور لو۔ اس کا دل گھبرا گیا۔ اس نے الٹے ہاتھ کے انگوٹھے سے پیشانی پر بہتا ہوا پسینہ پونچھا۔ پھر ہاتھ سے پیٹھ کھجلانے لگا۔ جب اس طرح بھی چین نہ ملا تو بنیان اتار کر اس سے پیٹھ رگڑنے لگا۔ لیکن اس کو اندر کی گھبراہٹ باہر کی گھبراہٹ سے زیادہ تنگ کر رہی تھی۔ وہ اپنے دل میں بہت سے فیصلے کر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ ہی وہ اس سودے کے نفع نقصان کا بھی اندازہ لگا رہا تھا۔ اس کا دماغ اس حادثے کے ہر پہلو پر غور کر رہا تھا۔ اس کا سر بھاری ہونے لگا تھا۔

ابھی پاکستان بنے بمشکل آٹھ سال ہی ہوئے تھے۔ کوچہ نبی کریم میں اُن کے پڑوسی موہن لال کے گھر سے ہر وقت آہیں سنائی دیتی رہتی تھی۔ موہن لال کے گھر سے مایاونتی کی آہیں کبھی کبھی بلند آواز رونے میں بدل جاتی تھیں۔ پاکستان بننے پر مصیبت تو سب پر ہی آئی تھی، پر ان کی مصیبت کچھ الگ اور زیادہ ہی تھی۔ پنڈی بھٹیاں میں سب کچھ کھو کر وہ سُکّھے کی منڈی سے گاڑی پر چڑھنے لگے تھے۔ ان کی جان خوف سے سہمی ہوئی تھی اور چہرے روئی جیسے سفید دکھائی دیتے تھے۔ سُکّھے کی منڈی کا پلیٹ فارم وہی تھا جہاں سے وہ کئی بار گاڑی پر چڑھ کر حافظ آباد، سانگلا ہل یا جڑانوالے گئے تھے۔ موہن لال ہمیشہ پلیٹ فارم پر لگے پیپل کے نیچے بنچ پر بیٹھنا پسند کرتا تھا۔ اس پلیٹ فارم کے چپے چپے کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔ لیکن اس دن تو ایسا لگتا تھا گویا یہ کسی اندھیری وادی کا پھسلن بھرا راستہ ہے۔ ان کے دل پر خوف کا کچھ ایسا ہی دبدبہ تھا۔

اور آخر وہ بات ہو کر ہی رہی۔ شام کا اندھیرا طاری ہونے لگا۔ موہن لال اور مایاونتی کا خاندان مزید سہم گیا۔ باقی زیادہ تر خاندان اپنی گٹھریاں وغیرہ سنبھال کر ان پر بیٹھ گئے۔ ان کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ تبھی گاڑی آ گئی۔ وہ سب کے سب اس میں کسی طرح گھس گئے۔ بیٹھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بس ذرا پاؤں ٹکنے کی جگہ چاہئے تھی۔ لیکن گاڑی تو جیسے وہیں جم گئی ہو، چلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ ڈبوں میں بیٹھے مرد، عورتیں اور بچے گھبرانے لگے۔ کلبلاہٹ کا گویا پہلا دور چلّا ہو۔ اتنے میں اسٹیشن سے تھوڑی دور پر ڈھول بجنے جیسی آواز پاس آتی گئیں اور اس میں کئی دوسری بھیانک اور ڈراؤنی چیخیں ملتی گئیں۔

گاڑی میں بیٹھے لوگوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ماں نے اپنے بیٹے چھاتیوں سے لگا لئے۔ مردوں نے اپنا سامان اور پاس کھینچ لیا۔ ہر طرف چیخ و پکار ہونے لگی۔ پلیٹ فارم پر اب بھالے اور بلّم بھی دکھائی دینے لگے۔ مشعلیں ادھر ادھر پڑنے لگیں۔ ہر جگہ ایک بے چینی سی پھیل گئی۔

جاٹوں نے ساری گاڑی لوٹ لی۔ جو ان کے سامنے آیا اسے کاٹ کر پھینک دیا۔ ڈبے لاشوں سے بھر گئے۔ خون بہہ بہہ کر فرش پر جم گیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کون مرا اور کون بچا۔ جو کوئی اگر بچ بھی گیا، اس نے خود کو مردوں میں گن لیا اور سانس روک کر خاموشی سے لیٹا رہا۔

جب اگلے دن گاڑی امرتسر پہنچی، اسٹیشن پر بہت سی انجمنوں کے رضاکار روٹی پانی لے کر پہنچ گئے۔ جب انہوں نے گاڑی پر ہوئے قتلِ عام کو دیکھا تو ایک کہرام مچ گیا۔ موہن لال بھی زخمی ہو گیا تھا، مگر ہوش میں تھا۔ مایاونتی ایک کونے میں گھبرائی بیٹھی تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا۔ رو رو کر ان کے آنسو آنکھوں میں ہی سوکھ گئے تھے۔ بچوں کو سنبھالا۔ چھوٹے کرشن کا سر الگ پڑا تھا اور جسم الگ۔ سوہن لال بینچ کے نیچے دبک کر لیٹا ہوا تھا۔ مایاونتی نے اسے سینے سے لگا لیا۔ اب کانتا کی تلاش شروع ہوئی۔ سوہن لال کے پاؤں فرش پر جمے خون سے بھر گئے تھے۔ انہوں نے ایک ایک لاش کو دھیان سے دیکھا۔ پروہ کہیں دکھائی نہ دی۔

مایاونتی گویا جیتے جی ہی مر گئی۔ صاف ظاہر تھا کہ کانتا کو ظالم اٹھا کر لے گئے تھے۔ اس وقت وہ فقط بارہ تیرہ سال کی تھی۔ زندگی کا اتنا گہرا زخم وہ کیسے بھر پائے گی؟ موہن لال نے کرشن کے سر کو اٹھا کر چوم لیا۔ مایاونتی نے آنکھوں میں مسلسل مکے مارے، لیکن ان میں سے ایک آنسو بھی نہ نکلا۔ کتنا بڑا صدمہ تھا!

اندھیرے میں اڑتے تنکوں کی طرح وہ دہلی پہنچ گئے۔ آہستہ آہستہ زندگی کے تار تھرتھرانے لگے۔ موہن لال نے چاندنی چوک میں گھڑیوں کی دکان کھول لی۔ اس کا کام اچھا چلنے لگا۔ سوہن لال اب بی اے کر چکا تھا اور کچھ عرصے سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اچھے عہدے پر تھا۔ لیکن ان بیتے آٹھ سالوں میں بھی چندر کانتا والے زخم پر کھرنڈ نہ جم سکی تھی۔ اس میں سے گندا خون رستا رہا اور مایاونتی کو غشی طاری ہوتی رہی۔ کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا جس کا سہارا موہن لال نے اپنی چندر کانتا کو تلاش کرنے کیلئے نہ لیا ہو۔ وہ ہوم منسٹر سے ملا۔ اس سے پاکستان کے ہوم منسٹر کو خصوصی خط لکھوایا کہ وہ اپنے ریکوری اسٹاف کی مدد سے کانتا کو تلاش کریں۔ پھر سوہن لال نے ڈپٹی کمشنر کی مدد سے پاکستان کے ہائی کمشنر کو کہلوایا کہ اس کی بہن کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں۔ ہائی کمشنر نے اپنی حکومت سے کہہ کر پاکستان کے اخبارات میں انعام کے اشتہارات بھی شائع کروائے۔ ان آٹھ سالوں میں ان کے ضلع کی اٹھائی ہوئی کئی لڑکیوں برآمد ہو گئی تھیں۔ ایک دو سے مایاونتی کو چندر کانتا کے بارے میں یہ بھی پتہ لگا کہ اسے ایک چودھری نے گھر بٹھایا ہوا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے کوششیں مزید تیز کر دیں، مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔ مایاونتی اپنا سر پیٹ پیٹ کر روئی،  ’’اس سے تو اچھا تھا کہ کانتا مر ہی جاتی، ڈبے میں ہی کاٹ دی جاتی۔‘‘ پھر ایشور کے آگے گڑگڑاتی،  ’’ایشور، مجھے اس کے مرنے کی خبر سنا! اس بہلول پور کے چودھری نثار احمد کے گھر بیٹھنے کی خبر بالکل غلط ہو۔‘‘ پر وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو ہر وقت چندر کانتا کے نام کی مالا جپتا رہتا تھا۔ چندر کانتا اسے اپنے دونوں بیٹوں سے بھی زیادہ پیاری تھی۔ کانتا کو اس نے ہتھیلی پر ہوئے چھالے کی مانند پالا تھا اور اسے گرم ہوا لگنے کی بات وہ کبھی سپنے میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔  ’’کانتو کی بچی! اس سے تو اچھا تھا کہ تو پیدا ہوتے ہی مر جاتی یا میں ہی تجھے جنم دے کر مار دیتی۔ یہ دکھ تو نہ دیکھتی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر سسکنے لگی۔ اس کا لڑکا سوہن لال جو ابھی ابھی دفتر سے لوٹا تھا، اس کو حوصلہ دینے لگا۔

جیسے کسی مچھر نے ایشورداس کو کاٹ کھایا ہو، وہ نادانستگی میں پریشان ہو گیا۔ اسے پتہ ہی نہ لگا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ جاگ کروہ پھر پسینہ پونچھنے لگا اور ایک بار پھر اس پر نیند کی مستی چھانے لگی۔

’’چاچا جی، آپ کو پتاجی بلاتے ہیں۔‘‘ ابھی وہ کچہری سے لوٹا ہی تھا کہ موہن لال کا لڑکا اسے بلانے آ گیا،  ’’ذرا جلدی آؤ، ماتا جی بیہوش ہو گئی ہیں۔‘‘

آگے جو کچھ اس نے دیکھا، وہ اس کی امید سے مکمل طور پر برعکس تو نہیں تھا، مگر پھر بھی اسے ایک دھکا سا ضرور لگا تھا۔ مایاونتی کافی دیر سے بے ہوش پڑی تھی۔ موہن لال اس کے دانتوں میں چمچ سے پانی ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اس کے دانت کھل ہی نہیں رہے تھے۔

آج صبح سے ہی مایاونتی، چندر کانتا کو یاد کر کے آہیں بھر رہی تھیں۔ ڈاکٹر آیا، اس نے مایاونتی کو ٹیکا لگایا۔ ابھی وہ ٹیکے کا اثر دیکھ ہی رہا تھا کہ باہر ایک لاری آ کر رکی۔ ایشورداس تیزی سے اٹھ کر باہر گیا۔ اس نے دیکھا، لاری پولیس کی تھی اور اس میں سے ایک ایس ایچ او نے باہر نکل کر اس سے پوچھا،  ’’موہن لال جی کا گھر یہی ہے؟‘‘

ایشورداس نے جواب میں صرف سر ہلا دیا۔

اس کے بعد اس نے کسی کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ لاری میں سے ایک لڑکی باہر نکلی اور ایشورداس کے چہرے کی جانب دیکھنے لگی۔ اتنے میں موہن لال بھی باہر نکل آیا۔ اس نے جب اس لڑکی کے روپ میں چندر کانتا کو اپنے سامنے دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ ہوا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اور اس کا چہرہ اور سر چومنے لگا۔

ادھر چندر کانتا کے اداس چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ویسے ہی بوکھلائی سی ماحول کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ موہن لال اسے اندر لے گیا۔ مایاونتی تھوڑا تھوڑا ہوش میں آنے لگی تھی۔ جب موہن لال نے کہا،  ’’دیکھو مایا، کانتا آ گئی ہے۔‘‘ تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا۔ اس نے پلکیں جھپکا کر آنکھیں کھولیں۔ سامنے حقیقت میں چندر کانتا ہی کھڑی تھی۔ وہی کانتا جسے وہ خود سے بھی زیادہ محبت کرتی تھی، وہی کانتاجس کے فراق میں گزشتہ آٹھ سالوں میں وہ اپنی صحت کھو بیٹھی تھی۔ ہاں، یہ وہی چندر کانتا تھی جس کے دکھ کو اس کی ماں نہیں بھول سکی تھی، بھلے وہ اپنے بیٹے کرشن کی موت کو قسمت کا لکھا مان چکی ہو۔

چندر کانتا، ماں کی جانب ویران آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ آخرکار ماں نے اٹھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ آج کئی سالوں کے بعد اُسی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب بہہ آیا تھا۔ مایاونتی کی آنکھوں کے سوتے، جو بالکل خشک ہو چکے تھے، اب پھرسے بھرنے لگے اور ان میں سے آنسوؤں کی دو نہریں بہنے لگیں۔ مگر کانتا تو ٹھنڈی راکھ تھی، جیسے اس نے گھر کے کسی شخص کو نہ پہچانا ہو۔ اپنے بھائی سوہن لال سے بھی وہ صحیح طریقے سے نہیں ملی۔ ماں نے اسے پیار سے اپنے پاس بٹھا لیا۔

اتنے میں کسی کو خیال آیا کہ ایس ایچ او اب بھی کھڑا ہے۔ موہن لال نے اسے اور اس کے ساتھ آئے دیگر تین آدمیوں کو عزت سے بٹھایا۔ روشن کپور ریکوری اسٹاف میں تھا اور اس نے خود چندر کانتا کو برآمد کرنے کیلئے چھاپہ مارا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ ساری بات بتانے لگا۔ اتنے میں چائے بن گئی اور سب نے خوشی خوشی اُن کو چائے پلائی۔ باتوں کا سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ اس دوران چندر کانتا گم صم بیٹھی رہی، جیسے وہ اپنے گھر نہیں بلکہ کہیں اور آئی ہو۔ نہ تو اس کے چہرے پر خوشی کی کوئی کرن آئی اور نہ ہی اس کی آنکھوں سے پانی چھلکا۔ جتنی دیر ایس ایچ او باتیں کرتا رہا، وہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔ بیچ بیچ میں مایاونتی اس کے سر کو تھپتھپا دیتی۔

برآمدے میں کسی کے قدموں کی آواز آئی تو ایشورداس کا سپنا ٹوٹ گیا۔ گرمی اسے اب بھی بے حال کر رہی تھی۔ وہ بنیان کا پنکھا بنا کر منہ پر ہوا دینے لگا۔ ڈھلتی دوپہر کی تیز گرمی سے اسے اونگھ محسوس ہونے لگی۔

کچھ دنوں میں ہی مایاونتی کا جوش دھیما پڑ گیا۔ اب وہ چندر کانتا کو بلا کر اس سے بات کرنے کے بجائے کچھ کھچی کھچی سی رہنے لگی۔ کانتا نے سالوں کی دکھ بھری کہانی چند لمحوں میں سنا دی تھی، لیکن اپنا دل نہیں کھولا تھا۔۔۔

’’جب وہ ڈبے میں بھالے چمکاتے اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے چڑھے تو میری چیخ نکل گئیں۔ کرشن میرے پاس بیٹھا تھا۔ ایک شیطان نے اسے ہاتھ سے اپنی طرف گھسیٹا اور گنڈاسے سے اس کا سر الگ کر دیا۔ میں چیخ پڑی۔ کسی نے مجھے پکڑ کر ڈبے سے باہر کھینچنا شروع کر دیا۔ میں چیختی چلاتی بیہوش ہو گئی۔‘‘

اور جب مجھے ہوش آیا، میں نے خود کو ایک گھر میں چارپائی پر لیٹی پایا۔ میرے پاس ایک اور عورت بیٹھی تھی۔ اس نے مجھے پانی پینے کیلئے دیا۔ اسے دیکھ کر میں پھر چیخ پڑی اور میں نے پھرسے آنکھیں بند کر لیں، جیسے اس کے وجود اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ وہ عورت مجھے پنکھا جھلتی رہی۔ کچھ دن اسی طرح مد ہوش، بغیر کھائے پیئے سے گزر گئے۔ کبھی کبھی کوئی نوجوان سا لڑکا بھی میری طرف نگاہ مار جاتا۔ میں گھٹنوں میں سر چھپا لیتی۔ میرے آنسو پتہ نہیں کس ویرانے میں کھو گئے تھے۔ میں آہستہ آہستہ پگھلنے گئی اور آخر میں مجھے خود سے ہی سمجھوتہ کرنا پڑا۔ مجھے پتہ لگ چکا تھا کہ سُکّھے کی منڈی سے اٹھا کر مجھے بہلول پور لایا گیا تھا اور میں وہاں کے ذیلدار چودھری غلام قادر کے گھر ہوں۔ چودھری صاحب کی بیگم ہی اتنے دن میرے پاس بیٹھی رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہمدردی جھانکتی تھی۔ مگر میں تو اپنے گھر، ماضی اور سنسکاروں سے توڑی گئی تھی۔ اس پر مجھے خود آسانی سے یقین نہیں آ رہا تھا۔

آہستہ آہستہ مجھ پر ساراراز ظاہر ہوا اور یہ بھی پتہ لگا کہ میں کبھی بچ کر اپنے ماں باپ کے پاس نہیں جا سکتی۔ میری پھڑپھڑاہٹ میں سے جوش اور طاقت کم ہوتی گئی۔ رحمت بی بی نے میرے ساتھ محبت بھرا سلوک کیا اور میرے غم کو بھلانے کی کوشش کی۔ بڑے چودھری صاحب نے بھی میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور اس طرح سال درسال گزرتے گئے۔

ہوا کا ایک شدید جھونکا آیا اور کھڑکی کے پٹ ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ جلتی لکڑی سا گرم، لو کا جھونکا ایشورداس کے جسم کو جلا سا گیا اور وہ ’’ہائے رام‘‘ کہتا، پسینہ پونچھتا پھر اونگھنے لگا۔

ایشورداس کی لڑکی سنتوش نے اسے کئی بار بتایا تھا کہ کانتا ہر وقت بڑی اداس سی رہتی ہے اور کسی سے بات چیت تک نہیں کرتی۔ اس کی آنکھیں ہر وقت پتھرائی رہتی ہیں اور اس کے چہرے پر بے بسی کی ایک موٹی تہ جمی ہوتی ہے۔

ایک دن سنتوش نے کانتا کو گھیر لیا، ’’اے ری کانتا، تو تو کبھی باہر ہی نہیں نکلتی۔ ایسے کب تک چلے گا؟‘‘

سامنے ایک ویران خاموشی اور سنتوش کے دوبارہ پوچھنے پر یہ نپا تلاسا جواب،  ’’کیا کروں! دل نہیں مانتا۔ اس دل کا کیا کروں؟ پھر لوگ میری طرف دیکھ کر دبی زبان میں کھسر پھسر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت میرا دل کرتا ہے میں فوراً مر جاؤں۔‘‘

سنتوش نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا،  ’’کبھی ہمارے گھر آ جایا کر، دل لگ جائے گا۔‘‘

اس طرح وہ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کے قریب آ گئیں۔

ایک دن سنتوش نے کانتاسے اداسی کا سبب پوچھ ہی لیا۔ وہ موڈ میں تھی، کہنے لگی،  ’’صرف ایک شرط پر، توشی، کہ کسی کو نہ بتانا۔ دو تین سال میں چودھری غلام قادر کے گھر آرام سے ہی رہی۔ انہوں نے مجھے کبھی تنگ نہیں کیا۔ میرا نام بدل کر انہوں نے سعیدہ خاتون رکھ دیا۔ اس بات کی مجھے پوری سمجھ آ گئی تھی کہ مجھے اب یہیں کی مٹی میں ہی ملنا ہے۔ رحمت بی بی میرے ساتھ محبت بھرا برتاؤ کرتی تھیں۔ ان کا لڑکا چودھری نثار احمد لاہور میں پڑھتا تھا۔ وہ جب کبھی بہلول پور آتا، تو میرے ساتھ بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا اور عورتوں پر کئے گئے ظلم وغیرہ کی مذمت کرتا۔ میرے دل کے کسی کونے میں اس کی باتیں سننے کی خواہش جاگ اٹھی۔ کبھی کبھی وہ مجھے شام کو چناب کے کنارے سیر کیلئے لے جاتا جو کہ ہمارے گاؤں سے صرف کوس بھر دور تھا۔‘‘

’’تجھے کیا بتاؤں، سنتوش، چناب میں کتنی کشش ہے۔ ہم دونوں شام کے سرخی مائل سورج کو اس میں ڈوبتے ہوئے دیکھتے اور پھر جب چاند کی چمک دوسری طرف سے اس کی لہروں میں ناچنے لگتی، تب ہماری باتیں ختم ہو جاتیں اور ہم اس کی طرف دیکھتے ہی رہتے۔ چناب کے کنارے چاندنی رات کے سحرکا میں بیان نہیں کر سکتی۔‘‘ اور یہ کہہ کر کانتا نے ایک لمبی آہ بھری، جیسے اس کے اندر سے کچھ دھواں سا باہر نکلا ہو۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو زبان سے گیلا کیا۔

سنتوش کی آنکھیں کانتا کے چہرے پر گڑ گئیں، جس میں اس نے پہلی بار خوشی کی تھوڑی سی چمک دیکھی تھی۔ وہ ساکت بیٹھی کانتا کی بات سنتی رہی۔

’’چناب کو تو بارش میں دیکھنا چاہئے، جب اس کا دوسرا کنارا ہی نہیں دکھائی دیتا۔ گڑگڑاتے مٹیالے پانی کی پھنکارتی لہریں اور ان پر تیرتے جھاگ کے گولے۔۔۔ اس منظر کا صرف دیکھنے والا ہی لطف اٹھا سکتا ہے۔ چھوٹی ہوتے ہوئے بھی میں عیدوں اور بیساکھی میں چناب پر جایا کرتی تھی پر تب میری سوچ بچوں جیسی تھی۔ اب چناب کی لہروں کے ساتھ میرے سینے میں بھی احساسات اٹھتے اور میں ان پر عاشق ہوتی، ان میں بندھی ہوئی کئی بار یہاں پہنچ جاتی۔ پھر جب نثار احمد میرے ساتھ ہوتا، ان لمحات کا تو کہنا ہی کیا!‘‘

کانتا نے چنری سے پلکیں پونچھ لیں، کونوں میں نمی سی ابھر آئی تھی۔ سنتوش کے لئے یہ بھی حیرت انگیز تھا کہ کانتا کا سنگلاخ چہرہ رو سکنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔

’’ایک دن رحمت بی بی نے جسے میں بھی اماں کہنے لگی تھی، مجھے اپنے پاس بٹھا کر بڑے پیار سے کہا،  ’’اب میں ہی تیری اماں ہوں۔ پہلی ماں کی تو سمجھ، وفات ہو چکی ہے۔ تیرے لئے میرا بھی کچھ فرض ہے۔ اب میں تجھے اس طرح اور نہیں رکھ سکتی۔‘‘ میں کیا کہتی! چپ رہی۔ اماں اس دوران میری طرف غور سے دیکھتی رہی۔ میری آنکھوں کے آگے بہت سے پرانے اور نئے منظر چل رہے تھے۔ اماں نے ہی میری خاموشی کو توڑا،  ’’اگر تجھے اعتراض نہ ہو۔۔۔‘‘

اس نے التجا بھری نظریں مجھ پر ڈالیں۔ میرا سینہ دھک دھک کرتا رہا۔

’’میں تجھے خود سے الگ نہیں کر سکتی۔ یہ خدا نے پیار بھی کیا چیز یہاں بنائی ہے؟ تیرا نکاح میں نثار احمد کے ساتھ کرنا چاہتی ہوں۔ تجھے قبول ہے؟‘‘

’’میں خدا سے اور کیا مانگ سکتی تھی! چپ رہی۔ لیکن میری آنکھوں سے اماں کو جواب مل گیا۔ اور سنتوش، تو نے یہ بھی کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ ایک ہی عورت بیک وقت ماں بھی ہو سکتی ہے اور ساس بھی، ایک ہی آدمی باپ بھی ہو سکتا ہے اور سسر بھی۔ میرا نکاح جس دھوم دھام سے انہوں نے کیا، وہ میں تجھے کیا بتاؤں۔ شاید ہی بیان کر سکوں۔‘‘

سنتوش کو کانتا کے چہرے پر ایک روشنی سی بکھری دکھائی دی۔

ایشورداس ایکدم چونک کر اٹھا۔ باہر دروازے کو کسی نے زور سے کھٹکھٹایا تھا۔ پر اسے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا۔ سائے گہرے ہونے لگے تھے پر گرمی اب بھی کم نہیں ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے نیند بھی نہیں گئی تھی۔

موہن لال ایک دن اس سے کہنے لگا،  ’’بھائی صاحب، آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے۔ کانتا کا کیا کریں؟ وہ ہر وقت اداس رہتی ہے، کسی سے بولتی نہیں۔ اس کی ماں ہر وقت کڑھتی رہتی ہے۔‘‘

ایشورداس ان کے گھر جا کر بیٹھا ہی تھا کہ پاس کھڑی مایاونتی بلک پڑی،  ’’بھائی صاحب، ایشور سے ہم نے مانگا تو یہی کچھ تھا، لیکن اس کو ہماری مانگ ہی ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی۔ اوہ میرے بھگوان! یہ لڑکی مر ہی جاتی۔ نہیں تو یہ برآمد ہی نہ ہوتی اور ہمیں بتا دیتے کہ کانتافسادوں میں ہی مر گئی ہے!‘‘ اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

اسے حوصلہ دیتے ہوئے ایشورداس نے کہا،  ’’بہن، بھگوان کے کام کے آگے کس کا زور ہے؟ اس میں ہی بھلا ہو گا۔ ہاں آپ کہیں، بھائی صاحب، کیا پوچھنے لگے تھے؟‘‘ اس نے موہن لال کی جانب مڑتے ہوئے کہا۔

’’میں نے سوچا تھا کہ اس کو کہیں بیاہ کر کے اس کی زندگی نئے سرے سے شروع کی جائے، مگر کوئی اس سے شادی کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ جس کو ایک بار پتہ لگتا ہے کہ اسے پاکستان سے آٹھ سال بعد برآمد کیا گیا ہے، وہ دوبارہ اس طرف کان بھی نہیں کرتا۔ کسی کو اس بات پر ذرا بھی لحاظ نہیں آتا کہ اس کی شادی پر ہم بہت کچھ دینے کو تیار ہیں۔ آپ ہی کوئی گھر بتائیں۔‘‘ موہن لال نے مایوس لہجے میں کہا۔

’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ میں آپ کے دکھ کو سمجھتا ہوں،‘‘ ایشورداس نے بات بدلتے ہوئے کہا،  ’’کیا کیا جائے! بیشک ہمارا سارا معاشرہ داغدار ہوا پڑا ہو، لیکن کسی عورت کی چنری پر نشان بھی ہو تو کوئی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ آپ کہیں گے تو سہی کہ ایشورداس کیسی پاگلوں جیسی باتیں کرتا ہے پر میں کہوں گا کہ اگر ہمیں انہیں قبول ہی نہیں کرنا تھا، تو کس منہ سے ہم حکومت کو اُدھر موجود عورتوں اور لڑکیوں کو برآمد کرنے کو کہتے ہیں۔ ہم نے ان کو وہاں سے تو اکھاڑ لیا، جہاں وہ کئی سالوں میں جیسے تیسے اپنی جڑیں جمانے میں کامیاب ہو پائی تھیں پر ہم ان کو اِدھر لگانے کو تیار نہیں۔‘‘

موہن لال نے ایشورداس کی بات کی تائید کی اور اس کے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی۔

مایاونتی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ انہیں دوپٹے سے سکھا کر کہنے لگی،  ’’اگر یہ کہیں اب مر ہی جائے تو میں خوش ہو جاؤں۔ ہے بھگوان، میں تو جل گئی ہوں۔ میرا کلیجہ کوئلہ ہو گیا ہے۔ پیدا ہی نا ہوتی کانتا کی بچی۔ کس جنم کا بدلہ لیا ہے ہم سے؟‘‘

ایشورداس انہیں صبر کی تلقین کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور چلتے چلتے کہنے لگا،  ’’پر، بہن، یہ بات بھول کر بھی کانتا کے سامنے نہ کہنا۔ بتاؤ، اس میں اس کا کیا جرم ہے؟ میں بھی کوئی لڑکا ڈھونڈوں گا، آپ بھی ڈھونڈیں، مل جل کر کوئی نہ کوئی تو مل ہی جائے گا پر بھگوان کے نام پر چندر کانتا کا دل نہ توڑنا۔ آپ کو کیا پتہ، اس پر کیا گزر رہی ہے! کبھی اس کے دل کی گہرائیوں میں بھی جھانک کر دیکھا ہے؟‘‘

اور وہ جب کمرے سے باہر نکلنے لگا، کانتا اسے سامنے سے آتی ہوئی ملی۔ اسے اس کے پتھرائے ہوئے چہرے پر ترس آ گیا اور اس نے ہمدردی سے پوچھا،  ’’کیا بات ہے، بیٹی؟ کیا کر رہی ہو؟‘‘

کانتا کا چہرہ مزید روکھا ہو گیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ ایشورداس کو اس کی آنکھوں میں بہت سے خشک ہوئے آنسو جھلکتے ہوئے نظر آئے جیسے اس نے ان کی ساری گفتگو سن لی ہو۔

جب ایشورداس کی آنکھ کھلی، شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے اور گرمی کی شدت گھٹ گئی تھی۔ اس نے اٹھ کر کمرے کا ایک چکر لگایا اور پھر اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا۔ آج اس کا دماغ کچھ اور نہیں سوچ پا رہا تھا۔ وہ پھر وہیں بہاؤ میں بہہ گیا۔

چندر کانتا کی زبان سے تبھی تالا کھلتا جب وہ سنتوش کے پاس آتی۔ ایشورداس کی ہمدردی نے اس کا دل جیت لیا تھا۔ وہ اپنے غم ان کے سامنے کہہ دیتی اور جو بات اس سے نہ کر سکتی، وہ سنتوش سے کر لیتی۔

ایک دن وہ سنتوش کے پاس بیٹھی اپنے زخموں سے کھرنڈ اکھاڑ بیٹھی اور ان کا اصلی روپ اسے دکھانے لگی۔

’’گزشتہ دو سالوں میں، جب سے میں یہاں آئی ہوں، ایک رات بھی میں آرام سے نہیں سو سکی۔ دن میں ہر وقت اداسی کے سیاہ پردے کی اوٹ میں نثار احمد کھڑا مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے، جسے صرف میں ہی سن سکتی ہوں۔ رات کو خواب میں وہ میرا بازو پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور چناب کے کنارے کی یاد دلاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر میرے نعیم اور سلمی رو رو کر مجھے آوازیں دیتے رہتے ہیں۔ ان کے اترے ہوئے چہروں کو میں دیکھ نہیں سکتی۔ میں ماں ہوں، چاہے چندر کانتا ہوں یا پھر سعیدہ خاتون۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ممتا میری چھاتی میں کھینچا تانی کرتی ہے، ممتا میری آنکھوں کو نم کر دیتی ہے، پر اسے کسی نے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ بتا تو میرے لئے کچھ نہیں کر سکتی؟‘‘

سنتوش نے چنری منہ میں ڈال لیا اور سرد سانس کو اندر روک کر اس کی بات سنتی رہی۔

’’یہ بات آج میں تجھے بتانے لگی ہوں، یہ مان کر کہ دنیا میں تجھے چھوڑ کر اس کا کبھی کسی کو پتہ نہیں لگے گا۔ میرے خاوند نثار احمد نے جو محبت مجھے دی، اسے اس زندگی میں تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔ ہماری شادی کے ایک سال بعد ہمارے گھر نعیم کی پیدائش ہوئی اور اس سے ڈیڑھ سال بعد سلمی میری بیٹی کی۔ ہائے، اگر کبھی میں تجھے اپنے بچے دکھا سکتی! پھر تو کہتی،  ’’سعیدہ ظالم! تو ایسے خوبصورت اور پیارے بچے چھوڑ کر ادھر کیسے آ گئی؟‘‘ ویسے تو اس سوال کا جواب میرے پاس بھی نہیں لیکن میں تجھے بتانے کی کوشش ضرور کروں گی۔

سلمی کے ہونے کے بعد میرے ابا کی، خدا ان کی روح کو جنت نصیب کرے، وفات ہو گئی تھی۔ اس لئے نثار احمد ذیلدار بن گیا۔ ہماری زمین کافی تھی۔ ہمارا سارے علاقے میں بڑا اثر ورسوخ تھا اور چوہدری نثار احمد کا نام ہر طرف عزت سے لیا جاتا تھا۔ کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی انہیں ناراض نہیں کر سکتا تھا۔ اپنے علاقے کی وہ عزت آبرو تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی پاکستان کی پولیس لڑکیاں برآمد کرنے کیلئے چھاپے مارتی، وہ ہمارے گھر کی طرف منہ کرنے کی ہمت بھی نہ کرتی۔ انہوں نے مجھے خود کئی بار بتایا کہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ میں میری برآمدی میں مدد کرنے والے کو پاکستان گورنمنٹ نے ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے مجھ سے کئی بار بڑے پیار سے پوچھا بھی کہ کیا میں ہندوستان میں اپنے ماں باپ کے پاس جانا چاہتی ہوں؟ اگر میں چاہتی تو وہ خود ہی سرحد تک مجھے چھوڑ جاتے۔ جب کبھی وہ ایسی بات کہنے لگتے، میں نے ان کے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر بلکنے لگتی اور کہتی،  ’’اب شاید میں آپ پر بوجھ ہو گئی ہوں۔ آپ مجھے رکھنے کو راضی نہیں ہیں۔ کیا آپ مجھے نعیم اور سلمی کی خاطر بھی نہیں رکھ سکتے؟‘‘ وہ مجھے سینے سے لگا لیتے اور ہم ایک لمبے بوسے میں یہ ساری بات بھول جاتے۔

پر ایک دن صاف آسمان میں ایک کالا سیاہ اندھیرا چھایا۔ گاؤں میں شور مچ گیا کہ پولیس کی بہت سی گارد آئی ہے اور ساتھ میں پولیس کپتان بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہندوستانی پولیس افسر بھی ہیں۔ یہ پارٹی ہمارے گھر کے آگے پہنچی۔ انہوں نے پوچھا،  ’’چودھری صاحب کہاں ہیں؟ یہ بات ابھی ان کے منہ میں ہی تھی کہ نثار احمد بھی باہر سے آ گیا۔ بس، سنتوش باقی کی بات تو بتانا بھی میرے لئے نا ممکن ہے۔ میرے خاوند کی ایک بات نہ مانی گئی۔ میں نے منت کی کہ ’’میں نہیں جانا چاہتی، مجھے نہ لے جاؤ۔‘‘ میں نے کہا، ’’میرے تو ماں باپ مر چکے ہیں۔ یہ میرے دو بچے ہیں۔ ان کی طرف دیکھو۔‘‘ میں نے التجا کی،  ’’میں چودھری صاحب کی بیوی ہوں اور اپنی مرضی سے ان سے نکاح کیا ہے۔‘‘ میں روئی،  ’’چندر کانتا مر چکی ہے اور اس میں سے میں نے، سعیدہ خاتون نے، جنم لیا ہے۔ آپ بھولتے ہیں۔‘‘ میں نے نعیم کو آگے کیا،  ’’آپ اس کی شکل کو مجھ سے ملا کر دیکھو۔ کیا یہ آپ کو میرا لخت جگر نہیں لگتا؟‘‘ لیکن وہاں تو صرف ایک جواب تھا،  ’’ہم قانون کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہمیں پاکستان گورنمنٹ کی سخت ہدایت ہے کہ آپ کو واپس ہندوستان پہنچایا جائے۔‘‘

اس وقت سورج ڈوب نہیں رہا تھا، میں سچ کہتی ہوں سنتوش، اس کا انسانیت کے قاتل خون کر رہے تھے۔ وہی لال کالا خون سارے ماحول میں بکھر گیا تھا۔ جس وقت نثار احمد نے مجبور ہو کر مجھے جیپ پر چڑھنے میں مدد کی، وہ خود بیہوش ہو کر گر پڑا۔ رحمت اماں نے میری بلائیں لیں۔ نعیم اور سلمی رو رہے تھے۔ انہیں پولیس کے سپاہی پیچھے ہٹا رہے تھے اور اماں انہیں تسلی دے رہی تھی کہ ان کی والدہ کہیں باہر جا رہی ہے اور جلد ہی واپس آ جائے گی۔ پر ان معصوموں کے دلوں کو حقیقت کا ادراک ہو چکا تھا۔ میں خود اڑ اڑ کر باہر گر رہی تھی۔ اچانک جیپ چلی اور میرے آگے قیامت کا اندھیرا چھا گیا۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔‘‘

اتنے میں ایشورداس کی روٹی آ گئی تھی۔ وہ چپ چاپ کھانے لگا۔ پر ایک ٹکڑا بھی اس کے منہ میں نہیں جا پا رہا تھا۔ اس کا ہاتھ وہیں رک گیا اور وہ خیالات کے سمندر میں بہتا چلّا گیا۔

’’پتاجی!‘‘ ایک دن سنتوش نے اس سے کہا،  ’’کیا آپ اپنے ہاتھ سے میرا گلا دبا کر مجھے مار سکو گے؟‘‘

وہ کہنے لگا،  ’’پاگل تو نہیں ہو گئی بیٹی! بھلا ایسا کون سا باپ کر سکتا ہے! صاف صاف کہہ، کیا کہنا چاہتی ہے؟‘‘

’’ایسے ماں باپ بھی ہیں جو انجانے میں اپنی اولادوں کے گلے گھونٹ دیتے ہیں۔ کانتا کے دکھ کے ہر پہلو سے آپ روشناس ہیں، میں اس کے لئے آپ سے دیا مانگتی ہوں۔ میری التجا ہے، انکار نہ کرنا۔ وہ مر تو پہلے ہی رہی ہے، اب آپ سے ’’نہ‘‘ کرا کر مرے گی۔‘‘

’’کچھ بتائے گی بھی، توشی؟‘‘

’’آپ سے ایک آدمی سے ملنا چاہتا ہے، ملاؤں گی میں۔‘‘

’’کون؟‘‘

’’نثار احمد! نہیں، نہیں، عبدالحمید۔‘‘

’’نثار احمد۔۔۔ وہ کیسے یہاں آ گیا؟ اسے کانتا کا پیغام کس نے بھیجا؟‘‘ ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ لئے ایشورداس نے۔

’’ان سارے سوالات کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اس کی بہن ہوں، سمجھ لو، میں ہی اس کے لئے ذمہ دار ہوں۔‘‘

اچانک ایشورداس کا ہاتھ گھٹنے سے پھسل کر سامنے تھالی سے جا ٹکرایا اور اس کا کنارا اسے چبھ گیا۔ اس نے آہستہ سے ہاتھ کو ملا اور سر کو جھٹک کر پھر کھانا کھانے لگا۔ آج وہ کیسے ان خیالوں میں گھرا ہوا تھا، وہ خود پر حیران ہو گیا۔

ایشورداس کو مجسٹریٹ کی کچہری میں پیش کیا گیا۔ اسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور پولیس نے اس پر فوجداری کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اسے اس کا جرم پڑھ کر سنایا گیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اس نے کوچہ نبی کریم کی چندر کانتا نام کی ایک لڑکی کو وکیل ہونے کی حیثیت سے ضلع گجرات کی سعیدہ خاتون ہونے کی تصدیق کی ہے اور اس طرح اسے دھوکے سے پرمٹ دلوایا ہے۔ اس طرح چندر کانتا کے پاکستان بھاگ جانے کی سازش میں اس کا ہاتھ ہے۔

اس نے دیکھا کہ سامنے موہن لال، مایاونتی اور سوہن لال کھڑے تھے۔ اور بہت سے لوگ مقدمہ سننے آئے ہوئے تھے۔ موہن لال کہہ رہا تھا،  ’’دیکھو یاروں، اس طرح کا پڑوسی تو بھگوان دشمن کو بھی نہ دے۔ ہماری لڑکی کو اس نے پاکستان بھگا دیا ہے۔ یہ ہندوستانی ہے یا غدار؟‘‘

مایاونتی منہ ڈھک کرسسک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھاریں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔

موہن لال خاموش تھا اور اس کے چہرے پر تشویش کے نشان ابھرے ہوئے تھے۔

سنتوش بڑے صبر سے کھڑی ساری کار روائی سن رہی تھی۔

ایشورداس نے اپنے حق میں کچھ بھی نہ کہا۔ مجسٹریٹ نے اس کو دو سال قید کی سزا سنا دی۔

اور اب ایشورداس کی آنکھ تب ہی کھلی، جب وارڈن روٹی کے برتن اٹھانے آیا۔ اس کے دل میں کوئی فکر نہ تھی، کوئی افسوس نہ تھا۔ جیل کی کوٹھری کی گرمی، یہ بے سواد روٹی، یہ سلاخوں والی کھڑکی جس کے پیچھے وہ بند تھا۔۔۔ سب کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ اسے پھر نثار احمد کا کھِلا ہوا چہرہ دکھائی دیا، جس کی محبت کے آنگن میں سعیدہ خاتون کی خوشی کا پودا دوبارہ لگ گیا تھا۔ وارڈن کو برتن پکڑاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اطمینان بھری ایک ڈکار لی۔

***

 

 

 

سچا پاکستانی

 

ہری پنکج

سندھی کہانی

 

ویزہ ختم ہو رہا تھا، کسی بھی حالت میں تین دن کے اندر اندر لاگوس پہنچنا تھا۔ اس لئے کسی بھی ایئر لائن میں سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آخر کینیا ائیر ویز میں سیٹ ملی۔ پہلے تو منہ کا ذائقہ کچھ بدلا، جب فلائٹ روٹ دیکھا۔ ممبئی، کراچی، نیروبی، دوآلا، کی نو، لاگوس۔۔۔ تو آنکھیں کراچی پر ٹھہر گئیں۔ ویسے تو مجھے سفر میں رکتے رُکاتے جانا قطعی پسند نہیں، کوفت اور پریشانی کا باعث لگتا ہے۔

پر کراچی۔۔۔

بدن میں سرسراہٹ ہونے لگی۔ تن من سمٹ کر بارہ سال کے بچے کا ساہو گیا۔ چھلانگیں لگا کر اچھلنے لگا اور ہنس پڑا۔ کراچی اور میرا بچپن، دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور پھر کراچی جانے کا موقع مل رہا ہے اور وہی بچپن کا عالم۔۔۔۔

یادوں کی کچھ جھلکیاں۔۔۔

چھٹیوں کے دنوں میں صبح کے چھ بجے، ننگے پاؤں، تاری، عبدل، ایسر اور قادر کے ساتھ سرائے کوارٹر اسکول سے چکر لگا کر، کونے کھدروں سے چھپ کر نکلتے تھے۔ باتوں اور ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ ہمارا ایک ہی کام تھا، کھجور کے لمبے درختوں سے کھجور، موسم کے مطابق ملنے والے موسمی پھل مثلاً بیر، کیریاں، جامن وغیرہ توڑنا، ریلوے گراؤنڈ تک پہنچ کر شاہ کو سلام کر کے، بھری ہوئی جھولیوں کے ساتھ لوٹنا۔

پریار روڈ پر وہ سی او کا مکان، بازو میں پتلی پرانی گلی اور گلیوں کے اس طرف آؤٹ رام روڈ۔۔۔ اس طرف بندر روڈ۔۔۔۔

ایسر صبح آنکھ کھلتے ہی پہلے باپ کے پاؤں چھوتا، والد بھگتی سکھاتا تھا، دولت نے مجھے سائیکل چلانی سکھائی، تو کشن دلوانی نے جد و جہدِ آزادی کی کوششوں میں مجھے اسکول بند کروانے سکھائے تھے۔ سوڑھا کی مشہور دکان جو باشے مل کی تھی، وہیں ’’سنسار سماچار‘‘میں سے ’’ٹارزن‘‘ اور ہوندراج داس کا ’’جگنو‘‘ کالم پڑھنا سیکھ گیا تھا۔

اور وہ قادر۔۔۔ مکرانی؟ ہم جب کھجور یا پھل توڑتے ہوئے پکڑے جاتے، تو وہ آگے بڑھ کر دہشت بھرے لہجے میں کہتے، ’’ارے او، کدیرو دادا کا نام سنا ہے؟ میں اس کا ہی بیٹا ہوں قادر۔۔۔‘‘ اور ہم مار سے بچ جاتے تھے۔

وکٹوریہ گھوڑا گاڑی کے پیچھے، کوچوان کی نظر بچا کر چڑھ جاتے تھے تو کوئی دشمن دیکھ کرّا ا اٹھتا، ’’گاڑی والے۔۔۔ پیچھے چابک مار۔۔‘‘ بس پھر تو جسم پر نیل پڑ جاتے تھے۔ اور عبدل اس چغل خور کو پکڑ کر مارتا تھا۔ ہولی کے دن ہم پانچوں کے ساتھ مزید بچے بھی شامل ہو جاتے۔ سفید براق کپڑے والوں کو، رنگ لگانے کا ڈر دلا کر، ہولکا ماتا اور گائے ماتا کی گھاس کے بہانے پیسے اینٹھتے۔ مجال جو کوئی شکنجے سے بچ پائے۔

عاشورے کے دنوں میں تابوتوں کے پہنچنے سے پہلے ہی، باشے مل کے ہوٹل کے آگے، لکڑی کے تختوں پر شربت، چنا چاول تیار رکھتے۔ تابوتوں کے نیچے تین چکر لگا کر، دعا مانگ کر، شربت اور چنا چاول لنگر کرنا شروع کر دیتے تھے۔

گلی ڈنڈے، بلوری کنچے، سگریٹ کے خالی پیکٹ، ماچسیں، سیپیاں، املی کے بیج، ہمارا کل سرمایہ تھے۔

خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ کراچی اور بیتے بچپن پر دس صفحے تو کیا، دس ہزار بھی لکھوں، تو بھی دل نہیں بھرتا۔ ہمارے جہاز نے کراچی کے اوپر ایک پورا چکر مارا۔ میری آنکھیں مکمل طور کھلی ہوئی تھیں، لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ تصور کیا، کچھ اندازہ لگایا، ضرور یہ صدر ہو گا، یہ بندر روڈ، یہ گارڈن، یہ ہائی کورٹ، نیٹی جیٹی، کیماڑی، منوڑہ ہو گا، کافی دور سے ’’میری ویدر ٹاور‘‘ کے گھڑیال کی ایک جھلک دکھائی دی، وہ بھی بس ایک لمحے کے لیے۔

جہاز دوسرا چکر لگانے سے پہلے ہی رن وے پر اتر گیا۔ لاؤڈ اسپیکر پر مدھر نسوانی آواز سنائی دی۔ ’’ابھی ہم کراچی کے ڈرگ روڈ، ہوائی اڈے پر اترے ہیں۔ اس وقت یہاں رات کے بارہ بج کر پینتیس منٹ ہوئے ہیں۔ جن یاتریوں کو کراچی اترنا ہے، وہ اتر کر سکتے ہیں۔ ہمارے ساتھ یاترا کرنے کے لئے دھنیہ واد۔۔۔۔‘‘

اور پھر مردانہ آواز میں۔ ’’میں کیپٹن علی نور ہوں، ایک اہم معلومات آپ سب کے لئے، براہ مہربانی دھیان سے سنیں۔ جہاز یہاں ایک گھنٹہ رکے گا، جنہیں آگے سفر کرنا ہے، وہ براہ مہربانی اپنی کرسیوں پر بیٹھے رہیں۔ یہاں مارشل لاء کی عملداری ہے اور قانون بھی بہت سخت ہے۔ کسی کو بھی جہاز سے نیچے اترنے کی اجازت نہیں ہے۔ امید ہے آپ ہمارے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔‘‘

ہاتھ میں موجود بیگ لے کر مسافر دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ میں بھی اٹھا لیکن بیگ لئے بغیر، اپنی جنم بھومی پر پہنچنے پر دل کی دھڑکن عجیب طریقے سے بڑھ گئی تھی۔ جیسے ماں کی گود سے بچھڑا کوئی بچہ، پھر ماں کی شفیق گود میں جا پہنچا ہو۔ اندرونی ہلچل اور خوشی کو سمیٹتے ہوئے، لمبی سانسوں سے ان پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اور دیگر اترنے والے مسافروں کے پیچھے چلتا ہوا، دروازے تک آیا۔ نیچے اترنے والی سیڑھی کے دونوں جانب چھ بہادر فوجی، تین ایک جانب، تین دوسری جانب کھڑے تھے۔ چھ مشین گنز۔

اترنے والوں میں، میں سب سے آخر میں تھا۔ ایک فوجی نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا۔  ’’سامان؟‘‘

میں نے بھی ہاتھ کے اشارے سے کہا۔ ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘

’’کراچی؟‘‘

’’نہیں لاگوس۔‘‘

دو خطرناک مشین گنیں میرے سینے کو نشانہ بنائے ہوئے تھیں۔ میں نے دونوں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے ہنس کر اردو میں کہا۔ ’’یار، یہ میرے بچپن کا شہر ہے، یہیں تو میں بڑا ہوا ہوں۔‘‘

ایک آدمی نے اردو میں ہی کہا۔ ’’مہربانی کر کے اپنی جگہ پر جا کر بیٹھو۔‘‘

اس کا مہذب انداز اور نرمی دیکھ کر، میرے بھی حوصلہ بڑھا اور میں نے کہا۔ ’’یار آپ لوگوں کا کیا جاتا ہے؟ جہاز یہاں ایک گھنٹہ رکے گا۔ وہ سامنے لاؤنج ہے، کینٹین سے ایک گلاس پانی پی کر آؤں گا، اور کیا؟‘‘

’’پانی تو اس جہاز پر بھی مل سکتا ہے۔‘‘

میں نے التجا بھرے لہجے میں کہا۔ ’’پر اس کینٹین کا پانی سندھو دریا کا پانی ہو گا۔ میری ماں کے سینے کا دودھ۔۔۔۔‘‘

اچانک آواز سے شائستگی اور نرمی غائب ہو گئی اور مشین گنز کا تناؤ بھی بڑھ گیا تھا۔ ’’واپس اپنی جگہ پر۔۔۔‘‘

’’اچھا بھائی اچھا، ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ چلّا جاؤں گا۔‘‘ اور کچھ لمحے سوچتے ہوئے مفاہمتی لہجے میں کہا۔ ’’پانی نہ سہی، پیاسا ہی چلّا جاؤں گا، کینٹین دور ہے۔۔۔ بچپن میں جانے کتنی بار یہاں پر خالی ماچس کی ڈبیاں حاصل کرنے آیا تھا۔ صرف ایک مہربانی کیجئے، مجھے اس جہاز کی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر اس زمین کو چھو لینے دیجئے۔‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’میں اس زمین کی مٹی کی پیدائش ہوں، اس مٹی کا تلک اپنے ماتھے پر لگاؤں گا اور مٹھی بھر مٹی اپنی جیب میں ڈالوں گا۔‘‘

وہ فوراً سمجھ گئے کوئی تڑی پار سندھی ہندو واپس لوٹا ہے۔ ان کی آنکھیں آگ اگلنے لگیں۔ اب دو نہیں، چار گنوں کا رخ بے دردی سے میری جانب ہوا۔ ایک فوجی کے اشارے پر ائیر ہوسٹس مجھے بازو سے کھینچ کر میری سیٹ تک لائی اور کہنے لگی۔  ’’بندوقوں کے ساتھ بحث کرتے ہو؟‘‘

 

میں مایوس ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھا، دل میں امڈتے ہوئے جذبات کو سسکیوں میں بدلتے دیکھا اور آنسوؤں کو روکنے کے لیے رو مال استعمال کیا۔ خیالوں اور درد کو بس میں کرتے ہوئے کچھ لمحوں کے لیے آنکھیں موند لیں۔ جب آنکھیں کھولی تو میری سیٹ کے کچھ ہی آگے ایک شخص جہاز کی سیٹوں کی صفائی کر رہا تھا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔ ’’اوئے یار، تم تو شکل صورت سے مجھے سندھی لگتے ہو۔‘‘

اس نے چونک کر پہلے ادھر ادھر دیکھا اور پاس کھڑے افریقی نیگرو کو دیکھتے ہی دھیمی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ارے جناب، ہوں تو سندھی، پر یہاں سندھی میں بات کرنے سے میری نوکری چلی جائے گی۔ مہربانی کر کے بالکل دھیما بولیں، یہاں سندھی میں بات کرنا منع ہے اور میں غریب بچوں والا ہوں، مالک۔‘‘

سیٹوں کی صفائی کے بہانے وہ میرے پاس آیا ہے۔ ’’لیکن ادا، یہ تو سندھ ہے۔ یہ کراچی، یہ ڈرگ روڈ، کیا کر دیا ہے ہماری سندھڑی کو؟ نیچے اترنے ہی نہیں دیتے۔‘‘

اس نے شکایتی انداز میں کہا۔ ’’ہم نے کیا کر دیا ہے سندھ کو؟ آپ میں سے کتنے بزدل مرد سندھ سے ہند بھاگ گئے اور ہم باقی سندھیوں کو اکیلا اور تنہا چھوڑ گئے۔‘‘

’’دین دھرم کی جنونی کشمکش میں ہمیں جانا پڑا تھا۔‘‘

’’آپ نہ جاتے تو آپ کی دولت یوں مہاجنوں کو تو نہ ملتی۔‘‘

’’پر وہ تو آپ کے دینی بھائی ہیں۔‘‘

’’خدا جانے کس خطا کی سزا دے کر یہ قہر ڈھایا ہم پر۔ ہمارا برا وقت تھا جو پاکستان کے لیے حامی بھری۔ جانے کیسا یہ موجودہ حاکم ہے کہ سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے۔‘‘ دو پل رک کر کہا، ’’میں تو ان پڑھ گنوار ہوں، پر سندھ کے گھر گھر میں یہی بات ہوتی ہے کہ دینی بھائی تو دینی بھائی ہے، پر ہم زباں ہی ہم شہری ہوتے ہیں اور وہی اپنے پیارے بھی ہوتے ہیں۔ سارے ہندوستان، پاکستان کو آزادی ملی، پر سندھ اب بھی غلام ہے سائیں۔‘‘

بات کرتے ہوئے وہ جہاز کے آگے اور پیچھے والے دروازوں پر بھی نظر مار رہا تھا۔ اس کے اندر خوف گھلا ہوا دیکھ کر میں اپنی کرسی چھوڑ کر اس قریب اس طرح ٹہلنے لگا کہ وہ اپنا کام بھی کرتا رہا اور ہماری گفتگو میں بھی کوئی رکاوٹ نہ پڑے۔

’’اور آپ کا وہ سعید بابا جو تھا؟‘‘

’’وہ بچارہ پیر ہو کر بھی راہیں تکتا رہا، آخر گزر گیا۔‘‘

میں نے پوچھا۔  ’’پیر پگاڑو کے جو پیروکار تھے؟ شیخ ایاز کے قلم میں تو طاقت تھی؟‘‘

’’سائیں، اتنی باتیں تو تفصیل میں نہیں جانتا، باقی یہ جانتا ہوں کہ، ایاز نے جیتے جی جب کچھ کہا، تو اسے چپ کرایا گیا۔‘‘ اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر کہا، ’’مجھے ایک بار غصے سے ’’جاٹ‘‘ تو کہیں۔‘‘

’’نہیں بابا، مسلمان کلہاڑیوں سے میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔‘‘

‘اب اس جنون سے بھی توبہ کر لی گئی ہے۔ یہ نئے حاکم ہمیں پاکستانی تو کیا، ہماراسچا مسلمان ہونے تک کو قبول نہیں کرتے۔ سائیں، ایک حقیقت بیان کرو، میرے والد اب آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے۔ ایک دن کسی انجان آواز نے کہا۔ ’’ارے جاٹ۔۔۔‘‘ تو والد صاحب نے انہیں گلے سے لگاتے کہا۔ ’’بیوپاری، کب ہندوستان سے لوٹ کر واپس آئے؟ میں جاٹ، تم بیوپاری‘‘۔۔  ’’بیوپاری اور جاٹ‘‘ جیسے لفظوں میں کتنی محبت بھری ہوئی ہے، درویشوں کی اس زمین کے بیٹے ہم سندھی محبت سے ناچتے گاتے ہیں۔ ہم فوجی تو ہیں نہیں، پھر بندوقوں سے کیا۔۔۔‘‘

اچانک دو مشین گنز والوں کو آتے دیکھ کر وہ طیش میں آ گیا اور غصے بھری اونچی آواز میں مجھے سے کہنے لگا۔ ’’بیوپاری، کیوں دماغ کھاتے ہو؟ ایک بار کہا نہ، جہاز سے نیچے اترنے کی سخت ممانعت ہے۔‘‘

مشین گنز والوں میں سے ایک نے کہا۔ ’’شاباش، تم جیسے ہی، سچے پاکستانی ہیں۔‘‘

***

 

 

 

 

ماضی کی یادیں

 

گلزار احمد

سندھی کہانی

 

 

میرے ایک دوست جن کا نام ابو امام حسن ہے، ہانگ کانگ سے گھوم پھر کر آئے ہیں۔ کچھ دن پہلے ان سے اچانک ایک ہوٹل میں ملاقات ہو گئی۔ ہانگ کانگ کی باتیں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا۔

’’ایک دن مارکیٹ کی سیر کرتے کرتے ایک دکان میں چلّا گیا۔ دکان بہت اچھی اور غیر ملکی سامانوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں جیسے ہی دکان میں داخل ہوا، ایک خوبصورت چینی لڑکی نے آ کر میرا استقبال کیا۔ وہ مجھ سے انگریزی میں باتیں کرنے لگی اور طرح طرح کی چیزیں دکھانے لگی۔ اتنے میں وہاں ایک ہنڈسم سا نوجوان آیا۔ شاید میری شکل و صورت اور وضع قطع سے اس نے اندازہ لگایا، لہٰذا وہ مجھ سے اردو میں مخاطب ہوا۔ مجھے بہت اچھا لگا۔‘‘

’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

’’کراچی سے۔‘‘

میرا جواب سنتے ہی وہ نہایت خوش ہو گیا، اس کے چہرے پر خون دوڑنے لگا، آنکھیں چمکنے لگیں اور گال پھڑکنے لگے۔ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر اس دکان کے کونے میں واقع ایک کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک خوبصورت میز کے سامنے درمیانی عمر والے ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھے۔ جیسے ہی ان کی نظریں ہم لوگوں پر پڑیں۔ وہ پین رکھ کر سیدھے بیٹھ گئے اور بغیر کوئی سوال پوچھے مسکرا کر ہمارا خیر مقدم کیا۔

مجھے اندر لے کر آنے والے نوجوان نے ان صاحب کو میرے بارے میں کچھ بتایا۔ وہ لوگ سندھی میں بات چیت کر رہے تھے۔ نوجوان کی بات سنتے ہی وہ خوشی کے مارے جھوم اٹھے۔ کرسی سے اٹھ کر انہوں نے مجھے اتنے زور سے گلے لگایا کہ مجھے لگا شاید میری پسلیاں ہی ٹوٹ جائیں گی۔ اپنے دونوں ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھام کر انہوں نے سندھی میں پوچھا۔

’’اپ کراچی سے آ رہے ہیں؟‘‘

’’جی۔‘‘

میرا جواب سن کر پھر اسی طرح مسکراتے ہوئے وہ مجھ سے اردو میں بولنے لگے۔

میرے بہت روکنے پر بھی میری بہت خاطر داری کی گئی۔ وہ بار بار مجھ سے سندھ کی خبریں پوچھنے لگے۔ سندھ کے بارے ان کی اتنی عقیدت کو دیکھ کر مجھے بڑا افسوس ہو رہا تھا، کیونکہ میں سندھ کی اکثر باتوں سے بالکل ہی انجان تھا۔ ایسی حالت میں، میں انہیں حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور شکار پور کی کیا خبریں بتاتا۔ اپنی اس نا اہلی اور کم علمی پر مجھے شرم آ رہی تھی۔

شاید آپ سمجھتے ہوں گے کہ ان لوگوں نے میری صرف اتنی ہی خاطر داری کی ہو گی۔ نہیں جناب، میں نے جو بھی چیزیں خریدیں، وہ سب انہوں نے آدھی قیمت پر مجھے دیں اور ایک جیبی ریڈیو بھی دیا۔ پھر وہ نوجوان اپنی بڑی شاندار سی سرخ موٹر گاڑی سے مجھے میرے ہوٹل تک بھی پہنچا گیا اور یہ بھی کہہ گیا کہ شام کو پانچ بجے پھر لینے آئے گا۔

میں ڈرنے لگا کہ اگر وہ نوجوان شام کو آ گیا اور مجھے اپنے دوسرے دوستوں کے پاس لے گیا اور ان لوگوں نے کہیں پھر سندھ کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی، تو پھر مجھے بڑا شرمندہ ہونا پڑے گا۔ یہ سوچ کر میں نے فیصلہ کر لیا کہ پانچ بجنے سے پہلے ہی کہیں باہر چلّا جاؤں گا۔

ابھی ساڑھے تین ہی بجے تھے کہ میں نے جانے کی تیاری شروع کر دی۔ ٹھیک چار بجے میں نے اپنے کمرے میں تالا لگایا۔ ہوٹل کے منیجر کو چابی دے کر ابھی باہر نکلا ہی تھا کہ وہی شاندار سرخ موٹر گاڑی آ کر میرے قریب کھڑی ہو گئی۔ میں کچھ گھبرا سا گیا۔ صبح والا نوجوان گاڑی سے اترا اور مجھ سے ہاتھ ملایا، پھر گاڑی کی طرف کھینچتے ہوئے اس نے پوچھا۔

’’اپ شاید کسی ضروری کام سے جا رہے تھے؟‘‘

’’نہیں تو، بس یوں ہی بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا تھا تو میں نے سوچا کہ کہیں گھوم آیا جائے۔‘‘

نوجوان ہنس پڑا۔ مجھے گاڑی میں بٹھا کر وہ اپنے دوسرے دوستوں سے ملانے چل پڑا۔ جلد ہی ہم ایک بڑے سارے اسٹور میں پہنچ گئے۔ وہاں کچھ افراد پہلے ہی سے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

تمام موجود افراد سے میری جان پہچان کروائی گئی۔ کمرا بہت اچھی طرح ڈیکوریٹڈ لگ رہا تھا۔ کمرے کے کونے میں ایک میز پر ایک گلدستہ رکھا ہوا تھا۔ بالکل ویسا ہی ایک گلدستہ میں نے کراچی میں بھی دیکھا تھا۔ میری نظر اس گلدستے پر ٹکی دیکھ کر اس اسٹور والے شخص نے بتایا۔

’’یہ میرے عزیز از جان سندھودیش کا تحفہ ہے۔ یہ جنڈی کا بنا ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ کچھ دن ہوئے، فورڈ موٹر کمپنی کے مالک کا کروڑ پتی بیٹا ہانگ کانگ گھومنے آیا۔ اتفاق سے وہ ہمارے اسٹور میں بھی آیا تھا۔ جب اس کی نظر ان گلدستوں پر پڑیں تو اس نے بڑی بے چینی سے پوچھا۔

’’ایسی نایاب اور منفرد چیزیں کس ملک میں بنتی ہیں؟‘‘

’’میں نے اسے بتایا کہ آرٹ ہمارے وطن سندھ کا ہے جو اس وقت پاکستان کا ایک صوبہ ہے۔ میں نے اسے ایک رِلّی اور شیشے جڑی ہوئی سندھی ٹوپی بھی دکھائی۔ ان پر کی گئی ہاتھوں کی فنکاری کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ پہلے اس نے ان کی قیمت پوچھی، لیکن جب میں نے کہا کہ یہ چیزیں برائے فروخت نہیں ہیں، تب وہ مسلسل اصرار کرنے لگا۔ جیب سے ایک ہزار پونڈ کا چیک نکال کر میرے سامنے پھینکتے ہوئے کہنے لگا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز مجھے دے دو۔ اس کی اتنی دلچسپی دیکھ کر میں اس سے مزید انکار نہیں کر سکا۔ وہ رِلّی، جس میں اس نے زیادہ دلچسپی دکھائی تھی، میں نے اسے دے دی اور وہ چیک بھی اسے واپس لوٹا دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔‘‘

اتنے میں ایک نوجوان کے ساتھ ایک بزرگوار وہاں آئے۔ ان کے احترام میں سبھی لوگ کھڑے ہو گئے۔ اندر آتے ہی وہ اپنے چشمے کے موٹے موٹے شیشوں میں سے اِدھر اُدھر کچھ ڈھونڈنے لگے۔ اس کے ساتھ آیا ہوا نوجوان اپنے ہاتھ کا سہارا دے کر انہیں میرے پاس لے آیا۔ جیسے ہی میں نے ان بزرگوار سے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں میرے ہاتھ کو جکڑ لیا۔ پھر ہم دونوں ایک سوفے پر بیٹھے گئے۔ انہوں نے بڑے محبت سے پوچھا۔

’’تم کبھی شکار پور گئے ہو؟‘‘

میں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔‘‘ جی نہیں، کبھی وہاں جانے کا موقع نہیں ملا۔‘‘

میرے جواب نے انہیں کچھ دکھی سا کر دیا، لیکن پھر کہنے لگے۔‘‘ کیا تمہارا کبھی وہاں جانے کا ارادہ ہے اس جانب؟‘‘

میں انہیں مزید دکھی نہیں کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے بولا۔‘‘ ہو سکتا ہے کبھی چلّا بھی جاؤں۔‘‘

یہ سنتے ہی وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر کہنے لگے۔‘‘ بیٹے، تم وہاں ضرور جانا۔ بہت اچھا شہر ہے شکار پور۔ وہاں کی مٹھائیاں اور قلفیاں کھا کر دیکھنا۔ زندگی بھر نہیں بھلا پاؤ گے۔ اسٹیشن پر اتر کرتا نگے والے سے کہو گے تو وہ تمہیں لکھی در کے ٹاور کے پاس لے جائے گا۔ وہاں تم شہر کی حسن کا صحیح احساس کر سکو گے۔‘‘

ان کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ لگتا تھا، وہ اپنا دل سندھ میں کہیں کھو آئے ہیں۔ کچھ وقت کے بعد وہ پھر بولنے لگے۔

’’تمہیں شکار پور جانا ہی ہو گا۔ اپنے لئے نہیں تو میرے لئے۔‘‘ تھرتھراتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ سو سو کے دو نوٹ نکال کر میرے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے وہ کہنے لگے۔

’’میری طرف سے آنے جانے کا کرایہ۔۔۔‘‘

’’ہاں، ہاں، چاچا سائیں، میں ضرور جاؤں گا۔ یہ پیسے آپ رکھ لیجئے۔ ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

مگر وہ نہیں مانے۔ دیگر لوگوں نے بھی روپے رکھ لینے کا اشارہ کیا۔ وہ پھر کہنے لگے۔

’’جب تم لکھی در پہنچ جاؤ، تو وہاں سے سیدھا بیگاری واہ (دریا) کی طرف جانا۔ جہاں راستہ پڑتا ہے، وہاں کونے پر آپ کو ایک پرانے گھر دکھائی دے گا۔ تم سیدھے جا کر اس گھر کے آنگن میں دروازہ کھٹکھٹانا۔ پتہ نہیں اب وہاں کون لوگ رہتے ہوں گے اور ہاں، اس گھر کے آنگن میں تم کو ایک آم کا درخت بھی دکھائی دے گا۔ اتنا ننھا سا تھا جب میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے لگایا تھا۔ اب تو وہ درخت بہت بڑا ہو گیا ہو گا۔ آم بھی دیتا ہو گا۔ وہاں جو بھی لوگ رہتے ہوں، ان سے ملنا۔ پھر انہیں بتانا کہ ہمارے سندھو دیش میں آم کتنے مزے سے کھائے جاتے ہیں۔ انہیں بتانا، جب بیگاری (دریا) میں پانی بھر جائے، تب وہ آموں کو نئے کورے مٹکوں میں بھر کر، وہاں پر لے جائیں۔ جیسے ہی وہ پل کے قریب پہنچیں گے، الٹی جانب انہیں ایک گھنا سروں کا درخت دکھائی دے گا۔ ان سے کہنا کہ وہ لوگ اس درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں جا کر بیٹھیں۔ پھر ان مٹکوں کو واہ کی گیلی مٹی میں اس طرح دبا کر رکھیں کہ دریا شاہ کا پاک پانی انہیں ٹھنڈا کرتا ہوا آگے بڑھے۔ پھر ان سے کہنا کہ وہ لوگ وہاں دریا شاہ میں نہائیں کریں اور نہاتے نہاتے مٹکے سے ایک ایک آم نکال کر کھاتے جائیں۔ پھر انہیں ان آموں کے حقیقی ذائقے کا پتہ لگے گا۔‘‘

بزرگوار اب زیادہ خوشی لگ رہے تھے۔ دفعتاً وہ سنجیدہ ہو کر کہنے لگے۔

’’بیٹے، میرا ایک کام ضرور کرنا۔ میں تمہیں آشیرواد دوں گا۔ جب تم اس گھر میں جاؤ، تب وہاں رہنے والوں سے درخواست کر کے اس آم کے درخت کا ایک تازہ پتہ مانگ لینا۔ پھر وہ پتہ بڑی احتیاط سے مجھ کو پارسل کر دینا۔ میں یہاں پارسل چھڑا لوں گا۔ یہی میرا سب سے بڑا کام ہے۔ تمہاری مجھ پر بڑی کرپا ہو جائے گی۔‘‘

کافی دیر تک وہ سندھ کے بارے میں باتیں کرتے رہے اور اپنے دل کے بوجھ ہلکا کرتے رہے۔ کافی وقت گزر چکا تھا۔ اسی رات دس بجے کی فلائیٹ سے مجھے کراچی واپس لوٹنا تھا۔ اس لئے میں نے ان سے رخصت لی۔ سبھی لوگوں نے بڑے محبت سے گلے لگا کر مجھے رخصت کیا۔ ہر شخص کہہ رہا تھا۔

’’سندھو دیش کو ہمارا پرنام کہنا، ہمارے ملک کو ہمارا پرنام کہنا۔‘‘

ہانگ کانگ میں اس آخری دن ہوئی ان سندھی دوستوں کی اپنی ملاقات کو میں اپنے دل میں سجائے، اسی سرخ موٹر گاڑی والے نوجوان شیام کے ساتھ اپنے ہوٹل واپس آیا۔ آخر تک وہ میرے ساتھ رہا۔ سامان کی پیکنگ اور ضروری کاموں میں وہ میری مدد کرتا رہا۔ ہوائی اڈے تک وہ میرے ساتھ تھا۔ جوں ہی ہوائی جہاز کے اڑنے کی اطلاع دی گئی، اس نے بڑے پیار سے مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ جب میں نے اس کی بانہوں کے بندھن کو کچھ ڈھیلا کیا تو دیکھا، اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا۔

’’شیام، تمہارا کوئی کام ہو تو بتاؤ، میں بڑی خوشی سے کروں گا۔‘‘

وہ آ نسو پوچھتے ہوئے بولا۔‘‘ نہیں، بس اتنی دعا کرنا کہ کبھی اپنے دیش سندھ کے درشن کر سکوں۔‘‘

ابو امام حسن نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر سر جھکا یا پھر کہنے لگا۔

’’زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ آخر کتنے دن ہم اپنے آپ کو پردیسی سمجھتے رہیں گے؟ پردیسی، یہ غلط خیال ہے۔ جنون ہے، بغض ہے۔ نہیں، نہیں، بالکل نہیں، ہم اب پردیسی نہیں ہیں۔ میں سندھی ہوں۔ سندھ دیش ہے، یہ خیال آتے ہی میں نے عزت نفس کو محسوس کیا۔‘‘

ہوائی جہاز بادلوں میں اڑا جا رہا تھا۔ میں نے کھڑکیوں سے باہر دیکھا، شیام اب تک آنسو بھری آنکھوں سے کہہ رہا تھا، دعا کرنا۔۔۔ کبھی اپنے دیش سندھ کے درشن کر سکوں۔۔

میرا دل بھر آیا۔ میں سوچنے لگا، یہ ہوائی جہاز اور تیز رفتاری سے اڑے۔۔۔ میں اپنے ملک سے ملاقات کروں۔۔۔ اپنے سندھی بھائیوں سے ملاقات ہو۔۔۔ میری بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔

***

 

 

 

 

کھوئی ہوئی خوشبو

 

افضل احسن رندھاوا

پنجابی کہانی

 

 

میں کون سی کہانی لکھوں؟

جب بھی میں کہانی لکھنے کا سوچتا ہوں۔ کتنی ہی کہانیاں مجھے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ کسی کہانی کے ہاتھ سخت محنت سے کھردرے ہو گئے ہیں، کسی کہانی کے بال مٹی میں مل کر مٹی ہو گئے ہیں۔ کسی کہانی کے سر پر چادر نہیں۔ کسی کہانی کا مکھن سا بدن بھنبھوڑنے کی وجہ سے چھلنی ہو گیا ہے۔ کسی کہانی کے خوبصورت چہرے پر بارود کی بدبو اور خون کے داغ ہیں۔ کسی کہانی کا بازو کٹ گیا ہے۔ تو کسی کی ٹانگ نہیں۔ کسی کی آنکھیں نکل گئی ہیں۔ کسی کا گوشت نیپام بم کی آگ سے جھلس گیا ہے۔

چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ میری کوئی بھی کہانی مکمل نہیں ہے۔ کسی کی بھی خوبصورتی برقرار نہیں رہی ہے۔ کسی کا لباس بھی پورا جسم ڈھانکنے کے قابل نہیں۔ سبھی بدصورتی کے گہرے سائے میں ڈھکی ہوئی ہیں۔ پر بدصورتی بھی تو حسن ہے۔ اور شاعر، ادیب، ازل سے حسن بانٹتے اور حسن کی تعریف کرتے آئے ہیں۔ تو میں کیوں بدصورتی کو حسن کی جھوٹی چادر میں لپیٹ کر لوگوں دکھاتا رہوں۔ چادر اتار کر کیوں نہیں دکھاتا؟ لیکن اس کی بھی کیا ضرورت ہے؟ میری تمام کہانیوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے۔ اور ان کے پاؤں بھی مٹی پر ہی ہیں۔ ان کی بدصورتی میں بھی مٹی کا درد ہے اور یہی درد انہیں بدصورت بنا دیتا ہے۔ پر اب میں بدصورت لفظ نہیں لکھوں گا۔ کیونکہ مٹی کا پیدا، مٹی کا غم، مٹی سے ربط کبھی بھی بدصورت نہیں ہوتا، بلکہ خوبصورت ہوتا ہے۔ مٹی تو انسان کی پیدائش سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، بلکہ انسان نے مٹی سے پیدا ہو کر، اسے دکھ، درد اور بدصورتی دی ہے۔ انسان کی صورت دیکھے بغیر، مٹی نے اسے ہمیشہ آسرا دیا ہے اور دیتی رہے گی۔

انسان، مٹی اور آسرا۔

پر انسان سے مٹی کا آسرا چھیننے والا کون ہے؟

مجھ سے میری پگڑی اور میرے جوتے کس نے چھینے، جو میں اپنی فصل بیچ کر لایا تھا؟ فصل، جسے میں نے اپنا پسینہ بہا کر، اسے مٹی میں ملا کر، مٹی سے پیدا کیا تھا۔ کسی مشین نے نچوڑ لیا میرے اندر کا سارا خون، جس کی طاقت پر میں اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے منصوبے بنائے ہوئے تھا۔

میرا پیٹ خالی کیوں ہے اور اپنا سارا خون مشین کو دے دینے کے بعد بھی میرے بچے بھوکے کیوں ہیں؟

میری مٹی پر لکیریں کس نے کھینچ دیں اور کیوں؟

جمیلہ کے حسن کو الجیریا کے کن کارناموں نے گہنا دیا؟

ویت نام کے ہرے بھرے جنگلات اور چھوٹے چھوٹے مکانوں کو کس نے راکھ کا ڈھیر بنا دیا؟

صحارہ ریگستان میں کیوں اور کس نے خون بہا کر ریت کو بدصورت کر دیا؟

یورپیوں نے نفرت سے کالوں کو گڑ کا بھائی سمجھ کیوں گڑ میں ہی پھینک دیا؟

انسان اگر پیدائشی آزاد ہے تو پھر اسے غلام بنانے کے لئے سائنس نے اتنی ایجاد یں کیوں کی ہیں؟

مٹی اگر مقدس ہے تو پھر اس کے سینے کو روز زخمی کر کے، اس کا خون بہا کر، اس کا جسم کو کیوں چھلنی کیا جاتا ہے؟

رب اگر آسرا ہے، تو پھر انسان سے اس کا آسرا کیوں چھینا جاتا ہے؟

رب، مٹی، انسان اور آسرا ملا کر اگر ایک مربع بنتا ہے، تو وہ کون سا ہاتھ ہے، جو اس کی لکیروں کو پونچھ کر اس کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے؟

ناجی آکسفورڈ کے لہجے میں انگریزی بولتی ہے اور میرے منہ سے پنجابی زبان سن کر میری طرف اپنی موٹی شربتی آنکھوں سے سوالیہ انداز سے دیکھتی ہے۔

رب ورگا آسرا تیرا، وسدا رہوُ مترا

تو اسے کیا جواب دوں؟ کہتا ہوں رب کے پاس تو اور بہت سے کام ہیں، دنیا بہت بڑی ہو گئی ہے۔ مسائل بڑھ گئے ہیں۔ وہ خالی نہیں اور آسرا؟ آسرا کس کا اور کیسا، جب آسروں کی تعداد سے ان لوگوں کی گنتی ہزار گنا زیادہ ہے، جو آسرا چھین لیتے ہیں۔

چچا ٹہل سنگھ ٹھیک کہا کرتا تھا، ’’بیٹا ہم سب ہی کہانیاں ہیں۔ پر ہمیں لکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘

ہاں چاچا، ٹہل سنگھ تم ٹھیک کہتے تھے۔ ابھی کل کی بات ہے، جب تم یہاں، اس مٹی کے بیٹے کے روپ میں، اس مٹی سے پیدا ہوئے سونے سے موج کرتے تھے۔ یہ مٹی تمہیں لاڈلے بیٹوں کی طرح محبت کر تی تھی۔ ہوا سے بھی تیز دوڑنے والی تیری گھوڑیوں کی دھوم پورے علاقے میں تھی۔ تمہارے خوبصورت مویشی، لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ تمہاری بھینسوں کے جوڑ کی بھینسیں سارے پنجاب میں کسی کے پاس نہیں تھیں۔ تمہارے دالان، رنگین چارپائیوں سے اور پیٹیاں، رنگ برنگی پھولدار چادروں، رضائیوں اور کھیسوں سے بھری ہوئی تھیں۔ تمہارے دروازے سے کوئی بھی ضرورتمند خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔ ایک بڑے سردار ہو کر بھی تم اپنے نوکروں کو بیٹوں کی مانند رکھتے تھے۔ گاؤں کی بہن بیٹیوں کو اپنی بہن بیٹیاں سمجھتے تھے۔ ہر کے دکھ درد میں تم شریک تھے۔

بھینی صاحب والے گردوارے والے درخت کے نیچے اپنی سنگت کے ساتھ بیٹھے تھے۔ تمہاری حویلی میں سینکڑوں مہمانوں کے لئے کھانا بن رہا تھا۔ ناسمجھ لڑکے چھپ چھپ کر بولیاں بول رہے تھے۔

کنکاں کھان دے مارے۔ آ گی نامدھاری۔

سارے گاؤں میں میلہ لگا ہوا تھا۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے گرو کے درشن کے لئے گئے تھے۔ اور بہت سے لوگ دور دور سے گرو کے درشن کے لئے آئے ہوئے تھے۔ تم نے مجھے اور پال سنگھ کو پکڑ کر گرو جی کے آگے کھڑا کر دیا تھا۔

’’یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘ تم نے کہا تھا۔ پال کا سر ننگا تھا اور اس نے چھوٹا سا جوڑا مضبوطی سے باندھا ہوا تھا۔ گرو جی نے پہلے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور تمہاری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا، جیسے پوچھ رہے ہوں کہ یہ دوسرا مسلمان لڑکا کون ہے؟ اور تم نے کہا تھا، ’’میرے بھائی کا بیٹا ہے۔‘‘

اور گرو جی نے ہنس کر دونوں ہاتھوں سے میرے سر پر پیار دیا تھا اور برکت دی تھی۔

پھر چچا، تیری سندر گھوڑی نے، جو تم نے اس زمانے میں مہاراجہ کپور تھلہ سے دس ہزار میں لی تھی، اس نے بڑی توقعات اور امیدوں کے بعد ایک بچھڑی کو پیدا کیا تھا۔ اس بچھڑی میں تمہاری جان تھی۔ مجھے بہت دیر بعد پتہ چلّا کہ وہ بچھڑی اتنی قیمتی تھی۔ اس وقت بچھڑی تقریباً چھ مہینے کی تھی، جب میں کھیلتا کھیلتا تمہارے گھر گیا تھا۔ سونے کے دل والی چاچی نے، مجھے دونوں بازوؤں میں بھر کر مضبوطی سے پیار کیا تھا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔ ما تھا چوما تھا اور گودی میں بیٹھا لیا تھا۔ ایک روٹی کی چوری بنا کر، شکر ڈال کر مجھے کھلانے لگی تھی۔ اتنے وقت میں پال آ گیا تھا اور ہم دونوں کھیلتے کھیلتے حویلی میں آ گئے تھے۔ بھائی رتن سنگھ اس وقت حویلی میں تھا۔ اس کی بندریا آدمیوں کی طرح بیلنے میں گنے ڈال رہی تھی۔ بھائی سوڈا ڈال کر ابلتے ہوئے رس سے گندگی اتار رہا تھا۔ (مجھے ابھی تک یاد ہے بھائی کا گڑ سارے گاؤں میں سب سے سفید اور صاف ہوتا تھا)۔ نکو عیسائی دھونکنی سے ہوا دے رہا تھا۔ دھونکنی کے دھوئیں اور گڑ سے نکلنے والی بھاپ میں، بھائی چھپا ہوا سا لگتا تھا۔ لیکن اس نے پال کو اور مجھے دیکھ لیا۔

’’رس پی۔‘‘

’’گڑ کھا۔‘‘

’’گنے چوس لے۔‘‘

’’بیٹھ جا۔۔۔ او لڑکے۔ وِیر کی چارپائی ذرا دھوپ میں بچھا دے۔‘‘

بھائی رتن سنگھ نے ایک ساتھ کتنے ہی حکم دے دیئے مجھے۔ پر میری توجہ اس بچھڑی کی طرف چلی گئی۔ میں اور پال بچھڑی کے پاس جا کر اسے دیکھنے لگے۔ بچھڑی بہت خوبصورت، بالکل کسی تصویر سی لگ رہی تھی۔ پتہ نہیں کہاں سے ٹہل سنگھ آ گیا اور پتہ نہیں کس ضد میں، میں اس کی گود میں چڑھ گیا۔ میں نے بچھڑی پر بیٹھنے کی ضد کی۔ سات سال کے بچے میں سمجھ ہی کتنی ہوتی ہے، پر چچا آپ نے مجھے ایک بار بھی منع نہیں کیا، نہ ہی سمجھایا اور اس معصوم اور قیمتی بچھڑی کو پکڑ کر، لگام کو گانٹھوں کی مدد سے چھوٹی کر کے، اسے دے دی۔ جو آدمی جہاں تھا، حیرت سے بت بنا رہ گیا۔ بھائی پکتے ہوئے گڑ کو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ ہر آدمی، چچا تمہاری طرف دیکھ رہا تھا۔ ایک بچے کے ضدی پنے کے ساتھ آپ بھی بچے بن گئے تھے۔ پر تمہارے کاموں میں دخل دینے کی ہمت اور جرات کسی میں نہیں تھی۔ پھر تم نے کندھے کی چادر اتار کر، اچھلتی ہوئی، ناچتی ہوئی، گھبرائی ہوئی اور پریشان اور ساتھ ہی نڈھال ہوئی بچھڑی پر ڈال دی اور پھر اس معصوم، نرم اور خوبصورت پیٹھ پر زین ڈال دی اور زین کو کس دیا۔ آج سوچتا ہوں کہ چھ ماہ کی دودھ پیتی نرم و نازک بچھڑی کی جان کے لئے اتنا ہی دکھ اور صدمہ کافی تھا۔ پر چچا، پھر تم نے مجھے اس پر بٹھا کر اسے آگے سے پکڑ کر حویلی کے دو چکر لگوائے اور بچھڑی دکھ اور صدمے سے نڈھال ہو کر گر کر مر گئی۔ مہاراجہ کپورتھلہ کی لاڈلی گھوڑی کی خوبصورت بچھڑی، جسے تم نے کتنی ترکیبوں اور امیدوں سے پایا تھا۔ پر تمہارے ماتھے پر ایک بھی شکن نہیں پڑی تھی، کسی نے بھی اف تک نہیں کی تھی، سوائے میرے ابا کے، جب انہوں نے سنا تو وہ مجھ پر اور تم پر، دونوں کو غصہ ہوئے تھے۔ پر تم کو صرف ہنس دیئے تھے۔

چچا! آج میں بالغ ہوں۔ سیانا ہوں۔ پتھر کی طرح ٹھوکریں کھا کر گول ہو گیا ہوں۔ دنیا کا سرد گرم بھی دیکھا ہے اور آدھی دنیا کے شہر بھی دیکھے ہیں اور ان کے شہریوں کو بھی دیکھا ہے۔ انہیں آزمانے اور سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ آج وہ باتیں، خواب کی باتیں لگتی ہیں، کھوئے ہوئے خواب۔ کتنا بد قسمت ہوتا ہے وہ آدمی جس کے خواب کھو جاتے ہیں۔ آج سوچتا ہوں چچا تم تو میرے باپ کے منہ بولے بھائی تھے۔ تم نے اس کے ساتھ پگڑی بدلی تھی۔ تم، اس کے سگے بھائی تو نہیں تھے۔ پر جتنا پیار تم نے مجھے دیا، اتنا پیار تو میرے کسی سگے چچا نے بھی نہیں دیا۔ کہتے ہیں خون کا رشتہ بہت پیارا ہے، لیکن پھر بھی تم مجھے سگوں سے بھی زیادہ پیارے تھے۔ میں تمہیں، تمہارے پال سے بھی زیادہ پیارا، زیادہ لاڈلا اور زیادہ قریب کیوں تھا؟

پھر ایسی آندھی چلی جو انسان کو چھید کر اور زمین کو ویران بنا کر چلی گئی۔ راوی اور بیاس بڑھ کر خوفناک ہو گئیں اور لہریں غصے میں منہ سے جھاگ اگلتی باہر آ گئیں۔ چاروں طرف امنڈتا ہوا پانی تھا۔ تم نے بھری پری حویلی اور بھرے ہوئے گھر سے، بس دو چار چیزیں لیں، پھر میرے چاچے، تائے اور ابا اس گاڑی کو برچھیوں، چھریوں اور بندوقوں کے پہرے میں لے کر چل دیئے تھے۔ گاڑی پر چاچی، پال، بہن، تم اور رتو تھے اور تمہارے آس پاس تمہاری حفاظت کے لئے ہم حیران سے پل تک گئے تھے۔ تم بھی نڈھال ہو گئے تھے اور تم کو چھوڑنے جانے والے بھی۔ راستے میں لوٹ مار، قتل، حملے وغیرہ کا ڈر۔ اور پل پر پہنچ کر جب میرے والد اور تم نے ایک دوسرے کو بانہوں میں بھرا تو دونوں بلک بلک کر رونے لگے تھے۔ تمہیں ڈیرے سے، پل سے گزرتے اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوئے، دیکھ کر میرے والد کس طرح بچوں کی طرح تڑپ تڑپ کر روئے تھے۔ تم آگے بڑھ کر بھیڑ میں کھو گئے تھے، پر ہم شام تک کیوں پل پر کھڑے روتے رہے تھے؟ اور ادھر آخر کار تم کو کھو کر، اپنے اور اپنے اجڑے گھروں میں واپس لوٹ آئے تھے۔ اس وقت میں آٹھ سال کا تھا اور اب اڑتیس سال کا ہوں۔ میں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنے باپ کو روتے نہیں دیکھا تھا، سوائے اس دن کے۔ اب تو بس تمہارے نام پر ہی، ان کی آنکھیں بجھ جاتی ہیں۔

اور آج کسی گاؤں میں پناہ گزین ٹہل سنگھ پتہ نہیں کتنا خوش ہے؟ اور اب پتہ نہیں پال سنگھ میری طرح آدھے دھلے بال والے سر میں، اپنی روشن بادامی آنکھوں میں کوئی خواب رکھتا ہے یا نہیں؟

چچا ٹہل سنگھ کہا کرتا تھا،  ’’ہم سب کہانیاں ہیں، پر ہمیں لکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘

چچا دیکھ لو، مجھے تمہاری کہانی یاد ہے اور میں کسی دن اسے لکھوں گا بھی۔ آج تو میرے چاروں طرف کہانیاں گھیرا ڈال کر کھڑی ہیں، چاروں طرف قیامت والا شور ہے۔

میری کہانیاں لہولہان ہیں۔ ان کے سر ننگے ہیں، بال بکھرے ہوئے اور بدن زخمی ہیں۔ میرے ہاتھوں میں ٹوٹا ہوا قلم ہے اور ٹوٹے ہوئے کردار ہیں، جس میں، میں اپنی کہانیوں کے لئے خوشیاں لینے گھر سے نکلا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ میں اپنا رستہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ میرا حال بھی میری کہانیوں جیسا ہی ہے۔ اور میں سوچتا ہوں میں کیسے کہانی لکھوں؟

***

 

 

 

 

دھرتی سے رشتہ

 

موتی لال جوتوانی

سندھی کہانی

 

بس اسٹاپ پر کافی بھیڑ لگ رہی تھی اور بس کے آتے ہی تمام لوگ اس کے اندر گھسنے کے لیے لپکنے لگے تھے۔ بسنتانی جی کو بس سے نیچے اترنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ نیچے اتر کر انہوں ذرا پیچھے کی طرف نظر یں گھما کر دیکھا، بھیڑ میں کچھ عورتیں اور مرد، انہیں عورتیں اور مرد نہیں بلکہ ناکارہ اور جنسی کجروی کی ذہنی بیماری سے دوچار جانور لگے تھے۔

شام گھِر آئی تھی۔ شہروں کی شام گوٹھوں کی شام سے الگ ہو گئی ہے۔ گاؤں کی شام افق سے آہستہ آہستہ پہلے گھروں میں اور پھر کھیتوں پر اترتی ہے۔ شہروں کی شام میں گھر جلد پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں، کوئی اپنائیت نہیں، کوئی خوشگواریت نہیں ہے۔ یہاں بجلی کے ہوتے ہوئے تیز روشنی میں گھر اندھیروں بھری چادر اوڑھے ہوئے نہیں رہتے، سبھی کچھ ننگا ننگا سا ہوتا ہے۔

بسنتانی جی آگے بڑھے۔ فیڈریشن ہاؤس کچھ فاصلے پر ہے۔ بیچ شہر میں ریگل سنیما ہاؤس کے پاس فیڈریشن ہاؤس نامی ایک بڑی عمارت ہے۔ یہ عمارت گویا پورے ہندوستان کا ایک چھوٹا سا روپ ہے۔ اس میں، اس بڑے شہر میں رہنے والے ہندوستان کی سبھی ریاستوں کے لوگوں نے اپنے اپنے ثقافتی مراکز قائم ہیں۔ جب یہ عمارت بن کر تیار ہوئی تھی، تب اس کے سبھی حصے ایسے مراکز سے گھر گئے۔ بسنتانی نے سوچا، ملک کی آزادی کے بعد اس وقت ہمارے لوگوں کا ذہن روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیادی مسائل میں الجھا ہوا تھا، ورنہ ان کی زبان اور تہذیب کے ثقافتی ادارے کو بھی اس فیڈریشن ہاؤس میں معقول حد تک کوئی مقام مل جاتا۔ ہماری زبان اور تہذیب کے لوگوں کی کوئی ایک ریاست نہیں ہے۔ وہ سبھی ریاستوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ملک کی تقسیم کے حادثے سے سب سے زیادہ نقصان ان کی قوم کا ہوا ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ انہیں اس عمارت کی چھت پر ایک کمرہ ڈالنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے بعد سے وہ ہر اتوار کو باقاعدگی سے اپنے اس ادارے کے اجلاس میں شرکت کرتے رہے ہیں۔

شہر کے اس چہل پہل والے حصے میں شام کو گویا ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ لوگوں کی بہت آمدورفت ہوتی تھی۔ نت نئے رنگوں کے لباسوں میں ملبوس وہ لوگ نہایت مصروف لگتے تھے، لیکن، انہوں نے سوچا، اگر ان کے نزدیک جا کر دیکھیں اور ان کے دلوں میں جھانک کر جانچیں، تو وہ سبھی وقت کاٹنے کے لئے پریشان معلوم ہوں گے۔ انسانی کام کاج آج زیادہ تر ٹیکنالوجی سر انجام دیتی ہے اور انسان اس کے نتیجے میں بچ جانے والا وقت کو ادھر ادھر سنیماگھروں اور آرٹ یا کاروباری نمائشوں میں خرچ کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی، اپنا گھر پریوار ہونے کے باوجود، اسے باہر ادھر ادھر جھانکنے تاکنے کے لئے خالی وقت مل ہی جاتا ہے۔

بسنتانی جی تقریباً ساٹھ سال کے ہوں گے۔ لیکن ان کی چال میں وہی چستی اور سوچ میں وہی تندی ہے۔ وہ شہر کی ایک دور دراز بستی میں ایک ڈھائی منزلہ مکان کی ’’برساتی‘‘میں کرائے پر رہتے ہیں۔ اکثر مقامی لوگ اور مالکِ مکان ہی مکانوں کی نچلی منزل میں رہتے ہیں۔ شہر میں باہر سے آئے لوگ اکثر دفتروں میں منشی یا کلرک ہیں۔ ان مکانوں کے ’’برساتی‘‘ کمروں میں ان کی گزر اوقات ہوتی ہے۔ بسنتانی جی خود کلرک نہیں ہیں، لیکن انہیں پتہ ہے کہ ان کی تنظیم کے کچھ گنے چنے لوگ ہیں جو بڑے بڑے کاروبار میں لگے ہیں، دوسری صورت میں وہ اکثر چھوٹے دکاندار یا محض کلرک بھر ہیں۔ انہوں نے سوچا، بنگالیوں کو آدھا بنگال اور پنجابیوں کو آدھا پنجاب ملا۔ لیکن ہم سندھیوں کو؟ ہمارا سندھ تو پورے کا پورا پاکستان بن گیا۔

وہ انہیں خیالات میں جذب، فیڈریشن ہاؤس کے بیرونی برآمدے میں آ پہنچے۔ اتنے میں کسی نے پیچھے سے آ کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، موہن خیر مقدمی انداز میں مسکرا کر کہہ رہا تھا۔

’’بسنتانی جی، نمسکار۔ تاروں بھرے آکاش تلے مکان کی چھت پر کھاٹ بچھا کر لیٹنے سے آپ کسی خفیہ راز کی بات بوجھ لیتے ہیں۔ پچھلی رات کو بھی آپ نے ایسا ہی کچھ تجربہ ضرور کیا ہو گا۔ بتائیں!‘‘

آج بسنتانی جی کا دل بس سے نیچے اترتے ہی اداس ہو گیا تھا اور جب جب کوئی با شعور، اداس گھڑیاں بِتاتا ہے، تب تب لازمی وہ زندگی کے کسی گہرے سچ تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے سنجیدہ ہو کر کہا۔

’’کل رات کو تو نہیں، اب اس شام کے وقت مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم شاید ان گنت سالوں تک ایسا کوئی ادبی کارنامہ یا شاہکار نہ دے سکیں گے، جسے کوئی قومی یا بین الاقوامی ایوارڈ ملے۔‘‘

چھ بجے اجلاس کی کار روائی کا آغاز ہونے والا تھا اور چھ بجنے کو تھے۔ الگ الگ راستوں سے دیگر بہت سے لوگ بھی آ پہنچے۔ ان سب کی مصنوعی، کھوکھلی ہنسی میں بسنتانی جی کی بات کھو گئی۔ عمارت کی نچلی منزل پر سمینار کا آغاز ہو چکا تھا۔ اُس سے باہر نکلتے نکلتے رام نے موہن سے کہا،  ’’ہماری اپنی زبان کھچڑی ہوئی جا رہی ہے۔ اب اپنی ایک ریاست نہ ہونے سے ہمارے کان پر طرح طرح کی زبانوں کی آوازیں پڑتی ہیں۔ پھر کیا یہ قدرتی نہیں ہے کہ ان کے الفاظ ہماری زبان یا تحریر پر چڑھ جائیں؟‘‘

موہن نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن اس نے دل ہی دل میں یہ ضرور محسوس کیا کہ ہماری زندگی زیادہ تر شہری ہے اور اس لئے ہماری زبان میں، شہروں میں قیام کیلئے ضروری، ناگزیر اور مخلوط الفاظ کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ وہ اپنی کہانی کے مرکزی اقتباسات اور پلاٹ میں کھویا تھا۔ اسے لگا کہ اس کے ساتھیوں کو یہ کہانی ضرور پسند آئے گی۔ واقعی، اس کی کہانی کی ہیروئین ماڈرن کامپلیکس لائف کی صحیح صحیح نمائندگی کرتی ہے۔ وہ ایک اسکول میں ٹیچر ہے۔ اس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے چہرے پر شادی کے بعد پیدا ہوئی تازہ چمک جو اکثر نئی نویلی دلہنوں پر نظر آتی ہے، وہ نہیں ہے۔ جب جب اس کا شوہر اس کے قریب آتا ہے اور وہ دونوں ازدواجی معاملات میں بندھ جاتے ہیں، تو اسے یہ خیال ستاتا ہے کہ اسے اس مہینے نہیں بلکہ آنے والے مہینے میں خود کو مکمل طور پر پیش کرنا چاہئے، کیونکہ ایسا کرنے سے ہی وہ اپنی ’’میٹرنٹی لِیو‘‘ کو گرمیوں کی چھٹیوں سے ملا کر اسکول سے پورے چار ماہ کیلئے رخصت پا سکے گی۔

رام نے پوچھا،  ’’تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کیا سوچ رہے ہو تم؟‘‘

موہن نے اسے اپنی کہانی کی پوری پیچیدگی سے روشناس کرایا۔ پاس ہی بسنتانی جی زینے کی ریلنگ کا سہارا لئے آہستہ آہستہ اوپر سرک رہے تھے۔ عمارت کی دوسری منزل تک آتے ہی رام نے اپنی سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر باقی بچی آدھی سگریٹ کا خیال چھوڑ دیا۔ اس نے سگریٹ بجھاتے ہوئے کہا،  ’’موہن، میری کہانی میں بھی ایک ایسا ہی ’’ٹینشن‘‘ ہے، لیکن میں نے وہ کہانی اصل میں ہندی میں لکھی ہے۔ دوست، میں تو ہندی ادبی دنیا میں جگہ بنانا چاہتا ہوں۔‘‘ اور پھر وہ آدھی سگریٹ کا ٹوٹا پھینک کر دوسری منزل پر ہونے والی ہندی تقریب میں چلّا گیا۔ موہن سوچنے لگا، ملک کی تقسیم کرانے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ پھر کیوں رام سے اس کا حقیقی اور مستند ذریعہ چھن جائے گا؟ ایک رام ہندی ادبی دنیا میں کامیابی حاصل کر بھی لے۔ باقی لاکھوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا کیا ہو گا؟ کیا ہم صرف چھوٹے دوکاندار بھر ہو کر ہی رہ جائیں گے؟

بسنتانی جی کا غیر متوقع طور پر سانسا کھڑ گیا۔ پیچھے دو تین اشخاص قریب آ گئے تھے۔ ہری نے بسنتانی جی سے کہا،  ’’کیوں دادا، آج آپ کو اس طرح زینے پر آہستہ آہستہ چڑھتے دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ آپ واقعی بوڑھے ہو رہے ہیں۔‘‘

جواب میں بسنتانی جی کی، زینے پر جلنے والے ٹمٹمے زیرو پاور کے بلب کی سی، ایک پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

عمارت کی چھت پر پہنچے تو دیکھا، ایک دری بچھی ہوئی تھی۔ کتنے وقت سے اس ادارے کے لوگوں نے حکومت سے دیگر دوسرے اداروں کی طرح گرانٹ حاصل کرنے کی درخواست کی ہوئی تھی، جس سے کم از کم دری کے بجائے کرسیاں اور میزیں ڈالی جا سکیں، لیکن یہاں ہماری کون سنتا ہے؟ آج اپنے رسم و رواج کو محفوظ رکھنے کیلئے بھی سیاسی اقتدار درکار ہے۔ اور وہ اقتدار بدلے ہوئے حالات میں ہمارے یہاں کہاں ہے؟

وہ اپنے اپنے جوتوں کے تسمے اتار کر، جوتے ایک کونے پر لگا کر بیٹھ گئے۔ بسنتانی جی کا بیٹھنے کو دل نہ ہوا۔ وہ اندر کمرے میں جا کر دیوار پر ٹنگیں شاہ لطیف، سچل سرمست اور بھائی چین رائے سامی کی روغنی تصاویر کو دیکھنے لگے۔ ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ تمام تصاویر مصور کی انتھک محنت اور بھرپور قوتِ متخیلہ کے نتیجے میں ظہور میں آئی تھیں۔ ماضی بعید کے اس زمانے میں شاعر اور مصنف تصاویر تو ایک طرف رہیں، اپنی زندگی کی تفصیلات تک نہیں چھوڑ کر جاتے تھے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ مگر کیا آج کے ان شاعروں اور ادیبوں کی یہ تمام فوٹو گراف وقت کی مار سے بچ کر سلامت رہیں گی؟ ۔ وہ باہر نکل آئے اور چھت پر رکھے پھولوں کے گملوں کو دیکھنے لگے۔ وہ انہیں بڑی دیر تک دیکھتے رہے۔ گملوں میں سدا بہار کے پھول کھلے تھے اور بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔

اتنے میں کرشن نے آ کر ان کی محویت کو تحلیل کر دیا۔ کرشن کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔ لیکن اس کی اس مسکراہٹ میں کبھی دوسروں پر رحم کا، تو کبھی خود پر ترس کے الگ الگ پہلو موجود رہتا ہے۔ اس نے نمستے میں اپنی مسکراہٹ کو مزید گہرا بناتے ہوئے بسنتانی جی سے کہا۔

’’کیوں بسنتانی جی، یہاں کھڑے ہیں؟ آئیے، چل کر نہ بیٹھیں؟‘‘

بسنتانی جی نے بھی جواب میں سوال ہی کیا،  ’’کیسے ہو، کرشن؟ ۔ آج یہاں اپنی سندھی کافیاں سناؤ گے نہ؟ کافی یا وائی سننے کو بڑا جی کر رہا ہے۔‘‘

کرشن بولا،  ’’کافی یا وائی میں سندھو گھاٹی کی وسعت چاہئے۔ آج کل ہم لوگ شہروں کی تنگ گلیوں میں آ بسے ہیں۔ آج کل غزل کے بھی وہ ہی چھوٹے چھوٹے اوزان کام آتے ہیں، جو ہماری اس تنگ زندگیوں سے میل کھاتے ہیں۔‘‘

بسنتانی نے بجھے ہوئے دل سے کہا،  ’’تو تم آج بھی کوئی غزل ہی پڑھو گے؟‘‘

کرشن نے کہا،  ’’ہاں، جدید غزل، جدید پیچ و خم والی زندگی کا بوجھ برداشت کر لیتی ہے۔ آپ کو پتہ ہے، میں نے آج اپنی غزل کے ایک شعر میں کیا کہا ہے؟‘‘

بسنتانی جی کو کرشن کے حساس دل کا پتہ تھا، انہوں نے پوچھا،  ’’کیا؟‘‘

کرشن بولا،  ’’اب بچے پیدا کرنے کے پیچھے باپ کا ایک عظیم فریضہ یا اپنی نسل کو آگے بڑھانے جیسی کوئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ بچے اتفاقاً یا ناپسندیدہ جنسی بھوک مٹانے کے نتیجے میں حادثاتی طور پر پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ بچے اب آگے چل کر اگر اپنا ضروری فرض نہیں ادا کرتے، تو اس میں ان کا کیا دوش ہے۔‘‘

اور کرشن قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ لیکن بسنتانی جی نہ جانے کیوں اس قہقہے میں شریک نہ ہو سکے۔ انہیں لگا، دارالحکومت یا دارالحکومت جیسے بڑے شہروں کی زندگی ہندوستان کے سبھی لوگوں کی زندگی نہیں ہے۔ یہ شہر ان کے گاؤں کی چھتیں ہیں۔ ہم چھتوں پر زندگی کو گزارتے ہیں۔ زمین سے ہمارا ناطہ ٹوٹ گیا ہے، کٹ گیا ہے۔ کیا آج کا مزدور، کسان بھی ایسی بے معنی اور بے کار زندگی گزارتا ہے؟ ۔ کسان اپنے بیلوں کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھتا ہے، کیا اُسے بھی یہ بیل ہانکنے کے لئے اپنا بیٹا نہیں چاہئے؟ ۔ کیا اس کا بھی بیٹا اس وقت ہو جاتا ہے، جب وہ چاہتا نہیں ہے؟ اپنے چوپایوں کو اپنی اولاد سمجھنے والے یہ چروا ہے بھی کیا اپنی اولاد کی سچی خواہش نہیں رکھتے؟

انہوں نے کرشن سے کہا،  ’’تم پھولوں کے وہ گملے دیکھتے ہو؟‘‘

کرشن بھونچکا سا گملوں کی طرف دیکھنے لگا۔

بسنتانی جی نے کہا،  ’’اس چھت پر ہم سبھی ان گملوں میں لگے پھول ہیں۔ الگ الگ گملوں میں، مختلف ریاستوں میں، ہمارے سدا بہار آرٹ کی خوشبو اور خوبصورتی یقیناً ترقی پا رہی ہے، لیکن یہ پھول محدود گملوں میں لگے ہیں اور یہ گملے زمین سے بہت اوپر چھت پر رکھے ہیں۔ ہمارا اپنی زمین سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ لہذا ہم لوگوں کیلئے مصنوعی کرداروں کی طرح ہیں۔ وہ نئی دہلی کے کناٹ پیلس یا بمبئی کے فلورا فاؤنٹین جیسے علاقوں میں گھومنے والے کوئی بھی لوگ ہوں۔ ان کرداروں کا کوئی چہرہ مہرہ ہے؟ آل آف دے آ رفیس لیس۔ ان کی کوئی الگ پہچان، کوئی مختلف شخصیت ہے؟ لگتا ہے، سبھی بھیڑ بھاڑ میں کھو گئے ہیں۔‘‘

کرشن ان کی طرف تیز نظروں سے دیکھتا رہا۔

بسنتانی جی نے سانس بھر کر کہا،  ’’آج چھت پر اس اجلاس میں شرکت کرنے کو میرا جی نہیں کر رہا۔‘‘

اور پھر وہ نیچے جانے کے لئے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے، زینے کی طرف چلے گئے۔ کرشن کے دماغ میں ایک وحشت انگیز خیال بجلی کی طرح کوند گیا،  ’’ارے! ایسا نہ ہو کہ کل اخباروں میں یہ پڑھنے کو ملے کہ دھرتی سے رشتہ جوڑنے کے خیال میں مگن ایک سندھی مصنف کی، فیڈریشن ہاؤس کی چھت پر سے تیزی سے زینہ اترتے ہوئے موت ہو گئی۔‘‘

اور پھر اگلے ہی لمحے، وہ کسی ایسی موت کا انتظار کرنے لگا۔

***

 

 

 

 

یہ بھی کوئی کہانی ہے؟

 

گووند مالٰہی

سندھی کہانی

 

موہن نے مجھے اپنے گھر میں ملنے اور اپنے پاس رات کے قیام کا مشورہ دیا اور میں فوراً رضا مند ہو گیا۔

ایک زمانہ تھا، جب ہم دونوں کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا اور لکھنا پڑھنا سبھی ایک ساتھ ہی ہوا کرتا تھا۔ وہ نہ صرف میری عمر کا تھا، بلکہ میرا پڑوسی بھی تھا۔ بچپن سے لے کر میٹرک تک ہم دونوں ساتھ رہے تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں جا کر کراچی میں کالج کی رنگین دنیا میں داخل ہو گیا۔ اس کا باپ دال روٹی والا ضرور تھا، پر کالج کا کمر توڑ خرچہ بھر پانا، اس کی حیثیت سے زیادہ تھا۔

موہن کچھ وقت بے روزگار رہنے کے بعد پی ڈبلیو ڈی میں ملازم لگ گیا۔ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو کر، نہ ملنے والی راہوں پر آگے بڑھتے رہے۔ سالوں بعد جب ہم ایک دوسرے کے گلے ملے، تو وہ سندھ میں نہیں بلکہ احمد آباد کے گاندھی چوک میں ملے۔ ہمارے بچھڑنے کے لمبے عرصے میں دنیا نہ جانے کتنی کروٹیں بدل چکی تھی۔ وہ ڈپارٹمنٹ امتحان پاس کر کے ’’روڈ ڈویژن‘‘ کا ہیڈ کلرک بن گیا اور میں۔۔۔۔ میں لٹریچر اور سوشل ورک کے چکر میں ایسا پھنسا کہ نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔

اس کا گھر مانی نگر میں تھا، اس نے بس میں میرے برابر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’تم نے شادی کی ہے؟‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’میں زندگی میں ابھی تک خود کو سیٹل نہیں سمجھتا۔ کسی کی لڑکی کو راستوں پر بھٹکانا مجھے پسند نہیں۔‘‘

وہ خوف میں پڑ گیا، وہ کچھ اور مجھ سے پوچھے اس سے پہلے ہی میں نے اپنا سوال اس کے سامنے رکھا دیا، ’’تم نے تو ضرور شادی کی ہو گی؟‘‘

اس کے چہرے پر ایک عجیب خوشیوں بھرے تاثرات ابھر آئے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میری ایک بیٹی بھی ہے ریکھا، جو پانچ چھ سالوں کی ہے۔‘‘

بات ختم ہونے کے بعد بھی وہ مسکراتا رہا۔

‘ ‘میں تم کو شادی پر آنے کی دعوت ضرور دیتا، پر ہواؤں میں اڑنے کے دوران یہ ہوش برقرار رکھنا کہ کون کہاں ہے، ذرا مشکل تھا۔‘‘

میں نے حیرت بھرے انداز میں پوچھا، ’’مطلب؟‘‘

’’تمہیں لکھنے اور تقریریں کرنے سے فرصت ہی کہاں رہتی ہے؟‘‘ وہ ہنسا اور میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔

ہم اس کے گھر کے برآمدے میں داخل ہونے والے تھے کہ ریکھا آئی اور اپنے باپ سے لپٹتے ہوئے کہنے لگی، ’’دادا، آپ پاکستان سے گائے لائے کیا؟‘‘

موہن نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ہمارے پڑوسی نے کل ایک گائے لی ہے۔‘‘

ریکھا نے کہا، ’’مجھے بھی گائے چاہئے۔‘‘

میں نے اسے ٹالنے کے لیے کہا، ’’ہماری گائیں پاکستان میں ہیں۔‘‘

کہنے لگی، ’’پاکستان سے گائیں لے آؤ۔‘‘

مجھے ہنسی آ گئی۔

ریکھا نے پھر سوال دہرایا، ’’آپ پاکستان سے گائیں لے آئے کیا؟‘‘

باپ نے نیچے بیٹھ کر بیٹی کی بانہیں اپنے گلے کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا، ’’کل ضرور لاؤں گا۔ آج تم اپنے چچا سے ملو، نمستے کرو بیٹے۔‘‘

ریکھا نے اپنی نازک بانہیں موہن کے گلے سے آزاد کراتے ہوئے اپنے ننھے ہاتھ میری جانب جوڑتے ہوئے کہا، ’’چچا نمستے۔‘‘

میرے ہاتھ خود بخود اس کی طرف بڑھے، میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

اس نے کہا،  ’’ریکھا۔۔۔ ماں مجھے ریکھا رانی کہہ کر بلاتی ہے۔‘‘

میں نے بے ساختہ اس کا دایاں ہاتھ اپنے گلے کے پیچھے موڑتے ہوئے، اسے سینے سے لگا لیا۔

موہن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’جنابِ مصنف، شادی ایک پابندی سہی، پر اس کی اپنی سوغاتیں ہیں۔‘‘

مجھ میں اس کی بات کاٹنے کی ہمت نہ تھی۔ خاموشی سے نہایت ہی احتیاط کے ساتھ ریکھا کو زمین پر اتار دیا۔ وہ دوڑتی ہوئی گھر اندر بھاگ گئی۔ میں ایک ٹک اسی کی طرف دیکھتا رہا۔

موہن نے میرے دل کی حالت سمجھ کر بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا، ’’پتاجی کہا کرتے تھے، جب مکھن تھا تب دانت نہیں تھے، اب دانت ہیں تو مکھن نہیں ہے۔‘‘

میں اب بھی اسی دروازے کو تک رہا تھا۔ جب موہن نے جب مجھے اندر چلنے کو کہا، تب میں نے روکھی سی آواز میں جواب دیتے ہوئے کہا، ’’میں یہیں بیٹھتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں برآمدے میں پڑے سن کی رسی سے بنے پلنگ کی طرف بڑھا۔ میں پلنگ تک پہنچتا، اس سے پہلے گھونگھٹ نکالے ایک عورت چادر ہاتھ میں تھامے ہوئے پلنگ کے پاس پہنچی۔

موہن نے اس سے چادر لیتے ہوئے کہا، ’’منہ کیوں ڈھک لیا ہے؟ یہ میرا دوست ہے، بھائی سے بڑھ کر۔‘‘

عورت نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی گھونگھٹ اٹھایا۔ خاموشی سے موہن کی چادر بچھانے میں مدد کرتی رہی۔ اور پھر میری طرف مخاطب ریکھا سے تکیہ لے کر پلنگ کے سرہانے رکھا اور پھر اندر چلی گئی۔

ریکھا کو دیکھتے ہی میں یہ جان گیا تھا کہ موہن کی بیوی سڈول اور اچھے نین نقش والی ہو گی۔ عورت کے ہاتھ اور پیروں کو دیکھ کر جانا کہ وہ گوری بھی تھی۔

میں پلنگ پر بیٹھا اور موہن کپڑے تبدیل کرنے اندر چلّا گیا۔ ریکھا آہستہ آہستہ، رک رک کر میری جانب بڑھی اور میرے پاس پہنچ کر پوچھا، ’’میں اپنی گڑیا دکھاؤں۔‘‘

میں نے جھٹ سے کہا، ’’ہاں، ہاں لے آؤ۔‘‘

ریکھا جب واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں گڑیا نہیں، مٹھائی کی پلیٹ تھی۔ گھونگھٹ اوڑھے پیچھے سے اس کی ماں تپائی لے آئی۔ موہن نے تولیہ میری طرف بڑھا۔ میں منہ ہاتھ دھوکر پھر پلنگ پر بیٹھا تو ریکھا ہاتھ میں گڑیا لے کر، اٹھلاتی، بل کھاتی میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے گڑیا لیتے ہوئے کہا، ’’خوبصورت ہے۔‘‘

ریکھا نے پوچھا، ’’مجھ سے بھی خوبصورت ہے؟‘‘ میں ایک لمحے کے لیے تو لاجواب ساہو گیا۔

میں نے مٹھائی کا ایک ٹکڑا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’تم اس سے بہت اچھی ہو۔‘‘ ریکھا نے مٹھائی نہیں لی اور پیچھے کی طرف کھسکنے لگی۔

’’لے لو بیٹے، یہ تمہارے چچا ہیں نا؟‘‘ موہن نے اس سے کہا۔

ریکھا نے مٹھائی لی، گڑیا میرے پاس ہی چھوڑ کر گھر کے اندر چلی گئی۔

جب وہ باہر نکلی، تب دور سے ہی پوچھتی ہوئی آئی، ’’آپ مجھے کہانی سناؤ گے؟‘‘

میں نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا، ’’مجھے کہانی آتی ہی نہیں۔‘‘

’’ممی کہتی ہے آپ کو بہت کہانیاں آتی ہیں۔‘‘

’’تمہاری ممی کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

جواب موہن نے دیا، ’’میری بیگم کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتی ہے۔ میں نے تیری اتنی کہانیاں نہیں پڑھی ہوں گی، جتنی اس نے پڑھ رکھی ہیں۔‘‘

میں نے ہنس کر کہا، ’’پھر بھی مجھ سے پردہ کرتی ہے۔‘‘

’’کہتی ہے اگلی بار ضرور گھونگھٹ ہٹائے گی اور آپ سے کہانیوں کے بارے میں کچھ سوال بھی پوچھے گی۔‘‘ موہن نے جواب دیا۔

میری زبان سے بے اختیار نکل گیا، ’’آج کیوں نہیں پوچھتی؟‘‘

ریکھا نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، ’’کہانی سناؤ گے۔‘‘

’’ضرور۔‘‘

’’تو پھر سناؤ۔‘‘

’’سوتے وقت سناؤں گا۔‘‘

’’سوتے وقت تو ممی مجھے کہانی سناتی ہے، آپ ابھی سناؤ۔‘‘

’’آج تم ممی کی بجائے مجھ سے کہانی سننا۔‘‘

’’پھر میں تمہارے ساتھ سو جاؤں؟‘‘

میں اب بغلیں جھانکنے لگا، لیکن موہن نے مدد کی، ’’یہ روز ماں سے کہانی سنتی ہے اور پھر ماں کے پاس ہی ڈھیر بن کر پڑی رہتی ہے۔‘‘

میں نے ہنستے ہوئے ریکھا کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’تم میرے ساتھ سو جانا۔‘‘

رہ رہ کر ریکھا مجھے کہانی سنانے کا وعدہ یاد دلاتی رہی۔ ریکھا کی ماں کھانا کھاتے وقت میرے سامنے آئی، پر پہلے سے بھی لمبا گھونگھٹ نکال کر۔ مجھے ایک طرف اس کا گھونگھٹ کھٹک رہا تھا کہ اس میں چھپی ایک خوبصورت عورت۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایک قاری سے رو بہ رو ہونے کی خواہش بھی دوسری جانب بڑھ رہی تھی۔ پر زبان اتنی ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی کہ میں اس سے کچھ باتیں کر سکوں۔

کھانا کھانے نے کے بعد موہن نے کہا، ’’کھانا کھانے کے بعد، پان کھانے کی عادت تو ضرور اپنائی ہو گی؟‘‘

’’ابھی نہیں۔‘‘ میں نے مختصر ساجواب دیا۔

’’ہمیں تو عادت ہے، پان نہ کھائیں تو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ برآمدے سے نیچے اترنے لگا۔

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

اس نے جواب دیا، ’’چلو تو پان بھی کھائیں گے اور دو چار قدم بھی چل آئیں گے۔‘‘

ریکھا نے دوڑ کر باپ کی انگلی تھام لی اور کہا، ’’دادا میں بھی چلوں گی۔‘‘

میں نے برآمدے والے پلنگ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، ’’تم جاؤ، میں بیٹھا ہوں۔ رات کے کھانے کے بعد مجھے گھومنے کی عادت نہیں۔‘‘

ریکھا نے باپ کو کھینچتے ہوئے کہا، ’’آپ کے لئے پان لاؤں؟‘‘

’’ضرور۔‘‘ میں نے بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

ان کے جانے کے بعد میرا دل اس وفادار قاریہ کا چہرہ دیکھنے اور دو لفظ کہنے کے لئے بیتاب ہو اٹھا۔ میں پلنگ سے اٹھ کر، گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھا، اچانک پیچھے سے آواز آئی،  ’’میٹھا پان کھاؤ گے یا سادہ؟‘‘

میں نے چونک کر پیچھے دیکھا، ریکھا آدھے راستے سے دوڑتی، ہانپتی آئی تھی۔ میں نے ہڑبڑاہٹ میں کہا، ’’میٹھا۔۔۔ میٹھا پان لانا۔‘‘

ریکھا جیسے آئی تھی، ویسے ہی دوڑتی ہوئی چلی گئی۔ اب گھر کے اندر جانے کی میری ہمت جواب دے گئی۔

میں برآمدے کے پاس بنے اینٹوں کے چبوترے پر ٹہلتا رہا۔

ریکھا کی ماں ایک بار پھر میرے سامنے آئی، ہاتھ میں دودھ کا گلاس لئے ہوئے۔ اس کا گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔

میں نے اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس نہ لیتے ہوئے کہا، ’’میں دودھ نہیں پیتا۔‘‘ وہ مڑ کر واپس چلی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’بھابھی، آپ کو میری کون سی کہانی پسند ہے؟‘‘

’’بھابھی۔‘‘ لفظ پر وہ رکی، مگر باقی جملہ سنے بغیر اور جواب دینے کے بجائے وہ جلدی سے اندر چلی گئی۔

سوتے وقت ریکھا میرے بستر پر آ بیٹھی۔ میں ہاتھ کو سر کے نیچے لئے لیٹا تھا۔ میری کمر پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی، ’’چچا، کہانی سناؤ۔‘‘

’’پھر تم میرے ساتھ سو جاؤ گی؟‘‘

’’ہاں، میں ماں سے پوچھ کر آئی ہوں۔‘‘

میں سیدھا ہو کر لیٹ گیا اور وہ میرے سینے پر اپناسر اپنی ہتھیلیوں پر ٹکا کر میرا چہرہ تکنے لگی۔

میں نے شروع کیا، ’’ایک تھا راجا۔۔۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’کھاتا تھا کاجو۔۔۔‘‘

اس نے بات بیچ میں ہی کاٹتے کہا، ’’اوہو، یہ کہانی میں نے کئی بار سنی ہے۔‘‘

میں نے تھوڑا سوچ کر پھر کہا، ’’ایک تھا راجا، اس کی اولاد ہی نہیں تھی۔۔۔‘‘

’’یہ کہانی ممی نے مجھے سنائی ہے۔‘‘

میں پھر سوچ میں پڑ گیا، اس نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے کہا، ’’چچا کہانی سناؤ نا۔‘‘

میں نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا، ’’ایک تھا راجا، اس کی سات بیٹیاں تھیں۔‘‘

وہ خفا ہوتے ہوئے بولی، ’’یہ کہانی بھی سنی ہوئی ہے۔‘‘

میں نے ہار مانتے ہوئے کہا، ’’مجھے اور کوئی کہانی نہیں آتی۔‘‘

ماں تو کہتی ہے، ’’آپ کہانیاں بناتے ہو۔۔۔‘‘

’’مجھے بادشاہوں کی کہانیاں نہیں آتی۔‘‘

اچانک اس نے کہا، ’’میں کہانی سناؤں؟‘‘

’’سناؤ۔‘‘

’’یہ کہانی ممی نے آج مجھے سنائی ہے۔‘‘

’’سناؤ تو سہی۔‘‘

’’پاکستان کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی۔ چچا، پاکستان بہت دور ہے نہ؟‘‘

’’ہاں، تم کہانی سناؤ۔‘‘

’’وہاں ایک لڑکا آیا، اس گاؤں میں اس کے نانا نانی کا گھر تھا۔‘‘

تھوڑی دیر رک کر اس نے پھر کہا، ’’وہ دونوں ساتھ کھیلتے تھے۔ ادھڑن دادڑن کھیل کھیلا کرتے تھے۔ ادھڑن دادڑن کھیل کیا ہوتا ہے انکل؟‘‘

"تم نے اپنی ممی سے نہیں پوچھا؟‘‘

’’اس نے کہا اپنے چچا سے پوچھنا۔‘‘

’’جیسے آپ گڈے گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی ہو، ویسے ہی پہلے گاؤں میں لڑکے لڑکیاں گڈا گڑیا بنا کرتے تھے۔‘‘

’’لڑکے لڑکیاں گڈے گڑیا بنا کرتے تھے؟ پھر کیا ہوتا تھا؟‘‘

’’تم اپنی کہانی سناؤ۔۔۔‘‘

اس نے کچھ لمحے رک کر کہا، ’’لڑکا لڑکی کا دولہا بنا۔ لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ میں بڑا ہو کر تم سے شادی کروں گا۔ شادی کیا ہوتی ہے انکل؟‘‘

’’اپنی ممی سے پوچھ کر آؤ۔‘‘

’’ممی نہیں بتاتی ہے۔‘‘

’’تم پہلے اپنی کہانی سناؤ، پھر بتاؤں گا۔‘‘

’’لڑکا جب وہاں جاتا تھا، تب لڑکی کو ایسے کہتا تھا۔‘‘

میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’وہ کالج میں گیا، کالج کیا ہوتا ہے؟‘‘

میں نے بے چین ہو کر کہا، ’’تم کہانی سناؤ۔‘‘

’’لڑکے نے لڑکی کو بھلا دیا۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’لڑکی آس لگائے بیٹھی رہی، آس کیا ہوتی ہے انکل؟‘‘

میرے چہرے پر پسینہا تر آیا۔ میں نے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا، ’’پھر آخر کیا ہوا؟‘‘

اس نے لفظوں کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’لڑکا پھر واپس نہیں آیا اور لڑکی کے ماں باپ نے اس کی شادی دوسری جگہ کر دی۔‘‘

میں گم صم سا رہ گیا، میری زبان کو تالے لگ گئے۔ اس نے شرارتی انداز میں کہا، ’’کہانی ختم ہوئی، اب ایک آنہ دو۔‘‘

میں نے ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بھی کوئی کہانی ہے؟‘‘

’’میں نے بھی ممی کو یہی کہا، ممی نے پہلی بار ایسی کہانی سنائی ہے، جس میں لڑکا لڑکی کی شادی نہیں ہوئی۔ میں نے ماں سے پوچھا، ’’لڑکے کا کیا ہوا؟‘‘

’’کیا کہا؟‘‘ میں نے گھٹی گھٹی آواز میں پوچھا۔

’’کہا، پہلے لڑکا بہت دودھ پیتا تھا، اب بالکل نہیں پیتا۔‘‘

میں بے اختیار اٹھ بیٹھا، میری حالت اس آدمی کی طرح تھی، جسے سانپ نے ڈسا ہو اور زہر اس کی رگ رگ میں پھیل کر اس کے جسم کے سبھی اعضاء کو اذیت دے رہا ہو۔

اسی وقت موہن باہر نکلا۔ مجھے پریشان دیکھ کر کہا، ’’ریکھا نے تجھے کافی پریشان کیا ہے۔‘‘

میں نے رو مال سے چہرہ پونچھتے ہوئے پوچھا، ’’گاندھی چوک کی طرف بس چلتی ہو گی؟‘‘

اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا، ’’ساڑھے دس بج گئے ہیں، بند ہو گئی ہو گی، پر کیوں؟‘‘

میں نے پلنگ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کہا، ’’ٹیکسی ملے گی؟ مجھے کسی سے ضروری ملنا ہے۔‘‘

موہن نے سنجیدہ لہجے میں کہا، ’’تم یہاں رات رہنے کا وعدہ کر کے آئے ہو۔‘‘

’’صبح وہ بڑودہ چلّا جائے گا۔‘‘ میں نے کھڑے کھڑے کہا۔

ریکھا نے روتی سی آواز میں کہا، ’’چچا، تم جا رہے ہو؟ میرے ساتھ نہیں سو پاؤ گے؟‘‘

موہن نے کہا، ’’مصنف ہونا بھی مصیبت ہے۔‘‘

میں نے ریکھا سے کہا، ’’تم میرے ساتھ چلو گی؟‘‘

اس نے بے دھڑک ہو کر کہا، ’’ممی چلے گی تو میں بھی چلوں گی۔‘‘

میرا دل خراب ہو گیا، موہن نے کہا، ’’میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ اسٹیشن روڈ سے شاید کوئی ٹیکسی مل جائے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اندر چلّا گیا۔ میں نے ریکھا کو گود میں لیتے ہوئے کہا، ’’ممی سے کہنا کہ لڑکی لڑکے سے شادی کر کے دکھی ہوتی، اب وہ بہت سکھی ہے۔‘‘

برآمدے کے دروازے کی اوٹ میں سے نسوانی آواز آئی، گویا وہ خود سے بات کرتے ہوئے کہہ رہی تھی، ’’مردوں کا، عورت کے سکھ کو ناپنے کا پیمانہ الگ ہے۔‘‘

میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ موہن کپڑے بدل کر آیا اور ساتھ میں میرا ویسٹ کوٹ بھی لیتا آیا۔ میں نے اسے پہنتے ہوئے برآمدے سے نیچے اترا۔

موہن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’صبح کو اس سے نہیں مل سکو گے۔‘‘

’’نہیں۔‘‘ کہتے ہوئے میں آگے بڑھا، میرے پیچھے آتے آتے موہن کہتا رہا، ’’بچپن والی ضد کی عادت آج بھی تم میں موجود ہے۔‘‘

پیچھے سے ریکھا کی آواز آئی، ’’چچا، ٹاٹا۔۔ پھر کب آؤ گے؟‘‘

میں نے بغیر مڑے ہاتھ کے اشارے سے اسے الوداع کہا۔

***

 

 

 

بدلہ

 

اجنجیہ

ہندی کہانی

 

اندھیرے ڈبے میں جلدی جلدی سامان پھینک کر، گود کے عابد کو کھڑکی سے اندر سیٹ پر پٹک کر، بڑی لڑکی زبیدہ کو چڑھا کر، ثریا نے خود بھی اندر گھستے ہی، گاڑی کے چلنے کے ساتھ ساتھ لمبی سانس لے کر، پاک پروردگار کو یاد کیا ہی تھا کہ اس نے دیکھا کہ ڈبے کے دوسرے کونے میں چادر اوڑھے جو دوا جسام بیٹھے ہوئے تھے، وہ اپنے مسلمان بھائی نہیں بلکہ سکھ تھے۔ چلتی گاڑی میں اسٹیشن کی بتیوں سے رہ رہ کر روشنی کی جو جھلک پڑتی تھی، اس میں اسے لگا کہ ان سکھوں کی ٹھہری آنکھوں میں یقیناً کچھ عجیب ہے۔ ان کی نظریں کچھ اس طرح اسے دیکھ رہی ہیں، گویا وہ اس کے بدن پر رکتی نہیں ہیں، بلکہ سیدھی چھیدتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ اور تیز دھار سی ایک وحشت ان میں ہے، جسے کوئی چھو نہیں سکتا، چھوئے گا تو کٹ جائے گا! روشنی اس کیلئے مناسب نہیں تھی، مگر ثریا نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سرخ سرخ ڈورے پڑے ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔ وہ خوف سے سہم گئی۔ لیکن گاڑی تیز چل رہی تھی، اب دوسرے ڈبے میں جانا نا ممکن تھا۔ کود پڑنا ہاں ایک طریقہ ہو سکتا تھا، لیکن اتنی تیز رفتار میں بچوں وغیرہ کو لے کر کودنے کے مقابلے میں کیا کسی دوسرے مسافر کی طرف سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جانا کیا بہت بد تر نہیں ہو گا؟ یہ سوچتی اور اوپر سے جھولتی ہوئی خطرے کی چین کے ہینڈل کو دیکھتی ہوئی وہ، غیر یقینی کے عالم میں بیٹھ گئی۔۔۔ آگے اسٹیشن پر دیکھا جائے گا۔۔ ایک اسٹیشن تک تو کوئی خطرہ نہیں ہے کم از کم ابھی تک تو کوئی واردات اس علاقے میں نہیں ہوئی ہے۔۔۔

’’آپ کہاں تک جائیں گی؟‘‘

ثریا چونکی۔ بڑا سکھ پوچھ رہا تھا۔ اس کی آواز کتنی بھاری تھی! جو شاید دو اسٹیشن کے بعد اسے قتل کر کے ٹرین سے باہر پھینک دے گا، وہ ابھی اسے ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہا ہے، اس ستم ظریفی پر وہ حیران رہ گئی اور اسے جواب دینے میں تاخیر ہو گئی۔ سکھ نے پھر پوچھا،  ’’آپ کتنی دور جائیں گی؟‘‘

ثریا نے برقع منہ سے اٹھا کر پیچھے ڈال رکھا تھا، دفعتاً اسے منہ پر کھینچتے ہوئے کہا،  ’’اٹاوے جا رہی ہوں۔‘‘

سکھ نے لمحے بھر سوچ کر کہا،  ’’ساتھ کوئی نہیں ہے؟‘‘

اس ذرا سی دیر میں تخمینہ لگا کر ثریا نے سوچا، ’’حساب لگا رہا ہے کہ کتنا وقت ملے گا مجھے مارنے کیلئے۔۔۔ یا رب، اگلے اسٹیشن پر مزید کچھ سواریاں آ جائیں۔۔۔ اور میرے ساتھ کوئی ہے، یہ ضرور اسے بتانا چاہیے، شاید یہ خوفزدہ رہے! اگرچہ آج کل کے زمانے میں وہ سفر میں ساتھ کہاں، جو ڈبے میں ہمراہ نہ بیٹھے۔۔۔ کوئی چھرا گھونپ دے تو اگلے اسٹیشن تک بیٹھی رہنا کہ کوئی آ کر کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو کر پوچھے گا، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔۔‘‘

اس نے کہا،  ’’میرے بھائی ہیں۔۔۔ دوسرے ڈبے میں۔۔۔‘‘

عابد نے چمک کر کہا،  ’’کہاں ماں؟ ماموں تو لاہور گئے ہوئے ہیں۔۔۔۔‘‘

ثریا نے اسے بڑی زور سے ڈپٹ کر کہا،  ’’چپ رہ!‘‘

تھوڑی دیر بعد سکھ نے پھر پوچھا،  ’’اٹاوے میں آپ کے اپنے لوگ ہیں؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

سکھ چپ رہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا،  ’’آپ کے بھائی کو آپ کے ساتھ بیٹھنا چاہئے تھا۔ آج کل کے حالات میں کوئی اپنوں سے الگ بیٹھتا ہے؟‘‘

ثریا دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ کہیں کم بخت تاڑ تو نہیں گیا کہ میرے ساتھ کوئی نہیں ہے!

سکھ نے گویا اپنے آپ سے ہی کہا،  ’’پر مصیبت میں کسی کا کوئی نہیں ہے، سب اپنا ہی اپنا دیکھتے ہیں۔۔۔‘‘

گاڑی کی رفتار سست ہو گئی۔ چھوٹا اسٹیشن تھا۔ ثریا کشمکش میں بیٹھی تھی کہ اترے یا بیٹھی رہے؟ دو آدمی ڈبے میں مزید چڑھ آئے، ثریا کے دل نے فوراً کہا، ’’ہندو‘‘ اور پھر واقعی وہ اور بھی ڈر گئی، اور تھیلی پوٹلی سمیٹنے لگی۔

سکھ نے کہا،  ’’آپ کیا اتریں گی؟‘‘

’’سوچتی ہوں بھائی کے پاس جا بیٹھوں۔۔۔‘‘ کیا مخلوق ہے انسان کہ ایسے موقع پر بھی جھوٹ کی ٹٹّی کی آڑ بنائے رکھتا ہے۔۔۔ اور کتنی مصنوعی آڑ لیتا ہے، کیا ڈبّا بدلوانے بھائی خود نہ آتا؟ آتا کہاں سے، جب ہو ہی نہ۔۔۔

سکھ نے کہا،  ’’آپ بیٹھی رہیے۔ یہاں آپ کو کوئی خوف نہیں ہے۔ میں آپ کو اپنی بہن سمجھتا ہوں اور انہیں اپنے بچے۔۔۔ آپ کو علی گڑھ تک میں ٹھیک ٹھاک پہنچا دوں گا۔ اس سے آگے خطرہ بھی نہیں ہے اور وہاں سے آپ کے بھائی بند بھی گاڑی میں آ ہی جائیں گے۔‘‘

ایک ہندو نے کہا،  ’’سردار جی، جاتی ہے تو جانے دو نہ، آپ کو کیا؟‘‘

ثریا سوچ نہیں پائی کہ سکھ کی بات کو اور اس پر ہوئے اس ہندو کے تبصرے کو کن معنوں میں لے، لیکن گاڑی نے چل کر فیصلہ سنا دیا۔ وہ بیٹھ گئی۔

ہندو نے پوچھا،  ’’سردار جی، آپ پنجاب سے آئے ہو؟‘‘

’’جی۔‘‘

’’کہاں گھر ہے آپ کا؟‘‘

’’شیخو پورے میں تھا۔ ابھی یہیں سمجھ لیجئے۔۔۔‘‘

’’یہیں؟ کیا مطلب؟‘‘

’’جہاں میں ہوں، وہی گھر ہے! ریل کے ڈبے کا کونا۔‘‘

ہندو نے لہجے کو کچھ نرم بنا کر، گویاگلاس میں تھوڑی سی ہمدردی انڈیل کر سکھ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،  ’’تب آپ شرنارتھی ہیں۔۔۔‘‘

سکھ نے گویا گلاس ’’جی، میں نہیں پیتا‘‘ کہہ کر دھکیلتے ہوئے، ایک خشک ہنسی ہنس کر کہا، جس کی باز گزشت ہندو مہاشیہ کے کان نہیں پکڑ سکے،  ’’جی۔‘‘

ہندو مہاشیہ نے ذرا اور دلچسپی کے ساتھ کہا،  ’’آپ کے گھر کے لوگوں پر تو بہت بری بیتی ہو گی۔۔۔‘‘

سکھ کی آنکھوں میں ایک لمحے بھر کے لئے انگارہ چمک گیا، پر وہ اس دانے کو بھی چگنے نہ بڑھا۔ چپ رہا۔ ہندو نے ثریا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،  ’’دہلی میں کچھ لوگ بتاتے تھے، وہاں انہوں نے کیا کیا ظلم کئے ہیں ہندوؤں اور سکھوں پر۔ کیسی کیسی باتیں وہ بتاتے تھے، کیا بتاؤں کہ زبان پر لاتے شرم آتی ہے۔ عورتوں کو ننگا کر کے۔۔۔‘‘

سکھ نے اپنے پاس پوٹلی بن کر بیٹھے دوسرے شخص سے کہا،  ’’کاکا، تم اوپر چڑھ کر سوجاؤ۔‘‘ واضح تھا کہ وہ سکھ کا لڑکا ہے اور حکم پا کر جب اس نے اٹھ کر اپنے سولہ سترہ برس کے چھریرے بدن کو انگڑائی لے کر سیدھا کیا اور اوپری برتھ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں بھی باپ کی آنکھوں کا عکس جھلک آیا۔ وہ اوپری برتھ پر چڑھ کر لیٹ گیا، نیچے سکھ نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھنے لگا۔

ہندو مہاشیہ کی بات درمیان میں رک گئی تھی، انہوں نے پھر شروع کیا،  ’’باپ بھائیوں کے سامنے ہی بیٹیوں بہنوں کو ننگا کر کے۔۔۔‘‘

سکھ نے کہا،  ’’بابو صاحب، ہم نے جو دیکھا ہے، وہ آپ ہمیں کو کیا بتائیں گے۔۔۔‘‘ اس بار وہ باز گشت پہلے کے مقابلے میں واضح تھی، لیکن ہندو مہاشیہ نے اب بھی نہیں سنی۔ گویا شہ پا کر بولے،  ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ ہم لوگ بھلا آپ کا غم کیسے سمجھ سکتے ہیں! ہمدردی ہم کر سکتے ہیں، پر ہمدردی بھی کیسی، جب درد کتنا بڑا ہے، یہی نہ سمجھ پائیں! بھلا بتائیے، ہم کیسے مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ ان سکھوں کے دلوں پر کیا بیتی ہو گی، جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی بہو بیٹیوں کو۔۔۔‘‘

سکھ نے جذبات سے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا،  ’’بہو بیٹیاں سب کی ہوتی ہیں، بابو صاحب۔‘‘

ہندو حضرت ذرا الجھن میں مبتلا ہوئے کیونکہ سردار کی بات کا درست مفہوم ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ لیکن زیادہ دیر تک نہیں رکے،  ’’اب تو ہندو سکھ بھی چیتے ہیں۔ بدلہ لینا برا ہے، لیکن کہاں تک کوئی سہے گا! اس دہلی میں تو انہوں نے ڈٹ کر محاذ بنا لیے ہیں اور کہیں کہیں تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والی مثال سچ کر دکھائی ہے۔ سچ پوچھو تو علاج ہی یہی ہے۔ سنا ہے قرول باغ میں کسی مسلمان ڈاکٹر کی لڑکی کو۔۔۔‘‘

اب کی بار سکھ کی آواز میں کوئی بازگشت نہیں تھی، کھلی بے التفاتی اور روکھا پن تھا، بولا،  ’’بابو صاحب، عورت کی بے عزتی سب کے لئے شرم کی بات ہے۔ اور بہن۔۔۔‘‘ اب سکھ، ثریا کی جانب مخاطب ہوا،  ’’آپ سے معافی مانگتا ہوں کہ آپ کو یہ سننا پڑ رہا ہے۔‘‘

ہندو مہاشیہ نے کچکچا کر کہا،  ’’کیا۔ کیا؟ میں نے ان سے کچھ تھوڑے ہی کہا ہے؟‘‘ پھر گویا خود کو کچھ سنبھالتے ہوئے، ڈھٹائی سے کہا،  ’’یہ آپ کے ساتھ ہیں؟‘‘

سکھ نے اور بھی روکھے پن سے کہا،  ’’جی، علی گڑھ تک میں پہنچا رہا ہوں۔‘‘

ثریا کے دل میں کسی نے کہا، ’’یہ بچارہ شریف آدمی علی گڑھ جا رہا ہے! علی گڑھ، علی گڑھ۔۔۔‘‘ اس نے ہمت کر پوچھا، ’’آپ علی گڑھ اتریں گے؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’وہاں کوئی ہیں آپ کے؟‘‘

’’میرا کہاں کون ہے؟ لڑکا تو میرے ساتھ ہے۔‘‘

’’وہاں کیسے جا رہے ہیں؟ رہیں گے؟‘‘

’’نہیں، کل واپس آؤں گا۔‘‘

’’تو۔۔۔ تفریحاً جا رہے ہیں!‘‘

’’تفریحاً‘‘ سکھ نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا، ’’تفریح؟‘‘ پھر سنبھل کر بولا،  ’’نہیں، ہم کہیں نہیں جا رہے ہیں ابھی، سوچ رہے ہیں کہ کہاں جائیں اور جب ٹھکانہ کچھ نہ رہے تب چلتی گاڑی میں ہی کچھ سوچا جا سکتا ہے۔۔۔‘‘

ثریا کے دل میں پھر کسی نے کہا، ’’علی گڑھ۔۔۔ علی گڑھ۔۔۔ بیچارہ شریف ہے۔۔۔‘‘

اس نے کہا،  ’’علی گڑھ۔۔۔ اچھی جگہ نہیں ہے۔ آپ کیوں جاتے ہیں؟‘‘

ہندو مہاشیہ نے بھی کہا، جیسے کسی پاگل پر ترس کھا رہے ہوں،  ’’بھلا پوچھئے۔۔۔‘‘

’’مجھے کیا اچھی اور کیا بری!‘‘

’’پھر بھی آپ کو ڈر نہیں لگتا؟ کوئی چھرا ہی مار دے رات میں۔۔۔‘‘

سکھ نے مسکرا کر کہا،  ’’اسے کوئی نجات سمجھ سکتا ہے، یہ آپ نے کبھی سوچا ہے؟‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ!‘‘

’’اور کیا! مارے گا بھی کون؟ یا مسلمان، یا ہندو۔ مسلمان مارے گا، تو جہاں گھر کے اور سب لوگ گئے ہیں، وہیں میں بھی جا ملوں گا اور اگر ہندو مارے گا، تو سوچ لوں گا کہ دیش میں جو بیماری پھیلی ہے، وہ اپنے عروج پر پہنچ گئی اور اب تندرستی کا راستہ شروع ہو جائے گا۔‘‘

’’مگر بھلا ہندو کیوں مارے گا؟ ہندو لاکھ برا ہو، ایسا کام نہیں کرے گا۔۔۔‘‘

سردار کو اچانک غصہ چڑھ آیا اس نے کہا،  ’’رہنے دیجئے، بابو صاحب! ابھی آپ ہی جیسے چٹخارے لے لے کر دہلی کی باتیں سنا رہے تھے، اگر آپ کے پاس چھرا ہوتا اور آپ کو اپنے لئے خطرہ نہ ہوتا، تو آپ کیا اپنے ساتھ بیٹھی سواریوں کو بخش دیتے؟ انہیں یا بیچ میں میں پڑتا تو مجھے؟‘‘ ہندو مہاشیہ کچھ بولنے کو ہوئے پر حتمی انداز سے کئے گئے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکتے ہوئے سردار کہتا گیا،  ’’اب آپ سننا ہی چاہتے ہیں تو سن لیجئے کان کھول کر۔ مجھ سے آپ ہمدردی دکھاتے ہیں کہ میں آپ کا شرنارتھی ہوں۔ ہمدردی بڑی چیز ہے، میں خود کو نہال سمجھتا، اگر آپ ہمدردی دینے کے قابل ہوتے۔ لیکن آپ میرا درد کیسے جان سکتے ہیں، جب آپ اسی سانس میں دہلی کی باتیں ایسے بے درد طریقے سے کرتے ہیں؟ مجھ سے آپ ہمدردی کر سکتے ہوتے اتنا دل آپ میں ہوتا تو جو چیزیں آپ سنانا چاہتے ہیں، ان سے شرم کے مارے آپ کی زبان بند ہو گئی ہوتی، سر نیچا ہو گیا ہوتا۔ عورت کی بے عزتی، عورت کی بے عزتی ہے، وہ ہندو یا مسلمان نہیں، وہ انسان کی ماں کی بے عزتی ہے۔ شیخوپورے میں ہمارے ساتھ جو ہوا سو ہوا، مگر میں جانتا ہوں کہ اس کا میں بدلہ کبھی نہیں لے سکتا ہوں، کیونکہ اس کا بدلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ میں بدلہ دے سکتا ہوں اور وہ یہی، کہ میرے ساتھ جو ہوا ہے، وہ اور کسی کے ساتھ نہ ہو۔ اسی لیے دہلی اور علی گڑھ کے درمیان اِدھر اور اُدھر لوگوں کو پہنچتا ہوں میں۔ میرے دن بھی کٹتے ہیں اور کچھ بدلہ چکا بھی پاتا ہوں، اور اسی طرح، اگر کوئی کسی دن مار دے گا تو بدلہ مکمل ہو جائے گا، پھر چاہے مسلمان مارے یا ہندو! میرا مقصد تو اتنا ہے کہ چاہے ہندو ہو، چاہے سکھ ہو، چاہے مسلمان ہو، جو میں نے دیکھا ہے وہ کسی کو نہ دیکھنا پڑے۔ اور مرنے سے پہلے میرے گھر کے لوگوں کی جو گت ہوئی، وہ پرماتما نہ کرے کسی کی بہو بیٹیوں کو دیکھنی پڑے۔‘‘

اس کے بعد بہت دیر تک گاڑی میں بالکل سناٹا رہا۔ علی گڑھ سے پہلے جب گاڑی دھیمی ہوئی، تب ثریا نے بہت چاہا کہ سردار سے تشکر کے دو لفظ کہہ دے، پر اس کے منہ سے کچھ بھی نہیں نکلا۔

سردار نے ہی آدھا اٹھ کر اوپر کے برتھ کی طرف پکارا،  ’’کاکا، اٹھو، علی گڑھ آ گیا ہے۔‘‘ پھر ہندو مہاشیہ کی طرف دیکھ کر بولا،  ’’بابو صاحب، کچھ سخت بات کہہ گیا ہوں تو معاف کرنا، ہم لوگ تو آپ کی پناہ میں ہیں۔‘‘

ہندو مہاشیہ کی حالت سے واضح دکھائی دے رہا تھا کہا گر وہاں وہ سکھ نہ اتر رہا ہوتا تو وہ خود اتر کر دوسرے ڈبے میں جا بیٹھتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ملبے کا مالک

 

موہن راکیش

ہندی کہانی

 

ساڑھے سات سال کے بعد وہ لوگ لاہور سے امرتسر آئے تھے۔ ہاکی کا میچ دیکھنے کا تو بہانہ تھا، انہیں زیادہ اشتیاق اپنے گھروں اور بازاروں کو دوبارہ دیکھنے کا تھا، جو ساڑھے سات سال پہلے ان کیلئے پرائے ہو گئے تھے۔ ہر سڑک پر مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی ٹولی گھومتی نظر آ جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں اس ستائش کے ساتھ وہاں کی ہر ایک چیز کو دیکھ رہی تھیں، جیسے وہ شہر کوئی عام شہر نہ ہو بلکہ ایک اچھا خاصا پر کشش شہر ہو۔

تنگ بازاروں میں سے گزرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو پرانی چیزوں کی یاد دلا رہے تھے، ’’دیکھ فتح دینا، مصری بازار میں اب مصری کی دکانیں پہلے سے کتنی کم رہ گئی ہیں۔‘‘

‘‘ اُس نکڑ پر سکھی بھٹیارن کی بھٹی تھی، جہاں اب وہ پان والا بیٹھا ہے، یہ نمک منڈی دیکھ لو، خان صاحب۔ یہاں کی ایک ایک لالائن وہ نمکین ہوتی ہے کہ بس۔۔۔۔‘‘

بہت دنوں کے بعد بازاروں میں طرے دار پگڑیاں اور سرخ ترکی ٹوپیاں نظر آ رہی تھیں۔ لاہور سے آئے مسلمانوں میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی تھی، جنہیں تقسیم کے وقت مجبور ہو کر امرتسر سے جانا پڑا تھا۔ ساڑھے سات سالوں میں آئی اساسی تبدیلیوں کو دیکھ کر، کہیں ان کی آنکھوں میں حیرانی بھر جاتی اور کہیں اداسی طاری ہو جاتی۔

’’واللہ۔ کٹرا جیمل سنگھ اتنا چوڑا کیسے ہو گیا؟ کیا اس طرف کے سب کے سب مکان جل گئے تھے؟‘‘

’’یہاں حکیم آصف علی کی دکان تھی نہ؟ اب یہاں ایک موچی نے قبضہ کر رکھا ہے۔‘‘

اور کہیں کہیں ایسے بھی جملوں سنائی دے جاتے،  ’’ولی، یہ مسجد جوں کی توں کھڑی ہے؟ ان لوگوں نے اس کا گرودوارہ نہیں بنا دیا۔‘‘

جس راستے سے بھی پاکستانیوں کی ٹولی گزرتی، شہر کے لوگ بہت اشتیاق سے اس طرف دیکھتے رہتے۔ کچھ لوگ اب بھی مسلمانوں کو آتے دیکھ کر خدشے سے راستے سے ہٹ جاتے، جبکہ دوسرے آگے بڑھ کر ان سے بغل گیر ہونے لگتے۔ زیادہ تر وہ، ان سے ایسے سوال پوچھتے جیسے۔

’’آج کل لاہور کا کیا حال ہے؟ انارکلی میں اب پہلے جتنی رونق ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘

’’سنا ہے، شاہ عالمی گیٹ کا بازار پورا نیا بنا ہے؟‘‘

’’کرشن نگر میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی؟ وہاں رشوت پورہ کیا واقعی رشوت کے پیسے سے بنا ہے؟‘‘

’’کہتے ہیں، پاکستان میں اب برقع بالکل اڑ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے؟‘‘

ان سوالات میں اتنی اپنائیت جھلکتی تھی کہ لگتا تھا، لاہور ایک شہر نہیں، ہزاروں لوگوں کا سگا سمبندھی ہے، جس کا حال جاننے کیلئے وہ متجسس ہیں۔ لاہور سے آئے لوگ اس دن شہر بھر کے مہمان تھے، جن سے مل کر اور باتیں کر کے لوگوں کو بہت خوشی ہو رہی تھی۔

بازار بانساں، امرتسرکا ایک اجڑا سا بازار ہے، جہاں تقسیم سے پہلے زیادہ تر نچلے طبقے کے مسلمان رہتے تھے۔ وہاں زیادہ تر بانسوں اور شہتیروں کی ہی دکانیں تھیں، جو سب کی سب ایک ہی آگ میں جل گئی تھیں۔ بازار بانساں کی وہ آگ امرتسر کی سب سے زیادہ خوفناک آگ تھی، جس سے کچھ دیر کیلئے تو سارے شہر کے جل جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔ بازار بانساں کے ارد گرد کے کئی محلوں کو تو اس آگ نے اپنی لپیٹ میں لے ہی لیا تھا۔ خیر، کسی طرح وہ آگ قابو میں آ گئی تھی، پر اس میں مسلمانوں کے ایک ایک گھر کے ساتھ ہندوؤں کے بھی چار چار، چھ چھ گھر جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ اب ساڑھے سات سال میں ان میں سے کئی عمارتیں دوبارہ کھڑی ہو گئی تھیں، مگر جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر اب بھی مو جود تھے۔ نئی عمارتوں کے بیچ بیچ میں، وہ ملبے کے ڈھیر ایک عجیب تاثر پیش کرتے تھے۔

بازار بانساں میں اس دن بھی چہل پہل نہیں تھی، کیونکہ اس بازار کے رہنے والے زیادہ تر لوگ تو اپنے مکانوں کے ساتھ شہید ہو گئے تھے، اور جو بچ کر چلے گئے تھے، ان میں سے شاید کسی میں بھی لوٹ کر آنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ صرف ایک دبلا پتلا بڈھا مسلمان ہی اس دن اس ویران بازار میں آیا اور وہاں کی نئی اور جلی ہوئی عمارتوں کو دیکھ کر جیسے بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔ بائیں طرف جانے والی گلی کے پاس پہنچ کر اس کے پاؤں اندر مڑنے کو ہوئے، مگر پھر وہ ہچکچا کر وہاں ہی کھڑا رہ گیا۔ جیسے اسے یقین نہیں ہوا کہ یہ وہی گلی ہے جس میں وہ جانا چاہتا ہے۔ گلی میں ایک طرف کچھ بچے کیڑی کیڑا کھیل رہے تھے اور کچھ فاصلے پر دو عورتیں اونچی آواز میں چیختی ہوئی ایک دوسری کو گالیاں دے رہی تھیں۔

’’سب کچھ بدل گیا، مگر بولیاں نہیں بدلیں۔‘‘ بڈھے مسلمان نے دھیمے لہجے میں خود کلامی کی اور چھڑی کا سہارا لیے کھڑا رہا۔ اس کے گھٹنے پاجامے سے باہر کو نکل رہے تھے۔ گھٹنوں سے تھوڑا اوپر شیروانی میں تین چار پیوند لگے تھے۔ گلی سے ایک بچہ روتا ہوا باہر آ رہا تھا۔ اس نے اسے پچکارا، ’’ادھر آ، بیٹے۔ آ، تجھے چجی دیں گے، آ۔‘‘ اور وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اسے دینے کے لئے کوئی چیز ڈھونڈنے لگا۔ بچہ ایک لمحے کے لئے چپ کر گیا، لیکن پھر اسی طرح منہ بسور کر رونے لگا۔ ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی گلی کے اندر سے دوڑتی ہوئی آئی اور بچے کو بازو سے پکڑ کر گلی میں لے گئی۔ بچہ رونے کے ساتھ ساتھ اب اپنے بازو چھڑانے کے لئے مچلنے لگا۔ لڑکی نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر خود سے چپکا لیا اور اس کا منہ چومتی ہوئی بولی،  ’’چپ کر، خسم کھانے۔ روئے گا، تو وہ مسلمان تجھے پکڑ کر لے جائے گا۔ کہہ رہی ہوں، چپ کر۔‘‘

بڈھے مسلمان نے بچے کو دینے کے لئے جو پیسہ نکالا تھا، وہ اس نے واپس جیب میں رکھ لیا۔ سر سے ٹوپی اتار کر وہاں تھوڑا سا کھجلایا اور ٹوپی اپنی بغل میں دبا لی۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور گھٹنے تھوڑا کانپ رہے تھے۔ اس نے گلی کے باہر کی ایک بند دکان کے تختے کا سہارا لے لیا اور ٹوپی پھر سے سر پر لگا لی۔ گلی کے سامنے جہاں پہلے اونچے اونچے شہتیر رکھے رہتے تھے، وہاں اب ایک تین منزلہ مکان کھڑا تھا۔ سامنے بجلی کے تار پر دو موٹی موٹی چیلیں بالکل جڑی ہوئی سی بیٹھی تھیں۔ بجلی کے کھمبے کے پاس تھوڑی دھوپ تھی۔ وہ کئی پل دھوپ میں اڑتے ذرات کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے منہ سے نکلا، ’’یا مالک۔‘‘

ایک نوجوان چابیاں کے گچھا گھماتا گلی کی طرف آیا۔ بڈھے کو وہاں کھڑے دیکھ کر اس نے پوچھا، ’’کہیے میاں جی، یہاں کس لئے کھڑے ہیں؟‘‘

بڈھے مسلمان کو سینے اور بازوؤں میں ہلکی سی کپکپی محسوس ہوئی۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور نوجوان کو دھیان سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹے، تیرا نام منوری ہے نہ؟‘‘

نوجوان نے چابیوں کے گچھے کو ہلانا بند کر کے اپنی مٹھی میں لے لیا اور کچھ حیرت کے ساتھ پوچھا، ’’آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہے؟‘‘

’’ساڑھے سات سال پہلے تو اتنا سا تھا۔‘‘ کہہ کر بڈھے نے مسکرانے کی کوشش کی۔

’’آپ آج پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘

’’ہاں۔ پہلے ہم اسی گلی میں رہتے تھے۔‘‘ بڈھے نے کہا،  ’’میرا لڑکا چراغ دین تم لوگوں کا درزی تھا۔ تقسیم سے چھ مہینے پہلے، ہم لوگوں نے یہاں اپنا نیا مکان بنوایا تھا۔‘‘

’’او، غنی میاں۔‘‘ منوری نے پہچان کہا۔

’’ہاں، بیٹے میں تم لوگوں کا غنی میاں ہوں۔ چراغ اور اس کے بیوی بچے تو اب مجھے مل نہیں سکتے، مگر میں نے سوچا کہ ایک بار مکان کی ہی صورت دیکھ لوں۔‘‘ بڈھے نے ٹوپی اتار کر سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روک لیا۔

’’تم تو شاید کافی پہلے یہاں سے چلے گئے تھے۔‘‘ منوری کے لہجے میں معذرت بھر آئی۔

’’ہاں، بیٹے یہ میری بدبختی تھی کہ میں اکیلا ہی پہلے نکل کر چلّا گیا تھا۔ یہاں رہتا، تو اس کے ساتھ میں بھی۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ یہ بات اسے نہیں کہنی چاہیے۔ اس نے بات کو منہ میں روک لیا، پر آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو نیچے بہہ جانے دیا۔

’’چھوڑو غنی میاں، اب ان باتوں کو سوچنے میں کیا رکھا ہے؟‘‘ منوری نے غنی کا بازو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ’’چلو، تمہیں تمہارا گھر دیکھا دوں۔‘‘

گلی میں خبر اس طرح پھیلی تھی کہ گلی کے باہر ایک مسلمان کھڑا ہے، جو رام داسی کے لڑکے کو اٹھانے جا رہا تھا۔ اس کی بہن وقت پر اسے پکڑ لائی، نہیں تو وہ مسلمان اسے لے گیا ہوتا۔ یہ خبر ملتے ہی جو عورتیں گلی میں پِیڑھے بچھا کر بیٹھی تھیں، وہ پِیڑھے اٹھا کر گھروں کے اندر چلی گئیں۔ گلی میں کھیلنے والے بچوں کو بھی انہوں نے پکار پکار کر گھروں کے اندر بلا لیا۔ منوری، غنی کو لے کر گلی میں داخل ہوا، تو گلی میں صرف ایک پھیری والا رہ گیا تھا یا رکھا پہلوان جو کنوئیں پر اگے پیپل کے نیچے بکھرا سویا تھا۔ ہاں، گھروں کی کھڑکیوں میں سے اور کِواڑوں کے پیچھے سے بہت سے چہرے گلی میں جھانک رہے تھے۔ منوری کے ساتھ غنی کو آتے دیکھ کر ان میں ہلکی سی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ داڑھی کے تمام بال سفید ہو جانے کے باوجود چراغ دین کے باپ عبدالغنی کی شناخت میں لوگوں کو دقت نہیں ہوئی۔

’’وہ تھا تمہارا مکان۔‘‘ منوری نے دور سے ایک ملبے کی طرف اشارہ کیا۔ غنی لمحے بھر کیلئے ٹھٹک کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ چراغ اور اس کی بیوی بچوں کی موت کو وہ کافی پہلے قبول کر چکا تھا۔ مگر اپنے نئے مکان کو اس شکل میں دیکھ کر اس کے جو جھرجھری ہوئی، اس کے لئے وہ تیار نہیں تھا۔ اس کی زبان پہلے سے اور زیادہ خشک ہو گئی اور گھٹنے بھی مزید کانپنے لگے۔

’’یہ ملبہ؟‘‘ اس نے غیر یقینی کے ساتھ پوچھ لیا۔

منوری نے اس کے چہرے کے بدلے ہوئے رنگ کو دیکھا۔ اس کے بازو کو تھوڑا مزید سہارا دے کر کھوکھلی آواز میں جواب دیا، ’’تمہارا مکان انہی دنوں جل گیا تھا۔‘‘

غنی چھڑی کے سہارے چلتا ہوا کسی طرح ملبے کے پاس پہنچ گیا۔ ملبے میں اب مٹی ہی مٹی تھی، جس میں سے کہیں کہیں ٹوٹی اور جلی ہوئی اینٹیں باہر جھانک رہی تھیں۔ لوہے اور لکڑی کا سامان اس میں سے کب کا نکالا جا چکا تھا۔ صرف ایک جلے ہوئے کواڑ کی چوکھٹ نہ جانے کیسے بچی رہ گئی تھی۔ پیچھے کی طرف دو جلی ہوئی الماریاں تھیں، جن کی کالک پر اب سفیدی کی ہلکی ہلکی تہ ابھر آئی تھی۔ اس ملبے کو قریب سے دیکھ کر غنی نے کہا، ’’یہ باقی رہ گیا ہے، یہ؟‘‘ اور اس کے گھٹنے جیسے جواب دے گئے اور وہ وہیں جلی ہوئی چوکھٹ کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ لمحے بھر بعد اس کا سر بھی چوکھٹ سے جا لگا اور اس کے منہ سے بلکنے کی سی آواز نکلی، ’’ہائے اوئے چراغ دینا۔‘‘

جلے ہوئے کواڑ کی وہ چوکھٹ، ملبے میں سے سر نکالے ساڑھے سات سال کھڑی تو رہی تھی، پر اس کی لکڑی بری طرح بھربھرا گئی تھی۔ غنی کے سر کے چھونے سے اس کے کئی ریشے جھڑ کر دھر ادھر بکھر گئے۔ کچھ ریشے غنی کی ٹوپی اور بالوں پر آ چپکے۔ ان ریشوں کے ساتھ ایک کینچوا بھی نیچے گرا، جو غنی کے پاؤں سے چھ اٹھ انچ دور نالی کے ساتھ ساتھ بنی اینٹوں کی پٹری پر یہاں وہاں سرسرانے لگا۔ وہ چھپنے کیلئے سوراخ ڈھونڈتا ہوا ذرا سا سر اٹھاتا، لیکن کوئی جگہ نہ پا کر دو ایک بار سر پٹخنے کے بعد دوسری طرف مڑ جاتا۔

کھڑکیوں سے جھانکنے والے چہروں کی تعداد اب پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔ ان میں چہ میگوئیاں چل رہی تھیں کہ آج کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا چراغ دین کا باپ غنی آ گیا ہے، اس لئے ساڑھے سات سال پہلے کا وہ سارا حادثہ آج اپنے آپ کھل جائے گا۔ لوگوں کو لگ رہا تھا جیسے وہ ملبہ ہی غنی کو ساری کہانی سنا دے گا کہ شام کے وقت چراغ اوپر کے کمرے میں کھانا کھا رہا تھا، جب رکھے پہلوان نے اسے نیچے بلایا اور کہا کہ وہ ایک منٹ آ کر اس کی بات سن لے۔ پہلوان ان دنوں گلی کا بادشاہ تھا۔ وہاں کے ہندوؤں پر ہی اس کا کافی دبدبہ تھا، چراغ تو پھر مسلمان تھا۔ چراغ ہاتھ کا نوالہ درمیان میں ہی چھوڑ کر نیچے اتر آیا۔ اس کی بیوی زبیدہ اور دونوں لڑکیاں، کشور اور سلطانہ، کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے لگیں۔ چراغ نے ڈیوڑھی سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ پہلوان نے اسے قمیض کے کالر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور گلی میں گرا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔ چراغ اس کا چھری والا ہاتھ پکڑ کر چلایا، ’’رکھے پہلوان، مجھے مت مارو۔ ہائے، کوئی مجھے بچاؤ۔‘‘ اوپرسے زبیدہ، کشور اور سلطانہ بھی مایوس لہجے میں چلائیں اور چیختی ہوئی نیچے ڈیوڑھی کی طرف دوڑیں۔ رکھے کے ایک شاگرد نے چراغ کی مزاحمت کر تے ہاتھ پکڑ لئے اور رکھا اس کی جانگھوں کو اپنے گھٹنوں سے دبائے ہوئے بولا، ’’چیختا کیوں ہے، بھین کے۔۔۔ تجھے میں پاکستان دے رہا ہوں، لے پاکستان۔‘‘ اور جب تک زبیدہ، کشور اور سلطانہ نیچے پہنچیں، چراغ کو پاکستان مل چکا تھا۔

آس پاس کے گھروں کی کھڑکیاں تب تک بند ہو گئی تھیں۔ جو لوگ اس منظر کے گواہ تھے، انہوں نے دروازے بند کر کے خود کو اس واقعے کی ذمہ داری سے آزاد کر لیا تھا۔ بند کواڑوں میں بھی انہیں دیر تک زبیدہ، کشور اور سلطانہ کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ رکھے پہلوان اور اس کے ساتھیوں نے انہیں بھی اسی رات پاکستان دے دیا، مگر دوسرے طویل راستے سے۔ ان کی لاشیں چراغ کے گھر میں نہ ملیں بعد میں نہر کے پانی میں پائی گئیں۔

دو دن چراغ کے گھر کی چھان بین ہوتی رہی تھی۔ جب اس کا سارا سامان لوٹا جا چکا، تو نہ جانے کس نے اس گھر کو آگ لگا دی تھی۔ رکھے پہلوان نے تب قسم کھائی تھی کہ وہ آگ لگانے والے کو زندہ زمین میں گاڑ دے گا، کیونکہ اس مکان پر نظر رکھ کر ہی اس نے چراغ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے اس مکان کو پاک کرنے کیلئے ہون کا سامان بھی لا کر رکھا تھا۔ مگر آگ لگانے والے کا تب سے آج تک پتہ نہیں چل سکا تھا۔ اب ساڑھے سات سال سے، رَکھا اس ملبے کو اپنی جاگیر سمجھتا آ رہا تھا، جہاں نہ وہ کسی کو گائے بھینس باندھنے دیتا تھا اور نہ ہی ٹھیلا لگانے دیتا تھا۔ اس ملبے سے بغیر اس کی اجازت کے کوئی ایک اینٹ بھی نہیں نکال سکتا تھا۔

لوگ امید کر رہے تھے کہ یہ ساری کہانی ضرور کسی نہ کسی طرح غنی تک پہنچ جائے گی۔ جیسے ملبے کو دیکھ کر ہی اسے سارے حادثے کا پتہ چل جائے گا۔ اور غنی ملبے کی مٹی کو ناخنوں سے کھود کھود کر اپنے اوپر ڈال رہا تھا اور کواڑ کی چوکھٹ کو بازو میں لئے ہوئے رو رہا تھا، ’’بول، چراغ دینا بول۔ توُ کہاں چلّا گیا، اوئے؟ او کشور۔ او سلطانہ۔ ہائے، میرے بچے اوئے۔ غنی کو پیچھے کیوں چھوڑ دیا، اوئے۔‘‘

اور بھربھرے کواڑ سے لکڑی کے ریشے جھڑتے جا رہے تھے۔

پیپل کے نیچے سوئے رَکھے پہلوان کو جانے کسی نے جگا دیا، یا وہ خود ہی جاگ گیا۔ یہ جان کر کہ پاکستان سے عبدالغنی آیا ہے اور اپنے مکان کے ملبے پر بیٹھا ہے، اس کے گلے میں تھوڑا جھاگ اٹھ آیا، جس سے اسے کھانسی آ گئی اور اس نے کنوئیں کے فرش پر تھوک دیا۔ ملبے کی طرف دیکھ کر اس کے سینے سے دھونکنی کی سی آواز نکلی اور اس کا نّا ا ہونٹ تھوڑا سا باہر کو پھیل آیا۔

’’غنی اپنے ملبے پر بیٹھا ہے،  ’’اس کا شاگرد لچھے پہلوان نے اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’ملبہ اس کا کیسے ہے؟ ملبہ ہمارا ہے۔‘‘ پہلوان نے جھاگ سے گھرگھراتی آواز میں کہا۔

’’مگر وہ وہاں بیٹھا ہے۔‘‘ لچھے نے آنکھوں میں ایک پراسرار سا اشارہ لا کر کہا۔

’’بیٹھا ہے، بیٹھا رہے۔ توُ چلم لا۔‘‘ رکھے کی ٹانگیں تھوڑی پھیل گئیں اور اس نے اپنی ننگی جانگھوں پر ہاتھ پھیر لیا۔

’’منوری نے اگر اسے کچھ بتا وتا دیا تو۔۔۔؟‘‘ لچھے نے چلم بھرنے کے لئے اٹھتے ہوئے اسی پراسرار انداز میں کہا۔

’’منوری کی کیا شامت آئی ہے؟‘‘

لچھا چلّا گیا۔

کنوئیں پر پیپل کی کئی پرانی پتیاں بکھری تھیں۔ رکھا ان پتیوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں مسلتا رہا۔ جب لچھے نے چلم کے نیچے کپڑا لگا کر چلم اس کے ہاتھ میں دی، تو اس نے کش کھینچتے ہوئے پوچھا، ’’اور تو کسی سے غنی کی بات نہیں ہوئی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’لے۔‘‘ اور اس نے کھانستے ہوئے چلم لچھے کے ہاتھ میں دے دی۔ منوری غنی کا بازو پکڑے ملبے کی طرف سے آ رہا تھا۔ لچھا اکڑوں ہو کر چلم کے لمبے لمبے کش کھینچنے لگا۔ اس کی آنکھیں ایک پل رَکھے کے چہرے پر ٹکتیں اور پھر دوسرے ہی پل غنی پر لگ جاتیں۔

منوری، غنی کا بازو تھامے اس سے ایک قدم آگے چل رہا تھا، جیسے اس کی کوشش ہو کہ غنی کنوئیں کے پاس سے بِنا رَکھے کو دیکھے ہی نکل جائے۔ مگر رکھا جس طرح بکھر کر بیٹھا تھا، اس سے غنی نے اسے دور سے ہی دیکھ لیا۔ کنوئیں کے پاس پہنچتے نہ پہنچتے اس کی دونوں بانہیں پھیل گئیں اور اس نے کہا، ’’رکھے پہلوان۔‘‘

رکھے نے گردن اٹھا کر اور آنکھیں ذرا چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔ اس کے گلے میں مبہم سی گھرگھراہٹ ہوئی، پر وہ بولا نہیں۔

’’رکھے پہلوان، مجھے پہچانا نہیں؟‘‘ غنی نے بانہیں نیچی کر کے کہا،  ’’میں غنی ہوں، عبدالغنی، چراغ دین کا باپ۔‘‘

پہلوان نے اوپر سے نیچے تک اس کا جائزہ لیا۔ عبدالغنی کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر ایک چمک سی آ گئی تھی۔ سفید داڑھی کے نیچے اس کے چہرے کی جھریاں بھی کچھ پھیل گئی تھیں۔ رَکھے کا نّا ا ہونٹ پھڑکا۔ پھر اس کے سینے سے بھاری سی آواز نکلی، ’’سنا، گنیا۔‘‘

غنی کی بانہیں پھر پھیلنے کو ہوئیں، پر پہلوان کا کوئی رد عمل نہ دیکھ کر اسی طرح رہ گئیں۔ وہ پیپل کا سہارا لے کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔

اوپر کھڑکیوں میں چہ میگوئیاں مزید تیز ہو گئیں کہ اب دونوں آمنے سامنے آ گئے ہیں، تو بات ضرور کھلے گی۔ پھر ہو سکتا ہے دونوں میں گالی گلوچ بھی ہو۔ اب رَکھا، غنی کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اب وہ دن نہیں رہے۔ بڑا ملبے کا مالک بنتا تھا۔ اصل میں ملبہ نہ اس کا ہے، نہ غنی کا۔ ملبہ تو حکومت کی ملکیت ہے۔ مردود کسی کو وہاں گائے کا کھونٹا تک نہیں لگانے دیتا۔ منوری بھی ڈرپوک ہے۔ اس نے غنی کو بتا کیوں نہیں دیا کہ رَکھے نے ہی چراغ اور اس بیوی بچوں کو مارا ہے۔ رَکھا آدمی نہیں سانڈ ہے۔ دن بھر سانڈ کی طرح گلی میں گھومتا رہتا ہے۔ غنی بیچارہ کتنا دبلا ہو گیا ہے۔ داڑھی کے سارے بال سفید ہو گئے ہیں۔

غنی نے کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ کر کہا، ’’دیکھ رَکھے پہلوان، کیا سے کیا ہو گیا ہے۔ بھرا پورا گھر چھوڑ کر گیا تھا اور آج یہاں یہ مٹی دیکھنے آیا ہوں۔ آباد گھر کی آج یہی نشانی رہ گئی ہے۔ توُ سچ پوچھے تو میرا یہ مٹی بھی چھوڑ کر جانے کو من نہیں کرتا۔‘‘ اور اس کی آنکھیں پھر جھلملا گئیں۔

پہلوان نے اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں اور انگوچھا کنوئیں کی منڈیر سے اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا۔ لچھے نے چلم اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ کش کھینچنے لگا۔

’’توُ بتا، رَکھے، یہ سب ہوا کیسے؟‘‘ غنی کسی طرح اپنے آنسو روک کر بولا،  ’’تم لوگ اس کے پاس تھے۔ سب میں بھائی بھائی کی سی محبت تھی۔ اگر وہ چاہتا، تو تم میں سے کسی کے گھر میں نہیں چھپ سکتا تھا؟ اس میں اتنی بھی سمجھداری نہیں تھی؟‘‘

’’ایسے ہی ہے۔‘‘ رکھے کو خود ہی محسوس ہوا کہ اس کی آواز میں ایک غیر فطری سی گونج ہے۔ اس کے ہونٹ گاڑھے لعاب سے چپک گئے تھے۔ مونچھوں کے نیچے سے پسینہ اس کے ہونٹ پر آ رہا تھا۔ اس کی پیشانی پر کسی چیز کا دباؤ محسوس ہو رہا تھا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی سہارا چاہ رہی تھی۔

’’پاکستان میں تم لوگوں کے کیا حال ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ اس کے گلے کی رگوں میں ایک تناؤ آ گیا تھا۔ اس نے انگوچھے سے بغلوں کا پسینہ پونچھا اور حلق کے جھاگ کو منہ میں کھینچ کر گلی میں تھوک دیا۔

’’کیا حال بتاؤں، رَکھے۔‘‘ غنی دونوں ہاتھوں سے چھڑی پر بوجھ ڈال کر جھکتا ہوا بولا، ’’میرا حال تو میرا خدا ہی جانتا ہے۔ چراغ وہاں ساتھ ہوتا، تو اور بات تھی۔ میں نے اسے کتنا سمجھایا تھا کہ میرے ساتھ چلّا چل۔ پر وہ ضد پر اڑا رہا کہ نیا مکان چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، یہ اپنی گلی ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بھولے کبوتر نے یہ نہیں سوچا کہ گلی میں خطرہ نہ ہو، پر باہر سے تو خطرہ آ سکتا ہے۔ مکان کی حفاظت کیلئے کے چاروں نے اپنی جان دے دی۔ رَکھے، اسے تیرا بہت بھروسہ تھا۔ کہتا تھا کہ رَکھے کے ہوتے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مگر جب جان پر بن آئی تو رکھے کے روکے بھی نہ رکی۔‘‘

رکھے نے سیدھا ہونے کی کوشش کی، کیونکہ اس کی ریڑھ کی ہڈی بہت درد کر رہی تھی۔ اپنی کمر اور جانگھوں کے جوڑ پر اسے سخت دباؤ محسوس ہو رہا تھا۔ پیٹ کی انتڑیوں کے پاس سے جیسے کوئی چیز اس کی سانسوں کو روک رہی تھی۔ اس کا سارا جسم پسینے سے بھیگ گیا تھا اور اس کے تلووں میں چنچناہٹ ہو رہی تھی۔ بیچ بیچ میں نیلی پھلجھڑیاں سی اوپر سے اترتی اور تیرتے ہوئی اس کی آنکھوں کے سامنے سے نکل جاتیں۔ اسے اپنی زبان اور ہونٹوں کے درمیان ایک فاصلہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے انگوچھے سے ہونٹوں کے کونوں کو صاف کیا۔ ساتھ ہی اس کے منہ سے نکلا، ’’ہے پربھو، توُ ہی ہے، توُ ہی ہے، توُ۔ ہی ہے۔‘‘

غنی نے دیکھا کہ پہلوان کے ہونٹ سوکھے ہیں اور اس کی آنکھوں کے گرد حلقے مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’جو ہونا تھا، ہو گیا رَکھا۔ اسے اب کوئی لوٹا تھوڑے ہی سکتا ہے۔ خدا نیک کی نیکی بنائے رکھے اور بد کی بدی معاف کرے۔ میں نے آ کر تم لوگوں کو دیکھ لیا، سو سمجھوں کہ چراغ کو دیکھ لیا۔ اللہ تمہیں صحت مندر کھے۔‘‘ اور وہ چھڑی کے سہارے اٹھ کھڑا ہوا۔ چلتے ہوئے اس نے کہا، ’’اچھا رَکھے پہلوان۔‘‘

رَکھے کے گلے سے مدھم سی آواز نکلی۔ انگوچھا لئے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ جڑ گئے۔ غنی حسرت بھری نظروں سے چاروں جانب دیکھتا ہوا دھیرے دھیرے گلی سے باہر چلّا گیا۔

اوپر کھڑکیوں میں تھوڑی دیر چہ میگوئیاں چلتی رہیں کہ منوری نے گلی سے باہر نکل کر ضرور غنی کو سب کچھ بتا دیا ہو گا کہ غنی کے سامنے رَکھے کا تالو کیوں خشک ہو گیا تھا۔ رَکھا اب کس منہ سے لوگوں کو ملبے پر گائے باندھنے سے روکے گا؟ بیچاری زبیدہ۔ کتنی اچھی تھی وہ۔ رَکھے مردود کا گھر نہ گھاٹ، اسے کسی کی ماں بہن کا کیا لحاظ تھا؟

تھوڑی دیر بعد عورتیں گھروں سے گلی میں اتر آئیں۔ بچے گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنے لگے۔ دو بارہ تیرہ سال کی لڑکیاں کسی بات پر ایک دوسری سے گتھم گتھا ہو گئیں۔

رکھا، گہری شام تک کنوئیں پر بیٹھ کھنکھارتا اور چلم پھونکتا رہا۔ بہت سے لوگوں نے وہاں سے گزرتے ہوئے اس سے پوچھا، ’’رَکھے شاہ، سنا ہے آج غنی پاکستان سے آیا تھا؟‘‘

’’ہاں، آئے تھے۔‘‘ رَکھے نے ہر بار ایک ہی جواب دیا۔

’’پھر؟‘‘

’’پھر کچھ نہیں۔ چلّا گیا۔‘‘

رات ہونے پر رَکھا روز کی طرح گلی کے باہر بائیں طرف کی دکان کے تختے پر آ بیٹھا۔ روز وہ رستے سے گزرنے والے جان پہچان کے لوگوں کو آواز دے دے کر پاس بلا لیتا تھا اور انہیں سٹے کے گُر اور صحت کے نسخے بتاتا رہتا تھا۔ مگر اس دن وہ وہاں بیٹھا، لچھے کو اپنی ویشنو دیوی کی اس یاترا کا بیان سناتا رہا، جو اس نے پندرہ سال پہلے کی تھی۔ لچھے کو بھیج کر وہ گلی میں آیا تو ملبے کے پاس لوکُو پنڈت کی بھینس کو دیکھ کر وہ عادت کے مطابق اسے دھکے دے دے کر ہٹانے لگا، ’’تت، تت، تت۔۔۔ تت، تت۔۔۔۔ ۔‘‘

بھینس کو ہٹا کر وہ سستانے کیلئے ملبے کی چوکھٹ پر بیٹھ گیا۔ گلی اس وقت سنسان تھی۔ کمیٹی کی بتی نہ ہونے سے وہاں شام ہی سے اندھیرا ہو جاتا تھا۔ ملبے کے نیچے نالی کا پانی ہلکی آواز کرتا بہہ رہا تھا۔ رات کی خاموشی کو کاٹتی ہوئی کئی طرح کی ہلکی ہلکی آوازیں ملبے کی مٹی میں سے سنائی دے رہی تھیں۔۔۔ چیو۔ چیو۔ چیو۔۔۔۔ ۔۔۔ ر رر ر،ر رر ر، رچرچرچر۔۔ چر ررر۔۔۔ ایک بھٹکا ہوا کوا نہ جانے کہاں سے اڑ کر اس چوکھٹ پر آ بیٹھا۔ اس لکڑی کے کئی ریشے ادھر ادھر بکھر گئے۔ کوے کے وہاں بیٹھتے ہی ملبے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا کتا غرا کر اٹھا اور زور زور سے بھونکنے لگا۔ اوو۔ اوو۔ کوا کچھ دیر سہما سا چوکھٹ پر بیٹھا رہا، پھر پر پھڑپھڑاتا ہوا کنوئیں کے پیپل پر چلّا گیا۔ کوے کے اڑ جانے پر کتا اور نیچے اتر آیا اور پہلوان کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگا۔ پہلوان اسے ہٹانے کیلئے بھاری آواز میں بولا، ’’در دردر۔۔۔ درے۔‘‘ مگر کتے اور پاس آ کر بھونکنے لگا۔ اوو۔ ا۔ و۔ و۔ و۔ اووو۔۔۔۔

پہلوان نے ایک ڈھیلا اٹھا کر کتے کی طرف پھینکا۔ کتا تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، پر اس کا بھونکنا بند نہیں ہوا۔ پہلوان، کتے کو ماں کی گالی دے کر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دھیرے دھیرے جا کر کنویں کی منڈیر پر لیٹ گیا۔ اس کے وہاں سے ہٹتے ہی کتا گلی میں اتر آیا اور کنوئیں کی طرف منہ کر کے بھونکنے لگا۔ کافی دیر بھونکنے کے بعد جب اس گلی میں کوئی اور مخلوق اسے چلتی پھرتی دکھائی نہیں دی، تو وہ ایک بار کان جھٹک کر ملبے پر لوٹ گیا اور وہاں کونے میں بیٹھ کر غرانے لگا۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل