FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تفہیم القرآن

 

 

 

۷۔ سورۂ بنی اسرائیل تا  سورۂ طٰہٰ

 

                   مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

 

 

 

 

 

 

۱۷۔ الاسرا/بنی اسرائیل

 

نام

 

آیت ۴ کے فقرے "و قضینآ الی بنی اسرآئیل فی الکتٰب” سے ماخوذ ہے۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل نہیں ہیں بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ دوسرا نام یعنی الاسراء پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

پہلی ہی آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔

 

پس منظر

 

اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ۱۲ سال گزر چکے تھے۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے باوجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے۔ مدینے میں اوس اور خزرج کے طاقتور قبائل کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی۔ اب وہ وقت قریب آ لگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دینے کا موقع ملا تھا۔

ان حالات میں واقعۂ معراج پیش آیا اور واپسی پر پیغام نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کو سنایا۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس سورت میں تنبیہ، تفہیم اور تعلیم، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں۔

تنبیہ کفار مکہ کو دی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آ لگا ہے، سنبھل جاؤ اور اس دعوت کو قبول کر لو جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قرآن کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے۔ نیز ضمناً بنی اسرائیل کو بھی، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبانِ وحی کے مخاطب ہونے والے تھے، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائیں تمہیں مل چکی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہو گے۔

تفہیم کے پہلے میں بڑے دلنشیں طریقے سے سمجھایا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و خسران کا مدار دراصل کن چیزوں پر ہے۔ توحید، معاد، نبوت اور قرآن کے بر حق ہونے کی دلیلیں دی گئی ہیں۔ ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکرین کی جہالتوں پر زجر و توبیخ بھی کی گئی ہے۔

تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوتِ محمدی کے پیش نظر تھا۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہ خاکہ ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ملک کی اور پھر پوری انسانیت کی زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

ان سب باتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر جمے رہیں اور کفر کے ساتھ مصالحت کا خیال تک نہ کریں۔ نیز مسلمانوں کو، جو کبھی کبھی کفار کے ظلم و ستم اور ان کی کنج بحثیوں، اور ان کے طوفانِ کذب و افتراء پر بے ساختہ جھنجھلا اٹھتے تھے، تلقین کی گئی ہے کہ پورے صبر و سکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہیں اور تبلیغ و اصلاح کے کام میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ اس سلسلے میں اصلاح نفس اور تزکیۂ نفس کے لیے ان کو نماز کا نسخہ بتایا گیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو تم کو اُن صفاتِ عالیہ سے متصف کرے گی جن سے راہِ حق کے مجاہدوں کو آراستہ ہونا چاہیے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پنج وقتہ نماز پابندیِ اوقات کے ساتھ مسلمانوں پر فرض کی گئی۔

 

ترجمہ

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت ۱ میں وہی ہے سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا۔ ہم نے اِس سے پہلے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا،۲ اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔۳تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نُوح ؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا،۴ اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا،پھر ہم نے اپنی کتاب ۵ میں بنی اسرائیل کو اِس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ ۶آخرِ کار جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اُٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھُس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پُورا ہو کر ہی رہنا تھا۔۷اِس کے بعد ہم نے تمہیں اُن پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔۸دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور بُرائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے بُرائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دُوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دُوسرے دشمنوں کو تم پر مسلّط کیا تا کہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المَقدِس) میں اُسی طرح گھُس جائیں جس طرح پہلے دُشمن گھُسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں ۹۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا ربّ تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنّم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔ ۱۰حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے، اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔ ۱۱ ؏ ۱

 

تفسیر

 

۱- یہ وہی واقعہ ہے جو اصطلاحاً ’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ ؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ررین روایت حضرت انس بن مالک ؓ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ؓ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ، حضرت عائشہ ؓ اور متعدد دوسرے صحابہ ؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔

قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ )سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتا ئی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہو گئے۔

حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانے جو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جا سکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔

اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں؟ اور آیا حضور ؐ بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سُبْحٰنَ الّذی اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ’’ایک رات اپنے بندے کو لے گیا‘‘ جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کرایا۔

اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سے ممکن تھا، تو آخر اُن دوسری تفصیلات ہی کو ناممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور نا ممکن کی بحث تو صرف اُس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئ کام کرنے کا معاملہ زیر بحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو دوسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔

ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کرا کے ایک مقامِ خاص تک لے جایا جاتا؟

دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے ؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے ؟

لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود وسائل اختیار کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سکے، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اُس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہے جہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔

رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھایا گیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا۔ باز زنا کاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح بُرے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔

اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے اُن کے منصب کی مناسبت سے ملکوتِ سمٰوات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہو جائے۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔

۲- معراج کا ذکر صرف ایک فقرے میں کر کے یکایک بنی اسرائیل کا یہ ذکر جو شروع کر دیا گیا ہے، سرسری نگاہ میں یہ آدمی کو کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر سورت کے مدعا کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کی مناسبت صاف سمجھ میں آ جاتی ہے۔ سورت کا اصل مدعا کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے۔ آغاز میں معراج کا ذکر صرف اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ مخاطبین کو آگاہ کر دیا جائے کہ یہ باتیں تم سے وہ شخص کر رہا ہے جو ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آ رہا ہے۔ اس کے بعد اب بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ کے مقابلے میں سر اٹھا تے ہیں تو دیکھو کہ پھر ان کو کیسی درد ناک سزا دی جاتی ہے۔

۳- وکیل، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار، جس پر توکل کیا جائے، جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے۔

۴- یعنی نوح اور ان کے ساتھیوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے تمہارے شایانِ شان یہی ہے کہ تم صرف ایک اللہ ہی کو اپنا وکیل بناؤ، کیونکہ جن کی تم اولاد ہو وہ اللہ ہی کو وکیل بنانے کی بدولت طوفان کی تباہی سے بچے تھے۔

۵- کتاب سے مراد یہاں توراۃ نہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ ’’الکتاب‘‘ استعمال ہوا ہے۔

۶- بائیبل کے مجموعہ کتبِ مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے بُرے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح ؑ نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہو جائے۔

پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں:

’’انہوں نے اُن قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ اُن قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔۔۔۔۔۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہو گئی اور اس نے اُن کو قوموں کے قبضے میں کر دیا اور اُن سے عداوت رکھنے والے اُن پر حکمراں بن گئے ‘‘ (زبور، باب ١۰٦۔ آیات۳۴۔۴١)

اس عبارت میں اُن واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے، گویا کہ ہو ہو چکے۔ یہ کتبِ آسمانی کا خاص انداز بیان ہے۔

پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہو گیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں:

’’آہ، خطا کار گروہ، بدکرداری سے لدی ہوئی قوم، بد کرداروں کی نسل، مکار اولاد، جنہوں نے خداوند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہو گئے، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے ؟‘‘ (باب ١۔آیت۴۔۵)

’’وفادار بستی کیسی بد کار ہو گئی! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی، لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تیرے سردار گردن کُش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے۔ وہ یتیموں کا انصاف نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خداوند ربُّ الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا‘‘۔ (باب ١۔آیت۲١۔۲۴)

’’وہ اہل مشرق کی رسوم سے پُر ہیں اور فِلِستیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کی سرزمین بتوں سے بھی پُر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں‘‘۔ (باب۲۔آیت ٦۔۷)

’’اور خداوند فرماتا ہے، چونکہ صہیون کی بیٹیاں (یعنی یروشلم کی رہنے والیاں) متکبر ہیں اور گردن کُشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاوؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بے پردہ کر دے گا۔۔۔۔۔۔تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے۔ اُس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی ‘‘۔ (باب۳۔آیت١٦۔۲٦)

’’اب دیکھ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب، یعنی شاہ اسور (اسیریا) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا‘‘۔ (باب ۸۔ آیت۷)

’’یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو۔۔۔۔۔۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بدکرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کہار کے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے ‘‘۔ (باب ۳۰۔آیت۹۔١۴)

پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا:

’’خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بے انصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سے دور ہو گئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے ؟۔۔۔۔۔۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کر دیا، اور میری میراث کو مکروہ بنایا۔۔۔۔۔۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی۔ ہاں، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی (یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہر بت کو سجدہ کیا)۔۔۔۔۔۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور (جھوٹے ) نبی، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نے مجھے جنم دیا، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اُٹھ کر ہم کو بچا۔ لیکن تیرے وہ بُت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اُٹھیں، کیونکہ اے یہوداہ! جتنے تیرے شہر میں اتنے ہی تیرے معبود ہیں‘‘۔ (باب۲۔ آیت۵۔۲۸)

’’خداوند نے مجھ سے فرمایا، کیا تو نے دیکھا کہ برگشتہ اسرائیل (یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست) نے کیا کیا؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری (یعنی بت پرستی) کی۔۔۔۔۔۔ اور اس کی بے وفا بہن یہودا۔(یعنی یروشلم کی یہودی ریاست) نے یہ حال دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب برگشتہ اسرائیل کی زنا کاری (یعنی شرک ) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا (یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا) تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری (یعنی بت پرستی) کی‘‘۔ (باب ۳۔ آیت٦۔۹)

’’یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا۔۔۔۔۔۔ میں تجھے کیسے معاف کروں، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں۔ جب میں نے ان کو سیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے۔ وہ پیٹ بھرے گھوڑوں کے مانند ہوئے، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر ہنہنانے لگا۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی؟‘‘ (باب۵۔آیت ١۔۹)

’’اے اسرائیل کے گھرانے ! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑھا لاؤں گا۔ خداوند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے۔ وہ قدیم قوم ہے۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلوار سے ویران کر دیں گے ‘‘۔ (باب۵۔آیت ١۵۔ا۷)

’’اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کو کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شادمانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہو جائے گا‘‘۔ (باب۷۔آیت۳۳۔۳۴)

’’ان کو میرے سامنے سے نکال دے کہ چلے جائیں۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خدا وند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف، اور جو کال کے لیے ہیں وہ کال کو، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں‘‘۔ (باب ١۵۔آیت۲۔۳)

پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اُٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا:

’’اے شہر، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آ جائے اور تو اپنے لیے بُت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔۔۔۔۔۔ دیکھ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انہوں نے ماں باپ کا حقیر جانا۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا۔ تو نے میرے پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سَبتوں کو ناپاک کیا۔ تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کر کے خون کرواتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو بُتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں۔ تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی۔ تجھ میں اُنہوں نے اُس عورت سے جو ناپاکی کی حالت میں تھی مباشرت کی۔ کسی نے دوسرے کی بیوی سے بدکاری کی، کسی نے اپنی بہو سے بد ذاتی کی، اور کسی نے اپنی بہن، اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے اندر رسوا کیا۔ تیرے اندر انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خواری کی۔ تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا۔۔۔۔۔۔ کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہو گا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا؟۔۔۔۔۔۔ ہاں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ میں سے نابود کر دوں گا اور قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھیرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں‘‘۔ (باب ۲۲۔آیت۳۔١٦)

یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم کے موقع پر کی گئیں۔ پھر دوسرے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو خبر دار کیا۔ متی باب ۲۳ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’اے یرشلم! اے یرشلم!تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں، مگر تو نے نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے ‘‘۔ (آیت ۳۷۔۳۸)

’’میں تم کو سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے ‘‘۔ (باب۲۴۔آیت۲)

پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جا رہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جن میں عورتیں بھی تھیں، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جا رہی تھیں، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا:

’’اے یروشلم کی بیٹیو: میرے لیے نہ ڈرو بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لے ڈرو۔ کیونکہ دیکھو، وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو‘‘ (لوقا۔باب ۲۳۔ آیت ۲۸۔۳۰)

۷- اس سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی۔ اس کا تاریخی پس منظر سمجھنے کے لیے صرف وہ اقتباسات کافی نہیں ہیں جو اوپر ہم صُحف انبیاء سے نقل کر چکے ہیں، بلکہ ایک مختصر تاریخی بیان بھی ضروری ہے تا کہ ایک طالب علم کے سامنے وہ تمام اسباب آ جائیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حامل کتاب قوم کو امامتِ  اقوام کے منصب سے گرا کر ایک شکست خوردہ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا۔

حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ حتی اَمَّوری کنعانی، فِرِزی، حَوی، یبوسی، فِلستی وغیرہ۔ ان قوموں میں بدترین قسم کا شرک پایا جاتا تھا۔ ان کے سب سے بڑے معبود کا نام ایل تھا جسے یہ دیوتاؤں کا باپ کہتے تھے اور اسے عموماً سانڈ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس کی بیوی کا نام عشیرہ تھا اور اس سے خداؤں اور خدانیوں کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد ۷۰ تک پہنچتی تھی۔ اس کی اولاد میں سب سے زیادہ زبردست بعل تھا جس کو بارش اور روئیدگی کا خدا اور زمین و آسمان کا مالک سمجھا جاتا تھا۔شمالی علاقوں میں اس کی بیوی اُناث کہلاتی تھی اور فلسطین میں عِستارات۔ یہ دونوں خواتین عشق اور افزائشِ  نسل کی دیویاں تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی دیوتا موت کا مالک تھا، کسی دیوی کے قبضے میں صحت تھی۔ کسی دیوتا کو وبا اور قحط لانے کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے، اور یوں ساری خدائی بہت سے معبودوں میں بٹ گئی تھی۔ ان دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف ایسے ایسے ذلیل اوصاف و اعمال منسوب تھے کہ اخلاقی حیثیت سے انتہائی بد کردار انسان بھی ان کے ساتھ مشتہر ہونا پسند نہ کریں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ ایسی کمینہ ہستیوں کو خدا بنائیں اور ان کی پرستش کریں وہ اخلاق کی ذلیل ترین پستیوں میں گرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جو حالات آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں وہ شدید اخلاقی گراوٹ کی شہادت بہم پہنچاتے ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی قربانی کا عام رواج تھا۔ ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ عورتوں کو دیو داسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بد کاریاں کرنا عبادت کے اجزاء میں داخل تھا۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی بد اخلاقیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔

توراۃ میں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سر زمین چھین لینا اور ان کے ساتھ رہنے بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پرہیز کرنا۔

لیکن بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے۔ انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے۔ ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوح علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہو جائے۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ ہو سکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کر دیتا۔ آخر کار انہیں یہ گوارا کرنا پڑا کہ مشرکین ان کے ساتھ رہیں بسیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے مفتوح علاقوں میں جگہ جگہ ان مشرک قوموں کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی موجود رہیں جن کو بنی اسرائیل مسخر نہ کر سکے۔ اسی بات کی شکایت زبور کی اُس عبارت میں کی گئی ہے جسے ہم نے حاشیہ نمبر ۶ کے آغاز میں نقل کیا ہے۔

اس کا پہلا خمیازہ تو بنی اسرائیل کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان قوموں کے ذریعے سے ان کے اندر شرک گھس آیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں بھی راہ پانے لگیں۔ چنانچہ اس کی شکایت بائیبل کی کتاب قُضاة میں یوں کی گئی ہے :

’’اور بنی اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی اوربعلیم کی پرستش کرنے لگے۔ اور انہوں نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو جو انہیں ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا او دوسرے معبودوں کی جو اُن کے گرداگرد کی قوموں کے دیوتاؤں میں سے تھے پیروی کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا۔ وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے اور خداوند کا قہر اسرائیل پر بھڑکا۔ (باب۲۔آیت ١١۔١۳)

اس کے بعد دوسرا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انہوں نے چھوڑ دی تھیں انہوں نے اور فلستیوں نے، جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا، بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور پے در پے حملے کر کے فلِسِتین کے بڑے حصے سے ان کو بے دخل کر دیا، حتیٰ کہ ان سے خداوند کے عہد کا صندوق (تابوتِ سکینہ) تک چھین لیا۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے سن ۱۰۲۰ قبل مسیح میں طالوت کو ان کا بادشاہ بنایا۔ (اس کی تفصیل سورہ بقرہ رکوع ۳۲ میں گزر چکی ہے )۔

اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔ طالوت (سن ۱۰۲۰ تا ۱۰۰۴ ق م)، حضرت داؤد علیہ السلام (سن ۱۰۰۴ تا ۹۶۵ ق م) اور حضرت سلیمان علیہ السلام (سن ۹۶۵ تا ۹۲۶ ق م)۔ ان فرمانرواؤں نے اُس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ صرف شمالی ساحل پر فنیقیوں کی اور جنوبی ساحل پر فِلسِتیوں کی ریاستیں باقی رہ گئیں جنہیں مسخر نہ کیا جا سکا اور محض باج گزار بنانے پر اکتفا کیا گیا۔

حضرت سلیمان ؑ کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کر لیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل، جس کا پایہ تخت آخر کار سا مِریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادُوم کے علاقے میں سلطنت یہودیہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اول روز سے شروع ہو گئی اور آخر تک رہی۔

ان میں اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب اس ریاست کے فرمانروا اخی اب نے صَیدا کی مشرک شہزادی ایؔزِبل سے شادی کر لی۔ اس وقت حکومت کی طاقت اور ذرائع سے شرک اور بد اخلاقیاں سیلاب کی طرح اسرائیلیوں میں پھیلنی شروع ہوئیں۔ حضرت الیاس اور حضرت الیَسع علیہما السلام نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخر کار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہو گئے۔ اس دور میں عاموس نبی (سن ۷۸۷ تا ۷۴۷ قبل مسیح) اور پھر ہوسیع نبی (سن ۷۴۷ تا ۷۳۵ قبل مسیح) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے در پے تنبیہات کیں، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سرشار تھے وہ تنبیہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہو گیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور دولت سامریہ کے حدود میں اپنی نبوت بند کر دینے کا نوٹس دے دیا۔ اس کے بعد کچھ زیادہ مدّت نہ گذری تھی کہ خدا کا عذاب اسرائیل سلطنت اور اس کے باشندوں پر ٹوٹ پڑا۔ سن ۷۲۱ قبل مسیح میں اشور کے سخت گیر فرمانروا سارگون نے سامریہ کو فتح کر کے دولت اسرائیل کا خاتمہ کر دیا، ہزارہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گئے، ۲۷ ہزار سے زیادہ با اثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تترّ بتّر کر دیا گیا، اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسایا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا۔

بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہودیہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی، وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بہت جلدی شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی، مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولتِ اسرائیل کی بہ نسبت سُست رفتار تھا، اس لیے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی۔ اگرچہ دولتِ اسرائیل کی طرح اس پر بھی اشوریوں نے پے در پے حملے کیے، اس کے شہروں کو تباہ کیا، اس کے پایہ تخت کا محاصرہ کیا، لیکن یہ ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم نہ ہو سکی بلکہ صرف باج گزار بن کر رہ گئی۔ پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہودیہ کے لوگ بُت پرستی اور بد اخلاقیوں سے باز نہ آئے تو سن ۵۹۸ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کر لیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور حضرت یرمیاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر سن ۵۸۷ قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بُری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے۔

یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا، اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کی دی گئی۔

۸- یہ اشارہ ہے اُس مہلت کی طرف جو یہودیوں (یعنی اہل یہودیہ) کو بابل کی اسیری سے رہائی کے بعد عطا کی گئی۔ جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ تو اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اُٹھے، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک بقیہ ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والاتھا۔ اُس نے اُن لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے، اور ان لوگوں کو بھی توبہ و انابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلا وطن کر دیے گئے تھے۔ آخر کار رحمتِ الٰہی ان کی مدد گار ہوئی۔ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا۔سن ۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس (خورس یا خسرو) نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہو گئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ سائرس نے یہودیوں کو ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی اجازت بھی دی، مگر ایک عرصے تک ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آباد ہو گئی تھیں، مزاحمت کرتی رہیں۔ آخر داریوس (دارا) اوّل نے سن ۵۲۲ قم یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زرُو بابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حَجیّ نبی، زکریاہ نبی اور سردار کاہن یشوع کی نگرانی میں ہیکلِ مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا۔ پھر سن ۴۵۷ قم میں ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ حضرت عُزیر (عزرا) یہودیہ پہنچے اور شاہِ ایران ارتخششتا(ارٹاکسرسز یا اردشیر) نے ایک فرمان کی رو سے ان کو مجاز کیا کہ:

’’تو اپنے خدا کی اُس دانش کے مطابق جو تجھ کو عنایت ہوئی، حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کرا تا کہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خدا کی شریعت کو جانتے ہیں انصاف کریں، اور تم اُس کو جو نہ جانتا ہو سکھاؤ، اور جو کوئی تیرے خدا کی شریعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اس کو بلا توقف قانونی سزا دی جائے، خواہ موت ہو، یا جلاوطنی، یا مال کی ضبطی، یا قید‘‘۔ (عزرا۔باب۸۔آیت۲۵۔۲٦)

اس فرمان سے فائدہ اٹھا کر حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا۔ انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر و صلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا۔ با ئیبل کی کتب خمسہ کو، جن میں توراۃ تھی، مرتب کر کے شائع کیا، یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا، قوانین شریعت کو نافذ کر کے اُن اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں، اُن تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے، اور بنی اسرائیل سے از سرِ نو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا۔

سن ۴۴۵ قم میں نحمیاہ کے زیر قیادت ایک اور جلا وطن گروہ یہودیہ واپس آیا اور شاہِ ایران نے نحمیاہ کو یروشلم کا حاکم مقرر کر کے اس امر کی اجازت دی کہ وہ اس کی شہر پناہ تعمیر کرے۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیتُ المقدس پھر سے آباد ہوا اور یہودی مذہب و تہذیب کا مرکز بن گیا۔ مگر شمالی فلسطین اور سامریہ کے اسرائیلیوں نے حضرت عزیر کی اصلاح و تجدید سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا، بلکہ بیت المقدس کے مقابلہ میں اپنا ایک مذہبی مرکز کوہِ جرزیم پر تعمیر کر کے اس کو قبلہ اہل کتاب بنانے کی کوشش کی۔ اس طرح یہودیوں اور سامریوں کے درمیان بُعد اور زیادہ بڑھ گیا۔

ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے ایک سخت دھکا لگا۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی، ان میں سے شام کا علاقہ اُس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے سن ۱۹۸ قم میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ یہ یونانی فاتح، جو مذہباً مشرک، اور اخلاقاً اباحیت پسند تھے، یہودی مذہب و تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصا عنصر ان کا آلہ کار بن گیا۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا۔ ایک گروہ نے یونانی لباس، یونانی زبان، یونانی طرزِ معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا۔ سن ۱۵۷ قم میں انٹیوکس چہارم (جس کا لقب ایپی فانیس یعنی مظہر خدا) تھا، جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ گنی کرنی چاہی۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبردستی بُت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ ان کو سجدہ کریں۔ اس نے قربان گاہ پر قربانی بند کرائی۔ اس نے یہودیوں کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔ اس نے ان سب لوگوں کے لیے سزائے موت تجویز کی جو اپنے گھروں میں توراۃ کا نسخہ رکھیں، یا سَبت کے احکام پر عمل کریں، یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں۔ لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اُٹھی جو تاریخ میں مُکّابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کشمکش میں یونانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمدردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں، اور انہوں نے عملاً مُکّا بی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا، لیکن عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روحِ  دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہو گئے اور آخر کار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کر لی جو سن ۶۷ قم تک قائم رہی۔ اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہو گئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگین تھے، بلکہ فِلسِتیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد، سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا۔ مُکّابی بغاوت انہی واقعات کی طرف قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت اشارہ کرتی ہے۔

۹- اس دوسرے فساد اور اس کی سزا کا تاریخی پس منظر یہ ہے :

مکابیوں کی تحریک جس اخلاقی و دینی روح کے ساتھ اُٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بے روح ظاہرداری نے لے لی۔ آخر کار ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ پومپی سن ۶۳ قم میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن رومی فاتحین کی یہ مستقل پالیسی تھی کہ وہ مفتوح علاقوں پر براہ راست اپنا نظم و نسق قائم کرنے کی بہ نسبت مقامی حکمرانوں کے ذریعے سے بالواسطہ اپنا کام نکلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک دیسی ریاست قائم کر دی جو بالآخر سن ۴۰ قم میں ایک ہوشیار یہودی ہیرود نامی کے قبضے میں آئی۔ یہ ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی فرمانروائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر سن ۴۰ سے ۴ قبل مسیح تک رہی۔ اس نے ایک طرف مذہبی پیشواؤں کی سرپرستی کر کے یہودیوں کو خوش رکھا، اور دوسری طرف رومی تہذیب کو فروغ دے کر اور رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی بھی خوشنودی حاصل کی۔ اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔

ہیرود کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

اس کا ایک بیٹا ارخلاؤس سامریہ یہودیہ اور شمالی اُدومیہ کا فرمانروا ہوا، مگر سن ۶ عیسوی میں قیصر آگسٹس نے اس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کر دی اور ۴۱ عیسوی تک یہی انتظام قائم رہا۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اُٹھے اور یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی۔

ہیرود کا دوسرا بیٹا ہیرود اینٹی پاس شمالی فلسطین کے علاقہ گلیل اور شرق اُردن کا مالک ہوا اور یہ وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کر کے اس کی نذر کیا۔

اس کا تیسرا بیٹا فلپ، کوہ حرمون سے دریائے یر موک تک کے علاقے کا مالک ہوا اور یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بھی بڑھ کر رومی و یونانی تہذیب میں غرق تھا۔ اس کے علاقے میں کسی کلمہ خیر کے پننپے کی اتنی گنجائش بھی نہ تھی جتنی فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تھی۔

سن ۴۱ ء میں ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود  اَگرِپا کو رومیوں نے ان تمام علاقوں کا فرمانروا بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔ اس شخص نے بر سر اقتدار آنے کے بعد مسیح علیہ السلام کے پیرووں پر مظالم کی انتہا کر دی اور اپنا پورا زور خدا ترسی و اصلاح اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی رہنمائی میں چل رہی تھی۔

اس دور میں عام یہودیوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی جو حالت تھی اس کا صحیح اندازہ کر نے کے لیے اُن تنقیدوں کا مطالعہ کر نا چاہیے جو مسیح علیہ السلام نے اپنے خطبوں میں ان پر کی ہیں۔ یہ سب خطبے انا جیل اربعہ میں موجود ہیں۔ پھر اس کا اندازہ کر نے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ اس قوم کی آنکھوں کے سامنے یحییٰ علیہ السلام جیسے پاکیزہ انسان کا سر قلم کیا گیا مگر ایک آواز بھی اس ظلم عظیم کے خلاف نہ اُٹھی۔ اور پوری قوم کے مذہبی پیشواؤں نے مسیح علیہ السلام کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا مگر تھوڑے سے راستباز انسانوں کے سوا کوئی نہ تھا جو اس بد بختی پر ماتم کرتا۔ حد یہ ہے کہ جب پونتس پیلاطس نے ان شامت زدہ لوگوں سے پوچھا کہ آج تمہاری عید کا دن ہے اور قاعدے کے مطابق میں سزائے موت کے مستحق مجرموں میں سے ایک کو چھوڑ دینے کا مجاز ہوں، بتاؤ یسوع کو چھوڑوں یا برابّا ڈاکو کو؟ تو ان کے پورے مجمع نے بیک آواز ہو کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت تھی جو اس قوم پر قائم کی گئی۔

اس پر تھوڑا زمانہ ہی گزرا تھا کہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہو گئی اور ۶۴ ء اور ۶۶ ء کے درمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کر دی۔ ہیرود اگرِپا ثانی اور رومی پروکیوریٹر فلورس، دونوں اس بغاوت کو فرد کرنے میں ناکام ہوئے۔ آخر کار رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کاروائی سے اس بغاوت کو کچل ڈالا اور ۷۰ ء میں ٹیٹئس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا۔ اس موقع پر قتلِ عام میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار آدمی مارے گئے، ۶۷ ہزار آدمی گرفتار کر کے غلام بنائے گئے ہزار ہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے، ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تا کہ ایمفی تھیڑوں اور کلوسمیوں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختہ مشق بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں، اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوندِ  خاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار ایسا مٹا کہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا، اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہو سکا۔ بعد میں قیصر ہیڈ ریان نے اس شہر کر دوبارہ آباد کیا، مگر اب اس کا نام ایلیا تھا اور اس میں مدتہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔

یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فسادِ عظیم کی پاداش میں ملی۔

۱۰- اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں، مگر چونکہ اُن کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرما دیا گیا تا کہ اُن اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی۔

۱۱- مدعا یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم اس قرآن کی تنبیہ و فہمائش سے راہ راست پر نہ آئے، اسے پھر اُس سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی ہے۔

 

ترجمہ

 

انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ ۱۲ دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نُور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے ربّ کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو۔ اِسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیَّز کر کے رکھا ہے۔ ۱۳ہر انسان کا شگون ہم نے اُس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے، ۱۴ اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھُلی کتاب کی طرح پائے گا۔۔۔۔پڑھ اپنا نامۂ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے۔ جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گُمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔ ۱۵ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دُوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔۱۶ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے ) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں۔۱۷جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔۱۸دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں ہیں جو نُوحؑ کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں۔ تیرا ربّ اپنے بندوں کے گناہوں سے پُوری طرح باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ جو کوئی عاجلہ ۱۹ کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسُوم میں جہنّم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محرُوم ہو کر۔۲۰اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔۲۱اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دُنیا میں) سامانِ زیست دیے جا رہے ہیں، یہ تیرے ربّ کا عطیہ ہے، اور تیرے ربّ کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ۲۲مگر دیکھ لو، دُنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دُوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میں اُس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہو گی۔۲۳تُو اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا معبود نہ بنا ۲۴ ورنہ ملامت زدہ اور بے یار و مددگار بیٹھا رہ جائے گا۔ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۲- یہ جواب ہے کفار مکہ کی اُن احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ بس لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معاً یہ فقرہ ارشاد فرمانے کی غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے ؟

اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آ کر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جو آگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے۔، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بر وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اُس وقت اُس کی دعا قبول کر لی جاتی تو وہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی۔

۱۳- مطلب یہ ہے کہ اختلافات سے گھبرا کر یکسانی و یک رنگی کے لیے بے چین نہ ہو۔ اس دنیا کا تو سارا کار خانہ ہی اختلاف اور امتیاز اور تنوع کی بدولت چل رہا ہے۔ مثال کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں ترین نشانیاں یہ رات اور دن ہیں جو روز تم پر طاری ہوتے رہتے ہیں۔ دیکھوں کہ ان کے اختلافات میں کتنی عظیم الشان مصلحتیں موجود ہیں۔ اگر تم پر دائماً ایک ہی حالت طاری رہتی تو کیا یہ ہنگامہ وجود چل سکتا تھا؟ پس جس طرح تم دیکھ رہے ہو کہ عالم طبیعیات میں فرق و اختلاف اور امتیاز کے ساتھ بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں، اسی طرح انسانی مزاجوں اور خیالات اور رجحانات میں بھی جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ بڑی مصلحتوں کا حامل ہے۔ خیر اس میں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اس کو مٹا کر سب انسانوں کو جبراً نیک اور مومن بنا دے، یا کافروں اور فاسقوں کو ہلاک کر کے دنیا میں صرف اہل ایما ن و طاعت ہی کو باقی رکھا کرے۔ اس کی خواہش کر نا تو اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خواہش کرنا کہ صرف دن ہی دن رہا کرے، رات کی تاریکی سرے سے کبھی طاری ہی نہ ہو۔ البتہ خیر جس چیز میں ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہدایت کی روشنی جن لوگوں کے پاس ہے وہ اسے لے کر ضلالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہیں، اور جب رات کی طرح کوئی تاریکی کا دور آئے تو وہ سورج کی طرح اُس کا پیچھا کریں، یہاں تک کہ روزِ روشن نمودار ہو جائے۔

۱۴- یعنی ہر انسان کی نیک بختی و بد بختی، اور اس کے انجام کی بھلائی اور برائی کے اسباب و وجوہ خود اس کی اپنی ذات ہی میں موجود ہیں۔ اپنے اوصاف، اپنی سیرت و کردار، اور اپنی قوتِ تمیز اور قوت فیصلہ و انتخاب کے استعمال سے وہ خود ہی اپنے آپ کو سعادت کا مستحق بھی بناتا ہے اور شقاوت کا مستحق بھی۔ نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پروانہ خیر و شر اُن کے اپنے گلے کا ہار ہے۔ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جس چیز نے ان کو بگاڑ اور تباہی کے راستے پر ڈالا اور آخر کار خائب و خاسر بنا کر چھوڑا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف اور برے فیصلے تھے، نہ یہ کہ باہر سے آ کر کوئی چیز زبردستی ان پر مسلط ہو گئی تھی۔

۱۵- یعنی راہ راست اختیار کر کے کوئی شخص خدا پر، یا رسول پر، یا اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے۔ اور اسی طرح گمراہی اختیار کر کے یا اس پر اصرار کر کے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ خدا اور رسول اور داعیانِ حق انسان کو غلط راستوں سے بچانے اور صحیح راہ دکھانے کی جو کوشش کرتے ہیں وہ اپنی کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی خیر خواہی کے لیے کرتے ہیں۔ ایک عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ جب دلیل سے اس کے سامنے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیا جائے تو وہ تعصبات اور مفاد پرستیوں کو چھوڑ کر سیدھی طرح باطل سے باز آ جائے اور حق اختیار کر لے۔ تعصب یا مفاد پرستی سے کام لے گا تو وہ اپنا آپ ہی بدخواہ ہو گا۔

۱۶- یہ ایک نہایت اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ ذہن نشین کرنے کے کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اسے سمجھے بغیر انسان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہو سکتا۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے اور اپنی شخصی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ دنیا میں خواہ کتنے ہی آدمی، کتنی ہی قومیں اور کتنی ہی نسلیں اور پشتیں ایک کام یا ایک طریق عمل میں شریک ہوں، بہر حال خدا کی آخری عدالت میں اُس مشرک عمل کا تجزیہ کر کے ایک ایک انسان کی ذاتی ذمہ داری الگ مشخص کر لی جائے گی اور اس کو جو کچھ بھی جزا یا سزا ملے گی، اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہو گا۔اس انصاف کی میزان میں نہ یہ ممکن ہو گا کہ دوسروں کے کیے کا وبال اس پر ڈال دیا جائے، اور نہ یہی ممکن ہو گا کہ اس کے کرتوتوں کا بارِ گناہ کسی اور پر پڑ جائے۔ اس لیے ایک دانش مند آدمی کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں، بلکہ اسے ہر وقت اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذاتی ذمہ داری کا صحیح احساس ہو تو دوسرے خواہ کچھ کر رہے ہوں، وہ بہر حال اُسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہے گا جس کی جواب دہی خدا کے حضور وہ کامیابی کے ساتھ کر سکتا ہو۔

۱۷- یہ ایک اور اصولی حقیقت ہے جسے قرآن بار بار مختلف طریقوں سے انسان کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ عدالت میں پیغمبر ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پیغمبر اور اس کا لایا ہوا پیغام ہی بندوں پر خدا کی حجت ہے۔ یہ حجت قائم نہ ہوں تو بندوں کو عذاب دینا خلافِ انصاف ہو گا، کیونکہ اس صورت میں وہ یہ عذر پیش کر سکیں گے کہ ہمیں آگاہ کیا ہی نہ گیا تھا پھر اب ہم پر یہ گرفت کیسی۔ مگر جب یہ حجت قائم ہو جائے تو اس کے بعد انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اُن لوگوں کو سزا دی جائے جنہوں نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغام سے منہ موڑا ہو، یا اسے پا کر پھر اس سے انحراف کیا ہو۔ بے وقوف لوگ اس طرح کی آیات پڑھ کر اس سوال پر غور کرنے لگتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس کسی نبی کا پیغام نہیں پہنچا ان کی پوزیشن کیا ہو گی۔ حالانکہ ایک عقلمند آدمی کو غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ تیرے پاس تو پیغام پہنچ چکا ہے۔ اب تیری اپنی پوزیشن کیا ہے۔ رہے دوسرے لوگ، تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے پاس، کب، کس طرح اور کس حد تک اس کا پیغام پہنچا اور اس نے اس کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کیا اور کیوں کیا۔ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کس پر اللہ کی حجت پوری ہوئی ہے اور کس پر نہیں ہوئی۔

۱۸- اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے معترفین فاسق ہو جاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔

دراصل جس حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے، خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحبِ اقتدار لوگ فسق و فجور پر اُتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بد کاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بد اخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔

۱۹- عاجلہ کے لغوی معنی ہیں جلدی ملنے والی چیز۔ اور اصطلاحاً قرآن مجید اس لفظ کو دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے جس کے فائدے اور نتائج اسی زندگی میں حاصل ہو جا تے ہیں۔ اس کے مقابلے کی اصطلاح ’’آخرت‘‘ ہے جس کے فوائد اور نتائج کو موت کے بعد دوسری زندگی تک موخر کر دیا گیا ہے۔

۲۰- مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا، یا آخرت تک صبر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی کوششوں کا مقصود صرف دنیا اور اس کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو بناتا ہے، اسے جو کچھ بھی ملے گا بس دنیا میں مل جائے گا۔ آخرت میں وہ کچھ نہیں پا سکتا۔ اور بات صرف یہیں تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی خوشحالی آخرت میں نصیب نہ ہو گی، بلکہ مزید برآں دنیا پرستی، اور آخرت کی جوابدہی و ذمہ داری سے بے پرواہی اس کے طرز عمل کو بنیادی طور پر ایسا غلط کر کے رکھ دے گی کہ آخرت میں وہ اُلٹا جہنم کا مستحق ہو گا۔

۲۱- یعنی اس کے کام کی قدر کی جائے گی اور جتنی اور جیسی کوشش بھی اس نے آخرت کی کامیابی کے لیے کی ہو گی اس کا پھل وہ ضرور پائے گا۔

۲۲- یعنی دنیا میں رزق اور سامان زندگی دنیا پرستوں کو بھی مل رہا ہے اور آخرت کے طلب گاروں کو بھی عطیہ اللہ ہی کا ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔ نہ دنیا پرستوں میں یہ طاقت ہے کہ آخرت کے طلب گاروں کو رزق سے محروم کر دیں، اور نہ آخرت کے طلب گار ہی یہ قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا پرستوں تک اللہ کی نعمت نہ پہنچنے دیں۔

۲۳- یعنی دنیا ہی میں یہ فرق نمایاں ہو جاتا ہے کہ آخرت کے طلبگار دنیا پرست لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ یہ فضیلت اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ان کے کھانے اور لباس اور مکان اور سواریاں اور تمدن و تہذیب کے ٹھاٹھ اُن سے کچھ بڑھ کر ہیں۔ بلکہ اس اعتبار سے ہے کہ یہ جو کچھ بھی پاتے ہیں صداقت، دیانت اور امانت کے ساتھ پاتے ہیں، اور وہ جو کچھ پا رہے ہیں ظلم سے، بے ایمانیوں سے، اور طرح طرح کی حرام خوریوں سے پا رہے ہیں۔ پھر ان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اعتدال کے ساتھ خرچ ہوتا ہے، اس میں سے حق داروں کے حقوق ادا ہوتے ہیں، اس میں سائل اور محروم کا حصہ بھی نکلتا ہے، اور اس میں سے خدا کی خوشنودی کے لیے دوسرے نیک کاموں پر بھی مال صرف کیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس دنیا پرستوں کو جو کچھ ملتا ہے وہ بیش تر عیاشیوں اور حرام کاریوں اور طرح طرح کے فساد انگیز اور فتنہ خیز کاموں میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام حیثیتوں سے آخرت کے طلب گار کی زندگی خدا ترسی اور پاکیزگی اخلاق کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو پیوند لگے ہوئے کپڑوں اور خس کی جھونپڑیوں میں بھی اس قدر درخشاں نظر آتا ہے کہ دنیا پرست کی زندگی اس کے مقابلے میں ہر چشم بینا کو تاریک نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جبار بادشاہوں اور دولت مند امیروں کے لیے بھی ان کے ہم جنس انسانوں کے دلوں میں کوئی سچی عزت اور محبت اور عقیدت کبھی پیدا نہ ہوئی اور اس کے بر عکس فاقہ کش اور بوریا نشین اتقیا کی فضیلت کو خود دنیا پرست لوگ بھی ماننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ کھلی کھلی علامتیں اس حقیقت کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہیں کہ آخرت کی پائدار مستقل کامیابیاں ان دونوں گروہوں میں سے کس کے حصے میں آنے والی ہیں۔

۲۴- دوسرا ترجمہ اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور خدا نہ گھڑ لے، یا کسی اور کو خدا نہ قرار دے لے۔

 

ترجمہ

 

تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے ۲۵ کہ:

(۱) تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی۔۲۶

(۲) والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بُوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھِڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھُک کر رہو، اور دُعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ تمہارا ربّ خُوب جانتا ہے کہ تمہارے دِلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگزر کرنے والا ہے جو اپنے قصُور پر متنبِہّ ہو کر بندگی کے رویّے کی طرف پلٹ آئیں۔۲۷

(۳) رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔

(۴) فضُول خرچی نہ کرو۔

فضُول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے۔

(۵) اگر اُن سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے ) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اُس رحمت کو جس کے تم اُمیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو۔ ۲۸

(۶) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھُلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔۲۹

تیرا ربّ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔ ۳۰ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۲۵- یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کانا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس موقع پر سورہ انعام کے رکوع ۱۹ اور اس کے حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا۔

۲۶- اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ، اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اُس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگِ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عملاً قائم کیا۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے، اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے۔

۲۷- اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کو والدین سے بے نیاز بنانے والا نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے، اور بڑھاپے میں اُسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کر چکے ہیں۔ یہ آیت بھی صرف ایک اخلاقی سفارش نہیں ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر بعد میں والدین کے وہ شرعی حقوق و اختیارات مقرر کیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز اسلامی معاشرے کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آدابِ تہذیب میں والدین کے ادب اور اطاعت اور ان کے حقوق کی نگہداشت کو ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل کی گیا۔ ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعہ سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی نہ کہ اسے کمزور بنانے کی۔

۲۸- ان تین دفعات کا منشا یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے، بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجتمند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے۔ اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون، اور ہر مستظیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرہ میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص اُن سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کر رہا ہے، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تا کہ وہ بندگانِ  خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو۔

منشورِ اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں، بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیے گئے، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے، اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملاً ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہو گئی، حتیٰ کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ما سوا اُن اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جا سکتا ہے نہ دلوایا جا سکتا ہے۔

۲۹- ہاتھ باندھنا استعارہ ہے بخل کے لیے، اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہے فضول خرچی۔ دفعہ ۴ کے ساتھ دفعہ ۶ کے اس فقرے کو ملا کر پڑھنے سے منشاء صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بنکر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ اس کے بر عکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہو۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ، اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہا دیں، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔

یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کر رہی ہیں۔ کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت، اجتماعی دباؤ اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے بے جا صرفِ  مال کی روک تھام کرنی چاہیے۔ چنانچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کے منشا کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا سرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعہ سے اُن بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایا ں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعہ سے روک دے۔ اسی طرح زکوٰۃ و صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیے گئے کہ لوگ زر اندوزی کر کے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا۔ اعتدال پسندوں کو معزز بنایا۔ فضول خر چوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گِل سرِ سَبَد قرار دیا۔ اس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زر اندوزوں کو بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہے۔

۳۰- یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا، لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہیے۔ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا، یا اس نا مساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا، دونوں ہی یکساں غلط ہیں۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے طریقِ  تقسیم رزق سے قریب تر ہو۔

اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پا سکا کہ رزق اور وسائلِ  رزق میں تفاوت اور تفاضُل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو۔ اس کے بر عکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر بر قرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ا اُن بے شمار اخلاقی، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالقِ کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے۔

 

ترجمہ

 

(۷) اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔ ۳۱(۸) زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے۔ ۳۲

(۹) قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے ۳۳ مگر حق کے ساتھ۔۳۴ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، ۳۵ پس چاہیے کے وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، ۳۶ اُس کی مدد کی جائے گی ۳۷۔

(۱۰) مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔ ۳۸

(۱۱) عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہو گی۔۳۹

(۱۲) پیمانے سے دو تو پُورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔۴۰ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظِ انجام بھی یہی بہتر ہے۔ ۴۱

(۱۳) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے ۴۲۔

(۱۴) زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔۴۳

یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے ربّ نے تجھ پر وحی کی ہیں۔

اور دیکھ! اللہ کے ساتھ کو ئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تُو جہنّم میں ڈال دیا جائے گا ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہو کر ۴۵۔۔۔۔کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے ربّ نے تمہیں تو بیٹوں سے نوازا اور خود اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں بنا لیا؟۴۶ بڑی جھوٹی بات ہے جو تم لوگ زبانوں سے نکالتے ہو۔ ؏ ۴

 

تفسیر

 

۳۱- یہ آیت اُن معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبطِ ولادت کی تحریک اُٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتلِ اطفال اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوا کرتا تھا، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر اُن تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائشِ  نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے، اُتنے ہی، بلکہ بار ہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔

۳۲- ’’زنا کے قریب نہ پھٹکو‘‘، اس کے حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں، اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی۔ افراد کے لیے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے اُن ابتدائی محرکات سے بھی دور رہیں جو اس راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔ رہا معاشرہ، تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا، اور محرکاتِ زنا، اور اسبابِ زنا کا سدِ باب کرے، اور اس غرض کے لیے قانون سے، تعلیم و تربیت سے، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے، اور دوسری تمام موثر تدابیر سے کام لے۔

یہ دفعہ آخر کار اسلامی نظامِ  زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی۔ اس کے منشا کے مطابق زنا اور تہمتِ زنا کو فوجداری جرم قرار دیا گیا، پردے کے احکام جاری کیے گئے، فواحش کی اشاعت کو سختی کے ساتھ روک دیا گیا، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر (جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں) بندشیں لگائی گئیں، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہو گیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی۔

۳۳- قتلِ نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ نفس،جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتلِ انسان ہے، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک، اور اپنی اس ملکیت کو با ختیارِ خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہمارا امتحان لے، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے، خواہ حالاتِ امتحان اچھے ہوں یا بُرے۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصداً ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرمِ عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔

۳۴- بعد میں اسلامی قانون نے قتل با لحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتلِ عمد کے مجرم سے قصاص دوسرے دینِ حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ۔ تیسرے اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔

۳۵- اصل الفاظ ہیں ’’اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے ‘‘۔ سلطان سے مراد یہاں ’’حجت ‘‘ ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خوں بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں۔

۳۶- قتل میں حد سے گزر نے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی نعش پر غصہ نکالنا، یا خون بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔

۳۷- چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کو ن کرے گا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظامِ  عدالت کا کام ہے۔ کوئی شخص یا گروہ بطورِ خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے۔

۳۸- یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہ تھی بلکہ آگے چل کر جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو یتامیٰ کے حقو ق کی حفاظت کے لیے انتظامی اور قانونی، دونوں کی طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کی تفصیل ہم کو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ اسلامی ریاست اپنے اُن تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اشاد اَنَاوَ لی مَنْ لَّا وَلی لَہُ ( میں ہر اس شخص کا سرپرست ہوں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو) اسی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے۔

۳۹- یہ بھی صرف انفرادی اخلاقیات ہی کی ایک دفعہ نہ تھی بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو پوری قوم کی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگِ بنیاد ٹھیرا یا گیا۔

۴۰- یہ ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی، بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کر دے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سد باب کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔

۴۱- یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس کا انجام اس لیے بہتر ہے کہ اس سے باہمی اعتماد قائم ہوتا ہے، بائع اور خریداری دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، اور یہ چیز انجام کار تجارت کے فروغ اور عام خوشحالی کی موجب ثابت ہوتی ہے۔ رہی آخرت، تو وہاں انجام کی بھلائی کا سارا دارومدار ہی ایمان اور خدا ترسی پر ہے۔

۴۲- اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے ’’علم‘‘ کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشا کی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں، قانون میں، سیاست اور انتظامِ  ملکی میں، علوم و فنون اور نظامِ تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور اُن بے شمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کر دیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بد گمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کر دیا گیا کہ محض شبہے پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی نا جائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی اُن نام نہاد علوم کو نا پسند کیا گیا جو محض ظنو تخمین اور لاطائل قیاست پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اُس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔

۴۳- مطلب یہ ہے کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے دونوں پر یکساں حاوی ہے۔ اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی ا اس کے فرماں رواؤں، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ عین حالتِ جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی۔ ان کی نشست و برخاست، چال ڈھال، لباس، مکان، سواری اور عام برتاؤ میں انکسار و تواضع، بلکہ فقیری و درویشی کی شان پائی جاتی تھی، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور تبَحر سے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے۔

اِن امور میں سے ہر ایک کا بُرا پہلو تیرے ربّ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ ۴۴

۴۴- یعنی ان میں سے جو چیز بھی ممنوع ہے اس کا ارتکاب اللہ کو نا پسند ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں، جس حکم کی بھی نافرمانی کی جائے وہ ناپسندیدہ ہے۔

۴۵- بظاہر تو خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے جو بات فرمایا کرتا ہے اس کا اصل مخاطب ہر انسان ہوا کرتا ہے۔

۴۶- تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نحل آیات ۵۷ تا ۵۹ مع حواشی۔

 

ترجمہ

 

ہم نے اِس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ ہوش میں آئیں، مگر وہ حق سے اور زیادہ دُور بھاگے جا رہے ہیں اے محمد ؐ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔ ۴۷ پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔اُس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔۴۸ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ۴۹، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بُرد بار اور درگزر کرنے والا ہے۔ ۵۰جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں،اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔۵۱ اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی ربّ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔۵۲ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سُنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جا رہے ہو ۵۳دیکھو، کیسی باتیں ہیں جو یہ لوگ تم پر چھانٹتے ہیں۔ یہ بھٹک گئے ہیں۔ اِنہیں راستہ نہیں ملتا۔۵۴وہ کہتے ہیں ’’ جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اُٹھائے جائیں گے ؟‘‘۔۔۔۔اِن سے کہو ’’تم پتھر یا لوہا بھی ہو جاؤ، یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز جو تمہارے ذہن میں قبولِ حیات سے بعید تر ہو‘‘ (پھر بھی تم اُٹھ کر رہو گے )۔ وہ ضرور پوچھیں گے ’’ کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟ ‘‘ جواب میں کہو ’’وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا۔‘‘ وہ سر ہِلا ہِلا کر پوچھیں ۵۵ گے ’’اچھا، تو یہ ہو گا کب؟‘‘ تم کہو ’’ کیا عجب، وہ وقت قریب ہی آ لگا ہو۔جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آؤ گے اور تمہارا گمان اُس وقت یہ ہو گا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اِس حالت میں پڑے رہے ہیں۔۵۶‘‘ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۴۷- یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدا ئی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ، ہر معاملے میں،ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ نا گزیر تھا کہ اُن کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فوراً ہی خداوند عالم بن جانے کی فکر شروع کر دیتا۔

جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اُس وقت تک پید ا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان ساری قوتیں مل کر اُس کے لیے کام نہ کریں، اُس کے متعلق صرف ایک انتہا درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ قصور کر سکتا ہے کہ اُس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہوں گے۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے۔

۴۸- یعنی ساری کائنات اور اس کی ہر شے اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جو اس کی پروردگاری و نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے منزہ ہے، اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔

۴۹- حمد کے ساتھ تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شے نہ صرف یہ کہ اپنے خالق اور رب کا عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہونا ظاہر کر رہی ہے، بلکہ اس کے ساتھ وہ اُس کا تمام کمالات سے متصف اور تمام تعریفوں کا مستحق ہونا بھی بیان کرتی ہے۔ ایک ایک چیز اپنے پورے وجود سے یہ بتا رہی ہے کہ اس کا صانع اور منتظم وہ ہے جس پر سارے کمالات ختم ہو گئے ہیں اور حمد اگر ہے تو بس اسی کے لیے ہے۔

۵۰- یعنی اس کا حلم اور اس کی شان غفاری ہے کہ تم اس کی جناب میں گستاخیوں پر گستاخیاں کیے جاتے ہو، اور اُس پر طرح طرح کے بہتان تراشتے ہو اور پھر بھی وہ درگزر کیے چلا جاتا ہے۔ نہ رزق بند کرتا ہے، نہ اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے، اور نہ ہر گستاخ پر فوراً بجلی گرا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی اس کی بردباری اور اس کے درگزر ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ وہ افراد کو بھی اور قوموں کو بھی سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، انبیاء اور مصلحین اور مبلغین کو اُن کی فہمائش اور رہنمائی کے لیے بار بار اٹھا تا رہتا ہے، اور جو بھی اپنی غلطی کو محسوس کر کے سیدھا راستہ اختیار کر لے اس کی پچھلی غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔

۵۱- یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کے دل پر قفل چڑھ جائیں اور اس کے کان اُس دعوت کے لیے بند ہو جائیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تو دعوت ہی اس بنیاد پر ہے کہ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ یہاں اگر کوئی حساب لینے والا جواب طلب کرنے والا نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھو کہ تم کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہو ہی نہیں۔ یہاں اگر شرک، دہریت، کفر، توحید، سب ہی نظریے آزادی سے اختیار کیے جا سکتے ہیں، اور دنیوی لحاظ سے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا، تو یہ نہ سمجھو کہ ان کے کوئی الگ الگ مستقل نتائج ہیں ہی نہیں۔ یہاں اگر فسق و فجور اور اطاعت و تقویٰ، ہر قسم کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور عملاً ان میں سے کسی رویے کا کوئی ایک لازمی نتیجہ رونما نہیں ہوتا تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی اٹل اخلاقی قانون سرے سے ہے ہی نہیں۔ دراصل حساب طلبی و جواب دہی سب کچھ ہے، مگر وہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہو گی۔ توحید کا نظریہ برحق اور باقی سب نظریات باطل ہیں، مگر ان کے اصلی اور قطعی نتائج حیات بعد الموت میں ظاہر ہوں گے اور وہیں وہ حقیقت بے نقاب ہو گی جو اس پردہ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ ایک اٹل اخلاقی قانون ضرور ہے جس کے لحاظ سے فسق نقصان رساں اور طاعت فائدہ بخش ہے، مگر اس قانون کے مطابق آخری اور قطعی فیصلے بھی بعد کی زندگی ہی میں ہوں گے۔ لہٰذا تم دنیا کی اس عارضی زندگی پر فریفتہ نہ ہو اور اس کے مشکوک نتائج پر اعتماد نہ کرو، بلکہ اُس جواب دہی پر نگاہ رکھو جو تمہیں آخر کار اپنے خدا کے سامنے کرنی ہو گی، اور وہ صحیح اعتقادی اور اخلاقی رویہ اختیار کرو جو تمہیں آخرت کے امتحان میں کامیاب کرے۔۔۔۔۔۔ یہ ہے قرآن کی دعوت۔ اب یہ بالکل ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو شخص سرے سے آخرت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کا سارا اعتماد اسی دنیا کے مظاہر اور محسوسات و تجربات پر ہے، وہ کبھی قرآن کی اس دعوت کو قابلِ  التفات نہیں سمجھ سکتا۔ اُس کے پردہ گوش سے تو یہ آواز ٹکرا ٹکرا کر ہمیشہ اچٹتی ہی رہے گی، کبھی دل تک پہنچنے کی راہ نہ پائے گی۔ اسی نفسیاتی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو آخرت کو نہیں مانتا، ہم اس کے دل اور اس کے کان قرآن کی دعوت کے لیے بند کر دیتے ہیں۔ یعنی یہ ہمارا قانونِ فطرت ہے جو اُس پر یوں نافذ ہوتا ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ کفار مکہ کا اپنا قول تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر اُلٹ دیا ہے۔ سورہ حٰم سجدہ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَقَالُوْ ا قُلُوْبُنَا فی اَکِنَّةٍ مِّمَّا تَدْ عُوْنَا اِلَیْہِ وَفی ْاٰذَانِنَا وَقْرٌوَّ مِنْۢ بَینِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ (آیت ۵) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ’’اے محمد، تو جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہو گیا ہے۔ پس تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جا رہے ہیں‘‘۔ یہاں ان کے اس قول کو دہرا کر اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ یہ کیفیت جسے تم اپنی خوبی سمجھ کر بیان کر رہے ہو، وہ تو دراصل ایک پھٹکار ہے جو تمہارے انکار آخرت کی بدولت ٹھیک قانونِ فطرت کے مطابق تم پر پڑی ہے۔

۵۲- یعنی انہیں یہ بات سخت نا گوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو رب قرار دیتے ہو، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اُن کو یہ وہابّیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر۔ نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف۔ نہ اُن شخصیتوں کی خدمت میں کوئی اخراج تحسین جن پر، ان کے خیال میں، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علم غیب ہے تو اللہ کو، قدرت ہے تو اللہ کی، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے، بیماریوں کو شفا نصیب ہوتی ہے، کاروبار چمکتے ہیں، اور منہ مانگی مرادیں بر آتی ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزمر، آیت ۴۵، حاشیہ ۴۶)

۵۳- یہ اشارہ ہے اُن باتوں کی طرف جو کفارِ  مکہ کے سردار آپس میں کیا کرتے تھے۔ اُن کا حال یہ تھا کہ چھُپ چھپ کر قرآن سنتے اور پھر آپس میں مشورے کرتے تھے کہ اس کا توڑ کیا ہونا چاہییے۔ بسا اوقات انہیں اپنے ہی آدمیوں میں سے کسی پر یہ شبہہ بھی ہو جاتا تھا کہ شاید یہ شخص قرآن سن کر کچھ متاثر ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ سب مل کر اس کو سمجھاتے تھے کہ اجی، یہ کس کے پھیر میں آرہے ہو، یہ شخص تو سحر زدہ ہے، یعنی کسی دشمن نے اس پر جادو کر دیا ہے اس لیے بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔

۵۴- یعنی یہ تمہارے متعلق کوئی ایک رائے ظاہر نہیں کرتے بلکہ مختلف اوقات میں بالکل مختلف اور متضاد باتیں کہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں تم خود جادو گر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم پر کسی اور نے جادو کر دیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں تم شاعر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم مجنون ہو۔ ان کی یہ متضاد باتیں خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ حقیقت ان کو معلوم نہیں ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ آئے دن ایک نئی بات چھانٹنے کے بجائے کوئی ایک ہی قطعی رائے ظاہر کرتے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے کسی قول پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ایک الزام رکھتے ہیں۔ پھر آپ ہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ چسپاں نہیں ہوتا۔ اس کے بعد دوسرا الزام لگاتے ہیں۔ اور اسے بھی لگتا ہوا نہ پا کر ایک تیسرا الزام تصنیف کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا ہر نیا الزام ان کے پہلے الزام کی تردید کر دیتا ہے، اور اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ صداقت سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے، محض عداوت کی بنا پر ایک سے ایک بڑھ کر جھوٹ گھڑ ے جا رہے ہیں۔

۵۵- انغاض کے معنی ہیں سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف ہلانا، جس طرح اظہار تعجب کے لیے، یا مذاق اڑانے کے لیے آدمی کرتا ہے۔

۵۶- یعنی دنیا میں مرنے کے وقت سے لے کر قیامت میں اُٹھنے کے وقت تک کی مدت تم کو چند گھنٹوں سے زیادہ محسوس نہ ہو گی۔ تم اس وقت یہ سمجھو گے کہ ہم ذرا دیر سوئے پڑے تھے کہ یکایک اس شور محشر نے ہمیں جگا اُٹھایا۔

اور یہ جو فرمایا کہ تم اللہ کی حمد کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو گے، تو یہ ایک بڑی حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن اور کافر، ہر ایک کی زبان پر اس وقت اللہ کی حمد ہو گی۔ مومن کی زبان پر اس لیے کہ پہلی زندگی میں اس کا اعتقاد یقین اور اس کا وظیفہ یہی تھا۔ اور کافر کی زبان پر اس لیے کہ اس کی فطرت میں یہی چیز ودیعت تھی، مگر اپنی حماقت سے وہ اس پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔ اب نئے سرے سے زندگی پاتے وقت سارے مصنوعی حجابات ہٹ جائیں گے اور اصل فطرت کی شہادت بلا ارادہ اس کی زبان پر جاری ہو جائے گی۔

 

ترجمہ

 

اور اے محمد ؐ، میرے بندوں ۵۷ سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔۵۸ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھُلا دشمن ہے۔ ۵۹ تمہارا ربّ تمہارے حال سے زیادہ واقف ہے، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے۔ ۶۰ اور اے نبی ؐ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ ۶۱تیرا ربّ زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے ۶۲، اور ہم نے ہی داؤد ؑ کو زَبور دی تھی۔۶۳اِن سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں۔۶۴جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اُس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اُس کی رحمت کے اُمیدوار اور اُس کے عذاب سے خائف ہیں۔۶۵ حقیقت یہ ہے کہ تیرے ربّ کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب نہ دیں۔۶۶ یہ نوشتۂ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ اور ہم کو نشانیاں ۶۷ بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ اِن سے پہلے کے لوگ اُن کو جھُٹلا چکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے علانیہ اُونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اُس پر ظلم کیا۔۶۸ ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔۶۹یاد کرو اے محمد ؐ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے ربّ نے اِن لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ ۷۰ اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے ۷۱، اِس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ۷۲، ہم نے اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا۔۷۳ ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سرکشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے۔ ؏ ۶

 

تفسیر

 

۵۷- یعنی اہل ایمان سے۔

۵۸- یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخالفین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہر حال نہ تو کوئی بات خلافِ  حق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔

۵۹- یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے، تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تا کہ دعوت دین کا کام خراب ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کی مشغول رکھنا چاہتا ہے۔

۶۰- یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے۔ اسی کو یہ فیصلہ کر نا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا اور فلاں شخص بخشا جائے گا۔

غالباً یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آ کر مسلمان کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے، یا تم کو خدا عذاب دے گا۔

۶۱- یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کے حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس قسم کی کوئی غلطی سر زد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ ان کو بتا یا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو۔

۶۲- اس فقرے کہ اصل مخاطب کفار مکہ ہیں، اگر چہ بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتا ہے، آنحضرت ؐ کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کو آپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک معمولی انسان سمجھتے تھے، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس اُن پر ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعویٰ سُن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالی ٰ نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کر چکے ہیں۔

۶۳- یہاں خاص طور پر داؤد علیہ السلام کی زبور دیے جانے کا ذکر غالباً اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری و خدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے، کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چل پھر کر خرید و فروخت کرتے تھے، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہے۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلق پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں۔ وہ کہاں اور گھر کے آٹے دال کی فکر کہاں! اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہو گی۔ مگر اس کے با وجود داؤد کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا۔

۶۴- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا ہی شرک نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا کسی دوسری ہستی سے دعا مانگنا، یا اس کو مدد کے لیے پکارنا بھی شرک ہے۔ دعا اور استمدادو استعانت، اپنی حقیقت کے اعتبار سے عبادت ہی ہیں اور غیر اللہ سے مناجات کرنے والا ویسا ہی مجرم ہے جیسا ایک بت پرست مجرم ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کچھ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔نہ کوئی دوسرا کسی مصیبت کو ٹال سکتا ہے نہ کسی بُری حالت کو اچھی حالت سے بدل سکتا ہے۔ اس طرح کا اعتقاد خدا کے سوا جس ہستی کے بارے میں بھی رکھا جائے، بہر حال ایک مشرکانہ اعتقاد ہے۔

۶۵- یہ الفاظ خود گواہی دے رہے ہیں کہ مشرکین کے جن معبودوں اور فریاد رسوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ان سے مراد پتھر کے بت نہیں ہیں، بلکہ یا تو فرشتے ہیں یا گزرے ہوئے زمانے کے برگزیدہ انسان۔ مطلب صاف صاف یہ ہے کہ انبیاء ہوں یا اولیاء یا فرشتے، کسی کی بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ تمہاری دعائیں سنے اور تمہاری مدد کو پہنچے۔ تم حاجت روائی کے لیے اُن کو وسیلہ بنا رہے ہو، اور اُن کا حال یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں، اور اس کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کرنے کے وسائل ڈھونڈ رہے ہیں۔

۶۶- یعنی بقائے دوام کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ ہر بستی کو یا تو طبعی موت مرنا ہے، یا خدا کے عذاب سے ہلاک ہونا ہے۔ تم کہاں اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ ہماری یہ بستیاں ہمیشہ کھڑی رہیں گی؟

۶۷- یعنی محسوس معجزات جو دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیے جائیں، جن کا مطالبہ کفار قریش بار بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کرتے تھے۔

۶۸- مدعا یہ ہے کہ ایسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اُس کی تکذیب کرتے ہیں،تو پھر لا محالہ ان پر نزولِ  عذاب واجب ہو جا تا ہے، اور پھر ایسی قوم کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ پچھلی تا ریخ اس بات کی شاہد ہے کہ متعدد قوموں نے صریح معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی اُن کو جھٹلایا اور پھر تباہ کر دی گئیں۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمہیں سمجھنے اور سنبھلنے کے یے مہلت دے رہا ہے۔ مگر تم ایسے بیوقوف لوگ ہو کہ معجزے کا مطالبہ کر کر کے ثمود کے سے انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو۔

۶۹- یعنی معجزے دکھانے سے مقصود تماشا دکھانا تو کبھی نہیں رہا ہے۔ اس سے مقصود تو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبر دار ہو جائیں، انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی کی پشت پر قادرِ مطلق کی بے پناہ طاقت ہے، اور وہ جان لیں کہ اس کی نا فرمانی کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔

۷۰- یعنی تمہاری دعوت پیغمبرانہ کے ابتدائی دور میں ہی، جبکہ قریش کے ان کافروں نے تمہاری مخالفت و مزاحمت شروع کی تھی، ہم نے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے، یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیں، یہ کسی طرح تیری دعوت کا راستہ نہ روک سکیں گے، اور یہ کام جو تو نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے، ان کی ہر مزاحمت کے باوجود ہو کر رہے گا۔ اب اگر ان لوگوں کو معجزہ دیکھ کر ہی خبردار ہونا ہے، تو انہیں یہ معجزہ دکھایا جا چکا ہے کہ جو کچھ ابتدا میں کہہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہا، ان کی کوئی مخالفت بھی دعوتِ اسلامی کو پھیلنے سے نہ روک سکی، اور یہ تیرا بال تک بیکا نہ کر سکے۔ ان کے پاس آنکھیں ہوں تو یہ اس امر واقعہ کو دیکھ کر خود سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کی اس دعوت کے پیچھے اللہ کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔

یہ بات کہ اللہ نے مخالفین کو گھیرے میں لے رکھا ہے، اور نبی کی دعوت اللہ کی حفاظت میں ہے، مکے کے ابتدائی دور کی سورتوں میں متعدد جگہ ارشاد ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ بروج میں فرمایا: بَلِ الَّذینَ کَفَرُوْ ا فی تَکْذیبٍ وَّاللہُ مِنْ وَّرَآ ءھِمْ مُّحیطٌ (مگر یہ کافر جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں، اور اللہ نے ان کو ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے )۔

۷۱- اشارہ ہے معراج کی طرف۔ اس کے لیے یہاں لفظ ’’رؤیا‘‘ جو استعمال ہوا ہے یہ ’’خواب‘‘ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھنے کے معنی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ محض خواب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے خواب ہی کی حیثیت سے کفار کے سامنے بیا ن کیا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان کے لیے فتنہ بن جاتا۔ خواب ایک سے ایک عجیب دیکھا جاتا ہے، اور لوگوں سے بیان بھی کیا جاتا ہے، مگر وہ کسی کے لیے بھی ایسے اچنبھے کی چیز نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی وجہ سے خواب دیکھنے والے کا مذاق اڑائیں اور اس پر جھوٹے دعوے یا جنون کا الزام لگانے لگیں۔

۷۲- یعنی زقوم، جس کے متعلق قرآن میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دوزخ کی تہ میں پیدا ہو گا اور دوزخیوں کو اسے کھانا پڑے گا اس پر لعنت کرنے سے مراد اُس کا اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت کا نشان نہیں ہے کہ جسے اپنی مہربانی کی وجہ سے اللہ نے لوگوں کی غذا کے لیے پیدا فرمایا ہو، بلکہ وہ اللہ کی لعنت کا نشان ہے جسے ملعون لوگوں کے لیے اس نے پیدا کیا ہے تا کہ وہ بھوک سے تڑپ کر اس پر منہ ماریں اور مزید تکلیف اُٹھائیں۔ سورہ دُخان (آیات ۴۳۔ ۴۶) میں اس درخت کی جو تشریح کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دوزخی جب اس کو کھائیں گے تو وہ ان کے پیٹ میں ایسی آگ لگائے گا جیسے ان کے پیٹ میں پانی کھول رہا ہو۔

۷۳- یعنی ہم نے ان کی بھلائی کے لیے تم کو معراج کے مشاہدات کرائے، تاکہ تم جیسے صادق و امین انسان کے ذریعہ سے ان لوگوں کو حقیقت نفس الامری کا علم حاصل ہو اور یہ متنبہ ہو کر راہ راست پر آ جائیں، مگر ان لوگوں نے اُلٹا اُس پر تمہارا مذاق اڑایا ہم نے تمہارے ذریعہ سے ان کو خبر دار کیا کہ یہاں کی حرام خوریاں آخر کار تمہیں زقوم کے نوالے کھلوا کر رہیں گی، مگر انہوں نے اُس پر ایک ٹھٹھا لگا یا اور کہنے لگے، ذرا ا س شخص کو دیکھو، ایک طرف کہتا ہے کہ دوزخ میں بلا کی آگ بھڑک رہی ہو گی، اور دوسری طرف خبر دیتا ہے کہ وہاں درخت اُگیں گے!

 

ترجمہ

 

اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔۷۴ اس نے کہا ’’ کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تُو نے مٹی سے بنایا ہے ؟‘‘ پھر وہ بولا ’’دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تُو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تُو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پُوری نسل کی بیخ کَنی کر ڈالوں ۷۵، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنّم ہی بھرپور جزا ہے۔ تُو جس جس کو اپنی دعوت سے پھِسلا سکتا ہے پھِسلا لے ۷۶، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا،۷۷ مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا،۷۸ اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس ۷۹۔۔۔۔ اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا،۸۰ اور توکّل کے لیے تیرا ربّ کافی ہے۔ ‘‘ ۸۱تمہارا (حقیقی) ربّ تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے ۸۲ تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔۸۳ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دُوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں ۸۴، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا، تو کیا تم اِس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ؟ پھر وہ بولا ’’دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تُو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تُو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پُوری نسل کی بیخ کَنی کر ڈالوں ۷۵، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں، تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنّم ہی بھرپور جزا ہے۔ تُو جس جس کو اپنی دعوت سے پھِسلا سکتا ہے پھِسلا لے ۷۶، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا،۷۷ مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا،۷۸ اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس ۷۹۔۔۔۔ اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا،۸۰ اور توکّل کے لیے تیرا ربّ کافی ہے۔ ‘‘ ۸۱تمہارا (حقیقی) ربّ تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے ۸۲ تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔۸۳ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دُوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گُم ہو جاتے ہیں ۸۴، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا، تو کیا تم اِس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے، یا تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پاؤ؟اور کیا تمہیں اِس کا کوئی اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اُس سے تمہارے اِس انجام کی پُوچھ گچھ کر سکے ؟۔۔۔۔

یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔۸۵ ؏ ۷

 

تفسیر

 

۷۴- تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ آیات ۳۰ تا ۳۹، النساء آیات ۱۱۷- ۱۲۱، الاعراف آیات ۱۱-۲۵، الحجر آیات ۲۶-۴۲، اور ابراہیم آیت ۲۲۔

اس سلسلہ کلام میں یہ قصہ دراصل یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے مقابلے میں ان کافروں کا یہ تمرُّد، اور تنبیہات سے ان کی یہ بے اعتنائی، اور کجروی پر ان کا یہ اصرار ٹھیک ٹھیک اُس شیطان کی پیروی ہے جو ازل سے انسان کا دشمن ہے، اور اس روش کو اختیار کر کے درحقیقت یہ لوگ اُس جال میں پھنس رہے ہیں جس میں اولادِ آدم کو پھانس کر تباہ کر دینے کے لیے شیطان نے آغازِ تاریخ انسانی میں چلینج کیا تھا۔

۷۵- ’’بیخ کنی کر ڈالوں‘‘، یعنی ان کے قدم سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں۔ ’’احتناک‘‘ کے اصل معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں۔ چونکہ انسان کا اصل مقام خلافتِ الٰہی ہے جس کا تقاضا اطاعت میں ثابت قدم رہنا ہے، اس لیے اس مقام سے اُس کا ہٹ جانا بالکل ایسا ہے جیسے کسی درخت کا بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکا جانا۔

۷۶- اصل میں لفظ ’’ استفزاز‘‘ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی استخفاف کے ہیں۔ یعنی کسی کو ہلکا اور کمزور پا کر اسے بہا لے جانا، یا اس کے قدم پھسلا دینا۔

۷۷- اس فقرے میں شیطان کو اس ڈاکو سے تشبیہ دی گئی ہے جو کسی بستی پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لائے اور ان کو اشارہ کرتا جائے کہ ادھر لُوٹو، اُدھر چھاپہ مارو، اور وہاں غارتگری کرو۔ شیطان کے سواروں اور پیادوں سے مراد وہ سب جن اور انسان ہیں جو بے شمار مختلف شکلوں اور حیثیتوں میں ابلیس کے مشن کی خدمت کر رہے ہیں۔

۷۸- یہ ایک بڑا ہی معنی خیز فقرہ ہے جس میں شیطان اور اس کے پیرووں کے باہمی تعلق کی پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ جو شخص مال کمانے اور اس کو خرچ کرنے میں شیطان کے اشاروں پر چلتا ہے، اس کے ساتھ گویا شیطان مفت کا شریک بنا ہوا ہے۔ محنت میں اس کا کوئی حصہ نہیں، جرم اور گناہ اور غلط کار ی کے بُرے نتائج میں وہ حصہ دار نہیں، مگر اس کے اشاروں پر یہ بیوقوف اس طرح چل رہا ہے جیسے اس کے کاروبار میں وہ برابر کا شریک، بلکہ شریک غالب ہے۔ اسی طرح اولاد تو آدمی کی اپنی ہوتی ہے، اور اُسے پالنے پوسنے میں سارے پاپڑ آدمی خود بیلتا ہے، مگر شیطان کے اشاروں پر وہ اس اولاد کو گمراہی اور بد اخلاقی کی تربیت اس طرح دیتا ہے، گویا اس اولاد کا تنہا وہی باپ نہیں ہے بلکہ شیطان بھی باپ ہونے میں اس کا شریک ہے۔

۷۹- یعنی ان کو غلط امیدیں دلا۔ ان کو جھوٹی توقعات کے چکر میں ڈال۔ اُن کو سبز باغ دکھا۔

۸۰- اس کے دو مطلب ہیں، اور دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ میرے بندوں، یعنی انسانوں پر تجھے یہ اقتدار حاصل نہ ہو گا کہ تو انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ تو فقط بہکانے اور پھُسلانے اور غلط مشورے دینے اور جھوٹے وعدے کرنے کا مجاز کیا جاتا ہے۔ مگر تیری بات کو قبول کرنا یا نہ کرنا ان بندوں کا اپنا کام ہو گا۔ تیرا ایسا تسلط اُن پر نہ ہو گا کہ وہ تیری راہ پر جانا چا ہیں یا نہ چاہیں، بہر حال تو ہاتھ پکڑ کر ان کو گھسیٹ لے جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میرے خاص بندوں، یعنی صالحین پر تیرا بس نہ چلے گا۔ کمزور اور ضعیف الارادہ لوگ تو ضرور تیرے وعدوں سے دھوکا کھائیں گے، مگر جو لوگ میری بندگی پر ثابت قدم ہوں، وہ تیرے قابو میں نہ آ سکیں گے۔

۸۱- یعنی جو لوگ اللہ پر اعتماد کریں، اور جن کا بھروسہ اسی کی رہنمائی اور توفیق اور مدد پر ہو، اُن کا بھروسہ ہر گز غلط ثابت نہ ہو گا۔ انہیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہ ہو گی۔ اللہ ان کی ہدایت کے لیے بھی کافی ہو گا اور ان کی دست گیری و اعانت کے لیے بھی۔ البتہ جن کا بھروسہ اپنی طاقت پر ہو، یا اللہ کے سوا کسی اور پر ہو، وہ اس آزمائش سے بخیریت نہ گزر سکیں گے۔

۸۲- اوپر کے سلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابلیس اولِ روزِ آفرینش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تا کہ اس کو آرزوؤں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس کر راہ راست سے ہٹا لے جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا مستحق نہی ہے جو اسے خدا نے عطا کی ہے۔ اس خطرے سے ا گر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل (مدارِ توکل) بنائے۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا۔۔۔۔۔۔اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے۔

۸۳- یعنی ان معاشی اور تمدنی اور علمی و ذہنی فوائد سے متمتع ہونے کی کوشش کرو جو بحری سفروں سے حاصل ہوتے ہیں۔

۸۴- یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے۔ ورنہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اُس وقت تم کو ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا؟

۸۵- یعنی یہ ایک بالکل کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ نوع انسانی کو زمین اور اس کی اشیاء پر یہ اقتدار کسی جن یا فرشتے یا سیارے نے نہیں عطا کیا ہے، نہ کسی ولی یا نبی نے اپنی نوع کو یہ اقتدار دلوایا ہے۔ یقیناً یہ اللہ ہی کی بخشش اور اس کا کرم ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور جہالت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اس مرتبے پر فائز ہو کر اللہ کے بجائے اس کی مخلوق کے آگے جھکے۔

 

ترجمہ

 

پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ اُس وقت جن لوگوں کو ان کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے ۸۶ اور ان پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ اور جو اِس دُنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔اے محمد ؐ، ان لوگوں نے اِس کوشش میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اُس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔۸۷ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست بنا لیتے۔ اور بعید نہ تھا کہ اگر ہم تمہیں مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھُک جاتے، لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دُنیا میں بھی دوہرے عذاب کا مزّہ چکھاتے اور آخرت میں بھی دوہرے عذاب کا، پھر ہمارے مقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔ ۸۸اور یہ لوگ اس بات پر بھی تُلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سرزمین سے اُکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں۔ لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔ ۸۹یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو اُن سب رسُولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا ۹۰ تھا،اور ہمارے طریقِ کار میں تم کوئی تغیّر نہ پاؤ گے۔ ؏ ۸

 

تفسیر

 

۸۶- یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے روز نیک لوگوں کو ان کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اسے دیکھیں گے، بلکہ دوسروں کو بھی دکھائیں گے۔ رہے بد اعمال لوگ، تو ان کا نامہ سیاہ ان کو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ اسے لیتے ہی پیٹھ پیچھے چھپانے کی کوشش کریں گے۔ ملاحظہ ہو سورہ الحاقہ آیت ۱۹-۲۸۔ اور سورہ انشقاق آیت ۷-۱۳

۸۷- یہ اُن حالات کی طر ف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مکے میں پیش آرہے تھے۔ کفارِ مکہ اس بات کے درپے تھے کہ جس طرح بھی ہو آپ کو توحید کی اس دعوت سے ہٹا دیں جسے آپ پیش کر رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح آپ کو مجبور کر دیں کہ آپ ان کے شرک اور رسومِ جاہلیت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کر لیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے آپ کو فتنے میں ڈالنے کی ہر کوشش کی۔ فریب بھی دیے، لالچ بھی دلائے، دھمکیاں بھی دیں، جھوٹے پرپگنڈے کا طوفان بھی اُٹھایا، ظلم و ستم بھی کیا، معاشی دباؤ بھی ڈالا، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا، اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لیے کیا جا سکتا تھا۔

۸۸- اللہ تعالیٰ اس ساری روداد پر تبصرہ کرتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرماتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر تم حق کو حق جان لینے کے بعد باطل سے کوئی سمجھوتہ کر لیتے تو یہ بگڑی ہوئی قوم تو ضرور تم سے خوش ہو جاتی، مگر خدا کا غضب تم پر بھڑک اٹھتا اور تمہیں دنیا و آخرت، دونوں میں دہری سزا دی جاتی۔ دوسرے یہ کہ انسان خواہ وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، خود اپنے بل بوتے پر باطل کے ان طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق شاملِ حال نہ ہو۔ یہ سراسر اللہ کا بخشا ہوا صبر ثبات تھا جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ و سلم حق و صداقت کے موقف پر پہاڑ کی طرح جمے رہے اور کوئی سیلابِ بلا آپ کو بال برابر بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا۔

۸۹- یہ صریح پیشن گوئی ہے جو اُس وقت تو صرف ایک دھمکی نظر آتی تھی، مگر دس گیارہ سال کے اندر ہی حرف بحرف سچی ثابت ہو گئی۔ اس سورة کے نزول پر ایک ہی سال گزرا تھا کہ کفار مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر دیا اور اس پر ۸ سال سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ اور پھر دو سال کے اندر اندر سر زمینِ عرب مشرکین کے وجود سے پاک کر دی گئی۔ پھر جو بھی اس ملک میں رہا مسلمان بن کر رہا، مشرک بن کر وہاں نہ ٹھیر سکا۔

۹۰- یعنی سارے انبیائے کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ رہا ہے کہ جس قوم نے ان کو قتل یا جلا وطن کیا، پھر وہ زیادہ دیر تک اپنی جگہ نہ ٹھیر سکی۔ پھر یا تو خدا کے عذاب نے اسے ہلاک کیا، یا کسی دشمن قوم کو اس پر مسلط کیا گیا، یا خود اسی نبی کے پیرووں سے اس کو مغلوب کرا دیا گیا۔

 

ترجمہ

 

نماز قائم کرو ۹۱ زوالِ آفتاب ۹۲ سے لے کر رات کے اندھیرے ۹۳ تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو ۹۴ کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے۔ ۹۵’’پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو(مغرب) اور صبح کرتے ہو (فجر)۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں (عصر) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو(ظہر) ‘‘رات کو تہجد پڑھو،۹۶ یہ تمہارے لیے نفل ہے ۹۷، بعید نہیں کہ تمہارا ربّ تمہیں مقامِ محمُود ۹۸ پر فائز کر دے۔ اور دُعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تُو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال،۹۹ اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔ ۱۰۰اور اعلان کر دو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ ‘‘ ۱۰۱ہم اِس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ ۱۰۲انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے۔ اے نبی ؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ ’’ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے۔ ‘‘ ؏ ۹

 

تفسیر

 

۹۱- مشکلات و مصائب کے اس طوفان کا ذکر کرنے کے بعد فوراً ہی نماز قائم کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ثابت قدمی جو ان حالات میں ایک مومن کو درکار ہے اقامتِ صلوٰة سے حاصل ہوتی ہے۔

۹۲- ’’زوال آفتاب‘‘ ہم نے دلوک الشمس کا ترجمہ کیا ہے۔ اگر چہ بعض صحابہ و تابعین نے دلوک سے مراد غروب بھی لیا ہے، لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس سے مراد آفتاب کا نصف النہار سے ڈھل جانا ہے۔ حضرت عمر، ابن عمر، اَنَس بن مالک، ابو بَرزة الاسلمی، حسن بصری۔ شعبی، عطاء۔ مجاہد، اور ایک روایت کی رو سے ابن عباس بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے بھی یہی قول مروی ہے۔ بلکہ بعض احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی دلوکِ شمس کی یہی تشریح منقول ہے، اگرچہ ان کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں ہے۔

۹۳- غسق اللیل بعض کے نزدیک ’’رات کا پور ی طرح تاریک ہو جانا‘‘ ہے، اور بعض اس سے نصف شب مراد لیتے ہیں۔ اگر پہلا قول تسلیم کیا جائے تو اس سے عشاء کا اول وقت مراد ہو گا، اور اگر دوسرا قول صحیح مانا جائے تو پھر یہ اشارہ عشا کے آخر وقت کی طرف ہے۔

۹۴- فجر کے لغوی معنی ہیں ’’پو پھٹنا‘‘۔ یعنی وہ وقت جب اول اول سپیدہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتا ہے۔

فجر کے قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوٰة کا لفظ استعمال ہوا ہے اور کہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جُز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے، مثلاً تسبیح، حمد، ذکر، قیام، رکوع، سجود وغیرہ۔ اسی طرح یہاں فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا مطلب محض قرآن پڑھنا نہیں، بلکہ نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ اس طریقہ سے قرآن مجید نے ضمناً یہ اشارہ کر دیا ہے کہ نماز کن اجزاء سے مرکب ہونی چاہیے۔ اور انہی اشارات کی رہنمائی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی وہ ہئیت مقرر فرمائی جو مسلمانوں میں رائج ہے۔

۹۵- قرآن فجر کے مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں بتصریح بیان ہوا ہے۔ اگر چہ فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں، لیکن جب خاص طور پر نمازِ فجر کی قرأت پر ان کی گواہی کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا اور اسی کی پیروی صحابہ کرام نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا۔

اس آیت میں مجملاً یہ بتا یا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لی جائے، اور باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمتِ شب تک پڑھی جائیں۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دی۔ چنانچہ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’جبریل نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا، پھر عصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اُس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔ دوسرے دن اُنہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اُس کے قد کے برابر تھا، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا، اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے، اور عشاء کی نماز ایک تہائی گزر جانے پر، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر۔ پھر جبریل ؑ نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد ؐ، یہی اوقات انبیاء کے نماز پڑھنے کے ہیں، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں‘‘۔ (یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتا ئی گئی ہے۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے )۔

قرآن مجید میں خود بھی نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا:

’’نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گزرنے پر (یعنی عشاء) ‘‘

’’اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے (فجر)اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر) اور رات کے اوقات میں پھر تسبیح کر (عشاء) اور دن کے سروں پر (یعنی صبح، ظہر اور مغرب) ‘‘

پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا:

نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقاتِ  عبادت سے اجتناب کیا جائے۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا، یا بہت بڑا معبود رہا ہے، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر اُن کے اوقاتِ عبادت رہے ہیں، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے، لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو۔ اس مصلحت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمرو بن عَبَسہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا:

صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتیٰ ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن و حینئِذ یسجد لہ الکفار۔

’’صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رُک جاؤ، یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں‘‘۔

پھر آپ نے عصر کی نماز کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار

(رواہ مسلم)

’’پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کے سورج غروب ہو جائے کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں۔‘‘

اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر لیے جا رہا ہے۔ اس استعارے کی گرہ حضور ؐ نے خود اپنے اس فقرے میں کھول دی ہے کہ ’’اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں‘‘۔

۹۶- تہجد کے معنی ہیں نیند توڑ کر اُٹھنے کے۔ پس رات کے وقت تہجد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رات کا ایک حصہ سونے کے بعد پھر اُٹھ کر نماز پڑھی جائے۔

۹۷- نفل کے معنی ہیں ’’فرض سے زائد‘‘۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکل آیا کہ وہ پانچ نمازیں جن کے اوقات کا نظام پہلی آیت میں بیان کیا گیا تھا، فرض ہیں، اور یہ چھٹی نماز فرض سے زائد ہے۔

۹۸- یعنی دنیا اور آخرت میں تم کو ایسے مرتبے پر پہنچا دے جہاں تم محمود خلائق ہو کر رہو، ہر طرف سے تم پر مدح و ستائش کی بارش ہو، اور تمہاری ہستی ایک قابل تعریف ہستی بن کر رہے۔ آج تمہارے مخالفین تمہاری تواضع گالیوں اور علامتوں سے کر رہے ہیں اور ملک بھر میں تم کو بدنام کر نے کے لیے انہوں نے جھوٹے الزامات کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے، مگر وہ وقت دور نہیں ہے جبکہ دنیا تمہاری تعریفوں سے گونج اُٹھے گی اور آخرت میں بھی تم ساری خلق کے ممدوح ہو کر رہو گے۔ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام شفاعت پر کھڑا ہونا بھی اسی مرتبہ محمودیت کا ایک حصہ ہے۔

۹۹- اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آ لگا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ۔

۱۰۰- یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تا کہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں، اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کر سکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ نے کی ہے، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے، اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہ َ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ، یعنی ’’اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے اُن چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے۔ اگر جہاد کے لیے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا؟

۱۰۱- یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزین تھی، اور باقی مسلمان سخت بے کسی و مظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے۔ مگر اسی حالت میں نبی ؐ کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا اور انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اُڑا دیا۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹا دیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیا ن ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور ؐ کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ ’’ جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ جآء الحق وما یُبدئُ الباطل وما یُعید‘‘۔

۱۰۲- یعنی جو لوگ اس قرآن کو اپنا رہنما اور اپنے لیے کتاب آئین مان لیں ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمام ذہنی، نفسانی، اخلاقی اور تمدنی امراض کا علاج ہے۔ مگر جو ظالم اسے رد کر کے اور اس کی رہنمائی سے منہ موڑ کر اپنے اوپر آپ ظلم کریں ان کو یہ قرآن اُس حالت پر بھی نہیں رہنے دیتا جس پر وہ اس کے نزول سے، یا اس کے جاننے سے پہلے تھے، بلکہ یہ انہیں اُلٹا اس سے زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قرآن آیا نہ تھا، یا جب تک وہ اس سے واقف نہ ہوئے تھے، ان کا خسارہ محض جہالت کا خسارہ تھا۔ مگر جب قرآن ان کے سامنے آگیا اور اس نے حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا تو ان پر خدا کی حجت تمام ہو گئی۔ اب اگر وہ اسے رد کر کے گمراہی پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جاہل نہیں بلکہ ظالم اور باطل پرست اور حق سے نفور ہیں۔ اب ان کی حیثیت وہ ہے جو زہر اور تریاق، دونوں کو دیکھ کر زہر انتخاب کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اب اپنی گمراہی کے وہ پورے ذمہ دار، اور ہر گناہ جو اس کے بعد وہ کریں اس کی پوری سزا کے مستحق ہیں۔ یہ خسارہ جہالت کا نہیں بلکہ شرارت کا خسارہ ہے جسے جہالت کے خسارے سے بڑھ کر ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک نہایت مختصر سے بلیغ جملے میں بیان فرمائی ہے کہ القراٰن حجة لک او علیک یعنی قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہے یا پھر تیرے خلاف حجت۔

 

ترجمہ

 

یہ لوگ تم سے رُوح کے متعلق پُوچھتے ہیں۔ کہو ’’یہ رُوح میرے ربّ کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے۔ ‘‘ ۱۰۳ اور اے محمدؐ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے، پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاؤ گے جو اسے واپس دلا سکے۔ یہ تو جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہارے ربّ کی رحمت سے مِلا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔ ۱۰۴کہہ دو کہ اگر انسان اور جِن سب کے سب مل کر اِس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔۱۰۵ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے۔ اور انہوں نے کہا ’’ ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تُو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے۔ یا تیرے لیے کھُجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تُو اس میں نہریں رواں کر دے۔ یا تُو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اُوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے۔ یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئے۔ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے۔ یا تُو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تُو ہمارے اُوپر ایک ایسی تحریر نہ اُتار لائے جسے ہم پڑھیں‘‘۔۔۔۔اے محمدؐ، اِن سے کہو ’’پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟‘‘ ۱۰۶ ؏ ۱۰

 

تفسیر

 

۱۰۳- عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روحِ حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے، اس لیے کہ یہ معنی صرف اُس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفر د جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو رُوح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرینِ  قرآن کے ظالم اور کافرِ نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، اور جہاں بعد آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے ؟

ربطِ عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد ’’وحی‘‘ یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہو سکتا ہے۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ؐ، تم سے یہ لوگ روح، یعنی ماخذِ قرآن، یا ذریعہ حصولِ قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کمزور بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے۔

یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ما سبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یُلْقی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ لینْذِ رَ یَوْمَ التَّلَاقِ (آیت ۱۵)۔ ’’وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے ‘‘۔ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْری مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْایمَانُ ( آیت ۵۲)۔ ’’اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے ‘‘۔

سلف میں سے ابن عباس، قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا ہے، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے۔ اور صاحبِ روح المعانی حسن اور قتادہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’روح سے مراد جبرائیل ہیں اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے ‘‘۔

۱۰۴- خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر مقصود دراصل کفار کو سنانا ہے جو قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا گھڑا ہوا یا کسی انسان کا درپردہ سکھایا ہوا کلام کہتے تھے۔ اُن سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کلام پیغمبر نے نہیں گھڑا بلکہ ہم نے عطا کیا ہے اور اگر ہم اسے چھین لیں تو نہ پیغمبر کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کلام تصنیف کر کے لا سکے اور نہ کوئی دوسری طاقت ایسی ہے جو اس کو ایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے کے قابل بنا سکے۔

۱۰۵- یہ چیلنج اس سے پہلے قرآن مجید میں تین مقامات پر گزر چکا ہے۔ سورہ بقرہ، آیات ۲۴، ۲۳۔ سورہ یونس، آیت ۳۸ اور سورہ ہود، آیت ۱۳۔ آگے سورہ طور، آیات ۳۳-۳۴ میں بھی یہی مضمون آ رہا ہے۔ ان سب مقامات پر یہ بات کفار کے اس الزام کے جواب میں ارشاد ہوئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے خود یہ قرآن تصنیف کر لیا ہے اور خواہ مخواہ وہ اسے خدا کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مزید بر آں سورہ یونس، آیت ۱۶ میں اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا کہ قُلْ لَّوْ شَآ ءَ اللہ ُ مَا تَلَوٰ تُہٗ عَلَیکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فیکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُونَ۔ یعنی ’’اے محمدؐ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں قرآن تمہیں سناؤں تو میں ہر گز نہ سنا سکتا تھا بلکہ اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ‘‘ ؟

ان آیات میں قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر جو استدلال کیا گیا ہے وہ دراصل تین دلیلوں سے مرکّب ہے :

ایک یہ کہ یہ قرآن اپنی زبان، اسلوب بیان، طرزِ استدلال، مضامین، مباحث، تعلیمات اور اخبار غیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسے ایک انسان نے تصنیف کیا ہے، مگر ہم کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان مل کر بھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر وہ جن جنہیں مشرکین نے اپنا معبود بنا رکھا ہے، اور جن کی معبودیت پر یہ کتاب علانیہ ضرب لگا رہی ہے، منکرین قرآن کی مدد پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی ان کو اس قابل نہیں بنا سکتے کہ قرآن کے پائے کی کتاب تصنیف کر کے اس چلینج کو رد کر سکیں۔

دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہیں باہر سے یکایک تمہارے درمیان نمودار نہیں ہو گئے ہیں اس قرآن کے نزول سے پہلے بھی ۴۰ سال تمہارے درمیان رہ چکے ہیں۔ کیا دعوائے نبوّت سے پہلے بھی کبھی تم نے ان کی زبان سے اِس طرز کا کلام، اور ان مسائل اور مضامین پر مشتمل کلام سنا تھا؟ اگر نہیں سنا تھا اور یقیناً ً نہیں سنا تھا تو کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی شخص کی زبان، خیالات، معلومات اور طرزِ فکر و بیان میں یکایک ایسا تغیر واقع ہو سکتا ہے ؟

تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں قرآں سنا کر کہیں غائب نہیں ہو جاتے بلکہ تمہارے درمیان ہی رہتے سہتے ہیں۔ تم ان کی زبان سے قرآن بھی سنتے ہو اور دوسری گفتگوئیں اور تقریریں بھی سنا کرتے ہو۔ قرآن کے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے کلام میں زبان اور اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی ایک انسان کے دو اس قدر مختلف اسٹائل کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ فرق صرف اسی زمانہ میں واضح نہیں تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ملک کے لوگوں میں رہتے سہتے تھے۔ بلکہ آج بھی حدیث کی کتابوں میں آپ کے سینکڑوں اقوال اور خطبے موجود ہیں۔ ان کی زبان اور اسلوب قرآن کی زبان اور اسلوب سے اس قدر مختلف ہیں کہ زبان و ادب کا کوئی رمز آشنا نقاد یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہو سکتے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس حاشیہ ۲۱۔ الطور، حواشی ۲۲-۲۷)

۱۰۶- معجزات کے مطالبے کا ایک جواب اس سے پہلے آیت ۵۹ وَمَا مَنَعَنَآ ا اَن تُّرْسِلَ بِالاٰیٰتِ میں گزر چکا ہے۔ اب یہاں اسی مطالبے کا دوسرا جواب دیا گیا ہے۔ اس مختصر سے جواب کی بلاغت تعریف سے بالا تر ہے۔ مخالفین کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر تم پیغمبر ہو تو ابھی زمین کی طرف ایک اشارہ کرو اور یکایک ایک چشمہ پھوٹ بہے، یا فوراً ایک لہلہاتا باغ پیدا ہو جائے اور اس میں نہریں جاری ہو جائیں۔ آسمان کی طرف اشارہ کرو اور تمہارے جھٹلانے والوں پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر جائے۔ ایک پھونک مارو اور چشم زدن میں سونے کا ایک محل بن کر تیار ہو جائے۔ ایک آواز دو اور ہمارے سامنے خدا اور اس کے فرشتے فوراً آ کھڑے ہوں اور وہ شہادت دیں کہ ہم ہی نے محمد ؐ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان پر چڑھ کر جاؤ اور اللہ میاں سے ایک خط ہمارے نام لکھوا لاؤ جسے ہم ہاتھ سے چھوئیں اور آنکھوں سے پڑھیں۔۔۔۔۔۔ ان لمبے چوڑے مطالبوں کا بس یہ جواب دے کر چھوڑ دیا گیا کہ ’’ان سے کہو، پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں‘‘ ؟ یعنی بیوقوفوں! کیا میں نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا کہ تم یہ مطالبے مجھ سے کرنے لگے ؟ میں نے تم سے کب کہا تھا کہ میں قادرِ مطلق ہوں؟ میں نے کب کہا تھا کہ زمین و آسمان پر میری حکومت چل رہی ہے ؟ میرا دعویٰ تو اوّل روز سے یہی تھا کہ میں خدا کی طرف سے پیغام لانے والا ایک انسان ہوں۔ تمہیں جانچنا ہے تو میرے پیغام کو جانچو۔ ایما ن لانا ہے تو اس پیغام کی صداقت و معقولیت دیکھ کر ایمان لاؤ۔ انکار کرنا ہے تو اس پیغام میں کوئی نقص نکال کر دکھاؤ۔ میری صداقت کا اطمینان کرنا ہے تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے میری زندگی کو، میرے اخلاق کو، میرے کام کو دیکھو۔ یہ سب کچھ چھوڑ کر تم مجھ سے یہ کیا مطالبہ کرنے لگے کہ زمین پھاڑ و اور آسمان گراؤ؟ آخر پیغمبری کا ان کاموں سے کیا تعلق ہے ؟

 

ترجمہ

 

لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے اُن کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر اُن کے اِسی قول نے کہ ’’کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟‘‘ ۱۰۷ اِن سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔ ۱۰۸اے محمد ؐ، ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان بس ایک اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ۱۰۹جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہی میں ڈال دے تو اس کے بعد ایسے لوگوں کے لیے تُو کوئی حامی و ناصر نہیں پا سکتا۔۱۱۰ ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے، اندھے، گُونگے اور بہرے۔ ۱۱۱ اُن کا ٹھکانا جہنّم ہے۔ جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا ’’کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کر کے اُٹھا کھڑا کیا جائے گا؟‘‘ کیا ان کو یہ نہ سُوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے، وہ اِن جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے ؟ اس نے اِن کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے۔ اے محمد ؐ، اِن سے کہو، اگر کہیں میرے ربّ کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے۔ واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔ ۱۱۲ ؏ ۱۱

 

تفسیر

 

۱۰۷- یعنی ہر زمانے کے جاہل لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ کھاتا ہے، پیتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے، گوشت پوست کا بنا ہوا ہے، فیصلہ کر دیا کہ پیغمبر نہیں ہے، کیونکہ بشر ہے۔ اور جب وہ گزر گیا تو ایک مدت کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو گئے جو کہنے لگے کہ وہ بشر نہیں تھا، کیونکہ پیغمبر تھا۔ چنانچہ کسی نے اس کو خدا بنایا، کسی نے اسے خدا کا بیٹا کہا، اور کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا تھا۔ غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لیے ہمیشہ ایک معما ہی بنا رہا۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یٰس، حاشیہ ۱۱)۔

۱۰۸- یعنی پیغمبر کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ آ کر پیغام سنا دیا کرے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ اس پیغام کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح کرے۔ اسے انسانی احوال پر اُس پیغام کے اصولوں کا انطباق کرنا ہوتا ہے۔ اسے خودا پنی زندگی میں ان اصولوں کا عملی مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے اُن بے شمار مختلف انسانوں کے ذہن کی گتھیاں سلجھانی پڑتی ہیں جو اس کا پیغام سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے ماننے والوں کی تنظیم اور تربیت کرنی ہوتی ہے تا کہ اس پیغام کی تعلیمات کے مطابق ایک معاشرہ وجود میں آئے۔ اسے انکار اور مخالفت و مزاحمت کرنے والوں کے مقابلے میں جدوجہد کرنی ہوتی ہے تاکہ بگاڑ کی حمایت کرنے والی طاقتوں کو نیچا دکھایا جائے اور وہ اصلاح عمل میں آ سکے جس کے لیے خدا نے اپنا پیغمبر مبعوث فرمایا ہے۔ یہ سارے کام جبکہ انسانوں ہی میں کرنے کے ہیں تو ان کے لیے انسان نہیں تو اور کون بھیجا جاتا؟ فرشتہ تو زیادہ سے زیادہ بس یہی کرتا کہ آتا اور پیغام پہنچا کر چلا جاتا۔ انسانوں میں انسان کی طرح رہ کر انسان کے سے کام کرنا اور پھر انسانی زندگی میں منشائے الٰہی کے مطابق اصلاح کر کے دکھا دینا کسی فرشتے کے بس کا کام نہ تھا۔ اس کے لیے تو ایک انسان ہی موزوں ہو سکتا تھا۔

۱۰۹- یعنی جس طرح سے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تمہاری اصلاح حال کے لیے کوشش کر رہا ہوں اسے بھی اللہ جانتا ہے، اور جو جو کچھ تم میری مخالفت میں کر رہے ہو اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے۔ فیصلہ آخر کار اسی کو کرنا ہے اس لیے بس اسی کا جاننا اور دیکھنا کافی ہے۔

۱۱۰- یعنی جس کی ضلالت پسندی اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دیے ہوں اور جسے اللہ ہی نے ان گمراہیوں کی طرف دھکیل دیا ہو جن کی طرف وہ جانا چاہتا تھا، تو اب اور کون ہے جو اس کو راہِ راست پر لا سکے ؟ جس شخص نے سچائی سے منہ موڑ کر جھوٹ پر مطمئن ہونا چاہا، اور جس کی اس خباثت کو دیکھ کر اللہ نے بھی اس کے لیے وہ اسباب فراہم کر دیے جن سے سچائی کے خلاف اُس کی نفرت میں اور جھوٹ پر اس کے اطمینان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے، اسے آخر دنیا کی کونسی طاقت جھوٹ سے منحرف اور سچائی پر مطمئن کر سکتی ہے ؟ اللہ کا یہ قاعدہ نہیں کہ جو خود بھٹکنا چاہے اسے زبر دستی ہدایت دے، اور کسی دوسری ہستی میں یہ طاقت نہیں کہ لوگوں کے دل بدل دے۔

۱۱۱- یعنی جیسے وہ دنیا میں بن کر رہے کہ نہ حق دیکھتے تھے، نہ حق سنتے تھے اور نہ حق بولتے تھے، ویسے ہی وہ قیامت میں اُٹھائے جائیں گے۔

۱۱۲- یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ و َ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل و شرف ماننا پڑتا تھا، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔

 

ترجمہ

 

ہم نے موسیٰؑ کو نو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں۔۱۱۳ اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پُوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نہ کہ ’’ اے موسیٰ، میں سمجھتا ہوں کہ تُو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے۔ ‘‘ ۱۱۴ موسیٰؑ نے اس کے جواب میں کہا ’’ تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں ربّ السّماوات و الارض کے سوا کسی نے نازل نہیں کی ہیں ۱۱۵، اور میرا خیال یہ ہے کہ اے فرعون، تُو ضرور ایک شامت زدہ آدمی ہے۔ ۱۱۶‘‘آخرِ کار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اُکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا

اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسو ۱۱۷، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پُورا ہو گا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لا حاضر کریں گے۔ اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے، اور اے محمد ؐ، تمہیں ہم نے اِس کے سوا اور کسی کام کے لیے نہیں بھیجا کہ (جو مان لے اسے ) بشارت دے دو اور (جو نہ مانے اُسے ) متنبّہ کر دو۔۱۱۸

اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سُناؤ، اور اسے ہم نے ( موقع موقع سے ) بتدریج اُتارا ہے۔ ۱۱۹

اے محمدؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ۱۲۰ انہیں جب یہ سُنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں

اور پکار اُٹھتے ہیں ’’پاک ہے ہمارا ربّ، اُس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔‘‘ ۱۲۱

اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گِر جاتے ہیں اور اسے سُن کو اُن کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ ۱۲۲ السجدة ۴

 

تفسیر

 

۱۱۳- واضح رہے کہ یہاں پھر کفار مکہ کو معجزات کے مطالبے کے جواب دیا گیا ہے، اور یہ تیسرا جواب ہے۔ کفار کہتے تھے کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تم یہ اور یہ کام کر کے نہ دکھاؤ۔ جواب میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے فرعون کو ایسے ہی صریح معجزات، ایک دو نہیں، پے در پے ۹ دکھائے گئے تھے، پھر تمہیں معلوم ہے کہ جو نہ ماننا چاہتا تھا اس نے انہیں دیکھ کر کیا کہا؟ اور یہ بھی خبر ہے کہ جب اس نے معجزات دیکھ کر بھی نبی کو جھٹلایا تو اس کا انجام کیا ہوا؟

وہ نو نشانیاں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، اس سے پہلے سورہ اعراف میں گزر چکی ہیں۔ یعنی عصاء، جو اژدہا بن جاتا تھا، یدِ بیضاء جو بغل سے نکالتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تے تھا، جادوگروں کے جادو کو برسرِ عام شکست دینا، ایک اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط برپا ہو جانا، اور پھر یکے بعد دیگرے طوفان، ٹڈی دل، سُرسریوں، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔

۱۱۴- یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا کرتے تھے۔ اسی سورت کی آیت ۴۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً۔ (تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جا رہے ہو)۔ اب ان کو بتا یا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو نوازا تھا۔

اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ زمانہ حال میں منکرینِ حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادہ اثر ہو گیا تھا، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اس طرح راویانِ حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہٖ قرآن کی رُو سے حضرت موسیٰ پر بھی فرعون کا یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہٰ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَا لھُمْ وَعِصیھُمْ یُخیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِ ھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰیہ فَاَوجَسَ فی نَفْسِہٖ خیفَةً مُّوْسٰی۔ یعنی ’’جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسیٰ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں، پس موسیٰ اپنے دل میں ڈر سا گیا‘‘۔ کیا یہ الفاظ صریح طور پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے ؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرینِ  حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے ؟

دراصل اس طرح کے اعتراضات اُٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت موسیٰ کو ’’مسحور‘‘ کہتے تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوانہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثرات یہ نبوت کا دعویٰ کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے۔ رہا وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حصۂ  جسم کا جادو سے متاثر ہو جانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگا یا تھا، نہ قرآن نے اس کی تردید کی، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی کے منصب پر کوئی فرق آتا ہے۔ نبی پر اگر زہر کا اثر ہو سکتا تھا، نبی اگر زخمی ہو سکتا تھا، تو اس پر جادو کا اثر بھی ہو سکتا تھا۔ اس سے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ منصبِ نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہو جائیں، حتیٰ کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے۔ مخالفینِ حق حضرت موسیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہی الزام لگا تے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے۔

۱۱۵- یہ بات حضرت موسیٰ نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پر قحط آ جانا، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو، یا کسی انسانی طاقت کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسیٰ فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل ہو جاتی تھی، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول ربّ السٰموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔

۱۱۶- یعنی میں تو سحر زدہ نہیں ہوں مگر تو ضرور شامت زدہ ہے۔ تیرا ان خدائی نشانیوں کے پے درپے دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ پر قائم رہنا صاف بتا رہا ہے کہ تیری شامت آ گئی ہے۔

۱۱۷- یہ ہے اصل غرض اس قصے کو بیان کرنے کی۔ مشرکین مکہ اس فکر میں تھے کہ مسلمانوں کو اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سرزمین عرب سے نا پید کر دیں۔ اس پر انہیں یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہی کچھ فرعون نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کے ساتھ کر نا چاہا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ فرعون اور اس کے ساتھی ناپید کر دیے گئے اور زمین پر موسیٰ اور پیروانِ موسیٰ ہی بسائے گئے۔ اب اگر اسی روش پر تم چلو گے تو تمہارا انجام اس سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔

۱۱۸- یعنی تمہارے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو لوگ قرآن کی تعلیمات کو جانچ کر حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اُن کو تم چشمے نکال کر اور باغ اُگا کر اور آسمان پھاڑ کر کسی نہ کسی طرح مومن بنانے کی کوشش کرو، بلکہ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے حق بات پیش کر دو اور پھر انہیں صاف صاف بتا دو کہ جو اسے مانے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو نہ مانے گا وہ بُرا انجام دیکھے گا۔

۱۱۹- یہ مخالفین کے اس شبہہ کا جواب ہے کہ اللہ میاں کو پیغام بھیجنا تھا تو پورا پیغام بیک وقت کیوں نہ بھیج دیا ؟ یہ آخر ٹھیر ٹھیر کر تھوڑا تھوڑا پیغام کیوں بھیجا جا رہا ہے ؟ کیا خدا کو بھی انسانوں کی طرح سوچ سوچ کر بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ؟ اس شبہہ کا مفصل جواب سورہ نحل آیات ۱۰۱-۱۰۲ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں، اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔

۱۲۰- یعنی وہ اہل کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے انداز کلام کو پہچانتے ہیں۔

۱۲۱- یعنی قرآن کو سن کر وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیاء کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے۔

۱۲۲- صالحین اہل کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً آل عمران آیات ۱۱۳ تا ۱۱۵، ۱۹۹۔ اور المائدہ آیات ۸۲-۸۵۔

 

ترجمہ

 

اے نبیؐ، اِن سے کہو، اللہ کہہ کر پُکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پُکارو اُس کے لیے سب اچھے نام ہیں۔۱۲۳ اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو۔۱۲۴ اور کہو ’’تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اُس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو۔‘‘ ۱۲۵ اور اُس کی بڑائی بیان کرو، کمال درجے کی بڑائی۔ ؏ ۱۲

 

تفسیر

 

۱۲۳- یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے ’’اللہ‘‘ کا نام تو ہم نے سنا تھا، مگر یہ ’’رحمان‘‘ کا نام تم نے کہاں سے نکالا؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بَھوں چڑھاتے تھے۔

۱۲۴- ابن عباس کا بیان ہے کہ مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم یا دوسرے صحابہ کرام ؓ نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے تھے۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکے کے سے حالات سے دوچار ہونا پڑے، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

۱۲۵- اس فقرے میں ایک لطیف طنز ہے ان مشرکین کے عقائد پر جو مختلف دیوتاؤں اور بزرگ انسانوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ میاں نے اپنی خدائی کے مختلف شعبے یا اپنی سلطنت کے مختلف علاقے ان کے انتظام میں دے رکھے ہیں۔ اس بیہودہ عقیدے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی خدائی کا بار سنبھالنے سے عاجز ہے اس لیے وہ اپنے پشتیبان تلاش کر رہا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اللہ عاجز نہیں ہے کہ اسے کچھ ڈپٹیوں اور مددگاروں کی حاجت ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

۱۸۔ سورۂ کہف

 

 

نام

 

اس سورہ کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکہ زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو ہم نے چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے دیباچے میں گزر چکی ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً ۵ نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب ۱۰ نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے دور سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک،  اِستہزاء،  اعتراضات، الزامات،  تخویف، اِطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا، مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم،  مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے،  یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور کر کیان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا گیا۔ تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ابو طالب اور اُم طالب اور اُم المومنین حضرت خدیجہؓ ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ ۱۰ نبوی میں ان دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہو گیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا۔

سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہو گی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کر لی بھی، مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہ ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جا رہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تا کہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کر چکے ہیں۔

 

موضوع اور مضمون

 

یہ سورہ مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے : اصحاب کہف کون تھے ؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے ؟(روایات میں آتا ہے کہ دوسرا سوال روح کے متعلق تھا جس کا جواب سورہ بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں دیا گیا ہے۔ مگر سورہ کہف اور بنی اسرائیل کے زمانہ نزول میں کئی سال کا فرق ہے،  اور سورہ کہف میں دو کے بجائے تین قصے بیان کیے گئے ہیں،  اس لیے ہم سمجھتے کہ دوسرا سوال در اصل قصہ خضر سے متعلق تھا نہ کہ روح سے متعلق۔ خود قرآن میں بھی ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ’’ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۱‘‘ )۔ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے انکا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا، بلکہ اُن کے اپنے پُوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان در پیش تھی:

۱)۔ اصحاب کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے،  اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ و اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پرتن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اُٹھایا اُسی طرح اُس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔

۲)۔ اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کر دی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو کوئی اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائدار ہیں۔

۳)۔ اسی سلسلۂ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی۔ اس قصے میں در اصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بکی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ کیا ہو گیا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا ! حالانکہ اگر پردہ اُٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے،  آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے۔

۴ )۔ اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو،  حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور بغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوار تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ مرضی جب تک ہے یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی۔ اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہو گی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔

اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو اّنہی پر پوری طرح اُلٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر ان ہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں،  یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو۔ ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حجور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہو گی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔

 

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔۱ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے،جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔۲ اِس بات کا نہ اُنھیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔۳ بڑی بات ہے جو ان کے مُنہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔ اچھا، تو اے محمدؐ،  شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔۴ آخرِ کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔۵ کیا تم سمجھتے ہو کہ غار ۶ اور کتبے ۷ والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟۸ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ’’اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درُست کر دے،‘‘  تو ہم نے اُنھیں اُسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سُلا دیا،پھر ہم نے اُنھیں اُٹھایا تاکہ دیکھیں اُن کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مُدّتِ قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔ ؏ ۱

 

تفسیر

 

۱- یعنی نہ اس میں کوئی اینچ پینچ کی بات ہے جو سمجھ میں نہ آ سکے،  اور نہ کوئی بات حق و صداقت کے خط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جسے ماننے میں کسی راستی پسند انسان کو تأمل ہو۔

۲- یعنی جو خدا کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں۔اس میں عیسائی بھی شامل ہیں اور یہود بھی اور مشرکین عرب بھی۔

۳- یعنی ان کا یہ قول کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے، یا فلاں کو خدا نے بیٹا بنا لیا ہے، کچھ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ ان کو خدا کے ہاں اولاد ہونے یا خدا کے کسی کو متبنیٰ بنانے کا علم ہے، بلکہ محض اپنی عقیدت مندی کے غلو میں وہ ایک من مانا حکم لگا بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ وہ کیسی سخت گمراہی کی بات کہہ رہے ہیں اور کتنی بڑی گستاخی اور افترا پردازی ہے جو اللہ رب العالمین کی جناب میں ان سے سر زد ہو رہی ہے۔

۴- یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبتلا تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو ‘‘۔ (بخاری و مسلم نیز تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء آیت ۳ )۔

اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو؟ تمہارا کا م صرف بشارت اور انذار ہے، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کیے جاؤ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو۔ جو نہ مانے اسے بُرے انجام سے متنبہ کر دو۔

واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سر و سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

۵- پہلی آیت کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اور ان دونوں آیتوں کو روئے سخن کفار کی جانب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یک حرف تسلی دینے کے بعد اب آپ کے منکرین کو مخاطب کیے بغیر یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہ سرو سامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں پر تم فریفتہ ہو، یہ ایک عارضی زینت ہے جو محض تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ یہ سب کچھ ہم نے تمہارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے، اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف توجہ نہیں کرتے، اور اسی لیے تم کسی سمجھانے والے کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں بلکہ وسائل امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کر کے دنیا کی ان دلفریبیوں میں گم ہو جاتا ہے، اور کون اپنے اصل مقام (بندگی رب) کو یاد رکھ کر صحیح رویے پر قائم رہتا ہے۔ جس روز یہ امتحان ختم ہو جائے گا اسی روز یہ بساط عیش اُلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی۔

۶- عربی زبان میں ’’ کہف‘‘  وسیع غار کو کہتے ہیں اور ’’غار‘‘  کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر اُردو میں غار کہف کا ہم معنی ہے۔

۷- الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور وہ اَیلہ (یعنی عَقَبہ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحاب کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘  میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع (باب ۱۸۔ آیت ۲۷) میں رقم یا راقم کیا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نَبطْیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیڑا کا قدیم نام قرار دیتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحر لوط کی مغرب میں واقع تھا جس میں پیڑا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیڑا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوداہ اور اَدُومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیڑا اور راقم ایک چیز ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ۱۹۴۶ ء جلد ۱۷۔ص ۶۵۸)۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔

۸- یعنی کیا تم اس خدا کی قدرت سے،  جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویسا ہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہر گز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے۔

 

ترجمہ

 

ہم اِن کا اصل قصہ تم کو سُناتے ہیں۔۹ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔۱۰ ہم نے ان کے دل اُس وقت مضبُوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ’’ ہمارا ربّ تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے۔ ہم اُسے چھوڑ کر کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے۔‘‘   (پھر انہوں نے آپس میں ایک دُوسرے سے کہا) ’’ یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دُوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبُود، ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھُوٹ باندھے؟اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبُودانِ غیراللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔۱۱ تمہارا ربّ تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے  ورست یوسف تا ف تا رعدفرعون کوا لیے  سر و سامان مہیّا کر دے گا۔‘‘  تم انہیں غار میں دیکھتے ۱۲ تو تمہیں یُوں نظر آتا کہ سُورج جب نِکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔۱۳ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولیِّ مُرشد نہیں پا سکتے۔ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۹- اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحاب کہف کی وفات کے چند سال بعد ۴۵۲ ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ۴۷۴ ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب ’’ تاریخ زوال و سقوط دولت روم‘‘  کے باب ۳۳ میں ’’سات سونے والوں‘‘  (Seven Sleepers) کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے، ہمارے مفسرین اس کا نام وَقٗیَنُوس یا دقیانوس یا دَقْیُوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈِیسِیس (Decius) تھا جس نے ۲۴۹ ء سے ۲۵۱ ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بد نام ہے۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفْسُس یا افسوس لکھتے ہیں، اور گبن اس کا نام اِفِسُس (Ephesus) بتاتا ہے جو ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندر گاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ترکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے ۲۰-۲۵ میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۲ صفحہ ۴۳)۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈوسیس (Theodosious) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد ۴۰۸ ء سے ۴۵۰ ء تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحاب کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَمْلِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَمْلِیخسُ (Jamblichus) لکھتا ہے قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کی سلطنت کے اڑ تیسویں سال (یعنی تقریباً ۴۴۵ ء یا ۴۴۶ء میں) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً ۱۹۶ سال بنتی ہے۔

بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصۂ اصحاب کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت ۳۰۹ سال بیان کر رہا ہے۔ لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر ۲۵ میں دے دیا ہے۔

اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر گبن نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’جہالت‘‘  کا الزام لگایا ہے، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کر رہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہو جایا کرتا ہے۔ اس طرح کی ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحرف صحیح ہے اور اس سے کسی جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ (قصہ اصحاب کہف کے متعلق مزید معلومات ضمیمہ نمبر ۱ میں بیان کی گئی ہیں جو کتاب کے آخر میں درج ہے)۔

۱۰- یعنی جب وہ سچے دل سے ایمان لے آئے تو اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور ان کو یہ توفیق بخشی کہ حق اور صداقت پر ثابت قدم رہیں، اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لینا گوارا کر لیں مگر باطل کے آگے سر نہ جھکائیں۔

۱۱- جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر اِفِسُس ایشیائے کوچک میں بُت پرسی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادو گر، عامل، فال گیر اور تعویذ نویس دنیا بھی میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کرتے تھے (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان Ephesus۔ شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے، جو اگلے رکوع میں آ رہا ہے، کہ ’’اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔‘‘

۱۲- بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس قرار داد باہمی کے مطابق یہ لوگ شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں جا چھپے تاکہ سنگسار ہونے یا مجبوراً مرتد ہو جانے سے بچ سکیں۔

۱۳- یعنی ان کے غار کا دہانہ شمال کے رخ تھا جس کی وجہ سے سورج کی روشنی کسی موسم میں بھی اندر نہ پہنچی تھی اور باہر سے گزرنے والا یہ نہ دیکھ سکتا تھا کہ اندر کون ہے۔

 

ترجمہ

 

تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے۔۱۴ اور ان کا کُتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔۱۵ اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اُٹھا بٹھایا ۱۶ تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا ’’کہو، کتنی دیر اس حال میں رہے؟‘‘  دُوسروں نے کہا ’’شاید دن پھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے۔‘‘  پھر وہ بولے ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حال میں گزرا۔ چلو، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سِکّہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لیے لائے۔ اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اِس طرح ہم نے اہلِ شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا ۱۷ تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آ کر رہے گی۔۱۸ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اُس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اِن (اصحابِ کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’اِن پر ایک دیوار چُن دو، اِن کا ربّ ہی اِن کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے۔۱۹‘‘  مگر جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے ۲۰ اُنہوں نے کہا ’’ہم تو اِن پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔‘‘ ۲۱ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کُتّا تھا۔ اور کچھ دُوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کُتّا تھا۔ یہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کُتّا تھا۔۲۲ کہو، میرا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پُوچھو۔۲۳ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۱۴- یعنی اگر باہر سے کوئی جھانک کر دیکھتا بھی تو ان سات آدمیوں کے وقتاً فوقتاً کروٹیں لیتے رہنے کی وجہ سے وہ یہی گمان کرتا کہ یہ بس یونہی لیٹے ہوئے ہیں، سوئے ہوئے نہیں ہیں۔

۱۵- یعنی پہاڑوں کے اندر ایک اندھیرے غار میں چند آدمیوں کا اس طرح موجود ہونا اور آگے کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا کہ جھانکنے والے ان کو ڈاکو سمجھ کر بھاگ جاتے تھے، اور یہ ایک بڑا سبب تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کے حال پر اتنی مدت تک پردہ پڑا رہا۔ کسی کو یہ جرأت ہی نہ ہوئی کہ اندر جا کر کبھی اصل معاملے سے با خبر ہوتا۔

۱۶- یعنی جیسے عجیب طریقے سے وہ سلائے گئے تھے اور دنیا کو ان کے حال سے بے خبر رکھا گیا تھا، ویسا ہی عجیب کرشمہ قدرت ان کا ایک طویل مدت کے بعد جاگنا بھی تھا۔

اگر کہیں اُن لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبر دستی ہمیں اپنی مِلّت میں واپس لے جائیں گے، اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پا  سکیں گے‘‘۔۔۔۔

۱۷- یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان تہذیب، تمدن، لباس ہر چیز میں نمایاں فرق آ گیا تھا۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج، لباس، زبان ہر چیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا۔ اور جب اس نے قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دُکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سریانی روایت کی رو سے دُکاندار کو اس پر شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے۔ چنانچہ اس نے آس پاس کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آخرکار اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں جا کر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو ان پیروان مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پہنچ گیا۔ اب جو اصحاب کہف خبردار ہوئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کر گئی۔

۱۸- سُریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور عالمِ آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ رومی سلطنت کے اثر سے عام لوگ مسیحیت قبول کر چکے تھے، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پرستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقتور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار، یا کم از کم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اُفسُس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ (جسے صَدوقی کہا جاتا تھا) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا۔ یہ گروہ کتاب اللہ (یعنی توراۃ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے۔ متی، مرقس، لوقا، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح علیہ السلام کے اس مناظرے کا ذکر ہمیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا، مگر تینوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں (ملاحظہ ہو متی باب ۲۲۔ آیت ۲۳۔ مرقس باب ۱۲۔ آیت ۱۸۔ ۲۷۔ لوقا باب ۲۰۔ آیت ۲۷۔۴۰) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک ناقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا۔

۱۹- فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا۔ ان کے رائے یہ تھی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں لیٹے ہوئے ہیں اسی طرح انہیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے کو تیغا لگا دو، ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کس مرتبے کے ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں۔

۲۰- اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے، اور مسیح، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ۴۳۱ ء میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور حضرت مریمؑ کے ’’مادر خدا ‘‘  ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْ اعَلٰٓی اَمْرِھِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے۔

۲۱- مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس اس آیت بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھیرا کر مقابِر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں:

لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسُرُج۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد نسائی۔ ابن ماجہ)۔

’’اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔‘‘

اَلاوان من کان قبلکم کا نو ا یتخذون قبور انبیاءھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک (مسلم)

’’خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔‘‘

لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآء ھم مساجد (احمد، بخاری، مسلم،  نَسائی)

’’اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘

اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ (احمد،  بخاری، مسلم، نسائی)

’’ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ فعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟

اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی اس فائدہ نہیں کہ ۱۸۳۴ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل (Arundell) نے ’’ایشیائے کوچک کے اکتشافات‘‘  (Discoveries in Asia Minor) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور ’’سات لڑکوں ‘‘  (یعنی اصحاب کہف ) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں۔

۲۲- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا کہ جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبتہً زیادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے، اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سی تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں۔ تاہم چونکہ تیسرے قول کی تردید اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ہے اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی۔

۲۳- مطلب یہ ہے اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے، بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس ’’عادتِ جاریہ‘‘  کو لوگ ’’قانون فطرت‘‘  سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ در حقیقت اس کا پابند نہیں ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے، اور اس کی عمر، شکل، صورت، لباس، تندرستی، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں۔ اصحاب کہف کا جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کر دیے۔۔۔۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں۔ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے، اور ان کے نام کیا کیا تھے، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے۔

 

ترجمہ

 

اور دیکھو،کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا۔ (تم کچھ نہیں کر سکتے) اِلّا یہ کہ اللہ چاہے۔ اگر بھُولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے ربّ کو یاد کرو اور کہو ’’اُمید ہے کہ میرا ربّ اِس معاملے میں رُشد سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔۲۴‘‘۔۔۔۔اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ لوگ مدّت کے شمار میں) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں۔۲۵ تم کہو، اللہ ان کے قیام کی مدّت زیادہ جانتا ہے، آسمانوں اور ز مین کے سب پوشیدہ احوال اُسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سُننے والا! زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبر گیر اُس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اے نبیؐ ۲۶، تمہارے ربّ کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جُوں کا تُوں) سُنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردّ و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے۔۲۷ اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیّت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟۲۸ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو ۲۹ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔۳۰ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے ربّ کی طرف سے،  اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔۳۱ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔۳۲ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا ۳۳ اور ان کا منہ بھُون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بُری آرام گاہ! رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لیے سدا بہار جنّتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے،۳۴ باریک ریشم اور اطلس و دیَبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اُونچی مسندوں ۳۵ پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے۔ بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام! ؏ ۴

 

تفسیر

 

۲۴- یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو پچھلی آیت کے مضمون کی مناسبت سے سلسلۂ کلام کے بیچ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ پچھلی آیت میں ہدایت کی گئی تھی کہ اصحاب کہف کی تعداد کا صحیح علم اللہ کو ہے اور اس کی تحقیق کرنا ایک غیر ضروری کام ہے، لہٰذا خواہ مخواہ ایک غیر ضروری بات کی کھوج میں لگنے سے پرہیز کرو۔ اور اس پر کسی سے بحث بھی نہ کرو۔ اس سلسلہ میں آگے کی بات ارشاد فرمانے سے پہلے جملۂ معترضہ کے طور پر ایک اور ہدایت بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کو دی گئی اور وہ یہ کہ تم کبھی دعوے سے یہ نہ کہہ دینا کہ میں کل فلاں کام کر دوں گا۔ تم کو کیا خبر کہ تم وہ کام کر سکو گے یا نہیں۔ نہ تمہیں غیب کا علم، اور نہ تم اپنے افعال میں ایسے خود مختار ہو کہ جو کچھ چاہے کر سکو۔ اس لیے اگر کبھی بے خیالی میں ایسی بات زبان سے نکل بھی جائے تو فوراً متنبہ ہو کر اللہ کو یاد کرو اور ان شاء اللہ کہہ دیا کرو۔ مزید برآں تم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس کام کے کرنے کو تم کہہ رہے ہو، آیا اس میں خیر ہے یا کوئی دوسرا کام اس سے بہتر ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے یوں کہا کرو کہ امید ہے میرا رب اس معاملے میں صحیح بات، یا صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔

۲۵- اس فقرے کا تعلق ہمارے نزدیک جملۂ معترضہ سے پہلے کے فقرے کے ساتھ ہے۔ یعنی سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ ’’ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘۔ اس عبارت میں ۳ سو اور نو سال کی تعداد جو بیان کی گئی ہے ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ تم کہو، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے۔ اگر ۳۰۹ کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی، تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے۔

۲۶- اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے۔

۲۷- اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بے کم و کاست پہنچا دیں۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بت مان لیں۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو۔ کچھ تم ہماری مان لو، کچھ ہم تمہاری مان لیں۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو: وَ اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لایَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۔ ’’ جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو‘‘۔

۲۸- ابن عباس کی روایت کے مطابق، قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ یہ بلالؓ اور صہیبؓ اور عَمَّارؓ اور خَبّابؓ اور ابن مسعودؓ جیسے غریب لوگ، جو تمہاری صحبت میں بیٹھا کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے۔ انہیں ہٹاؤ تو ہم تمہاری مجلس میں آ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ جو لوگ رضائے الٰہی کی خاطر تمہارے گرد جمع ہوئے ہیں اور شب و روز اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، ان کی معیت پر اپنے دل کو مطمئن کرو اور ان سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم ان مخلص لوگوں کو چھوڑ کر یہ چاہتے ہو کہ دنیوی ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے لوگ تمہارے پاس بیٹھیں؟ اس فقرے میں بھی بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر سنانا در اصل سرداران قریش کو مقصود ہے کہ تمہاری یہ دکھاوے کی شان و شوکت، جس پر تم پھول رہے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ تم سے وہ غریب لوگ زیادہ قیمتی ہیں جن کے دل میں اخلاص ہے اور جو اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ ٹھیک یہی معاملہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آیا تھا۔ وہ حضرت نوحؑ سے کہتے تھے وَمَا نَرٰ کَ اتَّبَعَکَ اِ لَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ۔ ’’ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے جو رذیل لوگ ہیں وہ بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘  اور حضرت نوحؑ کا جواب یہ تھا کہ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا،  ’’ میں ایمان لانے والوں کو دھتکار نہیں سکتا ‘‘،  اور ولَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْ دَرِیٔٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْ تِیَہُمُ اللہُ خَیْراً،  ’’ جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو، میں ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ نے انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کی ہے۔‘‘  (ہود آیات ۲۷-۲۹-۳۱۔ نیز سورہ اَنعام،  آیت ۵۲۔ اور سورہ الحجر، آیت ۸۸)

۲۹- یعنی اس کی بات نہ مانو، اس کے آگے نہ جھکو، اس کا منشا پورا نہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں ’’اطاعت‘‘  کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔

۳۰- کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطاً کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو حق کو پیچھے چھوڑ کر اور اخلاقی حدود کو توڑ کر بَگ ٹُٹ چلنے والا ہے۔‘ دونوں صورتوں میں حاصل ایک ہی ہے۔ جو شخص خدا کو بھول کر اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اس کے ہر کام میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حدود نا آشنا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے آدمی کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کرنے والا خود بھی حدود نا آشنا ہو جائے اور جس جس وادی میں مُطاع بھٹکے اسی میں مُطیع بھی بھٹکتا چلا جائے۔

۳۱- یہاں پہنچ کر صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ سنانے کے بعد یہ فقرے کس مناسبت سے ارشاد ہوئے ہیں۔ اصحاب کہف کے جو واقعات اوپر بیان ہوئے ہیں ان میں یہ بتایا گیا تھا کہ توحید پر ایمان لانے کے بعد انہوں نے کس طرح اُٹھ کر دو ٹوک بات کہہ دی کہ ’’ ہمارا رب تو بس وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ‘‘۔ اور پھر کس طرح وہ اپنی گمراہ قوم سے کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ ’’ ہم اس کے سوا کسی دوسرے الہٰ کو نہ پکاریں گے، اگر ہم ایسا کریں تو بڑی بے جا بات کریں گے ‘‘۔ اور کس طرح انہوں نے اپنی قوم اور اس کے معبودوں کو چھوڑ کر بغیر کسی سہارے اور بغیر کسی سر و سامان کے ایک غار میں جا پڑنا قبول کر لیا، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ حق سے بال برابر بھی ہٹ کر اپنی قوم سے مصالحت کر لیتے۔ پھر جب وہ بیدار ہوئے تب بھی انہیں فکر ہوئی تو اس بات کی کہ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم ہم کو اپنی ملت کی طرف پھیر لے جانے میں کامیاب ہو گئی تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے۔ ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنانا در اصل مخالفین اسلام کو مقصود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اِن مشرکین اور منکرین حق سے مصالحت قطعاً خارج از بحث ہے۔ جو حق خدا کی طرف سے آیا ہے اسے بے کم و کاست ان کے سامنے پیش کر دو۔ مانتے ہیں تو مانیں، نہیں مانتے تو خود بُرا انجام دیکھیں گے۔ جنہوں نے مان لیا ہے، خواہ وہ کم سن نوجوان ہوں، یا بے مال و زر فقیر، یا غلام اور مزدور، بہر حال وہی قیمتی جواہر ہیں، انہی کو یہاں عزیز رکھا جائے گا، اور ان کو چھوڑ کر ان بڑے بڑے سرداروں اور رئیسوں کی کچھ پروا نہ کی جائے گی جو دنیا کی شان و شوکت خواہ کتنی ہی رکھتے ہوں مگر ہیں خدا سے غافل اور اپنے نفس کے بندے۔

۳۲- سرادق کے اصل معنی ہیں قناتیں اور سرا پردے جو کسی خیمہ گاہ کے گرد لگائے جاتے ہیں لیکن جہنم کی مناسبت سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ سرادق سے مراد اس کے وہ بیرونی حدود ہیں جہاں تک اس کی لپیٹیں پہنچیں اور اس کی حرارت کا اثر ہو۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اس کے سرادق نے ان کو گھیرے میں لے لیا ہے ‘‘۔ بعض لوگوں نے اس کو مستقبل کے معنی میں لیا ہے، یعنی وہ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عالم آخرت میں جہنم کے سرا پردے ان کو گھیر لیں گے۔ لیکن ہم اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حق سے منہ موڑنے والے ظالم یہیں سے جہنم کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

۳۳- لغت میں ’’مُہل‘‘  کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں۔ بعض اس کے معنی ’’تیل کی تلچھٹ‘‘  بتاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ لفظ ’’لاوے‘‘  کے معنی میں آتا ہے، یعنی زمین کے وہ مادے جو شدت حرارت سے پگھل گئے ہوں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد پگھلی ہوئی دھات ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی پیپ اور لہو کے ہیں۔

۳۴- قدیم زمانے میں بادشاہ سونے کے کنگن پہنتے تھے۔ اہل جنت کے لباس میں اس چیز کا ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ وہاں بادشاہوں کی سی شان و شوکت سے رہے گا۔

۳۵- ارائک جمع ہے اریکہ کی۔ اریکہ عربی زبان میں ایسے تخت کو کہتے ہیں جس پر چتر لگا ہوا ہو۔ اس سے بھی یہی تصور دلانا مقصود ہے کہ وہاں ہر جنتی تخت شاہی پر متمکن ہو گا۔

 

ترجمہ

 

اے محمدؐ،  اِن کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔۳۶ دو شخص تھے۔ ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور اُن کے گرد کھجُور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خُوب پھلے پھُولے اور بار آور ہونے میں اُنہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ اُن باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی اور اُسے خوب نفع حاصل ہوا۔ یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ’’میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں۔‘‘  پھر وہ اپنی جنّت میں داخل ہوا ۳۷ اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی، اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے ربّ کے حضُور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اِس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا۔‘‘  ۳۸ اُس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اُس سے کہا ’’کیا تُو کُفر کرتا ہے اُس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا؟ ۳۹ رہا میں،  تو میرا ربّ تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور جب تُو اپنی جنّت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ، لاقوة اِلّا باللّٰہ؟ ۴۰ اگر تُو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا ربّ مجھے تیری جنّت سے بہتر عطا فرما دے اور تیری جنّت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے،یا اس کا پانی زمین میں اُتر جائے اور پھر تُو اسے کسی طرح نہ نکال سکے۔ ‘‘ آخر کار ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ مارا گیا اور اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیوں پر اُلٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ ’’کاش! میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا‘‘۔۔۔۔ نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اُس کے پاس کوئی جتھا کہ اُس کی مدد کرتا، اور نہ کر سکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ۔۔۔۔اُس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔؏۵

 

تفسیر

 

۳۶- اس مثال کی مناسبت سمجھنے کے لیے پچھلے رکوع کی وہ آیت نگاہ میں رہنی چاہیے جس میں مکے کے متکبر سرداروں کی اس بات کا جواب دیا گیا تھا کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آ کر نہیں بیٹھ سکتے، انہیں ہٹا دیا جائے تو ہم آ کر سنیں گے کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس مقام پر وہ مثال بھی نگاہ میں رہے جو سورہ القلم، آیات ۱۷ تا ۳۳ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ نیز سورہ مریم، آیات ۷۳، ۷۴۔ سورہ المومنون،  آیات ۵۵ تا ۶۱۔ سورہ سبا،  آیات ۳۴ تا ۳۶، اور حٰمٰ سجدہ، آیات ۴۹-۵۰ پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔

۳۷- یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا۔ کم ظرف لوگ جنہیں دنیا میں کچھ شان و شوکت حاصل ہو جاتی ہے، ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں جنت نصیب ہو چکی ہے، اب اور کونسی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی وہ فکر کریں۔

۳۸- یعنی اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے بھی تو میں وہاں اس سے بھی زیادہ خوش حال رہوں گا کیونکہ یہاں میرا خوشحال ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ میں خدا کا محبوب اور اس کا چہیتا ہوں۔

۳۹- اگر چہ اس شخص نے خدا کی ہستی سے انکار نہیں کیا تھا، بلکہ وَلَئینْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رِبِّیْ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے وجود کا قائل تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے ہمسائے نے اسے کفر باللہ کا مجرم قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر باللہ محض ہستی باری کے انکار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ تکبُّر اور فخر و غرور اور انکار آخرت بھی اللہ سے کفر ہی ہے۔ جس نے یہ سمجھا کہ بس میں ہی میں ہوں، میری دولت اور شان و شوکت کسی کا عطیہ نہیں بلکہ میری قوت و قابلیت کا نتیجہ ہے، اور میری دولت لازوال ہے، کوئی اس کو مجھ سے چھیننے والا نہیں، اور کسی کے سامنے مجھے حساب دینا نہیں، وہ اگر خدا کو مانتا بھی ہے تو محض ایک وجود کی حیثیت سے مانتا ہے، اپنے مالک اور آقا اور فرماں روا کی حیثیت سے نہیں مانتا۔ حالانکہ ایمان باللہ اِسی حیثیت سے خدا کو ماننا ہے نہ کہ محض ایک موجود ہستی کی حیثیت سے۔

۴۰- ’’ یعنی جو کچھ اللہ چاہے وہی ہو گا۔ میرا اور کسی کا زور نہیں ہے۔ ہمارا اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو اللہ ہی کی توفیق و تائید سے چل سکتا ہے۔‘‘

 

ترجمہ

 

اور اے نبی ؐ،  اِنہیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خُوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۴۱ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی اُمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے،۴۲ اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے،۴۳ اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے ) ایک بھی نہ چھُوٹے گا، ۴۴ اور سب کے سب تمہارے ربّ کے حضُور صف در صف پیش کیے جائیں گے۔۔۔۔ لو دیکھ لو، آ گئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔۴۵ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔۔۔۔ اور نامہٴ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اُس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ کی گئی ہو۔ جو جو کچھ اُنہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا ربّ کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔ ۴۶ ؏ ۶

 

تفسیر

 

۴۱- یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آ جاتی ہے۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غَر ّے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے۔

۴۲- یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہوں گے جیسے بادل چلتے ہیں۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَا لَ تَحْسَبھَُا جَا مِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ (النحل۔ آیت ۸۸)۔ ’’تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں ‘‘۔

۴۳- یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ ’’ جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنا یا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی‘‘۔

۴۴- یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا۔

۴۵- یعنی اس وقت منکرین آخرت سے کہا جائے گا کہ دیکھو، انبیاء کی دی ہوئی خبر سچی ثابت ہوئی نا۔ وہ تمہیں بتاتے تھے کہ جس طرح اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے اسی طرح دو بارہ پیدا کرے گا، مگر تم اسے ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بتاؤ، اب دوبارہ تم پیدا ہو گئے یا نہیں؟

۴۶- یعنی ایسا ہر گز نہ ہو گا کہ کسی نے کوئی جرم نہ کیا ہو اور وہ خواہ مخواہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائے، اور نہ یہی ہو گا کہ آدمی کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دی جائے یا بیگناہ پکڑ کر سزا دے ڈالی جائے۔

 

ترجمہ

 

یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔۴۷ وہ جِنّوں میں سے تھا اس لیے اپنے ربّ کے حکم کی اطاعت سے نِکل گیا۔۴۸ اب کیا تم مجھے چھوڑ کو اُس کو اور اُس کی ذُرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دُشمن ہیں؟ بڑا ہی بُرا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں۔ میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت اُن کو نہیں بُلایا تھا اور نہ خود اُن کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔۴۹ میرا یہ کام نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مدد گار بنایا کروں۔ پھر کیا کریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ اِن کا ربّ اِن سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنھیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔۵۰ یہ اُن کو پکاریں گے، مگر وہ اِن کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے۔ ۵۱ سارے مُجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔ ؏ ۷

 

تفسیر

 

۴۷- اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روزِ آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے۔

۴۸- یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اس لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فطرۃً مطیع فرمان ہیں: لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرْوْنَ (التحریم ۶) ’’اللہ جو حکم بھی ان کو دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔‘‘  وَھم لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ، یَخَافونَ رَبَّھُمْ مِنْ فَوْقِھمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’وہ سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموما ً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن،  آیات ۱۳-۱۵)۔

رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سے نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا؟‘‘  اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جاتی جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔ چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳)

۴۹- مطلب یہ ہے کہ یہ شیاطین آخر تمہاری طاعت و بندگی کے مستحق کیسے بن گئے ؟ بندگی کا مستحق تو صرف خالق ہی ہو سکتا ہے۔ اور ان شیاطین کا حال یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق میں شریک ہونا تو درکنار، یہ تو خود مخلوق ہیں۔

۵۰- یہاں پھر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا دراصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں، قرآن ان سب کی یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، النساء حاشیہ ۹۱-۱۴۵۔ الانعام، حاشیہ ۶۷-۱۰۷۔ جلد دوم التوبہ، حاشیہ ۳۱۔ ابراہیم، حاشیہ ۲۳۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ ۲۷۔ المومنون، حاشیہ ۴۱۔ الفرقان، حاشیہ ۵۶۔ القصص، حاشیہ ۸۶ جلد چہارم، سَبَا، حاشیہ ۵۹-۶۰۔ ۶۱۔ ۶۲۔ ۶۳۔ یٰسین، حاشیہ ۵۳، الشوریٰ، حاشیہ ۳۸۔ لجاثیہ، حاشیہ ۳۰۔

۵۱- مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے اوپر ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ہم ان کے درمیان عداوت ڈال دیں گے ‘‘۔ یعنی دنیا میں ان کے درمیان جو دوستی تھی آخرت میں وہ سخت عداوت میں تبدیل ہو جائے گی۔

 

ترجمہ

 

ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ اُن کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے ربّ کے حضور معافی چاہنے سے آخر اُن کو کس چیز نے روک دیا ؟ اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں! ۵۲ رسُولوں کو ہم اس کام کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت انجام دیں گے۔۵۳ مگر کافروں کا حال یہ ہےکہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہوں نے میری آیات کو اور اُن تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنا لیا ہے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اُس کے ربّ کی آیات سُنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس بُرے انجام کو بھول جائے جس کا سروسامان اُس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے۔ تم انھیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بُلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔ ۵۴ تیرا ربّ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتُوتوں پر انھیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ ۵۵ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ ۵۶ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔ ؏ ۸

 

تفسیر

 

۵۲- یعنی جہاں تک دلیل و حجت کا تعلق ہے، قرآن نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ دل اور دماغ کو اپیل کرنے کے جتنے مؤثر طریقے اختیار کرنے ممکن تھے، وہ سب بہترین انداز میں یہاں اختیار کئے جا چکے ہیں۔ اب وہ کیا چیز ہے جو انہیں قبول حق میں مانع ہو رہی ہے؟ صرف یہ کہ انہیں عذاب کا انتظار ہے۔ جوتے کھائے بغیر سیدھے نہیں ہونا چاہتے۔

۵۳- اس آیت کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں چسپاں ہوتے ہیں :

ایک یہ کہ رسولوں کو ہم اسی لیے بھیجتے ہیں کہ فیصلے کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو فرماں برداری کے اچھے اور نافرمانی کے برے انجام سے خبر دار کریں۔ مگر یہ بے وقوف لوگ ان پیشگی تنبیہات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور اسی انجام بد کو دیکھنے پر مصر ہیں جس سے رسول انہیں بچانا چاہتے ہیں۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو عذاب ہی دیکھنا منظور ہے تو پیغمبر سے اس کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ پیغمبر عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ عذاب سے پہلے صرف خبردار کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

۵۴- یعنی جب کوئی شخص یا گروہ دلیل و حجت اور خیر خواہانہ نصیحت کے مقابلے میں جھگڑالو پن پر اتر آتا ہے، اور حق کا مقابلہ جھوٹ اور مکروفریب کے ہتھیاروں سے کرنے لگتا ہے، اور اپنے کرتوتوں کا برا انجام دیکھنے سے پہلے کسی کے سمجھانے سے اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوتا، تو اللہ تعالیٰ پھر اس کے دل پر قفل چڑھا دیتا ہے اور اس کے کان ہر صدائے حق کے لیے بہرے کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ نصیحت سے نہیں مانا کرتے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گر کر ہی انہیں یقین آتا ہے کہ وہ ہلاکت تھی جس کی راہ پر وہ بڑھے چلے جا رہے تھے۔

۵۵- یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت کسی سے قصور سرزد ہو اسی وقت پکڑ کر اسے سزا دے ڈالے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ مجرموں کے پکڑنے میں وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور مدتوں ان کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے۔ مگر سخت نادان ہیں وہ لوگ جو اس ڈھیل کو غلط معنی میں لیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خواہ کچھ ہی کرتے رہیں، ان سے کبھی باز پرس ہو گی ہی نہیں۔

۵۶- اشارہ ہے سبا اور ثمود ور مدین اور قوم لوط کے اجڑے دیاروں کی طرف جنہیں قریش کے لوگ اپنے تجارتی سروں میں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے اور جن سے عرب کے دوسرے لوگ بھی خوب واقف تھے۔

 

ترجمہ

 

(ذرا ان کو وہ قصہ سُناؤ جو موسیٰؑ کو پیش آیا تھا) جب کہ موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔‘‘  ۵۷ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نِکل کر اس طرح دریامیں چلی گئی جیسے کہ کوئی سُرنگ لگی ہو۔ آگے جا کر موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا ’’لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں تو ہم بُری طرح تھک گئے ہیں۔‘‘  خادم نے کہا ’’آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا ؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اُس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’اسی کی تو ہمیں تلاش تھی۔‘‘  ۵۸ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقشِ قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں اُنہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ ۵۹ موسیٰؑ نے اُس سے کہا ’’ کیا میں آپ کی ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘  اُس نے جواب دیا ’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے،اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اُس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’اِن شاء اللّٰہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔‘‘  اس نےکہا ’’اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں۔‘‘  ؏ ۹

 

تفسیر

 

۵۷- اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک ہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا۔ نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم، بدکاروں کا عیش اور نیکو کاروں کی خستہ حالی، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کے کنُہ کو نہیں سمجھتے، ان سے عام طور پر ذہنوں میں اُلجھنیں، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں۔ کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے، کوئی اس کا راجہ نہیں، اور ہے تو چوپٹ ہے۔ یہاں جن کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کارخانہ مشیت کا پردہ اُٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔

حضرت موسیٰ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباسؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا۔ لیکن ابن عباسؓ سے جو قوی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سیِنا اور تَیہ میں گزرا۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰؑ کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے، کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰؑ ان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہو گی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے (والعلم عند اللہ) کہ اس واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جبکہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے باز پرس کرنے والا ہو، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدا یا ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ یہ پکار اٹھے تھے کہ رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَونَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃ ً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ’’اے پروردگار، تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے، اے پروردگار، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں ؟‘‘  (تفہیم القرآن،  ج ۲ ص ۳۰۸ / سورۃ یونس، آیت ۸۸۔ )۔

اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرلابیض اور البحر الْاَزْرَق آ کر ملتی ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۱ صفحہ ۳۴ ) حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا۔

بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے۔ البتہ تَلْمُود میں اس کا ذکر موجود ہے، مگر وہ اسے حضرت موسیٰؑ کے بجائے ربّی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھائے جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گئے ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں۔ (The Talmud Selections By H Polano, pp. ۳۱۳-۱۶) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے،  نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقہ سے کیا گیا ہو گا، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت اُبَیّ بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوئے موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ پیغمبر بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا۔

مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ ایک داستانِ گلِگامیش، دوسرے سکندر نامۂسرُیانی، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بدطینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل مِن اللہ تو نہیں ماننا ہے، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جائے اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے :

اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کہ فہرست بن جائے۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے؟ اور اعلانِ نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی آنحضرتؐ کی ایسی معلومات کا کوئی نشان آپؐ کی بات چیت میں نہ پائے جانے کی کیا معقول وجہ ہے؟

تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے معاصرین کو اس سرقے کا پتا نہ چلنے کی کیا وجہ ہے؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے، وحی کے سوا اس کوئی ماخذ نہیں ہے، اگر تم اسے بشر کا کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے۔ اس چیلنج نے آنحضرت کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار، شک ہی کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوئے اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے؟

آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہر حال ہے نا کہ قرآن منزّل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں۔ اس امکان کو کس معقول دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہو جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے؟

ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ’’ علم‘‘  کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔

۵۸- یعنی منزل مقصود کا یہی نشان تو ہم کو بتایا گیا تھا۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور ان کو منزل مقصود کی علامت یہی بتائی گئی تھی کہ جہاں ان کے ناشتے کی مچھلی غائب ہو جائے وہی مقام اس بندے کی ملاقات کا ہے جس سے ملنے کے لیے وہ بھیجے گئےتھے۔

۵۹- اس بندے کا نام تمام معتبر احادیث میں خضر بتایا گیا ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے اقوال کسی التفات کے مستحق نہیں ہیں جو اسرائیلی روایات سے متاثر ہو کر حضرت الیاس کی طرف اس قصے کو منسوب کرتے ہیں۔ ان کا یہ قول نہ صرف اس بنا پر غلط ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے متصادم ہوتا ہے، بلکہ اس بنا پر بھی سراسر لغو ہے کہ حضرت الیاس حضرت موسیٰ کے کئی سو برس بعد پیدا ہوئے ہیں۔

حضرت موسیٰ کے خادم کا نام بھی قرآن میں نہیں بتایا گیا ہے۔ البتہ بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ حضرت یوشع ؑ بن نون تھے جو بعد میں حضرت موسیٰ کے خلیفہ ہوئے۔

 

ترجمہ

 

اب وہ دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ آپ نے اِس میں شگاف ڈال دیا تا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی۔‘‘  اس نے کہا ’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’ بھُول چُوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں۔‘‘  پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ اُن کو ایک لڑکا ملا اور اُس شخص نے اُسے قتل کر ڈالا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اُس نے کسی کا خون نہ بہایا تھا؟ یہ کام تو آپ نے بہت ہی بُرا کیا۔‘‘  اُس نے کہا ’’میں تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟‘‘  موسیٰؑ نے ’’ اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔‘‘

پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گِرا چاہتی تھی۔ اُس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے۔‘‘  اُس نے کہا ’’بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ ۶۰

اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدُوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے،ہمیں اندیشہ ہو ا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کُفر سے اِن کو تنگ کرے گا، اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا ربّ اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلۂ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اِس دیوار کے نیچے اِن بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے ربّ نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے ربّ کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے،  میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ ‘‘   ؏ ۱۰

 

تفسیر

 

۶۰:  اس قصے میں ایک بڑی پیچیدگی ہے جسے رفع کرنا ضروری ہے۔ حضرت خضر نے یہ تین کام جو کیے ہیں ان میں سے تیسرا کام تو خیر شریعت سے نہیں ٹکرا تا،  مگر پہلے  دونوں کام یقیناً ان احکام سے متصادم ہوتے ہیں جو ابتدائے عہد انسانیت سے آج تک تمام شرائع الہیہ میں ثابت رہے ہیں۔ کوئی شریعت بھی کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کر دے،  اور کسی متنفس کو بے قصور قتل کر ڈالے۔ حتیٰ کہ اگر کسی انسان کو بطریق الہام بھی یہ معلوم ہو جائے کہ ایک کشتی کو آگے جا کر ایک غاصب چھین لے گا، اور فلاں لڑکا بڑا ہو کر سرکش اور کافر نکلے گا، تب بھی اس کے لیے خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں میں سے کسی شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اس الہامی علم کی بنا پر کشتی میں چھید کر دے اور ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالے۔اس کے جواب میں یہ کہنا کہ حضرت خضر نے یہ دونوں کام اللہ کے حکم سے کیے تھے،  فی الواقع اس پیچیدگی کو کچھ بھی رفع نہیں کر تا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام کس کے حکم سے کیے تھے۔ ان کا حکم الہٰی سے ہونا تو بالیقین ثابت ہے کیونکہ حضرت خضر خود فرماتے ہیں کہ ان کے یہ افعال ان کے اختیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ کی رحمت ان کی محرک ہوئی ہے،  اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ خود فرما چکا ہے کہ حضرت خضر کو اللہ کی طرف سے ایک علم خاص حاصل تھا۔ پس یہ امر تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کام اللہ کے حکم سے کیے تھے۔مگر اصل سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی؟ظاہر ہے کہ یہ تشریعی احکام نہ تھے،  کیونکہ شرائع الٰہیہ کے جو بنیادی اصول قرآن اور اس سے پہلے کی کتب آسمانی سے ثابت ہیں ان میں کبھی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ وہ بلا ثبوت جرم کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام سے مشابہت  رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے،  کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہیں ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنے ذاتی اختیار کے بغیر صرف اوامر الہیہ کی تعمیل کرتے ہیں۔ رہا انسان تو خواہ وہ بلا ارادہ کسی تکوینی حکم کے نفاذ کا ذریعہ بنے،  اور خواہ الہاماً اس طرح کا کوئی غیبی علم اور حکم پا کر اس پر عمل در آمد کرے،  بہر حال وہ گنہ گار ہونے سے نہیں بچ سکتا اگر وہ کام جو اس نے کیا ہے کسی حکم شرعی سے ٹکراتا ہو۔ اس لیے کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ انسان ہے،  احکام شرعیہ کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں کہیں یہ گنجائش نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس خلاف کا حکم ملا ہے اور بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔یہ ایک ایسی بات ہے جس پر نہ صرف تمام علمائے شریعت متفق ہیں،  بلکہ اکابر صوفیہ بھی بالاتفاق یہی بات کہتے ہیں۔ چنانچہ علامہ آلوسی نے تفصیل کے ساتھ عبد الوہاب شعرانی، محی الدین ابن عربی،  مجدو الف ثانی، شیخ عبد القادر جیلانیؒ، جنید بغدادی، سَریسقطی، ابوالحسین النوری، ابو سعید الخراز،  ابو العباس احمد الدینوری اور امام غزالی جیسے نامور بزرگوں کے اقوال نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے  کہ اہل تصوف کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔(روح المعانی۔ج،۱۶۔ ص ۱۶۔ ۱۸ )اب کیا ہم یہ مان لیں کہ اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک انسان مستثنیٰ کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت خضر؟ یا یہ سمجھیں کی خضر کوئی انسان نہ تھے بلکہ اللہ  کے ان بندوں میں سے تھے جو مشیت الٰہی کے تحت (نہ کہ شریعت الہٰی کے تحت ) کام کرتے ہیں ؟پہلی صورت کو ہم تسلیم کر لیتے اگر قرآن بالفاظ صریح یہ کہہ دیتا کہ وہ ’’ بندہ‘‘  جسکے پاس حضرت موسیٰ اس تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے،  انسان تھا۔ لیکن قرآن اس کے انسان ہونے کی تصریح نہیں کرتا بلکہ صرف عَبْدً ا مَّنْ عِبَادِ نَا (ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ) کے الفاظ بولتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس بندے کے انسان ہونے کو مستلزم نہیں ہیں،  قرآن مجید میں متعدد جگہ فرشتوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے،  مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ انبیاء،  آیت ۲۶۔ اور سورہ زخرف، آیت ۱۹۔ پھر کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کوئی ایسا ارشاد منقول نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت خضر کو نوع انسانی کا ایک فرد قرار دیا گیا ہو۔ اس باب میں مستند ترین روایات وہ ہیں جو عن سعید بن جبیر،  عن ابن عباس،  عن اُبی بن کعب، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سند سے ائمۂ حدیث کو پہچی ہیں۔ ان میں حضرت خضر کے لیے صرف رَجُل کا لفظ آیا ہے،  جو اگر چہ مرد انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ چنانچہ خود قرآن میں یہ لفظ جِنوں کے لیے مستعمل ہو چکا ہے جیسا کہ سورہ جِن یا فرشتہ یا کوئی اور غیر مرئی وجود جب انسانوں کے سامنے آئے گا تو انسانی شکل ہی میں آئے گا اور اس حالت میں اس کو بشر یا انسان ہی کہا جائے گا۔ حضرت مریم کے سامنے جب فرشتہ آیا تھا تو قرآں اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ فَتَمَثَّلَ لَھَابَشَرً ا سَوِیًّا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’وہاں انہوں نے ایک مرد کو پایا ‘‘  حضرت خضر کے انسان ہونے پر صریح دلالت نہیں کرتا۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس پیچیدگی کو فرد کرنے کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم ’’خضر‘‘  کو انسان نہ مانیں بلکہ فرشتوں میں سے،   یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے سمجھیں جو شرائع کی مکلف نہیں ہے بلکہ کار گاہ مشیت کی کارکن ہے۔ متقدمین میں سے بھی بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ماوردی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

 

ترجمہ

 

اور اے محمدؐ،  یہ لوگ تم سے ذُوالقرنین کے بارے میں پُوچھتے ہیں۔ ۶۱ ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سُناتا ہوں۔ ۶۲ ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا)سرو سامان کیا۔ حتیٰ کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا ۶۳ تو اس نے سُورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا ۶۴ اور وہاں اُسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا ’’ اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویّہ اختیار کرے۔‘‘  ۶۵ اس نے کہا، ’’ جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے ربّ کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔‘‘  پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی)تیاری کی یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سُورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لیے دھُوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ ۶۶ یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔

پھر اس نے ( ایک اور مہم کا)سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ۶۷ تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سجھتی تھی۔ ۶۸ اُن لوگوں نے کہا کہ ’’اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج ۶۹ اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام لیے دیں کہ تُو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟‘‘  ان نےکہا ’’جو کچھ میرے ربّ نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں۔ ۷۰ مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو۔‘‘  آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار)بالکل آگ کی طرح سُرخ ہو گئی تو اس نے کہا ’’ لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔‘‘  (یہ بند ایسا تھا کہ)یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آسکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ذوالقرنین نے کہا ’’یہ میرے ربّ کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے ربّ کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کر دے گا، ۷۱ اور میرے ربّ کا وعدہ برحق ہے۔‘‘  ۷۲

اور اُس روز ۷۳ ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح )ایک دُوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔ اور وہ دن ہو گا جب ہم جہنّم کو کافروں کے سامنے لائیں گے،  اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اور کچھ سُننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ ؏ ۱۱

 

تفسیر

 

۶۱:  وَیَسْئَلُوْ نَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ کا عطف لا محالہ پچھلے قصے ہی پر ہے۔ اس سے خودبخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قصۂ موسیٰ و خضر بھی لوگوں کے سوال ہی کے جواب میں سنایا گیا ہے اور یہ بات ہمارے اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ اس سورے کے یہ تینوں اہم قصے در اصل کفار مکہ نے اہل کتاب کے مشورے سے امتحاناً دریافت کیے تھے۔

۶۲:  یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘  جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے،  کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا،  لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مدکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس(خسرو یا سائرس) کی طرف ہے،  اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے،  مگر بہر حال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : ۱)۔ اس کا لقب ذو القرنین(لغوی معنی ’’دو سینگوں والا‘‘  ) کم از کم یہودیوں میں،  جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’ دو سینگوں والے ‘‘  کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔ ۲)۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں،  اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔ ۳ )۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و  ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی در ے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہو گا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں،  اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔ ۴)۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے،  کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’ دو سینگوں والے ‘‘  کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور نبی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی (تفہیم القرآن سورہ نبی اسرائیل،  حاشیہ ۸ ) دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے،  مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیائے کو چک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں،  مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے،  حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے،  تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے،  کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کاکیشیا(قفقاز) تک وسیع تھی۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو  تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت  نہیں ہو سکا ہے کہ خوس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہیں ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ’’ ذو القرنین‘‘  کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں،  لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دیتے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا  خورس ہے۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج ۵۴۹ ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (یشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ۵۳۹ ق، م  میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوار زم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔

۶۳:  غروب آفتاب کی حد سے مراد، جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے : اقصٰی ما یسلک فیہ من الارض میں ناحیۃ المغرب ہے نہ کہ آفتاب غروب ہونے کی جگہ۔ مراد یہ ہے کہ وہ مغرب کی جانب ملک پر ملک فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا۔

۶۴:  یعنی وہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ اگر فی الواقع ذو القرنین سے مراد خورس ہی ہو تو یہ ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہو گا جہاں بحرایجین چھوڑی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس قیاس کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ قرآن یہاں بحر کے بجائے عین کا لفظ استعمال کرتا ہے جو سمندر کے بجائے جھیل یا خلیج ہی پر زیادہ صحت کے ساتھ بولا جا سکتا ہے۔

۶۵:  ضرور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات براہ راست وحی یا الہام کے ذریعہ ہی سے ذو القرنین کو خطاب کر کے  فرمائی ہو، حتیٰ کہ اس سے ذو القرنین کا نبی یا محدث ہونا لازم آئے۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حل کے واسطے سے بھی ہو سکتا ہے،  اور یہی قرین قیاس ہے۔ ذو القرنین اس وقت فتح یاب ہو کر اس علاقے پر قابض ہوا تھا۔ مفتوح قوم اس کے بس میں تھی۔ اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بے بس ہ۔ تو ظلم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،  اور شرافت کا سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔

۶۶: یعنی ہو ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانت ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہو گئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہ جانتی تھیں۔

۶۷:  چونکہ آگے یہ ذکر آ رہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کے اس طرف یاجوج ماجوج کا علاقہ تھا، اس لیے لامحالہ ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہی ہو سکتے ہیں جو بحر خزر (کیسپین) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں۔

۶۸:  یعنی اس کی زبان ذو القرنین اور اس کے ساتھیوں کے لیے قریب قریب بالکل اجنبی تھی۔ سخت وحشی ہونے کے سبب سے نہ کوئی ان کی زبان سے واقف تھا اور نہ وہ کسی غیر زبان سے واقف تھے۔

۶۹:  یاجوج ماجوج سے مراد، جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر ۶۲ میں اشارہ کیا جا چکا ہے،  ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اُٹھ کر ایشیا اور یورپ، دونوں طرف رُخ کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (اب ۱۰) میں ان کو حضرت نوحؑ کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے،  اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب ۳۸و ۳۹) میں سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خَزَر کے قریب آباد تھے۔

۷۰:  یعنی فرمانروا ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ اپنی رعایا کو غارت گروں کے حملے سے بچاؤں۔ اس ملک کے لیے تم پر کوئی الگ ٹیکس لگانا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ ملک کا جو خزانہ اللہ تعالیٰ نے میرے حوالے کیا ہے وہ اس خدمت کے لیے کافی ہے۔ البتہ ہاتھ پاؤں کی محنت سے تم کو میری مدد کرنی ہو گی۔

۷۱:  یعنی اگرچہ میں نے اپنی حد تک انتہائی مستحکم دیوار تعمیر کی ہے،  مگر یہ لازوال نہیں ہے۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے،  یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آئے گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لیے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی۔ ’’وعدے کا وقت ‘‘  ذو معنی لفظ ہے۔ اس سے مراد اس دیوار کی تباہی کا وقت بھی ہے اور وہ ساعت بھی جو اللہ نے ہر چیز کی موت اور فنا کے لیے مقرر فرما دی ہے،  یعنی قیامت۔ (اس دیوار کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۔ ۲)

۷۲:  یہاں پہنچ کر ذو القرنین کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ اگر چہ کفار مکہ کے امتحانی سوال پر سنایا گیا ہے،  مگر قصۂ اصحاب کہف اور قصۂ موسیٰ و خضر کی طرح اس کو بھی قرآن نے اپنے قاعدے کے مطابق اپنے مدعا کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ذو القرنین،  جس کی عظمت کا حال تم نے اہل کتاب سے سنا ہے،  محض ایک فاتح ہی نہ تھا، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگے نیست۔

۷۳: یعنی قیامت کے روز۔ ذو القرنین نے جو اشارہ قیامت کے وعدۂ بر حق کی طرف کیا تھا اسی کی مناسبت سے یہ فقرے اس کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔

 

ترجمہ

 

تو کیا ۷۴ یہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں؟ ۷۵ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے یے جہنّم تیار کر رکھی ہے۔

اے محمدؐ،  ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کہ زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی ۷۶ اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ۷۷ ان کی جزا جہنّم ہے اُس کُفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات  اور میرے رسُولوں کے ساتھ کرتے رہے۔ البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس ۷۸ کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اُس جگہ سے نِکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔ ۷۹ اے محمدؐ،  کہو کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتیں ۸۰ لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔ اے محمدؐ،  کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میرے طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا اُمیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ ؏ ۱۲

 

تفسیر

 

۷۴:  یہ پوری سورت کا خاتمۂ کلام ہے،  اس لیے اس کی مناسبت ذو القرنین کے قصے میں نہیں بلکہ سورۃ کے مجموعی مضمون میں تلاش کرنی چاہیے۔ سورۃ کا مجموعی مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کو شرک  چھوڑ کر توحید اختیار کنے اور دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت پر یقین لانے کی دعوت دے رہے تھے۔مگر قوم کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت اور شوکت و حشمت کے زعم میں نہ صرف آپ کی اس دعوت کو رد کر رہے تھے،  بلکہ ان چند راستی پسند انسانوں کو بھی، جنہوں نے یہ دعوت قبول کر لی تھی، ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اور پر وہ ساری تقریر کی گئی جو شروع سورہ سے یہاں تک چلی آ رہی ہے،  اور اسی تقریر کے دوران میں یکے بعد دیگرے ان تین قصوں کو بھی،  جنہیں مخالفین نے امتحاناً دریافت کیا تھا۔ ٹھیک موقع پر نگینوں کی طرح جڑ دیا گیا۔ اب تقریر ختم کر تے ہوئے پھر کلام کا رخ اسی مدعا کی طرف پھیرا جا رہا ہے جسے تقریر کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا اور جس پر رکوع ۴ سے ۸ تک مسلسل گفتگو کی جا چکی ہے۔۷۵:  یعنی یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان کا خیال یہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ روشن ان کے لیے نافع ہو گی ؟۷۶:  اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ’’ جن کی ساری سعی و جہد دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی‘‘۔ یعنی انہوں نے جو کچ بھی کیا خدا سے بے نیاز اور اور آخرت سے بے فکر ہو کر صرف دنیا کے لیے کیا۔ دنیوی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھا۔ دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصود بنا یا۔ خدا کی ہستی کے اگر قائل ہوئے بھی تو اس بات کی کبھی فکر نہ کی کہ اس کی رضا کیا ہے اور ہمیں کبھی اس کے حضور جا کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ اپنے آپ کو محض ایک خود مختار و غیر ذمہ دار حیوان عاقل سمجھتے رہے جس کے لیے دنیا کی اس چراگاہ سے تمتع کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔۷۷:  یعنی اس طرح کے لوگوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کیے ہوں،  بہر حال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنے قصر اور محلات،اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں،  اپنے  کار خانے اور معمل،  اپنی سڑکیں اور ریلیں،  اپنی ایجادیں اور صنعتیں،  اپنے علوم و فنون اور اپنی آرٹ گیلریاں،  اور دوسری وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں،  ان میں سے تو کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے وہ خدا کے ہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سلیں۔ وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصد عمل اور نتائج عمل ہیں۔ اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکا ہے تو اس کا سب  کیا کرایا دنیائے فانی کے ساتھ ہی فنا ہو گیا۔ آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پا سکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہیے جو اس نے خدا کی رضا کے لیے کیا ہو، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں۔ ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلاشبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی۔۷۸:  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم،  المومنون،  حاشیہ ۱۰۔۷۹:  یعنی اس حالت سے بہتر ور کوئی حالت ہو گی ہی نہیں کہ جنت کی زندگی کو اس سے بدل لینے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی خواہش پیدا ہو۔۸۰:  ’’ باتوں ‘‘  سے مراد اس کے کام اور کمالات اور عجائبِ قدرت و حکمت ہیں۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، لقمان،  حاشیہ ۴۸۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۱۹۔ سورۂ مریم

 

 

نام

 

اس سورت کا نام آیت  واذ کر فی الکتب مریم سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں حضرت مریم کا ذکر آیا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ سے  پہلے کاہے۔ معتبر روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے تھے اس وقت حضرت جعفر نے یہی سورہ بھرے دربار میں تلاوت کی بھی۔

 

تاریخی پس منظر

 

جس دور میں یہ سورہ نازل ہوئی اس کے حالات کی طرف ہم کسی حد تک سورہ کہف کے دیباچے میں اشارہ کر چکے ہیں لیکن وہ مختصر اشارہ اس سورے کو اور  دور کی دوسری سورتوں کو سمجھنے کے لیئے کافی نہیں ہے۔ اس لیئے ہم ذرا اس وقت کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

قریش کے  سردار جب تضحیک،  استہزاء اطماع تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر  سے تحریک اسلامی کو دبانے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے ظلم و ستم،  مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے شروع کی ے۔ ہر قبیلے کے لوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلموں کو تنگ پکڑا اور طرح طرح سے ستا کر،  قید کر کے بھوک پیاس کی تکلیفیں دے کر،  حتی کہ سخت جسمانی اذیتیں دے دے کر انہیں اسلام چھوڑ نے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور سوالی جو قریش والوں کے تحت زیر دست کی حیثیت سے رہتے تھے،  بری طرح پیسے گئے۔ مثلاً بلال،  عامر بن مہر،  ام عبیس،  زبیرہ،  عمار بن یاسر اور ان کے والدین وغیرہ ہم،  ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا،  بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا،  مکے کی تپتی ہوئی ریت چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپا یا جاتا۔ جو لوگ پیشہ ور تھے ان اس کام لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا۔ چنانچہ  صحیحین میں حضرت خباب بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ :

” میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا،  مجھ سے عاص بن دائل نے کام  لیا،  پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ تیری اجرت نہ دوں گا جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے ”

اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کر بر باد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے ان کو ہر طریقے سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت خباب کہتے ہیں کہ ایک روز نبی ﷺ کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کی خدمت حاضر ہو کر عرض کیا ” یا رسول اللہ۔ اب تو ظلم کی حد ہو گئی ہے۔ آپ خدا سے دعا فرماتے ؟ ” یہ سن کر آپ کا چہرہ مبارک تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا ” تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہو چکے ہیں۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھسی جاتی تھیں،  ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے   نہ پھر تے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پورا کر کے رہے گا یہاں تک کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ ایک آدمی صنعاء  سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا،  مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو” (بخاری)۔

یہ حالات جب نا قابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب ۴۵ہجری عام الفیل (شہ نبوی ) میں حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ لوخرجتم الی ارض الحبشتہ فان بھا ملکالایطیلم عندہ احد وھی ارض صد حتی یجعل اللہ لکم فرجام ما انتم فیہ۔

” اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے،  تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔”

اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا،  مگر خوش قسمتی سے شعیبہ کے بندر گاہ پر ان کو بر وقت حبش کے لیئے کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی یہاں تک کہ ۸۳ مرد گیارہ عورتیں اور ۷ غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہو گئے اور مکے میں نبی ﷺ کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے۔

اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا،  کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں۔ کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد،  کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی سلمہ بن ہشام،  اس کے چچا زاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمہ،  ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبیہ۔ عتبہ کے بیٹے اور ہند جگر خوار کے سگے بھائی ابو حذیفہ۔ سہل بن عمرد کی بیٹی سلہلہ۔ اور اسی طرح دوسرے سردار قریش اور مشہور دشمنان اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اسی لیئے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں پلے سے زیادہ سخت ہو گئے۔ اور بعض کے دلوں پر اس کا اثر ایسا ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ  کی اسلام دشمنی پر پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی۔ ان کی ایک قریبی رشتہ دار لیلی بنت حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لیئے اپنا سامان باندھ رہی تھی،  اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمر ؓ  آئے اور کھڑے ہو کر میری مشغولیت کو دیکھتے رہے کچھ دیر کے بعد کہنے لگے ”عبد اللہ کی ماں،  جار ہی ہو” ؟ میں نے کہا ” ہاں خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں ستا یا۔ خدا کی زمین کھلی پڑی ہے،  اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں خدا ہمیں چین دے ” یہ سن کر عمر کے چہرے پر رقت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور وہ بس یہ کہ کر نکل گئے کہ ” خدا تمہارے ساتھ ہو”۔

ہجرت کے  بعد قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے طے کیا کہ عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے ماں جائے بھائی ) اور عمر و بن عاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش جائے اور یہ لوگ کیس نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات رپ راضی کریں کہ وہ ان مہا جرین کو مکہ واپس بھیج دے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے (جو خود مہاجرین حبشہ میں شامل تھیں ) یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہر سیاست سفیر ہمارے تعاقب میں حبش۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیان سلطنت میں خو ہدیہ تقسیم کر کے سب کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مہاجرین کو واپس کرنے کے لیئے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا کہ ” ہمارے شہر کے چند نادان زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا ” ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آ گئے ہیں قوم کے اشرف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کو درخواست کرنے کے لیئے بھیجا ہے۔ یہ لڑ کے ہمارے دین سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیا نکال لیا ہے ” ان کا کالم ختم ہوتے ہی اہل در بار ہر طرف سے بولنے لگے کہ ” ایسے لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہیے،  ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے۔ انہیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ ” اس طرح تو میں انہیں حوالے نہیں کروں گا۔ جن لوگوں نے دوسرے ملک کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لیئے  آئے ان سے میں بے وفائی نہیں کر سکتا پہلے میں انہیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے  ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ” چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔

نجاشی کا پیغام پا کر سب مہاجرین جمع ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بے کم و کاست پیش کریں گے خواہ نجاشی کریں گے خواہ نجاشی ہمیں رکھے یا نکال دے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ ” یہ تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑ اور میرے دین داخل نہ ہوئے،  نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا ؟  آخر یہ تمہارا نیا دین ہے کیا ”؟ اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفر بن ابی طالب نے ایک بر جستہ تقریر کی جس میں پہلے عرب جاہلیت کی دینی،  اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی بیان کیا،  پھر نبی ﷺ کی بعثت کا ذکر کر کے بتا یا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں،  پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو آنحضور کی پیروی اختیار کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے تھے،  اور کلام اس بات پر ختم کیا دوسرے ملکوں کے بجائے ہم ے آپ کے ملک کا رح اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا۔ نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تم کہتے وہ کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اترا ہے۔حضرت جعفر نے جواب میں سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنا یا جو حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہما اسلام سے متعلق ہے۔ نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ اس کی ڈاڑھی تر ہو گئی جب حضرت جعفر نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا  کہ ” یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسی لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا "۔

دوسرے روز عمر و بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ ” ذرا ان لوگوں سے بلا کر یہ تو پوچھے کہ عیسی بن مریم کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے۔ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں ” نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا۔ مہاجرین کو پہلے سے عمر ذکی کی چال کا علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے جمع ہو کر پھر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسی ؑ کے بارے میں سوال کیا تو جواب دو گے ؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب اس سے پریشان تھے۔ مگر پھر بھی اصحاب رسول اللہ نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول نے سکھائی۔چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے اور نجاشی نے عمر دین العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے دہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلاتا مل کہا کہ ” ھو عبداللہ و رسولہ و رحہ کلمتہ القاھا الی مریم لاعزراء البتول۔وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا ” نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اٹھا یا اور کہا ” خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا ہے عیسی اس سے تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے۔” اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے  یہ کہ کر واپس کر دے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان کے ساتھ رہو۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر جب ہم اس سورے کو دیکھتے ہیں تو اس میں اولیں بات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ اگر چہ مسلمان ایک مظلوم پناہ گزیں گروہ کی حیثیت سے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا رہے  تھے،  مگر اس حالت میں بھی اللہ تعالی نے ان کو دین کے معاملے میں ذرہ برابر مداہنت کرنے کی تعلیم نہ دی،  بلکہ چلتے وقت زاد راہ کے طور پر یہ سورہ ان کے ساتھ کی تاکہ عیسائیوں کے ملک میں عیسی ؑ کی بالکل صحیح حیثیت پیش کریں اور انکے ابن اللہ ہونے  کا صاف صاف انکار کر دیں۔

پہلے دو رکوعوں میں یحیی اور عیسی کا قصہ سنا نے کے بعد پھرتی سے رکوع میں حالات زمانہ کی مناسبت سے حضرت ابراہیم ؑ کا قصہ سنا یا گیا ہے کیونکہ ایسے ہی حالات میں وہ بھی اپنے باپ اور خاندان اور اہل ملک کے ظلم سے تنگ آ کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے ایک طرف کفار مکہ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ آج ہجرت کرنے والے مسلمان ابراہیم ؑ کی پوزیشن میں ہیں اور تم لوگ ان ظالموں کی پوزیشن میں ہو جنہوں نے تمہارے باپ اور پیشواؤ ابراہیم ؑ کو گھر سے نکالا تھا۔ دوسری طرف مہاجرین کوک یہ بشارت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم ؑ وطن سے نکل کر تباہ نہ ہوئے بلکہ اور زیادہ سر بلند ہو گئے ایسا ہی انجام نیک تمہارا انتظار کر رہا ہے۔

اس کے بعد چوتھے رکوع میں دوسرے انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاء ؑ وہی دین لے کر آئے تھے جو محمد ﷺ لائے ہیں،  مگر انبیاء کے گزر جانے کے بعد ان کی امتیں بگڑتی رہی ہیں اور آج مختلف امتوں میں جو گمراہیاں پائی جا رہی ہیں یہ اسی بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔

آخر دو رکوعوں میں کفار مکہ کی گمراہیوں پر سخت تنقید کی گئی ہے اور کلام ختم کرتے ہوئے اہل ایمان کو مژدہ سنا یا گیا ہے کہ دشمنان حق کی سار ی کوششوں کے باوجود بالآخر تم محبوب خلائق ہو کر رہو گے۔

 

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

ک، ہ، ی، ع، ص۔ ذکر ہے ۱ اُس رحمت کا جو تیرے ربّ نے اپنے بندے زکریا ۲ پر کی تھی، جبکہ اُس نے اپنے ربّ کو چُپکے چُپکے پُکارا۔اُس نے عرض کیا ’’ اے پروردگار! میری ہڈیاں تک گھُل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اُٹھا ہے۔ اے پروردگار،  میں کبھی تجھ سے دُعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے ۳،  اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوبؑ  کی میراث بھی پائے، ۴ اور اے پروردگار، اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۔‘‘  (جواب دیا گیا) ’’ اے زکریا، ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔ ہم نے اِس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔‘‘  ۵ عرض کیا ’’پروردگار،  بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سُوکھ چکا ہوں؟‘‘  جواب مِلا ’’ایسا ہی ہو گا۔ تیرا ربّ فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔‘‘  ۶ زکریا نے کہا، ’’پروردگار،  میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔‘‘  فرمایا ’’ تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تُو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے۔ ‘‘  چنانچہ وہ محراب ۷ سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔ ۸ ’’اے یحییٰ، کتابِ الہٰی کو مضبُوط تھام لے۔‘‘  ۹ ہم نے اسے بچپن ہی میں ’’حکم‘‘  ۱۰ سے نوازا، اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی ۱۱ اور پاکیزہ عطا کی، اور وہ بڑا پرہیز گار اور اپنے والدین کا حق شناس تھا۔ وہ جبّار نہ تھا اور نہ فرمان۔ سلام اُس پر جس روز  کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اُٹھا یا جائے۔ ۱۲ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱:  تقابل کے لئے سورہ آل عمران رکوع ۴ پیش نظر رہے جس میں یہ قصہ دوسرے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے۔ تفہیم القران ج ۱۔ص ۲۴۶۔ ۲۵۰)

۲:  یہ حضرت زکریا جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے  حضرت ہارون کے خاندان سے تھے۔ ان کو پوزیشن ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کے نظام کہانت (Priesthood ) کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب کی اولاد کے ۱۲قبیلوں میں تو سارا ملک تقسیم کر دیا گیا،  اور تیرھواں قبیلہ (یعنی لاوی بن یعقوب کا گھرانا ) مذہبی خدمات کے لئے مخصوص  رہا پھر بنی لاوی میں سے بھی اصل وہ خاندان جو، مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلا نے کی خدمت ‘ اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام ” کرتا تھا، حضرت ہارون کا خاندان تھا۔ باقی دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے بلکہ خداوند کے گھر کی خدمت کے وقت صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے، سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے،  اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو باری باری سے مقدس کی خدمت کے لئے حاضر ہوتے۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا تھے۔ اپنے خاندان کی باری کے دنوں میں یہی مقدس میں جاتے اور بخور جلا نے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب توار یخ اول۔ باب ۲۳(۲۴)

۳:  مطلب یہ کہ ابیاہ کے خاندان میں میرے بعد کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے میں سنبھالے ہوئے ہوں۔ آگے جو نسل اٹھتی نظر آ رہی ہے جو اس کے لچھن بگڑے ہوئے ہیں۔

۴: یعنی مجھے صرف اپنی ذات ہی کا وارث مطلوب نہیں ہے بلکہ خانوادۂ یعقوب  کی بھلائیوں کا وارث مطلوب ہے۔

۵: لوقا کی انجیل میں الفاظ یہ ہیں: ’’تیرے کنبے میں کسی کا یہ نام نہیں‘‘ (۱:۶۱)۔

۶: حضرت زکریا کے اس سوال اور فرشتے کے جواب کو نگاہ میں رکھیے،  کیونکہ آگے چل کر حضرت مریم کے قصّے میں پھر یہی مضمون آ رہا ہے اور اس کا جو مفہُوم یہاں ہے وہی وہاں بھی ہونا چاہیے۔ حضرت زکریا نے کہا کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے،  میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے۔ فرشتے نے جواب دیا کہ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘،   یعنی تیرے  بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تیرے ہاں لڑکا ہو گا۔ اور پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا حوالہ دیا کہ جس خدا نے تجھے نیست و ہست کیا اُس کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ تجھ جیسے شیخ فانی سے ایک ایسی عورت کے ہاں اولاد پیدا کر دے جو عمر بھر بانجھ رہی ہے۔

۷: محراب کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل،  آلِ عمران، حاشیہ ۳۶۔

۸: اس واقعے کی جو تفصیلات لوقا کی انجیل میں بیان ہوئی ہیں انہیں ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے قرآن کی روایت کے ساتھ مسیحی روایت بھی رہے۔ درمیان میں قوسین کی عبارتیں ہماری اپنی ہیں: ’’یہودیہ کے بادشاہ ہیرو دیس کے زمانے میں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم،  بنی اسرائیل، حاشیہ ۹) ابیاہ کے فریق سے زکریا ہ نام کا ایک کاہن تھا  اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع (Elizabeth ) تھا۔ اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز  اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے۔ اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ لیشبع بانجھ تھی اور وہ دونوں عمر رسیدہ تھے۔ جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مَقدِس میں جا کر خوشبو جلائے۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلاتے وقت باہر دعا  کر رہی تھی کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی دہنی طرف کھڑا ہوا اس کو دکھائی دیا۔ اور زکریا دیکھ کر گھبرایا اور اس پر دہشت چھا گئی۔ مگر فرشتے نے اس سے کہا اے زکریا! خوف نہ کر کیونکہ تیری دُعا  سُن لی گئی (حضرت زکریا کی دُعا کا ذکر بائیبل میں کہیں نہیں ہے) اور تیرے لیے تیری بیوہ الیشبع کے بیٹا ہو گا۔ تُو اُس کا نام یوحنّا ( یعنی یحییٰ) رکھنا اور تجھے خوشی و خرمی ہو گی اور بہت سے لوگ اس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ  ہو گا (سورۂ آلِ عمران میں اس کے لیے لفظ سَیِّدًا استعمال ہوا ہے ) اور ہرگز نہ مَے اور نہ کوئی شراب پیے گا (تَقِیًّا) اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس ے بھر جائے گا ( واٰ تَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا) اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو اُن کا خدا ہے پھیرے گا۔ اور وہ ایلیاہ (الیاس علیہ السّلام) کی روح اور قوت میں اس کے آگے اگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راستبازوں  کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لیے ایک مستند قوم تیار کرے‘‘۔ ’’زکریا نے فرشتے سے کہا کہ میں اس بات کو کس طرح جانوں؟ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے۔ فرشتے نے اس سے کہا میں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے اِن باتوں کی خوشخبری دوں۔ اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہو لیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا اس لیے کہ تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا۔ (یہ بیان قرآن سے مختلف ہے۔ قرآن اسے نشانی قرار دیتا ہے اور لوقا کی روایت اسے سزا کہتی ہے۔ نیز قرآن صرف تین دن کی خاموشی کا ذکر کرتا ہے اور لوقا کہتا ہے کہ اس وقت سے حضرت یحییٰ کی پیدائش تک حضرت زکریا گونگے رہے) اور لوگ زکریا کی راہ دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ اسے مقدس میں کیوں دیر لگی۔ جب وہ باہر آیا تو ان سے بو ل نہ سکا۔ پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس میں رویا دیکھی ہے اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا ‘‘۔

۹: بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ اس فرمانِ الہٰی کے مطابق حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اور جوانی کی عمر کو پہنچے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو کیا کام اُن سے لیا گیا۔ یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کر دیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ یعنی وہ توراۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قائم کرنے کی کوشش کریں۔

۱۰: ’’حکم‘‘  یعنی قوتِ فیصلہ، قوتِ اجتہاد، تفقہ فی الدین، معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت،  اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار۔

۱۱: اصل میں لفظ حَنَان استعمال ہوا ہے جو قریب قریب مامتا کا ہم معنی ہے۔ یعنی ایک ماں کو جو غایت درجے کی شفقت اپنی اولاد پر ہوتی ہے،  جس کی بنا پر وہ بچے کی تکلیف پر تڑپ اُٹھتی ہے،  وہ شفقت حضرت یحییٰ کے دل میں بندگانِ خدا کے لیے پیدا کی گئی تھی۔

۱۲: حضرت یحییٰ کے جو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں جمع کر کے ہم یہاں ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پیش کرتے ہیں جس سے سُورۂ آلِ عمران اور اس سورے کے مختصر اشارات کی توضیح ہو گی۔               لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحییٰ،  حضرت عیسیٰ سے ۶ مہینے بڑے تھے۔ ان کی والدہ اور حضرت عیسیٰ کی والدہ آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں۔ تقریباً ۳۰ سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوئے اور یوحنا کی روایت کے مطابق انہوں نے شرقِ اُرْدُن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ وہ کہتے تھے: ’’میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو‘‘۔ (یوحنا ۲۳: ۱) مرقس کا بیان ہے کہ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے تھے اور توبہ کرنے والوں کو بپتسمہ دیتے تھے، یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ  روح اور جسم دونوں پاک ہو جائیں۔ یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہو گئے تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے ( مرقس ۴:۱-۵)۔ اسی بنا پر ان کا نام بپتسمہ دینے والا( John The Baptist ) مشہور ہو گیا تھا۔ عام طور پر بنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کر چکے تھے (متی ۲۶:۲۱) مسیح علیہ السّلام کا قول تھا کہ ’’ جو عورتوں سے پیدا  ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا۔‘‘  (متی ۱۱:۱۱) وہ اونٹ کے بالوں کو پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا کمر سے باندھے رہتے تھے اور ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا  (متی ۴:۳)۔ اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ ’’توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آ  گئی ہے‘‘  (متی ۲:۳) یعنی مسیح علیہ السّلام کی دعوتِ نبوت کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسی بنا پر ان کو عموماً حضرت مسیح کا ’’ارہاص‘‘  کہا جاتا ہے،  اور یہی بات ان کے متعلق قرآن میں کہی گئی ہے کہ مُصَدِّ قًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ (آلِ عمران ۴)۔ وہ لوگوں کو روزے اور نماز کی تلقین کرتے تھے (متی ۱۴:۹ – لوقا ۳۳:۵ – لوقا ۱:۱۱)۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ ’’جس کے پا س دو کرتے ہوں وہ اُس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے۔ ‘‘  محصول لینے والوں نے پوچھا کہ اُستاد،  ہم کیا کریں تو انہوں نے فرمایا ’’ جو تمہارے لیے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا۔‘‘  سپاہیوں نے پوچھا  ہمارے لیے کیا ہدایت ہے ؟ فرمایا ’’ نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ نا حق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو‘‘  (لوقا ۳:۱۰ – ۱۴)۔ بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء، فریسی اور صَدُوتی ان کے پاس بپتسمہ لینے آئے تو ڈانٹ کر فرمایا ’’ اے سانپ کے بچو! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟۔۔۔۔۔۔ اپنے دلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہام ہمارا باپ ہے۔۔۔۔۔۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے، پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا ہو کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے‘‘ (متی ۷:۳ – ۱۰)۔ ان کے عہد کا یہودی فرمانروا،  ہیرو د اینٹی پاس، جس کی ریاست میں وہ دعوتِ حق کی خدمت انجام دیتے تھے، سر تا پا رومی تہذیب میں غرق تھا اور اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ اس نے خود اپنے بھائی فِلپ کی بیوی ہیرودیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ حضرت یحییٰ نے اس پر ہیرود کو ملامت کی اور اس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اُٹھائی۔ اس جرم میں ہیرود نے ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ تاہم وہ ان کو ایک مقدس اور راستباز آدمی جان کر  ان کا احترام بھی کرتا تھا اور پبلک میں ان کے غیر معمولی اثر سے ڈرتا بھی تھا۔ لیکن ہیرودیاس یہ سمجھتی تھی کہ  یحییٰ علیہ السّلام جو اخلاقی روح قوم میں پھونک رہے ہیں وہ لوگوں کی نگاہ میں اُس جیسی عورتوں کو ذلیل کیے دے رہی ہے۔ اس لیے وہ ان کی جان کے درپے ہو گئی۔ آخر کار ہیرود کی سالگرہ کے جشن میں اس نے وہ موقع پا لیا کہ جس کی وہ تاک میں تھی۔ جشن کے دربار میں اس کی بیٹی نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر ہیرود نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پوچھا کیا مانگوں ؟ ماں نے کہا کہ یحیی ٰ کا سر مانگ لے۔ چنانچہ اس نے ہیرود کے سامنے ہاتھ باندھ کر عرض کیا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں رکھوا کر  ابھی منگوا دیجیے۔ ہیرود یہ سُن کر بہت غمگین ہوا،  مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا کیسے رد کر سکتا تھا۔ اس نے فوراً قید خانے سے یحییٰ علیہ السّلام کا سر کٹوا کر منگوایا اور ایک تھا ل میں رکھوا کر رقاصہ کی نذر کر دیا (متی ۳:۱۴ – ۱۲۔ مرقس ۱۷:۶ – ۲۹۔ لوقا ۱۹:۳ – ۲۰)۔

 

ترجمہ

 

اور اے محمدؐ،  اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، ۱۳ جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی اور پردہ ڈال کر اُن سے چھُپ بیٹھی تھی۔ ۱۴ اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی رُوح کو (یعنی فرشتے کو)بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا۔ مریم یکایک بول اُٹھی کہ ’’ اگر تُو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘  اُس نے کہا ’’میں تو تیرے ربّ کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دُوں۔‘‘  مریم نے کہا ’’ میرے ہاں کیسے لڑکا ہو گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھُوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں۔‘‘  فرشتے نے کہا ’’ ایسا ہی ہو گا، تیرا ربّ فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں ۱۵ اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہنا ہے۔‘‘ مریم کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لیے ہوئے ایک دُور کے مقام پر چلی گئی۔ ۱۶ پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھجُور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگی ’’ کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا۔‘‘  ۱۷ فرشتے نے پائنتی سے اُس کو پکار کر کہا ’’ غم نہ کر، تیرے ربّ نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے۔ اور تُو ذرا اِس درخت کے تنے کو ہلا، تیرے اوپر تر و تازہ کھجُوریں ٹپک پڑیں گی۔ پس تُو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کوئی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی۔‘‘  ۱۸ پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے ’’ اے مریم! یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن، ۱۹ نہ تیرا باپ کوئی آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔‘‘  الف۱۹ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔ لوگوں نے کہا ’’ ہم اِس سے کیا بات کریں گے جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟‘‘  ۲۰

بچہ بول اُٹھا ’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اُس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں، اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، الف۲۰ اور مجھ کو جبّار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر  کے اُٹھایا  جاؤں۔‘‘  ۲۱ یہ ہے عیسیٰ ابنِ مریم اور یہ ہے اُس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں۔ اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے۔ وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے۔ ۲۲

(اور عیسیٰ ؑ نے کہا تھا کہ) ’’ اللہ میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی،  پس تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔‘‘  ۲۳ مگر پھر مختلف گروہ ۲۴ باہم اختلاف کرنے لگے۔ سو جن لوگوں نے کُفر کیا ان کے لیے وہ وقت بڑی تباہی کا ہو گا جبکہ وہ ایک بڑا دن دیکھیں گے۔ جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اُس روز تو اُن کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور ان کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی مگر آج یہ ظالم کھُلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اے محمد ؐ،  اِس حالت میں جبکہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں، اِنہیں اس دن سے ڈرا دو جبکہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا۔ آخر کار ہم ہی زمین اور اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔ ۲۵ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۳: تقابل کے لیے تفہیمُ القرآن،  جلد اول،  آل عمران،  حاشیہ نمبر ۴۲، ۵۵۔ النساء حاشیہ نمبر ۱۹۰- ۱۹۱۔

۱۴: سُورۂ آلِ عمران میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مریم  کی والدہ نے اپنی مانی ہوئی نذر کے مطابق ان کو بیتُ المَقدِس میں عبادت کے لیے بٹھا دیا تھا اور حضرت زکریا نے ان کی حفاظت و کفالت اپنے ذمہ لے لی تھی۔ وہاں یہ ذکر بھی گزر چکا ہے کہ حضرت مریم بیت المَقدِس کی ایک محراب میں معتکف ہو گئی تھیں۔ اب یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ محراب جس میں حضرت مریم معتکف تھیں بیت المَقدِس کے شرقی حصّے میں واقع تھی اور انہوں نے معتکفین کے عام طریقے کے مطابق کا ایک پردہ لٹکا کر اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے محفوظ کر لیا تھا۔ جن لوگوں نے محض بائیبل کی موافقت کی خاطر مکانًا شرقیًا سے مراد ناصرہ لیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے،  کیونکہ ناصرہ یروشلم کے شمال میں ہے نہ کہ مشرق میں۔

۱۵: جیسا کہ ہم حاشیہ نمبر ۶ میں اشارہ کر آئے ہیں،  حضر ت مریم کے استعجاب پر فرشتے کا یہ کہنا کہ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘  ہر گز اس معنی میں نہیں ہو سکتا کہ بشر تجھ کو چھوئے گا اور اس سے تیرے ہاں لڑکا پیدا ہو گا، بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیرے ہاں لڑکا ہو گا  باوجود اس کے کہ تجھے کسی بشر نے نہیں چھُوا ہے۔ اوپر انہی الفاظ میں حضرت زکریا کا استعجاب نقل ہو چکا ہے اور وہاں بھی فرشتے نے یہی جواب دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مطلب اس جواب کا وہاں ہے وہی یہاں بھی ہے۔ اسی طرح سورۂ ذاریات،  آیات ۲۸ – ۳۰ میں جب فرشتہ حضرت ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دیتا ہے اور حضرت سارہ کہتی ہیں کہ مجھ بوڑھی بانجھ کے ہاں بیٹا کیسے ہو گا تو فرشتہ اُن کو جواب دیتا ہے کہ کذٰلک۔ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے مُراد بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود ان کے ہاں اولاد ہونا ہے۔ علاوہ بریں اگر  کذٰلک کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ بشر تجھے چھوئے گا اور تیرے ہاں اسی طرح لڑکا ہو گا جیسے دنیا بھر کی عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے،   تو پھر بعد کے دونوں فقرے بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں یہ کہنے کی کیا ضرورت  رہ جاتی ہے کہ تیرا رب کہتا ہے کہ ایسا  کرنا میرے لیے بہت آسان ہے،  اور یہ کہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ نشانی کا لفظ یہاں صریحًا  معجزے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور اسی معنی پر یہ فقرہ بھی دلالت کرتا ہے کہ ’’ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے۔ ‘‘  لہٰذا اس ارشاد کا مطلب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہم اس لڑکے کی ذات ہی کو ایک معجزے کی حیثیت سے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بعد کی تفصیلات اس بات کی خود تشریح کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات کو کس طرح معجزہ بنا کر پیش کیا گیا۔

۱۶: دُور کے مقام سے مراد بیت لحم ہے۔ حضرت مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل وہاں جانا ایک فطری امر تھا۔ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی لڑکی، اور پھر وہ بیت المقدِس میں خدا کی عبادت کے لیے وقف ہو کر بیٹھی تھی، یکایک حاملہ ہو گئی۔ اس حالت میں اگر وہ اپنی جائے اعتکاف پر بیٹھی رہتیں اور ان کا حمل لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تو  خاندان والے ہی نہیں،  قوم کے دوسرے لوگ بھی ان کا جینا  مشکل کر دیتے۔ اس لیے بیچاری اس شدید آزمائش میں مبتلا ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کا حجرہ چھوڑ کر نکل کھڑی ہوئیں تاکہ جب تک اللہ کی مرضی پوری ہو، قوم کی لعنت ملامت اور عام بدنامی سے تو بچی رہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ  علیہ السّلام باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے۔ اگر ہو شادی شدہ ہوتیں اور شوہر ہی سے ان کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال،  سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لیے تن تنہا  ایک دور دراز مقام پر چلی جاتیں۔

۱۷: ان الفاظ سے اُس پریشانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِ زہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے،  بلکہ یہ فکر اُن کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس خطر ناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں۔ بعد کا یہ فقرہ کہ فرشتے نے اُن سے کہا ’’غم نہ کر‘‘  اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو وہ چاہے تکلیف  سے کتنی ہی تڑپے،  اُسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا۔

۱۸: مطلب یہ ہے کہ بچے کے معاملے میں تجھے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی پیدائش پر جو کوئی بھی معترض ہو اس کا جواب اب ہمارے ذمّے ہے (واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کا  روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا)۔ یہ الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مریم کو اصل پریشانی کیا تھی۔ نیز یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شادی شدہ لڑکی کے ہاں پہلو نٹی کا بچہ اگر دنیا کے معروف طریقہ پر پیدا ہو تو آخر اُسے چپ کا روزہ  رکھنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟

۱۹: ‘‘ ان الفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اُختِ ہارون کے معنی ’’ہارون کے خاندان کی لڑکی‘‘  لیے جائیں،  کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرزِ بیان ہے۔ مثلاً قبیلۂ مُضَر کے آدمی کو یا اخا مضر (اے مضر کے بھائی) اور قبیلۂ ہمدان کے آدمی کو یا اخا ھمد ان (اے ہمدان کے بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ پہلے معنی کے حق میں دلیلِ ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اِس معنی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن  گود میں بچہ لیے ہوئے آئی تھی،  بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہی ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے،  خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابلِ لحاظ نہیں ہو سکتی،  لیکن مسلم،  نَسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ’’ہارون کی بہن‘‘  ہی ہیں۔ مُغیرہؓ  بن شُعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ  نَجران کے عیسائیوں نے حضرت مُغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے،  حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے۔ حضرت مغیرہ ان کے اس اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا کہ ’’ تم نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صلحا ء کے نام پر رکھتے تھے؟‘‘  حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ لاجواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا۔۱۹a: جو لوگ حضرت عیسیٰؑ   کی معجزانہ پیدائش کے منکر ہیں وہ آخر اس بات کی کیا معقول توجیہ کر سکتے ہیں کہ حضرت مریم کے بچہ لیے ہوئے آنے پر قوم کیوں چڑھ  کر آئی اور اُن پر یہ طعن اور ملامت کی بوچھاڑ اس نے کیوں کی؟

۲۰: قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آِت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ’’ہم اس سے کیا بات کریں کو کل کا بچہ ہے۔‘‘  یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی  اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص  موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶،  اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے  کہ تو لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔۲۰a: یہ نہیں فرمایا کہ والدین کا حق ادا کرنے والا۔ صرف والدہ کا حق ادا کرنے والا فرمایا  ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ کو ئی نہ تھا۔ اور اسی کی ایک صریح دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہر جگہ اُن کو عیسیٰ ابنِ مریم کہا گیا ہے۔

۲۱: ‘‘ یہ ہے وہ ’’نشانی‘‘  جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات میں بنی اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کی مسلسل بد کرداریوں پر عبرتناک سزا دینے سے پہلے ان پر حجت تمام کرنا چاہتا تھا۔اس کے لیے اس نے یہ تدبیر فرمائی کہ بنی ہارون کی ایک ایسی زاہدہ و عابدہ لڑکی کو جو بیت المقدس میں معتکف اور حضرت زکریّا کے زیرِ تربیت تھی، دوشیزگی کی حالت میں حاملہ کر دیا تاکہ جب وہ بچہ لیے ہوئے آئے تو ساری قوم میں ہیجان  برپا ہو جائے اور لوگوں کی توجہات یکلخت اس پر مرکوز ہو جائیں۔ پھر اس تدبیر کے نتیجے میں جب ایک ہجوم حضرت مریم پر ٹوٹ پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس نوزائیدہ بچے سے کلام کرایا تاکہ جب یہی بچہ بڑا ہو کر نبوت کے منصب پر سرفراز ہو تو قوم میں ہزاروں آدمی اس امر کی شہادت دینے والے موجود رہیں کہ اس کی شخصیت میں وہ اللہ تعالیٰ کا ایک حیرت انگیز معجزہ دیکھ چکے ہیں۔ اس پر بھی جب یہ قوم اس کی نبوت کا انکار کر ے اور  اس کی پیروی قبول کرنے کے بجائے اسے مجرم بنا کر صلیب پر چڑھانے کی کوشش کرے تو پھر اس کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے جو دنیا میں کسی قوم کو نہیں دی گئی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جدل اوّل،  آلِ عمران،  حاشیہ نمبر ۴۴، ۵۳۔ ۱، نساء حاشیہ نمبر ۲۱۲، ۲۱۳۔ جلد ِ سوم، الانبیاء،  حاشیہ نمبر ۸۸ – ۸۹ – ۹۰۔ المومنون، حاشیہ نمبر ۴۳)۔

۲۲: یہاں تک جو بات عیسائیوں کے سامنے واضح کی گئی ہے وہ یہ  ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے متعلق ابن اللہ ہونے کا جو عقیدہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ باطل ہے۔ جس طرح ایک معجزے سے حضرت یحییٰ کی پیدائش نے اُن کو خدا کا بیٹا نہیں بنا دیا اُسی طرح ایک دوسرے معجزے سے حضرت عیسیٰ کی پیدائش بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا جائے۔ عیسائیوں کی اپنی روایات میں بھی یہ بات موجود ہے کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ،  دونوں ایک  ایک طرح کے معجزے سے پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ لوقا کی انجیل میں قرآن ہی کی طرح ان دونوں معجزوں کا ذکر ایک سلسلۂ  بیان میں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ عیسائیوں کا غلّو ہے کہ وہ ایک معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بندہ کہتے ہیں اور دوسرے معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ہیں۔

۲۳: یہاں عیسائیوں کو بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعوت بھی وہی تھی جو تمام دوسرے انبیاء علیہم السّلام لے کر آئے تھے۔ انہوں نے اس کے سوا کچھ نہیں سکھایا تھا کہ صرف خدائے واحد کی بندگی کی جائے۔ اب یہ جو تم نے ان کو بندے کے بجائے خدا بنا لیا ہے اور اُنہیں عبادت میں اللہ کے ساتھ شریک کر رہے ہو،  یہ تمہاری اپنی ایجاد ہے۔ تمہارے پیشوا کی یہ تعلیم ہر گز نہیں تھی۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جدل اوّل،  آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۶۸، مائدہ،  حاشیہ نمبر ۱۰۰ – ۱۰۱ – ۱۳۰۔جلد چہارم الزخرف حواشی نمبر ۵۷ – ۵۸۔

۲۴: یعنی عیسائیوں کے گروہ۔

۲۵: یہاں وہ تقریر ختم ہوتی ہے جو عیسائیوں کو سنانے کے لے نازل فرمائی گئی تھی۔ اِس تقریر کی عظمت کا صحیح اندازہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اس کو پڑھتے وقت وہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھے  جو ہم نے اِس سُورے کے دیباچے میں بیان کیا ہے۔ یہ تقریر اُس موقع پر نازل ہوئی تھی جبکہ مکے کے مظلوم مسلمان ایک عیسائی سلطنت  میں پناہ لینے کے لیے جارہے تھے، اور اس غرض کے لیے نازل کی گئی تھی کہ جب وہاں مسیح کے متعلق اسلامی عقائد کا سوال چھڑے تو یہ ’’سرکاری بیان‘‘  عیسائیوں کو سنا دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہو سکتا ہے کہ اسلام نے  مسلمانوں کو کسی حال میں بھی حق و صداقت کے معاملے میں مداہنت برتنا نہیں سکھایا ہے۔ پھر وہ سچے مسلمان جو حبش کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے، اُن کی قوتِ ایمانی بھی حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے عین دربار ِ شاہی میں ایسے نازک موقع پر اُٹھ کر یہ تقریر سنادی جبکہ نجاشی  کے تمام اہلِ دربار رشوت کھا کر اُنہیں ان کے دشمنوں کے سپرد کر دینے پر تُل گئے تھے۔ اُس وقت اس امر کا پورا خطرہ تھا کہ مسیحیت کے بنیادی عقائد پر اسلام کا یہ بے لاگ تبصرہ سُن کر نجاشی بھی بگڑ جائے گا اور ان مظلوم مسلمانوں کو قریش کے قصائیوں کے حوالے کر دے گا مگر اس کے باوجود انہوں نے کلمۂ حق پیش کرنے میں ذرّہ برابر تامّل نہ کیا۔

 

ترجمہ

 

اور اس کتاب میں ابراہیم ؑ کا قصہ بیان کرو،  ۲۶ بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ (انہیں ذرا اُس موقع کی یاد دلاؤ)جبکہ اُس نے اپنے باپ سے کہا ’’ابّا جان، آپ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سُنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ ابّا جان، میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ابّا جان، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، ۲۷ شیطان تو رحمٰن کا نافرمان ہے۔ ابّا جان، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمٰن کے عذاب میں مُبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں۔‘‘

باپ نے کہا ’’ابراہیم ؑ،  کیا تُو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تُو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ بس تُو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا۔‘‘  ابراہیم ؑ نے کہا ’’سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے ربّ سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، الف۲۷ میرا ربّ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے ربّ ہی کو پکاروں گا، اُمید ہے کہ میں اپنے ربّ کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا۔‘‘

پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُن کے معبُودانِ غیراللہ سے جُدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی نام وری عطا کی۔ ۲۸ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۲۶: یہاں سے خطاب کا رُخ اہلِ مکہ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹوں، بھائیوں  اور دوسرے رشتہ داروں کو اُسی طرح خدا پرستی کے جرم میں گھر چھوڑ نے پر مجبور کر دیا تھا جس طرح حضرت ابراہیم ؑ  کو ان کے باپ اور بھائی بندوں نے دیس نکالا دیا تھا۔ اس غر ض کے لیے دوسرے انبیاء کو چھوڑ کر خاص طور پر حضرت ابراہیم ؑ کے قصّے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ قریش کے لوگ ان کو اپنا پیشوا مانتے تھے اور انہی کی اولاد ہونے پر عرب میں اپنا فخر جتا یا کرتے تھے۔

۲۷: اصل الفاظ ہیں  لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰن،   یعنی ’’شیطان کی عبادت نہ کریں‘‘۔ اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد اور قوم کے دوسرے لوگ عبادت بُتوں کی کرتے تھے، لیکن چونکہ اطاعت وہ شیطان کی کر رہے تھے،  اس لیے حضرت ابراہیم نے ان کی اِس اطاعتِ شیطان کو بھی عبادتِ شیطان قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت محض پوجا اور پرستش ہی کا نام  نہیں بلکہ اطاعت کا نام بھی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اُس کی عبادت کا مجرم ہے،  کیونکہ شیطان بہر حال کسی زمانے میں بھی لوگوں کا ’’معبود‘‘  (بمعنی معروف) نہیں رہا ہے بلکہ ان کے نام پر ہر زمانے میں لوگ لعنت ہی بھیجتے رہے ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، الکہف، حاشیہ ۴۹ – ۵۰)۔

۲۷a: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۱۱۲۔

۲۸: یہ حرفِ تسلّی ہے اُن مہاجرین کے لیے جو گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السّلام اپنے خاندان سے کٹ کر برباد نہ ہوئے بلکہ اُلٹے سر بلند و سرفراز ہو کر رہے اُسی طرح تم بھی برباد نہ ہو گے بلکہ وہ عزّت پاؤ گے جس کا تصوّر بھی جاہلیت میں پڑے ہوئے کفارِ قریش نہیں کر سکتے۔

 

ترجمہ

 

اور ذکر کرو اِس کتاب میں موسیٰؑ کا۔ وہ ایک چیدہ ۲۹ شخص تھا اور رسُول نبی ۳۰ تھا۔ ہم نے اُس کو طُور کے داہنی جانب سے پکارا ۳۱ اور راز کی گفتگو سے اس کو تقرب عطا کیا، ۳۲ اور اپنی مہربانی سے اس کے بھائی ہارونؑ کو نبی بنا کر اُسے (مددگار کے طور پر)دیا۔ اور اِس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو۔ وہ وعدے کا سچا تھا اور رسُول نبی تھا۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے ربّ کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔ اور اِس کتاب میں ادریسؑ ۳۳ کا ذکر کرو۔ وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا اور اُسے ہم نے بلند مقام پر اُٹھایا تھا۔ ۳۴ یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے،  اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیمؑ کی نسل سے اور اسرائیلؑ کی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمٰن کی آیات ان کو سُنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ السجدۃ ۵

پھر ان کے بعد وہ نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا ۳۵ اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، ۳۶ پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔ البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی جنّتیں ہیں جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں سے درپردہ وعدہ کر رکھا ہے ۳۷ اور یقیناً یہ وعدہ پُورا ہو کر رہنا ہے۔ وہاں وہ کوئی بےہُودہ بات نہ سُنیں گے،جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سُنیں گے۔ ۳۸ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنّت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُس کو بنائیں گے جو پرہیز گار رہا ہے۔

اے محمدؐ ۳۹،  ہم تمہارے ربّ کے حکم کے بغیر نہیں اُترا کرتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا ربّ بھُولنے والا نہیں ہے۔ وہ ربّ ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں۔ پس تم اُس کی بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ ۴۰ کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اُس کی ہم پایہ؟  ۴۱   ؏۴

 

تفسیر

 

۲۹: اصل میں لفظ مُخْلَص استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’خالص کیا ہوا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک ایسے شخص تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنا کر لیا تھا۔

۳۰: ’’رسول‘‘  کے معنی ہیں ’’فرستادہ‘‘،   ’’ بھیجا ہوا‘‘۔ اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد، پیغام بر،  ایلچی اور سفیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں یہی لفظ یا تو ان ملائکہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کارِ خاص پر بھیجے  جاتے ہیں،  یا پھر اُن انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ  تعالیٰ نے خلق کی طرف اپنا پیغام  پہنچانے کے لیے مامور فرمایا۔ ’’نبی‘‘  کے معنی میں اہلِ لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو لفظ نَبَا سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی ’’خبر دینے والا‘‘  کے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کا مادّہ  نبُو  ہے، یعنی رفعت اور بلندی۔ اور اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہے ’’بلند مرتبہ‘‘  اور ’’عالی مقام‘‘۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل  نبیٔ  ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں،  اور انبیاء کو نبی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔ پس کسی شخص کو ’’رسول نبی‘‘  کہنے کا مطلب یا تو ’’عالی مقام پیغمبر‘‘  ہے،  یا ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر‘‘،  یا پھر ’’وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے‘‘۔ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے  یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے۔ مثلاً سُورۂ حج، رکوع ۷ میں فرمایا   وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّا۔۔۔۔۔۔ ’’ ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر۔۔۔۔۔‘‘  یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اسی بنا پر اہلِ تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ کوئی بھی رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کو تعین نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ  رسول کا لفظ نبی کی بہ نسبت خاص ہے،  یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے، مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا، یا بالفاظِ دیگر انبیاء میں سے رسول کا لفظ اُن جلیل القدر ہستیوں کے لیے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا۔ اِسی کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جو امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ سے اور حاکم نے حضرت ابو ذر سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ۳۱۳ یا ۳۱۵ بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ ۲۴ ہزار بتائی۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں،  مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔

۳۱: کوہِ طور کے داہنی جانب سے مراد اس کا مشرقی دامن ہے۔ چونکہ حضرت موسیٰ مَدْیَنْ سے مصر جاتے ہوئے اُس راستہ سے گزر رہے تھے جو کوہِ طور کے جنوب سے جاتا ہے،  اور جنوب کی طرف سے اگر کوئی شخص طور کو دیکھے تو اس کے دائیں جانب مشرق اور بائیں جانب مغرب ہو گا، اس لیے حضرت موسیٰؑ  کی نسبت سے طور کے مشرقی دامن کو ’’داہنی جانب‘‘  فرمایا گیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بجائے خود پہاڑ کا کوئی دایاں یا بایاں رُخ نہیں ہوتا۔

۳۲: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء،  حاشیہ نمبر ۲۰۶۔

۳۳: حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے بھی پہلے گزر ے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعیّن میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے متقدم ہیں۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء جن کا ذکر اوپر گزرا ہے،  آدم کی اولاد، نوح  کی اولاد، ابراہیم کی اولاد  اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ،  عیسیٰ اور موسیٰ علیہم السّلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں،  حضرت اسماعیل  ؑ، حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ اولادِ ابراہیم ؑ سے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ اولادِ نوحؑ سے،  اس کے بعد صرف حضرت ادریسؑ ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اولادِ آدم ؑ سے ہیں۔ مفسّرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک( Enoch ) بتایا گیا ہے،  وہی حضرت ادریس ؑ ہیں۔ ان کے متعلق بائیبل  کا بیان یہ ہے: ’’اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین  سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔۔۔۔ اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اُٹھا لیا‘‘۔ ( پیدائش، باب ۵ – آیت ۲۱ – ۲۴)۔ تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح ؑ سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے، پکارا کہ ’’اے حنوک، اُٹھو، گوشۂ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو وہ راستہ بتاؤ جس پر ان کو چلنا چاہیے  اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے‘‘۔ یہ حکم پا کر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسلِ انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی۔ حنوک ۳۵۳ برس تک نسلِ انسانی پر حکمراں رہے۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں۔ The Talmud Selections, PP. ۱۸-۲۱

۳۴: اس کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا،  لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا۔ بائیبل میں تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ ’’خدا نے ان کو اُٹھا لیا‘‘،  مگر تلمود میں اس کاایک طویل قصّہ  بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ’’حنوک ایک بگولے میں آتشیں رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے‘‘۔

۳۵: یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے۔ یہ ہر اُمت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے۔ نماز وہ اوّلین  رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور  سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دُور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات ایک قاعدۂ   کلیہ کے طور پر بیان فرمائی  ہے کہ پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہو ا ہے۔

۳۶: یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل  رہنے لگے تو جوں جوں یہ غفلت بڑھتی گئی، خواہشاتِ نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک  کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکامِ الہٰی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا۔

۳۷: یعنی جس کا وعدہ رحمان نے اس حالت میں کیا ہے کہ وہ جنتیں ان کی نگاہ  سے پوشیدہ ہیں۔

۳۸: اصل میں لفظ ’’سلام‘‘  استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ۔ جنت میں جو نعمتیں انسان کو میسّر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت  یہ ہو گی کہ وہاں کوئی بیہودہ اور فضول اور گندی بات سننے میں نہ آئے گی۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہو گا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہو گا۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بُری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مِل جائے گی۔ وہاں آدمی جو کچھ بھی سُنے گا، بھلی اور معقول اور بجا باتیں ہی  سنے گا۔ اِس نعمت کی قدر وہی شخص  سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ انسان کے لیے ایک ایسی گندی سوسائیٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ، غیبت،  فتنہ وفساد، شرارت، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ ‘‘

۳۹: یہ پورا پیراگراف ایک جملۂ معترضہ ہے جو ایک سلسلہ ٰ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلۂ  کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپؐ  کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گر رہے ہیں۔ حضور کو اور آپؐ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار  ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو۔جوں جوں وہی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے۔ اس حالت میں جبریل علیہ السّلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں۔ پہلے وہ فرمان سُناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکا ر تھا۔ پھر آگے بڑھنے  سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرفِ تسلی بھی، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی۔ یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابنِ جریر،  ابنِ کثیر اور صاحب رپوح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔

۴۰: یعنی اس کی بندگی کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ چلو اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرو۔ اگر اس کی طرف سے یاد فرمائی اور مدد اور تسلی میں کبھی دیر لگ جایا کرے تو اس پر گھبراؤ نہیں۔ ایک مطیع  فرمان بندے کی طرح ہر حال میں اس کی مشیت پر راضی  رہو اور پورے عزم کے ساتھ وہ خدمت انجام دیے چلے جاؤ جو ایک بندے اور رسول کی حیثیت سے تمہارے سپرد کی گئی ہے۔

۴۱: اصل میں لفظ سَمِی استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ’’ہم نام‘‘  کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ  تو الٰہ ہے،  کیا کوئی دوسرا لٰہ بھی تمہارے علم میں ہے؟ اگر نہیں ہے  اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے اس کے سوا اور راستہ ہی کون سا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے حکم کے بندے بن کر رہو۔

 

ترجمہ

رجمہ

ی جو مد رکھی گئی ہے وہ صرت

انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟ تیرے ربّ کی قسم،  ہم ضرور اِن سب کو اور ان کے ساتھ شیاطین کو بھی ۴۲ گھیر لائیں گے، پھر جہنّم کے گِرد لا کر انھیں گھُٹنوں کے بل گرا دیں گے پھر ہر گروہ میں سے ہر اُس شخص کو چھانٹ لیں گے جو رحمٰن کے مقابلے میں زیادہ سرکش بنا ہوا تھا، ۴۳ پھر یہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کون  سب سے بڑھ کر جہنّم میں جھونکے جانے کا مستحق ہے۔تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنّم پر وارد نہ ہو، ۴۴ یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پُورا کرنا تیرے ربّ  کا ذِمّہ ہے۔ پھر ہم اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں)متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گِرا ہُوا چھوڑ دیں گے۔

اِن لوگوں کو جب ہماری کھُلی کھُلی آیات سُنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں ’’بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں؟‘‘  ۴۵ حالانکہ اِن سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو اِن سے زیادہ سر و سامان رکھتی تھیں اور ظاہری شان و شوکت میں اِن سے بڑھی ہوئی تھیں۔ اِن سے کہو، جو شخص گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے اُسے رحمٰن ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔۔۔۔ خواہ وہ عذابِ الہٰی ہو یا قیامت کی گھڑی۔۔۔۔ تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور! اِس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے ۴۶ اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔

پھر تُو نے دیکھا اُس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال اور اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گا؟ ۴۷ کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے یا اس نے رحمٰن سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟۔۔۔۔ ہر گز نہیں، جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے ۴۸ اور اس کے لیے سزا میں اور زیادہ اضافہ کریں گے۔ جس سر و سامان اور لاؤ لشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔

اِن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ اِن کے پُشتیبان ہوں۔ ۴۹ کوئی پُشتیبان نہ ہو گا۔ وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گے ۵۰ اور اُلٹے اِن کے مخالف بن جائیں     گے۔ ؏۵

 

تفسیر

 

۴۲: یعنی اُن شیاطین کو جن کے  یہ چیلے بنے ہوئے ہیں، اور جن کے سکھائے  پڑھائے  میں آ کر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زندگی  جو کچھ بھی ہے بس یہی  دنیا کی زندگی ہے،  اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں جہاں ہمیں خدا کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔

۴۳: یعنی باغی گروہ کا لیڈر۔

۴۴: وارد ہونے کے معنی بعض روایات میں داخل ہونے کے بیان کیے گئے ہیں،  مگر ان میں سے کسی کی سند بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچتی۔ اور پھر یہ بات قران مجید اور اُن کثیر التعداد صحیح احادیث کے بھی خلا ف ہے جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ مزید برآں لغت میں بھی درود کے معنی دخول کے نہیں ہیں۔ اس لیے اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ جہنم پر گزر تو سب کا ہو گا مگر، جیسا کہ بعد والی آیت بتا رہی ہے،  پرہیز گار لوگ اس سے بچا لیے جائیں گے اور ظالم اس میں جھونک دیے جائیں گے۔

۴۵: یعنی ان کا  استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو، دنیا میں کون اللہ فضل اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ کس کے گھر زیادہ شاندار ہیں؟ کس کا معیارِ زندگی زیادہ بلند ہے؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسّر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اُڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح خستہ و درماندہ رہتے؟ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حواشی ۳۷، ۳۸۔

۴۶: یعنی ہر آزمائش کے موقع پر اللہ تعالیٰ ان کو صحیح فیصلے کرنے اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشتا ہے،  اُن کو بُرائیوں اور غلطیوں سے بچاتا ہے اور اس کی ہدایت و رہنمائی سے وہ برابر راہِ راست پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

۴۷: یعنی وہ کہتا ہے کہ تم مجھے خواہ کتنا ہی گمراہ و بدکار کہتے  رہو اور عذابِ الہٰی کے ڈراوے دیا کرو،  میں تو آج بھی تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور آئندہ بھی مجھ پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی۔ میری دولت دیکھو، میری وجاہت اور ریاست دیکھو،  میرے نا مور بیٹوں کو دیکھو، میری زندگی میں آخر تمہیں کہاں یہ آثار نظر آتے ہیں کہ میں خدا کا مغضوب ہوں؟۔۔۔۔۔۔ یہ مکّے میں کسی ایک شخص کے خیالات نہ تھے،  بلکہ کفارِ مکّہ کا ہر شیخ اور سردار اسی خبط میں مبتلا تھا۔

۴۸: یعنی اس کے جرائم کے ریکارڈ میں اس کا یہ کلمۂ  غرور بھی شامل کر لیا جائے گا  اور اس کا مزا بھی اسے چکھنا پڑے گا۔

۴۹: اصل میں لفظ عِزًّا استعمال ہوا ہے، یعنی وہ ان کے لیے  سببِ عزّت ہوں۔ مگر عزّت سے مراد عربی زبان میں  کسی شخص کا ایسا طاقت ور اور زبردست ہونا ہے کہا س پر کوئی  ہاتھ نہ ڈال سکے اور ایک شخص کا دوسرے شخص کے لیے سببِ عزت بننا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس کی حمایت پر ہو جس کی وجہ سے اس کا کوئی مخالف اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھ سکے۔

۵۰: یعنی وہ کہیں گے کہ نہ ہم نے کبھی اِن سے کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو،  اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ یہ احمق لوگ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔

 

ترجمہ

 

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے اِن منکرینِ حق پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو اِنہیں خُوب خُوب (مخالفتِ حق پر)اُکسا رہے ہیں؟ اچھا، تو اب اِن نُزوُلِ عذاب کے لیے بےتاب نہ ہو۔ ہم اِن کے دن گِن رہے ہیں۔ ۵۱ وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمٰن کے حضور پیش کریں گے، اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنّم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔ اُس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں گے بجز اُس کے جس نے رحمٰن کے حضور سے پروانہ حاصل کر لیا ہو۔ ۵۲ وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔۔۔۔ سخت بے ہُودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمٰن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا!رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔ سب پر وہ محیط ہے اور اس نے اُن کو شمار کر رکھا ہے۔ سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔

یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمٰن اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔ ۵۳ پس اے محمدؐ،  اِس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔ اِن سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں،  پھر آج لیں تم اُن کا نشان پاتے ہو یا اُن کی بِھنک بھی کہیں سُنائی دیتی ہے؟   ؏٦

 

تفسیر

 

۵۱: مطلب یہ ہے کہ اِن کی زیادتیوں پر تم بے صبر نہ ہو۔ اِن کی شامت قریب آ  لگی ہے۔ پیمانہ بھرا چاہتا ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے کچھ دن باقی ہیں،  اُنہیں پورا ہو لینے دو۔

۵۲: یعنی سفارش اسی کے حق میں ہو گی جس نے پروانہ حاصل کیا ہو، اور وہی سفارش کر سکے گا جسے پروانہ ملا ہو۔ آیت کے الفاظ ایسے ہیں جو دونو ں پہلوؤں پر یکساں روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ بات کہ سفارش صرف اسی کے حق میں ہو سکے گی جس نے رحمان سے پروانہ حاصل کر لیا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا میں ایمان لا کر اور خدا سے کچھ تعلق جوڑ کر اپنے آپ کو خدا کے عفو و درگزر کا مستحق بنا لیا ہو۔ اور یہ بات کہ سفارش وہی کر سکے گا جس کو پروانہ ملا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے جن جن کو اپنا شفیع اور سفارشی سمجھ لیا ہے وہ سفارشیں کرنے کے مجاز نہ ہوں گے بلکہ خدا خود جس کو اجازت دے گا وہی شفاعت کے لیے زبان کھول سکے گا۔

۵۳: یعنی آج مکّے کی گلیوں میں وہ ذلیل و رسوا کیے جا رہے ہیں، مگر یہ حالت دیرپا نہیں ہے۔ قریب ہے وہ وقت جبکہ اپنے اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ حسنہ کی وجہ سے وہ محبوبِ خلائق ہو کر رہیں گے۔ دل ان کے طرف کھنچیں گے۔ دنیا ان کے آگے  پلکیں بچھائے گی۔ فسق و فجور،  رعونیت اور کبر،  جھوٹ اور ریاکاری کے بل پر جو سیادت و قیادت چلتی ہو وہ گردنوں کے چاہے جھکالے،  دلوں کو مسخر نہیں کر سکتی۔ اس کے برعکس جو لوگ صداقت،  دیانت،  اخلاص اور حس اخلاق کے ساتھ راہِ راست کی طرف دعوت دیں،  ان سے اوّل اوّل چاہے دنیا کتنی ہی اُپرائے،  آخر کار وہ دلوں کو موہ لیتے ہیں اور بد دیانت لوگوں کا جھوٹ زیادہ دیر تک ان کا راستہ روکے نہیں رہ سکتا۔

٭٭٭

 

 

 

۲۰۔ سورۂ طٰہٰ

 

زمانۂ نزول

 

اس سورۃ کا زمانہ  نزول سورہ مریم کے زمانے قریب ہی کاہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانے میں یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔ بہر حال یہ امر یقینی ہے کہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہو چکی تھی۔

ان کے قبول اسلام کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستہ میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں ان کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور ان کے بہنوئی سعید بن زید بیٹھے ہوئے حضرت خبابؓ بن اَرت سے ایک صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت عمر کے آتے ہی ان کی بہن نے صحیفہ فوراً چھپا لیا۔ مگر حضرت عمر اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے پہلے کچھ پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کر دیا۔ بہن نے بچانا چاہا تو انہیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ آخر کار بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں،  ہم مسلمان ہو چکے ہیں،  تم سے جو کچھ ہو سکے کر لو۔ حضرت عمر اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا مجھے بھی وہ چیز دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کر لو، اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ حضرت عمرؓ نے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ اس میں یہی سورہ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے یک لخت ان کی زبان سے نکلا ’’ کیا خوب کلام ہے ‘‘۔ یہ سنتے ہیں حضرت خباب بن ارت،  جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے،  باہر آ گئے اور کہا کہ ’’بخدا، مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے نبی کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا، کل ہی میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا، ابولحکم بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنا دے۔ پس اے عمر،  اللہ کی طرف چلو،  اللہ کی طرف چلو‘‘۔ اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور اسی وقت حضرت خباب کے ساتھ جا کر حضرت عمرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسلام قبول کر لیا۔ یہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ہ۔

 

موضوع و مبحث

 

سورہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمدؐ ! یہ قرآن تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تم کو ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ تم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ پتھر کی چٹانوں سے دودھ کی نہر نکالو، نہ ماننے والوں کو منوا کر چھوڑو، اور ہٹ دھرم لوگوں کے سلوں میں ایمان پیدا کر کے دکھاؤ۔ یہ تو بس ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے تاکہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہے وہ سن کر سیدھا ہو جائے۔ یہ مال زمین و آسمان کا کلام ہے۔ اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں،  یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں،  خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔

اس تمہید کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ محض ایک قصے کی شکل میں بیان ہوا ہے۔ وقت کے حالات کی طرف اس میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے،  اس کے حالات سے مل جل کر یہ اہل مکہ سے کچھ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے بین السطور سے ادا ہو رہی ہیں۔ان باتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ عرب میں کثیر التعداد یہودیوں کی موجود گی اور اہل عرب پر یہودیوں کے علمی و ذہنی تفوق کی وجہ سے،  نیز روم اور حبش کی عیسائی سلطنتوں کے اثر سے بھی، عربوں میں بالعموم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ وہ باتیں کیا ہیں جو اس قصے کے بین السطور سے اہل مکہ کو جتائی گئی ہیں :۔

۱)۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت اس طرح عطا نہیں کیا کر تا کہ ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا کر ایک خلق اکٹھی کر لی جائے اور پھر باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں یہ اعلان کیا جائے کہ آج سے فلاں شخص کو ہم نے نبی مقرر کیا ہے۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے،  کچھ اسی طرح بصیغۂ  راز دی گئی ہے جیسے حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی۔ اب تمہیں کیوں اس بات پر اچنبھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یکایک نبی بن کر تمہارے سامنے آ گئے اور اس کا اعلان نہ آسمان سے ہوا نہ زمین پر فرشتوں نے چل پھر کر اس کو ڈھول پیٹا۔ ایسے اعلانات پہلے نبیوں کے تقرر پر کب ہوئے تھے کہ آج ہوتے ؟

۲ )۔ جو بات آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) ٹھیک وہی بات منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سکھائی تھی۔

۳)۔ پھر جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بغیر کسی سرو سامان اور لاؤ لشکر کے تن تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت حق کا عَلم بردار بنا کر کھڑا کر دیا گیا ہے،  ٹھیک اسی طرح موسیٰ علیہ السلام بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کر دیے گئے تھے کہ جا کر فرعون جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز آنے کی تلقین کریں۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے ایسے ہی عجیب ہیں۔ وہ مدین سے مصر جانے والے ایک مسافر کو راہ چلتے پکڑ کر بلا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جا اور وقت کے سب سے بڑے جابر حکمراں سے ٹکرا جا۔ بہت کیا تو اس کی درخواست پر اس کے بھائی کو مدد گار کے طور پر دے دیا۔ کوئی فوج فرّا اور ہاتھی گھوڑے اس کار عظیم کے لیے اس کو نہیں دیئے گئے۔

۴)۔ جو اعتراضات اور شبہات اور الزامات اور مکر و ظلم کے ہتھکنڈے اہل مکہ آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں ان سے بڑھ چڑھ کر وہی سب ہتھیار فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں استعمال کیے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ کس طرح وہ اپنی ساری تدبیروں میں ناکام ہوا اور آخر کا کون غالب آ کر رہا؟ خدا کا بے سرو سامان نبی ؟ یا لاؤ لشکر والا فرعون ؟ اس سلسلہ میں خود مسلمانوں کو بھی ایک غیر ملفوظ تسلی دی گئی ہے کہ اپنی بے سر و سامانی اور کفار قریش کے سرو سامان پر نہ جائیں،  جس کام کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہوتا ہے وہ آخر کار غالب ہی ہو کر رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے ساحران مصر کا نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب حق ان پر منکشف ہو گیا تو وہ بے دھڑک اس پر ایمان لے آئے اور پھر فرعون کے انتقام کا خوف انہیں بال برابر بھی ایمان کی راہ سے نہ ہٹا سکا۔

۵ )۔ آخر میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ایک شہادت پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ دیوتاؤں اور معبودوں کے گھڑے جانے کی ابتدا کس مضحکہ انگیز طریقے سے ہوا کرتی ہے اور یہ کہ خدا کے نبی اس گھناؤنی چیز کا نام و نشان تک باقی رہنے کے کبھی روادار نہیں ہوئے ہیں۔ پس آج اس شرک اور بت پرستی کی جو مخالفت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے ہیں وہ نبوت کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

اس طرح قصۂ  موسیٰ کے پیرائے میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس وقت ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باہمی کشمکش سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد ایک مختصر وعظ کیا گیا ہے کہ بہر حال یہ قرآن ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے جو تمہاری اپنی زبان میں تم کو سمجھانے کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس پر کان دھرو گے اور اس سے سبق لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔نہ مانو گے تو خود برا انجام دیکھو گے۔

پھر آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس روش پر تم لوگ جا رہے ہو یہ دراصل شیطان کی پیروی ہے۔ اَحیاناً شیطان کے بہکائے میں آ جاتا تو خیر ایک وقتی کمزوری ہے جس سے انسان بمشکل ہی بچ سکتا ہے۔ مگر آدمی کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جب اس پر اس کی غلطی واضح کر دی جائے تو وہ اپنے باپ آدم کی طرح صاف صاف اس کا اعتراف کر لے،  توبہ کرے،  اور پھر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے۔ غلطی اور اس پر ہٹ اور نصیحت پر نصیحت کیے جانے پر بھی اس سے باز نہ آنا، اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے جس کا نقصان آدمی کو خود ہی بھگتنا پڑے گا، کسی دوسرے کا کچھ نہ بگڑے گا۔

آخر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ان منکرین  حق کے معاملے میں جلدی اور بے صبری نہ کرو۔ خدا کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کے کفر انکار پر فوراً نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے۔

لہٰذا گھبراؤ نہیں۔ صبر کے ساتھ ان لوگوں کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جاؤ۔ اور نصیحت کا حق ادا کرتے رہو۔

اسی سلسلے میں نماز کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان میں صبر،  تحمل،  قناعت،  رضا بقضا اور احتساب کی وہ صفا ت پیدا ہوں جو دعوت حق کی خدمت کے لیے مطلوب ہیں۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن تم پر اِس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔ ۱ نازل کیا گیا اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمٰن( کائنات کے )تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ ۲ مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں۔ تم چاہے اپنی بات پُکار کر کہو،  وہ تو چُپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی بات بھی جانتا ہے۔ ۳ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔ ۴

اور تمہیں کچھ موسیٰؑ کی خبر بھی پہنچی ہے ؟ جب کہ اُس نے ایک آگ دیکھی ۵ اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ’’ذرا ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں، یا اس آگ پر مجھے(راستے کے متعلق)کوئی رہنمائی مِل جائے۔‘‘  ۶ وہاں پہنچا تو پکارا گیا ’’اے موسیٰؑ، میں ہی تیرا ربّ ہوں، جُوتیاں اُتار دے۔ ۷ تُو وادی ِ مقدس طُویٰ میں ہے۔ ۸ اور میں نے تُجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں، پس تُو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ ۹ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاک ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ ۱۰ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تُجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے،  ورنہ تُو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔۔۔۔ اور اے موسیٰؑ،  یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘  ۱۱ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’یہ میری لاٹھی ہے، اِس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں، اِس سے اپنی بکریوں کے لیے پتّے جھاڑتا ہوں، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اِس سے لیتا ہوں۔‘‘  ۱۲ فرمایا ’’پھینک دے اِس کو موسیٰؑ۔ ‘‘  اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ فرمایا ’’پکڑ لے اِس کو اور ڈر نہیں، ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ ۱۳ یہ دُوسری نشانی ہے۔ اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ اب تُو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے۔‘‘   ؏١

 

تفسیر

 

۱: یہ فقرہ پہلے فقرے کے مفہوم پر خود روشنی ڈالتا ہے۔ دونوں کو ملا کر پڑھنے سے  صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کو نازل کر کے ہم کوئی اَن ہونا کام تم سے نہیں لینا چاہتے۔ تمہارے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے اُن کو منوا کر چھوڑ و اور جن کے دل ایمان کے لیے بند ہو چکے ہیں ان کے اندر ایمان اتار کر ہی رہو۔ یہ تو بس ایک تذکیر اور یاددہانی ہے اور اس لیے بھیجی گئی ہے کہ جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو وہ اسے سُن کر ہوش میں آ جائے۔ اب اگر کچھ لوگ ایسے ہیں  جنہیں خدا کا کچھ خوف نہیں،  اور جنہیں اس کی کچھ پروا نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ان کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔

۲: یعنی پیدا کرنے کے بعد کہیں جا کر سو نہیں گیا بلکہ آپ اپنے  کارخانۂ تخلیق کا سارا انتظام چلا رہا ہے،   خود اس نا پیدا کنار سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے، خالق ہی نہیں ہے بالفعل حکمراں بھی ہے۔

۳: یعنی کچھ ضروری نہیں ہے کہ جو ظلم و ستم تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر ہو رہا ہے اور جن شرارتوں اور خباثتوں  سے تمہیں نیچا دکھا نے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ان پر تم بآوازِ بلند ہی فریاد کرو۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم پر کیا کیفیت گزر رہی ہے۔ وہ تمہارے دلوں کی پکار تک سُن رہا ہے۔

۴: یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔

۵: یہ اُس وقت کا قصّہ ہے جب حضرت موسیٰ چند سال مَدْیَن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو (جن سے مَدْیَن ہی میں شادی ہوئی تھی) لے کر مصر کی طرف واپس جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کی سرگزشت سورۂ قَصص میں بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہو گیا تھا اور اس پر انہیں اپنی گرفتاری کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا تو وہ مصر سے بھاگ کر مَدْیَنْ میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔

۶: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا زمانہ تھا۔ حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے  سینا کے جنوبی علاقے سے گزر رہے تھے۔ دور سے ایک آگ دیکھ کر انہوں نے خیال کیا یا تو وہاں سے تھوڑی سی آگ مل جائے گی تاکہ بال بچوں کو رات بھر گرم رکھنے کا بندوبست ہو جائے، یا کم از کم وہاں سے یہ پتہ چل جائے گا کہ آگے راستہ کدھر ہے۔ خیال کیا تھا  دنیا کا راستہ ملنے کا،  اور وہاں مل گیا عقبیٰ کا راستہ۔

۷: غالباً اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا   خالفو ا الیھود فانھم لا یُصَلّون فی نعا لہم ولا خفا فہم، ’’یہودیوں کے خلاف عمل کرو۔کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے‘‘ (ابو داؤد)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے،  بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسیا کرنا جائز ہے، اس لیے دونوں طرح عمل کرو۔ ابوداؤد میں عَمْرو ؓ بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مُسند احمد اور ابوداؤد میں ابو سعید خُدرِی ؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جُوتے کو پلٹ کر دیکھ لے۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔ ‘‘  ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں حضور ؐ  کے یہ الفاظ ہیں ’’اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہو تو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے ‘‘۔ اور حضرت اُمِ سَلَمہؓ  کی روایت میں ہے: یطھر ہ مابعد ہٗ،   یعنی ’’ایک جگہ گندگی  لگی ہو گی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی ‘‘۔ ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ،  امام ابو یوسف، امام اَوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جو تا ہر حال میں زمین کی مٹی سے پا ک ہو جاتا ہے۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اِس کے خلاف ہے۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں، اگر چہ سمجھا یہی گیا  ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑ نے سے پاک نہیں ہوتا۔ ( اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ  مسجد نبوی میں چٹائی تک کو فرش نہ تھا، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہو گا۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ بڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں،  وہ دراصل احکام سے ناواقف ہیں)۔

۸: عام خیال یہ ہے کہ ’’طُویٰ‘‘  اس وادی کا نام تھا۔ مگر بعض مفسرین نے ’’وادی مقدس طُویٰ‘‘  کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ’’وہ وادی جو ایک ساعت کے لیے مقدس کر دی گئی ہے‘‘۔

۹: یہاں نماز کی اصلی غرض پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آدمی خدا سے غافل نہ ہو جائے، دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر اُس کو اِس حقیقت سے بے فکر نہ کر دیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں، آزاد خود مختار نہیں ہوں۔ اس فکر کو تازہ رکھنے اور خدا سے آدمی کا تعلق جوڑے رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو ہر روز کئی بار آدمی کو دنیا کے ہنگاموں سے ہٹا کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ نماز قائم کرتا کہ میں تجھے  یاد کروں، جیسا کہ دوسری جگہ  فرمایا   فَا ذْ کُرُوْ نِیْ اَذْکُرْکُمْ ’’مجھے یاد کرو،  میں تمہیں یاد  رکھوں گا‘‘۔ ضمناً اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص کو بھُول لاحق ہو جائے اسے جب بھی یاد آئے نماز ادا کر لینی چاہیے۔ حدیث میں حضرت اَنَس سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا من نسی صَلاۃ فلیصلّھا اذ اذکر ھا  لا کفارۃ لھا الا ذٰلک، ’’جو شخص کسی وقت کی نماز بھول گیا ہو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے ادا کر لے،  اِس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے‘‘ (بخاری،  مسلم،  احمد)۔ اسی معنی میں ایک روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے جسے مسلم، ابوداؤد اور نَسائی وغیرہ نے لیا ہے۔ اور ابو قَتَادَہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا کہ اگر ہم نماز کے وقت سو گئے ہوں تو کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا ’’نیند میں کچھ قصور نہیں،  قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے یا سو جائے تو جب بیدار ہو یا جب یاد آئے،  نماز پڑھ لے‘‘  (ترمذی، نسائی،  ابوداؤد)۔

۱۰: توحید کے بعد دوسری حقیقت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء علیہم السّلام پر منکشف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گئے، آخرت ہے۔ یہاں نہ صرف اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ساعتِ منتظرہ اِس لیے آئے گی کہ ہر شخص نے دنیا میں جو سعی کی ہے اس کا بدلہ آخرت میں پائے۔ اور اس کے وقت کو مخفی بھی اس لیے رکھا گیا ہے کہ آزمائش کا مدّعا پورا ہو سکے۔ جسے عاقبت کی کچھ فکر ہو اس کو ہر وقت  اِس گھڑی کا کھٹکا لگا رہے اور یہ کھٹکا اسے بے راہ روی سے بچاتا رہے۔ اور جو دنیا میں گم رہنا چاہتا ہے وہ اس خیال میں مگن رہے کہ قیامت ابھی کہیں دور دور بھی آتی نظر نہیں  آتی۔

۱۱: یہ سوال طلبِ علم کے لیے نہ تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم تھا کہ موسیٰ ؑ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ پوچھنے سے مقصُود یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ ؑ کے ذہن میں اچھی طرح مستحضر ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں۔

۱۲: اگرچہ جواب میں صرف اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ حضور،  یہ لاٹھی ہے،  مگر حضرت موسیٰ ؑ نے اس سوال کا جو لمبا جواب دیا وہ ان کی اُس وقت کی قلبی کیفیت کا ایک دلچسپ نقشہ پیش کرتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ جب آدمی کو کسی بہت بڑی شخصیت سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اپنی بات کو طول دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اُسے زیادہ سے زیادہ دیر تک اُس کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل رہے۔

۱۳: یعنی روشن ایسا ہو گا جیسے سورج،  مگر تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ بائیبل میں یدِ بیضا کی ایک اور ہی تعبیر کی گئی ہے جو وہاں سے نکل کر ہمارے ہاں تفسیروں میں بھی رواج پا گئی۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ  نے جب بغل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو پورا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید تھا، پھر جب دوبارہ اُسے بغل میں رکھا تو وہ اصلی حالت  پر آ گیا۔ یہی تعبیر اِس معجزے کی تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ فرعون کو برص کی بیماری تھی جسے وہ چھپائے ہوئے تھا، اس لیے  اس کے سامنے یہ معجزہ پیش کیا گیا کہ دیکھ یوں آناً فاناً برص کا مرض پیدا بھی ہوتا ہے اور کافور بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اوّل تو ذوق ِ سلیم اس سے اِبا کرتا ہے کہ کسی نبی کو برص کا معجزہ دے کر ایک بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے۔ دوسرے اگر فرعون کو مخفی طور پر برص کی بیماری تھی تو یدِ بیضا صرف اُس کی ذات کے لیے معجزہ ہو سکتا تھا،  اس کے درباریوں پر اس معجزے کا کیا رُعب طاری ہوتا۔ لہٰذا صحیح بات وہی ہے  جو ہم نے اوپر بیان کی کہ اس ہاتھ میں سورج کی سی چمک پیدا ہو جاتی تھی جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتیں۔ قدیم مفسرین میں سے بھی بہتوں نے اس کے یہی معنی لیے ہیں۔

 

ترجمہ

 

موسیٰؑ نے عرض کیا ’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے، ۱۴ اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں، ۱۵ اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون،  جو میرا بھائی ہے۔ ۱۶ اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے، تاکہ ہم خُوب تیری پاکی بیان کریں اور خُوب تیرا چرچا کریں۔ تُو ہمیشہ میرے حال پر نگران رہا ہے۔‘‘

فرمایا ’’دیا گیا جو تُو نے مانگا اے موسیٰؑ،  ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ ۱۷ یاد کر وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اِس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے  کا دشمن اُٹھا لے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تُجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تُو میری نگرانی میں پالا جائے۔ یاد کر جب کہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، ’’میں تمہیں اُس کا پتہ دُوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟‘‘  اِس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔ اور (یہ بھی یاد کر کہ)تُو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا،  ہم نے تُجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تُو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھہرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تُو آ گیا ہے اے موسیٰؑ۔ میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے۔جا، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔ اور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔ جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کے وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘  ۱۸

دونوں الف۱۸ نے عرض کیا ’’پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا۔‘‘ فرمایا ’’ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ جاؤ اُس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے ربّ کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے ربّ کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھُٹلائے اور منہ موڑے۔‘‘  ۱۹ فرعون ۲۰ نے کہا ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا ربّ کو ن ہے اے موسیٰ؟‘‘  ۲۱ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’ ہمارا ربّ وہ ۲۲ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔‘‘  ۲۳ فرعون بولا ’’ اور پہلے جو نسلیں گزر چکیں ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘  ۲۴ موسیٰؑ نے کہا ’’ اُس کا علم میرے ربّ کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے۔‘‘  ۲۵۔۔۔۔ ۲۶ وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ ۲۷   ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۴: یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑا کام حضرت موسیٰ ؑ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر،  وہ ثبات،  وہ تحمل،  وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکا ر ہے۔

۱۵: ‘‘ بائیبل میں اس کی جو تشریح بیان ہوئی ہے وہ یہ ے کہ حضرت موسیٰ ؑ  نے عرض کیا ’’اے خداوند، میں فصیح نہیں ہوں نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کیا۔ بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے ‘‘ (خروج ۱۰:۴)۔ مگر تلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑا قصّہ بیان ہوا ہے۔ اس میں  یہ ذکر ہے  کہ بچپن میں جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے گھر پرورش پا رہے تھے، ایک روز انہوں نے فرعون کے سر کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے۔ آخر کار یہ تجویز کیا گیا  کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں چنانچہ دونوں چیزیں لا کر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ ؑ نے اُٹھا کر آگ منہ میں رکھ لی۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی،  مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑ گئی۔یہی قصّہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے کی تفسیروں میں بھی رواج پا گیا۔ لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے۔ اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اُٹھا کر مُنہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسُوس کر تے ہی ہاتھ کھینچ لیتا  ہے۔ منہ میں لے جانے کی نوبت ہی کہاں سے آسکتی ہے؟ قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوّت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی ( جس کا انہیں اُس وقت تک اتفاق نہ ہوا تھا) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہو جائے گی۔ اس لیے انہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھا سکوں۔ یہی چیز  تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیا کہ ’’یہ شخص تو اپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکتا‘‘  لَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ الزُخرُف – ۵۲) اور یہی کمزوری تھی جس کو محسوس کر کے حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کو مددگار کے طور پر مانگا۔ سورۂ قصص میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَاَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَ رْسِلْہُ مِعِیَ رِدْاً، ’’میرا بھا ئی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اُس کو میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج‘‘۔ آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ  کی یہ کمزوری دُور ہو گئی تھی اور وہ خوب زور دار تقریر کرنے لگے تھے، چنانچہ قرآن میں اور بائیبل میں ان کی بعد کے دَور کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمال  فصاحت و بلاغتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں۔ یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ہکلے یا توتلے آدمی کو اپنا رسول مقرر فرمائے۔ رسول ہمیشہ شکل و صورت،  شخصیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں جن کے ظاہر وہ باطن کا ہر پہلو دلوں اور نگاہوں کو متاثر کرنے والا ہوتا تھا۔ کوئی رسول ایسے عیب کے ساتھ نہیں بھیجا گیا اور نہیں بھیجا جا سکتا  تھا جس کی بنا پر وہ لوگوں میں مضحکہ بن جائے اور یا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

۱۶: بائیبل کی روایت کے مطابق حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے تین برس بڑے تھے۔ (خروج ۷:۷)

۱۷: اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ کو  ایک ایک کر کے وہ احسانات یا د دلاتا ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر اس وقت تک اس نے کیے تھے۔ اِن واقعات کی تفصیل سورۂ قصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف اشارات کیے گئے ہیں جن سے مقصود حضرت موسیٰؑ کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم اُسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور اُسی کام کے لیے آج تک خاص طور پر سرکاری نگرانی میں پرورش پاتے رہے ہو جس پر اب تمہیں مامور کیا جا رہا ہے۔

۱۸: آدمی کے راہِ راست پر آ نے کی دو ہی شکلیں ہیں۔ یا تو وہ تفہیم و تلقین سے مطمئن ہو کر صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے،  یا پھر بُرے انجام سے  ڈر کر سیدھا  ہو جاتا ہے۔

۱۸a: معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت موسیٰ ؑ مصر پہنچ گئے اور حضرت ہارون ؑ عملاً ان کے شریک کار ہو گئے۔ اس وقت فرعون کے پاس جانے سے پہلے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ گزارش کی ہو گی۔

۱۹: اس واقعے کو بائیبل اور تلمود میں جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید انبیاء علیہم السّلام کا ذکر کس شان سے کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی روایات میں ان کی کیسی تصوری پیش کی گئی ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ جب خدا نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ ’’اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تُو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائے‘‘  تو حضرت موسیٰؑ نے جواب  میں کہا ’’ میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں‘‘۔ پھر خدا نے حضرت موسیٰؑ کو بہت کچھ سمجھایا،  ان کی ڈھارس بندھائی، معجزے عطا کیے،  مگر حضرت موسیٰؑ نے پھر کہا تو یہی کہا کہ ’’اے خداوند،  میں تیری منت کرتا ہوں کسی اور کے ہاتھ سے جسے تُو چاہے یہ پیغام بھیج‘‘۔ (خروج ۴)۔ تلمود کی روایت اس سے بھی چند قدم آگے جاتی ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰؑ کے درمیان سات دن تک اِسی بات پر رد و کد ہوتی رہی۔ اللہ کہتا رہا کہ نبی بن، مگر موسیٰؑ کہتے رہے کہ میری زبان ہی نہیں کھلتی تو میں نبی کیسے بن جاؤں۔ آخر  اللہ میاں نے کہا میری خوشی یہ ہے کہ تُو ہی بنی بن۔ اس پر حضرت موسیٰؑ نے کہا کہ لُوط کو بچانے کے لیے آپ نے فرشتے بھیجے،  ہاجرہ جب سارہ کے گھر سے نکلی تو اس کے لیے پانچ فرشتے بھیجے، اور اب اپنے خاص بچوں (بنی اسرائیل) کو مصر سے نکلوانے کے لیے آپ مجھے بھیج رہے ہیں۔ اس پر خداوند ناراض ہو گیا اور اس نے رسالت میں ان کے ساتھ ہارون کو شریک کر دیا اور موسیٰ کی اولاد کو محروم کر کے کہانت کا منصب ہارون کی اولاد کو دے دیا۔۔۔۔۔۔ یہ کتابیں ہیں جن کے متعلق بے شرم لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں ان سے یہ قصّے نقل کر لیے گئے ہیں۔

۲۰: یہاں قصے کی اِن تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کس طرح فرعون کے پاس پہنچے  اور کس طرح اپنی دعوت اس کے سامنے پیش کی۔ یہ تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۳ میں گزر چکی ہیں اور آگے سورۂ شعراء رکوع ۲ – ۳،  سورۂ قصص رکوع ۴،  اور سورۂ نازعات رکوع ۱ میں آنے والی ہیں۔               فرعون سے متعلق ضروری معلومات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۸۵۔

۲۱: دونوں بھائیوں میں سے اصل صاحبِ دعوت چونکہ  موسیٰ علیہ السّلام تھے اس لیے فرعون نے انہی کو مخاطب کیا۔ اور ہو سکتا ہے کہ خطاب کا رُخ ان کی طرف رکھنے سے اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ وہ حضرت ہارون کی فصاحت و بلاغت کو میدان میں آنے کا موقع نہ دینا چاہتا ہو اور خطابت کے پہلو میں حضرت موسیٰ ؑ کے ضعف سے فائدہ اُٹھا نا چاہتا ہو جس کا ذکر اس  سے پہلے گزر چکا ہے۔ فرعون کے اس سوال کا منشا یہ تھا کہ تم دونوں کسے ربّ بنا بیٹھے ہو،  مصر اور اہلِ مصر کا ربّ  تو میں ہوں۔ سورۂ نازعات میں اس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ، ’’اے اہلِ مصر، تمہارا ربّ اعلیٰ میں ہوں‘‘۔ سورۂ زُخْرف میں وہ بھرے دربار کو مخاطب کر کے کہتا ہے   یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ، ’’اے قوم، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور نہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟‘‘  (آیت ۵۱)۔ سورۂ قصص میں وہ اپنے درباریوں کے سامنے یوں بنکارتا ہے یٰٓاَ یّھَُا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لِکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ، فَاَوْقِدْ لِیْ یَا ھَا مٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَا جْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلّیِ اَطَّلِعُ اِلیٰ اِلٰہِ مُوْسٰی، ’’اے سردارانِ قوم، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور بھی الٰہ ہے، اے ہامان، ذرا اینٹیں پکوا اور ایک بلند عمارت میرے لیے تیار کرا تاکہ میں ذرا اوپر چڑھ کر دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ کسے الٰہ بنا رہا ہے‘‘۔ (آیت نمبر ۳۸)۔ سورۂ شعراء میں وہ حضرت موسیؑ کو ڈانٹ کر کہتا ہے لَئینِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَاَ جْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْ نِیْنَ، ’’اگر تُو نے میرے سوا کسی کو الٰہ بنایا تو یاد رکھ کہ تجھے جیل بھیج دوں گا‘‘ (آیت نمبر۲۹)۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرعون اپنی قوم کا واحد معبود تھا اور وہاں اس کے سوا کسی کی پرستش نہ ہوتی تھی۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ فرعون خود سورج دیوتا (رع یا راع) کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا استحقاق جتاتا تھا، اور یہ بات بھی مصر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس قوم کے مذہب میں بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی عبادت ہوتی تھی۔ اس لیے فرعون کا دعویٰ ’’واحد مرکز ِ پرستش‘‘  ہونے کا نہ تھا، بلکہ وہ عملاً مصر کی اور نظریے کے اعتبار سے دراصل پوری نوعِ انسان کی سیاسی ربوبیت و خداوندی کا مدعی تھا  اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اُس کے اوپر کوئی دوسری ہستی فرمانروا ہو جس کا نمائندہ،  آ کر اسے ایک حکم دے اور اس حکم کی اطاعت کا مطالبہ اس سے کرے۔ بعض لوگوں کو اُس کی لن ترانیوں سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر تھا اور خود خدا  ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ مگر یہ بات قرآن  سے ثابت ہے کہ وہ عالمِ بالا پر کسی اور کی حکمرانی مانتا تھا۔ سورۂ المؤمن آیات ۲۸ تا ۳۴ اور سورۂ زخرف آیت  ۵۳ کو غور سے دیکھیے۔ یہ آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی ہستی سے اُس کو انکار نہ تھا۔ البتہ جس چیز کو ماننے کے لیے وہ تیار نہ تھا وہ یہ تھی کہ اس کی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل ہو اور اللہ کا کوئی رسُول آ کر اُس پر حکم چلائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، القصص، حاشیہ ۵۳)۔

۲۲: یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو ربّ مانتے ہیں۔ پروردگار،  آقا، مالک،  حاکم، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا ربّ ہمیں تسلیم نہیں ہے۔

۲۳: یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے،  اُسی کے بنانے سے بنی ہے۔ ہر چیز کو جو بناوٹ،  جو شکل وصورت،  جو قوت و صلاحیت،  اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے،  اُسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی،  اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی۔ انسان، حیوان،  نباتات، جمادات، ہوا، پانی، روشنی، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورتِ خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے۔ پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا  ہو۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا  اُسی نے سکھایا ہے۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اُڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے۔ درخت کو پھیل پھول دینے اور زمین  کو نباتات اگانے کی ہدایت  اسی نے دی ہے۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں، ہادی اور معلّم بھی ہے۔ اِس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ ؑ  نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا ربّ کون ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں ربّ ہے اور کس لیے اُس کے سوا کسی اور کو ربّ نہیں مانا جا سکتا۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجودِ خاص کے لیے اللہ کا ممنون ِ احسان ہے،  اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں،  تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا ربّ ہے،  اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا ربّ ہے، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ مزید براں، اِسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ ؑ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کر دی جس کے ماننے سے فرعون کو  انکار تھا۔ ان کے دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے، اس کے عالمگیر  منصبِ ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے۔ اور انسان کی شعوری زندگی  کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزون نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اس کی موزوں ترین چکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے۔

۲۴: یعنی اگر بات یہی ہے کہ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور زندگی میں کام کرنے کا راستہ بتایا اس کے سوا کوئی دوسرا ربّ نہیں ہے،  تو یہ ہم سب کے باپ  دادا جو صدہا برس سے نسل در نسل دوسرے ارباب کی بندگی کرتے چلے آرہے ہیں، ان کی تمہارے نزدیک کیا پوزیشن ہے؟ کیا وہ سب گمراہ تھے؟ کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے؟ کیا ان سب کی عقلیں ماری گئی تھیں؟ یہ تھا فرعون کے پاس حضرت موسیٰ ؑ کی اس دلیل کا جواب۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب اُس نے بر بنائے جہالت دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ بربنائے شرارت۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں دونوں باتیں شامل ہوں،  یعنی وہ خود بھی اس بات پر جھلا گیا ہو کہ اِس مذہب سے ہمارے تمام بزرگوں کی گمراہی لازم آتی ہے،  اور ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ اپنے اہل ِ دربار اور عام اہلِ مصر کے دلوں میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے خلاف ایک تعصب بھڑکا دے۔ اہلِ حق کی تبلیغ کے خلاف یہ ہتھکنڈا ہمیشہ استعمال  کیا جاتا رہا ہے اور جاہلوں کو مشتعل کر نے کے لیے  بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے۔ خصوصاً اُس زمانہ میں جبکہ قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں، مکّہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے سب سے  زیادہ  اسی ہتھکنڈے سے کام لیا جا رہا تھا،  اس لیے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کی اس مکاری کا ذکر یہاں بالکل برمحل تھا۔

۲۵: یہ ایک نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے جو حضرت موسیٰ نے اس وقت دیا اور اس سے حکمت تبلیغ کا ایک بہترین سبق حاصل ہوتا ہے۔ فرعون کا مقصد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، سامعین کے،   اور ان کے توسط سے پوری قوم کے دلوں میں تعصب کی آگ بھڑکانا تھا۔ اگر حضرت موسیٰ کہتے کہ ہاں وہ سب جاہل اور گمراہ تھے اور سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے  تو چاہے یہ حق گوئی کا بڑا زبر دست نمونہ ہوتا،  مگر یہ جواب حضرت موسیٰ کے بجائے فرعون کے مقصد کی زیادہ خدمت انجام دیتا۔ اس لیے آنجناب نے کما ل دانائی کے ساتھ ایسا جواب دیا جو بجائے خود حق بھی تھا، اور ساتھ ساتھ اس نے فرعون کے زہریلے دانت بھی توڑ دیے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جیسے کچھ بھی تھے، اپنا کام کر کے خدا کے ہاں جا چکے ہیں۔ میرے پاس ان کے اعمال اور ان کی نیتوں کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کے بارے میں کوئی حکم لگاؤں۔ ان کا پورا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ ان کی ایک ایک حرکت اور اس کے محرکات کو خدا جانتا ہے۔ نہ خدا کی نگاہ سے کوئی چیز بچی رہ گئی ہے اور نہ اس کے حافظہ سے کوئی شے محو ہوئی ہے۔ ان سے  جو کچھ بھی معاملہ خدا کو کرنا ہے اس کو وہی جانتا ہے۔ مجھے اور تمہیں یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا موقف کیا تھا  اور ان کا انجام کیا ہو گا۔ ہمیں تو اس کی فکر ہونی چاہیے کہ ہمارا موقف کیا ہے اور ہمیں کس انجام سے دوچار ہونا ہے۔

۲۶: اندازِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا جواب ’’نہ بھُولتا ہے‘‘  پر ختم ہو گیا، اور یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ِ شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے۔ قرآں میں اس طرح کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ کسی گزرے ہوئے یا آئندہ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے جب کسی شخص کا کوئی قول نقل کیا جاتا ہے،  تو اس کے بعد متصلاً چند فقرے وعظ و پند، یا شرح و تفسیر، یا تفصیل و توضیح کے طور پر مزید ارشاد فرمائے جاتے ہیں اور صرف اندازِ کلام سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اس شخص کا قول نہیں ہے جس کا پہلے ذکر ہو رہا تھا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے۔ واضح رہے کہ اس عبارت کا تعلق صرف قریب کے فقرے ’’میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے‘‘  سے ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیٰ کے پورے کلام سے ہے جو    رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ءٍ   سے شروع ہوا ہے۔

۲۷: یعنی جو لوگ عقل سلیم سے کام لے کر جستجو حق کرنا چاہتے ہوں وہ اِن نشانات  کی مدد سے منزلِ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ نشانات اُن کو بتا دیں گے کہ اس کائنات کا ایک ربّ ہے اور ربوبیت ساری کی ساری اسی کی ہے۔ کسی دوسرے ربّ کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

ترجمہ

 

اِس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے،  اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ ۲۸ ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں ۲۹ دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا۔ کہنے لگا ’’اے موسیٰؑ،  کیا تُو ہمارے پاس اِس لیے آیا ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ ۳۰ اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویسا ہی جادُو لاتے ہیں۔ طے کر لیے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔ نہ ہم اِس قرارداد سے پھریں گے نہ تُو پِھریو۔ کھُلے میدان میں سامنے آ جا۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’جشن کا دن طے ہوا، اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں۔‘‘  ۳۱ فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آ گیا۔ ۳۲

موسیٰؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کر کے )۳۳ کہا ’’ شامت کے مارو، نہ جھُوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، ۳۴ ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیا ناس کر دے گا۔ جھُوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا۔‘‘  یہ سُن کر اُن کے درمیان اختلافِ رائے ہو گیا اور وہ چُپکے چُپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ ۳۵ آخر کار کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’ ۳۶ یہ دونوں تو محض جادُو گر ہیں۔ اِن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ ۳۷ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور ایکا کر کے میدان میں آؤ۔ ۳۸ بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا۔‘‘

جادُو گر ۳۹ بولے ’’موسیٰؑ،  تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’ نہیں، تم ہی پھینکو۔‘‘

یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادُو کے زور سے موسیٰؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، ۴۰ اور موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ۴۱ ہم نے کہا ’’ مت ڈر، تُو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو  نِگلے جاتا ہے۔ ۴۲ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادُو گر کا فریب ہے، اور جادُوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے۔‘‘  آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادُو گر سجدے میں گِرا دیے گئے ۴۳ اور پُکار اُٹھے ’’ مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسیٰؑ کے ربّ کو۔‘‘  ۴۴

فرعون نے کہا ’’ تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گُرو ہے جس نے تمہیں جادُوگری سکھائی تھی۔ ۴۵ اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں ۴۶ اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ ۴۷ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۴۸ ‘‘  (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ )۔

جادُوگروں نے جواب دیا ’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے،  یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر)تجھے ترجیح دیں۔ ۴۹ تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے، تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اِس جادُوگری سے جس پر تُو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔۔۔۔ حقیقت ۵۰ یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو گا اُس کے لیے جہنّم ہے جس میں وہ نہ جیے گا  نہ مرے گا۔ ۵۱ اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں، سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۲۸: یعنی ہر انسان کو لازماً تین مرحلوں سے گزرنا ہے۔ ایک مرحلہ موجودہ دنیا میں پیدائش سے لے کر موت تک کا۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک کا۔ اور تیسرا قیامت کے روز دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کا مرحلہ۔ یہ تینوں مرحلے اِس آیت کی رُو سے اِسی زمین پر گزرنے والے ہیں۔

۲۹: یعنی آفاق و اَنْفُس کے دلائل کی نشانیاں بھی،  اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے۔ قرآن میں متعدّد مقامات پر حضرت موسیٰ کی وہ تقریریں بھی موجود ہیں جو انہوں نے فرعون کو سمجھانے کے لیے کیں۔ اور وہ معجزات بھی مذکور ہیں جو اس کو پے در پے دکھائے گئے۔

۳۰: جادو سے مراد عصا  اور یدِ بیضا کا معجزہ ہے جو سورۂ اعراف اور سورۂ شعراء کی تفصیلات کے بموجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بدحواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اِس فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’تُو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ‘‘۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تُو جادوگر ہے اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تُو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے،  کھلی ہوئی بدحواسی کی علامت ہے۔ دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلّل تقریر، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہلِ دربار،  بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اس لیے ا س نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے  اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اِسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو،ذرا دیکھو، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھیراتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو، ہوشیار ہو جاؤ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے،  اقتدار کا بھُوکا ہے،  چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے۔ اِن  ہتھکنڈوں سے وہ دعوتِ حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ (مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن،  جلد دوم کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں، الاعراف حواشی، ۸۷، ۸۸، ۸۹ – یونس، حاشیہ ۷۵۔ اِس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسرِ اقتدار لوگوں نے داعیانِ حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھُوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔ اس کی مثالوں  کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف،  آیت نمبر ۱۱۰،  ۱۲۳۔ یونس، آیت نمبر ۷۸۔ المومنون،  آیت نمبر ۲۴)۔

۳۱: فرعون کا مدّعا یہ تھا کہ ایک دفعہ جادوگروں سے لاٹھیوں اور رسیوں کا سانپ بنوا کر دکھا دوں تو موسیٰ ؑ کے معجزے کا جو اثر  لوگوں کے دلوں پر ہوا ہے وہ دُور ہو جائے گا۔ یہ حضرت موسیٰ کی منہ مانگی مراد تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ الگ کوئی دن اور جگہ مقرر کرنے کی کیا ضرورت  ہے۔ جشن کا دن قریب ہے،  جس میں تمام  ملک کے لوگ  دار السلطنت میں کھِنچ کر آ جاتے ہیں۔ وہیں میلے کے میدان میں مقابلہ ہو جائے تاکہ ساری قوم دیکھ لے۔ اور وقت بھی دن کی پوری روشنی کا ہونا چاہیے تاکہ شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔

۳۲: فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کی فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اُسے لے آئیں۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کے کمالات دیکھ کر عصائے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں۔ کھلم کھلا کہا جانے لگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا (ملاحظہ ہو سورۂ شعراء رکوع ۳)۔ اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مصر  کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی، دونوں کے عملی طریقے  اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا (ملاحظہ ہو    Toynbee  کی  A study of History  صفحہ ۳۱ – ۳۲)۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدّد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نسبت ایک توحید ی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے  ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صد حصہ تھے۔ اس کے علاوہ اُس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمِینوفِس یا اَخناتون (سن ۱۳۷۷۔ ۱۳۶۰ ق م) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتُون باقی رکھا گیا تھا۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکومت ہی کے زور سے اُلٹ دیا گیا، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا۔ اِن حالات کو نگاہ میں رکھا جائے تو فرعون کو وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی۔

۳۳: یہ خطاب عوام سے نہ تھا جنہیں ابھی حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ معجزہ دکھاتے ہیں یا جادو،  بلکہ خطاب فرعون اور اس کے درباریوں سے تھا جو انہیں جادوگر قرار دے رہے تھے۔

۳۴: یعنی اُس کے معجزے کو جادو اور اس کے پیغمبر کو ساحِر کذّاب نہ قرار دو۔

۳۵: اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنی کمزوری کو خود محسُوس کر رہے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ دکھایا ہے وہ جادو نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی سے اس مقابلے میں ڈرتے اور ہچکچاتے ہوئے آئے تھے،  اور جب عین موقع پر حضرت موسیٰ نے ان کو للکار کر متنبہ کیا تو ان کا عزم یکایک متزلزل ہو گیا۔ ان کا اختلاف رائے اس امر میں ہوا ہو گا کہ آیا اِس بڑے تہوار کے موقع پر،  جبکہ پورے ملک سے آئے ہوئے آدمی اکٹھے ہیں، کھلے میدان  اور دن کی پوری روشنی میں یہ مقابلہ کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔ اگر یہاں ہم شکست کھا گئے اور سب کے سامنے جادو اور معجزے کا فرق کھل گیا تو پھر بات سنبھالے نہ سنبھل سکے گی۔

۳۶: اور یہ کہنے والے لازماً فرعونی پارٹی کے وہ سر پھرے لوگ ہوں گے  جو حضرت موسیٰ کی مخالفت میں ہر بازی کھیل جانے پر تیار تھے۔ جہاندیدہ اور معاملہ فہم لوگ قدم آگے بڑھاتے ہوئے جھجک رہے ہوں گے۔ اور یہ سرپھرے جوشیلے لوگ کہتے ہوں گے کہ خواہ مخواہ کی دور اندیشیاں چھوڑ دو اور جی کڑا کر کے مقابلہ کر ڈالو۔

۳۷: یعنی اُن لوگوں کا دار و مدار دو باتوں پر تھا۔ ایک یہ کہ اگر جادوگر بھی موسیٰ کی طرح لاٹھیوں سے سانپ بنا کر دکھا دیں گے تو موسیٰ کا جادوگر ہونا مجمع عام میں ثابت ہو جائے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ تعصبات کی آگ بھڑکا کر حکمران طبقے کو اندھا جوش دلانا چاہتے تھے اور یہ خوف انہیں دلا رہے تھے کہ موسیٰ کا غالب آ جانا تمہارے ہاتھوں سے ملک نِکل جانے اور تمہارے مثالی (Ideal ) طریقِ زندگی کے ختم ہو جانے کا ہم معنی ہے۔ وہ ملک کے با اثر طبقے کو ڈرا رہے تھے کہ اگر موسیٰ کے ہاتھ اقتدار آ گیا تو یہ تمہاری ثقافت،  اور یہ تمہارے آرٹ، اور یہ تمہارا  حسین و جمیل تمدّن، اور یہ تمہاری تفریحات، اور یہ تمہاری خواتین کی آزادیاں(جن کے شاندار نمونے حضرت یوسف کے زمانے کی خواتین پیش کر چکی تھیں) غرض وہ سب کچھ جس کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں، غارت ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد تو نری ’’ملّائیت‘‘  کا دور دورہ  ہو گا جسے برداشت کرنے سے مر جانا بہتر ہے۔

۳۸: یعنی اِن کے مقابلے میں متحدہ محاذ پیش کرو۔ اگر اس وقت تمہارے درمیان آپس ہی میں پھوٹ پڑ گئی اور عین مقابلے  کے وقت مجمع عام کے سامنے یہ ہچکچاہٹ اور سرگوشیاں ہونے لگیں اور ابھی ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ سمجھ لیں گے کہ تم خود اپنے حق  پر ہونے کا یقین نہیں رکھتے، بلکہ دلوں میں چور لیے ہوئے مقابلے پر آئے ہو۔

۳۹: بیچ کی یہ تفصیل چھوڑ دی گئی  کہ اِس پر فرعون کی صفوں میں اعتماد بحال ہو گیا اور مقابلہ شروع کرنے کا فیصلہ کر کے جادوگروں کو احکام دے دیے گئے کہ میدان میں اُتر آئیں۔

۴۰: سورۂ اعراف میں بیان ہوا تھا کہ  فَلَمَّآ اَلْقَوْ ا سَحَرُوْٓ ا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْھَبُوْ ھُمْ، ’’جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا اور انہیں دہشت زدہ کر دیا‘‘ (آیت ۱۱۶)۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اثر صرف عام لوگوں پر ہی نہیں ہوا تھا،  خود حضرت موسیٰ بھی سحر کے اثر سے متاثر ہو گئے تھے۔ ان کی صرف آنکھوں ہی نے یہ محسوس نہیں کیا بلکہ ان کے خیال  پر بھی یہ اثر پڑا کہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔

۴۱: معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جونہی حضرت موسیٰ کی زبان سے ’’پھینکو‘‘  کا لفظ نکلا،  جادوگروں نے یکبارگی اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ان کی طرف پھینک دیں اور اچانک ان کو یہ نظر آیا کہ سینکڑوں سانپ دوڑتے ہوئے ان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ اِس منظر سے فوری طور پر اگر حضرت موسیٰ نے ایک دہشت اپنے اندر محسُوس کی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ انسان بہر حال انسان ہی ہوتا ہے۔ خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، انسانیت کے تقاضے اُس سے منفک نہیں ہو سکتے۔ علاوہ بریں یہ  بھی ممکن ہے کہ اُس وقت حضرت موسیٰ کو یہ خوف لاحق ہوا ہو کہ معجزے سے اس قدر مشابہ منظر دیکھ کر عوام ضرور فتنے میں پڑ جائیں گے۔ اس مقام پر یہ بات لائق ذکر ہے کہ قرآن یہاں اس امر کی تصدیق  کر رہا ہے کہ عا م انسانوں کی طرح پیغمبر بھی جادو سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ جادوگر اس کی نبوت سلب کر لینے،  یا اس کے اوپر نازل ہونے والی وحی میں خلل ڈال دینے،  یا جادو کے اثر سے اس کو گمراہ کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن فی الجملہ کچھ دیر کے لیے اس کے قویٰ پر یک گو نہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے۔ اس سے اُن لوگوں کے خیال کی غلطی کھل جاتی ہے جو احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جادو  کا اثر ہونے کی روایات پڑھ کر نہ صرف اُن روایات کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیثوں کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرانے لگتے ہیں۔

۴۲: ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آ رہی تھیں۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے اُن سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹھیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اُس جادو کے اثر کو باطل کر دیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آ رہی تھیں۔ سورۂ اَعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفُ مَا یَا فِکُوْنَ، ’’جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے  اس کو وہ نگلے جا رہا تھا ‘‘۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا، ’’ وہ نگل جائے گا اُس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے‘‘۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نِگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی،  لاٹھی اور ہر رسی،  رسی بن کر پڑی رہ گئی۔

۴۳: یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آ گیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے، اُن کے فن کی چیز ہر گز نہیں ہے، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے  میں گرے جیسے کسی نے اُٹھا اُٹھا کر اُن کو گرا دیا ہو۔

۴۴: اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر  ہو رہا ہے۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے  اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ،  خالقِ زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسرِ عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے۔ بالفاظ ِ دیگر،  وہاں فرعون اور جادوگروں اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے، اور امتحان اِس بات کا ہو رہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قِسم سے ہے یا اُس معجزے کی قِسم سے جو ربّ العالمین کی قدرت کے کرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادُو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ’’ہم نے مان لیا،  موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے ‘‘،  بلکہ انہیں فوراً یقین آ گیا کہ موسیٰ واقعی اللہ ربّ العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اُٹھے کہ ہم اُس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمعِ عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے،  اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہُوا ہو گا۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اِس اُمید پر کرایا تھا کہ کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے،  ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے،  تو موسیٰ کی ہوا اُکھڑ جائے گی۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اُسی پر اُلٹ پڑی،  اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے  سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اِس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ ان کے فن کی چیز نہیں ہے،  یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے۔

۴۵: سورۂ اعراف میں الفاظ یہ ہیں  اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْ ہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِ جُوْ ا  مِنْھَا اَھْلَھَا، ’’ یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے دارالسلطنت میں ملی بھگت کر کے  کی ہے تاکہ سلطنت سے اس کے مالکوں کو بے دخل کر دو‘‘۔ یہاں اس قول کی مزید تفصیل یہ دی گئی ہے کہ تمہارے درمیان صرف ملی بھگت ہی نہیں ہے، بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ موسیٰ تمہارا سردار اور گرُو ہے،  تم نے معجزے سے شکست نہیں کھائی  ہے بلکہ اپنے استاد سے جادو میں شکست کھائی ہے، اور تم آپس میں یہ طے کر کے آئے ہو کہ اپنے استاد کا غلبہ ثابت کر کے اور اسے اُس کی پیغمبری کا ثبوت بنا کر یہاں سیاسی انقلاب برپا کر دو۔

۴۶: یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں۔

۴۷: صلیب یا  سولی دینے کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ ایک لمبا شہتیر سالے کر زمین میں گاڑ دیتے تھے،  یا کسی پرانے درخت کا تنا اس غرض کے لیے استعمال کرتے تھے اور اس کے اوپر کے سرے پر ایک تختہ آڑا کر کے باندھ دیتے تھے۔ پھر مجرم کو اوپر چڑھا کر اور اس کے دونوں ہاتھ پھیلا کر آڑے تختے کے ساتھ کیلیں ٹھونک دیتے تھے۔ اس طرح مجرم تختے کے بل  لٹکا رہ جاتا تھا اور گھنٹوں سسک سسک کر جان دے دیتا تھا۔ صلیب دیے ہوئے یہ مجرم ایک مدّت تک یونہی لٹکے رہنے دیے جاتے تھے تاکہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر سبق حاصل کریں۔

۴۸: یہ ہری ہوئی بازی جیت لینے کے لیے فرعون کا آخری داؤ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جادوگروں کو انتہائی خوفناک سزا سے ڈرا کر ان سے یہ اقبال کرا لے کہ واقعی یہ اُن کی اور موسیٰ علیہ السّلام کی ملی بھگت تھی اور وہ ان سے مل کر سلطنت کے خلاف سازش کر چکے تھے۔ مگر جادوگروں کے عزم و استقامت نے اُس کا یہ داؤں بھی اُلٹ دیا۔ انہوں نے اتنی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہو کر دنیا بھر کو یہ یقین دلا دیا کہ سازش کا الزام محض بگڑی ہوئی بات بنانے کے لیے ایک بے شرمانہ سیا سی چال کے طور پر گھڑا گیا ہے، اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ سچے دل سے موسیٰ علیہ السّلام کی نبوت پر ایمان لے آئے ہیں۔

۴۹: دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم اُن روشن نشانیوں کے مقابلے میں جو ہمارے سامنے آ چکی ہیں،  اور اس ذات کے مقابلے میں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے،  تجھے ترجیح دیں‘‘۔

۵۰: یہ جادوگروں کے قول پر اللہ تعالیٰ کا اپنا اضافہ ہے۔ اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ عبارت جادوگروں کے قول کا حصّہ نہیں ہے۔

۵۱: یعنی موت اور زندگی کے درمیان لٹکتا رہے گا۔ نہ موت آئے گی کہ اس تکلیف اور مصیبت کا خاتمہ کر دے، اور نہ جینے کا ہی کوئی لطف اسے حاصل ہو گا کہ زندگی کو موت پر ترجیح دے سکے۔ زندگی سے بیزار ہو گا، مگر موت نصیب نہ ہو گی۔ مرنا چاہے گا مگر مر نہ سکے گا۔ قرآن مجید میں دوزخ کے عذابوں کی جتنی تفصیلات دی گئی ہیں اُن میں سب سے زیادہ خوفناک  صورت ِ عذاب یہی ہے جس کے تصوّر سے رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔

 

ترجمہ

 

ہم ۵۲ نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنا لے ۵۳،  تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے)ڈر لگے۔ پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا، اور پھر سمندر اُن پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ ۵۴ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔ ۵۵

۵۶ اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب ۵۷ تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا ۵۸ اور تم پر من و سلویٰ اُتارا ۵۹۔۔۔۔ کھاؤ ہمارا دیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹُوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔ ۶۰ ۶۱ اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰؑ ؟ ۶۲

اُس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آ  ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں اے میرے ربّ، تاکہ تُو مجھ سے خوش ہو جائے۔‘‘  فرمایا ’’اچھا، تو سُنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں دال دیا اور سامری ۶۳ نے اُنہیں گمراہ کر ڈالا۔‘‘ موسیٰؑ سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جا کر اُس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ ۶۴ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ ۶۵ یا تم اپنے ربّ کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟‘‘  ۶۶ انہوں نے جواب دیا ’’ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لَد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا‘‘  ۶۷۔۔۔۔ ۶۸ پھر اِسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مُورت بنا کر لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اُٹھے ’’یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰؑ اِسے بھُول گیا۔‘‘  کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے؟ ؏ ۴

ہارونؑ (موسیٰؑ کے آنے سے )پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ’’لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا ربّ تو رحمٰن ہے، پس تم میرے پیروی کرو اور میری بات مانو۔‘‘  مگر اُنہوں نے اُس سے کہہ دیا کہ ’’ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰؑ واپس نہ آ جائے۔‘‘  ۶۹ موسیٰؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارونؑ کی طرف پلٹا اور )بولا ’’ ہارونؑ،  تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے  تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘  ۷۰ ہارونؑ نے جواب دیا ’’ اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، ۷۱ مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تُو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھُوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔‘‘  ۷۲ موسیٰؑ نے کہا ’’ اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟‘‘  اس نے جواب دیا ’’ میں نے وہ چیز دیکھی جو اِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسُول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھا لی اور اُس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا۔‘‘  ۷۳ موسیٰؑ نے کہا ’’اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پُکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھُونا۔ ۷۴ اور تیرے لیے باز پُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا۔ اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تُو ریجھا ہوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے۔‘‘

اے محمدؐ، ۷۵ اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سُناتے ہیں، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ’’ذِکر‘‘  (درسِ نصیحت)عطا کیا ہے۔ ۷۶ جو کوئی اِس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے روز سخت بارِ گناہ اُٹھائے گا، اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے،اور قیامت کے دن اُن کے لیے (اِس جرم کی ذمّہ داری کا بوجھ)بڑا تکلیف دہ بوجھ ہو گا، ۷۷ اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا ۷۸ اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے)پتھرائی ہوئی ہوں گی، ۷۹ آپس میں چُپکے چُپکے کہیں گے کہ دُنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے ۸۰۔۔۔۔ ۸۱ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ)اُس وقت ان میں سے جو زیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ نہیں، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۵۲: بیچ میں اُن حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد  مصر کے طویل زمانۂ  قیام میں پیش آئے۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۵ – ۱۶، سورۂ یونس رکوع ۹، سورۂ مومن رکوع ۳ تا ۵، اور سورۂ زُخرف رکوع ۵۔

۵۳: اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو  ( جن کے لیے ’’ میرے بندوں‘‘   کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے) مصر کے ہر حصّے سے ہجرت کے لیے نِکل پڑنا تھا۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے۔ اُس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی۔ بحر احمر سے بحر روم (میڈیٹرینین) تک کا پورا علاقہ کھُلا ہوا تھا۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا  کی طرف نکل جائیں۔ لیکن اُدھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقُب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا۔ سورۂ شعراء میں بیان ہُوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر ِ فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل  گھِر چکا تھا۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ  اِضْرِبْ بعَصَاکَ الْبَحْرَ، ’’اپنا عصا سمندر پر مار‘‘  فَا نْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَا اطَّوْدِ الْعَظیْمِ، ’’ فوراً سمندر پھٹ گیا  اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا۔ ‘‘  اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نِکل آیا، بلکہ بیچ کا یہ حصّہ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا  نہیں ہو جاتا،  اور بیچ  کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ نمبر ۴۷)۔

۵۴: سورۂ شُعَراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کے گزرتے ہی فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر  کے اس درمیانی راستے میں اتر آیا (آیات ۶۴ – ۶۶)۔ یہاں بیان کیا گیا  ہے کہ سمندر نے اس کو اور اس کے لشکر کو دبوچ لیا۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ہے بنی اسرائل سمندر کے دوسرے کنارے پر سے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ (آیت ۵۰) اور  سورۂ یونس میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون پکار اُٹھا   اٰ مَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ آ اِسْرَآئییْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، ’’ میں مان گیا کہ کوئی خدا نہیں ہے اس خدا کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں،  اور میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘  مگر اس آخری لمحہ کے ایمان کو قبول نہ کیا گیا اور جواب مِلا   اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ،  فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْ نَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰ یَۃً، ’’اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے یہ حال تھا کہ نافرمانی کرتا رہا اور فساد کیے چلا گیا۔ اچھا، آج ہم تیری لاش کو بچائے لیتے ہیں تاکہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا رہے‘‘ (آیات ۹۰ – ۹۲)۔

۵۵: بڑے لطیف انداز میں کفار ِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار  اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی  نہ تھی۔ اِس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل کے بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ اُن لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جائے جو کہتے ہیں  کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں۔ بائیبل کی کتاب  خروج(Exodus ) میں اِس قصّے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کے حسبِ ذیل اجزاء قابل ِ توجہ ہیں: (۱) باب۴، آیت  ۲ – ۵ میں بتایا گیاہ ے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ اور آیت ۱۷ میں انہی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’تُو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا‘‘۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے۔ باب ۷ سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں۔ (۲) باب ۵، میں فرعون سے حضرت موسی ٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس میں سرے سے اُس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر اُن کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی۔ فرعون کہتا ہے کہ ’’ خداوند کون ہے کہ میں اُس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا‘‘۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اِس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ ’’عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے‘‘۔ (باب ۵ – آیت ۲ – ۳)۔ (۳) جادوگروں سے مقابلے کی پوری داستان بس اِن چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے: ’’اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جائے۔ اور موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگروں کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی  لاٹھی سامنے ڈالی اور  وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی‘‘۔ (باب ۷۔ آیت ۸ – ۱۲)۔ اِس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جائے کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بُری طرح فنا کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کے دن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا،  اور پھر شکست کے بعد جادوگروں کا ایمان لانا،  جو قصّے کی اصل جان تھا،  سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے۔ (۴) قرآن کہتا ہے کہ حضرت  موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مطالبہ صرف یہ تھا ’’ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیے قربانی کریں‘‘۔ (باب ۵ – آیت ۳)۔ (۵) مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب ۱۱ سے ۱۴ تک بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سی مفید معلومات،  اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور  ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی۔ مثلاً باب ۱۴ کی آیات ۱۵ – ۱۶ میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ’’تُو اپنی لاٹھی (جی ہاں، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے) اُٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصّے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل جائیں گے‘‘۔ لیکن آگے چل کر آیت ۲۱ – ۲۲ میں کہا جاتا ہے کہ ’’پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصّے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا‘‘۔ یہ  بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ؟ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب  صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا۔ کیا فطری طریقے سے ہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے؟ تلمود کا بیان نسبتًا بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ ایک جگہ براہِ راست  علمِ وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جا رہے ہیں، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینہ بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو: The Talmud Selections. H. Polano.  PP. ۱۵۰-۵۴,

۵۶: سمندر کو عبور کرنے سے لے کر کوہِ سینا کے دامن میں پہنچنے تک کی داستان بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے۔ اس کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۶ – ۱۷ میں گزر چکی ہے۔ اور وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ مصر سے نکلتے ہی بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے ایک مندر کو دیکھ کر اپنے لیے ایک بناوٹی خدا مانگ بیٹھے تھے ( تفہیم القرآن۔ جلد دوم،  الاعراف،  حاشیہ نمبر ۹۸)۔

۵۷: یعنی طُور کے مشرقی دامن میں۔

۵۸: سورۂ بقرہ رکوع ۶، اور سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا کیے گئے۔

۵۹: ‘‘ من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل البقرہ، حاشیہ نمبر ۷۳۔ الاعراف،  حاشیہ نمبر ۱۱۹۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشتِ سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا،  اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا( خروج، باب ۱۶۔ گنتی، باب ۱۱۔ آیت ۷ – ۹۔ یشوع، باب ۵، آیت ۱۲)۔ کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے: ’’اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گو ل چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں،  زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اُسے دیکھ کر آپس میں کہنے  آ٭٭راتتلگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانے تھے کہ  وہ کیا ہے‘‘ (باب ۱۶ – آیت ۱۳ – ۱۵)۔ ’’اور بنی اسرائیل نے اُس کا نام مَن رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے نے ہوئے پوئے کی طرح تھا ‘‘  (آیت ۳۱)۔ گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے: ’’لوگ اِدھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اُسے ہانڈیوں میں اُبال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ مَن بھی گرتا تھا‘‘  (باب ۱۱، آیت ۸ – ۹)۔               یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ کیونکہ ۴۰ برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گئے تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے،  نہ مَن ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے اُن علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے ۴۰ سال تک دشت نوردی کی تھی۔ مَن اُن کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے مَن کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔

۶۰: یعنی مغفرت کے لیے چار شرطیں ہیں۔ اوّل توبہ، یعنی سرکشی و نافرمانی یا شرک و کفر سے باز آ جانا۔ دوسرے، ایمان، یعنی اللہ اور رسول اور کتاب اور آخرت کو صدق ِ دل سے مان لینا۔ تیسرے عملِ صالح،  یعنی اللہ اور رسول کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا۔ چوتھے ابتداء، یعنی راہِ راست پر ثابت قدم رہنا اور پھر غلط راستے پر نہ جا پڑنا۔

۶۱: یہاں سے سلسلہء بیان اُس واقعہ کے ساتھ جُڑتا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔ یعنی بنی اسرائیل سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تم طور کے دائیں جانب ٹھیرو،  اور چالیس دن کی مدّت گزرنے پر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا۔

۶۲: اس فقرے  سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر  حضرت موسیٰ اپنے ربّ کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے۔ طور کی جانبِ اَیمن میں، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی۔ اُس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوئے ان کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں درج ہیں۔ حضرت موسیٰ کا دیدارِ الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلّی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بےہوش ہو کر گر پڑنا، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا، یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصّہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے۔ اس کے بیان سے مقصود کفارِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بُت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اُٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جا یا کرتے ہیں۔

۶۳: ‘‘ یہ اس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی  نسبت ہی ہے، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح  السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اِس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام اُن اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیری کی حد کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ،   معاذ اللہ،  قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولتِ اسرائیل کا دارالسلطنت ’’سامریہ‘‘  اِس واقعہ کے کئی صدی بعد سن ۹۲۵ ق م  کے قریب زمانے میں تعمیر ہو ا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے ’’سامریوں‘‘  کے نام سے شہرت پائی۔ اُن کا خیال ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ محمد  (صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اس بات کی سُن گُن  پالی ہو گی،  اس لیے اُنہوں نے لے  جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔ اِسی طرح کی باتیں اِن لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے،  اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسویرس (شاہ ایران) کے درباری امیر ’’ہامان‘‘  سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔ شاید ان مدعیانِ علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہُوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی،  اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے،   یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے  جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔ بائیبل  کا بیان ہے کہ دولتِ اسرائیل کے فرمانروا اعمری نے ایک شخص ’’سمر‘‘  نامی  سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا (سلاطین ۱، باب ۱۶ – آیت ۲۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے ’’سمر‘‘  نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا۔

۶۴: ’’اچھا وعدہ نہیں کیا تھا‘‘  بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ متن میں جو ترجمہ  ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے ربّ نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا،  غلامی سے نجات دی، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا، تمہارے لیے اِن صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں سائے اور خوراک کا بندوبست کیا۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوئے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ  کیا گیا تھا،  کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا؟

۶۵: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گئے؟ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالیٰ ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے، کیا اُن کو کچھ بہت زیادہ مدّت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گئے؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سر مست ہو کر بہکنے لگے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے  کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس کے وفا  ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو۔

۶۶: اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم  اپنے نبی سے کرتی ہے۔ اُس کے اتباع کا وعدہ۔ اس کی دی ہوئی  ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ۔

۶۷: یہ اُن لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی،  نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم بے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ’’لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے‘‘،   اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری بھاری زیورات  پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم  پر بار ہو گئے تھے اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھرانے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے  تھے اور اِس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ’’ہجرت‘‘  کے لیے چل کھڑا ہوا تھا۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو، بلکہ یہ کارِ خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا،  اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہو تا ہے: ’’خدا نے موسیٰ سے کہا۔۔۔۔۔۔ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور اُن کو کہہ۔۔۔۔۔۔ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے پر چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے‘‘۔ (باب ۳۔ آیت  ۱۴ تا ۲۲) ’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا۔۔۔۔۔۔ سو اب تُو لوگوں کو کان میں یہ بات ڈال دے کہ اُن میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے،  اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا‘‘ (باب ۱۱۔ آیت ۲ – ۳) ’’اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے اِن لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزّت بخشی کہ جو کچھ اِنہوں نے مانگا اُنہوں نے دیا، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا‘‘۔ (باب ۱۲ – آیت ۳۵ – ۳۶) افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اِس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور  ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اِسی لُوٹ کا بوجھ تھا۔ آیت کے دوسرے ٹکڑے ’’اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا‘‘  کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آ گئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہو گی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں،  اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا  سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے، پھر اِن کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے،  تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر ان کو لاد کر چلا جا سکے۔ چنانچہ اس قرار داد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا۔

۶۸: یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی عبارت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ قوم کا جواب ’’پھینک دیا تھا‘‘  پر ختم ہو گیا ہے اور بعد کی یہ تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے۔ اس سے صورتِ واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پیش آنے والے فتنے سے بے خبر،  اپنے اپنے زیور لا لا کر ڈھیر کر تے چلے گئے، اور سامری صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ بعد میں زیور گلانے کی خدمت سامری صاحب نے اپنے ذمے لے لی،  اور کچھ ایسی چال چلی کہ سونے کی اینٹیں یا سلاخیں بنانے کے بجائے ایک بچھڑے کی مورت بھٹی سے برآمد ہوئی جس میں سے بیل کی سی آواز نِکلتی تھی۔ اِس طرح سامری نے قوم کو دھوکا دیا کہ میں تو صرف سونا گلانے کا قصور وار ہوں، یہ تمہارا خدا آپ ہی اس شکل میں جلوہ فرما ہو گیا ہے۔

۶۹: بائیبل اِس کے برعکس حضرت ہارون پر الزام رکھتی ہے کہ بچھڑا بنانے اور اسے معبود قرار دینے کا گناہِ عظیم انہی سے سرزد ہو ا تھا: ’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اتر نے میں دیر لگا ئی تو وہ  ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے اگے چلے، کیونکہ  ہم نہیں جانتے کہ اِس مرد موسیٰ کو،  جو ہم  کو ملک مصر سے نکال کر لایا، کیا ہو گیا۔ ہارون نے اُن سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ہارون کے پاس لے آئے۔ اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنا یا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے  اے اسرائیل،  یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ خداوند کے لیے عید ہو گی‘‘  (خروج،  باب ۳۲ – آیت ۱ – ۵) بہت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ غلط روایت اِس وجہ سے مشہور ہوئی ہو کہ سامری کا نام بھی ہارون ہی ہو، اور بعد کے لوگوں نے اِس ہارون کو ہارون نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہو۔ لیکن آج عیسائی مشنریوں اور مغربی مستشرقوں کو اصرار ہے کہ قرآن یہاں بھی ضرور غلطی پر ہے، بچھڑے کو خدا اُن کے مقدس نبی نے ہی بنایا تھا اور ان کے دامن سے اِس داغ کو صاف کر کے  قرآن نے ایک احسان نہیں بلکہ اُلٹا قصور کیا ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال۔ اور ان کو نظر نہیں آتا کہ اِسی باب میں چند سطر آگے چل کر خود بائیبل اپنی غلط بیانی کا راز کس طرح فاش کر رہی ہے۔ اس باب کی آخری دس آیتوں میں بائیبل یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے بعد بنی لاوِی کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ جن لوگوں نے شرک کا یہ گناہِ عظیم کیا ہے اُنہیں قتل کیا جائے، اور ہر ایک مومن خود اپنے ہاتھ سے اپنے اُس بھائی اور ساتھی اور پڑوسی کو قتل کرے جو گوسالہ پرستی کا مرتکب ہوا تھا۔ چنانچہ اس روز تین ہزار آدمی قتل کیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ہارون کیوں چھوڑ دیے گئے؟ اگر وہی اس جرم کے بانی مبانی تھے تو انہیں اس قتلِ عام سے کس طرح معاف کیا جا سکتا تھا؟ کیا بنی لاوِی یہ نہ کہتے کہ موسیٰ،  ہم کو تو حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے گناہ گار بھائیوں  اور ساتھیوں اور پڑوسیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ مگر خود اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے حالانکہ اصل گناہ گار وہی تھا؟ آگے چل کر بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰ نے خداوند کے پاس جا کر عرض کیا کہ اب بنی اسرائیل کا گناہ معاف کر دے، ورنہ میرا نام اپنی کتاب میں سے مٹا دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ’’ جس نے میرا گناہ کیا  ہے میں اسی کا نام اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا‘‘۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ہارون کا نام نہ مٹایا گیا۔ بلکہ اِس کے برعکس  ان کو اور ان کی اولاد  کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب،  یعنی بنی لاوِی کی سرداری اور مَقدِس کی کہانت سے سرفراز کیا گیا (گنتی،  باب ۱۸ – آیت ۱ – ۷)۔ کیا بائیبل کی  یہ اندرونی شہادت خود اس کے اپنے سابق بیان کی تردید اور قرآن کے بیان کی تصدیق نہیں کر رہی ہے؟

۷۰: حکم سے مراد وہ حکم ہے جو پہاڑ پر جاتے وقت،  اور اپنی جگہ حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کی سرداری سونپتے  وقت حضرت موسیٰ نے دیا تھا۔ سورۂ اعراف میں اسے اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : وَقَالَ مُوْسیٰ لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ،  ’’اور موسیٰ نے (جاتے ہوئے) اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میری جانشینی کرو اور دیکھو،  اصلاح کرنا،  مفسدوں کے طریقے کی پیروی نہ کرنا‘‘۔ (آیت ۱۴۲)۔

۷۱: ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے،  اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔

۷۲: حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع  رہنا اس کے راہِ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اتحاد چاہے وہ  شرک ہی کیوں نہ ہو، افتراق سے بہتر ہے خواہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۰ کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ  اِبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ ا سْتَضْعَفُوْ نِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ زصلے   فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآ ءَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ  مَعَ الْقَوْ مِ الظّٰلِمِیْنَ۔ ’’ میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ پس تُو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے او ر اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر ‘‘۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی،  مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تُل گئے۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے،  اور وہ بعد میں آ کر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت ِ حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم  نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا،  میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سورۂ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی۔

۷۳: اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے۔ ایک گروہ،  جس میں قدیم مفسرین اور قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے،  اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ ’’سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اور ان کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اُٹھا لی تھی،  اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بُت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہو گئی  اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی‘‘۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ  رہا کہ فی الواقع ایسا ہوا تھا۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی،  اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے۔ دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ ’’مجھے رسول، یعنی حضرت موسیٰ میں، یا اُن کے دین  میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کی،  مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا‘‘۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی،  پھر امام رازی نے ا س کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اب طرزِ جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف  محاورے اور روز مرّہ سے واقف ہو، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت ِ زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سُن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات  بیان کر رہے ہیں۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں  اس سے مراد لیے جاتے ہوں،  اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہر گز  اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا،  زباں دانی تو نہیں ہو سکتا، البتہ سخن سازی کا کرتب  ضرور مانا جا سکتا ہے۔ اس  قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود اِن حضرات کی اردو تحریروں میں،  یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانے شروع کر دے،  تو شاید اپنے کلام کی دوچار ہی تاویلیں سُن کر یہ حضرات چیخ اُٹھیں۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اُس وقت کی جاتی ہے جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے۔ اس طرزِ فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اِس سلسلۂ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پُر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی بھر  مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے۔ رسول سے مراد ممکن  ہے کہ جبریل ہی ہوں، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا،  تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کو ذہنی رشوت دینی چاہتا تھا،  تاکہ وہ اسے اپنے نقشِ قدم کی مٹی کا کرشمہ  سمجھ کر پھُول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کر لیں۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکار ا ہے  اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پُر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا۔

۷۴: یعنی صر ف یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لیے معاشرے سے اس کے تعلقات توڑ دیے گئے اور اسے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا،  بلکہ یہ ذمہ داری بھی اسی پر ڈالی گئی کہ ہر شخص کو وہ خود اپنے اچھوت پن سے آگاہ کر ے اور دور ہی سے لوگوں کو مطلع کرتا رہے کہ میں اچھوت ہوں، مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ بائیبل کی کتاب احبار میں کوڑھیوں کی چھوت سے لوگوں کو بچانے کے لیے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں اُن میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ : ’’اور جو کوڑھی اس بلا میں مبتلا ہو اُس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلّا چلّا کر کہے ناپاک ناپاک۔ جتنے دنوں تک وہ اس بلا میں مبتلا رہے وہ ناپاک رہے گا اور وہ ہے بھی ناپاک۔ پس وہ اکیلا رہے، اس کا مکان لشکر گاہ کے باہر ہو‘‘۔ (باب ۱۳۔ آیت ۴۵ – ۴۶) اس سے گمان ہوتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر اس کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہو گا، یا پھر اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہو گی کہ جس طرح جسمانی کوڑھ کا مریض لوگوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اُسی طرح اِس اخلاقی کوڑھ کے مریض کو بھی الگ کر دیا جائے، اور یہ بھی کوڑھی کی طرح پکار پکار کر ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہے کہ میں ناپاک ہوں،  مجھے نہ چھونا۔

۷۵: موسیٰ علیہ السّلام کا قصہ ختم کر کے اب پھر تقریر کا رُخ اُس مضمون کی طرف مڑتا ہے  جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پلٹ کر سورہ کی اُن ابتدائی آیات کو پڑھ لیجیے جن کے بعد یکایک حضرت موسیٰ  کا قصہ شروع ہو گیا تھا۔ اس سے آپ کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آ جائے گی کہ سورہ کا اصل موضوع ِ بحث کیا ہے، بیچ میں قصۂ موسیٰ کس لیے بیان ہوا ہے، اور اب قصّہ ختم کر کے کس طرح تقریر اپنے موضوع کی طرف پلٹ رہی ہے۔

۷۶: یعنی یہ قرآن،  جس کے متعلق آغازِ سورہ میں کہا گیا تھا کہ یہ کوئی اَن ہونا کام تم سے لینے اور تم کو بیٹھے بٹھائے ایک مشقت میں مبتلا کرنے کر دینے کے لیے نازل نہیں کیا گیا ہے، یہ تو ایک یاد دہانی اور نصیحت (تذکرہ) ہے ہر اُس شخص کے لیے جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو۔

۷۷: اس میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی ہے کہ جو شخص اس درسِ نصیحت،  یعنی قرآن سے منہ موڑے گا  اور اس کی ہدایت و رہنمائی قبول کرنے سے انکار کرے گا،  وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بھیجنے والے خدا کا کچھ نہ بگاڑ ے گا۔ اُس کی یہ حماقت دراصل اس کی خود اپنے ساتھ دشمنی ہو گی۔ دوسری بات یہ بتائی گئی  کہ کوئی شخص،  جس کو قرآن کی یہ نصیحت پہنچے اور پھر وہ اسے قبول کرنے سے پہلو تہی کرے،  آخرت میں سزا پانے سے بچ نہیں سکتا۔ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ کسی قوم،  کسی ملک، کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ جب تک یہ قرآن دنیا میں موجود ہے، جہاں جہاں،  جس جس ملک اور قوم کے،   جس  شخص کو بھی یہ پہنچے گا،  اس کے لیے دو ہی راستے کھلے ہوں گے۔ تیسرا کوئی راستہ نہ ہو گا۔ یا تو اس کو مانے اور اس کی پیروی  اختیار کرے۔ یا اس کو نہ مانے اور اس کی پیروی  سے منہ موڑ لے۔ پہلا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام آگے آ رہا ہے۔ اور دوسرا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام یہ ہے  جو اِس آیت میں بتا دیا گیا ہے۔

۷۸: صُور،  یعنی نر سنگھا، قرناء، یا بوق۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ  اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جاتا ہے، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہٖ ان محدود معنوں میں لے لیں، اور ان محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم زمانے  سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے مِلتی جُلتی ہو۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جائے گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی۔ ایک دفع وہ پھونکی جائے گی اور سب پر موت طاری ہو جائے گی۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اُٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، النمل، حاشیہ نمبر ۱۰۶)۔

۷۹: اصل میں لفظ ’’زُرْقًا‘‘  استعمال ہوا ہے،  جو  اَزْرَق  کی جمع ہے۔ بعض  لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ جو خود اَزْرق (سفیدی مائل نیلگوں) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جائے گا اور ان کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ازرق العین (کرنجی آنکھوں والے) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدّتِ ہول سے ان کے دے دے پتھرا جائیں گے۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید ہو جاتا ہے۔

۸۰: دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ’’ موت کے بعد سے اِس وقت تک تم کو مشکل ہی سے دس دن گزرے ہوں گے‘‘۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی،  اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہو گا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے کچھ ایسے ہی ہوں گے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ o قَالُوْ ا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَادِّیْنَ۔ ’’اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے ایک دن یا دن کا ایک حصّہ رہے ہوں گے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے‘‘  (المومنون آیات ۱۱۲ – ۱۱۳)۔ دوسری جگہ فرمایا جاتا ہے   وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْ ا غَیْرَ سَا عَۃٍ کَذٰلِکَ کَا نُوْ ا یُؤْفَکُوْنَo وَقَالَ الَّذیْنَ اُوْتُوْ ا الْعِلْمَ وَ ا لْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ اِلیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo ’’اور جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر  کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا  تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے، مگر تم جانتے نہ تھے‘‘ (الروم – آیات ۵۵ – ۵۶)۔ ان مختلف تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی  اور برزخ کی زندگی،  دونوں ہی کو وہ بہت قلیل سمجھیں گے۔ دنیا کی زندگی کے متعلق وہ اس لیے یہ باتیں کریں گے کہ اپنی امیدوں کے بالکل خلاف جب انہیں آخرت  کی ابدی زندگی میں آنکھیں کھولنی پڑیں گی، اور جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے لیے وہ کچھ بھی تیاری کر کے نہیں آئے ہیں، تو انتہا درجہ کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کفِ افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و مسرت اور فائدہ و لذت کی خاطر ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا وقت انہیں اس لیے تھوڑا نظر آئے گا کہ زندگی بعد ِ موت کو وہ دنیا میں غیر ممکن سمجھتے تھے اور قرآن کے بتائے ہوئے عالمِ آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی  کے ساتھ ان کے ذہن میں اُترا ہی نہ تھا۔ یہی تصوّرات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت انہوں نے ختم کی تھی۔ اب جو اچانک وہ آنکھیں ملتے ہوئے دوسری زندگی میں بیدار ہوں گے  اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک بگل یا نرسنگھے کی آواز پر مارچ کرتے ہوئے پائیں گے تو وہ شدید گھبراہٹ کے ساتھ اندازہ لگائیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بے ہوش ہونے یا فلاں جہاز میں ڈوبنے یا فلاں مقام پر حادثہ  سے دوچار ہونے کے  بعد سے اِس وقت تک آخر کتنا وقت لگا ہو گا۔ اُن کی کھوپڑی میں اُس وقت یہ بات سمائے گی ہی نہیں کہ دنیا  میں وہ جاں بحق ہو چکے تھے اور اب یہ وہی دوسری زندگی ہے جسے ہم بالکل لغو بات کہہ کر ٹھٹھوں میں اُڑا دیا کرتے تھے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا یہ شاید میں چند گھنٹے یا چند دن بے ہوش پڑا رہا ہوں،  اور اب شاید ایسے وقت مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثہ کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ آج کل کے مرنے  والے صاحب لوگ صور کی  آواز کو کچھ دیر تک ہوائی حملے کا سائرن ہی سمجھتے رہیں۔

۸۱: یہ جملۂ  معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سامعین کے اس شبہہ کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخر اُس وقت میدانِ حشر میں بھاگتے ہوئے لوگ چپکے چپکے جو باتیں کریں گے وہ آج یہاں کیسے بیان ہو رہی ہیں۔

 

ترجمہ

 

۸۲ یہ لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا ربّ ان کو دھُول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے ۸۳۔۔۔۔ اُس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمٰن کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ ۸۴ کے سوا تم کچھ نہ سُنو گے۔ اُس روز شفاعت  کار گر نہ ہو گی اِلّا یہ کہ کسی کو رحمٰن اس کی اجازت دے اور اس کی بات سُننا پسند کرے ۸۵۔۔۔۔ وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دُوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے ۸۶۔۔۔۔ لوگوں کے سر اُس حیّ و قیّوم کے آگے جھُک جائیں گے۔ نامراد ہو گا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے ہو۔ اور کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہ ہو گا اُس شخص کو جو نیک عمل کرے اور اِس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو۔ ۸۷

اور اے محمدؐ،  اِسی طرح ہم نے اِسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے ۸۸ اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہو کے آثار اِس کی بدولت پیدا ہوں۔ ۸۹ پس بالا و برتر ہے اللہ،  پادشاہِ حقیقی۔ ۹۰

اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے  مزید علم عطا کر۔ ۹۱

۹۲ ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا، ۹۳ مگر وہ بھُول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا۔ ۹۴ ؏ ٦

 

تفسیر

 

۸۲: یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ  جس وقت یہ سُورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سُنائی جا رہی ہو گی اس وقت کسی نے مذاق اُڑانے کے لیے یہ سوال اُٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اُس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے  چلے جا رہے ہوں گے۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ مکہ جس مقام  پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اُونچے اُونچے پہاڑ ہیں۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوُٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرّے،  اور ان کو دھُول کی طرح اُڑا کر ساری زمین  ایک ایسا ہموار  میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی، کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا۔ اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بَل اور کوئی معمولی سی سلوٹ  تک نہ ہو۔

۸۳: عالم ِ آخرت میں زمین کی جو نئی شکل بنے گی اسے قرآن مجید میں مختلف مواقع پر بیان کیا گیا ہے۔ سُورۂ انشقاق میں فرمایا   اِذَ ا الْاَرْضُ مُدَّتْ ’’زمین پھیلا  دی جائے گی‘‘۔ سُورۂ انفطار میں فرمایا  اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ،  ’’سمندر پھاڑ دیے جائیں گے‘‘،  جس کا مطلب غالباً  یہ ہے کہ سمندروں کی تہیں پھٹ جائیں گی اور سارا پانی زمین کے اندر اُتر جائے گا۔ سُورۂ  تکویر میں فرمایا   اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ، ’’سمندر بھر دیے جائیں گے یا پاٹ دیے جائیں گے‘‘۔ اور یہاں بتایا جا رہا ہے کہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے ساری زمین ایک ہموار میدان کی طرح کر دی جائے گی۔ اس سے جو شکل ذہن میں بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عالمِ آخرت میں یہ پورا کرۂ زمین سمندروں کو پاٹ کر،  پہاڑوں کو توڑ کر،  نشیب و فراز کو ہموار اور جنگلوں کو صاف کر کے بالکل ایک گیند کی طرح بنا دیا جائے گا۔ یہی  وہ شکل ہے جس کے متعلق سُورۂ ابراہیم آیت ۴۸ میں فرمایا   یَوْمَ تُبَدِّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ، ’’ وہ دن جبکہ زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی‘‘۔ اور یہی زمین کی وہ شکل ہو گی جس پر حشر قائم ہو گا اور اللہ تعالیٰ عدالت میں فرمائے گا۔ پھر اس کی آخری اور دائمی شکل وہ بنا دی جائے گی جس کو سُورۂ زُمر آیت نمبر ۷۴  میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: وَ قَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَ ہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ،  فِنِعْمَ اَجْرَ الْعٰمِلِیْنَ oیعنی متقی لوگ ’’کہیں گے کہ  شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم سے اپنے وعدے پورے کیے اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، ہم اس جنت  میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے‘‘۔ اِس سے معلوم ہوا کہ آخر کار یہ پورا کُرہ جنت بنا دیا جائے گا اور خدا کے صالح و متقی بندے اس کے وارث ہوں گے۔ اُس وقت پوری زمین ایک ملک ہو گی۔ پہاڑ،  سمندر،  دریا، صحرا، جو آج زمین کو بے شمار ملکوں اور وطنوں میں تقسیم کر رہے ہیں،  اور ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی بانٹے دے رہے ہیں، سرے سے موجود ہی نہ ہوں گے۔ (واضح رہے کہ صحابہ و تابعین میں سے ابنِ عباس ؓ اور قتادہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اِسی زمین پر ہو گی،  اور سورۂ نجم  کی آیت عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی o عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہ جنت ہے جس میں اب شہدا ء کی ارواح رکھی جاتی ہیں)۔

۸۴: اصل میں لفظ ’’ہَمس‘‘  استعمال ہوا ہے،  جو قدموں کی آہٹ،  چپکے چپکے بولنے کی آواز، اونٹ کے چلنے کی آواز اور ایسی ہی ہلکی آوازوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہاں کوئی آواز، بجز چلنے والوں کے قدموں کی آہٹ اور چپکے چپکے بات کرنے والوں کی کھُسر پھُسر  کے نہیں سُنی جائے گی۔ ایک پُر ہیبت سماں بندھا ہوا ہو گا۔

۸۵: اس آیت کے  دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ’’ اُس روز شفاعت کا ر گر نہ ہو گی اِلَّا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو‘‘۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأتنہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ بولنے کی اجازت دے، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بارگاہِ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں۔ ایک طرف فرمایا  مَنْ ذَ ا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بَاِذْنِہٖ، ’’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے ‘‘  (بقرہ – آیت ۲۵۵)۔ اور یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئیکَۃُ صَفًّا،  لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہْ الرَّ حْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا، ’’وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے، ذرا بات نہ کریں گے، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے‘‘  (النبا – آیت۳۸)۔ دوسری طرف ارشاد ہوا   وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ، ’’ اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر (رحمان) راضی ہو،  اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں‘‘ ( الانبیاء – آیت ۲۸)۔ اور کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰ تِ لَا تُغْنِیْ شَفَا عَتھُُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْم ’’بَعْدِ اَنْ یَّاْ ذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآ ءُ وَیَرْضٰی، ’’کتنے  ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے  کہ  اللہ  سے اجازت لینے کے بعد کی جائے اور ایسے شخص کے حق میں کی جائے جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے‘‘  (النجم،  آیت ۲۶)۔

۸۶: ’’یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے۔ فرشتے ہوں  یا انبیاء یا اولیاء،  کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے  اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے،  کون دنیا میں کیا کرتا  رہا ہے، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتُوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے  ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے  کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا  لائیں گے،  درانحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نا فرض شناس،  رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے، میں اس کے کرتُوتوں سے واقف ہوں، اس لیے آپ براہِ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح،  معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہو گا۔ نیک بندے،  جو دنیا میں خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اُسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ  وہ مناسب اور مبنی بر حق ہو، جیسا کہ وَقَالَ  صَوَابًا (اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربّانی صاف بتا رہا ہے۔ بَونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں،  ہزاروں بندگانِ خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اُٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔

۸۷: یعنی وہاں فیصلہ ہر انسان کے اوصاف (Merits ) کی بنیاد پر ہو گا۔ جو شخص کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے آئے گا،   خواہ اس نے ظلم اپنے خدا کے حقوق پر کیا ہو، یا خلقِ خدا کے حقوق پر،  یا خود اپنے نفس پر،  بہرحال یہ چیز اسے کامیابی کا منہ نہ دیکھنے دے گی۔ دوسری طرف جو لوگ ایمان اور عملِ صالح (محض عمل ِ صالح نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ عملِ صالح، اور محض ایمان بھی نہیں بلکہ عملِ صالح کے ساتھ ایمان) لیے ہوئے آئیں گے،  اُن کے لیے وہاں نہ تو  اس امر کا کوئی  اندیشہ ہے کہ ان پر ظلم ہو گا، یونی خواہ مخواہ بے قصُور  ان کو سزا دی جائے گی، اور نہ اسی امر کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جائے گا اور ان کے جائز حقوق مار کھائے جائیں گے۔

۸۸: یعنی ایسے ہی مضامین اور تعلیمات اور نصائح سے لبریز۔ اِس کا اشارہ ان تمام مضامین کی طرف ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، نہ کہ محض قریبی مضمون کی طرف جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے۔ اور اس کا سلسلۂ بیان اُن آیات سے جُڑتا ہے جو قرآن کے متعلق آغاز سُورہ اور پھر قصّۂ موسیٰ کے اختتام پر ارشاد  فرمائی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ’’تذکرہ‘‘  جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے،  اور وہ ’’ذِکر‘‘  جو ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو عطا کیا ہے، اِس شان کا تذکرہ اور ذِکر ہے۔

۸۹: یعنی اپنی غفلت سے چونکیں، بھُولے ہوئے سبق کو کچھ یاد کریں، اور ان کو کچھ اِس  امر کا احساس ہو کہ کن راہوں میں بھٹکے چلے جا رہے ہیں اور اس گمراہی کا انجام کیا ہے۔

۹۰: اِس طرح کے فقرے قرآن میں بالعموم ایک تقریر کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائے  جاتے ہیں،  اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ کلام کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا  پر ہو۔ اندازِ بیان اور سیاق و سباق پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک تقریر ختم ہو گئی ہے اور وَلَقَدْ عَھِدْ نَآ اِلیٓ اٰ دَمَ سے دوسری تقریر شروع ہو تی ہے۔ اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں تقریریں مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہو ں گی اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمِ الہٰی کے تحت ان کو سورہ میں جمع کر دیا  ہا گا۔ جمع کرنے کی وجہ دونوں کے مضمون کی مناسبت ہے جس کو ابھی ہم واضح کریں گے۔

۹۱: فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ  پر تقریر ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک بات پر خبردار کرتا ہے جو وحی نازل کر نے کے دَوران میں اس کے مشاہدے میں آئی۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب  نہ سمجھا گیا،  اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے۔ بات کیا تھی جس پر  یہ تنبیہ کی گئی، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دُہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار  بٹ جاتی ہو گی۔ سلسلۂ اخذِ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہو گا۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ رہی ہو گی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسُوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی  وصول کر نے کا صحیح طریقہ  سمجھا یا جائے،  اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جائے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ   طٰہٰ کا یہ حصّہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے۔ ابتدائی زمانہ  میں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو ابھی اخذِ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی، آپ  سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہو ا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اِس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہُوا تھا اور اس پر سلسلۂ  کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوکا گیا کہ  لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَا نَکَ لِتَجْعَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰ نَہٗ، فَاِذَا قَرَ اْنٰہٗ فَا تَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ، ’’ اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو، اِسے یاد کرا دینا  اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو، پھر اِس کا مطلب سمجھا  دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘  سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھُولیں گے نہیں، سَنُقْرِ ئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیات آپ پر طاری ہونی بند ہو گئیں۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی۔

۹۲: جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے،  یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اُس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں۔ مثلاً یہ کہ: (۱) وہ بھُولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوعِ انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تھا اور جسے یاد دلاتے  رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا،  اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ’’ذکر‘‘  آتے رہے ہیں۔ (۲) انسان اُس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے، اور یہ کمزوری وہ آغازِ آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے۔ سب سے پہلی بھُول اُس کے اوّلین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے، اِسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاددہانی کرائی جاتی رہے۔ (۳) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اُس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اِس ’’ذِکر‘‘  کے ساتھ وہ کرے گا،  آغازِ آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی۔ آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کر و گے تو گمراہی و بدبختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلائے مصیبت ہو گے۔ (۴) ایک چیز ہے بھُول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی  دشمن،  شیطان کے بہکائے میں آ جائے اور غلطی کر بیٹھے۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح  کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور کوب سوچ  سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا۔ اِس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام  ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا۔

۹۳: آدم علیہ السّلام کا قصہ اس سے پہلے سورۂ  بقرہ،  سورۂ اعراف (دو مقامات پر )،  سورۂ حِجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں گزر چکا ہے۔ یہ ساتواں موقع ہے جبکہ اسے دُہرایا جا رہا ہے۔ ہر جگہ سلسلۂ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں۔ قصّے کے جو اجزا ء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوئے ہیں،  دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے،  یا طرزِ بیان ذرا  مختلف ہو گا۔ پورے قصّے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق  اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا  ہے۔

۹۴: یعنی اُس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی  سرکشی  کی بنا پر نہ تھا،  بلکہ غفلت اور بھُول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پرو ا  کرتا ہوں،  اس کا حکم ہے تو ہوا کرے،  جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے۔ اِس کے بجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی،  بھُول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا  تھا، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا  اُس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو (جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے)  یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر تا۔ بعض لوگوں نے ’’اُس میں عز م نہ پایا‘‘  کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا‘‘  یعنی اُس نے جو کچھ کیا بھُولے سے کیا، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا عَلَی الْعِصْیَانِ  کہا جاتا نہ کہ محض   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعتِ حکم کے عزم کا فقدان ہے، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السّلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصّہ بیان  نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے باوجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے۔ مزید براں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گا کہ ’’ہم نے اس میں اطاعت ِ امر کا عزم، یا مضبوط ارادہ نہ پایا‘‘۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اُس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ آدم علیہ السّلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نا مناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ   لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ، ’’مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سُن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی  اور نہ موقع محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ‘‘۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی۔ جلد ۱۶۔ صفحہ ۲۴۳)۔

 

ترجمہ

 

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ اس پر ہم نے آدمؑ ۹۵ سے کہا کہ ’’دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ۹۶،  ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنّت سے نکلوا دے ۹۷ اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہاں تو تمہیں یہ آزمائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھُوکے ننگے رہتے ہو، نہ پیاس اور دھُوپ تمہیں ستاتی ہے۔‘‘  ۹۸ لیکن شیطان نے اس کو پھُسلایا۔ ۹۹ کہنے لگا ’’ آدم،  بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے؟‘‘  ۱۰۰ آخر کار دونوں(میاں بیوی)اُس درخت کا پھل کھا گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً ہی اُن کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے۔ ۱۰۱ آدمؑ نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔ ۱۰۲ پھر اُس کے ربّ نے اُسے برگزیدہ کیا ۱۰۳ اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔ ۱۰۴ اور فرمایا ’’تم دونوں (فریق،  یعنی انسان اور شیطان)یہاں سے اُتر جاؤ۔ تم ایک دُوسرے کے دُشمن رہو گے۔ اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہو گا۔ اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت)سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہو گی ۱۰۵ اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔‘‘  ۱۰۶۔۔۔۔ وہ کہے گا ’’ پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟‘‘  اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو،  جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں،  تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے۔ ‘‘  ۱۰۷۔۔۔۔ اِس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے ربّ کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں)بدلہ دیتے ہیں،  ۱۰۸ اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔

پھر کیا اِن لوگوں کو ۱۰۹ (تاریخ کے اِس سبق سے )کوئی ہدایت نہ ملی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی (برباد شدہ)بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ درحقیقت اِس میں ۱۱۰ بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔ ؏۷

 

تفسیر

 

۹۵: یہاں وہ اصل حکم بیان نہیں کیا گیا ہے جو آدم علیہ السلام  کو دیا گیا تھا،  یعنی یہ کہ ’’اِس خاص درخت کا پھل نہ کھانا‘‘۔ وہ حکم دوسرے مقامات پر قرآن مجید  میں بیان ہو چکا ہے۔ اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہو جاتا ہے،  اور کسی طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف  ہوتا ہے،  اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل حکم کا ذکر کرنے کے بجائے یہاں اُس فہمائش کا ذکر کیا ہے جو اس حکم کے ساتھ حضرت آدم کو کی گئی تھی۔

۹۶: دشمنی کا مظاہرہ اُسی وقت ہو چکا تھا۔ آدم اور حوا علیہما السّلام نے خود دیکھ چکے تھے کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف صاف  یہ کہہ کر کیا ہے کہ  اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ط خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ، ’’میں اس سے بہتر ہوں،  تُو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ‘‘ (اعراف۔ آیت ۱۲۔ ص۔ آیت ۷۶)۔ اَرَ اَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّ مْتَ عَلَیَّ، ’’ذرا دیکھ تو سہی، یہ ہے وہ ہستی جس کو تُو نے مجھ پر فضیلت دی ہے‘‘۔ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا، ’’ اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تُو نے مٹی سے بنایا ہے؟‘‘  (بنی اسرائیل۔ آیات ۶۱ – ۶۲)۔ پھر اتنے ہی پر اس نے اکتفا نہ کیا کہ کھلم کھلا اپنے حسد کا اظہار کر دیا، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس نے مہلت بھی مانگی کہ مجھے اپنی فضیلت اور اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیجیے، میں اِسے بہکا کر آپ کو دکھا دوں گا کہ کیسا ہے یہ آپ کا خلیفہ۔ اعراف، حِجر اور بنی اسرائیل میں اس کا یہ چیلنج گزر چکا ہے اور آگے سورۂ ص میں بھی آ رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارا  دشمن ہے، تو یہ محض ایک امر غیب کی اطلاع نہ تھی،  بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے عین برسر موقع دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں دیکھ چکے اور اپنے کانوں سُن چکے تھے۔

۹۷: اس طرح یہ بھی دونوں کو بتا دیا گیا کہ اگر اس کے بہکائے میں آ کر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو جنت میں نہ رہ سکو گے اور وہ تمام نعمتیں تم سے چھن جائیں گی جو تم کو یہاں حاصل ہیں۔

۹۸: یہ تشریح ہے اُس مصیبت کی جس میں جنت سے نکلنے کے بعد انسان کو مبتلا ہو جانا تھا۔ اس موقع پر جنت کی بڑی اور اکمل و افضل نعمتوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس کی چار بنیادی نعمتوں کا ذکر کیا گیا،  یعنی یہ کہ یہاں تمہارے لیے غذا، پانی، لباس اور مسکن کا انتظام سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے، تم کو ان میں سے کوئی چیز بھی حاصل کر نے کے لیے محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اس سے خود بخود یہ بات آدم و حوا  علیہما السّلام پر واضح ہو گئی کہ اگر وہ شیطان کے بہکائے میں آ کر حکم سرکار کی خلاف ورزی کریں گے تو جنت سے نِکل کر انہیں یہاں کی بڑی نعمتیں تو درکنار،  یہ بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ رہیں گی۔ وہ اپنی بالکل ابتدائی ضروریات تک کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے اور پانی جان کھپانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ  جب تک نہ بہائیں گے ایک وقت کی روٹی تک نہ پا سکیں گے۔ معاش کی فکر ہی ان کی توجہ اور ان کے اوقات اور ان کی قوتوں کا اتنا بڑا حصّہ کھینچ لے جائے گی کہ کسی بلند تر مقصد کے لیے کچھ کرنے کی نہ فرصت رہے گی نہ طاقت۔

۹۹: یہاں قرآن صاف تصریح کرتا ہے کہ آدم و حوا میں سے اصل وہ شخص جس کو شیطان نے وسوسے میں ڈالا آدم علیہ السّلام تھے نہ کہ حضرت حوا۔ اگرچہ سورۂ اعراف کے بیان کے مطابق مخاطب دونوں ہی تھے اور بہکانے میں دونوں ہی آئے، لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی کا رُخ دراصل حضرت آدم ہی کی طرف تھا۔ اس کے برعکس بائیبل کا بیان یہ ہے کہ سانپ نے پہلے عورت سے بات کی اور پھر عورت نے اپنے شوہر کو بہکا کر درخت کا پھل اسے کھلایا(پیدائش،  باب ۳)۔

۱۰۰: سورۂ اعراف میں شیطان کی گفتگو کی مزید تفصیل ہم کو یہ ملتی ہے  وَقَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ، ’’اور اس نے کہا کہ تمہارے ربّ نے تم کو اس درخت سے صرف اس لے روک دیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ، یا ہمیشہ جیتے نہ رہو‘‘۔ (آیت ۲۰)۔

۱۰۱: بالفاظِ دیگر نافرمانی کا صدور ہوتے ہی وہ آسائشیں ان سے چھین لی گئیں جو سرکاری انتظام سے ان کو مہیا کی جاتی تھیں، اور اس کا اوّلین ظہُور لباس چھن جانے کی شکل میں ہوا۔ غذا، پانی اور مسکن سے محرومی کی نوبت تو بعد کو ہی آنی تھی، اس کا پتہ تو بھوک پیاس لگنے پر ہی چل سکتا تھا، اور مکان سے نکالے جانے کی باری بھی بعد  ہی میں آسکتی تھی۔ مگر پہلی چیز جس پر نافرمانی کا اثر پڑا وہ سرکاری  پوشاک تھی جو اسی وقت اُتروا لی گئی۔

۱۰۲: یہاں اُس بشری کمزوری کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے  جو آدم علیہ السّلام سے ظہُور میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اپنا خالق اور ربّ جانتے تھے اور دل سے مانتے تھے۔ جنت میں ان کو جو آسائشیں حاصل تھیں ان کا تجربہ انہیں خود ہر وقت ہو رہا تھا۔ شیطان کے حسد اور عداوت کا بھی ان کو براہِ راست علم ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ یہ تمہارا دشمن تمہیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا تمہیں یہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ شیطان اُن کے سامنے چیلنج دے چکا تھا کہ میں اسے بہکاؤں گا اور اس کی بیخ کنی کر کے چھوڑوں گا۔ اِن ساری باتوں کے باوجود جب شیطان نے ان کو ناصح مشفق اور خیر خواہ دوست کے بھیس میں آ کر ایک بہتر حالت(زندگیِ جاوداں اور سلطنتِ لازوال) کا لالچ دیا تو وہ اس کی تحریص کے مقابلے میں نہ جم سکے اور پھِسل گئے،  حالانکہ اب بھی خدا پر ان کے عقیدے میں فرق نہ آیا تھا اور اس کے فرمان کے بارے میں ایسا کوئی خیال ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ سرے سے واجب الاذعان ہی نہیں ہے۔ بس ایک فوری جذبے نے،  جو شیطانی تحریص کے زیرِ اثر اُبھر آیا تھا، ان پر ذہول طاری کر دیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقامِ بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔ یہی وہ ’’بھول‘‘  اور ’’فقدانِ عزم‘‘  ہے جس کا ذکر قصّے کے آغاز میں کیا گیا تھا، اور اسی چیز کا نتیجہ وہ نافرمانی  اور بھٹک ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ انسان کی وہ کمزوری ہے جو ابتدائے آفرینش ہی میں اس سے ظاہر ہو ئی، اور بعد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جبکہ یہ کمزوری اس میں نہ پائی گئی ہو۔

۱۰۳: یعنی شیطان کی طرح راندۂ درگاہ نہ کر دیا، اطاعت کی کوشش میں ناکام ہو کر جہاں وہ گر گئے تھے وہیں انہیں پڑا  نہیں چھوڑ دیا،  بلکہ اُٹھا کر پھر اپنے پاس بلا لیا اور اپنی خدمت کے لیے چُن لیا۔ ایک سلوک وہ ہے جو بالارادہ بغاوت کرنے والے اور اکڑ اور ہیکڑی دکھانے والے نوکر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کا مستحق شیطان تھا اور ہر وہ بندہ ہے جو ڈٹ کر  اپنے ربّ کی نافرمانی کرے اور خم ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ دوسرا سلوک وہ ہے جو اس وفادار بندے کے ساتھ کیا جاتا ہے جو محض ’’بھُول‘‘  اور ’’فقدانِ عزم‘‘  کی وجہ سے قصور کر گزرا ہو، اور پھر ہوش آتے ہی اپنے کیے پر شرمندہ ہو جائے۔ یہ سلوک حضرت آدم و حوا سے کیا گیا،  کیونکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ پکار اُٹھے تھے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْ نَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ، ’’اے ہمارے پروردگار،  ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا،  اور اگر تُو ہم سے درگزر نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم برباد ہو جائیں گے‘‘ (اعراف۔ آیت ۲۳)۔

۱۰۴: یعنی صرف معاف ہی نہ کیا،  بلکہ آئندہ کے لیے راہِ راست بھی بتائی اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی سکھایا۔

۱۰۵: دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہو گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہو گا۔ کروڑ پتی بھی ہو گا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرمانروا بھی ہو گا تو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گرد و پیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے  ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرّت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔

۱۰۶: ’’اس جگہ آدم علیہ السّلام کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ جس طریقے سے یہاں،  اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ (واللہ اعلم بالصواب) کہ زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السّلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی۔ وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اِسی زمین  پر بنائی گئی ہو۔ بہر حال وہاں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اس شان سے رکھا گیا تھا کہ اس کے کھانے پینے اور لباس و مکان کا سارا انتظام سرکار کے ذمّہ تھا اور خدمت گار (فرشتے) اُس کے حکم کے تابع تھے۔ اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قطعاً کوئی فکر نہ کرنی پڑتی تھی، تاکہ وہ خلافت کے بزرگ تر اور بلند تر وظائف ادا کرنے کے لیے مستعد ہو سکے۔ مگر اس عہد ے پر مستقل تقرر ہونے سے پہلے امتحان لینا ضروری سمجھا گیا تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کا حال کھُل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں اور خوبیاں کیا۔ چنانچہ امتحان لیا گیا  اور جو بات کھُلی وہ یہ تھی کہ اُمیدوار تحریص و اِطماع کے اثر میں آ کر پھسل جاتا ہے، اطاعت کے عزم پر مضبوطی سے قائم نہیں رہ رہتا، اور اس کے علم پر نسیان غالب آ جاتا ہے۔ اِس امتحان کے بعد آدم اور ان کی اولاد کو مستقل خلافت پر مامور کرنے کے بجائے آزمائشی خلافت دی گئی،  اور آزمائش کے لیے ایک مدّت (اجلِ مسمّٰی،  جس اختتام قیامت پر ہو گا) مقرر کر دی گئی۔ اِس آزمائش کے دَور میں اُمیدوار کے لیے معیشت کا سرکاری انتظام ختم کر دیا گیا۔ اب اپنی معاش کا انتظام انہیں خود کرنا ہے۔ البتہ زمین اور اس کی مخلوقات پر ان کے اختیارات برقرار ہیں۔ آزمائش اس بات کی ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں اور اگر بھُول لاحق ہوتی ہے،   یا تحریص و اطماع کے اثر میں آ کر پھسلتے ہیں،  تو تنبیہ،  تذکیر اور تعلیم کا اثر قبول کر کے سنبھلتے  بھی ہیں یا نہیں؟ اور ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے،  طاعت کا یا معصیت کا؟ اس آزمائشی خلافت کے دَوران میں ہر ایک کے طرزِ عمل کا ریکارڈ محفوظ رہے گا۔ اور یوم الحساب میں جو لوگ کامیاب نکلیں گے انہی کو پھر مستقل خلافت،  اُس دائمی  زندگی  اور لازوال سلطنت کے ساتھ جس کا لالچ  دے کر شیطان نے حکم کی خلاف ورزی کرائی تھی، عطا کی جائے گی۔ اُس وقت یہ پُوری زمین جنت بنا دی جائے گی اور اس کے وارث خدا کے صالح بندے ہوں گے جنہوں نے آزمائشی خلافت میں طاعت پر قائم رہ کر، یا بھُول لاحق ہونے کے بعد بالآخر طاعت کی طرف پلٹ کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہو گی۔ جنت کی اس زندگی کو جو لوگ محض کھانے پینے اور اَینڈنے کی زندگی سمجھتے ہیں ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ وہاں پیہم ترقی ہو گی بغیر اس کے کہ اس کے لیے کسی تنزل کا خطرہ ہو۔ اور وہاں خلافتِ الہٰی کے عظیم الشان کام انسان انجام دے گا بغیر اس کے کہ اسے پھر کسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ مگر ان ترقیات اور اُن خدمات کا تصوّر کرنا ہمارے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک بچے کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بڑا ہو کر جب وہ شادی کرے گا تو ازدواجی زندگی کی کیفیات کیا ہوں گی۔ اسی لیے قرآن میں جنت کی زندگی کے صرف  انہی لذائذ کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ہم اس دنیا کی  لذتوں پر قیاس کر کے کچھ اندازہ  کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ آدم و حوا کا قصّہ  جس طرح بائیبل میں بیان ہو ا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ’’خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔ اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اُس نے بنایا  تھا وہاں رکھا‘‘۔ ’’اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا  اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا۔ کیونکہ جس روز تُو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا اُس پسلی  سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اسے آدم کے پاس لایا‘‘۔ ’’اور  آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے  نہ تھے‘‘۔ ’’ اور سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا،  چالاک تھا،  اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا‘‘ ؟ ’’سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘۔ چنانچہ عورت نے اس کا پھل لے کر کھایا اور  اپنے شوہر کو بھی کھلایا۔ ’’تب دونوں کی آنکھیں کھُل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی  کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز، جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھر تا تھا، سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا‘‘۔ ’’پھر خدا نے آدم کو پکارا  کہ تُو کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیری آواز سُن کر ڈرا اور چھُپ گیا کیونکہ میں ننگا تھا۔ خدا نے کہا ارے، تجھ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ تُو ننگا ہے۔ ضرور تُو نے اس درخت کا پھل کھایا ہو گا جس سے میں نے منع کیا تھا۔ آدم نے کہا کہ مجھے حوّا نے اس کا پھل کھلایا، اور حوّا نے کہا مجھے سانپ نے بہکایا تھا۔ اس پر خدا نے سانپ سے کہا ’’ اس لیے کہ تُو نے یہ کیا  تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھیرا۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور   عمر بھر  خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کی درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا  اور تُو اس کی ایڑی پر کاٹے گا‘‘۔ اور عورت کو یہ سزا دی کہ ’’میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا،  تُو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا‘‘۔ اور آدم کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور میرے حکم کے خلاف کیا ’’ اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی، مشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا۔۔۔۔۔۔ تُو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا‘‘۔ پھر ’’خداوند نے آدم اور اس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر اُن کو پہنائے‘‘۔ ’’اور خداوند نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان  میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اس لیے خداوند خدا نے اُس کو باغِ عدن  سے باہر کر دیا‘‘ (پیدائش، باب ۲،  آیات ۷ – ۲۵۔ باب ۳،  آیات ۱ – ۲۳) بائیبل کے اِس بیان اور قرآن کے بیان کو ذرا وہ لوگ بالمقابل رکھ کر دیکھیں جو یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ قرآن میں یہ قصّے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں۔

۱۰۷: قیامت کے روز نئی زندگی کے آغاز سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جو مختلف کیفیات مجرمین پر گزریں گی  ان کو قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جدا جدا بیان کیا گیا ہے۔ ایک کیفیت یہ ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآ ءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ، ’’ تُو اِس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا،  اب ہم نے تیرے آگے سے پردہ ہٹا دیا ہے، آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے‘‘  یعنی تجھے نظر آ رہا ہے۔(ق۔ آیت ۲۲)۔ دوسری کیفیت یہ ہے:  اِنَّمَا یُؤَ خِّرھُُْ لِیَوْ مٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَا رُ  مھُْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفھُُمْ وَاَفْئیدَ تھُُمْ ھَوَآ ء، ’’ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی  کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل ہیں کہ اُڑتے جاتے ہیں‘‘  (ابراہیم۔ آیت ۴۳)۔ تیسری کیفیت یہ ہے:   وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَا بًا یَّلْقٰہُ مَنْشُورًا،  اِقْرَأْ کِتَابَکَ،  کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا، ’’ اور قیامت کے روز ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب پائے گا۔ پڑھ اپنا  نامۂ اعمال،  آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے‘‘  (بنی اسرائیل۔ آیات ۱۳ – ۱۴)۔ اور انہی کیفیات میں سے ایک یہ بھی ہے  جو آیت زیرِ بحث میں بیان ہوئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ لوگ آخرت کے ہولناک مناظر اور اپنی شامتِ اعمال کے نتائج کو تو خوب دیکھیں گے، لیکن بس ان کی بینائی  یہی کچھ دیکھنے کے لیے ہو گی۔ باقی دوسری حیثیتوں سے ان کا حال اندھے کا سا ہو گا جسے اپنا راستہ نظر نہ آتا ہو،  جو نہ لاٹھی رکھتا ہو کہ ٹٹول کر چل سکے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کے چلانے والا ہو، قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہو، اور  اس کو کچھ نہ سُوجھتا ہو کہ کدھر جائے اور اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے۔ اسی کیفیت کو اِن الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ ’’ جس طرح تُو نے ہماری آیات کو بھُلا دیا تھا اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے‘‘،  یعنی آج کوئی پروا نہ کی جائے گی کہ تُو کہاں کہاں ٹھوکریں کھا کر گرتا  ہے اور کیسی کیسی محرومیاں برداشت کر رہا ہے۔ کوئی تیرا ہاتھ نہ پکڑے گا،  کوئی تیری حاجتیں پوری نہ کرے گا،  اور تیری کچھ بھی خبر گیری نہ کی جائے گی۔

۱۰۸: اشارہ ہے اس ’’تنگ زندگی‘‘  کی طرف جو اللہ کے ’’ذِکر‘‘  یعنی اس کتاب اور اس کے بھیجے ہوئے درسِ نصیحت سے منہ موڑنے والوں کو دنیا میں بسر کرائی جاتی ہے۔

۱۰۹: اشارہ ہے اہلِ مکّہ کی طرف جو اُس وقت مخاطب تھے۔

۱۱۰: یعنی تاریخ کے اِس سبق میں،  آثارِ قدیمہ کے اس مشاہدے میں، نسلِ انسانی کے اِس تجربے میں۔

 

ترجمہ

 

اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدّت مقرر نہ کی جا چکی ہوتی تو ضرور اِن کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا۔ پس اے محمدؐ،  جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے ربّ کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سُورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، ۱۱۱ شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔ ۱۱۲ اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔وہ تو ہم نے اُنہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے ربّ کا دیا ہوا رزقِ حلال ۱۱۳ ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو ۱۱۴ اور خود بھی اُس کے پابند رہو۔ ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے۔ ۱۱۵

وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ)کیوں نہیں لاتا؟ اور کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں کی تمام تعلیمات کا بیانِ واضح نہیں آ گیا؟  ۱۱۶ اگر ہم اس کے آنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار، تُو نے ہمارے پاس کوئی رسُول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رُسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے۔اے محمدؐ،  اِن سے کہو، ہر ایک انجامِ کار کے انتظار میں ہے، ۱۱۷ پس اب منتظر رہو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں۔ ؏ ۸

 

تفسیر

 

۱۱۱: یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا،  اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر چکا ہے، اس لیے اُس کی دی ہوئی اس مُہلت کے دَوران میں یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اُس کو تمہیں برداشت کرنا ہو گا اور صبر کے ساتھ ان کی تمام تلخ و تُرش باتیں سُنتے ہوئے اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا۔ اِس تحمل و برداشت اور اِس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں اِن اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ ’’رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح‘‘ کرنے سے مراد نماز ہے، جیسا کے آگے چل کر خود فرما دیا   وَأْ مُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا، ’’ اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو او ر خود بھی اس کے پابند  رہو‘‘۔ نماز کے اوقات کی طرف یہاں بھی صاف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ سُورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز۔ سُورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز۔ اور رات کے اوقات میں عشا اور تہجد کی نماز۔ رہے دن کے کنارے،  تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک کنارہ صبح ہے،  دوسرا کنارہ زوالِ آفتاب، اور تیسرا کنارہ شام۔ لہٰذا دن کے کناروں سے مراد فجر، ظہر  اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم۔ ہود،  حاشیہ نمبر ۱۱۳۔ بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۹۱ تا ۹۷۔ جلد سوم، الروم حاشیہ نمبر ۲۴۔ جلد چہارم،  المومن، حاشیہ نمبر ۷۴۔

۱۱۲: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مِشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو ابھی سزا نہیں دی جائے گی، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ  تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو،  اس کا نتیجہ  وہ کچھ سامنے آئے گا  جس سے تمہارا دل خوش ہو جائے گا یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا  عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، ’’توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام ِ محمود پر پہنچا دے گا‘‘  آیت ۷۹۔ اور سُورۂ ضحٰی میں فرمایا   وَلَلْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ o وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضیٰ، ’’ تمہارے لیے بعد کا دَور یقیناً پہلے دَور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمہارا ربّ تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے‘‘۔

۱۱۳: رزق کا ترجمہ ہم نے ’’رزق حلال‘‘  کیا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی حرام مال کو ’’رزقِ ربّ‘‘  سے تعبیر نہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی اہلِ ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ یہ فسّاق و فجّار ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی زندگی میں جو ظاہری چمک دمک پیدا کر لیتے ہیں،  اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھو۔ یہ دولت اور یہ شان و شوکت تمہارے لیے ہرگز قابلِ رشک نہیں ہے۔ جو پاک رزق تم اپنی محنت سے کماتے ہو وہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو، راستباز اور ایماندار آدمیوں کے لیے وہی بہتر ہے اور اسی میں وہ بھلائی ہے جو دنیا سے آخرت تک برقرار رہنے والی ہے۔

۱۱۴: یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں اِن حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں۔ یہ چیز اُن کے زاویۂ نظر  کو بدل دے گی۔ ان کے معیارِ قدر کو بدل دے گی۔ ان کی تو جہالت کا مرکز بدل دے گی۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اُس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اُس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے۔

۱۱۵: یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہی میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے۔

۱۱۶: یعنی کیا یہ کوئی کم معجزہ ہے کہ انہی میں سے ایک اُمی شخص نے وہ کتاب پیش کی ہے جس میں شروع سے اب تک کی تمام کتبِ آسمانی کی مضامین اور تعلیمات کا عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اُن کتابوں میں جو کچھ تھا، وہ سب نہ صرف یہ کہ اس میں جمع کر دیا گیا،  بلکہ اس کو ایسا کھول کر واضح بھی کر دیا گیا کہ صحرا نشین بدّو تک اس کو سمجھ کر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

۱۱۷: یعنی جب سے یہ دعوت تمہارے شہر میں اُٹھی ہے،  نہ صرف اس شہر کا بلکہ گردو پیش کے علاقے کا بھی ہر شخص انتظار کر رہا ہے کہ اس کا انجام آخر کار کیا ہوتا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین۔ کلیم محی الدین

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید