تفہیم القرآن
۵۔ سورۂ توبہ تا سورۂ ہود
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی
۹۔ التوبہ
نام
یہ سورت دو ناموں سے مشہور ہے۔ ایک التوبہ دوسرے البرأۃ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے اور البرأۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے۔
بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ
اس سورت کی ابتدا میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجود مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازی نے لکھی کہ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابہ کرام نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اس کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول و اجزاء سورہ
یہ سورت تین تقریروں پر مشتمل ہے :
۱. پہلی تقریر آغاز سورت سے پانچویں رکوع کے آخر تک چلتی ہے۔ اس کا زمانۂ نزول ذی القعدہ ۹ھ یا اس کے لگ بھگ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج مقرر کر کے مکہ روانہ کر چکے تھے کہ یہ تقریر نازل ہوئی اور حضور نے فوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے بھیجا تاکہ حج کے موقع پر تمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اور اس کے مطابق جو طرزِ عمل تجویز کیا گیا تھا اس کا اعلان کر دیں۔
۲. دوسری تقریر رکوع ۶ کی ابتداء سے رکوع ۹ کے اختتام تک چلتی ہے اور یہ رجب ۹ھ یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوۂ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جو نفاق یا ضعف ایمان یا سستی و کاہلی کی وجہ سے راہ خدا میں جان و مال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے۔
۳. تیسری تقریر رکوع ۱۰ سے شروع ہو کر سورت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے اور یہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی۔ اس میں متعدد ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پر اترے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارۂ الٰہی سے ان سب کو یکجا کر کے ایک سلسلۂ تقریر میں منسلک کر دیا۔ مگر چونکہ وہ ایک ہی مضمون اور ایک ہی سلسلۂ واقعات سے متعلق ہیں اس لیے ربطِ میں کہیں خلل نہیں پایا جاتا۔ اس میں منافقین کی حرکات پر تنبیہ، غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر زجر و توبیخ، اور اُن صادق الایمان لوگوں پر ملامت کے ساتھ معافی کا اعلان ہے جو ایمان میں سچے تو تھے مگر جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے باز رہے تھے۔
نزول ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخر میں آنی چاہیے تھی لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی اس لیے مصحف کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پہلے رکھا۔
تاریخی پس منظر
زمانۂ نزول کے تعین کے بعد ہمیں اس سورت کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے جس میں سلسلۂ واقعات سے اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتداء صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے۔ حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہو چکا تھا کہ عرب کے تقریباً ایک تہائی حصے میں اسلام ایک منظور سوسائٹی کا دین، ایک مکمل تہذیب و تمدن اور ایک کامل با اختیار ریاست بن گیا تھا۔ حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہو گیا کہ اپنے اثرات نسبتاً زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں چہار طرف پھیلا سکے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ و سورۂ فتح)
اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر منتہی ہوئے۔ ان میں سے ایک تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنت روم سے۔
عرب کی تسخیر
عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دو سال کے اندر ہی اسلام کا دائرۂ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلے میں بے بس ہو کر رہ گئی۔ آخر کار جب قریش کے زیادہ پر جوش عناصر بازی ہارتی دیکھی تو انہیں یارائے ضبط نہ رہا اور انہوں نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑ ڈالا۔ وہ اس بندش سے آزاد ہو کر اسلام سے ایک آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کر کے رمضان ۸ھ میں اسے فتح کر لیا۔ (دیکھئے سورۂ انفال)
اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت حنین کے میدان میں کی جہاں ہوازن، ثقیف، نضر، جشم اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت لا کر جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہو گیا کہ اسے اب دار الاسلام بن کر رہنا ہے۔ اس واقعے پر پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہو گیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے۔ اس نتیجہ کے حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنت روم کی سرحد پر اسی زمانے میں پیش آ رہے تھے۔ وہاں جس جرات کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۳۰ ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلے پر آنے سے پہلو تہی کر کے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ کے دین کی دھاک بٹھا دی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد آنے شروع ہو گئے اور اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے۔ چنانچہ اس کیفیت میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ
جب اللہ کی مدد آ گئی اور فتح نصیب ہوئی اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں
غزوۂ تبوک کے بعد
غزوہ تبوک کے موقع پر رومیوں کے میدان جنگ میں نہ آنے کے بعد مسلمانوں کو جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مرحلے پر کافی سمجھا اور بجائے اس کے کہ تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے، آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی و حربی فوائد حاصل کریں۔ چنانچہ آپ نے تبوک میں ۲۰ دن ٹھیر کر ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دار الاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کو زیر اثر رہی تھیں، سلطنت اسلامی کا باج گذار اور تابع امر بنا لیا۔ اس سلسلے میں دومۃ الجندل کے عیسائی رئیس اکیدر بن عبدالملک کندی، ایلہ کے عیسائی رئیس یوحن بن رؤبہ اور اسی طرح مقنا، جرباء اور اذرح کے نصرانی رؤسا نے بھی جزیہ ادا کر کے مدینہ کی تابعیت قبول کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہ راست رومی سلطنت کی سرحد تک پہنچ گئے اور جن عرب قبائل کو قیاصرۂ روم اب تک عرب کے خلاف استعمال کرتے رہے تھے، اب ان کا بیشتر حصہ رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا معاون بن گیا۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سلطنت روم کے ساتھ ایک طویل کشمکش میں الجھ جانے سے پہلے اسلام کو عرب پر اپنی گرفت مضبوط کر لینے کا پورا موقع مل گیا۔ تبوک کی اس فتح بلا جنگ نے عرب میں ان لوگوں کی کمر توڑ دی جو اب تک جاہلیتِ قدیمہ کے بحال ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے، خواہ و علانیہ مشرک ہوں یا اسلام کے پردہ میں منافق بنے ہوئے ہوں۔ اس آخری مایوسی نے ان میں سے اکثر و بیشتر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہنے دیا کہ اسلام کے دامن میں پناہ لیں اور اگر خود نعمت ایمانی سے بہرہ ور نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کی آئندہ نسلیں بالکل اسلام میں جذب ہو جائیں۔ اس کے بعد جو ایک برائے نام اقلیت شرک و جاہلیت میں ثابت قدم رہ گئی، وہ اتنی بے بس ہو گئی تھی کہ اُ اصلاحی انقلاب کی تکمیل میں کچھ بھی مانع نہ ہو سکتی تھی جس کے لیے اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا تھا۔
مسائل و مباحث
اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنے کے بعد ہم باآسانی ان بڑے بڑے مسائل کا احصاء کر سکتے ہیں جو اس وقت درپیش تھے اور جن سے سورۂ توبہ میں تعرض کیا گیا ہے :
(۱) اب چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آ گیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بے بس ہو چکی تھیں اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آ جانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دار الاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی۔ چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی
الف: عرب سے شرک کو قطعاً مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تاکہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہو جائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب ہو سکے۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براءَت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔
ب: کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں آ جانے کے بعد یہ بالکل نامناسب تھا کہ جو گھر خالص خدا کی پرستش کے لیے وقف کیا گیا تھا اس میں بدستور شرک ہوتا رہے ور اس کی تولیت بھی مشرکین کے قبضہ میں رہے۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ کعبہ کی تولیت بھی اہل توحید کے قبضے میں رہنی چاہیے اور بیت اللہ کی حدود میں شرک و جاہلیت کی تمام رسمیں بھی بزور بند کر دینی چاہییں، بلکہ اب مشرکین اس گھر کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں تاکہ اس بنائے ابراہیمی کے آلودۂ رک ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
ج: عرب کی تمدنی زندگی میں رسوم جاہلیت کے جو آثار ابھی تک باقی تھے ان کا جدید اسلامی دور میں جاری رہنا کسی طرح درست نہ تھا اس لیے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی۔ نسی کا قاعدہ ان رسوم میں سب سے زیادہ بدنما تھا اس لیے اس پر براہ راست ضرب لگائی گئی اور اسی ضرب سے مسلمانوں کو بتا دیا گیا کہ بقیہ آثار جاہلیت کے ساتھ نہیں کیا کرنا چاہیے۔
(۲) عرب میں اسلام کا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے توا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دینِ حق کا دائرۂ اثر پھیلایا جائے۔ اس معاملے میں روم و ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سدِ راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی و تمدنی نظاموں میں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کی خود مختارانہ فرمانروائی کو بزور شمشیر ختم کر دوں تا آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کر لیں۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں۔
(۳) تیسرا اہم مسئلہ منافقین کا تھا جن کے ساتھ اب تک وقتی مصالح کے لحاظ سے چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کیا جا رہا تھا۔ اب چونکہ بیرونی خطرات کا دباؤ کم ہو گیا تھا بلکہ گویا نہیں رہا تھا اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ ان کے ساتھ نرمی نہ کی جائے اور وہی سخت برتاؤ ان چھتے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہو جو کھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہی پالیسی تھی جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانے میں سویلم کے گھر آگ لگوا دی جہاں منافقین کا ایک گروہ اس غرض سے جمع ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو شرکت جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرے اور اسی پالیسی کے تحت تبوک سے واپس تشریف لاتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد ضرار کو ڈھانے اور جلا دینے کا حکم دے دیا۔
(۴) مومنین صادقین میں اب تک جو تھوڑا بہت ضعفِ عزم باقی تھا اس کا علاج بھی ضروری تھا، کیونکہ اسلام عالمگیر جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا اور اس مرحلے میں، جبکہ اکیلے مسلم عرب کو پوری غیر مسلم دنیا سے ٹکرانا تھا، ضعفِ ایمان سے بڑھ کر کوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لیے نہ ہو سکتا تھا۔ اس لیے جن لوگوں نے تبوک کے موقع پر سستی اور کمزوری دکھائی تھی ان کو نہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی، پیچھے رہ جانے والوں کے اس فعل کو کہ وہ بلا عذر معقول پیچھے گئے بجائے خود ایک منافقانہ طرز عمل، اور ایمان میں ان کے نا راست ہونے کا ایک بین ثبوت قرار دیا اور آئندہ کے لیے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کر دی گئی کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور کفر و اسلام کی کشمکش ہی وہ اصل کسوٹی ہے جس پر مومن کا دعوائے ایمان پرکھا جائے گا۔ جو اس آویزش میں اسلام کے لیے جان و مال اور وقت و محنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کا ایمان معتبر نہ ہو گا اور اس پہلو کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہو سکے گی۔
ان امور کو نظر میں رکھ کر سورۂ توبہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے تمام مضامین باآسانی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔
ترجمہ
۱ اِعلان برأت ہے اللہ اور اُس کے رسُول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔ ۲ پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو ۳ اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرینِ حق کو رُسوا کرنے والا ہے۔ اطلاعِ عام ہے اللہ اور کے رسول ؐ کی طرف سے حجِ اکبر کے دن ۴ تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمّہ ہے اور اُس کا رسول ؐ بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔اور اے نبی ؐ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سُنا دو، بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر اُنہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مُدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ ۵پس جب حرام مہینے گزر جائیں ۶ تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو۔۷ اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے ( تاکہ اللہ کا کلام سُنے ) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن تک پہنچا دو، یہ اِس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ ۸ ؏ ١
تفسیر
۱-جیسا کہ ہم سورہ کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں، یہ خطبہ رکوع ۵ کے آخر تک سن ۹ ہجری میں اُس وقت نازل ہوا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو بکرؓ کو حج کے لیے روانہ کر چکے تھے۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابۂ کرام نے حضور سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیا جائے تو کہ وہ حج میں اس کو سنا دیں۔ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے کسی آدمی کو کرنا چاہیے۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو اس خدمت پر مامور کیا، اور ساتھ ہی ہدایت فرما دی کہ حاجیوں کے مجمعِ عام میں اسے سنانے کے بعد حسبِ ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کر دیں: (۱) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہو گا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ (۲) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ (۳) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے۔ (۴) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا معاہدہ باقی ہے، یعنی جو نقضِ عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مدتِ معاہدہ تک وفا کی جائے گی۔
اس مقام پر یہ جان لینا ضروری بھی فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ فتح مکہ کے بعد دَور اسلامی کا پہلا حج سن ۸ ہجری میں قدیم طریقے پر ہوا۔ پھر سن ۹ ہجری میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر۔ اس کے بعد تیسرا حج سن ۱۰ ہجری میں خالص اسلامی طریقہ پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے دو سال حج کے لیے تشریف نہ لے گئے۔ تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہو گیا تب آپؐ نے حج ادا فرمایا۔
۲-سورۂ انفال آیت ۵۸ میں گزر چکا ہے کہ جب تمہیں کسی قوم سے خیانت (نقضِ عہد اور غدّاری) کا اندیشہ ہو تو علی الاعلان ان کا معاہدہ اس کی طرف پھینک دو اور اسے خبردار کر دو کہ اب ہمارا تم سے کوئی معاہدہ باقی نہیں ہے۔ اس اعلان کے بغیر کسی معاہد قوم کے خلاف جنگی کارروائی شروع کر دینا خود خیانت کا مرتکب ہونا ہے۔ اسی ضابطۂ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کا یہ اعلانِ عام اُن تمام قبائل کے خلا ف کیا گیا جو عہد و پیمان کے باوجود ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے، اور موقع پاتے ہی پاس عہد کو بالائے طاق رکھ کر دشمنی پر اتر آتے تھے۔ یہ کیفیت بنی کِنانہ اور بنی ضَمرہ اور شاید ایک آدھ اور قبیلہ کے سوا باقی تمام اُن قبائل کی تھی جو اس وقت تک شرک پر قائم تھے۔
اس اعلانِ براءت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملًا خلافِ قانون(Outlaw) ہو گیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیرِ حکم آ چکا تھا۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم و فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو، یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم وفات پا جائیں تو یکایک نقضِ عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کر دیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے اُن کی ساعتِ منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر اُلٹ دی اور اعلان براءت کر کے اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہو جائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اُس نظم و ضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کر چکا تھا۔
اس عظیم الشان تدبیر کی پوری حکمت اُسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ہم اُس فتنۂ ارتداد کو نظر میں رکھیں جو اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات پر ملک کے مختلف گوشوں میں برپا ہوا اور جس نے اسلام کے نو تعمیر قصر کو یکلخت متزلزل کر دیا۔ اگر کہیں سن ۹ ہجری کے اِس اعلان براءت سے شرک کی منظم طاقت ختم نہ کر دی گئی ہوتی اور پورے ملک پر اسلام کی قوت ضابطہ کا استیلاء پہلے ہی مکمل نہ ہو چکا ہوتا، تو ارتداد کی شکل میں جو فتنہ حضرت ابو بکر کی خلافت کے آغاز میں اُٹھا تھا اُس سے کم از کم دس گنی زیادہ طاقت کے ساتھ بغاوت اور خانہ جنگی کا فتنہ اٹھتا اور شاید تاریخ اسلام کی شکل اپنی موجودہ صورت سے بالکل ہی مختلف ہوتی۔
۳-یہ اعلان ۱۰ ذی الحجہ سن ۹ ہجری کو ہوا تھا۔ اس وقت ۱۰ ربیع الثانی سن ۱۰ ہجری تک چار مہینہ کی مہلت ان لوگوں کو دی گئی کہ اس دوران میں اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں۔ لڑنا ہو تو لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں، ملک چھوڑنا ہو تو اپنی جائے پناہ تلاش کر لیں، اسلام قبول کرنا ہو تو سوچ سمجھ کر قبول کر لیں۔
۴-یعنی ۱۰ ذی الحجہ جسے یوم النحر کہتے ہیں۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے حاضرین سے پوچھا یہ کونسا دین ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یوم النحر ہے۔ فرمایا ھٰذا یوم الحج الاکبر۔ ’’ یہ حج اکبر کا دن ہے ‘‘۔ حج اکبر کا لفظ حج اصغر کے مقابلہ میں ہے۔ اہلِ عرب عمرے کو چھوٹا حج کہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں وہ حج جو ذوالحجہ کی مقرر ہ تاریخوں میں کیا جاتا ہے، وہ حج اکبر کہلاتا ہے۔
۵-یعنی یہ بات تقویٰ کے خلاف ہو گی کہ جنھوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی ہے ان سے تم عہد شکنی کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ صرف وہی لوگ ہیں جو ہر حال میں تقویٰ پر قائم رہیں۔
۶-یہاں حرام مہینوں سے اصطلاحی اشہُر حرُم مراد نہیں ہیں جو حج اور عُمرے کے لیے حرام قرار دیے گئے ہیں۔ بلکہ اس جگہ وہ چار مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ چونکہ اس مہلت کے زمانہ میں مسلمانوں کے لیے جائز نہ تھا کہ مشرکین پر حملہ آور ہو جاتے اس لیے اِنہیں حرام مہینے فرمایا گیا ہے۔
۷-یعنی کفرو شرک سے محض توبہ کر لینے پر معاملہ ختم نہ ہو گا بلکہ انہیں عملًا نماز قائم کرنی اور زکوٰۃ دینی ہو گی۔ اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائے گا کہ انہوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا ہے۔ اسی آیت سے حضرت ابوبکر ؓ نے فتنۂ ارتداد کے زمانہ میں استدلال کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم اسلام کے منکر نہیں ہیں، نماز بھی پڑھنے کے لیے تیار ہیں، مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ صحابۂ کرام کو بالعموم یہ پریشانی لاحق تھی کہ آخر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جا سکتی ہے ؟ مگر حضرت ابوبکرؓ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ہمیں تو اِن لوگوں کو چھوڑ دینے کا حکم صرف اُس صورت میں دیا گیا تھا جبکہ یہ شرک سے توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، مگر جب یہ تین شرطوں میں سے ایک شرط اُڑائے دیتے ہیں تو پھر انہیں ہم کیسے چھوڑ دیں۔
۸-یعنی دورانِ جنگ میں اگر کوئی دشمن تم سے درخواست کرے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسے امان دے کر اپنے ہاں آ نے کا موقع دیں اور اسے سمجھائیں، پھر اگر وہ قبول نہ کرے تو اسے اپنی حفاظت میں اس کے ٹھکانے تک واپس پہنچا دیں۔ فقہ اسلامی میں ایسے شخص کو جو امان لے کر دار الاسلام میں آئے مُسامِن کہا جاتا ہے۔
ترجمہ
مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در انحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت د ے رہے ہیں۔ ۱۹ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہو گئے ۲۰ اور جہنّم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے، کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟۲۱ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا بڑا درجہ ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑنے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔ان کا ربّ انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقیناً اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کُفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبی ؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسُول ؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، ۲۲ اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ ؏ ۳
تفسیر
۱۹-یعنی جو مساجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی ہوں ان کے متولی، مجاور، خادم اور آباد کار بننے کے لیے وہ لوگ کسی طرح موزون نہیں ہو سکتے جو خدا کے ساتھ خداوندی کی صفات، حقوق اور اختیارات میں دوسروں کو شریک کرتے ہوں۔ پھر جبکہ وہ خود بھی توحید کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر چکے ہوں اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ہم اپنی بندگی و عبادت کو ایک خدا کے لیے مخصوص کر دینا قبول نہیں کریں گے تو آخر انہیں کیا حق ہے کہ کسی ایسی عبادت گاہ کے متولی بنے رہیں جو صرف خد اکی عبادت کے لیے بنائی گئی تھی۔
یہاں اگر چہ بات عام کہی گئی ہے اور اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ عام ہے بھی لیکن خاص طور پر یہاں اس کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ خانۂ کعبہ اور مسجد حرام پر سے مشرکین کی تولیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس پر ہمیشہ کے لیے اہلِ توحید کی تولیت قائم کر دی جائے۔
۲۰-یعنی جو تھوڑی بہت واقعی خدمت انہوں نے بیت اللہ کی انجام دی وہ بھی اس وجہ سے ضائع ہو گئ کہ یہ لوگ اس کے ساتھ شرک اور جاہلانہ طریقوں کی آمیزش کرتے رہے۔ ان کی تھوڑی بھلائی کو ان کی بہت بڑی برائی کھا گئ۔
۲۱-یعنی کسی زیارت گاہ کی سجادہ نشینی، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے۔ ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خواہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں، سجادہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آ رہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ’’موروثی‘‘ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں۔
۲۲-یعنی تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اُس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے۔
ترجمہ
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غَزوہٴ حُنَین کے روز (اُس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو ۲۳)۔ اس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غَرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول ؐ پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اُتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرینِ حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے، ۲۴ اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔۲۵ اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔ جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے ۲۶ اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے ۲۷ اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں چھوٹے بن کر رہیں۔۲۸ ؏ ۴
تفسیر
۲۳-جو لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اعلان براءت کی خطرناک پالیسی پر عمل کرنے سے تمام عرب کے گوشے گوشے میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھے گے اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا، ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان اندیشوں سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جو خدا اس سے بہت زیادہ سخت خطرات کے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے وہ اب بھی تمہاری مدد کو موجود ہے۔ اگر یہ کام تمہاری قوت پر منحصر ہوتا تو مکہ ہی سے آگے نہ بڑھتا، ورنہ بدر میں تو ضرور ہی ختم ہو جاتا۔ مگر اس کی پشت پر تو اللہ کی طاقت ہے اور پچھلے تجربات تم پر ثابت کر چکے ہیں کہ اللہ ہی کی طاقت اب تک اس کو فروغ دیتی رہی ہے۔ لہٰذا یقین رکھو کہ آج بھی وہی اسے فروغ دے گا۔
غزوۂ حُنَین جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے شوال سن ۸ ہجری میں ان آیات کے نزول سے صرف بارہ تیرہ مہینے پہلے مکّے اور طائف کے درمیان وادی حُنَین میں پیش آیا تھا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ۱۲ ہزار فوج تھی جو اس سے پہلے کبھی کسی اسلامی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف کفار اُن سے بہت کم تھے۔ لیکن اس کے باوجود قبیلۂ ہوازِن کے تیر اندازوں نے ان کا منہ پھیر دیا اور لشکرِ اسلامی بُری طرح تِتّر بِتّر ہو کر پسپا ہوا۔ اس وقت صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور چند مٹھی بھر جانباز صحابہ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور انہی کی ثابت قدمی کا نتیجہ تھا کہ دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہو سکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا۔
۲۴-غزوۂ حنین میں فتح حاصل کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے شکست خوردہ دشمنوں کے ساتھ جس فیاضی و کریم النفسی کا برتاؤ کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن میں سے بیشتر آدمی مسلمان ہو گئے۔ اس مثال سے مسلمانوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ تم نے یہی کیوں سمجھ رکھا ہے کہ بس اب سارے مشرکین عرب تہس نہس کر ڈالے جائیں گے۔ نہیں، پہلے کے تجربات کو دیکھتے ہوئے تو تم کو یہ توقع ہونی چاہیے کہ جب نظامِ جاہلیت کے فروغ و بقا کی کوئی امید ان لوگوں کو باقی نہ رہے گی اور وہ سہارے ختم ہو جائیں گے جن کی وجہ سے یہ اب تک جاہلیت کو چمٹے ہوئے ہیں تو خود بخود یہ اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے کے لیے آ جائیں گے۔
۲۵-یعنی آئندہ کے لیے ان کا حج اور ان کی زیارت ہی بند نہیں بلکہ مسجد حرام کے حدود میں ان کا داخلہ بھی بند ہے تاکہ شرک و جاہلیت کے اعادہ کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ ’’ناپاک‘‘ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ بذاتِ خود ناپاک ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعتقادات، ان کے اخلاق، ان کے اعمال اور ان کے جاہلانہ طریقِ زندگی ناپاک ہیں اور اسی نجاست کی بنا پر حدودِ حرم میں ان کا داخلہ بند کیا گیا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ اور مراسم جاہلیت ادا کرنے کے لیے حدود حرم میں نہیں جا سکتے۔ امام شافعی کے نزدیک اس حکم کا منشا یہ ہے کہ یہ مسجد حرام میں جاہی نہیں سکتے۔ اور امام مالک یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجد حرام ہی نہیں بلکہ کسی مسجد میں بھی ان کا داخل ہونا درست نہیں۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود مسجد نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی۔
۲۶- ’’اگرچہ اہلِ کتاب خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں لیکن فی الواقع نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر۔ خدا پر ایمان رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی بس اس بات کو مان لے کہ خدا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خدا کو الٰہِ واحد اور ربِّ واحد تسلیم کر ے اور اس کی ذات، اس کی صفات، اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں نہ خود شریک بنے نہ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ لیکن نصاریٰ اور یہود دونوں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات میں بتصریح بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کا خدا کو ماننا بے معنی ہے اور اسے ہرگز ایمان باللہ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح آخرت کو ماننے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی یہ بات مان لے کہ ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے جائیں گے، بلکہ اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ، اور کسی بزرگ سے منتسِب ہونا کام نہ آئے گا اور نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکے گا، خدا کی عدالت میں بے لاگ انصاف ہو گا اور آدمی کے ایمان و عمل کے سوا کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے گا۔ اس عقیدے کے بغیر آخرت کو ماننا لا حاصل ہے۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اسی پہلو سے اپنے عقیدے کو خراب کر لیا ہے۔ لہٰذا ان کا ایمان بالآخرت بھی مسلّم نہیں ہے۔
۲۷-یعنی اُس شریعت کو اپنا قانونِ زندگی نہیں بناتے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ سے نازل کی ہے۔
۲۸-یعنی لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دینِ حق کے پیرو بن جائیں، بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ ان کی خودمختاری و بالا دستی ختم ہو جائے۔ وہ زمین میں حاکم اور صاحبِ امر بن کر نہ رہیں بلکہ زمین کے نظامِ زندگی کی باگیں اور فرمانروائی و امامت کے اختیارات متبعینِ دینِ حق کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ ان کے ماتحت تابع و مطیع بن کر رہیں۔
جزیہ بدل ہے اُس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی۔ نیز وہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں۔ ’’ہاتھ سے جزیہ دینے ‘‘ کا مفہوم سیدھی طرح مطیعانہ شان کے ساتھ جزیہ ادا کرنا ہے۔ اور چھوٹے بن کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں بڑے وہ نہ ہوں بلکہ وہ اہلِ ایمان بڑے ہوں جو خلافتِ الٰہی کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ ابتداءً یہ حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا، لیکن آگے چل کر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمّی بنایا اور اس کے بعد صحابہ کرام نے بالاتفاق بیرونِ عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا۔
یہ جزیہ و ہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں اُنیسویں صدی عیسوی کے دَورِ مذلّت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اُس دَور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالاو برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں، لیکن انہیں اس کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار و فرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو گی، فساد رونما ہو گا اور اہلِ ایمان کا فرض ہو گا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انہیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اُس آزادی کی قیمت ہے جو انہیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے، اور اس قیمت کو اُس صالح نظامِ حکومت کے نظم و نسق پر صَرف ہونا چاہیے جو انہیں اِس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں۔
ترجمہ
یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ ۲۹ یہ بے حقیقت باتیں ہوتی ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کُفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ ۳۰ خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے ۳۱ اور اسی طرح مسیح اِبنِ مریم کو بھی، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔ ۳۲ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے ایمان لانے والو، اِن اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔۳۳ دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔۔۔۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے ۳۴، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو ۳۵ اور مشرکوں سے سب مِل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں ۳۶ اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔ نَسِی تو کُفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں۔۳۷ ان کے بُرے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرینِ حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ؏ ۵
تفسیر
۲۹-عُزَیر سے مراد (عَزرا) ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں۔ ان کا زمانہ سن ۴۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان ؑ کے بعد جو دَور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہو گئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان، عبرانی تک سے نا آشنا کر دیا تھا۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پُرانے عہد نامے کو مرتب کیا، اور شریعت کی تجدید کی۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنا دیا۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کا ہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کر گئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے۔
۳۰-یعنی مصر، یونان، روم، ایران اور دوسرے ممالک میں جو قومیں پہلے گمراہ ہو چکی تھیں ان کے فلسفوں اور اوہام و تخیلات سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے بھی ویسے ہی گمراہانہ عقیدے ایجاد کر لیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو المائدہ حاشیہ ۱۰۱)۔
۳۱-حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتِم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی ان کو خد ا بنا لینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدا بناتے ہیں۔
یہ دونوں الزام، یعنی کسی کو خدا کا بیٹا قرار دینا، اور کسی کو شریعت سازی کا حق دے دینا، اس بات کے ثبوت میں پیش کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ ایمان باللہ کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ خدا کی ہستی کو چاہے یہ مانتے ہوں مگر ان کا تصورِ خدائی اس قدر غلط ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا خدا کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہو گیا ہے۔
۳۲-متن میں ’’الدین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ’’جنس دین‘‘ کیا ہے۔ دین کا لفظ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، عربی زبان میں اُس نظامِ زندگی یا طریقِ زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مُطاع تسلیم کر کے اس کا اتباع کیا جائے۔ پس بعثتِ رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دینِ حق کو وہ خدا کی طرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کر دے۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے۔ بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو الزمر، حاشیہ ۳، المومن، حاشیہ ۴۳ – الشوریٰ حاشیہ ۲۰)
۳۳-یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن سے خریدیں اور اُن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار اِن کو سمجھ لیں۔ بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسائے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلاح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
۳۴-یعنی جب سے اللہ نے چاند، سورج اور زمین کو خلق کیا ہے اسی وقت سے یہ حساب بھی چلا آ رہا ہے کہ مہینے میں ایک ہی دفعہ چاند ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور اس حساب سے سال کے ۱۲ ہی مہینے بنتے ہیں۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ عرب کے لوگ نَسِی کی خاطر مہینوں کی تعداد ۱۳ یا ۱۴ بنا لیتے تھے، تاکہ جس ماہِ حرام کو انہوں نے حلال کر لیا ہو اسے سال کی جنتری میں کھپا سکیں۔ اس مضمون کی تشریح آگے آتی ہے۔
۳۵-یعنی جن مصالح کی بنا پر ان مہینوں میں جنگ کرنا حرام کیا گیا ہے ان کو ضائع نہ کرو اور ان ایام میں بد امنی پھیلا کر اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ چار حرام مہینوں سے مراد ہیں ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عُمرے کے لیے۔
۳۶-یعنی اگر مشرکین ان مہینوں میں بھی لڑنے سے باز نہ آئیں تو جس طرح وہ متفق ہو کر تم سے لڑتے ہیں تم بھی متفق ہو کر ان سے لڑو۔ سورۂ بقرہ آیت ۱۹۴ اِس آیت کی تفسیر کرتی ہے۔
۳۷-عرب میں نَسِی دو طرح کی تھی۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کر دیتے تھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبِیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ اُن زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کے مطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔ اس طرح ۳۳ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہو تا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ۹ -۱۰ تاریخ کو ادا ہوتا تھا۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض۔ یعنی اِس سال حج کا وقت گردش کرتا ہوا ٹھیک اپنی اس تاریخ پر آ گیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے۔
اس آیت میں نَسی کو حرام اور ممنوع قرار دے کر جہلائے عرب کی ان دونوں اغراض کو باطل کر دیا گیا ہے۔ پہلی غرض تو ظاہر ہے کہ صریح طور پر ایک گناہ تھی۔ اُس کے تو معنی ہی یہ تھے کہ خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال بھی کر لیا جائے اور پھر حیلہ بازی کر کے پابندی قانون کی ظاہری شکل بھی بنا کر رکھ دی جائے۔ رہی دوسری غرض تو سرسری نگاہ میں وہ معصوم اور مبنی بر مصلحت نظر آتی ہے، لیکن درحقیقت وہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تمام گردشوں میں، ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اُس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں۔ مثلاً رمضان ہے، تو وہ کبھی گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے، اور اہلِ ایمان اِن سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں۔ اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب طرح کے اچھے اور بُرے حالات میں خدا کی رضا کے لیے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اُترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی گروہ اپنے سفر اور اپنی تجارت اور اپنے میلوں ٹھیلوں کی سہولت کی خاطر حج کو کسی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دے، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمان کوئی کانفرنس کر کے طے کر لیں کہ آئندہ سے رمضان کا مہینہ دسمبر یا جنوری کے مطابق کر دیا جائے گا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بندوں نے اپنے خدا سے بغاوت کی اور خودمختار بن بیٹھے۔ اسی چیز کا نام کفر ہے۔ علاوہ بریں ایک عالمگیر دین جو سب انسانوں کے لیے ہے، آخر کس شمسی مہینے کو روزے اور حج کے لیے مقرر کرے ؟ جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لیے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہو سکتا۔ کہیں وہ گرمی کا زمانہ ہو گا اور کہیں سردی کا۔ کہیں وہ بارشوں کا موسم ہو گا اور کہیں خشکی کا۔ کہیں فصلیں کاٹنے کا زمانہ ہو گا اور کہیں بونے کا۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نسی کی منسوخی کا یہ اعلان سن ۹ ہجری کے حج کے موقع پر کیا گیا۔ اور اگلے سال سن ۱۰ ہجری کا حج ٹھیک اُن تاریخوں میں ہُوا جو قمری حساب کے مطابق تھیں۔ اس کے بعد سے آج تک حج اپنی صحیح تاریخوں میں ہو رہا ہے۔
ترجمہ
۳۸ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دُنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔۳۹ تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا،۴۰ اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا،۴۱ اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’’غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘ ۴۲۔ اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبر دست اور دانا و بینا ہے۔۔۔۔نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ۴۳، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔اے نبی ؐ اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا۔۴۴ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے ! وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ ؏ ٦
تفسیر
۳۸-یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا۔
۳۹-اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ عالم آخرت کے بے پایاں زندگی اور وہاں کے بے حد و حساب سازو سامان کو جب تم دیکھو گے تب تمہیں معلوم ہو گا کہ دنیا کے تھوڑے سے عرصۂ حیات میں لطف اندوزی کے جو بڑے سے بڑے امکانات تم کو حاصل تھے اور زیادہ سے زیادہ جو اسبابِ عیش تم کو میسر تھے وہ غیر محدود امکانات اور اس نعیم و ملکِ کبیر کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور اُس وقت تم کو اپنی اس ناعاقبت اندیشی و کم نگاہی پر افسوس ہو گا کہ تم نے کیوں ہمارے سمجھانے کے باوجود دنیا کے عارضی اور قلیل منافع کی خاطر اپنے آپ کو ان ابدی اور کثیر منافع سے محروم کر لیا۔ دوسرے یہ کہ متاعِ حیاۃِ دنیا آخرت میں کام آنے والی چیز نہیں ہے۔ یہاں تم خواہ کتنا ہی سر و سامان مہیا کر لو، موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہر چیز سے دست بردار ہونا پڑے گا، اور سرحدِ موت کے دوسری جانب جو عالَم ہے وہاں اِن میں سے کوئی چیز بھی تمہارے ساتھ منتقل نہ ہو گی۔ وہاں اِس کا کوئی حصہ اگر تم پا سکتے ہو تو صرف وہی جسے تم نے خدا کی رضا پر قربان کیا ہو اور جس کی محبت پر تم نے خدا اور اس کے دین کی محبت کو ترجیح دی ہو۔
۴۰-اسی سے یہ مسئلہ نکلا ہے کہ جب تک نفیر عام (جنگی خدمت کے لیے عام بلاوا) نہ ہو، یا جب تک کسی علاقے کی مسلم آبادی یا مسلمانوں کے کسی گروہ کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم نہ دیا جائے، اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ رہتا ہے، یعنی اگر کچھ لوگ اسے ادا کرتے رہیں تو باقی لوگوں پر سے اس کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن جب امام المسلمین کی طرف سے مسلمانوں کو جہاد کا عام بلاوا ہو جائے، یا کسی خاص گروہ یا خاص علاقے کی آبادی کو بلاوا دے دیا جائے تو، پھر جنہیں بلاوا دیا گیا ہو ان پر جہاد فرض عین ہے، حتیٰ کہ جو شخص کسی حقیقی معذوری کے بغیر نہ نکلے ا س کا ایمان تک معتبر نہیں ہے۔
۴۱-یعنی خدا کا کام کچھ تم پر منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہو گا ورنہ نہ ہو گا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل و احسان ہے کہ وہ تمہیں اپنے دین کی خدمت کا زرین موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دو گے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جاؤ گے۔
۴۲-یہ اُس موقع کا ذکر ہے جب کفارِ مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا تہیہ کر لیا تھا اور آپؐ عین اس رات کو، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ جا چکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یا منافقانہ ایمان رکھتے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے، اور اس خیال سے کہ آپ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا، آپ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر (جو شمال کی طرف تھی) جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپ غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے ایسا نہ چھوڑا جہاں آپ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اُس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ کو تسکین دی کہ ’’غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔
۴۳-ہلکے اور بوجھل کے الفاظ بہت وسیع مفہوم رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب نکلنے کا حکم ہو چکا تو بہرحال تم کو نکلنا چاہیے خواہ برضا و رغبت خواہ بکراہت، خواہ خوشحالی میں خواہ تنگ دستی میں، خواہ ساز و سامان کی کثرت کے ساتھ خواہ بے سر و سامانی کے ساتھ، خواہ موافق حالات میں خواہ ناموافق حالات میں، خواہ جوان و تندرست خواہ ضعیف و کمزور۔
۴۴-یعنی یہ دیکھ کر کہ مقابلہ روم جیسی طاقت سے ہے اور زمانہ شدید گرمی کا ہے اور ملک میں قحط برپا ہے اور نئے سال کی فصلیں جن سے آس لگی ہوئی تھی، کٹنے کے قریب ہیں، ان کو تبوک کا سفر بہت ہی گراں محسُوس ہونے لگا۔
ترجمہ
اے نبی ؐ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے ) تاکہ تم پر کھُل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔ ۴۵ جو لوگ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردّد ہو رہے ہیں۔۴۶اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا ۴۷ اس لیے اس نے اُنھیں سُست کر دیا اور کہہ دیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھُوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں کان لگا کر سُنتے ہیں، اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اِس سے پہلے بھی اِن لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ اِن کی مرضی کے خلاف حق آ گیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا۔ ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ ’’مجھے رُخصت دے دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے ‘‘ ۴۸۔۔۔۔ سُن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں ۴۹ اور جہنم نے اِن کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ ۵۰تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا۔ان سے کہو ’’ ہمیں ہر گز کوئی (بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہلِ ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ۵۱‘‘ان سے کہو ’’ تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ ۵۲ اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے ؟ اچھا تو اب تم انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔‘‘ ان سے کہو ’’تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت ۵۳، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے کیونکہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘ ان کے دیے ہوئے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے، نماز کے لیے آتے ہیں تو کَسمَساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں۔اِن کے مال و دولت اور اِن کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے ۵۴ اور یہ جان بھی دیں تو اِنکارِ حق ہی کی حالت میں دیں۔۵۵وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ہر گز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوف زدہ ہیں۔اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی کھوہ یا گھُس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اُس میں جا چھُپیں۔۵۶اے نبی ؐ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں۔اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔۵۷کیا اچھا ہو تا کہ اللہ اور رسول ؐ نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے ۵۸ اور کہتے کہ ’’ اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا،۵۹ ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔۶۰‘‘ ؏ ۷
تفسیر
۴۵-بعض منافقین نے بناوٹی عذرات پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے رخصت مانگی تھی، اور حضور ؐ نے بھی اپنے طبعی حِلم کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ محض بہانے کر رہے ہیں ان کو رخصت عطا فرما دی تھی۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور آپ کو تنبیہ کی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے۔ رخصت دے دینے کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا۔ اگر انہیں رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوائے ایمان بے نقاب ہو جاتا۔
۴۶-اس سے معلوم ہوا کہ کفر اسلام کی کشمکش ایک کسوٹی ہے جو کھرے مومن اور کھوٹے مدعی ایمان کے فرق کو صاف کھول کر رکھ دیتی ہے۔ جو شخص اس کشمکش میں دل و جان سے اسلام کی حمایت کرے اور اپنی ساری طاقت اور تمام ذرائع اس کو سربلند کرنے کی سعی میں کھپا دے اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرے وہی سچا مومن ہے۔ بخلاف اس کے جو اس کشمکش میں اسلام کا ساتھ دینے سے جی چرائے اور کفر کی سر بلندی کا خطرہ سامنے دیکھتے ہوئے بھی اسلام کی سربلندی کے لیے جان و مال کی بازی کھیلنے سے پہلو تہی کر ے اس کی یہ روش خود اس حقیقت کو واضح کر دیتی ہے کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔
۴۷-یعنی بادل نا خواستہ اٹھنا اللہ کو پسند نہیں تھا۔ کیونکہ جب وہ شرکت جہاد کے جذبے اور نیت سے خالی تھے اور ان کے اندر دین کی سربلندی کے لیے جاں فشانی کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی، تو وہ صرف مسلمانوں کی شرما شرمی سے بددلی کے ساتھ یا کسی شرارت کی نیت سے مستعدی کے ساتھ اُٹھتے اور یہ چیز ہزار خرابیوں کی موجب ہوتی جیسا کہ بعد والی آیت میں بتصریح فرما دیا گیا ہے۔
۴۸-جو منافق بہانے کر کر کے پیچھے ٹھیر جانے کی اجازتیں مانگ رہے تھے ان میں سے بعض ایسے بے باک بھی تھے جو راہِ خدا سے قدم پیچھے ہٹانے کے لیے مذہبی و اخلاقی نوعیت کے حیلے تراشتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص جَدّ بن قیس کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ کر عرض کیا کہ میں ایک حسن پرست آدمی ہوں، میری قوم کے لوگ میری اس کمزوری سے واقف ہیں کہ عورت کے معاملہ میں مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں رومی عورتوں کو دیکھ کر میرا قدم پھسل نہ جائے۔ لہٰذا آپ مجھے فتنے میں نہ ڈالیں اور اس جہاد کی شرکت سے مجھ کو معذور رکھیں۔
۴۹-یعنی نام تو فتنے سے بچنے کا لیتے ہیں مگر درحقیقت نفاق اور جھوٹ اور ریاکاری کا فتنہ بُری طرح ان پر مسلط ہے۔ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے فتنوں کے امکان سے پریشانی و خوف کا اظہار کر کے یہ بڑے متقی ثابت ہوئے جا رہے ہیں۔حالانکہ فی الواقع کفر و اسلام کی فیصلہ کن کشمکش کے موقع پر اسلام کی حمایت سے پہلو تہی کر کے یہ اتنے بڑے فتنے میں مبتلا ہو رہے ہیں جس سے بڑھ کر کسی فتنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
۵۰-یعنی تقویٰ کی اس نمائش نے ان کو جہنم سے دُور نہیں کیا بلکہ نفاق کی اس لعنت نے انہیں جہنم کے چنگل میں اُلٹا پھنسا دیا۔
۵۱- ’’یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہو جائیں تو وہ پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے۔ پھر اُس کا سہارا تمام تر مادّی اسباب پر ہوتا ہے۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہو تے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادّی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ راہِ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ اوّل تو دونوں کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے۔ دوسرے اس کے پیشِ نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے۔ اس کے سامنے تو رضائے الٰہی کا مقصدِ وحید ہوتا ہے اور اس مقصد سے اس کے قریب یا دور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کر دیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہَر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگاری اور ناسازگاری اس کو رنجیدہ کرے۔ اس کا سارا اعتماد خدا پر ہوتا ہے جو عالمِ اسباب کا حاکم ہے اور اس کے اعتماد پر وہ ناسازگار حالات میں بھی اُسی عزم و ہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہلِ دنیا سے صرف سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذ سے۔
۵۲-منافقین حسب عادت اس موقع پر بھی کفر و اسلام کی اس کشمکش میں حصہ لینے کے بجائے اپنی دانست میں کمال دانشمندی کے ساتھ دور بیٹھے ہوئے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہوتا ہے، رسول اور اصحاب رسول فتحیاب ہو کر آتے ہیں یا رومیوں کی فوجی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ اس کا جواب انہیں یہ دیا گیا ہے کہ جن د و نتیجوں میں سے ایک کے ظہور کا تمہیں انتظار ہے، اہلِ ایمان کے لیے تو وہ دونوں ہی سراسر بھلائی ہیں۔ وہ اگر فتحیاب ہوں تو اس کا بھلائی ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن اگر اپنے مقصد کی راہ میں جانیں لڑاتے ہوئے وہ سب کے سب پیوندِ خاک ہو جائیں تب بھی دنیا کی نگاہ میں چاہے یہ انتہائی ناکامی ہو مگر حقیقت میں یہ بھی ایک دوسری کامیابی ہے۔ اس لیے کہ مومن کی کامیابی و ناکامی کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس نے کوئی ملک فتح کیا یا نہیں، یا کوئی حکومت قائم کر دی یا نہیں بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ اس نے اپنے خدا کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے اپنے دل و دماغ اور جسم و جان کی ساری قوتیں لڑا دیں یا نہیں۔ یہ کام اگر اس نے کر دیا تو درحقیقت وہ کامیاب ہے، خواہ دنیا کے اعتبار سے اس کی سعی کا نتیجہ صفر ہی کیوں نہ ہو۔
۵۳-بعض منافق ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تو تیار نہ تھے، مگر یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ اس جہاد اور اس کی سعی سے بالکل کنارہ کش رہ کر مسلمانوں کی نگاہ میں اپنی ساری وقعت کھو دیں اور اپنے نفاق کو علانیہ ظاہر کر دیں۔ اس لیے وہ کہتے تھے کہ ہم جنگی خدمت کو انجام دینے سے تو اس وقت معذرت چاہتے ہیں، لیکن مال سے مدد کرنے کے لیے حاضر ہیں۔
۵۴-یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے مسلم سوسائیٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شانِ ریاست اور عزّت و ناموری اور مشخیت اور چودھراہٹ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی۔ ادنیٰ ادنیٰ غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے، اس نئے نظام میں با عزّت ہوں گے، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بے عزت ہو کر رہ جائیں گے۔
اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کی مجلس میں پیش آیا۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ، جن میں سُہَیل بن عَمرو اور حارِث بن ہِشام جیسے لوگ بھی تھے، حضرت عمر ؓ سے ملنے گئے۔ وہاں یہ صورت پیش آئی کہ انصار اور مہاجرین میں سے کوئی معمولی آدمی بھی آتا تو حضرت عمرؓ اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور اِن شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائینِ مجلس میں پہنچ گئے۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ سُہَیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اِس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے ؟ حضرت عمر ؓ نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحدِ روم کی طرف اشارہ کر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدانِ جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہو جائے جسے کھو چکے ہو۔
۵۵-یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہو گی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدقِ ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہو گی اور اپنی دنیا خراب کر لینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہو گی۔
۵۶- ’’مدینہ کے یہ منافق زیادہ تر بلکہ تمام تر مالدار اور سن رسیدہ لوگ تھے۔ ابنِ کثیر نے البِدایہ و النِّہایہ میں ان کی جو فہرست دی ہے اس میں صرف ایک نوجوان کا ذکر ملتا ہے اور غریب ان میں سے کوئی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ مدینہ میں جائدادیں اور پھیلے ہوئے کاروبار رکھتے تھے اور جہاندیدگی نے ان کو مصلحت پرست بنا دیا تھا۔ اسلام جب مدینہ پہنچا اور آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پورے اخلاص اور جوش ایمانی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا، تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک عجیب مخمصہ میں مبتلا پایا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو خود ان کے اپنے قبیلوں کی اکثریت بلکہ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو اس نئے دین نے ایمان کے نشے سے سرشار کر دیا ہے۔ ان کے خلاف اگر وہ کفر و انکار پر قائم رہتے ہیں تو ان کی ریاست، عزت، شہرت سب خاک میں ملی جاتی ہے حتیٰ کہ ان کے اپنے گھروں میں ان کے خلاف بغاوت برپا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف اس دین کا ساتھ دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ سارے عرب سے بلکہ اطراف و نواح کی قوموں اور سلطنتوں سے بھی لڑائی مول لینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اغراض نفسانی کی بندگی نے معاملہ کے اس پہلو پر نظر کرنے کی استعداد تو ان کے اندر باقی ہی نہیں رہنے دی تھی کہ حق اور صداقت بجائے خود بھی کوئی قیمتی چیز ہے جس کے عشق میں انسان خطرات مول لے سکتا ہے اور جان و مال کی قربانیاں گوارا کر سکتا ہے۔ وہ دنیا کے سارے معاملات و مسائل پر صرف مفاد اور مصلحت ہی کے لحاظ سے نگاہ ڈالنے کے خوگر ہو چکے تھے۔ اس لیے ان کو اپنے مفاد کے تحفظ کی بہترین صورت یہی نظر آئی کہ ایمان کا دعویٰ کریں تاکہ اپنی قوم کے درمیان اپنی ظاہری عزت اور اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھ سکیں، مگر مخلصانہ ایمان نہ اختیار کریں تاکہ اُن خطرات و نقصانات سے دوچار نہ ہوں جو اخلاص کی راہ اختیار کرنے سے لازماً پیش آنے تھے۔ ان کی اسی ذہنی کیفیت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ تمہارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نقصانات کے خوف نے انہیں زبردستی تمہارے ساتھ باندھ دیا ہے۔ جو چیز انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرائیں وہ صرف یہ خوف ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے علانیہ غیر مسلم بن کر رہیں تو جاہ و منزلت ختم ہوتی ہے اور بیوی بچوں تک سے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں۔ مدینہ کو چھوڑ دیں تو اپنی جائدادوں اور تجارتوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے، اور ان کے اندر کفر کے لیے بھی اتنا اخلاص نہیں ہے کہ اس کی خاطر وہ ان نقصانات کو برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں۔ اس مخمصے نے انہیں کچھ ایسا پھانس رکھا ہے کہ مجبوراً مدینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، بادل نا خواستہ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور زکوٰۃ کا ’’جرمانہ‘‘ بھگت رہے ہیں، ورنہ آئے دن جہاد اور آئے دن کسی نہ کسی خوفناک دشمن کے مقابلے اور آئے دن جان و مال کی قربانیوں کے مطالبے کی جو ’’مصیبت‘‘ ان پر پڑی ہوئی ہے اس سے بچنے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ اگر کوئی سُوراخ یا بل بھی ایسا نظر آ جائے جس میں انہیں امن ملنے کی امید ہو تو یہ بھاگ کر اس میں گھس بیٹھیں۔
۵۷-عرب میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے تمام اُن باشندوں پر جو ایک مقرر مقدار سے زائد مال رکھتے تھے، باقاعدہ زکوٰۃ عائد کی گئی تھی اور وہ ان کی زرعی پیداوار سے ان کے مویشیوں سے ان کے اموالِ تجارت سے اُن کے معدنیات سے اور ان کے سونے چاندی کے ذخائر سے ۲-۱/۲ فی صدی، ۵ فی صدی، ۱۰ فی صدی کی مختلف شرحوں کے مطابق وصول کی جاتی تھی۔ یہ سب اموالِ زکوٰۃ ایک منظم طریقہ سے وصول کیے جاتے اور ایک مرکز پر جمع ہو کر منظم طریقہ سے خرچ کیے جاتے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ملک کے اطراف سے اتنی دولت سمٹ کر آتی اور آپ کے ہاتھوں خرچ ہوتی تھی جو عرب کے لوگوں نے کبھی اس سے پہلے کسی ایک شخص کے ہاتھوں جمع اور تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھی۔ دنیا پرست منافقین کے منہ میں اس دولت کو دیکھ کر پانی بھر بھر آتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہتے ہوئے دریا سے ان کو خوب سیر ہو کر پینے کا موقع ملے، مگر یہاں پلانے والا خود اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر اس دریا کے ایک ایک قطرے کو حرام کر چکا تھا اور کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے مستحق لوگوں کے سوا کسی اور کے لب تک جام پہنچ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقسیم صدقات کو دیکھ دیکھ کر دلوں میں گھُٹتے تھے اور تقسیم کے موقع پر آپ کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کرتے تھے۔ دراصل شکایت تو انہیں یہ تھی کہ اس مال پر ہمیں دست درازی کا موقع نہیں دیا جاتا، مگر اس حقیقی شکایت کو چھپا کر وہ الزام یہ رکھتے تھے کہ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں کی جاتی اور اس میں جانت داری سے کام لیا جاتا ہے۔
۵۸-یعنی مال غنیمت میں سے جو حصہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کو دیتے ہیں اس پر قانع رہتے، اور خدا کے فضل سے جو کچھ یہ خود کماتے ہیں اور خدا کے دیے ہوئے ذرائع آمدنی سے جو خوشحالی انہیں میسر ہے اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے۔
۵۹-یعنی زکوٰۃ کے علاوہ جو اموال حکومت کے خزانے میں آئیں گے ان سے حسب استحقاق ہم لوگوں کو اسی طرح استفادہ کا موقع حاصل رہے گا جس طرح اب تک رہا ہے۔
۶۰-یعنی ہماری نظر دنیا اور اس کی متاع حقیر پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے فضل و کرم پر ہے۔ اسی کی خوشنودی ہم چاہتے ہیں۔ اسی سے امید رکھتے ہیں۔ جو کچھ وہ دے اُس پر راضی ہیں۔
ترجمہ
یہ صدقات تو دراصل فقیروں ۶۱ اور مسکینوں ۶۲ کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں ۶۳، اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔۶۴ نیز یہ گردنوں کے چھُڑانے ۶۵ اور قرضداروں کی مدد کرنے میں ۶۶ اور راہِ خدا میں ۶۷ اور مسافر نوازی میں ۶۸ استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔ ان میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دُکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ ۶۹ کہو ’’ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ۷۰، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتا ہے ۷۱ اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دُکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ ‘‘یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسُول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں۔کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور اُس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رُسوائی ہے۔ یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سُورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ ۷۲ اے نبی ؐ، ان سے کہو ’’اور مذاق اُڑاؤ، اللہ اُس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھُل جانے سے تم ڈرتے ہو۔‘‘ اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ ۷۳ ان سے کہو ’’ کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کُفر کیا ہے، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔ ۷۴‘‘ ؏ ۸
تفسیر
۶۱-فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاجِ اعانت ہو گئے ہوں، یا کسی عارضی سبب سے سر دست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں، مثلاً یتیم بچے، بیوہ عورتیں، بے روزگار لوگ اور وہ لوگ جو وقتی حوادث کے شکار ہو گئے ہوں۔
۶۲-مَسکَنَت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھیرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خود داری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ چنانچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصد ق علیہ ولا یقوم فیسئال الناس۔ ’’ مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے۔ ‘‘ گویا وہ ایک ایسا شریف آدمی ہے جو غریب ہو۔
۶۳-یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں، اُن کی تنخواہیں بہرحال صدقات ہی کی مد سے دی جائیں گی۔ یہ الفاظ اور اسی سورۃ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان (یعنی بنی ہاشم) پر زکوٰۃ کا مال حرام قرار دیا تھا، چنانچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلا معاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحبِ نصاب ہوں تو زکوٰۃ دینا ان پر فرض ہے، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوٰۃ لینا ان کے لیے حرام ہے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے۔
۶۴-تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استمالت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار، یا مطیع و فرماں بردار، یا کم از کم بے ضرر دشمن بنالیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال کرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔
یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہو گئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔
حنفیہ کا استدلال اِس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کے بعد عُیَینَہ بن حِصن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکر ؓ کا پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہو گئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور آپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابوبکر ؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر ؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہو گئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھرے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداءً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے با جماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو گیا۔
امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مالِ غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوٰۃ سے۔
ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلا شبہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکومت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ اور صحابۂ کرام کا اجماع جس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسُوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اُس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔
رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مداتِ آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آ جائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے۔
۶۵-گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کر دوں تو تم مجھے آزاد کر دو، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود زکوٰۃ کی مد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہا متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علیؓ، سعید بن جُبَیر، لَیث، ثَوری، ابراہیم نَخَعی، شَعبی، محمد بن سیرین، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس، حسن بصری، مالک، احمد اور ابو ثَور جائز قرار دیتے ہیں۔
۶۶-یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مد سے کی جا سکتی ہے۔ مگر متعدد فقہا کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضداری میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے۔
۶۷-راہِ خدا لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوٰۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حق یہ ہے، اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو ہٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے، سواری لیے، آلات اور اسلحہ اور سر و سامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جا سکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت، عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دیدیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جا سکتی ہیں۔
یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزُو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے۔ اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ، قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمۂ کفر کو پست کرنے اور کلمۂ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں، خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں۔
۶۸-مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالتِ سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اس کی مدد زکوٰۃ کی مد سے کی جائے گی۔ یہاں فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس کا سفر معصیت کے لئے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے۔ مگر قرآن و حدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہ ہونی چاہیے۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسنِ سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے۔
۶۹-منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جن عیوب سے متہم کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ حضورؐ ہر شخص کی سُن لیتے تھے اور ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا کرتے تھے۔ یہ خوبی ان کی نگاہ میں عیب تھی۔ کہتے تھے کہ آپؐ کانوں کے کچے ہیں، جس کا جی چاہتا ہے آپؐ کے پاس پہنچ جاتا ہے جس طرح چاہتا ہے آپؐ کے کان بھرتا ہے، اور آپؐ اس کی بات مان لیتے ہیں۔ اس الزام کا چرچا زیادہ تر اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ سچے اہلِ ایمان اِن منافقین کی سازشوں اور ان کی شرارتوں اور ان کی مخالفانہ گفتگوؤں کا حال نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچا دیا کرتے تھے اور اس پر یہ لوگ سیخ پا ہو کر کہتے تھے کہ آپ ہم جیسے شرفا و معززین کے خلاف ہر کنگلے اور ہر فقیر کی دی ہوئی خبروں پر یقین کر لیتے ہیں۔
۷۰-جواب میں ایک جامع بات ارشاد ہوئی ہے جو اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ فساد اور شر کی باتیں سننے والا آدمی نہیں ہے بلکہ صرف انہی باتوں پر توجہ کرتا ہے جن میں خیر اور بھلائی ہے اور جن کی طرف التفات کرنا امت کی بہتری اور دین کی مصلحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کا ایسا ہونا تمہارے ہی لیے بھلائی ہے۔ اگر وہ ہر ایک کی سُن لینے والا اور ضبط و تحمل سے کام لینے والا آدمی نہ ہوتا تو ایمان کے وہ جھوٹے دعوے اور خیر سگالی کی وہ نمائشی باتیں اور راہِ خدا سے بھاگنے کے لیے وہ عذرات لنگ جو تم کیا کرتے ہو انہیں صبر سے سنے کے بجائے تمہاری خبر لے ڈالتا اور تمہارے لیے مدینہ میں جینا دشوار ہو جاتا۔ پس اس کی یہ صفت تو تمہارے حق میں اچھی ہے نہ کہ بُری۔
۷۱-یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ وہ ہر ایک کی بات پر یقین لے آتا ہے۔ وہ چاہے سنتا سب کی ہو مگر اعتماد صرف انہی لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں۔ تمہاری جن شرارتوں کی خبریں اُس تک پہنچیں اور اس نے ان پر یقین کیا وہ بد اخلاق چغل خوروں کی پہنچائی ہوئی نہ تھیں بلکہ صالح اہلِ ایمان کی پہنچائی ہوئی تھیں اور اسی قابل تھیں کہ ان پر اعتماد کیا جاتا۔
۷۲-یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر سچا ایمان تو نہیں رکھتے تھے لیکن جو تجربات انہیں پچھلے آٹھ نو برس کے دوران میں ہو چکے تھے ان کی بنا پر انہیں اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ آپ کے پاس کوئی نہ کوئی فوق الفطری ذریعۂ معلومات ضرور ہے جس سے آپ کو ان کے پوشیدہ رازوں تک کی خبر پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات قرآن میں (جسے وہ حضورؐ کی اپنی تصنیف سمجھتے تھے ) آپ ان کے نفاق اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیتے ہیں۔
۷۳-غزوۂ تبوک کے زمانہ میں منافقین اکثر اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے تھے اور اپنی تضحیک سے اُن لوگوں کی ہمتیں پست کرنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں وہ نیک تینی کے ساتھ آمادۂ جہاد پاتے۔ چنانچہ روایات میں اِن لوگوں کے بہت سے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک محفل میں چند منافق بیٹھے گپ لڑا رہے تھے۔ ایک نے کہا ’’اجی کیا رومیوں کو بھی تم نے کچھ عربوں کیطرح سمجھ رکھا ہے ؟ کل دیکھ لینا کہ یہ سب سورما جو لڑنے تشریف لائے ہیں رسیوں میں بندھے ہوئے ہوں گے۔ ‘‘ دوسرا بولا ’’مزا ہو جو اوپر سے سو سو کوڑے بھی لگانے کا حکم ہو جائے ؟‘‘ ایک اور منافق نے حضور کو جنگ کی سرگرم تیاریاں کرتے دیکھ کر اپنے یار دوستوں سے کہا ’’آپ کو دیکھیے، آپ روم و شام کے قلعے فتح کرنے چلے ہیں‘‘۔
۷۴-یعنی وہ کم عقل مسخر ے تو معاف بھی کیے جا سکتے ہیں جو صرف اس لیے ایسی باتیں کرتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا میں کوئی چیز سنجیدہ ہے ہی نہیں۔ لیکن جن لوگوں نے جان بوجھ کر یہ باتیں اس لیے کی ہیں کہ وہ رسول اور اس کے لائے ہوئے دین کو اپنے دعوائے ایمان کے باوجود ایک مضحکہ سمجھتے ہیں، اور جن کے اس تمسخر کا اصل مدعا یہ ہے کہ اہل ایمان کی ہمتیں پست ہوں اور وہ پوری قوت کے ساتھ جہاد کی تیاری نہ کر سکیں، ان کو تو ہر گز معاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مسخرے نہیں بلکہ مجرم ہیں۔
ترجمہ
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ بُرائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔۷۵ یہ اللہ کو بھُول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتشِ دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔۔۔۔ ۷۶تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمہارے پیش روؤں کے تھے۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے۔ پھر انہوں نے دنیا میں اپنے حصّہ کے مزے لُوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصّہ کے مزے اسی طرح لُوٹے جیسے انہوں نے لُوٹے تھے، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے، سوا ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہو گیا اور وہی خسارے میں ہیں۔۔۔۔ ۷۷کیا اِن لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوح ؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیم ؑ کی قوم، مدیَن کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں اُلٹ دیا گیا ۷۸۔ اُن کے رسُول ان کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ ۷۹مومن مر د اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے رسُول ؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔۸۰ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ ؏ ۹
تفسیر
۷۵-یہ تمام منافقین کی مشترک خصوصیت ہے۔ ان سب کو برائی سے دلچسپی اور بھلائی سے عداوت ہوتی ہے۔ کوئی شخص برا کام کرنا چاہے تو ان کی ہمدردیاں، ان کے مشورے، ان کی ہمت افزائیاں، ان کی اعانتیں، ان کی سفارشیں، ان کی تعریفیں اور مدح سرائیاں سب اس کے لیے وقف ہوں گی۔ دل و جان سے خود اس بُرے کام میں شریک ہوں گے، دوسروں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دیں گے، کرنے والے کی ہمت بڑھائیں گے، اور ان کی ہر ادا سے یہ ظاہر ہو گا کہ اس برائی کے پروان چڑھنے ہی سے کچھ ان کے دل کو راحت اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ بخلاف اس کے کوئی بھلا کام ہو رہا ہو تو اس کی خبر سے ان کو صدمہ ہوتا ہے، اس کے تصور سے ان کا دل دکھتا ہے، اس کی تجویز تک انہیں گوارا نہیں ہوتی، اس کی طرف کسی کو بڑھتے دیکھتے ہیں تو ان کی روح بے چین ہونے لگتی ہے۔ ہر ممکن طریقہ سے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور ہر تدبیر سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ اس نیکی سے باز آ جائے اور باز نہیں آتا تو اس کام میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر یہ بھی ان سب کا مشترک خاصہ ہے کہ نیکی کے کام میں خرچ کرنے کے لیے ان کا ہاتھ کبھی نہیں کھلتا۔ خواہ وہ کنجوس ہوں یا بڑے خرچ کرنے والے، بہر حال ان کی دولت یا تو تجوریوں کے لیے ہوتی ہے یا پھر حرام راستوں سے آتی ہے اور حرام ہی راستوں میں یہ جاتی ہے۔ بدی کے لیے چاہے وہ اپنے وقت کے قارون ہوں مگر نیکی کے لیے ان سے زیادہ مفلس کوئی نہیں ہوتا۔
۷۶-منافقین کا غائبانہ ذکر کرتے کرتے یکایک ان سے براہِ راست خطاب شروع ہو گیا ہے۔
۷۷-یہاں سے پھر ان کا غائبانہ ذکر شروع ہو گیا۔
۷۸-اشارہ ہے قومِ لوط کی بستیوں کی طرف۔
۷۹-یعنی ان کی تباہی و بربادی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ کو ان کے ساتھ کوئی دشمنی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں تباہ کرے۔ بلکہ دراصل انہوں نے خود ہی اپنے لیے وہ طرزِ زندگی پسند کیا جو انہیں بربادی کی طرف لے جانے والا تھا۔ اللہ نے تو انہیں سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا پورا موقع دیا، ان کی فہمائش کے لیے رسول بھیجے، رسولوں کے ذریعہ سے ان کو غلط روی کے بُرے نتائج سے آگاہ کیا اور انہیں کھول کھول کر نہایت واضح طریقے سے بتا دیا کہ ان کے لیے فلاح کا راستہ کونسا ہے اور ہلاکت و بربادی کا کونسا۔ مگر جب انہوں نے اصلاح حال کے کسی موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا اور ہلاکت کی راہ چلنے ہی پر اصرار کیا تو لامحالہ ان کا وہ انجام ہونا ہی تھا جو بالآخر ہو کر رہا، اور یہ ظلم ان پر اللہ نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر کیا۔
۸۰- ’’جس طرح منافقین ایک الگ اُمت ہیں اسی طرح اہلِ ایمان بھی ایک الگ امت ہیں۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے۔ لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِ عمل میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ جہاں زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے، مگر دل سچے ایمان سے خالی ہیں وہاں زندگی کا سارا رنگ ڈھنگ ایسا ہے جو اپنی ایک ایک ادا سے دعوائے ایمان کی تکذیب کر رہا ہے۔ اوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مُشک اپنی صورت سے، اپنی خوشبو سے، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمائش اور ہر معاملہ میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے۔ اسلام و ایمان کے عربی نام نے بظاہر دونوں گروہوں کو ایک اُمت بنا رکھا ہے، مگر فی الواقع منافق مسلمانوں کا اخلاقی مزاج اور رنگِ طبیعت کچھ اور ہے اور صادق الایمان مسلمانوں کا کچھ اور۔ اسی وجہ سے منافقانہ خصائل رکھنے والے مرد و زن ایک الگ جتھا بن گئے ہیں جن کو خدا سے غفلت، برائی سے دلچسپی، نیکی سے بُعد اور خیر سے عدم تعاون کی مشترک خصوصیات نے ایک دوسرے سے وابستہ اور اہلِ ایمان سے عملاً بے تعلق کر دیا ہے۔ اور دوسری جانب سچے مومن مرد و زن ایک دوسرا گروہ بن گئے ہیں جس کے سارے افراد میں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ نیکی سے وہ دلچسپی رکھتے ہیں، بدی سے نفرت کرتے ہیں، خدا کی یاد ان کے لیے غذا کی طرح زندگی کی ناگزیر ضروریات میں شامل ہے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے ان کے دل اور ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، اور خدا اور رسول کی اطاعت ان کی زندگی کا وتیرہ ہے۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ اور منافقین کے گروہ سے توڑ دیا ہے۔
ترجمہ
اے نبیؐ ۸۱، کفّار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ،۸۲ آخرِ کار ان کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بد ترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ ۸۳ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ ۸۴ یہ ان کا سارا غصّہ اسی بات پر ہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ۸۵ ہے ! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آ جائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو اِن کا حمایتی اور مددگار ہو۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کر دیا تو وہ بُخل پر اُتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ اُنہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ ۸۶نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی، اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔کیا یہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے ؟ (وہ خوب جانتا ہے اُن کنجوس دولت مندوں کو) جو برضا و رغبت دینے والے اہلِ ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں جن کے پاس (راہِ خدا میں دینے کے لیے ) اُس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں۔اللہ ۸۷ اِن مذاق اُڑانے والوں کا مذاق اُڑاتا ہے اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔ اے نبی ؐ، خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو، اگر تم ستّر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہر گز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ کُفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ ؏ ١۰
تفسیر
۸۱-یہاں سے وہ تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جو غزوۂ تبوک کے بعد نازل ہوئی تھی۔
۸۲-اس وقت تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہو رہا تھا، اور اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جو لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کے لیے کافی موقع دینا مقصود تھا۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں رہے تھے۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اس لیے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہو گیا تھا، تا کہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر کے ملک میں کوئی اندرونی خطرہ نہ کھڑا کر سکیں۔ پھر ان لوگوں کو پورے ۹ سال تک سوچنے، سمجھنے اور دین حق کو پرکھنے کا موقع بھی دیا جا چکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس لیے حکم ہوا کہ کفار کے ساتھ ساتھ اب اِن منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا رہا ہے، اسے ختم کر کے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جائے۔
منافقین کے خلا ف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے، اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے، اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا، اس کو آئندہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے اور جس کے طرزِ عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسول اور اہلِ ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل میں بھی اس کے لیے احترام کا کوئی گوشہ نہیں۔ پھر اگر اُن میں سے کوئی شخص کسی صریح غداری کا مرتکب ہو تو اس کے جرم پر پردہ نہ ڈالا جائے، نہ اسے معاف کیا جائے، بلکہ علیٰ رؤس الاَشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔
یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو اس مرحلہ پر مسلمانوں کو دی جانی ضروری تھی۔ اس کے بغیر اسلامی سوسائٹی کو تنزل و انحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستینوں میں بٹھائے جاتے ہوں، اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نفاق کا حال طاعون کا سا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لیے پھرتا ہے۔ اس کو آبادی میں آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرے میں ڈالنا ہے۔ ایک منافق کو مسلمانوں کی سوسائٹی میں عزت و احترام کا مرتبہ حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمی غداری و منافقت پر دلیر ہو جائیں اور یہ خیال عام ہو جائے کہ اس سوسائٹی میں عزت پانے لیے اخلاص، خیر خواہی اور صداقت ایمانی کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ جھوٹے اظہارِ ایمان کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کا رویہ اختیار کر کے بھی یہاں آدمی پھل پھول سکتا ہے۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مختصر سے حکیمانہ فقرے میں بیان فرمایا ہے کہ من و قر صاحب بد عۃ فقد اعان علیٰ ھدم الاسلام۔ ’’جس شخص نے کسی صاحبِ بدعت کی تعظیم و توقیر کی وہ دراصل اسلام کی عمار ت ڈھانے میں مدد گار ہوا‘‘۔
۸۳-وہ بات کیا تھی جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق کوئی یقینی معلومات ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔ البتہ روایات میں متعدد ایسی کافرانہ باتوں کا ذکر آیا ہے جو اس زمانہ میں منافقین نے کی تھیں۔ مثلاً ایک منافق کے متعلق مروی ہے کہ اس نے اپنے عزیزوں میں سے ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر واقعی وہ سب کچھ برحق ہے جو یہ شخص (یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم) پیش کر تا ہے تو ہم سب گدھوں سے بھی بدتر ہیں‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی گم ہو گئی۔ مسلمان اس کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور آپس میں کہا کہ ’’یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں، مگر ان کو اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے ‘‘۔
۸۴-یہ اشارہ ہے اُن سازشوں کی طرف جو منافقوں نے غزوۂ تبوک کے سلسلے میں کی تھیں۔ ان میں سے پہلی سازش کا واقعہ محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر جب مسلمانوں کا لشکر ایک ایسے مقام کے قریب پہنچا جہاں سے پہاڑوں کے درمیان راستہ گزرنا تھا تو بعض منافقین نے آپس میں طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کھڈ میں پھینک دیں گے۔ حضور کو اس کی اطلاع ہو گئی۔ آپ نے تمام اہلِ لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں، اور آپ خود صرف عمّار بن یاسرؓ اور حُذَیفَہ بن یمانؓ کو لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے۔ اثنائے راہ میں یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ منافق ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت حذیفہؓ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں۔ مگر وہ دُور ہی سے حضرت حذیفہؓ کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں ہم پہچان نہ لیے جائیں فوراً بھاگ نکلے۔
دوسری سازش جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے، یہ ہے کہ منافقین کو رومیوں کے مقابلہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے وفادار ساتھیوں کے بخیریت بچ کر واپس آ جانے کی توقع نہ تھی، اس لیے انہوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ جونہی اُدھر کوئی سانحہ پیش آئے اِدھر مدینہ میں عبد اللہ بن اُبَیّ کے سر پر تاجِ شاہی رکھ دیا جائے۔
۸۵-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا اور اَوس و خَزرَج کے قبیلے مال اور جاہ کے لحاظ سے کوئی اونچا درجہ نہ رکھتے تھے۔ مگر جب حضور وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر اندر یہی متوسط درجہ کا قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا۔ وہی اوس و خزرج کے کاشتکار سلطنت کے اعیان و اکابر بن گئے اور ہر طرف سے فتوحات، غنائم اور تجارت کی برکات اس مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ اسی پر انہیں شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں!
۸۶-اوپر کی آیت میں ان منافقین کی جس کافر نعمتی و محسن کُشی پر ملامت کی گئی تھی اس کا ایک اور ثبوت خود انہی کی زندگیوں سے پیش کر کے یہاں واضح کیا گیا ہے کہ دراصل یہ لوگ عادی مجرم ہیں، ان کے ضابطۂ اخلاقی میں شکر، اعترافِ نعمت، اور پاس عہد جیسی خوبیوں کا کہیں نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔
۸۷-غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ روکے بیٹھے رہے۔ مگر جب مخلص اہلِ ایمان بڑھ بڑھ کر چندے دینے لگے تو ان لوگوں نے اُن پر باتیں چھانٹنی شروع کیں۔ کوئی ذی استطاعت مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر کوئی بڑی رقم پیش کرتا تو یہ اس پر ریاکاری کا الزام لگاتے، اور اگر کوئی غریب مسلمان اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی سے رقم حاضر کرتا، یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کر دیتا، تو یہ اس پر آوازے کستے کہ لو، یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آ گئی ہے تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کیے جائیں۔
ترجمہ
جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہُوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ’’ اس سخت گرمی میں نہ نکلو۔‘‘ ان سے کہو کہ جہنّم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انہیں اس پر رونا چاہیے )۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ ’’اب تم میرے ساتھ ہر گز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیّت میں کسی دشمن سے لڑ سکتے ہو، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی گھر بیٹھے رہو۔‘‘ اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہر گز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے ساتھ کُفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ۸۸ ان کی مالداری اور ان کی کثرتِ اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اِس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔جب کبھی کوئی سُورۃ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں۔ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔۸۹بخلاف اس کے رسولؐ نے اور ان لوگوں نے جو رسول ؐ کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے عظیم الشان کامیابی۔ ؏ ١١
تفسیر
۸۸-تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین مر گیا۔ اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ جو مخلص مسلمانوں میں سے تھے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لیے آپ کا کُرتا مانگا۔ آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عطا کر دیا۔ پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ آپ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ حضرت عمر ؓ نے باصرار عرض کیا کہ یا رسول ؐ اللہ، کیا آپ اس شخص پر نماز جنازہ پڑھیں گے جو یہ اور یہ کر چکا ہے۔ مگر حضورؐ ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے اور اپنی اُس رحمت کی بنا پر جو دوست دشمن سب کے لیے عام تھی، آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں بھی دعائے مغفرت کرنے میں تامل نہ کیا۔ آخر جب آپ نماز پڑھانے کھڑے ہی ہو گئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور براہِ راست حکم خداوندی سے آپ کو روک دیا گیا۔ کیونکہ اب یہ مستقل پالیسی مقرر کی جا چکی تھی کہ مسلمانوں کی جماعت میں منافقین کو کسی طرح پنپنے نہ دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اس گروہ کی ہمت افزائی ہو۔
اسی سے یہ مسئلہ نکلا کہ فساق اور فجار اور مشہور بفسق لوگوں کی نماز جنازہ مسلمانوں کے امام اور سر بر آوردہ لوگوں کو نہ پڑھانی چاہیے نہ پڑھنی چاہیے۔ ان آیات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہ ہو گیا تھا کہ جب آپ کو کسی جنازے پر تشریف لانے کے لیے کہا جاتا تو آپ پہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے تھے کہ کس قسم کا آدمی تھا، اور اگر معلوم ہوتا کہ بُرے چلن کا آدمی تھا تو آپ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اسے دفن کر دو۔
۸۹-یعنی اگرچہ یہ بری شرم کے قابل بات ہے کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے، تندرست، صاحب مقدرت لوگ، ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کام کا وقت آنے پر میدان میں نکلنے کے بجائے گھروں میں گھس بیٹھیں اور عورتوں میں جا شامل ہوں، لیکن چونکہ ان لوگوں نے خود جان بوجھ کر اپنے لیے یہی رویہ پسند کیا تھا اس لیے قانونِ فطرت کے مطابق ان سے وہ پاکیزہ احساسات چھین لیے گئے جن کی بدولت آدمی ایسے ذلیل اطوار اختیار کرنے میں شرم محسوس کیا کرتا ہے۔
ترجمہ
بدوی عربوں ۹۰ میں سے بھی بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی جائے۔ اِس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں سے جن جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے ۹۱ عنقریب وہ درد ناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلُوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے وفادار ہوں۔۹۲ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس آ گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسُو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔ ۹۳البتہ اعتراض ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں اور پھر بھی تم سے درخواستیں کرتے ہیں کہ انہیں شرکتِ جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا، اس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے )۔ تم جب پلٹ کر ان کے پاس پہنچو گے تو یہ طرح طرح کے عذرات پیش کریں گے، مگر تم صرف کہہ دینا کہ ’’ بہانے نہ کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔ اللہ نے ہم کو تمہارے حالات بتا دیے ہیں۔ اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھے گا۔ پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھُپے سب کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔‘‘ تمہاری واپسی پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صَرفِ نظر کرو۔ تو بے شک تم اِن سے صَرفِ نظر ہی کر لو،۹۴ کیونکہ یہ گندگی ہیں اور ان کا اصلی مقام جہنّم ہے جو ان کی کمائی کے بدلے میں انہیں نصیب ہو گی۔یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہر گز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو گا۔یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔ ۹۵ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ ان میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہِ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبر دستی کی چٹّی سمجھتے ہیں ۹۶ اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کر رہے ہیں ( کہ تم کسی چکر میں پھنسو تو وہ اپنی گردن سے اس نظام کی اطاعت کا قلادہ اُتار پھینکیں جس میں تم نے انہیں کَس دیا ہے )۔ حالانکہ بدی کا چکر خود انہی پر مسلّط ہے اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے ہاں تقرّب کا اور رسول ؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہاں ! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقیناً اللہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏ ١۲
تفسیر
۹۰-بدوی عربوں سے مراد مدینہ کے اطراف میں رہنے والے دیہاتی اور صحرائی عرب ہیں جنہیں عام طور پر بدو کہا جاتا ہے۔
۹۱-منافقانہ اظہار ایمان، جس کی تہ میں فی الواقع تصدیق، تسلیم، اخلاص اور اطاعت نہ ہو، اور جس کے ظاہری اقرار کے باوجود انسان خدا اور اس کے دین کی بہ نسبت اپنے مفاد اور اپنی دنیوی دلچسپیوں کو عزیز رکھتا ہو، اصل حقیقت کے اعتبار سے کفر و انکار ہی ہے۔ خدا کے ہاں ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ ہو گا جو منکروں اور باغیوں کے ساتھ ہو گا، چاہے دنیا میں اس قسم کے لوگ کافر نہ ٹھیرائے جا سکتے ہوں اور ان کے ساتھ مسلمانوں ہی کا سا معاملہ ہوتا رہے۔ اس دنیوی زندگی میں جس قانون پر مسلم سوسائٹی کا نظام قائم کیا گیا ہے اور جس ضابطہ کی بنا پر اسلامی حکومت اور اس کے قاضی احکام کی تنقید کرتے ہیں، اس کے لحاظ سے تو منافقت پر کفر یا اشتباہِ کفر کا حکم صرف انہی صورتوں میں لگایا جا سکتا ہے جبکہ انکار و بغاوت یا غداری و بے وفائی کا اظہار صریح طور پر ہو جائے۔ اس لیے منافقت کی بہت سی صورتیں اور حالتیں ایسی رہ جاتی ہیں جو قضائے شرعی میں کفر کے حکم سے بچ جاتی ہیں۔ لیکن قضائے شرعی میں کسی منافق کا حکمِ کفر سے بچ نکلنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ قضائے خداوندی میں بھی وہ اس حکم اور اس کی سزا سے بچ نکلے گا۔
۹۲- ’’اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بظاہر معذور ہوں ان کے لیے بھی مجرد ضعیفی و بیماری یا محض ناداری کافی وجہ معافی نہیں ہے بلکہ ان کی مجبوریاں صرف اُس صورت میں ان کے لیے وجہ معافی ہو سکتی ہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفادار ہوں۔ ورنہ اگر وفاداری موجود نہ ہو تو کوئی شخص صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ادائے فرض کے موقع پر بیمار یا نادار تھا۔ خدا صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے کہ ایسے سب لوگ جو بیماری کا طبی صداقت نامہ یا بڑھاپے اور جسمانی نقص کا عذر پیش کر دیں، اُس کے ہاں یکساں معذور قرار دے دیے جائیں اور ان پر سے باز پرس ساقط ہو جائے۔ وہ تو ان میں سے ایک ایک شخص کے دل کا جائزہ لے گا، اور کے پورے مخفی و بظاہر برتاؤ کو دیکھے گا، اور یہ جانچے گا کہ اس کی معذوری ایک وفادار بندے کی سی معذرت تھی یا ایک غدار اور باغی کی سی۔ ایک شخص ہے کہ جب اُ س نے فرض کی پکار سُنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ’’بڑے اچھے موقعے پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خواہ مخواہ مصیبت بھگتنی پڑتی‘‘۔ دوسرے شخص نے یہی پُکار سُنی تو تِلمِلا اُٹھا کہ ’’ہائے، کیسے موقع پر اس کم بخت بیماری نے آن دبوچا، جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا وہ کس بُری طرح یہاں بستر پر ضائع ہو رہا ہے ‘‘۔ ایک نے اپنے لیے تو خدمت سے بچنے کا بہانہ پایا ہی تھا مگر اس کے ساتھ اس نے دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی۔ دوسرا اگرچہ خود بسترِ علالت پر مجبور پڑا ہوا تھا مگر وہ برابر اپنے عزیزوں، دوستوں اور بھائیوں کو جہاد کا جوش دلا تا رہا اور اپنے تیمار داروں سے بھی کہتا رہا کہ ’’ میرا اللہ مالک ہے، دوا دارو کا انتظام کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا، مجھ اکیلے انسان کے لیے تم قیمتی وقت کو ضائع نہ رکو جسے دین حق کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے ‘‘۔ ایک نے بیماری کے عذر سے گھر بیٹھ کر سارا زمانۂ جنگ بد دلی پھیلانے، بری خبریں اڑانے، جنگی مساعی کو خراب کرنے اور مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر بگاڑنے میں صرف کیا۔ دوسرے نے یہ دیکھ کر کہ میدان میں جانے کے شرف سے وہ محروم رہ گیا ہے، اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ گھر کے محاذ (Home-front) کو مضبوط رکھنے میں جو زیادہ سے زیادہ خدمت اس سے بن آئے اسے انجام دے۔ ظاہر کے اعتبار سے تو یہ دونوں ہی معذور ہیں۔ مگر خدا کی نگاہ میں یہ دو مختلف قسم کے معذور کسی طرح یکساں نہیں ہو سکتے۔ خدا کے ہاں معافی اگر ہے تو صرف دوسرے شخص کے لیے۔ رہا پہلا شخص تو وہ اپنی معذوری کے باوجود غداری و نا وفاداری کا مجرم ہے۔
۹۳-ایسے لوگ جو خدمت دین کے لیے بے تاب ہوں، اور اگر کسی حقیقی مجبوری کے سبب سے یا ذرائع نہ پانے کی وجہ سے عملاً خدمت نہ کر سکیں تو ان کے دل کو اتنا سخت صدمہ ہو جتنا کسی دنیا پرست کو روزگار چھوٹ جانے یا کسی بڑے نفع کے موقع سے محروم رہ جانے کا ہوا کرتا ہے، ان کا شمار خدا کے ہاں خدمت انجام دینے والوں ہی میں ہو گا اگر چہ انہوں نے عملاً کوئی خدمت انجام نہ دی ہو۔ اس لیے کہ وہ چاہے ہاتھ پاؤں سے کام نہ کر سکے ہوں، لیکن دل سے تو وہ برسر خدمت ہی رہے ہیں۔ یہی بات ہے جو غزوۂ تبوک سے واپسی پر اثنائے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رفقا کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ ان بالمدینۃ اقوامًا ما سرتم مسیرا ولا قطعتم وادیا الا کانو ا معکم۔ ’’ مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی اور کوئی کوچ نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ رہے ہوں‘‘۔ صحابہؓ نے تعجب سے کہا ’’ کیا مدینہ ہی میں رہتے ہوئے ؟‘‘ فرمایا ’’ہاں، مدینے ہی میں رہتے ہوئے۔ کیونکہ مجبوری نے انہیں روک لیا تھا ورنہ وہ خود رکنے والے نہ تھے ‘‘۔
۹۴-پہلے فقرے میں صَرفِ نظر سے مراد درگزر ہے اور دوسرے فقرے میں قطع تعلق۔ یعنی وہ تو چاہتے ہیں کہ تم ان سے تعرض نہ کرو، مگر بہتر یہ ہے کہ تم ان سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھو اور سمجھ لو کہ تم ان سے کٹ گئے اور وہ تم سے۔
۹۵-جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی و صحرائی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اُٹھتے دیکھ کر پہلے تو مرعوب ہوئے۔ پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدت تک موقع شناسی و ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز و نجد کے ایک بڑے حصّے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحتِ وقت اسی میں دیکھی کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اِس دین کو دینِ حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں۔ بیشتر بدویوں کے لیے قبولِ اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے حصہ میں صرف وہ فوائد آ جائیں جو برسر اقتدار جماعت کی رکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں۔ مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام ان پر عائد کرتا تھا، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی ان پر لگ جاتی تھیں، وہ زکوٰۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعہ سے ان کے نخلستانوں اور ان کے گلّوں سے وصول کی جاتی تھی، وہ ضبط و نظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے، وہ جان و مال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہِ خدا کے جہاد میں آئے دن ان سے طلب کی جا رہی تھیں، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور ان کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے۔ انہیں جو کچھ بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد، اپنی آسائش، اپنی زمینوں، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دنیا سے تھی۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اُس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سے رکھی جاتی ہے کہ یہ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسی ہی دوسری اغراض کے لیے ان کو تعویذ گنڈے دیں اور ان کے لیے دعائیں کریں۔ لیکن ایسے ایمان و اعتقاد کے لیے وہ تیار نہ تھے جو ان کی پوری تمدنی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لیے اُن سے جان و مال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے۔
ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہریوں کی بہ نسبت یہ دیہاتی و صحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے تھے اور حق سے انکار کی کیفیت ان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے کہ شہری لوگ تو اہلِ علم اور اہلِ حق کی صحبت سے مستفید ہو کر کچھ دین کو اور اس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب و روز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے دین اور اس کے حدود سے ان کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا غیر موزوں نہ ہو گا کہ ان آیات کے نزول سے تقریباً دو سال بعد حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوٰۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔
۹۶-مطلب یہ ہے کہ جو زکوٰۃ ان سے وصول کی جاتی ہے اسے یہ ایک جرمانہ سمجھتے ہیں۔ مسافروں کی ضیافت و مہمانداری کا جو حق ان پر عائد کیا گیا ہے وہ اُن کی بُری طرح کھَلتا ہے۔ اور اگر کسی جنگ کے موقع پر یہ کوئی چندہ دیتے ہیں تو اپنے دلی جذبہ سے رضائے الٰہی کی خاطر نہیں دینے بلکہ با دلِ ناخواستہ اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے دیتے ہیں۔
ترجمہ
وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیّا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ تمہارے گر دو پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں۔ تم انہیں نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں۔۹۷ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، ۹۸ پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ کچھ اور لوگ ہیں جنہیں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اے نبی ؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دُعا ان کے لیے وجہ تسکین ہو گی، اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ کیا اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے ؟اور اے نبی ؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِ عمل اب کیا رہتا ہے۔ ۹۹ پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔۱۰۰کچھ دُوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھہرا ہوا ہے، چاہے اُنہیں سزا دے اور چاہے اُن پر از سرِ نو مہربان ہو جائے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ ۱۰۱کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ (دعوتِ حق کو) نقصان پہنچائیں، اور (خدا کی بندگی کرنے کے بجائے ) کُفر کریں، اور اہلِ ایمان میں پھُوٹ ڈالیں، اور (اس بظاہر عبادت گاہ کو) اُس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اُس کے رسول ؐ کے خلاف بر سرِ پیکار ہو چکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا دوسری چیز کا نہ تھا۔ مگر اللہ گواہ ہے وہ قطعی جھوٹے ہیں۔تم ہر گز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے ) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔۱۰۲پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر ۱۰۳ پر اُٹھائی اور وہ اُسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔۱۰۴یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی( جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہو جائیں۔۱۰۵ اللہ نہایت با خبر اور حکیم و دانا ہے۔ ؏ ١۳
تفسیر
۹۷-یعنی اپنے نفاق کو چھپانے میں وہ اتنے مشاق ہو گئے ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی کمال درجے کی فراست کے باوجود ان کو نہیں پہنچا ن سکتے تھے۔
۹۸-دوہری سزا سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ دنیا جس کی محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے ایمان و اخلاص کے بجائے منافقت اور غداری کا رویہ اختیار کیا ہے، ان کے ہاتھ سے جائے گی اور یہ مال و جاہ اور عزت حاصل کرنے کے بجائے اُلٹی ذلت و نامرادی پائیں گے۔ دوسری طرف جس مشن کو یہ ناکام دیکھنا اور اپنی چال بازیوں سے ناکام کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی خواہشوں اور کوششوں کے علی الرغم ان کی آنکھوں کے سامنے فروغ پائے گا۔
۹۹-یہاں جھوٹے مدعی ایمان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے۔ جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور جماعت مومنین کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرزِ عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے گا۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے تو اسے رد کر دیا جائے گا۔ مر جائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہو اور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرزِ عمل سرزد ہو جائے وہ اگر اپنے قصور کا اعتراف کر لے تو اس کو معاف بھی کیا جائے گا، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرزِ عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہ گار مومن سمجھا جائے گا، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے :
(۱) وہ اپنے قصور کے لیے عذرات لنگ اور تاویلات و توجیہات پیش نہیں کرے گا، بلکہ جو قصور ہوا ہے اسے سیدھی طرح صاف صاف مان لے گا۔
(۲) اس کے سابق طرزِ عمل پر نگاہ ڈال کر دیکھا جائے گا کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے۔ اگر پہلے وہ جماعت کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامۂ زندگی میں مخلصانہ خدمات، ایثار و قربانی، اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود ہے تو باور کر لیا جائے گا کہ اِس وقت جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ ایمان و اخلاص کے عدم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہو گئی ہے۔
(۳) اس کے آئندہ طرزِ عمل پر نگاہ رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعترافِ قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع اس کے اندر کوئی گہرا احساسِ ندامت موجود ہے۔ اگر وہ اپنے قصور کی تلافی کے لیے بے تاب نظر آئے اور اس کی بات بات سے ظاہر ہو کہ جس نقص ایمانی کا نقش اس کی زندگی میں ابھر آیا تھا اسے مٹانے اور اس کا تدارک کرنے کی وہ سخت کوشش کر رہا ہے، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقت میں نادم ہے اور یہ ندامت ہی اس کے ایمان و اخلاص کی دلیل ہو گی۔
محدثین نے ان آیات کی شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ مضمون آئینہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ابو لُبابہ بن عبد المنذِر اور ان کے چھ ساتھیوں کے معاملہ میں نازل ہوئی تھیں۔ ابو لُبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعتِ عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے۔ پھر جنگ بدر، جنگ اُحُد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے۔ مگر غزوۂ تبوک کے موقع پر نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور یہ کسی عذر شرعی کے بغیر بیٹھے رہ گئے۔ ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے اور ان سے بھی یہ کمزوری سرزد ہو گئی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق اللہ اور رسول کی کیا رائے ہے تو انہیں سخت ندامت ہوئی۔ قبل اس کے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے جب تک ہم معاف نہ کر دیے جائیں، یا پھر ہم مر جائیں۔ چنانچہ کئی روز وہ اسی طرح بے آپ و دانہ اور بے خواب بندھے رہے حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ آخر کار جب انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور رسول نے تمہیں معاف کر دیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ہماری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جس گھر کی آسائش نے ہمیں فرض سے غافل کیا اسے اور اپنے تمام مال کو خدا کی راہ میں دے دیں گے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سارا مال دینے کی ضرورت نہیں، صرف ایک تہائی کافی ہے، چنانچہ وہ انہوں نے اسی وقت فی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ اس قصہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جا تا ہے کہ خدا کے ہاں معافی کس قسم کی کمزوریوں کے لیے ہے۔ یہ سب حضرات عادی غیر مخلص نہ تھے بلکہ ان کا پچھلا کارنامۂ زندگی ان کے اخلاص ایمانی پر دلیل تھا۔ ان میں سے کسی نے عذرات نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور کو خود ہی قصور مان لیا۔ انہوں نے اعترافِ قصور کے ساتھ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی نہایت نادم اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لیے سخت بے چین ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک اور مفید نکتے پر بھی نگاہ رہنی چاہیے جو ان آیات میں ارشاد ہوا ہے۔ وہ یہ کہ گناہوں کی تلافی کے لیے زبان اور قلبِ کی تو بہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ہونی چاہیے، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پا رہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوا تھا، دور ہو جاتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا تھا، اپنے گرنے کو خود محسوس کر لے۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت بری جائے قرار سمجھتا ہے اور اپنی اسی حالت سے سخت تکلیف میں ہے۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہے۔
۱۰۰-مطلب یہ ہے کہ آخر کار معاملہ اُس خدا کے ساتھ ہے جس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ اس لیے بالفرض اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہو جائے اور انسان جن جن معیاروں پر کسی کے ایمان و اخلاص کو پرکھ سکتے ہیں ان سب پر بھی پورا اتر جائے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا پانے سے بچ نکلا ہے۔
۱۰۱-یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہ گار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرزِ عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں۔
۱۰۲-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینے تشریف لے جانے سے پہلے قبیلۂ خزرج میں ایک شخص ابو عامر نامی تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی راہب بن گیا تھا۔ اس کا شمار علماء اہل کتاب میں ہوتا تھا اور رہبانیت کی وجہ سے اس کے علمی وقار کے ساتھ ساتھ اس کی درویشی کا سکہ بھی مدینے اور اطراف کے جاہل عربوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینے پہنچے تو اس کی مسیحیت وہاں خوب چل رہی تھی۔ مگر یہ علم اور یہ درویشی اس کے اندر حق شناسی اور حق جوئی پیدا کرنے کے بجائے الٹی اس کے لئے ایک زبردست حجاب بن گئی اور اس حجاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد وہ نعمت ایمان ہی سے محروم نہ رہا بلکہ آپ کو اپنی مشیخت کا حریف اور اپنے کاروبار درویشی کا دشمن سمجھ کر آپ کی اور آپ کے کام کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا۔ پہلے دو سال تک تو اسے یہ امید رہی کہ کفار قریش کی طاقت ہی اسلام کی مٹانے کے لئے کافی ہو گی۔ لیکن جنگ بدر میں جب قریش نے شکست فاش کھائی تو اسے یارائے ضبط نہ رہا۔ اسی سال وہ مدینہ سے نکل کھڑا ہوا اور اس نے قریش اور دوسرے عرب قبائل میں اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کر دی۔ جنگ احد جن لوگوں کی سعی سے برپا ہوئی ان میں یہ بھی شامل تھا اور کہا جاتا ہے کہ احد کے میدان جنگ میں اسی نے وہ گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم گر کر زخمی ہوئے۔ پھر جنگ احزاب میں جو لشکر ہر طرف سے مدینہ پر چڑھ آئے تھے۔ ان کو چڑھا لانے میں بھی اس کا حصہ نمایاں تھا۔ اس کے بعد جنگ حنین تک جتنی لڑائیاں مشرکین عرب اور مسلمانوں کے درمیان ہوئیں ان سب میں یہ عیسائی درویش اسلام کے خلاف شرک کا سرگرم حامی رہا۔ آخر کار اسے اس بات سے مایوسی ہو گئی کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کے سیلاب کو روک سکے گی۔ اس لئے عرب کو چھوڑ کر اس نے روم کا رخ کیا تاکہ قیصر کو اس ’’خطرے ‘‘ سے آگاہ کر ے جو عرب سے سر اٹھا رہا تھا۔ یہ وہی موقع تھا جب مدینے میں یہ اطلاعات پہنچیں کہ قیصر عرب پر چڑھائی کی تیاریاں کر رہا ہے اور اسی کی روک تھام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تبوک کی مہم پر جانا پڑا۔
ابو عامر راہب کی ان تمام سرگرمیوں میں مدینہ کے منافقین کا ایک گروہ اس کے ساتھ شریک سازش تھا اور آخری تجویز میں بھی یہ لوگ اس کے ہمنوا تھے کہ وہ اپنے مذہبی اثر کو استعمال کر کے اسلام کے خلاف قیصر روم اور شمالی عرب کی عیسائی ریاستوں سے فوجی امداد حاصل کرے۔ جب وہ روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس کے اور ان منافقوں کے درمیان یہ قرارداد ہوئی کہ مدینہ میں یہ لوگ اپنی ایک الگ مسجد بنا لیں گے تاکہ عام مسلمانوں سے بچ کر منافق مسلمانوں کی علیٰحدہ جتھا بندی اس طرح کی جا سکے کہ اس پر مذہب کا پردہ پڑا رہے اور آسانی سے اس پر کوئی شبہہ نہ کیا جا سکے، اور وہاں نہ صرف یہ کہ منافقین منظم ہو سکیں اور آئندہ کاروائیوں کے لئے مشورے کر سکیں، بلکہ ابو عامر کے پاس سے جو ایجنٹ خبریں اور ہدایات لے کر آئیں وہ بھی غیر مشتبہ فقیروں اور مسافروں کی حیثیت سے اس مسجد میں ٹھہر سکیں۔ یہ تھی وہ ناپاک سازش جس کے تحت وہ مسجد تیار کی گئی تھی جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔
مدینہ میں اس وقت دو مسجدیں تھیں۔ ایک مسجد قبا جو شہر کے مضافات میں تھی، دوسری مسجد نبوی جو شہر کے اندر تھی۔ ان دو مسجدوں کی موجودگی میں ایک تیسری مسجد بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، اور وہ زمانہ ایسی احمقانہ مذہبیت کا نہ تھا کہ مسجد کے نام سے ایک عمارت بنا دینا بجائے خود کار ثواب ہو قطع نظر اس سے کہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ بلکہ اس کے برعکس ایک نئی مسجد بننے کے معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی جماعت میں خواہ مخواہ تفریق رونما ہو جسے ایک صالح اسلامی نظام کسی طرح گورا نہیں کر سکتا۔ اس لئے یہ مجبور ہوئے کہ اپنی علیٰحدہ مسجد بنانے سے پہلے اس کی ضرورت ثابت کریں۔ چنانچہ انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس تعمیر نو کے لئے یہ ضرورت پیش کی کہ بارش میں اور جاڑے کے راتوں میں عام لوگوں کو اور خصوصاً ضعیفوں اور معذوروں کو، جو اِن دونوں مسجدوں سے دور رہتے ہیں، پانچوں وقت حاضری دینی مشکل ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم محض نمازیوں کی آسانی کے لئے یہ ایک نئی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
ان پاکیزہ ارادوں کی نمائش کے ساتھ جب یہ مسجدِ ضرار بن کر تیار ہوئی تو یہ اشرار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ایک مرتبہ خود نماز پڑھا کر ہماری مسجد کا افتتاح فرما دیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس وقت میں جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں اور ایک بڑی مہم درپیش ہے۔ اس مہم سے واپس آ کر دیکھوں گا۔ اس کے بعد آپ تبوک کی طرف روانہ ہو گئے اور آپ کے پیچھے یہ لوگ اس مسجد میں اپنی جتھا بندی اور سازش کرتے رہے، حتیٰ کے انہوں نے یہاں تک طے کر لیا کہ ادھر رومیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قلع قمع ہو اور ادھر یہ فوراً ہی عبداللہ ابن ابّی کے سر پر تاج رکھ دیں۔ لیکن تبوک میں جو معاملہ پیش آیا اس نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ واپسی پر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ کے قریب ذِی اَدَان کے مقام پر پہنچے تو یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت چند آدمیوں کو مدینہ کی طرف بھیج دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے وہ اس مسجدِ ضرار کو مسمار کر دیں۔
۱۰۳-متن میں لفظ ’’جُرُف‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق عربی زبان میں کسی ندی یا دریا کے اُس کنارے پر ہوتا ہے جس کے نیچے کی مٹی کو پانی نے کاٹ کاٹ کر بہا دیا ہو اور اوپر کا حصہ بے سہارا کھڑا ہو۔ جو لوگ اپنے عمل کی بنیاد خدا سے بے خوفی اور اس کی رضا سے بے نیازی پر رکھتے ہیں ان کی تعمیر حیات کو یہاں اُس عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے ایک کھوکھلے بے ثبات کنارۂ دریا پر اُٹھائی گئی ہو۔ یہ ایک بے نظیر تشبیہ ہے جس سے زیادہ بہتر طریقہ سے اِس صورت حال کی نقشہ کشی نہیں کی جا سکتی۔ اس کی پوری معنویت ذہن نشین کر نے کے لیے یوں سمجھیے کہ دنیوی زندگی کی وہ ظاہری سطح جس پر مومن، منافق، کافر، صالح، فاجر، غرض تمام انسان کام کرتے ہیں، مٹی کی اُس اوپری تہ کے مانند ہے جس پر دنیا میں ساری عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ تہ اپنے اندر خود کوئی پائیدار ی نہیں رکھتی، بلکہ اس کی پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے ٹھوس زمین موجود ہو۔ اگر کوئی تہ ایسی ہو جس کے نیچے کی زمین کسی چیز، مثلاً دریا کے پانی سے کٹ چکی ہو تو جو ناواقف انسان اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر اس پر اپنا مکان بنائے گا اسے وہ اس کے مکان سمیت لے بیٹھے گی اور وہ نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ اس نا پائیدار بنیاد پر اعتماد کر کے اپنا جو کچھ سرمایۂ زندگی وہ اس عمار ت میں جمع کرے گا وہ بھی برباد ہو جائے گا۔ بالکل اسی مثال کے مطابق حیاتِ دنیا کی وہ ظاہری سطح بھی جس پر ہم سب اپنے کارنامۂ زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں، بجائے خود کوئی ثبات و قرار نہیں رکھتی بلکہ اس کی مضبوطی و پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے خدا کے خوف، اُس کے حضور جوابدہی کے احساس اور اُس کی مرضی کے اتباع کی ٹھوس چٹان موجود ہو۔ جو نادان آدمی محض حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر لیتا ہے اور دنیا میں خدا سے بے خوف اور اس کی رضا سے بے پروا ہو کر کام کرتا ہے وہ دراصل خود اپنی تعمیر زندگی کے نیچے سے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بے بنیاد سطح، جس پر اس نے اپنی عمر بھر کا سرمایۂ عمل جمع کیا ہے ایک دن یکایک گر جائے اور اسے اس کے پورے سرمایے سمیت لے بیٹھے۔
۱۰۴- ’’سیدھی راہ‘‘ یعنی وہ راہ جس سے انسان با مراد ہوتا اور حقیقی کامیابی کی منزل پر پہنچتا ہے۔
۱۰۵-یعنی ان لوگوں کو منافقانہ مکر و دغا کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر کے اپنے دلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایمان کی صلاحیت سے محروم کر لیا ہے اور بے ایمانی کا روگ اس طرح ان کے دلوں کے ریشے ریشے میں پیوست ہو گیا ہے کہ جب تک ان کے دل باقی ہیں یہ روگ بھی ان میں موجود رہے گا۔ خدا سے کفر کرنے لیے جو شخص علانیہ بت خانہ بنائے، یا اس کے دین سے لڑنے کے لیے کھلم کھلا مورچے اور دمدمے تیار کرے، اس کی ہدایت تو کسی نہ کسی وقت ممکن ہے، کیونکہ اس کے اندر راستبازی، اخلاص اور اخلاقی جرأت کا وہ جوہر تو بنیادی طور پر محفوظ رہتا ہے جو حق پرستی کے لیے بھی اسی طرح کام آسکتا ہے جس طرح باطل پرستی کے کام آتا ہے۔ لیکن جو بزدل جھوٹا اور مکار انسان کفر کے لیے مسجد بنائے اور خدا کے دین سے لڑنے کے لیے خدا پرستی کا پر فریب لبادہ اوڑھے، اس کی سیرت کو تو نفاق کی دیمک کھا چکی ہوتی ہے۔ اس میں یہ طاقت ہی کہاں باقی رہ سکتی ہے کہ مخلصانہ ایمان کا بوجھ سہار سکے۔
ترجمہ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔۱۰۶ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ اُن سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔۱۰۷ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اُس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے ۱۰۸، اُس کی بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گُن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے ۱۰۹، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدُود کی حفاظت کرنے والے ۱۱۰ ( اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبی ؐ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات کھُل چکی ہے کہ وہ جہنّم کے مستحق ہیں۔۱۱۱ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس کے وعدے کی وجہ سے تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کیا تھا ۱۱۲ ، مگر جب اُس پر یہ بات کھُل گئی کہ اُس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بُرد بار آدمی تھا۔۱۱۳اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ اُنہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ ۱۱۴ در حقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ ہی کے قبضے میں آسمان و زمین کی سلطنت ہے، اسی کے اختیار میں زندگی و موت ہے، اور تمہارا کوئی حامی و مددگار ایسا نہیں ہے جو تمہیں اُس سے بچا سکے۔ اللہ نے معاف کر دیا نبی کو اور اُن مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی ؐ کا ساتھ دیا۔۱۱۵ اگرچہ اُن میں سے کچھ لوگوں کے دل کَجی کی طرف مائل ہو چلے تھے، ۱۱۶ (مگر جب اُنہوں نے اُس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی ؐ کا ساتھ ہی دیا تو ) اللہ نے اُنہیں معاف کر دیا ۱۱۷، بے شک اُس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ اور اُن تینوں کو بھی اُس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا ۱۱۸۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود اُن پر تنگ ہو گئی اور اُن کی اپنی جانیں بھی اُن پر بار ہو نے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے، تو اللہ اپنی مہربانی سے اُن کی طرف پلٹا تاکہ وہ اُس کی طرف پلٹ آئیں، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ۱۱۹ ؏ ١۴
تفسیر
۱۰۶-یہاں ایمان کے اُس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں خدا کی طرف سے اِس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔
جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہی اُس کا اور اُن ساری چیزوں کا خالق ہے جو اُس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید و فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اُسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیۃً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادہ میں آزاد ہونا (Free -will and freedom of choice) اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہو جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کر دے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور اُن اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں، مالک ہو گیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں جو جس طرح چاہے استعمال کرے۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خد ا کے حقوقِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنے حدودِ اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے۔ بلکہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تُو برضا و رغبت (نہ کہ بمجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھرا س میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا۔ اس طرح اگر تُو دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو (جو تیری حاصل کر دہ نہیں بلکہ میری عطا کر دہ ہے ) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادار کروں گا۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کر لے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے۔ اور جو شخص اس سے انکار کر دے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔
بیع کی اِس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضمُّنات کا تجزیہ کیجیے :
(۱) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اُس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو جائے۔
(۲) دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضیِ شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت کہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اُس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیۃً دست بردار ہو جائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا، اپنے دل و ماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے، مگر خدا کے ہاں یقیناً قیے سے پہلے پہلے وہ اس مسجد ضِر وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا کیونکہ اس نے خدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اُس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرزِ عمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔
(۳) ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الّا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ خد ا کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع کو بھول کر کوئی خود مختارانہ حرکت کر بیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ اہلِ ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب، کوئی طریقِ معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویّہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کر سکتا۔ اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہو گا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویہ کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں، بہر حال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’’غیر مسلم‘‘ کے نام سے۔
(۴) اس بیع کی روسے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرا لینا اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدہ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا رویہ زندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔
یہ اس بیع کے تضمنات ہیں، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملہ میں قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمہ پر کیوں موخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اِس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا‘‘۔ بلکہ وہ اِس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے ‘‘۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہو گی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدۂ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحہ تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
اِن امور کی توضیح کے ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے۔ اوپر سے جو سلسلۂ تقریر چل رہا تھا اُس میں اُن لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا۔ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر، بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے، اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت، اپنے مال، اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا۔ لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویّہ پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایمان، جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے، محض یہ مان لینے کا نام نہیں ہے کہ خدا ہے اور وہ ایک ہے، بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے کہ خدا ہی تمہارے نفس اور تمہارے مال کا مالک ہے، پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اِس نفس و مال کو خدا کے حکم پر قربان کر نے سے جی چراتے ہو، اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو خدا کے منشا کے خلاف استعمال کرتے ہو، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو۔ سچے اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انہیں بے دریغ قربان کرتے ہیں، اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنیٰ سا جز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
۱۰۷-اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ توراۃ اور انجیل میں موجود نہیں ہے۔ مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیا د ہیں۔ جو اناجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں، مثلاً:
’’مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں، کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہی کی ہے ‘‘ (متی ۱۰:۵)
’’جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا‘‘ (متی ۳۹:۱۰)
’’جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو گا‘‘ (متی ۲۹:۱۹)
البتہ توراۃ جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا، اور یہی مضمون کیا، وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جز و لاینفک رہا ہے۔ لیکن موجودہ توراۃ میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ واقعی توراۃ اس سے خالی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانۂ تنزل میں کچھ ایسے مادّہ پرست اور دنیا کی خوشحالی کے بھوکے ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو۔ اسی لیے کتاب الٰہی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے۔ مثال کے طور پر توراۃ میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے :
’’ سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر‘‘ (استثناء ۶ : ۴ : ۵ )
اور یہ کہ:
’’کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے ؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا‘‘ (استثنا ء ۳۲ : ۶)
لیکن اس تعلق باللہ کی جو جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اُس ملک کے مالک ہو جاؤ گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے، یعنی فلسطین۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو وہ پوری نہیں ہے، اور پھر وہ خالص کلامِ الٰہی پر بھی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے اندر یہودیوں کی قومی روایات، اُن کے نسلی تعصبات، ان کے اوہام، ان کی آرزوؤں اور تمناؤں، ان کی غلط فہمیوں، اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلہ عبارت میں کلامِ الٰہی کے ساتھ کچھ اس طرح رَل مِل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو اِن زوائد سے ممیز کرنا قطعاً غیر ممکن ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ آلِ عمران، حاشیہ نمبر۲)۔
۱۰۸-متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ’’توبہ کرنے والے ‘‘ ہے۔ لیکن جس اندازِ کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہلِ ایمان کی مستقل صفات میں سے ہے، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں، لہٰذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ’’ وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں‘‘۔ مومن اگر چہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اُس کا اپنا ہے، اور یہ بات کہ اِس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتھ اپنے معاملۂ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خود مختارانہ طرزِ عمل اختیار کر بیٹھتا ہے۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعوری حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آ کر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی قابلِ تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار ابر اُسی راہ کی طرف آتا ہے، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے۔
پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے۔ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آ رہا ہے اس میں روئے سخن اُن لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضیٰ بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہِ بندگی سے پھسل جائے وہ فوراً اس کی طرف پلٹ آئیں، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دُور نکلتے چلے جائیں۔
۱۰۹-متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ (روزہ رکھنے والے ) سے کی ہے۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ، مجازی معنی ہیں۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس لفظ کے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں، اس کی نسبت حضورؐ کی طرف درست نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقاً انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اُس سے راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے، اُسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہو ں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ مثلاً اقامت دین کے لیے جہاد، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت، دعوتِ دین، اصلاحِ خلق، طلبِ علمِ صالح، مشاہدۂ آثارِ الٰہی اور تلاشِ رزقِ حلال۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں نے نہیں نکلتے تھے ان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے۔
۱۱۰-یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد، عبادات، اخلاق، معاشرت، تمدّن، معیشت، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کاروائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ لہٰذا سچے اہلِ ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتے ہیں، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں۔
۱۱۱- ’’کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازماً یہ معنی رکھتی ہے کہ اوّل تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابلِ معافی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اُس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفاداروں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہ گار ہو۔ لیکن جو شخص کھُلا ہُوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولاً غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہو جاتی ہے۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے، یہ چاہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بے لاگ نہیں ہے، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کر لے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرور بخش دے خواہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اُس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو‘‘ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ ’’ تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو‘‘۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو۔
یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملہ میں دخل انداز ہوتی ہو۔ رہی انسانی ہمدردی اور دُنیوی تعلقات میں صلۂ رحمی، مُواساۃ، اور رحمت و شفقت کا برتاؤ، تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے۔ رشتہ دار خواہ کافر ہو یا مومن، اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مد د کی جائے گی۔ حاجت مند آدمی کو بہرصورت سہارا دیا جائے گا۔ بیمار اور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جائے گی۔ یتیم کے سر پر یقیناً شفقت کا ہاتھ رکھا جائے گا۔ ایسے معاملات میں ہر گز یہ امتیاز نہ کیا جائے گا کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم۔
۱۱۲-اشارہ ہے اُس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ نے کہی تھی کہ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّاo (مریم۔ آیت ۴۷) ’’آپ کو سلام ہے، میں آپ کے لیے اپنے ربّ سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے ‘‘۔ اور لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ (الممتحنہ آیت ۴) ’’ میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں‘‘۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر آنجناب نے اپنے باپ کے لیے یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَo وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ o (الشعراء آیات ۸۶ تا ۸۹) ’’اور میرے باپ کو معاف کر دے، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ سب انسان اٹھائے جائیں گے، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو‘‘۔ یہ دعا اوّل تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا، تو وہ اس سے بھی باز آ گئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبرّی کر دی، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا۔
۱۱۳-متن میں اَوَّاہٌ اور حَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اَوَّاہٌ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا، زاری کرنے والا، ڈرنے والا، حسرت کرنے والا۔ اور حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصّے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطر میں حد اعتدال سے تجاوز کر جائے۔ یہ دونو ں لفظ اس مقام پر دوہرے معنی دے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ وہ نہایت رقیق القلب آدمی تھے، اس خیال سے کانپ اٹھے تھے کہ میرا یہ باپ جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ اور حلیم تھے، اُس ظلم و ستم کے باوجود جو ان کے باپ نے اسلام سے ان کو روکنے کے لیے ان پر ڈھایا تھا۔ ان کی زبان اس کے حق میں دعا ہی کے لیے کھلی۔ پھر انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا باپ خدا کا دشمن ہے اس سے تبّری کی، کیونکہ وہ خدا سے ڈرنے والے انسان تھے اور کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کر نے والے نہ تھے۔
۱۱۴-یعنی اللہ پہلے یہ بتا دیتا ہے کہ لوگوں کو کن خیالات، کِن اعمال اور کن طریقوں سے بچنا چاہیے، پھر جب وہ باز نہیں آتے اور غلط فکری و غلط کاری ہی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہدایت و رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اُسی غلط راہ پر انہیں دھکیل دیتا ہے جس پر وہ خود جانا چاہتے ہیں۔
یہ ارشاد ایک قاعدۂ کلیہ بیان کرتا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے۔ خدا کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح طریق فکر و عمل اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیتا ہے، پھر جو لوگ اس طریقے پر خود چلنے کے لیے آمادہ نہ ہوں انہیں اس کی توفیق بخشتا ہے۔ اور خدا کا گمراہی میں ڈالنا یہ ہے کہ جو صحیح طریقِ فکر و عمل اس نے بتا دیا ہے اگر اس کے خلاف چلنے ہی پر کوئی اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو خدا اس کو زبردستی راست بیں اور راست رو نہیں بنا دیتا بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے۔
اس خاص سلسلۂ کلام میں یہ بات جس مناسبت سے بیان ہوئی ہے وہ پچھلی تقریر اور بعد کی تقریر پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔ یہ ایک طرح کی تنبیہ ہے جو نہایت موزوں طریقہ سے پچھلے بیان کا خاتمہ بھی قرار پا سکتی ہے اور آگے جو بیان آ رہا ہے اس کی تمہید بھی۔
۱۱۵-یعنی غزوۂ تبوک کے سلسلہ میں جو چھوٹی چھوٹی لغزشیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ سے ہوئیں ان سب کو اللہ نے ان کی اعلیٰ خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو لغزش ہوئی تھی اس کا ذکر آیت ۴۳ میں گزر چکا ہے، یعنی یہ کہ جن لوگوں نے استطاعت رکھنے کے باوجود جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگی تھی ان کو آپ ؐ نے اجازت دے دی تھی۔
۱۱۶-یعنی بعض مخلص صحابہ بھی اس سخت وقت میں جنگ پر جانے سے کسی نہ کسی حد تک جی چرانے لگے تھے، مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان تھا اور وہ سچے دل سے دینِ حق کے ساتھ محبت رکھتے تھے اس لیے آخر کار وہ اپنی اس کمزوری پر غالب آ گئے۔
۱۱۷-یعنی اب اللہ اس بات پر ان سے مؤاخذہ نہ کرے گا کہ ان کے دلوں میں کجی کی طرف یہ میلان کیوں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے کہ اللہ اُس کمزوری پر گرفت نہیں کرتا جس کی انسان نے خود اصلاح کر لی ہو۔
۱۱۸-نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں ۸۰ سے کچھ زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن بھی تھے۔ منافقین جھوٹے عذرات پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصلہ کو ملتوی کر دیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ (یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اِن تین اصحاب کا معاملہ اُن سات اصحاب سے مختلف ہے جن کا ذکر حاشیہ نمبر ۹۹ میں گزر چکا ہے۔ انہوں نے باز پرس سے پہلے ہی خود اپنے آپ کو سزا دے لی تھی)۔
۱۱۹-یہ تینوں صاحب کَعب بن مالک، ہِلال بن اُمیّہ اور مُرارہ بن رُبَیع تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہین، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کر چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوۂ بدر کے شرکاء میں سے تھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سُستی اِس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہلِ ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، اِن حضرات نے دکھائی اُس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔ ۴۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہو گیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخر کار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔
ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلا یا کرتے تھے، یہ قصہ خود بیا ن کیا:
غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی مسلمانوں سے شرکتِ جنگ کی اپیل کرتے تھے، میں اپنے دل میں ارادہ کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آ کر سُستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیا ہو تے کیا دیر لگتی ہے۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آ گیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سُستی مانع ہوئی حتیٰ کہ وقت نکل گیا۔
اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کُڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسبِ معمول آپؐ نے پہلے مسجد آ کر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آ آ کر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے۔ یہ ۸۰ سے زیادہ آدمی تھے۔ حضورؐ نے اُن میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں۔ ان کے ظاہری عذرات کو قبول کر لیا، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔ ’’خدا کی قسم اگر میں اہلِ دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اِس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاہے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کر سکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا‘‘۔ اس پر حضور نے فرمایا ’’یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا، اُٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے ‘‘۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تُو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنا دوں۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں (مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی، تو مجھے تسکین ہو گئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تھا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسبِ معمول نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ہٹائی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قَتَادَہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا ’’ابو قتادہ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا؟ ‘‘ وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر پوچھا۔ وہ پھر خاموش رہے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ’’اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے ‘‘۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نَبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں نے کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ ’’ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے، ہمارے پس آ جاؤ، ہم تمہاری قدر کریں گے ‘‘۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا۔
چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا آدمی حکم لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیٰحدہ ہو جاؤ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رہو۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔
پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ’’مبارک ہو کعب بن مالک!‘‘ میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہو گیا ہے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کر مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ’’تجھے مبارک ہو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے ‘‘ میں نے پوچھا یہ معافی حضور کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے، اور یہ آیات سنائیں۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ فرمایا ’’کچھ رہنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے ‘‘۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا، باقی سب صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتاری کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا، چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلافِ واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا‘‘۔
یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں:
سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفر و اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں، بدنیتی سے بھی نہیں نیک نیتی سے، تمام عمر بھی نہیں کسی ایک موقع ہی پر، کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں اور دینداریاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں، حتیٰ کہ ایسے عالی قدر لوگ بھی گرفت سے نہیں بچتے جو بدر و احد اور احزاب و حنین کے سخت معرکوں میں جانبازی کے جو ہر دکھا چکے تھے اور جن کا اخلاص و ایمان ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا۔
دوسری بات، جو اس سے کچھ کم اہم نہیں یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہُل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات محض تساہُل ہی تساہل میں آدمی کسی ایسے قصور کا مرتکب ہو جاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے، اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا۔
پھر یہ قصہ اُس معاشرے کی رُوح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں بنا تھا۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب پر آشکار ہیں مگر، مگر ان کے ظاہری عذر سُن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی۔ دوسری طرح ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا، صاف صاف قصور کا اعتراف کر لیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش بر سا دی جاتی ہے، نہ اس پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہو گیا ہے، بلکہ اس بنا پر مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیہ میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتّا ہے، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کو نافذ کرتی ہے، اس کا ہر پہلو بے نظیر ہے اور یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دیے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے۔ تُو درست ہو جائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بے چین ہے۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادۂ اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہو گیا ہے۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے زیادہ بے تابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشۂ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایۂ امید بس ایک ذرا سا لکّۂ ابر تھا جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عَش عَش کر جاتا ہے۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ اُدھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نِکلا اِدھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اسے بات نہیں کرتا۔ بیوی تک اس سے الگ ہو جاتی ہے۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا، بلکہ اس پورے زمانۂ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس معتوب بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں۔ یہ نمونہ ہے اُس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم آیت زیرِ بحث کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان صاحبوں کو اللہ کے دربار سے جو معافی ملی ہے اور اس معافی کے اندازِ بیان میں جو رحمت و شفقت ٹپکی پڑ رہی ہے اس کی وجہ ان کا وہ اخلاص ہے جس کا ثبوت انہوں نے پچاس دن کی سخت سزا کے دوران میں دیا تھا۔ اگر قصور کر کے وہ اکڑتے اور اپنے لیڈر کی ناراضی کو جواب غصے اور عناد سے دیتے اور سزا ملنے پر اُس طرح بپھرتے جس طرح کسی خود پرست انسان کا غرور نفس زخم کھا کر بپھر ا کرتا ہے، اور مقاطعہ کے دوران میں ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا کہ ہمیں جماعت سے کٹ جانا گوارا ہے مگر اپنی خودی کے بُت پر چوٹ کھانا گوارا نہیں ہے، اور اگر یہ سزا کا پورا زمانہ وہ اس دوڑ دھوپ میں گزارتے کہ جماعت کے اندر بددلی پھیلائیں اور بد دل لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ساتھ ملائیں تاکہ ایک جتھا تیار ہو، تو معافی کیسی، انہیں تو بالیقین جماعت سے کاٹ پھینکا جاتا اور اس سزا کے بعد ان کی اپنی منہ مانگی سزا ان کو یہ دی جاتی کہ جاؤ اب اپنی خودی کے بُت ہی کو پوجتے رہو، اعلاء کلمۃ الحق کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سعادت اب تمہارے نصیب میں کبھی نہ آئے گی۔ لیکن ان تینوں صاحبوں نے اس کڑی آزمائش کے موقع پر یہ راستہ اختیار نہیں کیا، اگرچہ یہ بھی ان کے لیے کھلا ہوا تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ روش اختیار کی جو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں۔ اس روش کو اختیار کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ خدا پرستی نے ان کے سینے میں کوئی بت باقی نہیں چھوڑا ہے جسے وہ پوجیں، اور اپنی پوری شخصیت کو انہوں نے راہِ خدا کی جدوجہد میں جھونک دیا ہے اور وہ اپنی واپسی کی کشتیاں اس طرح جلا کر اسلامی جماعت میں آئے ہیں کہ اب یہاں سے پلٹ کر کہیں اور نہیں جا سکتے۔ یہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے مگر یہیں مریں گے اور کھپیں گے۔ کسی دوسری جگہ بڑی سے بڑی عزّت بھی ملتی ہو تو یہاں کی ذلت چھوڑ کر اسے لینے نہ جائیں گے۔ اس کے بعد اگر انہیں اٹھا کر سینے سے لگا نہ لیا جاتا تو اور کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا ذکر ایسے شفقت بھرے الفاظ میں فرماتا ہے کہ ’’ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ ہماری طرف پلٹ آئیں‘‘۔ ان چند لفظوں میں اِس حالت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ آقا نے پہلے تو ان بندوں سے نظر پھیر لی تھی، مگر جب وہ بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شان وفاداری دیکھ کر آقا سے خود نہ رہا گیا۔ جوش محبت سے بے قرار ہو کر وہ آپ نکل آیا تاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لائے۔
ترجمہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔مدینے کے باشندوں اور گرد و نواح کے بدویوں کو یہ ہر گز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسُول ؐ کو چھوڑ کو گھر بیٹھے رہتے اور اس کلی طرف سے بے پروا ہو کر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے۔ اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہو گا کہ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس اور جسمانی مشقت کی کوئی تکلیف وہ جھیلیں، اور منکرینِ حق کو جو راہ ناگوار ہے پر کوئی قدم وہ اُٹھائیں، اور کسی دُشمن سے (عداوتِ حق کا) کوئی انتقام وہ لیں اور اس کے بدلے ان کے حق میں ایک عملِ صالح نہ لکھا جائے۔ یقیناً اللہ کے ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہو گا کہ (راہِ خدا میں) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ وہ اُٹھائیں اور ( سعیِ جہاد میں) کوئی وادی وہ پار کریں اور ان کے حق میں اسے لکھ نہ لیا جائے تا کہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے۔ اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے ۱۲۰۔ ؏ ١۵
تفسیر
۱۲۰-اس آیت کا منشا سمجھنے کے لیے اِسی سورۃ کی آیت ۹۷ پیش نظر رکھنی چاہیے جس میں فرمایا گیا کہ:
’’بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اُس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے ‘‘۔
وہاں صرف اتنی بات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا کہ دار الاسلام کی دیہاتی آبادی کا بیشتر حصہ مرض نفاق میں اس وجہ سے مبتلا ہے کہ یہ سارے کے سارے لوگ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں، علم کے مرکز سے وابستہ نہ ہونے اور اہلِ علم کی صحبت میسر نہ آنے کی وجہ سے اللہ کے دین کی حدود ان کو معلوم نہیں ہیں۔ اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ دیہاتی آبادیوں کو اس حالت میں پڑا نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کی جہالت کو دور کرنے اور ان کے اندر شعور اسلامی پیدا کرنے کا اب باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔ اس غرض کے لیے یہ کچھ ضروری نہیں کہ تمام دیہاتی عرب اپنے اپنے گھروں سے نکل نکل کر مدینے آ جائیں اور یہاں علم حاصل کریں۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ ہر دیہاتی علاقے اور ہر بستی اور قبیلے سے چند آدمی نکل کر علم کے مرکزوں، مثلاً مدینے اور مکے اور ایسے ہی دوسرے مقامات میں آئیں اور یہاں دین کی سمجھ پیدا کریں، پھر اپنی اپنی بستیوں میں واپس جائیں اور عامۃ الناس کے اندر بیداری پھیلانے کی کوشش کریں۔
یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو تحریک اسلامی کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھیک موقع پر دی گئی۔ ابتدا میں جبکہ اسلام عرب میں بالکل نیا نیا تھا اور انتہائی شدید مخالفت کے ماحول میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا، اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہ تھی، کیونکہ اس وقت تو اسلام قبول کرتا ہی وہ شخص تھا جو پوری طرح اسے سمجھ لیتا تھا اور ہر پہلو سے اس کو جانچ پرکھ کر مطمئن ہو جاتا تھا۔ مگر جب یہ تحریک کامیابی کے مرحلوں میں داخل ہوئی اور زمین میں اس کا اقتدار قائم ہو گیا تو آبادیوں کی آبادیاں فوج در فوج اس میں شامل ہونے لگیں جن کے اندر کم لوگ ایسے تھے جو اسلام کو اس کے تمام مقتضیات کے ساتھ سمجھ بوجھ کر اس پر ایمان لاتے تھے، ورنہ بیشتر لوگ محض وقت کے سیلاب میں غیر شعوری طور پر بہے چلے آرہے تھے۔ نو مسلم آبادی کا یہ تیز رفتار پھیلاؤ بظاہر تو اسلام کے لیے سبب قوت تھا، کیونکہ پیروان اسلام کی تعداد بڑھ رہی تھی، لیکن فی الحقیقت اسلامی نظام کے لیے ایسی آبادی کسی کام کی نہ تھی بلکہ اُلٹی نقصان دہ تھی جو شعور اسلامی سے خالی ہو اور اس نظام کے اخلاقی مطالبات پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ چنانچہ یہ نقصان غزوۂ تبوک کی تیاری کے موقع پر کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ اس لیے عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ تحریک اسلامی کی توسیع جس رفتار کے ساتھ ہو رہی ہے اسی کی مطابق اس کے استحکام کی تدبیر بھی ہونی چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ ہر حصۂ آبادی میں سے چند لوگوں کو لے کر تعلیم و تربیت دی جائے، پھر وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر عوام کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں اسلام کا شعور اور حدود اللہ کا علم پھیل جائے۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم عمومی کے جس انتظام کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اس کا اصل مقصد عامۃ الناس کو محض خواندہ بنانا اور ان میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلانا نہ تھا بلکہ واضح طور پر اس کا مقصدِ حقیقی یہ متعین کیا گیا تھا کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کر دیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویۂ زندگی سے بچنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی تعلیم کا وہ مقصد ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرما دیا ہے اور ہر تعلیمی نظام کو اسی لحاظ سے جانچا جائے گا کہ وہ اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام لوگوں میں نوشت و خواند اور کتاب خوانی اور دنیوی علوم کی واقفیت پھیلانا نہیں چاہتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لوگوں میں ایسی تعلیم پھیلانا چاہتا ہے جو اوپر کے خط کشیدہ مقصد تک پہنچاتی ہو۔ ورنہ ایک ایک شخص اگر اپنے وقت کا آئن شتائن اور فرائڈ ہو جائے لیکن دین کے فہم سے عاری اور غیر مسلمانہ رویّۂ زندگی میں بھٹکا ہوا ہو تو اسلام ایسی تعلیم پر لعنت بھیجتا ہے۔
اس آیت میں لفظ لِیَتَفَقَّھُؤا فِی الدِّیْنِ جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدّت تک مسلمانوں کی مذہبی تعلیم بلکہ ان کی مذہبی زندگی پر بھی بُری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہُ فِی الدِّیْنِ کو تعلیم کا مقصود بتایا تھا جس کے معنی ہیں دین کو سمجھنا، اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا، اس کے مزاج اور اس کی رُوح سے آشنا ہونا، اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریقِ فکر اور کونسا طرزِ عمل روح دین کے مطابق ہے۔ لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اصطلاحًا فقہ کے نام سے موسوم ہوا اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت (بمقابلۂ روح) کا تفصیلی علم بن کر رہ گیا، لوگوں نے اشتراکِ لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکم الٰہی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ وہ کُل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جزوِ مقصود تھا۔ اس عظیم الشان غلط فہمی سے جو نقصانات دین اور پیروانِ دین کو پہنچے ان کا جائزہ لینے کے لیے تو ایک کتاب کی وسعت درکار ہے۔ مگر یہاں ہم اس پر متنبہ کرنے کے لیے مختصراً اِتنا اشارہ کیے دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو جس چیز نے روح دین سے خالی کر کے محض جسم دین اور شکل دین کی تشریح پر مرتکز کر دیا، اور بالآخر جس چیز کی بدولت مسلمانوں کی زندگی میں ایک نِری بے جان ظاہر داری، دین داری کی آخری منزل بن کر رہ گئی، وہ بڑی حد تک یہی غلط فہمی ہے۔
ترجمہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو اُن منکرینِ حق سے جو تم سے قریب ہیں۔۱۲۱ اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں،۱۲۲ اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ ۱۲۳ جب کوئی نئی سُورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے ) پوچھتے ہیں کہ ’’ کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا ؟‘‘ (اس کا جواب یہ ہے کہ ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سُورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں،البتہ جن لوگوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا اُن کی سابق نجاست پر (ہر نئی سُورت نے ) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا ۱۲۴ ہے اور وہ مرتے دم تک کُفر ہی میں مُبتلا رہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟۱۲۵ مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔جب کوئی سُورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے، پھر چُپکے سے نکل بھاگتے ہیں۔۱۲۶ اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔۱۲۷دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسُول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔۔۔۔اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبی ؐ، ان سے کہہ دو کہ ’’ میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا۔‘‘ ؏ ١٦
تفسیر
۱۲۱-آیت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دار الاسلام کے جس حصّے سے دشمنانِ اسلام کا جو علاقہ متصل ہو، اُس کے خلاف جنگ کرنے کی اولین ذمہ داری اُسی حصے کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اگر آگے کے سلسلۂ کلام کے ساتھ ملا کر اِس آیت کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفار سے مراد وہ منافق لوگ ہیں جن کا انکار حق پوری طرح نمایاں ہو چکا تھا، اور جن کے اسلامی سوسائٹی میں خلط ملط رہنے سے سخت نقصانات پہنچ رہے تھے۔ رکع ۱۰ کی ابتداء میں بھی جہاں سے اس سلسلۂ تقریر کا آغاز ہوا تھا، پہلی بات یہی کہی گئی تھی کہ اب ان آستین کے سانپوں کا استیصال کرنے کے لیے باقاعدہ جہاد شروع کر دیا جائے۔ وہی بات اب تقریر کے اختتام پر تاکید کے لیے پھر دہرائی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور اِن منافقوں کے معاملہ میں اُن نسلی و نسبی اور معاشرتی تعلقات کا لحاظ نہ کریں جو اُن کے اور اِن کے درمیان وابستگی کے موجب بنے ہوئے تھے۔ وہاں ان کے خلاف ’’جہاد ‘‘ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس سے شدید تر لفظ ’’قتال‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے، کوئی کسر ان کی سرکوبی میں اٹھا نہ رکھی جائے۔ وہاں ’’کفار‘‘ اور ’’منافق‘‘ دو الگ لفظ بولے گئے تھے، یہاں ایک ہی لفظ ’’ کفار‘‘ پر اکتفا کیا گیا ہے، تاکہ اِن لوگوں کا انکارِ حق، جو صریح طور پر ثابت ہو چکا تھا، ان کے ظاہری اقرار ایمان کے پردے میں چھُپ کر کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھ لیا جائے۔
۱۲۲-یعنی اب وہ نرم سلوک ختم ہو جانا چاہیے جو اب تک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ یہی بات رکوع ۱۰ کی ابتدا میں کہی گئی تھی وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔
۱۲۳-اس تنبیہ کے دو مطلب ہیں اور دونوں یکساں طور پر مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ ان منکرینِ حق کے معاملے میں اگر تم نے اپنے شخصی اور خاندانی اور معاشی تعلقات کا لحاظ کیا تو یہ حرکت تقویٰ کے خلاف ہو گی، کیونکہ متقی ہونا اور خدا کے دشمنوں سے لاگ لگائے رکھنا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لہٰذا خدا کی مدد اپنے شامل حال رکھنا چاہتے ہو تو اس لاگ لپٹ سے پاک رہو۔ دوسرے یہ کہ یہ سختی اور جنگ کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ سختی کرنے میں اخلاق و انسانیت کی بھی ساری حدیں توڑ ڈالی جائیں۔ حدود اللہ کی نگہداشت تو بہر حال تمہاری ہر کاروائی میں ملحوظ رہنی ہی چاہیے۔ اس کو اگر تم نے چھوڑ دیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے۔
۱۲۴-ایمان اور کفر اور نفاق میں کمی بیشی کا کیا مفہوم ہے، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انفال، حاشیہ نمبر ۲۔
۱۲۵-یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزر رہا ہے جبکہ ایک دو مرتبہ ایسے حالات نہ پیش آ جاتے ہوں جن میں ان کا دعوائے ایمان آزمائش کی کسوٹی پر کسا نہ جاتا ہو اور اس کی کھوٹ کا راز فاش نہ ہو جاتا ہو۔ کبھی قرآن میں کوئی ایسا حکم آ جاتا ہے جس سے ان کی خواہشات نفس پر کوئی نئی پابندی عائد ہو جاتی ہے، کبھی دین کا کوئی ایسا مطالبہ سامنے آ جاتا ہے جس سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے، کبھی کوئی اندرونی قضیہ ایسا رونما ہو جاتا ہے جس میں یہ امتحان مضمر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے دنیوی تعلقات اور اپنے شخصی و خاندانی اور قبائلی دلچسپیوں کی بہ نسبت خدا اور اس کا رسول اور اس کا دین کس قدر عزیز ہے، کبھی کوئی جنگ ایسی پیش آ جاتی ہے جس میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ یہ جس دین پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی خاطر جان، مال، وقت اور محنت کا کتنا ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر صرف یہی نہیں کہ منافقت کی وہ گندگی جو ان کے جھوٹے اقرار کے نیچے چھپی ہوئی ہے کھل کر منظر عام پر آ جاتی ہے بلکہ ہر مرتبہ جب یہ ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر بھاگتے ہیں تو ان کے اندر کی گندگی پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
۱۲۶-قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سورۃ نازل ہوتی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے اجتماع کا اعلان کراتے اور پھر مجمع عام میں اس سورہ کو خطبے کے طور پر سناتے تھے۔ اس محفل میں اہلِ ایمان کا حال تو یہ ہوتا تھا کہ ہمہ تن گوش ہو کر اس خطبے کو سنتے اور اس میں مستغرق ہو جاتے تھے، لیکن منافقین کا رنگ ڈھنگ کچھ اور تھا۔ وہ آ تو اس لیے جاتے تھے کہ حاضری کا حکم تھا اور اجتماع میں شریک نہ ہونے کے معنی اپنی منافقت کا راز خود فاش کر دینے کے تھے۔ مگر اس خطبے سے ان کو کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔ نہایت بددلی کے ساتھ اُکتائے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور اپنے آپ کو حاضرین میں شمار کرا لینے کے بعد انہیں بس یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کسی طرح جلدی سے جدلی یہاں سے بھاگ نکلیں۔ ان کی اسی حالت کی تصویر یہاں کھینچی گئی ہے۔
۱۲۷-یعنی یہ بے وقوف خود اپنے مفاد کو نہیں سمجھتے۔ اپنی فلاح سے غافل اور اپنی بہتری سے بے فکر ہیں۔ ان کو احساس نہیں ہے کہ کتنی بڑی نعمت ہے جواس قرآن اور اس پیغمبر کے ذریعے سے ان کو دی جا رہی ہے۔ اپنی چھوٹی سی دنیا اور اس کی نہایت گھٹیا قسم کی دلچسپیوں میں یہ کنویں کے مینڈک ایسے غرق ہیں کہ اُس عظیم الشان علم اور اس زبردست رہنمائی کی قدرو قیمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی جس کی بدولت یہ ریگستان عرب کے اس تنگ و تاریک گوشے سے اٹھ کر تمام عالم انسانی کے امام و پیشوا بن سکتے ہیں اور اس فانی دنیا ہی میں نہیں بلکہ بعد کی لازوال ابدی زندگی میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرفراز ہو سکتے ہیں۔ اس نادانی و حماقت کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں استفادہ کی توفیق سے محروم کر دیا ہے۔ جب فلاح و کامرانی اور قوت و عظمت کا یہ خزانہ مفت لٹ رہا ہوتا ہے اور خوش نصیب لوگ اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت ان بدنصیبوں کے دل کسی اور طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ کس دولت سے محروم رہ گئے۔
٭٭٭
۱۰۔ یونس
نام
اس سورت کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت ۹۸ سے لیا گیا ہے جس میں اشارتاً حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ سورت کا موضوع بحث حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ نہیں۔
مقام نزول
روایات سے معلوم ہوتا ہے اور نفس مضمون سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ پوری سورت مکے میں نازل ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس کی بعض آیات مدنی دور کی ہیں، لیکن یہ محض ایک سطحی قیاس ہے۔ سلسلۂ کلام پر غور کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ مختلف تقریروں یا مختلف مواقع پر اتری ہوئی آیات کا مجموعہ نہیں بلکہ شروع سے آخر تک ایک ہی مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہو گی، اور مضمون کلام اس بات پر صریح دلالت کر رہا ہے کہ یہ مکی دور کا کلام ہے۔
زمانۂ نزول
زمانۂ نزول کے متعلق کوئی روایت ہمیں نہیں ملی۔ لیکن مضمون سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورت زمانۂ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی کیونکہ اس کے انداز کلام سے صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کر چکی ہے، وہ نبی اور پیروان نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہ راست پر آ جائیں، اور اب انہیں اس انجام سے خبردار کرنے کا موقع آ گیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آخری اور قطعی طور پر رد کر دینے کی صورت میں انہیں لازماً دیکھنا ہو گا۔ مضمون کی یہی خصوصیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کونسی سورتیں مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس سورت میں ہجرت کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے اس کا زمانہ ان سورتوں سے پہلے کا سمجھنا چاہیے جن میں کوئی نہ کوئی خفی یا جلی اشارہ ہمیں ہجرت کے متعلق ملتا ہے۔ زمانے کی اس تعیین کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ اس دور کا تاریخی پس منظر سورۂ انعام اور سورۂ اعراف کے مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔
موضوع
موضوعِ دعوت، فہمائش اور تنبیہ ہے۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ ایک انسان کے پیغام نبوت پیش کرنے پر حیران ہیں اور اسے خواہ مخواہ ساحری کا الزام دے رہے ہیں، حالانکہ جو بات وہ پیش کر رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہی ہے اور نہ سحر و کہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تو دو اہم حقیقتوں سے تم کو آگاہ کر رہا ہے۔ ایک یہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام عملاً چلا رہا ہے صرف وہی تمہارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو۔
دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک اور دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے، اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دو گے اور اس بنیادی سوال پر جزا یا سزا پاؤ گے کہ تم نے اسی خدا کو اپنا آقا مان کر اس کے منشا کے مطابق نیک رویہ اختیار کیا یا اس کے خلاف عمل کرتے رہے۔ یہ دونوں حقیقتیں، جو وہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے، بجائے خود امر واقعی ہیں خواہ تم مانو یا نہ مانو۔ وہ تمہیں دعوت دیتا ہے کہ تم انہیں مان لو اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنا لو۔ اس کی یہ دعوت اگر تم قبول کروں گے تو تمہارا اپنا انجام بہتر ہو گا ورنہ خود ہی برا نتیجہ دیکھو گے۔
مباحث
اس تمہید کے بعد حسب ذیل مباحث ایک خاص ترتیب کے ساتھ سامنے آتے ہیں :
۱. وہ دلائل جو توحیدِ ربوبیت اور حیات اخروی کے باب میں ایسے لوگوں کو عقل و ضمیر کا اطمینان بخش سکتے ہیں جو جاہلانہ تعصب میں مبتلا نہ ہوں اور جنہیں بحث کی ہار جیت کے بجائے اصل فکر اس بات کی ہو کہ خود غلط بینی اور اس کے برے نتائج سے بچیں۔
۲. اُن غلط فہمیوں کا ازالہ اور اُن غفلتوں پر تنبیہ جو لوگوں کو توحید اور آخرت کا عقیدہ تسلیم کرنے میں مانع ہو رہی تھیں (اور ہمیشہ ہوا کرتی ہیں )۔
۳. اُن شبہات اور اعتراضات کا جواب جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کے بارے میں پیش کیے جاتے تھے۔
۴. دوسری زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کی پیشگی خبر، تاکہ انسان اس سے ہوشیار ہو کر اپنے آج کے طرز عمل کو درست کر لے اور بعد میں پچھتانے کی نوبت نہ آئے۔
۵. اس امر پر تنبیہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی زندگی ہے اور اس امتحان کے لیے تمہارے پاس بس اتنی ہی مہلت ہے جب تک تم اس دنیا میں سانس لے رہے ہو۔ اس وقت کو اگر تم نے ضائع کر دیا اور نبی کی ہدایت قبول کر کے امتحان کی کامیابی کا سامان نہ کیا تو پھر کوئی دوسرا موقع تمہیں ملنا نہیں ہے۔ اس نبی کا آنا اور اس قرآن کے ذریعے تم کو علم حقیقت کا بہم پہنچایا جانا وہ بہترین اور ایک ہی موقع ہے جو تمہیں مل رہا ہے۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے اور بعد کی ابدی زندگی میں ہمیشہ کے لیے پچھتاؤ گے۔
۶. ان کھلی کھلی جہالتوں اور ضلالتوں پر اشارہ جو لوگوں کی زندگی میں صرف اس وجہ سے پائی جا رہی تھیں کہ وہ خدائی ہدایت کے بغیر جی رہے تھے۔
اس سلسلے میں نوح علیہ السلام کا قصہ مختصراً اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے چار باتیں ذہن نشین کرنی مطلوب ہیں۔ اول یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جو معاملہ تم لوگ کر رہے ہو وہ اس سے ملتا جلتا ہے جو نوح اور موسیٰ علیہما السلام کے ساتھ تمہارے پیشرو کر چکے ہیں اور یقین رکھو کہ اس طرز عمل کا جو انجام وہ دیکھ چکے ہیں وہی تمہیں بھی دیکھنا پڑے گا۔ دوم یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو آج جس بے بسی و کمزوری کے حال میں تم دیکھ رہے ہو اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ صورتحال ہمیشہ یہی رہے گی۔ تمہیں خبر نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر وہی خدا ہے جو موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی پشت پر تھا اور وہ ایسے طریقے سے حالات کی بساط الٹ دیتا ہے جس تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔ سوم یہ کہ سنبھلنے کے لیے جو مہلت خدا تمہیں دے رہا ہے اسے اگر تم نے ضائع کر دیا اور پھر فرعون کی طرح خدا کی پکڑ میں آ جانے کے بعد عین آخری لمحے پر توبہ کی تو معاف نہیں کیے جاؤ گے۔ چہارم یہ کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے تھے وہ مخالف ماحول کی انتہائی شدت اور اس کے مقابلے میں اپنی بیچارگی دیکھ کر مایوس نہ ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ ان حالات میں ان کو کس طرح کام کرنا چاہیے۔ نیز وہ اس امر پر بھی متنبہ ہو جائیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اس حالت سے نکال دے تو کہیں وہ اُس روش پر نہ چل پڑیں جو بنی اسرائیل نے مصر سے نجات پا کر اختیار کی۔ آخر میں اعلان کیا گیا ہے یہ عقیدہ اور یہ مسلک ہے جس پر چلنے کی اللہ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی ہے۔ اس میں قطعاً کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی، جو اسے قبول کرے گا وہ اپنا بھلا کرے گا اور جو اس کو چھوڑ کر غلط راہوں میں بھٹکے گا وہ اپنا ہی کچھ بگاڑے گا۔
ترجمہ
ال ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔ ۱ کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود اُنہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ (غفلت میں پڑے ہوئے ) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے ربّ کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے ؟۲ (کیا یہی وہ بات ہے جس پر ) منکرینِ نے کہا کہ یہ شخص تو کھُلا جادوگر ہے ؟۳حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تختِ حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔ ۴ کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں ہے اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے۔ ۵ یہی اللہ تمہارا ربّ ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو۔۶ پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے ؟۷اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کا جانا ہے ۸، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا،۹ تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کُفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پئیں اور دردناک سزا بھُگتیں اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے۔ ۱۰وہی ہے جس نے سُورج کو اُجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی کہ گھَٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تا کہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کر و۔ اللہ نے یہ سب کچھ( کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) با مقصد ہی بنایا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔یقیناً رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں اور ہر اُس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے ) بچنا چاہتے ہیں۔۱۱حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دُنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں،اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اُس غلط عقیدے اور غلط طرزِ عمل کی وجہ سے ) کرتے رہے۔ ۱۲اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کر لیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں) اور نیک اعمال کرتے رہے اُنہیں اُن کا ربّ اُن کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتّوں میں اُن کے نیچے نہریں بہیں گی،۱۳وہاں اُن کی صدا یہ ہو گی کہ ’’پاک ہے تُو اے خدا‘‘، اُن کی یہ دُعا ہو گی کہ ’’سلامتی ہو‘‘ اور اُن کی ہر بات کا خاتمہ اِس پر ہو گا کہ ’’ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے ۱۴۔‘‘ ؏ ١
تفسیر
۱-اس تمہیدی فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مضمر ہے، نادان لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر قرآن کے نام سے جو کلام ان کو سنا رہا ہے وہ محض زبان کی جادوگری ہے، شاعرانہ پروازِ تخیل ہے اور کچھ کاہنوں کی طرح عالم بالا کی گفتگو ہے۔ اس پر انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جو کچھ تم گمان کر رہے ہو یہ وہ چیز نہیں ہے۔ یہ تو کتابِ حکیم کی آیات ہیں۔ اِن کی طرف توجہ نہ کرو گے تو حکمت سے محروم ہو جاؤ گے۔
۲-یعنی آخر اس میں تعجب کی بات کیا ہے ؟ انسانو ں کو ہوشیار کر نے کے لیے انسان نہ مقرر کیا جاتا تو کیا فرشتہ یا جن یا حیوان مقرر کیا جاتا؟ اور اگر انسان حقیقت سے غافل ہو کر غلط طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا خالق و پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے یا یہ کہ وہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی انتظام کرے ؟ اور اگر خدا کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو عزت و سرفرازی اُن کے لیے ہونی چاہیے جو اسے مان لیں یا ان کے جو اسے رد کر دیں؟ پس تعجب کرنے والوں کو سوچنا تو چاہیے کہ آخر وہ بات کیا ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں۔
۳-یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلیٰ درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے، اُس پر یہ الزام عائد کر دینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات کیا کہتا ہے، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے، اور جو اثرات اس کی تقریر سے ایمان لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں۔ جو خطیب کسی ناجائز غرض کے لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بے لگام، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے، خواہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ ہو۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری ہوتی ہے۔ اعتدال کے بجائے بے اعتدالی ہوا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت کی شراب پلاتا ہے۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ ان کی زندگیوں میں کوئی مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کا مظاہرے کر نے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے، ایک متناسب نظامِ فکر ہے، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے، لفظ لفظ جچا تُلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کر سکتے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے بُرے نتائج سے ان کو خبر دار کرے اور انہیں اُس طریقے کی طرف بلائیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں جس نے بھی اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اور اس کے سارے طرزِ عمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہو گئی ہے۔ اب تم خود ہی سوچ لو، کیا جادوگر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا جادو ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے ؟
۴-یعنی پیدا کر کے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملاً اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پر آپ ہی حکمرانی کر رہا ہے، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمامِ اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہِ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اِس جہانِ ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۴۰، ۴۱)۔
۵-یعنی دنیا کی تدبیر و انتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگر اس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زوردار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔
۶-اوپر کے تین فقروں میں حقیقتِ نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خد ا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اِس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے، یعنی پروردگاری، مالی و آقائی، اور فرماں روائی، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش، غلامی اور اطاعت۔
خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اُس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اور اس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کو دوسرا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حلم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔
۷-یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرزِ عمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور اُنہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے ؟
۸-یہ نبی کی تعلیم کا دوسرا بنیادی اصول ہے۔ اصولِ اوّل یہ تمہارا رب صرف اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اور اصولِ دوم یہ کہ تمہیں اس دنیا سے واپس جا کر اپنے رب کو حساب دینا ہے۔
۹-یہ فقرہ دعوے اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ خدا دوبارہ انسان کو پیدا کرے گا اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ اسی نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا۔ جو شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ خدا نے خلق کی ابتدا کی ہے ( اور اس سے بجز اُن دہریوں کے جو محض پادریوں کے مذہب سے بھاگنے کے لیے خلقِ بے خالق جیسے احمقانہ نظریے کو اوڑھنے پر آمادہ ہو گئے اور کون انکار کر سکتا ہے ) وہ اس بات کو ناممکن یا بعد از فہم قرار نہیں دے سکتا کہ وہی خدا اس خلق کا پھر اعادہ کرے گا۔
۱۰-یہ وہ ضرورت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اوپر جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ خلق کا اعادہ ممکن ہے اور اسے مُستبعَد سمجھنا درست نہیں ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اعادۂ خلق، عقل و انصاف کی رو سے ضروری ہے اور یہ ضرورت تخلیقِ ثانیہ کے سوا کسی دوسرے طریقے سے پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کو اپنا واحد رب مان کر جو لوگ صحیح بندگی کا رویہ اختیار کریں وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں اپنے اس بجا طرزِ عمل کی پوری پوری جزا ملے۔ اور جولو گ حقیقت سے انکار کر کے اس کے خلاف زندگی بسر کریں وہ بھی اس کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے اس بے جا طرزِ عمل کا برا نتیجہ دیکھیں۔ یہ ضرورت اگر موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہے (اور ہر شخص جو ہٹ دھرم نہیں ہے جانتا ہے کہ نہیں ہو رہی ہے ) تو اسے پورا کرنے کے لیے یقیناً دوبارہ زندگی ناگزیر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہود، حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔
۱۱-یہ عقیدۂ آخرت کی تیسری دلیل ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے جو کام ہر طر ف نظر آرہے ہیں، جن کے بڑے بڑے نشانات سورج اور چاند، اور لیل و نہار کی گردش کی صورت میں ہر شخص کے سامنے موجود ہیں، ان سے اس بات کا نہایت واضح ثبوت ملتا ہے کہ اس عظیم الشان کار گاہِ ہستی کا خالق کوئی بچہ نہیں ہے جس نے محض کھیلنے کے لیے یہ سب کچھ بنایا ہو اور پھر دل بھر لینے کے بعد یونہی اس گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالے۔ صریح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اس کے ہر کام میں نظم ہے، حکمت ہے، مصلحتیں ہیں، اور ذرے ذرے کی پیدائش میں ایک گہری مقصدیت پائی جاتی ہے۔ پس جب وہ حکیم ہے اور اس کی حکمت کے آثار و علائم تمہارے سامنے علانیہ موجود ہیں، تو اس سے تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ وہ انسان کو عقل اور اخلاقی ذمہ داری کی بنا پر جزا و سزا کا جو استحقاق لازماً پیدا ہوتا ہے اسے یونہی مہمل چھوڑ دے گا۔
اس طرح اِن آیات میں عقیدۂ آخرت پیش کرنے کے ساتھ اس کی تین دلیلیں ٹھیک ٹھیک منطقی ترتیب کے ساتھ دی گئی ہیں:
اوّل یہ کہ دوسری زندگی ممکن ہے کیونکہ پہلی زندگی کا امکان واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔
دوم یہ کہ دوسری زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زندگی میں انسان اپنی اخلاقی ذمہ داری کو صحیح یا غلط طور پر جس طرح ادا کرتا ہے اور اس سے سزا اور جزا کا جو استحقاق پیدا ہوتا ہے اس کی بنا پر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک اور زندگی ہو جس میں ہر شخص اپنے اخلاقی رویہ کا وہ نتیجہ دیکھے جس کا وہ مستحق ہے۔
سوم یہ ہے جب عقل و انصاف کی رو سے دوسری زندگی کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت یقیناً پوری کی جائے گی، کیونکہ انسان اور کائنات کا خالق حکیم ہے اور حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ حکمت و انصاف جس چیز کے متقاضی ہوں اسے وہ وجود میں لانے سے باز رہ جائے۔
غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ زندگی بعد موت کو استدلال سے ثابت کر نے کے لیے یہی تین دلیلیں ممکن ہیں اور یہی کافی بھی ہیں۔ ان دلیلوں کے بعد اگر کسی چیز کی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو آنکھوں سے دکھا دیا جائے کہ جو چیز ممکن ہے جس کے وجود میں آنے کی ضرورت بھی ہے، اور جس کو وجود میں لانا خدا کی حکمت کا تقاضا بھی ہے، وہ دیکھ یہ تیرے سامنے موجود ہے۔ لیکن یہ کسر بہر حال موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں کی جائے گی، کیونکہ دیکھ کر ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ انسان کا جو امتحان لینا چاہتا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ وہ حِس اور مشاہدے سے بالاتر حقیقتوں کو خالص نظر و فکر اور استدلال صحیح کے ذریعہ سے مانتا ہے یا نہیں۔
اس سلسلہ میں ایک اور اہم مضمون بھی بیان فرما دیا گیا ہے جو گہری توجہ کا مستحق ہے۔ فرمایا کہ ’’اللہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘‘ اور ’’اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غلط بینی و غلط روی سے بچنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے زندگی کے مظاہر میں ہر طرف وہ آثار پھیلا رکھے ہیں جو ان مظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی صاف صاف نشان دہی کر رہے ہیں۔ لیکن ان نشانات سے حقیقت تک صرف وہ لوگ رسائی حاصل کر سکتے ہیں جن کے اندر یہ دو صفات موجود ہیں:
ایک یہ کہ وہ جاہلانہ تعصبات سے پاک ہو کر علم حاصل کر نے کے اُن ذرائع سے کام لیں جو اللہ نے انسان کو دیے ہیں۔
دوسرے یہ کہ اُن کے اندر خود یہ خواہش موجود ہو کہ غلطی سے بچیں اور صحیح راستہ اختیار کریں۔
۱۲-یہاں سے پھر دعوے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل بھی اشارۃً بیان کر دی گئی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ عقیدۂ آخرت کے انکار کا لازمی اور قطعی نتیجہ جہنم ہے، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان اُ ن برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اور ہزارہا سال کے انسانی رویّے کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنے آپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخر کار خدا کو اپنے پورے کارنامۂ حیات کا حساب دینا ہے، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی نے کس قدر خوشحالی، آسائش، شہرت اور طاقت حاصل کی، اور جو اپنے انہی مادّہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الٰہی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ دنیا میں شتر بے مہار بن کر رہتے ہیں، نہایت برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں۔
یہ عقیدۂ آخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے۔ پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے۔ یہاں اسے صرف اشارۃً بیان کیا گیا ہے، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اگر عقیدۂ آخرت حقیقتِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوا اور اُ س کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے۔
اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرینِ آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِ عمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہو جاتی ہے۔ تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے۔ کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین اِن ’’نیکوکار‘‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفائے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبط نفس، عفت، حق شناسی، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمانداری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسبِ موقع ارتکاب کرا سکتی ہے۔ اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابل اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا ؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں؟
تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیز گاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چُرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لا مذہبی میں استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی لا مذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کر سکتا۔
۱۳-اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے :
ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے۔ ہر کام میں، ہر شعبہ زندگی میں، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا۔
یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر، اُن کو صحیح اور غلط، حق اور باطل، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟۔۔۔۔۔۔ ان کے رب کی طرف سے، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے۔
ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا؟۔۔۔۔۔۔ ان کے ایمان کی وجہ سے۔
یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کے نتائج ہیں؟۔۔۔۔۔ اُس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات، تندرستی، قوتِ کار، اور لذتِ زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے۔ لیکن یہ نتائج اُس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقوف ہے، مگر یہ نتائج اُن عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں کو جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر اندازِ فکر اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانونِ طبیعی میں وہ شخص جو کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے، اُن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اُس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اُن انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟
۱۴-یہاں ایک لطیف انداز میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے دار الامتحان سے کامیاب ہو کر نکلنے اور نعمت بھری جنتوں میں پہنچ جانے کے بعد یہ نہیں ہو گا کہ یہ لوگ بس وہاں پہنچتے ہی سامانِ عیش پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے اور ہر طرف سے لاؤ حوریں، لاؤ شراب اور بجے چنگ و رباب کی صدائیں بلند ہونے لگیں گی، جیسا کہ جنت کا نام سنتے ہی بعض کج فہم حضرات کے ذہن میں اس کا نقشہ گھومنے لگتا ہے۔ بلکہ درحقیقت صالح اہلِ ایمان دنیا میں افکارِ عالیہ اور اخلاقِ فاضلہ اختیار کر کے، اپنے جذبات کو سنوار کر، اپنی خواہشات کو سُدھار کر، اور اپنی سیرت و کردار کو پاکیزہ بنا کر، جس قسم کی بلند ترین شخصیتیں اپنی ذات میں بہم پہنچائیں گے وہی دنیا کے ماحول سے مختلف، جنت کے پاکیزہ ترین ماحول میں اور زیادہ اُبھر آئیں گی اور ان کے وہی اوصاف، جو دنیا میں انہوں نے پرورش کیے تھے وہاں اپنی پوری شان کے ساتھ ان کی سیرت میں جلوہ گر ہوں گے۔ ان کا محبوب ترین مشغلہ وہی اللہ کی حمد و تقدیس ہو گا جس سے وہ دنیا میں مانوس تھے، اور ان کی سوسائٹی میں وہی ایک دوسرے کی سلامتی چاہنے کا جذبہ کارفرما ہو گا جسے دنیا میں انہوں نے اپنے اجتماعی رویّے کی روح بنایا تھا۔
ترجمہ
اگر کہیں ۱۵اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دُنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلتِ عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے ) اِس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُو ٹ دے دیتے ہیں۔ انسان کا یہ حال ہے کہ جب اُس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پُکارتا ہے، مگر جب ہم اُس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اُس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پُکارا ہی نہ تھا۔ اِس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتُوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو ۱۶( جو اپنے اپنے زمانہ میں برسرِ عرُوج تھیں) ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روِش ۱۷ اختیار کی اور اُن کے رسول اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لا کر ہی نہ دیا۔ اِس طرح ہم مجرموں کو اُن کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیںاب اُن کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے، تا کہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔۱۸جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ ’’ اِس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا ا س میں کچھ ترمیم کرو‘‘۔ ۱۹ اے محمد ؐ، ان سے کہو ’’ میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اِس میں کوئی تغیّر و تبدّل کر لوں، میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ ‘‘ ۲۰اور کہو ’’ اگر اللہ کی مشیّت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سُناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گُزار چُکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۲۱؟پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے۔ یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ ۲۲ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ‘‘ ۲۳یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نا نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اے محمد ؐ، ان سے کہو ’’ کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے نہ وہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں؟۲۴‘‘ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ابتداءً سارے انسان ایک ہی اُمّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے ۲۵، اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا۔۲۶اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اِس نبی ؐ پر اِ س کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتاری گئی،۲۷ تو اِن سے کہو ’’ غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔‘‘ ۲۸ ؏ ۲
تفسیر
۱۵-اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیشِ نظر رکھنی چاہییں:
ایک یہ کہ اِس تقریر سے تھوڑی مدّت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہلِ مکہ چیخ اُٹھے تھے۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے، بت پرستی میں کمی آ گئی تھی، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آ گئی تھی کہ آخر کار ابو سفیان نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ آپؐ خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں۔ مگر جب قحط دُور ہو گیا، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دَور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بد اعمالیاں، اور دینِ حق کے خلاف وہی سرگرمیاں پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے۔ (ملاحظہ ہو النحل، آیت ۱۱۳۔ المومنون، آیات ۷۵ تا ۷۷۔ الدخان، آیات ۱۰ تا ۱۶)۔
دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی ان لوگوں کو انکارِ حق کی پاداش سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذابِ الٰہی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر آ کیوں نہیں جاتا۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے۔
اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی جلدی نہیں کرتا۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سُن کر بلائے قحط جلدی سے دُور کر دی۔ اُسی طرح وہ تمہارے چیلنج سُن کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فوراً بھیج دے۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہے خدا کا طریقہ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا، بلبلانا اور گڑگڑانا شروع کر دیا، اور جہاں راحت کا دَور آیا کہ سب کچھ بھول گئے۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذابِ الٰہی کا مستحق بناتی ہیں۔
۱۶-اصل میں لفظ ’’قَرن‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد عام طور پر تو عربی زبان میں ایک ’’عہد کے لوگ‘‘ ہوتے ہیں، لیکن قرآن مجید میں جس انداز سے مختلف مواقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’قرن‘‘ سے مراد وہ قوم ہے جو اپنے دور میں برسر عروج اور کلّی یا جزئی طور پر امامتِ عالم پر سرفراز رہی ہو۔ ایسی قوم کی ہلاکت لازماً یہی معنی نہیں رکھتی کہ اس کی نسل کو بالکل غارت ہی کر دیا جائے۔ بلکہ اس کا مقام عروج و امارت سے گرا دیا جانا، اس کی تہذیب و تمدن کا تباہ ہو جانا، اس کے تشخص کا مٹ جانا اور اس کے اجزاء کا پارہ پارہ ہو کر دوسری قوموں میں گم ہو جانا، یہ بھی ہلاکت ہی کی ایک صورت ہے۔
۱۷-یہ لفظِ ظلم اُن محدود معنوں میں نہیں ہے جو عام طور پر اس سے مراد لیے جاتے ہیں، بلکہ یہ ان تمام گناہوں پر حاوی ہے جو انسان بندگی کی حد سے گزر کر کرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۴۹)۔
۱۸-خیال رہے کہ خطاب اہلِ عرب سے ہو رہا ہے۔ اور ان سے کہا یہ جا رہا ہے کہ پچھلی قوموں کو اپنے اپنے زمانے میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تھا، مگر انہوں نے آخر کار ظلم و بغاوت کی روش اختیار کی اور جو انبیاء ان کو راہِ راست دکھانے کے لیے بھیجے گئ تھے ان کی بات انہوں نے نہ مانی۔ اس لیے وہ ہمارے امتحان میں ناکام ہوئیں اور میدان سے ہٹا دی گئیں۔ اب اے اہلِ عرب تمہاری باری آئی ہے۔ تمہیں ان کی جگہ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ تم اس امتحان گاہ میں کھڑے ہو جس سے تمہارے پیش رو ناکام ہو کر نکالے جا چکے ہیں۔ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارا انجام بھی وہی ہو جو ان کا ہوا تو اس موقع سے، جو تمہیں دیا جا رہا ہے، صحیح فائدہ اُٹھاؤ، پچھلی قوموں کی تاریخ سے سبق لو اور اُن غلطیوں کا اعادہ نہ کرو جو ان کی تباہی کی موجب ہوئیں۔
۱۹-اُن کا یہ قول اوّل تو اس مفروضے پر مبنی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے دماغ کی تصنیف ہے، اور اس کو خدا کی طرف منسوب کر کے انہوں نے صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ ان کی بات کا وزن بڑھ جائے۔ دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ تم نے توحید اور آخرت اور اخلاقی پابندیوں کی بحث کیا چھیڑ دی، اگر رہنمائی کے لیے اُٹھے ہو تو کوئی ایسی چیز پیش کرو جس سے قوم کا بھلا ہو اور اس کی دنیا بنتی نظر آئے۔ تا ہم اگر تم اپنی اس دعوت کو بالکل نہیں بدلنا چاہتے تو کم از کم اس میں اتنی لچک ہی پیدا کر و کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کم و بیش پر مصالحت ہو سکے۔ کچھ ہم تمہاری مانیں، کچھ تم ہماری مان لو۔ تمہاری توحید میں کچھ ہمارے شرک کے لیے، تمہاری خدا پرستی میں کچھ ہماری نفس پرستی اور دنیا پرستی کے لیے اور تمہارے عقیدۂ آخرت میں کچھ ہماری اِن امیدوں کے یے بھی گنجائش نکلنی چاہیے کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کرتے رہیں، آخرت میں ہماری کسی نہ کسی طرح نجات ضرور ہو جائے۔ پھر تمہارے یہ قطعی اور حتمی اخلاقی اصول بھی ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ان میں کچھ ہمارے تعصبات کے لیے، کچھ ہمارے رسم و رواج کے لیے، کچھ ہماری شخصی اور قومی اغراض کے لیے، اور کچھ ہماری خواہشات نفس کے لیے بھی جگہ نکلنی چاہیے، کیوں نہ ایسا ہو کہ دین کے مطالبات کا ایک مناسب دائرہ ہماری اور تمہاری رضامندی سے طے ہو جائے اور اس میں ہم خدا کا حق ادا کر دیں۔ اس کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جس جس طرح اپنی دنیا کے کام چلانا چاہتے ہیں چلائیں۔ مگر تم یہ غضب کر رہے ہو کہ پوری زندگی کو اور سارے معاملات کو توحید و آخرت کے عقیدے اور شریعت کے ضابطہ سے کس دینا چاہتے ہو۔
۲۰-یہ اوپر کی دونوں باتوں کا جواب ہے۔ اس میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ وحی کے ذریعہ سے میرے پاس آئی ہے جس میں کسی رد و بدل کا مجھے اختیار نہیں۔ اور یہ بھی کہ اس معاملہ میں مصالحت کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے، قبول کرنا ہو تو اس پورے دین کو جوں کا توں قبول کر و ورنہ پورے کو رد کر دو۔
۲۱-یہ ایک زبردست دلیل ہے اُن کے اِس خیال کی تردید میں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کو خود اپنے دل سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اس دعوے کی تائید میں کہ وہ خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ دوسرے تمام دلائل تو پھر نسبتاً دور کی چیز تھے، مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تو اُن لوگوں کے سامنے کی چیز تھی۔ آپؐ نے نبوت سے پہلے پورے چالیس سال ان کے درمیان گزارے تھے۔ ان کے شہر میں پیدا ہوئے، ان کی آنکھوں کے سامنے بچپن گزرا، جوان ہوئے، ادھیڑ عمر کو پہنچے۔ رہنا سہنا، ملنا جلنا، لین دین، شادی بیاہ، غرض ہر قسم کا معاشرتی تعلق انہی کے ساتھ تھا اور آپؐ کی زندگی کا کوئی پہلو اُن سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ایسی جانی بوجھی اور دیکھی بھالی چیز سے زیادہ کھلی شہادت اور کیا ہو سکتی تھی۔
آپؐ کی اس زندگی میں دو باتیں بالکل عیاں تھیں جنہیں مکہ کے لوگوں میں سے ایک ایک شخص جانتا تھا:
ایک یہ کہ نبوت سے پہلے کی پوری چالیس سالہ زندگی میں آپؐ نے کوئی ایسی تعلیم، تربیت اور صحبت نہیں پائی جس سے آپؐ کو وہ معلومات حاصل ہوتیں جن کے چشمے یکایک دعوائے نبوت کے ساتھ ہی آپؐ کی زبان سے پھوٹنے شروع ہو گئے۔ اس سے پہلے کبھی آپؐ اُن مسائل سے دلچسپی لیتے ہوئے، ان مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے، اور ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے جو اب قرآن کی اِن پے درپے سورتوں میں زیر بحث آرہے تھے۔ حد یہ ہے کہ اس پورے چالیس سال کے دوران میں کبھی آپؐ کے کسی گہرے دوست اور کسی قریب ترین رشتہ دار نے بھی آپؐ کی باتوں اور آپؐ کی حرکات و سکنات میں کوئی ایسی چیز محسوس نہیں کی جسے اُس عظیم الشان دعوت کی تمہید کہا جا سکتا ہو جو آپؐ نے اچانک چالیسویں سال کو پہنچ کر دینی شروع کر دی۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت تھا کہ قرآن آپ کے اپنے دماغ کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ خارج سے آپ کے اندر آئی ہوئی چیز ہے۔ اس لیے کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا جس کے نشونما اور ارتقاء کے واضح نشانات اُس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے بعض چالاک لوگوں نے جب خود محسوس کیا کر لیا کہ قرآن کو آپ کے دماغ کی پیداوار قرار دینا صریح طور پر ایک لغو الزام ہے تو آخر کو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کوئی اور شخص ہے جو محمدؐ کو یہ باتیں سکھا دیتا ہے۔ لیکن یہ دوسری بات پہلی بات سے بھی زیادہ لغو تھی۔ کیونکہ مکہ تو درکنار، پورے عرب میں کوئی اس قابلیت کا آدمی نہ تھا جس پر انگلی رکھ کر کہہ دیا جا تا کہ یہ اس کلام کا مصنف ہے یا ہو سکتا ہے۔ ایسی قابلیت کا آدمی کسی سوسائٹی میں چھپا کیسے رہ سکتا ہے ؟
دوسری بات جو آپؐ کی سابق زندگی میں بالکل نمایاں تھی، وہ یہ تھی کہ جھوٹ، فریب، جعل، مکاری، عیاری اور اس قبیل کے دوسرے اوصاف میں سے کسی کا ادنیٰ شائبہ تک آپ کی سیرت میں نہ پایا جاتا تھا۔ پوری سوسائٹی میں کوئی ایسا نہ تھا جو یہ کہہ سکتا ہو کہ اس چالیس سال کی یکجائی معاشرت میں آپؐ سے کسی ایسی صفت کا تجربہ اسے ہو ا ہے۔ بر عکس اس کے جن جن لوگوں کو بھی آپؐ سے سابقہ پیش آیا تھا وہ آپؐ کو اک نہایت سچے، بے داغ، اور قابل اعتماد (امین) انسان کی حیثیت ہی سے جانتے تھے۔ نبوت سے پانچ ہی سال پہلے تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آ چکا تھا جس میں حجر اسود کو نصب کرنے کے معاملہ پر قریش کے مختلف خاندان جھگڑ پڑے تھے اور آپ میں طے ہوا تھا کہ کل صبح پہلا شخص جو حرم میں داخل ہو گا اسی کو پنچ مان لیا جائے گا۔ دوسرے روز وہ شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم تھے جو وہاں داخل ہوئے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب لوگ پکار اُٹھے ھذا الامین، رضینا، ھٰذا محمدؐ۔ ’’یہ بالکل راستباز آدمی ہے، ہم اس پر راضی ہیں۔ یہ تو محمدؐ ہے ‘‘۔ اس طرح آپؐ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ پورے قبیلۂ قریش سے بھرے مجمع میں آپؐ کے ’’امین‘‘ ہونے کی شہادت لے چکا تھا۔ اب یہ گمان کرنے کی کیا گنجائش تھی کہ جس شخص نے تمام عمر کبھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی جھوٹ، جعل اور فریب سے کام نہ لیا تھا وہ یکایک اتنا بڑا جھوٹ اور ایسا عظیم الشان جعل و فریب لے کر اُٹھ کھڑا ہوا کہ اپنے ذہن سے کچھ باتیں تصنیف کیں اور ان کو پورے زور اور تحدِّی کے ساتھ خدا کی طرف منسوب کرنے لگا۔
اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ ان کے اس بیہودہ الزام کے جواب میں ان سے کہو کہ اللہ کے بندو، کچھ عقل سے تو کام لو، میں کوئی باہر سے آیا ہوا اجنبی آدمی نہیں ہوں، تمہارے درمیان اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں، میری سابق زندگی کو دیکھتے ہوئے تم کیسے یہ توقع مجھ سے کر سکتے ہو کہ میں خدا کی تعلیم اور اس کے حکم کے بغیر یہ قرآن تمہارے سامنے پیش کر سکتا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ قَصَص، حاشیہ نمبر ۱۰۹)۔
۲۲-یعنی اگر یہ آیات خدا کی نہیں ہیں اور میں انہیں خود تصنیف کر کے آیات الٰہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر یہ واقعی اللہ کی آیات ہیں اور تم ان کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا بھی کوئی ظالم نہیں۔
۲۳-بعض نادان لوگ ’’فلاح‘‘ کو طویل عمر، یا دنیوی خوشحالی، یا دنیوی فروغ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کر کے جیتا رہے، یا دنیا میں پھلے پھولے، یا اس کی دعوت کو فروغ نصیب ہو، اُسے نبی برحق مان لینا چاہیے کیونکہ اس نے فلاح پائی۔ اگر وہ نبی برحق نہ ہوتا تو جھوٹا دعویٰ کرتے ہی مار ڈالا جاتا، یا بھوکوں مار دیا جاتا اور دنیا میں اس کی بات چلنے ہی نہ پاتی۔ لیکن یہ احمقانہ استدلال صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو نہ تو قرآنی اصطلاحِ ’’فلاح‘‘ کا مفہوم جانتا ہو، نہ اُس قانونِ اِمہال سے واقف ہو جو قرآن کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے مقرر فرمایا ہے، اور نہ یہی سمجھتا ہو کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ فقرہ کس معنی میں آیا ہے۔
اوّل تو یہ بات کہ ’’مجرم فلاح نہیں پا سکتے ‘‘ اس سیاق میں اس حیثیت سے فرمائی ہی نہیں گئی ہے کہ یہ کسی کے دعوائے نبوت کو پرکھنے کا معیار ہے جس سے عام لوگ جانچ کر خود فیصلہ کر لیں کہ جو مدعی نبوت ’’فلاح‘‘ پار ہا ہو اس کے دعوے کو مانیں اور جو فلاح نہ پا رہا ہو اس کا انکار کر دیں۔ بلکہ یہاں تو یہ بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ’’میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی، اس لیے میں خود تو یہ جرم نہیں کر سکتا کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کروں، البتہ تمہارے متعلق مجھے یقین ہے کہ تم سچّے نبی کو جھٹلانے کا جرم کر رہے ہو اس لیے تمہیں فلاح نصیب نہیں ہو گی‘‘۔
پھر فلاح کا لفظ بھی قرآن میں دنیوی فلاح کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ پائیدار کامیابی ہے جو کسی خسران پر منتج ہونے والی نہ ہو، قطع نظر اس سے کہ دنیوی زندگی کے اِس ابتدائی مرحلہ میں اس کے اندر کامیابی کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ضلالت دنیا میں مزے سے جیے، خوب پھلے پھولے اور اس کی گمراہی کو بڑا فروغ نصیب ہو، مگر یہ قرآن کی اصطلاح میں فلاح نہیں، عین خسران ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک داعیِ حق دنیا میں سخت مصیبتوں سے دوچار ہو، شدّتِ آلام سے نڈھال ہو کر یا ظالموں کی دست درازیوں کا شکار ہو کر دنیا سے جلدی رخصت ہو جائے، اور کوئی اسے مان کر نہ دے، مگر یہ قرآن کی زبان میں خسران نہیں، عین فلاح ہے۔
علاوہ بریں قرآن میں جگہ جگہ یہ بات پوری تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کیا کرتا بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، اور اگر وہ اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور زیادہ بگڑتے ہیں تواللہ کی طرف سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی تمام شرارتوں کو پوری طرح ظہور میں لے آئیں اور اپنے عمل کی بنا پر اُس سزا کے مستحق ہو جائیں جس کے وہ اپنی بری صفات کی وجہ سے فی الحقیقت مستحق ہیں۔ پس اگر کسی جھوٹے مدعی کی رسی دراز ہو رہی ہو اور اس پر دنیوی ’’فلاح‘‘ کی برسات برس رہی ہو تو سخت غلطی ہو گی اگر اس کی اس حالت کو اس کے برسر ہدایت ہونے کی دلیل سمجھا جائے۔ خدا کا قانونِ اِمہال و استدراج جس طرح تمام مجرموں کے لیے عام ہے اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کے لیے بھی ہے اور ان کے اس مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر شیطان کو قیامت تک کے لیے جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس میں بھی یہ استثنا کہیں مذکور نہیں ہے کہ تیرے اور تو سارے فریب چلنے دیے جائیں گے لیکن اگر تُو اپنی طرف سے کوئی نبی کھڑا کرے گا تو یہ فریب نہ چلنے دیا جائے گا۔
ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات کے جواب میں وہ آیت پیش کر ے جو سورہ الحاقہ آیات ۴۴ – ۴۷ میں ارشاد ہوئی ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّ لَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ o لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِا لْیَمِیْنِ o ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ ’’یعنی اگر محمد ؐ نے خود گھڑ کر کوئی بات ہمارے نام سے کہی ہوتی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ دل کاٹ ڈالتے ‘‘۔ لیکن اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ جو شخص فی الواقع خدا کی طرف سے نبی مقرر کیا گیا ہو وہ اگر جھوٹی بات گھڑ کر وحی کی حیثیت سے پیش کرے تو فوراً پکڑا جائے۔ اِس سے یہ استدلال کرنا کہ جو مدعی نبوت پکڑ انہیں جا رہا ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ایک منطقی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خدا کے قانونِ اِمہال و استدراج میں جو استثناء اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے وہ صرف سچے نبی کے لیے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے وہ بھی اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے جو قانون بنایا ہو اس کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہو گا جو واقعی سرکاری ملازم ہوں۔ رہے وہ لوگ جو جعلی طور پر اپنے آپ کو ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے پیش کریں، تو ان پر ضابطۂ ملازمت کا نفاذ نہ ہو گا بلکہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ضابطۂ فوجداری کے تحت عام بدمعاشوں اور مجرموں کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ علاوہ بریں سورۂ الحاقہ کی اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ بھی اِس غرض کے لیے نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نبی کے پرکھنے کا یہ معیار بتایا جائے کہ اگر پردۂ غیب سے کوئی ہاتھ نمودار ہو کر اس کی رگِ دل اچانک کاٹ لے تو سمجھیں جھوٹا ہے ورنہ مان لیں کہ سچا ہے۔ نبی کے صادق یا کاذب ہونے کی جانچ اگر اس کی سیرت، اس کے کام، اور اُس چیز سے جو وہ پیش کر رہا ہو، ممکن نہ ہو تی تو ایسے غیر معقول معیار تجویز کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔
۲۴-کسی چیز کا اللہ کے علم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں، اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے۔ پس سفارشیوں کے معدوم ہونے کے لیے یہ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا نہیں کہ زمین یا آسمان میں کوئی اس کے حضور تمہاری سفارش کرنے والا ہے، پھر یہ تم کن سفارشیوں کی اس کو خبر دے رہے ہو؟
۲۵-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۳۰، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۴۔
۲۶-یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کر لیا ہوتا کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا، اور جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر غلط راہ پر جانا چاہیں گے انہیں ا س راہ پر جانے اور چلنے کا موقع دیا جائے گا، تو حقیقت کو آج ہی بے نقاب کر کے سارے اختلافات کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔
یہاں یہ بات ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر آج بھی لوگ اس اُلجھن میں ہیں اور نزولِ قرآن کے وقت بھی تھے کہ دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب والا اپنے ہی مذہب کو حق سمجھتا ہے۔ ایسی حالت میں آخر اس فیصلے کی صورت کیا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اختلافِ مذاہب دراصل بعد کی پیداوار ہے۔ ابتداء میں تمام نوعِ انسانی کا مذہب ایک تھا اور وہی مذہب حق تھا۔ پھر اس حق میں اختلاف کر کے لوگ مختلف عقیدے اور مذہب بناتے چلے گئے۔ اب اگر اس ہنگامۂ مذاہب کا فیصلہ تمہارے نزدیک عقل و شعور کے صحیح استعمال کے بجائے صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خدا خود حق کو بے نقاب کر کے سامنے لے آئے تو یہ موجودہ دنیوی زندگی میں نہیں ہو گا۔ دنیا کی یہ زندگی تو ہے ہی امتحان کے لیے، اور یہاں سارا امتحان اِسی بات کا ہے کہ تم حق کو دیکھے بغیر عقل و شعور سے پہچانتے ہو یا نہیں۔
۲۷-یعنی اس بات کی نشانی کہ یہ واقعی نبی بر حق ہے اور جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نشانی کے لیے ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ سچے دل سے دعوتِ حق کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو، عادت کو، نظامِ معاشرت و تمدن کو، غرض اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لیے تیار تھے اور بس اس وجہ سے ٹھیرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی ابھی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آ جائے۔ اصل بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لیے ایک بہانے کے طور پیش جاتا تھا۔ جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی۔ اس لیے کہ وہ ایمان لانا چاہتے نہ تھے۔ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اختیار کرنے میں یہ جو آزادی ان کو حاصل تھی کہ نفس کی خواہشات و رغبات کے مطابق جس طرح چاہیں کام کریں اور جس چیز میں لذت یا فائدہ محسوس کریں اس کے پیچھے لگ جائیں، اِس کو چھوڑ کر وہ ایسی غیبی حقیقتوں (توحید و آخرت) کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جنہیں مان لینے کے بعد ان کو اپنا سارا نظامِ حیات مستقل اخلاقی اصولوں کی بندش میں باندھنا پڑ جاتا۔
۲۸-یعنی جو کچھ اللہ نے اُتارا ہے وہ تو میں نے پیش کر دیا، اور جو اس نے نہیں اتارا وہ میرے اور تمہارے لیے ’’غیب‘‘ ہے جس پر سوائے خدا کے کسی کا اختیار نہیں، وہ چاہے توا تارے اور نہ چاہے تو نہ اُتارے۔ اب اگر تمہارا ایمان لانا اِسی پر موقوف ہے کہ جو کچھ خدا نے نہیں اُتارا ہے وہ اُترے تو اس کے انتظار میں بیٹھے رہو، میں بھی دیکھوں گا کہ تمہاری یہ ضد پوری کی جاتی ہے یا نہیں۔
ترجمہ
لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب اُنہیں رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملے میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں۔۲۹ ان سے کہو ’’ اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اُس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلمبند کر رہے ہیں۔‘‘ ۳۰ وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر با دِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ گھِر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اُس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ’’ اگر تُو نے ہم کو اِس بلا سے نجات دے دی تو ہم شُکر گزار بندے بنیں گے۔ ‘‘ ۳۱مگر جب وہ اُن کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے مُنحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے۔ دُنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہمارے طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو ) اس کے مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خُوب گھنی ہو گئی پھر عین اُس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور اُن کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کُچھ تھا ہی نہیں۔ اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ ( تم اس نا پائیدار زندگی کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہو) اور اللہ تمہیں دار السلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ ۳۲ (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے ) جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا اُن کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔۳۳ ان کے چہروں پر رُو سیاہی اور ذلّت نہ چھائے گی۔ وہ جنّت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جن لوگوں نے بُرائیاں کمائیں ان کی برائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ۳۴ ذلّت ان پر مسلّط ہو گی، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہو گا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی ۳۵ جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے ۳۶ اور ان کے شریک کہیں گے کہ ’’تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ ( تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو ) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔ ‘‘ ۳۷اُس وقت ہر شخص اپنے کیے کا مزا چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیے جائیں گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے گُم ہو جائیں گے۔ ؏ ۳
تفسیر
۲۹-یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱-۱۲ میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے اُن معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے۔ اسی وجہ سے تو آخر کار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اُس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آ جاتا جو محمد( صلی اللہ علیہ و سلم) تم کو دے رہے ہیں؟ مگر اس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیاکیا؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور بارانِ رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دُور ہو نے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں (چالبازیاں) کرنی شروع کر دیں تا کہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے ؟
۳۰-اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشۂ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے، حتیٰ کہ اچانک موت کا پیغام آ جائے گا اور تم اپنے کرتُوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤ گے۔
۳۱-یہ توحید کے برحق ہونے کی نشانی ہر انسان کے نفس میں موجود ہے۔ جب تک اسباب سازگار رہتے ہیں، انسان خدا کو بھولا اور دنیا کی زندگی پر پھولا رہتا ہے۔ جہاں اسباب نے ساتھ چھوڑ ا اور وہ سب سہارے جن کے بل پر وہ جی رہا تھا ٹوٹ گئے، پھر کٹّے سے کٹّے مشرک اور سخت سے سخت دہریے کے قلب سے بھی یہ شہادت اُبلنی شروع ہو جاتی ہے کہ اس سارے عالم اسباب پر کوئی خدا کارفرما ہے اور وہ ایک ہی خدائے غالب و توانا ہے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ نمبر ۲۹)۔
۳۲-یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس طریقے کی طرف جو آخرت کی زندگی میں تم کو دار السلام کا مستحق بناتی ہے۔ دار السلام سے مراد ہے جنت اور اس کے معنی ہیں سلامتی کا گھر، وہ جگہ جہاں کوئی آفت، کوئی نقصان، کوئی رنج اور کوئی تکلیف نہ ہو۔
۳۳-یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا۔
۳۴-یعنی نیکوکاروں کے برعکس بدکاروں کے ساتھ معاملہ یہ ہو گا کہ جتنی بدی ہے اتنی ہی سزا دے دی جائے گی۔ ایسا نہ ہو گا کہ جرم سے ذرہ برابر بھی زیادہ سزا دی جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حاشیہ ۱۰۹ الف)۔
۳۵-وہ تاریکی جو مجرموں کے چہرے پر پکڑے جانے اور بچاؤ سے مایوس ہو جانے کے بعد چھا جاتی ہے۔
۳۶-متن میں فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ کے الفاظ ہیں۔ اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط و تعلق توڑ دیں گے تا کہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں۔ لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورۂ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کر دیں گے، یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کر دیں گے۔ اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے ہم نے یہ طرزِ بیان اختیار کیا ہے کہ ’’ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے ‘‘ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہو گی، مشرکین جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جن کو ہم دنیا میں معبود بنائے ہوئے تھے، اور ان کے معبود جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جنہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا۔
۳۷-یعنی وہ تمام فرشتے جن کو دنیا میں دیوی اور دیوتا قرار دے کر پوجا گیا، اور وہ تمام جِنّ، ارواح، اسلاف، اجداد، انبیاء، اولیاء، شہداء وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انہیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقو ق تھے، وہاں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لا رہے ہو۔ تمہاری کوئی دعا، کوئی التجا، کوئی پکار اور فریاد، کوئی نذر و نیاز، کوئی چڑھاوے کی چیر، کوئی تعریف و مدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی و آستانہ بوسی و درگاہ گردی ہم تک نہیں پہنچی۔
ترجمہ
اِن سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے ؟ کون اِس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے ) پرہیز نہیں کرتے ؟تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی ربّ ہے۔ ۳۸ پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جار ہے ہو؟۳۹(اے نبی ؐ، دیکھو) اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے ربّ کی بات صادق آ گئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے۔ ۴۰اِن سے پوچھو، تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتداء بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے ؟۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی،۴۱ پھر تم یہ کس اُلٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو ؟۴۲اِن سے پوچھو تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟۴۳۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ پھر بھلا بتاؤ جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اِس دنیا کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو رہنمائی نہیں کر سکتا اِلّا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے ؟ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسے اُلٹے فیصلے کرتے ہو؟حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں ۴۴، حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔ اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے۔ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے۔ ۴۵ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ؟ کہو، ’’ اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سُورة اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو۔۴۶‘‘اصل بات یہ ہے کہ جو چیز اِن کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا اُس کو اِنہوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچّو) جھُٹلا دیا۔۴۷ اِسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھُٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو اُن ظالموں کا کیا انجام ہُوا۔اِن میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا ربّ اُن مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔ ۴۸ ؏ ۴
تفسیر
۳۸-یعنی اگر یہ سارے کام اللہ کے ہیں، جیسا کہ تم خود مانتے ہو، تب تو تمہارا حقیقی پروردگار، مالک، آقا، اور تمہاری بندگی و عبادت کا حق دار اللہ ہی ہوا۔ دوسرے جن کا اِن کاموں میں کوئی حصہ نہیں آخر ربوبیت میں کہاں سے شریک ہو گئے ؟
۳۹-خیال رہے کہ خطاب عام لوگوں سے ہے اور ان سے سوال یہ نہیں کیا جا رہا کہ ’’تم کدھر پھرے جاتے ہو‘‘ بلکہ یہ ہے کہ ’’تم کدھر پھرائے جا رہے ہو‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رُخ سے ہٹا کر غلط رُخ پر پھیر رہا ہے۔ اسی بنا پر لوگوں سے اپیل یہ کیا جا رہا ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو، اپنی گِرہ کی عقل سے کام لے کر سوچتے کیوں نہیں کہ جب حقیقت یہ ہے، تو آخر یہ تم کو کدھر چلایا جا رہا ہے۔ یہ طرزِ سوال جگہ جگہ ایسے مواقع پر قرآن میں اختیار کیا گیا ہے، اور ہر جگہ گمراہ کرنے والوں کا نام لینے کے بجائے ان کو صیغۂ مجہول کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے، تاکہ ان کے معتقدین ٹھنڈے دل سے اپنے معاملے پر غور کر سکیں، اور کسی کو یہ کہہ کر انہیں اشتعال دلانے اور ان کا دماغی توازن بگاڑ دینے کا موقع نہ ملے کہ دیکھو یہ تمہارے بزرگوں اور پیشواؤں پر چوٹیں کی جا رہی ہیں۔ اس میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس سے غافل نہ رہنا چاہیے۔
۴۰-یعنی ایسی کھلی کھلی اور عام فہم دلیلوں سے بات سمجھائی جاتی ہے، لیکن جنہوں نے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اپنی ضد کی بنا پر کسی طرح مان کر نہیں دیتے۔
۴۱-تخلیق کی ابتدا کے متعلق تو مشرکین مانتے ہی تھے کہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، ان کے شریکوں میں سے کسی کا اِس کام میں کوئی حصہ نہیں۔ رہا تخلیق کا اعادہ تو ظاہر ہے کہ جو ابتداءً پیدا کرنے والا ہے وہی اس عملِ پیدائش کا اعادہ بھی کر سکتا ہے، مگر جو ابتداءً ہی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو وہ کسطرح اعادۂ پیدائش پر قادر ہو سکتا ہے۔ یہ بات اگرچہ صریحًا ایک معقول بات ہے، اور خود مشرکین کے دل بھی اندر سے اس کی گواہی دیتے تھے کہ بات بالکل ٹھکانے کی ہے، لیکن انہیں اس کا اقرار کرنے میں اس بنا پر تامل تھا کہ اسے مان لینے کے بعد انکار آخرت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کے سوالات پر تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ خود کہیں گے کہ یہ کام اللہ کے ہیں، مگر یہاں اس کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ یہ ابتدائے خلق اور اعادۂ خلق کا کام بھی اللہ ہی کا ہے۔
۴۲-یعنی جب تمہاری ابتدا کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انتہا کا سرا بھی اسی کے ہاتھ میں، تو خود اپنے خیر خواہ بن کر ذرا سوچو کہ آخر تمہیں یہ کیا باور کرایا جا رہا ہے کہ ان دونوں سروں کے بیچ میں اللہ کے سوا کسی اور کو تمہاری بندگیوں اور نیاز مندیوں کا حق پہنچ گیا ہے۔
۴۳-یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ جس کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو کھانے پینے پہننے اور زندگی بسر کرنے کا سامان بہم پہنچے اور آفات، مصائب اور نقصانات سے وہ محفوظ رہے۔ بلکہ اُس کی ایک ضرورت (اور درحقیقت سب سے بڑی ضرورت) یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو اور وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ، اپنی قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ، اُس سرو سامان کے ساتھ جو روئے زمین پر اُس کے تصرف میں ہے، اُن بے شمار انسانوں کے ساتھ جن سے مختلف، حیثیتوں میں اس کو سابقہ پیش آتا ہے، اور مجموعی طور پر اس نظامِ کائنات کے ساتھ جس کے ماتحت رہ کر ہی بہر حال اس کو کام کرنا ہے، وہ کیا اور کس طرح معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی بحیثیت مجموعی کامیاب ہو اور اس کی کوششیں اور محنتیں غلط راہوں میں صرف ہو کر تباہی و بربادی پر منتج نہ ہوں۔ اسی صحیح طریقہ کا نام ’’حق ‘‘ ہے اور جو رہنمائی اس طریقہ کی طرف انسان کو لے جائے وہی ’’ہدایتِ حق‘‘ ہے۔ اب قرآن تمام مشرکین سے اور اُن سب لوگوں سے جو پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، یہ پوچھتا ہے کہ تم خدا کے سوا جن جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے ’’ہدایتِ حق‘‘ حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو؟۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسان خدا کے سوا جن کی بندگی کرتا ہے وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہیں:
ایک وہ دیویاں، دیوتا اور زندہ یا مردہ انسان جن کی پرستش کی جاتی ہے۔ سو اُن کی طرف تو انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریقے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں۔ رہی ہدایتِ حق، تو وہ نہ کبھی ان کی طرف سے آئی، نہ کبھی کسی مشرک نے اس کے لیے اُن کی طرف رجوع کیا، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے اخلاق، معاشرت، تمدن، معیشت، سیاست، قانون، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں۔
دوسرے وہ انسان جن کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کی پیروی و اطاعت کی جاتی ہے۔ سو وہ رہنما تو ضرور ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع وہ ’’رہنمائے حق‘‘ بھی ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا اُن میں سے کسی کا علم بھی اُن تمام حقائق پر حاوی ہے جن کو جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لیے ضروری ہے ؟ کیا ان میں سے کسی کی نظر بھی پورے دائرے پر پھیلتی ہے جس میں انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پھیلے ہوئے ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی بھی اُن کمزوریوں سے، ان تعصبات سے، اُن شخصی یا گروہی دلچسپیوں سے، اُن اغراض و خواہشات سے، اُن رجحانات و میلانات سے بالاتر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہو تے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے، اور ظاہر ہے کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا، تو آخر یہ لوگ ’’ہدایتِ حق‘‘ کا سرچشمہ کیسے ہو سکتے ہیں؟
اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو، تمہارے اِن مذہبی معبودوں اور تمدنی خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو راہِ راست کی طرف تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو؟ اوپر کے سوالات کے ساتھ مل کر یہ آخری سوال دین و مذہب کے پورے مسئلے کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں۔ ایک نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی اس کا پروردگار ہو، کوئی ملجا و مادیٰ ہو، کوئی دعاؤں کا سننے والا اور حاجتوں کا پورا کرنے والا ہو جس کا مستقل سہارا اِس عالمِ اسباب کے بے ثبات سہاروں کے درمیان رہتے ہوئے وہ تھام سکے۔ سو اوپر کے سوالات نے فیصلہ کر دیا کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دوسری نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے اور جس کے دیے ہوئے قوانینِ حیات کی پیروی پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ کی جا سکے۔ سو اس آخری سوال نے اُس کا فیصلہ بھی کر دیا کہ وہ بھی صرف خدا ہی ہے۔ ا س کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی (Secular) اصولِ تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔
۴۴-یعنی جنہوں نے مذاہب بنائے، جنہوں نے فلسفے تصنیف کیے، اور جنہوں نے قوانینِ حیات تجویز کیے انہوں نے بھی یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان و قیاس کی بنا پر کیا۔ اور جنہوں نے ان مذہبی اور دنیوی رہنماؤں کی پیروی کی انہوں نے بھی جان کر اور سمجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بنا پر اُن گا اتباع اختیار کر لیا کہ ایسے بڑے بڑے لوگ جب یہ کہتے ہیں اور باپ دادا ان کو مانتے چلے آرہے ہیں اور ایک دنیا ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔
۴۵- ’’جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق ہے ‘‘، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن اُن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کر رہا ہے۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اُپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے۔
’’الکتاب کی تفصیل ہے ‘‘، یعنی اُن اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لُبِّ لُباب (الکتاب) ہیں، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ، تلقین و تفہیم کے ساتھ، تشریح و توضیح کے ساتھ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۴۶-عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیلنج محض قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کی ادبی خوبیوں کے لحاظ سے تھا۔ اعجاز قرآن پر جس انداز سے بحثیں کی گئی ہیں اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہونی کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ لیکن قرآن کا مقام اس سے بلند تر ہے کہ وہ اپنی یکتائی و بے نظیری کے دعوے کی بنیاد محض اپنے لفظی محاسن پر رکھے۔ بلاشبہ قرآن اپنی زبان کے لحاظ سے بھی لاجواب ہے، مگر وہ اصل چیز جس کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسانی دماغ ایسی کتاب تصنیف نہیں کر سکتا، اس کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہیں۔ اس میں اعجاز کے جو جو پہلو ہیں اور جن وجوہ سے ان کا من جانب اللہ ہونا یقینی اور انسان کی ایسی تصنیف پر قادر ہونا غیر ممکن ہے ان کو خود قرآن میں مختلف مواقع پر بیان کر دیا گیا ہے اور ہم ایسے تمام مقامات کی تشریح پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس لیے یہاں بخوف طوالت اس بحث سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الطور، حاشیہ نمبر ۲۶، ۲۷)
۴۷-تکذیب یا تو اس بنیاد پر کی جا سکتی تھی کہ ان لوگوں کو اس کتاب کا ایک جعلی کتاب ہونا تحقیقی طور پر معلوم ہو تا۔ یا پھر اس بنا پر وہ معقول ہو سکتی تھی کہ جو حقیقتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اور جو خبریں اس میں دی گئی ہیں وہ غلط ثابت ہو جاتیں۔ لیکن ان دونوں وجوہِ تکذیب میں سے کوئی وجہ بھی یہاں موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کہ وہ ازروئے علم جانتا ہے کہ یہ کتاب گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ نہ کسی نے پردۂ غیب کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھ لیا ہے کہ واقعی بہت سے خدا موجود ہیں اور یہ کتاب خواہ مخواہ ایک خدا کی خبر سنا رہی ہے، یا فی الواقع خدا اور فرشتوں اور وحی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کتاب میں خواہ مخواہ یہ افسانہ بنا لیا گیا ہے۔ نہ کسی نے مر کر یہ دیکھ لیا ہے کہ دوسری زندگی اور اس کے حساب کتاب اور جزا و سزا کی ساری خبریں جو اس کتاب میں دی گئی ہیں غلط ہیں۔ لیکن اس کے با وجود نرے شک اور گمان کی بنیا د پر اس شان سے اس کی تکذیب کی جا رہی ہے کہ گویا علمی طور پر اس کے جعلی اور غلط ہونے کی تحقیق کر لی گئی ہے۔
۴۸-ایمان نہ لانے والوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ ’’خدا ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے ‘‘۔ یعنی وہ دنیا کا منہ تو یہ باتیں بنا کر بند کر سکتے ہیں کہ صاحب ہماری سمجھ میں بات نہیں آتی اس لیے نیک نیتی کے ساتھ ہم اسے نہیں مانتے، لیکن خدا جو قلب و ضمیر کے چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے وہ ان میں سے ایک ایک شخص کے متعلق جانتا ہے کہ کس کس طرح اس نے اپنے دل و دماغ پر قفل چڑھائے، اپنے آپ کو غفلتوں میں گم کیا، اپنے ضمیر کی آواز کو دبایا، اپنے قلب میں حق کی شہادت کو اُبھرنے سے روکا، اپنے ذہن سے قبولِ حق کی صلاحیت کو مٹایا، سن کر نہ سنا، سمجھتے ہوئے نہ سمجھنے کی کوشش کی اور حق کے مقابلہ میں اپنے تعصبات کو، اپنے دنیوی مفاد کو، اپنی باطن سے اُلجھی ہوئی اغراض کو اور اپنے نفس کی خواہشوں اور رغبتوں کو ترجیح دی۔ اسی بنا پر وہ ’’معصوم گمراہ‘‘ نہیں ہیں بلکہ در حقیقت مفسد ہیں۔
ترجمہ
اگر یہ تجھے جھُٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ ’’ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اُس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں۔‘‘ ۴۹ ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سُنتے ہیں، مگر کیا تُو بہروں کو سُنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟۵۰اِن میں سے بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں، مگر کیا تُو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انہیں کچھ نہ سُوجھتا ہو؟۵۱حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔۵۲ (آج یہ دُنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہو گی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے۔ ۵۳ (اُس وقت تحقیق ہو جائے گا کہ) فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھُٹلایا ۵۴ اور ہر گز وہ راہِ راست پر نہ تھے۔ جِن بُرے نتائج سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں ان کا کوئی حصہ ہم تیرے جیتے جی دکھا دیں یا اس سے پہلے ہی تجھے اُٹھالیں، بہرحال اِنہیں آنا ہماری ہی طرف ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے۔ ہر اُمّت کے لیے ایک رسُول ہے ۵۵، پھر جب کسی اُمّت کے پاس اُس کا رسُول آ جاتا ہے تو اس کا فیصلہ پُورے انصاف کے ساتھ چُکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔۵۶کہتے ہیں اگر تمہاری یہ دھمکی سچی ہے تو آخر یہ کب پُوری ہو گی؟کہو ’’ میرے اختیار میں خُود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں، سب کچھ اللہ کی مشیّت پر موقوف ہے۔ ۵۷ ہر اُمّت کے لیے مہلت کی ایک مدّت ہے، جب یہ مدّت پُوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی۔‘‘ ۵۸اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے (تو تم کیا کر سکتے ہو؟)۔ آخِر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟کیا جب وہ تم پر آ پڑے اسی وقت تم اسے مانو گے ؟۔۔۔۔اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے ! پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کا عذاب چکھو، جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جا سکتا ہے ؟پھر پُوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو، کہو ’’ میرے ربّ کی قسم، یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بُوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو۔‘‘ ؏ ۵
تفسیر
۴۹-یعنی خواہ مخواہ جھگڑے اور کج بحثیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں افترا پردازی کر رہا ہوں تو اپنے عمل کا میں خود ذمہ دار ہوں تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اور اگر تم سچی بات کو جھٹلا رہے ہو تو میرا کچھ نہیں بگاڑتے، اپنا ہی کچھ بگاڑ رہے ہو۔
۵۰-ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میں معنی کی طرف توجہ ہو اور یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں، اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات، خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو، مان کر نہ دیں گے، وہ سب کچھ سن کر بھی نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کر تے ہیں اور چَرنے چُگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں۔
۵۱-یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ جو اوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے، تا کہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُن کی اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریقِ زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریقِ زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی اِن خیر خواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سُنی اَن سُنی کیے جا رہے ہوں، اس کا کوئی دوست آ کر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو، ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ھِیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہو گا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آ جائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہو گی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آ جائے۔
۵۲-یعنی اللہ نے تو انہیں کان بھی دیے ہیں اور آنکھیں بھی اور دل بھی۔ اس نے اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز ان کو دینے میں بُخل نہیں کیا ہے جو حق و باطل کا فرق دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ضروری تھی۔ مگر لوگوں نے خواہشات کی بندگی اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو کر آپ ہی اپنی آنکھیں پھوڑ لی ہیں، اپنے کان بہرے کر لیے ہیں اور اپنے دلوں کو اتنا مسخ کر لیا ہے کہ ان میں بھلے بُرے کی تمیز، صحیح و غلط کے فہم اور ضمیر کی زندگی کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔
۵۳-یعنی جب ایک طرف آخرت کی بے پایاں زندگی ان کے سامنے ہو گی اور دوسری طرف یہ پلٹ کر اپنی دنیا کی زندگی پر نگاہ ڈالیں گے تو انہیں مستقبل کے مقابلہ میں اپنا یہ ماضی نہایت حقیر محسوس ہو گا۔ اُس وقت اِن کو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی میں تھوڑی سی لذتوں اور منفعتوں کی خاطر اپنے اس ابدی مستقبل کو خراب کر کے کتنی بڑی حماقت کا ارتکاب کیا ہے۔
۵۴-یعنی اس بات کو کہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
۵۵- ’’اُمت‘‘ کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ ایک رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی اُمت ہیں۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رسول ان کے درمیان زندہ موجود ہو، بلکہ رسول کے بعد بھی جب تک اس کی تعلیم موجود رہے اور ہر شخص کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہو کہ وہ درحقیقت کس چیز کی تعلیم دیتا تھا، اس وقت تک دنیا کے سب لوگ اس کی امت ہی قرار پائیں گے اور ان پر وہ حکم ثابت ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی امت ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قرآن اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا۔ اسی وجہ سے آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ’’ہر قوم میں ایک رسول ہے ‘‘ بلکہ ارشاد ہوا کہ ’’ہر امت کے لیے ایک رسول ہے ‘‘۔
۵۶-مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہ انسانی تک پہنچنا گویا اُس گروہ پر اللہ کی حجّت کا پورا ہونا ہے۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے، کسی مزید اتمام حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ رسول کی بات مان لیں اور اپنا رویہ درست کر لیں وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اور جو اس کی بات نہ مانیں وہ عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ خواہ وہ عذاب دنیا و آخرت دونوں میں دیا جائے یا صرف آخرت میں۔
۵۷-یعنی میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ فیصلہ میں چکاؤں گا اور نہ ماننے والوں کو میں عذاب دوں گا۔ اس لیے مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ فیصلہ چکائے جانے کی دھمکی کب پوری ہو گی۔ دھمکی تو اللہ نے دی ہے، وہی فیصلہ چکائے گا اور اسی کے اختیار میں ہے کہ فیصلہ کب کرے اور کس صورت میں اُس کو تمہارے سامنے لائے۔
۵۸-مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد با ز نہیں ہے۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اُسی وقت جو ایمان لے آیا بس وہ تو رحمت کا مستحق قرار پایا اور جس کسی نے اس کو ماننے سے انکار کیا یا ماننے میں تامل کیا اُس پر فوراً عذاب کا فیصلہ نافذ کر دیا گیا۔ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق، اور ہر گروہ اور قوم کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق، سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے۔ یہ مہلت کا زمانہ بسا اوقات صدیوں تک دراز ہوتا ہے اور اس با ت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہیے۔ پھر جب وہ مہلت، جو سراسر انصاف کے ساتھ اس کے لیے رکھی گئی تھی، پوری ہو جاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا، تب اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ یہ فیصلے کا وقت اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آ سکتا ہے اور نہ وقت آ جانے کے بعد ایک لمحہ کے لیے ٹل سکتا ہے۔
ترجمہ
اگر ہر اُس شخص کے پاس جس نے ظلم کیا ہے، رُوئے زمین کی دولت بھی ہو تو اُس عذاب سے بچنے کے لیے وہ اُسے فدیہ میں دینے پر آمادہ ہو جائے گا۔ جب یہ لوگ اس عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل ہی دل میں پچھتائیں گے۔ ۵۹ مگر ان کے درمیان پورے انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا، کوئی ظلم ان پر نہ ہو گا سُنو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ سُن رکھو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہو گا۔لوگو، تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ، کہو کہ ’’ یہ اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ اے نبی ؐ، ان سے کہو ’’تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق ۶۰ اللہ نے تمہارے لیے اُتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرا لیا ۶۱‘‘ اِن سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟۶۲جو لوگ اللہ پر یہ جھوٹا افترا باندھتے ہیں ان کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز ان سے کیا معاملہ ہو گا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے۔ ۶۳ ؏ ٦
تفسیر
۵۹-جس چیز کو عمر بھر جھٹلاتے رہے، جسے جھوٹ سمجھ کر ساری زندگی غلط کاموں میں کھپا گئے اور جس کی خبر دینے والے پیغمبروں کو طرح طرح کے الزام دیتے رہے، وہی چیز جب ان کی توقعات کے بالکل خلاف اچانک سامنے آ کھڑی ہو گی تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی، ان کا ضمیر انہیں خود بتا دے گا کہ جب حقیقت یہ تھی تو جو کچھ وہ دنیا میں کر کے آئے ہیں اُ س کا انجام اب کیا ہونا ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ زبانیں بند ہوں گی اور ندامت و حسرت سے دل اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے ہوں گے۔ جس شخص نے قیاس و گمان کے سودے پر اپنی ساری پونجی لگا دی ہو اور کسی خیر خواہ کی بات مان کر نہ دی ہو، وہ دیوالہ نکلنے کے بعد خود اپنے سوا اور کس کی شکایت کر سکتا ہے۔
۶۰-اردو زبان میں رزق کا اطلاق صر ف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اُس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دستر خوان کی چھوٹی سی دنیا میں مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بنا پر لوگوں نے کر ڈالی ہے۔ اس غلط فہمی میں جہلا اور عوام ہی نہیں علما تک مبتلا ہیں۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطاء اور بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے، حتیٰ کہ اولاد تک رزق ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رُزَیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریباً وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں۔ مشہور دعا ہے۔ مشہور دعا ہے اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ، یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے۔ محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ علمًا فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رز ق اور اس کی مدت عمر اور اس کا کام لکھ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رزق سے مراد صرف وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائے گا۔ خود قرآن میں ہے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ، جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف اُن پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کر لی ہیں، سخت غلطی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے، لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کر لیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اسی بنا ہر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سا زی کی جانے لگے، تو عامی تو درکنار، علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اور مفسرینِ قرآن و شیوخِ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت الٰہی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کر لینا۔
۶۱-یعنی تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ کتنا سخت باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو، پھر یہ حق آخر تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف، استعمال اور انتفاع کے لیے خود حد بندیاں مقرر کرو؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کر لینے کا حق ہے اور اس معاملہ میں آقا کے کچھ بولنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے تو اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ تمہارا اپنا ملازم اگر تمہارے گھر میں اور تمہارے گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کے لیے اس آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کر ے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے ؟۔۔۔۔۔۔ اُس نوکر کا معاملہ تو دوسرا ہی ہے جو سرے سے یہی نہیں مانتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقا بھی ہے اور یہ کسی اور کا مال ہے جو اس کے تصرف میں ہے۔ اُس بد معاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیرِ بحث نہیں ہے۔ یہاں سوال اُس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اُسی کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف کے حدود مقرر کر لینے کا حق مجھے آپ ہی حاصل ہے اور آقا سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۶۲-یعنی تمہاری یہ پوزیشن صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی تھی کہ آقا نے خود تم کو مجاز کر دیا ہوتا کہ میرے مال میں تم جس طرح چاہو تصرف کرو اپنے عمل اور استعمال کے حدود، قوانین، ضوابط سب کچھ بنا لینے کے جملہ حقوق میں نے تمہیں سونپے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تمہارے پاس واقعی اس کی کوئی سند ہے کہ آقا نے تم کو یہ اختیارات دے دیے ہیں؟ یا تم بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ وہ تمام حقوق تمہیں سونپ چکا ہے ؟ اگر پہلی صورت ہے تو براہِ کرم وہ سند دکھاؤ، ورنہ بصورت دیگر یہ کھلی بات ہے کہ تم بغاوت پر جھوٹ اور افترا پردازی کا مزید جرم کر رہے ہو۔
۶۳- ’’یعنی یہ تو آقا کی کمال درجہ مہربانی ہے کہ وہ نوکر کو خود بتاتا ہے کہ میرے گھر میں اور میرے مال میں اور خود اپنے نفس میں تُو کونسا طرزِ عمل اختیار کرے گا تو میری خوشنودی اور انعام اور ترقی سے سرفراز ہو گا، اور کس طریقِ کار سے میرے غضب اور سزا اور تنزل کا مستوجب ہو گا۔ مگر بہت سے بے وقوف نوکر ایسے ہیں جو اس عنایت کا شکریہ ادا نہیں کرتے۔ گویا ان کے نزدیک ہونا یہ چاہیے تھا کہ آقا اُن کو بس اپنے گھر میں لا کر چھوڑ دیتا اور سب مال اُن کے اختیار میں دے دینے کے بعد چھُپ کر دیکھتا رہتا کہ کون سا نوکر کیا کرتا ہے، پھر جو بھی اُس کی مرضی کے خلاف۔۔۔۔۔۔ جس کا کسی نوکر کو علم نہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی کام کرتا تو اُسے وہ سزا دے ڈالتا۔ حالانکہ اگر آقا نے اپنے نوکروں کو اتنے سخت امتحان میں ڈالا ہوتا تو ان میں سے کسی کا بھی سزا سے بچ جانا ممکن نہ تھا۔
ترجمہ
سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویّہ اختیار کیا۔دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اے نبی ؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں، عزّت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے، اور سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے سوا ( اپنے خود ساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ( کھُلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو) سُنتے ہیں۔۶۵ لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۶۶، سُبحان اللہ!۶۷ وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اُس کی مِلک ہے۔ ۶۸ تمہارے پاس اِس قول کے لیے آخر دلیل کیا ہے ؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟اے محمد ؐ، کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پا سکتے۔ دُنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں، پھر ہماری طرف اُن کو پلٹنا ہے، پھر ہم اُس کُفر کے بدلے میں جس کا وہ ارتکاب کر تے رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ؏ ۷
تفسیر
۶۵-یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے جسے بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تجسّس، جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے اور محسُوس کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی حقیقت پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے، دنیا میں اُن سب لوگوں کے لیے جو وحی و الہام سے براہِ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے، مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ کوئی شخص بھی خواہ وہ دہریت اختیار کرے یا شرک یا خدا پرستی، بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسّس کیے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی، اپنی بساط بھر، فلسفیانہ غور و فکر کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پیغمبر ہمیں مظاہرِ کائنات کے پیچھے جس حقیقت کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں۔ اس تجسّس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار طریقِ تجسّس پر ہے۔ اس کے غلط ہونے سے غلط رائے اور صحیح ہونے سے صحیح رائے قائم ہوتی ہے۔ اب ذرا جائزہ لے کر دیکھیے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسّس کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے ہیں:
مشرکین نے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے۔
اِشراقیوں اور جوگیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھونگ رچایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کر لیتے ہیں، لیکن فی الواقع اُنہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے۔ وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال اُنہوں نے قائم کر لیا ہے اسی پر تخیل کو جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔
اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں تو گمان ہی ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کر کے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام ’’قیاس‘‘ رکھ دیا ہے۔
سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا ہے، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیا س و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔
پھر ان سب گروہوں کے اوہام اور گمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی ہی محبوب راہ پر مُڑنے، اور مُڑ جانے بعد مُڑے رہنے پر مجبور کر دیا۔
قرآن اِس طریقِ تجسّس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاشِ حق کی بنا گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعصب کی وجہ سے کسی کو معقول بات سُننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی دُہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لیے خود حقیقت کو پا لینا تو ناممکن تھا ہی، انبیاء کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہو گیا۔
اس کے مقابلہ میں قرآن فلسفیانہ تحقیق کے لیے صحیح علمی و عقلی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق اُن لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے، بلا تعصب سُنو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ و استدراج کی بنا پر نہیں بلکہ ’’علم‘‘ کی بنا تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے۔ پھر کائنات میں جو آثار(باصطلاح قرآن ’’نشانات‘‘ ) تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو، ان کی شہادتوں کو مرتب کر کے دیکھو، اور تلاش کرتے چلے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے جس حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اُس کی طرف اشارہ کرنے والی علامات تم کو اسی ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسی علامات نظر آئیں اور ان کے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں تم خواہ مخواہ اُن لوگوں کو جھٹلاؤ جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ یہی طریقہ فلسفۂ اسلام کی بنیا د ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی افلاطون اور ارسطو کے نقشِ قدم پر چل پڑے۔ قرآن میں جگہ جگہ نہ صرف اِس طریق کی تلقین کی گئی ہے، بلکہ خود آثارِ کائنات کو پیش کر کر کے اس سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا باقاعدہ تربیت دی گئی ہے تاکہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔ چنانچہ اس آیت میں بھی مثال کے طور پر صرف دو آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، یعنی رات اور دن۔ یہ انقلابِ لیل و نہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ یہ ایک عالمگیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے۔ اِس میں صریح حکمت اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے کیونکہ تمام موجودات زمین کی بے شمار مصلحتیں اسی گردشِ لیل و نہار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس میں صریح ربوبیت اور رحمت اور پروردگاری کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر ناظم ایک ہے، اور یہ بھی کہ وہ کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور با مقصد کام کرتا ہے، اور یہ بھی کہ وہی محسن و مربّی ہونے کے حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے، اور یہ بھی کہ گردشِ لیل و نہار کے تحت جو کوئی بھی ہے وہ رب نہیں مربوب ہے، آقا نہیں غلام ہے۔ اِن آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کیے ہیں وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں۔
۶۶-اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہلِ مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خد اکا بیٹا ٹھیرا لیا۔
۶۷-سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہارِ حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں، یعنی یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ ہر عیب سے منزّہ ہے ‘‘۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے۔ لوگوں کے اِس قول پر اظہارِ حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے، ا س کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے۔
۶۸-یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اُس کی ملک ہیں۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آ سکتے ہیں:
ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنیٰ۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اُس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی جوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لا ولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اُس نقصان کی، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، برائے نام ہی سہی، کچھ تو تلافی کر دے۔ یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، بہر حال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب، بہت سی کمزوریوں، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کر رہے ہو۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ اُن حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے۔ صفا ت کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے، مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ’’جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔
اِن کو نوحؑ ۶۹ کا قصہ سُناؤ، اُس وقت کا قصہ جب اُس نے اپنی قوم سے کہا تھا ’’ اے برادرانِ قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سُنا سُنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لو اور جو منصُوبہ تمہارے پیشِ نظر ہو اس کے خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو۔ ۷۰ تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا ( تو میرا کیا نقصان کیا) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ( خواہ کو ئی مانے یا نہ مانے )میں خود مسلم بن کر رہوں‘‘۔۔۔۔انہوں نے اُسے جھُٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُسے اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور اُنہی کو زمین میں جانشین بنایا اور اُن سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا تھا۔ پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبّہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی اُنہوں نے مان کر نہ دیا) اُن کا کیا انجام ہوا۔پھر نوح ؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو اُنہوں نے پہلے جھُٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اِس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹَھپّہ لگا دیتے ہیں۔۷۱۷۲ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا ۷۳ اور وہ مجرم لوگ تھے۔ پس جب ہمارے پاس سے حق اُن کے سامنے آیا تو اُنہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھُلا جادُو ہے۔ ۷۴موسیٰ ؑ نے کہا: ’’ تم حق کو یہ کہتے ہو جب کہ وہ تمہارے سامنے آ گیا؟ کیا یہ جادُو ہے ؟ حالانکہ جادُوگر فلاح نہیں پایا کرتے۔ ‘‘ ۷۵اُنہوں نے جواب دیا ’’ کیا تُو اِس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تُم دونوں کی قائم ہو جائے ؟۷۶ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘ اور فرعون نے ( اپنے آدمیوں سے ) کہا کہ ’’ ہر ماہرِ فن جادوگر کو میرے پاس حاضر کرو‘‘۔۔۔۔جب جادوگر آ گئے تو موسیٰ ؑ نے اُن سے کہا ’’ جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو۔‘‘ پھر جب اُنہوں نے اپنے اَنچھر پھینک دیے تو موسیٰ ؑ نے کہا ’’ یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادُو ہے ۷۷، اللہ ابھی اسے باطل کیے دیتا ہے، مفسدوں کے کام کو اللہ سُدھرنے نہیں دیتا،اور اللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ ؏ ۸
ترجمہ
۶۹-یہاں تک تو ان لوگوں کو معقول دلائل اور دل کو لگنے والے نصائح کے ساتھ سمجھایا گیا تھا کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے اور وہ کیوں غلط ہے، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے۔ اب ان کے اُس طرزِ عمل کی طرف توجہ منعطف ہوتی ہے جو وہ اِس سیدھی سیدھی اور صاف صاف تفہیم و تلقین کے جواب میں اختیار کر رہے تھے۔ دس گیارہ سال سے ان کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے اس معقول تنقید اور صحیح رہنمائ پر غور کر کے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے، اُلٹے اُ س شخص کی جان کے دشمن ہو گئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کے لیے پیش کر رہا تھا۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سے اور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لیے سخت ناگوار، بلکہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کر لے، ورنہ ہم زبردستی اُس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تا کہ بینائی جیسی چیز ہماری سرزمین میں نہ پائی جائے۔ یہ طرزِ عمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا، اس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انہیں نُوحؑ کا قصہ سُنا دو، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے۔
تفسیر
۷۰-یہ چیلنج تھا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو، میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو، ہود، آیت ۵۵)۔
۷۱-حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتبہ غلطی کر جانے کے بعد پھر اپنی بات کی اپج اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اُسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیں اسے پھر کسی فہمائش، کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر آخر کار ایسی پھِٹکار پڑتی ہے کہ انہیں پھر کبھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی۔
۷۲-اس موقع پر اُن حواشی کو پیشِ نظر رکھا جائے جو ہم نے سورۂ اعراف(رکوع ۱۳ تا ۲۱) میں قصۂ موسیٰؑ و فرعون پر لکھے ہیں۔ جن امور کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ان کا اعادہ یہاں نہ کیا جائے گا۔
۷۳-یعنی انہوں نے اپنی دولت و حکومت اور شوکت و حشمت کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھ لیا اور اطاعت میں سر جھکا دینے کے بجائے اکڑ دکھائی۔
۷۴-یعنی حضرت موسیٰ ؑ کا پیغام سُن کر وہی کچھ کہا جو کفارِ مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام سُن کر کہا تھا کہ ’’یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے ‘‘۔ (ملاحظہ ہو اسی سورۂ یونس کی دوسری آیت)۔
یہاں سلسلۂ کلام کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام بھی دراصل اُسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح اور ان کے بعد کے تمام انبیاء، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک، مامور ہوتے رہے ہیں۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آ رہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدۂ توحید و آخرت کی دعوت کو، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبروں نے پیش کیا ہے، قبول کیا جائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے، اور اس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازماً اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کی دعوت تھی، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا، تو اِس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بے جوڑ ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل (ایک مسلمان قوم) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے (اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے ) نجات دلائیں۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورۂ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہُ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی۔ ’’ فرعون کے پا س جا کیونکہ وہ حدّی بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تُو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے، اور میں تجھے تیرے ربّ کی طرف رہنمائی کروں تو تُو اس سے ڈرے ‘‘ ؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور آخر کار حضرت موسیٰ کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایا ں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد، اور دین حق کی دعوت محض اُس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ، آیات ۴۴ تا ۸۲۔ الزخرف، ۴۶ تا ۵۶۔ المزمل ۱۶ – ۱۶)۔
۷۵- ’’مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اِسے جادو قرار دے دیا، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بے دھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارتِ نفس اختیار کرنے کی دعوت دے ؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو، پھر جب اُسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا،چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مِل جائے۔
اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جادوگر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے۔
۷۶-ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور ا س کے درباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمینِ مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰؑ اہلِ مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، حاشیہ نمبر ۶۶۔ المومن، حاشیہ نمبر ۴۳)۔
۷۷-یعنی جادو وہ نہ تھا جو میں نے دکھا یا تھا، جادو یہ ہے جو تم دکھا رہے ہو۔
ترجمہ
(پھر دیکھو کہ) موسیٰ ؑ کو اِس قوم میں سے چند نوجوانوں ۷۸ کے سوا کسی نے نہ مانا ۷۹، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے ( جنہیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔۸۰ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’ لوگو، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اُس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو۔۸۱‘‘اُنہوں نے جواب دیا ’’۸۲ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے ربّ، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا ۸۳اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے۔ ‘‘اور ہم نے موسیٰ ؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ ’’ مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیّا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لواور نماز قائم کرو ۸۴ اور اہلِ ایمان کو بشارت دے دو۔‘‘ ۸۵موسیٰؑ نے دعا ۸۶ کی ’’ اے ہمارے ربّ، تُو نے فرعون اور اُس کے سرداروں کو دُنیا کی زندگی میں زینت ۸۷ اور اموال ۸۸ سے نواز رکھا ہے۔ اے ربّ، کیا یہ اِس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے ربّ، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مُہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔‘‘ ۸۹اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ’’ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ ‘‘ ۹۰اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گُزار لے گئے۔ پھر فرعون اور اُس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے اُن کے پیچھے چلے۔۔۔۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اُٹھا ’’ میں نے مان لیا کہ خداوندِ حقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جِس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ ۹۱‘‘( جواب دیا گیا) ’’ اب ایمان لاتا ہے !حالانکہ اس سے پہلے تک تُو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تا کہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے ۹۲ اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔‘‘ ۹۳ ؏ ۹
تفسیر
۷۸-متن میں لفظ ذُرِّ یَّۃٌ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ ’’نوجوان‘‘ کیا ہے۔ مگر دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس پر خطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور علمبردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ اُن کو خطرات سے پُر نظر آ رہا تھا، بلکہ وہ اُلٹے نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰ کے قریب نہ جاؤ، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لاؤ گے۔
یہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کی آبادی میں سے بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند با ہمت نوجوان ہی تھے۔ وہ ابتدائی مسلمان جو اِن آیات کی نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقتِ اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے۔ علی ابن ابی طالبؓ، جعفر ؓ طیّار، زبیرؓ، سعد بن ؓ ابی وقاص، مُصعَبؓ بن عُمَیر، عبد اللہؓ بن مسعود جیسے لوگ قبولِ اسلام کے وقت ۲۰ سال سے کم عمر کے تھے۔ عبد الرحمٰن ؓ بن عوف، بلالؓ، صُہَیب ؓ کی عمریں ۲۰ سے ۳۰ سال کی درمیان تھیں۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ، زید بن حارثہؓ، عثمان بن عفانؓ اور عمر فاروقؓ ۳۰ سے ۳۵ سال کے درمیان عمر کے تھے۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیقؓ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت ۳۸ سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ تھی، یعنی حضرت عبیدہ بن حارثؓ مُطَّلبی۔ اور غالباً پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضور کے ہم عمر تھے، یعنی عَمّار بن یاسرؓ۔
۷۹-متن میں فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسیٰ کے الفاظ ہیں۔ اس سے بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید بنی اسرائیل سب کے سب کافر تھے اور ابتداءً ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے۔ لیکن ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو وہ بالعموم اطاعت و انقیاد کے معنی دیتا ہے، یعنی کسی کی بات ماننا اور اس کے کہے پر چلنا۔ پس دراصل ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ چند نوجوانوں کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی پوری قوم میں سے کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہ ہوا کہ حضرت موسیٰ کو اپنا رہبر و پیشوا مان کر ان کی پیروی اختیار کر لیتا اور اس دعوتِ اسلامی کے کام میں ان کا ساتھ دیتا۔ پھر بعد کے فقرے نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ان کے اس طرزِ عمل کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حضرت موسیٰ کے صادق اور ان کی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اور خصوصاً ان کے اکابر و اشراف، حضرت موسیٰ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو فرعون کی سخت گیری کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اگرچہ یہ لوگ نسل اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے اُمتی تھے اور اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب مسلمان تھے، لیکن ایک مدّتِ دراز کے اخلاقی انحطاط نے اور اُس پست ہمتی نے جو زیردستی سے پیدا ہوئی تھی، ان میں اتنا بل بوتا باقی نہ چھوڑا تھا کہ کفر و ضلالت کی فرمانروائی کے مقابلہ میں ایمان و ہدایت کا عَلَم لے کر خود اُٹھتے، یا جو اُٹھا تھا اُس کا ساتھ دیتے۔
حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی اس کشمکش میں عام اسرائیلیوں کا طرزِ عمل کیا تھا، اس کا اندازہ بائیبل کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے :
’’ جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو اُن کو موسیٰ اور ہارون ملاقات کے لیے راستہ پر کھڑے ملے۔ تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے، تم نے تو ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھِنَونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے اُن کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے ‘‘۔ (خروج ۶ : ۲۰ – ۲۱)
تَلمُود میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہتے تھے :
’’ہماری مثال تو ایسی ہے جیسے ایک بھیڑیے نے بکری کو پکڑا اور چرواہے نے آ کر اس کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں کی کشمکش میں بکری کے ٹکڑے ہو گئے۔ بس اسی طرح تمہاری اور فرعون کی کھینچ تان میں ہمارا کام تمام ہو کر رہے گا‘‘۔
انہی باتوں کی طرف سورۂ اعراف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ اُوْ ذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا (آیت ۱۲)۔
۸۰-متن میں لفظ مُسْرِ فِیْنَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا۔ مگر اس لفظی ترجمے سے اس کی اصل روح نمایاں نہیں ہوتی۔ مسرفین سے مراد دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے مطلب کے لیے کسی بُرے سے بُرے طریقے کو بھی اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے۔ کسی ظلم اور کسی بد اخلاقی اور کسی وحشت و بربریت کے ارتکاب سے نہیں چوکتے۔ اپنی خواہشات کے پیچھے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی حد نہیں جس پر جا کر وہ رُک جائیں۔
۸۱-ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کسی کافر قوم کو خطاب کر کے نہیں کہے جا سکتے تھے۔ حضرت موسیٰ کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم اس وقت مسلمان تھی، اور حضرت موسیٰ ان کو یہ تلقین فرما رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، تو فرعون کی طاقت سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرو۔
۸۲-یہ جواب اُن نوجوانوں کا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے تھے۔ یہاں قالوا کی ضمیر قوم کی طرف نہیں بلکہ ذریۃ کی طرف پھر رہی ہے جیسا کہ سیاق کلام سے خود ظاہر ہے۔
۸۳-ان صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ "ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا” بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں کچھ لوگ قیامِ حق کی لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک طرف باطل کے اصلی علمبردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے اِن داعیانِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلہ میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب، لاحاصل، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو اُلٹا برسر باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اُس خلش کو مٹائے جو اُن دعوتِ اقامتِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر اُسی طاقت کے حق میں پڑتا ہے جس کا پلہ بھاری رہے، خواہ وہ طاقتِ حق ہو یا باطل۔ اس صورتِ حال میں داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہر غلطی، ہر کمزوری اور خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہو گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کی ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہو گا، اور آخر کار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔ تیسرا گروہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ حق وہی ہے جو غالب رہا۔ اسی طرح وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے، بکلہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدتہائے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ پس یہ معنی خیز دعا تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ نہ بن کر رہ جائیں۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بار آور کر دے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق لے لیے سببِ خیر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔
۸۴-اس آیت کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس کے الفاظ پر اور اس ماحول پر جس میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے تھے، غور کرنے پر میں یہ سمجھا ہوں کہ غالباً مصر میں حکومت کے تشدد سے اور خود بنی اسرائیل کے اپنے ضعفِ ایمانی کی وجہ سے اسرائیلی اور مصری مسلمانوں کے ہاں نماز با جماعت کا نظام ختم ہو چکا تھا، اور یہ ان کے شیرازے کے بکھرنے اور ان کی دینی روح پر موت طاری ہو جانے کا ایک بہت بڑا سبب تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اس نظام کو از سر نو قائم کریں اور مصر میں چند مکان اس غرض کے لیے تعمیر یہ تجویز کر لیں کہ وہاں اجتماعی نماز ادا کی جایا کرے۔ کیونکہ ایک بگڑی ہوئی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی منتشر طاقت کو از سر نو مجتمع کرنے کے لیے اسلامی طرز پر جو کوشش بھی کی جائے گی اُس کا پہلا قدم لازماً یہی ہو گا کہ اس میں نماز با جماعت کا نظام قائم کیا جائے۔ ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرانے کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ ان مکانوں کو ساری قوم کے لیے مرکز و مرجع ٹھیرایا جائے، اور اس کے بعد ہی ” نماز قائم کرو” کہنے کا مطلب یہ ہے کہ متفرق طور پر اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لینے کے بجائے لوگ ان مقرر مقامات پر جمع ہو کر نماز پڑھا کریں، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں "اقامتِ صلوٰۃ” جس چیز کا نام ہے اس کے مفہوم میں لازماً نماز با جماعت بھی شامل ہے۔
۸۵-یعنی اہلِ ایمان پر مایوسی، مرعوبیت اور پژمردگی کو جو کیفیت اس وقت چھائی ہوئی ہے اسے دور کرو۔ انہیں پر اُمید بناؤ، ان کی ہمت بڑھاؤ اور ان کا حوصلہ بڑھاؤ۔ "بشارت دینے ” کے الفاظ میں یہ سب معنی شامل ہیں۔
۸۶-اوپر کی آیات حضرت موسیٰ کی دعوت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور یہ دعا زمانۂ قیامِ مصر کے بالکل آخری زمانے کی ہے۔ بیچ میں کئی برس کا طویل فاصلہ ہے جس کی تفصیلات کو یہاں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں اس بیچ کے دور کا بھی مفصّل بیان ہوا ہے۔
۸۷-یعنی ٹھاٹھ، شان و شوکت اور تمدّن و تہذیب کی وہ خوش نمائی جس کی وجہ سے دنیا اُن پر اور ان کے طور طریقوں پر بچھتی ہے اور ہر شخص کا دل چاہتا ہے کہ وہ ویسا ہی بن جائے جیسے وہ ہیں۔
۸۸-یعنی ذرائع اور وسائل جن کی فراوانی کی وجہ سے وہ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں اور جن کے فقدان کی وجہ سے اہل حق اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے سے عاجز رہ جاتے ہیں۔
۸۹-جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں، یہ دعا حضرت موسیٰ سے زمانۂ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی، اور اس وقت کی تھی جب پے درپے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجّت پوری ہو جانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بددعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کرنے والوں کے بارے میں خود اللہ کا فیصلہ ہے، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے۔
۹۰-جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ میں حق کی کمزوری، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں، اور ائمۂ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں، اور حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے۔ پھر وہ نادان لوگ اپنی بد گمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامت حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اُس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفر و فسق کی سلطانی میں مل رہی ہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اور ان کے پیرووں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہو جائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عموماً لاحق ہو جایا کرتی ہے۔
۹۱-بائیبل میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، مگر تلمود میں تصریح ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون نے کہا ” میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں، اے خداوند! تیرے سوا کوئی خدا نہیں۔”
۹۲-آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر پر تیرتی ہوئی پائی گئ تھی، اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی۔
۹۳-یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی چلے جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔
ترجمہ
ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا ۹۴ اور نہایت عمدہ وسائلِ زندگی انہیں عطا کیے۔ پھر اُنہوں نے بہم اختلاف نہیں کیا مگر اُس وقت جب کہ علم اُن کے پاس آ چکا تھا۔۹۵ یقیناً تیرا ربّ قیامت کے روز اُن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کر تے رہے ہیں۔ اب اگر تجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے ربّ کی طرف سے لہٰذا تُو شک کرنے والوں میں سے نہ ہواور ان لوگوں میں شامل نہ ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھُٹلایا ہے، ورنہ تُو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو گا۔۹۶حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے ربّ کا قول راست آ گیا ۹۷ ہے وہ بھی ایمان لا کر نہیں دیتے اُن کے سامنے خواہ کوئی نشانی آ جائے۔۔۔۔۔ جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں۔پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اُس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا ۹۸ ( اِس کی کوئی نظیر نہیں)۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اُس پر سے دُنیا کی زندگی میں رُسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا ۹۹ اور اُس کو ایک مدّت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا۔۱۰۰اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ ۱۰۱ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟۱۰۲کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا،۱۰۳ اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ ۱۰۴اِن سے کہو ’’ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اُسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ‘‘ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے اُن کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مُفید ہو سکتی ہیں۔۱۰۵اب یہ لوگ اس کے سوا اور کس چیز کی منتظر ہیں کہ وہی بُرے دن دیکھیں جو اِن سے پہلے گُزرے ہوئے لوگ دیکھ چُکے ہیں؟ اِن سے کہو ’’اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔پھر (جب ایسا وقت آتا ہے تو) ہم اپنے رسولوں کو اور اُن لوگوں کو بچا لیا کرتے ہیں جو ایمان لائے ہوں۔ ہمارا یہی طریقہ ہے۔ ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کو بچا لیں۔؏ ١۰
تفسیر
۹۴-یعنی مصر سے نکلنے کے بعد ارضِ فلسطین۔
۹۵-مطلب یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے دین میں جو تفرقے برپا کیے اور نئے نئے مذہب نکالے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو حقیقت کا علم نہیں دیا گیا تھا اور ناواقفیت کی بنا پر انہوں نے مجبوراً ایسا کیا، بلکہ فی الحقیقت یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا۔ خدا کی طرف سے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ دینِ حق یہ ہے، یہ اس کے اصول ہیں، یہ اس کے تقاضے اور مطالبے ہیں، یہ کفر و اسلام کے امتیازی حدود ہیں، طاعت اِس کو کہتے ہیں، معصیّت اِس کا نام ہے، اِن چیزوں کی باز پرس خدا کے ہاں ہونی ہے، اور یہ وہ قواعد ہیں جن پر دنیا میں تمہاری زندگی قائم ہونی چاہیے۔ مگر صاف صاف ہدایتوں کے باوجود اُنہوں نے ایک دین کے بیسیوں دین بنا ڈالے اور خدا کی دی ہوئی بنیادوں کو چھوڑ کر کچھ دوسری ہی بنیادوں پر اپنے مذہبی فرقوں کی عمارتیں کھڑی کر لیں۔
۹۶-یہ خطاب بظاہر بنی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر بات اُن لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ اور اہلِ کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے، ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی، مگر اہل کتاب کے علماء میں سے جو لوگ متدیں اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں۔
۹۷-یعنی یہ قول کہ جو لوگ خود طالب حق نہیں ہوتے، اور جو اپنے دلوں پر ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھائے رکھتے ہیں، اور جو دینا کے عشق میں مدہوش اور عاقبت سے بے فکر ہوتے ہیں انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔
۹۸-یونس علیہ السلام (جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ ۸۶۰ -۷۸۴ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے ) اگرچہ اسرائیلی بنی تھے، مگر ان کو اشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اسی بنا پر اشوریوں کو یہاں قوم یونس کہا گیا ہے۔ اس قوم کا مرکز اس زمانی میں نینویٰ کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجود شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں "یونس نبی” کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینویٰ تقریباً ۶۰ میل کے دَور میں پھیلا ہوا تھا۔
۹۹-قرآن میں اس قصّہ کی طرف تین جگہ صرف اشارات کیے گئے ہیں، کوئی تفصیل نہیں دی گئی (ملاحظہ ہو سورۂ انبیاء آیات ۸۷-۸۸، الصافّات ۱۳۹-۱۴۸، القلم ۴۸-۵۰) اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کے بنا پر خدا کے اِس قانون سے مستثنیٰ کی گئی کہ "عذاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی کا ایمان اس کے لیے نافع نہیں ہوتا”۔ بائیبل میں "یوناہ” کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ چنداں قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ کیونکہ اوّل نہ تو وہ آسمانی صحیفہ ہے، نہ خود یونس علیہ السلام کا اپنا لکھا ہوا ہے، بلکہ ان کے چار پانچ سو برس بعد کسی نامعلوم شخص نے اسے تاریخ نویس کے طور پر لکھ کر مجموعۂ کتب مقدسہ میں شامل کر دیا ہے۔ دوسرے اس میں بعض صریح مہملات بھی پائے جاتے ہیں جو ماننے کے قابل نہیں ہیں۔ تاہم قرآن کے اشارات اور صحیفۂ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جو مفسرین قرآن نے بیان کی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر چھوڑ کر چلے گئے تھے، اس لیے جب آثارِ عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ قرآن مجید میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر حجّت پوری نہیں کر لیتا۔ پس جب نبی نے اس قوم کی مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جاری نہ رکھا۔ اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطور خود ہی وہ ہجرت کر گیا، تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارہ نہ کیا کیونکہ اس پر اتمامِ حجّت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورہ الصافّات، حاشیہ نمبر ۸۵)
۱۰۰-جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلتِ عمر میں اضافہ کر دیا گیا۔ بعد میں اس نے پھر خیال و عمل کہ گمراہیاں اختیار کرنی شروع کر دیں۔ ناحوم نبی (۷۲۰ – ۶۹۸ قبل مسیح) نے اسے متنبہ کیا، مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ پھر صَفنِیاہ نبی (۶۴۰ – ۶۰۹ قبل مسیح) نے اس کو آخری تنبیہ کی۔ وہ بھی کارگر نہ ہوئی۔ آخرکار ۶۱۲ قم کے لگ بھگ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو اس پر مسلط کر دیا۔ میڈیا کا بادشاہ بابِل والوں کی مدد سے اشور کے علاقے پر چڑھ آیا۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینویٰ میں محصور ہو گئی۔ کچھ مدّت تک اس نے سخت مقابلہ کیا۔ پھر دجلہ کی طغیانی نے فصیلِ شہر توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے۔ پورا شہر جلا کر خاک سیاہ کر دیا گیا۔ گرد و پیش کے علاقے کا بھی یہی حشر ہوا۔ اشور کا بادشاہ خود اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا اور اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ زمانۂ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
۱۰۱- یعنی اگر اللہ کی خواہش یہ ہوتی کی اس کی زمین میں صرف اطاعت گزار اور فرمانبردار ہی بسیں اور کفر و نافرمانی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو تو اس کے لیے نہ یہ مشکل تھا کہ وہ تمام اہل زمین کو مومن و مطیع پیدا کرتا اور نہ یہی مشکل تھا کہ سب کے دل اپنے ایک ہی تکوینی اشارے سے ایمان و اطاعت کی طرف پھیر دیتا۔ مگر نوع انسانی کے پیدا کرنے میں جو حکیمانہ غرض اس کے پیشِ نظر ہے وہ اس تخلیقی و تکوینی جبر کے استعمال سے فوت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ خود ہی انسانوں کو ایمان لانے یا نہ لانے اور اطاعت اختیار کرنے یا نہ کرنے میں آزاد رکھنا چاہتا ہے۔
۱۰۲- اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل اس فقرے میں وہی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتا ہے، کہ خطاب بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے۔ یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو، حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہِ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کر دیا ہے۔ اب اگر تم خود راست رو بننا نہیں چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اسی پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبردستی راہِ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی، یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کر سکتا تھا۔
۱۰۳-یعنی جس طرح تمام نعمتیں تنہا اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے، اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے۔ کوئی شخص نہ اس نعمت کو اذنِ الہی کے بغیر خود پا سکتا ہے، اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کر دے۔ پس نبی اگر سچے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بنا سکتا۔ اس کے لیے اللہ کا اذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔
۱۰۴-یہاں صاف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کر دیا۔ بلکہ اس کا ایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بے لاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی اور طلب کے تناسب سے مہیا کر دیے جاتے ہیں، اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں، یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے، تو اُن کے لیے اللہ کے خزانۂ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو انہی نجاستوں کا اہل بناتے ہیں اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔
۱۰۵-یہ ان کے اُس مطالبہ کا آخری اور قطعی جواب ہے جو وہ ایمان لانے کے لیے شرط کے طور پر پیش کرتے تھے کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائی جائے جس سے ہم کو یقین آ جائے کہ تمہاری نبوت سچی ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہارے اندر حق کی طلب اور قبولِ حق کی آمادگی ہو تو وہ بے حدو حساب نشانیاں جو زمیں و آسمان میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تمہیں پیغامِ محمدی کی صداقت کا اطمینان دلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔ صرف آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر یہ طلب اور یہ آمادگی ہی تمہارے اندر موجود نہیں ہے تو پھر کوئی نشانی بھی، خواہ وہ کیسی ہی خارقِ عادت اور عجیب و غریب ہو، تم کو نعمت ایمان سے بہرہ ور نہیں کر سکتی۔ ہر معجزے کو دیکھ کر تم فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرح کہو گے کہ یہ تو جادوگری ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں ان کی آنکھیں صرف اُس وقت کھلا کرتی ہیں جب خدا کا قہر و غضب اپنی ہولناک سخت گیری کے ساتھ اُن پر ٹوٹ پڑتا ہے جس طرح فرعون کی آنکھیں ڈوبتے وقت کھلی تھیں۔ مگر عین گرفتاری کے موقع پر جو توبہ کی جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔
ترجمہ
اے نبیؐ !۱۰۶ کہہ دو کہ لوگو، ’’ اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سُن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں اُن کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اُسی خدا کر بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے۔ ۱۰۷ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تُویکسُو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اس دین پر قائم کر دے ۱۰۸، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔۱۰۹اور اللہ کو چھوڑ کو کسی ایسی ہستی کو نہ پُکار جو تُجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان۔ اگر تُو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہو گا۔اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اُس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کر نے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘اے محمد ؐ، کہہ دو کہ ’’ لوگو، تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے حق آچکا ہے۔ اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اُس کی راست روی اُسی کے لیے مفید ہے، اور جو گمراہ رہے اُس کی گمراہی اُسی کے لیے تباہ کُن ہے۔ اور میں تمہارے اُوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں۔‘‘ اور اے نبی ؐ، تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے، اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ ؏ ١١
تفسیر
۱۰۶-جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریر کوختم کیا جارہا ہے۔ تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھر ایک نظر ڈال لی جائے۔
۱۰۷-متن میں لفظ یَتَوَفّٰکُم ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے "جو تمہیں موت دیتا ہے "۔ لیکن اس لفظی ترجمے سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی۔ اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ ” وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے، جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس کا اشارہ ہو جائے اسی آن تمہیں اپنی جان اُس جان آفرین کے حوالے کر دینی پڑتی ہے، میں صرف اُسی کی بندگی وغلامی اور اسی کی اطاعت وفرمانبرداری کا قائل ہوں”۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکینِ مکّہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے، اس پر کسی دوسرے کا قابونہیں ہے۔ حتیٰ کہ جن بزرگوں کویہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکا ہے۔ پس بیان مدعا کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ "وہ جو تمہیں موت دیتا ہے ” یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے۔ یعنی سب کو چھوڑ کر میں اُس کی بندگی اس لیے کرتا ہوں کی زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے۔ اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی وموت پر بھی اقتدار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں۔ پھر کمالِ بلاغت یہ ہے کہ "وہ مجھے موت دینے والا ہے ” کہنے کے بجائے "وہ تمہیں موت دیتا ہے ” فرمایا۔ اس طرح ایک ہی لفظ میں بیانِ مدّعا،دلیل مدّعا، اور دعوت الی لمدعٰی، تینوں فائدے جمع کر دیے گئے ہیں۔ اگر یہ فرمایا جاتا کہ "میں اس کی بندگی کرتاہوں جو مجھے موت دیتا ہے ” تو اس سے صرف یہ معنی نکلتے کہ "مجھے اس کی بندگی کرنی ہی چاہیے "۔ اب جو یہ فرمایا کہ "میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں موت دینے والا ہے "، تو اس سے یہ معنی نکلے کہ مجھے ہی نہیں، تم کو بھی اُسی کی بندگی کرنی چاہیے اور تم یہ غلطی کررہے ہو کہ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو۔
۱۰۸-اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے۔ بات ان الفاظ میں بھی ادا ہو سکتی تھی کہ "تو اِس دین کو اختیار کرلے ” یا "اس دین پر چل”یا "اس دین کا پیرو بن جا”۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے۔ اس دین کی جیسی سخت اور ٹھکی ور کِسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزورالفاظ سے نہ ہو سکتاتھا۔ لہزا اپنامطالبہ ان الفاظ میں پیش فرمایا کہ”اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنیْفًا"۔ اقم وجھک کے لفظی معنی ہیں” اپنا چہرہ جمادے "۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تیرا رُخ ایک ہی طرف قائم ہو۔ ڈگمگاتا اور ہلتاڈلتا نہ ہو۔ کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں نہ مڑتارہے۔ بالکل نک کی سیدھ اُسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیاہے۔ یہ بندش بجائے خود بہت چُست تھی، مگر اس پر بھی اکتفا نہ کیا گیا۔ اس پر ایک اور قید حنیفا کی بڑھائی گئی۔ حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہورہا ہو۔ پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو، اِس بندگی خدا کے طریقے کو، اس طرزِ زندگی کو کہ پرستش، بندگی، غلامی، اطاعت، فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین ہی کی کی جائے، ایسی یک سوئی کے ساتھ اختیار کر کہ کسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان ورجحان بھی نہ ہو، اس راہ پر آ کر اُن غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تو چھوڑ کر آیا ہے اور اُن ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط اندازِ نگاہ بھی نہ پڑے جن پر دنیا چل رہی ہے۔
۱۰۹-یعنی ان لوگوں میں ہر گز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں، اس کی صفات میں، اس کے حقوق میں اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں۔ خواہ وہ غیر اللہ ان کا نفس ہو، یا کوئی دوسرا انسان ہو، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو، یا کوئی روح ہو، کوئی جن ہو، فرشتہ ہو، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی وجود ہو۔ پس مطالبہ صرف اس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر۔ بلکہ اِس سلبی صورت میں بھی ہے کہ اُن لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کا شرک کرتے ہوں۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی، انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظامِ حیات میں بھی، معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی، عدالت خانوں میں بھی، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی، سیاست کے ایوانوں میں بھی، معیشت کے بازاروں میں بھی، غرض ہر جگہ اُن لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کرلے جنہوں نے اپنے افکارواعمال کا پوار نظام خدا پرستی اور ناخداپرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا، کجا کہ آگے وہ ہو اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں!
پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ بعض نادان لوگ "شرک خفی” کو "شرک خفیف” سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے۔ حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں، پوشیدہ اور مستور کے ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دھاڑے سامنے آ جائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھپا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑیں کھوکھلی کرتی رہے ؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہ دے کہ یہ شرک ہے، اُس سے تو دینِ توحید کا تصادم بالکل کھلا ہوا ہے۔ مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیاتِ توحید کا عمیق فہم درکار ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
٭٭٭
۱۱۔ ہوْد
زمانۂ نزول
اس سورت کے مضمون پر غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی دور میں نازل ہوئی ہو گی جس میں سورۂ یونس نازل ہوئی تھی۔ بعید نہیں کہ یہ اس کے ساتھ متصلاً ہی نازل ہوئی ہو، کیونکہ موضوعِ تقریر وہی ہے، مگر تنبیہ کا انداز اس سے زیادہ سخت ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا "میں دیکھتا ہوں کہ آپ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟” جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "مجھ کو سورہ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے "۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت ہو گا جبکہ ایک طرف کفار قریش اپنے تمام ہتھیاروں سے اس دعوتِ حق کو کچل دینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پے در پے تنبیہات نازل ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں آپ کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہو گا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہو جائے اور وہ آخری ساعت نہ آ جائے جبکہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ فی الواقع اس سورت کو پڑھنے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کو ہے اور اس غافل آبادی کا، جو اس سیلاب کی زد میں ہے، آخری تنبیہ کی جا رہی ہے۔
موضوع اور مباحث
موضوع تقریر وہی ہے جو سورۂ یونس کا تھا یعنی دعوت، فہمائش اور تنبیہ لیکن فرق یہ ہے کہ سورۂ یونس کی بہ نسبت یہاں دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور وعظ و نصیحت زیادہ ہے اور تنبیہ مفصل اور پر زور ہے۔
دعوت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات مانو، شرک سے باز آؤ، سب کی بندگی چھوڑ کر اللہ کے بندے بنو اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا نظام آخرت کی جواب دہی کے احساس پر قائم کرو۔
فہمائش یہ ہے کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر کے جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا ہے وہ اس سے پہلے نہایت برا انجام دیکھ چکی ہیں، اب کیا ضرور ہے تم بھی اسی راہ چلو جسے تاریخ کے مسلسل تجربات قطعی طور پر تباہی کی راہ کر چکے ہیں۔
تنبیہ یہ ہے کہ عذاب کے آنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ اپنے فضل سے تمہیں عطا کر رہا ہے۔ اس مہلت کے اندر اگر تم نہ سنبھلے تو وہ عذاب آئے گا جو کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گا اور اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت کو چھوڑ کر تمہاری ساری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا۔
اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے براہ راست خطاب کی بہ نسبت قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون کے قصوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ان قصوں میں خاص طور پر جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا جب فیصلہ چکانے پر آتا ہے تو پھر بالکل بے لاگ طریقہ سے چکاتا ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ذرہ برابر رعایت نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا بیٹا اور کس کا عزیز ہے۔ رحمت صرف اس کے حصے میں آتی ہے جو راہ راست پر آ گیا ہو، ورنہ خدا کے غضب سے نہ کسی پیغمبر کا بیٹا بچتا ہے اور نہ کسی پیغمبر کی بیوی۔ یہی نہیں بلکہ جب ایمان و کفر کا دو ٹوک فیصلہ ہو رہا ہو تو دین کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ خود مومن بھی باپ اور بیٹے اور شوہر اور بیوی کے رشتوں کو بھول جائے اور خدا کی شمشیر عدل کی طرح بالکل بے لاگ ہو کر ایک رشتۂ حق کے سوا ہر دوسرے رشتے کو کاٹ پھینکے۔ ایسے موقع پر خون اور نسب کی رشتہ داریوں کا ذرہ برابر لحاظ کر جانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ یہی وہ تعلیم تھی جس کا پورا پورا مظاہرہ تین چار سال بعد مکہ کے مہاجر مسلمانوں نے جنگ بدر میں کر کے دکھایا۔
ترجمہ
ال ر۔ فرمان ہے ۱، جس کی آیتیں پُختہ اور مفصّل ارشا د ہوئی ہیں ۲، ایک دانا اور با خبر ہستی کی طرف سے، کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے ربّ سے معافی چاہو اور اُس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدّتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا ۳اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔۴ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اُس سے چھُپ جائیں۔۵ خبردار! جب کہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھُپے کو بھی جانتا ہے اور کھُلے کو بھی، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، ۶ سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔۔۔۔جبکہ اس سے پہلے اُس کا عرش پانی پر تھا ۷۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ ۸ اب اگر اے محمد ؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے تو منکرین فوراً بول اُٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔ ۹اور اگر ہم ایک خاص مُدّت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے ؟ سُنو! جس روز اُس سزا کا وقت آ گیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اُڑا رہے ہیں۔ ؏١
تفسیر
۱- ’’کتاب‘‘ کا ترجمہ یہاں اندازِ بیان کی مناسبت سے ’’فرمان‘‘ کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کتاب اور نوشتے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ حکم اور فرمان شاہی کے معنی میں بھی آتا ہے اور خود قرآن میں متعدد مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں مُستعمل ہوا ہے۔
۲-یعنی اس فرمان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پکی اور اَٹل ہیں۔ خوب جچی تُلی ہیں۔ نِری لفاظی نہیں ہے۔ خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے۔ بیان الجھا ہوا، گنجلک اور مبہم نہیں ہے۔ ہر بات کو الگ الگ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے۔
۳-یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت تک وہ تم کو بُری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہو گے۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہو گا۔ ذلت و خواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے۔ یہی مضمون دوسرے موقع پر اس طرح ارشاد ہو ا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْ مِنٌ فَلَنُحْیینَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً (النحل۔ آیت ۹۷) ’’ جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے ‘‘۔ اس سے لوگوں کی اُس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کو کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساسِ ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو تو بنتی ہو، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہِ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں، جن کے معاملات درست ہوں، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو۔
اس کے علاوہ ’’مَتَاعٌ حَسَنٌ‘‘ کے الفاظ میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے۔ دنیا کا سامانِ زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے۔ ایک وہ سر و سامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ قرآن مجید اس کو ’’مَتَاعٌ غُرُوْرٌ‘‘ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ دوسرا وہ سر و سامان ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے، خدا کے دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں خیر و صلاح کی ترقی اور شر و فساد کے استیصال کے لیے زیادہ کار گر کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ قرآن کی زبان میں ’’مَتَاعٌ حَسَنٌ‘‘ ہے، یعنی ایسا اچھا سامانِ زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔
۴-یعنی جو شخص اخلاق و اعمال میں جتنا بھی آگے بڑھے گا اللہ اس کو اتنا ہی بڑا درجہ عطا کرے گا۔ اللہ کے ہاں کسی کی خوبی پر پانی نہیں پھیرا جاتا۔ اس کے ہاں جس طرح برائی کی قدر نہیں ہے اسی طرح بھلائی کی ناقدری بھی نہیں ہے۔ اس کی سلطنت کا دستور یہ نہیں ہے کہ
اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں
طوق زریں ہمہ در گردن خرمی بینم!
وہاں تو جو شخص بھی اپنی سیرت و کردار سے اپنے آپ کو جس فضیلت کا مستحق ثابت کر دے گا وہ فضیلت اس کو ضرور دی جائے گی۔
۵-مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا چرچا ہوا تو بہت سے لوگ وہاں ایسے تھے جو مخالفت میں تو کچھ بہت زیادہ سرگرم نہ تھے مگر آپؐ کی دعوت سے سخت بیزار تھے۔ اُن لوگوں کا رویہ یہ تھا کہ آپؐ سے کتراتے تھے، آپؐ کسی بات کو سُننے کے لیے تیار نہ تھے، کہیں آپؐ کو بیٹھے دیکھتے تو اُلٹے پاؤں پھر جاتے، دُور سے آپ کو آتے دیکھ لیتے تو رُخ بدل دیتے یا کپڑے کی اوٹ میں منہ چھپا لیتے، تاکہ آمنا سامنا نہ ہو جائے اور آپؐ انہیں مخاطب کر کے کچھ اپنی باتیں نہ کہنے لگیں۔ اسی قسم کے لوگوں کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے کہ یہ لوگ حق کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور شتر مرغ کی طرح منہ چھپا کر سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقت ہی غائب ہو گئی جس سے اُنہوں نے منہ چھپایا ہے۔ حالانکہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ یہ بے وقوف اس سے بچنے کے لیے منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔
۶-یعنی جس خدا کے علم کا حال یہ ہے کہ ایک ایک چڑیا کا گھونسلہ اور ایک ایک کیڑے کا بِل اس کو معلوم ہے اور وہ اسی کی جگہ پر اس کو سامانِ زیست پہنچا رہا ہے، اور جس کو ہر آن اس کی خبر ہے کہ کونسا جاندار کہاں رہتا ہے اور کہاں اپنی جان جانِ آفریں کے سپر د کر دیتا ہے، اس کے متعلق اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس طرح منہ چھپا چھپا کر یا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر یا آنکھوں پر پردہ ڈال کر تم اس کی پکڑ سے بچ جاؤ گے تو سخت نادان ہو۔ داعی حق سے تم نے منہ چھپا بھی لیا تو آخر اس کا حاصل کیا ہے ؟ کیا خدا سے بھی تم چھپ گئے ؟ کیا خدا یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص تمہیں امرِ حق سے آگاہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور تم یہ کوشش کر رہے ہو کہ کسی طرح اس کی کوئی بات تمہارے کان میں نہ پڑنے پائے ؟
۷-جملۂ معترضہ ہے جو غالباً لوگوں کے اس سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اگر پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا کیے گئے تو پہلے کیا تھا؟ اس سوال کو یہاں نقل کیے بغیر اس کا جواب مختصر سے فقرے میں دے دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس پانی سے مراد کیا ہے۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں؟ یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادّے کی اس مائع (Fluid) حالت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی؟ رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی۔
۸-اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس لیے پیدا کیا کہ تم کو(یعنی انسان کو) پیدا کرنا مقصود تھا، اور تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم پر اخلاقی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے، تم کو خلافت کے اختیارات سپرد کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ تم میں سے کون ان اختیارات کو اور اس اخلاقی ذمہ داری کے بوجھ کو کس طرح سنبھالتا ہے۔ اگر اس تخلیق کی تہ میں یہ مقصد نہ ہوتا، اگر اختیارات کو تفویض کے باوجود کسی امتحان کا، کسی محاسبہ اور باز پرس کا اور کسی جزا و سزا کا کوئی سوال نہ ہوتا، اور اگر انسان کو اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونے کے باوجود یونہی بے نتیجہ مر کر مٹی ہو جانا ہی ہوتا، تو پھر یہ سارا کارِ تخلیق بالکل ایک مہمل کھیل تھا اور اس تمام ہنگامۂ وجود کی کوئی حیثیت ایک فعل عبث کے سوا نہ تھی۔
۹-یعنی ان لوگوں کی نادانی کا یہ حال ہے کہ کائنات کو ایک کھلنڈرے کا گھروندا اور اپنے آپ کو اس کے جی بہلانے کا کھلونا سمجھے بیٹھے ہیں اور اس احمقانہ تصور میں اتنے مگن ہیں کہ جب تم انہیں اس کارگاہِ حیات کا سنجیدہ مقصد، اور خود ان کے وجود کی معقول غرض و غایت سمجھاتے ہو تو قہقہہ لگاتے ہیں اور تم پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص تو جادو کی سی باتیں کرتا ہے۔
ترجمہ
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اُسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھُولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ ۱۰ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے ۱۱ اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ ۱۲تو اے پیغمبر ؐ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کرنے سے ) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں۔ اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے ’’ اِس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُتارا گیا‘‘ یا یہ کہ ’’ اِس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔‘‘ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے۔ ۱۳کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے ؟ کہو ’’ اچھا یہ بات ہے تو اِس جیسی گھڑی ہوئی دس سُورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو ( تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بُلا سکتے ہو تو بُلا لو اگر تم ( اُنہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔اب اگر وہ(تمہارے معبود ) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا تم ( اِس امرِ حق کے آگے ) سرِ تسلیم خم کرتے ہو؟ ‘‘ ۱۴جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ۱۵ اُن کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں اُن کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۱۶ ( وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ اِنہوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔ پھر بھلا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا ۱۷، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے ( اِس شہادت کی تائید میں) آ گیا، ۱۸ اور پہلے موسیٰ ؑ کی کتا ب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی ( کیا وہ بھی دُنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کر سکتا ہے ؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے ۱۹۔ اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اِ س کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر ؐ، تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے۔ ۲۰ ایسے لوگ اپنے ربّ کے حضُور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے ربّ پر جھوٹ گھڑا تھا۔ سُنو! خُدا کی لعنت ہے ظالموں پر ۲۱۔۔۔۔اُن ظالموں پر ۲۲ جو خُدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اُس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں ۲۳ اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔۔۔۔۲۴وہ زمین میں اللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلے میں کوئی اُن کا حامی تھا۔ اُنہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے گا۔۲۵ وہ نہ کسی کی سُن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی اُنہیں کچھ سُوجھتا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور وہ سب کچھ اُن سے کھویا گیا جو اُنہوں نے گھڑ رکھا تھا۔۲۶ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں۔رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے ربّ ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتّی لوگ ہیں اور جنّت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ۲۷اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سُننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟۲۸ کیا تم ( اِس مثال سے ) کوئی سبق نہیں لیتے ؟ ؏۲
تفسیر
۱۰-یہ انسان کے چھچورے پن، سطح بینی، اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہر وقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ آج خوشحال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں اور فخر کر رہے ہیں۔ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی نظر آ رہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آ سکتی ہے۔ کل کسی مصیبت کے پھیر میں آ گئے تو بلبلا اُٹھے، حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے، اور بہت تَلمَلائے تو خد ا کو گالیاں دے کر ا ور اس کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کر نے لگے۔ پھر جب بُرا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ، وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہو گئیں۔ انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیاں ذکر ہو رہا ہے ؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغمبر خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا، اور تم اس کی یہ بات سُن کر ایک زور کا ٹھٹھا مار تے ہو، اور کہتے ہو کہ ’’دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے، ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اُڑ رہے ہیں، اس وقت تجھے دن دہاڑے یہ ڈراؤنا خواب کیسے نظر آ گیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے ‘‘، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمہارا یہ ٹھٹھا اِسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے۔ خدا تو تمہاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمہاری سزا میں تاخیر کر رہا ہے تا کہ تم کِسی طرح سنبھل جاؤ، مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پائیدار بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا سدا بہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں۔
۱۱-یہاں صبر کے ایک اور مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ صبر کی صفت اُ س چھچور پن کی ضد ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ صابر وہ شخص ہے جو زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنے ذہن کے توازن کو برقرار رکھے۔ وقت کی ہر گردش سے اثر لے کر اپنے مزاج کا رنگ بدلتا نہ چلا جائے بلکہ ایک معقول اور صحیح رویہ پر ہر حال میں قائم رہے۔ اگر کبھی حالات سازگار ہوں اور وہ دولت مندی، اقتدار اور ناموری کے آسمانوں پر چڑھا چلا جا رہا ہو تو بڑا ئی کے نشے میں مست ہو کر بہکنے نہ لگے۔ اور اگر کسی دوسرے وقت مصائب و مشکلات کی چکی اسے پیسے ڈال رہی ہو تو اپنے جوہر انسانیت کو اس میں ضائع نہ کر دے۔ خدا کی طرف سے آزمائش خواہ نعمت کی صورت میں آئے یا مصیبت کی صورت میں، دونوں صورتوں میں اس کی بردباری اپنے حال پر قائم رہے اور اس کا ظرف کسی چیز کی بھی چھوٹی یا بڑی مقدار سے چھلک نہ پڑے۔
۱۲-یعنی اللہ ایسے لوگوں کے قصور معاف بھی کرتا ہے اور ان کی بھلائیوں پر اجر بھی دیتا ہے۔
۱۳-اس ارشاد کا مطلب سمجھنے کے لیے اُن حالات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جن میں یہ فرمایا گیا ہے۔ مکہ ایک ایسے قبیلے کا صرف مقام ہے جو تمام عرب پر اپنے مذہبی اقتدار، اپنی دولت و تجارت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے چھایا ہوا ہے۔ عین اس حالت میں جب کہ یہ لوگ اپنے انتہائی عروج پر ہیں اس بستی کا ایک آدمی اُٹھتا ہے اور علی الاعلان کہتا کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سراسر گمراہی ہے، جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے، خدا کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تُلا کھڑا ہے اور تمہارے لیے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اُس مذہبِ حق اور اس نظام صالح کو قبول کر لو جو میں خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں۔ اور گرد و پیش کے حالات میں بھی مذہب و اخلاق اور تمدن کی گہری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کر تی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں علامتیں یہی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر خدا کا (اور ان کے عقیدے کے مطابق) دیوتاؤں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ بات کہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے، اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا، کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کوئی ظلم و ستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے۔ کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اُکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی متعصبانہ بے رخی سے اس کی ہمت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اُڑا کر، آوازے اور پھبتیاں کس کر، اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے۔ یہ استقبال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے، جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے، ظاہر ہے۔ بس یہی صورتِ حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کے لیے تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور بُرے حالات میں مایوس ہو جانا چھچورے لوگوں کا کام ہے۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر و ثبات اور پا مردی کے ساتھ چلنے والا ہو۔ لہٰذا جس تعصب سے، جس بے رُخی سے، جس تضحیک و استہزا سے اور جن جاہلانہ اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے۔ جو صداقت تم پر بذریعۂ وحی منکشف کی گئی ہے ا سکے اظہار و اعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعاً کوئی باک نہ ہو۔ تمہارے دل میں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ فلاں بات کیسے کہوں جبکہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، تم جسے حق پاتے ہو اسے بے کم و کاست اور بے خوف بیان کیے جاؤ، آگے سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں۔
۱۴-یہاں ایک ہی دلیل سے قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت بھی دیا گیا ہے اور توحید کا ثبوت بھی۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ :
(۱) اگر تمہارے نزدیک یہ انسانی کلام ہے تو انسان کو ایسے کلام پر قادر ہونا چاہیے، لہٰذا تمہارا یہ دعویٰ کہ میں نے اسے خود تصنیف کیا ہے صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ تم ایسی ایک کتاب تصنیف کر کے دکھاؤ۔ لیکن اگر بار بار چیلنج دینے پر بھی تم سب مل کر اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے تو میرا دیہ دعویٰ صحیح ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے۔
(۲) پھر جب کہ اس کتاب میں تمہارے معبودوں کی بھی کھلم کھلا مخالفت کی گئی ہے اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت چھوڑ دو کیونکہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے، تو ضرور ہے کہ تمہارے معبودوں کی بھی (اگر فی الواقع ان میں کوئی طاقت ہے ) میرے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے اور اس کتاب کی نظیر پیش کرنے میں تمہاری مدد کرنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ اس فیصلے کی گھڑی میں بھی تمہاری مدد نہیں کرتے اور تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں پھونکتے کہ تم اس کتاب کی نظیر تیار کر سکو، تو اس سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے، ورنہ درحقیقت ان کے اندر کوئی قدرت اور کوئی شائبۂ الوہیت نہیں ہے جس کی بنا پر وہ معبود ہونے کے مستحق ہوں۔
اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ سورۃ ترتیب کے اعتبار سے سورۂ یونس سے پہلے کی ہے۔ یہاں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج دیا گایا ہے اور جب وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو پھر سورۂ یونس میں کہا گیا کہ اچھا ایک ہی سورۃ اس کے مانند تصنیف کر لاؤ۔ (یونس۔ آیت ۳۸ حاشیہ ۴۶)
۱۵-اس سلسلۂ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اُس زمانہ میں رد کر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں جن کے دل و دماغ پر دنیا پرستی چھائی ہوئی ہے۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں۔ پہلی چیز جو اس انکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دنیا اور اس کے مادی فائدوں سے بالاتر کوئی شے قابل قدر نہیں ہے، اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے۔
۱۶-یعنی جس کے پیشِ نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائے گا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیشِ نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا طلب مساعی کی بار آوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا میں آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی مانع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سر و سامان موت کی آخر ی ہچکی کے ساتھ ہی اِس دنیا میں چھوڑ دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ محل وہاں ا س کے ساتھ منتقل ہو۔ وہاں کوئی محل وہ پا سکتا ہے تو صرف اس صورت میں پا سکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی اُن کاموں میں ہو جن سے قانونِ الٰہی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے۔
اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے ؟ اس کا جواب یہ ہے (اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے ) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے وہ لازماً و فطرۃً ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ یونس، حاشیہ نمبر ۱۲)۔
۱۷-یعنی جس کو خود اپنے وجود میں اور زمین و آسمان کی ساخت میں اور کائنات کے نظم و نسق میں اِس امر کی کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اِس دنیا کا خالق، مالک، پروردگار اور حاکم و فرما نروا صرف ایک خدا ہے، اور پھر انہیں شہادتوں کو دیکھ کر جس کا دل یہ گواہی بھی پہلے ہی دے رہا تھا کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ضرور ہونی چاہیے جس میں انسان اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دے اور اپنے کیے کی جزا اور سزا پائے۔
۱۸-یعنی قرآن، جس نے آ کر اُس فطری و عقلی شہادت کی تائید کی اور اسے بتایا کہ فی الواقع حقیقت وہی ہے جس کا نشان آفاق و انفس کے آثار میں تُو نے پایا ہے۔
۱۹-سلسلۂ کلام کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو پر اور اس کی خوش نمائیوں پر فریفتہ ہیں اُن کے لیے تو قرآن کی دعوت کو رد کر دینا آسان ہے۔ مگر وہ شخص جو اپنی ہستی اور کائنات کے نظام میں پہلے سے توحید و آخرت کی کھلی شہادت پا رہا تھا، پھر قرآن نے آ کر ٹھیک وہی بات کہی جس کی شہادت وہ پہلے سے اپنے اندر بھی پا رہا تھا اور باہر بھی، اور پھر اس کی مزید تائید قرآن سے پہلے آئی ہوئی کتاب آسمانی میں بھی اسے مل گئی، آخر وہ کس طر ح اتنی زبردست شہادتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اِن منکرین کا ہم نوا ہو سکتا ہے ؟ اس ارشاد سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نزول قرآن سے پہلے ایمان بالغیب کی منزل سے گزر چکے تھے۔ جس طرح سورۂ اَنعام میں حضرت ابراہیم کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ نبی ہونے سے پہلے آثارِ کائنات کے مشاہدے سے توحید کی معرفت حاصل کر چکے تھے، اسی طرح یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی غور و فکر سے اس حقیقت کو پا لیا تھا اور اس کے بعد قرآن نے آپ کو حقیقت کا براہِ راست کی بلکہ آ کر اس کی نہ صرف تصدیق و توثیق کا علم بھی عطا کر دیا گیا۔
۲۰-یعنی یہ کہے کہ اللہ کے ساتھ خدائی اور استحقاق بندگی میں دوسرے بھی شریک ہیں۔ یا یہ کہے کہ خدا کو اپنے بندوں کی ہدایت و ضلالت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے کوئی کتاب اور کوئی نبی ہماری ہدایت کے لیے نہیں بھیجا ہے بلکہ ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جو ڈھنگ چاہیں اپنی زندگی کے لیے اختیار کر لیں۔ یا یہ کہے کہ خدا نے ہمیں یونہی کھیل کے طور پر پیدا کیا اور یونہی ہم کو ختم کر دے گا، کوئی جواب دہی ہمیں اس کے سامنے نہیں کرنی ہے اور کوئی جزا و سزا نہیں ہونی ہے۔
۲۱-یہ عالم آخرت کا بیان ہے کہ وہاں یہ اعلان ہو گا۔
۲۲-یہ جملۂ معترضہ ہے کہ جن ظالموں پر وہاں خدا کی لعنت کا اعلان ہو گا وہ وہی لوگ ہوں گے جو آج دنیا میں یہ حرکات کر رہے ہیں۔
۲۳-یعنی وہ اس سیدھی راہ کو جوان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ یہ راہ کچھ ان کی خواہشات نفس اور ان کے جاہلانہ تعصّبات اور ان کے اوہام و تخیلات کے مطابق ٹیڑھی ہو جائے تو وہ اسے قبول کریں۔
۲۴-یہ پھر عالمِ آخرت کا بیان ہے۔
۲۵-ایک عذاب خود گمراہ ہو نے کا۔ دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے اور بعد کی نسلوں کے لیے گمراہی کی میراث چھوڑ جانے کا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰)
۲۶-یعنی وہ سب نظریات پا در ہوا ہو گئے جو انہوں نے خدا اور کائنات اور اپنی ہستی کے متعلق گھڑ رکھے تھے، اور وہ سب بھروسے بھی جھوٹے ثابت ہوئے جو انہوں نے اپنے معبودوں اور سفارشیوں اور سرپرستوں پر رکھے تھے، اور وہ قیاسات بھی غلط نکلے جو انہوں نے زندگی بعد موت کے بارے میں قائم کیے تھے۔
۲۷-یہاں عالم آخرت کا بیان ختم ہوا۔
۲۸-یعنی کیا ان دونوں کا طرزِ عمل اور آخر کار دونوں کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو شخص نہ خود راستہ دیکھتا ہے اور نہ کسی ایسے شخص کی بات ہی سنتا ہے جو اسے راستہ بتا رہا ہو وہ ضرور کہیں ٹھوکر کھائے گا اور کہیں کسی سخت حادثہ سے دوچار ہو گا۔ بخلاف اس کے جو شخص خود بھی راستہ دیکھ رہا ہو اور کسی واقف راہ کی ہدایات سے بھی فائدہ اُٹھاتا ہو وہ ضرور اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جائے گا۔ بس یہی فرق اُن لوگوں کے درمیان بھی ہے جن میں سے ایک اپنی آنکھوں سے بھی کائنات میں حقیقت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں کی بات بھی سنتا ہے، اور دوسرا نہ خود ہی کی آنکھیں کھلی رکھتا ہے کہ خدا کی نشانیاں اسے نظر آئیں اور نہ پیغمبروں کی بات ہی سُن کر دیتا ہے۔ کیونکر ممکن ہے کہ زندگی میں ان دونوں کا طرزِ عمل یکساں ہو؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ آخر کار ان کے انجام میں فرق نہ ہو؟
ترجمہ
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوح ؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔۲۹ (اُس نے کہا) ’’میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا۔‘‘ ۳۰ جواب میں اُس کی قوم کے سردار، جنہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے ’’ ہمارے نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے۔ ۳۱ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس اُن لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے۔ ۳۲ اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو ۳۳، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک کھُلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا ۳۴ مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سَر چپیک دیں؟اور اے برادرانِ قوم، میں اِس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، ۳۵ میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور میں اُن لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ اپنے ربّ کے حضور جانے والے ہیں۔۳۶ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔اور اے قوم، اگر میں اِن لوگوں کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچائے گا؟ تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔۳۷ اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا۔‘‘ آخرِ کار ان لوگوں نے کہا کہ ’’ اے نُوح ؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو۔‘‘ نُوح ؑ نے جواب دیا ’’ وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو۔اب اگر میں تمہاری کچھ خیر خواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیر خواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جب کہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو،۳۸ وہی تمہارا ربّ ہے اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔ ‘‘اے محمد ؐ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے ؟ ان سے کہو ’’ اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جُرم کی ذمّہ داری ہے، اور جو جُرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بری ہوں۔‘‘ ۳۹ ؏ ۳
تفسیر
۲۹-مناسب ہو کہ اس موقع پر سورۂ اعراف رکوع ۸ کے حواشی پیشِ نظر رکھے جائیں۔
۳۰-یہ وہی بات ہے جو اس سورہ کے آغاز میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے ادا ہوئی ہے۔
۳۱-وہی جاہلانہ اعتراض جو مکہ کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں پیش کرتے تھے کہ جو شخص ہماری ہی طرح کا ایک معمولی انسان ہے، کھاتا پیتا ہے، چلتا پھرتا ہے، سوتا اور جاگتا ہے، بال بچے رکھتا ہے، آخر ہم کیسے مان لیں کہ وہ خدا کی طرف سے پیغمبر مقرر ہو کر آیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورہ یٰس، حاشیہ نمبر ۱۱)۔
۳۲-یہ بھی وہی بات ہے جو مکہ کے بڑے لوگ اور اُونچے طبقے والے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے کہ اِن کے ساتھ ہے کون؟ یا تو چند سر پھرے لڑکے ہیں جنہیں دنیا کا کچھ تجربہ نہیں، یا کچھ غلام اور ادنیٰ طبقہ کے عوام ہیں جو عقل سے کورے اور ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حواشی نمبر ۳۴ تا ۳۷ و سورۂ یونس، حاشیہ نمبر ۷۸)۔
۳۳-یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ ہم پر خدا کا فضل ہے اور اس کی رحمت ہے اور وہ لوگ خدا کے غضب میں مبتلا ہیں جنہوں نے ہمارا راستہ اختیار نہیں کیا ہے، تو اس کی کوئی علامت ہمیں نظر نہیں آتی۔ فضل اگر ہے تو ہم پر ہے کہ مال و دولت اور خدم و حشم رکھتے ہیں اور ایک دنیا ہماری سرداری مان رہی ہے۔ تم ٹٹ پونجیے لوگ آخر کس چیز میں ہم سے بڑھے ہوئے ہو کہ تمہیں خدا کا چہیتا سمجھا جائے۔
۳۴-یہ وہی بات ہے جو ابھی پچھلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کہوائی جا چکی ہے کہ پہلے میں خود آفاق و انفس میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر توحید کی حقیقت تک پہنچ چکا تھا، پھر خدا نے اپنی رحمت (یعنی وحی) سے مجھے نوازا اور ان حقیقتوں کی براہِ راست علم مجھے بخش دیا جن پر میرا دل پہلے سے گواہی دے رہا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام پیغمبر نبوت سے قبل اپنے غور و فکر سے ایمان بالغیب حاصل کر چکے ہوتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو منصب نبوت عطا کرتے وقت ایمان بالشہادۃ عطا کرتا تھا۔
۳۵-یعنی میں ایک بے غرض ناصح ہوں۔ اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ تمہارے ہی بھلے کے لیے یہ ساری مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں۔ تم کسی ایسے ذاتی مفاد کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس امر حق کی دعوت دینے میں اور اس کے لیے جان توڑ محنتیں کرنے اور مصیبتیں جھیلنے میں میرے پیشِ نظر ہو۔ (ملاحظہ ہو المومنون، حاشیہ ۷۰۔ یٰس حاشیہ ۱۷۔الشوریٰ، حاشیہ ۴۱)
۳۶-یعنی ان کی قدر و قیمت جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ربّ کو معلوم ہے اور اسی کے حضور جا کر وہ کھلے گی۔ اگر یہ قیمتی جواہر ہیں تو میرے اور تمہارے پھینک دینے سے پتھر نہ ہو جائیں گے، اور اگر یہ بے قیمت پتھر ہیں تو ان کے مالک کو اختیار ہے کہ انہیں جہاں چاہے پھینکے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۵۲۔ الکہف، آیت ۲۸)
۳۷-یہ اس بات کا جواب ہے کہ جو مخالفین نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم بس اپنے ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہو۔ اس پر حضرت نوح فرماتے ہیں کہ واقعی میں ایک انسان ہی ہوں، میں نے انسان کے سوا کچھ اور ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا کہ تم مجھ پر یہ اعتراض کر تے ہو۔ میرا دعویٰ جو کچھ ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ خدا نے مجھے علم و عمل کا سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ اِس کی آزمائش تم جس طرح چاہو کر لو۔ مگر اس دعوے کی آزمائش کا آخر یہ کونسا طریقہ ہے کہ کبھی تم مجھ سے غیب کی خبریں پوچھتے ہو، اور کبھی ایسے ایسے عجیب مُطالبے کرتے ہو گویا خدا کے خزانوں کی ساری کنجیاں میرے پاس ہیں، اور کبھی اس بات پر اعتراض کرتے ہو کہ میں انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہوں، گویا میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ جس آدمی نے عقائد، اخلاق اور تمدن میں صحیح رہبری کا دعویٰ کیا ہے اس سے اِن چیزوں کے متعلق جو چاہو پوچھو، مگر تم عجیب لوگ ہو جو اس سے پوچھتے ہو کہ فلاں شخص کی بھینس کٹڑا جنے گی یا پَڑیا۔ گویا انسانی زندگی کے لیے صحیح اصولِ اخلا ق و تمدن بتانے کا کوئی تعلق بھینس کے حمل سے بھی ہے ! (ملاحظہ ہو سورہ انعام، حاشیہ نمبر ۳۱، ۳۲)
۳۸-یعنی اگر اللہ نے تمہاری ہٹ دھرمی، شر پسندی اور خیر سے بے رغبتی دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہیں راست روی کی توفیق نہ دے اور جن راہوں میں تم خود بھٹکنا چاہتے ہو انہی میں تم کو بھٹکا دے تو اب تمہاری بھلائی کے لیے میری کوئی کوشش کار گر نہیں ہو سکتی۔
۳۹-اندازِ کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے حضرت نوح کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہو گا کہ محمد ؐ یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہِ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتا ہے اور اس طرح ’’در حدیث دیگراں‘‘ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے۔ لہٰذا سلسلۂ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اِس فقرے میں دیا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے بُرے پہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے اُنہیں کوئ دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جا سکے۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا ہے تو اُس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمّے بھی اُلٹی کچھ برائی لگا دے۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جا سکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے ’’چوٹ‘‘ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر کی بنا ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور این بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو تم ایک دانش مند آدمی ہو گے اگر اُسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اُس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اُٹھاؤ گے، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کر لیا ہے۔ اسی بنا پر یہ فرمایا کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں۔
ترجمہ
نوح ؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتُوتوں پر غم کھانا چھوڑ دو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔ اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔۴۰ نُوح ؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اُڑاتا تھا۔ اس نے کہا ’’ پھر اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں،عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اُسے رُسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی۔‘‘ ۴۱یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور وہ تنور اُبل پڑا ۴۲ تو ہم نے کہا ’’ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی۔۔۔۔ سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے ۴۳۔۔۔۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔۴۴‘‘ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح ؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ نوح ؑ نے کہا ’’ سوار ہو جاؤ اِس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی، میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے۔ ‘‘ ۴۵کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی۔ نوح ؑ کا بیٹا دُور فاصلے پر تھا۔ نوح ؑ نے پُکار کر کہا ’’بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔‘‘ اُس نے پلٹ کر جواب دیا ’’ میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔‘‘ نوح ؑ نے کہا ’’ آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ ‘‘ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔حکم ہوا ’’ اے زمین، اپنا سارا پانی نِگل جا اور اے آسمان، رُک جا۔‘‘ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جودی پر ٹِک ۴۶ گئی، اور کہہ دیا گیا کہ دُور ہوئی ظالموں کی قوم! نُوحؑ نے اپنے ربّ کو پکارا۔ کہا ’’ اے ربّ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے ۴۷ اور تُو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ ۴۸‘‘جواب میں ارشاد ہوا ’’ اے نُوح ؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہُوا کام ہے ۴۹، لہٰذا تُو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تُو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کر تا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے۔ ۵۰‘‘نُوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’اے میرے ربّ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تُو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔‘‘ ۵۱حکم ہوا ’’ اے نوح ؑ اُتر جا ۵۲، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدّت سامانِ زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ اے محمد ؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔ پس صبر کرو، انجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے۔ ۵۳ ؏ ۴
تفسیر
۴۰-اس سے معلوم ہوا کہ جب نبی کا پیغام کسی قوم کو پہنچ جائے تو اسے صرف اس وقت تک مہلت ملتی ہے جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو۔ مگر جب اس کے صالح اجزاء سب نکل چکتے ہیں اور وہ صرف فاسد عناصر ہی کا مجموعہ رہ جاتی ہے تو اللہ اس قوم کو پھر کوئی مہلت نہیں دیتا اور اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ سڑے ہوئے پھلوں کے اس ٹوکرے کو دور پھینک دیا جائے تاکہ وہ اچھے پھلوں کو بھی خراب نہ کر دے۔ پھر اس پر رحم کھانا ساری دنیا کے ساتھ اور آنے والی نسلوں کے ساتھ بے رحمی ہے۔
۴۱-یہ ایک عجیب معاملہ ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے ظاہر سے کس قدر دھوکا کھاتا ہے۔ جب نوح ؑ دریا سے بہت دور خشکی پر اپنا جہاز بنا رہے ہوں گے تو فی الواقع لوگوں کو یہ ایک نہایت مضحکہ خیز فعل محسوس ہوتا ہو گا اور وہ ہنس ہنس کر کہتے ہوں گے کہ بڑے میاں کی دیوانگی آخر کو یہاں تک پہنچی کہ اب آپ خشکی میں جہاز چلائیں گے۔ اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی بات نہ آ سکتی ہو گی کہ چند روز بعد واقعی یہاں جہاز چلے گا۔ وہ اس فعل کو حضرت نوج کی خرابی دماغ کا ایک صریح ثبوت قرار دیتے ہوں گے اور ایک ایک سے کہتے ہوں گے کہ اگر پہلے تمہیں اس شخص کے پاگل پن میں کچھ شبہہ تھا تو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ یہ کیا حرکت کر رہا ہے۔ لیکن جو شخص حقیقت کا علم رکھتا تھا اور جسے معلوم تھا کہ کل یہاں جہاز کی کیا ضرورت پیش آنے والی ہے اسے ان لوگوں کی جہالت و بے خبری پر اور پھر ان کے احمقانہ اطمینان پر اُلٹی ہنسی آتی ہو گی اور وہ کہتا ہو گا کہ کس قدر نادان ہیں یہ لوگ کہ شامت ان کے سر پر تُلی کھڑی ہے، میں اِنہیں خبر دار کر چکا ہوں کہ وہ بس آیا چاہتی ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس سے بچنے کی تیاری بھی کر رہا ہوں، مگر یہ مطمئن بیٹھے ہیں اور اُلٹا مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہیں۔ اس معاملہ کو اگر پھیلا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا کے ظاہر و محسوس پہلو کے لحاظ سے عقلمندی و بے وقوفی کا جو معیار قائم کیا جاتا ہے وہ اُس معیار سے کس قدر مختلف ہوتا ہے جو علمِ حقیقت کے لحاظ سے قرار پاتا ہے۔ ظاہر بیں آدمی جس چیز کو انتہائی دانش مندی سمجھتا ہے وہ حقیقت شناس آدمی کی نگاہ میں انتہائی بے وقوفی ہوتی ہے، اور ظاہر بیں کے نزدیک جو چیز بالکل لغو، سراسر دیوانگی اور نرا مضحکہ ہوتی ہے، حقیقت شناس کے لیے وہی کما دانش، انتہائی سنجیدگی اور عین مقتضائے عقل ہوتی ہے۔
۴۲-اس کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک صحیح وہی ہے جو قرآن کے صریح الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ طوفان کی ابتدا ایک خاص تنور سے ہوئی جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا، پھر ایک طر ف آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے۔ یہاں صرف تنور کے اُبل پڑنے کا ذکر ہے اور آگے چل کر بارش کی طرف بھی اشارہ ہے۔ مگر سورۂ قمر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآ ءٍ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۔ ’’ہم نے آسمان کے دروازے کھول دے جن سے لگا تار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ نکلے اور یہ دونوں طرح کے پانی اُس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کر دیا گیا تھا‘‘۔ نیز لفظ تنور پر الف لام داخل کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تنور کو اس کام کی ابتدا کے لیے نام زد فرمایا تھا جو اشارہ پاتے ہی ٹھیک اپنے وقت پر ابل پڑا اور بعد میں طوفان والے تنور کی حیثیت سے معروف ہو گیا، سورۂ مومنون آیت ۲۷ میں تصریح ہے کہ اس تنور کو پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا۔
۴۳-یعنی تمہارے گھر کے جن افراد کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ کافر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں انہیں کشتی میں نہ بٹھاؤ۔ غالباً یہ دو ہی شخص تھے۔ ایک حضرت نوح ؑ کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ابھی ذکر آتا ہے۔ دوسری حضرت نوح ؑ کی بیوی جس کا ذکر سورۂ تحریم میں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ دوسرے افراد خاندان بھی ہوں مگر قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے۔
۴۴-اس سے اُن مؤرخین اور علماء انساب کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے جو تمام انسانی نسلوں کا شجرۂ نسب حضرت نوح کے تین بیٹوں تک پہنچاتے ہیں۔ دراصل اسرائیلی روایات نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اس طوفان سے حضرت نوحؑ اور ان کے تین بیٹوں اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا (ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب پیدائش ۶ : ۱۸ و ۷ : ۷ و ۹ : ۱ و ۹ : ۱۹)۔ لیکن قرآن متعدد مقامات پر اس کی تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوح کے خاندان کے سوا اُن کی قوم کی ایک معتدبہ تعداد کو بھی اگرچہ وہ تھوڑی تھی، اللہ نے طوفان سے بچا لیا تھا۔ نیز قرآن بعد کی نسلوں کو صرف نوحؑ کی اولاد نہیں بلکہ ان سب لوگوں کو اولاد قرار دیتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کشتی میں بٹھایا تھا، ذُریۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل آیت ۳) اور مِنْ ذُرِّ یَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (مریم، آیت ۵۸)۔
۴۵-یہ ہے مومن کی اصلی شان۔ وہ عالمِ اسباب میں ساری تدابیر قانون فطرت کے مطابق اسی طرح اختیار کرتا ہے جس طرح اہلِ دنیا کرتے ہیں، مگر اس کا بھروسہ ان تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ پر ہوتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی تدبیر نہ تو ٹھیک شروع ہو سکتی ہے، نہ ٹھیک چل سکتی ہے اور نہ آخری مطلوب تک پہنچ سکتی ہے جب تک اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم شامل حال نہ ہو۔
۴۶-جودی پہاڑ کُردستان کے علاقہ میں جزیرۂ ابن عمر کے شمالی جانب واقع ہے۔ بائیبل میں کشتی کے ٹھیرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ارمینیا کے ایک پہاڑ کا نام بھی ہے اور ایک سلسلۂ کوہستان کا نام بھی۔ سلسلۂ کوہستان کے معنی میں جس کا اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھیرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابِل کے ایک مذہبی پیشوا بیراسُس (Berasus) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر ایک ملک کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھیرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus) بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔
یہ طوفان، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح کی قوم آباد تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ طوفان تمام روئے زمیں پر آیا تھا (پیدائش ۲۴-۱۸:۷) مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کی گئی ہے۔ قرآن کے ارشادات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انھیں لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفانِ نوح سے بچا لیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمیں میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت تاریخی روایات سے، آثارِ قدیمہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے، لیکن روئے زمیں کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جا سکے۔ دوسرے یہ کہ روئے زمیں کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں، حتیٰ کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباء و اجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا۔ اور پھر جب ان کی نسلیں زمیں کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۴۷)
۴۷-یعنی تو نے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو اس تباہی سے بچا لے گا، تو میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں ہی میں سے ہے، لہٰذا اسے بھی بچا لے۔
۴۸-یعنی تیرا فیصلہ آخری فیصلہ ہے جس کا کوئی اپیل نہیں۔ اور تو جو فیصلہ بھی کرتا ہے خالص علم اور کامل انصاف کے ساتھ کرتا ہے۔
۴۹-یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ نہ ہو گا کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑ ے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ ہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہوں۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اُس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلا ق و عمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نہیں ہے۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کا ایک رکن ہو تو ہوا کر ے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نل والے غارت کر دیے جائیں، بلکہ یہ کفرو ایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے۔
بیٹے کو بگڑا ہوا کام کہہ کر ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ظاہر بین آدمی اولاد کو صرف اس لیے پرورش کرتا ہے اور اسے محبوب رکھتا ہے کہ وہ اس کی صُلب سے یا اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ صالح ہو یا غیر صالح، لیکن مومن کی نگاہ تو حقیقت پر ہونی چاہیے۔ اُسے تو اولاد کو اِس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ چند انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطری طریقہ سے میرے سپرد کیا ہے تاکہ ان کو پال پوس کر اور تربیت دے کر اُس مقصد کے لیے تیار کروں جس کے لیے اللہ نے دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے۔ اب اگر اس کی تمام کوششوں اور محنتوں کے باوجود کوئی شخص جو اس کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس مقصد کے لیے تیار نہ ہو سکا اور اپنے اس رب ہی کا وفادار خادم نہ بنا جس نے اس کو مومن باپ کے حوالے کیا تھا، تو اس باپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری محنت و کوشش ضائع ہو گئی، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اولاد کے ساتھ اسے کوئی دل بستگی ہو۔
پھر جب یہ معاملہ اولاد جیسی عزیز ترین چیز کے ساتھ ہے تو دوسرے رشتہ داروں کے متعلق مومن کا نقطۂ نظر جو کچھ ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ ایمان ایک فکری و اخلاقی صفت ہے۔ مومن اسی صفت کے لحاظ سے مومن کہلاتا ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی رشتہ بجز اخلاقی و ایمانی رشتہ کے نہیں ہے۔ گوشت پوست کے رشتہ دار اگر اس صفت میں اس کے ساتھ شریک ہیں تو یقیناً وہ اس کے رشتہ دار ہیں، لیکن اگر وہ اس صفت سے خالی ہیں تو مومن محض گوشت پوست کی حد تک ان سے تعلق رکھے گا، اس کا قلبی و روحی تعلق ان سے نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ایمان و کفر کی نزاع میں وہ مومن کے مدِ مقابل آئیں تو اس کے لیے وہ اور اجنبی کافر یکساں ہوں گے۔
۵۰-اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح کے اندر روح ایمان کی کم تھی، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت اُس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ لیکن جونہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے، وہ فوراً توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اس ایک لمحہ کے لیے بھی تَامُل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُنہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض ا س لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے، تو وہ فوراً اپنے دل کے زخم سے بے پروا ہو کر اُس طرزِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔
۵۱-پسر نوح کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرایہ میں یہ بتایا ہے کہ اُس کا انصاف کس قدر بے لاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتاؤں کے متوسل ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں۔ اور بہت سے غلط کار مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھا یا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لختِ جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے، لیکن دربار خداوندی سے اُلٹی اس پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے اور باپ کی پیغمبری بھی ایک بد عمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی۔
۵۲-یعنی اُس پہاڑ سے جس پر کشتی ٹھیری تھی۔
۵۳-یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں ہی کا آخر کار بول بالا ہوا، اسی طرح تمہارا ا اور تمہارے ساتھیوں کا بھی ہو گا۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ ابتداءِ کار میں دشمنانِ حق خواہ کتنے ہی کامیاب ہوں مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے جو خدا سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس وقت جو مصائب و شدائد تم پر گزر رہے ہیں جن مشکلات سے تم دوچار ہو رہے ہو اور تمہاری دعوت کو دبانے میں تمہارے مخالفوں کو بظاہر جو کامیابی ہوتی نظر آ رہی ہے اس پر بد دل نہ ہو بلکہ ہمت اور صبر کے ساتھ اپنا کام کیے چلے جاؤ۔
ترجمہ
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہُودؑ کو بھیجا۔۵۴ اُس نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھُوٹ گھڑ رکھے ہیں۔۵۵ اے برادرانِ قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے ؟۵۶اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔۵۷ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’اے ہُودؑ، تُو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے ۵۸، اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے، اور تُجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اُوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔ ‘‘ ۵۹ہُود ؑ نے کہا ’’ میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں۔۶۰ اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دُوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں۔۶۱تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اُٹھا رکھو اور مجھے مہلت نہ دو ۶۲،میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ ۶۳اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میرا ربّ تمہاری جگہ دُوسری قوم کو اُٹھائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے ۶۴۔ یقیناً میرا ربّ ہر چیز پر نگراں ہے۔ ‘‘پھر جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہُود ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔یہ ہیں عاد، اپنے ربّ کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسُولوں کی بات نہ مانی،۶۵ اور ہر جبّار دُشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرِ کار اس دُنیا میں بھی ان پر پھِٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سُنو! عاد نے اپنے ربّ سے کُفر کیا، سُنو! دُور پھینک دیے گئے عاد، ہُود ؑ کی قوم کے لوگ۔ ؏ ۵
تفسیر
۵۴-سورۂ اعراف رکوع ۵ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔
۵۵-یعنی وہ تمام دوسرے معبود جن کی تم بندگی و پرستش کر رہے ہو حقیقت میں کسی قسم کی بھی خدائی صفات اور طاقتیں نہیں رکھتے۔ بندگی و پرستش کا کوئی استحقاق اُن کو حاصل نہیں ہے۔ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے اور بلاوجہ اُن سے حاجت روائی کی آس لگائے بیٹھے ہو۔
۵۶-یہ نہایت بلیغ فقرہ ہے کہ جس میں ایک بڑا استدلال سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بات کو جس طرح سرسری طور پر تم نظر انداز کر رہے ہو اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ ورنہ اگر تم عقل سے کام لینے والے ہوتے تو ضرور سوچتے کہ جو شخص اپنی کسی ذاتی غرض کے بغیر دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کی یہ سب مشقیں جھیل رہا ہے، جس کی اس تگ و دو میں تم کسی شخصی یا خاندانی مفاد کا شائبہ تک نہیں پا سکتے، وہ ضرور اپنے پاس یقین و اذعان کی کوئی ایسی بنیاد اور ضمیر کے اطمینان کی کوئی ایسی وجہ رکھتا ہے جس کی بنا پر اس نے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر، اپنی دنیا بنانے کی فکر سے بے پروا ہو کر، اپنے آپ کو اس جوکھم میں ڈالا ہے کہ صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے عقائد، رسوم اور طرزِ زندگی کے خلاف آواز اُٹھائے اور اس کی بدولت دنیا بھر کی دشمنی مول لے لے۔ ایسے شخص کی بات کم از کم اتنی بے وزن تو نہیں ہو سکتی کہ بغیر سوچے سمجھے اسے یونہی ٹال دیا جائے اور اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ذرا سی تکلیف بھی ذہن کو نہ دی جائے۔
۵۷-یہ وہی بات ہے جو پہلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کہلوائی گئی تھی کہ ’’اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ اُن طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز سے خالی ہوں۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اُس پیغام کے ساتھ متعلق ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کر لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کر دیتی ہے تو اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے۔ یہ گویا ایک دفعہ ہے اُس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے۔ اِسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس بُرے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جا رہی ہو، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔
۵۸-یعنی ایسی کوئی کھلی علامت یا ایسی کوئی واضح دلیل جس سے ہم غیر مشتبہ طور پر معلوم کر لیں کہ اللہ نے تجھے بھیجا ہے اور جو بات تو پیش کر رہا ہے وہ حق ہے۔
۵۹-یعنی تُو نے کسی دیوی یا دیوتا یا کسی حضرت کے آستانے پر کچھ گستاخی کی ہو گی، اسی کا خمیازہ ہے جو تُو بھگت رہا ہے کہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے اور وہی بستیاں جن میں کل تُو عزت کے ساتھ رہتا تھا آج وہاں گالیوں اور پتھروں سے تیری تواضع ہو رہی ہے۔
۶۰-یعنی تم کہتے ہو کہ میں کوئی شہادت لے کہ نہیں آیا، حالانکہ چھوٹی چھوٹی شہادتیں پیش کرنے کے بجائے میں تو سب سے بڑی شہادت اس خدائی کی پیش کر رہا ہوں جو اپنی ساری خدائی کے ساتھ کائنات ہستی کے ہر گوشے اور ہر جلوے میں اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جو حقیقتیں میں نے تم سے بیان کی ہیں وہ سراسر حق ہیں، ان میں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں اور جو تصورات تم نے قائم کر رکھے ہیں وہ بالکل افترا ہیں، سچائی ان میں ذرہ برابر بھی نہیں۔
۶۱-یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ فرمایا میرا بھی یہ فیصلہ سُن رکھو کہ تمہارے اِن معبودوں سے میں قطعی بیزار ہوں۔
۶۲-یہ ان کے اس فقرے کا جواب ہے کہ ہمارے معبودوں کی تجھ پر مار پڑی ہے (تقابل کے لیے ملاحظہ وہ یونس، آیت ۷۱)۔
۶۳-یعنی وہ جو کچھ کرتا ہے صحیح کرتا ہے۔ اس کا ہر کام سیدھا ہے۔ اس کے ہاں اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ وہ سراسر حق اور عدل کے ساتھ خدائی کر رہا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم گمراہ و بدکار ہو اور پھر فلاح پاؤ، اور میں راستباز و نیکو کار ہوں اور پھر ٹوٹے میں رہوں۔
۶۴-یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
۶۵-اگرچہ ان کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا، مگر جس چیز کی طرف اس نے دعوت دی تھی وہ وہی ایک دعوت تھی جو ہمیشہ ہر زمانے اور ہر قوم میں خدا کے رسول پیش کرتے رہے ہیں، اسی لیے ایک رسول کی بات نہ ماننے کو سارے رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا۔
ترجمہ
اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔۶۶ اُس نے کہا ’’ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خُدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ ۶۷ لہٰذا تم اُس سے معافی چاہو ۶۸ اور اُس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا ربّ قریب ہے اور وہ دُعاؤ کا جواب دینے والا ہے۔ ‘‘ ۶۹ اُنہوں نے کہا ’’ اے صالح ؑ، اس سے پہلے تُو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔۷۰ کیا تُو ہمیں اُن معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟۷۱ تُو جس طریقے کی طرف ہمیں بُلا رہا ہے اُس کے بارے میں ہم کو سخت شُبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے۔ ‘‘ ۷۲صالح ؑ نے کہا ’’ اے برادرانِ قوم، تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اِس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اُس کی نافرمانی کروں؟ تم میرے کس کام آ سکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اَور زیادہ خسارے میں ڈال دو۔۷۳اور اے میری قوم کے لوگو، دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اِسے خدا کی زمین میں چَرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔ اِس سے ذرا تعّرض نہ کرنا ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا۔‘‘ مگر انہوں نے اُونٹنی کو مار ڈالا۔ اس پر صالح ؑ نے اُن کو خبردار کر دیا کہ ’’بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو۔ یہ ایسی معیاد ہے جو جھُوٹی نہ ثابت ہو گی۔‘‘ آخرِ کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچا لیا اور اُس دن کی رُسوائی سے ان کو محفوظ رکھا ۷۴۔ بے شک تیرا ربّ ہی دراصل طاقتور اور بالا دست ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا تو ایک سخت دھماکے نے ان کو دھر لیا اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حِسّ و حرکت پڑے رہ گئے کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سُنو! ثمود نے اپنے ربّ سے کُفر کیا۔ سُنو! دُور پھینک دیے گئے ثمود ! ؏ ٦
تفسیر
۶۶-سورۂ اعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔
۶۷-یہ دلیل ہے اس دعوے کی جو پہلے فقرے میں کیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی خدا اور کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ مشرکین خود بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ ہی ہے۔ اسی مسلمہ حقیقت پر بنائے استدلال قائم کر کے حضرت صالح ان کو سمجھاتے ہیں کہ جب وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے بے جان مادّوں کی ترکیب سے تم کو یہ انسانی وجود بخشا، اور وہ بھی اللہ ہی ہے جس نے زمین میں تم کو آباد کیا، تو پھر اللہ کے سوا خدائی اور کس کی ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی و پرستش کرو۔
۶۸-یعنی اب تک جو تم دوسروں کی بندگی و پرستش کرتے رہے ہو اس جرم کی اپنے رب سے معافی مانگو۔
۶۹-یہ مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان سب میں پائی جاتی ہے اور اُن اہم اسباب میں سے ایک ہے جنہوں نے ہر زمانہ میں انسان کو شرک میں مبتلا کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ کو اپنے راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں جو رعیت سے دور اپنے محلوں میں داد عیش دیا کرتے ہیں، جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی، جن کے حضور میں کوئی درخواست پہنچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست ان کے آستانۂ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کا پندارِ خدائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں، بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس غلط گمان کی وجہ سے یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ایسا سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خداوند عالم کا آستانۂ قدس عام انسانوں کی دست رس سے بہت ہی دور ہے۔ اس کے دربار تک بھلا کسی عام کی پہنچ کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈ ا جائے اور اُن مذہبی منصب داروں کی خدمات نہ حاصل کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اور عرضیاں پہنچانے کے ڈھب جانتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے بندے اور خدا کے درمیان بہت سے چھوٹے بڑے معبودوں اور سفارشیوں کا ایک جم غفیر کھڑا کر دیا ہے اور س کے ساتھ مہنت گری (Priesthood) کا وہ نظام پیدا کیا ہے جس کے توسط کے بغیر جاہلی مذاہب کے پیرو پیدائش سے لے کر موت تک اپنی کوئی مذہبی رسم بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔
حضرت صالح ؑ جاہلیت کے اس پورے طلسم کو صرف دو لفظوں سے توڑ پھینکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ قریب ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ وہ مجیب ہے۔ یعنی تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ وہ تم سے دور ہے، اور یہ بھی غلط ہے کہ تم براہِ راست اس کو پکار کر اپنی دعاؤں کا جواب حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ اگرچہ بہت بالا و برتر ہے مگر اس کے باوجود وہ تم سے بہت قریب ہے۔ تم میں سے ایک ایک شخص اپنے پاس ہی ا س کو پا سکتا ہے، ا س سے سرگوشی کر سکتا ہے، خلوت اور جلوت دونوں میں علانیہ بھی اور بصیغۂ راز بھی اپنی عرضیاں خود اس کے حضور پیش کر سکتا ہے۔ اور پھر وہ براہِ راست اپنے ہر بندے کی دعاؤں کا جواب خود دیتا ہے۔ پس جب سلطانِ کائنات کا دربارِ عام ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا ہے اور ہر شخص کے قریب ہی موجود ہے تو یہ تم کس حماقت میں پڑے ہو کہ اس کے لیے واسطے اور وسیلے ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ (نیز ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ کا حاشیہ نمبر ۱۸۸)۔
۷۰-یعنی تمہاری ہوشمندی، ذکاوت، فراست، سنجیدگی و متانت اور پر وقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بڑے آدمی بنو گے۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤ گے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے گا۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخرت کا نیا راگ چھیڑ کر تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے ہی کچھ خیالات محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بھی آپ کے ہم قوموں میں پائے جاتے تھے۔ وہ بھی نبوت سے پہلے آپؐ کی بہترین قابلیتوں کے معترف تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص ایک بہت بڑا تاجر بنے گا اور اس کی بیدار مغزی سے ہم کو بھی بہت کچھ فائدہ پہنچے گا۔ مگر جب ان کی توقعات کے خلا ف آپؐ نے توحید و آخرت اور مکارم اخلاق کی دعوت دینی شروع کی تو وہ آپؐ سے نہ صرف مایوس، بلکہ بیزار ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا خاصا کام کا آدمی تھا، خدا جانے اسے کیا جنون لاحق ہو گیا کہ اپنی زندگی بھی برباد کی اور ہماری امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا۔
۷۱-یہ گویا دلیل ہے اس امر کی کہ یہ معبود کیوں عبادت کے مستحق ہیں اور ان کی پوجا کس لیے ہوتی رہنی چاہیے۔ یہاں جاہلیت اور اسلام کے طرزِ استدلال کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے۔ حضرت صالح نے کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، اور اس پر دلیل یہ دی تھی کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور زمین میں آباد کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کی مشرک قوم کہتی ہے کہ ہمارے یہ معبود بھی مستحق عباد ت ہیں اور ان کی عبادت ترک نہیں کی جا سکتی کیونکہ باپ داد ا کے وقتوں سے ان کی عبادت ہوتی چلی آ رہی ہے۔ یعنی مکھی پر مکھی صرف اس لیے ماری جاتی رہنی چاہیے کہ ابتدا میں کسی بے وقوف نے س جگہ مکھی مار دی تھی اور اب اس مقام پر مکھی مارتے رہنے کے لیلے اس کے سوا کسی معقول وجہ کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں مدتوں سے مکھی ماری جا رہی ہے۔
۷۲-یہ شبہہ اور یہ خلجان کس امر میں تھا؟ اس کی کوئی تصریح یہاں نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلجان میں تو سب پڑ گئے تھے، مگر یہ ایک خلجان الگ نوعیت کا تھا۔ یہ دعوتِ حق کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو لوگوں کا اطمینانِ قلب رخصت ہو جاتا ہے اور ایک عام بے کلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر چہ ہر ایک کے احساسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اس بے کلی میں سے سب کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل کر رہتا ہے۔ اس سے پہلے جس اطمینان کے ساتھ لوگ اپنی ضلالتوں میں منہمک رہتے تھے اور کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، وہ اطمینان اس دعوت کے اٹھنے کے بعد باقی نہیں رہتا اور نہیں رہ سکتا۔ نظام جاہلیت کی کمزوریوں پر داعی حق کی بے رحم تنقید، اثبات حق کے لیے اس کے پر زور اور دل لگتے دلائل، پھر اس کے بلند اخلاق، اس کا عزم، اس کا حلم، اس کی شرافت نفس، اس کا نہایت کھَرا اور راستبازانہ رویہ اور اس کی وہ زبردست حکیمانہ شان جس کا سکہ بڑے سے بڑے ہٹ دھرم مخالف کے دل پر بھی بیٹھ جاتا ہے، پھر وقت کی سوسائٹی میں سے بہترین عناصر کا اس سے متاثر ہوتے چلے جانا اور ان کی زندگیوں میں دعوت حق کی تاثیر سے غیر معمولی انقلاب رونما ہونا، یہ ساری چیزیں مل جل کر ان سب لوگوں کے دلوں کو بے چین کر ڈالتی ہیں جو حق آ جانے کے بعد بھی پرانی جاہلیت کا بول بالا رکھنا چاہتے ہیں۔
۷۳-یعنی اگر میں اپنی بصیرت کے خلاف اور اُس علم کے خلا ف جو اللہ نے مجھے دیا ہے، محض تم کو خوش کرنے کے لیے گمراہی کا طریقہ اختیار کر لوں تو یہی نہیں کہ خدا کی پکڑ سے تم مجھ کو بچا نہ سکو گے، بلکہ تمہاری وجہ سے میرا جرم اور زیادہ بڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس بات کی مزید سزا دے گا کہ میں نے تم کو سیدھا راستہ بتانے کے بجائے تمہیں جان بوجھ کر اُلٹا اور گمراہ کیا۔
۷۴-جزیرہ نمائے سینا میں جو روایات مشہور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ثمود پر عذاب آیا تو حضرت صالحؑ ہجرت کر کے وہاں سے چلے گئے تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ والے پہاڑ کے قریب ہی ایک پہاڑی کا نام نبی صالح ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی جگہ آنجناب کی جائے قیام تھی۔
ترجمہ
اور دیکھو، ابراہیم ؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے۔ کہا، تم پر سلام ہو۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا، تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم ؑ ایک بھُنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے ) لے آیا۔۷۵ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہو گیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا۔ ۷۶ اُنہوں نے کہا ’’ ڈرو نہیں، ہم تو لُوط ؑ کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ۷۷۔ ‘‘ابراہیم ؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ یہ سُن کر ہنس دی۔۷۸ پھر ہم نے اُس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب ؑ کی خوشخبری دی۔وہ بولی ’’ ہائے میری کم بختی!۸۰ کیا اب میرے ہاں اولاد ہو گی جبکہ میں بڑھیا پھُونس ہو گئی اور یہ میرے میاں بھی بُوڑھے ہو چکے ؟ ۸۱ یہ تو بڑے عجیب بات ہے۔ ‘‘فرشتوں نے کہا ’’ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟۸۲ ابراہیم ؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابلِ تعریف اور بڑی شان والا ہے۔ ‘‘پھر جب ابراہیم ؑ کی گھبراہٹ دُور ہو گئی اور (اولاد کی بشارت سے ) اُس کا دل خوش ہو گیا تو اُس نے قومِ لُوط کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ ۸۳حقیقت میں ابراہیم ؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہمارے طرف رجوع کرتا تھا۔ (آخرِ کار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) ’’اے ابراہیم ؑ، اس سے باز آ جاؤ، تمہارے ربّ کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آ کر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا۔‘‘ ۸۴اور جب ہمارے فرشتے لُوط کے پاس پہنچے ۸۵ تو اُن کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ ’’آج بڑی مصیبت کا دن ہے۔ ‘‘ ۸۶ (ان مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دَوڑ پڑے۔ پہلے سے وہ ایسی ہی بدکاریوں کے خوگر تھے۔ لُوط ؑ نے ان سے کہا ’’ بھائیو، یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں۔۸۷ کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے ۸۸ اور تُو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔‘‘ لُوط ؑ نے کہا ’’ کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کر دیتا، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا۔‘‘ تب فرشتوں نے اس سے کہا کہ ’’ اے لُوط ؑ، ہم تیرے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بس تُو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نِکل جا۔ اور دیکھو، تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ ۸۹ مگر تیری بیوی ( ساتھ نہیں جائے گی) کیونکہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو اِن لوگوں پر گزرنا ہے۔ ۹۰ ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔۔۔۔ صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے !‘‘ پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مَٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے ۹۱جن میں سے ہر پتھر تیرے ربّ کے ہاں نشان زدہ تھا۔۹۲ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں ہے ۹۳۔ ؏ ۷
تفسیر
۷۵-اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداءً انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فوراً ان کی ضیافت کا انتظام فرمایا۔
۷۶-بعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف اس بنا پر تھا کہ جب ان اجنبی نو واردوں نے کھانے میں تأمل کیا تو حضرت ابراہیم ؑ کو ان کی نیت پر شبہہ ہونے لگا اور آپ اس خیال سے اندیشہ ناک ہوئے کہ کہیں یہ کسی دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے ہیں، کیونکہ عرب میں جب کوئی شخص کسی کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کرتا تو اس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مہمان کی حیثیت سے نہیں آیا ہے بلکہ قتل و غارت کی نیت سے آیا ہے۔ لیکن بعد کی آیت اس تفسیر کی تائید نہیں کرتی۔
۷۷-اِس اندازِ کلام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے کی طرف ان کے ہاتھ نہ بڑھنے سے ہی حضرت ابراہیمؑ تاڑ گئے تھے کہ یہ فرشتے ہیں۔ اور چونکہ فرشتوں کا علانیہ انسانی شکل میں آنا غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم کو خوف جس بات پر ہوا وہ دراصل یہ تھی کہ کہیں آپ کے گھر والوں سے یا آپ کی بستی کے لوگوں سے یا خود آپ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا ہے جس پر گرفت کے لیے فرشتے اس صورت میں بھیجے گئے ہیں۔ اگر بات وہ ہوتی جو بعض مفسرین نے سمجھی ہے تو فرشتے یوں کہتے کہ ’’ڈرو نہیں ہم تمہارے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں‘‘۔ لیکن جب انہوں نے آپ کا خوف دور کرنے کے لیے کہا کہ ’’ہم تو قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا فرشتہ ہونا تو حضرت ابراہیمؑ جان گئے تھے، البتہ پریشانی اس بات کی تھی کہ یہ حضرات اس فتنے اور آزمائش کی شکل میں جو تشریف لائے ہیں تو آخر وہ بدنصیب کون ہے جس کی شامت آنے والی ہے۔
۷۸-اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے انسانی شکل میں آنے کی خبر سنتے ہی سارا گھر پریشان ہو گیا تھا اور حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ بھی گھبرائی ہوئی باہر نکل آئی تھیں۔ پھر جب انہوں نے یہ سن لیا کہ ان کے گھر پر یا ان کی بستی پر کوئی آفت آنے والی نہیں ہے تب کہیں ان کی جان میں جان آئی اور وہ خوش ہو گئیں۔
۸۰-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت سارہ فی الواقع اس پر خوش ہونے کے بجائے الٹی اس کو کم بختی سمجھتی تھیں۔ بلکہ دراصل یہ اس قسم کے الفاظ میں سے ہے جو عورتیں بالعموم تعجب کے مواقع پر بولا کرتی ہیں اور جن سے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ محض اظہارِ تعجب مقصود ہوتا ہے۔
۸۱-بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی عمر اس وقت ۱۰۰ برس اور حضرت سارہ کی عمر ۹۰ برس کی تھی۔
۸۲-مطلب یہ ہے کہ اگرچہ عادۃً اس عمر میں انسان کے ہاں اولاد نہیں ہوا کرتی، لیکن اللہ کی قدرت سے ایسا ہونا کچھ بعید نہیں ہے۔ اور جب کہ یہ خوشخبری تم کو اللہ کی طرف سے دی جا رہی ہو تو کئی وجہ نہیں کہ تم جیسی ایک مومنہ اس پر تعجب کرے۔
۸۳- ’’جھگڑے ‘‘ کا لفظ اس موقع اُس انتہائی محبت اور ناز کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اپنے خدا کے ساتھ رکھتے تھے۔ اس لفظ سے یہ تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان بڑی دیر تک رد و کد جاری رہتی ہے۔ بندہ اصرار کر رہا ہے کہ کسی طرح قوم لوطؑ پر سے عذاب ٹال دیا جائے۔ خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے بالکل خالی ہو چکی ہے اور اس کے جرائم اس حد سے گزر چکے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جا سکے۔ مگر بندہ ہے کہ پھر یہی کہے جاتا ہے کہ ’’پروردگار، اگر کچھ تھوڑی سے بھلائی بھی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دیدے، شاید وہ بھلائی پھل لے آئے۔ ‘‘ بائیبل میں اس جھگڑے کی کچھ تشریح بھی بیان ہوئی ہے، لیکن قرآن کا مجمل بیان اپنے اندر اس سے زیادہ معنوی وسعت رکھتا ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب پیدائش، باب ۱۸-آیات ۳۲-۲۳)
۸۴-اس سلسلۂ بیان میں حضرت ابراہیمؑ کا یہ واقعہ، خصوصاً قوم لوطؑ کے قصّے کی تمہید کے طور پر، بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ اُس مقصد کے لحاظ سے نہایت برمحل ہے جس کے لیے پچھلی تاریخ کے یہ واقعات یہاں بیان کیے جا رہے ہیں۔ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو باتوں کو پیش نظر رکھیے :
(۱) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہونے کے وجہ ہی سے تمام عرب کے پیر زادے، کعبۃ اللہ کے مجاور اور مذہبی و اخلاقی اور سیاسی و تمدّنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا عذاب کیسے نازل ہو سکتا ہے جبکہ ہم خدا کے اُس پیارے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کے دربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے۔ اس پندارِ غلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو یہ منظر دکھایا گیا کہ حضرت نوحؑ جیسا عظیم الشان پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچا لیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی، بلکہ اس سفارش پر باپ کو اُلٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے۔ اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیمؑ کا دکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں اور نہایت پیار کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے، مگر دوسری طرف جب وہی ابراہیمؑ خلیل انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار و الحاح کے باوجود اللہ تعالیٰ مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا یے۔
(۲) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ قانونِ مکافات، جس سے لوگ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے، کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گرد و پیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت ابراہیمؑ ہیں جو حق اور صداقت کی خاطر گھر سے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم ہیں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے حسن عمل کا یہ پھل ان کو دیتا ہے کہ بانجھ بیوی کے پیٹ سے بڑھاپے میں اسحاق علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں، پھر ان کے ہاں یعقوب علیہ السلام کی پیدائش ہوتی ہے، اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکے صدیوں تک اُسی فلسطین و شام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیمؑ ایک بے خانماں مہاجر کی حیثیت سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ دوسری طرف قوم لوطؑ ہے جو اسی سرزمین کے ایک حصّہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں میں مست ہے۔ دور دور تک کہیں بھی اس کو اپنی شامتِ اعمال کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اور لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہی ہے۔ مگر جس تاریخ کو ابراہیمؑ کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اُٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اِس بدکار قوم کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔
۸۵-سورۂ اَعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیش نظر رہیں۔
۸۶-اس قصّے کی جو تفصیلات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں ان کے فحوائے کلام سے یہ بات صاف مترشح ہوتی ہے کہ یہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوطؑ کے ہاں پہنچے تھے اور حضرت لوطؑ اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ فرشتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ ان مہمانوں کی آمد سے آپ کو سخت پریشانی و دل تنگی لاحق ہوئی۔ اپنی قوم کو جانتے تھے کہ وہ کیسی بدکردار اور کتنی بے حیا ہو چکی ہے۔
۸۷-ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ کا اشارہ قوم کی لڑکیوں کی طرف ہو۔ کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور قوم کی لڑکیاں اس کی نگاہ میں اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادیوں کی طرف ہو۔ بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ حضرت لوطؑ نے ان سے زنا کرنے کا لیے کہا ہو گا۔ "یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں” کا فقرہ ایسا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ حضرت لوطؑ کا منشا صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوتِ نفس کو اُس فطری اور جائز طریقے سے پورا کرو جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اس کے لیے عورتوں کی کمی نہیں ہے۔
۸۸-یہ فقرہ ان لوگوں کے نفس کی پوری تصویر کھینچ دیتا ہے کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے تھے۔ بات صرف اس حد تک ہی نہیں رہی تھی کہ وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی خلافِ فطرت راہ پر چل پڑے تھے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب اسی گندی راہ ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اُس گندگی ہی کی رہ گئی تھی اور وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ راستہ تو ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی مرتبہ ہے جس سے فروتر کسی مرتبے کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ اس شخص کا معاملہ تو بہت ہلکا ہے جو محض نفس کی کمزوری کی وجہ سے حرام میں مبتلا ہو جاتا ہو مگر حلال کو چاہنے کے قابل اور حرام کو بچنے کے قابل چیز سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی سدھر بھی سکتا ہے، اور نہ سدھرے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بگڑا ہوا انسان ہے۔ مگر جب کسی شخص کی ساری رغبت صرف حرام ہی میں ہو اور وہ سمجھے کہ حلال اس کے لیے ہے ہی نہیں تو اس کا شمار انسانوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دراصل ایک گندہ کیڑا ہے جو غلاظت ہی میں پرورش پاتا ہے اور طیّبات سے اس کے مزاج کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ ایسے کیڑے کسی صفائی پسند انسان کے گھر میں پیدا ہو جائیں تو وہ پہلی فرصت میں فنائیل ڈال کر ان کے وجود سے اپنے گھر کو پاک کر دیتا ہے۔ پھر بھلا خدا اپنی زمین پر ان گندے کیڑوں کے اجتماع کو کب تک گوارا کر سکتا تھا۔
۸۹-مطلب یہ ہے کہ اب تم لوگوں کو بس یہ فکر ہونی چاہیے کہ کسی طرح جلدی سے جلدی اس علاقے سے نکل جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیچھے شور اور دھماکوں کی آوازیں سُن کر راستے میں ٹھہر جاؤ اور جو رقبہ عذاب کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے اس میں عذاب کا وقت آ جانے کے بعد بھی تم میں سے کوئی رکا رہ جائے۔
۹۰-یہ تیسرا عبرتناک واقعہ ہے جو اِس سورہ میں لوگوں کو یہ سبق دینے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ تم کو کسی بزرگ کی رشتہ داری اور کسی بزرگ کی سفارش اپنے گناہوں کی پاداش میں نہیں بچا سکتی۔
۹۱-غالباً یہ عذاب ایک سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیا تھا۔ زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کیا اور آتش فشاں مادے کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤ ہُوا۔ پکی ہوئی مٹی کے پتھروں سے مراد شاید وہ مُتَحّجر مٹی ہے جو آتش فشاں علاقے میں زیر زمیں حرارت اور لاوے کے اثر سے پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ آج تک بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔
۹۲-یعنی ہر ہر پتھر خدا کی طرف سے نامزد کیا ہوا تھا کہ اسے تباہ کاری کا کیا کام کرنا ہے اور کس پتھر کو کس مجرم پر پڑنا ہے۔
۹۳-یعنی آج جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی اس عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں۔ عذاب اگر قومِ لوطؑ پر آ سکتا تھا تو ان پر بھی آ سکتا ہے۔ خدا کو نہ لوطؑ کی قوم عاجز کر سکتی تھی، نہ یہ کر سکتے ہیں۔
ترجمہ
اور مَدیَن والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا۔۹۴ اُ س نے کہا ’’ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لیے گا۔ اور اے برادرانِ قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پُورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور بہر حال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں۔‘‘ ۹۵انہوں نے جواب دیا ’’اے شعیب ؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے ۹۶ کہ ہم اُن سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟۹۷ بس تُو ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے !‘‘ شعیب ؑ نے کہا ’’بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک کھُلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا ۹۸ (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریکِ حال کیسے ہو سکتا ہوں؟)۔اور میں ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں۔۹۹ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کر طرف رُجوع کرتا ہوں۔اور اے برادرانِ قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخرِ کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوح ؑ یا ہُود ؑ یا صالح ؑ کی قوم پر آیا تھا۔ اور ؑ لُوط کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دُور بھی نہیں ہے۔ ۱۰۰دیکھو! اپنے ربّ سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا ربّ رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔ ‘‘ ۱۰۱انہوں نے جواب دیا ’’ اے شعیب ؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں۔۱۰۲ اور ہم دیکھتے ہیں کہ تُو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو۔‘‘ ۱۰۳شعیب ؑ نے کہا ’’ بھائیو، کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور ) اللہ کو بالکل پسِ پُشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اے میری قوم کے لوگوں، تم اپنے طریقے پر کام کیے جاؤ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا، جلدی ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر ذلّت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں۔‘‘ آخرِ کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیب ؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حسّ و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔ سُنو ! مَدیَن والے بھی دُور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔ ؏ ۸
تفسیر
۹۴-سورۂ اعراف رکوع ۱۱ کے حواشی پیشِ نظر رہیں۔
۹۵-یعنی میرا کوئی زور تم پر نہیں ہے۔ میں تو بس ایک خیر خواہ ناصح ہوں۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں سمجھا دوں۔ آگے تمہیں اختیار ہے، چاہو مانو، چاہے نہ مانو۔ سوال میری باز پرس سے ڈرنے یا نہ ڈرنے کا نہیں ہے۔ اصل چیز خدا کی باز پرس ہے جس کا اگر تمہیں کچھ خوف ہو تو اپنی ان حرکتوں سے باز آ جاؤ۔
۹۶-یہ دراصل ایک طعن آمیز فقرہ ہے جس کی رُوح آج بھی آپ ہر اُس سوسائٹی میں موجود پائیں گے جو خدا سے غافل اور فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی ہو۔ چونکہ نماز دینداری کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ نمایاں مظہر ہے، اور دینداری کو فاسق اور فاجر لوگ ایک خطرناک، بلکہ زیادہ خطرناک مرض سمجھتے ہیں، اس لیے نماز ایسے لوگوں کی سوسائٹی میں عبادت کے بجائے علامتِ مرض شمار ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اپنے درمیان نماز پڑھتے دیکھ کر انہیں فوراً یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اس شخص پر ’’مرض دینداری‘‘ کا حملہ ہو گیا ہے۔ پھر یہ لوگ دینداری کی اس خاصیّت کو بھی جانتے ہیں کہ یہ چیز جس شخص کے اندر پیدا ہو جاتی ہے وہ صرف اپنے حسنِ عمل پر قانع نہیں رہتا بلکہ دوسروں کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور بے دینی اور بد اخلاقی پر تنقید کیے بغیر اُس سے رہا نہیں جاتا، اس لیے نماز پر ان کا اضطراب صرف اسی حیثیت سے نہیں ہوتا کہ ان کے ایک بھائی پر دینداری کا دورہ پڑ گیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ کھٹکا بھی لگ جاتا ہے کہ اب عنقریب اخلاق و دیانت کا وعظ شروع ہونے والا ہے اور اجتماعی زندگی میں کیڑے نکالنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوسائٹی میں نماز سب سے بڑھ کر طعن و تشنیع کی ہدف بنتی ہے۔ اور اگر کہیں نمازی آدمی ٹھیک ٹھیک انہی اندیشوں کے مطابق، جو اس کی نماز سے پہلے ہی پیدا ہو چکے تھے، برائیوں پر تنقید اور بھلائیوں کی تلقین بھی شروع کر دے، تب تو نماز ہر طرح کوسی جاتی ہے کہ گویا یہ ساری بلا اُسی کی لائی ہوئی ہے۔
۹۷-یہ اسلام کے مقابلہ میں جاہلیّت کے نظریہ کی پوری ترجمانی ہے۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے سوا جو طریقہ بھی ہے غلط ہے اور اسی کی پیروی نہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ دوسرے کسی طریقے کی لیے عقل، علم اور کتبِ آسمانی میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی بندگی صرف ایک محدود مذہبی دائرے ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمدّن، معاشرت، معیشت، سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ ہی کا ہے اور انسان کسی چیز پر بھی اللہ کی مرضی سے آزاد ہو کر خود مختارانہ تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کے مقابلہ میں جاہلیّت کا نظریہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو طریقہ بھی چلا آ رہا ہو انسان کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے اور اس کی پیروی کے لیے اس دلیل کے سوا کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ باپ دادا کا طریقہ ہے۔ نیز یہ کہ دین و مذہب کا تعلق صرف پوجا پاٹ سے ہے، رہے ہماری زندگی کے عام دنیوی معاملات، تو ان میں ہم کو پوری آزادی ہونی چاہیے کہ جس طرح چاہیں کام کریں۔
اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دائروں میں الگ الگ تقسیم کرنے کا تخیل آج کوئی نیا تخیل نہیں ہے بلکہ آج سے تین ساڑھے تین ہزار برس پہلے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو بھی اس تقسیم پر ویسا ہی اصرار تھا جیسا آج اہلِ مغرب اور اُن کے مشرقی شاگردوں کو ہے۔ یہ فی الحقیقت کوئی نئی ’’روشنی‘‘ نہیں ہے جو انسان کو آج ’’ذہنی ارتقاء‘‘ کی بدولت نصیب ہو گئی ہو۔ بلکہ یہ وہی پرانی تاریک خیالی ہے جو ہزارہا برس پہلے کی جاہلیّت میں بھی اِسی شان سے پائی جاتی تھی۔ اور اس کے خلاف اسلام کی کش مکش بھی آج کی نہیں ہے، بہت قدیم ہے۔
۹۸-رزق کا لفظ یہاں دوہرے معنی دے رہا ہے۔ اس کے ایک معنی تو علم حق کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشا گیا ہو۔ اور دوسرے معنی وہی ہیں جو بالعموم اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں، یعنی وہ ذرائع جو زندگی بسر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے یہ آیت اُسی مضمون کو ادا کر رہی ہے جو اسے سورے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم، نوح اور صالح علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوتا چلا آ رہا ہے کہ نبوت سے پہلے بھی میں اپنے رب کی طرف سے حق کی کھلی کھلی شہادت اپنے نفس میں اور کائنات کے آثار میں پا رہا تھا، اور اس کے بعد میرے رب نے براہ راست علم حق بھی مجھے دے دیا۔ اب میرے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ جان بوجھ کر اُن گمراہیوں اور بد اخلاقیوں میں تمہارا ساتھ دوں جن میں تم مبتلا ہو۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے یہ آیت اُس طعنے کا جواب ہے جو ان لوگوں نے حضرت شعیب کو دیا تھا کہ ’’بس تم ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گئے ہو۔‘‘ اس تندو ترش حملے کا یہ ٹھنڈا جواب دیا گیا ہے کہ بھائیوں، اگر میرے رب نے مجھے حق شناس بصیرت بھی دی ہو اور رزق حلال بھی عطا کیا ہو تو آخر تمھارے طعنوں سے یہ فضل غیر فضل کیسے ہو جائے گا۔ آخر میرے لیے یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ جب خدا نے مجھ پر یہ فضل کیا ہے تو میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں کو حق و حلال کہ کر اس کی ناشکری کر دوں۔
۹۹-یعنی میری سچائی کا تم اس بات سے اندازہ کر سکتے ہو کہ جو کچھ دوسروں سے کہتا ہوں اسی پر خود عمل کرتا ہوں۔ اگر میں تمہیں غیراللہ کے آستانے سے روکتا اور خود کسی آستانے کا مجاور بن بیٹھا ہوتا تو بلا شبہ تم کہہ سکتے تھے کہ اپنی پیری چمکانے کے لیے دوسری دکانوں کی ساکھ بگاڑنا چاہتا ہے۔ اگر میں تم کو حرام کے مال کھانے سے منع کرتا اور خود اپنے کاروبار میں بے ایمانیاں کر رہا ہوتا تو ضرور تم یہ شبہ کر سکتے تھے کہ میں اپنی ساکھ جمانے کے لیے ایمانداری کا ڈھول پیٹ رہا ہوں۔ لیکن تم دیکھتے ہو کہ میں خود ان برائیوں سے بچتا ہوں جب سے تم کو منع کرتا ہوں۔ میری اپنی زندگی ان دھبوں سے پاک ہے جن سے تمہیں پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنے لیے بھی اُسی طریقہ کو پسند کیا ہے جس کی تمہیں دعوت دے رہا ہوں۔ یہ چیز اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ میں اپنی اس دعوت میں صادق ہوں۔
۱۰۰-یعنی قوم لوط کا واقعہ ابھی تازہ ہی ہے اور تمہارے قریب ہی کے علاقے میں پیش آ چکا ہے۔ غالباً اس وقت قوم لوط کی تباہی پر چھ سات سو برس سے زیادہ نہ گزرے تھے۔ اور جغرافی حیثیت سے بھی قوم شعیب کا ملک اس علاقے سے بالکل متصل واقع تھا جہاں قوم لوط رہتی تھی۔
۱۰۱-یعنی اللہ تعالیٰ سنگ دل اور بے رحم نہیں ہے۔ اس کو اپنی مخلوقات سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ سزا دینے ہی کو اس کا جی چاہے اور اپنے بندوں کو مار مار کر ہی وہ خوش ہو۔ تم لوگ جب اپنی سرکشیوں میں حد سے گزر جاتے ہو اور کسی طرح فساد پھیلانے سے باز ہی نہیں آتے تب وہ بادل ناخواستہ تمہیں سزا دیتا ہے۔ ورنہ اس کا حال تو یہ ہے کہ تم خواہ کتنے ہی قصور کر چکے ہو، جب بھی اپنے افعال پر نادم ہو کر اس کی طرف پلٹو گے اس کے دامن رحمت کو اپنے لیے وسیع پاؤ گے۔ کیونکہ اپنی پیدا کی ہوئی مخلوق سے وہ بے پایاں محبت رکھتا ہے۔
اس مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دو نہایت لطیف مثالوں سے واضح فرمایا ہے۔ ایک مثال تو آپ نے یہ دی ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں کھویا گیا ہو اور اس کے کھانے پینے کا بھی اسی اونٹ پر ہو اور وہ شخص اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو چکا ہو یہاں تک کہ زندگی سے بے آس ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا ہو، اور عین اس حالت میں یکا یک وہ دیکھے کہ اس کا اونٹ سامنے کھڑا ہے، تو اس وقت جیسی کچھ خوشی اس کو ہو گی، اس سے زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بھٹکے ہوئے بندے کے پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔ دوسری مثال اس سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا شیرخوار بچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ مامتا کی ماری ایسی بے چین تھی کہ جس بچے کو پا لیتی اسے چھاتی سے چمٹا کر دودھ پلانے لگتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا حال دیکھ کر ہم لوگوں سے پوچھا کیا تم لوگ یہ توقع کر سکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے عرض کیا ہر گز نہیں، خود پھینکنا تو درکنار، وہ آپ گرتا ہو تو یہ اپنی حد تک تو اسے بچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے گی۔ فرمایا اللہ ارحم بعبادہٖ من ھٰذِہ یولدھا۔ "اللہ کا رحم اپنے بندوں پر اس سے بہت زیادہ ہے جو یہ عورت اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔ ”
اور ویسے بھی غور کرنے سے یہ بات بخوبی سمجھ آ سکتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جس نے بچوں کی پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر خدا اس محبت کو پیدا نہ کرتا تو ماں اور باپ سے بڑھ کر بچوں کا کوئی دشمن نہ ہوتا۔ کیونکہ سے سے بڑھ کر وہ انہی کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اب ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے کہ جو خدا محبتِ مادری اور شفقتِ پدری کا خالق ہے خود اُس کے اندر اپنی مخلوق کے لیے کیسی کچھ محبت موجود ہو گی۔
۱۰۲-یہ سمجھ میں نہ آنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ حضرت شعیبؑ کسی غیر زبان میں کلام کرتے تھے، یا ان کی باتیں بہت مُغلق اور پیچیدہ ہوتی تھیں۔ باتیں تو سب صاف اور سیدھی ہی تھیں اور اُسی زبان میں کی جاتی تھیں جو یہ لوگ بولتے تھے، لیکن ان کے ذہن کا سانچا اس قدر ٹیڑھا ہو چکا تھا کہ حضرت شعیب کی سیدھی باتیں کسی طرح اس میں نہ اتر سکتی تھیں۔ قاعدے کی بات ہے کہ جو لوگ تعصّبات اور خواہشِ نفس کی بندگی میں شدت کے ساتھ مبتلا ہوتے ہیں، وہ اول تو کوئی ایسی بات سن ہی نہیں سکتے جو ان کے خیالات سے مختلف ہو، اور اگر سن بھی لیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس دنیا کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
۱۰۳-یہ بات پیشِ نظر رہے کہ بعینہٖ یہی صورت حال اِن آیات کے نزول کے وقت مکہ میں درپیش تھی۔ اس وقت قریش کے لوگ بھی اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے تھے کہ بنی ہاشم آپؐ کی پشت پر تھے۔ پس حضرت شعیب اور ان کی قوم کا یہ قصہ ٹھیک ٹھیک قریش اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملہ پر چسپاں کرتے ہوئے بیان کیا جا رہا ہے، اور آگے شعیبؑ کا جو انتہائی سبق آموز جواب نقل کیا گیا ہے اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اے قریش کے لوگو، تم کو بھی محمدؐ کی طرف سے یہی جواب ہے۔
ترجمہ
اور موسیٰ ؑ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھُلی کھُلی سَنَدِ ماموریّت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا اور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا۔۱۰۴ کیسی بد تر جائے وُرُود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے ! اور ان لوگوں پر دُنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی۔ کیسا بُرا صِلہ ہے یہ جو کسی کو ملے ! یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سُنا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا، انہوں نے آپ ہی اپنے اُوپر ستم ڈھایا۔ اور جب اللہ کا حکم آ گیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پُکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آ سکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔اور تیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہُوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو عذابِ آخرت کا خوف کرے۔ ۱۰۵ وہ ایک دن ہو گا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اُس روز ہو گا سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گا۔ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بس ایک گِنی چُنی مُدّت اس کے لیے مقرر ہے۔ جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ ۱۰۶ پھر کچھ لوگ اس روز بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔جو بد بخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے ( جہاں گرمی اور پیاس کی شدت سے ) وہ ہانپیں گے اور پھُنکارے ماریں گے اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں ۱۰۷، اِّلا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے۔ بے شک تیرا ربّ پُورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ ۱۰۸رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنّت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، اِلّا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے۔ ۱۰۹ ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔ پس اے نبی ؐ، تُو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں۔ یہ تو ( بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے ) اُسی طرح پُوجا پاٹ کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے، ۱۱۰ اور ہم ان کا حصہ انہیں بھرپور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو۔ ؏ ۹
تفسیر
۱۰۴-اس آیت سے اور قرآن مجید کی بعض دوسری تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں کسی قوم یا جماعت کے رہنما ہوتے ہیں وہی قیامت کے روز بھی اس کے رہنما ہوں گے۔ اگر وہ دنیا میں نیکی اور سچائی اور حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں تو جن لوگوں نے یہاں ان کی پیروی کی یے وہ قیامت کے روز بھی انہی کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے اور ان کی پیشوائی میں جنت کی طرف جائیں گے۔ اور اگر وہ دنیا میں کسی ضلالت، کسی بد اخلاقی یا کسی ایسی راہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں جو دین حق کی راہ نہیں ہے، تو جو لوگ یہاں ان کے پیچھے چل رہے ہیں وہ وہاں بھی ان کے پیچھے ہوں گے اور انہی کی سرکردگی میں جہنم کا رُخ رکیں گے۔ اسی مضمون کی ترجمانی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد میں پائی جاتی ہے کہ امرؤ القیس حامل لواِء شعراء الجاھلیۃ الی النار، یعنی ’’قیامت کے روز جاہلیت کی شاعری کا جھنڈا امرؤالقیس کے ہاتھ میں ہو گا اور عرب جاہلیت کے تمام شعراء اسی کی پیشوائی میں دوزخ کی راہ لیں گے۔ ‘‘ اب یہ منظر ہر شخص کا تخیل اس کی آنکھوں کے سامنے کھینچ سکتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے جلوس کس شان سے اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں گے ظاہر ہے کہ جن لیڈروں نے دنیا میں لوگوں کو گمراہ کیا اور خلافِ حق راہوں پر چلایا ہے اُن کے پیرو جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ یہ ظالم ہم کو کس خوفناک انجام کی طرف کھینچ لائے ہیں، تو وہ اپنی ساری مصیبتوں کا ذمہ دار انہی کو سمجھیں گے اور اُن کا جلوس اس شان سے دوزخ کی راہ پر رواں ہو گا کہ آگے آگے وہ ہوں گے او پیچھے پیچھے ان کے پیرووں کا ہجوم ان کو گالیاں دیتا ہوا اور ان پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتا ہوا جا رہا ہو گا۔ بخلاف اس کے جن لوگوں کی رہنمائی نے لوگوں کو جنت نعیم کا مستحق بنایا ہو گا ان کے پیرو اپنا یہ انجام دیکھ کر اپنے لیڈروں کو دعائیں دیتے ہوئے اور ان کی مدح و تحسین کے پھول برساتے ہوئے چلیں گے۔
۱۰۵-یعنی تاریخ کے اِن واقعات میں ایک ایسی نشانی ہے جس پر اگر انسان غور کرے تو اسے یقین آ جائے گا کہ عذاب آخرت ضرور پیش آنے والا ہے اور اس کے متعلق پیغمبروں کی دی ہوئی خبر سچی ہے۔ نیز اسی نشانی سے وہ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ عذاب آخرت کیسا سخت ہو گا اور یہ علم اس کے دل میں خوف پیدا کر کے اسے سیدھا کر دیگا۔
اب رہی یہ بات کے تاریخ میں وہ کیا چیز ہے ہو آخرت اور اس کے عذاب کی علامت کہی جا سکتی ہے، تو ہر وہ شخص اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے جو تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ ان واقعات کی منطق پر بھی کچھ غور کرتا ہو اور ان سے نتائج بھی اخذ کرنے کا عادی ہو۔ ہزارہا برس کی انسانی تاریخ میں قوموں اور جماعتوں کا اٹھنا اور گرنا جس تسلسل اور با ضابطگی کے ساتھ رونما ہوتا رہا ہے، اور پھر اس گرنے اور اٹھنے میں جس طرح صریحاً کچھ اخلاقی اسباب کارفرما رہے ہیں، اور گرنے والی قومیں جیسی جیسی عبرت انگیز صورتوں سے گری ہیں، یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ انسان اس کائنات میں ایک ایسی حکومت کا محکوم ہے جو محض اندھے طبیعاتی قوانین پر فرمانروائی نہیں کر رہی ہے، بلکہ اپنا ایک معقول اخلاقی قانون رکھتی ہے جس کے مطابق وہ اخلاق کی ایک خاص حد سے اوپر رہنے والوں کو جزا دیتی ہے، اس سے نیچے اترنے والوں کو کچھ مدت تک ڈھیل دیتی رہتی ہے، اور جب وہ اس سے بہت زیادہ نیچے چلے جاتے ہیں تو پھر انہیں گر کر ایسا پھینکتی ہے کہ وہ داستان عبرت بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان واقعات کا ہمیشہ ایک ترتیب کے ساتھ رونما ہوتے رہنا اس امر میں شبہ کرنے کی زرہ برابر گنجائش نہیں چھوڑتا کہ جزا اور مُکافات اس سلطنتِ کائنات کا ایک مستقل قانون ہے۔
پھر جو عذاب مختلف قوموں پر آئے ہیں اُن پر مزید غور کرنے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ازروئے انصاف قانونِ جزا و مُکافات کے جو اخلاقی تقاضے ہیں وہ ایک حد تک تو ان عذابوں سے ضرور پورے ہوئے ہیں مگر بہت بڑی حد تک ابھی تشنہ ہیں۔ کیونکہ دنیا میں جو عذاب آیا اس نے صرف اُس نسل کو پکڑا جو عذاب کے وقت موجود تھی۔ رہیں وہ نسلیں جو شرارتوں کے بیج پو کر اور ظلم و بدکاری کی فصلیں تیار کر کے کٹائی سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں اور جن کے کرتوتوں کا خمیازہ بعد کی نسلوں کو بھگتنا پڑا، وہ تو گویا قانون مکافات کے عمل سے صاف ہی بچ نکلی ہیں۔ اب اگر ہم تاریخ کے مطالعہ سے سلطنت کائنات کے مزاج کو ٹھیک ٹھیک سمجھ چکے ہیں تو ہمارا یہ مطالعہ ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ عقل اور انصاف کی رو سے قانون مکافات کے جو اخلاقی تقاضے ابھی تشنہ ہیں، ان کو پورا کرنے کے لیے یہ عادل سلطنت یقیناً پھر ایک دوسرا عالم برپا کرے گی اور وہاں تمام ظالموں کو ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ بدلہ اِن دنیا کے عذابوں سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہونس، حاشیہ نمبر ۱۰)
۱۰۶-یعنی یہ بے وقوف لوگ اپنی جگہ اس بھروسے میں ہیں کہ فلاں حضرت ہماری سفارش کر کے ہمیں بچالیں گے، فلاں بزرگ اَڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اپنے ایک ایک متوسل کو بخشوائے بغیر نہ مانیں گے، فلاں صاحب جو اللہ میاں کے چہیتے ہیں جنت کے راستے میں مچل بیٹھیں گے اور اپنے دامن گرفتوں کی بخشش کا پروانہ لے کر ہی ٹلیں گے۔ حالانکہ اَڑنا اور مچلنا کیسا، اُس پُر جلال عدالت میں تو کسی بڑے سے بڑے انسان اور کسی معزّز سے معزّز فرشتے کو بھی مجال دم زدن تک نہ ہو گی اور اگر کوئی کچھ کہہ بھی سکے گا تو اُس وقت جبکہ احکم الحاکمین خود اسے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیدے، پس جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے غیر اللہ کے آستانوں پر نذریں اور نیاز چڑھا رہے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں بڑا اثر اور رسوخ رکھتے ہیں، اور اُن کی سفارش کی بھروسے پر اپنے نامۂ اعمال سیاہ کئے جا رہے ہیں، ان کو وہاں سخت مایوسی سے دوچار ہونا پڑے گا۔
۱۰۷- ان الفاظ سے یا تو عالمِ آخرت کے زمین و آسمان مراد ہیں، یا پھر محض محاورے کے طور پر ان کو دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ بہر حال موجودہ زمین و آسمان تو مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کے بیان کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا ذکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں۔
۱۰۸-یعنی کوئی اور طاقت تو ایسی ہے ہی نہیں جو ان لوگوں کو اس دائمی عذاب سے بچا سکے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ خود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کے بجائے ایک مدّت تک عذاب دے کر معاف کر دینے کا فیصلہ فرمائے تو اسے ایسا کرنے کا پورا اختیار ہے، کیونکہ اپنے قانون کا وہ خود ہی واضع ہے، کوئی بالاتر قانون ایسا نہیں ہے جو اس کے اختیارات کو محدود کرتا ہو۔
۱۰۹-یعنی ان کا جنت میں ٹھیرنا بھی کسی ایسے بالاتر قانون پر مبنی نہیں ہے جس نے اللہ کو ایسا کرنے پر مجبور کر رکھا ہو۔ بلکہ یہ سراسر اللہ کی عنایت ہو گی کہ وہ ان کو وہاں رکھے گا۔ اگر وہ ان کی قسمت بھی بدلنا چاہے تو اسے بدلنے کو پورا اختیار حاصل ہے۔
۱۱۰-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم واقعی ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں تھے، بلکہ دراصل یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے عامۃ الناس کو سنائی جا رہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مرد معقول کو اس شک میں نہ رہنا چاہیے کہ یہ لوگ جو ان معبودوں کی پرستش کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے میں لگے ہوئے ہیں تو آخر کچھ تو انہوں نے دیکھا ہو گا جس کی وجہ سے یہ ان سے نفع کو امیدیں رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ پرستش اور نذریں اور نیازیں اور دعائیں کسی علم، کسی تجربے اور کسی حقیقی مشاہدے کی بنا پر نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کچھ نری اندھی تقلید کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ آخر یہی آستانے پچھلی قوموں کے ہاں بھی تو موجود تھے۔ اور ایسی ہی ان کی کرامتیں ان میں بھی مشہور تھیں۔ مگر جب خدا کا عذاب آیا تو وہ تباہ ہو گئیں اور یہ آستانے یونہی دھرے کے دھرے رہ گئے۔
ترجمہ
ہم اِس سے پہلے موسیٰ ؑ کو بھی کتا ب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا( جس طرح آج اِس کتاب کے بارے میں کیا جا رہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے ۱۱۱)۔ اگر تیرے ربّ کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اِن اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چُکا دیا گیا ہوتا۔۱۱۲ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اِ س کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا ربّ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔ پس اے محمد ؐ، تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو ( کُفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہِ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اس پر تمھارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی اور سر پرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں نہ بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچ سکے گی۔اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔۱۱۳ در حقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔۱۱۴اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گُزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے ؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔ تیرا ربّ ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔۱۱۵بے شک تیرا ربّ اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے ربّ کی رحمت ہے۔ اِسی (آزادیِ انتخاب و اختیار) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔۱۱۶ اور تیرے ربّ کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جِن اور انسانوں سے بھر دوں گا۔اور اے محمد ؐ، یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سُناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبُوط کرتے ہیں۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم مِلا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی۔رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جاتے ہیں،انجامِ کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھُپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رُجوع کیا جاتا ہے۔ پس اے نبی ؐ، تُو اُسی کی بندگی کر اور اُسی پر بھروسا رکھ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تیرا ربّ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ ۱۱۷ ؏ ١۰
تفسیر
۱۱۱-یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج اس قرآن کے بارے میں مختلف لوگ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں، بلکہ اس سے پہلے جب موسیٰ کو کتاب دی گئی تھی تو اس کے بارے میں بھی ایسی ہی مختلف رائے زنیاں کی گئی تھیں، لہٰذا اے محمدؐ، تم یہ دیکھ کر بد دل اور شکستہ خاطر نہ ہو کہ ایسی سیدھی سیدھی اور صاف باتیں قرآن میں پیش کی جا رہی ہیں اور پھر بھی لوگ ان کو قبول نہیں کرتے۔
۱۱۲-یہ فقرہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کو مطمئن کرنے اور صبر دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اس بات کے لیے بے چین نہ ہو کہ جو لوگ اس قرآن کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ان کا فیصلہ جلدی سے چکا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ فیصلہ وقت مقرر سے پہلے نہ کیا جائے گا، اور یہ کہ دنیا کے لوگ فیصلہ چاہنے میں جو جلد بازی کرتے ہیں، اللہ فیصلہ کر دینے میں وہ جلد بازی نہ کرے گا۔
۱۱۳-دن کے دونوں سروں پر سے مراد صبح اور مغرب ہے، اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارشاد اس زمانے کا ہے جب نماز کے لیے ابھی پانچ وقت مقرر نہیں کیے گئے تھے۔ معراج کا واقعہ اس کے بعد پیش آیا جس میں پنج وقتہ نماز فرض ہوئی۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو بنی اسرائیل حاشیہ ۹۵ – طہٰ حاشیہ ۱۱۱ – الروم حاشیہ ۱۲۴)
۱۱۴-یعنی جو برائیاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو برائیاں تمہارے ساتھ اس دعوت حق کی دشمنی میں کی جا رہی ہیں، ان سب کو دفع کرنے کا اصلی طریقہ یہ ہے کہ تم خود زیادہ سے ایادہ نیک بنو اور اپنی نیکی سے اِس بدی کو شکست دو، اور تم کو نیک بنانے کا بہترین ذریعہ نماز ہے جو خدا کی یاد کو تازہ کرتی رہے گی اور اس کی طاقت سے تم، بدی کے اِس منظّم طوفان کا نہ صرف مقابلہ کر سکو گے بلکہ اسے رفع کر کے دنیا میں عملاً خیر و صلاح کا نظام بھی قائم کر سکو گے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو العنکبوت حواشی ۷۷ تا ۷۹)۔
۱۱۵-ان آیات میں نہایت سبق آموز طریقے سے ان قوموں کی تباہی کے اصل سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی تاریخ پچھلے چھ رکوعوں میں بیان ہوئی ہے۔ اس تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ صرف انہی قوموں کو نہیں، بلکہ پچھلی انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ بھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہو کر زمیں میں فساد برپا کرنے لگیں اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رک سکا۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخرکار یہ قوتیں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کر رہے ہوں اور اللہ ان کی خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا کر دے۔ اس ارشاد سے یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:۔
ایک یہ کہ ہر اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والے ہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے، تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو، اور اُسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہل خیر سے خالی ہو جائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں، یا اہل خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔
دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیان سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف اُنہی چند گنے چنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو جو اسے برائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں، تو سمجھ لو کہ اس کے برے دن قریب آ گئے ہیں، کیونکہ اب وہ خود اپنی جان کی دشمن ہو گئی ہے۔ اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے۔
تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلائے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوت خیر پر لبیک کہنے والے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جو فساد کو مٹانے اور نظام صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہو تو اس پر عذاب عام نہیں بھیجا جاتا بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاح حال کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن پیہم سعی و جہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیے کافی ہو سکیں، اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھینک دینے کے بعد اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئے ہی کوئلے باقی رہ گئے ہیں، تو پھر زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ بھٹی سلگا دی جاتی ہے جو ان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزاریات، حاشیہ ۳۴)۔
۱۱۶-یہ ایک تشبیہ کا جواب ہے جو بالعموم ایسے مواقع پر تقدیر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ اوپر اقوام گزشتہ کی تباہی کا جو سبب بیان کیا گیا ہے اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کا موجود نہ رہنا یا بہت کم پایا جانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے ؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کر دیے ؟ اس کے جواب میں یہ حقیقت حال صاف صاف بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں کہ حیوانات اوار نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کو بھی جِبلی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوتِ ایمان، بعثتِ انبیاء اور تنزیلِ کتب کی ضرورت ہی کیا تھی، سارے انسان مسلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی اور کسب کے نتیجہ میں پائے۔ پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے، آزادیِ انتخاب اور اختیاری کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کی راہ پر موڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کا وہ کارخانہ بنائے جو ایک سے ایک بڑھ کر بدکار اور ظالم اور فاسق آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں، اور اللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کر دے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کر دیں۔ اس قسم کی مداخلت خدا کے دستور میں نہیں ہے۔ نیک ہو یا بد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کو خود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔ جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی، جس میں سے کوئی معتدبہ گروہ ایسا نہ اُٹھے گا جو نیکی کا جھنڈا بلند کرے، اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں اس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہو گی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تو اس کو اسی انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے۔ البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہو سکتی ہے تو صرف وہ جس میں بہت سے افراد ایسے نکلیں جو خود دعوت خیر کو لبیک کہنے والے ہوں اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کر سکیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ ۲۴)۔
۱۱۷-یعنی کفر و اسلام کی اس کشمکش کے دونوں فریق جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔ اللہ کی سلطنت کوئی اندھیر نگری چوپٹ راجہ کہ مصداق نہیں ہے کہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے شِہ بے خبر کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو۔ یہاں حکمت اور بردباری کی بنا پر دیر تو ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ جو لوگ اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں وہ یقین رکھیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہوں گی۔ اور وہ لوگ بھی جو فساد کرنے اور اسے بپا رکھنے میں لگے ہوئے ہیں، جو اصلاح کی سعی کرنے والوں پر ظلم و ستم توڑ رہے ہیں، اور جنہوں نے اپنا سارا زور اس کوشش میں لگا رکھا ہے کہ اصلاح کا یہ کام کسی طرح چل نہ سکے، انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتوت اللہ کے علم میں ہیں اور ان کی پاداش انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp
تشکر: سبط الحسین
جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید
مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، عبد الحمید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید