FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تفہیم القرآن

 

 

                   مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

 

 

۱۷۔ سورۂ الواقعہ  تا سورۂ الصف

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

(۵۶) سورہ الواقعہ

 

 

نام

 

پہلی ہی آیت کے لفظ اَلْواقِعَہ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

حضرت عبداللہ بن عباس کے سورتوں کی جو ترتیب نزول بیان کی ہے اس میں وہ فرما رہے ہیں کہ پہلے سورہ طٰہٰ نازل ہوئی، پھر الواقعہ اور اس کے بعد الشعراء(الاتْقان للسُّیوطی)۔ یہی ترتیب عکرمہ نے بھی بیان کی ہے (بیہقی، دلائل النبوۃ)۔

اس کی تائید اس قصہ سے بھی ہوتی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بارے میں ابن ہشام نے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ اپنی بہن کے گھر میں داخل ہوئے تو سورہ طٰہٰ پڑھی جا رہی تھی۔ ان کی آہٹ سن کر ان لوگوں کو قرآن کے اوراق چھپا دیے۔ حضرت عمرؓ پہلے تو بہنوئی پر پِل پڑے اور جب بہن ان کو بچانے آئیں تو ان کو بھی مارا یہاں تک کہ ان سر پھٹ گیا۔ بہن کا خون بہتے دیکھ کر حضرت عمرؓ کو سخت ندامت ہوئی،اور انہوں نے کہا، اچھا مجھے وہ صحیفہ دکھاؤ جسے تم نے چھپا لیا ہے۔ دیکھوں تو سہی اس میں کیا لکھا ہے۔ بہن نے کہا ’’آپ اپنے شرک کی وجہ سے نجس ہیں، وانہٗ لا یمسھا الا اطاھر، ’’ اس صحیفے کو صرف طاہر آدمی ہی ہاتھ لگا سکتا ہے ‘‘۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اٹھ کر غسل کیا اور پھر اس صحیفے کو لے کر پڑھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت سورہ واقعہ نازل ہو چکی تھی، کیونکہ اسی میں آیت لا یمسہ الا لمطھرون وارد ہوئی ہے۔ اور یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ ہجرت حبشہ کے بعد ۵ نبوی میں ایمان لائے ہیں۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس کا موضوع آخرت، توحید اور قرآن کے متعلق کفار مکہ کے شبہات کی تردید ہے۔ وہ سب سے زیادہ جس چیز کو ناقابل یقین قرار دیتے تھے وہ یہ تھی کہ کبھی قیامت بر پا ہو گی جو میں زمین و آسمان کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پھر تمام مزے ہوئے انسان دوبارہ جِلا اٹھائے  جائیں گے اور ان کا محاسبہ ہو گا اور  نیک انسان جنت کے باغوں میں رکھے جائیں گے اور گناہ گار انسان دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جن کا عالم واقعہ میں پیش آنا غیر ممکن ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ جب وہ واقعہ پیش آ جائے گا اس وقت کوئی یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو گا کہ وہ پیش نہیں آیا ہے، نہ کسی کی یہ طاقت ہو گی کہ اسے آتے آتے روک دے، یا واقعہ سے غیر واقعہ بنا دے۔ اس وقت لازماً تمام انسان تین طبقات میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک، سابقین۔ دوسرے، عام صالحین، تیسرے وہ لوگ جو آخرت کے منکر رہے اور مرتے دم تک کفر و شرک اور گناہ کبیرہ پر جمے رہے۔ ان تینوں طبقات کے ساتھ جو معاملہ ہو گا اسے تفصیل کے ساتھ آیت ۷ سے ۵۶ تک بیان کیا گیا ہے۔

اس کے بعد آیت ۵۷ سے آیت ۷۴ تک اسلام کے ان دونوں بنیادی عقائد کی صداقت پر پے درپے دلائل دیے گئے ہیں جن کو ماننے کفار انکار کر رہے تھے، یعنی توحید اور آخرت۔ان دلائل میں زمین و آسمان کی دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ کر انسان کو خود اس کے اپنے وجود کی طرف اور اس غذا کی طرف جسے وہ کھاتا ہے اور اس پانی کی طرف جسے وہ پیچا ہے اور اس آگ کی طرف جس سے وہ اپنا کھانا پکاتا ہے، توجہ دلائی گئی ہے۔ اور اسے اس سوال پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ تو جس خدا کے بنانے سے بنا ہے اور جس کے دیے ہوئے سامان زیست پر پل رہا ہے اس کے مقابلے  میں خود مختار ہونے، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی بجا لانے کا آخر تجھے حق کیا ہے؟ اور اس کے متعلق تو نے یہ کیسے گمان کر لیا کہ وہ ایک دفعہ تجھے وجود میں لے آنے کے بعد ایسا عاجز و درماندہ ہو جاتا ہے کہ دوبارہ تجھ کو وجود میں لانا چاہے بھی تو نہیں لا سکتا؟

پھر آیت ۷۵ سے ۸۲ تک قرآن کے بارے میں ان کے شکوک کی تردید کی گئی ہے اور ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ بد نصیبو، یہ عظیم الشان نعمت تمہارے پاس آئی ہے اور تم نے اپنا حصہ اس نعمت میں یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹی بے اعتنائی برتتے ہو۔ قرآن کی صداقت پر دو مختصر سے فقروں میں یہ بے نظیر دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس پر کوئی غور کرے تو اس کے اندر ویسا ہی محکم نظام پائے گا جیسا کائنات کے تاروں اور سیاروں کا نظام محکم ہے، اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مصنف وہی ہے جس نے کائنات کا یہ نظام بنایا ہے۔ پھر کفار سے کہا گیا ہے کہ یہ کتاب اس نوشتہ تقدیر میں ثبت ہے جو مخلوقات کی دست رس سے باہر ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس شیاطین لاتے ہیں، حالانکہ لوح محفوظ سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک جس ذریعہ سے یہ پہنچتی ہے اس میں پاک نفس فرشتوں کے سوا کسی کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل نہیں ہے۔

آخر میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ تو کتنی ہی لن ترانیاں ہان کے اور اپنی خود مختاری کے گھمنڈ میں کتنا ہی حقائق کی طرف سے اندھا ہو جائے، مگر موت کا وقت تیری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت تو بالکل بے بس ہوتا ہے۔اپنے ماں باپ کو نہیں بچا سکتا۔اپنی اولاد کو نہیں بچا سکتا۔ اپنے پیروں اور پیشواؤں اور محبوب ترین لیڈروں کو نہیں بچا سکتا۔ سب تیری آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں اوور تو دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی بالا تر طاقت تیرے اوپر فرمانروا نہیں ہے اور تیرا یہ زعم درست ہے کہ دنیا میں جس تو ہی تو ہے، کوئی خدا نہیں ہے، تو کسی مرنے والے کی نکلتی ہوئی جان کو پلٹا کیوں نہیں لاتا؟ جس طرح تو اس معاملہ میں بے بس ہے اسی طرح خدا کے محاسبے اور اس کی جزا و سزا کو بھی روک دینا تیرے اختیار میں نہیں ہے۔ تو خواہ مانے یا نہ مانے، موت کے بعد ہر مرنے والا اپنا انجام دیکھ کر رہے گا۔ مقربین میں سے ہو تو مقربین کا انجام دیکھے گا۔ صالحین میں سے ہو تو صالحین کا انجام دیکھے گا۔ اور جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہو تو وہ انجام دیکھے گا جو ایسے مجرموں کے لیے مقدر ہے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا تو کوئی اس کے وقوع کو جھُٹلانے والا نہ ہو گا ۔ ۱ وہ تہ و بالا کر دینے والی  آفت ہو گی۔ ۲ زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی ۳ اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔

تم لوگ اُس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے ۴ :

دائیں بازو والے، ۵ سودائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی)کا کیا کہنا۔

اور بائیں بازو والے، ۶ تو بائیں بازو والوں(کی بد نصیبی)کا کیا ٹھکانا۔

اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔ ۷ وہی تو مُقَرَّب لوگ ہیں۔ نعمت بھری جنّتوں میں رہیں گے۔ اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم۔ ۸ مرصّع تختوں پر  تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ اُن کی مجلسوں میں اَبَدی لڑکے ۹ شرابِ چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور کنٹر اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔ ۱۰ اور وہ اُن کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، اور پرندوں کا گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔ ۱۱ اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حُوریں ہوں گی، ایسی حسین جیسے چھُپا کر رکھے ہوئے موتی۔ ۱۲ یہ سب کچھ اُن اعمال کی جزا کے طور پر انہیں ملے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔ وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے ۱۳ ۔ جو بات بھی ہو گی ٹھیک ٹھیک ہو گی۔ ۱۴

اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔ وہ بے خار بیریوں، ۱۵ اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں، اور دُور تک پھیلی ہوئی چھاؤں، اور ہر دم رواں پانی، اور کبھی ختم نہ ہونے والے  اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں، ۱۶ اور اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔ ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے، ۱۷ اپنے شوہروں کی عاشق ۱۸ اور عمر میں ہم سِن۔ ۱۹ یہ کچھ دائیں بازوں والوں کے لیے ہے۔ ؏۱

 

تفسیر

 

۱۔ اس فقرے سے کلام کا آغاز خود یہ ظاہر کر رہا ہے، کہ یہ ان باتوں کا جواب ہے جو اس وقت کفار کی مجلسوں میں قیامت کے خلاف بنائی جا رہی تھیں۔ زمانہ وہ تھا جب مکہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نئی نئی اسلام کی دعوت سن رہے تھے۔ اس میں جو چیز انہیں سب سے زیادہ عجیب اور بعید از عقل و امکان نظر آتی تھی وہ یہ تھی کہ ایک روز زمین و آسمان کا یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پھر ایک دوسرا عالم برپا ہو گا جس میں سب اگلے پچھلے مرے ہوئے لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ یہ بات سن کر حیرت سے ان کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہونا بالکل نا ممکن ہے۔ آخر یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ سمندر، یہ چاند، یہ سورج کہاں چلے جائیں گے؟ صدیوں کے گڑے مردے کیسے جی اٹھیں گے؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی، اور پھر اس میں بہشت کے باغ اور جہنم کی آگ، آخر یہ خواب و خیال کی باتیں عقل و ہوش رکھتے ہوئے ہم کیسے مان لیں؟ یہی چہ میگوئیاں اس وقت مکہ میں ہر جگہ ہو رہی تھیں۔ اس پس منظر میں فرمایا گیا ہے کہ جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا اس وقت کوئی اسے جھٹلانے والا نہ ہو گا۔

اس ارشاد میں قیامت کے لیے ’’واقعہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جس کے لیے اردو زبان میں ہونی شدنی کے الفاظ ہونے جاتے ہیں، یعنی وہ ایسی چیز ہے جسے لازماً پیش آ کر ہی رہنا ہے۔ پھر اس کے پیش آنے کو ’’وَقْعَۃ‘‘ کہا گیا ہے جو عربی زبان میں کسی بڑے حادثہ کے اچانک برپا ہو جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لَیْسَ لِوَ قْعَتِھَا کَاذِبَۃٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اس کے وقوع کا ٹل جانا اور اس کا آتے آتے رک جا نا اور اس کی آمد کا پھیر دیا جانا ممکن نہ ہو گا، یا بالفاظ دیگر کوئی طاقت پھر اس کو واقعہ سے غیر واقعہ بنا دینے والی نہ ہو گی۔ دوسرے یہ کہ کوئی متنفس اس وقت یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو گا کہ وہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔

۲۔ اصل الفاظ ہیں خَافِضَۃٌ رَّ ا فِعَۃٌ، ’’ گرانے والی اور اٹھانے والی ‘‘۔ اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دے گی۔ نیچے کی چیزیں اوپر اور اوپر کی چیزیں نیچے ہو جائیں گی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گِرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے والی اور اٹھے ہوئے لوگوں کو گرانے والی ہو گی، یعنی اس کے آنے پر انسانوں کے درمیان عزت و ذلت کا فیصلہ ایک دوسری ہی بنیاد پر ہو گا۔ جو دنیا میں عزت والے بنے پھرتے تھے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور جو ذلیل سمجھے جاتے تھے وہ عزت پائیں گے۔

۳۔ یعنی وہ کوئی مقامی زلزلہ نہ ہو گا جو کسی محدود علاقے میں آئے، بلکہ پوری کی پوری زمین  بیک وقت ہلا ماری جائے گی۔ اس کو اک لخت ایک زبردست جھٹکا لگے گا جس سے وہ لرز کر رہ جائے گی۔

۴۔ خطاب اگر چہ بظاہر ان لوگوں سے ہے جنہیں یہ کلام سنایا جا رہا تھا، یا جو اب اسے پڑھیں یا سنیں، لیکن در اصل پوری نوع انسانی اس کی مخاطب  ہے تمام انسان جو اول روز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہیں وہ سب آخر کار تین گواہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔

۵۔ اصل میں لفظ اَصْحَابُ لْمَیْمَنَہ استعمال ہوا ہے۔میمنہ عربی قاعدے کے مطابق یمین  سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں، اور یُمن سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ہیں چال نیک۔ اگر اس کو یمین سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے ’’سیدھے ہاتھ والے ‘‘ لیکن اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے عالی مرتبہ وگ، اہل عرب سیدھے ہاتھ کو قوت اور رفعت اور عزت کا نشان سمجھتے تھے۔ جس کا احترام مقصود ہوتا تھا  اسے مجلس میں سیدھے ہاتھ پر بٹھاتے تھے۔ کسی کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ میرے دل میں اس کی بڑی عزت ہے تو کہتے فلانٌ  مِنِّی بالیمین، ’’ وہ تو میرے سیدھے ہاتھ کی طرف ہے ’’ اردو میں بھی کسی شخص کو کسی بڑی ہستی کا دست راست اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا خاص آدمی ہے۔ اور اگر اس کو یُمن سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے خوش نصیب اور نیک بخت لوگ۔

۶۔ اصل میں لفظ اصحاب المشئمہ استعمال ہوا ہے۔ مَشْئَمَہْ، شُؤْم سے ہے جس کے معنی بد بختی، نحوست اور بدفالی کے ہیں۔ اور عربی زبان میں بائیں ہاتھ کو بھی شُوْمیٰ کہا جاتا ہے۔ اردو میں شومئ قسمت اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔ اہل عرب شمال (بائیں ہاتھ) اور شؤْم (فال بد) کو ہم معنی سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں بایاں ہاتھ کمزوری اور ذلت کا نشان تھا۔ سفر کو جاتے ہوئے اگر پرندہ اڑ کر بائیں ہاتھ کی طرف جاتا تو وہ اس کو بری فال سمجھتے تھے۔ کسی کو اپنے بائیں ہاتھ  بٹھاتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ وہ اسے کمتر درجے کا آدمی سمجھتے ہیں کسی کے متعلق یہ کہنا ہو کہ میرے ہاں اس کی کوئی عزت نہیں تو کہ جاتا کہ فلان منی بالشمال، ’’ وہ میرے بائیں ہاتھ کی طرف ہے ‘‘ اردو میں بھی کسی کام کو بہت ہلکا اور آسان قرار دینا ہو تو کہا جاتا ہے  یہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پس اصحاب المشئمہ سے مراد ہیں بد بخت لوگ، یا وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلت سے دوچار ہوں گے اور دربار الہٰی میں بائیں طرف کھڑے کیے جائیں گے۔

۷۔ سابقین (آگے والوں ) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی اور حق پرستی میں سب پر سبقت لے گئے ہوں، بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے ہوں، خدا اور رسول کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے ہوں، جہاد کا معاملہ ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کا یا خدمت خلق کا یا دعوت خیر اور تبلیغ حق کا، غرض دنیا میں بھلائی پھیلانے اور برائی مٹانے کے لیے ایثار و قربانی اور محنت و جانفشانی کا جو موقع بھی پیش آئے اس میں وہی آگے بڑھ کر کام کرنے والے ہوں۔ اس بنا پر آخرت میں بھی سب سے آگے وہی رکھے جائیں گے۔ گویا وہاں اللہ تعالیٰ کے دربار کا نقشہ یہ ہو گا کہ دائیں بازو میں صالحین، بائیں بازو میں فاسقین، اور سب سے آگے بارگاہ خداوندی کے قریب سابقین۔ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے پوچھا’’ جانتے ہو قیامت کے روز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سایہ میں جگہ پائیں گے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا الزین اذا اعطو االحق قبلوہ، واذا سُئِلوہ  بذلوہ، وحکمو االناس کحکمہم لا نفسہم، ’’ وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا انہوں نے قبول کر لیا، جب ان سے حق مانگا گیا انہوں نے ادا کر دیا، اور دوسروں کے معاملہ میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو خود اپنی ذات کے معاملہ میں تھا۔ ‘‘ (مسند احمد)۔

۸۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اولین اور آخرین یعنی اگلوں اور پچھلوں سے مراد کون ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تک جتنی امتیں گزری ہیں وہ اولین ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لوگ آخرین ہیں۔اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ بعثت محمدی سے پہلے ہزارہا برس کے دوران میں جتنے انسان گزرے ہیں ان کے سابقین کی تعداد زیادہ ہو گی، اور حضورؐ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک آنے والے انسانوں میں سے جو لوگ سابقین کا مرتبہ پائیں گے ان کی تعداد کم ہو گی۔ دوسرا گروپ کہتا ہے کہ یہاں اولین و آخرین سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے اولین و آخرین ہیں جن میں  سابقین کی تعداد کم ہو گی۔تیسرا گروہ کہتا ہے اس سے مراد ہر نبی کی امت کے اولین و آخرین ہیں، یعنی ہر نبی کے ابتدائی پیروؤں میں سابقین بہت ہوں گے اور بعد کے آنے والوں میں وہ کم پائے جائیں گے۔ آیت کے الفاظ ان تینوں مفہوموں کے حامل ہیں اور بعید نہیں کہ یہ تینوں ہی صحیح ہوں کیونکہ در حقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور مطلب بھی ان الفاظ سے نکلتا ہے اور وہ بھی صحیح ہوں، کیوں در حقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور مطلب بھی ان الفاظ سے نکلتا ہے اور وہ بھی صحیح ہے کہ ہر پہلے دور میں انسانی آبادی کے اندر سابقین کا تناسب زیادہ ہو گا اور بعد کے دور میں ان کا تناسب کم نکلے گا۔ اس لیے کہ انسانی آبادی جس رفتار سے بڑھتی ہے، سبقت فی الخیرات کرنے والوں کی تعداد اسی رفتار سے نہیں بڑھتی۔ گنتی کے اعتبار سے یہ لوگ چاہے پہلے دور کے سابقین سے تعداد میں زیادہ ہوں، لیکن بحیثیت مجموعی دنیا  کی آبادی کے مقابلے میں ان کا تناسب گھٹتا ہی چلا جاتا ہے۔

۹۔ اِس سے مراد ہیں ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، ان کی عمر ہمیشہ ایک ہی حالت پر ٹھہری رہے گی۔ حضرت علیؓ اور حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ یہ اہل دنیا کے وہ بچے ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے مر گئے، اس لیے نہ ان کی کچھ نیکیاں ہوں گی کہ ان کی جزا پائیں اور نہ بدیاں  ہوں گی کہ ان کی سزا پائیں۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد صرف وہی اہل دنیا ہو سکتے ہیں جن کو جنت نصیب نہ ہوئی ہو۔ رہے مومنین صالحین، تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں یہ ضمانت دی ہے کہ ان کی ذریت ان کے ساتھ جنت میں لا ملائی جائے گی (الطور،آیت ۲۱)۔ اسی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابو داؤد طیالسی، طبرانی اور بزار نے حضرت انسؓ اور حضرت سمرہ بنؓ جندب سے نقل کی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہونے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ ۲۶۔ جلد پنجم، الطور، حاشیہ ۱۹)

۱۰۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ ۲۷۔ جلد پنجم،، سورہ محمد، حاشیہ ۲۲۔ الطور، حاشیہ ۱۸۔

۱۱۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن۔ جلد پنجم، تفسیر سورۂ طور، حاشیہ ۱۷

۱۲۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،تفسیر سورہ صافات، حاشیہ ۲۸۔۲۹۔ الدخان، حاشیہ ۴۲۔ جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ ۵۱۔

۱۳۔ یہ جنت کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، جسے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے، کہ انسان کے کان وہاں بیہودگی، یا وہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، گالی، لاف و گزاف، طنز تمسخر اور طعن و تشنیع کی باتیں سننے سے محفوظ ہوں گے۔ وہ بد زبان اور بد تمیز لوگوں کی سوسائٹی نہ ہو گی جس میں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں۔ وہ شریف اور مہذب لوگوں کا معاشرہ ہو گا جس کے اندر یہ لغویات ناپید ہوں گی۔ اگر کسی شخص کو اللہ نے کچھ بھی شائستگی اور مذاق سلیم سے نواز ہو تو وہ اچھی طرح محسوس کر سکتا ہے کہ دنیوی زندگی کا یہ کتنا بڑا عذاب ہے جس سے انسان کو جنت میں نجات پانے کی امید دلائی گئی ہے۔

۱۴۔ اصل الفاظ ہیں الا قیلاً سلٰماً سلٰماً۔ بعض مفسرین و مترجمین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہاں ہر طرف سلام سالم ہی ی آوازیں سننے میں آئیں گی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہے قول سلیم، یعنی ایسی گفتگو جو عیوب کلام سے پاک ہو جس میں وہ خرابیاں نہ ہوں جو پچھلے فقرے میں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں سلام کا لفظ قریب قریب اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے انگریزی میں لفظ sane استعمال ہوتا ہے۔

۱۵۔ یعنی ایسی بیریاں جن کے درختو ں میں کانٹے نہ ہوں گے۔ ایک شخص تعجب کا اظہار کر سکتا ہے کہ بیر ایسا کونسا نفیس پھل ہے جس کے جنت میں ہونے کی خوشخبری سنائی جائے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جنت کے بیروں کا تو ذکر، خود اس دنیا کے بھی بعض علاقوں میں یہ پھل اتنا لذیذ خوشبو دار اور میٹھا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ منہ کو لگنے کے بعد اسے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور بیر جتنے اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں، ان کے درختوں میں کانٹے اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔ اسی لیے جنت کے بیروں کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ ان کے درخت بالکل ہی کانٹوں سے خالی ہوں گے، یعنی ایسی بہترین قسم کے ہوں گے جو دنیا میں نہیں پائی جاتی۔

۱۶۔ اصل الفاظ ہیں لَا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْ عَۃٍ : لا مقطوعہ سے مراد یہ ہے کہ یہ پھل نہ موسمی ہوں گے کہ موسم گزر جانے کے بعد نہ مل سکیں، نہ ان کی پیداوار کا سلسلہ کبھی منقطع ہو گا کہ کسی باغ کے سارے پھل اگر توڑ لیے جائیں تو ایک مدت تک وہ بے ثمر رہ جائے، بلکہ ہر پھل وہاں ہر موسم میں ملے گا اور خواہ کتنا ہی کھایا جائے، لگا تار پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ اس لا ممنوعہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے باغوں کی طرح وہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو گی، نہ پھلوں کے توڑنے اور کھانے میں کوئی امر مانع ہو گا کہ درختوں پر کانٹے ہونے یا زیادہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے توڑنے میں کوئی زحمت پیش آئے۔

۱۷۔ اس سے مراد دنیا کی وہ نیک خواتین ہیں جو اپنے ایمان و عمل صالح کی  بنا پر جنت میں جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو وہاں جوان بنا دے گا، خواہ وہ کتنی ہی بوڑھی ہو کر مری ہوں۔ نہایت خوبصورت بنا دے گا، خواہ دنیا میں وہ حسین رہی ہوں یا نہ رہی ہوں۔ باکرہ بنا دیگا، خواہ دنیا میں وہ کنواری مری ہوں یا بال بچوں والی ہو کر۔ان کے شوہر بھی اگر ان کے ساتھ جنت میں پہنچیں گے تو وہ ان سے ملا دی جائیں گی،ورنہ اللہ تعالیٰ کسی اور جنتی سے ان کو بیاہ دے گا۔ اس آیت کی یہی تشریح متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  سے منقول ہے۔ شمائل ترمذی میں روایت ہے کہ ایک بڑھیا نے حضور سے عرض کیا میرے حق میں جنت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہ ہو گی۔ وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی تو آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ ’’ اسے بتاؤ، وہ بڑھاپے کی حالت میں داخل جنت نہیں ہو گی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انہیں خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور باکرہ بنا دیں گے ‘‘۔ ابن ابی حاتم نے حضرت سلمہ بن یزید کی یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے اس آیت کی تشریح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا، ’’ اس سے مراد دنیا کی عورتیں ہیں، خواہ وہ باکرہ مری ہوں یا شادی شدہ ‘‘۔ طبرانی میں حضرت ام سلمہ کی ایک طویل روایت ہے جس میں وہ جنت کی عورتوں کے متعلق قرآن مجید کے مختلف مقامات کا مطلب حضورؐ سے دریافت فرماتی ہیں۔ اس سلسلہ میں حضورؐ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ھن اللواتی قبضن فی دارلدنیا عجائز رمصاً شمطاً خلقھن اللہ بعد الکبر فجعلھن عذاریٰ۔ ’’ یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا کی زندگی میں مری ہیں۔ بوڑھی پھونس،آنکھوں میں چیپڑ، سر کے بال سفید۔ اس بڑھاپے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو پھر سے باکرہ پیدا کر دے گا’’۔ حضرت ام سلما پوچھتی ہیں اگر کسی عورت کے دنیا میں کئی شوہر رہ چکے ہوں اور وہ سب جنت میں جائیں تو وہ ان میں سے کس کو ملے گی؟ حضورؐ فرماتے ہیں : انھا تُخیَّر فتختار احسنہم خلقا فتقول یا رب ان ھٰذا کان احسن خلقاً معی فزوجنیھا، یا ام سلمہ، ذھب حسن الخلق بخیر الدنیا والاٰخرۃ۔ ’’ اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جسے چاہے چن لے،اور وہ اس شخص کے چنے گی جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گی کہ اے رب، اس کا برتاؤ میرے ساتھ سب سے اچھا تھا اس لیے مجھے اسی کی بیوی بنا دے۔ اے ام سلمہ، حسن اخلاق دنیا اور آخرت کی ساری بھلائی لوٹ لے گیا ہے۔ ‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ رحمٰن، حاشیہ ۵۱ )۔

۱۸۔ اصل میں لفظ عُرُباً استعمال ہوا ہے، یہ لفظ عربی زان میں عورت کی بہترین نسوانی خوبیوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی عورت ہے جو طرح دار ہو، خوش اطوار ہو، خوش گفتار ہو، جسمانی جذبات سے لبریز ہو، اپنے شوہر کو دل و جان سے چاہتی ہو، اور اس کا شوہر بھی اس کا عاشق ہو۔

۱۹۔ اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم سن ہوں گی۔ دوسرا یہ کہ وہ آپس میں ہم سن ہوں گی، یعنی تمام جنتی عورتیں ایک ہی عمر کی ہوں گی اور ہمیشہ اسی عمر کی رہیں گی۔ بعید نہیں کہ یہ دونوں ہی باتیں بیک وقت صحیح ہوں، یعنی یہ خواتین خود بھی ہم سن ہوں اور ان کے شوہر بھی ان کے ہم سن بنا دیے جائیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ یدخلاھلالجنۃالجنۃ جرد امرد ابیضا جعاد امکحلینابناء ثلاث و ثلاثین۔ ’’ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے جسم بالوں سے صاف ہوں گے۔ مسیں بھیگ رہی ہوں گی مگر ڈاڑھی نہ نکلی ہو گی۔ کورے چٹے ہوں گے۔ گٹھے ہوئے بدن ہوں گے۔آنکھیں سرمگیں ہوں گی۔ سب کی عمریں ۳۳ سال کی ہوں گی‘‘۔ (مسند احمد، مرو یا تابی ہریرہؓ) قریب قریب یہی مضمون ترمذی میں حضرت معاذؓ بن جَبَل اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے بھی مروی ہے۔

 

ترجمہ

 

وہ اگلوں میں سے  بہت ہوں گے  اور پچھلوں  میں سے بھی بہت۔ اور بائیں بازو والے ، بائیں بازو والوں کی بد نصیبی کا کیا پُوچھنا۔ وہ لُو کی لَپَٹ اور کَھولتے ہوئے پانی اور کالے دھُوئیں کے سائے میں ہو ں گے جو نہ ٹھنڈا ہو گا نہ آرام دہ۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اِس انجام کو پہنچنے سے پہلے خوشحال تھے اور گناہِ عظیم پر اصرار کرتے تھے۔ ۲۰ کہتے تھے ‘‘کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے تو پھر اُٹھا کھڑے کیے  جائیں گے؟ اور کیا ہمارے وہ باپ دادا بھی اُٹھائے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں؟اے نبی ؐ ، اِن لوگوں سے کہو، یقیناً اگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے۔ پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو، تم شجرِ زَقّوم ۲۱ کی غذا کھانے والے ہو۔ اُسی سے تم پیٹ بھرو گے اور اُوپر سے کھولتا ہوا پانی تَونس  لگے ہوئے اُونٹ کی طرح پیو گے۔ یہ ہے بائیں والوں کی ضیافت کا سامان  روزِ جزا میں۔

۲۲ ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ ۲۳ کبھی تم نے غور کیا ، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو، اس سے بچّہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں؟ ۲۴ ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے،۲۵ اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے۔ ۲۶ اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہو، پھر کیوں سبق نہیں لیتے؟ ۲۷

کبھی تم نے سوچا ، یہ بیج جو تم بوتے ہو، ان سے کھیتیاں  تم اُگا تے ہو یا اُن کے اُگانے والے ہم ہیں؟ ۲۸ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھُس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو اُلٹی چَٹّی پڑ گی ،بلکہ ہمارے  تو نصیب ہی پھُوٹے ہوئے ہیں۔

کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی  جو تم پیتے ہو، اِسے تم نے بادل سے بر سا یا ہے یا اِ س کے برسانے والے ہم ہیں؟ ۲۹ ہم چاہیں تو اُسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، ۳۰ پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟۳۱ کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سُلگا تے ہو، اِس کا درخت ۳۲ تم نے پیدا کیا ہے، یا  اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اُس کو یاد دہانی کا ذریعہ ۳۳ اور حاجت مندوں ۳۴ کے لیےسامان ِ زیست  بنا یا ہے۔

پس اے نبیؐ ، اپنے رَبِّ عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ ۳۵ ؏۲

 

تفسیر

 

۲۰۔ یعنی خوشحالی نے ان پر الٹا اثر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے کے بجائے وہ الٹے کافر نعمت ہو گئے تھے۔ اپنی لذات نفس میں منہمک ہو کر خدا کو بھول گئے تھے۔ اور گناہ عظیم پر مصر تھے۔’’گناہ عظیم‘‘ کا لفظ جامع ہے۔ اس سے مراد کفر و شرک اور دہریت بھی ہے اور اخلاق و اعمال کا ہر بڑا گناہ بھی۔

۲۱۔ زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ ۳۴۔

۲۲۔ یہاں سے آیت ۷۴ تک جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں بیک وقت آخرت اور توحید، دونوں پر استدلال کیا گیا ہے، چونکہ مکہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کے ان دونوں بنیادی اجزاء پر معترض تھے اس لیے یہاں دلائل اس اندازے دیے گئے ہیں کہ آخرت کا ثبوت بھی ان سے ملتا ہے اور توحید کی صداقت کا بھی۔

۲۳۔ یعنی اس بات کی تصدیق کہ ہم ہی تمہارے رب اور معبود ہیں، اور ہم تمہیں دوبارہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

۲۴۔ اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑا اہم سوال انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کو چھوڑ کر انسان اگر سرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کسی طرح پیدا ہوا ہے تو اسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے۔ نہ اس کی تعلیم آخرت میں انسان آخر اسی طرح تو پیدا ہوتا ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچا دیتا ہے مگر کیا اس نطفہ میں بچہ پیدا کرنے کی، اور لازماً انسان ہی کا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت آپ سے آپ پیدا ہو گئی ہے؟ یا انسان نے کود پیدا کی ہے؟ یا خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کر دی ہے؟ اور کیا یہ مرد کے، یا عورت کے، یا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں ہے کہ اس نطفے سے حمل کا استقرار کرا دے؟ پھر استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش، اور ہر بچے کی الگ صورت گری، اور ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک خاص شخصیت کا انسان بن کر اٹھے، کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے سوا کسی اور کا کام ہے؟ کیا اس میں کسی اور کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل ہے؟ کیا یہ کام ماں باپ خود کرتے ہیں؟ یا کوئی ڈاکٹر کرتا ہے؟ یا وہ انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں جو خود اسی طرح پیدا ہوئے ہیں؟ یا سورج اور چاند اور تارے کرتے ہیں جو خود ایک قانون کے غلام ہیں؟ یا وہ فطرت(Nature) کرتی ہے جو بجائے خود کوئی علم، حکمت۔ ارادہ اور اختیار نہیں رکھتی؟ پھر کیا یہ فیصلہ کرنا بھی خدا کے سوا کسی کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا؟ خوبصورت ہو یا بد صورت؟ طاقتور ہو یا کمزور؟ اندھا بہرہ لنگڑا لولا ہو یا صحیح الاعضاء؟ ذہین ہو یا کند ذہن؟ پھر کیا خدا کے سوا کوئی اور یہ طے کر تا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں کس وقت کس قوم کے اندر کن اچھی یا بری صلاحیتوں کے آدمی پیدا کرے جو اسے عروج پر لے جائیں یا زوال کی طرف دھکیل دیں؟ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو تو وہ خود محسوس کر ے گا کہ شرک یا دہریت کی بنیاد پر ن سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا معقول جواب ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان پورا کا پورا خدا کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ اور جب حقیقت یہ ہے تو خدا کے ساختہ و پرداختہ اس انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنے خالق کے مقابلے میں آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے؟ یا اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی بجا لائے؟

توحید کی طرح یہ سوال آخرت کے معاملہ میں بھی فیصلہ کن ہے۔ انسان کی تخلیق ایک ایسے کیڑے سے ہوتی ہے جو طاقتور خورد بین کے بغیر نظر تک نہیں آ سکتا۔ یہ کیڑا عورت کے جسم کی تاریکیوں میں کسی وقت اس نسوانی انڈے سے جا ملتا ہے جو اسی کی طرح ایک حقیر سا خورد بینی وجود ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (Cell) بن جاتا ہے جو حیات انسانی کا نقطہ آغاز ہے، اور یہ خلیہ بھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اس کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس ذرا سے خلیے کو ترقی دے کر اللہ تعالیٰ ۹ مہینے چند روز کے اندر رحم مادر میں ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیتا ہے، اور جب  اس کی تخلیق مکمل ہو جاتی ہے تو ماں کا جسم خود ہی اسے دھکیل کر دنیا میں اُودھم مچانے کے لیے باہر پھینک دیتا ہے۔تمام انسان اسی طرح دنیا میں آئے ہیں اور شب و روز اپنے ہی جیسے انسانوں کی پیدائش کا یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا اس طرح انسانوں کو آج پیدا کر رہا ہے وہ کل کسی وقت اپنے ہی پیدا کیے ہوئے ان انسانوں کو دوبارہ کسی اور طرح پیدا نہ کر سکے گا۔

۲۵۔ یعنی تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو ماں کے پیٹ ہی میں مر جانا ہے، اور کسے پیدا ہوتے ہی مر جانا ہے، اور کسے کس عمر تک پہنچ کر مرنا ہے۔ جس کی موت کا جو وقت ہم نے مقدر کر دیا ہے اس سے پہلے دنیا کی کوئی طاقت اسے مار نہیں سکتی، اور اس کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رکھ سکتی۔ مرتے والے بڑے بڑے ہسپتالوں میں بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کی آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں، بلکہ ڈاکٹر خود بھی اپنے وقت پر مر جاتے ہیں۔ کبھی کوئی نہ موت کے وقت کو جان سکا ہے، نہ آتی ہوئی موت کو روک سکا ہے، نہ یہ معلوم کر سکا ہے کہ کس کی موت کس ذریعہ سے، کہاں، کس طرح واقع ہونے والی ہے۔

۲۶۔ یعنی جس طرح ہم اس سے عاجز نہ تھے کہ تمہیں تمہاری موجودہ شکل و ہیئت میں پیدا کریں، اسی طرح ہم اس سے بھی عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری تخلیق کا طریقہ بدل کر کسی اور شکل و ہیئت میں کچھ دوسرے صفات و خصوصیات کے ساتھ تم کو پیدا کر دیں۔ آج تم کو ہم اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ تمہارا نطفہ قرار پاتا ہے اور تم ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ بن کر ایک بچہ کی صورت میں برآمد ہوتے ہو۔ یہ طریق تخلیق بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا ہے۔ مگر ہمارے پاس بس یہی ایک لگا بندھا طریقہ نہیں  ہے جس کے سوا ہم کوئی اور طریقہ نہ جانتے ہوں، یا نہ عمل میں لا سکتے ہوں۔ قیامت کے روز ہم تمہیں اسی عمر کے انسان کی شکل میں پیدا کر سکتے ہیں جس عمر میں تم مرے تھے۔ آج تمہاری بینائی، سماعت اور دوسرے حواس کا پیمانہ ہم نے کچھ اور رکھا ہے۔ مگر ہمارے پاس انسان کے لیے بس یہی ایک پیمانہ نہیں ہے جسے ہم بدل نہ سکتے ہوں۔ قیامت کے روز ہم اسے بدل کر کچھ سے کچھ کر دیں گے یہاں تک کہ تم وہ کچھ دیکھ اور سن سکو گے جو یہاں نہیں دیکھ سکتے اور نہیں سن سکتے۔ آج تمہاری کھال اور تمہارے ہاتھ پاؤں اور تمہاری آنکھوں میں کوئی گویائی نہیں۔ مگر زبان کو بولنے کی طاقت ہم ہی نے تو دی ہے۔ ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ قیامت کے روز تمہارا ہر عضو اور تمہارے جسم کی کھال کا ہر ٹکڑا ہمارے حکم سے بولنے لگے۔ آج تم ایک خاص عمر تک ہی جیتے ہو اور اس کے بعد مر جاتے ہو۔ یہ تمہارا جینا اور مرنا بھی ہمارے ہی مقرر کردہ ایک قانون کے تحت ہوتا ہے۔ کل ہم ایک دوسرا قانون تمہاری زندگی کے لیے بنا سکتے ہیں جس کے تحت تمہیں کبھی موت نہ آئے۔ آج تم ایک خاص حد تک ہی عذاب برداشت کر سکتے ہو، جس سے زائد عذاب اگر تمہیں دیا جائے تو تم زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ ضابطہ بھی ہمارا ہی بنایا ہوا ہے۔ کل ہم تمہارے لیے ایک دوسرا ضابطہ بنا سکتے ہیں جس کے تحت تم ایسا عذاب ایسی طویل مدت تک بھگت سکو گے جس کا تم تصور تک نہیں کر سکتے، اور کسی سخت سے سخت عذاب سے بھی تمہیں موت نہ آئے گی۔ آج تم سوچ نہیں سکتے کہ کوئی بوڑھا جوان ہو جائے، کبھی بیمار نہ ہو، کبھی اس پر بڑھاپا نہ آئے اور ہمیشہ ہمیشہ وہ ایک ہی عمر کس جوان رہے۔مگر یہاں جوانی پر بڑھاپا ہمارے بنائے ہوئے قوانین حیات ہی کے مطابق تو آتا ہے۔ کل ہم تمہاری زندگی کے لیے کچھ دوسرے قوانین بنا سکتے ہیں جن کے مطابق جنت میں جاتے ہی بوڑھا جوان ہو جائے اور اس کی جوانی و تندرستی لا زوال ہو۔

۲۷۔ یعنی تم یہ تو جانتے ہی ہو کہ پہلے تم کیسے پیدا کیے گئے تھے۔ کس طرح باپ کی صُلب سے وہ نطفہ منتقل ہوا جس سے تم وجود میں آئے کس طرح رحم مادر میں، جو قبر سے کچھ کم تاریک نہ تھا، تمہیں پرورش کر کے زندہ انسان بنایا گیا۔ کس طرح ایک ذرہ بے مقدار کو نشو نما دے کر یہ دل و دماغ، یہ آنکھ کان اور یہ ہاتھ پاؤں اس میں پیدا کیے گئے اور عقل و شعور، علم و حکمت، صنعت و ایجاد اور تدبیر و تسخیر کی یہ حیرت انگیز صلاحیتیں اس کو عطا کی گئیں۔ کیا یہ معجزہ مردوں کو دوبارہ جِلا اٹھانے سے کچھ کم عجیب ہے۔؟ اس عجیب معجزے کو جب تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور خود اس کی زندہ شہادت کے طور پر دنیا میں موجود ہو تو کیوں اس سے یہ سبق نہیں سیکھتے کہ جس خدا کی قدرت سے یہ معجزہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔؟

۲۸۔ اوپر کا سوال لوگوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساختہ ہو اور اسی کی تخلیق سے وجود میں آئے ہو۔ اب یہ دوسرا سوال انہیں اس دوسری اہم حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ جس رزق پر  تم پلتے ہو وہ بھی اللہ ہی تمہارے لیے پیدا کرتا ہے۔ جس طرح تمہاری پیدائش میں انسانی کوشش کا دخل اس سے زائد کچھ نہیں ہے  کہ تمہارا باپ تمہاری ماں کے اندر نطفہ ڈال دے، زمین، جس میں یہ کاشت کی جاتی ہے، تمہاری بنائی ہوئی نہیں ہے۔ اس زمین کو روئیدگی کی صلاحیت تم نے نہیں بخشی ہے۔ اس میں وہ مادے جن سے تمہاری غذا کا سامان بہم پہنچتا ہے، تم نے فراہم نہیں کیے ہیں۔ اس کے اندر جو بیج تم ڈالتے ہو ان کو نشو و نما کے قابل تم نے نہیں بنایا ہے ان بیجوں میں یہ صلاحیت کہ ہر بیج سے اسی نوع کا درخت پھوٹے  جس وہ بیج ہے، تم نے پیدا نہیں کی ہے۔ اس کاشت کو لہلہاتی کھیتیوں میں تبدیل کرنے کے لیے زمین کے اندر جس عمل اور زمین کے اوپر جس ہوا،پانی، حرارت، بُرودت اور موسمی کیفیت کی ضرورت ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی تمہاری کسی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ ہی کی قدرت اور اسی کی پروردگاری کا کرشمہ ہے۔ پھر جب تم وجود میں اسی کے لانے سے آئے ہو، اور اسی کے رزق سے پل رہے ہو، تو تم کو اس کے مقابلہ  میں خود مختاری کا، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا حق آخرت کیسے پہنچتا ہے؟

اس آیت کا ظاہر استدلال تو توحید کے حق میں ہے، مگر اس میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر اگر آدمی تھوڑا سا مزید غور کرے تو اسی کے اندر آخرت کی دلیل بھی مل جاتی ہے۔ جو بیج زمین میں بویا جاتا ہے وہ بجائے خود مردہ ہوتا ہے، مگر زمین کی قبر میں جب کسان اس کو دفن کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر وہ نباتی زندگی پیدا کر دیتا ہے جس سے کونپلیں پھوٹتی ہیں اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں شان بہار دکھاتی ہیں۔ یہ بے شمار مردے ہماری آنکھوں کے سامنے آئے دن قبروں سے جی جی کر اٹھ رہے ہیں۔ یہ معجزہ کیا کچھ کم عجیب ہے کہ کوئی شخص اس دوسرے عجیب معجزے کو ناممکن قرار دے جس کی خبر قرآن ہمیں دے رہا ہے، یعنی انسانوں کی زندگی بعد موت۔

۲۹۔ یعنی تمہاری بھوک مٹانے ہی کا نہیں، تمہاری پیاس بجھانے کا انتظام بھی ہمارا ہی کیا ہوا ہے۔ یہ پانی، جو تمہاری زندگی کے لیے روٹی سے بھی زیادہ ضروری ہے، تمہارا اپنا فراہم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اسے ہم فراہم کرتے ہیں۔ زمین میں یہ سمندر ہم نے پیدا کیے ہیں۔ ہمارے سورج کی گرمی سے ان کا پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے۔ ہم نے اس پانی میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کیہ ایک خاص درجہ حرارت پر وہ بھاپ میں تبدیل ہو جائے۔ ہماری ہوائیں اسے لے کر اٹھتی ہیں۔ ہماری قدرت اور حکمت سے وہ بھاپ جمع ہو کر بادل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ہمارے حکم سے یہ بادل ایک خاص تناسب سے تقسیم ہو کر زمین کے مختلف خطوں پر پھیلتے ہیں تاکہ جس خطہ زمین کے لیے پانی کا جو حصہ مقرر کیا گیا ہے وہ اس کو پہنچ جائے۔ اور ہم بالائی فضا میں وہ برودت پیدا کرتے ہیں جس سے یہ بھاپ پھر سے پانی میں تبدیل ہوتی ہے۔ ہم تمہیں صرف وجود میں لا کر ہی نہیں رہ گئے ہیں بلکہ تمہاری پرورش کے یہ سارے انتظامات بھی ہم کر رہے ہیں جن کے بغیر تم جی نہیں سکتے۔ پھر ہماری تخلیق سے وجود میں آ کر، ہمارا رزق کھا کر اور ہمارا پانی پی کر یہ حق تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ ہمارے مقابلہ میں خود مختار بنو، یا ہمارے سوا کسی اور کی بندگی بجا لاؤ؟

۳۰۔ اس فقرے میں اللہ کی قدرت و حکمت کے ایک اہم کرشمے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو حیرت انگیز خواص رکھ ہیں، ان میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر خواہ کتنی ہی چیزیں تحلیل ہو جائیں، جب وہ حرارت کے اثر سے بھاپ میں تبدیل ہوتا ہے تو ساری آمیزشیں نیچے چھوڑ دیتا ہے، اور صرف اپنے اصل آنی اجزاء کو لے کر ہوا میں اڑتا ہے۔ یہ خاصیت اگر اس میں نہ ہوتی تو بھاپ میں تبدیل ہوتے وقت بھی وہ سب چیزیں اس میں شامل رہتیں جو پانی ہونے کی حالت میں اس کے اندر تحلیل شدہ تھیں۔ اس صورت میں سمندر سے جو بھاپیں اٹھتیں ان میں سمندر کا نمک بھی شامل ہوتا اور ان کی بارش تمام روئے زمین کو زمین شور بنا دیتی۔ نہ انسان اس پانی کو پی سکتا ہے کہ اندھی بہری فطرت سے خود بخود پانی میں یہ حکیمانہ خاصیت پیدا ہو گئی ہے؟ یہ خاصیت، جس کی بدولت کھاری سمندروں سے صاف ستھرا میٹھا پانی کشید ہو کر بارش کی شکل میں رہتا ہے اور پھر دریاؤں، نہروں، چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آب رسانی و آب پاشی کی خدمت انجام دیتا ہے، اس بات کی صریح شہادت فراہم کرتی ہے کہ ودیعت کرنے والے نے پانی میں اس کو خوب سوچ سمجھ کر بِلا ارادہ اس مقصد کے لیے ودیعت کیا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی پرورش کا ذریعہ بن سکے۔ جو مخلوق کھاری پانی سے پرورش پا سکتی تھی وہ اس نے سمندر میں پیدا کی اور وہاں وہ خوب جی رہی ہے۔ متر جس مخلوق کو اس نے خشکی اور ہوا میں پیدا کیا تھا اس کی پرورش کے لیے میٹھا پانی درکار تھا اور اس کی فراہمی کے لیے بارش کا انتظام کرنے سے پہلے اس نے پانی کے اندر یہ خاصیت رکھ دی کہ گرمی سے بھاپ بنتے  وقت وہ کوئی ایسی چیز لے کر نہ اڑے جو اس کے اندر تحلیل ہو گئی ہو۔

۳۱۔ بالفاظ دیگر کیوں یہ کفران نعمت کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اس بارش کو دیوتاؤں کا کرشمہ سمجھتا ہے، اور کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سمندر سے بادلوں کا اٹھنا اور پھر آسمان سے پانی بن کر برسنا ایک فطری چکر ہے جو آپ سے آپ چلے جا رہا ہے، اور کوئی اسے خدا کی رحمت سمجھتا بھی ہے تو اس خدا کا اپنے اوپر یہ حق نہیں مانتا کہ اسی کے آگے سر اِطاعت جھکائے؟ خدا کی اتنی بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہو اور پھر جواب میں کفر و شرک اور فسق و نافرمانی کرتے ہو؟

۳۲۔ درخت سے مراد یا تو وہ درخت ہیں جن سے آگ جلانے کے لیے لکڑی فراہم ہوتی ہے، یا مرخ اور  عفار نامی وہ دو درخت ہیں جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو ایک دوسرے پر مار کر قدیم زمانے میں اہل عرب آگ جھاڑا کرتے تھے۔

۳۳۔ اس آگ کو یاد دہانی کا ذریعہ بنانے کا طلب یہ ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ہر وقت روشن ہو کر انسان کو اس بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے۔ اگر آگ نہ ہوتی تو انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہو سکتی۔ آگ ہی سے انسان نے حیوانات کی طرح کچی غذائیں  کھانے کے بجائے ان کو پکا کر کھانا شروع کیا اور پھر اس کے لیے صنعت و ایجاد کے نئے نئے دروازے کھلتے چلے گئے۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا وہ ذرائع پیدا نہ کرتا جن سے آگ جلائی جا سکے، اور وہ آتش پذیر مادے پیدا نہ کرتا جو آگ سے جل سکیں، تو انسان کی ایجادی صلاحیتوں کا قفل ہی نہ کھلتا۔ مگر انسان یہ بات فراموش کر گیا ہے کہ اس کا خالق کوئی پروردگار حکیم ہے جس نے اسے ایک طرف انسانی قابلیتیں دے کر پیدا کیا تو دوسری طرف زمین میں وہ سرو سامان بھی پیدا کر دیا جس سے اس کی یہ قابلیتیں رو  بعمل  آ سکیں۔ وہ اگر غفلت میں مد ہوش نہ ہو تو تنہا ایک آگ ہی اسے یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ کس کے احسانات اور کس کی نعمتیں ہیں جن سے وہ دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔

۳۴۔ اصل میں لفظ مُقْوِیْن استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے مختلف معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ بعض اسے صحرا میں اترے ہوئے مسافروں کے معنی میں لیتے ہیں۔ بعض اس کے معنی بھوکے آدمی کے لیتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، خواہ وہ کھانا پکانے کا فائدہ ہو یا روشنی کا یا تپش کا۔

۳۵۔ یعنی اس کا مبارک نام لے کر یہ اظہار و اعلان کرو کہ وہ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو کفار و مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جو کفر و شرک کے ہر عقیدے اور منکرین آخرت کے ہر استدلال میں مضمر ہیں۔

 

ترجمہ

 

۳۶ پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں  تاروں کے مواقع کی ، اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے ، کہ یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے، ۳۷ ایک محفوظ کتاب میں ثَبَت، ۳۸ جسے مُطَہَّرین کےسوا کوئی چھُو نہیں سکتا۔ ۳۹ یہ رَبُّ العالمین  کا نازل کردہ ہے۔ پھر کیا اِس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے ہو، ۴۰ اور اِس نعمت میں اپنا حصّہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اِسے جھُٹلاتے ہو؟ ۴۱

اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اِس خیال میں سچّے ہو، تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے، اُس وقت اُس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ اُس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اُس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم  کو نظر نہیں آتے۔ پھر وہ مرنے والا اگر مقرّبین میں سے ہو تو اس کے لیے راحت اور عمدہ رزق اور نعمت بھری جنّت ہے۔اور اگر وہ اصحابِ یمین میں سے ہو تو اس کا استقبال یُوں ہوتا ہے کہ سلام ہے تجھے، تُو اصحاب الیمین میں سے ہے۔ اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں  میں سے ہو تو اس کی  تواضع کے لیے کھولتا ہوا پانی ہے اور جہنم میں جھونکا جانا۔

یہ سب کچھ  قطعی حق ہے، پس اے نبیؐ ،اپنے رَبِّ عظیم کے نام  کی تسبیح کرو۔ ۴۲ ؏۳

 

تفسیر

 

۳۶۔ یعنی بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ یہاں قرآن کے من جانب اللہ ہونے پر قسم کھانے سے پہلے لفظ لا کا استعمال خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ لوگ اس کتاب پاک کے متعلق کچھ باتیں بنا رہے تھے جن کی تردید کرنے کے لیے یہ قسم کھائی جا رہی ہے۔

۳۷۔ تاروں اور سیاروں کے مواقع سے مراد ان کے مقامات، ان کی منزلیں اور ان کے مدار ہیں۔ اور قرآن کے بلند پایہ کتاب ہونے پر ان کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ عالم بالا میں اجرام فلکی کا نظام جیسا محکم اور مضبوط ہے ویسا ہی مضبوط اور محکم یہ کلام بھی ہے۔ جس خدا نے وہ نظام بنایا ہے اسی خدا نے یہ کلام بھی نازل کیا ہے۔ کائنات کی بے شمار کہکشانوں(Galaxies) اور ان کہکشانوں کے اندر بے حد و حساب تاروں (Stars)  اور سیاروں  (Planets)میں جو کمال درجہ کا ربط و نظم قائم ہے، در آنحالیکہ  بظاہر وہ بالکل بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں، اسی طرح یہ کتاب بھی ایک کمال درجہ کا مربوط و منظم ضابطہ حیات پیش کرتی ہے  جس میں عقائد کی بنیاد پر اخلاق، عبادات، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، قانون و عدالت، صلح و جنگ، غرض انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مفصل ہدایات دی گئی ہیں، اور ان میں کوئی چیز کسی دوسری چیز سے بے جوڑ نہیں ہے، در آنحالیکہ یہ نظام فک متفرق آیات اور مختلف مواقع پر دیے ہوئے خطبوں میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر جس طرح خدا کے باندھے ہوئے عالم بالا کا نظم اٹل ہے جس میں کبھی ذرہ برابر فرق واقع نہیں ہوتا، اسی طرح اس کتاب میں بھی جو حقائق بیان کیے گئے ہیں اور جو ہدایات دی گئی ہیں وہبی اٹل ہیں، ان کا ایک شوشہ بھی اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکتا۔

۳۸۔ اس سے مراد ہے لوح محفوظ۔ اس کے لیے ’’کتابِ مَکْنون‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں ایسا نوشتہ جو چھپا کر رکھا گیا ہے، یعنی جس تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ اس محفوظ نوشتے میں قرآن کے ثبت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیے جانے سے پہلے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس نوشتہ تقدیر میں ثبت ہو چکا ہے جس کے اندر کسی رد و بدل کا امکان نہیں ہے، کیونکہ وہ ہر مخلوق کی دست  رس سے بالا تر ہے۔

۳۹۔ یہ تردید ہے کفار کے ان الزامات کی جو وہ قرآن پر لگایا کرتے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کاہن قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کلام آپ پر جن اور شیاطین اِلقا کرتے ہیں۔ اس کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ شعراء میں ارشاد ہوا ہے وَمَا تَنَزَّ لَتْ بِہِ الشَّیٰطِیْنُ، وَمَا یَنْمبْغِیْ لَھُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ، اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۔ ’’اِس کے لے کر شیاطین نہیں اترے ہیں، نہ یہ کلام ان کو سجتا ہے اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں۔ وہ تو اس کی سماعت تک سے دور کھے گئے ہیں‘‘(آیات۔۲۱۰ تا ۲۱۲)۔ اسی مضمون کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ اسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔،‘‘ یعنی شیاطین کا سے لانا، یا اس کے نزول کے وقت اس میں دخل انداز ہونا تو در کنار، جس وقت یہ لوح محفوظ سے نبی پر نازل کیا جاتا ہے اس وقت مُطَہرین، یعنی پاک فرشتوں کے سوا کوئی قریب پھٹک بھی نہیں سکتا۔ فرشتوں کے لیے مطہرین کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قسم کے ناپاک جذبات اور خواہشات سے پاک رکھا ہے۔

اس آیت کی یہی تفسیر انس بن مالک، ابن عباسؓ، سعید بن جبیر، عکرمہ، مجاہد، قتادہ، ابوالعالیہ، سُدی، ضحاک اور ابن زید نے بیان کی ہے، اور نظم کلام کے ساتھ بھی یہی مناسبت رکھتی ہے۔ کیونکہ سلسلہ کلام خود یہ بتا رہا ہے کہ توحید اور آخرت کے متعلق کفار مکہ کے غلط تصورات کی تردید کرنے کے بعد اب قرآن مجید کے بارے میں ان کے جھوٹے گمانوں کی تردید کی جا رہی ہے اور مواقع نجوم کی قسم کھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے، اللہ تعالیٰ کے محفوظ نوشتے میں ثبت ہے جس میں کسی مخلوق کی در اندازی کا کوئی امکان نہیں، اور نبی پر یہ ایسے طریقے سے نازل ہوتی ہے کہ پاکیزہ فرشتوں کے سوا کوئی اسے چھو تک نہیں سکتا۔

بعض مفسرین نے اس آیت میں لا کو نہی کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’کوئی ایسا شخص اسے نہ چھوئے جو پاک نہ ہو ‘‘، یا ‘’کسی ایسے شخص کو اسے نہ چھونا چاہیے جو نا پاک ہو‘‘۔ اور بعض دوسرے مفسرین اگر چہ لا کو نفی کے معنی میں لیتے ہیں اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس کتاب کو مطہرین کے سوا کوئی نہیں چھوتا‘‘، مگر ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ نفی اسی طرح نہی کے معنی میں ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ المسلم اَخُو المصلم لا یظلمہٗ (مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا)۔ اس میں اگر چہ خبر دی گئی ہے کہ مسلمان مسلمان پر ظلم نہیں کرتا، لیکن در اصل اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ مسلمان مسلمان پر ظلم نہ کرے اسی طرح اس آیت میں اگرچہ فرمایا یہ گیا ہے کہ پاک لوگوں کے سوا قرآن کو کوئی نہیں چھوتا، مگر اس سے حکم یہ نکلتا ہے کہ جب تک کوئی شخص پاک نہ ہو، وہ اس کو نہ چھوئے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تفسیر آیت کے سیاق و ساق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے تو اس کے الفاظ سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے، مگر جس سلسلہ کلام میں یہ وارد ہوئی ہے  اس میں رکھ کر اسے دیکھا جائے تو یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع نظر نہیں آتا کہ ’’ اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہ چھوٹے ‘‘۔ کیونکہ یہاں تو کفار مخاطب ہیں اور ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے، اس کے بارے میں تمہارا یہ گمان قطعی غلط ہے کہ اسے شیاطین نبی پر القا کرتے ہیں۔ اس جگہ یہ شرعی حکم بیان کرنے کا آخرت کیا موقع ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص طہارت کے بغیر اس کو ہاتھ نہ لگائے؟ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ آیت یہ حکم دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے۔ مگر فحوائے کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کتاب کو صرف مطہرین ہی چھو سکتے ہیں، اسی طرح دنیا میں بھی کم از کم وہ لوگ جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، اسے نا پاکی کی حالت میں چھونے سے اجتناب کریں۔

اس مسئلے میں جو روایات ملتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

(۱)امام مالکؒ نے مؤطا میں عبداللہ بن ابی بکر محمد بن عمرو بن حزم کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و سلم نے جو تحریری احکام عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو لکھ کر بھیجے تھے ان میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ لا یمسُّ القرآن الا طاہرٌ (کوئی شخص قرآن کو نہ چھوئے مگر طاہر ) یہی بات ابو داؤد نے مراسیل میں امام زہری سے نقل کی ہے کہ انہوں نے ابو بکر محمد بن عمروبن حزم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جو تحریر دیکھی تھی اس میں یہ حکم بھی تھا۔

(۲) حضرت علیؓ کی روایت، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ  ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لم یکن یحجزہ عن القراٰن شئ لیس الجنا بۃ۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی چیز قرآن کی تلاوت سے نہ روکتی تھی سوائے جنابت کے ‘‘۔ (ابو داؤد، نسائی، ترمذی)۔

(۳) ابن عمرؓ کی روایت، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا تقرأ الحائضالجنب شیئاً من القراٰن۔ ’’ حائضہ اور جنبی قرآن کا کوئی حصہ نہ پڑھے ‘‘۔ (ابوداؤد۔ ترمزی)

(۴) بخاری کی روایت، جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیصر روم ہرقُل کو جو نامہ مبارک بھیجا تھا اس میں قرآن مجید کی یہ آیت بھی لکھی ہوئی تھی کہ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِتَعَا لَوْا اِلیٰ کِلِمَۃٍ سَوَآءٌ بَیْنَنَاوَبَیْنَکُمْ …………

صحابہؓ و تابعین سے اس مسئلے میں جو مسالک منقول ہیں وہ یہ ہیں:

حضرت سَلْمان فارسیؓ وضو کے بغیر قرآن پڑھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، مگر ان کے نزدیک اس حالت میں قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہ تھا۔  یہی مسلک حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہؓ بن عمر کا بھی تھا۔  اور حضرت حسن بصری اور ابراہیم نخعی بھی وضو کے بغیر مصحف کو ہاتھ لگانا مکروہ سمجھتے تھے (احکام القرآن للجصاص)۔ عطاع اور طاؤس اور شعبی اور قاسم بن محمد سے بھی یہی بات منقول ہے (المغنی لا بن قدامہ)۔ البتہ قرآن کو ہاتھ لگا ئے بغیر اس میں دیکھ کر پڑھنا، یا اس کو یاد سے پڑھنا اس سب کے نزدیک بے وضو بھی جائز تھا۔

جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن پڑھنا حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت حسن بصری، حضرت ابراہیم نخعی اور امام زہری کے نزدیک مکروہ تھا۔ مگر ابن عباسؓ کے رائے یہ تھی اور اسی پر ان کا عمل بھی تھا کہ قرآن کا جو حصہ پڑھنا آدمی کا معمول ہو وہ اسے یاد سے پڑھ سکتا ہے۔ حضرت سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر سے اس مسئلے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، کیا قرآن اس کے حافظہ میں محفوظ نہیں ہے؟ پھر اس کے پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ (المغنی۔ اور المھلّٰی لا بن حزم)۔

فقہاء کے مسالک اس مسئلے میں حسب ذیل ہیں:

مسلک حنفی کی تشریح امام علاء الدین الکاشا نی نے بدائع الصنائع میں یوں کی ہے : ‘‘ جس طرح بے وضو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح قرآن مجید کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر وہ غلاف کے اندر ہو تو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے۔ غلاف سے مراد بعض فقہاء کے نزدیک جلد ہے اور بعض کے نزدیک وہ خریطہ یا  لفافہ یا جزدان ہے جس کے اندر قرآن رکھا جاتا ہے اور اس میں سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔ اسی طرح تفسیر کی کتابوں کو بھی بے وضو ہاتھ نہ لگانا چاہیے، ’’کسی ایسی چیز کو جس میں قرآن کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو۔ البتہ فقہ کی کتابوں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ ان کو بھی نے وضو ہاتھ نہ لگایا جائے، کیونکہ ان میں بھی آیات قرآنی بطور استدلال درج ہوتی ہیں۔ بعض فقہائے حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ مصحف کے صرف اس حصے کو بے وضو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے جہاں قرآن کی عبارت لکھی ہوئی ہو، باقی رہے حواشی تو خواہ وہ سادہ ہوں یا ان میں بطور تشریح کچھ لکھا ہو ہو، ان کو ہاتھ لگانے میں مضائقہ نہیں۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ حواشی بھی مصحف ہی کا ایک حصہ ہیں اور ان کو ہاتھ لگانا مصحف ہی کو ہاتھ لگانا ہے۔ رہا قرآن پڑھنا، تو وہ وضو کے بغیر جائز ہے ‘‘ فتاویٰ عالمگیری میں بچوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم کے لیے قرآن مجید بچوں کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے خواہ وہ وضو سے ہوں یا بے وضو۔

مسلک شافعیؓ کو امام جودی نے المنہاج میں اس طرح بیان کیا ہے، ’’نماز اور طواف کی طرح مصحف کو ہاتھ لگانا اور اس کے کسی ورق کو چھونا بھی وضو کے بغیر حرام ہے۔ اسی طرح قرآن کی جلد کو چھونا بھی ممنوع ہے۔ اور اگر قرآن کسی خریطے، غلاف یا صندوق میں ہو، یا درس قرآن  کے لیے اس کا کوئی حصہ تختی پر لکھا ہوا ہو تو اس کو بھی ہاتھ لگانا جائز نہیں۔ البتہ قرآن کسی کے سامان میں رکھا ہو، یا تفسیر کی کتابوں میں لکھا ہوا ہو، یا کسی سکہ میں اس کا کوئی حصہ درج ہو تو اسے ہاتھ لگانا حلال ہے۔  بچہ اگر بے وضو ہو تو وہ بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اور بے وضو آدمی اگر قرآن پڑھے تو لکڑی  یا کسی اور چیز سے وہ اس کا ورق پلٹ سکتا ہے۔‘‘

مالکیہ کا مسلک جو الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے ساتھ وہ اس امر میں متفق ہیں کہ مصحف کو ہاتھ لگانے کے لیے وضو شرط ہے۔ لیکن قرآن کی تعلیم کے لیے وہ استاد اور شاگرد دونوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں۔ بلکہ حائضہ عورت کے لیے بھی وہ بغرض تعلیم مصحف کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیتے ہیں۔ ابن قدامہ نے المغنی میں امام مالکؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جنابت کی حالت میں تو قرآن پڑھنا ممنوع ہے، مگر حیض کی حالت میں عورت کو قرآن پڑھنے کی اجازت ہے، کیونکہ ایک طویل مدت تک اگر ہم اسے قرآن پڑھنے سے روکیں گے تو وہ بھول جائے گی۔

حنبلی مذہب کے احکام جو ابن قدامہ نے نقل کیے ہیں یہ ہیں کہ۔ ’’جنابت کی حالت میں اور حیض و نفاس کی حالت میں قرآن یا اس کی کسی پوری آیت کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ بسم اللہ، الحمد للہ وغیرہ کہنا جائز ہے، کیونکہ اگر چہ یہ بھی کسی نہ کسی آیت کے اجزاء ہیں، مگر ان سے تلاوت قرآن مقصود نہیں ہوتی۔ رہا قرآن کو ہاتھ لگانا، تو وہ کسی حال میں وضو کے بغیر جائز نہیں، البتہ قرآن کی کوئی آیت کسی خط یا فقہ کی کسی کتاب، کا کسی اور تحریر کے سلسلے میں درج ہو تو اسے ہاتھ لگانا ممنوع نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن اگر کسی چیز میں رکھا ہوا ہو تو اسے وضو کے بغیر اٹھایا جا سکتا ہے۔ تفسیر کی کتابوں کو ہاتھ لگانے کے لیے بھی وضو شرط نہیں ہے۔ نیز بے وضو آدمی کو اگر کسی فوری ضرورت کے لیے قرآن کو ہاتھ لگانا پڑے تو وہ تیمم کر سکتا ہے۔‘‘ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں مسلک حنبلی کا یہ مسئلہ بھی درج ہے کہ بچوں کے لیے تعلیم کی غرض سے بھی وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے اور یہ ان کے سرپرستوں کا فرض ہے کہ وہ قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے پہلے انہیں وضو کرائیں۔

ظاہر یہ کا مسلک یہ ہے کہ قرآن پڑھنا اور اس کو ہاتھ لگانا ہر حال میں جائز ہے خواہ  آدمی نے وضو ہو، یا جنابت کی حالت میں ہو، یا عورت حیض کی حالت میں ہو۔ ابن غزم نے المحلّٰی (جلد اول، صفحہ ۷۷ تس ۸۴) میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جس میں انہوں نے اس مسلک کی صحت کے دلائل دیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ فقہاء نے قرآن پڑھنے اور اس کو ہاتھ لگانے ت کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے۔

۴۰۔ اصل الفاظ ہیں اَنْتُمْ مُّدْ ھِنُون۔ اِدْھَان کے معنی ہیں کسی چیز سے مداہنت برتنا۔ اس کو اہمیت نہ دینا۔ اس کو سنجیدہ توجہ کے قابل نہ سمجھنا۔ انگریزی میں (To take lightly) کے الفاظ اس مفہوم سے قریب تر ہیں۔

۴۱۔امام رازی نے تَجْعَلُوْ نَ رِزْ قَکُمْ کی تفسیر ہیں ایک احتمال یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہاں لفظ رزق معاش کے معنی میں ہو۔ چونکہ کفار قریش قرآن کی دعوت کو اپنے معاشی مفاد کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ یہ دعوت اگر کامیاب ہو گئی تو ہمارا رزق مارا جائے گا، اس لیے اس آیت کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ تم نے اس قرآن کی تکذیب کو اپنے پیٹ کا دھندا بنا رکھا ہے۔ تمہارے نزدیک حق اور باطل کا سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اصل اہمیت تمہاری نگاہ میں روٹی کی ہے اور اس کی خاطر حق کی مخالفت کرنے اور باطل کا سہارا لینے میں تمہیں کوئی تامل نہیں۔

۴۲۔ حضرت عقبہ بن عامر جمنی کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اس کو تم لوگ اپنے رکوع میں رکھ دو، یعنی رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہا کرو۔ اور جب آیت سُبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اعْلیٰ نازل ہوئی تو آپؐ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں رکھو، یعنی  سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہا کرو (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم)۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ و سلم نے نماز کا جو طریقہ مقرر فرمایا ہے اس کے چھوٹے سے چھوٹے اجزاء تک قرآن پاک کے اشاروں سے ماخوذ ہیں۔

٭٭٭

 

 

(۵۷) سورہ الحدید

 

 

نام

 

آیت ۲۵ کے فقرے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْد سے ماخوذ ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

یہ بالاتفاق مدنی سورت ہے اور اس کے مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ غالباً یہ جنگ احد اور صلح حدیبیہ کے درمیان کسی زمانہ میں نازل ہوئی ہے ۔ وہی زمانہ تھا جب مدینہ کی مختصر سی اسلامی ریاست کو ہر طرف سے کفار نے اپنے نرغے میں لے رکھا تھا اور سخت بے رسو سامانی کی حالت میں اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پورے عرب کی طاقت کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس حالت میں اسلام کو اپنے پردوں سے صرف جانی قربانی ہی درکار نہ تھی بلکہ مالی قربانی بھی درکار تھی، اور اس سورۃ میں اسی قربانی کے لیے پر زور اپیل کی گئی ہے ۔ اس قیاس کو آیت ۱۰ مزید تقویت پہنچاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جماعت کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ فتح کے بعد جو لوگ اپنے مال خرچ کریں گے اور خدا کی راہ میں جنگ کریں گے وہ ان لوگوں کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے جو فتح سے پہلے جان و مال کی قربانیاں دیں ۔ اس اسی کی تائید حضرت اَنَسؓ کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن مردویہ نے نقل کیا ہے اَلَمْ یَأ نِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ آ اَنْ تَخْشَعَ قُلُو بھُُمْ لِزِکْرِ اللہِ کے متعلق فرماتے ہیں کہ نزول قرآن کے آغاز سے ۱۷ برس بعد اہل ایمان درمیان قرار پاتا ہے ۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین ہے ۔ اسلام کی تاریخ کے اس نازک ترین دور میں ، جبکہ عرب کی جاہلیت سے اسلام کا فیصلہ کن معرکہ برپا تھا، یہ سورۃ اس غرض کے لیے نازل فرمائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو خاص طور مالی قربانیوں کے لیے آمادہ کیا جائے اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرائی جائے کہ ایمان محض زبانی اقرار اور کچھ ظاہری اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے دین کے لیے مخلص ہونا اس کی اصل روح اور حقیقت ہے ۔ جو شخص اس روح سے خالی ہو اور خدا اور اس کے دین کے مقابلہ میں اپنی جان و مال اور مفاد کو عزیز تر رکھے اس کا اقرار ایمان کھوکھلا ہے جس کی کوئی قدر و قیمت خدا کے ہاں نہیں ہے ۔

اس مقصد کے لیے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں تاکہ سامعین کو اچھی طرح یہ احساس ہو جائے کہ کس عظیم ہستی کی طرف سے ان کو مخاطب کیا جا رہا ہے ۔ اس کے بعد حسب ذیل مضامین سلسلہ وار ارشاد ہوئے ہیں ؛

ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی راہ خدا میں مال صرف کرنے سے پہلو تہی نہ کرے ۔ ایسا کرنا صرف ایمان ہی کے منافی نہیں ہے بلکہ حقیقت کے اعتبار سے بھی غلط ہے ۔ کیونکہ یہ مال در اصل خدا ہی کا مال ہے جس پر تم کو خلیفہ کی حیثیت سے تصرف کے اختیارات دیے  گئے ہیں ۔ کل یہی مال دوسروں کے پاس تھا، آج تمہارے پاس ہے ، اور کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ آخر کار اسے خدا ہی کے پاس رہ جانا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا وارث ہے ۔ تمہارے کام اس مال کا کوئی حصہ اگر آسکتا ہے تو صرف وہ جسے تم اپنے  زمانہ تصرف میں خدا کے کام پر لگا دو۔

خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا اگرچہ ہر حال میں قابل قدر ہے ، مگر ان قربانیوں کی ادر و قیمت مواقع کی نزاکت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے ۔ ایک موقع وہ ہوتا ہے جب کفر کی طاقت بڑی زبردست ہو اور ہر وقت یہ خطرہ ہو کہ کہیں اسلام اس کے مقابلہ میں مغلوب نہ ہو جائے۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب کفر و اسلام کی کشمکش میں اسلام کی طاقت کا پلڑا بھاری ہو جائے اور ایمان کو دشمنان حق کے مقابلہ میں فتح نصیب ہو رہی ہو۔ یہ دونوں حالتیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیَ اس لیے جو قربانیاں ان مختلف حالتوں میں دی جائیں وہ بھی اپنی قیمت میں برابر نہیں ہیں ۔ جو لوگ اسلام کے ضعف کی حالت میں اس کو سربلند کرنے کے لیے جانیں لڑائیں اور مال صرف کریں ان کے درجہ کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو اسلام کے غلبے کی حالت میں اس کو مزید فروغ دینے کے لیے جان و مال قربان کریں ۔

راہ حق میں جو مال بھی صرف کیا جائے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے ، اور اللہ اسے نہ صرف یہ کہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس دے گا بلکہ اپنی طرف سے مزید اجر بھی عنایت فرمائے گا۔

آخرت میں نور انہی اہل ایمان کو نصیب ہو گا جنہوں نے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کیا ہو۔ رہے وہ منافق جو دنیا میں اپنے ہی مفاد کو دیکھتے رہے اور جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں رہی کہ حق غالب ہوتا ہے یا باطل، وہ خواہ دنیا کی اس زندگی میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہے ہوں ، مگر آخرت میں ان کو مومنوں سے الگ کر دیا جائے گا، نور سے وہ محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہو گا۔

مسلمانوں کو ان اہل کتاب کی طرح نہ ہو جاتا چاہیے جن کی عمریں دنیا پرستی میں بیت گئی ہیں اور جن کے دل زمانہ دراز کی غفلتوں سے پتھر ہو گئے ہیں ۔ وہ مومن ہی کیا جس کا دل خدا کے ذکر سے نہ پگھلے اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے نہ جھکے ۔

اللہ کے نزدیک صدیق اور شہید صرف وہ اہل ایمان ہیں جو اپنا مال کسی جذبہ ریا کے بغیر صدق دل سے اس کی راہ میں صرف کرتے ہیں ۔

دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار اور ایک متاع غرور ہے ۔ یہاں کا کھیل کود، یہاں کی دلچسپیاں ،یہاں کی آرائش و زیبائش، یہاں کی بڑائیوں پر فخر، اور یہاں کا دھن و دولت، جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوششیں کرتے ہیں ، سب کچھ نا پائدار ہے ۔ اس کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو پہلے سر سبز ہوتی ہے ، پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آخر کار ٹھیس بن کر رہ جاتی ہے ۔ پائیدار زندگی دراصل آخرت کی زندگی ہے جہاں بڑے نتائج نکلنے والے ہیں ۔ تمہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی ہے تو یہ کوشش جنت کی طرف دوڑنے میں صرف کرو۔

دنیا میں راحت اور مصیبت جو بھی آتی ہے اللہ کے پہلے ہوئے فیصلے کے مطابق آتی ہے ۔ مومن کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ مصیبت آئے تو ہمت نہ ہار بیٹھے ، اور راحت آئے تو اترا نہ جائے۔ یہ تو ایک منافق اور کافر کا کردار ہے کہ اللہ اس کو نعمت بخشے تو وہ اپنی جگہ پھول جائے، فخر جتانے لگے ، اور اسی نعمت دینے والے خدا کے کام میں خرچ کرتے ہوئے خود بھی تنگ دلی دکھائے اور دوسروں کو بھی بخل کرنے کا مشورہ دے ۔

اللہ نے اپنے رسول کھلی کھلی نشانیوں اور کتاب اور میزان عدل کا سر نیچا کرنے کے لیے طاقت استعمال کی کائے۔ اس طرح اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون لگ ایسے نکلتے ہیں جو اس کے این کی حمایت و نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس کی خاطر جان لڑا دیں ۔ یہ مواقع اللہ نے تمہاری اپنی ہی ترقی و سرفرازی کے لیے پیدا کیے ہیں ، ورنہ اللہ اپنے کام کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے انبیاء آتے رہے جن کی دعوت سے کچھ لوگ راہ راست پر آئے اور اکثر فاسق بنے رہے ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام آئے جن کی تعلیم سے لوگوں میں بہت سی اخلاقی خوبیاں پیدا ہوئیں ، مگر ان کی امت نے رہبانیت کی بدعت اختیار کر لی۔ اب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا ہے ۔ ان پر جو لوگ ایمان لائیں گے اور خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کریں گے ، اللہ ان کو اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور انہیں وہ جور بخشے گا جس سے دنیا کی زندگی میں وہ ہر ہر قدم پر ٹیڑھے راستوں کے درمیان سیدھی راہ صاف دیکھ کر چل سکیں گے ۔ اہل کتاب چاہے اپنے آپ کو اللہ کے فضل کا ٹھیکہ دار سمجھتے رہیں ، مگر اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے ، اسے اختیار ہے جسے چاہے اپنے فضل سے نواز دے ۔

یہ ہے ان مضامین کا خلاصہ جو اس سورت میں ایک ترتیب کے ساتھ مسلسل بیان ہوئے ہیں ۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، ۱ اور وہی زبر دست دانا ہے۔ ۲ زمین وآسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی ، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، ۳ اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ ۴ اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے۔ ۵ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔ ۶ جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔ وہی رات کو دن میں اور دن  کو رات میں داخل کرتا ہے،  اور دلوں کے چھُپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسول پر ۷ اور خرچ کرو ۸ اُن چیزوں میں سے جن پر اُس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔ ۹ جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ۱۰ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے ۱۱ اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے ۱۲ اگر تم واقعی  ماننے والے ہو۔ وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہر بان ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۱۳ تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ ۱۴ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔ ۱۵ ؏۱

 

تفسیر

 

۱۔ یعنی ہمیشہ کائنات کی ہر چیز نے اس حقیقت کا اظہار وہ اعلان کیا ہے کہ اس کا خالق و پروردگار ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور خطا اور برائی سے پاک ہے ۔ اس کی ذات پاک ہے ، اس کی صفات پاک ہیں ، اس کے افعال پاک ہیں ، اور اس کے احکام بھی، خواہ وہ تکوینی احکام ہوں یا شرعی، سراسر پاک ہیں ۔ یہاں سَبَّحَ صیغہ ماضی استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض دوسرے مقامات پر یُسَبِّحُ  صیغہ مُضارع استعمال ہو ا ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم شامل ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اپنے خالق و رب کی پاکی بیان کرتا رہا ہے ، آج بھی کر رہا ہے ، اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔

۲۔ اصل الفاظ ہیں ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ لفظ ھُوَ کو پہلے لانے سے خود بخود حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ، یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ عزیز اور حکیم ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی ایسی ہستی ہے جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ عزیز  کے معنی ہیں ایسا زبردست اور قادر و قاہر جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی، جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں ہے ، جس کی اطاعت ہر ایک کو کرنی ہی پڑتی ہے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے ، جس کی فرمانی کرنے والا اس کی پکڑ سے کسی طرح جچ ہی نہیں سکتا۔ اور حکیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور دانائی ے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کی تخلیق، اس کی تدبیر، اس کی فرمانروائی، اس کے احکام، اس کی ہدایات، سب حکمت پر مبنی ہیں ۔ اس کے کسی کام میں نادانی اور حماقت و جہالت کا شائبہ تک نہیں ہے ۔

اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی، مقتدر، جبار اور ذو انتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے محض اس کے اقتدار مطلق کا اظہار ہوتا ہے ، اور یہ صرف ان مواقع پر ہوا ہے جہان سلسلہ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نا فرمانوں کو اللہ کی پکڑ ڈرایا جائے۔ اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفاظ استعمال کیا گیا ہے ، وہاں اس کے ساتھ حکیم، علیم، رحیم، غفور، وہاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہوتی ایسی ہو جسے بے پناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو، جاہل ہو، بے رحم ہو، در گزر اور معاف کرنا جانتی ہی نہ ہو، بخیل ہو، اور  بد سیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے ، یا وہ بے رحم اور سنگدل ہے ، یا بخیل اور تنگ دل ہے ، یا بد خو اور بد کردار ہے ، طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کر نافذ ہونے سے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے ، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے ۔ علیم بھی ہے ، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کر تا ہے ۔ رحیم بھی ہے ، اپنے بے پناہ اقتدا کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہے ، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خرُدہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے ۔ وہاب بھی ہے ، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بے انتہا فیاضی کا برتاؤ کر رہا ہے ۔ اور حمید بھی ہے ، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں ۔

قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت (Sovereignty) کے مسئلے  پر فلسفہ سیاست اور فلسفہ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں ۔ حاکمیت نام ہی اس چیز کا ہے کہ صاحب حاکمیت غیر محدود اقتدار کا مالک ہو، کوئی داخلی و خارجی طاقت اس کے حکم اور فیصلے کو نفاذ سے روکنے ، یا اس کو بدلنے ، یا اس پر نظر ثانی کرنے والی نہ ہو، اور کسی کے لیے اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو۔ اس غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازماً یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہوا سے بے عیب اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان، جاہل، بے رحم، اور بد خو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر  ظلم و فساد ہو گی۔ اسی لیے جن فلسفیوں نے کسی انسان، یا انسانی ادارے ، یا انسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہو گا۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہو سکتی ہے ، اور نہ یہی ممکن ہے کہ کسی بادشاہ، یا پارلیمنٹ، یا قوم، یا پارٹی  کو ایک محدود دائرے میں جو حاکمیت حاصل ہو اسے وہ بے عیب اور بے خطا طریقے سے استعمال کر سکے ۔ اس لیے کہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو، سے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے کجا کہ وہ انسانوں میں سے کسی شخص یا ادارے یا قوم کو نصیب ہو جائے۔ اور اسی طرح انسان جب تک انسان ہے اس کا خود غرضی، نفسانیت، خوف، لالچ، خواہشات، تعصب، اور جذباتی رضا و غضب اور محبت و نفرت سے بالکل پاک اور بالاتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے ۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھ کر غور کرے تو اسے محسوس ہو گا کہ قرآن اپنے اس بیان میں در حقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح اور مکمل تصور پیش کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ’’عزیز‘‘ یعنی اقتدار مطلق کا حامل اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے ، اور اس غیر محدود اقتدار کے ساتھ وہی ایک ہستی ایسی ہے جو بے عیب ہے ، حکیم و علیم ہے ، رحیم و غفور ہے اور حمید و وہاب ہے ۔

۳۔ یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے تو وہ رہے گا۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے ، کیونکہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے ۔ اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے ، کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہ و حقیقت  کو نہیں پا سکتے ۔ اس کی بہترین تفسیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں جنہیں امام احمد، مسلم، ترمذی، اور بیہقی نے حضرت ابو ہریرہؓ سے اور حافظ ابو یعلیٰ موسلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے :

وانت الاول فلیس قبلک شیءٍ                      تو ہی پہلا ہے ، کوئی تجھ سے پہلے نہیں

وانت الاٰخر فلیس بعدک شیءٍ                        تو ہی آخر ہے ، کوئ تیرے بعد نہیں

و انت الظاھر فلیس فوقک شئٍ                      تو ہی ظاہر ہے کوئی تیرے تجھ سے اوپر نہیں

و انت الباطن فلیس دونک شئٍ                      تو ہی باطن ہے ، کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہبات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے ، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا؟ اس کا جواب خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا  وَجْھَہٗ (القصص۔۸۸)۔ یعنی ’’ ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے ۔ اگر کوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے ۔ اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے ، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلو د اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے ، بلکہ اس لیے ملے گا کہ الہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں ۔ جباللہ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے، اور جب تک وہ چاہے اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں ۔

۴۔ یعنی کائنات کا خالق بھی وہی ہے اور فرمانروا بھی وہی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی ۴۱۔ ۴۲ یونس، حاشیہ ۴۔ الرعد، حواشی ۲ تا ۵۔ جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی ۱۱ تا ۱۵)۔

۵۔ بالفاظ دیگر وہ محض کلیات ہی کا عالم نہیں ہے بلکہ جزئیات کا علم بھی رکھتا ہے ۔ ایک ایک دانہ جو زمین کی تہوں میں جاتا ہے ، ایک ایک پتی اور کونپل جو زمین سے پھوٹتی ہے ، بارش کا ایک ایک قطرہ جو آسمان سے گرتا ہے ، اور بخارات کی ہر مقدر جو سمندروں اور جھیلوں سے اٹھ کر آسمان کی طرف جاتی ہے ، اس کی نگاہ میں ہے اس کو معلوم ہے کہ کونسا دانہ زمین میں کس جگہ پڑا ہے ، تبھی تو وہ اسے پھاڑ کر اس میں سے کونپل نکالتا ہے اور اسے پرورش کر کے بڑھاتا ہے ۔ اس کو معلوم ہے کہ بخارات کی کتنی کتنی مقدار کہاں کہاں سے اٹھی ہے اور کہاں پہنچی ہے ، تبھی تو وہ ان س کو جمع کر کے بادل بناتا ہے اور زمین کے مختلف حصوں پر بانٹ کر ہر جگہ ایک حساب سے بارش برساتا ہے ۔اسی پر ان دوسری تمام چیزوں کی تفصیلات کو قیاس کیا جا سکتا ہے جو زمین میں جاتی اور اس سے نکلتی ہیں اور آسمان کی طرف چڑھتی اور اس سے نازل ہوتی ہیں ۔ ان سب پر اللہ کا علم حاوی نہ ہو تو ہر چیز کی علیٰحدہ علیٰحدہ تدبیر اور ہر ایک کا انتہائی حکیمانہ طریقہ سے انتظام کیسے ممکن ہے ۔

۶۔ یعنی کسی جگہ بھی تم اس کے علم، اس کی قدرت، اس کی فرمانروائی اور اس کی تدبیر و انتظام سے باہر نہیں ہو۔ زمین میں ، ہوا میں ، پانی میں ، یا کسی گوشہ تنہائی میں ، جہاں بھی تم ہو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم کہاں ہو۔ وہاں تمہاری ہونا بجائے خود اس کی علامت ہے کہ اللہ اسی جگہ تمہاری زندگی کا سامان کر رہا ہے ۔ تمہارا دل اگر دھڑک رہا ہے ۔ تمہارے پھیپھڑے اگر سانس لے رہے ہیں ، تمہاری سماعت اور بینائی اگر کام کر رہی ہے تو یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ کے انتظام سے تمہارے جسم کے سب کُل پرزے چل رہے ہیں ۔ اور اگر کسی جگہ بھی تمہیں موت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے بقا کا انتظام ختم کر کے تمہیں واپس بلا لینے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔

۷۔ یہ خطاب غیر مسلموں سے نہیں ہے ، بلکہ بعد کی پوری تقریر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مخاطب وہ مسلمان ہیں جو کلمہ اسلام کا اقرار کر کے ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو چکے تھے ، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے اور مومن کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے پہلو تہی کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے کے ساتھ ہی فوراً ان سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مصارف میں دل کھول کر اپنی حصہ ادا کرو، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم میں سے جو فتح سے پہلے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کرے گا اس کا درجہ ان لوگوں سے بلند تر ہو گا جو بعد میں یہ خدمات انجام دیں گے ۔ غیر مسلم کو دعوت ایمان دینے کی صورت میں تو پہلے اس کے سامنے ایمان کے ابتدائی تقاضے پیش کیے جاتے ہیں جہ کہ انتہائی۔ اس لیے فحوائے کلام کے لحاظ سے یہاں اٰمِنُوْ ابِا للہِ وِرَسْوْلِہٖ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہو، اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانو اور وہ طرز عمل اختیار کرو جو اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔

۸۔ اس مقام پر خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں ہے ، بلکہ آیت نمبر ۱۰ کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ یہاں اس سے مراد اس جدوجہد کے مصارف میں حصہ لینا ہے جو اس وقت کفر کے مقابلے میں اسلام کو ر بلند کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں برپا تھی۔ خاص طور پر دو ضرورتیں اس وقت ایسی تھیں جن کے لیے اسلامی حکومت کو مالی مدد کی سخت حاجت در پیش تھی ایک، جنگی ضروریات۔ دوسرے ، ان مظلوم مسلمانوں کو سہارا دینا جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عرب کے ہر حصے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور آ رہے تھے ۔ مخلص اہل ایمان ان مصارف کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذات پر اتنا بوجھ برداشت کر رہے تھے جو ان کی طاقت اور وسعت سے بہت زیادہ تھا، اور اسی چیز کی داد ان کو آگے آیات ۱۰۔۱۲۔۱۸۔اور ۱۸ میں دی گئی ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے گروہ میں بکثرت اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ایسے موجود تھے جو کفر و اسلام کی اس کشمکش کو محض تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اور اس بات کا انہیں کوئی احساس نہ تھا کہ جس چیز پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اس کے کچھ حقوق بھی ان کی جان و مال پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ سچے مومن بنو اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔

۹۔ اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے پاس ہے یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ الہ کا بخشا ہوا مال ہے ۔ تم بذاتِ خود اس کے مال نہیں ہو، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرف میں دیا ہے ۔ لہٰذا مال کے اصل مالک کی خدمت میں اسے صرف کرنے سے دریغ نہ کرو۔ نائب کا یہ کام نہیں ہے کہ مالک کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چرائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے ۔ کل یہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس تھا، پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے حوالہ کیا، پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا اور کچھ دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے ۔ اس عارضی جانشینی کی توڑی سی مدت میں ، جبکہ یہ تمہارے قبض و تصرف میں ہے ، اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو، تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حال ہو۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں بین فرمایا ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لائے تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مَابَقِیَ الّا کَتِفھُا ’’ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا’’ فرمایا بقی کلّھا غیر کتفھا ’’ ایک شانہ کے سوا ساری بکری بچ گئی‘‘ یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صَرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ  ہے ؟ فرمایا اَنْتَسَدَّ قَ وا نت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأ مَلُ الغِنیٰ، ولا تُمْھِل حتّیٰ اذا بلغت الحلقوم قلت لفالان کذا ولفالن کذا وقد کان لفالن۔’’ یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کیس کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ لفاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے ‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : یقول ابن اٰدم مالی مالی، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت، او لبست فابلیتَ، او تصدیقت فامضیت؟ وما سویٰ ذٰ لک فذا ھب و تارکہ للناس۔ ’’آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے ‘‘ (مسلم)۔

۱۰۔ یہاں پھر جہاد میں مال خرچ کرنے کو ایمان کا لازمی تقاضا اور اخلاص فی الایمان کی ضروری علامت قرار دیا گیا ہے ۔ بالفاظ دیگر، گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ حقیقی اور مخلص مومن وہی ہے جو ایسے موقع پر مال صرف کرنے سے جی نہ چرائے۔

۱۱۔ یعنی تم یہ غیر ایمانی روش اس حالت میں اختیار کر رہے ہو کہ اللہ کا رسولؐ خود تمہارے درمیان موجود ہے اور دعوت ایمانی تمہیں کسی دور دراز واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ کے رسول کی زبان سے پہنچ رہی ہے ۔

۱۲۔ بعض مفسرین نے اس عہد سے مراد اللہ کی بندگی کا وہ عہد لیا ہے جو ابتدائے آفرینش میں آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکال کر لیا گیا تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ عہد لیا ہے جو ہر انسان کی فطرت اور اس کی فطری عقل میں اللہ کی بندگی کے لیے موجود ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو وہ شعوری عہد ہے جو ہر مسلمان ایمان لا کر اپنے رب سے باندھتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس عہد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :۔

وَاذکُرُوْانِعْمَۃَاللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْوَا ثَقَکُمْ بِہٖاِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُواللہَ ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیْم؍ٌ بَذاتِ الصُّدُورِ o (المائدہ۔ ۷)

یاد رکھو اس نعمت کو جو اللہ نے تم کو عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو جو اللہ نے تم سے لیا ہے ، جبکہ تم نے کہا ’’ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ’’ اور اللہ سے ڈرو اللہ دلوں کا حال جانتا ہے ۔

حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ:

بَا یَعْنَا رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علی السمع و الطا عۃ فی النشاط  والکسل و علی النفقۃ فی العسر و الیسُر و علی الامر بالمعروف و النھی عن المنکر و علی ان نقول فی اللہ تعالیٰ و لا نخاف لَوْمَۃَ لَا ئمٍ (مسند احمد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم چستی اور سستی، ہر حال میں سمع و طاعت پر قائم رہیں گے ، خوشحالی اور تنگ حالی، دونوں حالتوں میں راہ خدا پر خرچ کریں گے ، نیکی کا حکم سین گے اور بدی سے منع کریں گے ، اللہ کی خاطر حق بات کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔

۱۳۔ اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مال تمہارے پاس ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے ۔ ایک دن تمہیں لازماً اسے چھوڑ کر ہی جانا ہے  اور اللہ ہی اس کا وارث ہونے والا ہے ، پھر کیوں نہ اپنی زندگی میں اسے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ اللہ کے ہاں اس کا اجر تمہارے لیے ثابت ہو جائے۔ نہ خرچ کرو گے تب بھی یہ اللہ ہی کے پاس واپس جا کر رہے گا، البتہ فرق یہ ہو گا کہ اس پر تم کسی اجر کے مستحق نہ ہو گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے تم کو کسی فقر اور تنگ دستی کا اندیشہ لاحق نہ ہونا چاہیے ، کیونکہ جس خدا کی خاطر تم اسے خرچ کرو گے وہ زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مال ہے ، اس کے پاس تمہیں دینے کو بس اتنا ہی کچھ نہ تھا جو اس نے آج تمہیں دے رکھا ہے ،بلکہ کل وہ تمہیں اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے یہی بات دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے :

قُلْاِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ، وَمَآ اَنْفَقُتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَھُوَ خَیْرُ الرَّا زِقِیْنَo (سبا۔ ۳۹)۔

اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزید رزق تمہیں دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے ۔

۱۴۔ یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں ، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے ۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہو جائے گی، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے ۔ مفسرین میں سے مجاہد، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ ’’ فتح‘‘ استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے ، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے ، مگر لو کان لا حد ھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احد کم ولا نصیفہ۔ ’’ ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا‘‘ (ان جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابو تعیم اصفہانی)۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمدؒ نے حضرت انسؓ سے نقل کی ہے ۔ وہ فرمانے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ دوسران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰنؓ سے کہا ’’ تم لوگ اپنی پچھلی خدامت کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو‘‘۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ’’ اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم لوگ احد کے برابر، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، کیونکہ حضرت خالدؓ اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھا اور فتح مکہ میں شریک تھے ۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ، بہر حال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہو گیا ہے ۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آ جائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں ، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش  کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہو جانے کے بعد قربانیاں دیں ۔

۱۵۔ یعنی اللہ جس کو جو اجر اور مرتبہ بھی دیتا ہے یہ دیکھ کر دیتا ہے کہ کس نے کن حالا ت میں کس جذبے کے ساتھ کیا عمل کیا ہے ۔ اس کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے ۔ وہ ہر ایک کا درجہ اور اس کے عمل کا اجر پوری باخبری کے ساتھ تعین کرتا ہے ۔

 

ترجمہ

 

کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گُنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے ۱۶ اُس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور اُن کے آگے آگے  اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا۔ ۱۷ (ان سے کہا جائے گا کہ ) ’’آج بشارت ہے تمہارے لیے‘‘۔ جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ  رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی۔ اُس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ مومنوں  سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نُور سے کچھ فائدہ اُٹھائیں، ۱۸ مگر ان سے کہا جائے گا  پیچھے ہٹ جاؤ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان  ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا۔ اُس دروازے کے اندر رحمت ہو گی اور باہر عذاب۔ ۱۹ وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ ۲۰ مومن جواب دیں گے ہاں، مگر تم نے اپنے  آپ کو خود فتنے میں ڈالا، ۲۱ موقع پرستی کی، ۲۲ شک میں پڑے رہے، ۲۳ اور جھُوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں، ۲۴ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ گیا، اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز ۲۵ تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا۔لہذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا  اور نہ اُن لوگو ں سے جنہوں نے کھُلا کھُلا کُفر کیا تھا۔ ۲۶ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے ۲۷ اور یہ بدترین انجام ہے۔

کیا ایما ن لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں ۲۸ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدّت اُن پر گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟ ۲۹ خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اُس  کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے، ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں، شاید کہ تم عقل سے کام لو۔ ۳۰

مَردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات ۳۱ دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حَسَن دیا ہے، اُن کو یقیناً کئی گُنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ اور جو لوگ اللہ اور اُس کے رسُولوں  پر ایمان لائے ہیں ۳۲ وہی اپنے رب کے نزدیک صِدّیق ۳۳ اور شہید ۳۴ ہیں،اُن کے لیے اُن کا اجر  اور اُن کا نُور ہے۔ ۳۵ اور جن لوگوں نے  کُفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھُٹلایا ہے وہ دوزخی ہیں۔ ؏۲

 

تفسیر

 

۱۶۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوئے مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ قرض حسن(اچھا قرض)ہو، یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جائے، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتا یا جائے، اس کا دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔ اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اس کو کئی بڑھا چڑھا کر واپس دے گا، دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا فرمائے گا۔

حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضورؐ کی زبان مبارک سے لگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابو الد حداح انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا، ہاں ، اے ابو الدحداح۔ انہوں نے کہا، ذرا اپنا ہاتھ مجھے  دکھایئے۔ اپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ’’ میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض میں دے دیا۔ حضرت عبداللہ  بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے ، اسی میں ان کا کھر تھا، وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات کر رکے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکارا کر کہا  ‘’دحداح کی  ماں ، نکل آؤ، میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے ‘‘ وہ بولیں ’’ تم نے نفع کا سودا کیا دحداح کے باپ’’، اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں (اب ابی حاتم)۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا، اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ۔

۱۷۔ اس آیت اور بعد والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں تور صرف مومنین صالحین کے لیے مخصوص ہو گا،رہے کفار و منافقین اور فساق و فجار، تو وہ وہاں بھی اسی طرح تاریکی میں بھٹک رہے ہوں گے جس طرح دنیا میں بھٹکتے رہے تھے ۔ وہاں روشنی جو کچھ بھی ہو گی، صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہو گی۔ ایمان کی صداقت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہو گا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہو گی اور جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اس کا نور اس کے آگے آگے  دوڑ رہا ہو گا۔ اس کی بہترین تشریح قتادہ کی وہ مرسل روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’کسی کا نور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تم پہنچ رہا ہو گا، اور کسی کو نور مدینہ سے صنعاء تک، اور کسی کا اس سے کم، یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہو گا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا’’(ابن جریر)۔ بالفاظ دیگر جو کی ذات سے دنیا میں جتنی بھلائی پھیلی ہو گی اس کا نور اتنا ہی تیز ہو گا، اور جہاں جہاں تک دنیا میں اس کی بھلائی پہنچی ہو گی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی۔

یہاں ایک سوال آدمی کے ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ آگے آ گے نور کا دوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر نور کا سرف دائیں جانب دوڑنا کیا معنی؟ کیا ان کے بائیں جانب تاریکی ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ پر روشنی لیے ہوئے چل رہا ہو تو اس سے روشن تو بائیں جانت بھی ہو گی مگر امر واقعہ یہی ہو گا کہ روشنی اس کے دائیں ہاتھ پر ہے ۔ اس بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوذر اور ابوالدرداء نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا اَعر فہم بنورھم الذی یسعیٰ بین ایدیھم و عب اَیمانہم و عن شمائلہم ’’ میں اپنی امت کے صالحین کو وہاں ان کے اس نور سے پہچانوں گا جو ان کے آگے اور ان کے دائیں اور بائیں دوڑ رہا ہو گا ‘‘ (حاکم،ابن ابی حاتم،ابن مردویہ)۔

۱۸۔ مطلب  یہ ہے کہ اہل ایمان جب جنت کی طرف جا رہے  ہوں گے تو روشنی ان کے آگے ہو گی اور پیچھے منافقین اندھیرے میں ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے ۔ اس وقت وہ ان اہل ایمان کو جو دنیا میں ان کے ساتھ ایک ہی مسلم معاشرے میں رہتے تھے ، پکار پکار کر کہیں گے کہ ذرا ہماری طرف پلٹ کر دیکھو تاکہ ہمیں بھی کچھ روشنی مل جائے۔

۱۹۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل جنت اس دروازے سے جنت میں داخل ہو جائیں گے اور دروازہ بند کر دیا جائیگا۔ دروازے کے ایک طرف جنت کی نعمتیں ہوں گی، اور دوسری طرف دوزخ کا عذاب۔ منافقین کے لیے اس حد فاصل کو پار کرنا ممکن نہ ہو گا جو ان کے اور جنت کے درمیان حائل ہو گی۔

۲۰۔ یعنی کیا ہم تمہارے ساتھ ایک ہی مسلم معاشرے میں شامل نہ تھے ؟ کیا ہم کلمہ گو نہ تھے ؟ کیا تمہاری طرح ہم بھی نمازیں نہ پڑھتے تھے ؟ روزے نہ رکھتے تھے ؟ حج اور زکوٰۃ ادا نہ کرتے تھے ؟ کیا تمہاری مجلسوں میں ہم شریک نہ ہوتے تھے ؟ تمہارے ساتھ ہمارے شادی بیاہ اور رشتہ داری کے تعلقات نہ تھے ؟ پھر آج ہمارے اور تمہارے درمیان یہ جدائی کیسی پڑ گئی؟

۲۱۔ یعنی مسلمان ہو کر بھی تم مخلص مسلمان نہ بنے ، ایمان اور کفر کے درمیان لٹکتے رہے ، کفر اور کفار سے تمہاری دلچسپیاں کبھی ختم نہ ہوئیں ، اور اسلام سے تم نے کبھی اپنے آپ کو پوری طرح وابستہ نہ کیا۔

۲۲۔ اصل الفاظ ہیں تَرَبَّصْتُمْ۔ تَرَبُّص عربی زبان میں انتظار کرنے اور موقع کی تلاش میں ٹھیرے رہنے کو کہتے ہیں ۔ جب کوئی شخص دو راستوں میں سے کسی ایک پر جانے کا قطعی فیصلہ نہ کرے ، بلکہ اس فکر میں کھڑا ہو کہ جدھر جانا مفید ہوتا نظر آئے اسی طرف چل پڑے ، تو کہا جائے گا کہ وہ تربص میں مبتلا ہے ۔ منافقین نے کفر و اسلام کی کشمکش کے اس نازک دور میں یہی رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ وہ نہ کھل کر کفر  کا ساتھ دے رہے تھے ، نہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی طاقت اسلام کی نصرت و حمایت میں صرف کر رہے تھے ۔ بس اپنی جگہ بیٹھے یہ دیکھ رہے تھے کہ اس قوت آزمائی میں آخر کار پلڑا کدھر جھکتا ہے ، تاکہ اسلام کامیاب ہوتا نظر آئے تو اس کی طرف جھک جائیں اور اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کلمہ گوئی کا تعلق ان کے کام آئے، اور کفر کو غلبہ حاصل ہو تو اس کے حامیوں سے جا ملیں اور اسلام کی طرف سے جنگ میں کسی قسم کا حصہ نہ لینا اس وقت ان کے حق میں مفید ثابت ہو۔

۲۳۔ اس سے مراد مختلف قسم کے شکوک میں جو ایک منافق کو لاحق ہوتے ہیں ، اور وہی اس کی منافقت کا اصل سبب ہوا کرتے ہیں ۔ اسے خدا کی ہستی میں شک ہوتا ہے ۔ قرآن کے کتاب اللہ ہونے میں شک ہوتا ہے ۔ آخرت اور وہاں کی باز پرس اور جزا و سزا میں شک ہوتا ہے اور اس امر میں شک ہوتا ہے کہ حق اور باطل کا یہ جھگڑا واقعی کوئی حقیقت بھی رکھتا ہے یا یہ سب محض ڈھکوسلے ہیں اور اصل چیز بس یہ ہے کہ خوش باش دمے کہ زندگانی این است۔ کوئی شخص جب ایک ان شکوک میں مبتلا نہ ہو وہ کبھی منافق نہیں ہو سکتا۔

۲۴۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک کہ تم کو موت آ گئی اور مرتے دم تک تم اس فریب سے نہ نکلے ۔ دوسرے یہ کہ اسلام کو غلبہ نصیب ہو گیا اور تم تماشا دیکھتے رہ گئے ۔

۲۵۔ مراد ہے شیطان۔

۲۶۔ یہاں اس امر کی تصریح ہے کہ آخرت میں منافق کا انجام وہی ہو گا جو کافر کا ہو گا۔

۲۷۔ اصل الفاظ میں ھِیَ مَوْلَا کُمْ، ’’ دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے ‘‘ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہی تمہارے لیے موزوں جگہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ اللہ کو تو تم نے اپنا مولیٰ بنایا نہیں کہ وہ تمہاری خبر گیری کرے ، اب تو دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے ، وہی تمہاری خوب خبر گیری کرے گی۔

۲۸۔ یہاں پھر ’’ ایمان لانے والوں ‘‘ کے الفاظ تو عام ہیں مگر ان سے مراد تمام مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ خاص گروہ ہے جو ایمان کا اقرار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے باوجود اسلام کے درد سے اس کا دل خالی تھا۔ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کفر کی تمام طاقتیں اسلام کو مٹا دینے پر تُلی ہوئی ہیں ، چاروں طرف سے انہوں نے اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پر نرغہ کر رکھا ہے ، عرب کی سر زمین میں جگہ جگہ مسلمان تختہ مشق ستم بنائے جا رہے ہیں ، ملک کے گوشے گوشے سے مظلوم مسلمان سخت بے سر و سامانی کی حالت میں پناہ لینے کے لیے مدینے کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں ، مخلص مسلمانوں کی کمر ان مظلوموں کو سہارا دیتے دیتے ٹوٹی جا رہی ہے ، اور دشمنوں کے مقابلے میں بھی یہی مخلص مومن سر بکف ہیں ، مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایمان کا دعویٰ کرنے والا یہ گروہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ اس پر ان لوگوں کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم کیسے ایمان لانے والے ہو؟ اسلام کے لیے حالات نزاکت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کا ذکر سن کر تمہارے دل پگھلیں اور اس کے دین کے لیے تمہارے دلوں میں ایثار و قربانی اور سر فروشی کا جذبہ پیدا ہو؟ کیا ایمان لانے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کے دین پر برا وقت آئے اور وہ اس کی ذرا سی ٹیس بھی اپنے دل میں محسوس نہ کریں ؟ اللہ کے نام پر انہیں پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں ؟ اللہ اپنی نازل کردہ کتاب میں کود چندے کی اپیل کرے ، اور اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے ، اور صاف صاف یہ بھی سنا دے کہ ان حالات میں جو اپنے مال کو میرے دین سے عزیز تر رکھے گا وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہو گا، اس پر بھی ان کے دل نہ خدا کے خوف سے کانپیں ، نہ اس کے حکم کے آگے جھکیں ؟

۲۹۔ یعنی یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آ رہے ہیں ۔ کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ ابھی رسول تمہارے سامنے موجود ہے ، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے ، تمہیں ایمان لائے کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے ، اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیات سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے ؟

۳۰۔ یہاں جس مناسبت سے یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبوت اور کتاب کے نزول کو بارش کی برکات سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ انسانیت پر اس کے وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو زین پر بارش کے ہوا کرتے ہیں ۔ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین بار ان رحمت کا ایک چھینٹا پڑتے ہی لہلہا اٹھتی ہے ، اسی طرح جس ملک میں اللہ کی رحمت سے ایک نبی مبعوث ہوتا ہے اور وحی و کتا ب کا نزول شروع ہوتا ہے وہاں مری ہوئی انسانیت یکایک جی اٹھتی ہے ۔ اس کے وہ جوہر کھلنے لگتے ہیں جنہیں زمانہ پائے دراز سے جاہلیت نے پیوند خاک کر رکھا تھا۔ اس کے اندر سے اخلاق فاضلہ کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور خیرات و حسنات کے گلزار لہلہانے لگتے ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف جس کی طرف جس غرض کے لیے یہاں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہ کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ اپنی حالت پر غور کریں ۔ نبوت اور وحی کے بارانِ رحمت سے انسانیت جس شان سے از سر نو زندہ ہو رہی تھی اور جس طرح اس کا دامن برکات سے مالا مال ہو رہا تھا وہ ان کے لیے کوئی دور کی داستان نہ تھی۔ وہ خود اپنی آنکھوں سے صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ معاشرے میں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔ رات دن اس کا تجربہ ان کو ہو رہا تھا۔ جاہلیت بھی اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ان کے سامنے موجود تھی، اور اسلام سے پیدا ہونے والے محاسن بھی ان کے مقابلے میں اپنی پوری بہار دکھا رہے تھے ۔ اس لیے ان کو تفصیل کے ساتھ یہ باتیں بتانے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ بس یہ اشارہ کر دینا کافی تھا کہ مردہ زمین کو اللہ اپنے باران رحمت سے کس طرح زندگی بخشتا ہے ، اس کی نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی گئی ہیں ، اب تم خود عقل سے کام لے کر اپنی حالت پر غور کر لو کہ اس نعمت سے تم کیا فائدہ اٹھا رہے ہو۔

۳۱۔ صَدَقَہ اردو زبان میں تو بہت ہی بڑے معنوں میں بولا جاتا ہے ، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطئے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جائے، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے  لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ صِدق سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت  عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی طرف مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو۔

۳۲۔ یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ صادق الامان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے مدعیان ایمان اور ضعف الایمان لوگوں سے بالکل مختلف تھا۔ جو اس وقت ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دے رہے تھے اور اللہ کے دین کی خاطر جانیں لڑا رہے تھے ۔

۳۳۔ یہ صدق کا مبالغہ ہے ۔ صادق سچا، اور صدیق نہایت سچا۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابق حقیقت قول کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجائے خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل ہی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ بات بجائے خود عین حقیقت کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جائے گا جبکہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے بغیر کے ساتھ بھی۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راستبازی بھی شامل ہے ۔ صادق الوعد (وعدے کا سچا) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ صدیق (سچا دوست) اسی کو کہا جائے گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی تجربہ نہ ہوا ہو۔ جنگ میں صادق فی القتال (سچا سپاہی) صرف وہی شخص کہلائے گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کر دی ہو۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغہ کے صیغہ میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہو گا۔ اس کے معنی لازماً ایسے راستباز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا۔ جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہو کہ وہ فی لواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ ۹۹)۔

۳۴۔ اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اب عباسؓ، مسروق، ضحاک مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ اُلیٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّ یْقُوْنَ پر ایک جملہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وَ الشُّہَدَآءُ عِنْدِرَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرھُُمْ وَنُوْدھُُمْ ایک الگ مستقل جملہ ہے ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں ۔ اور شہداء کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے ‘‘ بخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہو گا جو اوپر ہم نے متن میں کیا ہے ۔ دونوں تفسیروں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے ،اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا انہوں نے وَالشّھَُدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ کو ایک الگ جملہ قرار دے دیا ہے ۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیتا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :

وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنٰکُمْاُ مَّۃً وَّ سَطاً  لِّتَکُوْ نُوْا شھَُدَ آءَ عَلَیالنَّا سِ وَیَکُوْ نَ الرَّسُوْ لُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدا۔ (البقرہ۔۱۴۳)

اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُشَھِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شَھَدَآءَ عَلَ النَّاسِ (لحج۔۸۷)

اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی (تمہارا یہی نام ہے ) تاکہ رسول تم گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔

حدیث میں حضرت بَراء بن عازِب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے یہ فرماتے سنا مؤمنوا امَّتی شھدآء، ’’ میری امت کے مومن شہید ہیں ،‘‘ پھر حضورؐ نے سورہ حدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر )۔ ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابوالدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من فریدینہ من ارضٍ مخافۃ الفتنۃ علیٰ نفسہٖ و دینہٖ کتب عنداللہ صدیقا فاذامات قبضہ اللہ شھیداً ثم تلا ھٰذاہ الایٰۃ۔ ’’ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے بچانے کے لیے کسی سرزمین سے نکل جائے وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ،’’ پر یہ بات ارشاد فرمانے کے بعد حضورؐ نے یہی آیت پڑھی (شہادت کے اس مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ النساء حاشیہ ۹۹۔ جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ ۸۲)۔

۳۵۔ یعنی ان میں سے ہر ایک جس مرتبے کے اجر اور جس درجے کے نور کا مستحق ہو گا وہ اس کو ملے گا۔ وہ اپنا اپنا اجر اور اپنا اپنا نور پائیں گے ۔ ان کے لیے ان کا حصہ آج ہی سے محفوظ ہے ۔

 

ترجمہ

 

خُوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر  جتانا اور مال و اولاد میں ایک دُوسرے سے بڑھ  جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ  وہ زرد ہو گئی ۔ پھر وہ بھُس بن کر رہ جاتی ہے ۔ اِس  کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے ۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹّی کے سوا کچھ نہیں۔ ۳۶ دَوڑو اور ایک دُوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۳۷ اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنّت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، ۳۸ جو مہیّا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اوراُس کے رسُولوں پر ایمان لائے ہوں۔یہ اللہ کا فضل ہے، جسےچاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

کوئی مصیبت  ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو  پیدا کرنے سے پہلے ۳۹ ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ۴۰ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔ ۴۱ ( یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ ۴۲۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر  جتاتے ہیں، جو خود بُخل  کرتے ہیں اور دوسروں  کو بُخل کرنے پر اُکساتے ہیں۔ ۴۳ اب اگر کوئی رُوگردانی کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔ ۴۴

ہم نے اپنے رسُولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، ۴۵ اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ ۴۶ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اُس کی اور اُس کے رسُولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بڑی قوّت والا اور زبردست ہے۔ ۴۷ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۳۶۔ اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ سورہ آل عمران، آیات ۱۴۔۱۵۔ یونس، ۲۴۔۲۵۔ ابراہیم، ۱۸۔ الکہف، ۴۵۔۴۶۔ النور، ۳۹۔ اِن سب مقامات پر جو بات انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے ۔ یہاں کی بہار بھی عارضی ہے اور خزاں بھی عارضی۔ دل بہلانے کا سامان یہاں بہت کچھ ہے ، مگر در حقیقت وہ نہایت حقیر اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنہیں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے آدمی بڑی چیز سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ انہی کو پا لینا گویا کامیابی کے منتہیٰ تک پہنچ جانا ہے ۔ حالانکہ جو بڑے سے بڑے فائدے اور لطف و لذت کے سامان بھی یہاں حاصل ہونے ممکن ہیں وہ بہت حقیر اور صرف چند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں ، اور ان کا حال بھی یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اسی دنیا میں ان سب پر جھاڑو پھیر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بر عکس آخرت کی زندگی ایک عظیم اور ابدی زندگی ہے ۔ وہاں کے فائدے بھی عظیم اور مستقل ہیں اور نقصان بھی عظیم اور مستقل۔ کسی نے اگر وہاں اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی پالی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ نعمت نصیب ہو گئی جس کے سامنے دنیا بھر کی دولت و حکومت بھی ہیچ ہے ۔ اور جو وہاں خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گیا اس نے اگر دنیا میں وہ سب کچھ بھی پا لیا ہو جسے وہ اپنے نزدیک بڑی چیز سمجھتا تھا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بڑے خسارے کا سودا کر کے آیا ہے ۔

۳۷۔ اصل میں لفظ سَا بِقُوْا  استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم محض ’’دوڑو‘‘ کے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ مسابقت کے معنی مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دنیاکی دولت اور لذتیں اور فائدے سمیٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جو کوشش کر رہے ہو اسے چھوڑ کر اس چیز کو ہدف مقصود بناؤ اور اس کی طرف دوڑنے میں بازی جیت لے جانے کی کوشش کرو۔

۳۸۔ اصل الفاظ ہیں عَرْ ضھَُا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ۔ بعض مفسرین نے عرض کو چوڑائی کے معنی میں لیا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں یہ لفظ وسعت و پہنائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی زبان میں لفظ عرض صرف چوڑائی ہی کے لیے نہیں بولا جاتا جو طول کا مد مقابل ہے ، بلکہ اسے مجرد وسعت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے فَذُوْ دُعَآ ءٍ عَرِیْضٍ، ’’ انسان پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ‘‘ (حٰم السجدہ۔۵۱)۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس ارشاد سے مقصود جنت کا رقبہ بتانا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کا تصور دلانا ہے ۔ یہاں اس کی وسعت آسمان و زمین جیسی بتائی گئی ہے ، اور سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے سَرِعُوْآ اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضھَُا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقَیْنَ (آیت۔ ۱۳۳)۔’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے ، جو مہیا کی گئی ہے متقی لوگوں کے لیے ‘‘۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے کچھ ایسا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جنت میں ایک انسان کو جو باغ اور محلات ملیں گے وہ تو صرف اس کے قیام کے لیے ہوں گے ، مگر در حقیقت پوری کائنات اس کی سیر گاہ ہو گی۔ کہیں وہ بند نہ ہو گا۔ وہاں اس کا حال اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ چاند جیسے قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لیے بھی وہ برسوں پاپڑ بیلتا رہا اور اس ذرا سے سفر کی مشکلات کو رفع کرنے میں اسے بے تحاشا وسائل صرف کرنے پڑے ۔ وہاں ساری کائنات اس کے لیے کھلی ہو گی، جو کچھ چاہے گا پنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور جہاں چاہے گا بے تکلف جا سکے گا۔

۳۹۔ ’’اس کو‘‘ کا شارہ مصیبت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ، زمین کی طرف بھی، نفس کی طرف بھی، اور فحوائے کلام کے لحاظ سے مخلوقات کی طرف بھی۔

۴۰۔ کتاب سے مراد ہے نوشتہ تقدیر۔

۴۱۔ یعنی اپنی مخلوقات میں سے ایک ایک کی تقدیر پہلے سے لکھ دینا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

۴۲ ۔ اس سلسلہ بیان میں یہ بات جس غرض کے لیے فرمائی گئی ہے اسے سمجھنے کے لیے ان حالات کو نگاہ میں لکھنا  چاہیے جو اس سورت کے نزول کے وقت اہل ایمان کو پیش آ رہے تھے ۔ ہر وقت دشمنوں کے حملے کا خطرہ، پے در پے لڑائیاں دائماً  محاصرہ کی سی کیفیت، کفار کے معاشی مقاطعہ کی وجہ سے سخت بد حالی، عرب کے گوشے گوشے میں ایمان لانے والوں پر کفار کا ظلم و ستم، یہ کیفیات تھیں جن سے مسلمان اس وقت گزر رہے تھے ۔ کفار ان کو مسلمانوں کے مخذول اور راندۂ درگاہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے ۔ منافقین انہیں اپنے شکوک و شبہات کی تائید میں استعمال کرتے تھے ۔ اور مخلص اہل ایمان اگر چہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے ، مگر بعض اوقات مصائب کا ہجوم ان کے لیے بھی انتہائی صبر آزما ہو جاتا تھا۔ اس پر مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت بھی معاذاللہ تمہارے رب کی بے خبری میں نازل نہیں ہو گئی ہے ۔ جو کچھ پیش آ رہا ہے ، یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے ۔ اور ان حالات سے تمہیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمہاری تربیت پیش نظر ہے ۔ جو کار عظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت  ضروری ہے ۔ اس سے گزارے بغیر تمہیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمہاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمتو اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کر سکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے ۔

۴۳۔ یہ اشارہ ہے اس سیرت کی طرف جو خود مسلم معاشرے کے منافقین میں اس وقت سب کو نظر آ رہی تھی۔ ظاہری اقرار ایمان کے لحاظ سے ان میں اور مخلص مسلمانوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ لیکن اخلاص کے فقدان کی وجہ سے وہ اس تربیت میں شامل نہ ہوئے تھے جو مخلصین کو دی جا رہی تھی، اس لیے ان کا حال یہ تھا کہ جو ذرا سی خوشحالی اور مشیخت ان کو عرب کے ایک معمولی قصبے میں میسر آئی ہوئی تھی وہی ان کے چھوٹے سے ظرف کو پھلائے دے رہی تھی، اسی پر وہ پھٹے پڑتے تھے ، اور دل کی تنگی اس درجے کی تھی کہ جس خدا پر ایمان لانے اور جس رسول کے پیرو ہونے اور جس دین کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے اس کے لیے خود ایک پیشہ تو کیا دیتے ، دوسرے دینے والوں کو بھی یہ کہہ کہہ کر روکتے تھے کہ کیوں اپنا پیسہ اس بھاڑ میں جھونک رہے ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اگر مصائب کی بھٹی گرم نہ کی جاتی تو اس کھوٹے مال کو، جو اللہ کے کسی کام کا نہ تھا، زر خالص سے الگ نہ کیا جا سکتا تھا، اور اس کو الگ کیے بغیر کچے پکے مسلمانوں کی ایک مخلوط بھیڑ کو دنیا کی امامت کا وہ منصب عظیم نہ سونپا جا سکتا تھا جس کی عظیم الشان برکات کا مشاہدہ آ کر کار دنیا نے خلافت راشدہ میں کیا۔

۴۴۔ یعنی یہ کلمات نصیحت سننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے دین کے لیے خلوص، فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا طریقہ اختیار نہیں کرتا اور اپنی اسی کج رہی پر اڑا رہنا چاہتا ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے ، تو اللہ کو اس کی کچھ پروا نہیں ۔ وہ غنی ہے ، اس کی کوئی حاجت ان لوگوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے ۔ اور وہ ستو وہ صفات ہے ، اس کے ہاں اچھی صفات رکھنے والے لوگ ہی مقبول ہو سکتے ہیں ، بد کردار لوگ اس کی نگاہ التفات کے مستحق نہیں ہو سکتے ۔

۴۵۔ اس مختصر سے فقرے میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا پورا لب لباب بیان کر دیا گیا ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خدا کے جتنے رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے وہ سب تین چیزیں لے کر آئے تھے :

(۱) بینات، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کر رہی تھیں کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، بنے ہوئے لوگ نہیں ہیں ۔ روشن دلائل جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھے کہ جس چیز کو وہ حق کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے ۔ واضح ہدایات جن میں کسی اشتباہ کے بغیر صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ عقائد، اخلاق، عبادات اور معاملات میں لوگوں کے لیے راہ راست کیا ہے جسے وہ اختیار کریں اور غلط راستے کون سے ہیں جن سے وہ اجتناب کریں ۔

(۲) کتاب، جس میں وہ ساری تعلیمات لکھ دی گئی تھیں جو انسان کی ہدایت کے لیے درکار تھیں تاکہ لوگ رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کر سکیں ۔

(۳) میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے ۔

ان تین چیزوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام، فرداً  فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے ، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے ۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے ، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو، حیات اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو، اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور  اپنے فرائض ادا کریں ۔ بالفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذہن، اس کی سیرت، اس کے دردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو۔ اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجائے معاون و مدد گار ہوں ۔

۴۶۔ لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا سَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَالْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَاَزْوَاجٍ (الزمر، ۶)۔ ’’ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر و مادہ اتارے ۔ ‘‘چونکہ زمیں میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں آیا ہے ، خود بخود نہیں بن گیا ہے ، اس لیے ان کے پیدا کیے جانے کو قرآن مجید میں نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ’’ ہم نے ہوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ‘‘، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی  کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے ۔

۴۷۔ یعنی اللہ کو اس مدد کی ضرورت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کمزور ہے ، اپنی طاقت سے یہ کام نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ طریق کار اس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اسی آزمائش سے گزر کر انسان اپنی ترقی اور فلاح کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ اللہ تو ہر وقت یہ قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے اپنے ایک اشارے سے تمام کافروں کو مغلوب کر دے اور اپنے رسولوں کو ان پر غلبہ و تسلط عطا فرما دے ۔ مگر  اس میں پھر رسولوں پر ایمان لانے والوں کا کیا کمال ہو گا جس کی بنا پروہ کسی انعام کے مستحق ہوں ؟ اسی لیے اللہ نے اس کام کو اپنی غالب قدرت سے انجام دینے کے بجائے طریق کار یہ اختیار  فرمایا کہ اپنے رسولوں کو بینات اور کتاب اور میزان دے کر انسانوں کے درمیان مبعوث کر دیا۔ ان کو اس بات پر مامور فرمایا کہ لوگوں کے سامنے عدل کا راستہ پیش کریں اور ظلم و جور اور بے انصافی سے باز آ جانے کیا ان کو دعوت دیں ۔ انسانوں  کو اس امر کا پورا اختیار دے دیا کہ ان میں سے جو چاہے رسولوں کی دعوت قبول کرے اور جو چاہے اسے رد کر دے ۔ قبول کرنے والوں کو پکارا کہ آؤ، اس عدل کے نظام کو قائم کرنے میں میرا اور میرے رسولوں کا ساتھ دو اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جان توڑ جدو جہد کرو جو ظلم و جور کے نظام کو باقی رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہیں جو انصاف کی بات کو رد کرتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کے مقابلے میں بے انصافی قائم رکھنے کے لیے اپنی جان لڑاتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کی بات قبول کر لینے کے بعد اس کی حمایت اور اس کی خاطر جد و جہد کرنے سے جی چراتے ہیں ، اور کون ہیں جو ان دیکھے خدا کی خاطر دنیا میں اس حق کو غالب کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس امتحان سے جو لوگ کامیاب ہو کر نکلیں گے انہی کے لیے آئندہ ترقیوں کے دروازے کھلیں گے ۔

 

ترجمہ

 

۴۸ ہم نے نوحؑ  اور ابراہیمؑ  کو بھیجا اور اُن دونوں کی نسل میں نبوّت اور کتاب رکھ دی۔ ۴۹ پھر ان کی اولاد میں سے کسی نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے۔ ۵۰ اُن کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسُول  بھیجے، اور ان سب کے بعد عیسٰیؑ  ابن مریم کو مبعوث کیا اور اُس کو انجیل عطا کی، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی اُن کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا۔ ۵۱ اور رہبانیت ۵۲ انہوں نے خود ایجاد کر لی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی ۵۳ اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ ۵۴ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے عطا کیا، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسُول (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایمان لاؤ، ۵۵ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصّہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، ۵۶ اور تمہارے قصُور معاف  کر دے  گا، ۵۷ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ (تم کو یہ روش اختیار کرنی چاہیے) تاکہ اہلِ کتاب کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کے فضل پر اُن کا کوئی اجارہ نہیں ہے، اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور وہ بڑے فضل والا ہے۔ ؏۴

 

تفسیر

 

۴۸۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جو رسول بینات اور کتاب اور میزان لے کر آئے تھے ان کے ماننے والوں میں کیا بگاڑ پیدا ہوا۔

۴۹۔ یعنی جو رسول بھی اللہ کی کتاب لے کر آئے وہ حضرت نوحؑ کی، اور ان کے بعد حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے تھے ۔

۵۰۔ یعنی نافرمان ہو گئے، اللہ کی اطاعت کے دائرے سے نکل گئے۔

۵۱۔  اصل الفاظ ہیں رافت اور رحمت۔ یہ دونوں لفظ قریب قریب ہم معنی ہیں مگر جب یہ ایک ساتھ بولے جاتے ہیں تو رافت سے مراد وہ رقیق القلبی ہوتی ہے جو کسی کو تکلیف و مصیبت میں دیکھ کر ایک شخص کے دل میں پیدا ہو۔ اور زحمت سے مراد وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اس کی مدد کی کوشش کرے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ نہایت رقیق القلب اور خلق خدا کے لیے رحیم و شفیق تھے ۔ اس لیے ان کی سیرت کا یہ اثر ان کے پیروؤں میں سرایت کر گیا کہ وہ اللہ کے بندوں پر ترس کھاتے تھے اور ہمدردی کے ساتھ ان کی خدمت کرتے تھے ۔

۵۲۔ اس کا تلفظ رَہْبانیت بھی کیا جاتا ہے اور رہبانیت بھی۔ اس کا مادہ رَہب ہے جس کے معنی خوف کے ہیں ۔ رَہبانیت کا مطلب ہے مسلک خوف زدگی، اور رہبانیت کے معنی ہیں مسلک خوف زدگان۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہے کسی شخص کا خوف کی بنا پر (قطع نظر اس سے کہ وہ کسی کے ظلم کا خوف، یا اپنے نفس کی کمزوریوں کا خوف) تارک الدنیا بن جانا اور دنیوی زندگی سے بھاگ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینا یا گوشہ ہائے  عزلت میں جا بیٹھنا۔

۵۳۔ اصل الفاظ ہیں اِلَّا ابْتِغَآ ءَ رِضْوَانِ اللہ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے ان پر اس رہبانیت کو فرض نہیں کیا تھا بلکہ جو چیز ان پر فرض کی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ یہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی بلکہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے اسے خود اپنے اوپر فرض کر لیا تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور یہ کبھی دین حق میں شامل نہیں رہی ہے ۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمائی ہے کہ : لَا رَھبَا نیّۃ۔ فی الاسْلام، ’’ اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ‘‘ (مسند احمد )۔ ایک اور حدیث میں حضورؐ نے فرمایا  رھبانیۃ ھٰذہالامّۃ الجھاد فی سبیل اللہ، ’’ اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے ‘‘ مسند احمد۔ مسند ابی یَعلیٰ)۔ یعنی اس امت کے لیے روحانی ترقی کا راستہ ترک دنیا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے ، اور یہ امت فتنوں سے ڈر کر جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نہیں بھاگتی بلکہ راہ خدا میں جہاد کر کے ان کا مقابلہ کرتی ہے ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا، تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہ کروں گا اور عورت سے کوئی واسطہ نہ  رکھوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا اماد اللہ انی الأ خشا کم للہ واتقا کم لَہٗ لکنی اصوم اُ فطر واُصلی و ارقد و اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘ خدا کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا اور اس سے تقویٰ کرتا ہوں ۔ مگر میرا طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ۔ جس کو میرا طریقہ پسند نہ ہو اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ‘‘ حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے لا تشدد و اعلیٰ انفسکم فیشدد  اللہ علیہکم فان قوما شدد و افشدد اللہ علیہ فتلک بقا یا ھم فی الصوامع والد یار۔ ’’ اپنے اوپر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے ۔ ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تو اللہ نے بھی پھر اسے سخت پکڑا۔ دیکھ لو، وہ ان کے بقایا راہب خانوں اور کنیسوں میں موجود ہیں ۔‘‘(ابوداؤد)۔

۵۴۔ یعنی وہ دہری غلطی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک غلطی یہ کہ اپنے اوپر وہ پابندیاں عائد کیں جن کا اللہ نے کوئی حکم نہ دیا تھا۔ اور دوسری غلطی یہ کہ جن پابندیوں کو اپنے نزدیک اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھ کر خود اپنے اوپر عائد کر بیٹھے تھے ان کا حق ادا نہ کیا اور وہ حرکتیں کیں جن سے اللہ کی خوشنودی کے بجائے الٹا اس کا غضب مول لے بیٹھے۔

اس مقام کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ایک نظر مسیحی رہبانیت کی تاریخ پر ڈال لینی چاہیے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے نا آشنا تھا۔ مگر ابتدا ہی سے مسیحیت میں اس کے جراثیم پائے جاتے تھے اور وہ تخیلات اس کے اندر موجود تھے جو اس چیز کو جنم دیتے ہیں ۔ ترک و تجرید کو اخلاقی آئیڈیل قرار دینا اور درویشانہ کو شادی بیاہ اور دنیوی کاروبار کی زندگی کے مقابلے میں اعلیٰ و افضل سمجھنا ہی رہبانیت کی بنیاد ہے ، اور یہ دونوں چیزیں مسیحیت میں ابتدا سے موجود تھیں ۔ خصوصیت کے ساتھ تجرد کو تقدس کا ہم معنی سمجھنے کی وجہ سے کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے لیے یہ بات نا پسند دیدہ خیال کی جاتی تھی کہ وہ شادی کریں ، بال بچوں والے ہوں اور خانہ داری کے بکھیڑوں میں پڑیں ۔ اسی چیز نے تیسری صدی تک پہنچتے پہنچتے ایک فتنے کی شکل اختیار کر لی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحیت میں پھیلنی شروع ہوئی۔ تاریخی طور پر اس کے تین بڑے اسباب تھے :

ایک یہ کہ قدیم مشرک سوسائٹی میں شہوانیت، بد کرداری اور دنیا پرستی جس شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی اس کا توڑ کرنے کے لیے عیسائی علماء نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے بجائے انتہا پسندی کی راہ اختیار کی۔ انہوں نے عفت پر اتنا زور دیا کہ عورت اور مرد کا تعلق بجائے خود نجس قرار پا گیا، خواہ وہ نکاح ہی کی صورت میں ہو۔ انہوں نے دنیا پرستی کے خلاف اتنی شدت برتی کہ آخر کار ایک دین دار آدمی کے لیے سرے سے کسی قسم کی املاک رکھنا ہی گناہ بن گیا اور اخلاق کا معیار یہ ہو گیا کہ آدمی بالکل مفلس اور ہر لحاظ سے تارک الدنیا ہو۔ اسی طرح مشرک سوسائٹی کی لذت پرستی کے جواب میں وہ اس انتہا پر جا پہنچے کہ ترک الذات، نفس کو مارنا اور خواہشات کا قلع قمع کر دینا اخلاق کا مقصود بن گیا، اور طرح طرح کی ریاضتوں سے جسم کو اذیتیں دینا آدمی کی روحانیت کا کمال اور اس کا ثبوت سمجھا جانے لگا۔

دوسرے یہ کہ مسیحیت جب کامیابی کے دور میں داخلہ و کر عوام میں پھیلنی شروع ہوئی تو اپنے مذہب کی توسیع و اشاعت کے شوق میں کلیسا ہر اس برائی کو اپنے دائرے میں داخل کرتا چلا گیا جو عام لوگوں میں مقبول تھی۔ اولیاء پرستی نے قدیم معبودوں کی جگہ لے لی۔ ہورس (Horus) اور آئسس (Isis) کے مجسموں کی جگہ مسیح اور مریم کے بت پوجے جانے لگے ۔ سیٹرنیلیار (Saturnalia) کی جگہ کرسمس کا تہوار منایا جانے لگا۔ قدیم زمانے کے تعویذ گنڈے ، عملیات، فال گیری و غیب گوئی جن بھوت بھگانے کے عمل، سب عیسائی درویشوں نے شروع کر دیے ۔ اسی طرح چونکہ عوام اس شخص کو خدا رسیدہ سمجھتے تھے جو گندا اور ننگا ہو اور کسی بھٹ یا کھوہ میں رہے ، اس لیے عیسائی کلیسا میں ولایت کا یہی تصور مقبول ہو گیا اور ایسے ہی لوگوں کی کرامتوں کے قصوں سے عیسائیوں کے ہاں تذکرۃ الاولیاء قسم کی کتابیں لبریز ہو گئیں ۔

تیسرے یہ کہ عیسائیوں کے پاس دین کی سرحدیں متعین کرنے کے لیے کوئی مفصل شریعت اور کوئی واضح سنت موجود نہ تھی۔ شریعت موسوی کو وہ چھوڑ چکے تھے ، اور تنہا انجیل کے اندر کوئی مکمل ہدایت نامہ نہ پایا جاتا تھا۔ اس لیے مسیحی علماء کچھ باہر  کے فلسفوں اور طور طریقوں سے متاثر ہو کر اور کچھ خود اپنے رجحانات کی بنا پر طرح طرح کی بدعتیں دین میں داخل کرتے چلے گئے۔ رہبانیت بھی انہی بدعتوں میں سے ایک تھی۔ مسیحی مذہب کے علماء اور ائمہ نے اس کا فلسفہ اور اس کا طریق کا ر بدھ مذہب کے بھکشوؤں سے ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں سے ، قدیم مصری فقراء (Anchorites) سے ، ایران کے مانویّوں سے ، اور افلا طینوس کے پیرو اشراقیوں سے اخذ کیا اور اسی کو تزکیہ نفس کا طریقہ، روحانی ترقی کا ذریعہ، اور تقرب الی اللہ کا وسیلہ قرار دے لیا۔ اس غلطی کے مرتکب کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے ۔ تیسری صدی سے ساتویں صدی عیسوی(یعنی نزول قرآن کے زمانے ) تک جو لوگ مشرق اور مغرب میں مسیحیت کے اکابر علماء، بزرگ ترین پیشوا اور امام مانے جاتے ہیں ، سینٹ اَتھانا سیوس، سینٹ باسل، سینٹ گریگوری نازیا نزین، سینٹ کرائی سُوسٹم، سینٹ اَیمبروز، سینٹ جیروم، سینٹ آگسٹائن، سینٹ بینیڈکٹ، گریگوری اعظم، سب کے سب خود راہب اور رہبانیت کے زبردست علمبردار تھے ۔ انہی کی کوششوں سے کلیسا میں رہبانیت نے رواج پایا۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کا آغاز مصر سے ہوا۔ اس کا بانی سینٹ اینتھُنی (St. Anthony) تھا جو ۲۵۰ ء میں پیدا ہوا اور ۳۵۰ ء میں دنیا سے رخصت ہوا۔ اسے پہلا مسیحی راہب قرار دیا جاتا ہے ۔ اس نے فَیُّوم کے علاقے میں پَسپیر کے مقام پر (جواب دیرالیمون کے نام سے معروف ہے ، پہلی خانقاہ قائم کی۔ اس کے بعد دوسری خانقاہ اس نے بحر احمر کے ساحل پر قائم کی جسے اب دیر مارُانْطُونیوس کہا جاتا ہے ۔ عیسائیوں میں رہبانیت کے بنیادی قواعد اس کی تحریروں اور ہدایات سے ماخوذ ہیں ۔ اس آغاز کے بعد یہ سلسلہ مصر میں سیلاب کی طرح پھیل گیا اور جگہ جگہ راہبوں اور راہبات کے لیے خانقاہی قائم ہو گئیں جن میں سے بعض میں تین تین ہزار راہب بیک وقت رہتے تھے ۔ ۳۲۵ ء میں مصر ہی کے اندر ایک اور مسیحی ولی پاخوہیوس نمودار ہوا جس نے دس بڑی خانقاہیں راہبین و راہبات کے لیے بنائیں ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شام و فلسطین اور افیقہ و یوروپ کے مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا۔ کلیسائی نظام کو اول اول اس رہبانیت کے معاملہ میں سخت الجھن سے سابقہ پیش آیا، کیونکہ وہ ترک دنیا اور تجرد اور غریبی و مفلسی کو روحانی زندگی کا آئیڈیل تو سمجھتا تھا، مگر راہبوں کی طرح شادی بیاہ اور اولاد پیدا کرنے اور ملکیت رکھنے کو گناہ بھی نہ ٹھیرا سکتا تھا۔ بالآخر سینٹ اَتھانا ہیوس (متوفی ۳۷۳ ء) سینٹ باسِل (متوفی ۳۷۹ ء)، سینٹ آگسٹائن (متوفی ۴۳۰ ء)اور گریگوری اعظم (متوفی ۶۰۹ ء) جیسے لوگوں کے اثر سے رہبانیت کے بہت سے قواعد چرچ کے نظام میں باقاعدہ داخل ہو گئے۔

اس راہبانہ بدعت کی چند خصوصیات تھیں جنہیں ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں :

(۱)سخت ریاضتوں اور نت نئے طریقوں سے اپنے جسم کو اذیتیں دینا۔ اس معاملہ میں ہر راہب دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ عیسائی اولیاء کے تذکروں میں ان لوگوں کے جو کمالات بیان کیے گئے ہیں وہ کچھ اس قسم کے ہیں : اسکندریہ کاسینٹ مکاریوس ہر وقت اپنے جسم پر ۸۰ پونڈ کا بوجھ اٹھائے رکھتا تھا۔ ۶ مہینے تک وہ ایک دلدل میں سوتا رہا اور زہریلی مکھیاں اس کے برہنہ جسم کو کاٹتی رہیں ۔ اس کے مرید سینٹ یوسیبیوس نے پِیْر سے بھی بڑھ کر ریاضت کی۔ وہ ۱۵۰ پونڈ کا بوجھ اٹھائے پھرتا تھا اور ۳ سال تک ایک خشک کنویں میں پڑا رہا۔ سینٹ سابیوس صرف وہ مکئی کھاتا تھا جو مہینہ بھر پانی میں بھیگ کر بدبو دار ہو جاتی تھی۔ سینٹ بیساریون ۴۰ دن تک خاردار جھاڑیوں میں پڑا رہا اور ۴۰ سال تک اس نے زمین کو پیٹھ نہیں لگائی۔ سینٹ پا خومیوس نے ۱۵ سال، اور ایک روایت کے مطابق پچاس سال زمین کو پیٹھ لگائے بغیر گزار دیے ۔ ایک ولی سینٹ جان تین سال تک عبادت میں کھڑا رہا۔ اس پوری مدت میں وہ نہ کبھی بیٹھا نہ لیٹا۔ آرام کے لیے جس ایک چٹان کا سہارا لے لیتا تھا اور اس کی غذا صرف وہ تبرک تھا جو ہر اتوار کو اس کے لیے لایا جاتا تھا۔ سینٹ سِیمیون اِسٹائلائٹ (۳۹۰ ء ۴۴۹ ء) جو عیسائیوں کے اولیائے کبار میں شمار ہوتا ہے ، ہر ایسٹر سے پہلے پورے چالیس دن فاقہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ پورے ایک سال تک ایک ٹانگ پر کھڑا رہا۔ بسا اوقات وہ اپنی خانقاہ سے نکل کر ایک کنویں میں جا رہتا تھا۔ آخر کار اس نے شمالی شام کے قلعہ سیمان کے قریب ۶۰ فیٹ بلند ایک ستون بنوایا جس کا بالائی حصہ صرف تین فیٹ کے گھیر میں تھا اور اوپر کٹہرا بنا دیا گیا تھا۔ اس ستون پر اس نے پورے تیس سال گزار دیے ۔ دھوپ، بارش، سردی، گرمی سب اس پر سے گزرتی رہتی تھیں اور وہ کبھی ستون سے نہ اترتا تھا۔ اس کے مرید سیڑھی لگا کر اس کو کھانا پہنچاتے اور اس کی گندگی صاف کرتے تھے ۔ پھر اس نے ایک رسی لے کر اپنے آپ کو اس ستوں سے باندھ لیا یہاں تک کہ رسی اس کے گوشت میں پیوست ہو گئی، گوشت سڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گئے۔ جب کوئی کیڑا اس کے پھوڑوں گر جاتا تو وہ اسے اٹھا کر پھر پھوڑے ہی میں رکھ لیتا اور کہتا ’’کھا جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے ‘‘ مسیحی عوام دور دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے تھے ۔ جب وہ مرا تو مسیحی عوام کا فیصلہ یہ تھا کہ وہ عیسائی ولی کی بہترین مثال تھا۔

اس دور کے عیسائی اولیاء کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں وہ ایسی ہی مثالوں سے بھری پری ہیں ۔ کسی ولی کی تعریف یہ تھی کہ ۳۰ سال تک وہ بالکل خاموش رہا ور کبھی اسے بولتے نہ دیکھا گیا۔ کسی نے اپنے آپ کو ایک چٹان سے باندھ رکھا تھا۔ کوئی جنگلوں میں مارا مارا پھرتا اور گھاس پھونس کھا کر گزارا کرتا۔ کوئی بھاری بوجھ ہر وقت اٹھائے پھرتا۔ کوئی طوق و سلاسل سے اپنے اعضا جکڑے رکھتا۔ کچھ حضرات جانوروں کے بھٹوں ، یا خشک کنوؤں ، یا پرانی قبروں میں رہتے تھے ۔ اور کچھ دوسرے بزرگ ہر وقت ننگے رہتے اور اپنا ستر اپنے لمبے لمبے بالوں سے چھپاتے اور زمین پر رینگ کر چلتے تھے ۔ ایسے ہی ولیوں کی کرامات کے چرچے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ان کے مرنے کے بعد ان کی ہڈیاں خانقاہوں میں محفوظ رکھی جاتی تھیں ۔ میں نے خود کوہ سینا کے نیچے سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ میں ایسی ہی ہڈیوں کی ایک پوری لائبریری سجی ہوئی دیکھی ہے جس میں کہیں اولیاء کی کھوپڑیاں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں ، کہیں پاؤں کی ہڈیاں ، اور کہیں ہاتھوں کی ہڈیاں ۔ اور ایک ولی کاتو پورا ڈھانچہ ہی شیشے کی ایک الماری میں رکھا ہوا تھا۔

(۲) ان کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر وقت گندے رہتے اور صفائی سے سخت پرہیز کرتے تھے ۔ نہانا یا جسم کو پانی لگا نا ان کے نزدیک خدا پرستی کے خلاف تھا۔ جسم کی صفائی کو وہ روح کی نجات سمجھتے تھے ۔ سینٹ اتھاناسیوس بڑی عقیدت کے ساتھ سینٹ اینتھُنی کی یہ خوبی بیان کرتا ہے کہ اس نے مرتے دم تک کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے۔ سینٹ ابراہام جب سے داخل مسیحیت ہوا، پورے ۵ سال اس نے نہ منہ دھویا نہ پاؤں ۔ ایک مشہور راہبہ کنواری سلوِیا نے عمر بھر اپنی انگلیوں کے سوا جسم کے کسی حصے پانی نہیں لگنے دیا۔ ایک کانونٹ کی ۱۳۰ راہبات کی تعریف میں لکھا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے، اور غسل کا تو نام سن کر ہی ان کے بدن پر لرزہ چڑھ جاتا تھا۔

(۳) اس رہبانیت نے ازدواجی زندگی کو عملاً بالکل حرام کر دیا اور نکاح کے رشتے کو کاٹ پھینکنے میں سخت بیدردی سے کام لیا۔ چوتھی اور پانچویں صدی کی تمام مذہبی تحریریں اس خیال سے بھری ہوئی ہیں کہ تجرد سب سے بڑی اخلاقی قدر ہے ، اور عفت کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جنسی تعلق سے قطعی احتراز کرے خواہ وہ میاں اور بیوی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔ پاکیزہ روحانی زندگی کا کمال یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی اپنے نفس کو بالکل مار دے اور اس میں جسمانی لذت کی کوئی خواہش تک باقی نہ چھوڑے ۔ ان لوگوں کے نزدیک خواہش کو مار دینا اس لیے ضروری تھا کہ اس سے حیوانیت کو تقویت پہنچتی ہے ، ان کے نزدیک لذت اور گناہ ہم معنی تھے ، حتیٰ کہ مسرت بھی ان کی نگاہ میں خدا فراموشی کی مترادف تھی۔سینٹ باسل ہنسنے اور مسکرانے تک کو ممنوع قرار دیتا ہے ۔ان ہی تصورات کی بنا پر عورت اور مرد کے درمیان شادی کا تعلق ان کے ہاں قطعی نجس قرار پا گیا تھا۔ راہب کے لیے ضروری تھا کہ وہ شادی کرنا تو در کنار، عورت کی شکل تک نہ دیکھے ، اور اگر شادی شدہ ہو تو بیوی کو چھوڑ کر نکل جائے۔ مردوں کی طرح عورتوں کے دل میں بھی یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ وہ اگر آسمانی بادشاہت میں داخل ہونا چاہتی ہیں تو ہمیشہ کنواری رہیں ، اور شادی شدہ ہوں تو اپنے شوہروں سے الگ ہو جائیں ۔ سینٹ جِیروم جیسا ممتاز مسیحی عالم کہتا ہے کہ جو عورت مسیح کی خاطر راہبہ بن کر ساری عمر کنواری رہے وہ مسیح کی دلہن ہے اور اس عورت کی ماں کو خدا، یعنی مسیح، کی ساس (Mother-in-law of God) ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ایک اور مقام پر سینٹ جیروم کہتا ہے کہ ’’عفت کی کلہاڑی سے ازدواجی تعلق کی لکڑی کو کاٹ  پھینکنا سالک کا اولین کام ہے ’’۔ ان تعلیمات کی وجہ سے مذہبی جذبہ طاری ہونے کے بعد ایک مسیحی مرد یا ایک مسیحی عورت پر اس کا پہلا اثر یہ ہوتا تھا کہ اس کی خوش گوار ازدواجی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم کے لیے ختم ہو جاتی تھی۔ اور چونکہ مسیحیت میں طلاق و تفریق کا راستہ بند تھا، اس لیے نکاح کے رشتے میں رہتے ہوئے میاں اور بیوی ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے تھے ۔ سینٹ نائلس St. Nitus دو بچوں کا باپ تھا۔ جب اس پر رہبانیت کا دورہ پڑا تو اس کی بیوی روتی رہ گئی اور سہ اس سے الگ ہو گیا۔ سینٹ اَمون(St. Ammon) نے شادی کی پہلی رات ہی اپنی دلہن کو ازدواجی تعلق کی نجاست پر وعظ سنایا اور دونوں نے بالاتفاق طے کر لیا کہ جیتے جی ایک دوسرے سے الگ رہیں گے ۔ سینٹ ابراہام شادی کی پہلی رات ہی اپنی بیوی کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ یہی حرکت سینٹ ایلیکسس (St. Alexis) نے کی۔ اس طرح کے واقعات سے عیسائی اولیاء کے تذکرے بھرے پڑے ہیں ۔

کلیسا کا نظام تین صدیوں تک اپنے حدود میں ان انتہا پسندانہ تصورات کی کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرتا رہا۔ اس زمانے میں ایک پادری کے لیے مجرد ہونا لازم نہ تھا۔ اگر اس نے پادری کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے شادی کر رکھی ہو تو وہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا تھا، البتہ تقرر کے بعد شادی کرنا اس کے لیے ممنوع تھا۔ نیز کسی ایسے شخص کو پادری مقرر نہیں کیا جا سکتا تھا جس نے کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کی ہو، یا جس کی دو بیویاں ہوں ، یا جس کے گھر میں لونڈی ہو۔ رفتہ رفتہ چوتھی صدی میں  یہ خیال پوری طرح زور پکڑ گیا کہ جو شخص کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دیتا ہو اس کے لیے شادی شدہ ہونا بڑی گھناؤنی بات ہے ۔ ۳۶۲ ء کی گنگرا کونسل (Council of Gengra) آخری مجلس تھی جس میں اس طرح کے خیالات کو خلاف مذہب ٹھیرایا گیا۔ مگر اس کے تھوڑی ہی مدت بعد ۳۸۶ ء کی رومن سیناڈ (Synod) نے تمام پادریوں کو مشورہ دیا کہ وہ ازدواجی تعلقات سے کنارہ کش رہیں ، اور دوسرے سال پوپ سائر یکیس(Siricius)نے حکم دے دیا کہ جو پادری شادی کرے ، شادی شدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی سے تعلق رکھے ، اس کو اس منصب سے معزول کر دیا  جائے۔ سینٹ جیروم، سینٹ ایمبروز، اور سینٹ آگسٹائن جیسے اکابر علماء نے بڑے زور شور سے اس فیصلے کی حمایت کی اور ٹھوڑی سے مزاحمت کے بعد مغربی کلیسا میں یہ پوری شدت کے ساتھ نافذ ہو گیا۔ اس دور میں متعدد کو نسلیں ان شکایات پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوئیں کہ جو لوگ پہلے سے شادی شدہ تھے وہ مذہبی خدمات پر مقرر ہونے کے بعد بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ’’ناجائز‘‘ تعلقات رکھتے ہیں ۔آخر کار ان کی اصلاح کے لیے یہ قواعد بنائے گئے کہ وہ کھلے مقامات پر سوئیں ، اپنی بیویوں سے کبھی علیحدگی میں نہ ملیں ، اور ان کی ملاقات کے وقت کم از کم دو آدمی موجود ہوں ۔ سینٹ گریگوری ایک پادری کی تعریف میں لکھتا ہے کہ ۴۰ سال تک وہ اپنی بیوی سے الگ رہا حتیٰ کہ مرتے وقت جب اس کی بیوی اس کے قریب گئی تو اس نے کہا، عورت، دور ہٹ جا !

(۴) سب سے زیادہ درد ناک باب اس رہبانیت کا یہ ہے کہ اس نے ماں باپ، بھائی بہنوں کی محبت، اور باپ کے لیے اولاد تک سے آدمی کا رشتہ کاٹ دیا۔ مسیحی ولیوں کی نگاہ میں بیٹے کے لیے ماں باپ کی محبت، بھائی کے  لیے بھائی بہنوں کی محبت، اور باپ کے لیے اولاد کی محبت بھی ایک گناہ تھی۔ ان نزدیک روحانی ترقی کے لیے یہ نا گزیر تھا کہ آدمی ان سارے تعلقات کو توڑ دے ۔ مسیحی اولیاء کے تذکروں میں اس کے ایسے ایسے دل دوز واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کے لیے ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک راہب ایوا گریَس (Evagrius) سالہا سال سے صحرا میں ریاضتیں کر رہا تھا۔ ایک روز یکایک اس کے پاس اس کی ماں اور اس کے باپ کے خطوط پہنچے جو رسوں سے اس کی جدائی میں تڑپ رہے تھے ۔ اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں ان خطوں کو پڑھ کر اس کے دل میں انسانی محبت کے جذبات نہ جاگ اٹھیں ۔ اس نے ان کو کھولے بغیر فوراً آگ میں جھونک دیا۔ سینٹ تھیوڈورس کی ماں اور بہن بہت سے پادریوں کے سفارشی خطوط لے کر اس خانقاہ میں پہنچیں جس میں وہ مقیم تھا اور خواہش کی کہ وہ صرف ایک نظر بیٹے اور بھائی کو دیکھ لیں ۔ مگر اس نے ان کے سامنے آنے تک سے انکار کر دیا۔ سینٹ مارکس (St. Marcus) کی ماں اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ میں گئی اور خانقاہ کے شیخ (Abbot) کی خوشامدیں کر کے اس کو راضی کیا کہ وہ بیٹے کو ماں کے سامنے آنے حکم دے ۔ مگر بیٹا کسی طرح ماں سے نہ ملنا چاہتا تھا۔ آخر کار اس نے شیخ کے حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ بھیس بدل کر ماں کے سامنے گیا اور آنکھیں بند کر لیں اس طرح نہ ماں نے بیٹے کو پہچانا، نہ بیٹے نے ماں کی شکل دیکھی۔ ایک اور ولی سینٹ پوئمن(St. Poemen) اور اس کے ۶ بھائی مصر کی ایک صحرائی خانقاہ میں رہتے تھے ۔ برسوں بعد ان کی بوڑھی ماں کو ان کا پتہ معلوم ہوا اور وہ ان سے  ملنے کے لیے وہاں پہنچی۔ بیٹے ماں کو دور سے دیکھتے ہی بھاگ کر اپنے حجرے میں چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ ماں باہر بیٹھ کر رونے لگی اور اس نے چیخ چیخ کر کہا میں اس بڑھاپے میں اتنی دور چل کر صرف تمہیں دیکھنے آئی ہوں ، تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر میں تمہاری شکلیں دیکھ لوں ۔ کیا میں تمہاری ماں نہیں ہوں ؟ مگر ان ولیوں نے دروازہ نہ کھولا اور ماں سے کہہ دیا کہ ہم تجھ سے خدا کے ہاں ملیں گے ۔ اس سے بھی زیادہ درد ناک قصہ سینٹ سیمیون اِسٹائلاٹٹس (St. Simeon Stylites) کا ہے جو ماں باپ کو چھوڑ کر ۲۷ سال غائب رہا۔ باپ اس کے غم میں مر گیا۔ ماں زندہ بھی بیٹے کی ولایت کے چرچے جب دور و نزدیک پھیل گے تو اس کو پتہ چلا کہ وہ کہاں ہے ۔ بے چاری اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ پر پہنچے ۔ مگر وہاں کسی عورت کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔ اس نے لاکھ منت سماجت کی کہ بیٹا یا تو اسے اندر بلالے یا باہر نکل کر اسے اپنی صورت دکھا دے ۔ مگر اس ’’ولی اللہ‘‘ نے صاف انکار کر دیا۔ تین رات اور تین دن وہ خانقاہ کے دروازے پر پڑی رہی اور آخر کار وہیں لیٹ کر اس نے جان دے دی۔ تب ولی صاحب نکل کر آئے۔ ماں کی لاش پر آنسو بہائے اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کی۔

ایسی ہی بے دردی ان ولیوں نے بہنوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ برتی۔ ایک شخص کیوٹیس (Mutius) کا قصہ لکھا ہے کہ وہ خوشحال آدمی تھا۔ یکایک اس پر مذہبی جذبہ طاری ہوا اور وہ اپنے ۸ سال کے اکلوتے بیٹے کو لے کر ایک خانقاہ میں جا پہنچا۔ وہاں اس کی روحانی ترقی کے لیے ضروری تھا کہ وہ بیٹے کی محبت دل سے نکال دے ۔ اس لیے پہلے تو بیٹے کو اس سے جدا کر دیا گیا۔ پھر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک مدت تک طرح طرح کی سختیاں اس معصوم بچے پر کی جاتی رہی اور وہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر خانقاہ کے شیخ ے اسے حکم دیا کہ اسے لے جا کر اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک دے ۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے بھی تیار ہو گا تو عین اس وقت راہبوں نے بچے کی جان بچائی جب وہ اسے دریا میں پھینکنے لگا تھا۔ اس کے تسلیم کر لیا گیا کہ وہ واقعی مرتبہ ولایت کو پہنچ گیا ہے ۔

مسیحی رہبانیت کا نقطہ نظر ان معاملات میں یہ تھا کہ جو شخص خدا کی محبت   چاہتا ہو اسے انسانی محبت کی وہ ساری زنجیریں کاٹ دینی چاہییں جو دنیا میں اس کو اپنے والدین، بھائی بہنوں اور بال بچوں کے ساتھ باندھتی ہیں ۔ سینٹ جیروم کہتا ہے کہ ’’اگرچہ تیرا بھتیجا تیرے گلے میں بانہیں ڈال کر تجھ سے لپٹے ، اگر چہ تیری ماں اپنے دودھ کا واسطہ دے کر تجھے روکے ، اگر چہتیرا باپ تجھے روکنے کے لیے تیرے آگے لیٹ جائے، پھر بھی تو سب کو چھوڑ کر اور باپ کے جسم کو روند کر ایک آنسو بہائے بغیر صلیب کے جھنڈے کی طرف دوڑ جا۔ اس معاملہ میں بے رحمی ہی تقویٰ ہے ۔‘‘ سینٹ گریگوری لکھتا ہے کہ ‘‘ ایک نوجوان راہب ماں باپ کی محبت دل سے نہ نکال سکا اور ایک رات چپکے سے بھاگ کر ان سے مل آیا۔ خدا نے اس قصور کی سزا اسے یہ دی کہ خانقاہ واپس پہنچتے ہی وہ مر گیا۔ اس کی لاش زمین میں دفن کی گئی تو زمین نے اسے قبول نہ کیا۔ برا بار قبر میں ڈالا جاتا اور زمین اسے نکال کر پھینک دیتی۔ آخر کار اینٹ بینیڈکٹ نے اس کے سینے پر تبرک رکھا تب قبر نے اسے قبول کیا ‘‘۔ ایک راہبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مرنے کے بعد تین دن عذاب میں اس لیے مبتلا رہی کہ وہ اپنی ماں کی محبت دل سے نہ نکال سکی تھی۔ ایک دلی کی تعریف میں لکھا ہے کہ اس نے کبھی اپنے رشتہ داروں کے سوا کسی کے ساتھ بے دردی نہیں برتی۔

(۵) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ بے رحمی، سنگدلی اور قساوت برتنے کی جو مشق یہ لوگ کرتے تھے اس کی وجہ سے ان کی انسانی جذبات مر جاتے تھے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جن لوگوں سے انہیں مذہبی اختلاف ہوتا تھا ان کے مقابلے  میں یہ ظلم و ستم کی انتہا کر دیتے تھے ۔ چوتھی صدی تک پہنچتے پہنچتے مسیحیت میں ۸۰۔ ۹۰ فرقے پیدا ہو چکے تھے ۔ سینٹ آگسٹائن نے اپنے زمانے میں ۸۸ فرقے گنائے ہیں ۔ یہ فرقے ایک دوسرے کے خلاف سخت نفرت رکھتے تھے ۔ اس نفرت کی آگ کو بھڑکانے والے بھی راہب ہی تھے اور اس آگ میں مخالف گروہوں کو جلا کر خاک کر دینے کی کوششوں میں بھی راہب ہی پیش پیش ہوتے تھے ۔ اسکندریہ اس فرقہ وارانہ کشمکش کا ایک بڑا اکھاڑا تھا۔ وہاں پہلے ایرین(Arian)  فرقے کے بشپ نے اتھا ناسیوس کی پارٹی پر حملہ کیا، اس کی خانقاہوں سے کنواری راہبات پکڑ پکڑ نکالی گئیں ، ان کو ننگا کر کے خاردار شاخوں سے پٹیا گیا اور ان کے جسم پر داغ لگائے گئے تاکہ وہ اپنے عقیدے سے توبہ کریں ۔ پھر جب مصر میں کیتھولک گروہ کو غلبہ حاصل ہوا تو اس نے ایرین فرقے کے خلاف یہی سب کچھ کیا، حتیٰ کہ غالب خیال یہ ہے کہ خود ایریس (Arius) کو بھی زہر دے کر مار دیا گیا۔ اسی اسکندریہ میں ایک مرتبہ سینٹ سائر (St. Cyril) کے مرید راہبوں نے ہنگامہ عظیم برپا کیا، یہاں تک کہ مخالف فرقے کی ایک راہبہ کو پکڑ کر اپنے کلیسا میں لے گئے، اسے قتل کیا، اس کی لاش کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی اور پھر اسے آگ میں جھونک دیا۔ روم کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔ ۳۶۶ ء میں پوپ لبیریس (Liberius)  کی وفات پر دو گروہوں نے پا پانی کے لیے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ۔ دونوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی۔ حتیٰ کہ ایک دن میں صرف ایک چرچ سے ۱۳۷ لاسیں نکالی گئیں ۔

(۶) اس ترک و تجرید اور فقر و درویشی کے ساتھ دولت دنیا سمیٹنے میں بھی کمی نہ کی گئی۔ پانچویں صدی کے آغاز ہی میں حالت یہ ہو چکی تھی کہ روم کا بشپ بادشاہوں کی طرح اپنے محل میں رہتا تھا اور اس کی سواری جب شہر میں نکلتی تھی تو اس کے ٹھاٹھ باٹھ قیصر کی سواری سے کم نہ ہوتے تھے ۔ سینٹ جیروم اپنے زمانے (چوتھی صدی کے آخری دور) میں شکایت کرتا ہے کہ بہت سے بشپوں کی دعوتیں اپنی شان میں گورنروں کی دعوتوں کو شرماتی ہیں ۔ خانقاہوں اور کنیسوں کی طرف دولت کا یہ بہاؤ ساتویں صدی (نزول قرآن کے زمانے )تک پہنچتے پہنچتے سیلاب کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہ بات عوام کے ذہن نشین کرا دی گئی تھی کہ جس کسی سے کوئی گناہ عظیم سرزد ہو جائے اس کی بخشش کسی نہ کسی ولی کی درگاہ پر نذرانہ چڑھانے ، یا کسی خانقاہ یا چرچ کو بھینٹ دینے ہی سے ہو سکتی ہے ۔ اس کے بعد وہی دنیا راہبوں کے قدموں میں آ رہی جس سے فرار ان کا طرہ امتیاز تھا۔ خاص طور پر جو چیز اس تنزل کی موجب ہوئی وہ یہ تھی کہ راہبوں کی غیر معمولی ریاضتیں اور ان کی نفس کشی کے کمالات دیکھ کر جب عوام میں ان کے لیے بے عقیدت پیدا ہو گئی تو بہت سے دنیا پرست لوگ لباس درویشی پہن کر راہبوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اور انہوں نے ترک دنیا کے بھیس میں جلب دنیا کا کاروبار ایسا چمکایا کہ بڑے بڑے طالبین دنیا ان سے مات کھا گئے ۔

(۷) عفت کے معاملہ میں بھی فطرت سے لڑ کر رہبانیت نے بارہا شکست کھائی اور جب شکست کھائی تو بری طرح کھائی۔ خانقاہوں میں نفس کُشی کی کچھ مشقیں ایسی بھی تھیں جن میں راہب اور راہبات مل کر ایک ہی جگہ رہتے تھے اور بسا اوقات ذرا زیادہ مشق کرنے کے لیے ایک ہی بستر پر رات گزارتے تھے ۔ مشہور راہب سینٹ ایوا گریس (St. Evagrius) بڑی تعریف کے ساتھ فلسطین کے ان راہبوں کے ضبط نفس کا ذکر کرتا ہے جو ’’ اپنے جذبات پر اتنا قابو پا گئے تھے کہ عورتوں کے ساتھ یک جا غسل کرتے تھے اور ان کی دید سے ، ان کے لمس سے ، حتیٰ کہ ان کے ساتھ ہم آغوشی سے بھی ان کے اوپر طرف غلبہ نہ پاتی تھی‘‘ غُسل اگرچہ رہبانیت میں سخت ناپسندیدہ تھا مگر نفس کشی کی مشق کے لیے اس طرح کے غسل بھی کر لیے جاتے تھے ۔ آخر کار اسی فلسطین کے متعلق نیسا (Nyssa) کا سینٹ گریگوری  متوفی ۳۹۶ ء لکھتا ہے کہ وہ بد کرداری کا اڈا بن گیا ہے ۔ انسانی فطرت کبھی ان لوگوں سے انتقام لیے بغیر نہیں رہتی جو اس سے جنگ کریں ۔ رہبانیت اس سے لڑ کر بالآخر بد اخلاقی کے جس گڑھے میں جا گری اس کی داستان آٹھویں صدی سے گیارہویں صدی عیسوی تک کی مذہبی تاریخ کا بد نما ترین داغ ہے ۔ دسویں صدی کا ایک اطالوی  بشپ لکھتا ہے کہ ’’ اگر چرچ میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے خلاف بد چلنی کی سزائیں نافذ کرنے کا قانون عملاً جاری کر دیا جائے تو لڑکوں کے سوا کوئی سزا سے نہ بچ سکے گا، اور اگر حرامی بچوں کو بھی مذہبی خدمات سے الگ کر دینے کا قاعدہ نافذ کیا جائے تو شاید چرچ کے خادموں میں کوئی لڑکا تک باقی نہ رہے ‘‘۔ قرون  متوسطہ کے مصنفین کی کتابیں ان شکایتوں سے بھری ہوئی ہیں کہ راہبات کی خانقاہیں بد اخلاقی کے چکلے بن گئی ہیں ، ان کی چار دیواریوں میں نو زائیدہ بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، پادریوں اور چرچ کے مذہبی کارکنوں میں محرمات تک سے ناجائز تعلقات اور خانقاہوں میں خلاف وضع فطری جرائم تک پھیل گئے ہیں ، اور کلیساؤں میں اعتراف گناہ(Confession) کی رسم بد کرداری کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے ۔

ان تفصیلات سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں رہبانیت کی بدعت ایجاد کرنے اور پھر اس کا حق ادا نہ کرنے کا ذکر کر کے مسیحیت کے کس بگاڑ کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔

۵۵۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہاتا ہے کہ یہاں یٰٓاَیّھَُا الَّذِیْنَ اٰمَنْوْا، کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لائے ہوئے  تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ، تمہیں اس پر دہرا اجر ملے گا، ایک اجر ایمان بر عیسیٰ کا اور دوسرا اجر ایمان بر محمدؐ کا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والوں سے ہے ۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جاؤ، بلکہ صدق دل سے ایمان لاؤ اور ایمان لانے کا حق ادا کرو۔ اس پر تمہیں دہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا، اور دوسرا اجر اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا۔ پہلی تفسیر کی تائید سورہ قصص کی آیات ۵۲  تا ۵۴ کرتی ہیں اور مزید بر آں  اس کی تائید حضرت ابو موسیٰ اشعری کی یہ روایت بھی کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین آدمی ہیں جن کے لیے دہرا اجر ہے ۔ان میں سے ایک ہے ‘‘رجُل مِّن اھل الکتاب اٰمن بنبیہ و اٰمن بمحمدؐ، ’’ اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے سابق نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر بھی ایمان لے آیا ‘‘ (بخاری و مسلم)۔ دوسری تفسیر کی تائید سورہ سبا کی آیت ۳۷ کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن مساوی ہے ۔ لیکن آگے کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفسیر ہی اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، بلکہ در حقیقت اس سورت کا پورا مضمون از اول تا آخر اسی تفسیر کی تائید کرتا ہے ۔ شروع سے اس سورت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر کے داخل اسلام ہوئے تھے ، اور پوری سورت میں انہی کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ محض زبان کے مومن نہ بنیں بلکہ اخلاص کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائیں ۔

۵۶۔ یعنی دنیا میں علم و بصیرت کا وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم کو قدم قدم پر صاف نظر آتا رہے گا کہ زندگی کے مختلف معاملات میں جاہلیت کی ٹیڑھی راہوں کے درمیان اسلام کی سیدھی راہ کونسی ہے ۔ اور آخرت میں وہ نور بخشے گا جس کا ذکر آیت ۱۲ میں گزر چکا ہے ۔

۵۷۔ یعنی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی مخلصانہ کوشش کے باوجود بشری کمزوریوں کی بنا پر جو قصور بھی تم سے سرزد ہو جائیں ان سے درگزر فرمائے گا، اور وہ قصور بھی معاف کرے گا جو ایمان لانے سے پہلے جاہلیت کی حالت میں تم سے سرزد ہوئے تھے ۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۵۸) سورہ المجادلہ

 

 

نام

 

اس سورۃ کا نام المجادَلہ بھی ہے المجادِلہ بھی۔ یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ تجادِلک سے ماخوذ ہے۔ چونکہ سورۃ کے آغاز میں ان خاتون کا ذکر آیا ہے جنہوں نے اپنے شوہر کے ظہار کا قضیہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کر کے بار بار اصرار کیا تھا کہ آپ کوئی ایسی صورت بتائیں جس سے ان کی اور ان کے بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اصرار کو لفظ مجادلہ سے تعبیر فرمایا ہے، اس لیے یہی اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا۔ اس کو اگر مجادَلہ پڑھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے ’’بحث و تکرار‘‘ اور مُجادِلہ پڑھا جائے تو معنی ہوں گے ’’بحث و تکرار کرنے والی ‘‘۔

 

زمانۂ نزول

 

کسی روایت میں اس امر کی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ مجادلہ کا یہ واقعہ کب پیش آیا تھا۔ اگر ایک علامت اس سورہ کے مضمون میں ایسی ہے جس کی بنا پر یہ بات تعین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کی زمانہ غزوۂ احزاب (شوال ۵ ھ ) کے بعد کا ہے۔ سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کے حقیقی بیٹا ہونے کی نفی کرتے ہوئے صرف یہ اشارہ فرما کر چھوڑ دیا تھا کہ وَمَاجَعلَ ازْوَاجَکُم الّیٰٔ تظٰھِرون منھنّ امّھتکم (اور اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظِہار کرتے ہوئے تمہاری مائیں نہیں بنا دیا ہے )۔ مگر اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ظِہار کرنا کوئی گناہ یا جرم ہے، اور یہ بتایا گیا تھا کہ اس فعل کا شرعی حکم کیا ہے۔ بخلا اس کے اس سورہ میں ظِہار کا پورا قانون بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفصل احکام اس مجمل ہدایت کے بعد نازل ہوئے ہیں۔

 

موضوع اور مباحث

 

اس سورۃ میں مسلمانوں کو ان مختلف مسائل کے متعلق ہدایت دی گئی ہیں جو اس وقت درپیش تھے۔
آغاز سورۃ سے آیت ۶ تک ظِہار کے شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں، اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو پوری سختی کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے بعد بھی جاہلیت کے طریقوں پر قائم رہنا اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو توڑنا، یا ان کی پابندی سے انکار کرنا، یا ان کے مقابلہ میں خود اپنی مرضی سے کچھ اور قاعدے اور قوانین بنا لینا، قطعی طور پر ایمان کے منافی حرکت ہے، جس کی سزا دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں بھی اس پر سخت باز پرس ہونی ہے۔

آیات ۷ تا ۱۰ میں منافقین کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں خفیہ سرگرمیاں کر کے طرح طرح کی شرارتوں کے منصوبے بناتے تھے، اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا تھا اس کی بنا ر رسول ﷺ کو یہودیوں کی طرح ایسے طریقے سلام کرتے تھے جس سے دعا کے بجائے بددعا کا پہلو نکلتا تھا۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ سرگوشیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، اس لیے تم اللہ کے بھروسے پر اپنا کام کرتے رہو۔ا ور اس کے ساتھ ان کو یہ اخلاقی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان کا کام گناہ اور ظلم و زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشیاں کرنا نہیں ہے، وہ اگر آپس میں بیٹھ کر تخلیے میں کوئی بات کریں بھی تو وہ نیکی اور تقویٰ کی بات ہونی چاہیئے۔
آیت ۱۱ تا ۱۳ میں مسلمانوں کو مجلسی تہذیب کے کچھ آداب سکھائے گئے ہیں اور بعض ایسے معاشرتی عیوب کو دور کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو پہلے بھی لوگوں میں پائے جاتے اور آج بھی پائے جاتے ہیں کہ کسی مجلس میں اگر بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے کچھ لوگ آ جائیں تو پہلے سے بیٹھے ہوئے اصحاب اتنی سی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ذرا سمٹ کر بیٹھ جائیں اور دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کر دیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد کے آنے والے کھڑے رہ جاتے ہیں، یا دہلیز میں بیٹھنے پر مجور ہوتے ہیں، یا واپس چلے جاتے ہیں، یا یہ دیکھ کر کہ مجلس میں ابھی کافی گنجائش موجود ہے، حاضرین کے اوپر سے پھاند تے ہوئے اندر گھستے ہیں۔ یہ صورتِ حال نبیﷺ کی مجلسوں میں اکثر پیش آتی رہتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ ہدایت فرمائیں کہ اپنی مجلسوں میں خود غرضی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا کریں بلکہ بعد کے آنے والوں کو کھلے دل سے جگہ دے دیا کریں۔
اسی طرح ایک عیب لوگوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں (خصوصاً کسی اہم شخصیت کے ہاں ) جاتے ہیں تو جم کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس بات کا کچھ خیال نہیں کرتے کہ ضرورت سے زیادہ اس کا وقت لینا اس کے لیے باعث زحمت ہو گا۔ اگر وہ کہے کہ حضرت اب تشریف لے جائیے تو برا مانتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر اٹھ جائے تو بد اخلاقی کی شکایت کرتے ہیں۔ اشارے کنایے سے ان کو بتائے کہ اب کچھ دوسرے ضروری کاموں کے لیے اس کو وقت ملنا چاہئے تو سنی اَن سنی کر جاتے ہیں۔ لوگوں کے اس طرز عمل سے خود نبیﷺ کو بھی سابقہ پیش آتا تھا اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کے شوق میں اللہ کے بندے اس بات کا لحاظ نہیں کرتے تھے کہ وہ بہت زیادہ قیمتی کاموں کا نقصان کر رہے ہیں۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ تکلیف دہ عادت چھڑانے کے لیے حکم دیا کہ جب مجلس برخاست کرنے کے لیے کہا جائے تو اٹھ جایا کرو۔
ایک اور عجیب لوگوں میں یہ بھی تھا کہ ایک ایک آدمی آ کر خواہ مخواہ حضور سے تخلیہ میں بات کرنے کی خواہش کرتا تھا یا مجلس عام میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کے قریب جا کر سرگوشی کے انداز میں آپ سے بات کرے۔ یہ چیز حضورﷺ کے لیے بھی تکلیف دہ تھی اور دوسرے لوگ جو مجلس میں موجود ہوتے، ان کو بھی ناگوار ہوتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو شخص بھی آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے۔ اس سے مقصود صرف یہ تھا کہ لوگوں کو اس بری عادت پر متنبہ کیا جائے تاکہ وہ اسے چھوڑ دیں۔ چنانچہ یہ پابندی بس تھوڑی دیر تک باقی رکھی گئی اور جب لوگوں نے اپنا طرز عمل درست کر لیا تو اسے منسوخ کر دیا گیا۔

آیت ۱۴ سے آخر سورہ تک مسلم معاشرے کے لوگوں کو جن میں مخلص اہل ایمان اور منافقین اور مذبذبین سب ملے جلے تھے، بالکل دو ٹوک طریقے سے بتایا گیا کہ دین میں آدمی کے مخلص ہونے کا معیار کیا ہے۔ ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں، اپنے مفاد کی خاطر اس دین سے غداری کرنے میں کوئی تامل نہیں کرے جس پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اسلام کے خلاف طرح طرح کے شبہات اور وسوسے پھیلا کر اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں، مگر چونکہ وہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہیں، اس لیے ان کا جھوٹا اقرار ایمان ان کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی اور کا لحاظ تو درکنا، خود اپنے باپ، بھائی، اور اولاد اور خاندان تک کی پروا نہیں کرتے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جو خدا اور رسول اور اس کے دین کا دشمن ہے اس کے لیے ان کے دل میں کوئی محبت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں صاف فرما دیا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ چاہے کتنی ہی قسمیں کھا کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلائیں، درحقیقت وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں، اور اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے کا شرف صرف دوسری قسم کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ وہی سچے مومن ہیں۔ ان ہی سے اللہ راضی ہے۔ فلاح وہی پانے والے ہیں۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

اللہ نے سُن لی ۱ اُس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سُن رہا ہے، ۲ وہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے۔

تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ۳ ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں،ا  ن کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ ۴ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھُوٹی بات کہتے ہیں، ۵ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ ۶

۷ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کریں پھر اپنی اُس بات سے رجُوع کریں جو انہوں نے کہی تھی، ۸ تو قبل اس کے  کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔ اِس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے، ۹ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ ۱۰ اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے درپے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ (۶۰) مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ۱۱

یہ حکم اِس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اُس کے رسُول پر ایمان لاؤ۔۱۲ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے۔ ۱۳ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسُول کی مخالفت کرتے ہیں ۱۴ وہ اسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائے گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں۔ ۱۵ ہم نے صاف صاف آیات نازل کر دی ہیں، اور کافروں کے لیے ذلّت کا عذاب ہے۔ ۱۶ اُس دن (یہ ذلّت کا عذاب ہونا ہے) جب اللہ ان سب کو پھر سے زندہ کر کے اُٹھائے گا اور انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کر کے آئیں ہیں۔ وہ بھُول گئے ہیں مگر اللہ نے ان کا سب کیا دھرا گِن گِن کر محفوظ کر رکھا ہے ۱۷ اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے۔ ؏۱

 

تفسیر

 

۱۔ یہاں سننے سے محض سن لینا نہیں ہے بلکہ فریاد رسی کرنا ہے، جیسے ہم اُردو زبان میں کہتے ہیں اللہ نے دُعا سن لی اور اس سے مراد دعا قبول کر لینا ہوتا ہے۔

۲۔عام طور پر مترجمین نے ا مقام پر مجادلہ کر رہی تھی، فریاد کر رہی تھی، اور اللہ سن رہا تھا ترجمہ کیا ہے جس سے پڑھنے والے کا ذہن یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ وہ خاتون اپنی شکایت سنا کر چلی گئی ہوں گی اور بعد میں کسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آئی ہو گی، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس عورت کی بات ہم نے سن لی جو تم سے تکرار اور ہم سے فریاد کر رہی تھی، اور ہم اس وقت تم دونوں کی بات سن رہے تھے۔ لیکن اس واقعہ کے متعلق جو روایات احادیث میں آئی ہیں ان میں سے اکثر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت وہ خاتون اپنے شوہر کے ظِہار کا قصہ سنا سنا کا بار بار حضورﷺ سے عرض کر رہی تھیں کہ اگر ہم دونوں کی جدائی ہو گئی تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہو جائیں گے، عین اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس بنا پر ہم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ترجمہ حال کے صیغوں میں کیا جائے۔

یہ خاتون جن کے معاملہ میں آیات نازل ہوئی ہیں قبیلہ خَزرَج کی خَولہ بنت ثعلبہ تھیں، اور ان کے شوہر اَوْس بن صامِت انصاری، قبیلہ اَوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامِت کے بھائی تھے۔ ان کے ظہار کا قصہ آگے چل کر ہم تفصیل کے ساتھ نقل کریں گے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان صحابیہ کی فریاد کا بار گاہِ الٰہی میں مسموع ہونا اور فوراً ہم وہاں سے ان کی فریاد رسی کے لیے فرمان مبارک نازل ہو جانا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کو ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہو گئی تھی۔ ابن ای حاتم و بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اس نے ان کو روکا۔ آپ فوراً رک گئے۔ سر جھکا کر دیر تک اس کی بات سنتے رہے اور جب تک اس نے بات ختم نہ کر لی آپ کھڑے رہے۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا امیر المومنین، آپ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا۔ فرمایا جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی۔ خدا کی قسم، اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو میں کھڑا رہتا، بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معرت کر دیتا۔ ابن عبدالبر نے اِستعیاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں حضرت عمرؓ کو ملیں تو آپ نے اِن کو سلام کیا۔ یہ سلام کا جواب دینے کے کہنے لگیں ’’اوہو، اے عمرؓ ایک وقت تھا جب میں نے تم کو بازار عکاظ میں دیکھا تھا۔ اس وقت تم عُمیر کہلاتے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمرؓ کہلائے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمرؓ کہلانے لگے۔ پھر ایک وقت آیا تم امیر المومنین کہے جانے لگے۔ ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی قریبی رشتہ داری کی طرح ہوتا ہے، اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھودے گا جسے بچانا چاہتا ہے۔ ‘‘ اس پر جارودعَبْدِی، جو حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے، بولے، اے عورت، تو نے امیر المومنینؓ کے ساتھ بہت زبان درازی کی۔ حضرت عمرؓ کو تو بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے۔ امام بخاریؒ نے بھی اپنی تاریخ میں اختصار کے ساتھ اس سے ملتا جلتا قصہ نقل کیا ہے۔

۳۔ عرب میں بسا اوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو شوہر غصے میں آ کر کہتا اَنتِ عَلَیّ کَظَہرِِِ اُمیّ۔ اس کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ ’’تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘،لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ’’تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ‘‘۔ ا زمانے میں بی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں، بہن، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں۔ اسی فعل کا نام ظِہار ہے۔ ظَہر عربی زبان میں استعارے کے طور پر سواری کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً سواری کے جانور کو ظَہر کہتے ہیں، کیونکہ اس کی پیٹھ پر آدمی سوار ہوتا ہے چونکہ وہ لوگ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کہتے تھے کہ تجھے ظَہر بنانا میرے اوپر ایسا حرام ہے جیسے اپنی ماں کو ظہر بنانا، اس لیے یہ کلمات زبان سے نکالنا ان کی اصطلاح میں ’’ظِہار‘‘ کہلاتا تھا۔ جاہلیت کے زمانہ میں اہل عرب کے ہاں یہ طلاق، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید قطعِ تعلق کا اعلان سمجھا جاتا تھا، کیونکہ ان کے نزدیک اس کے معنی یہ تھے کہ شوہر اپنی بیوی سے نہ رف ازدواجی رشتہ توڑ رہا ہے بلکہ اسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ اسی بناء پر اہلِ عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی، مگر ظِہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
۴۔ یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی، نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے، کیونکہ اس نے آدمی کو جنا ہے۔ اسی بناء پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہو جائے گی، اور اس کے بارے میں عقل اخلاق، قانون، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہو گی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی۔
۵۔ یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرنا چاہئے، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبردار رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے ماں ہو گئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیئے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی، نانی، ساس، دودھ پلانے والی عورت اور اَزواجِ نبیؐ کو شامل کیا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے، کجا کہ عورت کو جو اس کی بیوی رہ چکی ہے۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانون حکم نکلا کہ ظِہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے۔

۴۔ یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی، نہ اس کو وہ حرمت حاصل  ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے، کیوں کہ اس نے آدمی کو جنا ہے۔ اسی بنا پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہو جائے گی، اور اس کے بارے میں عقل، اخلاق، قانون، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہو گی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی۔

۵۔ یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرنا چاہیے، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے اب ماں ہو گئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی، نانی، ساس، دودھ پلانے والی عورت اور ازواج نبیؐ کو شامل کیا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے، کجا کہ اس عورت کو جو اس کی بیوی رہ چکی ہے۔۔۔۔۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانونی حکم نکلا کہ ظہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے۔

۶۔ یعنی یہ حرکت تو ایسی ہے کہ اس پر آدمی کو بہت ہی سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے اول تو ظہار کے معاملہ میں جاہلیت کے قانون کو منسوخ کر کے تمہاری خانگی زندگی کو تباہی سے بچا لیا، دوسرے اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے وہ سزا تجویز کی جو اس جرم کی ہلکی سے ہلکی سزا ہو سکتی تھی، اور سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ سزا کسی ضرب یا قید کی شکل میں نہیں بلکہ چند ایسی عبادات اور نیکیوں کی شکل میں تجویز کی جو تمہارے نفس کی اصلاح کرنے والی اور تمہارے معاشرے میں بھلائی پھیلانے والی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام میں بعض جرائم اور گناہوں پر جو عبادات بطور کفارہ مقرر کی گئی ہیں وہ نہ محض سزا ہیں کہ عبادت کی روح سے خالی ہوں اور نہ محض عبادت ہیں کہ سزا کی اذیت کا کوئی پہلو ان میں نہ ہو، بلکہ ان میں یہ دونوں پہلو جمع کر دیے گئے ہیں، تاکہ آدمی کو اذیت بھی ہو اور ساتھ ساتھ وہ ایک نیکی اور عبادت کر کے اپنے گناہ کی تلافی بھی کر دے۔

۷۔ یہاں سے ظہار کے قانونی حکم کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اس کی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظہار کے وہ واقعات نگاہ میں رہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک میں پیش آئے تھے، کیونکہ اسلام میں ظہار کا مفصل قانون انہی آیات اور ان فیصلوں سے ماخوذ ہے جو ان آیات کے نزول کے بعد حضورؐ نے پیش آمدہ واقعات میں صادر فرمائے۔

حضرت عبداللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اسلام میں ظہار کا پہلا واقعہ اوس بن صامت انصاری کا ہے جن کی بیوی خَوْلَہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ محدثین نے اس واقعہ کی جو تفصیلات متعدد راویوں سے نقل کی ہیں ان میں فروعی اختلافات تو بہت سے ہیں، مگر قانونی اہمیت رکھنے والے ضروری اجزاء قریب قریب متفق علیہ ہیں۔ خلاصہ ان روایات کا یہ ہے کہ حضرت اَوس بن صامت بڑھاپے میں کچھ چڑ چڑے بھی ہو گئے تھے اور بعض روایات کی رو سے ان کے اندر کچھ جنون کی سی لٹک بھی پیدا ہو گئی تھی جس کے لیے راویوں نے کَا نَ بِہٖ لَمَمٌ  کے الفاظ استعمال کی ہیں۔ لَمَ عربی زبان میں دیوانگی کو نہیں کہتے بلکہ اس طرح کی ایک کیفیت کو کہتے ہیں جسے ہم اردو زبان میں ’’ غصے میں پاگل ہو جانے ’’ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس حالت میں وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اپنی بیوی سے ظہار کر چکے تھے، مگر اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ بیوی سے لڑ کر ان سے پھر اس حرکت کا صدور ہو گیا۔ اس پر ان کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا قصہ آپ سے بیان کر کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے رخصت کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے؟ حضورؐ نے جو جواب دیا وہ مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’ ابھی تک اس مسئلے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے ‘‘۔  اور بعض میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’میرا خیال یہ ہے کہ تم اس پر حرام ہو گئی ہو‘‘۔ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا ’’تم اس پر حرام ہو گئی ہو‘‘۔ اس جواب کو سن کر وہ نالہ و فریاد کرنے لگیں۔ بار بار انہوں حضورؐ سے عرض کیا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ تو نہیں کہے ہیں، آپ کوئی صورت ایسی بتائیں جس سے میں اور میرے بچے اور میرے بوڑھے شوہر کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔ مگر ہر مرتبہ حضورؐ ان کو وہی جواب دیتے رہے۔ اتنے میں آپ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس کے بعد آپ نے ان سے کہا (اور بعض روایات کی رو سے ان کے شوہر کو بلا کر ان سے فرمایا) کہ ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔انہوں نے اس سے معذوری ظاہر کی، تو فرمایا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اوس کا حال تو یہ ہے کہ دن میں تین مرتبہ کھائیں نہیں تو ان کی بینائی جواب دینے لگتی ہے۔ آپ نے فرمایا پھر ۶۰ مسکینوں کو کھانا دینا پڑے گا۔ انہیں نے عرض کیا وہ اتنی مقدرت نہیں رکھتے، الا یہ کہ آپ مدد فرمائیں تب آپ نے انہیں اتنی مقدار میں سامان خوراک عطا فرمایا جو ۶۰ آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی ہو۔ اس کی مقدار مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے، اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جتنی مقدار حضورؐ نے عطا فرمائی اتنی ہی خود حضرت خولہ نے اپنے شوہر کو دی تاکہ وہ کفا رہ ادا کر سکیں (ابن جریر، مسند احمد، ابوداؤد، ابن ابی حاتم )۔

ظہار کا دوسرا واقعہ الَمہ بن صخر بَیاضی کا ہے۔ ان صاحب پر اعتدال سے کچھ زیادہ شہوت کا غلبہ تھا۔ رمضان آیا تو انہوں نے اس اندیشہ سے کہ کہیں روزے کی حالت میں دن کے وقت بے صبری نہ کر بیٹھیں رمضان کے اختتام تک کے لیے بیوی سے ظہار کر لیا۔ مگر اپنی اس بات پر قائم نہ رہ سکے اور ایک رات بیوی کے پاس چلے گئے۔ پھر نادم ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ماجرا عرض کیا۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو اپنی بیوی کے سوا کوئی نہیں جسے آزاد کر دوں۔ فرمایا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو۔ انہوں نے عرض کیا کہ روزوں ہی میں تو صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا پھر ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے کہا ہم تو اس قدر غریب ہیں کہ رات بے کھائے سوئے ہیں۔ اس پر آپ نے بنی زَرَیق کے محصلِ زکوٰۃ سے ان کو اتنا سامان خوراک دلوایا کہ ۶۰ آدمیوں میں بانٹ دیں اور کچھ اپنے بال بچوں کی ضروریات کے لیے بھی رکھ لیں (مسند احمد، ابوداؤد۔ترمذی)۔

تیسرا واقعہ نام کی تصریح کے بغیر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اس سے مباشرت کر لی۔ بعد میں حضورؐ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ اس سے الگ رہو جب تک کفارہ ادا نہ کر دو(ابوداؤد، ترمذی، نسائی۔ ابن ماجہ)۔

چوتھا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو سنا کہ اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکار رہا ہے۔ اس پر آپ نے غصہ سے فرمایا’’ یہ تیری بہن ہے؟ ‘‘ مگر آپ نے اسے ظہار قرار نہیں دیا (ابوداؤد)۔

یہ چار معتبر واقعات ہیں جو مستند ذرائع سے احادیث میں ملتے ہیں اور انہیں کی مدد سے قرآن مجید کے اس حکم کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جو آگے کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔

۸۔ اصل الفاظ ہیں یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ پلٹیں اس بات کی طرف جو انہوں نے کہی‘‘۔ لیکن عربی زبان اور محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی میں بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے :

ایک مفہوم ان کا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ظہار کے الفاظ منہ سے نکل جانے کے بعد پھر ان کا اعادہ کریں۔ ظاہلر یہ اور بکیر بن الاشج، اور یحیٰ بن زیاد الْفَرّاء اسی کے قائل ہیں، اور عطاء بن ابی رباح سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ایک دفعہ کا ظہار تو معاف ہے، البتہ آدمی اس کی تکرار کرے تب اس پر کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن یہ تفسیر دو وجوہ سے صریحاً غلط ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو بیہودہ اور جھوٹی بات قرار دے کر اس کے لیے سزا تجویز فرمائی ہے۔ اب کیا یہ بات قابل تصور ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹی اور بیہودہ بات آدمی کہے تو معاف ہو اور دوسری مرتبہ کہے تو سزا کا مستحق ہو جائے؟ دوسری وجہ اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہار کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا اس نے ایک بار ظہار کیا ہے یا دو بار۔

دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ حرکت کرنے کے عادی تھے وہ اگر اسلام میں اس کا اعادہ کریں تو اس کی یہ سزا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ظہار کرنا بجائے خود مستوجب سزا ہو اور جو شخص بھی اپنی بیوی کے لیے ظہار کے الفاظ منہ سے نکالے اس پر کفارہ لازم آ جائے، خواہ وہ اس کے بعد بیوی کو طلاق دے دے، یا اس کی بیوی مر جائے، یا اس کا کوئی ارادہ اپنی بیوی سے تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ فقہاء میں سے طاؤس، مجاہد، شعبی، زہری، سفیان ثوری اور قتادہ کا یہی مسلک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد اگر عورت مر جائے تو شوہر اس وقت تک اس کی میراث نہیں پا سکتا جب تک کفارہ ادا نہ کر دے۔

تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ظہار کے الفاظ زبان سے نکالنے کے بعد آدمی پلٹ کر اس بات کا تدارک رکنا چاہے جو اس نے کہی ہے۔ بالفاظ دیگر عَادَلِمَا قالَ کے معنی ہیں کہنے والے نے اپنی بات سے رجوع کر لیا۔

چوتھا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی نے ظہار کر کے اپنے لی حرام کیا تھا اسے پلٹ کر پھر اپنے لیے حلال کرنا چاہے۔ بالفاظ دیگر عَادَلِمَا قَالَ کے معنی یہ ہے کہ جو شخص تحریم کا قال ہو گیا تھا وہ اب تحلیل کی طرف پلٹ آیا۔

اکثر و بیشتر فقہاء نے انہی دو مفہوموں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی ہے۔

۹۔ بالفاظ دیگر یہ حکم تمہاری تادیب کے لیے دیا جا رہا ہے تاکہ مسلم معاشرے کے لوگ جاہلیت کی اس بری عادت کو چھوڑ دیں اور تم میں سے کوئی شخص اس بیہودہ حرکت کا ارتکاب نہ کرے۔ بیوی سے لڑنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح لڑو۔ طلاق ہی دینا ہو تو سیدھی طرح طلاق دے دو۔ یہ آخر کیا شرافت ہے کہ آدمی جب بیوی سے لڑے تو اسے ماں بہن بنا کر ہی چھوڑے۔

۱۰۔ یعنی اگر آدمی گھر میں چپکے سے بیوی کے ساتھ ظہار کر بیٹھے اور پھر کفارہ ادا کیے بغیر میاں اور بیوی کے درمیان جب سابق زوجیت کے تعلقات چلتے رہیں، تو چاہے دنیا میں کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو، اللہ کو تو بہر حال اس کی خبر ہو گی اللہ کے مواخذہ سے بچ نکلنا ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔

۱۱۔ یہ ہے ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ فقہائے اسلام نے اس آیت کے الفاظ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلوں، اور اسلام کے اصول عامہ سے اس مسئلے میں جو قانون اخذ کیا ہے اس کی تفصیلات یہ ہیں :

(۱) ظہار کا یہ قانون عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے یہ فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ابداً حرام ہو جاتی تھی۔ اسی طرح یہ قانون ان تمام قوانین اور رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہار کو بے معنی اور بے اثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ اپنی بیوی کا ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق زن و شَو کا تعلق جاری رکھے، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ماں اور دوسری محرمات کی حرمت ایسی معمولی چیز نہیں ہے کہ انسان ان کے اور بیوی کے درمیان مشابہت کا خیال بھی کرے، کجا کہ اس کے زبان پر لائے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلامی قانون نے اس معاملہ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ تیسرے یہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔

(۲) ظہار کرنے والے شخص کے بارے میں  یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس شوہر کا ظہار معتبر ہے جو عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو۔ اس کے بعد حسب ذیل امور میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے :

الف۔ نشے کی حالت میں ظہار کرنے والے کے متعلق ائمہ اربعہ سمیت فقہاء کی عظیم اکثریت کہ کہتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نشہ آور چیز جان بوجھ کر استعمال کی ہو تو اس کا ظہار اس کی طلاق کی طرح قانوناً صحیح مانا جائے گا، کیونکہ اس نے یہ حالت اپنے اوپر خود طاری کی ہے۔ البتہ اگر مرض کی وجہ سے اس نے کوئی دوا پی ہو اور اس سے نشہ لاحق ہو گیا ہو، یا پیاس کی شدت میں وہ جان بچانے کے لیے شراب پینے پر مجبور ہوا ہو تو اس طرح کے نشے کی حالت میں اس کے ظہار و طلاق کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔ احناف اور شوافع اور حنابلہ کی رائے یہی ہے اور صحابہ کا عام مسلک بھی یہی تھا۔ بخلاف اس کے حضرت عثمانؓ کا قول یہ ہے کہ نشے کی حالت میں طلاق و ظہار معتبر نہیں ہے۔احناف میں سے امام طحاویؒ اور کَرْخیؒ اس قول کو ترجیح دیتے رہیں اور امام شافعیؒ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ مالکیہ کے نزدیک ایسے نشے کی حالت میں ظہار معتبر ہو گا جس میں آدمی بالکل بہک نہ گیا ہو، بلکہ وہ مربوط اور مرتب کلام کر رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

ب۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک ظہار صرف اس شورہ کا معتبر ہے جو مسلمان ہو۔ ذِمیوں پر ان احکام کا اطاق نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کا خطاب مسلمانوں سے ہے، اور تین قسم کے کفاروں میں سے ایک کفارہ قرآن میں روزہ بھی تجویز کیا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ ذمیوں کے لیے نہیں ہو سکتا۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک یہ احکام ذِمی اور مسلمان، دونوں کے ظہار پر نافذ ہوں گے، البتہ ذمی کے لیے روزہ نہیں ہے۔ وہ یا غلام آزاد کرے یا ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔

ج۔ کیا مرد کی طرح عورت بھی ظہار کر سکتی ہے؟ مثلاً اگر وہ شوہر سے کہے کہ تو میرے لیے میرے باپ کی طرح ہے، یا میں تیرے لیے تیری ماں کی طرح ہوں، تو کیا یہ بھی ہو گا؟ ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار نہیں ہے اور اس پر ظہار ے قانونی احکام کا سرے سے اطلاق نہیں ہوتا۔ کیونکہ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں یہ احکام صرف اس صورت کے لیے بیان کیے ہیں جبکہ شوہر بیویوں سے ظہار کریں (اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِ ھِمْ) اور ظہار کرنے کے اختیارات اسی کو حاصل ہو سکتے ہیں جسے طلاق دینے کا اختیار ہے۔ عورت کو شریعت نے جس طرح یہ اختیار نہیں دیا کہ شوہر کو طلاق دیدے اسی طرح اسے یہ اختیار بھی نہیں دیا کہ اپنے آپ کو شوہر کے لیے حرام کر لے۔ یہی رائے سفیان ثوری، اسحٰق بن رائبویہ، ابو ثور اور لَیث بن سعد کی ہے کہ عورت کا ایس قول بالکل بے معنی اور بے اثر ہے۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ ظہار تو نہیں ہے۔ مگر اس سے عورت پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا، کیونکہ عورت کا سیے الفاظ کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی ہے۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی ابن قدامہ نے یہی نقل کیا ہے۔ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اگر شادی سے پہلے عورت نے یہ بات کہی ہو کہ میں اس شخص سے شادی کروں تو وہ میرے لیے ایسا ہے جیسے میرا باپ، تو یہ ظہار ہو گا، اور اگر شادی کے بعد کہے تو یہ قَسم کے معنی میں ہو گا جس سے کفارۂ یمین لازم آئے گا۔ بخلاف اس کے حسن بصری، زہری، ابراہیم نخعی، اور حسن بن زیاد لُؤْلُئِ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور ایسا کہ سے عورت پر کفارہ ظہار لازم آئے گا، البتہ عورت  کو یہ حق نہ ہو گا کہ کفارہ دینے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے روک دے۔ ابراہیم نخعی اس کی تائید میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ کی صاحبزادی عائشہ سے حضرت زبیر کے صاحبزادے مصعب نے نکاح کا پیغام دیا۔ انہوں نے اسے رد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ دیے کہ اگر میں ان سے نکاح کروں تو ھُوَ عَلَیَّ کَظَھْرِ اَبِیْ۔ (وہ میرے اوپر ایسے ہوں جیسے میرے باپ کی پیٹھ)۔ کچھ مدت بعد وہ ان سے شادی کرنے پر راضی ہو گئیں۔ مدینہ کے علماء سے اس کے متعلق فتویٰ لیا گیا تو بہت سے فقہاء نے جن میں متعدد صحابہ بھی شامل تھے، یہ فتویٰ دیا کہ عائشہ پر کفارہ ظہار لازم ہے۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابراہیم نخعی اپنی یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ اگر عائشہ یہ بات شادی کے بعد کہتیں تو کفارہ لازم نہ آتا، مگر انہوں نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا جب انہیں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لیے کفارہ ان پر واجب ہو گیا۔

(۳) جو عاقل و بالغ آدمی ظہار کے صریح الفاظ بحالت ہوش و حواس زبان سے ادا کرے اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ اس نے غصے میں، یا مذاق مذاق  میں، یا پیار سے ایسا کہا، یا یہ کہ اس کی نیت ظہار کی نہ تھی۔ البتہ جو الفاظ اس معاملہ میں صریح نہیں ہیں، اور جن میں مختلف معنوں کا احتمال ہے، ان کا حکم الفاظ کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ ظہار کے صریح الفاظ کون سے ہیں اور غیر صریح کون سے۔

(۴)۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار اس عورت سے کیا جا سکتا ہے جو آدمی کے نکاح میں ہو۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا غیر عورت سے بھی ظہار ہو سکتا ہے۔ اس معاملہ میں مختلف مسالک یہ ہیں :

حنفیہ کہتے ہیں کہ غیر عورت سے اگر آدمی یہ کہے کہ ’’ میں تجھ سے نکاح کروں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘، تو جب بھی وہ اس سے نکاح کرے گا کفارہ ادا کیے بغیر اسے ہاتھ نہ لگا سکے گا۔ یہی حضرت عمرؓ کا فتویٰ ہے۔ ان کے زمانہ میں ایک شخص نے ایک عورت سے یہ بات کہی اور بعد میں اس سے نکاح کر لیا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا اسے کفارہ ظہار دینا ہو گا۔

مالکیہ اور حنابلہ بھی یہی بات کہتے ہیں، اور وہ اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اگر عورت کی تخصیص نہ کی گئی ہو بلکہ کہنے والے نے یوں کہا ہو کہ تمام عورتیں میرے اوپر ایسی ہیں، تو جس سے بھی وہ نکاح کرے گا اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا۔ یہی رائے سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر، عطاء بن ابی رباح، حسن نصری اور اسحاق بن راہویہ کی ہے۔

شافعیہ کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے ظہار بالکل بے معنی ہے۔ ابن عباس اور قتادہ کی بھی یہی رائے ہے۔

(۵)۔ کیا ظہار ایک خاص وقت تک کے لیے ہو سکتا ہے؟ حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی خاص وقت کی تعیین  کر کے ظہار کیا ہو تو جب تک و وقت باقی ہے، بیوی کو ہاتھ لگانے سے کفارہ لازم آئے گا، اور اس وقت کے گزر جانے پر ظہار غیر مؤثر ہو جائے گا۔ اس کی دلیل سلمہ بن صخر بیاضی کا واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی بیوی سے رمضان کے لیے ظہار کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ وقت کی تعیین بے معنی ہے۔ بخلاف اس کے امام مالک اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ظہار جب بھی کیا جائے گا، ہمیشہ کے لیے ہو گا اور وقت کی تخصیص غیر مؤثر ہو گی، کیونکہ جو حرمت واقع ہو چکی ہے و ہ وقت گزر جانے پر آپ سے آپ ختم نہیں ہو سکتی۔

(۶)۔ مشروط ظہار کیا گیا ہو تو جس وقت بھی شرط کی خلاف ورزی ہو گی، کفارہ لازم آ جائے گا۔ مثلاً آدمی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ ’’ اگر میں گھر میں آؤں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی بیٹھ‘‘۔ اس صورت میں وہ جب بھی گھر میں داخل ہو گا۔ کفارہ ادا کیے بغیر بیوی کو ہاتھ نہ لگا سکے گا۔

(۷)۔ ایک بیوی سے کئی مرتبہ ظہار کے الفاظ کہے گئے ہوں تو حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ خواہ ایک ہی نشست میں ایسا کیا گیا ہو یا متعدد نشستوں میں، بہر حال جتنی مرتبہ یہ الفاظ کہے گئے ہوں اتنے ہی کفارے لازم آئیں گے، الا یہ کہ کہنے والے نے ایک دفعہ کہنے کے بعد اس قول کی تکرار محض اپنے پہلے قول کی تاکید کے لیے کی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ خواہ کتنی ہی مرتبہ اس قول کی تکرار کی گئی ہو، قطع نظر اس سے کہ اعادہ کی نیت ہو یا تاکید کی، کفارہ ایک ہی لازم ہو گا۔ یہی قول شعبی، طاؤس، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، اور اوزاعی رحمہم اللہ کا ہے حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر تکرار ایک نشست میں کی گئی ہو تو ایک ہی کفارہ ہو گا، اور مختلف نشستوں میں ہو تو جتنی نشستوں میں کی گئی ہو اتنے ہی کفارے دینے ہوں گے۔ قتادہ اور عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی ہے۔

(۸) دو یا زائد بیویوں سے بیک وقت اور بیک لفظ ظہار کیا جائے، مثلاً ان کو مخاطب کر کے شوہر کہے کہ تم میرے اوپر ایسی ہو جیسے میری ماں کی پیٹھ، تو حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کو حلال مرنے کے لیے الگ الگ کفارے دینے ہوں گے۔ یہی رائے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، عروہ بن زبیر، طاؤس، عطاء، حسن بصری، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، اور ابن شہاب زہری کی ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کہتے ہیں کہ اس صورت میں سب سے کے لیے ایک ہی کفارہ لازم ہو گا۔ ربیعہ، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور ابوٹور کی بھی یہی رائے ہے۔

(۹) ایک ظہار کا کفارہ دینے کے بعد اگر آدمی پھر ظہار کر بیٹھے تو یہ امر متفق علیہ ہے کہ پھر کفارہ دیے بغیر بیوی اس کے لیے حلال نہ ہو گی۔

(۱۰)۔ کفارہ ادا کرنے سے پہلے اگر بیوی سے تعلق زن و شو قائم کر بیٹھا ہو تو ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر چہ یہ گناہ ہے، اور آدمی کو اس پر استغفار کرنا چاہیے، اور پھر اس کا اعادہ نہ کرنا چاہیے، مگر کفارہ اسے ایک ہی دینا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جن لوگوں نے ایسا کیا تھا ان سے آپ نے نہیں دیا تھا کہ کفارہ ظہار کے علاوہ اس پر انہیں کوئی اور کفارہ بھی دینا ہو گا۔ حضرت عمرو بن عاص، قبیصہبن ذؤَیب سعید بن جبیر، زہری اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس پر دو کفارے لازم ہوں گے۔ اور حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ تین کفارے دینے ہوں گے۔ غالباً ان حضرات کو وہ احادیث نہ پہنچی ہوں گی جن میں اس مسئلہ پر حضورؐ کا فیصلہ بیان ہوا ہے۔

(۱۱)۔  بیوی کس کس سے تشبیہ دینا ظہار ہے؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : عامر شعبی کہتے ہیں کہ صرف ماں سے تشبیہ ظہار ہے، باقی اور کسی بات پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مگ فقہاء امت میں سے کسی گروہ بے بھی ان سے اس معاملہ میں اتفاق نہیں کیا ہے، کیونکہ قرآن نے ماں سے تشبیہ کو گناہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن عورتوں کی حرمت ماں جیسی ہے ان کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا بیہودگی اور جھوٹ میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا حکم وہی نہ ہو جو ماں سے تشبیہ کا حکم ہے۔

حنفیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں تمام وہ عورتیں داخل ہیں جو نسب یا رضاعت، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ابداً حرام ہیں مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے بیوی کی بہن، اس کی خالہ، اس کی پھوپھی، یا غیر عورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو، ظہار ہو گا۔ البتہ بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر، بال، دانت وغیرہ کو ابداً حرام عورت کی پیٹھ سے، یا بیوی کو اس کے سر، ہاتھ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے، ظہار نہیں ہے۔

شافعیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں صرف وہی عورتیں داخل ہیں جوق ہمیشہ حرام تھیں اور ہمیشہ حرام رہیں، یعنی ماں، بہن، بیٹی وغیرہ مگر وہ عورتیں اس میں داخل نہیں ہیں جو کبھی حلال رہ چکی ہوں، جیسے رضاعی ماں، بہن، ساس اور بہو، یا کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں،جیسے سالی۔ ان عارضی یا وقتی حرام عورتوں کے ماسوا ابدی حرمت رکھنے والی عورتوں میں سے کسی کے ان اعضا کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہو گا جن کا ذکر بغرض اظہار اکرام و توقیر عادۃً نہیں کیا جاتا۔ رہے وہ اعضاء جن کا اظہار اکرام و توقیر کے کیا جاتا ہے تو ان تشبیہ صرف اس صورت میں ظہار ہو گی جبکہ یہ بات ظہار کی نیت سے کہی جائے۔ مثلاً بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی آنکھ یا جان کی طرح ہے، یا ماں کے ہاتھ، پاؤں یا پیٹ کی طرح ہے، یا ماں کے پیٹ یا سینے سے بیوی کے پیٹ یا سینے کو تشبیہ دینا، یا بیوی کے سر، پیٹھ یا ہاتھ کو اپنے لیے ماں کی پیٹھ جیسا قرار دینا، یا بیوی کو یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں جیسی ہے، ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے اور عزت کی نیت سے ہو تو عزت ہے۔

مالکیہ کہتے ہیں کہ ہر عورت جو آدمی کے لیے حرام ہو، اس سے بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہے، حتی کہ بیوی سے یہ کہنا بھی ظہار کی تعریف میں آتا ہے ہ تو میرے اوپر فلاں غیر عورت کی بیٹھ جیسی ہے، نیز وہ کہتے ہیں کہ ماں اور ابدی محرمات کے کسی عضو سے بیوی کو یا بیوی کے کسی عضو کو تشبیہ دینا ظہار ہے، اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اعضاء ایسے ہوں جن پر نظر ڈالنا حلال نہ ہو، کیونکہ مان کے کسی عضو پر بھی اس طرح کی نظر ڈالنا جیسی بیوی پر ڈالی جاتی ہے، حلال نہیں ہے۔

حنابلہ اس حکم میں تمام ان عورتوں کو داخل سمجھتے ہیں جو ابداً حرام ہوں، خواہ وہ پہلے کبھی حلال رہ چکی ہوں، مثلاً ساس، یا دودھ پلانے والی ماں رہیں وہ عورتیں جو بعد میں کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں، (مثلاً سالی)، تو ان کے معاملہ میں امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ بھی ظہار ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ دینا ظہار کی تعریف میں آ جاتا ہے۔ البتہ بال، ناخن، دانت جیسے غیر مستقل اجزاء جسم اس حکم سے خارج ہیں۔

(۱۲)۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی سے یہ کہنا کہ ’’ تو میرے اوپر میری ماں کی بیٹھ جیسی ہے ‘‘ صریح ظہار ہے  کیونکہ اہل عرب میں یہی ظہار کا طریقہ تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ البتہ اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ دوسرے الفاظ میں سے کون سے ایسے ہیں جو صریح ظہار کے حکم میں ہیں، اور کون سے ایسے ہیں جن کے ظہار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قائل کی نیت پر کیا جائے گا۔

حنفیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ وہ ہیں جن میں صاف طور پر حلال عورت(بیوی) کو حرام عورت (یعنی محرمات ابدیہ میں سے کسی عورت) سے تشبیہ دی گئی ہو، یا تشبیہ ایسے عضو سے دی گئی ہو جس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہے، جیسے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ماں یا فلاں حرام عورت کے پیٹ یا ران جیسی ہے۔ ان کے سوا دوسرے الفاظ میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ اگر کہے کہ ’’تو میرے اوپر حرام ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘ تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ صریح ظہار ہے، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ظہار کی نیت ہو تو ظہار ہے اور طلاق کی نیت ہو تو طلاق۔ اگر کہے کہ ’’ تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی طرح ہے ‘‘ تو حنیفہ کا عام فتویٰ یہ ہے کہ یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق بائن، اور اگر کوئی نیت نہ ہو تو بے معنی ہے۔ لیکن امام محمد کے نزدیک یہ قطعی ہے۔ اگر بیوی کو ماں یا بہن یا بیٹی کہہ کر پکارے تو یہ سخت بیہودہ بات ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غصے کا اظہار فرمایا تھا، مگر اسے ظہار نہیں قرار دیا۔ اگر کہے کہ ’’ تو میرے اوپر ماں کی طرح حرام ہے ‘‘ تو یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق، اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ اگر کہے کہ ’’ تو میرے لیے ماں کی طرح یا ماں جیسی ہے ‘‘ تو نیت پوچھی جائے گی۔ عزت اور توقیر کی نیت سے کہا ہو تو عزت اور توقیر ہے۔ ظہار کی نیت سے کہا ہو تو ظہار ہے۔ طلاق کی نیت سے کہا ہو تو طلاق ہے۔ کوئی نیت نہ ہو اور یونہی یہ بات کہہ دی ہو تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بے معنی ہے، امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر ظہار کا تو نہیں مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا، اور امام محمد کے نزدیک یہ ظہار ہے۔

شافعیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو میرے نزدیک، یا میرے ساتھ، یا میرے لیے ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ۔ یا تو میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ یا تیرا جسم، یا تیرا بدن، یا تیرا نفس میرے لیے میری ماں کے جسم یا بدن یا جنس کی طرح ہے۔ ان کے سوا باقی تمام الفاظ میں قائل کی نیت پر فیصلہ ہو گا۔

حنابلہ کے نزدیک ہر وہ لفظ جس سے کسی شخص  نے بیوی کو یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو کو کسی ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام ہے، یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو سے صاف صاف تشبیہ دی ہو، ظہار کے معاملہ میں صریح مانا جائے گا۔

مالکیہ کا مسلک بھی قریب قریب یہی ہے، البتہ تفصیلات میں ان کے فتوے الگ الگ ہیں۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی سے یہ کہنا کہ ’’ میرے لیے میری ماں جیسی ہے، یا میری ماں کی طرح ہے ‘‘ مالکیوں کے نزدیک ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے، طلاق کی نیت سے ہو تو طلاق اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ حنبلیوں کے نزدیک یہ بشرط نیت صرف ظہار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی سے کہے کہ ’’ تو میری ماں ہے ‘‘ تو مالکیہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ بات اگر جھگڑے اور غصے کی حالت میں کہی گئی ہو تو ظہار ہے، اور پیار محبت کی  بات چیت میں کہی گئی ہو تو کو یہ بہت ہی بری بات ہے لیکن ظہار نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کہے ’’ تجھے طلاق ہے تو میری ماں کی طرح ہے ‘‘ تو حنابلہ کے نزدیک یہ طلاق ہے نہ کہ ظہار، اور اگر کہے ’’ تو میری ماں کی طرح ہے تجھے طلاق ہے ‘‘ تو ظہار اور طلاق دونوں واقع ہو جائیں گے۔ یہ کہنا کہ ’’ تو میرے اوپر ایسی حرام ہے جیسی میر ی ماں کی بیٹھ‘‘ مالکیہ اور حنابلہ دونوں کے نزدیک ظہار ہے خواہ طلاق ہی کی نیت سے یہ لفاظ کہے گئے ہوں، یا نیت کچھ بھی نہ ہو۔

الفاظ ظہار کی اس بحث میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فقہاء نے اس باب میں جتنی بحثیں کی ہیں وہ سب عربی زبان کی الفاظ اور محاورات سے تعلق رکھتی ہیں، اور ظاہر ہے کہ دنیا کی دوسری      زبانیں بولنے والے نہ عربی زبان میں ظہار کریں گے، نہ ظہار کرتے وقت عربی الفاظ اور فقروں کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ زبان سے ادا کریں گے۔ اس لیے کسی لفظ یا فقرے کے متعلق اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ظہار کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں، تو اسے اس لحاظ سے نہیں جانچنا چاہیے کہ وہ فقہاء کے بیان کردہ الفاظ میں سے کس کا صحیح ترجمہ ہے، بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا قائل نے بیوی کو جنسی(Sexual) تعلق کے لحاظ سے محرمات میں سے کسی کے ساتھ صاف صاف تشبیہ دی ہے، یا اس کے الفاظ میں دوسرے مفہومات کا بھی احتمال ہے؟ اس کی نمایاں ترین مثال خود وہ فقرہ ہے جس کے متعلق تمام فقہاء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ عرب میں ظہار کے لیے وہی بولا جاتا تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے، یعنی اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (تو میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے )۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں، اور کم از کم اردو کی حد تک تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں کوئی ظہار کرنے والا ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا جو اس عربی فقرے کا لفظی ترجمہ ہوں۔ البتہ وہ اپنی زبان کے ایسے الفاظ ضرور استعمال کر سکتا ہے جن کا مفہوم ٹھیک وہی ہو جسے ادا کرنے کے لیے ایک عرب یہ فقرہ بولا کرتا تھا۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ  ’’تجھ سے مباشرت میرے لیے ایسی ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت ‘‘، یا جیسے بعض جہلا بیوی سے کہہ بیٹھتے ہیں کہ ’’تیرے پاس آؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں ‘‘۔

(۱۳) قرآن مجید میں جس چیز کو کفارہ لازم آنے کا سبب قرار دیا گیا ہے وہ محض ظہار نہیں ہے بلکہ ظہار کے بعد ’’غور‘‘ ہے۔ یعنی اگر آدمی صرف ظہار کر کے رہ جائے اور عَود نہ کرے تو اس پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ عَود کیا ہے جو کفارہ کا موجب ہے؟ اس بارے میں فقہاء کے مالک یہ ہیں :

حنفیہ کہتے ہیں کہ عَود سے مراد مباشرت کا ارادہ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض ارادے اور خواہش پر کفارہ لازم آ جائے، حتیٰ کیہ اگر آدمی ارادہ کر کے رہ جائے اور عملی اقدام نہ کرے تب بھی اسے کفارہ دینا پڑے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس حرمت کو رفع کرنا چاہے جو اس نے ظہار کر کے بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو کے معاملہ میں اپنے اوپر عائد کر لی تھی وہ پہلے کفارہ دے، کیونکہ یہ حرمت کفارہ کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔

امام مالکؒ کے اس معاملہ میں تین قول ہیں، مگر مالکیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین اور صحیح ترین قول اس مسلک کے مطابق ہے جو اوپر حنفیہ کا بیان ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار سے جس چیز کو اس نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ وہ بیوی کے ساتھ مباشرت کا تعلق تھا۔ اس کے بعد عَودیہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ یہی تعلق رکھنے کے لیے پلٹے۔

امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک بھی ابن قدامہ نے قریب قریب وہی نقل کیا ہے جو اوپر دونوں اماموں کا بیانکیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد مباشرت کے حلال ہونے کے لیے کفارہ شرط ہے۔ ظہار کرنے والا جو شخص اسے حلال کرنا چاہے وہ گویا تحریم سے پلٹنا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے حکم دیا گیا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے کفارہ دے، ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شخص ایک غیر عورت کو اپنے لیے حلال کرنا چاہے تو اس سے کہا جائے گا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے نکاح کرے۔

امام شافعؒی کا مسلک ان تینوں سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا اپنی بیوی سے ظہار کرنے کے بعد اسے حسب سابق بیوی بنائے رکھنا، یا بالفاظ دیگر اسے بیوی کی حیثیت سے روکے رکھنا عَود ہے۔ کیونکہ جس وقت اس نے ظہار کیا اسی وقت گویا اس نے اپنے لیے یہ بات حرام کر لی کہ اسے بیوی بنا کر رکھے۔ لہٰذا اگر اس نے ظہار کرتے ہی فوراً اسے طلاق نہ دی اور اتنی دیر تک اسے روکے رکھا جس میں وہ طلاق کے الفاظ زبان سے نکال سکتا تھا، تو اس نے عَود کر لیا اور اس پر کفارہ واجب ہو گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک سانس میں ظہار کرنے کے بعد اگر آدمی دوسرے ہی سانس میں طلاق نہ دے دے تو کفارہ لازم آ جائے گا، خواہ بعد میں اس کا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو بیوی بنا کر نہیں رکھنا ہے،اور اس کا کوئی ارادہ اس کے ساتھ تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ حتیٰ کہ چند منٹ غور کر کے وہ بیوی کو طلاق بھی دے ڈالے تو امام شافعیؒ کے مسلک کی رو سے کفارہ اس کے ذمہ لازم رہے گا۔

(۱۴)قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا کفارہ دے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ’’مَس‘‘ کریں۔ ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں مس سے مراد چھونا ہے، اس لیے کفارہ سے پہلے صرف مباشرت ہی حرام نہیں ہے بلکہ شوہر کسی طرح بھی بیوی کو چھو نہیں سکتا۔ شافعیہ شہوت کے ساتھ چھونے کو حرام کہتے ہیں، حنابلہ ہر طرح کے تلذذ کو حرام قرار دیتے ہیں، اور مالکہ لذت کے لیے بیوی کے جسم پر بھی نظر ڈالنے کو ناجائز ٹھیراتے ہیں اور ان کے نزدیک صرف چہرے اور ہاتھوں پر نظر ڈالنا اس سے مستثنیٰ ہے۔

(۱۵) ظہار کے بعد اگر آدمی بیوی کو طلاق دے دے تو رجعی طلاق ہونے کی صورت میں رجوع کر کے بھی وہ کفارہ دیے بغیر اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ بائن ہونے کی صورت میں اگر اس سے دوبارہ نکاح کرے تب بھی اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا۔ حتیٰ کہ اگر تین طلاق دے چکا ہو، اور عورت دوسرے آدمی نکاح کرنے کے بعد بیوہ یا مطلقہ ہو چکی ہو، اور اس کے بعد ظہار کرنے والا شوہر اس سے از سر نو نکاح کر لے، پھر بھی کفارے کے بغیر وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی۔ کیونکہ وہ اسے ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر اپنے اوپر ایک دفعہ حرام کر چکا ہے، اور یہ حرمت کفارے کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔

(۱۶) عورت کے لیے لازم ہے کہ جس شوہر نے اس کے ساتھ ظہار کیا ہے اسے ہاتھ نہ لگانے دے جب تک وہ کفارہ ادا نہ کرے۔ اور چونکہ تعلق زن و شو عورت کا حق ہے جس سے ظہار کر کے شوہر نے اسے محروم کیا ہے، اس لیے اگر وہ کفارہ نہ دے تو بیوی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ عدالت اس کے شوہر کو مجبور کرے گی کہ وہ کفارہ دے کر حرمت وہ دیوار ہٹائے جو اس نے اپنے اور اس کے درمیان حائل کر لی ہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو عدالت اسے ضرب یا قید یا دونوں طرح کی سزائیں دے سکتی ہے۔ یہ بات بھی چاروں مذاہب فقہ میں متفق علیہ ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ مذہب حححنفہ حنفی میں عورت کے لیے صرف یہی ایک چارہ کار ہے، ورنہ ظہار پر خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے، عورت کو اگر عدالت اس مشکل سے نہ نکالے تو وہ تمام عمر معلق رہے گی، کیونکہ ظہار سے نکاح ختم نہیں ہوتا، صرف شوہر کا حق تمتّع سلب ہوتا ہے۔ ملکی مذہب میں اگر شورہ عورت کو ستانے کے لیے ظہار کر کے معلق چھوڑ دے تو اس پر ایلاء کے احکام جاری ہوں گے، یعنی وہ چار مہینے سے زیادہ عورت کو روک کر نہیں رکھ سکتا (احکام اِیلاء کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حواشی ۲۴۵ تا ۲۴۷ )۔ شافعیہ کے نزدیک اگر چہ ظہار میں احکام ایلاء تو صرف اس وقت جاری ہو سکتے ہیں جبکہ شوہر نے ایک مدت خاص کے لیے ظہار کیا ہو اور وہ مدت چار مہینے سے زیادہ ہو، لیکن چونکہ مذہب شافعی کی رو سے شوہر پر اسی وقت کفارہ واجب ہو جاتا ہے جب وہ عورت کو بیوی بنا کر رکھے رہے، اس لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کسی طویل مدت تک اس کو معلق رکھے۔

(۱۷) قرآن اور سنت میں تصریح ہے کہ ظہار کا پہلا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے۔ اس سے آدمی عاجز ہو تب دو مہینے کے روزوں کی شکل میں کفارہ دے سکتا ہے۔ اور اس سے بھی عاجز ہو تب ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے۔ لیکن اگر تینوں کفاروں سے کوئی شخص عاجز ہو تو چونکہ شریعت میں کفارے کی کوئی اور شکل نہیں رکھی گئی ہے اس لیے اسے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب تک وہ ان میں سے کسی ایک پر قادر نہ ہو جائے۔ البتہ سبت سے یہ ثابت ہے کہ ایسے شخص کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ تیسرا کفارہ ادا کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المال سے ایسے لوگوں کی مدد فرمائی ہے جو اپنی غلطی سے اس مشکل میں پھنس گئے تھے اور تینوں کفاروں سے عاجز تھے۔

 

ترجمہ

 

۱۸ کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو  اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ ۱۹ خفیہ بات کرنے والے خواہ اِس سے کم ہوں یا زیادہ ، جہا ں کہیں بھی وہ ہوں ، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ۲۰ پھر قیامت کے روز وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ ۲۱ یہ لوگ چھُپ چھُپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسُول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اُس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ۲۲ ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری اِن باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ ۲۳ اُن کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ اُسی کا وہ ایندھن بنیں گے۔ بڑا  ہی بُرا انجام ہے اُن کا۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کر و تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اُس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے۔۲۴ کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے، اور وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اُس سے رنجیدہ ہوں ، حالانکہ بے اذنِ خدا  وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی،اور مومنوں کو اللہ ہی بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ۲۵

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کر دیا کرو، ۲۶ اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ جاؤ تو اُٹھ جایا کرو۔ ۲۷ تم میں سے جو  لوگ  ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، ۲۸ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم رسول سے تخلیہ میں بات کرو تو بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دو۔ ۲۹ یہ تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔ البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ غفورو رحیم ہے۔

کیا تم ڈر گئے اس بات سےکہ تخلیہ میں گفتگو کرنے سے پہلے تمہیں صدقات دینے ہوں گے؟ اچھا، اگر تم ایسا نہ کرو۔۔۔۔ اور اللہ نے تم کو اس سے معاف کر دیا۔۔۔۔ تو نماز قائم کرتے رہو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرتے رہو۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ ۳۰ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۸۔ یہاں سے آیت ۱۹ تک مسلسل منافقین کے اس طرز عمل پر گرفت کی گئی ہے جو انہوں نے اس وقت مسلم معاشرے میں اختیار کر رکھا تھا۔ وہ بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے، مگر اندر ہی اندر انہوں نے اہل ایمان سے الگ اپنا ایک جتھا بنا رکھا تھا۔ مسلمان جب بھی انہیں دیکھتے، یہی دیکھتے کہ وہ آپس میں سر جوٹے کھسر پسر کر رہے ہیں۔ انہیں خفیہ سرگوشیوں میں وہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور فتنے برپا کرنے اور ہر اس پھیلانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتے اور نئی نئی افواہیں گھڑتے تھے۔

۱۹۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں دو اور تین کے بجائے تین اور پانچ کا ذکر کس مصلحت سے کیا گیا ہے؟ پہلے دو اور پھر چار کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ مفسرین نے اس کے  بہت سے جوابات دیے ہیں، مگر ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ طرز بیان در اصل قرآن مجید کی عبارت کے ادبی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عبارت یوں ہوتی : مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی اثْنَیْنِ اِ لَّاھُوَثاَلِثھُُمْ وَلاَ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَرَابِعھُمْ۔ اس میں نَجْو یَثْنَیْن بھی کوئی خوبصورت ترکیب نہ ہوتی اور ثالث اور ثلٰثَۃٍ کا یکے بعد دیگرے آنا بھی حلاوت سے خالی ہوتا۔ یہی قباحت اِلاَّ ھُوَرَابِعھُمْ کے بعد وَلاَ اَرٰبَعَۃٍ کہنے میں بھی تھی۔ اس لیے تین اور پانچ سرگوشی کرنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد دوسرے فقرے میں اس خلا کو یہ کہہ کر بھر دیا گیا کہ وَلَٓا اَدْنیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ھُوَ مَعَھُمْ۔ سرگوشی کرنے والے خواہ تین سے کم ہوں یا پانچ سے زیادہ، بہر حال اللہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔

۲۰۔ یہ معیت در حقیقت اللہ جل شانہ کے علیم و خبیر، اور سمیع و بصیر اور قادر مطلق ہونے کے لحاظ سے ہے، نہ کہ معاذ اللہ اس معنی میں کہ اللہ کوئی شخص ہے جو پانچ اشخاص کے درمیان یک چھٹے شخص کی حیثیت سے کسی جگہ چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ دراصل اس ارشاد سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورہ کر رہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی ہر طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔

۲۱۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کو اس روش سے منع فرما چکے تھے، اس پر بھی جب وہ باز نہ آئے تب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہوا۔

۲۲۔ یہ یہود اور منافقین کا مشترک رویہ تھا۔ متعدد روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ یہودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے السام علیک یا ابا القاسم کہا۔ یعنی السلام علیک کا تلفظ کچھ اس انداز سے کیا کہ سننے والا سمجھے سلام کہا ہے، مگر دراصل انہوں نے سام کہا تھا جس کے معنی موت کے ہیں۔ حضورؐ نے جواب میں فرمایا و علیکم۔ حضرت عائشہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا موت تمہیں آئے اور اللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے۔ حضورؐ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اے عائشہ، اللہ کو بد زبانی پسند نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ، آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ حضورؐ نے فرمایا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا؟ میں ان سے کہہ دیا ’’اور تم پر بھی‘‘)بخاری،مسلم،ابن جریر،ابن ابی حاتم)۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ منافقین اور یہود، دونوں نے سلام کا یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا (ابن جریر)۔

۲۳۔ یعنی وہ اپنے نزدیک اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آ جاتا۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں۔

۲۴۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ(آپس میں راز کی بات کرنا) بجائے خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کے جائز یا نا جائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں۔ جن لوگوں کا اخلاص، جن کی راست بازی، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیا کر دیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کر لیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل و تیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و نا جائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے، یا کسی کا حق دلوانا ہے، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ کار ثواب ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے، یا کسی کا حق مارنا ہ، یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک بُرائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ بُرائی پر بُرائی۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صا حبھما فان ذالک یحزنہٗ۔ ’’ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘(بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتنا جیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ۔ ’’ دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘ (مسلم )۔ اسی نا جائز سر گوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ نا جائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے۔

۲۵۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کچھ لوگوں کی سرگوشیاں دیکھ کر یہ شبہ بھی ہو جائے کہ وہ اسی کے خلاف کی جا رہی ہیں، تب بھی اسے اتنا رنجیدہ نہ ہونا چاہیے کہ محض شبہ ہی شبہ پر کوئی جوابی کار روائی کرنے کی فکر میں پڑ جائے، یا اپنے دل میں اس پر کوئی غم، یا کینہ، یا غیر معمولی پریشانی پرورش کرنے لگے۔ اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ اعتماد اس کے قلب میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے اس کو نجات مل جائے گی اور وہ اشرار کو ان کے حال پر چھوڑ کر پورے اطمینان و سکون کو غارت کر دے، نہ کم ظرف ہوتا ہے کہ غلط کار لوگوں کے مقالے میں آپے سے باہر ہو کر خود بھی خلاف انصاف حرکتیں کرنے لگے۔

۲۶۔ اس کی تشریح سورہ کے دیباچے میں کی جاچکی ہے۔ بعض مفسرین  نے اس حکم کو صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس تک محدود سمجھا ہے۔لیکن جیسا کہ امام مالکؒ نے فرمایا ہے، صحیح ات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام مجلسوں کے لیے یہ ایک عام ہدایت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے اہل اسلام کو جو آداب سکھائے ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کسی مجلس میں پہلے سے کچھ لوگ بیٹے ہوں اور بعد میں مزید کچھ لوگ آئیں، تو یہ تہذیب پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں ہونی چاہیے کہ وہ خود نئے آنے والوں کو جگہ دیں اور حتیٰ الامکان کچھ سکڑ اور سمٹ کر ان کے لیے کشادگی پیدا کریں، اور اتنی شائستگی بعد کے آنے والوں میں ہونی چاہیے کہ وہ زبردستی ان کے اندر نہ گھسیں اور کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کرے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لایقیم الرجل الرجل من مجلسہ فی جلس فیہ و لکن تفسحوا وتو سعوا۔ ’’ کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے بلکہ تم لوگ خود دوسروں کے لیے جگہ کشادہ کرو‘‘۔ (مسند احمد،بخاری، مسلم)۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یحل لرجل ان یفرق بین اثنین الا باذنہما۔ ’’ کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر دھس جائے’’(مسند احمد، ابو داؤد، ترمصی)۔

۲۷۔ عبدالرحمان بن زید بن اسلم کا بیان ہے ہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دیر تک بیٹھے رہتے تھے اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ آخر وقت تک بیٹھے رہیں۔ اس سے بسا اوقات حضورؐ کو تکلیف ہوتی تھی، آپ کے آرام میں بھی خلل پڑتا تھا اور آپ کے کاموں کا بھی حرج ہوتا تھا۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جب تم لوگوں سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جاؤ(ابن جریر و ابن کثیر)۔

۲۸۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم آپ سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گر گیا، یا اگر مجلس برخاست کر کے تمہیں اٹھ جانے کے لیے کہا گیا تو تمہاری کچھ ذلت ہو گئی۔ رفع درجات کا اصل ذریعہ ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کس کو مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا، اور کون زیادہ دیر تک آپ کے پاس بیٹھا۔ کوئی شخص اگر آپ کے قریب بیٹھ گیا ہو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسے بڑا مرتبہ مل گیا۔ بڑا مرتبہ تو اسی کا رہے گا جس نے ایمان اور علم کی دولت زیادہ پائی ہے۔ اسی طرح کسی شخص نے اگر زیادہ دیر تک بیٹھ کر اللہ کے رسول کو تکلیف دی تو اس نے الٹا جہالت کا کام کیا۔ اس کے درجے میں محض یہ بات کوئی اضافہ نہ کر دے گی کہ اسے دیر تک آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ اس سے بدر جہا زیادہ بلند مرتبہ اللہ کے ہاں اس کا ے جس نے آپ کی صحبت سے ایمان اور علم کا سرمایہ حاصل کیا اور وہ اخلاق سیکھے جو ایک مومن میں ہونے چاہییں۔

۲۹۔ حضرت عبداللہ بن عباس اس حکم کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ باتیں (یعنی تخلیہ کی درخواست کر کے ) پوچھنے لگے تھے حتیٰ کہ انہوں نے حضورؐ کو تنگ کر دیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے نبی پر سے یہ بوجھ ہلکا کر دے (ابن جریر)۔ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو شخص بھی علیٰحدگی میں بات کرنے کی درخواست کرتا، آپ اسے رد نہ فرماتے تھے۔ جس کا جی چاہتا آ کر عرض کرتا کہ میں ذرا الگ بات کرنا چاہتا ہوں، اور آپ اسے موقع دے دیتے، یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے معاملات میں بھی آپ کو تکلیف دینے لگے جن میں الگ بات کرنے کی کوئی حاجت نہ ہوتی۔ زمانہ وہ تھا جس میں سارا عرب مدینہ کے خلاف بر سر جنگ تھا۔ بعض اوقات کسی شخص کی اس طرح کی سرگوشی کے بعد شیطان لوگوں کے کان میں یہ پھونک دیتا تھا کہ یہ فلاں قبیلے کے حملہ آور ہونے کی خبر لایا تھا اور اس سے مدینہ میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا تھا۔ دوسری طرف لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے منافقین کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو کانوں کے کچے ہیں، ہر ایک کی سن لیتے ہیں۔ ان وجوہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے (احکام القرآن الابن العربی)۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے کے لیے بھی بعض لوگ حضور سے خلوت میں بات کرتے تھے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ حکم آیا تو حضورؐ نے مجھ سے پوچھا کتنا صدقہ مقرر کیا جائے؟ کیا ایک دینار؟ میں نے عرض کیا یہ لوگوں کی مقدرت سے زیادہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا نصف دینار؟ میں نے عرض کیا لوگ اس کی مقدرت بھی نہیں رکھتے۔ فرمایا پھر کتنا؟ میں نے عرض کیا جس ایک جَو برابر سونا۔ فرمایا : انک لذھید، یعنی تم نے تو بڑی کم مقدار کو مدورہ دیا (ابن جریر، ترمذی، مسند ابو یعلیٰ )۔ ایک دوسری روایت میں حضرت علیؓ فرمانے ہیں قرآن کی یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔ اس حکم کے آتے ہی میں نے صدقہ پیش کیا اور ایک مسئلہ آپ سے پوچھ لیا۔ (ابن جریر، حاکم، ابن المنذر، عبد بن حمید)۔

۳۰۔ یہ دوسرا حکم اوپر کے حکم کے ٹھوڑی مدت بعد ہی نازل ہو گیا اور اس نے صدقہ کے وجوب کو منسوخ کر دیا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ صدقہ کا یہ حکم کتنی دیر رہا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ایک دن سے بھی کم مدت تک باقی رہا پھر منسوخ کر دیا گیا۔ مقاتل بن حیّان کہتے ہیں دس دن تک رہا۔ یہ زیادہ سے زیادہ اس حکم کے بقا کی مدت ہے جو کسی روایت میں بیان ہوئی ہ۔

 

ترجمہ

 

کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہوں نے دوست بنایا ہے ایک ایسے گروہ کو جو اللہ کا مغضوب ہے؟ ۳۱ وہ نہ تمہارے ہیں نہ اُن  کے، ۳۲ اور وہ جان بُوجھ کر  جھُوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں۔ ۳۳ اللہ نے ان  کے لیے سخت عذاب مہیّا کر رکھا ہے، بڑے ہی بُرے کرتُوت ہیں جو وہ کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے  اپنی قسموں کر ڈھال بنا رکھا ہے جس کی آڑ میں وہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں، ۳۴ اِس پر ان کے لیے ذلّت کا عذاب ہے۔ اللہ سے بچانے کے لیے نہ ان کے مال کچھ کام آئیں گے نہ ان کی اولاد۔ وہ دوزخ کے یار ہیں، اسی میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ جس روز اللہ ان سب کو اُٹھائے گا، وہ اس کے سامنے بھی اُسی طرح قسمیں  کھائیں  گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں ۳۵ اور اپنے نزدیک یہ سمجھیں گے کہ اس سے ان کا کچھ کام بن جائے گا۔خوب جان لو، وہ پرلے درجے کے جھُوٹے ہیں۔ شیطان اُن پر مسلّط  ہو چکا ہے اور اُس نے خدا کی یاد اُن کے دل سے بھُلا دی ہے۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبر دار ہو، شیطان کی پارٹی والے ہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ یقیناً  ذلیل ترین مخلوقات میں سے ہیں وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسُول کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسُول غالب ہو کر رہیں گے۔ ۳۶ فی الواقع اللہ زبردست اور زورآور ہے۔

تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں  سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اُس کے رسُول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ اُن کے باپ ہوں ، یا اُن کے بیٹے، یا اُن کے بھائی یا اُن کے اہلِ خاندان۔ ۳۷ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے ان کو قوّت بخشی ہے۔ وہ ان کو ایسی جنّتوں  میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں  وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ ؏۳

 

تفسیر

 

۳۱۔ اشارہ ہے مدینے کے یہودیوں کی طرف جنہیں منافقین نے دوست بنا رکھا تھا۔

۳۲۔ یعنی مخلصانہ تعلق ان کا نہ اہل ایمان سے ہے نہ یہود سے۔ دونوں کے ساتھ انہوں نے محض اپنی اغراض کے لیے رشتہ جوڑ رکھا ہے۔

۳۳۔ یعنی اس بات پر کہ وہ ایمان لائے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا ہادی و پیشوا مانتے ہیں اور اسلام و اہل اسلام کے وفادار ہیں۔

۳۴۔ مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے ایمان اور اپنی وفاداری کی قَسمیں کھا کر مسلمانوں کی گرفت سے بچے رہتے ہیں، اور دوسری طرف اسلام اور اہل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر طرح کے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھ کر اسلام قبول کرنے سے باز رہیں کہ جب گھر کے بھیدی یہ خبریں دے رہے ہیں تو ضرور اندر کچھ دال میں کالا ہو گا۔

۳۵۔ یعنی یہ صرف دنیا ہی میں اور صرف انسانوں ہی کے سامنے جھوٹی قَسمیں کھانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آخرت میں خود اللہ جل شانہ کے سامنے بھی یہ جھوٹی قَسمیں کھانے سے باز نہ رہیں گے۔ جھوٹ اور فریب ان کے اندر اتنا گہرا اُتر چکا ہے کہ مر کر بھی یہ ان سے نہ چھوٹے گا۔

۳۶۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۹۳۔

۳۷۔ اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک بات اصولی ہے، اور دوسری امر واقعی کا بیان۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہر گز لاحق نہ ہونی چاہیے کہ شاید وہ اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہو۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں کہ وہ جر الواقع کیا ہیں، مومن ہیں یا منافق؟ اور جی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں، مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق؟ اگر ان کے اندر کچھ بھی راستبازی موجود ہے، اور وہ کچھ بھی یہ احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسان کے لیے ذلیل ترین رویہ ہے، تو انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کر دیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہو۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتے کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں۔

یہ تو ہے اصولی بات۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کر کے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابو بکر اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے تربہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسیران جنگ بدر کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیر کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا۔ حضرت مصعب نے دیکھا تو پکار کر کہا ’’ ذرا مضبوط باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، اس کی رہائی کے لیے وہ تمہیں بہت سا فدیہ دے گی’‘۔ ابو عزیز نے کہا ’’ تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ’’ حضرت مصعب نے جواب دیا ’’ اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے ‘‘۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھا یا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیس ہوا کرتا ہے۔

دیلَمی نے حضرت معاذ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا نقل کی ہے کہ : اللحم لا تجعل لفا جر (وفی روایۃٍ لفاسق)عَلَیَّ یداً ولا نعمۃ فیودہٗ قلبی فانی وجدت فیما اوحیت اِلیّ لا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْ مِنُوْنَ بِاللہِ وَلْیَوْمِالْاٰخِرِ یُوَآدُّ وْ نَ مَنْ حَآ دَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ ’’ خدایا،کسی فاجر(اور ایک روایت میں فاسق) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے  کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاؤ گے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

(۵۹)۔سورہ الحشر

 

 

نام

 

دوسری آیت کے فقرے اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُو ا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَا رِھِمْ لِاَ وَّلِ الْحَشْرِ سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ الحشر آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

بخاری و مسلم میں حضرت سعید بن جُبیر کی روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سور حشر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ غزوہ بنی نضیر کے بارے میں  نازل ہوئی تھی جس طرح سورہ انفال غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت سعید بن جبیر کی دوسری روایت میں بن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ : قل سورۃ النَّضِیْر  یعنی یوں کہو کہ یہ سورہ نضیر ہے۔ یہی بات مجاہد، قتادہ، زہری، ابن زید، یزید بن رومان، محمد بن اسحاق وغیرہ حضرات سے بھی مروی ہے۔ ان سب کا متفقہ بیان یہ ہے کہ اس میں جن اہل کتاب کے نکالے جانے کا ذکر ہے ان سے مراد نبی النضیر ہی ہیں۔ یزید بن رومان، مجاہد اور محمد بن اسحاق کا قول یہ ہے کہ از اول تا آخر یہ پوری سورۃ اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ یہ غزوہ کب واقع ہوا تھا؟ امام زہری نے اس کے متعلق  عُرہ بن زبیر  کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہ جنگ بدر کے چھ مہینے بعد ہوا ہے۔ لیکن ابن سعد، ابن ہشام اور بَلَاذُرِی اسے ربیع الاول ۴ ہجری کا واقعہ بتاتے ہیں، اور یہی صحیح ہے۔ کیوں کہ تمام روایات اس امر میں متفق ہیں یہ غزوہ بِڑمَعُونَہ کے سانحہ کے بعد پیش آیا تھا، اور یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بئَر معونہ کا سانحہ جنگ احد کے بعد رو نما ہوا ہے نہ کہ اس سے پہلے۔

 

تاریخی پس منظر

 

اس سورہ کے مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مدینہ طیبہ اور حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، کیوں کہ اس کے بغیر آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے حقیقی اسباب کیا تھے۔

عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آ کر وہ اپنے بقیہ ابنائے ملت سے بچھڑ گئے تھے، اور دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں ان میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہود عرب کی تاریخ کا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے جو اہل عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلا ہوا تھا۔

حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسیٰؑ نے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالقہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں، بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آ کر فرمان نبی کی تعمیل کی، مگر عمالقہ کے  بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت جوان تھا، اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اس وقت حضرت موسیٰ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آ کر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن در حقیقت اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔

دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبل مسیح میں ہوئی جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آ کر وادی القریٰ، تیماء اور یثرب میں آباد ہو گئے تھے (فُتُوح البلدان، البالاذری)۔ لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔

در حقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب ۷۰ عیسوی میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا، اور پھر ۱۳۲ ء میں انہیں اس سر زمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں  بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آ کر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سر سبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ، مقنا، تبوک، تیماء، وادی القریٰ، خدک، اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا۔ اور بنی قرَیظہ، بنی نضیر، بنی یَہدَل، اور بنی قَینُقَاع  بھی اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوئے۔

یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے، کیونکہ وہ کاہنوں (Priests)یا (Co hens) کے طبقہ میں سے تھے، انہیں یہودیوں میں عالی نسب مانا جاتا تھا  اور ان کو اپنی ملت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انہوں نے دبا لیا اور عملاً اس سر سبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد ۴۵۰ء یا ۴۵۱ ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غسانی شام میں، لخمی جبرہ (عراق) میں، بنی خزاعہ جدہ و مکہ کے درمیان، اور اَوس و خزرج یثرب میں جا کر آباد ہوئے۔ یثرب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چار و ناچار بنجر زمینوں پر بس گے جہاں ان کو قوت الایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخر کر ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس، و خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور  ہو گئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینقاع کی چونکہ ان دونوں قبیلوں سے ان بن تھی اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اسے قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اس کے مقابلہ میں بنی نضیر و بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔ ذیل کے نقشہ سے واضح ہو گا کہ اس نئے انتظام کے ماتحت یثرب اور اس کے نواح میں یہودی بستیاں کہاں کہاں تھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے، آغاز ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خد و خال یہ تھے :

زبان، لباس، تہزیب، تمدن، ہر لحاظ سے انہوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کر لیا تھا، حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہو گئے تھے۔ ۱۲ یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زَعُوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ان کے چند گنے چنے علماء کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعرائے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انہیں ممیز کرتی ہو۔ ان کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ در حقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے، اور انہوں نے شدت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انہوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں نہ رہ سکتے تھے۔

ان کی اس عربیت کی وجہ سے مغربی مستشرقین کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے، یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی  کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو، یا ان کے علماء نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح اہل عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہل عرب کو وہ اُمّی (Gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف ان پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان امیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و نا جائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سرداران عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انہیں دین یہود میں داخل کر کے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایات عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہو گئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجائے صرف اپنے کاروبار سے دلچسپی تھی۔ اسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایہ  فخر و ناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علماء نے تعویذ گنڈوں اور فال گیر اور جادو گری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا جس کی وجہ سے عربوں پر ان کے ’’ علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔

معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہل عرب میں رائج نہ تھے۔ اور باہر کی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ ان وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلے کی در آمد اور یہاں سے چھوہاروں کی  برآمد ان کے ہاتھ  میں آ گئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انہی کا قبضہ تھ۔ پارچہ بانی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ  میخانے بھی انہوں نے قائم کر رکھے تھے جہاں شام سے شراب لا کر فروخت کی جاتی تھی۔ نبی قینقاع زیادہ تر سنار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بَنَج بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سود خواری کا تھا جس کے جال میں انہوں نے گرد و پیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھا تھا،اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار، جنہیں قرض لے لے کر ٹھاٹھ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔  یہ بھاری شرح سود پر قرضے دیتے، اور پھر سود در سود کا چکر چلاتے تھے جس کی گرفت میں آ جانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اس طرح انہوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔

ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں، اور انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ ان بڑی بڑی جائدادوں اور باغات اور سرسبز زمینوں پر انہیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انہوں نے اپنی منافع خوری اور سود خواری سے پیدا کی تھیں۔ مزید برآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بنا پر بارہا انہیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسا اوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلہ کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخالف سے ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قیرظہ اور بنی نضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدت پہلے اوس اور خزرج کے درمیان جو خونریز لڑائی بُعاث کے مقام پر ہوئی تھی اس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔

یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اولین کام کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔ اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن امور کی پابندی قبول کی تھی:

ان علی الیھود نفقتھم و علی المسلمین نفقتھم، وان بینھم النصر علیٰ من حارب اھل ھٰذہ الصحیفۃ، وان بینہم النصح النصیحۃ والبردون الاٹم، وانہ لم یا ٹم امرؤٌ بحلیفہ، وان الجصر للمظلوم، وان الیھود ینفقون مع المؤمنین مادامو امحاربین، وان یثرب حرام جو فھا لا ھل ھٰذہ الصحیفۃ ……… وانہ ما کان بین اھل ھٰذہ الصحیفۃ من حَدَثٍ اوا شتجار یخاف فساعہ فان مردہ الی اللہ عزو جل و الیٰ محمد رسولاللہ ……… وانہ لا تجار قریش ولا من نصرھا، وان بینھم النصر علی من دھم یثرب۔ علی کل اناس حصتہم من جانبھم الذی قِبَلَھم۔ (ابن ہشام،ج ۲، ص ۱۴۷ تا ۱۵۰ )

’’یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء حملہ آور کے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہو گا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا، اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے، ………… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آسر ہو اس کے مقابلے میں شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے ……… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہو گا۔

یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بروز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے۔

ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک رئیس قوم دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کر کے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے مگر انہوں نے دیکھا کہ آپ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب  پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں کود ان کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا) اور معصیت چھوڑ کر ان احکام الہیٰ کی اطاعت اختیار کرنے اور ان اخلاقی حدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیاء بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ ان کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالمگیر اصولی تحریک اگر چل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔

دوسرے یہ کہ اوس و خزرج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گرد و پیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملت بنتے جا رہے ہیں، انہیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انہوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا الو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی وہ اب اس نئے نظام میں نہ چل سکے گی بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔

تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے تھے اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام نا جائز طریقوں کا سد باب شامل تھا، اور اب سے بڑھ کر یہ کہ سود کو بھی آپ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے جس سے انہیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپ کی فرمانروائی قائم ہو گئی تو آپ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اس میں ان کو اپنی موت نظر آتی تھی۔

ان وجوہ سے انہوں نے حضورؐ کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ تھا۔ وہ آپ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے تاکہ لوگ آپ سے  بد گمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے تاکہ وہ اس دین سے بر گشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے بر پا کرنے کے لیے منافقین سے ساز باز کرتے تھے۔ ہر اس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اوس اور خزرج کے لوگ خاص طور پر ان کے ہدف تھے جن سے ان کے  مدتہائے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ ان کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش  کرتے تھے تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیا تھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں  سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جونہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمہارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمہارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔اس کی متعدد مثالیں تفسیر طبری تفسیر نیسابوری، تفسیر طبرسی اور تفسیر روح المعانی میں سورہ آل عمران، آیت ۷۵ کی تشریح کرتے ہوئے نقل کی گئی ہیں۔

معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوئی تو وہ تلملا اٹھے اور ان کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے، اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی، اور اب ابوجہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔ بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ ’’ خدا کی قَسم اگر محمدؐ نے ان اشراف عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی  پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے ‘‘۔ پھر وہ مکہ پہنچا اور بدر میں جو سرداران قریش مارے گئے تھے ان کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کے ساتھ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے  تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ربیع الاول ۳ ھ میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔

یہودیوں کا پہلا قبیلہ جس نے اجتماعی طور پر جنگ بدر کے بعد کھلم کھلا اپنا معاہدہ توڑ دیا، بنی قینقاع تھا، یہ لوگ خود شہر مدینہ کے اندر ایک محلہ میں آباد تھے اور چونکہ یہ سنار، لوہار اور ظروف ساز تھے، اس لیے ان کے بازار میں اہل مدینہ کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا۔ سات سو مردان جنگی ان کے اندر موجود تھے۔ اور ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلہ خزرج سے ان کے پرانے حلیفانہ تعلقات تھے اور خزرج کا سردار عبداللہ بن ابی ان کا پشتی بان تھا۔ بدر کے واقعہ سے یہ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بازار میں آنے جانے والے مسلمانوں کو ستا نا، اور خاص طور پر ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع  کر دیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو بر سر عام برہنہ کر دیا گیا۔ اس پر سخت جھگڑا ہوا اور ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہو گیا۔جب حالات اس حد کو پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے آپ نے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین فرمائی۔ مگر انہوں نے جواب دیا’’ اے محمدؐ، تم نے شاید ہمیں بھی قریش سمجھا ہے؟ وہ لڑنا نہیں جانتے تھے،اس لیے تم نے انہیں مار لیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ ‘‘  یہ گویا صاف صاف اعلان جنگ تھا۔ آخر کار رسول اللہ علیہ و سلم نے شوال (اور بروایت بعض ذی القعدہ) ۲ ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ صرف پندرہ روز ہی یہ محاصرہ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی باندھ لیے گئے۔ اب عبداللہ بن ابی ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سخت اصرار کیا کہ آپ انہیں معاف کر دیں۔ چنانچہ حضور نے اس کی درخواست قبول کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال، اسلحہ اور آلات صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔ ان دو سخت اقدامات (یعنی بنی قینقاع کے اخراج اور کعب بن اشرف کے قتل) سے کچھ مدت تک یہودی اتنے خوف زدہ رہے کہ انہیں کوئی مزید شرارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اس کے بعد شوال ۳ ھ میں قریش کے لوگ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے بڑی تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ کر آئے، اور ان یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف ایک ہزار آدمی لڑنے کے لیے نکلے ہیں، اور ان میں سے بھی تین سو منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں، تو انہوں نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جرأتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش کی جو عین وقت پر ناکام ہو گئی اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بئر معونہ کے سانحہ (صفر ۴ ھ) کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے انتقامی کار روائی کے طور پر غلطی سے بنی عامر کے دو آدمیوں کو قتل کر دیا جو دراصل ایک معاہِلہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے مگر عمرو نے ان کو دشمن قبیلہ کے آدمی سمجھ لیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے ان کا خون بہا مسلمانوں پر واجب آ گیا تھا، اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر بھی شریک تھ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چند صحابہ کے ساتھ خود ان کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ خون بہا کی ادائیگی میں ان کو بھی شرکت کی دعوت دین۔ وہاں انہوں نے آپ کو چکنی چپڑی باتوں میں لگا یا اور اندر ہی اندر یہ سازش کی کہ ایک شخص اس مکان کی چھت پر سے آپ کے اوپر ایک  بھاری پتھر گرا  دے جس کی دیوار کے سائے میں آپ تشریف فرما تھے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس تدبیر پر عمل کرتے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بر وقت خبردار کر دیا، اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

اب ان کے ساتھ  کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا۔ حضورؐ نے ان کو بلاتا خیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا۔ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ دوسری طرف عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا، بنی قریظہ  اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کو آئیں گے، تم ڈٹ جاؤ اور ہر گز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس جھوٹے بھروسے پر انہوں نے حضورؐ کے الٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے ہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر لیجیے۔ اس پر ربیع الاول ۴ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا محاصرہ کر لیا، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعد (جس کی مدت بعض روایات میں چھ دن اور بعض میں پندرہ دن آئی ہے )وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔ اس طرح یہودیوں کے اس دوسرے شریر قبیلے سے مدینہ کی سر زمین خالی کرالی گئی۔ ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر یہاں ٹھیر گئے۔ باقی شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔

یہی واقعہ ہے جس سے اس سورہ میں بحث کی گئی ہے۔

 

موضوع اور مضامین

 

سورۃ کا موضوع، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔

(۱)۔ پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جو کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بی نہ لا سکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرأت کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔

(۲)۔ آیت ۵ میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن ے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔

(۳)۔ آیت ۶ سے ۱۰ تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔

(۴)۔ آیت ۱۱ سے ۱۷ تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہ میں کام کر رہے تھے۔

(۵)۔ آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کی گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان  کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

اللہ ہی کی تسبیح کی ہے  ہر اس چیز نے آسمانوں اور زمین میں سے، اور وہی غالب اور حکیم ہے (۱)۔وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے (۲) میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا (۳)۔ تمھیں ہر گز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں (۴) گی۔ مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا(۵)۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے  تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کر وار  ہے (۶) تھے۔ پس عبرت حاصل کر و اے دیدہ بینا رکھنے والو (۷) !

اگر اللہ نے ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا،(۸)۔ اور آخرت میں تو ان کے لیئے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔ یہ سب کچھ اس لیئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا(۹)۔ اور (اللہ نے یہ اذن اس لیئے دیا ) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے (۱۰)۔

اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے۔ تسلط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۲)۔ جو کچھ بھی اللہ ان بستیوں کے لوگوں سے اپنے کی طرف پلٹا دے دہ اللہ پلٹا دے دہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیئے (۱۳) ہے تا کہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے (۱۴)۔ جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا (۱۵)ہے۔ (نیز وہ مال ان غریب مہاجرین کے لیئے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں نکال باہر کیے گے ہیں (۱۶)۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور کی خشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راستباز لوگ ہیں، (اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دار الہجرت میں مقیم تھے (۱۷)۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دید یا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں (۱۸)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیئے گئے وہی فلاح پا نے والے ہیں (۱۹)۔ (اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں، (۲۰)۔ جو کہتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیئے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہر بان اور رحیم (۲۱)۔ع

 

تفسیر

 

۱۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،جلد پنجم، تفسیر سورہ الحدید، حاشیہ۔۱، و ۲، بنی نضیر کے اخراج پر تبصرہ شروع کرنے سے پہلے یہ تمہیدی فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود ذہن کو یہ حقیقت سمجھنے کے لیے تیار کرنا ہے کہ اس طاقتور یہودی قبیلے کے ساتھ  جو معاملہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی طاقت کا نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا۔

۲۔ اصل الفاظ ہیں لِاَوَّ لِ الْحَشْرِ۔ حشر کے معنی ہیں منتشر افراد کو اکٹھا کرنا، یا بکھرے ہوئے اشخاص کو جمع کر کے نکالنا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی ہیں پہلے حشر کے ساتھ یا پہلے حشر کے موقع پر۔ اب رہا یہ سوال کی اس جگہ اول حشر سے مراد کیا ہے، تو اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد بنی نضیر کا مدینہ سے اخراج ہے، اور اس کو ان کا پہلا حشر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ ان کا دوسرا حشر حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوا جب یہود نصاریٰ کو جزیرۃالعرب سے نکالا گیا، اور آخری حشر قیامت کے روز ہو گا۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد مسلمانوں کی فوج کا اجتماع ہے جو بنی نضیر سے جنگ کرنے کے لیے ہوا تھا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی یہ ہیں کہ ابھی مسلمان ان سے لڑنے کے لیے جمع ہی ہوئے تھے اور کشت و خون کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ جلا وطنی کے لیے تیار ہو گئے۔ بالفاظ دیگر یہاں یہ الفاظ باوّل وَھلہ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ’’ در اوّل جمع کردنِ لشکر‘‘۔ اور شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے ’’پہلے ہی بھیڑ ہوتے  ‘‘۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا مفہوم ہی ان الفاظ کا متبادر مفہوم ہے۔

۳۔ اس مقام پر ایک بات آغاز ہی میں سمجھ لینی چاہیے تاکہ بنی نضیر کے اخراج کے معاملہ میں کوئی ذہنی الجھن پیدا نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بنی نضیر کا باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کو انہوں نے رد نہیں کیا تھا کہ معاہدہ ختم ہو جاتا۔ لیکن جس وجہ سے ان پر چڑھائی کی گئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بہت سی چھوٹی بڑی خلاف ورزیاں کرنے کے بعد آخر کار ایک صریح فعل ایسا کیا تھا جو نقض عہد کا ہم معنی تھا۔ وہ یہ کہ انہوں نے دوسرے فریق معاہدہ، یعنی مدینہ کی اسلامی ریاست کے صدر کو قتل کرنے کی سازش کی تھی کہ جب ان کو نقص معاہدہ کا الزام دیا گیا تو وہ اس کا انکار نہ کر سکے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دس دن کا نوٹس دے دیا کہ اس مدت میں مدینہ چھوڑ کر نکل جاؤ، ورنہ تمہارے خلاف جنگ کی جائے گی۔ یہ نوٹس قرآن مجید کے اس حکم کے ٹھیک مطابق تھا کہ ’’ اگر تم کو کسی قوم سے خیانت (بد عہدی) کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو‘‘ (انفال۔ ۵۸)۔ اسی لیے ان کے اخراج کو اللہ تعالیٰ اپنا فعل قرار دے رہا ہے، کیونکہ یہ ٹھیک قانون الہیٰ کے مطابق تھا۔ گویا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے نکالا۔ دوسری وجہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اخراج کو اپنا فعل قرار دیا ہے آگے کی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔

۴۔ اس ارشاد کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ بنی نضیر صدیوں سے یہاں جمے ہوئے تھے۔ مدینہ کے باہر ان کی پوری آبادی یکجا تھی جس میں ان کے اپنے قبیلے کے سوا کوئی دوسرا عنصر موجود نہ تھا۔ انہوں نے پوری بستی کو قلعہ بند کر رکھا تھا، اور ان کے مکانات بھی گڑھیوں کی شکل میں بنے ہوئے تھے جس طرح عموماً قبائلی علاقوں میں، جہاں ہر  طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہو، بنائے جاتے ہیں۔ پھر ان کی تعداد بھی اس وقت کے مسلمانوں سے کچھ کم نہ تھی۔ اور خود مدینے کے اندر بہت سے منافقین ان کی پشت پر تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو ہر گز یہ توقع نہ تھی کہ یہ لوگ لڑے بغیر صرف محاصرے ہی سے بد حواس ہو کر یوں اپنی جگہ چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح خود بنی نضیر کے بھی وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ کوئی طاقت ان سے چھ دن کے اندر یہ جگہ چھڑا لے گی۔ اگرچہ بنی قینقاع ان سے پہلے نکالے جا چکے تھے اور اپنی شجاعت پر ان کا سارا زعم دھرا کا دھرا رہ گیا تھا، لیکن وہ مدینہ کے ایک محلہ میں آباد تھے اور انکی اپنی کوئی الگ قلعہ بند بستی نہ تھی، اس لیے بنی نضیر یہ سمجھتے تھے کہ ان کا مسلمانوں کے مقابلے میں نہ ٹھیر سکنا بعید ز قیاس نہ تھا۔ بخلاف اس کے وہ اپنی محفوظ بستی اور اپنی مضبوط گڑھیوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہ کر سکتے تھے کہ کوئی انہیں یہاں سے نکال سکتا ہے۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا نوٹس دیا تو انہوں نے بڑے دھڑلے کے  ساتھ جواب دے دیا کہ ہم نہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لیجیے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر یہ بات کس بنا پر فرمائی کہ ’’وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی؟ کیا واقعی بنی نضیر یہ جانتے تھے کہ ان کا مقابلہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے؟ اور کیا جانتے ہوئے بھی ان کا یہ خیال تھا کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر اس شخص کے ذہن میں الجھن پیدا کرے گا جو یہودی قوم کے نفسیات اور ان کی صد ہا برس کی روایات کو نہ جانتا ہو۔ عام انسانوں کے متعلق کوئی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ وہ شعوری طور پر یہ جانتے بھی ہوں کہ مقابلہ اللہ سے ہے اور پھر بھی ان کو یہ زعم لاحق ہو جائے کہ ان کے قلعے اور ہتھیار انہیں الہہ سے بچا لیں گے۔ اس لیے ایک ناواقف آدمی اس جگہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی یہ تاویل کرے گا کہ بنی نضیر بظاہر اپنے قلعوں کا استحکام دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حملہ سے بچ جائیں گے، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کا مقابلہ اللہ وے تھا اور اس سے ان کے قلعے انہیں نہ بچا سکتے تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے یہودی اس دنیا میں ایک ایسی عجیب قوم ہے جو جانتے بوجھتے اللہ کا مقابلہ کرتی رہی ہے، اللہ کے رسولوں کو یہ جانتے ہوئے اس نے قتل کیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، اور فخر کے ساتھ سینہ ٹھونک کر اس نے کہا ہے کہ ہم نے الہہ کے رسول کو قتل کیا ہے۔ اس قوم کی روایات یہ ہیں کہ ان کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوبؑ سے اللہ تعالیٰ کی رات بھر کشتی ہوتی رہی اور صبح تک لڑ کر بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ پچھاڑ سکا۔ پھر جب صبح ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اب مجھے جانے دے تو انہوں نے کہا میں تجھے نہ جانے دوں گا جب تک تو مجھے برکت نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا یعقوب۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آئندہ تیرا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا ’’ کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا‘‘۔ ملاحظہ ہو یہودیوں کا جدید ترین ترجمہ کتب مقدسہ (The Holy Scriptures)  شائع کردہ جیوش پبلکیشن سوسائٹی آف امریکہ ۱۹۵۴ ء کتاب پیدائش، باب ۳۲۔ آیات ۲۵ تا ۲۹۔ عیسائیوں کے ترجمہ بائیبل میں بھی یہ مضمون اسی طرح بیان ہوا ہے۔ یہودی ترجمہ کے حاشیہ میں ’’ اسرائیل ‘‘کے معنی لکھے گئے ہیں۔  He who striveth with God ، یعنی ’’ جو خدا سے زور آزمائی کرے ‘‘۔ اور سائیلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر میں عیسائی علماء نے اسرائیل کے معنی کی تشریح یہ کی ہے : Wrestler with God ’’خدا سے کشتی لڑنے والا ‘‘ پھر بائیبل کی کتاب ہوسیع میں حضرت یعقوب کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ’’ وہ اپنی توانائی کے ایام میں خدا سے کشتی لڑا۔ وہ فرشتے سے کشتی لڑا اور غالب آیا‘‘ (باب۱۲ آیت ۴)۔ اب ظاہر ہے کہ  بنی اسرائیل آخر ان حضرات اسرائیل کے صاحبزادے ہی تو ہیں جنہوں نے ان کے عقیدے کے مطابق خدا سے زور آزمائی کی تھی اور اس سے کشتی لڑی تھی۔ ان کے لیے آخر کیا مشکل ہے کہ خدا کے مقابلے میں یہ جانتے ہوئے ھی ڈٹ جائیں کہ مقابلہ خدا سے ہے۔ اسی بنا پر تو انہوں نے خود اپنے اعترافات کے مطابق خدا کے نبیوں کو قتل کیا اور اسی بنا پر انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اپنے زعم میں صلیب پر چڑھایا اور خم ٹھونک کر کہا اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مُرْیَمَ رَسْوْلَ اللہ (ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کیا)لہٰذا یہ بات ان کی روایات کے خلاف نہ تھی کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کی۔ اگر ان کے عوام نہیں تو ان کے ربی اور احبار تو خوب جانتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے متعدد شواہد خود قرآن میں موجود ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ ۷۹۔ ۹۵۔ النساء، حاشیہ ۱۹۰۔ ۱۹۱۔جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۷۰۔ ۷۳ )۔

۵۔ اللہ کا ان پر آنا اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ کسی اور جگہ تھا اور پھر وہاں سے ان پر حملہ آور ہوا۔ بلکہ یہ مجازی کلام ہے۔ اصل مدعا یہ تصور دلانا ہے کہ اللہ سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس خیال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر صرف اسی شکل میں بَلا لے کر آ سکتا ہے کہ ایک لشکر کو سامنے سے ان پر چڑھا کر لائے،اور وہ سمجھتے تھے کہ اس بَلا کو تو ہم اپنی قلعہ بندیوں سے روک لیں کے۔ لیکن اس نے ایسے راستہ سے ان پر حملہ کیا جدھر سے کسی بلا کے آنے کی وہ کوئی توقع نہ رکھتے تھ۔ اور وہ راستہ یہ تھا کہ اس نے اندر سے ان کی ہمت اور قوت مقابلہ کو کھوکھلا کر دیا جس کے بعد نہ ان کے ہتھیار کسی کام آ سکتے تھے نہ ان کے مضبوط گڑھ۔

۶۔ یعنی تباہی دو طرح سے ہوئی۔ باہر سے مسلمانوں نے محاصرہ کر کے ان کی قلعہ بندیوں کو توڑنا شروع کیا۔ اور اندر سے خود انہوں نے پہلے تو مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لی جگہ جگہ پتھروں اور لکڑیوں کی رکاوٹیں کھڑی کیاں اور اس غرض کے لیے اپنے گھروں کو توڑ توڑ کر ملبہ جمع کیا۔ پھر جب ان کو یقین ہو گیا کہ انہیں یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا تو انہوں نے اپنے گھروں کو، جنہیں کبھی بڑے شوق سے بنایا اور سجایا تھا، اپنے ہی ہاتھوں برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے کام نہ آ سکیں۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے انہوں نے اس شرط پر صلح کی کہ ہماری جانیں بخش دی جائیں اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہتھیاروں کے سوا جو کچھ بھی ہم یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں تو چلتے ہوئے وہ اپنے دروازے اور کھڑکیاں اور کھونٹیاں تک اکھاڑ لے گئے، حتیٰ کہ بعض لوگو نے شہتیر اور لکڑی کی چھتیں تک اپنے اونٹوں پر لاد لیں۔

۷۔ اس واقعہ میں عبرت کے کئی پہلو ہیں جن کی طرف اس مختصر سے بلیغ فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے۔یہ یہودی آخر پچھلے انبیاء کی امت ہی تو تھے۔ خدا کو مانتے تھے۔ کتاب کو مانتے تھے پچھلے انبیاء کو مانتے تھے۔ آخرت کو مانتے تھے۔ اس لحاظ سے در اصل وہ سابق مسلمان تھے۔ لیکن جب انہوں نے دین اور اخلاق کو پس پشت ڈال کر محض اپنی خواہشات نفس اور دنیوی اغراض و مفاد کی خاطر کھلی کھلی حق دشمنی اختیار کی اور خود اپنے عہد و پیمان کا بھی کوئی پاس نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ التفات ان سے پھر گئی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کو ان سے کوئی ذاتی عداوت نہ تھی۔ اس لیے سب سے پہلے تو خود مسلمانوں کو ان کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے آپ کو یہودیوں کی طرح خدا کی چہیتی اولاد نہ سمجھ بیٹھیں اور اس خیال خام میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ خدا کے آخری نبیؐ کی امت میں ہونا ہی بجائے خود ان کے لیے اللہ کے فضل اور اس کی تائید کی ضمانت ہے جس کے بعد دین و اخلاق کے کسی تقاضے کی پابندی ان کی لیے ضروری نہیں رہتی۔ اس کے ساتھ دنیا بھر کے ان لوگوں کو بھی اس واقعہ سے عبرت دلائی گئی ہے جو جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں اور پھر اپنی دولت و طاقت اور اپنے ذرائع و وسائل پر یہ اعتماد کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گی۔ مدینہ کے یہودی اس سے ناواقف نہ تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی قوم یا قبیلے کی سر بلندی کے لیے نہیں اٹھے ہیں بلکہ ایک اصولی دعوت پیش کر رہے ہیں جس کے مخاطب سارے انسان ہیں اور ہر انسان، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی نسل یا ملک سے تعلق رکھتا ہو،اس دعوت کو قبول کر کے ان کی امت میں بلا امتیاز شامل ہو سکتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے حبش کے بلالؓ، روم کے صہیبؓ اور فارس کے سلمانؓ کو امت مسلمہ میں وہی حیثیت حاصل تھی جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے اہل خاندان کو حاصل تھی۔ اس لیے ان کے سامنے یہ کوئی خطرہ نہ تھا کہ قریش اور اوس اور خزرج ان پر مسلط ہو جائیں گے۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ آپ جو اصولی دعوت پیش فرما رہے ہیں وہ بینہٖ وہی ہے جو خود ان کے اپنے ابنیاء پیش کرتے رہے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں ایک نیا دین لے کر آیا ہوں جو پہلے کبھی کوئی نہ لایا تھا اور تم اپنا دین چھوڑ کر میرا یہ دین مان لو۔ بلکہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ وہی دین ہے جو ابتدائے آفرینش سے خدا کے تمام انبیاء لاتے رہے ہیں، اور اپنی توراۃ سے وہ خود اس کی تصدیق کر سکتے تھے کہ فی الواقع یہ وہی دین ہے، اس کے اصولوں میں دین انبیاء کے اصولوں سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی بنا پر تو قرآن مجید میں ان سے کہا گیا تھا کہ وَ ا مِنُوْ ا بِمَآ اَنْزَ لْتُ مُصَدِّ قاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْ ا اَوَّلَ کَافِرٍ ؍ بِہٖ ؕ (ایمان لاؤ میری نازل کردہ اس تعلیم پر جو تصدیق کرتی ہے اس تعلیم کی جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے، اور سب سے پہلے تم ہی اس کے کافر نہ بن جاؤ)۔ پھر ان کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کس سیرت و اخلاق کے انسان ہیں، اور آپ کی دعوت قبول کر کے لوگوں کی زندگیوں میں کیسا عظیم انقلاب برپا ہوا ہے۔ انصار تو مدت دراز سے ان کے قریب ترین پڑوسی تھے۔ اسلام لانے سے پہلے ان کی جو حالت تھی اسے بھی یہ لوگ دیکھ چکے تھے اور اسلام لانے کے بعد ان کی جو حالت ہو گئی وہ بھی ان کے سامنے موجود تھی۔ پس دعوت اور داعی اور دعوت قبول کرنے کے نتائج، سب کچھ ان پر عیاں تھے۔ لیکن یہ ساری باتیں دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی انہوں نے محض اپنے نسلی تعصبات اور اپنے دنیوی مفاد کی خاطر اس چیز کے خلاف اپنی ساری طاقت لگا دی جس کے حق ہونے میں کم از کم ان کے لیے شک کی گنجائش نہ تھی اس دانستہ حق دشمنی کے بعد وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ ان قلعے انہیں خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ حالانکہ پوری انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کی طاقت جس کے مقابلے میں آ جائے وہ پھر کسی ہتھیار سے نہیں بچ سکتا۔

۸۔ دنیا کے عذاب سے مراد ہے ان کا نام و نشان مٹا دینا۔ اگر وہ صلح کر کے اپنی جانیں بچانے کے بجائے لڑتے تو ان کا پوری طرح قلع قمع ہو جاتا۔ ان کے مرد مارے جاتے اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے لونڈی غلام بنا لیے جاتے جنہیں فدیہ دے کر چھڑانے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔

۹۔ یہ اشارہ ہے اس معاملہ کی طرف کہ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا یا جلا دیا تاکہ محاصرہ بآسانی کیا جسکے، اور جو درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ تھے ان کو کھڑا رہنے دیا۔ اس پر مدینہ کے منافقین اور ابنی قریظہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو فساد فی الارض نہیں تو کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ی حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا، ان میں سے کوئی فعل بھی نا جائز نہیں ہے،بلکہ دونوں کو اللہ اذن حاصل ہے۔ اس سے یہ شرعی مسئلہ نکلتا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے جو تخریبی کار روائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ فساد فی الارض یہ ے کہ کسی فوج پر  جنگ کا بھوت سوار ہو جائے اور وہ دشمن کے ملا میں گھس کر کھیت، مویشی، باغات، عمارات،ہر چیز کو خواہ مخواہ تباہ و برباد کرتی پھرے۔ اس معاملہ میں عام حکم تو وہی ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے فوجوں کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت دیا تھا کہ پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا، اور بستیوں کو ویران نہ کرنا۔ یہ قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ اس نے مفسد انسانوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اس فعل پر زجر و توبیخ کی ہے کہ ’’ جب وہ اقتدار پا لیتے ہیں تو فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرتے پھرتے ہیں ‘‘۔ (البقرہ۔۲۰۵)۔ لیکن جنگی ضروریات کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف لڑائی کو کامیاب کرنے کی خاطر کوئی تخریب ناگزیر ہو تو وہ کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ قطعو امنھا ما کان موضعاً للقتال،‘‘ مسلمانوں نے بنی نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے ‘‘ (تفسیر بیسابوری)۔ فقہائے اسلام میں سے بعض نے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ بنی نضیر کے درخت کاٹنے کا جواز صرف اسی واقعہ کی حد تک مخصوص تھا، اس سے یہ عام جواز نہیں نکلتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات داعی ہوں، دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلایا جا سکے۔ امام اَوزاعی، لیث اور ابوثور اسی طرف گئے ہیں۔ لیکن جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، البتہ محض تخریب و غارت گری کے لیے یہ فعل جائز نہیں ہے۔

ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کو تو مطمئن کر سکتی تھی، لیکن جو لوگ قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے تھے انہیں اپنے اعتراض کے جواب میں یہ سن کر کیا اطمینان ہو سکتا تھا کہ یہ دونوں فعل اللہ کے اِذن کی بنا پر جائز ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، کفار کو مطمئن کرنا سے سے اس کا مقصود ہی نہیں ہے۔ چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے، یا بطور خود، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہو گئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہو گئے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کو کاٹنا، اور جو درخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کو نہ کاٹنا، یہ دونوں ہی فعل قانون الٰہی کے مطابق درست تھے۔

محدثین کی نقل کردہ روایات میں اس امر پر اختلاف ہے کہ آیا ان درختوں کے کاٹنے اور جلانے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا تھا، یا مسلمانوں نے بطور خود یہ کام کیا اور بعد میں اس کا شرعی مسئلہ حضورؐ سے دریافت کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ حضورؐ نے خود اس کا حکم دیا تھا (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن جریر)۔ یہی یزید بن رومان کی روایت بھی ہے (ابن جریر)۔ بخلاف اس کے مجاہد اور قتادہ کی روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بطور خود یہ درخت کاٹے تھے، پھر ان میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا کہ یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہوئے اور بعض نے اس سے منع کیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر دونوں کے فعل کی تصویب کر دی (ابن جریر)۔ اسی کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس بات پر خلش پیدا ہوئی کہ ہم میں سے بعض نے درخت کاٹے ہیں اور بعض نے نہیں کاٹے، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھنا چاہیے کہ ہم میں سے کس کا فعل اجر کا مستحق ہے اور کس کے فعل پر مواخذہ ہو گا (نسائی)۔  فقہاء میں سے جن لوگوں نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اجتہاد تھا جس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی جلی سے فرمائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہوتا تھا۔ ان میں حضورؐ اجتہاد پر عمل فرماتے تھے۔ دوسری طرف جن فقہاء نے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے دو مختلف رائیں اختیار کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توثیق فرما دی، لہٰذا اگر نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کر کے اہل علم مختلف رائیں قائم کریں تو باوجود اس کے کہ ان کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی، مگر اللہ کی شریعت میں وہ سب حق پر ہوں گے۔

۱۰۔ یعنی اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ ان درختوں کو کاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو اور نہ کاٹنے سے بھی۔ کاٹنے میں ان کی ذلت و خواری کا پہلو یہ تھا کہ جو باغ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن باغوں کے وہ مدت ہائے دراز سے مالک چلے آ رہے تھے، ان کے درخت ان کی آنکھوں کے سانے کاٹے جا رہے تھے اور وہ کاٹنے والوں کو کسی طرح نہ روک سکتے تھے۔ایک معمولی کسان اور باغبان بھی اپنے کھیت یا باغ میں کسی دوسرے کے تصرف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر اس کے سامنے اس کا کھیت یا اس کا باغ کوئی برباد کر رہا ہو تو وہ اس پر کٹ مرے گا۔ اور اگر وہ اپنی جائیداد میں دوسرے کی دست درازی نہ روک سکے تو یہ اس کی انتہائی ذلت اور کمزوری کی علامت ہو گی۔ لیکن یہاں ایک پورا قبیلہ، جو صدیوں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ اس جگہ آباد تھا، بے بسی کے ساتھ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہمسائے اس کے باغوں پر چڑھ آئے ہیں اور اس کے درختوں کو برباد کر رہے ہیں، مگر وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس کے بعد اگر وہ مدینے میں رہ بھی جاتے تو ان کی کوئی آبرو باقی نہ رہتی۔ رہا درختوں کو نہ کاٹنے میں ذلت کا پہلو تو وہ یہ تھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ کل تک جو ہرے بھرے باغ ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں کے قبضے میں جا رہے ہیں۔ ان کا بس چلتا تو وہ ان کو پوری طرح اجاڑ کر جاتے اور ایک سالم درخت بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ جانے دیتے۔ مگر بے بسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں کا توں چھوڑ کر با حسرت و یاس نکل گئے۔

۱۱۔ اب ان جائدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت ۱۰ تک اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جائے۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے : مَا اَفَآ ءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ (جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں یہ یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں، در اصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں۔ وہ اگر ان پر قابض (متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے۔ ان تمام اموال کا اصل ح یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کر سکتے ہیں۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فَے (پلٹا کر لائے ہوئے اموال) قرار دیا گیا ہے۔

۱۲۔ یعنی ان  اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کر دیے جائیں، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو،اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں،ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کر دیا جائے۔

اس طرح شریعت میں غنیمت اور فَے کا حکم الگ الگ کر دیا گیا ہے۔ غنیمت کا حکم سورہ انفال آیت ۴۱ میں ارشاد ہوا ہے،اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دیے جائیں، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جائے جو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور فَے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جائے، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کر دی جائے جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں۔ ان دونوں قِسم کے اموال میں فرق فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابِ (تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ہیں ) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کار روائی  Warlike operations لہٰذا جو مال براہ راست اس کار روائی سے ہاتھ آئے ہوں وہ غنیمت ہیں۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کار روائی نہ ہو وہ سب فَے ہیں۔

یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فَے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کار روائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ و غیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وَقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : فانضر ما اجلبو ا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حجر من المسلمین و انزک الاَرَضِین و الا نھار لعُمّا لھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین۔ ’’ جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے‘‘ (کتاب الخراج لابی یوسف صفحی ۲۴۔کتاب الاموال لابی عبید صفحہ ۵۹۔ کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم، صفحات ۲۷۔ ۲۸۔ ۱۴۸ اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ‘‘ (یحیٰ بن آدم، صفحہ ۲۷)۔ اور امام ابو یوست فرماتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور جو متاع اور اسلحہ اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائیں وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ‘‘ (کتاب الخراج،صفحہ ۱۸)۔ یہی رائے یحیٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے (صفحہ ۲۷)۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فَے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوَنْد کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو چکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا تھا، ایک صاحب، سائب بن اَقْرَع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے، یا اس کا شمار اب فَے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے؟ آخر کار انہوں نے مدینی حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمرؓ کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنت میں فوج کے ہاتھ آئیں۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فَے کے حکم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ امام ابو عبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : مانیل من اھل الشرک عَنْو ۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزادھا و تصیر الدار دارلاسلام فھو فیءُ یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ۔ ’’ جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو، وہ غنیمت ہے، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دارالاسلام بن گیا ہو، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فَے ہے جسے عام باشندگان دار الاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے۔اس میں خمس نہیں ہے۔’’ (کتاب الاموال، صفحہ ۲۵۴ )۔

غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں حَنْوَۃً فتح ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رُعب اور ہیبت ہی کہ وجہ سے ہوئی ہو۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آ جاتے ہیں جو عَنْوَۃً فتح ہونے کے سوا کسی دوسرے صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ فقہائے اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کہونکہ وہ فَمَا ادْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رِکا بٍ کی تعریف میں نہیں آتے۔ رہے دوسری قسم کے اموال،تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فَے ہیں، کیوں کہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے۔

۱۳۔ پچھلی آیت میں سرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں۔

ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضورؐ اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر  خرچ فرمائے تھے (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)۔ حضورﷺ کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا۔ امام شافعیؒ سے یہ رائے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب ِ امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصبِ رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہائے شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔

دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے، اور ان سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب۔ یہ حصہ اِس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول ﷺ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گئے، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر بن عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے (یتامیٰ، مساکین و ابن السبیل) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باِر کا قول نقل کیا ہے کہ اگر چہ حضرت علیؓ کی ذاتی رائے وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی رائے تھی (کہ یہ حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی رائے کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد ان دونوں حصوں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف رائے تھی کہ دوسرا حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہئے۔ آخر کار اس بات پر اجماع  ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں۔عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضورﷺ کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں جاری تھا (کتاب الخراج ۱۱،بی یوسف، صفحہ ۹تا۲۱) امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطّلی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر، دونوں طرح کے اشخاص کو نَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے۔ (مغنی المحتاج)۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے۔ (روح المعانی)۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مقدم رکھے۔ (حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر)۔

باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پان برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورۂ بالا مصارف پر اس طرح صرف  کیا جانا چاہیے کہ اس کا ۵/۱مصالح مسلمین پر، ۵/۱ بنی ہاشم و بنی المطلب پر، ۵/۱ مساکین پر اور ۵/۱ مسافروں پر صرف کیا جائے۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں، اور ان کی رائے یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ (مغنی المحتاج)۔

۱۴۔ یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اِسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، اموالِ غنیمت میں خُمس نکالنے کا حکم دیا گیا، صدقاتِ نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، مختلف قسم کے کَفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رُخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جائے، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زادہ وسیع، دائرے میں پھیل جائے، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی  حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدّات دو ہیں۔ ایک زکوٰۃ، دوسرے فَے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد  از نصاب سرمائے، مواشی، اموالِ تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پاے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے۔

۱۵۔ سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموالِ بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ عدلیہ و سلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں  و چرا تسلیم کر لو، جو کچھ حضورﷺ کسی کو دیں وہ اسے لے لے، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف امواِلِ  فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی اطاعت کریں۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ "جو کچھ رسول تمہیں دے ” کے مقابلہ میں "جو کچھ نہ دے ” کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئے ہیں، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ "جس چیز سے وہ تمہیں روک دے (یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ”۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو "جو کچھ دے ” کے مقابلہ میں ” جو کچھ نہ دے ” فرمایا جاتا۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع  پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضورﷺ کے امر و نہی کی اطاعت ہے۔ یہی بات ہے جو خود رسولﷺ نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم ومانھیتم عنہ فاتنبوہ "جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔” (بخاری۔مسلم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا ” اللہ تعالیٰ  نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ” اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں  اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے اس مل جاتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآاٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَانھٰکم عنہ فانتھوا؟ اس نے عرض کیا، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی۔ (بخاری۔مسلم ، مسند احمد،مسند ابن ابی حاتم)

۱۶۔  اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس بنا پر نکال دیے گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ بنی النضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے تک ان مہاجرین کے لیے گزر بسر کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ اب حکم دیک گیا کہ یہ مال جو اس وقت ہاتھ آیا ہے، اور آئندہ جو امول بھی فَے کے طور پر ہاتھ آئیں۔ ان میں عام مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو حق بھی ہے، ان سے ایسے سب لوگوں کو سہارا دیا جانا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خطر ہجرت پر مجبور ہو کر دار الاسلام میں آئیں۔اس حکم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی النضیر کی جائدادوں کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور وہ نخلستان جو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کے لیے دے رکھے تھے ان کو واپس کریے گئے۔ لیکن یہ خیال کر نا صحیح نہیں ہے کہ فَے میں مہاجرین کا یہ حصہ صرف اسی زمانہ کے لیے تھا۔ در حقیقت اس آیت کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک جو لوگ ہی مسلمان ہونے کی وجہ سے جلا وطن ہو کر کسی مسلم مملکت کے حدود میں پناہ لینے پر مجبور ہوں، ان کو بسانا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا اس ملک کی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، اور اسے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فَے میں سے بھی اس مد پر خرچ کرنا چاہیے۔

۱۷۔ مراد ہیں انصار۔ یعنی فَے میں صرف مہاجرین ہی کا حق نہیں ہے، بلکہ پہلے سے جو مسلمان دار الاسلام میں آباد ہیں وہ بھی اس میں سے حصہ پانے کے حق دار ہیں۔

۱۸۔ یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصار کی۔ مہاجر جب مکہ اور دوسرے مقامات سے ہجرت کر کے ان کے شہر میں آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و سلم کی خدمت میں یہ پیش کش کی کہ ہمارے باغ اورت نخلستان حاضر ہیں، آپ انہیں ہمارے اور ان مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ تو باغبانی نہیں جانتے، یہ اس علاقے سے آئے ہیں جہاں باغات نہیں ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنے ان باغوں اور نخلستانوں میں کام تم کرو اور پیدا وار میں سے حصہ ان کو دو؟ انہوں کہا سمعنا و اطعنا (بخاری، ابن جریر)۔ اس پر مہاجرین نے عرض کیا ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں۔ یہ کام خود کریں گے اور حصہ ہم کو دیں گے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوٹ لے گئے۔ حضورؐ نے فرمایا نہیں، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا (مسند احمد)۔پھر جب بنی النضیر کا علاقہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب بندوبست کی ایک شکل یہ ہے کہ تمہاری املاک اور یہودیوں کے چھوڑے ہوئے باغات اور نخلستانوں کو ملا کر ایک کر دیا جائے اور پھر اس پورے مجموعے کو تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر یا جائے۔ اور دوسرے شکل یہ ہے کہ تم اپنی جائدادیں اپنے پاس رکھو اور یہ متروکہ اراضی مہاجرین میں بانٹ دی جائیں۔ انصارؓ نے عرض کیا یہ جائدادیں آپ ان میں بانٹ دیں، اور ہماری جائدادوں میں سے بھی جو کچھ آپ چاہیں ان کو دے سکتے ہیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ پکار اٹھے جزاکم اللہ یا معشر الانصار خیراً (یحیٰ بن آدم۔ بَلَاذری)۔ اس طرح انصار کی رضا مندی سے یہودیوں کے چھوڑے ہوئے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کیے گئے اور انصار میں سے صرف حضرت ابو دجانہ، حضرت سہل بن حنیف اور (بروایت بعض ) حضرت حارث بن الصمہ کو حصہ دیا گیا، کیونکہ یہ حضرات بہت غریب تھے (بلاذری۔ ابن ہشام۔ روح المعانی)۔ اسی ایثار کا ثبوت انصار نے اس وقت دیا جب بحرین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے تھے کہ اس علاقے کی مفتوحہ اراضی انصار کو دی جائیں، مگر انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے (یحیٰ بن آدم)۔ انصار کا یہی وہ ایثار ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔

۱۹۔ بچ گئے نہیں فرمایا گیا بلکہ بچا لیے گئے ارشاد ہوا ہے، کیونکہ اللہ کی توفیق اور اس مدد کے بغیر کوئی شخص خود اپنے زور بازو سے دل کی تونگری نہیں پا سکتا۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو خدا ہی کے فضل سے کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ شُح کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کر کے شح نفس کہا جائے تو یہ تنگ نظری، تنگ دلی، کم حوصلگی، اور دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہو جاتا ہے جو بخل سے وسیع تر چیز ہے، بلکہ خود مخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے۔ اسی ست کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے۔ دوسروں کو خود دینا تو کجا، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے، یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد پیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے پنے لیے سمیٹ لے اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑے۔ اسی بنا پر قرآن میں اس برائی سے بچ جانے کو فلاح کی ضمانت قرار دیا گیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ان بد ترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اتقو ا الشح فان الشح اھلک من قبلکم، حملھم علیٰ ان سفکو ادماء ھم واستحلو امحارمھم (مسلم، مسند احمد، بیہقی، بخاری فی الادب)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں الفاظ یہ ہیں : امر ھم بالظلم فظلموا وامر ھم بالفجور ففجر وا، وامر ھم بالقطیعۃ فقطعوا (مسند احمد،ابو داؤد، نسائی )۔ یعنی ’’ شُح سے بچو کیونکہ شُح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کر لینے پر اکسایا۔ اس نے ان کو ظلم پر آمادہ کیا اور انہوں نے ظلم کیا، فجور کا حکم دیا اور انہوں نے فجور کیا، قطع رحمی کرنے کے لیے کہا اور انہوں نے قطع رحمی کی ‘‘۔ حضرت ابوہُریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ ایمان اور شحِ نفس کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ‘‘ (ابن ابی شیبہ، جسائی، بیہقی فی شعبِ العمان، حاکم )۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا’’ دو خصلتیں ہیں جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں، بخل اور بد خلقی‘‘ (ابوداؤد، ترمذی، بخاری فی الادب۔ اسلام کی اسی تعلیم کا ثمرہ ہے کہ افراد سے قطع نظر، مسلمان بحیثیت قوم دنیا میں آج بھی سب سے بڑھ کر فیاض اور فراخ دل ہیں۔ جو قومیں ساری دنیا میں تنگ دلی اور بخیلی کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتیں، خود انہی میں سے نکلے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں مسلمان اپنے ہم نسل غیر مسلموں کے سایہ بسا یہ رہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان دل کی فراخی و تنگی کے اعتبار سے جو صریح فرق پایا جاتا ہے اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ اسلام کی اخلاقی تعلیم کا فیض ہے جس نے مسلمانوں کے دل بڑے کر دیے ہیں۔

۲۰۔ یہاں تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ فَے میں اللہؔ اور رسولؔ، اور اقربائےؔ رسول، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابن السبیل، اور مہاجرین اور انصار، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا۔ یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے، جن میں حضرت زبیر، حضرت بلال، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی جیسے بزرگ شامل تھے، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کر دیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہاموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جائے، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں، لیکن یہ رائے اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ  کر فتح کیے گئے تھے  ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کو بھی حضور نے غنائم کی طرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا۔ آپ کے زمانے کی دو نمایاں  ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا۔ رہا  خیبر، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے ۳۶ حصے کیے، اور ان میں سے ۱۸ حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کے کے باقی ۱۸ حصے فوج میں تقسیم فرما دیے (ابو داؤد، بیہقی، کتاب الاموال لابی عبید، کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم، فتوح البلدان للبلاذری، فتح القدیر لا بن ہمام)۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اراضی مفتوحہ کا حکم، اگر چہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں، غنیمت کا نہیں ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجائے اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے۔ وہ ان کو تقسیم بھی کر سکتا ہے۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو، جیسی مکہ معظمہ کی تھی، جو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کر سکتا ہے جو حضورؐ نے اہل مکہ کے ساتھ کیا۔

مگر حضورؐ کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اسمھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر، ’’ اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا‘‘ (ابوعبید)۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلالؓ نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحو ھا کما تقسم غنیمۃ العکر۔’’ تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح  مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ‘‘(کتاب الخراج، ابو یوسف)دوسری طرف حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ دعھم یکونوامادۃً للمسلمین۔ ’’ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ‘‘ (ابو یوسف، ابو عبید)۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی رائے یہ تھی کہ ’’ اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہو گی یا کوئی ایک مرد ہو گا، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جا سکیں۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو‘‘ (ابو عبید ص ۵۹۔ فتح الباری، ج ۶، ص ۱۳۸)۔ حضرت عمرؓ نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سوادِ عراق کو تقسیم کیا جائے تو فی کس کیا حصہ پڑے گا۔ معلوم ہو کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے (ابو یوسف،ابو عبید)۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ رائے قائم کر لی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کر نے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے :

تریدو ن ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ (ابو عبید)

کیا آپ چاہتے ہیں کہ بعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو؟

فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلو جھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت؟ ما ھٰذا ابرائی (ابو یوسف )۔

ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے؟ یہ ہر گز مناسب نہیں ہے۔

فما لمن جاء بعد کم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفا سد و ابینکم فی لمیاہ (ابو عبید) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے۔

لولا اٰخر الناس مافنحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر(بخاری، موطّا، ابو عبید)۔

اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا۔

لا: ھٰذا عین المال، ولکنی احبسہٗ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین۔ (ابو عبید)۔

نہیں، یہ تو عین المال(Real estate) ہے۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں۔

لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں۔ آخر کار حضرت عمرؓ نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں :

’’میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے جو چاہے میری رائے سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے۔خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہو ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوئے ہیں، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ (ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک، شام، الجزیرہ، کوفہ، بصرہ، مصر، ان سب میں فوجیں رہنے چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے؟‘‘

یہ بحث دو تین دن چلتی رہی۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمر وغیرہ حضرات نے حضرت عمؓر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے۔ اس کے بعد انہوں ے سورہ حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے، پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے،ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں؟ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَدَوْلَۃً؍بَیْنَالْاَغْنِیَآءِمِنْکُمْ، ’’ تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگا تا رہے ‘‘۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے (کتاب الخراج لابی یوسف، صفحہ ۲۳ تا ۲۷ و ۳۵ احکام القرآن للجصاص)۔

اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے، نسلاً بعد نسل  یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کر سکیں گے، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہوں گے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہو گی۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانون پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے۔

اقرا ھل السود فی ارضیھم و ضرب علی رؤ سھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق (ص ۵۷)۔

حضرت عمرؓ نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا۔

اذا اقرّالامام اھل العَنْوۃ فی ارضیھم توارثوھا و تبایعوھا (ص ۸۴)۔

امام (یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا) جب مفتوحہ ممالک کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کر سکیں گے اور بیع بھی کر سکیں گے۔

عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کر لیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا (ابوعبید،ص۴۹۔ ابویوسف ص ۲۸)۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عتبہ بن فَرقَد نے فُرات کے کنارے ایک زمین خریدی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں (یعنی مہاجرین و انصار )۔ رأیٰ عمراب اصل الارض للمسلمین، ’’ عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مال مسلمان ہیں ‘‘(ابو عبید، ص ۷۴)۔

اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے :

وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔

وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو۔

وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گئے اور کوئی مالک باقی نہ رہا۔

وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں۔

وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگ ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا گیا۔

سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں۔

سابق حکومتوں کی املاک۔

(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع، ج۷، ص ۱۱۶۔ ۱۱۸۔ کتاب الخراج، یحیٰ  بن آدم، ص ۲۲۔ ۶۴۔ مغنی المحتاج، ج ۳ ِ س ۹۳۔ حاشیہ الدسوتی علی الشرح  لکبیر، ج ۲، ص ۱۹۰۔ غائیۃ المنتیہیٰ، ج ۱، ص ۴۶۷۔ ۴۷۱)۔

یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں، اس لیے فقہائے اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں :

حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت (فقہاء کی اصطلاح میں امام)کو اختیار ہے، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کی مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی۔ (بدائع الصنائع۔ احکام القرآن للجصاص۔ شرح العنایہ علی الہدایہ۔ فتح القدیر)۔ یہی رائے عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے (یحیٰ بن آدم۔ کتاب الاموال لابی عبید)

مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کر لینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہو جاتی ہیں۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی (حاشیہ الدسوتی )۔

حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا، یا مسلمانوں پر وقف کر دینا امام کے اختیار میں ہے۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگر چہ وقف میں شامل ہوں گے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جائے گا (غایۃ المنتہیٰ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے )۔

شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں، اور تمام اموال غیر منقولہ (اراضی اور مکانات ) کو فَے قرار دیا جائے گا (مغنی المحتاج)۔

بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے سواد عراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البحلی سے، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جائے گا۔ چنانچہ ۲۔۳۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا۔ پھر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مستول لکنتم علیٰ ماجعل لکم، واری الجاس قد کثر و افادیٰ ان تردہ علیہم، ’’اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دا اور جو ابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو‘‘۔ حضرت جریرؓ نے اس بات کو قبول کر لیا اور حضرت عمرؓ نے ان کو اس پر ۸۰ دینار بطور انعام دیے (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا، حضرت عمرؓ ان سے ایک وعدہ کر چکے تھے، اس لیے وعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جا سکتا۔

فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے۔اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت اسواد بینکم’’ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا،‘‘ (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس رائے کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر بر قرار رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا۔ رہی وہ بات جو حضرت علیؓ کی طرف منسوب کی جاتی ہے، تو اس پر ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔

۲۱۔ اس آیت میں اگر چہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں، بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے، اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں، نہ یہ کہ وہ ان پر لعنت بھیجیں اور تبرا کریں۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے وہ در اصل ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیر خواہ ہو گا جو ایمان کے رشتہ سے اس کے بھائی ہیں۔ ان کے لیے بد خواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں سی وقت جگہ پا سکتی ہے جبکہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو۔ اس معاملہ میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے، اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضورﷺ نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیر معمولی چیز انہیں نظر نہ آئی۔ ناچار انہوں نے خود ان ہی سے پوچھ لیا کہ بھائی، آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضورؐ سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سنی ہے؟  انہوں نے کہا میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ البتہ ایک ات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو، اور وہ یہ ہے کہ لا ابد فی نفسی غ،لًّا لا حد من المسلمین، ولا احدہ علی خیراٍ اعطاہ اللہ تعالیٰ ایاہ۔ ’’ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو، اس سے حسد کرتا ہوں ‘‘۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا  ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہر گز  نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے، یا اس کی غلط با کو غلط نہ کہا جائے۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اسے بیان کر دینا اور چیز ہے، اور بغض و نفرت، مَذَمّت و بد گوئی اور سب و شَتُم بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی برائی ہے، لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی برائی ہے، کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہو گا نو مرنے والوں کو بھی۔ معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنہوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور پنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے۔ ان کے درمیان جو اختلافات رو نما ہوئے ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسے فریق کا موقف اس کے رائے میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ رائے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس نعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھ۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بد تر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اول مہاجرین، دوسرے انصار، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سورہ حشر کی آیات ۱۱ تا ۱۷ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنہوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شامل تھے۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو، یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟

امام مالک اور امام احمد نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ فَے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں (احکام القرآن لابن العربی۔ غایۃ المنتہیٰ)۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے، مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ ’’ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حقدار نہیں ہے۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ ’’ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے، خواہ وہ خود تنگ دست ہوں ‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کو کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہشمند ہو۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ ’’ اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعائے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بعض نہ ہو‘‘، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہل ایمان کا رویہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملہ میں  کیا ہونا چاہیے۔

 

ترجمہ

 

تم (۲۲) نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کا فر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں ” اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے، اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی بات ہر گز نہ مانیں گے، اور تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔” مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جھوٹے ہیں۔ اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ ہر گز نہ نکلیں گے، اور ان سے جنگ کی گئی یہ ان کی ہر  گز مدد نہ کریں گے، اور اگر یہ ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ پھیر جائیں گے اور پھر کہیں سے کوئی مدد نہ پائیں گے۔ ان کے دلوں میں اللہ سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے، (۲۳)، اس لیئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے (۲۴)۔ یہ کبھی اکٹھے ہو کر (کھلے میدان میں ) تمہارا مقابلہ نہ کریں گے، لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر۔ یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں (۲۵)۔ ان کا یہ حال ا س لیئے ہے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں، یہ انہی لوگوں کے مانند ہیں جو ان سے تھوڑے ہی مدت پہلے اپنے کیے کا مزا چکھ چکے ہیں (۲۶) اور ان کے لیئے درد ناک عذاب ہے۔ ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے (۲۷)۔ پھر دونوں کا انجام یہ ہو نا ہے کہ ہمیشہ کے لیئے جہنم میں جائیں، اور ظالموں کی یہی جزا ہے۔

 

تفسیر

 

۲۲۔ اس پورے رکوع کے انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی نضیر کو مدینے سے نکل جانے کے لیے دس دن کا نوٹس دیا تھا اور ان کا محاصرہ شروع ہونے میں کئی دن باقی تھے۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب بنی نضیر کو یہ نوٹس دیا تو عبداللہ بن ابی اور مدینہ کے دوسرے منافق لیڈروں نے انکو یہ کہلا بھیجا کہ ہم دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئیں گے، اور بنی قریظہ اور بن غطفان بھی تمہاری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، لہٰذا تم مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ اور ہر گز ان کے آگے ہتھیار نہ ڈالو۔ یہ تم سے لڑیں گے تو ہم تمہارے ساتھ لڑیں گے،اور تم یہاں سے نکالے گئے تو ہم بھی نکل جائیں گے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ پس ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ رکوع پہلے کا نازل شدہ ہے اور پہلا رکوع اس کے بعد نازل ہوا ہے جب بنی نضیر مدینہ سے نکالے جا چکے تھے۔لیکن قرآن مجید کی ترتیب میں پہلے رکوع کو مقدم اور دوسرے کو مؤخر اس لیے کیا گیا ہے کہ اہم تر مضمون پہلے رکوع ہی میں بیان ہوا ہے۔

۲۳۔ یعنی ان کے کھل کر میدان میں نہ آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہیں، ان کے دل میں خدا کا خوف ہے اور اس بات کا کوئی اندیشہ انہیں لاحق ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود جب یہ اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کی حمایت کریں گے تو خدا کے ہاں اس کی باز پرس ہو گی۔ بلکہ انہیں جو چیز تمہارا سامنا کرنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تمہاری محبت اور جانبازی اور فدا کاری کو دیکھ کر اور تمہاری صفوں میں زبردست اتحاد دیکھ کر ان کے دل بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم اگرچہ مٹھی بھر لوگ ہو، مگر جس جذبہ شہادت نے تمہارے ایک ایک شخص کو سرفروش مجاہد بنا رکھا ہے اور جس تنظیم کی بدولت تم ایک فولادی جتھہ بن گئے ہو، اس سے ٹکرا کر یہودیوں کے ساتھ یہ بھی پاش پاش ہو جائیں گے۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اگر کسی کے دل میں خدا سے بڑھ کر کسی اور کا خوف ہو تو یہ در اصل خوف خدا کی نفی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص دو خطرو میں سے ایک کو کم تر اور دوسرے کو شدید تر سمجھتا ہو، وہ پہلے خطرے کی پروا نہیں کرتا اور اسے تمام تر فکر صرف دوسرے خطرے سے بچنے ہی کی ہوتی ہے۔

۲۴۔ اس چھوٹے سے فقرے میں ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جو شخص سمجھ بوجھ رکھتا ہو وہ تو یہ جانتا ہے کہ اصل میں ڈرنے کے قابل خدا کی طاقت ہے نہ کہ انسانوں کی طاقت۔ اس لیے وہ ہر ایسے کام سے بچے گا جس پر اسے خدا کے مواخذے کا خطرہ ہو، قطع نظر اس سے کہ کوئی انسانی طاقت مواخذہ کرنے والی ہو یا نہ ہو، اور ہر وہ فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا جو خدا نے اس پر عائد کیا ہو، خواہ ساری دنیا کی طاقتیں اس میں مانع و مزاحم ہوں۔ لیکن ایک نا سمجھ آدمی کے لیے چونکہ خدا کی طاقت غیر محسوس اور انسانی طاقتیں محسوس ہوتی ہیں، اس لیے تمام معاملات میں وہ اپنے طرز عمل کا فیصلہ خدا کے بجائے انسانی طاقتوں کے لحاظ سے کرتا ہے۔ کسی چیز سے بچے گا تو اس لیے نہیں کہ خدا کے ہاں اس کی پکڑ ہونے والی ہے، بلکہ اس لیے کہ سامنے کوئی انسانی طاقت اس کی خبر لینے کے لیے موجود ہے۔ اور کسی کام کو کرے گا تو وہ بھی اس بنا پر نہیں کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے، یا اس پر وہ خدا کے اجر کا امیدوار ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کہ کوئی انسانی طاقت اس کا حکم دینے والی یا اس کو پسند کرنے والی ہے اور وہ اس کا اجر دے گی۔ یہی سمجھ اور نا سمجھی کا فرق دراصل مومن اور غیر مومن کی سیرت و کردار کو ایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے۔

۲۵۔ یہ منافقین کی دوسری کمزوری کا بیان ہے۔ پہلی کمزوری یہ تھی کہ وہ بزدل تھے، خدا سے ڈرنے کے بجائے انسانوں سے ڈرتے تھے اور اہل ایمان کی طرح کوئی بلند تر نصب العین ان کے سامنے نہ تھا جس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہوتا۔ اور دوسری کمزوری یہ تھی کہ منافقت کے سوا کوئی قدر مشترک ان کے درمیان نہ تھی جو ان کو ملا کر ایک مضبوط جتھا بنا دیتی۔ ان کو جس چیز نے جمع کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اپنے شہر میں باہر کے آئے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و فرمانروائی چلتے دیکھ کر ان سب کے دل جل رہے تھے، اور اپنے ہی ہم وطن انصاریوں کو مہاجرین کی پذیرائی کرتے دیکھ کر ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے۔ اس حسد کی بنا پر وہ چاہتے تھے کہ سب مل جل کر اور آس پاس کے دشمانان اسلام سے ساز باز کر کے اس بیرونی اثر و اقتدار کو کسی طرح ختم کر دیں۔ لیکن اس منفی مقصد کے  سوا کوئی مثبت چیز ان کو ملانے والی نہ تھی۔ ان میں سے ہر ایک سردار کا جتھا الگ تھا۔ ہر ایک اپنی چودھراہٹ چاہتا تھا۔ کوئی کسی کا مخلص دوست نہ تھا۔ بلکہ ہر ایک کے دل میں دوسرے کے لیے اتنا بغض و حسد تھا کہ جسے وہ اپنا مشترک دشمن سمجھتے تھے اس کے مقابلے میں بھی وہ نہ آپس کی دشمنیاں بھول سکتے تھے، نہ ایک دوسرے کی جڑ کاٹنے سے باز رہ سکتے تھے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے غزوہ بنی نضیر سے پہلے ہی منافقین کی اندرونی حالت کا تجزیہ کر کے مسلمانوں کو بتا دیا کہ ان کی طرف سے فی الحقیقت کوئی خطرہ نہیں ہے، لہٰذا  تمہیں یہ خبریں سن سن کر گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جب تم بنی نضیر کا محاصرہ کرنے کے لیے نکلو گے تو یہ منافق سردار دو ہزار کا لشکر لے کر پیچھے سے تم پر حملہ کر دیں گے اور ساتھ ساتھ بنی قریظہ اور بنی غطفان کو بھی تم پر چڑھا لائیں گے۔ یہ سب محض لاف زنیاں ہیں جن کی ہوا آزمائش کی پہلی ساخت آتے ہی نکل جائے گی۔

۲۶۔ اشارہ ہے کفار قریش اور یہود بنی قینقاع کی طرف جو اپنی کثرت تعداد اور اپنے سر و سامان کے باوجود انہی کمزوریوں کے باعث مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سرو سامان جماعت سے شکست کھا چکے تھے۔

۲۷۔ یعنی یہ منافقین بنی نضیر کے ساتھ وہی معاملہ کر رہے ہیں جو شیطان انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ آج یہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے لڑ جاؤ اور ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ مگر جب وہ واقعی لڑ جائیں گے تو یہ دامن جھاڑ کر اپنے سارے وعدوں سے بری الذمہ ہو جائیں گے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھیں گے کہ ان پر کیا گزری ہے۔ ایسا ہی معاملہ شیطان ہر کافر سے کرتا ہے، اور ایسا ہی معاملہ اس نے کفار قریش کے ساتھ جنگ بدر میں کیا تھا، جس کا ذکر سورہ انفال، آیت ۴۸ میں آیا ہے۔پہلے تو وہ ان کو بڑھاوے دے کر بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ پر لے آیا اور اس نے ان سے کہا کہ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَالنَّا سِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ۔ (آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے اور میں تمہاری پشت پر ہوں )، مگر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹا پھر گیا اور کہنے لگا کہ اِنِّیْ بَرِئٓءٌ مِّنْکُمْ، اِنِّیْ اَریٰ مَا لَا تَرَوْنُ، اِنِّیْ اَخَافُ اللہ (میں تم سے بری الذمہ ہوں، مجھے وہ کچھ نظر آ رہا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا، مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے۔)۔

 

ترجمہ

 

اے (۲۸) لوگوں جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیئے کیا سامان کیا ہے (۲۹)۔ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ انہیں خود اپنا نفس  بھلا دیا (۳۰)۔ یہی لوگ فاسق ہیں۔ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں  ہو سکتے۔ جنت میں جا نے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔

اگر ہم نے یہ قرآن کس پہاڑ پر بھی اتار دیا ت تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جار ہا ہے اور پھٹا پڑ تا ہے (۳۱)۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے ا س لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر ) غور کریں۔

وہ (۳۲) اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں (۳۳)، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا (۳۴)، وہی رحمان اور رحیم ہے (۳۵)۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کو ئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ (۳۶) ہے نہایت مقدس(۳۷)، سرا سر سلامتی، امن دینے والا(۳۸) امن دینے والا(۳۹)، نگہبان (۴۰)، سب پر غالب(۴۱)، اپنی حکم بزور نافذ کرنے والا(۴۲)، اور بڑا ہی ہو کر (۴۳) رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں (۴۴)۔ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ  بنا نے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے (۴۵)۔ اس کے لیئے بہترین نام ہیں (۴۶)۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی (۴۷) ہے، اور وہ زبردست اور حکیم (۴۸) ہے۔

 

تفسیر

 

۲۸۔ قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ جب کبھی منافق مسلمانوں کے نفاق پر گرفت کی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ انہیں نصیحت  بھی کی جاتی ہے تاکہ ان میں سے جس کے اندر بھی ابھی کچھ ضمیر کی زندگی باقی ہے وہ اپنی اس روش پر نادم ہو اور خدا سے ڈر کر اس گڑھے سے نکلنے کی فکر کرے جس میں نفس کی بندگی نے اسے گرا دیا ہے۔ یہ پورا رکوع اسی نصیحت پر مشتمل ہے۔

۲۹۔ کل سے مراد آخرت ہے۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی ’’آج‘‘ ہے اور ’’کل‘‘ وہ یوم قیامت ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے۔ یہ انداز بیان اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے انسان کو یہ سمجھا یا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا ہے۔ اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں، اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار  رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہو چکا ہے، حالانکہ آخرت ٹھیک اسی طرح آنی ہے جس طرح آج کے بعد کل آنے والا ہے، اور وہاں وہ کچھ نہیں پا سکتا اگر دنیا کی موجودہ زندگی میں اس کے لیے کوئی پیشگی سامان فراہم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ دوسرا حکیمانہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محاسب بنایا گیا ہے۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کہ تمیز پیدا نہ ہو جائے، اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہو سکتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ جس بیدار ہو جائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے وقت، اپنے سرمایے، اپنی محنت، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف سے جا رہی ہے یا جہنم کی طرف۔یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضا ہے، نہ دیکھے گا تو آپ ہی  اپنا مستقبل خراب کرے گا۔

۳۰۔ یعنی خدا فراموشی ہے۔ جب آدمی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کا بندہ ہے تو لازماً وہ دنیا میں اپنی ایک غلط حیثیت متعین کر بیٹھتا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی بنیادی غلط فہمی کے باعث غلط ہو کر رہ جاری ہے، اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس ایک کی بندگی کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس ایک کی بندگی تو نہیں کرتا جس کا وہ در حقیقت بندہ ہے، اور ان بہت سوں کی بندگی کرتا رہتا ہے جن کا وہ فی الواقع بندہ نہیں ہے۔ یہ پھر ایک عظیم اور ہمہ گیر غلط فہمی ہے جو اس کی ساری زندگی کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کا اصل مقام دنیا میں یہ ہے کہ وہ بندہ ہے، آزاد و خود مختار نہیں ہے۔ اور صرف ایک خدا کا بندہ ہے، اس کے سوا کسی اور کا بندہ نہیں ہے۔ جو شخص اس بات کو نہیں جانتا وہ حقیقت میں خود اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ اور جو شخص اس کے جاننے کے باوجود کسی لمحہ بھی اسے فراموش کر بیٹھتا ہے اسی لمحے کوئی ایسی حرکت اس سے سرزد ہو سکتی ہے جو کسی منکر یا مشرک یعنی خود فراموش انسان ہی کے کرنے کی ہوتی ہے، صحیح راستے پر انسان کے ثابت قدم رہنے کا پورا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے خدا یاد رہے۔ اس سے غافل ہوتے ہی وہ اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے، اور یہی غفلت اسے فاسق بنا دیتی ہے۔

۳۱۔ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب  ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا۔لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد  چہارم، الاحزاب، حاشیہ ۱۲۰)۔

۳۲۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف سے یہ قرآن تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، جس نے یہ ذمہ داریاں تم ڈالی ہیں، اور جس کے حضور بالآخر تمہیں جواب دہ ہونا ہے، وہ کیسا خدا ہے اور کیا اس کی صفات ہیں۔ اوپر کے مضمون کے بعد متصلاً صفات الہیٰ کا یہ بیان خود بخود انسان کے نادر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی معمولی ہستی سے نہیں ہے بلکہ اس عظیم و جلیل ہستی سے ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ اس مقام پر یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اگر چہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات بے نظیر طریقے سے بیان کی گئی ہیں جن سے ذات الٰہی کا نہایت واضح ہوتا ہے،لیکن دو مقامات ایسے ہیں جن میں صفات باری تعالیٰ کا جامع ترین بیان پایا جاتا ہے۔ ایک سورہ بقرہ میں آیت الکرسی (آیت ۲۵۵)۔ دوسرے، سورہ حشر کی یہ آیات۔

۳۳۔ یعنی جس کے سوا کسی کی یہ حیثیت اور مقام اور مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی بندگی و پرستش کی جائے۔ جس کے سوا کوئی خدائی کی صفات و اختیارات رکھتا ہی نہیں کہ اسے معبود ہونے کا حق پہنچتا ہو۔

۳۴۔ یعنی جو کچھ مخلوقات سے پوشیدہ ہے اس کو بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان پر ظاہر ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اس کے علم سے اس کائنات میں کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں۔ ماضی میں جو کچھ گزر چکا ہے، حال میں جو کچھ موجود ہے، اور مستقبل میں جو کچھ ہو گا، ہر چیز اس کو بارہ راست معلوم ہے۔ کسی ذریعہ علم کا  وہ محتاج نہیں ہے۔

۳۵۔ یعنی وہی ایک ہستی ایسی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے، تمام کائنات پر وسیع ہے، اور کائنات کی ہر چیز کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔ سارے جہان میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دوسری جس ہستی میں بھی صفت رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے، اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے کسی مصلحت اور ضرورت کی خاطر اسے عطا کی ہے۔ جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی دوسری مخلوق کے لیے جذبہ رحم پیدا کیا ہے، اس لیے پیدا کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہت ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمت بے پایاں کی دلیل ہے۔

۳۶۔اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے۔ نیز مطلقاًالملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے۔ اور اس کی حاکمیت(Sovereignty) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ تٰنِتُوْنَ (الروم: 26)زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔یُدَ بِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض، (السجدہ 5)۔آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْ جَعُ الْاُمُوْرُ۔ (الحدید: 5)۔زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں۔وَلَمْیَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان : 2)بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔بِیَدِہٖ مَلَکُوْ تُ کُلِّ شَیْءٍ (یٰس : 83)۔ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ (البروج : 16)۔جس چیز کا ارادہ کرے سے کر گزرنے والا۔لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُوَھُمْ یُسْئَلُوْنَ (الانبیاء : 23)جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سانے جوابدہ نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔وَاللہُ یَحْکُمُ لَامُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ۔ (الرعد:41)اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ۔ (المؤمنون : 88)۔اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکَ تُؤْتِیالْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْتَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِ کَ الْحَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰکُلِّ شَئ ءٍ قَدِیْرٌ (آل عمران : 26 )۔کہو، خدایا، ملک کے ملک، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے۔بلکہ در حقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو، یا کوئی قوم ہو، اسےفی الواقع کوئی حاکمیت حاصل سے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو، جس کا قیام و بقاء عارضی  و وقتی ہو، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں۔لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے، سلام ہے، مومن ہے، مہیمن ہے،عزیز ہے، جبار ہے، متکبر ہے، خالق ہے، باری ہے اور مصور ہے۔

۳۷۔ اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے۔ ہر چیز کو وہ مالک ہے۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے۔ اور اس کی حاکمیت (Sovereignty) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :

وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ تٰنِتُوْنَ (الروم: ۲۶)

زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔

یُدَ بِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض، (السجدہ ۵)۔

آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔

لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْ جَعُ الْاُمُوْرُ۔ (الحدید: ۵)۔

زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں۔

وَلَمْیَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان : ۲)

بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔

بِیَدِہٖ مَلَکُوْ تُ کُلِّ شَیْءٍ (یٰس : ۸۳)۔

ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ (البروج : ۱۶)۔

جس چیز کا ارادہ کرے سے کر گزرنے والا۔

لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُوَھُمْ یُسْئَلُوْنَ (الانبیاء : ۲۳)

جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سانے جوابدہ نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔

وَاللہُ یَحْکُمُ لَامُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ۔ (الرعد:۴۱)

اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔

وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ۔ (المؤمنون : ۸۸)۔

اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَالْمُلْکَ تُؤْتِیالْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِ کَ الْحَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَئ ءٍ قَدِیْرٌ (آل عمران : ۲۶ )۔

کہو، خدایا، ملک کے ملک، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے۔ بلکہ در حقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو، یا کوئی قوم ہو، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل سے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو، جس کا قیام و بقاء عارضی دوقتی ہو، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں۔

لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے، سلام ہے، مومن ہے، مہیمن ہے، عزیز ہے، جبار ہے، متکبر ہے، خالق ہے، باری ہے اور مصور ہے۔

۳۷۔ اصل میں لفظ قُدُّوس استعمال ہوا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ قدس ہے۔ قدس کے معنی ہیں تمام بُری صفات سے پاکیزہ اور منزہ ہونا۔ اور قُدُّوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدر جہا بالا و بر تر ہ کہ اس کی ذات میں کوئی عیب، یا نقص،یا کوئی قبیح صفت پائی جائے۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی بُرائی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدوسیت در حقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بد خلق اور بد بیت ہو۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجائے بُرائی کا خطرہ لاحق ہو۔ اسی بنا پر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کر لیتا ہے، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا در حقیقت کوئی مقتدرِ اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت، یا اشتراکی نظام کی فرمانروائی، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت، بہر حال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔

۳۸۔ اصل میں لفظ السلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سلامتی۔ کسی کو سلیم، یا سام کہنے کے بجائے سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجائے حسن کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے۔ اللہ تعالیٰ کو السلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے۔ اس کی ذات اس سے بالا تر ہے کہ کوئی آفت، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آئے۔

۳۹۔ اصل میں لفظ اَلْمُؤْ مِنُ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ امن ہے۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا۔ اور مؤْمِن وہ ہے جو دوسرے کو امن دے۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مؤمِن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا، یا اس کا حق مارے گا، یا اس کا اجر ضائع کرے گا، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا۔ پھر چونکہ اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے، بلکہ مطلقاً المؤمن کہا گیا ہے، اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے۔

۴۰۔ اصل میں لفظ اَلْمھَُیْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا۔ دوسرے، شاہد، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے۔ تیسرے، قائم بامور الخلق، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے، اور اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کا نگہبان و محافظ، کس کا شاہد، اور کس کی خبر گیری کی ذمہ داری اٹھانے والا ہے، اس لیے اس اطلاق سے خود بخود مفہوم نکلتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری، اور پرورش، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے۔

۴۱۔ اصل میں لفظ العزیز استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے ایسی زبر دست ہستی جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کر نا کسی کے بس میں نہ ہو، جس کے آگے سب بے بس اور بے زور ہوں۔

۴۲۔ اصل میں لفظ الجبار استعمال ہوا ہے جس کا مادہ جبر ہے۔ کبر کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا حقیق مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، جبراً نافذ کرنے والا ہے۔ علاوہ بریں لفظ جبار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند و بالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے۔

۴۳۔ اصل میں لفظ الْمُتَکَبِّر استعمال ہوا ہے جس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑا بنے۔ دوسرے وہ جو حقیقت میں بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ انسان ہو یا شیطان، یا کوئی اور مخلوق، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادعا اور بدترین عیب ہے۔ اس کے برعکس، اللہ تعالیٰ حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہنا کوئی ادعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی۔

۴۴۔ یعنی اس کے اقتدار اور اختیارات اور صفات میں، یا اس کی ذات میں، جو لوگ بھی کسی مخلوق کو اس کا شریک قرار دے رہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایک بہت بڑا جھوٹ بول رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کسی معنی میں بھی کوئی اس کا شریک ہو۔

۴۵۔ یعنی پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لے کر اپنی مخصوص صورت میں وجود پذیر ہونے تک بالکل اسی کی ساختہ پرداختہ ہے۔ کوئی چیز بھی نہ خود وجود میں آئی ہے، نہ اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے، نہ اس کی ساخت و پرداخت میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق کو تین الگ مراتب میں بیان کیا گیا ہے جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں۔ پہلا مرتبہ خَلُق ہے جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انجینیئر ایک عمارت بنانے سے پہلے یہ ارادہ کرتا ہے کہ اسے ایسی اور ایسی عمارت فلاں خاص مقصد کے لیے بنانی ہے اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ (Design) سوچتا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیر تجویز عمارت کی تفصیلی صورت اور مجموعی شکل یہ ہونی چاہیے۔ دوسرا مرتبہ ہے برء، جس کے اصل معنی ہیں جدا کرنا، چاک کرنا، پھاڑ کر الگ کرنا۔ خالق کے لیے باری کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوئے نقشے کو نافذ کرتا اور اس چیز کو، جس کا نقشہ اس نے سوچا ہے، عدم سے نکال کر وجود میں لاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انجینیئر نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا اس کے مطابق وہ ٹھیک ناپ تول کر کے زمین پر خط کشی کرتا ہے، پھر بنیادیں کھودتا ہے، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مراحل طے کرتا ہے۔ تیسرا مرتبہ تصویر ہے جس کے معنی ہیں صورت بنانا، اور یہاں اس سے مراد ہے ایک شے کو اس کی آخری مکمل صورت میں بنا دینا۔ ان تینوں مراتب میں اللہ تعالیٰ کے کام اور انسانی کاموں کے درمیان سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔ انسان کا کوئی منصوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سابق نمونوں سے ماخوذ نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہر منصوبہ بے مثال اور اس کی اپنے ایجاد ہے۔ انسان جو کچھ بھی بناتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ مادوں کو جوڑ جاڑ کر بناتا ہے۔ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا بلکہ جو کچھ وجود میں لایا ہے اور وہ مادہ بھی بجائے خود اس کا پیدا کردہ ہے جس سے اس نے یہ دنیا بنائی ہے۔ اسی طرح سورت گری کے معاملہ میں بھی انسان موجد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقال اور بھونڈا نقال ہے۔ اصل مصور اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہر جنس، ہر نوع، اور ہر فرد کی صورت لا جواب بنائی ہے اور کبھی ایک صورت کی ہو بہو تکرار نہیں کی ہے۔

۴۶۔ ناموں سے مراد اسمائے صفات ہیں۔ اور اس کے لیے بہترین نام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے وہ اسمائے صفات موزوں نہیں ہیں جن سے کسی نوعیت کے نقص کا اظہار ہوتا ہو، بلکہ اس کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے جو اس کی صفات کمالیہ کا اظہار کرتے ہوں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کے یہ اسمائے حسنیٰ بیان کیے گئے ہیں، اور حدیث میں اس ذات پاک کے ۹۹ نام گنائے گئے ہیں، جنہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہؓ کی رویت سے بالتفصیل نقل کیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اگر آدمی ان اسماء کو بغور پڑھے تو وہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اگر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہو تو کون سے الفاظ اس کے لیے موزوں ہوں گے۔

۴۷۔ یعنی زبان قال یا زبان حال سے یہ بیان کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے۔

۴۸۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حدید، حاشیہ ۲۔

٭٭٭

 

 

 

(۶۰) سورہ الممتحنہ

 

نام

 

اس سورہ کی آیت نمبر ۱۰ میں حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں ان کا امتحان لیا جائے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الممتحنہ رکھا گیا ہے۔ اس کا تلفظ ممتحنہ بھی کیا جاتا ہے اور ممتحنہ بھی۔ پہلے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں ’’ وہ عورت جس کا امتحان لیا جائے‘‘۔ اور دوسرے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں ’’ امتحان لینے والی سورۃ‘‘۔

 

زمانۂ نزول

 

اس میں دو ایسے معاملات پر کلام فرمایا گیا ہے جن کا زمانہ تاریخی طور پر معلوم ہے۔ پہلا معاملہ حضرت حاطب بن ابی بلْتَعَہ کا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے قریش کے سرداروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے ہجرت کے کر کے مدینہ آنے لگی تھیں اور ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شرائط صلح کی رو سے مسلمان مردوں کی طرح کیا ان عورتوں کو بھی کفار کے حوالہ کر دیا جائے؟ ان دو معاملات کے ذکر سے یہ بات قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سورہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے ان کے علاوہ ایک تیسرا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر سورۃ کے آخر میں آیا ہے، اور وہ یہ کہ جب عورتیں ایمان لا کر بیعت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان سے کن باتوں کا عہد لیں۔ اس حصے کے متعلق بھی قیاس یہی ہے کہ یہ بھی فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے مردوں کی طرح ان کی عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں بیک وقت داخل اسلام ہونے والی تھیں اور اسی موقع پر یہ ضرورت پیش آئی تھی کہ اجتماعی طور پر ان سے عہد لیا جائے۔

 

موضوع اور مباحث

 

اس سورۃ کے تین حصے ہیں :

پہلا حصہ آغاز سورہ سے آیت ۹ تک چلتا ہے اور سورۃ کے خاتمہ پر آیت ۱۳ بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے محض اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو خبر دار کرنے کی کوشش کی تھی جسے اگر بر وقت  ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں، قریش کے بھی بہت  سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات انجام دینے والے تھے، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پُر امن طریقہ سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے، اور اتنے عظیم نقصانات صرف اس وجہ سے ہوتے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے بال بچوں کو جنگ کے خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ اس شدید غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مومن کو کسی حال میں اور کسی غرض کے لیے بھی اسلام کے دشمن کافروں کے ساتھ محبت اور دوسری کا تعلق نہ رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو کفر و اسلام کی کشمکش میں کفار  کے لیے مفید ہو۔ البتہ جو کافر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عملاً دشمنی اور ایذا رسانی کا برتاؤ نہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

دوسرا حصہ آیات ۱۰۔۱۱ پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بری پیچیدگی پیدا کر رہا تھا۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مر د ایسے تھے جن بیویاں کفر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج باقی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے، اور مسلمان مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے۔ یہ فیصلہ بڑے اہم قانونی نتائج رکھتا ہے جن کی تفصیل ہم آگے اپنے حواشی میں بیان کریں گے۔

تیسرا  حصہ آیت ۱۲ پر مشتمل ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ ان بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیت عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

(۱) اے  لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اگر میری راہ جہاد کرنے کے لیئے اور میری رضا جوئی کی خاطر ( وطن جھوڑ کر گھروں سے ) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو۔ تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔ ان کا رویہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پا جائیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمھیں آزار دیں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ(۲)۔ قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد (۳)۔ اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال (۴) دے گا، اور و ہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے (۵)۔ تم لوگوں کے لیئے ابراہیم درمیان ہمیشہ کے لیئے عداوت ہو گئی اور پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ،مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اس سے مستثنی سے ) کہ ” میں آپ کے لیئے مغفرت کی درخواست  ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیئے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں نہیں ہے (۷)۔ "(اور ابراہیم ) و اصحاب ابراہیم کی دعا یہ تھی کہ) ” اے ہمارے رب ” تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے۔ اے ہمارے رب، ہمیں کافروں کے لیئے فتنہ نہ بنا دے (۸)۔ اور اے ہمارے رب، قصوروں سے درگزر فرما، بے شک ہی زبردست اور دانا ہے ” انہی لوگوں کے طرز  عمل  میں تمہارے لیئے اور ہر اس شخص کے لیئے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امید دار ہو (۹)۔ اس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے (۱۰)۔ ع

 

تفسیر

 

۱۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز  ہی میں اس واقعہ کی تفصیلات  بیان کر دی جائیں جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تاکہ آگے کا مضمون سمجھنے میں آسانی ہو۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ، غزوہ بن زبیر وغیرہ حضرات کی متفقہ روایت بھی یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب ابی بُلْتَعہ کا خط پکڑا گیا تھا۔

قصہ یہ ہے کہ جب قریش کے لوگوں نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں، مگر چند مخصوص صحابہ کے سوا کسی کو یہ نہ بتایا کہ آپ کس مہم پر جانا چاہتے  ہیں۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مکہ معظمہ سے ایک عورت آئی جو پہلے بنی عبدالمطلب کی لونڈی تھی اور پھر آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام کرتی تھی۔ اس ے آ کر حضور سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور کچھ مال مدد مانگی۔ آپ نے بنی عبدالمطلب اور بنی المطلب سے اپیل کر کے اس کی حاجت پوری کر دی۔ جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہ اس سے ملے اور اس کو چپکے سے ایک خط بعض سرداران مکہ کے نام دیا اور اس دینار روپے تاکہ وہ راز فاش نہ کرے اور چھپا کر یہ خط ان لوگوں تک پہنچا دے۔ ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پر مطلع فرما دیا۔ آپ نے فوراً حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود کو اس کے پیچھے بھیجا اور حکم دیا کہ تیزی سے جاؤ، روضہ خاخ کے مقام پر (مدینہ سے ۱۲ میل بجانب مکہ) تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہے۔ جس طرح بھی ہو اس سے وہ خط حاصل کرو۔ اگر وہ دے دے تو اسے چھوڑ دینا۔نہ دے تو اس کو قتل کر دینا۔ یہ حضرات جب اس مقام پر پہنچے تو عورت وہاں موجود تھی۔ انہوں نے اس سے خط مانگا۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ انہوں نے تلاشی لی۔ مگر کوئی خط نہ ملا۔ آخر کو انہوں نے کہا خط ہمارے حوالے کر ورنہ ہم برہنہ کر کے تیری تلاشی لیں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکال کر انہیں دے دیا اور یہ اسے حضورؐ کی خدمت میں لے آئے۔ کھول کر پڑھا گیا تو اس میں قریش کے لوگوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تم پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ (مختلف روایات میں خط کے الفاظ مختلف نقل ہوئے ہیں۔ مگر مدعا سب کا یہی ہے )۔ حضورؐ نے حضرت حاطب سے پوچھا، یہ کیا حرکت ہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں۔ میں نے جو کچھ کیا ہے اس بنا پر نہیں کیا ہے کہ میں کافر و مرتد ہو گیا ہوں اور اسلام کے بعد اب کفر کو پسند کرنے لگا ہوں۔اصل بات یہ ہے کہ میرے اقرباء مکہ میں مقیم ہیں۔ میں قریش کے قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں، بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا ہوں مہاجرین میں سے دوسرے جن لوگوں کے اہل و عیال مکہ میں ہیں ان کو تو ان کا قبیلہ بچا لے گا۔ مگر میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے جسے کوئی بچانے والا ہو۔ اس لیے میں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان رہے جس کا لحاظ کر کے وہ میرے بال بچوں کو نہ چھیڑین۔ (حضرت حاطب کے بیٹے عبدالرحمٰن کی روایت یہ ہے کہ اس وقت حضرت حاطب کے بچے اور بھائی مکہ میں تھے، اور خود حضرت حاطب کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی وہیں تھیں )۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حاطب کی یہ بات سن کر حاضرین سے فرمایا : قَدْ صدقکم،’’ حاطب نے تم سے سچی بات ہی ہے ‘‘، یعنی ان  کے اس فعل کا اصل محرک یہی تھا، اسلام سے انحراف اور کفر کی حمایت کا جذبہ اس کا محرک نہ تھا۔ حضرت عمرؓ  نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں،اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اس شخص نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ تمہیں کیا خبر، ہو سکتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کیا۔‘‘ (اس آخری فقرے  کے الفاظ مختلف روایات میں مختلف ہیں۔ کسی میں ہے قد غفر ت لکم، میں نے تمہاری مغفرت کر دی۔ کسی میں ہے انی غافر لکم، میں تمہیں بخش دینے والا ہوں۔ اور کسی میں ہے ساغفرلکم۔ میں تمہیں بخش دوں گا)۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ رو دیے اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ ان کثیر التعداد روایات کا خلاصہ ہے جو متعدد معتبر سندوں سے بخاری، مسلم، احمد، ابوداؤد، ترمذی،نسائی، ابن جریر طبری، ابن ہشام، ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مستند روایت  وہ ہے جو خود حضرت علیؓ کی زبان دے ان کے کاتب (سکرٹری ) عبید اللہ بن ابی رافع نے سنی اور ان سے حضرت علی کے پوتے حسن بن محمد بن حنفیہ نے سن کر بعد مے راویوں تک پہنچائی۔ ان میں سے کسی روایت میں بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حاطب کا یہ عذر قبول کر کے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔

۲۔ یہاں تک جو ارشاد ہوا ہے، اور آگے اسی سلسلے میں جو کچھ آ رہا ہے، اگر چہ اس کے نزول کا موقع حضرت حاطب  ہی کا واقعہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے تنہا انہی کے مقدمہ پر کلام فرمانے کے بجائے تمام اہل ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ درس دیا ہے کہ کفر و اسلام کا جہاں مقابلہ ہو، اور جہاں کچھ لوگ اہل ایمان سے ان کے مسلمان ہونے کی بنا پر دشمنی کر رہے ہوں، وہاں کسی شخص کا کسی غرض اور کسی مصلحت سے بھی کوئی ایسا کام کرنا جس سے اسلام کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو اور کفر و کفار کے مفاد کی خدمت ہوتی ہو، ایمان کے منافی حرکت ہے۔ کوئی شخص اگر اسلام کی بد خواہی کے جذبہ سے بالکل خالی ہو اور بد نیتی سے نہیں بلکہ محض اپنی کسی شدید ترین ذاتی مصلحت کی خاطر ہی یہ کام کرے، پھر بھی یہ فعل کسی مومن کے کرنے کا نہیں ہے، اور جس نے بھی یہ کام کیا وہ راہ راست سے بھٹکا گیا۔

۳۔ یہ اشارہ ہے حضرت حاطب کی طرف انہوں نے اپنی ماں، اپنے بھائی، اور اپنی اولاد کو جنگ کے موقع پر دشمنوں کی ایذا سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے جن کی خاطر اتنے بڑے قصور کا ارتکاب کر ڈالا وہ قیامت کے روز تمہیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے۔ کسی کی یہ ہمت نہیں ہو گی کہ خدا کی عدالت میں آگے بڑھ کر یہ کہے کہ ہمارے باپ یا ہمارے بیٹے یا ہمارے بھائی نے ہماری خاطر یہ گناہ کیا تھا اس لیے اس کے بدلے کی سزا ہمیں دے دی جائے۔ اس وقت ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہو گی، اپنے اعمال ہی کے خمیازے سے بچنے کا سوال ہر شخص کے لیے بلائے جان بن رہا ہو گا، کجا کہ کوئی کسی دوسرے کے حصے کا خمیازہ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زیادہ صریح الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا ’’ اس روز مجرم یہ چاہے گا کہ اپنے اولاد، اپنے بیوی، اپنے بھائی، اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگر فدیے میں دے کر عذاب سے چھوٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے‘‘ (المعارج، آیات ۱۱۔۱۴)۔ دوسری جگہ فرمایا ’’ اس روز آدمی پا نے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ہر ایک اپنے ہی حال میں ایسا گرفتار ہو گا جس میں اسے کسی کا ہوش نہ ہو گا‘‘(عبس، ۳۴۔۳۷)۔

۴۔ یعنی دنیا کے تمام رشتے، تعلقات، اور رابطے وہاں توڑ دیئے جائیں گے۔ جتھوں اور پارٹیوں اور خاندانوں کی شکل میں لوگوں کا محاسبہ نہ ہو گا، بلکہ ایک ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہو گا،اور ہر ایک کو اپنا ہی حساب دینا پڑے گا۔ اس لیے دنیا میں کسی شخص کو بھی کسی قرابت یا دوستی یا جتھہ بندی کی خاطر کوئی ناجائز کام نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اپنے کیے کی سزا اس کو خود ہی بھگتنی ہو گی، اس کی ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو گا۔

۵۔ حضرت حاطب کے اس مقدمہ سے جس کی تفصیل اوپر ہم نے نقل کی ہے، اور ان آیات سے جو اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، حسب ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :

(۱) قطع نظر اس سے کہ کرنے والے نے کس بیت سے کیا، بجائے خود یہ فعل صریحاً ایک جاسوسی کا فعل تھا، اور جاسوسی بھی بڑے نازک موقع پر سخت خطرناک نوعیت کی تھی کہ حملے سے پہلے بے خبر دشمن کو خبر دار کیا گیا تھا۔ پھر معاملہ شبہ کا بھی نہ تھا بلکہ ملزم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پکڑ لیا گیا تھا جس کے بعد کسی ثبوت کی حاجت نہ تھی۔ حالات بھی زمانہ امن کے نہیں، زمانہ جنگ کے تھے۔ مگر اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حاطب کو صفائی کا موقع دیے بغیر نظر بند نہیں کر دیا۔ اور صفائی کا موقع بھی ان کا بند کمرے میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں بر سر عام دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے قوانین و قواعد و ضوابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کی رو سے کسی حالت میں حکام کو یہ حق پہنچتا ہو  کہ کسی شخص کو محض اپنے علم یا شبہ کی بنا پر قید کر دیں۔ اور بند کمرے میں خفیہ طریقے پر مقدمہ چلانے کا طریقہ بھی اسلام میں نہیں ہے۔

(۲) حضرت حاطب نہ صرف مہاجرین میں سے تھے بلکہ اہل بدر میں شامل تھے جنہیں صحابہ کے اندر بھی ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ مگر اس کے باوجود ان سے اتنا بڑا جرم سرزد ہو گیا، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس شدت کے ساتھ گرفت فرمائی جسے اوپر کی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ احادیث میں بھی ان کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور مفسرین میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جس نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ یہ من جملہ ان بہت سے شواہد کے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بے خطا نہیں تھے، ان سے بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر خطائیں سرزد ہو سکتی تھیں اور  عملاً ہوئیں، اور ان کے احترام کی جو تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے کم از کم اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان میں سے اگر کوئی غلط کام سرزد ہوا تو اس کا ذکر نہ کیا جائے۔  ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اس کا تقاضا یہ ہوتا تو نہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتا اور نہ صحابہ کرام اور تابعین اور محدثین و مفسرین اپنی روایات میں ان کی تفصیلات بیان کرتے۔

(۳) حضرت حاطب کے مقدمہ میں حضرت عمرؓ نے جس رائے کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہر ی صورت کے لحاظ سے تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ فعل ایسا ہے جو صریحاً اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نوعیت رکھتا ہے، اس لیے حاطب منافق اور واجب القتل ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس نقطہ نظر کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا اصل نقطہ نظر یہ بتایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کر دینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے سہ صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے اور قراین کس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ فعل کی شکل بلاشبہ جاسوسی کی ہے۔ مگر کیا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ فاعل کا آج تک کا رویہ یہی بتا رہا ہے کہ یہ شخص یہ کام اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نیت سے کر سکتا تھا؟ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی۔ کیا خلوص کے بغیر وہ اتنی بڑی قربانی کر سکتا تھا؟ یا اس کے بارے میں یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں کفار قریش کی طرف کوئی ادنیٰ  سا میلان بھی موجود ہے؟ وہ اپنے فعل کی صاف صاف وجہ یہ بتا رہا ہے کہ مکہ میں اس کے بال بچوں کو خاندان اور قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل ہے، اس لیے اس نے ان کو جنگ کے موقع پر کفار کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر یہ کام کیا ہے۔ حقائق اس کی تائید کرتے ہیں کہ فی الواقع مکہ میں اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ واقعی اس کے بال بچے وہاں موجود ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اس بیان کو جھوٹا سمجھا جائے اور یہ رائے قائم کی جائے کہ اس کے اس فعل کا اصل محرک یہ نہ تھا بلکہ خیانت ہی کا ارادہ اس کے اندر پایا جاتا تھا۔ بلاشبہ ایک مخلص مسلمان کے لیے نیک نیتی سے بھی یہ حرکت جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کو مسلمانوں کے جنگی منصوبوں کی خبر بہم پہنچائے، لیکن مخلص کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی۔ یہ تھا اس مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ، اور اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی ان آیات میں اس کی تائید فرمائی۔ اوپر کی تینوں آیات کو غور سے پڑھیے تو صاف محسوس ہو گا کہ ان میں حضرت حاطب پر عتاب تو ضرور فرمایا گیا ہے، مگر یہ عتاب اس طرز کا ہے جو ایک مومن کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ایک منافق کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے لیے کوئی مالی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ علانیہ سخت زجر و توبیخ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایک خطا کار  مومن کی عزت کو بٹّہ لگ جانا اور اس کے اعتماد پر حرف آ جانا بھی اس کے لیے ایک بڑی سزا ہے۔

(۴)۔ بدری صحابہ کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’ تمہیں کیا خبر، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کر دیا‘‘۔ اس کے معنی یہ نہ تھے کہ بدری صحابیوں کو سات خون معاف ہیں، اور انہیں کھلی چھٹی ہے کہ دنیا میں جو گناہ اور جو جرم بھی کرنا چاہیں کرتے رہیں، مغفرت کی انکو پیشگی ضمانت حاصل ہے۔ یہ مطلب نہ حضورؐ کا تھا، نہ صحابہ نے کبھی اس ارشاد کا یہ مطلب لیا، نہ کسی بدری صحابی نے یہ بشارت سن کر اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے آزاد سمجھا، اور نہ اسلامی شریعت میں اس کی بنا پر ایسا کوئی قاعدہ بنایا گیا کہ بدری صحابی سے اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے۔ در اصل جس موقع و محل میں یہ بات فرمائی گئی تھی اس پر، اور  خود ان الفاظ پر جو آپ نے استعمال فرمائے ہیں، اگر غور کیا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل بدر نے اللہ اور اس کے دین کے لیے اخلاص اور سرفروشی و جانبازی کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہوں تو یہ بھی اس خدمت اور اللہ کے کرم کو دیکھتے ہوئے کچھ بعید از امکان نہیں ہے، لہٰذا ایم بدری پر خیانت اور منافقت کا شبہ نہ کرو، اور اپنے جرم کا جو سبب وہ خود بیان کر رہا ہے اسے قبول کر لو ۔

(۵) قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی مسلمان کا کفار کے لیے جاسوسی کر بیٹھا بجائے خود اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے، یا ایمان سے خارج ہے، یا منافق ہے۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لیے اگر کچھ دوسرے قرائن و شواہد موجود ہوں تو بات الگ ہے، ورنہ اپنی جگہ یہ فعل صرف ایک جرم ہے، کفر نہیں ہے۔

(۶)۔ قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلمان کے لیے کفار کی جاسوسی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے، خواہ اس کی یا اس کے قریب ترین عزیزوں کی جان و مال کو کیسا ہی خطرہ لاحق ہو۔

(۷)۔ حضرت عمرؓ نے جب حضرت حاطب کو جاسوسی کے جرم میں قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو حضور نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ جرم مستوجب قتل نہیں ہے، بلکہ اجازت دینے سے انکار اس بنا پر کیا کہ حاطب کا بدری ہونا ان کے مخلص ہونے  کا صریح ثبوت ہے اور  اسن کا یہ بیان صحیح ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی خیر خواہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بال بچوں کو ہلاکت کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس سے فقہاء کے ایک گروہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمان جاسوس کے لیے عام قانون یہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے الّا یہ کہ بہت وزنی وجوہ اسے کم تر سزا دینے یا محض ملامت کر کے چھوڑ دینے کے لیے موجود ہوں۔ مگر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام شافعیہؒ اور بعض دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان جاسوس کو تعزیر دی جائے گی مگر اس کا قتل جائز نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام اوزاعیؒ کہتے ہیں کہ اسے جسمانی عقوبت اور طویل قید کی سزا دی جائے گی۔  امام مالک کہتے ہیں کہ اسے قتل کیا جائے گا۔ لیکن مالکی فقہاء کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہیں۔ اَشہَب کہتے ہیں کہ امام کو اس معاملہ میں وسیع اختیارات حاصل ہیں، جرم اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے اجتہاد سے کوئی سزا دے سکتا ہے۔ ایک قول امام مالک اور ابن القاسم کا بھی یہی ہے۔ ابن الماجشون اور عبدالملک بن حبیب کہتے ہیں کہ اگر مجرم نے جاسوسی کی عادت ہی بنا لی ہو تو اسے قتل کیا جائے۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ جاسوس کی سزا تو قتل ہی ہے مگر وہ اس فعل سے تائب ہو جائے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ سَحنُو ن کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے یا محض فریب، اس کا علم آخر کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے اسے قتل ہی کیا جانا چاہیے۔ ابن القاسم کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ اور اصبغ کہتے ہیں کہ حربی جاسوس کی سزا قتل ہے، مگر مسلم اور  ذمیؔ جاسوس کو قتل کے بجائے عقوبت دی جائے گی، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کی کھلی کھلی مدد کر رہا ہو۔ (احکام القرآن، ابن العربی۔ عمدۃ القاری،فتح الباری )۔

(۸) حدیث مذکور سے اس امر کا جواز بھی نکلتا ہے کہ تفتیش جرم کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ملزم مرد ہی نہیں، عورت کے کپڑے بھی اتارے جا سکتے ہیں۔ حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ نے اگر چہ اس عورت کو برہنہ نہیں کیا تھا، لیکن انہوں نے اسے دھمکی دی تھی کہ وہ خط حوالے نہ کرے گی تو وہ اسے برہنہ کر کے اس کی تلاشی لیں گے۔ ظاہر ہے اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو یہ تین جلیل القدر صحابی اس کی دھمکی نہیں دے سکتے تھے۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ انہوں نے ضرور واپس جا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی مہم کی روداد سنائی ہو گی۔ حضورؐ نے اگر اس پر ناپسندیدگی اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہوتا تو وہ ضرور منقول ہوتا۔ اسی لیے فقہاء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (عمدۃ القاری)۔

۶۔ یعنی ہم تمہارے کافر ہیں، نہ تمہیں حق پر مانتے ہیں نہ تمہارے دین کو۔ اللہ پر ایمان کا لازمی تقاضا طاغوت سے کفر ہے۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّاغُوْتِ وَیُوْتِوَیؤْمِنْ؍ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِلْعُرْ وَۃِ الوُثْقیٰ لَا انْفِصَامَلَھَا۔ ’’پس جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے در حقیقت مضبوط سہارا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں ہے ‘‘۔ (البقرہ،۲۵۶)

۷۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل بہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ سورہ توبہ (آیت ۱۱۳) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُ وْ ا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ۔ ’’ نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لائے ہیں کہ مُشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ‘‘۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیمؑ نے کیا تھا۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ کام کیسے کیا؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، ’’ آپ کو سلام ہے، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘ (مریم، ۱۴۷۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم(آیت ۴۱) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَلِدَیَّ وَ لِلْمُؤْ مِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ۔  ’’اے ہمارے پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے ‘‘۔ اور دوسری دعا سورہ شعَراء (آیت ۸۶) میں ہے : وَاغْفِرْلِاَبِیْ اِنَّہٗ کَانَمَنَالضَّآ لِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ۔ ’’ میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ‘‘۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہو گیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا، تو انہوں نے اس سے تبرّی کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا:

وَمَا کَانَ اسْتِغْفَا رُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْ عِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ  اَنَّہٗ  عَدُوٌّ  لِّلّٰہِ تَبَرَّ أ مِنْہُ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَلَاَوَّ اہٌ حَلِیْمٌ o (التوبہ ۱۱۴)

اور ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا۔

ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہو چکی ہو، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کر سکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا ’’ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ’’ میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں ‘‘۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کر دیا گیا؟ حالانکہ وہ بجائے خود حق بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجائے خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تم کے اختیار سے باہر ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے۔

۸۔ کافروں کے لیے اہل ایمان کے فتنہ بننے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن سے ہر مومن کو خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کافر ان پر غالب آ جائیں اور اپنے غلبہ کو اس بات کی دلیل قرار دیں کہ ہم حق پر ہیں اور اہل ایمان برسر باطل، ورنہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان لوگوں کو خدا کی رضا حاصل ہوتی اور پھر بھی ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوتا۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان پر کافروں کا ظلم و ستم ان کی حد برداشت سے بڑھ جائے اور آخر کار وہ ان سے دب کر اپنے دین و اخلاق کا سودا کرنے پر اتر آئیں۔ یہ چیز دنیا بھر میں مومنوں کی جگ ہنسائی کی موجب ہو گی اور کافروں کو اس سے دین اور اہل دین کی تذلیل کا موقع ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دین حق کی نمائندگی کے مقام بلند پر فائز ہونے کے باوجود اہل ایمان اس اخلاقی فضیلت سے محروم رہیں جو اس مقام کے شایان شان ہے، اور دنیا کو ان کی سیرت و کردار میں بھی وہی عیوب نظر آئیں جو جاہلیت کے معاشرے میں عام طور پر پھیلے ہوئے ہوں۔ اس سے کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ اس دین میں آخر وہ کیا خوبی ہے جو اسے ہمارے کفر پر شرف عطا کرتی ہو؟ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ ۸۳ )۔

۹۔ یعنی جو اس بات کی توقع رکھتا ہو کہ ایک روز اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے، اور اس چیز کا امیدوار ہو کہ اللہ اسے اپنے فضل سے  نوازے اور روز آخر میں اسے سرکروی نصیب ہو۔

۱۰۔ یعنی اللہ کو ایسے ایمان لانے والوں کی کوئی حاجت نہیں ہے جو اس کے دین کو ماننے کا دعویٰ بھی کریں اور پھر اس کے دشمنوں سے دوسری بھی رکھیں۔ وہ بے نیاز ہے۔ اس کی خدائی اس کی محتاج نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے خدا مانیں۔ اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے، اس کا محمود ہونا اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ یہ اس کی حمد کریں۔ یہ اگر ایمان لاتے ہیں تو اللہ کے کسی فائدے کے لیے نہیں، اپنے فائدے کے لیے لاتے ہیں۔ اور انہیں ایمان کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک یہ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی طرح اللہ کے دشمنوں سے محبت اور دوستی کے رشتے توڑ نہ لیں۔

 

ترجمہ

 

بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے (۱۱)۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور رحیم ہے۔

اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا بر تاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ  میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (۱۲)۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں (۱۳)۔

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے  پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی ) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر تمھیں معلوم ہو جائے کہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو (۱۴)۔ نہ وہ کفار کے لیئے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیئے حلال۔ ان کے کا فر شوہروں نے جو مہر ان کو دے تھے وہ انہیں پھر دو۔ اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو (۱۵)۔

اور تم خود بھی کافر  عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رو کے رہو۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیئے تھے  انہیں وہ واپس مانگ  لیں (۱۶)۔ یہ اللہ کا حکم ہے، ہو تمہارے درمیان فیصلہ کر تا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ اور اگر تمہاری کا فر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمھیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کو اتنی رقم ادا کر دو جو ان کے دیئے ہوئے مہروں کے برابر ہو (۱۷) ہو۔ اور اس خدا سے ڈر تے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔ اے نبی ﷺ جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیئے آئیں (۱۸) اور اس بات کا عہد کریں کہ ہو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں (۱۹) گی، زنا نہ کریں گی، اور کسی امر معرف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں (۲۲) گی، تو ان سے  بیعت لے (۲۳)لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعا ئے مغفرت کرو، یقیناً اللہ در گز فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ نے غضب فرمایا ے، ج و آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں۔ (۲۴)۔

 

تفسیر

 

۱۱۔ اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جو تلقین کی گئی تھی اس پر سچے اہل ایمان اگر چہ بڑے صبر کے ساتھ عمل کر رہے تھے، مگر اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور قریب ترین عزیزوں سے تعلق توڑ لینا کیسا سخت کام ہے اور اس سے اہل ایمان کے دلوں پر کیا کچھ گزر رہی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب تمہارے یہی رشتہ دار مسلمان ہو جائیں گے اور آج کی دشمنی کل پھر محبت میں تبدیل ہو جائے گی۔ جب یہ بات فرمائی گئی تھی اس وقت کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ نتیجہ کیسے رونما ہو گا۔ مگر ان آیات کے نزول پر چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ مکہ فتح ہو گیا، قریش کے لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اور مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس چیز کی انہیں امید دلائ گئی تھی وہ کیسے پوری ہوئی۔

۱۲۔ اس مقام پر ایک شخص کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ دشمنی نہ کرنے والے کافروں کے ساتھ نیک برتاؤ تو خیر ٹھیک ہے، مگر کیا انصاف بھی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے؟ اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ بے انصافی کرنی چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سیاق و سباق میں در اصل انصاف ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تمہارے ساتھ عداوت نہیں برتتا، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ برتو۔ دشمن اور غیر دشمن کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں سے ایک ہی سلوک کرنا انصاف نہیں ہے۔ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں تم پر ظلم توڑے اور تم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا، اور نکالنے کے بعد بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑا۔ مگر جن لوگوں نے اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں لیا، انصاف یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے  جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کرو۔

۱۳۔ سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلق کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے ان آیات میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے، اور ان کافروں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہ کی ہو۔ اس کی بہترین تشریح  وہ واقعہ ہے جو حضرت اسماء بنت ابی بکر اور ان کی کافر ماں کے درمیان پیش آیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبدلاعزّٰی کافرہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسماء انہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکا کے درمیان آمد و رفت کا راستہ  کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئی اور کچھ تحفہ تحائف بھی لائیں۔ حضرت اسماءؓ کی اپنی روایت یہ ہے کہ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوچھا، اپنی ماں سے مل لوں؟ اور کیا میں ان سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہوں؟ حضورؐ نے جواب دیا اس سے صلہ رحمی کرو (مسند احمد۔بخاری۔ مسلم)۔ حضرت اسماء کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر اس واقعہ کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماء نے ماں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔  بعد میں جب اللہ اور اس کے رسول کی اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں (مسند احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم )۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے کافر ماں باپ کی خدمت کرنا اور اپنے کافر بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے جبکہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں۔ اور اسی طرح ذمی مساکین پر صدقات بھی صرف کیے جا سکتے ہیں (احکام القرآن للجصاص۔ روح المعانی)۔

۱۴۔ اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کرمدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینے پہنچیں۔ کفار نے معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا اور ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینے پہنچ گئے۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ مسلمان ہوں اور یہ اطمینان کر لیا  جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی ہے، تو انہیں واپس نہ کیا جائے۔

اس مقام پر احادیث کی روایت بالمعنیٰ سے ایک بڑی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے متعلق احادیث میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر بالمعنیٰ روایات ہیں۔ زیر بحث شرط کے متعلق ان میں سے کسی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من جاءمنکم لم نردہ علیک مومن جاء کم مناردد تموہ علینا۔ ’’ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو تمہارے پاس جائے گا اسے تم واپس کرو گے ‘‘۔ کسی میں یہ الفاظ ہیں،  من اتٰی رسول اللہ من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ۔ ’’ رسول اللہ کے پاس ان کے اصحاب میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا اسے وہ واپس کر دیں گے ‘‘۔ اور کسی میں ہے من اتٰی محمداً من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم۔ ’’قریش میں سے جو شخص محمدؐ کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جائے گا اسے وہ قریش کو واپس کر دیں گے ‘‘۔ ان روایات کا طرز بیان خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان میں معاہدے کی اس شرط کو ان الفاظ میں نقل نہیں کیا گیا ہے جو اصل معاہدے میں لکھے گئے تھے، بلکہ راویوں نے ان کا مفہوم خود اپنے  الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ لیکن چونکہ بکثرت روایات اسی نوعیت کی ہیں اس لیے عام طور پر مفسرین و محدثین نے اس سے یہی سمجھا کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور عورتوں کو بھی اس کی رو سے واپس ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آیا کہ مومن عورتیں واپس نہ جائیں تو ان حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تم معاہدہ توڑ دینے کا فیصلہ فرما دیا۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کو اس آسانی کے ساتھ قبول کر لیا جائے۔ اگر معاہدہ فی الواقع بلا تخصیص  مرد و زن سب کے لیے عام تھا تو آخر یہ کیسے جائز  ہو سکتا تھا کہ ایک فریق اس میں یک فریق اس میں یک طرفہ ترمیم کر دے یا اس کے کسی جز کو بطور خود بدل ڈالے؟ اور بالفرض ایسا کیا بھی گیا تھا تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قریش کے لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ قریش والے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی ایک ایک  بات پر گرفت کرنے کے لیے خار کھائے بیٹھے تھے۔ انہیں اگر یہ بات ہاتھ آ جاتی کہ آپ شرائط معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کر گزرے ہیں تو وہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لینے۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں اس کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ انہوں نے قرآن کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی چون و چرا کی ہو۔ یہ ایسا سوال تھا جس پر گور کیا جاتا تو معاہدے کے اصل الفاظ کی جستجو کر کے اس پیچیدگی کا حل تلاش کیا جاتا، مگر بہت سے لوگوں نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی، اور بعض حضرات (مثلاً واسی ابو بکر ابن عربی) نے توجہ کی بھی تو انہوں نے قریش کے اعتراض نہ کرنے کی یہ توجیہ تک کرنے میں تامل نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ  نے بطور معجزہ اس معاملہ میں قریش کی زبان بند کر دی تھی۔ تعجب ہے کہ اس توجیہ پر ان حضرات کا ذہن کیسے مطمئن ہوا۔

اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ  کفار قریش کی طرف سے تھی، اور ان کی جانت سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ معاہدے میں لکھوائے تھے وہ یہ تھے : علیٰ ان لا یا تیکا منا رجل و ان کان علی دین کالا رددتہ الینا۔ ’’ اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آئے، اگر چہ وہ تمہارے دین ہی پر ہو، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے ’’۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری، کتاب الشروط،باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو، لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہو گی۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے بولا جاتا ہے۔اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (امام زہری کی روایت کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کان الشرط فی الرجال دون النساء۔ ’’ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں ‘‘۔ (احکام القرآن، ابن عربی۔ تفسیر کبیر، امام رازی)۔ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی  میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق ہر طرح کے مہاجرین پر ہوتا ہے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گئے اور انہیں ناچار اس فیصلے کو ماننا پڑا۔

معاہدے کے ان شرط کے لحاظ سے مسلمانوں کو حق تھا کہ جو عورت بھی مکہ چھوڑ کر مدینے آتی، خواہ وہ کسی غرض سے آتی، اسے واپس دینے سے انکار کر دیتے۔ لیکن اسلام کی صرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی، ہر طرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لیے مدینہ طیبہ کو پناہ گاہ بنانا مقصود نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو عورتوں ہجرت کر کے آئیں اور اپنے مومن ہونے کا اظہار کریں، ان سے پوچھ گچھ کر کے اطمینان کر لو کہ وہ واقعی ایمان لے کر آئی ہیں، اور جب اس کا اطمینان ہو جائے تو انکو واپس نہ کرو۔ چنانچہ اس ارشاد الٰہی پر عمل در آمد کرنے کے لیے جو قاعدہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ جو عورتیں  ہجرت کر کے آتی تھیں ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر نکل کر آئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شوہر سے بگڑ کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہوں؟ یا ہمارے ہاں کے کسی مرد کی محبت ان کو ہے آئی ہو؟ یا کوئی اور دنیوی غرض ان کے اس فعل کی محرک ہوئی ہو؟ ان سوالات کا اطمینان بخش جواب جو عورتیں دے دیتی تھیں صرف ان کو روک لیا جاتا تھا، باقی سب کو واپس کر دیا جاتا تھا (ابن جریر بحوالہ ابن عباس، قتادہ، مجاہد، عکرمہ، ابن زید)۔

اس آیت میں قانون شہادت کا بھی ایک اصولی ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی مزید توضیح اس طریق کار سے ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر عمل درآمد کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ آیت میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ہجرت کرنے والی جو عورتیں اپنے آپ کو مومن ہونے کی حیثیت سے پیش کریں ان کے ایمان کی جانچ کرو۔ دوسرے یہ کہ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تمہارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایمان لائی ہیں۔ تیسرے یہ کہ جانچ پڑتال سے جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں واپس نہ کرو۔ پھر اس حکم کے مطابق ان عورتوں کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں کے حلفیہ باین پر اعتماد کیا جائے اور ضروری جرح کر کے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ ان کی ہجرت کا محرک ایمان کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس سے اول تو یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو حقیقت کا علم حاصل ہونا ضروری نہیں ہے  بلکہ صرف وہ علم کافی ہے جو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہم ایک شخص کے حلفیہ باین پر اعتماد کریں گے۔ تاوقتیکہ کوئی صریح قرینہ اس کے کاذب ہونے پر دلالت نہ کر رہا ہو۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی اپنے  عقیدے اور ایمان کے متعلق خو د جو خبر  دے رہا ہو ہم اسے قبول کریں گے اور اس بات کی کھوج میں نہ پڑیں گے کہ فی الواقع  اس کا وہی عقیدہ ہے جو وہ بیان کر رہا ہے، الا یہ کہ کوئی صریح علامت ہمارے سامنے ایسی ظاہر ہو جائے جو اس کی تردید کر رہی ہو۔ اور چوتھی  بات یہ کہ ایک شخص کے جن ذاتی حالات کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا ان میں اسی کے بیان پر بھروسہ کیا جائے گا، مثلاً طلاق اور عدت کے معاملات میں عورت کے حیض اور طہر کے متعلق اس کا اپنا بیان ہی معتبر ہو گا، خواہ وہ جھوٹ بولے یا سچ۔ انہی قواعد کے مطابق علم حدیث میں بھی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جن کے راویوں کا ظاہر حال ان کے راستباز ہونے کی شہادت دے رہا ہو، الا یہ کہ کچھ دوسرے  قرائن ایسے موجود ہوں جو کسی روایت کے قبول میں مانع ہوں۔

۱۵۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے کافر شوہروں کو ان کے جو مہر واپس کیے جائیں گے وہی ان عورتوں کے مہر شمار نہ ہوں گے، بلکہ جو مسلمان بھی ان میں سے کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے وہ اس کا مہر ادا کرے اور اس سے نکاح کر لے۔

۱۶۔ ان آیات میں چار بڑے اہم حکم بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق اسلام کے عائلی قانون سے بھی ہے اور بین الا قوامی قانون سے بھی :

اول یہ کہ جو عورت مسلمان ہو جائے وہ اپنے کافر شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی اور نہ کافر شوہر اس کے لیے حلال رہتا ہے۔

دوسرے یہ کہ جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دار الکفر  سے دار الاسلام میں ہجرت کر آئے اس کا نکاح  آپ سے آپ ٹوٹ  جاتا ہے اور جو مسلمان بھی چاہے اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر سکتا ہے۔

تیسرے یہ کہ جو مرد مسلمان ہو جائے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی بیوی اگر کافر رہے تو وہ اسے اپنے نکاح میں روکے رکھے۔

چوتھے یہ کہ اگر دار الکفر اور دار الاسلام کے درمیان صلح کے تعلقات موجود ہوں تو اسلامی  حکومت کو دار الکفر کی حکومت سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کفار کی جو منکوحہ عورتیں مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر آئی ہوں ان کے مہر مسلمانوں کی طرف سے واپس دے دیے جائیں، اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں  جو دار الکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار کی طرف سے واپس مل جائیں۔

ان احکام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ آغاز اسلام میں بکثرت مرد ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا مگر ان کی بیویاں مسلمان نہ ہوئیں۔اور بہت سی عورتیں ایسی تھیں جو مسلمان ہو گئیں مگر ان کے شوہروں نے اسلام قبول نہ کیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینبؓ کے شوہر ابو العاص غیر مسلم تھے اور کئی سال تک غیر مسلم رہے۔ ابتدائی دور  میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ مسلمان عورت کے لیے اس کا کافر شوہر اور مسلمان مرد کے لیے اس کی مشرک بیوی حلال نہیں ہے۔ اس لیے ان کے درمیان ازدواجی رشتے برقرار  رہے۔ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک یہ صورت حال رہی کہ بہت سی عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر آئیں اور ان کے کافر شوہر دار الکفر میں رہے۔ اور بہت سے مسلمان مرد ہجرت کر کے آ گئے اور ان کی کافر بیویاں دار الکفر میں رہ گئیں۔ مگر اس کے باوجود ان کے درمیان رشتہ ازدواج قائم رہا۔ اس سے خاص طور پر عورتوں کے لیے بڑی پیچیدگی پیدا ہو رہی تھی، کیونکہ مرد تو دوسرے نکاح بھی کر سکتے تھے، مگر عورتوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ جب تک سابق شوہروں سے ان کا نکاح فسخ نہ ہو جائے وہ کسی اور شخص سے نکاح کر سکیں۔ صلح حدیبیہ کے  بعد جب یہ آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے مسلمانوں اور کفار و مشرکین کے درمیان سابق کے ازدواجی  رشتوں کو ختم کر دیا اور آئندہ  کے لیے ان کے بارے میں ایک قطعی اور واضح قانون بنا دیا۔ فقہائے اسلام نے اس قانون کو چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے :

ایک، وہ حالت جس میں زوجین دار الاسلام میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے۔

دوسرے، وہ حالت جس میں زوجین دار الکفر  میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے۔

تیسرے، وہ حالت جس میں زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر  کے آجائے  اور دوسرا دار الکفر میں کافر رہے۔

چوتھے، وہ حالت جس میں مسلم زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہو جائے۔

ذیل میں ہم ان چاروں حالتوں کے متعلق فقہاء کے مسالک الگ الگ بیان کرتے ہیں :

پہلی صورت میں  اگر اسلام شوہر نے قبول کیا ہو اور اس کی بیوی عیسائی یا یہودی ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے تو دونوں کے درمیان نکاح باقی رہے گا، کیونکہ مسلمان مرد کے لیے اہل کتاب بیوی جائز ہے۔ یہ امر  تمام فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے۔

اور اگر اسلام قبول کرنے والے مرد کی بیوی غیر اہل کتاب میں سے ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے، تو حنفیہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ عورت کے سامنے اسلام پید کیا جائے گا، قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، نہ قبول کرے تو ان کے درمیان تفریق کر دی جائے گی۔ اس صورت میں اگر زوجین کے درمیان خلوت ہو دکی ہو تو عورت مہر کی مستحق ہو گی، اور خلوت نہ ہوئی ہو تو اس کو مہر پانے کا حق نہ ہو گا، کیونکہ فرقت اس کے انکار کی وجہ سے واقع ہوئی ہے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر)۔ امام شافعی اور احمد کہتے ہیں کہ اگر زوجین کے درمیان خلوت نہ ہوئی ہو تو کرد کے اسلام قبول کرتے ہی عورت اس کے نکاح سے باہر ہو جائے گی، اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اس کے نکاح میں رہے گی، اس دوران میں وہ خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ تیسری بار ایام سے فارغ ہوتے ہی آپ سے آپ فسخ ہو جائے گا۔ امام شافعیؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو ان کے مذہب سے تعرض نہ کرنے کی جو ضمانت ہماری طرف سے دی گئی ہے اس کی بنا پر یہ درست نہیں ہے کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے۔ لیکن در حقیقت یہ ایک کمزور بات ہے، کیونکہ ایک ذمی عورت کے مذہب سے تعرض تو اس صورت میں ہو گا جبکہ اس کو اسلام قبول کرنے پر مجور کیا جائے۔ اس سے صرف یہ کہنا کوئی بے جا تعرض نہیں ہے کہ تو اسلام قبول کر لے تو اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکے گی ورنہ تجھے اس سے الگ کر دیا جائے گا۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں اس کی نظیر پیش بھی آ چکی ہے۔ عراق کے ایک مجوسی زمیندار نے اسلام قبول کیا اور اس کی بیوی کافر رہی۔ حضرت علیؓ نے اس کے سامنے اسلام پیش فرمایا۔ اور جب اس نے انکار کیا تب آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی (المبسوط)۔ امام مالکؒ کہتے ہیں کہ اگر خلوت نہ ہو چکی  ہو تو مرد کے اسلام لاتے ہی اس کی کافر بیوی اس سے فوراً جدا ہو جائے گی اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا اور اس کے انکار کی صورت میں جدائی واقع ہو جائے گی (المغنی لابن قدامہ)۔

اور اگر اسلام عورت نے قبول کیا ہو اور مرد کافر رہے، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب میں سے، تو حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں میں خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو، ہر صورت میں شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، قبول کر لے تو عورت اس کے نکاح میں رہے گی، انکار کر دے تو قاضی دونوں میں تفریق کرا دے گا۔ اس دوران میں جن تک مرد اسلام سے انکار نہ کرے، عورت اس کی بیوی تو رہے گی مگر اس کو مقاربت کا حق نہ ہو گا۔ شوہر کے انکار کی صورت میں تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہو گی۔ اگر اس سے پہلے خلوت نہ ہوئی ہو تو عورت نصف مہر پانے کی حق دار ہو گی، اور خلوت ہو چکی ہو تو عورت پورا مہر بھی پائے گی اور عدت کا نفقہ بھی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر)۔ امام شافعیؒ کے نزدیک خلوت نہ ہونے کی صورت میں عورت کے اسلام قبول کرتے ہی نکاح فسخ ہو جائے گا، اور خلوت ہونے کی صورت میں عدت ختم ہونے تک عورت اس مرد کے نکاح میں رہے گی۔ اس مدت کے اندر وہ اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ورنہ عدت گزرتے ہی جدائی واقع ہو جائے گی۔ لیکن مرد کے معاملہ میں بھی امام شافعیؒ نے وہی رائے ظاہر کی ہے جو عورت کے معاملہ میں اوپر منقول ہوئی کہ اس کے سامنے اسلام پیش کر نا جائز نہیں ہے، اور یہ مسلک بہت کمزور ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں متعدد واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ عورت نے اسلام قبول کر لیا اور مرد سے اسلام لانے کے لیے کہا گیا اور جب اس نے انکار کر دیا تو دونوں کے درمیان تفریق کرا دی گئی۔ مثلاً بنی تغلِب کے ایک عیسائی کی بیوی کا معاملہ ان کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے مرد سے کہا یا تو تُو اسلام قبول کر لے ورنہ میں تم دونوں کے درمیان تفریق کر دوں گا۔ اس نے انکار کیا اور آپ نے تفریق ڈگر دے دی۔ بہزُ المَلِک کی ایک نو مسلم زمیندارنی کا مقدمہ ان کے پاس بھیجا گیا۔ اس کے معاملہ میں بھی انہوں نے حکم دیا کہ اس کے شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے، اگر وہ قبول کر لے تو بہتر، ورنہ دونوں میں تفریق کرا دی جائے۔ یہ واقعات صحابہ کرام کے سامنے پیش آئے تھے اور کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے (احکام القرآن للجصاص۔المبسوط۔ فتح القدیر) امام مالکؒ کے رائے اس معاملے میں یہ ہے کہ اگر خلوت سے پہلے عورت مسلمان ہو جائے تو شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے، وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ فوراً تفریق کرا دی جائے۔ اور اگر خلوت ہو چکی ہو اور اس کے بعد عورت اسلام لائی ہو تو زمانہ عدت ختم ہونے تک انتظار کیا جائے، اس مدت میں شوہر اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ عدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی۔ امام احمدؒ کا ایک قول امام شافعیؒ کی تائید میں ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہو جانا بہر حال فوری تفریق کا موجب ہے خواہ خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو (المغنی)۔

(۲) دار الکفر میں اگر عورت مسلمان ہو جائے اور مرد کافر رہے، یا مرد مسلمان ہو جائے اور اس کی بیوی (جو عیسائی یا یہودی نہ ہو بلکہ کسی غیر کتابی مذہب کی ہو) اپنے مذہب پر قائم رہے، تو حنفیہ کے نزدیک خواہ ان کے درمیان خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، تفریق واقع نہ ہو گی جب تک عورت کو تین مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں، یا اس کے غیر حائضہ ہونے کو صورت میں تین مہینے نہ گزر جائیں۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق بھی مسلمان ہو جائے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ یہ مدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی۔ امام شافعیؒ اس معاملہ میں بھی خلوت اور عدم خلوت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کی رائے یہ ہے کہ اگر خلوت نہ ہوئی ہو تو زوجین کے درمیان دین کا اختلاف واقع ہوتے ہی فرقت ہو جائے گی، اگر خلوت ہو جانے کے بعد دین کا اختلاف رونما ہوا ہو تو عدت کی مدت ختم ہونے تک ان کا نکاح باقی رہے گا۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق اسلام قبول نہ کرے تو عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح بھی ختم ہو جائے گا (المبسوط، فتح القدیر،احکام القرآن للجصاص)۔

(۳)۔جس صورت میں زوجین کے درمیان اختلاف دین کے ساتھ اختلاف دار بھی واقع ہو جائے، یعنی ان میں سے کوئی ایک دار الکفر میں کافر رہے اور دوسرا دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائے،اس کے متعلق حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان نکاح کا تعلق آپ سے آپ ختم ہو  جائے گا۔ اگر ہجرت کرنے والی عورت ہو تو اسے فوراً دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہے، اس پر کوئی عدت نہیں ہے، البتہ مقاربت کے لیے اس کے شوہر کو استبراء رحم کی خاطر ایک مرتبہ ایام ماہواری آ جانے تک انتظار کر نا ہو گا، اور اگر وہ حاملہ ہو تب بھی نکاح ہو سکتا ہے مگر مقاربت کے لیے وضع حمل تک انتظار کرنا ہو گا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ سے صرف اتنا اختلاف کیا ہے کہ ان کے نزدیک عورت پر عدت لازم ہے، اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا (المبسوط۔ہدایہ۔ احکام القرآن للجصاص)۔ امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور امام مالکؒ کہتے ہیں کہ اختلاف دار کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اصل چیز صرف اختلاف دین ہے۔ یہ اختلاف اگر زوجین میں واقع ہو جائے تو احکام وہی ہیں جو دار الاسلام میں زوجین کے درمیان یہ اختلاف واقع ہونے کے احکام ہیں (المغنی)۔ امام شافعیؒ اپنی مذکورہ بالا رائے کے ساتھ ساتھ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کے معاملہ میں یہ رائے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے کافر شوہر سے لڑ کر اس کے حق زوجیت کو ساقط کرنے کے ارادے سے آئی ہو تو اختلاف دار کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے اس قصد کی بنا پر فوراً فرقت واقع ہو جائے گی (المبسوط و ہدایہ)۔

لیکن قرآن مجید کی زیر بحث آیت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں صحیح ترین رائے دہی ہے جو امام ابو حنیفہؒ نے ظاہر فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ہجرت کر کے آنے والی مومن عورتوں ہی کے بارے میں نازل فرمائی ہے، اور انہی کا حق میں یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے ان کا فر شوہروں کے لیے حلال نہیں رہیں جنہیں وہ دار الکفر میں چھوڑ آئی ہیں، اور دار الاسلام کے مسلمانوں کی اجازت دی ہے کہ وہ ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کر لیں۔ دوسری طرف مہاجر مسلمانوں سے خطاب کر رکے یہ فرمایا ہے کہ اپنی ان کافر بیویوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رکھو جو دار الکفر میں رہ گئی ہیں اور کفار سے اپنے وہ مہر واپس مانگ لو جو تم نے ان عورتو کو دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اختلاف دین ہی کے احکام نہیں ہیں بلکہ ان احکام کو جس چیز نے یہ خاص شک دے دی ہے وہ اختلاف دار ہے۔ اگر ہجرت کی بنا پر مسلمان عورتوں کے نکاح ان کے کافر شوہروں سے ٹوٹ نہ گئے ہوتے تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کر لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی تھی، اور وہ بھی اس طرح کہ اس اجازت میں عدت کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ اسی طرح اگر لَا تُمْسِکُوْ ا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ کا حکم آ جانے کے بعد بھی مسلمان مہاجرین کی کافر بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ گئی ہوتیں تو ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا کہ نہیں طلاق دے دو۔ مگر یہاں اس کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت طلحہؓ اور بعض دوسرے مہاجرین نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا، اور ان بیویوں  کے ساتھ تعلق زوجیت کا انقطاع ان کے طلاق دینے پر موقوف تھا، اور اگر وہ طلاق نہ دیتے تو وہ بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ جاتیں۔

اس کے جواب میں عہد نبوی کے تین واقعات کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں جن کو اس امر کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اختلاف دار کے باوجود مومن اور کافر زوجین کے درمیان نکاح کا تعلق برقرار رکھا۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے ذرا پہلے ابوسفیان مرالظَّہْران (موجودہ وادی فاطمہ ) کے مقام پر لشکر اسلام میں آئے اور یہاں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی بیوی ہند مکہ میں کافر رہیں۔ پھر فتح مکہ کے بعد ہند نے اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تجدید نکاح کے بغیر ہی ان کو سابق نکاح پر بر قرار رکھا۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد عِکرِمہ بن ابی جہل اور حکیم بن حزَام مکہ سے فرار ہو گئے اور ان کے پیچھے دونوں کی بیویاں مسلمان ہو گئیں۔ پھر انہوں نے حضورؐ سے اپنے شوہروں کے لیے امان لے لی اور جا کر ان کو لے آئیں۔ دونوں اصحاب نے حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بھی سابق نکاحوں کو بر قرار رکھا۔ تیسرا واقعہ حضورؐ  کی اپنی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا ہے جو ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئیں تھیں اور ان کے شوہر ابو العاص بحالت کفر مکہ ہی میں مقیم رہ گئے تھے۔ ان کے متعلق مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ وہ ۸ ھ میں مدینہ آ کر مسلمان ہوئے اور حضورؐ نے تجدید نکاح کے بغیر سابق نکاح ہی پر صاحبزادی کو ان کی زوجیت میں رہنے دیا۔ لیکن ان میں سے پہلے دو واقعے تو در حقیقت اختلاف دار کی تعریف ہی میں نہیں آتے، کیونکہ اختلاف دار اس چیز کا نام نہیں ہے ایک شخص عارضی طور پر ایک دار سے دوسرے دار کی طرف چلا گیا یا فرار ہو گیا، بلکہ یہ اختلاف صرف اس صورت میں واقع ہوتا ہے جب کوئی آدمی ایک دار سے منتقل ہو کر دوسرے دار میں آباد ہو جائے اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان موجودہ زمانے کی اصلاح کے مطابق ’’قومیت‘‘  (Nationality) کا فرق واقع ہو جائے۔ رہا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا معاملہ تو اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت ابن عباس کی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے، اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی ہے جس کو امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ اس دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صاحبزادی کو جدید نکاح اور جدید مہر کے ساتھ پھر ابو العاص ہی کی زوجیت میں دے دیا۔ اس اختلاف روایت کی صورت میں اول تو یہ نظیر ان حضرت کے لیے قطعی دلیل نہیں رہتی جو اختلاف دار کی قانونی تاثیر کا انکار کرتے ہیں۔ دوسرے، اگر وہ ابن عباس ہی کی روایت کے صحیح ہونے پر اصرار کریں تو یہ ان کے مسلک کے خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ ان کے مسلک کی رو سے تو جن میاں بیوی کے درمیان اختلاف دین واقع ہو وترفکتا (المنایمان رکلپھر بھی ہیگیا ہو اور وہ باہم خلوت کر چکے ہوں ان کا نکاح عورت کو صرف تین ایام ماہواری آنے تک باقی رہتا ہے، اس دوران میں دوسرا فریق اسلام قبول کر لے تو زوجیت قائم رہتی ہے، ورنہ تیسری بار ایام آتے ہی نکاح آپ سے آپ فسخ ہو جاتا ہے۔ لیکن حضرت زینب کے جس واقعہ سے وہ استدلال کرتے ہیں اس میں زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہوئے کئی سال گزر چکے تھے، حضرت زینب کی ہجرت کے چھ سال بعد ابو العاص ایمان لائے تھے، اور ان کے ایمان لانے سے کم از کم دو سال پہلے قرآن میں وہ حکم نازل ہو چکا تھا جس کی رو سے مسلمان عورت مشرکین پر حرام کر دی گئی تھی۔

(۴)۔ چوتھا مسئلہ ارتداد کا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں، اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مرتد ہو اور دوسرا مسلمان رہے۔

اگر زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں تو شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ خلوت سے پہلے ایسا ہو تو فوراً، اور خلوت کے بعد ہوتو عدت کی مدت ختم ہوتے ہی دونوں کا وہ نکاح ختم ہو جائے گا جو حالت اسلام میں ہوا تھا۔ اس کے برعکس حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر چہ قیاس یہی کہتا ہے کہ ان کا نکاح فسخ ہو جائے، لیکن حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو فتنہ ارتداد برپا ہوا تھا اس میں ہزارہا آدمی مرتد ہوئے، پھر مسلمان ہو گئے، اور صحابہ کرام نے کسی کو بھی تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا، اس لیے ہم صحابہ کے متفقہ فیصلے کو قبول کرتے ہوئے خلاف قیاس یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ زوجین کے ایک ساتھ مرتد ہونے کی صورت میں ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر، الفقہ علی المذاہب الاربعہ)۔

اگر شوہر مرتد ہو جائے اور عورت مسلمان رہے تو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فوراً نکاح ٹوٹ جائے گا، خواہ ان کے درمیان پہلے خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔  لیکن شافعیہ اور حنابلہ اس میں خلوت سے پہلے اور خلوت کے بعد کی حالت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اگر خلوت سے پہلے ایسا ہوا ہو تو فوراً نکاح ہو جائے گا، اور خلوت کے بعد ہوا ہو تو زمانہ عدت تک باقی رہے گا، اس دوران میں وہ شخص مسلمان ہو جائے تو زوجیت بر قرار رہے گی، ورنہ عدت ختم ہوتے ہی اس کے ارتداد کے وقت سے نکاح فسخ شدہ شمار کیا جائے گا، یعنی عورت کو پھر کوئی نئی عدت گزارنی نہ ہو گی۔ چاروں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلوت سے پہلے یہ معاملہ پیش آیا ہو تو عورت کو نصف مہر، اور خلوت کے بعد پیش آیا تو پورا مہر پانے کا حق ہو گا۔

اور اگر عورت مرتد ہو گئی ہو تو حنفیہ کا قدیم فتویٰ یہ تھا کہ اس صورت میں بھی نکاح فوراً فسخ ہو جائے گا، لیکن بعد کے دور میں علمائے بلخ و سمر قند نے یہ فتویٰ دیا کہ عورت کے مرتد ہونے سے فوراً فرقت واقع نہیں ہوتی، اور اس سے ان کا مقصد اس امر کی روک تھام کرنا تھا کہ شوہروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے عورتیں کہیں ارتداد کا راستہ اختیار نہ کرنے لگیں۔ مالکیہ کا فتویٰ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر قرائن یہ بتا رہے ہو کہ عورت نے محض شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے بطور حیلہ ارتداد اختیار کیا ہے تو فرقت واقع نہ ہو گی۔ شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے ارتداد کی صورت میں بھی قانون وہی ہے جو مرد کے ارتداد کی صورت میں ہے، یعنی خلوت سے پہلے مرتد ہو تو فوراً نکاح فسخ ہو جائے گا، اور خلوت کے بعد ہو تو زمانہ عدت گزرنے تک نکاح باقی رہے گا، اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائے تو زوجیت کا رشتہ برقرار رہے گا۔ ورنہ عدت گزرتے ہی نکاح وقت ارتداد سے فسخ شمار ہو گا۔ مہر کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ خلوت سے پہلے اگر عورت مرتد ہوئی ہے تو اسے  کوئی مہر نہ ملے گا، اور اگر خلوت کے بعد اس نے ارتداد اختیار کیا ہو تو وہ پورا مہر پائے گی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر۔المغنی۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ)۔

۱۷۔ اس معاملہ کی دو صورتیں تھیں اور اس آیت کا انطباق دونوں سورتوں پر ہوتا ہے : ایک صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات تھے ان سے مسلمانوں نے یہ معاملہ طے کرنا چاہا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے ہماری طرف آ گئی ہیں ان کے مہر ہم واپس کر دیں گے، اور ہمارے آدمیوں کی جو کافر بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے مہر تم واپس کر دو۔ لیکن انہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا۔ چنانچہ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان ان عورتوں کے مہر واپس دینے کے لی تیار ہو گئے جو مشرکین کے پاس مکہ میں رہ گئی تھیں، مگر مشرکوں نے ان عورتوں کے مہر واپس دینے سے انکار کر دیا جو مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آ گئی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مہاجر عورتوں کے جو مہر تمہیں مشرکین کو واپس کرنے ہیں وہ ان کو بھیجنے کے بجائے مدینے ہی میں جمع کر لیے جائیں اور جن لوگوں کو مشرکین سے اپنے دیے ہوئے مہر واپس لینے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اتنی رقم دے دی جائے جو اسے کفار سے وصول ہونی چاہیے تھی۔

دوسری صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معاہدانہ تعلقات نہ تھے ان کے علاقوں سے بھی متعدد آدمی اسلام قبول کر کے دار الاسلام میں آ گئے تھے اور ان کی کافر بیویاں وہاں رہ گئی تھیں۔ اسی طرح بعض عورتیں بھی مسلمان ہو کر ہجرت کر آئی تھیں اور ان کے کافر شوہر وہاں رہ گئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ دار الاسلام ہی میں اَدلے کا بدلہ چکا دیا جائے۔ جب کفار سے کوئی مہر واپس نہیں ملنا ہے تو انہیں بھی کوئی مہر واپس نہ کیا جائے۔ اس کے بجائے جو عورت ادھر آ گئی ہے اس کے بدلے کا مہر اس شخص کو ادا کر دیا جائے جس کی بیوی ادھر رہ گئی ہے۔

لیکن اگر اس طرح حساب برابر نہ ہو سکے، اور جن مسلمانوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے وصول طلب مہر ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کے مہروں سے زیادہ ہوں، تو حکم دیا گیا کہ اس مال غنیمت سے باقی رقمیں ادا کر دی جائیں جو کفار سے لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھ آ گئے ہوں ابن عباسؓ کی روایت ہے جس شخص کے حصے کا مہر وصول طلب رہ جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم  یہ حکم دیتے تھے کہ اس کے نقصان کی تلافی مال غنیمت سے کر دی جائے (ابن جریر)۔ اسی مسلک کو عطاء، مجاہد، زہری، مسروق، ابراہیم نخعی، قتادہ، مقاتِل اور ضحاک نے اختیار کیا ہے۔ یہ سب حضرات کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے مہر کفار کی طرف رہ گئے ہوں ان کا بدلہ کفار سے ہاتھ آئے ہوئے مجموعی مال غنیمت میں سے ادا کیا جائے، یعنی تقسیم غنائم سے پہلے ان لوگوں کے فوت شدہ مہر ان کو دے دیے جائیں اور اس کے بعد تقسیم ہو جس میں وہ لوگ بھی دوسرے سب مجاہدین کے ساتھ برابر کا حصہ پائیں۔ بعض فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ صرف اموال غنیمت ہی نہیں، اموال فَے میں سے بھی ایسے لوگوں کے نقصان کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اہل علم کے ایک بڑے گروہ نے اس مسلک کو قبول نہیں کیا ہے۔

۱۸۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، یہ آیت فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد جب مکہ فتح ہوا تو قریش کے لوگ جوق در جوق حضورؐ سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہونے لگے۔ آپ نے مردوں سے کوہ صفا پر خود بیعت لی اور حضرت عمرؓ کو اپنی طرف سے مامور فرمایا کہ وہ عورتوں سے بیعت لیں اور ان باتوں کا اقرار کرائیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں (ابن جریر بروایت ابن عباس۔ ابن ابی حاتم بروایت قتادہ)۔ پھر مدینہ واپس تشریف لے جا کر آپ نے ایک مکان میں انصار کی خواتین کو جمع کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمرؓ کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجا (ابن جریر، ابن مردویہ، بزار، ابن حبان، بروایت ام عطیہ انصاریہ )۔ عید کے روز بھی مردوں کے درمیان خطبہ دینے کے بعد آپ عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں اپنے خطبہ کے دوران میں آپ نے یہ آیت تلاوت کر کے ان باتوں کا عہد لیا جو اس آیت میں مذکور ہوئی ہیں (بخاری، بروایت ابن عباس)۔، ان مواقع کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں عورتیں فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرتی رہیں جن کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے۔

۱۹۔ مکہ  معظمہ میں جب عورتوں سے بیعت لی جا رہی تھی اس وقت حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبنہ نے اس حکم کی تشریح دریافت کرتے ہوئے حضورؐ سے عرض کیا، یا رسول اللہ، ابوسفیان ذرا بخیل آدمی ہیں کیا میرے اوپر اس میں کوئی گناہ ہے کہ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے لیے ان سے پوچھے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں، مگر بس معروف کی حد تک۔ یعنی جس اتنا مال لے لو جو فی الواقع جائز ضروریات کے لیے کافی ہو (احکام القرآن، ابن عربی)۔

۲۰۔ اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے، خواہ وہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا۔

۲۱۔ اس سے دو قسم کے بہتان مراد ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دوسری عورتوں پر غیر مردوں سے آشنائی کی تہمتیں لگائے اور اس طرح کے قصے لوگوں میں پھیلائے، کیونکہ عورتوں میں خاص طور پر ان باتوں کے چرچے کرنے کی بیماری پائی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک عورت بچہ تو کسی کا جنے اور شوہر کو یقین دلائے کہ تیرا ہی ہے۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ جو عورت کسی خاندان میں کوئی ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے اس کا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں، اور اللہ اسے کبھی جنت میں داخل نہ کرے گا‘‘۔

۲۲۔ اس مختصر سے فقرے میں دو بڑے اہم قانونی نکات بیان کیے گئے ہیں :

پہلا نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے، حالانکہ حضورؐ کے بارے میں اس امر کے کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی منکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانون خداوندی کے حدود سے باہر جا کر نہیں کی جا سکتی، کیونکہ جب خدا کے رسول تک کی اطاعت معروف کی شرط سے مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اطاعت کا حق پہنچے اور  اس کے کسی ایسے حکم یا قانون یا ضابطے اور رسم کی پیروی کی جائے جو قانون خداوندی کے خلاف ہو۔ اس قاعدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ، انما الطاعۃ فی المعروف۔ ’’ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت صرف معروف میں ہے ‘‘ (مسلم، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی مضمون اکابر اہل علم نے اس آیت سے مستبط کیا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط سے مشروط کیا ہے تو کسی اور شخص کے لیے یہ کیسے سزاوار ہو سکتا ہے کہ معروف کے سوا کسی معاملہ میں اس کی اطاعت کی جائے‘‘ (ابن جریر)۔

امام ابو بکر جصاص لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا نبی کبھی معروف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا، پھر بھی اس نے اپنے نبی کی نافرمانی سے منع کرتے ہوئے معروف کی شرط لگا دی تاکہ کوئی شخص کبھی اس امر کی گنجائش نہ نکال سکے کہ ایسی حالت میں بھی سلاطین کی اطاعت کی جائے جب کہ ان کا حکم اللہ کی اطاعت میں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ : من اطاع مخلوقاً فی معصیۃ الخالق سلَّط اللہ علیہ ذٰلک المخلوق، یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے ‘‘ (احکام القرآن)

علامہ آلوسی فرماتے ہیں :

’’ یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیال کی تردید کرتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اولی الامر کی اطاعت مطلقاً لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگا دی ہے، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ اس سے مقصود لوگوں کو خیر دار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے ‘‘ (روح المعانی)۔

پس در حقیقت یہ ارشاد اسلام میں قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کا سنگ بنیاد ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر کام جو اسلامی قانون کے خلاف ہو، جرم ہے اور کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ ایسے کسی کام کا کسی کو حکم دے۔ جو شخص بھی خلاف قانون حکم دیتا ہے وہ خود مجرم ہے اور جو شخص اس حکم کی تعمیل کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے۔ کوئی ماتحت اس عذر کی بنا پر سزا سے نہیں بچ سکتا کہ اس کے افسر بالا نے اسے ایک ایسے فعل کا حکم دیا تھا جو قانون میں جرم ہے۔

دوسری بات جو آئنی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ ہے ہ اس آیت میں پانچ منفی احکام دینے کے بعد مثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام بیک کاموں میں نبی صلی اللہ علیہ وسل کے احکام کی اطاعت کی جائے گی۔ جہاں تک برائیوں کا تعلق، وہ بڑی بڑی بُرائیاں گنا دی گئیں جن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلا تھیں اور ان سے باز رہنے کا عہد لے لیا گیا، مگر جہاں تک بھلائیوں کا تعلق ہے ان کی کوئی فہرست دے کر عہد نہیں لیا گیا کہ تم فلاں فلاں اعمال کر و گی بلکہ صرف وہی ہوں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے تو عہد ان الفاظ میں لیا جانا چاہیے تھا کہ ’’ تم اللہ کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘ یا یہ کہ ’’ تم قرآن کے احکام کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘۔ لیکن جب عہد ان الفاظ میں لیا گیا کہ ’’ جس بیک کام کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دیں گے تم اس کی خلاف ورزی نہ کرو گی‘‘ تو اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے حضورؐ کو وسیع ترین اختیارات دیے گئے ہیں اور آپ کے تمام احکام واجب الاطاعت ہیں خواہ وہ قرآن میں موجود ہو یا نہ ہوں۔

اسی آئینی اختیار کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت لیتے ہوئے ان بہت سی برائیوں کے چھوڑنے کا عہد لیا جو اس وقت عرب معاشرے کی عورتوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور متعدد ایسے احکام دیے جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ اس کے لیے حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں :

ابن عباسؓ، ام سلمہؓ اور ام عطیہؓ انصاریہ وغیرہ کی روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہ کریں گی۔ یہ روایات بخاری، مسلم،نسائی اور ابن جریر نے نقل کی ہیں۔

ابن  عباسؓ کی ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضورؐ  نے حضرت عمرؓ کو عورتوں سے بیعت لینے کے لیے مامور کیا اور حکم دیا کہ ان کو نوحہ کرنے سے منع کریں، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے کپڑے پھاڑتی تھیں، منہ نوچتی تھیں، بال کاٹری تھیں اور سخت واویلا مچاتی تھیں (ابن جریر)۔

زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں کو اس سے منع کیا کہ ہو مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے اپنے منہ نوچیں اور گریبان پھاڑیں اور واویلا کریں اور شعر گا گا کر بین کریں (ابن جریر)۔ اسی کی ہم معنی ایک روایت ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ایک ایسی خاتون سے نقل کی ہے جو بیعت کرنے والیوں میں شامل تھیں۔

قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ جو عہد حضورؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیر محرم مردوں سے بات نہ کریں گی۔ ابن عباس کی روایت میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ غیر مردوں سے تخلیہ میں بات نہ کریں گی۔ قتادہ نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ حضورؐ کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے عرض کیا یا رسول اللہ کبھی ایسا ہوتا ہے چہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے ہاں کوئی صاحب ملنے آ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میری مراد یہ نہیں ہے۔ یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں (یہ روایات ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں )۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ امیمہؓ بنت رقیقہ سے حضرت عبد اللہؓ بن عمرو بن العاص نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ نے ان سے یہ عہد لیا کہ نوحہ نہ کرنا اور جاہلیت کے اسے بناؤ سنگھار کر کے اپنی نمائش نہ کرنا مسند احمد، ابن جریر)۔

حضورؐ کی ایک خالہ سلمٰی بنت قیس کہتے ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی تو آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا پھر فرما یا ولا تغششنازواجکن ’’ اپنے شوہروں سے دھوکے بازی نہ کرنا‘‘ جب ہم واپس ہونے لگیں تو ایک عورت نے مجھ سے کہا کہ جا کر  حضورؐ سے پوچھو شوہروں سے دھوکے بازی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جا کر پوچھا تو آپؐ نے فرمایا  تاخص مالہ فتحابی بہ غیرہ ’’یہ کہ تو اس کا مال لے اور دوسروں پر لٹائے‘‘ (مسند احمد)۔

ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے بیعت لینے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین کی جماعت میں حاضر ہوا کریں گی البتہ جمعہ ہم پر فرض نہیں ہے، اور جنازوں کے ساتھ جانے سے ہمیں منع فرما دیا(ابن جریر)۔

جو لوگ حضور کے اس آئینی اختیار کو آپ کی حیثیت رسالت کے بجائے حیثیت امارت سے متعلق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ چونکہ اپنے وقت کے حکمراں بھی تھے اس لیے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو احکام دیئے وہ صرف آپ کے زمانے تک ہی واجب الاطاعت تھے، وہ بڑی جہالت کی بات کہتے ہیں۔ اوپر کی سطور میں ہم نے حضورؐ کے جو احکام نقل کیے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ ان میں عورتوں کی اصلاح کے لیے جو ہدایات آپ نے دی ہیں وہ اگر محض حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے ہوتیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی عورتوں میں یہ اصلاحات کیسے رائج ہو سکتی تھیں؟  آخر دنیا کا وہ کونسا حاکم ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہو کہ ایک مرتبہ اس کی زبان سے ایک حکم صادر ہو اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں کے مسلم معاشرے میں ہمیشہ کے لیے وہ اصلاح رائج ہو جائے جس کا حکم اس نے دیا ہے؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حشر، حاشیہ ۱۵)۔

۲۳۔ معتبر اور متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عورتوں سے بیعت لینے کا طریقہ مردوں کی بیعت سے مختلف تھا۔ مردوں سے بیعت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ بیعت کرنے والے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتے تھے۔ لیکن عورتوں سے بیعت لینے ہوئے آپ نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیا، بلکہ مختلف دوسرے طریقے اختیار فرمائے۔ اس کے بارے میں جو روایات منقول ہوئی ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ خدا کی قسم بیعت میں حضور کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے چھوا تک نہیں ہے۔ آپ عورت سے بیعت لیتے ہوئے بس زبان مبارک سے یہ فرمایا کرتے تھے  کہ میں نے تجھ سے بیعت لی‘‘ (بخاری۔ ابن جریر)۔

امیہ بنت رقیقہ کا بیان ہے کہ میں اور چند عورتیں حضور کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئیں اور آپؐ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا۔ جب ہم نے کہا ’’ ہم معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی‘‘ تو آپ نے فرمایا فیما استطعتنَّ، ‘‘ جہاں تک تمہارے بس میں ہو اور تمہارے لیے ممکن ہو‘‘ ہم نے عرض کیا‘‘ اللہ اور اس کا رسول ہمارے لیے خود ہم سے بڑھ کر رحیم ہیں ‘‘ پھر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہاتھ بڑھائیے تاکہ ہم آپ سے بیعت کریں۔ آپ نے فرمایا میں  عورتوں  سے مصافحہ نہیں کرتا، بس میں تم سے عہد لوں گا۔ چنانچہ آپ نے عہد لے لیا۔ ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ آپؐ  نے ہم میں سے کسی عورت سے بھی مصافحہ نہیں کیا (مسند احمد، ترمذی،نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔

ابوداؤد نے مراسیل میں شعبی کی روایت نقل کی ہے کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت ایک چادر حضور کی طرف بڑھائی گئی آپ نے جس اسے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ یہ مضمون ابن ابی حاتم نے شعبی سے، عبدالرزاق نے ابراہیم نخعی سے اور سعید بن منصور نے قیس بن ابی حازم سے نقل کیا ہے۔

ابن اسحاق نے مغازی میں ابان بن صالح سے روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ پانی کے ایک برتن میں ہاتھ ڈال دیتے تھے، اور پھر اسی برتن میں عورت بھی اپنا ہاتھ ڈال دیتی تھی۔

بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ عید کا خطبہ دینے کے بعد آپ مردوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں عورت بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے وہاں اپنی تقریر میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی، پھر عورتوں سے پوچھا تم اس کا عہد کرتی ہو؟ مجمع میں سے ایک عورت نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہ۔

ایک روایت میں جسے ابن حبان، ابن جریر اور بزار وغیرہ نے نقل کیا ہے، ام عطیہ انصار یہ کاس یہ بیان ملتا ہے کہ ’’ حضورؐ  نے گھر کے باہر سے ہاتھ بڑھایا  اور ہم نے اندر سے ہاتھ بڑھائے‘‘، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا یہ عورتوں نے آپ سے مصافحہ بھی کیا ہو، کیونکہ حضرت ام عطیہ نے مصافحہ کی تصریح نہیں کی ہے۔ غالباً اس موقع پر صورت یہ رہی ہو گی کہ عہد لیتے وقت آپ نے باہ سے ہاتھ بڑھایا ہو گا اور اندر سے عورتوں نے اپنے اپنے ہاتھ آپ کے ہاتھ کی طرف بڑھا دیے ہوں گے بغیر  اس کے کہ ان میں سے کسی کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے مس ہو۔

۲۴۔ اصل الفاظ ہیں قَدْ یَئِسُوْ ا من الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحَابِ الْقُبُوْرِ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ آخرت کی بھلائی اور اس کے ثواب سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح زندگی بعد موت سے انکار کرنے والے اس بات سے مایوس ہیں کہ ان کے جو عزیز رشتہ دار قبروں میں جا چکے ہیں وہ کبھی پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ یہ معنی حضرت عبداللہ بن عباسؓ، اور حضرات حس بصری، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ نے بیان کیے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ وہ آخرت کی رحمت و مغفرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر ہر خیر سے مایوس ہیں، کیونکہ انہیں اپنے مبتلائے عذاب ہونے کا یقین ہو چکا ہے۔ یہ معنی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، اورت حضرات مجاہد، عِکْرِمہ، ابن زید، کلبی، مقاتل اور منصور رحمہم اللہ سے منقول ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۶۱) سورہ الصف

 

 

نام

 

چوتھی آیت کے فقرے یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفّاً سے ماخوذ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ صف آیا ہے ۔

 

زمانہ نزول

 

کسی معتبر روایت سے اس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانے میں نازل ہوئی ہو گی، کیونکہ اس کے بین السطور میں جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے وہ اسی دور میں پائے جاتے تھے ۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس کا موضوع ہے مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے ، اور ان لوگوں کو بھی جو ایمان کا جھوٹا دعویٰ کر کے اسلام میں داخل ہو گئے تھے ، اور ان کو بھی جو مخلص تھے ۔ بعض آیات کا خطاب پہلے دونوں گروہوں سے ہے ، بعض میں صرف منافقین مخاطب ہیں ، اور بعض کا روئے سخن صرف مخلصین کی طرف ہے ۔ انداز کلام سے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں کون مخاطب ہے ۔

آغاز میں تمام ایمان لانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں وہ لوگ جو کہیں کچھ اور کریں کچھ، اور نہایت محبوب ہیں وہ لوگ جو راہ حق میں لڑنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوں ۔

پھر آیت ۵ سے ۷ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی امت کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رسول اور اپنے دین کے ساتھ تمہاری روش وہ نہ ہونی چاہیے جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی۔حضرت  موسیٰ کو وہ خدا کا رسول جاننے کے باوجود جیتے جی تنگ کرتے رہے ، اور حضرت عیسیٰ سے کھلی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود وہ ان کو جھٹلانے سے باز نہ آئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس قوم کے مزاج کا سانچہ ہے ٹیڑھا ہو کر رہ گیا اور اس سے ہدایت کی توفیق سلب ہو گئے۔ یہ کوئی ایسی قابل رشک حالت  نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوم اس میں مبتلا ہونے کی تمنا کرے ۔

پھر آیت ۸۔۹ میں پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور ان سے ساز باز رکھنے والے منافقین اللہ کے اس نور کو بجھانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں ، یہ پوری آپ و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل کر رہے گا اور مشرکین کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو، رسول بر حق کا لایا ہوا دین ہر دوسرے دین پر غالب آ کر رہے گا۔

اس کے بعد آیات ۱۰ سے ۱۳ میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ صرف ایک ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ آخرت  میں اس کا ثمرہ خدا کے عذاب سے نجات، گناہوں کی مغفرت، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا حصول ہے ، اور دنیا میں اس کا انعام خدا کی تائید و نصرت اور فتح و ظفر ہے ۔

آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اس طرح وہ بھی ’’ انصار اللہ‘‘ بنیں تاکہ کافروں کے مقابلہ میں ان کو بھی اسی طرح اللہ کی تائید حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی تھی۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب اور حکیم ہے (۱)۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو  ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسند دیدہ حرکت ہے کہ مت کہو ہو بات جو کرے نہیں (۲)۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گو یا کہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں (۳)۔

اور یاد کرو موسی کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی ” اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں (۴) ”  ؟ پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیئے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۵)

اور یاد کرو عیسی ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ "اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہو ا رسول ہوں تصدیق کر نے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے ، (۷) اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد (۸) ہو گا۔مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ صریح دھوکا ہے  (۹)۔ اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹے  بہتان باندھے (۱۰) حالانکہ اسے اسلام  (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے ) کی دعوت دی جا رہی ہو ؟ (۱۱) ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا نا چاہتے ہیں ، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو(۱۲)۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار رہو۔ (۱۳)۔

 

تفسیر

 

۱۔ یہ اس خطبہ کی مختصر تمہید ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورۂ الحدید، حاشیہ ۱۔۲ کلام کا آغاز اس تمہید سے اس لیے کیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ فرمایا جانے والا ہے اس کو سننے یا پڑھنے سے پہلے آدمی یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور اس سے بالاتر ہے کہ اس کی خدائی کا چلنا کسی کے ایمان اور کسی کی مدد اور قربانیوں پر موقوف ہو۔ وہ اگر ایمان لانے والوں کو ایمان میں خلوص اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ صداقت کا بول بالا کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو، تو یہ سب کچھ ان کے اپنے ہی بھلے کے لیے ہے ۔ ورنہ اس کے ارادے اس کے اپنے ہی زور اور اس کی اپنی ہی تدبیر سے پورے ہو کر رہتے ہیں ، خواہ کوئی بندہ ان کی تکمیل میں ذرہ برابر بھی سعی نہ کرے ، بلکہ ساری دنیا مل کر ان کی مزاحمت پر تل جائے ۔
۲۔ اس ارشاد کا ایک مدعا تو عام ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ اور ایک مدعا خاص ہے جو بعد والی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا۔ پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہئے ۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے ، اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے ۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں ، کجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
ایٰۃ المنافق ثلاث (زادمسلم وان صام و صلی و زعم اہ مسلم) اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف واذا أتمن خان (بخاری و مسلم)
منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ جب بولے جھوٹ بولے ، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ، اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے :
اربع من کن فیہ کان منافقاخالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھم کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، اذا اتمن خان واذاحدث کذب۔ واذا عاھد غدر، واذاخاصم فجر۔ (بخاری و مسلم)
چار صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائیں جائیں و خالص منافق ہے ، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے ، جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے ۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ، اور جب بولے تو جھوٹ بولے ، اور عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کر جائے ، اور لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالیں ۔
فقہ اسلام کا ایک بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ کوئی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرے (مثلاً کسی چیز کی نذر مانیں ) یا بندوں سے کوئی معاہدہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وفا کرنا لازم ہے ، الا یہ کہ کام بجائے خود گناہ ہو جس کا اس نے عہد یا وعدہ کیا ہو۔ اور گناہ ہونے کی صورت میں وہ فعل تو نہیں کرنا چاہئے جس کا عہد یا وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کی پابندی سے آزاد ہونے کے لیے کفارہ یمین ادا کرنا چاہئے ، جو سورہ المائدہ آیت ۸۹ میں بیان کیا گیا ہے ۔(احکام القرآن الجصاص وابن عربی)
یہ تو ہے ان آیات کا مدعا۔ رہا وہ خاص مدعا جس کے لیے اس موقع پر یہ آیات ارشاد فرمائی گئی ہیں تو بعد والی آیت کو ان کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ مقصود ان لوگوں کو ملامت کرنا ہے جو اسلام کے لیے سرفروشی و جانبازی کے لمبے چوڑے وعدے کرتے تھے ، مگر جب آزمائش کا وقت آتا تھا تو بھاگ نکلتے تھے ۔ ضعیف الایمان لوگوں کی اس کمزوری پر قرآن مجید میں کئی جگہ گرفت کی گئی ہے ۔ مثلاً سورہ نساء آیت ۷۷ میں فرمایا ’’تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے ، یا اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی‘‘۔ اور سورہ محمدؐ آیت ۲۰ میں فرمایا ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی صورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے ) مگر جب ایک محکم سورت نازل کی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرف دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو‘‘۔ جنگ احد کے موقع پر یہ کمزوریاں خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جن کی طرف سورہ آل عمران میں ۱۳ ویں رکوع سے ۱۷ ویں رکوع تک اشارات کئے گئے ہیں ۔
مفسرین نے ان آیات کی شان نزول میں ان کمزوریوں کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جہاد فرض ہونے سے پہلے مسلمانوں میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ کاش میں ہمیں وہ عمل معلوم ہو جائے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم وہی کریں ۔ مگر جب بتایا گیا کہ وہ عمل ہے جہاد، تو ان پر اپنی اس بات کو پورا کرنا بہت شاق ہو گیا۔ مقاتِل بن حیّان کہتے ہیں کہ احد کی جنگ میں ان لوگوں کو آزمائش سے سابقہ پیش آیا اور یہ حضور کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ ابن زید کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ نبی ﷺ کو یقین دلاتے تھے کہ آپﷺ کو دشمنوں کے مقابلہ کے لیے نکلنا پڑے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ نکلیں گے ۔ مگر جب وقت آیا تو ان کے وعدے جھوٹے نکلے ۔ قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ بعض لوگ جنگ میں شریک ہوتے بھی تھے تو کوئی کارنامہ انجام نہ دیتے تھے مگر آ کر یہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں مارا۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آیات میں ملامت کی ہے ۔

۳۔ اس سے اول تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرہ سہنے کے لیے تیار ہوں ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو جو فوج پسند ہے اس میں تین صفات پائی جانی چاہئے ۔ ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بدنظمی و انتشار میں مبتلا نہ ہو بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑے ۔ تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلہ میں ا سکی کیفیت ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار ‘‘ کی سی ہو۔ پھر یہ آخری صفت بجائے خود اپنے اندر معنی کی ایک دنیا رکھتی ہے ۔ کوئی فوج اس وقت تک میدان جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک اس میں حسب ذیل صفات پیدا نہ ہو جائیں :

عقیدہ اور مقصد میں کامل اتفاق، جو اس کے سپاہیوں اور افسروں کو آپس میں پوری طرح متحد کر دے ۔
ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد جو کبھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا کہ سب فی الواقع اپنے مقصد میں مخلص اور ناپاک اغراض سے پاک ہوں ۔ ورنہ جنگ جیسی سخت آزمائش کسی کا کھوٹ چھپا رہنے نہیں دیتی اور اعتماد ختم ہو جائے تو فوج کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے بجائے بلکہ الٹا ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں ۔

اخلاق کا ایک بلند معیار، جس سے اگر فوج کے افسر اور سپاہی نیچے گر جائیں تو ان کے دل میں نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہو سکتی ہے نہ عزت، اور نہ وہ آپس میں متصادم ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔

اپنے مقصد کا ایک ایسا عشق اور ایسے حاصل کرنے ایسا پختہ عزم جو پوری فوج میں سرفروشی و جانبازی کا ناقابل تسخیر جذبہ پیدا کر دے اور وہ میدان جنگ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جائے ۔

یہی تھیں وہ بنیادیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں ایک ایسی زبردست عسکری تنظیم اٹھی جس سے ٹکرا کر بڑی بڑی قوتیں پاش پاش ہو گئیں اور صدیوں تک دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے نہ تھیر سکی۔

۴۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اللہ کا نبی اور اپنا محسن جاننے کے باوجود کس کس طرح تنگ کیا اور کیسی کیسی بے وفائیاں ان کے ساتھ کیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۵۱۔ ۵۵۔ ۶۰۔ ۸۷ تا ۷۱۔ النساء، ۱۵۳۔ المائدہ، ۲۰ تا ۲۶۔ الاعراف ۱۳۸ تا ۱۴۱۔ ۱۴۸ تا ۱۵۱۔ طٰہٰ ۸۶ تا ۹۸۔بائیبل میں خود یہودیوں کی اپنی بیان کردہ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے ۔ صرف بطور نمونہ چند واقعات کے لیے دیکھیے خروج ۲۰:۵۔ ۲۱ ۱۱:۱۴۔ ۱۲۔ ۲:۱۶۔ ۳۔ ۳:۱۷۔ ۴۔ گنتی ۱:۱۱۔ ۱۵۔۱:۱۴۔ ۱۰۔۱۶ مکمل۔ ۱:۲۰۔ ۵ یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ مسلمانوں کو خبردار کرنے کے لی کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نبی کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کریں جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ساتھ  اختیار کی تھی، ورنہ وہ اس انجام سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے۔

۵۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کا زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جائے۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی (Freedom of Choice ) عطا فرما دی ہے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے ۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے طاعت و ہدایت کی راہ پر لائے۔ لیکن یہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے یے درکار ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی ہو ’’ توفیق‘‘ ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے ۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں ، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے ۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ ’’ جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے ‘‘۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سر گرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کی لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جائے، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ، اور اس طرح کی ہدایت پا کر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزائے خیر کا مستحق ہو۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آ جاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کر سکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے ان کو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا۔

۶۔ یہ بنی اسرائیل کی دوسری نافرمانی کا ذکر ہے ۔ ایک نافرمانی وہ تھی جو انہوں نے اپنے دور عروج کے آغاز میں کی۔ اور دوسری نافرمانی یہ ہے جو اس دور کے آخری اور قطعی اختتام پر انہوں نے کی جس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان پر خدا کی پھٹکار پڑ گئی۔ مدعا ان دونوں واقعات کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا کے رسول کے ساتھ بنی اسرائیل کا سا طر زِ عمل اختیار کرنے کے نتائج سے خبردار کیا جائے۔

۷۔ اس فقرے کے تین معنی ہیں اور تینوں صحیح ہیں :

ایک یہ کہ میں کوئی الگ اور نرالا دین نہیں لایا ہوں بلکہ وہی دین لایا ہوں جو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے ۔ میں توراۃ کی تردید کرتا ہوا نہیں آیا ہوں بلکہ اس کی تصدیق کر رہا ہوں ، جس طرح ہمیشہ سے خدا کے رسول اپنے سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تم میری رسالت کو تسلیم کرنے میں تامل کرو۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق توراۃ میں موجود ہیں ۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ تم میری مخالفت کرو، تمہیں تو اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ جس کے آنے کی خبر پچھلے انبیاء نے دی تھی وہ آ گیا۔

اور اس فقرے کو بعد والے فقرے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی آمد کے متعلق توراۃ کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں ۔  اس  تیسرے معنی کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کا اشارہ اس بشارت کی طرف ہے جو رسول اللہ ﷺ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے دی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :

"خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے ، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ ‘‘ (استثناء، باب۱۸۔ آیات ۱۵۔۱۹)

یہ توراۃ کی صریح پیشن گوئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے تیرے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ایک قوم ’’ بھائیوں ‘‘ سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی دوسری ایسی قوم ہی ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ وہ۔ اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی بنی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے کہ تین تمہارے لیے خود تم ہی میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لا محالہ بنی اسماعیل ہپی ہو سکتے ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی بنا پر ان کے نسبی رشتہ دار ہیں ۔ مزید براں اس پیشن گوئی کا مصداق بنی اسرائیل کاکوئی نبی اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں کوئی ایک نبی انہیں ، بہت سارے نبی آئے ہیں جن کے ذکر ے بائیبل بھری پڑی ہے ۔

دوسری بات اس بشارت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کے مانند ہو گا۔ اس سے مراد ظاہر ہے کہ شکل صورت یا حالات زندگی میں مشابہ ہونا تو نہیں ہے ، کیونکہ اس لحاظ سے کوئی فرد بھی کسی دوسرے فرد کے مانند نہیں ہوا کرتا۔ اور اس سے مراد محض وصف نبوت میں مماثلت بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ وصف ان تمام انبیاء میں مشترک ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد آئے ہیں ، اس لیے کسی ایک نبی کی یہخصوصیت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وصف میں ان کے مانند ہو۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے مشابہت کے خارج از بحث ہو جانے کے بعد کوئی اور وجہ مماثلت، جس کی بنا پر آنے والے ایک نبی کی تخصیص قابل رحم ہو، اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ وہ نبی ایک مستقل شریعت لانے کے اعتبار سے حضرت موسیٰ کے مانند ہو۔ اور یہ خصوصیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ آپ سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نبی بھی آئے تھے وہ شریعت موسوی کے پیرو تھے ، ان میں سے کوئی بھی ایک مستقل شریعت لے کر نہ آیا تھا۔

اس تعبیر کو مزید تقویت پیشین گوئی کے ان الفاظ سے ملتی ہے کہ ’’ یہ تیری (یعنی بنی اسرائیل کی) اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں  کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا‘‘۔ اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی مرتبہ احکام شریعت دیے گئے تھے ۔ اور بنی اسرائیل کی جس در خواست کا اس میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی شریعت ہم کو دی جائے تو ان خوفناک حالات میں نہ دی جائے جو حورب پہاڑ کے دامن میں شریعت دیتے وقت پیدا کیے گئے تھے ۔ ان حالات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور بائیبل میں بھی۔ (ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۵۵۔ ۵۶۔۶۳۔الاعراف، آیات ۱۵۵۔۱۷۱۔ بائیبل، کتاب خروج ۱۷:۱۹۔ ۱۸)۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ درخواست قبول کر لی ہے ، اس کا ارشاد ہے کہ میں ان کے لیے ایک ایسا نبی برپا کروں گا جس کے منہ میں مَیں اپنا کلام ڈالوں گا۔ یعنی آئندہ شریعت دینے کے اس وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہ کیے جائیں گے جو حورِب پہاڑ کے دامن میں پیدا کیے گئے تھے ، بلکہ اب جو نبی اس منصب پر مامور کیا جائے گا اس کے منہ میں بس اللہ کا کلا م ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے خلق خدا کو سنا دے گا۔ اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا اس کا مصداق کوئی اور نہیں ہے  ؟ حضرت موسیٰ کے بعد مستقل شریعت صرف آپ ہی کو دی گئی، اس کے عطا کرنے کے وقت کوئی ایسا مجمع نہیں ہوا جیسا حورب پہاڑ کے دامن میں بنی اسرائیل کو ہوا تھا، اور کسی وقت بھی احکام شریعت دینے کے موقع پر وہ حالات پیدا نہیں کیے گئے جو وہاں پیدا کیے گئے تھے ۔

۸۔ یہ قرآن مجید کی ایک بڑی اہم آیت ہے ، جس پر مخالفین اسلام کی طرف سے بڑی لے دے بھی کی گئے ہے اور بدترین خیانت مجرمانہ سے بھی کام لیا ہے ، کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا صاف صاف نام لے کر آپ کی آمد کی بشارت دی تھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے۔

۱۔ اس میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کا اسم گرامی احمد بتایا گیا ہے ۔ احمد کے دو معنی ہیں ۔ ایک، وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو۔ دوسرے ، وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو، یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ بھی حضورؐ کا ایک نام تھا۔ مسلم اور ابو داؤد طیالِسی میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انا محمد و انا احمد والحاشر۔۔۔۔۔ ’’میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں ۔۔۔۔۔  ‘‘ اسی مضمون کی روایات حضرت جبیر بن مطعم سے امام مالک، بخاری، مسلم، دارمی، ترمذی اور نسائی نے نقل کی ہیں ۔ حضورؐ کا یہ اسم گرامی صحابہ میں معروف تھا، چنانچہ حضرت حصان بن ثابت کا شعر ہے :

صلی الا لٰہ و من یحف بعرشہ            والطیبون علی المبارک  احمد

’’اللہ نے اور اس کے عرش کے گرد جمگھٹا لگائے ہوئے فرشتوں نے اور سب پاکیزہ ہستیوں نے با برکت احمد پر درود بھیجا ہے ‘‘۔

تاریخ سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضورؐ کا نام مبارک صرف محمدؐ ہی نہ تھا بلکہ احمد بھی تھا۔ عرب کا پورا لٹریچر اس بات سے خالی ہے کہ حضورؐ سے پہلے کسی کا نام احمد رکھا گیا ہو۔ اور حضورؐ کے بعد احمد اور غلام احمد اتنے لوگوں کے نام رکھے گئے ہیں جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ زمانہ نبوت سے لے کر آج تک تمام امت میں آپ کا یہ اسم گرامی معلوم و معروف رہا ہے ۔ اگر حضور کا یہ اسم گرامی نہ ہوتا تو اپنے بچوں کے نام غلام احمد رکھنے والوں نے آخر کس احمد کا غلام ان کو قرار دیا تھا  ؟

۲۔ انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد کے زمانے میں بنی اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے ۔ ایک مسیح، دوسرے ایلیاہ (یعنی حضرت الیاس کی آمد ثانی)، اور تیسرے ’’ وہ نبی‘‘ انجیل کے الفاظ یہ ہیں

’’ اور یوحنا(حضرت یحیٰ علیہ السلام) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ، تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے  ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس ے کہا میں نہیں ہوں ۔ کیا تو  وہ نبی ہے  ؟  اس نے جواب دیا کہ نہیں ۔ پو انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟۔۔۔۔ اس نے کہا میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو۔۔۔۔۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے ،  نہ ایلیا نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے  ؟‘‘ (باب ۱۔ آیات ۱۹۔۲۵)

یہ الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت مسیح اور حضرت الیاس کے علاوہ ایک اور نبی کے بھی منتظر تھے ، اور وہ حضرت یحیٰ نہ تھے ،  اس نبی کی آمد کا عقیدہ بنی اسرائیل کے ہاں اس قدر مشہور و معروف تھا کہ ’’ وہ نبی‘‘ کہہ دینا گویا اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بالکل کافی تھا، یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ ’’ جس کی خبر توراۃ میں دی گئی ہے ‘‘ مزید برآں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نبی کی طرف وہ اشارہ کر رہے تھے اس کا آنا قطعی طور پر ثابت تھا، کیونکہ جب حضرت یحییٰ سے یہ سوالات کیے گئے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے ، تم کس نبی کے متعلق پوچھ رہے ہو  ؟

۳۔  اب وہ پیشین گوئیاں دیکھیے جو انجیل یوحنا میں مسلسل باب ۱۴ سے ۱۶ تک منقول ہوئی ہیں :

’’ اور میں باپ سے درخواست کرو گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گا ر بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ، یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے ۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہے ‘‘ (۱۴:۱۶۔ ۱۷ )۔

’’میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں ۔ لیکن مدد گار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘(۲۵:۱۴۔ ۲۶)

’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ‘‘ (۳۰:۱۴ )۔

’’ لیکن جب سہ مدد گار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا  ہے ، تو وہ میری گواہی دے گا‘‘ (۲۶:۱۵)۔

’’ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جاتا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا‘‘ (۷:۱۶)۔

’’مجھے تم سے اور بھی بہت سیر باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے ۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے  نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔ اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے ۔ اس لیے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا‘‘(۱۲:۱۶۔ ۱۵)۔

۴۔ ان عبارتوں کے معنی متعین  کرنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ مسیح علیہ السلام اور ان کے ہم عصر اہل فلسطین کی عام زبان آرامی زبان کی وہ بولی تھی جسے سریانی (Syriac) کہا جاتا ہے ۔ مسیح کی پیدائش سے دو ڈھائی سو برس پہلے ہی سلوقی(Seleucide) اقتدار کے زمانے میں اس علاقے سے عبرانی رخصت ہو چکی تھی اور سریانی نے اس کی جگہ لے لی تھی۔ اگر چہ سلوقی اور پھر رومی سلطنتوں کے اثر سے یونانی زبان نے اس علاقے میں پہنچ گئی تھی، مگر وہ صرف اس طبقے تک محدود رہ جو سرکار دربار میں رسائی پا کر، یا رسائی حاصل کرنے کی خاطر یونانیت زدہ ہو گیا تھا۔ فلسطین کے عام لوگ سریانی کی ایک خاص بولی(Dialect) استعمال کرتے تھے جس کے لہجے اور تلفظات اور محاورات دمشق کے علاقے میں بولی جانے والی سریانی سے مختلف تھے ، اور اس ملک کے عوام یونانی سے اس قدر نا واقف تھے کہ جبن ۷۰ع میں یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد رومی جنرل تیتُس (Titus)نے اہل یروشلم کو یونانی میں خطاب کیا تو اس کا ترجمہ سریانی زبان میں کرنا پڑا۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے جو کچھ کہا تھا وہ لامحالہ سریانی زبان ہی میں ہو گا۔

دوسرے بات یہ جاننے ضروری ہے کہ بائیبل کی چاروں انجیلیں ان یونانی بولنے والے عیسائیوں کی  لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے تھے ۔ ان تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال و اعمال کی تفصیلات سریانی بولنے والے عیسائیوں کے ذریعہ سے کسی تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی روایات کی  شکل میں پہنچی تھیں اور ان سریانی روایات کو انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے درج کیا تھا۔ ان میں سے کوئی انجیل بھی ۷۰ ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے ، اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد غالباً ایشیائے کو چک کے شہر افسُس میں لکھی گئی ہے ۔ مزید یہ کہ ان انجیلوں کا بھی کوئی اصل نسخہ اس یونانی مسودات جگہ جگہ سے تلاش کر کے جمع کیے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی سے پہلے کا نہیں ہے ۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تین صدیوں کے دوران میں ان کے اندر کیا کچھ رد و بدل ہوئے ہوں گے ۔اس معاملہ کو جو چیز  خاص طور پر مشتبہ بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق دانستہ تغیر و تبدل کرنے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں ۔ انسائیکلو پیڈیا بٹانیکا (ایڈیشن ۱۹۴۶ ء ) کے مضمون ’’بائبل ‘‘ کا مصنف لکھتا ہے :

’’ان جیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پور ی پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتاب میں شامل کر دینا۔ ……… یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنہیں اصل کتا ب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا، اور وہ اپنے آپ کو اس کا مجاز سمجھتے  رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنا نے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کر دیں ………  بہت سے اضافے  دوسری صدی ہی میں ہو گئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا ماخذ کیا تھا’’۔

اس صورت حال میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو اقوال ہمیں ملتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک نقل ہوئے ہیں اور ان کے اندر  کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے ۔

تیسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی تقریباً تین صدیوں تک فلسطین کے عیسائی باشندوں کی زبان سریانی رہی اور کہیں نویں صدی عیسوی میں جا کر عربی زبان نے اس کی جگہ لی ان سریانی بولنے والے اہل فلسطین کے ذریعہ سے عیسائی روایات کے متعلق جو معلومات ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان علماء  کو حاصل ہوئیں وہ ان لوگوں کی معلومات کی بہ نسبت زیادہ معتبر ہونی چاہییں جنہیں سریانی سے یونانی اور پھر یونانی سے لاطینی زبانوں میں ترجمہ در ترجمہ ہو کر یہ معلومات پہنچیں ۔ کیونکہ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے اصل سریانی الفاظ ان کے ہاں محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات تھے ۔

۵۔  ان ناقابل انکار تاریخی حقائق  کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ انجیل یوحنا کی مذکورہ بالا  عبارات میں حضرت عیسیٰ علیہ  السلام اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ’’ دنیا کا سردار ‘‘(سرور عالم) ہو گا، ’’ابد تک ‘‘ رہے گا، ’’ سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا، ‘‘ اور خود ان کی (یعنی حضرت عیسیٰ کی) ’’ گواہی دے گا‘‘۔ یوحنا کی ان عبارتوں میں ’’ روح القدس ‘‘ اور ’’ سچائی کی روح‘‘  وغیرہ الفاظ شامل کر کے مدعا کو خبط کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے ، مگر اس مے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے وہ کوئی روح نہیں بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے جس کی تعلیم عالمگیر، ہمہ گیر، اور قیامت تک باقی رہنے والی ہو گی۔ اس شخص خاص کے لیے اردو ترجمے میں ’’مدد گار‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور  یوحنا کی اصل انجیل میں یونانی زبان کا جو لفظ استعمال کیا گیا تھا، اس کے بارے میں عیسائیوں کو اصرار ہے کہ وہ  Para Cletus تھا۔ مگر اس کے معنی متعین کرنے میں خود عیسائی علماء کو سخت زحمت پیش آئی ہے ۔ اصل یونانی زبان میں Para Clate  کے کئی معنی ہیں : کسی جگہ کی طرف بلانا، مدد کے لیے پکارنا، انذار و تنیہ، ترغیب، اکسانا، التجا کرنا، دعا مانگنا۔ پھر یہ لفظ بیینی مفہوم میں یہ معنی دیتا ہے : تسلی دینا، تسکین بخشنا، ہمت افزائی کرنا۔ بائیبل میں اس لفظ کو جہاں جہاں استعمال کیا گیا ہے ، ان سب مقامات پر اس کے کوئی معنی بھی ٹھیک نہیں بیٹھتے ۔ اورائجن(Origen) نے کہیں اس کا ترجمہ Consolatorکیا ہے اور کہیں Deprecator مگر دوسرے مفسرین نے ان دونوں ترجموں کو رد کر دیا کیونکہ اول تو یہ یونانی گرامر کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں ، دوسرے تمام عبارتوں میں جہاں یہ لفظ آیا ہے ، یہ معنی نہیں چلتے ۔ بعض اور مترجمین نے اس کا ترجمہ Teacher کیا ہے ، مگر یونانی زبان کے استعمالات سے یہ معنی بھی اخذ نہیں کیے جا سکتے ۔ ترتولیان اور آگسٹائن نے لفظ Advocate کو ترجیح دی ہے ، اور بعض اور لوگوں نے  Assistant، اور Comforter، اور Consoler وغیرہ الفاظ اختیار کیے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ پیریکلیٹس )۔

اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان ہی میں ایک دوسرا لفظ Periclytos موجود ہے جس کے معنی ہیں ’’تعریف کیا ہوا‘‘۔ یہ لفظ بالکل ’’محمد‘’ کا ہم معنی ہے ، اور تلفظ میں اس کے اور Paracletus کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ کیا بعید ہے کہ جو مسیحی حضرات اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق نے تکلف رد و بدل کر لینے کے خوگر رہے ہیں انہوں نے یوحنا کی نقل کردہ پیشین گوئی کے اس لفظ کو اپنے عقیدے کے خلاف پڑتا دیکھ کر اس کے املا میں یہ ذرا سا تغیر  کر دیا ہو۔  اس کی پڑتال کرنے کے لیے یوحنا کی لکھی ہوئی ابتدائی یونانی انجیل بھی کہیں موجود نہیں ہے جس سے یہ تحقیق کیا جا سکے کہ وہاں ان دونوں الفاظ میں سے در اصل کونسا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔

۷۔ لیکن فیصلہ اس پر بھی موقوف نہیں ہے کہ یوحنا نے یونانی زبان میں در اصل کونسا لفظ لکھا تھا، کیونکہ بہر حال وہ بھی ترجمہ ہی تھا اور حضرت مسیح کی زبان، جیسا کہ اوپر بیان کر چکے ہیں فلسطین کی سریانی تھی، اس لیے انہوں نے اپنی بشارت میں جو لفظ استعمال کیا ہو گا وہ لا محالہ کوئی سریانی لفظ ہی ہونا چاہیے ۔ خوش قسمتی سے وہ اصل سریانی لفظ ہمیں ابن ہشام کی سیرت میں مل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اسی کتاب سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا ہم معنی یونانی لفظ کیا ہے ۔ محمد بن اسحاق کے حوالہ سے ابن ہشام نے یُحَنّس(یوحنا) کی انجیل کے باب ۱۵، آیات ۲۳ تا ۲۷، اور باب ۱۶ آیت ۱ کا پورا ترجمہ نقل کیا ہے اور اس میں یونانی ’’ فارقلیط ‘‘ کے بجائے سریانی زبان کا لفظ مُنحَمَنَّا استعمال کیا گیا ہے ۔ پھر ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ ’’ مُنحَمَنَّا کے معنی سریانی میں محمد اور یونانی میں بر قلیطس ہیں ‘‘ (ابن ہشام، جلد اول، ص ۲۴۸)۔

اب دیکھیے کہ تاریخی طور پر فلسطین کے عام عیسائی باشندوں کی زبان نویں صدی عیسوی تک سریانی تھی، یہ علاقہ ساتویں صدی کے نصف اول سے اسلامی مقبوضات میں شامل تھا۔ ابن اسحاق نے ۷۶۸ء میں اور ابن ہشام نے ۸۶۸ء میں وفات پائی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی بولتے تھے ، اور ان دونوں کے لیے اپنے ملک کی عیسائی رعایا سے ربط پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ نیز اس زمانے میں یونانی بولنے والے عیسائی بھی لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مقبوضات کے اندر رہتے تھے ، اس لیے ان کے لیے یہ معلوم کرنا بھی مشکل نہ تھا کہ سریانی کے کس لفظ کا ہم معنی یونانی زبان کا کونسا لفظ ہے ۔ اب اگر ابن اسحاق کے نقل کردہ ترجمے میں سریانی لفظ مُنحَمَنّا  استعمال ہوا ہے ، اور ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ عربی میں اس کا ہم معنی لفظ محمد اور یونانی میں بر قلیطس ہے ، تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ حضرت عیسیٰ نے حضورؐ کا نام مبارک لے کر آپ ہی کے آنے کی بشارت دی تھی، اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یوحنا کی یونانی انجیل میں در اصل لفظ Periclytos استعمال ہوا تھا جسے عیسائی حضرات نے بعد میں کسی وقت Para Cletus  سے بدل د یا۔

۸۔  اس سے بھی قدیم تر تاریخی شہادت حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا، اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا : مَر حَباً بِکُم وَبِمَن جِئتُم مِن عِندِہ، اَشھَدُ اَنَّہ رَسُو لُ اللہِ وَاَنَّہُالَّذِی نَجِدُ فِیالاِنجِیل، وَ اَنَّہ الَّذِی بَشَّرَبِہ عِیسَی بن مَر یَمَ۔ (مسند احمد)۔ یعنی ’’ مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن  مریم نے دی تھی‘‘۔ یہ قصہ احادیث میں خود حضرت جعفرؓ اور حضرت ام سلمہؓ سے بھی منقول ہوا ہے ۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کے آغاز میں نجاشی کو یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک نبی کی پیشین گوئی کر گئے ہیں ، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نبی کی ایسی صاف نشاندہی انجیل میں موجود تھی جس کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی وہ نبی ہیں ۔ البتہ اس روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰ کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اس وقت موجود تھا۔

۹۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے بارے میں حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کو نہیں ، خود حضرت عیسیٰ کے اپنے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کا جاننے کا بھی معتبر ذریعہ وہ چار انجیلیں نہیں ہیں جن کو مسیحی کلیسا نے معتبر و مسلم انا جیل(Canonical Gospels) قرار دے رکھا ہے ، بلکہ اس کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ وہ انجیل برنا باس ہے جسے کلیسا غیر قانونی اور مشکوک الصحت (Apocryphal) کہتا ہے ۔ عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے ۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے ۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس (Sixtus) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اس کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا ۱۷۳۸ء میں ویانا کی امپریل لائبریری میں پہنچ گیا۔ ۱۹۰۷ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہو گیا تھا  مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کے مطبوعہ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کر دیے گئے اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی۔ دوسرا ایک نسخہ اسی اطالوی ترجمہ سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہو اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے ۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کر دیا گیا  اور آج اس کا بھی کہیں پتہ نشان نہیں ملتا۔ مجھے آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ  کاپی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اسے لفظ بہ لفظ ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے ۔

مسیحی لٹریچر میں انجیل کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے ، اسے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ایک جعلی انجیل ہے جسے شاید کسی مسلمان نے تصنیف کر کے برنا باس کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ، جو صرف اس بنا پر بول دیا گیا کہ اس میں جگہ جگہ بہ صراحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مے متعلق پیشین گوئیاں ملتی ہیں ۔ اول تو اس انجیل کو پڑھنے ہی سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کتا ب کسی مسلمان کی تصنیف کر دہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے ، اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں یہ کثرت سے پھیلی ہوئی ہوتی اور علمائے اسلام کی تصنیفات میں بہ کثرت اس کا ذکر پایا جاتا۔ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ جارج سیل کے انگریزی مقدمہ قرآن سے پہلے مسلمانوں کو سرے سے اس کے وجود تک کا علم نہ تھا۔ گَبری، یعقوبی، مسعودی، البیرونی، ابن حذم اور دوسرے مصنفین، جو مسلمانوں میں مسیحی لٹریچر وسیع اطلاع رکھنے والے تھے ، ان میں سے کسی کے ہاں بھی مسیحی مذہب پر بحث کرتے ہوئے انجیل برناباس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ دنیائے اسلام کے کتب خانوں میں جو کتابیں پائی جاتی تھیں ان کی بہترین فہرستیں ابن ندیم کی الفہرست اور حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ہیں ، اور وہ بھی اس کے ذکر  سے خالی ہیں ۔ انیسویں صدی سے پہلے کسی مسلمان عالم نے انجیل برناباس کا نام تک نہیں لیا ہے ۔ تیسری اور سب سے بڑی دلیل اس بات کے جھوٹ ہونے کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے بھی ۷۵ سال پہلے پوپ گلاسیس اول (Gelasius)  کے زمانے میں بد عقیدہ اور گمراہ کن (Heretical)  کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعہ سے جن کا پڑھنا ممنوع کر دیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (Evangelium Barnabe)  بھی شامل تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی  ؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام، اسپین، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برنا باس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔

۱۰۔ قبل اس کے کہ اس انجیل سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارتیں نقل کی جائیں ، اس کا مختصر تعارف کر ا دینا ضروری ہے ، تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہو جائے اور یہ بھی سمجھ میں آ جائے کہ عیسائی حضرات اس سے اتنے ناراض کیوں ہیں ۔

بائیبل میں جو چار انجیلیں قانونی اور معتبر قرار  دے کر شامل کی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰ کا صحابی نہ تھا۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی  نہیں کیا ہے کہ اس نے آنحضرتؐ کے صحابیوں سے حاصل کردہ معلومات اپنی انجیل میں درج کی ہیں ۔ جن ذرائع  سے ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں ان کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ راوی نے آیا خود وہ واقعات  دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر  رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر  وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں ۔ یہی نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے  رخصت ہوتے وقت حضرت مسیح نے مجھ سے فرمایا تھا کہ مرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں ان کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمہ داری ہے ۔

یہ برنا باس کون تھا  ؟ بائیبل کی کتاب اعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروانِ مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے ۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دین مسیح میں داخل ہوا، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست تین انجیلوں میں دی گئی ہے اس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برنا باس ہے یا کوئی اور۔ متی، اور مرقس نے حواریوں (Apostles) کی جو فہرست دی ہے ، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے ۔ ایک توما، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے ، دوسرا شمعون قنانی، جس کی جگہ وہ یہوواہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے ۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام بھی موجود ہے ۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہو گا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے توما کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جا سکے ، اور اس طرح کے تغیرات اپنی مذہبی کتابوں میں کر لینا ان حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے ۔

اس انجیل کو اگر شخص تعصب کے بغیر کھلی آنکھوں سے پڑھے اور نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں سے اس مقابلہ کرے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ان چاروں سے بدر جہا برتر ہے ۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اس طرح بیان ہوئے ہیں جیسے کوئی شخص فی الواقع وہاں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ان واقعات میں خود شریک تھا۔ چاروں انجیلوں کی بے ربط داستانوں کے مقابلہ میں یہ تاریخی بیان زیادہ مربوط بھی ہے اور اس سے سلسلہ واقعات بھی زیادہ چھی طرح سمجھ میں آتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اس میں چاروں انجیلوں کی بہ نسبت زیادہ واضح اور مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں ۔ توحید کی تعلیم، شریک کی ترید، صفات باری تعالیٰ، عبادات کی روح، اور اخلاق فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پر زور اور مدلل اور مفصل ہیں ۔ جن آموز تمثیلات کے پیرایہ میں مسیح نے یہ مضامین بیان کیے ہیں ان کا عشر عشیر بھی چاروں انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے ۔ حضرت عیسیٰ کی زبان، طرز بیان اور طبیعت و مزاج سے کوئی شخص اگر کچھ بھی آشنا ہو تو وہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ ماننے پر مجبور ہو گا کہ یہ کوئی جعلی داستاں نہیں ہے جو بعد میں کسی نے گھڑ لی ہو، بلکہ اس میں حضرت مسیح اناجیل اربعہ کی بہ نسبت اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں ، اور اس میں ان تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو اناجیل اربعہ میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے ۔

اس انجیل میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور آپ کی تفصیلات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ صاف کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے سوا معرفت حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ، اور جو انبیاء کو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے ۔ توحید، رسالت اور آخرت  کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے ۔ نماز، روزے اور  زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں ۔ ان کی  نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برنا باس نے کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے ، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے ۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ کو نبی قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے ۔ حضرت اسماعیل کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیل ہی تھے اور بنی اسرائیل نے زبر دستی کھینچ تان کر کے حضرت اسحاق کو ذبیح بنا رکھا ہے ۔ آخرت اور قیامت اور جنت، و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔

۱۱۔ عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخلاف ہیں ، وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں ، کیونکہ وہ تو حضورؐ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے اس انجیل کو رد کر چکے تھے ۔ ان کی ناراضی کی اصل وجہ کو سمجھے کے لیے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے ، موسوی شریعت کا اتباع کرتے تھے ، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے ، اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے ۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں ، یونانیوں ، اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کر دی، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا  جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہو کر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ کے کسی قول کی سند نہیں پیش کی بلکہ اپنے کشف و الہام کو بنیاد بنایا۔ اس نئے  دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی  (Gentile)  دنیا قبول کر لے ۔ اس نے اعلان کر دیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے ۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری قیود ختم کر دیں ۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کر دیا جو غیر یہودی  دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ اس نے مسیحؑ کی اُلوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدمؑ کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔ مسیحؑ کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی، مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہو گیا جس کے مقابلے میں ہو مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھیر سکے ۔ تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت لوگ ایسے موجود تھے جو مسیح کی اُلوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھے ۔ مگر چوتھی صدی کے آغاز( ۳۲۵ء) میں نیقیہ  (Nicaea) کی کونسل نے  پولوسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم مذہب قرار دے دیا۔ پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہو گئی اور قیصر تھیوڈو سِس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا۔ اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں ، مردود قرار دے دی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھیرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں ۔ ۳۶۷ ء میں پہلی مرتبہ اتھانا سیوس(Athanasius)  کے ایک خط کے ذریعہ معتبر  و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا، پھر اس کی توثیق ۳۸۲ء میں پوپ ڈیمیسس (Damasius) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی، اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسس (Gelasius) نے اس مجموعہ کو مسلم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں ایک فہرست مرتب کر دی جو غیر مسلم تھیں ۔ حالانکہ جن پولوسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں ، خود ان میں بھی حضرت عیسیٰؑ کے اپنے کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا۔

انجیل برناباس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لیے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرداری عقیدے کے بالکل خلاف تھی۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصد تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو  شیطان کے دھوکے میں آ کر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں ، ختنہ کو غیر ضروری ٹھیراتے ہیں اور حرام کھانوں کو حلال کر دیتے ہیں ، جن میں سے ایک دھوکہ کھانے والا پولوس بھی ہے ‘‘۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ دنیا میں موجود تھے اس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا، پھر یہ چھوت بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی۔ اس پر حضرت عیسیٰؑ سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے  بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے ۔ پھر انہوں نے اپنے شا گردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے  بھیجا اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰؑ سے صادر ہوتے تھے ، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آ جائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہو رہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عیسیٰ کی مفصل تقریریں  نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی، اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ آنجناب اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے ۔ مزید براں وہ اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان دی تھی۔ وہ اپنے چشم دید حالات یہ بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکر یوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰؑ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجنابؑ کو اٹھا لے گئے، اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کر دی گئی جو حضرت عیسیٰؑ کی تھی۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰؑ۔ اس طرح  یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے ۔ حالانکہ نزول قرآن سے ۱۱۵ سال پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادی اسے رد کر چکے تھے ۔

۱۲۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انجیل برنا باس در حقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے ، مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور سیرت اور اقوال کی صحیح ترجمانی کرتی ہے ، اور یہ عیسائیوں کی اپنی بد قسمتی ہے کہ اس انجیل کے ذریعہ سے اپنے عقائد کی تصحیح اور حضرت مسیحؑ کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ان کو ملا تھا اسے محض ضد کی بنا پر انہوں نے کھو دیا۔ اس کے بعد ہم پورے اطمینان کے ساتھ وہ بشارتیں نقل کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں برنا باس نے حضرت عیسیٰؑ سے روایت کی ہیں ۔ان بشارتوں میں کہیں حضرت عیسیٰؑ حضورؐ کا نام لیتے ہیں ، کہیں ’’ رسول اللہ ‘‘ کہتے ہیں ، کہیں آپ کے لیے ’’ مسیح‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، کہیں ’’قابل تعریف‘‘(Admirable) کہتے ہیں ، اور کہیں صاف صاف ایسے فقرے ارشاد فرماتے ہیں جو بالکل لَٓااِلٰہٰ الَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّ سُوْلُ اللہ کے ہم معنی ہیں ۔ ہمارے لیے ان ساری بشارتوں کو نقل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اتنی زیادہ ہیں ، اور جگہ جگہ مختلف پیرایوں اور سیاق و سباق میں آئی ہیں کہ ان سے ایک اچھا خاصا رسالہ مرتب ہو سکتا ہے ۔ یہاں ہم محض بطور نمونہ ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں :

’’تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا، جن کی تعداد ایک لاکھ ۴۴ ہزار تھی، انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی۔ مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہو ئی باتوں ، کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے ‘‘(باب ۱۷)

’’ فریسیوں اور لاویوں نے کہا اگر تو نہ مسیح ہے ، نہ الیاس، نہ کوئی اور نبی، تو کیوں تو نئی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا  کر پیش کرتا ہے  ؟ یسوع نے جواب دیا جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھا تا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے ، ورنہ در حقیقت میں اپنے آپ کو اس (مسیح) سے بڑا شمار کیے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو۔  میں تو اُس خدا کے رسول کے موزے کے بند یا اس کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئے گا اور صداقت کی باتیں آئے گا تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو‘‘ (باب ۴۲)۔

’’ بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لیے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے ۔ مگر خدا کا رسول جب آئے گا، خدا کو یا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے دے گا، یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گی، جنات اور رحمت پہنچا دے گا۔ وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بُت پرستی کا ایسا قلع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہو جائے گا‘‘۔ اس کے آگے شاگردوں کے ساتھ ایک طویل مکالمہ میں حضرت عیسیٰ تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا (باب ۴۳)۔

’’ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا رسول وہ رونق ہے جس سے خدا کی پیدا کی ہوئی قریب قریب تمام چیزوں کو خوشی نصیب ہو گی کیونکہ وہ فہم اور نصیحت، حکمت اور طاقت، خشیت اور محبت، حزم اور درع کی روح سے آراستہ ہے ۔ وہ فیاضی اور رحمت، عدل اور تقویٰ، شرافت اور صبر کی روح سے مزین ہے جو اس نے خدا سے ان تمام چیزوں کی بہ نسبت تین گُنی  پائی ہے جنہیں خدا نے اپنی مخلوق میں سے یہ روح بخشی ہے ۔ کیسا مارک وقت ہو گا جب وہ دنیا میں آئے گا۔ یقین جانو، میں نے اس کو دیکھا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے جس طرح ہر نبی نے اس کو دیکھا تو میری روح سکینت سے بھر گئی یہ کہتے ہوئے کہ اے محمدؐ، خدا تمہارے ساتھ ہو، اور وہ مجھے تمہاری جوتی کے تسمے باندھنے کے قابل بنا دے ، کیونکہ یہ مرتبہ بھی پالوں تو میں ایک بڑا نبی اور خدا کی ایک مقدس ہستی ہو جاؤں گا‘‘۔ (باب ۴۴)۔

’’ (میرے جانے سے ) تمہارا دل پریشان نہ ہو، نہ تم خوف کرو، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے ، بلکہ خدا ہمارا خالق، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔ رہا میں ، تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا کے لیے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لیے نجات لے کر آئے گا ……… اندر یاس نے کہا، استاد ہمیں اس کی نشانی بتا دے تاکہ ہم اسے پہچان لیں ۔ یسوع نے جواب دیا، وہ تمہارے زمانے میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جبکہ میری انجیل ایسی مسخ ہو چکی ہو گی مشکل سے کوئی ۳۰ آدمی مومن باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنے رسول کو بھیجے گا جس کے سرپر سفید بادل کا سایہ ہو گا جس سے وہ خدا کا بر گزیدہ جانا جائے گا اور اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت دنیا کو حاصل ہو گی۔ وہ بے خدا لوگوں کے خلاف بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر بت پرستی کو مٹا دے گا۔ اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہمارا خدا پہچانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہو گی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہو گی اور وہ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے ……… وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہو گی ‘‘(باب ۷۲)۔

’’خدا کا عہد یروشلم میں ، معبد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور۔ مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی، اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز کو قبول فرمائے گا ……… میں در اصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مگر میرے بعد مسیح آئے گا، خدا کا بھیجا ہو، تمام دنیا کی طرف، جس کے لیے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہو گی، اور اس کی رحمت نازل ہو گی ‘‘(باب ۸۳)۔

’’یسوع نے سردار کاہن سے کہا، زندہ خدا کی قسم جس کے حضور میری جان حاضر ہے ، میں ہو مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا تمام دنیا کی قومیں انتظار کر رہی ہیں ، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہیمؑ سے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی‘‘(پیدائش، ۱۸:۲۲)۔ مگر جب خدا مجھے دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر یہ بغاوت بر پا کرے گا کہ نا پرہیز گار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں ۔ اس کی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کر دیا جائے گا یہاں تک کہ بمشکل ۳۰ صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا جس کے لیے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں ، جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کر دے گا، جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کر لیا ہے ۔ وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لیے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے ، اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے ‘‘ (باب ۹۶)۔

سردار کاہن نے پوچھا کہ وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟ یسوع نے جواب دیا اس مسیح کا نام’’ قابل تعریف‘‘ ہے ، کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان میں رکھا میں رکھا گیا تھا۔ خدا نے کہا’’ اے محمدؐ، انتظار کر، کیونکہ تیری ہی خاطر میں جنت، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پر دوں گا، یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی۔ جب میں  تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو اپنے پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا۔ تیری بات سچی ہو گی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا۔ سو اس کا مبارک نام محمدؐ ہے ‘‘۔(باب، ۹)۔

برنا باس لکھتا ہے ایک موقع پر شاگردوں کے سانے حضرت عیسیٰ نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک (جو بعد میں یہوواہ  اسکر یوتی نکلا) مجھے ۳۰ سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے گا، پھر فرمایا:

’’اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا، کیونکہ خدا مجھے زمین سے اوپر اٹھا لے گا اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ ہو شخص یہ سمجھے گا کہ وہ میں ہی ہوں ۔ تاہم جب وہ ایک بڑی موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی۔ مگر جب محمدؐ، خدا کا مقدس رسول آئے گا تو میری وہ بدنامی دور کر دی جائے گی۔ اور خدا یہ اس لیے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے ۔ وہ مجھے اس کا یہ انعام دے گا کہ لوگ یہ جان لیں گے کہ میں زندہ ہوں اور اس ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے ’’(باب ۱۱۳)۔

’’(شاگردوں سے حضرت عیسیٰ نے کہا)؛ بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر موسیٰ کی کتاب سے صداقت مسخ نہ کر دی گئی ہوتی تو خدا ہمارے باپ داؤد کو ایک دوسری کتاب نہ دیتا۔ اور اگر داؤد کی کتاب میں تحریف نہ کی گئی ہوتی تو خدا مجھے انجیل نہ دیتا، کیونکہ خداوند  ہمارا خدا بدلنے والا نہیں ہے اور اس نے سب انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے ۔ لہٰذا جب اللہ کا رسول آئے گا تو وہ اس لیے آئے گا کہ ان ساری چیزوں کو صاف کر دے جن سے بے خدا لوگوں نے میری کتاب کو آلودہ کر دیا ہے ‘‘ (باب ۱۲۴)۔

ان صاف اور مفصل پیشین گوئیوں میں صرف تین چیزیں ایسی ہیں جو بادی النظر میں نگاہ کو کھٹکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں ، اور انجیل برناباس کی متعدد دوسری عبارتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مسیح ہونے کا انکار کیا ہے ۔ دوسری یہ کہ صرف ان ہی عبارتوں میں نہیں بلکہ اس انجیل کے بہت سے مقامات پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اصل عربی نام ’’محمدؐ‘‘ لکھا گیا ہے ، حالانکہ یہ انبیاء کی پیشین گوئیوں کا یہ عام طریقہ نہیں ہے کہ بعد کی آنے والی کسی ہستی کا اصل نام لیا جائے۔ تیسری یہ کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مسیح کہا گیا ہے ۔

پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ صرف انجیل برناباس ہی میں نہیں بلکہ لُوقا کی انجیل میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ آپ کو مسیح کہیں ۔ لُوقا کے الفاظ یہ ہیں :’’ اس نے ان سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو ؟ پطرس نے جواب میں کہا خدا کا مسیح۔ اس نے ان کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا ‘‘ (۲۰:۹۔۲۱)۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل جس مسیح کے منتظر تھے اس کے متعلق ان کا خیال یہ تھا کہ وہ تلوار کے زور سے دشمنان حق کو مغلوب کرے گا، اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ مسیح میں نہیں ہوں بلکہ وہ میرے بعد آنے والا ہے ۔

دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ برناباس کاجو اطالوی ترجمہ اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کے اندر تو حضورؐ کا نام بے شک محمدؐ لکھا ہوا ہے ، مگر یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ کتاب کن کن زبانوں سے ترجمہ ہوتی ہوئی اطالوی زبان میں پہنچی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اصل انجیل برناباس سریانی زبان میں ہو گی، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی زبان تھی۔ اگر وہ اصل کتاب دستیاب ہوتی تو دیکھا جا سکتا تھا کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم گرامی کیا لکھا گیا تھا۔ اب جو کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اصل میں تو حضرت عیسیٰ نے لفظ مُنْحَمنَّا استعمال کیا ہو گا، جیسا کہ ہم ابن اسحاق کے دیے ہوئے انجیل یوحنا کے حوالہ سے بتا چکے ہیں ۔ پھر مختلف مترجموں نے اپنی اپنی زبانوں میں اس کے ترجمے کر دیے ہوں گے ۔ اس کے بعد غالباً کسی مترجم نے یہ دیکھ کر کہ پیشین گوئی میں آنے والے کا جو نام بتایا گیا ہے وہ بالکل لفظ ’’محمدؐ‘‘ کا ہم معنی ہے ، آپ کا یہی اسم گرامی لکھ دیا ہو گا۔ اس لیے صرف اس نام کی تصریح یہ شبہ پیدا کر دینے کے لیے  ہر گز کافی نہیں ہے کہ پوری انجیل برناباس کسی مسلمان نے جعلی تصنیف کر دی ہے ۔

تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ لفظ ’’ مسیح‘‘ در حقیقت ایک اسرائیلی اصطلاح ہے جسے قرآن مجید میں مخصوص طور پر حضرت عیسیٰ کے لیے صرف اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ یہودی ان کے مسیح ہونے کا انکار کرتے تھے اور نہ یہ نہ قرآن کی اصطلاح ہے نہ قرآن میں کہیں اس کو اسرائیلی اصطلاح کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لفظ مسیح استعمال کیا ہو اور قرآن میں آپ کے لیے یہ لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ انجیل برا باس آپ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرتی ہے جو سے قرآن انکار کرتا ہے ۔ در اصل بنی اسرائیل کے ہاں قدیم طریقہ یہ تھا کہ کسی چیز یا کسی شخص کو جب کسی مقدس مقصد کے لیے مختص کیا جاتا تھا تو اس چیز پر یا اس شخص کے سر پر تیل مل کر اسے متبرک (Consecrate) کر دیا جاتا تھا۔ عبرانی زبان میں تیل ملنے کے اس فعل کو مسح کہتے تھے اور جس پر یہ ملا جاتا تھا اسے مسیح کہا جاتا تھا۔ عبادت گاہ کے ظروف اسی طریقہ سے مسح کر کے  عبادت کے لیے وقف کیے جاتے تھے ۔ کاہنوں کو کہانت (Priesthood) کے  منصب پر مامور کرتے وقت بھی مسح کیا جاتا تھا۔ بادشاہ اور نبی بھی جب خدا کی طرف سے بادشاہت یا نبوت کے لیے نامزد کیے جاتے تو انہیں مسح کیا گاتا۔ چنانچہ بائیبل کی رو سے بنی اسرائیل کی تاریخ میں بہ کثرت مسیح پائے جاتے ہیں ۔ حضرت ہارونؑ  کاہن کی حیثیت سے مسیحؑ تھے ۔ حضرت موسیٰ کاہن اور نبی کی حیثیت سے ، طالوت بادشاہ کی حیثیت سے ، حضرت داؤد بادشاہ اور نبی کی حیثیت سے ، ملکِ صَدَق بادشاہ اور کاہن کی حیثیت سے ، اور حضرت اَلْیَسْع نبی کی حیثیت سے مسیح تھے ۔ بعد میں یہ بھی ضروری نہ رہا تھا کہ تیل مل کر ہی کسی کو مامور کیا جائے، بلکہ محض کسی کا مامور من اللہ ہونا ہی مسیح ہونے ا ہم معنی بن گیا تھا۔ مثال کے طور پر دیکھیے ۱۔ سلاطین، باب ۱۹ میں ذکر آیا ہے کہ خدا نے حضرت الیاس (ایلیاہ) کو حکم دیا کہ حزائیل کر کہ آرام (دمشق) کا بادشاہ ہو، اور نِمسی کے بیٹے یاہو کو مسح کر کہ اسرائیل کا بادشاہ ہو، اور الیشع (الْیَسْع) کو مسح کر کہ تیری جگہ بی ہو۔ ان میں سے کسی کے سر پر بھی تیل نہیں ملا گیا۔ بس خدا کی طرف سے ان کی ماموریت کا فیصلہ سنا دینا ہی گویا انہیں مسح کر دینا تھا۔ پس اسرائیلی تصور کے مطابق لفظ مسیح در حقیقت ’’مامور من اللہ‘‘ کا ہم معنی تھا اور اسی معنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اس لفظ کو استعمال کیا تھا۔(لفظ ’’مسیح‘‘ کے اسرائیلی مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو  سایکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ ’’میْسیاہ‘‘)۔

۹۔ اصل میں لفظ سِحْر استعمال ہوا ہے ۔ سحر یہاں جادو کے نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کے معنی میں استعمال ہو ہے ۔ عربی لغت میں جادو کی طرح اس کے یہ معنی بھی معروف ہیں ۔ کہتے ہیں سَحَرَہٗ ای خَدَ عَہٗ ’’اس نے فلاں شخص پر سحر کیا، یعنی اس کو فریب دیا’’۔ دل چھین لینے والی آنکھ کو عین ساحرۃ کہا جاتا ہے ، یعنی ’’ساحر آنکھ‘‘۔ جس زمین میں ہر طرف سراب ہی سَراب نظر آئے اس کو ارض ساحرۃ کہتے ہیں ۔ چاندی کو ملمع کر کے سونے جیسا کر دیا جائے تو کہتے ہیں سُحرت الفضّۃُ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ نبی، جس کے آنے کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی، اپنے نبی ہونے کی بین نشانیوں کے ساتھ آ گیا تو بنی اسرائیل اور امت عیسیٰ نے اس کے دعوائے نبوت کو صریح فریب قرار دیا۔

۱۰۔ یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو جھوٹا مدعی قرار دے ، اور اللہ کے اس کلام کو جو اس کے نبی پر نازل ہو رہا ہو، نبی کا پنا گھڑا ہوا کلام ٹھیرائے۔

۱۱۔ یعنی اول تو سچے نبی کو جھوٹا مدعی کہنا ہی بجائے خود کچھ کم ظلم نہیں ہے ، کجا کہ اس پر مزید ظلم یہ کیا جائے کہ بلانے والا تو خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف بلا رہا ہو اور سننے والا جواب میں اسے گالیاں دے اور اس کی دعوت کو زک دینے کے لیے جھوٹ اور بہتان اور افترا پردازیوں کے ہتھکنڈے استعمال کرے ۔

۱۲۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات ۳ ہجری میں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور سارا عرب اس دین کو مٹا دینے  پر تلا ہوا تھا۔ احد کے معرکے میں جو زک مسلمانوں کو پہنچی تھی، اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ  گئی تھی، اور گردو پیش کے قبائل ان پر شیر ہو گئے تھے ۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا۔ یہ ایک صریح پیشن گوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اللہ کے سوا اس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے  ؟ انسانی نگاہیں تو اس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کے لیے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں ۔

۱۳۔ ’’ مشرکین‘‘ کو ناگوار ہو، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں ، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں ۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے ، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے ۔ ایسے سب لوگوں کے علی الرغم یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کا رسول ان کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے ۔ یہ کام اسے بہر حال کر کے رہنا ہے ۔ کافر اور مشرک مان لیں تو، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہو چکا ہے ۔ایک، سورہ توبہ آیت ۳۳ میں ۔ دوسرے ، سورہ فتح آیت ۲۸ میں ۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جا رہا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۳۲۔ جلد پنجم، الفتح، حاشیہ ۵۱ )۔

 

ترجمہ

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بتاؤں تم کو وہ تجارت (۱۴) جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے ؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول (۱۵) پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے ما لوں  سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیئے بہتر ہے اگر تم جانو(۱۶)۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی (۱۷)۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح (۱۸)۔ اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مدد گار بنو جس طرح عیسی مریم نے حواریوں (۱۹) کو خطاب کر کے کہا تھا:” ہم ہیں اللہ کے مدد گار”۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے (۲۱)۔

 

تفسیر

 

۱۴۔ تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال، وقت، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہی مضمون سورہ توبہ آیت ۱۱۱ میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۱۰۶ )۔

۱۵۔ ایمان لانے والوں سے جب کہا جائے کہ ایمان لاؤ، تو اس سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ مخلص مسلمان بنو۔ ایمان کے محض زبانی دعوے پر اکتفا نہ کرو بلکہ جس چیز پر ایمان لائے ہو اس کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

۱۶۔ یعنی یہ تجارت تمہارے لیے دنیا کی تجارتوں سے زیادہ بہتر ہے ۔

۱۷۔ یہ اس تجارت کے اصل فوائد ہیں جو آخرت کی ابدی زندگی میں حاصل ہوں گے ۔ ایک، خدا کے عذاب سے محفوظ رہنا۔ دوسرے ، گناہوں کی معافی۔ تیسرے ، خدا کی اس جنت میں داخل ہونا جس کی نعمتیں لازوال ہیں ۔

۱۸۔ دنیا میں فتح و کامرانی بھی اگر چہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن مومن کے لیے اصلی اہمیت کی چیز یہ نہیں ہے بلکہ آخرت کی کامیابی ہے ۔ اسی لیے جو نتیجہ دنیا کی اس زندگی میں حاصل ہونے والا ہے اس کا ذکر بعد میں کیا گیا، اور جو نتیجہ آخرت میں رونما ہونے والا ہے اس کے ذکر کو مقدم رکھا گیا۔

۱۹۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے بائیبل میں عموماً لفظ ’’شاگرد‘‘ استعمال کیا گیا ہے ، لیکن بعد میں ان کے لیے ’’رسول‘‘ (Apostles) کی اصطلاح عیسائیوں میں رائج ہو گئی، اس معنی میں نہیں کہ وہ خدا کے رسول تھے ، بلکہ اس معنی میں کہ حضرت عیسیٰ ان کو اپنی طرف سے مبلغ بنا کر اطراف فلسطین میں بھیجا کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ہاں یہ لفظ پہلے سے ان لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا جو ہیکل کے لیے چندہ جمع کرنے بھیجے جاتے تھے ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کی اصطلاح ’’ حواری ‘‘ ان دونوں مسیحی اصطلاحوں سے بہتر ہے ۔ اس لفظ کی اصل حور ہے جس کے معنی سفیدی کے ہیں ۔ دھوبی کو حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ کپڑے دھو کر سفید کر دیتا ہے ۔ خالص اور بے آمیز چیز کو بھی حواری کہا جاتا ہے ۔ جس آٹے کو چھان کر بھوسی نکال دی گئی ہو اسے حُوّاریٰ کہتے ہیں ۔ اسی معنی میں خالص دوست اور بے غرض حامی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ ابن سیدہ کہتا ہے ‘‘ابن سیدہ کہتا ہے ‘‘ ہر وہ شخص جو کسی کی مدد کرنے میں مبالغہ کرے وہ اس کا حواری ہے ‘‘ (لسان العرب)۔

۲۰۔ یہ آخری مقام ہے جہاں قرآن مجید میں ان لوگوں کو اللہ کا مدد گار کہا گیا ہے جو خلق خدا کو دین کی طرف بلانے اور اللہ کے دین کو کفر کے مقابلے میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس سے پہلے یہی مضمون سورہ آل عمران، آیت ۵۲ سورہ حج، آیت ۴۰، سورہ محمد، آیت ۷، سورہ حدید، آیت ۲۵ اور سورہ حشر آیت ۸ میں گزر چکا ہے ، اور ان آیات کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ ۵۰، جلد سوم، الحج، حاشیہ ۸۴، جلد پنجم، سورہ محمد، حاشیہ ۱۲، اور سورہ حدید، حاشیہ ۴۷ میں کر چکے ہیں ، نیز سورہ محمد، حاشیہ ۹ میں بھی اس مسئلے کے ایک گوشے پر واضح روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، تمام خلق سے بے نیاز ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مدد گار کیسے ہو سکتا ہے ۔اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہاں اس مسئلے کی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں ۔

دراصل ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین معاذاللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو کفر ایمان اور طاعت و معصیت کی آزادی بخشی ہے اس میں وہ لوگوں کو اپنی قوت قاہرہ سے کام لے کر بجز مومن و مطیع نہیں بناتا بلکہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تذکیر و تعلیم اور تفہیم و تلقین کا طریقہ اختیار فرماتا ہے ۔ اس تذکیر و تعلیم کو جو شخص بہ رضا و رغبت قبول کر لے وہ مومن ہے ، جو عملاً مطیع فرمان بن جائے و مسلم و قانت اور عابد ہے ، جو خدا ترس کا رویہ اختیار کر لے وہ متقی ہے ، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے ، اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر جو اسی تذکیر و تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفر و فسق کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالیٰ خود اپنا مدد گار قرار دیتا ہے ، جیسا کہ آیات مذکورہ بالا میں کئی جگہ بالفاظ صریح ارشاد ہوا ہے ۔ اگر اصل مقصود اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کا مدد گار کہنا ہوتا تو اَنْصَارُاللہ کے بجائے اَنْصَا رُ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، یَنْصُرُوْ نَ اللہ کے بجائے یَنْصُرُوْنَ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، اِنْ تَنْصُرُوْ اللہَ کے بجائے اِنْتَنْصُرُوْا دِیْنَ اللہِ فرمایا جاتا۔ جب ایک مضمون کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے درپے کئی مقامات پر ایک ہی طرز بیان اختیار فرمایا ہے تو یہ اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصود ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار ہی کہنا ہے ۔ مگر یہ ’’ مدد گاری‘‘ نعوذ بااللہ اس معنی میں نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنی قوت قاہرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجائے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہے ۔

۲۱۔ مسیح پر ایمان نہ لانے والوں سے مراد یہودی، اور ایمان لانے والوں سے مراد عیسائی اور مسلمان، دونوں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسیح کے منکرین پر غلبہ عطا فرمایا۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے سے مقصود مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ جس طرح پہلے حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ان کا انکار کرنے والوں پر غالب آ چکے ہیں ، اسی طرح اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والے آپ کا انکار کرنے والوں پر غالب آئیں گے ۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید،  مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین۔ کلیم محی الدین

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید